• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 9 یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 9 یونی کوڈ

سورۃ الانشراح
بسم اللہ الرحمن الرحیم: میں اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور با ر بار رحم کرنے والا ہے
الم نشرح لک صدرک: کیا ہم نے تیرے لئے تیرے سینے کو کھول نہیں دیا۔
یہ سورۃ مکی ہے بلا خلاف (فتح البیان)۔ وہیری ؔکے نزدیک اس کے نزول کا وقت مضمون کی مشارکت کی وجہ سے پہلی سورۃ کے زمانہ کا ہی معلوم ہوتا ہے۔ یعنی پہلے یا دوسرے سال کی معلوم ہوتی ہے۔ مغربی مصنفین کا اس امر کو تسلیم کرنا اسلام کی ایک بہت بڑی فتح ہے کیونکہ اس سورۃ میں ایسی زبردست پیشگوئیاں ہیں کہ انہیں تسلیم کرلینے کے بعد اسلام کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا ورنہ اس سورۃ کو مدنی کہہ کر ان پیشگوئیوں پر پردہ ڈالا جاسکتا تھا۔ میرے نزدیک یہ سورہ تیسرے سال یا اس کے قریب کی ہے۔
اس کی ترتیب کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا تعلق پہلی سورۃ سے یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں رسول کریم ﷺ کے انجام کے اچھا ہونے کا ذکر تھا جیسا کہ فرمایاتھا وللاخرۃخیر لک من الاولی۔ یہ آیت اس سورۃ کے مضمون کا گویا خلاصہ تھی کیونکہ اس میں پہلے دلائل کا ایک نتیجہ نکال کر لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ اب سورۃ الانشراح میںاس دعویٰ کے متعلق کہ رسول کریم ﷺ کا انجام اچھا ہوگا مزید روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور پچھلی سورۃ کے تسلسل میں اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ انجام کے اچھا ہونے کی کچھ علامتیں ہوتی ہیں اگر وہ علامتیں کسی شخص میں موجود ہوں تو وقت سے پہلے لوگ قیاس کرسکتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی مدد اس شخص کو حاصل ہو یعنی انجام تو جب ہوگا سو ہوگا محمد رسول اللہ ﷺ کے اچھے انجام کو بعض علامتوں کے ساتھ پہچانا بھی جاسکتا ہے۔ چنانچہ چار اہم علامتیں اللہ تعالیٰ اس جگہ بیان کرتا ہے۔
اول یہ کہ انسان کو خو داپنے دعووں پر شرح صدر ہو۔ دوم جس مقصد کو لے کر وہ کھڑا ہو اس کو پورا کرنے کے ذرائع اس کو میسر آجائیں اور تیسرے یہ کہ لوگوں کی توجہ اس کی طرف پھر جائے۔ چوتھے یہ کہ یہ سامان الٰہی تقدیر کے ماتحت پیدا ہوں۔ جب یہ چار چیزیں کسی شخص کو حاصل ہوجائیں تو ابتداء ہی سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ شخص غالب آجائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ ﷺ یہ چاروں باتیں تجھے حاصل ہیں اس صور ت میں تیرے مخالفین کو سمجھ لینا چاہئے کہ تیرے انجام کی بہتری کے متعلق کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔
حل لغات: نشرح: شرح سے مضارع جمع متکلم کا صیغہ ہے اور لم نفی کیلئے آیا ہے۔ اور شرح (یشرح شرحا) اللحم کے معنے ہوتے ہیں قطعہ طوالا۔ گوشت کو لمبی طرز پر کاٹا یا اس میںشگاف دیا اور شرح الخامض کے معنے ہوتے ہیں کشفہ کسی پیچیدہ بات کو واضح کردیا یعنی معمہ کو حل کردیا۔ فسرہ وبینہ اس کی تفسیر کی اور اس کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا اور شرح الشی ء کے معنے ہوتے ہیں فتحہ اس کو کھول دیا۔ اسی طرح وسعہ اسے پھیلادیا اور شرح الکلام کے معنے ہوتے ہیں فھمہ اس کو سمجھادیا۔ اور شرح صدرہ بالشیء و للشیء کے معنے ہتے ہیں سرہ بہ و طیب بہ نفسہ اسے اس کے ذریعہ سے خوش کردیا (اقرب)۔
مفردات راغب میں لکھا ہے اصل الشرح بسط اللحم و نحوہ یعنی شرح کے اصل معنے تو گوشت یا ایسی ہی کسی چیز کو چیر کر کھول دینے کے ہوتے ہیں و منہ شرح الصدر اور اسی سے شرح الصدر کا محاورہ نکلا ہے۔ جس کے معنے بسطہ بنو الھی و سکینۃ من جھۃ اللہ وروح منہ کے ہیں یعنی الٰہی نور اور خداتعالیٰ کی طرف سے آنیو الی تسکین اور اطمینا ن اور اس کی طرف سے آنے والے کلام یا ملائکہ کے ذریعے سے سینہ کو کھول دینا۔ ظاہر ہے کہ یہ معنے تفسیری ہیں ورنہ شرح صدر کا فعل صرف خداتعالیٰ کیلئے نہیں بولاجاتا بلکہ عربی محاورہ کے مطابق بعض دفعہ اپنے ہم کلام کی باتیں سن کرآدمی کہتا ہے کہ اب میرا شرح صدر ہوگیا اور اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ یہ بات میری سمجھ میں اچھی طرح آگئی ہے۔ ہاں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کے حق میں شرح صدرہ کے الفاظ استعمال ہوں گے تو اس کے وقت بوجہ محل استعمال کے نہ کہ وضع لغت کے وہ معنے ہوں گے جوکہ علامہ راغب نے اس جگہ کئے ہیں۔
تاج العروس عربی لغت کی سب سے بڑی کتاب میں لکھا ہے شرح کمنع: کشف شرح منع کے وزن پر ہے اور اس کے معنے ہیں کہ کھول دیا۔ کہتے ہیں شرح فلان امراۃ: او ضحہ۔ فلاں شخص نے اپنا معاملہ خوب کھول کر رکھ دیا۔ شرح مسالۃ مشکلۃـ: بینھا اور جب کہیں کہ اس نے ایک مشکل مسئلہ کی شرح کی تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس نے اسے کھول کر بیان کردیا اور حل کردیا۔ پھر لکھا ہے و ھو مجاز۔ یہ استعمال اس کا مجازاً ہے اس کے آگے اس لفظ کے اصل معنے جو وضع لغت کے مطابق ہیں یہ لکھے ہیں شرح اللحم عن العضو قطع قطعا یعنی شرح کے معنے ہیں گوشت کو عضو سے کاٹ کر الگ کردیا۔ و قیل قطع اللحم علی العظم قطعا۔ ہڈی پر چھری مار مار کر گوشت کو الگ کردیا۔ یعنی جس طرح پسندے بناتے ہیں کہ گوشت ہڈی سے چمٹا ہی رہتا ہے مگر پھول کی پنکھڑیوں کی طرح یا مخمل کے پھندنوں کی طرح اوپر سے اس کے ٹکڑے ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں۔ گویا اس لفظ کے یہ بھی معنے ہیں کہ کاٹ کر الگ کردیا اور یہ بھی کہ ایک جہت سے گوشت آپس میں الگ ہوجائے اور ایک جہت سے ہڈی سے چمٹا رہے۔ پھر لکھا ہے شرح الشی ء کے ایک معنے فتح کے بھی ہیں اور اس کے معنے ہیں بیان کیا۔ کھولا (درحقیقت یہ معنے اوپر کے دو معنوں میں سے آخری معنوں میں سے مجازاً نکالے گئے ہیں یعنی ایک مجوف چیز کو ایک طرف سے کھول کر اس کے اندر جھانکنے یا اس کے اندر کوئی چیز ڈالنے کیلئے راستہ بنادیا) پھر لکھا ہے (امام لغت) ابن الا عرابی کے نزدیک شرح کے معنے بیان اور فہم اور فتح اور حفظ کے ہیں۔ یعنی واضح کرنا۔ سمجھانا۔ کھولنا اور محفوظ کرنا ۔ پھر لکھا ہے شرح کے معنے ازالہ بکارت کے بھی ہوتے ہیں۔ پھر لکھا ہے مجازی طور پر شرح الشی ء کے معنے وسعہ کے بھی ہوتے ہیں یعنی اسے پھیلادیا اور وسیع کردیا اور شرح صدر اسی قبیل سے ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ قبول حق یا قبول خیر کیلئے سینہ کو وسیع کردیا (یعنی دل میں حق کے قبول کرنے کیلئے انشراح پیدا ہوگیا اور حق کی طرف اس کی رغبت ہوگئی۔ جہاں سے بھی حق ملے اور جس قدر بھی ملے وہ اسے قبول کرنے کو تیار ہوتا ہے)۔ اسی طرح کہتے ہیں شرح الی الدنیا وہ دنیا کی طرف مائل ہوا (تاج العروس)۔
اور صدور کے معنے ہوتے ہیں اعلی مقدم کل شی ء یعنی ہر چیز کے اگلے حصہ کی جو چوٹی ہو اسے صدر کہتے ہیں۔ اور یوں حیوان یا انسان کے متعلق جب یہ لفظ بولا جائے توا س کے معنے ہوتے ہیں مادون العنق الی فضاء الجوف۔ یعنی گردن سے لے کر پیٹ کے خلاء تک جسم کا جو حصہ ہوتا ہے اس کو صدر کہتے ہیں یعنی سینہ۔ اسی طرح ہر چیز کے ابتدائی حصہ کو بھی صدر کہتے ہیں۔ چنانچہ جب صدرالنھار یا صر الشتاء یا صدر الصیف کہتے ہیں تو اس کے معنے دن کے ابتدائی حصہ یا سردی یا گرمی کے ابتدائی ایام کے ہوتے ہیں (اقرب) گویا ایک لحاظ سے یہ لفظ اضداد میں سے ہے۔ ہر چیز کی چوٹی کو بھی صدر کہتے ہیں اور ہر چیز کے ابتدائی حصہ کو بھی صدر کہتے ہیں جو بالعموم حقیقت کے لحاظ سے ادنیٰ ہوتا ہے جیسے صبح دوپہر سے کم روشن ہوتی ہے ۔ موسموں کے لحاظ سے جب سردی یا گرمی کا موسم شروع ہو یا بہار یا خزاں کے ایام آئیں تو وقت کے لحاظ سے موسم کا جو ابتدائی حصہ ہوتاہے اسے بھی صدر کہتے ہیں۔ لیکن محاورہ میں صدر اس کو کہتے ہیں جو قوم کے نزدیک عزت کے قابل ہو یا اعلیٰ رتبے پر رکھے جانے کامستحق ہو۔ ہماری زبان میں بھی یہ لفظ اعزاز کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں فلاں کوصدر مقام پر بٹھایا گیا۔ یا فلاں کو صدر مجلس تجویز کیا گیا ہے۔ یا لیڈری کا مقام اس کیلئے تجویز کیا گیا ہے۔ اسی طرح صدر سردارقوم کو بھی کہتے ہیں اور صدر دل کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ سینہ میں ہوتا ہے او رصدر کسی چیز کے حصہ کو بھی کہتے ہیں۔ عرب کا محاورہ ہے اخذت صدرا منہ۔ میں نے اس میں سے ایک حصہ لے لیا (اقرب) جہاں تک انشراح صدر کا تعلق سینہ سے ہے قطع نظر اس سے کہ یہ صحیح ہے یا غلط ہر ملک اور ہرقوم میں یہ دستور پایاجاتا ہے کہ ان میں سے جب کسی شخص کو اطمینان حاصل ہوجاتا ہے یا کسی حقیقت پر اس کا دل تسلی پاجاتا ہے تو ایسے موقع پر ہمیشہ اظہار اطمینان کیلئے وہ شرح صدر کا لفظ استعمال کرتاہے۔ اردوں میں بھی کہتے ہیںکہ فلاں بات کیلئے میرا سینہ کھل گیا۔ یہ بات الگ ہے کہ کوئی ڈاکٹر کہہ دے کہ سینہ کا کسی بات کے سمجھنے سے کیا تعلق ہے سینہ تو ہڈیوں کے ایک ڈھانچے کا نام ہے جس میں دل ہے، پھیپھڑا ہے، معدہ ہے، جگر ہے، گلے کی نالی ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جن کا کسی بات کے سمجھنے سے کوئی تعلق نہیں۔ بے شک طبی طور پر اسی کا نام صدر ہوگا مگر زبان کے لحاظ سے سینہ کھل جانے کے معنے ہوتے ہیں کسی بات پر اطمینان ہوگیا اور سینہ کھل جانے کے معنے ہوتے ہیں کسی بات پر اطمینان ہوگیا اور سینہ تنگ ہوجانے کے معنے ہوتے ہیں کسی بات پر اطمینان پیدا نہ ہوا یا غم کے سامان پید اہوگئے۔ یہ سوال کہ ایسا کیوں کہا جاتا ہے اس کی ذمہ داری زبان بنانیو الوں پر ہے مذہب پر نہیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنی حماقت کی وجہ سے زبان کی بحث مذہب میں بھی شروع کردیتے ہیں اور اس طرح خود بھی ٹھوکر کھاتے ہیں اور دوسرے لوگوں کیلئے بھی ٹھوکر کا موجب بنتے ہیں۔ مثلاً ہماری زبان میں عام طور پر یہ فقرہ استعمال ہوتا ہے کہ میرے دل میں فلاں بات آئی۔ اس جگہ کوئی عقلمند انسان یہ سوال پیدا نہ کرے گا کہ بات دل میں آتی ہے یا دماغ میں کیونکہ لغت نے اس فقرہ کے مفہوم کے ادا کرنے کیلئے یہی الفاظ وضع کئے ہیں اس لئے ہم ان کے استعمال پر مجبور ہیں۔ لغت یہی کہتی ہے کہ جب کوئی شخص کہے کہ میرے دل میں فلاں بات آئی توا س کے یہ معنے ہوتے ہیں اسے ایک نیا خیال سوجھا اورجب بھی کسی شخص کو کوئی نئی بات سوجھتی ہے تو وہ یہی فقرہ استعمال کرتا ہے خواہ وہ جاہل ہو یا فلاسفی کا پروفیسر یا علم تشریح الابدان کا ماہر۔ رہا یہ سوال کہ وہ بات دل میں آتی ہے یا سرمیں آتی ہے یا پائوں میں آتی ہے زبان کے لحاظ سے ہمیں اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر بعض لوگ غلطی سے اس قسم کی بحث شروع کردیتے ہیں کہ تم کہتے ہو دل میں بات آئی۔ دل میں بات کس طرح آسکتی ہے یا تم کہتے ہو سینہ کھل گیا سینہ کس طرح کھل سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ یہ تو سوال کیا جاسکتا ہے کہ جو معنے کئے جاتے ہیں وہ عربی لغت کے لحاظ سے چسپاں ہوتے ہیں یا نہیں مگر طور پر یہ سوال نہیںکیا جاسکتا کہ جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کا استعمال علم ڈاکٹری کے لحاظ سے درست ہے یانہیں کیونکہ اس کی ذمہ واری قرآن مجید پر نہیں بلکہ عربی زبان بنانے والوں پر ہے۔ اگر زبان میں کوئی فقرہ کسی خاص مفہوم کو اد ا کرنے کیلئے ایجاد کرلیا گیا ہے تو ہم پابندہیں کہ وہی فقرہ بولیں خواہ حقیقت سے وہ تعلق رکھتا ہو یانہ۔ عام یوروپین ہی نہیں ایک اناٹومی کا پروفیسر اور ایک سائیکالوجی کا پروفیسر بھی جب کسی تکلیف دہ امر کا ذکر کرتا ہے تو کہتا ہے کہ IT ACHES MY HEART یہ بات میرے دل کو تکلیف دیتی ہے حالانکہ احساس تکلیف دماغ کے حصہ امتیاز میں ہوتا ہے نہ کہ دل کے گوشت میں۔ اسی طرح جب وہ کسی تکلیف کااظہار کرتاہے تو کہتا ہے MY HEART SANK میرا دل ڈوبنے لگا۔ کیا اس پروفیسر کومعلوم نہیںہوتا کہ دل دریا یا سمندر میں نہیں پڑا ہواکہ ڈوبنے لگا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ سینہ میں کوئی کنواں کھدا ہوا نہیں کوئی ندی نالہ جاری نہیں۔ کوئی سمندر پھیلا ہوا نہیں۔ مگر وہ ایسا کہنے پر مجبور ہے کیونکہ اس کے بزرگوں نے اس خیال کو ادا کرنے کیلئے جو اس نے بیان کرنا چاہے یہی الفاظ مقرر کر چھوڑے ہیں ۔ بلکہ وہ تو یہاں تک کہہ گزرتا ہے MY HEART SANT IN MY BOOTSمیرا دل ڈوب کر جوتیوں تک چلا گیا۔ اسی طرح ہر اناٹومی کا اور سائیکالوجی کا پروفیسر جب یہ کہنا چاہتا ہے کہ میںنے یہ بات محسوس کی۔ تو وہ کہتا ہے I FEEL IN MY HEART۔ میں نے اپنے دل میں فلاں امر محسوس کیا۔ حالانکہ طبی طور پر اور علم النفس کے مطابق وہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ محبت کا دل سے تعلق نہیں بلکہ دماغ سے تعلق ہوتا ہے۔ مگر جب بھی الفاظ استعمال کرے گا یہی کرے گا کہ میں نے اپنے میں محبت یا فلاں بات محسوس کی۔ اسی طرح ان علوم کے پروفیسر بھی اپنی منگیتروں یا بیویوں کو جب وہ جدا ہوں یہی لکھیں گے کہ YOU ALWAYS LIVE IN MY HEART تم ہر وقت میرے دل میں رہتی ہو یہ کبھی نہیں لکھے گا کہ YOU ALWAYS LIVE IN MY HEAD۔ بلکہ اگر وہ لکھ دے تو شاید منگنی ہی ٹوٹ جائے اور منگیتر اسے پاگل سمجھنے لگ جائے۔ پس جب ہر شخص روزانہ اپنی زبان میں اس قسم کے الفاظ استعمال کرتا ہے اور اس پر اعتراض نہیں ہوتا اورنہیں ہوسکتا تو یہ کیا حماقت کی بات ہے کہ مذہبی کتب پر زبانوں کے محاوروں کی وضع کی وجہ سے لوگ اعتراض شروع کردیتے ہیں۔ جنہوںنے وہ محاورے بنائے ہیں جاکر ان سے سوال کریں۔ مذہبی کتاب تومجبور ہے کہ ان محاوروں کی اتباع کرے ورنہ اس کے مخاطبین اس کی بات ہی نہ سمجھیں گے اور وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے گی۔
دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ مثلاً ایک عرب قلب کا لفظ ان معنوں میں استعمال کرتاہے یا نہیں جن معنوں میں تشریح الابدان کے ماہرین دماغ کالفظ استعمال کرتے ہیں۔ اگر کرتا ہے تو محض قلب کے لفظ کے استعمال پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کریم کو دماغ کا لفظ بولنا چاہئے تھا قلب کا لفظ اس نے کیوں بولا۔ یا مثلاً یہ تو سوال ہوسکتا ہے کہ سینہ کا کھل جانا یا اس کا تنگ ہوجانا عربی زبان میں محاورہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر ہوتا ہے تو قرآن کریم کیلئے صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری تھا کہ وہ ان محاورات کو استعمال کرتا کیونکہ اگر وہ ان محاورات کو استعمال نہ کرتا تو لوگ سمجھتے کیا خاک؟ آج علمی زمانہ ہے۔ سائنس کی ترقی اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہے ۔ ماہرین تشریح الابدان بال کی کھال اتارچکے ہیں۔ مگر آج بھی لوگ یہی کہتے ہیں کہ میرے دل میں تمہاری محبت ہے۔ اگر کوئی شاعر ان الفاظ کی بجائے یہ کہہ دے کہ میرے دماغ میں تمہاری محبت ہے تو سب لوگ قہقہہ لگا کر ہنس پڑیں گے کہ پاگل ہوگیا ہے۔ حالانکہ واقعہ یہی ہوتا ہے۔ مگر چونکہ زبان نے اس غرض کیلئے دل کا لفظ وضع کیا ہوا ہے اس لئے جب وہ محاورہ زبان کے خلاف دماغ کا لفظ استعمال کرے گا سب لو گ ہنس پڑیں گے کہ بڑا احمق انسان ہے حالانکہ طبی طور پر وہ درست کہہ رہا ہوگا۔ پس ہمیں اس سے کوئی تعلق نہیں کہ تشریح الابدان کے ماہرین کیا کہتے ہیں۔ ہم زبان کو دیکھیں گے کہ اس میں کیا الفاظ رائج ہیں۔ جو کچھ زبان میں الفاظ رائج ہوں گے انہی کا استعمال فصاحت ہوگا۔ اگر اس کے خلاف کوئی اور الفاظ استعمال کئے جائیں گے تو وہ معیار فصاحت سے بالکل گر جائیں گے۔
تفسیر:الم نشرح لک صدرک میں گو الفاظ استفہامی یعنی سوالیہ استعمال کئے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ کیا ہم نے تیرے سینہ کو نہیں کھولا؟ مگر مفہوم یہ ہے کہ تو جانتا ہے کہ ہم نے تیرے سینہ کو کھول دیا ہے ایسے سوال کو عربی لغت والے انکار ابطالی کہتے ہیں۔ ایک عرب کا قول ہے کہ الستم خر من رکب الم طایا (اقرب)کیا تم سواریوں پر چڑھنے والوں میں سے سب سے اچھے نہیں ہو؟ یعنی اچھی ہو۔ درحقیقت یہ وہی حسابی اصول ہے کہ دو منفیاں ایک مثبت بنادیتی ہیں۔ جب استفہام انکاری کے بعد نفی کا لفظ آجائے گا تو وہ مثبت کے معنے دینے لگ جائے گا کیونکہ منفی کی نفی مثبت کا مفہوم دیتی ہے۔ مثلاً اگر طنزاً کہیں کیا تو عالم ہے؟ تو اس کے معنے ہوں گے کہ تو عالم نہیں ہے لیکن اگر یوں کہیں کہ کیا تو عالم نہیںہے؟ تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ تو عالم ہے مگر باوجود عالم ہونے کے فلاں حرکت کرتاہے یا یہ کہ تو عالم ہے باوجود اس کے جاہل لوگ تجھ پر اعتراض کرتے ہیں۔ اسی طرح الم نشرح لک صدرک کے یہ معنے نہیں کہ تجھ سے ہم سوال کرتے ہیں کہ کیا تیراسینہ کھولا گیا ہے یا نہیں؟ بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تو بھی جانتا ہے کہ تیرا سینہ ہم نے کھول دیا ہے اور تیرے دشمن بھی جانتے ہیں کہ تیرا سینہ ہم نے کھول دیا ہے۔ اس جگہ یہ سوال ہوسکتا ہے کہ کیوں نہ سیدھے سادھے الفاظ میں یہ کہہ دیا ہے کہ ہم نے تیرا سینہ کھول دیا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ کہا جاتا کہ ہم نے تیرا سینہ کھول دیا ہے تو اس سے صرف ایک خبر کا مفہوم نکلتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اطلاع دیتا ہے کہ ہم نے سینہ کو کھول دیا لیکن یہ مفہوم نہ نکلتا کہ اس شرح صدر کا کوئی ظاہر نتیجہ بھی نکلا ہے یا نہیں اور رسول کریم ﷺ کو بھی اس شرح صدر کا کوئی احساس ہوا ہے یا نہیں اور کفا رنے بھی اس کا کوئی ثبوت دیکھا ہے یا نہیں اور یہ مضمون ظاہر ہے کہ بہت ہی نامکمل ہوتا۔ لیکن الم نشرح لک صدرک کہہ کر اس امر پر زور دے دیا کہ ہم نے تیرا سینہ کھول دیا ہے اور یہ امر تو بھی جانتا ہے اور تیرے دشمن بھی جانتے ہیں یعنی ایک چھپی ہوئی بات نہیں ایک ظاہر اور کھلا نشان ہے جس انکار کوئی نہیں کرسکتا۔ غرض ایسا فقرہ استعمال کرکے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ یہ حقیقت دوسروں پر مخفی نہیں شرح صدر کی اہمیت کو ایسا واضح کردیا ہے کہ اور کوئی مختصر الفاظ اس مضمون کو بیان نہ کرسکتے تھے۔
یہ مضمون اس رنگ میں بھی اچھی طرح سمجھا جاسکتاہے کہ ہم فرض کریں ایک شخص ہمارے پاس آئے اور ہمیں خبر پہنچائے کہ میں نے آپ کے گھر میں گوشت پہنچادیا ہے اب جہاں تک اس خبر کا تعلق ہے ہمیں صرف اتنا ہی پتہ لگ سکتاہے کہ زید کہتا ہے اس نے ہمارے گھر میں گوشت پہنچادیا ہے۔ اب واقعہ میں گوشت پہنچا ہے یا نہیں پہنچا اس کا اس فقرہ سے علم نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں زید کبھی نہیں کہے گا کہ کیا میں نے گوشت تمہارے گھر میں نہیں پہنچادیا۔ بلکہ وہ صرف اتنا کہے گا کہ میں نے تمہارے گھر میں گوشت پہنچادیا ہے۔ لیکن اگر شخص مخاطب گھر جائے اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ گوشت پہنچ گیا ہے تو اس کے بعد زید اسے بے شک کہہ سکے گا کہ کیا میں نے تمہارے گھر میں گوشت نہیں پہنچایا۔ مطلب یہ ہوگا کہ میں نے تمہارے گھر میں گوشت پہنچادیا ہے اور تمہیں خود بھی اس بات کا علم ہے کہ گوشت پہنچ گیا ہے۔ پس کیا ا یسا نہیں کیا کے فقرہ سے یہ زائد معنی پیدا ہو جاتے ہیں کہ یہ بات ایسی پختہ ہے کہ مخاطب بھی اس بات کی تصدیق کرے گا اور کہے گا کہ ہاں یہ بات واقعہ میں درست ہے میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ یہ واقعہ ہوگیا ہے پس الم نشرح لک صدرک اپنے اندر تصدیق مخاطب کا مضمون بھی رکھتا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ مخاطب اس علم میں ہمارا شریک ہے وہ اس واقعہ سے انکار نہیں کر سکتا ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الم نشرح لک صدرک اے محمدﷺ کیا ہم نے تیرا سینہ اس طرح نہیں کھولا کہ تو خود بھی اس بات کی گواہی دیگا اور تجھے علم ہے کہ ہم نے تیرا سینہ کھول دیا ہے یہ جملہ کہ یہ بات ظاہر ہے اور اس کا انکار نہیں ہو سکتا کہ تیرا سینہ کھل چکا ہے ۔ ہے تو یہ ایک معمولی جملہ مگر اس کے اندر وسیع مطالب پائے جاتے ہیں ۔ شرح کے معنی حل لغات میں بتائے جا چکے ہیں کہ (۱) کھولنے (۲) پھیلانے (۳) سمجھانے (۴) محفوظ کر دینے (۵) اچھی طرح بیان کر نے کے ہیں ان معنوں کی رو سے آیت کے ایک تو یہ معنی ہوں گے کہ کیا ہم نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا ۔ یعنی اس بات کو تو بھی جانتا ہے اور دوسری دنیا بھی جانتی ہے کہ ہم نے تیرا سینہ کھول دیا ہے ۔سینہ کھولنے کے معنی جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے مادئہ قبولیت کے پیدا ہو جانے کے ہیں اور چونکہ یہ محاورہ اچھے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس لئے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اچھی باتوں کی قبولیت کے لئے دل آما دہ رہتا ہے یا کسی خاص معا ملہ کے متعلق دل تسکین پا لیتا ہے اسے اس بات پر یقین کامل ہو جاتا ہے تو اسے شرح صدر کہتے ہیں۔ جب یقین ایسے کمال کو پہنچ جائے کہ اس میں معجزانہ رنگ پیدا ہو جائے ۔ تو اسے خدا تعالی کی طرف سے شرح صدر کہتے ہیں ۔ اور جب ایسے امور کے متعلق یقین ہو جو غیبی ہوں اور جن پر یقین پیدا ہونا الٰہی تصرف کے نتیجہ میں ہو سکتا ہو تو اسے بھی خدا تعالی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور انکار ابطالی کا استعمال جو درحقیقت اثبات پر دلالت کرتا ہے۔ یہ بتاتاہے کہ وہ امر پوشیدہ نہیں بلکہ اس کی حقیقت ظاہر و باہر ہو چکی ہے۔ ان معنوں کی رو سے اس آیت کہ یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالی نے محمدرسول اللہﷺ کو صداقتوں اور نیکیوں کو ماننے اور ان پر عمل کرنے کے لئے بہت بشاشت قلب عطا فرمائی تھی ۔ اور وہ امور سماویہ جو امور غیبیہ پر مشتمل تھے ان پر بڑا زبردست یقیں بخشا تھا ۔ اور یہ دونوں امر بار بار اس طرح ظاہر ہو چکے تھے کہ اپ کے مخالفوں کو بھی ان کے انکار کی جرئات نہیں ہو سکتی تھی ۔ اور اگر یہ تینوں باتیں کسی شخص میں پائی جائیں تو اوّل تو یہ اس کی سچائی کا ثبوت ہوتی ہیں ۔ دوسرے یہ اس بات کا ثبوت ہوتی ہیں کہ وہ شخص ضرور کوئی نیک تغیر دنیا میں پیدا کر کے چھوڑے گا۔
نیک کاموں کی تعریف تو اکثر لوگ کرتے ہیںلیکن کتنے لوگ ہیں جو ہر عسر اوریسر کی حالت میں نیکی پر قائم رہتے ہیں؟ ایسے لوگ تو کم ملتے ہیں جو یہ کہیں کہ سچ بولنا ضروری نہیں۔ لیکن ایسے لوگ بھی بہت کم ہیں جو سو فیصد سچ بولیں۔ دنیا کے اکثر لوگ امانت کی تعریف کرتے ہیں لیکن کتنے لوگ ہیں جن کو ان کی ساری قوم بلا شک و شبہ امین قرار دیتی ہو؟ آخر ایک امر کو اچھا سمجھ کر اور اچھا قرار دے کر کیوں عمل کے وقت کمزوری دکھائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے کہ اس صداقت پر اس شخص کو پورا یقین نہیں ہوتا۔ محمد رسول اللہ ﷺ اپنے زمانہ میں پہلے شخص تھے جنہوں نے جن صداقتوں کو مانا ان پر عمل کیا۔ آپ نے صرف کہا ہی نہیں کہ سچ اچھا ہے بلکہ آپ نے سچ بولا بھی۔ اور آپ نے صرف کہا ہی نہیں کہ امانت اچھی بات ہے بلکہ آپ نے امین بن کر دکھایا بھی۔ حتیٰ کہ مکہ کے لوگ جو خالص مادی دماغ رکھتے تھے اور اخلاق کی قدر بہت کم جانتے تھے پکار اٹھے کہ یہ امین و صدوق شخص ہے۔ یہ گواہی معمولی گواہی نہیں سچ بولنا الگ امر ہے اور اری قوم سے راستباز کا خطاب لے لینا اور امر ہے۔ امانت پر ثابت قدم رہنا اور ہے اور امین کا خطاب ساریق قوم سے لے لینا اور بات ہے۔ ہر شخص کے قوم میں دشمن بھی ہوتے ہیں اور دوست بھی۔ نام ایک شخص اسی وقت پیدا کرتا ہے جب اس کاکمال اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ دشمن بھی اس کے انکار کی جرأت نہیں پاتا۔ رسول کریم ﷺ کا یہ مرتبہ پانا اس امر کا شاہد تھا کہ آپ کا سینہ نیکیوں کیلئے کھل گیا تھا اور جس کا سینہ نیکیوں کیلئے کھل گیا ہو اسے جھوٹ یا فریب کا الزام لگانا کتنا ظلم ہے اور ایسے آدمی سے اس کے دشمن ملک والوں کو کب تک دور رکھ سکتے ہیں۔
دوسرے معنے سینہ کھلنے کے یقین کامل کے کئے گئے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کو اپنی صداقت پر جو یقین تھا وہ مخفی امر نہیں۔ جب مکہ کے لوگوں نے حضرت ابوطالب آپ کے چچا کو ڈرایا کہ اگر محمد (رسول اللہ ﷺ)بتوں کے خلاف کہنے سے باز نہ آئیں گے تو وہ ان کے اور ان کے حامیوں کو مٹادینے کا فیصلہ کرلیں گے اور اگر وہ صرف بتوں کو برا کہنے سے باز آجائیں تو وہ اپنی قوم کی لیڈری، بادشاہت، اس کا مال، اس کی خوبصورت لڑکیاں جو کچھ بھی مانگیں قوم اسے حاضر کرنے کیلئے تیار ہوگی۔ تو رسول کریم ﷺ نے کس شان سے جواب دیا کہ اے میرے چچا! آپ مجھے چھوڑ کر اپنی قوم کے ساتھ بیشک مل جائیں میں تو اس صداقت کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔ اگر میری قوم سورج کو میرے دائیں اور چند کو میرے بائیں لاکھڑا کردیں تب بھی خدائے واحد کی توحید کے اقرار سے نہیں رکوں گا۔ اور اس سچ کے اظہار سے باز نہیںآئوں گا۔ یہ اعلان کیا بغیر ایک ایسے یقین کے ہوسکتا ہے جو پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ہو۔ اسی طرح جب غار ثور میں گھر گئے ، کفار نے آپ کا محاصرہ کریا اور بعض نے اندر گھس کر آپ کا پتہ لینا چاہا اور حضرت ابوبکرؓ کو اس بات کی فکر ہوئی کہ کہیں دشمن آپ کو پکڑ نہ لے تو آپ نے فرمایا لاتحزن ان اللہ معنا غم مت کر یہ لوگ ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ جس وقت صرف دو غیر مسلح آدمی مسلح قوم کے نرغہ میں گھرے ہوئے ہوں اس وقت اپنے صاف بچ کر نکل جانے اور کامیاب ہونے کا اعلان اس شخص کے سوا جو خداتعالیٰ کی تائیدات کا عینی مشاہدہ کرچکا ہو کون کرسکتا ہے اور یہ وہ امور ہیں جو صرف مسلمان ہی نہیں بیان کرتے تھے بلکہ کفار مکہ بھی ان امور کی تصدیق کرتے تھے۔ امین و صدوق کا خطاب انہوں نے خود آپ کو دیا تھا۔ غار ثور کا واقعہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا، ابوطالب کے ساتھ آپ کی گفتگو ان کے اپنے آدمیوں کے سامنے ہوئی تھی اور ایسے ہی اور واقعات جن سے رسول کریم ﷺ کی نیکی اور آپ کے یقین اور آپ کے ایمان کا ثبوت ملتا تھا۔ روز اول سے ان لوگوں کے مشاہدہ میں آتے رہے تھے اور وہ ان کا مشاہدہ کرتے رہے تھے۔ پس الم نشرح لک صدرک کہہ کر قرآن کریم کا مکہ والوں پر حجت کرنا بالکل درست اور مطابق حقیقت تھا۔ محمد رسول اللہ ﷺ کو نیکی میںجو مقام حاصل تھا۔ خداتعالیٰ پر جو یقین تھا۔ خداتعالیٰ کے نشانات پر جو ایمان تھا وہ اس بات کایقینا ضامن تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ پاگل نہ تھے۔ آپ غیر ذمہ دار شخص نہ تھے۔ آپ ارادہ کرکے اس سے ہٹنے والے نہ تھے۔ آپ کسی وقتی خیال کے مطابق کام نہیں کررہے تھے بلکہ کوئی زبردست نشان آپ نے دیکھا تھا جس نے آپ کے ایمان کو پہاڑوں سے زیادہ مضبوط کردیا تھا۔ ایسے شخص کے جتنے میں کسی کو کیا شبہ ہوسکتا تھا؟ یہ سوال تھا جس کا جواب آپ کے مخالفوں کے ذمہ تھا اور یقینا اس سوال کا جواب دینے سے وہ گھبراتے بھی تھے اور کتراتے بھی تھے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ انسانی کامیابی کا پہلا مدار خود اس کے یقین پر ہوتا ہے۔ کوئی انسان دنیا میں کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک اسے اپنے دعویٰ پر یقین نہ ہو۔ بلکہ اگر روحانیت کو جانے دیں اور مادیات کو لے لیں تب بھی کوئی انسان کسی کام کیلئے سنجیدگی سے کوشش نہیں کرسکتا جب تک اسے اپنے نفس پر یقین نہ ہو۔ جب کسی کو یقین حاصل ہوجائے تو چاہے وہ جھوٹا ہی کیوں نہ ہو وہ اسکے پورا کرنے کیلئے سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ جب کسی امر کے متعلق عارضی یقین انسان کے دل میں پیدا ہوجائے تو وہ کوشش شروع کردیتا ہے اور بعض دفعہ تو عارضی یقین ہی نہیں عارضی شک بھی اگر انسان کے دل میں پیدا ہوجائے تو وہ کوشش شروع کردیتا ہے۔ چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ عرب میں ایک نیم پاگل لڑکا تھا۔ لڑکے اسے چھیڑتے اور تنگ کرتے رہتے ۔ جب وہ بہت ہی اکتاجاتا اور دیکھا کہ یہ تو میرا پیچھا نہیں چھوڑتے تو چونکہ وہ اپنے ہم عمروں کی فطرت کو خوب سمجھتا تھا جھوٹے طور پر کہہ دیتا کہ فلاں شخص کے ہاں آج دعوت ہے تم مجھے بے شک چھیڑتے رہو۔ کھانا تو تمہارا ہی خراب ہوگا۔ اہل عرب میں مہمان نوازی کا مادہ بہت زیادہ پایا جاتا تھا اور ان میں دستور تھا کہ عام طور پر بڑے بڑے رئوسا اونٹوں کو ذبح کرکے عام لوگوں کودعوت دے دیتے کہ آئو اور کھانا کھائو۔ ان دعوتو کا وہ طریق نہ تھا جو ہمارے ہاں ہے کہ مخصوص لوگوں کو دعوت کے لئے نامزد کیا جاتا ہے بلکہ ان کی دعوتوں میں شمولیت کے متعلق کسی قسم کی شرط نہیں ہوتی تھی جو شخص بھی چاہتا شریک ہوجاتا۔ جب کسی ایسی دعوت کی وہ ان لڑکوں کو خبر دے دیتا تو یہ سنتے ہی لڑکے اسے چھوڑ کر اس رئیس کے مکان کی طرف دوڑ پڑتے ۔ جب وہ اکیلا رہ جاتا تو اس کے دل میں شبہ پیدا ہوتا کہ شاید واقعہ میں اس کے ہاں دعوت ہو اگر ایسا ہی ہوا تو یہ بڑی بری بات ہوگی کہ میں نے لڑکوں سے مار بھی کھائی اور دعوت سے بھی محروم رہا۔ چنانچہ اس خیال کے آنے پر دس پندرہ منٹ کے بعد وہ خود بھی اس مکان کی طرف دوڑپڑتا۔ راستہ میں لڑکے مایوس ہوکر واپس آرہے ہوتے تھے۔ وہ اسے پکڑ لیتے اور خوب پیٹتے کہ تو نے ہمیں بڑا دھوکا دیا ہے۔ یونہی جھوٹ موٹ کہہ دی اکہ فلاں رئیس کے ہاں دعوت ہے حالانکہ وہاں کوئی دعوت نہ تھی۔ اس پر پھر اسے شرارت سوجھتی اور کہتا کہ اس کا نام تومیں نے یونہی لے دیا تھا اصل بات یہ ہے کہ فلاںرئیس کے ہاں دعوت ہے۔ اس دفعہ لڑکوں کو پھر یقین آجاتا اور وہ دوسرے رئیس کے مکان کی طرف دوڑ پڑتے۔ جب لڑکے چلے جاتے تو بعد میں پھر اس کے دل میں خیال آتا کہ اگر اس کے ہاں واقعہ میں دعوت ہوئی تو میرے ساتھی تو دعوت کھاجائیں گے اور میں محروم رہ جائوں گا۔ چنانچہ اس خیال کے ماتحت وہ بھی اس رئیس کے مکان کی طرف دوڑ پڑتا۔ اتنے میں لڑکے غصہ سے بھرے ہوئے واپس آرہے ہوتے تھے وہ اسے پکڑ لیتے اور پیٹنا شروع کردیتے۔ چنانچہ اسی واقعہ کی وجہ سے عربوں میں شدت ِ حرص کو بیان کرنے کیلئے ا س لڑکے کے نام پر مثال بیان کی جانے لگی۔
اب دیکھو وہ لڑکا جھوٹ بولتا تھا مگر جھوٹ بتا کر بھی اس کے دل میں خیال پیدا ہوجاتا تھا کہ شاید یہ بات ٹھیک ہی ہو ارو وہ خود بھی اسی طرف دوڑ پڑتا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر کوشش یقین کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ آگے جیسا جیسا یقین ہو انسانی کوشش اور جدوجہد بھی مختلف رنگ اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔ تھوڑا یقین ہو تو اسکے مطابق کوشش ہوگی اور زیادہ یقین ہو تو اس کے مطابق کوشش ہوگی۔
قرآن کریم نے یقین کے مختلف مدارج بیان کئے ہیں یوں تو اس کے ہزاروں مدارج ہیں مگر موٹے موٹے تین مدرج ہیں۔ علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں جو خاص اصولی مضامین ہیں ان میں سے ایک یہ بھی مضمون ہے جو مراتب یقین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے صوفیاء کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں۔ پہلے صوفیا ء کی کتابوں میں بھی بے شک اس کا ذکر ملتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مضمون میں جو جدتیں پیداکی ہیں وہ ان لوگوں کی تشریحات میں نہیں ہیں۔ بعض لوگ اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کردیا کرتے ہیں کہ یہ باتیں تو امام غزالی کی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں یا فلاں فلاں مضامین انہوں نے بھی بیان کئے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر اقبال نے کہہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قسم کے مضامین صوفیاء کی کتابوں سے چرائے تھے۔ حالانکہ اگر غوروفکر سے کام لیا جائے تو دونوں کے تقابل سے معلوم ہوسکتا ہے کہ انہوںنے مضمون میں وہ باریکیاں پیدا نہیں کیں جو ایک ماہر فن پیدا کیا کرتا ہے۔ اور نہ مضمون کی نوک پلک انہوں نے نکالی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جن جس مضمون کو بھی لیا ہے ایک ماہر فن کے طور پر اس کی باریکیوں اور اس کے خدوخال پر پوری تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور کوئی پہلو بھی تشنۂ تحقیق رہنے نہیں دیا اور یہی ماہر کا کام ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے نمایاں کام کرکے دکھادیتا ہے۔ مثلاً تصویر کھینچنا بظاہر ایک عام بات ہے ہر شخص تصویر کھینچ سکتاہے میں بھی اگر پنسل لے کر کوئی تصویر بنانا چاہوں تو اچھی یا بری جیسی بھی بن سکے کچھ نہ کچھ شکل بنادوں گا۔ مگر میری بنائی ہوئی تصویر اور ایک ماہر فن کی بنائی ہوئی تصویر میں کیا فرق ہوگا؟ یہی ہوگا کہ ماہر فن اس کی نوکیں پلکیں خوب درست کرے گا اور میں صرف بے ڈھنگی سی لکیریں کھینچ دینے پر اکتفا کروں گا۔ پس کسی مضمون کا خالی بیان کردینا اور بات ہوتی ہے اور اس کی نوک پلک درست کرکے اسے بیان کرنا اور بات ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گو بعض جگہ وہی مضامین لئے ہیں جو پرانے صوفیاء بیان کرتے چلے آئے تھے مگر آپ کے بیان کردہ مضامین اور پہلے صوفیاء کے بیان کردہ مضامین میں وہی فرق ہے جو ایک اناڑی اور ایک ماہر مصور کی بنائی ہوئی تصاویر میں ہوت اہے۔ انہوں نے تصویر اس طرح کھینچی جیسے ڈرائنگ کا ایک طالب علم کھینچتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تصویر اس طرح کھینچی ہے جیسے ایک ماہر فن تصویر کھینچ کر اپنے کمالات کا دنیا کے سامنے ثبوت پیش کرتا ہے اور پھر ہر بات پر قرآن کریم سے شواہد پیش کرکے بتایا کہ اس مضمون کا بتانے والا قرآن کریم ہے۔
علم الیقین کے بعد عین الیقین ہوتا ہے کہ انسان ایک بات خود دیکھتا ہے لیکن اسے طور پر کہ شبہ کی گنجائش نہ ہو جیسے دور سے دھواں دیکھ کر آگ کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کا درجہ حق الیقین کا ہے جیسے کوئی شخص آگ میں انگلی ڈال کر اس کے جلانے والے اثرات کو خود دیکھ لیتا ہے۔
ان تین مدارج میں سے سب سے مکمل درجہ حق الیقین کا ہے جس کے اندر شک و شبہ کا کوئی حصہ باقی نہیں رہتا ارو یہی مقام رسولوں کو حاصل ہوتا ہے اور رسول کریم ﷺ کو بوجہ سید الانبیاء ہونے کے سب سے زیادہ حاصل تھا۔ اسی درجہ یقین کی وجہ سے جب بھی کوئی رسول آیا اللہ تعالیٰ نے اسے پہلے یہی کہا کہ تو خود اپنے دعوے پر ایمان لا اور پھر اسے لوگوں کے سامنے پیش کر۔ گویا الٰہی سنت جو سلسلہ انبیاء پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ پہلے خود نبی کے دل میں یقین پیدا کیا جاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے متعلق جو قرآن کریم میں انا او ل المسلمین (الانعام:۲۰) کے الفاظ آتے ہیںان کا مفہوم بھی یہی ہے ہمارا پہلا کام تیرے دل میںیقین پیدا کرنا ہے۔ اگر تیرے دل میں دُبدہ اور شک رہے گا تو تُو اس کام کیلئے وہ کوشش نہیں کرسکے گا جس کوشش کے بغیر یہ کام اپنی تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔ میں نے دیکھا ہے بعض لو غلطی سے انا اول المومنین (الاعراف: ۱۷) یا انا اول المسلمین کہنے کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور وہ اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ اپنے دعوے پر آپ ایمان لانے کے کیا معنے ہوئے۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اس یقین کے بغیر کوئی شخص دوسروں کوشکوک و شبہات سے نجات نہیں دلاسکتا۔ وہی شخص دوسروں کے دل میں یقین پیدا کرسکتا ہے جس کے دل میں خود یقین موجود ہو اور وہی شخص دوسروں کو روحانی لحاظ سے منور کرسکتا ہے جس کے دل میں خود نورایمان موجود ہو۔ اور انشراح صدر سے مراد یہ آخری قسم کا یقین ہی ہوتا ہے جو حق الیقین کہلاتا ہے اور اسی یقین کے پیدا کرنے کیلئے انبیاء کو انا اول المومنین کہنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ درحقیقت بڑے کام بغیر اول المومنین ہونے کے ہو ہی نہیں سکتے۔ جو شخص اپنے کام کے متعلق یقین ہی نہیں رکھتا ایسا ٰیقین جو ہر قسم کے شکوک و شبہات سے منزدہ ہو وہ دوسروں کو کیا ہدایت دے سکتا ہے۔ پس انا اول المومنین کہنا کوئی معمولی فقرہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑی دلیل ہے جس کا انبیا ء اور خداتعالیٰ کے مقربین کی زبان سے اظہار ہوتا ہے ۔ یہی ایمان ہے جو دوسروں کے شکوک کو مٹاتا اور ان کو بھی یقین کی بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔
پھر یہ بھی سوچو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو دعا کرتے ہیں کہ رب اشرح لی صدری (طہـ: ع۲) اے میرے رب میرا سینہ کھول دے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ خدایامجھے وہ یقین حاصل ہوجائے جس کے بعد میں یہ سمجھوں کہ اگریہ کام نہ ہوا تومیرا قصورہے لیکن اس کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے یہ چیز تجھے دے دی ہے اور نہ صرف تجھے دے دی ہے بلکہ تو بھی جانتا ہے ک ہم یہ چیز تجھے دے چکے ہیں۔ یعنی ایسے رنگ میں یہ چیز تجھے دی ہے کہ تجھ پر بھی حقیقت پوری طرح منکشف ہوچکی ہے۔ کیونکہ ان کا ابطالی اسی وقت استعمال ہوتا ہے جب مخاطب اس امر سے پوری طرح واقف ہوتا ہے۔ ورنہ بعض کمالات انسان میں موجود ہوتے ہیں مگر وہ ان سے واقف نہیں ہوتا۔ یہ صاف بات ہے کہ واراء الادراک امور یقین کامل بغیر تجلی کے نہیں ہوسکتا۔
اگر کوئی مادی چیز ہو اور وہ کسی انسان کو مل جائے مثلاً روٹی مل جائے یا روپیہ مل جائے تو اس پر یقین لانے کیلئے کسی تجلی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انسان جانتا ہے کہ فلاں چیز مجھے مل گئی ہے لیکن یہاں جس چیز کے ملنے کا ذکر کیا جارہا ہے وہ مادی نہیں بلکہ روحانی ہے اور روحانی چیز پریقین اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی متواتر تجلیات انسان کو حق الیقین کے مقام پر لاکر کھڑا نہ کردیں۔ درحقیقت یقین کے مختلف مدارج ہوتے ہیں۔ کبھی یقین کسی مادی چیز کے متعلق ہوتاہے اور کبھی روحانی چیز کے متعلق کبھی غیرمعمولی طور پرمضبو ط انسان کو حاصل ہوتا ہے اور کبھی یقین تو ہوتا ہے مگر ذرا سی بات پر انسان شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے مجھے یقین ہے مگر یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا یقین غیر متزلزل یقین نہیں۔
قصہ مشہور ہے کہ ایک لڑکی جس کا نام میستی تھا وہ ایک دفعہ شدید بیماری ہوئی اور اس کی بیماری روزبروز تشویشناک صورت اختیار کرتی چلی گئی۔ اس کی والدہ روزانہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرتی تھی کہ الٰہی اگر ملک الموت نے روح قبض ہی کرنی ہے تو میری روح قبض کرلے میری لڑکی کو کچھ نہ کہے۔ اتفاقاً ایک رات اس کی گائے کھلی رہ گئی۔ اس نے صحن میں ادھر ادھر پھر کر برتنوں میں منہ ڈالنا شروع کردیا۔ اسی دوران میں اسے ایک گھڑا نظر آیا جس میں چھان پڑا ہوا تھا اس نے گھڑے میں منہ ڈال دیا اورجب اس نے دو چار لقمے لینے کے بعد اپنے سر کوباہر نکالنا چاہا تو وہ باہر نہ نکال سکی اس کا سر گھڑے میں پھنس کر رہ گیا۔ اس پر وہ گھبراکر صحن میں اِدھر اُدھر دوڑنے لگی۔ لڑکی کی ماں نے شور سنا تو وہ بھی جاگ اٹھی مگر سمجھ نہ سکی کہ یہ چیزکیا ہے۔ اس نے خیال کیا کہ ہو نہ ہو یہ ملک الموت ہے جو میری روح قبض کرنے کیلئے آیا ہے کیونکہ میں روزانہ یہ دعا کیا کرتی ہوں کہ یا اللہ میں مرجائوں اور میستی بچ جائے۔ جب اس خیال کے نتیجہ میں اسے اپنی موت بالکل سامنے نظر آئی تو وہ بے اختیار کہنے لگی ؎
ملک الموت من نہ میستی ام
گر ترا میستی اس اندر کار
من یکے پیر زال محنتی ام
اینک اورا ببر مرا بگذار
ملک الموت میں میستی نہیں میں تو ایک بڑھیا مزدور عورت ہوں میستی تو وہ اندر لیٹی ہوئی ے تو نے اگر جان نکالنی ہے تو اس کی نکال لے۔
اب دیکھو وہ اپنے دل میں روزانہ یہ سمجھتی تھی کہ میں میستی کیلئے جان دے سکتی ہوں مگر وہ یقین ا س حد تک نہیں تھا کہ موت کے سامنے آنے پر بھی قائم رہتا۔ جب اسے اپنی موت سامنے نظر آئی وہ اپنے تمام دعاوی محبت کو بھول گئی اور لڑکی کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگی کہ میستی تو وہ ہے اس کی جان نکال لے۔ تو بسااوقات انسان سمجھتا ہے کہ مجھے یقین حاصل ہے مگر دراصل سے غیرمتزلزل یقین حاصل نہیں ہوتا اور جس چیز کو وہ یقین قرار دے رہا ہوتا ہے وہ اس کے نفس کا دھوکا ہوتا ہے محمد رسول اللہ ﷺ کے بیشک یقین حاصل تھامگر آپ کو کس طرح پتہ لگ سکتا تھا کہ میرا یقین اب کسی بڑی سے بڑی مشکل کے آنے پر بھی بدل نہیں سکتا۔ اسی وقت آپ کو اس حقیقت کا علم ہوسکتا تھا۔ جب امر غیب کو امر ظاہر بنادیا جاتا اور اللہ تعالیٰ کی متواتر تجلیات آپ کو اس مقام پر کھڑا کردیتیں جس کے بعد کسی تزلزل یا کسی جنبش قدم کا امکان بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔ پس چونکہ وراء الادراک امورپر یقین کامل تجلی کے بغیر نہیں ہوسکتااس لئے یہ آیت قطعی طور پر اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی متواتر تجلیات آپ پر ہوچکی تھیں اور آپ ایسے یقینی شواہد حاصل کرچکے تھے کہ جن کی بنا پر آپ سمجھتے تھے کہ جس طرح میں نے سورج کو دیکھا ہے، میں نے چاند کو دیکھا ہے، میں نے زمین اورآسمان کو دیکھا ہے اسی طرح میں نے اپنے رب کی متواتر تجلیات کو مشاہدہ کیاہے جس کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ میرے دل سے اس یقین کونکالاجاسکے۔ پس اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت تک آپ پر متواتر تجلیات ہوچکی تھیں ورنہ خداتعالیٰ یہ کس طرح کہہ سکتا تھا کہ ہم نے تیرا سینہ کھول دیا ہے اور اے محمد رسول اللہ ﷺ خود تو بھی جانتا ہے کہ تیرا شرح صدر ہوچکا ہے۔ پس یہ آیت صرف اس مضمون کی حامل نہیں کہ رسول کریم ﷺ کا شرح صد ر ہوا بلکہ ایک زائد بات اس میں یہ بھی پائی جاتی ہے کہ آپ پر امر نبوت تجلیات الٰہیہ کے ذریعہ اتنا واضح ہوچکا تھا کہ آپ یہ کہنے کیلئے بھی تیار تھے کہ بے شک میں مانتا ہوں کہ مشکلات آئیں گی مگر میں مٹ نہیں سکتا۔ مشکلات میرے پائے ثبات کو جنبش میں نہیں لاسکتیں۔ چنانچہ آنے والے واقعات نے اس بات کو ثابت کردیا کہ آپ میں اس قسم کا یقین تھا اور الٰہی تجلیات نے آپ کو ایسے مقام پر کھڑ اکردیا تھا کہ کوئی چیز آپ کو ہلا نہ سکی۔ چنانچہ میں اس ثبوت میں سات مثالیں پیش کرتا ہوں۔
(۱) پہلی مثال ابوطالب کا واقعہ ہے۔ مکہ کے بڑے بڑے رئوسا ان کے پاس آئے اور انہوں نے کہا ہم اس غرض کیلئے آئے ہیں کہ آپ اپنے بھتیجے کو ہماری طرف سے یہ پیغام پہنچادیں کہ اگر وہ دولت کا خواہش مند ہے تو ہم اس کو اتنی دولت دینے کیلئے تیار ہیں کہ وہ ہم سب میں سے زیادہ امیر ہوجائے۔ اگر وہ حسین بیوی کا شائق ہے تو ہم عرب کی سب سے زیادہ حسین لڑکی کے ساتھ اس کی شادی کرنے کیلئے تیار ہیں اور اگر وہ حکومت اور ریاست کا شوق رکھتا ہے تو ہم اسے اپنابادشاہ ماننے کیلئے تیار ہیں۔ غرض اس کی ہر خواہش اورمطالبہ ماننے کیلئے ہم تیار ہیں۔ وہ صرف اتنی بات مان لے کہ ہمارے بتوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دے۔ اب اگرمحمد رسول اللہ ﷺ کے یقین میں ذرا بھی تذبذب ہوتا یا لالچ کا کوئی ایک محرک بھی آپ کے قلب میں پایا جاتا تو آپ اس پیغام پر خوش ہوتے اورکہتے چلو اچھا ہوا مقصد حاصل ہوگیا۔ مجھ دولت چاہئے تھے سو اس ذریعہ سے دولت آرہی ہے۔ مجھے بیوی چاہئے تھے سو اس ذریعہ سے حسین ترین لڑکی مل رہی ہے۔ مجھ قوم کی سرداری چاہئے تھے سو وہ بھی حاصل ہورہ ہے۔ اگر میں بتوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دو تو اس میں میرا کیا حرج ہے۔ مگر آپ یہ جواب نہیں دیتے کہ بہت اچھا میں تمہارے مطالبہ کومان لیتا ہوں تم مجھے دولت دے دو۔ مجھے ریاست دے دو۔ مجھے حسین ترین لڑکی دے دو میں بتوں کو برا بھلا کہنا ترک کردیتاہوں۔ بلکہ آپ اپنے چچا کو یہ جواب دیتے ہیں کہ اے میرے چچا! اگر میری قوم سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لاکر کھڑا کردے تب بھی میں اپنے عقائد پر قائم رہوں گا اور ایک شوشہ بھر بھی ادھر ادھر نہیں ہوں گا۔ دیکھو یہ الم نشرح لک صدرک کی صداقت کاکتنا بڑا ثبوت ہے کہ آپ کو بڑے سے بڑا لالچ دیا گیا مگر آپ نے پرِپشہ کے برابر بھی ان چیزوں کو کوئی وقعت نہ دی اور فرمایا کہ مجھے جس کام کیلئے خدانے کھڑا کیا ہے وہ میں مرتے دم تک کرتا چلا جائوں گا اور میں اس سے نہیں ہوں گا خواہ مکہ والے سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لاکر کھڑا کردیں۔
(۲) ہجرت کے وقت گھر سے نکلنے کا واقعہ بھی الم نشرح لک صدرک کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔ رسول کریم ﷺ کو یہ علم ہوچکا تھا کہ باہر کفار کھڑے ہیں۔ آپ کو یہ علم ہوچکا تھا کہ وہ قتل کے ارادہ سے آئے ہیں مگر چونکہ خداتعالیٰ نے کہا تھا کہ یہ کفار خواہ تیر ی ہلاکت کے کتنے بڑے منصوبے کریں وہ تجھے قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ اس لئے رسول کریم ﷺ کے دل میں ذرا بھی گھبراہٹ پیدا نہ ہوئی۔ آپ نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے اور بڑی دلیری سے کفار کے گھیرے میں سے نکل گئے ۔ اگر کوئی شخص ہوتا تو اس کے اوسان خطا ہوجاتے، اس کے قدم لڑکھڑا جاتے اور وہ سخت پریشان ہوتا کہ اب میں کیا کروں۔ مگر رسول کریم ﷺ نہایت جرأت کے ساتھ دشمن کی قطار کے سامنے سے گزر گئے۔ میں نے حضرت خلیفہ اوّلؓ سے سناہے کہ آپ فرماتے تھے ایک روایت میں ہے کہ ان میں سے ایک شخص نے بعد میں بتایا کہ میں نے رات کو آپ کے مکان میں سے ایک شخص کو نکلتے تو دیکھا تھامگر میں نے خیال کیاکہ یہ کوئی اور شخص ہوگا ۔ چنانچہ میں نے اسے دیکھ کر اپنامنہ پرے کرلیاتا ایسانہ ہو کہ محمد (ﷺ) کو جاکر یہ بتادے کہ باہر قتل کے ارادہ سے کئی لوگ کھڑے ہیں (مجھے خود اب تک کسی کتاب میں یہ حوالہ نہیں ملا)۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ بغیر کسی گھبراہٹ کے نہایت جرأت کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے تھے۔ آپ کے قدم نہایت مضبوطی سے پڑ رہے تھے۔ آپ کے چہرہ پر بشاشت اور اطمینان کے آثار تھے اوردشمن یہ خیال بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اتنی جرأت کے ساتھ گھر سے نکلنے والا وجود محمد رسول اللہ ﷺکا ہوسکتا ہے۔ کوئی اور ہوتا تو دشمن کو دیکھتے ہی چکرا کر گر پڑتا مگر محمد رسول اللہ ﷺ نے ان کی ذرا بھی پروا نہ کی کیونکہ آپ کے دل میں یہ یقین کامل تھا کہ کفار مجھے ہلاک نہیں کرسکتے۔ خداتعالیٰ کی حفاظت میرے ساتھ ہے اور وہ اپنے وعدہ کو بہرحال پورا کرے گا۔ پس ہجرت عن الدار کا واقعہ الم نشرح لک صدرک کی صداقت کا ایک اہم ثبوت ہے۔
(۳) تیسرا واقعہ غار ثور کا ہے۔ دشمن سر پر آ پہنچا ہے ۔ ابوبکرؓ گھبرارہے ہیں مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں لاتحزن ان اللہ معنا گھبرانے کی کونسی بات ہے اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس کی معیت کے ہوتے ہوئے یہ لوگ کیا کرسکتے ہیں۔ چنانچہ وہ آتے ہیں اور خائب و خاسر چلے جاتے ہیں یہ کمال یقین ہی تھا کہ دشمن سر پر کھڑا ہے اس کی آوازیں کانوں میں پہنچ رہی ہیں مگر آپ فرمارہے ہیں لاتحزن ان اللہ معنا۔
(۴) چوتھا واقعہ احد کا ہے۔ اس جنگ میں ایک غلطی کی وجہ سے اکثر صحابہؓ میدانِ جنگ سے بھاگ گئے تھے۔ دشمن تین ہزار کی تعداد میںتھا وہ حملہ کرتے ہوئے آگے بڑھا مگر باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ کے ارد گرد بہت کم صحابہ تھے آپ دشمن کے ریلے کے باوجود اپنی جگہ سے نہیں ہلے اور ایک تو ایسا آیا کہ آپ بالکل اکیلے رہ گئے اور یہی وہ وقت تھا جب آپ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے اور خود بھی زخمی ہوکر ایک گڑھے میں جاگرے۔ ایسے موقع پر طبعی طور پر انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ میں کسی پتھر کے پیچھے چھپ جائوںتاکہ دشمن کے حملہ سے محفوظ رہوں۔ مگر آپ کھڑے رہے اور کھڑے رہے اور کھڑے رہے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ میں نے لوگوں کے ہاتھ سے مرنا تو ہے ہی نہیں ۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ مجھے ہلاک کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ واللہ یعصمک من الناس (مائدہ: ۱۰ع۱۴) خداتعالیٰ میری حفاظت کرے گا اور وہ مجھے قتل سے محفوظ رکھے گا۔ یہ وعدہ بہرحال پور ا ہوگا اور دشمن اپنے ارادوں میں ناکامی کا منہ دیکھے گا۔ پس احد کا واقعہ بھی الم نشرح لک صدرک کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔
(۵) پانچواں واقعہ غزئہ غطفان کا ہے۔ ایک شخص نے ارادہ کیا کہ وہ آپ کو قتل کئے بغیر گھر واپس نہ جائے گا۔ وہ چھپتا چھپتا اسلامی لشکر کے پیچھے چلا آیا تا کہ موقع ملنے پر آپ پر حملہ کرے مگر اسے کوئی موقعہ نہ ملا۔ یہاں تک کہ صحابہؓ مدینہ کے قریب جاپہنچے۔ وہ چونکہ مسلمانوں کا اپنا علاقہ تھا صحابہؓ نے احتیاط کا پہلو پوری طرح ملحوظ نہ رکھا۔ ایک دن دوپہر کے وقت صحابہ دور دور پھیل گئے اور مختلف درختوں کے نیچے چادریں تان کر سوگئے۔ اس نے یہ موقع غنیمت سمجھا آگے بڑھا اور جس درخت کے نیچے رسول کریم ﷺسورہے تھے وہاں پہنچ کر اس نے درخت سے رسول کریم ﷺ کی تلوار اتار لی اورپھر رسول کریم ﷺ کو جگا کر کہا بتائو اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچاسکتا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے بغیر کسی تذبذب کے لیٹے لیٹے نہایت اطمینان او ریقین کے ساتھ فرمایا اللہ۔ بظاہر یہ ایک معمولی بات ہے تم خود کسی دشمن کے سامنے اللہ کہہ کر دیکھو اس پر کوئی بھی اثر نہیں ہوگا۔ مگر رسول کریم ﷺ نے جس وثوق اور ایمان اور یقین کے ساتھاللہ کہا وہ ایسا زبردست تھا کہ دشمن نے صرف آپ کی زبان سے اللہ کا لفظ نہیں سنا بلکہ اس نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس کا ہاتھ کانپ گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی۔ رسول کریم ﷺ نے فوراً تلوار کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور فرمایا اب بتائو تم کو کون میرے ہاتھ سے بچاسکتا ہے؟ اس نے کہا کہ آپ ہی رحم کریں تو کریں۔ رسولکریم ﷺ نے فرمایا افسوس تم نے سن کر بھی سبق حاصل نہ کیا۔تم کہہ سکتے تھے کہ اللہ مجھے بچاسکتا ہے مگر تم نے میری زبان سے یہ بات سننے کے باوجود اللہ کا لفظ استعمال نہ کیا۔
اس طرح رسول کریم ﷺ نے اپنے عمل سے اس پر حجت تمام کردی اور بتادیا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ میں نے بناوٹ کے ساتھ اللہ کہا تھا۔ اگر میں بناوٹ کے ساتھ کہتا تو تم بھی ایسا کہہ سکتے تھے بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ قریب ترین عرصہ میں تمہارے سامنے میں نے اللہ تعالیٰ پر اپنے اعتمادکا اظہارکیا تھا اور تم نے دیکھ لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت فرمائی اور تمہارے حملہ سے اس نے مجھے محفوظ رکھا۔ مگر تم پھر بھی اللہ کا لفظ اپنی زبان پر نہ لاسکے۔ جو ثبو ت ہے اس بات کا کہ گھبراہٹ کے موقع پر تصنع اوربناوٹ سے اللہ کا لفظ زبان پر نہیں آسکتا۔ یہ آتا ہے تو اسی حالت میں جب انسان کے رگ و ریشہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت جاگزیں ہوچکی ہو اور وہ سورج سے بھی زیادہ یقینی دلائل سے اس یقین پر قائم ہوچکا ہو کہ میرا رب مجھے نہیں چھوڑ سکتا۔پس یہ واقعہ بھی اس شرح صدر کا ایک بین ثبوت ہے جو رسول کریم ﷺ کو حاصل تھا۔
(۶) چھٹا واقعہ غزوئہ خندق کا کہے۔ دشمن آیا اور اس مدینہ کا چاروں طرف سے احاطہ کرلیا۔ قرآن کریم نے اس محاصرہ کا سورئہ احزاب میں نہایت ہی اعلیٰ نقشہ کھینچا ہے۔ جب دشمن سمجھتا تھا کہ میں نے مسلمانوں کو مارلیا۔ اس وقت مومن بندے کہہ رہے تھے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کی باتیں پوری ہوگئیں۔ ھذا ماوعدنا اللہ و رسولہ و صدق اللہ و رسولہ ومازادھم الا ایمانا و تسلیما (احزاب ۳ع) بجائے گھبرانے کے وہ خوش خوش پھرتے تھے کہ خدا نے جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہوگیا۔ یہ بھی ثبوت ہے اس شرح صدر کا جو رسول کریم ﷺ کو حاصل تھا۔ کیونکہ اگر آپ کو شرح صدر نہ ہوتا تو آپ کے ماننے والوں کے دلوں میں یہ غیر معمولی یقین خدائی دعووں پر کس طرح پید اہوجاتا کہ دشمن چاروں طرف سے محاصرہ کئے ہوئے ہے اور وہ خوش ہورہے ہیں کہ خداتعالیٰ کی باتیں پوری ہوگئیں۔
(۷) ساتواں واقعہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے قریب مسیلمہ کذاب اپنے قبیلہ کے سرکردہ لوگوں کو لے کر آپ کے پاس آیا۔ اس کی پشت پر اس کی قوم کا ایک لاکھ سپاہی تھا۔ سرداران قوم نے کہا یا رسول اللہ ہم آپ کو مان چکے ہین اور آپ کی بیعت بھی کرچکے ہیں مگر اب ہماری قوم کا ایک فرد کہتا ہے تم مجھے مانو۔ ہم اسے آپ کے پاس لے آئے ہیں تاکہ آپس میں کوئی سمجھوتہ ہوجائے اور یہ فتنہ بڑھنے نہ پائے۔ رسول کریم ﷺ کو خبر مل چکی تھی کہ آپ کی وفات قریب ہے۔ ادھر عرب میںسے سب سے طاقتور اور سب سے زیادہ تعدادرکھنے والا قبیلہ آپ کے پاس وفد لایااو رکہا کہ مسیلمہ کو بھی الہام ہوتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ مجھے مان لو۔ ہم اسے آپ کے پاس اس لئے لائے ہیں تاکہ آپ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہوجائے۔ رسول کریم ﷺ نے مسیلمہ سے فرمایا کہ بتائو تم کیاچاہتے ہو؟ اس نے کہا پہلے آپ بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں یہی چاہتاہوں کہ مجھے رسول ماناجائے اور میری اطاعت اختیار کی جائے۔ مسیلمہ نے کہا ہم آپ کو بے شک رسول مانتے ہیں مگر ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ آپ اپنی وفات کے بعد جب کہ آپ کو اس معاملہ سے کوئی دلچسپی نہیں رہے گی (کیونکہ آپ کی نرینہ اولاد نہ تھی) مجھے اپنا خلیفہ مقرر کردیں۔ اس نے اپنی طرف سے سمجھوتہ کیلئے نہایت ہی نرم شرط آپ کے سامنے پیش کی۔ ایک لاکھ سپاہی اس کی پشت پر تھا اور اس نے صرف یہ مطالبہ کیا کہ مجھے وفات کے بعد خلیفہ بنادیا جائے۔ مگر رسول کریم ﷺ نے اس کا جواب یوں دیا کہ ایک تنکا اٹھایا اور فرمایاکہ خلاف تو الگ رہی یہ تنکا بھی تمہیں نہ دیاجائے گا۔ اورمیرے معاملہ میں وہی ہوگا جو خداتعالیٰ چاہے گا یعنی وہی شخص خلافت کے مقام پر کھڑ اہوگا جس کو خداتعالیٰ خود کھڑا کرنا چاہے گا۔ تم ان معاملات میںدخل دینے والے کون ہو۔ مسیلمہ غصے اور ناراضگی کی حالت میں واپس چلا گیا اور اپنی قوم سمیت اسلام سے مرتد ہوگیا۔ جب رسول کریم ﷺ وفات پاگئے تو وہ ایک لاکھ سپاہی اپنے ساتھ لے کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا اور اس نے ایسا شدید حملہ کیا جس کی پہلے کسی حملہ میں مثال نہیں ملتی۔ صحابہؓ اس جنگ میں اس طرح مارے گئے جس طرح چنے بھونے جاتے ہیں اور وہ شکست کھاکر واپس لوٹ گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس شکست کا اتنا صدمہ ہوا کہ آپ نے سرداران لشکر کو حکم دے دیا کہ ان میں سے کوئی شخص آئندہ مدینہ میں میرے سامنے نہ آئے۔ یہ سزا جو ان سرداران لشکر کو دی گئی بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس شکست کا کیسا صدمہ ہوا تھا۔ مگر باوجود اس کے خطرہ حقیقی تھا اور مسیلمہ اور اس کی قوم کا ارتداد بہت سی مشکلات کا موجب بن سکتا تھا رسول کریم ﷺ نے اس کی ذرا بھی پروا نہ کی۔ ایک تنکا اٹھا کر کہا کہ تم خلافت مانگتے ہو تمہیں تو یہ تنکا بھی نہیں دیا جاسکتا۔ یہ خداتعالی کی امانت ہے اور اسی شخص کے پاس جائے گی جو اس امانت کا بہترین اہل ہو۔ غرض رسول کریم ﷺ کی زندگی شروع سے لے کر آخر تک الم نشرح لک صدرک کی صداقت کا ایک بین اور واضح ثبوت ہے۔ ہر مقام پر آپ نے اس غیر متزلزل یقین کا ثبوت دیا جو آپ کو خداتعالیٰ کی ذات پر تھا اور یہی یقین تھا جو مسیلمہ کذاب والے واقعہ میں کام کررہا تھا۔ آپ نے سمجھا جب خداتعالیٰ کہہ رہا ہے کہ ابوبکر خلیفہ بنے گا تو مسیلمہ اس کے مقابلے میں کیا حقیقت رکھتا ہے۔ آپ نے اس مطالبہ کو ردّ کردیا اور اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کی کہ اس کے نتیجہ میں کیا کیا مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میںنے جو مثالیں دی ہیں ان میں سے بعض اس آیت کے نازل ہونے کے بعد کی ہیں۔ لیکن میرا منشاء اس جگہ یہ بتانا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی ساری زندگی اس آیت کی صداقت کا ثبوت بہم پہنچاتی ہے۔ شروع سے لے کر آخر تک آپ کی زندگی سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا سینہ اسلام اور اس کی تعلیم کیلئے کھول دیا تھا اوروہ آخر تک کھلا رہا۔
دوسرے معنے شرح کے محفوظ رکھنے کے ہوتے ہیں۔ ان معنوں کی رو سے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ کیا ہم نے تیرے سینہ کو تیرے لئے محفوظ نہیں کردیا۔ سینہ یا دماغ جو چاہو کہہ لو (اس کے متعلق بحث اوپر گزرچکی ہے) انسانی تجارب کا ایک ذخیرہ ہوتا ہے۔ ہر کام جو انسان کرتا ہے وہ اس کے دماغ میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ان المومن اذا اذنب ذنبا کان نکتۃ سودا فی قلبہ فان تاب و نزع واستغفر صقل قلبہ فان زاد زادت حتی یخلف قلبہ۔ یعنی جب انسان کوئی کام کرتا ہے اگر نیک کام ہو تو اس پر ایک نکتہ لگ جاتا ہے یعنی علاوہ اس نیک کام کا شرعی نتیجہ نکلنے کے اس کا ایک طبعی نتیجہ بھی نکلتا ہے اور وہ اس طرح کہ اس شخص کے دل پر ایک نورانی نشان ڈال دیاجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ نیکیوں پر آئندہ زیادہ قادر ہوجاتا ہے اور جو کوئی بدی کرتا ہے اسے علاوہ شرعی سزاملنے کے ایک طبعی نتیجہ اس شکل میں ملتا ہے کہ اس کے دل پر ایک سیاہ داغ ڈال دیا جاتا ہے اور آئندہ اس کیلئے بدی کا ارتکاب آسان ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آخر میں یا دل سارا سفید ہوجاتا ہے یا سارا سیاہ۔ اس نکتہ کی طرف بھی اس آیت میں اشارہ کیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تیرے فائدہ کیلئے (لک کا لام فائدہ کے معنے دیتا ہے) تیرا سینہ کھول دیا ہے یعنی روحانی امور جو تیرے لئے نفع بخش ہوتے ہیں ان کے قبول کرنے کیلئے ہم نے تیرا سینہ محفوظ کردیا ہے یعنی اس کے خلاف بدی کی کوئی تحریک تیرے سینہ میں داخل نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا ہے کہ تیرا سینہ نیکی کیلئے محفوظ رہنا چاہئے۔ اس آیت کی تشریح خود رسول کریم ﷺ نے اس طرح فرمائی ہے ان اللہ اعانی علیہ فاسلم فلا یامر فی الا بخیر (مسلم جلد ثانی کتاب صفۃ المنافقین باب تحریش الشیطان و بعثہ سوایاہ) کہ میرا شیطان مسلمان ہوگیا ہے اور میرے دل میں صرف نیک تحریکات ہی ڈالتا ہے۔ اس حدیث کے یہی معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے سینہ کو آپ کے فائدہ والی چیز کیلئے محفوظ کردیا تھا۔ ہر وہ چیز جو آپ کیلئے مضر ہواس میں داخل نہیں ہوسکتی تھی اور اگر کوئی بری بات آپ کے کان میں پڑے تو وہ نیک پہلو اختیار کرلیتی تھی۔ جس طرح کہتے ہیں کہ ہر کہ درکانِ نمک رفت نمک شد۔ یہ کتنا بڑا مقام ہے جو رسول کریم ﷺ کو حاصل تھا۔ آپ کے دل میں جو خیال آتا نیک ہی آتا۔ اگر بدی آپ کے سامنے آتی تو وہ بھی نیک شکل اختیار کرلیتی۔ طائف کے لوگوں نے جب آپ پر پتھر مارے ۔ کتے آپ کے پیچھے ڈال دئے تو اس شرارت نے غم وغصہ آپ کے دل میں پیدا نہیں کیا بلکہ آپ نے خداتعالیٰ سے یہ دعا کرنی شروع کردی کہ رب ان قومی لا یعلمون میرے اللہ ان پر اس بیہودگی پر ناراض نہ ہونا ان کو معلوم نہیں کہ میں آپ کی طرف سے پیغامبر ہوں۔ کیا ہی نیکی کا یہ نمونہ ہے جو آپ نے دکھایا۔کیا ایسے موقعہ پر کوئی بھی اپنے جذبا ت کو دباکر رکھ سکتا ہے؟ منہ سے عفو کہنا الگ امر ہے مگر پتھرائو ہورہاہے، کتے پیچھے ڈالے جارہے ہیں اور ساتھ کے ساتھ آپ ان لوگوں کیلئے دعا کرتے جاتے ہیں۔ یہ وہ نمونہ ہے جس کی مثال صرف خدا رسیدہ لوگوں میں ہی مل سکتی ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کو یہ مقام سب سے بلند حاصل تھا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ الم نشرح لک صدرک سے اشارہ فرماتاہے اور فرماتا ہے کہ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے تیرے سینہ کو ہر شر سے محفوظ کردیا ہے۔ صرف نیکیاں ہی اس میں جاسکتی ہیں ۔ کیا یہ اس امر کا ثبوت نہیں کہ اب دنیا کی اصلاح تیرے ہی ذریعہ سے ہوگی۔ اور جس طرح شیطان کو تیرے سینہ میں دراندازی سے روکا گیا ہے اسی طرح تیرے ذریعہ سے وہ دوسروں کے سینوں میں دراندازی سے روکا جائے گا۔ یہ دلیل کس قدر شاندار ااور واضح ہے۔ بینا ہی نابینائوں کی راہنمائی کرسکتا ہے۔ ایک نابینا کس طرح راہنمائی کرسکتا ہے۔ پس کامل راہنمائی دنیا کی ایسا ہی انسان کرسکتا ہے جس کا سینہ خداتعالیٰ نے شیطان کے اثر سے محفوظ کردیا ہو اور جس کا سینہ شیطانی اثرات سے محفوظ ہو۔ اس کی بات کا انکار نیکی کامیلان رکھنے والے کیلئے مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ مقناطیس سے لوہا الگ نہیں رہ سکتا اور کندہم جنس باہم جنس پرواز۔
تیسرے معنے شرح کے سمجھانے کے ہیں۔ ان معنوں کی رو سے اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے تیرے دل میں حقائق اشیاء اتار دئے اور خود تیرا استاد بن کر تجھ کو سمجھایا۔ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کو سمجھانے اور حقیقت بتانے والا خود خدا تعالیٰ تھا۔ اس مضمون کی حقیقت سے ظاہر ہی ہے جس کا خداتعالیٰ استاد ہو وہی روحانی دنیا میں استاد ہوسکتاہے جب رسول کریم ﷺ دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اس وقت لوگ حقیقت روحانیہ سے بالکل نابلد ہوچکے تھے اور دنیا محتاج تھی کہ پھر نئے سرے سے اللہ تعالیٰ کسی کا استاد بن کر اسے دنیا کیلئے استاد بنائے۔ اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے اورفرمایاگیا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے تیرے دل کو خود حقائق روحانیہ سے آگاہ نہیں کیا۔ یعنی ایسا کیا ہے اور جب خداتعالیٰ نے تیرے دل پر نازل ہوکر اسے حقائق اشیاء سے آگاہ کیا ہے تو پھر تیرے سوا اور کون ہے جو گمراہوں کو ہدایت دے سکتا ہے اور تو ناکام کس طرح رہ سکتا ہے کیونکہ شاگرد کی ناکامی استاد کی ناکامی ہوتی ہے۔ تو ناکام رہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ خداتعالیٰ نے جو تجھے سکھا کر دنیا کی اصلاح کیلئے بھیجا تھا وہ ناکام رہا اور یہ ہو نہیں سکتا۔ پس تو ضرور کامیاب ہوکر رہے گا۔
الم نشرح لک صدرک کے ایک اورمعنے بھی ہیں جو رسول کریم ﷺ کی عظمت اور آپ کی بلندیٔ درجات کا ایک کھلا ثبوت ہیں اور وہ معنے یہ ہیں کہ دنیا میں دو قسم کے علوم ہوتے ہیں۔ ایک علم خارجی اور ایک علم اندرونی ہوتا ہے۔ تکمیل علم کا انحصار انہیں دو ملکوں پر ہوتا ہے اور یہ علم النفس کا ایک بہت بڑا نکتہ ہے جس سے بہت سے لوگ ناواقف ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ علم خارجی ہی اصل علم ہے۔ حالانکہ علم خارجی بہت محدود علم ہوتا ہے اور وہ مکمل نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ علم اندرونی بھی شامل نہ ہو۔ مثلاً میں اس وقت درس دے رہا ہوں اب اگر کوئی شخص ایسا ہو جسے اللہ تعالیٰ نے ملکہ ادراک بخشا ہو اور علم قرآن کا چشمہ اس کے سینہ میں پھوڑا ہو تو وہ میرے اس درس کو سن کر نہ صرف دوسروں تک یہ تمام باتیں پہنچادے گا بلکہ وہ انہی باتوں کے کئے ایسے جدید پہلو بھی بیان کرسے گا جو قلت وقت کی وجہ سے بیان نہیں کئے جاسکتے۔ اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا شخص ایسا بھی ہوسکتا ہے جو درس کو سن کر صرف اتنی قابلیت رکھتا ہو کہ اس درس کو من و عن بیان کردے اس میں یہ قابلیت نہیں ہوگی کہ وہ جدید پہلو اپنی ذہنی قابلیت سے نکال کر بیان کرسکے۔ پھر کوئی ایسا ہوگا جو پورا درس بیان کرنے کی بھی قابلیت نہیں رکھے گا۔ وہ جو کچھ بیان کرے گا اصل درس کا ۴؍۳ حصہ ہوگا اور کوئی ایسا ہوگا جو صرف آدھی باتیں بیان کرسکے گا اور کوئی ایسا ہوگا کہ اس سے پوچھو کہ درس میں کیا بیان ہوا تھا تو کہہ دے گا قرآن کی کچھ تفسیر بیان کی گئی تھی مگر یاد نہیں رہی صرف اتنا یاد ہے کہ کہ اچھا دلچسپ تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ عورتوں میں کچھ مدت تک سلسلہ تقاریر جاری رکھا۔ ایک دن آپ کو خیال آیا کہ عورتوں کا امتحان لینا چاہئے تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ ہماری باتوں کو سمجھتی ہیں یا نہیں۔ ایک عورت جو بڑی مخلصہ تھیں اور نابھہ کی رہنے والی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے دریافت فرمایاکہ کیا تم ہماری تقریری سنتی رہی ہو۔ اس نے کہا جی ہاںروزانہ تقریر سنتی رہی ہوں میںیہاں آئی ہی اس غرض کیلئے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اچھا بتائو میں کیا بیان کرتا رہا ہوں۔ اس نے جواب دیا بس اللہ اور رسول کی باتیں تھیں اور کیا تھا۔ یہ جواب جو اس عورت نے دیا اس کی وجہ یہی تھی کہ اندرونی علم اس کے اندر نہیں تھا۔ اس نے صرف خارجی علم پر انحصار رکھا اور سمجھا کہ میں بہت کچھ سمجھ رہی ہوں حالانکہ وہ کچھ بھی سمجھ نہیں رہی تھی۔ تو اندرونی علم کے بغیر کبھی کوئی شخص کسی بات کو صحیح طور پر دوسروں تک نہیں پہنچاسکتا۔ جب بھی کوئی بات بیان کی جاتی ہے ہمیشہ اس کے کچھ پہلو چھوڑنے پڑتے ہیں۔ اگر سارے پہلو بیان کئے جائیں تو چند باتوں میں ہی عمر گزر جائے اور علوم کا بہت سا حصہ نامکمل رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کبھی کسی شخص نے یہ بیان کامل نہیں کیا جو کچھ بیان کیاجاتا ہے ایک بیج کے طور پر ہوتا ہے جس سے ہر شخص اپنی اپنی استعداد اور اپنی قابلیت کے مطابق فائدہ اٹھاتا ہے۔ اسی طرح خداتعالیٰ کا کلام جب آسمان سے نازل ہوتا ہے کسی کیلئے وہ کلام اتنا ہی مفہوم رکھتا ہے جتنے اس کے الفاظ ہوتے ہیں۔ کسی کو آدھے الفاط کی حقیقت معلوم ہوتی ہے،کسی کو چوتھے حصہ کی حقیقت معلوم ہوتی ہے اور کسی شخص کیلئے وہ کلام ایسی حیثیت رکھتاہے جیسے درخت کا بیج یا گٹھلی ہوتی ہے کہ اس میں سے شاخ در شاخ علوم نکلتے چلے آتے ہیں اور نئی سے نئی باتیں اس پر منکشف ہوتی جاتی ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الم نشرح لک صدرک کیا ہم نے تیرا سینہ وسیع نہیں کردیا۔ یعنی اس چیز کیلئے تیرا سینہ بمنزلہ زرخیز زمین ہوگیا تھا۔ قرآن تو ایک گٹھلی تھی مگر تیرے سینہ میں وہ ایک درخت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اگر سینہ بھی گٹھلی کے برابرا ہوتا تو قرآن کے صرف الفاظ ہی الفاظ تیرے پاس رہ جاتے۔ مگر چونکہ خدا نے تجھ کو ایک بہت بڑے کام کیلئے مقرر کیا تھا اور تجھے اس غرض کیلئے دنیا میں بھیجا گیا تھا کہ تو قرآن کی تفسیر کرے، اس کے احکام کی تشریح و توضیح کرے اور اسکے معارف و حقائق کو دنیا کے سامنے پیش کرے۔ اس لئے تیرے سینہ میں اس کے متعلق گنجائش ہونی چاہئے تھی تاکہ یہ علم جو ہم نے تجھے بخشا ہے روز بروز بڑھتا رہے۔ نئی نئی باتیں اس میں سے نکلتی رہیں اور نئے نئے نکات لوگوں کے سامنے آتے رہیں۔ پس فرماتا ہے الم نشرح لک صدرک اے محمد ﷺ کیا تو اس بات کا گواہ نہیں کہ ہم نے تیرے اندر یہ مادہ پیدا کیا ہے کہ جب تجھ پر ایک آیت نازل ہوتی ہے تو اس کے تمام مالہ اور ماعلیہ تیرے سامنے آجاتے ہیں جو حکم بھی نازل ہوتا ہے اس کی باریکیاں اور وسعتیں سب تیرے ذہن میں مستحضر ہوجاتی ہیں اور تو فوراً سمجھ جاتا ہے کہ کن مواقع پر یہ حکم چسپاں ہوتا ہے اور کن مواقع پر چسپاں نہیں ہوتا۔
غرض رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے علم خارجی کے علاوہ علم اندرونی بھی بخشا تھا اور الم نشرح لک صدرک کے معنے یہی ہیں کہ کیا علاوہ قرآن شریف کے ہم نے تجھے علم اندرونی نہیں بخشا اور تیرے سینہ کو کھول نہیں دیا؟ میں بتاچکا ہوںکہ علم خارجی سب شاگردوں کو ایک قسم کا ملتا ہے مگر اندرونی علم ہرطالب علم کا الگ الگ ہوتا ہے اور اپنی الگ الگ استعدادوں کے مطابق وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسلام کی وسیع تعلیم کیلئے اس قدر وسیع سینہ کی ضرورت تھی جو ہر قسم کے علم کو سمجھ سکے، سمجھاسکے اور دنیا میں پھیلاسکے ۔ رسول کریم ﷺ کو جو علم ملا چونکہ وہ جامع و مانع تھا اس کیلئے بہرحال ایسے سینہ کی ضرورت تھی جو ہر علم کو اخذ کرلے اور اسے پھیلا کر کہیں کا کہیں لے جائے۔ ایک شخص ایسا ہوتا ہے جسے اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنے الفاظ ہوتے ہیں مگر ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو تھوڑے سے الفاظ سے بہت بڑا علم حاصل کرلیتاہے اور بات کو پھیلا کرکہیں کا کہیں لے جاتا ہے۔ اسی کو تفقہ کہتے ہیں جو ایک نہایت قیمتی چیز ہے۔ بعض لوگ اسلامی تعلیمات پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فلاں حکم تو قرآن میں نہیں ہے رسول کریم ﷺ نے کہاں سے نکال لیا۔ وہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ رسول کریم ﷺ میں تفقہ کا مادہ تھا مگر تم میں تفقہ کا مادہ نہی۔ تمہیں وہ علوم کس طرح حاصل ہوں گے جو قرآن سے رسول کریم ﷺ کو حاصل ہوگئے۔ بے شک جہاں تک حقیقت کا سوال ہے چکڑالویوں سے بالکل متفق ہوں مگر جہاں تک تشریح کا سوال ہے میں ان کو پاگل سمجھتا ہوں۔یہ تو صحیح ہے کہ قرآن سے باہر کوئی چیز نہیں مگر یہ بکواس ہے کہ عبداللہ چکڑالوی اورمحمد رسول اللہ ﷺ دونوں ایک جیسا قرآن سمجھتے تھے۔ ہم اپنے اوپر قیاس کرکے اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہزاروں ہزار قرآنی نکات اور باریکیاں ہیں جو اور لوگوں پر نہیں کھلیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر کھول دیں۔ اگر ہم پر قرآن کریم کے ایسے ہزاروںاسرار کھل سکتے ہیں جو کروڑوں کروڑ لوگوں کی نگاہوں سے مخفی ہے تو کیا رسول کریم ﷺ پر ہم سے کروڑوں درجے زیادہ قرآن کریم کے معارف نہیں کھل سکتے تھے؟ پھر ہم یہ کیوں فرض کرلیں کہ رسول کریم ﷺ نے جو فلاں حکم دیا تھا وہ قرآن میں موجود نہیں۔ یہ آیت اس امر پر شاہد ہے کہ قرآن کریم کی گٹھلی کیلئے محمد رسول اللہ ﷺ کا سینہ بمنزلہ اعلیٰ زمین کے تھا اس میں وہ گٹھی لگ کر فوراً اپنے آپ کو پھیلانے اور بلند کرنے لگ گئی تھی اور جو چیز لوگوں کیلئے گٹھلی تھی آپ کے سینہ میں وہ ایک وسیع اور بلند درخت تھی۔ غرض رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے جو دماغ عطا فرمایا تھا وہ بہرحال ہم سے اعلیٰ تھا اس لئے جس رنگ میں آپ قرآن کو سمجھ سکتے تھے اس رنگ میں دنیا کا اور کوئی شخص اس کو نہیں سمجھ سکتا تھا۔ دیکھو اس مادی دنیا میں بھی بیج ہمیشہ زمین کی قابلیت کے مطابق اگتاہے ۔ کھجور ہمارے علاقہ میں نہیں ہوتی لیکن عرب میں ہوتی ہے کیونکہ کھجور کیلئے عرب کی زمین زیادہ مناسب ہے۔ اسی طرح خربوزہ ہے۔ یہ بھی ہر جگہ اچھا نہیں ہوتا بلکہ بعض جگہ اچھا ہوتا ہے اور بعض جگہ ناقص۔ پنجاب میں چمیاری کا خربوزہ بہت اعلیٰ ہوتا ہے لیکن دوسرے مقاما ت کا خربوزہ ایسا اچھا نہیںہوتا۔ جس طرح مادی پھلوں کے عمدہ یا ناقص ہونے کا دارومدار مختلف زمینوں پر ہوتا ہے اچھی زمین میں بیج ڈالاجائے تو اچھا پھل دیتا ہے اور ناقص زمین میں بیج ڈالاجائے تو ناقص پھل دیتا ہے اورپھر بعض زمینیں ایسی ہوتی ہیں جو بعض پھلوں کو اگانے کی مخصوص طور پر اپنے اندر قابلیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح قرآن کیلئے سب سے بہترین زمین جو الٰہی ہاتھوں سے تیار کی گئی وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا سینہ تھا۔ قرآن کا جو درخت وہاں پیدا ہوسکتا تھا وہ اور کہاں پیدا ہوسکتا تھا۔ اسمی کوئی شبہ نہیں کہ اور بھی بعض اچھے درخت ہوئے ہیں مگر بہرحال وہ سب کے سب رسول کریم ﷺ کے اظلال ہوں گے۔ کامل تابع ہو یا ادنیٰ سے ادنیٰ تابع، دونوں اپنی اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق قرآن کریم کا پھل دنیا کے سامنے رکھیں گے۔ کامل تابع جس پھل کو لوگوں کے سامنے رکھے گا وہ اور قسم کا ہوگا اور ادنیٰ تابع جس پھل کو لوگوں کے سامنے رکھے گا وہ اور قسم کا ہوگا۔ جیسے لنگڑے آم کی گٹھلی جہاں بھی بودو کچھ نہ کچھ اگ آئے گا مگر اس کی خوبی زمین کی قابلیت کے مطابق ہوگی۔ اعلیٰ زمین ہوگی تو اعلیٰ درجے کا لنگڑا آم ہوگا اور ادنیٰ زمین ہوگی تو ادنیٰ درجے کا لنگڑا آم ہوگا۔ بہرحال اعلیٰ درجہ کی پیداوار اعلیٰ درجہ کی زمین کی متقاضی ہوتی ہے۔ امریکن کپاس لائل پورمیں ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں نہیں ہوتی۔ ایجپشن کاٹن مصر میں بہت اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے لیکن ہندوستان میں اگر یہ کپاس بوئی جائے تو اس میں سفیدی کم آتی ہے۔ سٹیپل STAPLE بہت تھوڑا ہوتا ہے اور بونے والا کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ سفیدی کم ہو تو اعلیٰ درجے کا کپڑا تیار نہیں ہوسکتا اور اگر مضبوطی کم ہو تب بھی لوگ اس کپاس کونہیں خریدتے کیونکہ اس روئی سے تیار کردہ کپڑا بہت جلد پھٹ جاتا ہے۔ غرض مختلف قسم کی اشیاء کیلئے مختلف قسم کی زمینیں ضروری ہوتی ہیں۔ جس طرح آموں کیلئے ملیح آبادمشہور ہے اور سنگتروں کیلئے ناگپور یا جس طرح زعفران دنیا میں صرف چند محدود علاقوں میں پیدا ہوتا ہے اسی طرح اگر قرآن پیدا ہوتا ہے تو محمد رسول اللہ ﷺ کے سینہ میں اور یہی وہ حقیقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ الم نشرح لک صدرک۔
شرح کے معنے پھاڑنے اور ہل چلانے کے بھی ہوتے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے آیت کایہ مطلب ہوگا کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ کیا ہم نے تیرے سینہ میں قرآن لگانے کیلئے ہل چلائے ہیں یا نہیں؟ جس طرح مادی اشیاء کیلئے مناسب حال زمین کو تلاش کیاجاتا ہے اسی طرح ہم اپنے قرآن کیلئے اسی زمین میں ہل چلاسکتے تھے جو قرآن کے مناسب حال ہو۔ سو ہمیں وہ مناسب حال زمین تیرا سینہ دکھائی دیا اور ہم نے اس میں ہل چلا دیا اب دنیا دیکھے گی اس میں سے کیسے شاندار پھل پیدا ہوتے ہیں۔ جب خداتعالیٰ جیسا بیج بونے والا ہو، خدا تعالی جیسا ہل چلانے والا ہو اور محمد ﷺ کے سینہ جیسی زمین ہو تو اس کھیتی کی برتری کا کون انکار کر سکتا ہے۔ الّلھم صلے علی محمد و علی ال محمد و بارک وسلم انک حمید مجید۔
غرض الم نشرح لک صدرک کے ایک معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم کے نزول کے علاوہ رسول کریمﷺ کو اللہ تعالے کی طرف سے ایسا علم لدنی بخشا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ آپ ہر علم کو فوراََ قبول کر کے اس کی وسعتوں کے انتہاء تک پہنچ جاتے تھے اوراس سے استنباط اور تفقہ کر کے مسلمانوں کو علم دین سکھاتے۔یہ وسعت بھی عجیب قسم کی ہے جو کتاب آپ کو ملی وہ ایسی عظیم الشان ہے کہ کوئی فن اور کوئی علم نہیں جو اس میں نہ پایا جاتا ہو۔ اس میں اقتصادیات کے اصول بھی ہیں، اس میں تمدن کے اصول بھی ہیں، اس میں سیاست کے اصول بھی ہیں، اس میں علم العائلہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، اس میں میراث کے مسائل بھی بیان کئے گئے ہیں، اس میں علم الاخلاق کی باریکیاں بھی بیان کی گئی ہیں، اس میں علم العبادات کو بھی نمایاںطور پر پیش کیا گیا ہے، اس میں علم المعاملات کو بھی پوری تفصیل کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھا گیا ہے۔ غرض علم کی کوئی شاخ انسانی ذہن میں ایسی نہیں آسکتی جو مذہب سے براہ راست تعلق رکھتی ہو اور اس میں تفصیلی احکامموجود نہ ہوں اورجو شاخ براہ راست تعلق نہ رکھتی ہو اس کے متعلق اجمالی علم اس کتاب میں موجود نہ ہو۔ ایسی کتاب کے متعلق رسول کریم ﷺ کے سینہ کا کھول دیا جانا خود ایک غیرمعمولی بات ہے۔ اول تو جو کتاب آپ کو ملی وہ غیر معمولی ہے اور وہ تمام علوم کی جامع ہے یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص ہوشیار اور سمجھدار تھا۔ اقتصادی مسائل سے گہری دلچسپی رکھتا تھا۔ اس نے علم الاقتصاد کی کوئی کتاب پڑھی اور اس کے سینہ میں اس علم کے چشمے پھوٹ پڑے۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ کوئی شخص سیاسی معلومات کا شوق رکھتا اور بوجہ اس کے کہ سیاست سے اس کی طبعی مناسبت تھی جب اس نے کسی سیاسی کتاب کو پڑھا تو اس کے سینہ میںوسعت پید اہوگئی اور سیاست کے متعلق نئے سے نئے مضامین اس کے ذہن میں آنے شروع ہوگئے۔ یہ بھی قیاس میں آسکتا ہے کہ کوئی شخص قضاء سے دلچسپی رکھتا تھا قضائی امور اس کے سامنے پیش آگئے اور چونکہ اس کی نفسی مشابہت قضاء کے ساتھ تھی قضائی معاملات میں اس کا دماغ تیز ہوگیا اور وہ کہیں سے کہیں جاپہنچا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم سمجھ لیں کہ کوئی شخص فوجی طبیعت رکھنے والا تھا اس نے ملٹری کے قواعد و ضوابط کے متعلق کوئی کتاب پڑھی یا دشمنوں کے ساتھ تعلقات کا وسیع مطالعہ کیا تو اس کے دل میں اور بھی کئی قسم کی نئی باتیں پیدا ہوگئیں۔یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی شخص علم العائلہ کا واقف تھا جب اس نے کوئی ایسی کتاب پڑھی جس میں خاندانوں کے متعلق قوانین بیان کئے گئے تھے جس میں باپ اور بیٹے ، خسر اور داماد، میاں اور بیوی، دوست اوردوست کے متعلق ہدایات دی گئی تھیں اور پھر خود بھی اس نے ان تعلقات پر غور کیا تو چونکہ اس علم سے اسے ذاتی مناسبت تھی اس کے متعلق نئے سے نئے علوم اس کے دماغ میں آنے لگ گئے۔غرض ہم یہ تمام باتیں اپنے قیاس میں لاسکتے ہیں۔ مگر یہاں دو غیر قیاسی اور بالکل غیرمعمولی باتیں بیان کی گئی ہیں۔
اوّل رسول کریم ﷺ پر وہ کتاب نازل ہوئی جس میں ہر علم پربحث کی گئی تھی اور پھر جو بحث کی گئی وہ ایسی تھی کہ اپنی ذات میں ہر لحاظ سے کامل تھی اور اس میں کسی نئے پہلو کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پس پہلی بات یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کو وہ کتاب ملی جو جامع ہے تمام علوم کی۔ یہ نہیں کہ وہ سیاست کے متعلق کتاب ہے یا انٹرنیشنل لاء کے متعلق کتاب ہے یا اخلاق کے متعلق کتاب ہے یا علم النفس کے متعلق کتاب ہے بلکہ ہر فن کے متعلق ہم اس میں تعلیم پاتے ہیں۔ اس میں عبادت پر بھی بحث کی گئی ہے، اس میں اقتصادیات پر بھی بحث کی گئی ہے، اس میں استاد اور شاگرد ، باپ اور بیٹا، نوکر اورمالک کے حقوق پر بھی بحثیں ہیں، اس میں حکومتوںکے تعلقات اور لڑائی اور صلح وغیرہ پر بھی بحث ہے۔ غرض ایک غیرمعمولی کتاب ہے جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی۔ مگر اس کے مقابلہ میں ایک اور ذمہ داری بھی رسول کریم ﷺ پر ڈالی گئی کہ اس غیرمعمولی کتاب کی تمام جزئیات آپ کے سینہ میں آکر درخت بن جائیں۔ گویا قرآن ایک گٹھلی تھی جس سے رسول کریم ﷺ کے سینہ میں ایک بہت بڑا درخت پیدا ہونا تھا۔ یہ اور بھی غیرمعمولی بات ہے اور یہی بات ہے جو الم نشرح لک صدرک میں بیان کی گئی ہے۔ جس چیز کیلئے آپ کا شرح صدر ہوا وہ یہاں محذوف ہے جو سوائے قرآن کے اور کچھ نہیں۔ گویا اصل آیت یوں ہے الم نشرح لک صدرک للقران۔ اے محمدرسول ا للہ ﷺ کیا ہم نے تیرا سینہ قرآن کیلئے نہیں کھول دیا؟ اگر خالی اس حد تک انسان چلتا ہے جس حد تک دلالۃ النص کے طور پر مضامین بیان کرنے پڑتے ہیں تب بھی یہ غیرمعمولی بات ہے مگر رول کریم ﷺ نہ صرف لالۃ النص کے طور پر قرآن کریم سے مختلف قسم کے علوم اخذ کرکے بیان فرماتے ہیں بلکہ اشارۃ النص میں جو مضامین بیان ہوئے ہیں ان کو بھی بیان فرماتے ہیں اور پھر ان کی ایسی ایسی باریکیاں بیان فرماتے ہیں جہاں عام انسانی عقول نہیں پہنچ سکتیں۔ یہ ایک ایسی غیرمعمولی چیز ہے جو سوائے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور اس کی خاص برکت کے انسان حاصل نہیں کرسکتا۔ ہم دیکھتے ہیں بعض لوگوں نے صرف علم قرأت پر بحث کی ہے اور وہ بڑے بڑے عالم کہلاتے ہیں۔ بعض صرف قرآن کریم کی لغت پر بحث کرتے ہیں اوروہ بڑے بڑے عالم کہلاتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جنہوں نے صرف قرآن کریم کی قضاء پر بحث کی ہے اور وہ بڑے بڑے عالم کہلائے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جنہوں نے صرف قرآن کی اقتصادیات پر بحث کی ہے اور وہ بڑے بڑے عالم کہلائے ہیں۔ مگر رسول کریم ﷺ نہ صرف یہ تمام جزئیات لیتے ہیں بلکہ ان کو پھیلاتے ہیں اور ان کی ایسی تشریحات اور تفصیلات بیان کرتے ہیں جو پہلے کسی انسان نے بیان نہیں کیں۔
الم نشرح لک صدرک میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی طرف حدیثوں میں اس رنگ میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کا سینہ چاک کیا گیا۔ رسول کریم ﷺ کے رضاعی رشتہ داروں کی طرف سے روایت آتی ہے کہ بچپن میں جب آپ کو حلیمہ دائی پرورش کیلئے لے گئی تو ایک دن جبکہ آپ باہر کھیل رہے تھے آپ کا ایک رضاعی بھائی گھبراہٹ کی حالت میں دوڑا ہوا اپنی والدہ اور والد کے پاس آیا اور اس نے کہا الحقا اخی محمد فما تلحقانہ الا میتاقلت وما قضیتہ قال بینا نحن قیام اذااتاہ رجل فاختطفہ من وسطنا و علا بہ ذروۃ الجبل و نحن ننظر الیہ حتی شق صدرہ الی عانتہ ولا ادری ما فعل بہ (سیرۃ حلیبہ جز اول) ہمارے بھائی پر کسی نے حملہ کرکے اسے ماردیا ہے۔ حلیمہ دوڑتی ہوئی باہر گئی تو اس نے دیکھا کہ رسول کریم ﷺ اٹھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ حلیمہ نے آپ سے دریافت کیا کہ بتائو کیا ہوا تھا؟ رسول کریم ﷺ نے جواب دیا کہ تین آدمی آئے تھے انہوں نے میرا سینہ چیرا اور میرے دل کو دھو کر اندر رکھ دیا اور پھر چلے گئے۔ روایتو ں میں یہ بھی آتا ہے کہ آپ کے سینہ پر اس کا ایک نشان بھی تھا۔ بعض دوسری روایتوں میں جو واقعہ معراج کے ساتھ تعلق رکھتی ہیںان میں بھی ذکر آتا ہے کہ ایک فرشتہ آیا اس نے آپ کے سینہ کو چیر کر دل نکالا آلائش صاف کی اور پھر دوبارہ اسے آپ کے سینہ میں رکھ دیا (روض الانف جز اول)۔ مسلمان اس کوجسمانی معجزہ کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں جس رنگ میں مسلمان اس واقعہ کو پیش کرتے ہیں اگر وہ زیادہ غور سے دیکھتے تو یہ آپ کی شان کو بڑھنے والا معجزہ بن جاتا ہے۔ اول تو یہ سوال ہے کہ دل پر کونسی مادی آلائشیں ہوتی ہیں جنہیں صاف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جو لوگ جنوں اور بھوتوں کے قائل ہیں وہ بھی اتنی معقولیت سے کام لیتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ فلاں جن نے فلاں کا دیکھتے ہی کلیجہ کھالیا۔ وہ جنات کی ماہیت کے لحاظ سے سمجھتے ہیں کہ انہیں چیرنے پھاڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی یونہی دیکھتے اور دوسرے کاکلیجہ نکال کر چبا جاتے ہیں۔ اگر جنات کے متعلق بعض نہایت ضعیف العقیدہ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جن پیٹ چیرنے کے محتاج نہیں ہوتے تو فرشتوں کے متعلق یہ کیوں سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ چیرنے پھاڑنے کے محتاج ہیں۔ اگر دل بنانے کیلئے فرشتے کسی کا پیٹ پھاڑنے کے محتاج نہیں۔ اگر پھیپھڑا بنانے کیلئے وہ کسی کا پیٹ پھاڑنے کے محتاج نہیں۔ اگر تلی بنانے کیلئے وہ کسی کا پیٹ پھاڑنے کے محتاج نہیں۔ اگر دماغ بنانے کیلئے وہ کسی کا سر پھاڑنے کے محتاج نہیں تو وہ دل کو صاف کرنے کیلئے کسی کا سینہ چاک کرنے کے کیوں محتاج ہوگئے؟ جس طر ح وہ پیٹ چیرے بغیر انسان کے اندر گھس گئے تھے اور انہوں نے دل اور دماغ اورمعدہ اور جگر وغیرہ بنادیا اسی طرح وہ سینہ کو چیرے بغیر رسول کریم ﷺ کا دل بھی صاف کرسکتے تھے۔ پھر سوال یہ ہے کہ آیا فرشتوں کو چھریوں کی ضرورت ہوتی ہے ؟ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں، پہاڑوں ، دریائوں اور دوسری سب چیزوں کے بنانے میں خداتعالیٰ کے ملائکہ بھی ایک علت کے طور پر کام کرتے ہیں مگر جب وہ پہاڑ اور دریا وغیرہ بناتے ہیں تو نہ انہیں ہتھوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ آری کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کدالوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھرکیا وجہ ہے کہ اور جگہ تو انہیں کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں پڑتی مگر رسول کریم ﷺ کے دل کی صفائی کیلے جب ان کو آنا پڑا تو وہ چھری بھی اپنے ساتھ لے آئے جس سے انہوں نے رسول کریم ﷺ کا سینہ چاک کیا۔ پس یہ روایت عقل کے بالکل خلاف ہے۔ کروڑوں کروڑ کام دنیا میں فرشتے کرتے ہیں مگر کبھی اس رنگ میں انہوں نے اپنے فرائض کو سرانجام نہیں دیا۔ پس اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عملی طور پر ایسا ہوا تب بھی اس کیلئے پیٹ کو چاک کرنے کی ضرورت تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ اور نہ چھریوں کی حاجت تسلیم کی جاسکتی ہے۔ فرشتے اگر کسی کے دل کی صفائی کیلئے پیٹ کو چاک کریں تو وہ وزیر آباد یا بھیرہ کی بنی ہوئی چھریوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ درحقیقت اس غلطی کی بناء یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے بالکل خلاف خیال کرلیاگیاہے کہ فرشتے ان مادی اشیاء کے محتاج ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات ایسی ہے جس کو دوسرے مقامات پر خود مسلمان ہی تسلیم نہیں کرتے۔ حدیثوں میں صاف طور پر ذکر آتا ہے کہ جب جنین رحم مادر میں ہوتا ہے تو فرشتہ ماں کے پیٹ میں جاتا ہے اور اس میں زندگی کی روح پھونک دیتا ہے۔ مگر کیا کسی نے دیکھا کہ کبھی عورت کا پیٹ فرشتوں نے چاک کیا ہو وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ بیشک سب کام فرشتے کرتے ہیں مگر وہ پیٹ چاک کرنے کے محتاج نہیں ہوتے۔ جب وہ وہاں چھریوں کی ضرورت تسلیم نہیں کرتے تو اس واقعہ کو کیوں ظاہری شکل دی جاتی ہے اور کیوں رسول کریم ﷺ کا سینہ ظاہری طور پر چاک کیے جانے پر زور دیا جاتا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ فرشتوں نے آپ کا سینہ چاک کیا اورہم یہ بھی مانتے ہیں کہ انہوں نے آپ کے دل کی صفائی کی مگر ہم ساتھ یہ بھی مانتے ہیں کہ انہوں نے اسی طرح آپ کا سینہ چاک کیا اور اسی طرح آپ کا دل نکال کر دھویا۔ جس طرح وہ جگر بناتے ہیں، تلی بناتے ہیں، دل اور پھیپھڑا بناتے ہیں۔ جس طرح وہ انسان کا دل اور جگر بناتے ہیں اسی طرح یہاں بھی انہوں نے رسول کریم ﷺ کا دل نکالا۔ اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ بات ایسی ہی ہے جسے ہم بھی تسلیم کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے یہ ایک کشف دیکھا تھا اور کشفی نظارہ بعض دفعہ دوسرے لوگ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ساری غلطی مسلمانوں کو ا س وجہ سے لگی ہے کہ حلیمہ کے بیٹے نے بھی یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ ظاہری واقعہ نہیں تھا تو حلیمہ کے بیٹے نے کس طرح دیکھ لیا؟ حالانکہ اگر صحابہؓ جبرائیل کو دیکھ سکتے ہیں تو حلیمہ کا بیٹا رسول کریم ﷺ کے اس کشفی واقعہ کو کیوں نہیں دیکھ سکتا۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آی اور اس نے آپ سے مختلف سوالات کئے جن کے آپ نے جوابات دیے۔ جب وہ چلا گیا تو رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے پوچھا جانتے ہو یہ کون تھا؟ صحابہ نے کہا یارسول اللہ ہمیں تو معلوم نہیں۔ خدا اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ رسول کریم ﷺنے فرمایا یہ جبرائیل تھا جو تمہیں علم سکھانے کیلئے آیا۔ اب دیکھو جبرائیل رسول کریم ﷺ کے پاس آیا مگر صحابہ نے بھی دیکھ لیا۔ پس کئی ایسے کشفی نظارے ہوتے ہیں جن میں ساتھ کے لوگ بھی شریک ہوجاتے ہیں مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ مادی واقعہ ہوتا ہے۔ پھر معلوم نہیں وہ صرف چھری کومادی کیوں قرار دیتے ہیں۔ فرشتے کو بھی کیوں مادی نہیں سمجھ لیتے۔ مگر وہ فرشتے کو تو روحانی قرار دیتے ہیں ۔ اگر آدھی روحانی چیز تھی تو آدھی مادی کیوں ہوگئی؟
وہ کہتے ہیں اس واقعہ کے مادی ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے سینہ پر اس کا نشان تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ نشان تھا تب بھی یہ اس واقعہ کے مادی ہونے کا ثبوت نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدائے تعالیٰ نے ایک نشان دکھایا جس کے نتیجہ میں آپ کے کپڑوں پرسرخ روشنائی کے بعض نشانات آگئے مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ ظاہری واقعہ تھا۔ تھا تو یہ کشفی واقعہ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کشف کی صداقت کیلئے ظاہر میں روشنائی پیدا کردی یہ بتانے کیلئے کہ میں قادر مطلق خدا تمہیں یہ نظارہ دکھارہا ہوں۔ پس گو یہ واقعہ مادی نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ظاہر میں اس کانشان پیدا کردیا۔ اس طرح اگر رسول کریم ﷺ کے سینہ پر نشان تھا تو اس کے معنے نہیں کہ یہ ظاہری واقعہ تھا۔ یہ ظاہر میں انسانی قلب پر کوئی میل ہوتی ہے جسے دھونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ غرض یہ غلط ہے کہ یہ ایک ظاہری واقعہ تھا جو رسول کریم ﷺ کے ساتھ گزرا۔ یہ ظاہری واقعہ نہیں بلکہ ایک کشف تھا جو رسول کریم ﷺ کو دکھایاگیا ہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کی عظمت کے اظہار کیلئے اور آپ کے رضاعی خاندان کے دل میں آپ کی محبت پید اکرنے کیلئے ایسا تصرف کیا کہ حلیمہ کے بیٹے نے بھی اس واقعہ کو دیکھ لیا۔ اور اس کی گواہی سے سب پر یہ اثرا ہوا کہ یہ غیرمعمولی واقعہ بتارہا ہے کہ یہ لڑکا ایک دن بہت بڑی عظمت اور شان حاصل کرے گا۔ پھر یہ بتانے کیلئے کہ یہ کشف واقعہ میں ہم نے دکھایاتھا اللہ تعالیٰ نے آپ کے سینہ پر بھی نشان پیدا کردیا۔ تاکہ سب لوگ اللہ تعالیٰ کے اس نشان کے گواہ رہیں۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کرتے پر سرخ روشنائی کے قطرات اللہ تعالیٰ نے اس لئے ڈالے تاکہ اور لوگ بھی اس نشان کے گواہ رہیں۔ گو معتبر روایتوں میں یہ ذکر نہیں آتا کہ رسول کریم ﷺ کے سینہ پر نشان تھا۔ مگر ہمیں اس کو تسلیم کرنے سے انکار کی خاص ضرورت نہیں۔ اگر روشنائی کے نشان اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کپڑوں پر پیدا کرسکتا ہے تو اس کشف کی تصدیق کیلئے اگر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے سینہ پر کوئی نشان پید اکردیا ہو تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔ پس جس حد تک اس واقعہ کو کشفی ماننے کا تعلق ہے ہمیں اس کی صحت سے ہرگز انکارنہیں لیکن جس حد تک اس واقعہ کو مادی قرار دینے کا سوال ہے ہمارے نزدیک یہ بات عقل کے خلاف ہے ورنہ جیسا کہ احادیث میں آتا ہے ماننا پڑے گا کہ جب کوئی شخص برا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نشان پڑ جاتا ہے اور جب اچھا کام کرتا ہے تو اس کا دل اعلیٰ حالت میں رہتا ہے۔ حالانکہ یہ بات واقعات کے خلاف ہے۔ نعشوں کو چیرنے پھاڑنے اور مختلف امراض کے نتیجے میں انسانی جسم میں جو تغیرات واقع ہوتے ہیں ان کو دیکھنے بھالنے کا کام اس زمانے میں بہت ترقی پر ہے۔ لاکھوں نعشیں اب تک چیری جاچکی ہیں اور تشریح الابدان کے ماہرین نے ان تمام تغیرات کا پوری طرح جائزہ لے لیا ہے جو امراض کے نتیجے میں انسانی جسم میں واقع ہوتے ہیں۔ اگر اس نظریہ کو درست تسلیم کرلیا جائے کہ برے کام کے نتیجے میں قلب پر مادی شکل میں سیاہی چھا جاتی ہے اور اچھے کام کرنے کے نتیجہ میں قلب پر مادی شکل میں نور آجاتا ہے تو کئی مسلمانوں کو کافر اور کئی کافروں کو مسلمان قرار دینا پڑے گا۔ وہ مسلمان جو دم گھٹ کر مر جاتے ہیں ان کے دل یقینا کالے ہوں گے اور وہ ہندو او رسکھ جن کے تنفس پر بیماری کا اثر نہیں ہوتا ان کے دل یقینا اچھی حالت میں ہوں گے۔ ایسی حالت میں ہمیں روزانہ کافروں کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر قرار دیناپڑے گا اور یہ حقیقت کے خلاف ہے۔
درحقیقت رسول کریم ﷺنے جو کچھ دیکھا وہ ایک کشف تھا۔ کشفی حالت میں فرشتہ آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ کا سینہ چاک کرکے آپ کا دل نکالا اور اسے دھو دھا کر پھر اندر رکھ دیا۔ بیشک ظاہر میں اس واقعہ کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا مگر خواب یا کشف کی حالت میں اس قسم کے واقعہ کو تسلیم کرنا ہرگز بعید از قیاس نہیں۔ خواب میں ایک چھوڑ دس دل بھی سینوں میں سے نکال کر دھوئے جاسکتے ہیں اور اس میں کسی تعجب کی بات نہیں سمجھی جاتی کیونکہ خواب ہمیشہ تعبیر طلب ہوتا ہے۔ ہم خواب میں زید کے دس سر دیکھ سکتے ہیں حالانکہ ظاہری لحاظ سے کسی کے دس سر نہیں ہوسکتے۔ خواب چونکہ تعبیر طلب ہوتاہے اس لیے اگر ہم کسی کے دس سر دیکھیں تو اس کے حالات کے مطابق اس کی دو تعبیریں ہوں گی۔ یاتو اس کی یہ تعبیر ہوگی کہ اس کے اندر استقلال نہیں پایا جاتا اور یا پھر یہ تعبیر ہوگی کہ اس کی عقل وسیع ہے۔ اگر اس کے حالات اس کی اخلاقی جرأت کا ثبوت ہو تو دس سر دیکھنے کی اچھی تعبیر ہوگی۔ اور اگر اس کے حالات اس کے خلاف ہوں تو دس سر دیکھنے کی بری تعبیر ہوگی۔ بری تعبیر تو یہ ہوگی کہ اس کے اندر استقلال کا مادہ نہیں پایا جاتا ۔ ایک سر ایک دفعہ بات کرتا ہے تو دوسرا سر دوسری دفعہ بات کرتاہے۔ ایک دفعہ وہ ایک رائے قائم کرتا ہے اور دوسری دفعہ دوسری رائے قائم کرتاہے۔ اور اچھی تعبیر یہ ہوگی کہ وہ بڑا عقلمندہے۔ لوگ ایک سر سے کام لیتے ہیں اور وہ دس سروں سے کام لیتا ہے۔ پس کسی کے دس سر دیکھنا یا تو اس کے تدبر اور اعلیٰ درجے کے دماغ کا ثبوت ہوگا اور یا پھر اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ دس دفعہ اپنی رائے بدل لیتا ہے اور اس کے اندر استقلال کا مادہ نہیں۔ پس ایک ہی خواب کی اچھی تعبیر ہی ہوسکتی ہے اور بری بھی۔ اور یہ تعبیر دیکھنے والے کے حالات پر منحصر ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر رئویا یا کشف کی حالت میں کوئی شخص اپنے دس دل دیکھے تو یہ بھی ہوسکتا ہے جس طرح وہ دیکھ سکتا ہے کہ اس کا دل سینے میں سے نکالا گیا اور اسے فرشتے نے دھوکر پھر اس کی اصل جگہ پر رکھ دیا۔
غرض عا م مسلمانوں کو تمام دھوکا کشف کی حقیقت کونہ سمجھنے کی وجہ سے لگا ہے ورنہ کشفی حالت میں دل پر سیاہی بھی دیکھی جاسکتی ہے اور کشفی حالت میں یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ دل میں نور بھر دیا گیا ہے۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ اگر جھوٹی خواب ہو توگو انسان بہت کچھ دیکھتا ہے مگر اسے ملتا کچھ نہیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خواب دکھایا جائے تو فوراً انسان کو اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام بھی مل جاتا ہے۔ مثلاً اگر خداتعالیٰ کسی کو دکھائے کہ اس کا سر بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ بہت بڑا ہوگیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے بہت بڑا علم مل جائے گا اور اس کی عقل بہت وسیع ہوجائے گی۔ اب اگر یہ خدائی خواب ہے تو چند دنوں بعد ہی اسے نظر آئے گا کہ اس کے علم اور اس کی ذہانت میں ترقی ہورہی ہے۔ لیکن اگر نفسانی خواب ہے تو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ بعض لوگوں کے کان میں سوتے ہوئے چیونٹی گھس جاتی ہے تو وہ خواب میں دیکھتے ہیں کہ توپیں چل رہی ہیں ، لڑائیاں ہورہی ہیں، ڈھول بج رہے ہیں اور دنیا میں ایک شور برپا ہے یا بعض دفعہ کان میں میل پھنسی ہوئی ہوتی ہے ایسی حالت میں جب ہوا کان کی میل سے ٹکراتی ہے تو سویا ہوا انسان دیکھتا ہے کہ بجلیاں چمک رہی ہیں، بادل کڑک رہے ہیں، اولے برس رہے ہیں اور دنیا پر بڑی تباہی آئی ہوئی ہے۔ حالانکہ ہوتا یہ ہے کہ میل کا ایک ذرہ اس کے کان میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔ اسی طرح سوتے سوتے کسی کو بھڑ کاٹ جائے اور وہ گہری نیند سورہا ہو تو وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ میرا سر بڑا ہوگیا ہے۔ اب اس کی یہ تعبیر نہیں ہوگی کہ وہ بڑا عقلمند ہوجائے گا بلکہ اس خواب کا صرف اتنا مطلب ہوگا کہ سوتے ہوئے اسے بھڑ نے کاٹ لیا تھا جس کا اس کے اندرونی شعور نے اسے اس رنگ میں ایک نظارہ دکھایا۔
قادیان میں ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ مرزا صاحب کو بھی بے شک الہام ہوتا ہے کہ تجھے ہم نے بڑا درجہ دیا ہے مگر مجھے خداتعالیٰ روزانہ کہتا ہے کہ تو موسیٰ ہے، تو عیسیٰ ہے، تو محمد ہے۔ لوگوں نے اسے بہت کچھ سمجھایا مگر وہ نہ مانا۔ آخر کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں اس کا ذکر کردیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اسے ہمارے پاس لائو یا آپ نے فرمایا اس سے سوال کرو(مجھے اس وقت اچھی طرح یاد نہیں) کہ جب خدا تم سے کہتا ہے کہ تم عیسیٰ ہو تو کیا عیسیٰ کی طرح تمہیں خلق طیر کا نشان بھی ملتا ہے یا تمہارے ہاتھ سے بھی اسی طرح مردے زندہ ہوتے ہیں جس طرح عیسیٰ کے ہاتھ سے زندہ ہوتے تھے یا جب خدا تمہیں موسیٰ کہتا ہے تو کیا موسیٰ کی طرح یدبیضا کا نشان بھی تمہیں عطا کرتا ہے یا جب محمد کہتا ہے تو کیا محمد رسول اللہ ﷺ کا وہ مقام جو دنا فتدلی فکان قوسین او ادنی میں بیان کیا گیا ہے وہ بھی تمہیں ملتا ہے۔یا تمہیں وہی فصاحت اور وہی بلاغت عطا کی جاتی ہے جو رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی؟ وہ کہنے لگا ملتا تو کچھ نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تو پھر وہ خدا نہیں بلکہ شیطان ہے جو تمہیں روزانہ عیسیٰ اورموسیٰ اور محمد کہتاہے۔ اگر خدا تمہیں یہ مقام عطا کرتا تو تمہیں اس مقام سے تعلق رکھنے والے انعامات بھی دیتا۔ اسی طرح ایک دوسرا شخص بھی دیکھ سکتا ہے کہ اس کا سینہ چیرا گیا اور دل دھو کر دوبارہ اس کے اصل مقام پر رکھ دیا گیا۔ مگر فرق یہ ہوگا کہ اس کا سینہ بھی پھر تنگ ہی رہے گا ۔ مگر جس کا خدا دل دھو کر اس کے سینہ میں رکھ دے گا اس کا سینہ پہلے سے ہزاروں گنا زیادہ وسیع ہوجائے گا۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کے متعلق آپ کے رضاعی بھائی نے جو شہادت دی اگر وہ بات جھوٹی ہوتی تو سوال پید اہوتا ہے کہ آپ کا شرح صدر ہو کس طرح گیا؟ پھر تو چاہئے تھا آپ کا شرح صدر نہ ہوتا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ادھر آپ کا سینہ چاک کرکے دل دھویا گیا اور ادھر دنیا نے دیکھ لیا کہ ہر علم وفن کے متعلق رسول کریم ﷺ نے تعلیمات دیں جن کی نظیر اور کسی شخص میں نہیں ملتی۔ علم کا کوئی شعبہ ایسانہیں جس میں قرآنی خیالات لے کر آپ نے ری فلیکٹرکے طور پر دنیا میںنہایت اعلیٰ درجہ اور بے عیب تعلیمیں پیش نہ کی ہوں۔ جب ہم ان واقعات کو دیکھتے ہیںتو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آپ کا سینہ چیرنے والا فرشتہ ہی تھا ورنہ خالی دل دھو دھا کر سینہ کے اندر رکھ دینے میں کیا کمال ہوسکتا تھا۔ بات تو وہی رہی پہلے بھی دل میں خون آتا تھا اور اس کے بعد بھی دل میں خون نے ہی آنا تھا۔ جو چیز اس واقعہ کو عظمت دیتی ہے وہ اس کا جسمانی نہیں بلکہ روحانی پہلو ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الم نشرح لک صدرک ۔ کیا بچپن میں ہی ہم نے یہ نظارہ تجھے نہیں دکھادیا تھا اور ہم نے بچپن میں ہی تجھ سے یہ نہیں کہہ دیا تھا کہ ہم ایک دن تجھ میں بڑے بڑے کمالات پیدا کردیں ـ؟ یہ تعبیر ہے جو اس کشفی واقعہ کی تھی اور جس نے بعد میں آپ کی صداقت کو آفتابِ نیم روز کی طرح ظاہرکردیا ورنہ ہم یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ نعوذ باللہ آپ کے دل پر سیاہی تھی جسے فرشتوں نے دھودیا۔ آپ کا دل پہلے بھی پاک تھا اس کو دھونے کے معنے یہ تھے کہ ہم نے نئے قابلیتیں اور علوم کی نئی وسعتیں تیرے اندر پیدا کردی ہیں۔ یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ کے دل پر نعوذ باللہ کوئی گند لگا ہوا تھا جسے انہوں نے دھودیا۔
ایک معنے اس آیت کے یہ بھی ہیں کہ ہم نے تیرے اندر قوت برداشت پیدا کردی ہے۔ چنانچہ شرح صدر کے الفاظ اسی طرف اشارہ کرتے ہیںکہ کسی چیز پر آپ کو تنگی نفس پیدا نہیں ہوتی تھی بلکہ جو بات آتی آپ اس کو برداشت کرلیتے اور کہتے
ہر چہ از دوست مے رسید نیکو است
آپ جانتے تھے کہ میرے ساتھ جو معاملہ ہے وہ خاص قانون کے ماتحت ہے میں خداتعالیٰ کے کامل تصرف کے ماتحت ہوں میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوگا خواہ وہ بظاہر برا ہو میرے لئے انجام کار اچھا ہوگا۔ اسی وجہ سے آپ مصائب اور مشکلات میں گھبراتے نہیں تھے۔ پس اس آیت کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ تیرے اندر قوت برداشت کمال درجہ کی پید اہوچکی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ﷺ پر کئی قسم کے مشکلات آئے، کئی قسم کے مصائب سے آپ کو دوچار ہونا پڑا مگر آپ پر کبھی گھبراہٹ طاری نہیں ہوئی۔ جیسے آپ کو یقین تھا کہ یہ سب کچھ میرے حق میں ہے خدامیرا دوست ہے دشمن نہیں۔ وہ مجھے کامیاب کرے گا اورمیرے دشمنوں کو ناکامی کے گھڑے میں گرائے گا۔ لوگ آپ کو گالیاں دیتے، آپ کو برا بھلاکہتے، آپ کے خلاف بڑے بڑے منصوبے کرتے مگر آپ ان کی ذرا بھی پروا نہ کرتے اور کبھی آپ کی زبان سے ان کے حق میں کوئی برا کلمہ نہیں نکلا۔ لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر راہ چلتے ہوئے کوئی شخص ان کے سامنے آجائے اور انہیں معمولی سی ٹکر لگ جائے تو وہ غیظ و غضب سے بھر جاتے ہیں اورکہتے ہیں تم دیکھتے ہیں تمہاری آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں! مگر رسول کریم ﷺ کو ہم دیکھتے ہیں مکہ فتح ہوچکا ہے، آپ کے غلبہ اور آپ کی شان اور آپ کی عظمت کا سارا عرب قائل ہوچکا ہے کہ اس حالت میں ایک اعرابی آتا ہے او رسختی سے کہتا ہے ۔سارے لوگ اپنا اپنا حصہ لے گئے ہیںمجھے بھی مال غنیمت میں سے حصہ دو۔ صحابہ نے اسے پکڑ کر ہٹایا کہ یہ کیا بیہودگی ہے جو تم کررہے ہو مگر رسول کریم ﷺ نے صرف اتنا فرمایا اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں تمہیں ضرور دیتا مگر میرے پاس جو مال تھا وہ میں دے چکا ہوں اب میرے پاس کچھ باقی نہیں رہا۔ یہ قوتِ برداشت جو آپ کے اندر نظر آتی ہے یہ ایک ایسی بے مثال چیز ہے جس کا نمونہ ہمیں اور کہیں نظر نہیں آتا۔ آپ بیشک نصیحت بھی کرتے، لوگوں کو ا ن کی برائیوں سے منع بھی فرماتے اور ناراضگی کے موقع پر ناراضکی کا بھی اظہار فرماتے مگر طبیعت آپ کے قابو سے کبھی باہر نہیں ہوتی تھی۔ پس الم نشرح لک صدرک کے ایک معنے یہ ہیں کہ کیا ہم نے تیرے سینہ کو وسیع نہیں کردیا کہ تجھے گالیاں ملتی ہیں مگر تو ان کی پرواہ نہیں کرتا۔ دکھ دئے جاتے ہیں مگر تو ان کی کوئی اہمیت نہیں سمجھتا۔ تیرے اندر اس قدر قوتِ برداشت پیدا کردی گئی ہے کہ دشمنوں کے لئے مقابلہ اور ان کے متواتر مظالم پر بھی تیرے پائے استقلال میں کوئی جنبش پیدا نہیں ہوتی۔
ووضعنا عنک وزرک O الذی انقض ظھرک O اور (ایسا کرکے) ہم نے تیرے (اس) بوجھ کو تجھ پر سے اتار دیا جس نے تیری کمر توڑ رکھی تھی۔
حل لغات: الوزر: الثقل: یعنی وزر کے معنے بوجھ کے ہیں (اقرب)۔
تفسیر: کامیابی کیلئے دوسری ضروری چیز انسان کو کام کرنے کے ذرائع کامیسر آجاناہے۔ دل کا حوصلہ اور قوتِ برداشت کا پایا جانا بھی کامیابی کے حصول کیلئے نہایت ضروری ہوتا ہے مگر وہ پہلی چیز ہے ۔ دوسری چیز جس کا انسانی کامیابی کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے یہ ہے کہ انسان کو کام کرنے کے ذرائع مہیا ہوجائیں۔ اس معاملہ میں بھی رسول کریم ﷺ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایک بہت بڑی فضیلت حاصل ہے۔ جس طرح پہلی آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا رب اشرح لی صدری کے مقابل میں رسول کریم ﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا الم نشرح لک صدرک۔ اسی طرح ووضعنا عنک وزرک الذی انقض ظہرک میں ماضی کے الفاظ استعمال کرکے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر آپ کی ایک فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ واجعل لی وزیرا من اھلی (طٰہٰ: ۲ع۱۱) اے میرے رب میرے اہل میں سے کوئی میرا بوجھ بٹانے والا پید اکرے۔ گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا شخص ماننگے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی جو ان کا بوجھ بٹانے والا ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ سے فرماتا ہے کہ ہم نے بغیر تیرے مانگنے کے تجھے ایسے ساتھی عطا کردیئے ہیں جو تیرے بوجھ کو صرف بٹانے والے نہیں بلکہ سارا بوجھ اپنے آپ اٹھانے والے ہیں ۔ انہوں نے تیرے اوپر سے وہ سب کا سب بوجھ اٹھالیا ہے جس نے تیری کمر کو توڑ دیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ پر اتنا بڑا بوجھ تھا جس کو کوئی اکیلا شخص اٹھانے کے قابل نہیں تھا۔ آپ کے سپرد یہ کام تھا کہ آپ ساری دنیا کی اصلاح کریں۔ ساری دنیا کو اسلام میں داخل کریں۔ ساری دنیا کی بدیوں اور عیوب کا قلع قمع کریں۔ آپ دیکھتے تھے کہ میں اکیلا ہوں نہ میں ہر شخص کے پاس پہنچ سکتا ہوں اور نہ ہر شخص کو منوانے کی طاقت رکھتا ہوں۔ ایک ایک آدمی کو اسلام میں داخل کرنے کیلئے بظاہر کئی کئی سال چاہئے تھے کیونکہ ان کے عقائد اور اسلام کی پیش کردہ تعلیم میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ وہ کئی کئی بتوں کو مانتے تھے اور قرآن کہتا تھا کہ بت اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتے وہ جھوٹ اور فریب اور دغا اور خیانت اور ڈاکہ اور قتل اور اسی قسم کے دوسرے افعال کو جائز سمجھتے تھے اور اسلام ان سب کوناجائز اور حرام قرر دیتا تھا۔ وہ عبادت سے کوسوں دور بھاگتے تھے اور اسلام انسان کو ہر وقت آستانہ الٰہی پر جھکے رہنے کی تعلیم دیتا تھا۔ غرض تعلیم میں اختلاف تھا، عبادت میں اختلاف تھا، رسم و رواج میں اختلاف تھا، مطمح نظر میں اختلاف تھا۔ پھر مکہ والے الہام کے قائل نہیں تھے مگر قرآن نزول الہام کا قائل تھا۔ اسی طرح وہ خداتعالیٰ کی خاص قدرتوں کے قائل نہیں تھے مگر قرآن نزول الہام کا قائل تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے نشانات سے اپنی ذات کا ثبوت دیا کرتا ہے۔ پھر وہ اس بات پر دن رات فخر کیا کرتے تھے ہم آزاد ہیں کسی کے ماتحت نہیں۔ مگر قرآن کی تعلیم یہ تھی کہ سب ایک ہاتھ پر جمع ہوجائو اور منظم ہوکر اپنی اور دوسری اقوام کی اصلاح کرو۔ غرض اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، چلنا پھرنا ہر اک امر کو اسلام ایک نظام کے ماتحت لاتاتھا اور اس طرح کوئی حصہ ایسا نہ تھا جس میں غیرمسلم عربوں اور قرآنی تعلیم کے درمیان اتحاد ہوسکتا۔ قرآن کریم ان کے خیالات میں بھی دخل دیتاتھا، ان کے اخلاق میں بھی دخل دیتا تھا، ان کے عقائد میں بھی دخل دیتا تھا، ان کی سیاسیات میں بھی دخل دیتا تھا۔ان کی اقتصادیات میں بھی دخل اندازی دیتا تھا۔ غرض کوئی معاملہ ایسانہ تھا جس میں اسلام دخل اندازی نہ کرتا ہو۔ اتنی لمبی اور تفصیلی باتیں منوانے کیلئے رسول کریم ﷺ کو کتنی بڑی مشکلات پیش آسکتی تھیں مگر یہ الٰہی فعل ہی تھا کہ رسول کریم ﷺ اپنی بیوی کو اطلاع دیتے ہیں کہ مجھ پر یوں وحی ہوئی ہے۔ توبیوی یہ نہیں کہتی کے یہ کیا پاکھنڈ بنانے لگے ہو بلکہ وہ کہتی ہے کلا واللہ ما یخزیک اللہ ابدا انک تصل الرحم وتحمل الکل و تکسب المعدوم و تقری الضیف و تعین علی نوائب الحق۔ آپ گھبرائیں نہیں آپ نے جو کچھ دیکھا ٹھیک دیکھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہ کرسکتا تھا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ نادار کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ گم شدہ نیکیوں کو قائم کرتے ہیں۔ مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی مدد کرتے ہیں۔ پھر بیوی آپ کو اپنے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے جاتی ہے جو اسرائیلی علوم کے عالم تھے۔ تو وہ سنتے ہی فرماتے ہیں کہ ویسی ہی وحی ہے جیسے موسیٰ پر نازل ہوئی تھی اور ویسے ہی احکام اور فرامین اس وحی میں پائے جاتے ہیں جیسے موسیٰ کی وحی میں پائے جاتے تھے۔ گھر میں ایک چچیرابھائی جو جوانی کی عمر کو پہنچنے والا ہے اور نوجوانوں میں تبلیغ کا اچھا ذریعہ بن سکتا ہے جب وہ اپنے بھائی اور بھاوج کو نہایت سنجیدگی سے ایک اہم تغیر کی نسبت باتیں کرتے ہوئے سنتا ہے تو بڑی متانت سے آگے بڑھ کر کہتا ہے کہ میں بھی یقین رکھتا ہوں کہ آپ سچے ہیں اور ضرور خداتعالیٰ نے آپ سے یہ باتیں کی ہیں اور آپ کو دنیا کی اصلاح کیلئے مامور کیا ہے۔ ایک آزاد کردہ غلام جو آپ کے اخلاق کا شکار ہوکر ماں باپ کو چھوڑ کر آپ کے دروازہ پر بیٹھ گیا تھا۔ جب ان آہستہ آہستہ ہونے والی باتوں کو سنتا ہے اور اپنے آقا کے چہرہ پر فکر و اندیشہ کے آثار دیکھتا ہے تو آگے بڑھ کر آقا کے دامن کو تھام لیتا ہے اور کہتا ہے میرے آقا وہی ہوگا جو آپ نے دیکھا ۔ آپ جیسے انسان سے قدرت دھوکا بازی نہیں کرسکتی۔ اب وقت آگیا ہے کہ آپ کے ہاتھوں دنیا کی اصلاح ہو۔ مجھے بھی اپنے ساتھ رہنے اور خدمت کرنے کی اجازت دیجئے۔ ایک ہی گہرا دوست جو گویا ایک ہی صدف میں پلنے والا دوسرا موتی تھا جب سنتا ہے کہ اس کے دوست نے بے پر کی اڑانی شروع کردی ہے اور شاید اس کے دماغ میں خلل آگیا ہے تو بھاگا ہوا جاتا ہے اور دروازہ کھلوا کر پوچھتا ہے کہ کیا جو کچھ سنتا ہوں سچ ہے؟ جب آپ اس کے سامنے تشریح کرنے لگتے ہیں تو کہتا ہے خدا کی قسم دلیلیں نہ دیجئے صرف یہ بتائیے کہ کیا یہ باتیں سچ ہیں اور آپ کی تصدیق کرنے پر کہتا ہے میرے سچے دوست میں آپ کی رسالت پر ایمان لایا۔ آپ تو غضب ہی کرنے لگے تھے کہ دلیلیں دے کر میرے ایمان کو مشتبہ کرنے لگے تھے۔ میرے دوست جس نے تیرے چہرہ کو دیکھا وہ کب تیری بات میں شبہ کرسکتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مخالفت ہونی ہی چاہئے تھے کیونکہ بقو ورقہ بن نوفل کہ لم یات رجل قط بمثل ما جئت بہ الا عودی یعنی جو شخص بھی ایسا پیغام لایا لوگوں کی مخالفت سے نہیں بچا۔ مگر خداتعالیٰ کی تدبیر دیکھو کہ اس مخالفت کاطوفان آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کس طرح آپ کے ساتھی پید اکردیئے۔ ساکنینِ مکہ میں سے ایک ہی اسرائیلیات کا عالم ورقہ پہلے حملہ میں ہی آگے آگے گھٹنے ٹیک گیا۔ رفیقہ حیات خدیجہؓ نے وحی سنتے ہی آپ کی بلائیں لیں۔ نوعمر بھائی علیؓ جو ہر وقت آپ کے عائلی اخلاق کو دیکھتا تھا اپنی خدمت پیش کرنے لگا۔ وہ آزاد غلام زید جس نے آپ کے لین دین اور غرباء سے سلوک کا گہرا اور لمبا مطالبہ کیا تھا آپ کی صداقت کی قسمیں کھانے لگا۔ بچپن کا دوست، مکہ کا محسن، شرافت کا پتلا ابوبکرؓ صرف اتنا سن کر کہ آپ نے وحی کا دعویٰ کیا ہے اپنے گلے میںغلامی کا پٹہ ڈال کر دروازہ پر آ بیٹھا۔ اس عقیدت و اخلاص کے بے نظیر مظاہرہ نے آپ کے دل میں کس قدر خوشی نہ پیدا کردی ہوگی۔ مکہ والوں کی ہائو ہو، ان کے طعنہ سن کر آپ کس طرح مسکرادیتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے یہ تمہارا فتویٰ ہے جو مجھے نہیں جانتے۔ اب ذرا اس فتویٰ کو بھی تو سنو جو مجھے جاننے والوں ے دیا ہے۔ کس طرح جانیں دے کر وہ میرے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ موسیٰ نے دعا مانگ کر ایک وزیر بوجھ اٹھانے کیلئے مانگا تھا مگر محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے پانچ وزیر بن مانگے ہی دے دئے اور ایسے وزیر جنہوں نے آپ کا بوجھ بٹانے میں کمال کر دکھایا۔ ورقہ بے شک جلدی فوت ہوگئے مگر ایک نہ مٹنے والی شہادت آپ کی صداقت پر دے گئے۔ حضرت خدیجہؓ نے بارہ سال تک اس کے بعد عوت ہوکر وہ کام کرکے دکھایا کہ بہادر سے بہادر مرد کی بھی آنکھیں نیچی ہوتی ہیں۔ زیدؓ نے بیس سال تک اس کے بعد قربانی کا بے مثال نمونہ دکھایا اور آخر تلواروں کی دھاروں کے سامنے اپنا خون بہا کر ثابت کردیاکہ محمد رسول اللہ ﷺ کے وزیر کیسے ہونے چاہئیں۔ ابوبکرؓ اور علیؓ تو آپ کی وفات کے بعد بھی رہے اور خلیفہ بن کر وزارت کا ایک نئے رنگ میں ثبوت بھی دے گئے۔
شیعہ اصحاب ذرا اس آیت پر غور کریں تو خلافت کے جھگڑے کافیصلہ ہوجاتا ہے۔ اسی مفہوم کی آیت حضرت موسیٰؑ کے بارہ میںآتی ہے وہ دعاکرتے ہیں واجعل لی وزیرا من اھلی اور اس کے معنے اختلافی نہیں مسلمہ ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام دشمنوں کی مخالفت کے خیال سے فوراً ہی ایک مومن کا مطالبہ کرتے ہیں جو آپ کا بوجھ اٹھائے۔ آنحضرت ﷺ کی نسبت اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے ووضعنا عنک وزرک الذی انقض ظہرک۔ اس خبر کے مطابق وہ کون لوگ تھے جو آپ پر سنتے ہی ایمان لائے۔ یقینا یہی پانچ جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔پس یہ پانچوں آپ کے وزیر تھے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تین آپ کی زندگی میں فوت ہوگئے کیونکہ حضرت ہارون بھی تو حضرت موسیٰؑ کی زندگی میں فوت ہوگئے تھے۔ مگر فوت ہونے والوں کو نکال بھی دو تو بھی فوراً ایمان لانے والوں میں سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ دونو ں ہی ہیں اور دونوں ہی اس آیت کے ماتحت آپ کا بوجھ بٹانے والے ہیں ان میں سے کسی ایک کو برا کہنا قرآن کریم کی تکذیب اور تضحیک ہے۔
ہم کئی مدعیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ادھر دعویٰ کرتے ہیں ادھر ان کے اپنے رشتہ دار انہیں پاگل کہنا شروع کردیتے ہیں۔ بیوی کہتی ہے تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے، بیٹا کہتا ہے تو پاگل ہوگیا ہے، دوست کہتے ہیں تیری عقل ٹھکانے نہیں رہی۔ وہ تلاش کرتے ہیں کہ کوئی ان کو ساتھی ملے مگر نہیں ملتا۔ بیشک بعض کو ان کے رشتہ داروں نے مانا بھی ہے مگر شروع میں اکثر ایسا ہی نظارہ نظر آتا ہے کہ ان کو ساتھی نہیں ملتے اور اگر ملتے بھی ہیں تو فاتر العقل۔ مگر یہاں پہلے دن ہی یہ پانچوں شخص رسول کریم ﷺ کی روحانیت کا شکار ہوگئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ دعا کی تھی کہ واجعل لی وزیرا من اھلی۔ تو خداتعالیٰ نے ان کی اس دعا کو فوراً قبول نہیں کیا بلکہ فرمایا تم سفر کرتے چلے جائو جب مصرمیں پہنچو گے تو وہاں تمہیں ہارون مل جائے گا مگر رسول کریم ﷺنہ دعا کرتے ہیں، نہ سفر کرتے ہیں، نہ محنت اورمشقت برداشت کرتے ہیں اور پہلے دن ہی آپ کو پانچ وزیر مل جاتے ہیں۔ یہی وہ حقیقی پنجتن ہیں جن سے اسلام کا آغاز ہوا۔ بے شک جسمانی اولاد کے لحاظ سے پنجتن اور ہیں مگر روحانی لحاظ سے خداتعالیٰ نے پہلے ہی دن آپ کو پنجتن دے دیئے تھے جن میں سے ہر شخص آپ کا جاں نثار اور فدائی تھا۔ پس فرماتا ہے ووضعنا عنک وزرک الذی انقض ظھرک۔ ہم نے تیرا بوجھ اتار دیا اور تیری مدد کیلئے وہ لوگ کھڑے کردیئے جنہوں نے تیرے بوجھ کے نیچے اپنے کندھے دے دئے اور کیا یارسول اللہ ﷺ ہم اس بوجھ کو اٹھانے کیلئے تیار ہیں۔
پھر قریب زمانہ میں طلحہؓ اور زبیرؓ اور عمرؓ اور حمزہؓاور عثمان بن مظعونؓ اس قسم کے ساتھی آپ کو مل گئے۔ جن میں سے ہر شخص آپ کا فدائی تھا، ہر شخص آپ کے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانے کیلئے تیار تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تیرہ سال تک مصائب بھی آئے، مشکلات بھی آئیں ۔ تکالیف بھی آپ کو برداشت کرنی پڑیں ۔ مگر آپ کو اطمینان تھا کہ ان مکہ والوں میں سے عقل والے، سمجھ والے، رتبہ والے، تقویٰ والے، طہارت والے مجھے مان چکے ہیں اور اب مسلمان ایک طاقت سمجھے جاتے ہیں۔ جب کوئی شخص رسول کریم ﷺ کے متعلق کہتا کہ وہ پاگل ہے تو اس کے دوسرے ساتھی ہی اسے کہتے کہ اگر وہ پاگل ہے تو فلاں شخص جو بڑا سمجھدار اور عقلمندہے اسے کیوں مانتا ہے؟ یہ ایک ایسا جواب تھا جس کے مقابلہ میں کوئی شخص بولنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔ یورپین مصنف رسول کریم ﷺ کے خلاف اپنا تمام زور بیان صرف کردیتے ہیں اور بسا اوقات آپ پر گند اچھالنے سے بھی دریغ نہیں کرتے مگر جہاں ابوبکرؓ کا نام آتا ہے وہ کہتے ہیں ابوبکرؓ بڑا بے نفس تھا۔ اس پر بعض دوسرے یورپین مصنف لکھتے ہیں کہ جس شخص کو ابوبکر نے مان لیا وہ جھوٹا کس طرح ہوگیا۔ اگر وہ بے نفس تھاتو اس نے ایسے لالچی کوماناں کیوں؟ اور اگر وہ واقع میں بے نفس تھا تو پھر تسلیم کرناپڑے گا کہ اس کا آقا بھی بے نفس تھا۔ یہ ایک بہت بڑی دلیل ہے جس کو ردّ کرنا آسان نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ آپ کو جاہل کہتے ہیں مگر خداتعالیٰ نے اس اعتراض کو ردّ کرنے کیلئے ایسے سامان کردیئے کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ شروع میں ہی آپ پر ایمان لے آئے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی دعویٰ سے پہلے آپ کی تعریف کرنے والے تھے۔ پھر جب آپ نے دنیا میں اپنی ماموریت کا اعلان کیاتو تعلیمیافتہ لوگوں کی ایک جماعت اللہ تعالیٰ نے ایسی کھڑی کردی جو فوراً اآپ پرایمان لے آئی ۔ یہ تعلیم یافتہ لوگ علماء میں سے بھی تھے، امراء میں سے بھی تھے اور انگریزی دان طبقہ میں سے بھی تھے۔
رعب اور دبدبہ تین ہی چیزوں سے ہوتا۔ یا تو ایمان سے ہوتا ہے یا علم سے ہوتا ہے اور یا روپیہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تینوں چیزیں آپ کی جماعت میں پیدا کردیں۔ ایسے لوگ بھی آپ کو دے دئے جو اپنے اندر صلاحیت اور نور ایمان رکھتے اور چوٹی کے علماء سمجھتے جاتے تھے ۔ ایسے لوگ بھی آپ کو دیدئے جو انگریزی دان تھے اور اس طرح نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ پر اچھا اثر ڈال سکتے تھے۔ جب لوگ کہتے کہ مرزا صاحب جاہل ہیں تو ان کے اپنے آدمی ان کے مقابلہ میں کھڑے ہوجاتے اور کہتے اگر وہ جاہل ہے تو کالج کے سٹوڈنٹ اس کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں۔ پھر جب لوگ کہتے کہ مرزا صاحب کو دین سے واقفیت نہیں و ان کے اپنے بعض آدمی کہتے کہ اگر انہیں دین کی واقفیت نہیں تو علماء ان کے پیچھے کیوں بھاگے چلے جاتے ہیں۔ پھر جب لوگ کہتے کہ مرزا صاحب دنیا پرست ہیں تو ان کے اپنے بعض آدمی کہتے کہ اگر وہ دنیا پرست ہے تو ان کے اپنے بعض آدمی کہتے ہیں کہ اگر وہ دنیا پرست ہے تو کیا وجہ ہے کہ امراء اور دنیا کی عیاشیوں میں مبتلا انسان اپنی دولت کو قربان کرکے اس کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں؟ غرض ہر طبقہ کے لوگ علماء میں سے بھی، امراء میں سے بھی اور انگریزی دانوں میں سے بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائے اور اس لئے عطا فرمائے تا اس اعتراض کا ازالہ ہو کہ آپ جاہل ہیں یا آپ دنیا دار ہیں یا علم دین سے واقفیت نہیں رکھتے۔ یہی حال ہم رسول کریم ﷺ کا دیکھتے ہیں کہ ہر طبقہ کے لوگ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمادیئے۔ عثمانؓ، طلحہؓ، اور زبیرؓ مکہ کے چﷺچوٹی کے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اگر کوئی کہتا کہ ادنیٰ ادنیٰ لوگ اس کے ساتھ ہیں اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص نے اس کو قبول نہیں کیا تو عثمانؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ اس کا جواب دینے کیلئے موجود تھے۔ اور اگر کوئی کہتا کہ چند امراء کو اپنے اردگرد اکٹھا کرلیا گیا ہے۔ غرباء جن کی دنیامیں اکثریت ہے انہوں نے اس مذہب کو قبول نہیں کیا تو زیدؓاور بلالؓ وغیر اس اعتراض دینے کیلئے موجود تھے۔ اور اگر بعض لوگ کہتے کہ یہ نوجوانوں کا کھیل ہے تو لوگ ان کو یہ جواب دے سکتے تھے کہ ابوبکرؓ تو نوجوان اور ناتجربہ کار نہیں۔ انہوں نے کس بنا پر محمد رسول اللہ ﷺ کو قبول کرلیا ہے؟ غرض وہ کسی رنگ میں دلیل پیدا کرنے کی کوشش کرتے رسول کریم ﷺ کے ساتھیوں میں سے ہر شخص ان دلائل کو ردّ کرنے کیلئے ایک زندہ ثبوت کے طور پر کھڑا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا فضل تھا جو رسول کریم ﷺ کے شامل حال تھا۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ووضعنا عنک وزرک الذی انقض ظھرک۔ اے محمد رسول اللہ ﷺ! کیا دنیا کو نظر نہیں آتا کہ کہ جن سامانوں سے دنیا جیتا کرتی ہے وہ سارے سامان ہم نے تیرے لئے مہیا کردیئے ہیں۔ اگر دنیا قربانی کرنے والے نوجوانوں سے جیتا کرتی ہے تو وہ تیرے پاس موجود ہیں۔ اگر دنیا تجربہ کار بڈھوں کی عقل سے ہارا کرتی ہے تو وہ تیرے پاس موجود ہیں۔ اگر دنیا مالدار اور بارسوخ خاندانوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے شکست کھاتی ہے تو وہ تیرے پاس موجود ہیں۔ اور اگر عوام الناس کی قربانی اور فدائیت کے وجہ سے دنیا جیتا کرتی ہے تو یہ سارے غلام تیرے پیچھے بھاگے پھرتے ہیں۔ پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ تو ہار جائے اوریہ مکہ والے تیرے مقابلہ میںجیت جائے۔ پس ووضعنا عنک وزرک الذی انقض ظھرک۔ کے معنے یہ ہیں کہ وہ بوجھ جس نے تیری کمر کو توڑ دیا تھا وہ ہم نے خود اٹھالیا ہے، تو نے اس کام کی طرف نگاہ کی اور حیران ہوکر کہا کہ میں یہ کام کیونکر کروں گا۔ خدا نے ایک دن میں ہی تجھے پانچ وزیر دے دیئے۔ ابوبکرؓ کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کیلئے کھڑ اکردیا۔ خدیجہؓ کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کیلئے کھڑا کردیا۔ علیؓ کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کیلئے کھڑا کردیا۔ ورقہ بن نوفل کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کیلئے کھڑا کردیا ا اس طرح وہ بوجھ جو تجھ اکیلے پر تھا وہ ان سب لوگوں نے اٹھالیا۔
اس آیت کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ ہم نے تجھے ایسی تعلیم دی ہے جو آپ ہی آپ لوگوں کو موہ لیتی ہے۔ بعض تعلیمیں ایسی ہوتی ہیںجو بظاہر اچھی ہوتی ہیں مگر ایسی فلسفیانہ باتوں پر مشتمل ہوتی ہیں کہ ان کا سمجھنا لوگوں کیلئے بڑا مشکل ہوتا ہے۔ وہی تعلیم ملک میںفوری طور پر مقبولیت حاصل کرسکتی ہے جو سمجھنے میں آسان ہو اور جس میں ہر فطرت کو ملحوظ رکھاگیاہو۔ پس ووضعنا عنک وزرک الذی انقض ظہرک میں ایک یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ تجھے اپنی تعلیم کا پھیلانا بڑا مشکل نظر آتا تھا مگر ہم نے اسے اس قدر دلکش اور اس قدر جاذبیت رکھنے والی بنایا ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ تیری طرف کھچے چلے آتے ہیں۔ عرب لوگ عورتوں کو ان کے حقوق نہیں دیتے تھے۔ مگر قرآن کریم نے ان کے حقوق کو محفوظ کردیا۔ عرب لوگ غلاموںکے ساتھ نہایت ظالمانہ سلوک کیا کرتے تھے مگر اسلام نے ان کو ایسی سطح پر لاکر کھڑا کردیاکہ جس کے بعد دنیا میں کوئی غلامی نہیں رہتی۔ عرب لوگ ورثہ کی تقسیم کے وقت جنبہ داری سے کام لینے کے عادی تھے اور وہ اپنے رعب کی وجہ سے لوگوں کے حقوق کو غصب کرلیا کرتے تھے مگر اسلام نے اس نقص کا بھی ازالہ کردیا اور تمام ورثاء کے حقوق شریعت میں مقرر کردیئے۔ اب یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص بھی ایسی اچھی تعلیم کو سنے گا اس کادل پکاراٹھے گا کہ یہ تعلیم درست ہے۔ پس فرماتا ہے کہ اگر تیری تعلیم فلسفیانہ اور پیچیدہ ہوتی تو لوگوں کا تجھے قبول کرنامشکل ہوا۔ مگر ہم نے جو تعلیم تجھے دی ہے وہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ جو بھی پاکیزہ فطرت رکھنے والا انسان اس تعلیم کو سنتا ہے فوراً کہہ اٹھتا ہے آمنا و صدقنا۔ میں ایمان لایا اور میں اس کی صداقت کو قبول کرتا ہوں۔
مجھے ایک لطیفہ ہمیشہ یاد آیا کرتا ہے۔ لدھیانہ کے ایک دوست میاں نظام الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بہت تعلق رکھا کرتے تھے اورمولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے بھی وہ دوست تھے۔ جب انہوں نے مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی کی زبان سے سنا کہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں تو انہوں نے خیال کیا کہ مرزا صاحب تو بڑے نیک آدمی ہیں معلوم ہوتا ہے لوگ ان پر غلط الزام لگاتے ہیں یا ان کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے ورنہ وہ قرآن کے خلاف ایسا دعوی دنیا کے سامنے کیوں پیش کرتے ۔چنانچہ انہوں نے طے کیا کہ میں خود قادیان جائوں گا اور مرزا صاحب کو سمجھائوں گا کہ وہ اس قسم کا دعوی ترک کر دیں اور امید ظاہر کی کہ مرزا صاحب میری بات ضرور مان جائیں گے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے خلاف کوئی بات اپنی زبان سے نہیں نکال سکتے۔ اس فیصلے کے بعد وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کہتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں حضرت مسیح َموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہاں یہ درست ہے ۔ وہ بولے میں نے تو سمجھا تھا کہ لوگ یونہی غلط باتیں مشہور کر رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ یہ درست ہے۔اچھا بتائیے جب قرآن میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو آپ خلافِ قرآن ایسا دعویٰ کیوںکر رہے ہیں ؟حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میاں نظام الدین صاحب! میں تو قرآن کی ہر بات مانتا ہوں اگر قرآن سے حیاتِ مسیح ثابِت ہو جائے تو میں آج ہی اپنی بات چھوڑنے کیلئے تیار ہوں۔وہ کہنے لگے بس یہی میں کہتا تھا کہ مِرزا صاحب قرآن کے خلاف نہیں جا سکتے ضرور اُنہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اگر اُن پر یہ حقیقت روشن کر دی جائے کہ حضرت عیسیٰ ؑ زندہ ہیں تو وہ اپنی بات بِالکل چھوڑ دیں گے اچھا اب اس بات پر مضبوط رہئے اگر میں سو آیات ایسی لے آیا جن سے حیاتِ مسیحؑ ثابت ہوتی ہو تو کیا آپ اپنا دعویٰ چھوڑ دیں گے؟حضرت مسیح موعودعلیہ ا لسلام نے فرمایا سو آیات کا ذکر ہے ہم تو قرآن کا ایک ایک لفظ مانتے ہیں اگر آپ ایک آیت بھی لے آئیں تو میں اپنا دعویٰ چھوڑنے کیلئے تیار ہوں۔ یس پر وہ کہنے لگے اچھا اگر سو آیات نہ ہوئیں اور صرف چالیس پچاس آیتیں ہوئیں تب بھی آپ اپنا دعویٰ چھوڑ دیں گے؟حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے فرمایا میں تو کہہ چکا ہوں کہ آپ ایک آیت ہی لے آئیں پچاس آیات کے لانے کی کیا ضرورت ہے۔ کہنے لگے اچھا دس آیات تو میں ضرور لے آئوں گا ۔ یہ کہہ کر وہ قادیان سے چلے اور سیدھے لاہور پہنچے ۔ لاہور میں ان دنوں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جموں سے چھٹی پر آئے ہوئے تھے اور مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی سے مباحثہ کیلئے شرائط کا تصفیہ کر رہے تھے ۔ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو فخر کی بہت عادت تھی انہوں نے اشتہار شائع کیاہوا تھا کہ مرزاصاحب تو میرے مقابلہ میں نہیں نکلتے اب نورالدین آیا ہوا ہے میں دیکھوں گا کہ وہ میرے پنجہ سے کس طرح نکلتا ہے۔ بہت دنوں تک شرائط کا تصفیہ ہوتا رہا مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ حضرت خلیفہ اول ؓ فرماتے تھے کہ ہمارے تمام جھگڑوں کیلئے قرآن کریم حکم ہے۔ ہمیں اس سے فیصلہ کرنا چاہئے۔ مگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کہتے تھے کہ حدیثیں بھی ضرور شامل کرنی چاہئیں۔ آخر کئی دن کی بحث کے بعد حضرت خلیفہ اولؓ نے مان لیا کہ اچھا قرآن کے علاوہ بخاری کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ جب حضرت خلیفہ اولؓ نے یہ آخری جواب دیا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی چینیاں والی مسجد میں بیٹھے بڑے زور سے لاف زنی کررہے تھے کہ نورالدین نے یوں کہا اور میں نے اس کی دلیل کو یوں توڑا۔ اس نے اِس طرح کیا اور میں نے اسے اس طرح رگیدا۔ اور آخر میں نے منوالیا کہ قرآن کے علاوہ اس موضوع کیلئے بخاری بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ ابھی وہ یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ میاں نظام الدین صاحب جا پہنچے اور کہنے لگے چھوڑیں بھی اب آپ یہ کیا باتیں کررہے ہیں۔ مجھے دس آیتیں ایسی لکھ دیں جن میں حیاتِ مسیح کا ذکر آتا ہو۔ میں قادیان گیا تھا اور مرزا صاحب سے منوا کر آیا ہوں کہ اگر میں دس آیتیں ایسی لے آیا تو وہ اپنے دعوے سے دست بردار ہوجائیں ہوئیں گے۔ اس لئے ان جھگڑوں کو رہنے دیجئے اور جلدی سے مجھے دس آیتیں ایسی لکھ دیجئے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر قرآن سے حیات مسیح ثابت ہوگئی تو پھر آپ کو شاہی مسجد لاہور میں اپنے عقیدہ سے توبہ کرنی پڑے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہاں مجھے یہ شرط منظور ہے۔ میاں نظام الدین صاحب اس پر بڑے خوش تھے۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب سے بھی انہوں نے کہا آپ یہ کیا بحث مباحثہ لیے بیٹھے ہیں۔ مجھے دس آیتیں لکھ دیجئے میں ابھی مرزا صاحب کو لاہور لا کر شاہی مسجد میں ان سے توبہ کرادوں گا۔ مولوی محمد حسین صاحب جو اسی وقت اپنے ساتھیوں میں فخر کررہے تھے کہ میں نے نورالدین کویوں پکڑا اور اسے یوں رگیدا، انہوں نے جب یہ بات سنی تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور انہوں نے کہا احمق تجھے کس نے کہا تھا کہ بیچ میں دخل دیتا۔ میں دو مہینے بحث کر کر کے اس مضمون کو حدیث کی طرف لایا تھا تو پھر قرآن کی طرف لے گیا۔ وہ آدمی نیک تھے جونہی یہ الفاظ ان کے کان میں پڑے ان پر سناٹا چھاگیا۔ تھوڑی دیر وہ خاموش رہے جیسے انسان کسی نئے صدمہ کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے اور پھر ایک آپ کھینچ کر کہنے لگے مولوی صاحب اگر یہی بات ہے تو پھر جدھر قرآن ہے ادھر ہی ہم ہیں۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے واپس آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوگئے۔ تو دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بات چونکہ فطرت کے مطابق تھی میاں نظام الدین صاحب اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔ یہی قرآنی تعلیم کا حال ہے کہ اس نے بنی نوع انسان کو جو بھی حکم دیا ہے اس میں ہر قسم کی فطرت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص کہے کہ قرآن کا فلاں حکم ناقابل عمل ہے یا فطرت انسانی کے خلاف اس میں تعلیم دی گئی ۔ ہر حکم اپنی ذات میں کامل ہے اور ہر حکم ایسا ہے جس پر آسانی کے ساتھ عمل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن باقی مذاہب میں یہ خوبی نہیں پائی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف اوقات میں اپنے لئے حکومتوں سے کئی قسم کے قوانین نافذ کرانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان خامیوں کا ازالہ ہوسکے جو ان کے مذہب میں پائی جاتی ہیں۔ ہندو بھی آج کل اسی رَو میں بہہ رہے ہیںاور وہ اپنے لئے ایسا لاء تیار کرنا چاہتے ہیں جو موجودہ زمانے کے حالات کے مطابق ہو۔ لیکن دراصل وہ جو کچھ کررہے ہیں قرآن کی نقل ہے اور اگر کسی جگہ وہ اس تعلیم سے انحراف کریں گے تو لازماً ٹھوکر کھائیں گے۔ اور اس کے غلط نتائج انہیں جلد ہی نظر آنے لگ جائیں گے۔ غرض فرماتا ہے ووضعنا عنک وزرک الذی انقض ظہرک۔ اے محمد رسول اللہ ﷺ کیا ہم نے تجھے یہ سامان نہیں بخشا کہ ایک طرف تجھے ہم نے ایسے ساتھی دیئے جنہوں نے تیرا بوجھ اٹھالیا اور دوسری طرف ہم نے تجھے ایسی تعلیم دی جو خود بخود فطرت کے اندر نفوذ کرتی چلی جاتی ہے کوئی روک اس کی اشاعت میں حائل نہیں ہوتی۔
رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جب کفار مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے ارادہ کرلیا کہ میں بھی مکہ کو چھوڑ کر کہیں باہر چلا جائوں۔ ایک دن آپ اسی ارادہ سے باہر جارہے تھے کہ راستہ میں آپ کو مکہ کا ایک رئیس ملا اور اس نے دریافت کیا کہ آپ کہا جارہے ہیں؟ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میں یہاں سے ہجرت کرکے کہیں باہر جارہا ہوں۔ اس نے کہا ہجرت؟ وہ شہر نہ اجڑ جائے جس میں سے تم سا انسان نکل جائے۔ میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں ۔ آئندہ تمہیں کوئی شخص دکھ نہ دے گا۔ حضرت ابوبکرؓ واپس آگئے اور اس رئیس نے اعلان کردیا کہ ابوبکرؓ میری پناہ میں ہیں۔ مکہ والے پناہ کا بڑا لحاظ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس اعلان کے بعد ایسا ہی ہوا کہ مکہ والوں نے حضرت ابوبکرؓ کو دکھ دینا ترک کردیا اور آپ آزادانہ رنگ میں مکہ کے گلی کوچوں میں پھرتے۔ حضرت ابوبکرؓ کی طبیعت حضرت ابراہیمؑ کی طبیعت سے ملتی تھی اور سوز و گداز کا مادہ آپ میں بہت زیادہ تھا۔ جب صبح کے وقت آپ اٹھتے تو قرآن کریم کی تلاوت نہایت سوز اور رقت کے ساتھ کرتے اور آپ کی آنکھوں سے آنسوبہتے جاتے تھے۔ مکہ کی عورتیں اور بچے جب اس نظارہ کو دیکھتے وہ اکٹھے ہوجاتے اور نہایت توجہ کے ساتھ کان لگا کر سنتے کہ ابوبکرؓ کیا پڑھ رہے ہیں۔ جب ایک طرف ابوبکرؓ کی رقت اور گریہ زاری کو دیکھتے اور دوسری طرف قرآن کریم کی نہایت اعلیٰ درجہ کی تعلیم ان کے کانوں میں پڑتی تو وہ بے اختیار ہوکر کہنے لگ جاتے کہ واہ واہ یہ کیسی اچھی باتیں ہیں۔ یہ اثر روز بروز بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ مکہ والوں کو خطرہ پیدا ہوگیا کہ اگر ابوبکرؓ اسی طرح قرآن پڑھتے رہے تو ہماری عورتیں اور بچے سب مسلمان ہوجائیں گے۔ چنانچہ وہ اکٹھے ہوکر اس رئیس کے پاس گئے جس نے ابوبکرؓ کو اپنی پناہ میں لیا تھا۔ اور کہا کہ اپنی پناہ واپس لے لو ورنہ ہمارا دین بگڑ جائے گا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح قرآن کریم لوگوں کے دلوں میں دھنستا جاتا تھا۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کا واقعہ ہے وہ نکلے تو اس ارادہ سے تھے کہ رسول کریم ﷺ کو قتل کریں مگر جب انہیں اپنی بہن سے قرآن سننے کا موقع ملا اور چند آیتیں ہی کان میں پڑیں تو ان کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگ گئے اور اسی حالت میں کہ تلوار ان کے ہاتھ میں تھی رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عمر کس ارادے سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ میں تو غلام بننے کیلئے حاضر ہوا ہوں۔ قرآن کریم کی اسی معجزانہ تعلیم کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے جس میں رسول کریم ﷺ کے دل پر سے اس بوجھ کو کہ میں لوگوں کو منوائوں گا کس طرح بالکل ہلکا کردیا تھا۔
ورفعنا لک ذکرک O اور تیرے ذکر کو ہم نے بلند کردیا۔
تفسیر: تیسری چیز جو ترقی کیلئے ضروری ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کی توجہ اس طرف منعطف ہوجائے ۔ دراصل دشمن کی توجہ کو کھینچنا سب سے اہم بات ہوتی ہے اور صرف وہی چیز لوگوں کی دشمنی کو کھینچی ہے جو اپنے اندر غلبہ کے آثار رکھتی ہے۔ نادان سمجھتے ہیں کہ مخالفت بری چیز ہے حالانکہ یہ سب سے اچھی چیز ہے۔ طبائع میں جوش اسی چیز کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جس کے متعلق لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اس کا مقابلہ نہ کیا تو ہمیں نقصان پہنچائے گی اور ہمارے عقائد اور خیالات کا باطل ہونا ثابت کردے گی۔ جب تک یہ احساس لوگوں کے اندر پید انہ ہو اس وقت تک ان کی طرف سے کبھی شدید مخالفت نہیں ہوتی۔ جب انبیاء علیہ السلام دعویٰ کرتے ہیں تو سارے ملک میں ان کے خلاف جوش پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں یہ تعلیم جو ان کی طرف سے پیش کی جارہی ہے ایسی ہے کہ ایک دن ضرور غالب آجائے گی۔ یہی حال سچے دنیوی علوم کا ہوتا ہے کہ جب کوئی نئی تحقیق لوگوں کے سامنے پیش کی جائے تو لوگ اس کی ضرور مخالفت کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے دلوں میں یہ ڈر پیداہوجاتا ہے کہ اگر ہم نے مخالفت نہ کی تو ہمارا نظریہ اس کے مقابلہ میں باطل ہوجائے گا۔ گلیلیو نے جب پرانے علم ہیئت کے خلاف دنیا میں یہ اعلان کیا کہ زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے تو پادریوں نے اس کے خلاف فتوے دے دیئے یہاں تک کہ پوپ نے بھی کہا کہ یہ شخص جان سے ماردینے کے قابل ہے۔ کیونکہ بائبل کی تعلیم کے صریح خلاف ایک نیا نظریہ لوگوں کے سامنے پیش کررہا ہے۔ آخر اسے اتنا دکھ دیا گیا کہ گلیلیو کو اعلان کرنا پڑا کہ معلوم ہوتا ہے میرے اوپر شیطان سوار تھا جس نے مجھے اس غلط راہ پر ڈال دیا۔ بائبل تو لکھا ہے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے مگر مجھ بیوقوف کو یہ دکھائی دیا زمین سورج کے گر دچکر لگاتی ہے۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ نظر تو مجھے اسی طرح آتا ہے کہ زمین سورج کے گرد چکر لگارہی ہے مگر چونکہ بائبل کہتی ہے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ میرا دماغ خراب ہوگیا ہے اورشیطان میرے سر پر سوار ہے۔ پادری اس اعلان پر خوش ہوگئے اور انہوں نے سمجھا کہ گلیلیو نے توبہ کرلی۔ حالانکہ یہ اعلان خود بتارہا تھا کہ اس نے توبہ نہیں کی محض پادریوں کو خوش کرنے کیلئے اس نے ایسے الفاظ میں اعلان کردیا جس سے وہ دھوکہ کھاگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ گلیلیو نے اپنے نظریہ کو ترک کردیاہے۔ غرض مادی دنیا ہو یا روحانی اس میں جب بھی کوئی ایسی بات نکلتی ہے جس کے خلاف لوگوں کے عقائد ہوتے ہیں تو لوگ اس کی مخالفت شروع کردیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ بات دنیا میںپھیل گئی تو ہم جس تعلیم کو پیش کرتے ہیں وہ دنیا میں کبھی قائم نہیں رہ سکتی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعد میں صداقت کو بہرحال تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ مگر ابتداء میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ لوگ مخالفت کرتے ہیں اور ہر قسم کی تدابیر سے سچائی کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی مخالفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ورفعنا لک ذکرک ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا۔ یہاں ذکر کا بلند ہونا ماننے کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ دنیا میں ہر جگہ تیرا ذکر ہور ہا ہے چاہے اچھے رنگ میں ہو یا برے رنگ میں۔ تعریف کے رنگ میں ہو یا مذمت کے رنگ میں۔ بہرحال ہر مجلس اورہر محفل اور ہر گھر اور ہر خاندان میں تیرا نام بلند ہورہا ہے۔ اور ایک شور ہے جو تیری وجہ سے برپا ہے۔ کوئی کہتا محمد ﷺ یہ کیا بات کرتے ہیں کہ خدا ایک ہے اور بت کوئی چیز نہیں۔ ہم تو باپ دادا سے ان بتوں کو مانتے چلے آئے ہیں۔ اس کے کہنے کی وجہ سے بتوں کی پرستش کو کس طرح ترک کردیں۔ کوئی کہتا محمد ﷺ کوئی غلط بات تو نہیں کہہ رہا تم بے شک اپنے بتوں کو جوتیاں ما رکر دیکھ لو وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ پھر کوئی اور بول اٹھتا اور کہتا کہ یہ فتنہ بڑھتا جارہا ہے آئو ہم لوگوں سے یہ کہنا شروع کردیں کہ محمد (ﷺ) پاگل ہوگیا ہے۔ اس پر ایک چوتھا شخص کہہ اٹھتا کچھ ہوش کی دوا کرو کیا وہ پاگل ہے؟ اگر پاگل ہوتا تو ایسے ایسے سمجھدار اشخاص اس کی طرف کیوں کھچے چلے جاتے۔ اس پر ایک پانچواں شخص کہتا پاگل تو نہیں مگر شاعر ضرور ہے مگر پھر انہی میں سے کوئی بول اٹھتا اس کی کتاب تو دیکھو کیا وہ شعروں میں ہے اگر نہیں تو تم اسے شاعر کس طرح کہہ سکتے ہو۔ کوئی اور کہتا اصل میں وہ نہ پاگل ہے نہ شاعر ۔ بلکہ درحقیقت کاہن ہے اور کاہنوں کی طرح غیب کی بعض خبریں دے دیتا ہے۔ اس پر پھر بعض لوگ انہی میں سے کھڑے ہوجاتے اور کہتے وہ کاہن کس طرح ہے وہ تو کاہنوں کو جھوٹا کہتا ہے۔ غرض رسول کریم ﷺ کی مخالفت کا ایک سلسلہ تھا جو ہر مجلس اور ہر خاندان میںجاری تھا۔ جہاں بھی دیکھو یہی ذکر ہوتا تھا کہ محمد (ﷺ) نے بہت بڑا فتنہ پید اکردیا ہے۔ اس فتنہ کے سدباب کیلئے اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ مخالفت کا یہ جوش و خروش اور رسول کریم ﷺ کی تذلیل کی یہ کوششیں ثبوت تھیں اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تعلیم میں ایسی کشش رکھی تھی کہ دنیا سمجھتی تھی اس کا ہمارے ساتھ ٹکرائو ہماری تباہی اور بربادی کا موجب بننے والاہے۔ یہی تیسری چیز ہے جو کامیابی کیلئے ضروری ہوتی ہے۔ لوگ شور مچاتے ہیں ، مخالفت کیلئے پورے جوش سے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ہر قسم کی تدابیر سے اس کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ ایسا کرتے ہیں سعادت مند طبائع تحقیق کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ اور آخر اس مخالفت کے نتیجہ میں وہ ایمان لے آتی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دوست جو بہت بڑے شاعر تھے لغت کی انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کی دو تین جلدیں شائع ہوچکی ہیں ریاست رامپور ان کو اس کام کیلئے وظیفہ دیا کرتی تھی، قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ آپ کو ہمارے سلسلہ کی طرف کیسے توجہ پیدا ہوئی؟ انہوں نے بڑی سادگی سے جواب دیا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ذریعہ سے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کس طرح؟ انہوں نے عرض کیا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا رسالہ ’’اشاعۃ السنۃ‘‘۔ ہمارے ہاں آیا کرتا تھا میں یہ تو جانتا ہی تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بہت بڑی شہرت رکھنے والے اور سارے ہندوستان میں مشہور ہیں مگر ان کے رسالہ کو دیکھ کر بار بار میرے دل میں خیال آتا کہ اگر ان کے دل میں اسلام کا واقعی درد تھا تو انہیں چاہئے تھا کہ مدرسے جاری کرتے، قرآن اور حدیث کے درس کا انتظام کرتے، لوگوں کو اسلامی احکام پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلاتے۔ مگر انہیں یہ کیا ہوگیا ہے کہ سارے کام چھوڑ کر بس ایک بات کی طرف ہی متوجہ ہوگئے ہیں اوردن رات احمدیت کی مخالفت کرتے رہتے ہیں۔ اس میں ضرور کوئی بات ہے۔ چنانچہ مجھے ان کی مخالفت سے تحقیق کا خیال پیدا ہوا اور میں نے کسی شخص سے اپنے اس شوق کا اظہار کیا۔ اس نے مجھے ’’درثمین‘‘ پڑھنے کیلئے دی۔ میں نے اس میں رسول کریم ﷺ کی تعریف میں جب آپ کا کلام دیکھا تو میں نے کہا لو پہلا جھوٹ تو یہیں نکل آیا کہ کہا جاتا تھا کہ مرزا صاحب رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں۔ حالانکہ جو عشق رسول کریم ﷺ کا آپ کے دل میں پایا جاتا ہے اس کی موجودہ زمانے میں نظیر ہی نہیں ملتی۔ اس کے بعدمیں نے مزید تحقیق کی اور آخر میں اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ احمدیت سچی ہے۔ اسی طرح ہر سال مجھے دس بیس خطوط ضرور ایسے آجاتے ہیں جن میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ جب ہم نے احمدیت کی مخالفت میں کتابیں پڑھیں تو ہمارے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہم جماعت احمدیہ کی کتابیں بھی پڑھ کر دیکھیں۔ چنانچہ ہم نے آپ کی کتب کا مطالعہ کیا اور ہمیں معلوم ہوا کہ سچے عقائد وہی ہیں جو آپ کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں۔ لوگوں کی طرف سے مخالفت میں جو کچھ کہا جاتا ہے وہ بالکل جھوٹ ہے اس لئے ہم آپ کی بیعت میں شامل ہوتے ہیں۔ اسی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ ہمارا تجھ پر کتنا بڑا احسان ہے کہ آج ہر مجلس میں تیرا ذکر ہورہا ہے۔ سیاستدان کہتے ہیں اب کیا ہوگا محمد (ﷺ)نے دعویٰ کردیا ہے۔ عالم کہتے ہیں اب کیا ہوگا محمد (ﷺ) نے دعویٰ کردیا ہے۔ تاجر کہتے ہیں اب کیا ہوگا محمد (ﷺ) نے دعویٰ کردیا ہے۔ کاہن کہتے ہیں اب کیا ہوگا محمد (ﷺ) نے دعویٰ کردیا ہے۔ غرض ہر سننے والا کہتا ہے کہ اب کچھ ہونے والا ہے۔ اب دنیا میں کوئی نہ کوئی انقلاب پیدا ہونے والا ہے۔ پس ورفعنا لک ذکرک کے ایک معنے یہ ہیں کہ ہم نے تیرے ذکر کر اس قدر بلند کردیا ہے کہ ہر مجلس اور ہر نادیہ میں تیرا ذکر ہونے لگا ہے۔ لوگوں کی طبائع میں ایک ہیجان پیدا ہوگیا ہے اور وہ اس بات پر مجبور ہوگئے ہیں کہ تیری طرف توجہ کریں۔ اس کا نتیجہ تیرے حق میں لازماً اچھا ہوگا کیونکہ لوگ جب غور کریں گے تو ان پر تیری صداقت واضح ہوجائے گی۔ اس کی ایک موٹی مثال دیکھ لو ورقہ بن نوفل رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے مکہ میں مسیحیت کا پرچار کرتے رہتے تھے۔ مگر مکہ والوں میں کوئی شور نہ تھا۔ وہ ان کی باتوں کو سنتے اور ہنس کر چلے جاتے۔ مگر رسول کریم ﷺ نے جب توحید کی آواز بلند کی ، عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مخالفت کی ایک لہر دوڑ گئی اور ہر شخص آپ کو کچلنے کیلئے کھڑ اہوگیا۔ اسی طرح زید بن عمرو جو حضرت عمرؓ کے چچا زاد بھائی تھے وہ بھی رسول کریم ﷺ کے دعویٔ نبوت سے قبل توحید کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ مگر کبھی ان کی مخالفت نہیں ہوئی۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے ان کو کھانے کی دعوت دی انہوں نے کہا میں مشرکوں کا کھانا نہیں کھاتا۔ آپ نے فرمایا میں نے تو کبھی شرک نہیں کیا۔ اس زید جیسے کٹر مؤحد کی لوگوں نے کبھی مخالفت نہیں کی مگر رسول کریم ﷺ نے جب بتوں کے خلاف آواز بلند کی تو سارا عرب آپ کا مخالف ہوگیا کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ زید کی زبان سے تو ہمارے بت نہیں ٹوٹے تھے مگر یہ وہ زبان ہے جو ہمارے بتوں کو توڑ کر رکھ دے گی۔ بس ورفعنا لک ذکرک کے ایک معنے یہ ہیں کہ ہم نے تمام لوگوں کی توجہ تیری طرف پھیر دی ہے۔ ہر شخص سمجھتاہے کہ یہ دنیا میں کچھ نہ کچھ کرکے رہے گا۔ اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس آیت کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ ہم نے تیری قبولیت دنیا میں پھیلادی ہے۔ درحقیقت کامیابی کے ساتھ اس امر کا بھی تعلق ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا میں قبولیت کے آثار پیدا کردیئے جائیں۔ حدیثوں میں آتا ہے جب خداتعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنی محبت کیلئے منتخب فرماتا ہے تو اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کو چن لیا ہے تم بھی اسی سے محبت کرو اور لوگوں کے دلوں میں اس کی قبولیت پیدا کرو۔ چنانچہ آہستہ آہستہ تمام دنیا میں اس کی قبولیت پید اہوجاتی ہے۔ یہ معنی بھی اس آیت کے ہیں فرماتا ہے کہ گو یہ لوگ تیری مخالفت کرتے ہیں مگر ساتھ ہی تیری بڑائی اور عظمت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جب وفات ہوئی تو کئی غیراحمدیوں اور ہندوئوں نے مضامین لکھے جن میں انہوںنے آپ کی بڑائی اور عظمت کا ذکر کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گو وہ ظاہر میں آپ کی مخالفت کرتے تھے مگر ان کے دل آپ کی عظمت کے قائل تھے۔ یہ قبولیت اور عظمت کسی مفتری انسان کو کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ پس فرماتا ہے دنیا میں مخالفتیں کرنے والے مخالفتیں کرتے ہیں مگر ان کی مخالفت کا پہلو یکطرفہ ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی مخالفت کے ساتھ اس کی عظمت کے بھی قائل ہیں مگر یہاں یہ حالت ہے کہ یہ لوگ تیرے دشمن بھی ہیں اور تیری طاقت اور عظمت کے بھی قائل ہیں۔ کہتے ہیں کہ تو بڑا جھوٹا ہے مگر ساتھ ہی کہتا ہے کہ تو بڑا امین ہے۔ سننے والاسنتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ یہ کیا متضاد باتیں کہہ رہے ہیں۔ ایک کہتا ہے وہ شاعر تو ہے مگر شعر نہیں کہتا یا کاہن تو ہے مگر کاہنوں کا دشمن ہے۔ گویا جہاں وہ الزام لگاتے ہیں وہاں ساتھ ہی ایک رنگ میں عظمت اور نیکی کا بھی اقرار کرجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس آیت کا اشارہ اس طرف بھی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا ذکر پھیلنا شروع ہوجائے گا۔ چنانچہ تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت جلد آپ کا ذکر سارے عرب میں پھیل گیا تھا۔ اور لوگ ایمان بھی لانے لگے تھے۔ چنانچہ ابوذر غفاریؓ غفار میں ، بعض لوگ یمن میں، بعض مدینہ میں مکی زندگی میں ہی ایمان لے آئے اور اس طرح آپ کا سلسلہ مختلف ممالک میں پھیل گیا۔
فان مع العسر یسرا O ان مع العسر یسرا O پس (یاد رکھوکہ) اس تنگی کے ساتھ ایک بڑی کامیابی (مقدر) ہے(ہاں) یقینا اس تنگی کے ساتھ ایک (اور بھی) بڑی کامیابی (مقدر) ہے۔
تفسیر: عربی قواعد کی رو سے تنوین ہمیشہ بڑائی اور عظمت کے اظہار کیلئے آتی ہے۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ یقینا اس تنگی کے ساتھ ایک بہت بڑی آسانی ہے۔ ہاں ہاں اس تنگی کے ساتھ ایک بہت بڑی آسانی ہے۔ گویا اصل مقصد تنگی کا ذکر کرنا نہیں بلکہ اصل مقصد یسر کی بڑائی اور اس کی اہمیت پر زور دینا ہے۔ لیکن بعض نحوی کہتے ہیں کہ آیت میں یسراً کا نکرہ کا استعمال اور پھر اس کا تکرار بتارہا ہے کہ یہاں ایک نہیں بلکہ دو یسر مرا د ہیں۔ بے شک عسر ایک ہی ہے مگر یسر دو ہیں۔ ان کے نزدیک اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ یقینا اس تنگی کے ساتھ ایک بہت بڑی آسانی ہے۔ یقینا اس تنگی کے ساتھ ایک بہت بڑی آسانی ہے۔ کویا نکرہ کا تکرار اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یسر دو ہیں اور یسر کی تنوین بتاتی ہے کہ ہر یسر بہت بڑی شان کا ہے۔ ان دوسرے معنوں کی احادیث سے بھی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ ہنستے ہوئے اپنے گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا میں نے دیکھاہے کہ عسر یسر کے پیچھے دوڑا چلا جارہا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا ایک عسر دو یسر پر غالب نہیں آسکتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشفاً رسول کریم ﷺ کو اس آیت کا یہی مفہوم سمجھایا گیا ہے کہ یسر دو ہیں اور عسر ایک ہے ۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ دو یسر کون سے ہیں جن کا اس آیت میں ذکر آتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو پورے طور پر اسی وقت سکون حاصل ہوتا ہے جب ذہنی اور خارجی طور پر دونوں لحاظ سے اسے اطمینان کے سامان میسر ہوں۔ اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کی باتوں کی لوگ تردید کرتے ہوںتو گو وہ اسے مارپیٹ نہیں رہے ہوتے اور خارجی طور پر اسے کوئی دکھ نہیں ہوتا مگر ذہنی طور پر اس کے اندر ایک خلش اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ اور وہ اطمینان جس کا انسان متلاشی ہوتا ہے اسے پورے طور پر میسر نہیں ہوتا۔ ہم ایسے شخص کو دیکھ کر یہی کہیں گے کہ گو اسے خارجی طور پر یسر میسر ہے مگر ذہنی طور پر عسر میں مبتلا ہے۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ جن کی تردید نہیں کرتے لیکن موقع ملے تو مارپیٹ لیتے ہیں۔ قصہ مشہور ہے کہ ایک جاٹ کے کھیت کے پاس ایک دفعہ کسی شخص نے آکر ڈیرہ لگالیا اور اس نے لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ میں خدا ہوں۔ کئی مشٹنڈے اس نے اکٹھے کرلئے جو اردگرد کے گائوں سے بھی مانگ لاتے اور جو شخص وہاں آتا اسے کہتے کہ یہی خدا ہے ان کو سجدہ کرو۔ وہ زمیندار روزانہ یہ نظارہ دیکھتا مگر کچھ کر نہ سکتا۔ چونکہ وہ اکیلا تھا اور اس شخص کے ارد گرد ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ ایک دن اتفاقاً سب لوگ ادھر ادھر چلے گئے اور وہ جو اپنے آپ کو خدا کہتا تھا اکیلا رہ گیا۔ زمیندار نے اس موقع کو غنیمت سمجھا وہ ہل چھوڑ کر فوراً اس کے پاس گیا اور دو زانو بیٹھ کر کہنے لگا میں حضور سے یہ دریافت کرنے آیا ہوں کہ کیا حضور ہی خدا ہیں؟ اس نے کہا ہاں میں ہی خدا ہو۔ یہ سنتے ہی اس نے کود کر اس کی گردن پکڑ لی اور زور سے اسے ایک گھونسہ مار کر کہا اچھا میرے باپ کی تم نے ہی جان نکالی تھی۔ پھر ایک اور گھونسہ مار کر کہا اچھا میری ماں کی تونے ہی جان نکالی تھی۔ پھر ایک اور گھونسہ مار کرکہا اچھا تونے ہی میری بہن کی جان نکالی تھی۔ اس طرح ایک ایک کرکے وہ اپنے مردہ رشتہ داروں کے نام لیتا گیا اور گھونسے پر گھونسہ مارتا چلا گیا۔ ابھی پانچ دس گھونسے ہی لگے تھے کہ وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑ اہوگیا اور کہنے لگا مجھے معاف کرو میں خدا نہیں ہوں۔ تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ دلیلیں نہیں دیتے ڈنڈے لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسے شخص کو خارجی لحاظ سے عسر ہوتا ہے مگر ذہنی لحاظ سے عسر نہیںہوتا۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو خارجی لحاظ سے تو اطمینان حاصل ہوتا ہے مگر اس کے ذہن میں سکون نہیں ہوتا۔ وہ ایک تعلیم کو مان رہا ہوتا ہے مگر بار بار اس کے دل میں یہ خیال بھی اٹھتا ہے کہ نامعلوم یہ تعلیم سچی بھی ہے یا نہیں۔ کامل اطمینان اور کامل سکون وہی شخص حاصل کرسکتا ہے جسے خارجی لحاظ سے بھی اطمینان ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ہمارے رسول! بیشک آج دنیا تیرے ساتھیوں کو سخت سے سخت تکالیف پہنچارہی ہے مگر ہم عنقریب ان کو دونوں قسم کے اطمینان دینے والے ہیں۔ پہلا اطمینان جو ان کو میسر آئے گا وہ ذہنی ہوگا۔ یعنی تیری جماعت کا ہر فرد ذہنی لحاظ سے اس بات پر مطمئن ہوگا کہ اس نے سچائی کو قبول کیا ہے، راستی کو اختیار کیا ہے، نجات کے طریق کو پسند کیا ہے۔ یہ خلش اور دبدہ اس کے اندر نہیں ہوگاکہ نہ معلوم جس راہ پر میں چل رہا ہوں وہ خدا تک انسان کو پہنچاتا ہے یا نہیں پہنچاتا۔ اس کے بعد خارجی لحاظ سے بھی ہم ان کے اطمینان کے سامان پیدا کردیں گے یعنی دشمن کی تکالیف کا سلسلہ جاتا رہے گا۔ ان کو کامیابی حاصل ہوجائے گی اور وہ تنگی جو آج محسوس کی جارہی ہے بالکل دور ہوجائے گی گویا وہ دو یسر ہیں جن کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ ذہن اور خارجی اطمینان کے سامان ہیں۔ یعنی ہم قوم کو باایمان بنانے کیلئے اس کے تمام شکوک و شبہات کو مٹا کر اسے یقین کی ایک مضبوط چٹان پر کھڑا کردیں گے اور خارجی لحاظ سے ان تمام مصیبتوں اور تکلیفوں کو دور کردیں گے جو دشمن کی طرف سے انہیں پیش آرہی ہیں اور وہ غالب اور بادشاہ ہوجائیں گے جس کی وجہ سے کوئی انہیں جسمانی عذاب نہ دے سکے گا۔
دوسرے معنے دنیوی اور اخروی انعامات کے ہیں۔یعنی تمہیں دنیا کے بھی انعامات ملیں گے اور آخرت کے انعامات بھی تمہیں عطا کئے جائیں گے۔ اگر کوئی کہے کہ اخروی انعامات کے ملنے کا کیا ثبوت ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ رئویا وکشوف اور الہامات جن سے اللہ تعالیٰ کے مومن بندے اس دنیا میں اپنی استعداد کے مطابق حصہ لیتے ہیں ۔وہ اس بات کا ثبوت ہوتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اخروی نعماء کے متعلق جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ بالکل درست ہے ۔
اس آیت کے یہ بھی معنی ہیںکہ جب کبھی اسلام پر تنگی اور مصیبت کا زمانہ آئے گا اللہ تعالیٰ اس کے بعد ترقی کا ایک نیا دور پیدا کر دیا کرے گا ۔گویا اسلام کے ایک دفعہ قائم ہو جانے اور اس کے ہلاکت سے بچ جانے کے بعد ہر موقع پر اس کی ترقی کے نئے سے نئے سامان پیدا ہوتے رہیں گے۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ اسلام ہمیشہ کے لئے مغلوب ہو جائے اور کفر کو غلبہ حاصل ہو جائے۔ گویا حفاظت اسلام کا وعدہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو بشارت دی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائید ہمیشہ اس مذہب کے ساتھ ہوگی اور وہ ہمیشہ تنزل کے بعد اس کی ترقی کے سامان پیدا کرتا رہیگا۔ دو کے لفظ کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس آیت میں بعثت محمدی اور بعثت احمدی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ اس زمانے میں کفر نے خاص جوش ماراہے مگر ہم اس کفر کو توڑنے کے لئے محمدرسول ﷺ کی دو روحانی بعثتیں کریں گے تا اس کا زور با لکل ٹوٹ جائے۔
فاذا فرغت فا نصبo پس جب (بھی) تو فارغ ہو تو ( دوسرے مقصد کے حصول کے لئے ) پھر کوشش میں لگ جا
حل لغات: فرغت، فرغ سے واحد مخاطب مذکر کا صیغہ ہے اور فرغ کے کئی معنی ہوتے ہیں ۔جب فرغ من العمل کہیں تو اس کے معنی ہوتے ہیں خلا ذرعہ وہ کسی کام سے فارغ ہو گیا اور جب فرغ لہ والیہ تو معنی ہوتے ہیں قصد۔ اس نے کسی چیز کا ارادہ کیا ۔نیز کہتے ہیں فرغ فلان فروغا اور مراد یہ ہوتی ہے کہ مات فلاں شخص مر گیا۔ اور جب برتن کیلئے فرغ کا لفظ بولیں تو اس کے معنی ہوتے ہیں خلا ۔ خالی ہو گیا ۔ نیز فرغ کے معنی کسی کام کو پورا کر دینے کے بھی ہوتے ہیں ۔ چنانچہ کہتے ہیں فرغ فلان من الشئی اتمہ کہ فلاں نے کام کو ختم کر د یا ( اقرب)
فانصب نصب ینصب سے امر کا صیغہ ہے اور نصب الرجل نصبا کے معنی ہوتے ہیں اعیا وہ تھک گیا ۔اور نصب فی الامر کے معنی ہوتے ہیں جدواجتھد اس نے محنت اور کوشش کی ( اقرب) یہاں فانصب کے معنی محنت اور جدوجہد کرنے کے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فاذا فرغت فانصب ۔ جب تو فارغ ہو جائے تو پھر جدوجہد میں مشغول ہو جا۔
تفسیر: یہاں ایک عجیب بات بیا ن کی گـئی ہے بضا ہر فراغت کے معنی ہو تے ہیں کہ مشکل ہو گئی اور کام ختم ہو گیا مگر اللہ تعا لی فر ما تا ہے جب توفا رغ ہو جاے تو پھر محنت میں مشغو ل ہو جا پس سوال پیدا ہو تا ہے کہ جب فارغ ہونے کے بعدبھی محنت میں مشغول رہنا ہے تو پھر فراغت کیسی ہوئی ؟درحقیقت اس میںاسلام کی ترقی کے متعلق پیشگو ئی کی گئی ہے اور بتا یا گیا ہے کہ کتنا بلند مقصد ہے جو ہم نے اپنے رسول کے سامنے رکھا ہے ۔بعض دفعہ دنیا میںیکدم کوئی تغیر پیدا ہو جا تا ہے اگر وہ دیر پا نہیں ہو تا بلکہ جلد ہی رو بہ زوال ہو جاتا ہے لیکن بعض تغیرات ایسے ہو تے ہیںجوگو تدریجـــاً پیدا ہوتے ہیں مگر ایک لمبے عرصہ تک دنیا کی کایا پلٹ کر رکھ دیتے ہیں اللہ تعا لی رسوللہﷺ کو فرماتا ہے کہ تیری ترقی گو تدریجی ہو گی مگر تیری کو ششو ںکے نتائج مستقل اور دیر پا ہو نگے ۔پہلے ایک مشکل تمہارے سامنے آئے گی اور جب تم اس کو دور کر لو گے اور اپنے پہلے مقام سے اونچے ہو جا ئو گے تو پھر دوسری مشکل پیش آجائے گی اس وقت تمہارا فرض ہوگا کہ اس دوسری مشکل کو دور کرو اور اپنے مقام سے اور اونچے ہو جا ئو جب وہ مشکل بھی حل ہو گئی تو ایک تیسری مہم کو سر کرو اور اپنے مقام سے اور اونچے ہو جاو گو یا ایک دور ہے جو چلتا چلا جائے گا اور غیر متناہی تر قیات ہیں جو تمہا رے سا منے آتی چلی جائینگی کوئی وقت اور کوئی لمحہ تمہاری زند گی میں ایسا نہیں آ سکتا جب تم یہ خیال کر لو کہ میں اپنا کام ختم کر چکا یا میںنے جس بلندی پر پہنچنا تھا پہنچ گیا وہ شخص جو صرف پا نچ ہزارفٹ کی بلندی پر چڑہنا چاہے جب پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ جاے گا اور بیٹھ جا ئے گا اور کہے گا کہ میں جس مقام پر پہنچنا چاہتا تھا پہنچ گیا مگر جس شخص کا یہ مقصد ہو کہ وہ سا ری چڑھا ئیوں پر چڑھتا چلا جائے وہ کسی مقا م پر نہیں رکے گا بلکہ ایک چو ٹی کے بعددوسری چوٹی اور دوسری چوٹی کے بعد تیسری چوتی پر وہ چڑ ھتا چلا جائے گا ۔چونکہ رسول کریم ﷺکے سپرد اللہ تعا ٰلیٰ کی طرف سے جو علمی اور عملی کام کیا گیا تھا اسکی کوئی انتہا نہیں تھی اس لئے اللہ تعالیٰ اس آیت میں آپ کو مخاطب کر کے فر ماتا ہے ۔اے محمد رسوا للہ ہم نے تیرے لیئے کوئی محدود مقصود مقر ر نہیں کیا بلکہ غیر معمولی تر قیات کادروازہ تیرے لیے کھولا گیا ہے ۔جب تو کسی ایک مہم کو سر کر لے تو سمجھ لے کہ ابھی اس سے او پر کی مہم کو تو نے سر کر نا ہے۔ اور جب دوسری مہم سر ہو جاے تو تُوسمجھ لے کہ تیسری مہم تیرے سا منے کھڑی ہے ۔اور تیرا فرض ہے کہ تُواس کو بھی سر کرے ۔غرض توُنے بلندیوں کی طرف اپنے پورے زور کے سا تھ بڑھتے چلے جانا ہے ۔ اور کسی ایک مقام پر بھی اپنے قدم کو نہیں روکنا ۔گو یا فا ذا فرغت فا نصب میں رسول کریم ﷺ کے غیر متناہی سفرکی طرف کی اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ آپ اپنے کام میں بڑھتے چلے جائینگے اور کوئی وقت ایسا نہیں آئے گا جب یہ کہا جا سکے محمدرسول اللہﷺ اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے اور اب وہ اپنے کام سے فارغ ہو گئے ہیں۔اگر وہ ایک کام سے فا رغ ہو جا ئیں گے تو دوسرا کام شروع کر دیںگے۔ہم جب بچے تھے اس وقت ایک کھیل کھیلا کر تے تھے جو اسی مفہو م کو ادا کرتی ہے۔ایک لڑکا بیٹھ جا تا تھا اور باقی سب لڑ کے اس کے سر پر اوپر نیچے اپنی مٹھیاںبند کر کے رکھتے چلے جاتے اور پھر ایک لڑکا کہتا بھنڈا بھنڈا ریا کتنا کُ بھار
وہ جواب میں کہتا
اک مکی چک لے دوجی تیا ر
یعنی ایک مٹھی سر پر سے ہٹا لو تو دوسری مٹھی اس کی جگہ لینے کو تیار ہے۔اسی طرح فرماتا ہے تمہارے لئے غیر معمولی ترقیات مقدر ہیں جب تم ایک مشکل کو حل کر لو گے تو خدا تعالیٰ دوسری مشکل تمہارے سامنے کھڑی کر دے گا تا کہ تم اس کو حل کر کے زیادہ ترقی کرو اور زیادہ قرب اور محبت کے مقامات طے کرو۔ گویا کوئی مقام ایسا نہیں آ سکتا جسے تم اپنی ترقی کی آخری منزل قرار دے سکو۔ ہر مقام پر پہنچ کر ایک نیا دروازہ تمہارے لئے کھول دیا جائے گا اور اس طرح غیر متناہی ترقیات کا سلسلہ تمہارے لئے قائم کیا جائے گا ۔ بے شک ہم نے تجھ سے وعدہ کیا ہے کہ ہم تجھے کامیاب کریں گے اور تیری ہر مشکل کو دور کریں گے مگر فتح اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ نہ سمجھنا کہ میرا کام ختم ہو گیا ہے بلکہ ہر فتح کے بعد نئی مشکلات سامنے آجائیں گی کیونکہ روحانی ترقی کے اسرار میں سے یہ بات ہے کہ نئی سے نئی مشکلات پیدا ہوتی جائیں اور انہیں سر کیا جائے۔ پس تم یہ خیال نہ کرنا کہ شیطانی حملہ صرف ایک رنگ کا ہوگا اور اسکا ایک رنگ میں مقابلہ کرنا ہی اس کو شکست دینے کے لئے کافی ہو گا بلکہ شیطان کے حملے مختلف انواع کے ہوں گے۔ اس کے حملے علمی بھی ہوںگے ، اس کے حملے عملی بھی ہوں گے اس کے حملے فکری بھی ہوں گے اس کے حملے سیاسی بھی ہوںگے اس کے حملے اقتصادی بھی ہونگے اور یہ تمام حملے اس کی طرف سے یکے بعد دیگرے ہوتے چلے جائیں گے ۔ تمھارا کام یہ ہو گا کہ ایک دشمن کو مارا اور آگے بڑھے، دوسرے دشمن کو مارا اور آگے بڑھے، تیسرے دشمن کو مارا اور آگے بڑھے۔ اس طرح ایک ایک کر کے دشمن کو ہٹاتے چلے گئے اور خدا تعالیٰ کے قرب کی بلندیوں میں اپنی پوری تیز رفتاری کے ساتھ بڑھتے گئے۔
و الیٰ ربک فارغب اور تو اپنے رب کی طرف متوجہ ہو۔
تفسیر: فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ ﷺجب تم اس طرح چوٹیوں پر چڑھتے چلے آئو گے تو دیکھو گے کہ ہم آگے بیٹھے ہیں ہم بلندیوں پر رہتے ہیں اور وہی ہمارے پاس آسکتا ہے جو غیر محدود جدوجہد سے کام لینے والا ہو۔ اس لئے ہماری ملاقات کے راستہ میں کسی مقام پر ٹھہرنا نہیں بلکہ بڑھتے چلے آنا ۔ عیسوی مقام آجائے تو ٹھہرنا نہیں بلکہ اوپر چڑھنا۔ موسوی مقام آ گائے تو ٹھہرنا نہیں بلکہ اوپر چڑھنا پہلے آسمان پر پہنچو تو وہاں ٹھہرنا نہیں بلکہ اپنی کمر باندھ لو اور دوسرے آسمان پر پہنچو دوسرا آسمان آئے تو تیسرے آسمان پر پہنچنے کی کوشش کرو ۔ چوتھا آسمان آئے تو پانچویں آسمان پر پہنچنے کی کوشش کرو ۔ پانچواں آسمان آئے تو چھٹے آسمان پر پہنچنے کی کوشش کرو چھٹا آسمان آئے تو ساتویں آسمان پر پہنچنے کی کوشش کرو۔ ساتواں آسمان آئے تو اس بھی اوپر پہنچنے کی کوشش کرو۔ اوپر ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں تم اپنے رب کی طرف آئو اور اپنا انعام پا لو۔
سورۃ التین مکیۃ
و ھی ثما نی آیات دون البسملتہ و فیھا رکوع واحد
جمہور کے نزدیک یہ سورۃ مکی ہے۔ قرطبی نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ یہ مدنی ہے ۔ قتادہ کا بھی قول نقل کیا گیا ہے کہ یہ مدنی ہے۔ مگر اس کے مقابل میں ابن ا لفریس، نحاس، ابن مردویہ اور بہیقی نے ابن عباسؓ سے ہی روایت کی ہے کہ انزلت سورۃ التین بمکۃ یعنی سورۃ تین مکہ میں نازل ہوئی تھی ۔ یہ دوسری روایت قرطبی کی روایت کو رد کرتی ہے۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابن عباس ؓکی طرف سے بھی یہی روایت ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے ۔ ابن مردویہ نے عبداللہ بن زبیر ؓ سے بھی اس قسم کی روایت نقل کی یہ۔ گویا ابن عباسؓ کے علاوہ عبداللہ بن زبیرؓ بھی اس سورۃ کو مکی قرار دیتے ہیں ۔بقیہ علماء نے بھی باوجود اس روایت کے جو قرطبی نے نقل کی ہے اسے مکی ہی قرار دیا ہے۔
بخاری۔ مسلم۔ابو دائود اور ابن ماجہ وغیرہ میں اور اسی طرح بعض اور کتب میں بھی براء بن عازب سے روایت نقل کی گئی ہے کہ کان النبیﷺ فی سفر فصلی العشاء فقرء فی احدی الرکعتین بالتین والزیتون فما سمعت احدا احسن صوتا و لا قرء ۃ منہ یعنی ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سفر میں جا رہے تھے کہ آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی اور اس کی پہلی دو رکعتوں میں سے ایک میں آپ نے سورۃ تین پڑھی۔ میں نے کسی شخص کو اس سے زیادہ خوب صورت آواز اور اچھی قرأت کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھتے نہیں سنا جیسے رسول کریم ﷺ کو میں نے پڑھتے سنا ۔ ایک دوسرے روایت جو انہی کی ہے اس ماں بھی یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے مگر ابن الخطیب میں براء بن عازب کی جو روایت آتی ہے اس میں عشاء کی بجائے مغرب کا لفظ ہے۔
نولڈکے جرمن مستشرق اسے سورۃ البروج کے ساتھ کی نازل شدہ بتاتا ہے۔ یعنی ہے بھی ابتدائی زمانہ کی مکی سورۃ ہے ۔ ویری بھی اس کی تائید کرتا ہے ۔ اور کہتا ہے کہ اس کا سٹائل مکی ہے۔ میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ یہ اس کی زبردستی ہے۔ وہ عربی بھی اچھی طرح نہیں جانتا سٹائل کو کہاں پہچان سکتا ہے۔ اسی طرح وہ کہتا ہے کہ اس سورۃ میں ھاذاالبلدا لامینکہ جو الفاظ آتے ہیں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ سورۃ مکی ہے۔ کیوں کہ اس میں ھذا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ شہر مکہ جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے ۔ ویری کی یہ دلیل وزنی ضرور ہے مگر قطعی نہیں ۔ ہم اتنے حصہ میں اس سے متفق ہیں کہ یہ مکی ہے۔ مگر اس نے اپنے بغض کی وجہ سے یہ بھی لکھاہے کہ بعض مسلمان مصنف ان حدیثوںکی اندھا دھندتقلید میں جوقرآن کریم کو واضح کرنے کیلئے بنائی گئی ہیں اسے مدنی قرار دیتے ہیںنہایت ناپسندیدہ فعل ہے۔یہ فقرہ اس کے بغض پر دلالت کرتا ہے۔ کیوں کہ جمہور مسلمان تو اسے مکی قرار دیتے ہیں اور ہمارا اپنا فائدہ بھی اگر مسلمان فائدہ اٹھانے کے لئے حدیثیں بناتے ہیں تو اسے مکی قرار دینے میں ہی ہے۔ پس جبکہ جمہور بھی اسے مکی قرار دیتے ہیں مسلمان مصنفوں پر اس قدر رکیک الزام اور خصوصا احادیث پر نہایت قابل شرم امر ہے۔
میں بتا چکا ہوں کہ روایتیں اسے مکی قرار دیرہی ہیں صرف قرطبی نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں اسے مدنی قرار دیا ہے مگر ممکن ہے کہ وہاں کتابت کی غلطی کی وجہ سے مکی کی بجائے مدنی لکھا گیا ہواور اگر وہ کتابت کی غلطی نہیں تب بھی قرطبی اصل راوی نہیں بلکہ وہ دوسروں کی روایتوں کو نقل کرنے والا ہے۔اور جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اصل راوی سب اس بات پر متفق ہیں کہ ہے سورۃ مدنی نہیں بلکہ مکی ہے۔ لیکن ویریکا اسے سٹائل کی وجہ سے مکی قرار دینا محض دھینگا مشتی ہے۔ اگر پادری ویری کے سامنے ہی قرآن کریم کھول کر رکھ دیا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ اگر تم سٹائل کو پہچاننے کا ملکہ اپنے اندر رکھتے ہو تو بتائو اس میں سے مکی آیات کونسی ہیں اور مدنی آیات کونسی تو وہ بیسیوں غلطیاں کر جائیں گے یہاں چونکہ تمام روایتیں اس سورۃ کو مکی قرار دے رہی تھیں انہوں نے سمجھا کہ میں اس کے مکی ہونے کا ثبوت اس سورۃ کے سٹائل کو قرار دے کر ایک جدت پیدا کر دوںحالانکہ سٹائل کو پہچاننا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا انسان جورات اور دن غور کرتا رہا ہو اورجس نے باریک طور پر تدبر اور دماغی کاوش سے کام لیاہواس کے لئے بھی سٹائل کو الگ طور پر پہچاننا مشکل ہوتا ہے اور باقی لوگوں کے لئے تو اسقدر مشکل مرحلہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ لاکھوں میں سے کسی ایک کے لئے یہ بات ممکن ہوتو ہوباقی کسی کے لئے سٹائل کو پہچاننا ممکن نہیں ہے۔ یہی بات دیکھ لو سب مسلمان قرآن جانتے ہیں اور اسے پڑھتے ہیں مگر پھر کئی مقرر مسلمان بعض ضعیف حدیثیں پیش کر کے کہہ دیتے ہیںکہ قرآن کریم میں ایسا لکھا ہے حالانکہ وہ ویری سے زیادہ قرآن جانتے ہیں ۔
مو لوی محمد احسن صا حب امروہی میں یہ مرض تھا کہ حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام جب بھی کوئی بات کرتے وہ در میا ن میں جلدی جلدی بو لنا شروع کر د یتے تھے اور واہ واہ سبحان اللہ کہنے لگ جاتے مثلاً حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام جب کسی گفتگو میں فر ما تے کہ قر آ ن کریم نے فلا ں بات نہایت لطیف طور پر بیان کی ہے تو وہ کہنا شروع کر دیتے تھے کہ سبحا ن اللہ بڑی لطیف بات ہے کس کی طاقت ہے کہ ایسی بات کہہ سکے ۔ایک دفعہ حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام سیر کے لیے جا رہے تھے میں بھی ساتھ تھا کہ حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے فرمایا مجھے آج ایک الہام ہوا ہے جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام اور بندے کے کلام میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے ۔جب حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے یہ بات بیان فرمائی تو مولوی محمداحسن صاحب نے جھٹ ہاتھ مارنے شروع کردیے اور کہا حضور فرق ـ!خدا کے کلام اور بندہ کے کلام میں زمین اور آسمان کا فرق ہے حضور خدا کا کلام خدا کا کلام اور بندے کا کلام بندے کا کلام ،بھلا ممکن ہے بندہ اپنے کلام میںخدا کا مقا بلہ کر سکے؟یہ تو بالکل ناممکن ہے۔ جب وہ ذرا خاموش ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر یہ بات شروع کی اور فرمایا دیکھو حریری عربی ادب کے لحا ظ سے کمال کو پہنچا ہوا تھا مگر الہام الٰہی میں جو باریکیاں ہوتی ہیں وہ اس کے کلام میں کہاں؟مولوی محمد احسن صاحب نے پھر کہنا شروع کردیا حضور حریری! بھلا حریری میں رکھا ہی کیا ہے؟ اس کی کیا طاقت کے کہ وہ خدا کے کلام کا مقابلہ کرسکے۔ خدا کا کلام جس شان اور عظمت کاحامل ہوتا ہے بھلا حریری کی طاقت ہے کہ اس جیسا کلام کہہ سکے۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مثلاً یہ فقرہ ہے ابھی وہ فقرہ مولوی محمد احسن صاحب نے سنا ہی تھا کہ انہوں نے جھٹ کہنا شروع کردیا ۔ حضور یہ بھی کوئی فقرہ ہے۔ یہ بھی کوئی عربی ہے۔ حریری کیا جانتا ہے کہ عربی کیا ہوتی ہے؟ حالانکہ وہ الہام تھا حریری کا فقرہ نہیں تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب! سنئے تو سہی یہ حریری کا فقرہ نہیں یہ تو وہ الہام ہے جو مجھ پر خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اب دیکھو مولوی محمد احسن صاحب مولوی آدمی تھے۔ دن رات عربی کتابیں پڑھنے میں مشغول رہتے تھے اور اگر سٹائل کو پہچاننا ایسا ہی آسان کام ہوتا تو وہ فوراً پہچان لیتے کہ یہ انسانی کلام ہے یا خدائی کلام مگر پھر بھی وہ غلطی کرگئے اور انہوں نے الہام کو انسانی کلام سمجھ لیا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موانست اور مشابہت کی وجہ سے انسان بعض دفعہ اندازہ کرلیتا ہے کہ یہ مکی سورۃ ہے یا مدنی سورۃ ہے مگر یہ اندازہ دلیل نہیں بن جاتا۔ مثلاً جہاں تک عربی الفاظ کا تعلق ہے جس طرح وہ الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں اسی طرح اور عربی کتب میں بھی استعمال ہوئے ہیں ۔ قرآن میں بھی رزق کا لفظ آتا ہے اور دوسری عربی کتب میں بھی رزق کا لفظ آتا ہے۔ قرآن میں بھی جہاد کا لفظ آتا ہے اور دوسری عربی کتب میں بھی جہاد کا لفظ آتا ہے۔ قرآن میں بھی غدا کا لفظ آتا ہے اور دوسری عربی کتب میں بھی غدا کا لفظ آتا ہے مگر اس کے باوجودجس شان اور عظمت کے حامل قرآن کریم کے الفاظ ہیں اس شان اور عظمت کے پاسنگ بھی وہ الفاظ نہیں جو دوسری کتب میں پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ محض الفاظ کا اشتراک کوئی چیز نہیں بلکہ اصل چیز جو الہام الٰہی کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے وہ ان الفاظ کا ایک ایسے ہار میں پرویا جانا ہے جس کی دنیا میں اور کہیں نظیر نہیں ملتی۔ مگر پھر بھی قطعیت کے ساتھ صرف اجتہاد سے کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ قرآنی اور غیرقرآنی عبادت کو بغیر قرآن کے حفظ کرنے یا کالحفظ کرنے کے قطعاً الگ الگ پہنچان سکتا ہے۔ پس ویری کا محض سٹائل کی بنا ء پر اس سورۃ کومکی قرار دینا اس کی خوش فہمی ہے۔ اگر ان کے سامنے ہی قرآن کریم کی آیات الگ الگ رکھ دی جائیں اور ان سے پوچھا جائے کہ بتائو ان میں سے مکی کون سی ہیں اور مدنی کون سی تو وہ سینکڑوں غلطیوں کا ارتکاب کرجائیں گے ۔ وہ اگر سٹائل کو پہچانتے ہیں تو صرف اس نقطہ نگاہ سے کہ اگر لمبی آیت ہوئی تو اس کے متعلق کہہ دیا کہ مدنی ہے اور اگر چھوٹی آیت ہوئی تو کہہ دیا یہ مکی ہے۔ حالانکہ یہ امتیاز تو ایک بچہ بھی کرسکتا ہے۔ پس ویری کا مسلمان مصنفوں اور حدیثوں پر یہ حملہ نہایت ناواجب ہے اور اس بغض اور کینہ کا ثبوت ہے جو اس کے دل میں اسلام کے متعلق پایا جاتا ہے۔ کیونکہ خود مسلمان راوی بھی اس کو مکی قرار دیتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان راویوں کے کہنے کی وجہ سے ہی انہوں نے اس سورۃ کو مکی قرار دیا ہے ورنہ اگر وہ نہ بتاتے تو یہ خود کچھ بھی نہ کہہ سکتے کہ یہ سورۃ مکی ہے یا مدنی
بسم اللہ الرحمن الرحیم: میں اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں)
والتین والزیتونO و طور سینین O وھذ البلد الامینO (مجھے) قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور سینین کے پہاڑ کی اور اس امن والے شہر کی۔
ترتیب: اس سورۃ کا سورۃ الانشراح سے یہ تعلق ہے کہ سورئہ انشراح میں بتایا گیا تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا انجام اچھا ہوگا کیونکہ نیک انجام کیلئے جن امور کی ضرورت ہوتی ہے وہ آپ کوحاصل ہیں۔اب اس سورۃ میںیہ بتایا گیا ہے کہ پہلی اقوام کی شہادت اس امر کی تائید میں موجود ہے۔ دنیا میں جب کوئی عقلی دلیل دیتاہے تو انسان کی پوری تسلی نہیں ہوتی وہ چاہتا ہے کہ مجھے کوئی نقلی دلیل بھی دی جائے تاکہ میں سمجھ سکوں کہ واقعہ میں اس کے مطابق کام ہوسکتاہے یا نہیں۔ سورۃ الانشراح میں عقلی دلیل دی گئی تھی اب اس سورۃ میںنقلی دلیل دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایسے ہی حالات میں اللہ تعالیٰ نے بعض قوموں کو بھی ترقی دی ہے اس سے تم نتیجہ نکال سکتے ہو کہ جس طرح آدمؑ اور نوحؑ اور موسیٰؑ کے وقت میں ہوا کہ باوجود مخالف حالات کے محض روحانی سامانوں سے ان کو فتح حاصل ہوئی اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس کے بعد اقرا باسم ربک الذی خلق میں بھی اسی مضمون کو جاری رکھا گیا ہے۔
تفسیر: فرماتا ہے قسم ہے ہم کو یاہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں انجیر کو بھی۔ زیتون کو بھی۔ طور سینا کو بھی اور اس بلد الامین کو بھی۔ فتح البیان میں لکھا ہے قال اکثر المفسرین التین ھوالتین الذی یاکلہ الناس والزیتون ھوالذی یعصرون منہ الزیت الذی ہو ادام غالب البلدان و دھنھم و یدخل فی کثیر من الادویۃ یعنی اکثر مفسرین کے نزدیک تین سے مراد وہی تین ہے جو لوگ کھاتے ہیں یعنی اس سورۃ میں جو والتین کا لفظ استعمال کیا گیاہے اس سے مراد وہی عام انجیر ہے جسے لوگ کھایا کرتے ہیں اور زیتون سے مراد بھی وہی زیتون ہے جسے لوگ کھاتے ہیں۔ جو اکثر ملکوں میں بطور سالن اور چکنائی کے استعمال ہوتاہے اور بہت سی دوائوں میں بھی پڑتا ہے ۔ گویا یہاں اس سورۃ میں جو والتین والزیتون فرمایا گیا ہے اس میں کوئی بات استعارۃً یا تمثیلاً بیان نہیں کی گئی بلکہ اس سے وہی انجیر مراد ہے جو کھانے کے کام آتی ہے اور وہی زیتون مراد ہے جس کا تیل لوگ اچاروں میں ڈالتے یا سالن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اچار میں تیل یا سرکہ ڈالتے ہیں مگر مغربی ممالک میںعموماً زیتون کا تیل استعمال کیاجاتا ہے۔ و قال الضحاک المسجد الاقصٰی اور ضحاک کہتے ہیں کہ تین اور زیتون سے مراد مسجد اقصیٰ ہے۔ و قال ابن زید بیت المقدس اور ابن زید کہتے ہیں کہ اس سے مراد بیت المقدس کی مسجد ہے۔ و قال قتادۃ الجبل الذی علیہ بیت المقدس اور قتادہ کہتے ہیں اس سے مراد وہ پہاڑ ہے جس پر بیت المقدس بنایا گیا ہے وقال عکرمۃ و کعب الاحبار بیت المقدس اور عکرمہ اور کعب الاحبار کہتے ہیں کہ اس سے مراد بیت المقدس ہے۔ و عن ابن عباس قال بلاد فلسطین اور ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ اس سے مراد فلسطین کا علاقہ ہے۔ و قال ایضا بیت المقدس اسی طرح ان سے یہ بھی روایت ہے کہ اس سے مراد بیت المقدس ہے۔ فتح البیان کے مصنف ان معانی کو درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں: لیت شعری ما الحامل لھؤلاء الائمۃ عن العدول عن المعنی الحقیقی فی اللغۃ العربیۃ والعدول الی ھذا التفسیرات البعیدۃ عن المعنی المبینۃ علی خیالات لا ترجع الی عقل و نقل و اعجب من ھذا اختیار ابن ضریر للاخر منھا مع طول باعہ فی علم الروایۃ والدرایۃ۔ یعنی مجھے بڑی حیرت آتی ہے اور میری سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ یہ جو بڑے بڑے آئمہ ہیں ان کو کس چیز نے اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ لغت عرب میں تین اور زیتون کے جو حقیقی معنی ہیں ان کو چھوڑ کر انہوںنے اور اَور معنے کرنے شروع کردیئے ہیں اور بعید از قیاس تفسیریں کرنی شروع کردیں جو ایسے خیالات پر مبنی ہیں جن کی نہ عقل تصدیق کرتی ہے نہ نقل تائید کرتی ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ تعجب ابن جریر پر آتا ہے (ابن جریر بہت بڑے مفسر اور محدث ہیں اور ان کی عقلی رائے بھی نہایت اعلیٰ پایہ کی ہوتی ہے) کہ وہ بھی آخری معنوں کی تصدیق کرتے ہیں کہ تین اور زیتون سے یا تو بیت المقدس مراد ہے یا پھر فلسطین کا علاقہ حالانکہ درایت اور روایت میں ان کو بڑا دخل حاصل ہے یعنی باوجود اس قدر علم و فضل کے انجیر اور زیتون کے سیدھے سادے معنے کرنے کی بجائے وہ ادھر اُدھر کی دور از قیاس باتوں میں چلے گئے ہیں۔
پھر صاحب فتح البیان لکھتے ہیں قال الفراء سمعت رجلا یقول التین جبال حلوان الی ھمدان والزیتون جبال الشام۔ یعنی فراء کہتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی سے سنا وہ یہ کہہ رہا تھا کہ تین سے مراد حلوان کے پہاڑ ہیں جن کا ہمدان تک سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے اور زیتون سے مراد شام کے پہاڑ ہیں۔ فراء جیسے آدمی کا یہ مضمون بیان کرنا ایک ایسی بات ہے جس پر واقعہ میں ہنسی آتی ہے۔ چنانچہ فتح البیان والوں نے یہاں ایک ایسا مزیدار فقرہ لکھا ہے جسے پڑھتے وقت مجھے ہنسی آگئی تھی وہ لکھتے ہیں ھل انت سمعت ھذ الرجل فکان ماذا فلیس بمثل ھذا تثبت اللغۃ ولا ھو نقل عن الشارع کہتے ہیں میاں اگر تم نے کسی آدمی سے ایسا سن بھی لیا تھا تو پھر ہوا کیا۔ کسی نے گپ ہانک دی تو تم اس کو لے اڑے۔ یہ بھی کوئی دانائی اور عقلمندی ہے۔ مان لیا کہ تم نے ایک آدمی سے یہ بات سنی تھی مگر کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ اس نے جو کچھ کہا تھا وہ قرآن کریم کی تفسیر ہوگئی۔ یہ ایک ایسا بے ساختہ فقرہ صاحب فتح البیان کے قلم سے نکلا ہے جس کی داد دینی پڑتی ہے۔ واقعہ میں یہ حیرت کی ابت ہے کہ فراء جیسے آدمی نے اس قسم کی بات نقل کردی ۔ وہ روایت یہ کرتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو یہ کہتے سنا تھا کہ تین اور زیتون سے یہ مراد ہے۔ حالانکہ وہ کوئی بچہ بھی ہوسکتا ہے۔ پاگل بھی ہوسکتا ہے لغت سے ناواقف بھی ہوسکتا ہے۔ ایک غیرمعروف الحال شخص کی ایک بیہودی بات پر قرآن کریم کی تفسیر کی بنیاد رکھنا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ یا تو وہ کہتے کہ میں لغت کو جانتا ہوں اس لئے میرے نزدیک اس کے یہ معنے ہیں یا فلاں ادیب سے میں نے ایسا سنا ہے یا فلاں قبیلہ میں اس کے یہ معنے کئے جاتے تھے مگر وہ کہتے یہ ہیں کہ میں نے ایک شخص سے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ زیتون سے یہ مراد ہے اور زیتون سے وہ مراد ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے غالب اور ذوق کہیں کہ ہم نے ایک گائوں کے جاہل اور اجڈ لڑکے کو فلاں شعرکے یہ معنے کرنے سنا۔ غرض فتح البیان والوں کا یہ فقرہ بڑا لطیف ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ اوّل تو مجھے یقین نہیں آتا کہ تم نے ایسا سنا ہو۔ لیکن اگر سن بھی لیا تھا تو اس پر قرآن کریم کی تفسیر کی بنیاد رکھنا کس طرح درست تھا۔ فتح البیان والے اگر اس اصول پر قائم رہتے تو بہت اچھا ہوتا مگر وہ خود بھی ایسی بہت سی باتیں کہہ گئے ہیں۔
قال محمد بن کعب الزیتون مسجد ایلیا۔ محمد بن کعب کہتے ہیں کہ زیتون سے مراد مسجد ایلیا ہے۔ و قیل انہ علی حذف مضاف ای منابت التین والزیتون بعض نے کہا ہے کہ یہاں حذف مضاف ہے اور مراد یہ ہے کہ ہم تین اور زیتون اگانے والی جگہوں کوپیش کرتے ہیں۔ قال النحاس لا دلیل علی ھذا من ظاہر التنزیل ولا من قول من لا یجوز خلافہ نحاس کہتے ہیں کہ اس توجیہہ کے متعلق قرآن کریم کی کوئی تصدیقی دلیل نہیں ملتی اور نہ کسی ایسے آدمی کا قول ملتا ہے جس کی بات کو ردّ کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔ قال الرازی اما الزیتون فھو فاکھۃ من وجہ و دواء من وجہ و یستصبح بہ۔ رازی کہتے ہیں کہ زیتون سے مراد وہی شے ہے جو ایک لحاظ سے میوہ ہے کہ لوگ اسے کھاتے ہیں اور ایک لحاظ سے دوا بھی ہے اور اس سے دیئے بھی جلائے جاتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں ومن رأی ورق الزیتون فی المنام استمسک بالعروۃ الوثقی اگر کوئی شخص خواب میں زیتون کے ورق دیکھ لے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ایک مضبوط اور نہ ٹوٹنے والا کڑا اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔
اب ہم تفسیر ابن کثیر کو دیکھتے ہیں ۔ اس میں لکھا ہے کہ قال القرطبی ھو مسجد اصحاب الکہف قرطبی کا بیان ہے کہ اس سے اصحاب کہف کی مسجد مرادہے۔ و ردی العوفی عن ابن عباس مسجد نوح الذی علی الجودی عوفی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس سے وہ مسجد نوح مراد ہے جو جودی پہاڑ پر ہے جہاں طوفان کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ٹھہری تھی۔ و قال بعض الائمۃ ھذہ محال ثلاثۃ بعث اللہ فی کل واحد منھا نبیا مرسلا من اولی العزم اصحاب ا شرائع الکبار بعض آئمہ کہتے ہیںکہ یہ تین اہم مقامات جن میں سے ہر مقام میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اولوالعزم اور صاحب شریعت ابنیاء کو بھیجا تھا۔ فلاول محلہ التین والزیتون و ھی بیت المقدس التی بعث اللہ فیھا عیسی ابن مریم علیہ السلام پہلے نبی کے اترنے کا محل تین اور زیتون کا مقام ہے اور اس سے مراد وہ بیت المقدس ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح ابن مریمؑ کو نازل کیا تھا۔ گویا ان کے نزدیک تین اور زیتون دونوں سے مراد بیت المقدس ہے گو بعض آئمہ نے صرف تین کے متعلق یہ کہا تھا کہ اس سے مراد بیت المقدس مرا دہے کیونکہ یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے تھے۔ والثانی طور سینین اور دوسرا مقام طور سینین ہے۔ وھو طور سیناء الذی کلم اللہ علیہ موسی بن عمران اوراس سے مراد وہ طور ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ بن عمران سے باتیں کی تھیں۔ والثالث مکۃ اور بلدالامین جس کا تیسرے مقام پر ذکر آتا ہے اس سے مراد مکہ ہے۔ وھذا البلد الامین الذی من دخل کان امنا اور یہی وہی بلد الامین ہے جس میں داخل ہوکر انسان کو امن حاصل ہوجا تا ہے۔ وھوالذی ارسل فیہ محمد ﷺ اور یہی وہ جگہ ہے جس میں رسول کریم ﷺ مبعوث ہوئے۔
اس کے بعد ابن کثیر والے لکھتے ہیں کہ وقالوا وفی اخرۃ التوراۃ ذکرھذہ الاماکن ثلاثۃ یعنی بعض مفسرین نے جو یہ معنے کئے ہیں کہ تین اور زیتون سے مراد تین اور زیتون کے پیدا ہونے کی جگہ ہے خصوصاً جہاں تین اور زیتون سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وہ مقام ہے جہاں آپ نازل ہوئے۔ طورِ سینین سے مراد وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور بلد الامین سے مراد وہ مکہ ہے جہاں رسول کریم ﷺ مبعوث ہوئے ان تینوں مقامات کا تورات کے آخر میں ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے جاء اللہ من طور سیناء واشرق من ساعیر و استعدن من جبال فاران یعنی ’’خداوند سینا سے آیا شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا‘‘ (استثناء باب ۳۳ آیت ۲) یہ ایک مشہور حوالہ ہے جو رسول کریم ﷺ کی بعثت کے متعلق بائبل میں پایا جاتا ہے اور میرے نزدیک یہ پہلا حوالہ ہے جو مفسرین نے صحیح طور پر پیش کیا ہے اور اس میں رسول کریم ﷺ کے متعلق پیشگوئی بھی پائی جاتی ہے ورنہ مفسرین بائبل کے جو حوالہ جات دیتے ہیں وہ اکثر غلط ہوتے ہیں یا تو وہ حوالے بائبل میں ملتے ہی نہیں اور اگر ملتے ہیں تو اس رنگ میں نہیں ہوتے جس رنگ میں مفسرین ان کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ پہلا حوالہ ہے جو انہوں نے صحیح طور پر پیش کیا ہے۔ چنانچہ وجاء اللہ من طور سیناء کے ساتھ انہوں نے بطور تشریح لکھا ہے یعنی الذی کلم اللہ علیہ موسی اور اشرق من ساعیر کے ساتھ لکھا ہے یعنی جبل بیت المقدس الذی بعث اللہ من عیسی اور واستعلن من جبال فاران کے ساتھ لکھا ہے۔ یعنی جبال مکۃ التی ارسل اللہ منھا محمد ﷺ۔ پھر اس کے بعد وہ ایک نوٹ میں لکھتے ہیں فذکرھم مخبرا عنھم علی الترتیب الوجودی بحسب ترتیبھم فی الزمان یعنی اس پیشگوئی میں جو بائبل میں بیان کی گئی ہے ان تینوں انبیاء کا جو ذکر کیا گیا ہے وہ اسی ترتیب سے ذکر ہے جس ترتیب کے ساتھ یہ تینوں انبیاء یکے بعد دیگرے آئے۔ پہلے طور سیناء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا ہے پھر اشرق من ساعیر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا ہے پھر استعلن من جبال فاران میں رسول کریم ﷺ کا ذکر کیا ہے کیونکہ اسی ترتیب سے یہ انبیاء آئے تھے۔ پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے ، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے اور آخر میں رسول کریم ﷺ آگئے گویا جس ترتیب سے ان انبیاء نے ظاہر ہونا تھا اسی ترتیب سے اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کا بائبل میں ذکر کیا ہے۔ ولھذا اقسم بالاشرف ثم الاشرف منہ ثم بالاشرف منھما یہاں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عبارت رہ گئی ہے یا ترتیب زمانی چونکہ پہلے بیان ہوچکی تھی اس لئے انہوں نے خیال کرلیا کہ لوگ خودبخود اس بات کو سمجھ جائیں گے کہ قرآن کریم نے بائبل کی ترتیب کے خلاف پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اور پھر رسول کریم ﷺ کا جو ذکر کیا ہے تو درجہ کی ترتیب کے لحاط سے کیا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں قرآن کریم نے زمان ترتیب کو نہیں لیا بلکہ درجہ کی ترتیب کو لیا ہے اور اس لئے پہلے تین اور زیتون کا ذکر کیا ہے جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام مراد ہیں کیونکہ وہ باقی دو انبیاء سے درجہ میں چھوٹے ہیں۔ اس کے بعد طورِ سینین میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ وہ درجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بڑے ہیں۔ آخر میں وھذ البلد الامین کہہ کر رسول کریم ﷺ کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ آپ عیسیٰؑ اور موسیٰؑ دونوں سے افضل ہیں۔ یہ توجیہہ ابن کثیر والوں کی نہایت معقول اور درست ہے میں نے دیکھا ہے کہ اکثر مقامات پر ان کی عقل خوب چلتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بائبل نے تو ان کی ترتیب وجودی کومدنظر رکھا تھا مگر قرآن کریم نے ان کی ترتیب مقامی کو مدنظر رکھا ہے۔ وہاں یہ ذکر تھا کہ پہلے کون ہوگا۔ پھر کون ہوگا اور پھر اس کے بعد کون ہوگا۔ لیکن یہاں یہ ذکر ہے کہ ان تینوں میں سے چھوٹا درجہ کس کا ہے اور پھر اس سے بڑا درجہ کس کا ہے اور پھر ان دونوں سے بڑا درجہ کس کا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو میں نے اور کسی تفسیر میں نہیں دیکھی۔ باقی تفاسیر کی تو یہ حالت ہے کہ جہاں حضرت مسیحؑ کا ذکر آجاتا ہے وہ بوجہ ان روایتوں کے جو ابوہریرہؓ کی مہربانی سے احادیث میں آگئی ہیں ڈرجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ ہم حضرت مسیحؑ سے کسی اور نبی کو افضل قرار دے کر آپ کی ہتک کے مرتکب ہوجائیں مگر ابن کثیر نے جو نہایت اعلیٰ پائے کے مفسر ہیں قطعی اور حتمی طور پر حضرت مسیح ناصری کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کم درجہ رکھنے والا قرار دیا ہے۔
مولوی محمد علی صاحب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔انجیر کا ذکر دوسری جگہ قرآن کریم میں نہیں ہے مگر زیتون کا سورہ نور میں ذکر ہے جہاں نور محمدی کو زیتون سے مشابہت دی ہے دوسری طرف بائیبل میںانجیر کو سلسلہ موسویہ سے مشا بہت دی ہے چنانچہ یرمیاہ باب۲۴میںلکھا ہیــ ــدو ٹوکریاںانجیروں کی خداوندکی ہیکل کے سامنے دھری تھیںایک ٹوکری میں اچھے سے اچھے انجیر تھے اور دوسری ٹوکری میںبرے سے برے انجیر اورپھر آگے چل کر اچھے انجیروں کو بنی اسرائیل کا اچھے لوگ قرار دیاہے اور برے انجیروں کو برے لوگ اور حضرت عیسی علیہ اسلام کا مشہور انجیر کے درخت پر *** کر نے کے واقعہ میںبھی در حقیقت اسی طرف اشارہ ہے دیکھو باب متی ۲۱ اور جب صبح کوشہر میں جا نے لگا اسے بھوک لگی تب انجیر کا ایک درخت راہ کے کنارے دیکھ کر اس پاس گیا اور جب پتوں کے سوا اس میں کچھ نہ پایا تو کہا اب تجھ میں کبھی پھل نہ لگے وہیںانجیر کا درخت سوکھ گیا پھر لکھتے ہیںبے موسم پھل نہ لگنے پر درخت پرکیا خفگی ہو سکتی تھی اصل میںیہ ایک تمثیل تھی انجیر کا درخت سلسلہ بنی اسرائیل کا قائم مقام تھا جسے لفظ پرست انجیل نویسوںنے واقعہ کارنگ دے دیا۔مگر یہ بات بھی ویری کی طرح کہی گئی ہے واقعہ یہ ہے کہ انجیل کے ما ننے والے بھی اس واقعہ کوظاہری نہیںمانتے بلکہ وہ اس کو ایک تمثیلی واقعہ قرار دیتے ہیںچنانچہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح مو عود علیہ اسلام نے جب اس واقعہ سے حضرت مسیح ناصری کے اخلاق کے متعلق استدلال کیا اور لکھا کہ کیا یہی حضرت مسیح کے اخلاق تھے کہ ایک انجیر کہ ایک انجیر کے درخت پر محض اس وجہ سے آپ نے *** کر دی کہ اس پر پھل نہیں تھا ۔حالانکہ اس میں درخت کا کوئی قصور نہ تھا تو عیسائیوں نے اس کے جواب میں یہ لکھا کہ ہم اس کو ظاہری واقعہ تسلیم نہیں کرتے۔ خود انجیل سے ثابت یہ کہ وہ پھلوں کا موسم نہیں تھا اس لئے یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ حضرت مسیحؑ ایک انجیر کے درخت کی طرف اس کے پھل کی امید میں ایسے موسم میں جاتے جس میں پھل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ درحقیقت انجیر کے درخت سے یہودی لوگ مراد ہیں۔ حضرت مسیح ؑ نے چاہا کہ یہودی قوم ان پر ایمان لا کر زندہ ہو جائے اور وہ بھی روحانی پھل پیدا کرنے لگے مگر یہودی قوم نے آپ کو ماننے سے انکار کر دیااس پر حضرت مسیح ؑ نے *** کی جس کا مفہوم یہ تھا کہ آئندہ یہ قوم خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے ہمیشہ محروم رہے گی مولوی محمد علی صاحب نے سمجھا ہو گا کہ میں ایک بہت بڑا نکتہ نکال کر پیش کر رہا ہوں حالانکہ عیسائی بھی یہی معنی کرتے ہیں کہ اس واقعہ میں یہودیوں کی تباہی کی طرف اشارہ تھا۔اور مراد یہ تھی کہ انجیر کے درخت پر اب پتے ہی باقی رہ گئے ہیں پھل نہیں ۔ یعنی میں صرف ظاہرہی ظاہر رہ گیا ہے۔ پھل اور روحانیت ان میں نہیں رہی اس لئے آئندہ یہ درخت سوکھ جائے گا۔ یعنی کوئی نبی ان میں نہیں آئے گا ۔ پس انجیر سلسلہ اسرائیل کا قائم مقام ہے اور زیتون سلسلہ محمدیہ کا اور انجیر اور زیتون الگ مثال نہیں ہیں بلکہ طور اور بلدالامین ہی کی طرف اشارہ کرتی ہیں پہلے ان کے ذریعہ سے مخفی اشارہ موسوی اور محمدی سلسلہ کی طرف کیا گیا پھر طور و بلد الامین کہ کر اس اشارہ کو واضع کر دیا گیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ لکھتے ہیں ( خلاصہ میرے الفاظ میں ہے) کہ ان کی قسم اس لئے کھائی یعنی تین اور زیتون کی کے علاوہ غذا کے دواکے طور پر بھی یہ استعمال ہوتی ہیں۔ کبھی طبیب تین تجویز کرتا ہے کبھی زیتون۔ مطلب یہ کہ ایک زمانہ میں خداتعالیٰ نے طور سینین کا نسخہ استعمال کیااور اس زمانہ میں بلدالامین کا نسخہ اس نے تجویز کر دیا ۔ گویا وہی لف و نشر کی مثال ہے ۔ تین سے مراد بنی اسرائیل اور زیتون سے مراد بلدالامین سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں گویا وہ مضمون جو مولوی محمد علی صاحب نے بیان کیا ہے۔در حقیقت حضرت خلیفہ اولؓ کا بیان کردہ ہے۔ اسی طرح دو ٹوکریوں کی مثال جو مولوی محمد علی صاحب نے پیش کی ہے یہ بھی حضرت خلیفہ اول ؓ کی زبان سے میں نے خود سنی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ آپ کے درس کے چھپے ہوئے نوٹوں میں یہ بات نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ مفتی محمد صادق صاحب اور قاضی اکمل صاحب نے یہ نوٹ لکھے ہیں ۔ اور وہ مضمون کا بہت سا حصہ چھوڑ کر صرف مختصر نوٹ لینے پر اکتفا کیا کرتے تھے لیکن پھر بھی ان نوٹوں میں یہ بات موجود یہ کہ تین اور زیتون ان دو چیزوں کو قسمیہ بطور شہادت کے اس لئے بیان کیا کہ علاوہ غذا کے جسمانی امراض کے لئے بھی بطور دوا کی یہ دونوں چیزیں استعمال کی جاتی ہیں کبھی طبیب تین تجویز کرتا ہے تو کبھی تبدیل نسخہ کے لئے زیتون مفید سمجھتا ہے ۔ گویاحضرت خلیفہ اول ؓ کے مضمون میں ایک زائد بات یہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں جس طرح طبیب کبھی تین کو چھوڑ کر زیتون استعمال کراتا ہے اسی طرح خدا نے اگر تین والے نسخے کو بدل کر زیتون والا نسخہ استعمال کرانا شروع کر دیا تو اس میں اعتراض کی کونسی بات ہے۔ خدا حکیم ہے اور وہ ہمیشہ مرض کے مطابق آسمان سے علاج نازل کیا کرتا ہے۔ جب تین کے نسخہ کی ضرورت تھی اس نے تین نازل کر دی اور جب زیتون کے نسخہ کی ضرورت تھی اس نے زیتون نازل کر دیا۔ اس تبدیلی سے خدا تعالیٰ پر کوئی اعتراض عائد نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس کی حکمات پر ایمان لانا پڑتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے بندوں کے فائدہ اور مخلوق کی نفع رسانی کے لئے کرتا ہے۔ یہ مضمون جو نہایت ہی لطیف تھا مولوی محمد علی صاحب نے چھوڑ دیا کیونکہ مضمون ظاہر کر رہا تھا کہ اس نکتہ کو بیان کرنے والا کوئی طبیب ہے۔ انہوں نے وہ حصہ تو لے لیا جس کے بیان کرنے سے حضرت خلیفہ اول ؓ کی طرف اشارہ نہیں ہوتا تھا ۔ مگر وہ حصہ ترک کر دیا جس کو بیان کرنے سے آپ کی طرف اشارہ ہو جاتا تھا۔بے شک مولوی محمد علی صاحب نے یہ مضمون بیان کر کے لوگوں سے واہ وا لے لی ہو گی اور وہ ہزاروں غیر احمدی جو ان کی تفسیر میں اس نکتہ کو پڑھتے ہوں گے خیال کرتے ہوں گے کہ مولوی محمد علی صاحب نے نہایت عجیب بات نکالی ہے مگر افسوس ہے کہ جس شخص نے قرآن کریم کا یہ لطیف نکتہ نکال کر پیش کیا تھا اس کا ذکر انہوں نے چھوڑ دیا اور اس کی محنت کو اپنی طرف منسوب کر لیا پھر جو کچھ انہوں نے بیان کیا ہے وہ بھی مکمل مضمون نہیں بلکہ جیساکہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں وہ حضرت خلیفہ اول ؓ کے مضمون کے اس حصہ کو چھوڑ گئے ہیں کہ جس طرح طبیب حالات کی تبدیلی پر نسخہ تبدیل کر دیتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے تین کی بجائے زیتون کا نسخہ لوگوں کو استعمال کرانا شروع کر دیا۔ یہ نکتہ نہایت ہی شاندار ہے کیونکہ رسول کریمﷺپر ایک نئی شریعت کے نزول سے لازمی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آخر وجہ کیا ہے کے اللہ تعا لیٰ نے موسوی شریعت کو کالعدم قرار دے دیا اوراس کی جگہ محمدی شریعت کو نازل کر دیا ۔اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ کیا طبیب جب کسی مریض کے لیے نسخہ تجویز کر تا ہے تو ہمیشہ ایک ہی نسخہ رکھتا ہے؟ تم جانتے ہو کہ حلات کے بدلنے پر ہر سمجھدار طبیب نسخہ میں تبدیلی کر دیا کرتا ہے کبھی وہ تین استعمال کراتا ہے اور کبھی زیتون ۔کبھی ایک دوا استعمال کراتا ہے اور کبھی دوسری ۔جب روزانہ دنیا میں یہ نظارہ نظرآتا ہے اور تم جانتے ہو کہ کامل طبیب کی علامت یہی ہوتی ہے کہ وہ حالات کے مطابق نسخہ بدل دے تو تمہیں اللہ تعا لیٰ کے اس فعل سے کیوں تکلیف ہوئی اور کیوں تمہارے دل میں یہ اعتراض پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ اس نے موسوی شریعت کی بجاے محمدی شریعت کیوں نازل کر دی ہے ؟ غرض مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفہ اولؓ کے معنی اول تو ادھورے نقل کئے ہیں اور پھر آپ کا حوالہ دینے سے وہ کترا گئے ہیں حالانکہ دیانتداری کا تقاضا یہ تھا کہ جس شخص نے یہ معنی نکالے تھے اسکا ذکر بھی کیا جاتا۔میں نے حضرت خلیفہ اول ؓسے یہ بھی سنا ہوا ہے کہ تین اور زیتون مسیح کے لیے۔ طور موسی کے لیے اور بلدالامین رسول کریم ﷺ کے لیے ہے گویا ابن کثیر والے مضمون کو بھی آپ پیش کیا کرتے تھے ۔
سابق مفسرین کے بیان کر دہ معنوں سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ علماء کو شروع سے ہی یہ خیال تھا کہ تین و زیتون مثالی رنگ میں استعمال ہوے ہیں اور اسکی طرف انکی طبائع کا شدت سے رحجان پایا جاتا ہے ۔بے شک بعض نے تین اور زیتون سے ظاہری تین اورظاہری زیتون ہی مراد لیا ہے مگر اکثر نے ان الفاظ کو استعارہ قرار دے کر نئے معانی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے چنانچہ کسی نے اس سے بیت لمقدس مراد لیا ہے ۔کسی نے بلاد فلسطین ۔کسی نے مسجد اقصیٰ اور مسجد نوح۔گو یہ طریق جیسا کہ اوپر بیان ہو چکاہے زبردستی کا ہے اور تاویل بعیدہ کا ایک وسیع دروازہ کھول دیتا ہے مگر جہاں تک ان لوگوں کے معنوں کا تعلق ہے جو اس جگہ حذف مضاف کہتے ہیں ان پر غیر معقولیت کا الزام نہیں لگایا جا سکتااس میں کوئی بعید بات نہیں کیونکہ یہ عربی کا عام قاعدہ ہے کہ کبھی حذف مضاف کرکے صرف مضاف الیہ کو بیان کر دیا جاتا تو اسی رنگ میں اگر یہاں بھی تین اور زیتون کا استعمال ہو گیا ہو تو اس میں حرج کی کونسی بات ہے۔ قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا وسئل القریۃ التی کنا فیھا والعیر التی اقبلنا فیھا و انا لصادقون (یوسف۱۰ع۴) تو ہمارے متعلق گائوں سے پوچھ لے یا تو ہمارے متعلق گدھوں سے پوچھ لے حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ نہ گائوں بولا کرتا ہے اور نہ گدھے کسی سے گفتگو کیا کرتے ہیں ۔ دونوں باتیں ناممکن ہیں اور دونوں کو عقلی طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا مگر قرآن کریم نے قریہ اور عیر سے ہی سوال کرنے کو کہا ہے ۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ گو یہاں قریہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر مراد اہل القریۃ سے ہے یعنی بستی والے اور گو صرف عیر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر مراد یہ ہے کہ گدھوں کے مالکوں سے پوچھ لو ۔اسی طرح قرآن کریم میں اور بھی بہت سی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ قرآن کریم کثرت سے اس محاورہ کو استعمال فرماتا ہے۔ ہاں ایسے مواقع پر قرائن قویہ موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اگر قرائن قویہ کے بغیرایسے معنی کئے جائیں تو بے شک معقول اور غیر معقول کے درمیان کی دیوار ٹوٹ جاتی ہے۔ چنانچہ و سئل القریۃ التی کنا فیھا والعیر التی اقبلنا فیھا میں یہ ایک نہایت کھلا قرینہ ہے کہ بستی کلام نہیں کیا کرتی یا گدھے بولا نہیں کرتے اور جب یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں تو ان سے سوال کرنے کے بجز اس کے اور کوئی معنی نہیں ہو سکتے کہ بستی سے تعلق رکھنے والے جو لوگ ہیں ان سے دریافت کیا جائے یا گدھوں کے جو مالک ہیں ان سے اصل حقیقت معلوم کی جائے اسی طرح اگر بعض لوگوں نے والتین والزیتون کے یہ معنی لئے ہیں کہ اس دے مراد وہ علاقے ہیں جہاں تین اور زیتون دونوں کثرت سے ہوتی ہیں ۔ تو اس میںعجیب بات کونسی ہو گئی۔ قرآن کریم نے اپنے کلام میں لازماً عربی محاورات اور عربی طریق گفتگو کو مد نظر رکھے گا ۔ جب عربی زبان میں یہ قاعدہ عام ہے کہ کبھی حذف مضاف کر کے صرف مضاف الیہ بیان کر دیتے ہیں ۔تو کوئی وجہ نہیں کہ قرآن کریم اس محاورہ کو استعمال نہ فرمائے ۔باقی رہا یہ سوال کہ اس جگہ قرینہ قویہ کونسا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ قرینہ اگلے دو الفاظ ہیں یعنی طور اور بلدالامین ۔ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ طور ایک مقام ہے جو ایک نبی کی وجہ سے معزز ہوا اور مکہ بھی ایک مقام ہے جو ایک نبی کی وجہ سے معزز ہوا۔ پس جبکہ تین اور زیتون کے معطوف دو مقام ہیں جو ایک ایک نبی کی وجہ سے معزز ہوئے تو عقل ضرور اس امر کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ تین و زیتون میں بھی کسی مقام کا نام ہو گا۔ یا کسی نہ کسی نبی سے تعلق رکھنے والی چیز ہو گی جس کی وجہ سے اسے طور اور مکہ کی طرح خدا تعالیٰ کی قدرت اور شوکت کے ثبوت میں پیش کیا جا سکے۔ اسی طرح ابن کثیر والوں نے جو اس سوال کا جواب دیا ہے کہ ترتیب قرآنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہلے کیوں بیان کیا گیا ہے وہ ایک نہایت لطیف جواب ہے اور ان کی نگاہ کی باریکی کی قدر کرنی پڑتی ہے۔ مولوی محمد علی صاحب نے جو معنی کئے ہیں ان کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ وہ درحقیقت حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے معنی نہایت لطیف ہیں کہ ایک قوم کو تین سے مشابہت دی گئی ہے اور دوسری کو زیتون سے ۔اور بتایا گیا ہے کہ ایک وقت ہم نے تین کا نسخہ تجویز کیا تھا اور دوسرے وقت میں زیتون کا کیونکہ ہم کامل طبیب ہیں اور جیسی جیسی بیماری ہوتی ہے ویسا ہی اس کا علاج کرتے ہیں۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ اس سے زیادہ اس جگہ یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ تین مزے میں تو اچھی ہوتی ہے مگر وہ جلدی سڑ جاتی ہے اس کے مقابل میں زیتون علاوہ اس کے کہ پھل کا کام دیتا ہے اس کا روغن کثرت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے اور اچار میں بھی ڈالاجاتا ہے جو اس کو دیر تک قائم رکھتا ہے۔ گویا تین تو اپنی ذات میں بھی قائم نہیں رہ سکتی اور زیتون کے ساتھ دوسری چیزیں بھی قائم رکھی جاتی ہیں اور ان دو مثالوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ موسوی تعلیم انجیر کی طرح سڑ جانے والی تھی۔اب ہم تمہیں وہ تعلیم دیں گے جو نہ صرف سڑنے اور خراب ہونے سے محفوظ رہے گی بلکہ انسانی ذہنوں میں ایک ایسا نور پیدا کر دے گی کہ اس کے ذریعہ سے نئے سے نئے معارف اور نئے سے نئے علوم انہیں اس کتاب سے حاصل ہوتے رہیں گے۔ جیسے سورۃ نور میں زیتون کے تیل کی تعریف کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یکاد زیتھا یضیء ولو لم تمسسہ نار (نور۵ع۱۱)۔ یہ تیل ایسا اعلیٰ درجہ کا ہے کہ خواہ آگ اس کے قریب نہ لائی جائے تب بھی وہ خودبخود بھڑک اٹھتا ہے۔ ایسی اعلیٰ درجہ کی چیز کے ساتھ الٰہی کلام کو مشابہہ قرار دینے کے معنی یہی ہیں کہ وہ کلام جو اب دنیا میں نازل کیا جائے گا نئے سے نئے علوم اور معارف کو دنیا میں قائم کرنے کا ایک ذریعہ ہو گا۔ اور جہالت اور معصیت کی تاریکیوں کو دور کر دے گا۔ ان دونوں معنوں میں جو اوپر بیان کئے جا چکے ہیں ترتیب طبعی پائی جاتی ہے۔ ایک میں درجہ کے لحاظ سے اور ایک میں زمانہ کے لحاظ سے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ۔ ان مثالوں سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہایت معتدل التقویٰ بنایا ہے ۔کیونکہ جب بھی خدا تعالیٰ کے نبی ائے آخر دنیا ان کو مان گئی۔ اور وہ پہلے معنی جو مفسرین نے بائبل کی اس پیش گوئی کو مد نظر رکھتے ہوئے کئے ہیں کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا ( استثناء باب ۳۳ آیت ۲) اور یہ سمجھ لو کہ یہی پیش گوئی اس جگہ بیان کی گئی ہے۔تو اس لحاظ سے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم کے یہ معنی ہوں گے کہ ان میں سے جس نبی کو بھی دیکھ لو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ آخر وہی فتح یاب ہوا۔ بیشک دنیا نے ان کی مخالفت کی۔ ان کو مٹانے کے لئے اس نے مختلف قسم کی تدابیر اختیار کیں مگر آخر ان کی تعلیم کو ماننے پر مجبور ہو گئی۔ اس یہ نتیجہ نکل آیا کہ ہم نے انسان کو نہایت اعلیٰ درجہ کی تقویم میں پیدا کیا ہے۔ موسیٰ ؑ آئے تو ہم نے انہیں فتح دی۔ عیسی ؑ آئے تو ہم نے انہیں فتح دی۔ اب تم محمدرسول اللہ ﷺ کو نہیں مانتے مگر ایک دن تمہیں اس کی تعلیم کے سامنے سر جھکانا پڑے گا اور اس طرح ثابت ہو جائے گا کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے۔
غرض حضرت خلیفہ اولؓ کے معنے بھی بڑے لطیف ہیں اور پرانے مفسرین کے بعض معنے بھی بہت اچھے ہیں مگر میں نے اس سورۃ پر مزید غور کیا کہ کیا ایسے لطیف اور واضح معنوں کے ہوتے ہوئے پھر کوئی اور معنے بھی ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ جب میں نے غور کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان آیات کا ایک نیا علم بخشا۔ اس کے لحاظ سے یہاں نہ دو زمانوں کا ذکر ہے نہ تین کا بلکہ چار زمانوں کی خبر دی گئی ہے اور اس طرح ایک نہایت ہی لطیف مضمون بیان کیا گیا ہے جو لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم کے ساتھ گہرے طور پر تعلق رکھتا ہے۔ بیشک اگر ہم موسیٰؑ کی مثال لے لیں یا عیسیٰؑ کی مثال لے لیں یا رسول کریم ﷺ کی مثال لے لیں تب بھی یہ آیت اپنے معانی کے لحاظ سے پوری طرح چسپاں ہوجاتی ہے مگر اس صورت میں انسان کو احسنِ تقویم میں پیدا کرنے کی مثال زمانہ کے صرف ایک جزو کے ساتھ تعلق رکھے گی۔ کامل مثال تب ثابت ہوتی ہے جب ساری دنیا پر مجموعی لحاظ سے نظر ڈالنے کے بعد یہ نتیجہ پیدا ہوا کہ انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیاگیا ہے۔ اگر ساری دنیا پر مجموعی نظر ڈالنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچیں کہ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم تو اس صورت میں یقینا یہ پہلے سے زیادہ زبردست دلیل بن جائے گی اور قرآن کریم کے حسن اور اس کی شان کو دوبالا کردے گی۔
غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس سورۃ سے پہلے کی چند سورتوں میں ہجرت کا ذکر چلا آتا ہے۔ چنانچہ پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ تمہیں ہجرت کرنی پڑے گی پھر یہ بتایا گیا ہے کہ ہجرت کس طرح ہوگی اور پھر یہ بتای اگیا ہے کہ ہجرت کے بعد تمہیں کس طرح غلبہ حاصل ہوگا۔ کفا کیونکر مغلوب ہوں گے اور اسلام کو کس طرح شوکت اور عظمت حاصل ہوگی۔ یہ مضمون سورئہ فجر سے شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد کی ہر سورۃ میں اشارۃً یا وضاحتاً کسی نہ کسی رنگ میں ہجرت کا ذکر چلا آتاہے۔ ہجرت کا پہلا اثر انسان کی طبیعت پر یہ ہوتا ہے کہ ہار گئے، بھاگ گئے ، شکست کھاگئے ۔ جب بھی ہجرت کا ذکر کیا جائے گا دشمن تالیاں پیٹنے لگ جائے گا کہ لو اب بھاگنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج تو ہم یہاں سے جارہے ہیں مگر کچھ عرصہ کے بعد پھر فتح حاصل کرکے واپس آئیں گے تب بھی دشمن حقارت کی ہنسی ہنستا ہے اور کہتا ہے فتح کو تو میں نہیں مانتا مگر اتنا تو تم بھی تسلیم کرتے ہو کہ اس وقت تم میرے مقابلہ سے بھاگ رہے ہو۔
غرض ہجرت پر شیطان کو ایک خوشی حاصل ہوتی ہے۔کیونکہ بظاہر شیطان جیت جاتا ہے اور نبی ہارجاتا ہے گویا شیطان کی فتح کی ایک ظاہری علامت قائم ہوجاتی ہے اور کمزور دل لوگ ڈر جاتے ہیں کہ کیا اس کے نتیجہ میں اب یہ سلسلہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے ہونے کا مدعی ہے تباہ تو نہ ہوجائے گا۔ اس کا بانی تو کہتا تھا کہ ہم جیت جائیں گے اور دشمن ہارجائے گا۔ مگر ہوا یہ کہ خود ہی دشمن سے ڈر کر بھاگ رہا ہے۔ پس چونکہ ہجرت پر شیطان کو ایک ظاہری فتح حاصل ہوتی ہے اور کمزور ایمان والوں کے قدم ڈگمگاجاتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں ہجرت کی چار مثالیں بیان فرمائی ہیں اور بتایا ہے کہ اس سے پہلے شیطان نے تین دفعہ بظاہر خداتعالیٰ کے نبیوں کو شکست دی تھی اور ان کو دق کرکے ان کے وطن سے نکال دیا تھا مگر آخر نتیجہ کیا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی پردہ پوشی فرمائی اور ان کی شکست کو فتح میں بدل دیا۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا ۔ تم ہمارے رسول کو اس قدر تکالیف پہنچائو گے آخر وہ مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوجائے گا اور تم خوش ہو گے کہ تم نے اسے شکست دے دی اور اسے اپنے شہرمیں سے نکال دیا ۔ مگر یا درکھو آخر تم کو ہی ذلیل ہونا پڑے گا۔ چنانچہ ہم تمہارے سامنے تین مثالیں پیش کرتے ہیں۔ تینوں دفعہ شیطان نے منہ کی کھائی اور ان انبیاء کا اپنے وطن سے نکلنا ہی دشمن کی تباہی کا موجب بن گیا۔
پہلی مثال آدمؑ کی ہے ۔ آدم کو بظاہر شیطان سے شکست ہوئی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک درخت کے پاس جانے سے انہیں منع کیا تھا جس کے پاس وہ شیطان کے بہکانے کے نتیجہ میں چلے گئے اور انہیں کئی قسم کی تکالیف میں مبتلا ہوناپڑا۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فقلنا یاادم ان ھذا عدولک ولزوجک فلا یخرجنکما من الجنۃ فتشقی ان لک الا تجوع فیھا ولا تعری و انک لا تظمؤ ا فیھا ولا تضحی فوسوس الیہ الشیطان قال یادم ھل ادلک علی شجرۃ الخلد و ملک لا یبلی فاکلا منھا فبدت لھما سواتھما وطفقا یخصفان علیھما من ورق الجنۃ و عصی ادم ربہ فغوی ثم اجتباہ ربہ فتاب علیہ و ھدی (طٰہٰ ۷ع۱۶) یعنی ہم نے آدم کو جنت میں رکھا تو شیطان ان کا مدمقابل بن کر کھڑا ہوگیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آدم سے فرمایا۔ اے آدم یہ تیرا دشمن ہے اور تیری بیوی یا تیرے ساتھیوں کا بھی دشمن ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکال دے اور تم تکلیف میں پڑ جائو۔ تیرے لئے خدا کا فیصلہ یہی ہے کہ تو اس جنت میں نہ بھوکا رہے نہ ننگا، نہ پیاسا رہے اور نہ گرمی کی تکلیف تجھے ستائے۔ جب خدا نے یہ کہا تو شیطان کو اور غصہ چڑھا کہ اچھا میرے مقابلہ میں اب اس کے غلبہ اور کامیابی کی خبریں دی جارہی ہیں۔ چنانچہ شیطان نے اپنا بھیس بدلا اور اس نے آدم کے پاس آکر کہا۔ کیا میں آپ کو ایک ایسے درخت کا پتہ دوں جس کا پھل کھانے سے آپ کو دائمی حیات حاصل ہوسکتی ہے اور ایسی حکومت کا آپ کو پدہ دوں جو کبھی تباہ نہیں ہوگی۔ جب اس طرح کی چکنی چپڑی باتیں اس نے کیں تو دھوکہ کھاجانے کی وجہ سے آدم اور اسکی جماعت نے یا آدم اور اس کی بیوی نے اس درخت کا پھل کھالیا اور چونکہ آدم کا یہ فعل خدائی منشاء کے خلاف تھا اس لئے یکدم اس فعل کے برے نتائج ظاہر ہونا شروع ہوگئے اور آدم کی آنکھیں کھل گئیں کہ اس نے خدائی منشاء کی خلاف ورزی کرکے سخت غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ اس نے سمجھا تھا کہ یہ کامیابی حاصل کرنے کا طریق ہے مگر ہوا یہ کہ دشمن کی بات مان کر اس کی مشکلات اور بھی بڑھ گئیں اور وہ فتوحات جو اسے پہلے حاصل ہورہی تھیں ان میں یکدم روک پیدا ہوگئی۔
شیطان نے آدم کو ورغلانے کا یہی ڈھنگ نکالا تھاکہ آپس کے تعلقات سے بہت فائدہ ہوگا۔ رشتہ داری کے تعلقات بڑھ جائیں گے۔ دوستانہ تعلقات بڑھ جائیں گے ۔ محبت اور پیار کے تعلقات بڑھ جائیں گے اور اس طرح بہت جلد ترقی حاصل ہوجائے گی۔ پھر اس نے کہا آخر خدا کا بھی تو یہی منشاء ہے کہ تمہیں ترقی حاصل ہو اگر ایک دوسرے سے مل کر اور آپس کی مغائرت کو دور کرکے یہ ترقی حاصل ہوجائے تو خدا کو کب ناپسند ہوگی۔ اس کو تو بہرحال یہ بات اچھی لگے گی۔ آدم اس کے دھوکہ میں آگئے اور انہوں نے دشمن سے صلح کرلی۔ صلح کرنے کی دیر تھی کہ یکدم ان کی فتوحات رک گئیں، کامیابیاں جاتی رہیں اور اس باہمی میل جو کے بدنتائج ظاہر ہونے شروع ہوگئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فبدت لھما سواتھما کہ درخت کا پھل کھانے سے ان کا ننگ ظاہر ہونا شروع ہوگیا اور اس فعل کے برے نتائج ان پر روشن ہوگئے۔ جب آدم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہیں معلوم ہوا کہ شیطان کی طرف صلح اور محبت کاہاتھ بڑھا کر انہوںنے خطرناک غلطی کی ہے تو اس غلطی کے ازالہ کیلئے طفقا یخصفان علیھما من ورق الجنۃ انہوں نے جنت کے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانکنا شروع کردیا۔ وعصی ادم ربہ فغوی اور آدم نے خدا کے حکم کی نافرمانیکی تھی جس سے وہ تکلیف میں مبتلا ہوا۔ ثم اجتباہ ربہ مگر پھر خدا نے اسے بزرگی دے گی اور اس نے ورق الجنۃ سے اپنے آپ کو ڈھانکنا شروع کردیا اور خداتعالیٰ نے اسے وہ راستہ دکھادیا جو اسے اور اس کی جماعت کو کامیابی کی منزل کی طرف لے جانے والا تھا۔ اب دیکھو یہاں شیطان نے آدم کو دھوکا دے کر بظاہر اسے شکست دے دی تھی مگر آدم نے فوراً ورق الجنۃ سے اپنے آپ کو ڈھانکنا شروع کردیا اس کی شکست فتح سے بدل گئی اور آخر آدم ہی کامیاب رہا۔ ورق کے معنے زینت کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ لغت میں لکھا ہے الورق: جمال الدینا و بھجتھا کہ دنیا کی خوبصورتی اور اس کے حسن کو ورق کہتے ہیں۔ اسی طرح ورق کے معنے نسل کے بھی ہیں۔ چنانچہ عربی زبان کا محاورہ ہے انت طیب الورق اور اس محاورہ سے مراد یہ ہوتی ہے کہ تو طیب النسل ہے ان دونوں محاوروں کے لحاظ سے فطفقا یخصفان علیھما من ورق الجنۃ کے معنے یہ ہوئے کہ آدم نے جنت کی زینت اور جمال سے اپنے آپ کو ڈھانکنا شروع کردیا اور جنت کاجمال اس کے مومنین ساکنین ہوتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے معنوں کی رو سے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ آدم نے پاکیزہ نسل کے ذریعہ سے شیطانی فریب کا ازالہ کرنا شروع کیا اور وہ کامیاب ہوگیا۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ورق الجنۃ کا تعلق انجیر سے کیا ہوا۔ ہر ایک درخت کے پتے ورق الجنۃ کہلاسکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول ہم علم تعبیرالرئویا کو دیکھتے ہیں تو اس میں لکھاہے کہ التین فی المنان یفسر بالصلحاء و خیارالناس یعنی جب کوئی شخص رئویا یا کشف کی حالت میں انجیر کا درخت دیکھے تو اس ے معنے صالح اور نیک لوگوں کے ہوتے ہیں۔ یہی ورق الجنۃ کے معنے تھے کیونکہ ورق پاکیزہ نسل کو کہتے ہیں اور ورق الجنۃ کے معنے تھے جنت کی پاکیزہ نسل اور جنتی نسل صلحاء اور مومن لوگ ہی ہوتے ہیں۔ پس ورق الجنۃ کا ترجمہ تعبیر الرئویا کے مطابق انجیر کے پتے ہوا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا آدم کے واقعہ کے ساتھ خصوصیت سے انجیر کا کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ اس غرض کیلئے جب ہم بائبل کو دیکھتے ہیں تو اس میں یہ لکھا ہوا پاتے ہیں:
’’اور سانپ میدان کے سب جانوروں سے جنہیں خداوند خدا نے بنایا تھا ہوشیا رتھا۔ اس نے عورت سے کہا کیا یہ سچ ہے کہ خدا نے کہا کہ باغ کے ہر درخت سے کھانا عورت نے سانپ سے کہا باغ کے درختوں کا پھل ہم تو کھاتے ہیں مگر اس درخت کے پھل کو جو باغ کے بیچوں بیچ ہے خدا نے کہا کہ تم اس سے نہ کھانا اور نہ اسے چھونا ایسا نہ ہو کہ مرجائو۔ تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن اسے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے ہوگے اور عورت نے جوں دیکھا کہ وہ درخت کھانے میں اچھا اور دیکھنے میں خوشنما اور عقل بخشنے میں خوب ہے، تو اس کے پھل میں سے لیا اور اپنے خصم کو بھی دیا اور اس نے کھایا۔ تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں معلوم ہوا کہ ہم ننگے ہیں اور انہوںنے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لئے لنگیاں بنائیں‘‘ (پیدائش باب ۳ آیت ۱ تا ۷)
یعنی جب شیطان نے آدم کو جنت میں سے نکالنے کا سامان کیا تو آدم نے ورق الجنۃ کو اپنے ساتھ لپٹالیا اور اس طرح وہ ننگ جو ظاہر ہوگیا تھا اس کو ڈھانک لیا۔ یہ بتایا جاچکا ہے کہ ورق الجنۃ تعبیرالرئویا کے مطابق انجیر کے پتوں کو کہتے ہیں اور جیسا کہ انجیر کے معنے صلحاء اور پاک طینت لوگوں کے ہیں۔ اسی طرح ورق الجنۃ کے معنے بھی جنتی نسل کے ہیں اور جنتی نسل وہی ہوتی ہے جو صلحاء اور پاک لوگوں پر مشتمل ہو۔ بہرحال قرآن کریم اوربائبل دونوں اس امر پر متفق ہیں کہ شیطان جب آدم کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوا تو آدم نے انجیر کے پتوں کو اپنے گرد لپٹالیا۔ یعنی جب شیطان نے ان کو دھوکا دیا اور صلح کے نام پر آدم کو اپنے ساتھ ملا کر خدائی سکیم کو ناکام کرنا چاہا تو آدم کو یکدم اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور انہوں نے مومنوں کی جماعت کو اپنے ساتھ ملا کر شیطانی تدابیر کو ناکام کردیا۔ شیطان نے تو چاہا تھ اکہ اس ریعہ سے وہ آدم کو شکست دیدے مگر بجائے اس کے کہ آدم کا یہ فعل ان کیلئے کسی نقصان یا خرابی کا موجب ہوتا ان کے اندر ایک نئی بیداری پیدا ہوگئی اور وہ ترقی کے میدان میں اور بھی آگے نکل گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فتاب علیہ و ھدی اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف رجوع برحمت فرمایا اور انہیں پہلے سے بھی زیادہ ترقی دے دی۔ جیسے احرار نے ۱۹۳۴؁ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک بہت بڑا فتنہ اٹھایا اور اس لئے اٹھایا کہ وہ جماعت احمدیہ کو کچل کر رکھ دیں مگر یہی فتنہ ایسی بیداری اور حرکت پیدا کرنے کا موجب بن گیا کہ ہماری جماعت پہلے سے کئی گنا ترقی کرگئی۔ اسی طرح شیطان نے آدم اور اس کی جماعت کی تباہی کیلئے جو تدبیر اختیار کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کی خرابیاں اتنی جلدی آدم پر ظاہر کردیں کہ ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ انہوںنے یکدم ورق الجنۃ کو سمیٹ لیا اور دشمن کے سامنے اعلان کردیاکہ ہمارا تمہارے ساتھ کوئی جوڑ نہیں تم صلح اور آشتی کے نام پر ہمیں ساتھ نہیں ملاسکتے ہمارا راستہ خدا نے مقرر کیا ہے اور تمہارا راستہ اور ہے ۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے ہماری جماعت مداہنت سے کام لے اور تمہاری ہاں میں ہاں ملاتی چلی جائے۔ چنانچہ اس واقعہ کے بعد خدا نے ہمیشہ کیلئے یہ قانون مقررکردیا کہ مومنوں کی جماعت کفار سے علیحدہ رہے گی جب تک شیطان نے یہ فعل نہیں کیا تھا اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف اتنی ہدایت تھی کہ شیطان کے دھوکہ میں نہ آنا مگر آدم کے اس واقعہ نے ہمیشہ کیلئے یہ رسم قائم کردی کہ انبیاء کی جماعتوں کو شیطانی لوگوں سے الگ رہنا چاہئے۔ بعض احکام ایسے ہوتے ہیں جوبظاہر نئے دکھائی دیتے ہیں مگر درحقیقت وہ نئے نہیں ہوتے۔ مثلاً ہماری جماعت کے افراد کو یہ حکم ہے کہ وہ غیروںکے پیچھے نمازیں نہ پڑھیں، ان کو رشتے نہ دیں، ان کے جنازے نہ پڑھیں۔ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے سخت احکام جماعت کو کیوں دیئے جاتے ہیں مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ احکام نئے نہیں بلکہ وہی ہیں جن کا آدم کے وقت سے آغاز ہوچکا ہے۔ جب تک شیطان نے آدم کو دھوکا نہیں دیا تھا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ احکام نازل نہیں ہوئے ۔ مگر جب شیطان ایک دفعہ آدم کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوگیا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کیلئے یہ قانون مقرر کردیا کہ الٰہی جماعتوں کو اپنے مخالفوں سے علیحدہ رہنا چاہئے۔یہی وجہ ہے کہ ہر نبی جو دنیا میں آیا اس نے اپنی جماعت کودوسروں سے علیحدہ رکھا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی نبی آیا ہو اور اس نے اپنی جماعت کو یہ اجازت دے دی ہو کہ وہ غیروں سے مل جل کر رہے۔ غرض شیطان نے آدم کو جنت سے نکالنے کا سامان کیا اور آدم کو جنت سے ہجرت کرنی پڑی مگر اس کے بعد خدا نے جو اسے تین نصیب کی وہ اسے اس قدر کامیاب کرنے والی ثابت ہوئی کہ آج دنیا میں ابلیس کو ماننے والا تو کوئی نظر نہیں آسکتا مگر آدم کو ماننے والے ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ آدم کا ننگ انجیر کے پتوں سے ڈھانکا گیا تھا جو درحقیت تمثیلی زبان میںایک الہام تھا جسے یہود نے سمجھا نہیں اور فی الواقعہ ننگا ہونے اور انجیر کے پتوں سے ڈھانکناسمجھ لیا۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک درخت سے یعنی اس سانپ سے اور اسکے ساتھیوں سے تعلق رکھنے سے منع فرمایا جو جنات میں سے تھا (سانپ زیر زمین رہتاہے اور یہ شخص بھی ، کیو مین CAVEMAN یعنی زیر زمین رہنے والا) اس نے آکر دھوکا دیا کہ ہمارا پھل کھانے سے یعنی ہمارے ساتھ تعلقات پیدا کرنے سے فائدہ ہی ہے اور خداتعالیٰ کا بھی تو اصل منشاء تم کو فائدہ پہنچانا ہے اب ہم جو صلح کرکے ملتے ہیں تو وہ مقصد بدرجۂ اتم پورا ہوجائے گا۔ آدم اس کے فریب میں آگئے۔ ان لوگوں سے تعلقات پیدا کئے اور نقصان اٹھایا۔تب اللہ تعالیٰ سے ہدایت پاکر آپ نے انجیر کے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانکنا شروع کردیا یعنی مومنوں کو اپنے گرد جمع کرنے لگے اور کفار سے قطع تعلق کرلیا۔ اسی طرح جنت سے نکلنے کی جو تکلیف پہنچی تھی یعنی آپ کو جو ہجرت کرنی پڑی تھی اس کا ازالہ ہوگیا ۔ بظاہر شیطان کی فتح ہوئی مگر دراصل آدم کی ہوئی۔ کیونکہ اس کو قومی تنظیم کا خاص خیال پیدا ہوگیا اور بجائے گرنے کے ثم اجتباہ ربہ فتاب علیہ ھدی کے سامان پیدا ہوگئے۔ پس فرمایا کہ ایک تو تین کے واقعہ کو لو کہ شیطان نے آدم کو دھوکا دیا۔ اور اسکے نتیجہ میں آدم کو ہجرت کرنی پڑی اور جس ارضی جنت میں وہ رہتے تھے اسے چھوڑنا پڑا مگر اسی ہجرت کے نتیجہ میں ایک مومنوں کی جماعت آدم کے گرد جمع ہوگئی اور ان کی مدد سے آدم نے شیطان کی تدبیر کو پاش پاش کرکے رکھ دیا۔ اے مکہ والو اب تم بھی محمد رسول اللہ ﷺ سے ایسا ہی کرنے والے ہو مگر یاد رکھو اب بھی وہی ہوگا جو آدم کے وقت میں ہوا تھا۔ تین محمد رسول اللہ ﷺ کے نقص کو ڈھانپ لے گی اور ہجرت ہی کے نتیجہ میں ایک صلحاء کی جماعت آپ کے گرد جمع ہوجائے گی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو یہ کہا تھا کہ رب اشرح لی صدری مگر رسول کریم ﷺ سے اللہ تعالیٰ نے خوف فرمایا کہ الم نشرح لک صدرک ۔ اسی طرح آدم کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ آدم نے تین کے پتوں کو اپنے گرد جمع کرنا شروع کیا اور اس طرح اپنے ننگ کو ڈھانکا مگر رسول کریم ﷺ کے وقت تین کے پتے خودبخود آپ کی طرف بڑھے اور جنگ بدر کے وقت انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ہم موسیٰ کے ان ساتھیوں کی طرح نہیں جنہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ اذھب انت و ربک فقاتلا انا ھھنا قاعدون تو اور تیرا رب دونوں جائو اور دشمن سے لڑتے پھر۔ بلکہ یارسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے ، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔ یہ کتنا بڑا فرق ہے جو آدم اول اور رسول کریم ﷺ کے ساتھیوں میں پایا جاتا ہے۔ آدم کو تو خود اپنی جدوجہد سے تین کے پتے اپنے اردگرد لپٹانے پڑے مگر رسول کریم ﷺ کا درجہ چونکہ آدم سے بہت بلند تھا اس لئے آپ سے تین کے پتے خود بخود چمٹنے لگے۔ پس فرمایا کیا تم سمجھتے ہو کہ ہجرت کے نتیجہ میں محمد رسول اللہ ﷺ شکست کھاجائیں گے اور تم فتح حاصل کرلو گے۔ پہلے بھی ایسا کئی بار ہوچکا ہے کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ کے انبیاء کو شکست دینی چاہی مگر ہمیشہ منہ کی کھائی ۔چنانچہ آدم کی مثال تمہارے سامنے ہے۔ شیطان نے اسے جنت سے نکالا اور وہ چلا گیا مگر آخر کیا ہوا۔ وہی ہجرت اس کی کامیابی کا ذریعہ بن گئی۔ اور اس نے تین کے پتے اپنے اردگرد لپٹا کر دشمن کو اس کی تدابیر میں ناکام کردیا۔ اسی طرح اب بھی تم سجھو گے کہ ہم کامیاب ہوگئے ہم نے محمد ﷺ کو مکہ سے نکال دیا۔ مگر آخریہی ہجرت تمہاری تباہی اور محمد رسول اللہ ﷺ کی کامیابی کا ذریعہ ہوگی اور اس طرح ثابت ہوجائے گا کہ خدا نے انسان کو چھوڑنے کیلئے نہیں بنایا بلکہ ترقی کرنے کیلئے بنایا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے والزیتون دوسری مثال ہم زیتون کی دیتے ہیں۔ زیتون کی مثال نوحؑ کا واقعہ ہے۔ نوحؑ کو اس کی قوم نے سخت تنگ کیا اور آخر ایک عذاب عظیم آیا جس کی وجہ سے نوحؑ کی قوم تباہ ہوئی اور نوح کو اپنا وطن چھوڑناپڑا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے واوحی الی نوح انہ لن یومن من قومک الا من قد امن فلا تبتئس بما کانوا یفعلون - واصنع الفلک باعیننا ووحینا ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون - ویصنع الفلک کلما مر علہ ملا من قومہ سخروا منہ قال ان تخسرو منا فانا نسخر منکم کما تسخرون- فسوس تعلمون من یاتیہ عذاب یخزیہ ویحل علیہ عذاب مقیم- حتی اذا جاء امرنا و فارالتنور قلنااحمل فیھا من کل زوجین اثنین و اھلک الا من سبق علیہ القول ومن امن معہ الا قلیل- و قال ارکبوا فیھا بسم اللہ مجرھا و مرسھا انی ربی لغفوررحیم- وھی تجری بھم فی موج کالجبال و نادی نوح ن ابنہ و کان فی معزل یابنی ارکب معنا ولا تکن مع الکافرین- قال ساوی الی جبل یعصمنی من الماء قال لا عاصم الیوم من امراللہ الامن رحم و حال بینھما الموج فکان من المغرقین- و قیل یاارض ابلعی ماء ک و یسماء اقلعی و غیض الماء و قضی الامر واستوت علی جودی و قیل بعدا للقوم الظالمین (ھود: ۴ع۴)یعنی نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے جو پہلے ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا اور کوئی لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ پس تو ان کے فعل پر غمگین مت ہو ار اس بات کا کچھ خیال نہ کر کہ وہ تجھ پر کیوں ایمان نہیں لاتے۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے حکم اور وحی سے ایک کشتی بنا اور ظالموں کے بار میں مجھ سے خطاب کرنا چھوڑ دے کیونکہ ان کے متعلق الٰہی فیصلہ ہے کہ وہ غرق کئے جائیں گے۔ نوح نے ہمارے اس حکم کے مطابق کشتی بنانی شروع کردی۔ لوگ وہاں سے گزرتے تو ہنسی اور مذاق کرتے کہ دیکھو خشکی میں کشتی چلانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ حضرت نوحؑ ان کو جواب میں کہتے کہ تم بیشک ہنسی کرلو ایک دن آئے گاجب اللہ تعالیٰ تم کو تباہ کردے گا اور تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر رسوا کرنے والا اور قائم رہنے والا عذاب نازل ہوتا ہے یہاں تک کہ ہمارا حکم نازل ہوگیا اور تنور جوش میں آگیا۔ ہم نے نوحؑ سے کہا کہ ہرقسم کے جوڑے اپنی اس کشتی میں رکھ لے اسی طرح اپنے اہل کو بھی بٹھالے سوائے ان کے جن کے متعلق عذاب کی خبر دی جاچکی ہے اور مومن بندو ںکو بھی سوار کرلے۔ اور اس پر ایمان نہیں لائے تھے مگر تھوڑے لوگ۔ اس نے سب سے کہا کہ اس کشتی میں بیٹھ جائو ۔ اللہ کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھہرنا بھی۔ میرا رب یقینا بخشنے والا اورمہربان ہے۔ جب طوفان آیا اور پہاڑوں جیسی لہروں میں کشتی چلنے لگی اس وقت نوح نے اپنے بیٹے سے جو علیحدہ تھا کہا کہ اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہوجائو اور کافروں سے مت ملو۔
دیکھو یہاں سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت نوحؑ اس وقت ہجرت کرکے اپنے وطن کو چھوڑ رہے تھے ۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو بھی تحریک کی کہ ہمارے ساتھ آجائو اور اپنے وطن کو چھوڑ دو ۔ مگر اس نے جواب دیا کہ مجھے اپنا وطن چھوڑنے کی ضرورت نہیں آپ بیشک چلے جائیں میں کسی پہاڑ پر چڑھ جائوں گا۔ یعنی تو اگر وطن چھوڑنا چاہتا ہے تو بیشک چھوڑ دے میں اپنا وطن چھوڑنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوں۔حضرت نوح نے کہا آج خدا کے عذاب سے وہی بچ سکتا ہے جس پر وہ خود رحم کرے اور کوئی شخص اپنی تدبیر کے زور سے اس ہلاکت سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔اتنے میں ایک لہر اٹھی اور ان کا لڑکا غرق ہو گیا ۔پھر خدا نے کہا ۔اے زمین تو اپنا پانی پی لے اور اے آسمان تو اپنا پانی روک لے چنانچہ پانی تھم گیا اور نوح کی کشتی جودی مقام پر ٹھر گئی اس وقت کہا گیا بعداللقوم الظالمین یعنی ظالموںکی قوم دور ہو گئی۔یا اب تمہارے اور ان کے درمیان بہت بڑا فاصلہ ہو گیا ہے اب دیکھو یہ بھی ایک ہجرت تھی جو نوح نے کی ۔اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے ۔مگر ان کے بیٹے نے ان کا ساتھ نہ دیا بلکہ ان کی تحریک پرجب اس نے کہا کہ میںپہاڑ پر چڑھ جائوں گا تو اس کے معنی بھی یہی تھے کہ نوح کی قوم سمجھتی تھی کہ ہم تباہ نہیں ہوں گے ۔یہ چلا جا ئے گااور ہم پہاڑوں پر امن سے رہیں گے اور شکر کریں گے کہ ہمارے سر سے یہ بلا ٹلی ۔مگر ہوا یہ کہ نوح بچ گیااور وہ قوم جو حضرت نوح کی ہجرت میںاپنی کامیابی سمجھتی تھی تباہ ہو گئی۔
اللہ تعالیٰ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زیتون کا ذکرکرتا ہے اور فرماتا ہے آدم کا واقعہ توتم نے سن لیا۔ اب تم نوح کے واقعہ پر غور کرو۔یہاںبھی نوح کو دشمنوں کی وجہ سے ملک چھوڑنا پڑا مگر اس ہجرت کے نتیجہ میںبھی کفار ہی تباہ ہوئے اورنوح اور ان کی قوم کوزیتون کی شاخ ملی یعنی خداتعالیٰ کی طرف سے صلح کا پیغام اور ایک ایسی جماعت جو عروۃالوثقیٰ کو پکڑ نے والی تھی یعنی ایمان میں مضبوط اور قربانی میںکامل ۔چنانچہ پیدائش باب ۸میں نوح کے واقعہ کے ساتھ زیتون کا بھی ذکر ہے ۔بائبل میں لکھا ہے :
’’پھر خدا نے نوح کو اور سب جانداروںاور سب مو یشیوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میںتھے یاد کیا اور خدا نے زمین پر ایک ہوا چلائی اور پانی ٹھر گیااورگہرائو کے سوتے اور آسمان کی کھڑکیاںبند ہو ئیں۔اور آسمان سے مینہ تھم گیا اور پانی زمین سے رفتہ رفتہ گھسٹتا جاتا تھا اور ڈیڑھ سو دن کے بعد کم ہوا اور ساتویں مہینہ کی سترھویں تاریخ کو اراراط کے پہاڑوں پر کشتی ٹک گئی اور پانی دسویں مہینہ تک گھسٹتا جاتا تھا اور دسویں مہینہ کی پہلی تاریخ کو پہاڑوں کی چوٹیاں نظر آئیں اور چالیس دن کے بعد یوں ہوا کہ نوح نے کشتی کی کھڑکی جو اس نے بنائی تھی کھول دی اور اس نے ایک کوے کو اڑا دیا سو وہ نکلا اور جب تک کہ زمین پر سے پانی سوکھ نہ گیا آیا جایا کرتا تھا ۔پھر اس نے ایک کبوتری اپنے پاس سے اڑا دی کہ دیکھے کہ زمین پر پانی گھٹا یا نہیں۔پر کبوتری نے پنجہ ٹیکنے کی جگہ نہ پائی اور اسکے پاس کشتی میں پھر آئی کیونکہ تمام روئے زمین پر پانی تھا ۔تب اس نے ہاتھ بڑھا کے اسے لے لیا اور اپنے پاس کشتی میں رکھا پھر اس نے اور سات روز صبر کیا تب اس کبوتری کو اس کشتی سا اڑا دیا اور وہ کبوتریشام کے وقت اس کے پاس پھر آئی اوردیکھو زیتون کی ایک تازہ پتی اس کے منہ میں تھی تب نوح نے معلوم کیا کہ اب پانی زمین پر کم ہوا اور وہ اور بھی سات دن ٹھہرا بعد اس کے پھر اس کبوتری کو اڑا دیا وہ اس کی پاس کبھی نہ آئی ‘‘۔
غرض نوح کو جس چیز نے بشارت دی تھی کہ تیری ہجرت کامیاب ہو گئی ہے تو جیت گیا اور تیرے دشمن ہمیشہ کیلیے مغلوب ہو گئے ہیںوہ زیتون کی پتی تھی اور آدم کو جس چیز نے یہ بتایا کہ تو کامیاب ہو گیا ہے وہ انجیر کے پتے تھے اللہ تعالیٰ انہی دو واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرماتا ہے واتین والزیتون کہ ہم تمہیں بتا تے ہیں کہ آدم ہمارا پہلا نبی تھا جس کو شیطانی پنجے سے نکلنے اور ہجرت کرنے پر مجبور کیا مگر وہ ہجرت آدم کونقصان پہنچانے کا موجب نہیں ہوئی ۔وہ ہجرت مومنوں کو ناکام کرنے کا موجب نہیں ہوئی بے شک آدم نے ہجرت کی مگر آخر آدم ہی جیتا اور شیطان ناکام ہوا ۔اسی طرح اے مکہ والو!آج تم محمدﷺکو اپنے شہر میں سے نکالنا چاہتے ہو ۔مگر تمہں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر تم اپنے افعال میں اس شیطان کے مثیل ہو جس نے آدم کو جنت مین سے نکالا تھا تو ہمارا یہ رسول آدم ہے جسے ہم نے ایک نئی روحانی مخلوق پیدا کرنے کے لیے دنیا میںبھیجا ہے تم اسے آدم کی طرح ہجرت کرنے پر مجبور کرو گے ۔ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آدم کی طرح اسے بھی تین کے پتے مل جایںگے یعنی صلحا اور پاک طینت لوگوں کی ایک جماعت اسے عطا کی جائے گی جو اس کی قدرو منزلت سمجھتے ہوئے ہر قسم کی قربانیاںاس کے لئے کرے گی ۔اور اگر تم نوح کے دشمنوںکی طرح ہو تب بھی تمھیں معلوم ہونا چاہئے کہ بے شک نوح نے ہجرت کی مگر خدا نے اس کے دشمنوں کو غرق کر دیا اور اسے زیتون کے پتے کے ذریعہ نجات کی بشارت دی اسی طرح بے شک تم محمدﷺکو اپنے شہر سے نکال دو تم نوح کے دشمنوں کی طرح غرق کیے جاو گے اور محمدﷺ کی کشتی جودی پہاڑ پر جا ٹھرے گی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے زیتون کی شاخ عطا کی جائے گی۔ مدینہ کیا تھا ؟وہ جودی تھی جہاں محمدﷺکی کشتی ٹھہری اور مدینہ کے انصار کیا تھے ؟وہ زیتون کے پتے تھے جو محمدﷺ کو عطا کیے گئے چنانچہ تعطیرالانام میں لکھا ہے من رای ورقاالزیتون فی ا لمنام فقد ستمسک بالعروۃالوثقی اگر کوئی شخص خواب میں زیتون کے پتے دیکھے تو اس کی تعبیر یہ ہو گی کہ اس نے ایک نہ ٹوٹنے والا کڑا مضبوطی سے پکڑلیا ہے پس زیتون کا عطا کیا جانایہ معنی رکھتا تھا کہ خدا تعالی کی طرف سے آپ کو ایک ایسی جماعت دی جا ے گی جو عروۃالوثقی کو پکڑنے والی ہو گی وہ ایمان میں مظبوط ہو گی ہو قربانی میں کامل ہو گی وہ اطاعت میںحد کمال تک پہنچی ہوئی ہو گی اور کسی قسم کی تکلیف اس کے پائے ثبات میںجنبش پیدانہ کرے گی۔ درحقیقت عروہ وثقی کو مضبوطی سے پکڑلیناایمان باللہ کا ایک طبعی نتیجہ ہوتا ہے وہ شخص جس کے دل میں سچے طور پر ایمان پایا جاتاہے وہ الٰہی تعلیم کو ایسی مضبوطی کیساتھ پکڑکر بیٹھ جاتا ہے کہ بڑے سے بڑے طوفان اورزلا لزل بھی اس کو ادھر ادھر نہیں کر سکتے ۔ وہ میدان کا بہادر اور جرات واستقلال کا پیکر ہوتاہے اور خداتعالیٰ کی راہ میںہر قسم کی موت کو اختیار کرنا لذیذ ترین نعمت سمجھتا ہے ۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تین کا واقعہ بھی تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں اور زیتون کا واقعہ بھی تمہیں یاد دلاتے ہیںدونوں جگہ ہجرت ہوئی مگر دونوں جگہ شیطان کو نا کامی ہوئی آدم نے ہجرت کی مگر آخرآدم ہی دشمن پر کا میاب ہوا۔نوح کے بعد وہ ملک جس میں آپ رہتے تھے پھر بسا نہیں بلکہ تباہ ہو گیا ۔ اس طرح محمدﷺکی ہجرت کے بعد تم تباہ کر دیئے جائو گے تمہارے لیے شیطان کی طرح ہر طرف *** ا ور پھٹکار ہو گی اور محمدﷺ کے لیے تین کے پتے ہو نگے جو اسے عطا کیے جائیں گے ۔تم نوح کے دشمنوں کی طرح غرق کیے جائو گے اور محمد ﷺ کے لیے مدینہ کے لوگ اپنے ہاتھوں میںزیتون کی پتیاں لیے آگے بڑھیںگے اور کہیں گے یا رسول اللہ ہمارے ہاں تشریف لایئے ہم آپ کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے اور آپ کے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانے کے لیے تیار ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا وہ زیتون کی ٹہنی تمھیں یاد ہے جو نوح کو ہجرت کے بعد ملی تھی ؟ کچھ خبر بھی ہے ؟وہی محمدﷺ کے لیے تیار ہو رہی ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہوگاکہ لقدخلقناالانسان فی احسن تقویم جب ہم نے انسان کی فطرت کو نیک بنایا ہے تو وہ دیر تک نیکی سے محروم نہیں رہ سکتا ۔
زیتون کے بعد طور سینیین کی قسم کھائی گئی ہے یعنی اسے بھی شہادت کے طورپر پیش کیا گیا ہے ۔سینین کیا چیزہے؟اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ سینین ایک علاقہ ہے جودشت سینا کہلاتا ہے اس سے مسلمانوں کو بھی دلچسپی ہے ۔کیونکہ قرآن کریم میں ذکر آتاہے اور یورپین مصنفین کو بھی دلچسپی ہے کیونکہ بائبل میں اس کا ذکر آتا ہے لیکن یہ سوال کہ سینا اور طور سینا کہاں ہے؟اس میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔بعض مورخین کے نزدیک دشت سینا مصر کے شمال مشرق حصہ میں ہے ان لوگوں کا خیال ہے کہ موسیٰ کے سمندر پار ہونے کا واقعہ جو بیان کیا جاتا ہے وہ درست نہیں۔سمندر مصروفلسطین کے درمیان خاکنائے کے جنوب کی طرف ہے اور اس طرف حضرت موسی آئے ہی نہیں بلکہ آپ شمال کی طرف نکل گئے تھے بعض کا یہ خیال ہے کہ فلسطین سے ورے اور مصر اور فلسطین کے درمیان جو خاکنائے ہے جس میںسے اب آبنائے سویز بن گئی ہے اس میں خلیج عقبہ کے اوپر جو حصہ ہے وہ دشت سینا کہلاتا ہے گویا وہ دشت سینا کو خلیج عقبہ سے کچھ اوپر قرار دیتے ہیں لیکن بعض کے نزدیک دشت سینا کا علاقہ فلسطین کی طرف جھکا ہوا ہے بعض نے سینا اور طور کا کلی طور پر انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ محض ایک روایت ہے جس کے اندر کوئی حقیقت نہیںپائی جاتی۔ بہرحال قرآن کریم نے طور کا لفظ استعمال کیا ہے اور طور معنے پہاڑ کے بھی ہوتے ہیں ۔پس طور سینین کے یہ معنی ہیں کہ سینا کا ایک پہاڑ۔ قرآن کریم سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے طور کو اس پہاڑ کا نام قرار نہیں دیا بلکہ طور بمعنے پہاڑ استعمال کیا ہے ۔ یورپین مورخ بھی اسی طرف گئے ہیں کہ طور کسی پہاڑ کا نام نہیں۔سورہ طور میں والطور وکتاب مسطور کہہ کرطور پرالف لام لایا گیا ہے لیکن اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے الف لام چھوڑ دیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سورئہ طور میں جو الف لام لایا گیا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں طور کی کسی اور چیز کی طرف اضافت کرکے اس کی تعین نہیں کی گئی تھی اس لئے الطور کہہ کر اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ ہماری مراد موسیٰ والے طور یا سینا والے طور سے ہے جس کو تم جانتے ہی لو لیکن یہاں چونکہ سینین کی طرف طور کی اضافت موجود ہے اس لئے الف لام کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ طور ایک نکرہ ہے جو اضافت سے ہی خاص معنے پاتا ہے بغیر اضافت کے اس کے کوئی خاص معنے نہیں سمجھتے جاسکتے۔ جیسے پہاڑ کا لفظ اگر ہم اپنی گفتگو مین استعمال کریں تو اس کے معنے ہمالیہ پہاڑ کے نہیں ہوسکتے لیکن اگر ہم اپنی گفتگو میں استعمال کریں تو اس کے معنے ہمالیہ پہاڑ کے نہیں ہوسکتے لیکن اگر ہم کہیں ہمالیہ کا پہاڑ تو اس کے معنے ہوں گے کہ وہ پہاڑ جسے ہمالیہ کہتے ہیں یا اگر ہم کہتے ہیں کشمیر کا پہاڑ یا ہزارہ کا پہاڑ یا افغانستان کا پہاڑ یا درہ خیبر کا پہاڑ تو اس کے بھی مخصوص معنے ہوں گے۔ پس طور سینین کے یہ معنے ہوئے کہ سینا کا وہ پہاڑ جس پر موسیٰ علیہ السلام کا کوئی خاص واقعہ ہوا تھا۔ والطور و کتاب مسطور میں انہی معنوں کو لاف لام کی زیادتی سے ظاہر کیا گیاہے۔
بعض مفسرین نے جو یہ سمجھا ہے کہ طور کسی پہاڑ کا نام ہے یہ درست نہیں۔ طور کے معنے محض ایک پہاڑ کے ہیں اور انہیں معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے البتہ عرفِ عام میں بوجہ ایک خاص مناسبت کے اس نے مخصوص معنے پیدا کرلئے ہیں جیسے بعض دفعہ ایک چیز تو عام ہوتی ہے لیکن کسی خاص چیز کی طرف منسوب ہوتے ہوتے آخر اس کا ایک نام بن جاتی ہے ۔ مثلاً کتاب ایک عام لفظ ہے جو ہر کتاب کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن ’’الکتاب‘‘ ایک مخصوص لفظ ہے جو بائبل کے متعلق استعمال ہوتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ الکتاب کے معنے بائبل کے ہیں بلکہ بائبل کی طرف یہ لفظ منسوب ہوتے ہوتے اتنا عرصہ گزرچکا ہے اور اس قدر زبان زدِ خلائق ہوچکا ہے کہ اب الکتاب کا لفظ جب بھی استعمال ہوگا یہی سمجھا جائے گا کہ اس سے بائبل مراد ہے۔ یا مثلاً انجیل کے لفظی معنے بشارات کے ہیں اور شروع میں انہی معنوں میں انجیل کا لفظ استعمال ہوا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وہ بشارات جو آپ نے اپنی قوم کو دیں مگر اب انجیل کا لفظ بولو تو اس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ زید کی بشارتیں یا بکر کی بشارتیں بلکہ ہر شخص کے ذہن میں فوراً یہ بات آجائے گی کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کتاب ہے۔ حالانکہ لفظی معنے اس کے صرف بشارات کے ہیں۔ اسی طرح طورِ سینین کے معنے ہیں سینا کا ایک پہاڑ مگر چونکہ سینا کے پہاڑ کا ذکر لوگوں کے زبان پر آتا ہے جس پر موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اس لئے رفتہ رفتہ طور سے مخصوص طور پر وہی پہاڑ سمجھانے لگا جس پر یہ واقعہ ہوا تھا۔ حالانکہ معنوں کے لحاظ سے طور ہر پہاڑ کو کہا جاسکتا ہے۔ سینا کے متعلق میں بتاچکا ہوں کہ اس کی تعیین میں مورخین کو بہت کچھ اختلاف ہے ۔ بعض تو سینا نام کا کوئی علاقہ تسلیم ہی نہیں کرتے مگر بض اس علاقہ کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں مگر ان لوگوں میں بھی بہت کچھ اختلاف ہے۔ بعض کسی اور جگہ کو سینا قرار دیتے ہیں اور بعض کسی جگہ کو۔ میرے خیال میں اس اختلاف کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو یہ شوق ہوتا ہے کہ ہم کوئی جدید چیز پیدا کریں اور اس شوق کی وجہ سے وہ واقعات اور حقائق کو نظر انداز کرکے محض اپنی کسی تھیوری اور قیاس پر بنیاد رکھ کر ایک نئی بات لوگوں کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس طرح ہم بھی موجد قرار پاجائیں گے۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ جب سنتے ہیں کہ فلاں نے یہ چیز ایجاد کی ہے اور فلاں نے وہ چیز ایجاد کی ہے تو ان کے دلوں میں بھی شوق پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھی کوئی نئی چیز ایجاد کریں۔ اس پر بعض خیالات ان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ فوراً اخبارات میں اعلان کرادیتے ہیں کہ ہم نے اس قسم کی چیز ایجاد کرلی ہے مگر جب زیادہ کرید کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایجاد کوئی نہیں صرف ایک نئی تھیوری انہوں نے پیدا کی ہے۔ اسی طرح بعض مؤرخوں نے سمجھا کہ اگر ہم یہ کہہ دیں گے کہ حضرت موسیٰؑ شمال کی طرف گئے تھے اورسینا بھی شمال میں ہی تھاتو تاریخ میں ہم بھی موجد سمجھے جائیں گے۔ چنانچہ وہ معمولی معمولی شبہات کی بناء پر دوسروں کی باتوں کو ردّ کردیتے ہیںاور ایک نئی تھیوری اور نیا خیال پیدا کرکے خوش ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آئندہ جب بھی اس واقعہ کی تحقیق کی جائے گی لوگ کہیں گے کہ ایک تھیوری فلاں شخص کی بھی تھی اس پر بھی غور کرلیا جائے۔ ایسے لوگوں کو تاریخ کی صحت مدنظر نہیں ہوتی بلکہ اپنی ذات کی شہرت ان کا سب سے بڑا مقصد ہوتا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ حقائق پر غور کریں ان کو ہر وقت یہی شوق رہتا ہے کہ کسی طرح ہمارا نام نکل جائے۔ ایسے ہی لوگ بعض دفعہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ موسیٰ کوئی تھا ہی نہیں۔ عیسیٰ کوئی شخص نہیں تھا۔ بعض کہہ دیتے ہیں کہ سینا کوئی علاقہ نہیں تھا۔ اسی طرح زرتشت ؑ کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ یہی حال کرشنؑ اور رامچندرؑ کا ہے کہ ان کے وجود کا بعض لوگوں کی طرف سے انکار کیا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس میں بھی اسلام کا معجزہ ہے کہ اگر کسی شخص کے وجود کا انکار نہیں ہوا تو وہ صرف محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ ورنہ بعض عیسائی ایسے ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وجود تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ محض ایک تمثیلی ذکر ہے۔ اسی طرح پروفیسر فرائیڈ جو خود یہودی ہے اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وجود کا انکار کیا ہے۔ بعض ہندو ایسے ہیں جو یورپین مشککین کی اتباع میں کرشنؑ اور رامچندرؑ کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور بعض پارسی ہیں جو زرتشتؑ کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور اس کو محض ایک تمثیلی وجود قرار دیتے ہیں لیکن اگر کسی عظیم الشان نبی کا انکار نہیں کیا گیا تو وہ رسول کریم ﷺ ہی کی ذات ہے۔ میرے نزدیک اس میں بھی ایک بہت بڑی الٰہی حکمت کام کررہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے دنیا کو بتایا ہے کہ اگر کوئی قابل اعتناء ذات ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے باقی سب انبیاء کا اگر تم انکار بھی کرو تو اس میں کوئی ہرج نہیں۔
غرض طور کے وجود کا بھی بعض لوگوں نے انکار کیا ہے اور سینا کے وجود کا بھی بعض لوگوں نے انکار کیا ہے لیکن جو لوگ طور کو مانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ سینا کے نیچے جنوب میں خلیج عقبہ کے اوپر تیس چالیس میل لمبا ایک پہاڑ ہے جس کو طور کہتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ درست نہیں کہ اس پہاڑ کا نام طور تھا۔ طور کے معنے پہاڑ کے ہیں اور طور کے لفظ سے اس پہاڑ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس پر حضرت موسیٰ سے کلام ہوا اور اس واقعہ کو چونکہ ہزاروں لوگوں نے بار بار بیان کیا آہستہ آہستہ طور کالفظ ہی بجائے پہاڑ کے ایک خاص پہاڑ کا علم یعنی مخصوص نام سمجھا جانے لگا۔ بہرحال خلیج عقبہ کے اوپر ایک پہاڑی ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور تاریخوں سے ثابت ہے کہ یہودی ہمیشہ اس پہاڑ کی زیارت کیلئے جایا کرتے تھے۔ میرے نزدیک قرآن کریم اور بائبل سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس کے لحاظ سے خلیج عقبہ کے اوپر والا علاقہ ہی سینا کا ہے اور اسی علاقہ میں وہ پہاڑ ہے جسے عرف عام میں طور کہا جاتا ہے۔
مجھے تعجب آتا ہے کہ جب قرآن کریم اور بائبل دونوں سے اس علاقہ کا وجود ہونا ثابت ہے اور تاریخ بھی بتاتی ہے کہ یہودی ہمیشہ اس پہاڑ کی زیارت کیلئے جایا کرتے تھے تو پھر کسی مؤرخ کا کیا حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ طور کوئی پہاڑ ہی نہیں تھا یا سینا کوئی علاقہ ہی نہیں تھا۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سینین کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے جبکہ سورئہ مومنون میں وشجرۃ تخرج من طر سیناء تنبت بالدھن و صبح للاکلین (۱ع) کہہ کر اس کا نام سینا بتایا ہے نہ کہ سینین۔ اس کا جواب بعض لوگوں نے یہ دیا ہے کہ سینا اور سینین دونوں علم ہیں لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ سینا کی بجائے سینین کا لفظ وقف کی وجہ سے بدل دیا گیا ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے سورئہ صافات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سلام علی الیاسین (۴ع۸) حالانہ وہاں صرف ایک الیاس مرادہیں آخر میں یا اور ن کا اضافہ قافیہ بندی کیلئے کیا گیا ہے ۔ مگر ہمارے نزدیک یہ بات درست نہیں کہ سلام علی الیاسین میں صرف وقف کیلئے یا اور ن کا اضافہ کیا گیا ہے بلکہ جیسا کہ ہماری جماعت کا اعتقاد ہے کہ الیاس کی بجائے الیاسین کا لفظ اللہ تعالیٰ نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ یہاں ایک سے زیادہ الیاس مراد ہیں۔ ایک تو وہ الیاس ہیں جو اسرائیلی انبیاء کے وسط میں گزرچکے ہیں۔ دوسرے الیاس یوحنا ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے معاً پہلے آئے اور تیسرے الیاس حضرت سید احمد بریلوی صاحب ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے آئے۔ چونکہ نزول قرآن سے پہلے دو الیاس دنیا میں آچکے تھے اور ایک الیاس نے ابھی آنا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے سلام علی الیاس کی بجائے سلام علی الیاسین کہہ کر ان سب کی طرف اشارہ کردیا۔ اسی طرح ممکن سینا کے متعلق لوگوں میں جو اختلاف پایا جاتا ہے سینین میں اس کی طرف اشارہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مختلف قوموں میں مختلف علاقوں کو سینا کہتے ہوں۔ مثلاًعرب لوگ پنجاب اور اس کے اردگرد کے علاقہ کا نام ہند رکھ دیتے ہیں۔ چنانچہ عربی کتابوں میں بعض جگہ لکھا ہوتا ہے کہ ہند اور بنگال میں فلاں بات پائی جاتی ہے حالانکہ ان دنوں بنگال ہندوستان کا حصہ ہے مگر وہ چونکہ صرف پنجاب اور اس کے اردگرد کے علاقہ کا نام ہند رکھ دیتے ہیں اس لئے بنگال کو وہ علیحدہ شمار کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ افغانستان صرف قندھار تک کے علاقہ کو کہتے ہیں ۔ بعض افغانستان کی حدود پشاور تک سمجھتے ہیں اور بعض دریائے سندھ تک کے علاقہ کو افغانستان قرار دیتے ہیں اس لحاظ سے طور سینین کے الفاظ میں اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ اس علاقہ میں سینا کے نام سے کئی دشت مشہور ہیں مگر وہ پہاڑ جس پر موسیٰؑ سے کلام ہوا ایک ہی ہے ہم ان سینائوں کے طور کی اشارہ کرتے ہیں۔
میں بتاچکا ہوں کہ والتین والزیتون میں آدمؑ اور نوحؑ کی ہجرتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ باوجود اس کے کہ ان ہجرتوں سے دشمن کو ایک جھوٹی خوشی حاصل ہوئی اور اس نے سمجھا کہ میں کامیاب ہوگیا ہوں پھر بھی خدا نے اپنے نبیوں کو کامیاب کیا اور دشمن کو ان کے مقابلہ میں ذلیل اور رسوا ہونا پڑا۔ اسی طرح اب مکہ والوں کا یہ خیال کرنا صریح نادانی ہے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے نکال کر کامیاب ہوجائیں گے جس طرح سابق انبیاء کے دشمنوں کایہ خیال کہ ہم جیت جائیں گے اور نبی ہار جائے گا باطل ثابت ہوا تھا اسی طرح اب بھی مکہ والوں کا خیال باطل ثابت ہوگااور اللہ تعالیٰ ان کی جھوٹی خوشی کو ایک دن ہمیشہ ذلت اور رسوائی میں بدل دے گا ۔ اب اسی مضمون کی وضاحت کیلئے اللہ تعالیٰ موسیٰؑ کی ہجرت کا واقعہ بطور مثال پیش کرتا ہے۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ طور کا واقعہ ہجرت کے بعد ہوا ہے چنانچہ قرآن کریم کے ابتداء میں ہی جہاں بنی اسرائیل کا ذکر کیا گیا ہے وہاں آتا ہے واذ فرقنا بکم البحر فانجینکم و اغرقنا من ال فرعون و انتم تنظرون۔ و اذ وعدنا موسیٰ اربعین لیلۃ ثم اتخذتم العجل من بعدہ و انتم ظالمون (البقرہ: ۶ع) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے بنی اسرائیل یا دکر وجب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا تھا ہم نے تمہیں نجات دی اور آل فرعون کو ہم نے غرق کردیا اور تم دیکھ رہے تھے۔ پھر اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ سے ہم نے چالیس راتوں کا وعد کیا (جب آپ سینا کے پہاڑ پر تشریف لے گئے تھے) اور تم نے بچھڑے کو مبعود بنا کر شرک کا ارتکاب شروع کردیااور خداتعالیٰ کی نگاہ میں ظالم بن گئے۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت پہلے ہوئی اور طور کا واقعہ بعدمیں ہوا ہے۔ پہلے آپ نے بنی اسرائیل کے ساتھ مصر کو چھوڑا پھر خداتعالیٰ آپ کو طور پر لے گیا۔ جہاں اس نے وہ کلام آپ پر نازل کیا جس میں یہودی قوم کو دس ایسے احکامات دیئے گئے تھے جو تمام تورات کا مغز سمجھتے جاتے ہیں۔ بائبل سے بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ طور کا واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مصر سے نکل آنے کے بعد ہوا۔ چنانچہ خروج میں پہلے ہجرت کا ذکر کیا گیا ہے پھر دشت سینا میں بنی اسرائیل کے پہنچنے کا ذکر آتا ہے اور پھر آخر میں طور کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ ترتیب ظاہر کررہی ہے کہ ہجرت پہلے ہوئی اور واقعہ طور بعد میں ہوا ہے۔ ہجرت کا ذکر خروج باب ۱۴ میں آتا ہے ۔ دشت سینا میں پہنچنے کا ذکر خروج باب ۱۶ میں آتا ہے اور واقعہ طور کا ذکر خروج باب ۱۹ میں آتا ہے۔ خروج باب ۱۴ میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ پرانی بائبل میں اس طرح درج ہے:-
’’اس بیان میں کہ خدا بنی اسرائیل کو ان کی راہ بتاتا فرعون اس کا پیچھا کرتا۔ بنی اسرائیل کڑکڑاتے۔ موسیٰ ان کو دلاسا دیتا۔ خدا موسیٰ کو سکھلاتا۔ بدلی کا ستون لشکر کی پشت پرجا ٹھہرتا۔ بنی اسرائیل دریائے قلزم کے بیچ سے ہوکے جاتے اسی میں اہل مصر غرق ہوتے‘‘۔
یہ تو ہجرت کا واقعہ ہوا۔ اس کے بعد خروج باب ۱۶ کا خلاصہ یوں لکھا ہے:-
’’اس بیان میں کہ بنی اسرائیل سین میں جاپہنچتے۔ خوراک نہ ہونے کے باعث سب کڑکڑاتے۔ خدا آسمان سے روٹی بھیجنے کا وعدہ کرتا۔ ان کیلئے بٹیریں بھیجی جاتیں۔ من بھی بھیجا جاتا۔ ہر ایک کو من جمع کرنے کا حکم ہوتا۔ سبت کے دن نہ مل سکے گا۔ من کا اُدمر بھر قرنوں کو دکھانے کیلئے حفاظت سے رکھتے‘‘۔
اس کے بعد خروج باب ۱۹ کا خلاصہ ان الفاظ میں درج ہے
’’اس بیان میں کہ بنی اسرائیل سینا کے بیابان میں آتے ان کیلئے خدا کا پیغام پہاڑ پر سے موسیٰ کی معرفت آتا۔ وے لوگ اس کا جواب دیتے۔ تیسرے دن کیلئے تیار ہوجاتے ۔ پہاڑ کا چھونا منع ہوتا۔ پہاڑ کے اوپر یہوداہ ہیبت ناک وضع سے ظاہر ہوتا‘‘۔
غرض بائبل اور قرآن دونوں اس امر پر متفق ہیں کہ ہجرت کا واقعہ پہلے ہوا ہے اور طور کا واقعہ بعد میں۔
غرض اللہ تعالیٰ آدمؑ اور نوحؑ کی مثالیں پیش کرنے کے بعد فرماتا ہے ہم تیسری مثال تمہارے سامنے موسیٰؑ کی پیش کرتے ہیں۔ موسیٰؑ کو دشمن کے مظالم کی وجہ سے ہجرت کرنی پڑی تھی اور وہ اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر نکل آیا تھا۔ موسیٰ کے دشمنوں نے سمجھا ہوگا کہ چلو چھٹی ہوئی ۔ ہمیں اس کے فتنہ سے نجات ملی مگر خدا نے اس ہجرت کو دشمنوں کی تباہی اور بنی اسرائیل کی ترقی کا موجب بنا دیا۔ اگر یہ لوگ مصر میں ہی رہتے تو خواہ فرعون کے مظالم سے آزاد ہوجاتے مگر پھر بھی وہ محکوم ہی رہتے۔ لیکن طورِسینین کے واقعہ کے بعداللہ تعالیٰ نے ایسی برکات نازل کیں کہ نہ صرف بنی اسرائیل فرعون کی غلامی سے ہمیشہ کیلئے آزاد ہوگئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ بادشاہت کا وعدہ دے کر یہودی قوم کی حکومت کی بنیاد رکھ دی جو ایک ہزار سال تک نہایت مضبوطی سے قائم رہی۔
یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ مضمون بیان کررہا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو تمہاری تدبیروں سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ تین اور زیتون اور طورِ سینین کے واقعات تمہارے سامنے ہیں۔ آدمؑ کو شیطان نے دھوکا دیا تو تین نے اس کا ننگ ڈھانک لیا۔ نوحؑ کے زمانہ میں طوفان آیا تو زیتون کی شاخ سے اس کو خوشخبری ملی۔ مصر سے موسیٰؑ کو بھاگنا پڑا تو طورِ سینین پر اس کو پناہ مل گئی۔ چونکہ یہاں غلبہ اور ترقی کا مضمون ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے دشمن کی تکالیف والے حصہ کو بیان نہیں کیا۔ ورنہ دراصل والتین کے معنے ہیں شیطان کا آدمؑ کو دھوکا دینا اور تین سے اس کا کامیاب ہونا۔ والزیتون کے معنے ہیں نوح کیلئے عرصہ حیات کا تنگ کیا جانا۔ طوفان آنا اور پھر زیتون سے نوح کو اپنی کامیابی کی بشارت ملنا۔ طور سینین کے معنے ہیں مصرسے موسیٰؑ کا بھاگنا اور طور سینین پر اس کو اپنی کامیابیوں کی بشارت ملنا۔ اور ھذا البلد الامین کے معے ہیں مکہ سے محمد رسول اللہ ﷺ کا بھاگنا اور پھر آپ کا فاتح اور حکمران ہونے کی حیثیت سے مکہ میں واپس آنا۔ مگر تکالیف اور ہجرت وغیرہ کا ذکر چونکہ مضمون سے خود بخود نکل آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر محض اشارۃً کیا ہے۔ اصل ذکر غلبہ اور کامیابی کا کیا ہے تاکہ دشمن اپنی عارضی کامیابی پر خوش نہ ہو اور وہ یہ خیال نہ کرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے انبیا ء کو شکست دیدی ہے۔
غرض طورِ سینین میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ موسیٰ کو جب مصر سے نکالا گیا تو فرعون تو سمند ر کہ تہہ میں ڈوبا مگر موسیٰؑ کو ہم نے پہاڑ پر تجلی دکھائی۔ گویا ایک نیچے کی طرف چلا گیا اور دوسرا اوپر کی طرف نکل گیا۔ تجلی دونوں نے ہی دیکھی مگر ایک نے سمندر کی تہہ میں دیکھی اور دوسرے نے طورِ سینین پر تجلی دیکھی۔ اے مکہ والو! تمہارے ساتھ بھی یہی ہونے والا ہے۔ بظاہر موسیٰؑ فرعون اور اس کی قوم کے مظالم سے تنگ آکر مصر سے بھاگ گئے تھے وہ اپنے گھروں سے نکل گئے تھے انہوں نے اپنے مکانوں اور اپنی جائیدادوں کو چھوڑ دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے اپنی قوم کے غلبہ کا وعدہ مل گیا۔ محمد رسول اللہ ﷺ کیلئے بھی طور سینا تیار ہورہا ہے۔ یہ طور سینا مدینہ تھا جو رسول کریم ﷺ کو عطا کیا گیا۔ فرماتا ہے کہ تم خود سمجھ لو کہ تمہارے لیے کیا مقدر ہے؟ محمد رسول اللہ ﷺ کو نکال کر دیکھ لو میں فرعون کی طرح تم کو غرق کردوں گا اور محمد رسو ل اللہ ﷺ کو طورِ سینا پر بلند جگہ دوں گا اور ثابت کردوں گا کہ انسانی فطرت پاک ہے۔ پاک فطرت لوگ اس کی طرف دوڑیں گے اور اس بات کے شاہد ہوں گے جس طرح موسیٰ کے وقت میں ہوئے کہ خداتعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وھذا البلد الامین کہ ہم اس بلد الامین کو بھی شہادت کے طو رپر پیش کرتے ہیں۔ امین کے معنے یا تو امن کے ہوتے ہیںاور یا مامون کے ہوتے ہیں یعنی یا تو س کے معنے ہیں کہ وہ بلد جو دنیا کو امن دیتا ہے اور یا پھر اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ بلد جس کو خدا نے مامون کردیا ہے۔ میرے نزدیک بلدالامین کے دونوں معنے ہوسکتے ہیں یہ بھی کہ وہ شہر جو امن دینے والا ہے اور یہ بھی کہ وہ شہر جسے امن دیا گیا ہے۔ امین کا لفظ جو اس آیت میں استعمال کیا گیا ہے اس سے صاف پتہ لگتاہے کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اس وقت کے مکہ کی حالت کا اس میں ذکر نہیں کیونکہ اس وقت تو جو کچھ کیفیت بھی اس کا ذکر اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں کرچکا ہے انت حل بھذ االبلد تجھے اس بلد میں حلال سمجھا جارہا ہے اور کوئی تکلیف نہیں جو تجھے نہ پہنچائی جاتی ہو اور کوئی ظلم نہیں جو تجھ پر نہ توڑا جاتا ہو۔ ہرقسم کے تیروں کا نشانہ انہوں نے تجھ کو بنایا ہوا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایک جائز فعل کا ارتکاب کررہے ہیں۔ جس شہر میں محمد ﷺ جیسے امن پسند انسان پر ظلم کیا جاتا تھا وہ بلدالامین کس طرح کہلاسکتا تھا۔ پس بلدالامین سے درحقیقت مکہ کی وہ حالت مراد ہے جو فتح مکہ کے بعد پیدا ہوئی جب ہر قسم کے مظالم کا سلسلہ جاتا رہا تھااور مسلمانوںکو کفار پر غلبہ اور اقتدار حاصل ہوگیا تھا۔ ورنہ فتح مکہ سے پہلے وہ بلدالامین کہا تھا۔ نہ اس میں روحانی لحاظ سے امن تھا نہ جسمانی لحاظ سے۔ دینی امن لو تو مکہ وہ شہر تھا جہاں لوگوں کے ایمانوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا تھا اورانہیں خدائے واحد کی پرستش کی بجائے بتوں کی پرستش کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا اور اگر جسمانی لحاظ سے دیکھو تو مکہ والوں کی طرف خطرناک سے خطرناک ظلم ایک ایسی قوم پر ہورہا تھا جو انصاف پسند اور مخلوق کی خیرخواہ تھی جو اس مقصد کو لے کر کھڑی ہوئی تھی کہ دنیا میں امن قائم ہونا چاہئے، ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کرنا چاہئے اور الٰہی فرائض کو پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کرنا چاہئے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک مقصد بھی ایسا ہے جس پر مکہ والوں کو غصہ آنا چاہئے تھا اور جس کی بنا پر انہیں اپنی ترکش کا ہر تیر مسلمانوں کے سینہ کی طرف پھینکنا چاہئے تھا مگر ہوا یہی کہ مسلمانوں کو دکھ دیا گیا، ان کو ستایاگیا، ان کو مارا گیا، ان کے ننگ وناموس پر حملہ کیا گیا اور انہیں شدید سے شدید عذاب میں ایک لمبے عرصہ تک مبتلا کیا گیا۔ پھر یہی نہیں بلکہ ان کے محبوب آقا پر جس کی غلامی وہ اپنے لئے فخر کا موجب سمجھتے تھے اور جس کے اشارہ پر وہ اپنی ہر چیز قربان کرنے کیلئے تیار رہتے تھے متواتر اور مسلسل مظالم کئے گئے حالانکہ قوم کا آپ کے متعلق یہ فتویٰ تھا کہ آپ صدق اور امین ہیں۔ گویا مکہ میں کافر کو امن حاصل تھا، ایک بت پرست کو امن حاصل تھا، ایک جھوٹے اور دغا باز کو امن حاصل تھا، ایک ظالم اور غاصب کو امن حاصل تھا لیکن اگر کسی شخص کو مکہ میں امن حاصل نہیں تھا تو صرف اس کو جو قوم میں صدوق اور امین مشہور تھا۔ غرض روحانی طو رپر دیکھ لو یا جسمانی طور پر مکہ کو اس وقت کی حالت کے لحاظ سے قطعی طور پر بلد الامین نہیں کہا جاسکتا تھا۔ روحانی طور پر یہ کیفیت تھی کہ مکہ میں لوگوں کے ایمانوں کو لوٹا جاتا تھا۔ کبھی کہاجاتا لات پر چڑھاوا چڑھائو۔ کبھی کہا جاتا عزیٰ پر چڑھاوا چڑھائو۔ کبھی منات اور ھبل اور دوسرے بتوں کی پرستش پر مجبور کیا جاتا۔ یہ بت پرستی مکہ میں اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ بیت اللہ جو خدائے واحد کی عبادت کیلئے بنایا گیا تھا خود اس میں تین سو ساٹھ بت رکھے گئے تھے اور ہر روز ایک نئے بت کے سامنے اپنے سر جھکاتے جاتے تھے۔ پس بلد الامین میں مکہ کی اس حالت کا ذکر نہیں جو اس سورۃ کے نازل ہونے کے وقت بھی بلکہ ان الفاظ میں اس آخری ترقی کا ذکر ہے جو رسول کریم ﷺ کو ہجرت کے بعد حاصل ہونے والی تھی۔ تین بھی ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے جب آدمؑ شیطان پر کامیاب ہوئے۔ زیتون بھی ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے جب نوحؑ طوفان سے بچے۔ طور سینین بھی ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے جب موسیٰؑ کو آئندہ ترقیات کی خوشخبری ملی۔ اسی طرح بلدالامین بھی ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے جس کی ابتدائی مکی زندگی میں پیشگوئی کردی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ گو آج مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں مگر ایک دن آنے والا ہے جب مکہ تمہارے لئے اور سب دنیا کیلئے بلدالامین ہوگا۔ ہر قسم کے مظالم کا سلسلہ مٹ جائے گا اور محمد رسول اللہ ﷺ اور آ پ کے ساتھیوں کو امن حاصل ہوجائے گا۔ گویا ہجرت بجائے مضر ہونے کے اسلام اور مسلمانوں کی رقی کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ تم سمجھو گے کہ ہم نے اسلام کو تباہ کردیا مگر خداتعالیٰ محمدرسول اللہ ﷺ کو پھر اس شہر میں واپس لائے گا۔ آپ کو فتح اور کامرانی عطا کرے گا ، آپ کے ہاتھ سے مکہ کے ایک ایک بت کو تڑوائے گا، شرک کا قلع قمع کردیا جائے گا اور خدائے وحد کا نام مکہ کی گلی کوچوں میں گونجنا شروع ہوجائے گا اور اس طرح روحانی امن قائم ہوجائے گا اس کے علاوہ اس وقت تم میں یہ طاقت نہ رہے گی کہ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کی طرف نظربد سے دیکھ سکو یا غریبوں پر ظلم کرسکو اور اس طرح جسمانی طور پر مکہ بلدالامین ہوجائے گا اور اگر امین کے معنے مامون کے لو تو اس آیت کا یہ مفہوم ہوگا کہ گو مکہ ہمیشہ سے محفوظ چلا آتا ہے مگر ایک موقع ایسا آنے والا ہے جب اس کو قسراً فتح کیا جائے گا۔ جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ان اللہ حرم مکۃ ولم یحل لاحد قبلی ولا لاحد بعدی و انما حلت لی ساعۃ (بخاری کتاب البیوع باب ما قیل فی الصواع) کہ مکہ بلدالحرام ہے اور قیامت تک حرام ہی رہے گا کسی شخص کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ مکہ پر حملہ کرے یا اس کی حرکت کو کسی اور رنگ میں توڑنے کی کوشش کرے۔ صرف مجھے اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ میں قسراً مکہ کو فتح کروں مگر میرے لئے بھی یہ اجازت صرف چند گھڑیوں کیلئے تھی ہمیشہ کیلئے نہیں تھی۔
یہ ایک طبعی بات ہے کہ لمبے عرصہ میں عارضی طور پر اگر کوئی واقعہ ہوجائے تو انسان اس کو نظرانداز کردیا کرتاہے۔ وہ شخص جو دس پندرہ سال تک تندرست رہے اگر ایک دن اسے بخار ہوجائے تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ وہ بیمار آدمی ہے کیونکہ یہ بیماری ایک لمبے عرصہ میں صرف تھوڑی سی دیر کیلئے اس پر آئی تھی۔ اسی طرح بلدالامین میں اس طرح بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ بیشک مکہ پر ایک ایسا حملہ مقدر ہے جو اس کی حلت کو توڑ دے اور بیشک ایک دن محمد رسول اللہ ﷺ اس قسراً فتح کریں گے مگر اس سے یہ نہ سمجھنا کہ مکہ بلدالامین نہیں۔ اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے امن دیا گیا ہے۔ اس کی حرمت کو خداتعالیٰ نے اپنے حکم سے قائم کیا ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کا اس میں قسراً داخلہ ایک وقتی چیز ہوگا جس کی اللہ تعالیٰ بعض پیشگوئیوں کو پورا کرنے کیلئے اجازت دے گا ورنہ مکہ بلدالامین تھا بلدالامین ہے اور بلدالامین رہے گا۔ کوئی شخص اس کی حرمت کو توڑنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ نے جب مکہ فتح کرلیا تو اس کے بعد آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ یہ حملہ صرف میرے لئے مقدر تھا۔ آج کے بعد کسی انسان کیلئے جائز نہیں کہ وہ مکہ کی حرمت کو توڑنے کی جرأت کرے۔
پس چونکہ ایک زمانہ بھی ایسا آنا تھا جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مکہ کی حرمت کو توڑا جانا مقدر تھا اور خود خدا نے یہ کہنا تھا کہ تمہارے لئے مکہ پر حملہ کرنا جائز ہے اس لیے جب تک وہ موقع آکر گزر نہ جاتا مکہ کامل طور پر بلدالامین نہیں کہلا سکتا تھا بیشک وہ پہلے بھی بلدالامین تھا اور بعد میںبھی وہ بلدالامین رہا مگر چونکہ درمیان میں ایک وقفہ ایسا آنا تھا جس مین اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت مکہ کو قسراًفتح کیا جانا مقدر تھا اس لیے کامل طور پرمکہ اگر بلدالامین کہلا سکتا تھا تو فتح مکہ کے بعد ہی نہ کہ اس سے پہلے ۔چنانچہ جب رسول کریم ﷺ نے مکہ فتح کر لیا تو اسکے بعد آپ نے ہمیشہ کے لیے مکہ کی حرمت کو قائم فرما دیا بہرحال جب تک مکہ فتح نہیں ہوا تھا وہ کلی طور پر بلدالامین نہیں کہلا سکتا تھا کیونکہ ایک سانحہ موجود تھا جس میں اس کی حرمت کو ظاہری نگاہوں میں توڑا جانا تھا کلی طور پر اگر وہ بلدالامین قرار پایا توفتح مکہ کے بعد۔غرض یہ تینوں واقعات فتح مکہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اگر ایمان کے لحاظ سے مکہ کے امن کو لو توفتح مکہ کے بعد اس میں سے شرک نکلا اور اگر جسمانی لحاظ سے مکہ کے امن کو لو تو فتح مکہ کے بعد کفار کے جورو ستم کا سلسلہ بند ہوا اور اگر مکہ کا مامون ہونا لو تب بھی فتح مکہ کے بعد اسے امن حاصل ہوا جب تک مکہ آنحضرتﷺکے ہاتھ پر فتح نہیں ہوا وہ کامل طور پر بلدلاامین نہیں کہلا سکتا تھا کیونکہ ایک سانحہ ابھی آنے والا تھا جس میں مکہ کی حرمت کو اللہ تعالیی کے حکم کے ماتحت محمدﷺنے توڑنااور اپنے لشکر سمیت اس کو فتح کرنا تھا غرض مکہ کا بلدلاامین ہونا خواہ روحانی اور جسمانی لحاظ سے امن ہونے کی صورت مین لوگ خواہ مکہ کے مامون ہونے کی صورت میں لو ہر طرح مکہ اگر بلدلاامین بنا ہے تو فتح مکہ کے بعد۔اس سے پہلے نہ دینی لحاظ سے اس میں امن تھا نہ جسمانی لحاظ سے اس میں امن تھا اور نہ وہ خود کامل طور پر مامون سمجھا جا سکتا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم یہ چاروں واقعات تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں ان میں سے تین واقعات تو ہو چکے ہیں اور چوتھا ابھی ہونے والا ہے۔تم گزشتہ تین واقعات سے قیاس کر سکتے ہو کہ یہ چوتھا واقع بھی ہونے والاہے۔اوریہ شہر جو آج محمدرسولﷺ اور ان کے ساتھیوں کے لئے آگ ہے ہجرت کے بعد بلدلاامین ہونے والا اوردنیا کو اس بات کی چوتھی شہادت مہیا کرکے دینے والا ہے کہ
لقد خلقناالانسان فی احسن تقویم یقینا ہم نے انسان کو موزوں سے موزوں حالت میں پیدا کیا ہے
حل لغات: اتقویم:التعدیل (اقرب) تقویم کے معنی تعدیل کے ہیںیعنی کسی چیز کو صحیح القویٰ بنانا اور ہر قسم کی کجی اور خرابی سے اس کو محفو ظ ر کھنا۔پس احسن تقویم کے معنی ہوئے اعلیٰ سے اعلیٰ اورنقص سے پاک اور بے عیب بنانا ۔یہ الفاظ انسان کے لئے بطور حال استعمال ہوے ہیں۔یعنی حال کونہ فی احسن تقویم یعنی انسان کو ایسا بنایا ہے ۔کہ تعدیل و اصلاح کرنے میں بینظیر ہے۔یہاںمفسرین کو دقت پیش آئی ہے کہ اعتدال اور تقویم پیدا کرنے والا تو خدا تعالیٰ ہے انسان ایسا کس طرح ہو سکتا ہے ؟اس کا جواب بعض لوگوں نے یہ دیا ہے کہ یہاں تقویم سے مراد قوام ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن قویٰ کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ لیکن بعض کہتے ہیں کہ یہاں حذف مضاف ہے اور تقدیر یہ ہے کہ فی احسن قوام التقویم یعنی تقوی کے نتیجہ میں جو قوام پید اہوتا ہے اس کا احسن انسان کو حاصل ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق انسان ہے۔ اور اسے دوسروں سے زیادہ قوام حاصل ہے۔ اس لحاط سے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدائش کی صفت کا بہترین نمونہ انسان کو بنایا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس آیت میں فی زائدہ ہے۔ اور احسن تقویم اللہ تعالیٰ کیلئے حال ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی احسن تقویم سے پیدا کیا ہے۔ گویا ان کے نزدیک لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے انسان کو نہایت اعلیٰ درجہ کی تقویم کے ساتھ پیدا کیا ہے یعنی خدا نے اپنی تعدیل کی صفت کامل طور پر انسان کی پیدائش میں ظاہر کی ہیں۔ اس کے بھی یہی معنے بن جاتے ہیں کہ خدا نے انسان کو اعلیٰ درجہ کی اعتدالی طاقتوں کے ساتھ بنایا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ایک زائد معنے یوں بھی نکل آتے ہیں کہ انسان باقی تمام مخلوق سے افضل ہے۔ جب خدا نے انسان کو احسن تقویم میں بنایا ہے اور اس نے اپنی صفت تقویم کامل طور پر انسانی پیدائش میں ہی ظاہر کی ہے تو اس سے لازمی طور پر یہ نتیجہ نکل آیا کہ دوسری کوئی مخلوق انسان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو صوفیاء میں زیر بحث چلا آیا ہے۔ اور انہوں نے اپنی کتابوں میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ انسان افضل ہیں یاملائکہ۔ اس کا جواب بعض لوگوں نے تو یہ دیا ہے کہ ملائکہ افضل ہیں کیونکہ ان سے کسی قسم کی بدی سرزد نہیں ہوتی لیکن بعض نے کہا ہے کہ انسان بحیثیت انسان یا بحیثیت جماعت ملائکہ سے افضل ہے ۔ اس لئے کہ خدا نے اس کو ایسی طاقتیں دے کر بھیجا ہے کہ اگر وہ ان کا صحیح طور پر استعمال کرے تو ملائکہ سے بڑھ جاتا ہے۔ میرے نزدیک لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انسان ملائکہ سے افضل ہے۔ اس لئے کہ اگر اس کے یہ معنے ہوں کہ خدا نے اپنی تقویم کی صفت کو اعلیٰ سے اعلیٰ طور پر انسان پر ظاہر کیا ہے تب بھی اس کے یہی معنے ہیں کہ خدا نے انسان کو تمام مخلوق میں سے اعلیٰ مقام پر پیدا کیا ہے۔ اور اگر اس کا دوسرا مفہوم لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہتر سے بہتر طاقتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کے اندر کمال درجہ کا اعتدال رکھا ہے تب بھی اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انسان ملائکہ سے افضل ہے۔ کیونکہ انسان ہی وہ مخلوق ہے جس کے اندر کمال درجہ کا اعتدال پیدا کیاگیا ہے۔ اور اسے بہتر سے بہتر طاقتوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ بہرحال اس آیت سے یہ استدلال ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بحیثیت فرد نہیں بلکہ بحیثیت انسان دوسری تمام مخلوق پر اپنی بالقوہ طاقتوں کے ذریعہ فضیلت بخشی ہے خواہ وہ ملائکہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر ہم عقلی طور پر غور کریں تب بھی ہم اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ملائکہ انسان سے افضل نہیں ہوسکتے اس لئے کہ ملائکہ کے اندر جو نیکیاں پائی جاتی ہیں وہ جبری ہیں اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے دنیا میں اونچے اونچے پہاڑ کھڑے کردیئے ہیں۔ بیشک وہ اونچے ہیں لیکن اس اونچائی میں پہاڑوں کی کوئی خوبی نہیں۔ ہمالیہ پہاڑ یہ فخر نہیں کرسکتا کہ میں کتنا اونچا نکل گیا ہوں کیونکہ اس کی اونچائی اور بلندی جبری ہے۔ خدا نے اسے اونچا بنایا اور وہ بن گیا۔ اس میں اس کے کسی ذاتی کمال یا خوبی کا دخل نہیں ہے لیکن اگر کوئی انسان اپنی کوشش اور محنت اور ورزش سے اپنے جسم کو فربہ بنالیتا ہے تو یہ یقینا اس کی خوبی سمجھی جائے گی۔ چونکہ انسان کے اندر نیکی کی قوت بھی رکھی گئی ہے اور بدی کی بھی اور وہ دونوں طرف جاسکتا ہے یعنی نیکی میں حصہ لے کر اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کرسکتا ہے اور بدی کا ارتکاب کرکے خداتعالیٰ کو ناراض بھی کرسکتا ہے۔ اس لئے وہ شخص جو نیکی کرتا ہے خواہ بظاہر معمولی درجہ کا مومن ہو وہ عام ملائکہ پر ضرور فضیلت رکھے گا۔ کیونکہ ملائکہ کا کمال ذاتی نہیں بلکہ انہیں یہ کمال اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنا بنایا مل گیا ہے۔ اس ضمن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انسان کا فرد کامل ملائکہ کے فرد کامل سے بڑا ہے یا نہیں؟ مگر میرے نزدیک اس سوال کا جواب اسی آیت سے نکل آتا ہے جب خدا نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے اورملائکہ سے اسے زیادہ قوتیں عطا فرمائیں ہیں تو لازماً انسان کا فرد کامل ملائکہ کے فرد کامل سے افضل ہوگا چنانچہ رسول کریم ﷺ نہ صرف باقی انسانوں سے بلکہ تمام ملائکہ سے بھی افضل تھے۔ بیشک ایک عام مومن جو گناہوں اور غلطیوں کا ارتکاب کرتا ہے اس سے ملک افضل ہوتا ہے کیونکہ وہ اسے بالقوہ طاقتوں کے لحاظ سے فضیلت دی گئی تھی مگر ان قوتوں کے بالفعل ظہور میں وہ بہت پیچھے رہ گیا۔ لیکن جو شخص اپنی بالقوہ طاقتوں کا نہایت اعلیٰ طریق پر اظہار کرتا ہے اس کی ملائکہ پر فضیلت سے کسی صورت میں بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ جو طاقتیں اسے ملائکہ سے زیادہ دی گئیں تھیں وہ عملی طور پر بھی اس کی طرف سے ظہو رمیں آگئیں۔ اس لحاظ سے رسول کریم ﷺاور دوسرے انبیاء یقینا ملائکہ کے فرد کامل سے افضل ہیں ۔ گو مسلمانوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ وہ افضل نہیں ہیں۔ مگرمیرے نزدیک بغیر اس توجیہہ کے فی کو زائد قرار دیا جائے یہ جملہ اپنی اصل شکل میں بھی درست ہے۔ اور احسن تقویم انسان کی طرف بھی منسوب ہوسکتا ہے۔ مفسرین کو شبہ یہ پڑا ہے کہ چونکہ خدا معتدل ہے اس لئے انسان کو معتدل نہیں کہا جاسکتا۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کیلئے رئوف کی صفت بھی آتی ہے، رحیم کی صفت بھی آتی ہے، رزاق کی صفت بھی آتی ہے، خلق کی صفت بھی آتی ہے، بصیر کی صفت بھی آتی ہے، سمیع کی صفت بھی آتی ہے۔ اگر یہ تمام صفات انسان میں پائی جاسکتی ہیں تو احسن تقویم کی صفت اس میں کیوں نہیں پائی جاسکتی؟ جس طرح انسان رئوف اور رحیم اور رزاق اور خالق اور بصیر اور سمیع ہوسکتا ہے وہ احسن تقویم بھی ہوسکتا ہے مگر بہرحال اسی حد تک یہ صفات اس میں پائی جائیں گی جس حد تک انسان ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرسکتا ہے۔ یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ ان صفات میں انسان خداتعالیٰ کے مقابل میں کھڑا ہوسکتا ہے کیونکہ ہر شخص کا کام اس کی طاقتوں کے مطابق ہوتا ہے۔ یہاں انسان کا خدا کے ساتھ مقابلہ نہیں بلکہ مخلوق کا مخلوق کے ساتھ مقابلہ ہے اور مضمون یہ بیان کیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق میں سے انسان ہی ایک ایسا وجود ہے جو احسن تقویم کا نظارہ دکھاسکتا ہے۔ ملائکہ اس کی مخلوق ہیں مگر وہ اس صفت میں انسان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اسی طرح اور جس قدر مخلوق پائی جاتی ہیں اس میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو احسن تقویم ہونے کے لحاظ سے انسان کا مقابلہ کرسکے۔ مثلاً وہی کام جو رسول کریم ﷺ کے سپرد کیا گیا جبریل نہیں کرسکتا تھا یا وہ کام جو اور انبیاء کے سپرد ہوا خداتعالیٰ کے دوسرے ملائکہ سرانجام نہیں دے سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے خداتعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کیلئے موسیٰؑ کو بھیجا ، عیسیٰؑ کو بھیجا، دائودؑ اور سلیمانؑ اور ابراہیمؑ کو بھیجا ، رسول کریم ﷺ کو بھیجا مگر ملائکہ کو نہیں بھیجا کیونکہ انسان میں خدا نے احسن تقویم کی صفت رکھی تھی جو ملائکہ میں نہیں رکھی یعنی تربیت اور تعلیم اور اصلاح کا کام جو انسان کرسکتا ہے وہ ملائکہ یا خداتعالیٰ کی کوئی اور مخلوق نہیں کرسکتی اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں سے انسان بحیثیت جماعت افضل ہے اور انسان کامل ملائکہ کے فرد کامل سے افضل ہے۔
غرض میرے نزدیک اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے انسان کو اس حالت میں پیدا کیا ہے کہ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ تقویم کرتا ہے یعنی دوسرے انسانوں اور دوسری مادی اشیاء کی تعلیم و تربیت اور تقدیر اور تصویر اور تخلیق نہایت اعلیٰ درجہ کی کرتا ہے گویا خدا نے انسان کو نہایت اعلیٰ درجہ کا روحانی اور جسمانی معلم بنایا ہے۔ نہایت اعلیٰ درجہ کا روحانی اور جسمانی خالق بنایا ہے۔ نہایت اعلیٰ درجہ کا روحانی اور جسمانی مربی بنایا ہے۔ نہایت اعلیٰ درجہ کا روحانی اور جسمانی صناع بنایا ہے اور یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن میں دوسری مخلوق پر اسے بہت بڑی فضیلت حاصل ہے۔ یہ معنے ایسے ہیں جن سے قطعاً کوئی شرک لازم نہیں آتا۔ جب یہ ایک حقیقت ہے جسے سب تسلیم کرتے ہیں کہ انسان بصیر بھی ہے، سمیع بھی ہے، رئوف بھی ہے، رحیم بھی ہے تو احسن تقویم کی صفت بھی اس میں ہوسکتی ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ ہم نے احسن تقویم کی صفت بھی انسان کوبخشی ہے اور اسے روحانی اور جسمانی خالق بنایا ہے کہ اس کی تربیت سے کامل انسان پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح دنیا میں وہ صنعت و حرفت کے بڑے بڑے کمالات دکھاتا ہے۔ چنانچہ چار دور اس کے مصد ق ہیں۔ اگر تم ان چاروں دوروں کو دیکھو تو تمہیں ماننا پڑے گا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے تربیت اور تعلیم اور تعدیل کی بہت بڑی قوت بخشی ہے۔ آدم آئے اور انہوں نے وہ اصلاح کی کہ سینکڑوں سال تک چلتی چلی گئی۔ نوحؑ آئے اور وہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی پاکباز جماعت قائم کرکے دنیا پر اپنی اصلاح کے انمٹ نقوش قائم کرگئے۔ موسیٰؑ آئے انہوں نے تعدیل القویٰ کیا اور ایسی اعلیٰ درجہ کی جماعت قائم کی کہ خدا کا جلال اور اس کا جمال اس جماعت کے ذریعہ دنیا پر ظاہر ہوگیا۔ اب محمد رسول اللہ ﷺ آئے ہیں ان کے ذریعہ بھی انسان کی یہ صفت ایک دن ظاہر ہوگی اور اس طرح دنیا پر ثابت ہوجائے گا کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم کی قوت دے کر بھیجا ہے۔ آدم احسن تقویم کا ثبوت ہے، نوحؑ احسن تقویم کا ثبوت ہے، موسیٰؑ احسن تقویم کا ثبوت ہے اسی طرح محمد ﷺ احسن تقویم کا ثبوت ہیں۔ تم دیکھو گے کہ ان کی تعلیم اور تربیت کے نتیجہ میں انسان کیسی کیسی قوتیں ظاہر کرتا ہے۔
یہ چار دو دور جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے درحقیقت انسانی تکمیل کے چار دور ہیں۔ آدم دور تمدن کا بانی ہے۔ نوح دور شریعت کا مؤسس (HERO) ہے۔ موسیٰ دور تفسیر کی بنیاد رکھنے والے ہیں اور محمد ﷺ دور تکمیل کے بانی ہیں۔ انسانیت کی تشکیل آدم نے کی ۔ شریعت کی بنیاد نوح نے رکھی لیکن شریعت کی تفاسیر موسیٰ نے بیان کیں اس کے بعد محمد ﷺ شریعت کی تکمیل کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کئے گئے۔ آپ آئے اور آپ نے انسانیت اور تمدن کو بھی مکمل کیا۔ آپ نے شریعت کو بھی مکمل کیا اور آپ نے تفصیل شریعت کو بھی تکمیل تک پہنچایا۔ گویا وہ تینوںدور جو نامکمل تھے ان کو محمد ﷺ نے اپنے کمال تک پہنچادیا۔ آپ نے دور تمدن کو نقائص سے پاک کرکے ایک کامل اور بے عیب تمدن دنیا کے سامنے رکھا۔ آپ نے دور شریعت کو ہر قسم کے نقائص سے پاک کرکے ایک کامل اور بے عیب شریعت کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اور آپ نے دور تفصیل کو ہر قسم کے نقائص سے منزہ کرکے ایک ایسا کامل اور بے عیب مجموعہ قانون دنیا کو دیا جس میں ضرورت کی ہر شے موجود تھی اور بے ضرورت کوئی چیز نہ تھی۔ وہ کامل اور بے عیب تھی۔ اپنی ہمہ گیری کے لحاظ سے اور کامل اور بے عیب تھی۔ اپنی گہرائی کے لحاظ سے گویا وہ شریعت آپ نے دنیا کے سامنے پیش کی جو اپنی وسعت کے لحاظ سے بھی کامل تھی اور اپنی عمق کے لحاظ سے بھی کامل تھی۔ نوحؑ نے بیشک دنیا کے سامنے سب سے پہلے شریعت پیش کی مگر اس میں وسعت نہیں تھی صرف عمق تھا اور وہ بھی چند موٹے موٹے مسائل کے متعلق۔ اس کے بعد موسیٰ نے جو شریعت پیش کی اس میں وسعت تو بھی مگر تمام امور میں عمق نہیں تھا لیکن محمد رسول اللہ ﷺ نے شریعت کی گہرائیوں کو بھی مکمل کیا اور اس کی وسعت کو بھی مکمل کیا۔ کوئی اخلاقی گہرائی نہیں تھی جس پر آپ پر نازل شدہ کتاب میں روشنی نہ ڈالی گئی ہو اور کوئی اخلاقی وسعت نہیں تھی جو آپ کی لائی ہوئی کتاب میں بیان نہ ہوئی ہو۔ موسیٰ سے شریعت کی کئی گہرائیاں رہ گئیں تھیں۔ نوح سے شریعت کی کئی وسعتیں رہ گئیں تھیں اور آدم سے تمدن کی کئی اہم باتیں رہ گئی تھیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ نے ان سب کو مکمل کیا اور اس طرح ثابت ہوگیا کہ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ہم نے انسان کو اعلیٰ درجہ کی تقویم کے ساتھ پید اکیا ہے۔ ہر دور میں بنی نوع انسان کی ایک تکمیل کی اور یہ عمارت بڑھتے بڑھتے کہیں کی کہیں جانکلی۔
تفسیر: اوپر بتایا جاچکا ہے کہ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم کے کئی معنے ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ہم نے انسان کو بہترین وجود بنایا ہے۔ یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ہم نے انسان کو بہترین طاقتیں دے کر پیدا کیا ہے اور یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ انسان کو ہم نے بڑا صناع بنایا ہے۔ اس کے اندر تقویم کی طاقت رکھی ہے اور وہ اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی اور جسمانی پیدائش کرسکتاہے۔ یہ دعویٰ جو اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس کے متعلق مختلف مذاہب میں چھ بڑے بڑے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان چھ اختلافات میں سے ایک عقیدہ تو وہ ہے جو اسلام پیش کرتاہے اور پانچ عقائد وہ ہیں جو اور مذاہب دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ذیل میں ان تمام عقائد کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔
پہلا عقیدہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ انسان برائی کا میلان لے کر دنیا میں پیدا ہوا ہے۔ ہاں سدھارنے سے وہ سدھر بھی جاتا ہے۔ گویا انسان کا فطرتی میلان برائی کی طرف ہے۔ اور پیدائش کے دن سے ہی ایک کمزوری اس کے اندر رکھ دی گئی ہے گو اصلاح کیلئے بھی اسے طاقتیں دی گئی ہیں۔ بالفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان لچک دار تو ضرور ہے مگر اس کی بنیاد گند پر ہے۔ جیسے وہ درخت جو دلدل میں اگتا ہے لچکدار تو ہوتا اور اگر ہم اسے کھینچ کر خشکی کی طرف لائیں تولاسکتے ہیں لیکن بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی جڑیں ایک گندی زمین میں ہیں۔
دوسرادعویٰ یہ کیاجاتا ہے کہ انسان بھلائی کو لے کر پیدا ہوا تھا۔ مگر پہلے انسان سے ہی بدی کا ارتکاب ہوگیا۔ اور اس نے بدی کا ارتکاب کرلیا اور چونکہ انسان ایسی طرز پر دنیا میں آیا ہے کہ وہ ماں باپ سے ضرور ورثہ کا اثر لیتا ہے اس لئے بوجہ اس کے کہ پہلے ماں باپ یعنی آدم اور حوا نے گناہ کیا تھا اب ان کی اولاد باوجود اپنی فطرت میں نیکی رکھنے کے گناہ کرنے پر مجبور ہے۔ بیشک ان کی فطرت انہیں نیکی کی طرف مائل کرتی ہے مگر چونکہ باپ نے انہیں ورثہ میں گناہ دیا ہے اس لئے گناہ کی طرف میلان ان کی فطرت میں چلتا چلا جاتا ہے کیونکہ یہ ورثہ کا اثر ہے جو ان کے اندر آگیا ہے۔ وہ کہتے ہیں انسان میں دو قسم کی طاقتیں ہوتی ہیں ایک ذاتی اور ایک اکتسابی۔ ذاتی قوت انسان کے اندر بیشک نیکی کی ہے مگر چونکہ گناہ اسے ورثہ میں مل گیا ہے اس لئے ورثہ کے گناہ نے اس کی فطرتی نیکی میں آمیزش کردی ہے جس سے وہ بلا کسی اور امداد کے آزاد نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ جب خدا نے دیکھا کہ انسان کسی صورت میں بھی اس گناہ سے بچ نہیں سکتا تو اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم اگر لوگوں کی خاطر قربانی کرو اور بے گناہ ہوکر لوگوں کے گناہوں کے بدلے قربان ہوجائو تو دنیا اس مصیبت سے نجات حاصل کرسکتی ہے۔ بیٹے نے اس تجویز کو مان لیا اور خد انے اس سے کہا کہ اب تم انسان کی صورت میں دنیا میں جائو۔ لوگوں کو یہ مقدرت حاصل ہوگی کہ وہ تمہیں ماریں پیٹیں، سزائیں دیں اور بالآخر پھانسی پر لٹکادیں۔ بیشک انسان بن کر لوگوں کے ہاتھوں سے تم یہ سب دکھ برداشت کرو گے مگر چونکہ بے گناہ ہونے حالت میں تم کو یہ دکھ ملے گا اس لئے خداتعالیٰ اس کے بدلہ میں ساری دنیا کے گناہ بخش دے گا۔ پس دوسرا خیال یہ ہے کہ انسان کی اصل فطرت تو نیک ہے مگر چونکہ پہلے انسان سے ہی گناہ ہوگیا اس لئے فطرت کی نیکی کے باوجود ورثہ میں انسان کے اندر گناہ کا مادہ آگیا۔ اس گناہ کے وہ کفارہ مسیح پر ایمان لائے پر نجات حاصل نہیں کرسکتا۔
تیسر انظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ انسان کسی خاص ملکہ کو لے کر پیدا نہیں ہوا۔ یہ کہنا کہ اس کی فطرت میں نیکی ہے یا یہ کہنا کہ اس کی فطرت میں بدی ہے یہ دونوں خیال غلط ہیں۔ انسان بعض تقاضے لے کر دنیا میں آتا ہے جو نہ نیک ہوتے ہیں نہ بد۔ مثلاً شجاعت، طہور، محبت، سخاوت، رفق اور غضب وغیرہ کئی قسم کے مادے ہیں جو انسان کے اندر پائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنی تعلیم و تربیت سے متاثر ہوتا اور اس کے مطابق بن جاتا ہے۔ گویا ہر انسان حالات سے مجبور ہے۔ یعنی یوں تو اس کی فطرت آزاد ہے مگر ماحول میں وہ آزاد نہیں رہتا۔ جس قسم کا ماحول اسے میسر آتا ہے اسی قسم کا رنگ اس پر چڑھ جاتا ہے۔ مثلاً اگر اس کے ماں باپ ہندو ہیں تو وہ ہندو بن جائے گا۔ یا اپنے محلہ کے لڑکوں سے کھیلتا ہے تو جس قسم کے اخلاق ان کے ہوتے ہیں اسی قسم کے اخلاق ان میں پیدا ہوجاتے ہیں۔ بہرحال حالات اسے مجبو رکرکے نیکی یا بدی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اگر حالات اچھے ہوں تو اچھا بن جاتا ہے اور اگر برے ہوں تو وہ برا بن جاتا ہے۔ گویا اس کی زندگی کا تمام دارومدار اس کے ماحول پرہے اور وہ نیک یا بد حالات کی مجبوری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ اس کے اندر نیکی یا بدی کا کوئی مادہ پایا جاتا ہے بلکہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس کا ماحول اسے مجبور کرکے کبھی نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور کبھی بدی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ فرائیڈ کی تھیوری ہے جو آج کل کے فلسفیوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔
چوتھا خیال لوگوں میں یہ پایا جاتا ہے کہ انسان مجبور پید اکیاگیا ہے۔ گویا وہ مجبور ہے قانون الٰہی سے۔ یہ آجکل کے بگڑے ہوئے صوفیوں کا خیال ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان وہی کچھ کرتا ہے جو اس کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے اور اگر انہیں کسی اصلاح کی طرف توجہ بھی دلائی جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ جب ہماری تقدیر میں گناہ لکھا ہے تو ہم اس کے خلاف کیا کرسکتے ہیں۔
پانچواں خیال لوگوں میں یہ پایا جاتا ہے کہ انسان اپنی پیدائش کے نتائج بھگتنے کیلئے اس دنیا میں آتا ہے اور اس کی زندگی سابق کرم کا نتیجہ ہوتی ہے۔
چھٹا خیال جس کا اسلام مؤید ہے وہ یہ ہے کہ انسان بھلائی کے میلان کو لے کر پید اہوا ہے ہاں بگاڑنے سے وہ بگڑ بھی جاتا ہے۔
پہلا عقیدہ کہ انسان برائی کے میلان کو لے کر پیدا ہوا ہے ہاں سدھارنے سے وہ سدھر بھی سکتا ہے ۔ بدھوں، چینیوں اور وام مارگیوں وغیرہ کا ہے۔ دوسرا عقیدہ کہ انسان بھلائی کو لے کر پیدا ہوا ہے مگر بوجہ اس کے کہ آدم نے گناہ کیا اب ورثہ کا گناہ اس کے اندر آگیا ہے اور وہ اس سے بلا کسی اور امداد کے آزاد نہیں ہوسکتا ، عیسائیوں کا ہے۔ تیسرا عقیدہ کہ انسان کسی خاص ملکہ کو لے کر پیدا نہیں ہوا وہ اپنی تعلیم و تربیت سے متاثر ہوتا ہے اور اس کے مطابق ہوجاتا ہے گویا وہ مجبور ہے حالات سے، زمانہ حال کے فلسفی فرائیڈ کا ہے۔ چوتھا عقیدہ کہ انسان مجبور پیدا کیا گیا ہے گویا وہ مجبور ہے قانون الٰہی سے۔ یہ آخری زمانہ کے صوفیاء اور بعض عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔ پانچواں عقیدہ کہ انسان اپنی پیدائش کے نتائج بھگتنے کیلئے اس دنیا میں آتا ہے اور اس کی زندگی سابق کرم کا نتیجہ ہوتی ہے یہ ہندوئوں کا عقیدہ ہے۔ چھٹا عقیدہ کہ انسان دنیا میں بھلائی کے میلان کو لے کر پیدا ہو اہے اور اس کیلئے بے انتہاء ترقی کے راستے کھلے ہیں۔ ہاں بگاڑنے سے وہ بگڑ بھی جاتا ہے۔ یہ اسلام کا عقیدہ ہے۔
یہ چھ فلسفی نظریے ہیں ان میں سے چار جو فلسفیانہ کہلاتے ہیں جبر کی تائید میں ہیں۔ ایک کفارہ کا عقیدہ ہے کہ وہ جبر کی وجہ اپنے دادا (یعنی آدم) کے عمل کو کہتا ہے اور سب دنیا کے لوگوں کو فطرتاً برا قرار دیتا ہے۔ دوسرا تناسخ کا عقیدہ ہے کہ وہ جبر کی وجہ اپنی سابقہ جونوں کے عمل کو قرار دیتا ہے ۔ اور گو اس عقیدہ کے ماتحت بعض کو اچھا اور بعض کو برا کہا جاتا ہے مگر بہرحال تناسخ جونوں کے چکر کو برائی کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ یعنی جو اچھا ہے تناسخ ماننے والوں کے نزدیک ابھی وہ پورا اچھا نہیں تبھی وہ مختلف جونوں میں جاتا ہے گویا برائی ہر انسان میں ہے صرف فرق یہ ہے کہ کسی میں کم ہے کسی میں زیادہ۔ جو بظاہر اچھا نظر آتا ہے اس میں بھی درحقیقت برائی پائی جاتی ہے اور اسی لئے مختلف جونوں کے چکر میں اسے جانا پڑتا ہے۔ تیسرا مسلمانوں کا غلط العام عقیدہ ہے کہ وہ جبر کی وجہ خداتعالیٰ کے فعل کو کہتاہے یعنی کچھ انسان اچھے بنائے گئے ہیں اور کچھ برے۔ جن کو اچھا بنایا گیا ہے ان کو اچھی فطرت دے دی گئی ہے اور جن کوبرا بنایا گیا ہے ان کو بری فطرت دے دی گئی ہے۔ چوتھا فلاسفۂ جدیدہ کا عقیدہ ہے کہ وہ انسان کو آزاد نہیں کہتے گو وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے یا انسان کے اپنے یا اس کے کسی دادا کے فعل کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ ورثہ طبعی یا ماحول کے نتیجہ میں وہ مجبور ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ جن کے اندر ورثہ طبعی کے طور پر بعض طاقتیں آجاتی ہیں یا جو اچھے کام کرنے والوں کے ماحول میں رہتے ہیں وہ اچھے کام کرنے لگ جاتے ہیں اور کچھ لوگ جن کے اندر ورثہ طبعی کے طور پر بعض کمزوریاں آجاتی ہیں وہ برے کام کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس میں ان کا اپنا کوئی اختیا رنہیں ہوتا۔ ماحول ان کی فطرت کو بدل دیتا ہے۔
یہ عقیدہ کہ انسان بری فطرت لے کر دنیا میں آیا ہے اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب کا عقیدہ ہے۔ چنانچہ وہ عقائد جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان میں سے قریباً ہر عقیدہ میں یہ بات پائی جاتی ہے اور عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ گناہ اصل ہے جس کو مٹانا ہمارا فرض ہے۔ عوام الناس تو اس بات کے اس طرح قائل ہیں کہ وہ کہتے ہیں غلطی کرنابشر کاکام ہے۔ بدھوں کے نزدیک ہر انسان بری فطرت لے کر آیا ہے باقی عقائد بھی ایسے ہیں کہ اگر ان میں انسان کی کوئی خوبی تسلیم بھی کی جاتی ہے تو برے معنوں میں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ انسان حالات سے مجبورہوتا ہے اگر اس کیلئے اچھا ماحول میسر آجائے تو وہ اچھا ہوجاتا ہے اور اگر برا ماحول میسر آجائے تو وہ برا ہوجاتا ہے۔ اس عقیدہ میں گو انسان کی نیکی کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے لیکن ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ کوئی نیکی نہیں ۔ اگر کوئی شخص جبراً نیکی کرتا ہے تو اس کی نیکی حقیقی نیکی نہیں کہلاسکتی۔ حقیقی نیکی وہی ہوتی ہے جس میں جبر اور اکراہ کا کوئی پہلو نہ ہو۔ بہرحال قریباً سب مذاہب سوائے اسلام کے اس بات کے قائل ہیں کہ انسان بری فطرت لے کر آیا ہے مگر یہ سب عقائد باطل اور ناقابل قبول ہیں۔ پہلا عقیدہ کہ سب انسان بری فطرت لے کر پید اہوئے ہیں ایک تو عوام الناس میں پایا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بندہ بشر ہے اور اس با ت پر مجبور ہے کہ غلطی کرے۔ مگر جب ہم بچہ کی فطرت پر نگاہ دوڑاتے ہیں توہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات غلط ہے۔ بری فطرت آخر برے اعمال سے ہی پہچانی جاسکتی ہے۔ لیکن ہم جب بچوں کو دیکھتے ہیںتو ان میں یہ بات نظر آتی ہے کہ وہ جھوٹ خود نہیں بولتے بلکہ دوسروں کو جھوٹ بولتے دیکھ کر اس مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کسی بچے میں ذاتی طور پر چوری کا مادہ یا خیانت کا مادہ یا اسی قسم کی اور برائیوں کا مادہ نہیں پایا جاتا۔ بعض باتیں جو بچہ کرتا ہے اور جن کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہ بری ہیں وہ بری باتیں نہیں ہوتیں۔ اس لئے کہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا علم سے تعلق ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کا مال نہیںاُٹھانا چاہئے یہ ایک خوبی ہے جو ہر شخص میں ہونی چاہئے اور اگر کسی شخص میں یہ بات نہ پائی جائے تو ہم یقینا اس کو برا کہیں گے لیکن کبھی نہ کبھی اس کے ساتھ ہی اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہم اسی کو برا کہیں گے جو دوسرے کی ملک کا مفہوم سمجھتاہو۔ اور جانتا ہو کہ مال دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک انسان کا اپنا مال ہوتا ہے اور ایک دوسرے کا مال ہوتا ہے۔ جو چیز کسی دوسرے کی ملکیت میں وہ اٹھانی نہیں چاہئے ۔ جب تک یہ مفہوم کوئی شخص پوری طرح نہ سمجھتا ہو ہم اسے مجرم قرار دے کر اس کے فعل کو برا نہیں کہہ سکتے۔ اس نکتہ نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ بچہ بیشک بعض دفعہ دوسروں کی چیز اٹھا لیتا ہے مگر ہم اس سے اس کی فطرت کی برائی کا استدلال نہیں کرسکتے۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ دیکھو اگر بچہ کی فطرت میں نیکی تھی تو اس نے دوسرے کا مال کیوں اٹھایا؟ اس لئے کہ اسے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ملکیت کا کیا مفہوم ہے یا یہ کہ دوسرے کا کونسا مال ہوتا ہے؟ نہ وہ ملکیت کے معنی جانتا ہے۔ نہ دوسرے کے مال کی حقیقت کو جانتا ہے۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جو اس کے دائرہ عمل سے باہر ہوتی ہیں اور جو چیزیں بچہ کے دائرہ عمل سے باہر ہوں ان کو برایا بھلا نہیں کہا جاسکتا۔
فلسفیانہ طور پر یہ عقیدہ کہ انسان برائی کے میلان کو لیے کر پید اہوا ہے بدھوں کا ہے۔ ان کے نزدیک انسان کی فطرت بری ہے اور جب بر ی ہے تو انسان کے اندر جو خواہش بھی پیدا ہوتی ہے وہ بری ہے۔ اس لئے ان کا عقیدہ ہے کہ نجات کامل کو حاصل کرنے کیلئے خواہش کو مارنا چاہئے۔ جب تک ہم اپنی خواہشات کو مارتے نہیں اس وقت تک کامل نجات حاصل نہیں کرسکتے۔ مگر یہ بات عقلاً باطل ہے اس لئے کہ خواہشات کس چیز کا نام ہے؟ خواہشات نام ہے کھانے پینے کا، شادی کرنے کا، ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور تعلقات قائم کرنے کا، روزی کمانے کا ، علم پڑھنے کا، عبادت وغیرہ کرنے کا۔ یہ خواہشات ہیں جو انسان کے اندر پائی جاتی ہیں۔ لیکن جب ہم بدھ مذہب کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ شادی سے صرف بھکشو کو روکتا ہے۔حالانکہ نجات تو وہ سب دنیا کو دینا چاہتا ہے۔ اب اگر نجات خواہش مٹانے کا نام ہے تو جو بدھ مذہب والا ارادہ کرے گا کہ میں نکاح کروں اس کی نجات کس طرح ہوگی؟ آخر یہ تو ہو نہیں سکتا کہ جس طرح ناک انسان کو بغیر کسی ارادہ کے مل گیا ہے، جس طرح کان انسان کو بغیر کسی ارادہ کے مل گئے ہیں، جس طرح زبان انسان کو بغیر ارادہ کے مل گئی ہے اسی طرح بیوی بھی بغیر کسی ارادہ کے مل جائے۔ نہ ماں باپ کو علم ہو کہ فلاح ہماری بہو بننے والی ہے، نہ خاوند کو علم ہو کہ فلاں میری بیوی بننے والی ہے اور بغیر ارادہ اور خواہش کے ہی ماں باپ کو بہو اور خاوند کو بیوی مل جائے۔ لازماً انسان کو بیوی کیلئے خواہش کرنی پڑے گی اور جب وہ خواہش کرے گا تو بدھ مذہب کے رو سے وہ نجات سے محروم ہوجائے گا کیونکہ اس کے نزدیک خواہشات کو مارنا ہے انسانی نجات کا ذریعہ ہے۔ اگر یہ کہا جاتا کہ کوئی مرد اور عورت شادی نہ کرے تب تو یہ بات ایک حد تک تسلیم بھی کی جاسکتی تھی مگر بدھ مذہب شادی سے صرف بھکشو کو روکتا ہے، ہر شخص کو نہیں روکتا۔ حالانکہ وہ دوسروں کیلئے بھی نجات کو جائز قرار دیتا ہے۔ اگر نجات کا حصول ان کیلئے جائز قرار نہ دیتا تو بھکشو ئوں کے سوا وہ اوروں کو اپنے مذہب میں داخل کیوں کرتا؟ اس کا بھکشوئوں کے سوا اور لوگوں کو بھی اپنے مذہب میں داخل کرنا صاف طور پر بتارہا ہے کہ بدھ مذہب ہر شخص کی نجات کا قائل ہے۔ اور جب بھکشوئوں کے سوا جب وہ دوسروں کو شادی کی اجازت دیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ بدھ مذہب کے رو سے شادی کا ارادہ انسان کو نجات سے محروم نہیں کرتا۔ اب اس عقیدہ کے ماتحت کہ خواہش انسان کو نجات سے محروم کردیتی ہے ہمیں دیکھنا چاہئے کہ شادی کے معاملہ میں بدھ مذہب کیا تعلیم دے سکتا ہے کہ کیا یہ کہے گا کہ شادی نہ کرو؟ یہ تو وہ کرتا نہیں۔ کیونکہ بھکشوئوں کے سوا اور کسی کو وہ شادی سے نہیں روکتا پھر خواہش کو کس طرح مارا جائے گا۔ انسان خواہش کر تا ہے کہ شادی کرے اس سے بدھ مذہب نے نہیں روکا۔اب کیا ہم یہ سمجھیںکہ شادی کے بارہ میں محض شادی کی خواہش کو تو وہ خواہش قرار نہیں دیتا لیکن اور کسی خواہش کی اجازت نہیں دیتا ۔اگر یہ بات ہو تو سوال پیدا ہوتاہے کہ شادی کے ساتھ محض شادی کی خواہش کا ہی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اور بھی کئی قسم کی خواہشات شادی سے وابستہ ہوتی ہیںان کا بدھ مذہب نے کیا علاج کیا ہے ۔مثلاًانسان چاہتا ہے کہ نیک عورت سے شادی کرے۔ کیا بدھ مذہب یہ کہے گا کہ ایسی خواہش مت کرو۔کیا اس خواہش کو مارا جائے گا ؟اور اسے حکم دیا جاے گا کہ بد اور شریر عورت سے شادی کرو؟انسان خوبصورت عورت چاہتا ہے کیا اسے کہا جائے گا کہ خوبصورت عورت کی خواہش نہ کرو بد صورت عورت سے شادی کرو؟انسان تعلیم یافتہ عورت چاہتا ہے بدھ مذہب کہتا ہے کہ تم اپنی خواہشات کو مٹا دو۔ا ب سوال پید ہو تاہے کہ بدھ مذہب اسے یہ کہے گا کہ جاہل عورت سے نکاح کرو؟انسان شاہتا ہے کہ بچے جننے والی عورت مجھے حاصل ہو ۔کیا بدھ مذہب کے ماتحت اسے یہ تعلیم دی جائے گی کہ بچے جننے والی عورت سے شادی نہ کرو بلکہ بانجھ سے کرو؟انسان چاہتا ہے کہ اس کے بچے پڑہیں لکھیں۔کیا بدھ مذہب اسے کہے گا کہ چو نکہ خواہش بری چیز ہے اس لئے تم یہ خواہش نہ کرو کہ تمہارے بچے پڑھیں لکھیں بلکہ انہیں جاہل رہنے دو؟ا انسان چاہتا ہے کہ اس کے ہاں نیک اولاد ہو کیا اسے کہا جائے گا کہ بد اولاد ہو؟انسان چاہتا ہے کہ اسے کوئی اچھا کام مل جائے اچھی ملازمت میسر آجائے یا اچھی تجارت شروع کر دے بدھ مذہب اسے کیا کہے گا؟کیا یہ کہے گا کہ اچھی تجارت کی خواہش نہ کرو بلکہ گھاٹے والی تجارت کی خواہش کرو یا اچھی ملازمت تلاش نہ کرو بلکہ بری ملازمت تلاش کرو؟یا اچھی فصل کی خواہش نہ کرو بلکہ تباہ ہونے والی فصل چاہو؟انسان صحت چاہتا ہے۔بدھ مذہب کہتا ہے خواہش بری چیز ہے اسی حالت میں جب انسان کہے گا کہ مجھے صحت کی خواہش ہے تو بدھ مذہب کہے گا صحت کی خواہش کر کے تم گناہ گار بن گئے ہو تمہیں چاہئے کہ بیماری کی خواہش کرو۔انسان اپنے ہمسایہ سے صلح چاہتا ہے اپنے ملک میں امن چاہتا ہے کیا بدھ مذہب کی طرف سے کہا جائے گا اپنے ہمسایہ سے ہمیشہ لڑائی رکھو ؟اور ملک میں فساد برپا کرتے رہو؟انسان اچھی حکومت کا تقاضا کرتا ہے ۔کیا اسے کہا جائے گا کہ بری حکومت چاہو ؟انسان چاہتا ہے اسے خدا کی رضا حاصل ہوجب مذہب خواہش کو براقرار دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کو ہمیشہ ہی خواہش رکھنی چاہئے کہ خدا مجھ سے ناراض رہے ۔ایک بدھ مذہب والا چاہتا ہے کہ اس کا مذہب پھیل جائے مگر جونہی اس کے دل میںیہ خواہش پیداہوگی وہ نجات سے محروم ہو جائے گا ۔جب ایک شخص بھکشو بننے کے لئے آتا ہے تو آخراسی لئے کہ وہ چاہتا ہے مجھے نجات مل جائے حا لانکہ بھکشو بنتے ہی اس کی نجات ماری جاتی ہے کیونکہ اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو جاتی ہے کہ میں اور لوگوں کو بھی اس مذہب میں داخل کروںبلکہ اس سے بڑھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں کو بھکشو بنانے کا ارادہ کر کے خود بدھ کی نجات بھی ماری گئی کیونکہ اس کے دل میں یہ خواہش پید ا ہو گئی تھی کہ میں لوگوں کو بھکشو بنائوں پھر اگر بدھ مذہب کے لوگ اپنے ملک کی آذادی چاہتے ہیں تو اس تعلیم کے ماتحت انہیں کیا کہا جائے گا؟کیا یہ کہا جائے گا کہ آذادی کی خواہش نہ کرو ۔اگر تمہارے ملک پر کوئی قبضہ کرنا چاہتا ہے تو اسے بیشک کرنے دو۔ ورنہ نجات سے محروم ہو جائو گے۔ اگر بدھ مذہب والے کہیں کہ یہ تو جائز اور اچھی خواہشات ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ تم بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہو کہ خواہشات اچھی بھی ہوتی ہیں اور بری بھی انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اچھی خواہشات کے پیچھے چلیں اور بری خواہشات کو جامئہ عمل پہنانے کی کوشش نہ کرے ۔ پس تمہارا یہ کہنا کہ چونکہ انسان میں خواہشات پائی جاتی ہیں اسلئے وہ پیدائشی طور پر برا ہے بالکل غلط ہے ۔ تم نے خود تسلیم کر لیا کہ خواہشات اچھی بھی ہوتی ہیں اور بری بھی ۔ بری خواہشات کو مٹانا اور اچھی خواہشات کو قائم کر نا ہمارا فرض ہے اور یہی وہ نقطئہ نگاہ ہے جو اسلام پیش کرتا ہے۔ پس ہمارا اور تمہارا اتحاد ہو گیا۔
ایک بدھ مذہب والا ہماری اس تنقید پر یہ کہہ سکتا ہے کہ تم ہمارے مذہب کو غلط طور پر پیش کرتے ہو ۔ جب تم کہتے ہو کہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ آزادی کی خواہش نہ کی جائے بلکہ غلامی کی خواہش کی جائے۔ صحت کی خواہش نہ کی جائے بلکہ بیماری کی خواہش کی جائے۔ خوبصورت بیوی کی خواہش نہ کی جائے بلکہ بد صورت بیوی کی خواہش کی جائے۔علم کی خواہش نہ کی جائے بلکہ جہالت کی خواہش کی جائے تو تم بالمقابل کی خواہشات ہماری طرف منسوب کر دیتے ہو۔ حالانکہ ہمارا نظریہ تو یہ ہے کہ خواہشات ہر حالت میں بری ہیںخواہ وہ اچھی چیزوںکی ہوں یا بری چیزوں کی ہوں ہم خواہشات کو مٹانا چاہتے ہیںیہ نہیںکہتے کہ اچھی خواہش نہ کرو بری خواہش کرو بلکہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ نہ اچھی خواہش کی جائے نہ بری کیونکہ اسی میں انسان کی نجات ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اچھا ہم مان لیتے ہیں کہ تمہارا یہی مقصد ہے تم یہی کہتے ہو کہ نہ یہ چاہو نہ وہ چاہو مگرسوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں انسان کام کسطرح کرے گا؟ باپ اس سے شادی کے متعلق پوچھے گا تو وہ کہے گا نہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں نہ کنوارہ رہنا چاہتا ہوں۔ ایک شادی شدہ بدھ اپنے گھر میں جاتا ہے بیوی اس سے کہتی ہے کہ کھانا تیار ہے آئو اور کھالو۔ وہ جواب دے گا نہ میں کھانا کھانا چاہتا ہوں نہ بھوکا رہنا چاہتا ہوں۔ غرض یہ عقیدہ اگر درست تسلیم کر لیا جائے تو بدھوں کو قدم قدم پر نہایت سخت مشکلات پیش آسکتی ہیں فرض کرو کسی مجلس میں بدھ مذہب کا کوئی پیرو آجائے تو وہ حیران ہوگا کہ میں اس مجلس بیٹھوں یا چلا جائوں اگر وہ بیٹھے گا تو یہ بھی خواہش کا نتیجہ ہوگا اور اگر چلا جائے گا تو یہ بھی خواہش کا نتیجہ ہوگا۔ غرض ایک بدھ ایسے چکر میں پھنس جاتا ہے کہ اس کے لئے اٹھک بیٹھک کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں رہتا۔
حکومت کے بارہ میںاس سے سوال کیا جائے گا کہ کیسی حکومت چاہتے ہو تو وہ جواب دیگا کہ نہ میں اچھی حکومت چاہتا ہوں نہ بری حکومت چاہتا ہوں۔ اگر سوال کیا جائے گا کہ میاں منظم حکومت چاہتے ہو یا انارکی؟تو وہ کہے گا کہ نہ میں منظم حکومت چاہتا ہوں نہ انارکی۔ووٹ کے متعلق حاضرہوگا اور اس سے پوچھا جائے گاکہ اس ممبر کو ووٹ دینا چاہتے ہویااسکو؟تو وہ کہے گا کہ نہ میں اس کو ووٹ دینا چاہتاہوںاور نہ اس کو۔ پولنگ افسر کہے گا تو پھر جائو تم آئے کس لئے تھے وہ کہے گا نہ میں جانا چاہتا ہوںنہ کھڑا رہنا چاہتا ہوں۔
غرض یہ عقیدہ ایسا غلط اور بے بنیاد ہے کہ اسکی جسقدر بھی تشریح کی جائے سوائے ہنسی اور مذاق کے اسکا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا ۔اگر کہا جائے کہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ انسان نیک خواہش کرے تو معلوم ہوا کہ نیکی کا مادہ اس میں موجود ہے اور یہی ہم کہتے ہیںکہ انسان میں نیک خواہشات بھی پائی جاتی ہیں اور بری بھی ۔ جب کوی شخص اپنے فطرتی تقاضوںکو عقل اور مصلحت کے ماتحت استعمال کرتا ہے تو وہ نیک کہلاتا ہے اور جب فطرتی تقاضوں کو عقل اور مصلحت کے خلاف استعمال کرتا ہے تو برا کہلاتا ہے اسی صورت میں صیح طریق یہ ہوتا ہے کہ فطرت کو ابھارا جائے اور طبی تقاضوں کے غلط استعمال سے انسان کو بچایا جائے نہ یہ کہ انسانی فطرت کو ہی گندہ اور ناپاک قرار دیدیا جائے۔ بہرحال اگر بدھوں کی طرف سے کہا جائے کہ ہمارا مدعا یہ ہے کہ انسان نیک خواہش کرے تو معلوم ہوا کہ نیکی کا مادہ اس میں موجود ہے اور اسکی خواہش اسے کرنی چاہئے اور جب خواہش کرنی ثابت ہوئی تو پھر ہم سوال کریں گے کہ وہ کون سی بات فطرت میں ہے جسے برا کہا جا سکتا ہے۔ فطرت میں تو جس قدر تقاضے پائے جاتے ہیں سب کے سب اچھے ہیں صرف ان کا غلط استعمال انسان کو برا بنا دیتا ہے مثلاً فطرت یہ کہتی ہے کہ کھانا کھائو وہ یہ نہیں کہتی کہ زید کا کھانا اٹھا کر کھا جائو اگر تم زید کا کھانا اٹھا کر کھا جاتے ہو تو یہ تمہارا اپنا قصور ہے فطرت نے تمیں یہ نہیں کہا تھا کہ تم زید کا کھانا کھائو۔ اس نے صرف اتنا کہا تھا کہ کھانا کھائو ۔دوسرے کی روٹی اٹھا کر کھا جانے کا خیال تمہارے دل میں اس وقت آتا ہے جب تم کہتے ہو کہ روٹی میرے پاس موجود نہیںاور بھوک لگی ہوئی ہے اس وقت تم فطرت کے اس تقاضے کا غلط استعمال کرکے کسی اور شخص کا کھا نا چرا کر کھا جاتے ہو۔ورنہ فطرت نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ کھانا کھائو۔یہ نہیں کہا تھا کہ زید یا بکر کا کھانا کھا جائو۔ یا مثلاً جب شادی کی خواہش انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے تو فطرت اسے اتنا ہی کہتی ہے کہ شادی کر لو ۔ یہ نہیں کہتی کہ کسی دوسرے کی بیوی کو اڑا لو۔ یا مثلاًفطرت یہ تو کہتی ہے کہ مال خرچ کرو مگر یہ نہیں کہتی کہبے موقع اور بے محل اپنا مال خرچ کرتے چلے جائو۔ یہ بگاڑجو بعد مین پیدا ہوتے ہیں انسانی ماحول اور اسکے مختلف حالات کا نتیجہ ہو تا ہے ۔ورنہ فطرت ان امور کی طرف رہنمائی نہیں کرتی۔ اسی طرح شجاعت کا مادہ ہے جو فطرت میں پایا جاتا ہے۔ بسا اوقات انسان اپنی جان یا اپنے مال کی قربانی کر کے دوسروں کو بڑے بڑے نقصانات سے بچا لیتا ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ظلم پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اب ظلم کوئی الگ خاصہ نہیں بلکہ شجاعت کے فطری مادے کا غلط استعمال ہے ۔خدا نے یہ مادہ انسامن میں اس لئے رکھا تھا کہ وہ دوسروں کے لئے قربانی کرے مگر بعض دفعہ یہ اس تقاضے کا غلط استعمال کر کے دوسروں کے حقوق کو غصب کر لیتا ہے۔یا مثلاً ترقی کا جذبہ ہر انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے۔ مگر جب اس جذبہ کوبرے طور پر استعمال کیا جائے تو اس سے حسد پیدا ہوتا ہے یعنی انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ صرف میں ہی آگے بڑھوں اور کوئی نہ بڑھے۔ بہرحال جب فطرت میں کوئی ایسی بات نہیں رکھی گئی جسے برا کہا جا سکتا ہو۔ صرف فطری جذبات اور تقاضوں کا غلط استعمال برا ہوتاہے تو سوال صرف اتنا رہ جائے گا کہ کیا خدا تعالیٰ نے شجاعت، سخاوت اور نحبت وغیرہ اچھے کاموں کے لئے پیدا کی ہے یا برے کاموں کے لئے۔ اگر کہو کہ برے کاموں کے لئے تو برا کام ہی نیکی ہوا کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اس میں ہے ۔ورنہ خدا تعالیٰ پر اعتراض آے گا کہ اس نے ان قوتوں کو پیدا تو اس لئے کیا تھا کہ برے کام کئے جائیں مگر جب برے کام کئے جاتے ہیں تو وہ ناراض ہوتا ہے۔ اور کہو کہ اچھے استعمال کے لئے خدا تعالیٰ نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے تو فطرت نیک ہوئی بد کس طرح ہوئی؟ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اس سے ہر گز انکار نہیں کہ وہ حالات جن میں سے انسان گزرتا ہے اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ تبھی ان حالا ت کی وجہ سے جو نیکی کی طرف چلا جاتا ہے اور کبھی بدی کی طرف جھک جاتا ہے لیکن بہرحال فطرت جن چیزوں کا تقاضا کرتی ہے وہ بری نہیں ہے۔
اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے وام مارگی پیدا ہوئے ہیں انہوں نے اس نظریہ کا ایک اور پہلو لیا ہے۔ وام مارگ کے معنی ہیں خواہش کا مذہب اور بدھ مذہب کے معنی ہیں خواہش مارنے کا مذہب۔ بدھ مذہب تو اس بات پر زور دیتا ہے کہ چونکہ خواہشات بری چیز ہیں اس لئے ان کو مٹانا انسان کا اولین فرض ہے۔ جب تک وہ اپنی خواہشات کو کلی طور پر فنا نہیں کر دیتا اس وقت تک نجات اسے حاصل نہیں ہوسکتی۔ لیکن وام مارگی یہ کہتے ہیں کہ انسانی پیدائش کی غرض اس وقت پوری ہوتی ہے جب وہ اپنی خواہشات کا جائزہ لیتے ہوئے ہر خواہش کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرے۔ ان کا مذہب یہ ہے کہ فطرت چونکہ خدا کی پیدا کردہ ہے اس لئے انسان کے دل میں جو خواہش بھی پیدا ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہوتی ہے مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ بے شک فطرت کو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے مگر فطرت کا ظہور تو اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ بچہ کی شکل خدا تعالیٰ نے کامل بنائی ہے لیکن کیا وہ ماں کے پیٹ میں رہائش کے وقت بیماریوں اور چوٹوں سے بری شکل اختیار نہیں کر سکتا؟ اسی طرح انسانی فطرت کو حالات بد بھی بنا دیتے ہیں ۔اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جو خواہش بھی انسان کے دل میں پیدا ہو وہ ضرور اچھی ہوتی ہے اگر حالات نے اسے برا بنا دیا ہو گا تو لازماًاس کے دل میں بری خواہشات پیدا ہوں گی جن پر عمل اس کے جسم اور روح دونوں کے لئے مہلک ہو گا۔ بہرحال وام مارگی یہ کہتے ہیں کہ اگر انسان کی فطرت نیک ہے تو اس کی ہر خواہش نیک ہے اور اگر فطرت بری ہے تو پھر جن امور کو تم برا کہتے ہو وہی نیکی کا معیار ہیں ۔ چنانچہ اسی بناء پر یہ لوگ پیشاب، پاخانہ، مردہ کا گوشت اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کو بھی جائز سمجھتے اور گندگی اور غلاظت کو صفائی وغیرہ پر ترجیح دیتے ہیں۔ وام مارگیوں نے بھی وہ چیز جو ماحول سے پیدا ہوتی ہے اس کا نام فطرت رکھ دیا ہے حالانکہ اس کا نام فطرت نہیں ۔ ہم صرف ان تقاضائے بشری کے متعلق جو غیر معین ہوں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں نیکی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے یہ نہیں کہتے کہ مخصوص حالات کے ماتحت جو خواہشات انسانی قلب میں پیدا ہوتی ہیں وہ بھی نیک ہوتی ہیں ۔ جو تقاضے مخصوص حالات کے ماتحت انسانی قلب میں پیدا ہوں ہم اس کا نام فطرت نہیں رکھتے اور نہ قرآن نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ضرور نیک ہوں گے مگر افسوس کہ وہ اس ٹھوکر میں مبتلا ہو گئے کہ اگر فطرت نیک ہے تو پھر جن چیزوں کو تم برا کہتے ہو وہ بری نہیں بلکہ اچھی ہیں اور اگر فطرت بری ہے تو جن امور کو تم برا کہتے ہو وہی نیکی کا معیار ہیں مگر خود انسانی فطرت ان امور کا انکار کرتی ہے چنانچہ یہ لوگ بھی اپنے آپ کو چھپاتے ہیں اور ظاہر ہونے سے ڈرتے ہیں جس سے ہمارے قیاس کی تصدیق ہوتی ہے۔
دوسرا عقیدہ یہ تھا کہ انسان بھلائی کو لے کر پیدا ہوا مگر آدم اول نے گناہ کیا اس لئے سب انسان گناہ پر مجبور ہیں ۔اگر یہ لوگ دہریہ ہوتے تو ہم ان سے اور رنگ میں گفتگو کرتے لیکن یہ لوگ ایک مذہب کو ماننے والے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ خود ان کا اپنا مذہب اس عقیدہ کو رد کرتا ہے۔ پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ عقیدہ درست ہے کہ آدم اول نے گناہ کیاجس کے نتیجہ میں اب ورثہ کا گناہ انسان کے اندر آ گیا ہے اور وہ اس سے بلا کسی اور امداد کے آزاد نہیں ہو سکتا۔ تو حضرت عیسیٰ ؑ سے پہلے کی تمام مخلوق نجات سے محروم ہونی چاہیے۔ کیونکہ کفارہ تو مسیح ؑ نے پیش کیا ہے۔ مسیح ؑ کے کفارہ پر ایمان لانے والے تو نجات پا سکتے ہیں مگر پہلے لوگوں کی نجات اس عقیدہ کی رو سے قطعی طور پر نا ممکن ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا فطرت کی اس اصلاح یعنی کفارہ مسیح سے پہلے سب لوگ گنہگار اور غیر ناجی تھے؟ اس سوال کا جواب خود بائبل دیتی ہے کہ وہ آدم کو *** قرار نہیں دیتی بلکہ شیطان سے دھوکہ کھانے کے بعد بھی خدا اس پر راضی رہتا ہے۔ چنانچہ بائبل میں لکھا ہے کہ جب آدم نے گناہ کیا اور اس کے نتیجہ میں وہ ننگا ہو گیا خداوند خدا نے آدم اور اس کی جوروکے واسطے چمڑے کے کرتے بناکے ان کو پہنائیــ ـ"(پیدائش باب ۳ آیت۲۱) اگر آدم سے خدا ناراض ہو چکا تھا اور اسے اپنی روحانی اولاد سے خارج کر چکا تھا۔تو چاہیے تھا کہ اس واقعہ کے بعد آدم پر ناراضگی کا اظہار ہوتا۔ نہ یہ کہ اسے اور اس کی بیوی کو چمڑے کے کپڑے بنوا کر دیتا اور ان کے ننگ کو ڈھانکتا ۔ اللہ تعالیٰ کا آدم اور اس کی بیوی کو اس واقعہ کے بعد چمڑے کے کپڑے بنوا کر دینا بتا رہا ہے کہ خدا تعالیٰ اس واقعہ کے بعد بھی آدم سے راضی رہا۔ پھر لکھا ہے ۔ فرشتوں سے خدا نے کہا" دیکھو کہ انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا" ( پیدائش باب ۳ آیت ۲۲) یعنی نیکی اور بدی کی پہچان میں آدم خدا اور اسکے فرشتوں جیسا ہو گیا ہے جو شخص نیکی اور بدی کی پہچان میں خدا اور اس کے فرشتوں جیسا ہو جائے وہ *** کس طرح ہو سکتا ہے یہ توایک اعلیٰ درجے کا مقام ہے جو آدم کو حاصل ہوا۔
آدم کے بعدحنوک آئے جو حضرت نوح کے پردادا تھے ان کے بارے میں لکھا ہے " حنوک کی ساری عمر تین سو پینسٹھ ۶۵ برس کی ہوئی اور حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا اور غائب ہو گیا اس لئے کہ خدا نے اسے لے لیا" (پیدائش باب ۵ آیت۲۴) اس آیت کا خلاصہ بائبل میں ایسے درج کیا گیا ہے: ۔ "حنوک کی دینداری اور اس کے جیتے جی خدا کے حضور چلے جانے کی خبر" یہ حوالہ ظاہر کر رہا ہے کہ حنوک اللہ تعالیٰ کا اسقدر پیارا تھا کہ خدا نے اسے اور لوگوں کی طرح موت جسمانی نہیں دی بلکہ جیتے جی اسے آسمان پر اٹھا لے گیا۔ حالانکہ عیسائی عقیدہ کی رو سے آدم کو گناہ کی جو سزادی گئی تھی اس کی ایک شق یہ بھی تھی کہ وہ دنیا میں ہمیشہ زندہ نہیں رہے گا ۔ بلکہ ایک دن موت کا شکار ہو جائے گا۔ چنانچہ پیدائش باب ۳ آیت ۱۹ میں اس سزا کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ۔"تو خاک ہے اور پھر خاک میں جائے گا" گویا عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آدم کے گناہ کے نتیجہ میں انسان کو موت کی سزا دی گئی ہے اسی طرح اسے زمین پر رہنے پر مجبور کیا گیا ہے ۔اگر آدم گناہ نہ کرتا تو انسان ہمیشہ کے لئے زندہ رہتا اور زمین پر رہنے پر مجبور نہ ہوتا۔ مگر اوپر کے حوالہ میں بتایا گیا ہے کہ حنوک کو خدا نے موت نہیں دی بلکہ اسے زندہ ہونے کی حالت میں آسمان پر اٹھا لیا۔ اگر اس حوالہ میں صرف حنوک کی دینداری کا ذکر ہوتا ۔ یہ بات بیان نہ کی جاتی کہ خدا نے اسے موت سے بچایااور جیتے جی آسمان پر اٹھا لیا تب بھی یہ اس بات کا ثبوت ہوتا کہ مسیح کی آمد یا اس کے کفارہ پر ایمان لانے کے بغیر بھی لوگ نیک ہو سکتے ہیں ۔ مگر اس حوالہ سے یہ زائد بات بھی نکلتی ہے کہ حنوک موت سے بچ گیا اور آسمان پر زندہ اٹھا لیا گیا۔ حالانکہ موت اور زمین پر رہنا ایک سزا تھا آدم کے گناہ کی۔ پس جسے موت نہیں آئی اور آسمان پر چلا گیا اس کے متعلق بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس نے ورثہ کے گناہ سے کوئی حصہ نہیں پایا ۔اگر پایا ہوتا تو عیسائی عقیدہ کی رو سے وہ ضرور مرتا۔ مگر چونکہ وہ زندہ رہااور جیتے جی آسمان پر اٹھا لیا گیااس لئے یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ اس نے ورثہ کے گناہ سے حصہ نہیں لیا۔ پھر ساتھ ہی لکھا ہے۔ " حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا " خدا کے ساتھ ساتھ چلنے کے یہ معنی ہیں کہ اس کی زندگی صرف خدا کے کام مصروف تھی کسی اور طرف اس کی توجہ نہیں تھی ۔ اور جس شخص کی زندگی صرف خدا کے کام میں صرف ہو رہی ہواور دن اور رات اسے یہی فکر ہو کہ میں ان فرائض کو بجا لائوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر عائد کئے گئے ہیں وہ اس رنگ میں اپنی معاش کا سامان نہیں کر سکتا جس رنگ میں دوسرے لوگ جدوجہد کرتے اور اپنی روزی کا فکر کرتے ہیں ۔ بالفاظ دیگرخدا کے ساتھ ساتھ چلنے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اسے رزق بلا محنت ملتا تھا ۔ گویا وہ دوسری سزا بھی اسے نہیں ملی جو آدم کے گناہ کی وجہ سے مقرر ہوئی تھی اور جس کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں پایا جاتا ہے کہ" تو اپنے منہ کے پسینہ کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں پھر نہ جاوے کہ تو اس سے نکالا گیا ہے کہ تو خاک ہے اور پھر خاک میں جائے گا " ( پیدائش باب ۳ آیت ۱۹) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ آدم کو دو سزائیں دے گئی تھیں ایک یہ کہ وہ ہمیشہ اپنے ماتھے کے پسینہ سے روٹی کھائے گا اور دوسرے یہ کہ وہ اس دنیا میں ہمیشہ زندہ نہیں رہے گا بلکہ ایک دن آئے گا جب اسے موت کا تلخ گھونٹ پینا پڑے گا ۔ مگر حنوک کو نہ موت کا تلخ گھونٹ پینا پڑا اور نہ ماتھے کے پسینہ سے اپنے لئے روزی کا سامان مہیا کرنا پڑاوہ جیتے جی بغیر مرنے کے آسمان میں غائب ہو گیا اور پھر وہ ہمیشہ خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ گویا اسے رزق بلا محنت ملتا رہا۔ اس سے ظاہر ہے کہ عیسائی مذہب کی رو سے حنوک ورثہ کے گناہ اور اس کے اثرات سے قطعی طور پر محفوظ تھا۔ اگر ورثہ کا گناہ حنوک میں بھی آتا تو ضروری تھا کہ وہ مر کر زمین میں دفن ہوتا اور ضروری تھا کہ وہ ماتھے کے پسینہ سے اپنے لئے روٹی مہیا کرتا۔مگر اس کا نہ مرنا اور نہ ماتھے کے پسینہ سے روٹی کھانا بتا رہا ہے کہ حنوک عیسائی مذہب کی رو سے بالکل پاک تھا۔
اس کے بعد نوح ؑآئے ان کی نسبت لکھا ہے کہ لمک نے اپنے بیتے کا نام نوح ؑ رکھااور کہا کہ " یہ ہمارے ہاتھوں کی محنت اور مشقت سے جو زمین کے سبب سے ہیں جس پر خدا نے *** کی ہے ہمیں آرام دے گا۔ " ( پیدائش باب ۵ آیت ۲۹) یعنی آدم کے گناہ کی وجہ سے زمین پر جو *** ڈالی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ انسان ہمیشہ محنت اور مشقت سے اپنی روزی کمائے گاوہ *** نوح ؑ کی وجہ سے دور ہو جائے گی۔
یہ امر بتایا جا چکا ہے کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو سزائیں ملی تھیں ۔ایک یہ کہ انسان محنت مشقت سے روزی کمائے گااور دوسری یہ کہ وہ ایک دن مر کر زمین میں دفن ہو گا۔ لمک نے اپنے بیٹے کا نام نوح ؑرکھااور اس لئے رکھا کہ ’’یہ ہمارے ہاتھوں کی محنت اورمشقت سے جو زمین کے سبب سے ہیں جس پر خدا نے *** کی ہے ہمیں آرام دے گا‘‘۔ گویا انہوں نے امید ظاہر کی کہ نوح ؑکی وجہ سے وہ محنت اور مشقت سے آزاد ہو جائیں گے اور انہیں آرام میسر آجائے گا۔ جسکے معنی یہ ہیں کہ نوح ؑنے اس *** کو آکردور کر دیا۔ اگر کہا جائے کی انہوں نے یونہی بلاوجہ ایک امید ظاہر کر دی تھی تو سوال یہ ہے کہ بائبل نے اس کو نقل کیوں کیا ؟بائبل کا اسے نقل کرنا بتا رہا ہے کہ انہوں نے خدا کے حکم کے ماتحت یہ امیدظاہر کی تھی اور یہ توقع وہ تھی جسے نوح ؑنے اپنی زندگی میں پورا کرنا تھا اور اس طرح انہوں نے اس *** کو دور کر دینا تھا جو آدم کے گناہ کی وجہ سے زمین پر مسلط تھی۔ پھر نوح ؑکے بارے میں لکھا ہے:- ’’نوح ؑ اپنے قرنوں میں صادق اور کامل تھا اور نوح ؑ خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا ‘‘ (پیدائش باب ۶آیت ۹) جو شخص صادق اور کامل تھا وہ گناہگار کس طرح ہو گیا؟پھر نوح ؑ وہ شخص تھا جو خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھاجس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کام کرتا تھا ۔اب بتائو جو شخص صادق بھی ہو اور کامل بھی اور پھر خدا کی مرضی کے خلاف کبھی کوئی فعل بھی نہ کرتا ہواسے گناہگار کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے؟ پھر نوح ؑ سے خدا تعالیٰ نے کہا۔ ’’ میں تجھ سے اپنا عہد قائم کروں گا‘‘ (پیدائش باب ۶ آیت ۱۸) جس شخص کو خدا اپنے عہدے کے لئے منتخب فرمائے اسے غیر نجات یافتہ کس طرح کہا جا سکتا ہے؟
پھر لکھا ہے کہ نوح ؑ نے خدا کے لئے ایک مذبح بنایااور اس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی۔جب نوح ؑ نے عبادت کی تو ’’خداوند نے خوشنودی کی بو سونگھی اور خداوند نے اپنے دل میں کہاکہ انسان کے لئے میں زمین کو پھر کبھی *** نہ کروں گا‘‘ (پیدائش باب ۸ آیت۲۱ ) گویا نوح ؑ کی عبادت خدا کو اسقدر پسند آئی کہ اس نے کہا۔ میں زمین پر پھر کبھی *** نہیں کروں گا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب پہلی *** نوح ؑ نے دور کر دی تھی توآئندہ کونسی نئی *** پیدا ہوئی تھی جس سے فطرت انسانی مسخ ہو گئی اور جو مسیح نے آکر دور کی؟
پھر ان کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے ان کے متعلق بائبل میں لکھا ہے کہ خدا نے ان کو فرمایا:۔ ’’ میں تجھے ایک بڑی قوم بنائوں گااور تجھ کو مبارک اور تیرا نام بڑا کروں گا۔ اور تو ایک برکت ہو گااور ان کو جو تجھے برکت دیتے ہیں برکت دوں گااور اس کو جو تجھ پر *** کرتا ہے *** کروں گااور دنیا کے سب گھرانے تجھ سے برکت پاوینگے۔‘‘ ( پیدائش باب۱۲ آیت ۲، ۳ )اب دیکھو اس میں کتنی باتیں بیان کی گئیں ہیں ۔ پہلی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ میں تجھ کو مبارک کروں گا ۔ یہ صاف بات ہے کہ خدا کا مبارک کیا ہوا انسان *** نہیں ہو سکتا۔ دوسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ تو ایک برکت ہو گا یعنی تو مجسم برکت ہو گا۔ اور تیسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ نہ صرف تو مبارک ہو گااور تیری وجہ سے دنیا برکت پائے گی بلکہ جو تجھے برکت دینگے میں ان کو بھی برکت دوں گا۔ یہی وہ فقرہ ہے جس کے جواب میں رسول کریم ﷺ نے اپنی امت کو یہ دعا سکھائی کہ اللھم بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراہیم و علی ال ابراہیم انک حمید مجید۔ یعنی اے خدا ! تو نے جو ابراہیم ؑ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تجھے برکت دوں گااور تجھے برکت دینے والوں کو بھی برکت دوں گاہم تیرے اس وعدہ کے مطابق ابراہیم ؑ کو برکت دے رہے ہیںتو ہمارے گھروں کو بھی اپنی برکتوں سے بھر دے اور اپنے فضلوں سے ہمیں حصہ دے۔گویا ابراہیم ؑ کو برکت دینے والے *** نہیں ہو سکتے اور ابراہیم ؑ پر *** کرنے والے کبھی اللہ تعالیٰ کی برکت سے حصہ نہیں لے سکتے۔عیسائی کہتے ہیں کہ آدمؑ کے گناہ کی وجہ سے خدا نے دنیا پر *** کی اور یہاں سے یہ پتہ لگتا ہے کہ ابراہیم ؑ اور اس سے تعلق رکھنے والے کبھی *** نہیں ہو سکتے ہاں ابراہیم کو *** کرنے والے ضرور *** ہیں۔پس وہ عقیدہ جو آج کل عیسائیوںمیںپایا جاتا ہے اس حوالہ کی موجودگی میںبلکل غلط ثابت ہوتا ہے۔
پھر ابراہیم کے زما نہ میں ایک اور شخص تھے جن کا نام ملک مصدق سالیم تھا۔ ان کے متعلق خود انجیل میں لکھا ہے کہ وہ پہلے اپنے نام کے معنوں کے موافق راسی کا بادشاہ ہے اور پھر شاہ سالیم یعنی سلامتی کا بادشاہ عبرانیوں (باب۷آیت۲) مطلب یہ کہ جیسا اس کا نام تھا ویسے ہی اس کے اوصا ف اس کے اندر پائے جاتے تھے۔اس کا نام بھی ملک مصدق تھا اورواقعہ میں بھی راستی کا بادشاہ تھا اور پھر جس طرح وہ ظاہر میںشاہ سا لیم تھا اسی طرح معنوی لحاظ سے بھی وہ سلامتی کا بادشاہ تھا۔ آگے لکھا ہے یہ بے باپ بے ماںبے نسب نامہ جس کے نہ دنوںکا شروع نپ زندگی کا آخر مگر خدا کے بیٹے کے مشابہ ٹھہر کے ہمیشہ کاہن رہتا ہے (عبرانیوںباب۷آیت۳) گویا ملک صدق سالیم جو راستی اور سلامتی کا بادشاہ تھا وہ بے باپ بھی تھا اور بے ماں بھی۔نہ اسکی زندگی کا آغاز تھا اور نہ اسکا کوئی انتہاء اور وہ خدا کے بیٹے کے مشابہ تھا
ایسا شخص تو یقینا سب سزائوں سے بچا ہوا تھا ۔یہاںکوئی عیسائی کہ سکتا ہے کہ ملک صدق سالیم نے اس لیے نجات پائی تھی کہ وہ بے باپ اور بے ماںتھا ورثہ کا گناہ اسے حاصل نہ ہوا تھا مگر سوال یہ ہے کہ اگر بے باپ اور بے ماںمصلحین پہلے دنیا کو مل چکے تھے تو پھر مسیح کی کیا ضرورت تھی ۔تمہارا مسیح کی معصومیت اوع اس کی قربانی پر زور دینا اسی لئے ہے کہ تم سمجھتے ہو دنیا کے لیے اسا مصلح چاہیئے تھا جو بے گناہ ہو اور چونکہ آدم سے لیکر مسیح تک کوئی بے گناہ مصلح نہیں آیا بلکہ ہر شخص جو پیدا ہوا وہ ورثہ کا گناہ لے کر آیا اس لیے ضروری تھا کہ خدا کا بیٹا جو بے گناہ تھا آتا اور لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا مگر عبرانیوں کا وہ فقرہ جسے اوپر درج کیا گیا ہے بتا رہا ہے کہ مسیح سے پہلے ملک صدق سالیم آیا اوروہ ایسا شخص تھا جو قطعی طور پر بے گناہ تھا نہ اس کی ماں تھی نہ باپ اور اس طرح ورثہ کے گناہ کا اس میںکوئی حصہ نہ تھا ۔ اسی طرح اسحاق ۔یعقوب۔یوسف ۔موسیٰ۔ دائود سب نیکی اور پاک بازی کا اقرار بایئبل میں موجود ہے۔اب سوال یہ ہے کہ مسیح سے پہلے اگر اتنے لوگ کفارئہ مسیح پر ایمان لائے بغیر نجات پا گئے ہیں تو آئندہ کیوں نجات نہیں پا سکتے جس ذریعہ سے پہلوں نے نجات پائی ہے اسی ذریعہ سے بعد کے لوگ نجات پا سکتے ہیں مسیح کی قربانی یا اس کے کفارئہ کی کیا ضرورت ہے؟ بہر حال پہلے لوگوں کا نجات پا جانا ثبوت ہے اس بات کا فطرت انسانی کو کوئی گناہ ورثہ میں نہیں پہنچا اگر پہنچا ہو تا تو یہ لوگ خدا تعالیٰ کے محبوب اور اس کے مقرب نہ بن سکتے !
دوسرا سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا مسیح کی آمد نے کوئی ایسا تغیر پیدا کیا ہے جس سے ہم یہ سمجھ سکیں کہ انسان فطرت کے گناہ سے بچ گیا ہے؟ ظاہر ہے کہ مسیح کے بعد گناہ نے ترقی کی ہے شرک نے ترقی کی،ظلم نے ترقی کی ،جھوٹ فریب اور دغا بازی نے ترقی کی اور تو اور عیسا ئی لوگ ایک دوسرے کے ظلموں کے شاکی ہو رہے ہیں پس سوال یہ ہے کہ اگر مسیح کے کفارہ سے واقعہ میں ورثہ کا گناہ معاف ہو گیا تھا تو مسیح کے آنے کے بعد گناہ میں ذیادتی کیوں ہوئی؟عیسائی اس سوال کا فلسفیا نہ جواب دیتے ہیں جو ہماری جماعت کے دوستوں کو مد نظر رکھنا چاہئے وہ کہتے ہیں ہما را یہ دعویٰ نہیں کہ محض مسیح علیہ اسلام پر ایمان لانے کی وجہ سے گناہ جاتا رہتا ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان کے اندر جو نیک بننے کی خواہش پائی جاتی ہے اگر کفارئہ مسیح پر ایمان لانے کے بعد یہ خواہش انسان کے دل میں پیدا ہو تو وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔وہ کہتے ہیں اگر تم ہمیں کروڑوں عیسائی بھی گناہ گار دکھا دو تو اس میں کوئی ہرج کی بات نہیں تم بھی تو یہ نہیں کہتے کہ محمد ﷺپر ایمان لانے کے بعد ہر شخص کے اندر نیکی پیدا ہو جاتی ہے۔بلکہ تم یہ کہتے ہو کہ انسان کے اندر اس ایمان کی وجہ سے ایک مقدرت پیدا کر دی جاتی ہے جس سے کا م لے کر وہ اگر نیک بننا چاہے تو بن سکتا ہے ۔ اسی طرح ہم یہ کہتے ہیں مسیح کے کفارئہ سے پہلے کوئی شخص نجات نہیں پا سکتا تھا کیونکہ اس میں ورثہ کے گناہ کا اثر تھا جو اسے ترقی سے روک رہا تھا ۔لیکن مسیح کے کفارئہ پر ایمان لانے کے بعد اسکی نجات کا امکان پیدا ہو گیا ہے ۔ہم امکان نجات کے مدعی ہیں اسبات کے مدعی نہیں کہ ہر شخص جو کفارئہ مسیح پر ایمان لائے گا وہ خواہ اپنی نیک قوتوں کو اس استعمال نہ کرے تب بھی نجات پا جائے گا ۔جس طرح آدم نے گناہ کیا تھا اسی طرح اب بھی لوگ گناہ کر سکتے ہیں ۔ہاں اگر وہ اس سے بچنا چاہیں تو بچ بھی سکتے ہیں۔کیونکہ پچھلا بوجھ اتر گیا ہے اور آئندہ کے لیے ایمان نے ان کے اندر نیکی کی مقدرت پیدا کر دی ہے ۔یہ جواب ہے جو عیسائی لوگ دیا کرتے ہیں۔ اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے ۔کہ بایئبل اس بات پر گواہ ہے کہ مسیح کی آمد سے پہلے بھی کئی لوگ گناہ سے بچا کرتے تھے ۔جب پہلے لوگ گناہ سے بچا کرتے تھے تو اب بغیر کفارئہ مسیح پر ایما ن لانے کے وہ گناہوں سے کیوں بچ نہیں سکتے اور جب کہ پہلے لوگ بغیر اس کفارئہ کہ نجات پا گئے اور خدا کے ساتھ ساتھ چلنے والے بنے بلکہ بقول بایئبل بعض موت سے بھی بچے رہے جیسا کہ ایلیا ہ کے متعلق بھی بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بگولے میں آسمان پر چلا گیا (۲سلاطین باب۲آیت۱۲) تو پھر ورثہ کا گناہ کہاں گیا اور جب بعد کے لوگ بھی گناہ میں مبتلا رہے تو پھر کفارئہ کا فائدہ کیا ہوا ؟ اسکا جواب عیسائی لوگ یہ دیتے ہیں کہ مسیح کی آمد سے پہلے جو لوگ گناہوں سے بچتے تھے وہ اس لیے بچتے تھے کہ مسیح کے کفارئہ پر ایمان لے آئے تھے ۔خدا تعالیٰ سے انکو خبر مل جاتی تھی کہ آئندہ زمانہ میںخدا کا ایک بیٹا آئے گا لوگ اسے صلیب پر لٹکائیں گے اور وہ دنیا کے گناہوں کے بدلے اپنے آپ کو قربان کر دے گا ۔وہ یہ خبر سنتے اور کہتے امنا وصدقنا چنانچہ جب ابراہیم نے کہا کہ میں آنے والے مسیح پر ایمان لاتا ہوںتو وہ گناہ سے بچ گیا ۔اس پر وہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی بعض پیش گوئیاں بھی بیان کرتے ہیںجو ان کے نزدیک حضرت مسیح پر چسپاں ہوتی ہیں۔اسکا جواب یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اول تو حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی پیش گوئیاںخود زیر بحث ہیں۔پھر سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے مان لینے سے یہ کیونکر معلوم ہو گیا کہ نوح اورحنوک بھی یہ جانتے تھے کہ آئندہ زمانہ میں خدا کا ایک بیٹا ظاہر ہونے والا ہے؟ یا تو بائیبل میں یہ مسئلہ ان الفاظ میں بیان ہو تا کہ آنے والے خدا کے بیٹے پر ہر نبی ایمان لایا تھا پھر چاہے یہ ذکر نہ ہوتا کہ حنوک مسیح پر ایمان لایا تھا یا نہیںیا نوح مسیح پر ایمان لایا تھا یا نہیں ہم کہتے ہیں کہ جب بیئبل نے کہ دیا ہے کہ ہر نبی خدا کے بیٹے پر ایمان لاتا رہا ہے تو یہ سوال پیدا ہی نہیں ہو تا کہ نام بنام ہر نبی کے متعلق یہ ثابت کیا جائے کہ وہ خدا کے بیٹے پر ایمان لاتا تھا۔مگر بائیبل نے ایک طرف تو ایسا کوئی اصل پیش نہیں کیا اور دوسری طرف اس نے حنوک کا واقعہ تو بیان کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا ۔مگر اس امر کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ حنوک خدا کے بیٹے پر بھی ایمان لایا تھا ۔اسی طرح آدم کے متعلق یہ تو ذکر ہے کہ وہ خدا کا مقبول رہا مگر بائیبل میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ آدم کو خدا نے یہ اطلاع دی تھی کہ میرا بیٹا دنیا میں آنے والا ہے۔جو لوگوں کے گناہوں کے بدلے پھانسی پائے گا تم اس پر ایمان لے آئو۔اسی طرح یسعیاہ اور حزقیل وغیرہ انبیاء ہیں جن کی پاک بازی کا تو بائیبل میں ذکر آتا ہے مگر مسیح کے کفارئہ پر ایمان لانیکا ان کے متعلق کہیں ذکر نہیں ؟ بلکہ اور تو اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے متعلق بھی بائیبل میں یہ کہیں نہیں بیان کیا گیا کہوہ کفارئہ مسیح پر ایمان لائے تھے ۔اگر انکی کوئی پیش گوئی نکل بھی آئے تو اس سے صرف اتنا ثابت ہو گا کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے یہ خبر دی تھی کہ میرے بعد مسیح آئے گا ۔یہ کہیں سے ثابت نہیں ہو سکتا کہ انہون نے یہ کہا ہو کہ مسیح لوگوں کو گناہوں کی سزاسے بچانے کے لئے اپنے آپ کو قربان کرے گا اور میں اس کفارئہ پر ایمان لاتا ہوں۔پس بفرض محال اگر حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی کوئی پیشگوئی ثابت بھی ہو جائے تو اس سے صرف اتنا پتہ لگے گا کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے آمد مسیح کی خبر دی تھی اس سے انکی نجات کس طرح ہو گئی ؟اور وہ گناہ سے بچ کس طرح گئے؟کفارئہ کا مسئلہ جو عیسائیوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے اسکی بنیاد اس امر پر نہیں کہ خدا کے بیٹے پر ایمان لایا جائے بلکہ اسکی بنیاد اس امر پر ہے کہ خدا کے بیٹے کے مصلوب ہونے اور اس کے کفارئہ ہونے پر ایمان لایا جائے مگر کفارئہ مسیح پر حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے ایمان لانے کا بائیبل سے کہیں ثبوت نہیں ملتا
پھر اگر حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی پیش گوئیوں کو لو تو وہ بھی حضرت مسیح پر چسپاںنہیں ہوتیں۔مجھ سے ایک دفعہ ایک پادری کی گفتگو ہوئی میں نے اس سے کہا۔پہلے لوگ کس طرح نجات پا گئے تھے؟کہنے لگا وہ مسیح پر ایمان لاتے تھے۔میں نے کہا کیا ابراہیم بھی ایمان لائے تھے ؟اس نے کہا ہاں!حضرت ابراہیم علیہ اسلام سے اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ تیری نسل اپنے دشمنوں کے دروازہ پر قابض ہو گی اور تیری نسل سے زمین کی ساری قومیںبرکت پائیں گی (پیدائشباب۲۲آیت۱۷،۱۸) یہ پیش گوئی حضرت مسیح کے متعلق تھی اور انہی کے ذریعہ پوری ہوئی ہے اس لیئے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ حضرت مسیح پر ایمان لے آئے تھے ۔میں نے کہا اس پیش گوئی میں یہ ذکر ہے کہ آنے والا ابراہیم کی نسل میں سے ہو گا اور تم جانتے ہو کہ اولاد ہمیشہ مرد کے نطفے سے ہو تی ہے اس لئے وہی شخص اس پیش گوئی کا مصداق سمجھا جا سکتا ہے جو مرد کے نطفہ سے ہو ۔اس وقت دنیا میں دو مدعی کھڑے ہیںاور دونوں اس امر کے دعویدار ہیں کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی پیش گوئی کا مصداق ہیں ایک محمدﷺ ہیں جن کا باپ تھا۔اور ایک مسیح ہیں جنکا کوئی باپ نہیں تھا ۔اب تم خود ہی سمجھ سکتے ہو کہ بائیبل کی یہ پیش گوئی ان دونوں میں سے کس پر چسپاںہوگی آیا اس پر چسپاں ہوگی جس کا کوئی باپ ہی نہیںتھا یا اس پر چسپاں ہوگی جس کا باپ تھا اور جو واقعہ میںابراہیم کی نسل میں سے تھا۔بائیبل بتا رہی ہے کہ آنیوالا ابراہیم کی نسل میں سے ہو گا یعنی وہ مرد کے نطفہ سے پیدا ہو گا جو شخص مرد کے نطفہ سے ہی نہیں وہ ابراہیم کی اولاد میں سے کس طرح سے ہو گیا ؟
عیسائیوں کو یہاں سخت مشکل پیش آئی ہے ۔وہ ایک طرف یہ بھی چاہتے تھے کہ اس پیش گوئی کو حضرت مسیح پر چسپاں کریں۔اوع دوسری طرف یہ بھی دیکھتے تھے کہ حضرت مسیح کا کوئی باپ ہیں تھا جس کی بنا پر وہ انہیں ابراہیمی نسل میں سے قرار دیں۔ آخر اسکا حل انہوں نے یہ نکالا کہ انجیل میں لکھ دیا یوسف نجار مسیح کا باپ تھا اور پہر اس کا نسب نامہ انہوں نے دائود سے ملا دیا حلانکہ وہ ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مسیح کنواری کے بطن سے پیدا ہوا۔بہر حال اول توحضرت ابراہیم علیہ اسلام کی اس پیش گوئی میں کفارئہمسیح کا کوئی ذکر نہیں نہ اس امر کا کوئی ذکر ہے کہ وہ اس کفارئہ پر ایمان لائے تھے صرف ابراہیم کی اولاد کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ میں اسے برکت دوں گا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس پیش گوئی کو جب ہم کسی شخص پر چپساں کریں گے تو اس شخص پر کریں گے جس کا کوئی باپ ہی نہیں یا اس شخص پر چسپاں کریں گے جس کا باپ موجودہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ یہودی عقیدہ کے ماتحت ماں کی طرف سے نسل نہیں چلتی بلکہ باپ کی طرف سے نسل چلتی ہے اس لیے جس شخص کا باپ موجود ہے وہ ہی اس پیش گوئی کا مصداق ہو سکتا ہے نہ وہ جس کا کوئی باپ ہی نہیں اور جو ابراہیمی نسل میں سے سمجھاہی نہیں جا سکتا۔
تیسرا اعتراضات لوگو ں پر یہ ہے کہ مسیح کس طرح پاک ہوا؟وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ مسیح چونکہ بے باپ پیدا ہوا اس لئے وہ گناہ سے پاک تھا ۔اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بے باپ کے پیدا ہو نے سے انسان گناہ سے نجات پا جاتا ہے تو ملک صدق سالیم بھی تو بے باپ پیدا ہوا تھا بلکہ اس کی تو ماں بھی نہ تھی اس کے متعلق کیوں نہیں کہا جاتا کہ وہ گناہ سے پاک تھا ؟پھر سوال یہ ہے کہ اگر بے باپ پیدا ہونے سے انسان نجات پاتا ہے تو آدم نے گناہ کس طرح کیا جبکہ آدم کا بھی نہ باپ تھا نہ ماں۔بن باپ پیدائشاگر انسان کو پاکیزہ بناتی ہے تو آدم بھی بے گناہ ہونا چاہئے تھا پھر یہ ورثہ کا گناہ کہاں سے آگیا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر جسم میں سے نکلنے کی وجہ سیانسان گناہ گار بن جاتا ہے تو جیسے باپ کے اندر سے اسے گناہ پہنچتا ہے ویسے ہی اسے ماں سے گناہ پہنچ سکتا ہے ؟اور بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہ اصل میں حوا سے ظاہر ہوا تھا ۔چنانچہ پیدائش باب۳کا بائیبل چھاپنے والوں نے ان الفاظ میں خلاصہ درج کیا ہے اس بیان میں کہ سانپ حوا کو فریب دیتا انسان گناہ سے شکستہ حال ہو جاتا ۔خدا مرد و عورت دونوں کواپنے حضور میں بلاتا ۔سانپ پر *** بھیجی جاتی ۔عورت کو خاص نسل کا وعدہ۔انسان کی سزاکا احوال ۔انکی پہلی پوشاک۔اندونوں کا باغ عدن سے نکل جانا۔
پھر خود اس یوں لکھا ہے اور سانپ میدان کے سب جانوروں سے جنہیں خداوند خدا نے بنایا تھا ہوشیارتھا۔اور اس نے عورت سے کہا کیا یہ سچ ہے کہ خدا نے کہا کہ باغ کے درخت سے نہ کھا نا ۔عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھا تے ہیں مگر اس درخت کے پھل کو جو باغ کے بیچوں بیچ ہے خداوند نے کہا تم اس سے نہ کھا نا اور نہ اسے چھونا ایسا نہ ہو کہ مر جائو۔تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہر گز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن اس سے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اوع تم خدا کی مانند نیک وبد جاننے والے ہو ئو گے اور عورت نے جوں دیکھا کہ وہ درخت کھانے میں اچھا اور خوشنما اور عقل بخشنے میںخوب ہے تو اس کے پھل میں سے لیا اور کھایااور اپنے خصم کو بھی دیا اور اس نے کھایا (پیدائش باب۳آیت۱ تا۶) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ شیطان نے پہلے حوا کو ورغلایا اور حوا کے کہنے سے آدم بھی اس غلطی میںشریک ہو گیا چنانچہ جب خدا نے آدم سے کہاکہ کیا تو نے اس درخت سے کھایا جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم کیا تھا کہ اس سے نہ کھانا تو آدم نے جواب دیا حضور اس میں میرا کیا قصورہے آپ نے جو عورت مجھے دی تھی اور جس کے متعلق کہا تھا کہ یہ تیری ساتھی ہو گیاس نے جب مجھے درخت کا پھل دیا تو میں نے سمجھا کہ یہ خدا کا عطا کیا ہوا ساتھی ہے اسکی دی ہوئی چیز کو میں رد نہ کروں ایسا نہ ہو کہ میں گنہگار بن جائوںچنانچہ میں نے پھل لیا اور کھا لیا ۔بائیبل میں لکھا ہے آدم نے کہا کہ اس عورت نے جسے تو نے میری ساتھی کر دیا مجھے اس درخت سے دیا اور میں نے کھا یا تب خدا وند خدا نے عورت سے کہا کہ تو نے یہ کیا کیا۔ عورت بولی کہ سانپ نے مجھے بہکایاتو میں نے کھایا(پیدائش باب ۳آیت۱۱تا۱۳)ان حوالاجات سے صاف پتہ لگتا ہے کہ شیطان پہلے حوا کے پاس گیا اور اسے ورغلایا۔اس کے بعد حوا نے آدم کو ورغلایا۔گویا ذیادہ گنہگارآدم نہیں بلکہ حوا تھی۔اور اس کی تحریک پر آدم بھی اس گناہ میںملوث ہوا۔اس پادری سے گفتگو کے دوران میں جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے میں نے اس سے پوچھا کہ بتائو شیطان نے پہلے آدم کو ورغلایاتھا یا حواکو؟کہنے لگا حوا کو ۔میں نے کہا حوا کو ورغلانے سے شیطان کی کیا غرض تھی؟اس نے پہلے ہی آدم کو کیوں نہ ورغلایا۔وہ آدم کو چھوڑ کر حوا کے پاس کیوں گیا تھا ؟پادری نے کہا اس لیے کہ حوا جلدی قابو میں آسکتی تھی۔میں نے کہے تو پھر معلوم ہوا کہ حوا میں گناہ کا مادہ زیادہ تھا اسی وجہ سے وہ پہلے آدم کے پاس نہیںگیا کیونکہ اس نے سمجھا کہ آدم میرے دھوکا میںجلدی نہیں آسکتاوہ حوا کے پاس گیا اور کامیاب ہو گیا ۔اسکے بعد میں نے کہااب بتائو مسیح حوا کا بیٹا تھا یا آدم کا ؟کہنے لگا اس سوال سے آ پ کا کیا مطلب ہے ؟میں نے کہا کچھ مطلب ہو۔تم یہ بتائو کہ مسیح آدم کا بیٹا تھا یا حوا کا ؟کہنے لگا مریم کا بیٹا تھا۔میں نے کہااگر گرم پانی میں سرد پانی ملا دیا جائے تو اسکی گرمی بڑھ جائے گی یا کم ہو گی؟کچھ گرم پانی کی گرمی کم ہو گی اور کچھ سرد پانی کی سردی کم ہو جائے گی۔میں نے کہا تو اب مسئلہ صاف ہو گیا ۔اگر مسیح بن باپ نہ ہو تاتو اسے باپ کی طرف سے اس روحانی طاقت میں سے حصہ ملتاجو آدم میں تھی اور ماں کی طرف سے اسے اس کمزوری میں سے حصہ ملتا جو حوا میں تھی ۔آدم کی طاقت اور حوا کی کمزوری مل کر ورثہ کے گناہ کا اثر کچھ نہ کچھ کم کر دیتی مگر مسیح بن باپ تھا جس کے معنے یہ ہیںکہ اس نے آدم کی طاقت سے حصہ نہیں لیا صرف حوا کی کمزوری سے حصہ لیا ہے اب بتائو وہ مسیح جو خالص حوا کی نسل میں سے تھا جس کے متعلق تم تسلیم کرتے ہوکہ وہ آدم کی نسبت زیادہ گنہگارتھی وہ گناہوںسے پاک کس طرح ہو گیا وہ تو اور لوگوں کی نسبت ذیا دہ گنہگار ہوا کیونکہ اس نے خالص حوا کا اثر ورثہ میں لیا ہے؟ کہنے لگا یہ کوئی اصول نہیںکیا مٹی میں سے سونا نہیں نکلتا ؟اگر مٹی میں سے سونا نکل سکتا ہے تو بات حل ہو گئی جس طرح مٹی میں سے سونا نکل سکتا ہے اسی طرح آدم کے بیٹے نیک بھی ہو سکتے ہیں۔کہنے لگا نہیں نہیں سونا تو سونے میں سے نکلتا ہے میں نے کہا تو پھر مسیح ایک عورت کے بطن سے پیدا ہو کر پاک کس طرح ہو گیا ؟سونا تو سونے میں سے ہی نکلتا ہے مٹی میں سے نہیں نکلتا ۔اور اگر سونا مٹی میں سے بھی نہیں نکلتا اور سونے میں سے بھی نہیں نکلتا تو وہ نکلتا کس چیز میں سے ہے ؟غرض اگر یہ درست ہے کہ مٹی میں سے سونا نکل سکتا ہے تو گنہگار آدم کی اولاد بھی نیک ہو سکتی ہے اور اگر مٹی میں سے سونا نہیں نکلتا بلکہ سونے میں سے سونا نکلتا ہے تو مسیح ؑایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہو کر پاک نہیں ہو سکتا۔ پس اندونوں میں سے کوئی صورت لے لو عیسائی مذہب قائم نہیں رہ سکتا۔
تیسرے ہم خود مسیح ؑکو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو نیک کہتے ہیں یا نہیں۔ جب اس نکتہ نگاہ سے ہم انجیل کا مطالعہ کرتے ہیںاس میں یہ الفاظ نظر آتے ہیں ’’ اور دیکھو ایک نے آ کر اس سے کہا۔اے نیک استاد میں کونسا نیک کام کروںکہ ہمیشہ کی زندگی پائوں؟ اس نے اس سے کہا تو کیوں مجھے نیک کہتا ہے۔ نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا۔ پر اگر تو زندگی میں داخل ہونا چاہے تو حکموں پر عمل کر۔‘‘(متی باب ۱۹ آیت ۱۶، ۱۷)گویا مسیح ؑخود کہتے ہیں کہ میں نیک نہیں۔اب بتائو جس نے دنیا کو نیکی دینی تھی جب وہ اپنی نیکی کا آپ منکر ہے تو ہم یہ کس طرح تسلیم کر لیں کہ وہ بے گناہ تھااور دنیا کو گناہوں سے پاک کرنے آیا تھا ۔یہ تو وہی مثال بن جاتی یہ کہ مدعی سست اور گواہ چست۔
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ اگر واقعہ میں مسیح ؑنیک تھا اور اگر واقعہ میں اس کے کفارہ کے ذریعہ دنیا گناہ سے بچ گئی تھی اور اس میں یہ قابلیت پیدا ہو گئی تھی کہ وہ نیکی کو اختیار کرے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گاکہ پیدائش عالم کا آخری نقطہ تھا۔ کیونکہ انسانی پیدائش کی غرض اس کے آنے سے پوری ہو گئی لیکن جب ہم بائبل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسیح ؑپیدائش عالم کا آخری نقطہ نہیں تھا۔ بلکہ اگر مسیح ؑخدا کا بیٹا تھاتو اس کی اپنی پیش گوئی کے مطابق خود خدا بھی دنیا میں آنے والا تھا چنانچہ مرقس باب ۱۲ میں وہ اس پیشگوئی کو تمثیلی رنگ میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔ ’’ ایک شخص نے انگور کا باغ لگایااور اس کے چاروں طرف گھیرا اور کولھوکی جگہ کھودی اور ایک برج بنایا اور اسے باغبانوں کے سپرد کر کے پردیس چلا گیا۔ پھر موسم میں اس نے ایک نوکر کو باغبانوں کے پاس بھیجا تا کہ وہ باغبانوں سے انگور کے باغ کے پھل میں سے کچھ لے۔انہوں نے اسے پکڑ کے مارااور خالی ہاتھ بھیجا۔ اس نے دوبارہ ایک اور نوکر کو اس کے پاس بھیجا ۔انہوں نے اس پر پتھر پھینک کے اس کا سر پھوڑا اور بے حرمت کرکے پھر بھیجا۔پھر اس نے ایک اور کو بھیجاانہوں نے اسے قتل کیاپھر اور بہتیروں کو۔ان میں سے بعضوں کو پیٹا اور بعضوں کو مار ڈالا۔ اب اس کا ایک ہی بیٹا تھا جو اس کو پیارا تھا۔ آخر کو اس نے اسے بھی ان پاس یہ کہ کے بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دبیں گے۔ لیکن ان باغبانوں نے آپس میں کہا یہ وارث ہے آئو ہم اسے مار ڈالیں تو میراث ہماری ہو جائے گی اور انہوں نے اسے پکڑ کر قتل کیااور انگور کے باغ کے باہر پھینک دیا۔ پس باغ کا مالک کیا کہے گا ؟ وہ آوے گا اور ان باغبانوں کو ہلاک کر کے انگور کا باغ اوروں کو دے گا۔‘‘ (مرقس باب۱۲۔آیت ۱تا ۹) اس تمثیل میں باغ سے مراد وہ سلسلئہ ہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی اصلاح کے لئے قائم کیا۔ باغ بنانیوالا موسی ؑ تھا جو الہیٰ جلال کے اظہار کے لئے آیا۔اور باغبانوں سے مراد بنی اسرائیل تھے جن کے سپرد اس باغ کی حفاظت کا کام کیا گیا۔ نوکر جو میوہ کا حصہ لینے کے لئے باغ کے مالک کی طرف سے یکے بعد دیگرے بھیجے گئے اللہ تعالیٰ کے وہ انبیاء تھے جو موسی ؑ کے بعد پے در پے آتے رہے مگر لوگوں کا سلوک ان کے ساتھ یہ رہا کہ انہوں نے کسی نبی کو مارا، کسی کو دکھ دیا اور کسی کو بے عزت کیا۔ آخر خدا نے اپنا بیٹا بھیجا جس سے مراد حضرت مسیح ؑخود تھے ۔ جو موسی ؑ کے بعد آنیوالے نبیوں میں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے مقرب اور محبوب تھے مگر لوگوں نے ان کی بھی پرواہ نہ کی اور انہیں صلیب پر چڑھا دیا۔حضرت مسیح ؑفرماتے ہیں ۔تم جانتے ہو اب کیا ہو گا۔ باغ کا مالک آئے گا اور ان باغبانوں کوہلاک کر کے انگور کا باغ اوروں کو دے گا۔ یعنی اب وہ نبی دنیا میں ظاہر ہو گاجس کا آنا خود خدا کا آنا ہو گا۔جس کا ظہور خدا تعالیٰ کا ظہور ہو گا۔اور وہ گذشتہ سنت کے خلاف بنی اسرائیل میں سے نہیں ہو گابلکہ ان کے بھائیوں بنی اسمٰعیل میں سے ہو گا۔
یہ تمثیل واضح کر رہی ہے کہ حضرت مسیح ؑپیدائش عالم کاآخری نقطہ نہیں تھے اگر آخری نقطہ ہوتے تو وہ اپنے بعد ایک ایسے نبی کی بعثت کی خبر نہ دیتے جس کا آنا خود خدا کا آنا تھا۔یہ بات ظاہر ہے کہ بیٹا باپ نہیں ہو سکتا۔ پس اس تمثیل میں جس کو باپ کہا گیا ہے وہ یقینا بیٹے کے علاوہ کوئی اور شخص ہی سکتا ہے اور جب مسیح ؑکے علاوہ ہدایت عالم کے لئے کسی اور شخص کا آنا خود مسیح ؑکی اپنی پیشگوئی کے ماتحت ثابت ہو گیااور ساتھ ہی یہ امر بھی واضح ہو گیا کہ مسیح ؑکے متعلق یہ خیال درست نہیں کہ وہ پیدائش عالم کا آخری نقطہ تھا۔اگر مسیح ؑسے نیکی قائم ہو چکی تھی تو پھر مسیح ؑکے سوا کسی اور کے آنے کی کوئی غرض ہی نہیں ہو سکتی مگر جیسا کہ انجیل کے مذکورہ بالا حوالہ سے ظاہر ہے مسیح ؑاگر خدا کا بیٹا تھا تو خود خدا بھی آنے والا تھا۔ اسی طرح حضرت مسیح ؑایک اور مقام پر کہتے ہیں:۔ ’’ میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم ان کو برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہیں بتا دے گی۔ اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی۔وہ میری بزرگی کرے گی اس لئے کہ وہ میری چیزوں سے پاوے گی اور تمہیں دکھاوے گی۔‘‘ (یوحنا باب۱۶ آیت ۱۲،۱۳) یہاں حضرت مسیح ؑاقرار کرتے ہیں کہ میرے بعد ایک اور شخص آئے گا جو روح حق کہلائے گا اور وہ ایسی تعلیمیں دے گاجو میں نے بھی نہیں دیں۔ یعنی مجھ سے بڑھ کر سچائی کی راہیں دنیا پر روشن کرے گااور میری تعلیم سے زیادہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرے گا۔اور پھر ایک مزید بات یہ ہو گی کہ اس کو ایسی کتاب ملے گی جس میں اس کے اپنے الفاظ نہیں ہوں گے جو خدا نے کہے ہونگے۔ ’’ وہ اپنی نہ کہے گی جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی ۔‘‘ ان الفاظ کا مفہوم یہی ہے کہ اس کو جو کتاب ملے گی اس کی یہ ممتاز خوبی ہو گی کہ شروع سے لے کر آخر تک وہ اللہ تعالیٰ کے کلام پر مشتمل ہو گی۔ کوئی بات اس میں ایسی نہیں ہو گی جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ یہ انسان کا کلام ہے خدا کا کلام نہیں۔ گویا اول حضرت مسیح ؑاپنے بعد ایک آنے والے کی خبر دیتے ہیں ۔دوم حضرت مسیح ؑیہ بھی خبر دیتے ہیں کہ وہ آنے والا اپنے ساتھ ایک کتاب بھی لائے گا ۔ سوم اس کتاب کی یہ خوبی بتاتے ہیں کہ اس میں انسانی کلام نہیں ہو گا بلکہ ابتداء سے انتہا تک اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف خدائی کلام پر مشتمل ہو گا ۔ اس پیشگوئی کے مطابق رسول کریم ﷺ دنیا میں مبعوث ہوئے اور آپ نے وہ شریعت لوگوں کے سامنے پیش کی جو اپنی شان اور عظمت کے لحاظ سے تمام الہامی کتب میں یگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ بائبل کو دیکھا جائے تو جہاں اس میں خدائی کلام نظر آتا ہے وہاں بہت سی انسانی باتیں بھی اس میں دکھائی دیتی ہیں ۔ اگر ایک طرف اس میں ان پیشگوئیوں کا ذکر پایا جاتا ہے جو موسی ؑنے کیں تو دوسری طرف ہم اس میں یہ بھی لکھا پاتے ہیں کہ ’’ خداوند کا بندہ موسی ؑ خداوندکے حکم کے موافق مو آب کی سر زمین میں مر گیااور اس نے اسے مو آب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا۔پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا۔‘‘( استثناء باب ۳۴ آیت ۵ ) اب بتائو کیا یہ خدا کا کلام ہے جو موسی ؑ پر نازل ہوا کہ موسی ؑ مر گیااور فلاں جگہ گاڑا گیا مگر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ الفاظ بعد میں لوگوں نے بڑھا دئیے تھے۔ جب موسیٰ ؑمر چکے تھے اور ان کی موت پراسقدر عرصہ گزر چکا تھا کہ ان کی قبر کا بھی لوگوں کو علم نہیں رہا تھا کہ وہ کس جگہ تھی۔ اسی طرح متی۔ مرقس اور لوقا وغیرہ میں جہاں خدا کی باتیں ہیں وہاں بندوں کی باتیں بھی ہمیں ان میں صاف طور پر نظر آتی ہیں ۔خود لوقا کہتا ہے ’’ چونکہ بہتوں نے کمر باندھی کہ ان کاموں کا جو فی الواقعہ ہمارے درمیان انجام ہوئے بیان کریں۔ جس طرح سے انہوں نے جو شروع سے خود دیکھنے والے اور کلام کی خدمت کرنے والے تھے ہم سے روایت کی میں نے بھی مناسب جانا کہ سب کو سرے سے صحیح طور پر دریافت کر کے تیرے لئے اے بزرگ تھیوفلس بہ ترتیب لکھوں تا کہ تو ان باتوں کی حقیقت کو جن کی تو نے تعلیم پائی جانے۔‘‘ (لوقا باب ۱ آیت ۱ تا ۴ ) گویا موجودہ اناجیل کیا ہیں؟ وہ کتب ہیں جو حضرت مسیح ؑکی وفات کے بعد مختلف لوگوں نے مرتب کیں اور انہوں نے مختلف روایات کو ایک ترتیب سے ان میں جمع کر دیا ۔اس لئے ان کتب میں جہاں ہمیں وہ کلام نظر آتا ہے جو خدا کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے وہاں ایسا کلام بھی ان میں پایا جاتا ہے اور اسی کی کثرت ہے جو بندوں نے اپنی طرف سے شامل کر دیا ہے۔
غرض دنیا میں کوئی ایسی الہامی کتاب نہیں جو شروع سے آخر تک صرف وہی باتیں بیان کرتی ہوجو خدا نے کہی ہوں ۔ تورات لے لو۔ انجیل لے لو ۔ ژند اور اوستالے لو۔ وید لے لو ہر کتاب انسانی دست برد کا شکار نظر آئے گی ۔ ہر کتاب میں خدائی الہامات کے ساتھ ساتھ بندون کی اپنی تشریحات کو بھی شامل دیکھو گے۔مگر قرآن وہ کتاب ہے جو ابتداء سے انتہا تک ہر قسم کے انسانی الفاظ سے منزہ ہے۔ ابتداء سے انتہا تک اس کا ایک ایک لفظ ایک ایک حرف اور ایک ایک شعشہ ایسا ہے جو خدا نے محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا ۔پس قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جس پر حضرت مسیح ؑکے یہ الفاظ صادق آتے ہیں ’’ کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی۔ ‘‘ پھر اس کے ساتھ ہی حضرت مسیح ؑنے یہ خبر بھی دی تھی کہ وہ کتاب ’’تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی ‘‘یعنی اس کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا بلکہ قیامت تک چلتا چلا جائے گا ۔کوئی زمانہ ایسا نہیں آئے گا جس میں لوگ اس کتاب کی ضرورت سے مستغنی ہو جائیں۔ اور پھر یہ کہ ’’ وہ میری بزرگی کرے گی ‘‘ یعنی لوگ مجھے جھوٹا اور *** قرار دیں گے وہ میری بزرگی کا اظہار کرے گی۔یہودی کہیں گے کہ میں صلیب پر مر کر *** ہو گیا ۔ عیسائی کہیں گے کہ میں صلیب پر لٹک کر لوگوں کے گناہوں کے بدلے دوزخ میں چلا گیا۔ مگر وہ کہے گا ما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم ( النساء ع۲۲،۲) یہ بات غلط ہے کہ لوگوں نے اس کو قتل کر دیا تھا یا صلیب پر لٹکا کر اسے *** ثابت کر دیا تھا ۔ وہ قتل سے بھی محفوظ رہا تھا اور صلیب سے بھی محفوظ رہا تھا ۔ بے شک دوست دشمن نے اسے *** ثابت کرنا چاہامگر خدا نے اسے عزت دی اور دشمن کو اس کے ارادوں میں ناکام کر دیا۔
آخر میں حضرت مسیح ؑفرماتے ہیں:۔ یہ اس لئے ہو گاکہ ’’ وہ میری چیزوں سے پاوے گی اور تمہیں دکھا دے گی ۔‘‘ میری چیزوں سے پانے کا مفہوم یہ نہیں کہ وہ مسیح ؑکا متبع ہو گا۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اسے وہ تعلیم ملے گی جس میں تمام انبیاء کی تعلیمیں شامل ہونگی۔ نوح ؑکی تعلیم بھی اس میں موجود ہو گی۔ ابراہیم ؑکی تعلیم بھی اس میں موجود ہو گی۔ موسیٰ ؑ کی تعلیم بھی اس میں موجود ہو گی اور میری یعنی عیسیٰ ؑ کی تعلیم بھی اس میں موجود ہو گی اور اس طرح اس کی تعلیم جامع ہو گی تمام سابق انبیاء کی تعلیمات کی۔ اور پھر وہ کتاب ایسی ہو گی جو ’’ تمہیں دکھا دے گی ‘‘ یعنی اس میں صرف زبانی باتیں نہیں ہونگی بلکہ عملی طور پر وہ تمام سچائیوں کو روشن کر کے دنیا پر ان کو واضح کر دے گی۔ یہ پیشگوئیاں صاف طور پر بتاتی ہیں کہ حضرت مسیح ؑکے بعد ایک ایسے وجود نے ابھی آنا تھا جو مسیح ؑسے زیادہ کامل ہوتا ۔ پھر مقدر یہ تھا کہ وہ ایک ایسی جامع اور بے مثل کتاب اپنے ساتھ لاتا جس میں تمام سچائیاں جمع ہوتیں۔ جس میں شروع سے لے کر آخر تک اللہ تعالیٰ کا کلام ہوتا اور پھر عملی طور پر وہ کتاب تمام سچائیوں کو روشن کرنے والی ہوتی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح ؑنے واقعہ میں ساری دنیاکے گناہ اٹھا لئے تھے اگر دنیا کی نجات کے لئے ان پر ایمان لانا کافی تھااور اگر انسانی نجات کا آخری نقطہ وہی تھے تو ساری سچائیاں انہیں بتانی چاہیں تھیں مگر وہ تو کہتے ہیں کہ میں سب سچائیاں نہیں بتا سکتا ان کو میرے بعد آ نے والا بتائے گا۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح ؑناصری کے نزدیک ان کا اپنا وجود پیدائش عالم کا آخری نقطہ نہیں تھا بلکہ بعد میں آنے والا ایک اور وجود اس شرف اور عظمت کا مستحق تھا۔
پانچویں اگر حضرت مسیح ؑکفارہ ہوئے ہیں تو ان کا کفارہ ہونا اسی صورت میں تسلیم کیا جا سکتا ہے جب وہ خوشی اور انتہائی بشاشت کے ساتھ کفارہ ہوئے ہوں ۔ جس شخص کو جبراً صلیب پر لٹکا دیا جائے اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنی خوشی سے لوگوں کے لئے قربان ہوا ہے۔ اگر حضرت مسیح ؑواقعہ میں کفارہ ہونے کے لئے دنیا میں تشریف لائے تھے تو چاہیے تھا کہ وہ دوڑ کر صلیب پر چڑھتے اور خوش ہوتے کہ جس غرض کے لئے میں آیا تھا وہ آج پوری ہو رہی ہے۔مگر بائیبل میں لکھا ہے جب انہیں پتہ لگا کہ صبح مجھے صلیب پر لٹکایا جا نے والا ہے تو انہوں نے ساری رات دعائیں کرتے ہوئے گذاردی اور اپنے حواریوں سے بھی بار بار کہا کہ جاگو اور دعا مانگو تاکہ امتحان میں نہ پڑو حضرت مسیح ایک پہاڑی پر دعائیں کر رہے تھے اور ان کے حواری نیچے تھے وہ گھبراہٹ کی حالت میں بار بار نیچے آتے اور دیکھتے کہ حواری دعائیں کر رہے ہیں یا نہیں۔ مگر جب بھی آتے ،دیکھتے کہ وہ سو رہے ہیں حضرت مسیح پھر ان کو جگاتے اور چلے جاتے ۔پھر نیچے آتے اور دیکھتے کہ حواریوں کی کیا حالت ہے مگر پھر ان کو سوتا پاتے ۔آخر حضرت مسیح ان پر ناراض ہوئیاور کہا کہ کیا تم میرے ساتھ ایک گھنٹہ نہیں جاگ سکے مگر شاگردوں پرپھر بھی کوئی اثر نہ ہوا ۔اس دوران حضرت مسیح نے جس بیقراری اور اضطراب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضوردعائیں کیںان کا ذکر انجیل میں اس طرح آتا ہے
’’پھر یسوع ان کے ساتھ گتسمنی نامی ایک مقام میں آیا اور شاگردوں سے کہا یہاں بیٹھو جب تک میں وہاں جا کر دعا مانگوں۔تب اس نے پطرس اور زبدی کے دو بیٹے ساتھ لیے اور غمگین اور نہایت دلگیر ہونے لگا ۔تب اس نے ان سے کہا میرا دل نہایت غمگین ہے بلکہ میری موت کی سی حالت ہے تم یہاں ٹھہرو اورمیرے ساتھ جاگتے رہو اور کچھ آگے بڑھ کے منہ کے بل گرا اور دعا مانگتے ہوئے کہا کہ اے میرے باپ!اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے گذر جائے تو بھی میری خواہش نہیں بلکہ تیری خواہش کے مطابق ہو۔تب شاگردوں کے پاس آیا اور انہیںپا کر پطرس سے کہا۔کیا تم میرے ساتھ ایک گھنٹہ نہیں جاگ سکے ۔جاگو اور دعا مانگو تاکہ امتحان میں نہ پڑو ۔روح مستعد پر جسم سست ہے پھر اس نے دوبارہ جا کر دعا مانگی اور کہا اے میرے باپ!اگر میرے پینے کے بغیر یہ پیالہ مجھ سے نہیں گذر سکتا تو تیری مرضی ہو۔اس نے آکر پھر انہیں سوتے پایا ۔کیونکہ انکی آنکھیں نیند سے بھاری تھیںاور انہیں چھوڑ کر پھر گیا اور وہی بات کہہ کر تیسری بار دعا مانگی ۔تب اپنے شاگردوں کے پاس آکران سے کہا ۔اب سوتے رہو اور آرام کرو۔دیکھو وہ گھڑی آ پہنچی کہ ابن آدم گنہگاروں کے ہاتھ حوالے کیا جاتا ہے ۔‘‘(متی باب۲۶آیت۳۶تا۴۵)
اگر واقعہ میںحضرت مسیح ؑاس لئے آئے تھے کہ وہ لوگوں کے گناہ اٹھائیں اور انکی خاطر اپنی جان قربان کر دیںتو کیا یہ ہو سکتا تھا کہ وہ صلیب کے وقت گڑگڑا گڑگڑا کر یہ دعا مانگتے کہ ’’اے میرے باپ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے گذرجائے‘‘۔(متی باب ۲۶آیت۳۹)پھر تو چاہئے تھا کہ وہ روزانہ یہ دعا مانگتے کہ اے خدا یہ پیالہ مجھے جلد پلا تاکہ بنی نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ ہو۔مگر بجائے اس کے کہ وہ یہ دعا کرتے کہ الہی موت کا پیالہ مجھے جلد پلاتا کہ میں لوگوں کے گناہ اٹھا کران کی نجات کا باعث بنوں وہ ساری رات گڑگڑا گڑگڑا کر یہ دعا کرتے رہے کہ الہیٰ مجھے صلیب سے بچااور نہ صرف آپ یہ دعا کرتے رہے بلکہ حواریوں کو بھی بار بار دعا کرنے کی تاکید کرتے رہے اور بار بار آکر دیکھتے رہے وہ سو رہے ہیں یا اٹھ کر دعائیں کر رہے ہیں اور جب انہوں نے دیکھا کہ حواری سستی سے کام لے رہے ہیں ۔اور دعا کی طرف انکی توجہ نہیں تو انہوں نے ان کو ڈانٹا اور کہاکیا تم سے اتنا بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک گھنٹہ جاگ سکواور خدا سے دعائیں کرو۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت مسیح ؑکے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی کفارہ کا وہ مسئلہ نہ تھا جو آجکل عیسائیوں نے ایجاد کیا ہوا ہے اور نہ کفارہ کے لئے وہ دنیا میں تشریف لائے تھے ورنہ صلیب کی رات نہ آپ خود یہ دعا کرتے اور نہ اپنے حواریوں سے کہتے کہ دعا کرو کہ یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ کفارہ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ حضرت مسیح ؑنے صلیب پر جان دی۔مگر جب اناجیل پر غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بات بالکل غلط ہیکہ حضرت مسیح ؑصلیب پر لٹک کر فوت ہوئے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انجیل میں لکھا ہے کہ ’’ تب بعض فقیہوں اور فریسیوں نے جواب میں کہا کہ اے استاد ہم تجھ سے ایک نشان دیکھنا چاہتے ہیں ‘‘ یعنی حضرت مسیح ؑنے اپنی صداقت کے متعلق جب مختلف دلائل ان کے سامنے پیش کئے تھے تو ان کو سننے کے بعد فقیہوں اور فریسیوں نے کہا یہ تو زبانی باتیں ہوئیں آپ ہمیں کوئی ایسا نشان دکھائیں جس سے آپ کی صداقت کے ہم بھی قائل ہو جائیں۔ اس پر ’’ اس نے انہیں جواب دیا اور کہا کہ اس زمانہ کے بد اور حرامکار لوگ نشان ڈھونڈتے ہیں پر یونس ؑ نبی کے نشان کے سوا کوئی نشان انہیں دکھایا نہ جائے گا۔ کیونکہ جیسا یونس ؑ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا’’ ( متی باب ۱۲ آیت ۳۸ تا ۴۱) ان الفاظ میں حضرت مسیح ؑعلیہ السلام نے واقعہ صلیب کی خبر دی ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس میں ہمارا اور عیسائیوں کا اتفاق ہے۔عیسائی بھی یہی کہتے ہیں کہ مسیح ؑکی یہ پیش گوئی واقعئہ صلیب پر چسپاں ہوتی ہے اور ہم بھی کہتے ہیں کہ اس پیشگوئی کا اطلاق صلیب کے واقعات پر ہوتا ہے۔فریقین کے اس اتحاد کے بعد جب ہم نفس پیشگوئی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اس میں بعض عظیم الشان خبریں معلوم ہوتی ہیں ۔ اول حضرت مسیح ؑفرماتے ہیں کہ یونس ؑ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان نہ دکھایا جائے گا۔دوم وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جیسا یونس ؑ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔ان الفاظ میں خاص طور پر یونس ؑ نبی کی مماثلت پر زور دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جیسا یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔ گویا تین دن کی مشابہت پر زور نہیں بلکہ اصل زور یونس نبی کے مچھلی کے پیٹ میں رہنے اور ابن آدم کے زمین میں رہنے پر ہے۔ یعنی جس رنگ میں یونس ؑنبی تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا اسی رنگ میں ابن آدم بھی تین رات دن زمین کے اندر رہے گا ۔ جیسا اور ویسا کے الفاظ جواس پیش گوئی میں استعمال کئے گئے ہیں بالصراحت بتلاتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑاپنی صداقت کی ایک قطعی اور حتمی دلیل یہ بیان فرماتے ہیں کہ جس طرح یونس ؑنبی مچھلی کے پیٹ میں گیا اور تین رات دن اسی میں رہا اسی طرح ابن آدم کے ساتھ بھی ایک واقعہ پیش آئے گا اور اسے بھی اسی طرح تین رات دن زمین کے پیٹ میں رہنا پڑے گا ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ یونس ؑنبی کا کیا واقعہ ہے؟بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ یونہ نبی کو خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ نینوہ والوں کے پاس جائیں اور انہیں خدا تعالیٰ کے عذاب کی خبر دیں۔( بائبل میں آپ کا نام یونہ ہے لیکن انجیل میں آپ کا نام یونس آتا ہے۔)وہ لوگوں کی مخالفت سے ڈر کر بھاگے اور کسی اور علاقہ میں جانے کے لئے جہاز پر سوار ہو گئے۔ جہاز پر طوفان آیا ۔ لوگوں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کے غضب سے یہ عذاب نازل ہوا ہے۔ اس پر انہوں نے قرعہ ڈالا کہ کس کے سبب سے یہ عذاب آیا ہے اور نام یونہ کا نکلا۔انہوں نے یونہ سے پوچھا کہ قرعہ میں تمہارا نام نکلا ہے بتائو کیا بات ہے؟انہوں نے سارا حال سنایا کہ مجھے اس اس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا تھامگر میں نے سمجھا کہ اگر لوگوں کو میں نے عذاب کی خبر دی تو وہ میری مخالفت کریں گے اس لئے میں وہاں سے بھاگا اور جہاز میں آکر سوار ہو گیا ۔انہوں نے کہا اب آپ ہی بتائیں کہ اس مصیبت کا ہم کیا علاج کریں۔ یونہ نے کہا کہ تم مجھے سمندر میں پھینک دو۔ یہ عذاب ٹل جائے گا۔ پہلے تو وہ لوگ اس پر آمادہ نہ ہوئے اور انہوں نے پورا زور لگایا کہ کسی طرح جہاز کو سلامتی کے ساتھ نکال کر لے جائیں مگر جب وہ اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوئے اور طوفان بھی کسی طرح تھمنے میں نہ آیا تو انہوں نے یہ دعا کرتے ہوئے کہ الہیٰ اس شخص کا سمندر میں پھینکنا ہمارے لئے کسی عذاب کا موجب نہ ہو۔ یونہ کو اٹھایا اور سمندر میں پھینک دیا۔
اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد بائبل میں لکھا ہے ’’ پر خداوند نے ایک بڑی مچھلی مقرر کر رکھی تھی کہ یونہ کو نگل جائے اور یونہ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا۔‘‘ (یونہ باب ۱۱ آیت۱۷) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یونہ نبی مچھلی کے پیٹ میں کس طرح رہا؟ اس کے متعلق یونہ باب ۲ میں لکھا ہے کہ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں گیا ’’ تب یونہ نے مچھلی کے پیٹ میں خداوند اپنے خدا سے دعا مانگی اور کہا کہ میں نے اپنی مصیبت میں خداوند کو پکارا اور اس نے میری سنی۔‘‘(یونہ باب۲آیت۲) اس دعا سے جو مچھلی کے پیٹ میں یونہ نے کی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ زندہ ہونے کی حالت میں مچھلی کے پیٹ میں گئے اور پھر اس کے پیٹ میں بھی زندہ رہے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیںکرتے رہے۔چنانچہ یانہ باب ۲ میں ایک لمبی دعا درج ہے جو مچھلی کے پیٹ میں انہوں نے مانگی اور جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ الہیٰ مجھ پر اب تک کئی مصیبتیں آئی ہیں جن سے تو نے مجھے بچایا۔ اب اس مصیبت سے بھی مجھے بچااور نجات بخش ۔آخر خدا نے ان کی دعا کو سنا ۔’’اور خداوند نے مچھلی سے کہااور اس نے یونہ کو خشکی پر اگل دیا۔(یونہ باب۲آیت۱۰) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یونہ نبی کا معجزہ یہ تھا کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں تین دن رات زندہ رہا نہ یہ کہ مرنے کے بعد جی اٹھا۔ یعنی بائبل اس امر کوپیش نہیں کرتی کہ دیکھو یونہ خدا کا سچا نبی تھا کیونکہ وہ مر کر زندہ ہو گیا بلکہ بائبل یونہ نبی کا معجزہ یہ پیش کرتی ہے کہ وہ زندہ ہونے کی حالت میں مچھلی کے پیٹ میں گیا اور پھر زندہ ہونے کی حالت میں ہی اس کے پیٹ میں رہا۔حالانکہ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں گیا ہے ہو سکتا تھا کہ مچھلی اسے چبانے کی کوشش کرتی اور وہ مر جاتے۔ اگر مچھلی اسوقت یونہ کو چبا لیتی تو وہ زندہ کس طرح رہتا ؟ مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ بغیر چبانے کے وہ آپ کو نگل گئی۔ پھر دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ گو وہ زندہ اس کے پیٹ میں چلے جاتے مگر اندر جا کر ہلاک ہو جاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے پیٹ میں بھی ان کے لئے ہوا کا ایسا ذخیرہ رکھا کہ باوجود تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے وہ زندہ رہے اور پھر زندہ ہونے کی حالت میں ہی مچھلی کے پیٹ سے باہر آگئے۔ حالانکہ مچھلی کے اگلتے وقت بھی خطرہ ہو سکتا تھا کہاس کے گلے کے دبائو سے آپ مر جاتے مگر خدا تعالیٰ نے ہر مرحلہ پر آپ کی حفاظت کی اور جب مچھلی نے آپ کو اگلا اس وقت بھی خدا نے آپ کی حفاظت کی نہ نگلتے وقت اس نے آپ کو چبایا نہ اگلتے وقت اس نے آپ کو چبایا ۔ نہ پیٹ میں رہتے وقت ہوا کا ذخیرہ کم ہوا ۔ پس یونہ نبی کا معجزہ کیا ہے؟ اس کا یہ معجزہ نہیں کہ وہ مر کر زندہ ہو گیا بلکہ اس کا معجزہ یہ ہے کہ مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے جو خطرناک حادثہ ہو سکتا تھا اس سے بچے رہے پھر پیٹ میں جا کر یہ خطرہ ہو سکتا تھا کہ آپکو ہوا نہ پہنچتی اوردم گھٹ جانے کی وجہ سے آپ ہلاک ہو جاتے مگر اللہ تعالیٰ نے وہاں بھی ایسا سامان کیا کہ آپ بچے رہے ۔اس کے بعد جب مچھلی نے آپ کو اگلا اس وقت بھی یہ خطرہ ہو سکتا تھا کہ آپ ہلاک ہو جاتے۔ اگلتے وقت بھی خدا تعالیٰ نے آپکو اس حادثہ سے بچا لیا۔پس مر کر زندہ ہونا یونہ نبی کا معجزہ نہیں بلکہ ان تین مقامات پر یونہ نبی کا زندہ رہنا اس کی صداقت کا عظیم الشان نشان تھا ۔ پس مسیح ؑاگر یہی معجزہ اپنی قوم کو دکھانا چاہتا تھا تواس کے معنی یہ تھے کہ وہ یونہ کی طرح زندہ ہی قبر میں جائے گا ۔زندہ ہی وہاں رہے گا اور زندہ ہی قبر سے نکلے گا ۔بہرحال اس کی صداقت اس بات سے وابستہ تھی کہ وہ ان تین مقامات پر موت سے محفوظ رہتا اور یہی وہ نشان تھا جس کے دکھائے جانے کا آپ نے یہود کے سامنے اعلان کیا اور بتایا کہ جس چیز کے ذریعہ میں قبر میں جائوںگا وہ ہمیشہ موت کا موجب ہوتی ہے مگر میرے لئے وہ موت کا موجب نہیں ہو گی۔ پھر قبر میں رکھا جانا موت کا موجب ہوتا ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ مجھے قبر میں رکھا جائے گا پھر بھی میں نہیں مروں گا ۔ بلکہ جس طرح یوناہ مچھلی کے پیٹ میں تین رات دن رہنے کے باوجود بچ گیا اسی طرح میں بھی قبر میں تین رات دن رہنے کے باوجود زندہ رہوں گا۔ پھر تیسرا نشان یہ ہو گا کہ میں اس قبر میں سے زندہ نکل آئوں گا۔حالانکہ کسی سرکاری مجرم کا جسے پھانسی کا حکم دیا جاچکا ہو زندہ نکل کر بھاگ جانا اس کیلئے بہت بڑے خطرات کا موجب ہوسکتا ہے۔ اور گورنمنٹ اسے پھر گرفتار کرکے سزا دے سکتی ہے۔ مگر آپ فرماتے ہیں جس طرح یوناہ نبی کو مچھلی نے زندہ اگلا اسی طرح میں بھی قبر میں سے زندہ نکل آئوں گا۔ یوناہ نبی کے متعلق بھی یہ خطرہ تھا کہ اگلتے وقت مچھلی اسے ہلاک کردے مگر خداتعالیٰ نے اسے محفوظ رکھا اور وہ سلامتی کے ساتھ اس کے پیٹ میں سے نکل آیا۔ اسی طرح میرے متعلق بظاہر یہ خطرہ ہوگا کہ گورنمنٹ مجھے گرفتار کرلے مگر یوناہ نبی کی طرح خدا میرے لئے ایسے سامان پیدا کردے گا کہ میں بغیر کسی خطرہ کے زندہ نکل آئوں گا اور کوئی شخص مجھے پکڑ کر مار نہیں سکے گا۔ یہ امر ظاہر ہے کہ مسیح کے قبر میں جانے کا راستہ اس کا صلیب پر کھینچا جانا تھا۔ اگر مسیحؑ کی یہ پیشگوئی صحیح تھی تو اس کے معنے صرف یہ تھے کہ مسیحؑ یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ صلیب جو موت کا ذریعہ ہے اس پر لٹک کر بھی میں زندہ بچ رہوں گا۔ اور جس طرح مچھلی نے یوناہ کو چبا کر مارا نہیں بلکہ اسے زندہ پیٹ میں اتار دیا اسی طرح صلیب مجھے مارے گی نہیں بلکہ زندہ ہی مجھے قبر میں بھجوادے گی۔ دوسرا ذریعہ موت کا قبر ہوتی ہے۔ اس کے متعلق مسیحؑ یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ جس طرح یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا میں زمین کے پیٹ میں زندہ رہوں گا۔ اور پھر تیسری پیشگوئی مسیح یہ کرتاہے کہ جس طرح یوناہ نبی مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکلا اور خدا نے آخری مرتبہ بھی اسے موت سے محفوظ رکھا۔ اسی طرح میرے ساتھ واقعہ ہوگا میں بھی زمین کے پیٹ میں سے زندہ نکلوں گا اور کوئی شخص مجھے گرفتار کرکے ہلاک نہیں کرسکتا۔
چونکہ یہ مضمون مسیح کی وفات کا نہیں میں تفصیل میں نہیں جاتا مگر اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ مسیحی روایات کے مطابق مسیح ؑ کو صرف دو تین گھنٹے صلیب پر لٹکایا گیا تھا۔ چنانچہ انجیل سے ثابت ہے کہ چھ پہر سے نو پہر تک ان کو صلیب پر رکھا گیا اور یہ صرف تین گھنٹے بنتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ اندازہ بھی پورے طور پر صحیح نہیں کہلاسکتا۔ اس لئے کہ آپ کو صلیب پر لٹکانے کے بعد بڑے زور سے آندھی آگئی تھی اور چاروں طرف تاریکی ہی تاریکی چھا گئی تھی اس وجہ سے ہوسکتا ہے کہ آندھی اور تاریکی کی وجہ سے حضرت مسیحؑ کو صلیب پر سے اتار نے کا وقت لوگوں سے پوشیدہ رہا ہو۔ اور انہوں نے قیاس سے کام لے کر وقت کی تعین نو پہر تک کردی ہو۔ لیکن بہرحال ادھر اس کو درست بھی تسلیم کرلیا جائے تب بھی یہ صرف تین گھنٹے بنتے ہیں۔ حالانکہ صلیب پر تین دن سے ساتھ دن تک لٹکانے سے بھی لوگ نہیں مرتے تھے۔
ہمارے ملک میں عام طور پر لوگ صلیب کے یہ معنے سمجھتے ہیں کہ سینہ کی ہڈیوں اور ہاتھوں اور پائوں کی ہڈیوں میں میخیں گاڑ دی جاتی تھیں اور انسان فوری طور پر ہلاک ہوجاتا تھا۔ لیکن یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ صلیب جس پر انسان کو لٹکایا جاتا تھا اس شکل کی ہوا کرتی تھی۔
‏V
جس کسی شخص کو صلیب پر لٹکانا ہوتا تھا تو اسے کھڑ اکرکے اس کے بازوئوں کو دائیں بائیں دو ڈنڈوں کے ساتھ باندھ دیتے تھے اور پھر اس کے بازئووں کے نرم عضلات میں کیل گاڑ دیتے تھے۔ اسی طرح ٹانگوں کی ہڈیوں میں نہیں بلکہ ان کے گوشت میں میخیں گاڑ دیتے تھے۔ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹانگوں، ہاتھوں اور سینہ کی ہڈیوں میں کیل گاڑے جاتے تھے اور چونکہ ہڈیوں میں کیل گاڑنا واقعہ میں ایسا خطرناک امر ہے کہ انسان اس کے بعد زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا اس لئے وہ خیال کرتے ہیں کہ جو شخص صلیب پر لٹکایا جاتا ہوگا وہ جلدی ہی ہلاک ہوجاتا ہوگا۔ مگر یہ درست نہیں۔ جسم کی ہڈیوں میں نہیں بلکہ بازوئوں کے نرم عضلات میں کیل گاڑے جاتے تھے۔ اسی طرح ٹانگوں کی ہڈیوں کے نیچے جو گوشت ہوتا ہے اس میں کیل گاڑے جاتے تھے۔ بیشک یہ ایک تکلیف دہ چیز تھی مگر فوری طور پر موت کا موجب نہیں ہوسکتی تھی۔ بلکہ جو لوگ قوی اور مضبوط ہوتے تھے وہ بعض دفعہ سات سات دن تک بھی نہیں مرتے تھے اور جو لوگ مرتے تھے ان میں سے اکثر فاقہ کی وجہ سے مرا کرتے تھے یا اس وجہ سے کہ زخموں میں کیڑے پڑ جاتے اور ان کا زہر ہلاکت کا موجب بن جاتا تھا۔ وہ ڈاکو یا باغی وغیرہ جو ساتویں دن تک بھی زندہ رہتے تھے ان کے متعلق دستور یہ تھا یہ ہتھوڑے مار مار کر ان کی ہڈیاں توڑی جاتی تھیں۔ اور اس طرح ان کو ہلاک کیا جاتا تھا۔ دراصل صلیب کے معنی بھی یہی ہیں کہ ہڈی توڑ کر گودا باہر نکال دینا۔ اور یہ نام اس لئے رکھا گیا تھا کہ اکثر لوگ صلیب پر مرتے نہیں تھے بلکہ بعد میں ان کی ہڈیاں توڑ کر گودا نکالاجاتا تھا۔ یہ لفظ خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ صلیب پر جلدی موت واقع ہوجاتی تھی۔
پھر مسیح کی صلیب کے وقت اور بھی کئی غیرمعمولی واقعات ہوئے۔ اوّل جب مسیحؑ پر مقدمہ ہوا تو پیلاطوس جس کے پاس فیصلہ کیلئے یہ مقدمہ تھا اس کی بیوی نے ایک منذر رئویا دیکھا جس کی بنا ء پر اس نے پیلاطوس کو کہلا بھیجا کہ ’’تو اس راستباز سے کچھ کام نہ رکھ کیونکہ میں نے آج خواب میں اس کے سبب بہت دکھ اٹھا یا ہے‘‘ (متی باب ۲۷ آیت ۱۹)۔ پیلا طوس نے حضرت مسیحؑ کو چھوڑنے کی بہت کوشش کی مگر یہودیوں نے اصرار کیا کہ ہم اسے ضرور سزا دلوائیں گے اور چونکہ حضرت مسیحؑ پر باغی ہونے کا الزام تھا۔ یہودیوں نے اسے دھمکی دی کہ اگر تم نے اسے چھوڑ دیا تو ہم تم پر یہ الزام لگائیں گے کہ تم نے ایک باغی کا ساتھ دیا ہے۔ جب اسے سخت مجبور کیا گیا تو اس نے ’’پانی لے کر بھیڑ کے آگے اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا میں اس راستباز کے خون سے پاک ہوں۔ تم جانو۔ تب سب لوگوں نے جواب میں کہا اس کا خون ہم پر اور ہماری اولاد پر ہو‘‘ (متی باب ۲۷ آیت ۲۴۔۲۵)۔
دوسرے پیلاطوس نے مسیحؑ کو ایسے وقت میں پھانسی کا حکم دیا جبکہ دوسرے دن سبت تھا۔ میں بتا چکا ہو کہ جس شخص کو صلیب پر لٹکایا جاتا تھا وہ جلدی نہیں مرتا تھا بلکہ تین سے سات دن تک زندہ رہتا تھا۔ اور بعض لوگ سات دن کے بعد بھی زندہ رہتے تھے۔ ایسے لوگوں کی ہڈیاں توڑ کر ان کو ہلاک کیا جاتا تھا۔ بہرحال ایک دو دن تک صلیب پر لٹکنے کی وجہ سے کوئی شخص مرتا نہیں تھا۔ بیشک زخموں کی وجہ سے انہیں تکلیف ہوتی ہے تھی مگر یہ تکلیف ان کی موت کا موجب نہ بنتی تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چوروں اور ڈاکوئوں سے بعض دفعہ مقابلہ ہوتا ہے تو کئی لوگوں کے سر پھٹ جاتے ہیں۔ مگر پھر بھی وہ پانچ پانچ سات سات دن تک زیر علاج رہتے ہیں اور پھر ان میں سے بھی کئی بچ جاتے ہیں۔ بہرحال اس قسم کے زخم فوری ہلاکت کا موجب نہیں ہوتے۔ حضرت مسیحؑ اسی صورت میں صلیب پر فوت ہوسکتے تھے جب انہیں سات دن تک صلیب پر لٹکا رہنے دیا جاتا اور پھر ان کی ہڈیاں بھی توڑی جاتیں۔ مگر پیلاطوس چونکہ مسیح کے ساتھ تھا اس لئے اس نے مسیحؑ کی صلیب کیلئے ایسا وقت مقرر کیا جبکہ دوسرے دن سبت تھا۔ اور یہود کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر سبت کے دن کوئی شخص پھانسی پر لٹکا رہے تو ساری قوم *** ہوجاتی ہے۔ بہرحال جب پیلاطوس سے اصرار کیا گیا کہ مسیحؑ کو ضروری پھانسی دی جائے ۔ تو اس نے حکم دے دیا کہ اس کو ابھی پھانسی پر لٹکادیا جائے۔ وہ جمعہ کا دن تھا اور ظہر کے قریب کا وقت تھا۔ بلکہ ظہر کا وقت بھی ڈھل چکا تھا جب حضرت مسیحؑ کو صلیب پر لٹکایا گیا۔ عصر کے قریب تیز آندھی آگئی ۔ وہ اتنی تیز تھی کہ اس نے تمام جو ّ کو اندھیرا کر دیا۔ اس وقت بعض نے کہا اگر اسی حالت میں شام ہو گئی اور ہمیں وقت کا علم نہ ہو سکا تو چونکہ شام سے سبت کا آغاز ہو جائے گا اس لئے ساری قوم *** ہو جائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ انہیں جلدی صلیب سے اتار لیا جائے ا یسا نہ ہو کہ شام کا وقت ہو جائے یسوع صلیب پر لٹکا رہے اور ساری قوم پر *** پڑ جائے ۔
اس موقعہ پر یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ یہودیوں نے کیوں یہ اعتراض نہ کیا کہ مسیحؑ کو جمعہ کے دن صلیب پر نہ لٹکایا جائے بلکہ کسی اور دن اسے صلیب دیا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو یہود کا پہلو کمزور تھا اگر وہ کہتے کہ جمعہ کے دن مسیحؑ کوصلیب نہ دی جائے تو چونکہ مسیحؑ پر بغاوت کا الزام تھا پیلاطوس ان کو کہہ سکتا تھا کہ اگر اس دوران میں یہ شخص بھاگ گیا یا اس کوماننے والے اس کو چھڑا کر لے گئے تو اس کا کون ذمہ دار ہوگا۔ اب یہ ایک ایسی بات تھی جس کا یہود کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔ دوسرے چونکہ قاعدہ تھا کہ اگر کوئی شخص صلیب پر نہ مرتا تو اس کی ہڈیاں توڑ کر اس کو ماردیا جاتا تھا۔ اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ اگر یہ صلیب پر زندہ رہا تب بھی اس کی ہڈیاں توڑی جائیں گی۔ ہمیں اس وقت یہ سوال نہیں اٹھانا چاہئے کہ جمعہ کو اسے صلیب پر نہ لٹکایا جائے کیونکہ ہم نے اس پر الزام یہ لگایا ہے کہ حکومت کا باغی ہے۔ اگر ہم نے سزا کے التوا کے متعلق کوئی سوال اٹھایا تو پیلاطوس کہے گا کہ حکومت کے باغی کو تو فوراً مارنا چاہئے۔ تم یہ سوال کیوں اٹھاتے ہو کہ اسے ابھی زندہ رہنے دیا جائے اور ایک دو دن گزرنے کے بعد اسے صلیب پر لٹکایا جائے۔ بہرحال یہود نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ حضرت مسیحؑ کو جمعہ کے دن پچھلے پہر صلیب پر لٹکادیا گیا۔ مگر چونکہ پیلاطوس دل سے مسیحؑ کا خیرخواہ تھا اور اپنی بیوی کے خواب کی وجہ سے تو ڈر بھی چکا تھا اس لئے اس نے مسیحؑ کو صلیب دیتے وقت فوج کا ایک ایسا دستہ مقرر کیا جس کا افسر خود مسیحؑ کا مرید تھا۔ اسی طرح پہرے داروں اور پولیس کے حاضر الوقت سپاہیوں میں سے بھی بعض حضرت مسیحؑ کے مرید تھے۔ چنانچہ اس کا ظاہری ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ جب حضرت مسیحؑ درد کی شدت کی وجہ سے چلائے تو پہرے داروں میں سے ایک نے جلدی سے اسفنج کا ایک ٹکڑا لیا اور اسے شراب اور مر سے بھگو کر حضرت مسیحؑ کو چوسنے کیلئے دیا۔ پادری لوگ دانستہ یا ناواقفیت سے جب واقعہ صلیب کے متعلق تقریر کرتے ہیں تو جس طرح شیعہ لوگ واقعات کربلا کو زیادہ سے زیادہ دردناک رنگ میں پیش کرتے ہیں اور معمولی باتوں کو بھی بڑھاچڑھا کر بیان کردیتے ہی اسی طرح وہ بھی بعض دفعہ تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں دیکھو خدا کے بیٹے سے کس قدر دشمنی کی گئی کہ جب وہ سخت تکلیف میں مبتلا تھا اور شدت درد کی وجہ سے کراہ رہا تھا تو اس وقت کم بخت ظالموں نے شراب اور مر میں اسفنج بھگو کر اس کے منہ میں ڈالا اور اس طرح آخری وقت میں اسے اور زیادہ تکلیف اور دکھ میں ڈالا۔ حالانکہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ صلیب پر لٹکائے جانے والوں میں سے جب کسی کی رعایت منظور ہوتی اور اس کی تکلیف کو کم کرنا مناسب سمجھا جاتا تو اسے شراب اور مر کا مرکب پلایا جاتا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ اناجیل میں شراب اور مر کا ذکر نہیں آتا بلکہ اتنا ذکر آتا ہے کہ جب حضرت مسیحؑ شدت درد کی وجہ سے چلائے تو ’’ایک نے دوڑ کر اسفنج کو سرکہ میں بھگو کر اور ایک نرکٹ کا ٹکڑا رکھ کے اسے چسایا‘‘ (مرقس باب ۱۵ آیت ۲۶)۔ مگر سرکہ میں بھگو کہ اسفنج منہ میں دینا اس زمانہ کے دستوروں میں کہیں ثابت نہیں۔ پھر وجہ کیا ہے کہ وہاں سے سرکہ اور اسفنج رکھا تھا ۔ کیا لوگ بلا وجہ سرکہ اور اسفنج ساتھ رکھا کرتے ہیں؟ کیا کسی مجلس میں سرکہ اور اسفنج طلب کیا جائے تو فوراً مل جائے گا؟ پس یہ روایت دیدہ و دانستہ یا حقیقت سے ناواقفی کی وجہ سے بیان کی گئی ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ اس زمانہ کے خیال کے مطابق کہ زخموں کی تکلیف دور کرنے کیلئے مر اور شراب دینی چاہئے حضرت مسیح کے مریدوں نے اس جگہ شراب اور مر رکھے ہوئے تھے۔ جب وہ شدت درد سے چلائے تو انہوں نے دوڑ کر اسفنج اس میں بھگو کر چسادیا (دیکھو جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۴ زیر لفظ صلیب)۔ اس حوالہ کے اصل الفاظ یہ ہیں:
The details given in the New Testament accounts (Mat. XXVII) of the crucifixion of Jesus agree on the whole with the procedure in vogue under Roman Law. Two modification are worthy of note:
(1) In order to make him insensible to pain a drink (Mat. XXVII) was given him. This was in accordance with the humane Jewish provision (Maimonides, "Vad, Sanb XIII, Sanb 43A)
(2) The Beverage was a mixture of Myrrh and wine, "given so that the delinquent might lose clean, consciousness through the ensuing intoxication".
یعنی انجیل میں یسوع کے صلیب پر لٹکائے جانے کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے وہ عام طور پر اس رومن قانون کے مطابق معلوم ہوتی ہے جو ان دنوں رائج تھا۔ صرف دو فرق ایسے ہیں جو خاص طور پر توجہ کے قابل ہیں۔ پہلا فرق یہ ہے کہ یسوع مسیح کو درد کی طرف سے بے حس کرنے کیلئے ایک دوائی دی گئی جس کا پلایا جانا یہودیوں کے ایک ہمدردانہ قانون کے مطابق تھا۔ یہ دوا جو پلائی جاتی تھی مر اور شراب کا ایک مرکب ہوتی تھی اور اس لئے دی جاتی تھی تاکہ سزا پانے والے مجرم میں احساس درد باقی نہ رہے۔ اور نشہ کی وجہ سے اسے تکلیف محسوس نہ ہو۔ پس گو انجیل میں یہ لکھا ہے کہ اسفنج کو سرکہ میں بھگو کر حضرت مسیحؑ کو چوسنے کیلئے دیا گیا مگر دراصل یہ سرکہ نہیں تھا۔ بلکہ ایک دوا تھی جو شراب اور مر کو ملا کر تیار کی جاتی تھی اور یہ مرکب خاص اور اہم لوگوں کو زخموں کی تکلیف کم کرنے کیلئے دیا جاتا تھا۔ حضرت مسیحؑ کو بھی پہرہ دار نے یہ مرکب دیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہرہ دار جو کہ اس موقع پر پیلاطوس کی طرف سے مقرر کئے گئے تھے حضرت مسیحؑ کے مرید تھے۔ اور وہ چاہتے تھے کہ حضرت مسیحؑ کی تکلیف کو جس قدر ہوسکے کم کیا جائے۔ اسی طرح پیلاطوس کا حضرت مسیح کو جمعہ کے دن کے آخری حصہ میں صلیب پر لٹکانا اس بات کا ایک بین ثبوت ہے کہ پیلاطوس دل سے چاہتا تھا کہ حضرت مسیحؑ صلیب سے بچ جائیں۔ اس لئے اس نے سبت کے قریب کے دن کے آخری حصہ میں آپ کو صلیب دینے کا حکم دیا۔ تاکہ قلیل سے قلیل عرصہ آپ صلیب پر رہیں اور اس طرح آپ ہلاکت سے محفوظ رہیں۔ چنانچہ جیوش انسائیکلوپیڈیا نے بھی اس بات کو لیا ہے کہ یہ بالکل غیرمعمولی اور خلاف قاعدہ فعل تھا جس کا پیلاطوس نے ارتکاب کیا۔ لکھا ہے:-
"The greatest difficulty from the point of view of the Jewish Panel procedure is presented by the day and time of the execultion. According to the Gospel, Jesus died on Friday the eve of Sabbath. Yet on the day in view of the approach of the Sabbath (or holiday), execution lasting until late in the afternoon were almost impossible. (Sifre, II-221: Sanb. 35B: Mekitte Wayakhel).
یعنی سب سے بڑی مشکل جو یہودی قانونِ تعزیر کے سلسلہ میں ہمارے سامنے پیش آتی ہے وہ اس وقت اور دن کی تعیین سے تعلق رکھتی ہے۔ جس میں یسوع مسیحؑ کو صلیب پر لٹکایا گیا۔ انجیل کے رو سے یسوع جمعہ کے دن سبت کی شام کو مرا۔ حالانکہ یہودی قانون کے مطابق اس دن کوئی شخص صلیب پر لٹکایا نہیں جاسکتا تھا۔ کیونکہ سبت کے قرب کی وجہ سے بعد دوپہر مجرموں کو کافی دیر تک صلیب پر لٹکائے رکھنا قریباً ناممکن تھا۔
گویا جیوش انسائیکلوپیڈیا والا نا صرف جمعہ کے دن حضرت مسیحؑ کو صلیب پر لٹکانا ایک عجیب بات سمجھتا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ صلیب پر اس دن زیادہ دیر تک کوئی شخص لٹکایا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ اس بناء پر ہمارا حق ہے کہ اگر انجیل یہ کہتی ہے کہ حضرت مسیح کو تین گھنٹے صلیب پر لٹکایا گیا تو ہم یہ کہیں گے آپ کو صرف ڈیڑھ دو گھنٹے لٹکایا گیا تھا۔ کیونکہ سبت کے قرب کی وجہ سے زیادہ دیر تک کسی شخص کو صلیب پر لٹکایا نہیں جاسکتا تھا۔ بہرحال اگر دو یا تین گھنٹے آپ کو لٹکایا گیا تب بھی اس سے آپ کی موت واقع نہیں ہوسکتی تھی۔ کیونکہ صلیب پر بعض دفعہ سات سات دن تک بھی لوگ زندہ رہتے تھے۔ اور وہ اس وقت تک نہیں مرتے تھے جب تک ہتھوڑے مار مار کر ان کی ہڈیوں کا گودا نہ نکالا جاتا۔
دوسرا ثبوت اس امر کا کہ پیلاطوس نے حضرت مسیحؑ کو بچانے کیلئے صلیب کے وقت بعض ایسے افسروں کی وہاں ڈیوٹیاں مقرر کردی تھیں جو حضرت مسیحؑ پر ایمان لاچکے تھے۔ یہ ہے کہ انجیل میں لکھا ہے جب حضرت مسیح کو صلیب پر لٹکایا گیا تو ’’وے جو ادھر سے جاتے تھے سر ہلاتے تھے اور یہ کہہ کر اسے ملامت کرتے تھے کہ واہ تو جو ہیکل کو ڈھاتا اور تین دن میں بناتا تھا اپنے تئیں بچا اور صلیب پر سے اتر آ۔ اسی طرح سردار کاہنوں نے بھی آپس میں فقیہوں کے ساتھ ٹھٹھے کرتے ہوئے کہا اس نے اوروں کو بچایا اپنے تئیں بچانہیں سکتا۔ بنی اسرائیل کا بادشاہ مسیحؑ اب صلیب پر سے اتر آوے تاکہ ہم دیکھیں اور ایمان لاویں‘‘۔ (مرقس باب ۱۵۔ آیت ۲۹ تا ۳۲) ۔ غرض بقول انجیل اس وقت لوگ آپ پر مذاق کررہے تھے۔ اسی دوران میں حضرت مسیحؑ شدت درد کی وجہ سے چلائے اور بقول بائبل انہوں نے ’’دم توڑ دیا‘‘۔ اس وقت کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے انجیل میں لکھا ہے کہ ’’اس صوبہ دار نے جو اس کے سامنے کھڑا تھا اسے یوں چلاتے اور دم چھوڑتے دیکھ کر کہا کہ یہ شخص سچ مچ خدا کا بیٹا تھا‘‘ (مرقس باب ۱۵۔ آیت ۳۹)۔ ا ب بتائو کیا یہ الفاظ کوئی ایسا شخص کہہ سکتا تھا جو حضرت مسیحؑ کا مخالف ہوتا۔ اگر وہ آپ کو فقیہوں اور فریسیوں کی طرح جھوٹا سمجھتا تو اسے کہنا چاہئے تھا کہ دیکھو آج ثابت ہوگیا ہے کہ یہ شخص خدا کا بیٹا نہیں تھا۔ ہم نے اسے صلیب پر لٹکایا اور اس کی جان لے لی۔ مگر وہ یہ نہیں کہتا ، وہ آپ پر ہنسی نہیں کرتا، وہ آپ کے دعویٰ کی تکذیب نہیں کرتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ ’’یہ شخص سچ مچ خدا کا بیٹا تھا‘‘۔ یہ اس امر کا واضح اور کھلا ثبوت ہے کہ صلیب کے وقت پیلاطوس نے ارادۃً ایسے افسر اور سپاہی مقرر کئے تھے جو حضرت مسیح پر ایمان لاچکے تھے۔ تاکہ آپ کی تکلیف کو وہ زیادہ سے زیادہ کم کرسکیں۔ اور صلیب سے اتارنے کے بعد آپ کی حفاظت اور علاج میں وہ حصہ لے سکیں۔ بہرحال مسیحؑ بوجہ نازک بدن ہونے کے بیہوش ہوگئے۔ اتنے میں آندھی آئی اور مسیحؑ کو اتار لیا گیا تاکہ کہیں سبت نہ آجائے۔ جب آپ کو اور ان چوروں کو بھی اتار لیا گیا جن کو آپ کے ساتھ ہی صلیب پر لٹکایا گیا تھا تو قاعدے کے مطابق ساتھ کے چوروں کی ہڈیاں توڑ دی گئیں مگر افسر پولیس چونکہ حضرت مسیحؑ کا مرید تھا جیسا کہ مرقس باب ۱۵۔ آیت ۳۹ اور متی باب ۲۷ ۔ آیت ۵۴ سے ظاہر ہے۔ اس نے یہ چالاکی کی کہ حضرت مسیحؑ کے متعلق کہہ دیا یہ تو مرگیا ہے اس کی ہڈیاں توڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ انجیل میں صاف لکھا ہے کہ ’’سپاہیوں میں سے ایک نے بھالے سے اس کی پسلی چھیدی اور فی الفور اس سے لہو اور پانی نکلا‘‘ (یوحنا باب ۱۹۔ آیت۳۴)۔ لہو اور پانی کا نکلنا بتارہا ہے کہ آپ زندہ تھے۔ اگر فوت ہوچکے ہوتے تو آپ کا خون جم جانا چاہئے تھا۔ لہو اور پانی نکلنے کے الفاظ بتارہے ہیں کہ درحقیقت ان کے جسم میں سے بہتا ہوا خون نکلا۔ مگر حضرت مسیحؑ چونکہ اس وقت بیہوش تھے ۔ اس سپاہی نے لوگوں کو دھوکہ میں مبتلا رکھنے کیلئے کہہ دیا کہ آپ فوت ہوچکے ہیں۔
اس کے فوراً بعد یوسف آرمیتا جو حضرت مسیحؑ کے مرید تھے پیلاطوس کے پاس گئے اور اس سے اجازت لی کہ لاش میرے حوالے کی جائے چنانچہ پیلا طوس نے حکم دے دیا کہ لاش یوسف آرمیتہ کو دے دی جائے (متی باب۲۷آیت۵۸)لاش پر قبضہ کرنے کے بعد یوسف آرمیتہ نے ایک کھلی کوٹھڑی جیسی قبر میں ان کو بند رکھا جو زمین میں کھودی ہوئی نہ تھی بلکہ کوٹھڑی کی طرح چٹان میں کھدی ہوئی تھیاس میں ان کے جسم کو رکھ کر اس کے سامنے پتھر رکھ دیا گیا جس کے معنے یہ ہیں کہ ہوا کا راستہ کھلا رکھا گیا ۔ چنانچہ لکھا ہے :’’ یوسف نے لاش لے کر سوتی چادر میںلپیٹی اور اپنی نئی قبر میںجو چٹان میں کھودی تھی رکھی اور ایک بھاری پتھر قبر کے منہ پر ڈھلکا کے چلا گیا‘‘ متی باب ۲۷آیت۵۹،۶۰) جیوش انسائیکلو پیڈیا نے بھی اس سوال کو خاص طور پر اٹھایا ہے ۔ چنا نچہ ا س میں لکھاہے:
Bodies of delinquents were not buried in private graves (snab:vi:5) while that of Jesus was buried in a sepulchro belonging to Joseph of Arimathea.(Jewish Encyclopaedia vol.4, p.373) Bodies of delinquents were not buried in private graves (snab:vi:5) while that of Jesus was buried in a sepulchro belonging to Joseph of Arimathea.(Jewish Encyclopaedia vol.4,p.373)
یعنی مجرموں کی لاشیں خاص قبروں میں نہیں دفنائی جاتی تھیںلیکن یسوع مسیح ؑ کے ساتھ یہ امتیازی سلوک روا رکھا گیاکہ اس کی لاش یوسف آرمیتا کی مملوکہ ایک کوٹھڑی میں رکھی گئی۔یہود کو اس پر شبہ ہوا اور انہوں نے پیلا طوس سے شکایت کی کہ تیسرے دن تک قبر کی نگرانی کی جائے چنانچہ لکھا ہے ’’ دوسرے روز جو تیاری کے دن کے بعد ہے سردار کاہنوں اور فریسیوںنے مل کر پیلا طوس کے پاس جمع ہو کے کہا کہ اے خداوند ہمیں یاد ہے کہ وہ دغاباز اپنے جیتے جی کہتا تھا کہ میں تین دن کے بعد جی اٹھوں گا ۔ اس لئے حکم کر کہ تیسرے دن تک قبر کی نگہبانی کریں‘‘(متی باب ۔۲آیت۶۲،۶۳) اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح ؑکی یہ پیش گوئی کہ یہود کو وہی نشان دکھایا جائے گا جو یونس نبی کے ذریعہ ظاہر ہوا لوگوںمیںخوب مشہور ہوچکی تھی اور حواری اس پیش گوئی کے مطابق ہر ایک سے یہ کہتے پھرتے تھے کہ جس طرح یونس تین رات دن کے بعد مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکل آیا اسی طرح مسیح ؑ بھی تین رات اور دن کے بعد زندہ ہو جائے گا ۔اس پیشگوئی کے بنا پر یہود سمجھتے تھے کہ تین دن اور رات گذرنے کے بعد حواریوں نے کہ دینا ہے کہ دیکھو مسیح ؑ زندہ ہو گیا۔ا لئے بہتر یہی ہے کہ پیلا طوس کو ابھی سے کہ دیا جائے کہ جس کوٹھڑی میں مسیح ؑ کی لاش کو رکھا گیا ہے اس پر تین دن تک پہراہ لگا دیا جائے تا کہ مسیح ؑ کی یہ بات پوری نہ ہو سکے کہ میںیونس نبی کی طرح تین رات اور دن گذرنے کے بعد زندہ نکل آئونگا ۔مگر پیلا طوس چونکہ اندر سے مسیح ؑ کے ساتھ تھا۔ اس نے انکار کردیا اور کہا کہ میں سرکاری پہرے دار مقرر نہیں کر سکتا’’تمہارے پاس پہرے والے ہین جا کے مقدور بھر نگہبانی کرو‘‘(متی باب۲۷آیت۶۵)یعنی تم خود پہرہ دیتے رہو میں سرکاری طور پر اس بارہ میں کوئی انتظام نہیں کر سکتا ۔پیلا طوس کی اس انکار کی غرض یہ تھی کہ اگر حکومت کی طرف سے وہاں پہرے دار مقررکئے گئے تو اس صورت میں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام وہاں سے نکل نہیں سکیں گے اور اگر پہرے داروں کا مقابلہ کر کے نکلے تو چونکہ وہ حکومت کی طرف سے مقررہونگے ان کا مقابلہ حکومت کا مقابلہ سمجھا جائے گا اور انہیں اور ذیادہ مشکلات پیش آجائیں گی ۔لیکن اگر عام لوگ پہرہ پر ہوئے تو ان کا مقابلہ کرنے میںکوئی حرج نہیں ہو گا ۔مسیح ؑ کے حواری ان سے لڑیں گے اور مسیح کو نکال کر لے جائیں گے ۔اس حکمت کے ماتحت اس نے سرکاری پہرہ لگانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میںپولیس مقرر نہیں کر سکتا ۔اگر تم اسکی نگرانی کرنا ضروری سمجھتے ہو تو خود پہرہ لگا لو ۔جب اتوار کی صبح کو پو پھٹتے وقت کچھ عورتیں وہاں گئیں تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں مسیح ؑنہیں ہیںاور ایک فرشتہ چٹان پر بیٹھا ہوا ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے ’’سبت کے بعد جب ہفتہ کے پہلے دن پو پھٹنے لگی مریم مگد لینی اور دوسری مریم قبر کو دیکھنے آئیںاور دیکھو کہ ایک بڑا بھونچال آیا تھا کیونکہ خداوند کا فرشتہ آسمان سے اتر کے آیا اور اس پتھر کو قبر سے ڈھلکا کے اس پر بیٹھ گیا ۔ اس کا چہرہ بجلی کا سا اور اس کی پوشاک سفید برف کی سی تھی ۔‘‘(متی باب۲۸آیت۱تا۳) میں سمجھتا ہوں فرشتہ کوئی نہ تھا یہ حضرت مسیح تھے جو باہر نکل کر چٹان پر بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے کفن پہنا ہوا تھا ۔بہرحال انجیل کے بیان کے مطابق فرشتہ نے ان عورتوں سے کہا کہ مسیح ؑ جسے تم دیکھنے آئی ہو وہ یہاں نہیں ہے بلکہ اپنے حواریوں کے پاس جلیل کو گیا ہے تم جائو اور دوسرے حواریوں کو بھی اس امر کی اطلاع دے دو چنانچہ انجیل میںلکھا ہے ’’فرشتے نے مخاطب ہو کر ان عورتوں سے کہا تم مت ڈرو میں جانتا ہوںکہ تم مسیح کو صلیب پر کھینچا گیا ڈھونڈتی ہو ۔وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ جیسا اس نے کہا تھا وہ جی اٹھاہے آئو یہ جگہ جہاں خداوند پڑا تھا دیکھو اور جلد جاکے اس کے شاگردوں سے کہو کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور دیکھو وہ تمہارے آگے جلیل کو جاتا ہے وہاں تم اس کو دیکھو گے دیکھو میں نے تمہیں جتا دیا ‘‘(متی باب۲۸آیت۵تا۸)یہ بھی لکھا ہے کہ یہود میں یہ مشہور تھا کہ پہرہ داروں کو رشوت دے کر یہ مشہور کیا گیا کہ وہ زندہ ہو کر چلاگیاہے ( متی باب ۲۸آیت۱۱تا۵) اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ پہرہداروں نے یہی خبر دی تھی کہ مسیح ؑ کے شاگرد زبردستی مسیح ؑکو کوٹھڑی میں سے نکال کر لے گئے ہیں مگر چونکہ یہود حضرت مسیح ؑ کو *** ثابت کرنا چاہتے تھے انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ پہرہ دار ٹھیک نہیں کہتے انکو رشوت دے کر اس بات پر آمادہ کیا گیا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ مسیح ؑ زندہ ہو کر چلا گیا ہے ۔
پھر لکھا ہے مسیح ؑ حواریوں پر ظاہر ہوا انہیں کہا کہ ’’میرے ہاتھ پائوں کو دیکھو کہ میں ہی ہوںاور مجھے چھوئو۔اور دیکھو کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیںجیسا مجھ میں دیکھتے ہو اور یہ کہہ کے انہیںاپنے ہاتھ اور پائوںدکھائے‘‘(لوقاباب۲۴آیت۳۹،۴۰) اسی طرح لکھا ہے ’’جب وے مارے خوشی کے اعتبار نہ کرتے اور متعجب تھے اس نے ان سے کہا کہ یہاںتمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے تب انہوں نے بھونی ہوئی مچھلی کا ایک ٹکڑا اور شہد کا ایک چھتہ اس کو دیا اس نے لے کے ان کے سامنے کھایا ‘‘(لوقاباب ۲۴آیت۴۱تا۴۳)یوحنا میں لکھا ہے کہ تھوما حواری نے جب یہ بات سنی کہ حضرت مسیح ؑصلیب سے بچ گئے ہیںتو اسے یقین نہ آیا اور اس نے کہا ’’جب تک میں اس کے ہاتھوں میں کیلوںکے نشان نہ دیکھو ںاور کیلوں کے نشانوں میںاپنی انگلی نہ ڈالوں اور اپنے ہاتھ کو اس کے پہلو میں بھی نہ ڈالوں ہر گز یقین نہ کروںگا‘‘(باب۲۰آیت۲۵)حضرت مسیح ؑنے یہ بات سنی تو انہوں نے تھوما کو کہا ۔اپنی انگلی پاس لا اور میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ پاس لا اور اسے میرے پہلو میں ڈال اور بے ایمان مت ہو بلکہ ایمان لا ‘‘(یوحناباب۲۰آیت ۲۷)
ان دلائل سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح ؑکے متعلق یہ خیال کہ وہ صلیب پر لٹک کر مر گئے تھے با لکل باطل اور بے بنیاد ہے ۔بیشک حضرت مسیح کو صلیب پر لٹکا یا گیا تھا ۔مگر خدا نے ان کو بچالیااور اس طرح وہ نشان ظاہر ہوا جس کا انہوں نے قبل از وقت اعلان کر دیا تھا کہ جس طرح یونہ نبی مچھلی کے پیٹ میں زندہ گیا ۔زندہ رہا اور زندہ ہی باہر نکلا۔اسی طرح میں بھی صلیب پر سے زندہ اتروں گا ۔زندگی کی حالت میں قبر میں جائوں گا اور پھر زندہ ہونے کی حالت میںہی قبر سے باہر نکلوں گا ۔
پھر کفارئہ کے خلاف ایک اور دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ جب صلیب سے بچ گئے تو اس کے بعد وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ کہیں دوبارہ دشمن ان کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے ۔ حلانکہ اگر وہ سچ مچ خدا کے بیٹے تھے یا حواریوں پر حضرت مسیح ؑکی روح ظاہر ہوئی تھی تو روح کو چھپنے کی کوئی ضرورت نہ تھی وہ ہر ایک کے سامنے آتی اور کہتی کہ ا گر تم میں طاقت ہے تو مجھے اب مار کر دکھائو ۔مگر انجیل اس بات پر گواہ ہے کہ واقع صلیب کے بعد وہ دشمن سے چھپتے پھرے۔ پس حضتے مسیح کے متعلق عیسائیوں کا یہ خیال کہ وہ بنی نوع انسان کے گناہوں کے لیے کفارہ ہو گئے تھے شروع سے لے کر آخر تک باطل ہے۔
انسانی پیدائش کے متعلق تیسرا خیال دنیا میں یہ پایا جاتا ہے کہ انسان کسی خاص ملکہ کو لے کر پیدا نہیں ہوا۔وہ اپنی تعلیم و تربیت سے متاثر ہوتا اور اس کے مطابق ہو جاتا ہے گویا وہ حالات سے مجبور ہے۔ یہ فرائیڈاور دوسرے یورپین فلسفیوں کا خیال ہے ان کے نزدیک پیدائشی لحاظ سے انسان جانوروں کی سی حالت رکھتا ہے۔نہ اس میں نیکی کا ملکہ ہوتا ہے اور نہ بدی کا ملکہ ہوتا ہے ہاں جب وہ پیداہوجاتا ہے تو اپنے گردوپیش کے حالات سے متاثر ہوتا ہے اگر وہ حالات نیک ہوں تو نیک ہو جاتا ہے اور اگر بد ہوں تو بد ہو جاتا ہے۔ بہرحال حالات سے مجبور ہو کر اس میں نیکی اور بدی کی مختلف کیفیتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ہم کہتے ہیں اگر تو اس کا یہ مفہوم ہے کہ ہر بچہ اپنی ذات میں بغیر کسی گناہ کے اثر کے پیدا ہوتا ہے لیکن بعد میں حالات اس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور وہ ان کے نتیجہ میں گندہ اور خراب ہو جاتا ہے تو اسلام کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کل مولود یولد علی فطرۃ الاسلام حتی یعرب عنہ لسانہ فابواہ یھو دا نہ او ینصر انہ اویمجسانہ (الطبرانی فی الجامع الکبیر بحوالہ الصغیر) ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعدماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔پس اگر فرائیڈ اور دوسرے یورپین فلسفیوں کی تھیوری یہ ہے کہ ہر بچہ فطرت صحیحہ لے کر دنیا میں آتا ہے لیکن اس کے بعد وہ حالات سے مجبور ہو کر بعض دفعہ گندہ اور ناپاک ہو جاتا ہے۔ تو اس نتیجہ کے ہم بھی قائل ہیں اور یہ عین قرآن اور حدیث کے مطابق عقیدہ ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا اس کی اصلاح ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اگر اصلاح نہیں ہو سکتی تو احسن تقویم بیکار ہو گئی لیکن اگر اصلاح ہو سکتی ہے تو پھر خواہ خراب حالات کے اثر سے انسان بگڑ جائے اس کی پیدائش کے متعلق یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس میں نیکی کا کوئی ملکہ ودیعت نہیں کیا گیا۔ اس نقطئہ نگاہ کے ماتحت جب ہم اس تھیوری پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فرائیڈ اور دوسرے یورپین فلسفی خود تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ چنانچہ سائیکو اینلسس( تجزیہ شہوات) ان کا ایک خاص مسئلہ ہے جس کے ماتحت یہ ان لوگوں کا علاج کرنے کے بھی دعوے دار ہیں جو مختلف قسم کے گندے خیالات میں مبتلا ہوتے ہیں۔
درحقیقت فرائیڈ کا نظریہ یہ ہے کہ انسانی فطرت کی خرابی اس وقت سے شروع نہیں ہوتی جب وہ کسی فعل کا ارتکاب کرتا ہے بلکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اسی وقت سے اس کی فطرت کے اندر بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس کی مختلف حرکات اور سکنات اس کے دل میں غلط یا صحیح جذبات پیدا کرتی چلی جاتی ہیں۔ مثلاً شہوت کا مادہ جو انسان میں پایا جاتا ہے اس کے متعلق فرائیڈ کا نظریہ یہ ہے کہ اس وقت سے پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے جب بچہ ماں کے پستانوں سے دودھ چوستا ہے۔ وہ کہتا ہے ماں کا دودھ چوسنے اور جسم کی باہمی رگڑ سے اسے خاص قسم کا حظ محسوس ہوتا ہے اور شہوانی مادہ اس میں پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ دوسرے پیشاب پاخانہ کرنے کے بعد جب عضاء کی صفائی کی جاتی تو ہاتھوں کی رگڑ سے اس کے قلب میں شہوانی خیالات کا احساس بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ پس یہ صحیح نہیں کہ پندرھویں یا سولھویں سال میں بچہ کے اندر شہوانی مادہ پیدا ہوتا ہے بلکہ بقول اس کے بچہ کی پیدائش کے ساتھ ہی یہ احساس مختلف حرکات و سکنات کے نتیجہ میں اس کے قلب میں پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے جو جوانی کے قریب زیادہ مکمل صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس نتیجہ میں بھی ہم فرائیڈ کی تائید کرتے ہیں کیونکہ اسلام بھی یہی نظریہ پیش کرتا ہے کہ بدی اور نیکی کا احساس بچپن میں ہی پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی لئے رسول کریم ﷺ نے ہدائت دی ہے کہ جب بچہ پیدا ہو اسی وقت اس کے کان میں اذان دو کیونکہ اس کی تعلیم اور تربیت کا زمانہ پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے۔ پس اگر فرائیڈ کی اتنی ہی تھیوری ہو تو ہم کہیں گے میاں فرئیڈ اس تھیوری کے تم موجد نہیں بلکہ محمد رسول ﷺ موجد ہیں۔ لیکن ان نتائج کو صحیح تسلیم کرنے کے باوجود ہمارا سوال اس تھیوری کے ما ننے والوں سے یہ ہے کہ خواہ تمام خرابیاں بچپن سے ہی انسانی قلب میں پیدا ہو جاتی ہون سوال یہ ہے کہ جب کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو اس کی اصلاح ہو سکتی ہے یا نہیں؟ یا فطرت کا وہ بگاڑ جو ماحول کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے کسی اور طریق سے دور ہو سکتا ہے یا نہیں اگر دور ہو سکتا ہے تو یہ خیال بالکل باطل ہو گیا کہ فطرت نیکی لے کر پیدا نہیں ہوئی۔ با لخصوص سائیکو انیلسس ( تجزیہ شہوات) کے زریع اس تھیوری کے ماننے والوں نے جو طریق علاج تجویز کیا ہے وہ خود اپنی ذات میں اس عقیدہ کو باطل ثابت کرنے کے لئے بہت کافی ہے۔یہ تھیوری جس کا فرائیڈ کو موجد قرار دیا جاتا ہے اس رنگ میں بیان کی جاتی ہے کہ بچے کو پہلا عشق اپنی ماں سے ہوتا ہے لیکن بڑے ہو کر گردوپیش کے حالات کی وجہ سے یا مذہبی لوگوں کی باتیں سن سن کر اس کا یہ خیال دب جاتا ہے اور اس کی بجائے بیوی کی محبت اس کے سامنے آجاتی ہے لیکن بعض لوگوں کے اندر یہ جذبہ اتنی طاقت پکڑ جاتا ہے کہ بعد میں کوئی اور محبت ان کے جذبئہ محبت پر غالب نہیں آسکتی ۔ادھر وہ مذہبی لوگوں سے باتیں سنتے ہیں تو انہیں یہ کہتا ہوئے پاتے ہیں کہ ماں بیوی نہیں بن سکتی اور ادھر وہ محبت جو دودھ چوستے وقت بچہ کے دل میں اپنی ماں کے متعلق پیدا ہو جاتی ہے اسے ماں کے ساتھ محبت کرنے پر مجبور کر رہی ہوتی ہے۔ ان متضاد خیالات کا اس کی طبیعت مقابلہ نہیں کر سکتی اور وہ کئی قسم کی دماغی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔بیشک بعض دفعہ وہ خود بھی نہیں جانتا کہ اس کی بیماری کی کیا وجہ ہے۔ لیکن سائیکو اینلسس (تجزیہ شہوات) کے ذریعہ اگر اس کا علاج کیا جائے تو اس کی مخفی مرض کا پتہ چل جاتا ہے اور اس کی بیماری کو آسانی کے ساتھ دور کیا جا سکتا ہے۔ اس مسئلہ پر زیادہ تفصیل کے ساتھ غور کرتے ہوئے انہوں نے سو کے قریب ایسی باتیں جمع کی ہیں جو ان کے نزدیک بچے پر اثر ڈال کر اسے مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار بنا دیتی ہیں۔ جب کوئی مریض اس طریق علاج کے ماہر کے پاس آتا ہے تو وہ اسے لٹا کر اور اس کے جسم کو ڈھیلا کر کے اس کی نبض پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور ایک ایک کر کے مختلف باتیںاس کے سامنے بیان کرتا چلا جاتا ہے کبھی ماں کی محبت کا ذکر کرتا ہے کبھی باپ کی محبت کا ذکر کرتا ہے۔ کبھی ماں کی محبت کا ذکر کرتا ہے اور کبھی اس امر کا ذکر کرتا ہے اور نبض پر ہاتھ رکھ کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کس بات پر اس کی نبض میںغیر معمولی حرکت پیدا ہ ہوتی ہے ۔یہ صاف بات ہے کہ جب کسی ایسی بات کا ذکر کیا جاتا ہے جس سے انسان کو خاص طور پر دلچسپی ہوتی ہے تو اس کے دل کی حرکت تیز ہو جاتی ہے اور نبض بھی زیادہ جلدی جلدی حرکت کرنے لگتی ہے اس طرح ڈاکٹر معلوم کر لیتا ہے کہ مریض کی بیماری کا اصل باعث کیا ہے اور وہ کیوں بیمار چلا آرہا ہے ۔اس کے بعد اگر وہ خیال جائزہو تو وہ اسے مشورہ دیتے ہیںکہ وہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کریاور اگر ناجائز ہو تو اس خواہش کی قباحت پر اس کے سامنے متواتر لیکچر دیتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دل ودماغ سے وہ خواہش بل لکل نکل جاتی ہے اور چونکہ بیماری کا اصل سبب دور ہو جاتا ہے اس کی بیماری جاتی رہتی ہے اور وہ تند رست ہو جاتا ہے ۔اس طریق علاج کے ماتحت کئی قسم کے تجارب کئے گئے ہیں اور قطعی طورپر ایسے ایسے کئی کیس پیش کئے جاتے ہیں جو اور کسی ذریعہ سے اچھے نہ ہوئے لیکن سائیکوانیلسس(تجزیہ شہوات) کے ماتحت جب ان کا علاج کیا گیا اور ان کی مخفی خواہشات کا علم حاصل کر کے ان کو پورا کرنے یا ان کو دور کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ بالکل اچھے ہو گئے۔ گزشتہ جنگ عظیم کے بعد ہزاروں لوگ ایسے تھے جو گولہ باری کے صدمات کے نتیجہ میں پاگل ہو گئے تھے۔ ان میں سے بعض تو اور علاجوں سے اچھے ہو گئے مگر بعض ایسے تھے جو کسی علاج سے بھی اچھے نہ ہوئے۔ آخر گورنمنٹ کو خیال پیدا ہوا کہ ان مریضوں کا سائیکو انیلسس (تجزیہ شہوات) کیوں نہ علاج کرایا جائے۔ چنانچہ اس طرح ان کی تشخیص کروائی گئی تو کئی بیماریوں کی نسبت معلوم ہوا کہ بظاہر وہ گولہ باری کے صدمہ کے نتیجہ میں پاگل ہوئے تھے۔ لیکن ان کی بیماری کی وجہ بعض جذباتِ شدیدہ کا پورا نہ ہونا تھا۔ جب ان کی بیماری کی اصل وجہ کا پتہ چل گیا تو اس کے مطابق علاج کرنے پر وہ بالکل اچھے ہو گئے حالانکہ اس سے بیشتر ان کے علاج کے لئیہر قسم کی دوائیں استعمال کی جا چکی تھیں۔کہا جاتا ہے کہ یورپ میں ایسے ہزاروں لوگ ہیں جو اس طریق علاج سے درست ہوئے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ بیشک یورپ میں ایسے ہزاروں لوگ ہوں مگر ہمارے ملک میں تو اس قسم کا کوئی مریض نظر نہیں آتا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانی بیماری نہیں بلکہ ایک مقامی بیماری ہے جو یورپ میں پیدا ہو چکی ہے۔ اگر انسانی بیماری ہوتی تو ہندوستان میں بھی ہوتی۔ مصر میں بھی ہوتی۔ شام میں بھی ہوتی۔ فلسطین میں بھی ہوتی۔ چین اور جاپان میں بھی ہوتی مگر ہمیں دنیا کے اور کسی ملک میں یہ بیماری نظر نہیں آتی اگر آتی ہے تو صرف یورپمیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہیکہ یہ یورپ کا مخصوص مرض ہے۔ تمام بنی نوع انسان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یورپ میں عام طور پر چونکہ گند اور خرابی میں لوگ مبتلا رہتے ہیں اور ایسے لوگوں کے خیالات بھی ناپاک ہوتے ہیںاس لئے وہ اس قسم کے ا مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔اور خواہشات کے پورا ہو جانے پر وہ اچھے ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں عام طور پر خیالات میں پاکیزگی پائی جاتی ہے اور وہ گند یہاں نہیں جو یورپ میں نظر آتا ہے اس لئے یہاں کسی کو سائیکو انیلسس کے ذریعہ اپنا علاج کرانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ پس اگر یورپین فلسفیوں کی یہ تھیوری درست ہے تب بھی ہم انہیں کہیں گے کہ یہ تمہاری مقامی بیماری ہے بنی نوع انسان کی بیماری نہیں۔ لیکن بفرض محال اگر اسے بنی نوع انسان کی مرض سمجھ لیا جائے۔ تب بھی ہم کہتے ہیں کہ تم نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ خرابی کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ جب تم نے یہ تسلیم کر لیا تو قرآن کی اس آیت کی صداقت ثابت ہو گئی کہ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم یعنی ہماری سنت یہ ہے کہ ہم انسانی روح کے بیمار ہونے پر اس کو اچھا کرنے کے سامان مہیا کیا کرتے ہیں اور یہی فطرت انسانی کے پاک ہونے کے معنے ہیں کہ خدا نے اس کی ہدایت اور اصلاح کے سامان پیدا کئے ہوئے ہیں۔ اگر انسان ان سے فائدہ اٹھا لے تو وہ پاکیزگی کا جامہ پہن لیتا ہے اور اگر فائدہ نہ اٹھائے تو حیوانوں سے بھی بد تر ہو جاتا ہے۔ بہرحال اسلام یہ کہتا ہے کہ فطرت انسانی کو مستقل طور پر خراب قرار دینا اور اس کے لئے خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ دائمی طور پر مسدود قرار دینا قطعی طور پر غلط اور بے بنیاد امر ہے۔ خدا نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ خواہ اس میں کتنی ہی خرابیاں پیدا ہو جائیں۔ کتنی کمزوریاں اس میں رونما ہوجائیں پھر بھی اس کے دل کو صیقل کیا جا سکتا ہے۔اس کی خرابیون کو دور کیا جا سکتا ہے اور اسے خدا تعالیٰ کے آستانہ پر پہنچایا جا سکتا ہے۔ آخر اسلام یہ تو نہیں کہتا کہ فطرتِ انسانی کے نیک ہونے کے یہ معنی ہیں کہ انسان ہمیشہ نیک رہتا ہے۔ اسلام خود حالات کی خرابی کی وجہ سے فطرت کا مسخ ہو جانا تسلیم کرتا ہے۔ مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اصلاح کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ جب بھی کوئی شخص اپنی حالت کو بدلنا چاہے ۔ برائیوں کو ترک کرنا چاہے۔ نیکیوں کو حاصل کرنا چاہے وہ ایسا کر سکتا ہے کیانکہ خدا نے اس کی فطرت نیکی کی استعدادیں رکھی ہوئی ہیں۔ اگر وہ ان سے کام نہیں لیتا تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔ لیکن اگر وہ کام لے گا تو فطرت کی نیکی بہرحال ظاہر ہو کر رہے گی۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوشش کے باوجوداسے ہدایت حاصل نہ ہو یا قرب الہیٰ کے مقام سے وہ دور رہے۔
غرض اسلام ماحول کے اثرات کو تسلیم کرتا ہے۔ اسلام یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ بچپن سے ہی نیک اور بد اثرات بچہ پر شروع ہو جاتے ہیں۔مگر ساتھ ہی اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ ہر شخص کی اصلاح ممکن ہے۔ فرائیڈ نے جس تھیوری کو پیش کیا ہے اس کے ماننے والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کی اصلاح ہو سکتی ہے اور جب وہ اس نکتہ کو تسلیم کرتے ہیں تو صاف ظاہر ہو گیا کہ فطرت میں خدا نے نیکی کا ملکہ رکھا ہوا ہے اگر نیکی کا ملکہ اس میں نہ ہوتا تو اس کی اصلاح کس طرح ہوتی؟ اسی طرح ہمارا مشاہدہ ہے کہ اکثر لوگ وعظ کا اثر قبول کرتے ہیں اور بڑی بڑی برائیوں کو چھوڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر انسان میں نیکی کا ملکہ نہ ہوتا تو وعظ سے اس پر کیوں اثر ہوتا اور کیوں وہ اپنی برائیوں کو ترک کر کے نیکیوں کے حصول میں مشغول ہو جاتا؟ یہی حال دعا کا ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا میں بڑے بڑے انقلاب پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو خدا کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوتے جو ہر قسم کی برائیوں میں لذت محسوس کرتے ہیں جو اپنی زندگی کا مقصدمحض دنیوی لذائذ سے لطف اندوز ہونا قرار دیتے ہیں وہ انبیاء پر ایمان لانے اور ان کی دعائوں اور قوتِ قدسیہ کی برکات سے ایسے بدل جاتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر حیرت آتی ہے۔ یہ دونوں راستے جو روحانی اور جسمانی جدوجہد پر مشتمل ہیں دنیا میں ہمیشہ سے کھلے ہیں اور کھلے رہیں گے اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ خدا نے انسانی فطرت کو پاکیزہ بنایاہے۔ باقی رہا یہ سوال کہ جن کو نیکی میں ترقی کرنے کا کوئی موقعہ نہ ملا ان کا کیا حال ہو گا؟ تو یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر کسی فطرت کو خارجی اثرات سے پنپنے کا موقعہ نہیں ملے گا تو اسے پھر موقعہ دیا جائے گا ۔ بہرحال اس سے فطرت کی خرابی نہیں بلکہ حالات کی خرابی ثابت ہوتی ہے اور یہ آیت اسی خیال کو پیش کرتی ہے کہ انسان کی پیدائش احسن تقویم میں ہے یہ نہیں کہتی کہ وہ بد حالات کے ماتحت بھی بد نہیں ہوتا۔
غرض یہ آیات بتاتی ہیںکہ آدم کا آنا ۔نوح ؑ کا آنا ۔موسیٰ کا آنااور انکا اپنی اصلاحی کوششوں میں کامیاب ہوجانااور دنیا کا ایک نئے رنگ میں بدل جاناثبوت ہے اس بات کا کہ خد تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم میں پید اکیا ہے یعنی انسانی پیدائش ایسے اصول پر ہوئی ہے کہ وہ اعتدال کے اعلیٰ مقام پر پہنچ سکتا ہے جیسا کہ اوپر کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے ۔آدم ۔نوح ؑ۔موسیٰؑ اور ان کے متبع اس امر کا ثبوت ہیں اور محمدﷺآئندہ اس بات کا ثبوت بننے والے ہیںکہ لقد خلقناالا نسان فی احسن تقویم۔
چوتھا عقیدہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ انسان کو مجبوراًپیدا کیا گیا ہے ۔ گویا وہ قانونِ الٰہی کی وجہ سے برے افعال کرنے پر مجبور ہے اس میں انسان کا کوئی قصور نہیں ۔اسلام اس عقیدہ کو کلی طور پر رد کرتا ہے اور چونکہ اس کو مذہبی لوگ پیش کرتے ہیں ۔خصوصاً مسلمانوں کی طرف یہ عقیدہ منسوب ہے اس لیے قرآن کریم سے ہی اس کا رد پیش کیا جاتا ہے۔
اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وھوالذی جعل الیل و النھار خلفۃ تمن اراد ان یذکر او اراد شکوراً(الفرقان ۶ع،۴) یعنی وہ خداتعالیٰ ہی کی ذات ہے جس نے رات اور دن کو آگے پیچھے آنیوالا بنایاہے۔مگر اس سے وہ ہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو اس بات کا ارادہ کر لیں کہ وہ نصیحت حاصل کریں گییا ان کے اندر شکر گذاری کا مادہ پایا جاتا ہو۔اس آیت میں یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ایک تو وہ جن کی نیکی کا پہلو اتنا کمزور ہوتا ہے کہ وہ شیطانی راہوں ہر چلتے چلے جاتے ہیںاور اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ انتباہ کیا جائے اورانہیں برے افعال سے بچنے کی نصیحت کی جائے۔دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں۔ جو گو اس روشنی اور نور سے محروم ہوتے ہیںجو مذہب کی اتباع میںانسان کو حا صل ہوتا ہے مگر ان کے اندر جذبہ شکر گذاری پایا جاتا ہے وہ خداتعالیٰ کی نعماء اور اسکی عطا کردہ قوتوں کا غلط استعمال نہیں کرتے بلکہ ان سے خود بھی فائد ہ ا ٹھاتے اوردوسروں کو بھی فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا ایک وہ لوگ ہوتے ہیںجو نیکی اور اخلاق سے حصہ رکھتے ہیں۔فرماتا ہے ہم نے دنیا میںلیل ونہار کا جو چکر رکھا ہوا ہے یعنی کبھی خدا کے نبی اور رسول دنیا کی اصلاح کے لیے آتے ہیں اور کبھی تاریکی اور ظلمت کا دور دورہ ہوتا ہے تم جانتے اس روحانی رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آنے جانے میں کیا حکمت ہے؟ ہم کیوں رات کے بعد دن لاتے ہیں پھر کیوں تاریکی کے بعد آفتاب ہدائیت کا طلوع کرتے ہیں۔ ہماری غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں جو لوگ بد اور گنہگار ہوں اور جو ہدائیت اور وعظ و تذکیر کے محتاج ہوں ان کو اس سلسلہ رسالت کے نتیجہ میں نیک بنایا جائیاور جو لوگ فطری نیکی کے مقام پر کھڑے ہیں انہیں خدا کا کلام اور الہام اس سے بھی اعلیٰ مقام یعنی شکر کی طرف لے جائے ۔غرض قرآن اس بات کو پیش کرتا ہے کہ ہر شخص کی اصلاح ہو سکتی ہے اگر اس نے انسان کو خرابی کے لئے ہی پیدا کیا ہوتا تو لیل و نہار کا یہ چکر جو تمہیں دنیا میں نظر آتا ہے نہ ہوتا۔اس کی بڑی اہم غرض یہی ہے کہ بدوںکو نیکی کی طرف لایا جائے اور نیکوں کو اعلیٰ درجہ کے روحانی مقام کی طرف کھینچا جائے۔ اسی طرح فرماتا ہے :وھم یصطرخون فیھا ربنا اخرجنا نعمل صالحاً الذی کنا نعمل اولم نعمرکم ما یتذکر فیہ من تذکر و جاء کم النذیر فذوقو ا فما للظالمین من نصیر(فاطر۴ع۱۶) یعنی قیامت کے دن جب دوزخیوں کو دوزخ میں ڈالا جائیگا تو وہ چیختے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کہیں گے کہ اے خدا ہمیں اس جہنم میں سے نکال نعمل صالحاً غیرالذی کنا نعمل ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیںکہ ہم اب اپنے سابق اعمال کے خلاف نہائیت اعلیٰ درجہ کے کام کریں گے اور نیکی اور تقویٰ میں پوری طرح حصہ لیں گے ۔پہلے ہم چوری کیا کرتے تھے مگر اب ہم چوری نہیں کریں گے۔پہلے ہم ڈاکہ ڈالا کرتے تھے مگر اب ہم ڈاکہ نہیں ڈالیں گے ۔ پہلے ہم جھوٹ بولا کرتے تھے مگر اب ہم جھوٹ نہیں بولیں گے ۔ پہلے ہم نبیوں کا مقابلہ کیا کرتے تھے مگر اب ہم ان کا مقابلہ نہیں کریں گے۔اگر یہ صحیح ہوتا کہ انسان پیدائشی طور پر گندہ اور ناپاک ہے تو اللہ تعالیٰ کو جواب یہ دینا چاہیے تھا کہ کمبختو تم یہ کیا کہہ رہے ہو کہ ہم آئندہ نیک اعمال بجا لائیں گے میں نے تو تمہیںپیدا ہی اس لیے کیا تھا کہ تم چوری کرتے تم ڈاکہ ڈالتے تم جھوٹ اور فریب سے کام لیتے۔تم نبیوں کا مقابلہ کرتے یا یہ جواب دینا چاہئے تھا کہ تم نیکی کر ہی کس طرح سکتے ہو میں نے تو تمہاری فطرت میں خرابی رکھ دی ہے اور تم اس بات پر مجبور ہو کہ گناہوں اور بدیوںکا ارتکاب کرو مگر اللہ تعالیٰ یہ جواب نہیں دیتا بلکہ جواب یہ دیتا ہے کہ اولم نعمر کم ما یتذکرفیہ من تذکر کیا ہم نے تم کو اتنی مہلت نہیںدی تھی کہ جس میں انسان اگر نصیحت حاصل کرنا چاہتا تو آسانی سے نصیحت حاصل کر سکتا تھا ۔ہم نے تمہیںمہلت بھی دی تھی تمہیں کافی عمربھی عطا کی گئی مگر تم نے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا اور اپنی عادات کی اصلاح کی طرف تم نے کوئی توجہ نہ کی ۔ اب تمہارا یہ کہنا کیا حقیقت رکھتا ہے کہ اگر ہمیںدنیا میں واپس لوٹا دیا جائے تو ہمیشہ نیک عمل کریں گے ۔ تمہیں ہماری طرف سے ایک بہت بڑا موقعہ دیا جا چکا ہے مگر تم نے اس کو ضائع کر دیا۔
اب دیکھو یہاں اللہ تعالیٰ جرم کو ان کی طرف منسوب کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم کو اتنی عمر دی گئی تھی کہ اگر تم نصیحت حاصل کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے مگر تم نے نصیحت حاصل نہ کی۔ حالانکہ اگر یہ درست ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانی فطرت میں خرابی رکھی گئی ہے اور وہ قانونِ الٰہی کی وجہ سے برے افعال کرنے پر مجبور ہے تو یہ جواب بالکل غلط تھا۔ خدا تعالیٰ کو تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ میاں تم تو نیک ہو ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ میں نے تمہیں پیدا ہی اس غرض سے کیا تھا کہ تمہیں دوزخ میں ڈالا جائے۔ دوسرا عذر یہ ہو سکتا تھا کہ ہم تو نصیحت حاصل کر لیتے چونکہ خدا نے ہماری ہدایت کا کوئی سامان نہ کیا اس لئے ہم نیکی سے محروم رہے! اللہ تعالیٰ اس عذر کو بھی توڑتا ہے اور فرماتا ہے و جاء کم النذیر تم یہ عذر بھی نہیں کر سکتے کہ ہم نے تمہاری ہدایت کا کوئی سامان نہیں کیا کیونکہ ہماری طرف سے متواترتمہارے پاس نذیر آئے وہ تمہیں خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی اور اس کی ناراضگی کے برے نتائج سے ڈراتے رہے مگر تم نے پھر بھی کوئی توجہ نہ کی۔ یہ دونوں جواب جبر کے عقیدہ کو بیخ و بن سے اکھیڑ کر پھینک دیتے ہیں اور ثابت ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو مجبور پیدا نہیں کیاورنہ جب کفار نے کہا تھا کہ ہمیں واپس کیا جائے ہم اعلیٰ درجہ کے اعمال بجا لانے کا وعدہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں کہتا تم کس طرح نیک اعمال کر سکتے ہومیں نے توتم کو مجبور پیدا کیا تھا اور خود تمہاری فطرت میں ایسا بگاڑ رکھ دیا تھا کہ تم نیک اعمال پر مقدرت ہی نہیں رکھ سکتے تھے مگر وہ یہ جواب نہیں دیتا بلکہ جواب دیتا ہے تو یہ کہ میں نے تمہیں اتنی عمر دی تھی کہ جس میںاگر تم فائدہ اٹھانا چاہتے اور نصیحت حاصل کر کے اپنے اعمال میں اصلاح کرنا چاہتے تو آسانی سے کرسکتے تھے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ تم مجبور نہیں تھے بلکہ تمہارا اختیار تھا کہ تم جو رنگ چاہو اپنے اوپر چڑھالو اور تمہیں اس کا موقعہ بھی دے دیا گیا تھا۔
دوسرا سوال یہ ہو سکتا تھا کہ ہم نصیحت تو حاصل کر لیتے مگر ذرائع بھی تو مہیا ہوتے۔ ہم اپنی عقلوں کی کوتاہی اور باپ دادا کی جہالت کی وجہ سے اگر ہدایت کو اختیار نہیں کر سکے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ اللہ تعالیٰ اس عذر کو بھی رد کرتا ہے اور فرماتا ہے تم یہ بات بھی ہمارے سامنے پیش نہیں کر سکتے کیونکہ ہم نے تمہارے پاس نذیر بھجوا دئے تھے اور اس طرح ہدایت اور ضلالت کی راہیں تم پر پوری طرح واضح کردی تھیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فذوقو فما للظالمین من نصیر تم ہمارے عذاب کو چکھو اور اس بات کو اچھی طرح کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔ تیسرا جواب ہے جو جبر کے عقیدہ کو رد کر رہا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے جبری طور پر لوگوں کو برے افعال کے لئے پیدا کیا ہے تو ظالم نعوذباللہ خدا قرار پاتا ہے وہ شخص ظالم نہیں کہلا سکتا جس سے جبری طور پر کوئی کام لیا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں لوگوں کو ظالم قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ ہم ظالم نہیں تھے بلکہ ظالم تم تھے کہ ہدایت کے سامانوں اور مواقع کے حصول کے باوجود تم نے خدا کی طرف توجہ نہ کی اور نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑے رہے۔
یہ آیات اس امر کا قطعی ثبوت ہیں کہ بعض مسلمانوں کا یہ خیال کہ انسان مجبور پیدا کیا گیا ہے بالکل غلط ہے۔انسان کو خدا نے اختیار دیا ہے کہ وہ اگر چاہے تو نیک بن جائے اور اگر چاہے تے شیطان کے پیچھے چل پڑے۔
پانچواں خیال انسانی فطرت کے متعلق یہ پایا جاتا ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنے کرموں کا پھل بھگتنے کے لئے پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ بعض کرم برے ہوتے ہیں اس لئے ان کے کرنے والے بد اخلاق اور غریب کمزور اور برے بنائے گئے ہیں مگر جو لوگ اچھے اور تندرست اور امیر ہیں وہ بھی درحقیقت بدی سے پوری طرح آزاد نہیں ہیں کیونکہ ان کا ایک دوسری جون میں آنا بتاتا ہے کہ گناہ کے اثر سے وہ پوری طرح آزاد نہیں ورنہ وہ جونوں کے چکر سے آزاد کر دئے جاتے۔
یہ خیال جسے تناسخ کہتے ہیں اس پر پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ اس خیال کی بنیاد ظن اور تخمین پر ہے۔ تناسخ کے ماننے والے کہتے ہیں دنیا میں ایک شخص اندھا کیوں پیدا ہوتا ہے۔ لنگڑا لولا کیوں پیدا ہوتا ہے۔ غریب اور نادار کیوں پیدا ہوتا ہے؟ یا ایک بچہ پیدا ہوتے ہی مر کیوں جاتا ہے؟ اور کیوں دنیا میں ہمیں یہ اختلاف نظر آتا ہے کہ ایک شخص امیر ہے تو دوسرا غریب ایک شخص صحیح سلامت ہے تو دوسرا لنگڑا لولا۔ ایک شخص عقلمند ہے تو دوسرا بیوقوف ۔ایک شخص طاقتور ہے تو دوسرا کمزور۔ یہ اعترض اٹھا کر تناسخ کے معتقد کہتے ہیں کہ چونکہ خدا کی طرف یہ ظلم منسوب نہیں ہو سکتا اس لئے معلوم ہوا کہ پچھلے جنموں کے کرم کی سزا بھگتنے کے لئے انسان اس دنیا میں آتا ہے چونکہ گزشتہ جنم میں بعض نے اچھے اعمال کئے تھے اور بعض نے برے اس لئے اس جہان میں بعض لوگ دکھوں میں مبتلا نظر آتے ہیں اور بعض لوگ عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر تناسخ کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ سوال کہ دنیا میں بعض لوگ اندھے کیوں پیدا ہوتے ہیں بعض لولے لنگڑے کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ بعض غریب اور مفلس اور نادار کیوں پیدا ہوتے ہیں؟اس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں۔ فرض کرو ایک شخص خدا کے انصاف کا قائل نہیں وہ اس اعتراض کا یہ جواب دے سکتا ہے کہ اس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ خدا ظالم ہے۔ایک دوسرا شخص یہ جواب دے سکتا ہے کہ کسی کا اندھا یا لولا لنگڑا ہونا قانون شریعت سے تعلق نہیں رکھتابلکہ قانون نیچر سے تعلق رکھتا ہے ۔ایک شخص ٹھوکر کھا کر نیچے گر جاتا ہے تو اس وقت یہ نہیں کہا جا ئے گا کہ اسے اپنے کسی سابق کرم کی سزا ملی ہے بلکہ نتیجہ یہ ہو گا کسی طبعی کی خلاف ورزی کرنے کا ۔اسی طرح اگر کوئی شخص اندھا پیدا ہوتا ہے یا لنگڑا پیدا ہوتا ہے یا بیمار پیدا ہوتا ہے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اسے اپنے کسی سابق بد عملی کی سزا مل رہی ہے بلکہ درحقیقت یہ کسی طبعی قانون کے وہ اثرات ہونگے جو مختلف حالات کے نتیجہ میں اس کے جسم پر ظاہر ہوئے ۔بہر حال جس سوال کے کئی جواب ہو سکتے ہوں۔ان میں سے کسی ایک جواب کو بلا وجہ ترجیح دے دینا عقل کے با لکل خلاف ہے کوئی وجہ ہونی چاہئے جس کی بنا پر اس جواب کو ترجیح دی جاسکتی ہو ۔ مگر ایسی کوئی وجہ آج تک قائلین تناسخ کی طرف سے پیش نہیں کی جا سکی۔
دوسرے ہم قا ئلین تناسخ سے کہتے ہیں کہ تم جس سوال کو تناسخ کی تائید میں پیش کرتے ہو ہم اسی سوال کو تناسخ کی تردید میں پیش کر دیتے ہیں ۔اصل سوال یہ تھا کہ دنیا میں اختلاف کیوں ہے ؟تم نے اس کا جواب دیا کہ انسان کے سابق کرموں کا یہ نتیجہ ہے ۔ہم کہتے ہیںاگر اس دنیا کی زندگی کسی سابق جنم کے اعمال کا نتیجہ ہے اور انسان اپنے کرموں کی سزا بھگتنے اس دنیا میں آیا ہے تو یہ کیا بات ہے کہ ایک بچہ پیدا ہوتے ہی مر جاتا ہے اسے کونسی سزا ملی جس کے لئے اسے دنیا میں بھیجا گیا تھا؟اگر ایک بچہ پیدا ہونے کے بعد بڑا ہو کر تکلیفیں اٹھائے مصیبتیں جھیلے مختلف قسم کے دکھ برداشت کرے تب تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ دیکھ لو اسے اپنے پچھلے اعمال کی سزامل رہی ہے لیکن ہم تو داکھتے ہیں دنیا میں بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ادھر بچہ پیدا ہوتا ہے اور ادھر مر جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوتا کہ اسقاط ہو جاتا ہے اگر انسان اپنے کرموں کی سزا کے لئے پیدا ہوتا ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ بچہ جو پیدا پوتے ہی مر جاتا ہے یا وقت پورا ہونے سے پہلے جو ماں کے پیٹ سے گر جاتا ہے اس کونسی سزا ملی؟اس نے تو دنیا میں آکر کوئی تکلیف ہی نہیں اٹھائی ۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گورنمنٹ کسی کو قید خانہ میں بھیجے مگر قید خانہ کی ڈیوڑھی سے ہی اسے گھسیٹ کر واپس لے آئے ۔ایسا فعل یقینا عقل کے خلاف ہوگا ۔پس جہاں اس قسم کے حوادثات تناسخ کے خیال کی تائید میں پیش کئے جا سکتے ہیںوہاں یہ حوادث تناسخ کے خلاف بھی پیش کئے جا سکتے ہیں۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر تناسخ کا عقیدہ درست ہے تو کیوں انسان کے موجودہ اعمال اس پر اثر انداز ہوتے ہیں ؟اگر دنیا میں ہو سزا بھگتنے کے لئے آیا ہے تو یقینا دنیا سے اسے کسی طرح چھٹکارا نہیں ہونا چاہئے ۔ فرض کرو ایک شخص کو اس کے سابق جنم کے برے اعمال کی سزا ملی ہے کہ ہو ۳۵ سال تک شدائد ومصائب میں مبتلا رہے تو اس کے بعد ضروری ہے کہ ۳۵ سال تک وہ اس سزا کو برداشت کرے ۔مگر ہم دیکھتے ہیں دنیا میںبعض دفعہ جب ایک شخص تکالیف برداشت کرنے کی طاقت اپنے اندر نہیں پاتاتو وہ زہر کھا کر اپنے آپ کو ہلاک کر لیتا ہے حلانکہ اگر تناسخ درست تھا اور وہ ایک معین عرصہ کی قید بھگتنے کے لئے دنیا میں آیا تھا تو زہر کا اس پرکوئی اثر نہیں ہونا چاہئے تھا خواہ وہ لاکھ دفعہ زہر کھا تا اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوتا کیونکہ خدا نے اسے ایک معین سزا کے لئے دنیا میں بھیجا تھا ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں زہر کھا کر وہ اپنی تکلیف کا فوراً خاتمہ کر لیتا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے گلے میں پتھر باندھ کر دریا میں غرق ہونا چاہے تو اس عقیدہ کے مطابق اسے غرق نہیں ہونا چاہئے کیونکہ خدانے اسے چالیس یا پچاس سال تک سزا بھگتنے کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے مگر ہمیں یہی نظرآتا ہے کہ جب کوئی شخص خود کشی کا ارادہ سے دریا میں غرق ہونا چاہے تو تناسخ کا عقیدہ اسے غرق ہونے سے نہیں بچاتا وہ خواہ چالیس سال کی قید لے کر دنیا میں آیا ہو زہر کھا کر یا دریا میں غرق ہو کر کئی سال پہلے اس عذاب سے نجات حاصل کر لیتا ہے اسی طرح وہ شخص جو ایک غریب گھرمیں پیدا ہوا ہے اگر اسے اپنے سابق اعمال کی سزا میں ایک غریب شخص کے گھر پیداکیا گیا ہے تو پھر اسے کبھی امیر نہیں ہونا چاہئے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کئی غریب دنیا میں ترقی کرتے کروڑ پتی بن جاتے ہیں ۔پنجاب ہندوستان اور ولائیت میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں جنہوں نے نہائیت غربت کی حالت سے ترقی کرتے کرتے اعلیٰ درجہ کی امارت حاصل کر لی ۔ وہ ادنیٰ حالت سے اٹھے اور ترقی کے اعلیٰ معیار پر جا پہنچے۔ پس اگر پچھلے جنم کے اعمال کی سزا بھگتنے کے لئے انسان اس دنیا میں آیا ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ زہر سے کیوں مرتا ہے ؟وہ تو ایک خاص مدت کی قید کیلئے آیا تھا۔ محنت سے کیوں مالدار ہو جاتا ہے وہ تو سزا کے طور پر ایک غریب شخص کے گھر میں پیدا کیا گیا تھا؟پھر تو چاہئے تھا کہ کوئی عمل اس کی حالت کو تبدیل نہ کر سکتا ۔آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ایک شخص کو قیدی بنا کر بھجے اور وہ اس دنیا میں آکر بادشاہ بن جائے ۔دنیوی حکومتوں کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی تو خدائی گورنمنٹ کے احکام کو بدلنے کی کوئی شخص کس طرح طاقت رکھتا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ خدا تو ایک شخص کو سزا کے طور پر بیمار کرے اور وہ علاج سے اچھا ہو جائے ۔ اگر یہ تسلیم کیا جائے گا کہ خدا نے سزا کے طور پر کسی شخص کو بیمار بنایا ہے تو بہر حال یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ وہ علاج سے اچھا نہیں ہو سکتا ۔ مگر دنیا کے نظارے جو ہمیں روزانہ دکھائی دیتے ہیں اس حقیقت کو باطل ثابت کر رہے ہیں ۔ لوگ بیمار ہوتے ہیں اور علاج سے اچھے ہو جاتے ہیں ۔ غریب ہوتے ہیں اور محنت سے امیر ہوجاتے ہیں ۔زہر کھا تے ہیں اور اس کے اثر سے مر جاتے ہیں حلانکہ اگر ہم گذشتہ جنم کو مانیں تو پھر تسلیم کرنا پڑ تا ہے کہ نہ بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہے نہ کوئی غریب سے امیر ہو سکتا ہے نہ زہر سے ہلاک ہو سکتا ہے اور نہ دنیا کا کوئی اور عمل اس پر اثر کر سکتا ہے ۔ سابق جنم کا کرم ماننے کے نتیجہ میں صرف ایک ہی زندگی آزاد رہ سکتی ہے اور وہ انسان کی سب سے پہلی زندگی ہے ۔ باقی ساری زندگیاں اس سزا کے ماتحت جبری طور پر لانی پڑیں گی جو پہلے جنم کے اعمال کے نتیجہ میں ملتی ہیں ۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ اگر تناسخ درست ہے تو وبائوں سے لوگ یا جانور کیوںمرتے ہیں؟آخر یہ کیا ہوتا ہے کہ یکدم ایک وبا پھیلتی ہے اور اس سے لاکھوں انسان اور جانور ہلاک ہو جاتے ہیں وہ کونسا جرم ہے جس کے نیتیجہ میں سب کو اکٹھی سزا ملتی ہے۔ سزا تو الگ الگ وقت کی ہوتی ہے مگر وبائوں کے نتیجہ میں ایک ہی وقت میں ملکوں کا صفایا ہوجاتا ہے ۔اسی طرح اگر تناسخ درست ہے تو جنگوں اور زلزلوں سے کیوں لاکھوں کا صفایا ہو جاتا ہے اور یہ آزادی کس خوشی کی تقریب پر دی جاتی ہے ؟دنیا میں تو کہا جاتا ہے آج بادشاہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے اس خوشی میں سو(۱۰۰) قیدی چھوڑے جاتے ہیں ۔آج شاہی خاندان میں فلاں کی شادی ہوئی ہے اس خوشی کی تقریب میں اتنے لوگوں کو رہا کیا جاتا ہے ۔کیا اسی قسم کی تقاریب اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی ہوتی ہیں ؟کہ وہ بھی ایک وبا بھیج دیتا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں انسان مر کر دنیا کی تکالیف سے نجات حاصل کر لیتے ہیں ۔زلزلہ بھیج دیتا ہے اور اس سے لاکھوں انسان ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح کبھی طاعون ۔ کبھی ہیضہ ۔ کبھیانفلوئنزہ اور کبھی ملیریا بھیج دیتا ہے ۔ گویا یہ وبائیں کیا ہیں انسپکٹرجنرل آف پرزنرز ہیں جو قیدیوں کو رہائی کی خوشخبری دیتی ہیں ۔ بہرحال اگر تناسخ درست ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ آزادی کس خوشی کیتقریب پر دی جاتی ہے ْ اور کیوں دنیا میں وبائوں سے کبھی کم آدمی ہلاک ہوتے ہیں اور کبھی ذیادہ آدمی ہلاک ہوتے ہیں؟ کیا اس کے یہ معنی سمجھے جائیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہیں کبھی خوشی کی کوئی معمولی تقریب پیدا ہوتی ہے اور کبھی بڑی۔معمولی تقریب میں صرف چند قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا جاتا ہے مگر جب خوشی کی کوئی بہت بڑی تقریب پیدا ہو جائے تو زلزلہ بھیج دیا جاتا ہے یا طاعون نازل کر دی جاتی ہے یا ہیضہ اور ملیریا پیدا کر دیا جاتا ہے اور اس خوشی میں لاکھوں انسانوں کو رہا کر دیا جاتا ہے آخر جس طرح انہوں نے دنیا کے اختلاف کو دیکھ کر ایک توجیہہ پیدا کر لی تھی اسی طرح ہمارا حق ہے کہ ہم ان سے یہ پوچھیں کہ طاعون اور ہیضہ اور زلزلہ اور لڑائیوں وغیرہ سے یکدم لاکھوں کا صفایا کس بنا پر ہوتا ہے ؟ اور کونسی خوشی کی تقریب پر ارواح کی آزادی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سء حکم دیا جاتا ہے ؟
پانچواں سوال یہ ہے کہ اگر تناسخ درست ہے تو ہندو لوگ وبائوں اور زلزلوں سے بچنے کی تدابیر کیوں کرتے ہیں اور کیوں طاعون اور ہیضہ کے ٹیکے کراتے ہیں ؟کیونکہ انکے نزدیک تو یہ جون ایک سزاہے پس طاعان اور ہیضہ تو معافی کا پیغام ہے اس سے بچنے کے تو کوئی معنی ہی نہیں ۔ کیا کوئی قیدی آزادی کے پروانے سے بچنے کی کوشش کیا کرتا ہے؟ ااگر تناسخ ماننے والوں کے پاس کوئی شخص آئے اور ان سے سوال کرے کہ طاعون کا یا ہیضہ کا ٹیکہ مجھے کروانا چاہئے یا نہیں تو وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں ؟ کیا یہ کہتے ہیں کہ تم ٹیکہ مت کروائو۔ یہ زندگی تو قید خانہ ہے ۔ یہ وبائیں پرمیشور کی طرف سے آزادی کا پر وانہ ہیں ان کے آنے پر تو تم کو خوش ہونا چاہئے ۔یا وہ یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ بیشک ٹیکہ کرائو یہ ایک کامیاب علاج ہے اس سے تم اپنی زندگی کو بچالو گے ۔
غرض ہندوئوں کا یہ عمل کہ وہ وبائوں اور زلزلوں سے بچنے کے لئے مختلف قسم کی تدابیر اختیار کرتے ہیں اس امر کا ثبوت ہے کہ ان کے نزدیک یہ زندگی ایک قید خانہ نہیںجس سے آزاد ہونے کی کوشش ہونی چاہئے بلکہ یہ نیکی کمانے کا ذریعہ ہے جسے لمبا کرنا نیک کام ہے۔
چھٹا سوال یہ ہے کہ برسات میں بعض دفعہ ایک گھنٹہ کے اندر اندر کروڑوں کیڑے مکوڑے کیوں پیدا ہو جاتے ہیں اور اس وقت کونسے گناہ خاص طور پر زائد ہو جاتے ہیں ؟ میں سمجھتا ہوں ایک ایک گائوں اور ایک ایک شہر میں برسات کے موسم میں اربوں ارب کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں پس سوال یہ ہے کہ یہ اربوں ارب کیڑا کس کے جرم کے نتیجہ میں ایک گھنٹہ بھر میں پیدا کر دیا جاتا ہے اور پھر یہ سزا کیا ہوئی کہ ابھی ان کی زندگی پر ایک گھنٹہ بھی نہیں گذرتا کہ ان میں سے بہت سے کیڑے مر جاتے ہیں گویا اربوں ارب ارواح کو قید میں ڈالا جاتا ہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ہی ان سب کو آزاد کر دیا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ ان کیڑوں کا آناً فاناً کروڑوں بلکہ اربوں کی تعداد میں پیدا ہوجانا کس گناہ کا نتیجہ ہوتا ہے ؟ جو خاص طور پر موسم برسات میں زیادہ ہو جاتاہے اور پھر ان کی تھوڑی دیر کے بعد ہی رہائی کس خوشی کی تقریب میں ہوتی ہے کیا اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی شادی کی تقریب ہوتی ہے ؟ کہ اربوں ارب ارواح کو یکدم قید خانہ سے رہا کر دیا جاتا ہے ۔
ساتواں سوال یہ ہے کہ اگر تناسخ کو درست مانا جائے تو ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ تمام کارخانہ عالم نعوذباللہ گناہ پر چل رہا ہے کیونکہ تناسخ کے قائلین کہتے ہیں کہ دنیا میں جانوروں کی پیدائش گناہ کی وجہ سے ہے ۔ کسی گناہ کی وجہ سے انسان بھینس کی جون میں جاتا ہے کسی گناہ کی وجہ سے انسان گائے کی جون میں جاتا ہے کسی گناہ کی وجہ سے گھوڑے کی جون میں جاتا ہے کسی گناہ کی وجہ سے انسان گدھے کی جون میں جاتاہے ۔ اسی طرح سبزیاں اور ترکاریاںوغیرہ نظر آتی ہیں چونکہ ان میں بھی جیو ہے اس لئے سبزیوں اور ترکاریوں کی جون میں بھی انسان کسی گناہ کی وجہ سے جاتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب کچھ گناہ کہ پیدائش ہے تو معلوم ہوا کہ دنیا کا کارخانہ محض گناہوں کے سہارے قائم ہے اگر گناہ کا وجود مٹ جائے تو وہ گائے بھینسیں جن کا انسان دودھ پیتا ہے وہ گھوڑے جن پر انسان سواری کرتا ہے وہ سبزیاں اور ترکاریاں جن کو انسان کھانے کے کام میں لاتا ہے سب کی سب معدوم ہو جائیں اور کارخانہ عالم بالکل با طل ہو جائے پھر یہ چیزیں ایسی نہیں جن کو صرف بد لوگ استعمال کرتے ہوں بلکہ نیک لوگ بھی جانوروں کے بغیر گذارہ نہیں کرسکتے وہ بھی اس بات پر مجبور ہیں کہ دودھ پئیں ۔ گھوڑوں کی سواری کریں فصل کے لئے ہل چلائیں اور اس طرح گائیوں اور بھینسوں اور گھوڑون اور بیلوں کی احتیاج کو تسلیم کریں گویا اس عقیدہ کے ماتحت نیک لوگ بھی اس دنیا میں گناہ کے بغیر گذر اوقات نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ارواح جو مختلف جونوں کی شکل میں اس دنیا میں آئی ہوئی ہیں عقیدہ تناسخ کے ماتحت انہیں سے دنیا چل رہی ہے ۔
اس ضمن میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو انسان پہلی دفعہ پیدا ہوئے تھے وہ کیا کھاتے تھے اور پینے کے لئے کیا چیز استعمال کرتے تھے ۔ یہ امر ظاہر ہے کہ علم نباتات کے متعلق موجودہ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ گیہوں اور سبزیاںوغیرہ اپنے اندر حس رکھتی ہیں جس کے دوسرے معنے ہیں کہ قائلین تناسخ کے نزدیک ان میں بھی جیو ہے اور جب تمام جیو والی اشیاء کی پیدائش قائلین تناسخ کے نزدیک گناہوں کی وجہ سے ہے تو طبعی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے انسان کیا کھاتے تھے؟بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سوال تو یہ ہے کہ پانی کو پانی اور ہوا کو ہوا خداتعالیٰ نے کیون بنایاہے؟ یہ فرق کرنا اس کے لئے کس طرح جائز ہو گیا ہے پس پانی بھی درحقیقت کسی سزا میں پانی بنا ہے اور ہوا بھی کسی سزا میں ہوا بنی ہے اور اگر یہ امر درست ہے تو سوال یہ ہے کہ جب پہلی دفعہ انسان پیدا ہوا تھا اور ابھی کرموں کے نتائج ظاہر نہیں ہوئے تھے اس وقت انسان کیا پیتے تھے اور کس چیز کی مدد سے سانس لیتے تھے ؟یہ بھی ایک سوا ل ہے کہ جس کا قائلین تناسخ کے پاس کوئی جواب نہیں ۔
آٹھواں سوال یہ ہے کہ اگر گائیںبھینسیں گناہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں تو علم الحیوانات کے ماہرین کی تجاویز جانوروں کی ترقی کی نسبت کیوں استعمال ہوتی ہیں ؟کیا گائیں بھینسیں اگر اس محکمہ کی نگرانی میں رہیں تو لوگ اس قسم کے گناہ زیادہ کرنے لگ جاتے ہیں جن سے یہ جانور زیادہ پیدا ہوں؟
تھوڑا ہی عرصہ ہوا گورنمنٹ نے اعلان کیا تھا کہ گذشتہ چھبیس(۲۶)سال میں ہندوستان کی گائیں بھینسیںآدھی رہ گئی ہیں ان کی تعداد بڑھانے کے لئے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جانور پالنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اس کمی کا ازالہ ہو۔اس اعلان پر ہندوئوں کو چاہئے تھا کہ گورنمنٹ کو نو ٹس دے دیتے کہ جانور بڑھانے کا یہ طریق بالکل غلط ہے ۔ گائیں بھینسیںفلاں فلاں گناہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں ۔اگر گورنمنٹ ان کی تعداد کو بڑ ھانا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ملک میں ان گناہوں کو رائج کر دے گائیں بھینسیں خود بخود زیادہ ہو جائیں گی ۔مگر نہ ہندوئوں نے گورنمنٹ کو اس وقت کوئی ایسا نوٹس دیا اور نہ آئندہ دینے کے لئے کبھی تیار ہوسکتے ہیں ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ علم حیوانات کی تجاویز پر اگر عمل کیا جائے تو جانوروں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور جب محض بعض مادی تدابیر پر عمل کرنے کے نتیجہ میں انکی تعداد بڑ ھ سکتی ہے تو یہ ثبوت ہے کہ وہ کسی گناہ کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہوتے۔
نواں سوال یہ ہے کہ اگر تناسخ درست ہے تو حکومتیں شکار کی حفاظت کی تدابیر کیوں کرتی ہیں ؟انہیںتو چاہئے تھا کہ بجائے اس کے کہ شکار کی حفاظت کے ذرائع اختیار کرتیں لوگوں کو خاص خاص گناہوں کا حکم دے دیتیں۔ مثلاً کہا جاتا کہ لوگوں کو چائیے کہ وہ آج کل فلاں فلاں گناہ کریں کیونکہ تیتر کم ہو گئے ہیں کیونکہ تناسخ کے ماتحت بعض خاص قسم کے گناہ ہی ان کی پیدائش کا باعث بن سکتے ہیں ۔ کسی اور ذریعہ سے ان میں زیادتی نہیں ہو سکتی۔
دسواں سوال یہ ہے کہ اگر تناسخ درست ہے تو اول تو قتل ہو یہ نہیں سکتا ۔ جس شخص کے متعلق خدا نے یہ کہا ہے کہ اسے چالیس سال تک دنیا میں رکھا جائے کوئی شخص اسے تیس یا پینتالیس سال کی عمر میں ہلاک کس طرح کر سکتا ہے؟بیشک وہ اپنی طرف سے اس کی گردن پر تلوار کا وار کر ے پھر بھی جب خدا نے اسے چالیس سال کے لئے دنیا میں بھیجا ہے وہ اس سے قبل دنیا کے قید خانہ سے رہا نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی شخص دوسرے کو قتل کرنے میں کامیاب ہو جاتاہے تو اس کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ اس نے خداتعالیٰ کے منشااور اس کے حکم کے ماتحت دوارے کو قید سے آزاد کیا ہے ۔اس صورت میں اسے قتل کی سزا دینا بالکل غیر معقول بات ہے اسے تو پھولوں کے ہارپہنانے چاہئیں کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا حکم پورا کر دیا ۔ جیسے جلادجب کسی کو پھانسی دیتا ہے تو وہ زیر الزام نہیں آتا کیونکہ وہ افسر کے حکم کے مطابق پھانسی دیتا ہے اپنی مرضی سے نہیں دیتا۔اسی طرح جس کو خدا نے قید کیا ہے اول تو اسے آزاد کرنے کی کسی میں طاقت نہیں ہو سکتی اور اگر کسی نے آزاد کر دیا ہے تو یقینااس نے خداتعالیٰ کے منشاء سے ہی کیا ہے ایسی صورت میں اسے سزا کیوں ملے پھر تو قاتل کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالنے چاہئیں کہ اس نے ایک شخص کو قید خانہ سے الہیٰ مشیئت کے ماتحت رہا کر دیا ۔غرض یہ عقیدہ بھی بدھوں کے عقیدہ کی طرح عقل کے با لکل خلاف ہے ۔اصل حقیقت وہی ہے جو قرآن کریم نے بتائی ہے کہ انسان کو معتدل القویٰ پیدا کیا گیا ہے اس میں کوئی خاصیت ایسی نہیں جسے خالص طور پر برا کہا جا سکے اوع کوئی طاقت ایسی نہیں جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ وہ خالص طور پر نیکی کے لئے ہی استعمال ہو سکتی ہے ۔ معتدل القویٰ ہونے کے معنے درحقیقت یہی ہیں کہ بعض حالات میں وہ بدی کی طرف چلا جاتاہے اور بعض حالات میں نیکی کی طرف چلا جاتا ہے ۔ ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ جب انسان بدی کی طرف چلا جاتا ہے تو انسان کو احسن تقویم میں پیدا کرنے کا فائدہ کیا ہوا؟اس کا جواب یہ ہے کہ اسی غرض کے لئے تو اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء بھیجتا اور لوگوں کی ہدائیت کے لئے شریعت کا نزول کرتا ہے ۔ جیسے آدم ؑاور نوحؑ اور موسیٰؑ اور محمدﷺ سب اسی لئے آ ئے کہ گرے ہوئے لوگوں کو اٹھا کر آستانہ الوہیئت پر پہنچا دیں بیشک بنی نوع انسان اپنی قوتوں کا غلط استعمال کر کے بعض دفعہ خدا تعالیٰ سے دور جا پڑ تے ہیں اور وہ ہوا وہوس کی اتباع کر کے شیطان کے غلام بن جاتے ہیں مگر انبیاء انکی تربیت کر کے پھر ان کو خدا تک پہنچاتے ہیں ۔ پھر انکی استعدادوں کو ابھار کر انہیں صفات الٰہیہ کا مظہر بنا دیتے ہیں ۔
ثم رددنہ اسفل سا فلین O پھر ہم نے اس کو ادنیٰ درجوں سے (بھی) بد درجہ کی طرف لوٹادیا
تفسیر: رددناہ میں ضمیر خداتعالیٰ کی طرف پھرتی ہے اور یہ اس امر کے ا ظہار کے لئے کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ بدکار کو بطور سزا اس مقام سے گرا دیتا ہے یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ اس سے بدی کروا تا ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے کہ آدم کو جنت میں سے ہم نے نکالا ۔اور یہ بھی فرمایا ہے کہ آدم کو جنت میں سے شیطان نے نکالا۔ چنانچہ فرماتا ہے یابنی آدم لا یفتننکم الیشطان کما اخرج ابویکم من الجنہ (اعراف ۲ع۹) یہ ظاہر ہے کہ آدم ؑ کو جنت میں سے شیطان کانکالنا اور آدم ؑ کو جنت اللہ تعالیٰ کا نکالنا ایک معنوں میں نہیں آسکتا۔ بہر حال تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کا نکالنا اور رنگ رکھتا ہے اور شیطان کا نکالنا اوررنگ رکھتا ہے اور ان دونوں میں کوئی نہ کوئی فرق پایا جاتا ہے ۔وہ فرق یہی ہے کہ شیطان چونکہ اس غلطی کا باعث بنا تھا جس کے نتیجہ میں آدمؑ کو جنت میں سے نکالا تھا ۔لیکن چونکہ نتیجہ خدا نے پیدا کیا تھا اس لئے دوسرے مقام پر یہ کہ دیا گیا کہ آدمؑ کو خداتعالیٰ نے جنت میں سے نکالا تھا ۔ گویا شیطان کا نکالنا بلحاظ فعل بد کے ہے اور اللہ تعالیٰ کا نکالنا بلحاظ اس سزا کے ہے جو اس فعل کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئی اسی طرح رددنا ہ اسفل سا فلین کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو بگاڑتا ہے۔ بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جب انسان بگڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے سزا کے طور پر اسفل سا فلین میں بھیج دیتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیںفرمایا کہ ثم رددنا ہ سارقا یا ثم رددناہ قاتلا یا ثم رددناہ مذنباً بلکہ فر مایا ہے ثم رددناہ اسفل سافلین پھر ہم اس کو ادنیٰ ترین جگہ کی طرف لے جاتے ہیں وہ ایک جرم کرتا ہے ہم اس کو سزا دیتے ہیں وہ پھر جرم کرتا ہے ہم اسے پھر سزا دیتے ہیں اور اس طرح اسے ذلیل اور ادنیٰ حالت کی طرف لے جاتے ہیں ۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس آیت میں اسفل سافلین ہ ضمیر کا حال واقع ہوا ہو یعنی ذوالحال فاعل نہ ہو بلکہ مفعول ذوا لحال ہو۔ اس صورت میں آیت کے یہ معنی ہو نگے کہ پھر انسان کو ہم نے اپنے دروازہ سے لوٹایااس حال میں کہ وہ اسفل سافلین تھا۔ ان معنوں کے لحاظ سے وہ اعتراض واقع نہیں ہو سکتا جو پہلے معنوںپر عائدہوتا ہے اور ثم رددناہ اسفل سافلین کا یہ مفہوم ہوگا کہ ہم انسان کو اس کے مقام سے ہٹا دیتے ہیں ایسے حال میں کہ وہ اسفل سافلین ہوتا ہے ۔ یعنی جب وہ گنہگار ہو کر ہماری نظروں سے گر جاتا ہے تو ہم اسے اپنے دربار سے واپس کردیتے ہیں۔
اس آیت کے ایک معنی فردی لحاظ سے ہیں اور ایک معنی اجتماعی لحاظ سے۔ اجتماعی لحاظ سے اس کے یہ معنے ہیں کہ ہدایت پہلے ہے اور ضلالت بعدمیں آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم O ثم رددناہ اسفل سافلینO پہلے ہم انسان کیلئے اس کی ہدایت کے سامان مہیا کرتے ہیں بعدمیں بگڑ کر وہ ضلالت اور گمراہی کی راہیں اختیار کرلیتا ہے۔ یہی اسلام اور ارتقائیوں کا مابہ الاختلاف ہے ۔ ارتقائی لوگ ضلالت کو پہلے بتا کر پھر ارتقائی طور پر مذہب کو پیش کرتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ جب انسان نے عقل کامل حاصل کی تو اللہ تعالیٰ نے آدم کو بھجوایا۔ پھر بگڑے تو نوحؑ کو بھجوایا۔ پھر بگڑے تو موسیٰؑ کو، اب پھر بگڑے تو محمد رسول اللہ ﷺ کو۔ گویا ابتداء میں احسن تقویم کانمونہ ہوتا ہے۔ اور بگاڑ ہمیشہ بعد میں آتا ہے۔ پس جن معنوں میں ارتقاء کو فلسفی پیش کرتے ہیں وہ غلط ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ پہلے مظاہرہ تین پھر زیتون پھر طور اور پھر بلد الامین ہوا۔ اور اس طرح ہر مظاہرہ نیکی کا پہلے سے بڑا تھا۔ یہ ارتقاء درست ہے مگر یہ کہ پہلے ضلالت بھی پھر ترقی کرکے ہدیات آئی ، یہ غلط اور سراسر غلط ہے۔
یورپین فلسفی مسئلہ ارتقاء کو اس رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا خیال قوموں میں آہستہ آہستہ پیدا ہو اہے۔ سب سے پہلے مختلف اقوام میں ان اشیاء کی پرستش شروع ہوئی ہے جن سے انسان سے خائف ہوا۔ جس طرح ایک بچہ ڈر کر لجاجت اور گریہ زاری شروع کردیتا ہے اسی طرح جب انسان بعض چیزوں سے مرعوب ہوا تو اس نے ان کی پرستش شروع کردی۔ اس نے دیکھا کہ آسمان سے بجلی گری ہے اور اس سے چند آدمی ہلاک ہوگئے ہیں ۔ وہ ڈرا اور اس نے سمجھا کہ یہ ڈرنے کی چیز ہے اور اس کی عبادت شروع کردی۔ پھر اس نے سانپ کو دیکھا کہ اس کے ڈسنے سے فلاں شخص مرگیا ہے تو اسے خیال پیدا ہوا کہ یہ ڈرنے کی چیز ہے۔ اور اس کی عبادت شروع کردی۔ پھر اس نے دریا میں کسی کو ڈوبتے دیکھا تو خیال کرلیا کہ یہ ڈرنے کی چیزہے اور اس کی عبادت شروع کردی۔ پھر پہاڑ کی کھڈ میں کسی کو گر کر ہلاک ہوتے دیکھا تو خیال کرنا شروع کردیا کہ پہاڑ بھی ڈرنے کی چیز ہے اور اس کی عبادت شروع کردی۔ غرض جس جس چیز سے ڈرا اس کے آگے ہاتھ جوڑنے لگا مگر پھر جوں جوں زمانہ گزرتا گیا انسان نے ادنیٰ چیزوں سے نظر اٹھا کر بالا ہستیوں کو پوجنا شروع کردیا۔ پھر کچھ اور عرصہ کے بعد یہ بالا ہستیاں غیرمادی قرار پاگئیں اور آخر ایک واحد ہستی جو سب پر فائق تھی تجویز ہوئی۔ پس ان کے نزدیک ارتقاء اس رنگ میں ہوا ہے کہ مادیات سے نظر اٹھاتے ہوئے انسان آخر ایک غیرمرئی خدا کی پرستش میںمصروف ہوگیا۔ لیکن قرآن کریم کہتا ہے یہ غلط ہے کہ پہلے ضلالت تھی اور ہدایت بعد میں آئی۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ نیکی پہلے تھی اور بدی بعدمیں آئی۔ پہلے آدمؑ آئے اور انہوں نے تمدن کی بنیاد رکھی پھر خرابی پیدا ہوئی تو نوحؑ آئے، پھر خرابی پیدا ہوئی تو موسیٰؑ آئے ، پھر خرابی پیدا ہوئی تو محمد رسول اللہ ﷺ آئے۔ غرض نیکی کا دور پہلے ہے اور بدی کا بعد میں۔ یہی فلسفی ارتقاء اور قرآنی ارتقاء میں فرق ہے۔ قرآن کریم کے نزدیک دور حسنات پہلے ہے اور دور سیئات بعد میں۔ لیکن فلسفی اصول کے ماتحت دور سیئات پہلے اور دور حسنات بعد میں۔
فرد کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہیں کہ انسان کو ہم نے ہدایت دی اور اعلیٰ درجہ کی طاقتیں نیکی میں ترقی کرنے کیلئے بخشیں۔ لیکن جب اس نے ان کا غلط استعمال کیا تو وہ اسفل سافلین میں گر گیا۔ یعنی انسان کی دونوں حالتیں دوسری مخلوق سے بڑی ہیں۔ جب نیکی کی طرف آتا ہے تو سب مخلوق سے بڑھ جاتا ہے اور جب بدی کی طرف گرتا ہے تو ساری مخلوق سے گرجاتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اضداد کا مالک بنایا ہے۔ نیکی میں حصہ لیتا ہے تو ساری مخلوق سے بڑھ جاتا ہے اور بدی میں حصہ لیتا ہے تو کتوں اور سوروں سے بھی گرجاتا ہے۔ یایوں کہو کہ وہ ترقی کرتاہے تو فرشتوں سے بھی بڑھ جاتا ہے اور گرتا ہے تو شیطانوں سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ گویا لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم میں بالقویٰ قوی کا ذکر ہے اور ثم رددناہ اور الاالذین امنوا میں بالظہور قویٰ کا ذکر ہے۔ یعنی بالقویٰ تو سب کو اچھے قویٰ ملے ہیں مگر جب ان کا ظہور ہوتا ہے تو دو طرح ہوتا ہے۔ یا تو انسان مومن بن جاتا ہے اور یا کافر بن جاتا ہے۔ مومن بن کر اوپر کو نکل جاتا ہے اور کافر بن کر نیچے کی طرف گر جاتا ہے۔
الاالذین امنوا و عملوا الصلحت فلھم اجر غیر ممنون O باستثناء ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے مناسب حال عمل کئے سو ان کیلئے ایک نہ ختم ہونے والا (نیک) بدلہ ہوگا۔
تفسیر: اس آیت میں اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کا استثناء کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لاتے اور اعمال صالحہ کی بجاآوری میں ہمیشہ مشغول رہتے ہیں ان کو ہم اسفل سافلین میں نہیں لوٹاتے۔ کیونکہ وہ فطرت کو صحیح راستہ پر چلاتے اور اپنی قوتوں کا جائز اور برمحل استعمال کرتے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے احسن تقویم کے ذکر میں ثم رددناہ اسفل سافلین کو پہلے کیوں رکھاہے۔ اور الاالذین امنوا و عملوا الصلحت کا ذکر پیچھے کیوں کیا ہے؟ اور اس تقدیم و تاخیر میں کی حکمت ہے۔ ا س کا جواب یہ ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ چونکہ طبعی اور فطری قویٰ کے صحیح استعمال کا نام ہے اور جو شخص احکام الٰہیہ پر ایمان لاتا ہے اور پھر ان کے مطابق اعمال صالحہ بھی بجالاتا ہے وہ درحقیقت اس راستہ پر چلتا چلا جاتا ہے جو فطرت کا راستہ ہے اور اس کے نتیجہ میں اسے مذہب جیسی نعمت حاصل ہوتی ہے۔ اور وہ ایمان اور اعمال کی برکات سے متمتع ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا الا کہہ کر علیحدہ ذکر فرماتا ۔ اور اس طرح اسفل سافلین میں جانے والوں اور فطری استعدادوں سے صحیح طور پر کام لینے والوں میں ایک مابہ الامتیاز قائم ہوجاتا۔ رہا یہ سوال کہ اسفل سافلین میں گرنے والوں کا پہلے کیوں ذکر کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ وہ لوگ اپنی پیدائش کے مقصد کو فراموش کرنے والے تھے اس لئے ضروری تھا کہ جب یہ ذکر کیا گیا تھا کہ ہم نے انسان کو معتدل قویٰ پیدا کیا ہے اور اس کی فطرت میں نیکی اور بھلائی کی قوتیں رکھ دی ہیں وہاں ساتھ ہی اس شبہ کا ازالہ بھی کردیاجاتا کہ اگر ایسا ہے تو بعض لوگ بدکیوں ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس کا جواب یہ دیا ہے کہ گو ہم نے انسان کو اسی مقصد کیلئے پیدا کیا ہے مگر پھر بھی بعض لوگ چونکہ اپنی فطرت کو مسخ کردیتے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں کا ناجائز استعمال کرتے ہیں وہ مقام رفعت سے گر کر ذلت اور ادبار کے گڑھے میں جا پڑتے ہیں اور انسانیت کیلئے ان کا وجود ننگ و عار کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ ان کا اپنا قصور ہوتا ہے خداتعالیٰ اس کا ذمہ دار نہیں۔ اس کے بعد الا الذین امنوا و عملوا الصلحت فلھم اجر غیر ممنون کہہ کر ایمان لانے والوں اور عمل صالحہ کی بجاآوری میں مشغول رہنے والوں کا استثنیٰ کردیا اور بتادیا کہ جو لوگ احسن تقویم پر قائم رہتے اور اس رستہ پر چلتے چلے جاتے ہیں جو فطرت صحیحہ کا ہے اللہ تعالیٰ ان کو دولت ایمان سے مشرف کردیتاہے۔ اور انہیں اس بات کی بھی توفیق عطا فرمادیتا ہے کہ وہ اعمال صالحہ بجالائیں۔ گویا ایمان اور عمل صالحہ کا راستہ فطرت صحیحہ کی لائن کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ جو لوگ فطرت کو بگاڑ لیتے ہیں اور اپنے قویٰ استعدادیہ سے صحیح رنگ میں کام نہیں لیتے وہ تو اسفل سافلین میں جاگرتے ہیں لیکن وہ لوگ جو فطری اور طبعی راستہ پر چلتے چلے جاتے ہیں اپنی قوتوں کو برمحل استعمال کرتے ہیں اور فطرت کو مسخ کرنے کی کوشش نہیں کرتے ان کو ایمان بھی عطا کیا جاتا ہے اور ان میں اعمال صالحہ بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ اسفل سافلین میں نہیں لوٹائے جاتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو غیرممنون یعنی جزائے غیر مقطوع حاصل ہوتی ہے۔ اور اس طرح صحیح علم اور اس کے صحیح استعمال کی وجہ سے وہ ہمیشہ کیلئے اعلیٰ انعامات کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ امنوا میں صحیح علم کی طرف اشارہ ہے یعنی وہ علم جو مناسب حال ہو اور عملوا الصلحت میں اس علم کے صحیح استعمال یعنی صحیح عمل کی طرف اشارہ ہے اور یہی دو چیزیں ہیں جو روحانی ترقی میں کام آیا کرتی ہیں۔
فما یکذبک بعد بالدین O پس اس (حقیقت کے کھل جانے) کے بعد کونسی چیز تجھ کو جزا و سزا کے معاملے میں جھٹلاتی ہے۔
حل لغات: کذبہ کے معنے ہوتے ہیں نسبہ الی الکذب اس کی طرف کذب کا ارتکاب منسوب کیا۔ قال لہ انت کاذب یعنی اس کی نسبت کہا کہ تو جھوٹا ہے وجعلہ کاذبا یا اس کو کاذب قرار دیا (اقرب)۔ الدین کے معنے ہیں الجزاء والمکافاۃ جزا سزا ۔ الطاعۃ اطاعت۔ الحساب حساب۔ القہر والغلبۃ والاستعلاء غلبہ۔ السلطان والملک والحکم بادشاہت۔ التدبیر تدبیر۔ الاسم لجمیع مایعبد بہ اللہ مختلف مذاہب کا عبادت کا طریق۔ الورع پاکیزگی۔ المعصیۃ گناہ۔ الاکراہ جبر۔ الملۃ مذہب۔ العادۃ عادت۔ القضاء قضاء۔ الحال حال۔ الشان شان (اقرب)۔
تفسیر: کشاف کے نزدیک فما یکذبک بعد بالدین سے مراد یہ ہے کہ کونسی چیز تجھے ان دلائل کے بعد اس بات پر ابھارتی ہے کہ جزا سزا کا انکار کرکے تو کاذب ہوجائے۔ گویا ان کے نزدیک یکذب کا خطاب کفار سے ہے اور اس کے معنے جھٹلانے کے نہیں بلکہ اپنے آپ کو جھوٹا اور کاذب بنانے کے ہیں۔ عام طور پر ان معنوں کو قبول کیا گیا ہے۔ مگر یہ درست معلوم نہیں ہوتے۔ یہاں خطاب رسول کریم ﷺ سے ہے اور قاضی اور فراء کا یہی قول ہے اور مراد یہ ہے کہ جزا سزا کے متعلق اب تیری کون تکذیب کرسکتا ہے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ ماً ااپنے معروف معنوں کے سوا کبھی من کے معنے بھی دیتا ہے یہاں مصدری معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ یا تو اپنے معروف معنوں میں یعنی غیرذوی الا رواح کے لئے استعمال ہوا ہے یا من کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ اگر یہاں ما کا استعمال غیر ذی روح کے لئے سمجھا جائے تو فما یکذبک کے معنے ہونگے وہ کونسی چیز ہے جو تجھے جھٹلاتی ہے اور اگر ما کو من کے معنوں میں سمجھا جائے تو فما یکذبک بعد با لدین کے معنے ہونگے وہ کونسا شخص ہے جو تجھے جھٹلاتا ہے اس دلیل کے بعد اور بالدین کے معنے ہو نگے دین یا جزا سزا کے متعلق (با کے معنے اس صورت میں نی کے کئے جائیں گے )یا دین کے ذریعہ سے یعنی یہ تین مثالیں جو اوپر پیش کی جا چکی ہیں کہ آدمؑ آئے شیطان نے ان کا مقابلہ کیا اور اس نے سمجھا کہ میں آدم کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائوں گا مگر شیطان نے ہی شکست کھائی اور آدم کامیاب وبامراد ہوا۔پھر نوح آئے دشمن نے ان کا مقا بلہ کیا ان کو ناکام کرنے کے لئے اس نے پورا زور لگایا اور سمجھا کہ میں نوح کو شکست دینے میں کا میاب ہو جائوں گا مگر آخر نوح ہی کامیاب ہوئے اور ان کا دشمن ناکامی کی حالت میں تباہ ہو گیا۔اس کے بعد موسیٰ آئے ان کے مقابل میں بھی دشمن اپنے لشکر سمیت اٹھا اور اس نے موسیٰ کو ناکام کرنے کے لئے پورا زور لگایا مگر آخر موسیٰ ہی کا میاب ہوئے اور دشمن نا کام ہوا ۔ ان تین مثالوں کے بعد تیرے دشمن کس دلیل کی بنا پر تجھے جھٹلاسکتے ہیں اور کونسی بات ہے جووہ تیرے خلاف پیش کر سکتے ہیں ۔وہ کہیں گے کہ تو کمزور اور نا تواں ہے تو ہمارے مقا بلہ میں کا میاب نہیں ہو سکتا مگر کیا وہ نہیں دیکھتے کہ آدم بھی کمزور تھا ۔ نوح بھی کمزور تھا ۔موسیٰ بھی کمزور تھا ۔ اور ان کے متعلق بھی یہی سمجھا جاتا تھا کہ وہ کا میاب نہیں ہونگے پھر اگر وہ اپنی کمزوری کے با وجود کا میاب ہو گئے تو تو کمزور ہونے کے باوجود ان پر کیوں غالب نہیں آسکتا ۔ وہ کہیں گے تو نہتہ ہے اس لئے ہمارے مقابلہ میں تو جیت نہیں سکتا ۔ مگر وہ اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ آدم بھی نہتا تھا ۔نوح بھی نہتا تھا ۔موسیٰ بھی نہتہ تھا ۔پس وہ اگر نہتے ہو کر دنیا پر غالب آگئے تو تو نہتہ ہو کر کیوں دنیا پر غالب نہیں آسکتا ؟ غرض فرماتا ہے فما یکذبک بعد با لدین اے محمدﷺ ان مثالوں کے بعد یہ لوگ تیرے انعام پانے اور اپنے ہلاک ہونے میں دین حقہ کہ بنا پر کس طرح شک کر سکتے ہیں۔ان مثالوں کے بعد کونسی دلیل ہے جو ان کو شبہ میں مبتلا رکھ سکتی ہے یا کون سا انسان ہے جو دین کی بنا پر تیری تکذیب کرسکتا ہے ۔ گذشتہ انبیاء کے واقعات تیری صداقت کو روز روشن کی طرح واضح کر رہے ہیںاور ہر شخص جو تعصب سے خالی ہو کر ان پر غور کرے وہ یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوگا کہ فطرت صحیحہ آخر بنی نوع انسان کی مدد کے لئے ابھر آ تی ہے اور بنی نوع انسان دیر تک صداقت کا انکار نہیں کر سکتے ۔ پس جس فطرت کے ہتھیار سے سابق انبیاء اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے اسی طرح تو بھی اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائے گا ۔ دنیا بیشک مخالفت کرے وہ جس قدر منصوبے سوچنا چاہتی ہے سوچ لے ۔ آخر وہی ہو گا جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے کہ فطرت صحیحہ خدا کے رسول کی مدد کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی اور وہ غالب آگیا ۔اور اس کے دشمن ذلت اور ناکامی کی موت مرے۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ان پہلی تین مثالوں کی موجودگی میں خدا تعالی کی طرف سے آنے والے دین یعنی الہامی دین کا یہ لوگ کس طرح انکار کر سکتے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے یہاں دین کے معنے جزا سزا کے نہیں ہونگے بلکہ دین کے معنے شریعت کے ہونگے اور آیت کا یہ مفہوم ہوگا کی ان دلائل کے بعد دین کے معاملہ میں کون شخص تیرا انکار کر سکتا ہے جب وہ مانتے ہیں کہ آدم کو بھی الہام ہوا ۔نوح کو بھی الہام ہوا ۔موسیٰ کو بھی الہام ہوا اور یہ لوگ خدا تعالی کی طرف سے لوگوں کے لئے دین لائے تو اب کس طرح کہتے ہیں کہ خدا تعالی کی طرف سے الہام نہیں ہو سکتا یا اس کی طرف سے کوئی نیا دین لوگوں کی ہدائیت کے لئے نازل نہیں ہو سکتا ۔
تیسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ان دلائل کے بعد آیا کوئی بھی مذہبی دلیل تیرے خلا ف پیش کی جا سکتی ہے یقینا اگر وہ غور کریں تو انہیں تیری تکذیب کے لئے کسی مذہبی دلیل کا سہارا نہیں مل سکتا کیونکہ آدم ۔نوح اورابراہیم کی سنت تجھ میں پہلے موجود ہے جس معیار پر ان نبیوں کو پرکھا گیا اگر انہی دلائل پر تجھے پرکھا جائے تو تیری صداقت یقینا ثابت ہو گی ۔ تکذیب کا موجب وہی دلیل ہو سکتی ہے جس کی زد ان کے مسلمہ نبیوں پر نہ پڑتی ہو اور یہ ایسی کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے ۔ ان کے عقلی ڈھکونسلے تیرے ہی خلاف نہیں پڑتے بلکہ سب سابقہ انبیاء کے خلاف بھی پڑتے ہیں۔
چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ کیا اس کے بعد کوئی شخص بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ میں تدبیر کرکے تجھے جھوٹا ثابت کر دوں گا ۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ دین کے ایک معنے تدبیر کے بھی ہیں ۔پس آیت کا یہ مطلب ہوا کہ کیا اتنے بڑے نشانوں کے بود جو ہم نے تیری صداقت میں ظاہر کئے ہیں کوئی شخص یہ خیال بھی کر سکتا ہے کہ تو ہار جائے گا اور دشمن جیت جائے گا ۔
آدم آیا تو دشمن نے اس کے خلاف کتنی تدابیر کی تھیں نوح آیا تو اس کو ناکام بنانے کیلئے دشمن نے کیسی کیسی تدابیر اختیار کی تھیں۔ موسی آیا تو اس کی شکست کیلئے فرعون اور اس کے ساتھیوں نے کیسی کیسی کوششوں سے کام لیا تھا ۔ پھر اگر پہلے انبیاء کے دشمن نا کا م ہوگئے اور ان کی تدابیر کسی کام نہ آئیںتو یہ لوگ کس طرح خیال کر سکتے ہیں کہ ہم محمدﷺکے مقا بلہ میں اپنی تدابیر سے غالب آجائیں گے ۔
پانچویں معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ تقوی قائم رکھتے ہوئے کون شخص تیری مخالفت کریگا ۔ کیونکہ دین کے ایک معنے یہ ورع یعنی تقوی اور روحانیت کے بھی ہیں اور مطلب یہ ہے کہ خدا تعالی کی خشیت اور اسکی سزا کا خوف اپنے دل میں رکھتے ہوئے اور تقوی اور روحانیت کی راہوں پر چلتے ہوئے کوئی شخص تیری مخالفت نہیں کر سکتا ۔ صرف وہی گندے اور ناپاک طبع دشمن تیری مخالفت میں کھڑے ہو سکتے ہیں جن کے اندر تقوی کا ایک شائبہ بھی نہ ہو اور جو نیکی اور روحانیت کے مقام سے ایسے ہی دور ہوں جیسے مشرق سے مغرب دور ہوتا ہے ۔
چھٹے معنے یہ ہیں کہ اب اسکے بعد کون اکراہ کے ساتھ تیری تکذیب کریگا یعنی سابق دشمنوں کا انجام دیکھ کر پھر کون بد نیت ہوگا جو جبر کے ہتھیار سے تیرا مقابلہ کرنا چاہے اور یہ خیال کرے کہ میں مار پیٹ کر سیدھا کر لوں گا پہلے نبیوں کو بھی مارنے پیٹنے کی دھمکیاں دی گئیں تھیں مگر کیا ان کے دشمن کامیاب ہو گئے دشمن کا اکراہ اس کے کسی کام نہ آیا اور اس کا جبر خدا تعالی کے دین کی اشاعت کو روک نہ سکا ۔ ان مثالوں کے بعد اب ان لوگوں کے دلوں میں یہ خیال کس طرح آسکتاہے کہ ہم نے اگر جبرو تشدد سے کام لیا تو ہم کامیاب ہو جائیں گے اللہ تعالی کا دین بہرحال پھیل کر رہے گا ۔اسلام دنیا پر غالب آئے گا اور کسی قسم کی روک اس کی ترقی میں حائل نہیں ہو سکے گی۔
الیس اللہ باحکم الحکمینO کیا (اب بھی کوئی خیال کر سکتا ہے کہ )اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں
تفسیر: فرماتا ہے کیا ان سارے دلائل اور نصیحتوں کو سن کر بھی ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اللہ تعالی سے بہتر فیصلہ کرنیوالا اور کوئی نہیں ہے ۔ جس بات کا وہ فیصلہ کر دے اس کو دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی روک نہیں سکتی ۔اس نے فیصلہ کیا کہ آدم کامیاب ہو سو وہ کامیاب ہو گیا ۔ اس نے فیصلہ کیا کہ نوح کو اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہو سو اسے غلبہ حاصل ہو گیا اس نے فیصلہ کیا کی موسی کو ترقی حاصل ہو سو اسے ترقی حاصل ہو گئی اب اس نے فیصلہ کیا ہے کہ محمد ﷺ کو ترقی دے سو اسے ترقی حا صل ہو جائے گی ۔اور مکہ والوں کی ہوائی باتیں اللہ تعالی کے فیصلہ کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکیں گی اور دنیا دیکھ لے گی کہ آخری فیصلہ اللہ تعالی کے ہی ہاتھ میں ہے ۔






سورۃ العلق مکیۃ و ھی تسعہ عشرۃآیۃ دون البسملۃ و فیھا رکوع واحد
سورۃ العلق۔ یہ سورۃ مکی ہے اوراس کی بسم اللہ کے سوا انیس آیتیں ہیں اور ایک رکوع ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(میں ) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں)
یہ سورۃ بلا خلاف مکی ہے امام احمد اپنی مسند میں عن عروہ عن عائشہؓ سے یہ روایت نقل کرتے ہیںکہ قالت اول ما بدی بہ رسول اللہ ﷺ من الوحی الرؤیا الصادقۃ فی النوم فکان لا یری رؤیا الا جاء ت مثل فلق الصبح ثم حبب الیہ الخلاء فکان یاتی الحراء و فیتحنث فیہ و ھوا لتبعد اللیالی ذوات العدد و یتزود لذالک ثم یرجع الی خدیجۃ فیتزود لمثلھا حتی جاء ہ الوحی و ھو فی غار حراء فجاء ہ الملک فیہ فقال اقرء قال رسول اللہ ﷺ فقلت ما انا بقاری ء قال فاخذنی فغطنی حتی بلغ منی الجھد ثم ارسلنی فقال اقرأ فقلت ما انا بقاری ء فغطنی الثالثۃ حتی بلغ منی الجہد ثم ارسلنی فقال اقرأ باسم ربک الذی خلق حتی بلغ مالم یعلم قال فرجع بھا ترجف بوادرہ حتی دخل علی خدیجۃ فقال زملونی۔ زملونی۔ فزملوہ حتی ذھب عنہ الروع فقال یا خدیجۃ مالی واخبرھا الخبر و قال قد خشیت علی نفسی فقالت لہ کلا أبشرفواللہ لا یخزیک اللہ ابدا انک لتصل الرحم و تصدق الحدیث و تحمل الکل و تقری الضیف و تعین علی نوائب الحق ثم انطلقت لہ الخدیجۃ حتی اتت بہ ورقۃ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی بن قصی و ھوا بن عم خدیجۃ اخی ابیھا و کان امرء تنصرفی الجاہلیۃ و کان یکتب الکتاب العربی و کتب بالعبرانیۃ من الانجیل ماشاء اللہ ا یکتب و کان شیخا کبیرا قد عمی فقالت خدیجۃ ای ابن عم اسمع من ابن اخیک فقال ورقۃ ابن اخی ما تری فاخبرہ رسول اللہ ﷺ بما رأ ی فقال ورقۃ ھذا الناموس الذی انزل علی عیسی لیتنی فیہ جذعا لیتنی اکون حیا حین یخرجک قومک فقال رسول اللہ ﷺ او مخرجی ھم فقال ورقۃ نعم لم یات رجل قط بماجئت بہ الا عودی و ان یدرکنی یومک انصرک نصرا مؤزرا ثم لم ینشب ورقۃ ان توفی و فترالحی فترۃ حتے حزن رسول اللہ ﷺ فیما بلغنا حزنا غدا منہ مرارا کی یتردے من رء وس شواھق الجبال فکلما اوفی بذروۃ جبل لکی یلقی نفسہ منہ تبدی لہ جبریل فقال یا محمد انک رسول اللہ حقا فیسکن بذالک جاشہ و تقربہ نفسہ فیرجع فاذ طالت علیہ فترۃ الوحی غدا لمثل ذالک فاذا اوفی بذروۃ الجبل تبدی لہ جبریل فقال لہ مثل ذالک و ھذا الحدیث مخرج فی الصحیحین من حدیث الزھری۔ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ پر ابتداء میں جو وحی نازل ہوئی وہ رئویا ء صادقہ کی صورت میں نازل ہوئی تھی۔ آپ جو بھی خوا ب دیکھتے وہ ایسے واضح رنگ میں پوری ہوجاتی جیسے فجر کا طلوع ہوتا ہے اس کے بعد رسول کریم ﷺ کے دل میں یہ رغبت پیدا ہوئی کہ آپ خلوت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ بعض دوسری حدیثوں میں آتا ہے کہ ان دنوں رسول کریم ﷺکو خلوت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے زیادہ اور کوئی چیز پیاری نہیں تھی۔ چنانچہ آپ غارِ حراء میں جاتے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے۔ عبادت کا یہ طریق تھا کہ آپ کئی کئی راتیں غارِ حرا میں بسر کردیتے اور دن رات اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی عبادت میں مشغول رہتے۔ جتنا عرصہ آپ نے عبادت کا ارادہ کیا ہوتا اتنے عرصہ کیلئے آپ حرا ء مین ہی اپنا زاد لے جاتے اورجب وہ ختم ہوجاتا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے وہ اتنا ہی اور زاد تیار کرکے دے دیتیں اور آپ پھر اس کو ساتھ لے کر عبادت کیلئے غارِ حراء میں چلے جاتے۔ ایک دن آپ اسی طرح غارِ حراء میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہے تھے کہ آپ پر وحی الٰہی کا آغاز ہوگیا۔ ایک فرشتہ آپ کے پاس آیا اور اس نے کہا اقرا یعنی پڑھ! رسول کریم ﷺ نے فرمایا ما انا بقاری ء میں تو پڑھنانہیں جانتا۔ قال فاخذنی فغطنی ۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جب میں ے یہ جواب دیا تو اس نے مجھے پکڑا اور بھینچنا شروع کردیا۔ غطی کے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کو پانی میں ڈبودینا۔ لیکن محاورہ میں غطی بھینچنے کو کہتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں اس نے مجھے بھینچا اور اتنا بھینچا کہ حتی بلغ منی الجھد میری مقابلہ کی طاقت ختم ہوگئی۔ یعنی میں نے سمجھا کہ اگر اس نے اب مجھے زیادہ بھینچا تو میں مرجائوں گا۔ اس کے بعد اس نے مجھے چھوڑ دیا ور پھر کہا پڑھ! میں نے کہا میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ اس نے پھر مجھے بھینچا یہاں تک کہ میری مقابلہ کی طاقت ختم ہوگئی۔ اس پر اس نے پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا اقرا۔ پڑھ! میں نے کہا میں توپڑھنا نہیں جانتا۔ اس نے تیسری دفعہ پھر مجھ بھینچا یہاں تک کہ میری مقابلہ کی طاقت ختم ہوگئی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور (اس سورۃ کی یہ آیات پڑھنے کو) کہا اقرأ باسم ربک الذی خلقO خلق الانسان من علق O اقرا و ربک الاکرم الذی علم بالقلم O علم الانسان مالم یعلم ۔
اس کے بعد روای کے اپنے الفاظ میں حدیث آتی ہے کہ رسول کریم ﷺ اس واقعہ کے بعد فوراً اپنے گھر واپس آئے اور آپ کی حالت یہ تھی کہ اس وقت آپ کے کندھے خوف سے کانپ رہے تھے۔ رسول کریم ﷺ جب اپنے گھر پہنچے تو آپ نے حضرت خدیجہؓ سے فرمایا زملونی۔ زملونی مجھے کپڑا اوڑھادو۔ مجھے کپڑا اوڑھادو۔ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو کپڑوں سے ڈھانک دیا یہاں تک کہ آپ کا خوف دور ہوگیا۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے فرمایا خدیجہ! مجھے کیا ہوگیا ہے؟ پھر آپ نے ساری بات سنائی اور فرمایا کہ مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر پید اہوگیا ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا ایسا خیال مت کیجئے بلکہ آپ خوش ہوجائیے۔ مجھے اللہ ہی کی قسم وہ آپ کو کبھی نہیں چھوڑے گا کیونکہ آپ اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، ہر سچی بات کی آپ تصدیق کرتے ہیں، خداتعالیٰ کی کسی بات کا انکار نہیں کرتے،جو لوگ اپنا بوجھ نہیں اٹھاسکتے ان کے بوجھ آپ خود اٹھاتے ہیں، ہر آنے جانے والے کی مہمان نوازی کرتے ہیںاور جو لوگ ایسی مصائب میں مبتلاہوںکہ اس میں ان کی شرارت کا دخل نہ ہو بلکہ حوادثِ زمانہ کی وجہ سے انہیں تکلیف پہنچی ہو آپ ان کا بوجھ بڑھاتے ہیں۔ پھر حضرت خدیجہؓ نے رسول کریم ﷺ کو اپنے ساتھ لیا اور آپ کوورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو حضرت خدیجہؓ کے ابن عم یعنی چچا زاد بھائی تھے۔ یہ ورقہ بن نوفل ان لوگوں سے میں سے جو زمانۂ جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے۔ وہ تورات کو عربی زبان میں لکھوایا کرتے تھے (یا اندھا ہوجانے سے پہلے لکھا کرتے تھے) اور جتنی خداتعالیٰ توفیق دیتا عبرانی زبان سے انجیل بھی لکھوایا کرتے تھے (یعنی اس کا عربی میں ترجمہ کرنے کی کوشش کرتے تھے) و کان شیخا کبیرا قد عمی اور وہ ایک بوڑھے آدمی تھے جو بڑھاپے میں آکر نابیناہوگئے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے ان سے مختصرا سب حال کہا اور کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے! اپنے بھائی کے بیٹے کے منہ سے سب بات سن لو۔ ورقہ نے کہا اے میرے بھائی کے بیٹے تو نے کیا دیکھا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے جو کچھ دیکھاتھا وہ تفصیلاً بتایا۔ ورقہ نے تمام باتیں سن کر کہا یہ تو وہی ناموس ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ کاش! میںاس وقت جوان ہوتا۔ کاش! میں اس وقت زندہ ہوتا جب تیری قوم تجھے نکال دے گی۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا او مخرجی ھم کیا میری قوم مجھے نکال دے گی؟ ورقہ نے کہا ہاں ہاں تیری قوم تجھے نکال دے گی کیونکہ آج تک کوئی شخص اس تعلیم کو لے کر نہیں آیا جس تعلیم کو تو لے کر کھڑا ہوا ہے۔ مگر اس کی قوم نے اس سے ضرور دشمنی کی ہے۔ اگر مجھے بھی وہ دیکھنا نصیب ہوا جب تو اپنی قوم کے سامنے اس تعلیم کا اعلان کرے گا اور قوم تیری شدید مخالفت کرے گی یہاں تک کہ وہ تجھے اس شہر میں سے نکال دے گی تو میں کمر باندھ کر تیری مدد کروں گا۔ مگر اس واقعہ کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد ورقہ بن نوفل فوت ہوگئے اور وحی میں وقفہ پڑھ گیا۔ ہمیں لوگوں کی طرف سے خبریں پہنچیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ فترۃ وحی سے رسول کریم ﷺ کو بہت ہی غم ہوا۔ کئی دفعہ آپ باہر جاتے اور ارادہ کرتے کہ کسی اونچے پہاڑ کی چوٹی سے اپنے آپ کو نیچے گرا دیں مگر جب کبھی آپ پہاڑ کی کسی چوٹی پر اس ارادہ کے ساتھ جاتے کہ اپنے آپ کو نیچے پھینک دیں تو جبریل آتے اور کہتے اے محمد ﷺ آپ تو اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ اس سے آپ کا جوش تھم جاتا، آپ کا نفس ٹھنڈا ہوجاتا اور آپ واپس لوٹ آتے۔ مگر جب فترۃ وحی کا زمانہ لمبا ہوگیا تو ایک دفعہ پھر آپ اسی ارادہ سے نکلے اور پہاڑ کی چوٹی پر گئے مگر وہاں آپ کو پھر جبریل نظر آئے اور انہوں نے پھر اسی قسم کی بات سنی۔
یہ روایت ابتداء وحی کے متعلق مسند احمد بن حنبل میں آتی ہے۔ امام بخاری نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب کے ابتدائی باب یعنی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ میں درج کیا ہے۔ اسی طرح بخاری جلد ۴ باب التعبیر میں بھی یہ حدیث آتی ہے مگر مسند احمد بن حنبل اور بخاری کی اس روایت میں کسی قدر فرق پایا جاتا ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ اس حدیث میں آتا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول کریم ﷺ سے کہا تصدق الحدیث مگر بخاری باب کیف کان بدء الوحی میں جو حدیث درج ہے اس میں تکسب المعدوم کے الفاظ آتے ہیں۔ یعنی وہ خوبیاں جو دنیا سے معدوم ہوچکی ہیں وہ آپ کمارہے ہیں مطلب یہ کہ وہ اخلاقِ فاضلہ جن پر دنیا عمل نہیں کرتی ان پر آپ کا عمل پایا جاتا ہے۔
دوسرے بخاری کی ابتدائی حدیث میں ورقہ بن نوفل کے متعلق یہ ذکر نہیں آتا کہ کان یکتب الکتاب العربی وہ تورات کو عربی زبان میںلکھوایا کرتے تھے (اصل الفاظ یکتب کے ہیںجس کے معنے لکھنے کے ہیں لیکن چونکہ وہ اندھے ہوگئے تھے اس لئے اس کے معنے یہاں لکھوانے کے ہیں۔ ان معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوجاتا ہے یا پھر اس کے یہ معنی ہیںکہ اندھا ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے)۔
تیسرے اس حدیث میں یہ ذکر آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کئی دفعہ پہاڑ سے اپنے آپ کو نیچے گرادینے کا اردہ کیا لیکن بخاری کی وہ حدیث جو باب باب کیف کان بدء الوحی میں آتی ہے۔ اس میں اس واقعہ کا ذکر نہیں آتا لیکن بخاری جلد ۴ باب علم التعبیر میں جو حدیث آتی ہے اس میں تصدق الحدیث کے بھی الفاظ ہیں۔ کان یکت الکتاب العربی کے بھی الفاظ ہیں اور اس واقعہ کا بھی ذکرآتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کئی دفعہ پہاڑ کی چوتی سے اپنے آپ کو گرادینے کا ارادہ کیا۔
چوتھے اس حدیث میں یہ ذکر آتا ہے کہ ورقہ بن نوفل نے کہا یہ وہی ناموس ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا۔ لیکن بخاری میں یہ ذکر آتا ہے کہ اس نے کہا ھذ الناموس الذی انزل علی موسٰی یہ وہی ناموس ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔
بہرحال اس معمولی فرق کے باوجود نفسِ مضمون دونوں حدیثوں کا ایک ہی ہے۔ چنانچہ اسی حدیث کی بناء پر شراح اور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ پہلی وحی ہے جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی۔
ابن کثیر کہتے ہیں کہ فاول شی ء نزل من القران ھذہ الایات الکریمات المبارکات و ھن اول رحمۃ رحم اللہ بھا العباد و اول نعمۃ انعم اللہ بھا علیھم ۔ یعنی یہ قرآن کریم کی پہلی بزرگ اور مبارک آیات ہیں جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئیں۔ یہ پہلی رحمت ہیں جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرمایا اور پہلی نعمت ہیں جس کے ذریعہ اس نے اپنے فضل سے انہیں سرفراز فرمایا۔
اس جگہ ضمنی طور پر میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کی بعض آیات میں بعض انبیاء کی جو خوبیاں بیان کی گئی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرلیتے ہیں کہ وہ خوبیاں ان میں ساری دنیا کے مقابلہ میں ممتاز طور پر پائی جاتی تھیں حالانکہ یہ درست نہیں ہوتا۔ زبان کا یہ عام قاعدہ ہے کہ جب کسی کی خاص طور پر کوئی خوبی بیان کی جاتی ہے تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ اسے ساری دنیا کے مقابلہ میں اس خوبی کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہے مراد محض اس زمانہ یا اس کی قوم یا خاندان کے لوگ ہوتے ہیں۔ مثلاً اسی جگہ پر ابن کثیر یہ نہیں کہتے کہ ھن اول رحمۃ رحم اللہ بھا علی امۃ المحمدیۃ یہ وہ پہلی رحمت ہے جو امت محمدیہ پر نازل ہوئی بلکہ کہتے ہیں ھن اول رحمۃ رحم اللہ بھا العباد۔ یہ آیات وہ پہلی رحمت ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم و کرم کی بارش کا آغاز فرمایا۔ پھر وہ کہتے ہیں و اول نعمۃ انعم اللہ بھا علیھم۔ یہ پہلی نعمت ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے آئی اور جس کے ذریعہ اس نے اپنے بندوں پر بہت بڑا انعام نازل فرمایا۔ حالانکہ عیسیٰؑ کا کلام اس سے پہلے اتر چکا تھا۔ موسیٰؑ کی کتاب اس سے پہلے آچکی تھی، ابراہیمؑ کے صحف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوچکے تھے۔ درحقیقت یہ ایک محاورہ ہے جو عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ سننے والا پاگل نہں۔ جب ہم کہیں گے کہ فلاں میں یہ خوبی پائی جاتی ہے تو لازماً وہ اسے ایک زمانہ کے لوگوں تک محدود رکھے گا۔ یہ نہیں سمجھے گا کہ شروع سے لے کر قیامت تک کے لوگوں پر اسے فضیلت حاصل ہوگئی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں بعض انبیاء کی جو خوبیان بیان کی گئی ہیں وہ بھی اسی طرح اپنے اپنے زمانہ کے لحاظ سے ہیں نہ کہ ساری دنیا کے لحاظ سے۔ جس طرح اس جگہ ابن کثیر نے قرآن کریم کی ان آیات کو پہلی رحمت اور پہلی نعمت قرار دیا ہے حالانکہ عیسٰیؑ اور موسیٰؑ اور ابراہیمؑ اور نوحؑ سب اللہ تعالیٰ کا کلام لاچکے تھے۔ بہرحال چونکہ رسول کریم ﷺ کی امت پر پہلی رحمت تھی جو اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوئی اس لئے انہوں نے اپنے زمانہ کے لحاظ سے اسے پہلی رحمت قرار دیا۔
ابن عباسؓ کہتے ہیں ھی اول ما نزل من القران (فتح البیان)۔ یہ قرآن میںسے پہلا حصہ ہے جو نازل ہوا۔ ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں ھذہٖ اول سورۃ انزلت علی محمد ﷺ (فتح البیان) یہ پہلی سورۃ ہے جو رسول کریم ﷺ پر نازل کی گئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی یہی روایت ہے یا پھر لکھا ہے و قد ذھب الجمھور ان ھذہ السورۃ اول ما نزل من القران ثم بعدہ ن والقلم ثم المزمل ثم المدثر (فتح البیان) کہ جمہور کا مذہب یہی ہے کہ یہ پہلی سورۃ ہے جو قرآن کریم میں سے نازل ہوئی ۔ اس کے بعد نون والقلم نازل ہوئی پھر مزمل نازل ہوئی اور پھر مدثر نازل ہوئی۔
اسی سلسلہ میں بخاری میں کیف کان بد ء الوحی کے باب کے تحت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں ایک دفعہ گھر سے باہر جارہا تھا کہ میں نے آسمان پر اسی فرشتہ کو دیکھا جو غارِ حرا میں آیا تھا کہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے۔ اس سے میں بہت مرعوب ہوا۔ میں گھر آیا اور کہا زملونی زملونی۔ فانزل اللہ تعالی یاایھا المدثر قم فانذر فاھر فحمی الوحی و تتابع یعنی جب میں گھر آیا اور مجھ پر کپڑا اوڑھادیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے سورئہ مدثر کی یہ آیات نازل کیں کہ یاایھا المدثر قم فانذر و ربک فکبر و ثیابک فطھر والرجز فاھجر۔ اس کے بعد وحی جلد جلد نازل ہونی شروع ہوگئی۔ ان دنوں اقوال میں بظاہر کچھ اختلاف نظر آتا ہے یعنی خازن نے دوسری روایت کو نقل کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اقرا کے بعد سورئہ نون والقلم نازل ہوئی۔ پھر سورئہ مزمل نازل ہوئی اور پھر سورئہ مدثر نازل ہوئی۔ اور بخاری کی روایت سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اقرا کے بعد مدثر نازل ہوئی۔ لیکن یہ اختلاف حقیقی نہیں درحقیقت ایک امر کے نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ اختلاف پیدا ہوا ہے۔ لوگ عام طور پر خیال کرتے ہیں کہ اقرا باسم ربک الذی خلق کے بعد فترۃ وحی ہوئی ہے حالانکہ جو حدیث بخاری میںبیان ہوئی ہے اس سے یہ پتہ نہیں لگتا ۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول کریم ﷺ پر وحی نازل ہوئی ہے اس کے کچھ عرصہ بعد ورقہ بن نوفل فوت ہوئے اور پھر فترۃ کا زمانہ آگیا۔ درمیانی عرصہ کا اس حدیث میں ذکر نہیں کیا گیا۔ فترۃ وحی چونکہ ایک اہم مسئلہ تھا اس لئے اس کا ذکر کردیا گیا مگر اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اقرا کے بعد فترۃ ہوئی بلکہ اقرا کے بعد کچھ اور کلام نازل ہوا تھا اور اس کے بعد فترۃ ہوئی ہے اور یہی بات قرین قیاس بھی ہے ۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ اقرا باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق۔ اقرا و ربک الاکرم الذی علم بالقلم۔ علم الانسان مالم یعلم۔ تو اس میں تو کوئی حکم بیان نہیں ہوا پھر کیا حکم دیا تھا جس کے متعلق اقرا کہا گیا تھا۔ اقرا کا لفظ صاف بتاتا ہے کہ کوئی باتیں رسول کریم ﷺنے لوگوں سے کہنی ہیں۔ وہ کہنے والی باتیںبہرحال اقرا کے بعد نازل ہونی چاہئے تھیں۔چنانچہ اقرا کے بعد نون والقلم نازل ہوئی اور اس کے بعد سورۃ مزمل نازل ہوئی اور پھر فترۃ کا زمانہ آگیا۔ پس میرے نزدیک اصل واقعہ یہ ہے کہ اقرا کی ابتدائی آیات اور اسی طرح نون والقلم اور سورۃ المزمل کی کچھ آیات پہلے نازل ہوئیں پھر فترۃ وحی ہوئی اور اس کے ختم ہونے پر سورۃ المدثر نازل ہوئی۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جو حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ما انا بقاری اس کا یہ مفہوم نہیں تھا کہ میں کتاب نہیں پڑھ سکتا کیونکہ کتاب تو اس جگہ کوئی پیش ہی نہیں تھی۔ ایک حدیث میں بیشک آتا ہے کہ جبریل کے ہاتھ میں ایک کپڑا تھا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ مگر اس حدیث میں یہ ذکر نہیں آتا کہ جبریل نے وہ کپڑا دکھا کر رسول کریم ﷺ سے یہ کہا ہو کہ اس پر جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھو کیونکہ اس حدیث میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں کیا پڑھوں۔ اگر اس نے کپڑا دکھا کر کچھ پڑھنا ہوتا تو آپ یہ نہ کہہ سکتے کہ میں کیا پڑھوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ماانا بقاری ئٍ کے الفاظ رسول کریم ﷺ نے انکسار کے طور پر استعمال فرمائے تھے آپ ڈرتے تھے کہ میں عہدئہ نبوت کی اہم ذمہ داریوں کو پوری خوش اسلوبی سے ادا بھی کرسکوں گا یا نہیں۔ یہی حال ہر نبی کا ہوتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انہیں فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصاحت رکھتا ہے اسے بھی میرے ساتھ بھجوادیئے ایسا نہ ہو کہ میں اپنی ما فی الضمیرکو وہاں عمدگی سے بیان نہ کرسکوں اور اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرجائوں ۔ یہ تو قرآن کریم کا بیان ہے تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون کا نام نہیں لیا بلکہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت کا کام ان کے سپردکیا گیا تو انہوں نے کہا
’’اے میرے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں ۔ جس کو چاہے تو اس کے وسیلہ سے بھیج‘‘۔ (خروج باب ۴ آیت ۱۳)
یعنی میں اس خدمت کا اہل نہیں کسی اور شخص کو اس عہدہ پر کھڑا کردے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی یہ کام سپرد کردیا۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام جب چالیس دن کیلئے پہاڑ پر گئے تو بعد میں حضرت ہارونؑ بنی اسرائیل کو سنبھال نہ سکے۔ باوجود ان کے منع کرنے کے وہ شرک میں مبتلا ہوگئے اور بچھڑے کی پرستش کرنے لگ گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتادیا کہ دیکھ لو انتخاب وہی صحیح تھا جو ہم نے کیا۔ تم نے اپنے لئے ہارون کا انتخاب کیا تھا مگر ہارون قوم کی نگرانی نہ کرسکا۔
بہرحال اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب نبوت کا کام کسی عظیم الشان انسان کے سپرد کیا جاتا ہے تو طبعی طور پر وہ گھبراتا اور ہچکچاہٹ کا اظہار کرتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں میں اپنے فرائض کی بجاآوری میں کسی کوتاہی کا مرتکب نہ ہوجائوں۔ رسول کریم ﷺ کی طبیعت میں حجاب بھی تھا، انکسار بھی تھا، اپنے اہم فرائض کو دیکھتے ہوئے خوف بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے استغناء کا بھی آپ کو احساس تھا اور ادب کی وجہ سے آپ یہ کہنا بھی مناسب نہ سمجھتے تھے کہ میری جگہ کسی اور جگہ کو مقرر کردے میں اس کام کے قابل نہیں۔ ان وجوہ کی بنا ء پر جیسے تجاہل عارفانہ کے طور پر کوئی بات کہہ دی جاتی ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ حالانکہ اس وقت آپ کو پڑھنے کیلئے نہیں کہا گیا تھا۔ درحقیقت یہ ادب کا طریق تھا جو رسول کریم ﷺ نے اپنے جذبات کے اظہار کیلئے اختیار فرمایا۔ آپ نے سمجھا کہ براہ راست انکار کرنا تو اللہ تعالیٰ کی حکم کی نافرمانی ہوگی اور اگر میں نے کہا کہ میں اس کام کے قابل نہیں تو یہ بھی ادب کے خلاف ہوگا اس لئے میں کوئی اور رنگ اختیار کروں۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ نے یہ رنگ اختیار کیا کہ آپ نے فرمایا ماانا بقاری ئٍ میں تو پڑھے لکھے آدمیوں میں سے نہیں ہوں۔ میں نے کیا کام کرنا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ خود فرشتہ نے بھی آخر میں ظاہر کردیا تھا کہ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ پڑھو بلکہ مطلب یہ تھا کہ جو کچھ میں کہتا جائوں اسے ساتھ ساتھ دہراتے جائو۔ قرا کے دونوں معنی ہوتے ہیں کسی چیز کو دہرانا یا لکھے ہوئے کو پڑھنا۔ پس جب فرشتے نے کہا اقرا تو درحقیقت اس کے یہ معنے نہ تھے کہ لکھے ہوئے کو پڑھو۔ کیونکہ لکھا ہو اپڑھنا اس وقت مدنظر ہی نہیں تھا۔ فرشتے کامقصد صرف یہ تھا کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے زبانی دہراتے جائو چنانچہ جب رسول کریم ﷺ نے ان الفاظ کو دہرادیا تو چونکہ اس کا مقصد حاصل ہوگیا اس لئے وہ واپس چلا گیا۔
ابتداء وحی ایک نہایت اہم مسئلہ ہے جیسا کہ ابن کثیر نے نے کہا ہے کہ یہ پہلی رحمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا اور پہلی نعمت ہے جس سے اس نے اپنے فضل سے انہیں حصہ عطا فرمایا۔ پس اس سورۃ کی ابتدائی آیات اس لحاظ سے خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیںکہ یہ قرآن کریم کیلئے بمنزلہ بیج اور گٹھلی کے ہیں اور ان آیات کے نزول کے بعد باقی قرآن نازل ہوا ہے۔ یوں تو سارا قرآن ہی اہمیت رکھتا ہے مگر جذباتی طور پر اقرا باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق ۔ ایسی اہمیت رکھنے والی آیات ہیں کہ جب انسان ان کو پڑھتا ہے اس کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور وہ کہتا ہے یہ وہ آیات ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے قرآن سے روشناس کرایا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے دوست آپس میں ملتے ہیں تو وہ ایک دوسرے سے بعدض دفعہ خاص طورپر اس امر کا ذکر کرتے ہیں کہ ان کی دوستی کا آغاز کس طرح ہوا یا میاں بیوی آپس میں مذاکرہ کرتے ہیں تو وہ بھی بعض دفعہ بڑے شوق سے یہ ذکر کرتے ہیں کہ ہمارا نکاح کس طرح ہوا۔ اگر معمولی دنیوی واقعات ایسی اہمیت رکھتے ہیں کہ انسان ان کا ذکر کرنے پر مجبور ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وہ آخری کلام جس کے ذریعہ دنیا قیامت تک ہدایت پاتی رہے گی، جس کے ذریعہ انسانی پیدائش کا مقصد پورا ہوا، جس کے ذریعہ خالق اور مخلوق کا تعلق آپس میں قائم کیا گیا، اسکی بنیاد جن آیات پر ہے ان کی اہمیت اور عظمت سے کون شخص انکار کرسکتاہے۔ جس طرح میاں بیوی شوق سے باہم ذکر کرتے ہیں کہ ہمارا نکاح کس طر ح ہوا یا دوست شوق سے یہ ذکر کرتے ہیں کہ ہماری دوستی کا آغاز کس طرح ہوا اسی طرح اقرا باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق وہ الفاظ ہیں جن کو پڑھتے ہی انسان کا دل فرطِ محبت سے اُچھلنے لگتا ہے، اُس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوجاتی ہے، اُس کے خوابیدہ جذبات میں ایک حرکت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ کہتا ہے یہ وہ آیات ہیں جن کے ذریعہ مجھے اپنے رب کا وصال حاصل ہوا۔ جن کے ذریعہ انسان اور خدا کا باہمی رشتہ جوڑا گیا اور دوستی کا وہ آخری مرحلہ قائم کیا گیا جو خدا اور بندے کے درمیان ہونا چاہئے۔ پس ابتداء وحی ایک نہایت ہی اہمیت رکھنے اور جذبات میں ہیجان پیدا کرنے والی چیز ہے۔ اسی وجہ سے دشمنوں کی بھی اس پر خاص طور پر نظر پڑی ہے اور انہوں نے ان آیات اور ابتداء وحی سے تعلق رکھنے والے واقعات سے قسم قسم کے استدلال کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ اور آپ کی وحی کی تنقیص کرنے کی کوشش کی ہے۔ کوئی کہتا ہے وحی ایک ڈھکونسلا ہے، کوئی کہتا ہے وحی ایک بیاری کا حملہ تھی۔ چنانچہ آپ کا زملونی زملونی کہنا اس پر شاہد ہے۔ کئی کہتے ہیں یہ بیماری اور جھوٹ دونوں کا اجتماع تھا۔ پھر واقعہ پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے۔ آپ کے گھبرانے پر بھی اعتراض ہے کہ آپ کو وحی پر شک تھا یا یہ اعتراض ہے کہ اپنی قالبیت پر شک تھا یا یہ کہ آپ نے خداتعالی کا حکم ماننے سے پہلو تہی کی۔ یہ بھی اعتراض ہے کہ اس وحی کی نوعیت کیا تھی۔ آیایہ مادی نظارہ یا خواب تھی جو رسول کریم ﷺ کو نظر آئی۔ غرض مختلف دشمنوں نے اپنے اپنے رنگ میں استدلال کیا ہے۔ غیر مسلم مصنفین کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ کوئی ایسی بات اُٹھائیں جس سے قرآن کریم پر حملہ ہوسکے۔ چنانچہ بعض نے یہ طریق اختیار کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں یہ وحی ایک نظارہ تھا جو رسول کریم ﷺ نے دیکھا اور چونکہ انسانی دماغ اس قسم کا نظارہ دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا اس لئے یہ غیرمعمولی او رمافوق الطبیعات نظارہ درحقیقت علامت تھی اس بات کی کہ نعوذ باللہ رسول کریم ﷺ کے دماغ میںخشکی پیدا ہوکر جنون رونما ہوگیا تھا۔ لیکن بعض دوسرے مخالفین کا دماغ اس طرف گیا ہے کہ ممکن ہے کچھ لوگ جنون کی تھیوری کو تسلیم نہ کریں اور وہ اس بات کو مان لیںکہ سچ مچ اس قسم کا واقعہ ہوسکتا ہے اور اگر انہوں نے مان لیا تو فرشتے دیکھنے یا اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے میں وہ رسول کریم ﷺ کو بنی اسرائیل کے نبیوں سے مشابہ قرار دیںگے اور یہ بڑی تکلیف دہ بات ہوگی۔ پس انہوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ کوئی نظارہ نہیں تھا جو رسول کریم ﷺ نے دیکھا بلکہ ایک خواب تھی جو آپ کو آئی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ بات ہماری روایات میں بھی بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ ابن ہشام لکھتے ہیں حتی اذا کانت اللیۃ التی اکرمہ اللہ تعالی فیھا برسالتہ و رحم العباد بھا جاء ہ جبریل علیہ السلام بامراللہ تعالی یعنی جب وہ رات آگئی جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی رسالت سے مفتخر فرمایا اور اپنے بندوں پر رحم کیاتو جبریل اللہ تعالیٰ کا حکم لے کر رسول کریم ﷺ کے پاس آئے۔ آگے لکھا ہے قال رسول اللہ ﷺ فجاء فی جبریل و انا نائم بنمط من دیباج فیہ کتاب فقال اقرا۔ قال قلت ما اقرا۔ یعنی رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں میرے پاس جبریل آیا وانا نائم اور اس وقت میں سورہا تھا ایک ریشمی کپڑا ان کے پاس تھا جس میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا پڑھو! میںنے کہا مجھے تو پڑھنا نہیں آتا۔ قال فغطنی بہ حتی ظننت انہ الموت انہوں نے مجھے خوب بھینچا یہاں تک کہ میں نے سمجھا میں مرنے لگا ہوں۔ ثم ارسلنی فقال اقرا قالت قلت ما اقرا ۔ پھر انہوں نے مجھ چھوڑ دیا اور کہا پڑھو! میںنے کہا میں تو پڑھنا نہیںجانتا۔ فغطنی بہ حتی ظننت انہ الموت انہوں نے پھر مجھ ڈھانپ لیا یہاں تک کہ میں نے سمجھا میں اب مرنے لگا ہوں۔ ثم ارسلنی فقال اقرا قلت ماذا اقرا۔ پھر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو! میں نے کہا میں کیا پڑھوں؟ مااقول ذالک الا افتداء منہ ان یعود لی بمثل ما صنع بی۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں میں نے یہ فقرہ کہ میں کیا پڑھوں اس لئے کہا تھا تا اس ذریعہ سے میں اس صدمہ سے بچ جائوں جو ان کے بھینچنے سے مجھے پہنچنا تھا۔ اس پر انہوں نے کہا اقرا باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق۔ اقرا و ربک الاکرم الذی علم بالقلم۔ علم الانسان مالم یعلم۔ قال فقراتھا۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اس پر میں نے یہ فقرے دہرائے ثم انتھی فانصرف عنی وھببت من نومی۔ پھر انہوں نے بس کردیا اور مجھ سے لوٹ کر چلے گئے اور میں اپنی نیند سے بیدار ہوگیا۔ فکانم کتب فی قلبی کتابا۔ اس وقت مجھے یوں معلوم ہوا کہ میرے دل پر یہ تمام الفاظ نقش کردیے گئے ہیں۔
اس حوالہ میںصاف طور پر نیند کا لفظ آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم اس روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے نتیجہ نکالتے ہیں کہ درحقیقت یہ ایک خواب تھی جو رسول کریم ﷺ نے دیکھی۔ اس تاویل سے ان کا منشاء یہ ہے کہ بائبل کا دعویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے انسان کو بالمشافہ نظر آتے ہیں اور وہ اسے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ اگر ہم یہ ثابت کردیں گے کہ رسول کریم ﷺ کو فرشتہ نظر نہیں آیا بلکہ ایک خواب تھی جو آپ نے دیکھی تو بائبل کے نبیوں سے آپ کی مشابہت ثابت نہیں ہوسکے گی۔ گو بخاری اور مسند احمد بن حنبل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی جو حدیث آتی ہے اس میں صاف طور پر یہ ذکر آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی آنکھوں کے سامنے جبریل کو دیکھا۔ مگر چونکہ یہ حدیث ان کے منشاء کے خلاف ہے اس لئے وہ بخاری یا مسند احمد بن حنبل کی حدیث کی بجائے ابن ہشام کی اس روایت پر اپنے دعویٰ کی بنیاد رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو کوئی فرشتہ اپنی آنکھوں سے نظر نہیں آیا صرف ایک خواب تھی جو حراء میںآپ کو آئی۔ اگر اس خواب کو درست تسلیم کرلیا جائے تب بھی انبیاء بنی اسرائیل سے آپ کی مشابہت ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ ان کو خداتعالیٰ کے فرشتے سامنے نظر آتے تھے اور رسول کریم ﷺ نے جو کچھ دیکھا وہ ایک خواب تھی۔
جن لوگوں نے اس بات پر زور دینا چاہا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے دماغ میں نعوذ باللہ کوئی نقص واقعہ ہوگیا تھا انہوںنے ابن ہشام کی روایت کو نظر انداز کرکے بخاری اور مسند احمد بن حنبل کی وہ حدیث لے لی ہے جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرشتہ کو دیکھا۔ وہ کہتے ہیں چونکہ انسانی دماغ اس قسم کا نظارہ نہیں دیکھ سکتا اس لئے یہ نظارہ علامت تھی اس بات کی کہ آپ کا دماغ نعوذ باللہ خراب ہوگیا تھا۔
میرے نزدیک یورپین مصنّفین کی نیت خواہ کچھ ہو اس بارہ میں اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ نظارہ کشف کی حقیقت کو سمجھتے ہی نہیں۔ وہ اس قدر مذہب سے دو رجاپڑے ہیں کہ کشفی نظارے ان کو بہت ہی کم نظر آتے ہیں بلکہ خوابیںبھی ان کو بہت کم آتی ہیں۔ گو خدائی سنت یہ ہے کہ ہر قسم کے طبقہ کو خوابیں دکھائی جاتی ہیں مگر پھر بھی یورپین لوگوں میں سے بعض ایسے ہیںجن کو ساری عمر میں بھی کبھی کوئی خواب نہیں آئی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دن کو کام کرتے ہیں اور رات کوناچتے ہیں پھر شراب پی کر یا نیند کی دوائیں کھاکر سوجاتے ہیں۔ اس وجہ سے انہیں ایسی خوابیں نہیں آتیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ وہ کنچنیوں کو بھی آجاتی ہیں۔ کیونکہ شراب کا نشہ ان کے دماغ کو بالکل معطل کردیتا ہے۔ پس میرے نزدیک اس بارہ میں اختلاف نظارئہ کشف کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوا ہے اور مغربی لوگ اس علم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے دھوکا کھاجاتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ جب کشف کی حالت انسان پر طاری ہوتی ہے تو جیسا کہ صاحب تجربہ لوگ جانتے ہیں اس وقت انسان اپنے آپ پر ایک ربودیت کی حالت محسوس کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے اس دنیا سے کھینچ کر کسی اور دنیا میں لے جایا گیا ہے۔ اسے اپنے اردگرد کی سب چیزیں نظر آتی ہے، مکان کی دیواریں نظر آتی ہیں، گھر کا سامان نظر آتا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی اور حالت اس پر طاری ہوگئی ہے جو اسے اس دنیا سے الگ لے گئی ہے۔ اسی طرح اس حالت کے جاتے وقت بھی انسان یوں معلوم کرتاہے کہ وہ گویا ایک غیرمعمولی حالت سے پھر حواس میں آگیا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہوتی ہے جیسے ریڈیو کو ایک میٹر سے دوسرے میٹر پر تبدیل کردیا جاتا ہے۔ پہلے وہ محسوس کرتا ہے کہ اسے اس دنیا سے کھینچ کر کسی اور دنیا میں لے جایا گیا ہے اور جب وہ حالت جاتی ہے تو وہ یکدم محسوس کرتا ہے کہ اسے کسی اور دنیا سے اس دنیا میں واپس لوٹادیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسان کو یہ معلوم ہی نہ ہوسکے کہ اس نے جو کچھ دیکھا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یا اس کے نفس کا خیال ہے۔ پس بوجہ اس کے کہ وہ حالت کامل نیند کی نہیں ہوتی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میں نے جاگتے ہوئے ایسا دیکھا اور بوجہ اس کے کہ جاگنے کی حالت پر ایک خاص تصرف کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نیند طاری ہوئی اور اس میں یہ یہ دیکھا۔ اور میں نے خود اس کاتجربہ کیا ہے اس لئے مجھے اس میں کوئی اچنبھے کی بات نظر نہیں آتی۔
پس یہ مادی نظارہ نہیں تھاجو رسول کریم ﷺ نے دیکھا۔ مگر بوجہ اس کے کہ آپ کے حواس ظاہری کام کررہے تھے ۔ ہم اسے یقظہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ درحقیقت کشف ایک مابین النوم والیقظہ کیفیت کا نام ہے چونکہ وہ حالت کامل نیند کی نہیںہوتی اس لئے یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جاگتے ہوئے فلاں نظارہ دیکھا گیا اور چونکہ جاگنے کی حالت پر خاص تصرف کیا جاتا ہے اس لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نیند کی حالت میں ہم نے ایسا نظارہ دیکھا۔ پس رسول کریم ﷺ نے بھی کسی موقع پر یہ فرمادیا کہ میںنے جاگتے ہوئے ایسا نظارہ دیکھا تھا اور کسی موقع پر آپ نے یہ فرمادیا ہوگا کہ میں نے نیند کی حالت میں ایسا نظارہ دیکھا۔ جو لوگ صاحب کشوف ہیں وہ ہمیشہ ایسے الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں ۔ کبھی کہتے ہیں میں یہ نظارہ دیکھ کر جاگ پڑ اور مرا دیہ ہوتی ہے کہ ربودگی کی کیفیت سے عام حالت میں آگیا اور کبھی کہتے ہیں میںنے جاگتے ہوئے فلاں نظارہ دیکھا اور مراد یہ ہوتی ہے کہ میرے حواس ظاہری بھی اس وقت کام کررہے تھے۔ پس یہ دونوں باتیں آپس میں کوئی اختلاف نہیںرکھتیں۔ محض کشف کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یورپین مصنفین کو غلطی لگی ہے۔
مسند احمد بن حنبل اور بخاری کی حدیث کو یوں بھی حل کیا جاسکتا ہے کہ بعض دفعہ خواب کالفظ نہیںبولا جاتا جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں قرآن کریم حضرت یوسف علیہ السلام کی رئویا کی نسبت فرماتا ہے کہ یوسف نے اپنے باپ سے کہا انی رایت احد عشر کوکبا و الشمس و القمر رایت ھم لی سٰجدین ( یوسف ۱ ع ) کہ میںنے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں یہاں خواب کا کوئی لفظ نہیں صرف اتنا ذکر ہے کہ میں نے دیکھا۔ مگر اگلی آیت میں ہی حضرت یعقوب علیہ اسلام یہ بات سن کر فرماتے ہیں یا بنی لا تقصص رویاک علی اخوتک ( یوسف ۱ ع۱۱) اے میرے بیٹے تو اس رویا کے اپنے بھا ئیوں کے سامنے بیان نہ کیجیئو۔ اب دیکھو ایک آیت میں اسے ظاہری نظارہ قرار دیا گیا ہے اور دوسری میں اسے رویا قرار دیا گیا ہے پس یہ ایک طریق بیان ہے جو عربی زبان میں رائج ہے اس سے کسی اختلاف کا ثبوت نہیں نکل سکتا۔
اصل بات یہ ہے کہ مختلف زبانوں میں الگ الگ محاورات رائج ہوتے ہے۔ عربی زبان میں ایسے نظاروں کے لئے رویا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کے معنے دیکھنے کے ہیں۔ گو محاورہ میں ایسے نظارہ کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو نیند کی حالت میں دیکھا جائے۔ لیکن فارسی میں اس کے لئے خواب کا لفظ تجویز کیا ہے جس کے معنے نیند کے ہیں ۔ یہ بھی ایک فرق ہے جو عربی زبان کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے قرآن کریم میں ہر جگہ رویا کا لفظ ہی خواب کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ در حقیقت وہی حالت اصل بیداری کی ہوتی ہے جس میں انسان خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہو گو ظاہری طور پر اس پر نیند یا ربودگی کی کیفیت طاری ہو۔ لیکن ایرانی لوگ چونکہ ماہر نہیں تھے انہوں نے خواب کا لفظ ایجاد کر لیاحا لانکہ خواب کے معنے محض نیند کے ہیں پس رسول کریم ﷺ نے اگر کسی جگہ یہ فرمایاہے کہ میں نیند سے بیدار ہو گیا اور دوسری جگہ آپ نے صرف اتنا فرمایا ہے کہ میں نے ایسا نظارہ دیکھا تو اس میں اختلاف کی کوئی بات نہیں ۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے حضرت یوسف علیہ اسلام نے جب یہ ذکر کیا کہ میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اورچاندسجدہ کرتے دیکھا ہے تو اس میں خواب کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا مگر حضرت یعقوب علیہ اسلام نے اسی نظارہ کے متعلق رویا ء کا لفظ استعما ل کر دیا جو محاورہ میں نیند کی حالت میں دیکھے ہوئے نظارہ کے متعلق بولا جاتا ہے ۔چنانچہ حضرت عائشہؓ نے بھی ان معنوں میں رویا کا لفظ استعمال کیا ہے آپ فرماتی ہیں اول ما بدی بہ رسو ل اللہ ﷺ من ا لو حی ا لرویا الصادقۃ فی ا لنو م فکان لا یری رویا الاجاء ت مثل فلق الصبح یعنی رسول کریم ﷺپر وحی الہیٰ کا آغاز رویاء صالحہ سے ہوا۔ یہاں رویا کا لفظ صرف انہی نظاروںکے لئے استعمال کیا گیا ہے جو انسان سوتے ہوئے دیکھتا ہے پس یورپین مصنفین کی طرف سے جو اختلاف پیش کیا جاتا ہے وہ در حقیقت اختلاف نہیں بلکہ محاورہ زبان کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے ۔اگر یہ رویا ء ہی تھی جو رسول کریم ﷺ نے دیکھی تو بہر حال جیسا کہ ہمیں یقین اور وثوق ہے یہ رویا ء اس قسم کی نہیں تھی جس میں انسان پر کامل نیند طاری ہوتی ہے چنانچہ حضرت عائشہ ؓبھی فرق کرتی ہیں ۔آپ ایک طرف تو یہ فرماتی ہیں کہ اول ما بدی بہ رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم من الوحی الرویا الصادقۃ فی ا لنوم۔رسول کریم ﷺ پر وحی کی ابتدارئویا صادقہ سے ہوئی جو آپ سوتے ہوئے دیکھتے مگر اس دوسری وحی کے متعلق جس میں جبریل رسول کریم ﷺ کے پاس آئے ۔ آپ فرماتی ہیں فجاء ہ الملک رسول کریم ﷺ کے پاس فرشتہ آیا۔ اس سے معلوم ہوتا کہ دونوں نظاروں میں حضرت عائشہؓ فرق کر رہی ہیں جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ غار حراء میں آپ کو جو نظارہ دکھایا گیا وہ گہری نیند والا نہ تھا بلکہ کشفی نیند والا تھا ۔ اول ابن ہشام والی روایت کے معنے گہری نیند کے نہیں بلکہ کشفی نیند کے ہیں اور آپ کے ان الفاظ کا کہ پھر میں جاگ اٹھا صرف اتنا مفہوم ہے کہ پھر میری کشفی حالت جاتی رہی ۔ پس ابن ہشام کی روائت اور بخاری و مسنداحمد بن حنبل کی حدیث میںکوئی اختلاف نہیں بلکہ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔
دوسرا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریمﷺکو اپنی رئویا پر شک تھا ۔ اس سوال کی بنیاد اس امر پر رکھی جاتی ہے کہ
الف۔رسول کریم ﷺ گھبرائے ہوئے حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے۔
باء۔ آپ نے حضرت خدیجہ ؓسے فرمایا قد خشیت علی نفسی مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر پیدا ہو گیا ہے ۔
ج۔فترۃوحی پرآپ نے اپنے آپ کو ہلاک کرنا چاہا جیسا کہ بخاری اور مسند احمد بن حنبل دونوں میں اس واقعہ کا ذکر آتا ہے ۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ گھبرانا اور خشیت علی نفسی کہنا تو اس وجہ سے تھا کہ ہر انسان کامل کے اندر یہ احساس ہوتا ہے کہ میں اپنے فرض کو ادا کر سکوں گا یا نہیں ۔ جو شخص چھچھورا ہوتا ہے یا ادنی طبقہ سے تعلق سے تعلق رکھنے والا ہوتا ہے اس کے سپرد جب کوئی کام کیا جاتا ہے تو بغیر اس کے کہ وہ عواقب پر نگاہ دوڑائے اوراپنے کام کی اہمیت کو سمجھے کہہ دیتا ہے کہ اس کام کی کیا حقیقت ہے میں اسے فورا کر لوں گا ۔لیکن عقلمند انسان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اس کے دل میں فورا گھبراہٹ پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے کہ نہ معلوم میں اپنے فرض کو ادا کر سکوں گا یا نہیں ۔ قابل اور نا قابل میں یہی فرق ہوتا ہے کہ قابل کو فورا اپنے کام کا فکر پڑ جاتا ہے مگر ناقابل کو کوئی احساس نہیں ہوتا ۔ وہ سمجھتا ہے کہ کام با لکل آسان ہے۔میں سمجھتا ہوں موجودہ جنگ میں ہی جو کام جنرل الیگزنڈریا جنرل منٹگمری یا لارڈمونٹ بیٹن کے سپرد کیا گیا ہے اگر یہی کام کسی ہندوستانی صوبیدار کے سپرد کیا جاتا اور اس سے پوچھا جاتا کہ کیا تم فوجوں کی کمان کر سکوگے ؟ تو بغیر سوچے سمجھے وہ فورا جواب دے دیتا کہ میں اس کام کو اچھی طرح سر انجام دے سکوں گا ۔ مگر یہ وہ لوگ تھے جن کے سپرد جب کام ہوا تو ذمہ داری کا احساس رکھنے کی وجہ سے ان کے دلوںمیں خوف پیدا ہوا کہ نہ معلوم ہم اپنے فرائض کو کماحقہ ادا کر سکیں گے یا نہیں ۔پس کسی کام کے سپرد ہونے پر دل میں گھبراہٹ پیدا ہونا علم کامل کی علامت ہوتی ہے نہ اس بات کی علامت کہ وہ کام کی اہلیت نہیں رکھتا رسول کریم ﷺ کا بھی نزول وحی پر گھبرانا اور آپ کا حضرت خدیجہؓسے اپنی گھبراہٹ اور اضطراب کا اظہار کرنا درحقیقت یہی معنے رکھتا ہے کہ آپ اپنے کام کی اہمیت کو سمجھتے تھے جب اللہ تعالی نے دنیا کی اصلاح کا کام آپ کے سپرد کیا تو فوراآپ کو فکر شروع ہو گیا کی اتنا بڑا کام جو میرے سپرد کیا گیا ہے نہ معلوم میں اسکو الہیٰ منشاء کے مطابق سر انجام دے سکوںگا یا نہیں ۔آپ کے سپرد جو کام کیا گیا اور جس کا پہلی وحی میں بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کردیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ اقرا باسم ربک ا لذی خلق۔ خلق ا الا نسان من علق۔ اقرا وربک ا لا کرام ۔ا لذی علم با لقلم ۔ علم ا الانسان ما لم یعلم ۔ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ سے فرمایا آج جن لوگوں کے ہاتھوں میں قلمیںہیںجو بڑے بڑے علوم کے ماہر سمجھے جاتے ہیں جن کو اپنے تجربہ اور اپنی علمی نگاہ کی وسعت پر ناز ہے ۔ تو ان کو وہ علم سکھا جو ان کے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی نہیں۔ اور ان علوم اور معارف سے انہیں بہرہ ور فرما جو آج دنیا کی کسی کتاب میں بھی نہیں ملتے ۔ یہ سیدھی بات ہے کہ جب ایک امی کو یہ کہا جائے گا کہ دنیا نے کتا بیں لکھیںمگر بیکار ثابت ہوئیں اور وہ دنیا کی ہدایت کا موجب نہ بن سکیں۔ اب اے شخص ہم تیرے سپرد یہ کام کرتے ہیں کہ جو علوم آج تک بڑی بڑی کتایں لوگوں کو سکھا نہیں سکیں وہ علوم تو ہمارے حکم سے لوگوں کو سکھا۔ تو لازماً اس اس کے جسم پر کپکپی طاری ہوجائے گی کہ اتنا بڑا کام میں کس طرح کرسکوں گا۔ بیشک ایک پاگل کو جب یہ کہا جائے گا تو وہ خوش ہوجائے گا اور کہے گا کہ یہ کونسا بڑا کام ہے مگر عقلمند کادل خوف سے بھر جائے گا اور وہ کہے گا اتنا بڑا کام میں کس طرح کرسکوں گا۔ پس رسول کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ قد خشیت علی نفسی آپ کے علم کامل پر ایک زبردست گواہ ہے۔ وہ لوگ جو اس واقعہ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ رسول کریم ﷺ کے دماغ میں نقص واقع ہوگیا تھا انہیں غور کرنا چاہئے کہ کیا پاگل بھی کبھی گھبراتا ہے؟ اسے تو اگر کہا جائے کہ کیا تم ساری دنیا فتح کرسکتے ہو تو وہ فوراً کہہ دے گا یہ کونسی مشکل بات ہے۔ مگر وہ جسے اپنی ذمہ واری کا احساس ہوتا ہے، جو کام کی اہمیت کو سمجھتا ہے، جو فرائض کی بجاآوری کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنے کیلئے تیار رہتا ہے وہ کام کے سپرد ہونے پر لرز جاتا ہے۔ اس کا جسم کانپ اٹھتا ہے اور اس کے دل میں بار بار یہ خیال آنا شروع ہوجاتا ہے کہ ایسا نہ ہو میں اپنی کسی غفلت کی وجہ سے ناکام ہوجائوں اورجو کام میرے سپرد کیا گیا ہے اس کو سرانجام دینے سے قاصر رہوں۔
تاریخ اسلام میں اس کی ایک موٹی مثال موجود ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ اپنے خلافت کے آٹھ سالہ عرصہ میں دنیا کی کایا پلٹ دیتے ہیں ، روم اور ایران کو شکست دے دیتے ہیں، عرب کی سرحدوں پر اسلامی فوجیں بھجوا کر اسے ہر قسم کے خطرات سے محفوظ کردیتے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کیلئے وہ کام کرتے ہیں جو قیامت تک ایک زندہ یادگار کی حیثیت سے قائم رہنے والا ہے۔ مگر جب آپ روم کو شکست دے دیتے ہیں، جب ایران کو شکست دے دیتے ہیں، جب یہ دو زبردست ایمپائر اسلامی فوجوں کے متواتر حملوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی ہیں، جب عمرؓ کا نام ساری دنیا میں گونجنے لگتا ہے، جب دشمن سے دشمن بھی یہ تسلیم کرتا ہے کہ عمرؓ نے بہت بڑا کام کیا۔ اس وقت خود عمرؓ کی کیا حالت تھی۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ جب آپ وفات پانے لگے تو اس وقت آپ کی زبان پر بار بار یہ الفاظ آتے تھے کہ رب لا علی ولا لی اے میرے رب! میں سخت کمزاور ور خطار کار ہوں ۔ میں نہیں جانتا مجھ سے اپنے کام کے دوران میں کیا کیا غلطیاں سرزد ہوچکی ہیں۔ الٰہی میں اپنی غلطیوں پر نادم ہوں۔ میں اپنی خطائوں پر شرمندہ ہوں اور میں اپنے آپ کو کسی انعام کا مستحق نہیں سمجھتا۔ صرف اتنی التجا کرتا ہوں کہ تو اپنے عذاب سے مجھے محفوظ رکھ۔
غور کرو اور سوچو کہ ان الفاظ سے حضرت عمر کی کتنی بلند شان ظاہر ہوتی ہے۔ آپ کے سپرد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کام کیا گیا اور آپ نے اس کو ایسی عمدگی سے سرانجام دیا کہ یورپ کے شدید سے شدید دشمن بھی اس کام کی اہمیت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ مگر چونکہ آپ کے دل پر خدا کا خوف طاری تھا آپ نے سمجھا کہ بے شک میں نے کام کیا ہے مگر ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ کام چاہتا ہو اور میں جس کام کو اپنی خوب سمجھتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں خوبی نہ ہو۔ اس لئے باوجود اتنا بڑا کام کرنے کے وفات کے وقت آپ تڑپتے تھے اور بار بار آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوتے تھے کہ رب لا علی ولا لی ۔ خدایا میں تجھ سے کسی انعام کا طالب نہیں صرف اتنی درخواست کرتا ہوں کہ تو مجھے اپنی سزا سے محفوظ رکھ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں نے کوئی کام نہیں کیا۔ مجھے خدمت کا حق جس رنگ میں ادا کرنا چاہئے تھا اس رنگ میں ادا نہیں کیا۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ پر نزول وحی کے بعد جو گھبراہٹ طاری ہوئی اس کی وجہ درحقیقت یہی تھی کہ آپ کیدل میں خوف پیدا ہوا کہ میرے سپرد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عظیم الشان کام کیا گیا ہے نہ معلوم میں اس کو ادا کرسکتا ہوں یا نہیں۔پس رسول کریم ﷺ کا یہ فعل وحی الٰہی پر شک کی وجہ سے نہ تھا بلکہ خداتعالیٰ کی شان کے انسانی دماغوں سے بالاتر ہونے پر یقین کامل کے نتیجہ میں تھا اور آپ کو یہ فکر لگ گیا تھا کہ میں اس کام کیلئے خواہ کتنی بھی قربانی کروں نہ معلوم اللہ تعالیٰ کے ارادوں کے مطابق میں بلند ہوسکوں گا یا نہیں اور اللہ تعالیٰ کی بلند شان سے خوف کرنا جرم نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے اور خداتعالیٰ کے علو مرتبت کو مدنظر رکھتے ہوئے برا نہیں بلکہ اس کی بے نظیر خشیت الٰہی کا ایک بین ثبوت ہے جو رسول کریم ﷺ کے قلب مطہر میں پائی جاتی تھی۔
باقی رہا یہ کہ آپ نے خودکشی کا ارادہ کیا سو اول تو دوسری احادیث سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی لیکن اگر اسے تسلیم بھی کرلیا جائے تو صاف پتہ لگتا ہے کہ آپ نے جو فعل کیا وہ وحی الٰہی کے رکنے کے بعد کیا۔ اگر آپ کے دل میں یہ خیال ہوتا کہ نعوذ باللہ مجھ پر شیطان نے اپنا کلام نازل کیا ہے یا کلام الٰہی کے بارہ میں آپ کو کوئی شبہ ہوتا تو چاہئے تھا کہ اس وحی کے نزول کے وقت آپ خودکشی کا ارادہ فرماتے۔ مگر حدیث میں یہ ذکر آتا ہے کہ آپ نے فترت کے بعد خود کشی کا ارادہ کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو گھبراہٹ یہ تھی کہ کیا میرے کسی فعل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوکر مجھ سے بولنا چھوڑ بیٹھا ہے۔ اتنا عرصہ گزر گیا اور مجھ پر اس کا کلام نازل نہیں ہوا۔ اگر وحی کے متعلق آپ کو شبہ ہوتا تو چاہئے تھا کہ جب کچھ عرصے کیلئے وحی کا نزول رک گیا تھا آپ خوش ہوتے اور کہتے الحمدللہ میں ایک بلا سے بچ گیا۔ مگر تمام حدیثیں متفقہ طور پر یہ واقعہ بیان کرتی ہیں کہ وحی کے رک جانے پر رسول کریم ﷺ کو گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو وحی یا الہامات کی صداقت میں شبہ نہیں تھا۔ آپ کو صرف یہ خوف تھا کہ میرے کسی فعل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض نہ ہوگیا ہو۔ پس یہ واقعہ بھی وحی الٰہی کے متعلق آپ کے کسی شبہ کو ظاہر نہیں کرتا۔
میں اس جگہ یہ بھی ذکر کردینا چاہتا ہوں کہ گو اس واقعہ کی میں نے ایک توجیہ کی ہے اور اس اعتراض کو رد کیا ہے جو یورپین مصنفین کی طرف سے رسول کریم ﷺ پر کیا جاتا ہے۔ مگر میرے نزدیک چونکہ صحیح احادیث میں یہ ذکر آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کئی دفعہ پہاڑ کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانا چاہا اس لئے ہم اس واقعہ سے کلیۃً انکار نہیں کرسکتے۔ مگر اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو اس واقعہ کے سمجھنے میں سخت غلطی لگی ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ یہ ایک ظاہری واقعہ ہے جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نعوذ باللہ خودکشی کے ارادہ سے پہاڑ پر چڑھ جاتے اور اپنے آپ کو نیچے گرانا چاہتے مگر معاً جبریل آپ کو آواز دیتا کہ آپ ایسا نہ کریں۔ آپ واقعہ میں خدا کے رسول ہیں۔ اس پر رسول کریم ﷺ رک جاتے اور اپنے گھر واپس آجاتے۔ لوگ اس واقعہ کو ظاہر پر محمول کرتے ہیں اور اس طرح ٹھوکر کھاتے اور دوسروں کیلئے بھی ٹھوکر کا موجب بنتے ہیں حالانکہ یہ ظاہری واقعہ نہیں بلکہ کشفی واقعہ ہے۔ کشف میں رسول کریم ﷺ یہ دیکھتے تھے کہ میں پہاڑوں پر پھر رہا ہوں اور اپنے آپ کو گرانا چاہتا ہوں مگر فرشتہ مجھے آواز دیتا ہے کہ ایسا مت کریں آپ واقعہ میں خداتعالیٰ کے رسول ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ چونکہ رسول کریم ﷺ کے دل میں بار بار یہ خیالات اُٹھتے تھے کہ میں اتنا بڑا کام کس طرح کرسکوں گا ایسا نہ ہو کہ میں خداتعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بن جائوں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے ان خیالات کو کشفی صورت میں اس رنگ میں ظاہر کیا کہ آپ پہاڑکی چوٹیوں سے اپنے آپ کو نیچے گرانا چاہتے ہیں مگر فرشتہ آواز دیتا ہے یا محمد انک رسول اللہ حقا اے محمد ﷺ آپ تو اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ آپ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوں گے کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کیلئے کھڑا کیا ہے۔ پس میرے نزدیک یہ کوئی ظاہری واقعہ نہیں بلکہ یہ ایک کشف ہے جس میں رسول کریم ﷺ کے خیالات کی ترجمانی کی گئی ہے ۔ درحقیقت رئویا میں اگر کوئی شخص دیکھے کہ وہ پہاڑ سے اپنے آپ کو نیچے گرارہا ہے تو اگر وہ دیکھے کہ وہ پہاڑ سے گر گیا ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ کوئی بری بات ظاہر ہوگی اور وہ تباہ ہوجائے گا لیکن اگر وہ رئویا میں پہاڑ سے گرا تو ہے مگر مرا نہیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس سے کوئی بڑی بھاری غلطی ہوگی یا کوئی بڑا بھاری کام کرے گا جس کے نتیجہ میں اسے صدمہ پہنچے گا مگر اس کے باوجود وہ ہلاک نہیں ہوا اور اگر کوئی شخص دیکھے کہ وہ پہاڑ سے گرنے لگا تھا مگر فرشتہ نے اسے کہا کہ گھبراتے کیوں ہو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ کوئی بڑا کام کرنے والا ہے جس میں بظاہر تباہی ہوگی مگر وہ تباہ نہیں ہوگا بلکہ کامیاب و بامراد ہوگا۔
اگر ہم اس واقعہ کو ظاہری قرار دیں تب بھی یہ اس خشیت الٰہی کا ثبوت ہے جو رسول کریم ﷺ کے دل میں پائی جاتی تھی کیونکہ آپ نے ایسا فعل نزول وحی پر نہیں کیا بلکہ وحی کے رکنے پر کیا۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو یہ گھبراہٹ تھی کہ کیا میرے کسی فعل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ناراض ہوکر مجھ سے بولنا تو ترک نہیں کردیا ۔ لیکن میرے نزدیک یہ ظاہری واقعہ نہیں جس کا ایک ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ ہر دفعہ فرشتہ ظاہر ہوجاتا اور وہ آپ کو آپ کی کامیابی کی بشارت دیتا۔ فرشتہ کا خود آنا اپنی ذات میں اس بات کی ایک دلیل ہے کہ ہم اسے ظاہری واقعہ قرار نہیں دے سکتے۔ دوسری دلیل اس کی یہ ہے کہ قرآن کریم نے اس واقعہ کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔
اب رہا وحی کا سوال ۔دشمن کہتاہے کہ آپ کا اس وقت زملونی۔ زملونی کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ایک بیماری کا حملہ تھا۔ ہسٹیریا کا دورہ آپ کو ہوا اور آپ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جلدی مجھ پر کپڑا ڈال دو۔ مگر یہ سوال بھی وحی الٰہی سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ اصحاب وحی جانتے ہیں وحی الٰہی کے نزول کے وقت اس قدر خشیت کا نزول ہوتا ہے کہ جوڑ جوڑ ہل جاتا ہے۔ کیونکہ یہ مقام قرب ہے۔ دربار کی شمولیت کا حال تو درباری ہی جانتا ہے دوسرے کو کیا خبر ہوسکتی ہے۔ پس یہ حالت اس قرب کی وجہ سے تھی جو اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کو حاصل تھا۔ مگر اس حقیقت کو وہ لوگ نہیں سمجھ سکتے جو روحانیت کے اس کوچہ سے قطعی طور پر ناآشنا ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے قرب سے ویسے ہی دور ہیں جیسے مشرق سے مغرب دور ہوتا ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کو جنون ہوتا ہے کیا ان کا حال صرف کپڑا وڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کیا یہ بھی کوئی طبی مسئلہ ہے کہ جو شخص کپڑا اوڑھ لے وہ پاگل ہوتا ہے؟ یا کیا ڈاکٹر یہ پوچھا کرتا ہے کہ فلاں نظارہ کے وقت تم کپڑا وڑھتے ہو یا نہیں؟ پس زملونی زملونی کے الفاظ سے مخالفین اسلام کا یہ استدلال کہ رسول کریم ﷺ کے دماغ میںنعوذ باللہ نقص واقع ہوگیا تھا بالکل احمقانہ استدلال ہے۔ بیشک اس وقت آپ پر گھبراہٹ طاری ہوئی مگر گھبراہٹ کا طاری ہونا ہرگز آپ کے اندر روحانی دماغی یا جسمانی نقص کے پائے جانے کا ثبوت نہیں۔ بلکہ اس خشیت الٰہی ک اثبوت ہے جو آپ کے دل میں پائی جاتی تھی۔ ہم نے تو دیکھا ہے معمولی دنیوی واقعات پر بعض لوگ دوسروں سے اس قدر مرعوب ہوتے ہیں کہ ان کا پسینہ بہنے لگ جاتا ہے ۔ افسر کسی غلطی پر تنبیہ کرے یا کسی معاملہ کے متعلق ان سے باز پرس کی جائے تو ان پر رعب طاری ہوتا ہے کہ ہاتھ پائوں کانپنے لگ جاتے ہیں اور بعض دفعہ تو پسینہ جاری ہوجاتا ہے۔ جب معمولی افسروں کے رعب کی وجہ سے انسان کی یہ حالت ہوجاتی ہے تو سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال اوراس کی جبروت کا آپ پر کس قدر اثر ہوسکتا تھا۔ پس آپ نے اگر زملونی زملونی کہا تو اس کی وجہ درحقیقت یہی تھی کہ آپ پر الٰہی کلام کارعب طاری ہوگیا۔ آپ نے چاہا کہ تھوڑی دیر کیلئے آپ لیٹ جائیں تاکہ آپ کے قویٰ کو سکون حاصل ہوجائے۔ وہ ولگ جو اس کو جنون کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ کیا کپڑااوڑھنا جنون کی علامت ہوتی ہے؟ ہم نے تو کبھی نہیں سنا کہ کوئی ڈاکٹر کسی ایسے مریض کے پاس گیا ہو جس میں جنون کے آثار پائے جاتے ہوں تو اس نے مریض کے لواحقین سے یہ سوال کیا ہو کہ کیا یہ مریض کبھی کپڑا بھی اوڑھتا ہے یا نہیں؟ اگر کپڑااوڑھتا ہے تو ضرور پاگل ہے اور اگر کپڑا نہیں اوڑھتا تو پاگل نہں۔ ایسا سوال آج تک کبھی کسی ڈاکٹر نے نہیں کیا۔ پس پس محض کپڑا اوڑھنے سے مخالفین اسلام کا یہ نتیجہ نکالنا کہ رسول کریم ﷺ کو نعوذ باللہ جنون ہوگیا تھاخود ان کے مجنون ہونے کی علامت ہے ۔ دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ کیا رسول کریم ﷺ کی باقی حالتیں بھی مجونانہ تھی یا نہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ غیرمعمولی قابلیت والے شخص کی حالت دوسروں سے الگ ہوتی ہے۔ ایک شخص جو غیرمعمولی طور پر حساب کی قابلیت رکھتا ہے وہ ان دوسرے لوگوں سے جو معمولی حساب جانتے ہیں بالکل ممتاز طور پر نظر آتا ہے۔ ایک شخص جو غیرمعمولی طور پر تاریخ کی واقفیت رکھتا ہے وہ ان دوسرے لوگوں سے جو معمولی طور پر تاریخ جانتے ہیں بالکل علیحدہ نظر آتا ہے۔ ایک شخص جو غیرمعمولی طور پر طب کی واقفیت رکھتا ہے وہ ان دوسرے لوگوں سے جو معمولی طب جانتے ہیں اپنے فن میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ بعض دفعہ مرض معمولی معلوم ہوتا ہے عام ڈاکٹر اس کا عام علاج کرتاہے مگر ماہر فن ڈاکٹر اس مرض کی شدت کو سمجھ کر فوراً اس کا دوسرا علاج بتاتا ہے یا عام ڈاکٹر مرض کو شدید بتاتا ہے۔ مگر ماہر فن اس کے معمولی مرض ہونے کو فوراً بھانپ جاتا ہے۔ یہی حال سائنس کے مسائل کا ہے۔ ایک شخص معمولی مسائل جانتا ہے مگر دوسرا شخص سائنس کی بڑی بڑی باریکیوں تک پہنچ جاتا ہے اور دنیا میںکئی اہم ایجادات کا موجب بن جاتا ہے۔ غرض الگ الگ قابلیتیں ہیں جو الگ الگ لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ کسی شخص کی قابلیت بہت معمولی ہوتی ہے اور کسی شخص کی قابلیت بالکل غیرمعمولی ہوتی ہے اور وہ دوسروں سے اپنے کام میں بالکل علیحدہ نظر آتا ہے۔ مگر بہرحال کسی شخص میں غیرمعمولی قابلیت کا پایا جانا یہ معنے ہیں رکھتا کہ اسے جنون ہوگیا ہے۔ اسی طرح غیرمعمولی صحت والے کی حالت بھی دوسروں سے بالکل الگ ہوتی ہے۔ پس محض غیرمعمولی قابلیت کے نتیجہ میں کسی کی الگ حالت ہونے پر اس پر مجنون ہونے کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا اور جو ایسا کرتا ہے وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ دنیا کی تمام ترقی مجنونوں سے وابستہ ہے، کیا ایسا شخص خود پاگل نہیں؟
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسا ن میں عقل کس لئے رکھی ہے۔ اگر عقل کی غرض کوئی اعلیٰ کام کرنا ہے تو پھر اعلیٰ کام کرنا تو عقل کی علامت ہوا نہ کہ جنون کی علامت؟ اگر کسی شخص کی حالت دوسروں سے خیر ہے تو دیکھا یہ جائے گا کہ اس شخص کے حالات بنی نوع انسان کی ترقی کا موجب ہیں یا تنزل کا۔ اگر اس کا اپنی قابلیت میں غیر معمولی ہونا بنی نوع انسان کی ترقی کا موجب ہو تو ماننا پڑے گا کہ اس کے حالات کا تغیرعقل کی زیادتی کی وجہ سے ہے اور اگر اس کے حالات بنی نوع انسان کی تباہی اور خرابی کا موجب نظر آئیں تو ماننا پڑے گا کہ اس کا تغیر جنون کی وجہ سے ہے۔ بہرحال کسی کے حالات کا تغیر یا کسی میں غیر معمولی قابلیت کا پایا جانا اس کے جنون کی علامت نہیں ہو سکتا ۔
پھر یہ بھی دیکھو کہ دشمن نے تو آج یہ اعتراض کیا ہے کہ نزول وحی کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے دماغ میں نعوذباللہ نقص واقعہ ہو گیا تھا مگر قرآن کریم نے اپنی ابتدائی آیات میں ہی اس سوال کا جواب پوری تفصیل کے ساتھ دے دیا تھا اور دنیا کو بتا دیا تھا کہ اس کا یہ اعتراض سراسر حماقت پر مبنی ہے چنانچہ سورئہ نون والقلم میں اس اعتراض کا جواب موجود ہے ۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ مفسرین اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ سورئہ علق کی ابتدائی آیات کے نزول کے معٔٔا بعد سورئہ نون والقلم کی آیات رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئیں اور یہ آیات اس مضمون کی حامل ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے متعلق لوگوں کا یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ ان کے دماغ میں کوئی نقص واقعہ ہو گیا ہے۔ یہ قرآن کریم کا ایک ایسا اعجاز ہے کہ جس پر غیر مسلم اگر دیانتداری سے غور کریں تو انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ کلام کسی انسانی دماغ کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے۔ دیکھو ابھی دنیا نے یہ اعتراض نہیں کیا تھا کہ نزول وحی کے واقعات رسول کریم ﷺ کے جنون کی علامت ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے عرش سے دیکھ لیا کہ ایک دن آنیوالا ہے جب دشمن نزول وحی کی کیفیت کو نہ سمجھتے ہوئے یہ اعتراض کرے گا کہ رسول کریم ﷺ نعوذباللہ مجنون تھے۔ چنانچہ دوسری ہی وحی جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی اس میں اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کا ازالہ کیا اور فرمایا نٍٍ والقلم وما یسطرون ۔ ما انت بنعمۃ ربک بمجنون ( سورئہ علق ۱ع۳) ہم قسم کھا کر پیش کرتے ہیں دوات اور قلم کو اور ان تمام تحریروں کو جو قلم اور دوات سے لکھی گئی ہیں کہ اگر دنیا کی تمام تحریروں کو جمع کیا جائے تو ان سے نتیجہ یہ نکلے گا کہ ما انت بنعمۃ ربک بمجنون تو اپنے رب کی نعمت سے پاگل نہیں ہے۔ یہ دوسری سورۃ ہے جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی اور جس کے ابتداء میں ہی اس اعتراض کا اللہ تعالیٰ نے جواب دے دیا جو پہلی وحی سے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو سکتا تھا اور وہ جواب یہ ہے کہ قلم اور دوات نے جس قدر علوم لکھے ہیں وہ سب اس امر کے شاہد ہیں کہ تو مجنون نہیں۔ یعنی اگر علوم عالموں کے لکھے ہوئے ہیں تو تُو ان سے بڑھ کر علم بیان کرتا ہے۔ اگر وہ ادنیٰ علوم سے عالم کہلاتے ہیں تو تو اعلیٰ علم سے مجنون کیو ں کہلانے لگا۔ بہرحال ان سے بڑا عالم کہلائے گا اور تیرا ان سے اختلاف علم کی زیادتی کی وجہ سے کہلائے گا نہ کہ علم کی کی وجہ سے۔
تیرے مجنون نہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ دنیا میں جس قدر روحانی ترقیات یا دین سے تعلق رکھنے والے علوم پائے جاتے ہیں ان سب کے مقابلہ میں تو دنیا کو وہ کچھ سکھائے گا جو اس نے پہلے نہیں سیکھا۔ اور یہ ثبوت ہوگا اس بات کا کہ تو پاگل نہیں۔ تیرے دماغ میں کوئی نقص نہیں۔ اور اگر تجھے پاگل قرار دیا جاسکتا ہے تو پھر ان سب لوگوں کو پاگل قرار دینا پڑے گا جنہوں نے دنیا میں علوم کو پھیلایا اور بنی نوع انسان پر علمی اور روحانی رنگ میں احسان عظیم کیا۔ لیکن اگر وہ ان کو پاگل قرار نہیں دیتے تو تجھے کس منہ سے پاگل کہہ سکتے ہیں۔ کیاوہ نہیں دیکھتے کہ دنیا میں جب کوئی شخص کسی علم پر کوئی کتاب لکھتا ہے تو لوگ اسے پاگل قرار نہیں دیتے بلکہ کہتے ہیںوہ بڑا فاضل ہے۔ بڑا عالم اور سمجھدار ہے۔ اس نے علم کی باریکیوں پر بڑی عمدگی سے روشنی ڈالی ہے مگر تو وہ ہے جو ہر علم کے ایسے نکات کو بیان کرتا ہے جن کی طرف اس علم کے بڑے بڑے ماہرین کی بھی آج تک نظر نہیں گئی پھر اگر وہ ایک علم پر معمولی روشنی ڈال کرعالم سمجھے جاسکتے ہیں تو تو تمام روحانی، اخلاقی، اقتصادی، قضائی، سیاسی، عائلی علوم کے متعلق ان کے ماہرین سے زیادہ روشنی ڈال کر مجنون کیونکر سمجھا جائے گا۔ آخر مجنون کہنے کی کوئی وجہ ہونی چاہئے ۔ اگر تو کام وہ کررہا ہے جو بڑے بڑے عالموں نے بھی نہیں کیا تو مجنون کس طرح کہا جاسکتا ہے۔ اور لوگوں کی کیسی حماقت ہے کہ وہ اتنی موٹی بات کو بھی نہیں سمجھتے کہ عقل اور جنون میں اور علم اور جہالت میں بعد المشرقین ہے۔ جب دنیا میں تو علوم کے وہ خزانے تقسیم کررہا ہے جو بڑے بڑے عالموں کے واہمہ میں بھی کبھی نہیں آئے تو بہرحال اسے یہی کہنا پڑے گا کہ تو بڑا عالم ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ تومجنون ہے یا تیرے دماغ میں فتور واقع ہوگیا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ن والقلم وما یسطرون ما انت بنعمۃ ربک بمجنون اے لوگو! آج تک قلم اور دوات سے جو کچھ لکھا گیا ہے اسے ہم محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت اور اس کے مجنون نہ ہونے کے ثبوت کے طور پر تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ جب دنیا میں علم الاخلاق پر کوئی کتاب لکھتا ہے تو تم کہتے ہو وہ بڑا عالم ہے۔ جب علم العقائد پر کوئی کتاب لکھتا ہے تو تم کہتے ہو وہ بڑا عالم ہے۔ جب علم السیاست میں کوئی شخص نئی راہ پیدا کرتا ہے تو تم کہتے وہ بڑا عالم ہے۔ جب علم الاقتصاد میں کوئی شخص نیا مسئلہ نکالتا ہے تو تم کہتے ہو وہ بڑا عالم ہے۔ جب علم العائلہ پر کوئی شخص نئے رنگ میں روشنی ڈالتا ہے تو تم کہتے ہو وہ بڑا عالم ہے۔ مگر محمد رسول اللہ ﷺ وہ شخص ہیں کہ آج تک جس علم میں بھی کوئی کتاب لکھی گئی ہے وہ ان کے علم کے مقابل میں بالکل ہیچ ہے۔ قلمیں ان کے مقابلہ میں ٹوٹ چکی ہیں۔ عالم ان کے مقابلہ میں گنگ ہوچکے ہیں۔ معارف ایک سمندر ہے جو انہوں نے دنیا میں بہادیا ہے اور علوم کا ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے جو انہوں نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ ایسی صورت میں اگر تم تعصب سے کام نہ لو تو باآسانی اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہو کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی غیرمعمولی قابلیت ان کے غیرمعمولی علم اور آسمانی تائید اور ہدایت کے نتیجہ میں ہے نہ کہ نعوذ باللہ غیر معمولی جہالت کے نتیجہ میں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاگل اور غیر معمولی عقلمند اور بڑے عالم اور بڑے جاہل میں یہ اشتراک ہوتا ہے کہ یہ بھی اپنے اندر غیرمعمولی طاقت رکھتا ہے۔ اور وہ بھی اپنے اندر غیر معمولی طاقت رکھتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ فرق ہوتا ہے کہ ایک شخص نیچے کی طرف غیرمعمولی طور پر گرتا ہے اور دوسرا شخص اوپر کی طرف غیر معمولی طور پر جاتا ہے۔ غیرمعمولی علم رکھنے والا وہ باتیں بتاتا ہے جو بڑے بڑے عالموں کو بھی نہیں سوجھتی اور غیر معمولی ذہانت رکھنے والا وہ باتیں بتاتا ہے جو بڑے بڑے بیوقوفوں اور جاہلوں سے بھی صادر نہیں ہوتیں۔ بہرحال محض کسی غیرمعمولی قابلیت کی وجہ سے دوسروں سے الگ ہونا اس کے جنون کی علامت نہیں ہوتا۔ بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس کے حالات کا تغیر بنی نوع انسان کے فائدہ کا موجب ہوا ہے یا نقصان کا موجب ہوا ہے۔ اگر فائدہ کا موجب ہو تو کوئی شخص اس تغیر کو جنون کا نتیجہ قرار نہیں دے سکتا۔
یہ کتنی سچی اور پختہ دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش کی گئی اور پیش بھی ایسے موقع پر کی گئی جب ابھی وحی کے نزول کا ابتداء ہی ہوا تھا۔ میں تو سمجھتا ہوں یہ بھی قرآن کریم کا ایک زبردست معجزہ ہے کہ اس نے ابتداء وحی میں بھی اس اعتراض کا جواب دے دیا جو دشمنان اسلام نے رسول کریم ﷺ کی وحی کے متعلق کرنا تھا۔ اور ایسے حالت میں دے دیا جبکہ خود مکہ والوں کے سامنے بھی ابھی آپ نے اپنا دعویٰ پیش نہیں کیا تھا۔ سب لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے سورۃ المدثر کی ابتدائی آیا ت کے نزول کے بعد مکہ والوں کے سامنے اپنا دعویٰ پیش کیا ہے۔ مگر ن والقلم کی ابتدائی آیات وہ ہیں جو اقرا باسم ربک الذی خلق کے معاً بعد نازل ہوئیں گویا ابھی رسول کریم ﷺ کی طرف سے اپنی نبوت کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت یہ خبر دے دی کہ رسول کریم ﷺ پر مجنون ہونے کا اعتراض کیا جائے گا۔ اور اگر پہلی وحی کے بعد کسی نے یہ اعتراض کیا بھی تھا تب بھی قرآن کریم نے پہلی وحی کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ دشمنوں کے اس اعتراض کا جواب دے دیا کہ رسول کریم ﷺ کو نعوذ باللہ جنون ہوگیا ہے۔ اور جواب بھی ایسا زبردست دیا کہ جس کا انکار نہیں ہوسکتا۔
آج کل کے سائیکالوجسٹ کہتے ہیں کہ غیرمعمولی قابلیت جنون کی علامت ہوتی ہے۔ میں اس کا جواب اوپر دے چکا ہوں لیکن اگر اس جواب سے کسی کی تسلی نہ ہو تو میں کہتا ہوں کہ اگر غیرمعمولی قابلیت جنون سے حاصل ہوتی ہے تو پھر ہم بھی خواہش کرتے ہیںکہ خدا کرے ہم بھی ایسے پاگل بن جائیں کیونکہ جب دنیا کی ترقی غیرمعمولی قابلیت سے وابستہ ہے اور غیرمعمولی قابلیت جنون کی علامت ہے تو پھر دنیا کی ترقی عقلمندوں سے نہیں بلکہ پاگلوں سے وابستہ ہے۔ اور وہی لوگ اس قابل ہیں کہ ان کا نمونہ بننے کی کوشش کی جائے۔
میور اس موقع پر اعتراض کیا ہے کہ جب اس صورت میں اقرا کہا گیا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محادثہ بالنفس والی سورتیں اس سے پہلے نازل ہوچکی تھیں۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ جب رسول کریم ﷺ کو یہ کہا گیا کہ اقرا یعنی پڑھ تو ضروری ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ اس سے پہلے کچھ سورتیں نازل ہوچکی تھیں۔ جن کے متعلق رسول کریم ﷺ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ انہیں لوگوں کو پڑھ کر سنادیں۔ وہ محادثہ بالنفس والی سورتیں سورۃ اللیل اور سورۃ الضحیٰ کو قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ قوم کے حالات پر غور کرتے کرتے جب ان سورتوں میں آپ نے اپنی قوم کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا تو اس کے بعد آپ کو یہ خیال ہوا کہ یہ سورتیں درحقیقت الہامی ہیں اور میرا فرض ہے کہ میں یہ سورتیں لوگوں کو پڑھ کر سنائوں۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک تاریخی سوال ہے اس کا قیاس سے تعلق نہیں۔ تاریخی امور میں ہمیشہ تاریخ کا حوالہ چاہئے نہ کہ قیاس کا۔ اگر تاریخ سورۃ اللیل اور سورۃ الضحیٰ کو بعد کی نازل شدہ قرار دیتی ہیں تو قیاس کا اس میں کیا دخل ہے۔ بیشک کچھ لوگ اقرا کے بعد سورہ ن والقلم پھر مزمل اور پھر مدثر کا نزول بتاتے ہیں اور کچھ لوگ اقرا کے بعد سورہ مدثر کی ابتدائی آیا ت کا نازل ہونا بتاتے ہیں۔ مگر وہ سورتیں جن کو سر میور محادثہ بالنفس والی سورتیں قرار دیتے ہیں ان کانزول کسی ایک شخص میں بھی اقرا سے پہلے قرار نہیں دیا۔
دوسرے خود ان سورتوں میں کوئی ایسی بات نہیں کہ ان کو پہلے کی قرار دیا جائے۔ کیا وہ خیالات جو ان سورتوں میں مذکور ہیں بعد میں ظاہر نہیں کئے جاسکتے تھے؟
حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے خلاف قیاس اسی مقام پر پیش کیا جاسکتا ہے جہاں تاریخی واقعہ ناممکن نظر آئے۔ مگر جہاں تاریخی واقعہ چسپاں ہوسکتا ہو وہاں قیاس سے کام لینا محض ایک زبردستی ہے اور اس زبردستی کی علم اجازت نہیں دیتا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گو سرمیو ر کہتے ہیں کہ یہ سورۃ بعد کی ہے اور محادثہ بالنفس والی سورتیں پہلے کی ہیںاور بعض نے گو محادثہ بالنفس والی (بقول سرمیور) سورتوں کو مخصوص نہیں کیا صرف اتنا کہا ہے کہ یہ سورت بعد کی معلوم ہوتی ہیں کیونکہ ا س میں اقرا کہا گیا ہے۔ جسے معمول ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بعض سورتیں نازل ہوچکی تھیں۔ لیکن نولڈکے وغیرہ نے تسلیم کیا ہے کہ یہ سورۃ سب سے پہلے نازل ہوئی۔ وہ کہتے ہیں جب تاریخ سے ثابت ہے کہ سب سے پہلے اس سورۃ کی آیات رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی تھیں تو ہم تاریخ کے مقابلہ میں قیاس سے کس طرح کام لے سکتے ہیں۔
میں اس موقع پر یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ مستشرقین یورپ کو زیادہ تر دھوکا اس بات سے لگا ہے کہ بعض جگہ کفار کی مخالفت کی جو خبریں آجاتی ہیں ان سے وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ الہام واقعہ کے بعد ہونا چاہئے اس لئے جس زمانہ میں مخالفت نہیں تھی اس زمانہ میں کسی سورۃ کے اس حصہ کا نزول تسلیم نہیں کیا جاسکتا جس میں مخالفت کی خبر دی گئی ہو۔ گویا ان کے نزدیک جن سورتوں میں مخالفت کا ذکر ہو وہ ہمیشہ مخالفت کے بعد کی ہوتی ہیں۔ اس خیال پر بنیاد رکھتے ہوئے وہ بعض دفعہ مکی سورتوں کو مدنی قرار دے دیتے ہیں یا ابتداء میں نازل ہونے والی آیات کو بعد کے زمانہ میں نازل ہونے والی آیات قرا ر دے دیتے ہیں۔ جب اسلام اور مسلمانوں کی پرزور مخالفت شروع ہوگئی تھی مگر اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود نے اس خیال کا بطلان خوب اچھی طرح ظاہر کردیا ہے۔ جب قرآن کریم نازل ہورہا تھا اس وقت تو نہ صحابہ کے دل میں یہ خیال آسکتا تھا اور نہ کسی اور مسلمان کے دل میں کہ کل دشمن قرآن کریم کے متعلق کیا کیا اعتراض کرے گا۔ اکثر اعتراضات موجودہ زمانہ میں ہوئے ہیں جن کے ہم جواب دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض باتیں ایسی ہیں جو صحابہؓ کے زمانہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔ مثلاً سورتوں کے نزول کی ترتیب معلوم کرنے میں اس وقت کوئی دقت پیش نہیں آسکتی تھی۔ صحابہؓ زندہ موجود تھے اور اگر کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا تو اس سے کہا جاسکتا تھا کہ زید سے پوچھ لو۔ بکر سے دریافت کرلو۔ عمرو اور خالد سے اپنی تسلی کرالو۔ مگر جب جواب دینے والے فوت ہوگئے تو اس وقت قدرتی طور پر بعض لوگوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہونا شروع ہوا کہ فلاں سورۃ کب اتری تھی یا فلاں سورۃ کا فلاں حصہ کب نازل ہوا تھا؟ اس وقت دشمن نے اس قسم کے خیالات سے فائدہ اٹھانا شروع کردیا۔ کہ جہاں کسی پیشگوئی کا ذکر آتا وہ کہہ دیتا کہ یہ حصہ تو وقوعہ کے بعد کا ہے ۔ حالانکہ وہ حصہ وقوعہ سے مدتوں پہلے نازل ہوچکا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور پیشگوئی ان میں یہ خبریں موجود ہوتی تھیں کہ کفار مکہ میں سے کوئی فرعون کا مثیل ہوگا۔ کوئی ہامان کا قائمقام ہوگا اورنبی کریم ؐکی مثال یوسفؑ کی سی ہوگی۔ اس طرح یوسفؑ کو اس کے اپنے بھائیوں نے نکال دیا تھا اسی طرح آپ کے بھائی آپ کو اپنے شہر میں سے نکال دیں گے۔ غرض کئی قسم کی پیشگوئیاں تھیں جو اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں موجود تھیں جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا اور جو بعد میں حرف بحرف پوری ہوگئیں۔ مگر چونکہ صحابہ کا زمانہ گزرچکا تھا اور وہ لوگ فوت ہوچکے تھے جن کے سامنے قرآن کریم کا نزول ہوا۔ اس لئے دشمن نے اس رنگ میں فائدہ اٹھانا شروع کردیا کہ جہاں کہیں امر بطور پیشگوئی ملتا وہ جھٹ کہہ دیتا یہ حصہ وقوعہ کے بعد کا ہے۔ جب واقعات اس رنگ میں ظاہر ہوچکے تھے۔ یہی طریق یورپین مصنفین نے اختیار کیا ہے۔ وہ قرآن کریم کی ہر پیشگوئی کو واقعہ کے بعد نازل شدہ بتاتے ہیں۔ اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ دیکھو لوگ کہتے ہیں یہ آیت مکی ہے حالانکہ اس میں فلاں واقعہ کی خبر ہے جو مدینہ میں ہوا اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ آیت مکی نہیں مدنی ہے۔ اس سے ان کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے جو کہا جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کئی پیشگوئیاں کیں اور وہ وقت پر پوری ہوئیں یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔ آپ نے کوئی پیشگوئی نہیں کی بلکہ واقعہ کے بعد آپ نے اس رنگ کی آیات دھار کر قرآن کریم میں شامل کردی تھیں۔
اس اعتراض کا جواب صحابہؓ تو دے نہیں سکتے کیونکہ وہ فوت ہوچکے ہیں اور صحابہ کے زمانہ میں یہ سوال نہیں اٹھا کہ وہ اس پر کوئی روشنی ڈال جاتے۔ مگر چونکہ اس اعتراض کا جواب ضروری تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعثت سے جہاں اسلام کے اور بہت سے مسائل کو حل کیا وہاں اس ترتیب کے سال کو بھی اللہ تعالیٰ نے بالکل حل کردیاہے۔
جب قرآن کریم نازل ہوا ہے اس وقت ساتھ ہی ساتھ اس رنگ میں کتابت نہیں ہوتی تھی کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ فلاں آیت کس سال میں نازل ہوئی اور فلاں آیت کس سال میں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے زمانہ میں پیدا کیا جب کتابت کا زور تھا، پریس جاری تھے اور ہر چیز شائع ہوکر فوراً لوگوں کی نظروں کے سامنے آجاتی تھی اور یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ چونکہ الہام میں فلاں واقعہ کا ذکر ہے جو اتنے سال بعد پورا ہوا اس لئے یہ الہام اس واقعہ کے بعد کا ہے پہلے کا نہیں۔ غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود اس اعتراض کے باطل ہونے پر ایک زبردست گواہ ہے۔ چنانچہ میں اس کے ثبوت میں ’’براہین احمدیہ‘‘ کے بعد الہامات پیش کرتاہوں۔
براہین احمدیہ انگریزی مطبع میں چھپی ہے ۱۸۸۰؁ء میں اس کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی اور ۱۸۸۴؁ء میں چوتھی جلد چھپنے کے بعد اس کتاب کی دو جلدیں قانون کے مطابق گورنمنٹ کو بھجوادی گئی تھیں بلکہ لنڈن میوزیم میں بھی اس کی کاپیاں محفوظ ہیں۔ اس لئے دشمن یہ نہیں کہہ سکتا کہ براہین احمدیہ میں جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ ۱۸۸۴؁ء کے بعد کی ہیں۔
جب یہ کتاب شائع ہوئی ہے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیشک لوگوں میں معروف تھے مگر صرف بطور مباحث کے ہزار دور ہزار آدمی آپ کو جانتے تھے۔ مگر اس لئے کہ آپ عیسائیوں یا ہندوئوں وغیرہ کے ان مضامین کا جواب دیتے رہتے تھے جو وہ اسلام کے خلاف لکھتے تھے یا ایسے لوگ جانتے تھے جو آپ کے تقویٰ کے قائل تھے اور آپ سے محبت اور اخلاص رکھتے تھے۔ مثلاً لالہ بھیم سین صاحب سیالکوٹ کے ایک وکیل تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس قدر تعلق رکھتے تھے کہ جب آپ پر کرم دین والا مقدمہ ہوا تو اس وقت ان کے بیٹے لالہ کنور سیم صاحب ایم ۔اے جو لاء کالج لاہور کے پرنسپل بھی رہے ہیں اور بعد میں جموں ہائی کورٹ کے جج بن گئے تھے ولایت سے بیرسٹری کا امتحان پاس کرکے آئے تھے۔ لالہ بھیم سین صاحب کو جب کرم دین والے مقدمہ کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو لکھا تمہاری پڑھائی کا کوئی فائدہ ہونا چاہئے مرزا صاحب بڑے مہاتما ہیں ان پر اس وقت ایک مقدمہ دائر ہے تم جائو اور اس مقدمہ کی مفت پیروی کرو تاکہ مرزا صاحب کی برکت سے تمہاری زندگی سنور جائے۔ اب دیکھو ایک شخص ہندو ہے وہ یہ جانتا ہے کہ آپ ہندئووں سے ہمیشہ مباحثات کرتے رہتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ آپ سے محبت رکھتا ہے، آپ سے عقیدہ اور اخلاص رکھتا ہے اور اپنے بیٹے کو آپ کے مقدمہ کی مفت پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے اور لکھتا ہے کہ اگر تم نے ایسا کیا تو مرزا صاحب کی برکت سے تمہاری زندگی سنور جائے گی۔ اسی طرح گو عیسائیوں سے آپ مباحثے کرتے رہتے تھے مگر ان میں بھی ہم یہ رنگ دیکھتے ہیں کہ باوجود بحث مباحثہ کے وہ آپ سے محبت اور اخلاص رکھتے۔ اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے کہ جن دنوں آپ سیالکوٹ میں ملازم تھے ایک بہت بڑے انگریز پادری سے جس کا نام پادری بٹلر تھا آپ اکثر مباحثات کیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ پادری کچہری میں آیا اور چونکہ اس زمانہ میںپادریوں کا خاص طور پر احترام کیاجاتا تھا ڈپٹی کمشنر نے سمجھا کہ پادری صاحب مجھ سے ملنے کیلئے آئے ہیں چنانچہ وہ اٹھا، بڑے احترام سے اس کے ساتھ مصافحہ کیا اور پھر کہا فرمائیے میرے لائق کون سی خدمت ہے۔ پادری صاحب نے کہا میں آپ سے ملنے نہیں آیامیں تو مرزا صاحب سے ملنے آیا ہوں۔ میں اب ولایت جارہاہوں اورچونکہ میرے ساتھ ان کے اکثر مباحثات ہوتے رہے ہیں میرے دل میں ان کی بڑی عقیدت ہے۔ میں نے چاہا کہ ولایت جانے سے پہلے ان سے آخری ملاقات کرلوں۔ چنانچہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جہاں تشریف رکھتے تھے پادری وہیں چلا گیا، فرش پر بیٹھ گیا اور دیر تک آپ سے باتیں کرتا رہا۔ اب دیکھو ایک انگریز پادری جس سے ملنے میں ڈپٹی کمشنر تک اپنی عزت کرتا تھا ہندوستان سے رخصت ہونے سے پہلے آپ سے رخصت ہونے سے پہلے کچہری گیا جبکہ آپ ایک معمولی کلرکی کا کام کرتے تھے اور جبکہ آپ کی عمر اس پادری کے پوتوں سے زیادہ نہ ہوگی۔
پھر مولوی حسین صاحب بٹالوی مسلمانوں کے چوٹی کے علماء میں سے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ لکھی تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس پر ریویو لکھا:-
’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبرنہیں۔ لعل اللہ یحدث بعد ذالک امرا۔ اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی، جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے‘‘۔
لوگ جب کسی کتاب کے متعلق تعریفی ریویو لکھتے ہیں تو کہتے ہیں اس سال کی یہ عظیم الشان کتاب ہے۔ اور وہ کتاب بڑی بھاری سمجھی جاتی ہے۔ اگر کہہ دیا جائے کہ دس سال میں ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی تو اس کی شہرت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور اگر کہا جائے کہ ایک صدی کے اندر اندر ایسی عظیم الشان کتاب اور کوئی نہیں لکھی گئی تو یہ اس کتاب کی انتہائی تعریف سمجھی جاتی ہے۔ مگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یہ لکھتے ہیں کہ اس کتاب کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی۔ گویا ایک صدی کا سوال نہیں دو صدیوں کا سوال نہیں، تیرہ سو سال میں مسلمانوں کی طرف سے اسلام کے فضائل کے متعلق ایسی شاندار کتاب اور کوئی نہیں لکھی گئی۔
غرض مسلمان کیا اور ہندو کیا اور عیسائی کیا سب براہین احمدیہ کی اشاعت کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعریف کرتے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد ہندوئوں میں مخالفت کا کچھ چرچا شروع ہوگیا تھا مگر اس سے پہلے ہندوئوں میں بھی آپ کی کوئی مخالفت نہیں تھی بلکہ ان میں سے کئی آپ سے بہت اخلاص رکھتے تھے جیسے لالہ بھیم سین صاحب۔ اسی طرح اور بہت سے ہندو تھے جو آپ سے خط وکتابت رکھتے تھے اور آپ کی نیکی اور تقویٰ کو تسلیم کرتے تھے۔ اس زمانہ میں یہ احتمال ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ کوئی شخص آپ کی مخالفت کرے گا کیونکہ سب کے سب لوگ خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں آپ کے مداح تھے اور جس طرح رسول کریم ﷺ کو دعویٔ نبوت سے پہلے لوگ امین اور صدیق کہا کرتے تھے اسی طرح لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی راستبازی کے قائل تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ شخص کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔ غرض مسلمانوں، ہندوئوں اور عیسائیوں تینوں میں سے جو لوگ آپ کے واقف تھے وہ آپ کا ادب اور احترام کرتے تھے اور جو لوگ واقف نہیں تھے وہ نہ دوستی کا اظہار کرتے تھے نہ دشمنی کا۔ ایسی حالت میں براہین احمدیہ شائع ہوئی۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے زمانہ میں جب نہ آپ کی مخالفت کا سوال تھانہ موافقت کا۔ نہ آپ پر ایمان لانے والے دنیا میں موجود تھے اور نہ مخالفت کرنے والے۔ براہین احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے کیا الہامات شائع ہوئے اور وہ کس قسم کے اخبار غیبیہ پر مشتمل تھے۔ اس غرض کیلئے جب ہم براہین احمدیہ کا سرسری مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں ایک الہام یہ نظر آتا ہے کہ قل للمومنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم ذالک ازکی لھم (براہین احمدیہ صـ ۵۰۵) ۔ یعنی تو اپنے مومنوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ پاکیزگی کے لحاظ سے ان کیلئے بہت بہتر ہوگا۔ اگر یہ کتاب چھپی ہوئی نہ ہوتی یا اس پر اشاعت کی تاریخ درج نہ ہوتی اور یہ سوال اٹھتا کہ یہ الہام کب کا ہے تو پادری وہیری کا کوئی بھائی کہتا کہ یہ الہام ۱۹۰۱؁ء کا معلوم ہوتا ہے جب ایک جماعت آپ پر ایمان لاچکی تھی۔ حالانکہ یہ ۱۸۸۴؁ء کی کتاب ہے اور گورنمنٹ کے پاس بھی اس کی کاپی موجود ہے۔ پھر اس زمانہ میں جب دنیا میں آپ کی نہ کوئی مخالف تھی اور نہ مخالفت کاکوئی امکان تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن کریم کی یہ آیت بہ تغیر قلیل الہامہوئی کہ لم یکن الذین منفکین حتی تاتیھم البینۃ و کان کیدھم عظیما (صـ ۵۰۶) یعنی اے شخص لوگ تیری مخالفت کریں گے اور اس مخالفت میں اہل کتاب اور مشرکین دونوں شریک ہوں گے یعنی یہودی بھی تیری مخالفت کریں گے، عیسائی بھی تیری مخالفت کریں گے، مسلمان بھی تیری مخالفت کریں گے، ہندو بھی تیری مخالفت کریں گے اور وہ اس مخالفت سے کبھی باز نہیں آئیں گے جب تک کہ ہماری طرف سے نشان پر نشان ظاہر نہ ہوں۔ ان نشانوں کے ظاہر ہونے کے بعد ان کو معلوم ہوگا کہ تو ہماری طرف سے کھڑا کیا گیا ہے۔ وکان کیدھم عظیما اور جن مکروں اور فریبوں سے وہ تجھے مغلو ب کرنا چاہیں گے وہ بڑے عظیم الشان ہوں گے مگر ہم ان کے تمام منصوبوں کو باطل کردیں گے اورتجھے غلبہ اور کامیابی عطا کریں گے۔
اس الہام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیسی زبردست مخالفت کی خبر دی گئی ہے حالانکہ واقعہ یہ تھا کہ کہ اس وقت ہندو آپ کی عزت کرتے تھے، عیسائی آپ کی عزت کرتے تھے، مسلمان آپ کی عزت کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت فرمادیا کہ یہودی اور عیسائی اور مسلمان اور ہندو اور سکھ سب کے سب تیری مخالفت کریں گے اور تیرے خلاف بڑے بڑے منصوبے کریں گے۔ وہ چاہیں گے کہ تجھے مٹادیں، تیرے نام کو دنیا سے ناپید کردیںمگر ہم تیری تائید میں اپنے عظیم الشان نشان دکھائیں گے اور آخر نتیجہ یہ نکلے گا کہ تو غالب آجائے گا اور تیرے مخالف مغلوب ہوجائیں گے ۔ حالانکہ یہود اور دوسرے غیر ملکی مذاہب کے لوگوں کو آپ کے متعلق کوئی علم ہی نہ تھا۔ پھر فرمایا وذا قیل لھم لا تفسدو فی الارض قالوا انما نحن مصلحون الا انھم ھم المفسدون۔ قل اعوذ برب الفلق من شر ما خلق و من شر غاسق اذا وقب (براہین احمدیہ صـ ۵۰۶،۵۰۷) یہ مدنی آیات ہیں اور منافقوں کے متعلق قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ اور منافق اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک طرف جماعت کے غلبہ کے آثار ہوں اور دوسری طرف دشمن بھی ابھی طاقتور ہو۔ اس حالت کے نتیجہ میں جو پیدائش ہوتی ہے اس کا منافق نام ہوتا ہے۔ جس طرح ہر زمین کی پیداوار الگ الگ ہوتی ہے اسی طرح دینی منافقت کی پیداوار اس موسم ہوتی ہیں جب دین دنیا کے ایک حصہ پر غالب آجاتا ہے مگر کفر ابھی پوری طرح مغلوب نہیں ہوتا۔ انہیں کفر کا بھی ڈر ہوتا ہے اور دین کا بھی ڈرتاہوتا ہے ……… اور چونکہ اس وقت دو کشتیاں تیار ہوجاتی ہیں منافق چاہتا ہے کہ دونوں کشتیوں میں سوار ہوکر سفر کرتا چلا جائے نہ وہ پوری طرح دین کی طرف آتا ہے اور نہ وہ پوری طرح کفر کی طرف جاتا ہے۔ یہ بھی جرأت نہیں کرسکتا کہ مسلمانوں سے مقابلہ کرے کیونکہ ڈرتا ہے کہ وہ جیت نہ جائیں اور یہ بھی جرأت نہیں کرسکتا کہ کفار کا مقابلہ کرے کیونکہ ان کے متعلق بھی اسے خوف ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو وہ جیت جائیں۔ پس فرماتا ہے ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب تیری جماعت ترقی کرتے کرتے کفار کے مقابلہ میں ایک ترازو پر آجائے گی جیسے اس وقت قادیان کی حالت ہے۔ اس وقت تیری جماعت میں منافقوں کا ایک گروہ پیدا ہوجائے گا جو ادھر تجھ سے تعلق رکھے گا اور ادھر کفار سے تعلق رکھے گا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میںنفاق کی کوئی صورت ہی نہیں تھی۔ قادیان میں وہی شخص آتا تھا جو لوگوں سے ماریں کھانے کیلئے تیار ہوتا تھا مگر اب چونکہ جماعت ترقی کرکے دشمن کے مقابلہ میں ترازو کے تول کی مانند کھڑی ہوگئی ہے اس لئے منافقین کا بھی ایک عنصر پیدا ہوگیا ہے۔ چنانچہ ۱۹۳۴؁ء میں جب احرار نے شورش برپا کی اور گورنمنٹ کے بعض افسروں نے بھی ان کی پیٹھ ٹھونکنی شروع کردی تو اس وقت ہماری جماعت میں سے بعض منافق احرار سے جاکر ملتے تھے اور ہمیں ان کی نگرانی کرنی پڑتی تھی۔ اور ابھی تو یہ پیشگوئی صرف قادیان میں ہی پوری ہوئی ہے جب بیرونی مقامات پر بھی جماعت نے ترقی کی اور کفر کے مقابلہ میں اس نے طاقت پکڑنی شروع کردی تو اس وقت وہاں بھی ایسے لوگ پیدا ہوجائیں گے۔ پھر اور ترقی ہوگی تو بیرونی ممالک میں اس پیشگوئی کا ظہور شروع ہوجائے گا۔ کبھی یورپ میں یہ پیشگوئی پوری ہوگی، کبھی امریکہ میں یہ پیشگوئی پوری ہوگی، کبھی چین اور جاپان میں یہ پیشگوئی پوری ہوگی اور کبھی مصر اور شام اور فلسطین وغیرہ میں یہ پیشگوئی پوری ہوگی۔ غرض ۱۸۸۴؁ء میں جب نہ لوگوں کی مخالفت کا کوئی خیال تھانہ یہ خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ کسی دن دنیامیں ایک بہت بڑی جماعت قائم ہوجائے گی۔ وہ جماعت ترقی کرے گی اور جب وہ کفار کے مقابل میں ایک ترازو کے تول پر آجائے گی تو اس وقت بعض منافق پیدا ہوجائیں گے۔ حالانکہ یہ باتیں اس وقت کسی کے وہم اور گمان میں بھی نہیں آسکتی تھیں۔
پھر فرماتا ہے تلطف بالناس و ترحم علیھم انت فیھم بمنزلۃ موسی واصبر علی ما یقولون (براہین احمدیہ ۔ ص ۵۰۷) تو لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ اور تو ان پر رحم کر۔ تو ان میں ایسا ہی ہے جیسے موسیٰؑ اپنی قوم میں تھا اور جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کر۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جو حالات موسیٰ کے ساتھ پیش آئے تھے وہی تیرے ساتھ پیش آنے والے ہیں۔ تیری مخالفت میں بھی لوگوں کی طرف سے بہت کچھ کہا جائے گا تیر فرض ہے کہ تو صبر سے کام لے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر الہامات واقعہ کے بعد بنالئے جاتے ہیں تو براہین احمدیہ میں یہ بات کس طرح چھپ گئی۔
پھر الہام ہے احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لا یفتنون (ص ۵۹۰) کیا تیرے ماننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ محض اتنی بات پر چھوڑ دیئے جایں گے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور وہ آزمائش میں نہیں ڈالے جائیں گے اگر وہ ایسا خیال کرتے ہیں تو یہ بالکل غلط ہے۔ ان پر بڑے بڑے مظالم کئے جائیں گے، بڑے بڑے مصائب ان کو برداشت کرنے پڑیں گے اور جب وہ ان امتحانات میں پورے اتریں گے تب انہیں خداتعالیٰ کے حضور مومن سمجھاجائے گا۔
یہ تمام الہامات جن کو اوپر پیش کیا گیا ہے ان میں سے کوئی ایک الہام بھی ایسا نہیں جو ۱۸۸۴؁ء کے واقعات پر چسپاں ہوسکتا ہو بلکہ یہ تمام الہامات وہ ہیں جن میں آئندہ رونما ہونیو الے واقعات کی خبر دی گئی ہے۔ اسی طرح اور بھی کئی الہامات ہیں جو آئندہ واقعات پر مشتمل ہیں۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۳؁ء میں رئویا دیکھا کہ ’’زار روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں ہے‘‘ (تذکرہ ص ۴۳۰)۔ اب اگر یورپین مستشرقین کی یہ بات صحیح ہے کہ الہامات ہمیشہ واقعات کے بعد گھڑلئے جاتے ہیں تو اس الہام کی بنا کن واقعات پر ہے؟ ۱۹۰۳؁ء میں کون سے ایسے حالات تھے جن کی بناء پریہ کہا جاسکتا تھا کہ روس کی حکومت ہمارے قبضہ میں آجائے گی۔ اس وقت تو ظاہری حالات کی بناء پر یہ کہنا بھی مشکل تھا کہ گورداسپور کے ضلع میں ہمیں غلبہ حاصل ہوجائے گا کجا یہ کہ روس کی حکومت ملنے کا دعویٰ کیا جاتا اور یہ وہ پیشگوئی ہے کہ اب تک بھی اس کا خفیف سے خفیف اثر نہیں ظاہر ہوا لیکن جب یہ پوری ہوگی دشمن ہزاروں بہانے یہ ثابت کرنے کیلئے بنائے گا کہ یہ بعد میں بنائی گئی ہے۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ ان تمام اعتراضات کا جواب ہے جو مستشرقین یورپ قرآن کریم کے متعلق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ آیات جس میں پیشگوئیوں کا ذکر پایا جاتا ہے اس زمانہ کی ہیں جب وہ واقعات دنیامیں ظاہر ہوچکے تھے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر تمہارا یہ دعویٰ صحیح ہے تو تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ثابت کرو کہ آپ نے جو پیشگوئیاں کیں ہیں وہ واقعات کے ظہور کے بعد کی ہیں اور اگر تم یہ ثابت نہیں کرسکتے تو تمہیں غور کرنا چاہئے کہ اگر ایک شخص جو اپنے آپ کو رسول کریم ﷺ کا غلام کہتا ہے اللہ تعالیٰ سے الہام پاکر قبل از وقت غیب کی خبروں سے دنیا کو اطلاع دے سکتا ہے تو اس کا آقا کیوں ایسی خبریں نہیں دے سکتا تھا؟ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں دنیا کی تمام مخالفتوں اور منصوبوں اور شرارتوں کا ایسی حالت میں ذکر کردیا گیا ہے جب سب دنیا آپ کی تائیدمیں تھی تو قرآن کریم میں کیوں ایسے مضامین قبل از وقت نہیں آسکتے تھے؟ پس اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود سے ان تمام حملوں کا ایسا جواب دے دیا ہے کہ اب دشمن کو منہ کھولنے کی جرأت ہی نہیں ہوسکتی۔
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ کی بدء وحی اور پہلے انبیاء کی بدء وحی میں کیا فرق ہے۔ مستشرقین یورپ نے رسول کریم ﷺ کی ابتدائی وحی پر تو اعتراض کردیا مگر انہوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ جن انبیاء کو وہ خود تسلیم کرتے ہیں ان کی کیفیت وحی الٰہی کے نزول کے وقت کیا ہوئی۔ بنی اسرائیل میں سب سے بڑے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں ان کے متعلق بائبل میں لکھا ہے کہ وہ اپنے خسر یترو کے گلہ کی نگہبانی کررہے تھے کہ انہوں نے حورب پہاڑ پر ایک درخت آگ میں روشن دیکھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام حیران ہوئے کہ یہ عجیب بات ہے کہ درخت کے اردگرد آگ ہے اور وہ جلتا بھی نہیں۔ چنانچہ وہ اس نظارہ کو دیکھنے کیلئے آگے بڑھے تب:
’’خدا نے اسی بوٹے کے اندر سے پکارا اور کہا کہ اے موسیٰ اے موسیٰ! وہ بولا میں یہاں ہوں۔ تب اس نے کہا یہاں نزدیک مت آ اپنے پائوں سے جوتا اتار کیونکہ یہ جگہ جہاں تو کھڑا ہے مقدس زمین ہے۔ پھر اس نے کہا میں تیرے باپ کا خدا ہوں اور ابراہام کا خدا اور اضحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہوں۔ موسیٰ نے اپنا منہ چھپایا کیونکہ وہ خدا پر نظر ڈالنے سے ڈرتا تھا‘‘ (خروج باب۳ آیت ۴ تا ۷)
اب دیکھو رسول کریم ﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بدء وحی میں کتنا بڑا فرق ہے۔ رسول کریم ﷺ کے متعلق اللہ تعالٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب انہوں نے خداتعالی کو دیکھا تو دنا فتدلی (النجم: ۱ع۵)۔ محمد رسول اللہ ﷺ خداتعالیٰ کی طرف دوڑے اور خداتعالیٰ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف دوڑا اور یہی عشق کامل کی علامت ہوتی ہے۔ ایک شاعر کہتا ہے ؎
بعد مدت کے گلے ملتے ہوئے آتی ہے شرم
اب مناسب ہے یہی کچھ میں بڑھوں کچھ تو بڑھے
محبت صادق میں یہی ہوتا کہ کچھ وہ بڑھتا ہے اور کچھ یہ بڑھتا ہے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق فرماتا ہے کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ کی روئیت ہوئی تو آپ اللہ تعالیٰ کی طرف دﷺدوڑے اور اللہ تعالیٰ آپ کی طرف دوڑا۔ مگر موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا واقعہ ہوا۔ جب انہوںنے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو خدا تعالیٰ نے ان سے کہا ’’یہاں نزدیک مت آ‘‘۔ یہ الفاظ بتارہے ہیں کہ موسیٰ کی تجلی اور محمد رسول اللہ ﷺ کی تجلی میں کتنا بڑا فرق تھا۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ وہ میری طرف بڑھے اورمیں ان کی طرف بڑھا تاکہ ہم دونوں آپس میں جلد ی مل جائیں مگر موسیٰ علیہ السلام کو کہا گیا ’’یہاں نزدیک مت آ‘‘ اور پھر ساتھ ہی یہ حکم دیا گیا کہ ’’اپنے پائوں سے جوتا اتار کیونکہ یہ جگہ جہاں تو کھڑا ہے مقدس زمین ہے‘‘۔ مگر محمد رسول اللہ ﷺ کو جوتا اتارنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے راجائوں سے کوئی بڑا آدمی ملنے کیلئے جاتا ہے تو اسے دروازہ میں ہی جوتا اتاردینے کا حکم دیا جاتا ہے۔ چونکہ موسیٰؑ کا مقام وہ نہیں تھا جو محمد رسول اللہ ﷺ کا تھا اس لئے محمد رسول اللہ ﷺ سے یہ نہیں کہا گیا کہ تو اپنا جوتا اتار۔ مگر موسیٰ علیہ السلام کو جیسے معمولی زمیندار کو ڈانٹ کر جوتا اتارنے کا حکم دیا جاتا ہے اللہ تعالی کی طرف سے حکم دیا گیا کہ ’’اپنے پائوں سے جوتا اتار کیونکہ یہ جگہ جہاں تو کھڑا ہے مقدس زمین ہے‘‘۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس وقت جو کچھ کہا گیا وہ یہ ہے کہ ’’میں تیرے باپ کا خدا اور ابراہام کا خدا اور اضحق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہوں‘‘۔ اس میں کونسا معرفت کانکتہ بیان ہے یا کونسا کمال ہے جو اس کلام میں پایا جاتا ہے؟ ایک موٹی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے مگر محمد رسول اللہ ﷺ کو جو کچھ کہا گیا اس کے متعلق آگے چل کر بتایا جائے گا کہ وہ کلام اپنے اندر کس قدر خوبیاں رکھتا ہے۔
پھر وہیری اور اس کے ساتھی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی تو وہ ڈر گئے اور ان کے کندھے کانپنے لگ گئے۔ مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہاں صاف لکھا ہے کہ ’’موسیٰ نے اپنا منہ چھپایا کیونکہ وہ خدا پر نظر ڈالنے سے ڈرتا تھا‘‘۔ اگر رسول کریم ﷺ پر آپ کے ڈرنے کی وجہ سے اعتراض کیا جاسکتا ہے تو موسیٰ علیہ السلام پر بھی یہ اعتراض وارد ہوتا ہے بلکہ موسیٰ علیہ السلام پر جو اعتراض وارد ہوتا ہے وہ زیادہ سخت ہے کیونکہ ان کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے ڈر کر اپنا منہ چھپالیا۔ لیکن رسول کریم ﷺ کے متعلق صرف اتنا لکھا ہے کہ آپ کے کندھے کانپنے لگ گئے اور یہ امر ظاہر ہے کہ بڑا آدمی اگر کسی بات سے گھبراتا ہے تو اس کے کندھے کانپنے لگ جاتے ہیں لیکن بچے جب کسی بات سے ڈرتے ہیں تو اپنا منہ چھپالیتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی بڑا آدمی ڈرے تو وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لے۔ لیکن بچوں کو تم روزانہ دیکھو گے کہ جب وہ ڈرتے ہیں فوراً اپنا منہ چھپالیتے ہیں۔ یہی بچوں والی حرکت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کی کہ خداتعالیٰ کو دیکھا تو ڈر کر اپنا منہ چھپالیا۔ یا کبوتروں والی حرکت کی جو بلی سے ڈر کر اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ لیکن محمد رسول اللہ ﷺ چونکہ روحانی لحاظ سے ایک جوان اور مضبوط آدمی کی حیثیت رکھتے تھ اس لئے آپ نے اپنی آنکھیں کھلی رکھیں صرف گھبراہٹ سے آپ کے کندھے ہلنے شروع ہوگئے۔ پس جو اعتراض مستشرقین یورپ کی طرف سے رسول کریم ﷺ پر کیا جاتا ہے وہی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وارد ہوتا ہے اور وارد بھی زیادہ بھیانک اور خطرناک شکل میں ہوتا ہے۔ پھر لکھا ہے:-
’’موسیٰ نے خدا کو کہا میں کون ہوں جو فرعون کے پاس جائوں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکالوں‘‘ (خروج باب۴ آیت۱۱)
عیسائی اعتراض کرتے ہیںکہ محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی وحی پر شک کیا اور وہ یہ نہیں دیکھتے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کیا حال تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کو فرعون کی طرف جانے کا حکم دیتا ہے مگر بجائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کریں اس کی نصرت اور تائید پر بھروسہ رکھیں اور سمجھیں کہ جب اللہ تعالیٰ مجھے اس کام کیلئے بھیج رہا ہے تو وہ مجھے اکیلا نہیں چھوڑے گا اس قدر شک کا اظہار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں کہ میری حیثیت ہی کیا ہے کہ میں فرعون کے پاس جائوں ۔ میں ایک غریب آدمی ہوں اور فرعون بڑا بادشاہ ہے۔ میں تو اس کے پاس نہیں جاسکتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حکم کا اس قدر انکار کرنے کے باوجود مسیحی پادریوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے مقرب ہی رہتے ہیں۔ لیکن محمد رسول اللہ ﷺ اگر صرف اتنا فرماتے ہیں کہ قد خشیت علی نفسی ۔ مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر پیدا ہوگیا ہے تو عیسائی یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو وحی الٰہی پر یقین نہیں تھا۔
پھر لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ جا اور اپنی قوم کو مصر سے نکال کر اس پہاڑ پر عبادت کرنے کیلئے لا۔ مگر موسیٰ نے اس کا بھی انکار کیا ۔ چنانچہ لکھا ہے :
’’ تب موسیٰ نے جواب دیا اور کہا کہ دیکھ وے مجھ پر ایمان نہ لائیں گے نہ میری بات سنیں گے وہ کہیں گے کہ خداوند تجھے دکھائی نہیں دیا‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۱)
محمد رسول اللہ ﷺ کا واقعہ جو بالکل عقل کے مطابق ہے اس کے متعلق تو عیسائی اعترا ض کرتے ہیں کہ آپ نے وحی الٰہی کے متعلق شک کا اظہار کیا ۔ مگر موسیٰ علیہ السلام کے متعلق نہیں دیکھتے کہ انہوں نے کس طرح اللہ تعالیٰ کے واضح احکام کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ اپنی قوم کو یہاں عبادت کرنے کیلئے لا۔ بجائے اس ک ے کہ وہ اس حکم کی فوری طور پر تعمیل کرتے اللہ تعالیٰ سے یہ کہنے لگ گئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائیں گے نہ میری بات سنیں گے وہ کہیں گے کہ خداوند تجھے دکھائی نہیں دیا۔ اس لیے میں ان کے پاس کس طرح جاسکتا ہوں۔’’تب خدا نے موسیٰ سے کہا کہ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے ۔ وہ بولا عصا ۔ پھر اس نے کہا اسے زمین پر پھینک دے۔ اس نے زمین پر پھینک دیا اور وہ سانپ بن گیا ار موسیٰ اس کے آگے سے بھاگا‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۲،۳)۔
کیسی عجیب بات ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سانپ کو دیکھا تو ڈر کر بھاگنے لگ گئے حالانکہ سانپ کو ہر شخص مار سکتا ہے۔یہ نہیں ہوتا کہ کوئی سمجھدار طاقتور انسان سانپ دیکھے تو ڈر کر بھاگنا شروع کردے وہ فوراً لاٹھی اٹھاتا اور اسے مارڈالتا ہے۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سانپ کو دیکھا تو ڈر کر بھاگنا شروع کردیا۔ عیسائی اس واقعہ کو پڑھتے ہیں مگر باوجود ان کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔ لیکن محمد رسول اللہ ﷺ بھاگتے نہیں وحی الٰہی کے نازل ہونے پر صرف اتنا فرماتے ہیں کہ نہ معلوم میں اس ذمہ داری کو ادا کرسکوں گا یا نہیں۔ تو عیسائی کہتے ہیں کہ آپ نے وحی الٰہی کے متعلق شک اور تردّد کا اظہار کردیا ۔ پھر لکھا ہے ’’تب موسیٰ نے خداوند سے کہا اے میرے خداوند میں فصاحت نہیں رکھتا نہ تو آگے سے اور نہ جب سے کہ تو نے اپنے بندے سے کلام کیا اورمیری زبان اور باتوں میں لکنت ہے‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۱۰) ۔ دیکھو کتنا بڑا نشان تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کا عصا سانپ بن گیا اور جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے سانپ کو پکڑا تو وہ پھر عصا بن گیا۔ اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے بعد بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام ابھی اڑے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں میری زبان میں فصاحت نہیں۔ نہ پہلے فصاحت تھی اور نہ اب تجھے دیکھنے کے بعد میری زبان میں کوئی فرق پیدا ہوا ہے۔ یعنی پہلے تو میں بیشک ایک معمولی آدمی تھا مگر میں دیکھتا ہوں کہ تیرے جلال کو دیکھنے کے بعد بھی میری زبان ویسی کی ویسی ہے جس طرح پہلے میری زبان میں لکنت تھی اسی طرح اب ہے جس طرح پہلے غیرفصیح تھا اسی طرح اب غیر فصیح ہوں۔
’’تب خدا نے اسے کہا کہ آدمی کو زبان کس نے دی اور کون گونگا یا بہرا یا بینا یا اندھا کرتا ہے کیا میں نہیں کرتا جو خداوند ہوں پس اب تو جا اور میں تیری بات کے ساتھ ہوں اور تجھ کو سکھائوں گا جو کچھ تو کہے گا‘‘ ۔(خروج باب۴ آیت ۱۱،۱۲)
اس حکم اور نصیحت کو سن کر بھی موسیٰ علیہ السلام کے طریق میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوئی۔ چنانچہ آگے لکھا ہے ’’تب اس نے کہا کہ اے میرے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں جس کو چاہے تو اس کے وسیلہ سے بھیج‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۱۳)۔ یعنی میں جانے کیلئے تیار نہیں۔ میری جگہ کسی اور کو بھیج دیجئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداتعالیٰ کے حکم کا بار بار انکار کیا پھر بھی مسیحی علماء کے نزدیک ان کے عظیم الشان نبی ہونے میں کوئی شک پیدانہیں ہوا۔ مگر رسول کریم ﷺ کے صرف اتنا کہنے پر کہ نہ معلوم میں اس ذمہ داری کو ادا کرسکوں گا یا نہیں، انہیں رسول کریم ﷺ کے ایمان میں یا عقل میں شبہ نظر آنے لگا۔ حالانکہ موسیٰ کا واقعہ ان کی الہامی کتاب میں مذکور ہے اور رسول کریم ﷺ کا فقرہ قرآن کریم میں نہیں بلکہ صرف حدیث میں بیان ہے جو کلام اللہ کے برابر شہادت نہیں ہوسکتا۔
تورات میں آگے چل کر لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ نے بار بار خداتعالی کا حکم ماننے سے انکار کیا ’’تب خداوند کا غصہ موسیٰ پر بھڑکا‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۱۴)۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ دیکھ کر کہ وہ انکار پر اصرار ہی کئے جاتے ہیں انہیں ڈانٹا ۔ پھر لکھا ہے ’’کیا نہیںہے لاویوں میں سے ہارون تیرا بھائی ۔ میں جانتا ہوں وہ فصیح ہے اور دیکھ کہ وہ بھی تیری ملاقات کو آتا ہے اور تجھے دیکھ کے دل میں خوش ہوگا اور تو اسے کہے گا اور اسے باتیں بتائے گا اور میں تیری اور اس کی بات کے ساتھ ہوں گا اور تم جو کچھ کرو گے تم کو بتائوں گا‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۱۴، ۱۵)۔ غرض رسول کریم ﷺ کی بدء وحی پر عیسائیوں کی طرف سے جو اعتراضات کئے جاتے ہیں وہ تمام کے تمام اعتراضات اس وحی پر بھی واقعہ ہوتے ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پرنازل ہوئی۔ ہم تو عیسائیوں کے اعتراضات کو درست تسلیم نہیں کرتے اور ان کے جوابات بھی اوپر درج کئے جاچکے ہیں لیکن پھر بھی الزامی رنگ میں ہم عیسائیوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں رسول کریم ﷺ کے متعلق یہ اعتراض ہے کہ وحی کے متعلق آپ نے تردّد کا اظہار فرمایا تو یہ اعتراض بدرجۂ اتم حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وارد ہوتا ہے اور وار بھی ایسی صورت میں ہوتا ہے کہ اس کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی۔
اس کے بعد ہم حضرت مسیح علیہ السلام کی بدء وحی کے واقعات کو دیکھتے ہیں۔ متی باب ۳ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام یوحنا کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ مجھے بپتسمہ دو پہلے تو انہوں نے انکار کیا مگر آخر مان لیا اور حضرت مسیحؑ نے یوحنا سے بپتسمہ پایا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کے متعلق انجیل کہتی ہے:۔
’’ اور یسوع بپتسمہ پا کے وہیں پانی سے نکل کے اوپر آیا اور دیکھو کہ اس کے لئے آسمان کھل گیا اور اس نے خدا کی روح کو کبوتر کی مانند اترتے دیکھا۔ اور دیکھو کی آسمان سے ایک آواز یہ کہتی آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں ‘‘(متی باب ۳ آیت۱۶، ۷۱)۔ اس نظارہ کو رسول کریم ﷺ کی بدء وحی کے سامنے رکھواور پھر سوچو کہ کیا ان دونوںواقعات میں کوئی بھی نسبت ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف اللہ تعالی نے اپنا پیغام فرشتہ کے ذریعہ بھیجا اور مسیحؑ پر کبوتر کی شکل میں روح القدس نازل ہوا۔ کبوتر سے انہوں نے کیا ڈرنا تھاکبوتر سے انہوں نے کیا ڈرنا تھا کبوتر تو وہ جانور ہے جس کی ہڈیاں بھی انسان چبا جاتا ہے۔ یہی عیسوی اور محمدؐی تجلی کا فرق ہے جس کی بناء پر اللہ تعالی نے قرآنی تعلیم کو شرک سے محفوظ رکھا لیکن عیسائیت پر شیطان غالب آگیاکیانکہ عیسائی مذہب کے پیشوا پر روح القدس ایک نہایت ہی کمزور شکل میں نازل ہواتھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ۔
’’ ہمارے نبی ﷺ پر روح القدس کی جو تجلی ہوئی تھی وہ ہر ایک تجلی سے بڑھ کر ہے۔ روح القدس کبھی کسی نبی پر کبوترکی شکل پر ظاہر ہوا اور کبھی کسی نبی یا اوتار پر گائے کی شکل پر ظاہر ہوا اور انسان کی شکل کا وقت نہ آیا جب تک کہ انسان کامل یعنی ہمارا نبی ﷺ مبعوث نہ ہوا۔ جب آنحضرت ﷺ مبعوث ہو گئے تو روح القدس بھی آپ پر بوجہ آپ کے کامل انسان ہونے کے انسان کی شکل پر ہی ظاہر ہوا اور چونکہ روح القدس کی قوی تجلی تھی جس نے زمیں سے لے کر آسمان کا افق بھر دیا اس لئے قرآنی تعلیم شرک سے محفوظ رہی ۔ لیکن چونکہ عیسائی مذہب کے پیشواپر روح القدس نہایت کمزور شکل میں ظاہر ہوا یعنی کبوتر کی شکل پر۔ اس لئے ناپاک روح یعنی شیطان اس مذہب پر فتح یاب ہوگیا‘‘ (کشتی نوحؑ )۔ اس جگہ یہ نکتہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ جن کو انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے وہ اس کے رسول کہلاتے ہیں اور رسول دنیا میں دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کا کام صرف خط دے دینا ہوتا ہے اس سے زیادہ ان کا کچھ کام نہیں ہوتا۔ اور ایک وہ جن کا کام ان احکام کو نافذ کرنا بھی ہوتا ہے۔ حضرت مسیح علیہ ا لسلام پر تجلی کا الٰہی کا کبوتر کی صورت میں نازل ہونا بتاتا ہے کہ مسیحؑ کی حثییت صرف اس پیغامبر کی تھی جو پیغام سنا دیتا ہے اور اس کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن رسول کریم ﷺ پر تجلی الٰہی کا نزول ایک مرد کامل کی شکل میں ظاہر ہواجس سے اس طرف اشارہ تھا کہ آپ صرف پیغامبر نہ ہوں گے بلکہ ایک کامل نمونہ بھی اپنے مخاطبین کے لئے ہوں گے۔
انجیل میں یہ بھی بتایا گیا ہے :
’’ تب یسوع روح کے وسیلے بیابان میں لایا گیا تا کہ شیطان اسے آزمائے اور جب چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھ چکا آخر کو بھوکا ہوا تب آزمائش کرنے والے نے اس پاس آکے کہااگر تو خدا کا بیٹا ہے تو کہہ یہ پتھر روٹی بن جائیں اس نے جواب میں کہا لکھا ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر اک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے جیتا ہے۔ تب شیطان اسے مقدس شہر میں اپنے ساتھ لے گیااور ہیکل کے کنگورے پر کھڑا کر کے اس سے کہا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تواپنے تئیں نیچے گرا دے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیرے لئے اپنے فرشتوں کو فرمائے گا اور وے تجھے ہاتھوں پر اٹھا لیں گے ایسا نہ ہو کہ تیرے پائوں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔ یسوع نے اس سے کہا یہ بھی لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو مت آزما۔ پھر شیطان اسے ایک بڑے اونچے پہاڑ پر لے گیا اور دنیا کی ساری بادشاہتیں اور ان کی شان وشوکت اسے دکھائیں اور اس سے کہا اگر تو گر کے مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دوں گا۔ تب یسوع نے اسے کہا اے شیطان دور ہوکیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کراور اس اکیلے کی بندگی کر۔‘‘ (متی باب ۴ آیت۱تا۱۰ )۔ دیکھو عیسائیوں کو تو رسول کریم ﷺ پر یہ اعتراض تھا کہ آپ نے وحی الٰہی کے متعلق شبہ کا اظہار کیا مگر یہاں لکھا ہے کہ شیطان حضرت مسیحؑ کو اپنے ساتھ لئے پھرا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ واقعہ میں ایسا ہواہے ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ پر کامل یقین تھا تو انجیل کے بیان کے مطابق وہ شیطان کے پیچھے پیچھے کیوں بھاگے پھرتے تھے اور کیا وجہ ہے کہ جس طرف شیطان ان کی انگلی پکڑ کر لے جاتااس طرف وہ نہایت اطمینان کے ساتھ چلنا شروع کر دیتے؟ بیت المقدس میں لے جاتا ہے تو وہاں چلے جاتے ہیں۔ ہیکل کے کنگورے پر کھڑا کرتا ہے تو وہاں کھڑے ہو جاتے ہیں گویا جس طرح کوئی بے بس ہوتا ہے۔ شیطان کی ہر بات مانتے چلے جاتے ہیں۔ بہرحال عیسائیوں کودو باتوں میں سے ایک بات ضرور تسلیم کرنی پڑے گی۔ یا تو ان کو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ ایک ظاہری واقعہ ہے اور یا ان کو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ ظاہری واقعہ نہیں بلکہ خواب ہے۔ اگر اسے ظاہری واقعہ تسلیم کیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیطان حضرت مسیحؑ کے پاس آیا کیوں؟ کیا وہ خدا تعالی کے بیٹے کو دھوکا دے سکتا تھا؟ اگر نہیں تو اس کا ظاہری صورت میں حضرت مسیحؑ کے پاس آنا بالکل بے معنی بات تھی جس کی کوئی بھی توجیہہ نہیں ہوسکتی۔ ہاں اگر اس واقعہ کوحضرت مسیحؑ کی خواب قرار دے دیا جائے تو ایسا ہو سکتا ہے مگر اس صورت میں بھی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کے دل میں یہ خیالات آنے شروع ہوگئے تھے کہ کیا مجھے شیطان کی طرف سے تو الہام نہیں ہوا۔ حضرت مسیحؑ کا رئویا کی حالت میں شیطان کے پیچھے چلنا اور اسے نہ دھتکارنا ان کے قلب کی اس حالت پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اس کے شیطان ہونے پر یقین نہ رکھتے تھے اور اس وقت تک شیطانی اور رحمانی رئویا میں فرق نہیں کرسکتے تھے۔
غرض انجیل کی آیات سے یہ امر ظاہر ہے کہ یسوع کو ایک کبوتری کے نظارہ میں پہلا جلوہ ہوا جبکہ رسول کریم ﷺ کو ایک کامل القویٰ انسان کی شکل میں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آگ کی صورت میں۔ پھر موسی ؑ کا شک اور خوف بھی ثابت ہے اور مسیحؑ کا بھی۔ کیونکہ شیطان کا ملنا اور مسیحؑ کا اس کے پیچھے جانا تردد اور شک پرہی دلالت کرتا ہیاور بتاتا ہے کہ ان کے دل میں اس وقت تک الٰہی کلام پر وہ یقین اور وثوق پیدا نہیں ہوا تھا جو بعد میں جا کر پیدا ہوا۔
پھر سوال یہ ہے کہ جب کبوتر کی شکل میں روح القدس نازل ہوا تو اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ انجیل میں صرف اتنا لکھا ہے ’’آسمان سے ایک آواز یہ کہتی آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں ‘‘۔ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو کونسا نیا علم بخشا گیا ہے یا کونسا معرفت کا نیا نکتہ تھا جو آپ پر نازل کیا گیا۔ محض کسی آواز کا آجانا تو کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ آواز تو ایک باعمل کو بھی آجاتی ہے یا جب موسی ؑکو اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ ’’میں تیرے باپ کا خدا اور ابراہام کا خدا اور اسحاق کا خدااور یعقوب کا خدا ہوں‘‘۔ تو موسیٰ کو اس سے کیا لطف آیا ہوگا یا کونسا عرفان ان کو حاصل ہوا ہوگا۔ کیا اس کلام کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کہہ سکتے تھے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی بات بتائی گئی ہے جو پہلے میرے علم میں نہیں تھی یا عرفان کا ایک نیا باب میرے لئے کھول دیا گیا ہے یقینا وہ ایسی کوئی بات نہیں کہہ سکے تھے۔ اسی طرح حضرت مسیحؑ پر اگر ایک کبوتری کی شکل میں روح القدس نازل ہوگیا اور آسمان سے یہ آواز آگئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے تو کیا ہوگیا۔ یہ محض ایک بیان ہے اس سے زیادہ ان الفاظ کی کوئی حقیقت نہیں۔ نہ ان میںعرفان کی کوئی بات ہے نہ علم و حکمت کا کوئی نکتہ ہے۔ نہ تعلق باللہ کا کوئی راز ان میں منکشف کیا گیا ہے اورنہ کوئی اور ایسی بات بیان کی گئی ہے جو علم اور معرفت کی زیادتی کے ساتھ تعلق رکھتی ہو۔ پھر یہ بھی قابل غور بات ہے کہ حضرت مسیحؑ نے کبوتر کی شکل میں روح القدس کے نازل ہونے کا جو نظارہ دیکھا اس کے متعلق یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ کوئی حقیقی نظارہ نہیں تھا بلکہ دماغ کی خرابی کا ایک کرشمہ تھا کیونکہ جن لوگوں کو وہم ہوجاتا ہے وہ بعض دفعہ معمولی معمولی باتوں سے ایسے نتائج اخذ کرلیتے ہیں جو کسی اور انسان کے واہمہ میں بھی نہیں آتے۔ مولوی یار محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی تھے ان کے دماغ میں نقص تھا۔ بعض دفعہ باتیں کرتے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ہاتھ کو حرکت دیتے تو مولوی یار محمد صاحب جھٹ کود کر آگے آجاتے اور سمجھتے کہ یہ اشارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میرے لئے کیا تھا۔ اسی طرح جن میں وہم کا مرض پید اہوجاتا ہے وہ بعض دفعہ پرندوں کی پرواز سے فال لینا شروع کردیتے ہیں۔ دائیں طرف سے کوئی پرندہ گزرجائے تو سمجھتے ہیں کہ ہمیں کام میں کامیابی ہوجائے گی اور اگر بائیں طرف سے گزرجائے تو سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں نحوست کا سامنا کرنا ہوگا۔ اسی رنگ میں جو ہوسکتا ہے کہ جب یوحنا سے بپتسمہ پانے کے بعد حضرت مسیحؑ پانی سے باہر آئے ہوں تو کوئی کبوتر اڑ کر ان کے پاس آبیٹھا ہو اور انہوں نے سمجھ لیا ہو کہ یہ آسمان سے میرے پاس آیا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بدء وحی کا واقعہ بے شک ایک حقیقی نظارہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ آپ سے ہمکلام ہوا۔ مگر اس کلام میں کوئی ایسی بات نہیں جس میں علم و عرفان کا کوئی خاص راز منکشف کیا گیا ہو یاکوئی ایسی بات بتائی گئی ہو جو دنیا کیلئے ایک نرالے پیغام کی حیثیت رکھتی ہو۔ صرف موسیٰ ؑ کو کہا گیا کہ تو فرعون کے پاس جا اور بنی اسرائیل کو اس کی غلامی سے نکال ۔ یہ محض ایک دنیوی بات ہے زیادہ سے زیادہ اسے سیاسی لحاظ سے اہمیت دی جاسکتی ہے مگر مذہبی اور روحانی نقطۂ نگاہ سے اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو دنیاکیلئے جدید پیغام ہو یا اس پر کوئی نئی حقیقت روشن کرنے والا ہو۔ بہرحال رسول کریم ﷺ اور سابق انبیاء کی بد ء وحی کے واقعات کا جب آپس میں مقابلہ کیا جائے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ رسول کریم ﷺ کی وحی باتی تمام انبیاء کی وحیوں میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے جس قسم کی محبت اور پیار کا سلوک آپ سے کیا ہے اس قسم کی محبت اور پیار کا سلوک اس نے اور کسی نبی سے نہیں کیا۔
ترتیب: یہ سورۃ بھی پہلی سورۃ کے مضمون کے مطابق ہے۔ یعنی والتین والزیتون میں جو مضمون تھا اسی کو ایک نئے پیرایہ میں اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے۔
والتین والزیتون میں اللہ تعالیٰ نے وحی کا ایک تسلسل بیان کیا تھا اور بتایا تھا کہ یہ تسلسل ابتدائے عالم سے جاری ہے۔ پہلے آدم کے ذریعہ اس کا ظہور ہوا، پھر نوحؑ کے ذریعہ اس کا ظہور ہوا، پھر موسیٰ کے ذریعہ اس کا ظہور ہوا۔ اب قرآن کریم کے ذریعہ اس کا ظہورہورہا ہے۔ یہی مضمون اس جگہ بیان کیا گیا ہے کہ اقرا باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق یعنی انسانی پیدائش کو تم دیکھ لو جس طرح ایک فرد علقہ سے مضغہ بنتا ہے اور مضغہ کے بعد درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے آخر جاندار بن کر رحم مادر سے باہر آتا ہے۔ اسی طرح جماعتی طور پر انسان کی ترقی ہوئی ہے۔ پہلے روحانی لحاظ سے انسان علقہ کی طرح تھا پھر ترقی کرکے مضغہ بنا پھر اس نے اور ترقی کی، پھر اور ترقی کی یہاں تک کہ وہ انسان کامل کے مقام تک آپہنچا اور یہ پیدائش محمد رسول اللہ ﷺ کی صورت میں ہوئی۔ پس خلق الانسان من علق میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے جو والتین والزیتون میں بیان کیا گیاتھا اور بتایا گیا ہے کہ ابتدائے عالم سے ایک سکیم ہمارے مدنظر تھی اور ہم چاہتے تھے کہ روحانی لحاظ سے انسان کو درجہ بدرجہ ترقی دیتے دیتے آخر دنیا میں ایک انسان کامل پیدا کریں۔ جب یہ سکیم ابتدائے عالم سے ہمارے مدنظر تھی تو ضروری تھا کہ انسان کو اس کا مقصود حاصل ہوتا۔ ورنہ خلق انسانی عبث ٹھہرتی اور اللہ تعالیٰ زیر الزام آتا ہے کہ جس سکیم کے ماتحت بنی نوع انسان کی پیدائش کی گئی تھی وہ نعوذ باللہ کامیاب نہ ہوئی۔ پس یہ سورۃ گزشتہ سورۃ کے مضمون کے تسلسل میں ہے اور اسی مضمون کو ایک نئے انداز میں اس جگہ بیان کیاگیا ہے۔
اس جگہ شاید کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو کہ جب سورئہ علق ابتدائی سورۃ ہے تو سورئہ تین سے اس کا تعلق ثابت کرنا کیا معنے؟تین بعد میں نازل ہوئی اور علق پہلے۔ سو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی دو ترتیبیں ہیں۔ ایک نزول کے لحاظ سے ۔ سو اس لحاظ سے تین بعد میں اور علق پہلے۔ لیکن اس کی جو ترتیب زمانوں کو مدنظر رکھ کر ہے اسی کے مطابق قرآن کریم میں سورتیں رکھی گئی ہیں اور اسی کے لحاظ سے بعض بعد میںنازل ہونے والی سورتیں پہلے آگئی ہیں اور پہلے نازل ہونے والی بعد میں آگئی ہیں۔
اب میں قرآنی آیات کی تشریح کرتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو پیغام ملا وہ اپنے اندر کس قدر علوم رکھتا تھا اور کتنے عظیم الشان معارف تھے جو اس میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے۔
اقرا باسم ربک الذی خلقO اپنے رب کا نام لے کر پڑھ جس نے (سب اشیاء کو) پید اکیا۔
تفسیر: اقرا وہ پہلا لفظ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا اور جس میں اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی بعض عظیم الشان پیشگوئیوں کا اعلان کردیا گیا۔ اقرا کے اصل معنے گو کسی لکھی ہوئی چیز کے پڑھنے کے ہیں مگر اس کے ایک معنی اعلان کرنے کے بھی ہیں اور یہ دونوں معنے ایسے ہیں جو اس مقام پر نہایت عمدگی کے ساتھ چسپاں ہوتے ہیں۔ اگر اقرا کے معنے اعلان کرنے کے لئے جائیں تو اقرا باسم ربک الذی خلق کے یہ معنے ہوں گے کہ تو اس کتاب کا علان اپنے اس رب کے نام کے ساتھ کر جس نے تجھے پیدا کیا۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہی کہ قرآن کریم وہ کتا ب ہے جس میں پہلے دن ہی یہ خبر دی گئی ہے کہ یہ کلام محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات کیلئے نہیں بلکہ دنیا کی ساری قوموں اور قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کیلئے ہے۔
دیکھو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر پہلے دن جو الہام ہوا وہ صرف اس قدر تھا کہ ’’میں تجھے فرعون کے پس بھیجتا ہوں میرے لوگوں کو جو بنی اسرائیل میں مصر سے نکال‘‘ (خروج باب ۳ آیت ۱۰)۔ حالانکہ انبیاء کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ قلوب کی صفائی کریں شیطان کی غلامی سے لوگوں کو چھڑائیں اور تقویٰ اور پاکیزگی کی راہیں ان پر روشن کریں مگر وہاں ایسا کوئی پیغام نہیں دیا گیا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو پیغام ملا اس میں بھی اس بنیادی چیز کا کوئی ذکر نہیں صرف اتنا بیان کیا جاتا ہے کہ ایک کبوتری اتری اور آسمان سے یہ آواز آئی کہ تو میرا پیارا بیٹا ہے۔ لیکن رسول کریم ﷺ پر پہلا فقرہ یہی نازل ہوتا ہے کہ اقرا باسم ربک الذی خلق۔ اے محمد ﷺ تو دنیا کے سامنے اعلان کر اور اسے بتا کہ اسے اس کا خالق رب اپنی طرف بلاتا ہے اس طرح پہلے لفظ کے ذریعہ ہی اس حقیقت کو روشن کردیا گیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا پیغام ساری دنیا کیلئے ہے۔ اسود اور احمر اس پیغام کے مخاطب ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کا فرض ہے کہ وہ تمام لوگوں تک اس پیغام کو پہنچائیں اور وہ لوگ جو آستانۂ الٰہی سے بھٹک چکے ہیں ان کو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے واپس لائیں۔
اقرا کے دوسرے معنے کسی لکھی ہوئی چیز کو پڑھنے کے ہوتے ہیں۔ ان معنوں کے لحاظ سے اقرا باسم ربک الذی خلق میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو لکھی جائے گی اور پھر یہ لکھی ہوئی کتاب بار بار پڑھی جائے گی۔ چنانچہ اگر واقعات پر غور کیا جائے تو معلو م ہوتا ہے کہ قرآن دنیا میں وہ پہلی کتاب ہے جو ابتدائے نزول کے ساتھ ہی لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں اور جس قدر الہامی کتابیں پائی جاتی ہیں ان میں سے کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں جو نازل ہونے کے وقت ہی لکھ لی گئی ہو۔ صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے کہ اسے لکھا جائے گا اور اس طرح شروع سے ہی اس کی حفاظت کا سامان کیا جائے گا اور وہ پیشگوئی حرف بہ حرف پوری بھی ہوگئی۔ چنانچہ نولڈکے ، وہیری اور میور تک نے تسلیم کیا ہے کہ سوائے قرآن کریم کے اور کوئی کتاب ایسی نہیں جو ابتدائے ایام میں لکھی گئی ہو۔ انجیلیں بے شک آج دنیا میں موجود ہیں مگر کوئی عیسائی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کتابیں حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی میں لکھی گئی ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ متی، مرقس، لوقا اور یوحنا نے حضرت مسیحؑ کی وفات کے ایک لمبے عرصے بعد ان باتوں کو جمع کیا۔ چنانچہ ’’لوقا‘‘ خود اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے:-
’’چونکہ بہتوں نے کمر باندھی کہ ان کاموں کا جو فی الواقع ہمارے درمیان انجام ہوئے بیان کریں جس طرح سے انہوں نے جو شروع سے خود دیکھنے والے اور کلام کی خدمت کرنے والے تھے ہم سے روایت کی۔ میں نے بھی مناسب جانا کہ سب کو سرے سے صحیح طور پر دریافت کرکے تیرے لئے اے بزرگ تھیو فلس بترتیب لکھوں تاکہ تو ان باتوں کی حقیقت کو جن کی تونے تعلیم پائی جانے‘‘۔ (لوقا باب ۱ آیت ۱ تا ۴)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اناجیل حواریوں نے نہیں بلکہ ان سے ملنے والوں اور شاید ملنے والوں کے ملنے والوں نے لکھی۔ غرض دنیا میں سوائے قرآن کریم کے اور کوئی کتاب ایسی نہیں جو شروع سے ہی لکھوائی گئی ہو اور جس کو بار بار پڑھنا لوگوں کا فرض قرار دیا گیا ہو۔پس اقرا میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ یہ کتاب دنیا میں لکھی جائے گی اور لوگوں سے کہا جائے گا کہ اسے پڑھواور بار بار پڑھو۔
پھر فرمایا باسم ربک اپنے رب کے نام کے ساتھ پڑھ۔ یہاں ربک کا لفظ استعما ل کرکے اللہ تعالیٰ نے ایک نئے مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے۔ درحقیقت رب ایک ایسی ذات ہے جس کو مشرک بھی مانتے تھے اور یہودی اور عیسائی بھی اس کے متعلق اپنے ایمان کا اظہار کرتے تھے مگر وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی طرف غلط باتیں منسوب کرتے تھے۔ مثلاً مشرکین یہ تو کہا کرتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان لاتے ہیں مگر وہ اس کے ساتھ ہی لات اور عزیٰ کی بھی پرستش کرتے تھے۔ یا عیسائی یہ تو کہتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا وجود تسلیم کرتے ہیں مگر ساتھ ہی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خداتعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔ یہی حال یہود کاتھا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر تو ایمان رکھتے تھے مگر اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی اعتقاد تھا کہ یہود کے سوا اللہ تعالیٰ اور کسی پر الہام نازل نہیں کرسکتا۔ رسول کریم ﷺ کی فطرت ان تمام امور کا نہایت سختی سے انکار کرتی تھی۔ وہ یہودیت کے نظریہ کو بھی تسلیم نہ کرتی تھی۔ عیسائیت کے فلسفہ کو بھی رد کرتی تھی اور مشرکین مکہ کے خیالات کو بھی ناقابل قبول قرار دیتی تھی۔ آپ غار حرا کی تاریکیوں میں جب اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس کو سوز و گداز کے ساتھ پکارتے تو یہ تمام خیالات ایک ایک کرکے آپ کے سامنے آتے۔ آپ دیکھتے کہ یہود گو اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں مگر یہ کیسا گھنائونا عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس نے اپنی محبت یہود کے ساتھ وابستہ کردی ہے۔ دنیا کا اور کوئی انسان اس کے کلام اور الہام کا مورد نہیں ہوسکتا۔ آپ عیسائیت کی تعلیم پر غور کرتے اور سوچتے کہ بے شک عیسائیت بھی اللہ تعالیٰ کی ہستی کو تسلیم کرتی ہے مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دے کر مقام الوہیت کی خطرناک توہین کررہی ہے۔ آپ مشرکین مکہ کے عقائد پر نگاہ دوڑاتے تو آپ کی فطرت صحیحہ ان کے عقائد کو بھی باطل قرار دیتی اور کہتی کہ ایک خدا کو چھوڑ کر لات اور منات اور عزیٰ کی پرستش کسی صورت میں بھی درست نہیں ہوسکتی۔ غرض آپ یہودیوں کے عقیدہ کا بھی انکار کرتے تھے۔ یہودیت آپ کے سامنے پیش ہوئی تو آپ کی فطرت کہتی کہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اس خدا کو مان لوں جو یہود کے سوا اور کسی کو اپنا پیارا بنانے کیلئے تیار نہیں۔ عیسائیت آپ کے سامنے پیش ہوتی تو آپ کی فطرت اس کا انکار کرتی اور کہتی وہ مذہب کس طرح سچا تسلیم کیا جاسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو بیٹے کا محتاج قرار دیتا ہے۔ مشرکین مکہ کے خیالات آپ کے سامنے پیش ہوتے تو آپ کی فطرت ان کو ناقابل تسلیم قرار دے دیتی اور کہتی کہ لات اور منات اور عزیٰ کو قابل پرستش نہیں سمجھا جاسکتا۔ غرض آپ کسی شرک کو برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ آپ چاروں طرف سے ایسے لوگوں میں گھرے ہونے کے باوجود جو مشرکانہ خیالات میں ملوث تھے اپنی فطرت صحیحہ کی بناء پر اس خدا کو مانتے تھے جو ایک ہے جو قادر اور قیوم ہے۔ جو اپنی صفات میں ازلی ابدی اور غیر متغیر ہے۔ جو نہ کسی کا بیٹا ہے نہ کوئی اس کا بیٹا۔ جو خالق الکل ہے۔ جو دکھ اٹھانے اور صلیب پر چڑھنے سے پاک ہے اور جو اپنے کلام کیلئے کسی خاص گروہ کو مخصوص نہیں کرتا بلکہ دنیا کے ہر ایسے فرد کو اپنے قرب میں جگہ عطا کرتا ہے جو اس کی محبت کا متلاشی ہوتا ہے۔ پس فرمایا اقرا باسم ربک الذی خلق ۔ جا اور دنیا میں اپنے رب کے نام کا اعلان کر یعنی کفار کے ارباب نہیں بلکہ تیرا رب یعنی تو نے جس رب کو سمجھا ہے وہی سچا رب ہے اور اسی کے نام سے برکات ملتی ہیں۔ تو دنیا میں اس کا بار بار اعلان کر اور لوگوں کو اس رب کی طرف بلا جس کو تو تسلیم کرتا ہے ۔ اسی طرح پہلے الہام میں ہی اللہ تعالیٰ نے شرک کا ردّ کردیا اور بتادیا کہ گو اور لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کا عقیدہ ہر قسم کے مشرکانہ خیالات سے منزہ ہو صرف وہ خدا جس کی حقیقت کو تو نے سمجھا ہے جس پر غار حرا کی دن رات کی عبادت میں تجھے یقین حاصل ہوا ہے وہی دنیا کا حقیقی رب ہے اور ہم تجھے اس بات کا حکم دیتے ہی کہ تو دنیا کے سامنے ’’اپنے ربّ‘‘ کا اعلان کر اور لوگوں کو بتا کہ جس طرح میں نے اللہ تعالیٰ کی حقیقت کو سمجھا ہے مجھے میرے رب نے بتایا ہے کہ وہی درست ہے باقی تمام اعتقادات باطل اور الوہیت کی شان سے بہت بعید ہیں۔ غرض ربک میں رسول کریم ﷺ کے اعتقاد کی درستی کے متعلق الٰہی تصدیق کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسیحی جو یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ خدا کا بیٹا ہے بالکل غلط ہے۔ تونے جو کچھ اللہ تعالیٰ کے متعلق سمجھا ہے وہ ٹھیک ہے ۔ اسی طرح مشرکین مکہ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ لات اور منات اور عزیٰ بھی اپنے اندر خدائی طاقتیں رکھتے ہیں یہ بالکل غلط ہے۔ صحیح عقیدہ وہی ہے جو تو نے سمجھا ہے۔ یا مثلاً یہود جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صرف یہود سے کلام کرتا ہے اور کسی سے نہیں ، یہ بالکل غلط ہے۔ تو جو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بولتا ہے یہ بالکل صحیح اور درست عقیدہ ہے۔ پس تو جا اور دنیا میں اپنے رب کا اعلان کر گویا تو غار حرا میں غور و فکر کرنے کے بعد جس نتیجہ پر پہنچا ہے ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں اور تجھے ہدایت دیتے ہیں کہ اب تو لوگوں میں کھڑا ہو اور انہیں اپنے رب کی طرف بلا۔ غرض اقرا باسم ربک الذی خلق میں ایک طرف تو شرک کا ردّکردیاگیا ہے اور دوسری طرف رسول کریم ﷺ کے عقائد کی درستی کا اعلان کردیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ صحیح عقائد اور صحیح خیالات وہی ہیں جو اے محمد رسول اللہ ﷺ تو ہمارے متعلق رکھتا ہے ۔ لوگوں کے خیالات درست نہیں ہیں۔
بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ووجدک ضالا فھدی میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نعوذباللہ پہلے گمراہ تھے بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت دی۔ ان معنوں کا غلط ہونا تو آیت مذکورہ کی تفسیر میں بتایا جاچکا ہے لیکن اس کی ایک تردید آیت اقرا سے بھی نکلتی ہے۔ اگر رسول کریم ﷺ گمراہ ہوتے تو خداتعالیٰ کو پہلی وحی میں یہ کہنا چاہئے تھا کہ جو کچھ تو میرے متعلق سمجھ رہا تھا وہ غلط ہے اب میں تجھے بتاتا ہوں کہ صحیح عقیدہ کونسا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے کسی خیال کی تردید نہیں فرمائی۔ آپ کے کسی عقیدہ کو باطل قرار نہیں دیا بلکہ فرمایا تویہ فرمایا کہ جو کچھ تو نے ہمارے متعلق سمجھا ہے درست ہے اور جو کچھ لوگ سمجھ رہے ہیں وہ غلط ہے ۔ پس اس آیت کے نے بھی بتادیا کہ ووجدک ضالا کے وہ معنے بالکل غلط ہیں جو دشمنانِ اسلام کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں۔ پس یہاں ربک کا لفظ استعمال کرکے اللہ تعالیٰ نے دونوں باتیں بیان کردیں۔ شرک کا بھی ردّ کردیا اور یہ بھی بتادیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا عقیدہ جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نزول الہام کے متعلق تھا وہی درست تھا۔ تبھی فرمایا کہ اقرا باسم ربک۔ جا اور ’’اپنے ربّ‘‘ کے نام کا دنیا میں اعلان کر۔
بعض لوگوں نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ اس جگہ اقرا اسم ربک الذی کہنا چاہئے تھا اقرا باسم ربک کیوں کہا گیا ہے۔ اس کا جواب نحوی یہ دیتے ہیں کہ باء یہاں زائدہ ہے یعنی تاکید کی باء ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عربی زبان میں باء بعض دفعہ زائد بھی آجاتی ہے اور اگر ہم اس کو زائدہ قرار دیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ جب کسی فقرہ میں باء زائد آجاتی ہے تو اس کے معنوں میں زیادہ زور پیدا ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے اقرا باسم ربک کے یہ معنے ہوں گے کہ تو اپنے رب کا نام خوب اچھی طرح لے اور خوب اچھی طرح دنیا میں اس کا اعلان کر۔ مگر میرے نزدیک یہاں باء زائدہ نہیں بلکہ استعانت کے طور پر استعمال ہوئی ہے یعنی تو اپنے رب کے نام کی مدد کے ساتھ جس نے دنیا کو پیدا کیا ہے ایسا کر۔
پولیس جب کسی کی خانہ تلاشی کیلئے آتی ہے تو کہتی ہے کہ حاکم کے نام پر دروازہ کھولا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ حاکم وقت نے ہم کو اتھارٹی AUTHORITY دی ہے جس کے ماتحت ہم یہ کام کررہے ہیں۔ اگر تم ہمارے اس کام میں روک بنو گے تو حکومت کے مجرم قرار پائو گے۔ چنانچہ پولیس اگر کسی چوری کی تفتیش کے سلسلہ میں کسی کے مکان کی تلاشی لینا چاہے اور مالک مکان انکار کردے تو اس پر مقدمہ دائر ہوجاتا ہے کہ اس نے سرکاری افسروں کے کام میں رکاوٹ ڈالی اور حاکم وقت کی اتھارٹی کے باوجود اپنے گھر کا دروازہ کھولنے سے انکار کردیا۔ جس طرح دنیا کی پولیس حاکم وقت کی طرف سے اختیارات حاصل کرکے کسی کے مکان پر جاتی ہے اسی طرح فرماتا ہے اقرا باسم ربک۔ تو اپنے رب کے نام کے ساتھ دنیا میں کھڑا ہو اور ان سے کہہ کہ مجھے ان باتوں کے پہنچانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اگر تم انکار کرو گے تو تم میرا انکار نہیں کرو گے بلکہ اس خدا کا انکار کرو گے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس کے نام کے ساتھ تمہارے سامنے میں اپنی رسالت کا اعلان کررہا ہوں۔ گویا ربک کا لفظ استعمال کرکے جہاں رسول کریم ﷺ کے عقائد کی صحت کا اعلان کیا گیا وہا باسم ربک میں رسول کریم ﷺ کی رسالت کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ رسول یہی کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کی ہدایت کیلئے کھڑا کیا گیا ہے اور میں اسی کے نام کے ساتھ اپنے دعاوی تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں۔
غرض پہلی وحی میں ہی باسم ربک کہہ کر ایک طرف تو رسول کریم ﷺ کے عقائد کی درستی کا اعلان کردیا اور دوسری طرف رسول کریم ﷺ کی رسالت کا بھی اعلان کردیا اور بتادیا کہ یہ جو کچھ کہتا ہے اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ ہماری طرف کہتا ہے۔ اس تشریح کو ملحوظ رکھتے ہوئے اقرا باسم ربک الذی خلق کے یہ معنے ہوں گے کہ تو اپنے اس رب کے نام کا جس کو صرف تو ہی اس زمانہ میں صحیح طور پر سمجھتا ہے دنیا میں اعلان کر اور لوگوں کو بتا کہ باقی تمام تشریحات رب کی اس کے مقابل میں باطل ہیں۔ اسی طرح تو دنیا میں اس تعلیم کا اعلان کر جو ہم تجھ پر نازل کررہے ہیں کیونکہ یہ تعلیم صرف تیرے لئے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کیلئے ہے۔ یہ تعلیم لکھی جائے گی، پڑھی جائے گی اور بار بار پڑھی جائے گی۔ پس تو ایک فرد کی حیثیت سے اس کو نہ پڑھ بلکہ اس حیثیت سے پڑھ کہ خدا نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ میں یہ تعلیم ساری دنیا کے سامنے پیش کروں۔ ہم تیرے ساتھ ہیں اور ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تو ہمارا سچا رسول ہے۔ گویا اقرا باسم ربک الذی خلق میں وہ تمام مفہوم آگیا ہے جو اشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ میں بیان کیا گیا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اقرا باسم ربک تو دوسرے الفاظ میں اس کلمۂ شہادت کا اعلان کردیا گیا کہ اشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ یعنی میں اس خدائے واحد کو تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں جس کا علم مجھے حاصل ہے اور جو صحیح اور سچا علم ہے۔ میں اس کے نام پر تمہیں اس کی وحدانیت پر ایمان لانے کا پیغام دیتا ہوں۔ اگر تم میری اس بات کو نہیں مانو گے تو اللہ تعالیٰ کے حضور مجرم اور گنہگار قرار پائو گے کیونکہ میں اس کا رسول ہوں اور میں اس کے نام پر کھڑا ہوا ہوں۔ مجھے کہا گیا ہے کہ میں اس تعلیم کو چھپا کر نہ رکھوں بلکہ دنیا میں پھیلائوں اور ہر فرد کے کان تک اللہ تعالیٰ کی اس آواز کو پہنچائوں۔ غرض پہلے دن ہی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کلمہ شہادت کو پوشیدہ رکھ دیا تھا اور بتادیا تھا کہ تو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ہے دنیا میں یہ اعلان کر کہ تو خدا تعالیٰ کا رسول ہے۔ تیرا نظریۂ ربوبیت الٰہی ہی سچا نظریہ ہے اور اس کلام کو دنیا تک پہچانا تیرا فرض ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقرا باسم ربک کے بعد الذی خلقکے الفاظ کا اضافہ اللہ تعالیٰ نے کیوں کیا ہے؟ اگر خالی اتنا ہی کہا جاتا کہ اقرا باسم ربک تب بھی رب کے مفہوم میں خلق کے معنے آجاتے کیونکہ عربی زبان میں رب کے معنے اس ذات کے ہیں جو انسان کو پیدا کرکے اسے ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف لے جاتی ہے۔ پس چونکہ یہ مفہوم رب کے لفظ نے اد اکردیا تھا ا س لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ الذی خلقکے الفاظ کا اضافہ اپنے اندر کیا حکمت رکھتاہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ربوبیت کے معنے انسان کو پید اکرکے اسے ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف لے جانے کے ہیں مگر یہ بھی ہر زبان میں قاعدہ ہے کہ کبھی الفاظ اپنے پورے معنوں میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ جزوی معنوں میں بھی استعمال ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ باوجود ان معنوں کے عرب دوسروں کو بھی ربّ کہہ دیا کرتے تھے۔ مثلاً عربی زبان میں سردار کو بھی رب کہہ دیتے ہیں اس لئے کہ جزوی طور پر وہ قوم کی ربوبیت کرتا ہے یا مثلاً ربی کا لفظ عبرانی زبان میںعالم دین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ماں باپ اور استاد وغیرہ بھی ایک قسم کے رب ہوتے ہیں کیونکہ وہ انسان کی جسمانی یا علمی تربیت کا موجب بنتے ہیں۔ پس اگر صرف اتنا ہی کہا جاتا کہ اقرا باسم ربک تو انسانی ذہن اس طرف جاسکتا تھا کہ ممکن ہے ربّ کا لفظ یہاں جزوی معنوں میں استعمال ہوا ہو اور اگر اس طرف ذہن نہ جاتا تو بہرحال ایک شبہ سا رہتا کہ نہ معلوم ربّ کا لفظ یہاں جزوی معنوں میں استعما ل ہوا ہے یا اصل معنوں میں۔ کیونکہ ماں باپ بھی ربّ ہوتے ہیں۔ استاد بھی ربّ ہوتا ہے، بادشاہ بھی ربّ ہوتا ہے، پھر پیر بھی ایک قسم کا ربّ ہوتا ہے اور عربی زبان میں ان سب کیلئے ربّ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ پس چونکہ یہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ نہ معلوم یہاں ربّ کا لفظ جزوی معنوں میں استعمال ہوا ہے یا اپنے وسیع معنوں میں۔ اس لئے خلق کا لفظ بڑھا کر بتادیا کہ ہم ربوبیت کو اس کے وسیع معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو اس رب کا نام لے کر جس نے خلق کے مقام سے مخلوق کو اٹھا کر ترقی دینی شروع کی۔
ربّ کے معنے پید اکرکے آہستہ آہستہ ترقی تک پہنچانے والے کے ہوتے ہیں۔ لیکن جزوی معنوں میں جب ربّ کا لفظ بولا جاتا ہے تو طبیعت میں ایک خلجان سا رہتا ہے کہ اس میں ربوبیت کی کس سٹیج کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔ ابتدائی سٹیج کی طرف یا درمیانی یا آخری سٹیج کی طرف۔ مثلاً جب ایک یہودی کسی عالم دین کو ربی کہے گا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جس دن سے مجھے دین کی سمجھ آئی ہے اس دن سے یہ شخص مجھے دین کی باتیں بتانے والا اور میری روحانی رنگ میں پرورش کرنے والا ہے۔ اگر دایہ کو کوئی ربۃ کہہ دے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اس وقت سے ربوبیت کرنے والی جبکہ میں پیدا ہوچکا تھا اور اس وقت تک اس کی ربوبیت رہی جب تک میں چلنے پھرنے لگا۔ پس چونکہ ربوبیتیں مختلف ہوتی ہیں اس لئے یہاں الذی خلقکا اضافہ کیا گیا۔ باپ کی ربوبیت اغزیہ کے وقت سے ہوتی ہے، باپ گوشت اور سربزی ترکاری استعمال کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کا جسم ایک چیز تیار کرتا ہے جسے نطفہ کہتے ہیں۔ پس باپ کی ربوبیت غذا کے زمانہ سے شروع ہوتی ہے ۔ اس کے بعد ماں کی ربوبیت نطفہ کے وقت سے شروع ہوتی ہے اور وہ بچے کو اپنے پیٹ میں پالنا شروع کردیتی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اسے دودھ پلاتی ہے اور اگر کسی بیماری کی وجہ سے وہ دودھ نہیں پلاسکتی یا اس کا دودھ نہیں ہوتا تو دایہ کی ربوبیت شروع ہوجاتی ہے۔ پھر ہوش سنبھالنے کے بعد استاد کی ربوبیت کا وقت آجاتا ہے اور جب کچھ اور بڑا ہوتا ہے تو کوئی بڑا عالم اس کی تربیت شروع کردیتا ہے۔ اس کے بعد جوعان ہونے پر پیر کی ربوبیت کا وقت آجاتا ہے۔ پھر بادشاہ انسان کی ربوبیت کرتا ہے۔ غرض ربویت کی مختلف سٹیجز ہیں۔ کوئی چھوٹی سٹیج ہے اور کوئی بڑی مگر بہرحال ان میں سے کسی ایک سٹیج کیلئے بھی ربّ کا لفظ بول لیا جاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں الذی خلقکا اضافہ کیا اور فرمایا کہ ہماری مراد اس سے وہ رب نہیں جن کی ربوبیت غذا کے وقت سے شروع ہوتی ہے، وہ رب بھی مراد نہیں جن کی ربوبیت نطفہ کے وقت سے شروع ہوتی ہے، وہ رب بھی مراد نہیں جن کی ربوبیت پیدائش کے وقت سے شروع ہوتی ہے، وہ رب بھی مراد نہیں جن کی ربوبیت بولنے کے وقت سے شروع ہوتی ہے ، وہ رب بھی مراد نہیں جن کی ربوبیت بالغ اور جوان ہونے کے وقت سے شروع ہوتی ہے بلکہ وہ رب مراد ہے جس کی ربوبیت خلق کے وقت سے شروع ہوتی ہے یعنی جب سے کہ مخلوق کا وجود ظاہر ہوا ۔ بے شک مختلف لوگوں کیلئے مختلف نسبتوں کی بناء پر ربّ کا لفظ استعمال کرلیا جاتا ہے مگر ہم تجھے کہتے ہیں تو اس ربّ کے نام سے شروع کر جس کی ربوبیت خلق کے وقت سے شروع ہوجاتی ہے کہ جہاں سے وہ تیرا ساتھ دے رہا ہے۔ کوئی تیرا عزیز اور ساتھی وہاں سے تیرا ساتھ نہیں دے رہا۔ اس کی ربوبیت کے مقابلہ میں باقی تمام ربوبیتیں باطل اور ہیچ ہیں اور کسی کو اس کی ربوبیت میں شریک ہونے کا دعویٰ نہیں ہوسکتا (ہاں مسلمان مولویوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ امر منسوب کردیا ہے کہ وہ پرندے پیدا کیا کرتے تھے اور اس طرح انہوں نے اپنی کج فہمی سے اللہ تعالیٰ کی صفات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شریک بنادیا ہے)۔
اس آیت میں ایک اور عجیب بات بھی نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے صرف ربّ کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا بلکہ ربک کا لفظ استعمال کیا تھا مگر آگے خلقک کہنے کی بجائے صرف خلق کہہ دیا ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ ربک میں ک ضمیر کے بڑھانے سے چونکہ شرک کی تردید اور اس عقیدہ کی تائید ہوتی تھی جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے متعلق رسول کریم ﷺ رکھتے تھے۔ اس لئے وہاں تو ک کی ضمیر کو بڑھادیا لیکن اگر یہاں خلق کی بجائے خلقک کہہ دیا جاتا تو ایک وسیع مضمون محدود ہوکر رہ جاتا۔ الذی خلقک کے معنے صرف اتنے ہوتے کہ وہ خدا جس نے تجھ کو پیدا کیا مگر الذی خلقکے یہ معنے بن گئے کہ وہ خدا جس نے تجھ کو بھی پیدا کیا اور باقی تمام مخلوق کو بھی پیدا کیا ہے ۔ گویا الذی خلقکے معنے یہ ہیں کہ الذی خلقک و خلق اباء ک وجدک واباء جدک اس طرح یہ سلسلہ چلتے چلتے حضرت آدم علیہ السلام تک پہنچ جاتا اور ان سے اوپر عناصر اور پھر اجزائے عناصر تک چلا جاتا ہے۔ پس الذی خلق کو بغیر کسی قید کے مطلق بیان کرکے اللہ تعالیٰ کی صفت خلق کی غیر محدود وسعت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تو اس خدا کو پیش کر جس نے خالق اور مخلوق کا رشتہ آپس میں جوڑ ا اور جس کی صفت خلق کا آغاز تجھ سے نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ سے دنیا اس کی صفت خلق کا نظارہ دیکھتی چلی آئی ہے۔ دیکھو یہ قرآن کریم کا کتنا کمال ہے کہ ایک ہی آیت میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کو مقید کرکے اس کے معنوں میں وسعت پیدا کردی ہے اور دوسری صفت کو مطلق رکھ کر اس کے معنوں میں وسعت پید اکردی ہے۔ ایسی بالغ نظری انسانی کلام میں کہاں ہوتی ہے۔
اقرا باسم ربک الذی خلقمیں علاوہ اور مضامین کے رسول کریم ﷺ کی رسالت کاملہ کی طرف بھی اشارہ پایاجاتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ تو اس رب کے نام کے ساتھ اس تعلیم کا دنیا میں اعلان کر جس نے مخلوق کو پیدا کیا ہے تو دوسرے الفاظ میں اس کا مفہوم یہ نکلا کہ پیدائش عالم کے زمانہ سے اللہ تعالیٰ نے تیرے اس کام کی بنیاد رکھی تھی۔ اس لئے وہ خدا جس نے اس مقصد عظیم کے لئے ساری دنیا کو پیدا کیا تھا اس کی مدد اور تائید و نصرت کے ساتھ تو دنیا میں اپنی نبوت کا اعلان کر۔ کیونکہ پیدائش عالم کی غرض صرف تیرے وجود کو دنیا میں ظاہر کرنا تھا۔ پس جس طرح باسم ربک میں رسول کریم ﷺ کی رسالت کا اظہار کیا گیا تھا اسی طرح الذی خلقمیں رسول کریم ﷺ کی رسالت کاملہ کا اظہار کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جس دن سے مخلوق پیدا ہوئی ہے اس دن سے صرف تو ہمارا مقصو دتھا اور جب سے ہم نے پہلا انسان دنیا میں پیدا کیا ہے۔ اسی دن سے وہ کلام ہمارے مدنظر تھا جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے۔ اب جبکہ تو جو دنیا کا حقیقی مقصود ہے پید اہوچکا ہے ہم تجھے کہتے ہیں کہ تو دنیا کے پاس جا اور اسے کہہ کہ مجھ پر جو کلام نازل ہوا ہے وہ اتنی بڑی عظمت اور شان رکھتا ہے کہ جب سے اس دنیا کا پہلا ذرّہ بنا ہے اسی وقت سے یہ کلام اللہ تعالیٰ کے مدنظر تھا۔ اگر آج کا پیغام ہوتا تب بھی تم اسے ٹھکرا کر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے تھے لیکن یہ تو وہ پیغام ہے جس کے لئے اس نے دنیا کی بنیاد رکھی اور یہی وہ پیغام ہے جو پیدائش عالم کا موجب ہوا۔ اتنے بڑے پیغام کو ٹھکر اکر تم خداتعالیٰ کے عذاب سے کہاں بچ سکتے ہو۔ پس فرمایا تو اس کلام کو میرا نام لے کر پیش کر یعنی بحیثیت رسول ہونے کے اسے دنیا کے سامنے رکھ۔ ایک عام آدمی کی حیثیت سے نہیں بلکہ سرکاری حیثیت سے تو ہماری طرف سے جا اور لوگوں سے کہہ کہ جس خدا نے شروع سے لے کر اب تک تمام مخلوق پیدا کی ہے اس نے مجھے بھیجا ہے یعنی پیدائش عالم کی جو غرض تھی وہ آج میرے ذریعہ سے پوری ہوئی ہے۔ اس لئے اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو دنیا کی پیدائش کو لغو قرار دیتے ہو۔ اسی امر کی طرف اس حدیث قدسی میں اشارہ ہے کہ لولاک لما خلقت الافلاک اے محمد ﷺ اگر تو نہ ہوتا تو میں زمین اور آسمان کو بھی پیدا نہ کرتا۔ الذی خلق میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیاہے کہ تو اس خدا کا نام لے کر دنیا میں اپنی نبوت کا اعلان کر جس نے پیدائش عالم کے زمانہ سے تیرے اس کام کی بنیاد رکھی تھی۔ گویا وہ مضمون جو حدیث قدسی میں آتا ہے درحقیت نہایت لطیف پیرایہ میں قرآن کریم میں بھی بیان کیا جاچکا ہے اور وہ حدیث اس آیت کی تشریح ہے۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اقرا باسم ربک الذی خلق۔ تو اس خدا کا نام لے کرپڑھ جس نے مخلوق کو پیدا کیا ہے یعنی اس کی اس صفت کو جو پیدائش عالم کا موجب ہے اپنی مدد کیلئے بلا اور اس سے کہہ کہ یارب الذی خلقت الخلق۔ اے میرے رب اگر تو نے مخلوق کو اس کمال کیلئے پیدا کیا ہے جس کے ظہور کا مجھ سے واسطہ ہے تو پھر اس مقصد کو پورا کر جس کیلئے تو نے مجھے دنیا میں کھڑا کیا ہے۔ گویا علاوہ پبلک میںاپنی رسالت کاملہ کا اعلان کرنے کے اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو یہ بھی ہدایت دیتا ہے کہ جب تو ہم سے اپنی ترقی کیلئے دعا مانگنے لگے توہمیشہ اس طرح مانگ کہ اے خدا جس نے تمام مخلوق کو اس دن کیلئے پید اکیا تھا میں تجھے تیری اس صفت خلق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جب اس دن کیلئے تونے ساری دنیا کو پیدا کیا تھا اور اس قدر دیر سے تیرا یہ ارادہ تھا جو اب پورا ہونے لگا ہے تو اب اس وقت میری خاص مدد فرما اور میرے اعلانِ نبوت میں برکت ڈال۔ غرض اِدھر پبلک میں یہ اعلان کر کہ جس مقصد کیلئے مجھے بھیجا گیا ہے وہ معمولی نہیں بلکہ جس دن سے دنیا پیدا ہوئی ہے اسی دن سے یہ مقصد اللہ تعالیٰ کے مدنظر تھا۔ اُدھر خدا سے یہ دعا مانگ کہ جس مقصد کیلئے تو نے مجھے کھڑا کیا ہے اس میں مجھے کامیابی عطا فرما کیونکہ اگر مجھے اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی تو سلسلۂ مخلوق کا مقصد حقیقی باطل ہوجائے گا۔ اس لئے میں تجھے اسی صفت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جو مخلوق کی پیدائش کا باعث ہوئی کہ تو مجھے کامیاب کر۔ مجھے ناکامی سے بچا۔ کیونکہ میری ناکامی میں تمام مخلوق کی ناکامی ہے۔ اس طرح ایک طرف اللہ تعالیٰ نے اس پیغام کی عظمت کو ظاہر کردیا جو رسول کریم ﷺ کے ذریعہ نازل ہوا تھا اور دوسری طرف دعا کی قبولیت کا ایک لطیف طریق اس نے آپ کو سکھادیا۔
میں اوپر مضمون میں یہ بیان کرچکا ہوں کہ الذی خلق میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان کو ایک مقصد عظیم کیلئے پیدا کیا گیا تھا مگر وہ مقصد اب تک پورا نہیں ہوا تھا اب اس مقصد کو تیرے ذریعہ سے پورا کیا جارہا ہے۔ اس کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شخص جو کسی مذہب کا قائل ہے وہ تسلیم کرتا ہے کہ پیدائش انسانی کسی خاص مقصد کیلئے ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبث پیدا نہیں کیا۔ بہرحال کوئی نہ کوئی مقصد تھا جس کے ماتحت انسانی پیدائش عمل میں آئی۔ پس جہاں تک مقصد کا سوال ہے مذہبیات سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ اس سے متفق ہیں۔ لیکن یہ کہ وہ مقصد کس رنگ میں پوا ہوا اس کے متعلق دنیا میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ مقصد ابتدائے عالم میں ہی پورا ہوگیا تھا۔ وہ کہتے ہیں ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے جو وحی نازل کی وہ تمام ضروریات کیلئے کافی تھی۔ یہ عقیدہ آریہ ہندوئوں کا ہے۔ یہ لوگ ویدوں کو اپنی الہامی کتاب کہتے ہیں۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ کامل تعلیم ابتدائے زمانہ میں ہی نازل ہوجانی چاہئے۔ اس کے مقابل میں بعض اور لوگ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ب شک انسان کو اس کا مقصد حاصل ہوا مگر وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ مقصد انبیاء کے ذریعہ بتدریج انسان کو حاصل ہوا ہے۔ جیسے یہودی کہ وہ کہتے ہیں پہلے آدمؑ آئے پھر نوحؑ آئے پھر ابراہیمؑ آئے پھر اسحاقؑ آئے پھر اسماعیلؑ آئے پھر یعقوب ؑ آئے پھر یوسفؑ آئے پھر موسیٰ ؑ آئے اور پھر اور انبیاء آئے یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وحی الٰہی کا سلسلہ ملاکی نبی تک پہنچا اور اس کے بعد وحی الٰہی کا سلسلہ بند ہوگیا۔ یہود کے اس عقیدہ پر اگر غور کیا جائے تو کسی چیز کا جو انتہائی نقطہ ہوتا ہے وہ نہ موسیٰؑ میں نظر آتا ہے نہ ملاکی نبی ہیں۔ کیونکہ موسیٰ نے خود اپنے کسی مقام کو آخری مقام قرار نہیں دیتے جیسا کہ آگے بتایا جائے گا اور ملاکی کو تو یہود بھی موسیٰؑ سے بڑا قرار نہیں دیتے۔ پھر سوال یہ ہے کہ پیدائش انسانی کا جو آخری نقطہ تھا وہ کہاں گیا۔ کیا اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ اس مقصد کو بھول گیا جس کے ماتحت اس نے بنی نوع انسان کو پید اکیاتھا۔
عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدائش انسانی کا آخری نقطہ ہیں لیکن یہ بات بھی دو طرح بالبداہت باطل ہے۔ اول تو اس طرح کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ انسان کے بیٹے نہیں تھے بلکہ خداتعالیٰ کے بیٹے تھے۔ جب وہ آدم کے بیٹے ہی نہیں تھے تو پیدائش انسانی کا آخری نقطہ کس طرح ہوگئے؟ یہاں سوال تو آدم کے بیٹوں کے متعلق ہے کہ ان میں سے کون پیدائش انسانی کا اصل مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بیٹے کا تو یہاں کوئی سوال ہی نہیں۔ پس جبکہ یہاں نسل آدمؑ کی پیدائش کا سوال ہے تو ہمیں بہرحال آدمؑ کی نسل میں سے ہی کسی ایسے شخص کا پتہ لگانا پڑے گا جو پیدائش انسانی کا مقصود ہو۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کسی چیز کا انتہائی نقطہ اس کے آخری سرے کا نام ہوتا ہے مثلاً ایک لکیر کھینچی گئی ہو تو اس لکیر کا جو آخری سرا ہوگا وہ اس کا آخری نقطہ قرار دیا جائے گا۔ لیکن جب ہم مسیحؑ کے متعلق غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ آخری نقطہ کسی صورت میں بھی قرار نہیں دئے جاسکتے کیونکہ وہ اس خط کا آخری سرا ثابت نہیں ہوتے جو آدم سے شروع ہوا تھا۔ آدمؑ نے شریعت کی بنیاد رکھی تھی۔ نوحؑ نے اس میں اضافہ کیا۔ ابراہیمؑ آئے تو انہوں نے اور زیادتی کی، موسیٰؑ آئے تو انہوں نے اور زیادہ شریعت کو مکمل طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ غرض شریعت کا ایک دور ہے جو آدمؑ سے شروع ہوا اور اس میں زمانہ کے ارتقاء کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پس پیدائش انسانی کا آخری نقطہ وہی ہوسکتا ہے جو پہلی شریعت پر زیادتی کرے۔ وہ کس طرح ہوسکتا ہے جو شریعت کو *** قرار دے کر اس سے دور بھاگ جائے۔ مثلاً لکڑی کا آخری سرا لکڑی کا ہی ہوگا اگر کوئی کہے کہ لکڑی کا آخری سرا پانی یا ہوا ہے تو یہ بالکل بے جوڑ بات ہوگی۔ سونے کا آخری سرا سونے کا ہوگا۔ چاندی کا آخری سرا چاندی کا ہوگا۔ لوہے کا آخری سرا لوہے کا ہوگا۔ اگر کوئی کہے کہ سونے یا چاندی یا لوہے کا آخری سرا لکڑی کا ہے تو سب لوگ ہنسنے لگ جائیں گے کہ کیسی بیوقوفی کی بات کررہا ہے۔ اسی طرح جب آدم سے شریعت کا ایک تسلسل چل رہ تھا آدم سے بہتر شریعت نوحؑ نے پیش کی، نوحؑ سے بہتر شریعت موسیٰؑ نے پیش کی تو بہرحال آخری نقطہ وہ ہوگا جو موسیٰؑ سے بھی بہتر شریعت پیش کرے۔ وہ نہیں ہوسکتا جو شریعت کو *** قرار دے۔ پس عیسائیوں کا یہ دعویٰ بھی بالکل باطل ہے کہ پیدائش انسانی کا آخری نقطہ حضرت مسیحؑ ہیں۔
ہندو جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ابتدائے عالم میں ہی کامل شریعت نازل ہوگئی تھی ان ک اس دعویٰ کو قرآن کریم نے عقلی دلائل سے اسی سورۃ میں ردّ کردیا ہے۔ چنانچہ فرماتاہے خلق الانسان من علق۔ اپنی پیدائش کی طرف تم دیکھو کہ وہ کس طرح ہوئی ہے۔ کیا پہلے دن ہی تم عاقل بالغ اور سمجھدار بن جاتے ہو یا آہستہ آہستہ اور بتدریج ترقی کرتے کرتے اپنے انتہائی مقام تک پہنچتے ہو؟ اگر فردکی پیدائش میں ترتیب اور تدریج جو مدنظر کھا جاتا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پہلے دن ہی ایک کامل انسان پیدا ہوجائے تو روحانی امور میں تم تدریج کا کیوں انکار کرتے ہو؟ جس طرح جسمانیات میں تدریج کا سلسلہ جاری ہے اسی طرح روحانیات میں بھی ارتقاء کئی تدریجی منازل کو طے کرنے کے بعد ہوتاہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ارتقائی منازل کو طے کئے بغیر پہلے دن ہی کوئی چیز کامل بن جائے۔ ارتقاء کا یہ قانون نہ صرف پیدائش انسانی میں نظر آتا ہے بلکہ خداتعالیٰ کی ہر پیدا کردہ چیز میں ہے۔ یہاں تک کہ مادیت میں بھی ارتقاء کا قانون جاری ہے۔ سورج اور چاند بھی ایک دن میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ جیسا کہ علم ہیئت نے ثابت کیا ہے کہ پہلے یہ دخانی ذرات کی شکل میں تھے پھر ان میں دوری حرکت پیدا ہوئی پھر یہ ذرات ایک دوسرے سے ملنے شروع ہوئے پھر انہوں نے ایک ٹھوس وجود کی شکل اختیار کی۔ اس کے بعد پھر ایک لمبا دور اِن پر گزرا یہاں تک کہ لاکھوںسال کے بعد انہوں نے سورج یاچاند کی شکل اختیار کی۔ یہی حال لوہے اور چاندی کا ہے کہ وہ بھی ایک لمبے ارتقاء کے بعد ظاہر ہوئے۔ کوئلہ کتنی معمولی چیز ہے مگر یہ بھی ایک دن میں نہیں بنا بلکہ ہزاروں سال کے بعد بنا ہے۔ اسی طرح ہیرا لاکھوں سال کے تغیرات کے بعد پید اہوتا ہے۔ گویا پہلے درختوں سے جو مدتوں تک زمین میں دبے رہتے ہیں کوئلہ تیار ہوتا اور پھر کوئلہ سے ہیرا بنتا ہے۔
غرض کوئی چیز لے لو ارتقائی تغیرات مین سے گزرے بغیر وہ عالم وجودمیں نہیں آئی۔ جب اللہ تعالیٰ کا جسمانیات میں تمہیںیہ قانون نظر آتا ہے تو تم الہام کے متعلق یہ کس طرح کہہ سکتے ہو کہ پیدائش عالم کے ساتھ ہی کامل الہام نازل ہوگیا جس طرح اللہ تعالیٰ کی ظاہری پیدائش میں ارتقاء کا قانون جاری ہے اسی طرح وحی اور الہام بھی اس قانون سے وابستہ ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اور چیزوں میں تو ارتقاء ہو اور الہام میں ارتقاء نہ ہو۔ پس خلق الانسان من علق نے ہندوئوں کے اس خیال کو ردّ کردیا کہ شریعت پہلے دن ہی مکمل طور پر نازل ہوگئی تھی فرماتا ہے کہ تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے انسان نے بہرحال ترقی کرتے کرتے کامل شریعت کے مقام تک پہنچنا تھا یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ پہلے دن ہی اسے کامل شریعت عطا کردی جاتی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب عیسائیوں کی تھیوری بھی باطل ہے، یہودیوں کا خیال بھی غلط ہے اور ہندوئوں کا نظریہ بھی ناقابل قبول ہے تو پیدائش انسانی کا مقصد کس رنگ میں پورا ہوا؟ تم کہتے ہو کہ یہودیوں کا خیال اس لئے صحیح نہیں کہ وہ ملاکی نبی پر وحی الٰہی کے سلسلہ کو بند قرار دے رہے ہیں جو ایک معمولی حیثیت کے نبی تھے۔ حالانکہ آخری نقطہ وہ ہونا چاہئے جو موسیٰؑ سے بڑھ کر ہوتا۔ عیسائیوں کا خیال اس لئے صحیح نہیں کہ وہ شریعت سے بھاگ رہے ہیں اور ہندوئوں کا خیال اس لئے صحیح نہیں کہ وہ ابتدائے عالم میں ہی کامل شریعت کا نزول تسلیم کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ ابتدائی نہیں بلکہ آخری نقطہ ہونا چاہئے۔ جب یہ تمام خیالات باطل ہیں توپھر تم خود ہی بتائو کہ پیدائش انسانی کا مقصد کس نبی کے ذریعہ پورا ہوا؟
اس سوال کا جواب دینے سے پیشتر یہ بتادینا ضروری ہے کہ گو آج تک اللہ تعالیٰ کے ہزاروں انبیاء دنیامیں آچکے ہیں مگر بہت سے نبی ایسے گزرے ہیں جن کے ناموں کا بھی ہمیںعلم نہیں کجا یہ کہ ہم کہہ سکیںکہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا کیا کلام نازل ہوا تھا۔ مثلاً ہندو گو ابتدائے عالم میں ویدوں کا نزول تسلیم کرتے ہیں مگر یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ وید کن رشیوں پر نازل ہوئے تھے۔ جب اتنی معمولی بات کا بھی انہیں علم نہیں تو ان کے متعلق یہ بحث کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ پیدائش انسانی کا مقصود تھا یا نہیں۔ زرتشتی بیشک حضرت زرتشتؑ کو اللہ تعالیٰ کا نبی مانتے ہیں مگر ان کی کتاب میں صاف طور پر آئندہ آنے والے ایک نبی کی پیشگوئی پائی جاتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زرتشتؑ پیدائش انسانی کا آخری نقطہ نہیں تھے ورنہ وہ اپنے بعد کسی اور صاحب شریعت نبی کی خبرنہ دیتے۔ ہندوئوں اور زرتشتیوں کے انبیاء کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کہ ان میں سے حضرت زرتشت نے خود اپنے آپ کو آخری نقطہ قرار نہیں دیااور ویدوں کے متعلق ہندوئوں میں اختلاف ہے کہ وہ کن رشیوں پر نازل ہوئے تھے۔ ہم بنی اسرائیل کے متعلق غور کرتے ہیں کہ آیا پیدائش انسانی کا وہ مقصو دتھے یا نہیں۔ انبیاء بنی اسرائیل میں سے وہ نبی جن کی تعلیم سب سے زیادہ واضح ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ کسی قدر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیم بھی موجود ہے جو بائبل نے پیش کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام مخلوق کے نقطۂ مرکزی تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-
’’تیری نسل اپنے دشمنوں کے دروازہ پر قابض ہوگی اور تیری نسل سے زمین کی ساری قومیں برکت پاویں گی‘‘۔
(پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۷،۱۸)
یعنی تیرے ذریعہ سے نہیں بلکہ تیری نسل کے ذریعہ سے زمین کی ساری قومیں برکت پائیں گی۔ تو محدود زمانے کیلئے اور محدود لوگوں کی ہدایت کیلئے نبی بنایا گیا ہے لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ زمین کی ساری قومیںبرکت پائیں۔ ہمارا یہ مدعا تیرے ذریعہ سے پورا نہیں ہوگا بلکہ تیری نسل کے ذریعہ سے پورا ہوگا۔ اس سال کو جانے دو کہ وہ کونسی نسل ہے جس کے ذریعہ یہ وعدہ پورا ہوا۔ بہرحال ان الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدائش عالم کا آخری نقطہ نہیں تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ تو نہیں بلکہ تیری نسل کے ذریعہ سے میں ایسا سامان کروں گا کہ زمین کی ساری قومیں برکت پائیں گی۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ آخری نقطہ نے عالمگیر مذہب کا بانی ہونا تھا کیونکہ اس کے متعلق مقدر یہ تھا کہ زمین کی ساری قومیں اسی سے برکت حاصل کریں اور زمین کی ساری قومیں اسی سے برکت حاصل کرسکتی تھیں جو عالمگیر مذہب کا بانی ہوتا۔ پس ابراہیمؑ پیدائش انسانی کے ارتقاء کا آخری نقطہ نہیں تھے۔ ان کی اپنی پیشگوئی یہ ہے کہ میری نسل میں سے ایک ایسا شخص پیدا ہوگا جس کے ذریعہ دنیا کی ساری قوموں کو دعوت دی جائے گی ، دنیا کی ساری قوموں کو برکت دی جائے گی اور دنیا کی ساری قوموں کو ہدایت اور قرب کی راہیں بتائی جائیں گی۔ بالفاظ دیگر یہ پیشگوئی ایک عالمگیر مذہب کے بارہ میں تھی اور وہ شخص جس کی دنیا کی ساری قوموں نے برکت حاصل کرنی تھی وہی انبیاء کا منتہائے نظر تھا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ تک یہ مقصد حاصل نہیں ہوا تھا۔
اگرکہاجائے کہ یہ پیشگوئی موسیٰ کے ذریعہ پوری ہوچکی ہے تو یہ بالکل غلط ہے کیونکہ یہودی مذہب مختص القوم تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے صرف یہود کی اصلاح کیلئے بھیجا تھا۔ حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو کچھ کہا گیا تھا وہ یہ تھا کہ تیری نسل سے ساری قومیں برکت پائیں گی۔موسیٰ سے صرف بنی اسرائیل نے برکت حاصل کی تھی لیکن ابراہیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ میں تیری نسل کو بڑھائوں گا اور بڑھاتا چلا جائوں گا یہاں تک کہ ارتقاء کی منازل طے کرتے کرتے ایک دن آئے گا کہ ساری دنیا کو دعوت حقہ دی جائے گی اور ساری دنیا کو خدائی آواز پہنچائی جائے گی ۔ پس موسوی مذہب نے چونکہ ساری دنیا کو دعوت نہیں دی بلکہ موسیٰ کا یہ پیغام مخصوص تھا بنی اسرائیل سے۔ اس لئے یہودی مذہب کو اس پیشگوئی کا مصداق قرار نہیں دیا جاسکتا۔
دوم حضرت موسیٰؑ خود ایک اور نبی کی خبر دیتے ہیں جو ان کے بعد آنے والا تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے الہام کے ذریعہ یہ خبر دی ہے کہ :-
’’میں ان کیلئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرمائوں گاوہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا۔ لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میںنے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے‘‘۔ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ تا ۲۰)
اس جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ پیشگوئی فرمارہے ہیں کہ میرے بعد ایک اور نبی آنے والا ہے جو اپنے ساتھ نئی شریعت لائے گا۔ کیونکہ الفاظ یہ ہیں ’’میں ان کیلئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا‘‘۔ ’’تجھ سا نبی‘‘ کے معنے یہی ہیں کہ جس طرح تو صاحب شریعت ہے اسی طرح وہ صاحب شریعت ہوگا۔ اگر صرف اتنے الفاظ ہوتے کہ میں ان کے بھائیوںمیں سے ایک نبی برپا کروں گا تو اس کے معنے یہ ہوسکتے تھے کہ جس طرح بنی اسرائیل میں اور کئی غیر شرعی نبی آئے اسی طرح ایک غیرشرعی نبی کی آپ نے اس جگہ خاص طورپر خبردی ہے مگر ’’تجھ سا‘‘ کے الفاظ بتارہے ہیں کہ یہاں وہ دوسرے نبی مراد نہیں ہوسکتے جو بنی اسرائیل میں آئے کیونکہ وہ موسی جیسے نہیں تھے۔ موسیٰ صاحب شریعت نبی تھے اور وہ صاحب شریعت نبی نہیں تھے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو پیشگوئی فرمائی ہے اس کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ وہ نبی موسیٰ کی طرح صاحب شریعت ہوگا اور اللہ تعالیٰ اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالے گا۔ گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ایک اور صاحب شریعت نبی ابھی دنیا میں آنے والا تھا۔ پس موسیٰ ارتقائِ روحانی کا آخری نقطہ نہیں ہوسکتے۔ پھر کہتے ہں:-
’’خداوند سینا سے آیا اورشعیر سے ان پر طلوع ہوا فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کیلئے تھی‘‘۔ (استثناء باب ۳۳ آیت ۲)
اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام تین جلوہ گریوں کا ذکر فرماتے ہیں۔
’’خداوند سینا سے آیا‘‘ اس سے مراد موسوی ظہور ہے۔ ’’شعیر سے ان پر طلوع ہوا‘‘ اس سے مراد عیسوی ظہور ہے۔ ان دونوں ظہور وں کے بعد ایک تیسرے ظہور کی بھی اس پیشگوئی میں خبر دی گئی ہے وہ ظہور فاران سے ظاہر ہوگا اور آتشی شریعت اس کے ساتھ ہی ہوگی۔ اس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰؑ اور عیسیٰ ؑ دورِ نبوت کے آخری نقطے نہ تھے بلکہ سینا اور شعیر کے ظہوروں کے بعد ایک اور ظہور ہونے والا تھا جو اپنے ساتھ شریعت بھی رکے گا۔ فاران سے جلوہ گر ہونے والے محمد رسول اللہ ﷺ ہیں کیونکہ فاران ان پہاڑیوں کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہیں۔ بائبل سے بھی اس کا ثبوت اس رنگ میں ملتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے بائبل میں لکھا ہے ’’وہ فاران کے بیابان میں رہا‘‘ (پیدائش باب ۲۱ آیت ۲۱) اور اہل مکہ بھی وہ قوم ہیں جو اپنے آپ کو نسل ابراہیم سے قرار دیتے ہیں۔ پس فاران کی چوٹیوں سے ظاہر ہونیو الا وجود محمد ﷺ ہیں اور آپ کے ذریعہ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوئی۔
پھراس پیشگوئی میں یہ ذکر ہے کہ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئے گا۔ یہ پیشگوئی بھی ایسی ہے جو سوائے رسول کریم ﷺ کے اور کسی پر چسپاں نہیں ہوتی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو صرف بارہ حواری ملے تھے جن میں سے ایک نے تیس روپوں کے بدلے آپ کو دشمن کے حوالے کردیا اور باقی صلیب کے وقت ادھر اُدھر بھاگ گئے۔ دنیا میں صرف ایک ہی انسان ہے جس کے متعلق تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ جب فتح مکہ کے لئے آئے تو اس وقت آپ لشکر کی تعداد دس ہزار ہی تھی اور آپ انہی پہاڑیوں سے چڑھ کر آئے تھے جو فاران کی پہاڑیاں ہیں اور جن کے متعلق بائبل میں پیشگوئی پائی جاتی تھی۔ بہرحال اس سے اتنا پتہ لگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ کو آخری نقطہ قرار نہیں دیا۔ پھر اس پیشگوئی میں صاف لکھا ہے کہ ایک آتشی شریعت اس کے ہاتھ میں ہوگی جس کے معنے یہ بھی ہیں کہ ایک اور شریعت آنے والی ہے۔ اور جب آخری شریعت ابھی باقی تھی تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بعد کی شریعت پہلی شریعت سے بہتر ہوگی۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے آپ کو ارتقائے روحانی کا آخری نقطہ قرار نہیں دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد جو انبیاء آئے ان میں ایک اہم نبی حضرت دائود علیہ السلام ہیں جن کو بہت بڑی عظمت دی جاتی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آیا انہوں نے اس مقصد کو پورا کیا۔ اس کا جواب بھی ہمیں نفی میں ملتا ہے کیونکہ وہ خود کہتے ہیں :-
’’اس کا منہ شیرینی ہے ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا یہ میرا جانی ہے‘‘ (غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۶)
اردو بائبل میں تو ’’سراپا عشق انگیز‘‘ کے الفاظ آتے ہیں مگر عبرانی بائبل میں یہاں لفظ ’’محمدیم‘‘ لکھا ہوا ہے یعنی محمدؐ۔ کئی مترجموں نے رسول کریم ﷺ کے نام پر پردہ ڈالنے کیلئے اس کا ترجمہ ’’عشق انگیز‘‘ کردیا۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے محمدؐ نے یوں کہا تو اس کا ذکر ان الفاظ میں کردیا جائے کہ ایک صاحب تعریف آدمی نے یوں کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ نام پر پردہ ڈالنے اور دوسرے کو دھوکا دینے والی بات ہے۔ اسی طرح عیسائیوں نے بھی بائبل کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے ’’محمدیم‘‘کا ترجمہ ’’عشق انگیز‘‘ کردیا حالانکہ عبرانی بائبلیں دنیا میں اب تک موجود ہیں اور ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ وہاں ’’محمدیم‘‘ لکھا ہوا ہے یعنی وہ محمد ہے۔ (اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد کے بعد یم کے حروف بھی ہیں جو جمع کیلئے آئے ہیں مگر ساری عبارت سے ظاہر ہے کہ یہاں ایک شخص کاذکر ہے۔ پس جمع کا صیغہ ادب اور احترام کے اظہار کیلئے استعمال کیا گیا ہے نہ کہ یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ کسی جماعت کی خبر دی جارہی ہے)۔ پھر اس کی علامت حضرت دائودؑ نے یہ بھی بتائی ہے کہ ’’دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے‘‘ (غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۰)۔ یہ وہی علامت ہے جس کا موسیٰ کی پیشگوئی میں ذکر آتا ہے اور جو فتح مکہ کے وقت پوری ہوئی۔
غرض حضرت دائود علیہ السلام کے زمانہ تک ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ تمام انبیاء یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ ایک اور نبی آنے والا ہے جو کامل شریعت اپنے ساتھ لائے گا اور جو تمام نبیوں کا محبوب اور پیارا ہوگا۔
حضرت دائود علیہ السلام کے بعد جو انبیاء آئے ان میں سے ایک بڑے نبی حضرت یسعیاہ ہیں۔ بائبل سے معلوم ہوتاہ ے کہ یسعیاہ نبی کو بہت بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یسعیاہ نبی پیدائش انسانی کا آخری نقطہ تھے؟ اور کیا ان کے آنے سے وہ مقصد پورا ہوگیا جو اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں۔ کیونکہ وہ خود فرماتے ہیںـ:-
’’ایک اور نام جو بیٹوں اور بیٹیوں کے نام سے بہترہے بخشوں گا۔ میں ہر ایک کو ابدی نام دوں جو مٹایا نہ جائے گا اور بیگانے کی اولاد جنہوں نے اپنے تئیں خداوند سے پیوستہ کیا ہے کہ اس کی بندگی کریں اور خداوند کے نام کو عزیز رکھیں اور اس کے بندے ہوویں۔ وہ سب جو سبت کو حفظ کرکے اسے ناپاک نہ کریں اور میرے عہد کو لئے رہیں میں ان کو بھی اس مقدس پہاڑ پر لائوں گا اور اپنی عبادت گاہ میں انہیں شادمان کروں گا‘‘۔ (یسعیاہ باب ۵۶ آیت ۵ تا ۷)
یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کرتے ہوئے آئندہ زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے الٰہی قوم کو ایک نیا نام دیا جائے گا ار وہ اتنا پیارا ہوگا کہ لوگ اسے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے بھی زیادہ پسند کریں گے۔ یہ توپسند کرلیں گے کہ ان کا بیٹا مر جائے یا ان کی بیٹی مر جائے مگر وہ اس نام کو چھوڑنا پسند نہیں کریں گے۔ یہ اسلام کا نام ہے جو مسلمانوں کو عطا کیا گیا اور جس کے متعلق یسعیاہ نبی یہ خبر دے رہے ہیں کہ وہ نام اتنا پیارا ہوگا کہ لوگ اپنے بیٹوں اور اپنی بیٹیوں کو چھوڑنا اور ان کا اپنی آنکھوں کے سامنے مارا جانا گوارا کرلیں گے مگر یہ برداشت نہیں کریں گے کہ اسلام چھوٹ جائے اور یہ پیارا نام ان کے ساتھ نہ رہے۔
پھر یہ کہ وہ مذہب ایسا ہوگا کہ جس میں غیر قومیں بھی شامل ہو گی اور ’’اپنے تئیںخداوند سے پیوستہ‘‘ کریں گی۔ یہ وہی بات ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی بتائی گئی تھی کہ زمین کی ساری قومیں تیری نسل سے برکت پائیں گی۔ یسعیاہ نبی بھی یہی کہتے ہیں کہ غیرقومیں اس مذہب میں داخل ہوں گی اور خداتعالیٰ سے محبت کا تعلق پیدا کرکے اس کا قرب حاصل کریں گی۔
پھر فرمایا کہ وہ لوگ سبت کی بے حرمتی نہ کریں گے۔ اسی طرح فرمایا ’’میں ان کو بھی اس مقدس پہاڑ پر لائوں گا اور اپنی عبادت گاہ میں انہیں شامان کروں گا‘‘۔ یعنی وہ لوگ اس ملک پر آکر قابض ہوجائیں گے۔
یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی پر اگر غور کیا جائے تو اس میں پانچ باتیں نظر آتی ہیں۔
اوّل: ان کو ایک نیا نام ملے گا۔
دوم: وہ نام ابدی ہوگا جو کبھی مٹایا نہیں جائے گا۔
سوم: غیر اقوام کے لوگ بھی ان کے مذہب میں شامل ہوں گے۔
چہارم: وہ سبت کی حفاظت کریں گے۔
پنجم: ان کو بھی بنی اسرائیل کے علاقہ میں لاکر قابض کردیا جائے گا۔
یہ پانچ چیزیں جس مذہب میں پائی جائیں گی وہی اس پیشگوئی کا مصداق قرار دیا جائے گا۔ یسعیاہ کے بعد بنی اسرائیل میں سب سے بڑے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام گزرے ہیں مگر سوائے فلسطین پر قابض ہونے کے اور کوئی بات بھی ان کے ذریعہ پوری نہیں ہوئی۔ مثلاً یسعیاہ نبی کو یہ بتایا گیا تھا کہ میں ان کو ایک نیا نام بخشوں گا جو بیٹوں اور بیٹیوں کے نام سے بہتر ہوگا۔ یہ نام صرف مسلمانوں کو ملا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھو سمکم المسلمین من قبل و فی ھذا (الحج۱۰ع۱۷) کہ پرانے زمانہ سے تمہارا نام مسلم رکھا گیا ہے لیکن عیسائیوں کا کوئی نام ہی نہیں وہ کبھی نصاریٰ کہلاتے ہیں اور کبھی مسیحی اور کبھی عیسائی یعنی عیسیٰ کی طرف نسبت پانے والے۔ انگریز اپنے آپ کو کرسچنز کہتے ہیں مگر یہ بھی کوئی نام نہیں بلکہ اس کے معنے صرف مسیحؑ کی طرف منسوب ہونے والوں کے ہیں۔ غرض عیسائیوں کا کوئی نام ہی نہیں۔ پہلے زمانہ میں وہ کچھ کہلاتے تھے پھر کچھ اور کہلانے لگ گئے اور اسی طرح ان کے نام میں تبدیلی ہوتی چلی گئی۔ وہ قوم جس کا ایک نام رکھا گیا ہے اور جس کا نام کسی انسان نہیں بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے وہ صرف مسلمان ہیں اور اسی کے نام کے متعلق یسعیاہ نبی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ ـ:-
’’ایک نام جو بیٹوں اور بیٹیوں کے نام سے بہتر ہے بخشوں گا‘‘۔
اگر عیسائی اپنے آپ کو اس پیشگوئی کامصداق قرار دیتے ہیں تو کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا عیسائی نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکھا گیا ہے۔ اگر وہ ایسا دعویٰ کریں تو یہ بالکل بے بنیاد ہوگا کیونکہ بائبل سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام عیسائی رکھا ہے۔
پھر یہ خبر دی گئی تھی کہ ان کو ابدی نام دیا جائے گا جو کبھی مٹایا نہیں جائے گا۔ یعنی زمانہ کے تغیرات اور ملکوں اور علاقوں کے اختلاف کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ان کا نام رکھا جائے گا وہ ہمیشہ قائم رہے گا اس میں کبھی کوئی تبدیلی عمل میں نہیں آئے گی۔ یہ پیشگوئی کا یہ حصہ بھی ایسا ہے جو عیسائیوں پر چسپاں نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اول تو ان کا کوئی نام ہی نہیں اور پھر جو کچھ وہ اپنے آپ کو کہتے ہیں اس میں بھی تبدیلی ہوتی چلی آئی ہے۔
تیسری خبر یہ دی گئی تھی کہ بیگانے کی اولاد اس مذہب میں داخل ہوگی۔ لیکن حضرت مسیح اپنے حواریوں سے کہتے ہیں کہ تمہیں غیرقوموں کو تبلیغ کرنے اور انہیں اپنے مذہب میں داخل کرنے کی اجازت ہی نہیں۔
چوتھی خبر یہ دی گئی تھی کہ وہ سبت کی حفاظت کریں گے لیکن عیسائی وہ ہیں جنہوں نے سبت کی حفاظت کرنے کی بجائے روم کے بادشاہوں کو خوش کرنے کیلئے ہفتہ کو اتوار سے بدل دیا اور اس طرح سبت کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا۔ یہ چار شرطیں جس قوم میں پائی جائیں گی اسی کا فلسطین پر قبضہ اس بات کی علامت سمجھا جاسکتا ہے کہ یسعیاہ کی پیشگوئی اس کے ذریعہ پوری ہوئی ورنہ محض فلسطین پر قبضہ کوئی چیز نہیں اس پر قبضہ تو رومیوں نے بھی کرلیا تھا۔
یہ چار شرطیں اگر کسی قوم میں پائی جاتی ہیں تو وہ صرف مسلمان ہیں۔ چنانچہ
اول: مسلمانوںکاخوداللہ تعالیٰ نے نام رکھا وہ فر ماتا ہے ھوسمکم المسلمین من قبل و فی ھذا(الحج۱۰ع۱۷) تمہارا مسلم نام اللہ تعالی نے آپ رکھا ہے۔
دوم: یہ نام ایسا ہے جو ابدی ہے کوئی شخص اس کو بدلنے کی طاقت نہیںرکھتا ۔ ایک مسلمان ہر وقت مسلمان ہی کہلائے گا۔ خواہ وہ دنیا کے کسی خطے میں رہتا ہو۔
سوم: بیگانے کی اولاد یعنی غیر اقوام کا داخلہ صرف اسلام میں جائز ہے اور یہی وہ مذہب ہے جس نے اپنی دعوت کو کسی ایک قوم سے مخصوص نہیں کیا بلکہ دنیا کی ہر قوم تک خدائے کا پیغام پہنچایاہے
چہارم: سبت کے محافظ بھی مسلمان ہی ہیں کیونکہ انہوں نے جمعہ کے احترام کو ہمیشہ ملحوظ رکھا ہے اور کبھی اس کو بدلنے کا خیال تک بھی ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہوا۔
پنجم: فلسطین پر بھی مسلمان قابض ہوئے یہاں تک کہ تیرہ سو سال ان کے قبضہ پر گذر گئے اور اب تک وہ فلسطین پر قابض ہیں ۔بہرحال یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی نے بتا دیا کہ دنیا کے روحانی ارتقاء کا آخری نقطہ یسعیاہ نہیں تھے۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دنیا کی پیدائش کا مقصود ان کے ذریعہ پورا ہوا کیونکہ وہ خود اپنے بعد ایک اور عظیم الشان نبی کی بعثت کی خبر دے چکے ہیں ۔
پھرر حضرت مسیحؑ آئے۔ کیا پیدائش انسانی کا وہ مقصود تھے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ہر گز نہیں ۔کیونکہ
اوّل: مسیحی مذہب نسل ابراہیم سے نہ تھا بلکہ عسائی تو الگ رہے خود مسیحؑ ہی نسل ابرا ہیم سے نہ تھے کیونکہ وہ عیسائیوں کے اعتقاد کے مطابق خدا تعالی کے بیٹے تھے۔جب وہ اللہ تعالی کے بیٹے تھے تو ابراہیم کی نسل مین سے کس طرح ہو گئے۔ اللہ تعالی نے تو حضرت ابراہیم سے یہ کہا تھا کہ ’’تیری نسل سے زمین کی ساری قومیں برکت پاویں گی‘‘ پس اگر کسی شخص کے ذریعہ پیش گوئی پوری ہو سکتی ہے تو وہ وہی ہو سکتا ہے جو ابرا ہیم کی نسل میں سے ہو نہ وہ جو اپنے آپ کو خدا تعالی کا بیٹا کہتا ہو۔اگر عیسائی کہ دیںکہ حضرت مسیحؑ سے زمین کی ساری قوموں نے برکت حاصل کر لی ہے تب بھی ہم کہیں گے کہ یہ پیشگوئی ابھی پوری ہونی باقی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس میں خبر یہ دی ہے کہ پیدائش انسانی کا آخری نقطہ ابراہیم کی نسل میں سے ہوگا اور اس کا نشان یہ ہوگاکہ وہ ایک عالمگیر مذہب کا بانی ہوگا اور دنیا کی ساری قوموں کو دعوت حقہ دے گا۔پس مسیحؑ نے اگر ساری قوموں کو دعوت دے بھی دی ہے تب بھی ابراہیمی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی کیونکہ ابراہیمی پیشگوئی کا تعلق اس شخص سے ہے جو ابراہیم کی نسل سے ہو۔ لیکن اگر بفرض محال مان بھی لیا جائے کہ گو حضرت مسیحؑ کا کوئی باپ نہیں تھا مگر تھے وہ ابراہیم ہی کی نسل سے۔تب بھی ہم کہتے ہیں کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ کیونکہ مسیحی مذہب عالمگیر نہیں۔چنانچہ حضرت مسیحؑ خود اپنی نسبت فرماتے ہیں۔
’’ابن آدم آیا ہے کہ کھوئے ہوئوں کو ڈھونڈ کر بچائے‘‘۔ (متی ۱۸۔۱۱)
یعنی مسیحؑ کی آمد کی غرض صرف اتنی تھی کہ بنی اسرائیل جو بخت نصر کے زمانہ میں منتشر ہو کر افغانستان اور کشمیر وغیرہ علا قوں میں پھیل گئے تھے ان کو اکٹھا کریں۔پس ان کا پیغام کسی اور کے لئے نہیں تھا ۔ دوسرے تورات ضود مسیحیوں کے نزدیک یہود کے لئے ہے اور عیسائی اس بات پر متفق ہیں کہ تورات غیر قوموں کے لئے نہیں تھی صرف یہود کے لئے تھی ۔ دوسری طرف انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کے نزدیک تورات منسوخ نہیں تھی چنانچہ آپ فرماتے ہیں :۔
’’ یہ خیال مت کرو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتاب کو منسوخ کرنے کو آیا۔ میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہر گز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو ‘‘۔ (متی باب۵ آیت۱۷،۱۸)
اس جگہ حضرت مسیحؑ صاف طور پر فرماتے ہیں کہ میں تورات کو منسوخ کرنے کے لئے نہیں آیا ۔ جب وہ منسوخ کرنے کے لیے نہیں آئے تو معلوم ہوا کہ زمانہ مسیحؑ میں تورات قائم رہی تھی اور جب وہ قائم رہی جیسا کہ عیسائی بھی مانتے ہیں تو چونکہ تورات ساری دنیا کے لئے نہیں تھی بلکہ صرف یہود کے لیے تھی اس لیے معلوم ہوا کہ حضرت مسیحؑ پیدائش انسانی کا آخری نقطہ نہیں تھے۔
پھرحضرت مسیحؑ نے جب اپنے بارہ حواریوں کو تبلیغ کے لیے بھیجا تو انہیں یہ ہدایت دی کہ
’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ پہلے اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جائو اور چلتے ہوئے منادی کرو اور کہو کہ آسمان کہ بادشاہت نزدیک آگئی‘‘۔ (متی باب۱۰آیت۶،۷)
ان الفاظ میں حضرت مسیح نے نہ صرف غیر قوموں کو تبلیغ کرنے کی ممانعت کی ہے بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔ سامری وہ لوگ تھے جو بنی اسرائیل سے مخلوط تھے اور آدھے بنی اسرائیل کہلاتے تھے مگر حضرت مسیحؑ ان کو بھی تبلیغ کرناجائز نہیں سمجھتے تھے کجا یہ کہ غیر قوموں کو اپنے مذہب میں داخل کرنا آپ جائز سمجھتے۔ پس وہ پیشگوئی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمائی تھی مسیحی مذہب کے ذریعہ بھی پوری نہیں ہوئی۔ وہاں یہ خبر تھی کہ ابراہیمی نسل سے ساری قومیں برکت پائیں گی اور مسیحی مذہب کے بانی نے اپنے بارہ حواریوں کو یہ ہدایت دی کہ وہ غیرقوموں کو تبلیغ نہ کریں اور صرف یہود کو تبلیغ کریں۔ پس مسیحی مذہب کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سب قوموں کو برکت دینے کیلئے آیا تھا۔
مذکورہ بالا حوالہ میں ’’پہلے‘‘ کے لفظ سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ بعض عیسائی کہہ دیا کرتے ہیں کہ پہلے بنی اسرائیل کو تبلیغ کرنے کا حکم تھا۔ یہ حکم نہیں تھا کہ بنی اسرائیل کے علاوہ اور کسی قوم کو تبلیغ ہی نہ کی جائے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ کیونکہ اول تو یہ واضح ہے کہ جب تک سب بنی اسرائیل ایمان نہ لائیں دوسروں کو تبلیغ کرنا منع ہے اور چونکہ یہودی ابھی تک موجود ہیں اس لئے عیسائیوں کو غیرقوموں میں تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں ہوسکتی۔ دوسرے خود حضرت مسیح نے اپنے اس حکم کی تشریح کردی ہے۔ آپ فرماتے ہیں
’’میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ تم بنی اسرائیل کے سب شہروں میں نہ پھر چکو گے جب تک کہ ابن آدم نہ آئے‘‘۔
(متی باب ۱۰ آیت ۲۳)
ان الفاظ میں حضر ت مسیحؑ کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ جب تک میں دوبارہ نہ واپس نہ آجائوں تم بنی اسرائیل کو تبلیغ کو ختم نہیں کرسکو گے۔ گویا مسیح کے دوبارہ آنے تک ان کی قوم کیلئے صرف بنی اسرائیل میں تبلیغ مقدر ہے کسی اور قوم کو تبلیغ کرنا ان کیلئے جائز نہیں۔ ہاں بعثت ثانیہ میں سب دنیا کو تبلیغ ہوگی۔ پس اس جگہ ’’پہلے‘‘ کے وہی معنے لئے جائیں گے جو حضرت مسیح کے دوسرے کلام سے ثابت ہے اور وہ معنے یہی ہیں کہ مسیح کی بعثت ثانیہ سے پہلے عیسائیوں کو یہود کے علاوہ اور کسی کو تبلیغ کی اجازت نہیں۔ حضرت مسیح صاف طور پر فرماتے ہیں کہ جب تک میں دوبارہ نہ آجائوں تم یہود کو تبلیغ سے فارغ نہیں کرسکو گے جس کے معنے یہ ہیں کہ میرے دوبارہ آنے تک تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم اپنی تبلیغ صرف یہود تک محدود رکھو۔ جب میں دوبارہ آجائوں گا تو پھر تمہیں اس بات کی اجازت ہوگی کہ تم ساری دنیا کو تبلیغ کرو۔پھرمسیح علیہ السلام فرماتے ہیں:-
’’میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی پاس نہیں بھیجا گیا‘‘۔ (متی باب ۱۵ آیت ۲۴)
اس میں اور زیادہ وضاحت سے انہوں نے قوموں کی نسبت سے اپنے حلقہ کی تعیین کردی اور بتادیا کہ میرا تعلق بنی اسرائیل کے علاوہ اورکسی قوم سے نہیں۔ جب حضرت مسیح کی بعثت صرف اسرائیلی قبائل کے لئے مخصوص تھی تو وہ حضرت ابراہیمؑ کی پیشگوئی کے مصداق ثابت نہ ہوئے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کویہ کہا گیا تھا کہ تیری نسل کے ذریعہ زمین کی ساری قومیں برکت پائیں گی اور حضرت مسیح کہتے ہیں کہ میں ساری دنیا کو برکت دینے کیلئے نہیں۔ بلکہ صرف بنی اسرائیل کو برکت دینے کیلئے آیا ہوں۔
دوم: وہ شریعت نہیں لائے۔ حالانکہ تمام پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا شریعت لائے گا ۔ پس چونکہ وہ شریعت نہیں لائے اس لئے انہیں دنیا کا مقصود قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سوم: وہ خود اقرار کرتے ہیںکہ ’’وہ نبی‘‘ ان کی پہلی بعثت کے بعد اور دوسری بعثت سے پہلے آئے گا۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’ضروری ہے کہ آسمان اسے لئے رہے (یعنی مسیح کو) اس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر خدا نے اپنے نبیوں کی زبانی شروع سے کیااپنی حالت پر آویں۔ کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہاکہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوںسے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اٹھاوے گا جو کچھ وہ تمہیں کہے اس کی سب سنو۔ اور ایسا ہو گا کہ ہر نفس جو اس نبی کی نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا۔ بلکہ سب نبیوں نے سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا ان دنوں کی خبر دی ہے‘‘۔
(اعمال باب ۳ آیت ۲۱ تا ۲۵)
ان الفاظ میں حواری حضرت مسیح سے خبر پاکر بتاتے ہیں کہ مسیح کے دوبارہ آنے سے پہلے ضروری ہے کہ وہ نبی آجائے جس کی تمام انبیاء خبر دیتے چلے آئے ہیں۔ وہ صاف الفاظ میں اعلان کرتے ہیں کہ پیشگوئیوں میں ایک شریعت لانے والے نبی کے متعلق جو خبر دی گئی تھی مسیح کی دوبارہ بعثت اس کے بعد ہوگی جس کے معنے یہ ہیں کہ مسیح اس پیشگوئی کا مصداق نہیں بلکہ آنے والا نبی جو اپنے ساتھ شریعت رکھتا ہوگا جو مسیحؑ کی بعثت اول اور بعثت ثانیہ کے درمیان آئے گا وہ اس کا مصداق ہوگا۔ اس موقعہ پر عیسائی کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا محمد رسول اللہ ﷺ کو پیدائش عالم کا نقطہ مرکزی قرار دینا غلط ہے۔ نقطہ مرکزی بہرحال مسیح ہے جس نے صاحب شریعت نبی کے بعد آنا ہے۔ مگر یہ سوال بھی حل ہوچکا ہے کیونکہ مسیح ثانی نے مبعوث ہونا تھا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوچکا ہے اور اس نے صاف اور کھلے لفظوں میں اعلان کردیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کا غلام ہوں اور میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے آپ سے ہی حاصل کیا ہے۔ پس یہ سوال جاتا رہا کہ نقطہ مرکزی ابھی باقی ہے۔ کیونکہ جسے سب سے آخر میں نقطہ مرکزی قرار دیا جاسکتا تھا اس نے خود آکر کہہ دیا ہے کہ میں نقطہ مرکزی نہیں بلکہ نقطہ مرکزی وہ ہے جو مجھ سے پہلے آچکا ہے۔ بہرحال اعمال باب ۳ کی تصریحات سے جو حضرت مسیح کی پیشگوئیوں پر مبنی ہیں کہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ مقصود جہاں حضرت مسیح کی بعثت اول کے بعد اور بعثت ثانیہ سے پہلے آنا تھا اور وہ ہمارے پیارے سردار محمد رسول اللہ ﷺ تھے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ جس غرض کیلئے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تھا اسے یاد کرتے ہوئے کھڑا ہو اور تبلیغ کر کہ تو اس غرض کو پورا کرنے والا ہے۔
اقرا باسم ربک ۔ تو پڑھ یعنی دنیا کے سامنے میرا نام لے کر اعلان کر کہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ بات کہتا ہوں مگر ساتھ ہی کہہ کہ اس رب سے مسیحیوں کا رب مراد نہیں جو بیٹے کا محتاج ہے، یہودیوں کا رب مراد نہیں جو ایک قوم سے وابستہ ہے، مشرکوں کا رب مراد نہیں جو کسی چیز کو پیدا کرنے سے قاصر ہے بلکہ الذی خلق تو اس خدا کانام لے کر اعلان کر جس نے مخلوق کو ایک خاص مقصد کیلئے پیدا کیاتھا مگر ابھی تک وہ مقصد پورا نہیں ہوا تھا اب تیرے ذریعہ وہ مقصد پورا ہوا ہے۔
خلق الانسان من علق O (اور جس نے) انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔
حل لغات: علق کے معنے خون کے ہوتے ہیں خصوصاً اس خون کے جو گاڑھا اور جما ہوا ہو۔ اسی طرح ہر وہ چیز جو لٹکی ہوئی ہو اسے بھی علق کہتے ہیں اور علق اس مٹی کو بھی کہتے ہیں جو بعض دفعہ کام کرنے کے بعد ہاتھ کے ساتھ لگی رہ جاتی ہے۔ اسی طرح علق دشمنی اور محبت کو بھی کہتے ہیں (اقرب)۔ کیونکہ یہ چیزیں بھی دل میں جم جاتی ہیں۔ نفرت پیدا ہوجائے تو وہ بھی دیر تک رہتی ہے اور محبت پیدا ہوجائے تو وہ بھی عرصہ تک قائم رہتی ہے۔ علق علقۃ کی جمع بھی ہوسکتا ہے اور علقۃ کے معنے ہیں القطعۃ من العلق للدم۔ خون کا لوتھڑا (اقرب)۔ اگر علق کو جمع قرار دی اجائے تو اس کے جمع لانے میں یہ حکمت ہوگی کہ الانسان سے مراد بھی جنس انسانی ہے کوئی ایک فرد مراد نہیں۔ یعنی خلق الانسان من علق کے یہ معنے نہیں کہ ہم نے ایک انسان کو علقہ سے پیدا کیا ہے بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے ہر انسان کو ایک ایک علقہ سے پیدا کیا ہے۔
تفسیر: یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ خلق من فلان عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ یہ امر فلاں شخص کی طبیعت میں داخل ہے۔ قرآن کریم نے بعض اور مقامات پر اس محاورہ کو استعمال کیا ہے۔ مثلاً ایک مقام پر فرماتا ہے اللہ الذی خلقکم من ضعف (الروم: ع) اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ضعف سے پید اکیا ہے۔ اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ ضعف کوئی مادہ ہے جس سے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانی فطرت میں ضعف پایا جاتا ہے۔ یا مثلاً اآتا ہے خلق الانسان من عجل (الانبیاء: ع۳) انسان عجلت سے پیدا کیا گیا ہے۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں کہ جلد بازی کوئی مادہ ہے جس سے انسان کوبنایاگیا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں جلد بازی کا مادہ بھی ہے۔ اسی طرح یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ خلق الانسان من علق۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے علق سے پیدا کیا ہے یعنی انسان کو فطرتاً اللہ تعالیٰ نے ایسابنایا ہے کہ اس میں علق پایا جاتا ہے۔ علق کے ایک معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچکا ہے محبت کے بھی ہوتے ہیں اور دشمنی اور عداوت کے بھی ہوتے ہیں۔ پس خلق الانسان من علق کے معنے یہ ہوئے کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے جذبات کا ایک طوفان پیدا کیا ہے اس کے اندر محبت بھی پیدا کی اور اس کے اندر نفرت بھی پیدا کی ہے۔ انہی دو فطری مادوں کو پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم انسانی فطرت کو دیکھ لو تم پر یہ حقیقت روشن ہوگی کہ ہم نے جذباتِ محبت اور جذباتِ نفرت دونوں اس میں پیدا کئے ہیں اور جب ہم نے اس میں جذبات محبت پیدا کئے ہیں اور جذبات نفرت بھی تو ضروری تھا کہ یہ جذبات ایک دن اپنی تکمیل کو پہنچتے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ انسان جذبات کے ادھورے ظہور پر قانع نہیں ہوسکتا۔ بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کے اندر جو جذبات پائے جاتے ہیں ان کا مکمل ظہور ہو۔ وہ فطرت کی پیاس بجھانے اور اپنے جذبات کی سیری کیلئے ایک تکمیل کی احتیاج محسوس کرتا ہے اور اس بات کیلئے بیتاب رہتا ہے کہ اس کا ہر فطری جذبہ اپنی کامل صورت میں رونما ہو اور صانع فطرت نے جس غرض کیلئے انسان کو مختلف جذبات میں ڈھالا ہے وہ غرض اسے حاصل ہو۔ انسان کی اس طبعی اور فطری خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے غور کرو جب اللہ تعالیٰ نے پیدائش انسانی کے ساتھ ہی اس کی فطرت میں جذبۂ محبت بھی رکھ دیا تھا اور جذبۂ نفرت بھی تو جب تک ان دونوں جذبات کی تکمیل نہ ہوجاتی ، جب تک ایسا انسان دنیا میں پیدا نہ ہوتا جو اللہ تعالیٰ سے اتنی محبت کرتا کہ اس سے بڑھ کر اور کسی سے محبت نہ کرتا اور شیطان سے اتنی نفرت کرتا کہ اس سے بڑھ کر اور کسی سے نفرت نہ کرتا اس وقت تک یہ کس طرح کہا جاسکتا تھا کہ انسان ارتقاء کو پہنچ گیا ہے۔ تم اگر یہ کہتے ہو کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے ہی دنیا اپنے ارتقائی نقطہ کو حاصل کرچکی تھی تو یہ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ ابھی تک نہ تعلیم ایسی آئی تھی جو خداتعالیٰ سے کامل محبت اور شیطان سے کامل نفرت کا سبق دیتی اور نہ کوئی انسان ایسا مبعوث ہوا تھا جس نے ان جذبات کو اپنے کمال تک پہنچادیا ہو اور جس نے خداتعالیٰ سے ایسی محبت کی ہو جو اپنی ذات میں بے مثال ہو۔ اس لئے تم نہیں کہہ سکتے کہ دنیا کا مقصود پورا ہوچکا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس خدا نے انسان کو ان دو طاقتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، جس نے کامل درجہ کی محبت اور کامل درجہ کی نفرت کا مادہ اس کی فطرت میں ودیعت کیا ہے اے محمد رسول اللہ اس کا نام لے کر پڑھ یعنی دنیا میں اعلان کر کہ آج میرے ذریعہ خداتعالیٰ سے کامل محبت اور شیطان سے کامل نفرت کا ظہور ہونے والا ہے۔
دوسرے معنے اس کے یہ ہوسکتے ہیں کہ انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا گیا ہے یعنی ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر بڑھایاگیا ہے۔ جس طرح انسانی فرد کو ہم نے اس رنگ میں بنایا ہے کہ وہ ادنیٰ حالت سے ترقی کرکے کمال تک پہنچتاہے اسی طرح ہم نے تمام مخلوق کو بنایا ہے اور وہ اپنے کمال کے ظہور کیلئے ایک تدریج کی محتاج ہوتی ہے۔ تم جانتے ہو اگر کسی عورت کے پیٹ میں بچہ ہو اور اس کا پانچویں چھٹے مہینے اسقاط ہوجائے تو تم ایسی عورت کو بچہ والی عورت نہیں کہتے۔ بچے والی عورت تم اسی کو کہو گے جس کا بچہ پورے دنوں کے بعد پیدا ہو۔ اسی طرح اگر مخلوق تدریجی رنگ میں ترقی کرتے کرتے اپنے ارتقاء کے آخری نقطہ تک نہ پہنچتی تو یہ ایسا ہی ہوتا جیسے کسی بچے کا پانچویں یا چھٹے ماہ اسقاط ہوجاتا ہے۔ اگر موسیٰؑ پر دنیا ختم ہوجاتی تو کہا جاتا کہ وہ مخلوق جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنی چاہی تھی اس کا اسقاط ہوگیا۔ اگر عیسیٰؑ پر دنیا ختم ہوجاتی تو کہا جاتا کہ وہ مخلوق جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنی چاہی تھی اس کا اسقاط ہوگیا۔ اگر پیدائش عالم کے نتیجہ میں ایک کامل وجود پیدا نہ ہوتا اور اس سے پہلے ہی یہ سب دنیا فنا ہوجاتی تو کہا جاتا کہ وہ مخلوق جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنی چاہی تھی اس کا اسقاط ہوگیا۔ جیسے حمل کے پانچویں یا چھٹے مہینہ میں بعض دفعہ بچہ گر جاتا ہے اور عورت کو کوئی شخص صاحب اولاد نہیں کہتا۔ یہی حال دنیا کا ہوتا اگر نویں مہینہ کا کامل وجود اس دنیا میں پیدا نہ ہوتا تو بنی نوع انسان کی پیدائش بالکل اکارت چلی جاتی۔ دنیا بانجھ تو کہلاسکتی تھی مگر یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ جس مقصد کیلئے اس دنیا کو پیدا کیا گیا تھا وہ حاصل ہوگیا ہے۔ بیشک اس سے پہلے عیسیٰؑ بھی آئے اور موسیٰؑ بھی آئے اور ابراہیمؑ بھی آئے اور نوحؑ بھی آئے مگر موسیٰ اور عیسیٰ اور ابراہیم اور نوح کی مثال پانچویں یا چھٹے ماہ کے بچہ کی سی ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی مثال اس نویں ماہ کے بچہ کی سی ہے جو تندرستی کی حالت میں پیدا ہوا۔ تم پانچویں ماہ کے بچہ کو بچہ نہیں کہتے کیونکہ وہ کامل نہیں ہوتا۔ تم چھٹے ماہ کے بچہ کو بچہ نہیں کہتے کیونکہ وہ کامل نہیں ہوتا تم صرف نویں ماہ کے بچہ کو بچہ کہتے ہو کیونکہ وہ کامل ہوتا ہے۔ اسی طرح موسیٰ اور عیسیٰ کے ساتھ تمہاری تکمیل نہیں ہوسکتی ۔ تمہاری تکمیل وابستہ ہے محمدرسول اللہ ﷺ کی ذات سے۔ ان کے بغیر دنیا اپنے مقصود کو حاصل نہیں کرسکتی۔
غرض یہاں دونوں معنے ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی خلق الانسان من علق سے مراد خون کا لوتھڑا ہے ارو اآیت کے یہ معنے ہیں کہ انسان کو ادنیٰ حالت سے ترقی دی ہے۔
دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے محبت اور نفرت کے جذبات دے کر پیدا کیا ہے۔ جب تک محبت اور نفرت کے جذبات اس میںکامل طور پر ظاہر نہ ہوجائیں اس وقت تک پیدائش انسانی کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ پس ایسی شریعت کا آنا ضروری تھا جو ایک طرف خداتعالیٰ سے کامل محبت کی تعلیم دیتی اور دوسری طرف شیطان سے کامل نفرت کی تعلیم دیتی یا ایسا انسان ظاہر ہوتا جو ایک طرف اللہ تعالیٰ سے کامل اتصال رکھتا اور دوسری طرف شیطان سے کامل بُعد اس کی طبیعت میں پایا جاتا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے متعلق یہ دونوں دعوے قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثم دنا فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی (النجم: ع۱) یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کا خداتعالیٰ سے محبت کا تعلق اس قدر بڑھا کہ آپ خداتعالیٰ کی طرف تیزی سے بڑھے اور خداتعالیٰ آپ کی طرف تیزی سے بڑھا۔ یہ اس کامل اتصال کا ثبوت ہے جو رسول کریم ﷺ کو خداتعالیٰ سے تھا۔ دوسری طرف آپ کو شیطان سے اس قدر بُعد تھا کہ آپ فرماتے ہیںولکنہ اعاننی علیہ فاسلم (مسلم) کہ میرے شیطان کو مسلمان بنادیا گیا ہے یعنی اگر شیطان بھی میرے پاس آئے تو وہ مسلمان ہوجاتا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ مجھے کوئی بری تحریک کرے میرا رنگ اس پر چڑھ جاتا ہے اور مجھے برائی میں ملوث کرنے کی بجائے خود نیکی سے حصہ لینے لگ جاتا ہے۔ یہ اس انتہاء درجہ کی محبت کا ثبوت ہے جو رسول کریمﷺ کے دل میں اللہ تعالیٰ کے متعلق پائی جاتی تھی کہ اآپ کے پاس جو جو چیز آتی وہ اپنی خاصیت کو بدل کر اسی رنگ میں رنگین ہوجاتی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا تھا۔ جیسے کہتے ہیں
ہر کہ در کانِ نمک رفت نمک باشد
غرض رسول کریم ﷺ کے دل میں خداتعالیٰ کی اتنی شدید محبت تھی اور شیطان کی اتنی شدید نفرت آپ کے قلب میں پائی جاتی تھی کہ آپ فرماتے ہیں کہ اگر شیطان بھی میرے پاس آئے تو مجھ پر شیطان کا رنگ نہیں چڑھے گا بلکہ میرا رنگ اس پر چڑھ جائے گا۔ یہ کمال درجہ کی نفرت ہے کہ شیطان کا آپ سے ٹکرائو ہوتا ہے تو شیطان آپ پر غالب نہیں آسکتا بلکہ آپ شیطان پر غالب آجاتے ہیں اور نہ صرف اس رنگ میں غالب آتے ہیں کہ اس کے برے اثر کو قبول نہیں کرتے بلکہ خود اس پر اپنا رنگ چڑھا کر اسے مسلمان بنادیتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ پر غور کرکے دیکھ لو صرف ایک ہی وجود ایسا نظر آئے گا جس نے یہ دعویٰ کیاہے کہ میں خداتعالیٰ سے ایسا کامل تعلق رکھتاہوں کہ مجھ میں اور اس میں کوئی دوئی نہیں رہی اور شیطان سے مجھے اتنی کامل نفرت ہے کہ وہ کسی رنگ میں بھی مجھ پر غالب نہیں آسکتا۔ اگر وہ میر پاس آئے تومیں ہی اس پر غالب آئوں گا یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مجھے مغلوب کرکے یا مجھے برائیوں میں ملوث کرسکے۔ پس تعلق کا کمال دنیا میں صرف محمد رسول اللہ ﷺ نے دکھایا ہے اور تعلق پیدا کرنے والی تعلیم کا کمال قرآن کریم نے پیش کیا ہے کہ اس کے لفظ لفظ اور حرف حرف سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا عشق پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہورہا ہے۔ دشمن سے دشمن عیسائیوںکی کتابیںجب ہم پڑھتے ہیں تو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی محبت پر جتنا زور قرآن کریم نے دیا ہے اتنا زور دنیا کی اور کسی کتاب میں نظر نہیں آتا۔ کوئی صفحہ اُٹھا کر دیکھ لو اس میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کا ذکر آئے گا اور بات بات میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ کیا جائے گا اور یہ کیفیت کسی ایک سورۃ یا ایک پارہ سے مخصوص نہیں۔ بسم اللہ سے لے کر والناس تک قرآن کریم پڑھ جائو اس کا کوئی صفحہ ایسا نہیں آئے گاجس میں بار بار اللہ تعالیٰ کا نام نہ آتا ہو ار بار بار اللہ تعالیٰ کی محبت پر زور نہ دیا گیا۔ باقی کتابوں کی یہ حالت ہے کہ ان میں سے کہیں لکھا ہوتا ہے کہ فلاں شخص پہاڑ پر گیا اور لوگوں نے اسے بھونی ہوئی مچھلی کا ایک ٹکڑا اور شہد کا چھتہ کھانے کو دیا۔ کہیں لکھا ہوتا ہے کہ بعض لوگوں پر جن بھوت سوار تھے وہ حضرت مسیح ؑ کے پاس آئے انہوں نے ان جنات کو نکال کر سوروں کے غول میں ڈال دیا اور وہ سور سب کے سب پانی میں ڈوب کر مر گئے۔ غرض ایسی ایسی باتیں لکھی ہوئی ہی کہ پڑھ کر ہنستی آتی ہے مگر قرآن کریم کا کوئی صفحہ ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ کے نام سے خالی ہو۔ تورات کے صفحوں کے صفحے، بقیہ بائبل کے صفحوں کے صفحے اور انجیل کے صفحوں کے صفحے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خالی ہیں۔ لیکن قرآن وہ کتاب ہے جس کا کوئی ایک صفحہ بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خالی نہیں۔
خلق الانسان من علق کے متعلق یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ الگ مضمون بھی ہوسکتا ہے اور پہلے خلق یعنی الذی خلق کا یہ بدل بھی ہوسکتا ہے۔ اگر اس خلق کو پہلے خلق کا بدل سمجھا جائے تو اس صورت میں اس کے وہی معنے ہوں گے جو اوپر بیان کئے جاچکے ہیں یعنی خلق سے عام پیدائش مراد نہیں بلکہ انسان کی پیدائش مراد ہے۔ لیکن اگر اس کو علیحدہ مضمون قرار دیا جائے تو ترجمہ یوں ہوگا کہ تو پیدا کرنے والے رب کے نام سے پڑھ خصوصاًاس رب کے نام سے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اس صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ تمام پیدائش ہی انسان کی پیدائش کے تابع ہے۔ گویا انسانی پیدائش ہی اصل مقصود تھی۔ پھر اس پیدائش میں سے پیدائش محمدی ہی مقصود تھی۔ پس اے محمد رسول اللہ تو اللہ تعالیٰ کو اس کا یہ مقصد یاد دلا کر کام شروع کر۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خداتعالیٰ خود ہی اس کام کو شروع کرنے والا ہے اور اس نے پیدائش عالم کے وقت سے ایک مقصد اپنے سامنے رکھا تھا اور وہ مقصد محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات تھی توپھر باسم ربک الذی خلق کہنے کا کیا فائدہ تھا۔ کیا خداتعالیٰ کو اپنا مقصد نعوذ باللہ بھول گیا تھا کہ اس ذریعہ سے اسے یاد دلانا ضروری سمجھاگیا؟ اس کا ایک جواب تومیں پہلے دے چکا ہوں کہ اقرا باسم ربک میںاس امر کی طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ تو رسول ہونے کی حیثیت سے اس کام کو شروع کرہماری تائید تیرے ساتھ ہوگی اور ہماری نصرت تیرے شامل حال ہوگی۔ پس باوجود اس حقیقت کے کہ رسول کریم ﷺ تمام جہان کا مقصود تھے اور پیدائش عالم کے روحانی ارتقاء کا آخری نقطہ صرف آپ کی ذات تھی پھر بھی ان الفاط کی زیادتی بلا وجہ نہیں کی گئی بلکہ ان میں بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ باسم ربک الذی خلق کہہ کر رسول کریم ﷺ کی رسالت کا اعلان کیاگیاہے اور آپ کو کہا گیا ہے کہ تو ہمارے نام کے ساتھ دنیا کو یہ پیغام سنا۔ جو لوگ تجھ پر ایمان لائیں گے انہیں میری رضا حاصل ہوگی اور جو انکار کریں گے وہ میرے عذاب کا نشانہ بنیں گے۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور جواب بھی ہے اور وہ یہ کہ دعا کے بھی کئی طریق ہوتے ہیں ۔ خداتعالیٰ کی اسی صفت سے دعا مانگنی جو مقصد کے ساتھ متعلق ہو زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ دعا کا صحیح طریق یہ ہے کہ جس صفت سے دعا کا تعلق ہو اس کا نام لے کر دعا کی جائے ۔ اگر کسی شخص کے ہاں اولاد نہیں ہوتی اور وہ یہ دعا کرے کہ اے خالق مجھے بچہ دے تو یہ دعا کا ایک صحیح طریق ہوگا۔ لیکن اگر وہ یہ دعا کرے کہ اے جبار مجھے بچہ دے یا اے قہار مجھے بچہ دے یا اے ممیت مجھے اولاد عطا کر ۔ تو گو ممکن ہے اللہ تعالیٰ پھر بھی اس کے تضرع کو دیکھ کر اسے اولاد عطا کردے۔ مگر ہر سننے والا شخص یہی کہے گا کہ یہ بڑی ردّی قسم کی دعا ہے۔ وہ دعا تو یہ مانگ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہاںاولاد پیدا کرے اور وہ اپنی مدد کیلئے اس صفت کو پکار رہا ہے جس کا تعلق پیدا کرنے سے نہیں بلکہ مارنے کے ساتھ یا قہر اور غضب کے ساتھ ہے یا مثلاً ایک شخص اگر اس رنگ میں دعا کرتاہے کہ اے ممیت خدا میرے دشمن نے مجھے سخت تنگ کررکھاہے تو میرے دشمن کو ہلاک کر اور مجھے اس کے شر سے محفوظ رکھ تو یہ بالکل صحیح دعا ہوگی۔ لیکن اگر وہ اس طرح دعاکرے کہ محی خدا۔ اے خالق خدا میرے دشمن کو ہلاک کر تو یہ کیسی بیوقوفی والی بات ہوگی۔ پس اگر اس صفت کو ملحوظ رکھ کر دعا کی جائے جو دعا کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو تو انسان کی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے۔ اسی حکمت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے یہاں باسم ربک الذی خلق کا اضافہ کیااور فرمایا جب تو دعا مانگنے لگے تو اس رنگ میں دعا مانگ کہ اے خدا جس نے پیدائش عالم سے میری بعثت کو اپنی دنیا کا مقصد قرار دیا ہواہے میں تجھ سے اسی ارادہ کا واسطہ دے کر التجاء کرتا ہوں کہ تو مجھے کامیاب کر۔ اگر تو اس رنگ میں دعا مانگے گا تو تیری دعا بہت جلد قبول ہوگی اور تو قلیل سے قلیل عرصہ میں اپنے مقاصد کو حاصل کرلے گا۔
دوسری حکمت یہ ہے کہ جب متعلقہ صفت کوملحوظ رکھ کر دعا مانگی جائے تو خود انسان کی امید بڑھ جاتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میرا کام ضرور ہوجائے گا۔ مثلاً جب یہ دعاکی جائے کہ اے خدا تو نے کہا تھا کہ میں ساری دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کروں گا اور تونے اسی مقصد کیلئے ساری دنیا کو پیدا کیا تھا اب میں تجھ کو تیری اسی صفت کا واسطہ دے کر جو تمام پیدائش عالم کا موجب ہوئی التجا اور دعا کرتا ہوں کہ دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کردے اور اس مقصد کو پورا کر جو پیدائش عالم کا موجب تھا۔ تو ایک طرف اللہ تعالیٰ کا فضل زیادہ زور کے ساتھ نازل ہونا شروع ہوجائے گا اور دوسری طرف خود دعا مانگنے والے کی اپنی امید بڑھ جائے گی اور اس کے سامنے یہ امر رہے گا کہ میری کامیابی میں کوئی شبہ نہیں۔ جس کام کیلئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ ضرور ہوجائے گا کیونکہ وہ مقصود ہے اللہ تعالیٰ کا۔ بلکہ اگر مجھ سے کوئی کمزوری بھی ہوئی تب بھی ہوجائے گا۔ پس دوسرا فائدہ دعا کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے سامنے رکھنے کا یہ ہوتا ہے کہ خود انسان کے اندر امید پیدا ہوجاتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میرا کام اب ضرور ہوجائے گا۔
تیسری حکمت اس طریق میں یہ تھی اس سلسلہ پر نظر کر کے جو ایک لمبے عرصہ سے چلا آرہا تھا آپ کا ایمان بھی اور جوش عمل بھی ترقی کرتا جائے گا۔ جب آپ یہ کہیں گے کہ اے خدا جس نے آدم ؑ کو دنیا کی ترقی کیلئے بھیجا پھر اسے اور ترقی دینے کیلئے نوح بھیجا پھر اور ترقی دینے کیلئے موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کو بھیجا اور پھر ترقی دینے کیلئے مجھے بھیجا تو اسلام کو فتح دے تو آپ کے دل میں اسلام کے غلبہ اور اس کی کامیابی کے متعلق جو یقین پیدا ہوگا ظاہر ہے۔ اس طرح ہر وقت آپ کے سامنے یہ امر رکھا گیا کہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو باطل کردے اور اس غرض کو پورا نہ کرے جس کی بنیاداس نے آدم کے وقت سے رکھ دی تھی۔ غرض ایک طرف اس ذریعہ سے آپ کے دل میں یقین کامل پیدا کیا گیا۔ دوسری طرف ایمان اور جوش عمل میں ترقی بخشی گئی اور تیسری طرف خدائی فضل کو خود اس کے مقصد کا واسطہ دیکر جوش دلایا گیا۔پس باسم ربک الذی خلق کا اضافہ بے فائدہ نہیں بلکہ اپنے اندر بہت بڑے فوائد اور حکمتیں رکھتا ہے۔
اقرا و ربک اکرمoالذی علم بالقلم o
(پھر ہم کہتے ہیں ) پڑھ در آنحا لیکہ تیرا رب (اتنا) بڑا کریم (ہونا ظاہر کر رہا ) ہے۔جس نے قلم کے ساتھ سکھا یا (ہے اور آئندہ بھی سکھائیگا)۔
حل لغات: اکرم اسم تفصیل کا صیغہ ہے اور کریم کے معنے سخی کے بھی ہوتے ہیں اور اس شخص کو بھی کہتے ہیں جس سے زیادہ نفع پہنچے۔ اسی طرح ہر چیز میں سے جو زیادہ اچھی ہو اسے بھی کریم کہتے ہیں۔ (اقرب) گویا ہر چیز کے آخری نقطہ کو عربی زبان میں کریم کہا جاتا ہے ۔ جب کریم کے معنے احسن کے ہوئے تواکرم کے یہ معنے ہیں کہ تیرا رب وہ ہے جو اچھی سے اچھی چیزوں سے بھی احسن ہے۔
تفسیر: ربک الاکرم کہہ کراس طر ف تو جہ دلائی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کے اکرم ہونے کا حق دنیا نے تلف کر رکھا ہے۔ اللہ تعالی اکرم ہے مگر دنیا میں اس کے اکرم ہونے کا حق ادنیٰ معبودوں کو دے دیا گیا ہے ۔کوئی بتوں کو پوجتا ہے ۔کوئی عیسیٰ کی پرستش کرتا ہے اور کوئی کسی اور کے آگے اپنے سر کو جھکا رہا ہے ۔تو اٹھ اور خدا تعالی کا حق اسے واپس دلا۔ دنیا نے اللہ تعالیٰ کی شان کو نہیں پہچانا۔ اس نے خدائی کا حق کچھ بتوں کو دے دیا ہے اور کچھ انسانوں کو ۔ اب تیرا کام یہ ہے کہ تو دنیا پر خدا تعالی کے اکرم ہونے کی شان کو ظاہر کرتا آستانہ الوہیئت سے بھولی بھٹکی مخلوق پھر اس کی طرف واپس آئے اور پھر اس کے اکرم ہونے کی شان دنیا میںتسلیم ہونے لگے۔
دوسرے اس میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ تو اپنے آپ کو کمزورنہ سمجھ جس خدا نے تجھے کھڑا کیا ہے وہ اکرم ہے۔ وہ احسنوں کا بھی احسن ہے تجھے اپنی تعلیم کے متعلق یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ اس وقت خدا تعالی کے اکرم ہونے کا جلوہ ظاہر ہونیوالاہے۔بے شک موسیٰؑ کے وقت بھی خدا تعالی کا جلوہ ظاہر ہوا مگر وہ جلوہ اس کے اکرم ہونے کا نہیں تھا ۔اسی طرح دائود ؑ اور سلیمان ؑ اور عیسیٰ ؑ وغیرہ کے زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کا جلوہ ظاہر ہوا مگروہ جلوہ خدا تعالی کے اکرم ہونے کا نہیں تھا ۔ اب تیرے ذریعہ اللہ تعالی اپنے اکرم ہونے کا جلوہ ظاہر کرنے والا ہے اور اس کی صفات کا ایسا ظہور ہوگا جس کی مثال دنیا میں اس سے پہلے نہیں مل سکتی۔ اس لئے تیرے لیے مایوسی اور گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں۔
تفسیر: اس سے یہ مراد نہیں کہ خدا تعالی نے قلم سے بندہ کو سکھایا ہے کیونکہ یہ خلاف واقعہ ہے۔کب قلم لے کر اللہ تعالی نے اپنے کسی بندے کو الف اور با ء سکھلائی ہے جب ایسا کبھی ہوا ہی نہیں تو یہ معنے کیسے ہو سکتے ہیں کہ خدا تعالی نے قلم سے بندے کو سکھایا ۔ اسی طرح اس سے یہ مراد بھی نہیں ہو سکتی کہ بندہ جو کچھ قلم سے سکھاتا ہے وہ سب خدا تعالی کا سکھایا ہوا ہوتا ہے کیونکہ بندے دوسروں کو جھوٹ بھی سکھاتے ہیں۔اور دغا اور فریب بھی سکھا تے ہیں۔اخلاق اور روحانیت سے گری ہوئی باتیں بھی سکھاتے ہیں۔گندے اور ناپاک اشعار بھی سکھاتے ہیںالف لیلیٰ کے قصے بھی سکھاتے ہیں ۔ہزاروں افراد دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیںجو لغویات لکھتے ہیں اور لغویات شائع کرتے ہیں۔ پھر قلم سے کام لینے والے وہ لوگ بھی دنیا میں موجود ہیںجو اللہ تعالی کے منکر ہیں۔وہ لوگ بھی موجود ہیں جو اخلاق کی کوئی قیمت نہیں سمجھتے۔وہ لوگ بھی موجود ہیں جو مذہب کے خلاف ہیں۔غرض ہر سچی تعلیم کا منکر دنیا میں موجود ہے ۔اس لیئے علم بالقلم سے یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ بندہ جو کچھ قلم سے سکھاتا ہے وہ سب خدا تعالی کا سکھایاہوا ہوتا ہے کیونکہ اس میں ہزاروں افتراء ہوتے ہیں۔
علم با لقلم میںگوما ضی کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے مگر مراد مستقبل ہے۔ یہ عربی زبان کا قا عدہ ہے کہ کبھی ماضی کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے اور مراد استقبال ہوتا ہے قرآن کریم میں یہ محاورہ کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح الہامات میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔درحقیقت ماضی کو استقبال کے معنوںمیں اس لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ ما ضی سب سے ذیادہ قطعی اور یقینی ہوتی ہے ۔جب انسان کوئی کام کر رہا ہو تو ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس کام کو پوری طرح کر بھی سکے گا یا نہیں۔مثلاًزید پڑھ رہا ہو تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ اسی طرح پڑھتا چلا جائے گا یا مر جائے گا ۔لیکن جب ہم کہیں زید پڑھ چکا ہے تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔کیونکہ یہ واقعہ ماضی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے الہامات میں جب قطعی اور یقینی طور پر کسی بات کو بیان کرنا ہو تو وہ ماضی کاصیغہ استعمال کرتا ہے جس کے معنے ہوتے ہیں کہ تم اس بات کو ایسا سمجھو کہ گویا ہو چکی ہے اور اس کا وقوع با لکل قطعی اور یقینی ہے ایسا ہی قطعی اور یقینی جیسے ماضی ہوتی ہے ۔اس طرح گو اس جگہ ماضی کا صیضہ استعمال کیا گیا ہے مگر الذی علم با لقلم کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کے علوم کو قطعی اور یقینی اور غیر متبدل طور پر قلم کے ذریعہ سکھائے گا یعنی یہ قرآن لکھا جائے گا ۔ لکھ کر قائم کیا جائے گا اور اسکی تائید میں لوگوں کی قلمیں چلا کریں گی۔ اب دیکھ لو قرآن کریم کی یہ پیش گوئی کیسے بین طریقے پر پوری ہوئی ہے ۔ دنیا میں صرف یہی ایک کتاب ہے جو قلم سے محفوظ کی گئی ہے اس کے علاوہ اور کوئی کتاب قلم سے محفوظ نہیں ہوئی۔ موسیٰ ؑ کی کتاب اس وقت نہیں لکھی گئی جب وہ موسیٰ ؑ پر نازل ہوئی تھی۔ ابراہیم ؑ کے صحف اس وقت نہیں لکھے گئے جب وہ ابراہیم ؑ پر نازل ہوئے تھے۔ وید اس وقت نہیں لکھے گئے جب وہ رشیوں پر نازل ہوئے تھے ۔ ژند اور اوستا اس وقت نہیں لکھی گیئں جب وہ زرتشت پر نازل ہوئی تھیں انجیل اس وقت نہیں لکھی گئی تھی جب حضرت مسیح ؑ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تازہ بتازہ الہامات ہوتے تھے ۔ غرض دنیا میں کوئی ایک الہامی کتاب بھی ایسی نہیں جو ابتداء میں لکھی گئی ہو۔ صرف قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو شروع سے لکھی گئی ہے ۔ اور آج تک انہی الفاظ میں محفوظ ہے جن الفاظ میں یہ کتاب رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی تھی۔ اور یہ بات ایسی پختہ اور یقینی ہے کہ دشمنان اسلام تک یہ لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ دنیا میں اگر کوئی کتاب ایسی ہے جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وہ شروع سے لیکر اب تک ایک حرف اور ایک زبر اور زیر کے تغیر کے بغیر اسی رنگ میں محفوظ ہے جس رنگ میں وہ دنیا کے سامنے پیش ہوئی تو وہ صرف قرآن کریم ہے۔ میور ، نولڈکے اور سپرنگر جو مشہور یورپین مستشرقین ہیں اور جنہوں نے اسلام کی مخالفت میں اپنی تمام عمر بسر کی ہے انہوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ قرآن کریم میں کوئی فرق نہیں پڑا ۔یہ شروع سے لیکر اب تک ہر قسم کے تغیر اور انسانی دستبرد سے محفوظ چلا آ رہا ہے ۔
پھر علم با لقلم کے ایک یہ معنی بھی ہیں کہ قرآن کریم کے ذریعہ آئندہ سارے علوم دنیا میں پھیلیں گے ۔ چنانچہ آج جس قدر علوم نظر آتے ہیں یہ سب قرآن کریم کے طفیل معرض وجود میں آئے ہیں ۔
قرآن کریم عربوں میں نازل ہوا اور عرب با لکل جاہل تھے ۔انہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ تاریخ کس علم کا نام ہے یا صرف نحو کون سے علوم ہیں یا فقہ اور اصول فقہ کس چیز کانام ہے۔مگر جب قرآن کریم پر ایمان لانے کی سعادت ان کو حاصل ہو گئی تو قرآن کریم کی وجہ سے انہیں ان تمام علوم کی طرف متوجہ ہونا پڑا ۔ مثلاًجب انہوں نے قرآن کریم میں پڑھا کہ پہلے زمانو ںمیںفلاں فلاں انبیاء آئے ہیں اور ان کے ساتھ یہ یہ واقعات پیش آئے تھے تو قرآن کریم کی صداقت ثابت کرنے کے لئے انہیں گذشتہ واقعات کی چھان بین کرنی پڑی اور اس طر ح علم تاریخ کی ایجاد عمل میں آئی ۔ پھر بے شک قرآن کریم عربی زبان میں تھا اور اہل عرب کے لئے اس کا سمجھنا یا اسکی صحیح تلاوت کرنا کوئی مشکل امر نہیں تھا۔مگرجب اسلام نے عرب کی سرزمین سے باہر قدم رکھا تو غیراقوام کے میل جول کی وجہ سے عربوں میں بھی اعراب کی غلطیاں شروع ہو گئیں جس پر انہیں اس زبان کے قواعد جمع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس طرح علم صرف اور نحو کی ایجاد ہو گئی۔مورخین لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ابو ا لاسود اپنے گھر گئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی بیٹی قرآن کریم کی آیت ان اللہ بریء من المشرکین و رسولہ‘ کو ان اللہ بریء من ا لمشرکین و رسولہٖ پڑھ رہی ہے ۔ آیت کے معنے تو یہ ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول دونوں ہی مشرکوں سے بیزار ہیں مگر رسولہ‘ کی بجائے رسولہٖ پڑھنے سے آیت کے یہ معنے بن جاتے ہیں کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے اور اپنے رسول سے بھی گویا پیش کی جگہ زیر پڑھنے سے آیت کے کچھ کے کچھ معنے ہو گئے۔ وہ گھبرائے ہوئے حضرت علیؓ کے پاس گئے اور ان سے کہا ہمارے ملک میں اب بہت سے عجمی لوگ آگئے ہیں اور ہماری بیٹیاں بھی ان سے بیاہی گئی ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہماری زبان خراب ہو گئی ہے ۔میں ابھی اپنے گھر گیا تھا تو میں نے اپنی بیٹی کو ان اللہ بریء من المشرکین ورسولہ‘ کی بجائے ان اللہ بریء من المشرکین ورسولہٖ پڑھتے سنا ۔اگر اسی طرح غلطیاں شروع ہوگئیںتو طوفان برپا ہو جائے گا ۔ اس کے انسداد کے لئے ہمیں عربی زبان کے متعلق قواعد مدون کرنے چاہیں تاکہ لوگ اس قسم کی غلطیوں کے مرتکب نہ ہوں۔ حضرت علیؓاس وقت گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں باہر تشریف لے جا رہے تھے آپ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔ چنانچہ اسی وقت آپ نے بعض قواعدبتلائے اور پھر فرمایا انح نحوہ‘ و نحوہ‘ اس بنیاد پر اور بھی قواعد بنا لو چنانچہ اس بنا پر اس کو علم نحو کہا جاتا ہے۔پس قرآن کریم کی صحت کے لئے علم صرف و نحو ایجاد ہوئے۔پھر قران کریم کے معنی کے لئے لغت لکھی گئی ۔کیونکہ عربوں کو خیال آیا کہ جب عجمی لوگ اسلام میں داخل ہوئے تو وہ قرآن کریم کے معنی کس طرح سمجھیںگے پس لغت بھی قرآن کریم کی خدمت کے لئے لکھی گئی ۔اس کے بعد قرآن کریم کی تشریح کے لئے علم فقہ اور اصول فقہ کی ایجاد عمل میں آئی۔اسی طرح علم معنی اور علم بیان محض قرآن کریم کے طفیل ایجاد ہوئے۔پھر قرآن کریم کے محاورات اور اس کے استعارات کی حقیقت واضح کرنے کے لئے بلاغت کی بنیاد پڑی کیونکہ اس کے بغیر قرآنی محاورات کی حقیقت سمجھ نہیں آسکتی۔
اس فن کے متعلق لغت کی کتب میں ایک لطیفہ بیان ہوا ہے لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی شخص نے مجلس میں اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم میں بعض ایسی باتیں آتی ہیں جو عقل کے با لکل خلاف ہیں۔مثلاً لکھا ہے یرید ان ینقض (کہف۱۰ع۱) کہ دیوار یہ ارادہ کر رہی تھی کہ گر جائے بھلا دیوار بھی کبھی گرنے کا ارادہ کیا کرتی ہے یہ کیسی جاہلوں والی بات ہے جو قرآن کریم نے کہی ہے ایک اور عالم شخص وہاں موجود تھے مگر انہیں اس اعتراض کا جواب نہ آیا وہ حیران تھے کہ میں کیا کہوں تھوڑی دیر کے بعد ہی اس شخص نے اپنے نوکر کو جو کسی اچھے قبیلے میں سے تھا بلایا اور اسے کہا میرا فلاں دوست بیمار ہے جائو اور اس کا حال دریافت کر کے آئو۔وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی آکر کہنے لگا حضور کیا عرض کروں یریدان یموت وہ تو مرنے کا ارادہ کر رہا ہے۔ یہ سنتے یہ اس پر گھڑوں پانی پھر گیا کہ میں جو کچھ اعتراض کر رہا تھا اس کا جواب مجھے اپنے نوکر کے ذریعہ مل گیا۔اس کا اعتراض یہ تھا کہ دیوار بھی کبھی ارادہ کیا کرتی ہے؟ اس کا جواب اللہ تعالی نے اس کو اس رنگ میں دیا کہ اس کے اپنے نوکر نے اسے آکر کہہ دیا یرید ان یموت وہ مرنے کا ارادہ کررہا ہے حالا نکہ کوئی شخص مرنے کا ارادہ نہیں کیا کرتا۔دراصل یہ ایک استعارہ تھا اور اس کے معنے یہ تھے کہ وہ مرنے پر تیار ہے ۔اسی طرح یرید ان ینقض کے معنے یہ ہیں کہ وہ دیوار گرنے پر تیار تھی نہ یہ کہ دیوار کوئی جاندار چیز ہے جو گرنے کا ارادہ کیا کرتی ہے ۔غرض یہ علوم جو دنیا میں یکے بعددیگرے دنیا میں ظاہر ہوئے محض قرآن کریم کے طفیل اور اس کی تائید کے لئے اللہ تعالی نے ظاہر فرما ئے ہیں ۔اگر یہ علوم پیدا نہ ہوتے تو قرآن کریم کی حقیقت اور اسکی اعلیٰ درجہ کی شان لوگ پوری طرح سمجھنے سے قا صر رہتے ۔ یہی حال علم اقتصادیات کا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے قرآنی اقتصادیات کی توضیح کے لئے دنیا میں قائم کیا غرض صرف کیا اور نحو کیا اور تاریخ کیا اور ادب کیا اور کلام کیا اور فقہ کیا سب علوم قرآن کریم کی خدمت کے لئے نکلے ورنہ عرب تو محض جاہل تھے ۔ انہیں ان علوم کی طرف توجہ ہی کس طرح پیدا ہو سکتی تھی ۔ ان کو توجہ محض اس وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے قرآن کو مانا اور پھر قرآن کریم سے دنیا کو روشناس کرانے کے لئے انہیں ان علوم کی ایجاد یا ان کے پھیلانے کی طرف متوجہ ہونا پڑا ۔ اب رہی باقی دنیا سو اس نے بھی قرآن کریم سے ہی ان تمام علوم کو سیکھا ہے کیونکہ یہ علوم وہ ہیں جو عربوں نے ایجاد کئے یا زندہ کئے اور پھر عربوں سے باقی دنیا نے لئے ۔ یورپ نے ایک عرصہ دراز تک مسلمانوں کے اس احسان کو چھپانے کی کوشش کی ہے مگر اب خود یورپ میں ایسے لوگ پیدا ہورہے ہیں جو اپنی کتابوں میں بڑے زور سے لکھتے ہیں کہ یہ کیسی بے شرمی اور بے حیائی ہے کہ علم تو مسلمانوں سے سیکھا جائے مگر اپنی کتابوں میں ان کا ذکر تک نہ کیا جائے اور اس رنگ میں اپنے آپ کو پیش کیا جائے کہ گویا ان علوم کے موجد ہم ہیں ۔ وہ کہتے ہیں یہ احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہے کہ جنہوں نے ہم کو علم سکھایا ہے ہم ان کا ذکر تک نہیں کرتے اور اپنی طرف تمام علوم کو منسوب کرتے چلے جاتے ہیں ۔ میرے پاس اس قسم کی کئی کتابیں ہیں اور میں نے دیکھا ہے ان کتابوں کے مصنف اتنی شدت سے بحث کرتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے اپنی قوم کے اس فعل کے خلاف ان کے قلوب غیض و غضب سے بھرے پڑے ہیں ۔جب ایک طرف وہ مسلمانوں کے احسانات کو دیکھتے ہیں اور دوسری طرف وہ اپنی قوم کی ڈھٹائی کو دیکھتے ہیں کہ ایک ایک چیز مسلمانوں سے حاصل کرنے کے بعد وہ مسلمانوں کا نام تک نہیں لیتی تو ان کے دلوں میں آگ لگ جاتی ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیںکہ سخت نمک ّ*** ہے کہ مسلمانوں کی ایک ایک چیز کو اپنا لیا جائے مگر ان کے علم و فضل اور احسان کا اشارۃبھی ذکر نہ کیا جائے ۔
تھوڑاہی عرصہ ہوا ہے میں نے ایک کتاب پڑھی جس میں موسیقی پر بحث کی گئی تھی۔ موسیقی کا آغاز بھی مسلمانوں سے ہی ہوا۔ کیونکہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ترتیل کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے کا حکم دیا تھا اسی سے ان کو موسیقی کی طرف توجہ ہوئی جس نے رفتہ رفتہ ایک بہت بڑے علم کی صورت اختیار کر لی۔یورپ دعویٰ کرتا ہے کہ موجودہ موسیقی کا علم اس نے ایجاد کیا ہے مگر جس کتاب کا میں ذکر کر رہا ہوں اس کے مصنف نے بڑے زور سے یہ بات پیش کی ہے کہ یورپ کا یہ ادّعا محض دھوکہ اور فریب ہے۔موسیقی کا علم یورپ نے مسلمانوں سے سیکھا ہے اور پھر وہ اس کا ثبوت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ برٹش میوزیم میں فلاں نمبر پر فلاں کتاب موجود ہے اس میں فلاں پادری کے نام ایک خط درج ہے جو کسی عیسائی نے اسے لکھا اور اس خط کا مضمون یہ ہے کہ میں سپین گیا تھا وہاں مسلمانوں کی موسیقی کا کمال دیکھ کر حیران رہ گیا۔ مسلمانوں کی موسیقی نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے اور ان کے مقابلہ میں ہماری موسیقی بہت ادنیٰ معلوم ہوتی ہے۔اگر آپ اجازت دیں اور یہ امر دین نصرانیت کے خلاف نہ ہو تو میں میں چاہتا ہوں کہ ان کی موسیقی کا ترجمہ یورپین لوگوں کیلئے کردوں تاکہ ہمارے گرجائوں میں بھی یہ اعلیٰ درجہ کی موسیقی رائج ہوجائے اور عیسائیت زیادہ محبوب ہوجائے۔ وہ کہتا ہے اس خط کا پادری صاحب نے جو جواب دیا وہ بھی آج تک برٹش میوزیم میں محفوظ ہے۔ پادری صاحب نے جواب یہ دیا کہ کوئی حرج نہیں آپ سپین کی موسیقی کابیشک ترجمہ کریں مگر دیکھنا مسلمانوں کا نام نہ لینا۔ اگر تم نے نیچے حوالہ دے دیا اور یہ ذکر کردیا کہ یہ موسیقی مسلمانوںسے لی گئی ہے تو ان کی عظمت قائم ہوجائے گی۔ اس لئے نقل تو بیشک کرو مگر مسلمانوں کا نام نہ لو تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ تم یہ علم اپنی طرف سے بیان کررہے ہو۔
غرض یورپ نے چاہا کہ یہ بات پوشیدہ رہے کہ اس نے مسلمانوں سے تمام علوم حاصل کئے ہیں مگر یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکی۔ آج خود عیسائیوں میں ایسے لوگ پیدا ہوچکے ہیں جو بڑے زور سے اپنی قوم کی اس احسان فراموشی کا کتابوں میں اعلان کرتے ہیں۔ اسی طرح فن تعمیر، قالین بافی اور عمارتوں پر رنگدار بیل بوٹے بنانے یہ تمام علوم وہ ہیں جو یورپ نے مسلمانوں سے سیکھے۔ چنانچہ اس کا ایک ثبوت میں خود ولایت میں دیکھ کر آیا ہوں۔ برائٹن میں ایک پرانا شاہی قلعہ ہے اس کی دیواروں پر بیل بوٹے بنانے کیلئے عیسائیوں کو سارے یورپ میں کوئی آدمی نہ ملا۔ آخر انہوں نے مسلمان ماہرین کو بلایا اور وہ وہاں بیل بوٹوں کی بجائے جگہ جگہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھ کر آگئے۔یہی ان کا عمارت کو سجانا تھا اور یہ ثبوت تھا اس بات کا کہ اس فن کی ایجاد کا سہرا مسلمانوں کے سر پر ہے۔
غرض یورپ کے پاس کوئی ایک چیز بھی نہیں تھی اس نے جو کچھ سیکھا سپین کے مسلمانوں سے سیکھا اور سپین نے جو کچھ سیکھا شام سے سیکھا اور شام والوں نے جو کچھ سیکھا قرآن سے سیکھا۔ پس دنیا کے تمام علوم قرآن سے ہی ظاہر ہوئے ہیں اور اب قیامت تک جس قدر قلمیں چلیں گی قرآن کریم کی خدمت اور اس کے بیان کردہ علوم کی ترویج کیلئے ہی چلیں گی۔ آج یورپ میں جتنی کتابیں نکل رہی ہیں وہ سب کی سب علم بالقلم کی تصدیق کررہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی س پیشگوئی کو سچا ثابت کررہی ہیں کہ قلم کے ذریعہ قرآن کریم کو پھیلایا جائے گا۔ عرب ہر قسم کے علوم سے نابلد تھے لیکن قرآن کریم پر ایمان لانے کے بعد وہ تمام دنیا کے استاد بن گئے اور فلسفہ جس پر یورپ کو آج بہت بڑا ناز ہے اس کے بھی وہی موجد قرار پائے ۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ فلسفہ یورپ کی ایجاد ہے لیکن ایک یورپین فلاسفر نے اس کو بالکل غلط قرار دیا ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ فلسفہ ہم نے شروع سے لے کر آخر تک اشعری سے لیا ہے۔ اگر ہمارے فلسفہ میں کسی کو کوئی اچھی بات نظر آتی ہے تو اس تعریف کے مستحق ہم نہیں بلکہ اشعری اس تعریف کا مستحق ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ علوم میں ہمیشہ ترقی ہوتی رہتی ہے اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل کوشش کرتی ہے کہ اس کا علمی مقام پہلے سے بلند ہوجائے لیکن اس کے باوجود بیج اپنی ذات میں جو قیمت رکھتاہے اس سے کوئی شخص انکار ہیں کرسکتا۔ درخت کا پھیلائو خواہ کس قدر بڑھ جائے بیج کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ اسی طرح علوم خواہ کس قدر ترقی کرجائیں سہرا مسلمانوں کے سر ہی رہے گا اور مسلمانو ں کا سر قرآن کریم کے آگے جھکا رہے گا کیونکہ یہی وہ کتاب ہے جس نے اعلان کیا کہ علم بالقلم۔ اب دنیا کو قلم کے ذریعہ علم سکھانے کا وقت آگیا ہے۔
پس حقیقت یہی ہے کہ دنیا کو تمام علوم قرآن کریم نے ہی سکھائے ہیں ۔ اگر قرآن نہ آیا ہوتا تو دنیا ایک ظلمت کدہ ہوتی ، جہالت اور بربریت کا نظارہ پیش کررہی ہوتی۔ یہ قرآن کا احسان ہے کہ اس نے دنیا کو تاریکی سے نکالا اور علم کے میدان میں لا کھڑا کردیا۔
علم الانسان مالم یعلمO
اس نے انسان کو (وہ کچھ) سکھایا ہے جو وہ (پہلے) نہیں جانتا تھا۔
تفسیر: پیدائش انسانی کے متعلق اوپر کی آیات میں جو مضمون بیان کیاگیاہے اس کی مزید وضاحت اور تائید اس آیت سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ انسان کو وہ باتیں سکھائیں گے جو اس سے پہلے اس کے علم میں نہیں تھیں۔ چنانچہ قرآن ایسے علوم سے بھرا پڑا ہے جو اسلام سے قبل نہ فلسفہ کی مدد سے حل ہوسکتے تھے اور نہ عیسائیت اور یہودیت نے ان کو حل کیا تھا۔مثلاًتوحید کے متعلق اسلام نے جو تعلیم پیش کی ہے وہ ایسی شاندار ہے کہ آج تک دنیا کا کوئی مذہب توحید کے متعلق ایسی جامع اور مکمل تعلیم پیش نہیں کرسکا۔ اسی طرح نبوت کے متعلق قرآن کریم نے اس تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے کہ جس کی نظیر دنیا کا کوئی اورمذہب پیش نہیں کرسکتا۔ باوجود اس بات کے کہ قرآن اس قوم میں نازل ہوا تھا جس میں ایک لمبے عرصہ سے کوئی نبی نہیں آیا تھا اور باوجود اس بات کے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیم بھی اس قوم میں محفوظ نہیں تھی اور وہ قطعی طور پر نبوت اور اس کی تفصیلات سے ناواقف تھے پھر بھی نبوت کے متعلق اسلام نے جس قدر سیر کن بحث کی ہے اس کی مثال نہ عیسائیت پیش کرسکتی ہے اور نہ یہودیت پیش کرسکتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس قوم میں مبعوث ہوئے تھے جس میں آپ سے قبل درجنوں نہیں سینکڑوں انبیاء آچکے تھے اور نبوت کے متعلق اپنے اپنے رنگ میں روشنی ڈال چکے تھے۔ پھر بھی عیسائی آج انجیل سے یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ نبی کی کیا تعریف ہوتی ہے۔
جن دنوں غیرمبائعین سے ہمارا مقابلہ زوروں پر تھا میں نے بڑے بڑے بشپوں ، سکھ گیانیوں ، پنڈتوں اور یہودیوں کے فقیہوں سے خط لکھ کر دریافت کیاکہ آپ کے مذہب میں نبی کی کیا تعریف ہے؟ اس کا جواب بعض نے تو دیا ہی نہیں اور بعض نے صاف طور پر اعتراف کیا کہ ہمارا مذہب اس بارہ میں بالکل خاموش ہے۔ چنانچہ ایک بڑے بشپ کی طرف سے بھی یہی جواب آیا کہ مضمون کے متعلق ہماری کتب میں کوئی تفصیل نظرنہیں آتی۔ مگر اسلام نے ان امور پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ نبی کی کیا تعریف ہے۔ نبی کب آتے ہیں۔لوگ نبیوں سے کیسا سلوک کرتے ہیں۔ نبیوں کی صداقت کے کیا معیار ہیں یہ اور اسی قسم کے تمام مسائل اسلام میں پوری وضاحت کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ پس فرماتا ہے علم الانسان مالم یعلم۔ اللہ تعالیٰ تمام علوم کی تکمیل قرآن کریم کے ذریعہ کرے گا۔ بیشک توحید کا عقیدہ دنیا میں موجود ہے مگر ابھی اس کی تکمیل نہیں ہوئی۔ اسی طرح بیشک ملائکہ کو لوگ مانتے ہیں، کتب پر ایمان رکھتے ہیں، رسولوں کو تسلیم کرتے ہیں مگر ملائکہ، کتب الٰہیہ اور ایمان بالرسل کی حقیقت سے پوری طرح واقف نہیں۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ خدا کے ایک ہونے کا کیا مفہوم ہے تو وہ اس کا جواب دینے سے قاصر رہیں گے۔ لیکن قرآن دنیا کو بتلائے گا کہ توحید کا کیا مفہوم ہے اور کون کون سی باتیں انسان کو شرک میں مبتلا کرنے والی ہیں یا مثلاً اگر کوئی شخص سوال کرے کہ ملائکہ کیا چیز ہیں، وہ کیوں پیدا کئے گئے ہیں، کیا کیا کام ان کے ذمہ ہیں، اگر ملائکہ نہ ہوتے تو کیا نقص واقعہ ہوتا؟ تو ان سوالات کا تمام بائبل سے جواب نظر نہیں آئے گا۔ بائبل یہ تو بتادے گی کہ خداتعالیٰ نے فرشتے پید اکئے ہیں اور وہ انبیاء کی طرف اس کا کلام لاتے ہیں مگر ملائکہ کی حقیقت یا ان پر ایمان لانے کے فوائد بیان نہیں کرے گی۔ لیکن قرآن صرف یہی نہیں بتائے گا ملائکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں بلکہ یہ بھی بتائے گا کہ اس نے ملائکہ کو کیوں پیدا کیا۔ ملائکہ کے کیا کام ہیں۔ انسان ملائکہ سے اپنا تعلق کس طرح بڑھاسکتا ہے۔ کن امور کے نتیجہ میںملائکہ سے انسانی تعلق کم ہوجاتا ہے۔ یا مثلاً اگر کوئی شخص سوال کرے کہ مرنے کے بعد کیا کیفیت ہوتی ہے تو اسلام کے سوا اور کوئی مذہب اس پر تفصیل کے ساتھ روشنی نہیں ڈال سکے گا۔ نہ یہودیت مرنے کے بعد کے حالات بتاتی ہے نہ عیسائیت مرنے کے بعد کے حالات بتاتی ہے اور نہ کوئی اور مذہب مرنے کے بعد کے حالات بتاتا ہے۔ صرف اسلام دنیا میں ایک ایسا مذہب ہے جو اس پر ایسی سیرکن بحث کرتا ہے کہ انسانی قلب مطمئن ہوجاتا ہے اور اس کی روح اپنے اندر سکینت محسوس کرتی ہے۔ اسی طرح اگر یہ سوال ہو کہ اخلاق فاضلہ کیا چیز ہیں۔ کس بناء پر بعض اخلاق کو اچھا کہا جاتا ہے اور بعض کو برا۔ اخلاق کی تعریف کیا ہے۔ اخلاق اور روحانیت میں مابہ الامتیاز کیا ہے؟ تو اس کو ان تمام امور کا جواب صرف قرآن سے ہی مل سکتا ہے اور کتب کی ورق گردانی یا اور مذاہب کی کاسہ لیسی انسانی قلب کو مطمئن نہیں کرسکتی۔ اسی حقیقت کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان نہایت ہی مختصر مگر جامع الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ علم الانسان مالم یعلم یعنی قرآن اور اسلام کے ذریعہ دنیا کو وہ علوم سکھائے جائیں گے جو اس سے پہلے اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں آئے۔ چنانچہ اس کا عملی ثبوت موجودہ زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے جلسہ اعظم مذاہب لاہور کے ذریعہ ظاہر کردیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں منعقد ہوا تھا۔ اس جلسہ کے منتظمین کی طرف سے پانچ اہم سوالات پیش کئے گئے تھے اور مختلف مذاہب کے نمائندگان کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ اپنے اپنے مذہب کے رو سے ان سوالات کا جواب دیں۔ اس جلسہ کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو مضمون لکھا اور جو ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے نام سے چھپاہوا موجود ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان تمام سوالات کا قرآن کریم سے جواب دیا اور ایسی سیر کن بحث کی ہے کہ جب وہ مضمون جلسہ میں پڑھا گیا تو متفقہ طورپر لوگوں نے اس مضمون کو باقی تمام مضامین سے بالا قرار دیا اور اخبارات نے اعتراف کیاکہ اس جلسہ میں سب سے بالا مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا مضمون رہا ہے جس کے دوسرے معنے یہ تھے کہ سب سے بالا قرآن کا مضمون رہا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ لکھا تھا قرآنی آیات کے حوالہ اور ان کی روشنی میں لکھا تھا۔ اپنی طرف سے کوئی بات پیش نہیں کی تھی۔ یہ عملی ثبوت اس بات تھا کہ دنیا قرآنی علوم کا مقابلہ کرنے سے بالکل عاجز ہے۔ باوجود اس بات کے کہ یہ قید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے مضمون کیلئے خود ہی بڑھالی تھی کہ میں جو کچھ بیان کروں گا قرآن کریم کی روشنی میں بیان کروں گا۔ اور باوجود اس کے کہ دوسرے لوگ آزاد تھے اور وہ اختیار رکھتے تھے کہ عقلی دلائل اپنی تائید میں پیش کردیں یا فلسفہ کے رو سے اپنے مذہب کو غالب ثابت کردیں پھر بھی وہ اس مقابلہ میں ناکام رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک زائد قید اپنے اوپر لگا کر قرآن کریم میں سے وہ علوم نکال کر رکھ دیئے جن کا عشر عشیر بھی اور کسی مذہب کے نمائندہ نے بیان نہ کیا۔
کلا ان الانسان لیطغی O
(ان شبہات کے مطابق) نہیں۔ انسان یقینا حد سے گذررہاہے۔
تفسیر: تفسیر کبیر جلد ششم جز چہارم نصف اول میں یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ عربی زبان میں کلا اس غرض کیلئے استعمال ہوتا ہے کہ کوئی مضمون جو پہلے گزرچکاہے یا کوئی مفہوم جوپہلے مضمون سے پیدا ہوتا ہے اس کو تسلیم کرنے سے جو شخص انکار کرتا ہے اس کی تردید کی جائے اور اسے بتایا جائے کہ تمہارا خیال درست نہیں۔ گویا کلا کے معنے ہیں اے مخاطب ’’یوں نہیں۔ یوں نہیں‘‘۔ پس کلا کیا ہے درحقیت ’’نہیں نہیں‘‘ کا ایک مترادف لفظ ہے جو عربی زبان میں استعمال ہوتاہے اور اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ تم سمجھتے ہو وہ درست نہیں بات دراصل کچھ اور ہے۔
اب سوال پیدا ہوتاہے کہ پہلے مضمون میں وہ کونسی بات تھی جس پر دشمن اعتراض کرسکتا تھا اور جس کی یہاں نفی کی گئی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی آیت میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ علم الانسان مالم یعلم۔ اللہ تعالیٰ انسان کو وہ کچھ سکھائے گا جسے وہ اب تک نہیں جانتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے الہام کے ذریعہ دنیا کی راہنمائی فرمائے گا اور خود اپنے پاس سے وہ تعلیم نازل کرے گا جو اسے روحانیت کے بلند ترین مقامات پر پہنچانے والی ہو۔ اس پر اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے کسی الہام کی ضرورت نہیں۔ انسان خود اپنی عقل سے کام لے کر ترقی کرسکتا ہے۔ چنانچہ یہ سوال ایسا ہی ہے جو موجودہ زمانہ میں تعلیم یافتہ طبقہ کی طرف سے خاص طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کا سامان کیا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ خدا کو ہمارے معاملات میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم خود اپنی عقل اور فہم سے کام لے سکتے اور اپنی ترقی کیلئے اعلیٰ سے اعلیٰ تدابیر اختیار کرسکتے ہیں۔ یہی اعتراض ہے جو علم الانسان مالم یعلم کے نتیجہ میں پیدا ہوتا تھا اورانسان کہہ سکتا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کی ضرورت نہیں۔ کلا نے اس خیال کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ قطعی طور پر غلط بات ہے کہ انسان اپنی ہدایت اور بچائو کا سامان اپنے لئے خود بخود تجویز کرسکتاہے۔ اسے اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نازل نہ ہو تو دنیا کبھی ترقی کی طرف ایک قدم بھی بڑھا نہیں سکتی۔ اس کی ترقی وابستہ ہے اللہ تعالیٰ کے الہام اور اس کے کلام سے۔ اس کی ہدایت کے بغیر نہ انسان نے پہلے کبھی روحانی اصلاح کی اور نہ آئندہ کرسکتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس خیال کی بنیاد پر روشنی ڈالتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ خیال انسان کے دل میں کیوں پیدا ہوتا ہے فرماتا ہے ان الانسان لیطغی یہ خیال ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت نہیں ہم اپنی ہدایت کا سامان خودبخود کرلیں گے۔ یہ بغاوت اور سرکشی کا خیال ہے۔ طغی کے معنے جاوزا لقدر والحد کے ہوتے ہیں یعنی فلا ں شخص حد سے گزرگیا۔ پس ان الانسان لیطغی کے یہ معنے ہوئے کہ یقینا انسان حد سے باہر نکل جانے والا ہے۔ ہم نے بیشک انسان کو قوتیں دی ہیں مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ اپنی ہدایت کا آپ سامان کر سکتا ہے الٰہی مدد کا محتاج نہیں۔
پہلی سورتوں میں اللہ تعالیٰ یہ مضمون بیان کرچکا ہے کہ اس نے انسان کو بہت بڑی طاقتیں دے کر بھیجا ہے چنانچہ ایک جگہ فرمایا ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ ہم نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے۔ اسی طرح اور بھی کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان کیا ہے کہ ہم نے انسان میں بڑی بڑی طاقتیں اور قوتیں رکھی ہیںاور انہی قوتوں کی بناء پر یہ استدلال کیا گیا ہے کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایسی اعلیٰ درجہ کی قوتیں دینے کے بعد ہم انسان کو چھوڑ دیں اور اسے تاریکیوں اور ضلالت کے گڑھوں میں گرنے دیں۔ جب ہم نے انسان کو معتدل القویٰ بنایا ہے اور اسے اعلیٰ درجہ کی روحانی طاقتیں دے کر بھیجا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اعلیٰ درجہ کی منزل مقصود بھی اس کے سامنے رکھیں اور اسے اکیلا نہ چھوڑیں۔ یہ مضمون ہے جو پہلی سورتوں میں بیان ہوچکا ہے مگر یہاں یہ فرماتا ہے کہ انسان ہماری مدد کے بغیر کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ بظاہر ان دونوں باتوں میں اختلاف نظر آتا ہے۔ پہلے تو یہ فرمایا تھا کہ انسان میں بڑی بڑی طاقتیں رکھی گئی ہیں اور یہاں آکر کہہ دیا کہ بغیر ہماری مدد کے بنی نوع انسان ہدایت پا ہی نہیں سکتے۔ پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات کیا ہے کہ خود ہی پہلے ایک بات کہی اور خود ہی بعد میں آکر اس کی تردید کردی۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ ان الانسان لیطغی میں دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ بیشک ہم نے انسان میں بڑی طاقتیں رکھی ہیں مگر طاقت رکھنے کے یہ معنے نہیں کہ وہ اپنے دائرہ عمل سے بھی باہر نکل سکتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو انسان بڑی طاقت رکھتا ہے لیکن اگر بدپرہیزی کرتا ہے تو بیمار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح انسان میں اللہ تعالیٰ نے برداشت کی بڑی طاقت رکھی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ اپنے دائرہ سے باہر نہیں جاسکتا۔ چنانچہ اگر کوئی شخص سترہ اٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی پر چڑھ جائے تو ہوا کے دبائو کی کمی کی وجہ سے اس میں جنون کا سا رنگ پیدا ہوجاتا ہے اور وہ دوست کو دشمن سمجھنے لگ جاتا ہے۔ بعض لوگوں کے متعلق ثابت ہے کہ ان میں تیس تیس چالیس چالیس سال سے دوستیاں چلی آتی تھیں اور بڑے بڑے نازک حالات میں بھی ان کی دوستیاں نہ ٹوٹیں مگر جب وہ ہمالیہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنے کیلئے گئے تو وہ ایسی حالت میں واپس آئے جب ایک دوسرے کے شدید دشمن تھے۔ چنانچہ وہ مختلف وفود جو ہمالیہ پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنے جاتے رہے ہیں ان کے متعلق یہ امر ثابت ہے کہ ان میں سے کثیر طبقہ ایسا تھا جو دوست بن کر گیا اور دشمن بن کر واپس آیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سترہ اٹھارہ ہزار فٹ سے اوپر جاکر انسان کی دماغی کیفیت متزلزل ہوجاتی ہے اور بعض لوگوں کی ایسی حالت ہوجاتی ہے کہ وہ آپس میں نرمی اور محبت سے نہیں رہ سکتے بلکہ بات بات پر لڑائی کرنے لگتے ہیں۔
انگلستان میں ایک دفعہ ایک پائلٹ کے ساتھ ایسا ہی واقعہ ہوا۔ جب وہ سترہ ہزار فٹ کی بلندی سے اوپر گیاتو یکدم اس نے دیکھا کہ اس کے ساتھی نے زور سے اس کی گردن پکڑلی ہے اور وہ اس کے گلے کو دبا کر اسے ہلاک کرنا چاہتا ہے۔ اس نے چونکہ ہمالیہ پہاڑ کے واقعات اکثر سنے ہوئے تھے اور وہ جانتا تھا کہ اوپر پہنچ کر ہوا کے ہلکاہونے کی وجہ سے انسان اپنے دماغی توازن کو قائم نہیں رکھ سکتا اس لئے وہ جھٹ اپنے جہاز کونیچے کی طرف لے آیا۔ جب وہ سات آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر آپہنچا تو اس کا دوست ہوش میں آگیا اور اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کرنے لگا۔
غرض ہر چیز کا ایک دائرہ عمل ہوتاہے جس سے وہ باہر نہیں جاسکتی۔ یہی حال انسان کا ہے بیشک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے خاص طور پر علیٰ درجہ کی طاقتیں دے کر بھیجا گیا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ اپنی لائن کے علاوہ دوسری لائن میں بھی قابلیت کے جوہر دکھاسکتا ہے۔ گھوڑا ساٹھ ساٹھ بلکہ سو سو میل تک بعض دفعہ ایک سانس میں دوڑ سکتا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ عقلی کاموں میں بھی انسان کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ بیشک دوڑنے کے کام میں ایک گھوڑا بہتر سے بہتر تیز رفتار انان سے بھی زیادہ تیز دوڑے گا مگر جہاں عقل کا سوال آئے گا وہاں ایک گھوڑا ادنیٰ سے ادنیٰ اور بیوقوف سے بیوقوف انسان جتنا کام بھی نہیں کرسکے گا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو درست ہے کہ ہم نے انسان کو طاقتیں دی ہیں مگر اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ اپنی حد سے آگے نکل سکتا ہے۔ جوکام اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے وہاں تک اس کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ وہ کام اگر کرے گا تو اللہ تعالیٰ ہی کرے گا انسان اپنی عقل سے اسے سرانجام نہیں دے سکتا۔ پس کلا ان الانسان لیطغی میں یہ بتلایا گیا ہے کہ یہ وسوسہ جو بعض قلوب میں پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ کوئی تعلیم بھیجنے کی کیا ضرورت ہے ہم اپنے لئے آپ ہی ایک مذہب بنالیں گے یہ بالکل جھوٹ ہے۔ ایسے خیالات اسی شخص کے دل میں پیدا ہوتے ہیں جو اپنی حد سے آگے نکل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کام بہرحال اللہ تعالیٰ ہی کرسکتاہے۔ بندے کا کام نہیں کہ وہ اس میں دخل دے سکے۔ بے شک اس نے تمہیں طاقتیں دی ہیں مگر وہ غیرمحدود نہیں بلکہ ایک حد کے اندر ہیں۔ اسی طرح بیشک اس نے تمہیں عقل دی ہے مگر وہ بھی تمہاری ذاتی طاقتوں تک محدود ہے۔ تم میں یہ طاقت نہیں کہ اپنے لئے خودبخود کوئی مذ ہب بنالو یا اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے وسائل اپنی عقل سے تجویز کرسکو۔
ان راہ ا ستغنی O
اس طرح کہ وہ اپنے آپ کو مستغنی سمجھتا ہے۔
حل لغات: ان راہ ا ستغنیٰ جملہ مفعول لہٗ واقعہ ہوا ہے یعنی طغیٰ اس وجہ سے ہے کہ انسان اپنے نفس کو مستغنی سمجھتا ہے رای کے معنے دیکھنے کے ہیں اور سمجھنے اور پانے کے بھی ۔اس جگہ رای روئیت قلبی کے معنوں میں استعمال ہواہے کیونکہ وہ ضمیریں اس کی طرف جاتی ہیں اور روئیت قلبی کے ہمیشہ دو مفعول ہوا کرتے ہیں۔
تفسیر: اللہ تعالی اس آیت میں یہ بتاتاہے کہ ہم انسان کو حد سے گذرنے والا کیوں کہتے ہیں اور کیوں وہ ہمارے مقابلہ میں سرکشی اختیار کرتا ہے ۔ فرماتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مستغنی سمجھتا ہے ۔ علم با لقلم اور علم ا لانسان ما لم یعلم کا جو فاعل ہے یعنی خدا جس نے انسان کو قلم سے سکھایا اور جو انسان کو وہ کچھ سکھانے والا ہے جو وہ نہیں جانتا اس کی مدد سے وہ اپنے آپ کو مستغنی سمجھتاہے اور خیال کرتا ہے کہ میں اپنے اخلاق کو درست کر لونگا ،اپنے عقائد کوبھی درست کر لوںگا ، اپنی روحانیت کو بھی درست کر لونگا ، اپنے تمدن اور اپنی سیا ست کو بھی درست کر لونگا ، اپنی عائلی زندگی کو بھی درست کر لونگا ، اپنے اقتصادی معاملات کو بھی درست کر لونگا ،اللہ تعالی کو میرے کاموں میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔میں نے دیکھا ہے کالجوں کے لڑکوں سے جب بھی مذہبی معاملات پر گفتگو کی جائے تھوڑی دیر کے بعد ہی ان کی زبان سے اس قسم کے فقرے نکلنے شروع ہو جاتے ہیں کہ اول تو ہم مانتے ہی نہیں کہ دنیا کا کوئی خدا ہے اور اگر ہے تو اسے انسانی کاموں میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے یہ ہمارا اختیار ہے کہ ہم اپنے لئے جو طریق پسند کریںاسے اختیار کر لیں پس فرمایا ان راہ استغنی۔ طغیان اور سرکشی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کومستغنی سمجھتا ہے۔چونکہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالی کی مدد سے بے نیاز قرار دے دیتا ہے اس لئے وہ اس روحانی کوچہ میں داخل نہیں ہو سکتا جس کا دروازہ اللہ تعا لی کی راہنمائی کے بغیر کوئی انسان اپنی ذاتی کوشش سے نہیں کھول سکتا ۔
ان الی ربک الر جعیO
تیرے رب ہی کی طرف یقینا لو ٹ کر جانا ہے
تفسیر: یہاں مفسرین نے بالعموم ربک کے متعلق لکھا ہے کہ اس کی ضمیر انسان کی طرف پھیری گئی ہے مگر میرے نزدیک یہاں ربک سے وہی مراد ہے جس کا اقرا با سم ربک ا لذی خلق میں ذکر آتا ہے اور جسے محمد رسول اللہﷺ نے پیش کیا ۔ فرماتا ہے یہ انسان اپنے آپکو مستغنی کس طرح سمجھ سکتا ہے جبکہ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے آخر تیرے رب کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے جب انہوں نے اللہ تعالی کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے تو پھر وہی بتا سکتا ہے کہ وہاں کن اعمال کی ضرورت ہے ، یہ لوگ اپنی عقل سے وہاں کے حالات کس طرح معلوم کر سکتے ہیں؟ آخر یہ ایک موٹی بات ہے کہ اگر ایک شخص انگلستان جانا چاہتا ہے تو اسی شخص سے وہاں کے حالات دریافت کرے گا جو انگلینڈ سے واپس آچکا ہوگا۔وہ اس کے پاس جائے گا اورکہے گا کہ میں انگلینڈ جانا چاہتا ہوںمگر مجھے علم نہیں کہ وہاں کی آب و ہوا کیسی ہے وہاں مجھے کیسے کپڑوں کی ضرورت ہے ، کتنا روپیہ مجھے ساتھ لے جانا چاہیے کیا کیا باتیں مجھے سفر میں ملحوظ رکھنی چاہئیں۔آپ چونکہ انگلینڈ میں رہ چکے ہیں اور وہاں کے حالات سے آپ کو ذاتی طور پر واقفیت ہے اس لئے آپ مجھے بتائیںکہ وہاں کی آب و ہوا کے لحاظ سے مجھے کیسے کپڑوں کی ضرورت ہے۔آیا سرد کپڑے میں اپنے ساتھ لے جائوں یا گرم۔اور اگر گرم لے جائوں تو وہ کس قدر گرم ہونے چاہئیں۔ کیونکہ محض ٹھنڈک یا سردی کے ذکر سے یہ پتہ نہیں لگ سکتاکہ وہاں کس قسم کی سردی پڑتی ہے ۔ خفیف سردی پڑتی ہے یا شدید۔میں ۱۹۲۴ء میں جب انگلستان سے واپس آیا ہوں اس وقت نومبر کا مہینہ تھا اور نومبر کے دنوں میں یہاں معمولی سردی ہوتی ہے مگر انگلستان میں جس قدر سردی پڑتی ہے اس کی شدت کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ایک دن اکتوبر کے مہینہ میں رات کے گیارہ بجے میں بند موٹر میں سفر کر رہا تھا اور میری حالت یہ تھی کی میں نے گرم بنیان پہنی ہوئی تھی اس پر گرم کر تہ تھا اس پر گرم صدری تھی اس کے اوپر گرم کوٹ تھا پھر اس کے اوپر اوورکوٹ تھا اور اوور کوٹ بھی ہندوستان کا نہیںبلکہ وہ انگلستان کے لئے بنوایا گیا تھا ۔اور جو ہندوستانی اوور کوٹ سے دوگنا تگنا موٹا ہوتا ہے مگر اتنے گرم کپڑوں کے باوجود اور پھر بند موٹر میں سفر کرنے کے باوجود مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے مجھ پر کوئی کپڑا نہیں یہ تو انگلستان کی سردی کا حال ہے ۔ اس کے بعد آر کٹک میں چلے جائوتو وہاں انگلستان ے بھی زیادہ ٹھنڈ ہوگی ۔اس کے مقابل میں امریکہ کے بعض ایسے حصے ہیں جہاں منٹ منٹ کے بعد موسم بدلتا رہتا ہے ۔ ابھی گرمی ہوتی ہے اور ابھی تھوڑی دیر کے بعد ہی سردی شروع ہوجاتی ہے ۔ سردی ہوتی ہے تو معاً گرمی شروع ہو جاتی ہے وہاں یہی حالت رہتی ہے کہ جرسی پہنی اور اتاردی۔غرض دنیا میں یہ طریق ہے کہ جب کوئی انگلستان جاناچاہے گا تو وہ پہلے واقف حال لوگوں سے پوچھے گا کہ مجھے وہاں کیسے کپڑوں کی ضرورت ہے یا امریکہ جانا چاہیگا تو وہان سے آنے والے لوگوں سے پوچھے گا کہ مجھے امریکہ میں کن کن چیزوں کی ضرورت ہوگی۔ مثلاً ہندوستا نیوں کو عام طور پر مرچیں کھانے کی عادت ہوتی ہے۔اب اگر کوئی ایسا شخص امریکہ جانا چاہے گا جسے مرچیں کھانے کی عادت ہوگی تو وہ یہ ضرور دریافت کرے گا کہ مجھے وہاں مرچیں مل سکتی ہیںیا نہیں۔اور جب نفی میں جواب ملے گا اور اسے مرچیں کھانے کا زیادہ شوق ہوگا تو وہ اپنے ساتھ مرچیں لے جائے گا تاکہ وہاں اسے تکلیف نہ ہو۔ مثلاً عرب میں کوئی ہندوستانی جسے پان کا شوق ہو جانا چاہے گا تو وہ پہلے واقف حال لوگوں سے پتہ لگائے گا کہ وہاں پان ملتا ہے یا نہیں۔ تاکہ اسے حالات کا صحیح علم ہوجائے اور وہ ان کے مطابق اپنی تیاری کو مکمل کرے غرض یہ ایک طبعی بات ہے کہ جب انسان نے کہیں جانا ہوتا ہے وہ پہلے واقف لوگوں سے مشورہ لیتا اور اس جگہ کے حالات معلوم کرتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ وہ واقف لوگوں سے نہ پوچھے اور اپنے عقلی ڈھکونسلوں پر تیاری کی بنیاد رکھ دے۔ اسی نکتہ کو اللہ تعالی اس جگہ بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے ان الی ربک ا لر جعی ان لوگوں کی عقل ماری ہوئی ہے انہوں نے جانا خدا کے پاس ہے لیکن کہتے یہ ہیں کہ ہمیں اس بات کی کوئی ضرورت نہیںکہ اللہ تعالی ہمیں اپنے قرب کے راستے بتلائے۔ان نادانوں سے کوئی کہے کہ تم معمولی معمولی سفر اختیار کرتے ہو تو پہلے تمام حالات دریافت کرنے کی کوشش کیا کرتے ہو ۔تم پوچھتے ہو کہ جہاں میں جانا چاہتا ہوںوہاں گرمی ہے یا سردی ۔کپڑے اپنے ساتھ کیسے لے جائوں۔کون کون سی ضروریات کا خیال رکھوں۔بوٹ اپنے ساتھ لے جائوں تو وہ کیسے ہوں۔ بعض ملکوں میں اس کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں کہ معمولی بوٹ اگر انسان نے پہنا ہوا ہو تو شام تک وہ تھیلا بن کر رہ جاتا ہے ۔اسی طرح بعض ملک ایسے ہیں جن میں اتنا مچھر ہوتا ہے کہ انسان بغیر مچھر دانی کیایک رات بھی نہیں گذار سکتا۔غرض مختلف ملکوں کے مختلف حا لا ت ہوتے ہیںاور انسان کو اس وقت تک اطمینان نہیں ہوتا جب تک وہ ان تمام حالات کو دریافت نہ کرلے۔غرض اس محدود دنیا میں جو صرف پچیس ہزار میل میں پھیلی ہوئی ہے ایسے زمانہ میںجبکہ ریل اور تار اور ڈاک کے وسائل موجود ہیںایک ملک سے دوسرے ملک جانے میں کئی قسم کی دقتیںحائل ہو جاتی ہیں۔اسی لئے واقف حاللوگوں سے حالات دریافت کرتا ہے اور اگر کوئی واقف نہیں ملتا تو کسی کمپنی کو لکھتا ہے کہ میں فلاں ملک میں جانا چاہتا ہوںمہر بانی فرما کر مجھے بتایا جائے کہ میں کہاں کا ٹکٹ لوں،کتنا روپیہ اپنے پاس رکھوںاور کیا کیا چیزیں ساتھ لے جائوں۔ہندوستان میں کسی سفر کے لئے گھر سے نکلواوربستر ساتھ نہ ہو تو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ہوٹلوں میں اول تو بستر ہی نہیں ملتا اور اگر ملے گا تو ایسا گندہ اور غلیظ اور ناپاک اور بدبودار کہ کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خوف لاحق ہو جاتا ہے ۔لیکن اسی خیال کے ماتحت ا گر کوئی انگلستان جاتے ہوئے بستر اپنے ساتھ لے جائے تو ہر مرد عورت اور بچہ اسے دیکھ کر ہنسنے لگ جائے گا کہ یہ کیسا انسان ہے سفر میں اپنے ساتھ بستر لئے پھرتا ہے ۔انگلستان میں یہ دستور ہے کہ انسان جس جگہ ٹھہرے وہاں سونے کے لئے اسے مالک مکان کی طرف سے بستر دیا جاتا ہے ۔ہر ہوٹل میں روزانہ بستر تبدیل کئے جاتے ہیں اور چادر پر ایک معمولی داغ بھی رہنے نہیں دیا جاتا ۔ وہاں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہوٹل کا بستر اگر استعمال کیا گیا تو وہ گندہ ہوگا کیونکہ ہر اچھے ہوٹل میں ایسا انتظام ہوتا ہے کہ روزانہ اوپر نیچے کی چادریں بدلی جاتی ہیں ۔ یہ نہیں ہوگا کہ ایک مریض کا کمبل دوسرے کو دے دیا جائے اور دوسرے کی میلی کچیلی چادر تیسرے کے نیچے بچھادی جائے وہاںروزانہ دھوبی سے دھلی دھلائی چادریں آتی ہیںاور بستروں پر بچھادی جاتی ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوتاکہ ایک کا کپڑا دوسرے کو دے دیں۔یہی رواج ہزارہ میں بھی ہے وہاں غریب سی غریب آدمی بھی دس پندرہ بستر ضرور رکھ لیتا ہے تاکہ مہمانوں کو تکلیف نہ ہو اگر وہاں کوئی شخص بستر اپنے ساتھ لائے تو میزبان سخت برا مناتا ہے کہ تم نے مجھ پر بے اعتباری کی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہزارہ کے لوگ ہمارے سالانہ جلسہ پر آتے ہیں تو اپنے بستر ساتھ نہیں لاتے وہ سمجھتے ہیں بستر ساتھ لے جانا بڑی کمینگی ہے مگر یہاں آکر انہیں سخت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے کیونکہ یہاں یہ رواج ہے کہ ہر شخص بستر اپنے ساتھ رکھتا ہے اسی طرح ہزارہ میں رواج ہے کہ لوگ روپیہ اپنے ساتھ نہیں رکھتے جس کسی کے ہاں ٹھہرتے ہیںاس کا فرض ہوتا ہے کہ کرایہ ادا کرے ۔ چنانچہ چلتے ہوئے بڑے اطمینان سے کہتے ہیں کہ اب کرایہ لائو ہم واپس جانا چاہتے ہیں ۔اب دیکھو ہزارہ کوئی ذیادہ دور نہیں۔چند گھنٹوں کے سفر کے بعدانسان وہاں پہنچ جاتا ہے مگر عادات اور رسم ورواج میں کس قدر فرق ہے کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے اگر ان حالات کو معلوم کئے بغیر کوئی شخص دوسرے مقام پر چلا جائے تو یہ لازمی بات ہے اسے سخت دقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
پس اللہ تعالی فرماتا ہے کیا ان لوگوں کو اتنی بھی سمجھ نہیں آتی کہ مذ ہب اور دین کا اصل تعلق موت کے بعد زندگی سے ہے اور یہ زندی وہ ہے جس کے حالات سے یہ لوگ بے خبر ہیں ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس زندگی کو دیکھ کر آیا ہوں اس لئے مجھے کسی اور کی راہنمائی کی ضرورت نہیں۔جب ان لوگوں کو اس زندگی کے حالات کا جو مرنے کے بعد حاصل ہونے والی ہے کچھ بھی علم نہیں اور انہوں نے لوٹ کر آخر اللہ تعالی کی طرف ہی جانا ہے تو اگر اللہ تعالی ان کو اس زندگی میں کام آنے والی باتیں نہیں بتائے گا تو ان کو پتہ کس طرح لگے گا کہ وہاں کونسے اخلاق کام آسکتے ہیں ۔کون سے اعمال ان کی اخروی حیات کو سنوار سکتے ہیں، کونسے عقائد اختیار کر کے وہ اللہ تعالی کے محبوب بن سکتے ہیں ۔ یہ باتیں تو اللہ تعالی ہی بتا سکتا ہے خود اپنی عقل سے یہ لوگوہاں کے حالات معلوم نہیں کر سکتے اس لئے ان کی سرکشی اور اپنے آپ کو ہدائیت کے متعلق خدا تعالی کی مدد سے مستغنی سمجھناحماقت کی بات ہے بغیر الٰہی امداد کے اس بارہ میں نہ انسان نے پہلے کامیابی حاصل کی ہے اور نہ اب کر سکتا ہے ۔
ارء یت ا لذی ینھیO عبدا اذاصلیO
(اے مخاطب ) تو (مجھے)اس (شخص)کی (حالت کی) خبر دے جو روکتا ہے ۔ایک ( عبادت گذار ) بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے
تفسیر: اس آیت کی تفسیر میں اللہ تعالیٰ ایک مثال کے ذریعہ کفار کو ملزم کرتا ہے ۔ فرماتاہے مجھے اس شخص کا حال تو بتائو یعنی ذرا اس شخص کی معقولیت تو مجھ پر ظاہر کرو۔ ارء یت کے لفظی معنی ہوتے ہیں ’’کیا دیکھا تونے‘‘۔ لیکن محاورہ میں اس کے معنے ہوتے ہیں اخبرنی مجھے بتائو تو سہی۔ چونکہ یہاں رسول کریم ﷺ مخاطب ہیں اس لئے ار ء یت کے معنے ہوں گے اے محمد رسول اللہ ﷺ مجھے بتا تو سہی۔ دراصل یہ زجر کا ایک طریق ہے کہ بات تو ہم دوسرے کی کرتے ہیں۔ لیکن ہم اس کو مخاطب کرنا نہیں چاہتے۔ وہ سنے گا تو آپ ہی دل میں شرمندہ ہوگا کہ میں کیسی لغو حرکت کررہا ہوں۔ہم اس کی بجائے تجھے مخاطب کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے محمد رسول اللہ ﷺ ذرا اس شخص کا حال تو بتائو ینھی جو روکتا ہے مگر کس کو؟ کسی جھگڑالو کو نہیں، کسی لڑاکے کو نہیں، کسی فریبی کو نہیں، کسی ڈاکو کو نہیں۔ بلکہ عبدا ہمارے ایک مسکین اور عاجز بندے کو اور روکتا کس بات پر ہے۔ اس پر نہیں کہ اس نے فلاں قانون کو پورا نہ کیا یا فلاں سیاسی مسئلہ میں اس نے ہم سے اختلاف رکھا بلکہ اذا صلی۔ وہ خداتعالیٰ کی عبادت کیلئے کھڑا ہوتا ہے ار یہ دوڑ کر اس کا گلا پکڑلیتا ہے۔ کیا دنیا کا کوئی بھی معقول انسان اس امر کو جائز اور درست قرار دے سکتا ہے؟ کوئی سیاسی اختلاف نہیں ، کوئی اقتصادی اختلاف نہیں، کوئی تمدنی اختلاف نہیں، کوئی حاکم و محکوم کا اختلاف نہیں۔ ایک شخص اپنے گھر میں خداتعالیٰ کی عبادت کیلئے کھڑا ہوتا ہے اور دوسرا شخص اسے پکڑ کر عبادت کیلئے روکنا شروع کردیتا ہے۔ کیا اس میں کوئی بھی معقولیت پائی جاتی ہے۔ کیا یہ بھی کوئی انسانیت ہے کہ خداتعالیٰ کا ایک بندہ خداتعالیٰ کے سامنے عبادت کررہا ہے اور ابوجہل اپنے گھر میں بیٹھے یونہی اچھل کود رہا ہے نہ لینا نہ دینا۔ نہ تعلق نہ واسطہ اور وہ یونہی سیخ پا ہورہا ہے۔ یہ نہیں کہ نماز پڑھتے وقت کوئی ابوجہل کا گھوڑا کھول کر لے جاتا ہے یا اس کا اسباب اٹھا کر لے جاتا ہے جس کی بناء پر اسے غصہ پیدا ہوتا ہے۔ ایک شخص کھڑے ہوکر نماز پڑھتا ہے اور ابوجہل صفت شور مچانا شروع کردیتا ہے کہ ماردیا، ماردیا۔ کیا اتنی غیرمعقول حرکتیں کرنے والا انسان بھی یہ سمجھتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت نہیں۔
چونکہ پہلی آیات میں اس امر کا ذکر تھا کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انہیں دینی معاملات میں الٰہی راہنمائی کی ضرورت نہیں وہ اپنی عقل سے پنے لئے خود بخود ایک راہ تجویز کرسکتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو ملزم کرنے کیلئے یہ مثال پیش کی ہے اور فرمایا ہے کہ تم جو دن رات یہ رٹ لگارہے ہو کہ ہمیں دینی معاملات میں اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت نہیں۔ تم اپنے حالات پر غور کرو اور دیکھو کہ تمہارا یہ دعویٰ کہاں تک درست ہے۔ تم اگر کسی اور کی طرف نہیں دیکھ سکتے تو ابوجہل یا دوسرے لیڈروں کو ہی دیکھ لو۔ وہ قوم کے سردار ہیں، دنیوی معاملات میں لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں، فوجوں کی کمان کرتے ہیں اور لوگوں پر ان کی دانائی کا سکہ بیٹھا ہوا ہے مگر دین کے معاملہ میں ان کی عقل اس قدرماری ہوئی ہے کہ ایک بندہ اکیلا اپنے گھر میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو وہ اچھلنے کودنے لگ جاتے ہیں۔ جن لوگوں کی نابینائی اس قدر بڑھ چکی ہو اور جو دینی معاملات میں اس قدر حماقت اور جہالت کے کاموں پر اتر آئے ہوں ان کے متعلق یہ تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ وہ اس روحانی میدان میں اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ایک قدم بھی اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔
ارء یت ان کان علی الھدی O
(اے مخاطب) تو (مجھے) بتا تو سہی کہ اگر وہ (نماز پڑھنے والا بندہ) ہدایت پر ہو؟
تفسیر: اس موقعہ پر ابوجہل صفت والوں کی طرف سے کہا جاسکتا تھا کہ تم جو اعتراض کرتے ہو کہ ہم نے عبادت میں کیوں دخل دیا یہ درست نہیں۔ بیشک اس میں ہمارا کوئی نقصان تھا۔ ہماری قوم کا کوئی نقصان نہیں تھا۔ حکومت اور نظام کا کوئی نقصان نہیں تھا۔ مگر چونکہ اس میں عبادت کرنے والے کا اپنا نقصان اور ہم نے دیکھا کہ وہ ایک برا کام کررہا ہے ہم نے ہمدردی اور محبت کے پیش نظر اسے روک دیا تاکہ اس کام کے برے نتائج سے وہ محفوظ رہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ارء یت ان کان علی الھدی۔ مجھے بتائو تو سہی اگر ہمارا وہ بندہ ہدایت پر ہو۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ہدایت پر ہے۔ یہ بھی گفتگو کا ایک طریق ہوتا ہے کہ الفاظ شک کے استعمال کئے جاتے ہیں مگر مراد الٹ ہوتی ہے۔ ہر زبان کا یہ طریقہ ہے مثلاً اردو میں بھی بولتے ہیں شاید میں نے اسی طرح کرنا ہو اور مراد ہوتی ہے اسی طرح کرنا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے ان کان علی الھدی یعنی ان کان محمد او ان کان العبد المصلی علی الھدی۔ مگر محمد ﷺ یا ہمارا وہ بندہ جو ہماری عبادت کررہا ہے سچا ہوا توپھر اس کو روکنے والے کا کیا حال ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنے فعل کے جواز میں یہ کہہ رہے ہو کہ ہم اسے عبادت سے اس لئے روک رہے ہیں کہ یہ کہیں دوزخ میں نہ جاپڑے۔ کہیں اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کی ناراضگی کا مورد نہ بن جائے۔ حالانکہ جب یہ معاملہ اگلے جہان سے تعلق رکھتا ہے اور اگلا جہان وہ ہے جو نہ تم نے دیکھا اور نہ تمہارے باپ دادا نے۔ تو تمہیں کیونکر پتہ لگا کہ اس فعل کا نتیجہ ضرور خراب نکلے گا۔ اگر ذاتی طور پر تم سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ ﷺ سچائی پر قائم نہیں تب بھی تمہیں عبادت سے روکنے کا کوئی حق نہیں تھا کیونکہ تم کسی یقین کی بناء پر ایسا نہیں کہہ رہے۔ تم زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہو کہ شاید یہ حق پر نہ ہو۔ اس لئے ہم اسے روکنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اس کے مقابلہ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حق پر ہو اور تم اسے روک کر ظالم بن رہے ہو۔ بہرحال جب یہ معاملہ اگلے جہان سے تعلق رکھتا ہے جس کے متعلق تمہارا علم کسی قطعی بنیاد پر قائم نہیں بلکہ ایک ڈھکونسلہ ہے۔ تم خیال کرتے ہو کہ شاید یہ جھوٹا ہو ۔ شاید یہ برا کام کررہا ہو۔ تو محض ایک ظن کی بنا پر تمہیں اس کو روکنے کا حق کہاں سے پیدا ہوگیا۔ جبکہ ہوسکتا ہے کہ یہ ہدایت پر ہو اور تم جو اسے روک رہے ہو گمراہی اور ضلالت میں پڑے ہوئے ہو۔
دوسرے کو انسان اسی وقت کسی کام سے روک سکتاہے جب اس کے علم کی بنیاد یقین پر ہو۔مثلاً اگر کوئی بچہ کنوئیں میں گر نے لگے اور ماں باپ پاس نہ ہوں تو ہر شخص حق رکھتا ہے کہ اسے روکنے کیونکہ اس کا نتیجہ یقینا ہلاکت ہے۔ لیکن اگر ایک شخص تجارت کرنے لگے ، زید کا خیال ہو کہ مجھے نفع ہوگا اور بکر کا خیال ہو کہ نفع نہیں ہوگا تو ایسی صورت میں اگر بکر زید سے لڑ پڑے اور اسے تجارت سے روک دے تو ہر شخص بکر کر ملزم قرار دے گا اور اگر مجسٹریٹ کے پاس مقدمہ جائے گا تو وہ یقینا بکر کو سزا دے گا اورکہے گا کہ یہ کونسی بدیہی بات تھی جس کی بناء پر تم نے دوسرے کو تجارت کرنے سے روک دیا۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص زہر کی پڑیا کھانے لگے تو ہم اسے روک دیں کیونکہ یہ بدیہی بات ہے کہ زہر کا نتیجہ ہلاکت ہے۔ لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم کسی کو کھانے سے اس لئے روک دیں کہ ممکن ہے کہ اس کے نتیجہ میں تمہیں ہیضہ یا پیچش شروع ہوجائے۔ بہرحال جہاں قطعی اور یقینی نقصان ہو وہاں ہر دوست اور ہمسایہ حق رکھتا ہے کہ دوسرے کو نقصان سے بچانے کی کرشش کرے۔ مگر جس امر کے متعلق یقین نہ ہو اس معاملہ میں کسی دوسرے کا دخل دینا اول درجہ کی حماقت ہوتی ہے۔چونکہ یہاںعبادت کا معاملہ ے جس کے متعلق کفار کسی یقین پر قائم نہیں تھے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہاری یہ دلیل قطعی طور پر غلط ہے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو نقصان سے بچانے کیلئے عبادت سے روک رہے ہیں۔ تم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہو کہ شاید یہ ہدایت پر نہ ہو۔ شاید یہ گمراہی میں مبتلا ہو حالانکہ اس کے مقابلہ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ہدایت پر ہو اور تم گمراہی میں مبتلا ہو۔ جب معاملہ ایسا ہے جس میں تمہیں صرف شبہ ہی شبہ ہے اور دوسری طرح ایک جوان اور بالغ انسان اپنی مرضی سے ایک قدم اٹھار ہا ہے تو تم اس کو روکنے والے کون ہو۔ دنیا میں یہی طریق رائج ہے کہ جب کوئی بالغ، جوان اور سمجھدار انسان کوئی ایسا کام شروع کرتا ہے جس کے دونوں پہلو ہوسکتے ہوں مفید بھی اور مضر بھی۔ تو وہ نقصان بھی اٹھاسکتا ہے اور فائدہ بھی اٹھاسکتا ہے۔ ایک شخص تجارت کرتا ہے تو وہ نقصان بھی اٹھاسکتاہے اور فائدہ بھی اٹھاسکتا ہے مگر کسی دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ سفر یا تجارت سے کسی کو اس لئے روک دے کہ میرا خیال ہے کہ تمہیں نقصان ہوگا۔ یا چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تمہارا بمبئی جانا مفید نہیں اس لئے میں تمہیں گھر سے نکلنے نہیں دیتا۔ ہر شخص ایسے انسان کو پاگل قرار دے گا او رکہے گا کہ تمہیں کیا پتہ کہ اس سفر یا تجارت کا نتیجہ اچھا ہے یا برا۔ تم زیادہ سے زیادہ ایک قیاس کررہے ہو حالانکہ اس کے مقابلہ میں یہ بھی قیاس ہوسکتا ہے کہ اسے فائدہ ہو۔ اس لئے تمہارا روکنا جنون کی علامت ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ اس جگہ بیان کرتا ہے کہ محمد رول اللہ ﷺ جوان، عاقل اور سمجھدار انسان ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہی انسان کا فائدہ ہے۔ اگر وہ عبادت کرتے ہیں تو تمہارا کوئی حق نہیں کہ تم انہیں عبادت سے روکو۔ ہم مانتے ہیں کہ تم عبادت کی اہمیت تسلیم نہیں کرتے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو اس کی بنیاد محض شک پر ہے۔ اس لئے خواہ تم عبادت کو اچھا نہیں سمجھتے تب بھی عقلی طور پر تمہیں ہرگز یہ حق حاصل نہیں تھا کہ تم محمد رسول اللہ ﷺ کو عبادت سے روکتے اگر محمد رسول اللہ ﷺ کے عمل کا صحیح نتیجہ مشکوک ہے تو تمہارے اس فعل بد کا اچھا نتیجہ کیونکر نکلے گا۔
او امر بالتقوی O
یا تقویٰ کا حکم دیتا ہو (تو پھر اس روکنے والا کا کیا بنے گا)
تفسیر: یہاں ایک زائد بات بیان کرکے پہلے استدلال کو مضبوط کردیا گیا ہے ان کان علی الھدی تک تو شبہ کے انداز میں یہ بات کی تھی کہ تمہارا محمد رسول اللہ ﷺ کو عبادت سے روکنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر تمہیں محمدرسول اللہ ﷺ کی صداقت میں شبہ ہے تو تم خود بھی کسی یقین پر قائم نہیں۔ جب تمہارا دعوی بھی شک والا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کے دعویٰ کے متعلق بھی تم شک کررہے ہو تو محض شک کی بناء پر تمہارا محمد رسول اللہ ﷺ کو عبادت سے روکنا کسی صورت میں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اب ایک اور بات بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے ہدایت تو دل سے تعلق رکھنے والی چیز ہے۔ تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نہیں جانتے کہ محمد ﷺ ہدایت پر ہیںیا نہیں ۔ لیکن کیا تم اس کے تقویٰ کو نہیں دیکھتے۔ تقویٰ تو عمل سے تعلق رکھنے والی چیز ہے۔ جس کے متعلق یہ عذر نہیں کیا جاسکتا کہ ہم نہیں جانتے فلاں شخص میں تقویٰ پایا جاتا ہے یا نہیں۔ اگر دل کی بات کو پہچاننا تمہارے لئے مشکل تھا اور تم محمد رسول اللہ ﷺ کا ہدایت یافتہ ہونا پہچان نہیں سکتے تھے تو کیا تم محمد رسول اللہ ﷺ کے عمل کو بھی دیکھنے سے قاصر ہو اور کیا تم اس کو دیکھ کر یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ تم غلطی پر ہو یا محمد رسول اللہ ﷺ غلطی پر ہیں۔ تم یہ تو کہہ سکتے ہوکہ محمد رسول اللہ ﷺ چونکہ بتوں کی بجائے اللہ تعالیٰ کی پرستش کرتے ہو جو ہمارے نزدیک غلطی ہے اس لئے ہم انہیں اس غلطی سے بچانے کیلئے عبادت سے روکتے ہیں۔ لیکن کیا تم اس تعلیم کی طرف نہیں دیکھتے جو یہ اپنی زبان سے بیان کررہا ہے اور اس عمل کو نہیں دیکھتے جو یہ اپنے جوارح سے ظاہر کررہاہے اور کیا اس کی تعلیم اور اپنی تعلیم اور اس کے عمل اور اپنے عمل کو دیکھنے کے بعد تم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ کون ہدایت پر ہے؟تمہاری حالت یہ ہے کہ تم ٹھگی کرتے ہو، فریب کرتے ہو، جھوٹ بولتے ہو، قسم قسم کی بداخلاقیوں میں ملوث ہو اورمحمد رسول اللہ ﷺ وہ ہیں جو خداتعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں، سچائی سے کام لیتے ہیں، غرباء کی مدد کرتے ہیں، ظلم سے روکتے ہیں، نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں، اکرام ضیف کی عادت رکھتے ہیں، امانت اور دیانت میں نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھاتے ہیں اور دوسروں کو اپنی باتوں کی تعلیم دیتے ہیں۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تم جو دن رات ٹھگی میں مشغول رہتے ہو، جو جھوٹ اور فریب کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔ تم تو سچے ہو اور محمد رسول اللہ ﷺ جو تقویٰ کے پیکر ہیں اور دوسروں کو بھی تقویٰ کی راہوں پر چلنے کا حکم دیتے ہو وہ جھوٹے ہوں۔ غرض یہ ایک زائد دلیل اللہ تعالیٰ نے پیش کی ہی اور اس طرح پہلی دلیل کو مضبوط کردیا ہے۔ فرماتا ہے کہ اگر تم یہ کہو کہ ہمیں چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت میں شبہ ہے اس لئے ہم اسے عبادت سے روک رہے ہیں تب بھی تمہارا کوئی حق نہیں کہ ایسا کرو۔ کیونکہ اگر تمہیں یہ شبہ ہے کہ شاید محمد رسول اللہ ﷺ سچا نہ ہو تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ سچا ہو اور تم اس کو جھٹلانے میں ناراستی سے کام لے رہے ہو۔ لیکن اگر یہ زائد بات بھی اس میں پائی جاتی ہے کہ وہ نیک اعمال اور تقویٰ و عبادت کی باتوں کا دوسروں کو حکم دیتا ہے اور تم بداعمالی میں مستغرق رہتے ہو تو یہ ایک پختہ دلیل اس امر کی ہے کہ تم صداقت سے بہت دور جارہے ہو۔
سورۃ العلق چونکہ بالکل ابتدائی سورۃ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں نتائج کو بیان نہیں کیا۔ بلکہ ہر جگہ ان کو چھوڑتا چلا گیا ہے کیونکہ ابھی مکہ والوں کی طرف سے رسول کریم ﷺ کی کھلی مخالفت شروع نہیں ہوئی تھی۔ چونکہ ابتدائی ایام تھے اور کفار کو خوامخواہ بھڑکانا مقصود نہیں تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے صرف ارء یت ار ء یت کہہ کر اشاروں اشاروں میں ہی حقیقت حال کو بیان کردیا ہے یعنی صرف اتنا ہی کہا ہے کہ مجھ اس شخص کا حال تو بتائو۔ لیکن آگے اس شخص کا نام نہیں لیا۔
ار ء یت ان کذب و تولی O الم یعلم بان اللہ یری O
پھر (یہ بھی) بتا کہ اگر یہ روکنے والا جھٹلاتا ہے اور (سچائی سے) منہ پھیر لیتا ہے تو کیا وہ (یہ) نہیں جانتا کہ اللہ سب کچھ دیکھتا ہے۔
تفسیر: جس طرح ار ء یت ان کان علی الھد او امر بالتقوی میں گو روئے سخن کفار کی طرف تھا مگر مخاطب رسول کریم ﷺ کو کیا گیا تھا۔ اس طرح اس جگہ گو خطاب رسول کریم ﷺ سے ہے مگر مراد کفار پر اتمام حجت کرنا ہے۔ فرماتاہے اے محمد ﷺ یہ تو بتائو جس طرح کفارکو ہماری عبادت کرنے والے بندے کے متعلق یہ احتمال تھا کہ وہ غلط عبادت نہ کررہا ہو کیونکہ وہ اپنی قوم اور اپنے رشتہ داروں کے خلاف بتوں کی پرستش ترک کرکے اللہ تعالیٰ کے آگے سربسجود ہورہا ہے۔ اسی طرح یہ بھی تو احتمال ہوسکتا ہے کہ یہ عبادت سے روکنے والا شخص ہی سچائی کو جھٹلانے والا اور ہدایت سے منہ موڑنے والا ہو اور جس کو عبادت سے روکا جاتا ہو وہ ہدایت پر ہو اور یہ اس کی تکذیب کررہا ہو۔ وہ امر بالتقویٰ کررہا ہو اور یہ تولی اختیار کررہاہو۔ وہ کہہ رہا ہو کہ سچائی اختیار کرو۔ نیکی اور تقدس کا جامہ پہنو اور یہ اس سے پیٹھ پھیر رہا ہو۔ جب یہ بھی احتمال ہے کہ تو الم یعلم بان اللہ یری کیا اس قسم کے افعال کرنے والے کو یہ خیال نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے اور وہ میرے اعمال کے مطابق نتیجہ نکالنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں نہایت لطیف بات کہی ہے فرماتا ہے وہ ہمارے بندے کو عبادت سے روکتا ہے اور پھر کہتا ہے میں کیوں نہ روکوں یہ میرا دوست تھا، میرا ہم وطن تھا اور میرا حق تھا کہ میں سے غلط راستہ پر چلنے سے روکوں۔ حالانکہ ہوسکتا تھا کہ وہ خود غلطی کررہا ہو۔ اگر احتمال اور شبہ پر قائم ہوتے ہوئے اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ہمارے بندے کو روک دے تو کیا اسے یہ خیال نہیں آتا کہ آسمان پر ایک خدا اس نظارہ کو دیکھ رہ اہے۔ اگر میں اپنی طاقت اور قوت کے گھمنڈ میں دوسرے کو روک رہا ہوں تو زمین و آسمان کا طاقتور بادشاہ جو میرے اس ظلم کو دیکھ رہاہے وہ بھی طاقت رکھتا ہے کہ مجھے اس ظلم کی سزا دے۔ اگر ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی عبادت میں دخل دیں اور کہیں ہم نے اس لئے دخل دیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں یہ غلطی کررہا ہے تو اگر اس کے مقابلہ میں تم غلطی کررہے ہو تو یقینا اس اصول کے مطابق خداتعالیٰ کو بھی حق حاصل ہوگا کہ تمہیں پکڑے۔ آج تم ہمارے بندے کو عبادت سے روک رہے ہو اور کہتے ہو کہ ہم سمجھتے ہیں یہ غلطی کررہا ہے اگر تم ایک فرضی قیاس سے کام لینے کے بعد ہمارے کو روکنے کا حق رکھتے ہو تو پھر یاد رکھو اگر تمہاری تکذیب اور تولی پر اللہ تعالیٰ نے تمہیں پکڑ لیا تو شکوہ نہ کرنا۔ اگر تمہیں جہالت اور قیاس سے دوسرے کے معاملات میں دخل دینے کا حق حاصل ہے تو یقینا اللہ تعالیٰ کو علم اور حقیقت حال سے واقف ہونے کے نتیجہ میں تمہارے معاملات میں دخل دینے کا بدرجۂ اولیٰ حق حاصل ہے۔ پھر یہ شکوہ نہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عذاب میں مبتلا کردیا۔ پس الم یعلم بان اللہ یری میں کفار کے انجام کی طرف اشارہ ہے اوربتایا گیا ہے کہ ایک دن یہ لوگ خدائی گرفت میں آنے والے ہیں۔
کلا لئن لم ینتہ لنسفعا بالناصیۃ O ناصیۃ کاذبۃ خاطئۃ O
یوں نہیں (ہوگا جیسے وہ چاہتا ہے بلکہ) اگر وہ (ان کاموں سے ) باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے ایک جھوٹی پیشانی (اور )خطاکار پیشانی (کے)۔
حل لغات: نفع: سفع سے جمع متکلم کا صیغہ ہے اور سفع کے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کو پکڑ کر سختی سے گھسیٹنا اور ناصیۃ سر کے اگلے حصہ یا سر کے اگلے بالوں کو کہا جاتا ہے (اقرب)۔
تفسیر: فرماتا ہے کلا ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیںتم جو یہ خیال کرتے ہو کہ ہمارے اس بندے کو کمزور اور ناتوان سمجھ کر اور بے یارومددگار خیال کرکے عبادت سے روک دو گے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ تمہارے سارے خیالات باطل ثابت ہوں گے اور تمہاری اپنی طاقت اور قوت کے متعلق گھمنڈ سب جاتا رہے گا۔ چنانچہ آج ہم اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ وہ جو ملک کا بادشاہ کہلاتا ہے جو لیڈر اور سردار قوم کہلاتا ہے اگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آئے گا تو ہم اسے سختی سے گھسیٹ کر اس کا انتقام لیں گے۔ سفع کے معنے عربی زبان میں کسی چیز کو پکڑکر زور سے گھسیٹتے لئے جانے کے ہوتے ہیں۔ کفار میں بھی یہ عادت تھی کہ جب مسلمان غلام نماز کیلئے جاتے یا اپنے کسی اور کام کیلئے باہر نکلتے تو وہ انہیں کبھی ٹانگوں سے پکڑ کر اور کبھی سر کے بالوں پکڑ کر نہایت سختی کے ساتھ گھسیٹنا شروع کردیتے اور کہتے کہ تم بتوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیوں کرتے ہو۔
ایک غلام صحابی نے جو لمبے عرصہ تک کفارکے مظالم کا تختۂ مشق بنے رہے تھے ایک دفعہ اسلام کی فتوحات کے زمانہ میں اپنی قمیص اتاری تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی پیٹھ کاچمڑا ایسا ہے جیسے بھینسے کا چمڑا ہوتا ہے۔ انہوں نے خیال کیا کہ غالباً یہ کوئی مرض ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس صحابی سے پوچھا کہ آپ کو یہ کیا بیماری ہے کہ آپ کی پیٹھ کا چمڑا بالکل ایسا ہے جیسے جانور کا چمڑا ہوتا ہے۔ وہ صحابی ہنس پڑے اور کہا تم کیا جانو یہ کیا چیز ہے۔ یہ بیماری نہیں بلکہ ان مظالم کا نشان ہے جو کفار مکہ کی طرف سے ہم پر ڈھائے جاتے تھے۔ پھر انہوں نے سنایا کہ جب ہم نے اسلام قبول کیا تو چونکہ ہم غلام تھے اور مالک کو اس ملک کے قانون کے مطابق ہم پر ہر قسم کے اختیارات حاصل تھے۔ جب وہ دیکھتے کہ ہم شرک نہیں کرتے تو بعض دفعہ وہ ہمارے پائوں میں رسیاں باندھ کر ہمیں گلیوں میں گھسیٹنا شروع کردیتے اور بعض دفعہ رسیاں باندھنے کی بجائے سر کے بالوں کو پکڑ کر گھسیٹنے لگ جاتے۔ گلیوں میںپتھر پڑے ہوئے ہوتے تھے مگر وہ اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اور ہمیں بے دردی کے ساتھ ان پتھروں پر گھسیٹتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہمارے چمڑے چھل جاتے۔ اور چونکہ یہ مظالم ان کی طرف سے متواتر ہوئے اس لئے نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے چمڑے اپنی شکل کھوبیٹھے اور اس شکل میں آگئے جس شکل میں آج تم دیکھ رہے ہو۔ انہی واقعات کی طرف جو مکہ میںپیش آنے والے تھے اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اشارہ کردیا اور بتادیا کہ ابھی تو یہ لوگ صرف عبادت سے روک رہے ہیں پھر وہ بھی وقت آنے والا ہے جب محمدرسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والے مکہ کی گلیوں میں گھسیٹے جائیں گے اور ان کی کمریں چھیلی جائیں گی اور چونکہ مسلمانو ں کے ساتھ یہ واقعات پیش آنے والے ہیں اور کفار مکہ اپنی طاقت ک بل بوتے پر ان کو قسم قسم کے مصائب میں مبتلاکرنے والے ہیں اس لئے ہم کہتے ہیں کہ تم آج اس شخص کو جو ان میں خاص اثر رکھتا ہے اور جو اپنی طاقت اور قوت کا دعویدار ہے یہ سنادو کہ اگر ان کو گھسیٹنا آتا ہے تو ہم کو بھی گھسیٹنا آتا ہے ہم ان کے سر کے بالوں سے نہایئت سختی کے ساتھ گھسیٹیں گے ۔اگر یہ اس ناصیہ کو گھسیٹا کرتے تھے جو خدا تعالی کے سامنے سجدہ کرتی تھی تو ہم اس ناصیہ کو کیوں نہیں گھسیٹیں گے جو جھوٹی اور خطا کار ہے اگر خدائے واحدکے آگے عبادت کرنے والی ناصیہ گھسیٹی جا سکتی ہے تو وہ ناصیہ جو بتوںکے آگے جھکتی ہے وہ گھسیٹے جانے کی کیوں مستحق نہیں۔
ہم دیکھتے ہیںکہ اللہ تعالی نے ابو جہل سے ایساہی سلوک کیا۔ چنانچہ بدر کی جنگ جب ختم ہوئی اور دشمن مارا گیا تو اللہ تعالیٰ کے اسی حکم کے مطابق کہ لنسفعا بالناصیۃ ناصیۃ کاذبۃ خاطئۃ ابوجہل کو سر کے بالوں سے گھسیٹ کر اس گڑھے میں گرایا گیا جو اس کیلئے قبر کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔ کہنے والا کہے گا یہ وحشت تھی کہ مردہ کو بالوں سے گھسیٹا گیا مگر یہ وحشت نہیں تھی بلکہ بدلہ تھا ان مظالم ا جو مسلمانوں پر ڈھائے جاتے تھے اوربدلہ بھی نہایت معمولی۔ کیونکہ اس نے تو زندہ کو گھسیٹا تھا جب انہیں تکلیف ہوتی تھی۔ مگر ابوجہل کو مردہ ہونے کی حالت میں گھسیٹا گیا جبکہ اسے کوئی تکلیف نہیں ہوسکتی تھی۔
میں نے ایک دفعہ رئویا میں دیکھا کہ ایک انگریز جرنیل میرے پاس آیا ہے اور وہ مجھ سے کہتا ہے کہ آپ کا کیا فتویٰ ہے ایا قتل کے بدلہ میں قتل ہی ہے یا قاتل کو کوئی اور سزا بھی دی جاسکتی ہے؟ پھر اس نے کہا ہمارے بعض آدمیوں کو جب سرحد پر مارا جاتا ہے تو ان کی لاشوں کو چونہ میں ڈال کر جلادیا جاتا ہے یا ان کو مختلف قسم کے عذاب دے دے کر مارا جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں قاتل کو صرف قتل کی سزا ہی دی جائے گی یا تعذیب کی سزا بھی اسے ملے گی؟ میں نے اسے جواب میں کہا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ی اصول بیان فرمایا ہے کہ جزؤا سیئۃ سیئۃ مثلھا (الشوریٰ: ع۴) یعنی بدی کی سزا برے فعل کے مطابق دی جانی چاہئے۔ پس میرا فتویٰ بھی یہی ہے کہ قتل کے بعدلہ میں قتل اور تعذیب کے بدلہ میں تعذیب۔ گو عام حالات میں قتل کے بدلہ میں قتل ہی کیا جائے گا لیکن اگر کسی وقت مصلحت کے ماتحت لوگوں کو تعذیب اور شرارت سے روکنے کیلئے یہ فیصلہ کردیا جائے کہ قتل کے بدلہ میں قتل ہوگا اور تعذیب کے بدلہ میں تعذیب تو یہ بالکل جائز ہوگا۔
بیشک وہ لوگ جنہوں نے اس زمانہ کے حالات پر کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کیا کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ بڑی سختی کی گئی کہ ایک مردہ کو بالوں سے گھسیٹ کر گڑھے میں پھینکا گیا۔ مگر انہیں بھول جاتا ہے کہ یہاںتو کسی مردہ کو صرف ایک دفعہ گھسیٹا گیا ہے اور وہ لوگ سالہا سال زندوں کو پتھروں پر گھسیٹا کرتے تھے اور ابھی ان کے زخم تازہ ہی ہوتے تھے کہ دوسرے دن پھر ان کو پتھروں پر گھسیٹنا شروع کردیا جاتا۔ اور پھر وہ صرف پتھروں پر گھسیٹنے ہی نہیں تھے بلکہ بسا اوقات ان کے سینہ پر بڑے بڑے وزنی پتھر رکھ دیتے، ان پر کھڑے ہوکر خود ناچنا کودنا شروع کردیتے اور کہتے کہو کہ ہم لات اور عزی کو اپنا معبود مانتے ہیں۔ یہی وہ چیز تھی جس کی بناء پر ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے بلالؓ کی خاص طور پر تعریف کی اور لوگوں سے فرمایا کہ بلال جب اذان دیتا ہے اور اشھد ان لاالہ الا اللہ کی بجائے اسھد ان لاالہ الا اللہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ بلال کے اس س پر خاص طور پر خوش ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ مدینہ میں آئے اوربلالؓ نے اذان دی تو چونکہ مدینہ کے لوگ بلالؓ سے ناواقف تھے جب انہوںنے اشھد ان لاالہ الا اللہ کی بجائے اسھد ان لاالہ الا اللہ کہا تو لوگ ہنسنے لگ گئے۔ بلالؓ حبشی تھے اور اس وجہ سے وہ تلفظ صحیح طور پرادا نہیں کرسکتے تھے۔ جب رسول کریم ﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے مجلس میں فرمایا لوگ بلال کے سین پر ہنستے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر اس سین کو سن کر خوش ہوتا ہے۔ اس کی وجہ دراصل یہی ہے کہ مکہ میں بلال کے سینہ پر جب بڑے بڑے پتھر رکھ کر کہا جاتا کہ کہو لات اور مناۃ اور عزیٰ سچے معبود ہیں تو بلال خاموش نہ رہتے بلکہ پتھروں کے نیچے سخت تکلیف کی حالت میں بھی یہی کہتے کہ اسھد ان لاالہ الا اللہ۔ چونکہ اس وقت وہ سین کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھا کرتے تھے اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب بلال اسھد ان لاالہ الاللہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ عرش پر خوش ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے بلال سے وہ سین سنا ہوا تھا جو پتھروں کے نیچے اور مکہ کی گلیوں گھیسٹتے ہوئے اس کی زبان سے نکلا کرتا تھا۔ پس خالی بلالؓ کی اذان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوتا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کو بلالؓ کا وہ واقعہ یاد تھا جب اسے پتھروں کے نیچے کچلا جاتا مگر وہ پھر بھی یہی کہتا کہ اسھد ان لاالہ الااللہ ۔ پس رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں تو آج کا سین نظر آتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کو وہ سین یاد ہے جو پتھروں کے نیچے بلالؓ کی زبان سے نکلا کرتا تھا۔ اس لئے بلالؓ جب اذان دیتا اور اسھد ان لاالہ الااللہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس آواز کو سن کر عرش پر خوش ہوجاتا ہے۔
ان حالات کو اگرمدنظر رکھا جائے تو پھر کوئی شخص یہ کہنے کہ جرأت نہیں کرسکتا کہ ابوجہل کے سر کے بالوں سے گھسیٹ کر گڑھے میں ڈالنا ظلم تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ مؤرخ جو رسول کریم ﷺ پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے نعوذ باللہ وحشت سے کام لیا وہ کبھی حقیقت حال پر غور نہیں کرتے۔ اگر وہ مسلمانوں کی جگہ اپنے باپ یا اپنی بیوی یا اپنے بچہ کو رکھیں اور عالم تصورمیں ان مظالم کا نقشہ اپنے ذہنوں میں لائیں جو مسلمانوں پر ڈھائے جاتے تھے تو اس کے بعد یقینا وہ رسول کریم ﷺ کے کسی فعل کو ظلم قرار نہ دیں بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ رسول کریم ﷺ نے ان کے ساتھ نہایت ہی نرم سلوک کیاہے۔ موجودہ جنگ یورپ کو ہی دیکھ لو کیا کیا مظالم ہیں جو ایک دوسرے پر ڈھائے گئے ہیں اور کس طرح دشمن سے انتقام لینے کیلئے بربریت کے نظارے پیش کئے گئے ہیں۔ حالانکہ اس زمانہ کے لوگ اپنے آپ کو تہذیب و تمدن کے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے تصور کرتے ہیں۔ مگر مسلمانوں نے تو کوئی ظلم بھی نہیں کیا۔ صرف بدرکے موقعہ پر چند ایسے مردوں کو گھسیٹ کر گڑھے میں ڈال دیا جو مسلمانوں کو سالہاسال تک تپتی ریت اور سخت پتھروں پر گھسیٹتے اور گھسٹواتے رہے تھے۔ پس فرمایا جس طرح یہ لوگ ہمارے بندوں کو ان کے بال پکڑ پکڑ کر گھسیٹتے ہیں اسی طرح ہم بھی ان کے بالوں سے ان کو گھسیٹیں گے۔ مگر یہ خیال نہ کرنا کہ ہم ظلماً ایسا کریں گے۔ کیونکہ لنسفعا بالناصیۃ ناصیۃ کاذبۃ خاطئۃ ایسی ناصیہ گھسیٹی جائے گی جو کاذبۃ جھوٹی تھی خاطئۃ خطاکار تھی اور مجرم کو سزا دینا ظلم نہیں کہ تم یہ کہہ سکو کہ انہیں کیوں گھسیٹا جائے۔ گھسیٹا اس لئے جائے گا کہ وہ مجرم اور خطاکار ہیں اور دنیا کا کوئی قانون مجرم کو سزا دینا ظلم قرار نہیں دیتا۔
فلیدع نادیہ O
پس (کافر کو) چاہئے کہ وہ اپنی مجلس کو بلائے۔
حل لغات:۔النادی عربی زبان میں اس مجلس کو کہتے ہیں جس میں دن کے وقت لوگ بیٹھ کر مختلف امور کے متعلق باہم مشورہ کرتے ہیں (اقرب)جسطرح مائدہ اس دستر خوان کو کہا جاتا ہے جس پر کھانا چنا ہوا ہو۔اسی طرح ا لنادی مجلس کو کہا جاتا ہے مگر اس مجلس کو جس میں آدمی بیٹھے ہوئے ہوں خالی کمرہ کو نہیں کہتے۔(اقرب)
تفسیر:۔کفار مکہ آپس میں کہا کرتے تھے آج بڑا مشورہ ہوا ۔ آج محمد ﷺاور ان کے ساتھیوں کے با ئیکاٹ کا فیصلہ کر دیا گیا ہے آج ان کو مارنے پیٹنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔آج ان کے قتل کا فیصلہ کیا گیا ہے۔فرماتاہے لوگ جس مجلس کے حوالے دیا کریں گے اور کہیں گے کہ آج یہ فیصلہ ہوا۔کل وہ فیصلہ ہوا۔ ہم اسی مجلس کے متعلق اس دن کفار سے کہیں گے اب کیوں کسی کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلاتے ۔جائو اور اپنے ساتھیوں کو بلائو جن کے ساتھ مل کر تم مسلمانوں کے خلاف دن رات منصوبے کیا کرتے تھے اور دیکھو کہ اس موقع پر وہ تمھارے کام آتے ہیں یا نہیںتم نے مسلمانوں کے خلاف تو منصوبے کر لئے اب تم ہماری گرفت میں آچکے ہو ۔اگر تم میں طاقت ہے تو اب اپنے مشیروں کو بلائو اور ان سے کہو کہ تمہاری مدد کریں۔
سندع الز با نیۃO
حل لغات:۔الزبا نیۃ: زبن سے ہے اور زبن (یز بن ز بنا) کے معنے ہوتے ہیں دفعہ اس کو دور کر دیا ۔ صدمہ اس سے ٹکرایا (اقرب)اسی طرح لکھا ہے الزابانیۃ عندا لعرب الشر ط یعنی ز بانیۃکے معنی عربی زبان میں پولیس کے ہوتے ہیں(اقرب)
تفسیر:۔فرماتاہے وہ بھی اپنے ساتھیوں کو بلاتے اور مسلمانوں کے خلاف مجالس منعقد کیا کرتے تھے اس کے مقابل میں ہم بھی اپنی پولیس کو بلانے والے ہیں ۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ زبا نیہ سے مراد دوزخ کے فرشتے ہیں مگر میرے نزدیک یہ دوزخ کے نہیں بلکہ جنت کے فرشتے ہیں اور اس سے مراد صحابہؓ ہیںجنہوں نے بدر کی جنگ میں کفار کو ان کے بالوںسے پکڑ کر گھسیٹا اور انہیں ان کے کیفر کردار تک پہنچایا انہی صحابہؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ مظلوم ،کمزور اور بے بس مسلمان جنہیں تم نے اپنے مظالم کا تختہ مشق بنایا ہوا ہے ہماری پولیس کے سپاہی ہیں ۔ پولیس والا کبھی اکیلا پکڑا جاتا ہے اور چوروں اور ڈاکوئوں کے ہاتھ آجاتا ہے تو وہ اسے خوب مارتے پیٹتے ہیں مگر جب گارد آتی ہے تو اس کا مقابلہ کرنے کی اس میں طاقت نہیں رہتی۔اسی طر ح تم آج ایک ایک دو دو مسلمانوں کو پکڑتے ہواور ان کو مصائب وآلام میں مبتلا رکھتے ہو اور خیال کرتے ہوکہ ہمارا ان لوگوں نے کیا بگاڑ لینا ہے ۔ ہم طاقتور ہیں یہ کمزور۔ ہم جتھے والے اور یہ انگلیوں پر گنے جانے والے چند افراد ۔ لیکن تم اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ یہ کمزور اور اکیلے نظر آنے والے ہماری پولیس کے آدمی ہیں ۔ جب تمہارے مظا لم کا انتقام لینے کے لئے ہماری گارد آئی تو اس وقت دنیا دیکھے گی کہ تمہاراکیسا عبرتناک انجام ہوتا ہے۔ جب ہماری گارد آئی تواس وقت تم میں سے کسی ایک میں بھی یہ طاقت نہیں ہوگی کہ اپنی انگلی تک مقابلہ میں اٹھاسکے۔ چنانچہ دیکھ لو مکہ کے کتنے بڑے بڑے سردار تھے مگر مسلمانوں کی شوکت کے زمانہ میں اللہ تعالی نے ان کو کیسا ذلیل کردیا۔
حضرت عمرؓ اپنی خلافت کے زمانہ میں ایک دفعہ مکہ میں آئے تو وہی غلام جن کو سر کے بالوں سے پکڑ پکڑ کر لوگ گھسیٹا کرتے تھے ایک ایک کر کے حضرت عمرؓ کی ملاقات کے لئے آنے شروع ہوئے۔ وہ عید کا دن تھا اور ان غلاموں کے آنے سے پہلے مکہ کے بڑے بڑے رئوساء کے بیٹے آپکو سلام کرنے کے لئے حاضر ہو چکے تھے ۔ ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ بلال ؓآئے۔وہی بلالؓ جو غلام رہ چکے تھے جن کو لوگ مارا پیٹا کرتے تھے جن کو کھردرے اور نوکیلے پتھروں پر ننگے جسم سے گھسیٹا کرتے تھے ، جن کے سینہ پر بڑے بڑے وزنی پتھر رکھ کر کہا کرتے تھے کہ کہو میں لات و عزی کی پرستش کروں گا مگر وہ یہی کہتے کہ اشھد ان لا الہ ا لا اللہ۔حضرت عمرؓ نے جب بلال کو دیکھا تو ان رئوساء سے فرمایا ذرا پیچھے ہٹ جائو اور بلالؓ کو بیٹھنے کی جگہ دو ۔ ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ ایک اور غلام صحابی آگئے ۔ حضرت عمرؓ نے پھر ان رئوساء سے فرمایا ذرا پیچھے ہٹ جائو اور ان کو بیٹھنے دو۔تھوڑی دیر گذری تو ایک غلام صحابی آگئے۔ حضرت عمرؓ نے حسب معمول ان رئوساء سے پھر فرمایا ذرا پیچھے ہٹ جائواوران کو بیٹھنے کی جگہ دو ۔ اتفاق کی بات ہے چونکہ ان کو اللہ تعالی نے ذلیل کرنا تھا اس لئے یکے بعد دیگرے آٹھ دس غلام آگئے اور ہر دفعہ حضرت عمرؓ ان روئوساء سے یہی کہتے چلے گئے کہ پیچھے ہٹ جائواور ان کو بیٹھنے کی جگہ دو۔ ان دنوں بڑے بڑے ہال نہیں بنائے جاتے تھے بلکہ معمولی کوٹھڑیاں ہوتی تھیںجن میں زیادہ آدمی نہیں بیٹھ سکتے تھے ۔ جب تمام غلام صحابہ ؓ کمرے میں بھر گئے تو مجبوراً ان رئوساء کو جوتیوں والی جگہ میں بیٹھنا پڑا۔یہ ذلت ان کے لئے نا قابل برداشت ہو گئی وہ اسی وقت اٹھے اور باہر آکر ایک دوسرے سے کہنے لگے دیکھا آج ہمیں کیسا ذلیل کیا گیا ہے یہ غلام جو ہماری خدمتیں کیاکرتے تھے ان کو تو اوپر بٹھایا گیا ہے مگر ہمیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا یہاں تک کہ ہٹتے ہٹتے ہم جوتیوں والی جگہ پر جا پہنچے اور سب لوگوں کی نگاہ میں ذلیل اور رسوا ہوئے۔ ایک شخص جو ان میںسے ذیادہ سمجھدار تھا جب اس نے یہ باتیں سنی تو کہا یہ تو ٹھیک ہے کہ ہماری رسوائی ہوئی لیکن سوا ل یہ ہے کہ آخرایسا کس کی کرتوتوں سے ہوا؟ ہمارے باپ بھائی جب محمد رسولﷺ اور ان کے ساتھیوں کو مارا پیٹا کرتے تھے اس وقت یہ غلام آپ پر اپنی جانیں فدا کیا کرتے تھے ۔ آج چونکہ محمد رسولﷺ کی حکومت ہے اس لئے تم خود ہی فیصلہ کرلو کہ ان کو ماننے والے کن لوگوں کو عزت دیں گے آیا تم کو جو مارا کرتے تھے یا ان غلا موں کو جو اپنی جانیں اسلام کے لئے قربان کیا کرتے تھے۔ اگر انہی کر عزت ملنی چاہیے تو پھر تمہیں آج کے سلوک پر شکوہ کیوں پیدا ہوا؟ تمہارے اپنے باپ دادا کے اعمال کا یہ نتیجہ ہے کہ تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو رہا جو غلاموں کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی اور کہنے لگے ہم حقیقت تو سمجھ گئے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس رسوائی کا کوئی علاج نہیں؟ بے شک ہمارے باپ دادا سے بڑا قصور ہوا مگر آخر اس قصور کا کوئی علاج بھی ہوناچاہیے جس سے یہ ذلت کا داغ ہماری پیشانی پر سے دھل سکے ۔اس پر سب نے فیصلہ کیا کہ ہماری سمجھ میں تو کوئی بات نہیںآتی۔ چلو حضرت عمرؓ سے ہی پوچھیں کہ اس رسوائی کا کیا علاج ہے؟ جب وہ دوبارہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اس قت تک مجلس برخاست ہوچکی تھی اور صحابہؓ سب جاچکے تھے۔ انہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ آج ہمیں اس مجلس میں آکر جو دکھ پہنچا ہے اس کے متعلق ہم آپ سے مشورہ کرنے آئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا دیکھو برا نہ منانا۔ یہ لوگ رسول کریم ﷺ کے صحابہ تھے اور رسول کریم ﷺ کی مجلس میں ہمیشہ آگے بیٹھا کرتے تھے اس لئے میں بھی مجبور تھا کہ انہیں آگے بٹھاتا۔ بیشک تمہیں میرے اس فعل سے تکلیف ہوئی ہوگی مگر میں مجبور تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی اس مجبوری کو سمجھتے ہیں ہم صرف یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا اس ذلت کا کوئی علاج ہے؟ اور کیا کوئی پانی ایسا ہے جس سے یہ داغ دھویا جاسکے؟ حضرت عمرؓ جو ان نوجوانوں کے باپ دادا کی شان و شوکت اور ان کے رعب اور دبدبہ کو دیکھ چکے تھے جب انہوں نے یہ بات سنی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈباآئے کہ یہ لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے کہاں سے کہاں آگرے ہیں اور آپ پر رقت اس قدر غالب آئی کہ آپ ان کی بات کا جواب تک نہ دے سکے صرف ہاتھ اٹھا کر شام کی طرف جہاں ان دنوں قیصر کی فوجوں سے لڑائی ہورہی تھی اشارہ کردیا۔ مطلب یہ تھا کہ اب ذلت کا یہ داغ اسی طرح دھل سکتاہے کہ اس لڑائی میں شامل ہوکر اپنی جان دے دو۔ چنانچہ وہ اسی وقت باہر نکلے اپنے اونٹوں پر سوار ہوئے اور شام کی طرف روانہ ہوگئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں سے ایک شخص بھی زندہ واپس نہیں آیا۔ اس طرح انہوں نے اپنے خون کے ساتھ اس ذلت کے داغ کو مٹایا جو ان کی پیشانی پر اپنے باپ دادا کے افعال کی وجہ سے لگ گیا تھا۔ پس فرماتاہے کہ وہ بے شک اپنی مجلس کے آدمیوں کو بلایں ہم بھی اپنی پولیس کے آدمیوں کو بلائیں گے اور ان سے چوروں اور ڈاکوئوں والا سلوک کریں گے۔
کلا لا تطعہ واسجد واقترب O
یوں نہیں (ہوگا جس طرح دشمن چاہتا ہے) (ا ے نبی اور اس کے متبع) تو اس (کافر) کی اطاعت نہ کر اور اپنے رب کے حضور میں (ضرور) سجدہ کر اور اس سجدہ کے نتیجہ میں اپنے رب کے قریب تر ہوجا۔
تفسیر: کلا لا تطعہ ۔ یعنی خبردار جس طرح تو خیال کرتا ہے اس طرح نہیں ہوگا۔ اے محمد رسول اللہ ﷺ کوماننے والے تو دشمن کی بات نہ مانیو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت سے کبھی نہ رکیو بلکہ واسجد یہ لوگ تجھے جتنا زیادہ روکیں تو اتنے ہی زیادہ زور کے ساتھ ہمارے حضور سجد میں گرجا۔ نتیجہ کیا ہوگا تو سجدہ میں جائے گا تو یہ تجھے ماریں گے مگر اس کے نتیجہ میں تو خداتعالیٰ کے اور بھی زیادہ قریب ہوجائے گا۔
ایک سجدہ وہ ہوتا ہے جو امن کی حالت میں کیا جاتا ہے اور ایک سجدہ وہ ہوتا ہے جو لڑائی اور بدامنی کی حالت میں کیاجاتا ہے۔ وہ سجدہ جو ایسی حالت میں کیا جائے جب انسان کو عبادت سے روکا جاتا ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہونے کی وجہ سے قسم قسم کے مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہو وہ سجدہ انسان کو آناً فاناً کہیں کاکہیں پہنچادیتا ہے۔ ایک سجدہ وہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے گھر میں اطمینان سے بیٹھا ہوتا ہے، اٹھتا ہے وضو کرتا ہے اور مصلے پر کھڑا ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گرجاتاہے۔ لیکن ایک سجدہ وہ ہوتا ہے جب محض سجدہ کی وجہ سے انسان کومارا پیٹا جاتا ہے یہ سجدہ اللہ تعالیٰ کے حضور جو قدر و قیمت رکھتا ہے وہ سجدہ نہیں رکھتا جو امن کی حالت میں کیا جاتا ہے۔
آج سے سوسال پہلے بھی اسلام کی تبلیغ کرنے والے مسلمان دنیا میں موجود تھے۔ آج سے سو سال پہلے بھی اسلام کیلئے روپیہ خرچ کرنے والے لوگ دنیا میں موجود تھے۔ آج سے سو سال پہلے بھی اسلام کے ہمدرد دنیا میں موجود تھے مگر ان کی تو تعریف کی جاتی تھی اور ہماری مذمت کی جاتی ہے۔ ان کے متعلق تو یہ کہا جاتا تھا کہ یہ لوگ اسلام کے بڑے ہمدرد ہیں۔ مگر ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہم اسلام کے بہت بڑے دشمن ہیں حالانکہ ہمارا جرم کیا ہے؟ ہماری جمااعت کے لوگ وہ ہیں جو اشاعت اسلام کیلئے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر روپیہ بھجواتے ہیں۔ خدائے واحد کا نام بلند کرنے کیلئے آٹھ آٹھ دس دس سال تک ممالک غیر میں اپنے بیوی بچوں سے جدا رہتے ہیں۔ جہاں بھی اسلام ااور کفر کا ٹکرائو ہو وہاں ایک بہادر پہلوان کی طرح پہنچ کر کفر کے مقابلہ میں اپنا سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، حج بھی کرتے ہیں، زکوٰۃ بھی دیتے ہیں، قرآن بھی پڑھتے ہیں، کلمۂ طیبہ پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اسلام کے ہر حکم پر بدل و جان عمل کرنا جزو ایمان سمجھتے ہیں۔ مگر ہمیں تو گالیاں دی جاتی ہیں اور پہلے لوگوں کی تعریفیں کی جاتی ہیں حالانکہ ان کا کام ہمارے کام کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا۔
غرض جس قسم کی قربانی پر پہلے تعریفیں ہوتی تھیں اسی قسم کی قربانی پر آج ہمیں ماریں پڑتی ہیں۔ اسی طرح محمد رسول اللہ و اور آپ کے ساتھیوں کے سجدے اور بعدمیں آنے والے مسلمانوں کے سجدے میں فرق ہے۔ بعد میں سجدہ کرنے والے وہ تھے جن کی چاروں طرف سے تعریفیں ہوتی تھیں اور کہا جاتا کہ دیکھو فلاں شخص کتنا بزرگ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی کتنے سوز و گداز کے ساتھ عبادت کرتا ہے۔ مگر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اس سجدہ کی کیا قیمت تھی۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے جس کا تاریخ میں ذکر آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺسجدہ میں پڑے ہوئے تھے کہ کفار مکہ اونٹ کی ایک بڑی سی اوجھری اٹھالائے اور آپ کے سر پر پھینک کر ہنسنے لگ گئے۔ اس کا بوجھ اس قدر زیادہ تھا کہ آپ سجدہ میں سے اپنا سر نہ اٹھاسکتے تھے۔ آخر حضرت فاطمہؓ کو کسی طرح اس بات کا علم ہوگیا وہ اس وقت چھوٹی بچی تھیں دوڑتی ہوئی آئیں اور انہوں نے وہ غلاظت رسول کریم ﷺ کے جسم پر سے دور کی۔ یہ سجدہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں جو قدر و قیمت رکھتا ہے وہ دوسرے سجدے کہاں رکھ سکتے ہیں۔ ایسا ایک سجدہ بھی خداتعالیٰ کے قرب کی انتہائی منازل انسان کو اک آن میں طے کرادیتا ہے جبکہ امن کے زمانہ کے ہزاروں ہزار سجدے بھی انسان کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے دروازہ تک نہیں پہنچاتے۔ پس فرمایا لاتطعہ اے محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھی! تو ان لوگوں کی بات من مان ۔ یہ تجھے عبادت سے جتنا زیادہ روکیں تو اتنے ہی زور کے ساتھ ہمارے حضور سجدہ میں گرجا کیونکہ اس روک کے باوجود تیری طرف سے جو سجدہ ہوگا وہ تجھے سیدھا اللہ تعالیٰ تک پہنچادے گا۔
…………………………………

سورۃ القارعۃ مکیۃ
سورۃ القارعہ یہ مکی سورت ہے
وھی اھدے عشرۃ ایۃ دون البسملۃ وفیھا رکوع واحد
اور اس کی بسم اللہ کے سوا گیارہ آیات ہیں اور ایک رکوع ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(میں ) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں)
القارعۃ O ماالقارعۃ O وما ادرک ماالقارعۃ O
(دنیاپر) ایک شدید مصیبت (آنے والی ہے) وہ مصیبت کس قدر عظیم ہے ۔ اور (اے مخاطب) تجھے کیا معلوم ہے کہ یہ (عظیم الشان) مصیبت کیاہے۔
سورۃ القارعہ بالاتفاق مکی سورتوں میں سے ہے ۔ مستشرقین یورپ بھی اس کے مکی ہونے کے متعلق متفق ہیں۔ جرمن مستشرق نولڈکے اور سرمیور نے اسے ابتدائی مکی سورتوں میں سے قرار دیا ہے۔
ترتیب سورۃ: یہ سورۃ بھی پچھلی ترتیب کے لحاظ سے اس طرح پر آتی ہے کہ سورۃ العادیات میں تو رسول کریم ﷺ کی وہ ترقی اور کامیابی بیان کی گئی تھی جو ابتدائی زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتی تھی اور اب القارعہ میں اس آخری دور کے متعلق آپ کے سلسلہ کی ترقی کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ پھر اسلام کیلئے مصیبت اور تکالیف کے دن ہوں گے۔
حل لغات: القارعۃ:ـ قرع سے اسم فاعل مؤنث کا صیغہ ہے اور قرع (یقرع قرعا) الباب کے معنے ہیں دقہ۔ دروازہ پر دستک دی اور قرع الشیء کے معنے ہوتے ہیں ضربہ کسی چیز کو مارا اور قرع صفاتہ کے معنے ہوتے ہیں تنقصہ و عابہ اس کی صفات کی تنقیص کی اور اس پر عیب لگایا اور قرع زیدا امرا کے معنے ہوتے ہیں اتاہ فجأۃ اچانک کوئی معاملہ اسے پیش آگیا اور قرع السھم القرطاس کے معتے ہوتے ہیں اصابہ ہدف پر تیر لگ گیا (اقرب)۔
گزشتہ مفسرین نے قارعۃ کے معنے قیامت کے کئے ہیں اور چونکہ قرع کے ایک معنے شدید آواز کے بھی ہیں گو عام لغت کی کتب میں یہ معنے نہیں نکلے مگر تفاسیر میں قرع کے معنے شدید آواز کے بھی بتائے گئے ہیں۔ اس وجہ سے بعض مفسرین نے قارعۃ کے معنے یہ بھی کئے ہیں کہ اس سے مراد اسرافیل کی وہ گرج ہے جو قیامت کے قریب ہوگی اور جس سے سب لوگ مر جائیں گے (فتح البیان سورۃ القارعہ)۔
قرع کے معنے تو اوپر بیان ہوچکے ہیں۔ لیکن القارعۃ کی شکل میں اس لفظ کے کچھ الگ معنے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ القارعۃ کے ایک معنے قیامت کے بھی کئے گئے ہیں کیونکہ وہ مختلف قسم کے صدمات اور تخویف کے سامان اپنے ساتھ لائے گی۔ اسی طرح اس کے ایک معنے الداہیۃ کے بھی ہیں یعنی اچانک آنے والی کوئی عظیم الشان مصیبت اور القارعۃ کے معنے النکبۃ المھلکۃ کے بھی ہیں یعنی ہلاک کردینے والی مصیبت اور القارعۃ رسول کریم ﷺکے چھوٹے چھوٹے لشکروں کو بھی کہتے ہیں جن کو اصطلاحاً سرایا کہا جاتا ہے۔ عام اصطلاح میں تو سریہ اس کو کہتے ہیں جن میں رسول کریم ﷺ شامل نہ ہوں مگر اس کے اصل معنے چھوٹے چھوٹے لشکروں کے ہیں (اقرب)۔
تفسیرـ: قرآن کریم میں قارعۃ کا لفظ تین موقعوں پر آیاہے (۱) سورئہ رعد (۲) سورۃ الحاقہ (۳) زیر تفسیر آیت۔ سورئہ رعد رکوع ۴ میں آتا ہے ولا یزال الذین کفرا تصیبھم بماصنعوا قارعۃ او تحل قریبا من دارھم حتی یاتی وعداللہ ان اللہ لا یخلف المیعاد (الرعد: ۴ع ۱۰) ۔ یعنی کفار کی حالت برابر اس طرح رہے گی کہ ان کے اعمال کی وجہ سے یعنی ان تکالیف اور تعذیب کے ایک لمبے سلسلہ کی وجہ سے جو مسلمانوں کو مٹانے کیلئے انہوں نے جاری کیا ہوا ہے۔ یکے بعد دیگرے ان کے اوپر لشکرحملہ آور رہیں گے اوراس طرح ان پر ضرب پر ضرب پڑے گی او تحل قریبا من دارھم یا پھر اسلامی لشکر ایک دن ان کے گھروں کے پاس آکر اترے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ آجائے گا یعنی کفار کی شکست اور اسلام کی فتح کا دن۔ پھر فرماتا ہے ان اللہ لا یخلف المیعاد۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اس جگہ قارعہ سے مراد وہ لشکر ہیں جو متواتر ادھر اُدھر دشمنانِ اسلام پر حملہ آور ہوتے رہے۔ ان لشکروں کے ذکر سے چونکہ یہ شبہ پیدا ہوتا تھا کہ شاید اسلام نے جارحانہ حملے کئے ہیں اس لئے جہاں اس آیت میں غزواتِ اسلامیہ کے متعلق مخفی پیشگوئی فرمائی گئی وہاں اس شبہ کا بھی ازالہ کردیا گیا۔ چنانچہ فرماتا ہے تصیبھم بما صنعوا یہ لشکر کشی کفار کے حملوں کا نتیجہ ہوگی مسلمانوں کی طرف سے ابتداء نہ ہوگی۔ ہاں جب مسلمان جواب دینا شروع کریں گے تو کفار کی شرات ایسی دب جائے گی کہ وہ روز بروز کمزور ہوتے جائیں گے اور اسلام بڑھتا جائے گا اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا یہاں تک کہ ایک دن اسلامی لشکر مکہ کے پاس جاکر اترے گا اور انہیں فتح حاصل ہوجائے گی۔
دوسری جگہ سورۃ الحاقہ میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کذبت ثمود و عاد بالقارعۃ فاما ثمود فاھلکوا بالطاغیۃ و اما عاد فاھلکوا بریح صرصر عاتیۃ (الحاقہ: ۱ع۵) اور عاد نے قارعہ کا انکار کیا فاما ثمود فاھلکوا بالطاغیۃ۔ پس ثمود تو ایک ایسے عذاب سے ہلاک کئے گئے جو انتہاء کو پہنچا ہوا تھا۔ واما عاد فاھلکوا بریح صرصر عاتیۃ اور عاد پر ایک شدید ہوا چلائی گئی۔ اس قدر شدید کہ اس سے ہیبت ناک آواز پیدا ہوتی تھی۔ اس ہوا نے ان کو ہلاک کردیا۔ یہاں دو الگ الگ قسم کے عذاب بیان کئے گئے ہیں اور دونوں کا نام قارعہ رکھا گیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ قارعہ کا لفظ الداھیۃ اور النکبۃ المھلکۃ کے معنوں میں آیا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ مضمون بیان فرماتا ہے کہ ثمود اور عاد دونوں قوموں کے نبیوں نے لوگوں سے کہا کہ تم ہمارا انکارنہ کرو۔ اگر تم انکارکرو گے تو مصائب میں مبتلا ہوجائو گے۔ مگر انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی اور انبیاء کی باتیں ماننے سے انکار کردیا۔ اس پر ان نبیوں نے خبر دی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر عذاب آئے گا اور تم تباہ کردیئے جائو گے۔ بجائے اس کے کہ وہ اس سے نصیحت حاصل کرتے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے وہ اور بھی ہنسی مذاق کرنے لگے۔
آخر ثمود پر تو اللہ تعالیٰ نے ایک زلزلہ عظیمہ بھیجا جس سے وہ تباہ ہوگئے اور عاد پر ایک شدید ہوا چلائی گئی جس نے ان کو تباہ کردیا۔ چنانچہ اب تک آثار قدیمہ والے جب ان علاقوں کی زمینیں کھودتے ہیں تو ریت کے تودوں کے نیچے سے بڑے بڑے شہر نکل آتے ہیں۔
آیت زیر تفسیر میں بھی قارعۃ کا لفظ النکبۃ المھلکۃ کے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے یعنی ایسی مصیبت جو ہلاک کردینے والی ہو۔
اوپر کی تمام آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ القارعۃ وہ عذاب ہے جو کسی نبی کی صداقت کے اظہار کیلئے آئے خواہ وہ اس کے یا اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں سے ظاہر ہو۔ جیسے سورئہ رعد میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ولا یزال الذین کفروا تصیبھم بما صنعوا قارعۃ۔ یہ قارعہ خود رسول کریم ﷺ کے بھیجے ہوئے اور آپ کے ہی تیار کردہ ہوتے تھے۔ اور خواہ یہ بلاواسطہ الٰہی فعل سے ظاہر ہو۔ جیسا کہ سورۃ الحاقہ سے پتہ چلتاہے کہ ثمود پر زلزلہ آیا اور وہ ہلاک ہوگئے۔ یہ ایک بلاواسطہ الٰہی فعل تھا کسی انسان کا اس میں دخل نہیں تھا یا عاد پر ہوا چلی اور وہ ہلاک ہوگئے۔ یہ بھی ایک بلاواسطہ الٰہی فعل تھا کیونکہ کوئی انسان یہ قدرت نہیں رکھتا کہ وہ ہوا چلا کر دوسروں کو ہلاک کرسکے۔ اور خواہ کسی ایسے الٰہی فعل سے ہو جس میں انسانوں کو واسطہ بنایا گیا ہو جیسا کہ میرے نزدیک اس سورۃ میں قارعہ سے ایسا عذاب ہی مراد ہے جو ہے تو الٰہی فعل کا نتیجہ مگر اس میں انسانوں کو بھی واسطہ بنالیا گیا ہے۔
قارعہ ایسے عذابوں کو اس لئے کہا جاتا ہے کہ قرع کے معنے دستک دینے کے اور ٹھکرانے کے ہوتے ہیں۔جب لوگ خداتعالیٰ کے مامور کی آواز نہیں سنتے اور روحانی طور پر سوئے رہتے ہیں تو خداتعالیٰ دستک دے کر جگانے کیلئے کچھ عذاب بھیجواتا ہے۔ ان دستکوں سے آخر وہ روحانی نیند سے بیدار ہوجاتے ہیں اور رسول کی آواز سننے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ پس قارعہ وہ عذا ب ہیں جو نبیوں کو منوانے کیلئے دنیا میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے القارعۃ دنیا میں ایک قارعہ آنے والی ہے۔ پھر فرماتا ہے ماالقارعۃ یہاں ما اظہار تفخیم کیلئے آیا ہے اورمراد یہ ہے کہ کیا ہی عظیم الشان وہ قارعہ ہے۔ جب انسان کسی چیز کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتا ہے تو کہتا ہے ’’کیابلا آگئی‘‘ یا ’’کیا مصیبت آگئی‘‘ اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ کسی سے اس بارہ میں پوچھتا ہے بلکہ اس جملہ سے اس کا مقصود مصیبت کی شدت کا بیان کرناہوتا ہے۔ اردو میں بھی محاورہ ہے کہ بعض دفعہ کسی چیز کی عظمت بیان کرنے کیلئے تکرار سے کام لیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے۔ مصیبت۔ کیا بتائوں کیسی مصیبت۔ بلا کیا بتائوں کیسی بلا۔ پس القارعۃ کے بعد ماالقارعۃ میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ مصیبت جس کا ہم ذکر کررہے ہیں معمولی نہیں بلکہ نہایت عظیم الشان ہوگی۔
خود قرع کا لفظ بھی عظیم الشان آواز اور عظیم الشان تباہی پر دلالت کرتا ہے ۔ لیکن ماالقارعۃ نے بتادیا کہ عذاب کی جس قدر شدت قارعہ کے لفظ سے ظاہر ہوتی ہے وہ قارعہ خود اس سے بھی زیادہ شدید عذاب ہے حتیٰ کہ انسان اس پر حیران ہوکر رہ جائے گا۔ اس جگہ بجائے ضمیر لانے کے اللہ تعالیٰ نے جو اسم کو دہرایا ہے یہ بھی اس عذاب کی عظمت کے اظہار کیلئے ہے ماالقارعۃ۔ میں بجائے ضمیر لانے کے اسم کو دہرانے میں حکمت یہ ہے کہ جب ضمیر آئے تو اصل لفظ اوجھل ہوجاتا ہے مثلاً کہتے ہیں جاء زید فقلت لہ زید میرے پاس آیا اور میں نے اسے کہا۔ اب یہ ظاہر ہے کہی زید کا لفظ جتنی حقیقت ظاہر کرتا ہے اتنی حقیقت ضمیر ظاہر نہیں کرتی۔ یہ کہنا کہ میں نے زید نے کہا اور یہ کہنا کہ میں نے اس سے کہا گو مفہوم کے لحاظ سے کوئی فرق پیدا نہ کرے مگر زید کا لفظ دہرانے سے جو اثر پڑتا ہے وہ محض ضمیر سے نہیں پڑتا۔ اس جگہ بھی القارعۃ کے بعد ماالقارعۃ میں بجائے ضمیر لانے کے اسم کو دہرادیا گیا ہے۔ جس سے اس کی عظمت کی طرف اشارہ کرنا مدنظر ہے اور اللہ تعالی نے یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ ایسی عظیم الشان چیز ہے کہ انسانی نظروں سے غائب ہی نہیں ہوسکتی۔ ضمیر جب بھی آئے گی غائب کیلئے ہی آئے گی۔ لیکن وہ مصیبت اتنی بڑی ہوگی کہ انسان یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ماھی اگر وہ ایسا کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ مگر ایسانہیں ہوگا۔ پس ماالقارعۃ نے یہ بتادیا کہ وہ بھولنے والی چیز نہیں ، نظروں سے اوجھل ہونے والی چیز نہیں اسی لئے ضمیر کی بجاء اصل لفظ دہرا کر اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم اسے بھولوگے نہیں وہ نہایت عظیم الشان مصیبت ہوگی۔ الغرض دو چیزوں سے اس قارعہ کی عظمت بیان کی گئی ہے۔ ایک ’’ما‘‘ سے اور ایک ضمیر کی بجائے دوبارہ اسی لفظ کو دہرانے سے ۔ اگر صرف ’’ما‘‘ کا لفظ آتا تب بھی اس قارعہ کی عظمت کا ثبوت ہوتا مگر ماالقارعۃ سے اس کی دوہری عظمت بیان کردی گئی ہے کہ انسان حیران ہوکر کہتا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا چیز ہے۔ دوسرے وہ اتنی عظیم الشان چیز ہوگی کہ اس کی ہیبت انسانی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگی۔ جیسے دنیا میں جب کوئی بڑی عظیم الشان مصیبت آتی ہے تو لوگ کہتے ہیں ہر وقت آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ پھرتا ہے۔ اسی طرح وہ مصیبت عظمیٰ اتنی شدید ہوگی کہ بھولے گی نہیں۔ ہر وقت لوگوں کی آنکھوں کے سامنے رہے گی۔
وما ادرک ماالقارعۃ کہہ کر اللہ تعالیٰ پھر تیسری بار اس کی عظمت کو بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ اتنا بڑا واقعہ ہوگا کہ اس کی حقیقت کا سمجھنا انسان کیلئے بالکل ناممکن ہے الفاظ میں اس کو ادا ہی نہیں کیا جاسکتا۔
یہ ویسا ہی بیان ہے جیسے حدیثوں میں جنت کے متعلق آتا ہے کہ لااعین رأت ولا اذن سمعت وما خطر بقلب بشر۔ نہ آنکھوںنے ایسا دیکھا ہے نہ کانوں نے سنا ہے ار نہ کسی انسان کے واہمہ نے اس کا نقشہ کھینچا ہے۔ اسی مضمون کی طرف قرآن کریم نے بھی ان الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین (السجدہ: ۲ع۱۵) یعنی جس کچھ جنت میں ملنے والا ہے کوئی شخص اس کا اندازہ ہی نہیں کرسکتا۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بڑی تفصیل کے ساتھ یہ ذکر آتا ہے کہ جنت میں نہریں ہوں گی، باغات ہوں گے، کھانے پینے کیلئے ہرقسم کی چیزیں ہوں گی لیکن پھر بھی جنت جنت ہی ہے۔ یہ الفاظ تو تقریب فہم کیلئے آئے ہیں تاکہ انسان کسی حد تک جنت کی نعما ء کا اندازہ لگا سکیں ورنہ اس کے یہ معنے ہیں کہ جنت میں بھی دنیا کا دودھ اور دنیا پانی اور دنیا کے انگور اور دنیا کیے انار اور دنیا کے کیلے ہوں گے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ نے یہ دیکھتے ہوئے کہ قرآن کریم میں جنت کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ ان سے یہ نتیجہ اخذ کرلیں کہ جنت میں بھی دنیا کی ہی چیزیں ہوں گی۔ سی قسم کی وہاں نہریں ہوں گی۔ اسی قسم کے باغات ہوں گے۔ اسی قسم کے پھل اور پھول ہوں گے گویا اسی دنیا کو اٹھا کر ایک دسرے ماحول میں رکھ دیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا تمہیں جنت کی نعماء کے متعلق کیا بتائوں لاعین رأت ولا اذن سمعت وما خطر بقلب بشر ۔ وہ نعمتیں ایسی ہیں کہ نہ آنکھوں نے ان کو دیکھا ہے اور نہ کانوں نے ان کو سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا گزر ہوا ہے۔ یعنی اگر تم قرآن کریم میں نعماء جنت کا ذکر دیکھتے ہو تو مت سمجھو کہ قرآن کریم کا ان نعماء سے وہی مطلب ہے جو تم سمجھتے ہو۔ یہ الفاظ تو صرف اس لئے لائے گئے ہیں تاکہ جس حد تک تم جنت کی نعماء کا اندازہ لگانے کے قابل ہو اس حد تک لگاسکو ورنہ جنت اصل میں ایک ایسی یز ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا نہیں اور نہ کسی کان نے اس کا ذکر سنا ہے یعنی اگر تمہیں کوئی شخص قرآن کریم کی آیتیں سناتا ہے اور بتاتاہے کہ جنت ایسی ہوگی یا پرانی کتابوں میں سے جنت کی حقیقت بیان کرتا ہے تو تم مت خیال کر وکہ چونکہ ہم نے جنت کی نعماء کا ذکر سن لیا ہے اس لئے ہم نے حقیقت کو پالیا۔ وہ نعمتیں ایسی ہیں کہ آج تک کسی آنکھ نے ان کو نہیں دیکھا اور نہ کوئی کان ان سے آشنا ہوا ہے۔ پھر یہیں تک بس نہیں بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کی آنکھ ایک چیز کو نہیں دیکھتی اس کے کان اصل حقیقت کو سننے سے قاصر رہتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے خیالات کی بلند پروازی میں اس چیز کی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے۔ کیونکہ حیالات کی پرواز اتنی زبردست ہوتی ہے کہ انسان بعض دفعہ سورج میں جاپہنچتاہے، چاند میں جا پہنچتا ہے اور جو بات بظاہر ناممکن ہوتی ہے وہ خیالات کی بلند پروازی سے ممکن ہوجاتی ہے مگر فرماتا ہے جنت کے معاملہ میں انسانی خیالات کی بلند پروازی بھی بالکل ہیچ ہے وما خطر بقلب بشر اگر کسی انسان نے اپنی قوتِ واہمہ کو آزاد کرکے جنت کا کوئی زیادہ سے زیادہ نقشہ کھینچا ہے تو وہ بھی غلط ہے۔ اس کی نعماء ایسی ہیں کہ انسان اپنے خیالات کی بلند پروازی کے بعد بھی ان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس طرح رسول کریم ﷺ نے تین فقروں میں جنت کی کیفیت بیان کردی ہے اسی رنگ میں قرآن کریم نے تین فقروں میں القارعۃ کی عظمت بیان کی ہے۔ پہلے صرف القارعۃ کہا جس کا الف لام اس کے کمال پر دلالت کرتاہے یعنی شدید آواز یا شدید مصیبت۔ الف لام کبھی کمال کے اظہار کیلئے آتا ہے یعنی یہ بتانے کیلئے کہ اس لفظ سے جو حقیقت ظاہر ہوتی ہے وہ اسم مسمی میں بکمال و تمام پائی جاتی ہے۔ اس جگہ الف لام اسی مضمون کو ادا کرتا ہے اورمراد یہ ہے کہ وہ بہت بڑی مصیبت ہوگی۔ پھر ماالقارعۃ کہہ کر دوسری دفعہ اس کی عظمت کا اظہار کیا اور وما ادرک ماالقارعۃ کہہ کر تیسری دفعہ بتایا کہ ابھی اس کی عظمت کا پورا ذکر نہیں ہوا۔ درحقیقت وہ اتنی بڑی شے ہے کہ کوئی شخص اس کی حقیقت کو صرف الفاظ سے سمجھ ہی نہیں سکتا اس لئے آج تم اس کی حقیقت کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔
یہ بات ظاہر ہے کہ جس چیز کی حقیقت کو انسان سمجھ نہیں سکتا یا جس کی عظمت کا اندازہ لگانے سے قاصر ہوتا ہے جب اس چیز کا ذکر کیا جائے تو لازماً یا تو تمثیل سے کام لینا پڑے گا یا پھر اس کے بعض نتائج بیان کردیئے جاتے ہیں۔ مثلاً کوئی بڑا عمدہ نظارہ ہو اور انسان اس کوایسے قویٰ سے دیکھو جو روحانی ہوں ظاہری قویٰ اس کو نہ دیکھ سکتے ہوں تو دوسروں کے سامنے جب وہ اس نظارہ کا ذکر کرنے لگے گا تمثیلات میں بیان کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن کبھی تمثیلات میں بیان کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن کبھی تمثیلات میں بیان کرنے کی بجائے اس چیز کے اثرات بیان کردئے جاتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا وجود مادی آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ آپ نے فرمایا نور انی اراہ اللہ تعالیٰ تو ایک نور ہے اسے میں کس طرح دیکھ سکتا ہوں۔ جہاں تک مادی آنکھوں یا جسمانی قویٰ سے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا سوال ہے یہ ایک یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو نظر نہیں آسکتا ۔ لیکن دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رویت باری تعالیٰ کا مسئلہ درست ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو نظر بھی آ جاتا ہے۔ لیکن بہر حال وہ اسی طرح نظر آتا ہے کہ یا تو انسان اس کی صفات سے رویت کرتا ہے اور یا کسی تمثیلی نظارہ میں اللہ تعالیٰ کے وجود کو دیکھ لیتا ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میںنے خدا تعالیٰ کو ایک نوجوان کی صورت میں دیکھا ہے۔ پس ایک صورت تو یہ ہوتی ہے کہ تمثیلی رنگ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا جائے اور دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ صفات الٰہیہ پر غور کرتے ہوئے اس کی رویت کی جائے۔ جب ہم صفت رب پر غور کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کا وجود ہمارے قریب ہو جاتا ہے۔ جب ہم صفت رحمانیت پر غور کرتے ہیں تو اس کا وجود ہمارے اور زیادہ قریب ہو جاتا ہے ۔ جب ہم صفت رحیمیت پر غور کرتے ہیں تو وہ اور زیادہ قریب آجاتا ہے ۔ اسی طرح جب ہم اس کی مالکیت پر غور کوتے ہیں تو وہ اور زیادہ قریب آجاتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے ذریعہ انسان کو نظر آجاتا ہے مگر صفات بھی اپنی ذات میں نظر نہیں آتیں بلکہ نتیجہ سے نظر آتی ہیں ۔ جب ہم دنیا میں ربوبیت کے مختلف نظارے دیکھتے ہیں تو ایک رب خدا ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ۔ جب ہم دنیا میں رحمانیت کے نظارے دیکھتے ہیں تو ایک رحمٰن خدا ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ۔ جب ہم دنیا میں رحیمیت کے نظارے دیکھتے ہیں تو ایک رحیم خدا ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ۔ جب ہم دنیا میں اس کی مالکیت کے نظارے دیکھتے ہیں تو مالک یوم الدین خدا کا ایک ناقص تصور ہمارے ذہن میں آجاتا ہے ۔ یہ خدا تعالیٰ کی روئت ہے جو مومنوں کو نصیب ہوتی ہے پھر اس سے اوپر کوئی انسان ترقی کرتا ہے تو اللہ توالیٰ کے انوار اس کے قلب پر نازل ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور اس کے اندر نازل ہونے نئی طاقتیں ، نیا جوش، نئی محبت اور نئی روحانی قوتیں پیدا کر دی جاتی ہیں ۔ پھر اور ترقی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا کلام اس پر نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے اسطرح درجہ بدرجہ وہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور ایک روئت سے دوسری رویت کا مقام حاصل کرتا جاتا ہے مگر بہر حال وہ جتنا بھی جائے آخر رسول کریم ﷺ کا مقام تو اسے حاصل نہیں ہو سکتا جب رسول کریم ﷺ یہ فرماتے ہیں نور انی اراہ تو اور کون ہے جو کسی روحانی مقام پر پہنچ کر یہ دعویٰ کرسکے کہ میں نے خدا تعالیٰ کو دیکھ لیا ہے وہ جو کچھ بھی دیکھے گا خدا تعالیٰ کی ایک تجلی ہوگی جو اس کے اپنے مقام کے مطابق اس پر ظاہر ہو گی ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر خدا تعالیٰ کی تجلی اس رنگ میں ظاہر ہوئی کہ روح القدس آپ پر کبوتر کی شکل میں نازل ہوا اور اس نے خدا تعالیٰ کا پیغام آپ کو پہنچایا۔بعض اور انبیاء ایسے ہیںجن پر یہ تجلی کسی اور رنگ میں ہوئی ۔کسی کو خدا تعالی نار میں نظر آگیا ۔کسی کو کامل انسان میں نظر آگیا۔کسی کو صفات الٰہیہ کے ظہور کی صورت میں نظر آگیا اور کسی کے قلب پر اس کا پر تو پڑ گیا۔بہرحال وہ اتنا ہی نظر آئے گا جتنا کسی کا قلب آسمانی انوار سے حصہ رکھتا ہو گا اور تمثیل پر ہی ہر صورت میں کفایت کرنی پڑے گی ۔غرض ہر ایسی چیز جس کی حقیقت کا سمجھنا انسان کے لئے ناممکن ہو اسے صرف اسی رنگ میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اس کے نتائج بیان کر دیے جائیںیا تمثیلی رنگ میں اس کا نقشہ کھینچ دیا جائے اس لئے پہلے یہ بتا کر کہ اس قارعہ کی حقیقت قبل از وقوع تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتی اللہ تعالی اس قرعہ کے نتائج بیان کر کے اسے قریب الفہم بناتا ہے اورفرماتا ہے وما ادراک ما ا لقارعۃ کونسی چیز تجھے بتا سکتی ہے کہ یہ قارعہ کیا ہے یعنی تمھاری قوت واہمہ ایسی نہیں کہ ہمارے یان سے تم اس کی حقیقت کو سمجھ سکو اس لئے ہم اس کے کچھ نتائج بیان کر دیتے ہیںتا تم کچھ اس کی عظمت وہیبت کا اندازہ کر سکو۔
یوم یکون ا لناس کا لفراش ا لمبثوثO
(یہ مصیبت جب آئے گی)اس وقت لوگ پراگندہ پروانوںکی طرح(حیران پھررہے)ہونگے
حل لغات: فراش اپنی ذات میں ایک علیحدہ لفظ بھی ہے اور فراشۃ کی جمع بھی ہے فراشۃکی جمع ہونے کی صورت میں فراش ان پروانوں کو کہا جاتا ہے جورات کو لیمپ کی روشنی میں اکھٹے ہو جاتے ہیں چنانچہ لغت میں لکھا ہے حیوان ذوجنا حین یطیر ویتھافت علی ا لسراج فیحترق۔یعنی فراشہ اس کیڑے کو کہا جاتا ہے جو لیمپ روشن ہونے پربے تحاشا اسکی طرف دوڑتا اور جل کر مر جاتا ہے اورفراشکے معنیغوغاء ا لجرادکے بھی ہوتے ہیں (اقرب )یعنی جب ٹڈی دل آتا ہے تو اسسے فضا میں جوشور کی آواز پیدا ہوتی ہے اس کو بھی فراشکہتے ہیں چونکہ ٹڈی جب آتی ہے تو لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں آتی ہے اور اس کے آنے سے بھنبھنا ہٹ کی آ واز پیدا ہوتی ہے۔بعض مفسرین نے جوائمہ لغت میں سے ہیں انہوں نے فراشکوٹڈ ی کے معنوں میں بھی لیا ہے۔
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ فراشۃ کی جمع ہونے کے علاوہ فراش اپنی ذات میں ایک علیحدہ لفظ بھی ہے۔ چنانچہ لغت میں اس کے معنے یہ لکے ہیں کہ ما یبس بعد الماء من الطین علی الارض آسمان سے پانی برسنے کے کچھ عرصہ بعد زمین پر جو پپڑیاں جم جاتی ہیں ان کو بھی فراش کہتے ہیں (اقرب)۔ اور فراش ان بلبلوں کو بھی کہتے ہیں جونبیذ پرآجاتے ہیں۔ منقیٰ کوجب پانی میں بھگویا جائے تو تھوڑی دیر کے بعد کچھ بلبلے اٹھے شروع ہوجاتے ہیں۔ دراصل جس قدر شکر والی چیزیں ہیں ان کے اندر ایک خاص مادہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اگر ان کوپانی میں بھگویا جائے تو جھاگ وغیرہ پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے۔ چنانچہ گڑ میں سے گنے کی رس میں سے، کھجور کی رس میں سے، منقیٰ میں سے کچھ عرصہ کے بعد بلبلے پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ جس وقت یہ بلبل اٹھ اٹھ کر پانی کی سطح پر پھیل جاتے ہیں تو ان کو فراش کہتے ہیں (اقرب)۔
المبثوث: بث سے اسم مفعول کا صیغہ ہے اور بث الخیر (بثا وبثثہ و ابثہ) کے معنے ہوتے ہیں نشرہ و اذاعہ۔ خیر کو پھیلایا (اقرب)۔ یعنی لوگوں میں نیکی پھیلائی یا صدقہ و خیرات کا عام چرچا کیا اور بث الغبار کے معنے ہوتے ہیں ہیجہ غبار کو زمین میں سے اٹھایا (اقرب)۔ جیسے قرآن کریم میں ھباء منبثا (الواقعہ: ع۱) زمین میں سے غبار اٹھانے کے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے۔ و فی معنی نشرہ و اذاعہ ’’بثو الخیل فی الاغارۃ‘‘۔ اور یہ جو بث کا لفظ نشر واذاعۃ کے معنوں میں آیا ہے اسی کو وسیع کرکے لغت میں کہتے ہیں بثوالخیل فی الغارۃ انہوں نے حملہ کیا تو گھوڑے دوڑا کر لے گئے یا بث کلابہ علی الصید شکار کے پیچھے کتے ڈال دئے۔ اسی طرح کہتے ہیں خلق اللہ الخلق فبثھم فی الارض۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی پھر اسے پھیلادیا (اقرب)۔ گویا بث کے معنے پھیلادینے، دوڑانے یا دور تک لے جانے کے ہوئے۔
تفسیر: ان تمام معانی کوملحوظ رکھتے ہوئے جو لغت نے بیان کئے ہیں یوم یکون الناس کالفراش المبثوث کے ایک معنے تو یہ ہوں گے کہ جیسے پراگندہ پروانے ہوتے ہیں ویسی ہی لوگوں کی کیفیت ہوگی۔ پروانے کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو وہ جب وہ لیمپ کے سامنے ہو ۔ اور ایک ہو حالت ہوتی ہے جم لیمپ سے علیحدہ ہو ۔جب روشنی سامنے ہو تو سارے پروانے روشنی کی طرف جاتے ہیں لیکن اگر لیمپ کو اٹھا لو اور اندھیرا کر دو تو کوئی ٹڈا اس کونے کی طرف جا رہا ہوتا ہے اور کوئی اس کونے کی طرف۔سب منتشر اور پراگندہ ہو جاتے ہیںاور اگر برسات کا موسم ہو تو چھوٹے چھوٹے پروانے ہی نہیںبڑے بڑے ٹڈے بھی لیمپ کی طرف جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ علم ا لحیوانات کے ماہرین یہ بتا تے ہیں کی پروانوں کی اصل جگہ زمین کے اندر ہوتی ہے جب بارش برستی ہے تو ان کے دلوں میں امنگ پیدا ہوتی ہے کہ ہم باہر نکلیں۔چنانچہ باہر نکلنے کی امنگ میں ہی وہ زمین سے باہر آتے ہیں اور جب لیمپ کو چلتا دیکھتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ یہ کوئی اور سوراخ ہے جس سے پرے کوئی اور عالم ہے وہ جوش کی حالت میں لیمپ پر کودتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ابھی ہمارے لئے آزادی کا مقام باقی ہے۔ بہرحال کوئی بھی وجہ ہو یہ امر ظاہر ہے کہ جب لیمپ روشن ہو تو پروانے اس کے اردگرد جمع ہوجاتے ہیں اور جب لیمپ بجھادو تو وہ پراگندہ ہوجاتے ہیں۔ پس یوم یکون الناس کالفراش المبثوث کے یہ معنے ہوئے کہ اس وقت لوگ اس حال میں ہوں گے جیسے پراگندہ پروانے ہوتے ہیں جن کو روشنی نظر نہیں آتی اور وہ ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے ہیں گویا لوگوں کی حالت بالکل ایسی ہوگی جیسے بغیر لیمپ کے پروانوں کی حالت ہوتی ہے۔ انہیں کوئی روشنی نظر نہیں آئے گی۔ کوئی جہت ایسی دکھائی نہیں دے گی جو ان کیلئے بچائو کا موجب ہوسکے۔ وہ حیران ہوں گے کہ ہم کہاں جائیں ، کدھرجائیں اور اپنے بچائو کی کیا صورت اختیار کریں۔ گویا ان کی بے بسی اپنے کمال کوپہنچی ہوگی۔
چونکہ فراش کے ایک معنے ٹڈیوں کے بھی ہیں اس لئے کالفراش المبثوث کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ ان کی حالت ان ٹڈیوں کی طرح ہوگی جو پراگندہ کردی جاتی ہیں۔ القارعۃ پر بحث کرتے ہوئے میں نے بتایا تھا کہ ائمہ لغت جو تفسیر کی طرف مائل ہیں ان کے نزدیک قرع کا لفظ شدید آواز پر بھی دلالت کرتا ہے اور میں نے ان معنوں پر زیادہ زور دیا تھا کیونکہ یہ معنے اگلی آیات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دن انسان ان ٹڈیوں کی طرح ہوجائیں گے جو پراگندہ کردی جاتی ہیں اور ٹڈیوں کو ڈرانے اور منتشر کرنے کیلئے سب سے بڑی چیز جس سے کام لیا جاتا ہے وہ آواز ہی ہے۔ جب ٹڈی آتی ہے تو لوگ خالی پیپے لے کر انہیں ڈھم ڈھم بجانا شروع کردیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ٹڈی آواز سے ہی منتشر کی جاسکتی ہے کسی اور چیز سے نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ٹڈی کی نظر تیز نہیں ہوتی لیکن اس کے کان بہت تیز ہوتے ہیں اس لئے ٹڈی کو ڈرانے کیلئے شدید آواز پیدا کی جاتی ہے۔ جب تیز آواز پیدا ہو تو ٹڈی بے تحاشا اڑنے لگتی ہے ۔ شہروں اور دیہات دونوں میں یہ دستور ہے کہ جب ٹڈی کھیتوں پر آکر گرتی اور فصلیں تباہ کرنے لگتی ہے تو بے تحاشا ڈھول اور پیپے بجائے جاتے ہیں۔ اسی طرح گورنمنٹ کی طرف سے یہ انتظام کیا جاتا ہے کہ جہاں ٹڈی دل گرا ہو اس کے آگے کچھ دو پر بڑی بڑی کھائیاں کھودی جاتی ہیں اور مزدور اپنے ہاتھ میں ٹوکریاں اور کھدالیں لے کر وہاں کھڑے رہتے ہیں۔ پھر ڈھول وغیرہ بجا کر ٹڈی کو اڑایا جاتا ہے۔ چونکہ چھوٹی ٹڈی زیادہ نہیں اڑ سکتی وہ آواز سے ڈکر کر اڑتی اور کھائیوں میں گرجاتی ہے اس وقت ڈھول بجانے بند کردیئے جاتے ہیں اور مزدور جو ٹوکریاں اور کدالیں لئے وہاں کھڑے ہوتے ہیں فوراً ان کے اوپر مٹی ڈال دیتے ہیں۔ اسی طرح آج کل بموں کے ذریعہ ٹڈی دل کو منتشر کیا جاتا ہے ۔ جہاں ٹڈی آئے وہاں بم گرا کر ایک ہیبت ناک آواز پید اکی جاتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ٹڈیاں اڑتی ہیں اور سامنے کی خندقوں میں گرجاتی ہیں جہاں انہیں دفن کردیا جاتاہے۔ بہرحال ٹڈی جہاں نقصان پہنچانے کیلئے آئی ہوئی ہو وہاں ڈھول کے ذریعہ یا پیپوں کے ذریعہ یا بموں کے زریعہ آواز پیدا کی جاتی ہے جس سے ڈر کر ٹڈی اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے۔ پس یوم یکون الناس کالفراش المبثوث کے یہ معنے ہوئے کہ اس وقت ایک شدید آواز پید اکی جائے گی جو ایسی ہیبت ناک ہوگی کہ جس طرح ٹڈیاں جب ان کو منتشر کرنے کیلئے ڈھول بجائے جاتے یا پیپے بجائے جاتے یا بم گرائے جاتے ہیں تو وہ ڈر کر اپنے اس حملہ کو جو انہوں نے کھیتوں پر یا درختوں یا سبزہ پر کیا ہوتا ہے بھول جاتی ہیں اور اپنے اجتماع کی جگہوںکو چھوڑ دیتی ہیں۔ اسی طرح جب وہ قارعہ آئے گی تو لوگ لشکروں کی صورت میں یا اجتماعی صورت کو چھوڑ کر ادھر ادھر دوڑنے لگیں گے اور سمجھیں گے کہ آج ہمارے لئے بھاگنے کے سوا نجات کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔
پھر فراش کے ایک معنے ما یبس بعد الماء من الطین علی الارض کے بھی ہیں۔ یعنی بارش برسنے کے بعد زمین پر جو پپڑیاں جم جاتی ہیں ان کو بھی فراش کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ بتایا جاچکا ہے کہ مبثوث کے ایک معنے غبار اڑانے کے بھی ہیں کیونکہ جب بث الغبار کہا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں ھبجہ غبار کو زمین پر سے اٹھایا۔ ان معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے یوم یکون الناس کالفراش المبثوث کے یہ معنے ہوں گے کہ جس طرح پانی گرتا ہے تو بعد میں پپڑیاں جم جاتی ہیں مگر پپڑی کوئی مضبوط چیز نہیں ہوتی بظاہر وہ سخت نظر آتی ہے مگر چونکہ اس کا حجم بہت معمولی ہوتا ہے اس لئے جب اس پر گھوڑا دوڑایا جائے تو وہ ٹوٹ پھوٹ کر غبار کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ اسی طرح جب وہ قارعہ آئے گی تو لوگ اس طرح اڑ جائیں گے جس طرح غبار اڑجاتا ہے۔
اسی طرح یوم یکون الناس کالفراش المبثوث کے ایک یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ جس طرح پروانہ ایک ہلکاپھلکا سا وجود ہے اسی طرح وہ اس چوٹ سے اس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوکر ہوا میں اڑجائیں گے کہ یوں معلوم ہوگا کہ وہ پتنگے ہیں جو ہوا میں اڑ رہے ہیں ۔ یعنی وہ قارعہ ایسی ہوگی کہ جب گرے گی چلتے پھرتے خوبصورت انسان ریزہ ریزہ ہوکر ہوا میں اس طرح اڑ جائیں گے کہ پتہ بھی نہیں لگے گا کہ وہ کہاں گئے۔ ان کی شکل انسانوں کی سی نہیں رہے گی۔ یوں معلوم ہوگا کہ وہ چھوٹے چھوٹے پروانے ہیں جو ہوا میں اڑ رہے ہیں۔
و تکون الجبال کالھن المنفوش O
اور پہاڑ اس پشم کی مانند ہوجائیں گے جو دھنکی ہوئی ہوتی ہے۔
حل لغات: العھن: الصوف اوالمصبوغ الوانا۔ عھن کے معنے صوف کے بھی ہوتے ہیں اور عھن کے معنے کئی رنگوں میں رنگی ہوئی اون کے بھی کئے جاتے ہیں (اقرب)۔
منفوش ۔ دھنکی ہوئی روئی یا پراگندہ کی ہوئی اون کو کہا جاتاہے۔ چونکہ اون جڑی ہوئی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک بننے کے کام نہیں آسکتی جب تک اس کے بال بال الگ نہ کئے جائیں۔ اس لئے عورتوں کا طریق ہے کہ وہ بیٹھ جاتی ہیں اور انگلیوں سے اون کے بالوں کو نوچ نوچ کر الگ کرتی ہیں یہاں تک کہ وہ بالکل ہلکی پھلکی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ لسان العرب میں لکھا ہے مدہ حتی یتجرف اون کو کھینچ کھینچ کر اس میں جوف پید اکردیاگیا اور اقرب میں لکھاہے نفش القطن والصوف نفشا: شعثہ بالاصابع حتی ینتشر۔ اس نے انگلیوں کے ساتھ روئی یا اون کو پراگندہ کیا یہاں تک کہ وہ پھیل گئی۔ پس و تکون الجبال کالعھن المنفوش کے معنے یہ ہوئے کہ پہاڑ اس دن اس پشم کی مانند ہوجائیں گے جو دھنکی ہوئی ہو۔
تفسیر: اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے عذاب کی کیفیت بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ عذاب ایسا شدید ہوگا کہ اس طرف انسانوں پر اس کایہ اثر ہوگا کہ اگر وہ لشکر کی صورت میں ہوں گے تو پراگندہ ہوجائیں گے اور سمجھیں گے کہ اجتماع کی صورت ہمارے لئے خطرناک ہے اور اگر وہ شہروں میں بستے ہوں گے تو اس عذاب کی وجہ سے وہ شہروں میں نہیں رہیں گے بلکہ گھروں سے نکل کر جنگلوں میں بھاگ جائیں گے اور سمجھیں گے کہ ہمارے لئے نجات کی اب کوئی صورت نہیں سوائے ا سکے کہ ہم منتشر اور پراگندہ ہوجائیں۔ دوسری طرف مصیبت کے لحاظ سے یہ اتنی خطرناک ہوگی کہ لوگ اندھے ہوجائیں گے جس طرح اندھیرے میں پروانے بھاگتے ہیں تو ان کو کوئی رستہ نہیں ملتا۔ وہ ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے ہیں اسی طرح ان کو کوئی راستہ نظر نہیں آئے گا اور وہ مارے مارے پھریں گے اور یا پھر یہ حملہ اتنی شدت کا ہوگاکہ انسانوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ گویا اول تو پراگندہ ہوجائیں گے لیکن اگر وہ پراگندہ نہ ہوئے اور لشکر کی صورت میں کسی مقام پرجمع ہوئے یا شہروں کو چھوڑ کر جنگلوں میں نہ بھاگے تو یہ عذاب ایسا شدید ہوگا کہ ان کی بوٹیاں تک ہوا میں اڑ جائیں گی ا ور یوں معلوم ہوگا کہ پتنگے ادھر ادھر اڑ رہے ہیں۔ پھر کچھ لوگ پہاڑوں کی طرف بھاگیں گے کہ شاید ہمیں وہاں امن مل سکے۔ مگر یہ عذاب اتنا خطرناک ہوگا کہ پہاڑوں پر گرے گا تو وہ دھنکی ہوئی روئی کی طرح ہوجائیںگے۔
میں پہلے خیال کیا کرتا تھا کہ ان آیات میں توپخانوں اور موجودہ زمانہ کی ان ہلاکت آفرین ایجادوں کی طر ف اشارہ کیا گیا ہے جن سے عام طور پر لڑائیوں میں کام لیا جاتا ہے مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ القارعۃسے ایٹم بم مراد ہے اور اس عذاب کی ساری کیفیت ایسی ہے جو ایٹم بم سے پیدا شدہ تباہی پر پوری طرح چسپاں ہوتی ہے۔ یہ بم ایسا خطرناک اور ایسا تباہ کن ہے کہ اس سے بچنے کی سوائے اس کے اور کوئی صورت نہیںکہ لوگ منتشر اور پراگندہ ہو جائیں۔ یہ بم جس جگہ گرتا ہے سات سات میل تک کا تمام علاقہ خس و خاشاک کی مانندجلا کر راکھ کر دیتا ہے۔ بلکہ ایٹم بم کے متعلق اب جو مزید تحقیق ہوئی ہے وہ بتاتی ہے کہ سات میل کا بھی سوال نہیں چالیس چالیس میل تک یہ ہر چیز کو اڑا کر رکھ دیتا ہے۔ ہیروشیما پر اٹومک بم گرایا گیا توبعد میں جاپانی ریڈیو نے بیان کیا کہ اس بم سے ایسی خطرناک تباہی واقعہ ہوئی ہے کہ انسانوںکے گوشت کے لوتھڑے میلوں میل تک پھیلے ہوئے پائے گئے ہیں۔ یہ بالکل وہی حالت ہے جس کا قرآن کریم نے ان آیات میں ذکر فرمایا ہے کہ انسانوں کا وجود تک باقی نہیں رہے گا۔ ہڈی کیا اور بوٹی کیا سب باریک ذرات کی طرح ہو جائیں گے اور پتنگوں کی مانند ہوا میں اڑتے پھریں گے۔ یہی حال اس عذاب کے نتیجہ میں پہاڑوں کا ہو گا۔ ابھی تک پہاڑوں کے متعلق ایٹم بم کا تجربہ نہیں کیا گیا لیکن کہا جاتا ہے کہ اس میں اس قسم کی ترقی ہو گی کہ پہاڑ بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ جہاں تک پھیلائو کا سوال ہے یہ بم کسی چیز کو نہیں چھوڑتالیکن جہاں تک گہرائی کا سوال ہے ابھی ماہرین کی تحقیق مکمل نہیں ہوئی لیکن امید کی جاتی ہے کہ اس بم کو ترقی دیکر ایسا خطرناک بنا دیا جائے گا کہ پہاڑوں اور قلعوں کو بھی ایک آن میں اڑا دے گا۔
القارعۃ کے ایک معنے قیامت کے بھی کئے گئے ہیں اور یہی لفظ ہے جو ہیرو شیما اور ناگاساکی پر بم گرائے جانے کے بعدآج تک متواتر استعمال کی جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اگر اسکے بعد بھی جنگ نہ چھوڑی گئی تو اس کے معنے یہ ہیں کہ دنیا پر قیامت آگئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے نتیجہ میں انسانی وجود مٹ جائے گا اور بعض نے کہا ہے ممکن ہے انسانی وجود تو باقی رہے مگر یہ یقینی امر ہے کہ موجودہ تہذیب کا نام ونشان تک باقی نہ رہے گا ۔ کیونکہ شہر مٹ جائیں گے ۔ قصبات برباد ہو جائیں گے اور جو تھوڑے بہت متنفس باقی رہیں گے وہ جنگلوں میں اپنی زندگی کے دن گزارنے لگیں گے بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر اس بم کو آذادانہ استعمال کیا گیا تو ایسی خطرناک تباہی دنیا میں واقعہ ہو گی کہ وہ لوگ جو نسل انسانی میں سے باقی رہیں گے اس بات سے بھی ناواقف ہو جائیں گے کہ آگ کس طرح جلائی جاتی ہے کیونکہ کارخانے مٹ چکے ہوں گے ۔ علم وفن کے جاننے والے سب تباہ ہو چکے ہوں گے اور غم کے اثرات زائل کرنے کے لئے لوگ اپنی گذشتہ روایات کو بھی فرا موش کر دیں گے تب لوگ ایک بار پھر چقماق سے کام لینا شروع کر دیں گے ۔ پھر وہی دور دنیا میں آجائے گا جو اس دور تہذیب سے پہلے ایک دفعہ آچکا ہے ۔ پھر نئے سرے سے ایجادات عمل میں آیئں گی۔اور پھر ایک لمبے عرصے بعد دیا سلائی ایجاد کی جائے گی غرض لوگوں نے ابھی سے اس قسم کے نقشے کھنچنے شروع کر دیئے ہیں جو بتاتے ہیں کہ یوم یکون ا لناس کا لفراش ا لمبثوث و تکون ا لجبال کا لعھن ا لمنفوش میں ایٹم بم کا ہی نقشہ کھینچا گیا ہے اور واقعہ میں ایسی خطرناک تباہی دنیا میں اور کونسی ہو سکتی ہے کہ صرف دو بموں سے اس قدر بڑی حکومت نے جس کے پاس اب بھی نوے لاکھ فوج تھی ہتھیار ڈال دئیے اور اتحادیوں کے سامنے اسے اپنا سر جھکانا پڑا۔
جبل کے معنے سردار اور قوم اور بڑے آدمی کے بھی ہوتے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے آیت کا یہ مفہوم ہوگا کہ اس دن بڑے بڑے آدمی دھنکی ہوئی روئی کی طرح ہو جائیں گے یعنی اُنکی طاقت زائل ہو جائے گی۔ اور وہ کھوکھلے ہو جائیں گے یہ ظاہر ہے کہ بڑے آدمیوں کی بڑائی اُن کی انتظامی قابلیت میں ہوتی ہے لیکن اس قسم کے خطرناک ہتھیاروں کے مقابلہ میں تدبیراور کوشش بیکار جاتی ہے اور لیڈروں کی عظمت اور ضرورت مٹ جاتی ہے۔
فاما من ثقلت موازینہ O فھو فی عیشۃ راضیۃ O
و اما من خفت موازینہ O فامہ ھاویۃ O
اس وقت جس کے (اعمال کے) پلڑے بھاری ہوں گے وہ تو (بہترین اور) پسندیدہ حالت میں ہوگا۔ اور جس کے (اعمال کے) پلڑے ہلکے ہوں گے تو اس کا ٹھکانا تو ہاویہ (ہی ) ہوگا۔
حل لغات: موازین:میزانکی جمع ہے اور میزان اس ترازو کو کہتے ہیں جس سے چیزیں تولی جاتی ہیں۔ اسی طرح میزان کے ایک معنے العدلکے ہیں یعنی جزاء اور مثل کے اور میزان مقدار کو بھی کہا جاتا ہے (اقرب)۔
الام:الوالدۃ۔امکے معنے ماں کے ہیں ام الشیئسے مراد کسی چیز کی اصل یعنی جڑ ہوتی ہے ام الدماغ و ام الراس الجلدۃ التی تجمع الدماغاور ام الدماغ اور ام الرأس اس جھلی کو کہتے ہیں جو دماغ کو گھیرے ہوئے ہے ام اربع واربعین دویبۃ سامۃاورام اربعایک زہریلا کیڑا ہوتا ہے جسے ہماری زبان میں ہزار پایا کہتے ہیں (اقرب)
ھاویۃ:ھویٰسے ہے اور ھویٰ الرجلکے معنے ہوتے ہیں ماتمرگیا ۔ پسھاویہکے معنے ہوئے مرنے والی۔ اورھوی الشیئکے معنے ہوتے ہیںسقط من علوالی اسفل۔اوپر سے نیچے کی طرف گر گیا۔اس لحاظ سے امہ ھاویۃکے یہ معنے ہوںگے کہ اس کی ماں یا اصل (جیسا کہ ام الشی ء کے معنے اصلہ کے بیان کئے جاچکے ہیں ) ھاویۃ ہوگی یعنی نیچے کی طرف جانے والی ہوگی۔ بالفاظ دیگر یوں کہہ لوکہ تنزلکی اس کی ماں ہوگی یعنی تنزلکا بیج اس کے اندر پایا جائے گا اور وہ بیج اسے نیچے ہی نیچے گراتا جائے گا۔ھاویۃ جہنم کا نام بھی ہے (اقرب)اور الھاویۃکے معنے ہیں الثاکلۃرونے والی(اقرب)۔
تفسیر:قرآن کریم میں میزان کا لفظ بھی آتاہے اور موازین کا بھی۔ خداتعالیٰ کی طرف جب اس کی نسبت ہوئی ہے تو میزان کا لفظ آیا ہے لیکن بندوں کیلئے جب استعمال ہوا ہے تو موازین کا لفظ استعمال ہو اہے۔دنیا میں تو کئی دوسری میزانیں بھی ہیں۔ ہزاروں ہزار آدمی تول رہا ہے اور ہزاروں ہزار تلوار ہاہے لیکن قیامت کے دن جب انسانی اعمال کے نتائج ظاہر ہونے لگیں گے اس وقت تلوانے والے تو بہت ہوں گے لیکن تولنے والا ایک ہی ہوگا۔ اسی حقیقت کو قرآن کریم نے دوسرے مقامات پر مالک یوم الدین کے الفاظ میں الفاظ میں بیان کیا ہے یعنی اس روز تمام انسانی مالکیتیں ختم ہوجائیں صرف ایک خدا کی مالکیت کاکامل ظہور ہوگا۔ پس چونکہ اپنے اعمال کا وزن کرانے والے زیادہ ہوتے ہیں اس لئے بندوں کے لحاظ سے قرآن کریم موازین کا لفظ استعمال کرتا ہے اور چونکہ وزن کرنے والا ایک ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے لحاظ سے میزان کا لفظ استعمال ہوتاہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم میں جہاں قارعہ کا لفظ آیا ہے اس نتیجہ پر دلالت کرنے کیلئے آیا ہے جو خداتعالیٰ کا ہاتھ انبیاء کے زمانہ میں خود پید افرماتا ہے گویا قارعہ عام عذابوں کو نہیں کہا جاتا بلکہ اس سے وہ مخصوص عذاب مراد ہوتے ہیں جو انبیاء کی صداقت کا اظہار کرنے کیلئے آئیں۔ خواہ بلا واسطہ آئیں یا بالواسطہ۔ اور جن کے پس پشت خداتعالیٰ کا ہاتھ کام کررہا ہوتا ہے۔
زیر تفسیر آیت میں فاما من ثقلت موازینہ۔ فھو فی عیشۃ راضیۃ۔ و اما من خفت موازین ۔ فامہ ھاویۃ کے الفاظ اسی قارعہ کے انجام پر دلالت کرنے کیلئے آئے ہیں کیونکہ یہ وہ عذاب ہے جس کے پیچھے خدائی مشیت کا ہاتھ کام کررہا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کے ان لشکروں کا حملہ اپنی طرف منسوب کیا جو انہوں نے کفار پر کیا تھا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس طاغیہ کو اپنی طرف منسوب کیا جو قوم ثمود کی ہلاکت کا موجب ہوئی اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس شدید ہوا کو اپنی طرف منسوب کیا جو عاد کی تباہی کا موجب ہوئی کیونکہ یہ سب عذاب خدائی مشیت اور اس کے ارادہ کے ماتحت آئے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس جگہ قارعہ کو اپنی طرف منسوب کرکے اس کے نتائج کا اعلان فرماتا ہے کیونکہ یہ قارعہ خدائی پیشگوئیوں کے ماتحت آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہامات کے ذریعہ پہلے سے خبر دے دی تھی کہ
’’کئی نشان ظاہر ہوں گے ۔ کئی بھاری دشمنوں کے گھر ویران ہوجائیں گے وہ دنیا کو چھوڑ جائیں گے۔ ان شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا وہ قیامت کے دن ہوں گے۔ زبردست نشانوں کے ساتھ ترقی ہوگی‘‘۔ (تذکرہ ص ۶۶۵)
ان الہامات کے ذریعہ چونکہ اس عذاب کی خبر پہلے سے دی جاچکی تھی اس لئے گو ایٹم بم کو ایجاد کرنے والے بندوں کے ہاتھ تھے مگر اس کو منسوب خداتعالیٰ کی طرف ہی کیا جائے گا۔ جیسے صحابہؓکے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے کفار کو سزا دلوائی مگر قرآن کریم میں اسے قارعہ قرار دیا گیا۔ کیونکہ وہ عذاب خدائی سکیم کے ماتحت کفار پر نازل ہوا تھا۔ بہرحال جو بلا اور مصیبت اتفاقی حادثہ نہ ہو بلکہ خداتعالیٰ کی کسی سکیم اور پیشگوئی کے ماتحت آئے اس کیلئے قارعہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے یہ بتانے کیلئے کہ اس قسم کے عذاب کے جو نتائج ظاہر ہوتے ہیں ان کے پیچھے الٰہی مشیت کام کررہی ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ وہ قوم جس کا پلڑابھاری ہوگا وہ تو راحت و آرام کی زندگی بسر کرے گی لیکن وہ قوم جس کاپلڑا ہلکا ہوگا وہ تباہ و برباد کردی جائے گی۔ جیسے آج اتحادی کہتے ہیں کہ ہمارا پلڑا بھاری ہوگیا اس لئے ہم جیت گئے اور محوری طاقتیں کہتی ہیں کہ ہمارا پلڑا ہلکاہوگیا اس لئے ہم ہارگئے۔ پلڑا بھاری ہونے کے یہ بھی معنے ہیں کہ جن کے جہازوں کا وزن زیادہ ہوگا وہ جیت جائیں گے۔ یہ محاورہ اس زمانہ میں بڑی کثرت سے استعمال ہوتا ہے اور حکومتیں اپنے اعلانات میں ہمیشہ کہتی رہتی ہیں کہ ہمارے جہازوں کی اتنی ’ٹینج‘ ہے یعنی اتنا وزن ہے یا اتنے ٹن بم ہماری طرف سے دشمن پر گرائے گئے ہیں۔ بہرحال جن کی ’ٹینج‘ زیادہ ہوگی یا جن کے پا س دنیوی سامانوں کی دوسروں کے مقابلہ میں کثرت ہوگی فھو فی عیشۃ راضیۃ ان کو فتح ہوگی اور وہ مزے اڑائیں گے۔ واما من خفت موازینہ فامہ ھاویۃ لیکن جن کی ’ٹینج‘ کم ہوگی وہ ہاویہ میں گرائے جائیں گے۔ جیسے جاپان کے بادشاہ نے کہا کہ ہماری شکست کی بڑی وجہ ہمارے سامانوں کی کمی ہے۔ ہٹلر نے بھی یہی کہاکہ سامانوں کی کمی کی وجہ سے ہمیں شکست ہوئی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اس وقت بہادری اور جسمانی طاقت کا زور نہ رہے گا۔ شکست و فتح کا سارا انحصار اس زمانہ میں سامانوں کی کثرت اور ان کی قلت پر آرہے گا۔ جن کی ’ٹینج‘ بڑھ جائے گی وہ جیت جائیں گے اور جن کی ’ٹینج‘ کم ہوگی وہ ہارجائیں گے۔
یہ تو اس آیت کے ایک معنے ہوئے قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ثقلت موازینہ کے الفاظ ان لوگوں کی نسبت استعمال کئے جاتے ہیں جن کی نیکیاں زیادہ ہوں اور خفت موازینہ کے الفاظ ان لوگوں کی نسبت استعمال ہوتے ہیں جن کی نیکیاں کم ہوں۔ اس لحاظ سے دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہوں گے کہ جن کی نیکیاں زیادہ ہوں گی وہ جیت جائیں گے اور جن کی نیکیاں کم ہوں گی وہ ہارجائیں گے۔ گویا دو نتائج ظاہر ہوں گے دنیوی مقابلہ کے قت جن کے پاس دنیوی سامان زیادہ ہوں گے وہ جیت جائیں گے اور جن کے پا س دنیوی سامان کم ہوں گے وہ ہارجائیں گے اور روحانی مقابلہ کے وقت جن کے روحانی کام کام کہلانے کے مستحق ہوں گے وہ جیت جائیں گے اور جن کے روحانی کام کام کہلانے کے مستحق نہیں ہوں گے وہ شکست کھاجائیں گے۔ پہلی فتح مادیات کے وزن پر ہوگی اور دوسری فتح روحانیات کے وزن پر ہوگی۔
میں نے اس سورۃ کے شرو ع میں بتایا تھا کہ اس میں اسلام کی دوبارہ ترقی کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا تھا کہ اس میں اسلام کی دوبارہ ترقی کا ذکر کیا گیا ہے او ربتایا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں جب اسلام پر مصیبت اور تکالیف کے دن آئیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے حالات پید اکردے گا جن کے نتیجہ میں اسلام کو فتح حاصل ہوگی۔ چنانچہ یہ آیات میرے اس دعویٰ کی تائید کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس زمانہ میں فساد اور کفر کا غلبہ دیکھ کر تمہیں مایوسی نہیں ہونی چاہئے۔ جب لوگ ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرنے میں مصروف ہوجائیں گے۔ شدید لڑائیاں لڑی جائیں گی اور بڑی بڑی طاقتیں ٹوٹ جائیں گی اس وقت جہاں ہم دنیوی مقابلہ میں ان لوگوں کو غلبہ دیں گے جن کے پاس دنیوی سامانوں کی فراوانی ہوگی وہاں روحانی مقابلہ میں ہم ان لوگوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں کریں گے اور صرف ان لوگوں کو فتح عطا فرمائیں گے جن کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا۔ جب دنیوی مقابلہ میں وہی قوم جیت سکتی ہے جس کے پاس دنیوی سامان زیادہ ہوں تو روحانی مقابلوں میں وہ قوم کس طرح جیت سکتی ہے جس کے پاس روحانی سامان کم ہوں۔ اصول تو آخر دونوں جگہ ایک ہی کارفرما ہوگا۔ جس طرح دنیوی مقابلہ کے وقت میزان کا بھاری ہونا کامیابی کی طرف لے جاتا ہے اسی طرح روحانی مقابلہ کے وقت صرف اسی قوم کو فتح حاصل ہوسکتی ہے جس کے پاس روحانی سامان زیادہ ہوں۔ وہ قوم کبھی فاتح نہیں ہوسکتی جس کے پاس روحانی سامانوں کی قلت ہو۔ اس آیت میں گو ثقلت موازینہ کے مقابلہ میں خفت موازینہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ ان کے پاس وزن تو ہوں گے مگر کم ۔ لیکن قرآن کریم کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کے پاس کچھ بھی وزن نہیں ہوگا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لانقیم لھم یوم القیامۃ وزنا (الکہف: ۱۲ ع ۳) ہم قیامت کے دن ان کیلئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ پس چونکہ ایک جماعت کے پاس روحانی سامانوں کا کلیۃً فقدان ہوگا اس لئے وہ لوگ جو خداتعالیٰ کی محبت اپنے دل میں رکھتے ہوں گے اور جنہیں اس کا قرب حاصل ہوگا ان کا پلڑا تو بھاری ہوجائے گا مگر جن کے وزن بہت کم ہوں گے یا جن کے وزن ہوں گے ہی نہیں ان کا پلڑا ہلکا ہوجائے گا۔ گویا پہلے ان لوگوں کا پلڑا بھاری ہوگا جو دنیوی سامان اپنے پاس زیادہ رکھتے ہوں گے اور ان لوگوں کا پلڑا ہلکا ہوگا جو دنیوی سامان اپنے پاس کم رکھتے ہوں گے۔ پھر ہم روحانی جنگ کا نتیجہ ظاہر کریں گے اور وہ بھی اسی اصول پر۔ یعنی جن کی روحانیت بڑھی ہوگی جو تقویٰ اور خدا ترسی کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہوں گے، جو اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے ہوں گے، جن کی رات اور دن یہی کوشش ہوگی کہ خداتعالیٰ کا نام بلند ہو اور اس کے احکام پر عمل لوگوں کا شیوہ ہو۔ وہ تو فتوحات حاصل کریں گے اور جن کے پاس روحانی سامانوں کی کمی ہوگی یا روحانی سامان کلی طور پر مفقود ہوں گے وہ خدائی نصرت سے محروم رہیں گے۔ بہرحال اس وقت دو ہی قسم کے لوگ آرام میں رہیں گے یا تو وہ اقوام جو محنتی اور جفاکش اوربڑے سازو سامان والی ہوں گی یا وہ جو خداتعالیٰ کے نزدیک اس کی محبوب ہوں گی اور اس کے بالمقابل جن کے وزن ہلکے ہوں گے یعنی ان کے پاس سازوسامان نہ ہوگا۔ ان کی ماں ہاویہ ہوگی وہ دکھ پائیں گے او ردینی لحاظ سے جو خداتعالیٰ کے محبوب نہ ہوں گے وہ تباہ ہوں گے۔گویا پہلے زیادہ سازوسامان والے جیتیں گے اور پھر ان لوگوں کا پلڑا بھاری ہوگا جن کا روحانی سامانوں کے لحاظ سے کوئی دوسرا شخص مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ چونکہ دنیوی فتح سے یہ شبہ پید اہوسکتا تھا کہ شاید انہیں خدائی مدد حاصل ہے اس لئے ثقلت اور خفت کے الفاظ استعمال فرماکر اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ اس میں خدائی مداد کا کوئی سوال نہیں۔ ایک کے پاس سامان زیادہ ہوگئے تو وہ جیت گیا اور دوسرے کے پاس سامان کم ہوگئے تو وہ ہار گیا۔ اگر خدائی مدد ان کے شامل حال ہوتی تو دوسرے مقابلہ میں بھی وہ جیت جاتے مگر دوسرے مقابلہ میں ایسانہیں ہوگا۔ اس مقابلہ میں وہ فاتح اقوام جو دنیوی مقابلہ کے وقت اپنے مادی سامانوں کی کثرت کی وجہ سے جیت گئی تھیں بری طرح شکست کھائیں گی اور کمزور دکھائی دینے والے لوگ اپنے روحانی سامانوں کی کثرت کی وجہ سے فتح حاصل کرلیںگے۔ اس جگہ گو محاورہ کے طور پر خفت موازینہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں مگر درحقیقت مراد یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی وزن ہوگا ہی نہیں۔ جو مقابلہ کے وقت ظاہر کرسکیں گے۔ کیونکہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ لا نقیم لھم یوم القیامۃ وزنا۔ بہرحال دنیوی مقابلوں میں وہ قوم جیتے گی جس کے پاس دنیوی سامان زیادہ ہوگا اور روحانی مقابلہ میںوہ قوم جیتے گی جس کے پاس روحانی سامان زیادہ ہوگا۔ یہ دونوں اٹل فیصلے ہیں اس لئے جب ان میں سے ایک ظاہر ہوجائے تو تمہیں دوسرے فیصلہ کے متعلق بھی یہ امید رکھنی چاہئے کہ وہ جلدہ ظاہر ہوجائے گا۔
ترقی اور تنزل کے بنیادی وجوہ کا ذکرکرنے کے بعداب اللہ تعالیٰ یہ بتاتاہے کہ وہ قوم جس کی میزان ہلکی ہوگی اس کی کیا حالت ہوگی ۔ فرماتا ہے امہ ھاویۃ اس کی ماں ہاویہ ہوگی۔ ھاویۃ کے ایک معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچکا ہے تنزل کے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ تنزل کی حالت کو اس کی ماں ہوگی یعنی اس کے اندر تنزل کا بیج پایا جائے گا جس طرح ماں سے آئندہ نسل کا سلسلہ چلتا ہے اسی طرح تنزل صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہے گا بلکہ آئندہ نسلوں تک بھی اس کا اثر پہنچے گا۔ درحقیقت تنزل د ور نگ کاہوتاہے۔ ایک تنزل کسی قوم یا فرد کی ذات تک محدود رہتا ہے اور ایک تنزل وہ ہوتا ہے جو بیج کے طور پر آئندہ نسل میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ امہ ھاویۃ میں اسی دوسرے تنزل کی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ جس طرح ماں بچے پیدا کرتی ہے اسی طرح وہ قوم جس کی میزان ہلکی ہوگی اسکے گرنے کی حالت ترقی کرتی چلی جائے گی یعنی جو قومیں اس عذاب کے نیچے آئیں گی ان کاتنزل شروع ہوجائے گا اور پھر وہ تنزل بڑھتا چلا جائے گا۔
امہ ھاویۃ کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ اس کی ماں اس پر روئے گی یعنی وہ قوم بالکل تباہ و برباد ہوجائے گی۔ عربی زبان میں محاورہ ہے کہ کہتے ہیں ثکلتک امک تیری ماں تجھ کو روئے۔چونکہ ھاویۃ کے ایک معنے ثاکلہ کے بھی ہیں پس امہ ھاویۃ کے معنے ہوئے اس دن اس کی ماں اس پر روئے گی یعنی وہ بالکل تباہ و برباد ہوجائے گی۔ یوں تو رونے والے اور بھی ہوسکتے ہیں بیٹے بھی ہوسکتے ہیں، بیٹیاں بھی ہوسکتی ہیں ، بیوی بھی ہوسکتی ہے لیکن محاورہ میں صرف ثکلتک امک کہا جاتاہے جس میں حکمت یہ ہے کہ ایک موت وہ ہوتی ہے جو طبعی عمر سے پہلے آجاتی ہے۔ جب کوئی شخص طبعی عمر پاکروفات پاتا ہے تو اس کے ماں باپ پہلے مرچکے ہوتے ہیں اس لئے وہ اس پر رو نہیں سکتے۔ اس پر اس کے بیوی بچے روتے ہیں۔ لیکن جب کوئی غیرطبعی وفات پائے تو ما ں باپ زندہ ہوتے ہیں اور انہیں اس پر رونا پڑتاہے۔ پس امہ ھاویۃ کے معنے یہ ہیں کہ وہ لوگ غیرطبعی موت مریں گے، بے وقت کی موت ان پر آئے گی اور وہ تباہ ہوجائیں گے۔ چنانچہ دیکھ لو جاپان کی موت کتنی غیرطبعی ہے۔ جرمنی کی موت کتنی غیر طبعی ہے۔ قوموں کی زندگی دو دو چار چار سو سال تک ہوتی ہے مگر ان کی مثال تو بالکل ویسی ہی ہوئی جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ ؎
پھول تو دودن بہارِ جانفزا دکھلا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئے
یہ ابھی اپنی ترقی کے خواب ہی دیکھ رہے تھے کہ کچلے گئے۔ پس فرمایا ان کی ماں ان کو روئے وہ کیسی غیرطبعی موت مرے ہیں۔
پھر میں نے بتایا تھا کہ ام الدماغ اور ام الرأس اس جلد کو بھی کہا جاتا ہے جس نے دماغ کو گھیرا ہوا ہو۔ اس لحاظ سے امہ ھاویۃ کے یہ معنے ہوں گے کہ ہاویہ انہیں چاروں طرف سے گھیر لے گی۔ ترقی کا انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آئے گا ۔ ہلاکت ہی ہلاکت او ربربادی ہی بربادی ان پر چاروں طرف سے مسلط ہوگی۔ جس طرح ام الدماغ نے دماغ کو چاروں طرف سے ڈھانپا ہوا ہوتا ہے اسی طرح ہلاکت ان کو چاروں طرف سے ڈھانپ لے گی ، نجات کا کوئی راستہ ان کیلئے باقی نہیں رہے گا۔
اس آیت کے یہ بھی معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عذاب آتے ہیں ان کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ بندوں کی اصلاح ہو اور وہ اپنے گناہوں سے باز آجائیں۔ محض انتقام لینا اللہ تعالیٰ کے مدنظر نہیں ہوتا۔ اسی حقیقت کو امہ ھاویۃ میںبیان کیاگیا ہے یعنی ہاویہ ان کی ماں ہوگی۔ جس طرح بچہ ماں کے پیٹ میں جاتا اور ظلمت ثلاث (الزمر: ع ۱) سے حصہ لیتا ہے اور آخر ترقی پاکر رحم مادر سے باہر آتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب بھی بندوںپر کوئی عذاب نازل ہوتا ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگوںکے گند دور ہوجائیں اور وہ عذاب کی ظلمت میں اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں تاکہ آخر میں انہیں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوجائے اور وہ اس کے مقرب بندوں میں شامل ہوجائیں۔
وما ادرک ماھیہ O نار حامیۃ O
اور (اے مخاطب) تجھے کیا معلوم ہے کہ یہ (ہاویہ) کیا ہے یہ ایک دہکتی ہوئی آگ ہے۔
حل لغات: حامیۃ:حمی سے ہے اور حمی ا لشیء من ا لناس ( یحمیہ حمیا و حمیۃو حما یۃ) کے معنے ہوتے ہیںمنعہ عنہم اس کو ان سے روکا اور حمی من ا لشیء ( یحمی حمیۃ)کے معنے ہوتے ہیںانف ان یفعلہ اس نے تکبر کا اظہار کیا۔ اور حمی ا لشمس و ا لنارحمیا(و حمیاحموا)کے معنے ہوتے ہیںاشتد حرھا اس کی گرمی تیز ہو گئی ۔ اور حمی علیہ کے معنے ہوتے ہیں غضب وہ اس پر غضبناک ہوا(اقرب) پس نار حامیۃ کے یہ معنے ہو ئے کہ وہ ایک ایسی آگ ہوگی جس کی گرمی بے انتہا ہو گی۔
تفسیر:۔اللہ تعالی فرماتا ہے وما ادراک ما ھیۃ۔وہ تباہی اور بربادی جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے تجھے کیا پتہ کہ وہ کیا ہوگی یعنی وہ اس قدر ذیادہ ہوگی کہ الفاظ سے تم اسکی حقیقت نہیں سمجھ سکتے یہ الفاظ با لکل ایٹم بم پر چسپاں ہوتے ہیںکیونکہ اس بم کے گرنے سے اتنی شدید گرمی پیدا ہو جاتی ہے کہ میلوں میل تک لوگ جھلس کر مر جاتے ہیں۔ یہاںتک کہ اس بم کے اثرات کے نتیجہ میں انسانی جسمکی بناوٹ تک بدل جاتی ہے ۔ جا پانیوں نے اعلان کیا ہے کہ ایٹم بم کے حادثہ سے جو لوگ مجروح ہوئے تھے ہم نے ان کا بہت علاج کیامگر وہ اچھے ہونے میں ہی نہیں آتے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جسم کے خلیے تک بدل گئے ہیں۔ اس وقت ایٹم بم کے اثر سے دو لاکھ آدمی جاپان میں بیمار ہیں جو باوجود ہر قسم کیعلاج کے اچھے نہیں ہوئے۔ اسی طرح ایک سائنس دان نے اپنے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ چونکہ ان کے جسم کے خلیے با لکل بدل گئے ہیںاس لئے آئندہ ان کی نسل سے جو لوگ پیدا ہوں گے ہو سکتا ہے ان میں سے کسی کی آنکھیں نہ ہوں کسی کے کان نہ ہوںیا کسی کی دس دس آنکھیں ہوں اور پانچ پانچ سر یا چھ چھ بازو ہوںاور چار چار ٹانگیں، یا ہاتھ ہوں تو پائوں نہ ہوں پائوں ہوں تو ہاتھ نہ ہوں یا انسانی نسل کی بجائے کنکھجوروں کی طرح ان کے ہاں اولاد پیدا ہونے لگ جائے کیونکہ ان کے جسم کے خلیے با لکل ٹوٹ چکے ہیں اور اب ان تمام باتوں کا امکان ہے یہ تو ایک سائنسدان کا خیال ہے لیکن اتنا واقعہ خود جاپانیوں نے تسلیم کیا ہے کہ جو لوگ اس حادثہ سے مجروح ہوئے تھے ہم سمجھتے تھے کہ وہ بیمار ہیں علاج سے تندرست ہو جائینگے لیکن ہزاروں دوائوں کے باوجود ان کے جسم پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا ۔ ایسا تغیر ان میں واقعہ ہو چکا ہے کہ خواہ انہیں کوئی دوائی کھلائو کچھ فائدہ ہی نہیں ہوتا ۔
اسی طرح نا ر حامیۃ کے ایک یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ آگ ان پر غضب کرنے والی ہوگی ۔ نار خود اپنی ذات میںجلانے والی چیز ہے لیکن نار کے ساتھ جب حامیۃ کا لفظ ملا دیاجائے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ آگ اپنی انتہائی شدت کو پہنچ جائے گی۔ پس نار حامیۃ کہہ کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تم اسے معمولی آگ نہ سمجھووہ ایسی خطرناک ہوگی کہ یوں معلوم ہوگا وہ انتہائی غضب کی حالت میں لوگوں پر حملہ کر رہی ہے ۔ قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالی جہنم کی آگ کے متعلق فرماتا ہے کہ تکاد تمیز من ا لغیظ(الملک۱ع)وہ ایسی شدید ہوگی کہ قریب ہوگا غصہ سے پھٹ جائے ۔یہی کیفیت نارحمیۃ میں بیان کی گئی ہے کہ وہ آگ اس دنیا کی آگ کی گرمی سے سینکڑوں ہزاروں گنے زیادہ گرم ہوگی میں نے سینکڑوں ہزاروں گنے الفاظ استعمال کئے ہیں حالانکہ حدیث میں ستر کا لفظ ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عر بی زبان میں سات اور ستر مبالغہ کے لئے استعمال ہو تے ہیں ۔ سات یا ستر سیسات یا ستر کے معنے مراد نہیں ہوتے بلکہ بے انتہا زیادہ کے معنے مراد ہوتے ہیں اسی وجہ سے جب بہت زیادتی کی طر ف اشارہ کرناہو تو اکثر سات یا ستر کا لفظ آتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ زیادتی صرف سات گنے نہیں ہوتی پس اصل میں صرف بہت زیادہ کا مفہوم بتانا مقصود ہوتا ہے ۔
غرض ا لقارعۃ وہ عذاب ہے جو موجودہ زمانہ میں ایٹم بم کی صورت میںظاہر ہوا ۔ اور جس کے ہولناک نتائج آج دنیا پر ظاہر ہو چکے ہیں ۔ لیکن ابھی کیا ہے ابھی تو صرف ایک قدم اٹھایا گیا ہے پھر اور ایجادات ہوں گی پھر اور ہوں گی یہاں تک کہ انہی ایجادات کی لپیٹ میں یورو پین اقوام اپنے آپ کو تباہ کر لیں گی ۔سو سنار کی ایک لوہار کی ضرب ا لمثل کے ماتحت آخری حملہ خدا تعالی کا ہو گا اور جن لوگوں کے اعمال کو حقیقی وزن حصل ہو گا وہ جیت جائیں گے اور دنیا پر ان کو غلبہ اور اقتدارحاصل ہو جائے گا ۔
سورۃ التکاثر مکیۃ
سورۃ التکاثر یہ مکی سورت ہے
وھی ثمانی ایات دون البسملۃ وفیھا رکوع واحد
اور اس کی بسم اللہ کے سوا آٹھ آیات ہیں اور ایک رکوع ہے
یہ سورۃ جمہور کے نزدیک مکی ہے مگر امام بخا ر ی نے اس سے اختلاف کیا ہے وہ اسے مدنی قرار دیتے ہیں حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے ۔ مستشرقین بھی اسے ابتدائی مکی سورتوں میں سے قرار دیتے ہیں ۔ میرے نزدیک یہ سورت مکی ہے کیونکہ اس میں سابق مکی سورتوں کی طرح کی پیشگوئیاں ہیں۔صرف مال کا ذکر ہونے کی وجہ سے اسے مدنی نہیں کہہ سکتے کیونکہ مکہ والوں کے پاس بھی اپنی ملکی دولت کے مطابق مال تھا اور اس میں کافروں کے مال ہی کا ذکر ہے۔
اس سورت کا تعلق پہلی سورتوں سے یہ ہے کہ پہلی سورتوں میں تمام جماعت ہائے کفر کا ذکر کر کے بتایا گیا تھا کہ رسول کریم ﷺ ان کے اپنے زمانہ میں بھی اصلاح فرمائیں گے اور آئندہ زمانہ میں بھی ۔خصوصاً پچھلی دو صورتوں میں ان عذابوں کا ذکر تھا جو کفر کی وجہ سے رسول کریم ﷺکے زمانہ میں یا آپ کے بعد کے زمانہ میں آنے والے تھے ۔ اب اس سورت میں کفر اور خداتعالی سے دوری کی وجہ بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کیوں انسان میں کفر پیدا ہوتا ہے ۔ کیوں اسے خداتعالی سے بعد ہوتا ہے اور کیوں لوگ باوجود نبیوں کے ذریعہ حق پا لینے کے آخر دین سے دور چلے جاتے ہیں۔
اس سورت کے متعلق حاکم اور بیہقی نے ابن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا الا یستطیع احد کم ان یقرا الف ایۃ فی کل یوم قالو و من یستطیع ان یقرا الف ایۃ فی کل یوم قا ل اما یستطیع احد کم ان یقرا الھکم التکاثر( فتح البیان) یعنی حضرت عباللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں رسول کریمﷺ نے ایک دن فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص یہ طاقت نہیں رکھتا یعنی کیوں ایسا نہیں کرتا کہ وہ ہزار آیتیں روزانہ پڑھ لیا کرے صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ طاقت کس انسان کو حاصل ہو سکتی ہے کہ وہ ہزار آیات روز پڑھ سکے ۔آپﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ الھکم التکاثر روزانہ پڑھ لیا کرے ۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے سورہ تکاثر کو ہزار آیات کے برابر بتایا ہے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ سے روایت ہے قال قال رسول ا للہ ﷺ من قرانی لیلۃ الف ایۃلقی اللہ وھد ضا حک فی وجھہ۔ قیل یا رسول ا للہ و من یقوی علی الف ایۃ فقرا بسم اللہ ا رحمن الرحیم الھکم ا لتکاثرالی اخر ھاثم قا ل و الذی نفسی بیدہ انھا لتعدل الف ایۃ۔ اخرجہ الخطیب فی المتفق والمفترق والد یلمی (فتح البیان) حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص روزانہ رات کو ہزار آیات پڑھ لیا کرے وہ اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ خدا اسے دیکھ کر خوش ہو گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ طاقت کس انسان کو حاصل ہو سکتی ہے کہ وہ ہزار آیات روزانہ پڑھا کرے ۔ اس پر آپ نے سورئہ تکاثر کی تلاوت شروع کر دی یہاں تک کہ آپ اس کے آخر تک پہنچ گئے۔ پھر آپ نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہ سورۃ ہزار آیات کے برابر ہے۔(یہ روایت خطیب اور دیلمی دونوں نے نقل کی ہے)
ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ دو قسم کے زمانے ہوتے ہیں اور دوقسم کے تکاثر ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ میں ایسا تکاثر ہوتا ہے جو قومی زندگی کا موجب ہو جاتا ہے اور دوسرے زمانہ میں ایسا تکاثر ہوتا ہے جو قومی تباہی کا موجب ہو جاتا ہے۔ چونکہ اس سورۃ میں اس تکاثر کا ذکر کیا گیا ہے جو قومی تباہی کا موجب ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص نصیحت حاصل کرنا چاہے تو وہ اس سورۃ کے مطالب پر عمل پیرا ہو کر اس تباہی سے محفوظ رہ سکتا ہے اس لئے رسول کریم ﷺ نے اسے ہزار آیات کا قائم مقام قرار دیا ہے۔
اس جگہ ہزار آیات سے قرآن کریم کا چھٹا حصہ مراد نہیں ( کیانکہ سارے قرآن کریم کی چھ ہزار آیات ہیں ) بلکہ مطلب یہ ہے کہ غرضٍ قرآن ہے وہ اس سورۃ میں بیان کر دی گئی ہے کیونکہ عربی زبان میں ہزار سے صرف ہزار کا عدد مراد نہیں ہوتا بلکہ ان گنت اور بے انتہاء چیز کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اور ان گنت اور بے انتہاء فائدہ انسان اسی وقت اٹھا سکتا ہے جب وہ اس غرض کو سمجھ جائے جس کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے سلسلئہ نبوت قائم کیا ہے اورجس کو پورا کرنے کے لئے آدمؑ سے لے کر وہ اپنے مامورین دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجتا رہا ہے۔ پس رسول کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ یہ سورۃ ہزار آیات کے برابر ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم اس سورۃ پر غور کرو اور اس کے مطالب کوہمیشہ اپنے مدــنظر رکھو تو تمہارے متعلق یہ کہا جا سکے گا کہ تم نے اس سورۃ سے وہ فائدہ اٹھا لیا جو سارے نبیوں کی بعثت کی اصل غرض ہے۔ نبیوں کی بعثت کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دنیا کی محبت لوگوں کے دلوں سے نکال دیں اور اللہ تعالیٰ کا عشق ان میں پیدا کریں ۔ پس جب کوئی شخص اس سورۃ پر غور کرے گا اور حالت سیئہ سے لوٹ کر حالت طیبہ کی طرف آئے گا تو لازماْ وہ اس مقصد کو حاصل کر لے گا جس کے لئے قرآن کریم نازل ہوا اور جس کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالی نے ابتدائے عالم سے سلسلئہ نبوت قائم فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنی کتابوں اور تقریروں میں اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ انبیاء کی بعثت کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ دنیا کی محبت سرد کر کے خدا تعالیٰ کی محبت لوگوں کے قلوب میں پیدا کریں۔ پس سورئہ تکاثر نبوت کی اصل غرض بیان کرنے والی سورۃ ہے اور جو شخص اس سورۃ کے مطالب کو اپنے مد نظر رکھتا ہے وہ اپنی حالت کو نبیوں کی حالت کے مشابہ بنا لیتا ہے۔
اس سورۃ کے مضمون کے متعلق اور بھی روایات ہیں چنانچہ عبداللہ بن شخیرؓ بیان کرتے ہیں انتھیت الی رسول اللہ ﷺوھو یقرأالھکم التکاثر وفی لفظ وقد انزلت ولیہ الھکم التکاثر وھو یقول۔ یقول ابن ادم مالی مالی وھل لک من مال الا ما اکلت فافنیت (یہ روایت مسلم، ترمذی اور نسائی تینوں میں آتی ہے) یعنی میں ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اآپ الھکم التکاثر پڑھ رہے تھے۔ ایک دوسری روایت میں یہ ذکر آتا ہے کہ قد انزلت علیہ الھکم التکاثر آپ پر اس وقت سورئہ تکاثر نازل ہوئی تھی (غالباً اسی روایت سے متاثر ہوکر امام بخاری نے اس سورۃ کو مدنی قرار دیاہے) اور آپ فرمارہے تھے کہ ابن آدم کہتاہے ہائے میر امال۔ ہائے میرامال۔ اس کے بعد آپ نے اپنے دماغ میں ایسے انسان کا خیالی وجود مستحضر کرتے ہوئے فرمایا وھل لک من مال الا ما اکلت فافنیت ۔اے اس قسم کے انسان! کیا اس کے سوا تیرا اور بھی کوئی مال ہے جو تو نے کھایا اور ضائع کردیا یعنی تجھے اسی مال سے تعلق ہے جو تو نے کھالیا اور جو تو نے کھالیا وہ باقی تو رہا نہیں۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہؓ سے بھی یہ روایت نقل کی ہے مگر اس میں یہ ذکر نہیں آتا کہ رسول کریم ﷺ الھکم التکاثر پڑھ رہے تھے یا یہ کہ سورئہ تکاثر اس وقت آپ پر نازل ہوئی تھی۔ اس حدیث کے الفاظ لمبے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(میں ) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں)
الھکم التکاثر O حتی زرتم المقابر O
تم کو ایک دوسرے سے بڑھنے کی خواہش نے غفلت میں ڈال دیا (اور تم اس طرح غافل رہو گے) یہاں تک کہ تم مقبروں میں جا پہنچو گے۔
حل لغات: الھاہ اللعب عن کذا ے معنے ہوتے ہیں شغلہ۔ لہو و لعب نے اس کو دسری طرف مشغول کردیا (اقرب) گویا جب کوئی چیز انسان کی توجہ کو ایک طرف سے ہٹا کر دوسری طرف پھیر دے تو عربی زبان میں اس کیلئے الہی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ التکاثر کثرت سے نکلا ہے اور اس کے معنے کثرت میں مقابلہ کرنے کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ تکاثر القوم کے معنے ہوتے ہیں کثروا و تغالبوا فی الکثرۃ۔ قوم زیاد ہوگئی اور دوسروں کے مقابلہ میں اس نے اپنی کثرت پر فخر کیا اور کہا کہ ہم تم سے زیادہ ہیں (اقرب)۔ اسی طرح مفردات میں لکھا ہے الھکم ای شغلکم التباری فی کثرۃ المال والعز۔ تکاثر کے معنے ہوتے ہیں ایک دوسرے کا مقابلہ مال اور عزت کی کثرت میں کرنا یعنی یہ کہنا کہ ہمارا مال زیادہ ہے یا ہماری عزت زیادہ ہے۔ تم ہمارے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا رکھتے ہو۔ پس الھکم التکاثر کے معنے یہ ہوئے کہ تم کو ایک دوسرے سے مال، عزت اور تعداد میں زیادہ ہونے کے فخر نے غافل کردیا ہے یا بعض دوسری چیزوں سے تمہاری توجہ ہٹاکر اپنی طرف پھیر لیا ہے۔
تفسیر: محاورئہ زبان میں ہمیشہ الھی کے بعد عن آتا ہے یعنی الھاہ عن کذا۔ اسی طرح تکاثر کے بعد فی آتا ہے یعنی جس چیز کے بارہ میں فخرہے اس سے پہلے فی آتا ہے اور جس چیز سے کوئی چیز غافل کردے اس سے پہلے عن آتا ہے۔ مگر قرآن کریم نے دونوں صلوں کو چھوڑ دیا ہے یعنی اس نے نہ تو یہ کہا ہے کہ تم کو تکاثر نے کسی چیز سے غافل کردیا ہے اور نہ یہ کہا ہے کہ تمہیں اپنی کسی چیز کی کثرت نے مغرور بنادیا ہے۔ درحقیقت دنوں صلوں کو چھوڑ دینے سے ایک بہت بڑا مضمون بیان کیا گیا ہے۔ (۱) اگر اس چیز کا بھی ذکر کردیا جاتا جس سے تکاثر نے ان کو غافل کردیا تھا تو مضمون محدود ہوجاتا اور اس اجمال میں جو فصاحت پائی جاتی ہے وہ جاتی رہتی کیونکہ تکاثر کسی ایک نیک بات سے نہیں بلکہ ہرنیک بات سے انسان کو غافل کردیتا ہے۔ تکاثر کے معنے ہوتے ہیں ذاتیات کا غلبہ۔ آخر دنیا میں کیوں ایک انسان دوسرے پر فخر کرتا ہے۔ اسی لئے کہ بجائے اللہ تعالیٰ کا فضل دیکھنے کے وہ اپنی ذات کی بڑائی دیکھنے لگ جاتا ہے۔ وہ اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اگر اس میں کوئی خوبی پائی جاتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ اگر اس میں کوئی کمال پایا جاتا ہے تووہ خداتعالیٰ کا عطیہ ہے۔ اس کی نگاہ ان تمام باتوں کو نظر اندز کرکے صرف ذاتی بڑائی کو اپنے سامنے رکھ لیتی ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے جو کچھ حاصل کیا ہے اپنے زورِ بازو سے حاصل کیا ہے۔ پس دوسروں پر فخر کرنے کا سب سے پہلا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کے سامنے صرف اس کی ذاتی بڑائی رہ جاتی ہے خداتعالیٰ کا فضل جو تمام ترقیات کا اصل باعث ہوتا ہے اسے بھول جاتا ہے۔
احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے اپنی ایک بڑائی بیان کی اور پھر فرمایا میں کوئی فخرنہیں کرتا کیونکہ مجھے یہ خوبی محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوئی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ مومن باوجود بڑائی حاصل ہونے کے تفاخر سے کام نہیں لیتا۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ جو چیز میرے لئے موجب فخر ہے وہ مجھے خودبخود حاصل نہیں ہوتی بلکہ میرے اندر اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ لیکن غیرمومن ایسا نہیں کرتا اس لئے جب کسی انسان کے اندر تکاثر پیدا ہوگا اور وہ اپنی کثرت پر فخر کرے گا یا اپنی عزت پر فخر کرے گا یا اپنے مال پر فخر کرے گا یا اپنی طاقت پر فخر کرے گا تو لازمی طور پر خداتعالیٰ کا وجود اس کی نظر سے اوجھل ہوجائے گا اور وہ سمجھے گا کہ یہ کام میں نے کیا ہے۔ پس تکاثر کی وجہ سے ایک تو خداتعالیٰ کے فضل انسانی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں پھر اس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کی ذات بھی اوجھل ہوجاتی ہے۔ جو شخص شور مچارہا ہو کہ میں بڑا ، میں بڑا ۔ اسے لازمی طور پر اپنے سے بڑا اورکوئی وجود نظر ہی نہیں آتا۔ ورنہ کیا سورج کے سامنے کھڑے ہوکر بھی کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ دیکھو میرا دیا کتنا روشن ہے؟ رات کے وقت تو لوگ بیشک اپنے لیمپ کی روشنی پر فخر کرسکتے ہیں مگر دن کو نہیں۔ اور اگر کوئی دن کے وقت بھی اپنے دئے پر فخر کرتا ہے تو اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ سورج اس کی نگاہوں سے اوجھل ہے ورنہ یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ سورج بھی اسے نظر آتا اور وہ اپنے دئے پر خود فخر کرسکتا۔ اسی طرح جب کوئی شخص اپنی ذات کو دنیا میں بڑا دیکھتا ہے تو اس کا سوائے اس کی او رکوئی مفہوم نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اس کی نگاہ سے اوجھل ہوچکا ہے۔ گویا تکاثر کے نتیجہ میں اول موجبات فخر یعنی صفاتِ الٰہیہ اس کی نظر سے اوجھل ہوجاتی ہیں اور پھر رفتہ رفتہ خداتعالیٰ کی ذات بھی اس کی نظر سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ پس الھکم التکاثر کے معنے یہ ہوئے کہ الھکم التکاثر عن صفات اللہ و عن اللہ۔ تمہیں تکاثر نے اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی ذات دونوں سے غافل کردیا ہے۔
پھر دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جتنے فضل نازل ہوتے ہیں سب ملائکہ کے ذریعہ نازل ہوتے ہیں۔ ملائکہ انسان کی ترقی اور اس کو بلند شان تک پہنچانے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہیں اور انسان کا فرض ہے کہ اس توسط کو کبھی نظر انداز نہ ہونے دے لیکن جب کوئی شخص اپنی ذات پر فخر کرتا ہے تو نہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی ذات کو بھول جاتا ہے بلکہ وہ اس بات کو بھی فراموش کردیتا ہے کہ میری عزت یا دولت یا شہرت کے حصول میں محض میری ذاتی کوششوں کا دخل نہیں بلکہ ان ملائکہ کا بھی دخل ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر قسم کی کامیابی کے سامان مہیا کرتے ہیں۔
پھر جب بھی کسی کو بڑائی حاصل ہوتی ہے ہمیشہ اضافی طور پر ہوتی ہے۔ غیر اضافی طور پر ہمیں دنیا میں کوئی شخص بڑا نظر نہیں آتا۔ یہ ایک بہت بڑانکتہ ہے جسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے مگر بعض بیوقوف اس کی حقیقت کو نہ سمجھتے ہوئے اعتراض کردیا کرتے ہیں کہ قرآن کریم بھی عجیب کتاب ہے کہ اس میں کسی جگہ پر تو یہ ذکر آتا ہے کہ فلاں سے بڑا کوئی نہیں اور بعض جگہ کسی اور کو بڑا قرار دے دیا گیا ہے۔ کوئی ایک تو بڑا ہوسکتاہے مگر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ سب لوگ بڑے ہوں۔ وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ اس اعتراض سے خود ان ان کی اپنی حماقت کا ثبوت ملتاہے۔ ورنہ قرآن کریم نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ سراسر حکمت اور دانائی پر مشتمل ہے۔ اس کا منشا یہ ہے کہ دنیا میں اگر تمہیں کوئی بڑانظر آتا ہے تو اس کی بڑائی محض اضافی ہے غیراضافی نہیں۔ کیونکہ خداتعالیٰ کے سوا کسی کو جزئیات کا علم کامل نہیں۔ ایک قوم دنیا میں بڑھتی اور ترقی کرتی ہے تو وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتی ہے کہ میں نے بہت بڑا کمال حاصل کرلیا۔ اتنابڑا کمال کہ مجھ سے پہلے شاید ہی کسی قوم نے حاصل کیا ہو۔ اسی بناء پر وہ تکبر میں مبتلا ہوجاتی ہے اور اپنے مقابلہ میں دنیا کی تمام اقوام کو حقیر اور ذلیل خیال کرنے لگتی ہے۔ مگر آہستہ آہستہ جب گزشتہ تاریخی واقعات منکشف ہوتے ہی تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے بھی اس قسم کے کمالات رکھنے والے لوگ دنیا میں پائے جاتے تھے۔ بیسیوں چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق آ ج سے پچاس سال پہلے یورپ اسی امر کا مدعی تھا کہ ہم ان چیزوں کے موجد ہیں۔ مگر آج یورپ تسلیم کرتاہے کہ ہم سے پہلے یہ چیزیں دنیا میں موجود تھیں۔ پھر جن زمانوں کی تاریخ کلیۃً مٹ چکی ہے نہ معلوم ان میں کتنی بڑی ایجادات ہوچکی ہیں اور جو تاریخ آئندہ مٹ جائے گی ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس کے بعد دنیا کی کیا صورت ہوجائے گی اور کن کن امور پر بے جا فخر کرنے لگ جائیں گے۔
میں انگریزوں کی سرجری سے بڑا متاثر تھا اور میں سمجھتا تھا کہ انہوںنے اس فن میں خوب ترقی کی ہے مگر ایک دن جب میں بقراط کا ایک چھوٹا سا رسالہ سرجری کے متعلق پڑھ رہا تھا تو میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی۔ جب میں نے دیکھا کہ بقراط نے اس رسالہ میں یہ بحثیں کی ہیں کہ میں نے گردوں کے اتنے اپریشن کیلئے ہیں اور فلاں عضو کے اتنے اپریشن کئے ہیں۔ پھر اس نے ان آلات کا بھی ذکر کیا ہے جن کے ذریعہ اس نے یہ باریک درباریک اپریشن کئے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سرجری اس سے پہلے بھی دنیا میں ترقی یافتہ صورت میں موجود تھی۔ پہلے بھی اپریشن کئے جاتے تھے پہلے بھی مختلف قسم کے آلات ایجاد ہوچکے تھے اور پہلے بھی لوگ ان فنون میں مہارت رکھتے تھے مگر پھر ایک زمانہ ایسا آیا جب یہ علوم دنیا سے مٹ گئے اس لئے کئی ایسی ایجادات جو درحقیقت مسلمانو کی تھیں ان کے متعلق آج یورپ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے موجد ہیں حالانکہ وہ ان کے موجد نہیں بلکہ ان کے موجد مسلمان لوگ ہیں۔ اسی طرح جراثیم کا علم موجودہ زمانہ کی طبی تحقیق کا بہترین نچوڑ سمجھا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے پہلے دنیا کو جراثیم کا علم نہیں تھا لیکن ایک یورپین مصنف نے اپنی ایک کتاب میں اس پر بحث کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کہ جراثیم کا علم دنیا میں پہلے موجود نہیں تھا۔ وہ مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انہوں نے اس علم کی تحقیق کی اور وہ تحقیق کرتے کرتے اس کی آخری حد تک پہنچ گئے۔ مگر چونکہ ان کے پاس خوردبین نہیں تھی اس لئے وہ نام نہیں رکھ سکے ورنہ باقی سب کیفیتیں جو جراثیم کے متعلق ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہیں انہوں نے دریافت کرلی تھیں۔ چنانچہ اس نے مثال دی ہے کہ جب دارالسلام (بغداد) کی بنیاد رکھی جانے لگی تو بادشاہ نے ایک طبیب کو اس غرض کیلئے مقرر کیا کہ وہ مشورہ دے کہ دارالسلام کی بنیاد کس مقام پر رکھی جائے۔ وہ لکھتا ہے کہ بادشاہ کا ایک طبیب کومقرر کرنا اور اس سے یہ مشورہ حاصل کرنا کہ دارالسلام کی بنیاد کہاں رکھی جائے بتاتاہے کہ مسلمان بادشاہوں کو طب کا اس قدر علم تھا کہ وہ سمجھتے تھ کہ شہر کی بنیاد کا تعلق بھی طب سے ہے۔ چنانچہ طبیب مقرر ہوا اور اس نے حکم دیا کہ بکرے ذبح کرکے تمام علاقوں میں مختلف جگہوں پر ان کے ٹکڑے رکھ دیئے جائیں۔ کئی دنوں کے بعد اس نے تمام ٹکڑوں کا معائنہ کیا اور دیکھا کہ ان کی کیا حالت ہے۔ آخر اس نے بادشاہ کے پاس رپورٹ کی کہ آپ فلاں جگہ شاہی قلعہ بنائیں۔ فلاں جگہ چھائونی تیار کریں اور فلاں جگہ لوگوں کے لئے رہائشی مکانات تیار کرائیں کیونکہ ان مقامات پر بکروں کا گوشت یا تو کم سڑا ہے یا بالکل ہی نہیں سڑا اور فلاں فلاں مقامات پر اس میں زیادہ تعفن پیدا ہوا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن مقامات پر گوشت زیادہ سڑا ہے وہاں کی ہوا میں عفونت زیادہ ہے اور جن مقامات پر گوشت میں سڑاند پید انہیں ہوئی یا بہت کم پیدا ہوئی ہے وہاں کی ہوا زیادہ صاف ہے۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ یورپین مصنف لکھتا ہے کہ اس سے یہ حقیقت روشن ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی کہ آج سے سینکڑوں سال قبل مسلمانوں کو بیکٹیریا کا علم حاصل تھا ہم نے صرف خوردبین کے ذریعہ اس کو پکڑ لیا ہے ورنہ جہاں تک علمی تحقیق کا سوال ہے مسلمانوں نے بھی اس کاپتہ لگالیا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ہوا کی صفائی کا تعلق بعض غیرمرئی چیزوں کے ساتھ ہے جس جگہ وہ ہوتی ہیں وہاں تعفن پید اہوجانے سے انسانی صحت خراب ہوجاتی ہے اور جہاں نہیں ہوتیں وہاں انسان کی صحت اچھی رہتی ہے۔ پس یہ علم وہ ہے جس کی مسلمانوں نے داغ بیل ڈالی اور اپنے زمانہ میں انہوں نے اس سے فائدہ بھی اٹھایا مگر پھر بھی ان کی اپنی نسلیں بھی بھول گئیں اور باقی دنیا کو بھی یاد نہ رہا کہ اس علم کا کون موجد تھا۔ چنانچہ آج جب یورپین محققین نے جراثیم کا علم دریافت کیا تو انہوں نے یہ خیال کرنا شروع کردیا کہ اس علم کے اولین موجد ہم ہیں حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مسلمان اس سے پہلے یہ علم حاصل کرچکے تھے۔
پس جب بھی کوئی فخر کرتا ہے حقیقت کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ اس سے پہلے بھی دنیا میں بہت لوگ گذر چکے ہیں اور وہ اپنے اپنے زمانوںمیں بڑی شہرت کے مالک رہے ہیں میرے لئے فخر کا کونسا مقام ہے ۔ پس تکاثر سے کا م لینے والا صرف خدا تعالیٰ کی ذات کو نظر انداز نہیں کرتا ۔ اس کے ملائکہ کو نظر انداز نہیں کرتا بلکہ دنیا کے سابق علوم اور سابق ایجادات سے بھی انکار کر دیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اسکے باپ دادا تو محض جاہل تھے کمال صرف اسی کو حاصل ہوا ہے ۔پس تکا ثر کا ایک نتیجہ واقعات کے انکار کی صورت میں رونما ہوتا ہے ۔ پھر اسکے نتیجہ میں تکبر بھی پیدا ہوتا ہے اور غرباپر ظلم شرو ع ہو جاتاہے۔بجائے اسکے کہ انسان کا ذہن اس طرف جائے کہ مجھے اللہ تعالی نے اسلئے مال دیا ہے کہ میں غریبوں کی خدمت کروں اس کا ذہن اس طرف چلا جاتا ہے کہ میں بڑا ہوں میرا یہ کام ہے کہ میں دوسروں سے خدمت لوں اور دوسروں کا کام یہ ہے کہ وہ میری غلامی اختیار کریں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ تمام اخلاق فاضلہ اس کی نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں ۔ پس چونکہ بہت سی ایسی چیزیں تھیںجن سے تکاثر نے انسان کو محروم کر دینا تھا اس لئے اگر یہ کہا جاتا کہ الھکم ا لتکا ثر عن اللہ یا کہا جاتاا لھکم التکا ثرعن صفات اللہ یاکہا جاتا الھکم ا لتکاثرعن ملئکۃاللہیا کہا جاتا الھکم التکاث عن انبیاء اللہ یا کہا جاتا ا لھکم التکاثر عن لاخلاق یا کہا جاتا الھکم التکاثرعن العبادات یا کہا جاتا الھکم التکاثر عن ا لتاریخ تو ایک لمبا مضمون بن جاتا اور پھر بھی اپنے بیان میں ناقص اور نا تمام ہی رہتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو مجمل الفاظ میں بیان کیا اور الھی کے بعد عنکا ذکر نہیں کیا یعنی یہ بیان نہیں کیا کہ تمہیں تکاثر نے کس چیز سے غافل کر دیا ہے تاکہ تمام وہ چیزیں جن سے تکاثر نے غافل کر دیا یا جن سے تکاثر غافل کر سکتا ہے وہ ایک ایک کر کے انسان کے ذہن میں آجائیں اور وہ اس مضمون سے زیادہ سے زیادہ سبق حاصل کرے۔ غرض اس ابہام میں یہی حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ جتنی باتوں سے تکاثر انسان کو غافل کر دیا کرتا ہے وہ سب کی سب باتیں اس آیت میں شامل ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ تم کسی ایک نیکی سے نہیں بلکہ سب کی سب نیکیوں اس روح مفاخرت کی وجہ سے محروم ہو گئے ہو ۔ پس عن کے چھوڑ دینے کی وجہ سے اس مضمون کو نہایت وسیع اور شاندار بنا دیا گیا ہے۔
(۲) دوسرا صلہ فی کا چھوڑا گیا ہے یعنی یہ نہیں فرمایا کہ تم کس چیز میں اپنی بڑائی کرتے ہو اور بڑائی حاصل کرنا چاہتے ہو۔ اس ابہام میں یہ فائدہ بھی مدنظر رکھا گیا ہے کہ کفار جہاں تک دنیوی طاقت کا سوال ہے ہر بات میں مسلمانوں سے زیادہ تھے۔ وہ اپنی تعداد پر بھی فخر کرتے تھے، اپنی تجارت پر بھی فخر کرتے تھے۔ اپنے وسیع تعلقات پر بھی فخر کرتے تھے۔ اپنے جمع کردہ اموال کی کثرت پر بھی فخر کرتے تھے۔ اپنے نوجوانوں کی جنگی مہارت پر بھی فخر کرتے تھے۔ اپنی اعلیٰ سواریوں پر بھی فخرکرتے تھے۔ اپنے مسحور کر دینے والے شعراء پر بھی فخر کرتے تھے۔ اپنے گرمادینے والے خطیبوں پر بھی فخر کرتے تھے۔ اپنے عقل و دانش میں مشہور بوڑھوں پر بھی فخر کرتے تھے۔ قومی جذبات سے معمور سینوں والی مائوں پر بھی فخر کرتے تھے۔ قوم کی عزت پر مر مٹنے والے سپاہیوں پر بھی فخر کرتے تھے اور اسی طرح اور بہت سے امور میں مسلمانوںکو اپنے سے ادنیٰ اور کمزور قرار دے کر ان کی تحقیر کرتے تھے اور ان کے دعاوی کو غیرمعمولی اور بے ثبوت و دلیل دعاوی قرار دیتے تھے۔ قرآن کریم جہاں تک ان کے ہر امر میں زیادہ ہونے کا سوال ہے ان کے دعویٰ کو ردّ نہیں کرتا۔ وہ مانتا ہے کہ عدد میں، مال میں، سامانو میں، جتھا بندی میں تم سے زیادہ ہو۔ لیکن صرف اتنا کہتا ہے کہ ان چیزوں کی زیادتی نے تم کو اخلاق فاضلہ اور دین سے محروم کردیا ہے اور انسان مال اور دولت سے نہیں جیتا کرتا بلکہ اخلاق و انکسار سے جیتا کرتا ہے۔ پس یہ زیادتیاں اور بڑھوتیاں تمہارے لئے مفید نہیں بلکہ مضر ہیں کیونکہ سامان کم ہوتے تو تم اپنی ترقی کیلئے کوشش کرتے۔ اب سامانوں کی فراوانی نے تم کو سست اور غافل بنادیا ہے اور ان اخلاق کے کمانے سے محروم کردیا ہے جن کو کمائے بغیر انسان کو پائدار دولت حاصل نہیں ہوا کرتی۔ اس لئے یہ دولت تم کو نجات نہ دلائے گی بلکہ تمہاری تباہی کا موجب ہوگی۔ گرتے ہوئے سوار ایک بچے سے بھی کمزور ہوتے ہیں اور بوسیدہ عمارت ایک جھونپڑی سے بھی بے قیمت ہوتی ہے۔
بعض روایات میں اس وسیع المطالب سورۃ کے مضامین کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چنانچہ کلبی کہتے ہیں کہ بنوعبد مناف اور بنو سہیم کے درمیان بحث ہوئی کہ اسلام میں کون زیادہ معزز ہے۔ چنانچہ بنو عبد مناف اور بنو سہیم دونوں نے پہلے اپنے اپنے زندہ سردار اور لیڈر اور جرنیل گنانے شروع کئے۔ بنو عبد مناف نے کہاکہ ہم میں اتنے سردار ہیں، اتنے قاضی ہیں، اتنے جرنیل ہیں اور اتنے لیڈر ہیں اور بنو سہیم نے اپنے سردار اور قاضی اور لیڈر اور جرنیل گنائے آخر بنو عبد مناف بڑھ گئے۔ جب بنو سہیم نے دیکھا کہ یہ لوگ زندوں کا مقابلہ کرنے میں ہم جیت گئے تو انہوں نے کہا آئو ہم سے مردوں میں مقابلہ کرلو۔ دیکھو کہ ہم میں سے زیادہ لوگ اسلام پر قربان ہوئے یا تم میں سے زیادہ لوگوں نے اسلام کیلئے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ چنانچہ بنو عبد مناف اور بنو سہیم دونوں مقبروں میں گئے اور انہوں نے اپنے اپنے مردے گنانے شروع کئے کہ ہم میں سے اتنے لوگوں کو خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے اور تم میں سے اتنے لوگوں کو یہ سعادت حاصل ہوئی ہے ۔ اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی کہ الھکم التکاثر حتی زرتم المقابر۔ تمہیں تکاثر نے اس حد تک غافل کردیا ہے کہ تم قبروں میں گئے اور تم نے مردے گنانے شروع کردئے۔ اس روایت کے برخلاف ابوہریرہؓ سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ انصار کے دو قبائل بنور حارثہ اور بنو الحرث نے یہ مقابلہ کیا کہ انہوں نے پہلے اپنے زندہ لیڈر گنوائے اور پھر مردہ۔ لیکن مقاتل اور قتادہ کے نزدیک یہاں نہ بنو عبد مناف اور نہ بنو سہیم کا ذکر نہ بنو حارثہ اور بنو الحرث کا ۔ بلکہ یہاں یہود کا ذکر ہے۔ ان روایات کے تشتت اور اختلاف سے ہی پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم ﷺ سے کوئی قطعی بات ثابت نہیں ۔ اگر ثابت ہوتی تو یہ تین الگ الگ قسم کی روایات کیوں آتیں۔ کیونکہ بعض کا ذہن انصار کی طرف چلا جاتا ہے۔ بعض کا یہود کی طرف اوربعض کا عبد مناف اور بنوسہیم کی طرف۔ یہ کہنا کہ اس سورۃ کا شانِ نزول یہی ہے اس کا مطلب جیسا کہ میں نے بارہا بتایاہے صرف اتنا ہے کہ اس واقعہ پر بھی یہ سورۃ چسپاں ہوتی ہے نہ یہ کہ اس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کو نازل فرمایا۔ ممکن ہے بعض دفعہ بنو حارثہ اوربنو الحرث کا آپس میں اس طرح مقابلہ ہوا ہو اور کسی نے کہا ہو کہ تمہاری تو وہی حالت ہے جو الھکم التکاثر میں بیان کی گئی ہے یا کبھی بنو عبد مناف اور بنو سہیم میں مقابلہ ہوا ہو اور رسول کریم ﷺ نے ہی کہہ دیا ہو کہ تم یہ کیا لغو حرکت کررہے ہو ۔ تمہاری تو وہی مثال ہے جو الھکم التکاثر میں بیان ہوئی ہے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوسکتے کہ یہ سورۃ ان کیلئے نازل ہوئی تھی کیونکہ قرآن کریم نبوت حقہ کے قیام اور اسلام کے استحکام کیلئے آیا ہے بنو حارثہ اور بنو الحرث یا بنو عبدمناف اور بنو سہیم کے جھگڑوں کے قصے بیان کرنے کیلئے نہیں آیا۔ ہاں مثال کے طور پر اگر کوئی جھگڑا ہو تو اس پر اس آیت کو چسپاں کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر کبھی بازار جائیں اور دیکھیں کہ ایک دکاندار دوسرے سے لڑ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ میرے مقابلہ میں تیری حیثیت ہی کیا ہے۔ میرے پاس بھینس ہے، میرے پاس گھوڑا ہے، میرے پاس مکان ہے، میرے پاس زمین ہے اور تمہارے پاس کچھ بھی نہیں۔ اس وقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ تم یہ کیالغو حرکت کررہے ہو تمہیں تو تکاثر نے اعلیٰ اخلاق سے بالکل محروم کردیا ہے۔ ہمارے اس قول کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ یہ سورۃ صرف تمہارے لئے نازل ہوئی ہے بلکہ اس کا مطلب صرف اتنا ہوگا کہ اس سورۃ کا مضمون تمہارے اس جھگڑے پر بھی چسپاں ہوتا ہے۔ پس اس سورۃ کا جو شان نزول بتایا جاتا ہے اس کے معنے صرف اتنے ہیں کہ بعض واقعات صحابہؓ کے زمانہ میں بھی ایسے ہوئے جن پر یہ سورۃ چسپاں ہوتی ہے ورنہ یہ سورۃ اپنے اندر بہت وسیع مطالب رکھتی ہے۔
چونکہ اس سورۃ میں ماضی کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اس لئے بعض لوگوں کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سورۃ میں ماضی کے الفاظ کس حکمت کے ماتحت استعمال کئے گئے ہیں اور چونکہ انہوں نے زرتم المقابر کے معنے انسان کے مرجانے اور اس کے قبر میں داخل ہوجانے کے کئے ہیں۔ اس لئے بعض نے کہا ہے کہ الھکم التکاثر حتی زرتم المقابر تحقیق وقوع کیلئے آیا ہے یعنی تکاثر نے تم کو غافل کردیا یہاں تک کہ تم مرگئے۔ یعنی چونکہ یہ بات ضرور ہوکر رہنی ہے اور موت ایسی چیز ہے جس سے کسی انسان کو مفر نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں ماضی کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ یہ بتانے کیلئے یہ بات ایسی قطعی اور یقینی ہے کہ ہم اس کے مضارع کا صیغہ استعمال کرنے کی بجائے ماضی کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ بات صحیح نہیں۔ اس لئے کہ تحقق وقوع کا مسئلہ وہاں چسپاں ہوتا ہے جہاں وقوعہ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو مثلاً قرآن کریم نے یہ پیشگوئی کی کہ محمدرسول اللہ ﷺ جیتیں گے اور مکہ کو ایک دن فتح کریں گے۔ اب مکہ کا فتح ہونا کفار کی نظروں سے بالکل پوشیدہ امر تھا اور وہ اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتے تھے کہ محمد رسول اللہ ﷺ ایک دن اپنے صحابہ سمیت مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوں گے اور کفار ان کے زیر نگین آجائیں گے۔ پس چونکہ یہ بات کفار کی نگاہ میں بالکل غیر ممکن تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس پر زور دینے کی بجائے ماضی کا صیغہ استعمال کردیا اور بتادیا کہ تم تو اس پیشگوئی کو نہیں مانتے لیکن ہم سے ایسا قطعی اور یقینی سمجھتے ہیں جیسے ماضی یقینی ہوتی ہے اور جس کے وقوع میں کسی کوکوئی شبہ نہیں ہوتا۔ لیکن زیارتِ قبور یا قبروں میں داخل ہونا تو ایک ایسی بات ہے جس کا کفار بھی انکار نہیں کرتے تھے اور وہ تسلیم کرتے تھے کہ ہر انسان ایک دن لازماً مرجائے گا۔ پس اس قاعدہ کا اطلاق یہاں درست نہیں۔ یہ قاعدہ وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں مخاطب تو انکار کررہا ہو اور متکلم کواپنے کلام پر زور دینا مقصود ہو۔
بعض اورلوگوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ چونکہ یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ ہمیشہ دنیا میں قومیں تکاثر کرتی آئی ہیں اور چونکہ دنیا میں زندوں کی نسبت مردے زیادہ ہیں اس لئے کثرت کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے یہاں ماضی کا صیغہ استعمال کردیا ہے۔ وہ اپنی اس توجیہہ کی بنیاد اس امر پر رکھتے ہیں کہ حدیثوں سے پتہ لگتا ہے رسول کریم ﷺ آخری زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ سے پہلے دنیا میں بہت سی قومیں گزرچکی ہیں جن کا مجموعی زمانہ کئی ہزار سال کا ہے۔ پس چونکہ ماضی کی کثرت ہے اس لئے کثرت کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے یہاں ماضی کا صیغہ استعمال کردیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ جس جماعت کوکثرت اور غلبہ حاصل ہو اسی کے مطابق صیغے استعمال کرلئے جاتے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں کئی جگہ نماز روزہ کے احکام میں صرف مردوں کا ذکر کیا گیا ہے عورتوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ عورتیں اس میں شامل ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ چونکہ پہلے لوگ کثیر تھے اور بعد میں آنے والے قلیل ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے الھکم التکاثر حتی زرتم المقابر کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔
یہ معنے پہلے معنوں سے زیادہ معقول ہیں مگر یہ کہنا کہ چونکہ رسول کریم ﷺ آخرمیں تشریف لائے اس لئے ضروری ہے کہ بعد میں آنے والے لوگ پہلوں کی نسبت کم ہوں یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم ﷺ آخری زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ پہلے ساری دنیا کی بھی اتنی آبادی نہیں تھی جتنی آج صرف ہندوستان کی ہے۔ پہلے زمانہ میں نہ لوگوں کو امن کی قدر و قیمت معلوم تھی، نہ آپس میںمیل جول کی سہولتیں میسر تھیں، نہ علوم کی کثرت تھی، نہ ایجادات کا دور دورہ تھا، نہ زندگی کو بہتر بنانے کے اصول لوگوں کو معلوم تھے، نہ آبادی کو ترقی دینے کے ذرائع کی انہیں کچھ خبر تھی۔ اس وقت تمدن بھی ابتدائی حالت میں تھا، اس وقت سیاست بھی ابتدائی حالت میں تھی، اس وقت علم بھی ابتدائی حالت میں تھا اور اس وقت دنیا کا آپس میں وہ رابطہ و اتحاد نہیں تھا جو موجودہ زمانہ میں نہایت وسیع طور پر پایا جاتا ہے۔ رسول کریم ﷺکے زمانہ کو اللہ تعالیٰ نے چونکہ تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ قرار دیا تھا اس لئے آپ کی بعثت کے ساتھ ہی دنیا کی حالت میں ایک غیرمعمولی تغیر پیدا ہوا۔ علم کا چارں طرف چرچا شروع ہوگیا۔ تمدن اپنے ارتقاء کی منازل بڑی سرعت سے طے کرنے لگا۔ ذرائع نقل و حرکت میں ایک نیا دور شروع ہوگیا اور دنیا کی آبادی جو پہلے متفرق قبائل کا رنگ رکھتیتھی ایک ملک کا رنگ اختیار کرگئی۔ قوموں کا قوموں سے اور ملکوں کا ملکوں سے ایک گہرا تعلق قائم ہوگیا۔ سفر کی سہولتیں میسر آگئیں اور لوگ بڑی کثرت کے ساتھ ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگ گئے۔ ان وجوہ کا قدرتی طور پر یہ نتیجہ نکلا کہ دنیاکی آبادی بھی پہلے کی نسبت بہت بڑھ گئی اور زمین کو آباد کرنے کے ایسے وسائل نکل آئے جو اس سے پہلے کسی کے واہمہ میں بھی نہیں آئے تھے۔ پس بیشک یہ درست بات ہے کہ رسول کریم ﷺ زمانہ کے آخری حصہ میں تشریف لائے ہیں مگر یقینی اور قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پہلے زمانوں کے لوگ اس زمانہ کے لوگوں سے اپنی تعداد میں زیادہ تھے۔ یہ تو ہم کہتے ہیں اور یقینا کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ آخری زمانہ میں آئے مگر یہ کہ رسول کریم ﷺ کے یوم ظہورسے لے کر قیامت تک جس قدر مومن اور کافر ہوں گے ان کی تعداد پہلی امتوں کے مومنوں اور کافروں سے کم رہے گی۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا غالباً یہ بات صحیح نہیں گو قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
میرے نزدیک یہ سب دور کی کوڑیاں ہیں۔ اس جگہ مکہ والوں کو اللہ تعالیٰ مخاطب فرماتا ہے اور ان کی دینی و دنیوی پستی اور تباہی کی حقیقت بیان فرماتا ہے اور چونکہ عقلی دلیل ہر جگہ چسپاں ہوسکتی ہے اس لئے اس سے ایک قاعدہ کلیہ کا بھی پتہ چل جاتا ہے اور تسلیم کرناپڑتا ہے کہ جو قانون ان کیلئے تھا وہی اگلی قوموں کیلئے بھی ہوگا۔ مثلاً ہم زید کو کہیں کہ تم زہر نہ کھائو ورنہ مرجائو گے۔ اب یہ فقرہ تو زید سے کہا گیا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ یہ بات صرف زید سے تعلق رکھتی ہے بلکہ جو شخص بھی زہر کھائے گا مرجائے گا۔ پس گو اس فقرہ کا پہلا مخاطب زید ہوگا اور ہماری نصیحت صرف زید کو ہوگی کہ تو زہر نہ کھا۔ مگر اس سے یہ قاعدہ کلیہ بھی نکل آئے گا کہ جو شخص زہر کھائے گا مرجائے گا۔
میرے نزدیک ان آیات میں مقابر کے لفظ سے مٹی والی قبریں مراد نہیں بلکہ تباہی اور بربادی مراد ہے اور اگر ہم یہ معنے کریں تو یہ آیات اپنے مطالب کے لحاظ سے وسیع بھی ہوجاتی ہیں اور کسی غیرمعمولی تاویل کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الھکم التکاثر ۔ تم لوگوں کو تکاثر نے اتنا غافل بنادیا ہے کہ جن چیزوں سے تکاثر نے تمہیں روکا تھا ان کی طرف تم لوٹ نہیں سکے یہاں تک کہ تم تباہی کے سرے پر پہنچ گئے اور تمہاری بربادی کا وقت آگیا۔ پس زرتم المقابر سے مقبرئہ جسمانی مراد نہیں بلکہ یہ وہ مقبرہ ہے جس کامحاورئہ زبان میںذکر کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ فلاں قوم تومرگئی یا فلاں شخص کے متعلق تم کیا پوچھتے ہو وہ تو مرگیا یعنی اس کے اندر بیداری کی روح نہیں رہی، اس میں اخلاقی زندگی نہیں رہی، اس میںدینی زندگی نہیں رہی، اس میں قومی زندگی نہیں رہی، اس میںسیاسی زندگی نہیں رہی، اس میں عائلی زندگی نہیں رہی۔ جب کسی قوم یا فرد کی یہ حالت ہو تو کہتے ہیں کہ اس پر موت طاری ہوگئی۔پس یہاں ان ساری چیزوں کی نفی کی گئی ہے جن سے تکاثر انان کو محروم کردیا کرتا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم میں دین بھی نہیں رہا، تم میں دنیا بھی نہیں رہی، تم میں اخلاق بھی نہیں رہے، تم میں علم بھی نہیں رہا۔ ایسا آدمی کسی ایک موت کے نیچے نہیں ہزاروں موتوں کے نیچے دبا ہوا ہوتا ہے۔ پس الھکم التکاثر کے معنے یہ ہوں گے کہ قومی طور پر تم تنزل اور بربادی کا وہ دور آگیا ہے کہ جس کے بعد کوئی قوم زندہ نہیں کہلاسکتی۔ اور گو اس میں مکہ والے مخاطب ہیں مگر اس ذریعہ سے یہ قانون بھی بیان کردیا گیا ہے کہ جو قوم تکاثر کے پیچھے پڑ تی ہے وہ مقبرہ کو پہنچ جاتی ہے یعنی وہ قوم آخر مرجاتی اور دنیا سے ہمیشہ کیلئے نابود ہوجاتی ہے۔ غرض اس سورۃ میں مکہ والوں کی توجہ کو اس سبب کی طرف پھرایا گیاہے جو اقوام کو خداتعالیٰ اور اس کے پیغام سے غافل کرکے آخر تباہ کردیتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو مکہ والوں کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کے ذریعہ ایک بہت بڑی عزت حاصل ہوئی۔ ایک زمانہ میں دو رسول ان کی طرف مبعوث ہوئے جنہوںنے اللہ تعالیٰ کا پیغام ان کے کانوں تک پہنچایا۔ اس کے نتیجہ میں ان میں بیداری بھی پیدا ہوئی اور ان میں زندگی کی روح بھی حرکت کرنے لگی۔ مکہ ایک بنجر اور غیر آباد علاقہ تھا۔ عاد اور ثمود کی قومیں اس علاقہ پر مدتوں سے حکومت کرتی چلی آئیں تھیںمگر اللہ تعالی کے انبیاء پر ایمان لانے کے نتیجہ میں ان کے اندر ایسا تغیر پیدا ہوا کہ حکومت ان کے قبضہ میں آگئی اور تمام عرب نے ان کے سامنے اپنی گردنیںخم کر دیں۔ اللہ تعالی کا یہ قانون ہے کہ دنیا میں جب کسی قوم کو روحانی رنگ میں عزت ملتی ہے تو خدا تعالی کے نبی اور اسکے معمور کی بعثت کے نتیجہ میں ہی ملتی ہے مگر اسکا لازمی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ دنیوی عزت بھی اس قوم کو حاصل ہو جاتی ہے اور لوگ ان کی ظاہری عظمت کو دیکھ کر واہ واہ کرنے لگتے ہیں ۔ حجرت ابراہیم علیہ اسلام خدا تعالی کے نبی تھے بڑے صناع یا تاجر نہ تھے وہ اپنی قوم کو خدا دینے کے لیئے آئے تھے صنعت یا تجارت یا حکومت میں غلبہ دینے کے لیئے نہیں آئے تھے ۔مگر دین کے نتیجہ میں دنیوی حکومت بھی اس قوم میں آگئی اور اس کو صرف خدا نہیں ملا بلکہ بادشاہت اور حکومت بھی مل گئی ۔پس خدا تعالی کی یہ سنت کہ جب کسی قوم کو ایک نبی کے ذریعہ خدا ملتا ہے تو اس کو دنیا بھی مل جاتی ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ خدا تعالی کے قرب سے انسان کے اخلاق درست ہوتے ہیں اور اخلاق درست ہونے سے دنیا کی گردنیں بھی خود بخود جھکنے لگتی ہیں۔آج تک کوئی نبی بھی دنیا میں ایسا نہیں آیاجس نے ایک ذلیل اور مقہور قوم کو اٹھا کر بلند ترین مقام تک نہ پہنچادیا ہو۔موسوی قوم کیا تھی ؟پتھیروں کا کام کرتی تھی مگر موسیؑ سے مل کر وہ بادشاہ بن گئے ۔عیسیؑ کے ماننے والے کیا تھے ؟چند مچھلیاں پکڑنے والے معمولی افراد تھے مگر عیسیؑ کو مان کر دنیا کے بادشاہ بن گئے ۔محمدرسول اللہﷺ کے ماننے والے کیا تھے؟اونٹوں کے چرواہے تھے مگر محمد رسول اللہ پر ایمان لانے کی برکت سے وہ دنیا کے باشاہ بن گئے۔پس انبیاء صرف دین ہی نہیں لاتے بلکہ جوں جوں ان کی جماعت ترقی کرتی جاتی ہے ان کو دنیوی طور پر غلبہ ملتاجاتاہے اور جب یہ غلبہ انہیں حا صل ہو جاتا ہے تو وہ لوگ جن پر انکی نیکی اور تقویاور روحانیت کا کوئی اثر نہیں ہوتا وہ ان کے ظاہری غلبہ کو دیکھ کر متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ان لوگوں کا مقابلہ کس طرح ہو سکتا ہے ان کو تو بہت بڑی شوکت حاصل ہوگئی ہے ۔
غرض ایک مومن جماعت کی دو حیثیتں ہو ہیں ۔ایک اسکی ذاتی حیثیت ہوتی ہے اور حیثیت وہ ہوتی ہے جس میں اسے دوسرے لوگ دیکھتے ہیں ۔جب مومن اپنے نفوس پر ذاتی حیثیت سے غور کرتے ہیں تو کہتے ہیں الحمد للہ ہم لوگ خدا تعالی پر ایمان لانے والے ، اس کی توحید کو تسلیم کرنے والے ،اخلاق پر عمل پیرا ہونے والے اور اسکے اوامر کو پوری دیانت داری کے ساتھ بجا لانے والے ہیں ۔ اللہ تعالی نے ہم پر کتنا بڑا احسان کیا کہ اس نے اپنا نبی ہم میں بھیجا اور پھر اس نے ہمیں توفیق بخشی کہ ہم اس پر ایمان لائیں اور اپنی زندگی اسکی غلا می میں بسر کریں ۔ لیکن دوسرے لوگ اس حقیقت کو نہیں دیکھتے وہ صرف ان کی ظاہری عظمت کو دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں اور کیتے ہیں انہیں کتنی بڑی طاقت حاصل ہو گئی ہے ۔ جب ابوبکرؓ اور عمرؓ کو صحابہ دیکھتے تھے تو ابوبکر بادشاہ یا عمر بادشاہ کی حیثیت میں نہیں دیکھتے تھے بلکہ اس حیثیت میں دیکھتے تھے کہ ابو بکرؓ وہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہا اور جسے اسلام کے لیے بہت بڑی قربانیاں کرنے کا موقع ملا ۔ اسی طرح عمرؓ وہ ہے جس نے ا سلام کی بہت بڑی خدمات سر انجام دیں۔وہ انکی خوبی انکی ظاہری شوکت میں نہیں سمجھتے تھے بلکہ انکی بڑی خوبی یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالی نے ان کی نمازوں میں برکت رکھی ہے ۔ان کی دعائوں میں برکت رکھی ہے ۔ ان کے روزوں میں برکت رکھی ہے ۔ان کے تقوی میں برکت رکھی ہے اور انہیں اپنے قرب کے لیے چن لیا ہے یہ تو وہ چیز تھی جو صحابہ کو نظر آتی تھی مگر عیسائیوں اور یہودیوں کو کیا نظر آتا تھا ؟ وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ ابوبکرؓ بڑا نمازی ہے یا اسکی دعائیں قبول ہوتی ہیں یا اس نے اسلام اور محمد ﷺ کے لیے بڑی بھاری قربانیاں کی ہیں وہ ان ساری باتوں سے اندھے تھے ۔انہیں اگر نظر آتا تھا تو یہ کہ ابوبکرؓ بڑا بادشاہ ہو گیا ہے ۔ عمرؓ بڑا بادشاہ ہو گیا ہے انہوں نے قیصر کو شکست دے دی ہے ، انہوں نے کسری کو تباہ کر دیا ہے ، انہون نے ملکوں پر قبضہ کر لیا ہے ، انہوں نے بڑے بڑے لوگوں کو اپنے اندر شامل کر لیا ہے ۔ پس جب نبی کے ذریعہ کسی جماعت کو حکومت ملتی ہے تو اسکے بعد اسکے کان میں یہ ایک نئی آوازآنی شروع ہو جاتی ہے کہ یہ لوگ بہت بڑے ہو گئے ہیں ۔دنیوی ترقی سے پہلے تو یہ آوازیں آیا کرتی تھیں کہ یہ لوگ نماز یں پڑھنے والے،روزے رکھنے والے ، دعائیں کرنے والے ،صدقہ وخیرات میں حصہ لینے والے ،غربااوریتامی اور مساکین کا خیال رکھنے والے ہیں۔لیکن جب انہیں غیر قوموں پر غلبہ حاصل ہو جاتا ہے تو لوگ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ لوگ تو بڑے دولت مند ہیں ،بڑے با اثر ہیں ،بڑی رعایا انکے ماتحت ہے ،ان کا مقابلہ ہم کہاں کر سکتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب زمانہ نبوت سے بعد ہو جاتا ہے اور وہ لوگ مر جاتے ہیں جنہوں نے نبی کی صحبت میں اپنا وقت گذارا ہوتا ہے اور جو جانتے تھے کہ ہم کچھ نہیں تھے جو کچھ ہوا اللہ تعالی کے فضل سے ہوا اور جو کچھ ہوگا اللہ تعالی کے فضل سے ہوگا تو ان کی اولادیں نفس کی آواز کی نسبت دوسرے لوگوں کی آوازوں پر کان دھرنا شروع کر دیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ اب دوسروں کا فرض ہے کہ ہماری غلامی اختیار کریں ۔ چنانچہ دیکھ لو ایک عرصہ کے بعدصحابہ ؓ کو بڑی عظمت حاصل ہوئی اور اللہ تعالی نے انہیں حکومتیںبھی دے دیں مگر چونکہ وہ اپنے نفس میں یہ سمجھتے تھے کہ ہم اونٹوں کے چرواہے تھے اس لیے ان میں حکومت کے زمانہ میں بھی کبر پیدا نہیں ہوا ۔ جب کسری کے خزانے فتح ہوئے تو مال غنیمت میں کسری کا وہ رومال بھی آیا جو وہ اس وقت اپنے ہاتھ میں لیا کرتا تھا جب وہ تخت پر بیٹھتا تھا ۔ کسری کو اس رومال کی عظمت کا کوئی احساس ہوگا لیکن صحابہ اسکی کیا عظمت سمجھتے تھے ۔ ان کے نزدیک تو ساری عظمت نماز میں تھی ، روزہ میں تھی ، زکوۃ میں تھی ،صدقہ و خیرات میں تھی ، غریبوں کو کھانا کھلانے میں تھی ،تعلیم میں تھی تربیت مین تھی ۔میرا مطلب یہ نہیں کین ان کے دلوں میں ان چیزوں کی کوئی قدر نہیں تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے اس انعام کے مقابلہ میں جو اسنے ان پر اس رنگ میں کیا کہ انہیں محمدرسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا نصیب ہوا ان چیزوں کو بالکل حقیر سمجھتے تھے ۔ جس طرح آج کل کے بعض فیشن ایبل نوجوان اپنی جیب میں رومال ذرا باہر نکال کر رکھتے ہیں تاکہ لوگوں کو بھی نظر آتا رہے اسی طرح کسری یہ رومال تخت پر بیٹھتے وقت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا ۔ یہ رومال مال غنیمت میں تقسیم ہو کر حضرت ابوہریرہؓ کر حصہ میں آیا ۔ایک دن انہیں کھانسی اٹھی اور بلغم آیا تو انہون نے وہ رومال نکال کر اس میںتھوک دیا اور پھر کچھ خیال آنے پر کہا بخ بخ ابو ہر یرہ۔ واہ واہ ابوہر یرہ تیری بھی کیا شان ہے کبھی بھوک کی وجہ سے تجھے جوتیاں پڑا کرتی تھیں اور آج تو کسری کے رومال پر تھوک رہا ہے ۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟حضرت ابوہریرہؓ نے کہا میں نے جب اسلام قبول کیا تو اس وقت رسول کریم ﷺکی بعثت پر ایک لمبا عرصہ گذر چکا تھا چنانچہ میرے ایمان لانے کے بعد رسول کریم ﷺ صرف تین سال زندہ رہے چونکہ میں نے بہت بعد میں اسلام قبول کیا تھا اس لیے میں نے عہد کیا کہ میں رسول کریم ﷺکے دروازہ سے اب ہلوں گا نہیں لوگوں نے تو بہت باتیں سن لی ہیں مگر میں نے کچھ نہیں سنا ۔ معلوم نہیں رسول کریم کی کتنی زندگی باقی ہے اس لیے اب میں آپ کے دروازہ پر پڑا رہوں گا تا ہر بات آپکی سنوں اور اسے یاد رکھوں۔ چنانچہ میں مسجد میں ہی بیٹھا رہتا اور اس ڈر کے مارے کہ کہیں رسول کریم ﷺباہر تشریف نہ لے آئیںاور آپکی باتیں سننے سے محروم نہرہوں ادھر ادھر بھی نہ جاتا اور نہ کوئی کمائی کرتا ۔ میں یہی سمجھتا تھا کہ اگر میں نے کوئی روزگار کیا تو رسول کریم ﷺ کی باتیں پھر پرانے لوگ ہی سن لیں گے اور میں ان کے سننے سے محروم رہوں گا ۔چنانچہ میں مسجد میں ہی بیٹھا رہتا ۔ بعض لوگ مجھے روٹی دے جاتے اور میں خدا تعا لی کا شکر ادا کرتے ہوئے اسے کھا لیتا۔ لیکن بعض دفعہ مجھے سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا اور کوئی شخص میرے لیے روٹی نہ لاتا آخر اس قدر ضعف ہو جاتا کہ میں بے ہوش ہو کر گر جاتا اور لوگ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے ۔عربوں میں اسلام سے پہلے یہ رواج تھا کہ جب کسی کو مرگی کا دورہ ہوتا تو اس کے سر پرجوتیاں مارتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ اسکا علاج ہے ۔ ابو ہر یرہؓ کہتے ہیں جب میں بے ہوش ہو جاتا تو لوگ اسی معمول کے مطابق میرے سر پر بھی جوتیاں مارنے لگ جاتے اور وہ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے حالانکہ میں بھوک کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہوتا تھا ۔ اب کجا تو یہ حالت تھی کہ میں بے ہوش ہوجاتا تو لوگ میرے سر پر مرگی کا دورہ سمجھ کر جوتیاں مارتے اور کجا یہ حالت ہے کہ کسری کا وہ رومال جس کا میلا ہونا بھی کسری برداشت نہیں کر سکتا تھا میں اس میں بلغم تھوک رہا ہوں۔
غرض صحابہ کے سامنے ہمیشہ اپنے ابتدائی حالات رہتے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ ہماری پہلے کیا حالت تھی اور ہم نے کس طرح ترقی کی ۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہماری ترقی محض اللہ تعالی کے فضل اور اسکی نصرت کا نتیجہ ہے ہماری کسی ذ اتی خوبی کا اس میں دخل نہیں یا اگر ہمیں یہ چیزیں ملی ہیںتو اس لیے نہیںکہ یہ چیزیں بڑی تھیں بلکہ اصل چیز تو تقوی وطہارت ہے یہ چیزیںبطور انعام اللہ تعالی کی طرف سے حاصل ہوئی ہیں ۔ مگر جب انکی اولادیں پیدا ہوئیں۔ جب وہ لوگ آئے جنہوں نے محمد رسولﷺ کا زمانہ نہیں دیکھا تھا ۔جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی کمزوری کا مشاہدہ نہین کیا تھا تو انہوں نے سمجھا کہ ہمارا خدا پر بھی حق ہے ، ملائکہ پر بھی حق ہے ،سلسلہ پر بھی حق ہے ، لوگوں پر بھی حق ہے اور سب کا فرض ہے کہ ہمارے لیے آرام و آسائش کے سامان مہیا کریں۔ اتنے میں یہودیوں اور عیسائیوں کی آوازیں بھی ان کے کانوں میں آنی شروع ہو گئیں کہ یہ لوگ بڑے دولت مند ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تکاثر میں مبتلاہو گئے اور خدا تعالی کے انعامات کو بھول گئے۔ ہر نبی کے بعد ایسا ہواہے۔موسیٰؑ آئے تو ان کے بعد ایسا ہی ہوا۔ عیسیٰ آئے تو ان کے بعد ایسا ہی ہوا ۔ محمدرسول اللہ ﷺ آئے تو ان کے بعد بھی ایسا ہی ہواگو خداتعالی کے فضل سے مسلمانوں میں تقوی کا زمانہ بہت لمبا رہا ہے اور کم لوگ ایسے گذرے ہیں جنہوں نے تکاثر سے کام لیا ۔ بہر حال جب ایسازمانہ آتاہے کہ انبیاء کی جما عتوں کی دنیوی عزت دیکھ کر لوگ واہ واہ کہنے لگ جاتے ہیں تو تکا ثر کا راستہ کھل جاتا ہے اور وہ اس واہ واہ کے اثر کے نیچے اسی راستہ پر چلنے لگتے ہیں جس راستہ پر پہلی قومیں چلیں اور جو اصل چیز ہوتی ہے اسے بھول جاتے ہیں اور جب دین کو بھول جاتے ہیںتو خالص مقصود دنیا رہ جاتی ہے اور وہ بے تحاشہ اسکی طرف بڑھنے لگتے ہیںآکر اس کے تین نتائج پیدا ہوتے ہیں۔
اول ۔ بنی نوع انسان میں ان کے خلاف ردعمل پیدا ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تکاثر کے نتیجہ میں تکبر پیدا ہوتا ہے اور تکبر کے نتیجہ میں لوٹ مار اور ظلم پیداہوتا ہے آخر بنی نوع انسان میں ان کے خلاف جوش پیدا ہوتا ہے اور وہ حکومت کو تباہ کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
دوم۔کبھی بنی نوع انسان میں تو ان کے خلاف رد عمل پیدا نہیں ہوتا لیکن انکی اپنی اولاد ان کی کمائی کواستعمال کر کے عیاش ہو جاتی ہے اور اس طرح ان میں اندرونی زوال پیدا ہونے لگتا ہے ۔ باپ دادا کی جائیداد چانکہ مفت ہاتھ آجاتی ہے اس لیے عیاشی میں مبتلا ہو کر وہ سب کچھ برباد کر دیتے ہیں ۔ بڑے بڑے بادشاہ ہوتے ہیں مگر عیاشی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ انہوں نے کنچنیاں رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔شرابیں پیتے رہتے ہیں اور حکومت کے کاموں کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ برباد ہو جاتے ہیں اور ان کی حکومت امراء میں تقسیم ہو جاتی ہے۔
سوم۔ یا پھر اللہ تعالی سے ہی اس قوم کی ٹکر ہو جاتی ہے یعنی کوئی ایسا سبب پیدا ہو جا تا ہے کہ دنیوی تباہی کے سامان تو نہیں ہوتے لیکن خدا تعالی کا عذاب نازل ہو کر اس قوم کو با لکل تباہ کر دیتا ہے۔
غرج جب کوئی قوم تکاثر کے نتیجہ میں زرتم ا لمقابر کے مقام پر پہنچ جائے تو اس میں ان تین حالتوں میں سے کوئی ایک حالت ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔ یا تو رعایا میں رد عمل پیدا ہوتا ہے اور وہ حاکموں کو توڑ دیتے ہیں یا اندرونی طور پر حکام میں ایسا تنزل پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ آپ ہی آپ ٹوٹنے لگ جاتے ہیں اور یا پھر خدائی غضب نازل ہو کر ان کو تباہ کر دیتا ہے ۔
چونکہ گذشتہ کئی سورتوں سے اہل مکہ کو خطاب کیا جا رہا ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے انہیں بتایا جا رہاہے کہ تمھا را محمد رسولﷺ کے مقابلہ میں کھڑاہونا اپنے آپ کو ہلاکت اور بربادی کے گڑھے میں گرانا ہے ۔تم لاکھ کوشش کرو اس مقابلہ میں تمھیں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ظاہر ہے کہ اس سورۃ میں بھی اہل مکہ سے ہی خطاب کیا گیا ہے ۔ پہلی سورتوں میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ تم غریبوں کو کھانا نہیں کھلاتے ، مساکین کو دھکے دیتے ہو ،یتامی کی خبر گیری نہیں کرتے ،مال ودولت آئے تو سب عیاشی میں اڑادیتے ہو اور اگر کوئی شخص روپیہ کو عیاشی میں نہیں اڑاتا تو وہ اتنے بخل سے کام لیتا ہے کہ قومی ضرورتوں کے باوجود وہ اس روپیہ کو غلق میں بند کرکے بیٹھ رہتا ہے اور اسے کسی مفید مصرف میں نہیں لاتا۔اسی طرح بتا گیا تھا کہ تمھا ری حالت یہ ہے کہ تم غلاموں کو مارتے ہو۔عورتوں کو ان کے حقوق نہیں دیتے اور ہر قسم کے ظلم وستم سے کام لیتے رہتے ہو۔اس کے مقابلہ میں محمد رسولﷺ اور آپ کے صحابہؓ وہ ہیں جن میں نیکی اور تقوی بدرجہ کمال پایاجاتا ہے۔وہ غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں،وہ مساکین پر رحم وشفقت سے کام لیتے ہیں، وہ یتامٰی کی خبر گیری کرتے ہیں،وہ مال ودولت کی حفاظت کرتے ہیں،وہ قومی ضروریات کو اپنی ذاتی ضروریا ت پر مقدم رکھتے ہیں۔اسی طرح وہ غلاموں سے حسن سلوک کرتے ہیں،وہ عورتوں کو ان کے حقوق پوری دیانتداری کے ساتھ اداکرتے ہیںاور کبھی ظلم وستم کے قریب بھی نہیں جاتے جب تمہارہ حالت اور ان کی حالت میں اس قدر بین فرق ہے تو تم کس طرح یہ خیال کر سکتے ہو کہ محمد رسول اللہﷺ کے مقابلہ میں تمہیں کامیابی حاصل ہو گی۔اب فر ماتا ہے الھکم ا لتکاثر۔تم کو ہوشیار ہو جانا چاہیے اور تمہیں اپنے دل کے اندرونی گوشوں سے یہ خیال با لکل نکال دینا چاہیے کہ تم محمد رسول اللہ ﷺ کا مقابلہ کر سکو گے۔ کیا تم اپنے نفس پر غور نہیں کرتے کہ تم گرتے گرتے کس مقام پر جا پہنچے ہو۔دنیا کی محبت تم میں ہے،مال کی محبت تم میں ہے،عزت کی محبت تم میں ہے اور تم نے زندہ رہنے کا مادہ با لکل مٹا ڈالا ہے ۔زندہ رہنے کے دو ہی مادے ہوتے ہیں یا دین ہوتا ہے یادنیا ہوتی ہے ۔تکاثر والا بھی دین کو بھول جاتا ہے اور دنیوی لحاظ سے بھی ذلت ورسوائی کے گڑھے میں جا پڑتا ہے۔دین کو تو وہ اس طرح بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالی کی صفات اور اسکی ذات دونوں اسکی نظر سے اوجھل ہو جاتی ہیں اور دنیا میں وہ اس طرح ذلیل ہوتا ہے کہ تکاثر کے نتیجہ میں تکبر اور خودپسندی میں مبتلا ہو کر دوسروں کے حقوق کو فراموش کر دیتا اور ان پر مختلف رنگ کے مظالم شروع کر دیتا ہے۔غرض دو ہی چیزیں ہیں جو کسی قوم کو زندہ رکھ سکتی ہیںیا تو دینی روح کسی قوم کو زندہ رکھا کرتی ہے اور یا پھر دنیوی روح کسی قوم کے عروج کا باعث ہوا کرتی ہے مگر تکاثر ان دونوں کو مٹا دیتا ہے۔پس فرماتا ہے جن تمہارے اندر تنزل کے آثار پوری طرح پیدا ہوچکے ہیںتو کیا اب بھی تم سمجھتے ہو کہ تم محمد رسول اللہ ﷺاور آپ کے ساتھیوں کو کچل دو گے اور جس مقصد کے لیے وہ دنیا میں کھڑے ہوئے ہیں اس میں انہیں کامیاب نہیں ہونے دو گے۔موت تمہارے سر پر کھڑی ہے اور تمہاری اپنی جان نکل رہی ہے مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم بجائے اپنے حالات کے غور کرنے کے اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کی تباہی کے خواب دیکھ رہے ہو یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے بعض دفعہ کوئی امیر شخص مر رہا ہوتا ہے ۔موت دروازے پر کھڑی اس کا انتظار کر رہی ہوتی ہے اور ہر شخص کو دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ وہ چند گھڑیوں کا مہمان ہے مگر جب اس وقت اسکے کسی نوکر سے دوائی گر جاتی ہے تو وہ انتہائی غصہ سے کہتا ہے تمہیں شرم نہیں آتی تم نے دوائی گرا دی ہے اگر تم نے پھ ر ایسی حرکت کی تو میں تمہاری خوب خبر لوں گا۔ حالانکہ دو منٹ کے بعد وہ خود مر جاتا ہے یہی حالت اس وقت تمہاری ہے کہ تکاثر کی عادت میں بڑھتے بڑھتے تم ایسے مقام پر پہنچ چکے ہو کہ تم قبروں میں پائوں لٹکائے بیٹھے ہو اور تمہاری تباہی اور بربادی با لکل یقینی ہے جیسے قبر میں سے کوئی مردہ نکل کر واپس نہیں آسکتا اسی طرح تم اس قدر ذلیل اور رسوا ہو چکے ہو اور اس قدر دینی اور دنیوی موتیں تم پر وارد ہو چکی ہیں کہ تم اب اپنی اس حالت سے لوٹ ہی نہیں سکتے۔پس اب تمہارا یہ کہنا کہ ہم جیت جائیں گے اور محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کو ساتھی ہار جائیں گے اگر پاگل پن کی بات نہیں تو اور کیا ہے۔مردہ اسی وقت زندہ ہو سکتا ہے جب اللہ تعالی کی طرف سے اس میں نئی روح داخل کی جائے ۔ اگر نئی روح اس میں نہ پھونکی جائے تو کوئی مردہ جسم دوبارہ زندگی حاصل نہیں کر سکتا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جس کا جواب دینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سورۃ تو اہل مکہ کی نسبت ہے اور ان کے پاس کوئی ذیادہ مال نہیں تھا پھر وہ تکاثر کے مجرم کس طرح ہو گئے ۔اسکاجواب یہ ہے کہ ہر قوم کی دولت نسبتی ہوتی ہے اگر ان کے مالدار چھوٹے تھے تو ان کے غریب بھی تو بہت غریب تھے پس تکاثر نسبتی امر ہے ۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے پاس کروڑوں نہیں اس لئے میں تکا ثر کا مجرم نہیں۔امریکہ والوں کے لئے تکاثر کے اور معنے ہیں ۔ انگلستان کے لئے اور۔اور ہندوستان کیلئے اور۔اس میں سے ہندوئوں کے لئے اور ۔مسلمانوں کیلئے اور۔ پھر احمدیوں کے لئے اور۔جس قوم پر جو ذمہ واری ہے چھوٹی ہو یا بڑی،اگر وہ اس ذمہ واری کو ادا کرنے سے قاصر ہے تو تکاثر کی مرتکب ہے بلکہ جب بھی دین یا دنیا کے کسی اچھے کام کیلئے کسی قربانی کی ضرورت ہے اور کوئی شخص اس وقت اپنے ہاتھ کو پیچھے کھینچ لیتا ہے گو اس کو پاس ایک ٹکڑا روٹی کا ہی تھا وہ تکاثر کا مرتکب ہے کیونکہ اس نے ایک چیز اپنے پاس رکھ لینی چاہی جو دوسروں نے قربان کر دی تھی یا جس کی اس کے دین یا اسی قوم کو ضرورت تھی۔
جس قوم میں یہ نقص پیدا ہو جائے اور قربانی میں دریغ کرنے لگے وہ تباہ ہو جاتی ہے۔ اسی لئے فرمایا حتی زرتم المقابر یعنی یہ مرض آخر قومی موت کی طرف لے جاتا ہے۔
اس جگہ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا تکاثر اور تفاخر کلی طور پر ممنوع ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ اس تکاثر کا ذکر ہے جو انسان کو موت تک پہنچا دیتا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے الھکم التکاثر حتی زرتم المقابر اس تکاثر نے تم کو تمام نیک باتوں سے غافل کر دیا ہے یہاں تک کہ تم موت تک پہنچ گئے ہو۔ یعنی اگر نیک باتوں پر فخر ہو یا ایسی باتوں پرفخر ہو جو دوسروں کو نیکی اور تقوی کی طرف لانے میں ممد ہوں تو اس قسم کا تفاخر منع نہیں۔ گویا تفاخر کی دو قسمیں ہیں ایک تفاخر وہ ہے جو انسان کو مقابر کی طرف لے جاتا ہے اور ایک تفاخر وہ ہے جو انسان میں زندگی پیدا کرتا ہے۔ جو تفاخر انسان کو مقابر کی طرف لے جاتا ہے وہ کلی طور پر ممنوع ہے اور جو تفاخر زندگی پیدا کرتا ہے وہ منع نہیں۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کے متعلق آتا ہے کہ آپ نے ایک دفعہ فرمایا انا سید ولد آدم ولا فخر مجھے خدا تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کا سردار بنایا ہے مگر اس کے باوجود میں اس پر فخر نہیں کرتا۔ یہ نہیں کہ میں تم کو ذلیل سمجھوں اور اپنے آپ کو تم سے کوئی علیحدہ ہستی قرار دوں میرا فرض ہے کہ میں سید ولد آدم ہونے کے باوجود تمہاری خدمت کروں اور تمہیں ترقی کے میدان میں بہت آگے لے جائوں اسی طرح فرماتے ہیں تزوجوا و لودا ودوا فآ نا مکاثر بکم الامم و مفا خر بکم ( ابو دائود ) تم شادیاں کرو جننے والی اور محبت کرنے والی عورتوں سے کیونکہ تمہارے ذریعہ سے میں دوسری قوموں پر فخر کرنے والا ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کثرت تعداد کو صرف جائز ہی نہیں بلکہ پسندیدہ قرار دیتا ہے مگر چونکہ بعض کثرتیں نہایت گندی ہوتی ہیں اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں صرف یہ خواہش نہیں رکھتا کہ تم اپنی تعداد کے لحاظ سے دوسری قوموں سے بڑھ جائو بلکہ میری خواہش یہ بھی ہے کہ باوجود کثیر ہونے کے تم ایسے نیک اور پاک بنو کہ میں قیامت کے روز دوسری امتوں کے مقابلہ میں تم پر فخر کر سکوں۔ اس حدیث میں ولود کا لفظ کثرت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ودود میں رفاخر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ محض کثرت پر نہیںبلکہ اپنی امت کے اعلیٰ اخلاق پر فخر کریں گے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ماں باپ اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کریں اور کوشش کریں کہ ان کی نیکی صرف ان کی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ اس کا اثر نسلاً بعد نسل انکی اولاد میں بھی منتقل ہوتا چلا جائے تو وہ ایسی اعلیٰ درجہ کی نسلیںپیدا کر سکتے ہیں جو اسلام اور رسول کریم ﷺ کے لئے باعث فخر ہوں۔ افسوس کہ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ ان میں ذاتی طور پر تقوی بھی ہوتا ہے، روحانیت بھی ہوتی ہے، اعلی اخلاق بھی ہوتے ہیں ، رافت اور شفقت کے جذبات بھی ہوتے ہیں، حلم بھی موجود ہوتا ہے، حصول علم کی بھی پیاس ہوتی ہے، نیکیوں میںبڑھنے کا مادہ بھی ہوتا ہے مگر اس بات کی طرف انہیں کبھی توجہ پیدا نہیں ہوتی کہ اپنی اولاد میں بھی وہ یہ اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔ بے شک ورثہ کے ذریعہ بھی ماں باپ کے بعض خصائص اولاد میں منتقل ہو جاتے ہیں مگر اعلی نسل کا بہت بڑا تعلق اعلی تربیت سے ہوتا ہے اور مومن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس پہلو میں کبھی غفلت سے کام نہ لے۔ اگر ہر شخص خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا اپنی اولاد کی نیک تربیت میں مشغول ہو جائے تو کوشش کرے کہ اس کی اولاد اس سے بڑھ کر اسلام کی فدائی ثابت ہو تو مسلمانوں میں کبھی تنزل پیدا نہ ہو۔ بڑی وجہ قومی انحطاط کی یہی ہوتی کہ اولاد کی تربیت کی طرف توجہ نہیں کی جاتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کثرت محض بیکار بن کر رہ جاتی ہے اور قوم کا رعب بالکل مٹ جاتا ہے۔ پس اصل چیز جس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہماری آئندہ نسلیں نیکی اور تقوی کے میدان میں ہم سے بھی تیز تر ہوں کیانکہ یہی وہ چیز ہے جس پر رسول کریم ﷺ فخر کر سکتے ہیں۔ محض کثرت ایسی چیز نہیں جو کسی کو مطمئن کرنے کے لئے کافی ہو۔
حضرت علیؓ کا قول ہے انا قطعۃ خرطوم الکفر بسیفی فصارا کفر مثلۃ ( روح البیان) یعنی میں وہ شخص ہوں جس نے تلوار کے ذریعہ کفر کا ناک کاٹ دیا ہے ۔چنانچہ اب وہ نکٹا ہو گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالی نے مجھے خدمت اسلام کی ایسی اعلی درجہ کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ کفر و شرک سے تعلق رکھنے والے تمام اہم امور کا میرے ہاتھوں سے قلع قمع ہو چکا ہے۔
اب اس میں طاقت نہیں کہ میرے مقابلہ میں اپنا سر اٹھا سکے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ حضرت علیؓ میں تکبر پیدا ہو گیا تھا یا آپ اپنی خدمات کی وجہ سے دوسروں کو اپنے مقابلہ میں حقیر سمجھنے لگ گئے تھے بلکہ مطلب یہ تھا کہ خدا تعالی نے اپنے فضل سے جس اہم کام کو سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی ہے میری خواہش ہے کہ تم بھی وہی کام کرو اور اسی راستہ پر چلو جس پر میں چلا ہوں ۔
پھر قرآن کریم میں اللہ تعالی مومنوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے فاستبقوا لخیرات ( البقرہ ۱۸ ع ۲) اے مومنوں تم نیکیوں میںبڑھنے کی کوشش کرو ۔ استباق کے معنی صرف خود بڑھنے کے نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کو بھی اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھنے کے ہوتے ہیں۔ پس اس حکم کا صرف اتنا مفہوم نہیں کہ تمہیں ذاتی طور پر نیکیوں میں ترقی کرنی چاہیے بلکہ اس کا یہ بھی مفہوم ہے کہ تمہیں دوسرے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ اس دوڑ میں شامل کرنا چاہیے اور شانہ بشانہ چلتے ہوئے اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا چاہیے۔ اگر کسی قوم میں استباق کی روح پیدا ہو جائے تو وہ اپنی ترقی کی منازل سالوں اور مہینوں کی بجائے دنوں اور گھنٹوں میں طے کر سکتی ہے مثلاً اگر کسی شخص نے قرآن مجید کا ایک پارہ پڑھ لیا ہے تو وہ اس حکم کے مطابق کوشش کرے گا کہ دوسروں کو بھی وہ پارہ پڑھا دے اور اگر کسی نے ترجمہ پڑھ لیا ہے تو وہ کوشش کرے گا کہ دوسروں کو بھی قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا دے اور اگر کوئی شخص قرآن کریم کے معارف سے آگاہ ہو گیا ہے تو وہ کوشش کرے گا کہ میں دوسروں کو بھی قرآن کریم کے معارف سے آگاہ کر دوں غرض استباق کی روح اگر کسی قوم میں پیدا ہو جائے تو وہ آن کی آن میں کہیں کی کہیں جا پہنچتی ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے و منہم سابق باالخیرات ( فاطر ۴ ع ۱۶) مومنوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو نیکیوں میں دوسروں سے آگے نکل جاتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے فا لسابقت سبقا ( النازعات ۱ع) مومنوں کی یہ علامت ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے نیکیوں میں مقابلہ کرتے ہوئے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔درحقیقت یہ علامت ان اقوام کی ہے جو اپنے اندر زندگی کی روح رکھتی ہیں ۔وہ ہمیشہ کوشش کرتی ہیں کہ دوسروں سے آگے نکل جائیںاور نیکی کے میدان میں کسی کو سبقت نہ لے جانے دیں ۔اسی طرح فرماتا ہے سار عوا الی مغفرۃمن ربکم (العمران۱۴ع۵) اے لوگو تم اپنے رب کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے جلد پہنچنے کی کوشش کرو یعنی تیزی کے ساتھ اپنے قدم بڑھائو اور خدا تعالی کی مغفرت کو جلد سے جلد حاصل کرنے کی کوشش کرو ۔یہ امر ظاہر ہے کہ جو لوگ خدا تعالی کی مغفرت کی طرف سر عت سے اپنے قدم بڑھائیں گے ان میں سے کوئی آگے نکل جائے گا اور کوئی پیچھے رہ جائے گا کسی شخص کو اس بات پر فخر ہوگا کہ میں نے دوڑ کر اللہ تعالی کی مغفرت کا مقام حاصل کر لیا اور کوئی حسرت وافسوس کے ساتھ آہ بھرے گا کہ میں نے وقت ضائع کر دیا اور خدا تعالی کی مغفرت کو اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے حاصل نہ کر سکا ۔ بہر حال یہ آیات بتاتی ہیںکہ بعض قسم کے تفاخر اسلام میں ممنوع نہیں۔ وہ تکا ثرجو انسان کو بنی نوع انسان کی خدمت میں مشغول کر دے جس تکاثر کے نتیجہ میں انسان کی روحانیت اور اسکا تقوی بڑھ جائے ،جس تفاخر کے نتیجہ میں قوم کا معیار بلند ہو جائے وہ برا نہیں بلکہ اچھا ہے اور ہر سمجھدار انسان کا فرض ہے کہ وہ اس تکا ثر میں حصہ لے کیونکہ بغیر اسکے کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی۔ اگر کسی لڑکے کو کالج میں بھیجا جائے اور وہ کہے کہ میں کالج میں نہیں جاتا کیونکہ میرے دوسرے ساتھی بھی نہیں جاتے ۔اگر میں کالج گیا اور وہا ں میں نے تعلیم حاصل کی تو میں دوسروں سے بڑھ جائوں گا تو یہ اسکی حماقت کا ثبوت ہوگا کیونکہ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعداس کا دوسروں سے بڑھنا قوم کے لئے مفید ہوگا مضرنہیں ہوگا ۔ اگر وہ پڑھ کر آئے گا تو دوسروں کو بھی پڑھائے گا اور اس طرح قوم کا تعلیمی معیار اونچا ہو جائے گا ۔پس تکاثر اور تفاخرکی ہر صورت ممنوع نہیں بلکہ صرف وہ تفاخر ممنوع ہے جو انسان کو مقابر کی طرف لے جاتاہے یہی حکمت ہے کہ اللہ تعالی نے الھکم ا لتکاثر کے بعد زرتم ا لمقابر کہا کیونکہ جسمانی موت تو خود آتی ہے لیکن یہ دینی یا اخلاقی یا قومی ہلاکت انسان خود بلاتا ہے اور اپنے قدموں چلتا ہوا اپنی قبر میں جا لیٹتاہے۔ اگر حتی زرتم ا لمقا بر کہہ کر اللہ تعالی نے مضمون میں ایک خاص شان اور جدت پیدا کرتے ہوئے بنی نوع انسان کو اس نہایت اہم نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قومی تباہی کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگ ناجائز تکا ثر سے کام لینا شروع کر دیتے ہیں اور وہ تمام نیک اخلاق جو انسان کی قومی اور مذہبی زندگی کا اصل باعث ہوتے ہیں انکو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس روح مفاخرت کی وجہ سے قوم اپنے مقام سے گرتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ ایک دن ایسا آتا ہے جب موت اس پر پوری طرح سوار ہو جاتی ہے اور ترقی کی دوڑ میں ایک بے جان جسم سے بڑھ کر اس کی کوئی حقیقت نہیں رہتی۔
کلا سوف تعلمونo ثم کلا سوف تعلمونo
( خوب یاد رکھوکہ تمہاری حالت) اسطرح نہیں (جس طرح تم سمجھتے ہو بلکہ)تم لوگ (قرآن کریم کی بیان کردہ حقیقت کو) جلد ہی جان لو گے پھر (ہم کہتے ہیں کہ تمہاری حالت)یوں نہیں(جس طرح تم سمجھتے ہو )تم عنقریب ہی(اس بات کو ) جان لو گے۔
تفسیر:۔کلا ہمیشہ زجر کے لئے استعمال ہوتا ہے اس جگہ بھی اہل مکہ کو خبر دار اور ہوشیار کرنے کے لئے یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اللہ تعالی ان سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ خبردار تمہاری یہ حالت سخت خطرے والی ہے ہم نے جو کہا ہے کہ الھکم ا لتکاثرحتی زر تم ا لمقابر ۔تمہیں تکاثر نے گراتے گراتے اس حالت تک پہنچادیا ہے کہ تم مقبرہ میں جا پہنچے ہو ۔ ہماری اس بات کی سچائی کو ابھی تم سمجھے نہیں اور تم خیال کرتے ہو کہ یہ محض ایک بڑ ہے ۔ مگر یاد رکھو تھوڑے ہی دنوں تک تمہیں اچھی طرح پتہ لگ جائے گا کہ ہماری بات با لکل سچی ہے اور زندگی کے آثار تم میں موجود نہیں رہے ۔ دیکھو اگر یہاں مقابر سے ظاہری قبریں مراد ہوتیں تو کلا سوف تعلمون ثم کلا سوف تعلمون کے کیا کوئی بھی معنے ہو سکتے تھے ۔ کیا ابو جہل، عتبہ اور شیبہ یہ تسلیم نہیں کرتے تھے کہ ہم نے ایک دن مر جانا ہے ۔ جب وہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ انسان فا نی ہے اور وہ تھوڑی سی عمر لے کر اس دنیا میں آیا ہے تو یہ کہنا کس قدر بے معنی ہو جاتا تھا کہ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تم نے ضرور مرنا ہے دیکھو ہم پھر تمہیں بتاتے ہیں کہ تم نے ضرور مرنا ہے اس سورۃ میں تو یہ ایک ہنسی کے قابل بات بن جاتی ہے کہ جس کو ہر فرد تسلیم کرتا ہے اس کے متعلق کہا جارہا ہے کہ دیکھو تمہیں اسکا عنقریب پتہ لگ جائے گا ۔میں پھر کہتا ہوں کہ تمہیں اسکا عنقریب پتہ لگ جائے گا ۔یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اس جگہ تباہی اورذلت ورسوائی والی قبر ہی مراد ہے اور یہی وہ قبریں تھیں جن کا کفار مکہ کو بڑی سختی سے انکار تھا ۔مٹی کی قبروں کو تو ابوجہل بھی تسلیم کرتا تھا مگر وہ اس بات کو ماننے کے لئے ہر گز تیار نہیں تھا کہ محمد رسول اللہﷺکے مقابلہ میں میں ہار جائوں گا۔ورنہ جس بات کو کوئی دوسرا شخص مانتا ہو اس پر زور دیان تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی دوسرے شخص سے کہے کہ میں کہتا ہوں تم آدمی ہو۔میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم آدمی ہو۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم آدمی ہو۔ان فقرات کو جو شخص بھی سنے گا ہنس پڑے گا کہ کہنے والا پاگل ہو گیا ہے پس اگر اس جگہ مٹی کی قبریں ہی مراد ہوتیں تو کلا سوف تعلمون ثم کلا سوف تعلمونکہنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ اس موت کو تو کفار مکہ میں سے ہر فرد تسلیم کرتا تھا اور جس بات کو ان ک ہر چھوٹا بڑا تسلیم کرتا تھا اس پر زور دینا با لکل بے معنی ہو جاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ قومی تباہی اور بربادی کو ہی مقابر قرار دیا گیا ہے اور اللہ تعالی ان سے فرماتا ہے کہ دیکھو ہوشیار ہو کر سن لو تم ضرور جان لو گے کہ تم قبروں میں پہنچ چکے ہو۔ ہم پھر کہتے ہیں کہ ہوشیار ہو جائو تم کو پتہ لگ جائیگا کہ ہم سچ کہتے ہیں کلا سوف تعلمون ثم کلا سوف تعلمونمیں جو تکرا ر آیا ہے اس کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ یہ تکرار تاکید مضمون کے لیے آیا ہے رسول کریم ﷺ بھی خاص مواقع پر بات کو بار بار دہراتے تھے ۔ صورت میں ثم کلا سوف تعلمون میں یہ محذوف سمجھا جائے گا کہ ثم اقول کلا سوف تعلمون۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے اس جگہ تکرار محضہ نہیں بلکہ چونکہ واقعہ مقرر ہوگا اسلئے دو دفعہ بیان کیا ہے ۔ ان کے نزدیک پہلا تعلمونقبر کے متعلق ہے اور دوسرا نشر کے متعلق ۔ وہ فرماتے ہیں الاول فی القبور والثانی فی النشور۔ مگر میرے نزدیک اس جگہ یا تو تکرار توکید ہے یا پہلا جملہ دنیا کے متعلق ہے اور دوسرا آخرت کے متعلق۔ جیسے فرمایامن کان فی ھذہ اعمی فھو فی الآخرت اعمی(بنی اسرائیل ۸ ع ۸)یعنی تمہیں دنیا میں بھی امنی ان حرکات کا انجام معلوم ہو جائے گا اور آخرت میں بھی تم عذاب الٰہی میں مبتلا کیے جائو گے ۔
کلا لو تعلمون علم الیقین o لترون الجحیمoثم لترونھا عین الیقینo
(حقیقت تمہارے خیالات کے مطابق ہرگز نہیں ہے) کاش تم علم یقینی کے ساتھ (حقیقت کو ) جانتے (تو تم کو معلوم ہو جاتا کہ ) تم ضرور جہنم کو (اسی دنیا میں ) دیکھو گے (بلکہ ) پھر تم اسے یقین کی آنکھ سے (آخرت میں ) بھی دیکھ لو گے ۔
تفسیر:سابق مضمون کے تسلسل میں اللہ تعالی کفار مکہ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم پھر کہتے ہیں کہ خبردار ہو جائو۔کیوں تمہیں پتہ نہیں لگتا کہ تم ہلاکت اور بربادی کے گڑھے میں گے چکے ہو۔یہ بات تو با لکل قطعی اور یقینی ہے کہ تم مر چکے ہو ۔ زندگی کی کوئی علامت تم میں باقی نہیں رہی۔موت کے سب سامان تمہارے لیے پیدا ہو چکے ہیں ۔ خدا تعالی کو تم بھلا چکے ہو بنی نوع انسان کے حقوق کو کلیۃ فراموش کر چکے ہو اور یہی دو چیزیں کسی قوم کی زندگی کی علامت ہوا کرتی ہیں۔قوم زندہ ہوتی ہے اسی طرح کہ خدا اس قوم کے افراد کے دلوں میں زندہ ہوتا ہے جس قوم یا جس فرد کے دل میں اللہ تعالی زندہ ہو وہ انسان زندہ کہلاتا ہے اور یا پھر بنی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ کسی انسان کے دل میں ہو تو وہ انسان زندہ ہوتا ہے مگر تمہاری حالت تو یہ ہے کہ نہ تمہیں خدا تعالی کی طاقتوں پر کوئی یقین ہے نہ بنی نوع انسان کی خدمت کا کوئی جذبہ تمہارے اندر پایا جاتا ہے کاش تمہیں علم الیقین ہی ہوتاتب بھی تم اس حقیقت کو بھانپ لیتے اور سمجھ لیتے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ درست ہے یعنی جانے دو اس بات کو کہ ہم نے تمہاری ہلاکت کے متعلق پیشگوئی کی ہے اور تم کہتے ہو کہ ہمیں اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا کوئی اعتبار نہیں مگر دنیا میں ہر فعل کا ایک مادی نتیجہ بھی ہوتا ہے اور جب کوئی شخص کسی فعل کا ارتکاب کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ میرے اس فعل کا کیا نتیجہ نکلے گا تو کیا تم اس نقطہ نگاہ سے اپنی حالت پر غور نہیں کرسکتے۔
لطیفہ مشہور ہے کہ شیخ چلی درخت پر چڑھا تو اسی شاخ کو کا ٹنے لگ گیا جس پر وہ بیٹھا ہوا تھا نیچے سے کوئی شخص گذرا تو اس نے شیخ چلی سے کہا کہ میاں تم یہ کیا کر رہے ہو کہ اسی شاخ کو کاٹ رہے ہو جس پر خود بیٹھے ہو تم تو گر جائو گے ۔ شیخ چلی نے کہا تو کوئی عالم الغیب ہے تجھے کس طرح پتہ لگا کہ میں گر جائوں گا ۔ جائو میں تمہاری بات نہیں مانتا ۔ وہ چلا تو تھوڑی دیر کے بعد ہی شاخ کے کٹتے ہی شیخ چلی بھی نیچے آ گرا ۔یہ دیکھ کر وہ اس شخص کے پیچھے بھاگا اور کہنے لگا معلوم ہوتا ہے تو ولی ہے ۔ کیونکہ جو بات تو نے کہی تھی وہ با لکل سچی نکلی اور میں گر پڑا۔ اس نے کہا میں ولی نہیں میں نے ایک طبعی نتیجہ نکالا تھا کہ چونکہ تم اسی شاخ کو کاٹ رہے ہو جس پر خود بیٹھے ہو اس لئے تمہارا گرنا یقینی ہے ۔ تو ہر فعل کا ایک طبعی نتیجہ ہوتا ہے جو بہر حال نکلتا ہے اور عقلمند انسان سمجھتا ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کا کیا اثر ہو گا ۔ مگر اللہ تعالی فرماتا ہے تمہاری عقلیں تو اتنی ماری ہوئی ہیں کہ تم ذرا بھی غور سے کام نہیں لیتے۔ اگر تم علمی طور پر ہی غور کرتے تو تمہیں یقین آجاتا کہ تم مر رہے ہو اور ہلاکت کے سامان تمہارے لیے چاروں طرف سے جمع ہیں ۔ قومی ہلاکت کے ایک خدائی سامان ہوتے ہیں اور ایک دنیوی سامان ہوتے ہیں ۔ خدائی سامان تو یہ ہوتے ہیں کہ مثلاً اللہ تعالی کو نہ مانا۔ اس کے نبیوں کو نہ مانا ،اس کے احکام کی خلاف ورزی کی ۔اور دنیوی سامان یہ ہوتے ہیں کہ قوم میں ظلم پایا جائے۔ غربا و مساکین کی طرف اسے کوئی توجہ نہ ہو ۔عیاشی میں اسکے دن رات بسر ہونے لگیں۔یہ دونوں سامان تمہارے لیے جمع ہیں۔ تم نے خدا تعالی کو بھی ناراض کر لیاہے اور بنی نوع انسان سے بھی تمہارا سلوک سخت ناقص ہے اور جب حالت یہ ہے تو تم کیونکر سمجھتے ہو کہ تم موت سے بچ سکو گے ۔ پس فرماتا ہے کلا لو تعلمون علم ا لیقین لترون ا لجحیم اگر تم میری بات نہیں مانتے تو نہ مانو ۔ جو کچھ میں کہتا ہوں اسے جھوٹ کہ دو مگر کیا تم نے علمی رنگ میں بھی کبھی اپنے حا لات پر غور نہیں کیا کاش تمہیں علم الیقین ہی ہوتا تو تم سمجھتے کہ جس قوم میں تعلیم نہ ہو، جس قوم میں صدقہ وخیرات کی عادت نہ ہو ،جس قوم میں انصاف نہ ہو ، جس قوم میں انتظام نہ ہو ،جس قوم میں رافت نہ ہو اور رحمت نہ ہو وہ یقیناًہلاک ہو جاتی ہے اس میں کسی نبی کے بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی پس اگر تم میری باتوں کو تسلیم نہ کرتے صرف اپنے اندر علم الیقین پیدا کر لیتے تب بھی تم دیکھ سکتے تھے کہ جہنم تمہارے سامنے کھڑی ہے ۔ تم دیکھتے کہ ہم قوم کو تعلیم نہیں دے رہے ۔ تم دیکھتے کہ ہم قوم سے انصاف نہیں کر رہے تم دیکھتے کہ ہم میں دیانت کی روح موجود نہیں ، تم دیکھتے کہ ہم میں امانت کی روح موجود نہیں ،تم دیکھتے کہ ہم میں تقوی کی روح موجود نہیں اگر تم دیکھتے کہ ہم میں عدل و انصاف کی روح موجود نہیں اسی طرح تم دیکھتے کہ ہم روپیہ کو صحیح طور پر خرچ نہیں کر رہے ہم اپنے باپ دادوں کی جائیدادوں کو عیاشی میں برباد کر رہے ہیں ۔ اگر تم ان باتوں پر ذرا بھی غور کرتے تو لترون الجحیمتم جہنم کو سامنے کھڑا پاتے یعنی تم میری باتوں کو بے شک جھوٹ سمجھ لو لیکن اگر تم اپنے حالات پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کرتے تو تم دیکھ سکتے تھے کہ جہنم تمہارے سامنے موجود ہے۔
لترون الجحیم کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ یہ قسم محذوف کا جواب ہے کیونکہ جحیم دیکھنا کفار کے علم یقین کے ساتھ لازم نہیں ہے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ روئت بھی کئی قسم کی ہوتی ہے ۔روئت عقلی ،روئت عینی اور روئت مشاہدہ۔علم الیقین کے بدلہ میں بھی ایک روئت حاصل ہوتی ہے جو رویت علمی ہوتی ہے ۔جب کسی شخص کو بہ دلائل کسی آنیوالی مصیبت کا علم ہو جاتا ہے تو اس علم کے مطابق اس کے قلب کو اس مصیبت کے متعلق تکلیف بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوا لسلام نے یہی معنے مراد لیے ہیںاور فرمایا ہے کہ اس سورۃ میں علم کی دو اقسام بیان کی گئی ہیں علم الیقین اور جو علم اسکے بعد آتاہے یعنی عین الیقین۔یقین کی ایک تیسری قسم بھی آپ نے بیان کی ہے یعنی حق الیقین جس کا ذکر سورۃالحاقہ میں ان الفاظ میں ہے کہو انہ لحق الیقین(۲ع۶) پس اس جگہ روئت سے مراد روئت عقلی یا روئت علمی ہے۔
ثم لترونھا عین الیقین کہہ کر فرمایا کہ یہ تو علمی بات تھی مگر میں پھر کہتا ہوں کہ تم ضرور دیکھ لو گے کہ موت تمہاری آنکھوں کے سامنے کھڑی ہے ۔ ابھی تک تو تمہیں علمی روئت بھی حاصل نہیں لیکن تھوڑے دنوں تک تمہیں علمی روئت ہی نہیں بلکہ عینی روئت بھی حاصل ہو جائے گی یعنی صرف دنیوی احساس ہی تباہی کے قریب پیدا نہ ہوگا بلکہ واقعہ میں پھر بلا نازل ہو جائے گی اور اسے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کیونکہ مجھے خدا نے بتایا ہے کہ تم ضرور تباہ ہو جائو گے ۔
یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ تم پہلے دنیا میں اپنی تباہی دیکھو گے اور پھر آخرت میں عذاب الیم کا شکار بنو گے ۔
ثم لتسئلن یو مئذ عن النعیمO
پھر ( یہ بھی یاد رکھو کہ)تم سے اس دن (ہر بڑی ) نعمت کے متعلق سوال کیا جائے گا ( کہ تم نے اس کا شکر اداکیا یا نہ)
تفسیر:۔ نعیم کا لفظ جو اس آیت میں استعمال ہوا ہے اس کے متعلق عربی سے ناواقف لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ جمع ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں میںبھی اس غلطی میں مبتلا تھا ۔ عام تراجم میں بھی غلطی سے نعیم کے معنے نعمتوں کے ہی کیئے جاتے ہیں مگر یہ درست نہیں ۔نعیمکے معنے صرف نعمت کے ہیں نعمتوں کے نہیں۔ مگر اس لفظ کی بناوٹ کچھ ایسی ہے کہ لوگ اس سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔
النعیمسے میرے نزدیک اس جگہ محمد رسول اللہﷺکا وجودمراد ہے اور اللہ تعا لیٰ فرماتاہے کہ جب تم مر جائو گے تباہ اور برباد ہوجائو گے تو اس وقت میں تم سے پوچھوں گا کہ بتائو محمد رسول اللہﷺ نعمت تھے یا نہیں ؟انہوںنے کب سے تمہیں ہوشیار کرنا شروع کیا تھا کہ بچ جائو ہلاکت اور تباہی کے گڑھے میں اپنے آپ کو مت گرائو ۔ مگر تم نے انکی نصیحت پر کام نہ دھرا اور آخر وہ وقت آگیا جب تم سچ مچ تباہ ہوگئے۔ تم غور کرو کہ کتنی بڑی نعمت تھی جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی مگر تم نے اس سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا ۔ اس نے تمہیں وقت پر ہوشیار کر دیا تھا کہ دیکھو تم ایک خطر ناک گڑھے میں گر رہے ہو سنبھل جائو اور اپنے آپ کو ہلاکت سے بچالو ۔ مگر تم پھر بھی نہ بچے اور اپنے آپ کو تباہ کر لیا ۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ النعیم سے ہر بڑی نعمت مراد ہو اس صورت میں اس آیت کا یہ مفہوم ہوگا کہ اللہ تعالی ایک ایک کرکے اپنی تمام بڑی نعمتیں ان کے سامنے پیش کرے گا اور کہے گا کہ میں نے تمہیں یہ نعمت بھی دی وہ نعمت بھی دی مگر تم نے میری ساری نعمتوں کو ضائع کر دیا ۔ میں نے تمہیں روپیہ دیا تو تم نے اپنے گھروں میں رکھ لیا اور یہ پسند نہ کیا کہ تم غریبوں پر خرچ کرو یا صدقہ و خیرات دو یتامی و مساکین کی خبر گیری کرو ۔ میں نے تمہیںحکومت دی تو تم نے لوگوں پر ظلم کرنا شروع کر دیا ۔ میں نے تمہیں عزت دی تو تم نے لوگوں کو ذلیل سمجھنا شروع کر دیا ۔غرض کونسی نعمت تھی جو میں نے تمہیں دی اور تم نے اس کا برا استعمال نہ کیا ۔ پس النعیمکے دونوں معنے ہو سکتے ہیں یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ النعیمسے نعمت کاملہ یعنی محمد رسولاللہﷺ کا وجود مراد ہو ۔ اس صورت میں اس کا یہ مفہوم ہوگا کہ اللہ تعالی ان سے اپنی نعمت کاملہ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق سوال کرے گا کہ تم نے اسکی نصیحتوں سے کیوں فائدہ نہ اٹھایا اور یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ النعیمسے ہر بڑی نعمت مراد ہو یعنی مال ودولت ، عزت ورسوخ اور حکومت جو خدا نے انہیں دی تھیاس کے متعلق ان سے سوال کیا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ خدا تعالی کے اتنے بڑے احسانات کے ہوتے ہوئے تم نے ان نعمتوں سے کیا فائدہ اٹھایا ۔
یہ بھی انسان کے لیے سخت شرمندگی کا باعث ہوتا ہے کہ جب کسی برے کام کا نتیجہ نکل آئے تو اسے یاد دلایا جائے کہ دیکھو فلاں وقت میں نے تمہیں کہا تھا کہ ہوشیار ہو جائو مگر تم ہوشیار نہ ہوئے ۔ فلاں وقت میں نے تمھیں نصیحت کی تھی مگر تم اس سے متاثر نہ ہوئے۔ اللہ تعالی بھی ایسا ہی کرے گا اور ان کو ہر بڑی نعمت یا نعمت کاملہ یعنی محمد رسول اللہﷺکا وجود یاد دلائے گا اور کہے گا کہ بتائو کیا میرے اسقدر احسانات کے باوجود تمہارا یہی شیوہ ہونا چاہیے تھا کہ تم ابائواستکبار سے کام لیتے۔ میں نے خدا ہو کر چاہا کہ تم کو بچائوں مگر تم نے بندے ہو کر نہ چاہا کہ ہلاکت سے بچو ۔
یہ تو آخرت کے لحاظ سے معنے ہیں ۔ دنیا میں بھی تباہ شدہ اقوام پر لتسئلن یومئذعن النعیم کا ایک وقت آیا کرتا ہے جب قومیں تباہ ہوتی ہیں اسوقت کف افسوس ملتی ہوئی ایک دوسرے سے کہا کرتی ہیں کہ ہمیں فلاں موقع ملا مگر ہم نے ضائع کر دیا ۔ فلاں موقع ملا مگر ہم نے اس سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا کاش ہم سنبھل جاتیں اور اپنی قبر اپنے ہاتھوں سے نہ کھودتیں۔
حضرت عمرؓ ایک دفعہ اپنی خلافت کے ایام میں حج بیت اللہ کے لیے مکہ میں تشریف لے گئے ۔جب حج سے فارغ ہوئے تو جیسے ہمارے ہاں عید کے موقع پر لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں اسی طرح بڑے بڑے رئووساء آپکی خدمت میں مبارکباد دینے اور سلام عرض کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں حضرت عمر ؓ بیٹھے تھے بڑے بڑے ہال اس زمانہ میں نہیں ہوتے تھے کہ ذیادہ لوگوں کے بیٹھنے کے لیے گنجائش نکل سکے تھوڑے لوگ بھی آجاتے تو کمرہ بھر جاتا تھا ۔حضرت عمر ؓ اس خاندان میں سے تھے جو انساب کو یاد رکھا کرتا تھا اور جسے معلوم ہوتا تھا کہ فلاں شخص فلاں خاندان میں سے ہے اور فلاں شخص فلاں خاندان میں سے ہے۔اس وقت بڑے بڑے رئوساء جو کفار مکہ کی اولاد میں سے تھے آپ سے ملنے کے لئے آئے وہ سمجھتے تھے کہ حضرت عمرؓ چونکہ ہمارے خاندانوں کے حا لات سے خوب واقف ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ہمارے باپ داد کتنی بڑی عزت رکھتے تھے اس لئے دوسروں کے مقابلہ میں وہ ہمیں خاص عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ حضرت عمر ؓ نے بھی ان کو نہایت عزت سے بٹھایا ۔ اپنے پاس جگہ دی اور مختلف امور پر ان سے باتیں شروع کر دیںابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ ایک نو مسلم غلام آگیا حضرت عمر ؓ نے ان سے فرمایا ذرا پیچھے ہٹ جائو اور انہیں بیٹھنے کے لئے جگہ دے دو ۔وہ پیچھے ہٹ گئے تو حضرت عمرؓ نے اس غلام کو اپنے پاس بٹھایا اور اس سے باتیں شروع کر دیںتھوڑی دیر گذری تو ایک اور نو مسلم غلام آگیا حضرت عمرؓ نے پھر فرمایا کہ ذرا پیچھے ہٹ جائو اور ان کو جگہ دے دو ۔ وہ بیٹھا تو ایک تیسرانو مسلم غلام آیا پھر چوتھا پھر پانچواں یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے سات نو مسلم غلام آگئے اور حضرت عمرؓ ہر غلام صحابی کے آنے پر ان سے یہی فرماتے کہ ذرا پیچھے ہٹ جائواور ان کو بیٹھنے کی جگہ دے دو ۔ معلوم ہوتا ہے اس ابتلاء کے ذریعہ اللہ تعالی ان رئو وسا ء پر یہ حقیقت واضح کرنا چاہتا تھا کہ اب ساری عزت اسلام کی خدمت میں ہے کسی بڑے خاندان میں سے ہونا انسان کو عزت کا مستحق نہین بنا سکتا ۔ جب اس طرح یکے بعد دیگرے نو مسلم غلام صحابہؓ کے آنے پر ان کو پیچھے ہٹنا پڑا تو ہٹتے ہٹتے وہ جوتیوںکی جگہ پر جا پہنچے یہ دیکھ کر وہ کمرہ میں سے باہر نکل گئے اور انہوں نے ایک دوسرے سے کہا دیکھا آج ہماری کیسی ذلت ہوئی ہے ۔ پھر وہ افسوس کرنے لگے کہ عمر ؓ سے ہمیں اس بات کی توقع نہیں تھی ۔ عمر ؓ تو جانتا تھا کہ ہم کتنے بڑے خاندانوں میں سے ہیں مگر افسوس کہ انہوں نے بھی ہماری عزت کی کوئی پرواہ نہ کی اور ہم پر غلاموں کو تر جیح دے دی ۔ان میں سے ایک جو یادہ سمجھدار تھا اس نے جب یہ باتیں سنیں تو کہنے لگا تم کیا باتیں کر رہے ہو ۔ کیا تم سوچتے نہیں کہ اس میں عمر ؓ کا کوئی قصور نہیں ہمارا اپنا قصور ہے ۔ محمد رسول اللہﷺ دنیا میں آئے تو انہوں نے متواتر اور مسلسل لوگوں سے کہا کہ آئو اور مجھ کو مان لو ۔ مگر ہمارے باپ دادا نے ہر دفعہ ان کا انکا ر کیا اور انہیں سخت سے سخت تکالیف پہنچائیں۔اب اگر ہمیں اس کا کوئی خمیازہ بھگتنا پڑا ہے تو اس میں عمرؓ کا کیا قصور ہے ۔ہمارے باپ دادا نے محمد رسول اللہ ﷺ کا انکار کیا لیکن ان غلاموں نے آپ کو مان لیا اور اسلام کے لئے ہر قسم کی قربانی کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج غلاموں کو ہم پر ترجیح دی گئی ہے۔اگر ہمارے باپ دادا اسلام کے لیے قربانی کرتے تو ہمیں بھی عزت ملتی ۔جب انہوں نے اس وقت قربانی نہیں کی بلکہ اسلام کو قبول تک نہیں کیا تو آج ہمیں یہ شکوہ کس طرح پیدا ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کی ہمارے مقابلہ میں کیوں ذیادہ عزت کی گئی ہے۔انہوں کہا یہ بات تو درست ہے مگر آخر اس ذلت کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں۔ان میں سے ایک نے کہا چلو یہی بات حضرت عمر ؓ سے دریافت کر لیتے ہیں۔چنانچہ ہو پھر حضرت عمرؓ کے پاس گئے اس وقت مجلس بر خاست ہو چکی تھی اور صحابہؓاپنے اپنے گھروں کو واپس جا چکے تھے انہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا آج جو کچھ واقع ہواہے وہ آپ کو معلوم ہی ہے ہم اسکے متعلق آپ کی خدمت میں حاضرہوئے ہیں۔حضرت عمرؓ ان روئوساء کی گذشتہ شان وشوکت سے خوب واقف تھے اور جانتے تھے کہ ان کے باپ دادا مکہ میں کتنی بڑی عزت رکھتے تھے جب انہوں نے یہ بات کہی تو حضرت عمر کی آنکھوں میںآنسوڈبڈباآئے اور آپ نے فرمایا میں معذور تھا کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے محمد رسول اللہ ﷺکو اس وقت مانا جب ساری دنیا آپ کی مخالف تھی اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کے لیے بڑی بڑی تکالیف برداشت کیں۔جب خدا نے انکو اسلام میں عزت دی تو میرا بھی فرض تھا کہ أٰن انکو عزت کے مقام پر بٹھاتا ۔انہوں نے کہا ہم یہ سمجھ کر آئے ہیں کہ اس میںآپ کا کوئی قصور نہیں ہمارا اپنا قصور ہے ۔ یہ لوگ واقع میں اسی عزت کے مستحق تھے مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی کفارہ ایسا نہیں جس سے یہ ذلت کا داغ ہماری پیشانیوں پر سے مٹ سکے؟حضرت عمرؓ پر یہ سوال سن کر ایسی رقت طاری ہوئی کہ آپ الفاظ میں ان کو کوئی جواب نہ دے سکے صرف آپ نے اپنا ہاتھ اٹھا کر شام کی طرف اشارہ کر دیا ۔شام میں ان دنوں قیصر کی فوجوں سے اسلامی فوجوں کی جنگ ہو رہی تھی اور آپ کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم اس جنگ میں شامل ہو جائو اور اپنی جانیں اسلام کے لیے قربان کر دو تو شاید ان گناہوں کا کفارہ ہو جائے ۔وہ نوجوان اس بات کو سمجھ گئے اسی وقت باہر نکلے ،اونٹوں پر سور ہوے اور سب کے سب اس جنگ میں شامل ہونے چلے گئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ پھر ان میں سے کوئی ایک شخص بھی زندہ واپس نہیں آیا سب کے سب اس جنگ میں قربان ہو گئے ایک شخص بھی زندہ واپس نہیں آیا سب کے سب اس جنگ میں قربان ہو گئے ۔
پس بے شک قیامت کے دن بھی خدا تعالی اپنی نعمتوں کے متعلق لوگوں سے سوال کرے گا اور ان سے دریافت کرے گا کہ میری نعمتوں سے تم نے کیا فائدہ اٹھایا ۔ مگر اس دنیا میں بھی جب قوموں پر تباہی وارد ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے کہا کرتی ہیں کہ ہمیں ترقی کا فلاں موقع ملا مگر ہم نے اسے ضائع کر دیا ۔
غرض قرآن کریم نے اس سورۃ میں نہایت مختصر الفاظ میں وہ گر بتایا ہے جس سے قومیں تباہ ہوتی ہیں اگر اس گر کو ہمیشہ یاد رکھا جائے تو کبھی قومی تباہی نہ آئے ۔ محمد رسول اللہﷺ نے لوگوں کو ہوشیار کر دیا تھا کہ قومی تباہی کی سب سے بڑی وجہ تکا ثر ہوتی ہے مگر افسوس کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے اس حقیقت کو کھول کر بیان کر دیا تھا پھر بھی قومیں اسی طرح کرتی چلی جاتی ہیں۔خدا تعالی کی نعمتیں ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں اور وہ تکا ثر کو زیادہ اہمیت دے کر اپنے آپ کو تباہی کے گڑھے میں گرا لیتی ہیں۔

سُوْرَۃُ الزِّالزَالِ مَکِّیَّۃٌ
سورۃ زلزال - یہ سورۃ مدنی ہے ۱؎
وَ ھَیَ ثَمَانِی اٰیَاتِِ دُوْنَ الْبَسْمَلَتِ وَفِیْھَا رُکُوعٌّ وَّ احِدٌ
اور اس کی بسم اللہ کے سوا آٹھ آیات ہیں اور ایک رکوع ہے-
۱؎مجاہد، عطاء اور بن عباسؓ کے نزدیک ایک صحابی کی تائید پہلے قول کو حاصل ہے اس لئے ترجیع اُسی قول کو ہو گی کہ اِسے مکّی سمجھا جائے- مگر قرآن کریم کے مروّج نسخے جو ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں اُن کے اُور مدنی ہی لکھا ہوا ہے - ویری نے اِسے مکّی قرار دیا ہے اور وُہ کہتا ہے کہ باوجود اس کے کہ اس کی ابتدائی آیتیں مدنی سٹائل سے ملتی ہیں مگر یہ امر ہمیشہ ہی میرے لئے حیرت کا موجب رہتا ہے کہ یوروپین مستشرق جو زبان کے لحاظ سے عام مولویوں سے بھی عربی کا علم کم رکھتے ہیں وہ سورتوں کے مکّی یا مدنی ہونے کا فیصلہ کرتے وقت اُن کے سٹائل کوکیوں زیر بحث لے آتے ہیں جبکہ اُن کی علمی قابلیت ہر گز ایسی نہیں کہ وہ عربی کو اچھی طرح سمجھ سکیں کجا یہ کہ عربی زبان کے سٹائل کو پہنچانے کی قابلیت اُن میں موجود ہو- وہ جب بھی قرآن کریم کے متعلق اُس کے سٹائل کے لحاظ سے کوئی فیصلہ دیتے ہیں تو یوُں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بچہ فلاسفہ جرمن کے متعلق اپنی رائے ظاہر کر دہا ہو- اصل بات یہ ہے کہ وہ چونکہ روایت و تاریخ اسلام کے علم سے کورے ہوتے ہیں تاریخی شواہد اور علم الروایت کی شہادت سے چونکہ کوئی نئی روشنی نہیں ڈال سکتے اِدھر ااُنہیں اپنی علمیت جتانا بھی مقصود ہوتا ہے وہ کسی اسلامی مقولہ کی تصدیق سٹائل کے نام سے کر دیتے ہیں اس طرح کسی علمی روایت کا بھی ساتھ رہا اور سٹائل کے نام سے اپنی علمی مہارت کا بھی ثبوت دے دیا- گو حقیقتاً قرآن کریم تو الگ رہا وہ عام عربی کتب کا سٹائل بیان کرنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتے-
ترتیب سورۃ
پچھلی سورۃ میں قرآن کریم کا وہ اثر بیان کیا گیا تھا جو ابتدائی زمانہ میں اُس سے ظاہر ۲؎ سورہ زلزال کا سورہ بینہ کا تعلق
ہونا تھا- اب سورۃ میں اُس کے آکری زمانہ کے اثر کا ذکر کیا گیا ہے او ربتایا ہے کہ دوسری دفعہ یا یہ رسول پھر اس وقت دنیا کی اصلاح کرے گا جبکہ دنیا میں ایک زلزلہ عظیمہ آ جائے گا اور علوم کی ماہیت بدل جائے گی-
۱؎ سورئہ زلزال مکّی ہے -
ویری نے اُس جوڑ کو نہ سمجھتے ہوئے جو اس سورۃ کے مضمون کی پچھلی سورۃ کے مضمون سے ہے لکھا
۱؎ سورئہ زلزال مکّی ہے-
ہے کہ یہ سورۃ کسی اور سورۃ کا ایک ٹکڑا معلوم ہوتی ہے- مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ناواقف آدمی اپنی ناواقفیت کے نتیجہ میں ایک بات کہہ دیتا ہے اور وہ نکل سچی آتی ہے درحقیقت ویریؔ کا یہ کہنا کہ یہ سورۃ اپنی ذات میں مکمل نظر نہیں آتی ہے- درحقیقت بلکہ کسی اور سورۃ کا ٹکڑا معلوم ہوتی ہے نادانستہ گونا مکمل اعتراف ہے اس امر کا یہ اس سورۃ کا مضمون پہلی سورۃ کا تتّمہ ہے چونکہ ویری کو علمِ قران حاصل نہیں اُس کا ذہن ادھر تو گیا کہ یہ سورۃ نا مکمل ہے لیکن اس کا ذہن ادھر نہ جا سکا کہ یہ کس دوسری سورۃ سے مل کر مکمل مضمون دیتی ہے- اُس کی مثال ابنّ دیہودی کی طرح ہے جس کا دعوی تھا کہ دل کی بات بوجھ لیتا ہے- جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے سورہ ودخان کا مضمون دل میں رکھ کر اس سے پوچھا کہ بتا میرے دل میں کیا ہے تو دُخ دُخ کہہ کر رہ گیا- اسی طرح یہ پادری ویری اصل نکتہ معلوم نہ کر سکا کہ اس کا مضمون تتمّہ ہے سورہ بینّہ کے مضمون کا- اس لئے غور سے دیکھنے والی لیکن نا تجربہ کار اور اسرار قرآنی سے نا واقف آنکھ کو یہ تو معلوم نہ ہو سکا کہ یہ سورۃ پہلی سورۃ کے مضمون سے شدید تعلق رکھتی ہے- ہاں وہ اتنا بھانپ گئی کہ یہ سورۃ کسی دوسری سورۃ کاٹکتڑا نظر آتی ہے-
اس سورۃ کی نسبت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے احمد ابودائود اور انسانی نے روایت کی ہے کہ اَتٰی رَجُلٌ رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ اِقْرَأ ثَلَاثََا مِنْ ذَوَاتِ الٓرٰ فَقَاَ الرُّجُلُ کَبُرَ سِنِّیْ وَ اشْتَدَّ قَلْبِیْ وَ غَلُظَ لِسَانِیْ قَالَ اِقْرَأ ثَلَاثََا مِنَ الْمُسَبِّحَاتِ فَقَالَ مِثْلْ مَقَالَتِہِ الْاُوْلیٰ وَقَالَ وَلٰکِنْ اِقْرأ نِیْ یَا رَسُوْلَ مِثْلْ مَقَالَتِہِ لْاُوْلیٰ وَ قَالَ وَ لٰکِنْ اِقْرَ أ نِیْ یَا رَسُوْلَ اﷲِ سُوْرَۃً جَامِعَۃً فَاَقْرَ أ ہُ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْڑ الَہَا حَتّٰی فَرِغَ مِنْھَا- قَالَ الرَّ جُلُ وَ الَّذِیْ بَعَثَکَ بَالْحَقِّ لَا اَرِیْدُ عَلَیْھَا فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلیَّ اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَفْلَحْ الرُّوَ یْجَلُ- اَفْلَحَ الرُّیْجِلُ یعنی
یَا رَسُول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہ مجھے قرآن شریف پڑھائیں - آپ نے فرمایا آلٓر والی تین سورتیں پڑھا کرو- اُس آدمی نے کہا یا رسول اللہ میں بُدھا ہو گیا ہوں اور حافظہ خراب ہو گیا ہے زبان سخت ہو گئی ہے اس لئے مجھے کوئی اَور سورۃ بتائیے- آپ نے فرمایا اچھا تین سَبَّجَ والی سورتیں پڑھا لیا کرو فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِہِ الْاُوْلیٰ اُس نے کہا یا رسول اللہ مجھے کوئی ایک سورۃ ایسی بتا دیجئے جو جامع ہو- اِس پر آپ نے اُسے
۲۷۱؎ سورۃ الزلزال کے متعلق بعض روایات اور مفسرین روایات اور مفسرین کا اِن سے سورۃ الزالزل کی فضیلت ثابت کرنا
اِذَازُلْرِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَ الَھَا والی سورۃ سُنائی اور کہا کہ یہ پڑھو یہاں تک کہ جب آپ یہ سورہ پڑھ چکے تو اُس نے کہا مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے کہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں پڑھوں گا- فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلیَّ اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَفْلَحْ الرُّوَ یْجَلُ- اَفْلَحَ الرُّیْجِلُرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ چھوٹا آدمی یعنی کمزور اوربڈھا کامیاب ہو گیا- کامیاب ہو گیا-
اس حدیث سے شرّاح اور مفسرین اِس سورۃ کی فضلیت نکالتے ہیں لیکن درحقیقت اُس شخص کا مطلب یہ تھا کہ یا رسول اللہ ایک چھوٹی سی سورۃ مجھے بتا دیں جس کا مَیں ورد کیا کروں جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ظاہر کیا ہے- کیونکہ اُس شخص نے آپ کی بات سُن کر کہا کہ یا رسول اللہ یہ میری طاقت سے بڑھ کر ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ نہ صرف اُس نے سارا قرآن سُنا ہوا تھا بلکہ اس طرح سُنا ہوا تھا کہ وہ سورتوں کو الگ الگ پہنچانتا تھا-
دوسرے آپ کا یہ فرمانا کہ تُو تین فلاں سورتیں پڑھ- اِس کے صاف معنے یہ ہیں کہ آپ بھی یہ سمجھتے تھے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ضرور آپ سے ہی پڑھے بلکہ اُس کا مطلب یہ ہے کہ ج کتاب مجھے کوئی سورہ پڑھنے کے لئے بتا دیں حیسے ہمارے ملک میں کئی لوگ آتے ہیںتو کہتے ہیں کوئی وظیفہ بتا دیجئے- اس طرح حدیث کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اُس کا مطلب صرف اتنا تھا کہ حضور مجھے کوئی ایسی سورۃ بتا دیں جس کا میں وظیفہ کیا کروں- آپ نے اُسے آلر والی تین سورتیں بتا دیں- اگر زلزال کی کوئی خاص فضیلت ہوتی تو آپ اُسے پہلے آلرٰ والی تین سورتیں کیوں بتاتے پھر تو چاہیے تھا کہ آپ پہلے اُسے سورۃ الزال بتا دیتے- اس پر جب اُس نے کہا کہ میں بڈھا ہوں حافظہ خراب ہے اور زبان بھی سخت ہوگئی ہے تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے دوسری دفعہ بھی سورۃ زلزال کی فضیلت کا استنباط کی اجا سکتا ہے تو کیا عجیب بات نظر نہیں آئی کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اُسے اعلیٰ سورۃ تو نہ بتائی اورادنیٰ سورتیں بتا دیں- پس اس حدیث سے شراح اور مفسرین کا یہ نتیجہ نکالنا کہ اِس میں سورۃ زلزال کی خاص فضلیت بیان کی گئی ہے درست نہیں ہاں یہ استدلال اس حدیث سے ضرور ہوتا ہے کہ یہ سورۃ بھی جامع سورتوں میں سے ہے-
ترمذی میں حضرت انس ؓ سے روایت کی گئی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سورۃ الزلذال پڑھے اُسے نصف قرآن کے برابر ثواب حاصل ہوتا ہے اور جو سورہ اخلاص پڑھے اُسے تیسرے حصہ قرآن کی برابر ثواب حاصل ہوتا ہے اور جو سورہ کافرون پڑھے اُسے چوتھے حصہ قرآن کا ثواب ملتا ہے- ترمذی نے بالکل اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت ابن عباسیؓ سے بھی روایت کی ہے- اِسی طرح ترمذی نے حضرت انسؓ سے ایک اور روایت بھی نقل کی ہے وہ کہتے ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا کہ کیا تم نے نکاح کر لیا ہے؟ اُس نے جواب میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ نہ تو میں نے نکاح کر لیا ہے؟ اُس نے جواب میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ نہ تو میں نے نکاح کیا ہے اور نہ نکاح کرنے کی توفیق حاصل ہے-
آپ نے فرمایا قُلْ ھُوَ اﷲُ قرآن کریم کے تیسرے حصہ کے برابر ہے- پھر فرمایا کیا اِذَاجٓا نَصْرُ اﷲِ وَالْفَتْحُ تمہیں یاد ہیَ؟ اُس نے جواباً عرض کا یا رسول اللہ یاد ہے- آپ نے فرمایا یہ سورہ قرآن کریم چوتھے حصہ کے برابر ہے- پھر فرمایا قُلْ یَااَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ یاد ہے؟ اُس نے جواباً عرض کای ہاں یا رسول اللہ یاد ہے- آپ نے فرمایا یہ بھی قرآن کریم کے چوتھے حصہ کے برابر ہے پھر فرمایا کہ اِذَازُلْزِلَتِ الْارْضُ زِلْزَالَھَا یاد ہے؟ اُس نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ یہ بھی یاد ہے فرمایا یہ بھی قرآن کریم کے چوتھے حصہ کے برابر ہے- پھر فرمایا شادی لو یعنی تمہارے پاس تو اتنی دولت ہے تم کیوں کہتے ہو کہ میرے پاس شادی کا کوئی سامان نہیں-
حضرت ابوہریرہؓ سے بھی ایک روایت ہے وہ فرماتے ہیں سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْوْلُ مَنْ فِیْ لَیْلَۃٍ اِذَا زُلْزِلَتْ کَانَ لَہٗ عَدْلُ نِصْفِٓ الْقُراٰنِ افرجہ ابن مردوید ( مذکورہ بالا سب روایتں میں نے فتح البیان سے نقل کی ہیں- اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ حضرت ابوہرہؓ کہتے ہیں - میں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے سُنا آپ فرماتے تھے جس نے کسی رات میں اِذَازُلْزِلَتِ الاْرِضُ والی سورۃ تلاوت کی اُس کو آدھے قرآن کے برابر ثواب ملے گا- امام احمد کی روایت جو مَیں نے اُوپر فتح البیان کے حوالہ سے نقل کی ہے فتح البیان نے اسکو پورا نقل نہیں کیا اِس روایت کا کچھ حصہ اُنہوں نے چھوڑ دیا ہے آخر میں یوُں آتا ہے کہ جب شخص نے کہا کہ وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لاَ اَنِیْدُ عَلَیْھَا اور آپ نے فرمایا اَفْلَحَ الرُّوَ یْجِلُ اَفْلَحَ الرُّوَ یْجِلُ اور اس کے بعد وہ شخص چلا گیا تو اس کے چلے جانے کے بعد آپ نے فرمایا اُسے واپس بلائو- جب وہ واپس آیا تو آپ نے فرمایا- اُمِرتْ بِیَوْمِ الْاضْحٰی جَعُلَہُ اﷲُ عِیْدًا لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ فَقَالَ لَہُ الرِّجُلُ أ رأیْتَ اِنْ لَّمْ اَجِدْ اِلاَّ مَیِنِیْحَۃً اُنْثٰی فَاَ ضْحٰی بِھَا قَالَ لاَ وَلٰکِنَّکَ تَاْ خُذُ مِنْ شَعْرِکَ وَتَقْلَمَ اَظْفَارَکَ وَتَقُصُّ شَادِبَکَ وَ تَحْلُقُ عَانَتَکَ فَذَلِکَ تَمَامُ اُضْحِیْتِکَ عِنْد اﷲِ عَذَّوَ جَلَّ- یہی حدیث ابو دائود نے نسائی نے بھی روایت کی ہے - مگر عبد اللہ بن عمرو سے نہیں بلکہ عبد الرحمن الحضرمی سے - گویا اصل حدیث کے آخر میں یہ بھی آتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اُسے واپس بلا کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یوم الاضحی یعنی عید الاضیحہ کا بھی حکم دیا ہے اللہ تعالیٰ نے یہ اس اُمت کے لئے عید بنائی ہے اس نے کہا یا رسول اللہ یہ تو بتایئے یعنی آپ کی اس بارہ میں کیا رائے ہے کہ اگر میرے پاس اُونٹ یا بکری نہ ہو صرف میرے پاس ایک اونٹنی ہو جو کسی نے تحفتہً دی ہو تو کیا میں اُسے عید الاضحیہ پر ذبح کر دوں؟ رسو ل کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ نہ- ایسا ہر گز نہ کرنا بلکہ اپنے بال منڈوانا، اپنے ناخن تراشوانا، اپنی مونچھوں کے اگلے حصے کے بال چھوٹے کروانا اور زیر ناف بالوں پر اُسترا پھیرنا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری قربانی ہو گی-
اِن روایات کے متعلق یہ نکتے یاد رکھنے کے قابل ہیں- اول یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی ایک چھوٹی سی سورۃ کو نصف قرآن یا ثلث القرآن یا رُبع القرآن کس طرح کہا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام ایسا مذہب ہے جو عالم جاہل بُڈّھے جو ان سب کے لئے ہے- رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم خود متواتر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قرآن کریم اس لئے نازل کیا گیا ہے کہ لوگ اِس کو پڑھیں، یاد کریں اور اس پر عمل کریں اور زور اس حد تک دیا گیا ہے کہ ایک سچا مسلمان اِس سے شدید طور پر متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا- جو شخص اسلام کے ساتھ کچھ بھی حقیقی دلچسپی رکھتا ہے خواہ وہ کتنی ہی کم ہو وُہ اس بات کا اقرار کئے بغیر رہ سکتا کہ اُس کے ایمانی زندگی کا مدار صرف اور صرف کئے قرآن کریم پر ہے اور یہ کہ وہ اتنا ہی خدا تعالیٰ کے قریب جا سکتا ہے جتنا قریب کہ وہ قرآن کریم کے گیا ہے- ان حالات میں ایک بڈھا جس کی
۲۷۱؎ کسی سورۃ کے ثلث یا اہل قرآن ہونیکا مطلب
زبان چلتی ایک جاہل عورت جس کا حافظہ کام نہیں دیتا ایک غیر عرب جو عربی زبان سے مانوس نہیں ہے وہ اس قدر فرست بھی اُس کو نہیں کہ وہ عمر کا معتد بہ حصہ لگا کر قرآن مجید کو حفظ کر سکے ایسے لوگوں کے دلوں کا اس تاکید کو سُن کر کیا حال ہو سکتا ہے پس آپ نے ان الفاظ میں ان لوگوں کی دلجوئی کی ہے اوربتایا ہے کہ ثواب قابلیتِ عمل کے لحاظ سے ہوتا ہے نہ کہ عمل کی کمیت کے لحاظ سے کسی شخص میں زیادہ طاقت ہو اور وہ اپنی طاقت کے مطابق کام کرتا ہو اور دوسروں میں کم طاقت ہو اور وہ اپنی طاقت کے مطابق کام کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ دونوں یکساں ثواب کے مستحق ہوں گے کیونکہ دونوں کے برابر کی قربانی کی ہے- پس نصف اور ثلث اور ربع کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ ان صورتوں میں نصف یا ثلث یا ربع کا مضمون آگیا ہے کیونکہ اگر یہ بات درست ہے کہ یہ چار مذکورہ بالا سورتیں مضمون کے لحاظ سے قرآن مجید کے نصف یا ثلث یا ربع کے برابر ہیں تو دوسرے لفظوں میںاس کے یہ معنے ہیں کہ ان صورتوں میں قرآن مجید کے مضا مین سے بھی کچھ زیادہ آ گیا ہے کیونکہ سورئہ الزلزال کو نصف قرآن کے برابر ، سورئہ اخلاص کے تیسرے حصہ قرآن کے برابر ، سورئہ کافرون کو چوتھے قرآن کے برابر اور سورۃ اِذَجٓا ئَ نَصُراﷲِ وَالْفَتْحُ کو بھی چوتھے حصہ قرآن کے برابر قرار دیا گیا ہے -گویا یہ چار سورتیں ایک قرآن اور ایک ثلث قرآن کے برابر بنتی ہیں اور یہ بات عقلاً اور نقلاً دونوں طرح باطل ہے کہ ان چار سورتوں میں سارے قرآن اور پھر اس سے بڑھ کر ایک اور ثلث قرآن کا مضمون پایا جاتاہو-
اگر کہا جائے کہ یہ صورتیں آپس میں اور اور لَیپ (Over Lape)کرتی ہیں یعنی جس ربع کا مضمون ایک سورمیں ہے اُسی ربع کا مضمون دوسری سورۃ میں ہے اور جس ثلث کا مضمون ایک سورۃ میں ہے اُسی ثلث کا مضمون دوسری سورۃ میں ہے تب بھی کم سے کم اتنا تو ماننا پڑے گا کہ نصف قرآن کا مضمون ان سورتوں میں ضرور آ سکتا ہے - کیونکہ ایک سورۃ کو نصف قرآن قرار دیا گیا ہے پس اس سورۃ میں بھی لازماً یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نصف حصہ قرآن نعوذ باللہ ایک بے ضرورت اور لغو قرآن ہے کیونکہ جب یہ دیہی مضمون جو نصف قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے ان چھوٹی سی سورتوں میں آ گیا ہے تو پھر اس کے نازل کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی-
اگر کہو کہ آپ لوگ سورۃ فاتحہ کو تو بھی سارے قرآن کاخلاصہ کہتے ہیں تو پھر باوجود اس کے آپ لوگ قرآن مجید کی ضرورت بھی تسلیم کرتے ہیں اگر سورۃ فاتحہ کو سارے قرآن کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے تو پھر کوئی دوسری سورۃ نصف یا ثلث یا ربع کے برابر کیوں نہیں ہو سکتی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ سارے قرآن کے مضامین کا خلاصہ اپنے اندر رکھتی ہے - لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ میں قرآن مجید کے مضامین کا خلاصہ آ گیا ہے تو ساتھ ہی ہم یہ بھی تو یقین کے ساتھ جانتے ہیں الٓمٓ سے النّاس تک کے تمام مضامین اس میں آ گے ہیں- اس سے ہمارے علم میں یقینا زیادتی ہوتی ہے یعنی جب تفصیلی قرآن میں ہم کو کوئی مسئلہ نہیں ملتا تو ہم سورۃ فاتحہ میں جو مجمل قرآن ہے اُس کو تلاش کرتے ہیں اور جب مجمل قرآن میں ہم کو کوئی مسئلہ نہیں ملتا تو قرآن عظیم میں اُس مسئلے کو تلاش کرتے ہیں - اس سے اُمت میں غورو فکر کا مادّہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے علم میں زیادتی ہوتی ہے لیکن باوجود اس کے سورۃ فاتحہ کو سارے قرآن کریم کا قائم مقام نہ تو ہم مانتے ہیں اور آج تک کسی نے کیا ہے- اور ان احادیث میں تو یہ کہا گیا ہے کہ جس نے فلاں سورۃ پڑھی اُسے نصف یا ثلث یا ربع قرآن کریم پڑھنے کا ثواب مل گیا -مگر سورۃ فاتحہ کی نسبت تو ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ جس نے سورۃ فاتحہ پڑھی اُسے سارے قرآن کا ثواب مل گیا مضمو ن کا ہونا اور شے ہے اور ثواب کا ملنا بالکل اور شے ہے- اگر یہاں بھی مضمون مراد ہے تو اُس نصف یا ثلث یا ربع کی تعیین ہونی چاہیے تھی- جس نصف یا ثلث یا ربع کا یہ خلاصہ ہیں آخر قرآن کریم کا نصف کئی سورتوں میں ہو سکتا ہے اس سورۃ میں بھی کہ پہلا نصف مراد لے لیا جائے- اس سورۃ میں بھی کہ دوسرا نصف مراد لے لیاجائے اور اس صورت میں بھی کہ قرآن مجید کو متفرق جگہوں اس کا نصف یا ثلث یا ربع مراد لے لیا جائے- سورۃ فاتحہ میں تو ایک تعیین کر دی گئی تھی کہ وہ سارے قرآن مید کا خلاصہ ہے اس تعیین کا فائدہ یہ ہے کہ جب ہم سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں تو غور کرتے ہیں کہ اس میں سارے قرآن مجید کا مضمون کس طرح آ گیا ہے یا جب ہم سورۃ بقرہ پڑھتے ہیں یا الاعمران پڑھتے ہیں یا النسآء پڑھتے ہیں یا مائدہ پڑھتے ہیں یا انعام پڑھتے ہیں تو ہم غور کرتے ہیں کہ اس میں سورۃ فاتحہ کے مضامین کس طرح بیان ہوئے ہیں مگر یہاں تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہی نہیں کہ کون سا نصف ہے جس کے برابر زلزال ہے یا کون سا ثلث ہے جسکے قائمقام سورۃ اخلاص ہے یا کونسا ربع ہے جس کی قائمقام سورۃ کافرون اور سورۃ اِذَاجَا نَصْرُ اﷲِ ہے پس ان سورتوں پر غور کر کے کم کس دوسرے نصف یا ثلث یا ربع کے مضمون پر غور کر کے ہم یہ سمجھیں کہ ان سورتوں کا مضمون زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے - پس محظ یہ کہہ دینا کہ فلاں سورۃ نصف قرآن کے برابر ہے اور فلاں ثلثِ قرآن یا ربع قرآن کے برابر فائدہ کے لحاظ سے بالکل بے کار ہے- نہ ہمیں یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ ان سورتوں میں کسی نصف یا کسی ثلث یا کسی ربع کا مضمون خلاصتًہ بیان ہوا ہے نہ یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کس نصف یا ثلث یا ربع میں ان سورتوں کے مضامین کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ قرآن مجید کا وہ نصف یا ثلث یا ربع معین کیا جاتا جس کے مضامین کو ان سورتوں میں بیان کیا گیا تھا تا کہ مومن اُس نصف یا ثلث یا ربع کے مضامین کا اُن سے مقابلہ کر کے اپنا ایمان تازہ کرتے جیسے سورۃ فاتحہ پر غور کر کے ہم سارے قرآن مجید کو اخذ کر سکتے ہیں اور سارے قرآن مجید میں زیادہ تفصیل کے ساتھ وہی مضمون پاتے ہیں جو صورت فاتحہ میں بیان ہوا ہے مگر آپ نے اس نصف یا ثلث یا ربع کا کوئی ذکر نہیں کیا جس کے یہ برابر ہیں - پس صاف ظاہر ہے کہ اس جگہ اشارہ مضمون کی طرف نہیں - خود حدیث کے الفاظ بھی اسی دلالت کرتے ہیں - چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت مروی ہے اُس کے الفاظ یہ ہیں کہ مَنْ قَرَ أ فِیْ لَیْلَۃِِ اِذَازُلْزِلَتْ کَانَ لَہٗ عَدْلُ نِصْفِ الْقُراٰنِ -آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اُس کا مضمون قرآن کے برابر ہے جیسے سورۃ فاتحہ کے متعلق فرمایا ہے وہ خلاصہ ہے سارے قرآن کا- بلکہ آپ نے جو کچھ فرمایا اُس کا مفہوم بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے اس سورۃ کا ثواب نصف قرآن کے ثواب کے برابر ہے -مگر یہ معنے بھی ایسے ہیں جنہیں کوئی عقل مند درست تسلیم نہیں کر سکتا -کیونکہ اس چھوٹی سی سورۃ کاثواب نصف قرآن کے ثواب کے برابر ہے-تو پھر کسی کو سارا قرآن پڑھنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں رہتی اور اگر اس سے یہ مراد ہے کہ اس میں نصف قرآن یا ربع قرآن کا مضمون بیان کیا گیا ہے تو پھر اس نصف یا ربع کی تعین ہونی چاہیے تھی جن کا مضمون اس سورۃ میں خلاصۃً بیان کیا گیا ہے تا کہ جو شخص بھی اس سورۃ کو پڑھتا وہ سمجھتا کہ اس میں فلاں نصف یا فلاں ربع کے تمام مضامین آ گئے ہیں - پس اگر ہم ان احادیث کو صحیح تسلیم کر لیں تو پھر وہی بات بن جاتی ہے جو دعائے گنجُ العرش کے مطلق مشہور ہے کہ جس نے اُسے ایک دفعہ پڑھ لیا اُسے آدم س لیکر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم تک سارے نبیوں ولیوں اور بزرگوں کی عبادر کا ثواب مل گیا اُس کے بعد انسان کو اور کیا چاہیے - جب اتنی آسانی سے کسی کو سارے نبیوں اور بزرگوں اور ولیوں کی عبادت کا ثواب مل رہا ہو تو اُسے کیا ضرورت ہے کہ وہ محنت کرے اور اپنے نفس کو مشقتوں میں ڈال کر اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل کرنے کی کوشش کرے وہ دعائے گنجُ العرش پڑھ لے گا اور مطمئن ہو جائے گا کہ میں وہ سب کچھ حاصل کر لیاجو مجھ سے نبیوں اور ولیوں نے حاصل کیا تھا پس اگر ثواب مراد ہے تو اس حدیث کا وہی مفہوم بن جاتا ہے دو دعائے گنج العرش کا ہے مگر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان احادیث کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا- درحقیقت ان احادیث کا مفہوم اس قدر ہے کہ ایک کمزور انسان جس کا حافظہ کمزور ہے تین چار چھوٹی چھوٹی سورتیں یاد کر لے تو اُسے ویسا ہی ثواب مل جائے گا
۲۷۰؎ جزائے اعمال اسلامی فلسفہ
جیسے ایک اچھے حافظہ اور علم رکھنے والے انسان کو جس نے سارا قرآن یاد کر لیا ہے- اس طرح ایک تو جزائے اعمال کا اسلامی فلسفہ بتا دیا گیا کہ اسلامی فلسفہ یہ نہیں کہ اگر کسی کے پاس زیادہ سامان ہوں گے اور اُسے زیادہ ثواب ملے گا بلکہ اگر کوئی شخص اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق قربانی کا حق ادا کر دیتا ہے تو وہ ثواب میں اُس شخص سے یقینا بڑھ جائے گا جس نے گو بظاہر اس سے زیادہ قربانی کی مگر اپنی طاقت سے کم حصہ لیا- مثلاً اگر کسی شخص کے پاس دس لاکھ روپیہ ہے اور وہ اُس میں سے دس ہزار روپیہ خدا کی راہ میں دے دیتا ہے اور دوسرے شخص کے پاس صرف سو رپیہ تھا مگر اُس نے سو کا سو روپیہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیا تو ایک سوروپیہ خرچ کرنے والا دس ہزار روپیہ چندہ دینے والے سے زیادہ ثواب حاصل کرے گا کیونکہ اس نے اپنی ساری پونجی خدا تعالیٰ کی راہ میں لٹا دی لیکن دس لاکھ والے نے اپنی ساری پونجی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کی بلکہ اُس کا سواں حصہ خرچ کیا- پس وہ دس ہزار روپیہ خرچ کرنے کے باوجود ثواب میں اُس شخص سے بہت کم رہے گا جس نے سوروپیہ خرچ کیا ہے- اُس کی ایک موٹی مثال موجود ہے حضرت ابوبکر صدیقؓ مال میں حضرت عثمان سے بہت کم تھے- حضرت عثمانؓنے صرف ایک غزوہ کے موقع پر اتنا چندہ دے دیا تھا کہ شائد ابو بکر کو سالوں میں بھی مجموعی طور پر اتنا چندہ دینے کا موقع نہیں ملاہو گا- مگر باوجود اس کے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے خدمات میں حضرت ابوبکرؓ کی تعریف حضرت عثمانؓ سے زیادہ کی ہے اس کی وجہ درحقیقت یہی ہے کہ حضرت ابوبکرؓنے بعض دفعہ اپنا سارا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا تھا لیکن حضرت عثمانؓ کے متعلق یہ بات ثابت نہیں- حضرت عمرؓ کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ اب کی دفعہ صدقہ خیرات میں ابوبکر سے بڑھ جائوں- اُن کا اندازہ یہ تھا کہ حضرت ابوبکرؓ نے زیادہ سے زیادہ ایک وقت میں جو چندہ دیا ہے وہ نصف مال سے کم سے چنانچہ حضرت عمرؓ نے فیصلہ کیا میں اب کی دفعہ اپنا نصف مال دے دوں گا اور ابوبکرؓ سے بڑھ جائوں گا - حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں مال لداپھندا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچا اور میں اپنے دل مین بہت خوش تھا کہ آج ابوبکرؓ سے ضرور بڑھ جائوں گا- جب میں وہاں پہنچا تو ابوبکرؓ پہلے ہی کھڑے تھے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم انہیں یہ کہ رہے تھے کہ ابوبکرؓ تم نے اپنے گھر میں بھی کچھ چھوڑا؟ اور ابوبکرؓ اس نے جواب میں یہ کہ رہے تھے کہ یا رسول اللہ! اللہ اور اس کے رسول کا نام چھوڑا ہے حضرت عمرؓ کہتے ہیں جب میں یہ بات سُنی تو میں نے اپنے دل میں سمجھ لیا کہ اُس شخص سے بڑھنا ناممکن ہے اب دیکھو جہاں تک مال کا سوال ہے عثمانؓ زیادہ مال دار تھے، جہاں تک رقموں کا سوال ہے جو رقمیں حضرت عثمانؓنے دیں ابوبکرؓ نے نہیں دیں مگر باوجود اس کے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ابوبکر کی تعریف کرتے عثمان کی اتنی تعریف نہیں کرتے- اس کی وجہ یہی ہے کہ اپنے مال کی نسبت سے ابوبکرؓ نے جو عقلمندی کی وہ عثمانؓ نے نہیں کی- پس یہاں جزاء اعمال کا اسلامی فلسفہ بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے جزاء اعمال کے مطلق اسلامی مسئلہ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ کمیت کیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ جو کچھ دیا گیا ہے جو دینے والے کی قربانی کے مقابلہ میں کیا نسبت رکھتا ہے- اگر دی ہوئی چیز بہت چھوٹی سی ہے مگر تمام حالات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اُس میں ساری طاقت اتنی ہی تھی تو وہ اُس شخص سے بڑھ جائے گا جس نے اُسے زیادہ دیا- مگر وہ قربانی کی طاقت زیادہ رکھتا تھا-
دوسرے کمزور اور نحیف اور نا تواں آدمیوں کو حسرت اور دل شکنی سے بچا لیا گیا ہے جس کا حفظہ کمزور ہے وہ یہ نہیں کہ سکتا ہے میں تو مارا گیا کہ معلوم قیامت کے دن اچھے حافظوں والے قرآن مجیدکو حفظ کرنے کی وجہ سے کیا کیا ثواب لے جائیں گے وہ جب اس حدیث پر آئے گا کہ جس نے سورۃ الزلزال پڑھی اُس نصف قرآن کا ثواب مل گیا اُس کا دل خوشی سے اُچھلنے لگ جائے گا اور وہ کہے گا سورۃ الزلزال یاد کرنے کی تو مجھے تو فیق حاصل ہے آئو میں اسے یاد کر کے ثواب میں اُس شخص کے برابر ہو جائوں جس کے نصف قرآن یادکیا ہوا ہے یا سورۃ اخلاص کو میں آسانی سے حفظ کر سکتا ہوں یا سورۃ کافرون یاد کرنا تو کوئی مشکل امر نہیں یا سورۃ اِذَاجَآ ئَ نَصْرُ اﷲِ وَالْفَتْحُ تو میں اچھی طرح یاد کر سکتا ہوں اور اس طرح اس چار چھوٹی چھوٹی سورتوں کو یاد کر کے میںثواب میں اس شخص کے برابر ہو سکتا ہوں جس نے سارا قرآن حفظ کیا ہوا ہے -مایوسی اس کے دل سے دور ہو جائے گی اس کے حسرتُ اندوہ کے جذبات مسّرت و انبساط سے تبدیل ہو جائیں گے اور اس کا دل پکار اُٹھے گا کہ میرے لیے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بھی اپنے قربُ انعامات کا دروازہ کھولا ہوا ہے-
اس کا مزید ثواب کہ یہی معنے اس جگہ مراد ہے یہ ہے کہ وہ شخص جس نے آپ سے یہ سوال کیا تھا کہ مجھے ایک جامعہ سورۃ بتائیے جس کا میں ورد کیا کروں اُسے آپ نے پھر بلا کر کہا کہ عید الضحیہ کا بھی اسلام میں حکم پایا جاتا ہے - اب بظاہر یہ بات آپ کی نعوذ باللہ کیسی بے جوڑ معلوم ہوتی ہے کہ آپ اسے واپس بلاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اُسے اسلام کے اور ضروری احکام کی طرف توجہ دلائیں اُسے کہتے ہیں کہ عید الضحیہ منانا تھی اسلامی احکام میں سے ایک حکم ہے حالانکہ قرآن پڑھنے کے علاوہ اسلام میں نماز کا بھی حکم ہے ، روزے کا بھی حکم ہے، زکوۃ کا بھی حکم ہے، حج کا بھی حکم ہے، جہادکا بھی حکم ہے یہ عیدالضحیہ منانا کونسا حکم ہے کہ آپ نے اُسے خاص طور پر واپس بلایا کہ میاں ذرا یہ بھی سُن جانا کہ اسلام میں عید الضحیہ منانے کا بھی حکم ہے -اگر آپ اُسے بتاتے کہ صرف قرآن ہی یاد نہیں کرنا بلکہ نماز بھی پڑھنا ہے بتاتے تو یہ بتاتے کہ زکوۃ کا بھی اسلام میں حکم دیا گیا ہے بتاتے تو یہ بتاتے کہ سورۃ زلزال پڑھنے پر ہی اکتفا نہ کرنا بلکہ روزے بھی رکھتے - بتاتے تو یہ بتاتے تم نے جہاد بھی کرنا ہے اور بڑے بڑے اہم مسائل جن کا اسلام میں حکم دیا گیا ہے اُن کی طرف اُن کی توجہ کو پھیرتے مگر آپ ان تمام باتوں کو چھوڑ کر صرف اتنا فرماتے ہیں اسلام یں قربانی کا بھی حکم پایا جاتا ہے - یہ بات ایسی ہے کہ اگر اس پر پورے طور پر غور کر کے اس کا صحیح مفہوم نہ نکالا جائے تو ظاہر ی صورت میں یہ بات بالکل ویسی ہی بن جاتی ہے جیسے ایک لونڈی کے متعلق مشہور ہے کہ وہ رمضان مین روزانہ سحری کے وقت اُٹھ کر بیٹھ جاتی اور سحری بھی کھاتی مگر روزہ نہیں رکھتی تھی- گھر کی مالکہ رحم دل اور نیک سِیرت عورت تھی اُس نے سمجھا کہ یہ ہماری خاطر اُٹھتی ہے تا کہ کام میں کچھ مدد دے سکے ورنہ اس کا منشاء اگر روزہ رکھنا ہوتا تو روزہ بھی رکھتی چونکہ یہ روزہ نہیں رکھتی اس لیے معلوم کہ سحر ی کے وقت یہ ہماری خاطر ہی تکلیف کر کے اُٹھ بیٹھتی ہے ایک دن مالکہ نے اُس سے کہا کہ تو نے روزہ تو رکھنا نہیں ہوتا اِس لئے سحری کے وقت نہ اُٹھا کرہم کام خود کر لیا کریں گے وہ کہنے لگی بی بی نماز میں نہیں پڑھتی روزہ میں نہیں رکھتی تو سحری ہی نہ کھائوں تو کافر ہو جائوں - جس طرح اس لونڈی نے نماز اور روزہ سے سحری مقدم کر لی تھی اسی طرح اس حدیث کا یہ مفہوم بن جاتا ہے کہ ان تورات کو سورۃ زلزال پڑھ لی اور ایک عید کے دن قربانی کا بکرا کھا لیا بس اسلام کے سارے احکام کے پر عمل ہو گیا مگر اس حدیث کے ہر گز یہ معنے نہیں آپ کا اُسے واپس بلانا اور اسلام کے اور تمام احکام کو نظر انداز کر کے صرف اتنا فرمانا عید الاضحیہ کا بھی اسلام میں حکم پایا جاتا ہے اور پھر اس کے یہ کہنے پر کہ مجھے ایک اُونٹنی تحفہ میں ملی ہوئی ہے کیا میں اُسے قربان کر دوں آپ کا یہ فرمان یہ تجھے جانور قربانی کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اگر تو بال منڈواتا ہے مونچھوں کے بال ترشواتا ہے ناخن کٹواتا ہے زیر ناف بالوں پر اُسترا پھرواتا ہے تو پھر یہ بھی تیری قربانی ہے درحقیقت اس لیے تھا کہ آپ اپنی اپنی پہلی بات کی حقیقت اور فلسفہ اُسے اور دوسرے سننے والوں کو بتانا چاہتے تھے چنانچے جب اُس نے کہا کہ میری پاس ایک اُونٹنی ہے جو مجھے تحفہ کے طور پر ملی ہوئی ہے کیا میں اس اُونٹنی کو ذبح کر دوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہارے جیسے غریب آدمی کے لیے بال منڈوانا ناخن ترشوانا ہی قربانی کا مترادف ہے اور اس طرح بتا دیا ہے کہ جس طرح بال منڈوانا اور ناخن ترشوانا ایسے آدمی کے لیے قربانی کے مترادف ہے جس کو قربانی کی طاقت نہ ہو اسی طرح وہ شخص جس کا حافظہ کمزور ہے جس کی صحت خراب ہے یا جو بڑھاپے کی عمر کو پہنچ چکا
(۲) قرآن مجید کی سورتوں کے دولت اقرار دینے میں حکمت
ہے اور اس کی صحت حافظہ اور قویٰ زیادہ قرآن حفظ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے اُس کا سورہ زلزال کو یاد کر لینا ہی بڑی سورتوں یاقرآن کریم کو یاد کر لینے کے برابر ہے- یہ فلسفہ تھا جس کے بیان کرنے کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بڈھے کو واپس بلائو تا کہ وہ بھی اس فلسفہ سے آگاہ ہو جائے اور صحابہؓ بھی سمجھ لیں کہ میرا اس سے کیا منشاء ہے اگر معانی کی طرف اشارہ ہوتا تو طاقت والے کے لیے اور نہ طاقت والے کے لیے معانی کے لحاظ سے وہ صورۃ یکساں ہونی چاہیے تھی مگر آپ دونوں کے لیے ان صورتوں کا حفظ یکساں اقرار نہیں دیتے بلکہ ایک مثال کے ذریعے اس فرق کوواضح کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جس طرح ایک غریب شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھنے کی صورت میں صرف بال منڈوا کر اور ناخن تراشوا کر قربانی کے ثواب میں شریک ہو سکتا ہے اسی طرح وہ شخص جس کا حافظہ اور صحت زیادہ قرآن حفظ کرنے کی اجازت نہیں دیتے اُس کا سورئہ زلزال کو یاد کر لینا ہی نصف قرآن کے برابر ہے پس بے شک سورۃُ الزلزال یا سورۃ الاخلاص یا سورۃ ُ الاکافرون یا سورۃُ النصر کے یاد کر لینے سے انسان کو نصفُ القرآن یا ثلثُ القرآن یا ربعُ القرآن کا ثواب مل جاتا ہے مگر ہر ایک کو نہیں- اُس کمزور انسان کو جس کو صرف سورۃُ الزلزال ہی یاد ہو سکتی تھی یا سورۃُ الاخلاص ہی یاد ہو سکتی تھی یا سورۃ الاکافرون اور سورۃ النصر ہی یاد ہو سکتی تھی وہ اگر سورۃ الزلزال پڑھ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حضور وہ ویسا ہی سمجھا جائے گا اُس نے نصف قرآن پڑھ لیا - پس یہاں معانی کا سوال نہیں نہ ہرشخص کا سوا ل ہے صرف معذور کے لیے ثواب حاصل کرنے کا ایک رستہ کھولا گیا ہے -
غرض اُس شخص کو خاص طور پر بلا کر وہ حکم بتانا جو نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور جہاد سے بہت کم ہے صاف بتاتا ہے کہ آپ کا منشاء یہ تھا کہ یہ حکمت اُس پر اور دوسروں پر واضح ہو جائے اور وہ اس دھوکے میںنہ پڑھ جائیں کہ زلزال یا کوئی اور سورت درحقیقت نصف یا ثلث یا ربع قرآن کے برابر ہو سکتی ہے اس لیے ہمیں قرآن پڑھنے کی ضرورت نہیں-
(۲)دوسرا نقطہ قابلِ توجہ ان احادیث میں یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی چند کے یاد ہونے کو ایک دولت قرار دیا ہے اس سے ایک طرف تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان اپنے رسالت پر ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اُس کلام کو جو آپ پر نازل ہوتا ہے کس قدر قیمتی سمجھتے تھے کہ جسے اُس کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی یاد ہو اُس کی نسبت خیال فرماتے تھے کہ وہ اپنی ہر ضرورت کو پورا کر سکتا ہے اور محتاجوں اور ناداروں میں شامل کئے جانے کے قابل نہیں- یہ ایمان محاذ آپ کی راست بازی کا ہی ثبوت نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اس امر کا بھی ثبوت ہے کہ اس کلام نے آپ کے جسم کے ذرہ ذرہ پر قابو پا لیا تھا اور آپ اس کی اہمیت کو ہر دوسری شے پر مقدم سمجھتے تھے -
(ب) اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہؓ کے ایمان پر بھی بڑا بھروسہ تھا اور آپ یقین رکھتے تھے کہ آپ کے صحابہ ہی قرآن کریم کو ایک عظیم الشان دولت سمجھتے ہیں- اگر آپ کے صحابہؓ اس خیال کے نہ ہوتے تو آپ کا
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم o
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور )بار بار رحم کرنے والا ہے( شروع کرتا ہوں)
اِذَزُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا o
جب زمین کو پوری طرح ہلا دیا جائے گا۲؎
اُس صحابی کو یہ کہنا کہ جب تجھے چند صورتیں یاد ہیں تو تو نکا ح کربے معنے ہیں ہو جاتا ہے کیونکہ کوئی لڑکی ہی نہ دے گا تو وہ نکاح کیونکر کرے گا - اگر لڑکیاں اور لڑکیوں کے ماں باپ قرآن کریم کو ایک عظیم الشان دولت نہ سمجھتے اور انہیں یہ یقین نہ ہوتا کہ قرآن کریم کا ایک جزو بھی انسان کو دولت مند بنا دیتا ہے تو آپ یہ حکم کبھی نہ دے سکتے تھے اور وہ شخص اس پر عمل بھی کبحی نہ کر سکتا تھا-
(ج)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے مسلمانوں کے لیے قرآن پڑھنا قرآن سمجھنے کے مترادف تھا اور قرآن سمجھنا اس پر عمل کرنے کے مترادف تھا ورنہ قرآن کی چند سورتوں کا یاد ہونا اس کے لیے دولت کس طرح کہلا سکتا تھا- آج کل مسلمان اوّل تو قرآن پڑھتے ہی نہیں ایک بہت تعداد قرآن پڑھنا جانتی ہے مگر اس چھوٹی تعداد میں سے اور بھی تھوڑے لوگ ہیں جو قرآن کو سمجھتے ہیں اور اُن بہت ہی تھوڑے لوگوں میں سے بالکل قلیل گروہ انگلیوں پر گنے جانے کے قابل ایسا ہے جو اُس کو سمجھ کر باطن کو جانے دو اُس کے ظاہر پر عمل کرتا ہے ان حالات میں ایسے لوگوں کا ادب کون کر سکتا ہے اور ایسی قوم جس کا اپنی مذہبی اور الہامی کتاب کی نسبت یہ رویہ ہے وہ کسی عزت کے مستحق ہی کس طرح ہو سکتی ہے-
۲؎ حل لغات- زُلْزِلَتْ: زَلْزَلَ سے مونث مجہول کا صیغہ اور زَلزَلَ اﷲُ الْاَرْضُ زَلْزَلَۃٌ وَزِلْزَالاً وَزَلْزَالاً و زُلْزَالاً کے معنے اَرْجَفَھَا- اللہ تعالیٰ نے زمین کو ہلا دیا اور زَلْزَلَ فَلاَ کے معنے ہیں خَوَّ فَہٗ وَحَذَّرَہٗ اُسے خوف دلایا اور ڈرایا- اور زَلْزِلَ الاْ بِلَ کے معنے ہیں سَاقَھَا بِعَنْفِ اونٹوں کو مار کوٹ کر چلایا اور اَلزَّلاَزِلُ کے معنے اَلشَّدَائِدُ وَالْاَ ھْوَالُ کے ہیں یعنی سختیاں اور خوف (اقرب) اِذَا جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے مستقبل کے معنے رکھتا ہے اور اِذْ کا استعمال بالعموم ماضی پر ہوتا ہے-
۲؎ اِذَازُلْزلْت الْاَرْضُ میں زِلْزِ الاً کا مصدر استعمال کرنیکی بجائے زِلْزَالَھَا کہنے کی وجہ
تفیسر- عام قاعدہ کے رُو سے یہ آیت یوں ہونی چاہیے تھی اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالاً لیکن یہاں زِلْزَالاً کی بجائے زِلْزَالَھَا کہا گیا ہے- ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اِذَازُلْزَلاً کے تو صرت اتنے معنے ہوتے کہ زمین خوب ہلائی جائے گی- لیکن زِلْزَال کو اَرْض کی طرف اضافت دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس جگہ خاص مقدر زلزلہ مراد ہے نہ کہ عام زلزلہ خواہ کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو- عام زلازل تو آتے ہی رہتے ہیں خواہ سینکڑوں سال کے بعد آئیں - مگر بوجہ اسکے وہ متواتر اور بار بار آتییہں اور زِلْزَالَھَا کہلانے کے مستحق نہیں ہو سکتے- زِلْزَالَھَا وہی زلزلہ کہا جا سکتا ہے جو زمین کے ساتھ تعلق رکھنے والا خاص زلزلہ کہلاسکتا ہو اور پھر ہو ساری زمین پر تا کہ اُس کے آنے پر صرف یہ نہ کہا جائے کہ زمین پر ایک زلزلہ آ گیا بلکہ یوں کہا جائے کہ زمین کا مخصوص زلزلہ یا مقدر آ گیا عبارت کی اس بنائوٹ کی وجہ سے مفسرین کا ذہین
۱؎ زُلْزِلَتْ
گیا ہے کہ یہاں زلزلہ قیامت مراد جب کہ اُن کے نزدیک ساری زمین زلزلہ آ گیا اور زمین تہ بالا ہو جائے گی-
زمین کی ایک دن تباہی تو قرآن اور احادیث سے ثابت ہے لیکن یہ کہ وہ زلزلہ کے ذریعہ سے ہو گی میرے علم میں کسی نص سے ثابت نہیںبلکہ احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج قریب آ جائے گا اور سب دنیا اُس کی گرمی کی وجہ سے تباہ ہو جائے گی-
۲؎ اِذَازُلْزلْت الْاَرْض میں جان شدہ پیشگوئی کے پورے ہونے کا زمانہ
لیکن بہر حال اس آیت کے الفاظ ایسے ہیں کہ اُن میں یا تو قیامت مراد لی جا سکتی ہے یا پھر کوئی ایسا امر جو اقیامت کے مشابہ ہو اور سب دنیا سے تعلق رکھتا ہو- میری ذاتی رائے یہی ہے جیسا کہ میں اگیہ آیات سے اپنے استدلال کو پیش کروں گا کہ اس جگہ قیامت کُبریٰ مراد نہیں بلکہ اس کے قریب زمانہ میں طاہر ہونے والا وہ عظیم الشان تغیر مراد ہے جو زمانہ مسیح موعود میں مقدر تھا اور جسے اُس کے پھیلائو، اُس کی اہمیت اور اُس کے خطرناک نتائج کے لحاظ سے قیامت کہا جا سکتا ہے-
۱؎ زِلْزِال کے چار معنے
زِلْزال کے معنے جیسا کہ میں بتا چکا ہوں، ملانے خوف زدہ کرنے اور ہوشیار اور چوکس کرنے کے ہیں- اِن معنوں کے رُو سے اس کاآیت یہ مفہوم ہو گا کہ جب سب کی سب زمین کو ہلا دیا جائے گا، خوف زدہ کیا جائے گا اور ہوشیار کیا جائے گا اِن معنوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ لازماً نکلتا ہے کہ اس جگہ زمین کا لفظ زمین کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ اہل زمین بھی اس جگہ پر مراد ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں قریہ اور اہل قربہ اور عیر سے اہل غیر مراد لئے گئے یہں سورئہ سویف رکوع ۱۰ مین اللہ تعالیٰ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی زبان سے فرماتاہے- و سْئلِ الْقَرْیَۃَ الَّتِیْ کُنَّا فِیْھَا وَ الْعِیْرَ الَّتِیْ اَقَبَلَنَا فِیْھَد اسی گائوں سے پوچھ لیجئے جس گائوں والے گدھوں کے قافلہ سے مراد گدھے کے سواروں یا اُن کے چلانے والوں سے اُردو میں بھی کہتے ہیں کہ سب گائوں کو اس کا علم ہے گائوں سے اور اس جگہ گائوں والے لوگ ہوتے ہیں- اس
۲؎ زمین کے ہلائے جانے سے مراد اہل زمین کا ہلایا جانا-
جگہ بھی زماین اور اہل زمیں دونوں آیت کے مفہوم میں شامل ہیں اور بتایا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب سب زمین ہلائی جائے گی اور اہلِ زمین بھی ہلائے جائیں گے ،خوف زادہ کئے جائیں گے اور ہو شیار کئے جائیں گے-
جہاں تک اس وقت تک تاریخ سے نکالا جا سکتا ہے یہی معلوم ہوتا ہے یہ نقشہ زمانہ کا ہی کھینچا گیا ہے - چنانچہ جس حد تک زمین کے ہلانے کا سوال ہے یہی زمانہ ہے کہ جس میں ریلوں اور کارخانوں کی کثرت کی وجہ سے سرزمین کانپتی رہتی ہے اور جہاں تک اہل زمین کا سوال ہے مقابلہ کا ایسا بازار گرم ہے متمدن دنیا میں چلتا ہوا انسان نظر آنا مشکل ہے - سب ڈور رہے ہیں رات کو دنیا کی حالت کچھ ہوتی ہے تو صبح کو کچھ اور ہو جاتی ہے- زمین رات اور دن ریلوں کی وجہ سے لرزہ براندم رہتی ہے اور دنیا کا کوئی گوشہ نہیں جہاں ریلوں اور کارخانوں نے زمین کو جنبش نہیں دے رکھی- کہیں کارخانوں کے علاقوں کے جائو یا ریل کی پٹری کے پاس ریل کے گزرتے ہوئے گزرو تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک زلزلہ آیا ہوا ہے -
پھر لڑائی کے سامان ایسے ایجاد ہوئے ہیں کہ اُن سے زمین ہل رہی ہے - جنگیں ایسی خطرناک صورت اختیار کر گئیں ہیں کہ شہروں کے شہر اُڑا دیئے جاتے ہیں اور زمین مین غار پڑ جاتے ہیں- پھر زلازل بھی الہٰی کلام کے ماتحت بکثرت آ رہیں ہیں اور علاقوں کے علاقہ ان سے صاف ہو گئے ہیں پس جہاں تک زمین ہلنے کا سوال ہے ان ایام میں میں زمیں ایسی ہلی ہے کہ دنیا میںاس کی ایسی نظیر نہیں ملتی کیونکہ پہلے سے زلزلوں سے جو ممکن ہے بعض موجودہ زلزلوں سے بھی بڑے ہوں زمین ہلا کرتی تھی مگر اب (۱)زلزلوںسے اور متواتر زلزلوں اور عالمگیر زلزلوں سے ہل رہی ہے (۲) تو پوں، ہوائی جہازوں کے بموں ، ڈائینا میٹ اور اب ایٹم بموں کے ذریعے سے جو ساری دنیا اور ہر خطہ زمین پر اثر انداز ہوئے ہیں زمین ہلی ہے اور بہت بُری طرح ہلی ہے اور یہ اشیاء پہلے زمانہ میں موجود ہی نہیں تھیں اسی زمانہ میں ایجاد ہ ہوئی ہیں (۳) ریلوں، زمین دوز ریلوں اور کارخانوں کی وجہ سے جو قطب شمالی سے قطب جنوبی تک اور مغرب سے مشرق تک پھیلے ہوئے ہیں زمین روزو شب ہل رہی ہے اور اگر یہی ترقی جاری رہی تو ہلتی چلی جائے گی-
دوسرے معنے اہل زمین کے ہیں- اگر ہم دیکھیں تو وہ بھی اس طرح پھیلائے گئے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہلائے گے انسانوں کے ہلنے کے یہ معنے ہوا کرتے ہیں اوّل لوگوں میں بیداری پیدا کی جائے- دم لوگوں میں خوف پیدا کیا جائے سوم لوگوں میں غیر معمولی تبدیلی پیدا ہو جو علاوہ اور اقسام کے مندرجہ ذیل امور سے ہوا کرتی ہے (الف) سیاسیات میں تبدیلی کی وجہ سے (باء) معاشیات میں تبدیلی کی وجہ سے (ج)مذہبیات میں تبدیلی کی وجہ سے (د) اخلاقیات میں تبدیلی کی وجہ سے (ح)علوم میں تبدیلی کی وجہ سے(و)اقتصادیات میں تبدیلی کی وجہ سے- یہ سارے کے سارے اُمور اہلِ دنیا کو ہلانے کے اس زمانے میں ظاہر ہو رہے ہیں اوّل بیداری کا پیدا ہونا - پہلے زمانہ میں اگر بیداری پیدا ہوتی تھی تو صرف چوٹی کے چند آدمیوں میں پیدا ہوتی تھی کیونکہ اس سے پہلے دُنیا کا نظام بادشاہیت کا حکومتِ امراء پر چلا کرتا تھا اگر شاہی خاندان میں کوئی تبدیلی آتی یا حکومتِ امراء میں کوئی تغّیر ہوتا تو وہ چند خاندانوں میں یا افراد تک محدود رہتا تھا اعوام الناس کو نہ اس سے کوئی تعلق ہوتا تھا نہ دلچسپی سوائے اس کے عوام الناس میں سے کچھ افراد نوکری کی وجہ سے اس لپیٹ میں آ جاتے تھے مگر اب جہاں دیکھو حکومتِ عوام ہے - اوّل تو بادشاہتیں مٹ گئی ہیں اگر قائم ہیں تو صرف نام کی- درحقیقت عوام کی بے پناہ طاقت اُن کے پردہ میں اپنا کام کر رہی ہے جیسے انگلستان میں ہے، بیلجیئم میں ہے، تھائی لینڈ میں ہے- آج یہ بیداری عوام الناس میں ایسے طور پر پیدا ہو رہی ہے اور یہ حس کہ بادشاہیت عوام کی ہے نہ کہ کسی شخص یا اشخاص کی ایسا غلبہ پکڑ چکی ہے کہ بادشاہیت کا تخت ایک قلعہ میں محدود نہیں رہا ہر شہر ہر قصبہ ہر گائوں ہر گلی اور ہر گھر میں خواہ وہ دینوی و جاہت کے لحاظ سے کتنا ہی بڑا ہو یا کتنا ہی چھوٹا ہو آج ایک تختِ شاہی رکھا ہوا نظر آتا ہے ہر فرد اپنے دل میں بادشاہیت کا برابر کا شریک اپنے آپ کو محسوس کر رہا ہے اس لیے جو تغیر بھی پیدا ہوتا ہے وہ صرف شاہی سینوں اور امراء کے سینوں میں حرکت پیدا نہیں کرتا بلکہ ملک کے ہر فرد کے قلب کی گہرائیوں میں ایک حرکت پیدا کر دیتا ہے ، وہ حرکت جو پہلے زمانہ میں سمندر کی سطح پر پیدا ہوتی معلوم ہوتی تھی اب سمندر کو اس کی تہ تک ہلا دیتی ہے- اس حد تک کہ اُس کے اندر رہنے والی مچھلیوں کے زندہ رہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے تعلیم عام ہو چکی ہے، صنعت و حرفت عام ہو رہی ہے، جو علوم اور جو فنون اپنے خاص خاص لوگوں میں بطور ورثہ چلتے تھے اب دنیا میں الم نشرح ہو چکے ہیں- جو کام پہلے جادوگریاں سمجھے جاتے تھے اب گلی گلی میں ان کے جاننے والے پائے جاتے ہیں بڑھنے اور ترقی کرنے کی اُمنگ ہر کس و ناکس میں پیدا ہے اور پیدا کی جارہی ہے-
دوسرے :تخویف بھی اپنے کمال کو پہنچ گئی ہے سیاسی اور مذہبی اختلافات کو کس طرح بڑھایا جارہا ہے کہ ہر سمجھ دار انسان کے لیے آج ڈھرک رہا ہے کہ کل کو کیا ہو جائے گا- فرد فرد سے اور جتھہ جتھے سے اور قوم قوم سے اور ملک ملک سے خائف ہے اور ان کے خوف کو روز بروز اُن کے لیڈر بڑھاتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ مقابلہ کی رُو ح اس قدر بڑھ چکی ہے کہ انصاف
۲۱۱؎ ساکنین ارض بیداری اور تغیّر
اور عدل کا نام و نشان بھی دنیا میں باق نہیں رہا اس وجہ سے کوئی قوم دوسری قوم سے مطمئن نہیں کوئی حکومت دوسری حکومت سے مطمئن نہیں کیونکہ اب حکومت عوام الناس کے ہاتھ میں ہے جنگ کرنا یا صلح کرنا انہیں کے قبضہ میں ہے اس لیے اپنی موجودہ حالت کو قائم رکھنے یا اس کو اور بڑھانے کی خاطر لیڈر اور حکومتیں عوام الناس کے جذبات کو اشتعال پر اشتعال دلاتی چلی جاتی ہیں تا اُن کے اندر سکون پیدا ہو جانے کی وجہ سے دوسری قوم یا دوسری حکومت اُن پر غلبہ نہ آجائے اس وجہ سے ایک نہ ختم ہوجانے والی حرکت قوموں میں پیدا ہو رہی ہے -
تیسرے:تغیر اور تبدیلی بھی حرکت کا موجب ہوتی ہے یہ بھی اس حد تک پیدا ہو چکے ہیں کہ اب کوئی چیز پرانی کہلانے کی مستحق نہیں (الف) سیاسیات کو لے لو سیاست اب وہ نہیں رہی جو پہلے تھی - سیاست کے اصول ہی بالکل بدل چکے ہیں پہلے سیاست نام تھا صرف ایک بادشاہ کے دوسرے بادشاہ سے تبادلہ خیال کا مگر اب تو حکومت عوام الناس ہے ہاتھ میں ہے اب سیاست کا دائرہ صرف ملک کی حدود کے تصفیہ تک باقی نہیں رہ گیا بلکہ اب سیاست نام ہو گیا ہے انسانی زندگی کی ہر شعبہ میں دخل اندازی کا پہلے زمانے میں بادشاہوں کو اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا غیر ملکیوں کے لوگ کس طرح روزی کماتے ، کھاتے یا کس طرح پڑھتے اور کیا سیکھتے ہیں یا کس قسم کی ان کی معشیت ہے یا کہ ملکی قانون کیا ہیں اور کیا انہیں لیکن اب سیاست ان چیزوں میں دخل دیتی ہے اور ان چیزوں میں دخل قرار دینا ضروری قرار دیتی ہے ایک طرف تو حریت و آزادی کے ڈھول بجائے جاتے ہیں دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ ہم غیر ملکیوں میں ایسی ہی حکومت قائم ہونے دیں گے جو حکومت ہمارے اصولِ سیاست کے مطابق ہو - کبھی کمزور حکومتوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ زبردست حکومتوںکو اپنے ملک کی کانیں سپرد کر دے- کبھی اس بات پر مجبور کیا جاتاہے کہ ان کا بنکنگ سسٹم اس زبردست ملک کے مطابق ہو اور وہ وزیر مالیات کے دوسری حکومت سے مانگ کر لیں - کبھی مجبور کیا جاتا ہے کہ اُن کے کالج کھولنے کی اُن کو اجازت دی جائے- کبھی خاص خاص پابندیاں تجارت پر اور صنعت اور حرفت پر لگا دی جاتی ہیں کہ کیا کیا چیز وہ بنائیں یا کیا کیا چیز وہ نہ بنائیں غرض پرانی سیاست تو نئی سیاست کے مقابل پر ایک نادان بچہ معلوم ہوتی ہے- عوام کی حکومت قائم ہو گئی ہے پرانا نظام اکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے-
۱؎ معاشیات میں تبدیلی
(باء)معاشیات میں جو تبدیلی ہوئی ہے اس کا بھی کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا ہے جو اشیاء پہلے زمانہ میں تعیّش اور اُمراء کا واحد حق سمجھی جاتی تھی اب عوام کی ملکیت ہو رہی ہیں جو کھانے آج متمدن ممالک کے غرباء کو مل رہے ہیں وہ پرانے زمانے کے اُمراء کو بھی میسّر نہ تھے متمدن ممالک کا ایک غریب آدمی بھی ہزاروں میل پر بیٹھے ہوئے پیسفک کے سامن ، پرتگال کے سارڈنیز ، کے لیے کیلیفورنیا کے آڑرو اور ناشپاتیاں، اٹلی اور افغانستان کے انگور ، آسٹریلیاں اور جاپان کے مالٹے اور سنگترے ، افریقہ کے کیلے اور ہندوستان کے آم اس بے تکلفی سے کھاتاہے کہ پرانے زمانے کے امیر کو بھی یہ بات نصیب نہ تھی اور کھاتے ہوئے اپنی غربت کی شکایت بھی ساتھ ساتھ کرتاجاتا ہے پرانے زمانہ کا آدمی مثلاً فراعنہ مصر کے وقت کا کوئی آدمی اگر زندہ ہو کر آجائے اور یورپ کے مزدور کو اپنا کھانا کھاتے ہوئے دیکھ لے تو شاید وہ یہ خیال کرے گا کہ فراعنہ اور مصر اب پہلے سے بہت زیادہ امیر ہو گئے ہیں اور شاید آرام و آسائش کے سامان انہیں اب پہلے سے بہت زیادہ میسر آنے لگے ہیں جس قدر لباس پرانے زمانہ میں درمیانے طبقہ کے لوگوں اور معمولی امیروں کو میسر نہ تھا آج کل متمدن ممالک کے غرباء کو اس سے بڑھ کر میسر ہے جو تماشے بڑے بڑے بادشاہ دیکھتے تھے اور لوگ ان کی عیاشی پر انگشت بدنداں ہوتے تھے آج ایک غریب مزدور چار آنے کے پیسے دے کر انہیں دیکھتا ہے اور اُس صادق بادشاہ کی طرح کبھی کبھی نہیں دیکھتا بلکہ روزانہ دیکھتا ہے اِندرسبھااگر کوئی تھی تو آج کے سینمائوں کے سامنے وہ بالکل مات نظر آتی ہے- پرانے زمانے کے ہندوستانی محاراج گان کے سامنے یا اگر اندر بھی کوئی مہاراجہ گزرا ہے تو اس کے سامنے جس لباس میں ملکائیں اور شہزادیاں آتی تھی ادنیٰ لباس میں آج سینمائوں میں کوئی ایکٹرس آ جائے تو شاید حاضرین پرانی جوتیاں مار مار کر اُس کی سیکرین کو پھاڑ ڈالیں-
بیوی میاں کے تعلقات، والدین اولاد کے تعلقات، اُستاد اور شاگرد کے تعلقات آج کل پرانے تعلقات سے ایسے محفوظ ہیں کہ پرانے زمانہ کا آدمی آج کل پیدا ہو تو شاید پاگل ہی ہو جائے - کسی وقت بیوی میاں کی خدمت کرتی تھی آج میاں بیوی کا کوٹ اور چھتری اُٹھائے اُٹھائے اُس کے پیچھے پھرتا نظر آتا ہے کبھی میاں بیوی اپنے پیار کی بالوس کو اپنے عزیز ترین وجودوں سے الگ ہو کر بند کمروں میں ادا کیا کرتے تھے آج برسرِ عام میاں بیوی ایک دوسرے کو ڈارلنگ ڈارلنگ کہتے ہوئے نہیں تھکتے- سٹیشنوں پر ہزاروں آدمیوں کے مرد عورت کو اس طر بھوسہ دیتا نظر آتا ہے کہ جس طرح پرانے زمانے میں جسم پر سے خار جھاڑ دیا کرتے تھے-
والدین کو اولاد پر آج کوئی حق حاصل نہیں نہ اولاد والدین کا حق تسلیم کرتی ہے - والدین کا خیال ایک فرسودہ خیال سمجھا جاتا ہے اُستاد پہلے حاکم ہوتا تھا اب نوکر ہے- پہلے علم پڑھانے کو خواہ وہ پیار کے بدلہ میں ہو احسان سمجھا جاتا تھا اب اُسے اور خدمتوں کی طرح اور خدمت قرار دیا جاتا ہے- امام مالک کی خدمت میں خلیفئہ وقت جس کی بادشاہت عرب سے لیکر ایشیاء کے کناروں تک پھیلی ہوئی تھی درخواست کرتا ہے کہ کچھ وقت میرے لڑکوں کی پڑھائی کے لیے بھی دیں اور وہ یہ منظور کر لیتے ہیں کہ وہ ان کے گھر پر آکر سبق لیں لیا کریں - ایک دن بادشاہ یہ دیکھنے کے لیے کہ میرے لڑکے کس قسم کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں خود امام مالک کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے امام مالک ؒ اُٹھتے ہیں تو مامون اُن کے سامنے اُن کی جوتی رکھ دیتا ہے بادشاہ کو پیارا مین تھا کیونکہ اس کی ماں اسے بہت پیاری تھی مگر یہ نظارہ دیکھتے ہیں ہارون رشید کے کہا تخت کا وارث غالباً مامون ہی ہو گا- مگر آج کے حالات گزشتہ زمانے سے بالکل اُلٹ نظر آتے ہیں -
(ج)مذہبیات
مذہب ایسا اُندھے منہ گرا ہے کہ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے- پہلے زمانہ کے لوگ مذہب میں کمزوری دیکھاتے تھے تو دل میں نادم ہوتے تھے اور اپنے اعمال کو لوگوں سے چھپاتے تھے اب جو مذہب کا ادب کرے احمق سمجھا جاتا تھا- پہلے مذہب کے خلاف ایک جُرمِ عظیم خیال کیا جاتا تھا اب مذہب کے حق میں بولنا اپنے احمق ہونے کے اعلان کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے پہلے مذہب انسانوں پر حکومت کیا کرتا تھا اب انسان مذہب پر حکومت کرتا ہے - ہر حکومت اپنے اغراض کے مطابق ایک مذہب کو دنیا کے سامنے پیش کر دیتی ہے سو ویٹ رشیا کا گرجا سوویٹ اصول کو عین مسیحی تعلیم قرار دیتا ہے امریکہ کا گرجا مسیحیت کو کمیونزم کے اصول کے خلاف بتاتا ہے انگلستان کا گرجا ایک محدود بادشاہی- ایک آئینی بادشاہی کو مسیحیت کا صحیح نقشہ بتاتا ہے فرانس کا پادری ری پبلک کو انجیل کی حقیقی تصویر ثابت کرتا ہے فاسسٹ پادری فاسزم کو مذہب کی رُو بتاتا ہے- ہندوستان میں کانگرس کے زور کے علاقوں میں سارا قرآن باغیانہ تعلیم سے پر نظر آتا ہے اور انگریزی اثر کے نیچے اُس کی تمام تعلیم مغربی ترقی کی تائید کرتی ہوئی ملتی ہے جاپان میں شنٹوازم شہنشاہیت کی برکات کو پھیلانے والی معلوم ہوتی ہے پہلے زمانہ میں کہا جاتا تھا جب مذہب کی آواز میں کوئی اثر تھا ، جب مذہب بھی انسانی زندگی کا کوئی جزو سمجھا جاتا تھاکہ خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے اب موجود ہ فلسفہ ببانگِ بلند کمال دلیری سے علی الاعلان کہتا ہے ہم اُس ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں جس نے ہم کو پیدا کیا ہے دنیا کو ایسے خدا کی ضرورت ہے جس سے دنیا نے پیدا کیا ہے صفائی کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ تمام خرابی اور تمام بربادی تمام تباہی جو دنیا پر آئی ہے وہ خدا تعالیٰ کے اس خیال سے آئی ہے جس کو دنیا کا خالق قرار دیا جاتا ہے دنیا کا آئندہ امن اور دنیا کی آئندہ بہبود اور دنیا کی آئندہ ترقی اسی امر پر منحصر ہے کہ جس طرح عوام الناس اپنے لیے بادشاہیت مقرر کرتے ہیں مگراُس کے اختیارات وہ خود تجویز کرتے ہیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہی مذہب دنیا میں امن قائم کر سکتا ہے جو ایسا خدا پیش کرے جس کے خیالات اور
۲۷۱؎ مذہب کے خلاف رَو
جس کے اعمال آپ مقرر کریں-اس کے علاوہ علمی ترجمانی مذہب کی ایسی ہوئی ہے کہ الامان والحفیظ- آج کی مسیحیت سو سال پہلے کی مسیحیت نہیں ہے نہ ہندو ازم آج سے سو سال پہلے کی ہندو ازم ہے اور نہ اسلام آج سے سو سال پہلے کا اسلام ہے- پرانے اصولوںکو وہ فرسودہ خیالات بتایا جاتا ہے- نصوص صریحہ قطیعیہ کی تعویل کی جاتی ہے عبادات کو غیر ضروری اور عقائد کو اوہام قرار دیا جاتا ہے اور یہ دہریوں کی طرف سے نہیں ہو رہا خود مذاہب کے پیرو کاروں کی طرف سے ایسا ہو رہا ہے اور اس کے خلاف آواز اُٹھانے والوں کو مردُود اور لا مذہب قرار دیا جاتا ہے- غرض وہی حال ہے جو حسرتؔ نے کہا ہے؎
خرو کا نام جنون رکھ دیا جنوں کا خرو
جوچاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
(د) چوتھا اہم مسئلہ اخلاقیات ہے اس میں سے بھی ایک زلزلہ آ گیاہے-اخلاق میں سے بڑے بڑے مسائل صداقت امانت افعت اور انصاف ہیں ان امور کے متعلق بھی اس زمانہ کا نظریہ بالکل بدل گیا ہے-
۲۷۱؎ اخلاق کا تنّزل
صداقت کا جو مفہوم پہلے سمجھایا جاتا تھا اب نہیں ڈپلومیسی یعنی سیاست مابین الحکومات میں صداقت کو عیب خیال کی جاتا ہے - بڑے بڑے باحیثیت اور معزز لوگ فخر سے اپنے وہ جھوٹ بیان کرتے ہیں جو کہ دشمنوں کو دھوکا دینے کے لیے انہوں نے بولے تھے جنگ عالمگیر اوّل میں انگیزوں کی طرف سے اعلان ہوا کہ جرمن لوگ مردوں کے چربی سے صابن تیار کرتے ہیں- خوب اس کا چرچا ہوااور تمام غیر جانبدار ملکوں نے بھی اس پر *** ملامت کی مگر بعد از جنگ کود اُسی شخص نے جس نے یہ کہانی مشہور کی تھی تسلیم کیاکہ یہ کہانی ایک میس (Mess) ہیں جس میں افسر کھانا کھایا کرتے تھے محض پراپیگنڈا کی خاطر میں نے بنا کر مشہور کی تھی- یہ بھی شدت سے پراپیگنڈا کیا گیا کہ جرمن لوگ جہازوں کو غرق کر کے ڈوبنے والے سپاہیوں پر گولیاں چلاتے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جنگ کے بعد برطانوی بحری جہازوں کے ملازموں کی طرف سے ایک ڈھال جرمنی کے ملاّحوں کو بھجوائی گئی جس پر یہ عبارت کنندہ تھی کہ اُس ہمدردانہ اور شریفانہ رویہ کی یادگار کے طور پر جو جنگ کے ایام میں ڈوبنے والے سمندریوں کی نسبت آپ نے ظاہر کیا یہ ڈھال آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے- اس کے مقابل پر جرمن والوں نے بھی وہ جھوٹ بولے کہ جس کی حد نہیں- عالمگیر جنگِ اوّل میں تو ریڈیو نہ تھا وہاں اخبار نہ آتے تھے اِس لئے اُس کے بارہ میں مَیں کچھ کہہ نہیں سکتا- مگر اس جنگ میں ریڈیو کی وجہ سے مِیں نے خود کئی دفعہ کی خبریں سنی ہیں اورجاپان کی بھی- اِن خبروں میں اس قدر افتراء اور جھوٹ سے کام لیا جاتا تھا کہ تعجب آتا تھا بسا اوقات جرمن ریڈیو پر ہندوستان کے بڑے بڑے فسادات اور شورشوں کا ذکر ہوتا تھا جس کا نام و نشان بھی ہمارے ملک میں نہیں پایا جاتا تھا اُن خبروںکو سُن کر شبہ ہوتاتھا کہ ہم کسی اور دنیا میںبس رہے ہیں یا جرمن زبان میں ہندوستان کسی اور ملک کا نام ہے میں نے بعض کتب عالمگیر جنگ کے بارہ میں پڑھی ہیں اُن کی سیاسیات کے چوٹی کے افراد نے ایسی بے تکلفی سے اپنے جھوٹوں کا ذکر کیا ہے کہ انہیں پڑھ کر انسان انگشت بد نداں رہ جاتا ہے - اس بے تکلف جھوٹ کے بارہ میں دو میرے اپنے تجربے بھی ہیں میں انگلستان گیا تو مذہبی کانفرس کے اُس اجلاس میں جس میں خواجہ کمال الدین صاحب کی پڑھی گئی میں گیا ہی نہیں تھا شیخ یعقوب علی صاحب رپورٹر کے طور پر اُس کے نوٹ لینے کے لیے گئے تھے ’’ ڈیلی نیوز‘‘ اخبار جو لبرل پارٹی کا سب سے چوٹی کا اخبار تھا اور کئی لاکھ روزانہ اب اُسے ایک دوسرے زبردست اخبار ’’ ڈیلی کرونیکل‘‘ میں ملا کر دونوں کو ایک کر دیا گیا ہے اور اس کا نام’’ نیوز کرونیکل‘‘ رکھ دیا گیا ہے اُس کا ایک ایڈیٹر خاص طور پر مجھے ملنے کے لئے آیاتھا اور پہلے بہت دیر تک چوہدری ظفراللہ خان صاحب سے حالات سے معلوم کرتا اور پھر مجھے بھی ملا-اس اخبار میں رپورٹ شائع ہوئی- کہ خواجہ صاحب کا مضمون بہت دلچسپ تھا اور وہ اس قدر پسند کیا گیا کہ امام جماعت احمدیہ جن کا رنگ سیاہ ہے اگلی صف میں بیٹھے ہوئے بڑے شوق سے اُن کے نوٹ لے رہے تھے-عزیز مکرم چوہدری سر ظفر اللہ خان نے اُس کے ایڈیٹر کو فون کیا کہ یہ تمہارے اخبار میں کیا چھپ گیا ہے-وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ انہیں نوٹ لینے کی کیا ضرورت تھے رپورٹ لینے والا تو رپورٹرتھا مگر اس نے چودہری صاحب کی آواز سن کر شور مچا دیا اور معذرت کرنی شروع کر دی کہ مجھے خود بڑا افسوس ہے میں تو انہیں مل آیا ہوں وہ کیا کہتے ہوں گے- نوٹ رپورٹر کی طرف سے تھا اور دوسرے ایڈیٹر نے احتیاط نہیں کی کل اس کی تردید ہو جائے گی- آپ اُن سے بھی میری طرف سے معذرت کر دیں چوہدری صاحب خوش خوش فون سے ہٹے اور مجحے آ کر بتایا - دوسرے دن کا پرچہ آیا تو اُس میں یُوں تردید چھپی ہوئی تھی:-
’’ افسوس ہے کہ امام جماعت احمدیہ کے نسبت یہ الفاظ لکھے گئے ہیں کہ اُن کا رنگ سیاہ ہے - اُن کا رنگ سیاہ نہیں بلکہ ہاتھی دانت کے رنگ کے مشابہ ہے-‘‘
اِسے پڑھ کر ہنسی کے مارے ہمارا بُرا حال ہوا کہ اُس نے یہ کس امر کی تردید کی ہے - چوہدری صاحب نے پھر فون کیا اور کہا کہ جنابِ من! رنگ آپ کالے کی جگہ اس سے بھی زیادہ سیاہ لکھ دیتے اِس کی پرواہ نہ تھی بات تو یہ ہے کہ آپ نے لکھا ہے کہ لیکچر کی دلچسپی کی وجہ سے امام جماعت احمدیہ اُس کے نوٹ لے رہے تھے یہ غلط ہونے کے علاوہ ہتک آمیز بات ہے- اس کے جواب میں ایڈیٹر نے کہا مجھے بہت افسوس ہوا مجھے کالے کا لفظ دیکھ کر ایسا صد مہ ہوا تھا کہ میں نے آپ کی بات کو غور سے سُنا ہی نہیں اور یہی سمجھا کہ آپ بھی اسی امر کی شکایت کرنے لگے ہیں- مگر مجھے افسوس ہے کہ ہمارے اخبار کی یہ پالیسی ہے کہ ہم اپنی خبر کی تردید نہیں کیا کرتے- ایک دفعہ آپ کا لحاظ کر کے تردید کر دی اب دوسری بار تردید کریں تو اخبار کی سُبکی ہوتی ہے اس لئے معذوری ہے-
مارینگ پوسٹ وہاں نے بڑے پرچوں میں سے تھا کنسر ویٹو پارٹی سے تعلق تھا- سر دواتر غالباً اُس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تھے- اُن کے تعلقات چونکہ مجھ سے تھے اس لئے غالباً اُن کے اشارہ پر یہ اخبار ہمارے معاملات میں بہت دلچسپی لیتا تھا- یہ اخبار بھی اب بند ہو کر ڈیلی ٹیلیلگراف میں مدغم ہو گیا ہے- اِس سے پہلے اس کا نام نگار جس دن ہم نے لنڈن پہنچنا تھا اسٹیشن پر موجود تھا مگر اتفاقاً گاڑی لیٹ ہو گئی اور کئی گھنٹے دیر سے پہنچنے کی اطلاع اسٹیشن پر کی گئی- جو لوگ استقبال کے لئے لاہور آئے ہوئے تھے وہ واپس چلے گئے اور اُن کو بتا دیا گیا کہ ریلوے کی خبر ہے کہ گاڑی اتنے گھنٹے لیٹ ہے- لیکن اتفاق ی ہوا کہ گاڑی دوسرے اندازہ سے کچھ وقت پہلے پہنچ گئی- نیّر صاحب نے اخباروں کے نمائندوں کو خبر دے سکے اور کچھ کے دفاتر کنکشن نہ مل سکا- مارننگ پوسٹ کو بھی اطلاع نہ ہوئی دوسرے دن سب اخباروں میں ہماری خبر چھپی لیکن مارننگ پوسٹ میں نہ چھپی- نیّر صاحب نے اُن سے شکایت کی تو جواب دیا کہ ہمارے پرچہ کا اصول ہے کہ دوسرے پرچہ سے خبر نقل کیا کرتے-
انہوں نے کہا اب میں بتا رہا ہوں اب خبر چھاپ دیں جواب ملا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ ماننگ پوسٹ میں دوسرے اخبارون کی نسبت خبر ایک دن لیٹ چھپی ہے- بات آئی گئی ہوئی جب مذہبی کانفرنس ہوئی اور اُس میں میرے لیکچر کا بھی اعلان ہوا تو مارننگ پوسٹ نے نہایت شاندار طور پر اعلان کیا کہ ’’ امام جماعت احمدیہ کا لنڈن میں ورود‘‘ اور ساتھ فوٹو بھی شائع کی-ا پڑھنے والوں نے سمجھا ہو گا کہ شاید امام جماعت کہیں چلے گئے ہونگے اور اب پھر لنڈن واپس آئے ہیں- بہر حال مہینہ کے بعد ہمیں دوبارہ لنڈن وارد کر دیا گیا محض اس لئے کہ لوگوں پر یہ اثر قائم رہے کہ مارننگ پوسٹ ہمیشہ تازہ واقعات پیش کیا کرتا ہے-
یہ حالات ایسے درد ناک ہیں کہ حیرت آتی ہے کہ اب صداقت کا مفہوم کیا ہو گیا ہے- درحقیقت اس زمانہ میں پراپیگنڈا کو اوّل او ر صداقت کو دوسرا نمبر دے دیا گیا ہے جس کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی-
امانت:کایہ حال ہے کہ جنگِ عالمگیر اول مین کئی حکومتیں دوسری حکومتوں کا وہ سونا جو اُن کے پاس امانت رکھا گیا تھا بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کھا گئیں- دنیا میں اس وقت یہ عجیب نظاہر نظر آتا ہے کہ ایک گورنمنٹ جو اپنے آپ کو تہذہب کا علمبر دار قرار دیتی ہے جو حُریت اور آزادی کے بلند بانگ و عادی کرتے ہوئے نہیں تھکتی دوسرے ملک میں جاتی اور صرف چند سال کے لئے کوئی علاقہ یا شہر ٹھیکے پرلیتی ہے مگر رفتہ رفتہ اُس علاقے یا شہر پر مستقبل قبضہ جما لیا جاتا ہے اور اُس کو واپس کرنے کا نام تک نہیں لیا جاتا- ہندوستان میں برارؔ اس کی مثال ہے سوسال کے ٹھیکے پر حیدر آباد دن کے برابر لیا گیا تھا لیکن سو سال کی بجائے سوا سو سال گذرنے کو آئے ہیں اور اُس کا واپس کرنے کا نام تک نہیںلیا جاتا-نظام نے جب واپسی کی مطالبہ کیا تو اُسے کہا گیا کہ یا تو برابرؔ کی واپسی کا دعویٰ کرو اور تکت سے اُتر جائو یا تخت پر قائم رہو اور برابر کا ذکر چھوڑ دو-
مرتا کیا نہ کرتا وہ خاموش ہو گیا- آخر پچھلی جنگ میں نظام کی عظیم الشان جنگی خدمات کودیکھتے ہوئے اُن سے کہا گیا کہ ہم برابر آپ کو واپس کرتے ہیں اس کے بدلہ ہماری طرف یہ لکھ دین کہ میں برار کو انتظا کی خاطر ہمیشہ کے کے حکومتِ انگلشیہ کو دیتاہوں اور ہم مزید یہ رعایت کریں گے کہ عثمانیہ عالی عہد آئندہ شہزادہ برار کہلائے گا- کس قدر تمسخر انگیز تجویز ہے- حید رآباد کا شہزادہ حیدرآباد کا شہزادہ کہلائے تو اُس کی عزیت نہیں ہوتی شہزادہ برار کہلائے تو اُس کی عزت ہوتی ہے لاحول ولا قوۃ الّا باللہ العلی العظیم- اِسی طرح اس قسم کے قبضوں کی مثال چینؔ کے مختلف بندر گاہ ہیں- مصرؔ بھی ایک مثال ہے- عراقؔ -شامؔ اور فلسطین بھی اس کی مثال ہیں- عراق شام اور فلسطین کے لوگوں نے ترکوں سے بغاوت کی اور اُن سے یہ معاہدہ کیا گیا کہ ہم کے بدلہ میں تم کو آزاد کر دینگے مگر اب اُن کی طرف سے آزادی کا نام لیا جاتا ہے تو انہیں کہا جاتا ہے کہ آہ لوگ آزادہی ہیں ہم تو یہاں آپ کی خدمت کے لئے بیٹھے ہیں بیٹھنے کی وجہ سے آپ کو یہ نہیں سمجھناچاہیے کہ آپ آزاد نہیں ہیں- اِسی طرح سینکڑوں ملک ہیں جو عارضی طور پر لئے گئے اور پھر اُن پر مستقل قبضہ کر لیا گیا - اب ایران میں بھی ایسا ہی جھگڑا شروع ہورہا ہے جنگ کے خاتمہ کے بعد چھ ماہ کے اندر اندر اُسے خالی کرنے کے اعلان کئے گئے تھے مگر اب رُوس وہاں کے تیل کے چشموں پر قبضہ کرنے کی فکر میں ہے اور وہاں کے لوگوں میںبغاوت ہو رہی ہے اور روسی اخباروں میں یہ شائع کرایا جا رہا ہے کہ ایران میں بڑا ظلم ہو رہا ہے اور وہاں حُرّیتِ ضمیر کو بُری طرح کچُلا جا رہا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد کہا جائے گا کہ کسی ذاتی غرض کے لئے نہیں بلکہ محض انسانیت کی حفاظت کے لئے روس اپنے اوپر یہ کمر توڑ دینے والا بوجھ اٹھانے لگا ہے کہ ایران کے اس حسہ کو اپنے قبضہ میں کرتا ہے- بلغاریہ اور رومانیہ کا بھی یہی حال ہونے والا ہے- گویا یا جو عیب افراد کو ذلیل کر دیا تھا اب حکومتوں کو اس پر فخر ہے-
عِفّت- عفّت کا ابکوئی مفہوم ہی نہیں رہا - زمانہ سابق میں عفّت شکن چوری چھپے سب کام کیا کرتا تھا- اب علی الاعلان ہوتا ہے مسٹرس کا رکھنا ایک عام بات ہے اور ملک کی چوٹی کے افراد اور بڑے بڑے فلسفی یہ کام کرتے اور علی الاعلان کرتے ہیں- ایک بڑے ملک کے عوام النساس کے اختیارات کے علمبر دار لیڈر کے پاس دس بارہ سال سے ایک عورت رہتی ہے وہ کہتے ہیں وطن کی خدمت کے جذبات کی وجہ سے میں شادی نہیں کر سکتا مگر اُس عورت کو اپنے پاس رکھنے سے وطن کی خدمت میں کوئی حرج واقعہ نہیں ہوتا- ہٹلرؔ کے مرنے کے بعد پتہ لگا ہے کہ اُس کے پاس بھی ایک مسٹرس تھی اور اُس کے دو بچے بھی تھے- مرنے سے چند ماہ پہلے اُس سے اُس نے شادی کی تا کہ بچے اُس کے وارث ہو سکیں- اب بھلا اس میں کیا لطف تھا کیوں نہ شادی ہی کر لی- مسولینیؔ نے بھی ایک مسٹرس رکھی ہوئی تھی اپس کی بیوی نے اُس نے مرنے پر کہا کہ وہ اچھا آدمی تھا- کسی نے اُس کا مسٹرس کا ذکر کیا تو کہا کہ اُس چڑیل نے اُس نے اُس شریف آدمی کی عقل پر پردہ ڈال دیاتھا- اُس چڑیل سے جو سلوک لوگوں نے اچھا کیا-کنچنی کو عیب سمجھا جاتا ہے لیکن قہوہ خانوں میں شریف بن کر عورتوں کا عصمت فروشی کرنا ایک عام رواج ہے اور کوئی اسے بُرا بن کر عورتوں کا عصمت فروشی کرنا ایک عام رواج ہے اور کوئی اسے بُرا نہیں سمجھتا-
ایک معروف بادشاہ کو ایک عورت سے محبت تھی- اُس کا خاوند موجود تھا وہ اکثر اُن کے پاس آتی جاتی تھی - اُس کا خاوندموجود تھا- وہ اکثر اُن کے پاس آتی جاتی تھی اور لوگ جانتے تھے کہ وہ اُن سے محبت کرتے ہیں خود ایسی عورتوں میں بھی وہ عورت شریک ہوتی رہی جن میںگرجا کا سب بڑا بشپ بھی شامل ہوا لیکن اُس نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جب بادشاہ نے اُسے طلاق دلوا کر اپنے نکاح میں لانا چاہا تو تمام پادریوں نے شور مچادیا کہ دین کی سخت ہتک ہونے والی ہے - یہ وہ عفت ہے جسے پہلے زمانہ کے لوگ اور قدیم صداقتوں پر ایمان لانے والے سمجھ ہی نہیں سکتے-
انصاف کے اب کوئی معنے ہی نہیں رہے دنیا کا ۴/۳حصہ لوگوں نے غلام بنا رکھا ہے- امریکہ جو آزادی کا علمبر دار ہے وہاں کے اصل باشندے ریڈانڈنیز تھے جو اب صرف چندہ ہزار باقی رہ گئے ہیں- آسٹریلیا میں بھی پرانے باشندوں کی آبادی تھی مگر وہ بھی مرمرکر ختم ہو گئے صرف چند افراد اُن میں سے باقی ہیں جن کو وہاں ذلیل ترین اور بے وارث بنا دیا گیا ہے افریقہ کے حبشی بھوکے مرتے ہیں لیکن اُن کی زمینیںاور جائیدادیں لاکھ لاکھ ایکٹر کی شکل میں انگلستان کے نو ابوں کو دے دی گئی ہیں- سؤتھ افریقہ کے سفید باشندے حبشیوں کی جائدادوں پر قبضہ کر کے اُن کے ملک میں دند نار ہے ہیں اور وہاں کی کانوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر نام یہ ہے کہ ہم دنیا کو سویلائزڈ کر رہے ہیں- ہم دنیا کو مہذہب بنانے کے لئے اپنے گھروں سے قربانی کر کے آگئے ہیں - اب تو خیر ہندوستان کی حالت بدل رہی ہے- آزادی اور حُرّیت کا سانس لوگ لینے لگے ہیں اور ملک اپنی آزادی کی حفاظت کے لئے قربانی کرنے کے لئے بھی تیار ہو جاتا ہے- مگر پہلے یہ حالت تھی کہ ایک گورا ہندوستانی کو ٹھوکروں سے مار دیتا تھا اور عدالت کہتی تھی کہ اس کی تِلّی پھٹ گئی ہے اور یہ کوئی نہ پوچھتا کہ اُس غریب ہندوستانی کی تلّی پھاڑنے کا حق اُسے کس نے دیا تھا اور وجہ کیا ہے کہ ہندوستانی جب بھی مرتا ہے تلّی پھٹنے سے مرتا ہے- اس بات پر بھی کوئی غور نہ کرتا کہ آخر یہ کون سا اتفاق ہے کہ گورے صرف اُسی ہندوستانی کومارتے ہیں جس کی تلّی بڑی ہو- مگر الحمد للہ کہ اب ہندوستان آزادی کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ معاملات گذشتہ قصّہ بن گئے ہیں-
تجارتی ترقی کے لئے زبردست اقوام دوسرے اقوام کی تجارت کو دباتی چلی جاتی ہیں- کہیں ایکسچینج کے دھوکے سے کہیں اس بناء ہر کہ تمہارا فائدہ ہی اسی میں ہے کہ صنت و حرفت نہ کرو اور زراعت کو، کبھی اپنے جہاز بنانے کی اجازت نہ دے کر، کبھی جا جائز مدد اپنے ہم قوموں کو دے کر، کبھی تجارتی جتھے بنا کر، غرض ہر رنگ میں انصاف کو کچلا جا رہاہے-
(۵)علوم تو اب ایسے بدلے ہیں کہ پرانے علوم کا کچھ باقی ہی نہیں رہا- فلسفہ کی شکل ہی بدل چکی ہے - سائنس۹۰ فیصد ی تبدیلی ہو چکی ہے- پہلے تاریخ کی بنیاد روایات کوکوئی پوچھتا ہی نہیں- اب
۲؎ علوم میں تغیّر
تاریخ -اب تاریخ کی بنیاد یا اخبارات ہیں یا ڈائریاں جو خطوط ہیں پرانی تاریخ کے لئے آثار قدیمہ اوراتھنالوجی اور جیالوجی اور علم طبقات الارض کی تلاش کی جاتی ہے-
علم ہبیت قربیاً بالکل بدل چکا ہے - سورض اب سیدھا چلنے لگا ہے - زمین گھومنے لگ گئی ہے- نظامِ شمسی کی جگہ نظام ہائے شمسی نے لے لی اور نظام ہائے شمسی کی جگہ نظام ہائے نظام ہائے شمسی نے لے لی ہے- دنیا کا پھیلائو پہلے کروڑں میل بتایا جاتا تھا اب دنیا چھتیس ہزار روشنی کے سالوں کے پھیلائو تک جا پہنچی ہے- چھتیس ہزار روشنی کے سالوں کے معنے یہ ہیں کہ ۳۲ ہزار×۳۶۰×۲۴×۶۰×۶۰×ایک لاکھ چھیاسی ہزار اگر انسان صبح سے شام تک بھی ان اعداد کو کننے لگے اور ضرب درضرب شمار کرتا چلا جائے تو شام تک بھی ان اعداد کو ختم نہیں کر سکتا-
طبؔ نے بھی حیرت انگیز تبدیلی پیدا کر لی ہے- جن باتون کا پہلے وہم گمان بھی نہ تھا اب روز مرّہ کا شغل بن گئی ہیں- اِس مٰن کوئی شبہ نہیں کہ پہلے زمانہ میں بھی اپریشن ہوتے تھے مگر شاذو نادر کے طور پر کبھی بقراط کا نام اپریشن کے سلسلہ میں آجاتا اور کبھی کسی اَورسرجن کا- مگر اب ہر ملک میں ہر شہر مین وہ سرجن پائے جاتے ہیں جو پیٹ کو پھاڑتے اور پھر اُسے سی دیتے ہیں گردُوں کا اپریشن کرتے ہیں ناکؔ کان آنکھؔ حلق اور دوسرے اعضاء کے نقائص کا اپریشن کے ذریعہ علاج کرتے ہیں بلکہ اس جنگ میں تو اس حد تک حیرت انگیز ترقی کر لی گئی ہے کہ اس جنگ کے دوران میں دل کے اپریشن بھی کئے گئے ہیں دل کو کھُر چا گیا ہے اور پھر اُسے کھُرچ کر اُس کے اصل مقام پر رکھ دیا گیا ہے-
ایسے آلات نکل آئے ہیں کہ جن کہ وجہ سے وہ مریض جن کے دل حرکت نہیں کر سکتے یا سخت کمزوری سے کرتے ہیں اُن کی زندگی کے بھی سامان پید ہو گئے ہیں چنانچہ اُن کو اُن آلات میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آدمی جو دوسری صورت میں گھنٹہ دو گھنٹہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا اِس طرح بعض دفعہ مہینوں اور سالوں اُن آلات میں پڑا رہتا ہے اُس کا دل حرکت کرتا رہتا اور قانونِ قدرت کو موقع دیا جاتا ہے کہ وُہ اس دوران میں بیماری کو دُور کرکے اُسے اچھا کر دے- غرض پُرانی کتب مذہب کے سواب داستان امیر حمزہ بن کر رہ گئی ہیں اور دنیا روز بروز کہیں سے کہیں چلی جا رہی ہے-
(۶) اقتصادیات کی حالت بھی بالکل بدل گئی ہے- پہلے دنیا کی تمام تجارت بارٹر سسٹم پر چلتی تھی- لوگ ایک جگہ سے مال لیتے اور دوسری جگہ پہنچا دیتے اور وہاں سے اُس کے بدلہ میں کوئی ایسی چیز لے لیتے جس کی انہیں ضرورت ہوتی تھی- پھر وہاں کا مال اُٹھا کر تیسرے ملک میں لے جاتے اور اُس ملک کی کوئی ایسی چیز مال کے تبادلہ میں لے لیتے جس کی انہیں احتیاط ہوا کرتی تھی اس طرح جنس کے بدلہ میںجنس دی جاتی اور اپنی اور دوسروں کی ضرورتیں پوری کی جاتیں-- اِس ذریعہ سے ملک غریب نہیں ہوتے تھے کیونکہ جتنا مال کسی ملک سے لیا جاتا ہے تھا اُتنا مال ہی اُس کو دوسری شکل میں دے دیا جاتا تھا- مگر اب بارٹر سسٹم بالکل ختم ہو گیا ہے بنکنگ کا زور ہے اور بنک کی ہنڈی سے ہی ساری تجارت چلتی ہے اِس کی وجہ سے غریب اور کمزور ممالک بالکل لوٹے جارہے ہیں- پھر افراد کی تجارت اب قریباً ختم ہیں اب زیادہ تر کمپنیاں نبتی اور تجارتی کاروبار میں حصہ لیتی ہیں- چنانچہ غور کر کے دیکھ لو بڑی بڑی تجارتیں سب کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں جن کو پہلے کوئی جانتا بھی نہیں تھا- کمپنیوں سے اُوپر ٹرسٹ بن گئے ہیں جو آپس میں معاہدہ کر کے تجارت کو اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں- مثلاً دس پندرہ بڑی بڑی کمپنیاں آپس میں مِل جاتی ہیں اور وہ معاہدہ کر لیتی ہین کہ ہم جو کچھ فروخت کریں گی ایک مقررہ قیمت پر کریں گی ایک دوسرے کا تجارتی رنگ میں مقابلہ نہیں کریں گی- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب لوگ مجبور ہوتے ہیں کہ اُسی قیمت پر چیز خریدیں کواہ وہ کس قدر ہی مہنگی کیوں نہ ہو کیونکہ وہ جس کے پاس بھی جاتے یہں اُنہیں ایک ہی قیمت بتائی جاتی ہے- یہ تو ملک کے بڑے بڑے تاجروں کا آپس مین سمجھوتہ ہوتا ہے جو ٹرسٹ سسٹم کہلاتا ہے اِس سے مزید ترقی کر کے اب کارٹلر بن گئے ہیں یعنی مختلف کمپنیاں آپ میں کسی تجارت کے متعلق سمجھوتہ کرلیتی ہین اور وہ فیصلہ کرتی ہیں کہ فلاں فلاں چیز اس نرخ کے علاوہ اَور کسی نرخ پر فروخت نہیں کی جائے گی- اس کے نتیجہ میں وہ تمام ممالک کی تجارت کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیںاورجو قیمت چاہتے ہیں لوگوں سے وصول کرتے ہیں- یہی کارٹلر ہیں جو جنگوں کاباعث ہیں کیونکہ بعض ممالک کی ساری کی ساری اجناس کارٹل سسٹم کے ماتحت تاجر خرید لیتے ہیں جس کی وجہ سے دوسرے ممالک کی تجارت تباہ ہو جاتی ہے اور وہ لڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں-
یہ وہ زلزلہ ہے جو اِس وقت دنیا پر آ رہا ہے اور جس کا ہزارون حصہ زلزلہ بھی اس سے پہلے کسی ایک وقت میںدنیا پر نہیں آیا-اب یہ زلزلہ جو ایک طرف مادی زمین پر آ رہا ہے اور دوسری طرف اہل زمین پر آ رہا ہے قیامت کے مشابہ نہیں تو اَور کس کے مشابہ ہے؟ اللہ تعالیٰ اِسی زلزلہ ک طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اُس دن جب دنیا کفر میں ڈوب جائے گی اور دین بے کس ہو جائے گا خدا تعالیٰ پھر اُس بیّنہ کے ذریعہ سے جو رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ ہے ( یعنی اُس کے مثیل کے ذریعہ سے ) دنیا کو کفر سے نجات دے گا- اِذَا ظرف جملہ مخدوف ہے اور اِس کا عامل ہے وَیَکُوْنُ کَذَاثَانِیََا اِذَازُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا- یعنی ایک دفعہ تو ایل کتاب اور مشرکین کو ہم اپنے رسول کے ذریعہ جو صحفِ مطہّرہ لے کر آیا ہے کفر سے نجات دے چکے ہیں اور ہم کہہ چکے ہیںاور ہم کہہ چکے ہیں کہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھُلِ الْکِتَابِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفِکّیْنَ تَاتِیَھُمُ الْبَیِّنَۃُ رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ-
وَاخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَا لَھَا o
اس کے بعد یورپ میں آئیں تو ہمیں بظر آتا ہے کہ انگلستان کا بادشاہ تھا اب بھی ہے ۔ناروے کا بادشاہ تھا اب بھی ہے۔سویڈن کا بادشای تھا اب بھی ہے۔ڈنمارک کا بادشار تھا اب بھی ہے۔بلجیم کا بادشاہ تھا اب بھی ہے۔لیکن فرانس کا بادشاہ تھا اب نہیں ۔سپین کا بادشاہ تھا اب نہیں ۔پُرتوگیز وںکا بادشاہ تھا اب نہیں جرمنی کا بادشاہ تھا اب نہیں ۔اٹلی کا بادشاہ تھا اور اب بھی ہے(اس درس کے چھپنے سے پہلے وہ بھی نہیں رہا )ہنگری کا بادشاہ تھا اب نہیں۔یونان کا بادشاہ تھا اب بھی ہے۔یوگوسلاویہ کا بادشاہ تھا اب نہیں ۔رومانیہ کا بادشاہ تھا اب نہیں ۔بلغاریہ کا بادشاہ تھااب نہیں ۔زیکو سلویکیا پہلے جرمنوں کے ماتحت تھا اب اتحادیوں کے قبضہ میں آیا ہے مگر وہاں بادشاہت نہیں ۔اس کے بعد ہم ایشیا کی طرف آتے ہیں تو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ ٹرکی کا بادشاہ تھا اب نہیں ۔ایران کا بادشاہ تھا اب بھی ہے۔عراق میں بھی بادشاہت ہے شام اور فلسطین اور لبنان یہ علاقے بادشاہوں کے ماتحت تھے مگر اب ان کے قبضے سے نکل گئے ہیں۔افغانستان میں نام کی بادشاہت باقی ہے۔یہی حال ہندوستان کا ہے کہ اس کی بادشاہت بھی برائے نام ہے۔چین کا بادشاہ ہوا کرتا تھا اب اُڑ گیا ہے۔کوریا کا بادشاہ تھا اب اُڈ گیا ہے۔جاپان کا بادشاہ ہے مگر اب اتحادی اسے اُڑانے کی فکر میں ہیں ۔گویا دنیا میں تین چوتھائی بادشاہتیں اُڈ چکی ہیں اور جو باقی ہیں وہ برائے نام ہیں جیسے انگلستان کا بادشاہ تو ہے مگر نام کا اُس کے اختیارات کچھ نہیں۔پس فرماتا ہے کہ زمین اُس دن اپنے بوجھ اُتار کر پھینک دے گی ۔یعنی بادشاہوں اور حکومت امراء کو نکال باہر کرے گی اور اس طرح اُس نا قابل برداشت بار کا خاتمہ ہو جائے گا جو غرباء پر پڑ رہا تھا۔
۲) دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ مولویوں ،پادریوں اور پنڈتوں کے دبائو سے لوگ ازاد ہو جائیں گے۔مولویوں کا دبائو بے شک حکومتی دبائو کی طرح زیادہ سخت نہیں تھا مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولویوں کے فینوں کی لوگوں کے دلوں میں گزت ہوتی تھی اور وہ بسا اوقات اُن کے لئے بڑی بڑی قربانیاںکرنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے مگر اب مولویوں کا دبائو بلکل اُٹھ چکا ہے۔یہی حال پنڈتوں کا ہے پنڈت جس جس رنگ میں کفارے دلواتے اور لوگوں کو گنگا اشنان کراتے تھے وہ اب جا تارہا ہے۔اسی طرح پادریوں کا دبائو اب خاک میں مل چکا ہے۔درحقیقت حقیقی دبائو پادریوں کا ہی تھا مولویوں اور پنڈتوں کو اس قسم کا اقتدار حاصل نہیں ہوا جس قسم کا اقتدار حاصل ہو چکا ہے ۔اُن کو ہر جگہ حکومت حاصل تھی ،وہ لوگوں کو سزا دینے کا اختیار رکھتے تے یہاں تک کہ لوگوں کو قید یااُن کو قتل کر دینے کا اختیار بھی اُن کو حاصل تھا اورانہوں نے عوام پر وہ حکومت کی ہے جس کی کوئی حد ہی نہیں۔مگر آج یہ سب چیزیں اُڑائی جا رہی ہیں۔
۳) تیسرے مدنے اَثقَا لَ کے ظاہری زمین کے لحاظ سے یہ بنیں گے کہ زمین میں سے قسم قسم کی کانیں نکل آئیں گی۔چنانچہ دیکھ لو آج کروڑوں کروڑ ٹن کا تیل جس کا پہلے زمانہ میں خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا زمین میں سے نکل رہا ہے اور ہر شہر ہر قصبہ اور ہر گائوں میں اس سے کام لیا جا رہا ہے۔تمام دنیا میں چکر لگا کر دکھ لو ہر جگہ لیمپ مٹی کے تیل سے ہی جگمگاتے نظر آئیں گے سوئے اُن مقامات کے جہاں بجلی کی روشنی مہیا کی جاتی ہے۔پہلے زمانہ میں عام طور پر سرسوں کا تیل دئے میں ڈال کے روشنی حاصل کی جاتی تھی مگر اب کہیں بھی سرسوں کا تیل استعمال نہیں ہوتا سب جگہ مٹی کا تیل استعمال کیا جا تا ہے۔اسی طرح کر خانے مغیرہ مٹی کے تیل سے چلتے ہیں۔ پٹرول جس سے موٹریں چلتی ہیں وہ بھی زمین سے ہی نکلتا ہے۔پھر پتھر کا کوئیلا جس سے انجن ،ریلیں اور مشینیں وغیرہ چلتی ہیں یہ بھی زمین میں دبا پڑا تھا اسی زمانے میں اﷲ تعالیٰ نے اسے نکالا اور بڑی بڑی فیکٹریوں اور کار خانوںمیں کام آنے لگا۔اسی طرح اور کئی قسم کی دھاتیں مثلاً یورینیم ،پلاٹینم اور ریڈیم وغیرہ زمین میں چھپی پڑی تھیں اور لوگوں کو ان کا کچھ علم نہیں تھا ۔ آج بہت ست کام کے ذریعہ سے چل رہے ہیں ۔اور ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ زمین نے آج اپنے بوجھ باہر نکال کر پھینک دئے ہیں ۔
۴) آثار قدیمہ جو زمین میں چھپے پڑے تھے وہ بھی اثقال تھے اور امانت کا رنگ رکھتے تھے جسے زمین نے اپنے پیٹ میں دبایا ہوا تھا مگر آج یہ اثقال بھی باہرنکل رہے ہیں۔بڑے بڑے شہر جو آج سے کئی کئی ہزار سال پہلے کے ہیں زمین میں سے نکل رہے ہیں کوئی شہر زمین میں نوے(۹۰) فٹ نیچے مدفون تھا کوئی اسی (۸۰)فٹ نیچے تھا اور لوگوں کو کچھ علم نہ تھا کہ وہ زمین جس پر وہ چل پھر رہے ہیں اس کے نیچے کتنے بڑے بڑے شہر چھپے ہوئے ہیں ۔آج محکمۂ آثار قدیمہ زمین کو کھود کر ان تمام شہروں کو باہر نقال رہا ہے اور کئی قسم کی پرانی تہزیبوں کا لوگوں کو علم حاصل ہو رہاہے ۔ان شہروں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج سے مثلاً دس ہزار سال پہلے برتن کیسے تھے۔کس قسم کے کپڑے لوگ پہنا کرتے تھے ۔ان کے مکانوں کی کیا شکلیں ہوا کرتی تھیں ۔سڑکوں کا کیسا انتظام تھا ۔ان کی سواریاں کس کس قسم کی ہوتی تھیں ۔ان کی گاڑیاں کیسی تھیں ۔ان کے چھپر کھٹ کیسے تھے ۔ان کے سامان کیسے تھے۔یہ ساری چیزیں زمین میں سے نکال کر آج دنیا کے سامنے لائی جا رہی ہیں بلکہ اور تو اور مردے بھی باہر نکالے جا رہے ہیں اور عجائب گھروں میں لوگ ان کا تماشہ دیکھتے ہیں ۔غرض زمین کے نیچے جو چیزیں دبی ہوئی تھے زمین نے اُن کا بوجھ محسوس کیا اور اس نے ان تما چیزوں کو باہر نکال کر کہ دیا کہ لو میاں ۔
عطائے تو بہ لقائے تو
۵) اگر عرض سے اہل عرض مراد لئے جائیں تو اَخْرَجَتِ الْاَ رْضُ اَثْقَ لَھَاکہ یہ معنی ہوں گے کہ عیاشی ،آزادی اور لا مذہبی وغیرہ کے وہ خیالات جن کو پہلے زمانہ میں لوگ اپنے سینوں میں دبا کر رکھتے تھے اور ڈرتے تھے کہ اگر ہم نے ان خیالات کو ظاہر کیا تو گُدی سے ہماری زبان کھینچ لی جائے گی۔علی الاعلان ظاہر کریں گے ۔ان کے متعلق کتابیں لکھیں گے اور لوگوں سے بحثیں کریں گے کہ صحیح خیالات یہی ہیں تمہیں بھی اپنے ثابق خیالات میں تبدیلی پیدا کرنی چاہئے۔
تھوڑے ہی دن ہوئیے کہ سوویت روس کے متعلق میں نے ایک عجیب بات پڑھی۔جس طرح عیسائی تثلیث کا عقیدہ رکھنے کے باوجودیہ دعوہ کرتے ہیں کہ توحید کامل عیسائیت نے ہی پیش کی ہے اسی طرح سوویت روس نے بھی طریق تو کچھ اور اختیار کیا ہوا ہے لیکن اپنے کام کا نام کچھ اور رکھا ہوا ہے۔اس کے ایک اخبار نے لکھا کہ لوگ ہمارے متعلق اعتراض کرتے ہیں کہ روس میں شادی اک دستور کم ہے گو حکومت کسی کو شادی کرنے سے روکتی نہیں اور اس لحاظ سے یہ اعتراض بلکل غلط ہے کہ اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔لیکن اگر غور کیا جائے تو جتنی بد کاری شادی سے پھیلتی ہے اتنی مسٹرس رکھنے سے نہیں پھیلتی ۔اس نظریہ کو دیکھ کر حیریت آتی ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر اسٹرس رکھنا بد کاری نہیں تو وہ بدکاری کا مفہوم کیا سمجھتے ہیں۔یہی حال دوسرے ممالک کا ہے کہ علی الاعلان عیاشی،آزادی اور لا مذہبی وغیرہ کے خیالات لوگوں میں پھیلائے جاتے ہیں اور وہ باتیں جو پہلے سینوں میں چھپائی جاتی تھیں اب الم نشرح ہونے لگ گئی ہیں۔
۲) چھٹے معنے یہ ہیں کہ اُس زمانہ میں سائنس کی ایجادات کثرت سے ہوں گی اور امین اپنے چھپے ہوئے راز نکال کر رکھ دے گی۔ہم دیکھتے ہیں کہ یہ علامت بھی اس زمانہ میں نمایاں طور پر پوری ہوئی ہے چنانچہ ہر سال حیرت انگیز طور پر کئی قسم کی ایجادات ہوجاتی ہیں اور یہ سلسلہ برابر بڑھتا جارہا ہے درحقیقت سائنس نام ہے زمین کے اثرات کے لیمیاوی نتائج کا ۔اور یہ کیمیائی نتائج وہ اثقال ہیں جو زمین میں مخفی تھے۔اﷲ تعالیٰ نے اس زمانہ میں سائنس کی بکثرت ایجادات کے ذریعہ اُن اثقال کو نکالکر رکھ دیا ہے اور کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جس میں قرآن کریم کی اس آیت کی صداقت ظاہر نہ ہوتی ہو کہ اَخَرَجَتِ الْارْضُ اَثْقَا لَھَا۔
و قال الانسان مالھا O یومئذ تحدث اخبارھا O
اور انسان کہہ اُٹھے گا کہ اسے کیا ہوگیا ہے۔ اس دن وہ اپنی (ساری ہی پوشیدہ) خبریں بیان کردے گی۔
تفسیر: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے زمین اپنے اثقال کو نکال باہر کرے گی یہاں تک کہ ان سب چیزوں کو دیکھ کر انسان حیرت سے کہہ اُٹھے گا کہ مالھا۔ اسے کیا ہوگیا ہے اس دنیا میں کیا کچھ راز پوشیدہ تھے جو ظاہر ہورہے ہیں اور کیا کیا چیزیں مخفی تھیں جن کو زمین اگل رہی ہے۔
دوسرے معنے یہ ہوسکتے ہیں کہ الانسان سے ہر انسان مراد نہ ہو بلکہ کامل انسان مراد ہو۔ اس صورت میں آیت کا یہ مفہوم ہوگا کہ کامل انسان دنیا کی عریانی اور لامذہبیت کی حالت دیکھ کر کہے گا کہ اس دنیا کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ خداتعالیٰ سے اس قدر دور چلی گئی ہے۔
تفسیر: یہ نیا مضمون بھی ہوسکتا ہے اور اخرجت الارض اثقالھا کی تشریح بھی ہوسکتا ہے۔ نئے مضمون کے لحاظ سے میرے نزدیک اس کے یہ معنے ہیں کہ پیدائش زمین کے بارہ میں اس سے پہلے دنیا کو ایک مجمل اور ناقص علم حاصل ہوگا مگر فرماتا ہے اس زمانہ میں علم سائنس جیالوجی کی شکل میں اس قدر ترقی کرجائے گا کہ زمین کی بناوٹ اور شعاعوں اور لہروں وغیرہ کے ذریعہ سے زمین کی پیدائش کے مسئلہ پر بہت کچھ روشنی پڑنے لگے گی گویا اخبارھا سے مراد یہ ہے کہ زمین اپنی حقیقت اور کیفیت پیدائش کے بارہ میں بہت کچھ باتیں بتانے لگ جائے گی۔ یہ اس لئے فرمایا کہ علم جیالوجی کا بڑا مدار خود مٹی کی ماہیت اور اس کے رنگوں اور اس کی تہوں پر ہے۔ یہ نہیں کہ کسی اور ذریعہ سے وہ ان معلومات کو حاصل کرتے ہیں بلکہ علم جیالوجی کے ماہرین مٹی کا رنگ دیکھ کر بتادیتے ہیں کہ اس اس قسم کے تغیرات زمین پر گزررہے ہیں اس کی تہوں سے اندازہ لگا کر بتادیتے ہیں کہ اس تہہ پر یہ شکل ہے اور اس تہہ پر یہ شکل ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے فلاں تغیر واقعہ ہوا اور پھر فلاں تغیر پیدا ہوا۔ اسی طرح مٹیوں کے رنگوں اور ان کی بوئوں سے اب کانوں وغیرہ کے پتہ لگانے کا علم نکل آیا ہے۔ اس علم کے ماہر انجینئر پہاڑوں کی چوٹیوں پر چلے جاتے ہیں اور پتھروں کو اٹھا اٹھا کر دیکھتے یا زمین کو سونگھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہاں فلاں قسم کی کانیں دفن ہیں۔ اسی طرح بجلی کی رَو کے ذریعہ سے کانوں کی اقسام اور ان کی گہرائیوں کا پتہ لیا جاتا ہے۔ یہ پتہ لگایا جاتا ہے کہ زمین میں کس چیز کی کان ہے۔ لوہے کی ہے یا پیتل کی ہے اور پھر یہ پتہ لگایا جاتا ہے کہ وہ سوگز نیچے ہے یا دو سو گز نیچے ہے یا چار سو گز نیچے ہے۔ غرض اس ذریعہ سے زمین اپنی خبریں بتارہی ہے ۔ وہ زمین جوپہلے گونگی تھی اب کلام کرنے لگ گئی ہے۔ عام لوگ گزرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ زمین خاموش ہے وہ کچھ کہہ نہیں رہی۔ لیکن ایک انجینئر گزرتا ہے تو وہ سنتا ہے کہ زمین اسے یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ میرے نیچے مٹی کا تیل ہے اور وہ یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ وہ اسّی گز نیچے ہے یا یہ بتارہی ہوتی ہے میرے نیچے سونے کی کان ہے اور یہ بھی بتارہی ہوتی ہے وہ سونے کی کان اتنی دور ہے یا یہ بتارہی ہوتی ہے کہ میرے نیچے پتھر کا کوئلہ ہے اور یہ بھی بتارہی ہوتی ہے کہ وہ پتھر کا کوئلہ اتنی دور ہے۔ اسی طرح بتارہی ہوتی ہے کہ میرے نیچے یورینیم یا پلاٹینیم یا فلاں دھات ہے اور یہ بھی بتارہی ہوتی ہے کہ یہ دھاتیں اتنی گہرائیوں پر ہیں۔
اخرجت الارض اثقالھا کے نیچے جو یہ معنے بتائے گئے تھے کہ لوگ اپنے گندے خیالات بیان کرنے لگ جائیں گے ان کے لحاظ سے اس آیت کہ یہ معنے بھی ہوں گے کہ نہ صرف لوگوں کے دیئے ہوئے خیالات اس زمانہ میں ظاہر ہونے لگ جائیں گے بلکہ اہل زمین اپنے ان عیوب کو الم نشرح کرنے میں لذت محسوس کریں گے یا وہ دوسروں کے عیوب شائع کرنے میں انہیں خاص لطف محسوس ہوگا اور وہ انتہائی دلچسپی کے ساتھ اس کام میں حصہ لیں گے۔ چنانچہ تمام یورپ، امریکہ بلکہ ایشیائی ممالک میں بھی آج کل ایسے اخبارات نکلتے ہیں جن کوسوسائٹی گاسپ کہا جاتا ہے۔ یہ اخبار اس کثرت سے دنیا میں شائع ہونے لگ گئے ہیں اور اس طرح مزے لے لے کر ان کو پڑھا جاتا ہے کہ حیرت آتی ہے۔ ان اخبارات کو چلانے والے بھی لاکھوں روپیہ اس بات پر خرچ کردیتے ہیں کہ انہیں کسی بڑے شخص کے راز معلوم ہوجائیں۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور پھر جب وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان رازوں کو اخبارات کے ذریعہ شائع کیا جاتا ہے اور دنیا میں ان کی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ لوگ خود اپنے شہوانی جذبات کی نسبت بالتفصیل کتب لکھنے لگ گئے ہیں صرف قانون کی زد سے بچنے کیلئے ان کتابوں پر یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ کتابیں صرف ڈاکٹروں اور فلاسفروں کیلئے لکھی گئی ہیں عام لوگوں کیلئے نہیں۔ تاکہ یہ سمجھا جائے کہ ان کتابوں کی اشاعت محض علمی اغراض کے ماتحت کی جارہی ہے کوئی نفسانی خواہش ان کتب کی اشاعت کی محرک نہیں ہے۔ اس قسم کی بعض کتابیں میں نے بھی پڑھی ہیں۔ مثلاً امریکہ کے کے بارہ ڈاکٹروں نے آپس میں قسمیں کھاکر عہد کیا کہ علم شہوت چونکہ ایک مخفی علم ہے اور لوگوں کو اس کی تمام تفاصیل کا صحیح طور پر علم نہ ہونے کی وجہ سے کئی قسم کے دھوکے لگ جاتے ہیں اس لئے ہم اس قسم کی تمام باتوں کو بغیر کسی حجاب ظاہر کریں گے۔چنانچہ انہوں نے بارہ کتابیں لکھی ہیں جن میں اپنے جذبات کو انہوں نے ننگے الفاظ میں بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ جب ہم میاں بیوی آپس میں ملتے ہیں تو ہمارے یوں جذبات ہوتے ہیں، ہم اس طرح حرکات کرتے ہیں اور اس اس رنگ میں اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان بارہ کتابوں میں سے ایک کتاب میں نے بھی پڑھی ہے۔
ایک حدیث بھی ان معنوں کی تصدیق کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ حدیث اسی زمانہ کے بارہ میں ہے۔ احمد، ترمذی اور نسائی نے روایت کی ہے (گو الفاظ روایت احمد کے ہیں) کہ عن ابی ھریرۃ قال قرأ رسول اللہ ﷺ ھذہ الایۃ یومئذ تحدث اخبارھا قال اتدرون ما اخبارھا قالوا اللہ و رسولہ اعلم قال فان اخبارھا ان تشھد علی کل عبد و امۃ بما عمل علی ظھرہا ان تقول عمل کذا و کذا یوم کذا و کذا فھذہ اخبارھا۔ یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے یہ آیت پڑھی کہ یومئذ تحدث اخبارھا پھر آپ نے فرمایا اتدرون ما اخبارھا اے میرے صحابہؓ کیا تم جانتے ہو کہ اس کی اخبار کیا ہیں؟ قالوا اللہ و رسولہ اعلم انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ قال فان اخبارھا ان تشھد علی کل عبد و امۃ بما عمل علی ظھرہا۔ اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر انسان یعنی ہر مرد اور عورت کے متعلق یہ بیان کرے گی کہ اس نے کیا کیا ہے۔ ان تقول عمل کذا و کذا یوم کذا و کذا۔ وہ یہ کہے گی کہ اس نے فلاں دن یہ کام کیا ہے اور فلاں دن یہ کام کیا۔ چونکہ اس آنے والے دن کے بارہ میں محدثین کو علم نہ تھا انہوں نے اسے قیامت پر لگایا ہے حالانکہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ حدیث اسی زمانہ کے متعلق ہے۔ اسی زمانہ میں اس قسم کے اخبارات شائع ہورہے ہیں جن میں لوگوں کے تمام عیوب بیان کئے جاتے ہیں اور لوگ ان اخبارات کو بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ لنڈن کا ایک اخبار تھا جس کی نسبت میں نے سنا ہے کہ ایک لاکھ چھپتا ہے اور صبح صبح چوری چھپے ہر شخص خواہ وہ اعلیٰ حیثیت کا مالک ہو یا ادنیٰ حیثیت کا اسے مزے لے لے کر پڑھتا ہے۔ اس اخبار میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں کی بیوی نے یہ کیا اور فلاں کی بیٹی نے یہ کیا۔ حتیٰ کہ بعض جگہ شاہی خاندان کے متعلق بھی اشارے ہوتے تھے کہ آج صبح فلاں کو ایک بند گاڑی میں فلاں مکان کے دروازہ کے پاس دیکھا گیا ہم حیران ہیں کہ وہ وہاں کیوں گئے؟ اور کیوں ان کی گاڑی اس دروازہ پر کھڑی دیکھی گئی؟ میں سمجھتا ہوںحدیث میں اسی طرف اشارہ ہے۔ مفسرین نے اسے غلطی سے قیامت پر چسپاں کردیا ہے حالانکہ قیامت کے ذکر میں قرآن کریم میں یہ کہیں بیان نہیں کیا گیا کہ اس روز زمین بھی کلام کرے گی۔ یہ تو آتا ہے کہ ہاتھ بولیں گے یا پائوں بولیں گے اور وہ انسان کے خلاف شہادت دیں گے مگر یہ کہیں ذکر نہیں آتا ہے کہ اس روز زمین بھی بولے گی۔ لیکن مسیح موعودؑ کے زمانہ کے متعلق بالوضاحت احادیث میں ذکر آتا ہے کہ اس وقت زمین کلام کرے گی۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے مسیح موعودؑ کے زمانہ میں وہ پتھر جس کے پیچھے کافر چھپا ہوا ہوگا بول اٹھے گا اور کہے گا اے نبی اللہ یہ کافر چھپا ہوا ہے۔ غرض زمین کے بولنے کا حدیثوں میں جہاں بھی ذکر آتا ہے مسیح موعودؑ کے زمانہ کے متعلق ہے اور قرآن کریم میں جہاں قیامت کے دن شہادت دینے کا ذکر آتا ہے وہاں ہاتھوں اور پائوں کے بولنے کا تو ذکر آتا ہے مگر زمین کا نہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت موجودہ زمانہ کے متعلق ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی خبر دی گئی ہے کہ لوگ اپنے گند اخباروں میں ظاہر کریں گے۔ کتابوں اور ڈائریوں میں ان کو شائع کریں گے اور خوش ہوں گے کہ انہوں نے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ گویا جن امور کو لوگ پہلے چھپایا کرتے تھے ان کو مزے لے لے کر بیان کریں گے اور شرم اور حیا کا مفہوم اس زمانہ میں بالکل بدل جائے گا۔ چنانچہ یہ اخبارہر بڑے مرد اور عورت کے پیچھے آدمی لگاتے ہیں اور ان کے مخفی حالات اخباروں میں چھاپتے اور ان کی بکری سے لاکھوں روپے کماتے ہیں۔ بعض ادنیٰ اخبار بلیک میلنگ سے روپے کماتے ہیں۔ اسی طرح عورتیں، شریف کہلانے والی عورتیں بڑے بڑے معزز اور بارسوخ خاندانوں کی ڈائریاں لکھتی ہیں جن میں نہایت بے حیائی سے اپنی کرتوتیں بیان کرتی ہیں اور پھر وہ ڈائریاں ہزاروں کی تعداد میں چھپتی اور لوگوں کے مطالعہ میں آتی ہیں۔ غرض ایک اندھیر ہے جو مچ رہا ہے اور ایک زلزلۂ عظیمہ ہے جو دنیا پر آیا ہوا ہے۔ گزشتہ تاریخ پر غور کرکے دیکھ لو اس کی نظیر پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملے گی۔ یہی وہ زمانہ ہے جس میں یہ زلزلۂ عظیمہ آیا اور جس میں اللہ تعالیٰ کی یہ پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی کہ یومئذ تحدث اخبارھا۔
بان ربک اوحی لھا O
حل لغات: اوحی الیہ ایحاء کے معنے ہوتے ہیں بعثہ۔ اس کو کسی مقصد کیلئے کھڑا کیا اور اوحی بکذا کے معنے ہیں الھمہ بہ کسی کے دل میں کوئی بات ڈالی۔ اور وحی بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے چنانچہ وحی الیہ (یحی وحیا) کے معنے ہیں اشار اس نے اشارہ یا۔ ارسل الیہ رسولا اس کی طرف پیغامبربھیجا ۔ اور وحی اللہ فی قلبہ کے معنے بھی الھمہ کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں فلاں بات ڈالی اور اوحی الی فلاں الکلام کے معنے ہیں کلمہ خفیا اس کے ساتھ دوسروں سے علیحدہ ہوکر مخفی رنگ میں بات کی۔ وفی الاساس وحیت الیہ و اوحیت اذا کلمتہ بما تخفیہ عن غیرہ۔ زمخشری کی کتاب اساس میں لکھا ہے کہ وحیت الیہ یا اوحیت الیہ اس وقت بولتے ہیں جب تم کسی سے کوئی ایسی بات کرو جو تم دوسروں سے چھپانا چاہتے ہو۔ و فی المصباح و بعض العرب یقول و حیث الیہ و وحیت لہ و اوحیت الیہ و اوحیت لہ۔ اور مصباح میں لکھا ہے کہ بعض عرب صرف وحیت الیہ اور اوحیت الیہ ہی استعمال نہیں کرتے بلکہ وحیت لہ اور اوحیت لہ بھی استعمال کرتے ہیں (اقرب الموارد)۔ مجمع البحار میں لکھا ہے ویقع الوحی علی الکتابۃ کہ وحی کا لفظ کتابت کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے یعنی اگر ہم وحی کا لفظ بولیں تو اس کے صرف یہی معنے نہیں ہوں گے کہ کوئی بات کی بلکہ یہ بھی معنے ہوں گے کہ کوئی بات لکھ دی۔ والاشارۃ اور اگر اشارہ سے بات کی جائے تو اس کیلئے بھی وحی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ والرسالۃ اسی طرح کسی کی معرفت اگر کوئی پیغام بھیجا جائے تو اسے بھی وحی کہہ دیتے ہیں۔ والالھام الہام کیلئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ والکلام الخفی اور وحی کا لفظ کلام خفی پر بھی دلالت کرتا ہے ۔ لیکن مجمع البحار والے اس کے ساتھ یہ تصریح کرتے ہیں کہ اس کا صلہ ہمیشہ الیٰ آتا ۔ ان کے نزدیک عربی زبان میں اس لفظ کو یونہی استعمال کریں کہ وحیت الیہ الکلام واوحیت۔ پھر لکھتے ہیں واوحینا الی ام موسی وحی اعلام الاالھام لقولہ تعالی انا رادّوہ الیک ۔اور یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ اوحینا الی ام موسی یہ وحی اعلام ہے نہ کہ وحی الہام۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انا رادوہ الیک ہم اسے تیری طرف لوٹائیں گے یعنی لفظی وحی تھی دل کا خیال نہ تھا (علماء سابق اصطلاح میں دل کے خیال کو الہام کہتے تھے اور اسی وجہ سے وہ وحی اور الہام میں فرق کرتے تھے حالانکہ یہ فرق ان کا خیالی تھا شریعت سے اس کی سند نہیں ملتی۔ بہرحال جب پرانے علماء کی کتب میں الہام کا لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے اکثر دل میں خیال ڈالے جانے کے ہوتے ہیں)۔ واوحیت الی الحوارین: امرتھم۔ یعنی قرآن کریم جو آتا ہے کہ میں نے حواریوں کی طرف وحی کی اس کے معنے یہ ہیں کہ میںنے ان کو حکم دیا۔ پھر لکھتے ہیں یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ اوحیٰ ربک الیٰ النحل ( النحل ۹ع۱۵) تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی اس کے معنے یہ ہیں الھمھا فاوحیٰ الیھم ۔ اومیٰ۔اور یہ جو قرآن کریم میں حضرت زکریہ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ اوحیٰ الیھم زکریہ نے اپنے ساتھیوں کی طرف وحی کی اس کے معنے ہیں اومیٰ انہوں نے اشارہ کیا۔وقیل کتب بیدہ فی الارض۔اور بعض نے کہا ہے کہ اس جگہ وحی کا لفظ بمعنی کتابت استعمال ہوا ہے اور آیت کے یہ معنے ہیں کہ انہوں نے لکھ کر اپنے ساتھیوں کو بتایا۔ان حوالجات سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی کے معنے (۱) کسی کام پر مبعوث کرنا (۲) دل میں بات ڈالنا (۳) اشارے سے بات سمجھانا (۴) کسی پیغامبر کی معرفت پیغام بھیجنا (۵) لکھنا (۶) دوسروں سے چھپا کر بات کرنا اور (۷) حکم دیناکے ہیں۔
تفسیر: قرآن کریم میں وحی کا لفظ اس مقام کے سوا پینسٹھ دفعہ استعمال ہوا ہے اور سب جگہ الیٰ کا صلہ آیا ہے۔ پانچ مقامات اور ہیں جہاں یا تو یہ لفظ مجہولاً استعمال ہوا ہے یا حذفِ صلہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ حذفِ صلہ سے میری مراد یہ ہے کہ وہاں موحی الیہ کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس لئے ان مقامات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال ان سب استعمالات کی موجودگی میں جبکہ قرآن کریم میں پنسٹھ دفعہ یہ لفظ الی کے صلہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور اس امر کو دیکھ کر احادیث میں بھی جہاں یہ لفظ استعمال ہوا ہے الیٰ کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ لام کا صلہ استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس جگہ لھا سے یہ مراد نہیں کہ زمین کی طرف وحی کی بلکہ لام کے معنی فی کے ہیں یعنی زمین کے حق میں وحی کی اور جس کی طرف وحی ہوئی اس کے ذکر کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ اگر زمین کی طرف وحی کرنا مراد ہوتا تو محاورئہ قرآن و محاورئہ حدیث کو مدنظررکھتے ہوئے اس جگہ اوحی الیھا آتا اوحی لھا نہ آتا۔ یہ بات ہر شخص جو قرآن کو پڑھنے والا ہے جانتا ہے کہ قرآن کریم رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا ہے اس لئے گو یہاں موحی الیہ محذوف ہے اور یہ ذکرنہیں کیا گیا کہ وحی کس کو ہوئی۔ لیکن اس بات کا سمجھنا مشکل نہیں کہ اس جگہ رسول کریم ﷺ کا ہی ذکر کیا جارہا ہے اور بان ربک اوحی لھا کے معنے یہ ہیں کہ اوحی اللہ الی محمد ﷺ لھا۔ یعنی ان عظیم الشان تغیرات پر تمہیں کوئی استعجاب نہیں ہونا چاہئے ۔یہ سب تغیرات اس لئے ہوں گے کہ اس کے ان تغیرات کے متعلق پہلے سے قرآن کریم میںپیشگوئی موجود ہوگی ۔ گویا یہ آیت زمانہ نزول کے لوگوں کو مدنظر رکھ کر ہے۔ بان ربک اوحی لھا اللہ تعالیٰ اس بارہ میں پہلے سے خبر دے چکا ہے اور اس نے کہہ دیا ہے کہ ایسا ضرور ہوکر رہے گا۔ پس چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ذریعہ یہ خبر دے چکا ہے کہ اخرجت الارض اثقالھا ۔ اہل زمین اپنے گند ظاہر کردیں گے اس لئے اب یہ اٹل فیصلہ ہے اور خدائی تقدیر کاہاتھ اس کو بہرحال پورا کرکے رہے گا۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کسی بات کی اپنی وحی کے ذریعہ خبر دے دے اور اسے کسی مامور کی سچائی کی علامت قرار دے دے تو پھر وہ کبھی ٹلا نہیں کرتی۔ بہت سے خلاف ِ فطرت جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ جب انسان ان کی شناخت پر غور کرتا ہے تو اس کا دل اسے ملامت کرتا ہے اور وہ ان کے ارتکاب سے رک جاتا ہے۔ مگر فرماتا ہے ان افعال سے زمانہ کبھی نہیں رکے گا کیوںکہ ہمارے علم غیب نے اس زمانہ کے لوگوں کے انجام عمل کا احاطہ کیا ہواہے۔ اگر اس کے خلاف انہوں نے کرنا ہوتا تو ہم وہ بات بتادیتے مگر آئندہ زمانہ کی نسلیں ہمیں ان اعمال پر تلی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ پس بے شک ان حالات کی خبریں سن سن کر تمہیں یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہوگی تو تم حیران ہوگے کہ ایسا کس طرح ہوگا۔ یہ تو فطرت کے خلاف باتیں ہیں اور جب لوگ ان کاارتکاب کرنے لگیں گے تو ان کی فطرت خودبخود مقابلہ کرے گی اور انہیں سختی سے اس گناہ کے سیلاب میں بہنے سے روک لے گی۔ مگر یہ درست نہیں وہ کبھی نہیں رکیں گے کیونکہ بان ربک اوحی لھا یہ خبر قرآن کریم میں آچکی ہے اور قرآن کریم عالم الغیب ہستی کی کتاب ہے وہ وہی کچھ آئندہ زمانہ کے متعلق لکھتا ہے جو ہوناہوتا ہے۔ اگر لوگوں نے ان حالات سے پھر جانا ہوتا تو اللہ تعالیٰ سے یہ امر بھی مخفی نہ رہتا اور وہ اس کا حال بھی بیان کردیتا۔
اوحی کا صلہ ہمیشہ الٰی استعمال ہوتا ہے مگر اس جگہ اوحی کے بعد لام استعمال کیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہوا ہے؟ مفسرین نے اس کا یہ جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ بعض قبائل عرب میں الی کی بجائے لام بھی بطور صلہ استعمال ہوتا ہے جیسے وحیت الیہ اور اوحیت الیہ کی بجائے بعض عرب وحیت لہ اور اوحیت لہ بھی استعمال کرلیتے ہیں۔ مگر ہم اس توجیہ کو درست تسلیم نہیں کرسکتے۔ قرآن کریم میںپینسٹھ جگہ وحی کا لفظ آیا ہے اور ہر جگہ الیٰ کا صلہ ہی استعمال ہوا ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ یہاں الی کی بجائے لام کے صلہ کا جواز نکالا جائے۔ بعض اور مفسرین نے اس جواب کی غلطی کو محسوس کیا ہے اور انہوں نے اس کے معنے یہ کئے ہیں کہ اوحی الی الملائکۃ لھا یعنی جس کی طرف وحی کی گئی ہے اس کے ذکر کو محذوف تسلیم کیا ہے ۔ یہ توجیہ درست ہے لیکن میرے نزدیک یہاں اوحی الی الملئکۃ مراد نہیں بلکہ اوحی الی رسول اللہ ﷺ مراد ہے اور معنے یہ ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو وحی کے ذریعہ یہ خبر دے رکھی ہیں اس لئے اب ایسا ضرور ہوکر رہے گا۔ یہ بات رک نہیں سکتی۔ ہم نے اپنی وحی میں یہ خبر دے دی ہے کہ اس زمانہ میں جب مسیح موعود آئے گا اور جو ہمارے رسول کی دوسری بعثت کا زمانہ ہوگا یہ علامات رونما ہوں گی۔ پس بے شک اور باتیں ٹل سکتی ہیں مگر یہ علامت کبھی ٹل نہیں سکتی کیونکہ جس چیز کو کسی مامور کی شناخت کے متعلق بطور علامت قرار دے دیا جائے وہ کبھی ٹلا نہیں کرتی۔ اس اصول کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنی کتب میں بیان فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ بے شک انذاری خبریں ٹل جایا کرتی ہیں مگر وہ انذاری خبریں جو اللہ تعالیٰ کے کسی مامور کی علامت کے طور پر بیان ہوئی ہوں کبھی نہیں ٹلتیں۔ بلکہ وہ اسی طرح پوری ہوتی ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے خیر کے امور پورے ہوتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کے ایک اور معنے بھی فرمایا کرتے تھے جو میں نے خود آپ کی زبان سے سنے ہیں ۔ آپ فرماتے تھے بان ربک اوحی لھا سے مراد یہ ہے کہ بان ربک اوحی الی امام الزمان یعنی جس کی طرف وحی کی گئی ہے اس سے مراد آنحضرت ﷺ بھی ہیں اور امام الزمان بھی جس کی طرف اس وقت کہ ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت قریب ہوگا دوبارہ وحی کی جائے گی۔ آپ کا مطلب یہ تھا کہ دنیا میں مختلف قسم کے زلازل کے ظہور کے متعلق جو خبریں آپ کو دی گئی تھیں ان کی طرف بھی اس میں اشارہ ہے۔ چونکہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ زلازل پہلے کیوں نہیں آئیں گے اس وقت کیوں آئیں گے جب مسیح موعودؑ کی بعثت ہوگی؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ زلازل اس وقت اس لئے آئیں گے کہ یہ اس کی سچائی کی علامت قرار دیئے گئے ہیں۔ چنانچہ جب مسیح موعود آئے گا اور اس علامت کے ظہور کا زمانہ قریب آجائے گا اللہ تعالیٰ پھر اپنا الہام نازل کرکے مسیح موعودؑ کو خبر دے گا کہ لو وہ زمانہ اب آگیا جس کی ہم قرآن کریم میں خبر دے چکے تھے۔ اس طرح تکرار الہام نہ صرف زمانۂ زلازل کے قرب پر دلالت کرے گا بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہوگا کہ یہی وہ مامور ہے جس کی سچائی ثابت کرنے کیلئے زلا زل کا ظہور ہورہا ہے۔ پس اس وحی کے بعد دنیا میں زلازل کا سلسلہ اس لئے شروع ہوگا تا کہ یہ زلازل امام زمان کی سچائی کا ثبوت قرار پائیں اور دنیا غور کرے کہ اگر وہ خداتعالیٰ کا مامور نہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ جب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ بڑے بڑے زلازل سے دنیا کا نقشہ پلٹنے والا ہے اس نے ان تاریک دنوں میں خبریں دی اور پھر وہ حرف بحرف پوری ہوگئیں۔ غرض موحی الیہ دونوںہیں۔ رسول کریم ﷺ بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ۔ رسول کریم ﷺ وحی اول کے لحاظ سے اور مسیح موعودؑ وحی ثانی کے لحاظ سے۔ اذا زلزلت الارض زلزالھا و اخرجت الارض اثقالھا کی پہلی وحی چونکہ رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی اور درحقیقت آپ کی صداقت کے اظہا رکیلئے ہی قیامت تک تمام نشانات کا ظہور ہوگا اور جو شخص بھی لوگوں کی ہدایت کیلئے کھڑا ہوگا وہ بہرحال آپ کا غلام ہوگا۔ اس لئے اول مصداق اِس آیت کے رسول کریم ﷺ ہیں مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس زلزلہ عظمہ کے اظہار کو روکے رکھا جب تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر دوبارہ الہام نازل نہ ہوا تا وہ بات پوری ہو جو لم یکن الذین کفروا من اھل الکتب والمشرکین منفکینحتی تاتیھم البینۃ رسول من اللہ میں بیان کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ اپنے مثیل کے ذریعہ ایک اور زمانہ میں بھی ظاہر ہوں گے اور دوبارہ لوگوں کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نجات دیں گے اس لئے اس آیت کے دوسرے مصداق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا ہوا تھ اکہ یہ زلزلہ اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک دوباراس شخص پر وحی نازل نہ ہوجائے جو مثیل ہوگا۔ آنحضرت ﷺ کا اور جس کی سچائی کیلئے اسے علامت قرار دیا گیا ہے۔ پس موحی الیہ آنحضرت ﷺ بھی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی۔ اور بان ربک اوحی لھا میں ان دونوں وحیوں کی طرف اشارہ ہے۔ وحی اول کی طرف اس لئے کہ وہ ہادی ہے اور وحی ثانی کی طرف اس لئے کہ وہ مثال کے رنگ میں وہی جلوہ دوبارہ ظاہر کرنے والی ہے جو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ظاہر ہوا۔
وحی کیا شے ہے اس بارہ میں لغت کے حوالہ جات تو اوپر لکھے جاچکے ہیں اب میں اس کی حقیقت شرعی کے متعلق کچھ روشنی ڈالنا چاہتاہوں۔ اس بارہ میں بہترین اجمالی حوالہ پرانے علماء کے خیالات کے متعلق ایک لغت ہی کی کتاب سے ملتا ہے اور وہ لغات قرآن کی کتاب مفرداتِ راغب ہے۔ اس میں لکھا ہے اصل الوحی: الاشارۃ السریعۃ وحی کے اصل معنے اشارہ کے ہوتے ہیں مگر ایسا اشارہ جو جلدی کیاجائے۔ اشارے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو آہستگی اور آرام سے کیاجاتا ہے مگر ایک ایسی جلدی سے کیا جاتا ہے کہ وہ شخص تو سمجھ جاتا ہے جس کو ہم نے اشارہ کیا ہوتا ہے مگر دوسرے لوگ نہیں سمجھ سکتے۔ پس مفردات والے کہتے ہیں کہ وحی کے حقیقی معنے الاشارۃ والسریعۃ کے ہیں۔ اشارہ سریعہ میں درحقیقت اخفاء شامل ہوتا ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ بات کرتے وقت جلدی سے آنکھ مارجاتے ہیں یا انگلی سے اشارہ کردیتے ہیں یا سر کو کسی خاص طریق پر حرکت دے دیتے ہیں جس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے مقصد کا اظہار اس شخص پر کردیں جسے بات بتانا چاہتے ہیں اور دوسرے لوگوں کا ہمارے اشارہ کا علم نہ ہو۔ گویا محض اشارہ اور اشارہ سریعہ میں یہ فرق ہوتا ہے کہ اشارے سے تو صرف اتنی غرض ہوتی ہے کہ دوسرے شخص کو بات سمجھادی جائے خواہ اس کا کسی اور کو علم ہو یانہ ہو۔ مگر اشارۃ سریعہ سے یہ غرض ہوتی ہے کہ اشارہ بھی ہوجائے اور مخاطب کے سوا دوسروں کو اس کا علم بھی نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی حقیقۃ الوحی اور بعض دوسرے کتب میں جہاں وحی کی تشریح فرمائی ہے وہاں اپنے تجربہ کی بنیاد پر لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہایت سرعت کے ساتھ نازل ہوتا ہے۔ یہی حقیقت قرآن کریم نے بھی بیان کی ہے اس لئے کہ قرآن کریم فرماتا ہے ہے لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ و قرانہ (القیامۃ ۱ع۱۷) چونکہ رسول کریم ﷺ پر وحی الٰہی سرعت کے ساتھ نازل ہوتی تھی اس لئے اپ جلدی جلدی اس کو دہراتے جاتے تھے تاکہ الفاظ پر قابو پاسکیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دیتا ہے کہ ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تیرا الہام شرعی ہے اور شرعی الہام بھولا نہیں کرتا کیونکہ اگر وہ بھولے تو وحی متلو ادھوری رہ جائے۔ اس آیت کے بے شک اور بھی معنے ہیں مگر ایک ظاہری معنے یہ بھی ہیں کہ رسول کریم ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی وحی چونکہ سرعت کے ساتھ نازل ہوتی تھی اس لئے آپ بھی جلدی جلدی اس کلام کو اپنی زبان سے دہرانے لگتے۔ پس قرآن کریم بھی اس حقیقت کو درست تسلیم کرتا ہے کہ وحی الٰہی جلدی جلدی نازل ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنے تجربہ کی بنیاد پر یہی تحریر فرمایا ہے کہ وحی الٰہی میں بہت بڑی شان اور عظمت اور سرعت پائی جاتی ہے۔ لغوی معنے بھی وحی کے اشارۃالسریعہ کے ہیں جو اس کیفیت پر روشنی ڈالتے ہیں جو نزول وحی کے وقت ہوتی ہے۔پھر کہتے ہیں وذالک یکون بالکلام علیٰ سبیل الرمز والتعریض کبھی یہ اشارہ کلام کے ذریعہ ہوتا ہے لیکن اس میں کوئی تعریض یا رمزپائی جاتی ہے کھلا اور واضح کلام نہیںہوتا وقد یکون بصوت مجرد ون الترکیب اور کبھی صاف آوازاس میں پائی جاتی ہے اور الفاظ نہیں ہوتے وباشارۃ بعض الجوارح اور کبھی بعض جوارح کے اشاروں سے کام لیا جاتا ہے جیسے بعض لوگ آنکھ سے اشارہ کر تے ہیں بعض انگلی سے اشارہ کرتے ہیں بعض سر کو ہلا کر اشارہ کردیتے ہیں وبالکتابۃ اور کبھی کتابت بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ مفردات والے یہاں وحی الٰہی کا ذکر نہیں کررہے بلکہ وحی کے صرف لغوی معنے بیان کررہے ہیں کہ وہ کیا کیا ہیں۔ پھر لکھتے ہیں وقد حمل علی ذالک قولہ تعالی عن زکریا۔ انہی معنوں پر قرآن کریم کی اس آیت کو محمول کیا گیا ہے جو حضرت زکریا علیہ السلام کے متعلق آتی ہے کہ فخرج علی قومہ من المحراب فاوحی الیھم ان سبحوا بکرۃ و عشیا یعنی قرآن کریم میں جویہ آتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام محراب سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے گئے اور ان کی طرف وحی کی کہ سبحوا بکرۃ و عشیا تم صبح اور شام خداتعالیٰ کی تسبیح کرتے رہو تاکہ مجھ سے خداتعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ جلد پورا ہو۔ چونکہ اس وقت حضرت زکریا کو خاموش رہنے کا حکم تھا اس لئے حضرت زکریا کی باتوں میں جو ذکر قرآن کریم میں آتا ہے اس کے متعلق علماء میں اختلاف ہے۔ چنانچہ قد قیل رمز بعض لوگوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ انہوں نے اشارہ سے اپنی قوم کو سمجھایا کہ تم صبح و شام خداتعالیٰ کی تسبیح کرو تاکہ اس کا فضل نازل ہو۔ و قیل اعتبار اور بعض نے اس کے معنے اعتبار کے کئے ہیں۔ اعتبار کے معنے لغت میں کسی کے قول کا فعل سے استنباط کرنے اور عقلی طور پر ایک نتیجہ اخذ کرنے کے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے معنے یہ ہوں گے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کی عملی حالت اور ان کے خشوع و خضوع اور تضرع اور زاری اور توجہ الی اللہ کو دیکھ کر قوم نے خودبخودیہ نتیجہ نکال لیا کہ ہمیں یہی حکم دے رہے ہیں کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید میں مشغول ہوجائیں۔ وقیل کتب اور بعض لوگوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ انہوںنے لکھ کر اپنی قوم کو نصیحت کی۔ جیسے مجمع البحار کے حوالہ میں یہ ذکر آچکا ہے کہ چونکہ انہوںنے نذر مانی ہوئی تھی کہ میں نے لوگوں سے بولنا نہیں اس لئے انہوں نے اپنے ہاتھ سے زمین پر یہ الفاظ لکھ دئے کہ سبحوا بکرۃ و عشیا۔ وعلی ھذہ الوجوہ قولہ اور انہی وجود کے مطابق اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے کہ وہ کذالک جعلنا لکل نبی عدوا شیاطین الانس والجن یوحٰ بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا۔ اسی طرح ہم نے ہر نبی کیلئے کوئی نہ کوئی دشمن مقرر کیا ہے۔ چنانچہ انسانوں اور جنوں میں سے جو شیطان ہیں ان میں سے بعض بعض کی طرف ملمع سازی اور دھوکا و فریب کی باتیں وحی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہاں یوحی بعضھم الی بعض کے یا تو یہ معنے ہیں کہ وہ رمز کرتے ہیں یا یہ معنے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو لکھتے ہیں اور یا پھر یہ معنے ہیں کہ وہ مختلف ذرائع سے اپنے مقصد و مدعا کو ان تک پہنچادیتے ہیں۔ و قولہ و ان الشیاطین لیوحون الی اولیاء ھم فذالک بالوسواس المشار الیہ بقولہ من شرالوسواس الخناس و بقولہ علیہ السلام و ان للشیطن لمۃ الشر اور یہ جو قرآن کریم میں آیت آتی ہے کہ ان الشیاطین لیوحون الی اولیاء ھم شیطان اپنے اولیاء کی طرف وحی کرتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ وہ وسوے ڈال کر ان کے دلوں کو خراب کرتے ہیں۔ اسی کی طرف اس آیت میںاشارہ پایا جاتا ہے کہ من شر الوسواس یعنی خناس کے وساوس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہئے۔ اور خناس وہی ہوتا ہے جو مختلف قسم کے وساوس و شبہات کے ذریعہ خدا اور اس کے رسول کے خلاف دل میں باتیں پیدا کردے۔ وبقولہ علیہ السلام و ان للشیطن لمۃ الشر اسی طرح رسول کریم ﷺ نے اپنے اس قول میں شیطانی وساوس سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے کہ ان للشیطن لمۃ الشر شیطانی تحریکوں سے تمہیں ہر وقت اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ وہ نقصان کا موجب ہوتی ہیں۔ و یقال للکلمۃ الالھیۃ التی تلقی الی انبیاء ہ و اولیاء ہ وحی اور وہ کلمہ الٰہیہ جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اولیاء کی طرف نازل کیا جاتا ہے اسے بھی وحی کہتے ہیں۔ ان الفاظ میں مفردات والوں نے ایک بہت بڑے مسئلہ کا حل کردیاہے جو موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کیلئے ٹھوکر کا موجب بنا ہوا ہے۔ میں نے دیکھا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق ہماری جماعت کی طرف سے یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر وحی نازل فرمائی تو مسلمان شور مچادیتے ہیں کہ یہ بالکل غلط ہے۔ رسول کریم ﷺ کے بعد وحی الٰہی کہاںنازل ہوسکتی ہے۔ حالانکہ مفردات والے لکھتے ہیں ویقال للکمۃ الالہیۃ تلقی الی انبیاء ہ و اولیاء ہ وحی۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے اولیاء کی طرف جو کلام نازل ہوتا ہے اسے وحی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ہم تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی تسلیم کرتے اور آپ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم آپ کے الہامات کو وحی قرار دیں۔ لیکن مفردات والوں نے تو اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو بھی جو ولی پر نازل ہوتا ہے وحی قرار دیا ہے اور درحقیقت یہی بات صحیح اور درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کلام نازل ہو خواہ وہ نبی پر نازل ہو یا ولی پر بہرحال وحی ہوتاہے۔ اب تو اس قسم کی بحثیں کم ہوگئی ہیں لیکن جب میں بچہ تھا اس وقت مخالفین کی طرف سے بڑے بڑے اشتہارات اس مضمون کے شائع ہوا کرتے تھے کہ مرزا صاحب نعوذ باللہ کافر اور بے دین ہیں کیونکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ لوگوں میں اس وقت مخالفت کا ایک عجیب طوفان بپا تھا اور وحی کے لفظ کے استعمال پر مخالفین کی طرف سے بڑے بڑے فتوے دئے جاتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کافر اور بے دین قرار دیا جاتا تھا۔ مگر امام راغب اس جگہ کھلے الفاظ لکھتے ہیں کہ جوکلام اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور اس کے ولیوں پر نازل ہوتاہے اس کلام کو بغیر کسی امتیاز کے وحی کہا جاتا ہے۔ پھر فرماتے ہیں وذالک اضرب اور یہ کلام کئی اقسام کا ہوتا ہے۔ حسب ما دل علیہ قولہ وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورایٔ حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنہ مایشاء انہ علی حکیم (شوریٰ:۶ع۵)۔ اسی کی طرف قرآن کریم یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ ماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورایٔ حجاب او یرسل رسولا یعنی کسی بندے کی یہ شان نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرے سوائے ان تین صورتوں کے کہ یا اس پر وحی نازل کرتا ہے یا اس سے من ورایٔ حجاب کلام کرتا ہے یا اس کی طرف رسول بھیجتا ہے۔ فیوحی باذنہ ما یشاء اور وہ فرشتہ رسول اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اس انسان کی طرف وہ وحی نازل کرتا ہے جس کا نازل کرنا اللہ تعالیٰ کے منشاء میں داخل ہوتا ہے یا جس حد تک اللہ تعالیٰ کوئی کلام اتارنا چاہتا ہے اس حد تک اپنے رسول کے ذریعہ اتار دیتا ہے۔ انہ علی حکیم یقینا اللہ تعالیٰ بہت بلند شان اور بڑی حکمت والا ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں وذالک ما برسول مشاھد۔ اس وحی کے وقت یا تو ایسا رسول سامنے آتا ہے کہ تری ذاتہ اس کی ذات نظر آتی ہے۔ ویسمع کلامہ اور وہ جو کچھ بات کرتا ہے وہ سنی جاتی ہے۔ کتبلیغ جبریل علیہ السلام للنبی فی صورۃ معینۃ۔ جیسے رسول کریم ﷺ پر جبریل ایک خاص شکل میں ظاہر ہوکر خداتعالیٰ کا پیغام پہنچایا کرتا تھا۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو اس وقت غار حرا میں رسول کریم ﷺ نے جبریل کو دیکھا اور انہوں نے آپ سے کلام کیا۔ پھر فترۃ کے بعد جب دوسری وحی نازل ہوئی تو اس وقت بھی رسول کریم ﷺ نے جبریل کو دیکھا مگر غار حرا میں نہیں بلکہ زمین اور آسمان کے درمیان بہت بڑی کرسی پر بیٹھے ہوئے۔ اسی طرح بخاری اور بعض دوسری کتب احادیث میں ذکر آتا ہے کہ بعض دفعہ جبریل ظاہر ہوئے اور انہوں نے رسول کریم ﷺ سے اس طرح بالمشافہ باتیں کیں جس طرح ایک دوست دوسرے دوست سے ہمکلام ہوتا ہے۔ غرض جبریل کسی نہ کسی صورت میں متشکل ہوکر رسول کریم ﷺ کے پاس آتے تھے ۔ اسی لئے مفردات والوں نے یہ نہیں کہا کہ فی الصورۃ المعینۃ اپنی معین صورت میں جبریل ظاہر ہوتا ہے بلکہ فی صورۃ معینۃ کہا ہے یعنی کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ امتیاز انہوں نے اس لئے کیا ہے کہ درحقیقت جبریل کی کوئی ایک شکل نہیں۔ حدیثوں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا رہا ہے۔ جب حرا میں رسول کریم ﷺ پر ظاہر ہوا تو ایک شاب کی شکل میں ظاہر ہوا۔ جب فترۃ وحی کے بعد رسول کریم ﷺ نے جبریل کو دیکھا تو وہ اتنی مہیب شکل میں ظاہر ہوا تھا کہ رسول کریم ﷺ گھبراگئے تھے۔ وہ شکل اس قدر وسیع طور پر آسمان پر پھیلی ہوئی تھی کہ سارے آسمان پر محیط تھی۔ لیکن مدینہ منورہ میں جب جبریل ظاہر ہوا تو اس کی شکل آپ کے ایک خوبصورت صحابی دحیہ کلبی سے ملتی تھی۔ غرض مختلف اوقات میں مختلف شکلوں اور صورتوں میں جبریل کا ظاہر ہونا صاف بتاتا ہے کہ جبریل کی کوئی ایک شکل نہیں۔ جبریل تو ایک فرشتہ ہے اور اس لحاظ سے وہ ویسا ہی ہے جیسے اور فرشتے ہیں مگر جب وہ کسی بندے پر ظاہر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے کلام کے مطابق ایک مثالی شکل اختیار کرلیتاہے۔
جب جبریل ایک خوبصورت شاب کی شکل میں آپ پر ظاہر ہوا اس وقت اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی استمالت قلب کو مدنظر رکھ کر ایسا کیا کیونکہ اس وقت وحی کے نزول کا ابتداء تھا اور اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ رسول کریم ﷺ کو اس بات کا یقین دلائے کہ ڈر اور فکر کی بات نہیں۔ اس نے اپنے قرب کیلئے آپ کو مخصوص کرلیا ہے اور وہ آئندہ اپنے بہت بڑے فضلوں کا آپ کو مورد بنانے والا ہے۔ پس چونکہ رسول کریم ﷺ کی دلجوئی اور آپ سے اپنی محبت کا اظہار اللہ تعالیٰ کے مدنظر تھا اس لئے اس نے جبریل کو ایک نوجوان کی شکل میں آپ پر ظاہر فرمایا۔ اس کے بعد جب جبریل ایک نہایت ہی مہیب اور خوفناک شکل میں آپ کودکھائے گئے تو اس میں حکمت یہ تھی کہ ابتدائے وحی پر چھ ماہ کا عرصہ گذرچکا تھا اور رسول کریم ﷺ نے خداتعالیٰ کا کلام اہل مکہ تک پہنچانا شروع کردیا تھا گو زیادہ زور کے ساتھ تبلیغ بعدمیں شروع کی گئی ہے مگر انفرادی رنگ میں رسول کریم ﷺ نے نزول وحی کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں کو سنانا شروع کردیا تھا اور اہل مکہ میں مخالفت اور تکذیب کے آثار شروع ہوگئے تھے۔ اسی وجہ سے جبریل آپ کو ایک سخت مہیب شکل میں دکھائے گئے تا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کا اعلان ہو کہ ان انذار کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ وہ مہیب شکل رسول کریم ﷺ کیلئے نہیں تھی بلکہ اس آنے والی وحی کے پیش خیمہ کے طور پر تھی جس میں مخالفین کی تباہی اور بربادی کی خبریں دی جانے والی تھیں۔ اس کے بعد مدینہ منورہ میں جب رسول کریم ﷺ نے وحیہ کلبی کی صورت میں جبریل کو دیکھا تو اس میں حکمت یہ تھی کہ اگر کسی اجنبی کی شکل آپ کو دکھائی جاتی تو صحابہؓ کے دل میں شبہ گزرتا کہ ممکن ہے یہ کوئی اور شخص ہو جسے ہم نہ جانتے ہوں باہر سے آیا ہو اور رسول کریم ﷺ سے باتیں کرکے چلا گیا ہو۔ مگر وحیہ کلبی کی شکل میں جبریل کے آنے پر ان کے دلوں میں اس قسم کا کوئی وسوسہ پیدا نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ وحیہ کلبی ان کا ہمسایہ تھا اور اگر ان کے دلوں میں کوئی شبہ پید اہوتا کہ یہ جو شکل ہم نے دیکھی ہے وحیہ کلبی کی تھی یا جبریل کی تو وہ فوراً وحیہ کلبی سے پوچھ سکتے تھے کہ میاں تم کل رسول کریم ﷺ کی مجلس میں آئے تھے یا نہیں اور جب وہ کہتا کہ میں تونہیں ایا تھا تو انہیں یقین آجاتا کہ جو کچھ رسول کریم ﷺ نے فرمایاتھا وہی درست تھا اور درحقیقت جبریل ہی وحیہ کلبی کی شکل میں آپ کے پاس آیا تھا۔ پس صحابہؓ کو اس بات کا یقین دلانے کیلئے کہ جبریل ہی رسول کریم ﷺ کے پاس آرہا ہے اللہ تعالیٰ اسے وحیہ کلبی کی شکل میںنازل فرماتا تاکہ جب رسول کریم ﷺ صحابہؓ کو یہ بتائیں کہ ذالک جبریل۔ یہ جبریل تھا جو ابھی تمہارے سامنے میرے ساتھ باتیں کرتا رہا تو ان کے دلوں میں کوئی شبہ پید انہ ہو کہ یہ تو وحیہ کلبی تھا۔ وہ فوراً سمجھ جاتے کہ رسول کریم ﷺ جو کچھ فرمارہے ہیں درست ہے۔ کیونہ وحیہ کلبی تو اس وقت فلاں جگہ موجود ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک ہی شخص ایک ہی وقت میں دو مختلف مقامات پر اپنے جسم کے ساتھ دیکھا جاسکے۔ مثلاً بشارت الرحمن صاحب ہمارے کالج کے پروفیسر ہیں۔ بشارت کے معنے خوشخبری کے ہیں اور رحمن اس ذات کو کہتے ہیں جو انسان پر بار بار رحم کرنے والی ہے۔ اگر وہ کسی شخص کو چلتے چلتے عین بیداری کی حالت میں نظر آجائیں اور اس کا قلب محسوس کرے کہ یہ درحقیقت ایک کشفی نظارہ ہے جو مجھے دکھایا گیا ہے تو اس کے بعد اپنے مزید اطمینان اور تسلی کیلئے اگر وہ بشارت الرحمن صاحب کا واقف ہے تو ان سے دریافت کرے گا کہ کیا کل ڈاکخانہ کے پاس یا فلاں جگہ فلاں وقت آپ ہی مجھے ملے تھے؟ وہ کہیں گے کہ میں تو آپ سے نہیں ملا۔ میں تو اس وقت ڈاکخانہ میں گیا ہی نہیں اپنے گھر میں بیٹھا تھا۔ اس بات سے اسے یقین آجائے گاکہ وہ جو میرے دل میں احساس تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کشفی رنگ میں ایک نظارہ دکھایا گیا ہے بالکل درست ہے۔ اگر جسمانی نظارہ نہ ہوتا تو انہیں بھی پتہ ہوتا کہ میںفلاں دن اور فلاںوقت میں اپنے دوست سے ملا تھا۔ اسی طرح اگر جبریل وحیہ کلبی کی شکل میں نہ آتے بلکہ کسی اور اجنبی انسان کی شکل اختیار کرکے رسول کریم ﷺ کے پاس آجاتے ، آپ سے مصافحہ بھی کرتے، باتیں بھی کرتے اور پھر چلے جاتے اور جب رسول کریم ﷺ فرماتے کہ یہ جبریل تھا جو مجھ سے باتیں کرتا رہا تو صحابہؓ کے دلوںمیںیہ خیال گزرسکتا تھا کہ ہم یہ کس طرح مان لیں۔ ممکن ہے کوئی اجنبی آدمی ہو اور اسے جبریل کہہ دیا گیا ہو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ رسول کریم ﷺ کی ہر بات پر ایمان رکھتے تھے اور آپ جو کچھ بھی فرماتے وہ شرح صدر کے ساتھ اس کی تصدیق کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ایک یقین وہ ہوتا ہے جو تمام مادی ثبوتوں کے ساتھ ہوتا ہے اور ایک یقین وہ ہوتا ہے جو سابق یقین کی وجہ سے پید اہوتا ہے۔ اگر رسول کریم ﷺ کسی اجنبی انسان کے متعلق بھی فرمادیتے کہ ذالک جبریل۔ وہ جبریل تھا جو میرے پاس آیا تو چونکہ وہ رسول کریم ﷺ کی ہر بات پر یقین رکھتے تھے وہ اسے بھی مان لیتے مگر وحیہ کلبی کی صورت میںجبریل کا آنا اور پھر صحابہؓ کا خود وحیہ کلبی سے پوچھ کر تسلی کرسکنا کہ بتائو تم تو کل رسول کریم ﷺ کی مجلس میں نہیں آئے تھے اور اس کا انکار کرنا ایک ایسا یقین تھا جو صرف سابق ایمان کی وجہ سے ان کو حاصل نہیں ہوسکتا تھا بلکہ یہ ایک زائد ثبوت تھا اس بات کا کہ ان کے حواس بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جو کچھ فرمایا وہ بالکل درست ہے۔ گویا وہ رسول کریم ﷺ کی اس بات کی تصدیق کرسکتے تھے اس وجہ سے بھی کہ چونکہ رسول کریم ﷺ ایسا کہتے ہیں اس لئے ٹھیک ہے اور اس وجہ سے بھی کہ چونکہ ہمارے اپنے حواس بھی اس کی سچائی کی شہادت دیتے ہیں اس لئے یہ ٹھیک ہے اور اس وجہ سے بھی کہ چونکہ وحیہ کلبی بھی تصدیق کرتا ہے اس لئے یہ ٹھیک ہے۔ غرض تینوں مقامات پر تین الگ الگ مقاصد کے ماتحت جبریل رسول کریم ﷺ پر ظاہر ہوا۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
بعض لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ تم کہتے ہو اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے کیا اس کی زبان ہے جس سے وہ بولتا ہے۔ ہم کہتے ہیں اس کی زبان تو نہیں مگر اس میں قدرت موجود ہے اور وہ اپنی قدرت سے بغیر زبان کے کلام پیدا کردیتا ہے۔ یہی حال جبریل کا ہے وہ ملک ہے مگر ہر موقع کے مناسب حال مختلف شکلیں بدل لیتا ہے۔ کبھی ماں کی شکل اختیارکرلیتا ہے، کبھی بیٹی کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی بیٹے کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی بیوی کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی مرد کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی انسانی شکل کے علاوہ کبوتر یا کسی اور جانور کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اور شکلوں کے اس اختلاف سے یہ بیان کرنا مقصود ہوتا ہے کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا جو کلام نازل ہورہا ہے اس کی کیا شان ہے یا تمہارے دوستوں کیلئے اس کی کیا شان ہے یا تمہارے دشمنوں کیلئے اس کی کیا شان ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو صورتوں میں الہام نازل ہوتا ہے۔ ایک الہام ان فقرات کی صورت میں نازل ہوتا ہے جو جبریل کی زبان سے بندہ سنتا ہے اور ایک الہام خود جبریل کی شکل میں ہوتا ہے۔ اگر وہ مہیب اور خوفناک شکل میں آسمان اور زمین کے درمیان ایک بہت بڑی کرسی پر بیٹھا ہوا رسول کریم ﷺ کو نظر آیا تو اس کے معنے یہ تھے کہ وہ کلام جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والا ہے اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اب ساری زمین پر قضا جاری کرنے والا ہے۔ ساری دنیا کی قضا اب اس کلام کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہی عمل خداتعالیٰ کے ہاں مقبول ہوگا جو اس کلام کے مطابق ہوگا۔ اور وہ عمل جو اس کلام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسان بجالائے گا اسے ردّ کردیا جائے گا۔ جب رسول کریم ﷺ کی استمالت قلب مراد تھی اس وقت جبریل آپ کو غار حرا میں ایک خوبصورت نوجوان کی شکل میں نظر آیا اور جب صحابہؓ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ یہ جبریل ہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو تو اس وقت جبریل ایک صحابی کی شکل میں نظر آیا تاکہ وہ خود بھی پتہ لگاسکیں کہ رسول کریم ﷺ سے جو شخص باتیں کررہا تھا وہ وحیہ کلبی نہیں بلکہ جبریل ہی ہے۔ غرض جبریل ہمیشہ فی صورۃ معینۃ نازل ہوتا ہے نہ کہ فی الصورۃ المعینۃ اپنی ذاتی شکل و صورت میں۔
پھر کہتے ہیں واما بسماع کلام من غیر معاینۃ کسماع موسی کلام اللہ کبھی ایساہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک کلام تو نازل ہوتا ہے مگر جبریل اس کے ساتھ نہیں آتا۔ کان میں آواز آتی ہے انسان اس آواز کو سنتا اور سمجھا ہے مگر کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا۔ واما بالقام فی الروع کما ذکر علیہ السلام ان روح القدس نفث من روعی اور کبھی کوئی بات بطور القاء دل میں ڈال دی جاتی ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ روح القدس نے ایک بات میرے دل میں ڈالی ہے کوئی معین الفاظ نہیں تھے جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئے ہوں۔ ورنہ آپ ان کا بھی ذکر فرماتے یا کہتے کہ جبریل نے مجھے آکر یوں کہا ہے۔ آپ نے ان میں سے کوئی بات نہیں کہی صرف اتنا فرمایا ہے کہ ان روح القدس نفث فی روعی روح القدس نے میرے قبل میں فلاں بات ڈالی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی کا یک طریق یہ بھی ہے کہ دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات ڈال دی جاتی ہے (مگر اس سے یہ مراد ہے کہ انسان پر ساتھ یہ انکشاف ہوتا ہے کہ جبریل یا کوئی دوسرا فرشتہ یا خداتعالیٰ بذات خود باہر سے یہ بات میرے دل میں ڈال رہا ہے اور خود میرے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہورہا)۔ واما بالھام نحو اوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ اور یا کبھی کلام الٰہیہ کا نزول الہام کے ذریعہ سے ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے ام موسیٰ کی طرف وحی کی۔ واما بتسخیر نحو قولہ اوحی رب الی النحل اور کبھی وحی تسخیر ہوتی ہے یعنی طبعی طور پر کسی چیز کی فطرت میں ایک بات پیدا کردی جاتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی۔ اس جگہ وحی سے مرادوحی لفظی نہیں بلکہ وحی تسخیر ہے۔ وحی تسخیر سے یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عربی اردو یا انگریزی زبان میں کوئی کلام نازل ہوتا ہے۔ یہ بھی مراد نہیں کہ تمثیلی زبان میں کوئی نظارہ دکھایا جاتا ہے اور یہ بھی مراد نہیں کہ جبریل بھیجا جاتا ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض کام بعض چیزوں کی فطرت میں داخل کردیتا ہے اور وہ مجبور ہوتی ہیں کہ اسی رنگ میں کام کریں جس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو مسخر کردیا ہے۔ جیسے سورج مسخر ہے، ایک مقررہ منزل کی طرف چلنے پر اور زمین مسخر ہے سورج کے گرد گھومنے پر۔ اسی طرح کوئی پودا پھول پیدا کرنے پر مسختر ہے۔ گویا فطرت میں جو بات ودیعت کردی جائے اسے وحی تسخیر کہتے ہیں۔ اسی قسم کی وحی مکھی کو ہوئی ہے او بمنام یا رئویا اور خواب کی حالت میں کوئی نقشہ انسان کو نظر آجاتا ہے کما قال علیہ السلام انقطع الوحی و بقیت المبشرات جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ وحی منقطع ہوگئی اور مبشرات باقی رہ گئے ہیں اور مبشرات سے مراد کیا ہے رؤیا المومن ۔ مومن جو سچے رئویا دیکھتا ہے ان کو مبشرات کہا جاتا ہے۔ فالالھام والتسخیر والمنام دل علیہ قولہ الا وحیا۔ پس الہام تسخیر اور منام پر قرآن کریم کی آیت میں الا وحیا کے جو لفظ استعمال ہوئے ہیں وہ دلالت کرتے ہیں وسماع الکلام غیر معائنۃ دل علیہ قولہ و من ورایٔ حجاب ۔اور وہ کلام جس کی کانوں میں تو آواز آتی ہے مگر کوئی شکل نظر نہیں آتی اس پر اللہ تعالی کا یہ قول دلالت کرتاہے کہ او من ورایٔ حجاب ۔ و تبلیغ جبریل فی صورۃ معینۃ دل علیہ قول او یرسل رسولا فیوحی۔ اور وحی کی یہ صورت ہے کہ بعض دفعہ جبریل اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتا ہے اس پر یہ آیت شاہد ہے کہ او یرسل رسولا یعنی اللہ تعالیٰ اس رنگ میں بھی وحی نازل کرتا ہے کہ بعض دفعہ اپنی کسی فرشتے کو بھیج دیتا ہے جو واسطہ بن کر اس کا پیغام بندے کو پہنچاتا ہے۔ وحی الٰہی کے متعلق مفردات والوں کی مذکورہ بالا تشریح کے متعلق میں یہ امر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک اس میں بعض غلطیاں ہیں جو زمانہ نبوت سے بعد کی وجہ سے ان سے ظاہر ہوئی ہیں اور جن کا اس بحث کے ضمن میں مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔
سب سے پہلی اور بڑی غلطی تو یہ ہے کہ وحی الٰہی کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے دو مختلف مضامین کو مخلوط کردیا ہے۔ وہ بتانا یہ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کلام نازل ہوتا ہے اس کی کیا قسمیں ہیں۔ مگر اس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس وحی کو بھی بیان کردیا ہے جو مکھی کی طرف ہوئی۔ حالانکہ یہ بالکل واضح بات تھی کہ وہ یہ بحث نہیں کررہے تھے کہ لغت کے لحاط سے وحی کے کیا معنے ہیں یا وحی کا اطلاق کن کن معانی پر ہوسکتا ہے۔ بلکہ وہ بتانے یہ لگے تھے کہ بشر پر جو وحی الٰہی نازل ہوتی ہے اس کی کیا قسمیں ہیں۔ مگر ان کا ذکر کرتے ہوئے اس وحی کا بھی انہوں نے ذکر کردیا جو مکھی کی طرف ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے بحث یہ اُٹھائی تھ کہ ویقال للکلمۃ الالھیۃ التی تلقی الی انبیاء ہ و اولیاء ہ وحیکہ ان کلماتِ الٰہیہ کو بھی وحی کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے اولیاء کی طرف نازل ہوتے ہیں وذالک اضرب اور اس کی کئی قسمیں ہیں۔ حسب ما دل علیہ قولہ وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا الی قولہ باذنہ مایشاء جیسا کہ خداتعالیٰ کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ کسی انسان سے اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرتا مگر اس رنگ میں یہ اس پر براہِ راست وحی نازل کرتا ہے یا اس سے وراء حجاب گفتگو کرتا ہے یا اس کی طرف کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ اس وحی کا ذکر رہاہے جو بشر پر نازل ہوتی ہے مگر اس کی تشریح کرتے ہوئے مفردات والے لکھتے ہیں واما بتسخیر نحو قولہ واوحی ربک الی النحل یا وحی تسخیر ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی۔ جب اس جگہ اس وحی کا ذکر ہورہا تھا جو بشر پر نازل پر ہوتی ہے تو غیر بشر کی وحی کا اس تشریح میں ذکر ہی کس طرح آسکتا تھا۔ پس پہلی غلطی تو یہ ہے کہ آیت اور لغت کو انہوں نے مخلوط کردیا ہے۔ بیشک لغت کے لحاظ سے یہ بات صحیح ہے کہ وحی کی یک قسم وحی تسخیر بھی ہے جیسا کہ شہد کی مکھی کی طرف وحی ہوئی مگر ماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا میں بشر کا ذکر ہے غیر بشر کا ذکر نہیں۔ مگر تشریح کرتے ہوئے وہ مکھی کا ذکر بھی لے آئے اور ان کے ذہن پر آیت قرآنی کی تشریح کی بجائے لغت غالب آگئی ۔ انہیں یہ خیال نہ رہا کہ یہاں اس وحی کا ذکر ہے جو بشر کی طرف ہوتی ہے۔ اس وحی کا ذکر ہی نہیں جو غیر بشر کی طرف ہو۔ اس لئے وحی تسخیر کا اس دوران میں کوئی ذکر ہی نہیں آسکتا تھا۔
دوسری غلطی یہ ہے کہ وہ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ذالک اما برسول تشاھد تری ذاتہ یا تو یہ کلام کسی رسول کے ذریعہ آتا ہے جس کی شکل سامنے نظر آتی ہے و یسمع کلامہ اور اس کی آواز بھی سنی جاتی ہے واما بسماع کلام من غیر معائنۃ یا بغیر کسی چیز کے دکھائی دینے کے محض آواز آجاتی ہے۔ کسماع موسی کلام اللہ جیسے موسیٰؑ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا۔ واما بالقاء فی الروع یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات دل میں ڈال دی جاتی ہے مگر اس کے بعد کہتے ہیں واما بالھام نحو و اوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ یا یہ کلام الہام کے ذریعہ نازل ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے ام موسیٰ کی طرف وحی کی۔ جب اللہ تعالیٰ کے کلام کی ایک وہ قسم بھی آچکی جس میں جبریل کا نزول ہوتا ہے، وہ قسم بھی آچکی ہے جس میں آواز سنائی دیتی ہے، وہ قسم بھی آچکی جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بات دل میں ڈال دی جاتی ہے تو پھر الہام کونسا باقی رہا جس کا وہ علیحدہ ذکر کررہے ہیں اور جس کی مثال میں انہوں نے ام موسیٰ کا واقعہ پیش کیا ہے۔ یہ صاف بات ہے کہ جبریل کے ذریعہ جو کلام آتا ہے وہ بھی الہام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر آواز آتی ہے تو وہ بھی الہام ہوتا ہے اور یہی الہام تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو ہوا مگر انہوں نے اما کہہ کر ایک اور شق قائم کردی ہے کہ وحی کی ایک قسم الہام بھی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو الہام ہوا کہ ان ارضعیہ حالانکہ یہ بات ان کی پہلی بیان کردہ قسموں میں شامل ہے کوئی علیحدہ بات نہیں جسے زائد طور پر اما کہہ کر بیان کرنے کی ضرورت ہوتی۔ اس موقعہ پر یا تو انہیں یہ بتانا چاہئے تھا کہ وحی اور چیز ہوتی ہے اور الہام اور چیز۔ اس لئے میں الہام کا علیحدہ ذکر کررہا ہوں اور الہام اور وحی میں یہ فرق ہوتا ہے مگر انہوں نے کوئی فرق نہی ںکیا اور بلاوجہ ایک علیحدہ شق اما کہہ کر قائم کردی حالانکہ یہ پہلے مضمون سے کوئی مغائر مضمون نہیں ہے۔
اگر کہا جائے کہ الہام کے معنے ان کے نزدیک ’’درد دل انداختن‘‘ کے ہوتے ہیں یعنی وہ بات جو دل میں ڈال دی جائے اسے الہام کہتے ہیں اور جو کلام الفاظ کی شکل میں نازل ہو اسے وحی کہتے ہیں۔ اسی لئے انہوںنے الہام کا علیحدہ ذکر کیاہے تو یہ بات بھی غلط ہے۔ کیونکہ وہ اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ اما بالقاء فی الروع کما ذکر علیہ السلام ان روح القدس نفث فی روعیکہ وحی بعض دفعہ القاء فی الروع کی صورت میں بھی ہوتی ہے۔ جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ روح القدس نے یہ بات میرے دل میں ڈال دی ہے۔ جب القاء فی الروع کا پہلے ذکر آچکا ہے تو اس کے بعد امابالھام نحو و اوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ کہنا بتاتا ہے کہ ان کا یہ منشاء نہیں ہوسکتا کہ الہام سے مراد درد دل انداختن ہے کیونکہ یہ مضمون پہلے آچکا ہے۔
میرے نزدیک تو انہوں نے بھول کر دوبارہ اما بالھام نحو و اوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ الخ لکھ دیا ہے۔ چنانچہ مجمع البحار والوں نے کہا ہے کہ مفردات راغب کی یہ بات غلط ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں واوحینا الی ام موسی وحی اعلام لا الہام لقولہ تعالیٰ انا رادو ہ الیک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف یہ وحی جو نازل ہوئی تھی کہ انا رادوہ الیک ہم اسے الہام نہیں کہہ سکتے کیونکہ الہام تو درد دل انداختن کو کہتے ہیں اور یہاں صاف الفاظ موجود ہیں کہ انا رادوہ الیک ہم اسے تیری طرف واپس لوٹائیں گے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ دل میں کوئی بات ڈالی جائے مگر اس کے الفاظ معین صورت میں نظر نہیں آتے۔ الفاظ کا معین صورت میں نازل ہونا بتارہا ہے کہ الہام نہیں اعلام ہے ۔ اعلام کے معنے اظہار کے ہوتے ہیں اور الہام سابق مفسرین کے نزدیک درد دل انداختن کو کہا جاتا ہے۔ یہ بھی عربی زبان کا ایک کمال ہے کہ حروف کے معمولی فرق کے ساتھ معانی میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر ایک آدمی سے کوئی بات کہی جائے تو اسے اعلان کہتے ہیں ۔ چونکہ میم پہلے آتا ہے اور نون بعد میںاس لئے ایک آدمی سے تعلق رکھنے والی بات کو اعلام کہا جاتا ہے اور زیادہ آدمیوں سے تعلق رکھنے والی بات کو اعلان کہا جاتا ہے۔ بہرحال مجمع البحار والوں نے ان الفاظ میں مفردات کی ہی تردید کی ہے کہ اس میں جو لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو الہام ہو یہ صحیح نہیں۔ انہیں وحی اعلام ہوئی تھی کیونکہ اس کے معین الفاط تھے۔ وہ الہام نہ تھی کیونکہ الہام تو درد دل انداختن کو کہا جاتا ہے۔ میرے نزدیک مفردات والوں نے بھول کر الہام کا دوبارہ ذکر کردیا ہے۔ کیونکہ قلبی الہام کا وہ اس سے پہلے خود ذکر کرچکے ہیں یا ممکن ہے ان کا مفہوم کچھ اور ہو ، مبہم عبارت کی وجہ سے اس کا مطلب صحیح سمجھ میں نہ آتا ہو۔
الغرض وحی کے معنے کرتے ہوئے امام راغب صاحب نے جو یہ تشریح کی ہے کہ فالالھام والتسخیر والمنام دل علیہ قول الا وحیا کہ الہام (جس کے معنے سابق علماء کے نزدیک درد دل انداختن کے ہیں) اور تسخیر اور منام یہ وحی کے ماتحت آتے ہیں اور وراء حجاب سے مراد انہوں نے یہ لیا ہے کہ خداتعالیٰ خود کلام کرے لیکن نظر نہ آئے اور یرسل رسولا کا مطلب یہ لیا ہے کہ خداتعالیٰ خود کلام نہ کرے بلکہ جبریل کے واسطہ سے اپنا کلام بھجوائے اور جبریل نظر نہ آئے۔ میرے نزدیک ان کی یہ تشریح درست نہیں کیونکہ نہ ہر وحی قرآنی کے وقت جبریل نظر آتے تھے نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سارا کلام من وراء حجاب تھا۔ پھر ان کا من وراء حجاب سے یہ مراد لینا کہ خداتعالیٰ نظر نہ آئے تو یہ تعریف تو ہر وحی پر چسپاں ہوگی خواہ کسی قسم کی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الواء ہے۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو منام کا نام وحی رکھتے ہیں مگر ساتھ ہی رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بھی نقل کرتے ہیں کہ انقطع الوحی و بقیت المبشرات وحی منقطع ہوگئی اب صرف مبشرات باقی رہی گئے ہیں اور مبشرات سے مراد وہ سچے رئویا ہیں جو مومنوں کو ہوتے ہیں۔ اگر منام کا نام ہی وحی ہے تو پھر یوں کہنا چاہئے تھا کہ انقطع کلام ورایٔ الحجاب الا الوحی۔ اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو پس پردہ ہوا کرتا تھا وہ اب بند ہوچکا ہے اب صرف وحی باقی رہ گئی ہے جس سے مراد خوابیں ہیں۔ پس یہ تشریح جو مفردات والوں نے کی ہے اس قابل نہیں کہ اسے قبول کیاجائے۔
اصل بات یہ ہے کہ الہام کے معنے سمجھنے میں پہلے علماء کو بہت غلط فہمی ہوئی ہے اور اسی بناء پر وہ الہام کی تعریف یہ کرتے رہے ہیں کہ درد دل انداختن۔ ایسی بات جو دل میں ڈال دی جائے اس کو الہام کہتے ہیں۔ حالانکہ الہام اور وحی دونوں ایک ہی چیزیں ہیں اور ان میں کسی قسم کا فرق نہیں۔ یہ صرف صوفیاء کی اصطلاح تھی کہ انہوں نے اس کلام کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نازل ہوتا تھا الہام کہنا شروع کردیا تاکہ لوگ کسی فتنہ میں نہ پڑیں ورنہ الہام اور وحی میں کوئی فرق نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی کئی جگہ الہام کا لفظ استعمال کیا ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ میں اس کلام کو الہام صرف اس لئے کہتا ہوں کہ صوفیاء نے ایک اصطلاح قائم کردی ہے اور لوگوں میں اس اصطلاح کا رواج ہوگیا ہے۔ ورنہ میں اس بات کا قائل نہیں کہ الہام اور چیز ہے اور وحٰ اور چیز۔ جس چیز کا نام لوگ الہام رکھتے ہیں اسی چیز کا نام وحی ہے۔ پس الہام و ہ اصطلاح ہے جو لفظی کلام کے متعلق صوفیاء نے قائم کی ہے ورنہ قرآن کریم میں ہر جگہ وحی کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے الہام کا لفظ صرف ایک جگہ استعمال ہوا ہے اور وہ بھی وحی کے معنوں میں نہیں بلکہ میلانِ طبیعت کے معنوں میں جیسا کہ فرماتا ہے فالھمھا فجورھا و تقوھا (الشمس ۱۶ع۱) اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو برائیوں اور نیکیوں کے متعلق الہام کیا ہے۔ اب اس کے معنے کسی خارجی الہام کے نہیں بلکہ صرف میلانِ طبع کے معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ تسخیر اور میلان میں فرق ہوتا ہے۔ میلان تو اختیاری ہوتا ہے لیکن تسخیر اختیاری نہیں ہوتی بلکہ جس لائن پر کسی چیز کو کھڑا کردیا جائے تو وہ مجبور ہوتی ہے کہ اسی لائن پر کھڑی رہے اور اس سے ذرا بھی اِدھر اُدھر نہ ہو۔ مثلاً مکھی یہ نہیں کرسکتی کہ وہ شہد بنانا چھوڑے دے لیکن انسان کو اختیار ہے کہ چاہے تو تقویٰ اختیار کرے اور چاہے تو فجور کے راستہ پر چل پڑے۔ پس الہام کا لفظ جو مفردات والوں کے استعمال کیا ہے قرآن کریم میں ان معنوں میں استعمال ہی نہیں ہوا جن معنوں میں انہوں نے استعمال کیا ہے اور نہ الہام کا لفظ آیت میں ان معنوں میں استعمال ہوا ہے جو صوفیاء مراد لیتے ہیں۔ یہ لفظ بعد کے زمانہ میں صوفیاء نے لفظی وحی کیلئے ایجاد کیا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے متعلق یہ وضاحت فرمادی ہے کہ جو کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوتا ہے وہی وحی ہے مگر چونکہ لوگوں میں اس کے متعلق الہام کا لفظ رائج ہے اس لئے میں بھی اسے الہام کہہ دیتا ہوں ورنہ الہام اور وحی دونوں مترادف الفاظ ہیں ان میں کوئی فرق نہیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں جو یہ مسئلہ پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنا کلام ملائکہ کے ذریعہ نازل فرماتاہے اس کے یہ معنے نہیں کہ ملائکہ صرف او یرسل رسولا والی وحی کے ساتھ نازل ہوتے ہیں بلا واسطہ وحی کے ساتھ نازل نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کے ہر الہام کے ساتھ ملائکہ کا نزول ہوتا ہے اور کوئی ایک الہام بھی ایسا نہیں ہوسکتا جس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ اس کے ساتھ فرشتے نازل نہیں ہوتے۔ مگر بعض لوگ غلط فہمی سے اس کا یہ مطلب لے لیتے ہیں کہ جبریل ہر الہام کے ساتھ آکر کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے فلاں بات آپ کو پہنچانے کا حکم دیا ہے حالانکہ یہ بات صحیح نہیں۔ ملائکہ کے نزول کے صرف اتنے معنے ہیں کہ ہر الہام فرشتوں کی حفاظت کے ساتھ آتا ہے۔ یہ معنے نہیں کہ ہر الہام کے ساتھ فرشتے آکر یہ کہتے بھی ہیں کہ ہیں فلاں بات پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات اس کی تائید میں موجود ہیں۔ مثلاً ایک الہام میں تو یہ ذکر آگیا کہ جاء نی ائل (تذکرہ ص ۶۰۳)۔ میرے پاس جبریل آیا۔ مگر باقی الہامات کے ساتھ یہ بات بیان نہیں ہوئی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ اس رنگ میں نہیں جس رنگ میں لوگ سمجھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ جب آپ کو یہ الہام ہوا تھا کہ انی مع الافواج اتیک بغتۃ (تذکرہ ص ۵۰۶) تو فرشتوں نے آکر یہ کہا ہو کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ الہام نازل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایسا نہیں ہوا کرتا بلکہ بندہ اس وقت یہ محسوس کیا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست ایک کلام مجھ پر نازل ہورہا ہے مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے اس کلام کے ساتھ حفاظت کیلئے ضرور آتے ہیں۔ عام لوگوں کے الہامات کے ساتھ اس لئے نہیں آتے کہ اگر ان الہامات میں کوئی گڑ بڑ بھی ہوجائے تو پروا نہیں ہوتی لیکن انبیاء یا ان سے اتر کر وہ لوگ جو دنیا کی اصلاح کیلئے کھڑے کئے جاتے ہیںان کے الہامات چونکہ لوگوں کیلئے حجت ہوتے ہیں اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ فرشتوں کی حفاظت میں اتارے جائیں۔ بہرحال الہامات کے ساتھ فرشتوں کا نازل ہونا یہ معنے نہیں رکھتا کہ مثلاً جب آیت الم ذالک الکتب لاریب فیہ اتری تھی تو اس وقت جبریل نے یہ آکر کہا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں یہ آیت آپ تک پہنچائوں۔ ایسا ذکر صرف چند سورتوں کے متعلق آیا ہے۔ مثلا سورۃ البینہ کے متعلق آتا ہے یا یہ آتاہے کہ رمضان المبارک کے ایام میں جبریل آتے اور جس قدر حصہ قرآن نازل ہوچکا ہوتا رسول کریم ﷺ کے ساتھ مل کر اس کا تکرار کیا کرتے۔ مگر ہر الہام کے متعلق نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ احادیث سے کہ جبریل آکر یہ کہتا ہو کہ مجھے خدا نے فلاں بات پہنچانے کا حکم دیا ہے۔ ہاں ہر الہام کے ساتھ حفاظت جبریل ضرور ہوتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ الہام کے وقت چونکہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ایک آواز پیدا کرتا ہے اور اس آواز میں شیطان بھی دخل دے سکتا ہے اس لئے فرشتوں کا ساتھ ہونا ضروری ہوتا ہے تاکہ بندہ کے دل میں وہ اس وحی کی صداقت کے متعلق یقین پیدا کریں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب میں لکھا ہے کہ خواہ مجھے صلیب پر لٹکادیا جائے مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتاکہ وہ کلام جو مجھ پر نازل ہوتا ہے اسی خدا کا کلام ہے جس نے آدمؑ سے کلام کیا، جس نے نوحؑ سے کلام کیا، جس نے ابراہیمؑ سے کلام کیا، جس نے موسیٰؑ سے کلام کیا، جس نے عیسیٰؑ سے کلام کیا اور جس نے سب سے بڑھ کر محمد مصطفی ﷺ سے کلام کیا۔ یہ یقین فرشتوں کی حفاظت کی وجہ سے ہی پید اہوتا ہے مگر عام لوگوں کے الہامات کے ساتھ چونکہ فرشتے نہیں اترتے اس لئے باوجود الہا کے ان کے اندر یقین اور ثبات اور استقلال نہیں پایا جاتا ۔ ہم نے دیکھا ہے بعض لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ خدا نے بتایا ہے کہ آپ سچے ہیں ۔ اس وقت وہ روتے بھی ہیں گڑگڑاتے بھی ہیں اپنے سابق اعمال پر پشیمانی او رندامت کا بھی اظہار کرتے ہیں مگر چند دنوں کے بعد ہی مرتد ہوجاتے ہیں۔ اب جہاں تک ان کی بات کا تعلق ہوتا ہے وہ سچی ہوتی ہیں واقعہ میں انہیں الہام ہوا ہوتا ہے اور اسی کی بناء پر وہ بیعت کیلئے آتے ہیں مگر چونکہ فرشتے ان کے ساتھ نہیں ہوتے ان کے قلب کو وہ ثبات نہیں بخشا جاتا جو انبیاء و اولیاء کے قلوب کو بخشا جاتا ہے اسی لئے وہ تھوڑے سے ابتلاء کو بھی برداشت نہیں کرسکتے اور ٹھوکر کھاجاتے ہیں۔ لیکن نبی کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ پہلے الہام کے ساتھ ہی اس کے دل کو غیرمعمولی ثبات عطا کیاجاتا ہے اور اپنے الہام پر سب سے پہلا ایمان لانے والا خود نبی کا وجود ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر نبی اپنے آپ کو انا اول المسلمین (الانعام ۷ع۲۰) یا انا اول المومنین (الاعراف ۷ع۱۷) قرار دیتا ہے۔ کیونکہ اگر اسے خود یقین نہ ہو تو وہ دوسروں کے دل میں کس طرح یقین پیدا کرسکتا ہے۔ چونکہ پہلا یقین خود نبی کے دل میں پیدا کیا جاتا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ بعد میں ساری دنیا مخالف ہوجاتی ہے اور بعض دفعہ انذاری پیشگوئیاں اپنی مخفی یا ظاہر شرائط کی بناء پر ٹل جاتی ہیں اسے ایک لمحہ بھر کیلئے بھی اپنے الہامات کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب آتھم والی پیشگوئی کی اورمیعاد کے ختم ہونے کا دن آیا تو مجھے وہ نظارہ اب تک یاد ہے کہ آج کل جہاں حکیم مولوی قطب الدین صاحب کا مطب ہے وہاں لوگ جمع ہوئے اور چیخیں مارمار کر دعائیں کرنے لگے کہ الٰہی یہ پیشگوئی ضرور پوری ہوجائے۔ ایک پٹھان عبدالعزیز ہوا کرتا تھا وہ تو دیوار کے ساتھ بے تحاشا اپنا سر مارتا اور کہتا خدایا اب یہ سورج نہ ڈوبے جب تک آتھم نہ مرجائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس کا علم ہوا تو آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ چیخیں مار مار کر انہوں نے آسمان سر پر اٹھالیا ہے اگر جھوٹے ہوں گے تو ہم ہوں گے ان کو کس بات کا فکر ہے۔
اب دیکھو جماعت کے لوگ گھبرارہے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے صرف کلام سنا تھا ملائکہ کے نزول کی وجہ سے جو ثباتِ قلب عطا کیا جاتا ہے وہ ان کو حاصل نہیں تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلب کو غیر معمولی ثبات حاصل تھا اور آپ سمجھتے تھے کہ یہ چیخ و پکار بے معنی بات ہے جس خدا کا کلام مجھ پر نازل ہوا ہے وہ اپنے کلام کو آپ پور اکرے گا اور اگر کسی شرط کی وجہ سے وہ ٹل جائے تب بھی کیا ہوا انذاری پیشگوئیوں کے متعلق جو سنت چلی آرہی ہے بہرحال اسی کے مطابق ہوگا اس لئے گھبراہٹ اور فکر کی کوئی بات نہیں۔
پس اللہ تعالیٰ کے کلام کے ساتھ خواہ وہ بلا واسطہ نازل ہو فرشتوں کا آنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر یہ خیال کرلینا کہ ہر کلام کے ساتھ فرشتہ آکر یہ کہتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاں بات پہنچاتا ہوں بالکل غلط ہے۔ حدیثوں میں بھی صرف پانچ سات ایسی مثالیں مل سکتی ہیں جن میں اتانی جبریل کے الفاظ آتے ہوں مگر اور کسی جگہ یہ ذکر نہیں آتا یا رمضان کے متعلق آتا ہے کہ ان ایام میں جبریل آتے اور رسول کریم ﷺ کے ساتھ مل کر قرآن کریم کی تلاوت کرتے مگر یہ صورت بالکل اور ہے۔ اس میں جبریل کی حقیقت محض ایک سامع کی ہوتی تھی اور جبریل کا آنا اس لئے ضروری تھا کہ رسول کریم ﷺ کیلئے قرآن کریم کا ہرلفظ یاد رکھنا ضروری تھا۔ باقی لوگ اگر قرآن کریم پڑھنے میں کوئی غلطی کرتے تو اور لوگ اس کی اصلاح کرسکتے تھے لیکن اگر رسول کریم ﷺ کوئی غلطی کرتے تو لوگ کس طرح درست کرتے وہ سمجھتے کہ شاید رسول کریم ﷺ پر اسی رنگ میں کلام نازل ہوا ہے یا پہلے کلام میں کوئی تبدیلی ہوگئی ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے جبریل کو سامع بنادیا تاکہ اگر تلاوت میں رسول کریم ﷺ سے کوئی غلطی ہوجائے تو جبریل آپ کو بتادیں اور آپ اس کی اصلاح کرلیں۔ پس یہ صورت بالکل اور ہے اس سے یہ استدلال نہیں ہوسکتا کہ ہر کلام کے ساتھ اس رنگ میں فرشتے کا نازل ہونا ضروری ہے کہ وہ آکر یہ کہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے فلاں بات آپ کو پہنچانے کا حکم دیا ہے۔ ایسا طریق صرف بعض الہامات میں اختیار کیا جاتا ہے باقی الہامات کے ساتھ فرشتوں کا نزول صرف اتنا مفہوم رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام فرشتوں کی حفاظت میں نازل فرماتاہے۔
پھر امام راغب لکھتے ہیں و قولہ ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او قال اوحی الی ولم یوح الیہ شی ء فذالک لمن یدعی شیئا من انواع ما ذکرنہ من الوحی ای نوع ادعاہ من غیر ان حصل لہ۔ یعنی یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر دیدہ دانستہ جھوٹ باندھے یا کہے کہ میری طرف وحی کی گئی ہے۔ حالانکہ اس کی طرف کوئی وحی نہ ہوئی ہو۔ اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ ذالک لمن یدعی شیئا من انواع ما ذکرنہ من الوحی ۔ یہ وعید اس شخص کے بارہ میں ہے جو وحی کے متعلق ہماری بیان کردہ قسموں میں سے کسی شق کے ماتحت آجائے اور دعویٰ کرے کہ مجھ پر فلاں قسم کی وحی نازل ہوتی ہے۔ ای نوع ادعاہ من غیر ان حصل لہ۔ یہ سوال نہیں ہوگا کہ فلاں قسم کی وحی کے متعلق اس نے دعویٰ کیا ہے اور فلاں قسم کی وحی کے متعلق اس نے دعویٰ نہیں کیا۔ اوپر کی بیان کردہ قسموں میں سے خواہ کسی قسم کی وحی کا وہ دعویٰ کرے اور اس کی حالت یہ ہو کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی وحی نازل نہ ہوتی ہو تو بہرحال وہ اس آیت کے ماتحت آجائے گا اور اللہ تعالیٰ کا عذاب اس پر نازل ہوگا۔
یہ ایک نہایت ہی لطیف بات ہے جو مفردات والوں نے بیان کی ہے۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ لغت نے تو وحی کے کئی معنے بیان کئے ہیں جن میں سے بعض ایسے ہیں جن کا وحی الٰہی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او قال اوحی الی ولم یوح الیہ شیء میں کس قسم کی وحی کا ذکر کیا گیاہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں صرف اس وحی الٰہی کا ذکر کیا گیا ہے جس کی مختلف اقسام ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ اگر کسی شخص کا دعویٔ وحی و الہام ان شقوں کے ماتحت نہیں آئے گا تو اس پر اس آیت کا اطلاق بھی نہیں ہوگا۔ یہ آیت صرف اسی شخص پر چسپاں ہوگی جو وحی الٰہی کی بیان کردہ قسموں میں سے کسی قسم کا ادّعا کرتا ہو۔ یہ ایک لطیف نکتہ ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہائیوں کو سخت دھوکا لگا ہے۔ وہ اپنے پاس سے وحی کی ایک تعریف کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں جب بہاء اللہ اس بات کا مدعی تھا کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور تمہارے نزدیک وہ جھوٹ اور افتراء سے کام لے رہا تھا تو اس پر عذاب کیوں نہ آیا۔ حالانہ عذاب صرف اس شخص پر نازل ہوسکتا ہے جو وحی کے متعلق قرآن کریم کی بیان کردہ قسموں میں سے کسی قسم کا دعویٰ کرے نہ یہ کہ خلاف قرآن اورخلافِ اسلام اور خلافِ مذہب وحی کی ایک نئی تعریف کرکے اور اپنے آپ کو اس وحی کا مورد قرار دے کر یہ شور مچانا شروع کردے کہ جب میں اپنے اوپر وحی نازل ہونے کا مدعی ہوں تو مجھ پر عذاب کیوں نہیں آتا۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے مفتری علی اللہ پر عذاب نازل کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے مگر بہرحال یہ عذاب اسی شخص پر نازل ہوسکتا ہے جو اس قسم کی وحی کا دعویٰ کرے جس سے سابق انبیاء کی نبوتیں مشتبہ ہونے لگ جائیں۔ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ مجھ پر اس قسم کی وحی نازل ہوتی ہے جس قسم کی وحی انبیاء سابقین پرنازل ہوا کرتی تھی ۔ جس طرح آدمؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیاتھا یا نوحؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا یا ابراہیمؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا یا موسیٰؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا یا عیسیٰؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا یا محمد رسول اللہ ﷺ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا۔ اسی طرح مجھ سے خداتعالیٰ کلام کرتا ہے اور وہ کلام اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے بھی ویسا ہی ہے جیسے انبیاء کا کلام ہوتا ہے تو پھر بے شک اس کے جھوٹے ہونے کی صورت میں خطرہ ہوسکتا ہے کہ لوگ ٹھوکر نہ کھائیں اور بے شک اس وقت ضروری ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے عذاب سے ہلاک کرے۔ لیکن اگر وحی کی اپنے پا س سے ایک نئی تشریح کرتا ہے اور اس نئی قسم کی وحی کا اپنے آپ کو مورد قرار دیتا ہے تو وہ قرآنی وعید کے ماتحت نہیں آسکتا۔ جیسے بہائیوں کی حالت ہے کہ ان کے نزدیک وحی صرف قلبی خیالات کا نام ہے۔ وہ بہاء اللہ کی نسبت لفظی الہام کے قائل نہیں ہیں الا ماشاء اللہ۔وہ سمجھتے ہیں انسان کے دل میں جو بھی خیال پیدا ہوتا ہے وہ وحی ہوتا ہے۔ یہی حال لاہور کے میاں غلام محمد کا ہے وہ بھی اپنے دل کے خیالات کا نام وحی رکھ لیتے ہیں۔ اب اگر دنیا میں کوئی شخص ایسا ہے جو کہتا ہے کہ میرے دل میں جو بھی خیال اُٹھتا ہے وہ وحی ہے تو اللہ تعالیٰ کو اسے سزا دینے کی کیا ضرورت ہے۔ ہر شخص ایسے مدعی کا پاگل ہونا آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سزا دینے کی تو تب ضرورت محسوس ہو جب کسی کے دعویٔ وحی و الہام سے محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت مشتبہ ہونے لگے یا موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کی وحی کا معاملہ مشتبہ ہونے لگے اور یہ معاملہ اسی وقت مشتبہ ہوسکتا ہے جب کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ مجھ پر اسی رنگ میںکلام نازل ہوتا ہے جس رنگ میں کلام موسیٰؑ پر نازل ہوا۔ یا مجھ پر اسی رنگ میںکلام نازل ہوتاہے جس رنگ میں عیسیٰؑ پر کلام نازلہوا۔ یا مجھ پر اسی رنگ میں کلام نازل ہوتا ہے جس رنگ میں کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر کلام نازل ہوا۔ جب تک کوئی شخص اس قسم کی وحی کا اپنے آپ کو مورد قرار نہیں دیتا اس کے دعویٰ سے کوئی حقیقی خطرہ پیدا نہیں ہوتا۔ پس اس کا لازماً الٰہی گرفت میں آنا بھی ضروری نہیں ہوتا۔ پس مفردات والے کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں تقول اور افتراء علی اللہ سے کام لینے والوں کیلئے جس عذاب کی خبر دی گئی ہے وہ اسی صورت میں نازل ہوسکتا ہے جب کوئی شخص جھوٹے طور پر اس وحی کا دعویٰ کرے جس کے مختلف اقسام کا ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں۔ ان میں سے خواہ کسی قسم کا وہ مدعی بن جائے اللہ تعالیٰ اسے یقینا عذاب دے گا۔ مثلاً وہ یہی کہے کہ مجھ سے جبریل اسی طرح کلام کرتا ہے جس طرح اس نے محمد رسول اللہ ﷺ سے کلام کیا تھا یا کہے کہ الفاظ معینہ مجھ پر نازل ہوتے ہیں یا یہ کہے کہ حالت منام میں مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف باتیں بتائی جاتی ہیں اور واقعہ یہ ہو کہ نہ جبریل اس سے کلام کرتا ہو نہ الفاظ معینہ اس پر نازل ہوتے ہوں نہ تمثیلی نظاروں میں اسے غیب کی خبروں سے مطلع کیاجاتا ہو تو ایسا شخص یقینا قرآنی وعید کے ماتحت آئے گا۔ لیکن اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میرے دل میں جو بھی خیال اُٹھتا ہے وہ وحی ہے تو چونکہ یہ قرآنی وحی کی قسموںمیںشامل نہیں اورچونکہ اس طریق سے نہ کسی نبی کی نبوت مشتبہ ہوتی ہے اور نہ کسی دانا شخص کو دھوکا لگ سکتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کو اسے عذا ب دینے کی ضرورت بھی نہی ہوتی۔ہر انسان اپنی عقل سے کام لے کر فوراً فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ پاگل ہے یا شرارتی۔ اس میں دھوکا لگنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ ہاں اگر وہ یہ کہے کہ مجھ پر جبریل نازل ہوتا ہے اور وہ مجھے اللہ تعالیٰ کا کلام پہنچاتا ہے یا کہے کہ خداتعالیٰ میرے کانوں پر یا میری زبان پر معین الفاظ میں اپنا کلام نازل کرتا ہے یا حالت منام میں غیب کی خبروں سے اطلاع دیتا ہے تب بے شک اس پر عذاب نازل ہوگا۔ یہ بہت عمدہ استدلال ہے جو مفردات والوں نے کیا ہے۔
پھر لکھتے ہیں یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لاالہ الا انا فاعبدون (انبیاء ۲ع۲) ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہمیشہ اس کی طرف یہ وحی نازل کرتے رہے کہ سوائے میرے اور کوئی خدا نہیں تم ہمیشہ میری ہی عبادت کیاکرو۔ فھذا الوحی ھو عام فی جمیع انواعہ و ذالک ان معرفۃ وحدانیۃ اللہ تعالی و معرفۃ وجوب عبادتۃ لیست مقصورۃ علی الوحی المختص باولی الاعزم من الرسل بل یعرف ذالک بالعقل والالھام کما یعرف بالسمع فاذا القصد من الایۃ تنبیہ انہ من المحال ان یکون رسولہ لا یعرف وحدانیۃ اللہ و وجوب عبادتہ۔ یعنی اس آیت میں جو وحی کا لفظ ہے اس سے لفظی وحی مراد نہیں بلکہانبیاء کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جو توحید کا مادہ رکھا ہوا ہوتا ہے وہ مرادہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس فطرتی مادہ کے مطابق ہر نبی کو یہ علم ہوتا ہے کہ میں نے اللہ تعالی کی ہی عبادت کرنی ہے اور کسی کی عبادت نہیں کرنی۔ گویا ان کے نزدیک اس جگہ وحی سے مخصوص وحی مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ہر نبی کی فطرت میں یہ مادہ رکھ دیا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور شرک کے کبھی قریب بھینہ جائے۔ مگرمیرے نزدیک یہ معنے بالکل غلط ہیں۔ اگر توحید کے متعلق اللہ تعالیٰ کو اپنے انبیاء کی طرف مخصوص وحی نازل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہی فطرتی مادہ کافی ہوتا جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف س عطا کیاجاتا ہے تو رسول کریم ﷺکی طرف کیوں ایسی بیسیوںآیات نازل ہوئی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا مسئلہ بڑے زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے؟ یہ امر ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کبھی شرک نہیں کیا۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ مشرکین مکہ میں سے بعض آدمیوں نے آپ کے سامنے کچھ کھانا رکھا مگر چونکہ وہ کھانا بتوں کے چڑھاوے کا تھا آپ نے اس کے کھانے سے انکار کردیا اور زید بن عمرو کی طرف سرکادیا جو حضرت عمرؓ کے چچازاد بھائی تھے اور اس وقت آپ کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ مگر انہوں نے بھی وہ کھانا نہ کھایا بلکہ قریش کو مخاطب کرکے کہا کہ ہم بتوں کے چڑھاوے کا کھانا نہیں کھایا کرتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ ابتداء سے ہی توحید کے قائل تھے اور شرک کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے مگر اس کے باوجود قرآن کریم میں توحید کا مضمون آیا ہے۔ قرآن کریم کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ توحید کے مضامین سے بھرا پڑا ہے اور اس میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا ذکر آتا ہے۔ پس یہ معنے جو مفردات والوں ے کئے ہیں صحیح نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا مادہ پیدا کردیا جاتا ہے کہ وہ طبعی طور پر شرک سے متنفر ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی طرف توحید کے متعلق کسی وحی کے نازل کرنے کی ضرورت ہوتی۔ باوجود اس کے کہ وہ ذاتی طور پر توحید کے قائل ہوتے ہیں شرک سے متنفر ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے سامنے سربسجود ہونے کو جائز نہیں سمجھتے پھر بھی ان کی طرف توحید کے متعلق وحی نازل کی جاتی ہے اور قرآن کریم میں اس کی بیسیوں مثالیں ملتی ہیں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں وقولہ تعالی واذ اوحیت الی الحواریین فذالک وحی بواسطۃ عیسی علیہ السلام۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ اوحیت الی الحواریین۔ میں نے حواریوں کی طرف وحی کی اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر حواری کو رات کے وقت الگ الگ وحی ہوئی تھی کہ اُٹھ میاں! ہمارے نبی کی مدد کر۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وحی ہوئی اور انہوں نے وہ وحی حواریوں تک پہنچادی یہ با ت واقعہ میں درست ہے اور اس آیت کا یہی مطلب ہے۔ و اوحینا لیھم فعل الخیرات فذالک وحی الی الامم بواسطۃ الانبیاء۔ اور یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ ہم نے ان کی طرف وحی کی کہ وہ نیک کام کریں یہ وحی امتوں کی طرف ان کی انبیاء کے واسطہ سے تھی۔ میرا خیال ہے کہ اس موقعہ پر مفردات والوں نے قرآن کریم کو کھول کر نہیں دیکھا ورنہ وہ ایسا نہ لکھتے۔ انہوں نے الیھم کے لفظ سے یہ سمجھ لیا کہ اس سے تمام بنی نوع انسان مراد ہیںحالانکہ یہ درست نہیں۔ یہ آیت سورئہ انبیاء میں آتی ہے اور وہاں حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ واوحینا لیھم فعل الخیرات و اقام الصلوٰۃ و ایتاء الزکوۃ و کانوا لنا عابدین (الانبیاء ۵ع۵) ہم نے ان کی طرف وحی کی کہ وہ نیک کام کریں۔ نمازوں کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں وکانوا لنا عابدین اور وہ لوگ ہمارے عبادت گزار بندے تھے۔ پس اس جگہ عام لوگوں کاذکر نہیں بلکہ صرف حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کا ذکر ہے مگر انہوں نے ھم کی ضمیر کی وجہ سے یہ خیال کرلیا کہ اس سے عامۃ المسلمین مراد ہیں۔ پھر یہ بھی صحیح نہیں کہ اس سے مراد صرف وہ وحی ہے جو انبیاء کے واسطہ سے امتوں سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ یہ احکام ایسے ہیں جو انبیاء کے ساتھ بھی تعلق رکھتے ہیں۔ کیا انبیاء کو فعل الخیرات کاحکم نہیں ہوتا یا انبیاء کو اقامۃ الصلوٰۃ کا حکم نہیں ہوتا یا انبیاء کو ایتاء الزکوٰۃ کا حکم نہیں ہوتا؟ جب انبیاء کے ساتھ بھی یہ احکام تعلق رکھتے ہیں تو ان کا یہ کہنا درست نہ رہا کہ اس سے صرف وہ وحی مراد ہے جو انبیاء کے واسطہ سے امتوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہوتی ہے۔
پھر لکھتے ہیں ومن الوحی المختص بالنبی علی السلام اتبع ما اوحی الیک من ربک ان اتبع الا مایوحی الی۔ وحی کی ایک قسم وہ ہے جو رسول کریم ﷺ کی ذات کے ساتھ مختص تھی جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اتبع مااوحی الیک من ربک (الانعام ۱۹ع۱۴) تیری طرف جو وحی نازل کی گئی ہے اس کی اتباع کر یا قرآن کریم میں آتا ہے ان اتبع الا ما یوحی الی (الانعام ۱۱ع۵) میں تو اسی بات کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کے ذریعہ نازل کی جاتی ہے۔ مگر یہ معنے بھی صحیح نہیں۔ رسول کریم ﷺ پر جو وحی نازل ہوتی تھی وہ سب کیلئے تھی۔ صرف آپ کی ذات کے ساتھ وہ مخصوص نہیں تھی وقولہ و اوحینا الی موسی و اخیہ فوحیہ الی موسی بوساطۃ جبریل و وحیہ تعالیٰ الی ھارون بوساطۃ جبریل وموسی۔ اور یہ جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کی طرف وحی کی فوحیہ الی موسی بوساطۃ جبریل۔ پس موسیٰ ؑ کی طرف اللہ تعالیٰ کی جو وحی نازل ہوتی تھی وہ جبریل کی وساطت سے نازل ہوتی تھی۔ ووحیہ الی ھارون بوساطۃ جبریل و موسی لیکن ہارون کی طرف اللہ تعالیٰ کی جو وحی ہوتی تھی وہ جبریل اورموسیٰؑ دونوں کی وساطت سے ہوتی تھی۔ یعنی کبھی موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی کو ہارون کی وحی بھی قرار دے دیا جاتا تھا اورکچھ وحی حضرت ہارونؑ پر بھی براہ راست نازل ہوتی تھی۔ یہاں مفردات والوں نے ایک لطیف نکتہ بیان کیا ہے جو پیغامیوں کے ردّ میں بہت کام آسکتاہے۔
پیغامیوں کی طرف سے ہمیشہ یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ نبی کسی کا متبع نہیں ہوتا۔ میں نے اس کے جواب میں انہیں بارہا کہا تھا کہ تمہاری یہ بات بالکل غلط ہے تم حضرت ہارون علیہ السلام کی طرف دیکھو وہ نبی تھے مگر باوجود نبی ہونے کے حضر ت موسیٰ علیہ السلام کے تابع تھے۔ پس تمہاری یہ بات درست نہیں کہ نبی کسی کا تابع نہیں ہوسکتا۔ اگر درست ہوتی تو حضرت ہارونؑ موسیٰؑ کے کس طرح متبع ہوجاتے۔ ہارون تو موسیٰؑ کے اس قدر متبع تھے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پہاڑ پر گئے اور ان کی قوم شرک میں مبتلا ہوگئی تو وہ سخت ناراضگی اور غضب کی حالت میں واپس آئے اور حضرت ہارون علیہ السلام سے نہایت سختی کے ساتھ کہا کہ افعصیت امری (طٰہٰ ۱۴ع۵) کیا میرے صریح حکم کی اس طرح خلاف ورزی کی جاتی ہے؟ اگر وہ متبع نہ ہوتے تو حضرت موسیٰؑ ان پر کس طرح خفا ہوسکتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خفا ہونا اور ان سے جواب طلب کرنا بتاتا ہے کہ وہ موسیٰؑ کے تابع تھے۔ پس یہ صحیح نہیں کہ نبی کسی کا تابع نہیں ہوسکتا۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہارونؑ موسیٰؑ کے تابع نہیں تھے تو دونوں پر وحی کس طرح نازل ہوتی تھی؟ اس کے جواب میں غیر مبائعین یہ کہا کرتے ہیں کہ دونوں پر برابر وحی نازل ہوتی تھی۔ جو وحی موسیٰ پر ہوتی تھی وہی وحی ہارونؑ پر بھی نازل کردی جاتی تھی۔ تورات بھی دونوں پر اتری تھی۔ ادھر موسیٰ پر تورات کا نزول ہوتا تھا اور ادھر ہارون پر تورات کا نزول ہوتا تھا۔ یہ بات اتنی احمقانہ ہے کہ اسے سن کر حیرت آتی ہے کہ ایک ہی وقت ایک کلام دو مختلف انسانوں پر بغیر کسی حکمت کے نازل کیا جاتا ہو۔ گویا نعوذباللہ خداتعالیٰ کو شبہ تھا کہ ایسا نہ میں کسی ایک کی طرف وحی نازل کروں تو وہ دوسرے کو جھوٹ بول کر کچھ اور بتادے۔ اس لئے خداتعالیٰ کو یہ احتیاط کرنی پڑی کہ ادھر موسیٰ پر وہ کلام نازل کرتا اور ادھر ہارون پر نازل کرتا تاکہ اگر موسیٰ جھوٹ بولے تو ہارون پکڑ لے اور ہارون جھوٹ بولے تو موسیٰ پکڑلے۔ مگر مفردات والوں نے اس مسئلہ کو بالکل صاف کردیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں جو یہ آیت آتی ہے کہ اوحینا الی موسیٰ و اخیہ ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کی طرف وحی کی اس سے کیا مراد ہے؟ آیا یہ مراد ہے کہ موسیٰ کو الگ وحی کی اور ہارون کو الگ۔ تورات ادھر موسیٰ پر نازل کی جاتی اور ادھر ہارون پر۔ یا اس سے کچھ اور مراد ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس سے مرا یہ ہے کہ موسیٰ کی طرف جو وحی ہوتی تھی وہ جبریل کے واسطہ سے تھی یعنی موسیٰ پر جبریل کی حفاظت میں وحی نازل ہوتی تھی۔ اس کے بعد موسیٰ وہ بات ہارون تک پہنچادیتے تھے اور موسیٰ کی معرفت اس الہام کا ہارون تک پہنچ جانا ہی ہارون کی وحی تھا۔ مگر چونکہ ہارون خود بھی نبی تھے اس لئے کبھی کبھی انہیں اپنے طور پر بھی الہام ہوجاتا تھا۔ مگر وہ الہامات جو شریعت اور احکام کے ساتھ تعلق رکھتے تھے وہ براہِ راست موسیٰ کو ہی ہوتے تھے۔ اور پھر موسیٰ علیہ السلام ان احکام کو حضرت ہارونؑ تک پہنچاتے تھے۔ گویا ہارون موسیٰ کو یہ کہنے کا حق نہیں رکھتے تھے کہ مجھے آج فلاں وحی ہوئی ہے۔ آپ اس کے مطابق عمل کریں۔ ہاں موسیٰ یہ حق رکھتے تھے کہ ہارون کو اللہ تعالیٰ کی وحی سے باخبر کریں اور انہیں اس کے مطابق عمل کرنے کی تاکید کریں۔ البتہ ہارون چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اس لئے بعض دفعہ ان پر بھی وحی نازل ہوجاتی تھی مگر ایسی ہی جس کا شریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ آخر وحی کی صرف اتنی ہی غرض تو نہیں ہوتی کہ اس میں شریعت کے احکام بیان کئے جائیں۔ بلکہ وحی اس لئے بھی نازل ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے اپنی محبت اور پیار کا اظہار کرنا چاہتا ہے، اس کے ایمان کو ترقی دینا چاہتا ہے، اس کے عرفان اور یقین میں زیادتی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پس ہارون چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اس لئگ بعض دفعہ ان پر بھی اس قسم کی وحی نازل ہوجاتی تھی جو غیرتشریعی ہوتی اور جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنی محبت اور پیار کا اظہار کرتا۔ مگر بہرحال شرعی وحی صرف موسیٰ پر نازل ہوتی تھی اور حضرت موسیٰ وہ وحی ہارون کو سنادیتے۔
غرض مفردات والوں نے اس آیت کی تشریح میں تابع اور متبوع کا فرق بیان کردیا ہے اور وہ مسئلہ جس میں ہمارا پیغامیوں سے دیر سے نزاع چلا آرہا ہے اس کا نہایت عمدگی کے ساتھ فیصلہ کردیا ہے۔
و قولہ اذ یوحی رب الی الملئکۃ انی معکم فذالک وحی الیھم بوساطۃ اللوح والقلم ۔ اور یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ تیرا رب ملائکہ کی طرف وحی کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ انی معکم میں تمہارے ساتھ ہوں۔یہ وحی ان کی طرف لوح و قلم کے واسطہ سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں فیما قیل یعنی بعض لوگوں کا یہی خیا ل ہے مجھے تو اس عقیدہ سے اتفاق نہیں مگر پرانے مفسرین کا یہی خیال تھا کہ خداتعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو حکم دیا اور اس نے لوح پر وہ سب کچھ لکھ دیا جو دنیا میںہونے والا تھا۔ اب ملائکہ جو کچھ پہنچاتے ہیں وہ اسی لوح سے ماخوذ ہوتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک وحی کا پہلا نزول قلم پر ہوا۔ قلم سے لوح پر لکھا گیا اور پھر لوح سے ملائکہ اخذ کرتے اور اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اس کے احکام اور پیغام دنیا میں پھیلاتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ عقیدہ ایسا ہی ہے جس کی رسول کریم ﷺ کی بعض احادیث سے تردید ہوتی ہے۔ مثلاً حدیثوں میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو سب سے پہلے جبریل کو کہتا ہے کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں اس کے بعد جبریل اور فرشتوں کو اطلاع دیتا ہے۔ وہ فرشتے اور فرشتوں کو خبر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے یہ بات تمام فرشتوں میں پھیل جاتی ہے اور اس شخص کی لوگوں میں مقبولیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر لوح پر ہی سب کچھ لکھا ہوا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کو جبریل سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی وہ خودبخود لوح سے تمام حالات معلوم کرسکتے ہیں۔ بہرحال یہ پرانے مفسرین کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنی وحی قلم پر نازل کی، قلم سے لوح پر لکھا گیا اور لوح سے فرشتے پڑھ پڑھ کر بندوں پر وحی نازل کرتے ہیں۔
وقولہ و اوحی فی کل سماء امرھا فان کان الوحی الی اھل السماء فقط فالموحی الیھم محذوف ذکرہ کانہ قال اوحی الی الملئکۃ لان اھل السماء ھم الملئکۃ و یکون کقولہ اذ یوحی ربک الی الملئکۃ و ان کان الموحی الیہ ھی السموت فذالک تسخیر عند من یجعل السماء غیر حی و نطق عند من جعلہ حیا۔ اور یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ اوحی فی کل سماء امرھا اللہ تعالیٰ نے ہر سماء میں وحی کے ذریعہ اپنا حکم بھیج دیا۔ اگر اس آیت میں سماء سے اہل سماء مراد لئے جائیں تو چونکہ اہل سماء ملائکہ ہوتے ہیں اس لئے عربی زبان میں اوحی فی کل سماء امرھا کا ترجمہ یوں ہوگا کہ اوحی الی الملئکۃ امورا متعلقا بالسماء۔ اس نے ملائکہ کی طرف ان امور کے بارہ میں وحی کی جن کا آسمان کے ساتھ تعلق تھا۔ اس مفہوم کی صورت میں قرآن کریم کی یہ آتی بھی اس کے ہم معنی سمجھی جائے گی کہ اذ یوحی ربک الی الملئکۃ لیکن اگر کوئی شخص موحیٰ الیہ سے مراد سماوات لے تو ان کے متعلق یہ بھی کلام ہوسکتا مگر اس صورت میں حذفِ اضافت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بلکہ سماوات کو موحٰی الیہ تسلیم کرنے کی صورت میں اس کے دو معنے ہوں گے۔ وہ جن کے نزدیک سماوات کوئی زندہ وجود نہیں۔ وہ تو اس سے تسخیر مراد لیتے ہیں یعنی اوحی فی کل سماء امرھا کامطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کاموں کے متعلق سماوات کو مسخر کردیا ہے اور اسی تسخیر کو وحی قرار دیا گیاہے۔ لیکن وہ لوگ جو آسمانوں کو زندہ وجود قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کے معنے تسخیر کے نہیں بلکہ یہ مراد ہوں گے کہ خداتعالیٰ نے ان سے کلام کیا۔ و قولہ بان ربک اوحی لھا فقریب من الاول اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے زمین کے متعلق فرمایا ہے کہ بان ربک اوحی لھا اس میں وحی کے معنے تسخیر کے ہی کرنے پڑیں گے کیونکہ یہ ظاہر بات ہے کہ زمین بولتی نہیں اور نہ اس میں عقل پائی جاتی ہے۔ پس چونکہ زمین کی طرف بولنا منسوب کردیاگیا ہے حالانکہ وہ بولتی نہیں اور اس کی طرف عقل منسوب کردی گئی ہے حالانکہ اس میں عقل نہیں۔ اس لئے یہ حالات ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم یہاں مجازی معنے مراد لیں اور سمجھ لیں کہ اس جگہ سے وحیٔ حقیقی یا وحیٔ لفظی مراد نہیں بلکہ اوحٰی کا لفظ زمین کو مسخر کرنے کے معنے میں استعمال ہوا ہے۔ (مفردات)
وحی کے معنے عربی زبان میں تو اوپر بیان ہوچکے ہیں۔ اب میں اپنے معنے بیان کرتا ہوں۔ قرآن کریم اور احادیث کے مطالعہ سے نیز صاحب تجربہ لوگوں کی شہادت سے اس امر کا انکشاف ہوتا ہے کہ وحی کئی اقسام کی ہوتی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ اس بارہ میں ایک نقص قرآنی موجود ہے جو یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورایٔ حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنہ ما یشاء انہ علی حکیم (الشوریٰ ۶ع۵) اس آیت کے میرے نزدیک مفسرین نے صحیح معنے نہیں سمجھے جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے او من وراء حجاب کے غلط معنے لے لئے ہیں۔ انہوں نے وحی کے معنے منام اور تسخیر وغیرہ کے کردیئے ہیں اور ورای حجاب کے یہ معنے کرلئے ہیں کہ جب خداتعالیٰ نظر نہ آتا ہو جس کی مثال میں وہ موسیٰ کا کلام پشی کرتے ہیں اور یرسل رسولا کے معنے یہ کئے ہیں کہ جب جبریل کلام کے ساتھ آئے اور وہ نظر بھی آئے۔ آخری صورت میں ہمارا اور ان کا اس فرق سے اتفاق ہے کہ ہم جبریل کے ذریعہ سے کلام آنے تو کو صحیح تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ہر ایسی وحی کے نزول کے وقت جبریل نظر بھی آتا تھا۔ چند مثالوں پر دھوکا کھاکر یہ غلط قیاس کرلیا گیا ہے۔ پہلی ااور دوسری صورت پر ہمیں کلی طور پر اعتراض ہے۔ پہلی صورت پر تو یہ اعتراض ہے کہ قرآن کریم میں پینسٹھ دفعہ وحی کا لفظ الی کے صلہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ مگر کہیں بھی قرآن کریم میں وحی کا لفظ محض تصویری زبان کے معنوں میں نہیں آیا۔ بے شک بعض جگہ مجازی معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے جیسے ایک جگہ وحی کے معنے تسخیر کے آگئے ہیں۔ لیکن ان مجازی معنوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جہاں بھی وحی کا لفظ ایا ہے ایسے ہی اظہار کے متعلق آیا ہے جس کے ساتھ کلام بھی تھا۔ اب کیا یہ عجیب بات نہیں ہوگی کہ ہم قرآن کریم کی تفسیر کریں اور وحی پر بحث کرتے ہوئے پینسٹھ جگہ جن معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ان معنوں کو تو نہ لیں اور وحی کے معنے خالص تصویری زبان کے کرلیں۔ ان پینسٹھ مقامات کے علاوہ پانچ اور بھی جگہیں ہیں جہاں وحی کا لفظ استعمال ہوا ہے اور وہاں بھی بمعنے کلام ہی استعمال ہوا ہے صرف ایک جگہ ایسی ہے جہاں وحی کے معنے تسخیر کے علاوہ اور کچھ نہیں کئے جاسکتے اور وہ جگہ وہی ہے جہاں شہد کی مکھی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اوحی ربک الی النحل (النحل ۱۵ع۹) یعنی تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی۔ اس آیت کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کہ اس میں وحی کا لفظ مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے باقی سارے قرآن میں ہر جگہ وحی کا لفظ ایسے ہی اظہار کے متعلق استعمال ہوا ہے جس کے ساتھ کلام بھی ہو۔ اور جب ہر جگہ قرآن کریم یہی مراد لیتا ہے تو یہ کیسی عجیب بات ہوگی کہ جن معنوں میں قرآن کریم اس لفظ کا استعمال کرتا ہے ان معنوں کو تو ہم نہ لیں اور اس کے اور معنے کرنے شروع کردیں۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ جب کوئی مجبوری پیش آئے تو ہم اس کے معنوں میں مجاز اور استعارہ مراد لے لیں مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ ہمیں کوئی مجبوری بھی پیش نہ آئے اور ہم قرآن کریم کے استعمال کو کلی طور پر نظر انداز کرکے ان معنوں کو لے لیں جو قرآن کریم نے کسی ایک جگہ بھی نہیں کئے۔
مفسرین کی یہ تشریح کہ او من ورایٔ حجاب سے مراد موسیٰ کا کلام ہے۔ یہ بھی کسی رنگ میں قابل قبول نہیں سمجھتی جاسکتی۔ کیونکہ الا وحیا کے بعد او من وراء حجاب کے معنے اگر ہم موسیٰ کے کلام کے کریں تو اس کے معنے یہ نہیں ہوں گے کہ موسیٰ پر وحی نہیں ہوئی حالانکہ موسیٰ کا کلام رسول کریم ﷺ کو مستثنیٰ کرتے ہوئے سب سے مقدم وحی ہے۔ جسے کسی صورت میں بھی دائرہ وحی سے خارج نہیں کیاجاسکتا۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ خود یہ لوگ رسول کریم ﷺ کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انقطع الوحی و بقیت المبشرات رؤیا المومن ۔ وحی منقطع ہوگئی صر ف مبشرات باقی رہ گئے ہیں جس سے مراد وہ سچے رئویا ہیں جو مومن کو دکھائے جاتے ہیں۔ یہ حدیث بھی بتاتی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے وحی کو اول درجہ دیا ہے اور منام کو دوسر ادرجہ۔ اگر جیسا کہ ان لوگوں کا عقیدہ ہے منام کا نام ہی وحی ہوتا تو پھر بجائے یہ کہنے کے کہ انقطع الوحی و بقیت المبشرات رسول کریم ﷺ کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ انقطع الکلام ورایٔ الحجاب و بقی الوحی۔ وراء حجاب اللہ تعالیٰ جو کلام کیا کرتا تھا وہ منقطع ہوچکا ہے اب صرف وحی باقی رہ گئی ہے جس سے مراد خوابیں وغیرہ ہیں مگر رسول کریم ﷺ نے انقطع الوحی کہنے کے بعد بقیت المبشرات فرمایا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے نزدیک بھی وحی کے معنے محض منام کے نہیں ہیں۔ پس ان کے معنے بالبداہت باطل اور قرآنی محاورہ کے خلاف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وحی کے معنے جہاں اشارہ، رمز اور تحریر کے ہیں وہاں ایسے کلام کے بھی ہیں جو دوسروں سے مخفی رکھ کر کیا جائے۔ چنانچہ لغت سے یہ امر ثابت کیا جاچکا ہے کہ وحی کے معنے اشارہ، رمز اور تحریر کے بھی ہیں اور ایسے کلام کے بھی ہیں جو دوسروں سے مخفی رکھ کر کیا جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں وحی کا لفظ زیادہ تر مؤخر الذکر معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے پہلے معنے بہت کم استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً منام کے معنوں میں تو قرآن کریم میں کسی ایک جگہ بھی وحی کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ رمز، اشارہ یا تحریر کے معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے مگر صرف ایک جگہ یعنی حضرت زکریا والی مثال میں رمز کے معنوں میں یا مکھی والی مثال میں تسخیرکے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ باقی کسی جگہ بھی اشارہ، رمز ، تحریر یا تسخیر وغیرہ کے معنے نہیں آئے حالانکہ یہ لفظ قرآن کریم میں ستر جگہ استعمال ہوا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا نام وحی اس لئے رکھا ہے کہ یہ کلام دوسروں سے مخفی رکھ کر کیا جاتا ہے۔ چونکہ وحی ایک ایسی چیز ہے جو عام لوگوں کے تجربہ میں نہیں آتی وہ صرف اتنی بات جانتے ہیں کہ جب کوئی شخص بات کرتا ہے تو اسے سب لوگ سن سکتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ زید سے بات کی جائے تو زید اس کو سن لے اور بکر جو پاس ہی بیٹھا ہوا ہے وہ نہ سنے۔ اس لئے جب وہ سنتے ہیں کہ دنیا میں ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ اگر خدا اس سے کلام کرتا توکیا ہم اس کلام کو نہ سنتے؟ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرتا اور ہم اس کلام کو سننے سے محروم رہتے۔ جب دنیا میں زید سے کوئی شخص گفتگو کرتا ہے تو بکر بھی سنتا ہے، خالد بھی سنتا ہے، عمرو بھی سنتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ صرف زید سنے۔ اسی طرح اگر موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا یا عیسٰیؑ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا یا محمد رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا تو ضروری تھا کہ ہمارے کانوں میں بھی اس کی آواز آتی۔ چونکہ یہ اعتراض عام طور پر لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا نام وحی رکھ دیا یہ بتانے کیلئے کہ ایک کلام ایسا ہوتا ہے جو تم دوسروں سے چھپا کر کرتے ہو جس سے تم بات کرنا چاہتے ہو وہ تو سنتا ہے مگر جس سے تم بات کومخفی رکھنا چاہتے ہو وہ اس کو نہیں سنتا۔ مثلاً بعض دفعہ انسان دوسرے کے کان میں ایک بات کہہ دیتا ہے اب وہ شخص تو تمہاری بات سن لیتا ہے جس کے کان میں تم نے بات کہی ہوتی ہے مگر دوسرے لوگ اس کے سننے سے محروم رہتے ہیں۔ جب دنیا میں روزانہ تم ایسا کرتے ہو اور تمہاری آنکھوں کے سامنے اس قسم کے واقعات آتے رہتے ہیں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارا کلام بھی اسی رنگ میں ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا کلام اپنے اندر بہت بڑا شرف رکھتا ہے اور ہمارا کلام مخصوص ہوتا ہے ہر شخص کے روحانی قرب اور اس کے درجہ کے لحاظ سے۔ اس لئے ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے کلام کے سننے میں وہ لوگ بھی شریک ہوسکیں جن کو ہم اس شرف کا مستحق نہیں سمجھتے۔ یہی حکمت ہے جس کی بناء پر ہم نے اپنی قدرت سے ایک ایسا ذریعہ نکالا ہے جس کے نتیجہ میں ہم بات بھی کرجاتے ہیں اور کوئی غیر شخص ہماری بات کو سن بھی نہیں سکتا۔ پس چونکہ وحی میں یہ حقیقت مدنظر ہوتی ہے کہ مخاطب سنے اور غیر مخاطب نہ سنے اور چونکہ ساتھ ہی اس امر پر زور دینا بھی مدنظر ہوتا ہے کہ ایسا کلام واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے نفسانی خیالات کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا نام وحی رکھ دیا یہ بتانے کیلئے کہ تم اس کلام کو بے حقیقت نہ سمجھو۔ یہ ویسا ہی یقینی اور قطعی کلام ہوتا ہے جیسے تم آپس میں ملتے ہو تو بعض دفعہ مخفی طور پر دوسرے کے کان میں بات کہہ دیتے ہو۔ بتائو جس کے کان میں کوئی بات کہی جائے کیا اسے بات کے سننے میں کوئی شبہ ہوسکتاہے؟ نہ اسے شبہ ہوتا ہے نہ بات کرنے والے کو کوئی شبہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے کلام کو مخفی طور پر بندے کے کان میں یا اس کے دل یا اس کی زبان وغیرہ پر نازل کردیتا ہے۔ یہ بتانے کیلئے کہ میں اس راز میں دوسروں کو شریک کرنا نہیں چاہتا یا اس کے واسطہ سے یہ کلام دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہوں تاکہ اس کی قبولیت اور عظمت دنیا میں قائم ہو۔ ورنہ وہ ویسا ہی یقینی اور قطعی کلام ہوتاہے جیسے دو دوست جب آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کا ایک دوسرے سے کلام کرنا قطعی اور یقینی ہوتا ہے۔ غرض وحی اس کلام کا نام رکھ کر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ خداتعالیٰ جو اپنے بندوں سے بولتا ہے اس میں اور انسانی کلام میں کوئی فرق نہیں۔ صرف یہ فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آواز کو اس طرح پید اکرتا ہے کہ صرف وہی اسے سنے جسے سنانا مقصود ہے ورنہ وہ ویسا ہی یقینی کلام ہے جیسا کہ دو بولنے والوں میں استعمال ہوتا ہے۔
باقی رہے ایسے خواب جو تصویری زبان میں ہوں وہ من ورایٔ حجاب کلام ہوتا ہے یعنی تعبیر طلب۔ دکھایا کچھ اور جاتا ہے اور مضمون اس کے پیچھے چھپا ہوتا ہے۔ وراء حجاب کے معنے بھی یہی ہیں کہ حقیقت ایک پردہ کے پیچھے مستور ہوتی ہے تم اس پردہ کو اٹھائو گے تو وہ تمہیں نظر آجائے گی بغیر پردہ اٹھانے کے تم اصل حقیقت سے آگاہ نہیں ہوسکتے۔ گویا وحی کے معنے تو لفظی کلام کے ہیں جس کی غرض اس کلام کو غیروں سے چھپانا ہوتا ہے اور من ورایٔ حجاب کے معنے یہ ہیں کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اس طرح کلام کرتا ہے کہ حقیقت کو خود اس شخص کیلئے بھی پردہ کے پیچھے مخفی کردیتا ہے جس پر وہ نازل ہورہا ہوتا ہے۔ جب تک اس پردہ کو نہ اٹھایا جائے اس وقت تک حقیقت کا انسان کو پورے طور پر علم نہیں ہوسکتا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے فرعون نے ایک دفعہ رئویا میں دیکھا کہ سات پتلی گائیں سات موٹی گئیں کھارہی ہیں۔ اب خواہ تم سارا دن کہتے ہو کہ پتلی گائیں موٹی گائیں کھارہی ہیں۔ پتلی گائیں موٹی گائیں کھارہی ہیں کوئی دوسرا شخص کچھ بھی نہیں سمجھے گا کہ تمہارا اس کلام سے منشاء کیا ہے۔ سب تمہاری بات کو سن کر ہنسیں گے کہ پاگل ہوگیا ہے۔ لیکن پردہ اُٹھائو تو اس کے پیچھے یہ حقیقت مخفی ہوگی کہ قحط کے سات سال خوشحالی کے سات سالوں کے جمع کئے ہوئے غلوں کو کھاجائیں گے۔ پس جس چیز کو متقدمین نے موسیٰ کے کلام کی مثال قرار دیا ہے وہ درست نہیں۔ موسیٰ کا کلام وحی میں ہی شامل ہے اور ماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ ہم کلامِ خفی میں بات کرتے ہیں یعنی وہ شخص تو ہماری بات سن لیتا ہے جس کو سنانا ہمارے مدنظر ہوتا ہے لیکن دوسرا شخص ہماری بات کو نہیں سن سکتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کلام مشتبہ ہوتا ہے۔ وہ کلام مشتبہ نہیں بلکہ ویسا ہی یقینی ہوتا ہے جیسے زید اور بکر آپس میں باتیں کرتے ہیں تو انہیں ایک دوسرے کی گفتگو سننے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا۔ مگر چونکہ ہم دوسروں کو نہیں سنانا چاہتے اس لئے جس طرح انسان دوسرے کے کان میں بات کہہ دیتا ہے ہم بھی ایسے رنگ میںبات کرتے ہیں کہ صرف وہی شخص سنتا ہے جس کو ہم سنانا چاہتے ہیں دوسرا شخص ہماری بات کو نہیں سن سکتا۔ ہاںایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ کہ کسی کے کان میں بات کرنے والا تو طبعی قوانین سے مجبور ہوتا ہے اور وہ ڈرتاہے کہ اگر میں نے زیادہ زور سے بات کی تو دوسرے لوگ بھی سن لیں گے اس لئے وہ آہستگی سے بات کرتا ہے مگر ہم بلند آواز سے بات کرتے ہیں اور پھر بھی صرف وہی شخص ہماری بات سن سکتا ہے جس پر ہم وحی نازل کرنا چاہتے ہیں دوسرے لوگ ہماری آواز کو نہیں سن سکتے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ہم رمز سے بات کرتے ہیں یعنی جب تک انسان حجاب نہ اُٹھائے اس پر حقیقت منکشف نہیں ہوتی۔ اس کے بعد او یرسل رسولا میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ایک وحی ایسی ہوتی ہے جو بالواسطہ آتی ہے ہم اپنے بندے سے بے شک کلام کرتے ہیں مگر براہ راست نہیں بلکہ ہم ملک رسول سے بات کرتے ہیں اور ملک رسول آگے بشر رسول سے کرتا ہے مگر بہرحال یہ بھی وحی ہی ہوتی ہے۔ ملک رسول کے ذریعہ کوئی بات پہنچانے سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ شق وحی کے دائرہ سے خارج ہے اسی لئے یرسل رسولا کے بعد فیوحی کا لفظ دوہرایا گیا ہے یہ بتانے کیلئے کہ یہ شق بھی وحی الٰہی میں ہی شامل ہے۔ اس کے بعد باذنہ کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ ملک رسول اپنے پاس سے کوئی بات نہیں کہتا ہمارے اذن اور منشاء سے وہ بات پہنچاتا ہے گویا ہے تو وہ بھی کلام مگر اس کلام کے پہنچانے میں ایک واسطہ پیدا کردیا گیا ہے۔ اس طرح آیت کا لفظ لفظ بالکل اپنے مقام پر کھڑا ہے۔ ماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا الگ چیزہے، اومن ورایٔ حجاب الگ چیز ہے اور یرسل رسولا الگ چیز ہے۔ یہ تین قسمیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں اور تینوں میں او کالفظ رکھ کر بتایا ہے کہ ان تینوں میں مغائرت پائی جاتی ہے۔ الا وحیا سے مرادہے وحیا بغیر الواسطۃ۔ او من ورایٔ حجاب سے مراد ہے فی المنام بالواسطۃ یعنی اللہ تعالیٰ ملک رسول کو وحی کرتا ہے اور وہ بشر رسول کو کرتا ہے۔ چونکہ وحی کی یہ قسم بالواسطہ ہے اور شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ یہ دائرہ وحی سے خارج نہ ہو اس لئے ضروری تھا کہ اس کے ساتھ وضاحت کردی جاتی کہ یہ قسم بھی وحی الٰہی میں شامل ہے چنانچہ اسی لئے فیوحی باذنہ ما یشاء کہہ کر وحی کالفظ اللہ تعالیٰ نے دہرادیا اور بتادیا کہ یہ شق بھی وحی الٰہی میں شامل ہے۔
غرض اس آیت کے ماتحت وحی کی تین اقسام ہوگئیں۔
(۱) حقیقی بلا واسطہ وحی - کہ خداتعالیٰ کا کلام بندہ پر بغیر کسی واسطہ کے نازل ہو (۲) دوسری جسے قرآن کریم نے تیسرے درجہ پر رکھا ہے مگر میں تقریب تفہیم کیلئے اسے پہلے بیان کردیتا ہوں وہ حقیقی بالواسطہ وحی ہے جس میں خداتعالیٰ اپنا کلام فرشتے پر نازل کرتا ہے اور فرشتہ بندے تک پہنچاتا ہے۔ (۳) تیسری تابع وحی ہے جس میں خداتعالیٰ کی طرف سے الفاظ نازل نہیں ہوتے بلکہ مضمون کو تعبیر طلب مثال میں یا بے تعبیر طلب نظارہ میں دکھایا جاتا ہے اور اس کو لفظوں میں تبدیل کرنا بندہ کے سپرد کردیا جاتاہے۔
چونکہ حقیقت حجاب کے پیچھے مخفی ہوتی ہے اس لئے انسان جب تعبیر طلب تمثیل یا نظارہ دیکھتا ہے تو وہ اپنے قیاس سے کام لے کر حقیقت کو اپنے الفاظ میں بیان کردیتا ہے اور کہتا ہے مجھے خدا نے یوں بتایا ہے۔ فرض کرووہ لوگوں سے کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ تیرا لڑکا کامل ہوجائے گا تو یہ ضروری نہیں کہ خدا نے اسے یہ خبر ان الفاظ میں ہی دی ہو کہ ’’تیرا لڑکا کامل ہوجائے گا‘‘ بلکہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ نظارہ دکھایا ہو کہ وہ اپنے بچے کو ذبح کررہا ہے۔ چونکہ یہ نظارہ مشابہ ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعہ سے اس لئے گو اسے نظارہ یہ دکھایا گیا ہو کہ وہ اپنے بچے کو ذبح کررہا ہے مگر وہ اسماعیلی واقعہ پر قیاس کرکے اس وراء حجاب کلام کو تعبیری زبان میں بیان کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ میرا لڑکا بہت بڑا مقام حاصل کرنے والا ہے یا وہ بڑے رتبہ پر پہنچ جائے گا۔ اب جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے وہ اس کے اپنے ہیں اللہ تعالیٰ نے اسے ان الفاظ میں خبر نہیں دی کہ ’’تیرا لڑکا کامل ہوجائے گا‘‘ یا ’’ بڑے رتبہ پر پہنچ جائے گا‘‘ اس نے صرف یہ نظارہ دکھایا کہ وہ اپنے بچے کو ذبح کررہا ہے مگر یہ اس کی تعبیر کرتا اور لوگوں میں اس کا اعلان کردیتا ہے۔ اب اگر اس کی تعبیر سو فی صدی درست ہو تب بھی وہ قسم کھا کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کہاہے کہ ’’تیرا بچہ ایک کامل شخص ہوگا‘‘۔ وہ قسم کھا کر یہ تو کہہ سکتا ہے کہ خدا نے مجھے اس اس رنگ میں نظارہ دکھایا ہے مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ پانچ الفاظ بتائے ہیں۔ یہ وہی شخص کہے گا جس پر لفظاً الہام نازل ہوا ہووہ بے شک قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ مجھے خدا نے کہا ہے ’’تیرا‘‘۔ مجھے خدا نے کہا ہے ’’بچہ‘‘۔ مجھے خدا نے کہا ہے ’’بڑا‘‘۔ مجھے خدا نے کہا ہے ’’آدمی‘‘۔ مجھے خدا نے کہا ہے ’’ہوجائے گا‘‘ مگر ایسا شخص جس نے صرف نظارہ دیکھا ہے یہ تو قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ میں مفہوم بیان کررہا ہوں خداتعالیٰ کی طرف سے ہے مگر الفاط کے متعلق قسم نہیں کھاسکتا۔
چونکہ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنا مافی الضمیر لفظوں میں ہی بتاسکتا ہے خواہ بول کر خواہ لکھ کر ۔ اس لئے وہ وحی زیادہ شاندار سمجھی جاتی ہے جو الفاظ میں آجائے۔ خوا ہ لکھے ہوئے الفاظ اس کے سامنے آجائیں۔ خواہ اسے آواز سنائی دے جس کے معین الفاظ ہوں۔ خواہ الفاظ اس کی زبان پر یا دل پر جاری کردیئے جائیں (دل میں آئیں نہیں بلکہ جاری کئے جائیں۔ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے) اور وہ ایک ایک لفظ کے متعلق قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں۔ اسی طرح خواہ یہ کلام بلاواسطہ نازل ہو یا بالواسطہ کسی ملک رسول کے ذریعہ نازل ہو جب بھی کوئی الٰہی کلام لفظوں میں موجود ہو اور انسان دوسروں کو اس کلام میں معین الفاظ سنا کر کہہ سکتاہو کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوئے ہیں تو وہ وحی زیادہ اعلیٰ اور زیادہ شاندار سمجھی جاتی ہے اور جو تعبیری زبان میں وحی نازل ہو یا تصویری زبان میں نازل ہو چونکہ اس کے بیان کرنے میں انسان کو اپنے الفاظ اختیا کرنے پڑتے ہیں اور اس میں غلطی کا زیادہ احتمال ہوتا ہے اس لئے اسے پہلی قسم کی دونوں وحیوں سے ادنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ دراصل جس طرح لغت والے کہتے ہیں کہ وضع لغت کے لحاظ سے فلاں لفظ کے یہ معنے ہیں اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ وضع وحی کے لحاظ سے وحی کے مقدم معنے اس وحی کے ہیں جو الفاظ میں نازل ہو۔ پھر استعارہ اور مجاز کے طور پر دوسری قسموں کیلئے بھی اس لفظ کا استعمال کرلیتے ہیں۔ مگر بہرحال یہ دونوں قسم کی وحی پہلی وحی سے ادنیٰ سمجھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ اسے وحی کے نام سے موسوم ہی نہیں کرتے۔ چنانچہ امت محمدیہ میں جو صوفیا گزرے ہیں ان کا یہ طریق رہا ہے کہ وہ صرف وحی لفظی کو وحی کہتے تھے باقی قسموں کو وحی قرا رنہیں دیتے تھے بلکہ خواب یا کشف کہہ دیتے تھے۔ چنانچہ وحی ، کشف اور رئویا کا لفظ بار بار ان کی کتابوں میں استعمال ہوتا ہے اور یہ محاورہ اتنی کثرت سے استعمال ہونے لگا ہے کہ موجودہ زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے حقیقت کھل جانے کے باوجود ہم بھی اکثر اسی محاورہ کو استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ خود میں نے بارہا اپنی تقریروں اور تحریروں میں وحی، کشف اور رئویا کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ چونکہ وحی کا لفظ کثرت سے لفظی کلام کیلئے استعمال ہوتا ہے اس لئے صوفیاء نے اس لفظ کو صرف لفظی وحی کیلئے مخصوص کرلیا ہے۔ باقی قسمیں جو درحقیقت وحی کی ہی مختلف شقیں ہوتی ہیں ان کو وہ وحی قرار نہیں دیتے بلکہ کشف یا رئویا کہہ دیتے ہیں۔ پھر بعض لوگ تو اور بھی اونچے چلے گئے ہیں وہ صرف نبی کی وحی کو وحی کہتے ہیں۔ غیر نبی کی وحی کو وحی نہیں بلکہ الہام قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس امتیاز کی بنیاد اس امر پر ہے کہ ان میں سے ایک چیز شبہ سے بالا ہے اور دوسری چیز اپنے اندر شبہ کا احتمال رکھتی ہے۔ نبی کی وحی چونکہ شبہ سے بالا ہوتی ہے اس لئے وہ اسے وحی کہتے ہیں لیکن غیر نبی کی وحی چونکہ احتمال کا شبہ رکھتی ہے اس لئے وہ اسے وحی نہیں الہام کہتے ہیں ۔ الہام کے معنے گو عام طور پر درد دل انداختن کے کئے جاتے ہیں۔ مگر میں نے خود صوفیاء کی کتابوں میں وہ لفظی وحی دیکھی ہے جو ان کی طرف نازل ہوئی ۔ وہ کئی جگہ لکھتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایسا کہا اور پھر اس وحی کے معین الفاظ ان کی کتابوں میں درج ہوتے ہیں مگر باوجود لفظوں میں وحی نازل ہونے کے وہ یہ نہیں کہتے کہ ہم پر وحی نازل ہوئی ہے بلکہ وہ اس کا نام الہام رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان الوحی من خواص الانبیاء المرسلین والالھام من خواص الولایۃ (والثانی) ان الوحی مشروط بالتبلیغ۔ یعنی وحٰ کا نزول خاص نبیوں سے جو مرسل ہو تعلق رکھتا ہے اور الہام ولایت کی خصوصیات سے ہے۔ دوسرے وہ کہتے ہیں کہ وحی کا لفط اسی کلام کے ساتھ مخصوص ہے جسے انہی الفاظ میں لوگوں تک پہنچانے کا حکم ہو۔ اس تشریح کے مطابق اگر ان پر لفظی کلام نازل ہو تو وہ اسے الہام کہہ دیتے ہیں۔ اگر آنکھوں دیکھا نظارہ ہو تو وہ اسے کشف کہہ دیتے ہیں۔ اور اگر اگر حالت منام میں تصویری زبان میں کوئی نظارہ دکھایا جائے تو وہ اسے رئویا کہہ دیتے ہیں۔ بہرحال اپنے مذاق کے مطابق انہوں نے اس کو ایک نئی شکل دے دی ہے۔ ان کے نزدیک وحی کے معنے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا وہ قطعی اور یقینی کلام جو انبیا ء پر نازل ہوتا ہے اور الہام کے معنے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا کسی غیر نبی پر لفظی کلام کی صورت میں اپنا منشاء ظاہر کرنا۔ چونکہ اس شق کو نہ وہ رئویا میں شامل کرسکتے تھے نہ کشف میں کیونکہ اس کے ساتھ کوئی نظارہ نہی ہوتا اور دوسری طرف وہ اس کو وحی بھی قرار نہیںدے سکتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک وحی صرف اسی کلام کو کہا جاسکتا ہے جو انبیا ء پر نازل ہو۔ اس لئے انہوںنے اس کا ایک نیا نام یعنی الہام رکھ دیا تاکہ نبی اور غیر نبی پر نازل ہونے والے کلام میں ایک امتیاز قائم ہوجائے۔ بہرحال چونکہ وراء حجاب کلام میں غلطی کا زیادہ احتمال ہوتا ہے اور اس کے بیان کرنے میں انسان کو اپنے الفاظ اختیار کرنے پڑتے ہیں اس لئے پہلی قسم کی دونوں وحیوں یعنی حقیقی بلا واسطہ وحی اور حقیقی بالواسطہ وحی سے ادنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض لوگ جیسا کہ میں بتاچکا ہوں اسے وحی کے لفظ سے موسوم ہی نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں ہم نے خواب میں ایسا دیکھا ہے یا ہم نے کشف میں فلاں نظارہ دیکھا ہے۔ پھر خواب یا کشف کا نظارہ اس لئے بھی ادنیٰ سمجھا جاتا ہے کہ خواب یا کشف وحی متلو میں نہیں آسکتا۔ اعلیٰ اسے اعلیٰ متلو وحی ہے اور تصویری زبان کی وحی متلو نہیں ہوسکتی۔ متلو وحی وہ ہوتی ہے جسے پڑھا جاسکے مگر خواب یا کشف کی صورت میں جب کوئی بات بتائی جائے تو وہ پڑھی نہیں جاسکتی۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ انسان ایک نظارہ دیکھ لے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ اس نظارہ کو وہ پڑھ سکے یا دوسروں کو پڑھا سکے۔ وہ اس نظارہ کی کیفیت کو اپنے الفاظ میں بیان کرسکتا ہے مگر یہ نہیں کرسکتا کہ کشف یا خواب پڑھ کر سنادے۔ پڑھ کر وہی چیز سنائی جاسکتی ہے جو کہ الفاظ کی شکل میں ہو نہ کہ نظارہ کی شکل میں۔ پس وہ وحی جو من وراء حجاب ہوتی ہے چونکہ اس میں کشفی طور پر ایک نظارہ دکھایا جاتا ہے یا حالت منام میں کوئی بات تصویری یا تعبیری زبان میں بتائی جاتی ہے اور اسے پڑھا نہیں جاسکتا اس لئے لفظی وحی سے اس کا مقام ادنیٰ سمجھا جاتا ہے اور یہی تمام صاحب تجربہ لوگوں کا قول ہے کہ وحی الٰہی میں سے اعلیٰ مقام وحی لفظی کو حاصل ہے کیونکہ وہ پڑھی جاتی ہے۔ خواب چونکہ پڑھی نہیں جاتی یا کشف چونکہ پڑھا نہیں جاتا اس لئے اسے لفظی وحی کا جو وحی متلو ہوتی ہے مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔ مثلاً رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ رئویا میں دیکھا کہ گائیں ذبح کی گئی ہیں۔ اب ہم اس کو ویسی ہی قطعی اور یقینی وحی سمجھتے ہیں جیسے آپ پر لفظی وحی نازل ہوئی۔ مگر سوال تویہ ہے کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر کس طرح آسکتا تھا۔ کیا گائیوں کی تصویریں قرآن کریم میں بنادی جاتیں اور اس طرح بتایا جاتا کہ یہ نظارہ تھا جو رسول کریم ﷺ کو دکھایا گیا؟ اور اگر تصویر ہی بنادی جاتی تو پھر بھی یہ سوال رہ جاتا کہ اس کو پڑھا کس طرح جائے؟ پس چونکہ اس وحی کو پڑھا نہیں جاسکتا اس لئے اسے دوسری وحیوں سے ادنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ ہاں تصویری زبان کی وحی میں بھی بعض خاص فوائد ہوتے ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس وحی کا کیا فائدہ ہے نبی پر ہمیشہ کلام ہی کیوں نازل نہیں ہوتا؟ کیوں اس پر کشف یا رئویا میں بعض دفعہ حالات کا انکشاف کیا جاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تصویری زبان کی وحی میں بھی بعض ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے اس کی ضرورت سے استغناء ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک فائدہ تو اس وحی میں یہ ہے کہ گو کلام میں بھی اجمال کو مدنظر رکھا جاسکتا ہے مگر تصویری زبان میں تو بعض دفعہ ایسا اجمال ہوتا ہے جو کسی فقرہ میں بھی نہیں ہوسکتا۔ اس کی مثال یوں سمجھ ہو کہ اگر رئویا یا کشف کی حالت میں کسی کی صورت آنکھوں کے سامنے پھرادی جائے اس کے ماتھے پر شکن پڑے ہوئے ہوں اور دس بیس مختلف قسم کے جذبات اس کے چہرہ سے عیاں ہورہے ہوں تو یہ نظارہ ایک ساعت میں اسے دکھایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر انہی جذبات کو الفاظ کی صورت میں اد اکیا جائے تو خواہ کیسے بھی مجمل الفاظ ہوں اور اس قدر اختصار کو ملحوظ رکھا گیا ہو پھر بھی دس پندرہ فقروں میں وہ مضمون ادا ہوگا اور ممکن ہے پھر بھی کوئی خامی رہ جائے۔ پس ایسے مواقع پر جب اجمال اور اجمال صورت میں اللہ تعالیٰ کوئی بات بتانا چاہتا ہو اور الفاظ سے بہتر اور مؤثر پیرایہ میں قلیل سے قلیل وقت میں کوئی بات اپنے بندہ پر ظاہر کرنا چاہتا ہو تو اس وقت اللہ تعالیٰ تصویری زبان میں وحی نازل کرتا ہے ایک نظارہ آنکھوں کے سامنے پھرا دیتا ہے اور اس طرح وہ باتیں جو دس بیس فقروں کی محتاج ہوتی ہیں آن کی آن میں انسان پر منکشف ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح تصویری زبان میں وحی نازل کرنے کے اور بھی کئی فوائد ہوتے ہیں مثلاً بعض دفعہ کسی مومن بندے کی استمالت قلب مدنظر ہوتی ہے جس کے ماتحت اللہ تعالیٰ کلام کی بجائے تصویری زبان اختیار کرلیتا ہے۔ فرض کرو اللہ تعالیٰ یہ مضمون بیان کرنا چاہتا ہے کہ گھبرائو نہیں دین کو تقویت حاصل ہوجائے گی اور نبی کا ایک مرید ایسا ہے جس کا نام عبدالقوی اس کو دکھادے گا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ عبدالقوی کو دکھانے سے گو یہ مضمون بھی بیان ہوگیا کہ دین کی تقویت حاصل ہوگی مگر ساتھ ہی عبدالقوی کا دل بھی خوش ہوجائے گا کہ میںبھی اپنے نبی کی خواب میں آگیا ہوں یا مثلاً رسول کریم ﷺ نے اگر کبھی ابوبکرؓ کو دیکھا یا عمرؓ کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کا منشاء محض ایک مضمون بیان کرنانہیں تھا بلکہ ابوبکرؓ اور عمرؓ کی استمالت قلب بھی مدنظر تھی۔ اور اللہ تعالیٰ چاہتاتھا کہ وہ خواب سن کر خوش ہوجائیں کہ ہم بھی رسول کریم ﷺ کی خواب میں آگئے ہیں۔ پس بعض دفعہ مضمون بیان کرنے کے علاوہ زائد طور پر کسی مومن کی دلجوئی اور استمالت قلب بھی مدنظر ہوتی ہے جو تصویری زبان میں وحی نازل کرنے سے پوری ہوجاتی ہے۔ پس تصویری زبان میں وحی کا نزول بے فائدہ نہیںہوتا بلکہ اس کے کئی اغراض ہوتے ہیں اور کئی فوائد ہوتے ہیں جن کو خداتعالیٰ زائد طور پر ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ بے شک وہ فوائد مقصود بالذات نہیں ہوتے صرف ضمنی ہوتے ہیں مگر بہرحال وہ ضمنی فوائد تصویری زبان کے ذریعہ ہی ظاہر ہوتے ہیںلفظی کلام کے ذریعہ ظاہر نہیں ہوسکتے۔ انہی فوائد کی وجہ سے بعض دفعہ اہم معاملات بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تصویری زبان میں دکھائے جاتے ہیں مگر اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ اسے وحی لفظی میں دوبارہ بیان کردیا جاتا ہے گویا تصویری زبان میں بھی ایک نظارہ دکھادیا جاتا ہے اور کلامی زبان میں بھی اس کو بیان کردیا جاتا ہے۔ اس طرح دونوں فوائد پیدا کردیئے جاتے ہیں۔ وہ فوائد بھی جو کلام سے وابستہ ہوتے ہیں اور وہ فوائد بھی جو تصویری زبان سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ اس کی مثال رسول کریم ﷺ کا واقعہ معراج اور واقعہ اسراء ہیں کہ دونوں ذرائع سے ان کا اظہار کیا گیا۔ واقعہ معراج کا حدیثوں میں بھی تفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے اور قرآن کریم نے بھی سورئہ نجم میں اس کو بیان کردیا ہے۔ اسی طرح واقعہ اسراء تصویری زبان میں آپ کو دکھادیا گیا اور سورئہ بنی اسرائیل میں لفظی وحی میں بھی اس کا ذکر کردیا گیا۔ قرآن کریم میں تو اس کا ذکر اس لئے کردیا گیا کہ یہ واقعہ وحی متلو میں آجائے اور نظارہ آپ کو اس لئے دکھایاگیا کہ جو زائد فوائد تصویری زبان میں وحی سے وابستہ ہوتے ہیں وہ بھی حاصل ہوجائیں۔ مثلاً اگر غور کیاجائے تو واقعہ اسراء کا صرف اتنا مفہوم تھا کہ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو تمام انبیاء پر فضیلت عطا فرمائے گا۔ لیکن جب رسول کریم ﷺ کو یہ نظارہ دکھایا گیا کہ جبریل آپ کے پاس براق لائے اور آپ اس پر سوار ہوکر بیت المقدس تک پہنچے اور پھر آپ نے لوگوں کے سامنے یہ بات بیان فرمائی اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ بیت المقدس سے ہو آئے ہیں تو ہمیں اس کا نقشہ بتائیں جس پر رسول کریم ﷺ نے انہیں بتایا کہ بیت المقدس ایسا ہے ایسا ہے۔ تو اس سے لوگوں کے ایمانوں میں جو تازگی پیدا ہوئی ہوگی وہ محض لفظی کلام سے کہاں پیدا ہوسکتی تھی یا مثلاً احادیث میں آتا ہے کہ واپسی کے وقت آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ ایک قافلہ مکہ کی طرف آرہا ہے اور اس قافلہ والوں کا ایک اونٹ گم ہوگیا ہے جس کی وہ تلاش کررہے ہیں۔ آپ نے یہ بات بھی کفار کے سامنے بیان کردی ۔ چنانچہ چند دن بعد معلوم ہوا کہ بعینہٖ یہ واقعہ مکہ کے ایک قافلہ سے پیش آیا تھا اور جب وہ قافلہ مکہ میں پہنچا تو اس نے تسلیم کیا کہ بات درست ہے۔ اب یہ ایک زائد فائدہ تھا جو رسول کریم ﷺ کو اسراء کا نظارہ دکھانے سے حاصل ہوا کہ لوگوں کے ایمان بڑھ گئے اور کفار جو رسول کریم ﷺ پر اعتراض کرتے تھے کہ آپ نعوذ باللہ افتراء سے کام لیتے ہیں ان کا منہ بند ہوگیا۔ غرض اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنے اہم کلام سے اظہار کیلئے تصویری زبان کو بھی استعمال کرلیتا ہے یعنی تمثیلی زبان میں بھی ایک واقعہ بیان کردیتا ہے اور پھر لفظی وحی میں بھی اس کا ذکر کردیتا ہے لیکن بہرحال دائمی کلام لفظی ہی ہوتا ہے تصویری کلام نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام بھی اسی قسم کا ہے جس میں دونوں صورتیں اختیار کی گئی ہیں تصویری زبان بھی اور لفظی الہام بھی۔ آپ کا الہام ہے جاء نی ائل واختار و ادارا اصبعہو اشاء ان وعداللہ اتی فطوبی لمن وجد ورئٰ ی(تذکرہ ص ۶۰۳) میرے پاس جبریل آیا اور اس نے مجھے چن لیا۔ اس نے اپنی انگلی کو گرد ش دی اور اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آگیا ہے پس مبارک وہ جو اس کو پائے اور دیکھے۔ اب دیکھو یہ ایک نظارہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دکھایا گیا کہ جبریل آپ کے پاس ایا اس نے اپنی انگلی کو گردش دی اور اشارہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ پھر اس واقعہ کو کلام کی صورت میں بھی لے آیا تاکہ اور لوگ بھی اس سے متاثر ہوں۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے ایک بڑا اونچا پہاڑ دیکھا ہے تو جو اثر اس کا دیکھنے والے پر ہوتا ہے وہ سننے والے پر نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بعض دفعہ کسی واقعہ کو نظارہ کی صورت میں لاکر اس کے اثر کو زیادہ گہرا کرنا چاہتا ہے مگر پھر الہام میں بھی اسے بیان کردیتا ہے تاکہ دوسروں پر بھی اثر ہو۔ مثلاً جبریل نے اپنی انگلی سے جو اشارہ کیا ہوگا اس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جو اثر ہوا ہوگا وہ اثر خالی لفظوں سے نہیں ہوسکتاتھا۔ لیکن اس کے مقابلہ میں دوسرے لوگوں پر صرف خواب کا ذکر کرنے سے کوئی اثر نہیں ہوسکتا تھا ان کیلئے ضروری تھا کہ لفظی الہام نازل کیا جاتا۔ یہی حکمت ہے جس کے ماتحت اللہ تعالیٰ اپنے اہم کلام کو بعض دفعہ دونوں صورتوں میں بیان کردیتا ہے تصویری زبان میں بھی اور لفظی الہام میں بھی۔ اس بحث کے بعد اب میں یہ چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے جو تین اقسام وحی کی بیان کی ہیں ان کی آگے تجربہ کی بناء پر اور بھی کئی قسمیں ہیں جو یہ ہیں:
(۱) خواب تعبیر طلب منفرد و مشترک: مثلاً ایک شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ فلاں شخص کے مکان کی دیوار گرگئی ہے۔ اب ضروری نہیں کہ اس کے مکان کی دیوار ہی گرے بلکہ اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جو اس کی حفاظت کا ذریعہ ہے یا اس کو مشکلات و حوادث سے بچانے والے ہیں وہ اس کا ساتھ چھوڑ جائیں گے یا ان پر وبال آجائے گا۔ یہ خواب کبھی منفرد ہوتی ہے یعنی صرف ایک شخص ہی دیکھتا ہے اور کبھی مشترک ہوتی ہے یعنی ایسی ہی خواب دوسر ے کو بھی آجاتی ہے۔ دراصل غیر نبی کا کلام چونکہ قطعی اور یقینی نہیں ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ طریق رکھا ہوا ہے کہ بعض دفعہ بعینہٖ ویسا ہی رئویا دوسرے وک بھی دکھا دیا جاتا ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں اس کا کئی دفعہ تجربہ کیا ہے کہ بعض دفعہ جس قسم کی خواب آتی ہے بعینہٖ اسی قسم کی خواب دوسرے کو آجاتی ہے۔ میں نے ایک دفعہ اپنی مجلس میں ایک رئویا یا ذکر کیا جو ۲۴ مئی ۱۹۴۴؁ء کے الفضل میں شائع ہوچکا ہے اس کے بعد ایک دوست نے بتایا کہ مجھے ایک غیراحمدی دوست نے اپنا ایک رئویا سنایا تھا اور بتایا تھا کہ اسے خواب میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ رئویا خلیفۃ المسیح کو بھی دکھایا گیا ہے۔ چنانچہ میں ’’الفضل‘‘ میں آپ کا رئویا پڑھ کر حیران رہ گیا کہ ایسا ہی رئویا اس غیراحمدی دوست نے دیکھا تھا (الفضل ۲۷ مئی ۱۹۴۵؁ء) پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نظارے تو مختلف دکھائے جاتے ہیں مگر ان کی تعبیر ایک ہی ہوتی ہے۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے روس کے متعلق میں نے ایک رئویا دیکھا جو الفضل یکم ستمبر ۱۹۴۵؁ء میں شائع ہوچکا ہے۔ میں نے جس تاریخ کو یہ خواب دیکھا ہے اس کے دوسرے دن ہی میاں روشن دین صاحب زرگر کا مجھے ایک خط ملا جس میں انہوں نے لکھا کہ میں نے روس کے متعلق یہ رئویا دیکھا ہے اور اس کی تعبیر بھی وہی تھی جومیرے رئویا کی تھی۔ اب دیکھو مجھے ان کی خواب کا علم نہیں انہیں میری خواب کا علم نہیں۔ میں الفضل والوں کو خواب لکھتا ہوں اور میاں روشن دین مجھے لکھتے ہیں اور دونوں کی تعبیر ایک ہی ہوتی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنے بندے کو یہ یقین دلانے کیلئے کہ تمہاری خواب بالکل سچی ہے ویسی ہی خواب دوسروں کو بھی دکھادیتا ہے۔ بعض دفعہ تو دونوں کا ایک جیسا نظارہ ہوتا ہے اور بعض دفعہ نظارہ تو جدا جدا ہوتا ہے مگر تعبیر ایک ہی ہوتی ہے۔ غرض پہلی قسم یہ ہے کہ انسان ایسا رئویا دیکھتا ہے جو تعبیر طلب ہوتا ہے یہ خواب منفرد بھی ہوتی ہے اور مشترک بھی۔ یعنی کبھی صرف خود ایک نظارہ دیکھتا ہے اور کبھی ویسا ہی نظارہ دوسروں کو بھی دکھادیا جاتا ہے۔
(۲) خواب مثل فلق الصبح منفرد ومشترک: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان رئویا میں دیکھتا ہے کہ دیوار گرگئی اور دوسرے دن واقعہ میں ایسا رئویا میں دیکھتا ہے کہ دیوار گرگئی اور دوسرے دن واقعہ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بارش برستی ہے اور مکان کی دیوار گر جاتی ہے۔ یہ خواب بھی کبھی منفرد ہوتی ہے اور کبھی دوسرے کو بھی ویسی ہی خواب آجاتی ہے اور جو کچھ دیکھا جاتا ہے ویسا ہی ظہور میں آجاتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ اس کی تعبیر ظاہر ہو بلکہ جس رنگ میں خواب کے ذریعہ کوئی بات بتائی جاتی ہے اسی رنگ اور اسی شکل میں فلق الصبح کی طرح وہ بات پوری ہوجاتی ہے۔ اس قسم کی خوابوں کا بھی مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت تجربہ ہے اور میں نے دیکھا ہے بسااوقات جس طرح رات کو ایک نظارہ دیکھا جاتا ہے ویسا ہی دن کو ہونے لگ جاتا ہے۔ اور چونکہ اس قسم کے واقعات بڑی کثرت سے ہوئے ہیں اس لئے بعض دفعہ تو وہم سا ہونے لگتا ہے کہ کیا یہ واقعہ دوبارہ تو نہیں ہوریا۔ یہ خواب بھی بعض دفعہ منفرد ہوتی ہے اور بعض دفعہ مشترک۔ یعنی کبھی تو اس قسم کی خواب دیکھنے میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوتا لیکن کبھی ویسا ہی نظارہ دسرے لوگ بھی دیکھ لیتے ہیں۔
(۳) نظارہ نیم خواب تعبیر طلب منفرد و مشترک: بعض دفعہ انسان پورے طور پر سویا ہوا نہیں ہوتا بلکہ نیم خواب کی سی حالت اس پر طاری ہوتی ہے۔ کچھ جاگ رہا ہوتا ہے اور کچھ غنودگی کی طرف اس کی طبیعت مائل ہوتی ہے کہ اس حالت نیم خوابی میں وہ ایک نظارہ دیکھتا ہے جو تعبیر طلب ہوتا ہے۔ یہ نظارہ بھی دونوں قسم کا ہوتا ہے یعنی منفرد بھی ہوتا ہے اور مشترک بھی۔
(۴) نظارہ نیم خواب مثل فلق الصبح منفرد و مشترک: انسان بعض دفعہ نیم خوابی کی حالت میں ایک نظارہ دیکھتا ہے مگر وہ تعبیر طلب نہیں ہوتا بلکہ بعینہٖ اسی رنگ میں پور اہوجاتا ہے جس رنگ میں اس نے نظارہ دیکھا ہوتا ہے۔ یہ نظارہ بھی منفرد اور مشترک دونوں قسم کا ہوتا ہے۔
(۵) نظارہ بیداری تعبیر طلب منفرد و مشترک: بعض دفعہ بیداری میں ایک نظارہ دیکھا جاتا ہے لیکن وہ ہوتا تعبیر طلب ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے فلاں دن آپ کو فلاں اسٹیشن پر دیکھا تھا کیا آپ وہاں تشریف لے گئے تھے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ہم تو وہاں نہیں گئے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کشفی طور پر ہمیں دیکھا ہوگا۔ تو بعض دفعہ عین بیداری کی حالت میں ایک نظارہ دکھایا جاتا ہے مگر وہ ہوتا تعبیر طلب ہے۔ یہ نظارہ بھی منفرد اور مشترک دونوں قسم کا ہوتا ہے۔
(۶) نظارئہ بیداری مثل فلق الصبح منفرد و مشترک: کبھی بیداری میں ایک نظارہ دکھایا جاتا ہے مگر وہ تعبیر طلب نہیں ہوتا بلکہ فلق الصبح کی طرح اسی رنگ میں ظاہر ہوجاتا ہے جس رنگ میں اللہ تعالیٰ انسان کو نظارہ دکھاتاہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کشوف میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ ایک دعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کشفی حالت میں دیکھا کہ مبارک احمد چٹائی کے پاس گر پڑا ہے اور اسے سخت چوٹ آئی ہے۔ ابھی اس کشف پر تین منٹ سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہوگا کہ مبارک احمد جو چٹائی کے پاس کھڑا تھا اس کا پیر پھسل گیا اور اسے سخت چوٹ آئی اور اس کے کپڑے خون سے بھر گئے (تذکرہ ص۳۸۶)۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے مجھے ایک دفعہ پیچش کی شکایت تھی اور چونکہ مجھے بار بار قضائے حاجت کیلئے جانا پڑتا اس لئے میں چاہتا تھا کہ پاخانہ کی اچھی طرح صفائی ہوجائے تاکہ طبیعت میں انقباض پیدا نہ ہو۔ خاکروبہ آئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے جگہ صاف کردی ہے اس وقت شاید اس نے جھوٹ بولا یا کوئی کونہ صاف کرنا اسے بھول گیا تھا کہ اس نے جواب میں کہا میں نے جگہ صاف کردی ہے۔ اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کشفی حالت طاری ہوئی اور آپ نے دیکھا کہ ایک کونہ میں نجاست پڑی ہے۔ اس پر آپ نے اسے کہا تم جھوٹ کیوں بولتی ہو فلاں کونہ تو ابھی گندا ہے اور تم نے اس کی صفائی نہیں کی۔ وہ یہ سن کر حیران رہ گئی کہ انہیں اندر بیٹھے کس طرح علم ہوگیاہے کہ میں نے پوری صفائی نہیں کی (تذکرہ ص ۴۶۵)۔ یہ نظارہ بھی منفرد اور مشترک دونوں رنگ رکھتا ہے یعنی کبھی صرف ایک شخص کو نظارہ دکھایا جاتا ہے اور کبھی ویسا ہی نظارہ دوسروں کو بھی دکھایا جاتا ہے۔
(۷) کلام بلاواسطہ جو کانوں پر گرتاہے منفرد و مشترک: بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کا کلام الفاظ کی صورت میں انسانی کانوں پر نازل ہوتا ہے اور غیب سے آواز آتی ہے کہ یوں ہوگیا ہے یا یوں ہوجائے گا یا یوں کر۔ گویا ماضی کے صیغہ میں بھی یہ کلام نازل ہوتا ہے، مستقبل کے صیغہ میں بھی نازل ہوتا ہے اور امر کی صورت میں بھی نازل ہوتا ہے۔ یہ بلاواسطہ کلام جس کی کانوں میں آواز سنائی دیتی ہے اس کی بھی دونوں حیثیتیں ہیں یعنی یہ منفرد بھی ہوتا ہے اور مشترک بھی۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ صرف ملہم کو ایک آواز سنائی دیتی ہے اور کبھی ویسی ہی آواز دوسرے کو بھی آجاتی ہے۔ اس قسم کا مجھے ذاتی طو رپر تجربہ حاصل ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا کہ انی مع الافواج اتیک بغتۃ۔ میں اپنی افواج کے ساتھ اچانک تیری مدد کیلئے آئوں گا۔ جس رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام ہوا اسی رات ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آج یہ الہام ہوا ہے کہ انی مع الافواج اتیک بغتۃ۔ جب صبح ہوئی تو مفتی محمد صادق صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جو تازہ الہامات ہوئے ہوں وہ اندر سے لکھوالائوں۔ مفتی صاحب نے اس ڈیوٹی پر مجھے مقرر کیا ہوا تھا اور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تازہ الہامات آپ سے لکھوا کر مفتی صاحب کو لاکر دے دیا کرتا تھا تاکہ وہ انہیں اخبار میں شائع کردیں۔ اس روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب الہامات لکھ کر دئے و جلدی میں آپ یہ الہام لکھنا بھول گئے کہ انی مع الافواج اتیک بغتۃ ۔ میں ںے جب ان الہامات کو پڑھا تو میں شرم کی وجہ سے یہ جرأت بھی نہ کرسکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس بارہ میں کچھ عرض کرو اور یہ بھی جی نہ مانتا تھا کہ جو مجھے بتایا گیا تھا اسے غلط سمجھ لوں۔ اسی حالت میں کئی دفعہ میں آپ سے عرض کرنے کیلئے دروازہ کے پاس جاتا مگر پھر لوٹ آتا۔ پھر جاتا اور پھر لوٹ آتا۔ آخر میں نے جرأت سے کام لے کر کہہ ہی دیا کہ رات مجھے ایک فرشتہ نے بتایا تھا کہ آپ کو الہام ہوا ہے انی مع الافواج اتیک بغتۃ مگر ان الہامات میں اس کا ذکر نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا یہ الہام ہوا تھا مگر لکھتے ہوئے میں بھول گیا ۔ چنانچہ کاپی کھولی تو اس میں وہ الہام بھی درج تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر اس الہام کو بھی اخبار کی اشاعت کیلئے درج فرمادیا۔ اب یہ ایک بلا واسطہ کلام تھا جو آپ کے کانوں پر نازل ہوا مگر ساتھ ہی مجھے بھی بتادیا گیا کہ آپ کو یہ الہام ہوا ہے۔
(۸) کلام بلا واسطہ جو قلب پر گرتا ہے منفرد و مشترک: یہ قسم ایسی ہے جو پہلی قسم سے علیحدہ ہے۔ پہلی قسم میں تو کان پرکلام نازل ہوتا ہے مگر اس قسم میں انسانی قلب پر کلام نازل ہوتا ہے۔کان کی حس چونکہ معروف ہے اس لئے اسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے مگر اس حس کو سمجھنا ہر ایک کا کام نہیں ہے۔ لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ کا ایک یہ بھی طریق ہے یہ وہ بعض دفعہ انسانی قلب کو اپنی وحی کا مہبط بنادیتا ہے۔ انسان یہ محسوس نہیں کرتا کہ اس کے کان پر الفاظ نازل ہوئے ہیں بلکہ وہ اپنے قلب پر ان الفاظ کا ’نزول‘ محسوس کرتا ہے (یہ بات خیال سے بالکل جداگانہ ہے)۔ یہ کلام بھی منفرد اور مشترک دونوں قسم کا ہوتا ہے۔
(۹) کلام بلا واسطہ جو زبان پر نازل ہوتاہے منفرد ومشترک: یعنی الہام کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ بعض دفعہ کان کوئی آواز نہیں سن رہے ہوتے لیکن زبان پر بے تحاشا ایک فقرہ جاری ہوتا ہے جسے بار بار وہ دہراتی چلی جاتی ہے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زبان کسی اور کے قبضہ میں ہے اور وہ جلدی جلدی ایک فقرہ بولتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ ربودگی کی کیفیت جو انسان پرطاری ہوتی ہے جاتی رہتی ہے مگر اس کے بعد بھی کچھ دیر تک زبان پر یہ تصرف جاری رہتا ہے اور وہ جلدی جلدی اس فقرہ کو دہراتی رہتی ہے تاکہ انسان کو اچھی طرح یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پرکیا الہام نازل کیا ہے۔ ایسے الہام میں بھی کبھی بطور گواہی دوسروں کو شریک کردیا جاتا ہے۔
(۱۰) کلام بلا واسطہ جو آنکھوں پر نازل ہوتا ہے منفرد و مشترک: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام آنکھوں پر نازل ہوتا ہے یعنی لکھے ہوئے الفاظ پیش کئے جاتے ہیں جن کو پڑھ کر انسان اللہ تعالیٰ کے منشاء سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ یہ کلام بھی دونوں رنگ میں ہوتا ہے یعنی منفرد طور پر بھی اور مشترک طور پر بھی۔ کبھی تو صرف اسے کوئی لکھی ہوئی چیز نظر آجاتی ہے اور کبھی دوسرے لوگ بھی اس نظارہ میں شریک کردیئے جاتے ہیں۔ یہ امر بتایا جاچکا ہے کہ لغت کے لحاظ سے وحی کے ایک معنے تحریر کے بھی ہیں۔ یہ معنے اس دسویں قسم میں آجاتے ہیں کیونکہ اس میں الفاظ تحریرکی صورت میں دکھائے جاتے ہیں اور درحقیقت وحی کی قطعیت الفاظ کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے۔ کان، آنکھ، زبان یا دل کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی۔ جو وحی الفاظ کی صورت میں نازل ہو وہ بہرحال اور تمام وحیوں سے زیادہ شاندار سمجھی جائے گی اور اس کی قطعیت میں کوئی شبہ نہیں ہوگا خواہ یہ قطعیت کان سے حاصل ہو خواہ دل سے حاصل ہو خواہ زبان سے حاصل ہو خواہ آنکھ سے حاصل ہو۔ جس وحی سے متعلق انسان قسم کھاکر کہہ سکتا ہو کہ اس کا لفظ لفظ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس کی زبر اس کی زیر اس کا لام اور اس کامیم سب خدا نے نازل کیا ہے وہ وحی کی تما م قسموں میں سے زیادہ اعلیٰ سمجھی جائے گی۔
(۱۱) کلام بلا واسطہ جو کانوں پر گرتا ہے اور زبان بھی شریک کردی جاتی ہے: یعنی وہ کلام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے صرف کانوں پر نازل نہیں ہوتا بلکہ زبان بھی اسے دہراتی چلی جاتی ہے اور جب ربودیت کی حالت جاتی رہتی ہے تو کان محسوس کررہے ہوتے ہیں کہ ہم نے خداتعالیٰ کا کلام سنا اورساتھ ہی زبان بھی گواہی دے رہی ہوتی ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوا۔
(۱۲) کلام بلا واسطہ جو آنکھوں پر گرتا ہے اور زبان بھی اس میں شریک کردی جاتی ہے: یعنی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تختی دکھائی جاتی ہے جس پر الفاظ لکھے ہوئے ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی زبان بھی اس الفاظ کو دہراتی چلی جاتی ہے۔
(۱۳) کلام بلا واسطہ جو قلب پر گرتاہے اور زبان بھی اس میں شریک کردی جاتی ہے۔
(۱۴) کلام بلا واسطہ جس میں دونوں حواس ظاہری اور تیسرا باطنی شرک بھی کردیئے جاتے ہیں۔ یعنی کبھی اتنے جلال سے خداتعالیٰ کا کلام نازل ہوتا ہے کہ ادھر وہ قلب پر گررہا ہوتا ہے ادھر کانوں پر نازل ہورہا ہوتا ہے اور پھر تیسری طرف زبان بھی اس کو دہراتی چلی جاتی ہے۔
(۱۵) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتہ کے ذریعہ سنایا جاتا ہے اس کلام میںواسطہ پیدا کر دیا جاتا ہے ۔ بجائے اس کے کہ انسان براہ راست اللہ تعالی کے کلام کو سنے اسے فرشتہ نظر آتا ہے جو کہتا ہے کہ بات یوں ہے جیسے غار حرا میںہوا۔
(۱۶) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتہ کے ذریعہ دکھایا جاتا ہے جیسے بعض حدیثوں میں ذکر آیا ہے کہ غار حراء میں جبریل نے رسول کریم ﷺ کو حریر پر لکھی ہوئی ایک تحریر بھی دکھائی
(۱۷) کلام بالواسطہ جو نہ نظر آنے والے فرشتہ کے ذریعہ سنایا جا تا ہے اس میں کوئی فرشتہ نظر نہیں آتا مگر آواز سنائی دیتی ہے کہ میں ایسا کہتا ہوں یا فرشتہ کہتا ہے کہ مجھے خدا نے یہ بات پہنچانے کا حکم دیا ہے
(۱۸) کلام بالواسطہ جو نہ نظر آنے والے فرشتہ کے ذریعے دکھایا جاتا ہے آنکھوں کے سامنے تختی آتی ہے جس پر کچھ لکھا ہو ا ہوتا ہے اور صاف پتہ لگتاہے کہ کسی اور ہاتھ نے اسے آگے کر دیا ہے مگر فرشتہ نظر نہیں آتا۔
(۱۹) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتہ کے ذریعہ سے یقنطہ میں سنایا جاتا ہے اور دوسرے اس میں شریک نہیں ہوتے یعنی انسان کے حواس ظاہری پور ا کام کر رہے ہوتے ہیں کہ اسے فرشتہ نظرآتا ہے جو اللہ تعالی کا کلام سناتا ہے مگر کوئی دوسراشخص اس میں شریک نہیں ہوتا نہ وہ فرشتہ کو دیکھتا ہے اور نہ اس کی آواز سن سکتا ہے ۔
(۲۰) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتہ کے ذریعہ سنایا جاتا ہے ۔ اور دوسرے اس میں سماعاً شریک ہوتے ہیںرویتہ نہیںبخاری میںآتا ہے حضرت عائشہ ؓ نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کو کسی سے باتیں کرتے سنا۔ حضرت عائشہ ؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ آپ ؐکس سے باتیں کر رہے ہیں ۔ آپ ؐ نے فرمایا جبریل آیا ہے جو مجھ سے باتیں کر رہا ہے اور وہ تمہیںالسلام علیکم کہتا ہے ۔ اب دیکھو حضرت عائشہ ؓ نے با تیں سن لیں مگر انہیں فرشتہ نظر نہ آیا ۔ پس یہ وہ قسم ہے جس میں او ر لوگ سماعاً تو شریک کر دئے جاتے ہیں مگر روئیۃ نہیں ۔
(۲۱) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتے کے ذریعہ سے سنایا جاتا ہے اور دوسرے لوگ اس میں سماعاً و روئیۃً شریک ہوتے ہیں جیسے وحیہ کلبی کی شکل میںجبریل کے آنے کا واقعہ ہے ۔ وہ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں آئے آپ ؐسے باتیں کرتے رہے اور صحابہ نے ان کو اچھی طرح دیکھا ۔ جب وہ چلے گئے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ذالک جبریل وہ جبریل تھے جو تمہیں دین کی باتیں سکھانے آئے ۔ ا س کلام کو صحابہ ؓ نے بھی سنا اور فرشتہ کو بھی دیکھا ۔
(۲۲) خواب، کلام اور حقیقت ظاہر تینوں کا اشتراک بعض دفعہ ایک نظارہ میں تینوں صورتیںجمع کر دی جاتی ہے ۔ اس میںخواب بھی ہوتی ہے ، اس میںکلام بھی ہوتا ہے اور اس میں حقیقت ظاہر بھی ہوتی ہے ۔ جیسے حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ سرخی کے چھینٹوں والا واقعہ پیش آیا جس کے نشانات آپ ؑ کے کرتہ پر بھی پائے گئے ۔ اس میں تینوں باتیں موجود تھیں ۔ یعنی خواب میں ایک نظارہ بھی دکھایا گیا ۔ اللہ تعالی نے آپ ؑ سے بات بھی کی اور پھر ظاہر میں سرخی کے چھینٹوں کا نشان قائم کر دیا ۔ پس وحی کی بائیسویں قسم وہ ہے جس میںخواب ، کلام اور حقیقت ظاہر تینوں کا اشتراک پایا جاتا ہے ۔
(۲۳) وحی کی تیئیسویں قسم وحی قلبی خفی ہے یعنی وہ وحی جس میںالفاظ نہیں ہوتے صرف دل پر اللہ تعالی کے منشاء کا القاء ہوتا ہے ۔ جیسے رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ روح القدس کی طرف سے فلاں بات میرے دل میںڈال دی گئی ہے اور اب مجھے اس میں کسی قسم کا تردد نہیں ۔ یہ الفاظ صاف بتاتے ہیںکہ رسول کریم ﷺ پر یہ وحی الفاظ کی شکل میں نازل نہیں ہوئی بلکہ یہ صرف قلبی وحی تھی جو القاء کی صورت میں نازل ہوئی ۔
اس وحی کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ وحی دوسری وحیوں کے ساتھ مل کر آتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وحی دوسری وحیوں کے بعد آتی ہے تا کہ لوگوں کو کسی قسم کا دھوکہ نہ لگے ۔ بہائیوں کو تمام تر دھوکہ اسی آخری تیئیسویں وحی کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لگا ہے ہم اس وحی سے انکار نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا اپنا تجربہ بھی یہی ہے کہ اس قسم کی وحی ہوتی ہے اور رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود ؑ کے ارشادات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وحی کی ایک قسم قلبی خفی وحی بھی ہے ۔ پس ہم یہ تو نہیںکہہ سکتے کہ بہائی جس وحی کا ادعا کرتے ہیں اسکا کوئی وجود ہی نہیں۔ مگر ہم یہ ضرور کہیںگے کہ بہائیوں نے اس وحی کی حقیقت کو نہیںسمجھا ۔ وہ اپنے دل کے ہر خیال کا نام وحی رکھنے کے عادی ہیں۔ چنانچہ بہاء اللہ کے دل میں جو خیال آتا تھا وہ کہہ دیتے تھے کہ یہ وحی ہے ۔ اس طرح وہ جو کچھ لکھتے ہیںاس کو وحی قلبی خفی قرار دے دیتے ہیں۔ ہمیںچونکہ خود اعتراف ہے کہ وحی کی ایک قسم وہ بھی ہوتی ہے جس میں الفاظ نازل نہیں ہوتے صرف قلب میںاللہ تعالی کی طرف سے القاء کیا جاتا ہے اس لئے وہ بعض دفعہ لوگوں کو دھوکہ دینے میںکامیاب ہو جاتے ہیں ۔ مگر ایک بات ایسی ہے جو اس بحث کے سلسلہ میں ہماری جماعت کے دوستوں کو یاد رکھنی چاہیئے اور جو بہائیوں کے پھیلائے ہوئے زہر کے ازالہ میںبہت کام آسکتی ہے اور وہ یہ کہ مامورین کے تجربات میں یہ بات آئی ہے کہ یہ وحی دوسری وحیوں کے ساتھ مل کر آتی ہے اکیلی نہیںآتی ۔ اگر اکیلی آجائے توہر آدمی کہہ سکتا ہے کہ مجھے بھی وحی ہوتی ہے اور پھر یہ امتیاز کرنا مشکل ہو جائے کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ سے کام لے رہا ہے اس نقص کے ازالہ کے لئے اللہ تعالی نے یہ صورت رکھی ہے کہ وہ پہلے اپنے بندہ پر اور قسموں کی وحی نازل کرتا ہے اور جب اس میں بیان کردہ واقعات کے پورا ہونے سے لوگوں کو یہ یقین آجاتا ہے کہ فلاں شخص سچ بول رہا ہے تو اس کے بعد اس پر وحی قلبی خفی بھی نازل کر دیتا ہے ۔ یہ نہیں ہوتا کہ اسے اپنی سچائی کا اور تو کوئی نشان نہ دیا جائے اور صرف قلبی خفی وحی اس کی طرف نازل کرنی شروع کر دی جائے ۔ اور یہ لفظ وحی کے مقابلہ پر کمیت میںبہت ہی کم ہوتی ہے ۔ میںاس کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں ۔ میرے پاس ایک دفعہ عبدا للہ تیما پوری آئے اور کہنے لگے آپ مجھے کیوں نہیں مانتے اور مرزا صاحب کو مانتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ مرز ا صاحب کو ہم اس لئے مانتے ہیںکہ آپ ؑ کی صداقت کے ہم نے متواتر نشانات دیکھے اور ہمیں یقین آگیا کہ آپ ؑ سچے ہیں۔ کہنے لگے یہ تو بعد کی باتیں ہیں شروع شروع میںجو لوگ آپ پر ایمان لائے تھے انہوں نے کونسا نشان دیکھا تھا ؟ مثلاً حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ آپ پر ایمان لائے سوال یہ ہے کہ وہ کس نشان کو دیکھ کر آپ کی صداقت کے قائل ہوگئے تھے ؟ میں نے کہا دنیا میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ابو بکر ؓ کی طرح نشانات دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ سمجھتے ہیں اگر ہم نشانا ت دیکھ کر ایمان لائے تو اس سے ہمارا درجہ کم ہو جائے گا ۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق حدیثوں میںصاف طور پر آتا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ کے دعویٰ نبوت کی خبر ان کو پہنچی اور وہ آپ سے یہ دریافت کرنے آئے کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ نے الہام کا دعوی کیا ہے تو اس وقت رسول کریم ﷺ نے چاہا کہ اپنی صداقت کے متعلق کچھ وضاحت فرمائیں مگر حضرت ابو بکر ؓ نے آپ ؐ کو روک دیا اور کہاآپ ؐ صرف اتنا بتائیںکہ کیا آپ نے دعوی کیا ہے کہ آپ اللہ تعالی کے نبی ہیں اور جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہاں تو حضرت ابو بکر نے کہا یا رسول اللہ میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور پھر کہا میں نے اس لئے دلائل سننے سے انکار کیا تھا کہ اگر میں دلائل سن کر ایمان لاتا تو میں اپنے ایمان کے کمزور ہونے کا ثبوت مہیا کرنے والا ہوتا ۔ میںنہیں چاہتا تھا کہ میرے ایمان کی بنیاد نئے دلائل اور نشانات پر ہو ۔ بلکہ میںچاہتا تھا کہ میں جو مشاہدہ آپ کے اخلاق کا کر چکا ہوں اسی کی بنا پر آپ پر ایمان لانے کی سعادت حاصل کروں ۔ یہی حال حضرت خلیفۃ اول ؓ کا تھا ۔ عبداللہ تیما پوری کہنے لگے تو پھر میرے متعلق آپ یہ کیوں شرط قائم کرتے ہیں کہ میرے لئے نشان دکھا نا ضروری ہے ۔ میں نے کہا کہ یہ بھی ٹھیک ہے کہ نبی کے دعویٰ کے ابتداء میں ایمان لانے والے ان زبردست نشانات کے ظہور سے پہلے ایمان لاتے ہیںجو بعد میں ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن ان کیلئے بھی اللہ تعالی ایمان لانے کی یقینی صورتیں پیدا کر دیتا ہے ۔ اور وہ اس نبی کا گذشتہ نمونہ اور عمل ہوتا ہے مگر اس سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اس کے ذاتی واقف ہوں ۔ حضرت ابوبکر ؓ کے سامنے رسول کریم ﷺ کی صداقت امانت اور بنی نوع انسان کی خدمت تھی ، حضرت خلیفہ اول کے سامنے حضرت مسیح موعود ؑ کا تعلق باللہ ، اسلام کے احیاء کا جوش اور اس کے لئے غیر معمولی علمی خدمت تھی جس کہ وجہ سے آپ نے براہین احمدیہ جیسی معجزانہ کتاب لکھی۔ ابتدائی زمانہ کے راستباز لوگ دیکھ رہے تھے کہ آپ نے براہین احمدیہ کے نام سے ایک ایسی کتاب لکھی ہے جس میں صداقت اسلام کے ایسے زبر دست دلائل دئے اور اس طرح تحدی سے دشمنان دین کو مقابلہ کے لئے للکارا ہے کہ یہ کام بغیر تائید الہی کے نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے نیک لوگ جن کے دل صاف تھے فوراً پکار اٹھے کہ یہ شخص اسلام کا پہلوان اور دین کو دشمنوں کے نرغے سے محفوظ رکھنے والا ہے ۔ اس کے بعد جب آپ نے دعویٰ کیا تو جو لوگ آپ کے حالات سے واقف تھے وہ فوراً آپ پر ایمان لے آئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ جس شخص کو خدا تعالی نے وہ نور بخشا تھا جس کی بنا ء پر اس نے براہین احمدیہ جیسی عظیم الشان کتاب لکھی وہ کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا ۔ جس نے اسلام کی پہلے حفاظت کی ہے وہ اگر اب بھی اس کی حفاظت کا دعویٰ کرتا ہے تو بالکل سچ کہتا ہے ، چنانچہ لوگوں نے براہین کا نشان دیکھنے کے بعد کسی مزید نشان دیکھنے کی ضرورت نہ سمجھی اور آپ کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گئے ۔ عبداللہ تیما پوری کہنے لگے تو پھر میرے متعلق آپ کیا نشان چاہتے ہیں ؟ میں نے کہا براہین احمدیہ نا مکمل رہ گئی ہے اور شاید اللہ تعالی نے ا س کو اسی لئے نا مکمل رہنے دیا ہے کہ کوئی آنے والا اس کو مکمل کرے ۔ اب آپ اس بات کے مدعی ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو مامور بنایا ہے آپ اس کو مکمل کر دیں تو میںآپ کو آپ کے دعویٰ میں صادق تسلیم کر لوں گا اور سمجھ لوں گا کہ آپ کی صداقت کے لئے یہ نشان کافی ہے ۔ اس پر وہ اچھا کہہ کر چلے گئے مگر آج تک ایک سطر بھی براہین احمدیہ کی تکمیل کے لئے نہیں لکھ سکے ۔
جس طرح مامورین کی بعثت والی زندگی سے پہلے اللہ تعالی ایسے شواہد پیدا کر دیتا ہے جو لوگوں کے لئے ایمان کے محرک ہوتے ہیں۔ اسی طرح وحی قلبی خفی کے نازل ہونے کے ادعا کرنیوالے انسان کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس پر وہ دوسری وحی بھی نازل ہوتی ہو اور اس کی صداقت کے ایسے دلائل اور شواہد پائے جاتے ہوں جن کی بنا ء پر کسی شخص کے دل میںاس کے وہمی یا پاگل ہونے کا خیال نہ گزرے ۔ مثلاً رسول کریم ﷺ نے جب فرمایا کہ روح القدس نے فلاں بات میرے دل میںڈال دی ہے تو صحابہ ؓ کو اس کے ماننے میں کوئی تامل نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس سے پہلے رسول کریم ﷺ پر فلق الصبح کی طرح پوری ہونیوالی وحی بھی نازل ہو چکی تھی ۔ جبریل کے ذریعہ بھیجی جانے والی وحی بھی نازل ہو چکی تھی اور وہ کلام بھی آپ پر نازل ہو چکا تھا جو من وراء حجاب ہوتا ہے۔ اور وہ سمجھ سکتے تھے کہ جس شخص نے ہمیشہ سچی باتیں ہمارے سامنے بیان کی ہیںوہ اب بھی جو کچھ کہہ رہا ہے کبھی غلط نہیںہو سکتا۔ حدیثوں میںآتا ہے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہاآپ نے میرا اتنا قرض دینا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میںتو تمہاری رقم واپس کر چکا ہوں اس نے کہا آپ واپس دے چکے ہیں تو کوئی گواہ پیش کریں ۔ اس پر ایک صحابی کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میںاللہ تعالی کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اس یہودی کے روپے ادا کر دیئے ہیں ۔ جب وہ واپس چلا گیا تو رسول کریم ﷺ نے اس صحابی سے پوچھا میں نے یہ قرض واپس کیا ہے اس وقت تو تم موجود نہیں تھے؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ جانے بھی دیجئے آپ آسمان کی باتیں ہمیںبتاتے ہیںتو ہم آپ پر ایمان لے آتے ہیں کیا زمین کی بات آپ کہیں گے تو ہم اس پر ایمان نہیںلائیں گے ۔ جس طرح ہم آپ کی آسمان والی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اسی طرح ہم آپ کو زمین سے تعلق رکھنے والی باتوں میں بھی سچا اور راستباز سمجھتے ہیں یہ بات جو اس صحابی ؓ نے بیان کی بالکل درست ہے ۔ کیونکہ جو شخص خدا تعالی کا مامور اور مرسل ہے اگر وہ کوئی بات کہے گا تو بہر حال سچ ہو گی ۔یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ غلط بات کہے ۔ چنانچہ جب اس صحابیؓ نے یہ بات کہی تو رسول کریم ﷺ نے اسے ملامت نہیںکی بلکہ آپ خوش ہوئے اور فرمایا آئندہ اس شخص کی گواہی دو گواہوں کے برابر سمجھی جائے ۔ یہ فضیلت اسے دوسروں پر اسی لئے عطا کی گئی کہ اس نے محض دوستی کی خاطر بات نہیں کی بلکہ اپنی گواہی کی بنیاد اس نے کلام الہی پر رکھی اور کہا کہ جس شخص پر خدا تعالی روزانہ اپنا کلام نازل کرتا ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اس کی دوسری بات بھی جو زمین سے تعلق رکھنے والی ہے کبھی غلط نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح جس شخص پر اللہ تعالی وحی قلبی خفی نازل کرتا ہے اسے دوسرے شواہد بھی عطا کرتا ہے تاکہ لوگوں کو دھوکہ نہ لگے اور وہ سمجھ لیں کہ جو شخص پہلی وحی کے بیان کرنے میںراستبازی سے کام لے رہا ہے وہ اس وحی میں بھی ضرور صادق اور راستباز ہے ۔ لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ نہ اس پر کثرت سے وحی لفظی نازل ہوتی ہے نہ اس پروحی جبریلی نازل ہوتی ہے نہ اس پر تصویری یا تعبیری زبان میں وحی نازل ہوتی ہے اور وہ دعویٰ یہ کرتا ہے کہ مجھے وحی قلبی خفی ہوتی ہے تو اس کا یہ دعویٰ کسی عقلمند کی نگاہ میںقابل قبول نہیںہو سکتا ۔ ہر شخص کہے گا کہ وہ پاگل ہے جو اپنے دل کے خیالات کا نام وحی رکھ رہا ہے ۔ غرض یہ وحی بڑا فتنہ پیدا کرنے والی چیز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی اس وحی کو کلام لفظی اور جبریلی اور غیر جبریلی کے تابع رکھتا ہے ۔ جس شخص پر بکثرت یہ تین وحیاں نازل ہوں وہ اگر کہے کہ مجھ پر وحی قلبی خفی نازل ہوتی ہے توہم اسے فریب خوردہ نہیںکہیں گے اور اس کی بات مان لیں گے ۔ لیکن جب کوئی دوسرا شخص یہ کہے جس پر کوئی اور وحی نازل نہ ہوتی ہو تو ہم سمجھیں گے وہ پاگل ہے ۔ یہی حال بہاء اللہ اور لاہور کے غلا م محمد کا ہے ہم ان لوگوں کو بھی عام معیار عقل سے گرا ہوا خیال کرتے ہیں۔
دوسرے یہ وحی امور غیبیہ کے متعلق ہوتی ہے امور احکامیہ کے بارہ میں نہیںتا کہ دھوکہ نہ لگے ۔ کیونکہ امور غیبیہ میںفتنہ کا اندیشہ نہیںہوتا ان کی تفسیر بعد میںہو جاتی ہے مگر امور احکامیہ کے نزول کی کوئی تفسیر بعد میں نہیں ہوتی ۔
کلام الہی کے متعلق یہ با ت بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ سب اقسام کلام حقیقت ظاہر اور مجاز دونوں قسم کی عبارتوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ اس میںصرف حقیقت ظاہری پائی جاتی ہو ۔ بلکہ جس طرح منام میں دیکھی گئی چیز تعبیر طلب ہوتی ہے اسی طرح وہ کلام بھی جو اللہ تعالی نے اپنے بندہ پر نازل فرمایا ہے اس میں مجاز اور استعارات پائے جاتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ منام میںجو نظارہ دکھایا جائے وہ اکثر تعبیر طلب ہوتا ہے لیکن الفاظ کی صورت میں جو کلام نازل ہوتا ہے اس میںسے بعض تاویل طلب ہوتا ہے اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے جب غیر احمدیوں کے سامنے ہم قرآن کریم کی آیات کے وہ مطالب بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالی نے ان میںمخفی رکھے ہوئے ہیں تو وہ کہہ دیا کرتے ہیںتم تو کلام الہی کی تاویل کرتے ہو ۔ بجائے ا س کے کہ ظاہرالفاظ جس حقیقت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں تم اس کو لو تو الفاظ کی تاویل کرنا شروع کر دیتے ہو ۔ ان کے ذہن میں یہ بات مرکوز ہوتی ہے کہ کلام الہی کی تاویل نہیں کی جا سکتی بلکہ ہمیشہ اس کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے ہی دیکھا جا سکتا ہے اور اگر تاویل کی جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر کلام الہی کی تاویل کی جائے تو پھر تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا۔ یہ ایسی عقل کے خلاف بات ہے کہ اسے سن کر حیرت آتی ہے ۔ آخر دنیا میںعام بول چال جو روزانہ بیداری کی حالت میں کی جاتی ہے اس میںمجاز استعمال ہوتا ہے یا نہیں ہوتا اور پھر ان باتوں کے بعد دنیا میںکوئی ٹھکانہ رہتا ہے یا نہیں رہتا؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ دنیا میںجو باتیںکی جاتی ہیںان میں استعارات بھی ہوتے ہیں ، ان میںمجاز بھی ہوتا ہے اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر کلام میںمجاز استعمال کیا گیا تو دنیا میںکوئی ٹھکانہ نہیںرہے گا ۔ غالب کا کلام پڑھ لیا جائے، ذوق کے کلام کو دیکھ لیا جائے وہ مجاز اور استعارے استعمال کرتے ہیں یا نہیں ؟ اور کیا ان کے کلام کے بعد دنیا میںکوئی ٹھکانہ رہتا ہے یا نہیںرہتا؟ ہم تو دیکھتے ہیں بڑے بڑے ادیب اور بڑے بڑے شاعر روزانہ مجاز اور استعارے اپنے کلام میںاستعمال کرتے ہیںاور کوئی شخص ان کے اس طریق پر اعتراض نہیں کرتا ۔ اگر ان کے کلام کے بعد دنیا میںٹھکانہ قائم رہتا ہے ۔ تو کیا خدا تعالی کا کلام ہی ایک ایسی چیز ہے کہ اگر اس میں مجاز یا استعارہ آجائے تو دنیا میںکوئی ٹھکانہ نہیںرہتا ؟ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ معترضین خدا تعالی کے کلام کو اتنی خوبیوں کا حامل بھی نہیںسمجھتے جتنی خوبیاں ان کے نزدیک انسانی کلام میں موجود ہونی چاہیئں ۔ خدا تعالی اپنے کلام میںمجاز اور استعارہ استعمال کرے تو انہیں اعتراض سوجھ جاتا ہے لیکن اگر بڑے بڑے ادیبوں کے کلام میںمجاز اور استعارہ استعمال ہو تو اس وقت وہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیںکہ یہ بڑا فصیح کلام ہے ۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ مجاز اور استعارہ استعمال کی وجہ سے ہمیںا س کلام کے سمجھنے میں شبہ پیدا ہو گیا ہے وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ مجاز اور استعارہ کے استعمال کر لیا گیا ہے تو پھر تو کلام کا اعتبار اٹھ گیا ۔ وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ مجاز اور استعارہ کے استعمال کی وجہ سے زبان بگڑ گئی ہے بلکہ وہ اس کلام سے مزہ اٹھا تے ہیں ۔ اس کی بلاغت کی تعریف کرتے ہیں اور اسے سارے کلام پر ترجیح دیتے ہیں آخر غالب کو دوسروں پر کیا فوقیت حاصل ہے یا ذوقؔکو دوسروں پر کیا فوقیت حاصل ہے یہی کہ وہ مجاز اور استعارہ میں حقیقت کو بیان کرتے ہیں اور لوگ سن کر کہتے ہیں کہ غالب اور ذوق نے کمال کر دیا ۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ جسے عام کلام میں اعلی درجے کا کمال سمجھا جاتا ہے وہ کمال اگر الہی کلام میںآجائے تو کہتے ہیںکہ پھر تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا ۔ جب عام بول چال جو بیداری میں کی جاتی ہے اس میںبھی مجاز کثرت سے استعمال ہوتا ہے تو پھر وحی میںکیوںنہ ہو؟استعارہ اور مجاز تو بلاغت کی جان ہوتے ہیں کلام الہی ان کے بر محل استعمال سے کیوں محروم ہو؟ ہاں جس طرح انسانی بول چال میںمجاز اور استعارہ کے باوجود غلطی سے بچنے کے ذرائع موجود ہیں ایسے ہی ذرائع کلام الہی کو بھی حاصل ہیں ۔ ان کی موجودگی میں عقلمند کو دھوکہ نہیںلگ سکتا اور بے وقوف کو تو ہر بات سے دھوکہ لگ سکتا ہے ۔ جیسے ایک بیوقوف کی مثال ہے کہ اس نے یہ سن کر کہ اگر بتادو میری جھولی میںکیا ہے تو ان میںسے ایک انڈا تم کو دے دوں کہ کہ کچھ اتہ پتہ بتائو تو بتائوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو ذرائع انسانی کلام میںغلطی سے محفوظ رہنے کے لئے اختیار کئے جا تے ہیں وہ کلام الہی کے لئے بھی استعمال ہو سکتے ہیں ۔ آخر یہ صاف بات ہے کہ جب مجاز استعمال کیا جائے تو لازما ً اس کا کوئی نہ کوئی قرینہ ہو گا ۔ قرینہ کے بغیر ہی اگر مجاز استعمال ہونے لگے تو پھر بے شک دنیا میں اندھیرا پڑ جائے ۔ مثلاً اگر میں کہوں کہ کل فلاںوفات یافتہ شخص میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے یوں کہا توچونکہ وہ صاحب فوت شدہ ہوں گے اس لئے میری یہ بات حقیقت پر مشتمل نہیں سمجھی جائے گی ۔ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ فلاں صاحب (جو زندہ ہوں) میرے پاس آئے ۔ اور یہ بات سن کر بعض لوگ جھگڑا شروع کر دیں ایک کہے گا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواب میں آئے تھے اور دوسرا کہے کہ نہیںظاہر میںآئے تھے تو یہ بے وقوفی ہو گی ۔ کیونکہ پہلے قول میںیہ قرینہ موجود تھا کہ جن صاحب کا ذکر تھا وہ فوت ہو چکے ہیں اور وہ بہر حال خواب میںہی آسکتے ہیں ظاہرمیں نہیں ۔ لیکن دوسرے قول میں یہ قرینہ نہیں ۔ پس مجاز اور استعارہ جب بھی کلام میںاستعمال کیا جائے گا۔ اس کے لئے قرائن کا ہونا ضروری ہو گا تا کہ ہر شخص سمجھ سکے کہ جو بات بیان کی جارہی ہے وہ کلام حقیقت ہے یا کلام مجاز۔ لیکن بہر حال دنیا میںہمیشہ مجاز اور استعارات استعمال کئے جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ لوگوں پر ان استعمالات کی وجہ سے کسی کلام کا سمجھنا مشتبہ ہو جائے وہ ایسے کلام سے نہایت لطف اٹھاتے اور استعارات کو فصاحت کی جان قرار دیتے ہیں ۔ پس جس طرح مجاز اور استعارہ انسانی کلام میںچار چاند لگا دیا کرتا ہے اسی طرح الہی کلام میں بھی مجاز اور استعارات کا استعمال اس کے حسن کو دوبالا کر دیتے اور اس کی شان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتے ہیں ۔ پس یہ بالکل غلط خیال ہے کہ خدا تعالی کے کلام میںمجازا ور استعارہ کے استعمال سے حقیقت چھپ جاتی ہے ۔ مجاز اور استعارہ پہچاننے کے دنیا میںکچھ قواعد مقرر ہیں ۔ جو بند وں کے کلام پر بھی چسپاں ہو سکتے ہیں ۔ اور خدا تعالی کے کلام پر بھی ۔ اگر ان قواعد کے مطابق مجاز و استعارہ کا استعمال بتایا جائے گا تو ماننا پڑے گا کہ وہ معنے درست ہیں اگر ان کے خلاف معنے کئے جائیں گے تو ان معنوں کو غلط قرار دیا جائیگا شبہ پید اہونے کا کوئی سوال ہی نہیں۔
یومئذ یصدر الناس اشتاتا لیروا اعمالہم O ط
؎ ۷ حل لغات ۔ اشتاتا کے معنے ہیں متفرقین یعنی گروہ در گروہ ۔
تفسیر ۔ مفسرین نے اس کے معنے آخرت کے لحاظ سے کئے ہیں ۔ چونکہ انہوں نے تمام سورۃ کو آخرت پر چسپاں کیا ہے اس لئے اس کے معنے بھی انہوں نے نیک و بد ۔ جنتی و دوزخی اور سفید و سیاہ کے کئے ہیں ۔ مگر سفید و سیاہ سے انگریز و ہندوستانی مراد نہیں بلکہ ان کا اشارہ یوم تبیض وجوہ و تسوع وجوہ ( ال عمران ۱۱: ۲) کی طرف ہے کہ آخرت میںکچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے چہرے سفید ہوں گے اور کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے چہرے سیاہ ہوں گے یعنی کچھ سرخ رو ہوں گے کچھ زیر الزام آئیں گے ( دیکھ لو یہیں مجاز آگیا) اسی طرح وہ اشتاتا کے معنے دائیں طرف والے اور بائیں طرف والے کے کرتے ہیں میں چونکہ اسے آخری زمانہ کے متعلق سمجھتا ہوں جس میں رسول کریم ﷺ کی بعثت ثانیہ مقدر تھی اس لئے میں اس کے یہ معنے کرتا ہوں کہ اس وقت جتھہ بندی زوروں پر ہو گی ۔ اور پارٹی بازی بہت ہو گی ۔ یومئذ یصدر الناس اشتاتا ۔ یہ ایک خاص علامت ہے جو پہلے کسی زمانہ میں رونما نہیں ہوئی صرف موجودہ زمانہ ہی ایسا ہے جس میں یہ علامت نمایا ں طور پر نظر آتی ہے ۔ پہلے زمانوں میں صرف منفرد کوششیں کی جاتی تھیں۔ اجتماع اور اتحاد کا رنگ ان میں مفقود تھا ۔ اس زمانہ میںایک اچھے تاجر کے صرف اتنے معنے تھے کہ زید نے کچھ روپیہ لیا اور اس نے اپنے شہر میںتجارت شروع کر دی ۔ یا اچھے صناع کے معنے صرف اتنے تھے کہ فلاں ترکھان اچھی چیزیں بناتا ہے یا فلاں لوہار ہوہے کا کام خوب جانتا ہے یا مزدور کے معنے صرف اتنے تھے کہ ایک غریب شخص کسی امیر کے ہاں ملازم ہو گیا یا اس کا کوئی اور کام معین معاوضہ پر کرنے لگا اس زمانہ میںبھی بے شک مزدور بعض دفعہ آقا سے لڑ رہا ہوتا تھا اور اگر آقا کو غصہ آتا تو وہ مزدور پر اپنا غصہ نکال لیتا ۔ مگر بہر حال ہر تاجرؔ ہر صناعؔ ہر مزدورؔ اور ہر سرماؔیہ دار انفرادی جدوجہد کرتا تھا ۔ اسے اپنے ہم پیشہ دوسرے لوگوں کے حقوق اور ان کے مطالبات سے کوئی تعلق نہیںہو تا تھا زید چاہتا تھا کہ میرا معاملہ سدھر جائے اور بکر چاہتا تھا کہ میرا معاملہ سدھر جائے مگر قرآن کریم اس جگہ یہ خبر دیتا ہے کہ آخری زمانہ میںیہ اختلافات جتھہ بندی کی شکل اختیار کر لینگے اور پارٹی سسٹم بہت ترقی کر جائیگی۔ اور لوگ یہ پارٹی بازی اس لئے کریں گے لیرواعمالھم کہ اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھیںیعنی انہیںیقین ہو گا کہ جتھہ بندی سے کام کرنے کے نتائج اچھے نکلتے ہیں ۔ اگر جتھہ بندی نہیں ہو گی تو ہمارے کام کا کوئی نتیجہ نہیںنکلے گا پہلے زمانہ میںمزدور اگر آقا کے رویہ سے بہت تنگ آجاتا تو وہ کہہ دیا کرتاتھا کہ میری مزدوری مجھے دے دیں میںچلا جاتا ہوں ۔ مگر اس زمانہ میں جب مزدوروں نے دیکھا کہ اس طرح مالکوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ بجائے اس کے کہ زید کا نوکر زید کے پاس جائے ، بکر کا نوکر بکر کے پاس جائے ، خالد کا نوکر خالد کے پاس جائے اور انفرادی رنگ میں اپنا مطالبہ پیش کر ے سب اکٹھے ہو جائو اور مل کر اپنے حقوق کا سوال اٹھا ئو ۔ چنانچہ زید کا نوکر اور بکر کا نوکر اور خالد کا نوکر اور سلیم کا نوکر اور حامد کا نوکر سب اکٹھے مل جاتے ہیں اور وہ اپنی ایک ایسوسی ایشین قائم کر لیتے ہیں ۔ جب کسی مطالبہ کا وقت آئے تو سارے نوکر مل جاتے ہیںاور متحدہ طور پر اپنے حقوق کے متعلق شور مچانا شروع کر دیتے ہیں مثلاً تنخواہ بڑھانے کا سوال ہو تو بجائے اس کے کہ زید کا نوکر زید سے ، بکر کا نوکر بکر سے اور خالد کا نوکر خالد سے الگ الگ مطالبہ کرے سب مل کر اپنے مالکوں کے سامنے متحدہ طور پر مطالبہ رکھ دیتے ہیں۔ اور مالک مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کے حق کو تسلیم کریں ۔ پس فرماتا ہے یومئذ یصدر الناس اشتاتا اس دن انفرادی جدوجہد کی بجائے تما م لوگ جتھہ بندی کر کے آئیںگے اور اس لئے آئیںگے لیرو اعمالھم تا کہ ان کے اعمال ان کو دکھائیںجائیں ۔ یعنی ان کے فعل کا نتیجہ نکل آئے ۔ انفرادی رنگ میںکوشش کرنے سے چونکہ ہر شخص کی طاقت ضائع چلی جاتی ہے اور کوئی اچھا نتیجہ برآمد نہیںہوتا اس لئے وہ اس دن جتھہ بندی اور پارٹی سسٹم کی طرف مائل ہو جائیںگے اور متحدہ محاز قائم کر کے اپنے مطالبات پیش کریں گے تا کہ ان کی آواز میںاثر پیدا ہو اور وہ مطالبات جو ان کی طرف سے پیش کئے جائیں ان کو قبول کرنے کے لئے دوسرے لوگ تیار ہوں چنانچہ دیکھ لو کنسرویٹو ؔ۔ لبرلؔ۔ لیبرؔ۔ ڈیموکریٹؔ۔ ری پبلکن ؔ ۔ راڈیکلؔ۔ نہلسٹؔ۔ نیشنلسٹؔ۔ سوشلسٹؔ۔ ناٹسی ؔ۔ فاسیؔ۔ فلانجےؔ۔کمیونسٹؔ۔ مہاسبھا ؔ ۔ کانگریسی ؔ۔ مسلم لیگی ؔ۔ یونی ؔنسٹ۔ وفدؔسٹ۔ سعد سٹؔ۔ وغیرہ وغیرہ ہزاروں پارٹیاں دنیا میںبن رہی ہیں اور سب ایک ہی وجہ بتاتے ہیں کہ بغیر جتھہ کے اچھا نتیجہ نکل نہیںسکتا ۔ پس فرماتا ہے یومئذ یصدر الناس اشتاتا لیرو اعمالھم ۔ لوگ اس زمانہ میںپارٹیاں بنا کر اس لئے کام کریں گے تا کہ ان کے کاموں کے اچھے نتیجے نکلیں ۔ بے شک یہ خیالات دنیا میں پہلے بھی موجود تھے اور یہی چیزیں کو آج دنیا میں نظر آتی ہیںپہلے بھی پائی جاتی تھیں ۔ پہلے بھی کئی مزدور تھے جو یہ کہا کرتے تھے کہ غریبوں کو کوئی پوچھتا نہیںاور کئی آقا اپنے ملازموں سے کہا کرتے تھے کہ اگر تم نے ذرا بھی گستاخی کی تو تمہیں کان سے پکڑکر نکال دیا جائیگا۔ مگر پہلے زمانہ اور اس زمانہ میںفرق یہ ہے کہ پہلے پارٹی بازی اور جتھہ بندی نہیں تھی اب ہر گروہ نے اپنی الگ الگ تنظیم کر کے الگ الگ سوسائٹیاں قائم کر لی ہیں ۔ ایک طرف ایمپلائز ایسوسی ایشن ہوتی ہے تو دوسری طرف دوسری ایمپلائز ایسوسی ایشن کام کر رہی ہوتی ہے ۔ ایک طرف ریلوے اونرز ایسوسی ایشن بنتی ہے تو دوسری طرف ریلوے ایمپلائز ایسوسی ایشن قائم ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح کسی جگہ کول مائنرز ایسوسی ایشن قائم ہے تو کسی جگہ کول اونرز ایسوسی ایشن کام کر رہی ہے ۔ غرض ایک دوسرے کے مقابلہ میںسوسائٹیاں بن چکی ہیں ۔ ایک نوکروں کی ایسوسی ایشن ہے تو دوسری مالکوں کی ۔ ایک ان لوگوں کی ایسوسی ایشن ہے جو سیاسیات میں غالب ہیںتو ایک ان لوگوں کی ایسوسی ایشن ہے جو سیاسیات میںمغلوب ہیںگویا ہر طرف جتھہ بن گیا ہے اور اب فردفرد کوشش نہیںکرتا بلکہ گروہ گروہ کوشش کرتا ہے یہی خبر تھی جو اللہ تعالی نے اس آیت میںدی کہ یومئذ یصدر الناس اشتاتا اس دن فرد فرد کوشش نہیںکرے گا بلکہ گروہ گروہ کوشش کرے گا ۔ لیرو اعمالھم تا کہ ان کی کوششوں کے اچھے نتائج برآمد ہوں اور وہ اپنی قوتوں کو ضائع کرنے والے نہ ہوں ۔ اس جگہ ھُم کی ضمیر اسی لئے لائی گئی ہے کہ اس میں متعدد گروہوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہر گروہ اپنے اپنے حقوق کے متعلق جدوجہد کرے گا ۔ لیبرؔ مل کر کوشش کریں گے کہ لیبر کے حق میںنتیجہ نکل آئے ۔ سوشلسٹ ؔ مل کر کوشش کریں گے کہ سوشلسٹ کے حق میںنتیجہ نکل آئے نیشنلسٹ ؔ مل کر کوشش کریں گے کہ کمیونسٹ کے حق میںنتیجہ نکل آئے ۔ غرض ہر پارٹی جتھہ بازی کے ذریعہ اپنے حقوق کو حاصل کر نے کی جدوجہد کرے گی ۔ چنانچہ آج دنیا میںہزاروں پارٹیاں بن رہی ہیںاور کتابوں میںصاف طور پر لکھا جاتا ہے کہ پہلے زمانوں میں ناکامی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ مل کر کام نہیںکیا جاتا تھا اب ہم مل کر کام کریںگے اور اپنی آواز کو زیادہ سے زیادہ موثر اور نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کریں گے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ٹھیک ہے ہمارا بھی یہی منشاء تھا کہ انفرادی کوشش کی جگہ اس دن قومی کوشش ہو تا خوب اچھی طرح خیر و شر کا فرق ظاہر ہو جائے ۔ اس جگہ لیرواعمالھم میںجہاں بندوں کی طرف سے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد شروع ہونیکا ذکر ہے وہاں اللہ تعالی کی طرف سے بھی ان کی تائید کا اشارہ پایا جاتا ہے یعنی جہاں وہ اپنے اپنے دائرہ اور اپنے اپنے رنگ میںکوشش کررہے ہوں گے وہاں خدا تعالی بھی کوشش کر رہا ہو گا ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے ومکروا ومکراللہ واللہ خیر الماکرین ۔ (ا ٓل عمران ۵ :۱۳) انہوں نے بھی تدبیریں کی اور اللہ نے بھی تدبیرکی اور اللہ تعالی تمام تدابیر کرنے والوں سے بہتر ہے اسی طرح فرماتا ہے لوگ یہ تجویز کریں گے کہ ہم مل کر کام کریں گے اور ہم بھی ان کو پوری طرح موقع دیں گے تا کہ ان کے دلوں میں کوئی حسرت نہ رہے اور لوگ قومی طورپر اپنے حوصلے نکال کر آخر اس امر کو تسلیم کریں کہ قانون اور پارٹی وہی اچھی ہے جسے خداتعالی بنائے۔
پہلے زمانہ میں جب رسول کریم ﷺ کے مقابلہ میں ابو جہل اٹھا اور وہ اپنی تمام کوششوں اور منصوبہ بازیوں کے باوجود ناکام و نامراد ہوا اور ناکامی و نامرادی کی حالت میںہی مرا۔ تو گو اللہ تعالی کا یہ ایک بہت بڑا نشان تھا جو ظاہر ہوا اور جس نے رسول کریم ﷺ کی صداقت کو آفتاب نصف النہار کی طرح ظاہر کر دیا مگر پھر بھی یہ انفرادی مقابلہ تھا قومی نہیں ۔ قومی مقابلہ ہجرت کے بعد شروع ہوا جس نے کفار عرب کی مجموعی طاقت کو توڑ دیا ۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میںبے شک آپ کا شدید مقابلہ ہوا مگر اس وقت مقابلہ کی تمام تر صورت انفرادی جدوجہد تک محدود تھی ۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی الگ مقابلہ کر رہے تھے ۔ مولوی ثناء اللہ صاحب الگ مقابلہ کر رہتے تھے ۔ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی الگ مقابلہ کر رہے تھے ۔ بے شک الکفر ملۃ واحدۃ کے مطابق ان تمام کے تیروں کا نشانہ حضرت مسیح موعود ؑ کی ہی ذات تھی لیکن بہر حال انہوں نے آپ کا اکٹھا مقابلہ نہیں کیا۔ ہر شخص الگ الگ شہر میںالگ الگ رنگ میں مقابلہ کر رہا تھا ۔ مولوی محمد حسین صاحب کسی رنگ میں مخالفت کر رہے تھے تو مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کسی اور رنگ میں۔ مگر چونکہ یہ زمانہ وہ تھا جس میں یومئذ یصدرالناس اشتاتا کی پیشگوئی کا ظہور ہونے والا تھا اسی لئے اللہ تعالی نے 1934 ء میںاحرار کو جماعت احمدیہ کے مقابلہ کے لئے کھڑا کر دیا اور انہوں نے اعلان کیا کہ ہم جماعت احمدیہ کو کچل کر رکھ دیں گے پہلے کیا تھا ۔ پہلے کوئی لدھیانہ میں مخالفت کر رہا تھا ۔ کوئی لاہور میںمخالفت کر رہا تھا کوئی دہلی میں مخالفت کر رہا تھا اور کوئی بٹالہ میں مخالفت کر رہا تھا ۔ اب ہم مل کر جماعت احمدیہ کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالیںگے چنانچہ احرار کے ساتھ کانگرس بھی مل گئی ۔ اور پھر کسی مصلحت کے ما تحت حکومت بھی ان کے ساتھ مل گئی۔ یہ مخالفت کا طوفان درحقیقت مظاہرہ تھا یومئذ یصدرالناس اشتاتا کا ۔ لیکن اس کو جو نتیجہ نکلا وہ خدا تعالی کے فضل اور حمایت ِ احمدیت کو ظاہر کر رہا ہے ۔ اب شیعوں نے ہمارے خلاف سر نکالنا شروع کر دیا ہے ۔ اور وہ بھی احرار کی طرح یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہم جماعت احمدیہ کو کچل دیںگے ۔ غرض وہ مقابلہ جو پہلے انفرادی رنگ میںکیا جاتا تھا اب قومی مقابلوں کے رنگ میں تبدیل ہو چکا ہے اور احمدیت اپنی جدوجہد کے سلسلہ میںاسی منزل میں سے گزر رہی ہے ۔
فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ O ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ O
پھر جس نے ایک ذرہ کے برابر (بھی ) نیکی کی ہو گی وہ اس (کے نتیجہ ) کو دیکھ لے گا ۔ اور جس نے ایک ذرہ کے برابر (بھی )بدی کی ہو گی وہ اس (کے نتیجہ ) کو دیکھ لیگا۔ ۸ ؎
۸؎ تفسیر ۔ فرماتا ہے لوگوں کے اکٹھا کام کرنے سے ہمارے اس قانون کی سچائی ثابت ہو گی کہ جو شخص ایک ذرہ بھر بھی عمل خیر دوسروں کے ساتھ مل کر کرے گا وہ اس کا نتیجہ دیکھ لیگا اور جو شخص ایک ذرہ بھر بھی عمل شر دوسروں کے ساتھ مل کر کریگا وہ اس کا نتیجہ دیکھ لے گا۔ یعنی اس زمانہ میںچونکہ ہر شخص اپنی پارٹی سے مل کر کام کرے گا اس لئے ہر قسم کے کام کا نتیجہ نمایا ں نکلے گا۔ کیونکہ مشترک کام ذرہ ذرہ مل کر بھی پہاڑ ہو جاتا ہے الگ کیا ہوا کام ذرہ کے مطابق ہو تو اس کا نتیجہ محسوس کرنا مشکل ہوتا ہے مگر وہ ذرہ بھر کام جو قوم کے ساتھ مل کر کیا ہو چھپ نہیںسکتا کیونکہ دوسروں کے ذروں سے مل کر وہ پہاڑ بن جاتا ہے ۔ پس فرماتا ہے چونکہ اس دن پارٹیاں مل کر کام کریںگی ہر کام کا نتیجہ نمایا ں نظر آئے گا اور عمل کاایک ذرہ بھی ضائع نہیںہو گا اس میںکوئی شبہ نہیں کہ انسانی عمل کا ایک ذرہ دنیا میں کوئی قیمت نہیںرکھتا اور وہ ہوا میں اڑ کر لوگوں کی نظروں سے غائب ہو جاتا ہے لیکن جب ایک گروہ کا گروہ اپنا اپنا ذرہ لے آئے تو ہر ذرہ دوسرے ذرات کے ساتھ مل کر ایک پہاڑ کی صورت اخیتار کر لیتا ہے اور اس طرح کوئی ذرہ بھی نمایاں ہونے سے نہیںرہ سکتا۔ یہ مضمون در حقیقت گزشتہ آیت کے تسلسل میںہی ہے اور اللہ تعالی یہ بیان فرماتا ہے کہ اس دن یصدرالناس اشتاتا کا کیوں ظہور ہو گا ۔ فرماتاہے یہ ظہور اس لئے ہو گا تا ہمارے اس قانون کی سچائی نمایاں ہو جائے کہ دنیا میںجو شخص چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی کرتا ہے اور وہ اس کا نتیجہ دیکھ لیتا ہے خواہ وہ عمل خیر ہو یا عمل شر اگر انفرادی اعمال خیر اور انفرادی اعمال شر پر اس آیت کو چسپاں کیا جائے تو اس کے کوئی معنے ہی نہیںبنتے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قیامت کے دن ہر شخص کا عمل خیر اور عمل شر نمایا ں ہو گااور ہم بھی اس کو تسلیم کرتے ہیںلیکن دنیا میںایسا نہیںہوتا ۔ دنیا میں لوگ بڑے بڑے خیر کے کام کرتے ہیں اور وہ چھپے رہتے ہیں۔اسی طرح بڑے بڑے شر کے کام کرتے ہیں اور وہ چھپے رہتے ہیں ۔ اگر دنیا میںہر خیر اور ہر شر نمایاں ہو تو لوگوں کو گناہوں پر دلیری ہی کیوں پیدا ہو ۔ ہزاروں لوگ ایسے پائے جاتے ہیںجو بڑے بڑے خیر کے کام کرتے ہیں مگر چونکہ وہ فرداً فرداً کرتے ہیں انکا کوئی ایسا نتیجہ نہیںنکلتا جس سے لوگوں کے دلوں میںخیر کی تحریک پیدا ہو ۔ اسی طرح ہزاروں ہزار لوگ شر کرتے ہیں مگر چونکہ وہ فرداً فرداً کرتے ہیں اس لئے ان کے شر کا کوئی ایسا نتیجہ نہیںنکلتا جس کو دیکھ کر لوگ مرعوب ہو جائیں اور اعمال شر کو ہمیشہ کے لئے ترک کر دیں۔ مگر فرماتا ہے ہم جس زمانہ کی خبر دے رہے ہیں اس میںخیر کرنیوالے بھی اپنے اپنے عمل کا ذرہ لا کر ایک جگہ ڈال دیں گے اس کا طبعی طور پر یہ نتیجہ نکلے گا کہ جب ساری دنیا کے خیر اکٹھے ہو جائیںگے تو وہ بھی ایک پہاڑ بن جائیں گے اور جب ساری دنیا کے شر اکٹھے ہو جائیںگے تو وہ بھی ایک پہاڑ بن جائیںگے ۔ گویا ان الفاظ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ا س دن کفر و اسلام کا نظامی مقابلہ ہو گا ایک طرف کفر اپنے تمام لشکر کو اکٹھا کر کے نظام قائم کرے گا اور دوسری طرف اسلام کے احیاء اور اس کی تقویت کے لئے اعمال خیر کرنے والوں کا ایک نظام قائم کیا جائے گا اور پھر ان دونوں نظاموں کا آپس میںٹکرائو ہو گا ۔ کفر چاہے گا کہ وہ اسلام کو ختم کر دے اور اسلام چاہے گاکہ وہ کفر کو تباہ کر دے یہ پیشگوئی جو ان آیات میںکی گئی ہے اس پر غور کر کے دیکھ لو پہلے کسی زمانہ میںیہ پوری نہیںہوئی ۔ نہ کفرنے اجتماعی مقابلہ کے لئے کوئی نظام قائم کیا اور نہ اسلام میںکفر کا سر کچلنے کے لئے کوئی باقاعدہ نظام قائم ہوا۔ رسول کریم ﷺ کو جب کبھی چندہ کی ضرورت محسوس ہوتی تو آپ صحابہ ؓ کو اکٹھا فرماتے اور ان کے سامنے چندے کا اعلان کر دیتے ۔ صحابہ ؓ اس وقت اپنی اپنی توفیق کے مطابق رسول کریم ﷺ کی خدمت میںاپنا چندہ پیش کر دیتے ۔ یہ نظر نہیںآتا کہ رسول کریمﷺ نے کوئی بیت المال قائم کیا ہو اور ایک نظام کے ما تحت جماعت کے ہر فرد سے باقاعدہ چندہ وصول کیا جاتا ہو ۔ مگر اس زمانہ میںحضرت مسیح موعود ؑ نے ابتدائے دعویٰ میں ہی پانچ مدات قائم فرمادیںجن کا ’’فتح اسلام ‘‘میںتفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے ۔ اور لوگوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اسلام کے احیاء اور اس کی ترقی کے لئے ان مدات میںروپیہ ارسال کریں۔ گویا آپ نے اپنی بعثت کے ساتھ ہی ایک نظام کی بنیادرکھ دی اور پھر رفتہ رفتہ اس کی بنیادوں کو اور بھی پختہ اور مضبوط بنا دیایہاں تک آپ نے اعلان فرما دیا کہ جوشخص تین ماہ تک اس سلسلہ کے لئے کوئی روپیہ ارسال نہیںکرتا اس کا ہماری جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیںسمجھا جا سکتا۔ غرض اسلام کے احیاء کے لئے اللہ تعالی نے ایک نظام قائم فرما دیا ہے ادھر کفر نے بھی اپنی طاقتیں جمع کر لی ہیں اور وہ اسلام کو کچلنے کے لئے مختلف قسم کی تدابیر میں منہمک ہے مسیحیت ؔ کی تبلیغ ، آریہ سماج کی تبلیغ، سکھوں کی تبلیغ، یہودیت ؔ کی تبلیغ انفرادی طور پر نہیں ہو رہی بلکہ بڑی بڑی سوسائٹیاں لاکھوں کروڑوں روپیہ جمع کر کے باقاعدہ طور پر کر رہی ہیں ۔ پس فرماتا ہے جب وہ آخری زمانہ آئے گا جس میں ہمارے رسول کی بعثت ثانیہ مقدر ہے توہم ادھر خیر کرنے والوں کو کہیں گے کہ تم اکٹھے ہو جائو ۔ ادھر شر کرنے والوں ک ملائکہ تحریک کریں گے کہ تم اکٹھے ہو جائو ۔ اس طرح کفر و اسلام کا عظیم الشان ٹکرائو ہو گا جس میں آخر اسلام کو فتح ہو گی اور یہ سب کچھ ہم اس لئے کریں گے تا دنیا کے لوگ یہ نہ کہہ سکیںکہ ہم تو غافل رہے ہمیں تو اپنے دل کے حوصلے نکالنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ اگر ملتا تو ہم اسلام کو کبھی ترقی کرنے نہ دیتے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ہم نہیں چاہتے کہ کفر کے دل میں کوئی حسرت باقی رہ جائے اسے اپنے حوصلے نکالنے کا موقع نہ ملے اور وہ یہ کہہ سکے کہ اگر مجھے تیاری کا موقع ملتا تو میں بتا دیتا کہ اسلام دنیا میں نہیں پھیل سکتا ۔ ہم اسے پوری طرح موقع دیں گے اور اعمال شر کرنے والے اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوں گے ۔ وہ خوب سمجھتے ہوں گے کہ وہ کیا مقصد لے کر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے کیا کیا ارادے ہیں ۔ اسی طرح اعمال خیر کرنے والے بھی اپنی ذمہ واریوں سے اچھی طرح آگاہ ہوں گے ۔ اس وجہ سے کفر و اسلام کی باہمی ٹکر کو جو نتیجہ نکلے گا وہ آخری اورقطعی ہو گا اور شر کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ مجھے خیر کے مقابلہ کی فرصت نہیں ملی ۔
یہ تو دینی معاملہ کی میں نے مثال پیش کی ہے اگر دنیوی مثالیں لے لو تب بھی یہ تمہیںنظر آئے گا کہ جس طرح اس زمانہ میں مختلف پارٹیوں کی صورت میں مل کر کام کیا جاتا ہے اسکی پہلے زمانہ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ مثلاً جہاں تک ظالم لوگوں کی موجودگی کا تعلق ہے یہ عنصر صرف اس زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر زمانہ میں ظالم لوگ ہوتے رہے ہیں اور ہر زمانہ میں لوگوں کو ان سے شکائتیں ہوتی رہی ہیں ۔ چنانچہ پہلے زمانوں میں بھی کئی ایسے نوکر ہوتے تھے جو اپنے آقائوں کو مار ڈالتے تھے ۔ ہزاروں واقعات ایسے پائے جاتے ہیں کہ آقا نے اپنے نوکر کو کسی بات پر گالی دی تو اس نے برا منایا اور رات کو جب وہ سورہا تھا اسے قتل کر دیا گیا ۔ مگر اس کا کوئی گہرا یا دیر پا اثر نہیں ہوا کرتا تھا زیادہ سے زیادہ یہی سمجھا جاتا تھا کہ زید کو اس کے نوکر نے قتل کر دیا یا بکر کو اس کے نوکر نے قتل کر دیا ہے ۔ دنیا کو اس کا کوئی نتیجہ نظر نہیںآتا تھا کیونکہ یہ کام اور دوسرے کاموں میں چھپ جاتا۔ مگرا س زمانہ میں جب روس میں کمیونسٹوں نے سر اٹھایا اور انہوں نے مل کر اپنے مالکوں کو مار ڈالا تو اس کا کتنا عظیم الشان نتیجہ نکلا کہ حکومت ہی بدل گئی ۔ اسی طرح مزدور نا خوش ہو کر پہلے زمانہ میں کام چھوڑ دیا کرتے تھے اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا تھا کہ دنیا میںکیا تغیر ہوا ہے لیکن اس زمانہ میں لیبر سٹرائکس کے ذریعہ سے مالکوں کی گردنیںیوں جھک جاتی ہیں کہ خدا یاد آجاتا ہے ۔ یہی حال سود کا ہے ۔ سود لوگ لیتے ہی چلے آتے ہیں لیکن اس زمانہ میںبنکو ں کے ذریعہ سے دنیا کو اس طرح قابوکر لیا گیا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ پہلے کسی گائوں کے ایک کونہ میںبیٹھ کر بنیا چند لوگوں سے سود لیتا اور کسی کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا تھا مگر اب ایسے بنک نکل آئے ہیںجنکی ساری دنیا میں شاخیں ہیں اور اس طرح سود کا جال وسیع کر کے ساری دنیا کو قابو کر لیا گیا ہے ۔ صنعت و حرفت بھی ہمیشہ سے چلی آتی ہے لیکن اب کمپنیوں کے ذریعہ سے اس طرح دوسرے ملکوں کا دیوالیہ نکالا گیا ہے کہ غریب حیران و پریشان نظر آتے ہیں ۔ پہلے زمانہ میں صرف معمولی تاجر ہوا کرتے تھے لیکن اس زمانہ میںکمپنیاں نکل آئی ہیں ۔ پہلے خواہ کوئی کتنا بڑا تاجر ہو جائے لوگوں کو اس کا پتہ بھی نہیں لگتا تھا اور وہ لوگوں کی دولت کو بھی زیادہ نہیں کھینچ سکتا تھا ۔ مگر اس زمانہ میں کمپنیوں نے اس طرح دولت کھینچی ہے کہ بڑے بڑے صاحب حیثیت لوگ کمپنیوں میں ملازمت اختیار کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں بجائے اس کے کہ انہیںگورنمنٹ سروس میںکوئی جگہ ملے ۔ لارڈ مانڈ انگلستان کا وزیر خزانہ تھا مگر وزارت چھوڑ کر وہ امپیریل کیمیکل انڈسٹری میںملازم ہو گیا ۔ اسی طرح ایک او ر مشہور شخص غالباً سر کینر نام تھا وہ بھی پہلے وزیر خزانہ تھا مگر پھر اس عہدہ سے الگ ہو کر ریلوے کمپنی میں ملازم ہو گیا ۔ وزارت کے عہدہ کی صورت میںاسے پانچ ہزار پونڈ ملتے تھے مگر ریلوے کمپنی میںملازمت اختیار کرنے پر اسے تیس ہزار پونڈ ملنے لگ گئے گویا قریبا ً پانچ لاکھ روپے سالانہ اس کی تنخواہ میں اضافہ ہو گیا ۔ غرض کمپنیوں نے تجارت اور صنعت و حرفت کے ذریعہ اس قدر دولت کھینچی ہے کہ پرانے زمانہ میں کسی بڑے سے بڑے صناع او ر بڑے سے بڑے تاجر کی بھی اتنی آمد نہیںہوتی تھی جتنی آج کل کمپنیوں کے نوکروں کو تنخواہیں ملتی ہیں ۔ پھر کمپنیوں سے ترقی کر کے ٹرسٹ بن گئے ہیں ۔ اور ٹرسٹ سے ترقی کرکے کارٹل بن گئے ہیںاسی طرح ہر کام لوگوں نے اجتماعی رنگ میںشروع کر کے اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔
غرض یصدرالناس اشتاتا نے یعنی ایک دوسرے کی بالمقابل ایک ایک کر کے نکلنے کی جگہ پارٹی پارٹی بن کر نکلنے نے وہ نمونہ دکھایا کہ دنیا نے کبھی نہ دیکھا تھا ۔ یہ پارٹیاں خیر کا کام کرتی ہیں تو وہ بھی ایک عظیم الشان شکل میںظاہر ہوتا ہے اور اگر برا کام کرتی ہیں تو وہ بھی ایک مہیب اور دل پر کپکپی نازل کر دینے والی شکل میں نظر آتا ہے ۔ چونکہ مومن بھی اس دن مل کر کام کریں گے اس لئے ان کے خیر کے نتائج بھی بڑے شاندار ہوں گے بلکہ چونکہ خیر کا دس گنا اجر ہے اس لئے ان کے خیر کے نتائج شر کے نتائج پر غالب آجائیںگے ۔
یہ معنے تو ترتیب کے لحا ظ سے ہوئے ۔ یوں بھی اپنی ذات میںیہ آیت نہایت اہم ہے ۔ رسول کریم ﷺ اس آیت کی نسبت فرماتے ہیں ( آپ ؐ سے گدھوں کے بارہ میں پوچھا گیا کہ ان کے رکھنے کا کیا ثواب ہے تو فرمایا ما انزل اللہ فیھا شیئا الا ھذہ الایۃ الفازۃ الجامعۃ من یعمل مثقال ذرۃ خیر ایرہ ۔ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ ۔ فازۃ کے معنے ہیں منع کرنے والی اور جامعۃ کے معنے ہیں سمیٹنے والی یعنی رسول کریم ﷺ نے فرمایا اس بارہ میں مجھ پر اللہ تعالی کی طرف سے یہ ایک فازہ اور جامعہ آیت نازل ہو چکی ہے کہ من یعمل مثقال ذرۃ خیر ایرہ ۔ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ یعنی ہر چیز جس کو نکالنا مقصود ہے اس کو اس آیت کے ذریعہ نکال دیا گیا ہے اور ہر چیز جس کو سمیٹنا مقصود ہے اس کو اس آیت کے ذریعہ سمیٹ لیا گیا ہے ۔ گویا یہ آیت جزائے خیر و شر کے متعلق ایک جامع مانع قاعدہ پر مشتمل ہے ۔ جزائے خیر اور جزائے شر سے تعلق رکھنے والی کوئی بات نہیںجو اس میں بیان نہ کی گئی ہو اگر غور کر کے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ دنیا میں انسان ہزاروں کام خیر یا شر سے تعلق رکھنے والے کرتا ہے مگر وہ خیر اور شر کے سب کام مٹ جاتے ہیں اور کسی کو علم بھی نہیںہوتا کہ زید نے فلاں خیر کا کام کیا تھا یا بکر سے فلاں شر کا صدور ہوا تھا ۔ بیسیوں انسان دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی بدخواہی کے خیالات اپنے دلوں میں رکھتے ہیں مگر جن لوگوں کی برائی کے خیالات ہر وقت ان کے دل و دماغ میںپرورش پا رہے ہوتے ہیں ان کو اس بات کا کچھ بھی علم نہیں ہوتا کہ فلاں شخص ہمارے متعلق کیسے برے خیالات رکھتا ہے ۔رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا جو شخص کسی کے متعلق غیبت میںکوئی برا کلمہ کہتا ہے اور ایک تیسرا شخص جو اس بات کو سن رہا ہوتا ہے اس جگہ سے اٹھ کر دوسرے شخص کے پاس چلا جاتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ تمہارے متعلق آج فلاں نے یہ بات کہی ہے تو اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی نے دوسرے کی طرف تیر پھینکا مگر وہ تیر اس کو لگا نہیں بلکہ زمین پر گر پڑا ۔ یہ دیکھ کر ایک اور شخص دوڑا دوڑا آیا اور اس نے وہ تیر اٹھا کر اپنے ہاتھوں سے دوسرے کے سینہ میں پیوست کر دیا ۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ہزاروں لوگ دوسروں کی بدخواہی کے خیالات اپنے دلوں میںرکھتے ہیں مگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیںہوتا نہ دوسروں کو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے متعلق فلاں شخص کیسے گندے خیالات رکھتا ہے اور نہ اس کے ان خیالات کا دنیا میں کوئی نتیجہ ظاہر ہوتا ہے۔اسی طرح ہزاروں لوگ ایسے ہیں جن کے دلوں میں دوسروـں کے متعلق نیک خیالات پیدا ہوتے ہیں ،مگر اُن دوسرے اشخاص کو کچھ بھی علم نہیں ہوتا کہ فلاں شخص کو ہم سے محبت ہے یا اُس کا دل ہماری ہمدردی اور خیرخواہی کے جذبات سے لبریز ہے۔ایک شخص کو دوسرے سے غائبانہ محبت ہوتی ہے مگر اس وجہ سے کہ محبت اُس کے دل میں مخفی ہوتی ہے دوسرا شخص میرا دوست ہے۔مجھ سے محبت کرتا ہے ۔اور میری مصیبت کی گھڑیوں میں میرا سااتھ دینے والا ہے ۔اس کے علاوہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو شخص آپس میں گہرے دوست ہوتے ہیں ،اُن کے ایک دوسرے سے مخلصانہ تعلقات ہوتے ہیں اور وہ مصیبت میں ایک دوسرے کے اندرونی جذبات کا علم نہیں ہوتا۔اُن میں سے ایک شخص راتوں کو اُٹھتا اور اﷲ تعالیٰ سے اُس کے لئے رو رو کر دعائیں مانگتا ہے مگر دوسرے کو کبھ معلوم نہیں ہوتا کہ رات کی تاریکیوں میں جب ساری دنیا محوِ استراحت ہوتی ہے میرا دوست میرے لئے اﷲ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہے اور وہ میری بھلائی کے لئے اﷲ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کو کھٹکھٹارہا ہے۔
غرض دنیا مین ہمیں یہ نظاہر نظر آتا ہے کہ ہزاروں ہزار اعمال خیر اور ہزاروں عمال شر لوگوں کی نگاہ سے مخفی رہتے ہیں ۔لیکن فرماتا ہے اﷲ تعالیٰ کے معاملہ میں یہ بات نہیں اﷲ تعالیٰ کے حضور کسی کا خفیف شر بھی ضائع نہیں جاتا ۔وہ ہر خیر سے آگاہ ہے وہ ہر شر سے واقف ہے ۔اور خواہ کوئی کتنا ہی حقیر اور معمولی کام ہو اس کی نگاہ سے مخفی نہیں ہو سکتا ۔تم مت سمجھو کہ جس طرح بنی نوع انسان کے معاملات میں تمہارے خیر کے اعمال بھی مخفی رہتے ہیں اور تمہارے شر کے اعمال بھی مخفی رہتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کا حال ہو گا ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ خَیْرً ایَّرَہٗ۔وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ۔بنی نوع انسان کے معاملہ میں بسا اوقات تمہارے خیر کے پہاڑ بھی غائب ہو جاتے ہیں اسی طرح بنی نوع انسان کے معاملہ میں تمہارے شر کے پہاڈ بھی غائب ہو جاتے ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ سے کوئی عمل مخفی نہیں ہو سکتا ۔دنیا میں تو ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص عملِ شر کرے اور دوسرے لوگوں سے مخفی رہے مگر خدا تعالیٰ کے حضور ایسا نہیں ہو سکتا ۔مثلاً دنیا میں ہزاروں راقعات ایسے ہو تے رہتے ہیں کہ بعض لوگ چوری چھپے زہر دے دیتے ہیں اور باوجود تلاش و جستجو کے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کس نے زہر دی۔ اسی طرح ہزاروں قاتل ایسے ہوتے ہیں جو پکڑے نہیں جاتے ۔اب جہاں تک شر کا تعلق ہے قاتل نے دوسرے پر شر کا ایک پہاڑ گرا دیا مگر وہ مخفی رہا۔کئی لوگ دوسرے کو جنگل میں اکیلا پا کر قیل کر دیتے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی کہ کس نے قتل کیا ہے ۔بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص دوسرے کو علحدگی میں قتل کر کے آجائے اور پھر اسی کے مقتول کے بیٹے کا دوست بن جائے۔وہ دونوں دانت کاٹی روٹی کھانے لگیں اس کا بیٹا اپنے دوست کے لئے جان تک دینے کے لئے تیار رہے اور اسے یہ معلوم تک نہ ہو کہ میرے باپ کو اسی شخص نے قتل کیا تھا جس سے میں محبت کی پینگیں پڑھا رہا ہوں۔غرض دنیا میں ہمیشہ یہ نظارے نظر آتے ہیں ۔غرض ایک شخص دوسرے پر شر کا پہاڑ اُٹھا کر دوسرے پر گرا دیتا ہے مگر خود اس طرح غائب ہو جاتا ہے کہ دوسرے کو پتہ تک نہیں چلتا کہ میرے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ہے۔اور چونکہ بہت سے اعمال خیر اور بہت سے اعمال شردنیا میں ظاہر نہیں ہوتے اس لئے ضروری تھا کہ ایک ہستی ایسی ہوتی جس کے علم میں انسان کا ہر چھوٹے سے چھوٹا فعل آجا تا اور وہ اس کے مطابق اس کو بدلہ دیتا تاکہ خیر کرنے والے کو یہ حسرت نہ رہے کہ میری فلاں نیکی ضائع چلی گئی اور شر کرنے والے کو یہ غرور نہ رہے کہ میں نے فلاں شر تو کیا مگر اس کے تلخ انجام سے محفوظ رہا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے اعمال خیر اور بہت سے اعمال شر ظاہر ہو جاتے ہیں بالخصوص وہ اعمال خیر یا وہ اعمال شر جو عظیم الشان ہو عام طور پر مخفی نہیں رہتا اور لوگوں کو اس کا ضرور علم ہو جا تا ہے لیکن چھوٹے گناہ اور چھوٹی نیکیا ں تو ہزاروں تو ایسی ہیں جو بالکل مخفی رہتی ہیں مثلاً کسی کے دل میں نیکی کا خیال آنا یہ خود ایک عمل خیر ہے اور کسی کے دل میں برائی کا پیدا ہونا یہ خود ایک عمل شرہے مگر کون دوسرے کے دل کو پھاڑ کر دیکھ سکتا ہے کہ اس میں شر پید ا ہے یا عمل خیر پرورش پا رہا ہے۔لیکن جب ایک زندہ اور علیم و خبیر ہستی موجود ہو تو پھر اس عمر کا کوئی خدشہ نہیں رہ سکتا کہ میری نیکی مخفی رہ جائے گی یا بدی چھپ سکے گی کیونکہ وہ ہستی ہروقت انسان کی نگران ہوگی اور اس کے چھوٹے سے چھوٹے عمل کو بھی ضائع نہیں جانے دے گی ۔
پھر اگر ہم انسانی اعمال پر نظر دوڑائیں اور بنی نوع انسان کی اکثریت کو دیکھیں تو ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسانی اعمال سب کے سب بڑے نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے اکثر چھوٹے ہوتے ہیں ۔بڑا عمل کرنے کی کسی کسی انسان کو توفیق ملتی ہے ورنہ ہزاروں انسان ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی ساری عمر گزر جاتی ہے مگر ان کو کوئی بڑا کام کرنے کی توفیق نہیں ملتی اور اس وجہ سے وہ نمایاں کام طور پر لوگوں کے سامنے نہیں آتے۔ وہ دنیا کی نگاہوں سے مخفی ہونے کی حالت میں ہی دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ان کی حیثیت با لکل ان بوٹیوں کی سی ہوتی ہے جو پہاڑوں میں پیدا ہوتی ہیں اور کچھ عرصہ بعد مرجھا جاتی ہیں نہ ان سے کوئی فائدہ اُٹھا تھا ہے نہ ان کسی کو ان کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے ۔پس اگر دنیا کا کوئی خدا نہ ہوتا ۔اگر ایک ایسی ہستی موجود نہ ہوتی جس کی نظر انسان کے دل کے مخفی گوشوں تک وسیع ہے اور جو انسان کے چھوٹے سے چھوٹے عمل کو بھی جاننے والا اور انسان کو اس کی جزا دینے والا ہے تو وہ لوگ زندہ ہی مر جاتے جن کی ساری عمر گزر جاتی ہے مگر ان سے کوئی بڑا عمل ظاہر نہیں ہوتا۔یہی حکمت ہے کہ اسلام نے بنی نوع انسان کو یہ مژدہ ِ جانفزاسنایا کہ اس عالم کا ایک خدا ہے جس کی نگاہ میں انسان کا ہر چھوٹے سے چھوٹا کام آجا تا ہے۔اگر کوئی عمل خیر کرتا ہے تو وہ بھی اﷲ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے اور اگر کوئی عمل شر کرتا ہے تو بھی خدا تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے ۔تم مت مسجھو کہ تمہارے اعمال ضائع چلے جائیں گے اور ان کا کوئی نتیجہ رونمانہیں ہوگا۔اگر دنیا میں تمہارے اعمال خیر مخفی رہے اور کسی نے ان کو نہیں دیکھا تو تم مت گھبرائو آسمان پر ایک زندہ خدا موجود ہے جو تمہارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور تمہیں نیکیوں کی جزا دے گا اور تمہارا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اس کے سامنے اسی طرح آ جائے گا جس طرح کوئی بڑے سے بڑا کام آتا ہے۔
غرض یہ آیت ایسی ہے جو انسانی زندگی کی کایا پلٹنے والی ہے اور لوگوں کے قلوب میں ایک نئی امنگ ،نئی روح اور نئی بیداری پیدا کرنے والی ہے اگر یہ آیت نہ اترتی تو اکثر انسان اپنے آپ کو لاوارث سمجھتے کیونکہ اکثر انسان ایسے ہوتے ہیں جن کی نہ خیر عظیم الشان ہوتی ہے نہ شر عظیم الشان ہوتا ہے ۔دس اربوں آدمیوں کی دنیا میں اگر تم قاتل تلاش کرنے لگو تو وہ بھی تمہیں زیادہ سے زیادہ لاکھ دو لاکھ ملیں گے اور تم دیکھو گے کہ دنیا میں شر کے لحاظ سے بھی صرف چند کی طرف لوگوں کی توجہ پھرتی ہے سب کی طرف نہیں ۔حالانکہ ایک قاتل یا ایک ڈاکو یا ایک چور جسے برا سمجھا جاتا ہے اس کے مقابل میں اور بھی لاکھوں لوگ ہوتے ہیں جن سے شر ظاہر ہوتا رہتا ہے مگر لوگوں پر ان کے شر کی کیفیت مخفی رہتی ہے ۔مثلاً قاتل تو اپنی زندگی میں ایک یا دو قتل کرتا ہے مگر ایک اور آدمی ایسا ہوتا ہے جس سے سارا دن شر ظاہر ہوتا رہتا ہے ۔کسی کو اچھے لباس میں ملبوس دیکھتا ہے تو اس کا دل کباب ہو تجاتا ہے ۔کسی کو اچھا کھانا کھاتے دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ اس کمبخت کا گلا بھی نہیں گھٹتا ۔کسی کو آرام و آسائش میں زندگی بسر کرتے دیکھتا ہے تو جل بھن کر رہ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مرتا بھی نہیں اس کمبخت پر کوئی بیماری بھی نہیں آتی کہ اسے بھی تکلیف کا احساس ہو ۔غرض سارادن اس سے شر ظاہر ہوتا رہتا ہے مگر اس کے شر کی دنیا میں کوئی نمائش نہیں ہوتی اور اسی حالت میں اس کی ساری عمر گزر جاتی ہے ۔اس کے مقابل میں ایک اور شخص ایسا ہوتا ہے جس کے پاس کروڑ دو کروڑ رپیا نہیں ہوتا کہ وہ آکسفورڈ یو نیو رسٹی قائم کردے یا کوئی اور علمی ادارہ قائم کرے بلکہ اکثر لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ کی راہ میں چند پیسے دینے کی بھی توفیق نہیں ہوتی مگر وہ سارا دن اپنے دل میں یہی کہتے رہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ دنیا کا بھلا کرے۔اﷲ تعالیٰ دنیا کو بلائوں سے بجات دے ۔اﷲ تعالیٰ لوگوں کی مصیبتوں اور ان کی تکلیفوںدور کرے ۔اﷲتعالیٰ ان کے لئے اپنے فضل کے دروازے کھولے یہی دعائیں ان کے ورد زبان رہتی ہیں اور اسی حالت میں دنیا سے گزر جاتے ہیں کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ ان سے کیا کیا خیر ظاہر ہوتی رہی ہے اگر لوگوں کا خدائے تعالیٰ کے ساتھ معاملہ نہ ہو اور ساری دنیا اسی طرح مر جائے جس طرح پہاڑوں میں پیدا ہونے والی بوٹیاں چند دن اپنی بہار دکھا کر خاک ہو جاتی ہیں تو ان کے اعمال خیر بھی فناہو جاتے اوراعمال شر بھی فنا ہو جاتے۔نہ نیکوں کو ان کی نیکی کا فائیدہ پہنچتا اور نہ بدوں کو ان کی شرارتوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ۔نیک لوگ اپنے آپ کو لاوارث سمجھتے اور بڑے لوگ تمرد اور سرکشی میں بڑھ جاتے اور وہ سمجھتے کہ ہم سے کوئی گر فت کرنے والا نہیں ہے جو کچھ ہمارے جی میں آئے ہم کر سکتے ہیں ۔قرآن کریم فرماتاہے کہ اگر تمہارے دل میں یہ خیال آئے تو غلطی کرو گے مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ۔ایک خدا ہے جو اس دنیا کو پید ا کرنے والا ہے اور اس کی نظر سے انسان کو باریک سے باریک عمل خیر بھی پوشیدہ نہیں ہوتا اس لئے اے کمزور اور بیمار انسان ! اے لولے لنگڑے انسان ! اے غریب اور نادار انسان ! تو مت گھبرا۔آسمان پر ایک خدا تیرے حالات کو دیکھ رہا ہے اور اس کی نگاہ سے تیرا کوئی عمل پوشیدہ نہیں۔اے کمزور اور نا تاقت انسان ! جو کسی کی مدد نہیں کر سکتا ۔اے بیمار اور نہیف انسان جو دینی خدمات کی ادائیگی کے لئے اپنے اندر چلنے پھرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا تیرا دل گھبرا تا ہو گا کہ لوگ تو نیکیوں میں حصہ لے گئے اور میںمحروم رہ گیا۔تو پریشان مت ہو تیرا دل اپنی بیکسی کو دیکھ کر گھبرائے نہیں تیری وہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی جو بھی ان حالات میں تجھ سے ظاہر ہوتی ہے ،تیرا چھوٹے سے چھوٹا وہ نیک خیال بھی جو تیرے دل کے ندرونی گوشوں میں پیدا ہوتا ہے اﷲتعالیٰ کے حضور وہی قدر و قیمت رکھتا ہے جو دوسروں کے بڑے بڑے اعمال خیر رکھتے ہیں ۔بیشک تو نے جب دین کی خدمت کے لئے ایک پیسا یا دھیلا نکال کر دیا تو لوگ تجھ پر حقارت کی ہنسی ہنسے۔تو نے ایک روٹی کا ٹکڑا پیش کیا تو وہ تجھ پر مسکرائے اور انہوں نے کہا کہ اس روٹی کے ٹکڑے سے کیا بن جائے گا مگر تو مت گھبرا ۔مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہ۔تیرے عمل خواہ کتنے حقیرہوں ،تیری کوششیں خواہ کتنی عدنہ ہوں ، تیری بے کسی خوای کس قدر ظاہر ہو ، بیشک دنیا نے تیرے اعمال کی قدر نہیں کی ،اس کی نگاہ تیرے خیر کو دیکھنے سے قاصر رہی ہے مگر خدا تیرے عمل خیر کو دیکھ رہا ہے اور وہ ایک دن تجھ کو بھی اپنے ان کاموں کے نتائج دکھا دے گا۔
دوسری طرف یہ آیت عمل شرک کرنے والوں کو یہ تنبیہ کرتی ہے ان سے کہتی ہے کہ اے شریر انسان ! تو جوچوریچھپے شرار تیں کرت ہے تجھے چوروں میں بھی عظمت حاصل نہیں تجھے ڈاکئوں میں بھی عظمت حاصل نہیں اور تجھے شر کر تے ہوئے دنیا میں کسی نے نہیں دیکھا مگر ہم تجھے دیکھ رہے ہیں اور ہم تجھ کو ان شرارتوں کا ایک دن پوری طرح مزا چکھا دیں گے ۔غرض جزائے خیر و شر کے متعلق یہ ایک ایسا عظیم الشان اصل ہے کہ اگر اس کو پوری طرح سمجھ لیا جائے تو صحیح نیکی پیدا ہوتی ہے اور بدی سے بچنے کا صحیح جزبہ انسانی قلب میں پیدا ہو جاتا ہے ۔
بعض لوگ کہ دیا کرتے ہیں کہ پھر تواس کا یہ نتیجہ نکلا کہ نہ جنت ہے نہ دوزخ ۔جب ہر بدہ کا بدلہ ضرور دیکھنا ہو گا تو پھر بخشش اور توبہ کے کیا معنے ہوئے ۔اور جب ہر خیر کا بدلا ضرور دیکھانا ہوگا تو پھر دوزخ میں لوگ کیوں ڈالے جائیں گے ۔گویا ایک آیت وہ ہے جو جنت کی نفی کرتی ہے اور دوسری آیت وہ ہے جو دوزخ کی نفی کرتی ہے ۔مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہ۔دوزخ کی نفی کر رہی ہے اور ٗ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ شَرّاً یَّرَہجنت کی نفی کر رہی ہے ۔پس یہ سیک ایسی آیت ہوئی کہ دو دھاری تلوار بن کر اس نے جنت کو بھی اُڑا دیا ور دوزخ کو بھی اُڑا دیا ۔جنت کو بھی بیکار کرار دے دیا ااور دوزخ کو بھی بیکار کرار دے دیا۔اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سچ ہے کہ کوئی چیز ضائع نہیں ہو تی ۔لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح دنیا میں حساب ہوتا ہے اس طرح خدا تعالیٰ کے قانون میں بھی حساب مقدر ہے ۔فرض کرو زید اور دو آدمی ہیں اور زید کے بکر کے پاس ایک ہزار روپے ہیں لیکن زید کے زمعہ بکر کے دو ہزار روپے ہیں ۔اب یہ لازمی بات ہے کہ جب حساب ہے کہ بکر اس سے صرف ایک ہزار روپیہ مزید لے کر اپنے گھر چلا جائے گا ۔ایسی صورت میں کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ بکر کاہزار وپیہ ضائع ہو گیا۔بکر کا اس سے دو ہزار لے جانا ہی بتاتا ہے کہ اس کا ہزار ضائع نہیں گیا بلکہ کام آگیا کیونکہ بکر نے تو دو ہزار روپے لینے تھے مگر کیونکہ زید کے ایک ہزار روپے اس کے پاس پہلے سے موجود تھے اس لئے دو ہزار میں سے ایک ہزار وضع ہو گئے ۔اور زید کو دو ہزار کی بجائے صرف ایک ہزار روپیہ زائد دینا پڑا۔یہی حال نیکیوں اور بدیوں کا ہے ۔اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے آقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَ فَیِ النَّھَا رِ وَ زُلَفً مِنَ الَّیْلِ ۔اِنْ الْحَسَنٰتِ یُذْ ھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ذَالِکَ ذِکْرٰی لِلذَّ ا لِرِیْنَ (ھود :۱۰)تم نمازیں قائم کرو صبح کو بھی اور شام کو بھی اور اسی طرح رات کے دونوں کناروں میں یعنی ہر تغیر جو واقع ہو تا ہے اس میں تمہیں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے ۔دن آئے تو تم عبادت کرو دن جانے لگے تو تم عبادت کرو۔رات آئے تو تم عبادت کرو رات جانے لگے تو تم عبادت کرو۔ اِنْ الْحَسَنٰتِ یُذْ ھِبْنَ السَّیِّاٰتِدنیا میں ہر تبدیلی کوئی نہ کوئی اثر چھوڑ جاتی ہے اور وہ تغیر اور تبدیلی یا تو خیر کا موجب ہوتی ہے یا شر کا موجب ہوتی ہے ۔اگر تم اﷲ تعالیٰ کی عبادت بجا لائو گے اور ہر تغیر کے وقت اﷲتعالیٰ کی طرف جھکو گے تو اگر وہ تغیر تمہارے لئے کسی شر اک موجب ہو گا تو عبادت کرنے سے وہ شر دور ہو جایت گا ۔اور اگر کسی شر کا موجب نہیں ہو گا تو تمہارے اعمال خیر میں اظافہ ہوتا رہے گا دونوں طرف تمہارا فائدہ ہی فائدہ ہے ۔جب نیا دن آئے گا تو یا تمہارے لئے خیر لایے گا یا شر لائے گا اور جب دن جائے گا تو یا تمہارے لئے خیر چھوڑ جائے گا یا شر چھوڑ جائے گا ۔اسی طرح رات آئے گی تو یا تمہارے لئے خیر لائے گی یا شر لائے گی اور جب رات جائے گی تو یا تمہارے لئے خیر چھوڑ جائے گی یا شر چھوڑ جائے گی ۔اگر تم ہر تغیر کے وقت اﷲ تعالیٰ کی عبادت بجالائو گے تو تمہاری نمازیں اور تمہاری عبادتیں اور تمہاری دعائیں شر کو اڑا دیں گی ۔کیونکہ بحر حال رات اپنے آنے اور جانے کے وقت اسی طرح دن اپنے آنے اور جانے کے وقت یا خیر لائے گا یا شر لائے گا۔ یا خیر چھوڑ جائے گا یا شر چھوڑ جائے گا ۔اگر دن آتے اور جاتے تمہارے لئے شر چھوڑ گیا اور تم نے نماز پڑھ لی ہے تو دن کا شر دورہو جائے گا اوراگر رات آتے اور جاتے تمہارے لئے شر چھوڑ گئی ہے اور تم نے نماز پڑھ لی ہے تو رات کا شر دور ہو جائے گا۔اِنْ الْحَسَنٰتِ یُذْ ھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ۔اﷲ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ نیکی بدی کا ازالہ کر دیا کرتی ہے ۔اگر بدی ہو تو نیکی سے فوراً کٹ جاتی ہے اور خیر ہی خیر ہو تو پھر عبادت تمہاری نیکیوں کو اور بڑھا دے گی ۔یہ ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ ان نیکیوں کو شر کے ازالہ پر خرچ کیا جائے ۔پہر حال اﷲ تعالیٰ یہ ہدایت دیتا ہے کہ جب تم سے کوئی شر ظاہر ہو یا کسی شر کا امکان تمہارے لئے پیدا ہو تو تم فوراً نیکی کر لیا کرو تاکہ بدی کٹ جائے اور تمہیں اس کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔ذَالِکَ ذِکْرٰی لِلذَّ ا لِرِیْنَ یہ ایک گر ہے جو ہم نے تمہیں بتا دیا ہے اگر تم اپنے پہلو کو ہمیشہ مضبوط رکھان اچاہتے ہو تو ہماری اس نصیحت کو یاد رکھو کہ دن اور رات کے آتے جاتے وقت ضرور عبادت کر لیا کرو۔جب دن آئے گا تو یا تمہارے لئے خیر لائے گا یا شر لائے گا اسی طرح جب رات آئے گی تویا تمہارے لئے خیر لائے گی یا شر لائے گی ۔جب دن جائے گا تو یا تمہارے لئے خیر چھوڑ جائے گا یا شر چھوڑ جائے گا اور جب رات جائے گی تو وہ بھی تمہارے لئے یا خیر چھوڑ جائے گی یا شر چھوڑ جائے گی تم ہر تغیر کے وقت عبادت کر لیا کرو اگر دن اور رات کا آنا جانا تمہارے لیے خیر لائے گا تو تمہاری خیر دگنی ہو جائے گی اور اگر شر لائے گا تو عبادت سے وہ شر کٹ جائے گا اور تمہارا پہلو یقینی طور پر محفوظ ہو جائے گا ۔
اسی طرح فر ما تاہے مَا َ مَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَا زِ یْنُہٗ فَھُوَ فِی عِیْشَہٍ رَّ اضِیَہٍ وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوا زِیْنُہٗ فَاُمَّہٗ ھَا وِ یَہٌ وَمَآ اَذَرَاکَ مَا ھِیَہْ نَا رٌحَا مِیَۃٌ(القارعہ) جس کے وزن بھاری ہو جائیں گے (بھاری کا یہ مطلب ہے کہ بمقابلہ بدی کے اس کی نیکیاں بڑھ جائیں گی) اُسے ہمارے قریب کا مقام حاصل ہو گا اور اُس کی اُخروی حیات سنور جائے گی ۔ وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوا زِیْنُہٗ لیکن جس کے وزن ہلکے رہیں گے ٗ فَاُمَّہٗ ھَا وِ یَہ ۔اُس کی ماں ہاویہ ہوگی۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وزن اصل میں نیکی کا ہی ہوتا ہے بدی کا نہیں ہوتا۔اس مسئلہ کے نہ سمجھنے کی وجہ سے بھی لوگوں نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ وزن والی چیز صرف نیکی ہی ہوتی ہے بدی کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔پس ٍ وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوا زِیْنُہٗ کا یہ مطلب ہے کہ جس کی بدیوں نے اس کی نیکیوں کو کاٹ نہیں دیا اور ٍ وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوا زِیْنُہٗ کا یہ مطلب ہے کہ جس کا وزن گھٹ کیا یعنی نیکیاں باقی نہ رہیں ۔ٗ فَاُمَّہٗ ھَا وِ یَۃٌ وہ دوزخ میں گرایا جائے گا۔
پھر فرمایا وَالْوَزْنُیَوْمَعِذِ نِ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِ یْنُہٗ فَا ُ و لٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِ یْنُہٗ فَاُو لٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْ ا اَنْفُسَھُمْ بِمَا کَا نُوْا بِاٰ یَا تِنَا یَظْلِمُوْنَ(اعراف :۱)اُس دن وزن کا ہونا ایک قطعی اور یقینی بات ہے ۔جس کے وزن بھاری ہو جائیں گے یعنی بدیاں اُڑجائیں گی اور نیکیاں باقی رہ جائیں گی وہ کامیاب ہو جائے گا ۔اور جس کے وزن ہلکے ہو جائیں گے اور وزن کے ہلکے ہونے کے معنی ہیں کہ اس کے بدیاں زیادہ ہو ں گی ۔نیکیاں اُن بدیوں کو اُڑا نے کے لئے انسان کے پاس نہیں ہوں گی ۔ فَاُو لٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْ ا اَنْفُسَھُم یہ ہو لوگ ہیں جو مقصان پانے والے ہوں گی بِمَا کَا نُوْا بِاٰ یَا تِنَا یَظْلِمُوْنَ کیونکہ یہ لوگ ہماری آیات کے ساتھ ظلم کیا کرتے تھے ۔
ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ خیال کہ جب ہر بدی کا بدلہ انسان نے ضرور دیکھنا ہے تو پھر بخشش اور توبع کے کیا معنی ہوئے اور جب ہر خیر کا بدلہ انسان نے ضرور دیکھنا ہے تو پھر دوزخ کا کیا فائیدہ ہوا بلکل غلط ہے ہر انسان نے جو عمل خیر کیا ہوگا وہ بھی قیامت کے دن موجود ہوگا اور جو اس نے عمل شر کیا ہوگا وہ بھی قیامت کے دن موجود ہو گا ۔وہ اپنے خیر کو بھی دیکھے گا اور اپنے شر کو بھی دیکھے گا اور دونوں کے تقابل کے نتیجہ میں جو چیز زیادہ ہو گی وہ دوسرے حصہ کو کاٹ دے گی ۔خیر زیادہ ہو گا تو اس کی وجہ سے شر کٹ جائے گا اور گر شر زیادہ ہو گا تو خیر کٹ جائے گا بہر حال چھوٹا حساب بڑے حساب میں سے وضع کر لیا جائے گا مثلاً ایک شخص ایسا ہے جس نے دس ہزار نیکی کی اورایک ہزار بدی ۔ایک اور شخص ایسا ہے جس نے دس ہزار نیکی کی اور پانچ سو بدی ۔ایک اور شخص ایسا ہے جس نے دس ہزار نیکی کی اور دو سو بدی کی ۔ایک اور شخص ایسا ہے جس نے دس ہزار نیکی کی مگر بدی کوئی ایک بھی نہیں کی تو لازماً وہ شخص جس نے کوئی بدی نہیں کی وہ اونچے درجہ پر ہوگا اس کے نیچے وہ شخص جس نے دوسو بدیاں کی ۔اس سے نیچے وہ شخص ہوگا جس نے ایک ہزار بدیاںکیں ۔بیشک یہ سب لوگ جنت میں ہوں گے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سب نے اپنے شر کو دیکھ لیا۔ اس نے بھی دیکھ لیا جس نے ایک ہزار بدیاں کی تھیں کیونکہ اسے وہ مقام نہ ملا جو پانچ سو بدیاں کرنے والے کو ملا اور اس نے بھی شر دیکھ لیا جس نے پانچ سو بدیاں کی تھیں کیانکہ اسے وہ مقام نہ ملا جو دوسو بدیاں کرنے والے کو ملا۔اور اس نے بھی شر دیکھ لیا جس نے دو سو بدیاں کی تھیں کیونکہ اسے وہ مقام نہ ملا جو اس شخص کو ملا جس نے کوئی بدی بھی نہیں کی تھی۔آخر یہ واضع بات ہے کہ کیوں محمد رسول اﷲ ﷺمحمدؐیت کے بلند ترین مقام پر فائز ہوں گے۔ابو بکر کیوں ابوبکر ؓ کے مقام پر ہو گا ۔عمر کیوں عمر ؓ کے مقام پر ہو گا اور عام مومن کیوں عام مومن کے مقام پر ہوں گے ۔اسی لئے کہ رسول کریم ﷺ نے کوئی بدی نہیں کی ۔اس لئے آپ کو اﷲ تعالیٰ کے قرب کا انتہائی مقام مل گیا ۔ابو بکر ؓ سے کچھ غلطیاں ہوئیں اس لئے انہیں وہ مقام نہ ملا جو محمد رسول اﷲ ﷺ کو دیا گیا ۔پس ابو بکر ؓ نے اپنے شر کو دیکھ لیا ۔ اس کے بعد عمر ؓ کو ابو بکر ؓ کا مقام بھی نہ ملا پس عمرؓ نے بھی اپنے شر کا دیکھ لیا اسی طرح ہر مومن جو جنت میں گیا جب اُسے ابو بکر ؓ اور عمر ؓ کا مقام نہ ملا تو اس نے بھی اپنا شر دیکھ لیا ۔کیونکہ جس قدر کسی کے اعمال میں شر کا دخل ہوتا ہے اسی قدر اس کے اعمال خیر میں کٹوتی ہو جاتی ہے اور یہی شر کو دیکھنے کا مفہوم ہے۔عیسائی لوگ بڑی ہنسی اُڑا یا کرتے ہیں کہ اسلام کا خدا بہی کھاتے والا خدا ہے حلانکہ سچی بات یہ ہے کہ اس کے بغیر امن قائم ہی نہیں ہو سکتا۔خود عیسائیوں سے اگر پوچھا جائے کہ جس مقام پر حضرت عیسیٰ ؑ کو سمجھتے ہو کیا اسی مقام پرقیامت کے دن تمام مومن ہوں گے تو یقینا وہ یہی کہیں گے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت عیسیٰ ؑ کو اور مقام پر رکھے گا اور مومنوں کو اور مقام پر ۔اور جب خود ان کا یہ اعتقاد ہے تو وہ اسلام پر کس منہ سے یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ اسلام کا خدا بہی کھاتے والا خدا ہے ۔
اسی طرح فرماتا ہے مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشَرُاَمْثَالِھَا وَمَنْ جَآ ئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزٰی اِلَّا مِثْلَھَا وَ ھُمْ لَا یُظْلِمُوْ نَ(انعام ۲۰)جو شخص نیک عمل کرے گا اسے اس کے عمل کی قیمت سے دس گنے ہ زیادہ اجر ملے گا اور جو بد عمل کرے گا سے اس کے عمل سے زیادہ کسی صورت بھی سزا نہیں ملے گی اور یقینا ہماری طعف سے بدوں پر بھی کسی قسم کا ظلم روا نہیں رکھا جائے گا۔اس آیت نے اس خطرح کو دور کر دیا جو مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَاَ ذَرَّ ۃٍ شَرًّ ایَّرَہٗ کی وجہ سہر مومن کو محسوس ہوتا تھا کہ جب ایک چھوٹی سے چھوٹی بدی کا انجام بھی مجھے دیکھنا پڑے گا تو میری مغفرت کی کیا صورت ہو گی ۔اﷲ تعالیٰ بتاتا ہے کہ نیکی بڑھتی ہے اور اس کا دن گنے اجر دیا جاتا ہے لیکن بدی کے متعلق ہماری یہ قانون ہے کہ ۃِ فَلَا یُجْزٰی اِلَّا مِثْلَھَا ۔اس کا اس کے مطابق بدلہ دیا جاتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ اسے دس بیس گنا بڑھا دیا جائے اس لئے اگر تمہیں یہ خطرہ ہے کہ تمہیں اپنے شر کا برا نجام نہ دیکھنا پڑے تو ہ تمہیں یہ علاج بتاتے ہیں کہ تم نیکی کا بیج بودو۔نیکی کا بیج ہمارے قانون کے مطابق بڑھے گا اور ترقی کرے گا یہاں تک کہ تمہاری ایک ایک خیر دس دس نیکیوں کی شکل اختیار کرے گی لیکن بدی کا بیج چھپ نہیں سکتا۔ اس لئے نیکیوں کے غلبہ کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ تمہاری مغفرت کے سامان پید افرما دے گا ۔
در حقیقت قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ خیر اور شر کی مثال ایک اچھے اور گندے بیج کی سی ہے ۔اچھا بیج پھل پیدا کرتا ہے لیکن سڑا ہوا بیج کوئی پھل پیدا نہیں کرتا اگر تم زمین میں کوئی سڑا ہوا بیج بودو تو یہ نہیں ہوگا کہ اس کے نتیجہ میں ایک سڑا ہو بیج پید اہو جائے ۔لیکن اگر تم اچھا بیج بو دو ایک دانے سے کئی کئی سو دانے پیدا ہو جاتے ہیں ۔اسی طرح بدی کیونکہ سڑتی ہوئی چیز ہے وہ اپنی زار تک محدود رہتی ہے اگر تم چاہتے ہو کہ بدیاں تمہاری نجات کی راہ میں حائل ہوں تو تمہیں چاہتے ہو کہ بدیاں تمہاری نجات کی راہ میں حائل نہ ہوں تو تمہیں ہماری نصیحت یہ ہے کہ تم کثرت سے نیکیاں بجا لائو۔
پھر فرماتا ہے وَ ھُوَ الَّذِیْ یُقْبِلُ التُّوْ بَۃَ عَنْ عِبَا دِہٖ وَیتَعْفُوْ ا عَنِ السَّیِّاٰ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ (شوریٰ :۳)وہ خدا ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا۔اُن کی کو تا ہیوں سے درگزر کرتا اور وہ سب کچھ جانتا ہے جو ہو کرتے ہیں۔
پھر فرماتاہے وَمَآاَصَا بَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِکُمْ وَ یَعْپُوْا عَنْ کثِیْرٍ (شوریٰ :۴)تمہیں جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ اپنے اعمال کے نتیجہ میں پہنچتی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ انسان کے اکثر گناہوں سے چشم پوشی کرتا ہے۔
اِن آیات سے وہ اعتراض باطل ہو گیا لوگوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے کہ اگر نیکی کا بدلہ ہے اور ہر بدی کی سزا مقدر ہے تو پھر جنت اور دوزخ کے کیا معنے ہوئے۔اگر ہر خیر کا بدلہ ہم نے ضرور دیکھنا ہے تو پھر دوزخ اُڈ گئی اور اگر ہر بدی کا بدلہ ہم نے ضرور دیکھانا ہے تو پھر جنت اُڑ گئی۔اُپر کی بیان کردہ آیات نے اس اعتراض کا باطل ہونا ثانت کر دیا ہے اور بتادیا ہے کہ باوجود اس کے کہ ہر نیکی قابل جزا ہے اور ہر بدی قابل پاداش پھر بھی جنت اپنی جگہ قائم رہے گی اور دوزخ میں گر ا یا جائے گا اور جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی وہ جنت میں داخل کیا جائیگا جس کی بدیوں کی کثرت اُس کی نیکیوں کی کثرت کو کھا جائے گی وہ دوزخ میں چلا جائے گا اور جس کی نیکیوں کی کثرت اُسکی بدیوں کو کھا جائے گی وہ جنت میں چلا جائے گا ۔غرض جنت بھی قائم رہی اور دوزخ بھی۔
اسی طرح احادیث میں آتا ہے ابن جریر حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کی کَانَ اَبُوْ بَکْرٍ یَأْ کُلُ مَعَ النَّبِیِّ مَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَنَزَلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَلَ ذَرَّۃٍ خَیْرً ایَّرَ ہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّ ایَّرَ ہٗ ۔ حضرت ابو بکر ؓ رسول کریم ﷺ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ جو شخص ایک ذرّہ بھر بھی بدی نیکی کرے گا اُس کا انجام دیکھ لے گا اور جو شخص ایک ذرّہ بھر بھی بدی کرے گا وہ اُس کا انجام دیکھ لے گا فَرَفَعَ اَبُوْ بَکْرٍ یَدَہٗ ۔ حضرت ابو بکر ؓ یہ آیت سُن کر گھبرا گئے اور انہوں نے کھانے سے اپنا ہاتھ اُٹھا لیا وَ قَ لَ یَا رسُوْ لَ اﷲ اِنّی ْ اُخْذٰ ی بِمَا عَمِلْتُ مِنْ مِّثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ شَرٍّاور کہا یا رسول اﷲ کیا ایک ذرّہ بھر بھی بدی مجھ سے سرزد ہوئی تو قیامت کے دن مجھے اُس کی سزا ملے گی اگر ایسا ہوا تب بڑی مشکل ہے۔فَقَالَ یَا اَبَا بَکْرٍ مَارَأَ یْتَ فِی الدُّنْیَا مِمَّا تَکْرَہُ فَبِمَثَا قِیْلِ ذَ رِّ الشَّرِّ وَ یَدَّ خِرُا ﷲ ُ لَکَ مَثَا قِیْلَ الْخَیْرِ حَتّٰی تُوَفّٰے یَوْمَ الْقِیَا مَۃَ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ ٹھیک ہے مگر اے ابو بکر تم گھبرائو نہیں دنیا میں انسان کو جو تکلیفیں پہنچتی ہیں وہ ذرہ ٔشر کی وجہ سے پہنچتی ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ شر کے ذروں کو یہیں ختم کر دے گا اور خیر کے ذروں کو باقی رکھے گا اور انہی کی بنا پر مومن کو جنت میں داخل کیا جائے گا ۔
اس حدیث کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ ہر ایک کے لئے نہیں بلکہ ابو بکر ؓ یا ابو بکر ؓ جیسے مقام کے انسان کے لئے ہے۔حضرت ابو بکر ؓ کی اتنی ہی بدیاں تھیں جو دنیا میں ختم ہو سکتی تھیں اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ تمہارا شر اتنا ہی ہے کہ اگر تمہیں کبھی بخار چڑھا یا روپیہ ضائع ہو گیا یا کوئی اورتکلیف پہنچی تو اسی میں وہ ذرہ شر ختم ہو جائے گا اور قیامت کے دن تمہارے اعمال میں خیر ہی خیر ہو گا ۔
اسی طرح اب جریر ہی حضرت عمرو بن عاص سے روایت کرتے ہیں اِنَّہٗ قَلَ لَمَّا نَزَلَتْ اِذَ زُلْذِلَتْالْاَرضُ زِلْزَالَھَا وَ اَبُوْ بَکْرٰالصِّدِّیْقُ رَضِیَ اﷲُ عَنْہٗ قَعِدٌ فَبَکیٰ حِیْنَ اُنْزِلِتْ یعنی جب یہ صورت نازل ہوئی کہ اِذَا ذُلْزِ لَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا تو اُسوقت حضرت ابو بکر ؓ رسول کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔آپ نے یہ صورت سنی تو رو پڑے ۔فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یُبْکِیْکَ یَا اَبَا بَکْرٍ رسول کریم ﷺ نے اُن سے فرمایا اے ابو بکر تمہیں کس بات نے رُلا یا ہے ؟ قَالَ یُبْکِیْنِیْ ھٰذِ ہِ السُّوْ رَۃُ ۔حضرت ابو بکر ؓ نے کہا یا رسوک اﷲ مجھے تو اس صورت نے رُلا یا ہے تعنی اگر ہم نے شر کا ایک ذرّہ بھی دیکھنا ہے تب بھی ہم جنت سے محروم رہے فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ لَوْلَا اِنَّکُمْ تُخْطِئُوْنَ وَقُذْ ہِبُو نَ فَیَغْفِرِ لَکُمْ لَخَلَقَ اﷲُ اُمَّۃً یُخْطِئُوْنَ وَیُذْنِبُوْنَ فَیَغْفِرَ لَھُمْ رسول کریم ﷺ نے فرمایا گھبرا ئو نہیں بے شک مومن شر بھی دیکھیں گے مگر شر دیکھنے سے مراد ان کا اپنے گناہوں سے توبہ کرناہے جب کوئی انسان سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو یہی اس کا شر کو دیکھنا ہو جا تا ہے کیونکہ توبہ اسی وقت کی جاتی ہے جب انسان کا دل ندامت سے پُر ہو جائے اور وہ اپنے گزشتہ گناہوں کو یاد کرکے سخت شرمندہ ہو اور محسوس کرے کہ اُس نے اپنی زندگی میں بڑی بھاری غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے جن کی اُسے تلافی کرنے چاہئے ۔پس چونکہ توبہ کے وقت انسان کا دل ذخمی ہو تا ہے اور وہ اپنے گناہوں کو یاد کر کر کے سخت شرم سار ہوتا ہے اس لئے یہی اس کا اپنے شر کو دیکھنا ہو تا ہے ۔اگر وہ شر نہ کرتا تو اس کے دل کو اس رنگ میں تکلیف بھی نہ پہنچتی ۔
اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو پیدا ہی اس رنگ میں کیا ہے کہ اس نے اُن میں صفت قدرت رکھ دی ہے یعنی وہ بدی بھی کر سکتے ہیں اور نیکی بھی کر سکتے ہیں ۔اگر کویہ صاحب قدرت مخلوق نہ ہوتی تو اﷲ تعالیٰ کی بعض صفات دنیا پر ظاہر نہ ہو سکتیں ۔صاحب قدرت مخلوق ہو نے کی وجہ سے کیانکہ لوگوں سے بدیاں بھی سر زد ہو تی ہیں اور نیکیاں بھی اس لئے اس کی کئی صفات ظاہر ہوتی رہتی ہیں کہیں غفاری کی صفت ظاہر ہورہی ہے، کہیںستاری کی صفت ظاہر ہورہی ہے ،کہیں رضاقیت کی صفت ظاہر ہو رہی ہے،کہیں امانت کی صفت ظاہر ہو رہی ہے ،کہیں اہیاء کی صفت ظاہر ہو رہی ہے اور یہ سب صفات وہ ہیں جو انسانہ پیدائش کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم گناہ نہ کرو اورخدا تعالیٰ تمہاری توبہ پر مغفرت سے کام نہ لے تو ْ لَخَلَقَ اﷲُ اُمَّۃً یُخْطِئُوْنَ وَیُذْنِبُوْنَ فَیَغْفِرَ لَھُم اﷲ تعالیٰ یقینا اورلوگ ایسے پیدا کر دے جو گناہ کریں اور اﷲ تعالیٰ ان کو معاف کرے۔اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا تعالیٰ کو گناہ پسندہیں بلکہ یہ کہ صاحب قدرت مخلوق ہی صفات الٰہیہ کو ظاہر کرتی ہے ۔اگر صاحب قدرت مخلوق دنیا
میں نہ ہوتی تو اس کی بعض صفات بھی ظاہر نہ ہوتیں اور جب انسان کو صاحب قدرت بنایا گیا ہے تو بہر حال صاحب قدرت مخلوق میں سے کچھ گناہ گار بھی ضرور ہوں گے۔یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ہوں تو صاحب قدرت مگر ہر شخص نیکی پر مجبور ہو۔انسان کا صاحب قدرت ہونا ہی بتا رہا ہے کہ انسا نوں میں سے کُچھ بدیوں کا بھی ارتکاب کریں گے اور پھر ان میں سے جو چاہیں گے ان کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہوگا تا اگر ان کا دل شرمندہ ہو اور ندامت کی آگ میں جل کر صاف ہو جائے تو توبہ کے ذریعہ ان کے گناہ معاف ہو جائیں اور اس طرح اﷲ تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی رہیں ۔
اسی طرح ابن ابی حاتم ابی سعید الخدری سے روایت کرتے ہیں کہ ۔قَا لَ لَمَّا اُنْزِ لَتْ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَا لَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ یَّرَہٗ قُلْتُ یَا رَسُوْلْ اﷲِ اِنّیِ ْ لَرَأ یِ عَمَلِیْ قَالَ نَعَمْ ۔یعنی ابو سعید خدری کہتے ہیںکہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرً ا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَا لَ ذَرَّشَرً ایَّرَہٗ۔ تو میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲکیا میں اپنے ہر عمل کا نتیجہ دیکھوں گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔قُلْتُ تِلْکَ الْکِبَارُ الْکِبَارُ میں نے کہا بڑے بڑے عمل بھی نظر آئیں گے؟ قالَ نَعَمْ فرمایا ہاں قُلْتُ تِلْکَ الصِّغَا رُ الصِّغَارُ ۔میں نے کہا چھوٹے چھوٹے عمل بھی نظر آئیں گے؟قَا لَ نَعَمْ۔آپ نے فرمایا ہاں۔قُلْتُ وَاثکلی اُمّیْ ۔میں نے کہا میری میں مجھ کو روئے پھر تو میں مرا۔قَالَ آبْشِرْ یَا اَبَا سَحِیْدٍ فَاِنَّ الْحَسَنَۃً بِعَشَرِ اَمَثَا لِہَا یَعْنِی اِلٰی سَبْعِ مِا ئَۃِ صِعْفٍ وَّ یَضْعَفُ اﷲُلِمَنْ یَشَآ ئَ۔آپ نے فرمایا اے ابو سعید یہ آیت گھبراہٹ پیدا کرنے والی نہیں یہ تو نیکی اور بدی کی جزا کے متعلق اﷲ تعالیٰ کے قانون کو بیان کرتی ہے۔کافر بے شک گھبرا سکتا ہے لیکن مومن کے لئے گھبرا نے کی کوئی وجہ نہیں ۔کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر نیکی کا دس گنے اجر ملے گا۔پس یہ جو اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ جو شخص نیکی کا ایک ذرہ بھی کرے گا وہ اسے دیکھے گا ۔اس میں خیر دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ جس شخص کی ایک نیکی ہوگی اسے دس گنے بڑا کر کے دکھایا جائے گا یعنی جو شخص کوئی ایک نیکی بجا لائے گا خدا تعالیٰ کے حضور اس کی دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور پھر ان دس نیکیوں کو سات گنا کیا جائے گا ۔گویا ایک نیکی کا اجر ستر گنے تک پہنچا دیا جائے گا اور اﷲ تعالیٰ جسے چاہے گا اس سے بھی زیادہ بدلہ دے گا ۔وَالسَّیِّئَۃُ بِمِثْلِھَا اُوْیَغْفِرُاﷲ۔لیکن اگر کسی نے کوئی بدی کی ہوگی تو اس کا بدلہ اسے اتنا ہی ملے گا جتنا اس نے اس سے قصور سر زد ہوا ہو گا یا اﷲ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا ۔یعنی نیکی کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا جو قائدہ ہے وہ بدی کے متعلق نہیں ۔پس مومن کے لئے گھبراہٹ کا کوئی مقام نہیں ہاں اگر کافر گھبرائے تو وہ اس کا سزا وار ہے ۔پھر آپ نے فرمایاوَلَنْ یَنْجُوَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ بِعَمَلِہِ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنے عمل کے زور سے نجات حاسل کر سکے ۔نجات کا موجب عمل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے ۔قُلْتُ وَلَا اَنْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ ۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ کیا آپ بھی اپنے عمل سے نجات نہیں پائیں گے؟ قَالَ وَلَ اَنَا اِلَّا اَنْ یَّتَغَمَّدَنِی اﷲُ مِنْہُ بِرَحْمَۃٍ ۔آپ نے فرمایا میں بھی اپنے عمل سے نجات نہیں پاسکتا میری مغفرت بھی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ اﷲتعالیٰ امجھے اپنے فضل سے ڈھانپ لے ۔در حقیقت اگر ہم غور کریں تو بات وہی ہے جو غالب نے کہی :
؎جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اگر نبی نیکی کرتا ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کی دہ ہوئی طاقتوں سے ہی کرتا ہے۔پس اگر منطقی طور پر دیکھا جائے تو نبی کے ہاتھ میں بھی
سوائے فضل کے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اگر اس نے نماز پڑھی ہے یا روزہ رکھا ہے یا حج کیا ہے یا صدقہ و خیرات میں حصہ لیا ہے یا اور نیکیاں کی ہیں تو وہ سب کی سب خدا تعالیٰ کی عطا کردہ طاقتوں سے کی ہیں اس لئے خالص منطقی نظریہ سے یہ اگر دیکھا جائے تو نبی کی نجات بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔بے شک عملی نظریہ میں ایک شخص نیک ہوتا ہے اورایک بد ۔لیکن منطقی نظریہ کے ماتحت کوئی بڑے سے بڑا نیک بھی محض اعمال کی بنا پر جنات کا مستحق نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ اس نے جو کچھ کیا اﷲ تعالیٰ کی طاقتوں سے کام لے کر کیا ہے ۔اس لیے حدیث میں رسول کریم ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے خالص منطقی نظریہ کے ماتحت فرمایا ہے عملی نظریہ کے ماتحت نہیں ۔
اس طرح ابن ابی حاتم سعید بن جبیر اﷲ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَلَ ذَرَّۃٍ خَیْرً ایَّرَ ہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّ ایَّرَ ہٗ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت کس واقعہ پر ظاہر ہوئی تھی۔میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ روایات میں کسی آیت کا جو شان نظول بیان کیا جاتا ہے اس کے صرف اتنے معنے ہوتے ہیں کہ یہ واقعہ بھی فلاں آیت پر چسپاں ہوتا ہے۔یہ معنے نہیں ہوتے کہ اگر وہ واقعہ نہ ہوتا تو آیت کا نزول بھی نہ ہوتا ۔بہر حال سعید بن جبیر ؓ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرً ا(الدھر:۱۹؍ ۱)وہ لوگ اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں تو اس وقت صحابہ ؓ یہ خیال کیا کرتے تھے کہ ہمیں اﷲ تعالیٰ کی راہ میں تھوڑی سے چیز دینے پر کیا اجر مل سکتا ہے اجر تو اسی خیر پر ملے گا جو بہت بڑی ہو گی۔ضمناً میں یہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ اَسِیْرً اکہ کئی معنے ہو سکتے ہیں۔ عَلیٰ حُبِّہ کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ عَلیٰ حُبِّ الطَّعَامِ یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ عَلیٰ حُبِّ اطْعَامِ الطَّعَامِ ۔اور یہ منے بھی ہو سکتے ہیں کہ عَلیٰ حُبِّ اﷲِ یعنی اس آیت مین تین درجے بیان کئے گئے ہیں اور بیاتا گیا ہے کہ مومن مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ عَلیٰ حُبِّ الطَّعَامِ با وجود ما ل کی محبت یا طعام کی محبت کے یعنی باوجود اس کے کہ انہیں خود کھانے کی محبت ہوتی ہے پھر بھی وہ غرباء و مساکین کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے اور اپنی ضروریات کو پسِ پشت ڈال کر ان کو کھانا کھلانا مقدم سمجھتے ہیں ۔
اس کے بعد سعید بن جبیرؓ کہتے ہیں کہ یُکْتَبُ لِکُلِّ بَرٍ وَفَا جرٍ سَیِّئَۃٍ سَیِّعَۃٌ وَّ بِکُلِّ حَسَنَۃٍ عَشْرُحَسَنَاتٍ۔ہر شخص جو نیک یا بد ہو گا اس کی نیکی بدی کی جزا کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا کانون یہ ہے کہ جو شخص کسی بدی کا ارتکاب کرتا ہے اس کی ایک بدہ کے مقابل میں اﷲ تعالیٰ کے حضورصرف ایک ہی بدی لکھی جاتی ہے ۔لیکن جو شخص کوئی ایک نیکی بجا لاتا ہے تواس کی ایک نیکی کے مقابلہ میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا چلا جاتا ہے ۔یعنی بدی کے نتیجہ میں صرف ایک بدی لکھی جاتی ہے اور نیکی کے نتیجہ میں ایک نہیں بلکہ دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔فَاِذَا کَنَا یَوْمُ الّقِیَا مَۃِ جب قیامت کا دن آئے گا تو ضَا عَفَ اﷲُ حَسَنَا تِ الْمُؤُمِنِیْنَ اَیْضًا بِکُلِّ وَحَدَۃٍ عَشَرً ا اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کی حسنات کو پھر بڑھائے گا اور ایک ایک نیکی کو دس گنا کرے گا ۔یعنی ایک نیکی تو وہ پہلے بڑھا چکا ہوگا اور ایک ایک نیکی کو دس دس نیکیوں کی شکل میں تبدیل کر چکا ہو گا لیکن جب قیامت کا دن آئے گا تو پھر اُن بڑھائی ہوئی نیکیوں میں سے ایک ایک دس گنا کرے گا ۔گویا ایک نیکی کی جزا سوگنے تک پہنچا دے گا ۔لوگوں نے تو :
؎ دَہ در دنیا ستر در آخرت
ایک محاورہ ایجاد کیا ہوا ہے لیکن اگر احادیث کے مفہوم کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ محاورہ یوں بنتا ہے کہ :
؎ دَہ در دنیا سو در آخرت
وَیَمْحُوْا عَنْہُ بِکُلِّ حَسَنَۃٍ عَشَرَ سَیِّاٰتٍ۔ دوسری طرف اﷲ تعالیٰ اس کی ہر نیکی کے بدلہ میں اس کی دس بدیوں کو دور کر دے گا ۔یعنی اگر اس نے ایک نیکی کی ہوگی تو وہ اس کی دس بدیاں مٹ دے گا ۔دس نیکیاں کی ہوں گی تو سو بدیاں مٹا دے گا اور اگر سو نیکیاں کی ہوِ گی تو ہزار بدیاں مٹٓ دے گا گویا دونوں رنگ میں اسے جزائے خیر عطا کی جائے گی ۔اس رنگ میں بھی کہ اس کی ایک ایک نیکی کو دس گنے اور پھر سو گنے تک بڑھا دیا جائے گا اوراس رنگ میں بھی اس کی ہر نیکی کے مقابلہ میں دس بدیوں کو مٹا دیا جائے گا۔ بات یہ ہے کہ اصل چیز محبت الہیٰ ہے اور یہ رستی شریعت نے اسی کے لئے تجویز کیا ہے جس کا دل اﷲ تعالیٰ کے عشق اور اس کی محبت سے لبریز ہوگا۔ اس کے لئے نہیں جس کا دل سخت ہو اور جواﷲ تعالیٰ کی محبت کا کوئی طمع بھی اپنے قلب میں نہ رکھتا ہو اگر نیکی کرتا ہو تو وہ بھی اتفاقیہ طورپر اور اگر بدہ سے بچتا ہو تو و ہ بھی اتفاقیہ طورپر ۔نہ اس کی نیکی کا باعث خدا تعالیٰ کی محبت ہو اور نہ اس کا بدی سے بچنا خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے ماتحت ہو ۔ایسا شخص اس انعام سے حصہ نہیں لے سکتا یہ انعام اسی کے لئے مقدر ہے جس کا دل اﷲ تعالیٰ کی محبت سے سرشار ہو گا ۔اور جو اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود محبت الٰہی کی آگ اپنے اندت رکھتا ہو گا۔اور یقینا جس دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو گی اسے کبھی دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا ۔اﷲ تعالیٰ کسی نہ کسی طرح اس کی نجات کا سامان پید اکردے گا اور حساب بنا بنا کر اور مختلف ذرائع اور طریق اختیار کرکے اسے جنت میں لے جانے کی کوشش کرے گا ۔چنانچہ اسی روایت کا آخری حصہ یہ ہے کہ فَمَنْ زَادَتْ حَسَنَا تُہٗ عَلٰی سَیِّاٰ تِہٖ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ دَخَلَ الْجَنَّۃً۔اگر یہ تمام طریق اختیار کرنے کے بعد بھی کوئی شخص جس کی بدیوں سے اس کی نیکیاں صرف ایک ذرہ کے برابر بھی زیادہ ہوئیں تو اﷲ تعالیٰ اس کے متعلق اپنے فرشتوں سے فرمائے گا جائو اسے جنت میں ڈال دو ۔اس کا مفہوم یہی ہے کہ جو شخص سچا مومن ہو گا اور جس کے متعلق اﷲ تعالیٰ جانتا ہو گا کہ اسے ایمان صادق حاصل ہے اس کو بچانے کے لئے اﷲ تعالیٰ ہر تدبیر اختیار کرے گا کہ وہ دوزخ میں نہ جائے جیسے ماں اپنے بچے کو مصیبت سے بچانے کے لئے اپنے سارے ذرائع صرف کر دیتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ اسے کوئی تکلیف نہ ہو ۔
رسول کریم ﷺ کو صحابہ ؓ سے جو محبت تھی اور صحابہ ؓ کے دل میں رسول کریم ﷺ کا جو عشق پایا جاتا تھا وہ بھی اپنے اندربعض اس قسم کی مثالیں رکھتا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں سچی محبت ہو وہاں کوئی نہ کوئی ذریعہ دوسرے شخص کو مصیبت سے بچانے کے لئے نکال ہی لیا جاتا ہے۔حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا کہ یا رسول اﷲ مجھ سے فلاں خطا سر زد ہو گئی ہے اب میں کیا کروں ۔آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم غلام آزاد کر سکتے ہو ؟اس نے کہا مجھ میں غلام آزاد کرنے کی کہاں طاقت ہے ۔آپ نے فرمایا اچھا کیا تم دو مہینے متواتر روزے یکھ سکتے ہو ؟ اس نے عرض کیا روضے رکھنے کی بھی مجھ میں ہمت نہیں ۔آپ نے فرمایاتو پھر ساٹھ مسکینوںکوکھانا کھلا دو ۔کہنے لگا یا رسول اﷲ میں کہاں سے کھلائوں میرے پاس تو ان کو کھلانے کے لئے کچھ نہیں ۔ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ کوئی شخص کھجوروں سے بھرا ہوا ٹوکرا رسول کریم ﷺ کے پاس لایا رسول کریم ﷺ نے اسے فرمایالو میاں یہ کھجوریں اُٹھا ئو اور مساکین میں تقسیم کردو تمہارے گناہ کا کفارہ ہو گائے گا ۔اس نے کھجوریں اُٹھا لین اور کہنے لگا یا
رسول اﷲ ایک اور بات بھی عرض کرنے کے قابل ہے آپ نے فرمایا کیا ؟کہنے لگا مدینے میں مجھ سے بڑھ کر تو کوئی اور غریب شخص نہیں۔میں کسے تلاش کروں گا ۔آپ یہ سن کر ہنس پڑے فرمایا جائو یہ کھجوریں خود ہی کھا لو۔تمہاری طرف سے کفارہ ہو گا ۔اسی طرح وہ شخص جو خدا تعالیٰ سے سچی محبت رکھتا ہو گا اور جس نے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش اور سعی اس بات کے لئے صرف کی ہوگی کہ اس کا انجام بخیر ہو اور وہ اﷲ تعالیٰ کے منعم اعلیہ گروہ میں شامل ہو جائے اگر سکی وجہ سے اپنی کوشش میں سو فیصدی کامیاب نہ ہو سکا تب بھی اﷲ تعالیٰ اس کی تپش محبت کو رائیگاں جانے نہیں دے گا ۔بلکہ وہ اس کے ایمان اور اس کے دل کے اخلاص کے مطابق اس سے سلوک کرے گا اور کوئی نہ کوئی راہ اس کی نجات کی نکال لے گا اور اپنے فرشتوں کا حکم دے گا کہ جائو اور میرے بندے کو جنت میں داخل کر دو۔

سُورۃالْبِیِّنَۃِ مَدَنِیَّۃٌ
سورہ بیّنہ یہ سورۃ مدنی ہے- ۱؎
وَھِیَ ثِمَانَی اٰیاتٍ دُونَ البَسْمِلَۃِ وَفِیْھَا رُکُوعٌ وَّحِدٌ
سوُرۃ البینہ مدنی ہے- ۱؎
جمہور مفسرّین کے نزدیک یہ سورۃ مدنی ہے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ یہ مدنی ہے ابن مررد نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ یہ سورۃ مکّی ہے- ابو حیّہ بدرسی سے راویت ہے کہ جب سورۃ لَمْ یَکُنْ سب کی سب نازل ہوئی ہے ( یعنی یہ اکٹھی نازل ہوئی ہے) تو جبریل نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے کہ اکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ یہ سورۃ ابی بن کعبؓ کو یاد کرادیں- اس پر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا یہ حکم مجھے پہنچایاہے کہ میں سورۃ تم کو یاد کرا دوں ابّی بن کعبؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرا بھی خدا تعالیٰ کے حضور میں ذکر آیا تھا؟ آپ نے فرمایا ہاں اس پر ابّی بن کعبؓ خوشی کے مارے روپڑے-یہ رایت سند احمد اور طبرانی میںاور ابن مردویہ میں مروہی ہے- بخاری اور مسلم نے بھی حضرت انسؓ سے یہ راویت نقل کی ہے لیکن بخاری اور مسلم کی رایت میں الفاظ نہیں کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی اُس وقت آپ نے یہ فرمایا- دوسرے بخاری اور مسلم کی رایت مین جبریل کا بھی ذکر نہیں- صرف اتنا ذکر آتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ھکم دیا ہے کہ مَیں یہ سورۃ تم کو پڑھا دوں- گو بخاری اور مسلم کی رایت میں یہ ذکر نہیں آتا کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی اُس وقت آپ نے ابّی کعبؓ سے یہ فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ تمہیںیاد کرانے کا حکم دیا ہے مگر چونکہ دوسری راویت یاد کرانے کا حکم دیا ہے مگر چونکہ دوسری روایت میں یہ ذکر آ گیا ہے جو مسند احمد بن جنبل جیسی مستند کتاب نے بھی نقل کی ہے اِس لئے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ صحیح راویت کی بنا ء پر یہ سورۃ مدنی ہی ہے کیونکہ ابی کعبؓ انصاری تھے اور مدینہ میں مسلمان ہوئے پس جو سورۃ اُن کے زمانہ میں نازل ہوئی وہ مدنی ہی ہو سکتی ہے مسیحی مستشرق بھی مانتے ہیں کہ یہ سورۃ مدنی ہے- …… چنانچہ ریورنڈ ہیری اس سورۃ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ مدنی ہے اور جرمن مستشرق نولڈکے نے اِسے سورئہ بقرہ کے معاً بعد کے زمانہ میں نازل شدہ قرار دیا ہے-
اس جگہ ایک لطیفہ بھی بیان کرنے کے قابل ہے ریورنڈویری اس سورۃ کے متعلق لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس سورۃ کو مکی قرار دیا ہے جیسا کہ اوپر روایت بیان ہو چکی ہے بعض لوگوں سے مراد حضرت عائشہ ؓ ہیں کیونکہ اُنہی کی نسبت روایت ہے کہ انہوں نے اسے مکّی قرار یا- ریورنڈ ویری کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی یعنی اُسے مکی قرار دینے کی اُن کے پاس سوائے اس کے کوئی وجہ نہیں کہ یہ سورۃ مکی سورتوں میں شامل کی گئی ہے- تعجب ہے ایک طرف تو عیسائی مؤرخ شیعوں کی ہمنوائی میں قرآن کریم کی کو بیاضِ عثمانی قرار دیتے ہیں کم سے کم ترتیبِ سُور کو حضرت عثمانؓ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور دوسری طرف حضرت عائشہؓ کے اس قول کو کہ یہ سورۃ مکّی ہے اس بات کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے کہ یہ سورۃ مکّی سورتوں میں رکھی ہوئی ہی حالانکہ اگر یہ قول کے مطابق یہ کہا جا سکتا تھا کہ اُس نے اس سورۃ کو مکّی سورتوں میں رکھا ہوا دیکھ کر اُسے مکّی قرار دے دیا- لیکن یہ قول تو اُس کا ہے- جو خلافتِ عثمان سے بہت سے پہلے مسلمان تھیں- پس اگر یہ اعتراض
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے- (شروع کرتا ہوں )
لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ مَنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَ
وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے یعنی اہل کتاب اور مشرک ( دونوں ہی ) کبھی ( اپنے
الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّنَ حَتّٰی تَاْ تِیَھُمْ الْبَیِّنَۃُ
کفر سے باز رہنے والے نہ تھے جب تک کہ اُن کے پاس واضح دلیل نہ آ جاتی ۲؎
در ست ہے تو اُن کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ ترتیب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کہ ہے تبھی اس سے حضرت عائشہؓ جنہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی عمر گذاری تھی وہ عثمانؓ کی ترتیب سے دھوکا کھا جاتیں- قرآن کریم کے متعلق حضرت عائشہؓ کے نظریے یقینا عثمانی جمعِ قرآن سے پہلے قائم ہو چکے تھے پس اگر حضرت عائشہؓ نے اس کے مکّی ہونے کا عقیدہ اس لئے قائم کیا کہ یہ مکّی سورتوں میں رکھی گئی ہے تو معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ کے ہوش سنبھالنیسے پہلے یہ سورۃ مکّی سورتوں میں رکھی گئی ہے تو معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ کے ہوش سنبھالنے سے پہلے یہ سورۃ مکّی سورتوں میں رکھی جا چکی تھی- پس ترتیب قرآن رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ثابت ہوئی نہ کہ عیسائی مؤرخین کے مطابق عثمانؓ کی؟
پھر ایک اورلطیفہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ریورنڈویری نے آخری سب سورتوں کو مکّی قرار دیا ہے اور حضرت عائشہؓ پر یہ الزام لگایا ہے کہ انہوں نے اس سورۃ کو محض اس لیے مکّی قرار دیا ہے کہ یہ مکّی سورتوں میں رکھی ہوئی ہے - حالانکہ ریورنڈویری کی یہ لا علمی ہے کہ انہوں نے آخری سب سورتوں کو مکّی قرار دیا ہے- اس سورۃ کو تو خیر صرف حضرت عائشہؓ نے مکّی قرار دیا ہے لیکن اس سورۃ سے اگلی سورۃ کو یعنی سورہ زلزال کو اکثر لوگوں نے مدنی قرار دیا ہے اور قرآن کے مرّوج مطبوعہ نسخوں میں اس کے اُور مدنی ہی لکھا ہوا ہے پھر اس آخری مجموعہ سُور میں سورئہ دالنصر بھی ہے جو نہ صرف بالاتفاق مدنی ہے بلکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام کی نازل شدہ ہے - بعض صحابہؓ نے اسے غزوئہ خیبر سے واپسی کے وقت نازل شدہ قرار دیا ہے اور بعض نے اسے حجتہ الوداع میں منٰی کے مقام پر نازل شدہ قرار دیا ہے جس کے بعد رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم صرف اسی دن زندہ رہے- پس جب اس مجموعہ میں یقینا مدنی سورتیں موجود ہیں تو سوائے ایک جاہل انسان کے کون شخص حضرت عائشہؓ پر یہ الزام لگا سکتا ہے کہ انہوں نے اس سورۃ کو آخری سورتوں میں رکھے جانے کی وجہ سے مکّی قرار دیا ہاں اصل واقعہ کر ہمیں انکار نہیں کہ یہ سورۃ مدنی ہے- جیسا کہ اکثر صحابہؓ اور تابعین کی روایات سے ثابت ہے اور جمہور مفسرین کا عقیدہ ہے ہمیں صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ مسیحی مصنف بغیر دلیل کے تعصب کی بناء پر اسلامی تاریخ پر حملہ کر دیتے ہیں-
ترتیب
اس کا تعلق پہلی سورتوں سے یہ ہے کہ پہلی دو سورتوں میں قرآن کریم کے نزول کا ذکر تھا اور اُس کی ذاتی خوبیاں بیان کی گئی تھیں اب اس سورۃ میں قرآن کریم کے اُس اثر کو بیان کی گئی تھیںاب اس سورۃ میں قرآن کریم کے اُس اثر کو بیان کیا گیا ہے جو غیر اقوام سے تعلق رکھتا ہے چنانچہ فرمایا کہ اگر یہ قرآن نہ آتا تو اہلِ کتاب اور غیر اہل کتاب اپنے غلط رویہ سے باز نہ آ سکتے تھے- اس سورۃ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا نام بَیَّنَہ رکھا گیا ہے- کیونکہ آپ قرآن کریم لائے اور اصلاحِ عالم کے لئے آپ نے قرآن کریم کے نزول کو ضروری قرار دیا-
۲؎حل لغات
مُنْفَکِّنَ - اِنْفَکَّ سے مُنْفَکِّنَ۳اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اور اِنْفَکَّ فَکَّ سے انفعال کا صیغہ ہے فَکَّ کے اصل معنے کھولنے یا جدا کرنے کے ہوتے ہیں- پس اِنْفَکَّ کے معنے ہوئے کُھل گیا یا جُدا ہو گیا-علاوہ ازیں عربی زبان میں اِنْفَکَّ کے مندرجہ ذیل معانی استعمال ہوتے ہیں (۱) کہتے ہیں اِنْفَکّ قَدَ مُہ‘ :ذَالَتْ اُس کا قدم اپنی جگہ سے ہٹ گیا (۳) اِنْفَکَّتْ اِصْبَعُہ‘ اِنْفَرَجَتْ انگلی کھلی گئی (۳) اِنْفَکَّ وَرْ کُہ‘ ذَاغَ عَنْ مَّوْ ضِعِہٖ- جوڑا اپنی جگہ سے ہل گیا - (۴) اِنْفَکَّ الشَّیْ ئُ الْمُشْتَبَکُ اِنْفَصَلَ - جُڑی ہوئی چیز الگ ہو گئی (۶) اِنْفَکَّتِ الرَّقبُۃُ مِنَ الرِّقِّ- اُعْتِقَتْ گردن کھل گئی یعنی غلام آزاد کر دیا گیا ( اقرب) اور جب محارہ میں مَا انْفَکَّ یَفْعَلُ کَذّا - کہیں تو اس کے معنے ہونے ہیں- مَا انْفَکَّ کَانَ کے اخوت میں شمار ہوتا ہے چونکہ اِنْفَکَّ کے معنے الگ ہو جانے کے ہیں اس لئے جب اس سے پہلے نفی آ جائے تو اس کے معنے اثبات کے بن جاتے ہیں اور اس صورت میں وہ کسی چیز کے تسلسل کے ساتھ ہونے کے معنے دیتا ہے- (اقرب)
بَیِّنَۃٌ ۱؎
بَیِّنٌکی مونث ہے اور ان معنوں کے رُو سے یہ لفظ کسی واضح اور جلی چیز کے معنے دیتا ہے لیکن علاوہ اس کے کہ بَیِّنٌ کی مونث ہے اس کے مستقل معنے بھی ہیں اور وُہ دلیل اور حجت کے ہیں (اقرب)
تفیسر
قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے تمام بنی نوع انسان کو دو حصوں مین تقسیم کیا ہے ایک حصے کا کا نام اُن نے اہل کتاب رکھا ہے اور دوسرے حصے کا نام اُس نے مشرک رکھا ہے- قرآنی اصطلاح کے مطابق دنیا کا کوئی حصہ ان دوقسموں سے باہر نہیں یا تو نبی نوع انسان
(۲۲) قرآنی اصلاح میں دو قسم کے لوگ اہل کتاب اور مشرک
اہلِ کتاب میں سے ہوں گے یا نبی نوع انسان مشرکین میں سے ہوں گے اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بظاہر بعض لوگ ایسے بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں- جنہیں نہ تو ہل کتاب میں سے کہا جا سکتا ہے نہ مشرکوں میں سے- جیسے دہریہ ہیں- دہریہ بظاہر نہ اہل کتاب میں سے نظر آتے ہیں نہ مشرکوں میں سے- لیکن قرآن کریم کی اصطلاح میں سہ دونوں میں سے ایک گروہ میں ضرور شامل ہیں اور قرآنی اصطلاح سے نتیجہ نکالتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مشرکوں میں شامل ہیں- درحقیقت اس اصطاح میں ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے اور وہ کہ قرآن کریم اس بات کا مدعی ہے کہ توحید بغیر الہام کے نہیں آ سکتی- یہ تو ہو سکت اہے کہ ایک شخص اہل کتاب میں سے ہو اور مشرک ہو لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص اہلِ کتاب میں سے نہ ہو اور مدحّد ہو- پس جو اہل کتاب میں سے نہیں وہ ضرور مشرک ہے اور جو اہلِ کتاب میں سے ہے وہ یا موحّد ہے یا مشرک ہے- کیونکہ توحید نام ہے صفاتِ الہٰیہ کو خدا تعالیٰ کی طرف صحیح طور پر منسوب کرنے کا- اور یہ مقام سوائے اہلِکتاب کے اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفات کو صحیح طور پر وہی شخص خدا کی طرف منسوب کر سکتا ہے جس کی الہام الہٰی نے راہنمائی کی ہو یاجیسے ایسے الہام کا علم حاصل ہو- ایک دہریہ بظاہر خدا تعالیٰ کا منکر ہے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ وہ صفتِ خلق کو یا قانونِ قدرت کی طرف منسوب کرتا ہے یا اتفاق کی طرف منسوب کرتا ہے اور گو وہ خدا تعالیٰ کا قائل نہیں- مگر خدا تعالیٰ کے ماننے والے کے نزدیک تو اُس نے شرک ہی کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفت کسی اور کی طرف منسوب کر دی- پس خود دہریہ کے نقطہ نگاہ سے وہ منکر ہے مگر مذہبی آدمی کے نقطہ نگاہ سے وہ مشرک ہے کیونکہ اُس نے خدائی صفات کو دوسرے کی طرف منسوب کردیا- بہرحال قرآن کریم نے دنیا کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے ایک اہل ِ کتاب اور دوسرے مشرک- جب قرآن کریم اہلِ کتاب اور مشرک کے الفاظ اکٹھے استعمال کرے تو اُس کی اصطلاح کے رُو سے اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ سب غیر مسلم دنیا- یہ تمہید مَیں نے اس لئے اٹھائی ہے کہ اگلام مضمون اس کے بغیر سمجھ نہیں آ سکتا-
یاد رکھناچاہیے کہ اِس سورۃ میں ایک بہت بڑے مسئلہ کا حل کیا گیا ہے اور یہ آیت اُس مسئلہ کے بارے میں بطور نصّ واقعہ ہوئی ہے- مسیحی مصنّفین ہمیشہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ قرآن کریم کا دعویٰ ( جہانتک ایمان کا سوال ہے) صرف غیر کتاب سے متعلق ہے اور وہ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں یہود کی نسبت آتاہے - وِمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمٓا اَنْزَلَ اﷲُ فَاُلٰٓئک ھُمُ الْکَافِرُوْنَ ( مائدہ ع ۷،۱۱)جو شخص اُس کلام کے مطابق حکم نہیں دیتا جو خدا تعالیٰ نے اُتارا ہے وہ کافر ہے- اور مسیحیوں کی نسبت فرماتا ہے وَلْیَحْکُمْ اَھْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَٓا اَنْذَلَ اﷲُ فَاُولٰٓئکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ ( مائدہ ع ۷،۱۱) اِن آیات سے وہ استدال کرتے ہیں کہ چونکہ قرآن کریم نے یہودیوں اور عیسائیوں پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اپنی کتابوں پر عمل کیوں نہیں کرتے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک تورات اور انجیل اب تک قابلِ عمل ہیں اور جب تورات اور انجیل اب تک قابلِ عمل ہیں تو معلوم ہوا کہ کم سے کم اہلِ کتاب کے لئے تو یہ ضروری نہیں کہ وہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں- پس وہ کہتے ہیں کہ ہمیں قرآن کریم کے دعویٰ پر غور کرنے کی ضرورت نہیں اگر وہ جھوٹا ہے تو جھوٹا ہی ہے اور اگر سچا ہے تو ہمیں ماننے کا پابند نہیں کرتا اور جب ہم اس کاماننے کے پابند نہیں تو ہمیں اس پر وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت کیا؟ اِس کے جواب میں مسلمانوں کی طرف سے یہ آیات پیش کی جاتی ہیں:-
اوّل- قُلْ یَآاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ ِاِلَیْکُمْ جَمِیْعََا ( اعراف ع ۳۰ ،۱۰)یعنی اے نبی تُو لوگوں سے کہہ دے میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں-
(۲) مَٓا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ کَآ فَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ( سبا ع ۳،۹) ہم نے تجھے سب لوگوں کے لئے بشیر و نذیر کی حیثیت سے بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے-
پھر قرآن مجید میں آتا ہے وَاُوْحِیَ اِلَیْ ھٰذَا لْقُرْانُ لِاُنْذِرِکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغَ ( الانعام ع ۸،۲)
یہ قرآن میرے اُوپر اس لئے نازل کیا گیا ہے تا کہ مَیں تم کو بھی اور جس شخص تک یہ کلام پہنچے اُس کو بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائوں-
اِن آیتوں کا جواب مسیحیوں کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ اَلنَّاس سے مراد قرآن کریم میں ہر جگہ مشرکین مکّہ ہوتے ہیں اس لئے سب لوگوں سے مراد سب مکّہ والے ہیں نہ کہ اہلِ کتاب- یہ خیال اَلنَّاس جہاں بھی قرآن کریم میں آیسا ہے اس کے مراد مکّہ کے مشرکین ہوتے ہیں گو غلب ہے لیکن خود بعض مسلمان مفسّرین نے ہی پیدا کیا ہے اور یہ خیال عیسائی مصنفین کے دل میں اس قدر گھر کر گیا ہے کہ سورئہ بقرہ ع ۳ کی آیت یَٓاَ یُّھَا النَّاسُ اعُبُدُ وْ ارَبَّکُمْ کا ترجمہ سیلؔ نے یوں کیا ہے-
۲۱۱ مسیحی مصنفین کا قرآن مجید کو غیر اہل کتاب کے لئے مخصوص کرنا اور اس کی تردید
’’ اے مکّے والو! اپنے رب کی عبادر کرو‘‘
پس اس خیال کی موجودگی میں جس کو خود بعض مسلمان مفسّرین نے قوی کر دیا ہے ہمارے لئے صرف یہ لمبا طریق باقی رہ جاتا ہے کہ ہم پہلے اُن کی یہ غلطی دُور کریں اور یہ ثابت کریں اِلنَّاس امیں اہل کتاب بھی شامل ہیں-
تیسری آیت میں گو مَنْ بَلَغَ کے الفاظ ہیں مگر عیسائی پہلی دو آیتوں کے تابع اس کے بھی یہی معنے کر لیتے ہیں کہ موجودہ مکّہ والے اور آئندہ زمانہ کے مکّہ والے-
باقی آیات جو اہل کتاب کو ایمان لانے کی طرف بلاتی ہیں مثلاً (۱) وَلَوْ اٰمَنَ اَھَلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ مِنْھُمْ الْمُؤمِنُوْنَ وَ اِکْثَرُ ھُمْ الْفَاسِقُوْنَ ( آل عمران ع ۱۲ ۳ )
یعنی اگر اہل کتاب ایمان لاتے تو یہ اُن کے لئے بہتر تھا اُن میں سے بعض مومن ہیں اور اکثر فاسق- اسی طرح (۲) وَمَنْ یَّکفُرُبِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْ عِدُ عِدُہ‘ (ھود ع۲)کہ مختلف گروہوں میں سے جو لوگ اِس قرآن کا انکار کرتے ہیں اُن کا ٹھکانہ آگ ہے-اور پھر ( ۳) قُلْ لِلّذِیْنَ اُوْتُوالُکِتٰبَ وَلْاُ مِّیِْیْنَ ئَ اَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْ ا فَقَدِ اھْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَ لَّوْا فِاِنَّمَا عَلَیْنٰکَ الْبَلَاغُ وِاﷲُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ (اٰلِ عمران ع ۲،۱۰)
تُو اہل کتاب اور اُمِیوں سے کہہ دے کہ تم السلام لاتے ہو یا نہیں اگر وہ اسلام لے آئیں تو سمجھ لو کہ وہ ہدایت پا گئے اور اگر پھر جائیں تو تیرا کام صرف ہدایت پہنچانا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حالات کو خوب دیکھنے والا ہے- (۴) قُلْ لَّٓا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اِجْرًا ط اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ ( الانعام ع ۱۰، ۱۶)تو کہہ دے کہ مَیں اس پر تم کوئی اجر نہیں مانگتا یہ تو جہانوں کے لئے ایک نصیحت ہے- یہ اور اسی قسم کی دوسری آیات جن میں جہانوں کے الفاظ قرآ ن کریم یا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے استعمال کئے گئے ہیں اُن کے متعلق مسیحی مبلّغ یہ کہہ دیتے ہیں کہ احزاب کالفظ خود تمہارے قرآن میں عرب کے قبائل کے متعلق آتا ہے اس لئے احزاب سے کُل دنیا کس طرح مراد لی جا سکتی ہے اور عَا لِمِیْن کا لفظ جب حضرت مریمؑ اور بنی اسرائیل کے دوسرے لوگوںکے متعلق آتاہے تو تم اس کے معنے صرف بنی اسرائیل کے کرتے ہو اور اگر وہاں عَا لِمِیْن کے معنے صرف عرب کے قبائل کے کیوں نہیں ہو سکتے ؟اور جو باقی آیتیں ہیں اُن میں صرف ایمان کے لئے بُلایا گیا ہے ایمان لانا ضروری قرار نہیں دیا گیا- زیادہ سے زیادہ اِن آیتوں کے یہ معنے لئے جا سکتے ہیں کہ اگر اہل کتاب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو بھی مان لیں تو زیادہ اچھا ہے مگر اہل کتاب کو نہ ماننے کی وجہ سے مجرم تو نہیں قرار دیا گیا- گو یہ استدال مسیحیوں کو کچّا بلکہ غلط ہے لیکن ایک لمبا راستہ ہمیں اُن کو منوانے کے لئے اختیار کرنا پڑتا ہے بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قرآن کریم کی وہ آیات جو اس بات کی تائید میں ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سب دنیا کی طرف رسول ہیں اور قرآن کریم سب دنیا کے لیے کتاب ہے اس کے متعلق شبہات (جو گو غلط ہیں) پیدا کرنے اور مسیحیوں کو اس ٹھوکر میں مبتلا کرنے کے سا مان خود مسلمان مفسّرین نے کئے ہیں اور بعض شبہات ایسے ہیں جو اپنی نا فہمی اور پورا تدّبر نہ کرنے کی وجہ سے غیر مسلموں کو اپنے طور پر اپیدا ہو گئے ہیں یہی وجہ سے کہ اہل کتاب کو ایمان لانے کی جو دعوت قرآن کریم میں دی گئی ہے اُس کو وہ صرف ایک زائد خیر قرار دیتے ہیں لازمی اور قطعی قرار نہیں دیتے حالانکہ قرآن کریم نے نہ صرف اُن ایات میں جن کو اُوپر درج کیا گیا ہے اہل کتاب کا ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے بلکہ جیسا کہ آگے چل کر ثابت کیا جائے گا صاف اور کھلے الفاظ میں اس امر کا اعلان کی اہے کہ اہلِ کتاب کفر میں مبتلا ہو چکے ہیں اور اب اُن کی نجات کی صرف یہی صورت باقی رہ گئی ہے کہ وُہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں اور آپ کی غلامی اختیار کریں-
قرآن کریم کے بعد جب ہم کتب احادیث کو دیکھتے ہیں تو اُن میں بھی ایسی بہت سی روایات پائی جاتی ہیں جن سے قطعی اور یقینی طوپر ثابت ہو تاہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سب جہان کی طرف مبعوث ہوئے ہیں چنانچہ مسند احمدمیں حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بُعِثْتُ اِلَی الاَْحْمَرِ وَالاَ سْوَدِ- میں گورے اور کالے سب لوگوںکی طرف مبعوث ہوا ہوں- اسی طرح مسند احمد ہیںعَنْ عَمْرِِ و ابْنِ شُعِیْبِِ عَنْ اَبِیْہِ عِنْ جَدِّہٖ روایت ہے کہ اِمَّا اَنَا فَاُرْسِلْنٰتُ اِلَی النَّاسِ کُلِّھِمْ عِامَّۃََ وَ کَانَ مَنْ قَبْلِیْ اِنَّمَا یُرْ سَلُ اِلیٰ قَوْ مِہٖ یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری یہ خصوصیت ہے کہ میں تمام بنی نوع انسا کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں اور مجھ سے پہلے جو رسول تھے صرف اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث کئے گئے تھے- اس حدیث میں بھی بے شک اَلنَّاس کا لفظ ہے اور میں نے اوپر کی آیات پر بحث کرتے ہوئے بتایا تھا کہ عیسائی کہتے ہیں قرآن کریم اَلنَّاس سے مراد ہمیشہ مکّہ کے لوگ ہوتے ہیں یہودی اور عیسائی نہیں ہوتے مگر ایک تو یہاں دلیل موجود ہے کہ آپ نے اپنی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوں فرمایا کَانَ مَنْ قَبْلِیْ اِنَّمَا یُرْ سَلُ اِلیٰ قَوْمِہٖ- مجھ سے پہلے جو رسول گزرے ہیں وہ صرف اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوا کرتے تھے - چونکہ یہاں قوم کے مقابلہ میں اِلنَّاس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لئے اِلنَّاسُ کے معنے ساری !…………………… دنیا کے ہوں ہوں گے ورنہ مکّہ کے لوگ ہم قوم ہی تھے اور اگر النَّاسُ سے مراد یہاں صرف اہلِ مکّہ ہوتے تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی کوئی خصوصیت باقی نہ رہتی کیونکہ جس طرح اگر آپ بھی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہو گئے تو اس میں کوئی خصوصیت نہیں ہو سکتی تھی- اصل بات یہی ہے کہ یہاں اپنا اور سابق انبیاء کا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے مقابلہ کیا ہے اور بتایا کہ پہلے انبیاء تو اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے مگر میں اَلنَّاس کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں - اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی غرض یہ ہے کہ میں صرف اپنی قوم کے طرف نہیں بھیجا گیا بلکہ قوم سے زائد لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں پس اُرْ سِلْتُ الَی النَّاسِ کُلِّھِمْ عَامَّۃََ سے مرادیہاں ساری دنیا ہے محض قوم مراد نہیں-
دوسرےؔ حدیثوں میں صراحتاً اَلنَاسُ کا لفظ بولا جاتا ہے اور اُس سے مراد مکّہ کے مشرک نہیں ہوتے بلکہ دوسرے لوگ ہوتے ہیں چنانچہ حدیث بدر میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے مشورہ طلب فرمایا اور مہاجرین یکے بعد دیگرے اُٹھ اُٹھ کر مشورہ دینے لدگے تو ہر مہاجر جب مشورہ دے کر بیٹھ جاتا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے اَشِیْرُ وْلِیْ اَیُّھَا النَاسُ اے لوگو مجھے مشورہ دو- اب دیکھ لو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے نَاسٌ کا لفظ استعمال کیا مگر اس سے مکّہ کے مشرک مراد نہیں تھے بلکہ انصار مراد تھے چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہ فرمایا کہ اے لوگو مجھے مشورہ دو تع سعد بن معاذؓ کھڑے ہوئے اور انہوں کے عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ کی مراد ہم سے ہے کہ اس موقعہ پر ہم بھی اپنے خیالات کا اظہار کریں- رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیثوں کی شہادت اس امر کی تائید میں موجود ہے کہ اَلنَّاس کا لفظ استعمال کا لفظ استعمال کیا اور مآپ کی مراد اس سے انصار تھے- پھر اس حدیث میں تو وضاحت موجود ہے کہ قوم کا مقابلہ میں ناسؔ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ یہاں اَلنَّاس سے قوم مراد نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان مراد ہیں خواہ وہ دنیا کی کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں-
اسی طرح حدیث میں آتا ہے مَنْ سَبِعَ بِیْ مِنْ اُمَّتِیْ اَوْ یَھُوْدِیٌّ اَوْ نَصْرَا نِیٌّفَلَمْ یُؤ مِنْ بَیْ لَمْ یَدْ خُلِ الْجَنَۃَ ( مسند احمد عن ابی سعید بن جبیر عن ابی موسیٰ اشعری)
اس حدیث کے الفاظ میں کچھ غلطی ہے جس کو آگے ظاہر کیا جائے گا موجودہ صورت میں اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علی وسلم نے فرمایا- جس شخص نے میری اُمت میں سے میرے متعلق بات سُنی یا کسی یہودی یا نصرانی نے میرا ذکر سُنا اور پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لایا - وہ جنّت میں داخل نہیں ہو گا- اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُمّت اور ہے اور یہودی اور نصرانی اور ہیں مگر درحقیقت یہ راوی کی غلطی ہے کہ اُس نے رسول کریم صلے اللہ علیہوسلم کے الفاظ صحیح طور پر نہیں سمجھا اور یہودی اور نصرانی نے ساتھ ’’ اَوْ‘‘ کا لفظ بڑھا دیا- اس کی وجہ درحقیقت یہ ہے کہ عام طور پر لوگ اُمت کے معنے ایمان لانے والے لوگوں کے سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اُمت کے لفظ کا اطلاق انہی لوگوں پر ہوتا ہے جو کسی نبی پر ایمان رکھتے ہوں اس محاورہ کی وجہ سے جو عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ہوتا ہے راوی نے سمجھا کہ شاید مجھے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے الفاظ صحیح یاد نہیں رہے ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ آپ اپنی اُمّت میں کسی یہودی یا نصرانی کو بھی شامل سمجھتے اس لئے اُس نے حدیث بیان کرتے وقت ’’ اَوْ‘‘ ’’ اَوْ‘‘ کا لفظ بڑھادیا اور سمجھا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو گا کہ مَنْ سَمِعَ بِیْ مِنْ اُمَّتِیْ اَوْ یَھُوْدِ یٌّ اَوْ نَصْرِانِیْ ٌفَلَمْ یُؤ مِنْ بَیْ لَمْ یَدْ خُلِ الْجَنَۃَ - جس شخص نے میری اُمت سے میری بات سُنا- یہ صاف بات ہے کہ اگر اُمَّتِیْ سے مراد ماننے والے لوگ ہیں تو کیا کوئی ماننے والا ایسا بھی ہو سکتا ہے جس نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہ سُنا ہو؟ یہ بات عقل کے بالکل خلاف ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے تو ہو مگر اُس نے آپ کا ذکر نہ سُنا ہو- پس خود اُمت کالفظ جو اس حدیث میں استعمال کیا گیا ہے- بتا رہا ہے کہ یہاں اُمّت سے مراد صرف ماننے والے نہیں بلکہ ہر وہ شخص ہے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے پیغام کا مخاطب ہے چنانچہ مسلم کی ایک روایت جو ابو موسیٰ اشعری سے مروی ہے اس غلطی کو واضح کرتی ہے کہ بتاتی ہے ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا اصل منشاء کیا تھا- مسلم نے ابو موسیٰ اشعری سے یہ راویت اس طرح نقل کی ہے وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِ ہٖ لَا یَسْمَعُ بِیْ رِجْلُ مِّنْ ھٰذِہٖ الْاُ مَّۃِ یَھُوْدِیٌّ وَّلَا نَصْرَابِیٌ ثُمَّ لَا یُوْ مِنُ بِیْ اِلاَّ دَخَلَ النَّارَ یعنی ابو موسیٰ شعری بیان کرتے ہیںرسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میری اُمّت میں سے کوئی شخص میرا ذکر نہیں سُنے گا خواہ یہودی ہو یا نصرانی ثُمَّ لَا یُوْ مِنُ بِیْ پھروہ مجھ پر ایمان نہیں لائے گااِالاَّ دَخَلَ النَّارَ تو وہ ضرور آگ میں داخل کیا جائے گا-
یہ روایت صحتِ الفاظ کے لحاظ سے زیادہ درست ہے کیونکہ اِ س میں اُمّت اور یہود نصاریٰ کو الگ الگ بیان نہیں کیا گیا بلکہ یہود نصارٰی کو اُمّت کا ایک حصہ بتایا گیا ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے وضاحتاً یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہود نصارٰی اگر آپ پر ایمان لائیں تو یہ نہیں کہ اُن کا ایمان لانا صرف ایک زائد خیر کا رنگ رکھتے گا بلکہ اگر وہ ایمان نہیں لائیں گے تو اللہ انکو دوزخ میں ڈالے گا-
اس حدیث سے یہ وضاحت ہو گئی کہ پہلی روایت میں بھی درحقیقت یہودی اور نصرانی کے الفاظ اُمّت کے بدل کے طور پر استعمال کئے گئے تھے مگر راوی نے غلطی سے ’’ اَوْ‘‘’’ اَوْ‘‘ بڑھا کر فقرہ اس طرح بنا دیا کہ منْ سَمِعَ مِنْ اُمَّتِیْ اَوْ یَھُوْدِیٌّ اَوْ نَصَرَانِیٌّ
امام احمد بن جنبل ایک دوسری روایت بھی انہی الفاظ کی تصدیق کرتی ہے چنانچہ اُس روایت کے الفاظ یہ ہیں- عِنْ اِ بِیْ ھُرَیْرَۃً عِنْ رَّسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عِلَیْہِ وَسَلَّمَ وِالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا یَسْمَعُ بِیْ اِحْدٌ مِّنْ ھٰذِہٖ الْاُ مَّۃِ یِھُوْدِیٌّ اَوْ نَصْرِانِیٌّ ثُمَّ یَمُوْتُ وَلاَیُؤ مِنُ بِالَّذِیْ اُرْسِلْتُ بِہٖ اِلَّا کَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِ- یعنی حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ و تصّرف میں میری جان ہے کہ اس اُمت میں سے کوئی شخص میرا ذکر نہیں سنے گا خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی اور پھر وہ ایسی حالت میں مر جائے گا کہ اُس پیغام پر ایمان نہ لائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے دیا گیا ہے اِلَّا کَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِمگر وہ یقینا دوزخی ہو گا یہ حدیث باالصراحت اس حقیقت پر روشنی ڈال رہی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہود اور انصارٰی دونوں کو اپنی اُمّت میں شامل کیا ہے پس اُوپر کی احایث میں بھی اُمّت سے مراد صرف ماننے والے نہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے پیغام کے مخاطب ہیں- درحقیقت اُمّت میں صرف وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو نبی ایمان لاتے اور اُس کے حلقہ غلامی میں اپنے آپ کو شامل کر لیتے ہیں اور دوسرے مفہوم کے لحاظ سے اُمّت سے مراد تمام لوگ ہوتے ہیں جو کسی نبی کے مخاطب ہوتے ہیں جن کے لئے نبی پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے خواہ اپنی عملی حالت کے لحاظ سے وہ منکروں میں ہی شامل ہوں- اس جگہ اُمّت سے مراد یہی دوسرا مفہوم ہے یعنی اُمت پر ایمان لانے والے مراد نہیں بلکہ وہ لوگ جن کے لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے وہ سب کے سب اُمت کے دائرہ میں شامل ہیں اور سول کریم صلے اللہ علیہ وسلم صاف طور پر فرماتے ہیں کہ اس اُمت میں شامل اور نصارٰی بھی آپ کی اُمت میں شامل ہیں ) مگر وہ ایسی حالت میں مر جائے کہ اُسے مجھ پر ایمان لانا نصیب نہ ہو تو وہ دوزخ میں داخل کیا جائے گا-
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ماننا صرف مستحب و مرحّج ہی نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ پر واجب اور فرض ہے اور اس کی تعمیل نہ کرنا اُنہیں دوزخی بنا دیتا ہے لیکن چکڑالویوں، معّزیوں اور حنفیوں نے احادیث کا انکار اور تخفیف کر کے مسیحیوں کے لئے اس میں شک پیدا کرنے کا راستہ کھول دیا ہے-
گو مومنوں کے لئے اوپر کی آیات اور احادیث واضح الدلالۃ ہیں لیکن چونکہ ہمیں ایسے دشمن سے واسطہ پڑنا تھا جو مسلمانوں کے اختلافات کے متعلق وسیع معلومات رکھنے والا تھا اور اُن قوموں سے اسلام کا مقابلہ ہونے والا تھا جو اپنے آپ کو اعلیٰ درکہ کی منقّد بتاتی ہیں اس لئے ضروری تھا کہ قرآن کریم میں اس کے متعلق کوئی نقصِ صریح آ جاتی تا کہ دشمن کو اس بارہ میں اعتراض کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ نہ آتا-
اب بیشتر اس کے کہ مَیان آیت زیر تفسیر کے مضمون کی طرف آئوں اُن احادیث کے متعلق جو اوپر بیان ہوئی ہیں- دو باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں-
اوّل اِن احایث میں جو مَنْ سَمِعَ بِیْ کے الفاظ آتے ہیں اِن سے مراد محض سماع نہیں بلکہ سماعِ حُجّت ہے کیونکہ سزا بغیر حُجّتِ قاطعہ کے نہیں ہوتی - یعنی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حدیث میں جو مَنْ سِمِعَ بِیْ لَا یَسْمَعُ بِیْ کے الفاظ آتے ہیں اُن کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی کو محض اتنا علم ہو جائے کہ بانی اسلام نبوت کے مدعی ہیں اور آپ پر ایمان نہ لائے تو وُہ دوزخی ہو جائے گا کیونکہ خود احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کوکوئی سزا نہیں ملے گی مثلاً پاگل کے متعلق آتا ہے کہ اُسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی- اب جہاں تک سننے کا تعلق ہے اس امر سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ سنتا ایک پاگل بھی ہے مگر اسکے باوجود اُسے سزا نہیں ہو گی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالی سماع کافی نہیں اگر خالی سماع کافی ہوتا تو ایک مجنوں اور فاتر العقل کو بھی سزا ملنی چاہیے مگر احادیث بالصراحت بتاتی ہیں کہ پاگل مرفوع القلم ہوتا ہے اور اُسے اپنے مجنونانہ افعال کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سزا نہیں ملے گی- یہ امتیاز اِسی لئے رکھا گیا ہے کہ پاگل سنتا تو ہے مگر سمجھتا نہیں- اِسی طرح جس شخص نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا صرف ذکر سُنا ہے اُس پر حجت تمام نہیں ہوئی- وہ بھی سزا کا مستحق قرار نہیں دیا جاسکتا- کیونکہ سزاتمام حُجّت یا حقیقت کو پورے طور پر سمجھ لینے کے بعد وارد ہوتی ہے اور جب اُس اور جب اُس نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کو سمجھا نہیں تو وہ سزا کامستحق کس طرح ہو سکتا ہے؟
دوسرے اِن احادیث سے یہ ابات ثابت ہوتی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے کفراور سزا کو الگ الگ امور قرار دیا ہے- یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو ہمارے اور پیغاموں کے درمیان ایک مدّت سے مابہ النّزاع چلا آ رہا ہے- جب وہ کہتے ہیں کہ کیا وہ شخص جس نے مرزا صساحب کا نام بھی نہیں سُنا کافر ہے؟ اور ہم جوا ب میںکہتے ہیں کہ ہاں جسنے مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا کافر ہی ہیتو وہ شور مچانے لگ جاتے ہیں کہ دیکھو یہ کتنے بڑے ظلم کی بات ہے کہ جس شخص نے مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا اُسے جہنمی میں فرق ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے خوداس حدیث میں صاف طور پر بیان فرما دیا ہے کہ کفر اور سزا یہ دو الگ الگ امور ہیں یہ تو ہر مسلمان تسلیم کرے گا کہ جس شخص نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں سُنا وہ کافر ہے -مَیں سمجھتا ہُوں مسلمانوں میں سے کوئی ایک فرقہ بھی ایسا نہیں جو اس بارہ میں اختلاف رکھتا ہوں اور اُن لوگوں کو جنہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کانام بھی نہیں سُنا مومن قرار دیتا ہو- مثلاً وہ لوگ جنہوںنے اہل کتاب کو کافر قرار نہیں دیا اور جو اتنا قلیل طبقہ ہے کہ کسی اعتناء کے قابل نہیں اُن کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جمہور مسلمانوں کا قطعی طور پر یہ فیصلہ ہے کہ دُنیا میںدو ہی گروہ ہیں یا مسلمان یا کافر- اب جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا میں دو ہی گروہ سمجھے جا سکتے ہیں یا مسلمان یا کافر- وہ اُن مسیحیوں یا اُن یہودیوں یا اُن ہندوئوں یا اُن زرتشتیوں یا اُن شنٹوازم کے ماننے والے جاپانیوں یا کنفیوشس کے ماننے والے چینیوں کو جنہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کانام بھی نہیں سُنا کیا قرار دیں گے؟ کیا یہ کہیں گے کہ وہ مسلمان ہیں؟ یہ تو صاف بات ہے کہ مسلمان نے نام سے وہی بلوائے جاتے ہیں جنہوں نے کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ پڑھا اور جنہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر حقیقی طور پر یا ظاہر میں ایمان لانا نصیب ہوا- جب مسلمان کی ظاہری تعریف یہ ہے کہ وہ کلمہ طیبہ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان ظاہر کرتا ہو تو یہ بات واضح ہو گئی کہ جنہوں کے کلمہ طیّبہ نہیں پڑھا اور جنہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا نصیب نہیں ہوااُنہیں بہرحال ہم کافر ہی کہیں گے- مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے یہں کہ اُن کے کفر کے باوجود اُن کو سزا نہیں ملے گی- سزا صرف اُن لوگوں کو ہو گی جنہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ذکر سُنا یعنی اُن کے کانوں تک رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچا اُن پر حُجت تمامہوئی اور پھر بھی وہ اپنے کفر پر قائم رہے، اسلام میں داخل ہونے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لئے تیار نہ ہوئے- اس سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اور انبیاء تو الگ رہے اپنی ذات کے متعلق بھی یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ مجھے نہ ماننا ( بشرطیکہ کسی پر حُجت تمام نہ ہوئی ہو) انسان کو دوزخی نہیں بناتا ہاں اُسے کافر ضرور بنا دیتاہے چاہے دنیا کے وہ کسی کونہ میں رہنے والا ہو اور چاہے اُس نے سات پشت سے بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا نام نہ سُنا ہو وہ کافر ہو گا اور ضرور ہو گا مگر سزا تمام حُجت کے بعد ہوتی ہے اس سے پہلے نہیں- گویا یہ قاعدہ جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے سزا کے متعلق ہے کفر کے متعلق نہیں- چنانچہ صریح طور پر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ دو ولگ الگ تقسیمین کر دی ہیں کفر کو الگ قرار دیا ہے اور سزا کو الگ قرار دیا ہے - یہی عقیدہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے متعلق ہے کہ جس شخص نے حضرت مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا وہ کافر ہے مگر ہم اسے دوزخی قرار نہیں دے سکتے نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس شخص نے حضرت مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا وہ جہنمی ہے- ممکن ہے اللہ تعالیٰ اگلے جہاں میں اُن کا دوبارہ امتحان لے اور ممکن ہے کہ فطرتی ایمان پر ہی اُس کو بکش دے- بہرحال ہم اُس کی سزا کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے مگرہم اس بات پر مجبور ہیں کہ اُسے کافر قرار دیں کیونکہ اسلام میں دو ہی اصطلاحیں ہیں- ایک اصطلاح مومن کی ہے اور ایک اصطلاح کافر کی ہے جس نے کسی نبی کو مان لیا وہ مومن ہے اور جس نے کسی نبی کو نہیں مانا وہ کافر ہے- چاہیے اُس کا نہ ماننا عدمِ علم کی بنا پر ہو اور چاہے اُس کا نہ کاماننا شرارت کی بناء پر ہو- اگر اُس نے عدمِ علم کی وجہ سے کسی نبی کو نہیں مانا تو وہ کافر یعنی نہ ماننے والا تو ہے مگر دوزخی نہیں اور اگر کسی شرارت سے نہیں مانا تو وہ کافر یعنی نہ ماننے والا بھی اور دوزخی بھی ہے-
افسوس کہ اس نکتہ کو نہ سمجھ کر آج کل پیغامی گمراہ ہو رہے ہیں اور جب وہ مجھ پر حملہ کرتے ہیں تو دراصل رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ کفر و سزاء کا فرق خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور متعدد احادث میں کفر اورجہنمی ہونے کو الگ الگ رکھا گیا ہے - ظاہر ہے کہ پیغامیوں کے لئے وہ ہی راستے کھلے ہیں- یا تو وہ کہیں کہ جس نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں سُنا وہ کافر نہیں مسلمان ہے- اگر وہ یہ کہدیں گے کہ جس شخص نے حضرت مرزا صاحب کا نام نہیں سُنا وہ کافر نہیں مسلمان ہے- اس صورت میں وہ ایک نئی اصطلاح قائم کر دیں گے اور ہمارا اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا کہ ہم اُن سے خطاب کے وقت شر کو دُور کرنے کے لئے اس اصطلاح کو اُن کے مقابلہ میں تسلیم کر لیں اور یا پھر دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ یہ کہیں کہ کافر وہ قابلِ سزا لازم و ملزوم نہیں ایک گ۴وہ کو کافر تو کہا جائے گا مگر قابلِ سزا نہیں- اس صورت میں بھی ہمارا اور اُن کا جھگڑا ختم ہو جاتا ہے-
اس تمہید کے بعد میں بتاتا ہوں کہ آیت زیر تفسیر میں اُن لوگوں کا جو اہل کتاب کو کافر قرار نہیں دیتے یا جو سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا قرآن کریم کے رُو سے اہل کتاب کے لئے ضروری نہ تھا- ردّہے- اور صاف بتایا گیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ماننا اہلِ کتاب اور مشرکین دونوں کے لئے ضروری تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ اہلِ کتاب اور مشرکین دونوں کو کافر قرار دیتا ہے اور اسلام (یعنی دینِ حق قبول کرنا) صرف رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے پر موقوف ظاہر کرتا ہے-
یہ جو میں نے کہا ہے کہ اس آیت میں اُن لوگوںکا ردّ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا قرآن کریم کے رُو سے اہلِ کتاب کے لئے ضروری نہ تھا- اس فقرہ میں ان لوگوں سے میری مراد عیسائی مؤرخ ہیں- اس اعتراض سے اُن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ قرآن کریم کی عدم ضرورت کو واضح کریں اور ثابت کریں کہ قرآن کریم ایسی کتاب نہیں جس پر ایمان لانا اہل کتاب کے لئے بھی ضروری ہو اُن کے لئے تورات انجیل پر ایمان رکھنا ہی کافی ہے- اور یہ جو میں نے کہا ے کہ اِس آیت میں اُن لوگوں کا بھی ردّ ہے جو اہل کتاب کو کافر نہیں قرار دیتے یہ بعض معزّلیوں کا خیال ہے جو اہل کتاب کو ایک تیسرا گروہ قرار دیتے ہیں- اسی طرح یوروپین مستشرقین کے اعتراضات سے ڈر کر نیچری خیالات رکھنے والے مسلمان بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ اہلِ کتاب کو قرآن کریم نے کہیں کافر کہا اِس سے ان کی غرض یہ ہوتی کہ کہیں عیسائی چِڑ نہ جائیں اور اسلام پر اَور زیادہ اعتراضات نہ کرنے لگیں- بہر حال اس آیت میں ان دونوں خیالات کا ردّ کیا گیا ہے اور واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ماننا اہل کتاب اور مشرکین دونوں کے لئے ضروری ہے کیونکہ فرماتا ہے لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاحَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیِّنَۃُ- کافروں کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا مشرک کہ وہ اپنے کفر سے الگ ہو سکتے تا وقتیکہ اُن کے پاس بیّنہ نہ آ جاتی- اس آیت میں لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاکے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب کافروں اور مشرک کافروں کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اپنے کفر کو چھوڑ سکتے-
اِنَفَکَّ کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے جُدا ہونے کے ہیں- پس مُنْفَکِّیْنَ کے معنے ہوئے جدا ہونے والے یا الگ ہونے والے- سوا یہ ہے کہ اُن کے لیے کس چیز سے انفکاک نا ممکن تھا- اس کا جواب یہ ہے کہ، اُسی کفر سے جس کا اس آیت میں ذکر آتا ہے یعنی اہل کتاب کافر اور مشرک کافر کفر کو چھوڑ ہی نہیں سکتے تھے اور کوئی صورت ایسی نہیں تھی کہ وہ کفر سے آزاد ہو سکتے سوائے اس کے کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم آتے- محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلمکے آنے بغیر نہ اہل کتاب کفر سے نکل سکتے تھے نہ مشرک کفر سے نکل سکتے تھے- گویا اہل کتاب اور مشرکین دونوں کے متعلق صراحتاً ، وضاحتاً اور دلالۃً بتا دیا کہ وہ کافر ہیں اور یہ کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد وہی شخص خدا تعالیٰ کا مقبول ہو سکتا ہے یا وہی شخص سچے دین پر قائم سمجھا جا سکتا ہے جو محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے-
اس آیت میں مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ کے الفاظ آتے ہیں اور مِنْ کے اصل معنے ابتدائے غایت کے سمجھے جاتے ہیں لیکن چونکہ کثرت سے مِنْ بعضیّہ بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے ممکن ہے یہ شبہ کسی شخص کے دل میں پیدا ہو کہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اِھْلِ الْکِتٰبِمیں بھی مِنْ بعضیہ ہی استعمال ہوا ہے اور مطلب یہ ے کہ اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کافروں کا گروہ ہر اہل کتاب کے متعلق یہ بیان نہیں کیا گیا کہ وہ کافر ہے بلکہ یہ آیت صرف بعض اہل کتاب کی نسبت ہے جو کافر تھے ہر ایک اہل کتاب کافر نہیں تھا- اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر اس کا مفہوم یہ لیا جائے کہ اہل کتاب میں سے جنہوں نے اب تک اسلام قبول نہیں کیا تو یہ درست ہے ہم بھی اس قسم کے بعض کو ماننے کے لئے تیار ہیں یعنی جو اب تک اہل کتاب ایمان نہیں لائے وہ کافر ہیں یا جواب تک مشرک ایمان نہیں لائے وہ کافر ہیں- لیکن اگر مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِکے یہ معنے لئے جائیں جو اہل کتاب مسلمان نہیں ہوئے اُن میں کچھ کافر ہیں اور کچھ نہیں تو یہ اس لئے بالبداہت باطل ہیں کہ اہل کتاب پر وَالْمُشْرِکِیْنَ کا عطف ہے- اگر تو یہ ہوتا کہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَالْمُشْرِ کُوْنَ تو پھر سمجھا جا سکتا تھا کہ مِنْ صرف اہل کتاب کے ساتھ لگتا ہے مشرکوںکے ساتھ نہیں لگتا - لیکن اللہ تعالیٰ نے وَالْمُشْرِ کُوْنَ کی بجائے وَلْمُشْرِکِیْنَ فرمایا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ جو حکم اہل کتاب کے لئے ہے وہی حکم مشرکوں کے لئے بھی ہے پس اگر اس آیت کے یہ معنے لئے جائیں کہ اہل کتاب میں سے جو ایمان نہیں لائے اُن میں سے بھی کچھ مومن ہیں اور کچھ کافر تو پھر اس کے ساتھ ہی یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ مشرک جو اب تک ایمان نہیں لائے اُن میں سے کچھ مومن اور کچھ کافر- اور آیت کو یُوں سمجھنا پڑے گا کہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ امُشْتِلِمِیْنَ عَلیٰ بَعْضِ اَ ھْلِ الِکِتٰبِ وَبَعَضِ الْمُشْرِکِیْنَ اور بات بالبداہت غلط ہے- عیسائی بھی باوجود شدید دشمنِ اسلام ہونے کے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی رُو سے سب غیر اہل کتاب مشرک کافر ہیں اور اس میں کوئی استثنٰی نہیں- بہرحال اگر اس آیت میں مِنْ کو بعضیہ قرار دیاجائے تو چونکہ وِالْمُشرِکِیْنَ کا عطف اہل کتاب پر ہے اور لئے تسلیم کرنا پڑتا ہے ہے کہ کچھ مشرک مومن ہیں اور کچھ مشرک کافر- حالانکہ یہ بالبداہت باطل ہے- پس یہ غلط ہے کہ اس آیت میں مِنْ بعضیہ استعمال ہوا ہے- یہاں مِنْ بعضیہ نہیں بلکہ بیانیہ ہے اور آیت کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ لِمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ مُشْتَمِلِیْنَ عَلیٰ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَلْمُشْرِکِیْنَچونکہ مشرکین مجرور ہے اس لئے مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ کے سوا کسی اور پر عطف نہیں ہو سکتا اگر اِلَّذِیْنَ پر عطف ہوتا تو یہ مر فوع ہوتا پس کسی صورت میں بھی یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ بعض اہل کتاب کافر ہیں اور بعض نہیں- بلکہ لازماً اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ کفار خواہ اہل کتاب ہوں یا مشرک سب کے سب کافر ہیں اور اس کفر سے بچ نہیں سکتے تھے جب تک رسول اُن کے پاس نہیں آتا-
غرض کَفَرُوْا سے مراد اہل کتاب اور مشرکین دونوں ہیں دونوں میں اور جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں قرآن کریم کا یہ محاورہ ہے کہ جب وہ اہل کتاب اور مشرکین کا ذکر کرتا ہے تو اُس سے مراد ساری غیر مسلم دنیا ہو تی ہے کیونکہ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے مسلمانوں کے سوا دنیا میں دو ہی گروہ ہو سکتے ہیں یا اہل کتاب ہوں گے یا مشرک ہوں گے- پس اہل کتاب اور مشرکین سے مراد قرآنی محاورہ کے مطابق تمام غیر مسلم دنیا ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ کفار میں سے یعنی غیر مسلموں میں سے خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا مشرک (اس میں کوئی استثنٰی نہیں) اپنے کفر سے اُس وقت تک نہیں نکل سکتا تھے جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نہ ہوتی-
قرآن کریم میں بعض اَور مقامات پر بھی مِنْ بیانیہ استعمال ہوا ہے مثلاً ایک جگہ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُو االرِّ جْسَ مِنَ الْاَ وْ ثَانِ ( الحج ع ۱۱، ۴) اس کے یہ معنے نہیں کہ کچھ بُت پاکیزہ ہوتے ہیں اور کچھ گندے بلکہ مطلب یہ ے کہ فَاجْتَنِبُو االرِّ جْسَ مِنَ الْاَ وْ ثَانَ تم گندگی یعنی بتوں کی پرستش اور ان کی عبادت سے بچو- یہاں مِنْ بیانیہ ہی استعمال ہوا ہے اور چونکہ یہ حال ہے اس لئے اگر ہم عربی میں اس آیت کاترجمہ کریں تو یو ہو گا- لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا حَالَ کَوْ نِھُمْ مُشْتَمِلِیْنَ عَلیٰ جِمیْعِ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَ جَمِیْعِ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفِکِّیْنَ حَتّٰی تَاْ تِیْھُمُ الْبَیِّنَۃُ- چنانچہ دوسری قرأت اِن معنوں کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہے اور وہ قرأت عبد اللہ بن مسعود کی ہے اُن کی قرأت یہ ہے لَمْ یَکُنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَ الْ مُشْرِ کُوْنَ مُنْفِکِّیْنَ ( فتح اسلام)پس علاوہاس کے خود فقرہ کی بنائوٹ اور وَالْمُشْرِکِیْنَ کے اہل کتاب پر ہے- اس حقیقت کو واضح کر رہی ہیں یہاں مِنْ بعضیہ نہیں ہو سکتا ابن مسعُودؓ کی قرأت نے مزید تصدیق کر دی کہ یہاں کسی صورت میں بھی مِنْ کو بعضیہ قرار نہیں دیا جا سکتا-
دوسری بات جو نہایت اہم اور موجودہ زمانہ کے جھگڑوںمیں بہت کام آنے والی ہے اور اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ کُفر پہلے ہوتا ہے اور نبی بعد میں آتا ہے- یہ بات ایسی واضح ہے کہ اس آیت پرذرا سا غور بھی انسان پر اس حقیقت کو روشن کر دیتا ہے کہ نبی پیچھے آتا ہے اور کفر پہلے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اِھْلِ الْکِتٰبِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْ تِیْھُمُ الْبَیْنَۃُ کفار خواہ اہل ہوں یا مشرک کبھی بھی اپنے کفر کو چھوڑ نہیں سکتے تھے جب تک اُن کے پاس بیّنہ نہ آ جاتی- مِنْ کو بیانیہ تسلیم کرنے کی صورت میں ’’ خواہ‘‘ کا لفظ گو اُس کے معنوں کو پوری طرح ظاہر نہیں کرتا مگر چونکہ اُردو میں ’ خواہ‘ کا لظ اُن مضمون کو قریب الفہم کر دیتا ہے جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے اس لئے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ کفار خواہ اہل کتاب میں سے ہوں اور خواہ مشرکوں میں سے ، کبھی بھی اپنے کفر کو چھوڑ نہیں سکتے تھے جب تک اُن کے پاس بیّنہ نہ آتی- ’’ جب تک ‘‘ کے الفاظ جب کسی فقرہ میں استعمال کئے جائیں تو اُس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ’جب تک‘ کے بعد بیان ہونے والی شے، سے پہلے بیان شدہ شے ہے یا اُس کا اِس سے پہلے ہونا ضروری ہے- مثلاً یہ کہا جائے کہ وہ شخص اپنے گھر سے نہیں نکلا سکتاجب تک میرا پیغام اُس کے پاس نہ پہنچ جائے- تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پیغام پیچھے جائے گا اوروہ گھر میں پہلے بیٹھا ہوا ہو گا- اسی طرح لِمْ یَکُنْ اور حَتّٰی کے الفاظ جب کسی فقرہ میں استعمال ہوں گے تو اُس کے معنے یہ ہوں گے کہ لَمْ یَکُن میں بیان شدہ بات حَتّٰی سے پہلے واقع ہو چکی ہے- اس سے صاف پتہ لگا کہ بَیِّنَۃ کے آنے سے پہلے وہ لوگ کافرہو چکے تھے- بینّہ یعنی رسول نے اُن کو کافر نہیں بنایا بلکہ بیّنہ کے آنے سے پہلے ہی وہ کافر بن چکے تھے - غرض کفر پہلے ہوتا ہے اور نبی بعد میں آتا ہے نبی کا فر گر نہیں ہوتا بلکہ کفر کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے- جب بھی کوئی نبی دنیا میں آتا ہے اُس کا انکار کرنے کے بعد لوگ کافر نہیں بنتے ہیں
۲ نبی کافر گر نہیں ہوتا بلکہ کفر کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے-
بلکہ پہلے ہی وہ کافر بن چکے ہوتے ہیں نبی صرف ان کے کفر کا اظہار کرتا ہے پس یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ نبی کا انکار کر کے لوگ کافر بنتے ہیں یہ ایک غیر محتاط کام ہے جس ہم بھی زبان کے عام محاورہ کے مطابق بعض دفعہ استعمال کر لیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بھی رواج کے مطابق اس کو استعمال کیا ہے مگر حقیقتاً یہ ہمارا یہ مفہوم ہوتا ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا یہ مفہوم تھا یہ نبی کافر بناتا ہی بلکہ ہمارا مفہوم بھی یہ ہوتا ہے اورحضرت مسیح موعودکا بھی مفہوم یہی ہوتا ہے کہ نبی لوگوں کے کفر کا اظہار کرتا ہے گو عرف عُام ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہ دیا جاتا ہے کہ نبی کا انکار کر کے لوگ کافر بنتے ہیں بہر حال حقیقت یہ ہے کہ نبی کافر نہیں بناتا نبی کا انکار کر کے لوگ کافر نہیں ہوتے بلکہ نبی کے انکار سے ان کا کفر ظاہر ہو جاتا ہے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک شخص جس کے کبھی خربوزہ نہیں دیکھا یہ کہے کہ میں نے خربوزہ کھایا ہے- اب جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے یہ ایک واضح امر ہو گا کہ اُس نے جھوٹ سے کام لیا ہے مگر اس کا یہ جھوٹ اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتا جب تک ہم خربوزہ اس کے سامنے لا کر نہ رکھ دیں اور پھر اس سے پوچھ نہ لیں کہ بتائو یہ کیا چیز ہے؟ اگر ہم ایک خربوزہ اس کے سامنے لا کر رہ دیتے ہیں اورپھر اس سے پوچھتے یہ کہ بتائو یہ کیا چیز ہے اور وہ جواب میں کہتا ہے کہ مجھے علم نہیں تو یہ اس بات کا ایک واضح ثبوت ہو گا کہ جب اس نے کہا تھا کہ میں نے خربوزہ کھایا ہے تواس نے جھوٹ اور کذب بیانی سے کام لیا تھا مگر اس کے جھوٹ بولنے کے باوجود اور خربوزہ کے آنے پر اُس کا جھوٹ ظاہر ہونے کے باوجود دنیا میں یہ کبھی نہیں کہا جائے گا کہ خربوزے نے اس کو جھوٹا نہیں بنایا بلکہ خربوزے نے آ کر اس جھوٹ کو ظاہر کیا ہے ورنہ جھوٹا تو وہ پہلے ہی تھا- اسی طرح لوگ کہتے ہیں ہم موسیٰؑ کو مانتے ہیں لوگ کہتے ہیں عیسیٰؑ کو مانتے ہیں اور جب وہ یہ کہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم موسیٰ اور عیسٰی کو مانتے ہیں تو اس سے ان کی کیا مراد ہوتی ہے؟ یہ مراد تو نہیں ہوتی کہ موسیٰ ؑ اور عیسیٰؑ آدمی تھے یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ وہ آدمی تھے پس ان کا یہ کہنا کہ ہم موسٰیؑ اور عیسٰؑی کو مانتے ہیں اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ ہم مانتے ہیں کہ موسٰیؑ ایک آدمی تھا یا ہم مانتے ہیں کہ عیسٰیؑ آدمی تھا بلکہ ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ موسیٰؑ کی نبوت کو ہم شناخت کرتے ہیں عیسٰیؑ نبی کی نبوت کو ہم شناخت کرتے ہیں اور جب وہ انبیاء کی نبوت کو شناخت کرنے کا ملکہ اپنے اندر رکھتے ہیں تو یہ لازمی بات ہے کہ جب بھی کوئی نبی دنیا میں ظاہر ہو گا وہ اس کو فورا پہچان لیں گے کیونکہ جو شخص ایک جنس کی کسی چیز کو شناخت کرنے کا ملکہ رکھتا ہے وہ اُسی جنس کی دوسری چیزکو بھی شناخت کر سکتا ہے جو شخص آم کو پہچانتا ہے اُس کے سامنے جب بھی آم رکھا جائے گا فوراً کہ اٹھے گا یا جو شخص خربوزہ پہچانتا ہے اُس کے سامنے جب بھی خربوزہ لایا جائے گا اُسے شناخت میں کوئی دقت واقعہ نہیں ہو گی-وہ فوراً کہ دے گا کہ یہ خربوزہ ہے اس طرح وہ شخص جس نے نبوت کو شناخت کر لیا ہے اس کو کسی نبی کے پہچاننے میں کوئی دقت ہی پیش نہیں آ سکتی - نوعؑ آئے گا تو اُس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے اسے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے ابراہیم ؑ آئے گا تو اس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے اُسے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے -موسی ؑ آئے گا تو اس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے - عیسیٰؑ آئے گا تو اس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے اسے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے تو ان کے متعلق وہ کہے گا میں نے انہیں پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کے سچے نبی ہیں لیکن اگر اس نے واقعہ میں نوعؑ اور ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شناخت نہیں کیا ان کی نبوت کو اس نے نہیں پہچانا تو جھوٹے طور پر یہ دعویٰ کرتا ہے - کہ میں نے انبیاء علیہ اسلام کی نبوت کو پہچانا ہوا ہے تو گو وہ منہ سے اس امر کا دعویدار ہو گا کہ میں نوعؑ کو بھی پہچانتا ہوں ، ابراہیم ؑکو بھی پہچانتا ہوں ،موسیٰؑ کو بھی پہچانتا ہوں ،عیسیٰؑ کو بھی پہچانتا ہوں ، مگر جب محمد رسول صلے اللہ و علیہ وسلم کا نبوت کا جامہ پہن کر ان کے سامنے آ ئیں گے تو کہ دے گا کہ آپ نعوذ باللہ جھوٹے ہیں اس سے صاف پتہ لگ جائے گا کہ اس کا یہ کہنا کہ میں نوحؑ اور ابرہیمؑ اور موسٰیؑ اور عیسیٰؑ کو پہنچانتا ہوں محض اِدّعاتھا اور نہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ وہی جُببّہ جو ابراہیم نے پہنچا ، وہی جُببہ جو موسیٰ نے پہنچا، وہی جُببہ جوعیسیٰؑ نے پہنچا،وہی جببہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پہن کر آتے تو وہ آپ کی شناخت سے محروم رہتا؟ اُس کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت سے محروم رہنا اس بات کا ثبوت ہو گا کہ وہ پہلے بھی نبوت کی حقیقت کو نہیں سمجھتا تھا اور اُس کا یہ کہنا بالکل دھوکا اور فریب تھا کہ میں نوحؑ کو مانتا ہوں ، مَیں ابرہیم کو مانتا ہوں مَیں موسیٰؑ کو مانتا ہوں کیونکہ جب ویسی ہی نبوت اُس کے سامنے آئی تو وہ اُس کو پہنچان نہ سکتا جس سے پتہ لگ گیا کہ اُس نے نہ موسیٰؑ کو پہچانا تھا- نہ عیسیٰؑ کو پہچانا تھا اور نہ دنیا کی کسی اور نبی کو پہچانا تھا - پس اس آیت نے بتا دیا کہ دنیا میں جب بھی کوئی نبی ظاہر ہوتا ہے وہ لوگوں کو کافر نہیں بناتا بلکہ اُن کے کر کا صرف اظہار کرتا ہے ورنہ کافر نہیں بناتا بلکہ اُن کے کفر کا صرف اظہار کرتا ہے ورنہ کافر وہ اس سے پہلے ہی بن چکے ہوتے ہیں اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد یہ کتنی فضول بحث بن جاتی ہے جہ فلاں نبی کا انکار کفر ہوتا ہے اور فلاں نبی کا انکار کفر نہیں ہوتا حالانکہ کفر کسی نبی کا انکار کے بعد پیدا نہیں ہوتا بلکہ پہلے ہی لوگوں کے اندر پیدا ہو چکا ہوتا ہے- کفر نوحؑ کے انکار کا نام نہیں - کفرابرہیم ؑکے انکار کا نام نہیں - کفرموسیٰؑ کے انکار کا نام نہیں - کفرعیسیٰؑ کے انکار کا نام نہیں -بلکہ اصل کفر نام ہے نبوت کے انکار کا- یہ جو ہم کہہ دیا کرتے ہیں کہ موسیٰؑ اور عیسیٰؑ یا کسی اور نبی کا انکار کفر ہے یہ صرف اصطلاحی طور پر ہم کہا کرتے ہیں - چونکہ موسیٰؑ نبگی ہے اور اُس کا انکار نبوت کے انکار کے مترادف ہے اس لئے موسیٰؑ کا انکار کفر ہے ورنہ موسیٰؑ آدمی کا انکار کفر نہیں یا عیسیٰؑ آدمی کاانکار کفر نہیں یا محمدِ عربیؐ کا انکار کفر نہیں- بلکہ موسیٰؑ نبی کا انکار کفر ہے یا عیسیٰؑ نبی کا انکاور کفر ہے یا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا انکار کفر ہے- اور یہ کفر بھی ان معنوں میں نہیں کہ اُس نے شخص کا انکار کیا ہے بلکہ اِن معنوں میں ہے کہ اُس نے تمام انبیاء کی نبوت سے انکار کیا ہے بلکہ اِن معنوں میں ہے کہ اُس نے تمام انبیاء کی نبوت سے انکاور کی اہے ورنہ اگر وہ کسی ایک نبی کی نبوت کو بھی صحیح معنوں میں پہچاننے والا ہوتا تو وہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ اُس کے سامنے ایک دوسرا شخص وہی نبوت کا جامہ پہن کر آتا تو وہ اس کا انکار کر دیتا اور کہہ دیتا کہ وہ کافر ہے- جو شخص نبوت کو پہچانتا ہے اُس کے سامنے جب کوئی شخص نبوت کا جامعہ پہن کر آئے گا تو بجائے اس کے کہ وہ اُس پر ایمان لائے اُسے کافر اور بے دین قرار دینے لگ جائے گا اور اس طرح اس بات کا ثبوت مہیا کر دے گا کہ اُس کا پہلے انبیاء کی نبوت پر ایمان لانے کا دعویٰ بھی محض ایک دھوکا تھا- اگر وہ موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو ماننے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہی جامہ جب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر دیکھتا ہے تو آپ کو کافر کہنے لگ جاتا ہے تو یہ صاف اور واضح ثبوت اس بات کا ہے کہ اُس نے موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کی نبوت کو بھی نہیں پہچانا مگر چونکہ اُس کے ماں باپ کہتے تھے کہ عیسیٰؑ نبی ہے اِس لئے اُس نے عیسیٰؑ کو بھی مان لیاورنہ درحقیقت نہ وہ موسیٰؑ پر ایمان رکھتا تھا نہ عیسیٰؑ پر ایمان رکھتا تھا اور نہ کسی اور نبی پر ایمان رکھتا تھا-
پس حقیقت یہ ہے کہ نبوت کا انکار کفر ہے نہ کہ زید یا بکر یا خالد کا انکار- چونکہ آنے والا اُسی قسم کا جامہ پہن کر آتا ہے جس قسم کا جامہ پہلے انبیاء پہن کر آئے اس لئے جب لوگ اُس کا انکار کر دیتے ہیں تو اُن کے متعلق یہ نہیں سمجھا جاتا کہ انہوں نے کسی ایک شخص کا انکار کیا بلکہ یہ سمجھا جات اہے کہ انہوں نے نبوت کا انکار کیا ہے - اب یہ سیدھی بات ہے کہ حضرت مرزا صاحب کا کوئی نام رکھ لو جو باتیں انہوں نے لوگوں کے سامنے پیش کی ہیں وہ وہی ہیں جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے لوگوں نے سامنے پیش کیں اور جو سلوک لوگوں نے آپ سے کیا وہ ویسا ہی ہے جیسے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم یا اَور انبیاء سے دنیا نے کیا- یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس کا پیغامی بھی انکار نہیں کرسکتے - اَور تو اَور خود مولوی محمدؐ علی صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت پر منہاجِ نبوت کو مدنظر رکھتے ہوئے غور کرنا چاہیے- جس کے معنے یہ ہیں کہ آپ نے ویسی ہی باتیں پیش کی تھیں جیسی باتیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے پیش کیں یا جیسی باتیں موسیٰؑ نے پیش کی تھیں یا جیسی باتیں عیسیٰؑ نے پیش کی تھیں- جیسی باتیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے پیش کیں تھیں- اورجو سلوک دنیا نے آپ سے کیا ویسا ہی سلوک اُس نے پہلے انبیاء سے بھی کیا تھا- اوراگر یہ ٹھیک ہے تو پھر ویسی ہی باتوں پر جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے پیش کیں یا جیسی باتیں موسیٰؑ نے پیش کیں تھیں یا جیسی باتیں عیسیٰؑ نے پیش کی تھیں- اور جو سلوک دنیا نے آپ سے کیا ویساہی سلوک اُس نے پہلے انبیاء سے بھی کیا تھا- اور اگر یہ ٹھیک ہے تو پھر ویسی ہی باتوں پر جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے پیش کیں یا موسیٰؑ اور عیسیٰؑ نے پیش کیں جو شخص آپ کو کافر کہتا ہے وہ نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو بھی کافر کہتا ہے موسیٰؑ کو بھی کافر کہتا ہے ، عیسیٰؑ کو بھی کافر کہتا ہے- پس یہ کہنا کہ فلاں نبی کا انکار انسان کو کافر بناتا ہے اور فلاں کا نہیں ایک بے تعلق بحث ہے- نبی تو صرف کفر کو ظاہر کرتا ہے اُس کا کسی کو کافر بنانے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ یہ بحث کی جائے کہ فلاں قسم کے نبی کا انکار کفر ہوتا ہے اور فلاں قسم کے نبی کا انکار کفر نہیں ہوتا- اگر کوئی بحث ہو سکتی ہے تو یہ کہ فلاں نبی اُس وقت آتا ہے جب دنیا مومن ہوتی ہے اور فلاں نبی اُس وقت آتا ہے جب دنیا کافر ہوتی ہے اور یہ بات بالبداہت باطل ہے- پس درحقیقت اس آیت کو سمجھ لینے کے بعد کہلَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اِھْلِ الْکِتٰبِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْ تِیْھُمُ الْبَیْنَۃُکفر و اسلام کے متعلق کو

یہ کئے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ جو ایک آنے والے رسول کی امید لگائے بیٹھے تھے وہ اس امید پر قائم رہے کہ جب تک کہ رسول نہ آ گیا یعنی جب وہ رسول آ گیا جس کی وہ امید کیا کرتے تھے تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہمیں تو کسی رسول کی امید نہیں تھی حالانکہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی کے معنے سوائے اس کے ہو ہی نہیں سکتے کہ پہلا مضمون دوسرے سے معلّق ہے جب تک دوسری حالت نہ ظاہر ہو جائے پہلی حالت بدل ہی نہ سکتی تھی- پس رسول کے آنے تک رُکے نہ تھے اِس آیت کے معنے ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اِن معنوں می تعلیق مشروط نہیں پائی جاتی بلکہ صرف ایک واقعہ کا اظہار ہے جو اِس قسم کی عبارت کے منافی ہے-
تعجب ہے کہ پرانے مفسرین میں سے بھی بعض نے یہی معنے کئے یہں حالانکہ وہ عربی زبان کے بڑے ماہر تھے اُن کا اس عربی عبار ت میں سے یہ معنے نکال لینا ایک حیرت کی بات ہے
(۸) آیت لَمْ یَکُن الخ کا ترجمہ کرنے میں بعض مفرسن کو ٹھوکر
مگر پھر خود ہی اُن کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ اگر اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ آنے والے نبی کے اظار سے یعنی اس عقیدہ کے اظہار سے ایک موعود رسول آنے والا ہے وہ نہیں رکے جب تک کہ نبی نہیں آ گیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں تو اہل کتاب کے ساتھ مشرکین کا بھی ذکر آتا ہے کیا مشرک بھی یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ایک رسول دنیا میں آنے والا ہے- پھر اس کا خود ہی انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ کچھ مشرک لوگ اہل کتاب کے اثر کے ماتحت یہ امید رکھتے تھے یکہ ایک رسول انے والا ہے- حالانکہ یہ عبارت ایسی ہے کہ اس سے ’’ کچھ‘‘ کا استنباط ہو ہی نہیں سکتا- تمام مشرکوں کو اہلِ کتاب کے ساتھ شریک کیاگیا ہے اس لئے یہ کہا ہی نہیں جا ستکا کہ یہاں بعض مشرکوں کا ذکر ہے اور بعض کا نہیں- قرآن کریم تو یہ کہاتا ہے کہ سب اہل کتاب اور
۲۷۱ آیت لَمْ یَکُن الخ کا صحیح ترجمہ
مشرک رُکنے والے نہیں تھے- پس اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ وُو اس اعلان سے نہیں رکے کہ ایک موعود آنے والا ہے تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ ہر مشرک یہ امید رکھتا تھا کہ رسول آئے گا حالانکہ یہ امر باالبداست باطل ہے- مشرکوں میں تو ایسے لوگ بھی تھے جو نزولِ الہام کے بھی قائم نہیں تھے کجا یہ کہ وہ کسی مامور کی بعثت کا انتظار کر رہے ہوتے- پھر اگر یہی معنے کئے جائیں کہ وہ ایک مامور کی اُمید سے نہیں رُکے جب تک کہ رسول اُن کے پاس نہیں آ گیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں لَمْ یَکُنْ مُنْفکِّیْنَ کے کیا معنے ہوئے؟ اس فقرہ کے تو یہ معنے ہیں کہ وہ رسول کے آنے کے بغیر اپنے مام سے اِدھر اُدھر ہل نہیں سکتے اور رسول کے آنے پر یہ کہتا کہ ہم کسی رسول کے منتظر نہیں تھے یا ہمیں کسی مامور کی امید نہیں تھی-
اس میں ہٹ نہ سکنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- رسول کی آمد کا انکار تو جو چاہے اپنے ارادہ سے کر سکتا ہے-
علاوہ ازیں یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس آیت کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ امر اول کا بدلنا منشاء الہٰی کے ماتحت ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ ایسا ہو جائے کیونکہ لِمْ یَکُنْ فَا عِلاً حَتّٰی کے معنے عربی زبان میں قائل کی اس خواہش کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ بہتر ہے کہ ایسا تغیر ہو جائے- لیکن جو معنے اُن مفسروں نے کئے ہیں اُن سے خدا تعالیٰ کی خواہش نہیں بلکہ عدم خواہش ظاہر ہوتی ہے کیونکہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ یہ لوگ رسول کی آمد کا انتظار چھوڑ دیں کیونکہ ایسا کرنا گمراہی ہے اور خدا تعالیٰ کسی کے گمراہ ہو جانے کو پسند نہیں کرتا- اُردو زبان میں بھی اس قسم کی عبارات کے معنوں پرغور کرو تو حقیقت کھُل جائے گی- اگر کوئی کہے کہ جب تک اُستاد نہ رکھا اس لڑکے اس کے بے شک یہ معنے ہیں کہ اُستاد رکھنے سے اُس نے پڑھا لیکن ساتھ ہی یہ امر بھی ظاہر ہے کہ کہنے والے کی خواہش بھی اس میں مخفی ہے کہ لڑکے کے پڑھ جانے کو وہ پسند کرتا تھا یہ نہیں کہ وہ پسند نہیں کرتا تھا اسی امر کو مد نظر رکھتے ہوئے ان مفسرین کے معنوں کو دیکھو تو اس آیت کا ترجمعہ اُن کے خیال کے مطابق یہ ہو گا کہ رسول آتا تب کہیں جا کر ان لوگوں نے رسول کی آمد کا انتظار چھوڑا اور ظاہر ہے کہ اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ کہنے والا چاہتا تھا- کہ یہ رسول کی آمد کا انتظار چھوڑ دیں اور ایسا خیال اللہ تعالیٰ
رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً Oلا
یعنی اللہ ( کی طرف )سے آنے والا ایک رسول جو (اُنہیں ایسے) پاکیزہ صحیفے پڑھ کر سُناتا ؎۳
کی نسبت سخت گستاخانہ خیال ہے
علامہ واحدی کہتے ہیں کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے ضلات وکفر کو ظاہر نہیں کیا اہل کتاب اور مشرک اپنے کفر سے بعض نہ آئے اور چونکہ اس مقام پر ان کے دل میں بھی نہ شبہ پید اہوا ہے کہ یہاں تو سب اہل کتاب اور مشرکین کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایمان لانے والے اہل کتاب اور مشرکوں کے بارہ میں ہے یعنی اہل کتاب میں سے کافر اور مشرکوں میں سے کافر نہ رکے یعنی ایمان حالانکہ یہاں صاف طور پر کَفَرُوْا کا لفظ آتاہے اگر ان کا خیال درست ہو تو یوں کہنا چاہیے تھا اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا کہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی پھر لکھتے ہیںوَھٰذِہِ الْاٰ یَۃُ مِنْ اَصْحَبِ مَا فِی الْقُرْاٰنِ نَظْمًا وَ تَفْسِیْراً وَقَدْ تَخَبَّطَ فِیْہِ الْکِبَا رُ مِنَ الْعُلَمَائِ وَ سَلَکُوْافِیْ تَفْسِیْرِ ھَا طُرُ قًا لَا تُفْضِیْ بِھِمْ اِلیَ الصَّوَابِ(فتح البیان) یعنی یہ آیت عبارت اور تفیسر کے لحاظ سے قرآن کریم کی مشکل ترین آیتوں میں سے ہے اور بڑے بڑے علماء اس میں ٹھوکریں کھاتے رہے ہیں اور انہوں نے اس کے معنے کریت ہوئے اس طریق استعمال اختیار کئے ہیں جو انہیں صحیح نتیجہ پر پہنچانے سے قاصر رہے ہیں -
جہاں یہ بات درست ہے کہ بعض علماء نے اس کے معنوں میں ادبی غلطیاں کی ہیں یعنی جو معنی نہیں ہو سکتے تھے وہ کر دیئے ہیں مثلاً یہ کہ یہود نے انتظارِ نبی کا چھوڑا جب تک نبی کا آ گیا وہاں علامہ وحدی کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے صحیح مطلب سمجھا ہے یہ بھی غلط ہے کیونکہ ان کے معنے بھی درست نہیں لَمْ یَکُنْ مُنْفَکِّیْنَ کے معنے ’’ وہ نہیں رُکے‘‘ کسی صورت میں بھی درست نہیں اس کے معنے ہمیشہ ’’ وہ رُکنے والے نہ تھے‘‘ کے ہوتے ہیں بہرحال اس آیت کے معنے سمجھنے میں دقتیں ضرور پیش آئی ہیں مگر یہ دقّتیں خود پیدا کردہ ہیں کیونکہ مُنْفَکِّیْنَ کے حقیقی معنوں کی طرف توجہ نہیں کی گئی - اگر سیاق عبارت سے اس کا مفہوم نکال لیا جاتا تو بات آسان ہو جاتی کَفَرُوْ کا لفظ پہلے گزر چکا تھا- اس لئے مُنْفَکِّیْنَ کے معنے یہی ہو سکتے تھے کہ مُنْفَکِّیْنَ عَنْ کُفْرِ ھِمْ -اگر َ عَنْ کُفْرِ ھِمْکو محدف نکال لیا جاتا تو معنوں کی دقتیں پیش نہ آتی اور مضمون بالکل ظاہر ہو جاتا-
۳ حل لغات-
طَََھَّرَہٗ کے معنے ہوتے ہیں جَعَلَہٗ طَا ھِرًا- اُس کو پاک کر دیا ( اقرب) کے لحاظ سے مُطَھَّرَۃٌ کے معنے ہوئے- ایسے صحیفے جو پاک کئے گئے ہیں اور چونکہ عربی زبان تَطْھِیْرَ ۃٌ کے معنے ہوئے - ایسے صحیفے جو پاک کئے گئے ہیں چونکہ عربی زبان میں تَطْھِیْرَ ۃٌ کا لفظ ختان کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس ذریعہ سے زائد چیزیں نکال دیتے ہیں اِس لئیمُطَھَّرَۃٌ کے یہ معنے ہوئے کہ اییس چیز جس میں زوائد نکال دیئے گئے ہوں- پس مُطَھَّرَۃٌ کے دو معنے ہوئے ایک یہ کہ جس میں سے گند نکالا یا گیا ہو اور دوسرے یہ کہ جس میں سے زوائد نکال دیئے گئے ہیں- اِسی طرح طَھَّرَ الشَّیْ ئَ بَاالْمَائِ کے معنے ہوتے ہیں غَسَلَہٗ اس کو پانی سے دھودیا- ( اقرب) اس لحاظ سے مُطَھَّرَۃٌ کے معنے ہوں گے دُھلے دُھلائے-
مفردات راغب میں لکھا ہے الطَّھَارَۃُ ضَرْ بَانِ
۲مُطَھَّرَۃٌ کے معنے امام راغب کے نزدیک
طہارت دو قسم کی ہوتی ہے طَھَارَۃُ جِسْمٍ وَطَھَارَۃُ نَفْسٍ ایک جسم کی طہارت اور ایک نفس کی طہارت - وَحُمِلَ عَلَیْھَا عَا مَّۃُ الاْیَاتِ اور قرآن کریم وہ تمام آیات جن میں طہارت کا لفظ آیا ہے وہاں یہ لفظ انہیں معنوں میں استعمال ہوا ہے
۲ عربی زبان میں صفائی اور پاکیزگی کے معنے ادا کرنے کے لئے سات الفاظ اور اُن کے استعمال میں فرق
وَقَوْلُہٗ فِیْ صِفَۃِ الْقُرْاٰنِ مَرْ فُوْ عَۃِِ مُّطَھَّرَ ۃِِ وَقَوْ لُہٗ وَ ثِیَا بَکَ فَطَھِّر- یعنی قران کریم میں دوسری جگہ صورت عبس میں جو مَرْ فُوْ عَۃِِ مُّطَھَّرَ ۃِِ کے الفاظ آتے ہیں یا صورئہ مدثر میں وَ ثِیَا بَکَ فَطَھِّرْ کے الفاظ آتے ہیںقِیْلَ مَعْنَاہُ نَفْسَکَ - فَنَفِّھَامِنَ الْمُعَائِبِ- ان دونوں کے معنے یہ ہیں کہ معائب سے اپنے نفس کو پاک کر - مفردات والے چونکہ اختصار سے کام لیتے ہیں اسی لئے انہوں نے دونوں آیتوں کے یکجا معنے کر دیئے ہیں اور ان کی مراد یہ ہے کہ یہی معنے مَرْفُوْ عَۃٍ مُطَھَّرَۃٍ کے بھی ہیں- یعنی بلند شان والا اور عیبوں سے پاک - وَ قَوْلَہٗ وَطَھِّرْ بَیْتَی وَقَوْ لُہٗ وَ عَھِدْ نَآ اِلیٰ اِبْر اھِیْمَ وَ اِسْمعِیْلَ اِنْ طِھِّرَ ا بَیْتِیْ فَحَثَّ عَلَیٰ تَطْھِیْرِ الْکَتَبَۃِ مِنْ نَجَاسَۃِ الْاَوْثَانِ یعنی قرآن میں جو آتا ہے کہ طَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّٓا ئِفِیْنَ وَالْقَآ ئِمِیْنَ وَالرُّ کَّعِ السُّجُوْدِ ( الحج ع۴،۱۱) یا دوسری جگہ فرمایا ہے وَعَھِدْ نَا اِلیٰ اِبْرِھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَ ا بَیْتِیْ للطَّآئِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعٍ السُّجُوْدِ ( البقرہ ع ۱۵) ان ہر دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ترغیب دلائی ہے کہ وہ کعبہ کو بتوں کی نجاست سے پاک کر دیں - پس تطہیر کے ایک معنے شر ک سے پاک کر نے کے ہوئے گویا لغت کی ان دونوں کتابوں کی رُو سے نجاست ظاہری اور نجاست باطنی دونوں کو دور کرنے کے لئے تطہیر کا لفظ استعمال ہوتا ہے معانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے مُطَّھْرَۃٌ کے پانچ معنے ہوئے-
مُطَّھْرَہ کے پانچ معنے
اوّل - نجاست ظاہری سے پاک
دوم- زوائد سے پاک
سوم- دُھلے دُھلائے
چہارم - طہارت باطنی رکھنے والے
پنجم- شرک سے پاک
عربی زبان میں پاکیزگی کے مفہوم کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہ یہ ہیں
نَظَا فَۃٌ - طَھَارَۃٌ- طِیْبَۃٌ- نَقَائٌ- زَکَا ئٌ - صَفَائٌ - نَذَا ھَۃٌ
اِن میں سے طہارت جسمی اور نفسی ہوتی ہے یعنی نجس کے مقابل پر یہ لفظ استعمال ہوتا ہے- قرآن کریم میں پانی کو طہور کہا گیا ہے لیکن اس کے مقابل میں مٹی کو طیب کہا گیا ہے چنانچہ فرماتا ہے- وَاَنْذَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآ ئًً طَھُوْرًا ( الفرقان ع ۳،۵)
مٹی کے متعلق فرمایا ہے کہ فَتَیَمَّمُوْاطَیِّباً ( المائدہ ع ۲،۶)
اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ تو فرمایا طِھِّرْ بَیْتِیَ ( الحج ع ۴،۱۱)
لیکن عربی محاورہ کے مطابق یہ نہیں کہا جائے گا طَیِّبْ بَیْتِیْ- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ (۱) طہارت میں خارجی نجاست کے دُور کرنے کی طرف اشارہ ہوتا ہے اسی طرح تطہیر کے خارجی نجاست خواہ جسمانی ہو یا روحانی اس کو دُور کرنے کے بھی ہوتے ہیں لیکن طِیْبَۃٌ کا لفظ ذاتی جوہر کی طرف اشارہ کرتا ہے خارجی نجاست کی طرف نہیں- چنانچہ تطَْھِّر کے معنے تو صاف کرنے کے ہوتے ہیں لیکن طیب کالفظ جب ایک عرب بولے کا تو خارجی نجاست کو دُور کرنے کے معنوں میں وہ اسی کبھی استعمال نہیں کرے گا بلکہ اس کے معنے مزیدار اچھا بنانے یا مزیدار یا اچھا پانے کے ہوتے ہیں چنانچہ طِیَّبَ الشَّیْ ئَ کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ اُس کے نجاست ظاہری دُور کر دی بلکہ طیب ہمیشہ مزیدار یا اچھا بنانے یا مزیدار یا اچھا پانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مثلاً طَیَّبَ اللَّحْمَ کے معنے ہوتے ہیں اُس نے گوشت اچھا پکایا اور اُسے مزیدار بنایا - یا اس کے معنے ہوں گے کہ اُس نے گوشت کو اچھا پایا کھانا کھایا تو کہا کہ کھانا بہت اچھا پکایا گیا تھا- یا خوب مزیدار تھا- اگر زمین پر بوٹی گر جائے تو ہم یہ تو کہیں کہ طِھِّرْ اِس بوٹی کو صاف کرو لیکن یہ نہیں کہہ سکتے طِیِّب - لیکن اچھا پکانے یا اچھا پانے کے مفہوم کو جب ہم ادا کرنا چاہیں گے تو اس کے لیے طِھِّرکا لفظ استعمال نہیں کریں گے- اسی طرح طیب کے معنی امن یا سکون دینے کے بھی ہوتے ہیں یعنی اصلاح ِنفس کے -
پس طِھَارَۃٌ اور طِیْبَۃٌ میں یہ فرق ہے کہ طہارت نجاست خارجی سے حفاظت پر دلالت کرتی ہے -مگر طیبہ ذاتی خوبی پر دلالت کرتی ہے جیسے مزاؔ - خوبصورتیؔ- مٹھاسؔ یا کسی چیز کا فائدہؔ بخش ہونا - ایک میٹھی اور مزیدار شے کو ہم طیب کہیں طاہر نہیں کہیں گے یامثلاً کوئی چیز خوبصورت ہو یا مفید ہو تو ہم اس کو طبیب تو کہیں گے مگر طاہر ؔنہیں کہیں گے - اسی طرح کسی چیز کو نجاست لگ جائے تو اس کو صاف کرنے کے لیے طاہر کہیں گے طیب نہیں- بہرحال طاہر تب کہیں گے جب نجاست ظاہری سے کسی چیز کو بچایا جائے- خواہ یہ نجاست جسمانی ہو یا روحانی- مثلاً ایک طاہرالقلب انسان ہو یعنی وساوس شیطانی سے پاک ہو تو اسے بھی ہم طاہر کہہ دے گے اور اگر کوئی شخص نہا دھو کر نکلا ہو تو اُسے بھی طاہر کہا جائے گا-
نظافت ؔبھی خارجی نجاست سے پاکیزگی کا نام ہے جیسے میل وغیرہ سے یا حسنُ و خوبصورتی کا مالک ہونے پر یہ لفظ دلالت کرتا ہے -کہتے ہیں نَظُفَ الشَّیْ ئُ میل کچل سے پاک تھی یا خوبصورت تھی لیکن کبھی یہ لفظ باطنی نجاست سے پاک ہونے کے لیے بھی بول لیا جاتا ہے - کہتے ہیں کہتے ہیں فُلَانٌ نَظِیْفُ الْاَ خَلَا قِ یعنی فلاں شخص مہذب ہے مگر یہ لفظ اخلاق کے لیے بولا جائے گا یا میل کچیل کے لیے-مزیدار یا لطیف کے نہیں بولا جائے گا اور صفائی کے لیے زیادہ تر ظاہر قسم کی صفائی کے لیے بولا جائے گا نہ کہ باطنی صفائی پر اسی طرح اخلاق کے لیے تو بولا جائے گا روحانی صفائی کے لیے نہیں اسی وجہ سے اس کے معنے طاہرؔ سے مختلف ہیں کہ وہ رُوحانی پاکیزگی اور نفسانی پاکیزگی پر زیادہ دلالت کرتا ہے - اس لفظ کو طیب سے اس امر میں مشارقت ہے کہ حسنُ و بہا کے لیے بھی نظافت کا لفظ آتا ہے- یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا مگر حدیث میں اصل معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے اور استعارۃً بھی استعمال ہوا ہے جیسے حدیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نَظِّفُوْااَفْوَاھَکُمْ اپنے مُونہوں کو پاک کیا کرو - اس جگہ پاک کرنے کے معنے یہ ہیں کہ جھوٹ فریب اور دغا وغیرہ کے اپنے آپ کو بچائو اور کہیں کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالو جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو- یہاں نظافتؔ کا لفظ استعارۃً استعمال ہوا ہے نہ کہ اصل ظاہری معنوں میں -
نِقَاء کا لفظ بھی قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا حدیث میں ہوا ہے- اس کے اصل معنے مغز نکالنے کے ہوتے ہیں اور ان معنوں کی رُو سے استعارۃً صفائی کے معنوں سے بھی استعمال ہونے لگ گیا ہے جیسے چھلکے کو دُور کر مغز نکلالتے ہیں یا ہڈی تو طور کر گودہ نکالتے ہیں- انہوں معنوں سے استدلال کر کے محاورہ میں نظیفؔ - حسین اور خالص نے معنے دینے لگ گیا ہے-
زُکٰوۃٌ کے اصل معنے اندرونی نجاست کے دُور کرنے کے ہوتے ہیں لیکن کبھی ظاہری صفائی کے معنوں میں بھی استعارۃً استعمال ہو جاتا ہے - قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے -
صفائٌ کے معنی ملائوٹ سے نجاست پانے کے ہوتے ہیں استعارۃ ظاہری صفائی کے لیے بھی استعمال ہو جاتا ہے-
نَزَاھَۃٌ کے معنے اصل میں تو دُور ہونے کے ہوتے ہیں لیکن محاورہ میں جو چیز گندگی اور فساد سے دُور ہو اُس کے لیے بھی یہ لفظ بولا جانے لگا ہے-
ان سب لفظوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ طاہرؔ سب سے اعلیٰ اور کامل لفظ ہے جو صفائی کے مفہوم کے لیے عربی زبان میں استعمال ہوتا ہے- کیونکہ اس ک معنی وسیع ہیں اور بظاہر و باطن دونوں حالتوں سے صفائی پر بیک وقت دلالت کرتا ہے- اور طیبؔ کی نسبت جو معنوں میں اس کے بہت زیادہ قریب ہے یہ زیادہ مضبوط ہے کیونکہ قران کریم نے اصل کے لیے طہارت اور نائب کے لیے طیب کا لفظ استعمال کیا ہے جیسے پانی کے متعلق یہ تو فرمایا ہے کہ مَآ ئََ طَھُوْ رًا ( الفرقان ع۵،۳)لیکن مٹی کی نسبت فرمایا ہے صَعِیْدًا طَیِّبًا ( المائدہ ع ۲،۶)
تفسیر-
اس سے پہلے یہ بتایا جا چکا ہے کہ اہل کتاب اور مشرک کفر کو کبھی چھوڑ ہی نہیں سکتے تھے جب تک ان کے پاس بینّہ نہ آ جاتی- بینّہ کے معنی جیسا کہ واضح اور جلی کے ہوتے ہیں پس-حَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیّنَُۃُ کے معنے یہ تھی-
بَیِّنَۃ کے معنے
کہ جب تک ایک واضح اور روشن چیز ان کے پاس نہ آ جاتی وہ کفر سے نکل نہیں سکتے تھے اور چونکہ بینّہ کے ایک معنی دلیل اور حجت کے بھی ہوتے ہیں اس لیے اس آیت کے یہ بھی معنے ہیں کہ جب تک اُن کے پاس دلیل اور حجت نہ آ جاتی وہ اپنے کفر سے باز رہنے والے نہیں تھے- اب اس آیت میں یہ بتاتا ہے کہ بینّہ سے مراد ہر دلیل نہیں کہ تم یہ خیال کر لو کہ دلائل اور براہین سے وہ اپنے کفر کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو سکتے تھے- اسی حکمت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے حَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیّنَُۃُنہیںفرمایا بلکہ حَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیّنَُۃُفرمایا ہے- یعنی بینّہ پر الف لام داخل کیا ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ایسی کفر و شرک کے زمانہ میں جب چاروں طرف معصیت کی تاریک گھٹائیں چھائی ہوں ہر دلیل کام نہیں آیا کرتی- جیسے اس زمانہ میں بھی بعض لوگوں سے سامنے جب حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ پیش کیا جاتا ہے
۱ حضرت مسیح موعود ؑ کی بعثت کی ضرورت
تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں آپ پر ایمان لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہمارے لیے قرآن کریم کافی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ بالکل غلط ہے ایسے زمانہ میں الْبَیِّنَۃ کی ضرورت ہوتی ہے الْبَیِّنَۃ سے ہماری مراد رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ ہے یعنی ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ کا رسول ہی دنیاکی اصلاح کر سکتا ہے کوئی کتاب لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہوتی جب چاروں طرف کفر پھیل جائے ،جب لوگ خدا تعالیٰ سے غافل ہو جائیں، جب اس سے محبت اور پیار کے تعلقات منقطع کر لیں تو خواہ ہو اہل کتاب ہی ہوں اُس وقت کوئی الہامی کتاب بھی ان کے کام نہیں آتی رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِکام آتا ہے- ایساشخص ہی لوگوں کی نجات کا باعث بن سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت اور نبوت و رسالت کے مقام کھڑا ہو اور اپنے قوت قدسیہ سے نفوس کو پاکیزہ کرنے کی استعداد رکھتا ہو- اگر یہاں صرف بینّہؔ کا لفظ ہوتا تو لوگ کہتے کہ بینّہ سے مراد کتاب ہے اور مطلب یہ ہے کہ کتاب لوگوں کی اصلاح کے لیے کافی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذکر کرنے کے بعد بینّہ کا ذکر کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اُن کے پاس کتاب موجود تھی مگر وہ ان کو کفر سے نہ بچا سکی- باوجود اہل کتاب ہونے کے ایسے گرے کہ کفار میں شامل ہو گے اسی لیے یہ سمجھنا کہ کتاب لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی ہوتی ہے بہت بڑی غلط فہمی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے موقع پر وہی دلیل کام آتی ہے رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ کی شکل میں ہو دوسری کوئی دلیل کام نہیں آیا کرتی خواہ کتاب موجود ہو، تحریف الحاق سے مبرّا ہوپھر بھی ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ خداتعالیٰ پر تازہ ایمان پیدا ہو، اس سے تازہ تعلق ہو، اس کی محبت اور پیار کے تازہ کرشمے ظاہر ہوں اور یہ بات بغیر نمونہ اور بغیر اللہ تعالیٰ کی نشانات کے حاصل نہیں ہو سکتی بے شک اس وقت کتاب تو ہوتی ہے مگر وہ بولتی نہیں لوگوں کے لیے اس کا وجود اور عدم وجود بالکل یکساں حیثیت رکھتا ہے مگر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی رسول مبعوث ہوتا ہے تو اُس کے ذریعے وہ کتاب پھر بولنے لگتی ہے، پھر اس کے انوار لوگوں کے قلوب کو گرماتے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار کرتے ہیں اور پھر ان کے ایمانوں میں ایک نئی تازگی پیدا ہو جاتی ہے-
اس آیت نے چکڑالویوں کا بھی ردّ کر دیا جو کہتے ہیں کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب قرآن لیکر آئے ہیں تو اس کے بعد کسی رسول کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے یہ خیالات بالکل غلط ہیں وسیع فساد کے وقت میں وہی دلیل کام آیا کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے رسول کی شکل میں ظاہر ہو کتاب لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہو سکتی- اُس وقت وہ بینہ کام آتی ہے رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ کی شکل میں ظاہر ہو کیونکہ یہ وقت محتاط ہوتا ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک زندہ وجود ظاہر جو اللہ تعالیٰ کے تازہ نشانات کو ظاہر کرنے والا ہو اس کی طرف سے نئے نئے نشانات دیکھانے والا ہو اُس کے محبت اور پیار کے خوابیدہ جذبات کو بیدار کرنے والا اور قلوب میں عشقِ الہٰی کی آگ کو بھڑکانے والا ہواور وہ دنیا پر یہ ظاہر کر سکتا ہوں کہ ہمارا خدا آج بھی ویسا ہی زندہ ہے جیسے پہلے زندہ تھا اب بھی ویسا ہی کلام کرتاتھا جیسے پہلے کلام کیا کرتا تھا اور اب بھی اپنے پیاروں کی تائید میں ویسے ہی نشانات دیکھتا ہے جیسے پہلے دیکھایا کرتا تھا- تب لوگوں کے دلوں کے تالے کھلتے اور ان کے اندر زندگی کے آثار پیدا ہونے شروع ہوتے ہیں اس کے بغیر ان کی روحانی زندگی کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہوتایَتْلُوْ اصُحُفًا مُّطَھَّرَۃً- مُطَھَّر کے معنے حل لغات میں آ چکے ہیں -
اوّل - عیب سے پاک
دوم - زوائد سے پاک
سوم- دھلا دھلایا
چہارم - ظاہری نفس سے پاک
پنجم - شرک س پاک
پسیَتْلُوْ اصُحُفًا مُّطَھَّرَۃً کے یہ معنے ہوئے کہ وہ ایسے صحیفے پڑھ کر سُناتا ہے کہ عیبوں سے پاک کیے ہوئے ہیں ان معنوں کی رُو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ (۱) پہلی کتابوںمیں بعض باتیں غلط اور اللہ تعالیٰ کے الہام کے خلاف مل گئیںتھیں اور وہ کتب اُس صورت میں باقی نہیں رہی تھیں جس صورت میں کہ وہ نبی پر اترائی گئیں تھیں اب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ اُن تعلیمات کو جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہ ہوئی تھیں بلکہ بعد میں لوگوں نے ان کتابوں میں ملا دی تھی دُور کر دیا اور اتنا حصہ تعلیم کا قران کریم میں نازل فرما دیا جو واقعہ میں خداتعالیٰ کی سے نازل ہوا تھا-گویا عیب سے پاک کیا ہوا کہ معنے ہیں کہ جو نقائص پہلی کتب میں پیدا ہو گئے تھے انہیں اس کتاب میں دُور کر دیا گیا ہے یا جو باتیں مل گئیں تھی ان کی اصلاح کی گئی ہے -
ایک معنے اس لحاظ سے بھی بنیں گے کہ گو بعض حصے پہلی کتابوں کے واقعہ میں الہامی ہیں لیکن موجودہ زمانہ کے لحاظ سے وہ قابل عمل نہیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو بھی چھوڑ دیا کیونکہ گو منبع کے لحاظ سے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں - مگر مُّطَھَّرَۃًکے زوائد سے پاک کے تھے اِن لحاظ سے اب خدا تعالیٰ نے انہیں منسوخ قرار دے دیا ہے- پس کامل کتاب میں اب اُن کا کوئی مقام نہیں ہے-
دوسرے معنے مُّطَھَّرَۃًکے زوائد سے پاک کے تھے ان کے لحاظ سے آیت کا یہ مفہوم تھا کہ ایسی باتیںجنہیں گو خراب تو نہیں کہا جا سکتا مگر وہ زوائد میں سے ہیں اُنہیں بھی قرآن کریم نے ترک کر دیا ہے پہلی چیز کی مثال ایسی ہے جیسے پہلے زمانہ میں شراب حرام نہ تھی اسلام نے شراب کو حرام قرار دے دیا- یا پہلے زمانہ میں سود کلیتًہ حرام نہ تھا لیکن قرآن کریم نے سُود کو کلیۃً حرام قرار دے دیا گیا- اور زوائد ؔکی مثال ایسی ہے جیسے پہلے زمانہ میں عبادت کے لیے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ خاص طور پر پاک کیے گئے مقام پر ہی عبادت ہو سکتی ہے
۲۷۱ صُحف کے مطہرہ ہونے کا مطلب
اور اس قسم کی شرطیں بھی تھیں کہ ایسے پردے ہوں - ایسا مکان ہو - یہ باتیں اپنی ذات میں بری تو نہیں لیکن عبادت کے لحاظ سے زوائد ہیں - ان سب قیّود کو اسلام نے اُڑا دیا- بے شک اسلام نے بھی ایک سیدھی سادی مسجد عبادت کے لیے مقرر فرمائی ہے- لیکن اُس کو عبادت کے لیے ضروری قرار نہیں دیا ہے- اگر مسجد نہ ہو تو تب بھی مسلمان کی عبادت ہو جاتی ہے- مگر یہود و نصاری کی عبادت کے لیے ایک خاص مقام اور ایک خاص قسم کی تیاری کی قید تھی جو اسلام میں نہیں کیونکہ قرآنی تعلیم مختون ہے یعنی اس میں سے زوائد کاٹ دیئے گئے ہیں صرف ضروری امور کو لے لیا گیا ہے-
تیسرے معنے مطہر کے دھلے ہوئے کے ہیں - دھلی ہوئی چیز اصل چیز سے علیحدہ نہیں ہوتی صرف اصل چیز پر جو خارجی اثرات ہوتے ہیں ان میں تبدیلی پیدا کر دی جاتی ہے- ان معنوں کے لحاظ سے مُطَھَّرَ ۃً کا مفہوم یہ ہو گا کہ وہ فقہی پیچیدگیاں جو یہودیوں یا عیسائیوں نے پیدا کر دی تھیں ان سے قرآن کریم نے نجات دلائی ہے- یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب بھی کسی مذہب پر لمبا زمانہ گزر جاتا ہے اُس کے ساتھ فقہی پیچیدگیاں شامل ہو جاتی ہیں- فقہ کی اصل غرض تو یہ ہوتی ہے کہ جو مسائل اہل کتاب میں نص نے طور پر نہیں آئے ان کا استخراج کیا جائے- لیکن آہستہ آہستہ جب فقہ میں ضعف آتا ہے خود اصل مسائل میں تصرّف شروع ہو جاتا ہے- اسی قسم کی نقائص کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو اباحت کی طرف لے جاتے ہیں اورکچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو ظاہر کی طرف انتہا درجہ کی شدت کے ساتھ بلاتے ہیں یہی حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کا تھا اگر یہودیوں کے سزاکی تعلیم پر بے انتہا زور دیا تھا- تو عیسائیت نے نرمی کی تعلیم پر بے انتہا زور دے دیا- اب یہ دونوں مسائل ہی ضروری تھی لیکن یہودی فقہ اور عیسائی فقہ نے ان دونوں کو الگ الگ احکام کی شکل میں بدل دیا- جب اسلام آیا تو اس نے اس پیچیدگی کو بالکل دور کر دیا اور غلط فقہ کا تعلیم پر جو اثر تھا اس کو دھودیا مثلاً اسلام نے بھی کہا ہے کہ دانت کے بدلے دانت آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان - مگر اسلام نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہی عفو بڑی اچھی چیز ہے تمہیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے اسی طرح اسلام نے بھی یہی کہا کہ نرمی اور عفو بڑی اچھی چیز ہے مگر ساتھ ہی کہا کہ فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اﷲِ(الشوریَ ع۴،۵) اُسی وقت عفو جائز ہے جب عفوکے نتیجہ میں مجرم کی اصلاح کی امید ہو اگر یہ خیال ہو عفو کہ مجرم کو اور بھی بگاڑ دے گا اور اُسے بُرے اعمال پر اور زیادہ جرت دلا دے گا تو اس وقت عفو سے کام لینا تمہارے لیے جائز نہیں غرض یہودی تعلیم میں زور کہ ضرور دانت کے بدلہ میں دانت توڑو - آنکھ کے بدلہ میںآنکھ پھوڑواور کان کے بدلہ میں کان کاٹو فقہ کا ہی نتیجہ تھا اور نہ موسیٰؑ کی تعلیم میں یہ بات نہ تھی اسی طرح عیسائیت کی تعلیم میں یہ بات کہ تم ضرور معاف کرو اور اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اسکی طرف پھیر دو فقہ کی وجہ سے ہی تھی- مگر حضرت مسیحؑ تو صاف کہتے ہیں کہ میں تورات کو بدلنے کے لیے نہیں آیا- جب وہ تورات کو بدلنے کے لیے نہیں آئے تو اُس کے قانون سزا کو وہ کلیتہً کس طرح مٹا سکتے تھے-
غرض وہ فقہی پیچیدگیاں جو یہودیوں اور عیسائیوں نے پیدا کر دی تھیں اور غلط فقہ کی وجہ سے جو نقائص رونما ہو گئے تھے قرآن کریم نے ان سب کو دُور کر دیا ہے اور یہی قرآن کریم کا مطہرّ یعنی دُھلا دُھلایا ہونا ہے- کہ اُس نے ایسی تعلیم دی جو ہر قسم کی پیچیدگیوں سے پاک ہے-
چوتھے معنے مُطَھَّرَ ۃٌ کے ہیں ظاہری نقصوں سے پاک - ظاہری نقاص میں سے سب سے بڑا قص زبان کا ہوتا ہے کیونکہ کتاب کا ظاہر اُس کی زبان ہی ہوتی ہے اس لحاظ سے مُطَھَّرَۃٌکے معنے یہ بنیں گے زبان کے نقصوں سے پاک ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا انکار دشمنانِ اسلام نے بھی نہیں کیا ناذو نادر کے طور پر کوئی غیبی دشمن یا ایسا دشمن جو انصاف کوبالکل نظر انداز کر چکا ہو قرآن کریم کی زبان میں اعتراض کر دے تو اور بات ہے ورنہ بالعموم اُن عیسائیوں اور یہودیوں نے بھی جو عرب کے رہنے والے تھے قرآن کریم کی زبان کی تعریف کی ہے اور یورپین مصنف جو غیر متعصّب ہیں انہوں نے بھی اس کی زبان کی داد دینے سے گریز نہیں کیا مُطَھَّرَ ۃٌ میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم زبان کے نقصوں سے پاک ہے نہایت لطیف اور فصیح زبان میں نازل ہوا ہے اور پڑھنے والے کو حسنِ زبان سے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے -
ظاہری نقصوں سے پاک کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ زبان میٹھی اور دلکش ہو یعنی ظاہری نقص سے پاک ہونا ایک تو یہ ہے کہ زبان میں کوئی نقص نہ ہو تقیل الفاظ نہ ہوں- غیر طبعی محاورات نہ ہوں- دوسرے یہ بھی ظاہری نقص سے پاک ہونے کی علامت ہے کہ زبان شیریں اور دل کش ہو- کہ خوبی بھی قرآن کریم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اُس کی عبارت ایسی لطیف ہے کہ پڑھنے والا یہ نہیں سمجھتا کہ میں نثر پڑھ رہا ہوں یا نظم پڑھ رہا ہوں- ایک عیسائی مصنف نے قرآن کریم کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہیں ایک بڑی لطیف بات لکھی ہے وہ کہتا ہے قرآن کریم کا ترجمہ جب ہماری زبان میں کیا جاتا ہے- تو عام طور پر لوگ اس کے متعلق کہ دیا کرتے ہیں کہ یہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا وہ کہتا ہے قرآن کریم کا ترجمہ سمجھ میں آ کس طرح سکتا ہے اُس کا سٹائل ایسا ہے کہ نہ اُسے نثر کہا جا سکتا ہے نہ نظم- جب تک اس کے سٹائل کو مدِّ نظر نہ رکھا جائے اُس کے معنے کو پوری طرح سمجھا نہیں جا سکتا- پھر ایک ظاہری نقص فحش کلامی کا ہوتا ہے مگر قرآن کریم اِس نقص سے بھی کلیۃً پاک ہے - اُسے مضامین وہ ادا کرنے پڑتے ہیں کہ بعض دفعہ بغیر الفاظ کے ننگا ہونے کے اُن کو ادا نہیں کیا جا سکتا مگر قرآن کریم ان تمام مقامات پر سے ایسی عمدگی سے گذر جا سکتا مگر قرآن کریم ان تمام مقامات پر سے ایسی عمدگی سے گذر جاتا ہے کہ مطلب بھی ادا ہو جاتا ہے اور طبعِ نازک پر گراں بھی نہیں گذرتا- اس کے مقابلہ میں ویدوں اور بائیبل وغیرہ میں بعض دفعہ ایسی باتیں آ جاتی ہیں کہ اُن کا پڑھنا بالکل نا ممکن ہو جاتا ہے ویدوں میں ایک منتر آتا ہے کہ فلاں بزرگ پیدا ہونے لگا تو چونکہ گندی جگہ سے گزرنے سے اُس نے انکار کر دیا پیٹ پھاڑ کر اُسے نکالا گیا- اِس قسم کے الفاظ انسان کی طبیعت پر سخت گراں گذرتے ہیں مگر اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ویدوں میں ایسے منتر موجود یہں جن میں فحش کلامی پائی جاتی ہے- اِسی طرح بائیبل کے متعلق خود عیسائیوں نے اعتراف کیا ہے کہ اُس کے بعض حصّے ایسے گندے یہں کہ اُن کا پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو تو وہ حصے پڑھا ہی نہیں سکتے مگر قرآن کریم میں کوئی بات ایسی نہیں جس سے حّسِ لطیف کو کوئی صدمہ پہنچتا ہو-
پھر ایک ظاہر ی نقص کلام میں دل آزاری کا پایا جاتا ہوتا ہے- پڑھنے والا جب کسی ایسی کتاب کو پڑھتا ہے جس میں دوسروں کی دل آزاری سے کام لیا گیا ہو تو وہ بُرا مناتا اور اُس کا قلب سخت اذّیت محسوس کرتا ہے مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے جس میں کسی قوم کی دل آزاری نہیں کی گئی اور اگر کسی جگہ مجبوراً قرآن کریم کوبعض سخت الفاظ استعمال بھی کرنے پڑے ہیں تو وہاں اُس نے کسی کا نام نہیں لیا صرف اصولاً ذکر کر دیا ہے کہ بعض انسان ایسے ہوتے ہیں - یہ نہیں کہا کہ مکّہ والے ایسے ہیں یا یہودی ایسے ہیں یا عیسائی ایسے ہیں- اس کے مقابل پر جب دوسری الہامی کتب کو دیکھا جاتا ہے تو اُن میں یہ نقص نمایاں طور پر نظر آتا ہے- حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق ہی انجیل میں آتا ہے کہ اُنہوں نے فریسیوں اور فقہیوں سے جب انہوں نے نشان کا مطالبہ کیا تو کہا کہ اس زمانہ کے بد اور حرامکار لوگ مجھ سے نشان مانگتے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ یونس نبی کے نشان کے سوا اَور کوئی نشان نہیں دکھایا جائے گا- اِن الفاظ کو آج بھی یہودی پڑھتے ہوں گے تو سمجھتے ہوں گے کہ بد کار اور حرامکار وغیرہ الفاظ ہمارے باپ دادوں کے متعلق ہی استعمال کئے گئے ہیں یا مثلاًحضرت مسیح ؑ نے اپنے دشمنوں کو سانپ اور سانپوں کے بچے قرار دیا ہے اور انجیل میں یہ الفاظ آج تک موجود ہیں- یہودی جب بھی یہ الفاظ پڑھتے ہوں گے اُن کے دل دُکھتے ہوں گے یہ سخت الفاط ہمارے آباء کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں- وہاں کسی کا نام نہیں لیا بلکہ اشارۃً ذکر کر دیا ہے کہ بعض لوگوں میں یا بعض قوموں میں یہ یہ نقائص پائے جاتے ہیں یا فلاں فلاں اخلاقی خرابیاں اُن میں موجود ہیں- دشمن اِن الفاظ کو پڑھتا ہے تو اُس کے دل پر چوٹ نہیں لگتی وہ فوراً کہہ دیتا ہے کہ میں تو ایسا نہیں یہ اَور لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے پس قرآن کریم کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ اُس میں دل آزاری کی کوئی بات نہیں-
مُطَھَّرَۃًکے لفظ سے باطنی خوبی کی طرف بھی اشارہ ہے ایک کتاب کی بڑی باطنی خوبی یہی ہو سکتی ہے کہ جب مطالب کا بیان کرنا ضروری ہو اُس میں اُن کو پوری طرح بیان کر دیا جائے کسی قسم کا نقص اُن کے بیان کرنے میں نہ رہ جائے- یہ خوبی بھی قرآن کریم میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے- اُس نے جس مضمون کو بھی لیا ہے - ایسی عمدگی سے ادا کیا ہے کہ اُس میں کسی قسم کا نقص ثابت نہیں کیا جا سکتا-
غرض قرآن کریم مطالب مقصودہ کے بیان کرنے سے قاصر نہیں- جو مطلب اُس نے لیا ہے اُس پر سیر کن بحث ایسی زبان میں کر دی ہے کہ ہر پڑھنے والا اسے سمجھتا ہے اور ہر مضمون کو ایسا کھول دیا ہے کہ حد ہی کر دی ہے- یہ خوبیاں بظاہر معمولی ہیں لیکن قوموں کی اصلاح اور اُن کی بیداری کے لئے اتنی اہم ہیں کہ ان کے بغیر مقصد میں کامیابی ہو ہی نہیں سکتی- یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے سب سے زیادہ دنیا کی اصلاح کی ہے-
باطنی گند سے پاکیزگی کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اُس کی تعلیم پاک ہو- کوئی خلافِ فطرت بات اس میں شامل نہ ہو-یہ امر بھی قرآن کریم میں انتہا درجہ تک پایا جاتا ہے اور ہر شخص جو قرانی تعلیم پر ادنیٰ سا بھی تد بّر کرے اُسے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کتاب میں کوئی بات ایسی نہیں جو خلافِ فطرت ہو- دوسری کتابوں کو پڑھو تو اُن میں کئی ایسی باتیں آ جاتی ہیں جو خلافِ فطرت ہوتی ہیں-
پھر قرآن کریم کی ایک یہ خوبی ہے کہ اُس میں ہر فطرت کے مطابق تعلیم پائی جاتی ہے- کسی قسم کا انسان ہو جب بھی قرانی تعلیم اُس کے سامنے پیش کی جائے وہ اُس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا- انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کے مادّے رکھے ہیں کہیں غصّے کا مادّہ اُس میں پایا جاتا ہے، کہیں رحم کا مادّہ اُس میں پایا جاتا ہے، یہ دونوں مادے اپنی اپنی جگہ پر نہایت اہم اور ضروری ہیں پس کامل کتاب وہی ہو سکتی ہے جو ہر قسم کی فطرت کو ملحوظ رکھ کر تعلیم دے- اگر وہ ہر فطرت کو ملحوظ نہیں رکھتی تو یہ لازمی بات ہے کہ سب انسانوں کی پیاس اُس کتاب سے نہیں بجھے گی اور جس فطرت کے خلاف اُس کتاب میں کوئی تعلیم پائی جائے گی وہ فطرت اُس سے بغاوت کرے گی- مثلاً وہ شخص جس کی طبیعت میں غصّے کا مادہ زیادہ ہے جب وُہ انجیل میں پڑھتا ہے کہ اگر کوئی شخص تیرے گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے تو ناک بھوں چڑھا کر کہتا ہے کہ یہ بھی کوئی کتاب ہے یہ تو زنخوں کی کتاب ہے اِس پر کون عمل کر سکتا ہے- اس کے مقابل میں جب ایک رحم دل انسان بائیبل کی یہ تعلیم پڑھتا ہے کہ دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان تو وہ گھبرا کر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے یہ خدا کی کتاب نہیں ہو سکتی جس میں اس قدر سخت دلی کی تعلیم دی گئی ہے- مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے جس میں ہر فطرت کے تقاضا کو ملحوظ رکھا گیا ہے- سخاوت کا مضمون آتا ہے تو ایک سخی کا دل اُس سے تسلی پا کر اٹھتا ہے- اگر اقتصادیات سے دلچسپی رکھنے والا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اپنے مال کو اس طرح نہیں لٹنا چاہیے کہ قوم کمزور ہو جائے تو وہ جب قرآن کریم میں پڑھتا ہے کہ مال بھی خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے- اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے تو اقتصادی آدمی بھی تسلی پا کر اٹھتا ہے اور وہ کہتا ہے ضرور ایسا ہی ہونا چاہیے- یہی سمت ہے جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ کتابِ مکنون میں ہی یعنی گو اس کی ایک نقل آسمانی کاتبوں نے انسانی دماغوں پر بھی لکھ دی ہے- فطرت انسانی جن چیزوں کا تقاضا کرتی ہے وہ سب قرآن میں ہیں اور قرآن جن چیزوں کا حکم دیتا ہے وہ سب انسانی فطرت میں موجود ہیں گویا اِس کی ایک کاپی انسانی دماغ پر لکھی ہوئی ہے اور ایک کاپی قرآن کریم کے اوراق پر لکھی ہوئی ہے- اِسی لئے جب کوئی شخص سمجھ کر اور عقل سے کام لے کر قرآن کریم پڑھتا ہے تو اُسے یوںمعلوم ہوتا ہے کہ کہیں باہر سے حکم نہیں مل رہے بلکہ اُس کے دل کی آواز کو خوبصورت لفظوں میں پیش کیا جا رہا ہے گویا قرآن کریم کوئی نئی شریعت بیان نہیں کرتا بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اگر گرامو فون کی سوئی انسان کے دماغ پر رکھ دی گئی ہے اور وہ انسان فطرت کی تحریروں کو لفظوں کی زبان میں بدل کر رکھتی جاتی ہے- کوئی حکم گراں نہیں گذرتا، کوئی تعلیم نا مناسب معلوم نہیں ہوتی- کوئی لفظ طبیعت میں خلجان پیدا نہیں کرتا بلکہ ہرلفظ اور ہرحرف ایک حکیم ہستی کی طرف سے نازل شدہ معلوم ہوتا ہے-
پھر مُطَھَّہرَۃً کے دونوں معنوں کے لحاظ سے یعنی صفائی کے لحاظ سے اورشرک سے پاک ہونے کے لحاظ سے ایک اَور بھی لطیف مناسبت اِس آیت میں پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس سورۃ میں دو قوموں کا ذکر ہے- اہل ایک کتاب کا اور دوسرے مشرکین کا- اہل کاتاب کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں اہل کتاب کی کتابوں کے نقائص دُور کئے گئے ہیں اور مشرکوں کے لحاظ سے اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس کتاب میں شرک کے بیخکنی کر دی گئی ہے گویا ظاہری صفائی کے معنے اہل کتاب کے لحاظ سے ہیں اور باطنی صفائی کے معنے مشرکوں کے لحاظ سے ہیں- پس دوسرے معنے اس کے اہل کتاب اور مشرکین کی نسبت سے ہیں اور وہ یہ کہ جس طرح اہل کتاب اور
فِیْہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ O
جن میںقائم رہنے والے احکام ہوں ؎۴
مشرکوں کی اصطلاح کے لئے یہ کتاب آئی ہے- اسی طرح اہل کتاب کے لئے اِس میں اُن کتب کو پاک و صاف کر کے بیان کیا گیا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم جس طرح شرک سے پاک ہے اُس کی مثال دنیا کی اور کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی اور یہی اصلاح کا صحیح طریق ہے- حقیقی اصلاح کبھی بھی دو ٹوک اعلان بغیر نہیں ہوا کرتی- یہ ایک عام فلسفانہ مسئلہ ہے کہ جب کبھی نقص بڑھ جاتا ہے اس کے لیے ریڈیکل چینجز RADICAL CHANGESیعنی غیر معمولی انقلاب کی ضرورت پیش آتی ہے- شرک کے خلاف غیر مصالحانہ رنگ جیسا قرآن کریم نے اختیار کی اہے اور کسی کتاب نے اختیار نہیں کیا- وہ کوئی لپٹی نہیں رکھتا اسی وجہ سے دوسری سب اقوام شرک کے ازالہ میں ناکام رہی ہیں صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جہ اس کے ماننے والے ہی شرک سے نہیں بجے بلکہ اُس کی تعلیم کی وجہ سے اُس کے ہمسایہ قومیں بھی شرک سے نفرت کا اظہار کرنے لگی ہیںعیسائیت کیسا مشر کا نہ مذہب ہے لیکن اسلامی تعلیم کے زیر اثر کے نیچے مشرک سے مشرک عیسائی بھی کہتا ہے کہ ہمارے مذہب میں کوئی شرک نہیں پایا جاتا- وہ اپنے مذہب کو تو نہیں چھوڑتا مگر کم سے کم شرک کا لفظ اب اُسے بھیانک نظر آنے لگ گی اہے اور وہ اتنا کہنے پر ضرور مجبور ہو گیا ہے کہ ہم مشرک نہیں ہیں- اسلام ہندوستان میں آیا تو اُس نے بتیس کروڑ دیوتا ماننے والے لوگون میں برہموئوں اور آریہ سماج کی شکل میں تبدیل کر کے ایک خدا کا اعلان کرنے پر مجبور کر دیا پس حق یہی ہے کہ صُحفِ مُطہّرہ وہی اہل کتاب اور مشرکوں کی اصلاح کر سکتے تھے اور یہ اُنہی کا کام تھا کہ ایک طرف سابق نبیوں کی اُمّتوں کو اُن کے پاک شدہ تعلیم دے کر پاک کر یں اور دوسری طرف غیر مصالحانہ انداز میں توحید کی تعلیم پیش کر کے شرک کو دُور کریں- پس قرآن کریم کا یہ دعویٰ بالکل سچ ہے - لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ مَنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّنَ حَتّٰی تَاْ تِیَھُمْ الْبَیِّنَۃُ oرَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْ اصُحُفًا مُّطَھَّرَۃً- ممکن ہی نہیں تھا کہ اہل کتاب اور مشرکین اپنے کفر سے باز آتے یہاں تک کہ انکے پاس ایک روشن دلیل آ جاتی کیسی روشن دلیل؟ اللہ کی طرف سے آنے والا ایک رسول جو ایک طرف تو اپنے عمل سے خدا تعالیٰ پر ایمان پیدا کرتا اور دوسری طرف ایسے صحیفے پڑھتا جو یہودیوں اور عیسائیوں اور دوسرے اہل کتاب کے سامنے اُن کی مسخ شدہ تعلیموں کو پاک کر کے رکھ دیتے اور تیسری طرف مشرکوں کے مشرکانہ عقیدوں کو سخت حملوں کے ساتھ کچل ڈالتا-
۴؎ حل لغات- قَیِّمَۃ - قَیِّمٌ کے معنے متولّی کے قِیِّمَۃ ہوتے ہیں چنانچہ لغت میں لکھا ہے کہ اَلْقَیِّمُ عَلَی الْاَمْرِ مُتَوَلِّیْہِ یعنی جب یہ کہا جائے کہ فلاں کام پر فلاں شخص قیم ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ اُس کا متولی ہے- وَھِیَ قَیْمَۃٌ اور اگر کوئی عورت متولّیہ ہو تو اُسے قَیِّمَۃٌ کہا جائے گا-
وَالْقَیِّمَۃُ: اَلدِّ یَا نَۃُ الْمُسْتَقِیْمَۃُ - اور قَیمہ کے ایک معنے ایسے مذہب کے بھی ہوتے ہیں جس میں کوئی کجی بہ پائی جاتی ہو- ( اقرب)
مفردات میں لکھا ہے دِیْناً قَیِّمًا اَیْ ثَابِتًا مُقَوِّمًا لاُِ مُوْ رِ مَعَا ثِھِمْ وَ مَعَادِ ھِمْ یعنی قیّم کے معنے
۲ قَیِّمَۃ کے معنے امام راغب کے نزدیک
ہیں ثابت رہنے والا دین- غیر مترلزل دین جو لوگوں کی معاش اور اُن کی معاد کو ٹھیک کردینے والا ہو- پھر کہتے ہیں یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌ فَقَدْ اَشَارَ بِقَوْلِہٖ صُحُفاً مُّطَھَّرَۃً اِلَی الْقُرْاٰنِ وَبِقَوِ
لِہٖ صَحُفاً مُّطَھَّرَۃً اِلیَ الْْقُرٰانِ
وَبِقَوْلِہٖ کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ اِ لیٰ مَا فِیْہِ مِنْ مَعَا نِیْ کُتُبِ اﷲتَعَالیٰ فَاِنَّ الْقُرْاٰنِ مَجْمَعُ ثَمَرَۃِ کُتُبِ اﷲِ تَعَالیٰ فَاِ نَّ الْقُرْ اٰنَ مَجْمَعُ ثَمَرَۃِ کُتُبِ اﷲِ تَعَالیٰ الْمُتَقَدَّ مَۃِ یعنی یہ جو قرآن کریم میںآتا ہے کہ فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ اِن الفاظ سے اللہ تعالیٰ اِس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ
وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوالْکِتٰبَ اِلَّا مَنْ بَعْدِ مَا جَٓا ئَ تْھُمُ الْبَیِّنَۃٌ oط
اور( عجیب بات یہ ہے ) جن لوگوں کو ( قرآن مجید جیسی مکمل ) کتاب دی گئی ہے- ۱؎ وہ اس واضح دلیل ( یعنی رسول) کے آنے کے بعد ہی ( مختلف گروہوں میں ) تقسیم ہوئے ہیں ۵؎
سابق الہامی کتب کے جس قدر مطالب ہیں وہ اس میں آ گئے ہیں کیونکہ قرآن کریم گذشتہ تمام الہٰی کتب کا مجموعہ ہے گویا فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ کے معنے یہ ہیں کہ وہ سب تعلیمیں جو گذشتہ انبیاء کے زمانہ میں نازل ہوئی تھیں اُن میں سے ایسی تعلیمیں جو قائم رہنے کے مستحق تھیں اور نبی نوع انسان کی معاش اور اُن کے معاد کو درست کرنے والی تھیں اور ساری کی ساری تعلیمیں قرآن کریم میں آ گئی ہیں-
تفسیر - قَیّمَۃٌکے معنے متولّی اور مستقیم کے بیان کئے جا چکے ہیں اُن معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے-
۲۱۱ قرآن مجید میں کُتَبٌ قِیِّمَۃ ہونے سے مراد
اوّلؔ اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ قرآن کریم میں ایسے احکام ہیں جو انسان کے متولی ہیں- متولی اُس کو کہا کرتے ہیں جو دوسرے کا اصلاح کرتا ہے، اُس کی نگرانی کا فرض ادا کرتا ہے، اُس کی حفاظت کرتا ہے اور اُس کی قوتون کو صحیح کاموں میں صرف کرتا ہے- پس فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌ کے یہ معنے ہوں گے کہ قرآن کریم میں ایسے احکام پائے جاتے ہیں جن سے بنی نوع انسان کو ہر قسم کی ذلّت اور خرابی اور نقص سے بچایا جاتا ہے- اُنکی صحیح تربیت کی جاتی ہے اور اُنہیں اپنے قویٰ کو بہتر سے بہتر طور پر استعمال کرنے کا طریق بتایا جاتا ہے گویا فطرتِ انسانی کو ہر قسم کے نقص سے بچانے اور اپنی طاقتوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ طور پر ظاہر کرنے کا کام وہ سکھاتا ہے-
(۲)اِسی طرح فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌ کے یہ معنے ہونگے کہ وہ ایسا مذہب پیش کرتا ہے جو ہر قسم کی کجروں اور خرابیوں سے پاک اور سیدھے راستے پر لے جانے والا ہے-
(۳) اور فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌْْکے یہ بھی معنے ہوں گے کہ وہ انسان کی تمام ضرورتوں کو خواہ اِس دنیا سے تعلق رکھنے والی ہوں خواہ مرنے کے بعد کی زندگی سے تعلق رکھنے والی ہوں پوارا کرتا ہے اور اس میں ایسی تعلیم پائی جاتی ہے جو بدلنے والی نہیں قائم رہنے والی اور ثابت رہنے والی تعلیم ہے- گویا صحفِ مطہرہ میں تو زیادہ زور پچھلی تعلیموں کی خرابیوں کو دور کرنے اور شرک سے بچانے پر تھا اور فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌمیں اس بات پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور اس میں ایسی تعلیم ہے جو آئندہ دائمی طور پر انسان کے لئے ضروری ہو گی اور غیر متزلزل اور اور غیر متبدل ہو گی-
مفردات راغب کے معنوں کے لحاظ سے فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌکے ایک یہ بھی معنے ہوں گے کہ اس میں وہ تمام تعلیمات آ گئی ہیں جو مستقل اور ہر زمانہ کے لئے تھیں اور پہلی کتب میں بیان ہو چکی ہیں- گویا گذشتہ تعلیموں میں سے جس قدر اچھی تعلیمیں تھیں وہ سب کی سب اس میں آ گئی ہیں-
۵؎ تفیسر- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی تھی متفرق نہیں ہوئے مگر اُس وقت جب اُن کے پاس بینہ آئی جب وہ رسول آ گیا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے تب انہوں نے تفرقہ کیا یہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے مخاطب اہل کتاب کی یعنی قرآن کریم کے نازل ہونے کے وقت جو اہل کتاب دنیا میں موجود تھے اُن کی ایک عجیب حقیقت بیان کی ہے فرماتا ہے قرآن کریم آتا تو اس لئے تھا کہ اُن کو غلط رستوں اور غلط تعلیموں سے بچا کر ایک نقطہ پر لا کر جمع کر دے مگر ان لوگون نے بجائے اس کے کہ قرآن کریم کی تعلیم سے فائدہ اٹھاتے ، اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرتے ، اپنی کتابوں میںشامل ہو جانے والی غلط تعلیموں سے
نوٹ:۱؎ تفسیر میں اِس آیت کی جو تشریح کی گئی ہے- اس کے علاوہ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اس سورۃ کی پہلی آیت میں جو یہ دعویٰ کیا گیا تھا اہل کتاب اور مشرک کبھی اپنے کفر کو چھوڑ کر توحید پر قائم نہ ہو سکتے تھے جب تک اُن کے پاس آنحضرت صلعم مبعوث ہو کر نہ آجاتے- اس دعویٰ کی دلیل میں اس آیت کو پیش کیا گیا ہے- یعنی بتایا گیا ہے کہ دیکھو آنحضرت صلعم کی بعثت کے بعد مشرکین اور اہل کتاب میں سے دو فریق ہو گئے - ایک گروہ تو اپنے کفر اور شرک کو چھوڑ کر توحید پر قائم ہو گا اور ایک مخالف راہ اختیار کر کے پہلی حالت پر قائم رہا- گویا قرآن مجید جس مقصد کے لئے آیا تھا کہ ایک حصہ اہل کتاب اور مشرکین کا اس کے ذریعہ کفر سے نکل آئے وہ واقع ہو گیا-
متنبہ ہو جاتے اُلٹا قرآن کریم کی مخالفت شروع کر دی اور صداقت سے اَور بھی زیادہ بدکنے لگ گئے یعنی جب تک یہ تعلیم نہیں آئی اُس وقت تک اگر یہ غلطی میں مبتلا رہے تو خیر معذور بھی سمجھے جا سکتے تھے جب اُنہیں سچائی مل گئی تھی تب تو انہیں صحیح راستے پر چل پڑنا چاہیے تھا مگر تعلیم آنے کے بعد یہ اور زیادہ سچائی کے مخالف ہو گئے- قرآن کریم سے پہلے تویہ لوگ کہہ دیا کرتے تھے کہ الہام بھی ہو سکتا ہے- انسان اللہ تعالیٰ کا مقرب بھی ہو سکتا ہے - نبی اور رسول بھی بن سکتا ہے مگر جب قرآن آتا تو اس بات پر زور دینے لگ گئے کہ موسیٰؑ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا حالانکہ پہلے یہودی خود زور دیا کرتے تھے کہ موسیٰؑ کی پیشگوئی کے مطابق ایک ایسا وجود آنے والا ہے جو آتشی شریعت اپنے ساتھ رکھتا ہو گا- یہی حال عیسائیوں کا تھا عیسائی بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پہلی اور دوسری بعثت کے درمیانی عرصہ میں فارقیط آئے گا- مگر جب وہ موعود آ گیا جس کی موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کی پیشگوئیوں میں خبر دی گئی تھی تو انہوں نے کہہ دیا کہ کوئی فارقیط نہیں آئے گا بجائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اِس انعام پر کہ اُس نے گذشتہ انبیاء کی پیشگوئیوں کو پورا کرتے ہوئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا صداقت اور ہدایت کے قریب آتے، جو صداقتیں پہلے مانتے تھے اُن کو بھی انہوں کے چھوڑ دیا-
ایسا ہی نقشہ موجودہ زمانہ میں نظر آ رہا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بعثت کے قریب زمانہ میں مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی جو مدرسہ دیو بند کے بانی تھے اپنی کتاب میں نہایت وضاحت سے لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد غیر تشریعی نبی آ سکتا ہے مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام یہی بات پیش کرتے ہیں تو مولوی محمد قاسم صاحب کے شاگرد دیوبندی علماء کہتے کوئی نبی نہیں آ سکتا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد دروزہ نبوت کلیۃً مسدود ہو چکا ہے اب نہ شرعی نبی آ سکتا ہے نہ غیر شرعی نبی آ سکتا ہے- غرض اُنہی کے شاگرد اور اُنہی کے مدرسہ میں پڑھتے ہوئے اُن باتوں کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمائیں اور جب کی تصدیق خود اُن کی اپنی کتب سے ہوتی ہے-
اسی طرح حضرت مسیح علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعویٰ سے پہلے بڑے بڑے مولوی منبروں پر کھڑے ہو کر ایسے اشعار پڑھا کرتے تھے جن میں یہ ذکر ہوتا تھا کہ عیسیٰؑ بھی مر چکا اور موسیٰؑ بھی- مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وفاتِ مسیحؑ کا مسئلہ پیش کیا تو تمام علماء کو اپنی باتیں بھول گئیں اور وہ یہ شور مچانے لگ گئے کہ عیسیٰ زندہ ہے عیسٰی زندہ ہے-
اسی طرح یا تو ایک زمانہ میں سارے مسلمانوں کی غفلت اور اُن کی سُستی کا اصل
۲۱۱ بینّہ آنیکے بعد اہل کتاب کے متفرق ہونے کا مطلب
باعث یہ تھا کہ اُن کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور تمام کفار کے اموال لوٹ کر ہمارے سپرد کر دیں گے اور ہم بڑے آرام سے زندگی بسر ہمارے سپرد کر دیں گے اور ہم بڑے آرام سے زندگی بسر کریں گے اور اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ دعویٰ کیا کہ میں ہی مسیح موعود ہوں اور میں ہی وہ مامور ہوں جس کی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی تو مسلمانوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ کسی عیسیٰ نے نہیں آنا قرآن میں تواِس قسم کی کوئی خبر ہی نہیں اور اگر حدیثیں کہتی ہیں تو وہ غلط ہیں- غرض یا تو پہلے تمام قوم کی بنیادی اس امر پر تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور ہمارے گھروں کو زرد وجواہر سے بھر ویں گے اور یا آج یہ حالت ہے کہ وہ اُن تمام پیشگوئیوں سے منکر ہو گئے ہیں جو مسیح موعود کے متعلق پائی جاتی ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں کسی مسیح کی ضرورت نہیں- پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا تَفَرَّ قَا لَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتَابَ اِ لاَّ مِنْ بَعْدِ مَا جَآ ئَ تْھُمُ الْبَیِّنَۃُ- چاہیے تھا کہ قرآن کریم کے نازل ہونے پر وہ اُن تعلیموں پر غور کرتے جو محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم اُن کے سامنے پیش کر رہے ہیں- مگر ہوا یہ کہ جتنا حق وہ پہلے مانتے تھے اُس کو بھی انہوں نے چھوڑ دیا اور صداقت سے اَور بھی دُور چلے گئے-
وَمَٓا اُمِرُٓوْ اِ لاَّ لِیَعْبُدُو االلّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ۵حُنَفَآ ئَ وَیَقِیْمُو الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْ تُوا الذَّکٰوۃَ وَ ذَلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ oط
حالانکہ (جو لوگ ایمان نہیں لائے)انہیں ( اس رسول کے ذریعہ بس ) یہ ہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی اس طرح عبادت کریں کہ اطاعت صرف اُسی کے لئے رہ جائے ( اس حال میں کہ) وہ اپنے نیک میلانوں میںثابت قدم رہنے والے ہوں اور ( پھر صرف اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ) نماز با جماعت ادا کرتے رہیں اور زکوۃ دیں اور ( ہمیشہ صداقت پر ) قائم رہنے والی جماعت کا دین ہے- ۵؎
۶؎ حل لغات:
مُخْلِصِیْنَ : اَخَلَصَ سے اسم فاعل کا جمع کا صیغہ ہے اور اَخَلَصَ سے باب اِفْعَال ہے- خَلَصَ الشَّیْ ئُ خُلُوْ صََا وَ خَلَا صََا کے معنے ہیں صَا وَ خا لِصََا کوئی شے خالص ہو گئی- خالص کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جس میں کوئی غیر چیز ملی ہوئی نہ ہو اور جب خَلَصَ مِنَ التَّلَفِ کہا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں نَجَا بچ گیا وَسَلِمَ اور سلامت رہا- اور خَلَصَ الْمَآ ئُ مِنَ الْکَدَرِ کے معنے ہوتے ہیں صَفَاکے جو معنے ہیں وہ حقیقی نہیں یعنے جب خَلَصَ الْمَا ئُ مِنَ کَدْرِ کہتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ پانی میں کدر آتا ہی نہیں- اور خِلَصَ اِلَیْہِ وَ بِہِ الشَّیْ ئُ کے معنے ہوتے ہیں وَصَلَ وہ چیز اس تک پہنچ گئی - یعنی جب یہ کہیں کہ خَلَصَ فَلَا نٌّ اِلَیْہِ یا خَلَصَ فُلَا نٌّ بِہِ تو یہ دونوں کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ پہنچ گیا- انہی معنوں میں عربی زبان کا یہ فقرہ ہے کہ خَلَصْتُ بِمُسْتَوِیْ مِنَ الْاَ رْضِ میں سے میدان میں پہنچ گیا ( اقرب) اسی طرح اَخْلَصَ السَّمْنُ کے معنے ہوتے ہیں اَخَذَ خُلَا صَتَہٗ گھی کا خالص حصہ الگ کر لیا اور اَخْلَصَ فِیْ الطَّاعَۃِ کے معنے ہوتے ہیں تَرَکَ الّرِ یَائَ اُس نے دیاء چھوڑ دیا- اور اَخْلَصَ لَہُ النَّصِیْحَۃَ وَالحُبَّ کے معنے ہوتے ہیں خَلَـصَھُما عِنِ الْغِشِّ- اُس نے نصیحت اور محبت میںکسی قسم کا فریب یا کھوٹ نہیں رکھا- اور اَخْلَصَ الشَّیْ ئَ کے معنے ہوتے ہیں اِخْتَارَہٗ اس کو چُن لیا ( اقرب)
مفردات والے لکھتے ہیں اَلْخَا لِصُ کَا لصَّا فِیْ - خالص کے معنے بھی وہی ہوتے ہیں جو صافی کے ہوتے ہیں اِلاَّ اَنَّ الْخَالِصَ ھُوْ مَا زَالَ عَنْہُ شَوْبُہٗ بَعْدَ اَںْ کَانَ فِیْہِ ہاں خالص اور صافی میں یہ فرق ہے کہ خالص اُس کو کہتے ہیں جس میں ملاوٹ کو الگ کر لیا گیا ہو بَعْدَ اَنْ کَانَ فِیْہِ ایسی حالت میں جب کہ اُس کے اندر پہلے ملاوٹ موجود ہو- وَالصَّافِیْ قَدْ یُقَالُ لِمَا لَا شَوْبَ فِیْہُ اور صافی دونوں کے لئے بولا جاتا ہے اُس کے لئے بھی جس میں ملاوٹ کبھی ہوئی ہی نہیں پھر لکھتے ہیں کہ یہ قرآن مجید میں آتا ہے- وَنَحْنُ لَہٗ مُخلِصُوْنَ اس کا مطلب ہے اِخْلَاصُ الْمُسْلِمِیْنَ اَنَّھُمْ مِنَ التَّشْبِیْہِ وَ النَّصَارٰی مِنَ التَّثْلِیْثِ- ہم ہر شرک اور تشبیہ سے بچے ہوئے ہیں نہ شرک جلی کرتے ہیں اور نہ شرکِ خفی- اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن اس کے معنے بھی یہی ہیں نَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ کے ہیں- اور آیت اِنَّہٗ کَانَ مُخْلِصاً الخ میں اِخْلَاص کا مطلب ہے اَلتَّبَرِّیْ عَنْ مُخْلِصاً الخ میں اِخْلَا ص کے مطلب ہے اَلتَّبَرِّیْ عَنْ کُِلِّ مَا دُوْنِ اﷲِ تَعْالیٰ یعنی کامل توحید کے سوا ہر چیز
۱؎ ذٰلِکَ دِیْنَ القیمۃ کاجو حرف محذوف ہے یعنی الملۃ القیمہ یعنی قائم رہنے والی جماعت چونکہ مخدوف کو ظاہر کئے بغیر ترجمہ درست نہ ہوتا تھا اس نے مخدوف کو ظاہر کر دیا گیا-
جب انسان تبّری کر لے اور کہے کہ مَیں سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا تو وہ مخلص کہلاتا ہے-
اَلدِّیْنُ : وَانَ کا مصدر ہے اور دَانَ (یَدِیْنُ دِیْناً وَ دَ یَانَۃً ) الرُّجُلُ کے معنے ہیں عَزَّ- وہ عزت پا گیا- اور وَانَ الرُّجُلُ کے یہ بھی معنے ہیں کہ ذَلَّ وہ ذلیل ہو گیا ماتحت ہو گیا- اور دَانَ کے معنے اَطَاعَ کے بھی ہیں اور عَصَیٰ کے بھی ہیں گویا یہ حروفِ اضداد میں سے ہے یعنی اُلٹ معنے بھی اس میں پائے جاتے ہیں اس کے معنے اطاعت کے بھی ہیں اور اس کے معنے نا فرمانی کے بھی ہیں- اس طرف اس کے معنے عزت کے بھی ہیں اور ذلت کے بھی یا بڑے کے بھی ہیں اور چھوٹے کے بھی- اسی طرح اس کے معنے اطاعت کے بھی ہیں اور نا فرمانی کے بھی اور دَانَ کے یہ بھی معنے ہوتے ہیں کہ اِعْتَادَ وہ عادی ہو گیا- یہاں بھٰ اس کے معنے اپنے اندر اضداد کا رنگ رکھتے ہیں یعنی اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ اِعْتَادَ خَیْرًا وہ خیر کا عادی ہو گیا اور اس کے معنے ہیں کہ اِعْتَادَ شَرًّا وہ شر کا عادی ہو گا- اور دَانَ کے معنے بیمار ہوجانے کے بھی ہیں چنانچہ لُغت میں اس کے معنے یہ لکھے ہیں کہ اَصَا بَہُ الدَّائُ اُسے بیماری لگ گئی اور دَانَ فُلاَنُ فَلَانًا کیم معنے ہوتے ہیں خَدَمِہٗ اُس کی خدمت کی یعنی دوسرے کا خادم بن گیا اور دَانَ فُلانٌ کے معنے مَلِکُہٗ کے بھی ہیں یعنی اُس کا مالک ہو گیا اور دَانَ کے معنے حَمَلَہٗ عَلیٰ مَا یَکْرَ ہُ کے بھی ہوتے ہیں یعنی جس چیز کو وہ پسند نہیں کرتا اُس پر مجبور کیا اور دَانَ فُلانٌ کے معنے اِسْتَعْبُدَہٗ کے بھی ہوتے ہیں یعنی اس کو غلام بنا لیا اور یہ بھی معنے ہیں کہ حَکَمَ عَلَیْہِ اُس پر حکم چلایا- اور دَانَ فُلَانٌ کے معنے اَذَلَّہٗ کے بھی ہوتے ہیں یعنی اس کو اپنے ماتحت کر لیا چنانچہ حدیث میں آتاہے اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ - ہوشیار وہ ہے جس نے اپنے نفس کو تابع کرلیا اور موت کے بعد کے زمانہ کے لئے عمل کیا ( مفردات)
ان معنوں کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ دِیْنٌ جو مصدر ہے اس کے اُوپر کے مصدری معنوں کے علاوہ اور کیا معنے ہیں
۱ الدّین
لُغت میں دِیْنٌ کے کئی معنے لکھے جو نیچے لکھے ہیں درج کئے جاتے ہیں
(۱) اَلْجَزَائُ وَالْمُکَفَاۃُ- بدلہ (۲) الطَّاعَتُہ- اطاعت اور فرمانبرداری (۳) اَلْحِسَابُ - محاسبہ کرنا (۴) اَلْقُھْرْ وَالْغَلَبَۃُ وَ الاِسْتِعَلاَئُ - یہ تینوں الفاظ اعربی زبان میں غلبہ کا مفہوم ادا کرنیح کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور ان تینوں میں بہت تھوڑا تھوڑا فرق ہے- ( اَلسُّطَانُ وَ الْمُلْکَ وَ الْحُکَمْ- بادشاہت اور حکومت- اَ لسُِیْرۃُ طبیعت ( ۷) اَلتَّدَ بِیْرُ تدبیر کرنا- (۸) اِسْمٌ لِجَمِیْعِ مَا یُعْبَدُ بِہِ اﷲُ- دین نام ہے اُن تمام طریقوں کا جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے - مثلاً مسلمانوںمیںنمازپڑھنا- یا حج بیت اللہ کے لئے جانا اللہ تعالیٰ کی عبادت سمجھا جاتا ہے یہ طریق عبادت عربی زبان کے لحاظ سے دین کہلائے گا اسی طرح ہندوئوں کے طریق عبادت میں جو بھی شکل ہو وہ دین کہلائے گی عیسائیوں کے طریق عبادت میں جو بھی شکل ہو وہ دین کہلائے گی یہودیوں کے طریق عبادت میں جو بھی شکل ہو دہ دین کہلائے گی یہودیوں اور زرتشیوں وغرہ کے طریق عبادت میں جو بھی شکل ہو وہ دین کہلائے گی - گویا عبادت ِالہٰی خواہ کسی بھی طریق سے کی جائے اُس کا نام دین ہوتا ہے- (۹) اِلْمِلَّۃُ - طریقہ (۱۰)اَلْوَرَعُ بزرگانہ اعمال جن سے روحانیت کو ترقی حاصل ہوتی ہے- (۱۱)اَلْحَالُ - حال (۱۲)اَلْقَضَائُ- فیصلہ(۱۳)اَلْعَادَۃُ- عادت (۱۴)اَلشّانُ اس کے معنے بھی حالت کے ہی ہوتے ہیں مگر اچھی حالت کے- قرآن کریم میں بھی شانؔ کا لفظ استعمال ہوا ہے- جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کُلٌّ یُوْمٍ حُوَفِیْ شَاْنٍ (الرحمن ع ۲،۱۲) کہ ہر روز اللہ تعالیٰ ایک نئی شان میں ہوتا ہے-
حُنَفآ ئَ۲
حُنَفآ ئَ:حَنِیْفٌ کے جمع ہے جو حَنَفَ سے صفت مشبہ ہے اورحَنَفَ الشَّيْ ئُ حَنْفاً کے منعے ہوتے ہیں مَالَ کوئی چیز اپنی جگہ سے جُھک گئی اور حُنِیْفٌ کے معنے ہیں اَلصَّحِیْعُ الْمَیْلِ اِلیَ الْاِسْلَامِ الثَّابِتُ عَلَیْہِ - خدا تالیٰ کی اطاعت اورفرمانبرادری کے طرف سچا ذوق اور اُس پر ثابت قدمی گویا اس کے صرف اتنے معنے نہیں کہ انسان کے اندر نیکی کی طرف میلان پایا جائے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اُسے کی نیکی پر ثبات حاصل ہو- اور اُس کے اندر استقلال کامادہ پایا جاتا ہو- محاورہ میں کُلٌّ مَنْ کَانَ عَلیٰ دِیْنِ اِبْرَاھِیْمَ کے معنوں میں حنیف کا لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی ہر وہ شخص جو دینِ ابراہیم پر ہو محاورہ میں اُسے حنیف کہا جاتا ہے اور جماسی کا قول ہے کہ اَلْحَنِیْفُ اَلْمَائِلُ عَنْ دِیْنٍ اِلیٰ دِیْنِِ- یعنی ایک دین سے دوسرے دین کی طرف جو شخص مائل ہوا اُسے حنیف کہتے ہیں وَاَصْلُہٗ مِنَ الْحَنَفِ فِی الرِّجْلِ اور اصل میں وہ کجی جو کسی بیماری یا چوٹ کے نتیجہ میں بعض دفعہ انسانی پائوں میں واقع ہو جاتی ہے اُس پر یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے- مگر پھر اسی بناء پر جو شخص اپنے جدّی دین کو بدلنے کی طرف مائل ہو جائے اُسے بھی حنیف کہہ دیا جاتا ہے وَفِی الْکُلِّیَّاتِ فِیْ کُلِّ مَوْ ضِعٍ مِنَ الْقُرْاٰنِ اَلْحَنِیْفُ مَعَ الْمُسْلِمِ فَھُوَ الْحَآجُّ نَحْوَ وَلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمََا- کلیاتِ ابو البقاء میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں بھی حنیف کا لفظ مسلم کے لفظ کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے وہاں اس کے معنے حاجی کے ہوتے ہیں جیسے کَانَ حَنِیْفََا مُسْلِمََا کے یہ معنے ہوتے ہیں کَانَ حٓا جّاً مُسْلِمًا وہ حج کرنے والا مسلم تھا- وَ فِیْ کُلِّ مَوْ ضِعٍ ذُکِرَ وَحْدَہٗ فَھُوَا لْمُسْلِمُ نَحْوَ حَنِیْفاً لِلّٰہِ اور ہر موقع پر جہاں اکیلا یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے وہاں اس کے معنے مسلم کے ہوتے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے َ حَنِیْفاً لِلّٰہِ یعنی مُسْلِمًا لِلّٰہِ پھر لکھا ہے وَالْحَنِیْفُ اَیْضاً: اَلْمُسْتَقِیْمُ یعنی حنیف کے ایک معنے سیدھے راستہ پر چلنے والا کے بھی ہوتے ہیں ( اقرب)
کلیات نے جو یہ معنے کئے یہں جہاں حنیف کالفظ مسلم کے ساتھ استعمال ہووہاں اس کے معنے حاجی کے ہوتے ہیں یہ محض زبردستی ہے- جہاں تک میں نے آیات قرآنیہ پر غور کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ قرآنی محاورہ کے مطابق حنیف اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو سارے نبیوں کو ماننے والا ہو اور شرک کا کسی رنگ میں ارتکاب کرنے والا نہ ہو- قرآن کریم کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن دونوں میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی اُس شخص کو بھی حنیف کہا گیا ہے جو شرک سے کامل طورپر مجتنب ہو- گویا حُنَفَائَ وہ ہیں جو سارے نبیوں کو ماننے والے اورکسی سچائی کا انکار کرنیوالے نہ ہوں اور مشرک نہ ہوں ان میں ایک معنے مثبت کے لحاظ سے ہیں ار ایک معنے منفی کے لحاظ سے- سارے نبیوں کو ماننا مثبت پہلو ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات اور اُس کے صفات میں کسی کو شرک نہ ٹھہرانا یہ منفی پہلو ہے غرض میرے نزدیک قران کریم میں جہاں کَانَ حَنِیْفاً مُسْلِمًا کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہاں حنیف کالفظ حاجی کے معنوں میں نہیں بلکہ تمام انبیاء پر ایمان رکھنے والے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور مسلم کا لفظ اعمالِ صحیحہ کو بجا لانے والے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے درحقیقت قرآن کریم پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں اسلام کالفظ دو معنوں کے لحاظ سے استعمال ہوتا ہے کہ اُس میں اسلام بمعنے ظاہر بھی اور اسلام بمعنے اعمالِ صحیحہ بھی- پس قرآن کریم میں جہاں حنیف اور مسلم کے الفاظ اکٹھے استعمال ہوئے ہیں وہاں میرے نزدیک اس کے معنے یہ ہیں کہ عقیدہ میں بھی راسخ اور عمل میں بھی کامل- گویا ساری صداقتوں کو ماننے والا اور پھرتمانیک باتوںپر عمل کرنے والا-
تفسیر- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَآ اُمِرُٓوْا الاَّ لِیَیْبُدُوْاﷲَ- اور اُن کو کوئی حکم نہیں دیا گیا سوائے اس کے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ- دین کو اُسی کے لئے خالص کرتے ہوئے دین کے ایک معنے جیسا کہ اُوپر بتایا جا چکا ہے اطاعت کے ہوتے ہیں اور یہاں کے علاوہ دوسرے معنوں کے جن کے تفصیل آگے بیان کی جا ئے گی ایک یہ معنے بھی چسپاں ہوتے ہیں کہ وہ اپنی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خالص کردیں یعنی اُن کے پیر - اُن کے پنڈت اُن کے پادری- ان کے کاہن- اُن کے راہب اور اُن کے بڑے برے عالم اُن سے اپنی غلامی کرا رہے تھے اور اس طرح دنیا میں انسانیت کی انتہائی تذلیل ہو رہی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر یہ نہیں کیا کہ اُنہیں اپنی غلامی کی طرف بلوایا ہو یا کہا ہو کہ اپنے پنڈتوں اور پادریوں اور مولویوں کو چھوڑ کر تم میرے غلام بن جائو بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو صرف اتنا کہا کہ تم اِن غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر خالص اللہ کے غلام بن جائو- یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر اُن کو غصّہ آتا یا اُن کی طبائع میں اشتعال پیدا ہو جاتا- اُنہی کی بہبودی کے لئے محبت اور پیار کے ساتھ اُنکے سامنے ایک بات پیش کی گئی تھی مگر بجائے اس کے کہ وہ اس پر غور کرتے اور اپنے نیک تغّیر پیدا کرتے اُنہیں غصہ آ گیا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر قسم کی تدابیر سے کام لینے لگ گئے- دنیا میں جب کوئی شخص کے فائدہ کی بات کہتا ہے تو دوسرا ممنون احسان ہوتا ہے کہ میں غلطی میں مبتلا تھا مگر فلاں نے مجھے آگاہ کر کے ہلاکت سے بچالیا- مگر ان نادانوں کی یہ حالت ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے جب آ کر کہا کہ آئو میں تمہیں اُس غلامی سے نجات دُوں جس کا تم مدّتوں سے شکار ہوچکے ہو- وہ اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ اﷲِ جو تم نے بنائے ہوئے ہیں اُن سے تمہارے جسموں اور رُوحوں کو آزاد کرائوںَ تم اپنے پیروں کو سجدہ کرتے ہو، تم اُن کے پائوں کو ہاتھ لگاتے ہو، تم اُن کو اپنی حاجات کا پورا کرنے والا سمجھتے ہو اور اس طرح نہ صرف انسانیت کے شرف اور اُس کی عظمت کو بٹّہ لگاتے ہو- بلکہ اُس خدا کی بھی توہین کرتے ہو- جو تمہارا خالق اور مالک ہے - مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث فرمایا ہے کہ میں تمہیں خالص اللہ تعالیٰ کا غلام بنا دُوں تو بجائے اس کے کہ وہ نصیحت سے فائدہ اُٹھاتے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ڈنڈے لے کر کھڑے ہو گئے کہ تم دین کو خراب کرتے ہو-
وَمَا اُمِرُوْ کے معنے بعض نے یہ کئے ہیں کہ ان لوگوں کی کتب میں ہی حکم دیا گیا تھا مگر اس جگہ یہ معنے چسپاں نہیں ہوتے اِن الفاظ سے اِس جگہ یہ مراد ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیم پیش کی اُس میں سوائے اس کے کیا حکم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور خالص اُسی کی اطاعت کرو اور اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اﷲِ کی غلامی ترک کر دو- کیا یہ حکم ایسا تھا کہ وُہ بُرا مناتے یا ایسا تھا کہ وہ اس پر خوش ہوتے اور دوڑتے ہوئے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو جاتے؟ اس حکم کے ذریعہ عیسائیوں کو اپنے پادریوں سے آزادی حاصل ہو رہی تھی اور مشرکین کو اپنے کاہنوں سے آزادی حاصل ہو رہی تھی مگر بجائے اس کے کہ وہ خوش ہوتے اُلٹا ناراض ہو گئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو کچلنے کے لیے کھڑے ہو گئے-
درحقیقت اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبوت کی ضرورت
نبوت کی ضرورت ۲
بتائی ہے کہ جب تمہارے عقلی اور ذہنی قویٰ میں اس درجہ انحطاط رُونما ہو چکا ہے کہ تم یہ بھی سمجھ نہیں سکتے کہ تمہارا اپنا فائدہ کس بات میں ہے تو اگر ایسی گری ہوئی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری اصلاح کے لئے کوئی نبی نہیں آئے گا تو کب آئے گا-نبی آنے کا وہی وقت ہوتا ہے جب قومی تنزّل اِس قدر بڑھ چکا ہوتا ہے- کہ لوگوں کو بُرے بھلے کی بھی تمیز نہیں رہتی- ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبِرِّ وَ الْبَحَرِ ( الروم ع ۵،۸) کی کیفیت دنیا میں پورے طور پر رُونما ہو جاتی ہے اور رُوحانی اور اخلاقی قوتیں بالکل مردہ ہو جاتی ہیں- مگر باوجود اس قدر تنزل اور ادبار کے وہ سمجھتے یہ ہیں کہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت نہیں- پس فرماتا ہے جب تمہاری حالت یہ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اگر تمہارے فائدہ کی بھی کوئی بات کرتے ہیں تو تم اُن سے لڑنے لگ جاتے ہو- تو یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نبی کے آنے کی اشدضرورت ہے اگر اب بھی نبی نہ آتا تو تم لوگ بالکل تباہ ہو جاتے- پس وَمَآ اُمِرُوْ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْاﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے ایک معنی یہ ہیں کہ اُنہیں سوائے اس کے کیا حکم دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے دین کو خالص کر و- یعنی اس سے پہلے یہ اقوام رہبان اور کہان اور اساقف کی غلامی کر رہی تھیں، امراء کی فرمانبرداری میں جانیں گنوا رہی تھیں- اسلام نے آ کر انہیں نجات دی مگر بجائے شکر گزار ہونے کے اَور دُور چلے گئے اور اپنے محسن سے لڑنا شروع کر دیا-
اب میں تفصیل کے ساتھ ان معنوں کے لحاظ سے جن کو اُوپر بیان کیا گیا ہے اِس آیت کا الگ الگ مفہوم بیان کرتا ہوں-
مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کا مطلب مختلف معانی کے مطابق جو لُغت بتائے گئے ہیں یہ ہوا کہ اُنہیں صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ
اوّل ااطاعت اللہ تعالیٰ کی کریں ( کیونکہ دِیْن کے ایک معنے اطاعت کے بھی ہیں) دوسروں کی اطاعت کا اِس میں کوئی شائبہ نہ ہو- اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی اطاعت جائز نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ
(الف) خداتعالیٰ کی اطاعت بندوں کی خاطر نہ کریں بلکہ خداتعالیٰ کے لئے اپنی اطاعت کو خالص کر دیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت خدا ہی کی خاطر کریں بندوں کی خاطر نہ کریں- دُنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی اطاعتِ الہٰی محض لوگوں کے ڈر سے ہوتی ہے -
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے پہلے معنے خداتعالیٰ کی اطاعت خدا تعالیٰ کی خاطر کرنا-
وہ احکام الہٰی پر اس لئے عمل نہیں کرتے کہ خدا یوں فرماتا بلکہ اس لئے اُن پر عمل کرتے ہیں کہ اُن کی قوم یا رسم یا رسم و رواج اس کا مطالبہ کرتا ہے مثلاً عیسائی گرجے جاتا ہے اِس لئے نہیں کہ خدا نے حکم دیا ہے بلکہ اس لئے کہ اگروہ گرجے میں نہ جائے تو اُس کی قوم برا مناتی ہے یا اگر یہودی اپنی عبادت گاہ میں جاتا ہے یا ہندو مندر جاتا ہے یا مسلمان مسجد میں جاتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اُس کا عبادت گاہ میں جانا یامندر میں جانا یا مسجد میں جانا اس لئے جانا نہیں ہوتا ہے کہ خدا کا حکم ہے عبادت کرو بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ اُس کی قوم اُس سے یہ امید رکھتی ہے - اِسی طرح بہت سے احکام پر انسان رواجاً عمل کرتا ہے یا اپنی نسانی خواہش کے مطابق عمل کرتا ہے مثلاً خدا نے کہا ہے کہ کمزور پر رحم کرو اور اپنے ساتھ تعاون کرنے والے کو نیک بد لہ دو- یہ دونوں حکم ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں اور ان دونوں حکموں کے ماتحت بچوں سے نیک سلوک اور بیویوں سے حُسن معاملت یا دوستوں کے ساتھ نیک معاملہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے - مگر کتنے لوگ ہیں جو اس لئے اپنی دوست کے ساتھ نیک معاملہ کرتے ہیں یا بچوں کی تربیت کرتے ہیں- یا عورتوں سے حسنِ معاملہ کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے اکثر لوگ یا تو طبعی جذبات کے ماتحت ایسا کرتے ہیں یا دوسرے لوگوں کو نیک رائے حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں- اسی طرح غریبوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے - یا یتیموں اور بیوائوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم یا گیا ہے ہر مذہب میں ہے مگر کتنے عیسائی یا یہودی یا ہندو یا آج کل کے مسلمان ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ایسا کرتے ہیں اکثر ایسے ہی ہیں جو لوگوں میں نیک نامی حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں جب تک انسان اس مرض میں مبتلا ہوتا اور جتنا جتنا حصہ اس مرض میں مبتلا رہتا ہے اُس وقت تک اور اُسی حد تک اُس کا دین ناقص ہوتا ہے کیونکہ اُس کادل روز مرہ کے کاموں میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلکہ دوسرے لوگوں کی طرف جھکا رہتا ہے اور وہ حقیقی محبت جو انابت الی اللہ سے پیدا ہوتی ہے اُس کے دل میں پیدا نہیں ہوتی- اور پھر وہ سمجھے نہ سمجھے، مانے نہ مانے مشرک بھی ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کاحصّہ لوگوںکو دیتا ہے- اِسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے مُنہ میں بھی ایک لقمہ اِیْمَاناً وَ اِحْتِسَاباً ڈالتا ہے تو وہ ایک لقمہ ڈالنا خدا تعالیٰ کی کتاب میں اُس کے لئے صدقہ کے طور پر لکھا جاتا ہے بیوی الگ خوش ہوگئی، اُس کی محبت کا جذبہ الگ پورا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کے رجسٹر میں اُس کا نام نیک اعمال بجالانے والوں میں لکھا گیا- یہی اصل تمام دوسرے کاموں پر بھی چسپاں ہوتا ہے- اسلام دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کا حکم دیتا ہے خدا ہی کا ہو جانے کی تعلیم دیتا ہے لیکن اکثر لوگ دنیوی کام کرنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں پھر یہ حکم کس طرح پورا ہو سکتا ہے؟ اُسی طریق سے جس کی طرف رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے اُوپر کے حکم میں اشارہ فرمایا ہے- یعنی اپنے دینوی کاموں کو بھی خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اُس کی خوشنودی کے لئے کرے- اِس طرح اس کا ہر کام عبادت بن جائے اور جبکہ وہ ظاہر میں دنیا کا کام کرتا ہوا نظر آئے گا اس کا ہر کام عبادت ہو جائیگا یہی نکتہ تصوف کی جان ہے اور تصوف کی بنیاد کلی طور پر اسی نکتہ پر کھڑی ہے اس پر عمل کر کے انسان روحانیت کی اعلیٰ منازل کو آسانی سے طے کرسکتا ہے اور لحظہ بہ لحظہ خدا تعالیٰ کے قرب میں ترقی کر سکتا ہے-
(باء) دوسرا مفہوم اِن معنوں کے رُو سے اس کا یہ ہے کہ بندوں کی اطاعت خداتعالیٰ کے لئے کریں- پہلا مفہوم تو یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت بندوں کی خاطر نہ کریںاور دوسرا مفہوم یہ بنے گا کہ بندوں کی اطاعت خدا تعالیٰ کے لئے کریں پہلے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم یہ تھا کہ مُخْلِصِیْنَ لِلّٰہِ اِطَاعَۃَ اﷲِ-اور دوسرے پہلو کے لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ مُخْلِصِیْنَ لِلّٰہِ اِطَاعَۃَ الْعِبَادِ- یعنی اللہ تعالیٰ نے بندوں کی اطاعت ہر صورت میں نا جائز نہیں کی بلکہ بعض دفعہ خود حکم دیا ہے کہ اُن کی اطاعت کرو جیسا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- اَطِیْعُو اللّٰہَ وَ اَطِیْعُو االرَّسُوْلَ وَاُولیِ الْاَمْرِمِنْکُمْ ( النساء ع ۵،۸) اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اُس کے رسول کی اطاعت کرو اور اُولی کی اطاعت کرو پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اولی الا مر کی اطاعت بھی ضروری قرار دی گئی ہے لیکن شرط رکھ ہے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن جب تم بندوں کی اطاعت کرو تو خدا کی وجہ سے کرو یعنی مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ اُسی حد تک اور اُسی شخص یا اُسی قوم کی اطاعت کریں جس حد تک اور جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب لوگوں نے ٹیکس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ قیصر کی چیز قیصر کو دو اور خدا تعالیٰ کی چیز خدا تعالیٰ کی دو- اِس کا یہی مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ کی خالص اطاعت کے یہ معنے نہیں کہ دوسرے کسی کا اطاعت جائز نہیں بلکہ جس حد تک اور جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اُس حد تک اور اُس شخص کی اطاعت کرنا- اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایسا کیاجائے تو خدا تعالیٰ ہی کی اطاعت کہلاتا ہے- پس اللہ تعالیٰ کے لئے اطاعت کو خالص کرنے کے معنے یہ ہیں کہ انسان جب خدا تعالیٰ کی اطاعت کرے تو بندوں کی خاطر نہ کرے اور جب بندوں کی اطاعت کرے تو خدا تعالیٰ کی خاطر کرے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ انگریزوں
۱؎ بندوں کی اطاعت خدا تعالیٰ کی خاطر کرنا
کے مطیع تھے حالانکہ آپ جس حد تک بھی انگریزی حکومت کی اطاعت کرتے تھے اس لئے انگریز کی اطاعت میں آپ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرتے تھے- چونکہ اللہ تعالیٰ حاکمِ وقت کی اطاعت کا حکم دیا ہے یا اُس کے ملک سے نکل جانے کا - اس لئے اگر آپ ایسا نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکلنے والے قرار پاتے- مگر جو لوگ یہ سمجھتے ہوئے انگریز کی اطاعت جائز نہیں پھر انگریزوں کے ملک میں رہتے ہیں - اور اُن کے قانون کی پابندی کرتے ہیں اُن کا یک ایک منٹ گناہ میں گذر رہا ہے - کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہوئے کہ انگریز کی اطاعت جائز نہیں پھر انگریز کی اطاعت کرتے ہی حالانکہ اگر اُن کا عقیدہ صحیح ہے تو انہیں انگریزوں کی حکومت سے فوراً باہر نکل آنا جانا چاہیے تھا-
(۲) دوسرے معنے دِیْن کے جو اس جگہ لگتے ہیں قہر اور غلبہ اور استعلاء کے ہیں اِن
۲؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے دوسرے معنے کہ غلبہ اور استعلاء ملنے کے بعد اس کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کر دیں-
معنوں کے رُو سے سے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مخاطبین رسو ل کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے صرف اتنا مطالبہ کیا گیا تھا کہ غلبہ اور استعلاء تم کو ملے تو اس غلبہ اور استعلاء کو اللہ تعالیٰ ہی کے لئے وقف کر دیا کرو کیونکہ غلبہ اور استعلاء اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلِ اللّٰھُمَّ مَالِکِ تُؤ تِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآ ئُ وَ تَنْذِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآ ئُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ ( آل عمران ع ۳،۱۱)
یعنی جب غلبہ اور استعلاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے تو اُسے اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خرچ کرنا چاہیے نہ کہ اپنے نفس کی بڑائی اور تکبر اور ظلم اور دوسروں کو اپنی غلامی میں لانے کے لئے- اِسی حکم کے نہ سمجھنے اور نہ ماننے کی وجہ سے تمام سیاسی نظام تباہ ہوتے ہیں- لوگ غلبہ کے وقت خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں اور غلبہ دینے کی غرض کو بھول جاتے ہیں اور اُن پر ظلم کرنے لگ جاتے ہیں - جب کبھی کوئی قوم دنیا پر غالب ہوئی اُس نے خداتعالیٰ کو بھلا دیا اور اُس کے بندوں کے حقوق کو بھی جنہیں ادا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اُسے غلبہ دیا تھا بھلا دیا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ بادشاہت کے بعد بھی کبھی اپنے آپ کو بادشاہ نہیں سمجھا اور کسی بادشاہ کو نہیں کہنے دیا- جس طرح اللہ تعالیٰ کا بندہ اپنے آپ کو غلبہ سے پہلے سمجھتے تھے اسی طرح غلبہ کے ملنے کے بعد وہی نمازیں رہیں، وہی روزے رہے، وہی ذکر الہٰی رہا بلکہ ار کوئی فرق پڑا تو کہی کہ فِاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ جب دینوی جنگوں اور لڑائیوں میں کمی آئے تو خد تعالیٰ کی عبادت اور اور زیادہ بڑھ جائو- اِسی طرح غلبہ ملنے سے پہلے جس طرح آپ اپنے آپ کو بندوںکا خادم سمجھتے رہے اِسی طرح غلبہ ملنے کے بعد بھی آپ اپنے آپ کو خادم سمجھتے رہے اور جوانی کی عمر میں مکّہ میں جب آپ کے پاس کچھ نہ تھا تب بھی غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کی مدد اپنے ہاتھ سے کرتے تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت خدیجہؓ کی دولت عطا فرما دی- یعنی شادی کے بعد حضرت خدیجہؓ نے اپنا سارا مال آپ کے سپرد کر دیا تو آپ نے یہ نہیں کیا کہ اُس مال کو اپنی ذات پر استعمال کرلیں- آپ نے یہ نہیں سمجھا کہ میری بیوی نے یہ مال مجھے دیا ہے تو اب میں یہ مال اُسے کے آرام اور آسائش کے لئے خرچ کر دوں اور اس مال کو غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرناشروع کر دیا- جب آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے حکومت عطا فرمائی اور عرب اور اُس کی تمام اقوام کو آپ کے تابع کر دیا اور عرب کاتما ٹیکس اور جزیہ آپ کے ہاتھوں میں آنے لگا تببھی آپ نے اُس سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اُٹھایا اور وفات کے وقت جب کہ آپ نے آخری وصیت اپنی قوم کو یہی فرمائی کہ میں تمہیں عورتوں اور کمزوروں سے نیک سلوک کے بارہ میں آخری نصیحت کرتا ہوں اور وفات کے وقت سخت کرب اور تکلیف کی حالت میں آپ بار بار فرماتے تھے کہ خدا یہوونصاریٰ پر *** کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا- یہ سخت الفاظ اتنے یہودونصاریٰ کی نسبت نہیں تھے جتنا اِن میں اس طرف اشار ہ تھا کہ اگر میری قوم نے بھی میری قبر کو عبادت گاہ بنایا تو صرف خدا تعالیٰ کی *** اُن پر نہیں پڑے گی بلکہ میری *** بھی اُس کے ساتھ شامل ہو گی-
غرض غلبہ کے وقت بھی آپ نے نہ خدا تعالیٰ کے حق کو تلف کیا اور نہ بندوں کے حقوق کو تلف ہونے دیا- اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍّ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَدٍ وَّبَارکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ-
آپ کے صحابہؓ نے بھی اس تعلیم پر اعلیٰ سے اعلیٰ عمل کر کے دکھایا- خلفاء راجہ حقوق العباد کے ادا کرنے کی ایک بینقیر مثال گذرے ہیں- ایک طرف خدا تعالیٰ کو انہوں نے مضبوطی سے پکڑے رکھا اور دوسری طرف بندوں کے حقوق بھی خوب ادا کئے ایسے کہ اس کی مثال دنیا میںنہیں ملتی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ وہ بادشاہ نہ تھے پریذیڈنٹ تھے مگر پہلا سوال تو یہ ہے کہ اُنہیں پریذیڈنٹ بننے پر مجبور کس نے کیا؟ آخر یہ عہدہ اُن کو اسلام نے ہی دیا اور اس عہدہ کی حیثیت کو انہوں نے اسلامی احکام کے ماتحت ہی قائم رکھا مگر یہ بات بھی تو نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ خواہ اُنہیں پریذیڈنٹ ہی قرار دیا جائے مگر اُن کا انتخاب ساری عمر کے لئے ہوتا تھا نہ کہ تین یا چار سال کے لئے- جیسا کہ ڈیما کریسی کے پریذیڈنٹوں کا آج کل انتخاب ہوتا ہے یقیقناً اگر ان کو صرف صدر جمہوریت کا ہی عہدہ دیا جائے تو بھی یہ بات علم النفس کے ماتحت اور سیاسی اصول کے تحت ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ تین چار سال کے لئے چنے جانے والے صدر اور ساری عمر کے لیے چُنے جانے والے صدر میں بہت بڑا فرق ہوتا ہیہ - تین چار سال کے لئے چنے جانے والے صدر کے سامنے وہ دن ہوتے جب وہ اس عہدہ سے الگ کر دیا جائے گا اور پھر ایک معمولی حیثیت کا انسان بن جائے گا لیکن ساری عمر کے لئے چُناجانے والا صدر جانتا ہے کہ اب اس مقام سے اُترنے کا کوئی امکان نہیں اور اُس کے اہل ملک بھی جانتے ہیں کہ اس حیثیت کے سوا اور کسی حیثیت میں اب وہ اُن کے سامنے نہیں آئے گا- پس جس شان و شوکت کا وہ مستحق سمجھا جا سکتا مگر اس ڈیماکریسی اور جمہوریت کیزمانہ میں سہ سالہ اور چار سالہ میعاد کے لئے چُنے وانے والے صدروں کی زندگیوں کو دیکھ لو ملک کا کتنا روپیہ اُن پر صرف ہوتا ہے- صدر جمہوریت امریکہ پر ہر سال جو روپیہ خرچ ہوتا ہے انگلستان کے بادشاہ پر بھی اتنا خرچ نہیں ہوتا- مگر اس کے مقابل میں خلفاء رابعہ کس طرح پبلک کے روپیہ کی حفاظت کرتے تھے وہ ایک تاریخی امر ہے کہ اپنے اور بیگانے اُس سے واقف ہیں صرف نہایت ہی قلیل رقوم اُنہیں گذارے کے لئے ملتی تھیں اور خود اپنی جائیدادوں کو بھی وہ بنی نوع انسان کے لئے خرچ کرتے رہتے تھے- حضرت عثمانؓ اُن خلفاء میں سے ہیں جن پر اپنوں اور بیگانوں نے بہت سے اعتراضات کئے ہیں جب اُن کی عمر کے آخری حصہ میں کچھ لوگوں کے بغاوت کی اور اُن کے خلاف کئی قسم کے اعتراضات کئے تو اُن میں سے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ انہوں نے بہت سے روپے فلاں فلاں اشخاص کو دئے ہیں- حضرت عثمانؓ نے اس کا جواب دیا کہ اسلام کے خزانہ پر سب ہی مسلمانوں کا حق ہے اگر میں قومی خزانہ سے ان لوگوں کو دیتا تو بھی کوئی اعتراج کی بات نہ تھی مگر تم قومی رجسٹروں کو دیکھ لو میں اُن کو قومی خزانہ سے روپیہ نہیں دیا بلکہ اپنی ذاتی جائیداد میں سے دیا ہے گویا اُن کی ذاتی جائیداد قومی خزانہ کے لئے ایک منبعِ آمد تھی- پس ان لوگوں نے اپنے غلبہ استعلاء کو محض خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کیا نہ کہ اپنی شان بڑھانے کے لئے- اور یہی وہ چیز ہے جو قوموں کو دوام بخشتی ہے اگر مسلماں اس تعلیم پر عمل کرتے تو کبھی زوال کا مُنہ نہ دیکھتے-
(۳) تیسرے معنے دِیْن کے جو یہاں لگتے ہیں ملک و حکم کے ہیں- ان معنوں کے رُو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ ہم نے یہی حکم دیا تھا کہ حکم اللہ تعالیٰ کے لئے رہے- جو وہ کہتا ہے اُسے جاری کیا جائے جس سے وہ روکتا ہے اُس سے رُکا جائے اپنی نفسانی خواہشات اور ارادوں کو شریعت میں دخل انداز نہ ہونے دیا جائے- اسلام جس وقت نازل ہواہے- اس موٹی صداقت کا بڑی بُری طرح سے انکار کیاجاتا رہا تھا- ہر شخص جو اس بات کو مانتا ہے کہ خد اتعالیٰ کی طرف سے کوئی کلام اُس کی قوم کی ہدایت کے لئے آیا اُسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰا کی طرف سے آنے والے ایسے کلام کو کلی طور پر انسانی دستبرد سے محفوظ رکھنا چاہیے - لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام جس وقت نازل ہوا ہے ہر قوم نے اپنی شریعت کی چار کو پارہ پارہ کر دیا تھا اور خدا تعالیٰ کے دین کا یک تولہ اُن کے خیالات کے منوں میں باقی رہ گیا تھا اب تک جو برا حال ان شریعتوں کا ہو رہا ہے وہ عبرت کے لئے کافی ہے مسیح ؑجن کی ساری عمر کی کمائی صرف اتنا فقرہ ہے کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے اس تعلیم کی مسیحیوں نے کتنی مٹی پلید گی ہے- اگر مسیحی حکومتوں کے دشمنوں نے ڈائنامیٹ کے بمپ اُن کے علاقوں پر پھینکے ہیں تو انہوں نے صبر نہیں کیا جب تک اٹومک بمپ ایجاد نہیں کر لیا-
پھر یہ سب امور شریعت کے مطابق بتائے جاتے ہیں- حال ہی میں انگلستان کے گرجوں کے سب سے بڑے پادری نے اپنے ایک ماتحت پادری کے مُنہ پر یہ کہہ کر تھپّر مارا کہ اٹومک بمب بھی خدائی نشانوں میں سے ایک نشان ہے کیونکہ ایک ماتحت پادری نے کہا تھا کہ میری فطرت اس بمب کے استعمال سے حاصل کی ہوئی فتح پر گرجے میں خوشی منانے پر طیار نہیں- مگر مسیحیت نے موسوی شریعت کو سرتاپا *** بنا کر چھوڑا- یہی حال دوسری کتابوں کا ہے کہ اُن کے اندر بھی اس قدرتحریف اور تبدیلی کر دی گئی ہے اور اس قدر انسانی خیالات اُن میںملاوے گئے ہیں کہ اُن کی شکل مسخ ہو گئی ہے- آج ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر موسیٰؑ عیسیٰؑ - کرشن ؑ اور زرتشتؑ دنیا میں آئیںتو وہ قرآن کریم کی طرف دوڑیں گے یہ ہماری ہی تعلیم ہے جسے
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے تیسرے معنے
زیادہ جلا دیدیا گیا ہے- اور جو تعلیمات اُن کی طرف منسوب کی جاتی ہیں وہ اُن کے پاس ہے مُنہ موڑ کر گذر جائیں گے کہ یہ گندی تعلیمیں معلوم نہیں کس نے دنیا میں پھیلا دیں-
اسلام زیر تفسیر آیت کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کے سامنے پر زور احتجاج کرتا ہے کہ شریعت کے بارہ میں انسانی وسعت اندازی کے سلسلہ کو بند کیا جائے
۲؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کیپانچویںمعنے
وَمَآ اُمِرُوْ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْاﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن اور خدا تعالیٰ کے کلام میں دخل اندازی نہ کی جائے- اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان بھی بعد کے زمانہ میں بگڑے اور بہت بگڑے مگر انہوں نے اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کی اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی مدد اور اُس کے منشاء کے ماتحت آج بھی محفوظ ہے- بے شک فقہ میں مسلمانوں نے بھی خوب کتر بیونت کی مگر خدا کا کلام چونکہ محفوظ ہے اِس لئے اس کتر بیونت سے مستقل نقصان اسلام کو نہ پہنچا ہے اور نہ پہنچ سکتا ہے-
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے چوتھے معنے
(۴) چوتھے دین کے جویہاں لگ سکتے ہیں سیرۃ کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اُنہیں صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریںاپنی سیرۃ کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے یعنی اپنی سیرت کے بنانے میں کسی اورکو شریک نہ کرو بلکہ اپنے اخلاق کلی طور پر اللہ تعالیٰ کی صفات کے مطابق بنائو- گویا وہ حدیث جو رواہ کے لحاظ سے ایسی مضبوط نہیں سمجھی جاتی جیسی دوسری حدیثیں ہیں تَخَلَّقُوْ بِاَ خْلَاقِ اﷲِ کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرو، اِس آیت کے رو سے بالکل درست ثابت ہوتی اور مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے معنے یہ بنتے ہیں کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ السِّیْرَۃَ - اپنی سیرت خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کر دو یعنی جب تک الہٰی صفات کے اور کسی اور کا عکس اُس پر نہ پڑے جس طرح خدا تعالیٰ رب ہے تم بھی رب بنو جس طرح وہ رحمان ہے تم بھی رحمان بنو- جس طرح وہ رحمان ہے تم بھی رحمان بنو- جس طرح وہ رحیم ہے تم بھی رحیم بنو جس طرح وہ مالک یوم الدّین ہے تم بھی اندھے قاضی نہ بنو- بلکہ مالک یوم الدّین بنو- اصلاح اور درستی اصل غرض تمہارے سامنے ہے- خدا تعالیٰ کی طرح رازق بنو- غفار بنو ستار بنو- نیک باتوں اور قوموں اور مُردون کے لئے محی بنو اور بری باتوں اور برے افراد کے لیے ممیت بنو- اسی طرح حفیظ بنو سباسط بنو- قیوم بنو وغیرہ وغیرہ-
(۵) پانچویں معنے دِیْن کے جو یہاں چسپاں ہوتے ہیں تدبیر کے ہیں- ہر فرد دنیا میں کچھ نہ کچھ جدّو جہد کرتا ہے اور ہر فرد سے میری مراد ہر معقول فرد ہے- ورنہ دنیا میںایسے احمق بھی ہوتے ہیںجو سونے اور کھانے پینے میں ہی اپنی عمر میں گذار دیتے ہیںوہ درحقیقت انسانیت کے دائرہ میں ہی شمار نہیں کئے جا سکتے- ہر شریف انسان کچھ جدّوجہد کرتا ہے- اور ہر زندہ دل انسان کسی نہ کسی فن کی رغبت رکھتا ہے کسی کو سائنس سے دلچسپی ہوتی ہے کوئی حساب میں شغف رکھتا ہے کوئی سیاست کی طرف مائل ہوتاہے کوئی تجارت میں انہماک رکھتا ہے کوئی زراعت کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ان سب امور کا حصول کئی وجوہ سے ہوتا ہے بہر حال دنیا میں جو یہ نظارہ نظر آتا ہے-کہ کوئی سائنس کی طرف توجہ کر رہا ہے، کوئی حساب کی طرف توجہ کر رہاہے، کوئی تجارت کی طرف مائل ہے کوئی زرات میں دلچسپی رکھتا ہے، کوئی سیاسیات میںاپنی عمر بسر کر رہا ہے - اس پر جب غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عام طر پر لوگوں کی تدابیر یا اپنے نفس کے فائدہ کیلئے ان امور کی طرف توجہ کرتے ہیں سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے سائنس میں ترقی کرلی تو کئی قسم کی ایجادیں کریں گے- کارخانے جاری کریں گے اور مالی لحاظ سے بہت کچھ نفح اُٹھائیں گے - یاحساب میں شغف رکھتے ہیں تو اس لئے کہ ترقی کر کے ہم انجینئر بن جائیںگے اور دنیا میں اعزاز حاصل کریں گے یا تجارت کرتے ہیں تو اس لئے کہ اپنے لئے اور اپنے خاندان کے افراد کے لئے ہمارے پاس بہت سا روپیہ اکٹھا ہو جائے گا- یا زراعت کریں گے تو اس فن میں بھی اُن کے مدّ نظر محض اپنا فائدہ ہوگا- اِسی طرح سیاسیات میں اُن کی دلچسپی کسی قومی مفاد کے لیے نہیں ہوتی بلکہ ذاتی اعزاز کا حصول اس تمام جدوجہد کا بنیادی نقطہ ہوتا ہے- لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے یہں جو ذاتیات سے بہت بالا ہوتے ہیں اُن کے مدّ نظر اپنے ذاتی مفاد اُس قدر نہیں ہوتے جس قدر قومی مفاد اُن کے مدّنظر ہوتے ہیں- اُن میں سے اگر ایک سائنس دان سائنس میں شغف رکھتا ہے تو اُس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میری قوم کی اس ذریعہ سے طاقت حاسل ہو جائے اگر کوئی حساب کی طرف توجہ کرتا ہے تو اُس کی غرض بھی اِس علم سے اپنی قوم کو فائندہ پہنچانا ہوتا ہے- اگر کوئی تجارت سے میری قوم مضبوط ہوجائے غرض یہ لوگ اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر قربان کرنے والے ہوتے ہیں ان میں سے کچھ لوگ زراعت کی طرف توجہ کرتے ہیں تو اُن کے مدّنظر محض یہ غرج نہیں ہوتی کہ ہم ہل چلائیں گے کھیتی باڑی کریں گے اور نفح کمائیں گے بلکہ وہ فنِ زراعت اس لئے سیکھتے ہیں تا کہ اُن کی قوم ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکل جائے- اسی طرح جب اُن میں سے بعض لوگ سیاست میں حصہ لیتے ہیں تو اِس لئے نہیں کہ اُن کو ذاتی طور پر غلبہ اور نفوذ حاصل ہو جائے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ سیاسیات میں حصّہ لینے کے نتیجے میں اُن کی قوم کو غلبہ حاصل ہو - غرض دنیا میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جن کی تمام جدّوجہد کا مرکزی نقطہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کو ذاتی طور پرکوئی فائدہ حاصل ہو جائے اورکچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو محض قومی مفاد کے لئے ہر قسم کی جدوجہد کرتے ہیں اُن کا علوم کی طرف توجہ کرنا مختلف فنون میں مہارت حاصل کرنا اور مختلف قسم کے شعبوں میں کام کرنا اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ شہرت کے بھوکے ہوتے ہیں یا عزت کے متلاشی ہوتے ہیں یا مال و دولت کے شائق ہوتے ہیں بلکہ وہ اِس لئے اپنی عمر میں ان کاموں میں صرف کر دیتے ہیں کہ اُن کی قوم سر بلند ہو اور اُسے دنیا میں عزت کا مقام حاصل ہو - اللہ تعالیٰ اِس آیت میں یہ فرماتاہے کہ جب بھی دنیا مین ایسا طریق عمل جاری ہو گا غلط قسم کی رقابت پیدا ہو گی اور تباہی اور بربادی اس کے نتیجے میں آئے گی پس انسان کو چاہیے کہ اپنی سب جدوجہد اللہ تعالیٰ کے لئے کرد ے- اگر اُسے حساب کا شو ق ہے اور وہ اس علم میں ترقی کرنا چاہتا ہے تو بے شک کرے اور خوب کرے- اگر اُسے سائنس کا شوق ہے اور وہ نئی نئی ایجادات کرنا چاہتا ہے تو بے شک سائنس کی طرف توجہ کرے اور دنیا میں نئی نئی ایجادیں کرے- اگر اُسے تجارت کا شوق ہے تو بے شک خوب مال ودولت کمائے- اگر اُسے زراعت کا شوق ہے اور وہ اس علم پر غور کرتے ہوئے نئے نئے امور دریافت کرنا چاہتا ہے تو بے شک ایسا کرے کیونکہ خدا نے یہ فطرت پیدا کی ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان کام کرے بے کار نہ بیٹھے مگر چاہیے کہ اُس کی سب تدبیریں اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں یہ ظاہر ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے لئے جدوجہد کرے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندوں کو اپنی جدّوجہد میں ثمرات سے محروم نہیں کرے گا- جب وہ خدا کے لئے ایس اکرے گا تو اُس کی یہ غرض نہیں ہوگی کہ انگلستان کو کچل دے، نہ انگلستان کی یہ غرض ہو گی کہ فرانس کو کچل دے، نہ امریکہ کی یہ غرض ہو گی کہ رُوس کو کچل دے- جب ہر شخص اللہ تعالیٰ کے لئے کوشش کرے گا تو اُس کی کوششیں تمام بنی نوع انسان کے لئے مفید ہوں گی اور غلط قسم کی رقابت اور عداوت دنیا میں پیدا نہیں ہو گی- تمام تباہی اسی وجہ سے واقعہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے ذاتی یا قومی مفاد کے لئے دوسروںکے حقوق کو غصب کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس امر کو کلی طور پر نظر انداز کر دیتا ہے کہ اُسے اپنی جدوجہد کے ثمرات میں تمام بنی نوع انسان کو شریک کرنا چاہیے- یہ تو علمی زمانہ ہے مگر پھر بھی دیکھا جاتا ہے کہ باپ داداکی دولت سے ذرا بھی حصہ مل جائے تو لوگ غافل ہوجاتے ہیں ہر قسم کے کاموں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں اب ہمیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے باپ دادا سے ہمیں بہت بڑی جائیداد مل گئی ہے اور اب ہمارا کام یہی ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور سو رہیں یہ قطعاً خیال نہیں کیا جاتا کہ انسان پیدائش اِس لئے نہیں ہوئی کہ وہ کھائے پییَ اور سو رہے بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے جیسا کہ اِنّیْ جَاعِلٌّ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ( البقرہ ع۴) سے ظاہر ہے اور جب انسان اِس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے تو اُسے غور کرنا چاہیے کہ اُس کے لئے نکما پن کس طرح جائز ہو سکتا ہے - اگر اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ نکّما بیٹھا ہوا ہوتا تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کوئی کام نہیں کرتا اس لئے اگر انسان بھی کوئی کام نہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں- مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نکما نہیں بیٹھا بلکہ وہ اپنی تمام صفات سے کام لے رہا ہے، کہیں اُن کو مار رہا ہے کہیں اُن کی مغفرت کے سامان کر رہا ہے- کہیں اُن پر رحمت نازل کر رہا ہے، کہیں اُن پر عذاب بھیج رہا ہے،کہیں اُن کو ترقی دے رہا ہے- کہیں تنزّل کے سامان کر رہاہے- غرض دن رات وہ کام میں لگا ہوا ہے اور یہی وہ انسانوں سے چاہتا ہے کہ جس طرح میں کام میں لگا ہوا ہوں اسی طرح تم بھی کام میں لگ جائو اورکبھی غفلت اور سستی کو اپنے قریب بھی نہ آنے دو- مگر افسوس کہ لوگوں کی حالت یہ ے کہ انکو ذرا بھی سہولت کے سامان میّسر آ جائیں تو وہ سست ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہمیں کام کرنے کی ضرورت نہیں -ہمارے ملک میں عام محاورہ ہے کہ جب کسی آسورہ حال سے پوچھا جائے کہ سُنائو کیا حال ہے تو وہ کہتا ہے کہ اللہ کا بڑا فضل ہے کھانے پینے کا سامان خدا تعالیٰ نے بہت کچھ دے دیا ہے- اب ہمارا کام اتنا ہی ہے- کہ کھائیں پیَیں عیش و آرام میں اپنا وقت گزاریں اور سو جائیں-یہ ایک *** ہے جو ہندوستانیوں کے سروں پر مسلّط ہے اور جس نے اُن کوترقی کی دوڑ مین بہت پیچھے کر دیا ہے- وہ جدّ جہد اور عمل صرف اس بات کا نام سمجھتے ہیں کہ اپنی ذات کو فائدہ پہنچ جائے یا اپنے خاندان کو فائدہ پہنچ جائے یا اپنے خاندان کو فائدہ پہنچ بنی نوع انسان کو اپنی جدوجہد کے ثمرات میں شریک کرنے کے لیے وہ تیار نہیں ہوتے- اس کے مقابل میں یورپ کے لوگوں میں جہاں اور کئی قسم کے نقائص ہیں وہاں اِس نقص کو انہوں نے قومی طور پر بالکل دور کر دیا ہے- وہاں امیر اور غریب سب کام کرتے ہیں اور باوجود بڑے بڑے اُمراء کی موجودگی کے اُن میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آتا جو کام نہ کر رہا ہو اِلاّ ماشاء اللہ ہر قوم میں کچھ نہ کچھ گندے اور خراب افراد بھی ہوتے ہیں اُن کومستثنیٰ کرتے ہوئے اکثریت ایسے ہی لوگوں کی نظر آتی ہے جو اربوں ارب روپیہ کے مالک ہیں مگر خود بھی کام کرتے ہیں اُن کی بیویاں بھی کام کرتی ہیں اُن کے بچے بھی کام کرتے ہیں اسی طرح اُن کے خاندان کے دوسرے افراد بھی کام کرتے ہیں اور وہ کبھی کام کرنا اپنے لئے ننگ اور عار کا موجب نہیں سمجھتے مگر اس کے باوجود یا تو اپنے نفس کے لئے سب کچھ کرتے ہیں اپنے ملک کی ترقی اور اُس کی خوشحالی کے لئے کام کرتے ہیں یا قومی برتری کا احساس اُس کے مدّ نظر ہوتا ہے یا نفسانی خواہشات اُن کے پیش نظر ہوتی ہیں اسی لئے باوجود کام کرنے کے خرابیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں - پہلے زمانہ میں بھی باپ دادا کی جائیداد پر قبضہ کر لینے کی وجہ سے بعض لوگ کام نہیں کرتے تھے مگر خرابیاںکم ہوتی تھیں کیونکہ قومی برتری کا احساس اُن کے دلوں میں نہیں ہوتا تھا وہ صرف اپنے ذاتی مفاد کومدنظر رکھا کرتے تھے مگر چونکہ ذاتی مفاد کی بجائے قومی مفاد کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے اور دنیا کاایک بہت بڑا حصہ اپنے اعمال اس لئے بجا لاتا ہے کہ اُس کی قوم کو دوسروں پر تفوق حاصل ہو، اُس کی قوم کو دوسروں پر غیر معمولی اقتدار اور غلبہ میّسر ہو، اُس کی قوم کو بہت بڑی طاقت حاصل ہو- اس لئے کام کرنے کے باوجود اس زمانہ میں خرابیاں زیادہ پیدا ہو رہی ہیں- پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم تدبیریں کرو اور ضرور کرو کیونکہ ہم نے تم کو پیدا ہی اسی لئے کیا ہے کہ تم کام کرو مگر دیکھو ہماری نصیحت یہ ے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن اپنی ساری تدبیریں خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دو- ذاتی آرام یا قومی مفاد تمہارے مدنظر نہ ہو بلکہ تمہاری تمام جدوجہد محض اللہ تعالیٰ کی رضاء اور اُس کی خوشنودی کے حصول کے لئے ہو- غور کرو یہ کیسا سنہری اصل ہے اور کس طرح اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں دنیا میں امن قائم ہو جاتا ہے اس ذریعہ سے ایک طرف اللہ تعالیٰ نے نکما پن دُور فرما دیا اور نبی نوع انسان سے کہہ دیاکہ دیکھو ہم یہ پسند نہیں کرتے تم بیکار رہو اور دنیا میں آ کر کوئی کام نہ کرو اور دوسری طرف کہ دیا کہ ہم یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ تم جھوٹی رقابتیں پیدا کرنی شروع کر دو- تم کام کرو اور خوب کرو مگر جھوٹی رقابتیں پیدا نہ کرو- دوسرے ملکوں یاقومون کو تباہ کرنیکی کوشش نہ کرو بلکہ ہر کام اللہ تعالیٰ کی خاطر کرو- یہ امر ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے ہر کام کرے گا ذاتی یا قومی برتری کا احساس اس کے دل میں نہیں ہو گا وہ دوسروں کے حقوق کو کچلنے کے لئے بھی کوئی قدم نہیں اٹھا ئیے گا یہی وجہ ہے کہ اسلامی حکومت کے زمانہ میں ( یعنی جب جب اور جہاں اسلامی اصول پر حکومت کی گئی ) کبھی غیر قوموں کو کچلنے کی کوشش نہیں کی گئی- سات آٹھ سو سال تک مسلمانوں کو حکومت کرنے کا موقع ملا ہے اور یہ بہت بڑا عرصہ ہے اس قدر لمبے عہد حکومت کے باوجود کسی مسلمان حکومت نے ہمسایہ ممالک کو تباہ کرنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ اُن کے مقابلہ میں مسلمانوں کے پاس بہت کچھ طاقت تھی اور وہ اگر چاہتے تو آسانی سے اُن کی اقتصادی حالتوں کو تبہ کر سکتے تھے- مگر باوجود طاقتور ہونے کے، باوجود بادشاہ ہونے کے، باوجود ہمسایہ ممالک کی کمزوری کے کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کو کچلنے کے لئے مسلمانوں نے کوئی اقدام کیا ہو ایبے سینا کی واضح مثال ہے تیرہ سو سال وہ مسلمانوں کی ہمسائیگی میں رہا مگر اُس کی آزادی میں کوئی فرق نہ آیا- اس کے مقابلہ میں عیسائیوں میں صرف ایک صدی افریقہ میں غلبہ ہوا تو انہوں نے ایبے سینیا کو کچل دیا حالانکہ ایبے سینیا والے اُن کے کم مذہب تھے اور اس لحاظ سے وہ اس بات کا زیادہ حق رکھتے تھے کہ اُن کے ملک پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے- مگر عیسائیوں نے کسی بات کی پروا نہ کی- نہ انصاف کی مدنظر رکھا نہ دیانت اور رواداری کی پروا اور اپنے غلبہ کے گھمنڈ میں کمزور ممالک پرحملہ کر کے اُن کے اپنا ماتحت بنا لیا - یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ مسلمان قرآنی احکام کے مطابق اپنی تمام کوششیں محض اللہ تعالیٰ کی رضاء کو مدنظر رکھتے ہوئے عمل میں لاتے تھے- چونکہ ایبے سینیا- یوگنڈا- اور ایسٹ افریقہ وغیرہ نے مسلمانوں کو چھیڑا نہیں اس لئے باوجود زبردست مسلمان حکومتوں کے پہلو میں بیٹھے ہونے کے کسی نے اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا اور یہ حالت برابر چلتی گئی یہاں تک کہ انتہائی مُردود اور گری ہوئی حالت میں بھی اُن کے اندر یہ خوبی قائم رہی اور انہوں نے غیر اقوام کو کچلنے کی کبھی کوشش نہیں ی- لیکن یوروپین قوموں نے جہاں بھی سر نکالا انہوںنے غیر ممالک کو کچل ڈالا- میںہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ یوروپین قوموں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے بچوں کو کھیلتے ہوئے جب کوئی چیز مل جاتی تو وہ کہتے ہیں ’’ لبّھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پا دی ‘‘ یہ بھی غیر ملکوں پر قبضہ کرتے چلتے جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں یہ تو ایک بڑی چیزتھی جو ہمیں مل گئی- پھر اس کے ساتھ ہی وہ اس کے ساتھ ہی وہ اخلاق کے بھی دعویدار بنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے یہ قبضہ امن قائم کرنے اورلوگوں کو تہذیب و شائستگی کے اصول سکھانے کے لئے کیا ہے - اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ دعویٰ بالکل غلط ہے اگر واقعہ میں تمہارے اندر اخلاق پائے جاتے تھے اور تمہارے مدنظر ذاتی یا قومی مفاد نہیں تھا تو تمہارا فرض یہ تھا کہ تم بجائے غیرممالک پر قبضہ کرنے اور اُس کی دولت سے فائدہ اُٹھانے کے اُن ممالک میںجاتے، لوگوں کی تربیت کرتے ، انکو علم سکھاتے اور پھر واپس آ جاتے- گویا جو کچھ کرتے اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے کرتے نفسانیت کا اُس میں کوئی شائبہ نہ ہوتا- مگر تم نے تو جو کچھ کیا اپنے نفس کے لئے کیا اور یہ وہ چیز ہے جو دنیا اور امن قائم نہیں کرتی بلکہ بد امنی اور ظلم اور دَور دَورہ کا موجب بن جاتی ہے اگر انگریز افریقہ میں جاتے اور بجائے اُس پر قبضہ کرنے کے لوگوں سے کہتے ہم تمہاری ترقی کے لئے آئے ہیں- پھر انکو تعلیم دلاتے، اُن کو کاشت کے اصول سکھاتے - مدرسے اور کارخانے قائم کرتے ، مال و دولت کو ترقی بتاتے تہذیب اور شائستگی کے اُصول سکھاتے اور جب وہ یہ سب کچھ سیکھ جاتے تو کہتے لو اب ہم واپس جاتے ہیں- یہ ملک تمہارا ہے ہم تو محض تمہاری خدمت کرنے کے لئے آئے تھے تو یقینا وہ اپنے دعوتے میں سچے سمجھے جا سکتے تھے اور کہا جا سکتا تھا کہ اُن کی کوششیں اپنے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور نبی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے تھیں - مگر یہ کیا طریق ہے کہ افریقین لوگوںکو الگ بیٹھا دیا- اُن کی زمینوں اورجائیدادوں پر قبضہ کر لیا اور پھر راگ الا اپنا شروع کر دیا کہ ہم نے تو یہ قبضہ افریقین لوگوں کی ترقی اور اُن کے فائدہ کے لئے کیا ہے اور یہی ہمدردی کاجذبہ اِس کا محرک ہوا ہے-
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے چھے معنے
چھٹے معنے اس عبارت کے ہیں-یہ معنے بھی یہاں لگتے ہیں اور مراد یہ کہ شرک نہ کرو سب قسم کی عبادات اللہ تعالیٰ کے لئے کرو-
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے ساتویں معنے
(۷) ساتویں مناسب معنے اس کے وَرَع کے ہیں یعنی نیکی اور نیک اعمال اِن معنوں کے رُو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا ریاء اور سُمْعَۃ کو باکل ترک کر دو اور سب زہد وتعبد صرف اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے ہو- یہ نہ ہو کہ تمہارے جُبے اور دستاریں اور کہانت اور پادری کاعہدہ لوگوں میں عزت حاصل کرنے اور اُن سے اطاعت کرانے کے لئے ہو بلکہ تمہارا زہد و تعبد محض خدتعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے ہو- یہ بات ایسی ہے جس کی طرف غیر قومیں تو الگ رہیں خود مسلمانوں کو بھی بہت کم توجہ ہے-وہ نمازیں پڑھنے اورروزے رکھنے اور زکٰوۃ دینے اور حج کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رضاء مدّ نظر نہیں رکھتے بلکہ اُن کامقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ لوگوں میں ہماری عزت قائم ہو جائے اور ہمیں بڑا نمازییا بڑا عابد کہنے لگ جائیں- اِسی طرح حج بھی زُہد کیے علامت ہوتی ہے مگر ہمارے ملک میں عام طور پر حج کو بھی اپنی شرکت کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور ہر شخص جوحج کر آئے وہ اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھنا اپنا فرض سمجھتا ہے- میں جب حج کے لئے گیا تو ایک اور مسلمان نوجوان میرے ساتھ جہاز میں سوا ر تھا - وہ اپنے آپ کو دین کے متعلق اس قدر غیرت مند سمجھتا تھا کہ جب اُسے معلوم ہوا کہ میں احمدی ہوں تو وہ بار بار اپنا ہاتھ مار کر کہتاکہ وہ جہاز نہیں ڈوبتا جس میں ایساشخص سفر کر رہا ہے- حالانکہ اِسی جہاز میں وہ کود بھی سفر کر رہا تھا اور اگر جہاز ڈوبتا تو اُس کا ڈوبنا بھی یقینی تھا-بہرحال ایک طرف تودین کے متعلق وہ اس قدر غیرت کا اظہار کرتا تھا اور دوسری طرف اُس کی حالت یہ تھی کہ میں نے اُسے مکّہ سے منیٰ جاتے ہوئے جو عین حج کا وقت ہوتا ہے اُردو کے نہایت گندے عشقیہ اشعارپڑھتے ہوئے سُنا- ایک دن باوجود اس کے بعض اور کینہ کے میں اُس کے قریب چلا ہی گیا اور میں نے اُسے کہا کہ آپ کو دین کا بہت شوق معلوم ہوتا ہے مگر یہ کیابات ہے کہ منیٰ میں مَیں نے آپ کو بہت گندے اشعار پڑھتے سنا کہنے لگا بات اسل میں یہ ہے کہ ہم سورت کے تاجر ہیں اور ہمارے علاقہ میں حاجیوں کو بہت عزت کی نگارہ سے دیکھا جاتا ہے ہماری ہول سیل کی دوکان ہے اور ارد گرد کے علاقوں سے اکثر لوگ ہمارے دوکان سے ہی مال خرید کر لے جاتے ہیں مگر گذشتہ سال ہمارے پاس کی دوکان والاحج کر آیا اور اُس نے اپنے نام کے ساتھ حاجی کا ٹائٹل لگا کر دوکان پربورڈ آویزاں کر دیا- نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے گاہک بھی اُدھر جانے شروع ہو گئے کیونکہ لوگوں نے خیال کیاکہ حاجی صاحب سے سودا خریدنا چاہیے اس میں ثواب بھی ہو گا یہ دیکھ کر میرے باپ نے مجھے کہا کہ کم بخت تو بھی حج کر آ اور نہ اگر یہی حالت رہی تو ہماری دوکان بالکل تباہ ہو جائے گی- چنانچہ میں اسی لئے حج کے لئے آیا ہوں اب یہاں سے جانے کے بعد میں بھی اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھ کر بورڈ لٹکا دوں گا اور ہمیں تجارت میں جو گھاٹا ہوا ہے وہ جاتا رہے گا- اُس وقت اُسے تو میں نے کچھ نہ کہا مگر دل میں مجھے اُس کی حالت پر سخت افسوس آیا کہ کُجا اسکی غیرت کی یہ کیفیت تھی کہ وہ بار بار اپنے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہتا ہائے وہ جہاز بھی غرق نہیں ہو جاتا جس میں ایسا شخص سوار ہے اور کجا یہ حال ہے کہ وہ حج کرنے کے لئے آیا ہے مگر اُسے ذرا بھی یہ احساس نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضاء کی خاطر حج کرے بلکہ اُس کے مدنظر محض اتنی بات ہے کہ میں حاجی کہلائوں - لوگ میری عزت کریں اور وہ دوکان پر کثرت کے ساتھ سودا خریدنے کے لئے آنے لگیں - تو دنیا میں بہت لوگ ایسے ہیں جو زُہد و تعبّد میں لوگوں کی خوشنودی اور اُن کی واہ واہ حاصل کرنے کے لئے حصّہ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت سے اُن کا دل بالکل خالی ہوتا ہے مثلاً عیسائیوں میں پادریوں کی بہت بڑی عزت سمجھی جاتی ہے اور جتنے یوروپین اُمراء خاندان ہیں وہ ایک ایک لڑکا ضرور چرچ کی خدمت میں لگا دیتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ اُنکے دل میں عیسائیت کی کوئی عظمت ہے یا وہ سمجھتے ہیں کہ پادری بن کر ہمارا لڑکا اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل کرے گا بلکہ صرف اس لئے ایسا کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اس کے بغیر ہمارے خاندانوں کا سیاسی لحاظ سے کوئی اثر قائم نہیں ہو سکتا- یہ مسلمانوںکی بد قسمتی ہے کہ انہوں نے علماء کی عزمت نہیں کی جس کی وجہ سے امراء کی توجہ دین کی طرف سے بالکل ہٹ گئی مگر یورو پین قومیں اپنے پادریوں کی بڑی عزت کرتی ہیں اس وجہ سے امراء کو ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ ہمیں سیاسی رنگ میں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ورنہ عوام میں ہمارے خلاف جوش پیدا ہو جائے گا اور وہ رسوخ جو ہمیں حاصل ہے جاتا رہے گا پس چونکہ زُہد و تعبد کے اعمال بساا وقات لوگ اس لئے بجا لاتے ہیں کہ اُن کی قوم میں عزت اور رسوخ حاصل ہو- اس لئے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تم ریاء اور سمعت کے خیالات کو اپنے دل کے کسی گوشہ میں بھی داخل نہ ہونے دو اور جس قدر نیک اعمال بجا لائو ان کی تہ میں صرف یہی جذبہ کار فرما ہوکہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل ہو جائے مخلوق سے توجہ ہٹا کر صرف خالق پر اپنی نظر رکھو اور اپنے اعمال صالحہ کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کر دو کہ وہی اعمال اُس کی درگاہ میں مقبول ہوتے ہیں جو اس کی رضا کے لئے کئے جائیں- جن اعمال پر دیاء کا داغ لگ جاتا ہے وہ انسان کے مُنہ پر مارے جاتے ہیں اور ثواب کی بجائے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا موجب بن جاتے ہیں-
(۸) آٹھویں مناسب معنے جو یہاں لگ سکتے ہیں عادت کے ہیں اِن معنوں کے رُو سے اس آیت کا مفہوم ہو گا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ایسے فرمانبردار بنو کہ تمہاری عادت بھی اللہ تعالیٰ کے تابع ہو جائیں- بظاہر ہر عادت کی عبادت بُری ہو تی ہے مثلاً اگر کوئی شخص صرف عادت کی نماز پڑھتا ہے یعنی اُسے نماز کی عادت ہو گئی یا
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کےآٹھویں معنے
اُس کے ماں باپ نے اُسے روزے رکھنے پر مجبور کیا تھا جس کی وجہ سے اُسے روزوں کی عادت ہو گئی یا کسی اَور نیک کام پر اُس کے مان باپ نے اُسے مجبور کیا اور رفتہ رفتہ اُس نیک کام کی اُسے عادت ہو گئی تو یہ عادت بُری سمجھی جاتی ہے - لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ عادتیں دو قسم کی ہوتی ہیں وہ عادت کی عبادت بُری ہوتی ہے جس کی ابتداء بھی عادت سے ہو- یعنی جب کسی نے کوئی کام بغیر سمجھے بوجھے کی ہو اور فتہ رفتہ وہ کام اس کی طبیعت میں داخل ہو گیا ہو تو یہ عادت اچھی نہیں سمجھی جا سکتی- مثلاً کسی شخص سے زید کو کوئی بات کہی اور اُس نے بغیر سوچے سمجھے اُس کے مطابق کام کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ اُس بات کی اُسے عادت ہو گئی یا کسی اَور کے کہنے کی بجائے اُس نے خود ہی کسی کام کی آہستہ عادت اختیار کر لی تو یہ عادت قطعاً کوئی قیمت نہیں رکھتی- لیکن ایک شخص ایس اہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے لیے اور اس کی محبت اور اُس کے عشق سے عبادات ار نیک اعمال میں حصہ لینا شروع کرتا ہے اور عمل کرتے کرتے وُہ اُس کا جزو بدن ہو جاتے ہیں اور آپ ہی آپ بغیر کسی ارادہ کے وہ افعال اس سے ظاہر ہونے لگتے ہیں ایسے شخص کی عادت کی عبادت رسمی عبادت نہیں کہلا سکتی - کیونکہ اُس نے خلوص کے ساتھ، محبت کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایسا کیا اور متواتر کرتا چلا گیا یہاں تک کہ عبادت اُس کا جزوِ بدن بن گئی- اب جو فعل اس عادت کے نتیجہ میں ظاہر ہو گا وہ یقینا خوبی کہلائے گا کیونکہ اُس نے دیدہ و دانستہ اپنے نفس پر جبر کر کے خداتعالیٰ کی رضاء کے حصول کے لئے ایک فعل اتنی بار کیا وہ اُس کے رگ و ریشہ میں پیوست ہو گیا یہ جبری عادت نہیں ہوتی کہ اُسے بُرا قرار دیا جا سکے نہ بے دھیان کی عادت نہیں ہوتی کہ اُسے بُرا قرار دیا جا سکے نہ بے دھیان کی عادت ہوتی ہے کہ اُسے لغو کہا جا سکے- یہ ایک نیک عادت ہوتی ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے محض اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے اختیار کی جاتی ہے اور چونکہ خدائی قانون یہ ہے کہ جب ایک شخص لذّت اور شوق سے متواتر کئی فعل کرے تو وہ کام اُس سے آپ ہی آپ سرزد ہو تا جاتا ہے- اِس لئے ایسے شخص کی عادت کی عبادت رسمی نہیں کہلاتی بلکہ وہ اطاعت کا منتیٰ کہلاتی ہے-
(۲)دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ انسان کو کئی قسم کی عادات خاص خاندانوں یا قوموں میں رہنے کی وجہ سے پڑ جاتی ہیں- مثلاً چائے نوشوں میں چائے کی عادت ہوتی ہے، اچھے خوش خور لوگوں میں اچھا کھانا کھانے کی عادت ہوتی ہے خوش لباسوں میں رہنے کی وجہ سے انسان کو خوش لباسی کی عادت ہو جاتی ہے- اس لئے ایک معنے اِس آیت کے یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو اس طرح اللہ تعالیٰ کا بنائو کہ اگر تم کو کوئی عادت پڑے تو وہ اللہ کی ہو نہ کہ اپنے گرد وپیش کے لوگوں کے اثر سے تم نے وہ عادت اختیار کی ہو- گویا اس میں یہ اشارہ کیا گیاہے کہ تم لغو عادات سے مومن کو بچنا چاہیے- یوں تو عادتیں انسان کو ضرور پڑ جاتیہیں کوئی انسان دنیامیں ایسا نہیں ہوتاجسے کچھ نہ کچھ عادت نہ ہو- مگر کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے گردو پیش کے لوگوں سے صرف اتنا اثرلیتے ہیں کہ اُنہیں اچھا کھانا کھاتے دیکھتے ہیں تو خود بھی اچھا کھانا کھانے لگ جاتے ہیں- اُنہیں اچھا لباس پہنتے دیکھتے ہیںتو خود بھی اچھا لباس پہننے لگ جاتے ہیں- اُنہیں آرام کی زندگی بسر کرتے دیکھتے ہیں تو خود بھی آرام کی زندگی بسر کرنے لگ جاتے ہیں لیکن ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو لوگوں سے صرف نیکی اور تقویٰ اور عبادت کا اثر قبول کرتا ہے- اب جہاں تک دوسروں سے اثر قبول کرنے کا سوال ہے دونوں نے اثر قبول کیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنے نفس کے آرام کے لیے گروہ پیش کا اثر قبول کیا اور دوسرے نے خدا تعالیٰ کی رضاء کے لئے صرف وہ اثر قبول کیا جس کا نیکی اور تقویٰ کے ساتھ تعلق تھا- گو یا وہ شخص جس نے اچھا کھانے یا اچھا پینے یا اچھا پہننے کا اثر قبول کیا تھا اُس نے اپنے دل کے آئینے کو غیروں کے سامنے کیا اور وہ شخص جس نے اپنے اندر نماز اور روزہ اور صدقہ و خیرات کی عادتیں پیدا کیں اُس نے اپنا آئینہ خدا کے سامنے کر دیا- پس فرماتاہے تمہیں دنیا کی میں رہ کر عادتیں تو ضرور پڑنی ہیں مگرایسی کوشش کرو کہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے اعمال کا تواتر ہو-
نبی نوع انسان کے اعمال کا تو اثر نہ ہو جیسے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی نظریں نیچی رکھو اگر اتفاقیہ طور پر کسی غیر عورت پر تمہاری نگاہ پڑ جاتی ہے تو اس میں کوئی گناہ نہیں- لیکن اگر تم دوسری نگاہ اُس پر ڈالو گے تو گنہگار بن جائو گے- اِس ممانعت میں بھی یہی حکمت ہے کہ اگر انسان دوسری بار نگاہ ڈالے گا تو اُس کا یہ نگا ہ ڈالنا بالا ارادہ ہو گا- اور جب وہ ایک کام بالا ارادہ کر ے گا تویہ لازمی بات ہے کہ وہ کام آہستہ آہستہ عادت میں داخل ہونا شروع ہو جائے گا پس مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے ایک معنے یہ یہں کہ تو بُرے افعال کا تکرار ن کر بلکہ اُن اعمال کا تکرار کر جو تجھے خدا تعالیٰ تک پہنچانے والے ہوں یعنی جن کاموں کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اُن کا تکرار کرو اور جن کاموں سے خد ا تعالیٰ نے حکم دیا ہے - اُن کا تکرار کرو اور جن کاموں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اُن کے گردو پیش کے اثرات کی وجہ سے عادت پیدا نہ کرو- گویااس کے معنے یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو گردو پیش کے برے اثرات سے بالکل آزاد کر لو حتیٰ کہ تم کو دوسروں کے بد اثرات سے کوئی عادت نہ پڑے بلکہ صرف نیک اثرات کو قبول کرو-
عادت بھی ایک بہت بڑی ظلمت ہوتی ہیں بعض دفعہ یہ انسان کو دوسرے کا خوشامدی بنا دیتی ہیں- بعض دفعہ ڈرپوک بنا دیتی ہیں- بعض دفعہ سُست بنا دیتی ہیں اور انسان بڑے بڑے کاموں میں حصہ لینے سے محروم ہو جاتا ہے- مثلاً حُقّہ کی عادت ہے، افیون کی عادت ہے یا چائے کی عادت ہے ایسے لوگوں کو اگر جہاد کے لئے جانا پڑے تو اُن کے قدم ڈگمگا جائیں گے کیونکہ جہاد میں یہ چیزیں میّسر نہیں آ سکتیں - لڑائی میں بسا اوقات انسان کوئی کئی کئی وقت کا فاقہ کرنا پڑتا ہے-
بسا اوقات جنگلوں میں راتیں گذارنی پڑتی ہیں ، بسا اوقات نہایت معمولی اور ردّی غذا کھا کر گزارہ کرنا پڑتا ہے- ایسے مواقع پروہ شخص جسے شراب کی عادت ہو یا افیون کی عادت ہو حقہ اور نسوار کی عادت ہو کبھی دلیری سے آگے نہیں آ سکتا کیونکہ اُس کی عادات اِس قربانی میں دیوار بن کر حائل ہو جائیں گی اور وہ سمجھے گا کہ اگر میں اس جنگ میں شامل ہوَا تو مجھے سخت تکلیف اُٹھانی پڑے گی-
موجودہ جنگ میں سپاہیوں کی سب سے بڑی مشکلات یہی تھی کہ ہمیں شراب نہیں ملتی ہمیں سگریٹ نہیں ملتے اور یہ شکایت اس قدر بڑھ گئی کہ انگری افسروں کے لئے اس کا ازالہ کرنا بالکل نا ممکن ہو گیا- چنانچہ پارلیمنٹ کے موجودہ انتخابات میں مسٹر چرچل کے شکست کی وجہ بھی یہی ہوئی کہ ووٹ سب اُن کے خلاف تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ ایسی گورنمنٹ ہر گز قائم رہنے کی مستحق نہیں جس نے لڑائی میں ہمارے لئے شراب مہیا نہیں کی، جس نے کثرت سے ہمیں سگریٹ نہیں پہنچائے اور اس طرح وہ ہماری تکلیف کا موجب ہوئی ہے- حالانکہ انگریز افسر بھی سچے تھے وہ لڑائی کا سامان جمع کرتے یا شرابیں اور سگریٹ تیار کر کر کے فوفیوں کو بھجواتے؟ پس اس آیت میں مومنوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ سوائے ذکر الہٰی اور نیکی کے کاموں کے جو خدا تعالیٰ کی رضا کا موجب ہیں اور کسی چیز کی عادت نہ پڑنے دو تا کہ تم کو کبھی غیر کے آگے جھکنے یا قومی خدمات میں سستی کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے-
حُنَفَآئَ- مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے جو معنے اوپر بیان کئے گئے ہیں اُن میں چونکہ حَنِیْف کے وہ معانی بھی آ جاتے ہیں جو حل لغات میں بیان کئے جا چکے ہیں اِس لئے میں اِس جگہ حَنِیْف کے صرف اتنے ہی معنے لیتا ہوں کہ ’’ نیک میلانوں پر ثابت قدم رہنا‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اوپر کی تشریحات کے بعد صرف یہی ایک معنے باقی رہ جاتے ہیں جن کاایک بیان کرنا ضروری ہے-
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہیں اوپر کا حکم اس مزید ہدایت کے ساتھ دیتے ہیں کہ تم اپنے آپ میں نیک باتوں پر استقلال پیدا کرو یعنی ہم چاہتے ہیں کہ ایک تو مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن َ کے جو معنے ہیں وہ تمہارے اندر پیدا ہو جائیں اور دوسرے تم میں استقلال پیدا ہو جائے- یہ ہو کہ نیکیوں پر چند دن تو بڑے جوش و خروش سے عمل کرو اور تھک کر بیٹھ جائو- درحقیقت بڑی غلطی انسان کی یہ ہوتی ہے کہ ونیکیوں پر دوام اختیار نہیں کرتا صرف چند دن عمل کرتااور پھر اُن کو چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے- حالانکہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہی نیکی مقبول ہو سکتی ہے جس پر دوام اختیار کیا جائے اور دوام پیدا نہیں ہو سکتا جب تک انسان کے اندر استقلال کا مادہ نہ ہو- پس اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دینے کے بعد کہ تمہاری تدابیرؔ اور تمہارا حکمؔ تمہاری سیرۃؔ اور تمہاری تدابیرؔ اور تمہاری عباداتؔ اور تمہاری نیکی اور تمہاری عادات سب کی سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جانی چاہیں-…………
حُنَفَآئَ کہا کر یہ مزید حکم دے دیا کہ جب ایسے مقامات تمہارے اندر پیدا ہو جائیں تو پھر اُن پر ثابت قدم رہو ایس انہ ہو کہ سُستی کر کے اس مقام پر سے تمہارا قدم لڑ کھڑا جائے اَور تمہاری نیکیاں سب ضائع چلی جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہی عبادت نفع رکھتی ہے جس میں دوام پایا جائے-
۲۱۱؎ حُنَفَآئَ کے معنے نیک میلانوں پر ثابت قدم رہنا
رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ گھر میں داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کی ایک بیوی نے چھت سے ایک رسّہ لڑکا رکھا ہے- رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ کیسا رسّہ ہے؟ انہوں نے جواب کہ رسول اللہ یہ اس لئے ہے کہ جب عبادت کرتے کرتے اُونگھ آنے لگے تو اس سے سہارا لے لیا جائے- رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِسے کھول دو- اللہ تعالیٰ کو وہی عبادت پسند ہے جس میں دوام پایا جائے اگرچہ وہ کتنی ہی قلیل ہو- وہ عبادت پسند نہیں جس کے نتیجے میں انسان کی طبیعت میں ملاں پیدا ہو جائے اور چند دن کے بعد وہ اُس کو ترک کرنے پرمجبور ہو جائے-
بعض لوگ غلطی سے اس کے معنے یہ سمجھتے ہیں کہ کسی دن کم اور کسی دن زیادہ عبادت نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمیشہ ایک جیسی عبادت کرنی چاہیے مگر یہ معنے بالبداہت باطل ہیں- کیونکہ انسان بعض دفعہ بیماری کی وجہس ے یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے زیادہ عبادت نہیں کر سکتا اور بعض دفعہ اُس کے چھوڑنے پر بھی مجبور ہر جاتا ہے - خود رسول کریم صلے ا للہ علیہ وسلم کے متعلق بھی ثابت ہے کہ بعض دفعہ آپ رات کو پورے آٹھ نفل نہیں پڑھ سکے پس اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ تم نفلی عبادات کو کم و پیش نہ کرو بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب تم کوئی عبادت شروع کرو تو پھر اُسے کرتے چلے جائو-یہ نہ ہو کہ چند دن نفل پڑھو اور پھر چھوڑ دو- یا بعض دفعہ تو ساری ساری رات تہجد پڑھتے رہو ار پھر چھوڑ دو- یا بعض دفعہ تو ساری ساری رات تہجد پڑھتے رہو اور بعض دفعہ تو ساری ساری رات تہجدپڑھتے رہو اوربعض دفعہ دونفل بھی نہ پڑھو- یہ عدم استقلال کا مرض ہے جس سے ہر مومن کو کلّی طور پر محفوظ ہونا چاہیے اور اُسے سمجھ لینا چاہیئے کہ نیکی وہی ہے جس پر دوام اختیار کیا جائے-
وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْ تُو الذُّکٰوۃَ:-
لِیَعْبُدُ واﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے بعد وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کا ذکر کرنا صاف بتا رہا ہے کہ اس جگہ اقامتِ الصلوۃ کا ذکرکرنا صاف بتا رہا ہے کہ اس جگہ اقامتِ صلوٰۃ سے مراد محض عبادت نہیں- اگر محض عبادت اس جگہ مراد ہوتی تو اُس کے علیحدہ ذکر کرنے کے کوئی معنے ہی نہیں تھے لِیَعْبُدُ واﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں یہ مفہوم بڑی وضاحت سے آ چکا تھا اور بتایا جاچکاتھا کہ مومنوں کا فرض ہے کہ وہ خالص الل تعالیٰ کی عبادت کریں اور اُسی کی پرستش کریں یعنی نماز اور روزہ ار حج زکٰوۃ وغیرہ - میں اپنی عمر بسر کریں پس جب وہاں عبادت کا وضاحتہً ذکر آ چکا تھا تو اس کے بعد وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کہنا کہ مومن وہ ہیں جو اقامت صلٰوۃ کرتے یہں صاف بتاتا ہے کہ اس جگہ اقامتِ صلٰوۃ عبادت کے علاوہ کوئی ار مفہوم رکھتی ہے اور وہ وہی مفہوم ہے جو میں نے اپنے خطبات اور تقاریر میں بار ہا بتایا ہے کہ اقامت صلٰوۃ سے مراد با جماعت نماز ادا کرنا ہے یوں اقامتِ صلٰوۃ کے یہ بھی معنے ہوتے ہیں کہ عبادت کو کھڑا کرنا عینی نماز کو اُس کو تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنا- مگر اقامت کے معنوں کو اگر ہم کلّی طور پر دیکھیں تو پھر نماز کو کھڑا کرنے کے معنی یہ بن جائیں گے کہ وہ دنیا میں قائم ہو جائے - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام نے اقامت صلوٰۃ کے ایک یہ معنے بھی لئے ہیں کہ مومن اپنی نمازوں کو بار بار کھڑا کرتے ہیں- نماز گرتی ہے تو وہ اُسے کھڑا کرتے ہیں پھر گرتی ہے تو وہ پھر کھڑا کرتے ہیں پھر گرتی ہے تو وہ پھر کھڑا کرتے ہیں- مطلب یہ ہے کہ اُنہیں نماز میں خشوع و خضوع پیدا نہیں ہوتا یا اللہ تعالیٰ کی طرف کامل توجہ نہیں ہوتی تو وہ بار بار اپنی نمازوں کو سنوارنے اور اُن کے پورے طور پر درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس آیت میں یہ معنے مراد نہیں- اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقامتِ صلٰوۃ کے ایک یہ معنے بھی ہوتے ہیں اور ان معنوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے بڑا زور دیا ہے کہ نماز گرتی ہے تو مومن اُس کو کھڑا کرتا ہے پھر گرتی ہے تو پھر کھڑا کرتا ہے- مگر چونکجہ یہ مضمون وَمَٓااُمِرُوْا اِلاَّ لِیَعْبُدُ واﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں آ چکا ہے اس لئیوَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کے یہاں کوئی زائد معنے ہوں گے جو میرے نزدیک دو ہیں-
اوّل نماز کا کھڑا کرنا اپنے اندر یہ مفہوم رکھتا ہے کہ دنیا میں نماز کا رواج قائم کر دیا جائے جیسے ہماری زبان میں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے یہ رسم جاری کر دی ہے کہ اِسی طرح اللہ تعالیٰ مومنوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وہ لوگوں میں نماز قائم کریں یعنی صرف خود ہی نماز نہ پڑھیں بلکہ تمام لوگوں میں نماز کی خوبیاں بیان کریں- اُنہیں نماز پڑھنے کی تحریک کریں اگر انہیں نماز پڑھنی نہیں آتی تو انہیں نماز پڑھنا سکھائیں- اگر کوئی شخص نماز کا ترجمہ نہیں جانتا تو اُسے نماز کا ترجمہپڑھائیں اگر کوئی شخص نمازیں ادا کرنیکی لوگوں کو تحریک کر رہا ہو، کوئی شخص نماز پڑھنے والوں میں نماز کی مزید رغبت پیدا کر رہا ہو- اس طرح کوئی مومن ایسا نہ ہو جو وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کے حکم پر عمل نہ کر رہا ہو- پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارا صرف یہی کام نہیں کہ تم خود نمازیں پڑھو بلکہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم لوگو ں کو نماز کی تحریک کر کے ، اِنْ پڑھوں کو نماز کا ترجمہ سکھا کے ، نماز پڑھنے والوں کو نماز کی مزید رغبت دلا کے دنیا میں پوری مضبوطی کے ساتھ نمازوں کا رواج قائم کر دو- یہ سب امور ایسے ہیں جو اقامتِ صلوٰۃ میں شامل ہیں-
دوسرے معنے جو اقامت صلوٰۃ کے یہاں چسپاں ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ تمہارا صرف یہی فرض نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ تم جماعت کے ساتھ نماز پڑھو- مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں صرف عبادت کا حکم نہیں دیتے بلکہ باجماعت عبادت کا حکم دیتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام فروی مذہب نہیں بلکہ قومی مذہب ہے-باقی سارے مذاہب میں اگر افراد الگ الگ عبادت کرتے ہیں تو وہ بڑے زاہد، بڑے عابد، بڑے پرہیز گار اور بڑے عارف سمجھے جاتے ہیں- لوگ اُن کی نیکی اور تقدّس کے قائل ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں- جنہیں اﷲ تعالیٰ کا قرب اور اُن کا وصال حاصل ہے- مگر اسلام کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص با جماعت نماز ادا نہیں کرتا تو خواہ وہ علیحدگی میں کتنی عبادتیں کرتارہتا ہو وہ ہرگز نیک اور پارسا نہیں سمجھا جا سکتا اور اُسے ہرگز قوم میں عزت کا مقام نہیں دیا جا سکتا- یہ ایک بہت بڑا فرق ہے جو اسلام اور غیر مذاہب میں پایا جاتا ہے- باقی سب مذاہب پر غور کر کے دیکھ لو وہ انفرادی عبادات کو بہت بڑی اہمیت دیتے ہیں یہاں تک کہ بسا اوقات بڑی بڑی دُور سے پنڈت اور پادری اور راہب اور عوام الناس کے جوق در جوق یہ سُن کر فلاں سادھو چالیس سے غار میں عبادت کر رہا ہے اُس کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں، اُسے نذریں دیتے ہیں، اُس کے آگے سجدے کرتے ہیں، اُسے اپنا حاجت روا سمجھ کر اُس سے بڑی عاجزی سے التجائیں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سادھو سے بڑا اور کون ہو سکتا ہے- یہ وہ ہے جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چالیس سے پہاڑ کی ایک غار میں بیٹھا اﷲ اﷲ کر رہا ہے- مگر اسلام کہتا ہے- ایسا شخص ہرگز خدا تعالیٰ کا مقرب نہیں- وہ تو بہت بڑا بے دین ہے جس سے اقامتِ صلوٰۃ کے حکم کو نظر انداز کر دیا ہے جس نے یُقِیْمُوا الصّلوٰۃ کے حکم کو پس پشت پھینک دیا ہے- جو شخص قوم سے کٹ گیا ہے- جس نے قوم کی بہتری اور اس کی فلاں و بہبود کی کبھی فکر نہیں ، جو گوشۂ تنہائی میں بیٹھ رہا ہے وہ تو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سخت سزا کا مستحق ہے- کجا یہ کہ اُسے نیک اور خدارسیدہ سمجھا جائے-
پس وہ لوگ جن کو دوسری قومیں محض علیحدگی میں عبادت کرنے کی وجہ سے بزرگ قرار دیتی ہیں اسلام اُن کو مرتد اور مردود قرار دیتا ہے- دنیا اُن کو خدا رسیدہ سمجھتی ہے اور اسلام اُن کو اﷲ تعالیٰ کے قرب سے راندہ ہوا سمجھتا ہے- کیونکہ اسلام کہتا ہے- یُقِیْمُوا الصّلوٰۃ ہم نے تمہیں صرف اتنا حکم نہیں دیا کہ تم نمازیں پڑھو بلکہ ہمارا حکم یہ ہے کہ تم لوگوں کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھو- اور اپنی ہی حالت کو درست نہ کرو بلکہ ساری قوم کو سہارا دے کر اُس کی روحانیت کو بلند کرو اور قوم سے دُور نہ بھاگو بلکہ اس کے ساتھ رہو اور ہوشیار چوکیدار کی طرح اُس کے اخلاق اور اُس کی روحانیت کا پہرہ دو-
اس آیت میں دوسرا حکم زکوٰۃ کا دیا گیا ہے اور قرآن کریم میں جہاں بھی ایتائِ زکوٰۃ کا ذکر آتا ہے- ہمیشہ اقامتِ صلوٰۃ کے بعد آتا ہے- اس میں ایک نہایت ہی لطیف اشارہ اس امر کی طرف پایا جاتا ہے کہ جب تک کوئی شخص اپنی قوم کی شکستہ حالی سے واقف نہیں ہوتا اُس وقت تک وہ اُن کی کوئی خدمت بھی نہیں کر سکتا- وہ شخص جو کسی پہاڑ کی کھوہ میں جا کر بیٹھ رہا ہے اور دن رات سبحان اﷲ سبحان اﷲ کہتا رہتاہے اُسے کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں یا غُرباء ننگے پھر رہے ہیں یا مساکین پیسہ پیسہ کے لئے دربدر خاک چھان رہے ہیں یا روپہ کی کمی کی وجہ سے وہ علم سے محروم ہو رہے ہیں- اُسے اِن میں سے کسی بات کا بھی علم نہیں ہو سکتا اور جب علم نہیں ہو گا تو وہ اپنی قوم کے لئے کوشش کیا کرے گا- غرباء کے لئے جدوجہد یا مساکین کی ترقی کے لئے کوشش اُسی وقت ہو سکتی ہے جب انسان کو علم ہو کہ اُس کی قوم میں غرباء پائے جاتے ہیں، اُس کی جماعت میں مساکین موجود ہیں اور اُس کا فرض ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلائے، پیاسوں کو پانی پلائے، ننگوں کو کپڑے دے اور بیماروںکا علاج کرے اور یہ علم اُس وقت نہیں ہو سکتا جب تک انسان مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کا عادی نہ ہو- جب وہ مسجد میں آ ئے گا کہ تو دیکھے گا کہ اُس کے پاس ہی ایک طرف تو ایسا شخص کھڑا ہے جس نے اعلیٰ درجہ کا لباس پہنا ہوا ہے ، قیمتی عطر لگایا ہوا ہے، باصحت اور تنومند ہے اور دوسری طرف ایک ایسا شخص کھڑا ہے جس کے پھٹے پُرانے کپڑے ہیں، اُس کے لباس اور جسم کی بدبو سے دماغ پھٹا جاتا ہے اور اُس کے چہرہ پر جُھریاں پڑی ہوئی ہیں- وہ یہ نظاّرہ دیکھے گا تو اُس کا دل تڑپ اُٹھے گا اور کہنے میرا فرض ہے کہ میں قوم کے غرباء کے لئے اپنا روپیہ خرچ کروں اور اُن کی تکالیف کو دور کروں- یا وہ مسجد میں جائے گا تو دیکھے گا کہ وہاں ایک نوجوان بیٹھا ہے- بیس پچیس سال اُس کی عمر ہے، اُٹھتی جوانی کا زمانہ ہے- مگر اُس کی حالت یہ ہے کہ کلے پچکے ہوئے ہیں، آنکھیں اندر دھنسی ہوئی ہیں، کپڑوں کا بُرا حال ہے اور ضعف اُس کے جسم سے ظاہر ہے- وہ یہ حالت دیکھ کر لازماً پوچھے گا کہ میاں! تمہارا کیا حال ہے، تم اتنے خستہ حال کیوں نظر آ رہے ہو؟ اس کے جواب یا تو وہ کہے گا کہ میں بیمار ہوں علاج کے لئے میرے پاس کوئی پیسہ نہیں اور یا کہے گا کہ بیمار تو مگر کھانے پینے کا میرے پاس کوئی سامان نہیں- اس پر دوسرا شخص اُسے کہہ سکتا ہے کہ تم جوان آدمی ہو کماتے کیوں نہیں؟ وہ کہے گا میں کیا کروں بخاری کا کام مجھے آتا ہے مگر بخاری کے آلات وغیرہ خریدنے کی مجھ میں استطاعت نہیں یا معماری جانتا ہوں یا کپڑا بننا جانتا ہوں یا لوہارے کا کام جانتا ہوں مگر سامانوں سے تہیدست ہونے کی وجہ سے بے کار بیٹھاہوں- اس پر اُسے فکر پیدا ہو گا کہ میرا فرض ہے- مَیں اِس کی مدد کروں اور اِسی طرح قوم کے جو دوسرے غرباء ہیں اُن کی تکالیف دُور کرنے میں حصہ لوں تاکہ یہ بھی باعزت زندگی بسر کر سکیں- پس حقیقت یہ ہے کہ ایتائِ زکوٰۃ کی تحریک اقامتِ صلوٰۃ سے ہی ہوتی ہے اور اسلام نے پانچ وقت نماز جماعت کی ادائیگی کا حکم دے کر ایک ایسا اعلیٰ درجے کا راستہ کھول دیا ہے کہ اگر اس حکم پر عمل کیا جائے تو قوم کے حالات سے نہایت آسانی کے ساتھ واقفیت ہو سکتی ہے- بھلا ایک انگریز لارڈ کو اپنی قوم کے حالات کی کیا واقفیت ہو سکتی ہے- وہ گھر میں رہتا ہے تو وردیاں پہنے ہوئے نوکر اُس کی خدمت کے لئے موجود ہوتے ہیں جو اُس کے دسترخوان سے اپنا پیٹ ضرورت سے زیادہ بھر کر موٹے ہو رہے ہوتے ہیں- کلب میں جاتا ہے تو اُس کی سوسائٹی کے لوگ اُس کے دائیں بائیں ہوتے ہیں- اُسے کچھ علم نہیں ہو سکتا کہ غرباء پر کیا کچھ گذر رہی ہے- لیکن ایک مسلمان جو پانچ وقت مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتا ہے اور ہر روز پانچ دفعہ لوگوں کی شکلیں دیکھتا ہے اُسے بڑی آسانی سے پتہ لگتا رہتا ہے کہ اُس کی قوم کا کیا حال ہے اور اُسے قومی ترقی کے لئے کن امور کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے-
وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ- وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ- کے یہ معنے ہیں کہ ’’یہ ہے قائم رہنے والی قوم کا دین-‘‘ یہاں مضاف حذف کر دیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ- یعنی دنیا میں جو اُمّت قائم رہنا چاہے اُسے ایسا ہی طریق اختیار کرنا ضروری ہے- اس جگہ دین کے معنے طریق کے ہیں یا حال کے ہیں یا شان کے ہیں- اور اس طرح اوپر کے بیان کردہ سب معنے اس میں آ جاتے ہیں یعنی دنیا میں قائم رہنے والی اُمت کا یہی طریق اور یہی حال ہوتا ہے- اور چونکہ قیمۃ ٌ کے معنے مُتْوَلِّیْ کے بھی ہیں اس لئے ان معنوں کے رُو سے اِس آیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ جس قوم کو اﷲ تعالیٰ دنیا میں متولی بنائے اُسے ایسا ہی طریق اختیار کرنا چاہئیے ورنہ وہ اپنے فرض کو پورا کرنے والی نہ ہو گی- بہرحال اس آیت کے دو معنے ہوئے ایک یہ کہ قائم رہنے والی قوم کے یہ آثار ہوتے ہیں اور دوسرے یہ کہ جس قوم کو اﷲ تعالیٰ متولی بنائے اُسے ایسا ہی خصائل اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں- مطلب یہ ہے کہ جس قوم میں یہ علامات پیدا ہو جائیں اﷲ تعالیٰ اُسے دنیا کا متولّی بنا دیتا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ میں اﷲ تعالیٰ نے دو امور کی طرف اشارہ فرمایا تھا- اقامت صلوٰۃ میں اﷲ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ کی اتھا کہ مومن اﷲ تعالیٰ سے صلح رکھتے اور ان کے حقوق کو پوری دیانتداری کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور ایتاء زکوٰۃ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ مومن بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرتے، اُن کی خدمت میں پورے جوش سے حصہ لیتے اور اُن کے حقوق کو پوری تندہی سے ادا کرتے ہیں- اب فرماتاہے وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ- جو اُمت دنیا میں قائم رہنا چاہے اُسے ایسا ہی طریق اختیار کرنا چاہئیے یعنی اگر انسان اﷲ تعالیٰ سے بھی صلح رکھیں اور بنی نوع انسان سے بھی صلح رکھیں تو اُن پر کبھی تباہی نہیں آ سکتی- بگاڑ ہمیشہ اُسی وقت پید اہوتاہے جب لوگ یا تو خدا تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کر لیتے ہیں اور اُس کی طرف سے عذاب اور تباہیاں آنے لگتی ہیں یا پھر بنی نوع انسان کو اپنے خلافِ بھڑکا لیتے ہیں اور اِس کے نتیجہ میں بغاوت، ڈاکے، قتل اور خونریزیاں شروع ہو جاتی ہیں- دنیا میں عذاب آخر کیوں آتا ہے- طاعون دنیا میں کیوں آئی- زلازل کیوں آ رہے ہیں؟ اسی لئے کہ لوگوں نے خدا تعالیٰ سے اپنے تعلقات بگاڑ لئے- اس کے مقابل میں لوگ آپس میں کیوں لڑتے ہیں؟ اسی لئے کہ کچھ لوگ دوسروں پر ظلم کرتے اور اُن کے حقوق کی ادائیگی میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں جب یہ بات لوگوں کو قوتِ برداشت سے بڑھ جاتی ہے تو وُہ لڑائی شروع کر دیتے ہیں- یہی فساد کو دو وجوہ ہیں یا اللہ تعالیٰ سے بگاڑ- یا نبی نوع انسان سے بگاڑ - اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر کوئی قوم اقامت الصلوۃ اور ایتائِ زکوۃ پر عمل کر لے خدا تعالیٰ سے بھی صلح رکھے ار اُس کے بندوں سے بھی- تو اُس پر کبھی تباہی نہیں آ سکتی- تباہی کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ سے اپنے تعلقات بگاڑ لیتے ہیں اور اُن پر عذاب آنا شروع ہو جاتا ہے- اِسی طرح بندوں سے اپنے تعلقات بگاڑ لیتے ہیں اور لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں- محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم دنیا کے لئے کیاپیغام لائے تھے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ سے بھی صلح کر لو اور اُس کے بندوں سے بھی صلح کر لو تا کہ تم ہر قسم کے زوال سے محفوظ رہو- اس میں بھلا کونسی چیز تھی جس کی بناء پر لوگوں نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی مخالفت شروع کر دی؟ یہ بات تو سراسر اُن کے فائدہ کے لئے کہی گئی تھی مگر اُنہوں نے اُلٹا اپنے محسن کے خلاف جنگ شروع کر دی-
دوسرے معنوں کے لحاظ سے اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس قوم کو اللہ تعالیٰ دنیا میں متولی بنائے اُسے ایسا طریق اختیار کرنا چاہیے ورنہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں سخت کوتاہی سے کام لینے والی سمجھی جائے گی- ایک مضمون کے لحاظ سے قوم کی ذاتی خوبی بیان کی گئی ہے- یہ معنے کہ صحیح راستہ پر چلنے والی، دنیا میں قائم رہنے والی اور تباہی سے بچنے والی قوم کی یہ علامات ہوا کرتی ہیں اُس کی ذاتی خوبی پر دلالت کرتے ہیں - اور یہ معنے کہ جس اوم کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کا متولی اور حاکم بنائے اور اُسے اپنے اندر تمام بنان کردہ خوبیاں پیدا کرنی چاہیں ورنہ وہ حکومت کی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرنے والے نہیں سمجھی جا سکتی، اُس کی نسبتی کمالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں-
افسوس کہ مسلمانوں نے اُن اخلاق کو جو یہاں بیان ہوئے ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے تھوڑے عرصہ بعد ہی چھوڑ دیا اور جوں جوں وہ ان اخلاق کو چھوڑتے چلے گئے اللہ تعالیٰ بھی اُن کو چھوڑتا چلا گیا- اب احمدیت کے لئے موقعہ ہے کہ وہ اِن اخلاق کو دوبارہ قائم کرے- مگر یہ اخلاق کبھی مستقل طور پر قائم نہیں رہیں گے جب تک قرآن کریم لوگوں کے دماغوں میں بار بار اور زور سے داخل نہ کیا جائے گا اور اُسے ساری قوم میں زندہ نہ کیا جائے گا-
۲؎ ذَاِلکَ دِیْنُ الْقَیْمَۃِ پر ویری کا بودا اعتراض
ویری نے اس جگہ ایک عجیب اعتراض کیا ہے وُہ ذَاِلکَ دِیْنُ الْقَیْمَۃِ کا ترجمہ کرتا ہے - ’’ یہ سچا دین ہے‘‘ اورپھر اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محمد صاحبؑ یعنی انہوں نے ان تینوں مذاہب کی ایک ہی تعلیم بتائی اور کر دیا کہ یہودی - عیسائی اور مسلمان سب کایہی مذہب ہے - گویا دائمی مذہب کے معنے اُنہوں نے یہ لئے کہ آدم سے لے کر آج تک دنیا کا ایک ہی مذہب رہا ہے ( مسلمانوں میں سے بھی بعض بے وقوف
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْامِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَادِ جِھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ط
اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کفر پر قائم رہنے والے لوگ یقیناً جہنم کی آگ میں داخل ہوں گے
اُولٰٓئکَ ھُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ oطاِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُو الصّٰلِحٰتِ ط اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا وَ
(اور وہ)اُس میں رہتے چلے جائیں گے- وہی لوگ ( ہاں وہی لوگ) بد ترین خلائق ہیں-
عَمِلُو االصّٰلِحٰتِ ط اُولٰٓئکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ oط
( اس کے مقابل پر ) وہ لوگ جو اہل کتاب اور مشرکوں میں سے ایمان لے آئے اور انہوں نے (ایمان کے ) مناسب حال عمل بھی کئے وہ لوگ ہاں وہی لوگ بہترین خلائق ہیں ۷؎
یہی عقیدہ رکھتے ہیں ) اور چونکہ یہ بات غلط ہے اس لئے اُنہوں نے اپنے جھوٹا نبی ہونے کا آپ ہی ثبوت مہیا کر دیا ہے-
اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو پادری صاحب نے اس آیت کا ترجمہ غلط کیا ہے ( ترجمہ توسیل کا ہے مگر چونکہ انہوں نے اس ترجمہ کو قبول کر کے اعتراض کیا ہے اس لئے یہ ترجمہ الہٰی کی طرف منسوب ہو گا) اس کا ترجمہ ’’ سچا دین‘‘ نہیں بلکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ’’ یہ قائم رہنے والی قوم کا دین ہے ‘‘ یا قائم رہنے والی قوم کی حالت ہے ‘‘ کیونکہ قِیِّمِۃ دین کی صفت نیہں ہے اور عربی زبان میں قواعد کے مطابق ایسا ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ دین مذکر ہے اور قیمّہ مونث ہے اور مذکر کی صفت مؤنث نہیں بن سکتی- پس عربی زبان کے قواعد کا موصوف مخدوف سمجھنا ہو گا اور سیاق و سباق عبارت سے اَلْمِلَّۃ یا ایسا ہی کوئی لفظ ہو سکتا ہے اور اسی قاعدہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے اس آیت کی یہ تشریح کی ہے کہ ذَاِلکَ دِیْنُ الْقَیْمَۃِ
دوسرے اِس آیت سے ایک دین ماننا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس جگہ پر تو باقی تمام مقامات سے زیادہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ یہوو اور نصاریٰ کا دین مختلف ہے تبھی قرآن کریم کے متعلق صُحُفََا مُّطَھَرَۃً اور فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ کہا گیا ہے تعجب ہے کہ جس جگہ قرآن کریم نے اختلاف پر زوردیا ہے وہیں ویری صاحب کو یہ اعتراض سوجھا ہے کہ اسلام مسیحیت اور یہودیت سب کو ایک ہی مذہب قرار دیا گیا ہے-
۷؎ تفسیر
میں نے جہاں لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْمِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفِکِّیْنَ حَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیْنَۃُ میں مِنْ کو بیانیہ قرار دیا تھا وہاں میرے نزدیک اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْھَامیں منْ بعضیہ اور کَفَرُوْا سے نا واقفیت کا کفر مراد نہیں بلکہ وہ کفر مراد ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے اختیار کیا جاتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کی یہ سزا ہو گی کہ وہ جہنم کی آگ میں داخل کئے جائیں گے اور اُس میں ہمیشہ وہ جہنم کی آگ میں داخل کئے جائیں گے اور اُس میں ہمیشہ رہیں گے- یہ سزا بتلا رہی ہے کہ یہاں اہل کتاب اور مشرکین میں سے ایسے کفار کا ہی ذکر کیا جا رہا ہے جنہوں نے جان بوجھ کر کفر کیا- جن پر حُجت کا اتمام ہو گیا اور جن کا اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی عُذر قابلِ شُنوائی نہ رہا- ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں داخل کئے جائیں گے اور اُس میں رہتے چلے جائیں گے پھر فرماتا ہیاُولٰٓئکَ ھُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃ یہی وہ لوگ ہیں جو تمام مخلوق میں سے بد ترین ہیں- اس کے مقابل میں مومنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اُولٰٓئکَ ھُمْ خَیْرالْبَرِیَّۃُ وہ لوگ تمام مخلوق میں سے بہتر ہیں-
شر اور خیر کے الفاظ ایسے ہیں جو ہیں تو اِسم تفصیل مگر کثرتِ استعمال کی وجہ سے اُن کا ہمزہ اُڑگیا ہے اس لئے اشر اور اخیر کی شکل میں استعمال نہیں ہوئے-
شَرُّ الْبَرِیَّۃ کے معنے ہیں بنی نوع انسان میں سب سے بد ترین یہ لوگ صرف بُرے نہیں بلکہ تمام مخلوق میںسے بد ترین ہیں اور خَیْرالْبَرِیَّۃ کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے وہ تمام مخلوق میںسے بہترین ہیں - گویا کفار سب سے بُرے ہیں اور مومن سب سے اچھے ہیں یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین کے علاوہ غیر مسلم دنیا میں کوئی قوم ہی نہیں؟ میں بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم میں جب بھی اہل کتاب اور مشرکین کا ذکر کیا جائے تو اُس سے مراد تمام غیر مسلم دنیا ہوتی ہے کیونکہ غیر مسلم دو حلقوں میں ہی تقسیم کئے جا سکتے ہیں یا وہ اہل کتاب ہونگے یا وہ مشرک ہوں گے- پس جب کہ دنیا میں صرف دو ہی گرو پائے جاتے ہیں - اہل کتاب اور مشرک- تو سوال یہ ہے کہ اہل کتاب اور مشرک بُرے کن سے ہوئے-
اسی طرح جب مومنوں کے سوا دنیا میں کوئی اَور ایماندار جماعت ہی نہیں تو وہ اچھے کن سے ہوئے؟ بے شک ایک زمانہ ایسا گذرا ہے جب الگ الگ قوموں کی طرف الگ الگ انبیاء مبعوث ہوا کرتے تھے اور ہر قوم صرف اپنے نبی پر ایمان لانے کی پابند تھی اُسے یہ ضرورت نہیں تھی کہ وہ دوسری قوم کے نبی پر ایمان لائے اُس وقت اگر یہ کہا جاتا کہ مومن تمام مخلوق میں سے بہترین تو خیال کیا جا سکتا تھا کہ اس سے مراد یہ ے کہ وہ زرتشی مومنوں سے اچھے ہیں یا کرشنی مومنوں سے اچھے ہیں یا موسوی مومنوں سے اچھے ہیں مگر جب مومنوں کا ایک ہی گروہ ہے تو وہ اچھے کس طرح سے ہوئے- اسی طرح جب اہل کتاب اور مشرکین کے سوا اور کوئی کافر ہی نہیں تو بُرے کس سے ہوئے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جو اس مقام پر پیدا ہوتا ہے کہ جب کافروں کے سوا اور کوئی کافر ہی نہیں تو وہ بُرے کس سے ہوئے اور جب مومنوں کے سوا اور کوئی مومن ہی نہیں تو وہ اچھے کس سے ہوئے؟
درحقیقت اِن آیات میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی اُمت کا پہلے انبیاء کی اُمتوں سے مقابلہ کیا گیا ہے اسی طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا مقابلہ پہلے انبیاء کے دشمنوں سے کیا گیا ہے اور اسی بناء پر شر اور البریّہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے محمد صلے اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا ہے وہ پہلے تمام انبیاء کے دشمنوں سے بدتر ہیں اور وہ لوگ جنہیں محمد صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوتی ہے وہ پہلے تمام انبیاء کی اُمتوں سے اچھے ہیں- پس شر البریہ اور خیر البریہ کے الفاظ موجودہزمانہ کی مخلوق کے لحاظ سے نہیں کہ یہ سوال پیدا ہو کہ جب مومنوں کے سوا اور کوئی مومن ہی نہیں تو وہ اچھے کس سے ہوئے ؟ بلکہ یہ الفاظ پہلے زمانہ کے لوگوں کے مقابل میں ہیں- اور اُولئکَ ھُمُ شَرُّ الْبَرِیَّہ کے کے معنے یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلے علیہ وسلم کے منکر موسیٰؑ کے منکروں سے بھی بد تر ہیں- عیسٰیؑ کے منکروں سے بھی بدتر ہیں- کرشنؑ کے منکروں سے بھی بدتر ہیں- زرتشت کے منکروں سے بھی بد تر اور اُولٰٓئکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِکے معنے یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مومن موسیٰؑ کے مومنوں سے بھی ہیں- زرتشتؑ کے مومنوں سے بھی اچھے ہیں- غرض اُن کا مقابلہ پہلی اقوام کے ساتھ کیا گیا ہے اور اس مقابلہ کی بناء پر ہی کفار کو شر البّریہ اور مومنوں کو خیر البریّہ کہا گیا ہے- کیوں؟ اس لئے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ۔
وہ تعلیم لائے تھے جو فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃ کی مصداق تھی، جو صحفِ مطہّرہ پر مشتمل تھی اور جس میں تمام انبیاء سابقین کی اعلیٰ تعلیم شامل تھی - پس نوحؑ کی اُمّت نے صرف موسیٰ ؑ کی تعلیم پر عمل کیا- عیسیٰ کی اُمّت نے صرف عیسیٰؑ کی تعلیم پر عمل کیا- کرشنؑ کی اُمّت نے صرف کرشنؑ کی تعلیم پر عمل کیا- زرتشتؑ کی اُمّت نے صرف زرتشت۔
جَزَآؤُ ھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا ط رَ ضِیَ اللّٰہُ
اُن کا بدلہ اُن کے رب کی حضور میں قائم رہنے والی باغات ہوں گے جن کے تلے نہریں بہتی ہوں گی- وہ اُن میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے اللہ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ اُس ( اللہ) سے
عَنْہْمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ oع
راضی ہو گئے- یہی (جزا) اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے ۸؎

تفسیر کبیر
جلد نہم
سُوْرَۃُالشَّمْسِِ مَکِیَّۃ ٌ
سورۃ شمس ۔ یہ سورۃ مکّی ہے نمبر ۱
وَھِیَ خَمْسَ عَشْرَۃَ اٰیَۃً دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِیْہَا رُکُوْعٌ وَّاحِدٌ
اور بسم اللہ کے سوا اس میں پندرہ (۱۵) آیات ہیں اور ایک رکوع ہے ۔
نمبر ۱ ۔ یہ سورۃ مکی ہے ابن عباس ؓ کی روایت ہے نَزَلَتْبِمَکَّۃَ کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی تھی ایسی ہی روایت ابن الزبیر ؓسے بھی ہے ۔ عقبہ ابن عامر کی روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ظہر کی نماز میں سُوْرَۃُالشَّمْس اورسُوْرَۃُالضُّحٰی پڑھا کریں ۔ مطلب یہ کہ اس وقت زیادہ لمبی سورتیں نہ پڑھا کریں ۔ نیز ان دونوں سورتوں کو ظہر کے وقت سے مناسبت بھی ہے ۔ (فتح البیان )
پادری ویری کے نزدیک پہلانصف حصہ پہلے سال کا اور آخری نصف تیسرے چوتھے سال کا معلوم ہوتا ہوتا ہے کیونکہ آخری حصہ میںمخالفت ِ انبیاء کا ذکر ہے ۔ وہ کہتے ہیں چونکہ اس سورۃ کے آخری حصہ میں انبیاء کی مخالفت کا ذکر ہے اور انبیاء کی مخالفت کا ذکر اسی وقت اور اسی سلسلہ میں ہو سکتا ہے جب رسول کریم ﷺ کی ظاہری مخالفت مکہ میں شروع ہو گئی ہو اور منظم مخالفت تیسرے سال کے آخر یا چوتھے سال کے شروع میں ہوئی ہے اس لئے سورۃ کا یہ حصہ اُسی وقت کا ہے ۔
یہ تو درست ہے کہ یہ سورۃ ابتدائی زمانہ کی ہے اور بالکل ممکن ہے کہ پہلے سال کی ہو یا دوسرے سال کی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تیسرے سال کے ساتھ اس کا تعلق ہو لیکن ویری کا یہ قیاس کرنا بالکل لغو بات ہے کہ چونکہ اس میں مخالفتِ انبیاء کا اجمالاً ذکر ہے اس لئے آدھا حصہ پہلے نازل ہو چکا تھا اور آدھا حصہ بعد میںنازل ہوا ۔ پہلاحصہ پہلے سال میں نازل ہوا اور دوسرا حصہ تیسرے یا چوتھے سال میں نازل ہوا کیونکہ محض مخالفتِ انبیاء کاذکر مخالفت کے شروع ہو جانے سے تعلق نہیں رکھتا۔ ہم تو قرآن کریم کو اللہ تعالی کا کلام سمجھتے ہیں اور اس شک میں پڑنا بالکل خلاف عقل ہے کہ اللہ تعالی کو آئندہ مخالفت کا علم تھا یا نہیں لیکن پادری ویری اور ان کے ہم خیالوں کے نقطہ نگاہ کو مد نظر رکھ کر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسااجمالی ذکر مخالفت کا بھی اسی وقت آسکتا ہے ۔ جب کہ مخالفت کے آثار شروع ہو چکے ہوں ۔ اگر یہ لوگ قرآن کریم کو انسانی کلام سمجھتے ہیں تو بھی انہیں یہ خیال کرنا چاہیئے کہ ہر شخص جو ایک نئی بات دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے وہ قدرتی طور پر اُن کے انکار کی امید بھی کرتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ انکا ر کی شدت یا اس کی نوعیت کا اندازہ نہ لگا سکے مگر انکار و تردید کی امید ضرور رکھتا ہے آخر کون عقل مند یہ خیال بھی کر سکتا ہے کہ ایک شخص اپنی قوم کے عقائد کے خلاف اس کے مذہب کے خلاف اور اس کے رسم و رواج کے خلاف دعویٰ کرے اور پھر وہ یہ امید رکھے کہ لوگ مجھے فوراً ماننے لگ جائیں گے۔ پس ضروری ہے کہ لوگ اس کی بات کا انکار کریں۔ ہاں اگر وہ سچا ہو توآخر میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے قبولیت کے آثار دیکھ لے گا ۔
جیسا کہ مَیں اوپر کئی مواقع پر بیان کر چکا ہوں کہ یہ درست ہے کہ اگر مخالفت کی تفصیلات بیان کی جائیں تو ایک حکمت سے پر کتاب ضرور اس امر کو ملحوظ رکھ لیتی ہے کہ وہ تفصیلات یا تو اشارے کنائے میں بیان ہوں اور یا ایسے وقت کے قریب بیان ہوں جب وہ واقعات رونما ہونے والے ہوں تا مخالف یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں انگیخت کی گئی ہے ۔ مخالفت کی انگیخت کا الزام دور کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اگر پیشگوئی کے طور پر واقعات بیان کئے جائیں تو اس کے الفاظ چبنے والے نہ ہوں ۔ مگر یہ امر ہم صرف تفصیلات کے متعلق تسلیم کرتے ہیں۔ محض یہ بات بیان کرنا کہ سچائی کی مخالفت ہوا ہی کرتی ہے یہ کوئی ایسا مضمون نہیں جس سے لوگ چڑ جائیں۔ ہر روز ہر مجلس میں جب بھی صداقت کا ذکر ہو تو لوگ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہر نئی صداقت کی مخالفت ہوتی ہے مگر اس سے نہ انگیخت ہوتی ہے نہ کسی کے دل میں جوش پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی فتنہ و فسا درونما ہوتا ہے ۔
قرآن کریم کے متعلق پادری ویری کو قیاس کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ کئی صدیاں اس کے نزول کے بعد پیدا ہوئے ہیںاور عقل سے اس کے نزول کی تاریخیں معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ چونکہ اس میںمخالفت کا ذکر ہے اور وہ بھی آپ کی مخالفت کا نہیں بلکہ ایک گذشتہ نبی کی مخالفت کا ۔ اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ یہ آخری حصہ اس وقت کا ہے جب کہ آپ کی منظم مخالفت مکہ میں شروع ہو گئی تھی ۔ مگر ہم یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ان کا طریق استدلال بالکل غلط ہے ایک ایسی مثال پیش کرتے ہیں جو تاریخی واقعات پر مبنی ہیں اور جس سے کسی صورت میں بھی انکار نہیں کیاجاسکتا ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ جن کا سب زمانہ تاریخی ہے ا ٓپ کو براہین احمدیہ کی اشاعت سے بھی پہلے الہام ہوا کہ ـ’’ کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا ‘‘(تذکرہ صفحہ ۲۷۱) اس الہام میں مخالفت کا ذکر ہے اور مخالفت کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے زور آور حملوں کا بھی ذکرہے لیکن ایک تو دنیا کا لفظ استعمال کر کے مفہوم کو ایسا وسیع کر دیا کہ مسلمان سمجھیںشاید عیسائیوں کا ذکر ہے اور عیسائی سمجھیںشاید مسلمانوں کا ذکر ہے ۔ پھربجائے خصوصیت سے یہ ذکر کرنے کے کہ صوفیاء بھی مخالفت کریں گے اور اکابراور علماء بھی مخالفت کریں گے عام رنگ میں اللہ تعالیٰ نے اس مخالفت کی طرف ان الفاظ میںاشارہ کر دیا کہ ’’ دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا ‘‘ ۔ مگر یہ الہام آپؑ کو اس وقت ہواجب آپ براہین ِ احمدیہ لکھ رہے تھے اور لوگ آپ پر بڑ ا اعتقاد رکھتے تھے یہاں تک کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بعد میںشدید مخالف ہو گئے اور احمدیت کی دشمنی کو انہوں نے انتہا تک پہنچا دیا اور جو اپنے تکبر اور رعونت کی وجہ سے کسی کی با ت ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے انہوں نے بھی براہین احمدیہ کو پڑھ کر لکھا کہ:۔
’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں۔ لَعَلَّ اللہ َ یُحْدِ ثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْراً‘‘
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق لکھا کہ :۔
’’ اس کا مولف بھی اسلام کی مالی ، جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے ‘‘
پھر اس خیال سے کہ کہیں لوگ مبالغہ سمجھ کر اس رائے کو غلط نہ قرار دے دیں انہوں نے زور دیتے ہوئے لکھا کہ :۔
’’ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشائی مبالغہ سمجھے تو ہم کوکم از کم ایک ایسی کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ سماج و برہمو سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشان دہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت ِ مالی و جانی و قلمی و لسانی کے علاوہ نصرت ِ حالی کا بیڑااٹھا لیا ہو اور مخالفین ِ اسلام اور منکرین ِ الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آکر اس کاتجربہ و مشاہد ہ کرلے اور اس تجربہ و مشاہد ہ کا اقوام ِغیر کو مزا بھی چکھا دیا ہو‘‘۔ (اشاعۃ السنتہ جون ۔ جولائی اگست ۱۸۸۴ء )
اب دیکھو جس وقت دنیا تعریف کر رہی تھی ، جب بڑے بڑے رئوساء اور نواب آپ سے خط و کتابت رکھتے اور آپ کو دعا کے لئے لکھتے رہتے تھے ، جب علماء اور عوام آپ سے عقیدت رکھتے تھے اور جب مخالفت کے دنیا میں کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا:۔
ــ ’’ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیانے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘ ۔
وہ مخالفتیں جو اب ہو رہی ہیں یا گذشتہ عرصہ میں ہو چکی ہیں ان کا کیسا مختصر مگر مکمل نقشہ اوپر کے الفاظ میں کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے آخر یہ غور کرنے والی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ بات کس نے بتا دی تھی کہ آپ کی دنیا میں شدید مخالفت ہو گی ۔ ایسی مخالفت کہ اس کے مقابلہ میں خدا تعالی کو بھی سچائی کے اظہار کے لئے زور آور حملوں سے کام لینے کی ضرورت پیش آئے گی ۔ یہ امر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس امر کے مدعی تھے کہ میں رسول کریم ﷺ کا خادم ہوں ۔ پس جس ہستی نے ایک خادم اور غلام کو ایسے زمانہ میں جبکہ مخالفت کا نام و نشان تک نہیں تھا اس امر کی اطلاع دے دی کی تیری مخالفت ہونے والی ہے ۔ ویری جیسے عقلمند کو اس سے سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ ہستی آقا کو بھی قبل از وقت خبر دے سکتی تھی ۔ مگر بوجہ اُس تعصب کے جو مسیح پادریوں میں بالعموم پایا جاتا ہے اور بوجہ اس مخالفت کے جو لوگوں کو اسلام سے ہے پادری ویری کے لئے یہ سمجھنا بڑا مشکل ہے کہ ابتدائی زمانہ میں ہی جب مخالفت کا کہیں وجود نہیں تھا آپ کو اس کا کیونکر علم ہو گیا ۔ وہیری صاحب کو سمجھ لینا چاہیئے کہ اس میں محمد ﷺ کے علم کا سوال نہیں بلکہ خدا تعالی کے علم کا سوال ہے لیک فرض کرو یہ سورۃ محمد ﷺ کی اپنی بنائی ہوئی ہے تب بھی انہیں اتنا سمجھ لینا چاہیئے کہ تفصیلات کا بے شک علم نہ ہو لیکن قوم کے اعتقادات اور اُس کے رسوم و رواج کے بالکل خلاف ایک نئی بات پیش کرنے والا ہر شخص سمجھتا ہے کہ قوم میری مخالفت کرے گی ۔ رسول کریم ﷺ کو جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا پہلی وحی کے نزول کے بعد ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور اُس نے آپ سے کہا کہ تیری قوم سخت مخالفت کریگی یہاں تک کہ تجھے مکہ میں سے نکال دے گی ۔ توآپ نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ لوگ میری مخالفت کریں؟ اُس نے کہا آج تک کوئی ایسا رسول نہیں آیا جس کی اُس کی قوم نے مخالفت نہ کی ہو۔ پس اگر یہ سورۃ پہلے سال کی سمجھو تب بھی ورقہ بن نوفل نے آپ کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر دیا تھا اور بتا دیا تھا کہ دنیا آپ کی مخالفت کرے گی ۔ الغرض محض مخالفت کا ذکر اس امر کا ثبوت نہیںہو سکتا کہ یہ سورۃ مخالفت کے قریب زمانہ کی یا خود مخالفت کے زمانہ کی ہے ۔ ہاں بعض تفصیلاتِ معّینہ اس امر کی ایک غالب دلیل ہوتی ہیں کہ وہ اس زمانہ یا س کے قریب کی ہیں مگر قطعی ثبوت اور حجت وہ بھی نہیں ہو سکتیں ۔ بہر حال محض سورۃ کے آخری حصہ میں مخالفتِ انبیاء کا ذکر آجانے سے یہ خیال کر لینا کہ یہ حصہ تیسرے یا چوتھے سال کا ہے بالکل بعید از قیاس امر ہے ۔
ہم کُلّی طور پر انکارنہیںکرتے ممکن ہے یہ سورۃ تیسرے سال کی ہی ہو مگر اس وجہ سے اسے تیسرے یا چوتھے سال کے ابتدائی حصہ کی قرار دینا کہ اس میں مخالفتِ انبیاء کا ذکر آتاہے محض دشمنی اور عداوت کا نتیجہ ہے ۔
ترتیب: سر میور کہتے ہیں کہ یہ چند سورتیں یعنی شمس اور اس سے دو پہلی اور دو بعد کی سورتیں یعنی سورہ فجر سورہ بلد ، سورہ لیل اور سورہ ضحی اظہار خیالات کا رنگ رکھتی ہیں اور ایسی ہی ہیں جیسے کوئی شخص اپنے نفس سے باتیں کر رہا ہو۔ میور کے ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے غارِ حرا میں رہ کر اپنی قوم کے حالات پر جو کچھ غور کیا اور اُس کے نتیجہ میں آپ کو جو خرابیاں اپنی قوم میں نظر آئیں اور جو کچھ فیصلے آپ کے دل نے اُن دنوں میں کئے اب ان سورتوں میں آپ ان کا اظہار کر رہے ہیں ۔ یوروپین مصنفین اس قسم کا اظہار ِ خیالات کو سیلیلوکیز SOLILOQUIESکہتے ہیں یعنی دل کے خیالات سے متاثر ہو کر خود اپنے آپ سے باتیں کرنا ۔
گویا یوروپین مصنفین کے نزدیک یہ سورتیںکیا ہیں یہ وہ آہیں ہیں جو آپ کے تڑپتے ہوئے دل سے اُٹھیں، یہ وہ نالے ہیں جو قوم کی حالتِ زار پر آپ نے بلند کئے اور یہ وہ فغاں ہے جس نے حرا کی تاریکیوں میں ایک شور پیدا کیا ۔ دنیا اپنی عیاشیوںمیں مبتلا تھی، لوگ اللہ تعالی سے غافل ہ بیگانہ ہو چکے تھے مگر محمد رسول اللہ ﷺ اپنی قوم کی حالت پر تنہائی کی گھڑیوں میں آہیں بلند کر رہے تھے ، نالہ و فریاد سے ایک شور بپا کر رہے تھے ، درد و کرب اور انتہائی اضطراب کے عالم میں اپنے دن گذار رہے تھے اور آخر آپ کی آہیں ، آپ کے نالے اور آپ کی فریادیں ان سورتوں کی شکل میں دنیا پر ظاہر ہو گئیں۔
دشمن نے یہ بات خواہ کسی رنگ میں کہی ہو مگر ہے ایک لطیف بات ۔ دشمن کی غرض تو ان الفاظ سے یہ ہے کہ ان سورتوں میں جن جذبات کا اظہار ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے اپنے جذبات ہیں آپ اپنے دل میں جو کچھ سوچا کرتے اور جن جذبات و کیفیات سے آپ گذرا کرتے تھے اُنہی جذبات و کیفیات کا آپ نے ان سورتوں میں اظہار فرما دیا ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بھی اپنے کلام میں انسانی جذبات کو ظاہر کیا کرتا ہے ۔ اگر یہ محمد رسول اللہ ﷺ کے جذبات تھے توہم اس کے معنے یہ لیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لئے صحیح انتخاب کیا اور ایسے شخص کو اس عظیم الشان کام کی سر انجام دہی کے لئے چنا جس کے اپنے جذبات بھی خدا تعالیٰ کے ارادوں کے ساتھ مل گئے تھے پس ہم دشمن کی اس بات کو ردّنہیں کرتے بلکہ ایک نئے نقطئہ نگاہ کے ماتحت تسلیم کر لیتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں اگر یہ صحیح ہے کہ ان سورتوں میں محمد رسول اللہ ﷺ کے اس دکھ اور اس درد اور اس تالّم کا اظہار کیا گیا ہے جو آپ اپنی قوم کے متعلق محسوس کرتے تھے تو یہ امر بتاتا ہے کہ کس طرح محمد رسو ل اللہ ﷺ غلاموں اور یتیموں کی حالت کو دیکھ دیکھ کر زار ہو رہے تھے ۔ کیا کیا خیالات تھے جو آپ کے دل میںپیدا ہوتے تھے اور کیا کیا جذبات تھے جو آپ کے دل میں ہیجان بپا رکھتے تھے ۔ آپ سمجھتے تھے کہ میری قوم جب تک اپنے ان افعال میں تبدیلی پیدا نہیں کرے گی وہ کبھی ترقی نہیں کر سکے گی ۔ تم اِسے انسانی کلام سمجھ لو۔ تم اس کلام کو بناوٹی کلا م قرار دے دوبہر حال تمہیں تسلیم کرنا پڑے گاکہ جس انسان کے آگے آنے کی وجہ سے یہ ہو کہ ظلم اور استبداد کو میں برداشت نہیں کر سکتا ، یتیموں اور بیکسوں کی آہ و زاری کو میں دیکھ نہیں سکتا ، غریبوں اور ناداروں کے حقوق کا اتلاف کبھی جائز نہیں سمجھا جا سکتا ، غلاموں پر تشدّد کبھی روانہیں رکھا جاسکتا اُس کی بڑائی اور اس کی نیکی اور ا س کی عظمت کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ انہی حالات کو دیکھ دیکھ کر وہ حراء کی تاریکیوں کو پسند کرتا ہے ، وہ دنیا سے ایک عرصہ تک جدا رہنا پسند کرتا ہے اور پھر جب وہ دنیا کی طرف واپس آتا ہے تو اس لئے نہیں آتا کہ وہ اپنے لئے عزت چاہتا ہے ، اس لئے نہیں آتا کہ وہ اپنے لئے حکومت چاہتا ہے بلکہ اس لئے آتاہے کہ قوم کے گرے ہوئے طبقہ کو ابھارے ، اس کی برائیوں کو دور کرے اور اس کی اصلاح کر کے اسے دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لاکر کھڑا کر دے ۔ میور کہتا ہے یہ سولیلوکیز SOLILOQUIESہیں یہ وہ باتیں ہیں جوانسان اپنے نفس سے کیا کرتا ہے ، یہ وہ خیالات ہیں جو گہری خلوت میں انسان کے دل میں خود بخودپیدا ہو جایا کرتے ہیں لیکن اگر محمد رسول اللہ ﷺ کے یہی خیالات تھے اور اگر آپ کے قلب کی گہرائیوں میں بار بار یہی جذبات موجزن رہتے تھے کہ ان غلاموں کو کون پوچھے گا ، ان یتیموں کو کون پوچھے گا ، ان مساکین کو کون پوچھے گا مجھے خلوت کو چھوڑ دینا چاہیئے اور اس وقت تک مجھے دم نہیں لینا چاہیئے جب تک بڑے بڑے رئیس اور سردار اپنے ان مظالم سے توبہ نہیں کر لیتے ۔ تو میں سمجھتاہوںیہی خیالات اپنی ذات میں اتنے پاکیزہ ہیں کہ دنیا کا کوئی ہوشمند انسان آپ کی فضیلت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا
بہر حال دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو قرآن مجید کو خداتعالیٰ کا کلام قرار دیا جائے یا انسان کا ۔اگر خدا تعالیٰ کا کلام مان لیا جائے تب تو کوئی اعتراض نہیں رہتالیکن اگر یہ انسان کے خیالات ہیں تو ایسے پاک نفس انسانکے خیالات ہیں جس کی پاکیزگی اور تقدس سے کوئی شخص انکار کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
اس سورۃ کا تعلق دوسری سورتوںسے سمجھنے کے لئے اس امر کو مد نظر رکھنا چاہیئے کہ یہ پانچوں سورتیں جن کا ذکر سورتوں کی ترتیب کے سلسلہ میں پہلے کیا جا چکا ہے اپنے اندر یہ مضمون رکھتی ہیں کہ غرباء اور یتامیٰ و مساکین کی مدد کرنی چاہیئے چنانچہ سورۃ الفجر میں آتا ہے کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ ……… پھر سورۃ البلد میں آتا ہے وَمَا…………… پھر انہی اخلاق کا سورہ الشمس میںذکر ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاَلْھَمَھَا……………… پھر سورۃ الیل میں فرماتا ہے فَا َمَّا ……… اسی طرح آتا ہے وَ سَیُجَنَّبُھَا ……… پھر سورۃ الضحیٰ میں آتاہے فَا َمَّا ……… اس سے ظاہر ہے کہ یہ پانچوں سورتیں آپس میں ایک گہرا تعلق رکھتی ہیں اور ان میں زیادہ تر اخلاق فاضلہ پر زور دیا گیا ہے بالخصوص ایسے اخلاق پر جو قومی ترقی سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں غریب ، مظلوم ، بے کس اور گرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے اور ان کے لئے ترقی کے وسائل اختیار کرنے کی تحریک پائی جاتی ہے ۔ ان جذبات کو خواہ دشمن محمد رسول اللہ ﷺ کے اپنے جذبات قرار دے تب بھی ظاہر ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے جن جذبات سے متاثر ہو کر اصلاح کا بیڑا اٹھایا وہ جذبات غرباء اور یتامیٰ و مساکین کی خدمت کے تھے۔
بحر محیط کے مصنف لکھتے ہیںکہ پہلی سورۃ سے اس کا تعلق یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں اللہ تعالی نے مکہ کی قسم کھائی تھی اب کچھ بلندیوں اور پستیوں کی قسم کھاتا ہے ۔ میرے دل میں سب سے زیادہ قدر بحر محیط کے مصنف کی ہے کیونکہ تفسیر کا وہ حصہ جس سے مجھے لگائو ہے یعنی ترتیب سور کا مضمون ۔ اس سے ان کو بھی لگائو ہے مگر یہاں آکر وہ بڑی پھسپھسی بات کہہ گئے ہیں۔ ان پانچ سورتوں کا مضمون (جن سورتوں کا پہلے ذکر ہو چکا ہے ) آپس میںبڑا گہرا تعلق رکھتا ہے ۔ اگر ہم سورۃ البلد کو سورۃ الشمس کے مضمون سے ملا دیں تو یہ سورۃ اگلی سورۃ سے جا ملتی ہے ۔ پس اس سورۃ کی ترتیب کے متعلق تو کوئی مشکل پیش ہی نہیں آسکتی ۔ اس سے پہلی سورۃ میں بھی غرباء کے لئے اموال کو خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے پس کم سے کم ان مضامین کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سورۃ ما قبل اور ما بعد کی سورتوں سے نہایت گہرا تعلق رکھتی ہے ۔ اگر بحر محیط کے مصنف اتنی بات ہی بیان کر دیتے تو ایک معقول بات ہوتی مگر یہ کیا پھسپھسی بات ہے کہ پہلے چونکہ مکہ کی قسم کھائی تھی اس لئے اللہ تعالی نے کہا کہ آئو اب لگتے ہاتھوں ایک اونچی اور ایک نیچی چیز کی قسم بھی کھا لیں یہ محض مجبوری کی بات ہے چونکہ اُن کا ذہن اصل ترتیب کی طرف نہیں گیاانہوں نے یہ تاویل کر لی ۔ بیشک جہاں تک ایسوسی ایشن آف آئیڈیاز ’یعنی بات سے بات پیدا ہو جانے ‘ کا سوال ہے یہ بات صحیح ہے کہ جب انسان کو ایک خیال پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس قسم کا دوسرا خیال بھی پیدا ہو جاتا ہے جب انسان کہتا ہے کہ محض فلاں شخص نہیں ملا تو اُس کی بیوی اور بچوں کا خیال آجاتاہے ۔ پھر اُن کے وطن کا بھی خیال آ جاتا ہے اور پھر اسی طرح یہ خیالات بڑھتے بڑھتے اور کئی رنگ اختیار کر لیتے ہیں ۔ پس ایساہوتا رہتا ہے او ر ہمیشہ ایک سے دوسرا خیال پیدا ہو جاتا ہے لیکن یہ قاعدہ انسانوں کی نسبت ہے نہ کہ اللہ تعالی کی نسبت ۔ انسان تو چیزوں کو بھولا ہوا ہوتاہے۔ پس جب ایک چیز کا خیال کسی وجہ سے اسے آتا ہے تو اُس کے ساتھ تعلق رکھنے والی اشیاء بھی اسے یاد آنا شروع ہو جاتی ہیں مگر ہم اس جگہ کسی شاعر کے شعروں کے ربط پر غور نہیں کر رہے بلکہ اللہ تعالی کے کلام پر غور کر رہے ہیں جو عالم الغیب ہے اور جو ’ایسوسی ایشن آف آئیڈیاز ‘ یا بات سے با ت یاد آجانے کے قاعدہ سے بالا اور پاک ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں خانہ کعبہ کی بنیاد کی غرض بیان کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ ہم اس شہر کی قسم کھاتے ہیں اور پھر اس شہر کو بنانے والے ابراہیم ؑ کی بھی قسم کھاتے ہیں ابراہیم ؑنے یہ شہر اس لئے بنایا تھا کہ یہاں امن قائم رہے اور لوگ اللہ تعالی کے نام پر اپنی زندگیاں وقف کرتے رہیں مگر اب کیا ہے اب اُس کی یہ حالت ہے کہ اَنْتَ حِلّ’‘م بِھٰذَا الْبَلَدِ اے محمد رسول اللہ ! تجھے اس میں تنگ کرنا حلا ل سمجھا جاتا ہے ابراہیم ؑ نے جب مکہ بنایا تو اس وقت اس نے اللہ تعالی سے یہ دعا کی تھی کہ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًااٰمَنًاوَّ ارْزُقْ اَھْلَہُ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللہ ِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ( البقرۃ ۱: ۱۵)یعنی اے میرے رب! میں اس بستی کو امن کیلئے بساتا ہوں ۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ ابراہیم ؑ کے اپنے بچہ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کو مکہ میں ہرقسم کی تکالیف کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس شخص نے دعا یہ کی تھی کہ خدایا یہاں باہر سے آنے والوں کو بھی امن میسر آجائے کیا اس کا کلیجہ یہ دیکھ کر ٹھنڈا ہو سکتا ہے کہ اُس کیاپنے بچہ کو اس شہر میں ہر قسم کے مصائب کا تختہ ء مشق بنایا جا رہا ہے اگر کہو کہ ابراہیمؑ نے بیشک امن کی دعاکی تھی مگر اب ایک ایسا شخص پیدا ہو گیا ہے جس نے ہمارے عقائد کے خلاف باتیں پھیلانا شروع کر دی ہیں اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان باتوں کا ازالہ کریں خواہ اس کے نتیجہ میںمکہ کا امن برباد ہی کیوں نہ ہو جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک یہ تمہارے عقائد کے خلاف باتیں پھیلا رہا ہے اور تمہیں ان باتوں کو سن کر اشتعال پیدا ہوتا ہے مگر کیا ابراہیم ؑ کی دوسری دعا تمہیںیاد نہیں؟ اُس نے صرف یہی دعا نہیں کی تھی کہ مکہ میںامن قائم رہے بلکہ اُس نے یہ بھی دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًامّنْھُم یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ۔ (البقرہ ۔ : ۱۵) جب اُس نے یہ دعا کی تھی تو کیا اس کے مدنظر یہ بات تھی یا نہیں کہ ایک دن آئے گا جبکہ تم لوگ خراب ہو جائوگے ۔ اگر تم نے خراب نہیں ہونا تھا تو کسی رسول کے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ لیکن جب اس نے ایک رسول کے آنے کی پیشگوئی کر دی تو اس پیشگوئی کے ساتھ ہی اُس نے یہ بھی فیصلہ کر دیا کہ میرے بعد میری قوم خراب ہو جائے گی اور اُس وقت ایک ایسے رسول کی ضرورت ہو گی جو اُن کے عقائد کی اصلاح کرے اور ان کی خرابیوں کو دور کرے ۔ اس قسم کی خرابیاں پیدا ہونے کے بغیر وہ رسول نہیں آسکتا تھا جو یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ کا مصداق ہوتا ۔ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا جب مکہ والے آیات ِ الٰہیہ کو بھول جائیں گے یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا جبکہ مکہ والے کتاب الہٰی کو بھول جائیں گے ۔ پھر کتاب کے ساتھ حکمت کے لفظ کا اضافہ بتاتا ہے کہ ایک زمانہ آئیگا جبکہ مکہ والوں کی عقلیں ماری جائیں گی اوروہ نہایت ہی احمقانہ عقائد میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ اسی طرح یُزَکِّیْھِمْکا لفظ بتاتا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ مکہ والے تقویٰ سے دور جا پڑینگے اور ضرورت ہو گی کہ ایک رسول ان میں مبعوث ہو جو دوبارہ ان کو ہدایت پر قائم کرے ۔ پس فرمایا کہ مکہ کی بنیاد ایک وسیع نظام کے قیام کے لئے تھی جس میں روحانی ، اعتقادی ، سیاسی ، تمدنی ، عائلی ، اقتصادی ، علمی ، بین الاقوامی ، فکری اور اخلاقی تعلیمات اور ان کی حکمتوں اور ضرورتوں کا بیان ہو اور صرف خیال آرائی نہ ہو بلکہ عملی طور پر انسانی فکر اور عمل اور معاملہ کی اصلاح مد نظر ہو ۔روحانی اور اعتقادی تعلیمات کا ذکر یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَاب میںآتا ہے ان تما م تعلیمات کی حکمتوںاورضرورتوں کا بیان تعلیم الحکمۃمیں آجاتا ہے اور یہ امر کہ صرف خیال آرائی نہ ہو بلکہ عملی طور پر انسانی فکر اور عمل اور معاملہ کی اصلاح مد نظر ہو اور یہ کلام عملاً کیا جائے یہ یُزَکِّیْھِمْ میں آجاتا ہے ۔
غرض یہ ایک بہت بڑی پیشگوئی تھی اور بہت بڑا کام تھا جو دنیا میں ہونے والا تھا۔ اس بڑے کام کے لئے ابرہیم ؑ کی نسل میںایک کامل بیٹے کی ضرورت تھی ایسے بیٹے کے بغیریہ کام کبھی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ جب ابراہیم ؑ نے یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا تو یہ امر ظاہر ہے کہ فِیْھِمْ سے مراد ان کی اپنی قوم تھی اور ان کا مطلب یہ تھا کہ تو میری قوم میں ایک کامل رسول بھیجیو پس ابراہیم ؑ ایک کامل بیٹے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیںجس کے بغیر یہ کام تکمیل نہیں پا سکتا تھا اب اس سورۃ میں اس شخص ِ کامل کی استعدادوں کی تفصیلی ذکر فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ فلاں فلاں استعدادوں والے ہی یہ کام کر سکتے ہیں دوسری استعدادوں والے یہ کام نہیں کر سکتے۔
اصل میں بحر محیط کے مصنف کو سورج اور چاند کے لفظوں سے شبہ ہوا ہے یا آسمان اور زمین کے الفاظ سے یہ شبہ پیداہوا ہے کہ شایدان الفاظ کا تعلق پہلی سورۃ سے ہے کیونکہ اس سورۃ کے شروع میں ہی والشمس وضحھا ۔ والقمرا ذا تلہا ۔ والنھار اذا جلہا ۔ والیل اذا یغشہا ۔ والسماء وما بنہا ۔ والارض و ما طحہا ۔ کے الفاظ آگئے ہیں ۔ چونکہ ابتداء میں ہی یہ الفاظ آگئے ہیںانہوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ ان الفاظ کا پہلی سورۃ سے تعلق ہے اور چونکہ پہلی سورۃ میں مکہ کی قسم کھائی گئی تھی اور یہاں سورج اور چانداور آسمان اور زمین کا ذکر آتا تھا انہوں نے خیال کر لیا کہ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے تعلق یہ ہے کہ پہلے مکہ کی قسم کھائی گئی تھی اب کچھ بلندیوں اورپستیوں کی قسم کھائی گئی ہے ۔ حالانکہ یہ الفاظ اصل مقصود اس سورۃ میں نہیں بلکہ یہ مقصود کی تفاصیل بیان کر نے کے لئے بطور امثلہ کے آئے ہیں اصل مقصود تو وہ نفسِ کاملہ ہے جو تقویٰ اور فجورکی راہوں سے کامل طور پر واقف ہوتاہے اور پھر اسے ابھارتا چلا جاتا ہے یعنی صرف دین ِ فطرت پر نہیں رہتا بلکہ دین ِ شریعت کو بھی حاصل کرتا ہے اس نفس ِ کاملہ اور اس کی استعدادوں کو آسانی سے سمجھانے کے لئے اللہ تعالی نے یہاںبعض مثالیں بیان فرمائی ہیں ۔ مگر انہوں نے سمجھا کہ اصل مقصود سورج اور چاند ہے حالانکہ اصل مقصود سورج اور چاند نہیں بلکہ نفسِ کاملہ ہے ۔
پہلی سورۃ میں اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ووالد و ما ولد ہم والد کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے والد کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ اب یہ بتانا چاہیئے تھا کہ وہ ولد کیسا ہونا چاہیئے چنانچہ اس سورۃ میں اللہ تعالی اس کی وضاحت کرتا ہے اور بتاتاہے کہ جس ولد کے متعلق ہماری طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ اللہ تعالی کی آیات کی تلاوت کرے گا، کتاب اور حکمت کھائے گا اور لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کرے گا وہ کن استعدادوں کا مالک ہو گا چنانچہ ان استعدادوں کی یہاں تشریح کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ نفسِ کامل میں کون کون سی استعدادیں ہونی چاہئیں ۔ یہ بھی بتایا ہے کہ نفسِ کامل دو قسم کے ہوتے ہیں اور پھران دونوں کی مثالیں بیان کر کے اس امر کو واضح کیا ہے کہ ا س زمانہ میںکس قسم کے نفسِ کامل کی ضرورت ہے اور یہ کہ جب تک ایسا نفسِ کامل کی مثال میں سورج اور چاند کا ذکر کیا گیا ہے نہ کہ سورج اورچاند اصل مقصود ہیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ O
(مَیں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرمکرنے والا بار بار رحم کرنیوالا ہے (شروع کرتا ہوں)
وَالشَّمْسِ وَضُحٰھَا O ص لا
(مجھے) قسم ہے سورج کی اور اس کے طلوع ہو کر اونچا ہو جانے کی (ایت نمبر ۲)
نمبر ۲ حل لغات شَمْس’‘ کے معنی سورج کے ہوتے ہیں۔ مگر ش ۔ م۔ س کے مادہ ترکیبی کے لحاظ سے شمس کے معنی ایسے وجود کے بھی ہوسکتے ہیں جو کسی کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھنے کے لئے تیار نہ ہو۔ بلکہ اپنی ذات میں کامل ہو ۔ چنانچہ عربی زبان میں کہتے ہیں شمس الرجل ۔ امتنع و ابیٰ کہ اس نے دوسروں کو اپنے سے کم درجہ کا سمجھ کر ان کی اطاعت کرنے سے انکار کر دیا ۔ اور جب گھوڑے کے لئے شمس الفرس کہیں تو معنے یہ ہوتے ہیں کان لایمکن احدا من ظھرہ ولا من الاسراج والالجام ولایکاد یستقر ۔ کہ گھوڑا کسی طرح بھی قابو نہ آسکا ۔ اور اس نے کسی کو اپنی پیٹھ پر نہ بیٹھنے دیا نہ زین ڈالنے دی اور نہ لگام ڈالنے دی (اقرب) گویا شمس ایسے وجود کو کہتے ہیں جس کی روشنی ذاتی ہو اور اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو دوسروں کی اطاعت برداشت نہ کرے یہ مفہوم اس سے نکلتا ہے کہ شمس کے معنے ہیں ایسا وجود جو اطاعت برداشت نہیں کر سکتا ۔ اب جو شخص اطاعت برداشت نہیں کرتا بوجہ اس کے کہ اس میں تکبر پایا جاتا ہے وہ تو بڑا ہے لیکن جو شخص اس لئیاطاعت نہیںکرتاکہ خدا نے اسے پیدا ہی دوسروں کے آگے چلنے کے لئے کیا ہے وہ برانہیں۔ گویا دو قسم کے اباء ہوتے ہیں ایک اباء وہ ہوتا ہے جس میں تابع یہ کہتا ہے کہ میںدوسروں کی بات نہیں مانتا ۔
لیکن ایک اباء اس انسان کا ہوتا ہے جسے پیدا ہی بڑا بننے کے لئے کیا جاتا ہے ۔ جیسے ایک عالم کا یہ کا م ہے کہ وہ فتویٰ دے اب اگر کوئی جاہل شخص اسے کہے کہ اس طرح فتویٰ نہ دو بلکہ اسطرح دو تو وہ فوراً انکار کر دے گا اور کہے گا کہ تمہارا حق نہیںکہ میرے معاملات میں دخل دو مگر اس کا انکار متکبرانہ انکار نہیںہوگا۔ قرآن کریم میں بھی ان معنوں میںاباء کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ویابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکافرون ( توبہ ۵:۱۱) اللہ تعالی اپنے نور کے قائم ہو جانے کے سوا ہر دوسری تحریک سے انکار کرتا ہے یہ ظاہر ہے کہ خدا تعالی کا انکار تکبر والا انکار نہیں کہلا سکتا۔ اسی طرح عربی کا محاورہ ہے بادشاہ سے کہتے ہیں ۔ ابیت ا للعن ۔ آپ نے *** کا انکار کیامطلب یہ کہ آپ ایسے شریف ہیں کہ کسی قسم کی *** کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے۔ اسی طرح کہتے ہیں رجل ابی فلاںشخص ظلم اٹھانے سے انکاری ہے پس شمس کے معنی گو سورج کے ہیں مگر شمس کے مادہ کے اعتبار سے اس کے معنے اباء کے بھی ہیں اور ان معنوںکے لحاظ سے اس سے مراد وہ وجود ہو گا جو کسی کی ناواجب اطاعت سے انکار کرے اور مطلب یہ ہو گا کہ ایسا وجود جس کی قابلیتیں ہی ایسی ہیں کہ وہ کسی کی اطاعت کے لئے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ خدا نے اسے دنیاکا لیڈر بنایا ہے اس کا کام صرف یہی ہے کہ وہ دوسروں کی راہنمائی کرے اس کا یہ کام نہیں کہ کسی کی ماتحتی اختیار کرے ۔
الضحیٰ : ضَحَا( ضَحَا یَضْحُوْا ضحواً)کے معنی ہوتے ہیں کوئی چیز ظاہر ہوگئی چنانچہ کہتے ہیں ضحا الطریق : بدَا و ظَھَر َ۔ کہ راستہ ظاہر ہو گیا (اقرب) اور جب سورج کی روشنی زیادہ نکل آئے تو اس وقت کو ضحی کہتے ہیںلیکن اس سے پہلے وقت کو جو طلوع آفتاب کا ہوتاہے اور جس میں روشنی پوری طرح ظاہر نہیں ہوتی ضحوۃ کہتے ہیں ۔ بعض نے اور زیادہ فرق کیا ہے ان کے نزدیک سورج نکلتے وقت کو ضحوۃ کہتے ہیں ۔ جب سورج کچھ بلند ہوتا ہے تو اس وقت کو ضحی کہتے ہیں اور پھر نصف النہار سے زوال تک کے وقت کو ضحاء’‘ کہتے ہیں ۔ (اقرب)
تفسیر۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں شہادت کے طور پرپیش کرتا ہوں سورج کو اور اس کے ظہور اور روشنی کو ۔
دنیا میں ہر چیز دو حیثیتیں رکھتی ہے ایک اس کی ذاتی حقیقت حساب اور وزن کے لحاظ سے اور ایک اس کی حقیقت دوسری چیزوں کی نسبت کے لحاظ سے ۔ مثلاً فرض کرو ایک درخت دس فٹ اونچا ہے یہ دس فٹ قد اس کا اصلی قد ہوگا اور بغیر دوسری چیزوں کی نسبت کے اسے اس درخت کا اصلی قد قرار دیا جائے گا مگر ایک قد اس کا نسبتی ہو گا۔ مثلاً ایک شخص پندرہ بیس فٹ کے ٹیلے پر چڑھ جائے تو لازماً درخت کی ساری لمبائی اسے نظر نہیں آئے گی بلکہ بعض دفعہ اونچائی اور زاویہ نگاہ کے مطابق اسے وہ درخت دو فٹ کا نظر آئے گا۔ بعض دفعہ چار فٹ کا نظر آئے گا۔ یا ایک شخص گڑھے میں ہے تو اسے وہ درخت بہت لمبا نظر آئے گا اور دس کی بجائے تیرہ یا چودہ فٹ کا معلوم ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص دور سے درخت کو دیکھتا ہے تو وہ اسے بہت چھوٹا معلوم ہوتا ہے ۔ دور سے ہم پہاڑ دیکھتے ہیں تو باوجود اس کے کہ وہ بعض دفعہ دو ہزار بعض دفعہ چار ہزار اور بعض دفعہ بیس بیس ہزار فٹ اونچے ہوتے ہیںدور سے دیکھنے کی وجہ سے ایسے نظر آتے ہیں جیسے کوئی اونچا سا خیمہ لگا ہوا ہو ۔ اسی طرح اگر درخت کے نیچے لیٹ کر اوپر کی طرف دیکھا جائے تو درخت کا بالکل اور نظارہ نظر آئے گا۔ کسی مینار کے نیچے کھڑے ہو کر اوپرکی طرف دیکھو تو خواہ وہ ایک سو یا ڈیڑھ سو فٹ کا ہو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ پانچ سو یا ہزار فٹ کا ہے لیکن اگر ہوائی جہاز میں بیٹھ کر مینار کو دیکھا جائے تو وہی مینار بہت چھوٹا نظر آتا ہے ۔ غرض ہر چیز کی ایک حقیقت ذاتی حسابی ہوتی ہے جو طبعی حالات میں نظر آتی ہے اور ایک حقیقت اُس کی دوسری چیزوں کے لحاظ سے نظر آتی ہے ۔ ایک شخص ساری رات سوچتا ہے بڑے بڑے اہم مسائل پر تدبر کرتا ہے فلسفہ اور ہیت کی باریکیوں پر غور کرتا ہے ، سیاست اور اقتصادکے بڑے بڑے نکات حل کرتاہے ، قوموں کی ترقی اور ان کے تنزل کے وجوہ پر غور کرتا ہے اور اسی میں اپنی تمام رات بسر کردیتا ہے ۔ صبح اسے کوئی شخص ملتا ہے تو وہ ان مسائل میں سے کوئی ایک بات اس کے سامنے بیان کر تا ہے ۔ اب زید جس نے ساری رات سوچ کر سو اہم مسائل حل کئے تھے اس کی نسبت کے لحا ظ سے جو علم دوسرے شخص کو اس سے حاصل ہوا وہ صرف 1/100تھا ۔ پھر ایک اور شخص ملتا ہے اور اس سے بھی وہ بعض مسائل کا ذکر کر دیتا ہے فرض کرو وہ اس کے سامنے دو مسئلے بیان کرتا ہے تو اب دوسرے شخص کو جو روشنی حاصل ہوئی وہ دو فیصد ہے گویا ایک اس کی ذاتی روشنی ہے اور ایک اس کی وہ روشنی ہے جو دوسرے لوگوں کے لحاظ سے ہے اس کی ذاتی روشنی تو یہ ہے کہ اس نے سو(100) مسئلے حل کئے ہیں لیکن اس کی نسبتی روشنی یہ ہے کہ ایک شخص ملتا ہے تو وہ اس کے سامنے ایک مسئلہ بیان کرتاہے ، دوسرا شخص ملتا ہے تو اس کے سامنے دو مسئلے بیان کرتا ہے ، تیسرا شخص ملتا ہے تو اس کے سامنے تین مسئلے بیان کرتا ہے اور وہ اس کی ذاتی روشنی کا اسی قدر اندازہ لگاتے ہیں جس قدر علم ان کو اس شخص سے حاصل ہو چکا ہوتا ہے پھر ایک اور شخص اسے ملتا ہے اور وہ اس کے سامنے ان مسائل کے متعلق ایک لمبی تقریر کرتا اور سو میں سے پچاس مسئلے بیان کردیتا ہے اب اس کے لحاظ سے اس کی علمی روشنی کی بالکل اور کیفیت ہو گی اور وہ اس کا اندازہ ان پچاس مسائل سے لگائے گا جو اسے بتائے گئے تھے اس کے بعد اگر کوئی اور شخص اسے ملتا ہے اور وہ اس کے سامنے سو کے سو مسائل بیان کر دیتا ہے تو وہ اس کے سامنے بالکل گویا عرفانی طور پر ننگا ہو جاتا ہے ۔ اب وہ شخص جس کے سامنے صرف ایک مسئلہ بیان ہوا تھا وہ بھی کہتا ہے کہ فلاں نے بڑے لمبے غور کے بعد یہ بات نکالی ہے مگر وہ اس کے صرف 1/100حصہ کو جانتا ہے ، جس کے سامنے دو باتیںبیان ہوئی تھیں وہ اس کے 2/100حصہ کو جانتا ہے جس کے سامنے دس باتیں بیان ہوئی تھیں وہ اس کے 1/10حصہ کو جانتا ہے اور جس کے سامنے پچاس باتیں بیان ہوئیں تھیں وہ اس کی 1/2 حقیقت کو جانتا ہے اور جس کے سامنے سو باتیں بیان ہوئی تھیں وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اس کی ساری حقیقت کو جان لیا مگر واقعہ یہ ہوتا ہے کہ اس نے اس سے پہلی رات بھی غور کیا ہوتا ہے اور اس پہلی رات بھی غور کیا ہوتا ہے اوراس پہلی رات بھی غور کیا ہوتا ہے یہان تک کہ وہ خود بھی کئی باتیں بظاہر بھول گیا ہوتا ہے اور اسے اپنی حقیقت کا بھی پورا علم نہیں رہتا لیکن خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ ا س کے اندر کیا کیا حقیقتیں پیدا ہوچکی ہیں۔
درحقیقت ہر انسان میں ایک ملکہ ظہور ہوتاہے اور ایک اس کے اندر بالقوۃ طاقتیں ہوتی ہیں ۔ اگر تم سے کوئی پوچھے کہ تم اردو کے کتنے الفاظ جانتے ہواور تم گننے لگو تو تم پچاس ساٹھ یا سو سے زیادہ الفاظ شمارنہیں کر سکو گے لیکن اگر تمہارے سامنے کوئی کتاب رکھ دی جائے تو تم کہو گے کہ میں یہ الفاظ بھی جانتا ہوں اور وہ الفاظ بھی جانتا ہوں تو اپنی قابلیتوں کا انسان خود بھی اندازہ نہیں کر سکتا کجا یہ کہ دوسروں کی قابلیتوں کا اندازہ لگا سکے ۔ تم سورج کے سامنے مختلف درجہ کی صفائی کی چیزوں کو رکھ دو تو گو اس سب پر سورج کی پوری روشنی ہی پڑے گی مگر صفائیکے مختلف مدارج کی وجہ سے ہر چیز کے لحاظ سے اس کی روشنیاں بالکل الگ الگ ہوں گی حالانکہ سورج کی ذاتی روشنی تو ایک ہی ہے اسی طرح لیمپ کی ایک تو وہ روشنی ہے جو اس کے اندر جلنے والے تیل کی نسبت سے پیدا ہوتی ہے وہ ایک ہی درجہ کی ہے لیکن ایک وہ روشنی ہے جو مختلف چیزوںپر پڑ کر اپنے حجم اور اپنی وسعت کو بدلتی چلی جاتی ہے ۔ یہی مضمون اس جگہ بیان کیا گیا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے والشمس ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں سورج کو وضحہا اور اس کی روشنی کو جو اس کی ذاتی روشنی ہے ۔
وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰھَا
اور چاند کی جب وہ اس (یعنی سورج) کے پیچھے آتا ہے (ایت نمبر ۳)
حل لغات تلا فلا نا(تلواً) کے معنی ہیں تَبِعَہ‘ اس کا پورا تابع ہو گیا (اقرب) اس آیت کی مفسرین نے مختلف تشریحات کی ہیں بعض نے کہا ہے کہ اتباع کے یہ معنے ہیں کہ جس وقت سورج ڈوبے معاً اس کی جگہ چاند روشنی دینے لگے اور یہ مہینہ کی پہلی پندرہ تاریخوں میں ہوتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تابع کے معنے یہ ہیں کہ سورج کی سب روشنی اور نور اس نے لے لیا اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ چاند پورا ہو جائے یعنی چودھوین پندرھویں سولھویں تاریخوں کا چاند۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب سورج چڑھے اس وقت یہ ساتھ چڑھے تو یہ تَلٰھَا ہے ۔ یعنی جب چاند بالکل نظرنہیں آتا۔ یعنی مہینہ کی آخری دو راتیں۔ قتادہ کہتے ہیں اس سے مراد وہ دن ہیں جب چاند ہلال ہوتا ہے ۔ فراء کہتے ہیں کہ اس کے معنے ہیں کہ چاند سورج سے روشنی لیتا ہے ۔ جہاں تک ہلال کے معنوں کا سوال ہے وہ تو بالبداہت غلط ہیںکیونکہ یہاں قمر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور چاندکو قمر اس وقت کہتے ہیں جب وہ ہلال نہیں رہتا ۔ باقی معنوں میں سے اس کے پورا ہونے کے معنے زیادہ صحیح ہیں کیونکہ چودھویں رات کے چاندمیں دونوں مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ وہ جسمانی طور پر بھی سورج کے ڈوبنے کے ساتھ ہی چڑھتا ہے اور سورج کے ساتھ ہی چلا جاتا ہے اور روشنی کے لحاظ سے بھی وہی پورا تابع ہوتا ہے یعنی پوری سورج کی روشنی وہی لیتا ہے پس ان معنوں کودوسرے معنوں پر ترجیح حاصل ہے ۔
تفسیر ۔ فرماتا ہے ہم شہادت کے طور پر قمر کو بھی پیش کرتے ہیں یعنی ایک ایسے وجود کو جس میں روشنی اخذ کرنے اور اس کو اپنے اندر جذب کرنے کا مادہ پایا جاتاہے مثلاً شیشہ ہے اس میں بھی روشنی جذب کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے یا سفید پانی ہے اس میںبھی روشنی کو جذب کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے یا مثلاً ابرک کے ٹکڑے ہیں ان میں بھی روشنی جذب کرنے کا مادہ ہوتاہے ۔لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں روشنی جذب کرنے کا مادہ نہیں ہوتا۔ ہمارے سامنے ایک شخص بیٹھاہوا ہوتا ہے اور اس پر سورج کی روشنی پڑ رہی ہوتی ہے مگر ہم اسے یہ نہیں کہتے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جائو ایسا نہ ہو کہ ہم اندھے ہو جائیں ۔ لیکن اگر وہی روشنی کسی شیشہ کے ذریعہ آنکھوں پر پڑے تو خطرناک نقصان پہنچ جاتا ہے یہاں تک کہ بعض دفعہ جب شیشہ کی چمک آنکھوں پر پڑتی ہے تو بینائی ضائع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سارادن سورج چمکتا ہے گھاس پر اس کی روشنی پڑتی ہے تو انسان اسے دیکھ دیکھ کر لطف اٹھاتا ہے لیکن مصر میں بڑے بڑے ریت کے میدان ہیںچونکہ موٹی ریت میںچمکنے کا مادہ ہے اور ہر چمکدار چیز اپنی روشنی کو اپنے مقابل کی طرف بھی پھینکتی ہے ان میدانوں میںسے گذرتے ہوئے بعض لوگ ایک منٹ میں اندھے ہو جاتے ہیں ۔ مصر میں ایسے سینکڑوں اندھے پائے جاتے ہیں جن کی آنکھیں بالکل اچھی تھیںمگر وہ کسی ایسے ہی ریت کے میدان میں غلطی سے چلے گئے اور اندھے ہو گئے ۔ یہی حال موٹر کی روشنی کا ہوتا ہے جب رات کو موٹر آرہا ہو اور اس کے لیمپ میں سے تیز شعائیں نکل رہی ہوں تو کئی حادثے ہو جاتے ہیں ۔ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ حادثہ کس طرح ہو گیا جبکہ موٹر کے سامنے لیمپ روشن تھا اور اس کی دور دور تک روشنی پھیل رہی تھی ۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ دور سے اس کی روشنی اس طرح چمک کر پھیلتی ہے کہ انسان کو یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ موٹر یہاں ہے یا وہاں اور وہ اس کی لپیٹ میں آکر ماراجاتا ہے ۔ درحقیقت ایک تو لیمپ کی ذاتی روشنی ہوتی ہے اور ایک وہ ری فلیکٹر ہوتے ہیں جو اس روشنی کو دور پھینک دیتے ہیں ۔ اگر ری فلیکٹر نہ ہو تو روشنی بہت محدود جگہ میںرہتی ہے لیکن جب روشنی کے ساتھ ری فلیکٹر مل جاتاہے تو اس کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور وہ دور دور تک اندھیروں کو زائل کردیتا ہے ۔ قمر کے معنے در اصل ری فلیکٹرکے ہی ہیںیعنی ایسا وجود جس میں ذاتی طور پر یہ قابلیت ہوتی ہے کہ وہ سورج سے نور لے کر اسے دوسروں کی طرف پھینک دے ۔ یہ خیال نہیںکرن چاہیئے کہ اگر قمر کی جگہ کوئی سا بھی اور ستارہ رکھ دیا جائے تو وہ بھی سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کر کے دوسروں کی طرف پھینک سکتاہے ہر ستارہ یہ قابلیت نہیں رکھتا۔ اللہ تعالی نے ہمارے نظام ِ شمسی میں صرف قمر ہی میں یہ قابلیت پیدا کی ہے کہ وہ سورج سے اس کی روشنی اخذ کرے اور پھر اسے اپنے اندر جذب کر کے دوسروں کی طر ف پھینک کر ان کو منور کر دے ۔ اسی لئے چاند کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کسی قسم کی آبادی کے قابل نہیں ہے اگر وہ قابل آبادی ہوتا تو اس میں درخت ہوتے ، گھاس ہوتا بڑے بڑے جنگلات ہوتے ۔ مگر یہ چیزیں چاند میں نہیں ہیں ۔ کیونکہ اگر یہ چیزیں ہوتیں تو وہ روشنی کو اپنے اندر جذب کر کے دوسروں کی طرف پھینک نہیںسکتا تھا ۔ مگر چونکہ اللہ تعالی نے چاند کو ری فلیکٹر کے طور پر بنایا ہے اس لئے اُس نے چاندمیں ریت کے بڑے بڑے میدان پیدا کر دیئے ہیں جب سورج کی روشنی اُن پر پڑتی ہے تو وہ ریت کے میدان ری فلیکٹر کے طور پر اس کی دنیا پر پھینک دیتے ہیں ۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے وَالْقَمَرِ ہم تمہارے سامنے ایک ایسے وجود کو پیش کرتے ہیں جو قمری حیثیت رکھتا ہے مگر صرف قمر کے وجود کو نہیں بلکہ قمر کی اس حالت کو جب وہ پوری طرح سورج کے سامنے آکراس کی ساری روشنی کو اپنے سارے وجود میں لے لیتا ہے بے شک قمر میںیہ خوبی ہے کہ وہ روشنی لے کر دوسروں کی طرف پھینک دیتا ہے لیکن روشنی اس کے سامنے نہ ہو گی تو وہ پھینکے گا کیا؟ اس لئے صرف قمر کو شہادت کے طور پر پیش نہیں کیا گیا بلکہ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا اِذَا تَلٰہَا ہم قمر کو ایسی حالت میں شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جب وہ سورج کی روشنی کو لے سکتا ہے اور پھر دوسروںکی طرف پھینک سکتا ہے لیکن یہ اس کی ذاتی خوبی اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتی جب تک وہ سورج کے سامنے نہ آجائے اگر سورج کے سامنے آجائے تو اس کی یہ خوبی ظاہر ہو جاتی ہے اور اگر سورج اور چاند کے درمیان کوئی اور چیز حائل ہو جائے جیسے بعض دفعہ زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کو گرہن لگ جاتا ہے اور وہ سورج کی روشنی کو زمین کی طرف پھینکنے سے قاصر رہتا ہے یا مثلاً پہلی رات کا چاند ہے اس وقت بھی وہ سورج کے سامنے پورے طور پر نہیں ہوتا اسی لئے وہ اس وقت قمر یا بدر کی بجائے ہلال کی صورت میں نمودار ہوتا ہے مگر جب چودھویںرات آجائے تو چاند مکمل طور پر سورج کے سامنے آجاتا ہے اور اس کی روشنی اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا پر جلوہ گر ہوتی ہے پس اللہ تعالی فرماتا ہے وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا ہم چاند کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں مگر خالی چاند کو نہیں بلکہ چاند کی اس حالت میں شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جب وہ کامل طور پر سورج کے سامنے آجاتاہے اور اس کی روشنی کو جذب کر کے دوسری دنیا کو منور کر دیتا ہے گویا اس کا کمال ِ نور اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب سورج کے عین سامنے آجاتا ہے اور یہی اس کے حسن کے کمال کا موقع ہوتا ہے کہ اس میں ذاتی طور پر یہ قابلیت بھی ہوتی ہے کہ وہ سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کرے اورپھر اس کے اندر یہ قابلیت بھی ہوتی ہے کہ اس روشنی کو دوسروں کی طرف پھینک دے اور دنیا کی تاریکیوں کو دور کر دے ۔ اب مکمل طورپر دونوں آیات کا مفہوم یہ ہوگا کہ وَالْشَّمْسِ ہم سورج کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں ذاتی روشنی پائی جاتی ہے وَضُحَہَا اور اسکی ذاتی روشنی کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں وَا لْقَمَرَ اور ہم چاند کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں روشن چیز کی روشنی کو لینے اور پھر اسے دوسرے وجودوں پر پھینک کر انہیں روشن کر دینے کی قابلیت پائی جاتی ہے اور چاند کی شہادت ہم اس حالت میں پیش کرتے ہیں جبکہ وہ عملاً سورج سے پوری روشنی لیکر دنیا کو روشن کر رہا ہوتا ہے ۔
وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا
اور دن کی جب وہ اس (یعنی سورج ) کو ظاہر کر دیتا ہے ( ایت نمبر ۴)
نمبر ۴ تفسیر بظاہر تو دن کو سورج پیدا کرتا ہے نہ یہ کہ دن سورج کی روشنی کو ظاہر کرتاہے مگر یہاں چونکہ استعارہ والاکلام ہے اور ضحی سے مراد سورج کی ذاتی روشنی تھی اس نہار سے مراد زمین کا اس کے سامنے آکر سورج کو دکھا دینا ہے ۔ جب ہم د ن کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ سورج چمکنے لگ گیا ہے کیونکہ سورج تو ہر وقت چمکتا رہتا ہے ۔ دن سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ہماری زمین سورج کے سامنے آگئی ہے پس وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا کے یہ معنے ہوئے کہ جب زمین نے سورج کے سامنے آکر سورج کو دکھا دیا ۔ ضُحٰھَا کا مطلب اور تھا ضُحٰھَا سے سور ج کی ذاتی روشنی کی طرف اشارہ تھا خواہ وہ دنیا کے سامنے ہو یا نہ ہو سورج بہر حال چمک رہا ہوتا ہے اس کے سامنے بادل آجائیں یا زمین اس کی طرف سے رخ بدل لے اس کی ذاتی روشنی میں کوئی فرق نہیںپڑتا لیکن باوجود سورج کے ہر وقت چمکتے رہنے کے رات کے وقت کو نہار نہیں کہیںگے کیونکہ نہار یا دن اس وقت کو کہتے ہیں جب سورج ہمارے حصہ ملک کے سامنے ہوتا ہے خواہ اس کے سامنے بادل ہی کیوں نہ آگیاہو اور جب وہ ہمارے حصہ ملک کے سامنے نہ ہو تو خواہ اس کے آگے بادل نہ ہوں ہمارے ملک والے اس وقت کو دن نہیں کہیں گے اور یہ نہیں کہیں گے کہ سورج روشن ہے پس نَھَار اور مفہوم پیدا کرتا ہے اور ضُحٰھَا اور مفہوم پیدا کرتا ہے ۔ ضُحَی الشَّمْسِ ہر وقت قائم رہتی ہے خواہ سورج کسی حصہ دنیا کے سامنے ہو یا نہ ہو ۔ کیونکہ وہ سورج کی ذاتی روشنی پر دلالت کرتی ہے اور نہار دنیا کے مختلف حصوں کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے کبھی یہاں دن کبھی وہاں ۔ کیونکہ دن اس وقت کو کہتے ہیں جب زمین سورج کے سامنے ہو کر لوگوںکو اپنی ضُحیٰ دکھا تی ہے ۔
وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا
اور رات کی جب وہ اس کو ڈھانپ دے ۔ ایت نمبر ۵
نمبر۵ تفسیر وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَاسے مراد رات کے وقت زمین کا منہ پھیر کر سورج کو اوجھل کر دینا ہے ۔ رات کیا ہوتی ہے ؟ جب سورج کی طرف سے زمین اپنی پیٹھ پھیر لیتی ہے اور اندھیرا ہو جاتا ہے تو اسے رات کہتے ہیں پس چونکہ لَیْل ایک زمینی فعل کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اس لئے یہاں لَیْل کے متعلق یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ دن کی روشنی کو ڈھانپ لیتی ہے لیکن اصل مطلب یہ ہے کہ زمین سورج کی طرف چکر کاٹ کر لَیْل پیدا کر دیتی ہے گویا وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا میں تو زمین کی اس حالت کا ذکر کیا تھا جب وہ سورج کے سامنے آکر آبادی کو سورج دکھا دیتی ہے اور وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا میں زمین کی اس کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے جب وہ سورج سے اپنا منہ موڑ کر لَیْل پیدا کر دیتی اور دنیا کی نظروں سے سورج کو روپوش کر دیتی ہے ۔
یہ چار چیزیں ہیں جو الگ الگ معنے رکھتی ہیں وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَاسے سورج اور اس کی ذاتی روشنی مراد ہے والقمراذاتلہا سے چاند اور اس کی عکسی روشنی مراد ہے وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا میںزمین اور اس کی انعکاسی روشنی مرادہے وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا میںزمین اور اس کی نور سے محرومی مراد ہے ۔ سورج تو اپنے اندر ذاتی طور پر یہ وصف رکھتا ہے کہ وہ دنیا کو روشن کرے لیکن چاند میںبالقوۃ روشنی اخذ کرنے کی طاقت ہوتی ہے یعنی اس کے اندر یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ سورج سے روشنی لے اور اپنے اندر جذب کر کے اسے دوسروں تک پہنچا دے جیسے ری فلیکٹر ہوتے ہیںکہ وہ لیمپ کی روشنی کو بہت دور تک پھیلا دیتے ہیں ۔ اب خواہ چاند چمک نہ رہا ہو لیکن چمکنے کی قابلیت اس میں موجود ہوتی ہے جب وہ سورج کے سامنے آجاتا ہے تو اس کی یہ قابلیت ظاہر ہو جاتی ہے اور وہ اس کی روشنی کو دوسروں تک پھینکنے لگ جاتا ہے شمس اور قمر کے ذکر کے بعد اللہ تعالی نے وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا میںرات کو بطور مثال پیش کیا ہے جب زمین کے چکر کاٹ کر جانے کے وقت سورج اوجھل ہو جاتا ہے ۔
ان چار آیات میںچار الگ الگ زمانوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میںاللہ تعالی رسول کریم ﷺ کو پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہم سورج کو تمہارے سامنے بطورمثال پیش کرتے ہیں جب تک اپنی ذات میںچمکنے والا وجود دنیا میں نہ آئے بالخصوص ایسے زمانہ میں جب نور بالکل مٹ چکا ہو اس وقت دنیا کبھی ترقی کی طرف اپنا قدم اٹھا نہیں سکتی جیسے بجھی ہوئی آگ ہو تو اس سے دوسری آگ روشن نہیںہو سکتی یا بجھا ہوا دیا ہو تو اس سے دوسرا دیا روشن نہیں ہو سکتا ۔ ری فلیکٹر اسی وقت فائدہ دیتا ہے جب نور موجود ہو ۔ مثلاً اگر لیمپ جل رہا ہو اور اس پر ری فلیکٹرلگا دیا جائے تو بے شک اس کی روشنی دور تک پھیل جائے گی یا جیسے بیٹریوں کی روشنی بہت معمولی ہوتی ہے لیکن اوپر کا شیشہ جو ری فلیکٹر کے طور پر لگا ہوا ہوتا ہے اس کی معمولی روشنی کو بھی دور تک پھیلا دیتا ہے اگر اس شیشہ کو تم نکال دو تو بیٹری کا روشنی آدھی سے بھی کم رہ جائیگی ۔ بہر حال ری فلیکٹر اسی صورت میںکام آسکتا ہے جب نورموجود ہو ، روشنی اپنی کسی نہ کسی شکل میں قائم ہو لیکن اگر نور مٹ چکا ہو، تما م روشنیاں گُل ہو چکی ہوں تو اس وقت ایساہی وجود کام آسکتا ہے جو ذاتی طور پر اپنے اندر روشنی رکھتا ہو۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے ہم تمہارے سامنے سورج کو پیش کرتے ہیں جو اپنے اندر ذاتی روشنی رکھتا ہے اور جو ظلمتوں کو دور کرنے کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا ذریعہ ہوتا ہے ۔ اس کے بعد روشنی کا دوسرا ذریعہ چاند ہوتا ہے اور وہ بھی ایسی حالت میں جب وہ سورج کے سامنے آجاتا ہے اس وقت وہ بھی دنیا کو اپنی شعاعوں سے منور کر دیتا ہے ۔ یہ دو ذرائع ہیں جو دنیا میںانتشار ِ نور کے لئے کام آتے ہیں اللہ تعالی ان مثالوں کو کفارِ مکہ کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے تم اچھی طرح سوچ لو کیا تمہارے پاس ان دونوں ذرائع میں سے کوئی ایک بھی ذریعہ موجود ہے، کیا تمہارے پاس کوئی شمس ایسا ہے جو اپنے اندر ذاتی روشنی رکھتا ہو؟ شمس سے مرادوہ وقت ہوتا ہے جب شریعت لانے والا وجود براہ راست دنیا کو فائدہ پہنچا رہا ہو ۔ پھر فرماتا ہے اگر کسی شمس کو تم پیش نہ کر سکو تو تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ گو شمس ہم میںموجود نہیں مگر اس سے اکتسابِ نور کر کے ایک چاند ہم کو منور کر رہاہے ۔ بہر حال دو ہی چیزیں دنیا کو منور کر سکتی ہیں یا تو ذاتی روشنی رکھنے والا کوئی وجود ہو اور اگر اس کی روشنی دور چلی جائے تو پھر ا س کے بالمقابل آجانے والا کوئی ری فلیکٹر جو اس کی روشنی کو جذب کر کے دوسروں تک پہنچادے ۔ ان دو صورتوں کے علاوہ روشنی حاصل کرنے کی اور کوئی صورت نہیں ۔ اسی قاعدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے کہ اے مکہ والو! تمہیں تو ان دونوں حالتوں میں سے کوئی حالت بھی نصیب نہیں ۔ مثلاً پہلی چیز یہ ہوتی ہے کہ شریعت موجود ہو مگر تمہاری یہ حالت ہے کہ تمہارے پاس نہ نوح ؑ کاقانون ہے نہ ابراہیم ؑ کا قانون ہے نہ اور نبی کا قانون ہے اور جب تمہارے پاس کوئی قانون ہی نہیں تو تم اپنے متعلق کیاامید کر سکتے ہو اور کس طرح اس غلط خیال پر قائم ہو کہ تمہارے باپ دادا کی بجھی ہوئی روشنیاں تمہارے کام آجائیں گی ۔ تمہاری حالت تو ایسی ہے کہ تمہیں لازمی طورپر ایک شارع نبی کی ضرورت ہے کیونکہ ساری شریعتیں تم میںمفقود ہیں اور جب کہ سب کی سب شرائع مفقود ہو چکی ہیں تو اب ضروری ہے کہ کوئی شمس ِ ھدایت آئے جو ان تاریکیوں کو اجالے سے بدل دے ۔ جبتک ایسا وجو نہیں آتا جو اپنے اندر ذاتی طور پر روشنی رکھنے والاہو اس وقت تک پرانے لیمپ جو بجھ چکے ہیں تمہارے کسی کام نہیںآسکتے۔
روشنی کے حصول کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ قمر ظاہر ہو جائے ۔ مگر قمر بھی اسی وقت مفید ہو سکتا ہے جب شمس تو موجود ہو مگر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائے اس کے بغیروہ کسی کام نہیںآسکتا ۔ اگر تم یہ کہو کہ ہم قمر سے فائدہ اٹھا لینگے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ تم میںکوئی شریعت موجو د نہیںکہ غیر شریعت والا کوئی قمر ظاہر ہو جائے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے زمین کی اس حالت کو پیش کیا ہے جب وہ نہار پیدا کرتی ہے اور آخر میں اس حالت کو رکھا گیا ہے جب زمین سورج کے پیٹھ موڑ کر لوگوں کے لئے لیل پیدا کر دیتی ہے ۔
ان آیات میںاسلام کے دو اہم زمانوں کی طرف نہا یت ہی بلیغ انداز میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میں تو اسلام کی غرض کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ محمد ﷺ اپنی ذات میںچمکنے والے سورج ہیں جوں جوں یہ سورج طلوع کرتا جائے گا وہ نور جو ذاتی طور پر سورج کے اندر موجود ہے زمین میں پھیلتا چلا جائے گا۔ چنانچہ لو قرآن جو آج ہمارے ہاتھوںمیں ہے یہ محمد ﷺ کے نفسِ مطّہر سے ہی نکل کر آیا ہے ۔خدا نے اس عظیم الشان کلام کے نزول کے لئے آپ کو چنا اور پھر آپ کے ذریعہ یہ کلام ہمارے ہاتھوں تک پہنچا ۔ وہ تفصیلات جوقرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور وہ غیر متبدل تعلیمات جن کو اسلام نے پیش کیا ہے خواہ وہ تزکیہ نفوس سے تعلق رکھتی ہوں یا سیاسی اور تنظیمی تعلیمات ہوں یا اخلاقی اور اقتصادی تعلیمات ہوں بہر حال وہ سب کی سب محمد ﷺ کے سینہ سے نکل کر ہم تک پہنچتی ہیں ۔پس آپ وہ شمس تھے جن کی ضحی اپنی ذات میں آپ کی صدا قت کی ایک بڑی دلیل تھی دنیا خواہ آپ کو مانے یا نہ مانے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ دنیا قرآن کریم کو بند کر کے رکھ دے اور کہے کہ قرآن کریم کے مضامین بالکل خراب ہیں پھر بھی جب تک قرآن دنیا میں موجود ہے رسول کریم ﷺ کی ضحی دنیا میں موجود رہے گی ۔ جب دن کے وقت ایک شخص اپنے کمرہ کے دروازے بند کر کے اندر بیٹھ رہتا ہے یا جب زمین چکر کھا کر سورج کو لوگوں کی نگاہ سے اوجھل کر دیتی ہے اُس وقت سورج کاوجود تو غائب نہیں ہو جاتا۔ سورج بہر حال موجود ہوتا ہے ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ زمین اس سے اپنی پیٹھ موڑ لے یا کوئی شخص اپنے کمرہ کے دروازے بند کر کے اس کی روشنی کو اندر داخل نہ ہونے دے ۔ اسی طرح وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میں بتایا کہ رسول کریم ﷺ ضحی والے وجود ہیں چاہے تم اس نور سے فائدہ اٹھائو یا نہ اٹھائو ان کا تو نور بہر حال ظاہر ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ دنیا ایک دن تسلیم کرے گی کہ آپ حقیقت میں روحانی سورج تھے پس دنیا ان کے سامنے آئے یا نہ آئے اس کا کوئی سوال نہیں ۔ دنیا اس شمس کے سامنے آئے گی تو منور ہو جائے گی اور اگر نہ آئے گی تو یہ شمس بہر حال شمس ہے اس کی ضحی پر اس بات کا کوئی اثر نہیںہو سکتا کہ لوگوں نے اسکی طرف سے اپنی پیٹھ موڑلی ہے ۔
فرض کرو رسول کریم ﷺ پر ایک آدمی بھی ایمان نہ لاتا تو اس سے کیا ہو سکتا تھا جو روحانی اور اخلاقی تعلیمات آپ نے دی ہیں ، جو سیاسی تعلیمات آپ نے دی ہیں ، جو اقتصادی تعلیمات آپ نے دی ہیں، جو علمی تعلیمات آپ نے دی ہیں ان سے آپ کا بہر حال شمس ہونا ظاہر ہو جاتا۔ جب ایک وجود کو خدا تعالی نے شمس بنا کر بھیجا تو خواہ مکہ والے آپ پر ایمان نہ لاتے ۔ اہل عرب آپ کو سچا تسلیم نہ کرتے وہ یہ تو کہہ سکتے تھے کہ اس شمس سے نہار پیدا نہیں ہوا ، دنیا نے اس سورج سے روشنی اخذ نہیں کی مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ یہ شمس ، شمس نہیں تھا ۔ جب ایک شخص نئی شریعت لاتا ہے تو خواہ ہزار سال کے بعد لوگ اسے مانیں بہر حال اس کا شمس ہوناپہلے دن سے ہی ثابت ہوتا ہے ۔ یہ تو ہم کہیں گے کہ دنیا اس کے سامنے دو سو سال کے بعد آئی یا ہزار سال کے بعد آئی مگر یہ نہیں کہیں گے کہ وہ شمس اپنی ذات میں ایک روشن وجود نہیں تھا پس وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میں بتایا کہ محمدﷺ اپنی ذات میں ایسا نور رکھتے ہیں کہ تم چاہے مانو یا نہ مانوان کا کچھ بگڑ نہیں سکتا ۔
پھر فرمایا ہے وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا یعنی آپ کے بعد بعض اور وجودبھی آئیں گے جو قمر کی حیثیت رکھیں گے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ نہ صرف ایسے شمس ہیں جو اپنی ذات میں روشن اور پُر انوار ہیں بلکہ خدا تعالی نے آپ کے نور سے اکتساب کرنے کے لئے بعض قمر بھی پیدا کر دئیے ہیں جو ہر زمانہ میں اِن کے نور کو دنیا میں پھیلاتے رہیں گے گویا اول تو یہ اپنی ذات میںسورج ہے پھر یہ ایسا سورج ہے جس کے لئے خدا تعالی نے ری فلیکٹر بھی پیدا کر دئیے ہیں۔ اگر لوگ اس سورج کی طرف سے اپنا منہ موڑ لیں گے تو خدا تعالی پھر بھی انہیںبھاگنے نہ دے گااس کے مقابل پر ایک چاند آکھڑا ہو گا اور اس سے روشنی اخذ کر کے دنیا پر پھینکنے لگے گا۔ اور اس طرح پھر دنیا اس کے نور سے حصہ لینے لگے گی۔
اگر تم زمین سورج اور چاند کو آدمی سمجھ لو تو تمثیلی رنگ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ زمین جب روٹھ کر سورج سے اپنا منہ پھیر لیتی ہے تو چاند کہتا ہے تم اس سے بھاگ کر کہاں جاتی ہو میں اس سے نور حاصل کر کے تم پر ڈال دوں گا۔ غرض بتایا کہ دنیا خواہ پیٹھ پھیر لے ، خواہ وہ اس شمس روحانی سے منہ موڑ لے پھر بھی اس سورج سے اکتساب ِ نور کرتے ہوئے ایسے قمر دنیا میں بھیجے جائیں گے جو پھر ظلمت کدہ عالم کو بقعہ نور بنا دیں گے اگر کوئی قمر نہ ہوتا اور دنیا اپنی پیٹھ سورج کی طرف پھیر دیتی تو لازماً تاریکی ہی تاریکی ہو جاتی ۔ اجالا ہونے کی کوئی صورت نہ ہوتی یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی شارع نبی آیا دنیا نے کچھ عرصہ کے بعد اس سے اپنا منہ موڑ لیا اور تاریکی و ظلمت کے بادل اس پر چھا گئے ۔مگر فرمایا محمد ﷺ ایسے نبی نہیں یہ وہ شمس ہیں جس کے پیچھے قمر لگے ہوئے ہیں یہ وہ معشوق ہے جس کے عاشق اس کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔ دنیا اگر روٹھے گی تو قمر اس کو روشنی پہنچانے کے لئے ظاہر ہو جائیں گے ۔
وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَامیں بتایا کہ ہمارا یہ سورج صرف اپنی ذات میں ہی روشنی نہیں رکھتا بلکہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ دنیا بھی اس سے روشنی لے لیگی ۔ اس جگہ نہار سے مراد زمانہ نبوی ؐ نہیں بلکہ نہار سے مراد بعد کازمانہ ہے جب سورج تو نہ ہوگا مگر دن کا وقت سورج کو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لاتا رہے گا ٰیہاں تک کہ رات آجائے گی اور وہ اسے ڈھانپ لے گی اور ایک بار دنیا پھر معلوم کر لے گی کہ سورج کے بغیر گذارہ نہیں اور اس سے دوسری خسران و تباب کا موجب ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جسمانی اور روحانی سورج میں ایک فرق بتایا ہے ۔ جسمانی سورج تو جب تک موجود رہتاہے دن چڑھارہتا ہے اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے رات آجاتی ہے لیکن روحانی سورج کی روشنی اس کے غائب ہونے کے بعد بڑھنی شروع ہوتی ہے گویا دنیوی دن تو سورج کے ہوتے ہوئے چڑھتا ہے لیکن روحانی دن سورج کے غائب ہونے کے بعداپنے کمال کو پہنچتا ہے ۔ چنانچہ دیکھ لو قرآن اور حدیث نے ساری دنیا کو منور کیا مگر اس وقت جب رسول کریم ﷺ وفات پا چکے تھے، جب روحانی سورج لوگوں کی نظروں سے غائب ہو چکا تھا ۔ یہ روحانی اور جسمانی سورج میں ایک نمایاں فرق ہے ۔ جسمانی سورج کا دن اس وقت چڑھتاہے جب سورج نکلتا ہے مگر روحانی سورج کا دن اس وقت کمال کو پہنچتا ہے جب وہ غائب ہو جاتا ہے ۔
جسمانی سورج کے طلوع ہونے پر لوگ خوشیاں مناتے ہیں لیکن جب روحانی سورج طلوع کرتا ہے تو لوگ مخالفت کاایک طوفان بپا کرتے ہیں ۔ کوئی گالی نہیں ہوتی جو اسے نہ دی جائے، کوئی الزام نہیں ہوتا جو اس کے متعلق تراشانہ جائے ۔ ہر کوشش کا ماحصل یہی ہوتاہے کہ کہیںاس سورج کی ضیاء دنیا میں نہ پھیل جائے۔ مگر جب وہ سورج دنیا کی جسمانی نظروں سے غائب ہو جاتا ہے تو اسکی روشنی بڑھنے لگتی ہے اور لوگ یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ بڑا اچھا آدمی تھا ہم بھی اسے مانتے ہیں ، ہم بھی اس پر ایمان لاتے ہیں ۔ یہی اثر تھا جس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک دفعہ ایسا رلایا کہ میدہ کے نرم نرم پھلکے کا ایک لقمہ تک ان کے گلے سے نیچے اترنامشکل ہو گیا ۔ جب کسریٰ کو شکست ہوئی اور مال ِ غنیمت مسلمانو ںکے ہاتھ آیا تو ان میں سے کچھ ہوائی چکیاں بھی تھیں جن سے باریک آٹا پیسا جاتا تھا اس سے پہلے مکہ اور مدینہ کے رہنے والے سل بٹہ پر دانوں کوپیس لیا کرتے اور پھونکوں سے اس کے چھلکے اڑا کر روٹی پکا لیا کرتے تھے ۔ جب مدینہ میں ہوائی چکیاں آئیں اور ان سے باریک میدہ تیار کیا گیا تو حضرت عمر ؓ نے حکم دیا کہ پہلا آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیش کیا جائے تا کہ سب سے پہلے آپ ہی اس آٹے کی نرم نرم روٹی کھائیں ۔ چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق وہ آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں پیش ہوا ۔ آپ نے ایک عورت کو دیا کہ وہ اسے گوندھ کر روٹی تیار کرے ۔ جب میدے کے گرم گرم اور نرم نرم پُھلکے تیا ر کر کے آپ کے سامنے لائے گئے تو آپ نے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے ایک لقمہ توڑا اور اپنے منہ میں رکھ لیا مگر وہ لقمہ آپ نے اپنے منہ میں ڈالا ہی تھا کہ آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوگرنے لگے دیکھنے والی عورتیں حیران رہ گئیں کہ آپ کے آنسو کیوں گرنے لگے ہیں۔ چنانچہ کسی نے آپ سے پوچھا خیر تو ہے کیسی عمدہ اور نرم روٹی ہے اور آپ کے گلے میں پھنس رہی ہے ؟ انہوںنے جواب دیا میرے گلے میں یہ روٹی اپنی خشکی کی وجہ سے نہیں پھنسی بلکہ اپنی نرمی کے باعث پھنسی ہے ۔ رنج کے واقعات نے مجھے رنجیدہ نہیں کیا بلکہ خوشی کی گھڑیوں نے مجھے افسردہ بنا دیا ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب محمد ﷺ ہم میں موجود تھے انہی کی برکت سے آج یہ نعمتیںہمیں میسر ہیں مگر آپ کا یہ حال تھا کہ مدتوں گھر میں آگ نہیں جلتی تھی اور اگر روٹی پکتی بھی تو اس طرح کہ ہم سل بٹہ پر غلہ پیس لیا کرتے اور پھونکوں سے اس کے چھلکے اڑا کر روٹی پکا لیا کرتے ۔ مجھے خیال آتا ہے کہ یہ نعمتیں ہمیں جس کے طفیل میسر آئی ہیں وہ تو آج ہم میں نہیں کہ ہم یہ نعمت اس کے سامنے پیش کرتے اور دولتیں اس کے قدموں پر نثار کرتے لیکن ہم جن کا ان کامیابیوں کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ یہ خیال تھا جس نے مجھے تڑپا دیا اور جس کی وجہ سے میدے کا نرم نرم لقمہ بھی میرے گلے میں پھنس گیا ۔ تو روحانی عالم میں یہی قانون جاری ہے کہ نہار اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب سورج نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا کہ ہم دن کو پیش کرتے ہیںجب وہ سورج کو ظاہر کردے گا سورج سامنے نہیں ہو گا مگر دن اس بات کا ثبوت ہو گا کہ سورج ضرور چڑھا تھا ۔ چنانچہ دیکھ لو ابو بکر ؓ اور عمر ؓ کے زمانہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت جس طرح ظاہر ہوئی اور اسلام کی دھاک دنیا کے قلوب پر بیٹھی یہ ظہور رسول کریم ﷺ کے سامنے نہیں ہوا ۔ غرض روحانی اور جسمانی دن میں یہ فرق ہے کہ جسمانی دن کے وقت سورج موجود ہوتا ہے مگر روحانی نہا ر کا زمانہ وہ ہوتا ہے جب جسمانی طور پر سورج غائب ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے حضرت مسیح موعود ؑ نے ’’الوصیت ‘‘ میں اپنی وفات کی خبر دیتے ہوئے جماعت کو نصیحت فرمائی ہے کہ ’’ تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی ہے غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیا مت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت آنہیں سکتی جب تک میں نہ جائوں ۔ لیکن میں جب جائوں گا تو پھر خدا تعالی اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا تعالی کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا تعالی فرماتاہے کہ میںاس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے ‘‘
وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا پھر فرماتا ہے تیری امت پر ایک وہ زمانہ بھی آنے والا ہے جب سورج سے وہ اپنا منہ موڑ لے گی اور نہار کی بجائے لیل کا زمانہ اس پر آجائے گا ۔ بجائے اس کے کہ امت ِ محمدیہ ؐ کے یہ افرا د رسول کریم ﷺ کے احکام کو فراموش کر دیں گے اور عیاشیوں میں مبتلا ہو کر شیطانی راستوں کو اختیار کر لیں گے اس وقت اللہ تعالی ان سے فرمائے گاخواہ تم ہم کو بھول جائو ہم تمہیں نہیں بھول سکتے۔ خواہ تم ہم سے روٹھ جائو ہم تمہیں نہیں چھوڑ سکتے ۔ چنانچہ جب رات ان پر چھا جائے گی اور دنیا بزبان ِ حال ایک سورج کا مطالبہ کر رہی ہو گی اللہ تعالی پھر ایک چاند کو جو سورج کا قائم مقام ہوتا ہے چڑھا دے گا اور وہ محمد ﷺ سے روشنی لے کر اسے ساری دنیا میں پھیلا دے گا۔
غرض اللہ تعالی نے وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا ۔ وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا میں اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ بعض انفاس اپنے اندر ذاتی فضیلت رکھتے ہیںاور وہ دنیا کو چمکا دیتے ہیں ۔ اور دراصل ایسے ہی وجود دنیا کی اصلاح کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس کے بالمقابل بعض انفاس قمر کی حالت رکھتے ہیں اور اسی وقت دنیا کی ہدایت کا موجب ہوتے ہیں جب وہ سورج کے پیچھے آتے ہیں یعنی ان کا نور ذاتی نہیں بلکہ مکتسب ہوتا ہے ۔ ان دونوں حالتوں کو اللہ تعالی نے بطور شاہد پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ اصلاح عالم بغیران دو قسم کے وجودوں کے نہیں ہو سکتی یا نفسِ کامل یا متبع کامل ۔ نفس ِ کامل وہ ہے جس کا ذکروَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میں آتا ہے ۔اور متبع کامل وہ ہے جس کا ذکر وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا میں آتا ہے ۔ جب تک ان دونوں صفات میں سے کوئی ایک صفت موجود نہ ہو کوئی شخص اصلاح کا فرض سر انجام نہیں دے سکتا ۔ یا تو اصلاح کاکام وہ شخص کر سکتا ہے جو شمس ہو اور اللہ تعالی نے اسے اس غرض کے لئے پیدا کیا ہو کہ وہ شریعت لائے اور یا پھر وہ ایسا متبع کامل ہو کہ اپنے متبوع کے نور کو لے کر اس غرض کو پورا کر دے جس کے لئے اسے دنیا میں بھیجا گیا تھا ۔ گویا اصل غرض شریعت سے ہوتی ہے ۔ جب شریعت ِلفظی موجود نہیں ہوتی اس وقت نفس ِکامل کے ذریعہ دنیا میں شریعت کو نازل کیا جاتا ہے اور جب شریعت ِ لفظی غائب نہیں ہوتی صرف عمل مفقود ہوتا ہے اس وقت ظلّی طورپر وہ شریعت دوبارہ متبع کامل پر نازل ہوتی ہے اور وہ دنیا میں قیامِ شریعت کا فرض سر انجام دیتا ہے ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جس کا جواب دینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ آیا یہ اتفاقی بات ہے کہ ایک کو خدا تعالی شریعت دے دیتا ہے اور ایک کو متبع بنا دیتا ہے اگر وہ یوں کرتا کہ متبع کو شریعت دے دیتا اور شریعت والے کو تابع کے مقام پر کھڑا کر دیتا تو کیا ایسا ہو جاتا؟ اس کے متعلق یہ امر سمجھ لینا چاہیئے کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ۔ صاحب ِ شریعت اور متبع محض اتفاق سے نہیں ہو جاتے بلکہ یہ دونوں الگ الگ استعدادیں ہیں اور شمس و قمر کی مثالوں میں یہ دونوں امر بیان کئے گئے ہیں ۔ چنانچہ یہ بتایا جا چکا ہے کہ استعداد ِ شمسی والا وجود پہلے آتا ہے اور استعدادِ قمری والے وجود پیچھے آتے ہیں جو اس کے کام کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس سے ایک اور استدلال بھی ہوتا ہے جس سے احمدیت کے ایک اہم مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے ایک شخص شمس ہو اپنے زمانہ کا اور دوسرے زمانہ کا قمر بننے کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بڑے زمانہ کا قمر ہو مگر چھوٹے زمانہ کا شمس ہونے کی قابلیت نہ رکھتا ہو ۔ یہ الگ الگ قابلیتیں ہیں اور اللہ تعالی نے ہر استعداد کو دیکھ کر فطری مناسبت کے لحاظ سے ان کو شمس و قمر کا مقام دیا ہے اس وجہ سے ایک زمانہ کا قمر خواہ کام کے لحاظ سے قمر ہو لیکن روحانیت کے لحاظ سے پہلے دور کے شمس سے زیادہ ہو سکتا ہے لیکن اپنے شمس سے زیادہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس نے روشنی اپنے شمس سے لی ہوتی ہے اور بوجہ اس کے نور مکتسب ہونے کے اپنے شمس سے بڑھنے کی طاقت کسی قمر میں نہیں ہوسکتی ۔ لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے زمانہ کے شمس سے بڑا ہو ۔ مثلاً آگ اپنی ذات میںایک شمس کا وجود رکھتی ہے کیونکہ خود جل رہی ہوتی ہے اس کا نور مکتسب نہیں ہوتا بلکہ اندر سے پیدا ہوتا ہے مگر قمر کی روشنی کے سامنے وہ بالکل ماند ہوتی ہے ۔ جب ہم آگ جلاتے ہیں تو صرف دو یا چار گز جگہ کو روشن کر تی ہے اس سے زیادہ نہیں اور اگر ہم اسے اونچا بھی لے جائیں تب بھی وہ زیادہ دور تک اپنی روشنی کو نہیںپھیلا سکتی بلکہ اگر ہم اسے کافی اونچا لے جائیں تو وہ شاید تاریکی ہی بن جائے اور اس کا اپنا وجود بھی دکھائی نہ دے ۔ آگ اور چاند کی روشنی میں یہ فرق اس لئے ہوتا ہے کہ گویا قمر تابع ہے مگر اس کا متبوع اس قدر روشن ہے اور دوسری روشنیوں سے اس قدر زیادہ چمک اس میں پائی جاتی ہے کہ اس کا قمر بالذات روشنیوں سے زیادہ روشن ہو جاتا او ر دوسرے شموس سے بھی اپنی روشنی میں بڑھ جاتا ہے ۔
حقیقت وہی ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتب میں بار ہا بتائی ہے کہ شموس ایسے لوگ بنائے جاتے ہیںجو اقدام اور جنگی قوت اور سیاسی اقتدار کا ملکہ اپنے اندر رکھتے ہیں کیونکہ شریعت کے نفاذ کے لئے ان قابلیتوں کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے کہ ان میں یہ سب قابلیتیںپائی جاتی تھیں۔ لیکن قمر ایسے وجود بنائے جاتے ہیں جو سوز و گداز اور نرمی اور نصیحت کا مادہ اپنے اند ر زیادہ رکھتے ہی اس جہ سے ہمیشہ ان کی زندگیاں مختلف ہوتی ہیں اور باوجود ایک کام کرنے کے دونوں دور اس طرح مختلف نظر آتے ہیںجس طرح دو الگ الگ وجود ہوتے ہیں۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام دونوں نے ایک کام کیا مگر موسیٰ اور عیسیٰ کی زندگیاں دیکھی جائیں تو وہ بالکل الگ قسم کی نظر آتی ہیں۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگیوں کو دیکھا جاے تو ان میں بھی ایک نمایا ںفرق نظر آتا ہے ۔ رسول کریم ﷺ میں شروع سے ہی اقدام اور جنگی قوت اور تحکیم نظام کا مادہ نمایا ں تھا لیکن حضرت مسیح موعود ؑ میں سوز و گدازاور نرمی کا مادہ پایا جاتاتھا اور اپنی جماعت کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے کہ سیاست سے کوئی تعلق نہ رکھو تمہاراکام یہی ہے کہ تم نرمی اور محبت سے اللہ تعالی کا پیغام لوگوں تک پہنچا ئو یہ ایسا ہی ہے جیسے سورج کی روشنی ہی قمر کے ذریعہ آتی ہے مگر ان دونوں روشنیوں میں کتنا عظیم الشان فرق ہوتا ہے سورج کی روشنی دیکھو تو وہ بالکل الگ نظر آتی ہے یہی چیز ہے جس کا نام حضرت مسیح موعود ؑ نے جلالی اور جمالی رکھا ہے شمس اپنے اندر جلالی رنگ رکھتا ہے اور قمر اپنے اندر جمالی رنگ رکھتا ہے ۔ یوں شمس میں بھی ایک حد تک جمال پایا جاتا ہے اور قمر میں بھی ایک حد تک جلال پایا جاتا ہے مگر باوجود اس کے شمس کی غالب قوت جلالی ہوتی ہے اور قمر کی غالب قوت جمالی ہوتی ہے پس چونکہ یہ دونوں الگ الگ فطرتیں ہیں اس لئے محض تابع ہونے کی وجہ سے ہر قمر کو ہر شمس سے ادنیٰ قرار نہیں دیاجا سکتا ۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پہلا شمس چونکہ شرعی نبی تھا اس لئے وہ سب قمروںسے بڑھ کر تھا سب قمروں سے بڑھ کر نہیںکہہ سکتے بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے قمروں سے بڑھ کر تھا کیونکہ ہر قمر صرف اپنے شمس سے ادنیٰ ہوگا مگر اپنے شمس سے ادنیٰ قمر تمام دوسرے شموس سے بڑے درجہ کا ہو سکتا ہے ۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آگ بالذات روشن ہے مگر قمر کے مقابلہ میںاس کی روشنی بہت ادنیٰ ہے یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
یعنی اے میرے شمس روحانی تو چونکہ بہت روشن تھا اس لئے تیرا قمر دوسرے تمام شموس سے اپنی روشنی میں بڑھ گیا ۔ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت ہمارا یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ رسول کریم ﷺ کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی تمام انبیاء سے اپنے درجہ اور مقام کے لحاظ سے افضل ہیں ۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ دوسرے شموس سے کس طرح بڑھ سکتے ہیں مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام صاحب ِ شریعت نبی تھے ان سے حضرت مسیح موعود ؑ کا مقام کس طرح بلند ہو گیا یا بعض اور قوموں میں صاحب ِ شریعت نبی گذرے ہیں ان سے آپ بڑے کس طرح قرار دیئے جا سکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک مہ انبیاء بڑے تھے مگر اُن شموس اور قمر میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ یہ بیشک قمر ہے مگر یہ قمر اس شمس کا ہے جو پہلے تمام شموس سے بہت زیادہ روشن تھا اس لئے یہ لازم تھا کہ اس شمس کا قمر اپنی روشنی میں پہلے شموس سے بھی بڑھ جا تا ۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی جگہ پر ایک ہزار لیمپ ہو اور ہر لیمپ کا ایک ایک ری فلیکٹرہو تو اگر اس ہزار لیمپ کے مقابلہ میںایک لیمپ ایسا ہو جس میں دو ہزار لیمپ کے برابر روشنی کی طاقت وہ تو اس کا ری فلیکٹر اپنی روشنی میں ایک ہزار لیمپ سے بڑھ جائے گا۔ فرض کرو اس ہزار لیمپ میں سے کوئی پچاس کینڈل پاور کا ہے اور اس طرح مجموعی طور پر ان کی طاقت دولاکھ کینڈل پاور کی بن جاتی ہے تو اگر ان کے مقابلہ میں تین لاکھ کینڈل پاور کا صرف ایک ہی لیمپ ہو تو اس کا ری فلیکٹر باقی تمام روشنیوں کو مات کر دے گا اور باوجود قمر ہونے کے دوسرے شموس پر غالب آجائے گا۔
اس جگہ شمس و قمر سے مراد عام وجود بھی ہو سکتے ہیں۔ اور شمس و قمر سے شمس ِ اسلام اور قمر ِاسلام بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ ان دونوں شہادتوں سے یہ بتایا ہے کہ یہ دونوں وجود ابراہیمی پیشگوئی کی صداقت کا ثبوت ہوں گے اور مکہ کو عظیم الشان مرکز بنانے کا موجب ہوںگے ۔
اوراگر عام معنے لئے جائیں تو آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ایسے ہی وجودوں سے اصلاح کی بنیاد پڑتی ہے جب تک ایسے وجود پیدا نہ ہوں اصلاح نہیں ہو سکتی اور اگر اب ایسا نہ ہو گا تو ابراہیم کی پیشگوئی غلط ہو جائے گی ۔
وَالسَّمَائِ وَمَا بَنٰھَا ص لا۔ وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰھَا ص لا۔
اور آسمان کی اور اس کے بنائے جانے کی ۔ اور زمین کی اور اس کے بچھائے جانے کی
آیت نمبر ۶
حل لغات ۔ طَحَا الَّشْی ئَ کے معنے ہیں بَسَطَہ ُ وَمَدَّہ‘ کسی چیز کو پھیلایا (اقرب)
تفسیر ۔ نحوی یہاں ’’ما‘‘ کے دو معنے کرتے ہیں بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ ’’ ما ‘‘ اَلَّذِیْ کے معنوں میں ہے اور مَنْ کا قائمقام ہے گویا یہاں ’’ما‘‘ مَنْ کی جگہ استعمال ہوا ہے اور آیت دراصل یوں ہے کہ وَالسَّمَائِ وَمَنْ بَنٰھَاہم شہادت کے طور پر آسمان کو پیش کرتے ہیں اور اسے بھی جس نے اسے بنایا ۔
ا س کے متعلق سورۃ البلد کے تفسیری نوٹوں میں یہ امر واضح کیا جا چکا ہے کہ قرآن کریم میں ’’ما ‘‘ مَنْ کے معنوں میں بھی استعمال کیا گیا ہے چنانچہ حضرت مریم علیہ السلام جب پیدا ہوئیں تو ان کی والدہ نے کہا یا اللہ میںنے تو بیٹی جنی ہے حالانکہ میں چاہتی تھی کہ لڑکا پیدا ہو اور اسے میں تبلیغ کے لئے وقف کروں ۔ اس موقع پر قرآن کریم میں یہ الفاظ آتے ہیںوَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ (آل ِ عمران ۴:۱۲) حالانکہ لڑکی کے لئے مَنْ کا لفظ استعمال ہونا چاہیئے تھا اسی طرح فرماتا ہے فَانْکِحُو ا مَا طَابَ لَکُمْ مِن َالنِّسَائِ مَثْنیٰ وَثُلٰثَ وَ رُبٰعَ (النساء ۱ : ۱۲) یعنی تمہیں عورتوںمیںسے جو پسند آئیںان کے ساتھ شادی کر لو ۔ دو کرو ۔ تین کرو یا چار کرو یہ تمہارا اختیار ہے ہماری طرف سے اس میںکوئی روک نہیں ۔ اب عورت ذوی العلم افراد میں سے ہے اور اس کے لئے مَا کی بجائے مَنْ کا لفظ استعمال کرنا چاہیئے تھا مگر بجائے یہ کہنے کے کہ فَانْکِحُو ا مَنْ طَابَ لَکُم اللہ تعالی نے فَانْکِحُو ا مَا طَابَ لَکُم فرمایا ہے ۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اللہ تعالی نے یہاں دونوں جگہ ما کا لفظ کیوں رکھا ہے جبکہ مَنْ کا لفظ اس غرض کے لئے لغت نے وضع کیا ہوا تھا اوروہ اس موقع پر استعمال بھی ہو سکتا تھا ۔ آخر وجہ کیا ہے کہ خدا تعالی نیایک وضعی لفظ چھوڑ کر اس کی جگہ ایک غیر وضعی لفظ رکھ دیا؟ اس کی صاحب ِ کشاف نے ایک نہایت لطیف توجیہ کی ہے جو میرے نزدیک درست ہے وہ کہتے ہیں مَنْ کی جگہ مَا کا لفظ اسی وقت استعمال ہوتا ہے جب وجود پر کوئی صفت غالب آگئی ہو یعنی کبھی کوئی وجود ایسا ہوتا ہے کہ اس کی کوئی صفت اس کے عام انسان ہونے پر غالب آجاتیہے اس وقت چونکہ کسی مخصوص صفت پر زور دینا مقصود ہوتا ہے ’’مَا‘‘ کو مَنْ کا قائمقام کر دیا جاتا ہے ۔ مثلاً وَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ یہ لڑکی جو تو نے جنی ہے اس میں وہ صفت جو تو لڑکے میں امید رکھتی تھی کس شان میں پائی جاتی ہے چونکہ صفت غیر ذوی العلم میںسے ہے اس لئے ’’ما‘‘ کا لفظ استعمال کر کے اس کی ایک مخصوص قابلیت کی طرف اشارہ کر دیا اگروَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَنْ وَضَعَت کہا جاتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ اللہ تعالی کو پتہ ہے کہ یہ لڑکی ہے حالانکہ اللہ تعالی کو تو پتہ ہی تھا کہ وہ لڑکی ہے یا لڑکا ۔ خدا تعالی کے وجود پر ایمان لانے والوں کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اللہ تعالی کو اس بات کا علم ہے کہ تو نے کیا جنا ہے وہ تو پہلے ہی معلوم تھا کہ اللہ تعالی ا س بات کو جانتا ہے ۔ پس اگر وَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَنْ وَضَعَتکہا جاتا تو اس میں کوئی خاص بات نہ ہوتی مگروَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَت کہہ کر اس طرف اشارہ کیا کہ مریم کی ماں کو کیا پتہ ہے کہ اس میں کیا کیا صفات پائی جاتی ہیں لیکن اللہ تعالی جانتا ہے کہ اس میں کیسی عظیم الشان صفات اور قابلیتیں پائی جاتی ہیں۔ پس ’’ما‘ کا لفظ مریم کی قابلیت اور اس کی صفات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے استعمال کیا ہے اگر مَنْ ہوتا تو اس کے اتنے ہی معنے ہوتے کہ اللہ تعالی کو پتہ ہے یہ لڑکی ہے مگر ’’ما‘‘ کا لفظ استعمال کر کے اس طرف اشارہ کر دیا ک آگے آگے دیکھیو ہوتا ہے کہ
جب یہ بڑی ہو گی تمہیں معلوم ہو گا کہ یہ کسی عظیم الشان لڑکی ہے گویا وَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَت کے لحاظ سے یہ ایک پیشگوئی بن گئی مگر وَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَنْ وَضَعَت کے لحا ظ سے محض ایک واقعہ کا اظہار ہوتا ۔
اسی طرح فَانْکِحُو ا مَا طَابَ لَکُمْ مِن َالنِّسَائِ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بسا اوقات شادی بیاہ کے تعلقات محض جذباتی ہوتے ہیں اور انسان عورت کو نہیںدیکھتا بلکہ اس کی کسی خاص صفت کو دیکھتا ہے ۔ بہت سے لوگ عورت کے جمال پر اتنے فریفتہ ہو جاتے ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ عورت کس خاندان میںسے ہے ، اس کا آنا ہمارے ماں باپ کے لئے یا ہمارے خاندان کے لئے کسی تکلیف کا باعث تو نہیں ہو جائے گا ۔وہ اس کی صورت پر اتنے عاشق ہوتے ہیں کہ اور تمام باتو ں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کئی لوگ صرف مال دیکھ کر شادی کر دیتے ہیں ، کئی لوگ صرف حسب و نسب اور اعلیٰ خاندان دیکھ کر شادی کرتے ہیں ، کئی لوگ صرف اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے عورت سے شادی کرتے ہیں اور کئی لوگ صرف اخلاق فاضلہ کی شہرت سن کر شادی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ غرض کوئی ایک صفت اتنی غالب آجاتی ہے کہ انسان اس صفت کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے کہ عورت سے شادی کرے پس فَانْکِحُو ا مَا طَابَ لَکُم میں اللہ تعالی نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہم جانتے ہیں تم عورتوں کے ساتھ شادی کرتے وقت تما م وجوہ کو نہیں دیکھتے بلکہ کوئی ایک چیز تمہیں پسند آجاتی ہے اور تم ان پر لٹو ہو جاتے ہو ۔ کبھی تمہیں حسن پسند آجاتا ہے اور تم شادی کر لیتے ہو ، کبھی تمہیں مال اچھا لگتا ہے اور تم شادی کر لیتے ہو ، کبھی تمہیںخاندان اچھا لگتا ہے اور تم شادی کر لیتے ہو ، کبھی تمہیںاخلاق اچھے لگتے ہیں اور تم شادی کر لیتے ہو ۔ گویا اس آیت میں انسانی فطرت کے اس جوہر کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ عورت سے شادی نہیں کرتا بلکہ اس کی کسی صفت سے شادی کرتا ہے ، کبھی مال کی وجہ سے شادی کرتا ہے ، کبھی حسن کی وجہ سے شادی کرتا ہے ، کبھی تعلیم کی وجہ سے شادی کرتا ہے ، کبھی حسب و نسب کی وجہ سے شادی کرتاہے ، کبھی دین کی وجہ سے شادی کرتا ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تُنْکَحُ الْمَرْاَۃُ لِاَرْبَعٍ لِمَا لِھَا وَ لِحَسَبِھَا وَ لِجَمَا لِھَا وَلِدِیْنِھَا فَا ظْفُرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِ بَتْ یَدَاکَ (بخاری کتاب النکاح) یہ حدیث بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ شادی کسی صفت ِ غالبہ کے لحاظ سے کی جاتی ہے مگر رسول کریم ﷺ نے بطور نصیحت فرمایا کہ جب تم نے صفت ِ غالبہ کے لحاظ سے ہی شادی کرنی ہے تو پھر تم وہ ’’ما‘‘نہ اختیار کرو جو حسن کا قائمقام ہو یا حسب و نسب کا قائمقام ہو ۔ یہ عربی زبان کا ایک بہت بڑا کمال ہے کہ الفاظ کے معمولی ہیر پھیر سے اس میں نئے سے نئے معنے پیدا ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنا آخری کلام اس زبان میںنازل فرمایا۔ واقعہ یہی ہے کہ بعض دفعہ کوئی صفت اس قدر غالب آجاتی ہے کہ وہ وجود کو ڈھانپ دیتی ہے ۔مریم ؑ کی ماںکو صرف ایک لڑکی نظر آتی تھی مگر اللہ کو صفتِ مریمیت نظر آتی تھی ۔ اسی طرح مرد بعض دفعہ عورت کو بھول جاتا ہے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی باقی سب امور کو نظر اندازکر دیتا ہے صرف ا س کا حسن یااس کا خاندان یا اس کی کوئی اور ادا اسے اپنی طرف مائل کر لیتی ہے اس وقت اس لحاظ سے وہ مَنْ نہیںبلکہ ما ہی ہو جاتی ہے ۔ بہرحال جہاں ذات کی بجائے کسی صفت کا غلبہ مدِ نظر ہو اور اس صفت پر خاص طور پر زور دینا مقصود ہو وہاں قرآن کریم مَنْ کی جگہ ’’ما‘‘ کا لفظ استعمال کرتاہے پس انہی معنوںسے اس جگہ وَ مَا بَنٰہَا کے الفاظ آئے ہیں یعنی یہ بتانے کے لئے کہ اللہ تعالی کی صفت صنعت کو اپنے سامنے رکھو۔
وہ لوگ جنہوں نے ان معنوں کو قبول نہیں کیا وہ ’’ما‘‘ کو مصدریہ قرار دیتے ہیں ۔ قتادہ ، مبرد اور زجاج یہی کہتے ہیںیہ قول درحقیقت ان لوگوں کا ہے جو ’’ما‘‘ کو افرادِ ذوی العقل کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں سمجھتے وہ ہر جگہ مصدر کے معنے کرتے ہیں اور کہتے ہیںکہ جس جگہ ’’ما‘‘ آجائے وہ جملہ کو مصدریہ بنا دیتاہے ۔ ا س صورت میں آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم آسمان اور اسے بنانے کی یعنی خدا تعالی کی صنعت کی شہادت تمہارے سامنے پیش کرتے ہیںاس صورت میں بھی شہادت تو خدا تعالی کے فعل کی ہی ہو گی مگر براہ راست آسمان کی بناوٹ کو پیش کرنا سمجھا جائے گا ۔ لیکن اگر ’’ما‘‘ کو مَنْ کے معنوں میں لیا جائے تو آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم تمہارے سامنے آسمان کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیںاور اس صانع عظیم کو کہ جب انسان اس کی صنعت کو دیکھتا ہے تو محو ہو جاتا ہے یعنی تم آسمان کو دیکھو اور جس نے اسے بنایا ہے اس کو بھی یعنی اس کی عظیم الشان صنعت کو دیکھو ۔ جب انسان اللہ تعالی کی اس صنعت کو دیکھے تو حیران رہ جاتا ہے اور اللہ تعالی کی قدرت اور اس کی جبروت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے پس چونکہ یہاں خدا تعالیٰ کی صفت پر زور دینا مقصود تھا اور کائنات ِ عالم میںسے آسمان کی بناوٹ ۔ اس کی بلندی اور اس کے فوائد کی طرف بنی نوع انسان کو متوجہ کرنا تھا اس لئے یہاں ’’ما‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ۔
اسی طرح وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰہَا میںاگر ’’ما‘‘ کو مصدریہ قرار دیا جائے تو آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم شہادت کے طور پر زمین کو پیش کرتے ہیںاور اس کے بچھے ہوئے ہونے کو بھی ۔ لیکن اگر مَا کو مَنْ کے معنو ں میں لیا جائے تو ایت کے معنے یہ ہوں گے کہ تم زمین کو دیکھو اور اس کے اس بچھانے والے کو دیکھو جس کی عظیم الشان صنعت کا یہ نمونہ ہے ۔
بہت سے سیارے ایسے ہیں جو رہائش کے قابل نہیںاسی طرح بعض زمینیںایسی ہیں جو انسانی رہائش کے قابل نہیں ہوتیں ۔ بعض تو ایسی ہوتی ہیںکہ انسان وہاں رہ ہی نہیںسکتا کیونکہ ہوا جس پر انسانی زندگی کا تما م دارومدار ہے وہاں اس قدر ہلکی ہوتی ہے کہ پھیپھڑوں میں جا ہی نہیں سکتی اور بعض زمینیںایسی ہوتی ہیںکہ وہاں ہوا تو موجود ہوتی ہے مگر وہ اپنے اندر ایسی کیمیائی ترکیب نہیںرکھتی کہ زندگی کا باعث بن سکے ۔ اسی طرح کئی زمینیں ایسی ہیں جہاں انسان جیسی مخلوق ٹِک ہی نہیں سکتی اگر اس قسم کی مخلوق وہاں ہو تو یا وہ زمین پر چل ہی نہیں سکے گی اور اگر چلے گی تو فوراً گر جائے گی اور یا پھر وہاں کی زہریلی ہوا اس کو فوراً ہلاک کردے گی ۔ غرض زمین کے ساتھ اللہ تعالی نے اس کے قابل رہائش ہونے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ بعض زمینیں ایسی ہیں جو انسانی رہائش کے قابل نہیں ہیں چنانچہ وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰہَا میں اللہ تعالی اسی صنعت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالی نے زمین کو تمہاری رہائش کے قابل بنایا ہے اور یہ اس کا ایک بہت بڑا احسان ہے جس سے اس نے تمہیں نوازا۔
میں نے دیکھا ہے بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہر زمین رہائش کے قابل ہوتی ہے چنانچہ جب وہ قرآن کریم میںاس قسم کے الفاظ دیکھتے ہیں جن میں اللہ تعالی کے اس احسان یا اس کی صنعت کا ذکر ہوتا ہے کہ اس نے زمین کو رہائش کے قابل بنایا ہے تو وہ حیران ہوتے ہیںکہ اس ذکر کا فائدہ ہی کیا تھا ہم نے بہرحال زمین میں ہی رہنا تھا اگر یہ زمین نہ ہوتی تو کوئی اور زمین ہوجاتی اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑسکتا تھا ۔ وہ لوگ جو اس قسم کے خیالات میں مبتلا ہوتے ہیں در حقیقت علم ہیئت سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں۔ موجودہ تحقیقات نے اس امر کو ثابت کر دیا ہے کہ ہر زمین رہائش کے قابل نہیں ہوتی ۔ بعض زمینیںایسی ہیں کہ اگر وہاں انسان جائے تو ایک منٹ کے اندر اندر ہلاک ہو جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے ہی سب سے پہلے اس نکتہ کو دنیا پر ظاہر کیا ہے کہ ہر زمین رہائش کے قابل نہیں ہے او ر یہ قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کا ایک زبر دست ثبوت ہے ۔ قرآن ایک اُمّی پر نازل ہوا اور اس زمانہ میں نازل ہوا جب کہ علم ہیئت کی ترقی بالکل محدود تھی اور اس قسم کے مسائل کی طر ف کوئی انسانی نظر نہیں جا سکتی تھی اس زمانہ میں اللہ تعالی نے وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰہَا میں یہ ایک نہایت ہی لطیف راز بیان فرمایا کہ ہر زمین رہائش کے قابل نہیں ہے اس لئے جب تم زمین کو دیکھو تو صانع عظیم کی اس صنعت پر غور کرو کہ کس طرح اس نے تمہارے لئے اس زمین کو قابل ِ رہائش بنایا اور زندگی کے ہر قسم کے سامان اس نے تمہارے لئے مہیا کئے۔ سپکٹروسکوپ SPECTROSCOPE کی ایجاد کو صرف ستّر سال ہوئے ہیں ۔ اس آلہ کی ایجاد سے پہلے دنیا اس حقیقت سے ناواقف تھی مگر جب سے یہ آلہ ایجاد ہوا ہے علم ِ ہیئت کے ماہرین نے اس راز کا انکشاف کیا ہے کہ ہر ستارہ رہنے کے قابل نہیں ہے وہ سیاروں کی روشنی کا سپکٹروسکوپ کے ذریعہ سے کیمیاوی تجزیہ کرتے ہیں اور اس کے اندازہ لگاتے ہیں کہ اس سیارہ میں کیا کیا دھاتیں ہیں اور وہاں کی فضا کیسی ہے ۔ اس ایجاد کے نتیجہ میں انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر زمین اس قابل نہیں کہ اس میں رہائش اختیا ر کی جاسکے مگر اللہ تعالی نے سپکٹروسکوپ کی ایجاد سے تیرہ سو برس پہلے یہ فرمادیا تھا کہ وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰہَا ہماری اس صنعت پر تم غور کرو کہ ہم نے اس زمین کو تمہاری رہائش کے قابل بنایا ہے ۔ تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بھی ایک ویسی ہی زمین ہے جیسے اور زمینیں ہیں بلکہ تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ وہ زمین ہے جسے خدا تعالی نے خاص طور پر نسل انسانی کی رہائش او ر اس کی آبادی کے قابل بنایا ۔ گویا خدا تعالی کی یہ صفت ہے کہ وہ جو بھی کام کرتا ہے اس کے مناسب حال ایک ماحول بھی تیار کرتا ہے یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ انسان پیدا کرتا اور زمین کو اس کے مناسب حال نہ بناتا ۔ یا انسان پیدا کرتا اور وہ زمین سے فائدہ نہ اٹھا سکتا ۔ اللہ تعالی کی شان سے یہ بالکل بعید ہے کہ وہ ایسا کرتا۔
ان معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالی کی اس عظیم الشان صنعت پر غور کرو جو آسمان اور زمین دونوں میں کام کر رہی ہے اور جس کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے فرماتا ہے ہم تمہارے سامنے آسمان کو اور جس نے اسے اس طرح بنایاہے بطور شہادت پیش کرتے ہیںاسی طرح ہم تمہارے سامنے زمین کو اور جس نے اسے اس طرح بچھایا ہے بطور شہادت پیش کرتے ہیں۔ تم آسمان کو اس کی بلندی اور رفعت کے لحاظ سے دیکھو اورزمین کو اس کی ان قابلیتوں کے لحاظ سے دیکھو جن کی وجہ سے انسان اس میں بسنے کے قابل ہوا ہے اور سمجھ لو کہ آسمانی اور زمینی شہادتیں جس کے حق میں ہوں وہ جھوٹا کس طرح ہو سکتا ہے یا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ادھر اللہ تعالی آسمان بناتا جو بڑا مضبوط او ر اعلی درجے کا ہے دوسری طرف وہ زمین کو اس قابل بناتا کہ اس میں بنی نو ع انسان رہائش اختیار کر سکیںاو ر پھر یہ تمام کارخانہ عالم محض عبث ہوتا اور انسانی پیدائش کا کوئی مقصد نہ ہوتا ۔ کیا تم نہیںدیکھتے کہ اس نے زمین کو بہت سے دوسرے سیاروں سے مختلف شکل دی ہے وہاں ذی روح زندہ نہیں رہ سکتے ، وہ سانس نہیںلے سکتے ، وہ چل پھر نہیں سکتے ۔ مگر یہ زمین خدا تعالی نے ایسی بنائی ہے کہ اس میںذی روح افراد سانس لے سکتے ہیں، ان کے دماغ پوری طرح کام کر سکتے ہیں اور وہ اپنی ہر ضرورت اس ماحول میں سے مہیا کر سکتے ہیں ۔ ورنہ ایسی زمین بھی ہو سکتی تھی کہ مختلف گیسوں کی وجہ سے حیوان تو اس میں بس سکتے مگر انسان نہ بس سکتا ۔ مگر چونکہ انسان کے لئے ایک ایسے ماحول کی ضرورت تھی جس میں اس کا دماغی نشوونما جاری رہتا ۔ اس لئے اللہ تعالی نے زمین کے اندر ایسی قابلیتیںپیدا کر دیں کہ انسان اس میں بلا دریغ رہائش اختیار کر کے اپنے دماغی ارتقاء کو جاری رکھ سکتاہے ۔
اللہ تعالی آسمان اور زمین کی اس مثال کو پیش کرتے ہوئے اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ جب اس نے اتنا بڑا کارخانہ بنایا ہے اور اس کارخانہ کا ہر پرزہ انسان کی خدمت کے لئے لگا ہوا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تمہاری پیدائش اپنے اندر کوئی حکمت نہ رکھتی ہو اور تمہیں اللہ تعالی نے بلا وجہ محض لغو طور پر دنیا میں پیدا کر دیا ہو ۔ ادھر آسمان کو نہایت مضبوط اور اعلی درجہ کا بنانا، ادھر زمین کو رہائش کے قابل بنانا اور اس طرح قانون ِ قدرت کا ایک وسیع اور طویل نظام کی شکل اختیا ر کرلینا بتاتا ہے کہ اللہ تعالی کا یہ کام عبث نہیں۔ جب تم اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تیاری کو عبث نہیں کہتے تو تم اتنے بڑے نظام کو عبث کس طرح قرار دے سکتے ہو تمہیں بہرحال ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالی کا کوئی بہت بڑا مقصد او ربڑا بھاری مدعا ہے جو اس کارخانہ عالم کے پیچھے کام کر رہا ہے اور ضرور ہے کہ اس کا وہ منشاء ایک دن ظاہر ہو اور وہ مقصد پورا ہو جس کے لئے اس نے آسمان اور زمین کا نظام قائم فرمایا تھا ۔ اگر مادیات میں اس نے ایک طرف آسمان میںبلندی اور فیوض کی طاقت رکھی ہے اور دوسری طرف زمین میں رہائش اور دماغ کو نشوونما دینے کی قابلیت رکھی ہے تو یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ وہ تمہارے جسمانی آرام کاتو خیال رکھے اور روحانی آرام کو نظر انداز کر دے ۔ وہ تمہارے چند روزہ فوائد کے لئے تو اتنا بڑا کارخانہ جاری کر دے اور تمہارے ابدی فوائد کے لئے کوئی نظام قائم نہ کرے۔ جس خدا نے جسمانیات کے لحا ظ سے تمہارا ساتھ نہیں چھوڑا وہ روحانیات کے لحاظ سے بھی تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑ سکتا ۔ تم زمین اور آسمان پر اگر مخلّی بالطبع ہو کر غور کر و تو تمہیںمعلوم ہو گا کہ جس خدا کی طرف سے تمہارے روحانی ارتقاء کے لئے بھی ایسے قوانین کا آنا ضروری ہے جو نہایت اعلی درجہ کی زندگی بسر کرنے کے قابل بنا دیں تا کہ جس طرح اس نے زمین کو جسمانیات کے لحاظ سے رہنے کے قابل بنایا ہے اسی طرح وہ روحانیت کے لحاظ سے رہنے کے قابل بنائے ورنہ خدا تعالی پر یہ الزام عائد ہو گا کہ اس نے جسم کا تو خیال رکھا مگر روح کا خیال نہ رکھا۔ اس نے مادی ترقی کے سامان تو مہیا کئے مگر روحانی ترقی کے سامان مہیا نہ کئے۔ اور یہ ایک ایسا الزام ہے جسے خدا تعالی کی صفات بالکل ردّ کرتی ہیں۔ اس نے جسمانی نظام کے بالمقابل ایک روحانی نظام بھی قائم کیا ہے اور جس طرح جسم کی ترقی کے اس نے سامان کئے ہیں اسی طرح روح کی ترقی کے بھی اس نے سامان کئے ہیں ۔نادان انسان جسمانیات کو دیکھتا اور روحانیت سے آنکھیں بند کر لیتا ہے حالانکہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالی زمین کو جسمانی لحاظ سے تو رہائش کے قابل بنائے مگر روحانی لحاظ سے وہ اس کو قابلِ رہائش بنانے کا کوئی انتظام نہ کرے ۔ یا تو یہ کہو کہ مادی لحاظ سے بھی زمین میں یہ قابلیت نہیں کہ اس میں انسان رہ سکیںاور اگر تم یہ نہیں کہہ سکتے تو تمہیں ماننا پڑے گا کہ روحانی لحاظ سے بھی اس میں یہ ضرور قابلیت پائی جاتی ہے اور وہی قابلیت ہے جس کے ماتحت وہ لوگ جو آج اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی کو قبول کرنے کے لئے دوڑتے چلے آئیں گے تم خواہ کس قدر زور لگا لو فطرتِ انسانی میں نیکی پائی جاتی ہے اور وہی نیکی ہے جو ایک دن محمد رسول اللہ ﷺ پر لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر دے گی ۔ جس طرح زمین اپنے آپ کو آسمانی فیوض سے الگ نہیں کر سکتی اسی طرح انسانی قلوب بھی آسمانی وحی سے الگ نہیں رہ سکتے ضرور ہے کہ وہ ایک دن متاثر ہوں اور اس طرح جسمانی اور روحانی نظام کی ایک دن مطابقت ثابت ہو۔
دوسری صورت میں اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تم آسمان اور اس کی بناوٹ کو دیکھو اور سمجھ لو کہ آسمان کی بناوٹ ہی فیض رسانی کے لئے ہے اور زمین کی بناوٹ ہی سائل اور مانگنے والے کی ہے پس بغیر اس آسمانی نورانی وجود کے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے تم لوگ کوئی بھی خوبی ظاہر نہیں کر سکتے آسمان کا کام آسمان ہی کر سکتا ہے اور زمین اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتی کہ وہ آسمان کی طرف منہ کر ے او ر اُس کے فیوض کو حاصل کر کے زندگی حاصل کرے ۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ قرآن کریم میں آسمان سے مراد صرف جَوّ نہیں ہوتا بلکہ تمام ستارے، سیارے اور روشنیاں وغیرہ اس سے مراد ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے جس طرح ان کے بغیر زمین کام نہیں دے سکتی اسی طرح محمد رسو ل اللہ ﷺ کے بغیر تم بھی کوئی خوبی ظاہر نہیںکر سکتے اور پھر جس طرح آسمانی فیوض سے زمین انکار نہیں کر سکتی اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کے روحانی فیوض سے بھی تم ہمیشہ کے لئے انکار نہیں کر سکتے اگر زمین کے سامنے سورج آئے تو کیازمین اس وقت کہہ سکتی ہے کہ میں روشنی نہیں لیتی ۔ وہ مجبور ہے کہ سورج سے روشنی حاصل کرے ۔ اسی طرح جب محمد رسول اللہ ﷺ ظاہر ہو گئے ہیں تو اب دنیا آپ کا زیادہ دیر تک انکار نہیں کر سکے گی وہ ضرور آپ پر ایمان لائے گی ۔ اس مضمون کی وضاحت اللہ تعالی نے اگلی آیت میںفرمائی ہے
وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا ص لا
اور انسانی نفس کی اور اس کے بے عیب بنا ئے جانے کی ۔ آیت نمبر ۷
نمبر ۷ حل لغات۔ سَوّٰی کے لئے دیکھو حل لغات نمبر ۳ سورۃ الاعلی جلد ہشتم
تفسیر۔ پہلی آیت کی طرح اس کے بھی دو معنے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ہم نفس کو بطور شہادت پیش کرتے ہیں اور اس کو بھی جس نے اسے معتد ل القویٰ بنایا ۔ سَوّٰی کے معنے معتدل القویٰ کے بنانے کے ہوتے ہیں اور سورۃ الاعلیٰ کے تفسیری نوٹوں میں اس کا مفصل ذکر آچکا ہے جس طرح پہلی آیت میںبتایا تھا کہ ہم نے زمین کو قابلِ رہائش بنایا اسی طرح یہاں یہ بھی بتایا ہے کہ ہم نے نفس کا تسویہ کیا اور اس میںایسی قوت پیدا کی ہے کہ وہ اعتدال سے ترقی کی طرف جاتاہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے اگر تمہارے نفس میں یہ شہادت موجود نہ ہوتی اور جس طرح ہم نے زمین کو طحیٰ کیا ہے اس طرح تمہارے نفوس کا تسویہ نہ کیاہوتا تو تم کہہ سکتے تھے کہ ہم پر یہ مثال چسپاں نہیں ہو سکتی لیکن جب نفوس ِ انسانی میںاعتدال کو اختیار کر کے ترقی کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے تو تم یہ نہیںکہہ سکتے نفسِ انسانی خود اس امر پر شاہد ہے کہ کوئی نور اسے آسمان سے ملنا چاہیئے جس طرح زمین آسمانی روشنی کی محتاج ہوتی ہے اسی طرح تم آسمانی نور کے محتاج ہو ۔ تم دیکھتے ہو کہ اگر آسمان سے پانی نہ برسے تو زمین کی تمام سر سبزی و شادابی مٹ جاتی ہے ۔ اس کے درخت مرجھا جاتے ہیں ، اس کے پانی خشک ہو جاتے ہیں ، اس کی روئید گیاںگل سڑ جاتی ہیں اور وہی زمین جو اپنی لطافت سے انسانی آنکھو ں میںنور پیدا کر رہی ہے ایک لمبے عرصہ تک بارش نہ ہونے کے نتیجہ میں ایسی بنجر اور ویران ہو جاتی ہے کہ اسے دیکھ کر انسان گھبرا جاتا ہے یہی حال عالم روحانی کا ہے آسمان سے جب تک وحی و الہام کا پانی نازل نہ ہو روحانیت کے تما م کھیت مر جھا جاتے ہیں تما م روئیدگیاں گل سڑ جاتی ہیں اور وحی و الہام کی بارش منقطع ہونے سے ارتقا ء دماغی بھی بند ہو جاتا ہے اس وقت یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ جس طرح آسمان کا زمین کے ساتھ تعلق ہے اسی طرح وحی و الہام کا قلوب ِ انسانی کے ساتھ تعلق ہے ۔ اگر آسمان زمین کی ہوا کو صاف نہ کرتا رہے تو انسانوں کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے کیونکہ وہ گندی ہوا جو سانس کے ذریعہ پھیپھڑوں میںسے خارج ہوتی ہے جمع ہوتی رہے او ر وہی انسان کو دوبارہ اندر لے جانی پڑے مگر اللہ تعالی نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے اور اس کی جگہ سرد ہوا آجاتی ہے جو ہر قسم کے مضر اثرات سے پاک ہوتی ہے ۔ اگر کسی کمرہ میںپانچ سو یا ہزار آدمی بیٹھے ہوں اور ان کی سانس کی ہوا اوپر کو نہ جائے اور نہ اس کی جگہ تازہ ہوا آئے تو چند منٹ میں ہی تمام لوگ مر جائیںمگر اب کسی کو احساس بھی نہیںہوتا کہ ہم اپنے تنفس سے ہوا کو کس قدر گندہ کر رہے ہیں کیونکہ آسمان ساتھ ہی ساتھ صفائی کا کام کر رہا ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ ضرورت سے بھی زیادہ آدمی ایک کمرہ میںاکٹھے ہو جاتے ہیں تو ان کو کوئی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ انسان جس ہوا کو گندہ کرتا ہے آسمان اسے اٹھا کر لے جاتا ہے اور اس کی جگہ پاکیزہ ہوا میسر آجاتی ہے ۔ اس سے ظاہر کہ زمین بغیر آسمانی اشتراک کے کوئی کام نہیںکر سکتی ۔ اب بتاتا ہے کہ جس طرح زمین میں مختلف قسم کی قابلیتیںپائی جاتی ہیں ۔ انسان کے اندر ایک تڑپ ہے ترقی کی، پیاس ہے صداقت کی ، ندامت ہے غلطی پر اور ہر شے کی حقیقت معلوم کرنے کی اس کے اندر جستجو ہے ۔ بچہ ابھی بولنا ہی سیکھتا ہے تو ماںباپ کا دماغ چاٹ لیتا ہے اور بات بات پر پوچھتاہے یہ کیا ہے وہ کیا ہے ۔ لیمپ نظر آتا ہے تو پوچھتا ہے یہ کیا ہے ، بلی نظر آتی ہے تو پوچھتا ہے یہ کیا ہے ، کتا نظر آتا ہے تو پوچھتا ہے یہ کیا ہے غرض ہر نئی چیز جو اس کے سامنے آتی ہے اس کے متعلق وہ اپنی ماں یا اپنے باپ سے یہ ضرور دریافت کرتا ہے کہ یہ کیا ہے ۔ یورپ میںکئی کئی جلدوںمیںاس قسم کی کتابیںلکھی گئی ہیںجب میں بچوں کے ان سوالات کے جوابات درج ہوتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں جب بچہ اس قسم کے سوالات کرتا ہے درحقیقت وہی وقت اس کے دماغی نشوونما کا ہوتا ہے مگر ماں باپ کو چونکہ خود ان سوالات کا صحیح جواب معلوم نہیں ہوتا وہ ادھر ادھر کی باتوں میں اس کے سوال کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ جب وہ بجلی کے متعلق پوچھتا ہے کہ یہ کیا ہے تو ہر شخص فوراً جواب نہیںدے سکتا کہ یہ کیا ہے اگر وہ کہیگا کہ بجلی ہے تو بچہ کہے گا بجلی کی ہوتی ہے؟اس پر کئی لوگوں کو خاموش ہونا پڑتا ہے اور کئی یہ کہہ کر بچے کو خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہیںاس کا پتہ نہیںیہ لیمپ ہے جو جل رہا ہے ۔ پس چونکہ اکثر ماں باپ بچوں کے سوالات کا صحیح جواب نہیںدے سکتے اس لئے یورپ میں اس قسم کی کئی کتابیںلکھی گئی ہیں جن میں بڑی بڑی علمی باتیں آسان الفاظ میں بیان ہوتی ہیں تا کہ جب بچہ تم سے پوچھے کہ یہ کیا ہے یا وہ کیا ہے تو تم ایسا جواب دے سکو جو صحیح ہو اور جسے بچہ سمجھ سکے ۔ پھر بچہ میں ایک یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ جب اس سے کوئی غلط بات کہہ دو تو وہ رونے لگ جاتا ہے اگر روٹی پڑی ہو اور کہہ دو کہ روٹی نہیںہے تو وہ چیخیںمار کر رونا شروع کر دے گا یا بچہ بیمار ہو اور تم اسے کہہ دو کہ تم بیمار نہیںہو تو وہ جھٹ رونا شروع کر دے گا کیونکہ اس میں یہ حس پائی جاتی ہے کہ میرے سامنے سچی بات بیان کی جائے۔ اسی طرح کوئی کھلونا بچے کو دے دو تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ اسے توڑ پھوڑدیتا ہے ا س کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پہلے وہ اس کی شکل سے اس کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب شکل سے اسے کچھ معلوم نہیں ہوتا تو وہ سمجھتا ہے شاید اس کے اندر کوئی حقیقت پائی جاتی ہے چنانچہ وہ اس حقیقت کی جستجو میںاسے توڑ دیتا ہے اور پھر توڑ کر خود ہی رونا لگ جاتا ہے لوگ حیران ہو تے ہیں کہ خود ہی اس نے کھلونا توڑا ہے اور خود ہی رونے لگ گیا ہے وہ یہ نہیںسمجھتے کہ بچہ روتااس لئے ہے کہ میں نے تو کھلونا اس لئے توڑا تھا کہ مجھے پتہ لگے اس کے اندر کیا ہے مگر مجھے پھر بھی کچھ معلوم نہیں ہوا۔ وہ اس لئے نہیں روتا کہ کھلونا کیوں ٹوٹا ہے کیونکہ وہ تو اس نے خود توڑا ہوتا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ کھلونے کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے اس کو توڑتا ہے مگر جب اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی تو رونے لگ جاتا ہے ، سمجھتا ہے کہ کھلونابھی گیا اور یہ بھی پتہ نہ لگا کہ اس کی کیا حقیقت تھی ۔ پھر جب بڑا ہوتاہے تو مختلف علوم کا اسے شغف ہو جاتا ہے ۔ دراصل یہ شغف بھی اپنی اپنی مناسبت کے لحاظ سے ہوتا ہے کبھی بچے باہر جاتے ہیں اور وہ کسی لوہار کو کام کرتا دیکھتے ہیں تو وہ وہیںکھڑے ہو جاتے ہیں کہ یہ کام کس طرح کرتا ہے ۔ کبھی کسی نجار کو دیکھتے ہیں تو اس کے کام کو دیکھنے میں محو ہو جاتے ہیں۔ اس طرح اپنی اپنی مناسبت کے لحاظ سے کسی کو لوہار ے کام کا شوق ہو جاتا ہے ، کسی کو نجاری کا کام پسند آ جاتا ہے ، کسی کو معماری کا کام پسند آجاتاہے ،کسی کو اور کام پسند آ جاتا ہے ہمارے ہاں ایک ملازمہ کا لڑکاہے اس کو یہی شوق ہے کہ میں بڑاہوکر کاتب بنوں گا معلوم ہوتا ہے اس نے کسی کاتب کونہایت خوشخط حروف لکھتے دیکھا تو اس کو بھی خیال آگیا کہ میںبھی بڑا ہو کر کاتب بنوں گا اور اسی طرح خوبصورت طریق پر لکھاکروںگا ۔
ہمارے ملک کی تباہی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے مذاق اور ان کی طبیعت کی مناسبت کا خیال نہیں رکھا جاتا اور بڑے ہو کر ان کو ایسے کاموں پر لگا دیا جاتا ہے جن کے ساتھ ان کی طبعیت کی کوئی مناسبت نہیں ہوتی نہ ان کاموں کی طرف ان کا کوئی ذاتی میلان ہوتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری عمر کام کرنے کے باوجود ترقی سے محروم رہتے ہیں ۔ حالانکہ طریق یہ ہونا چاہیئے کہ یا تو بچوں کے مذاق اور ان کی طبیعت کے مطابق ان کے لئے کام مہیا کیا جائے اور یاپھر بچپن میں ہی ان کے اندر وہ رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جو رنگ ماں باپ ان میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں نہ والدین بچہ میں اپنی مرضی کا صحیح مذاق پیدا کرتے ہیں نہ اس کے مذاق اور طبیعت کی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہیں اور اس طرح اس میں دوغلہ پن پیدا ہو جاتا ہے ۔ جب وہ بڑا ہوتا ہے تو چونکہ اس کا طبعی میلان اور ہوتاہے اور سپرد شدہ کام اور ہوتا ہے اس لئے اس کے نفس میںلڑائی شروع ہو جاتی ہے اور آخری نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اس کا ذہن کند ہو جاتا ہے ۔ آئندہ نسلوں کی درستی اور قوموں کی ترقی کی صرف دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو وعظ اور نصیحت سے بچوں کو صحیح مذاق کی طرف لایا جائے اور ان کے لئے بچپن سے ہی ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے کہ وہ وہی کچھ سوچنے لگیں جو ہم چاہتے ہیں اور وہی کچھ دیکھنے لگیں جو ہم چاہتے ہیں ۔ اور اگر ہم ان کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی مرضی کا صحیح مذاق ان میں پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو پھر دوسری صورت یہ ہے کہ بچوں کے مذاق کو ملحوظ رکھا جائے ۔ اگر کوئی انجنیئر بننا چاہتا ہے تو اسے انجنیئر بنا دیا جائے ، اگر کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو اسے ڈاکٹر بنا دیا جائے ، اگر کوئی مدرس بننا چاہتا ہے تو اسے مدرس بنا دیا جائے کیونکہ ہم نے اس کے اندر اپنا وجود پیدا نہیں کیا اور جب اپنا وجود ہم نے اس کے اندر پیدا نہیں کیا تو اب اگر اس کے ذاتی مذاق کو بھی ہم ٹھکرا دیں تو یہ بالکل بچوں والی بات ہو جائے گی جو کھلونے لے کر توڑ دیتے ہیں مگر پھر بھی ان کو حقیقت معلوم نہیں ہوتی ۔ ہم بھی اس ذریعہ سے قوم کے ایک مفید حصہ کو ضائع کرنے والے قرا ر پائیں گے ۔
پھر ہم دیکھتے ہیں مختلف علوم میں انسان کا شغف اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ بعض دفعہ غیب معلوم کرنے کے لئے اپنی عقل سے راستے تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے چنانچہ یورپ کو دیکھ لو وہ علوم میں کس قدر ترقی کر چکا ہے ۔ مگر ادھر تو یہ حال ہے کہ یورپ خدا تعالی کا انکار کر رہا ہے ، مذہب سے بالکل لا پروا ہے اور ادھر اس کی حماقت کا یہ حال ہے کہ ذرا کوئی کہہ دے میں ہتھیلی دیکھ کر آئندہ کے حالات بتا سکتاہوں تو بڑے بڑے لائق پروفیسر اور وکیل اور ڈاکٹر اور انجنئیر اپنے ہاتھ کھول کو اس کے سامنے بیٹھ جائیں گے اور کہیں گے کہ ہمیںآئندہ کے حالات بتائیے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر فطرتی طورپر یہ مادہ ہے کہ وہ حقیقت ِ عالم اور راز ِ کائنا ت کو معلوم کرنا چاہتا ہے ۔ انہوں نے اپنے جھوٹے علم پر غرور کرتے ہوئے خدا تعالی کا تو انکار کر دیا مگر فطرت میںجو جستجو تھی کہ اس دنیا کا ایک منبع ہے جس کو دریافت کرنا چاہیئے اس جستجو کو وہ نہ مٹا سکے چنانچہ غیب معلوم کرنے کے لئے ہاتھ دکھانا صاف بتا رہا ہے کہ انسان کی اس مادی دنیا سے تسلی نہیں ہو سکتی وہ علوم ماوراء الطبیعات کے حصول کے لئے ہر وقت پریشان رہتا ہے اور یہی پیاس ہے جو اسے کبھی کسی راستہ پر لے جاتی ہے اور کبھی کسی راستہ پر ۔ کوئی پامسٹری میںلگا ہوا ہے ، کوئی تاش کے پتوں سے غیب معلوم کرنا چاہتا ہے ، کوئی ستاروں کو دیکھ کر ان سے آئندہ کے حالا ت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے ، کوئی زمین پر لکیریں کھینچ کھینچ کر غیب معلوم کرتا ہے ، کوئی تسبیح کے منکے مار مار کر یہ کوشش کرتا ہے کہ اسے غیب کی کوئی خبر معلوم ہو جائے ۔ طاق منکا آجائے تو کہتے ہیں کامیابی ہو گی اور اگر جفت آجائیںتو کہتے ہیں ناکامی ہو گی۔ اسی طرح بعض لوگ قرعہ ڈالتے ہیں ۔ بعض تیروں سے آئندہ کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض یہ کوشش کہ راز ِ کائنات دریافت کئے جائیں ہر شخص میںپائی جاتی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اس کے لئے صحیح طریق اختیار کرتا ہے یا غلط۔ میںایک دفعہ کراچی گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ منڈی میں کپاس کی قیمت بڑھنے لگی ہے اس وقت بظاہر آثار ایسے تھے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ کپا س کی قیمت گر جائے گی مگر ہوا یہ کہ اس کی قیمت بڑھ گئی ۔میَں نے لوگوںسے پوچھا کہ بات کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ امرتسر سے ایک سادھو آیا ہے اس سے تاجروں نے آئندہ کے بعض حالات دریافت کئے تو اس نے کہا کہ کپاس کی قیمت بڑھ جائے گی ۔ یہ سنتے ہی تمام تاجروں نے کپاس خریدنی شروع کر دی اور اس کی قیمت بڑھ گئی ۔ مگر چونکہ کوئی حقیقی طاقت اس کے پیچھے نہیں تھی دو چار دن تو قیمت چڑھی مگر پھر کم ہونے لگی اور اس قدر کم ہو گئی کہ کئی تاجروں کے دیوالے نکل گئے۔ طبعی اصول تو یہ ہے کہ چیز کم ہو اور کارخانوں کی مانگ زیادہ ہو اس وقت قیمت بے شک بڑھتی ہے لیکن اگر چیز کافی ہو اور کسی عارضی وجہ سے گاہک زیادہ آگئے ہوں تو اس کی قیمت میں عارضی طور پر اضافہ ہو سکتا ہے چنانچہ اس کے بعد کراچی کے کئی تاجروںکے دیوالے نکل گئے کیونکہ بمبئی والوں نے اس قیمت پر روئی خریدنے سے انکار کر دیا ، نیو یارک والوں نے انکار کر دیا، لنکا شائر والوں نے انکار کر دیا ، اوراس طرح ہزاروں دیوالیہ ہو گئے ۔ اب یہ ایک حماقت کی بات تھی کہ کسی سادھو سے دریافت کیا جائے کہ آئندہ کے حالات بتائو اور پھر جو کچھ وہ اناپ شناپ بتادے اس کے مطابق عمل شروع کر دیا جائے مگراس حماقت کا ارتکاب ان سے اس لئے ہوا کہ انسان چاہتا ہے مجھے علم ِ غیب کا کسی طرح پتہ لگ جائے اور اس کے لئے بعض دفعہ ایسے ایسے احمقانہ طریق اختیار کرتا ہے کہ حیرت آتی ہے ۔ غرض انسانی فطرت میں راز ِ کائنات معلوم کرنے کی جستجو پائی جاتی ہے اور یہ علوم خواہ کتنے غلط ہوں اس امر پر ایک کھلی شہاد ت ہیں کہ انسانی علوم ماوراء الطبعیات کی پیاس رکھتا ہے اور ان کے بغیر اسے چین نہیں آتا ۔ پھر وہ علوم دنیاوی کی تحقیق میںلگتاہے ، کہیں آسمانی عالم کی کھال ادھیڑ نے لگتا ہے ، روشنیوںکو پھاڑتا ہے ، ستاروں کی چالیںدیکھ دیکھ کر آئندہ کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کرتاہے ، پھر زمین کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو کہیں کانیں دریافت کرتا ہے ، کہیںخزانوں کی دریافت کرتا ہے ، کوئی شخص پیتل کی ، کوئی لوہے کی، کوئی سونے اور کوئی چاندی کی کانیں دریافت کرنے میںمشغول ہو جاتا ہے ، کوئی جڑی بوٹیوں کے خواص معلوم کرتا اور ان کی تحقیق پر تحقیق کرتا چلا جاتا ہے ، کوئی دھاتوں کے کشتے بنا تا ہے ، کوئی ہوا ، کوئی پانی ، کوئی بجلی، کوئی آگ اور کوئی دخان کو قابو میںلانے کی کوشش کرتا ہے ، کوئی ذرا ذرا سی بات پر جنات کے خیال میںمشغول ہو جاتا ہے ۔ کسی نے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ میں نے فلاں عمل پڑھا تھا اس کی اس قدر تاثیر ہوئی کہ بس جنات قابو ہوتے ہوتے رہ گئے ۔ وہ سنتا ہے تو اس کے سر پر بھی جنون سوار ہو جاتا ہے ۔ اور وہ بھی جنات کو قابو میں لانے کے لئے سر گرم عمل ہو جاتا ہے ۔ جس طرح کیمیا گر دوسروں کو دھوکہ دینے کے لئے کہہ دیا کرتے ہیںکہ میں نے فلاں نسخہ بنایا اور سونا بنتے بنتے رہ گیا ۔ اسی طرح وہ کہتا ہے کہ میں نے فلاں عمل کیا تو جنات قابو ہوتے ہوتے رہ گئے ۔ دوسرا شخص سنتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ یہ تو قابو نہ کر سکا مگر میںان کو ضرور قابو کر لوں گا چنانچہ وہ کسی میدان میں اپنے ارد گرد لکیریں کھینچ کر بیٹھ جاتا اور منہ سے بڑبڑانے لگ جاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ ابھی جنات میرے قابو میں آجائیںگے ۔ اگر مادی تغیرات ہی کافی سمجھے جاتے تو عاقل اور جاہل دونوں اس قسم کی جدو جہد میںکیوں مشغول ہوتے ۔ آخر وجہ کیا ہے کہ یورپ کا عاقل بھی اسی میںمشغول ہے اور ہندوستان کا جاہل بھی اِسی میں مشغول ہے ۔ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ خالص مادی علوم سے انسانی قلب تسلی نہیں پاتا بلکہ وہ ما وراء الطبعیات علوم کی جستجو چاہتا ہے ۔
غرض ہر طرف سے مادی علام میں سرنگ لگانے کی یہ جدو جہد بتاتی ہے کہ اس کے اندر کسی بالائی طاقت کو پانے کی ایک تڑپ ہے جو کبھی کبھی مادی بوجھوں میںدب کر سب کانشس حالت میںچلی جاتی ہے۔ یعنی یہ حقیقت کہ خدا ہے اور اس نے دنیا بنائی ہے غائب ہو جاتی ہے مگر اس کی جدو جہد بتا رہی ہوتی ہے کہ اس کے پیچھے بے جانے وہی جذبہ کار فرما ہے ۔ بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ جاگتے ہوئے انسان اپنے نفس کو قابو میںرکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب وہ سو جاتا ہے تو اس کے قلب کے اندرونی خیالا ت بعض دفعہ اس کی حرکات سے ظاہر ہو جاتے ہیںکئی لوگ ایسے ہوتے ہیںجو کسی کی کوئی چیز چرا لیتے ہیں دن بھر تو وہ اپنے نفس کو قابو میںرکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی کو ان کی اس چوری کا علم نہ ہو مگر چونکہ سارا دن ان کے دماغ پر یہی خیال مسلط رہتاہے اس لئے جب وہ سوتے ہیںتھوڑی دیر کے بعد ہی بڑبڑانے لگتے ہیں اور ان کی چوری کا لوگوںکو علم ہو جاتا ہے ۔ بہت سے چور ایسے ہوتے ہیں جن کا لوگوں کو پتہ نہیں لگتا مگر چونکہ انہیں ہر وقت یہی خیال رہتا ہے کہ کہیںلوگوںکو ہماری چوری کا علم نہ ہو جائے اس لئے جب وہ سوتے ہیںخواب کی حالت میںبڑبڑانے لگتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں دیکھنا دیکھنا فلاں کونہ میںنہ جانا وہاں میرا مال پڑا ہے ۔ دیکھنا کہیںپولیس کو خبر نہ دے دینا ۔ کبھی بڑبڑاتے ہوئے کہیں گے میں نے فلاں کو خوب لوٹا ہے ۔ لوگ ان باتوں کو سنتے ہیںتو انہیںفوراً پتہ لگ جاتا ہے کہ یہی چور ہے چنانچہ تحقیق پر تمام مال برآمد ہو جاتاہے۔ اسی طرح بعض قاتل ایسے ہوتے ہیں جو جاگتے ہوئے تو اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب سو جاتے ہیں بڑبڑانے لگتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں ارے فلاں شخص کی روح آگئی ہے ، ارے مجھے کیوں مارتے ہو ، مجھے معاف کر دو میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا ۔ ہمسایہ ان آوازوں کو سنتا ہے تو اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہی شخص قاتل ہے ۔ تو انسان کے سب کانشس مائینڈ (غیر شعوری دماغ) میںبہت سے حقائق پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جب اس کا کانشس مائینڈ (شعوری دماغ ) غافل ہوتا ہے تو سب کانشس مائینڈ ان خیالات کو ظاہر کر دیتا ہے جیسے سوتے ہوئے یا رویا ء میںیا مسمریزم کے ماتحت دوسروں کی زبان سے کئی باتیںنکل آتی ہیں۔ اسی طرح دنیا میںبہت سے لوگ ایسے ہیں جو خدا تعالی کے وجود کا انکار کرتے ہیں مگر ان کی زندگی کے حالات ان کے سب کانشس مائینڈ کی کیفیات کو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کسی اور ہستی کی تلاش کی خواہش مٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں مگر ان کے حالات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس خواہش کو مٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکے وہ صرف ان خیالات کو دھکیل کر عارضی طورپر پیچھے ہٹانے میںکامیاب ہوتے ہیں مستقل طورپر نہیں۔ اور چونکہ یہ تڑپ اکثر سب کانشس حالت میںرہتی ہے انسان اس کا اقرار نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھی تھک کر جس طرح بچہ جب کھلونے کی ساخت کو سمجھ نہیں سکتا تو اسے بٹوں سے توڑنے لگتا ہے یہ بھی چڑ کر کسی پیدا کرنے والے کا انکار کر دیتا ہے اور آپ ہی آپ بنے ہوئے عالم کا وجود تسلیم کرنے لگتا ہے ۔ گھروں میں اکثر یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ جب بچہ کسی کھلونے کو توڑ پھوڑ دیتا ہے تو بعض دفعہ کھسیانا ہو کر کہہ دیتا ہے کہ مجھے کھلونے کی ضرورت نہیں۔ در حقیقت ان الفاظ کے ذریعہ وہ اس بات کا غصہ نکالتا ہے کہ میںنے کھلونا بھی توڑا اور مجھے اس کی حقیقت کا بھی علم نہ ہوا۔ دہریہ بھی ایسے ہی ہوتے ہیںوہ اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے خدا تعالی کی ہستی کا انکار کرتے ہیںورنہ ان کے سب کانشس مائینڈ میںخدا تعالی کی ہستی کی شہادت موجود ہوتی ہے اور وہ ادھر ادھر کو تلاش بھی کرتے ہیںمگر جب وہ ہستی ان کو ملتی نہیں تو اس کا انکار کر دیتے ہیں اور جس طرح بچہ کہتا ہے مجھے کھلونے کی ضرورت نہیںوہ بھی کہہ دیتے ہیںکہ ہمیںکسی خدا کی ضرورت نہیں۔ بعض دفعہ ماں اپنے بچہ سے دل لگی کے طور پر کہہ دیتی ہے کہ میںنے فلاں چیز تمہیں نہیں دینی ۔ بچہ سنتا ہے تو منہ بسورتے ہوئے کہہ دیتا ہے کہ میںنے یہ چیز لینی ہی نہیں مگر پھر للچائی ہوئے نگاہوں سے دیکھتا ہے کہ کسی طرح یہ چیز مجھے مل جائے ۔ اسی طرح انسان بعض دفعہ کھسیانہ ہو کر کہہ دیتا ہے کہ مجھے خدا کی ضرورت نہیںمگر اس سے بھی اس کی پیاس نہیں بجھتی کیونکہ خود اس کی کوشش بتارہی ہوتی ہے کہ اس کا یہ نتیجہ غلط ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق یہ کہنا کہ وہ آپ ہی آپ ہے اسکے معنے یہ ہوتے ہیںکہ ہم اس چیز کی انتہاء تک پہنچ چکے ہیں۔ اگر کسی دریا کے کنارے صرف دو میل تک چل کر کوئی شخص کہہ دے کہ اس دریا کا کوئی منبع نہیں تو یہ اس کی حماقت ہو گی اگر وہ چلتا چلا جائے تو بہر حال اس کا منبع مل جائے گا ۔ اسی طرح جب تک دنیا کے انتہائی سبب کو معلوم نہ کیا جائے یہ کہنا کہ دنیا کا کوئی خدا نہیںاحمقانہ بات ہے یہ نتیجہ تو منتہائے اسباب پر پہنچکر نکالا جا سکتاہے اس سے پہلے نہیں اور اگر اس کا یہ نتیجہ درست ہے تو اسے مزید تجسس اور تحقیق بند کر دینی چاہیئے مگر یہ پھر بھی مزید تجسس اور جستجو میں لگا رہتا ہے بلکہ اب بھی نئی سے نئی باتیںنکل رہی ہیںاور جستجو اور تلاش کا ایک دریا ہے جو دنیا میںجاری ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ لو گ ابھی منبع تک نہیں پہنچے اور جب وہ منبع تک پہنچے ہی نہیںتو منبع کا تعین کرنے کا انہیںکیا حق ہے ؟ اللہ تعالی ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا ہم نے تمہارے قویٰ میں اعلی درجہ کی طاقت پید اکی ہے اور ایسا مادہ ہم نے تمہارے اندرودیعت کیا ہے کہ تم پل صرا ط پر چلنے کی قابلیت رکھتے ہو ۔ پل صراط پروہی شخص چل سکتا ہے جو دائیںطرف گزرنے سے بھی بچتا ہے اور بائیں طرف گزرنے سے بھی بچتاہے اور پھر اپنے اندر یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ آگے کی طرف بڑھتا چلا جائے گویا انسان میںاللہ تعالی نے ادھر ترقی کا مادہ پیدا کیا ہے اُدھر اُسے اپنا دایا ں اور اپنا بایاں پہلو مضبوط بنانے کی طاقت عطا فرمائی ہے جب اس نے انسان کو اس طرح متعدل القویٰ بنایا ہے تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ اس کے لئے راستہ نہ بناتا اور منزل مقصود پر اسے نہ پہنچاتا۔ انسان کی منزل مقصود خدا تعالی ہے اور وہ اس منزل مقصود پر اسی وقت پہنچ سکتا ہے جب وہ دائیںطرف کا بھی خیال رکھے اور بائیں طرف کا بھی خیال رکھے ۔ متعدل القویٰ وہی شخص ہوتا ہے جو کسی ایک طرف کو جھکا ہوا نہ ہو ۔ اسی طرح جب خدا تعالی نے انسان کو متعدل القویٰ بنایا تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ وہ اپنے اندر ایسی قابلیت رکھتا ہے کہ دائیں طرف گرنے سے بھی محفو ظ رہ سکتا ہے اور بائیں طرف گرنے سے بھی محفوظ رہ سکتا ہے ۔ انسان کی تما م تر کامیابی اسی میں ہوتی ہے کہ وہ دائیں بائیں گڑھوں سے بچ کر سیدھا چلے اور منزل مقصود سے درے نہ ٹھہرے ۔ یہی دو چیزیں مذہب کی جان ہیں اور یہی وہ حقیقت ہے جسے حضرت مسیح موعود ؑ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ مذہب کی بڑی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان خدا تعالی سے بھی اعلی درجہ کا تعلق رکھے اور بنی نو ع انسان سے بھی اعلی درجہ کا تعلق رکھے ۔ نہ حقوق اللہ بجا لانے میں کوئی کوتاہی کرے اور نہ حقوق العباد کی بجا آوری میں کوئی کوتاہی کرے۔ غرض انسان کو ایک معتدل القویٰ نفس عطا کیا گیا ہے اس میں ترقی کا ماد ہ ہے جو اعلی درجہ کے مقصود تک پہنچنے کے لئے ہے ۔ پھر اس میںاپنے دائیں اور بائیںکو محفوظ رکھنے کا مادہ ہے جس سے اخلا ق کی تکمیل ہوتی ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ فلاں کام مجھے کرنا چاہیئے اور فلاں نہیں ۔ فلاں کام میرے لئے مفید ہے اور فلاں مضر۔ جب انسان کے اندر یہ تمام قابلیتیں پائی جاتی ہیںتو تم کسی راہنمااور معلم کا کیونکر انکار کر سکتے ہو ؟
(۲) مصدری معنوں کے لحاظ سے اس کا یہ مطلب ہو گا کہ انسان معتدل القویٰ ہے اس لئے اس کا معتدل القویٰ ہونا کسی راہنماکی طرف بلاتا ہے گویا دلیل ایک ہی ہے صرف نقطہ نگاہ کو بدلا ہے ۔ پہلے معنوں کے لحاظ سے یہ کہا گیا ہے کہ انسان کو معتدل القویٰ بنانے والا اس کی راہنمائی کی صورت کیوں پیدا نہ کرے گا اور دوسرے لحاظ سے یہ معنی ہوں گے کہ اس کا معتدل القویٰ ہونا اس امر کا متقاضی ہے کہ کوئی ا س اعتدال کو کام میں لانے والا رہنمابھی ہو ۔ گویا مَا کے معنے اگر خدا تعالی کی ذات کی طرف توجہ دلانے کے سمجھے جائیںتو آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جس ذات نے انسان میں یہ صفات پیدا کی ہیںوہ کوئی علاج نہ بتاتا اور رہنمائی کی صورت پیدا نہ کرتا ۔ لیکن اگر مصدری معنے لئے جائیں تو یہ مطلب ہو گا کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان میں یہ قوتیں تو موجود ہوں مگر ان قوتوں کے ظہور کا کوئی سامان نہ ہو ۔ مفہوم ایک ہی ہے مگر ایک استدلال نفس کی بناوٹ سے کیا گیا ہے اور دوسرا استدلال نفس کو بنانیوالے کے لحاظ سے کیا گیا ہے ۔
تیسرے معنیوَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا کے یہ ہیںکہ ہم اس نفس کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو عظیم الشان ہے اور جس کی طرف آپ ہی آپ انگلیاں اٹھتی ہیں یعنی ہر زمانہ کے نفس کامل اور اس خدا کو پیش کرتے ہیں جس نے ایسے کامل وجود کو بنایا ۔ یہاں نفس گو نکرہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے مگر حقیقتاً اس کی تنوین تفخیم اور تعظیم کے لئے ہے اور نَفْسٍ سے مراد ہر نفس نہیں بلکہ عظیم الشان نفس ہے ( تنوین کا تفخیم اور تعظیم کے لئے آنا عربی زبان کا ایک مروج قاعدہ ہے) اور مراد یہ ہے کہ ہم اس شخص کی طرف تم کو توجہ دلاتے ہیں جو اپنی عظمت ِ شا ن کی وجہ سے اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ گو اس کا نام نہ لو مگر ہر انگلی اس کی طرف خود بخود اٹھنے لگتی ہے ۔ اس امر کا قرآن کریم کے بعض او ر مقامات سے بھی ثبوت ملتاہے کہ ہر زمانہ میںاللہ تعالی کی طرف سے جو نبی آتا ہے اس کے دعوے سے پہلے ہی لوگوں کی اس کی طرف انگلیاں اٹھنی شروع ہو جاتی ہیں اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہی وہ شخص ہے جو ہماری قوم کا کامیاب کر سکتا ہے چنانچہ حضرت صالح علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالی قرآن کریم میںذکر فرماتا ہے کہ ان کی قوم کے افرادنے ان سے کہا یَا صَالِحُ قَدْ کُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوَّ ا قَبْلَ ھٰذَا ( ہود ایت ۶ ) یعنی ا ے صالح ہمیںتو تم پر بڑی بڑی امیدیں تھیں اور ہم سمجھتے تھے تو بڑے اعلی اخلاق کا مالک ہے تیرے اندر قوت عملیہ پائی جاتی ہے اور تو قوم کی ترقی کا بڑا فکر رکھتا ہے ہمیںتو امید تھی کہ تو قوم کو اٹھا کر کہیںکا کہیں لے جائے گا مگر تُو تو بڑ ا خراب نکلا اور تونے ہماری تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ تُو ہمیںیہ کہنے لگ گیا ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریق ِ عمل کو چھوڑ دیںاور تیری بات کو مان کر بتوں کی پرستش نہ کریں ۔ اب یہ امر ظاہر ہے کہ جن باتوں میں حضرت صالح علیہ السلام کی قوم اپنی ترقی سمجھتی تھی ان باتوں میںحضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم کی ترقی نہیں سمجھتے تھے۔ وہ جھوٹ اور فریب اور خدا تعالی سے بُعد میں اپنی ترقی سمجھتے تھے اور حضرت صالح علیہ السلام صداقت اور ہدایت اور خدا تعالی سے تعلق میں اپنی قوم کی ترقی سمجھتے تھے ۔ بہر حال انہیں یہ امید ضرور تھی کہ ہماری ترقی صالح ؑ کے ساتھ وابستہ ہے اور ان کی یہ رائے بالکل درست تھی گو اپنے تنزل کا علاج وہ جن باتوں کو قرار دیتے تھے وہ درست نہیں تھا ۔ یہی رنگ رسول کریم ﷺ کا نظر آتا ہے اور یہی رنگ حضرت مسیح موعود ؑ میں پایا جاتا تھا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالی کے خسر صوفی احمد جان صاحب ؓ لدھیانوی نے دعویٰ سے پہلے ہی حضرت مسیح موعود ؑ کو لکھ دیا تھا کہ
ہم مریضو ں کی ہے تمہیں پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
گویا دنیا کی نگاہیںاسی وقت سے آپ کی طرف بلند ہو رہی تھیںاور جو انگلی بھی اٹھتی وہ آپ کی طرف اشارہ کرتی ۔ مولوی برہان الدینؓ صاحب جو حضرت مسیح موعود ؑ کے نہایت مخلص صحابی تھے انہوں نے سنا کہ جب ابتدا میںمَیں نے حضرت مسیح موعود ؑ کا ذکر سنا اور مجھے معلوم ہوا کہ پنجاب کے ایک گائوں میں ایسا شخص ظاہر ہوا ہے جس سے اسلام کی آئندہ ترقی وابستہ معلوم ہوتی ہے اور وہی عیسائیوں اور ہندووں وغیرہ کے اعتراضات کا جواب دیتا ہے تو میں نے ارادہ کیا کہ آپ کو دیکھنا چاہیئے ۔ چنانچہ میںقادیان آیا مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کسی مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے گئے ہیں۔ میں گورداسپور پہنچا اور آپ کے جائے قیام کو دریافت کرتا ہوا ڈاک بنگلہ میںگیا جہاں حضرت مسیح موعود ؑ ان دنوں تشریف رکھتے تھے ۔ باہر حافظ حامد علی صاحب بیٹھے تھے مَیں نے ان سے کہا کہ میںحضرت میرزا صاحب کی زیارت کرنے کے لئے آیا ہوں کسی طرح مجھے آپ ؑ کی زیارت کرادیں ۔ انہوں نے کہا اس وقت زیارت نہیں ہو سکتی حضرت مسیح موعود ؑ ایک ضروری اشتہار لکھ رہے ہیں ۔ میں نے ان کی منتیںبھی کیں مگر انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی۔آخر میں ایک طرف مایوس ہو کر بیٹھ گیا اور میں نے ارادہ کر لیاحا فظ حامد علی صاحب ذرا اِدھر اُدھر ہوں تو میں بغیر پوچھے ہی کمرہ کی چِک اٹھا کر آپ کی زیارت کر لوں گا ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد ہی حافظ صاحب جو کسی کام کے لئے اٹھے تو میں چپکے سے دروازے کی طرف بڑھا اور چِک اٹھا کر اندرکی طرف جھانکا اُس وقت حضرت مسیح موعود ؑ کاغذ ہاتھ میںلئے جلدی جلدی کمرہ میںٹہل رہے تھے اور آپ کی پیٹھ دروازے کی طرف تھی ۔ میرا اندازہ یہ تھا کہ ابھی آپ کو واپس آنے میں کچھ دیر لگے گی اور میں اطمینان سے آپ کی زیارت کر سکوں گامگر حضرت مسیح موعو د ؑ جلدی واپس لوٹ آئے اُس وقت مجھ پر ایسا رعب طاری ہوا کہ میں ڈر کے مارے وہاں سے بھاگ اٹھا اور میں نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ آپ ضرور سچے ہیں جو شخص اتنا تیز تیز چلتا ہے اس نے ضرور دور تک جانا ہے ۔
غرض الٰہی سنت یہ ہے کہ ہر زمانہ کا جو نفس کامل ہو اس کی طرف خود بخود لوگوں کی انگلیاں اٹھنی شروع ہو جاتی ہیں اور وہ اسے دیکھ کر اس حقیقت کا بر ملا اظہار شروع کر دیتے ہیں کہ یہ شخص دنیا میںضرور کوئی اہم تغیر پیدا کر کے رہے گا۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے ہم ہر زمانہ کے نفس کامل اور اس خدا کو پیش کریتے ہیں جو ایسے کامل وجود پیدا کیا کرتا ہے یا اس زمانہ کا نفسِ کامل( جس سے مراد رسول کریم ﷺہیں ) اور جس نے اسے بنایا ہے اس کو اور اسی طرح اس نفسِ کامل کے اظلال کو تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کو دیکھ لو آپ زندگی کے ہر شعبہ میں کامل الوجود ثابت ہوئے ہیں۔ لوگ اپنے اموال کو اپنی ذات پر خرچ کرتے تھے مگر محمد رسول اللہ ﷺ اپنے تمام اموال اپنی قوم کے لئے خرچ کرتے تھے ۔لوگ اپنے اوقات کو جوئے اور شراب نوشی وغیرہ میں صرف کرتے تھے مگر محمد رسول اللہ ﷺ اپنے تمام اوقات اپنی قوم کی بہبودی کے لئے خرچ کرتے تھے۔ لوگ اپنے اوقات جہالت کے لئے خرچ کرتے تھے اور آپ ؐ اپنے اوقات علم کے لئے خرچ کرتے تھے ۔ لوگ اپنے دماغ دنیوی باتوں میں مشغول رکھتے تھے اور آپ ؐ اپنے دماغ کو اگر ایک طرف خدا تعالی کے احکام کی اتباع میں مشغول رکھتے تھے تو دوسری طرف بنی نوع انسان کی تکالیف دور کرنے کے لئے اس سے کام لیتے تھے اور یہ تو آپ کی دعویٰ نبوت سے پہلے کی حالت تھی جب آپ نے اللہ تعالی کے حکم کے ماتحت نبوت کا اعلان فرمایا اور عملی رنگ میں آپ کا ہر کام لوگوں کی نظروں کے سامنے آگیا تو اس وقت آپ اگر فوج کے ساتھ گئے تو بہترین جرنیل ثابت ہوئے ، قضا کا کام اپنے ہاتھ میں لیا تو بہترین قاضی ثابت ہوئے ، اِفتاء کا وقت آیا تو بہترین مفتی ثابت ہوئے، تبلیغ کا وقت آیا تو بہترین مبلغ ثابت ہوئے ، گھر میں گئے تو بہترین خاون ثابت ہوئے ، بچوں سے تعلق رکھا تو بہترین باپ ثابت ہوئے ، دوستوں سے ملے تو بہترین دوست ثابت ہوئے ۔ غرض کوئی ایک بات بھی نہیں جس میں آپ دوسروںسے دوسرے درجہ پر رہیں ہوں بلکہ ہر خوبی میں آپ نے چوٹی کا مقام حاصل کیا اور اس طرح اپنے نفس کے کامل ہونے کا دنیا کے سامنے ایک ناقابل ِ تردید ثبوت مہیا کر دیا ۔ اللہ تعالی نفسِ کامل کی اس شہادت کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے تم غور کرو کہ کیا ایسا شخص جس میں یہ یہ صفات پائی جاتی ہوں کبھی ہار سکتا ہے! ایک فن کا ماہر ہار سکتا ہے ، دو فنون کا ماہر ہار سکتا ہے مگر یہ تو وہ ہے جو ہر فن میں کامل ہے ۔ دنیا اس کے متعلق یہ خیال بھی کس طرح کر سکتی ہے کہ یہ ہار جائے گا اور وہ جیت جائے گی اس میں اگر زیادہ قابلیتیںہوں تو پھر بے شک وہ جیت سکتی ہے لیکن جب کہ اس میں محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میںکوئی قابلیت ہی نہیں پائی جاتی تو وہ جیت کس طرح سکتی ہے ؟
فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَا ص لا ایت نمبر ۸
پھر اس (یعنی خد ا) نے اس (نفس) پر اس کی بدکاری (کی راہوں) اور اس کے تقویٰ (کے راستوں ) کو کھول دیا ۔
تفسیر ۔ پہلی آیت میں اگر ’’ما‘‘ کے معنے مَنْ کے ہونگے تو ضمیر ’’ما‘‘ کی طرف جائے گی او ر اگر مصدری معنے لئے جائیںگے تو ضمیر بالمعنیٰ سمجھی جائے گی ۔ وہ لوگ جنہوں نے ’’ما‘‘ کو مَنْ کے معنوں میں لیا ہے وہ اس موقعہ پر ’’ما‘‘ کو مصدریہ کہنے والوں پر اعتراض کرتے ہی کہ ان کے معنے درست نہیں اگر درست ہیں تو وہ بتائیں کہ اَلْھَمَھَا میںاَلْھَمَ کا فائل کون ہے مصدر تو فائل نہیں ہو سکتا کیونکہ تسویہ الہام نہیںکر سکتا الہا م تو ایک طاقتور ہستی کر سکتی ہے مگر مصدر کے معنے کرنے والے بھی علم ادب کے بہت بڑے ماہر ہیں انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ تمہارا استدلال بالکل غلط ہے ۔ عربی زبان میں معنوں کی طرف ضمیر پھیرنے کا کثرت سے رواج پایا جاتا ہے پس بناء ۔ طحیٰ اور تسویہ جس کی طرف منسوب ہوں گے اسی کی طرف بالمعنی ضمیر بھی تسلیم کی جائے گی یعنی بناء طحیٰ اور تسویہ کا جو بانی ہے یعنی اللہ تعالی کی ذات ، اس کی طرف بالمعنیٰ ضمیر تسلیم کی جائے گی ۔ بہر حال آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آسمانی اور زمینی نظام کے بنانے اور انسانی نفس میں اابلیت رکھنے کے بعد اسے چھوڑ ا نہیںبلکہ اس کے اندر فجور و تقویٰ کی حس رکھی ہے اور اس مادہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ گویا دونوں صورتوں میں خواہ مصدری معنے لئے جائیں یا ’’ما‘‘ کے معنے مَنْ کے سمجھے جائیںآیت کا یہ مطلب ہو گا کہ اللہ تعالی نے ہر انسان میں نفس ِ لوامہ پیدا کیا ہے اور ہر انسان میں یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ وہ بعض باتوں کو اچھا اور بعض باتوں کو بر اسمجھتا ہے ۔
یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے سمجھنے میں بہت سے لوگ غلطی کھا جاتے ہیں اور وہ بجائے مسئلہ کو اس رنگ میں پیش کرنے کے کہ ہر انسان کچھ باتوں کو اچھا سمجھتا اور کچھ باتوں کو بُرا سمجھتا ہے وہ اس رنگ میں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہر انسان سمجھتا ہے کہ قتل برا ہے ۔ یا ہر انسان سمجھتا ہے کہ جھوٹ بولنا بُرا ہے یا ہر انسان سمجھتا ہے کہ ڈاکہ ڈالنا بُرا ہے ۔ اس پر اس کے مخالف جواب دے دیتے ہیں کہ تم کہتے ہو ہر شخص جھوٹ کو بُرا سمجھتا ہے حالانکہ دنیا میںکئی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیںکہ جھوٹ کے بغیر گذارہ ہی نہیں ہو سکتا ۔ اگر تمہاری یہ بات درست ہے کہ فجور اور تقویٰ کا الہام اللہ تعالی نے نفس ِ انسانی میں کیا ہے تو چاہیئے تھا کہ ہر شخص جھوٹ کو برا سمجھتا یا ہر شخص قتل کو بُرا سمجھتا مگر واقعہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ دنیا میں جھوٹ بولتے ہیں اور چونکہ ان کے نفس میں ہدایت نہیں ہوتی اور متواتر جھوٹ بول بول کر انکی فطرت مسخ ہو چکی ہوتی ہے وہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر دنیا میںگزارہ ہی نہیںہو سکتا۔ یا مثلاً سختی کامادہ ہے یہ بہت سے لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ میں نے اپنی جماعت میں ہی دیکھا ہے بار بار لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ سختی سے کام نہ لیا کریںمحبت اور پیار سے دوسروں تک اپنی باتیں پہنچایا کریں مگر پھر بھی وہ اپنی عادت سے مجبور ہونے کی وجہ سے بسا اوقات سختی پر اُتر آتے ہیں اور بعض تو مجھے بھی کہہ دیتے ہیں کہ لوگ سختی کے بغیر کبھی نہیںمان سکتے ، نرمی کام خراب کر دیا کرتی ہے ۔ اب اگرہم یہ کہیں کہ ہر شخص سختی کو بُرا سمجھتا ہے تو یہ واقعات کے خلاف ہو گا کیونکہ دنیا میںکئی لوگ سختی سے کام لیتے ہیں اور باوجود سمجھانے کے بھی وہ اپنی عادت کو ترک کرنے کے لئے تیا ر نہیںہوتے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نرمی اچھی نہیں دنیا کا اصل علاج سختی ہے ۔ اسی طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو چوری کو برانہیں سمجھتے ، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جھوٹ کو برا نہیں سمجھتے ، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قتل کو برا نہیں سمجھتے ۔ پس اگر اس کے یہ معنے لئے جائیں کہ ہر انسان چوری کو یا جھوٹ کو یا قتل وغیرہ جرائم کے ارتکاب کو بُرا سمجھتاہے تو یہ بالکل غلط ہو گا ۔ دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جو ان افعال کو برا نہیں سمجھتے ۔ یا مثلاً گوشت خوری ہے اس کے متعلق مسلمانوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے دنیا میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اس میں کوئی بُرائی نہیںسمجھتے اور ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اس کوبہت بڑا گناہ سمجھتے ہیںاور گوشت خوری سے ان کو اتنی شدید نفرت ہوتی ہے کہ کھانا تو الگ رہا اگر گوشت کا کوئی شخص ان کے سامنے نام بھی لے لے تو انہیںقے آجاتی ہے ۔ ہماری جماعت میں سردار فضل حق صاحب ایک نو مسلم دوست تھے وہ سکھ مذہب کو ترک کر کے اسلام میں داخل ہوئے تھے وہ کئی سال تک مسلمان رہے اور دوسروں کو بھی اسلام کی تبلیغ کرتے رہے ان کی یہ حالت تھی کہ وہ سالہا سال تک گائے کے گوشت سے شدید متنفّر رہے (ممکن ہے قادیان سے جانے کے بعد انکا یہ حال نہ رہا ہو مگر جب تک وہ قادیان میں رہے انکا یہی حال تھا) مجھے خوب یاد ہے وہ ایک دفعہ مہمان خانہ میں آکر ٹھہرے چونکہ وہ گائے کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس لئے بعض دوستوں نے یہ طے کر لیا کہ جس طرح بھی ہو سکے ان کو گوشت ضرور کھلانا ہے ۔ ایک دن بھائی عبدالرحیم صاحب ۔شیخ عبد العزیز صاحب اور بعض اور دوست ان سے اصرار کرنے لگے کہ آج تو ہم نے آپ کو ضرور گائے کا گوشت کھلانا ہے ۔ وہ یہ سنتے ہی اٹھ کر بھاگے ۔ وہ آگے آگے تھے اور وہ دوست ان کے پیچھے پیچھے ۔ مجھے وہ نظارہ اب تک یاد ہے کہ وہ کبھی ایک چارپائی سے کود کر دوسری طرف چلے جاتے وہاں ان کا پیچھا ہوتا تو تیسری چارپائی سے کود کر بھاگتے اور جب لوگوں نے ان کو پھر بھی نہ چھوڑا تو وہ ایک کمرہ سے نکل کر دوسرے کمرہ میںبھاگ گئے مگر لوگ بھی ان کے پیچھے پیچھے تھے آخر اسی بھاگ دوڑ میں ان کو اتنے زور کی قے آئی کہ ان کے دوست دیکھ کر ڈر گئے اور انہوں نے ان کو چھوڑدیا اور سمجھ لیا کہ اگر اب بھی ہم ان کو گائے کا گوشت کھانے پر مجبور کریںگے تو یہ سخت ظلم ہوگا ۔تو دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جو گوشت خوری سے سخت نفرت رکھتے ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کو گوشت خوری کے بغیر چین ہی نہیںآتا ۔مگر اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ گوشت کھانا انسانی فطرت میں داخل ہے یا گوشت نہ کھانا انسانی فطرت میںداخل ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ کانشنس کے معنے صرف اتنے احساس کے ہیں کہ انسان بعض باتوں کو بُرا اور بعض باتوں کو اچھا سمجھتا ہے کانشنس میں یہ بات شامل نہیں کہ فلاں چیز اچھی ہے اور فلاںچیز بری ۔ یہ بات عادت سے تعلق رکھتی ہے جیسی کسی کو عادت ہو گی ویسے ہی اس کا اس چیز کے متعلق احساس ہو گا مگر بہر حال کوئی انسان دنیا میں ایسا نہیں ہو سکتا جو ہر چیز کو اچھا کہتا ہو یا ہر چیز کو برا سمجھتا ہو ۔ ہر انسان یہی کہے گا کہ بُرا کام نہیںکرنا چاہیئے اور ہر انسان یہی کہے گا کہ اچھا کام ضرورکرنا چاہیئے ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ برے کام کو اچھا سمجھتا ہو یا اچھے کام کو برا سمجھتا ہو مگر یہ احساس اس کے اندر ضرور پایا جاتا ہے کہ دنیا میں کچھ چیزیں اچھی ہیں اور کچھ چیزیں بُری ہیں ۔ مجھے اچھی چیزیں اختیار کرنی چاہئیں اور بُری چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیئے ۔ یہی معنے فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَاکے ہیں کہ ہر انسان یہ کہتا ہے کہ کچھ بُری چیزیں ہیں اور ہر انسان یہ کہتا ہے کہ کچھ اچھی چیزیں ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ ہر انسان میں اچھی اور بُری چیزوں کے امتیاز کا مادہ رکھا گیا ہے اور جب یہ بات ہے تو دلیل مکمل ہو جاتی ہے یعنی جب ہر انسان کے اندر یہ مادہ پایا جاتاہے کہ وہ کسی چیز کو اچھا اور کسی چیز کو برا کہتا ہے تو ضروری ہے کہ کوئی ایسی ہستی بھی ہو جو اسے بتائے کہ کون کون سی چیزیں اچھی ہیں اور کون کون سی چیزیں بُری ہیں ۔ یہ دلیل ہے جو اللہ تعالی نے اپنی ہستی کے ثبوت میں لوگوںکے سامنے پیش کی ہے اور یہ دلیل ہے جس کا کوئی رد کسی بڑے سے بڑے دہریہ کے پا س بھی نہیں ہے ۔ مگر میں نے دیکھا ہے لوگ بالعموم اس دلیل کو پورے طور پر سمجھتے نہیں اور وہ ایسے رنگ میں اسے مخالف کے سامنے پیش کر دیتے ہیں جو اپنے اندر کمزوری رکھتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی اس دلیل کا اپنی کتب میںبعض جگہ ذکر فرمایا ہے مگر لوگ پھر بھی جب نفس لوامہ کی شہادت پیش کریں گے اس رنگ میں پیش کریں گے کہ ہر شخص جھوٹ کو برُا سمجھتا ہے یا ہر شخص قتل اور چوری کو بُرا سمجھتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ جہاں تک سب کانشس مائنڈ کا سوال ہے اس کے لحا ظ سے یہ باتیں بُری ہیں اور ہر انسان سب کانشس مائنیڈ میں ان کو برا سمجھتاہے مگر کانشس مائینڈ میں وہ ان کو بُرا نہیں سمجھتا اور نہ وہ بحث کے وقت ان چیزوںکی بُرائی کا قائل ہو سکتا ہے اور اگر قائل بھی ہو تو لمبی بحث کے بعد ہوتا ہے جس میںسب کانشس مائینڈ سے ان چیزوں کی بُرائی اس کے کانشس مائینڈمیںلانی پڑتی ہے مگر ایسا ہر شخص نہیں کر سکتا یہ ماہرفن کا ہی کام ہوتا ہے کہ وہ سب کانشس مائنڈ سے کانشس مائینڈ میں کسی چیز کو منتقل کردے۔
حضرت خلیفہ اول ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میرے پاس ایک دفعہ ایک چور علاج کے لئے آیا ۔ میںنے اسے نصیحت کیکہ تم نے کیا لغو پیشہ اختیار کیا ہوا ہے تمہیں چاہیئے کہ محنت کرواور کمائو ۔ یہ کیسی بری بات ہے کہ تم چوری جیسا ذلیل کام کرتے ہو اور تمہیں ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ تم مضبو ط اور ہٹے کٹے ہو محنت کر واور کمائو چوری کیوںکرتے ہو؟ وہ کہنے لگا مولوی صاحب ہمارے جیسی محنت بھی دنیا میں کوئی شخص کرتا ہے؟ لوگ تو دن کو محنت کرتے ہیں لیکن ہم وہ ہیں جو رات کو محنت کرتے ہیں ۔ سخت سردی کے دن ہوتے ہیں ، جسم ٹھٹھررہے ہوتے ہیں ، تاریکی سے قدم قدم پر ٹھوکریں لگتی ہیں، جان کا خوف ہوتا ہے مگر پھر بھی ہم ان تما باتوں کو نظر اندا ز کرتے ہوئے اپنے کام کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ اب بتائیے ہم سے بڑ ھ کر بھی دنیا میں کوئی محنت کرتا ہے؟آپ فرماتے تھے جب اس نے یہ جواب دیا تو میں نے سمجھ لیا کہ اس شخص کی فطرت بالکل مسخ ہو چکی ہے اب اس کو چوری کی برائی کا قائل کرنے کے لئے کسی اور طریق سے کام لینا چاہیئے۔ چنانچہ مَیں نے اس سے گفتگو کا رخ بدل لیا اور بعض اور امور کے متعلق باتیں کرتا رہا ۔ جب کچھ دیر گذر گئی تو میں نے اس سے کہا اچھا یہ بتائو کہ تم چوری کرتے کس طرح ہو اور کتنے آدمی اس میںشریک ہوتے ہیں؟ کہنے لگا حکیم صاحب بات یہ ہے کہ چوری کے لئے کئی آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے سب سے پہلے تو ہم گھر کے کسی آدمی کو ساتھ ملاتے ہیں جو ہمیں بتاتا ہے کہ کتنے کمرے ہیں ، ان کمروںکاکیا نقشہ ہے ، اور کس کس رخ میں وہ واقعہ ہوئے ہیں تا کہ ہم پکڑے نہ جائیں۔پھر ہمیںوہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کس کس جگہ مال پڑا ہوا ہے ، کون سے ٹرنک میں زیورات ہیں ، اس ٹرنک کا رنگ کیسا ہے اور وہ کس کونے میں رکھا ہوا ہے ۔ یااگر روپیہ کہیں دبا کر رکھا ہوا ہے تو کس جگہ دبایا ہوا ہے ۔ یہ سب باتیں ہم اس ے دریافت کر لیتے ہیں ۔ اس کے بعد ہم ایک ایسے شخص کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں جو سیندھ لگانے میں ماہر ہوتا ہے تا کہ وہ اس طرح سیندھ لگائے کہ کسی کو پتہ تک نہ لگے اور باوجود دیوار توڑنے کے کوئی آواز پیدا نہ ہو ۔ وہ سیندھ لگا کر الگ ہو جاتا ہے کیونکہ سیندھ لگانے کا اس کی طبیعت پراتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ مزید کوئی کام کرنے کے ناقابل ہوتا ہے ۔ اس کے بعد تیسراشخص آگے آتا ہے جسے گھر کا نقشہ یاد کرایا ہوا ہوتا ہے وہ اندر داخل ہوتاہے اور جہاںجہاں اسباب ہوتا ہے وہاں سے اٹھا کر باہر پہنچا دیتا ہے اس وقت دیوار کے پاس ہی ہمارا ایک آدمی تیار کھڑا ہوتا ہے جوں جوں وہ اسباب پہنچاتاجاتا ہے ہمارا آدمی اس کو سمیٹتا چلا جاتا ہے اور ایک آدمی ایسا ہوتا ہے جو دور ایک کونے میں کھڑا رہتا ہے تا کہ اگر کوئی آدمی گذر رہا ہو تو وہ اطلاع دے سکے ۔ جب اس طرح چوری کے کام سے ہمیں فراغت ہو جاتی ہے تو گھر پہنچ کر ہم تما م زیورات ایک سنار کو دے دیتے ہیں جوان کو گلا کر سونے کی ڈلیاں بنا دیتا ہے کیونکہ زیورات اپنی اصل شکل میں ہم فروخت نہیں کر سکتے اگر کریںتو یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں پکڑے ہی نہ جائیں۔ اس لئے ہم نے سنار رکھا ہوا ہوتاہے تا کہ جونہی کوئی زیور آئے فوراً اسے گلا دیا جائے ۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ فرماتے تھے جب اس نے یہ داستان بیان کی تو میںنے کہا کہ تمہاری اتنی محنت اور عرقریزی کے بعد اگر وہ سُنار اُس سونے کو کھا جائے تو پھر؟ اس پر وہ بے اختیار ہو کر بولا اگر وہ چوری کرے تو ہم اس بے ایمان اور خبیث کا سر نہ اڑا دیں ۔ہم تو کبھی اس کو زندہ نہ رہنے دیں۔ میں نے کہا کہ ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ چوری کوئی عیب کی بات نہیںاور ابھی کہہ رہے ہو کہ وہ خبیث چوری کرے تو اس کا سر اڑا دیں ۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ خود تمہاری فطرت چوری کو ناپسند کرتی ہے اور وہ اسے خباثت اور بے ایمانی کاکام قرار دیتی ہے ۔ ورنہ وجہ کیا ہے کہ جو کام تم خود کرتے ہو اسی کام کی وجہ سے تمہیں سنار پر غصہ آجائے اس پر وہ شرمندہ ہو گیا ۔ تو فطرت جو مسخ ہو چکی ہو وہ بعض دفعہ ابھر بھی آتی ہے مگر اس طرح فطرت کو ابھارنا ہر شخص کا کام نہیںہوتا یہ ماہر فن ہی کام کر سکتا ہے اور پھر بعض جگہ باوجود کوشش کے بھی مسخ شدہ فطرت نہیںابھرتی جیسے وہ لوگ جو گوشت کھانے کے مخالف ہیں اور وہ اسے ’’جیو ہتیا‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ ان سے جب گفتگو ہو تو ہم کہتے ہیں کہ جب تمہارے زخموں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں تو تم دوائوں سے ان کیڑوں کومارتے ہو یا نہیں؟ اگر تم مارتے ہو اور تمہارے دماغ میں اس وقت جیو ہتیا کا خیال نہیں آتا بلکہ تم سمجھتے ہو کہ ادنیٰ چیز کو اعلیٰ کے لئے قربان ہی ہونا چاہیئے تو تمہیں گوشت خوری پر کیا اعتراض پیدا ہوتاہے ۔ اس رنگ میںجب ان کو سمجھایا جائے تو بعض دفعہ تو وہ سمجھ جاتے ہیں مگر بعض دفعہ نہیں بھی سمجھتے۔ بہر حال اصل دلیل جسے حضرت مسیح موعود ؑ نے بار بار استعمال کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسانی کانشس میں نیکی اور بدی کا احساس پایا جاتا ہے یعنی ہر شخص میں خواہ وہ کسی مذہب و ملت کا پیرو ہو یہ احساس پایا جاتا ہے کہ کچھ چیزیں اچھی ہیں اور کچھ چیزیںبُری ہیں۔ یہ نہیں کہ فلاںچیز اچھی ہے اور فلاں بری ۔ یہ علم الاخلاق ہے ۔ کانشنس کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیں کہ ہر انسان میں ایک مادہ پایا جاتا ہے جو بتاتا ہے کہ کوئی چیز اچھی ہے اور کوئی چیز بری ہے ۔ تم ساری دنیا میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیںدکھا سکتے جو یہ کہتا ہے کہ ہر چیز اچھی ہے یا ہر چیز بُری ہے ۔ وہ کسی کو اچھا سمجھتا ہو گا اور کسی کو برا سمجھتا ہوگا ۔ مثلاً چور چوری کو اچھا سمجھیگا مگر قتل کو برا سمجھیگا ۔ یا قاتل قتل کو اچھا سمجھے گا مگر وعدہ کی خلاف ورزی کر برا سمجھے گا ۔یا ظالم ظلم کو اچھا سمجھے گا مگر جھوٹ پر انہیں غصہ آجائے گا ۔یا جھوٹا جھوٹ کو اچھا سمجھے گا مگر قتل پر اسے غصہ آجائے گا۔ غرض اخلاق اور مذہب سے تعلق رکھنے والے جس قدر افراد دنیا میںپائے جاتے ہیں ہندو کیا اور عیسائی کیااور مسلمان کیا اور سکھ اور یہودی کیا اور چوڑے کیا اور عالم کیا اور جاہل کیا ہر انسان میںیہ مادہ پایا جاتا ہے کہ کچھ کام مجھے کرنے چاہئیںاور کچھ کام نہیں کرنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ اسی مادہ کے لحاظ سے جو ہر انسان میںپایا جاتا ہے ۔ فرماتا ہے فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَا ۔ ہم نے اس کو الہام کیا ہے اس کے فجور اوراس کے تقویٰ کے متعلق۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں مصدر استعمال کیا ہے یہ نہیں کہا کہ ہم نے اسے فجو ر والی باتوںکا الہام کیا ہے یا تقوی اور پاکیزگی کی تفصیلات اس پر الہام کے ذریعہ روشن کی ہیں ۔ اللہ تعالی نے صرف یہ فرمایا ہے کہ ہم نے اسے فجور اور تقوی کا الہام کیاہے یعنی ہر انسان میںفجور اور تقویٰ کی حس پائی جاتی ہے اور ہر انسان میں اللہ تعالی نے ایسا مادہ رکھا ہے کہ وہ اس بات کو خوب سمجھتا ہے کہ میرے نفس کے لئے کچھ باتیں اچھی ہیں اور کچھ بُری ہیں ۔ یہی دلیل ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ نے پیش کی ہے اور یہی دلیل ہے جو قرآن کریم پیش کرتا ہے اور یہی دلیل ہے جسے مَیں نے بھی اپنی کتب میں بعض مقامات پر بیان کیا ہے مگر لوگ غلطی سے تفصیلات میں چلے جاتے ہیں اور وہ معین نیکیوں اور معین بد یوں کوبطور مثال پیش کر دیتے ہیں حالانکہ اس دلیل کا یہ مطلب نہیںکہ جسے ہم فجور سمجھتے ہیںیا جسے ہم تقویٰ سمجھتے ہیںاس کا علم ہر انسان کو ہے یا ہر انسان ان کو واقعہ میں برا یا اچھا سمجھتا ہے بلکہ دلیل یہ ہے کہ ہر شخص میںیہ احساس پایا جاتا ہے کہ کچھ چیزیں اچھی ہیں اور کچھ چیزیںبر ی ہیں۔ اس کے بعد اختلاف ہو جاتا ہے کوئی کسی کو اچھا سمجھتا ہے اور کسی کو بُرا۔ کوئی کسی کو قابلِ تعریف قرار دے دیتا ہے اور کسی کو قابلِ مذمت۔ مگر ہمیںاس اختلاف کی تفصیلات سے سروکار نہیںہمارے لئے یہ کافی ہے کہ ادھر تو نیکی بدی کی حس ہر اک میں ہے ادھر انسان نیکی بدی کی تعیین میں شدید اختلاف رکھتا ہے ۔ پس ضروری ہے کہ اس فطرتی مادہ کی صحیح راہنمائی کرنے والی کوئی ایسی ہستی ہو جو انسانی ضرورتوں کی اچھی طرح سمجھتی ہو اور پھر وہ انسان کو بتائے کہ کون سی باتیںواقعہ میں اچھی ہیں اور کون سی باتیں واقعہ میں بری ہیں۔کن باتوں پر تمہیںعمل کرنا چاہیئے اور کن باتوں سے تمہیںاجتناب کرنا چاہیئے ۔ یہ تو ان عام معنوں کے لحاظ سے ا س آیت کا مطلب ہے جو نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا کے کئے گئے تھے لیکن اس کے علاوہ ایک خاص معنے بھی کئے گئے تھے یعنی اس میں ہر زمانہ کے نفس کامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایسے نفس کامل کو اللہ تعالی ہمیشہ الہام کے ذریعہ فجور و تقویٰ کی راہیں بتاتا چلا آیا ہے گویا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَا میں حذف مضاف سمجھا جائے گااور اس کے معنے یہ ہوں گے کہ فجور والی باتیں بتاتا ہے یا تقویٰ والی باتیں بتاتا ہے یعنی اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ وہ نفس کامل پر الہام نازل کرتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ فجور والی باتیںکونسی ہیںاور تقویٰ والی باتیںکون سی ہیں:
قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا ص لا
جس نے اس (نفس )کو پاک کیا ۔ وہ تو (سمجھو کہ ) اپنے مقصود کو پا گیا ۔ ایت نمبر ۹
نمبر ۹ حل لغات ۔ زَکّٰی ۔ زَکٰی سے باب تفعیل ہے اور زَکَی الشَّیْ ء ُ کے معنے ہیں نَمَا ۔ کوئی چیز بڑھ گئی (اقرب) اور جب زَکَّا ہُ اللّٰہُ کہیں تو معنے ہوتے ہیں۔ اَنْمَا ہُ ۔ اللہ نے اس کو بڑھایا اور اونچا کیا(تاج) نیز زَکّٰی کے معنے ہیں طَھَرَہُ ۔ اس کو پاک کیا (اقرب)
تفسیر ۔ فرماتا ہے اس الہام کے بعد جو شخص اس کی پیروی کر کے اپنے نفس کو ٹھیک راہ پر چلاتاہے وہ بامراد ہو جاتا ہے یعنی الہام فطرت جو مجمل الہام ہوتا ہے اس کی پیروی اور اطاعت کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ نبی کاالہام تفصیلی ہوتا ہے لیکن فطرت کا الہام مجمل ہوتا ہے ۔ یہاں تفصیلی الہام کا ذکر نہیں بلکہ مجمل الہام کا ذکر ہے اور اللہ تعالی فرماتاہے کہ فجور اور تقوی کا وہ مجمل علم جو انسان کو ملا تھا اور جس کے مطابق وہ سمجھتا تھا کہ دنیا میںکچھ بری چیزیںہیںاور کچھ اچھی چیزیںہیں ، مجھے بری چیزوں سے بچنا چاہیئے اور اچھی چیزوں کو اختیار کرنا چاہیئے ۔ جو شخص اس مجمل علم کو صحیح طور پر استعمال کرتا ہے اور فطرت کی اس راہنمائی کے ماتحت اپنے نفس کو اونچا کرتا ہے وہ فلاح پا لیتا ہے یعنی اپنے خد اسے واصل ہو کر صاحب الہام ہو جاتا ہے ۔ ان معنوں کے لحا ظ سے قَدْ اَفْلَحَ میں وحی حقیقی کے پانے کا ذکر ہے اور اَلْھَمَھَا میںوحی مجمل کے نازل ہونے کا بیان ہے جو ہر فطرت ِانسانی پر نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالی اس حقیقت کی طرف بنی نوع انسان کو توجہ دلاتا ہے کہ جو شخص اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ خدا تعالی نے میرے اندر اعتدال پید ا کیا ہے غور و فکر سے کام لیتے ہوئے اعتدال کی راہوں پر چلتا ہے اور فجورکی وہ حس جو اللہ تعالی نے اس کی فطرت میںرکھی ہے اس کے کام لے کر وہ بری باتوں سے بچتا ہے او ر تقوی کی حس جو اس کے اندر پیدا کی گئی ہے اس سے کام لے کر وہ اچھی باتوں کو اختیار کرتا ہے اور اپنے نفس کو اس پیہم جدو جہد اور کوشش کے نتیجہ میںاونچا کر دیتا اور اخلاقی زندگی بسر کرتا ہے ایک دن آتا ہے کہ اللہ تعالی کا الہام اس پر نازل ہو جاتا ہے اور خدا تعالی کا قرب اس کو حاصل ہو جاتاہے ۔ زَکّٰی کے معنے اونچاکرنے کے بھی ہوتے ہیں اور زَکّٰی کے معنے پاک کرنے کے بھی ہوتے ہیںاس جگہ نفس کو اونچا کرنے کے معنے چسپاں ہوتے ہیں کیونکہ ایسا شخص فجور اور تقویٰ کی حس سے کام لے کر فطرت کے مقام سے بلند ہو کر اخلاقی زندگی میںداخل ہو جاتاہے اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود صاحب ِ الہام ہو جاتا ہے ۔
دوسرے معنے نفسِ کامل کے لحاظ سے اس آیت کے یہ ہیںکہ جب ہم نفسِ کامل کو تفاصیل ِ فجو ر اور تفاصیل ِ تقوی بتاتے ہیںاور دنیا کو ان تفاصیل کا علم ہو جاتا ہے تو قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وہ انسان جو ان باتوںسے فائدہ اٹھاتا اور نفس کامل کی تعلیم پر چل کر تزکیہ نفس کرتاہے اسے فلاح حاصل ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالی کے مقربین میںشامل ہو جاتاہے گویا نبی کی اطاعت اور اس کے احکام کی پیروی کر کے وہ وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا کا قائمقام ہو جاتا ہے اور اس تفصیلی الہام کا تابع بنتے ہوئے اپنے اپنے درجہ کے لحاظ سے نبی کا قمر بن جاتا ہے ۔ درحقیقت ہر مومن اپنے اپنے درجہ کے مطابق نبی کا قمر ہوتاہے اور اپنے اپنے رنگ میں کامل تعلیم پر چلنے کے نتیجہ میںفلاح حاصل کر لیتا ہے گویا پہلے معنوں کی رو سے قَدْ اَفْلَحَ میں وحی جلی کا ذکر ہے اور اَلْھَمَھَا میں وحی خفی کا ۔ اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے پہلی آیت میںوحی جلی کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں وحی تابع کا ذکر ہے فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَا میں اس وحی جلی کا ذکر ہے جو نبی پر نازل ہوتی ہے اور قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا میں وحی تابع کا ذکر ہے گویا وہ نور جو پہلے باہر سے آیا تھا نبی کی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میںانسان کے اندر بھی پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔
وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا ط
اور جس نے اسے (مٹی میں ) گاڑ دیا (سمجھو کہ ) وہ نامراد ہو گیا ۔ ایت نمبر ۱۰
حل لغات ۔ خَابَ : اَفْلَحَ کے مقابل کا لفظ ہے اور اس کے معنے ہوتے ہیں ۔ ناکام ہوا ۔ نامراد ہوا۔ (اقرب) دَسّٰی : دَسٰی سے مزید ہے اور دَسٰی یَدْسُوْا (دَسْوًا وَ رَسٰی یَدْسُوْا دَسْیًا ) کے معنے ہیں ۔نَقِیْضُ نَمٰی وَ زَکٰی یعنی یہ نَمٰی اور زَکٰی کے مقابل کے الفاظ ہیں اور اس میں ان کے الٹ معنے پائے جاتے ہیںیعنی وہ نہ بڑھا ۔ اور اس میںبرکت نہ ہوئی اور دَسّٰی کے معنے ہیں اَغْوَاہُ وَ اَفْسَوَہُ ۔ اس کو گمراہ کیا اور خراب کیا (اقرب) بعض نے دَسّٰھَا کا اصل دَسَّسَھَا قرار دیا ہے اس لحاظ سے اس کا اصل دَسَّ ہو گا ۔ دَسَّ الشَّیْء’ (دَسًّا) تَحْتَ التُّرَابِ کے معنے ہوتے ہیں اَدْخَلَہُ فِیْہِ وَ اَخْفَاہُ کسی چیز کو زمین میں دبا دیا یا زمین کے نیچے دفن کر دیا اور دَسَّسَ کے معنے بھی یہی ہوتے ہیں ۔ مگر دَسَّسَ دَسَّ سے زیادہ قوی ہوتا ہے اور مبالغہ کے لئے استعمال ہوتا ہے (اقرب) پس جب یہ لفظ کسی کے متعلق استعمال کیا جائے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنی طاقتوں کو ابھارتا اس نے ان کو مٹا دیا ۔ اسی طرح اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ا س نے ان ک مٹی میں ملا دیا ۔
تفسیر۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ جس نے اس وحی کو نہ مانا وہ ناکام ہوا کیونکہ وحی الہی فطرت کی طاقتوں کو ابھار نے کے لئے آتی ہے جس نے اِسے رد کر دیا اُس نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اپنے آپ کو ہلاک کر لیا۔
حقیقت یہ ہے کہ صحیح تعلیم ہمیشہ فطرت کے مطابق ہوتی ہے ۔ جو تعلیم فطرت کے جذبات کو کچلنے والی ہو وہ سچی نہیںہو سکتی کیونکہ وحی اس لئے ناز ل ہوتی ہے کہ نفس کو اونچا کیاجائے اس لئے نازل نہیںہوتی کہ اسے مارا جائے اور اس کی طاقتوں کو کچل کر رکھ دیا جائے ۔ اسی حکمت کے ماتحت قرآن کریم نے رہبانیت سے منع کیا ہے اور اسی حکمت کے ماتحت اس نے طیب چیزوں کو اپنے نفس پر حرام قرار دے دینا جائز نہیں رکھا۔ دوسرے مذاہب فطر ت کی بعض طاقتوں کو کچلتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ نیکی ہے مگر اسلام اسے نیکی قرار نہیں دیتا ۔ اسلام یہ کہتا ہے اللہ تعالی نے تمہارے اندر جو قوتیں پیدا کی ہیں صرف ان کا تسویہ ہونا چاہیئے اور ان کے استعمال میں اعتدال کو ملحوظ رکھنا چاہیئے ۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ فطرت کو مار دو بلکہ وہ کہتا ہے تم فطرت سے اونچا مقام حاصل کرنے کی کوشش کرو کیونکہ فطرت کا علم ایک مجمل علم ہوتا ہے اور مجمل علم سے نجات نہیںہو سکتی محض کسی کا یہ کہہ دینا کہ فلاںشخص لاہور میں رہتا ہے ہمیںکچھ فائدہ نہیںپہنچا سکتا جب تک ہمیںیہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ فلاں محلہ اور فلاں گلی میں رہتا ہے یا فلاںموڑپرا س کا مکان ہے تا کہ ہمیں اس کی تلاش میں کوئی دقت نہ ہو اور آسانی سے ہم اس کے مکان پر پہنچ سکیں،۔ پس قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا O وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا کے یہ معنے ہوئے کہ اگر تم اپنی فطری طاقتوں کو ابھارتے ہو تو الہی مدد کو حاصل کر لیتے ہولیکن اگر تم ان طاقتوں کو دباتے ہو اور اس چیز کو ضائع کر دیتے ہو جو تمہیںہتھیار کے طور پر دی گئی تھی تو تم کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص سفر پر جانے لگے تو ہم اسے ہتھیار کے طور پر سونٹا بھی دے دیتے ہیں اور تلوار بھی دے دیتے ہیں۔ سونٹا ہم اس لئے دیتے ہیںکہ بعض جگہ تلوار کام نہیںآسکتی اور تلوار ہم اس لئے دیتے ہیں کہ بعض جگہ سونٹاکام نہیںآسکتا ۔ اگر راستہ میںکوئی سانپ آجائے تو اس وقت تلوار کام نہیںدے سکتی بلکہ سونٹا کام دے گا لیکن اگر دشمن سے مقابلہ ہو جائے تو اس وقت سونٹا اتنا کام نہیں دے سکتا جتنا کام تلوار دے سکتی ہے یا مثلاً کسی جگہ کثرت سے کانٹے ہوں اور رستہ صاف کرنے کے لئے ضرورت ہو تو وہاں سونٹا توکام دے سکتا ہے مگر تلوار کام نہیںدے سکے گی ۔ گویا سونٹا اور تلواردونوں اس کے لئے ضروری ہوں گے کوئی ہتھیار کسی وقت کام آجائے گا اور کوئی ہتھیار کسی وقت کام آجائے گا۔ اگر وہ ان دونوںمیںسے کسی ایک ہتھیار کو لغو سمجھ کر پھینک دے گا تو یہ یقینی بات ہے کہ جب اسے ضرورت پیش آئے گی تو سخت تکلیف اُٹھائے گا اور اسے اعتراف کرنا پڑے گا کہ میںنے اپنے ہتھیار کو پھینکنے میں سخت غلطی کی ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالی نے جس قدر قوتیں پیدا کی ہیں سب انسان کی ترقی اور اس کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیںاور یہ وہ ہتھیار ہیں جن سے مختلف مقامات پر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اگر ہم ان میںسے کسی ایک ہتھیار کو بھی پھینک دیتے اور اپنی کسی قوت کو لغو قرار دے کر کچل دیتے ہیں تو ہم اپنی کامیابی کی منزل کو اپنے ہاتھ سے دور کرنے والے بن جاتے ہیں۔ مثلاً خدا تعالی نے انسان میں عفو کی بھی قوت پیدا کی ہے اور انتقام کی قوت بھی پیدا کی ہے اور یہ دونوں قوتیں ایسی ہیں جن کا بر محل استعمال دنیا کی ترقی میں بہت ممد ثابت ہوتا ہے ۔ کئی مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں عفو سے کام لینا ضروری ہوتا ہے اور کئی مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں انتقام سے کام لینا ضروری ہوتا ہے۔ نہ ہر جگہ عفو قابل تعریف ہوتا ہے نہ ہر جگہ انتقام قابل تعریف ہوتا ہے بہر حال یہ دونوں قوتیں اپنی اپنی جگہ نہایت ضروری ہیں لیکن اگر ہم عفو کی قوت کو کچل دیتے ہیں یا انتقام کی قوت کو لغوقرار دے کر اس سے کام نہیںلیتے تو ہم اپنی ناکامی کے سامان آپ مہیا کرتے ہیں ۔ کامیابی اسی وقت ہو سکتی ہے جب فطرت کو کچلا نہ جائے بلکہ اللہ تعالی نے جس قدر قویٰ پیدا کئے ہیں ان کا بر محل استعمال کیا جائے ۔ جو شخص اپنی فطرت کو کچل کر یہ خیال کرتا ہے کہ وہ بڑا با اخلاق ہے یا اپنی فطری استعدادوں کو مٹا کر یہ سمجھتا ہے کہ اس نے نیکی کا بہت بڑا مقام حاصل کر لیا ہے وہ انتہا درجہ کی غلطی کا ارتکاب کر تا ہے ۔ نیکی اس بات کا نام نہیں کہ فطرت کو کچل دیا جائے یا اللہ تعالی کی پیدا کردہ طاقتوں کو ضائع کر دیا جائے بلکہ نیکی یہ ہے کہ فطرت کو بیدار کیا جائے اور ان قوتوں سے صحیح رنگ میں کام لیا جائے ۔ اللہ تعالی نے اسی مضمون کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ جو شخص فطرت کو کچل دیتا اور اس کی قوتوں کو ضائع کر دیتا ہے وہ کبھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا ۔ دوسرے معنوں کی رو سے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ جس شخص نے اپنی روح کو فطرتی نور سے ہدایت لے کر ابھارا وہ با مراد ہوا یعنی نور الہام کو پا لیا مگر جس نے ایسا نہ کیا وہ نامراد رہا یعنی نہ خود اسے نور براہ راست مل سکے گا اور نہ دوسرے کے طفیل مل سکے گا کیونکہ فطرت تو ایک آئینہ تھی اور فطرت نے ہی شمس سے ری فلیکٹر کے طور پر نور لینا تھا ۔ جس نے اس فطرت کو زمین میںدبا دیا اسے روشنی کہاں سے آسکتی ہے وہ تو ظلمت میں ہی گرفتار رہے گا اور ظلمت میںہی اس جہان سے گذر جائے گا۔
کَذَّ بَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰھَآ Oص لا
ثمود نے اپنی حد سے بڑھی ہوئی سر کشی کی وجہ سے (زمانے کے نبی کو) جھٹلایا۔ آیت نمبر ۱۱
حل لغات۔ طَغْوٰی : طَغٰی سے ہے اور یہ واوی بھی ہے اور یائی بھی ۔ یعنی طَغٰی یَطْغُوْ طَغْواً بھی استعمال ہوتا ہے اور طَغٰی یَطْغِیْ طَغًا وَ طُغْیَانًا بھی استعمال ہوتا ہے ۔ واوی اور یائی دونوں میںمعنوں کے لحاظ سے اختلاف ہے لیکن ایک معنے طَغٰی کے ایسے ہیں جو واوی اور یائی دونوں میں مشترک ہیںاور وہ معنے ہیںجَاوَ زَالْقَدْرَوَالْحَدَّ۔ فلاں شخص حد سے نکل گیا ۔ لیکن طَغٰی یَطْغٰی جو یائی ہے اس کے بعض اور معنے بھی ہوتے ہیں چنانچہ جب کہیں طَغَی الْکَافِرُتو اس کے معنے ہوتے ہیں عَلَا فِی الْکُفْرِ کہ کافر شخص کفر میںحد سے بڑھ گیا ۔ اور طَغٰی فُلَان’‘ کے معنے ہوتے ہیں اَشْرَفَ فِی الْمَعَاصِیْ وَالظُّلْمِ۔ وہ ظلم اور معاصی میںحد سے بڑھ گیا ۔ اور طَغَی الْمَآئُ کے معنے ہوتے ہیںاِرْتَفَعَ پانی بلند ہو گیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ طَغْوٰی کے معنے گناہوں میں حد سے بڑھ جانے کے ہیںلیکن دراصل یہ معنے یائی کے ہیں واوی کے نہیں اور یہاں چونکہ طَغْوٰی ہے جو واوی ہے اس لئے اس کے معنے تَجَاوُز’‘ عَنِ الْقَدْرِ وَالْحَدِّ کے ہی ہیں ۔ یعنی اپنے اندازہ اور حد سے آگے نکل گیا۔
تفسیر ۔ اس آیت میںاللہ تعالی نے کفار کے سامنے مثال پیش کی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ دیکھو ثمود کے پاس نور آیا پھر جیسا کہ تم خود مانتے ہو کیونکہ وہ عرب کے نبی تھے تمہارے آباء نے اس کو رد کر دیا اور بوجہ اندازہ و حدود سے آگے نکل جانے کے ردّ کیا یعنی وہ سَوّٰھَا کے مصداق نہ رہے اور اعتدال کو ترک کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معتدل تعلیم اُن کی برداشت سے باہرثابت ہوئی ۔ یہاں اللہ تعالی نے دَسَّ کا طریق بتایا ہے کہ وہ دو ہی طرح ہو سکتا ہے یا تو جتنی قوت انسان کے اندر موجود ہوتی ہے وہ اس سے آگے نکل جاتا ہے اور یا پھر جتنی قوت موجود ہوتی ہے اس سے پیچھے رہ جاتا ہے ۔ حد سے نکل جانا دونوں طرح ہی ہوتا ہے اس طرح بھی کہ انسان اگلی طرف کو چلا جائے اور اس طرح بھی کہ پچھلی طرف کو آجائے ۔ا یسے کاموں سے فطرت کانور مارا جاتا ہے اور اس کی قوتیں کچلی جاتی ہیں ۔ فرماتا ہے ثمود کی بھی یہی کیفیت تھی وہ لوگ اپنے کاموں میں حد سے آگے نکل گئے تھے خدا تعالی نے ایک وسطی تعلیم ان کے لئے نازل کی تھی مگر وہ اس درمیانی خط پر کھڑے ہونے کی بجائے کبھی ادھر چلے جاتے اور کبھی ادھر چلے جاتے ۔ درمیانی راستہ جو پل صراط ہوتا ہے اور جس پر ہر مومن کو اس دنیا میں چلنا پڑتا ہے اس راستہ پر وہ نہیں چلتے تھے بلکہ یا دائیںطرف کو نکل جاتے تھے یا بائیںطرف کو نکل جاتے ، اعتدال کو انہوں نے ترک کر دیا تھا۔
اِذِانْبَعَثَ اَشْقٰھَا O فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ نَاقَۃَ اللّٰہِ وَ سُقْیٰھَا O
جبکہ ان (کی قوم) میں سے سب سے بڑابد بخت (اس کی مخالفت کے لئے) کھڑا ہوا تب ان (یعنی ثمود کے آدمیوں) کو اللہ کے رسول نے کہا کہ اللہ ( کے دین ) کی (خدمت کے لئے وقف) اونٹنی کو (آزاد پھرنے سے ) اور اسے (گھاٹوں پر ) پانی پلانے سے مت روکو۔ آیت نمبر ۱۲۔ ۱۳
ایت ۱۲ تفسیر ۔ اس آیت میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے جس کی طرف سورۃ الغاشیہ کی آیت عَامِلَۃ’‘ نَاصِبَۃ’‘ میںاشارہ کیا گیا تھاکہ کفار ایک منّظم مخالفت شروع کرنے والے ہیںاب اس سورۃ میں اسی قسم کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کر کے بتایا ہے کہ جس طرح ثمود نے باقاعدہ لیڈر مقررکر کے مخالفت کی تھی اسی طرح کفار کرنے والے ہیںچنانچہ اس اشقی الناس نے جس طرح حضرت ثمود ؑ کو تبلیغ سے روکا تم بھی تھوڑے دنوں تک ایسے ہی منصوبے کرو گے اور اسلام کو اپنی مجموعی قوت سے مٹانے کی کوشش کرو گے مگر یاد رکھو جس طرح انہیںناکامی ہوئی اور وہ خدا تعالی کے عذاب کا نشانہ بن گئے اسی طرح تم بھی اس مقابلہ میںکبھی کامیاب نہیںہو سکتے۔
ایت ۱۳ تفسیر ۔یہ ایک نہایت لطیف مثال ہے مگر افسوس ہے کہ لوگوں نے اس کی حکمت کونہیں سمجھا اور انہوں نے خیال کر لیا ہے کہ وہ ناقہ اپنے اندر کوئی خاص عظمت اور شان رکھتی تھی جس کی کونچیں کاٹنے پر ثمود کی قوم اللہ تعالی کے عذاب کا نشانہ بن گئی ۔ اسی لئے بعض مفسرین نے اس ناقہ کے متعلق یہ عجیب بات لکھ دی ہے کہ وہ پہاڑ سے پیدا ہوئی تھی عام اونٹنیوں کی طرح نہیں تھی حالانکہ نبی کی موجودگی میں یہ ہو ہی کس طرح سکتا تھا کہ نبی کو دکھ دینے کی وجہ سے تو قوم پر عذاب نازل نہ ہو اور ناقہ کی کونچیں کاٹنے پر عذاب نازل ہو جائے!
اصل بات یہ ہے کہ حضرت صالح ؑ عرب میں مبعوث ہوئے تھے اور عرب میں اونٹوں پر سواری کی جاتی تھی ۔ حضرت صالح ؑ بھی اپنی اونٹنی پر سوار ہوتے اور ادھر ادھر تبلیغ کے لئے نکل جاتے ۔ لوگ کھلے طور پر حضرت صالح ؑ کا مقابلہ کرنے سے ڈرتے تھے کیونکہ ان کے رشتہ دار موجود تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے صالح ؑ کو کوئی تکلیف پہنچائی تو اس کے رشتہ دار ہم سے بدلہ لینے کے لئے کھڑے ہو جائیںگے مگر چونکہ وہ تبلیغ بھی پسند نہیں کرتے تھے اس لئے وہ بعض اور طریق آپ کو دکھ پہنچانے کے لئے اختیار کر لیتے تھے ۔ انہی میں سے ایک طریق یہ تھا کہ جب حضر ت صالح ؑ تبلیغ کے لئے ارد گر د کے علاقوں میں نکل جاتے تو کسی جگہ کے لوگ کہتے کہ ہم ان کی اونٹنی کو پانی نہیںپلائیں گے ، کسی جگہ کے لوگ کہتے کہ ہم کھانے کے لئے کچھ نہیںدیں گے ۔ ان کی غرض یہ تھی کہ جب انہیں اونٹنی کے لئے پانی اور چارہ وغیرہ نہ ملا تو یہ خود بخود اس قسم کے سفروں سے رک جائیںگے اور تبلیغ میں روک پیدا ہو جائے گی ۔ حضرت صالح ؑ نے ان کو سمجھایا کہ تم اس ناقہ کو آزاد پھرنے دو اور اس کے پانی پینے میں روک نہ بنو کیونکہ اس طرح میری تبلیغ میںرو ک واقعہ ہو جائیگی ۔ یہ مطلب نہیں تھا کہ تم مجھے تو اپنے پاس بے شک نہ آنے دو مگر یہ اونٹنی آئے تو اسے پانی پلا دینا ۔ اُنہیں اونٹنی سے کوئی دشمنی نہیںتھی انہیں اگر دشمنی تھی تو حضرت صالح ؑ سے ۔ اور وہ کہتے تھے کہ وہ اونٹنی پر سوار ہو کر ارد گرد کے علاقوں میں ایک شور پید اکر دیتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی طرف توجہ دلاتے ہیںایسا نہیں ہونا چاہیئے ۔ یہ چیز تھی جو ان کی طبائع پر سخت گراں گزرتی تھی او ر آخر اس کا علاج انہوں نے یہ سوچا کہ جب حضرت صالح ؑ باہر نکلتے تو ان کی اونٹنی کو وہ کہیں پانی نہ پینے دیتے اس پر حضرت صالح ؑ نے اظہارِ ناراضگی کرتے ہوئے کہا نَاقَۃَ اللّٰہِ وَ سُقْیٰھَا کہ یہ طریق درست نہیں کہ تم میری اس ناقہ کو آزاد پھرنے دو اور اس کے پانی میں روک نہ بنو یعنی تم مختلف ذرائع سے میری تبلیغ میں روک بن رہے ہو اپنے اس طریق کو چھوڑ و اور مجھے آزاد پھرنے دو تا کہ میں خدا تعالی کا پیغام سب لوگوں تک پہنچاتا رہوں ۔
میں نے بعض دفعہ گھوڑے کی سواری کرتے ہوئے خود تجربہ کیا ہے کہ جب کسی احمدی گائوں کے قریب سے گذروں تو وہاں کے لوگ بعض دفعہ میرے گھوڑے کی باگ پکڑ لیتے ہیں اُن کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ میں تو گھوڑے سے اتر پڑوں اور گھوڑا ان کے حوالے کر دوں تا کہ وہ اسے اپنے گائوں میں لے جائیںبلکہ ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میںخود تھوڑی دیر کے لئے ان کے گائو ں میںچلوں ۔ اسی طرح ثمود کی یہ غرض نہیںتھی کہ وہ ناقہ کو روکیںبلکہ ان کی غرض یہ تھی کہ وہ حضرت صالح ؑ کو تبلیغ سے روکیںاور جب حضرت صالح ؑ نے ان سے کہا کہ میری اس ناقہ کو چھوڑ دو تو ان کا یہ مطلب نہیں تھا کہ میرے ساتھ تو جیسا چاہو سلوک کرو مگر اس ناقہ کو کچھ نہ کہو بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ تم میری تبلیغ میںروک مت بنو اگر تم اسی طرح میری اونٹنی کو پانی پینے سے روکتے رہے تو میری تبلیغ رک جائے گی اور علاقوں کے علاقے ہدایت پانے سے محروم رہ جائیںگے ۔
فَکَذَّ بُوْہُ فَعَُرُوْھَا ص لا
اس پر انہوں نے اس (رسول) کو جھٹلایا ۔ پھر اس (اونٹنی ) کی کونچیںکاٹ دیں۔ ٰٓایت نمبر ۱۴
۱۴ حل لغات ۔ عَقَرُوْا : عَقَرَ سے جمع کا صیغہ ہے اور عَقَرَ الْاِبِلَ کے معنے ہوتے ہیں قَطَعَ قَوَا ئِ مَہَا بِالسَّیْفِ یعنی اس نے اونٹوںکی کونچیں کاٹ دیں(اقرب) پس عَقَرُوْھَا کے معنے ہونگے اس کی کونچیں کاٹ دیں۔
تفسیر ۔ حضرت صالح ؑ کے سمجھانے کے باوجود ثمود نے ان کی بات کی طرف کوئی توجہ نہ کی ۔ انہوں نے اسے جھٹلایا اور ناقہ کی کونچیں کاٹ دیں یعنی اپنے ارادوں کا انہوں نے علی الاعلان اظہار کر دیا اور کہہ دیا کہ تم خواہ کچھ کہو ہم تمہیںتبلیغ نہیں کرنے دیں گے ۔
فَدَمْدَمَ عَلَیْہَمْ رَبُّھُمْ بِذَنْبِھِمْ فَسَوّٰ ھَا O وَ لَا یَخَافُ عُقْبٰھَا O ع
جس پر ان کے رب نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاکت نازل کی اور اس (قوم) کو (مار کر زمین کے) برابر کر دیا ۔ اور وہ (اسی طرح ) ان (مکہ والوں ) کے انجام کی بھی پروانہیں کرے گا۔
۱۵ حل لغات دَمْدَمَ الشَّیْ ئَ کے معنے ہوتے ہیں اَلْزَقَہُ بِالْاَرْضِ اسے زمین کے ساتھ پیوست کر دیا ۔ دَمْدَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ کے معنے ہوتے ہیں اَھْلَکَھُمْ ۔ خدا تعالی نے ان کو ہلا ک کر دیا ۔ اور دَمْدَمَ فُلَان ٌ عَلیٰ فُلَانٍ کے معنے ہوتے ہیں کَلَّمَہُ مُغْضِبًا ۔ اُس سے غصہ کے ساتھ کلام کیا (اقرب)
تفسیر ۔ فرماتا ہے چونکہ انہوں نے ہمارے رسول کی بات نہ مانی اس لئے ہم نے ان پر عذاب نازل کیا اور عذاب بھی ایسا سخت کہ فَسَوّٰھَا خد ا نے انہیںزمین کے ساتھ ملا دیا اور ان کے چھوٹوں اور بڑوں کو اس طرح تباہ کیا کہ ان کا نشان تک دنیا میں نہ رہا۔
قرآن کریم اپنے کلام میں کیسی بلاغت کی شان رکھتا ہے کہ پہلے فرمایا تھا وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا ہم نے انسان کو معتدل القویٰ بنایا ہے اور خود انسانی نفس اس امر پر شاہد ہے کہ اسے کوئی نور آسمان سے ملنا چاہیئے اب فرماتا ہے چونکہ انہوں نے اس تسویہ کے قدر نہ کی اور ہمارے احکام کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اس لئے ہم نے ان کا دوسری طرح تسویہ کر دیا کہ ان کا نشان تک دنیا سے مٹا دیا ۔ یہ بلاغت کا کمال ہے کہ جس چیز کا انہوں نے انکار کیا تھا عذاب کے معنوں میںبھی وہی لفظ اس جگہ استعمال کر دیا اور فرمایا کہ چونکہ انہوں نے تسویہ سے انکار کیا تھا ہم نے ان کا اس رنگ میںتسویہ کر دیا کہ ان کا ملک تباہ کر دیا ، انکی عمارتیں گر گئیں، قوم ہلاگ ہو گئی اور اتنا بڑا زلزلہ آیا کہ ان کا نشان تک باقی نہ رہا ۔
۱۶ حل لغات ۔ عُقْبٰی کے معنے ہوتے ہیں جَزَآئُ الْاَمْرِ۔ کسی کام کی جزاء ۔اور عُقْبٰی کے معنے اٰخِرْ کُلِّ شَیْیئٍ کے بھی ہوتے ہیں یعنی چیز کا آخری حصہ ۔
تفسیر ۔ عُقْبٰھَا میں ھَا کی ضمیر دَمْدَمَۃ کی طرف جاتی ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب دَمْدَمَۃ نازل کرنے کا وقت آتا ہے اور کوئی قوم کلی ہلاکت کی مستحق ہو جاتی ہے تو پھر اللہ تعالی یہ نہیں دیکھتا کہ ان کے متعلقین کا کیا حال ہو گا یا یہ کہ اس سزا کا نتیجہ کیسا خطرناک نکلے گا۔ بعض دفعہ ساری قوم ہلاک نہیں ہوتی بلکہ اس کا کچھ حصہ بچ رہتا ہے جو دنیا میں انتہا ء طور پر ذلیل ہو جاتا ہے مگر فرماتا ہے جب ہماری طر ف سے کسی قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو پھر ہم اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ اس قوم کے بقیہ افراد کیا کیا تکالیف اٹھائیں گے ۔ جب قوم کی اکثریت خدا تعالی کے غضب کی مستحق ہو جاتی ہے اور خاموش رہنے والے گو مقابلہ نہیںکرتے مگر نبی کی تائید بھی نہیںکرتے تو وہ بھی اکثریت کے ساتھ ہی تباہ و برباد کر دیئے جاتے ہیں ۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالی ظلم کرتاہے یا اندھا دھند عذاب نازل کر دیتا ہے بلکہ جس قوم کے استیصال کا وہ فیصلہ کرتا ہے انصاف کے ماتحت کرتا ہے اور جب کہ وہ خود اپنے انجام کو نہیں دیکھتی تو اللہ تعالی اس کے انجام کو کیوں دیکھے۔ اس آیت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ کفار مکہ بھی ثمود کی طرح نبی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان کو یاد رکھنا چاہئیے کہ جس طرح ثمود کو تباہ کرتے وقت اللہ تعالی نے ایک عام عذاب نازل کیا تھا اسی طرح وہ اہل مکہ پر بھی ایک عذاب نازل کرے گا۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ ثمود کی قوم بہ حیثیت قوم تباہ ہو گئی تھی مگر مکہ والے رسول کریم ﷺ کے غلبہ کے بعد بھی باقی رہے ۔ لیکن اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں ۔ بعض دفعہ تباہی جسمانی نہیںروحانی ہوتی ہے ۔ ثمود جسمانی طور پر کلی ہلاکت میں مبتلا ہوئے اور مکہ والے مذہبی طور پر ۔ چنانچہ ان کے مذہب اور طور طریق کا نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔
سُوْرَۃُالَّیْل ِ مَکِیَّۃ ٌ
سورہ لیل ۔ یہ سورۃ مکّی ہے نمبر ۱
وَھِیَ اِحْدیٰ وَعِشْرُوْنَ اٰیَۃً دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِیْہَا رُکُوْعٌ وَّاحِدٌ
اور اس کی بسم اللہ کے سوا اکیس (۲۱) آیات ہیں اور ایک رکوع ہے ۔
نمبر ۱ یہ سورۃ بقول مفسرین جمہور کے نزدیک مکّی ہے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ جمہور کا لفظ جو عام طور استعمال کیا جاتا ہے اس کے کبھی کبھی تو یہ معنے ہوتے ہیں کہ اکثر کی رائے یہ ہے لیکن کبھی کبھی یہ لفظ صرف حسن کلام کے طور پر استعمال کر لیتے ہیں ۔ درحقیت سب تو الگ رہے اکثر بھی اس مسئلہ سے متفق نہیں ہوتے لیکن مصنف لکھ دیتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک وہ اس طرح ہے اور اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اور ہمارے ہم خیال یہ کہتے ہیں ۔ جمہور کے معنے اصطلاحی طورپر عظیم الشان کثرت کے ہیں اور جب یہ لفظ واقعہ میں عظیم الشان کثرت کے معنے رکھتا ہو اور صحیح طور پر انہی معنوں میں استعمال ہو تو بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ جب یہ معلوم ہوجائے کہ صحابہ کی بڑی اکثریت یا تابعین یا تبع تابعین کی غالب اکثریت فلاں معنوں پر قائم تھی تو ی امر واقعہ میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے لیکن جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں کبھی کبھی جمہور کے معنے ضرورتاً یہ بھی لے لئے جاتے ہیں کہ مصنف اور اس کے ہم خیالو ں کا کیا خیال ہے ۔ بعض دفعہ ایک معنوں کی رو چل جاتی ہے ۔ ایک شخص کسی آیت کے ایک معنے لکھتا ہے پھر اس سے دوسرا نقل کرتا ہے اس کے بعد اس سے تیسرا نقل کرتا ہے پھر چوتھا اور پھر پانچواں نقل کرتاہے ۔ اس صورت میںجمہور کے معنے صرف اتنے ہی ہوتے ہیں کہ پانچ دس کتابوں میںایک ہی معنے لکھے نظر آتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ جمہور کا لفظ لکھ کر صحابہ ؓ کی ایک لسٹ دے دی جاتی ہے کہ یہ یہ صحابی ان معنوں کے خلاف ہیں۔ گویا جمہور سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک شخص کے معنے لے کر چونکہ لوگوں نے ان کے پے در پے نقل کرنا شروع کر دیا اس لئے ہم کہہ رہے ہیںکہ جمہور کے نزدیک اس آیت کے یہی معنے ہیں یا دوسرے الفاظ میں جمہور سے ان کی مراد نقالوں کی اکثریت ہوتی ہے نہ ان لوگوںکی اکثریت جو صحابہ ؓ ہیں یا تابعین ہیں یا تبع تابعین ہیں۔ لیکن اس سورۃ کے متعلق جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ جمہور کے نزدیک مکی ہے یہ اصلی معنوں میں ہے کیونکہ کسی صحابی کا قول مقابل میں نہیںآتا۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اسے مدنی بھی کہا ہے مگر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت عبدا للہ بن زبیر ؓ دونوں اس کو مکی قرار دیتے ہیں اور چونکہ یہ دو جلیل القدر صحابہؓاس سورۃ کے مکی ہونے کی تائید میںہیں اور اس کے خلاف کسی صحابی کا قول ثابت نہیںاس لئے ہم جمہور کے معنے یہاں غالب اکثریت کے ہی قرار دینگے۔
بعض مفسرین کہتے ہیں یہ سورۃ مکی بھی ہے او ر مدنی بھی ۔ درحقیقت یہ ایسے ہی لوگوں کا خیال ہوتا ہے جو مضامین سے سورۃ کے مکی یا مدنی ہونے کا فیصلہ کیا کرتے ہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ مضامین کی بناء پر بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے بلکہ میں نے خود کئی مقاما ت پر مضامین سے استنباط کر کے بتایا ہے کہ ان معنوں کی بناء پر فلاں فلاں روایات کو ترجیح حاصل ہے مگر یہ درست نہیں ہوتا کہ کوئی شخص محض قیاس سے فیصلہ کر دے ۔ قیاس کسی واقعہ یا روایت کی تائید میں تو مفید ہو سکتا ہے مگر تاریخ کے مقابلہ میں صرف قیاس پر اعتماد درست نہیں ہوتا۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک شخص پوری کنہ تک نہ پہنچ سکے اور وہ عقلی طور پر کوئی قیاس کر لے ۔ مثلاً مضمون سے قیاس کر لیا اور ایک نتیجہ نکال لیا مگر یہ کہنا کہ ضروری ہے فلاں قسم کا مضمون مدنی سورتوں میںہی پایا جائے یا مکی سورتوں میں ہی پایا جائے یہ وہی غلطی ہے جس میں یوروپین مصنفین مبتلا ہوئے ہیں۔ مثلاً تاریخ کہتی ہے کہ فلاں سورۃ مکی ہے مگر وہ کہہ دیتے ہیں کہ نہیںیہ سورۃ تو مدنی ہے کیونکہ اس میںفلاں فلاں ذکر پایا جاتا ہے یا تاریخ کسی سورۃ کو مدنی کہتی ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ سورۃتو مکی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں فلاں فلاں مضمون آتا ہے حالانکہ یہ صرف ان کا قیاس ہوتاہے اور قیاس تاریخ کے مقابل پر نہیںلایا جا سکتا ۔ ہاں اگرتاریخ کسی سورۃ کو مکی کہتی ہو اور اس کی تائید میں ہم کوئی قیاس لے آئیں تو یہ درست ہو سکتا ہے یا تاریخ کسی سورۃ کو مدنی کہتی ہو اور ہم اس کی تائید میں کسی قیاس سے بھی کام لے لیںتو یہ جائز ہو گا۔ بہر حال مضمون سے قیاس کرنا دلیل مرجح تو بن سکتا ہے بالذات دلیل نہیںقرار پا سکتا۔ چنانچہ اس سورۃ کے متعلق برخلاف ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے مضمون کی وجہ سے بغیر کسی تاریخی شاہد کے اسے مدنی قرار دیا ہے میں یہ استنباط کرتا ہوں کہ یہ سورۃ مکی ہے اور وہ اس طرح کہ اس سورۃ سے پہلی دو سورتیں اور اس کے بعد کی دو سورتیںمکی ہیںاور ان دونوں سورتوںسے مضمون کے لحاظ سے یہ سورۃ بہت قریبی مشارکت رکھتی ہے اور چونکہ تاریخی شہادت بھی ا س امر کی ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے ۔ اس لئے میری یہ دلیل دلیل کہلانے کی مستحق ہے کیونکہ تاریخی شہادت کی تائید میں ہے ۔
میںپہلے بتا چکا ہوں کہ پہلی چند سورتوں میںمسلسل ایک خاص رنگ میںصدقہ و خیرات اور غریبوں کی خبر گیری کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک ذکر تو ایسا ہوتا ہے جو اپنے اندر کوئی خصوصیت نہیںرکھتا صرف عمومی طور پر ایک بات کہہ دی جاتی ہے مگر یہ وہ سورتیںہیں جن کے تمام مضامین اس رنگ میںچلتے ہیں کہ صدقہ دینے والے یا نہ دینے والے ، غربا ء کی ضروریات پر خرچ کرنیوالے یا نہ خرچ کرنے والے قومی لحاظ سے اپنی اپنی حالت کے مطابق ترقی پا جاتے ہیں یا تباہ ہو جاتے ہیں۔ یہی مضمون اس سورۃ میں بھی پایا جاتا ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اِنِّیْ لَاَقُوْلُ اِنَّ ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ نَزَلَتْ فِی السَّمَاحَۃِ وَالْبُخْلِ (فتح البیان تمہید تفسیر سورۃ الیل) یعنی میںیقینا کہہ سکتاہوں کہ یہ سورۃ سخاوت اور بخل کے مضمون کے بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے ۔ پس جب ایک روایت موجود ہے جو تاریخی لحاظ سے اس سورۃ کو مکی قرار دیتی ہے تو دلیل مرجح کے طورپر اس سورۃ کی اندرونی شہادت بھی ان لوگوں کے رد میں پیش کی جاسکتی ہے جو اس کو مدنی کہتے ہیں اور ہم یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ نہ صرف روایات اس کو مکی قرار دیتی ہیںبلکہ اس سورۃ کا مضمون بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ روایت کے خلا ف ہم کسی قیاس کو پیش کر دیں سوائے اس کے کہ وہ قیاس بعض دوسری روایتوں پر مبنی ہو مثلاً بعض دفعہ قرآن کریم میںایک مضمون آتا ہے جسے ہم لوگوں کے سامنے بیان کر تے ہیںاب اگر اس مضمون کے متعلق روایات میںاختلاف پایا جاتا ہو تو لازماً ان روایات کو ترجیح حاصل ہو گی جن کی تائید قرآنی مضمون سے بھی ہوتی ہو ۔ ورنہ واقعات کے بارہ میںمحض قیاس آرائی ثابت شدہ تاریخی روایات کے مقابلہ میںکوئی حیثیت نہیںرکھتی۔
سر میور کا خیال ہے کہ یہ سورۃ بالکل ابتدائی سورتوں میںسے ہے ۔پادری ویری لکھتے ہیں کہ یہ سورۃ ہے تو ابتدائی مگر تبلیغ عامہ کے زمانہ کی ہے یعنی تیسرے چوتھے یا پانچویںسال کی ہے کیونکہ اس میںمنکروں کے لئے عذاب کی خبر ہے پادری وھیری کا یہ خیال میرے نزدیک درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس جگہ انذار عام قسم کا نہیں بلکہ اس میںخاص او ر قریب میںآنے والے واقعات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے ۔
جابر بن سمرہؓ سے بیہقی نے روایت کی ہے کہ رسول کریم ﷺ ظہر اور عصر میں وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی اور اسی قسم کی سورتیںپڑھا کرتے تھے ۔
ترتیب ۔ اس سورۃ کا مضمون بھی وہی ہے جو پہلی سورتوں میں بیان ہوتا آرہا ہے یعنی اس میں بھی ترقی اسلام کا ذکر ہے پہلی سورتوں اور اس سورۃ کے مضمون میں فرق صرف یہ ہے کہ اس سے پہلی سورۃ میںیہ نقطہء نگاہ بیان کیا گیاتھا کہ ایک نظام کامل کے لانیوالے کے بغیر کعبہ کی تعمیر کی غرض پوری نہیںہوتی اور ایسی ہی وجود کے آنے سے قوم کو ترقی حاصل نہیںہو سکتی ۔ اس سورۃ میں بھی وہی مضمون ہے مگر اس میںزور معلّم کی زندگی پر اس قدر نہیں دیا گیا جس قدر کہ متعلّمین اور ان کے مخالفوں کی زندگیوں کے فرق پر دیا گیاہے ۔ پہلی سورۃ میںیہ مضمون تھا کہ اچھے معلم کو اگر اچھا متعلم مل جائے تو وہ دنیا کی کایا پلٹ دیتا ہے اور یہ کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو جو شاگرد ملے ہیںوہ ایسے اعلیٰ درجہ کے ہیںکہ ان کی زندگیوں کو دیکھ کر انسان کے دل میںیہ مایوسی پیدا ہی نہیںہو سکتی کہ عرب کی حالت کیوں کر پلٹا کھا ئے گی ۔ اللہ تعالی کفار مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ ﷺ کو مل رہے ہیںان کی زندگیاںتمہاری زندگیوں سے بالکل مختلف ہیں ۔ دنیا میں اچھا استاد بڑا کام کر جاتا ہے او ر لائق شاگرد بھی بڑا کام کر جاتا ہے لیکن جہاں لائق استاد اور لائق شاگرد مل جائیںتو وہاں نُوْرٌ عَلیٰ نُوْرٍ کا معاملہ ہو جاتا ہے ۔ اگر اچھے استاد کو برے شاگرد ملیںتو اس کاکام اس قدر نہیںچمکتا اور نہ نالائق استاد کے اچھے شاگرد زیادہ ترقی کر سکتے ہیں۔ مگر یہاںتو اچھے استاد کو اچھے شاگرد بھی مل گئے ہیں پس یہ دینِ محمدی ؐ کے غلبہ کی ایک بیّن علامت ہے (مزید تفصیل کے لئے دیکھو وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَ الْاُنْثٰی ص ۴۷)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ O
(مَیں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرمکرنے والا بار بار رحم کرنیوالا ہے (شروع کرتا ہوں)
وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی O لا
(مجھے ) قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانک لے ایت نمبر ۲
تفسیر ۔ اس سے پہلی سورۃ میںفرمایا تھا وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی یعنی رات کو ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ وہ سورج کو ڈھانپ لیتی ہے مگر ا س سورۃ میں یَغْشٰی کا کوئی مفعول بیان نہیںہوا جس سے پتہ لگے کہ غَشْیٌ کا عمل کس چیز پر ہوا ہے بلکہ اس کو بغیر کسی قید کے بیان کیا گیا ہے پس معلوم ہوا کہ یَغْشٰی کے معنے اس سورۃ میں زیادہ وسیع لئے گئے ہیں ۔ پہلی سورۃ میں تاریکی کا صرف وہ پہلو مراد تھا جو سورج کے ڈھانپنے سے ظاہر ہوتا ہے تاریکی کے دوسرے نتائج کی طرف اشارہ نہ کیا گیا تھا مگر اس جگہ اس کے علاوہ اور معانی بھی لئے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ الفاظ کے لحا ظ سے اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ رات کی تاریکی کی وجہ سے سورج ہی نہیں پوشیدہ ہوا بلکہ دوسری اشیا ء بھی اوجھل ہو گئی ہیں۔
قرآن کریم میںایک جگہ یہ مضمون آتا ہے کہ رات دن کو ڈھانپتی ہے یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ (الاعراف ۷: ۱۴)اسی طرح یہ بھی آتا ہے کہ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ (الفلق) یعنی ہم پناہ مانگتے ہیں تاریک رات سے جب وہ ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے اور یہ بھی آتا ہے کہ رات سورج کو ڈھانپ لیتی ہے جیسا کہ اس سے پہلی سورۃ میں ہی فرمایا تھا وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا چونکہ ان تینوں معنوں کی آیت زیر تفسیر متحمل ہو سکتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم غور کریں کہ یہ تینوں معنے ہی اس جگہ پائے جاتے ہیںیا کسی دوسری دلیل کی وجہ سے ان میںسے صرف ایک یا دو معنے مراد ہیں ان کے سوا معنے مراد نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سورۃ میں ایک ایسا قرینہ پایا جاتا ہے جو اس کے معنوں کو محدود کر دیتا ہے اور جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ صرف یہی معنے مراد ہیں کہ جب رات ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے ۔ وہ قرینہ یہ ہے کہ یہاں وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی کے بعد وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی بیان ہوا ہے اگر وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰیکی آیت وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰیسے پہلے ہوتی تو اس آیت کے معنے کرتے ہوئے دن کو ڈھانکنے یا سورج کو ڈھانکنے کا مفہوم زیادہ قرینِ قیاس ہوتا مگر چونکہ یہاں وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی کی آیت کے بعد وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی کی آیت بیان ہوئی ہے اس لئے یہ قرینہ اس بات کی طرف ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ یہاں دن یا سورج کی بجائے دوسری چیزوں کو ڈھانکنے کا مفہوم غالب طورپر پایا جاتا ہے پس بجائے اس کے کہ ہم تینوں معنے یہاں مراد لیںاس قرینہ کی وجہ سے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اس آیت کے صرف یہی معنے ہوں گے کہ ہم رات کو شہادت کے طور پر پیش کر تے ہیںجبکہ وہ ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے یعنی انسان ۔ جانور اور دوسری چیزیںسب اندھیرے تلے آجاتی ہیں۔
وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰیO لا
اور دن کی جب وہ خوب روشن ہو جائے آیت نمبر ۳
نمبر ۳ تفسیر ۔ اس آیت اور سورۃ الشمس کی آیت وَالنَّھَارِ اِذَا َجَلّٰہَا میںایک فرق ہے وہاں نَھَار کے بعد اِذَا جَلّٰہَا کے الفاظ آتے ہیںمگر یہاں فرماتا ہے وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی وہاں یہ ذکر تھا کہ زمین سورج کے سامنے آکراس کو ظاہر کر دیتی ہے او ر یہاں یہ ذکر ہے کہ سورج کی روشنی سے مستفیض ہو کر دن روشن ہو گیا ۔ وہاں تمام اشارے اس بات کیطرف تھے کہ استاد اپنے فن میںکامل ہے وہ دنیا کو اپنے فیوض سے مستفیض کر دے گا گویا وہاں استاد کے وجود پر زور دیا گیا ہے مگر یہاں شاگردوں کی قابلیت پر زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ خواہ یہ کہہ دو کہ استاد نے شاگرد کو پڑھایا یا یہ کہہ دو کہ شاگرد نے استاد سے پڑھا ۔ اس سے کلام میںکوئی خاص فرق نہیںپڑ سکتا سوائے اس کے کہ جب ہم کہتے ہیں استاد نے پڑھایا تو اس میںزیادہ زور اس بات پر ہوتا ہے کہ استاد نے محنت کی اور اس نے توجہ سے اپنے فرض کو ادا کیا ۔ اور جب ہم کہتے ہیںشاگرد نے استاد سے پڑھا تو اس میںزیادہ زور اس بات پر ہوتا ہے کہ شاگرد نے بھی محنت سے کام لیا ۔ اسی طرح وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی میں زیادہ زور اس بات پر ہے کہ دن روشن ہو گیا یعنی جو زمین کی نسبت رکھنے والا یا شاگردکی نسبت رکھنے والا وجود ہے اس کی قابلیتوں پر زور دیا گیا ہے مگروَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا میں سورج یعنی استاد کی قابلیتوں پر زور دیا گیا ہے ۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ اس سورۃ میں گو مثال رات اور دن کی دی گئی ہے جیسے پہلی سورۃ میں رات او ر دن کی مثال دی گئی تھی مگر مفہوم الگ الگ ہے ۔ پہلی سورۃ میں دن کی روشنی کا پہلے ذکر کیا تھا اور اس کے مقابل پر شمس کا بھی پہلے ذکر تھا ۔ چنانچہ پہلے نمبر پر وَالشَّمْسِ وَضُحٰہَا کہا گیا تھا اور اس کے مقابل میں وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰہَا کا ذکر تھا ۔ دوسرے نمبر پر قمر کا ذکر تھا جیسا کہ فرمایا وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا ۔ اور اس کے مقابل پر وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا کا ذکر تھا ۔ گویا شمس کے مقابلہ میں نہار کو رکھا گیا ہے اور قمر کے مقابلہ میں لیل کو ۔ پھر جس طرح شمس کو پہلے بیان کیا تھا اور قمر کو بعد میں، اسی طرح اللہ تعالی نے نہار کو پہلے رکھا تھا اور لیل کو بعد میں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں شمس ِ نبوت اور قمر رسالت کا ذکر تھا ۔ افاضہ اور استفاضہ کا مضمون بیان کیا گیا تھا اور اس امر کا ذکر کیا گیا تھا کہ فلاں نے نور کا افاضہ کیا اور فلاں نے اس سے فیض حاصل کیا۔ اس مناسبت کی بنا ء پر پہلے نور اور دن کا ذکر تھا اور بعد میںرات اور قمر کا ذکر تھا مگر یہاں رات کا ذکر پہلے ہے اور دن کا بعد میں۔ کیونکہ اس جگہ رسول کریم ﷺ کے کمالات کا ذکر اصل مطلوب نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کے اتباع اور کفار کا مقابلہ کیا گیا ہے ۔ پس بوجہ کفر کے مقدم اور کثیر ہونے کے رات کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور دن کابوجہ مسلمانوں کے موخرالزمان اور تھوڑے ہونے کے بعد میںکیا گیا ہے ۔پہلی سورۃ میں یہ ذکر تھا کہ دنیا کو منور کرنے کے لئے ہم نے ایک روحانی سورج افق ِ آسمان پر پید اکیا ہے دنیا اس سورج کی روشنی کو خواہ کس قدر چھپانا چاہے اب یہ قطعی طورپر ناممکن ہے کہ وہ اس روشنی کو روک سکے یا س نور کو پھیلنے نہ دے ۔ یہ روشنی اب بڑھے گی اور بڑھتی چلی جائے گی یہاں تک کہ ساری دنیا کو ڈھانپ لے گی ۔ مگر ایک لمبا عرصہ گذرنے کے بعد پھر ایک زمانہ ایسا آئے گاجس میں یہ سورج لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا زمین والے اپنی پیٹھ موڑ لیں گے تاریکی چھا جائے گی اور روشنی جاتی رہے گی اس وقت اللہ تعالی پھر ایک قمر پیدا کرے گا جو ا س شمس سے اکتسابِ نور کر کے دنیا کو منور کردے گا۔ پس چونکہ وہاں اسلام کے زمانہ سے بات شروع کی گئی تھی طبعی طور پر شمس اور نہار کا ذکر پہلے ہونا چاہئیے تھا مگر یہاں کفر و اسلام کا مقابلہ ہے اور کفر چونکہ پہلے تھا اور اسلام بعد میں آیا اس لئے لیل کا پہلے ذکر کیا گیا اور نہار کا بعد میں ۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ کفر چونکہ اس زمانہ میںکثیر تھا اور مسلمان اس زمانہ میں قلیل التعداد تھے اس مناسبت کی بنا ء پر بھی اللہ تعالی نے لَیْل کا ذکر پہلے کیا اور نَھَار کا بعد میں ۔ اور اس طرح یہ پیشگوئی کی کہ رات کی حالت جو تم پر طاری ہے وہ اب دورہونے والی ہے اس کے بعد دن کی حالت آئے گی یا اس رات کے نتیجہ میں جو جو گمراہیاں اور خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں ساکنینِ نہار اب ان کو دور کرنے والے ہیں (مزید تفصیل اس کی اگلی آیت کے نیچے آئے گی )
وَماَ خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی O لا
اور نر و مادہ کی پیدائش کی آیت نمبر ۴
نمبر ۴ تفسیر۔ اس آیت کے متعلق حضرت ابو الدرداء کو سخت غلُّو تھا ۔ ان کے خیال میںوَماَ خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی کی جگہ اس آیت میں وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثٰی کے الفا ظ ہیں۔ چنانچہ علقمہ سے ابن جریر نے روایت کی ہے کہ میں ایک دفعہ شام گیا تو ابو الدرداء قافلہ میں آئے اور پوچھا کیا تم میںکوئی ایسا ہے جو عبداللہ بن مسعود ؓ سے قرأت پڑھا ہوا ہو ؟ اس پر لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا ۔ اس پر میں نے بھی کہا کہ ہاں میںنے ان سے قرآن پڑھا ہے اس پر انہوں نے کہا کہ آپ نے عبداللہ بن مسعود کو یہ آیت کس طرح پڑھتے ہوئے سنا ہے میں نے بتایا کہ وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی O وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی O وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثٰیOاس پر ابوالدرداء نے کہا کہ میں نے بھی رسول کریم ﷺ کو اسی طرح پڑھتے سنا ہے ۔ اور یہاں کے لوگ چاہتے ہیںکہ میں وَماَ خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی پڑھوں مگر میں ایسا نہیںکروںگا میں ان کے پیچھے نہیںچلوں گا۔ یہ مضمون بتغیّر الفاظ و مطالب مختلف راویوں سے مختلف کتب ِ حدیث میں حضرت ابوالدرداء سے مروی ہے ۔
اس بارہ میں یاد رکھنا چاہیئے کہ قرأتوں کا فرق شروع زمانہ سے چلا آیا ہے ۔ پوری واقفیت نہ رکھنے والے مسلمان بعض دفعہ ایسی روایتوںسے گھبر ا جاتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر یہ روائتیں درست ہیں تو پھر ہمارا یہ کہنا درست نہیںہو سکتا کہ قرآن کریم کامل طور پر محفوظ ہے اور اس میں کسی قسم کی تغیر و تبدل نہیں ہوا ۔ مگر ایسا نتیجہ نکالنا درست نہ ہوگا۔ اس لئے کہ شروع زمانہ سے ہی نسخ کے منکر اور حفاظتِ قرآنیہ کے قائل قرأت کے اس فرق کو تسلیم کرتے چلے آئے ہیں مگر باوجود اس فرق کے ان کے نزدیک یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ ایک قرأت دوسری کو منسوخ نہیں کرتی اور دوسرے مضمون میںفرق نہیں ڈالتی ۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک قرأت ایسا مضمون بیان کرے جس کی دوسری قرأت حامل نہ ہو سکے ہاں بعض دفعہ وہ مضمون کو وسیع کر دیتی ہے اور اس کی مصدق ہوتی ہے ۔ در اصل بعض زبانوں کے فرق کی وجہ سے یا بعض مضامین کو نمایاں کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سبعۃ احرف پر نازل کیا ہے یعنی اس کی سا ت قرأتیںہیں ۔ ان قرأتوں کی وجہ سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے کہ قرآنِ کریم میںکوئی اختلاف ہے بلکہ اسے زبانوں کے فرق کا ایک طبعی نتیجہ سمجھنا چاہیئے ۔ بسا اوقات ایک ہی لفظ ہوتا ہے مگر ایک ہی ملک کے ایک حصہ کے لوگ اسے ایک طر ح بولتے ہیںاور اسی ملک کے دوسرے حصہ کے لوگ اسے اور طرح بولتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ لفظ بدل گیا ہے یا اس لفظ کا مفہوم تبدیل ہو گیا ہے ۔ لفظ بتغیر قلیل وہی رہے گا اس لفظ کے معنے بھی وہی رہیں گے صرف اس وجہ سے کہ کوئی قوم اس لفظ کو صحیح رنگ میں ادا نہیںکر سکتی وہ اپنی زبان میں ادا کرنے کے لئے اس کی کوئی اور شکل بنا لے گی ۔ رسوک کریم ﷺ کے زمانہ میں چونکہ عرب کی آبادی کم تھی قبائل ایک دوسرے سے دور دور رہتے تھے اس لئے ان کے لہجوں اور تلفظ میں بہت فرق ہوتا تھا ۔ زبان ایک ہی تھی مگر بعض الفاظ کا تلفظ مختلف ہوتا تھا اور بعض دفعہ ایک معنی کے لئے ایک قبیلہ میںایک لفظ بولا جاتا تھا دوسرے قبیلہ میںدوسرا لفظ بولا جاتا تھا ان حالات رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے اجازت دے دی کہ فلاں فلاںالفاظ جو مختلف قبائل کے لوگوں کی زبان پر نہیںچڑھتے ۔ ان کی جگہ فلاں فلاں الفاظ وہ استعمال کر لیا کریں۔ چنانچہ جب تک عرب ایک قوم کی صورت اختیار نہیںکر گی اس وقت تک یہی طریق ان میں رائج رہا۔ اگر اس کی اجازت نہ دی جاتی تو قرآن کریم کا یاد کرنا اور پڑھنا مکہ کے باشندوں کے سوا دوسرے لوگوں کے لئے مشکل ہوتا اور قرآن کریم ا س سرعت سے نہ پھیلتا جس طرح کہ وہ پھیلا ۔ قبائل کی زبان کا یہ فرق غیر تعلیم یافتہ لوگوں میںاب تک بھی ہے تعلیم یا فتہ لوگ تو کتابوں سے ایک ہی زبان سیکھتے ہیں لیکن غیر تعلیم یافتہ لوگ چونکہ آپس میںبول کر زبان سیکھتے ہیں ان میں بجائے ملکی زبان کے قبائلی زبان کا رواج زیادہ ہوتا ہے ۔
میں جب حج کے لئے گیا تو ایک یمنی لڑکا جو سولہ سترہ سال کا تھا اور جو سیٹھ ابو بکر صاحب کا ملازم تھا قافلہ کے ساتھ چلا جا رہا تھا ۔ میں راستہ میں عربی زبان میں اس سے گفتگو کرتا رہا اور میں نے دیکھا کہ وہ میری اکثر باتوں کو سمجھ جاتا اور ان کا جواب بھی دیتا مگر بعض دفعہ حیرت سے میرے منہ کو دیکھنے لگ جاتا اور کہتا کہ میںآپ کی بات کو سمجھا نہیں۔ میں حیران ہوا کہ یہ بات کیا ہے کہ یہ لڑکا عربی سمجھتا بھی ہے مگر کبھی کبھی رک بھی جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ کی بات کو نہیںسمجھا۔ جب میں مکہ پہنچا تو میں نے کسی سے ذکر کیا کہ یہ لڑکا عرب ہے اور عربی کوخوب سمجھتا ہے مگر باتیں کرتے کرتے بعض جگہ رک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میری سمجھ میں بات نہیں آئی معلوم نہیںاس کی کیا وجہ ہے ۔ تو ان صاحب نے بتایا کہ یہ لڑکا یمنی ہے اور یمنیوں اور حجازیوں کے بعض الفاظ میںبڑا بھاری فرق ہوتا ہے اس لئے یہ اسی اختلاف کے موقعہ پر ایک دوسرے کی بات نہیںسمجھتے چنانچہ انہوں نے اس فرق کے بارہ میں یہ لطیفہ سنایا کہ مکہ میںایک امیر عورت تھی اس کا ایک یمنی ملازم تھا وہ عورت حقہ پینے کی عادی تھی وہاں عام رواج یہ ہے کہ حقہ کے نیچے کا پانی کا برتن شیشے کا ہوتا ہے اس لئے اسے کہتے بھی شیشہ ہی ہیں ۔ ایک دن اس عورت نے اپنے ملازم کو بلایا اور اس سے کہا غَیِّرِالشِّیْشَۃَ شیشہ بدل دو۔ لفظ تواس نے یہ کہے کہ شیشہ بدل دو مگر محاورہ کے مطابق اس کے یہ معنے ہیںکہ ا سکا پانی گرا کر نیا پانی بدل کر ڈال دو۔ ملازم نے یہ فقرہ سنا تو اس کے جواب میں کہا سَتِّی ْ ھٰذَا طَیِّبٌ ۔ بیگم صاحبہ یہ تو بڑا اچھا معلوم ہوتا ہے ۔ عورت نے پھر کہا کہ قُلْتُ لَکَ غَیِّرِ الشِّیْشَۃَ ۔ میں نے جو تم کو کہا ہے کہ بدل دو تم انکار کیوں کرتے ہو ۔ نوکر نے پھر حیرت کا اظہار کیااور کہا کہ سَتِیْ ھٰذَا طَیِّبٌ ۔ میری آقا یہ تو اچھا بھلا ہے ۔ آخر آخر آقا نے ڈانٹ کر کہا تم میرے نوکر ہو یا حاکم ہو میں جو تم سے کہہ رہی ہوں کہ اسے بدل دو تم میری بات کیوں نہیں مانتے ۔ نوکر نے شیشہ اٹھایا اورباہر جا کر اس زور سے زمین پر مارا کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔ عور ت نے کہا ارے یہ تم نے کیا غضب کیا ۔ اتنا قیمتی برتن تم نے توڑ کر رکھ دیا ۔ نوکر نے کہا میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ برتن اچھا ہے مگر آپ مانتی نہیں تھیں ۔ اب جو میں نے توڑ دیا ہے تو آپ ناراض ہو رہی ہیں ۔ عورت نوکر پر سخت خفا ہوئی مگر ایک یمنی زبان کے واقف نے اسے سمجھایا کہ نوکر کا قصور نہیں کیونکہ حجاز میں غَیِّرْ کے معنے بدلنے کے ہیں اور محاورہ میںجب شیشہ کے ساتھ بولا جائے تو اس کے پانی بدلنے کے ہو جاتے ہیں۔ یمنی زبان میںتَغْیِیْر کے معنے توڑنے کے ہوتے ہیں پس جب تم نے غَیِّرِ الشِّیْشَۃَ کہا تو نوکر اپنی زبان کے مطابق یہ سمجھا کہ تم اسے برتن توڑنے کا حکم دے رہی ہو اسی لئے وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ بی بی یہ تو اچھا بھلا ہے اسے کیوں تڑوا رہی ہو ۔ مگر جب تم نہ مانیں اور بار بار زور دیا تو وہ غریب کیا کرتا ۔ اب دیکھو غَیِّرِ الشِّیْشَۃایک معمولی فقرہ ہے مگر زبان کے فرق کی وجہ سے یمنی نوکر نے اس کے کچھ کے کچھ معنے سمجھ لئے ۔ اس قسم کے الفاظ جو زبان کے اختلاف کی وجہ سے معانی میںبھی فرق پید اکر دیتے ہیں اگر قرآن کریم میں اپنی اصل صورت میں ہی پڑھے جاتے تو یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ان قبائل کو سخت مشکلات پیش آتیں اور ان کے لئے قرآن کریم کا سمجھنا مشکل ہو جاتا۔ اس نقص کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالی نے ایسے ہم معنی الفاظ پڑھنے کی اجازت دی جن سے قرآن کریم کے سمجھنے اور اس کے صحیح تلفظ کے ادا کرنے میں مختلف قبائل ِ عرب کو دقت پیش نہ آئے ۔ پس مضمون تو وہی رہا صرف بعض الفاظ یا بعض محاورات جو ایک قوم میں استعمال ہوتے ہیںاور دوسری قوم میں نہیں اللہ تعالی نے ان الفاظ یا ان محاورات کی جگہ ان کی زبان کے الفاظ یا اپنی زبان کے محاورات انہیں بتا دیئے تا کہ قرآن کریم کے مضامین کی حفاظت ہو سکے اور زبان کے فرق کی وجہ سے اس کی کسی بات کو سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل نہ ہوجائے۔ اسی طرح اس کا پڑھنا اور یاد کرنا بھی مشکل نہ رہے ورنہ اصل قرأت قرآن کریم کی وہی ہے جو حجازی زبان کے مطابق ہے اس تفصیل کو معلوم کر کے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک عارضی اجازت تھی اصل کلام وہی تھا جو ابتداً رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا۔ ان الفاظ کے قائمقام اسی وقت تک استعمال ہو سکتے تھے جب تک قبائل آپس میںمتحد نہ ہو جاتے ۔ چنانچہ حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں جب بجائے اس کے کہ مکہ والے مکہ میں رہتے ۔ مدینہ والے مدینہ میںرہتے ۔نجد والے نجد میں رہتے ۔ طائف والے طائف میں رہتے ۔ یمن والے یمن میںرہتے اور وہ ایک دوسرے کی زبان اور محاورات سے واقف ہوتے ۔ مدینہ دارالحکومت بن گیا تو تمام قومیں ایک ہو گئیں کیونکہ اس وقت مدینہ والے حاکم تھے جن میں ایک بڑا طبقہ مہاجرین مکہ کا تھا اور خود اہل مدینہ بھی اہل مکہ کی صحبت میںحجازی عربی سیکھ چکے تھے پس چونکہ قانون کا نفاذ ان کی طرف سے ہوتا ہے ، مال ان کے قبضہ میں ہوتا ہے اور دنیا کی نگاہیں انہیں کی طرف اٹھتیں ہیں ۔ اس وقت طائف کے بھی اور نجد کے بھی اور مکہ کے بھی اور یمن کے بھی اور دوسرے علاقوں کے بھی اکثر لوگ مدینہ میں آتے جاتے تھے اور مدینہ کے مہاجرو انصار سے ملتے اور دین سیکھتے تھے اور اسی طرح سب ملک کی علمی زبان ایک ہو تی جاتی تھی ۔ پھر کچھ ان لوگوں میںسے مدینہ میں ہی آکر بس گئے تھے ان کی زبان تو گویا بالکل ہی حجازی ہو گئی تھی ۔ یہ لوگ جب اپنے وطنوں کو جاتے ہوں گے تو چونکہ یہ علماء اور استادہوتے تھے یقینا ان کے علاقہ پر ان کے جانے کی وجہ سے بھی ضرور اثر پڑتا تھا ۔ علاوہ ازیں جنگوں کی وجہ سے عرب کے مختلف قبائل کو اکٹھا رہنے کا موقع ملتا تھا اور افسر چونکہ اکابر صحابہ ؓہوتے تھے ان کی صحبت اور ان کی نقل کی طبعی خواہش بھی زبان میںیک رنگی پید ا کرتی تھی ۔ پس گو ابتداء میں تو لوگوں کو قرآن کریم کی زبان سمجھنے میں دقتیں پیش آتی ہوں گی مگر مدینہ کے دارالحکومت بننے کے بعد جب تمام عرب کا مرکز مدینہ منورہ بن گیا اور قبائل اور اقوام نے بار بار وہاں آنا شروع کر دیا تو پھر اس اختلاف کا کوئی امکان نہ رہا ۔ کیونکہ اس وقت تمام علمی مذاق کے لوگ قرآنی زبان سے پوری طرح واقف ہو چکے تھے ۔ چنانچہ جب لوگ اچھی طرح واقف ہو گئے تو حضرت عثمان ؓ نے حکم دیا کہ آئندہ صرف حجازی قرأت پڑھی جائے اور کوئی قرأت پڑھنے کی اجازت نہیں۔ آپ کے اس حکم کا مطلب یہی تھا کہ اب لوگ حجازی زبان کو عام طور پر جاننے لگ گئے ہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ انہیں حجازی عربی کے الفاظ کا بدل استعمال کرنے کی اجازت دی جائے ۔ حضرت عثمان ؓ کے اس حکم کی وجہ سے ہی شیعہ لوگ جو سنّیوں کے مخالف ہیں کہا کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن بیاضِ عثمانی ہے حالانکہ یہ اعتراض بالکل غلط ہے حضرت عثمان ؓ کے زمانہ تک عربوں کے میل جول پر ایک لمبا عرصہ گذر چکا تھا اور وہ آپس کے میل جول کی وجہ سے ایک دوسرے کی زبانوں کے فرق سے پوری طرح آگاہ ہو چکے تھے ۔ اس وقت اس بات کی کوئی ضروت نہیںتھی کہ اور قرأتوں میںبھی لوگوں کو قرآن کریم پڑھنے کی اجازت دی جاتی۔ یہ اجازت محض وقتی طور پر تھی اور اس ضروت کے ماتحت تھی کہ ابتدائی زمانہ تھا قومیں متفرق تھیں اور زبان کے معمولی معمولی فرق کی وجہ سے الفاظ کے معنے بھی تبدیل ہو جاتے تھے اس نقص کی وجہ سے عارضی طور پر بعض الفاظ کو جو ان قبائل میں رائج تھے اصل وحی کے بدل کے طور پر خدا تعالیٰ کی وحی کے مطابق پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی تا کہ قرآن کریم کے احکام کے سمجھنے اور ا س کی تعلیم سے روشناس ہونے میں کسی قسم کی روک حائل نہ ہو اور ہر زبان والا اپنی زبان کے محاورات میں اس کے احکام کو سمجھ سکے اور اپنے لہجہ کے مطابق پڑھ سکے ۔ جب بیس سال کا عرصہ اس اجازت پر گذر گیا ، زمانہ ایک نئی شکل اختیار کر گیا ، قومیں ایک نیا رنگ اختیار کر گئیں ، وہ عرب جو متفر ق قبائل پر مشتمل تھا ایک زبردست قوم بلکہ ایک زبردست حکومت بن گیا ، آئین ِ ملک کا نفاذ اور نظام ِ تعلیم کا اجراء ان کے ہاتھ میں آگیا ، مناصب کی تقسیم ان کے اختیار میں آ گئی، حدوداور قصاص کے احکام کا اجراء انہوں نے شروع کر دیا تو اس کے بعد اصلی قرآنی زبان کے سمجھنے میں لوگوں کو کوئی دقت نہ رہی اور جب یہ حالت پیدا ہو گئی تو حضرت عثمان ؓ نے بھی اس عارضی اجازت کو جو محض وقتی حالات کے ماتحت دی گئی تھی منسوخ کر دیا اور یہی اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا مگر شیعہ لوگ حضرت عثمانؓ کے سب سے بڑا قصور اگر قرار دیتے ہیں تو یہی کہ انہوں نے مختلف قرأتوں کو مٹا کر ایک قرأت جاری کر دی۔ حالانکہ اگر وہ غور کرتے تو آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے مختلف قرأتوں میں قرآن کریم پڑھنے کی اجازت اسلام کے دوسرے دور میں دی ہے ابتدائی دور میں نہیں دی جس کے صاف معنے یہ ہیںکہ قرآن کریم کا نزول گو حجازی زبان میں ہوا ہے مگر قرأتوں میں فرق دوسرے قبائل کے اسلام لانے پر ہوا۔ چونکہ بعض دفعہ ایک قبیلہ اپنی زبان کے لحاظ سے دوسرے قبیلہ سے کچھ فرق رکھتا تھا اور یا تو وہ تلفظ صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتاتھا یا ان الفاظ کے معنوں کے لحاظ سے فرق ہو جاتا تھا اس لئے رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت بعض اختلافی الفاظ کے لہجہ کے بدلنے یا اس کی جگہ دوسرا لفظ رکھنے کی اجازت دے دی۔ مگر اس کا آیات کے معانی یا ان کے مفہوم پر کوئی اثر نہیںپڑتا تھا بلکہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی تو فرق پڑتا ۔چنانچہ اس کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک سورۃ عبداللہ بن مسعود ؓ کو اور طرح پڑھائی اور حضرت عمر ؓ کو اور طرح پڑھائی کیونکہ حضرت عمر ؓ خالص شہری تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ گڈریا تھے اور اس وجہ سے بدوی لوگوں سے ان کا تعلق زیادہ تھا ۔ پس دونو ں زبانوں میں بہت فرق تھا ۔ ایک دن عبداللہ بن مسعود ؓ قرآن کریم کی وہی سورۃ پڑھ رہے تھے کہ حضرت عمر ؓ پاس سے گذرے اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ کو کسی قدر فرق سے اس سورۃ کی تلاوت کرتے سنا۔ انہیں بڑا تعجب آیا کہ یہ کیا بات ہے کہ الفاظ کچھ اور ہیںاور یہ کچھ اور طرح پڑھ رہے ہیں ۔ چنانچہ انہوںنے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے گلے میں پٹکا ڈالا اور کہا چلو رسول کریم ﷺ کے پاس میںابھی تمہارا معاملہ پیش کرتا ہوں تم سورۃ کے بعض الفاظ اور طرح پڑھ رہے ہو اور اصل سورۃ اور طرح ہے ۔ غرض وہ انہیں رسول کریم ﷺ کے پاس لائے اور عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ﷺ آپ نے یہ سورۃ مجھے اور طرح پڑھائی تھی اور عبداللہ بن مسعود ؓ اور طرح پڑھ رہے تھے رسول کریم ﷺ نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے فرمایا تم یہ سورۃ کس طرح پڑھ رہے تھے؟ وہ ڈرے اور کانپنے لگ گئے کہ کہیں مجھ سے غلطی نہ ہو گئی ہو مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ڈرو نہیںپڑھو۔ انہوں نے پڑھ کر سنائی تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے ۔ حضرت عمر ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ نے تو مجھے اور طرح پڑھائی تھی ۔ آپ ؐ نے فرمایا وہ بھی ٹھیک ہے پھر آپؐ نے فرمایا قرآن کریم سات قرأتوں میں نازل کیا گیا ہے تم ان معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑا نہ کرو۔ اس فرق کی وجہ در اصل یہی تھی کہ رسول کریم ﷺ نے سمجھا عبداللہ بن مسعود ؓ گڈریا ہیں۔ اور ان کا لہجہ اور ہے اس لئے ان کے لہجے کے مطابق جو قرأت تھی وہ انہیں پڑھائی ۔ حضرت عمر ؓ کے متعلق آپ ؐ نے سوچا کہ یہ خالص شہری ہیں اس لئے انہیں اصل مکّی زبان کی نازل شدہ قرأت بتائی۔ چنانچہ آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو انکی اپنی زبان میں سورۃ پڑھنے کی اجازت دے دی اور حضرت عمر ؓ کو خالص شہری زبان میںوہ سورۃ پڑھا دی ۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فرق ہیں جو مختلف قرأتوں کی وجہ سے پیدا ہو گئے تھے مگر ان کا نفس ِ مضمون پر کوئی اثر نہیںپڑتاتھا ہر شخص سمجھتا تھا کہ یہ تمدن اور تعلیم اور زبان کے فرق کا ایک لازمی نتیجہ ہے ۔
میں ایک دفعہ کراچی میں تھا کہ وہاں ایک ایجنٹ ایک کروڑ پتی تاجر کو مجھ سے ملانے کے لئے لایا ۔ ایجنٹ شہری تھا اور تاجر گنواری علاقہ کا ۔ جب وہ تاجر مجھ سے بات کرنے لگا تو مجھ سے مخاطب کر کے کہتا کہ ’تم نوں‘ یہ بات معلوم ہو گی ۔ اب اول تو تم کا لفظ شہریوں میںمعزز آدمی کو خطاب کرتے ہوئے استعمال نہیںکرتے دوسرے تم کے ساتھ ’نوں‘ لگانا تو اور بھی معیوب ہے۔ اردو میںکہیں گے تم کو نہ کہ تم نوں۔ جب وہ تاجر مجھے تم نوں کہتا تو میںنے دیکھا اسے ساتھ لانے والا ایجنٹ بے حد اضطراب کے ساتھ اپنی کرسی پر پہلو بدلنے لگ جاتا اور میر ی طرف دیکھتا کہ ان پر اس گفتگو کا کیا اثر ہوا ہے اور مجھے تاجر کے تم نوں اور ایجنٹ کی گھبراہٹ پر لطف آرہا تھا ۔ اب معنوں کے لحاظ سے ’آپ کو‘ اور ’تم نوں ‘ میں کوئی بھی فرق نہیں لیکن ایک شہری کے لئے ’تم نوں‘ کہنا اور ایک انبالہ پٹیالہ کے گنوار کے لئے ’آ پ کو ‘ کہنا ایک مجاہد ہ سے کم نہیں ۔ پنجاب میںگجرات کی طرف کے لوگ پکرنے کو ’پھدنا‘ کہتے ہیں اور ہماری طرف کے لوگ ’پھڑنا‘ ۔ ہم لوگ پھدنا کہیں تو ماتھے پر پسینہ آجاتا ہے گجراتی پھڑنا کہتے ہیں توان کے گلے میں پھندے پڑتے ہیں۔ گورداسپور میں شریر آدمی کوشُہْدا کہتے ہیں ۔ ضلع سرگودہا میںشریف اور نیک طبیعت کو شُہْدا کہتے ہیں ۔ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول ؓ کی ایک عزیزہ آئی کسی ذکر پر اس نے آپ کی نسبت کہا ’اوساں شہدے نوں انہاں گلاں دا کہہ پتا ‘۔ یعنی مولوی صاحب شریف آدمی ہیں ان کو ایسی باتوں کا کیا علم ۔ اس طرف کی مستورات نے ایک دفعہ اس فقرہ کو سنا اور حیا ء کے ماتحت برداشت کر گئیں مگر اتفاق سے اس نے پھر دہرایا تو وہ اس سے دست و گریباں ہونے کو تیار ہو گئیں اور کہا کہ کچھ حیا ء کرو تم تو گالیاں دے رہی ہو ۔ اس غریب نے حیرت سے پوچھا کہ میں تعریف کر رہی ہوں کہ گالیاں دیتی ہوں۔ ’’ اوہ شُہْدا تے ہے ‘‘ ۔ آخر کسی عورت نے جو اس فرق کو سمجھتی تھی اس جوش کو ٹھنڈا کیا ۔ اب دیکھو کسی کتاب میںجو سارے پنجاب کے لئے لکھی گئی ہو کسی بزرگ کی نسبت شُہْدے کا لفظ آجائے تو اس کی توضیح یا دوسرے علاقہ کے لئے دوسرے لفظ کا استعمال مقرر کرنا ضروری ہو گا یا نہیں ؟ یہی ضرورت اس زمانہ میں مختلف قرأتوں کی اجازت کی تھی لیکن جب تمدن اور حکومت کے ذریعہ سے قبائلی حالت کی جگہ ایک قومیت اور ایک زبان نے لے لی اور سب لوگ حجازی زبان سے پوری طرح آشنا ہو گئے تو حضرت عثمان ؓ نے سمجھا اور صحیح سمجھا کہ اب ان قرأتوں کو قائم رکھنا اختلاف کو قائم رکھنے کا موجب ہو گا ا س لئے ان قرأتوں کا عام استعمال اب بند کرنا چاہئیے باقی کتب ِ قرأت میں تو وہ محفوظ رہیں گی۔ پس انہوں نے اس نیک خیال کے ماتحت عام استعمال میں حجازی اور اصل قرأت کے سوا باقی قرأتوں سے منع فرما دیا اور عربوں اور عجمیوں کو ایک ہی قرأت پر جمع کرنے کے لئے تلاوت کے لئے ایسے نسخوں کی اجازت دے دی جو حجازی اور ابتدائی قرأت کے مطابق تھے۔
ابن اُم عبد کا یہ واقعہ بھی اسی قسم کے قرأت کے اختلاف کے متعلق ہے ۔ عربی زبان میں مَا کا استعمال کئی معنوں میں ہوتا ہے ما نافیہ بھی ہے اور مصدریہ بھی اور مَا مَنْ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ جب مصدری معنے اور مَنْ کے معنے دونوں ہی مراد ہوں تو ایسے مقام پر مَنْ کا استعمال کرنا یا مصدر کا استعمال کرنا مفید نہیں ہو سکتا کیونکہ مصدر ایک معنے دے گا اور مَنْ دوسرے معنے دے گا دونوںمعنے کسی ایک طریق کے استعمال سے ظاہر نہ ہوں گے مگر چونکہ ایسے کئی مواقع قرآن کریم میں آتے ہیں جب کہ مصدری معنے اور مَنْ کے معنے دونوں ہی بتانے مقصود ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ایسے مواقع پر مَا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تا یہ دونوں مفہوم ظاہر ہوں ۔ مگر بعض عرب قبائل مَا کے مصدری معنے تو کرتے ہیںلیکن مَا کا استعمال مَنْ کی جگہ ناجائز سمجھتے ہیں اس لئے اس استعمال سے ان کے لئے مشکل پیش آجاتی تھی پس اس کو دور کرنے کے لئے وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثٰی کی قرأت کی بھی اجازت دے دی گئی ۔ جو جملہ ایک حد تک مَا کا مفہوم ادا کر دیتا ہے لیکن چونکہ ویسا مکمل مفہوم ادا نہیں کر تا جیسے مَا اس لئے اصل قرآنی عبارت کے طور پر اسے استعمال نہیں کیا گیا صرف عارضی قرأت کے طور پر اس کا استعمال جائز رکھا گیا۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابوالدرداء کو کوئی غلطی لگی ہو جب وہ خود کہتے ہیںکہ صحابہ ؓ مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی پڑھوں ۔ تو اس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اس بارہ میں ضرور کوئی بھول چوک واقعہ ہو گئی ہے ورنہ صحابہ ؓکی اکثریت ان پر یہ زور نہ ڈالتی کہ اصل قرأت وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ہی ہے وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثی نہیں ہے پس اول تو ضروری نہیں کہ ہم اس کو دوسری قرأت قرار دیں جب کثرت سے صحابہؓ کہتے ہیں کہ یہ قرأت نہیں تو ضروری ہے کہ ہم اسے قرأت قرار نہ دیں بلکہ ابوالدرداء کی رائے کو غلط سمجھیں ۔ لیکن اگر اس قرأت کو تسلیم کر لیا جائے تب بھی جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس سے آیت کے معنوں میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ اور قرأت کا اختلاف قرآن کریم کے کسی نقص پر نہیں بلکہ اس کے معنوں کی وسعت پر دلالت کرتا ہے ۔
قریب کے زمانہ میں ایک انگریز نے قرآن کریم کے تین پرانے نسخے نکالے ہیں وہ حلب میں ایک مسیحی مونسٹری MONESTRYمیں پروفیسر مقر رتھا ۔ اس نے اپنے زعم میںقرآن کریم کے تین پرانے نسخے حاصل کئے ہیں اور ان کے باہمی اختلافات کو اس نے LEAVES FROM THREE DIFFERENT QURANS یعنی ’’ قرآن کے پرانے تین نسخوں کے متفرق اوراق‘‘ کے نام سے شائع کر دیا ۔ جب وہ کتاب شائع ہوئی تو لوگوں میں بڑا شور اٹھا اور عیسائیوں میںیہ سمجھا جانے لگا کہ اب قرآن کریم کی حفاظت کا دعویٰ بالکل باطل ہو گیا ہے ۔ میں نے بھی وہ کتاب منگوائی تا کہ میں دیکھوں کہ قرآن کی حفاظت کے خلاف اس میں کون سے دلائل دئے گئے ہیں ۔ جب میں نے اسے پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ جو نسخے اس کے پیش کئے گئے ہیںان میں اسی قسم کا اختلاف ہے کی کسی جگہ مَا کی جگہ مَنْ ہے اور کسی جگہ مَنْ کی جگہ مَا ہے ۔ کسی جگہ قالُوْا کے آگے الف ہے اور کسی جگہ الف نہیں۔ کسی جگہ ہُ کی بجائے ھُمْکی ضمیر استعمال کی گئی ہے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ اس قرآنی نسخہ کا اختلاف یا تو بعض قرأتوں پر مبنی تھا یا کتابت کی غلطیاں تھیںاور بس ۔ میں نے اسے پڑھ کر نتیجہ نکالا کہ اگر ان مزعومہ قدیم نسخوںکو درست سمجھا جائے تب بھی اس سے قرآن کریم کے محفوظ ہونے کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ اس کی عبارت معنوں کے لحاظ سے کوئی فرق پیدا نہیں کرتیں۔ صرف کسی جگہ مَاکی جگہ مَنْ اور ہُ کی جگہ ھُمْ کی ضمیر بدلی ہوئی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مختلف قرأتوں کا فرق ہے اور کچھ بھی نہیں۔ غرض عیسائیوں کے کتب خانہ میں سے بھی کوئی کتاب ایسی نہ نکلی جو قرأت کے اس ف کے علاوہ قرآن کریم کے نسخوں میںکوئی اور فرق ثابت کر سکتی۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی اسی قرأت کے فرق کو بعض جگہ پیش کیا ہے ۔ مثلاً وَاِنْ مِّنْ اَھْلِالْکِتٰبِ اِلَّا لَیُوْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہٖ کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ مَوْتِہٖ کی بجائے ایک قرأت مَوْتِھِمْ بھی آتی ہے جو آپ کے بیان کردہ مضمون کی تائید کرتی ہے ۔ پس قرأتوں کا اختلاف یا تو قبائلی زبانو ں کے فرق کے ضرر سے بچانے کے لئے ہے یا قرآنی معنوں کی وسعت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ۔
اختلاف ِ قرأت کی حکمت بتانے کے بعد میں اب آیت کی تفسیر کی طرف توجہ کرتا ہوں ۔ اس سورۃ میںبتایا گیا ہے کہ رات کے وقت انسانی اعمال اور قسم کے ہوتے ہیںاور دن کے وقت اور قسم کے ۔ مثلاً رات کو لوگ سونے کی تیاری کرتے ہیںاور دن کو کام کرنے کی تیاری کرتے ہیں ۔ آدمی وہی ہوتا ہے لیکن پھر بھی اس کے اعمال الگ الگ اوقات میںالگ الگ اقسام کے ہوتے ہیں ۔ وہی آدمی جو دن کے وقت دوڑا بھاگا پھرتا ہے رات کے وقت بستر پر لیٹے ہوئے خراٹے مار رہا ہوتا ہے ۔ دن کو اس کی ہوشیاری اور چالاکی دیکھ کر حیرت آتی ہے اور رات کو اس کی نیند اور غفلت دیکھ کر حیرت آتی ہے ۔ اور اگر فطرتیں ہی الگ الگ ہوں تو پھر تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے ۔ بعض کہ یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ جاگتے ہوئے بھی سو رہے ہوتے ہیںاور بعض کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ سوتے ہوئے بھی جاگ رہے ہوتے ہیں۔ حماسہ میں تَابَّطَ شَرًّا کا واقعہ آتا ہے (یہ صفاتی نام ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی بغل میں شرارت دبائے پھرتاتھا ) اس لڑکے کا باپ مر گیا اور اپنے بیٹے کے لئے بہت بڑی جائیداد چھوڑ گیا ۔ اس کی والدہ نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔ سوتیلے باپ نے جائیداد دیکھ کر چاہا کہ میں اس لڑکے کا خاتمہ کر دوں تا کہ اکیلا اس جائیداد سے فائدہ اٹھائوں ۔ چنانچہ وہ اسے سیرکے بہانے کہیں باہر لے گیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ رات کو جب یہ سو جائے گا تو میں اسے قتل کر دوں گا ۔ جب لڑکا سو گیا تو باپ اٹھا تا کہ اسے مار ڈالے مگر اس کے پائوں زمین پر ابھی پڑے ہی تھے کہ لڑکا تلوار لے کر کھڑا ہو گیا اور پوچھا کیا بات ہے ۔ باپ نے کہا کچھ نہیں یونہی کسی کام کے لئے اٹھا تھا ۔ گھنٹہ دو گھنٹے گزرنے کے بعد وہ پھر اٹھا کہ اسے قتل کر دے مگر اس کے اٹھنے کے ساتھ ہی لڑکا پھر بیدار ہو گیا اور پوچھنے لگا کیا بات ہے ۔ باپ نے پھر کوئی بہانہ کر دیا ۔ اسی طرح ساری رات وہ اس کوشش میںرہا کہ کسی طرح لڑکا سو جائے تو مَیں اسے قتل کر دوں مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا ۔ جب بھی اٹھتالڑکا تلوار لے کر کھڑا ہوجاتا اور کہتا کیا بات ہے؟لڑکا مضبوط تھا اور یہ بڑی عمر کا تھا اس وجہ سے بھی اس پر ڈر غالب آگیا اور آخر دوسرے دن وہ اسے واپس لے آیا اور اس نے سمجھ لیا کہ میں اسے قتل نہیں کر سکتا ۔ الغرض بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ سوتے ہوئے بھی جاگ رہی ہوتی ہیں ذرا کوئی آہٹ ہو فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں ۔لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر دن کو بھی رات کی کیفیت طاری رہتی ہے وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگ جاتے ہیں اور بعض بڑے اطمینان کے ساتھ ایک طرف لیٹ کر سو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالی ا س سورۃ میںانہی کیفیات کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے ایک رات کی حالت ہوتی ہے اور ایک دن کی ۔ رات کا وقت ایسا ہوتا ہے کہ خواہ کوئی چست اور ہوشیار ہو اس پر بھی نیند طاری ہو جاتی ہے ۔ بعض تو ایسے سوتے ہیں کہ کتنا جھنجھوڑو ان کی آنکھ نہیں کھلتی ۔ بار بار جگانے پر بھی بیدار نہیں ہوتے ۔ سردیاں ہو تو لحاف میں سے نہیں نکلتے اور گرمیاں ہو ں تو پانی کے چھینٹے مارنے پر بھی پہلو بدل کر سو جاتے ہیں لیکن دن کا وقت کام کا ہوتا ہے اس میں چست آدمی تو اپنی ترقی کے لئے کئی قسم کے کاموں کو اختیار کر لیتا ہے لیکن سست آدمی کو دن کے وقت تو کچھ نہ کچھ کام کرنا ہی پڑتا ہے مگر رات ساری اس کے سوتے ہی گذرتی ہے ۔ رات اور دن کی طرح انسانوں کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ بعض قوموں پر رات کا زمانہ آیا ہوا ہوتا ہے اور بعض پر دن کا زمانہ ہوتاہے ۔ جو قومیں رات کے مشابہ ہوتی ہیں یا یوںکہو کہ جن پر رات آئی ہوئی ہوتی ہے وہ دن کو بھی سوتے ہیں اور رات کو بھی سوتے ہیں یعنی رات تو سوئے گذر جاتی ہے دن بھی کسی ایسے کام میں نہیں گذرتے کہ ان کے لئے یا ان کی قوم کے لئے کوئی اچھا نتیجہ نکلے ۔ اور اس کے برخلاف جن اقوام پر دن کا زمانہ ہوتا ہے ان کے دن تو کام میں گذرتے ہیں ان کی راتیں بھی بیکار نہیںجاتیں اور وہ تاریکیوں اور مصیبتوں کے اوقات میں بھی اتنا کام کر جاتے ہیںکہ رات والی قوموں کو دن کے وقت یعنی ہر قسم کے سامانوں کی موجودگی میں بھی اتنے کام کا موقعہ نہیں ملتا ۔ اسی کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے فرماتا ہے وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی ۔ ہم شہادت کے طورپر رات کو پیش کرتے ہیںجب وہ ڈھانپ لیتی ہے یعنی انسانی قویٰ پر چھا جاتی ہے جب سب لوگ سو جاتے ہیں اور حرکت کی جگہ سکون لے لیتا ہے گویا صرف تاریکی ہی نہیں ہوتی بلکہ عملاً ہر شے کو رات ڈھانک لیتی ہے ۔ رات کو اندھیرے میں سفر کرو تو راستہ بہت کم طے ہوتا ہے کیونکہ سنبھل سنبھل کر چلنا پڑتا ہے ۔ موٹر میں بھی سفر کیا جائے تو رات کو اس کی رفتار آدھی رہ جاتی ہے کیونکہ خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی نیچے نہ آجائے یا اندھیرے کی وجہ سے کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے ۔ اس وجہ سے ڈرائیور موٹر کی رفتار کم کر دیتا ہے ۔ پھر اگر وہ خود ہی سو جائے تو اور بھی خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ بہرحال رات کو صرف تاریکی ہی نہیں ہوتی بلکہ عملاً ہر شے کو وہ ڈھانپ لیتی ہے یعنی صرف جسم ہی نہیں بلکہ جب انسان سو جاتا ہے تو اس کی عقل اور فکر بھی رات کی حکومت میں آجاتا ہے پھر اسے اپنے برے بھلے کی کچھ تمیز نہیں رہتی ۔ یہ تو رات کی کیفیت تھی اس کے بعد فرمایا ہم اس کے بالمقابل تمہارے سامنے دن کو پیش کرتے ہیں جب وہ اس قدر روشن ہو جاتا ہے کہ سونا اور غافل رہنا بالکل نا ممکن ہوتا ہے ۔
یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ پہلی آیت میں خدا تعالی نے صرف رات کو پیش نہیں کیا کیونکہ رات کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جس میں سب لوگ جاگ رہے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ مسلمان تو لازماً سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں پھر کچھ دیر کے بعد عشاء کی نماز پڑھتے ہیں اور سنتوں اور وتر کی ادائیگی کے بعد ذکر الہی کرتے ہیں اس کے بعد وہ سونے کی تیاری کرتے ہیں یا جو لوگ مطالعہ کرنا چاہیں وہ پہلے مطالعہ کرتے ہیں اور پھر سوتے ہیں ۔ عیاش قومیں تھیئٹر و سینمائوں ، ناچ گھروں ، شراب خانوں میں اپنے وقت خرچ کرتی ہیں امراء کلبوں میں تاش و بِلْیرْڈ کھیلتے ہیں پس ساری رات سونے کے کام نہیں آتی بلکہ رات کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جس میں لوگ بیدار رہتے ہیں ۔ اس لئے اللہ تعالی نے صرف لیل کو بطور شہادت پیش نہیں کیا بلکہ وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی فرمایا ہے یعنی ہم رات کی اس حالت کو تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں جب وہ عملاً ہر چیز کو ڈھانک لیتی ہے اور صرف جسم ہی نہیںبلکہ انسانی عقل اور دماغ کا بھی وہ احاطہ کر لیتی ہے ۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے نَھار کا ذکر کیا ہے مگر نَھار کے ساتھ ہی تَجَلّٰی کا لفظ رکھ دیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ ہم دن کے اس حصہ کو شہادت کے طورپر پیش کررہے ہیں جب وہ اس قدر روشن ہو جاتا ہے کہ سونا اور غافل رہنا بالکل ناممکن ہو جاتاہے۔ ابتدائی حصہ کو پیش نہیں کر رہے کیونکہ صبح کے وقت کچھ لوگ سو جاتے ہیں مگر جب دن زیادہ چڑھ جائے تو پھر کوئی نہیں سوتا۔
صوفیا ء میں یہ عام رواج رہا ہے کہ وہ صبح کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لئے سو جایا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی بھی یہی عادت تھی کہ آپ صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لئے استراحت فرماتے ۔ پس اللہ تعالی یہاں نھار کے ابتدائی حصہ کی مثال پیش نہیں کرتا بلکہ اس حصہ کی مثال پیش کرتا ہے جب وہ روشن ہو جاتا ہے یعنی روشنی اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ انسان اگر سونا بھی چاہے تو وہ نہیں سو سکتا ۔ یہ دونوں حالتیں یعنی رات کی وہ حالت جب وہ ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے اور دن کی وہ حالت جب سونے والے بھی جاگ اٹھتے ہیں اللہ تعالی بطور مثال کفار کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے یہی فرق تمہاری حالت اور محمد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی حالت میں ہے ۔ تمہاری تمام قوتوں پر تھکان اور خوابیدگی کا اثر ہے ۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عرب نے گو کوئی خاص ترقی نہیںکی تھی مگر جتنی ترقی بھی کی تھی وہ ان کی تھکان کا موجب بن گئی تھی۔ مکہ کا مجاور ہونا سب سے بڑی عزت سمجھا جاتا تھا اور جیسے مندر کے پجاریوں کی حالت ہوتی ہے وہی حالت ان کی تھی ۔ قوت عملیہ فنا ہو چکی تھی اور ان کے اعمال نے ان میں کوفت پیداکر دی تھی ۔ غرض اللہ تعالی ان کو بتاتا ہے کہ تمہاری تمام قوتوں پر تھکان اور خوابیدگی کا اثر ہے تم لمبی جہالت اور لمبی عیش کے بعد زیادہ سے زیادہ سونا چاہتے ہو مگر محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی حالت میں بیداری اور ہوشیاری اور قوت عملیہ پائی جاتی ہے ۔ وہ جاگنا اور کام کرنا چاہتے ہیں اور تم سونا اور غافل رہنا چاہتے ہو پھر تمہارا اور ان کا کیا مقابلہ؟ سوتا جاگتے کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے ؟ تمہاری حالتوں پر رات کی خوابیدگی طاری ہے اور ان کی حالتوں پر دن کی بیداری غالب ہے ۔ ان کی راتیں بھی دن ہوتی ہیں اور تمہارے دن بھی رات ہوتے ہیں پھر تمہارا اور ان کا کیا مقابلہ ؟ جب تک تم بھی رات کے بعد دن کی حالت پیدا نہ کرو تم کبھی سکھ نہیں پا سکتے۔
اس کے بعد فرماتا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ہم اس خدا کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے نر اور مادہ پیدا کیا ہے اور جن سے دنیا میں آئندہ نسل ترقی کر تی ہے یعنی جس طرح دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حالتوں پر ہمیشہ دن کی بیداری طاری رہتی ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حالتوں پر ہمیشہ رات کی خوابیدگی غالب رہتی ہے اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں رجولیت کا مادہ ہوتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں نسوانیت کا مادہ ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی فیوض پہنچانے والے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ جو لوگ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ ذَکر ہوتے ہیں اور جو لوگ استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ انثٰی ہوتے ہیں اور جو لوگ نہ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں نہ استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ خنثٰی ہوتے ہیں ۔ ان سے دنیا میںکبھی بھی کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا۔ فرماتا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ۔ ہم نر و مادہ کی پیدائش کو بھی شہادت کے طورپر پیش کرتے ہیں یعنی نر میں افاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ دوسرے کو بچہ دیتا ہے اور مادہ میں استفاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ بچہ کو اس سے لیتی اور اس کی پرورش کرتی ہے ۔ یہی دو قوتیں ہیں جن کے ملنے سے دنیا میں اہم نتائج پیدا ہوتے ہیں اگر نر اور مادہ آپس نہ ملیں تو نسلِ انسانی کا سلسلہ بالکل منقطع ہو جائے۔
بعض نے اس موقع پر اعتراض کیا ہے کہ قرآن کریم نے یہ تو کہا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی یعنی خدا تعالی نے ذکر اور انثیٰ کو پیدا کیا ہے مگر اس نے خثنٰی کا ذکر نہیں کیا حالانکہ یہ بھی بتانا چاہئیے تھا کہ اسے کس نے پیدا کیا ہے ۔ مجھے علمی کتابوں میں اس قسم کا اعتراض پڑھ کر حیرت آئی ہے اور پھر اور زیادہ حیرت مجھے اس بات پر آئی ہے کہ مفسرین نے اس کا جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے اور جواب یہ دیا ہے کہ جو ہمارے نزدیک خثنٰی ہے خدا تعالی کے نزدیک وہ بہر حال یا ذکر ہے یا انثٰی ہے اس سے باہر نہیں۔ یہ بھی ایک مجبوری کا جواب ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کنثیٰ کوئی پیدائش نہیں بلکہ وہ پیدائش کا ایک بگاڑ ہے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے شربت بناتے وقت پاس سے کوئی خاکروب پیشاب کا پاٹ لے کر گزرے اور ٹھوکر سے اچھل کر پیشاب کا کوئی قطرہ شربت کے گلاس میں جا گرے یا اپنا ہی بچہ کھڑے ہو کر پیشاب کر دے اور شربت میں کوئی قطرہ جا گرے تو ایسے شربت کو ہم شربت کی ایک قسم نہیںکہیں گے بلکہ یہ سمجھیں گے کہ وہ ناپاک شربت ہے ۔ کیا کوئی عقلمند دنیا میںایسا ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ ایک شربت تو وہ ہوتا ہے جس میںایسنس ملا ہوا ہوتا ہے اور ایک شربت وہ ہوتا ہے جس میں پیشاب پڑا ہوا ہوتا ہے کیونکہ جس میںغلطی سے پیشاب کا کوئی قطرہ جا گرا ہے وہ شربت نہیںبلکہ ناپاک شدہ شربت ہے ۔ اسی طرح خدا تعالی نے ہر ایک کو یا ذکرپیدا کیا ہے یا انثٰی پیدا کیا ہے ۔ اگر ماں باپ اپنے اندر کوئی خرابی پیدا کر لیتے ہیں اور ان کی صحت میں اس قسم کا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے کہ بجائے ذکر یا انثٰی کے خثنٰی پیدا ہو جاتا ہے تو یہ نہیںکہا جائے گا کہ یہ بھی ایک پیدائش ہے بلکہ صرف یہ کہا جائے گا کہ یہ پیدائش کا ایک بگاڑ ہے جو اس رنگ میں ظاہر ہو گیا ۔ خنثٰی کو بھی پیدائش قرار دینا ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ خد اتعالی آنکھیںدیتا ہے تو دوسرا جواب میں کہے کہ دنیا میں اندھے بھی تو ہوتے ہیں۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات کیسی بیہودہ ہے اگر کوئی اندھا ہوا ہے تو اپنے ماں باپ کی کسی نادانی یا غفلت یا بیماری کے نتیجہ میںہوا ہے ۔ خدا تعالی نے بہرحال ہر انسان کو آنکھوں والا بنایا ہے کسی کا اندھا پیدا ہونا ایک بگاڑ اور خرابی ہے نئی پیدائش نہیں ہے ۔ مجھے تو حیرت آتی ہے ہمارے مفسرین نے اس بحث کو اٹھایا ہی کیوں کہ خدا تعالی نے ذکراور انثٰی کا ہی کیوں ذکر کیا ہے خنثٰی کا ذکر کیوں نہیںکیا خنثٰی ہونا تو ایسے ہی ہے جیسے کسی کا ناک کٹا ہوا ہو یا کسی کی آنکھ ماری ہوئی ہو یا کسی کی ٹانگ کٹی ہوئی ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ سب انسانی پیدائش کے مختلف بگاڑ ہیں ۔ کسی کی آنکھیں نہیں ہوتیں ، کسی کے ہاتھ نہیں ہوتے، کسی کی زبان نہیں ہوتی ، کسی کی انگلیاں کم و بیش ہوتی ہیں ۔ اگر ان میں سے ہر چیز کو پیدائش کی ایک نئی قسم قرار دے دیا جائے تو پھر تو ہزار ہا اس قسم کی پیدائشیں نکل آئیں گی ۔ دنیا میں ہر شخص کی خدا تعالی نے دو ٹانگیں پیدا کی ہیں لیکن بعض دفعہ ماں باپ کی بے احتیاطی یا کسی رحمی نقص کی وجہ سے ایسا بچہ پید ا ہو جاتا ہے جس کی تین ٹانگیں ہوتی ہیں ۔ اسی طرح خدا تعالی نے ہر ایک کو الگ الگ جسم عطا کیا ہے لیکن بعض دفعہ اس قسم کے جڑے ہوئے بچے پید اہو جاتے ہیں جن کو اپریشن کے ذریعہ ایک دوسرے سے الگ کرنا پڑتا ہے اور بعض دفعہ تو اپریشن کے ذریعہ بھی ان کو الگ نہیںکیا جاسکتا بظاہر دو دھڑ آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں لیکن دونوں کا جگر ایک ہوتا ہے یا دل ایک ہوتا ہے یا معدہ ایک ہوتا ہے یا تلی ایک ہوتی ہے اور وہ ساری عمر اسی طرح جڑے جڑے گزار دیتے ہیں۔ پس خالی خنثٰی کا ذکر ہی نہیں پھر تو انہیں اس قسم کے تمام بگاڑ پیش کرنے چاہیئے تھے اور کہنا چاہیئے تھا کہ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دو بچے آپس میں بالکل جڑے ہوئے ہوتے اور پھر ان کو الگ الگ کرنا پڑتا ہے ۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دونوں کا ایک ہی جگر ، ایک ہی قلب ، ایک ہی پھیپھڑا اور ایک ہی معدہ ہوتاہے اور انہیں جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں بچہ تو ہوتا ہے مگر اس کی آنکھیں نہیں ہوتی ۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دو کی بجائے تین ٹانگیں بن جاتی ہیں حالانکہ یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو پیدائش کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں ان کو پیش کر کے قرآن مجید پر یہ اعتراض کرنا کہ اس نے صرف ذکراور انثٰی کا نام لیا ہے خنثٰی کا نام نہیں لیا معترضین کی نادانی اور حماقت کا ثبوت ہے اور مفسرین کو چاہیئے تھا کہ بجائے اس کے کہ اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے کہتے کہ یہ اعتراض کسی احمق کی زبان سے نکلا ہے دنیا میں دو ہی پیدائشیں ہوتی ہیں ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں ذکرانیت ہوتی ہے اور ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں نسوانیت ہوتی ہے یہ دونوں وجود آپس میں ملتے ہیںتب ایک تیسرا وجود پیدا ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں ۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی سلسلہ پیدائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم دنیا میں غور کر کے دیکھ لو آئندہ نسلوں کی ترقی صرف ذکر اور انثٰی سے ہوتی ہے ایک کے اندر افاضہ کا فعل پایا جاتا ہے اور دوسرے کے اندر استفاضہ کا فعل پایا جاتا ہے یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تب کوئی نتیجہ پیدا ہوتا ہے اگر یہ دونوں آپس میں نہیںملیںگے تو کوئی نتیجہ پیدا نہیںہو گا۔ وہ شخص جس میں افاضہ کا مادہ نہیں اگر وہ کہے کہ مجھے کسی دوسرے سے فیض حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تو وہ نادان ہو گا ۔ اسی طرح جس میں استفاضہ کا مادہ نہیں وہ بھی بغیر کسی دوسرے وجود کے اپنی قوت افاضہ کا اظہار نہیں کر سکتا ۔ یہ افاضہ اور استفاضہ کی قوتیںآپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ اگر کسی قوم کے افراد یہ کہیں کہ ہم خود کام کر سکتے ہیں ہمیں کسی دوسرے کی راہنمائی یا مدد کی ضرورت نہیں ، کسی دوسرے کی قوت کے ہم محتاج نہیں ، ہمارے بازوئوں میںاتنی طاقت موجود ہے کہ ہم بغیر کسی کی مدد کے ترقی کی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں مگران میں افاضہ کی قوت نہ پائی جاتی ہو تو ان کے سب دعاوی باطل ہوںگے ۔ جب ان میںافاضہ کی قوت ہی نہیں تو وہ بغیر کسی راہنما کی مدد کے آگے بڑھ ہی کس طرح سکتے ہیں؟ وہ اگر ترقی کر سکتے ہیں تو اسی صورت میں کہ ان میں استفاضہ کی قوت ہو ۔ ان میں یہ مادہ ہو کہ وہ دوسرے سے فیوض حاصل کر سکیںکیونکہ ان کی حیثیت ری فلیکٹر کی سی ہے وہ اصل روشنی نہیں بلکہ ایک ائینہ انعکاس ہیں ۔ اگر اصل روشنی وہ اپنے آئینہ ظلّیت میں منعکس نہیں کریںگے تو سوائے تاریکی اور اندھیر ے کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔ بہر حال جس طرح نر اور مادہ کے باہمی اتصال سے نسل ترقی کرتی ہے اسی طرح قومیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب ایک راہنما ایسا موجو د ہو جو قوت افاضہ اپنے اندر رکھتا ہو اور قوم کے افراد ایسے ہوں جو قوت استفاضہ اپنے اندر رکھتے ہوں ۔ اللہ تعالی یہی مثال کفار کے سامنے پیش کرتا ہے اور انہیںبتاتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں تمہاری کوئی حیثیت ہی نہیں محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ ؓ کا باہمی جوڑ دنیا میں ایک زبردست نتیجہ پیدا کریگا کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ وہ ہیں جن میں قوتِ افاضہ کمال درجہ کی پائی جاتی ہے اور صحابہ کرام ٖؓ وہ ہیں جن میں قوتِ استفاضہ کامل طورپر پائی جاتی ہے ۔ وہ دونوں آپس میںمل بیٹھیں گے تو ایک نئی دنیا آباد کرنے کا باعث بنیں گے جس طرح مرد اور عورت آپس میں ملتے ہیں تو بچہ تولد ہوتا ہے اسی طرح رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کا روحانی تعلق ایک نئی آبادی کا پیش خیمہ ہے ۔ مگر اے مکہ والو! تم وہ ہو کہ نہ تم میںذکر کی قابلیت پائی جاتی ہے اور نہ اُنْثٰی کی قابلیت پائی جاتی ہے تم اسی طرح سوتے سوتے مر جائو گے تمہاری غفلتیں تم کو ڈبو دیںگی کیونکہ تم نر تو ہو نہیں اور نسوانی طاقتیں اپنے اندر پیدا نہیں کرتے گویا مخنث کی صورت بن رہے ہو ۔ تم آئندہ کس نیک انجام یا بھلائی کی امید کر سکتے ہو؟
لوگ کہتے ہیں کہ یہاں خنثٰی کا ذکر نہیں حالانکہ یہ اگر خنثٰی کا ذکر نہیں تو اور کیا ہے کہ محمد ﷺ میں افاضہ کی قوت ہے اور صحابہ میں استفاضہ کی قوت کامل طور پر پائی جاتی ہے ۔ مگر ا ے مکہ والو! تم میں نہ افاضہ کی قوت پائی جاتی ہے اور نہ استفاضہ کی ، اس لئے تم روحانی طور پر خنثٰی ہو ۔ نہ ذکر ہو نہ انثٰی ہو ۔ نہ تم میں نر کی قابلیت موجو د ہے کہ تم دوسروں کو نور پہنچا سکو اور نہ تم میں نسائیت پائی جاتی ہے کہ تم محمد ﷺ سے اکتساب ِ نور کر سکو ۔ پھر تم دنیا میں ترقی کس طرح کر سکتے ہو تم تو خنثٰی ہو اور خنثٰی کی نسل نہیں چلتی ۔ پس روحانی دنیا کے کامل آدم محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور روحانی دنیا کی کامل حوائیں صحابہ کرام ؓ ہیں اور خنثٰی مکہ کے منکرین ہیں ۔
اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی O ط
کہ تمہاری کوششیں یقینا مختلف ہیں ۔ ایت نمبر ۵
نمبر ۵ حل لغات ۔ شَتّٰی : ۔ اَشْیَاء ٌ شَتّٰی کے معنے ہوتے ہیں مُخْتَلِفَۃٌ ۔ مختلف اشیاء (اقرب)
تفسیر ۔ فرماتا ہے تمہاری اور مسلمانوں کی سعی آپس میں بڑا اختلاف رکھتی ہے ۔ تمہاری تمام سعی سونے کی تیاری میں ہے اور ان کی تمام سعی قومی بیداری اور ترقی کے لئے ہے ۔ تمہاری سعی تاریکی کے سردار شیطان کے حق میں ہے اور ان کی سعی خدا تعالی کے حق میں ہے جو خود نور اور نور کا پیدا کرنے والا ہے ۔ پھر تمہاری اور ان کی کوششوں کا نتیجہ ایک کس طرح ہو سکتا ہے ؟ تمہاری تمام سعی اس بات کے لئے وقف ہو رہی ہے کہ بستر بچھائو ۔ تکیہ لگائو اور لحاف رکھو تا کہ ہم سو جائیں اور صحابہ ؓ کی تمام سعی اب بات کے لئے وقف ہو رہی ہے کہ اٹھو ہل جو تو ، زمینوں میں بیج ڈالو، زمین کو پانی دو، اور کاشت کی اچھی طرح نگرانی کرو تا کہ اعلی درجہ کی فصل تیار ہو ۔ اب تم خود ہی سوچ لو کہ سونے والے کچھ کمایا کرتے ہیں یا جاگنے والے کمایاکرتے ہیں ؟ تم پر رات طاری ہے اور ان پر دن کی کیفیت طاری ہے جب تم دونوں کی کوششیں بالکل الگ الگ ہیں تو ان دونوںکا ایک نتیجہ کس طرح نکل سکتا ہے اور تم کس طرح خیال بھی کر سکتے ہو کہ رات کو سونے والوں اور دن کے وقت ہل جوتنے والوں کا ایک سا انجام ہو گا؟
دوسرے معنے اس آیت کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ تم خنثٰی ہو اور نر سے بھاگ رہے ہو مگر یہ انثٰی ہیں اور نر سے بھاگ نہیں رہے بلکہ اس سے تعلق پیدا کر رہے ہیں اب تم خود ہی سمجھ لو کہ تمہارے ہاں روحانی اولاد کس طرح پیدا ہو سکتی ہے؟ اولاد انہی دلہنوں کے ہاں پیدا ہوتی ہے جو دولہا کی طرف جاتی ہیں مگر جو دولہا سے بھاگ جائیں ان کے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی ۔ یہی حال محمد ﷺ اور آپ کے مخاطبین کا ہے ۔ محمد ﷺ کے صحابہؓ جانتے ہیں کہ ہم میں رجولیت والی طاقت نہیں بلکہ استفاضہ والی طاقت ہے اس لئے وہ اپنے روحانی دولہا کے پاس جاتے ہیں مگر تم میں وہ طاقت تو ہے نہیں کہ اپنے زور سے کوئی نتیجہ پیدا کر سکو ۔ صرف اللہ تعالی نے تم میں استفاضہ والی قوت رکھی ہے مگر تم میں اپنی شامتِ اعمال سے ایسی بیماری پیدا ہوچکی ہے کہ تم دولہا کو پہچانتی تک نہیں اور اس سے دور بھاگ رہی ہو ۔ تمہاری حالت لیل والی ہے اور ان کی نہار والی ۔ وہ انثٰی ہونے کے لحاظ سے وقت کے دولہا کی طرف جا رہے ہیں اور تم دولہا سے بھاگ رہے ہو اور جب تمہاری اور ان کی حالت میںاس قدر نمایا ں فرق ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا کہ تمہیںترقی حاصل ہو ، تمہارے ہاں بھی نورِ آسمانی کی پیدائش ہو اور تم بھی دنیا میں سر بلند ہو ؟روحانی ثمرات تو انہی سے پیدا ہوں گے تم سے نہیں ۔ اور آئندہ دنیا انہی دلہنوں سے آباد ہو گی جو دولہا کے ہاں جاتی ہیں ۔ ان سے آباد نہیں ہو سکتی جو دولہا کے قریب جانا پسند نہیں کرتیں ۔ تم مت خیال کرو کہ دنیا کی آئندہ ترقی میںتمہارا بھی کوئی حصہ ہو گا اب دنیا کی آبادی مسلمانوں کی وجہ سے ہو گی اور وہی قوم ترقی کرے گی جس پر دن چڑھا ہوا ہے اور جو قربانیوں سے کام لے رہی ہے ۔ تن آسانیوں کے لئے مرمٹنے والے وجود ان نعمتوں کو حاصل نہیں کر سکتے۔
اب اگلی آیت میں اللہ تعالی تاریکی اور روشنی کا فرق اور نسائیت کاملہ والی اور بانجھ کا فرق بتاتا ہے اور ایک مثال کے ذریعہ اس امر کو واضح کر تا ہے ۔
فَاَمَّا مَنْ عَعْٰی وَاتَّقٰی O لا وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی O لا فَسَنُیَسِّرُہ‘ لِلْیُسْرٰی O ط
پس جس نے (خد اکی راہ میں ) دیا اور تقویٰ (اختیار ) کیا ۔ اور نیک بات کی تصدیق کی اسے تو ہم ضرور آسانی (کے مواقع ) بہم پہنچا ئینگے ۔ ایت نمبر ۶
نمبر ۶ حل لغات ۔ یَسَّرَ الشَّیْ ئَ لِفُلَانٍ کے معنے ہوتے ہیںسَھَّلَہ‘ لَہ‘ ۔ اس کے لئے ا سامر کو آساں کر دیا (اقرب) پس نُیَسِّرُ کے معنے ہوں گے ۔ ہم آسان کر دیں گے ۔
تفسیر ۔ فرماتا ہے دن کی مثال اور نسائیت کاملہ والی قوم کی مثال اس شخص کی سی ہے جو (۱) اَعْطیٰ (۲) وَاتَّقٰی (۳) وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی کا مصداق ہو۔ یہاں ایک نہایت ہی لطیف مضمون بیان کیا گی ہے اَعْطٰی کے معنے ہوتے ہیں دوسرے کو دیا ۔ اور اِتَّقٰی کے معنے ہوتے ہیں پرہیز گاری اختیار کی ۔ پس اَعْطٰی میں عمل کی درستی کی طرف اشارہ ہے اور اِتَّقٰی میںجذبات کی درستی اور ان کی صحت کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی میںاچھی باتوں کی تصدیق کا ذکر ہے اور تصدیق کا تعلق انسانی فکر کے ساتھ ہوتا ہے پس عمل اور جذبات کی درستی کے ساتھ فکر کی درستی کا ذکر بھی شامل کر دیا اور اس طرح بتایا کہ ترقی کرنے والی قوم کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے عمل میں بھی صحت ہو، اس کے جذبات میں بھی صحت ہو اور اس کے افکار میںبھی صحت ہو ۔ اَعْطٰی میںعمل کی صحت کا ذکر ہے اِتَقٰی میںجذبات کی صحت کا ذکر ہے اور صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی میںافکار کی صحت کا ذکر ہے کیونکہ اَعْطٰی کے معنے ہوتے ہیں وہ دیتا ہے یعنی اس کا عمل صحیح ہے ۔ اِتَّقٰی کے معنے ہوتے ہیں وہ ہر بری بات سے ڈرتا ہے یعنی اس کے جذبات صحیح ہیں اور صَدَّقََ بِالْحُسْنٰی کے معنے ہیںوہ اچھی باتوں کی تصدیق کرتا ہے یعنی اس کے افکار صحیح ہیں ۔ یہاں تین اصلاحوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسانی تکمیل کے لئے یہ تینوںاصلاحیں ضروری ہیں۔ الفاظ مختصر ہیں مگر ان مختصر الفاظ میں علم النفس کا ایک نہایت اہم نکتہ بیان کیا گیا ہے اور بنی نوع انسان کے سامنے اس روشن حقیقت کو رکھا گیا ہے کہ عمل، جذبات اور فکر کی درستی سے ہی انسان پورے طور پر اچھا ہوتا ہے یعنی عمل صحیح ، احساس صحیح اور فکر صحیح۔ یہ تین کمالات جب تک کوئی قوم اپنے اندر پید انہیں کرلیتی وہ ترقی نہیںکر سکتی ۔ علم ِ کامل افکار کی درستی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، احساس ِ کامل جذبات کی درستی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور عمل ِ کامل اعمال کی درستی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ۔ یہ تین چیزیں ہیں جن سے کامیابی ہوتی ہے اگر علم ِ صحیح نہ ہو تو یہ لازمی بات ہے کہ اسکے جذبات بھی بگڑ جائیںگے اور ا س کا عمل بھی بگڑا ہوا ہو گا ۔ مثلاً پسا ہوا نمک اور میٹھا دونوں ہم شکل ہوتے ہیں اگر ہم کسی کو میٹھا دے دیں اور وہ اسے نمک سمجھ کر ہنڈیا میںڈال لے تو چونکہ اس کا علم صحیح نہیںہو گا نتیجہ بھی خراب ہی پیدا ہو گا ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ میٹھے کو نمک سمجھ کر ہنڈیا میں ڈال لے تو میٹھا نمک بن جائے ۔ غلط علم ہمیشہ غلط عمل اور غلط جذبات پیدا کیا کرتا ہے۔
بسا اوقات عورتیں آنکھ میں ڈالنے والی دوا یا مالش کرنے کی دوا بچوں کو غلطی سے پلا دیتی ہیں اور وہ ہلاک ہو جاتے ہیں یہ نہیں ہوتا کہ ان کے غلط علم کا کوئی غلط نتیجہ پیدا نہ ہو ۔ پس غلط علم غلط عمل اور غلط جذبات پیدا کرتا ہے ۔ فرض کرو کہ کسی شخص کا بچہ گم ہو جائے اور باوجود تلاش کے وہ اپنے ماں باپ کو نہ ملے لیکن ہو زندہ ، اور کسی نہ کسی طرح پل کر کسی اور شہر میںاپنا کاروبار شروع کر دے اور اتنا لمبا عرصہ اس علیحدگی پر گذر جائے کہ وہ اپنے باپ کی شکل تک بھول جائے اس کے بعد فرض کرو ایک دن اس کا باپ اسی شہر میں آجائے اور بوجہ غربت کے مزدوری شروع کر دے اور بیٹا مثلاً سفر پر جاتے ہوئے یا گھر بدلتے ہوئے یا سوداگھر پہنچانے کے لئے ایک مزدور کا محتاج ہو اور اس کی نظر اپنے باپ پر پڑے تو کیا اس کے دل میں محبت اور رقت کے جذبات پیدا ہو جائیں گے ؟ ہرگز نہیںبلکہ بوجہ غلط علم کے وہ اپنے باپ کو ایک مزدور کی شکل میں ہی دیکھے گا اور بے تکلفی سے کہہ دے گا او بڈھے ادھر آئو یہ سامان اٹھا کر فلاں جگہ تک لے چلو تم کو اتنے پیسے ملیںگے ۔ تو باوجود اس کے کہ حقیقت کے لحا ظ سے وہ جوان بیٹا ہو گا اور بڈھا اس کا باپ ہو گا لیکن چونکہ اسے علم نہیں ہو گا کہ یہ میرا باپ ہے بلکہ وہ اسے ایک مزدور سمجھ رہا ہو گا ۔ اس لئے اس کے دل میں کوئی جذبہ ہمدردی اپنے باپ کے متعلق پیدا نہیںہو گا وہ اس سے اسی طرح کام لے گا جس طرح ایک عام مزدورسے کام لیا جاتاہے پس غلط علم کے نتیجہ میں ہمیشہ غلط جذبات پیدا ہوتے ہیں اور غلط جذبات کے نتیجہ میںہمیشہ غلط عمل پیدا ہوتا ہے ۔ علم محرک ہے جذبات کا اور جذبات محرک ہیںعمل کے۔صحیح عمل تبھی پیدا ہو تا ہے جب جذبات اعلیٰ درجہ کے ہوں اور صحیح جذبات تبھی پیدا ہوتے ہیں جب علم اعلیٰ درجہ کا ہو ۔ صحیح جذبات کے بغیر اچھا عمل کبھی پیدا نہیں ہو سکتا ۔ ماں کی محبت کو دیکھ لو وہ کس طرح اپنے بچہ کے لئے مرتی چلی جاتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اگر کسی نوکر کو بیس گنا معاوضہ بھی دے دیا جائے تب بھی وہ کبھی اس طرح دن رات کام نہیں کر سکتا جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کے لئے تکلیف برداشت کرتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ نوکر جذبہ سے کام نہیں کرتا اس کاکام صرف فکر سے تعلق رکھتا ہے جذبات غائب ہوتے ہیں ۔ تو صحیح عمل کے لئے صحیح جذبات کی ضرورت ہوتی ہے اور صحیح جذبات کے لئے صحیح علم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مگر جب یہ تینوں چیزیںاکٹھی ہو جائیں تو پھر تو وہ قوم یا فرد جوان تینوں خوبیوں کو اپنے اندر پید ا کر لیتا ہے اپنی ذات میں کامل ہو جاتا ہے ۔ اَعْطٰی میں اللہ تعالی نے اعمال کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ روپیہ جمع نہیں کرتے ۔ اِتَّقٰی میں جذبات کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ بری باتوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے ۔ پہلی سورتوں میں یہ ذکر کیا تھا کہ کفار کی یہ عادت ہے کہ وہ روپیہ قومی ضروریات کے لئے خرچ نہیں کرتے بلکہ لغو باتوں میںاس کو ضائع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے ۔ یَقُوْلُ اَھْلَکْتُ مَا لًا لُّبَدًا (البلد ) وہ کہتا ہے میںنے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کی تردید کی تھی اور بتایا تھا کہ بے شک تم نے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا مگر قومی ضروریا ت کے لئے نہیں ، یتامیٰ اور مساکین کی خبر گیری کے لئے نہیں، غرباء کی ترقی کے لئے نہیں بلکہ اپنی عزت اور اپنے نام و نمود کے لئے۔ اس لئے تمہارا وہ مال خرچ کرنا مال کو برباد کرنا تھا ۔ گویا خرچ تو اس نے بھی کیا تھا مگر غلط طریق پر ۔ اسی طرح فرماتا تھا ۔ وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاکَ اَکْلًا لَّمًّا (الفجر ) تم اپنے باپ دادا کی جائیدادوں کو تباہ کر دیتے ہو ۔ غرض پہلی سورتوں میں بتایا ہے کہ کفار اپنا مال خرچ تو کرتے ہیں مگر صحیح مقامات پر خرچ نہیںکرتے اسراف میں اس کو ضائع کر دیتے ہیں اور جہاں خرچ کرنا ضروری ہوتا ہے وہاں بخل اور امساک سے کام لیتے ہیں۔ اب یہ بتا تا ہے کہ مومن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اَعْطٰی وہ دیتا ہے یعنی قومی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اور جب بھی کسی قربانی کی ضرورت ہو وہ فوراً اس کے لئے تیا ر ہو جاتا ہے ۔
یہاں یہ ایک نقطہ یاد رکھنے والا ہے کہ اللہ تعالی نے اَعْطَی الْمَالَ نہیں فرمایا بلکہ صرف اَعْطٰی کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ درحقیقت یہ عربی زبان کا کمال ہے جو کسی اور زبان کو حاصل نہیں کہ کسی جگہ مفعول حذف کر کے اور کسی جگہ الفاظ کو اضافتوں سے آزاد کر کے معانی میں وسعت پیدا کر دی جاتی ہے ۔ اگر اَعْطَی اَلْمَالَ فرماتا تو اس کے معنے صرف مال خرچ کرنے کے ہوتے مگر اب چونکہ صرف اَعْطٰی فرمایا ہے اس لئے اس کے معنے اَعْطَی اَلْمَالَ کے بھی ہو سکتے ہیںاَعْطَی اَلْعِلْمَ کے بھی ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح ہر ایسی چیز کے بھی ہو سکتے ہیں جو کسی کو دی جاسکتی ہے ۔ یہ ایسی ہے بات ہے جیسے قرآن کریم میںدوسرے مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے مِمَّا رَزَقْنَا ھُمْ یُنْفقُوْنَ ۔ (البقرہ ) ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے اس کا ایک حصہ وہ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرتے ہیں ۔ یہاں بھی اللہ تعالی نے عام رنگ میںانفاق کا ذکر کر کے اس کے معنوں کو وسیع کر دیا یعنی اس کے پاس مال ہو تو وہ مال تو خرچ کرتا ہے ، علم ہو تو علم خرچ کرتا ہے ، وقت ہو تو وقت خرچ کرتا ہے غرض جو کچھ اللہ تعالی نے اسے عطا کیا ہو وہ اسے لوگوں کی بھلائی کے لئے خرچ کرتا رہتا ہے ۔ اسی طرح اَعْطٰی میںاللہ تعالی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کیا دیتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ساری چیزیں جو ا س کو حاصل ہوں لوگوں کے لئے خرچ کرتا ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کو طاقت دی ہو تو وہ طاقت دیتا ہے ، وقت دیا ہو تو وقت دیتا ہے ۔ ہمارے ملک میں بھی وقت کے لئے دینے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، اسی طرح مال دیا ہو تو مال دیتا ہے ، اعلیٰ درجہ کے قویٰ عطا کئے ہوں تو ان سے ایسا کام لیتا ہے جو بنی نوع انسا ن کو فائدہ پہنچانے والا ہو ۔ غرض اَعْطٰی کہہ کر اللہ تعالی نے اس کے معنوں کو وسیع کر دیا ہے۔ پھر وَاتَّقٰی میںیہ بتایا کہ وہ جو کچھ کرتا ہے تقویٰ کے ماتحت کرتا ہے اور ڈرتا ہے کہ مَیںغلطی سے کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھوں جس سے لوگوں کو فائدہ کی بجائے نقصان پہنچ جائے ۔ اگر کوئی شخص کسی کو اتنا روپیہ دے دیتا ہے کہ وہ اسے عیاشی میںضائع کرنا شروع کر دیتاہے تو یہ اس روپیہ کا بالکل غلط استعمال ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ظالم کو طاقت پہنچادیتا ہے تویہ بھی اس قوت کا برمحل استعمال نہیںہو گا۔ اسی طرح اَعْطٰی کے ساتھ اللہ تعالی نے وَاتَّقٰی کے الفاظ کا اضافہ کیا اور بتایا کہ وہ دیتا تو ہے مگر ساتھ ہی ڈرتا ہے کہ میں کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھوں جس سے دنیا کی علمی یا عملی یا سیاسی یا عائلی حالت کو کوئی نقصان پہنچ جائے اور میں ثواب کی بجائے اللہ تعالی کی ناراضگی کا مورد بن جائوں۔
وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی میں یہ بتایا کہ وہ صرف اسی پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ وہ افکار کی درستی میں بھی لگا رہتا ہے ۔ صحیح عقائد اختیار کرنے کی جدوجہد کرتاہے اور کوشش کرتا ہے کہ بہتر سے بہتر عقیدہ کی تصدیق کرے ۔ گویا َصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیکہہ کر یہ بتایا کہ وہ علم کی زیادتی کی کوشش کرتا رہتا ہے حُسْنٰی کے معنے صرف اچھی چیز کے نہیں بلکہ نہایت اعلی درجہ کی چیز کے ہیں اور معنے یہ ہیں کہ وہ احسن سے احسن چیز کی تصدیق کرتا ہے یعنی اپنے علم کو کمال تک پہنچا دیتا ہے ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو ترتیب اوپر بتائی گئی ہے اس میں علم کو محرک جذبات بتایا گیا ہے اور جذبات کو محرک عمل قرا ردیا گیا ہے مگر یہاں عمل پہلے ہے جذبات کا ذکر بعد میں ہے اور فکر کا اس کے بعد میں ۔ گویا ترتیب بالکل الٹ ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ ترتیب اللہ تعالی نے درجہ کی بلندی کے اظہار کے لئے الٹ دی ہے چونکہ یہاں قومی مقابلے کا ذکر تھا جس میںعمل نمایا ں نظر آتا ہے اس لئے اسے پہلے ،اس کے محرک کو اس کے بعد اور اس کے محرک کو اس کے بعد رکھا گیا ہے ورنہ پیدائش کے لحاظ سے علم پہلے ہے جذبات دوسرے درجہ پر اور عمل تیسرے درجہ پر ۔ لیکن قومی مقابلہ میں جذبات اور علم دونوں چھپے ہوئے ہوتے ہیں ۔ صرف عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جو دوسروں کے سامنے آتی ہے ۔ یہاں چونکہ کفار اور مسلمانوں کا مقابلہ کیا گیا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں تمہارا اپنی کامیابی کے متعلق ادّعا بالکل لغو ہے ۔ جو خوبیاں مسلمانوں میںپائی جاتی ہیں وہ تم میں موجود ہی نہیں اس لئے یہ لازمی بات ہے کہ مسلمان کامیاب ہوں اور تم ان کے مقابلہ میںشکست کھائواس لئے یہاں عمل کا پہلے ذکر کیا گیا ہے ۔ اگر جذبات اور افکار کو پہلے پیش کیا جاتا تو وہ ان کی اہمیت کو تسلیم نہیں کر سکتے تھے مثلاً اگر یہ کہا جاتا کہ صحابہ ؓ کا علم تمہارے علم سے بہتر ہے تو وہ کہتے کہ یہ بالکل غلط ہے ہمارا علم ان سے ہزار درجہ بہتر ہے لیکن جب یہ کہا جاتا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو غریبوں کی خدمت کرتے ہیں اور تم وہ ہو جو غریبوں کے لئے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتے تو اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیںتھا پس چونکہ یہاں کفر کا مقابلہ تھا اس لئے اس مقابلہ کی اہمیت کے لحاظ سے عمل کا پہلے ذکر کیا گیا ہے ورنہ جہاں تک محرکات کا سوال ہے علم پہلے ہے جذبات بعدمیں اور عمل اس کے بعد ہے ۔ مگر جہاں تک برے اور بھلے کے مقابلہ کا سوال ہے سب سے پہلے لوگوں کے سامنے عمل آتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے وہ آسانی کے ساتھ اپنا اور مسلمانوں کا مقابلہ کر سکتے تھے اس غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالی نے یہاں ترتیب الٹ دی ہے ۔ عمل کا پہلے ذکر کیا ہے اور جذبات اور افکار کا بعد میں۔ کیونکہ کفار کو عمل کے ذکر سے ہی جھوٹا کیا جاسکتا تھا جذبات اور علم کے متعلق وہ سو سو حجتیں کر سکتے تھے۔
اس کے بعد فرماتا ہے جو شخص ان صفات کا حامل ہوفَسَنُیَسِّرُہ‘ لِلْیُسْرٰی ۔ ہم ایسے آدمی کو ضرور یُسْرٰی مہیا کر دیں گے ۔ اس جملہ کے دو معنے ہیں ایک تو یہ کہ اسے ایسے حالا ت میسر آجائیںگے جن سے وہ آسانی کے ساتھ غالب آسکے ۔ آسانی میسر آجانے کے یہی معنے ہواکرتے ہیں کہ افعال کے نتائج انسانی ارادوں کے مطابق نکلنے شروع ہو جائیںاور جب کسی کو اس کے ارادوں کے مطابق سامان میسر آجائیںتو اسے آسانی ہو جاتی ہے پس اس کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ ہم اس کے ہر کام میں آسانی پیدا کر دیں گے ۔ دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ہم رفتہ رفتہ اس پر نیک عمل کو آسا ن کر دیں گے یعنی عمل صالح پہلے بڑا گراں گزرتا تھا جب کسی سے کہا جاتا ہے کہ تم اپنے اعمال کو بھی درست کرو ، اپنے جذبات کو بھی درست کرو، اپنے افکارکو بھی درست کرو تو وہ گھبرا جاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ تو بڑا مشکل ہے مجھ سے یہ کام نہیں ہو سکے گا۔ مگر فرماتا ہے جب کوئی شخص اس راستہ پر چل پڑے اور ہمت کے ساتھ ان افعال کی بجا آوری میںمشغول ہو جائے تو ہمار ی سنت یہ ہے کہ ہم ان کاموں کی سرانجام دہی اس کے لئے آسان کر دیتے ہیں ۔ پھر ا س کی طبیعت پر کوئی بوجھ نہیں رہتا بلکہ وہ دلی خوشی اور بشاشت کے ساتھ ان کو بجا لاتا ہے ۔ پہلے دن جب کسی کو نماز پڑھنے کے لئے کہا جائے تو اسے بڑی مشکل نظر آتی ہے مگر رفتہ رفتہ اسے ایسی عادت ہو جاتی ہے کہ کسی ایک نماز کو چھوڑنا بھی اسے موت سے بدتر معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن ابتدائً انسان کے سامنے جب کوئی اہم عمل ِ صالح آتا ہے وہ گھبرا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا بجا لانا مشکل ہو گا مگر اللہ تعالی فرماتا ہے فَسَنُیَسِّرُہ‘ لِلْیُسْرٰی حقیقت یہ ہے کہ اصل میں آسان عمل ِ صالح ہے اور مشکل چیز برائی ہے ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُراٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر ۱ : ۸) ہم نے قرآن کو ہدایت کے لئے بالکل آسان بنا دیا ہے کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں جو اس نسخہ کو استعمال کرے اور اپنے رب کو راضی کر لے۔ اصل یُسْرٰی خدائی تعلیم ہے جس سے انسان کی روح کوترقی حاصل ہوتی ہے مگر پہلے عُسْرٰی نظر آتی ہے اور انسان اس پر عمل کرنے سے گھبراتا ہے اس لئے فرمایا کہ صحابہ کرام جو محمد رسول اللہﷺ کی قوت روحانیہ سے استفاضہ حاصل کریںگے ہم ان کے لئے بظاہر مشکل نظر آنے والے اعمال ِ صالحہ کو آسان کر دیں گے اور ان کی طبائع میں ان اعمال کی طرف خاص رغبت پیدا ہو جائے گی ۔ کیونکہ جو شخص علم صحیح اور جذبات صحیح اور عمل صحیح سے کام لیتا ہے اس کی نظر کی غلطی کو درست کر دیا جا تا ہے اس وجہ سے اسے ان کاموں میںلذت اور سرور محسوس ہونے لگتا ہے جو دوسروں کو مشکل نظر آتے ہیں۔
وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی O وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی O فَسَنُیَسِّرُہ‘ لِلْعُسْرٰی O
اور ایسا( شخص )جس نے بخل سے کام لیا اور بے پرواہی کا اظہار کیا اور نیک بات کو جھٹلایا اسے ہم تکلیف (کا سامان ) بہم پہنچائیں گے نمبر ۷
نمبر ۷ تفسیر ۔ پہلی آیات کے بالمقابل ان آیات میں بھی تین باتیں بیان کی گئی ہیں۔ بَخِلَ ، اَعْطیٰ کے مقابلہ میں رکھا گیا ہے اور اِسْتَغْنیٰ ، اِتَّقٰی کے مقابلہ میں ۔ کیونکہ اِتَّقٰی کے معنے ہیں خدا تعالی سے ڈرنا کہ وہ کسی غلطی کی وجہ سے مجھ سے خفا نہ ہو جائے اور اِسْتَغْنٰی کے معنے ہیں بے پرواہ ہو جانا یعنی انسان کا یہ کہنا کہ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ خدا مجھ سے خفا ہوتا ہے یا نہیں۔ چونکہ اس قسم کا استغناء تقویٰ کے خلاف ہوتا ہے اس لئے اِتَّقٰی کے مقابلہ میں اِسْتَغْنٰے کا لفظ رکھا گیا ہے ۔ تیسری بات مسلمانوں کے متعلق یہ بیان کی گئی تھی کہ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی ۔ اس کے مقابلہ میں کفار کی نسبت کَذَّبَ بِالْحُسْنٰی کا ذکر کر دیا کہ وہ اچھی باتوں کا انکار کرتے ہیں ۔ غرض یہ تینوں باتیں پہلی تین چیزوں کے مقابل میں رکھی گئی ہیں۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ وہ شخص جو بخل کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے مال دیا ہے ، عزت دی ہے ، طاقت دی ہے ، وقت دیا ہے مگر وہ ان میں سے کسی چیز کو بھی خدا تعالی کی راہ میں خرچ نہیں کرتا اور پھر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مجھے کسی کی پرواہ نہیں میرا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے ۔ یہ الفاظ عام طور پر گندی طبیعت کے لوگ استعمال کیا کرتے ہیں جب انہیںکسی برائی سے روکا جائے تو وہ کہتے ہیں ہمیں کسی کی پرواہ نہیں ،کوئی شخص ہمار اکیا بگاڑ لے گا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے جو شخص بخل کے ساتھ یہ گند بھی اپنی طبیعت میں رکھتا ہے وَکَذَّبَ بالْحُسْنٰی اور پھر اس کا فکر بھی غلط ہے وہ دنیا میںکیا ترقی کر سکتا ہے ۔ طبیعت میں استغناء کا ہونا بتاتا ہے کہ صحیح جذبات مفقود ہیں کیونکہ جذبات ِ صحیحہ محبت پیدا کیا کرتے ہیں استغناء پیدا نہیں کیا کرتے ۔ بچہ مرنے لگتا ہے تو ماں نہیں کہتی بے شک مرے مجھے اس کی پرواہ نہیںلیکن نوکر بعض دفعہ یہ الفاظ کہہ دیتا ہے کیونکہ اس کے جذبات اور رنگ کے ہوتے ہیں ۔ بہرحال صحیح جذبات کا نہ ہونا استغناء پیدا کرتا ہے ، صحیح عمل کا نہ ہونا بخل پیدا کرتا ہے اور صحیح فکر کا نہ ہونا تکذیب پیدا کرتا ہے ۔ جس طرح پہلی آیات میں یہ بتاتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں غلط علم ، غلط جذبات اور غلط فکر پایا جاتاہے اور چونکہ یہ دونوںمثالیںمسلمانوں اور کفار کی ہیں اس لئے اللہ تعالی ان امور کا ذکر کرتے ہوئے کفار کو بتاتا ہے کہ تم میںجب یہ یہ نقائص پائے جاتے ہیںاور مسلمانوں میں اس کے مقابلہ میں بہت بڑی خوبیاں پائی جاتی ہیںتو تم ان کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہو؟ ان کے کاموں کا نتیجہ تو یہ ہوگا کہ ہم ان کے لئے یُسْرٰی مہیا کر دیںگے مگر تمہارے کاموں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم تمہارے لئے عُسْرٰی مہیا کر دیںگے ۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے سارے کام بگڑتے چلے جائیںگے جس کام کو بھی ہاتھ لگائو گے خراب ہو جائے گا ۔ اور یا پھر یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ان اعمال کے نتیجہ میںتمہارے لئے نیکی کا حصول زیادہ سے زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ اصل کام اعمال ِ صالح ہی ہیں ان اعمال سے انسان جتنا دور ہوتا چلا جاتا ہے اتنا ہی نیکی کی طرف لوٹنا اس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے گویا دو باتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ نیکی کا حصول مشکل ہو جائے گادوسرے یہ کہ تم جو کام بھی کرو گے اسی کا نتیجہ الٹ ہو گا کیونکہ تمہارے عمل میں خرابی پیدا ہو چکی ہے ، تمہارے اندر بے پرواہی ہے جو جذبات کے فقدان اور ان کی خرابی کی دلیل ہے اور پھر تمہارے اندر تکذیب پائی جاتی ہے جو ذہن و فکر کی نادرستی اور غلط علم کا ثبوت ہے ۔ یہ ساری باتیں مل کر تمہاری ہلاکت اور بربادی کا موجب بن جائیں گی۔
وَمَا یُغْنِیْ عَنْہُ مَا لُہ‘ اِذَاتَرَدّٰیOط
اور جب وہ ہلاک ہو گا تو اس کا مال اسے کوئی فائدہ نہ پہنچائے گا۔ آیت نمبر ۸
نمبر ۸ حل لغات تَرَدّٰی فِی الْھُوَّۃ کے معنے ہیں سَقَطَ فِیْھَا ۔وہ گڑھے میں گر گیا(اقرب) مفردات میں ہے کہ اَلتَّرَدِّیْ کے معنے ہیں التَّعَرُّضُ لِلْھَلَا کِ اپنے آپ کو ہلاکت کے لئے پیش کرنا (مفردات) پس تَرَدّٰی کے معنے ہوں گے۔ گر گیا (۲) ہلاکت کے سامنے ہوا۔
تفسیر ۔ فرماتاہے جب مذکورہ بالا صفات والا گروہ ہلاک ہونے کے قریب پہنچے گا یا اپنے مقام سے گر جائے گا تو اسے اس کا مال کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا ۔ جب تک عزت حاصل ہے وہ بے شک فخر کر لے لیکن جب تنزل کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہلاکت قریب آگئی اس وقت کوئی چیز اس کے کام نہیں آئے گی ۔ اس وقت وہ اچھے کام بھی کریگا تو ان کا کوئی نتیجہ پید انہیں ہو گا کیونکہ عذاب کی ساعت سر پر کھڑی ہو گی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک خدا تعالی کی طرف سے ہلاکت کا فیصلہ نہ ہو اس وقت تک مال ، دولت اور عزت پر چیز انسان کے کام آجاتی ہے لیکن جب تباہی کا فیصلہ ہو جائے تو پھر کوئی چیز کام نہیںآتی ۔ انسان مال خرچ کرتاہے تو الٹا نتیجہ پیدا ہوتا ہے ، رحم کرتا ہے تو الٹا نتیجہ پیدا ہوتا ہے ۔ نہ دولت کام آتی ہے نہ عزت کام آتی ہے نہ نرمی اور محبت کام آتی ہے ۔ پہلے اگر وہ صدقہ کرتا ہے تو لوگ اس کی قدر کرتے ہیں مگر پھر وہ صدقہ کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں اب ہمیںرشوت دے رہا ہے ۔ پہلے نرمی کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں حسن ِ اخلاق سے کام لے رہا ہے پھر اس وقت نرمی کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ ہماری منتیں کر رہا ہے ۔ گویا سارے حالات ا س کے مخالف ہو جاتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں رہتی جو ا سکو فائدہ پہنچا سکے۔
غرض فرمایا وَمَا یُغْنِیْ عَنْہُ مَا لُہ‘ اِذَاتَرَدّٰی ۔ جب اس کی ہلاکت کا وقت آجائے گا تو اس وقت وہ وہی کام کرے گا جو ہم اب اسے کرنے کو کہتے ہیںمگر یہ نہیں کرتا ۔ لیکن اس وقت ان کاموں کا الٹا نتیجہ پیدا ہو گا مال دے گا تو لوگ کہیں گے ہمیں رشوت دیتا ہے ۔ نرمی سے بولے گا تو لوگ کہیںگے ہماری خوشامد کرتا ہے ۔
ایت نمبر ۹ ، ۱۰
اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی O وَ اِنَّ لَنَا لَلْاٰخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی O
ہدایت دینا یقینا ہمار ے ہی ذمہ ہے ۔ اور ہر بات کی انتہا اور ابتداء بھی یقینا ہمارے ہی اختیار میں ہے ۔ ۹ ، ۱۰
نمبر ۹ تفسیر ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دوسروںکو فائدہ پہنچانا ، تقوی اللہ اختیار کرنا اور اچھی باتوں کی تصدیق کرنا یہ ان اعمال میں سے ہیں جو قوموں کو ترقی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور بخل سے کام لینا ، استغنٰی ظاہر کرنا اور سچی باتوں کی تکذیب میں حصہ لینا یہ ان اعمال میںسے ہیںجو قوموں کو ہلاکت کے گڑھے میںگرا دیتے ہیںمگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریک رات کے مارے ہوئے لوگوں کو خدا تعالی ہی ہدایت دے سکتا ہے ۔ اِنَّ عَلَیْنَا کے معنے ہیں ۔ ہم پر واجب ہے یا ہمارا ہی یہ کام ہے یعنی بنی نوع انسان سے بوجہ حقیقی شفقت اور مہربانی رکھنے کے یہ ہمارا ہی کام ہے کہ ہم ان کو ہدایت دیں انسان کا کام نہیں کہ وہ اپنے لئے آپ ہدایت تجویز کر لے کیونکہ بسا اوقات انسان اپنے نفس کے متعلق ایک فیصلہ کر تا ہے اور وہ غلط ہوتا ہے۔ بخیل اپنے متعلق فیصلہ کرتا ہے اور وہ غلط ہوتا ہے ۔ ظالم اپنے متعلق فیصلہ کرتاہے اور وہ غلط ہوتا ہے ۔ جاہل اپنے متعلق ایک فیصلہ کرتا ہے اور وہ غلط ہوتا ہے ۔ پس خواہ وہ اپنے متعلق خود ہی کوئی فیصلہ کر لیتے پھر بھی وہ اپنے نفس کے اتنے خیر خواہ نہیں ہو سکتے جتنے ہم ان کے خیر خواہ ہیں ۔ اس لئے باوجود اس کے کہ وہ انکار کرتے ہیں ، مخالفتیں کرتے ہیں ، گالیاں دیتے ہیں ، مومنوں کو تکالیف پہنچاتے ہیںپھر بھی ہم ان کو ہدایت دیتے چلے جاتے ہیںکیونکہ ہم انسان کو پید اکرنے والے ہیں ، ہم مشفق اور مہربان ہیں ، ہم رحمن اور رحیم ہیں، ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہیںاور باوجود ان کے انکار کے انہیں ہدایت دیتے چلے جاتے ہیں۔
نمبر ۱۰ تفسیر ۔ اس آیت میں اللہ تعالی کفار کو بتاتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ تمہاری راہ میں وہ کونسی مشکلات ہیں جن کی بناء پر تم سچائی کو قبول نہیں کرتے۔ تمہارے لئے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ تم دنیا چھوڑنے کے لئے تیار نہیںہو۔ تم دیکھتے ہو کہ مسلمان اپنے مال کی پرواہ نہیں کرتے ۔ جب بھی کوئی قومی اور ملی ضرورت پیش آتی ہے وہ اپنے اموال کو بلا دریغ قربان کر دیتے ہیں مگر تم اپنے اموال کو سنبھال سنبھال کر رکھتے ہو اسی لئے تم مسلمانوں کے متعلق کہتے ہو کہ وہ پاگل ہیں تباہ اور برباد ہو جائیں گے کیونکہ وہ اپنے اموال کو ضائع کر رہے ہیں۔ لیکن ہم تباہ نہیں ہو سکتے کیونکہ ہم اپنے مال کو حفاظت سے رکھتے ہیں ۔ فرماتا ہے یہ خیال ہے جو تمہار ے دلوں میںپایا جاتا ہے مگر تمہیں اس حقیقت کا علم نہیں کہ ہمارے پاس ہی آخرت ہے اور ہمارے پاس ہی دنیا ہے ۔ تم دنیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہیںدنیا بھی نہیںملے گی اوردین بھی تمہارے ہاتھ سے چلا جائے گا کیونکہ دنیا بھی ہمارے پاس ہے اور آخرت بھی ہمارے پاس ہے اس کے مقابلہ میںیہ مسلمان دنیا کو چھوڑ رہے ہیں مگر ہم انہیں آخرت بھی دیں گے اور دنیا بھی دیں گے ۔ تم سمجھ رہے ہو کہ یہ اپنا نقصان کر رہے ہیں مگر یہ نقصان نہیںکر رہے جب یہ ہمارے پاس پہنچیںگے تو جس چیز کو چھوڑ کر یہ لوگ چلے تھے وہ وہیں کھڑی ہو گی اور یہ اس کو حاصل کر لیں گے ۔ تم جانتے ہو کہ یہ لوگ ہمارے پاس آرہے ہیں جب یہ ہمارے پا س آرہے ہیں تو گو اس نیت اور ارادہ سے آرہے ہیں کہ ہمیںآخرت ملے گی مگر چونکہ دنیا بھی ہمارے پا س ہو گی اس لئے وہ بھی ان کو مل جائے گی اور تم لوگ آخرت چھوڑ کر دنیا کے پاس جا رہے ہو اور چونکہ دنیا ہمارے پاس ہے اور تم ہماری طرف نہیں آرہے اس لئے تمہاری جد وجہد کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا بھی تمہارے ہاتھ سے جائے گی اور آخرت کی نعمتوں سے بھی تم محروم ہو جائو گے ۔ گویا کفار کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کسی شخص کے پاس بہت سا مال و اسباب تھا اور وہ اکیلا سفر کررہا تھا ایک چور نے اسے دیکھا تو اس نے ارادہ کیا کہ میں کسی طرح اس کا مال اڑائوں آخر سوچنے کے بعد اس نے یہ تجویز نکالی کہ ایک نیا اور اعلیٰ جوتا رستہ میں پھینک دیا اور خود ایک طرف چھپ گیا ۔ جب وہ شخص جوتے کے پاس پہنچا تو اسے بڑا پسند آیا اور اس نے اسے اٹھا لیا مگر پھر خیال آیا کہ میں نے ایک جوتا کیا کرنا ہے اگر دوسرا جوتا بھی ساتھ ہوتا تو کام بھی آتا صرف ایک جوتا کیا کام دے سکتا ہے چنانچہ وہ اسے وہیں چھوڑ کر آگے چل پڑا ۔ کچھ دور آگے جا کر چور نے دوسرا جوتا پھینکا ہوا تھا جب وہ وہاں پہنچا تو اسے اپنی بے وقوفی پر افسوس آیا او ر اس نے کہا کہ مجھ سے کیسی سخت غلطی ہوئی کہ میں وہ جوتا اسی جگہ چھوڑ آیا اگر میںچھوڑ کرنہ آتا تو مکمل جوتا بن جاتا ۔ اس خیال کے آنے پر اس نے اسباب وہیں رکھا اور جوتا لینے کے لئے واپس چل پڑا ۔ چور کو موقع مل گیا اور اس نے اسباب بھی اٹھا لیا اور جوتا بھی ۔ جب وہ واپس گیا تو دیکھا کہ وہاں جوتا نہیںکیونکہ وہ جوتا چور اٹھا کر لے آیا تھا ۔ اب یہ پھر خالی ہاتھ اپنے اسباب کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہاںاسباب بھی نہیں اور جوتا بھی غائب ہے۔
یہی کافر کی حالت ہوتی ہے وہ آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی طرف جاتا ہے لیکن آخرت تو اس کے ہاتھ سے نکل ہی چکی تھی دنیا بھی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے کیونکہ دنیا خدا تعالی کے پاس ہوتی ہے اور وہ اس راستہ پر چل رہا ہوتا ہے جو شیطان کی طرف جاتا ہے ۔ ادھر مومن کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو چھوڑ کرآخرت کی طرف جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے دنیا کی ضرورت نہیں مجھے صرف آخرت کی ضرورت ہے ۔ مگر جب خد اتعالی کے پاس پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ دنیا اس کے پیچھے پیچھے چلی آرہی تھی اور وہ آخرت کے ساتھ کھڑی ہے ۔ اب جب کافر دنیا کے پا س جاتا ہے تو وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا نہ آخرت ہوتی ہے نہ دنیا ہوتی ہے پس فرماتا ہے وہ ہمارے پاس آئے تو اخرت کی تلاش میں تھے مگر جب وہ ہمارے پاس پہنچے تو انہوں نے اولیٰ کو بھی وہیں کھڑے پایا۔
نمبر ۱۱ حل لغات ۔ تَلَظّٰی اصل میں تَتَلَظّٰی ہے مگر تاء گر گئی ہے اور تَلَظّٰتِ النّٰارُ کے معنی ہیںتَلَھَّبَتْ۔ آگ بھڑک اٹھی (اقرب)
تفسیر۔ کَذَّبَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ صحیح اعتقاد نہیں رکھتا اور تَوَلّٰی میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ صحیح جذبات اور صحیح عمل سے کام نہیںلیتا تھا۔ پس چونکہ فکری ، جذباتی اور عملی تینوں خرابیاں اس میں پائی جاتی تھیںاس لئے اس کا انجام اچھا نہ ہوا ۔ کَذَّبَ کا لفظ اعتقادی خرابیوں کے لئے آیا ہے اور تَوَلّٰی کا لفظ جذبات اور اعمال کی خرابی پر دلالت کرتا ہے ۔
نمبر ۱۲ تفسیر ۔ وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقٰی سے یہ مراد نہیںکہ صرف ایسا شخص ہی دوزخ کی آگ سے بچایا جائے گا جو بہت متقی ہو۔ معمولی درجہ کا مومن نہیں بچایا جائے گا ۔ کیونکہ یہاں تقویٰ کا تقویٰ سے مقابلہ نہیں بلکہ تقویٰ اور کفر کا مقابلہ ہے ۔ پس اس آیت کے یہ معنے نہیں کہ متقیوں میںسے زیادہ نیک بچایا جائے گا بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ تم بھی اپنے متعلق کہتے ہو کہ ہم میں تقویٰ پایا جاتا ہے اور مومن بھی اپنے متعلق کہتے ہیں کہ ہم میں تقویٰ پایا جاتا ہے اب ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ان کا تقویٰ صحیح ہے لیکن تمہارا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ تم میں تقویٰ پایا جاتا ہے گویا یہاں مومنوں کے تقویٰ کا کفار کے خیالی تقویٰ سے مقابلہ کیا گیا ہے ورنہ یہ معنے نہیں کہ سب سے اعلیٰ متقی تو بہشت میں جائے گا اور ادنیٰ درجہ کا مومن اور متقی بہشت سے محروم رہینگے ۔ ایسے معنے کرنے قرآن کریم کی ان آیات کے بالکل خلاف ہیں جن میں اللہ تعالی نے صاف طور پر یہ فرمایا ہے کہ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہ‘ (الزلزال) جو شخص ایک ذرہ

نمبر ۱۱ تفسیر ۔ اس آیت میں اللہ تعالی اَتْقٰی کی تشریح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ کون سے فرماتا ہے اَتْقٰی وہ ہے جو اپنا مال اس نیت اور ارادہ سے دیتا ہے کہ میں پاک ہو جائوں ۔ یُوْتِیْ …… ۔ کہ وہ اپنا مال دیتا ہے ایسی حالت میں کہ وہ پاک ہونا چاہتا ہے ۔ دوسری بات اس میںیہ ہوتی ہے کہ وَمَا …… کسی شخص کا اس پر کوئی احسان نہیں ہوتا کسی کی نعمت میں سے کوئی نعمت اس کے پاس نہیں ہوتی یعنی کسی کا سابق احسان اس پر نہیں ہوتا جس کا وہ بدلہ دے رہا ہو ۔ اس کے اعمال کی یہ غرض نہیں ہوتی کہ میں کسی کا احسان اتاروں بلکہ وہ ایسے اعمال کرتا ہے جن سے اس کا دوسروں پر احسان ہوجاتا ہے گویا وہ یہ تو چاہتا ہے کہ اس کا کسی نہ کسی رنگ میںدوسروں پر احسان ہو مگر وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس پر کسی کا احسان ہو ۔
نمبر ۱۲ حل لغات ۔ اَلْوَجْہُ کے معنے ہیں اَلْمَرْضَا ۃُ ۔ رضا مندی (اقرب)
تفسیر ۔ مومن کہ علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اموال اس رنگ میں خرچ کرتا ہے کہ اس پر کسی کا احسان نہیں ہوتا جس کا وہ بدلہ اتار رہا ہو بلکہ بغیر اس کے کہ اس پر کسی کا سابق احسان ہو وہ اپنے رب کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے صدقہ و خیرات کرتا یا بنی نوع انسان کی امداد کے لئے اپنا روپیہ صرف کرتا ہے ۔ یہاں رب کی صفت اعلیٰ بیان فرمائی ہے جو سب سے بڑا ہے اس سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بیشک انسانوں پر دوسرے انسانوں کے بھی احسان ہوتے ہیں لیکن چونکہ اصل محسن اللہ تعالی ہے اور سب سے زیادہ وہی مربیّ ہے اس لئے مومن اس کی رضا کو سب دوسرے محسنوں کی رضاء پر مقدم کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالی کی خوشنودی کے لئے کام کیا تو چونکہ سب احسانوں کا منبع وہ ہے اس لئے سارے ہی محسنوں کا بدلہ بھی اتر گیا ۔
نمبر ۱۳ تفسیر ۔ فرماتا ہے جب ایک شخص اپنے اموال خرچ کرتا ہے اور اس کے مدنظر محض خدا تعالی کی رضامندی ہوتی ہے یہ غرض نہیں ہوتی کہ وہ کسی سابق احسان کا بدلہ اتارے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ تو میری رضاء کے لئے اس قدر جدوجہد کرے اور میں اس سے راضی نہ ہوں ۔ جب وہ خد اکی رضاء کے لئے ایسا کر رہا ہے تو یقینا خدا بھی اس سے راضی ہو جائے گا۔ جب ایک کمزور اور ناتواں بندہ دنیا سے اپنی توجہات ہٹا کر محض خدا تعالی کی رضاء کے لئے اپنے اموال کو قربان کر رہا ہو تو خدا تعالی کی شان سے یہ بالکل بعید ہوتا ہے کہ وہ اسے اپنی رضاء کی خلعت ِ فاخرہ نہ پہنائے اور اسے اپنے پیاروں میںشامل نہ کر لے ایسا شخص یقینا اپنے مقصد کو حاصل کر لیتا اور خدا تعالی کی رضا ء کا ایک دن وارث ہو جاتا ہے کیونکہ وہ دنیا کے طریق اور اس کے معمول کے خلاف اپنی قربانی کا لوگوں سے کوئی معاوضہ طلب نہیںکرتا ۔ دنیا میں لوگ قربانیاں کرتے ہیں تو اس لئے کہ انہیں عہدے مل جائیں یا افسران بالا کی خوشنودی ان کو حاصل ہو جائے یا ان کی تنخواہ میںاضافہ ہو جائے یا پبلک میں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے مگر یہ وہ شخص ہوتاہے جو ہر قسم کی دنیوی غرض سے اپنے دل کو صاف کر دیتا ہے وہ یہ نہیں چاہتا کہ لوگ میری تعریف کریں یا میرے کاموں پر واہ واہ کے نعرے بلند کریں یا مجھے پبلک میں کوئی خاص عزت دی جائے وہ صرف اپنے رب کی رضا ء کا بھوکا ہوتا ہے اوراس کے مد نظر محض یہ بات ہوتی ہے کہ جس طرح میںدوسروں کا خیال رکھتا ہوں اسی طرح اللہ تعالی میرا خیال رکھے اور وہ میرے گناہوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے مجھ سے راضی ہو جائے ۔ اللہ تعالی فرماتاہے جب وہ دنیا کے تمام دروازوں کو چھوڑ کر میرے دروازہ پر آگرا ہے اور ہر قسم کی خوشنودیوں کو اس نے محض میری خوشنودی کے لئے ترک کر دیا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں اس کا خیال نہ رکھوں ، جس طرح اس نے اِبْتِغَائً لِوَجْہِ اللہ اپنے اموال کی قربانی کی ہے اسی طرح میں اس پر راضی ہو جائوں گا اور اسے اپنے قرب میںجگہ دونگا۔
وَلَسَوْفَ یَرْضٰی میںوہی بات بیان کی گئی ہے جو یَآاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِی اِلَی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً میں بیان کی گئی تھی ۔ صرف یہ فرق ہے کہ وہاں رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً کے الفا ظ تھے اور یہاں یہ الفاظ ہیں کہ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی ۔ ورنہ مفہوم اور معنی کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ بندے کی خواہش یہ تھی کہ میرا خدا مجھ سے راضی ہو جائے گویا بندے کا راضی ہونا اس پر منحصر تھا کہ اس کا خدا تعالی اس سے راضی ہو جائے وَلَسَوْفَ یَرْضٰی نے بتا دیا کہ وہ مَرْضِیَّۃ بن جائے گا یعنی خدا اس سے راضی ہو جائے گا اور چونکہ بندہ کی خواہش تھی اس لئے خدا تعالی کے راضی ہونے کے بعد یہ بھی راضی ہو جائے گا اور جب یہ مقام اسے حاصل ہو جائے گا تو پھر یہ بھی یقینی بات ہے کہ وہ فَادْخُلِیْ فِیْ ……… کابھی مستحق ہو جائے گا اور جس شخص کو جنت حاصل ہو جائے وہ ہر قسم کی مکروہات سے امن میں آجاتا ہے ۔
غرض اس سورۃ کا اختتام اللہ تعالی نے اس بات پر فرمایا ہے کہ مسلمان دنیا میں کامیاب ہونگے لیکن کفار باوجود اپنی شدید مخالفت کے کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکیںگے ۔ مسلمانوں کی محنت اور ان کی قربانیاں اور کفار کی سستی اور ان کا قربانیوں میں حصہ نہ لینا ، مسلمانوں کے اندر افاضہ استفاضہ دونوں قوتوں کا موجود ہونا اور کفار کے اندر افاضہ کی قوت کا نہ ہونا اور استفاضہ کی قوت سے کام نہ لینا ان دونوں کا ایک نتیجہ نہیں نکل سکتا کیونکہ کفار اور مسلمانوں کے کام بالکل الگ الگ ہیں ۔ مسلمانوں کے کاموں سے خدا راضی ہو جائیگا لیکن کفار کے کاموں سے نہیں ۔ یہاں گو الٹ نتیجہ اللہ تعالی نے بیان نہیں کیا مگر وہ نتیجہ خودبخود نکل آتا ہے کہ کفار کو ان کے کاموں کے نتیجہ میں خدا تعالی کی رضاء حاصل نہیں ہو گی اور وہ اس کے غضب کا نشانہ بن کر تباہ و برباد ہو جائیں گے ۔


سورۃ الضحیٰ
۱؎ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نَزَ لَتْ بِمَکَّۃَ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی تھی ۔ بعض کہتے ہیں فرّۃ الوحی کے بعد یہ سورۃ نازل ہوئی تھی اس لئے رسول کریم ﷺ جب یہ سورۃ پڑھتے یا اس کی تلاوت سنتے تو اس وقت تکبیر کہنے کا حکم دیتے ۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ آپ صرف اتنا کہتے کہ اللّٰہُ اَکْبَرْ کہو لیکن بعض دوسری روایات میںیہ آیا ہے کہ آپ اللّٰہُ اَکْبَر لَآاِ لٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اللّٰہُ اَکْبَر فرمایا کرتے تھے ۔
بخاری میںروایت ہے کہ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ بیمار ہوئے اور تہجد کے لئے نہ اٹھے دو تین راتیں اسی طرح گذر گئیں اس پر ایک ہمسایہ مخالف عورت آئی اور رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے کہنے لگی معلوم ہوتاہے تیرے شیطان نے (نعوذ باللہ ) تجھے چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ دو تین رات سے تیرے پاس نہیں آیا ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تہجد کے وقت آپ بلند آواز سے تلاوت کیا کرتے تھے اور وہ اپنے خیال میں یہ سمجھتی تھی کہ آپ جو قرآن پڑھ رہے ہیں یہ درحقیقت کوئی سکھانے والا آپ کو سکھا رہا ہے جب بیماری کی وجہ سے آپ نہ اٹھے اور دو تین راتیں اسی حالت میں گذر گئیں تو اس نے قیاس کیا کہ نعوذ باللہ آپ کو جو شخص سکھاتا تھا یا جو روح سکھاتی تھی اس نے آپ کو چھوڑ دیا ہے اس پر سورۃ الضحیٰ نازل ہوئی ۔
جندب ؓ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل کچھ عرصہ تک وحی لے کر نہ اترے اس پر کفار نے کہا قَدْ وُدِّعَ مُحَمَّدٌ (صلعم) محمد ﷺ پر جو بھی کلام اترتا تھا اس کا اترنا اب بند ہو گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے چھوڑ دیا گیا ہیفَنََزَ لَتْ مَا وَدَّ عَکَ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ وَالضُّحیٰ وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی O مَا وَدَّ عَکَ رَبُّکَ وَ ماَقَلیٰ ۔
جندبؓ سے ہی ایک دوسری روایت ہے کہ ایک دفعہ کچھ عرصہ تک وحی بند رہی تو آپ کی ایک چچیری بہن نے کہا مَا اَریٰ …… کہ میرا تو یہ خیال ہے کہ تمہارا صاحب تم سے خفا ہو گیا ہے اس نے صاحب کا لفظ اس لئے بولا کہ جو لوگ خدا کو اس کلام کا نازل کرنے والا قرار دیتے ہیں وہ اس سے خدا مراد لے لیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شیطان آپ پر یہ کلام نازل کرتا ہے وہ اس سے شیطان مراد لے لیں ۔ بہرحال اس نے کہا جو بھی کلام نازل کیا کرتاتھا خواہ وہ خدا تھا یا شیطان معلوم ہوتا ہے وہ اب تم سے خفا ہو گیا ہے اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی ۔
یہ مختلف روایات ہیں جو اس سورۃ کے نزول کے متعلق بیان کی جاتی ہیں ۔ ایک میں آتا ہے کہ ایک ہمسائی نے آکر کہا ۔ ایک میںآتا ہے کہ لوگوں میں یہ چرچا ہوا اور ایک میںآتا ہے کہ آپ کی چچیر ی بہن نے کہا ۔ اب دو ہی صورتیںہیں یا تو ہم یہ کہیںکہ یہ ساری روایتیں غلط ہیں اور فیصلہ کر دیں کہ ان روایات کا سورۃ کے نزول سے کوئی بھی تعلق نہیں ۔ اور یا پھر یہ طریق اختیار کریں جو میرے نزدیک صحیح ہے کہ ایک وقت میں ایک واقعہ پر مختلف لوگ چہ میگوئیاں کرتے ہیں اور ان چہ میگوئیوں کو اس واقعہ سے کسی ملتی جلتی عبارت کے ساتھ چسپاںکر لیا جاتا ہے مثلاً حضرت مسیح موعود ؑ کو ایک دفعہ الہام ہوا۔ A WORLD AND TWO GIRLSـ’’ اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز‘‘ (تذکرہ ص ۵۳۷) حافظ احمد اللہ صاحب ان دنوں قادیان آرہے تھے راستہ میںانہوں نے کسی دوست سے پوچھا کہ کوئی تازہ وحی سنائو جو حضرت مسیح موعود ؑ پر نازل ہوئی ہو اس نے کہا ابھی ایک الہام ہوا ہے کہ ’’اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز‘‘ ۔ حافظ احمد اللہ صاحب نے جھٹ کا غذ لیا اور حضرت مسیح موعو د ؑ کو لکھا مبارک ہو الہام پورا ہو گیا میںاکیلا نہیں آیا بلکہ میرے ساتھ دو لڑکیاں بھی آرہی تھیں اور یہ الہام اسی واقعہ پر چسپاں ہوتا ہے ۔ پھر میں نے بعض اور لوگوں کو دیکھا کہ ان میںسے جس کی دو بیٹیاں اور ایک لڑکا تھا اس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ الہام میرے متعلق ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ہماری جماعت میں دو درجن کے قریب ایسے لوگ تھے جنہوں نے مختلف پیرایوں میںیہ الہام اپنے اوپر چسپاں کیا۔ تو بعض دفعہ ایک ملتی جلتی چیز ہوتی ہے جسے انسان اپنے خیال میں کسی الہام پر چسپاں کر دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں نے اس الہام کی شان ِ نزول کا پتہ لگا لیا حالانکہ الہامات کے معانی ہمیشہ ان کی ترتیب سے سمجھے جاتے ہیں اگر اس ترتیب سے وہ علیحدہ کر لئے جائیں تو ہر ٹکڑہ کے کوئی نہ کوئی معنے ہو جائیں گے مثلاً کوئی شخص کہتا ہے ۔ ادھر آئو۔ اب یہ الفاظ ایسے ہیں جو ہر شخص استعمال کر سکتا ہے مگر موقع کے لحا ظ سے پتہ لگ جائے گا کہ اس کا مخاطب کون شخص ہے ۔ فرض کرو زید سامنے ہو اور اس وقت کوئی شخص آواز دے کہ ادھر آئو تو ہر شخص سمجھ جائے گا کہ اس سے مراد زید ہے کوئی اور شخص نہیں۔ لیکن اگر اس فقرہ کو موقع سے الگ کر لو تو دنیا کے ہر شخص پر یہ چسپاں ہو جائے گا ۔ اسی طرح جو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ آیت فلاں موقعہ پر نازل ہوئی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ قریب زمانہ میں اس سے کوئی ملتا جلتا واقعہ لوگوں کو نظر آتا ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ یہی واقعہ اس آیت کے نازل ہونے کا اصل سبب ہے چنانچہ وہ اس آیت کو اپنی سمجھ کے مطابق اس واقعہ پر چسپاں کر دیتے ہیں اور اگر ایک سے زیادہ ملتے جلتے واقعات ہوں تو مختلف لوگوں کی قیاس آرائیوں کی وجہ سے اس قسم کی روایات میں بہت کچھ اختلاف واقع ہو جاتا ہے جیسا کہ اسی سورۃ کے شان ِ نزول کے متعلق تین مختلف واقعات پیش کئے جاتے ہیں ۔ کوئی ہمسائی عورت کا واقعہ پیش کرتا ہے ۔ کوئی کفار کے عام خیالات کو اس سورۃ کے نزول کا اصل باعث قرار دیتا ہے اور کوئی آپ کی چچیری بہن کا واقعہ اس کا موجب قراردیتا ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ابتدائی سورۃ ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ابتدائی ایام میںکچھ دنوں کے لئے وحی رکی بھی ہو کیونکہ منشاء الہیٰ یہ تھا کہ آپ پر نزول وحی کی وجہ سے جو ہیبت طاری ہوئی ہے اس پر کچھ وقت گزر جائے اور وحی آپ میںسموئی جائے پہلے پہلے جب ایک واقعہ ہوتا ہے تو انسان اس کی اہمیت کو فوراً نہیں سمجھ جاتا بلکہ آہستہ آہستہ اس کے قلب پر حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے جیسے رسول کریم ﷺ کو ایک موقعہ پر مدینہ والوں نے کہا کہ یا رسول اللہ وہ وقت اور تھا جب ہم نے آپ سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ آور ہوا تو ہم آپ کی مدد کریں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑنا پڑا تو ہم مدد کے ذمہ دار نہیں ہوں گے ۔ یا رسول اللہ وہ وقت ایسا تھا جب ہمیں آپ کی حقیقت کا علم نہیںتھا اور اسی وجہ سے ایسا معاہدہ کیا گیا تھا مگر اب ہم پر آپ کی حقیقت کھل گئی ہے ، آپ کی شان اور عظمت کا ہمیں علم ہو چکا ہے اس لئے اب کسی معاہدے کا سوال نہیں ۔ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے ، آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیںگے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گذرے ۔ تو اہم واقعات کو فوراً سمجھنا بڑا مشکل ہوتا ہے ۔ آہستہ آہستہ ان کی حقیقت کھلتی ہے اور انسان کو پتہ لگتا ہے کہ الہٰی منشا ء کیا ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے پہلے وحی نازل کی پھر ایک وقفہ ڈال دیا ۔ اس عرصہ میں آپ نے وحی پر تدبر کیا ، اپنے کام کی اہمیت کو سمجھا اور اس طرح اپنے ایمان اور اپنے عزم اور اپنے استقلال میں پہلے سے بہت زیادہ اضافہ کر لیا۔ جب خد اتعالی نے دیکھا کہ اب فزع کا کوئی سوال نہیںرہا ، آپ کام کے لئے تیار ہو چکے ہیں اور وحی والہام کی اہمیت آپ کے دل میںداخل ہو چکی ہے تو اللہ تعالی نے آپ کو پیغام پر پیغام دینے شروع کر دیئے ۔ غرض پیغام اور پیغام کی تیاری میں کچھ وقفہ چاہیئے وہ وقفہ اس طرح ہوا کہ پہلے اقرا ء باسم ربک الذی خلق والی سورۃ نازل ہوئی ۔ پھر سورۃ المدثر وغیرہ نازل ہوئیں ۔ یہ سورتیں آپ کی طرف اللہ تعالی کا پیغام لائی تھیں ، آئندہ کے متعلق کئی قسم کی بشارات اپنے اندر رکھتی تھیںاور آپ کو یہ کہنے آئی تھیںکہ ایک بہت بڑا کام تمہارے سپرد کیا جا رہا ہے اس کے لئے تیار ہو جائو۔ یہ کام کس رنگ میںہونا تھا اور کیا کیا محنتیںآپ کو اس غرض کے لئے کرنی تھیں۔ اس کے لئے رسول کریم ﷺ کے دماغ کو تیار ہونا چاہیئے تھا ۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ ادھر الہام ہوتا اور ادھر کہہ دیا جاتا کہ جائو اور کام کرو ۔ درمیان میں بہرحال ایک وقفہ کی ضرورت تھی ۔ چنانچہ گذشتہ انبیاء کے ساتھ بھی اللہ تعالی کا یہی سلوک رہا ہے کہ پہلے ان کو الہام ہوا او ر پھر ایک وقفہ پیدا کیا گیا تا کہ اس عرصہ میںان کا دماغ آئندہ کے کام کے متعلق پوری طرح تیار ہو جائے ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ کو دیکھو فلسطین سے جاتے ہوئے آپ کو الہام ہو ا انی انا ربک فاخلع نعلیک انک بالواد المقدس طوی (طٰہٰ ) اے موسیٰ میں ہی تیرا رب ہوں پس اپنی جوتیاں اتار دے کیونکہ تو مقدس وادی طوی میںہے ۔ مگر اس کے باوجود ایک وقفہ ہوا اور مصر پہنچ کر دوبارہ وحی کا سلسلہ شروع ہوا ۔ فلسطین سے اس زمانہ میںمصر پہنچنا کوئی معمولی بات نہیں تھی کم سے کم دو مہینے صرف ہو جاتے تھے بلکہ بعض دفعہ چھ چھ ماہ بھی صرف ہو جاتے کیونکہ مخدوش راستوں کی وجہ سے قافلوں کے ساتھ سفر کیا جاتا تھا اور بعض دفعہ تو قافلہ جلد مل جاتا اور بعض دفعہ چھ چھ ماہ تک انتظار کرنا پڑتا کہ کب قافلہ تیار ہو اور اس سفر کو طے کیا جائے ۔ یہ تیاری کا وقت تھا جو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو ملا کہ چند ماہ پہلے ابتدائی وحی نازل ہوئی پھر ایک وقفہ پیدا کیاگیا تا کہ اس عرصہ میںآپ اپنے کام کی اہمیت کے مطابق تیاری کر لیں۔ اور جب اللہ تعالی نے دیکھا کہ تیاری ہو چکی ہے تو اس کے بعد تورات کا نزول ہوا ۔ ایسا ہی رسول کریم ﷺ کے ساتھ ہوا ۔ اقراء باسم ربک الذی خلق۔ کا حکم دیکر اللہ تعالی نے کچھ وقفہ پیدا کر دیا ۔ آپ اس وقفہ میں ان تمام باتوں کو سوچتے رہے اور غور کرتے رہے کہ الہٰی منشاء کیا ہے ۔ جب دنیا کے حالات پر آپ نے غور کیا اور سمجھ لیا کہ یہ یہ خرابیاں ہیں جن کو میں نے دور کرنا ہے ۔ ورقہ بن نوفل نے آپ کی توجہ کو حضرت موسیٰ ؑ کی وحی کی طرف پھیر دیا اور قوم کے حالات کو بھی آپ نے اچھی طرح دیکھ لیا اور اس کی اصلاح کے لئے کمر باندھ لی تب اللہ تعالی کی طرف سے آپ کی ہمت بندھانے کے لئے کچھ بشارتیںنازل ہوئیں ۔ اسی طرح دشمنوںکے متعلق کچھ انذار کی خبریں نازل ہونا شروع ہو گئیں ۔ اس دوران میں دشمنوں نے جو جو باتیں کیں لوگوں نے ان تمام باتوں کو اس سورۃ پر چسپاں کر دیا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ سورۃ ان واقعات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے حالانکہ اس سورۃ کا ان واقعات کے ساتھ کوئی جوڑہی نہیں۔ ایک عورت نے کوئی بات کہہ دی تواس کا والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلیٰ ۔ کے ساتھ کیا جوڑ ہوا ؟ اگر عورت یہ بات نہ کہتی تو کیا خدا تعالی آپ کو تسلی نہ دیتا؟ ہم مان لیتے ہیں کہ مکہ والوں نے یہ باتیں کہیں، یہ بھی مان لیتے ہیں کہ آپ کی کسی چچیری بہن نے کوئی بات کہی اور اس وقت کہی جب اس سورۃ کے کچھ حصوں سے ان باتوں کا توارد ہو گیا مگر پھر بھی یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سورۃ انہی واقعات کی وجہ سے نازل ہوئی ہے اگر یہ واقعات نہ ہوتے تو یہ سورۃ نازل نہ ہوتی ۔
درحقیقت اکثر محل قرآن کریم کی آیات کے نزول کے جو لوگوں کی طرف سے بتائے جاتے ہیں حقیقتاً ایسے نہیں ۔ اسی لئے ان میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے جیسے اس جگہ ہوا کہ کوئی کہتا ہے ایک ہمسائی عورت کی ایک بے معنی بات کی وجہ سے یہ سورۃ نازل ہوئی ۔ کوئی کہتا ہے کفار میں چونکہ چونکہ فترۃ الوحی پر عام چرچا ہو گیا تھا اس لئے یہ سورۃ نازل ہوئی ۔ کوئی کہتا ہے اس سور ۃ کے نزول کا محرک آپ کی چچیری بہن کا واقعہ ہے ۔ اسی طرح اور بھی کئی آیات ہیں جن کے متعلق بعض صحابہ کہتے ہیں کہ یہ میرے متعلق نازل ہوئی اور بعض کہتے ہیں کہ یہ میرے متعلق نازل ہوئی جیسے ’’ اے ورلڈ اینڈ ٹو گرلز ‘‘ کے الہام پر بہت سے احمدیوں کو غلط فہمی ہو گئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ الہام ہمارے متعلق ہے ۔
سر میورؔ کے نزدیک یہ سورۃ سورۃ البلد کے بعد کی نازل شدہ ہے لیکن نولڈ ؔ کے نزدیک سورۃ الانشراح کے بعد نازل ہوئی ہے ۔ میرے نزدیک یہ سورۃ اپنے مضمون سے ظاہر کرتی ہے کہ بہت ہی ابتدائی سورتوں میں سے ہے کیونکہ اس میںرسول کریم ﷺ کو کہا گیا ہے فاماالیتیم فلا تقھر ۔ واماالسائل فلا تنھر ۔ یعنی یتیم پر سختی نہ کر واور سائل کو رد نہ کرو ۔ لیکن پہلی سورتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ مسلمان ایسا ہی کرتے ہیں ۔ پس اگر روایات کی تائید میں یہ بات پیش کی جائے کہ اس میںچونکہ حکم دیا گیا ہے کہ ایسا کرو اور عمل ہمیشہ حکم کے بعد ہوتا ہے اس لئے یہ اندرونی شہادت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ یہ سورۃ پہلے نازل ہوئی ہے اور دوسری سورتیں جن میں مسلمانوں کے عمل کا ذکرہے وہ اس کے بعد نازل ہوئی ہیں تو یہ بات قرین قیاس سمجھی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے یہاں ابتدائی حکم نہیں دیابلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس سورۃ کے شروع میںجن انعامات کا وعدہ دیا گیا ہے یا جن انعامات کے ظہور کی خبر دی گئی ہے جب وہ انعامات نازل ہو جائیںتو ان کے شکریہ کے طورپر جو عمل کرنے کے لئے کہا جائے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس وقت نازل ہوا ہے جیسے حضرت زکریا ؑ کو کہا گیا کہ تو نے روزے رکھنے ہیں (مریم ) اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ روزے اسی وقت فرض ہوئے تھے اس سے پہلے نہیں ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ فرض تو پہلے سے تھے مگر اللہ تعالی نے کہا کہ اب بھی تم روزے رکھو۔ اس لئے ضروری نہیں کہ ہم قطعی طورپر ان احکام سے یہ نتیجہ نکال سکیں کہ چونکہ ان میںحکم ہے اور حکم پہلے ہونا چاہیئے اور عمل بعد میں ۔ اس لئے یہ سورۃ بہت پہلے نازل ہوئی ہے بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس سورۃ میںیہ حکم دیا گیا ہے کہ گو یہ کام پہلے بھی تم کرتے ہو مگر جب یہ الہامات نازل ہو جائیں تو ان کے شکریہ کے طورپر اور بھی ان کاموں کی طرف توجہ کرنا۔
ترتیب۔ پہلی سورتوں اور اس سورۃ کا مضمون اس لحاظ سے ایک ہی ہے کہ ان میں مکہ والوں کی اسی قسم کی بدیوں کا ذکر تھا یو یتامٰی اور مساکین کی نسبت ان سے سر زد ہوتی تھیں۔ اور اس میں بھی یتامٰی اور مساکینکا ہی ذکر ہے اور اموال کی حفاظت اور ان کو صحیح طورپر خرچ کرنے کی نصیحت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ سورۃ الضحیٰ میںصرف رسول کریم ﷺ اور آپ کے ذریعہ آپ کے اتباع کو ایسا کرنے کی نصیحت کی گئی ہے اور پہلی سورتوں میں یہ مقابلہ تھا کہ دوسرے ایسا نہیں کرتے لیکن مسلمان ایسا کرتے ہیں۔
اس سورۃ کا دوسرا تعلق پہلی سورتوں سے یہ ہے کہ پہلی سورتوں میںیہ ذکر تھا کہ بندہ خدا تعالی سے کیا سلوک کرتا ہے اور یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالی بندے سے کیا سلوک کرتا ہے مثلاً پہلی سورۃ میںزیادہ زور اس بات پر تھا کہ بندہ خدا تعالی کے لئے صدقہ و خیرات کرتا ہے ۔ جیسے فرمایا تھا وسیجنبھا الاتقی الذی یوتی مالہ یتزکی ۔ وما لا حد عندہ من نعمۃ تجزی ۔ الا ابتغاء وجہ ربہ الاعلی ۔ ولسوف یرضی ۔ گو وہا ں نیک اور متقی بندے کے عمل کا ذکر تھا کہ وہ یوں کرتا ہے لیکن یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالی اپنے نیک اور متقی بندے یعنی نفس کامل سے کیسا سلوک کرتا ہے ۔ گویا پہلی سورتوں کے مضامین بالخصوص سورۃ الیل کے مضمون کا یہ تتمہ ہے ۔
۲ ؎ حل لغات ۔ ضحی : تھوڑا سا دن نکل چکے تو اس وقت سے ضحی شروع ہو تی ہے اور زوال تک جاتی ہے لیکن بعض کے نزدیک زوال کے قریب جا کر ضحی کا وقت نہیں رہتا بلکہ وہ ضحاء ٌ کہلاتا ہے ۔ (اقرب)
سجیٰ کے معنے ہیں جب اندھیرا ترقی کرتے کرتے اپنے کمال کو پہنچ جائے۔ چنانچہ مفردات میں لکھا ہے والیل اذا سجیٰ ای سکن ۔ جب رات ٹھہر جاتی ہے اور اس کا اندھیرا اور نہیں بڑھتا جتنا اس نے بڑھنا ہوتا ہے بڑھ جاتا ہے ۔ ودعک : دوع الرجل کے معنے ہوتے ہیں ھجرہ کسی کوچھوڑ دیا ۔ (اقرب) قلی :۔ قلا فلان (قلی و قلاء ) کے معنے ہوتے ہیں ابغضہ و کرھہ غایۃ الکراھۃ فترکہ ۔ کسی پر ناراضگی کا اظہار کیا اور اس کو انتہائی طور پر ناپسند کیا ۔ اور ناپسندیدگی کی بناء پر چھوڑدیا ۔ جب قلا الابل کہیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں طردھا و ساقھا ۔ اس نے اونٹ کو چلایا اور دھتکارا یعنی اسے مار کے آگے ہنکایا ۔ (قلا الابل میںقلا واوی ہے یعنی آخر میں اصل واو ہے اور قلی فلان میں آخر میںیاء ہے (اقرب)
تفسیر ۔ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ایک ضحی اور ایک لیل خصوصیت رکھتی ہیں ۔ ضحی وہ دوپہر ہے جبکہ آپ مکہ کو فتح کر کے اس میںداخل ہوئے تھے اور والیل اذا سجی سے مرا د وہ رات ہے جب کہ آپ نے مکہ کو چھوڑا تھا گویا والضحیٰ کے معنے ہوئے ایک خصوصیت رکھنے والا دن ۔ اور والیل اذا سجیٰ کے معنے ہوئے ایک خصوصیت رکھنے والی رات ۔ اور درحقیقت رسول کریم ﷺ کی زندگی کے بڑے واقعات اگر کوئی خلاصۃ ً پوچھے تو یہی دو ہیں۔ دشمنوں نے آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا پھر خدا تعالی نے اپنے خاص نشانات سے دشمنوں کو تباہ کر کے آپ کو ایک فاتح کی حیثیت میں مکہ میںداخل فرمایا۔ انہی دو واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے ہم تیری سچائی کی شہادت کے طورپر یا اگلے مضمون کی سچائی کو واضح کرنے کے لئے ایک ضحی کو پیش کرتے ہیں اور ایک ایسی رات کو پیش کرتے ہیں جو تاریکی سے اپنے اردگرد کی تمام چیزوں کو ڈھانپ لے گی ۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ یہاں ضحی پہلے ہے اور رات پیچھے حالانکہ فتح مکہ بعد میں ہوئی ہے اور ہجرت پہلی ہوئی ہے ۔ اس کے متعلق یہ امر یاد رکھناچاہیئے کہ دوسری جگہ قرآن مجید میںآتا ہے رب ادخلنی مد خل صدق و اخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا (بنی اسرائیل ) ان آیتوںمیں صاف پیشگوئی فتح مکہ کی ہے کیونکہ فتح مکہ کے موقعہ پر ہی آپ بت توڑتے اور فرماتے جاتے تھے کہ جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا (جو اوپر کی آیات کے بعد آتا ہے ) آپ نے اپنے عمل سے واضح فرما دیا کہ وہ جو پیشگوئی کی گئی تھی کہ رب ادخلنی مد خل صدق و اخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا آج پوری ہو گئی ہے ۔ اس آیت میںبھی ادخلنی مدخل صدق کو پہلے رکھا گیا ہے جس میںمکہ میں داخل ہونے کی خبر دی گئی تھی او ر اخرجنی مخرج صدق کو بعد میں بیان کیا گیا ہے جس میں ہجرت کی پیشگوئی تھی حالانکہ ہجرت پہلے ہوئی تھی اور فتح مکہ بعد میں۔ اس کی وجہ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں یہ ہے کہ الہٰی سنت یہ ہے کہ وہ اپنے پیاروں سے بات کرتے ہوئے خوشی کی خبر پہلے سناتا ہے اور تکلیف کا ذکر بعد میں کرتا ہے تا کہ خوشی کا خبر رنج کی کلفت کو کم کرنے کا موجب بن جائے۔ اس طرح دونوں مطلب پورے ہو جاتے ہیں غم کی خبر بھی سنا دی جاتی ہے مگر چونکہ پہلے خوشی کی خبر آجاتی ہے اس لئے تکلیف کا احساس نسبتاً کم ہو جاتا ہے ۔ دنیا میں بھی ہوشیار پیغامبر کا یہی طریق ہوتا ہے جب کسی کا رشتہ دار بیمار ہو ار دوسرا شخص پوچھے کہ سنائو میرے فلاں رشتہ دار کا کیا حال ہے تو وہ کہتا ہے الحمد للہ وہ اب اچھے ہیں پچھلے دنوں شدید بیمار ہو گئے تھے اس طرح وہ خوشی کی خبر بھی سنا دیتا ہے اور یہ بھی بتا دیتا ہے کہ درمیان میںبعض ایسے اوقات بھی آگئے تھے جبکہ ڈاکٹر ان کی زندگی سے مایوس ہو گئے تھے ۔ مگر بجائے یہ کہنے کے کہ ان کی حالت نہایت نازک ہو گئی تھی وہ پہلے یہ فقرہ کہتا ہے کہ الحمد للہ وہ اب اچھے ہیں اس کے بعد وہ غم کی خبر سناتا ہے یہی طریق ہر اچھے پیغامبر کا ہوتا ہے کہ وہ بعد کے اچھے انجام کو پہلے بتا دیتا ہے اور تکلیف کا بعد میںذکر کرتا ہے ۔ لیکن س کے بالکل الٹ بعض لوگوں کو ایسا بھی دیکھا جاتاہے کہ وہ اپنی حماقت کی وجہ سے خطرہ کی بات کو پہلے بیان کریںگے اور خوشی کی خبر کو دبا کر بیٹھ جائیں گے اور ان سے پوچھا جائے کہ بتائو خیریت ہے تو وہ یہ نہیںکہیں گے کہ خیریت ہے بلکہ پہلے جب تک گھنٹہ بھر اپنا دکھڑا نہیںرو لیںگے انہیں چین نہیں آئے گا ۔ اسی طرح جب کسی کے سپرد کوئی ضروری کام کیا جائے اور وہ کام کر کے واپس آئے تو آتے ہی ایک لمبی کہانی شروع کر دے گا اور بعد میں کہے گا کہ الحمد للہ کام ہو گیا ۔ اس سے یہ نہیں ہو سکتا کہ آتے ہی کہہ دے الحمدللہ کام ہو گیا بلکہ پہلے اپنی مشکلات کا رونا رونے لگتا ہے اور گھنٹہ بھر کے بعد کہتا ہے الحمدللہ میںکامیاب ہو گیا ۔ تو بعض طبائع ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں بات کرنے کا اس وقت تک مزا نہیںآتا جب تک وہ دوسروں کو اچھی طرح ڈر ا نہ لیںمگر الہٰی طریق یہ ہے کہ وہ پہلے خوشی کی خبر سناتا ہے اور کہتا ہے ہم تمہیںبتا دیتے ہیں کہ نتیجہ اچھا ہو گا اس کے بعد بتا تا ہے کہ درمیان میںکچھ تکلیفیں بھی آئیں گی کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ جب انجام بخیر ہے تو بات کو شروع کرتے ہی بندے کے دل کو دکھ دینا شروع کر دے ۔ یہی طریق رب ادخلنی مد خل صدق و اخرجنی مخرج صدق میںاختیار کیا گیا ہے کہ فتح مکہ کی خبر کو پہلے رکھا ہے اور ہجرت کا ذکر بعد میں کیا ہے ۔ جب مسلمانوں کو پتہ لگ گیا کہ آخر ہم نے مکہ فتح کر کے اسی جگہ آنا ہے تو ان کو تسلی ہو گئی کہ درمیان میںاگر ہجرت بھی کرنی پڑی تو کیا ہوا۔ اسی بناء پر یہاں بھی والضحٰے کو پہلے اور والیل اذا سجیٰ کو بعد میںرکھا گیا ہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ دو (۲) محل اس بات کو ثابت کر دیں گے کہ ماودعک ربک وما قلیٰ ۔ تیرے رب نے تجھے نہیں چھوڑا اور وہ تجھ سے ناراض نہیں ہوا ۔ اور چونکہ وہ غرض جو والضحیٰ کے پہلے رکھنے کی تھی پوری ہو گئی تھی ینعی غرض یہ تھی کہ رسول کریم ﷺ کو ا س بات کا صدمہ نہ پہنچے کہ تجھے ہجرت کرنی پڑے گی ۔ اسی بناء پر خدا تعالی نے رات کا ذکر پیچھے کر دیا اور دن کا ذکر پہلے رکھا مگر چونکہ اس آیت سے غرض پوری ہو گی اس لئے اگلی آیت میں اللہ تعالی نے ترتیب اصلی کو قائم کر دیا ۔ چنانچہ ما ودعک ربک جواب ہے والیل اذا سجیٰ کا اور ما قلی جواب ہے والضحیٰ کا ۔ چونکہ غرض پوری ہو چکی تھی اور اب اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ واقعاتی ترتیب کو بدلا جاتا اس لئے اللہ تعالی نے پہلی آیات کی ترتیب کو الٹ دیا اور فرمایا اے محمد ﷺ ! جب والیل اذا سجیٰ میں بیان کردہ واقعہ ہو گا اور مکہ تجھے چھوڑنا پڑے گا تو اللہ تعالی تجھے اس وقت چھوڑے گا نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ غار ثور میںجب حضرت ابو بکر گھبرائے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ دشمن اتنا قریب پہنچ گیا ہے کہ اگر وہ ذرا اپنے سر کو جھکائے تو ہمیںاس غار میں سے دیکھ سکتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لاتحزن ان اللہ معنا ۔ غم مت کر خدا ہمارے ساتھ ہے ۔ اس جگہ یہ سوال ہوتا ہے کہ خدا تعالی نے کب فرمایا تھا کہ میں ہجرت کے گھڑیوں میں تیرے ساتھ ہوں گا تو اس کا جواب یہ ہے وہ الہی وعدہ اسی سورۃ میں تھا ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے جب والیل اذا سجی میں بیان شدہ واقعہ کا ظہور ہوگا تو تیرا رب تجھے نہیںچھوڑے گا ۔ چنانچہ اسی وعدہ کی بناء پر آپ نے نہایت دلیری سے فرمایا لا تحزن ان اللہ معنا۔ ابو بکر ! کیوں گھبرا رہے ہو خدا ہمارے ساتھ ہے وہ پہلے سے یہ وعدہ سورۃ الضحی میں کر چکا ہے پس ڈرنے کی بات نہیں ۔ آخر یہ خدا تعالی کی معیت ہی تھی کہ دونوں طرف قطار باندھے دشمن کھڑا ہے آپ کے مکان کا سنگین پہرہ دے رہا ہے اور آپ نہایت اطمینان کے ساتھ اس سے درمیان سے گزر جاتے ہیں اور وہ یہ خیال کر لیتا ہے کہ یہ محمد ﷺ نہیں بلکہ کوئی اور جا رہا ہے ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ تاریخ میںیہ ذکر آتا ہے (گو حوالہ یاد نہیں رہا) کہ بعد میںایک پہرے دار نے کہا کہ میں نے خود آپ کو مکان میںسے نکلتے اور وہاںسے گزرتے دیکھا مگر میں نے یہ نہیں سمجھا کہ آپ جا رہے ہیں بلکہ خیال کیا کہ کوئی اور جا رہا ہے ۔ بہرحال یہ خد اتعالی کی معیت ہی تھی کہ آپ دشمنوں کی نظروں کے سامنے نکل گئے اور وہ آپ کو پکڑ نہ سکا ۔ پھر یہ خدا تعالی ہی کی معیت تھی کہ جب آپ غار ثور میںپہنچے تو باوجود اس کے کہ کفار کے کھوجی نے یہ کہہ دیا تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ یا تو یہاںہیںاور یا پھر آسمان پر چلے گئے ہیں ان کو یہ جرأت تک نہ ہوئی کہ وہ آگے بڑھ کر اس غار کے اندر جھانک سکیںوہ اپنے کھوجی پر مضحکہ اڑانے لگے کہ آج یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے کیا اس غار میں بھی کوئی چھپ سکتا ہے یا کوئی شخص آسمان پر بھی جا سکتا ہے کہ کہتا ہے کہ اگر وہ یہاں نہیںتو آسمان پر چلے گئے ہیں یہ خدا تعالی کی معیت کا ایسا کھلا اور واضح ثبوت ہے کہ دشمن سے دشمن انسان بھی اس کو سن کر انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔
دوسری چیز فتح مکہ ہے اس کے لئے ماقلی کا لفظ خد اتعالی نے استعمال کیا ہے ۔ مکہ والوں کا یہ خیال تھا کہ جو شخص مکہ پر حملہ کرے گا خد اکا غضب اس پر نازل ہو گا ۔ وہ ابرہہؔ کے حملہ کو دیکھ چکے تھے کہ کس طرح وہ اپنے لائو لشکر سمیت حملہ آور ہوا اور پھر کس طرح خدا تعالی نے اسے اپنے غضب کا نشانہ بنادیا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ مکہ پر حملہ کرنے والا چونکہ خدا تعالی کی نارضا مندی کا مورد بنتا ہے اس لئے وہ تباہ ہو جاتا ہے مگر اللہ تعالی فرماتا ہے تیرے معاملہ میںایسا نہیں ہو گا بلکہ ضحی کا وقت اس بات کی شہادت دے گا کہ تیرا خدا تجھ سے ناراض نہیں اگر وہ ناراض ہوتا تو تجھ پر عذاب کیوں نازل نہ کرتا۔تجھ پر اس کا عذاب نازل نہ کرنا بلکہ تیری تائید اور نصرت کرنا اور تیرے راستہ سے ہر قسم کی روکوںکو دور کرنا اور تجھے اپنے لشکر سمیت فتح و کامرانی کا جھنڈا اڑاتے ہوئے مکہ میںداخل ہونے کا موقع دینا بتا رہا ہے کہ الہی منشاء یہی تھا کہ تو آئے اور اس بلد الحرام کو فتح کر کے اس میںداخل ہو جائے ۔پس والیل اذا سجی میں بیان شدہ واقعہ کے ظہور نے بتا دیا کہ خدا تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ کو نہیںچھوڑا اور والضحیٰ میںبیان شدہ واقعہ نے بتا دیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے کسی فعل سے خدا تعالی ناراض نہیں خواہ وہ صدیوں کے فیصلہ کے خلاف ہی کیوںنہ ہو ۔ ابراہیم کے وقت سے خدا تعالی کی یہ سنت چلی آرہی تھی کہ مکہ پر حملہ کرنا جائز نہیں جو شخص مکہ پر حملہ کرے گا وہ تباہ ہو جائے گا مگر محمد رسول اللہ ﷺ مکہ کو فتح کرنے کے لئے جا تے ہیں رات کو نہیں بلکہ دن دہاڑے مکہ میں داخل ہوتے ہیں ۔ دنیا بھی دیکھ رہی ہے خدا بھی دیکھ رہا ہے خدا تعالی کے فرشتے بھی دیکھ رہے ہیں مگر آپ پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوتا ۔ آپ کے لشکر پر کوئی تباہی نہیںآتی بلکہ اگر کچھ ہوتا ہے تو یہ کہ مکہ والوں کی گردنیں پکڑ کر خدا تعالی محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے کہ ان سے جو چاہو سلوک کرو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مکہ میںداخلہ عین خدا تعالی کے منشاء کے مطابق تھا ورنہ ۲۵ سو سال سے جو سلوک اللہ تعالی مکہ پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ کرتا چلا آیا تھا وہ آپ کے ساتھ کیوں نہ کرتا ۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے تیری مکہ سے رات کے وقت ہجرت اس بات کا ثبوت ہو گی کہ خدا تعالی نے تجھے نہیں چھوڑا اور تیرا دن دہاڑے مکہ میں فاتحانہ شان کے ساتھ داخل ہونا اس بات کا ثبوت ہو گا کہ خد ا تجھ سے خفا نہیںہے ۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیںکہ ضحی روشنی اور سجیٰ اندھیرے پر دلالت کرتا ہے اور یہ دونوں حالتیں انسان پر آتی رہتی ہیں ۔ یعنی کبھی اس پرتکالیف آتی ہیں اور کبھی اس کے لئے خوشی کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں ، کبھی کامیابیاں اور ترقیات حاصل ہوتی ہیںاور کبھی ناکامیاں اور تکالیف پیش آتی ہیں یہ اتار چڑھائو دنیا میںہمیشہ ہوتا رہتا ہے کبھی ترقی کا وقت آتا ہے تو کبھی تنزل کا ، کبھی خوشی پہنچ جاتی ہے تو کبھی غم ، کبھی اولاد پیدا ہو تی ہے کبھی مر جاتی ہے ، کبھی بیمار ہو جاتا ہے کبھی تندرست ہو جاتا ہے ، کبھی دشمن کو مغلوب کر لیتا ہے اور کبھی دشمن کے عارضی طور پر جیتنے کا موقعہ آجاتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا بھی ایک الہام ہے کہ ع
’’ دشمن کا بھی ایک وار نکلا‘‘ (تذکرہ ص ۵۵۳)
تو دشمن کے وار بھی نکل آتے ہیں ۔ لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب انہیںکوئی تکلیف پہنچتی ہے یا ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو جیسے قرآن مجید میںہی کئی جگہ نقشہ کھینچا گیا ہے وہ شور مچانے لگ جاتے ہیں کہ ہائے مارے گئے ، ہائے مارے گئے ۔ اس کے مقابل میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کو ترقیات ملتی ہیں تو وہ تکبر میںمبتلا ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں انما او تیتہ علی علم عندی (القصص ۸ : ۱۱) ہمیںجو کچھ ملا ہے اپنے زور بازو سے ملا ہے ، ہمارے اندر قابلیتیں ہی ایسی تھیں کہ ہمیں یہ ترقیات حاصل ہوتیں ، ہم نے یوں کیا ہم نے ووں کیا اور پھر ہمیںیہ اعزاز حاصل ہوا ۔گویا جب ان کو اللہ تعالی کی طرف سے برکات حاصل ہوتی ہیں یا ترقیات سے ان کو حصہ ملتا ہے ان میںتکبر پیدا ہو جاتا ہے اور جب مشکلات آتی ہیں تو اس وقت بالکل مایوس ہو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے جہاں دشمن ایسا ہے کہ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کہتا ہے ربی اھانن (الفجر ) میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا اور خوشی پہنچتی ہے تو کہتا ہے ربی اکرمن ۔ ہاں جی ہم توہیں ہی ایسے کہ خدا ہماری عزت کرتا۔ ایسے لوگوں کے بالمقابل اے محمد رسول اللہ تیری یہ حالت نہیںبلکہ والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلیٰ ۔ ہم تیری یہ دونوں حالتیں دشمنوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ تیرا نفس کامل اتنا اعلی درجے کا ہے کہ تیرا سلوک اپنے رب سے ہمیشہ اس قسم کا ہو گا کہ ہر مایوسی اور تکلیف کے وقت خدا تجھے بھولے گا نہیں بلکہ یاد رہے گا ۔ مایوسی کبھی تیرے قریب بھی نہیںآئے گی اور خوشی کے وقت کبھی تکبر تیرے پاس بھی نہیںپھٹکے گا ۔ جب تجھ پر انعامات نازل ہوں گے تُو یہ نہیں کہے گا میںنے یہ انعام بزورِ بازو حاصل کیا ہے اور اس طرح خدا تعالی کو ناراض کر لے گا بلکہ تو کہے گا کہ خدا تعالی نے یہ انعام بخشا ہے اور اس طرح خدا تعالی کی خفگی کو پاس بھی نہیںآنے دے گا ۔ اسی طرح جب تجھے تکلیفیں آئیں گی اس وقت بھی تو خد اپر کوئی الزام نہیںلائے گا ۔ بلکہ اسی کی کنار عاطفت کی طرف تو ہر وقت جھکا رہیگا اور اس وجہ سے خد اتعالی تیرے پاس آکھڑا ہو گا۔ اب دیکھو یہ دونوں چیزیں رسول کریم ﷺ کی زندگی میںکتنی نمایا ں نظر آتی ہیں ۔
وہ بھی ایک لیلؔ تھی جب آپ کو مکہ سے ہجرت کے لئے نکلنا پڑا اور غارِ ثور میںآپ پناہ گزیں ہوئے اور وہ بھی ایک لیلؔ تھی جو آپ پر اس وقت آئی جب ابو طالب آپ کے چچا نے ایک دن آپ کو بلایا اور کہا اے میرے بھتیجے ! اب تیری قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے ۔ آج بڑے بڑے رئوسا ء اکٹھے ہو کر میرے پاس آئے تھے اور وہ مجھے کہتے تھے کہ ابو طالب صرف تیری حفاظت کی وجہ سے ہم نے تیرے بھتیجے کو اب تک چھوڑا ہوا ہے ۔ ہم نے تیرا بڑا لحاظ کیا کیونکہ تو شہر کا رئیس ہے مگر آخر یہ ظلم کب تک برداشت کیا جاسکتا ہے ۔ ہم یہ نہیںکہتے کہ وہ ہمارے بتوں کی پرستش کرے بلکہ ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے بتوں کو برا نہ کہا کرے۔ اگر وہ اتنی معمولی سی بات بھی ماننے کے لئے تیار نہ ہوا اور اس نے ہمارے معبودوں کو برا کہنا ترک نہ کیا تو ہم تجھے بھی سرداری سے جواب دے دیں گے اور آئندہ تیری کوئی عزت نہیںکریںگے ۔ نمبردار کے لئے اپنی نمبرداری چھوڑنی بڑی مشکل ہوتی ہے اور دنیا میںسب سے بڑی مصیبت اگر اسے نظر آتی ہے تو یہی کہ کہیں مجھے اپنی چودھراہٹ نہ چھوڑنی پڑے ۔ وہ اس بات کو برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ آج تو وہ اس شان کے ساتھ بیٹھا ہو کہ لوگ آتے ہوں اور کہتے ہوں چودھری صاحب آپ جو کچھ فرمائیںوہ ہمارے سر آنکھوںپر ۔ ہم آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار ہیں اور دوسرے دن اس کی یہ حالت ہو کہ لوگوں نے ڈھنڈے اٹھائے ہوئے ہوں اور اسے کہتے ہوں کہ ہمارے گائوں میں سے نکل جائو۔ ابو طالب چونکہ مسلمان نہیںتھے اس لئے ان کے لئے یہ بڑی مصیبت تھی ۔ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو بلایا ان کی آنکھوں میںآنسو بھر آئے اور انہوں نے کہا اے میرے بھتیجے مجھ سے جس قدر ہو سکا میںنے تیری مدد کی ہے آج تیری قوم کے بڑے بڑے سردار مجھے بھی آخری نوٹس دے گئے ہیں کہ یا اپنے بھتیجے کے ساتھ رہو یا ہمارے ساتھ مل جائو۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ تو ان کے بتوں کی پرستش کرے وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ تو ان کو برا کہنا چھوڑ دے میںتجھ سے پوچھتا ہوں کہ کیا ایسا نہیںہو سکتا کہ تو کچھ نرمی اختیار کر لے؟ورنہ وہ تجھے بھی نوٹس دے گئے ہیں اور مجھے بھی کہہ گئے ہیں کہ اگر آئندہ تو نے اپنے بھتیجے کی مدد کی تو تیری سرداری بند۔ رسول کریم ﷺ نے یہ سنا تو بغیر کسی توقف کے آپ نے جواب دیا کہ اے چچا ! آپ نے میری بڑی مدد کی ہے مگر یہ معاملہ تو دین کا ہے اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑ ا کر دیں اور پھر کہیں کہ میں کوئی تبدیلی کروں تب بھی میںکوئی تبدیلی نہیںکر سکتا ۔ اے چچا ! اب اس کا ایک ہی علاج ہے اگر آپ کو آپ کی قوم میری خاطر چھوڑتی ہے تو پھر آپ مجھے چھوڑ دیںاور اپنی قوم سے مل جائیں۔ دیکھو یہ والیل اذا سجیٰ کا ایک وقت تھا جو محمد رسول اللہ ﷺ پر آیا ۔ طاقت آپ کے پاس نہیںتھی بلکہ ابو طالب کے پاس تھی مگر جس کے پاس طاقت تھی وہ گھبرا جاتاہے اور جس کے پاس طاقت نہیںتھی وہ کہتا ہے کہ جب باقیوں نے مجھے چھوڑا ہے تو آپ بھی مجھے چھوڑ دیںمیںاپنے عقائد میںکوئی تبدیلی نہیںکر سکتا ۔ یہ ایک رات تھی تاریک اور بھیانک رات ۔ جس میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں (سوائے ان کے جو اللہ تعالی سے مویّد ہوں ) جو مقاومت کی روح اپنے ندر قائم رکھ سکیں لیکن اس تاریک رات میںبھی آپ نے ثابت کر دیا کہ ما ودعک ربک و ما قلی ۔ آپ نے کوئی فعل ایسا نہ کیا جس پر خدا تعالی بندہ کو چھوڑ دیا کرتا ہے آپ نے کوئی ایسا فعل نہ کیا جس پر خدتعالی خفا ہو جایا کرتا ہے بلکہ آپ نے وہ کچھ کیا جس پر خدا تعالی اور بھی قریب ہو جایا کرتا ہے ، جس پر وہ اور بھی خوش ہو جایا کرتا ہے ۔
کیاتم سمجھ نہیں سکتے کہ جب عرش پر خدا تعالی نے محمد رسول اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہو گا کہ اے چچا آپ بھی چھوڑ دیں میں خدا تعالی کو نہیں چھوڑ سکتا تو خدا تعالی ایک عاشق کی طرح آپ کی طرف یہ کہتے ہوئے نہ جھکا ہو گا کہ دنیا تجھے چھوڑ دے پر میں تجھے نہ چھوڑوں گا۔ اللہ تعالی غیر مادی چیز ہے اور اس کا تعلق اپنے بندوں سے روحانی ہوتا ہے جسمانی نہیں ۔ لیکن تمثیلی طور پر اپنے ذہن میں نقشہ جمانے کے لئے اگر تم فرض کر لو کہ اللہ تعالی کی محبت مادی محبت ہوتی یا اس کی نفرت مادی نفرت ہوتی تو جب رسول کریم ﷺ نے ابو طالب کو یہ جواب دیا تھا کہ چچا اگر یہی بات ہے تو پھر آپ مجھے بے شک چھوڑ دیں اس وقت اگر خدا تعالی دو گز پر کھڑا ہوگا تو یقینا اس فقرہ کے بعد وہ آپ کے پاس آکھڑا ہوا ہو گا اور اگر خدا تعالی کی خوشنودی پہلے آپ کو دس نمبر کی حاصل تھی تو اس واقعہ کے بعد وہ بیس نمبر تک پہنچ گئی ہو گی۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی اے محمد رسول اللہ ! ہر رات جو تیری زندگی میںآئے گی ، ہر رات جو تجھ پر گزرے گی وہ اس بات کو ثابت کرنے والی ہو گی کہ ماودعک ربک وما قلی ۔ کہ نہ تو تیرے خدانے تجھے چھوڑا ہے اور نہ تجھ سے ناراض ہوا ہے بلکہ وہ تجھ سے ہر گھڑی زیادہ قریب ہوتا جائیگا۔
غارثور میںابو بکر جیسا بہادر آدمی گھبراجاتا ہے ۔ اپنے لئے نہیں بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے ۔ مگر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ جس کے لئے کوئی آفت نہیں تھی جو اگر پکڑا بھی جاتا تو لوگ اسے ڈانٹ ڈپٹ کر چھوڑ دیتے اور زیادہ سے زیادہ اسے یہی کہتے کہ تو اس کے ساتھ کیوں آگیا تھا کیونکہ ابو بکر ؓ کی مکہ والے بہت عزت کیا کرتے تھے وہ تو گھبرا جاتا ہے مگر جس پر آفت آئی ہوئی ہے ، جس کے ساتھ اس مصیبت کابراہ رات تعلق ہے ، وہ نہایت اطمینان کے ساتھ کہتا ہے لا تحزن ان اللہ معنا تو جتنا آپ کے ساتھ خدا تعالی کا پہلے تعلق ہو گا وہ اور بھی بڑھ گیا ہو گا، وہ اور بھی سمٹ کر آپ کے قریب آگیا ہو گا اور جتنا خدا تعالی آپ سے پہلے خوش تھا وہ اس سے بھی زیادہ خوش ہو گیا ہو گا۔ پھر ایک تاریک گھڑی وہ تھی جبکہ احد ؔ میں آپ زخمی ہوئے اور اس قسم کے واقعات جمع ہو گئے کہ اسلامی لشکر کی فتح شکست کی صورت میں تبدیل ہو گئی۔ ا س جنگ میں ایک درہ ایسا تھا جہاں رسول کریم ﷺ نے اپنے بعض آدمی چن کر کھڑے کئے تھے اور انہیں حکم دیا تھا کہ جنگ کی خواہ کوئی حالت ہو تم نے اس درہ کو نہیں چھوڑنا ۔ جب کفار کا لشکر منتشر ہو گیا تو انہوں نے غلطی سے اجتہاد کیا کہ اب یہاں ٹھہرنے کا کیا فائدہ ہے ہم بھی چلیں اور لڑائی میں کچھ حصہ لیں ۔ ان کے سردار نے انہیں کہا بھی کہ رسول کریم ﷺ کا حکم ہے کہ ہم یہ درہ چھوڑ کر نہ جائیں مگر انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کا یہ مطلب تو نہ تھا کہ فتح ہو جائے تب بھی یہیں کھڑے رہو۔ آپ کے ارشاد کا تو یہ مطلب تھا کہ جب تک جنگ ہوتی رہے اس درہ کو نہ چھوڑنا ۔ اب چونکہ فتح ہو چکی ہے دشمن بھاگ رہا ہے ہمیں بھی تو کچھ ثواب جہاد کا حاصل کرنا چاہیئے ۔ چنانچہ وہ درہ خالی ہو گیا ۔ حضرت خالد بن ولید جو اس وقت تک ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے جوجوان تھے اور ان کی نگاہ بہت تیز تھی وہ جب اپنے لشکر سمیت بھاگے جارہے تھے انہوں نے اتفاقاً پیچھے کی طرف نظر ڈالی تو درہ کو خالی پایا یہ دیکھتے ہی وہ واپس لوٹے اور مسلمانوں کی پشت پر حملہ کر دیا ۔ مسلمانوں کے لئے یہ حملہ چونکہ بالکل غیر متوقع تھا اس لئے ان پر سخت گھبراہٹ طاری ہو گئی اور بوجہ بکھرے ہوئے ہونے کے دشمن کا مقابلہ نہ کر سکے ۔ میدان میںکفار نے قبضہ کر لیا اور اکثر صحابہ سراسیمگی اور اضطراب کی حالت میں مدینہ کی طرف بھاگ پڑے یہاں تک کہ رسول کریمﷺ کے گرد صرف بارہ صحابہ ؓ رہ گئے اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ بارہ بھی نہیں صرف تین آدمی رسول کریم ﷺ کے ارد گرد رہ گئے اور کفار نے خاص طورپر رسول کریم ﷺ پر تیر اندازی شروع کر دی لیکن باوجود ان نازک حالات کے آپ برابر دشمن کا مقابلہ میںکھڑے رہے اور اپنے مقام سے نہیں ہلے ۔ آخر دشمن نے یک دم ریلہ کر دیا اور وہ چند آدمی بھی دھکیلے گئے اور رسول کریم ﷺ زخمی ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے ۔ آپ پر بعض اور صحابہ ؓ جو آپ کی حفاظت کر رہے تھے شہید ہو کر گر گئے اور اس طرح رسول کریم ﷺ تھوڑی دیر کے لئے صحابہ ؓ کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور لشکر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول کریمﷺ شہید ہو گئے ہیں ۔ یہ خبر صحابہ ؓ کے لئے اور بھی پریشان کن ثابت ہوئی اور ان کی رہی سہی ہمت بھی جاتی رہی ۔ جو صحابہ ؓ اس وقت آپ کے ارد گرد موجود تھے اور زندہ تھے انہوں نے لاشوں کو ہٹا کر رسول کریم ﷺ کو گڑھے میں سے نکالا اور حفاظت کے لئے آپ ؐ کے ارد گرد کھڑے ہو گئے ۔ اس وقت جب دشمن اپنی فتح کے نشے میں مخمور تھا ، جب اسلامی لشکر سخت ضعف اور انتشار کی حالت میںتھا ، جب رسول کریم ﷺ کے ارد گرد صرف چند صحابہ ؓ تھے، باقی سب کے سب میدان سے بھاگ چکے تھے ۔ ابو سفیان نے پکار کر کہا کہ بتائو تم میں محمد (ﷺ) ہے؟ صحابہ ؓ نے جواب دینا چاہا مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا خاموش رہو اور کوئی جواب نہ دو۔ پھر اس نے پوچھا کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہے ؟ مراد اس کی یہ تھی کی کیا حضرت ابو بکر زندہ ہیں ۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مت جواب دو۔ پھر اس نے پوچھا کیا تم میں عمر موجو د ہے ؟ اس کا جواب دینے سے آپ نے منع فرمایا ۔ تب اس نے خوش ہو کر کہا اُعْلُ ھُبُلْ اُعْلُ ھُبُلْ ۔ ہبل کی شان بلند ہو ، ہبل کی شان بلند ہو ، یعنی ہبل دیوتا نے ان سب کو مار دیا اور اس کی شان بلند ہوئی جب اس نے یہ الفاظ کہے تو باوجود اس کے کہ ابھی ابھی دشمن صحابہ ؓکو نقصان پہنچا کر ہٹا تھا ۔ ابھی صحابہ ؓ میدان سے بھاگ رہے تھے بلکہ بعض تو ایسے بھاگے تھے کہ انہوں نے مدینہ جا کر دم لیاتھا ۔ غرض باوجو د اس کے کہ ایک حصہ بھاگا جا رہا تھا اور ایک حصہ پراگندہ اور منتشر تھا اور صرف چند صحابہ ؓ جو انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے رسول کریم ﷺ کے اردگرد تھے جب اس نے یہ الفاظ کہے تو آپؐ برداشت نہ کرسکے اور آپ ؐ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا جواب کیوں نہیں دیتے ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ہم کیا جواب دیں ۔ آپ نے فرمایا کہو ۔اللہ اعلی و اجل ۔ اللہ اعلی و اجل ۔ تمہارا ہبل کی چیز ہے اللہ ہی سب سے بلند رتبہ اور شان رکھنے والا ہے ۔ کہتے ہیں ’’آبیل مجھے مار‘‘ کئی ہزار کا لشکر سامنے پڑا ہے وہ فتح کے نشے میں مخمور ہے ۔ مسلمانوں کا کثیر حصہ میدانِ جنگ سے واپس جا چکاہے اور دشمن دعوے کرتا ہے کہ اس نے محمد رسول اللہ ﷺ اور اکابر صحابہ کو بھی ہلاک کر دیا ہے ۔ یہ کتنی تاریک رات تھی جو محمد رسول اللہ ﷺ پر آئی مگر اس تاریک رات میںبھی جب کہ چند صحابہ ؓ آپ کے ارد گرد تھے اور خطرہ تھا کہ دشمن آپ پر حملہ نہ کر دے ۔ جب اس نے ہبل کی تعریف کی تو رسول اللہ ﷺ جو صحابہ ؓ کو مصلحتاً اب تک جواب دینے سے روکتے چلے آئے تھے بڑے جوش سے فرمانے لگے اس کو کیوں جواب نہیںدیتے کہ اللہ اعلی و اجل ۔ اللہ اعلی و اجل ۔ صحابہ ؓ نے یہ جواب دیا اور اس طرح آپ ؐ نے اپنے عمل سے دشمن کو چیلنج کیا کہ میں یہاں موجود ہوں اگر تم میں ہمت ہے تو آجائو۔ وہ دشمن جس نے ایک ہزار سپاہی کو بھگا دیا تھا اس کی زبان سے اس وقت شرک کا کلمہ سننا آپ ؐ کی طاقت برداشت سے باہر ہو گیا جبکہ آپ ؐ صرف چند صحابہ ؓ سمیت اس کی زد میںتھے اور زخموں کی وجہ سے کمزور ہو رہے تھے اور انتہائی نازک حالات کی پروانہ کرتے ہوئے آپ نے خدا کا نام اس وقت بھی بلند کر دیا۔ یہ ایک رات تھی جو آپؐ پر آئی مگر اس رات سے کیا نتیجہ نکلا؟ یہی کہ ماودعک ربک وما قلی ۔ آپؐ کا خدا تعالی سے تعلق اور بھی بڑھ گیا اور آپ نے کوئی ایسا فعل نہ کیا جس سے وہ ناراض ہوتا۔
پھر ایک رات وہ تھی جبکہ غزوہ خندق کے موقع پر دشمن آیا۔ اس نے اپنی طرف سے ساری تیاریاں کر لیں کہ وہ مسلمانوںکو زیر کرے گا اور ان کو شکست دے گا ۔ لیکن اس تاریکی کے وقت میںاتفاق کی بات ہے رات ہی تھی جب دشمن کو شکست ہوئی ۔ رات کا وقت تھا مسلمان بظاہر مایوس ہو چکے تھے ، دشمن پندرہ دن سے ان کا محاصرہ کئے ہوئے تھا ، خوراک وغیرہ کے سامانوں میں سخت کمی آچکی تھی ، مدد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اور مسلمان سخت گھبرا رہے تھے کہ نہ معلوم اب کیا بنے گا۔ سامان اتنے کم تھے کہ مسلمان خود کہتے تھے ہمارے ہاتھ پائو ں سردی سے سن ہو رہے تھے مگر ہمارے پاس کپڑے نہیں تھے کہ ہم ان کو اوڑھ کر اپنی سردی کو دور کر سکیں ۔ غرض یہی کیفیت تھی کہ ایک دفعہ آدھی رات کے وقت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی ہے ! ایک صحابی ؓ بولے اور کہا یا رسول اللہ ؐ میںحاضر ہوں ۔ آپ ؐ نے فرمایا تم نہیں۔ کوئی اور ۔ جب تھوڑی دیر تک کوئی اور شخص نہ بولا تو آپ ؐ نے پھر فرمایا ۔ کوئی ہے! اس پر پھر وہی صحابی بولا کہ یارسول اللہ میںحاضر ہوں آپؐ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور ۔ جب دوسری دفعہ بھی کوئی اور شخص نہ بولا تو رسول کریم ﷺ نے پھر فرمایا کوئی ہے ! اس پر پھر وہی صحابی بولا اور کہنے لگا یا رسول اللہ میںحاضر ہوں ۔ آپ ؐ ہنس پڑے اور فرمایا جائو اور باہر جا کر دیکھو مجھے اللہ تعالی نے اطلاع دی ہے کہ دشمن بھاگ گیا ہے ۔ اب دیکھو رات کو مسلمان سوتے ہیں تو انتہائی مایوسی کی حالت میںمگر ابھی صبح نہیں ہوتی، آدھی رات کا وقت ہوتا ہے ، تاریکی چاروں طرف مسلط ہوتی ہے کہ اس رات کی تاریکی میںاللہ تعالی رسول کریم ﷺ کو خبر دیتا ہے کہ دشمن بھاگ گیا ہے ۔ گویا تاریکی میں جہاں اور لوگ گھبرا رہے تھے آپ ؐ خدا تعالی کی طرف جھکے ہوئے تھے اور اس سے دعائیںکر رہے تھے ۔ وہ صحابی کہتے ہیں میں باہر گیا تو دیکھا کہ تمام جنگل خالی پڑا ہے اور دشمنوں کے خیمے سب غائب ہیں ۔ ایک اور صحابی کہتے ہیں جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی ہے ! تو میں اس وقت جاگ رہا تھا مگر شدت ِ سردی کی وجہ سے میرے ہاتھ پائوں تو الگ میری زبان بھی سن ہو چکی تھی اور اس وجہ سے میں جواب نہیں دے سکتا تھا ، سنتا تھا مگر بولنے کی طاقت اپنے اندر نہیں پاتا تھا کیونکہ کپڑے کافی نہ تھے اور برف پڑی ہوئی تھی ۔ یہ تکالیف آئیں مصائب وآلام کی گھڑیاں آپ ؐ پر گزریں مگر ان تمام لیالی میں ہر لیل کے وقت اللہ تعالی نے ثابت کر دیا کہ وہ آپ ؐ کے ساتھ ہے ۔ پھر ضحی کے اوقات بھی آپؐ پر آئے چنانچہ فتح مکہ کے بعد سارے عرب کی فتح آئی اور کامیابی و کامرانی آپؐ کے قدموں کو چومنے لگی مگر کامیابیوں کے اوقات نے بھی کیا ثابت کیا ؟ یہی کہ ماودعک ربک وما قلی لوگوں کہ یہ حالت ہوتی ہے کہ ترقیات کے وقت ان میں کبر پیدا ہو جاتا ہے فتح کے وقت نشہ غرور ان میںسما جاتا ہے مگر رسول کریم ﷺ کی قلبی کیفیات کا تم اس سے اندازہ لگائو کہ فتح مکہ کے وقت جب لشکر ِ اسلامی مکہ کی طرف بڑھتا چلا آرہا تھا صحابہ ؓ کے دلوں میںسخت جوش پایا جاتا تھا خصوصاً انصار کے دل میںمکہ والوں کے خلاف بہت زیادہ جوش تھا ۔ بے شک مہاجرین بھی اس جوش سے خالی نہیں تھے مگر مہاجرین پر ان کے مظالم کا اتنا اثر نہیں تھا جتنا انصار کو یہ سن سن کر جوش آتا تھا کہ مکہ والے رسول کریم ﷺ اور آپ ؐ کے ساتھیوں کے ساتھ یہ یہ سلوک کرتے رہے ہیں ۔ اسی جوش کی حالت میں ایک انصاری جرنیل نے ابو سفیان کو دیکھا تو اس کی زبان سے یہ فقرہ نکل گیا آج ہم نے تم سے بدلے لینے ہیں ، آج ان مظالم کا ہم نے انتقام لینا ہے جو مکہ والوں نے محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ؐ کے ساتھیوں پر کئے ۔ کوئی اور ہوتا تو جرنیل کو بلا کر اسے تمغہ لگا دیتا اور کہتا شاباش! وفادار ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ مگر رسول کریم ﷺ نے اس کو بلایا اور فرمایا مکہ تو خدا تعالی کا متبرک مقام ہے ہمیںاپنی خوشیوں اور کامیابیوں میں اس کی اس برکت کو نہیں بھول جانا چاہیئے جو خدا تعالی نے اسے عطا کی ہے ۔ تم نے بڑی غلطی کی جو ایسا فقرہ اپنی زبان سے نکالا ۔ میںتمہیں جرنیل کے عہدے سے معزول کرتاہوں ۔ دیکھو ایک ہی موقع آپؐ کی زندگی میں ایسا آیا جبکہ دشمن جو ایک لمبے عرصہ تک خطرناک سے خطرناک مظالم توڑتا رہا تھا اس کی گردنیں آپ ؐکے ہاتھ میںتھیں ۔ ہو سکتا تھا کہ خود آپ ؐ کے دل میںہی یہ خیال آجاتا کہ میںان لوگوں سے آج خوب بدلہ لوں گا اور خود بھی ایسا فقرہ کہہ دیتے یا اگر خود نہ کہتے تواور کہنے والوں کی باتیں پسند کرتے یا اگر ظاہر میںپسند نہ کرتے تو دل میںہی پسند کرتے اور کہتے یہ لوگ میرے بڑے وفادار ہیں، مجھ پر جو مظالم ہوئے ان کا کس قدر ان میں احساس پایا جاتا ہے ، کتنا جوش ہے جو ان کی حرکات سے پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہو رہا ہے ۔ مگر رسول کریم ﷺ نے اسے جرنیل کے عہدہ سے ہی معزول کر دیا اور فرمایا ہمارے لئے یہ تکبر کے اظہار کا موقع نہیں۔
پھر دیکھو وہ ضحی کا ہی وقت تھا جب آپؐمکہ میںداخل ہوئے اور آپؐ نے فرمایا اے عتبہؔ شیبہؔ اور ولید ؔ کی اولادو! اور اے عتبہ شیبہ اور ولید کے چچو ، بھائیواور بھانجو! تم نے مجھے انتہائی بے کسی اور بے بسی کی حالت میںمکہ سے نکال دیا تھا اب تم میرے قابو میں ہو بتائو میں تم سے کیا سلوک کروں؟ انہوں نے کہا ہم آپؐ سے اسی سلوک کی امید رکھتے ہیں جو آپ ؐ کی شان کے شایان ہو اور وہی سلوک چاہتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا ۔ آپ ؐ نے فرمایا ٹھیک ہے لا تثریب علیکم الیوم اذھبو افانتم الطلقاء ۔ جائو میں تمہیںکچھ نہیںکہتا ۔ تم آزاد ہو ۔ یہ دوسری ضحی تھی جو آپ ؐ پر آئی مگر اس ضحی نے بھی بتا دیا کہ کبر اور خود پسندی کبھی آپ ؐکے قریب بھی نہیں آئی تھی ۔ قومیںآئیں۔ وفود آئے اور ہر طرف سے آکر انہوں نے آپکی اطاعت کو قبول کیا مگر کبھی بھی یہ بات ظاہر نہیںہوتی کہ آپ ؐ نے ان لوگوں میںکبھی اپنی شان کا کوئی خاص اظہار کیا ہو۔
تیسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے والضحی والیل اذا سجیٰ ۔ کچھ لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیںجن پر دن چڑھتے ہیں تو وہ اپنے دنوں کو کھیل میں، تماشا میں ، جوئے میں، شراب میںاور اسی قسم کی اور لغویات میںختم کر دیتے ہیں اور جب رات آتی ہے تو اس کو ناچ گانے اور سونے میںختم کر دیتے ہیں اللہ تعالی فرماتا ہے مگر اے محمد ﷺ ایسے لوگوں کے مقابل پر تیر ادن بھی اس قسم کا ہو گا اور تیری راتیں بھی اس قسم کی ہوں گی کہ ہر دیکھنے والے کے سامنے تیرے ساتھی ان دنوں اور ان راتوں کو پیش کر سکیں گے اور اسے کہہ سکیںگے کہ بتائو کیا تمہارے دن محمد ﷺ کے دنوں کی طرح ہیں اور کیا اس حالت میںدن گزارنے والے کو کبھی خدا تعالی چھوڑ سکتا ہے یا س سے ناراض ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح تیری راتیںایسی گذریںگی کہ تم ہر شخص کے سامنے اپنی ان راتوں کو پیش کر کے کہہ سکو گے کہ میری راتوں کو دیکھو اور بتائو کہ کیا ایسی راتوں والے کو خدا تعالی چھوڑ سکتا ہے؟ غرض فرمایا ۔ والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی اے محمد ﷺ ہم تیرے دنوں کو ایسا کر دیں گے اور تیری راتوں کو بھی ایسا کر دیں گے کہ تیر ادن بھی اس بات کی شہادت دے گا کہ تجھے خد انے نہیںچھوڑا ۔ اور تیری رات بھی اس بات کی شہادت دے گی کہ تیرا خدا تجھ سے ناراض نہیںہے ۔ یہ وہی دعویٰ ہے جو فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون (یونس۲:۷)میںکیا گیا ہے کہ میںتم میںایک لمبی عمر گزار چکا ہوں کیا تم ثابت کر سکتے ہو کہ میں نے اس عرصہ میںکسی ایک بدی کا بھی ارتکاب کیا ہو ۔ اگر تم سب کے سب مل جائو تب بھی میری چالیس سالہ ابتدائی زندگی پر کوئی داغ ثابت نہیںکر سکتے ۔ مگر یہ دعویٰ تو گزری ہوئی عمر کے متعلق ہے اور والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی میں آئندہ زندگی کے متعلق دعوی کر دیا اور فرمایاکہ میرے دن تمہارے سامنے ہیں ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں دن تمہارے سامنے گذرے گا ۔ اسی طرح میری راتیںبھی تمہارے سامنے ہوں گی اورایک کے بعد دوسری رات گزرتی چلی جائے گی لیکن یاد رکھو میری زندگی کا ہر دن جو گزرے گا وہ ثبوت ہو گا اس بات کا کہ ما ودعنی ربی وما قلانی ۔ اسی طرح ہر رات جو مجھ پر گزرے گی وہ ثبوت ہو گی اس بات کا کہ ما ودعنی ربی وما قلانی ۔
غرض خدا تعالی اس آیت میںمحمد رسول اللہﷺ کو آپ کی صداقت کی ایک نئی دلیل سکھاتا ہے اور فرماتا ہے میںیہ پیشگوئی کرتا ہوں کہ تیرا ہر دن میری رضامندی میںگزرے گا اور تیری ہر رات میری رضامندی میں گذرے گی۔ تیری پہلی زندگی کے متعلق میں چیلنج کر چکا ہوں اب یہ دوسرا چیلنج آئندہ زندگی ک متعلق ہے ۔ پچھلی زندگی کے متعلق تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نے اس وقت سوچا نہیںتھا اگر غور کرتے تو ممکن تھا کہ کوئی نقص نظر آجاتا ۔ فرماتا ہے اگرمحمد رسول اللہ ﷺ کی اس زندگی کے متعلق تمہارا یہ عذر ہے تو اب دوسری زندگی پر کوئی اعتراض کر لینا اور دیکھنا کہ اس کی زندگی کی ایک ایک ساعت، ایک ایک رات اور ایک ایک دن اپنے فائدہ اور اپنے آرام کے لئے خرچ ہوتا ہے یا بنی نوع انسا ن کے فائدہ اور آرام کے لئے خرچ ہوتا ہے ۔
چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ قبض و بسط کی دونوں حالتیں رسول کریم ﷺ کی اچھی ہوں گی ۔ اللہ تعالی قابض بھی ہے اور باسط بھی ، اور اس کے اپنے بندوں سے یہ دونوں سلوک ہوتے ہیں ۔ جس طرح دنیوی معاملات میں کوئی آرام کی ساعت ہوتی ہے اور کوئی تکلیف کی ۔ اسی طرح روحانی عالم میں کبھی کوئی ساعت ایسی آتی ہے جس میں انسان بہت زیادہ خدا تعالی کے سامنے جھکا ہوا ہوتا ہے اور کبھی اس پر قبض کی ساعت آجاتی ہے ۔ حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ ایک صحابی رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور آکر رو پڑے ۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! میںتو منافق ہوں رسول کریم ﷺ نے فرمایا میںتو تم کو مومن سمجھتا ہوں وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ! مومن نہیں میںتو منافق ہوں جب میں آپ کی مجلس میں بیٹھا ہوا ہوتا ہوں تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف جنت ہے اور ایک طرف دوزخ ۔ جو بھی خیال میرے دل میںگزرتا ہے یا جو بھی عمل میں کرتا ہوں جنت اور دوزخ کو دیکھ کر کرتا ہوں ۔ مگر جب گھر جاتا ہوں تو یہ حالت نہیں رہتی ۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ تو عین ایمان ہے اگر خدا تعالی ہر وقت ایک جیسی حالت رکھے تو تم مر نہ جائو۔ تو قبض اور بسط کی حالت ہر انسان پر آتی ہے چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مدارج کے اختلاف کی وجہ سے ایک انسان کی قبض کی حالت دوسرے انسان کی قبض کی حالت سے جدا گانہ ہو یا ایک انسان کی بسط کی حالت دوسرے انسان کی بسط کی حالت سے مختلف ہو لیکن بہرحال قبض اور بسط کی گھڑیاں ہر انسان پر آتی ہیں۔ ایک وقت وہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے دوسرے وقت وہ اپنے بیوی بچوں سے کھیل رہا ہوتا ہے تیسرے وقت وہ پاخانہ میںبیٹھا ہوا ہوتا ہے ۔ یہ علیحدہ علیحدہ حالتیں ہیں جن میں سے ہر انسان گزرتا ہے ۔ ان میں سے نماز اور روزہ بسط کی حالتیں ہیں اور بیوی بچوں سے کھیلنا یا پاخانہ میںجانا یا دنیا کے کسی اور کام میں مشغول ہو جانا یہ قبض کی حالتیں ہیں ۔ بہت لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں کہ وہ عبادت گزار بھی ہوتے ہیں ، روزہ دار بھی ہوتے ہیں ، حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہوتے ہیں ،ذکر الہی بھی کرتے ہیں ، زکواۃ بھی دیتے ہیںمگر جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو نماز ہی پڑھتے ہیں ، جب حج کر تے ہیں تو حج ہی کرتے ہیں ، جب زکواۃ دیتے ہیں تو زکواۃ ہی دیتے ہیں مگر جب وہ روٹی کھاتے ہیں اس وقت وہ صرف روٹی ہی کھا رہے ہوتے ہیں ، جب وہ کپڑے پہنتے ہیں اس وقت وہ صرف کپڑے ہی پہن رہے ہوتے ہیں ، جب وہ بیوی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں اس وقت وہ صرف بیوی سے ہی باتیں کر رہے ہوتے ہیں ، جب وہ بچوں سے تلعب کر تے ہیں اس وقت بچوں سے ہی تلعب کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان کی دنیا دنیا ہوتی ہے اور ان کا دین دین ہوتا ہے ۔ مگر اللہ تعالی فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی اے محمد ﷺ تیری تو دنیا ہی نرالی ہے ۔ تیری قبض کی حالت بھی خدا کے لئے ہوتی ہے اور تیری بسط کی حالت بھی خداکے لئے ہوتی ہے ۔ جب تو بیوی سے ہنس رہا ہوتا ہے اس وقت تو بیوی سے نہیں ہنستا بلکہ ہمارے حکم کی تعمیل کرتا ہے کیونکہ تو کہتا ہے میںاپنی بیوی سے اس لئے ہنس رہا ہوں کہ میرا خدا کہتا ہے میںاپنی بیوی سے اس رنگ میںپیش آئوں ۔ جب تو کھانا کھا رہا ہوتا ہے اس وقت تو صرف کھانا نہیں کھاتا بلکہ بسم اللہ سے شروع کرتا ہے اور الحمد للہ پر ختم کرتا ہے اور درمیان میں سبحان اللہ سبحان اللہ کہتارہتا ہے ۔ جب تو پانی پیتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ تو دنیا دار لوگوں کی طرح صرف پانی پئے بلکہ تو کہتا ہے میںیہ پانی اس لئے پی رہا ہوں کہ میرے رب نے یہ چیز میری طرف بھیجی ہے ۔ بارش آتی ہے تو لوگ اس سے کیسا لطف اٹھاتے ہیں مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی کیا کیفیت تھی ایک دفعہ بادل آیا آسمان سے ہلکی ہلکی بوندیں برسیں رسول کریم ﷺ اپنے کمرہ سے باہر تشریف لائے زبان نکالی اس پر بارش کا ایک قطرہ لیا اور فرمایا میرے رب کی طرف سے یہ تازہ نعمت آئی ہے ۔ آپ ؐ نے بھی لوگوں کو یہی نصیحت کی کہ میںتمہیںیہ نہیں کہتا تم اپنی بیویوں سے حظ نہ اٹھائو ، میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ کھائو نہیں، میںتمہیںیہ نہیں کہتا کہ پہنونہیں ۔ میںتمہیںیہ کہتا ہوں کہ تم جو کچھ کرو احتساباً کرو ۔ اس نیت اور ارادہ کے ماتحت کرو کہ اللہ تعالی کی رضا تمہیںحاصل ہو جائے ۔ اگر تم اپنے تمام کاموں میں اس نیت کو ہمیشہ مد نظر رکھو گے اور اللہ تعالی کی رضا کا حصول تمہارا اصل مقصد ہو گا تو میں تمہیں کہتا ہوں اس کے بعد اگر تم اپنی بیوی کے منہ میں احتساباً ایک لقمہ بھی ڈالتے ہو تو فھم صدقۃ وہ بھی ایک صدقہ ہو گا۔ اب دیکھو وہ شخص لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے مگر رسول کریم ﷺ اسے صدقہ قرار دیتے ہیں حالانکہ جس سے انسان کو محبت ہوتی ہے اسے بہر حال وہ کھلاتا ہے وہ یہ تو پسند کر سکتا ہے کہ میںخود بھوکا رہوں مگر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ جس سے مجھے محبت ہے اسے بھوک کی تکلیف ہو ۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ اپنی بیوی کو کھلائے گا خد اتعالی کے حضور یہ نہیں لکھا جائے گا کہ اس نے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالا بلکہ خدا تعالی کے حضور یہ لکھا جائے گا کہ اس نے ہماری رضا کی خاطر صدقہ کیا ۔ اسی طرح ملازموں سے معاملہ ہے ، ہمسایوں سے معاملہ ہے ، دوستوں سے معاملہ ہے۔ جب انسان ان تمام معاملات میںخدا تعالی کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے اور اسکی خوشنودی کے حصول کے لئے وہ یہ سب کام کرتا ہے تو بظاہر یہ دنیوی نظر آنے والے کام بھی اس کے لئے دین بن جاتے ہیںاور اللہ تعالی کے حضور اس کے یہ کام ایسے ہی سمجھے جاتے ہیںجیسے وہ عبادت میں اپنا وقت گزار رہا ہو۔ پس فرمایا والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ اے محمد رسول اللہ ﷺ تیری بسط اور قبض کی حالتیں دونوں ہمارے لئے ہیں تو بظاہر اپنی بیوی سے ہنس رہا ہوگا مگر دل میں ہمارے ساتھ پیار کر رہا ہو گا ۔ تو بظاہر اپنے بچوں سے پیار کر رہا ہو گا مگر دل میں ہمارے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کر رہا ہو گا ۔ تو بظاہر ہمسایوں کے ساتھ دلجوئی کی باتیں کر رہا ہو گا مگر اصل میں تیری باتیں ہمارے ساتھ ہو رہی ہوں گی ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ توان کے پاس بیٹھا ہے حالانکہ تو ان کے پاس نہیں بلکہ ہمارے پاس بیٹھا ہوتا ہے ۔ جب تیر اہر فعل ہمارے لئے ہے ، جب تیری ہر حرکت اورہر سکون ہمارے لئے ہے اور جب تو دین اور دنیا دونوں راہوں سے خدا تعالی کا قرب حاصل کر رہا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم لیل اور نھار میںتجھے چھوڑ دیں ؟ جب ہم نہ تیرے کھانے پر ناراض ہیں ، نہ پینے پر ناراض ہیں ، نہ معاشرت پر ناراض ہیں، نہ ہمسایوں سے تعلقات پر ناراض ہیں، نہ کسی اور کام پر ناراض ہیں، تو ہم تجھے چھوڑ کس طرح سکتے ہیں؟ یہ تو عبادتیں ہیں جو تو ہماری خاطر بجا لا رہا ہے ان عبادتوں پر ہم نے خفا کیا ہونا ہے ہم تو خوش ہی ہوں گے کہ تو نے ہماری خاطر دنیا کو بھی دین بنا لیا ۔ غرض چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ قبض اور بسط کی حالتیں رسول کریم ﷺ کی اچھی ہوں گی یعنی جب آپ ؐ عبادت میں مشغول ہوں گے تو ہونگے ہی ۔ جب آپ دنیوی کام کریں گے جو بمنزلہ لیلؔ ہوتے ہیںتب بھی آپ خدا تعالی کی خوشنودی ہی مد نظر رکھیں گے اور دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالی آپ سے رات دن جدا نہیں ہوتا اور نہ آپ کے کسی فعل سے ناراض ہوتا ہے ۔
پانچویں معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ دن کام کا وقت ہوتا ہے اور رات انسان کے آرام کا وقت ہوتا ہے فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ہم تیرے دنوں کو پیش کر تے ہیں جب تو تبلیغ میں مصروف ہوتا ہے اور تیری راتوں کو پیش کرتے ہیں جب تو مکالمہ الہی میں مشغول ہوتا ہے ۔ تیر ادن خدا کے اس فعل کا ثبوت ہے کہ ما ودعک ربک ۔ تیرے رب نے تجھے نہیں چھوڑا ۔ دوسرے الفاظ میں یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ واللہ یعصمک من الناس (المائدہ ۱۰: ۱۴) چنانچہ دیکھ لو دن کے وقت آپ ؐ کی تبلیغ اور نشست و برخاست کن لوگوں میں تھی ، کفار مکہ میںجو ہر وقت آپ ؐ کو مارنے کی فکر میں رہتے تھے مگر اللہ تعالی فرماتا ہے تیرا دن اس بات کی شہادت دے گا کہ ہم تیرے ساتھ ہیں ورنہ دشمن جو ہر وقت تیرے پاس رہتاہے اسے کونسی چیز تجھے ہلا ک کرنے سے روک سکتی ہے اس کی سب سے بڑی خواہش تو یہی ہے کہ تجھے ہلا ک کر دے مگر باوجود اس خواہش اور ارادہ کے اور باوجود اس بات کے کہ دن کو تم انہیں لوگوں کے ساتھ رہتے ہو وہ تمہیںقتل نہیں کر سکتے ۔ پس تیر ا دن اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تیرے ساتھ ہے اور تیری رات ثبوت ہوتی ہے اس بات کا کہ وما قلی۔ خدا تجھ سے ناراض نہیں ۔ دن کو لوگ تجھ پر اپنے غیظ و غضب اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک آتا ہے تجھے فریبی کہتا ہے ، دوسرا آتا ہے تو تجھے دھوکہ باز کہہ دیتا ہے ، تیسرا آتا ہے تو تجھے عزت کا خواہش مند کہہ کر چلا جاتا ہے ۔ غرض ہزاروں قسم کی گالیاں اور ہزاروںقسم کے الزامات ہیں جو تجھے دشمنوں سے سننے پڑتے ہیں مگر اللہ تعالی فرماتا ہے دن اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں۔ دن کو لوگ تجھے اپنی دشمنی کی وجہ سے ہلاک کر سکتے ہیںمگر چونکہ ہم تمہارے ساتھ ہوتے ہیں وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ وہ گالیاںدیتے ہیں ،وہ تجھے برا بھلا کہتے ہیں، وہ تیرے ہلاک کرنے کے لئے کئی قسم کے منصوبے کرتے ہیں مگر اپنی تمام کوششوں میں ناکامی اور نامرادی کا منہ دیکھتے ہیںاور اس طرح دن کی ایک ایک گھڑی تیری صداقت اور راستبازی کا دنیا میںاعلان کررہی ہوتی ہے ۔ اس کے بعد جب سارے دن کی گالیاں سن کر رات آتی ہے اور تم سمجھتے ہو کہ میں کیا کروں مجھ سے تو ساری دنیا ناراض ہے اس وقت ہم تجھے تسلی دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو تجھ سے ناراض نہیں ۔ دنیا اگر ناراض ہے تو بے شک ہو ۔
میں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک نوٹ بک دیکھی ۔ آپ ؑ کا معمول تھا کہ جب کوئی پاک جذبہ آپؑ کے دل میں اٹھتا آپ ؑ اسے لکھ لیتے ۔ اس نوٹ بک میں آپ نے ایک جگہ خدا تعالی کو مخاطب کر کے لکھا تھا :۔
’’ او میرے مولا۔ میرے پیارے مالک ، میرے محبوب ۔ میرے معشوق خدا ! دنیا کہتی ہے تو کافر ہے مگر کیا تجھ سے پیارا مجھے کوئی اور مل سکتا ہے؟ اگر ہو تو اس کی خاطر تجھے چھوڑ دوں ۔ لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ جب لوگ دنیا سے غافل ہو جاتے ہیںجب میرے دوستوں اور دشمنوں کو علم تک نہیںہوتا کہ میں کس حال میںہوںاس وقت تو مجھے جگاتا ہے اور محبت سے پیار سے فرماتا ہے کہ غم نہ کھا میںتیرے ساتھ ہوں تو پھر اے میرے مولا یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس احسان کے ہوتے ہوئے پھر میںتجھے چھوڑدوں ۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔‘‘ (بدر مورخہ ۱۱ جنوری ۱۲ء ص ۶)
یہی مضمون اللہ تعالی نے ما ودعک ربک وما قلی میںبیان فرمایا ہے کہ دن ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ میںتیرے ساتھ ہوں دشمن تیری طرف اپنا ہاتھ نہیں بڑھا سکتا ۔ اور رات ثبوت ہوتی ہے اس بات کا کہ میںتجھ سے ناراض نہیں ۔ تو دن کے وقت دشمن کے منہ سے کئی قسم کی ناراضگی کی باتیں سنتا ہے اور تیرا دل سخت غمزدہ ہوتا ہے مگر جب رات آتی ہے تو ہم تجھ سے کہتے ہیںتو دشمن کی ان گالیوں سے مت گھبرا ہم تجھ سے خوش ہیں ۔ پس دن کی حفاظت اور رات کا مکالمہ الہی دونوں ا س بات کا ثبوت ہیں کہ ما ودعک ربک وما قلی ۔
چھٹے معنے یہ ہیں کہ ایک روحانی قبض و بسط کا وقت بھی ہر انسان پر آیا کرتا ہے جس کا اس آیت میںذکر کیا گیا ہے ۔ جہاں میں نے خالص دینی اور جسمانی کاموں کے متعلق قبض و بسط کی کیفیات کا ذکر کیا تھا وہاں ایک وقت انسان کی حالت پر ایسا بھی آتا ہے جب اس کی روحانی حالت پر قبض کی حالت طاری ہو جاتی ہے اس میں بھی چھوٹے اوربڑے سب یکساں ہیں اور سارے انسانوں پر ہی یہ قبض و بسط کا دور آتا ہے اس دور کا آنا بھی انسانی ترقیات کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے ۔ اللہ تعالی رسول کریم ﷺ سے فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی جیسے بعض روحانی دور رسول کریم ﷺ پر اس رنگ میں آئے کہ وحی کانزول کچھ دنوں کے لئے بند ہو گیا جو روحانی طور پر ایک وقفہ تھا جو اللہ تعالی نے پیدا کر دیا ۔ اسی طرح فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ہم ان وقتوںکو بھی پیش کرتے ہیں جو تیرے لئے ضحی کا رنگ رکھتے ہیں اور ہم ان وقتوں کو بھی پیش کرتے ہیںجو تیرے لئے لیل کا رنگ رکھتے ہیں ۔ یعنی تیری روحانی حالت پر ہمیشہ ضحی کی کیفیت نہیںرہے گی بلکہ کبھی کبھی رات کی تاریکی کی سی حالت بھی آئے گی ۔ مثلاً کبھی نزول وحی میں روک پیدا ہو جائیگی یا قلب میںوہ بلندی نہیں ہو گی جو دوسرے وقتوں میں تجھے نظر آئے گی ۔ مگر تیرے قلب کی یہ کیفیت دوسرے لوگوں سے بالکل مختلف ہو گی ۔ اور لوگوں کے دلوں میںجب قبض آتی ہے تو وہ خدا تعالی سے دور جا پڑتے ہیں مگر فرمایا ما ودعک ربک و ما قلی ۔ تیری ضحی کی حالت بھی خدا کو پیاری ہو گی اور تیری لیل ؔ کی حالت بھی خدا کو پیاری ہو گی ۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میںجس قدر چیزیں پائی جاتی ہیں وہ سب لہروں میںچلتی ہیں ۔پہاڑ ہیں تو وہ لہروں میںچلتے ہیں ۔ دریا ہیںتو وہ لہروں میںچلتے ہیں ۔ ہوائیں ہیں تووہ لہروں میںچلتی ہیں۔ بجلیاں ہیں تو وہ لہروں میںچلتی ہیں ، غرض ہر چیز اپنے اندر لہریں رکھتی ہے ۔ جس طرح مادیات میں لہروں کا قانون جاری ہے اسی طرح روحانیت میںبھی مختلف لہریںچلتی رہتی ہیںلیکن بعض لہریںایسی ہوتی ہیںکہ ان لہروں کی جو ادنیٰ حالت ہوتی ہے وہ بھی کفر کی ہوتی ہے ۔ اگر ان لہروں میںکبھی انسان پر خشیت بھی طاری ہوتی ہے تو وہ ایسی نہیںہوتی جو ایمان کی علامت ہو ۔ اس کے مقابل پر بعض لہریںایسی ہوتی ہیں کہ ان کی ادنیٰ حالت کفر کی ہوتی ہے اور اعلیٰ حالت ایمان کی ہوتی ہے اور بعض ایسی روحانی حالتیں ہوتی ہیں کہ ادنیٰ حالت گو کفر کی نہیںہوتی مگر خدا تعالی کی معیت کی بھی نہیں ہوتی ۔ یعنی وہ گو ادنیٰ حالت خدا تعالی کی ناراضگی والی نہ ہو مگر ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ایسے شخص کو خدا تعالی کی معیت حاصل ہے ۔ ایک حالت عدم معیت کی ہوتی ہے اور ایک حالت حصول معیت کی ہوتی ہے یہ الگ الگ مقام ہیں جو روحانی درجات کے حصول کے وقت پیش آتے ہیں ۔ ایسے شخص کی ادنیٰ حالت کو دیکھ کر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اسے خدا تعالی کی مقبولیت حاصل ہے گو ہم یہ بھی نہیںکہیں گے کہ خدا تعالی نے اسے چھوڑ ا ہوا ہے ہاں اس کی اعلی حالت بیشک خدا تعالی کی معیت کا ثبوت ہوتی ہے ۔ لیکن ایک مقام وہ ہے کہ جب انسان نیچے آئے تب بھی اس خدا تعالی کی معیت حاصل ہوتی ہے پس فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ اے محمد ﷺ روحانی لہروں میںتیرے لئے وہ وقت بھی آتا ہے جو ضحی کا ہوتا ہے اور جب تو کلی طور پر خدا کے سامنے ہوتا ہے اور تیرے لئے وہ وقت بھی آتا ہے جب تجھ پر قبض طاری ہوتی ہے مگر ما ودعک ربک وماقلی ۔ تیری قبض کی حالت بھی خدا کی معیت کے ماتحت ہو گی اور تیری بسط کی حالت بھی خدا کی معیت کے ماتحت ہو گی ۔ صرف معیت کے مدارج میں فرق ہو گا یہ نہیں ہو گا کہ خداتعالی کی معیت کا مقام جو تجھے حاصل ہے وہ کسی حالت میں جاتا رہے ۔ تیری دونوں حالتیں خواہ وہ قبض کی ہوں یا بسط کی خدا کی معیت اور اس کی خوشنودی کا ثبوت ہوں گی صرف کمی بیشی کا فرق ہو گا مگر یہ نہیں ہو گا کہ معیت جاتی رہے ۔ یہ وہی مقام ہے جسے صوفیاء نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ حسنات الابرار سیئات المقربین در اصل اس مقام کو کھول کر بیان کر نا سخت مشکل ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نے بجائے کھلے طورپر ا س کا ذکر کرنے کے اشاروں اشاروں میںہی بیان کر دیا کہ حسنات الابرار سیئات المقربین یعنی وہ مقام جو ابرار کے لئے بسط کا ہوتا ہے اور جسے وہ حصول عرفان کے بلند ترین درجہ سمجھتے ہیںوہ مقربین کے لئے قبض کا مقام ہوتا ہے ۔ انہوں نے بھی اشاروں میںیہ بات بیان کی ہے اور میں بھی اس بات پر مجبور ہوں کہ اشاروں تک اس بات کو محدود رکھوں ۔ حقیقت میںیہ روحانی لہریں ہوتی ہیں جو کبھی اونچی چلی جاتی ہیں اور کبھی نیچے کی طرف آجاتی ہیں۔ ان کے لئے اس بات کو بیان کرنا مشکل تھا اور میرے لئے نسبتا ً آسانی ہے کیوں کہ لہروں کے علم نے اس مسئلہ کو سمجھنے میں بہت کچھ سہولت پیدا کر دی ہے ۔ بہرحال اللہ تعالی اس آیت میں یہ مضمون بیان فرماتا ہے کہ محمدی مقام کی نچلی لہریں بھی ما ودعک ربک وما قلی کا ثبوت ہیںاور محمدی مقام کی اونچی لہریں بھی ما ودعک ربک وما قلی کے ماتحت ہیں ۔ دونوں حالتوں میں خدا تعالی کی معیت آپ ؐ کے شامل حال رہے گی اور کبھی کوئی مقام خدا تعالی کی ناراضگی یا اس کی باپسندیدگی کا نہیںآئے گا ۔ جس طرح پرندہ اڑتا ہے تو ایک جھٹکا کھاتا ہے اور بظاہر نظر آتا ہے کہ وہ نیچے ہوا ہے حالانکہ وہ اڑان کا ایک حصہ ہے اسی طرح رسول کریم ﷺ کے لئے اللہ تعالی کی صفت قبض اس طرح ظاہر ہو گی کہ ہر قبض کی حالت بسط کا موجب بنے گی اور اوپر اٹھانے کا ذریعہ ہو گی۔
ساتویں معنے والضحی والیل اذا سجی کے یہ ہیں کہ ہر نبی کی دو زندگیاں ہوتی ہیں ایک اس کی فردی زندگی ہوتی ہے اور ایک اس کی سلسلہ کی زندگی ہوتی ہے ۔ فردی زندگی کے لحاظ سے اگر اس آیت کے مضمون کو لیا جائے تو ضحی اور لیل دونوں زمانے رسول کریم ﷺ کی جسمانی حیات کے ساتھ تعلق رکھیں گے لیکن جب اس آیت کو آپؐ کی قومی زندگی پر چسپاں کیا جائے گا تو ضحی اور لیل سے رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد کے وہ دور مراد ہوں گے جو امت محمدیہ پر آنے والے تھے ۔ اللہ تعالی اس آیت میںاسی جماعتی زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے والضحی والیل اذا سجیٰ ۔ ہم اس وقت کو بھی پیش کرتے ہیں جو تیری قومی اور جماعتی زندگی کے لئے ضحی کی حیثیت رکھتا ہو گا اور ہم اس وقت کو بھی پیش کرتے ہیں جو تیری قومی اور جماعتی زندگی کے لئے لیل کا مصداق ہو گا ۔ دنیا میں ہر قوم پر ترقی اور تنزل کے مختلف دور آتے ہیں کبھی اقبال اور فتح مندی اس کے شامل حال ہوتی ہے اور کبھی ادبار اور ناکامی کی گھٹائیںاس پر چھائی ہوتی ہیں بالعموم قومیں ترقی کر کے جب تنزل کی طرف جاتی ہیںتو ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد ہو جاتی ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ محمد ﷺ کا جو زمانہ نبوت ہے یعنی آپ ؐ کے دعویٰ سے لے کر قیامت تک کا زمانہ یہ دور تنزل سے بالکل محفوظ رہے گا ۔ ضحی کی روشنی یکساں جلوہ گر رہے گی ، کبھی لوگ خدا سے دور نہیں ہو ں گے اور ادباریا گمراہی کا زمانہ امت محمدیہ پر نہیںآئے گا بلکہ ہم مانتے ہیں کہ ضحی کی حالتیں بھی امت محمد یہ پر آئیں گے اور والیل اذا سجی کی حالت بھی رونما ہو گی لیکن اس کے ساتھ ہی محمد ﷺ کی قومی حیات کے متعلق ہم ایک وعدہ کرتے ہیں جو دنیا کی اور کسی قوم کے ساتھ ہم نے نہیںکیا کہ اس کی ضحٰی بھی ما ودعک ربک وما قلی کے ماتحت ہو گی اور اس کی لیل بھی ما ودعک ربک وما قلی کا ثبوت ہو گی ۔
جہاں تک ماننے والوں کا تعلق ہے بے شک ان کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے کبھی ان پر ضحی کی گھڑیاں آئیںگی اور کبھی لیل کی تاریکی ان پر چھا جائے گی ۔ مگر جہاں تک شریعت محمدیہ کا اور لوگوں کے خدا تعالی سے تعلق کا تسلسل ہے اس کے لحاظ سے کوئی دور ایسا نہیںہو گا جو ما ودعک ربک وما قلی کے ماتحت نہ ہو۔ قوم پر بے شک تنزل آجائے گا ، لوگ کیْل کی شکل میں بدل جائیں گے ۔ مگر جتنا حصہ محمدیت ؐ کا زندہ رہنا ضروری ہے وہ خدا تعالی کی خوشنودی اور اس کی معیت کے ماتحت قائم رہے گا ۔ اس میں درحقیقت اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جہاں دوسری اقوام خدا تعالی کو چھوڑ کر ترقی کر جاتی ہیں وہاں تیری قوم سے ایسا نہ ہوگا ۔ بلکہ تیری قوم پر جب ضحٰی کا دور آئے گا۔ خدا سے الگ ہو کر دوسری قوموں کیطرح مسلمان کبھی ترقی نہیں کر سکتے ۔ چنانچہ دیکھ لو وہ تمام دوسری اقوام جن میں اللہ تعالی کے انبیاء مبعوث ہوئے تھے جب ان پر روحانی تنزل کا زمانہ آیا تو باوجود اس کے کہ انہوں نے خدا تعالی کو چھوڑ ا ہوا تھا وہ دنیوی لحاظ سے ترقی کر گئیں مگر فرماتا ہے تیری قوم سے ایسا نہیں ہو گا بلکہ اس پر جب بھی ضحٰی کا وقت آئے گا ما ودعک ربک وما قلی کے ماتحت آئے گا۔ اور جب کبھی اللہ تعالی ان کو دنیوی ترقی نصیب کرے گا اس کے ساتھ ہی ان کا دین بھی درست ہو جائے گا۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ان پر ضحی کا وقت ایسی حالت میںآجائے جب خدا تعالی نے انہیں چھوڑا ہو ا ہو یا ان کی دینی اور اخلاقی حالت نا گفتہ بہ ہو ۔ عیسائیوں کو دیکھ لو ان پر دنیوی ترقی کا دور بے شک آیا مگر کس وقت ؟ جب عملی لحاظ سے عیسائیت بالکل مر چکی تھی ۔ تین سو سال کے بعد جب عیسائی روحانی لحاظ سے سخت کمزور ہو چکے تھے اور ان میںحضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو چکی تھیں اس وقت ان پر دینوی ضحٰی کا زمانہ آیا ۔ مگر اللہ تعالی فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ ﷺ تیری امت کے ساتھ ایسا نہیںہو گا ۔ مسلمانوں پر ضحٰی کا دور اسی وقت آئے گا جب خد اتعالی سے ان کا تعلق ہو گا ۔ اگر خدا تعالی سے ان کا تعلق اپنی بداعمالی کی وجہ سے کٹ چکا ہو گا تو ضحی کا دور بھی ان پر کبھی نہیں آئیگا ۔ ضحی کا دور اسی وقت آئیگا جب عملی طور پر وہ خد اسے تعلق رکھ رہے ہوں گے چنانچہ دیکھ لو خلافت راشدہ کا زمانہ جو اسلام کی ترقی کا زمانہ تھا اس وقت یہ دونوں باتیں موجود تھیں ایک طرف روحانیت کا غلبہ موجود تھا اور دوسری طرف دنیوی ضحی کا دور جاری تھا مگر موجودہ زمانہ میںجب تنزل کا دور آیا تو باوجود اس کے کہ مسلمانوں نے ایک ایک کر کے وہ تمام تدا بیر اختیار کیںجو مختلف اقوام اپنی ترقی کے لئے اختیار کرتی ہیں پھر بھی وہ ضحٰی کا دور واپس نہ لا سکے۔ مسلمانوں نے کہا غیر قومیںسود کی وجہ سے ترقی کر گئی ہیں آئو ہم بھی سود لینا شروع کر دیں تا کہ ہم بھی ترقی کی اس دوڑ میں حصہ لے سکیں ۔ انہوں نے سود لیا مگر جہاںدوسری اقوام سود کی وجہ سے ترقی کر گئیں وہاں مسلمان سود لینے کے باوجود تنزل اور ادبار میں گرتے چلے گئے ۔ پھر مسلمانوں نے کہا دنیا میںتعلیم سے ترقی ہوئی ہے آئو ہم بھی تعلیم کی طرف توجہ کریں چنانچہ انہوں نے بڑے زور سے اپنی تعلیمی حالت کو درست کرنا شروع کر دیا مگر جہاں دوسری اقوام تعلیم کی طرف توجہ کرنے کے نتیجہ میںترقی کر گئیں وہاں مسلمان تعلیم میںحصہ لینے کے باوجود گرتے چلے گئے ۔ پھر مسلمانوں نے کہا تجارت میںحصہ لینے سے ترقی ہوا کرتی ہے آئو ہم تجارتوں کی طرف توجہ کریں تا کہ ہم غیر قوموں کی طرح دنیا پر غالب آسکیںچنانچہ انہوں نے تجارتوں کی طرف توجہ کی مگر جہاں دوسری اقوام تجارت سے دنیا میںغالب آگئیںوہاں مسلمان تجارت میںحصہ لینے کے باوجود ذلیل سے ذلیل تر ہوتے چلے گئے ۔ غرض مسلمانوں نے اپنا پورا زور اس غرض کے لئے صرف کردیا کہ وہ کسی طرح ترقی کریں مگر ایک چیز بھی ان کو آگے بڑھانے کا موجب نہ بن سکی حالانکہ یہی وہ چیزیں ہیں جن سے غیر اقوام ترقی کر رہی ہیں۔ پس دنیا میںجس قدر قومیںپائی جاتی ہیں وہ مذہب کو چھوڑنے کے بعد بھی ترقی کر جاتی ہیں مگر مسلمانوں کے متعلق اللہ تعالی نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ ان پر ضحی کا دور ہمیشہ ما ودعک ربک وما قلی کے ماتحت آئے گا یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ خد اتعالی کو چھوڑ دیں اور خدا تعالی ان کو چھوڑ دے اور پھر بھی غیر قوموں کیطرح ترقی کر جائیں۔ اس کی ایک مادی وجہ ہے اور ایک روحانی ۔ مادی وجہ تو یہ ہے کہ پہلے مذاہب کی تعلیمات سوائے یہود کے اس طرح کی تفصیلی نہیںجس طرح اسلام کی تعلیم اپنے اندر تفصیل رکھتی ہے اس لئے ان کو چھوڑ کر بھی اقوام ترقی کر جاتی ہیں کیونکہ ذہنی کشمکش کوئی نہیں ہوتی وہ جو حالت بھی اختیار کرتی ہیں اسی کا نام اپنا مذہب رکھ لیتی ہیں ۔ جیسے مسیحت ہے یا ہندو مت ہے لیکن اسلام کی تعلیم تفصیلی اور محفوظ ہے اور ہمیشہ محفوظ رہے گی اسے چھوڑ کر جب بھی مسلمان آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے ان کے دماغ میں ایک ذہنی کشمکش شروع ہو جائے گی جو اطمینان قلب کو دور کر دیتی ہے اور یا تو مذہب سے دست بردار کر وا دیتی ہے یا ترقی سے روک دیتی ہے ۔
روحانی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی قوم کو بغیر مذہب کے خدا تعالی ترقی کرنے دے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالی نے اس قوم کو چھوڑ دیا کیونکہ اس کے بعد کوئی ایسا کوڑا نہیںرہتا جو اس قوم کی تنبیہ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہو ۔ اللہ تعالی نے گزشتہ قوموں کو مذہب کے بغیر بھی دنیوی ترقی دے دی کیونکہ خد اتعالی ان قوموں کو چھوڑچکا تھا ۔ مگر فرماتا ہے اے محمدرسول اللہ ﷺ ہم نے چونکہ تجھے کبھی نہیں چھوڑنا اس لئے ہم تیری قوم کو بھی کبھی نہیںچھوڑیں گے اور وہ بغیر مذہب کی درستی کے دنیا میں کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے ۔ کیونکہ اگر ہم مذہب کے بغیر ہی ان کو ترقی دے دیں تو وہ غلطی سے یہ سمجھ لیں گے کہ خدا تعالی ہم سے خوش ہے اور وہ دین سے اور بھی دور جا پڑیںگے ۔ اس لئے ہم دین سے غفلت کی حالت میں کبھی ان پر ضحٰی نہیں لائیں گے ۔ بلکہ جب بھی وہ دین سے غافل ہوں گے اور لیل کی حالت ان پر وارد ہو گی ہم انہیں سزا دیںگے کیونکہ اگر ہم سزا نہ دیںتواس میں ان کی موت ہے ۔ پس فرمایا مسلمان جب تک دین پر عمل پیرا رہیں گے ہم ان کے ساتھ رہیں گے اور انہیں دنیوی ترقیات سے بھی حصہ دیں گے مگر جب وہ ہمیںچھوڑ دیں گے ہم بھی ان کو چھوڑ دیںگے اور ان کی ان کی بد اعمالی کی سز ا دیں گے ۔ مگر ا س لئے نہیں کہ ان پر موت آئے بلکہ اس لئے کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ وہ پھر تیری طرف واپس آئیں اور تیرے دین کو مضبوطی سے پکڑ لیں ۔ گویا دونوں حالتوں میںہمارا ان کے ساتھ معاملہ محض اس لئے ہو گا کہ وہ تیرے دامن سے وابستہ رہیں اور کبھی ایک آن اور ایک لمحہ کے لئے بھی اسے چھوڑنے کا خیال نہ کریں ۔ جب وہ ترقی کریں گے ایسی حالت میںکریں گے کہ تو ان کے ساتھ ہو گا ۔ اور جب تو ان کے ساتھ نہیں ہو گا ہم انہیںسرزنش کریں گے تا کہ روشنی اور ضحی والا دور پھر واپس آجائے ۔ گویا تاریکی اور تنزل کی گھڑیوں میں بھی ہمارا ان کے ساتھ ایسا سلوک ہو گا جو ما ودعک ربک وما قلی کا ثبوت ہو گا ۔ ہم انہیں سرزنش اور تنبیہ کریں گے تاکہ وہ اپنی حالت کو بدل لیں اور جب اس تنبیہ کے بعد قوم تیری طر ف واپس لوٹے گی پھر تیرے انوار اور برکات کا دنیا میںظہور شروع ہو جائے گا گویا ضحی کے وقت بھی ما ودعک ربک وما قلی کا ظہور ہو گا ۔ ضحی کے وقت اس طرح کہ جب کبھی وہ ترقی کریںگے اسلام کا نور دنیا کو نظر آنے لگ جائے گا اور لیل کے وقت اس طرح کہ جب ان میںتنزل واقعہ ہو گا خدا تعالی کوڑے مار مار کر تیری طرف واپس لائے گا یا خدا تعالی کوئی روحانی سلسلہ ایسا پھر قائم کر دے گا جو تیرے جلال اور جمال کو دنیا پر ظاہر کر نے والا ہو گا۔
غرض روحانی طورپر چونکہ اسلام آخری مذہب ہے اس لئے اللہ تعالی کی خاص تقدیریں مسلمانوں کو بغیر اسلام کے ترقی کرنے نہیں دیتیں تا کہ وہ مطمئن ہو کر دین سے غافل اور بے پرواہ نہ ہو جائیں ۔ اور یہی مضمون والضحٰی اورما ودعک ربک وما قلی میںبیان کیا ہے کہ اسلامی ترقی اور الہی قرب ہمیشہ قدم بقدم بڑھیں گے ۔ الہی قرب اور معیت اور رضا ء کے بغیر امت مسلمہ کو ترقی نہیں ہو گی جب بھی مسلمان دین کو چھوڑ دیں گے ترقیات ِ دنیویہ سے بھی محروم ہو جائیں گے ۔
آٹھویں معنے والیل اذا سجیٰ کے یہ ہیں کہ اسلام پر تنزل کا زمانہ بھی آئے گا مگر وہ دائمی نہیں ہو گا اور ما ودعک ربک وما قلی۔ کا ایک ثبوت ہوگا یعنی پھر وہ زمانہ اچھے زمانہ سے بدل جائے گا یعنی ہر تاریکی کے بعد روشنی کا زمانہ آتا رہے گا ۔ تاریکی کے زمانہ میں معیت اور رضا ء الہی کی یہی دلیل ہوتی ہے کہ وہ جاتی رہے پس رات کے زمانہ میں بھی خدا تعالی کے راضی رہنے کے یہی معنے ہیں کہ خدا تعالی پھر اسلام کی تازگی کے سامان پیدا کر دے گا پھر اللہ تعالی اپنا کوئی مامور لوگوں کی اصلاح کے لئے کھڑا کر دے گا۔ مسلمان اپنی کوششوں سے مایوس ہو کر اس کی طرف آئیں گے اور چونکہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا قائم مقام ہو گا اس لئے اس کی طرف آنا تیری طرف واپس آنا ہو گا۔
نویں معنے اس آیت کے یہ ہیںکہ شریعت ِ اسلامیہ ترقی اور تنزل دونوں زمانوں میں محفوظ رہے گی ۔ قومیں شریعتوں کو دونوں زمانوں میں بدل دیتی ہیںبعض تنزل کے زمانہ میں اپنی غفلت سے بدلنے دیتی ہیں اور بعض ترقی کے زمانہ میں اپنی اغراض کے لئے بدل دیتی ہیں لیکن اللہ تعالی فرماتا ہے والضحی والیل اذا سجیٰ ۔ پہلی جماعتوں کی یہ کیفیت رہی ہے کہ یا تو ضحی اور ترقی کے زمانہ میںجب وہ عیاشی میںمبتلا ہو گئیں ۔ انہوں نے شریعت کے ان احکام کو بدل ڈالا جو ان کی خواہشات میں حائل تھے ۔جیسے عیسائیت میں جب حکومت آئی اور غالب قوم نے کہا کہ ہفتہ کی بجائے اتوار عبادت کا دن مقرر کر دیا جائے کیونکہ ہمیں اس میں سہولت ہے تو عیسائیوں نے فوراً اس کو بدل دیا اور ہفتہ کی بجائے اتوار کا دن عبادت کے لئے مقرر کر دیا ۔ یا اس قوم کے افراد نے جب کہا کہ کفر کی حالت میںہم اپنی عید فلاں فلاں دنوں میں منایا کرتے تھے عیسائیت میںبھی وہی دن مقرر ہونے چاہئیں تو عیسائیوں نے اس کو بھی مان لیااور عیسوی احکام کو بدل ڈالا ۔ اور یا پھر شریعت کے احکام تنزل کے زمانہ میں بدل جاتے ہیں جب قوم میںغفلت پیدا ہوجاتی ہے اور شرعی احکام کی عظمت اس کی نگاہ سے زائل ہو جاتی ہے غرض دو اوقات میںہی شریعتیں بدلی جاتی ہیں کبھی ضحی کے وقت شریعتیں بدلی جاتی ہیں اور کبھی لیل کے وقت ۔ ضحی کے وقت عیاشی کے لئے احکام شرعیہ کو قومیں بدل دیتی ہیں اور لیل کے وقت یا تودشمن ان کی کتابوں کو جلا دیتے ہیں اور یا اپنی کمزوری کی وجہ سے وہ خود ہی اس کی حفاظت کا فرض سر انجام نہیں دے سکتیں ۔ جیسے بختؔنصر جب یہود کو جلا وطن کر کے لے گیا تو وہ یہودی قوم کے لئے لیل کا وقت تھا ۔ جب وہ واپس اپنے وطن میںآئے تو ان کی کتاب تورات غائب تھی ۔ چنانچہ اس وقت عزراؔ نبی نے مع چند احبار کے تورات کو اکٹھا کیا مگر بہرحال وہ ویسی نہیں تھی جیسی حضرت موسیٰ ؑ پر نازل ہوئی تھی ۔ غرض شرائع دو زمانوں میں بدلی جاتی ہیں یا ترقی کے زمانہ میںیا تنزل کے زمانہ میں ۔ ترقی کے زمانہ میںقوم شریعت کو اس لئے بدلتی ہے تا کہ وہ عیاشی میں حصہ لے سکے اور تنزل کے زمانہ میںقوم کی غفلت اور کوتاہی سے شرعی احکام بدلے جاتے ہیں تا دشمن شریعت کی کتابوں کو جلا دیتا ہے تا کہ یگا نگت اور اتحاد کی روح قوم سے مٹ جائے ۔ اللہ تعالی اس امر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے یہ دونوں حالتیںتیری قوم پر نہیں آئیںگی اور ترقی اور تنزل دونوں دور میںہم تیرے ساتھ رہیں گے اور تیرے کام کو تباہ نہیںہونے دیں گے ۔ رسول کریم ﷺ تو آخر ایک دن فوت ہونے والے تھے صرف قرآن ہی ایک ایسی کتاب تھی جو قیامت تک موجود رہنے والی تھی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ خواہ تیری قوم پر ترقی کے اوقات آئیںیا تنزل کی گھڑیاں آئیںہم اس کلام کو جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے کبھی بدلنے نہیں دیں گے اور ہمیشہ اس کی حفاظت کریں گے ۔ اصل بات یہ ہے کہ محض قومی تنزل کوئی حقیقت نہیں رکھتا وہ تنزل تو افراد کی خرابی پردلالت کرتا ہے اگر کوئی قوم تنزل کے بعد ترقی کر جائے تو پھر اس کی گزشتہ ناکامیوں کا داغ دھل سکتا ہے لیکن اگر شریعت بدل جائے اور قوم ترقی کر جائے تو اس ترقی کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔ پس جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ محض قومی تنزل نہیںیا لوگوں کی حالت کا بدل جانا نہیںبلکہ اصل اہمیت رکھنے والی چیز رسول کا بدل جانا ہے یعنی اس کی تعلیم کا بدل جانا اور اس کے کلام کا خراب ہو جانا۔ سو اس کی حفاظت کا اللہ تعالی نے ان آیات میںوعدہ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ترقی اور تنزل دونوں دور میںہم اس کلام کی حفاظت کریںگے جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے ۔
ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی ۔ O ط
اور (دیکھ تو سہی کہ ) تیری ہر پیچھے آنے والی گھڑی پہلی سے بہتر ہوتی ہے ۔
۳؎ تفسیر ۔ بہت سے ترقی کرنے والے یکدم بڑھتے ہیں مگر آخر ٹھوکر کھاتے اور گر جاتے ہیں ۔ چنانچہ دیکھ لو ہٹلر ؔ ۔ نیپولین ؔ ۔ تیمور ؔ اور سکندرؔ سب ایسے ہیں جو دنیا میں بڑھے اور انہوں نے ترقی کی مگر آخر ناکامی پر ان کا خاتمہ ہوا ۔ اسی طرح اور کئی بڑے بڑے لوگ دنیا میںگزرے ہیں جنہوں نے حیرت انگیز ترقیات کیںمگر آخر وہ گر گئے اور ان کی تمام شہرت اور ناموری جاتی رہی ۔ پھر بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بڑے ذہین ہوتے ہیں مگر آخر میںپاگل ہو جاتے ہیں یا اپنی ذہانت کو کھو بیٹھتے ہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب آزادؔ لاہور میں رہتے تھے بڑے ذہین اورقابل آدمی تھے بہت بڑی علمیت کے مالک تھے مگر آخر میںان کے دماغ میںنقص واقع ہو گیا اور یہ حالت ہو گئی کہ وہ بازار میں سے گذرتے تو لوگ اکھٹے ہو جاتے اور جب ان سے کوئی بات کرتا تووہ اسے گالیاں دینے لگ جاتے ۔ عالم ہوتے ہیں مگر آخر میں جاہل ہو جاتے ہیں ، ان کا حافظہ خراب ہو جاتا ہے اور وہ علم جو انہوں نے سیکھا ہوتا ہے سب بھول جاتا ہے ۔ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جومحبوب ہوتے ہیں مگر آخر میں متروک ہو جاتے ہیں بلکہ جس قدر جسمانی محبوب ہوتے ہیں ان سب کا یہی حشر ہوتا ہے ۔ جوانی میں ہر شخص ان کی طرف دیکھتا ہے مگر جب ان کے دانت گرجاتے ہیں ، جب ان کی کمر جھک جاتی ہے ، جب ان کے چہرہ پر جھریا ں پڑجاتی ہیں ۔ تو بد صورت سے بد صورت انسان بھی ان کو دیکھ کر ہنستا ہے اور کیسا ہے یہ کیسا بد شکل انسان ہے ۔
فرانس کا ایک قصہ مشہور ہے ۔ ایک شخص نے فرانس کی ایک بڑھیا عورت کو دیکھا تو اس کی شکل و صورت اور رفتار کو دیکھ کر سخت کراہت کا اظہار کیا وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی اور اسے ایک تصویر دکھا کر کہا کہ جانتے ہو یہ کس کی تصویر ہے ؟ وہ کہنے لگا ہاں میںجانتا ہوں یہ فلاں حسین عورت کی تصویر ہے میری ماں اس کی سہیلی تھی اور یہ عورت اتنی حسین اور خوبصورت تھی کہ سارا پیرس اس پر شید ا تھا ۔ جب وہ یہ بات کہہ چکا تو عورت کہنے لگی یہ میری ہی تصویر ہے ۔ تو کئی محبوب ہوتے ہیں مگر آخر میں مبغوض ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالی فرماتا ہے اے ہمارے رسول ! تیرا یہ حال نہیں ہو گا ۔ تجھ کو جو ترقیات ملیں گی وہ ہر قدم پر بڑھتی چلی جائیںگی ۔ پہلے مدینہ کا گرد و نواح صاف ہوا، پھر مکہ فتح ہوا، پھر سارا عرب پھر شام اور عراق اور مصر فتح ہوئے ۔ غرض ہر قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا ۔
ممکن ہے کوئی کہے کہ مکہ تو آپ ؐ کے ہاتھوں پر فتح ہوا تھا مگر عراق اور مصر وغیرہ تو محمد رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد فتح ہوئے ہیں اس لئے شاید غلطی سے یہ نام لے لئے گئے ہیںمگر میںنے غلطی نہیںکی میںنے دیدہ و دانستہ شام اور عراق اور مصر وغیرہ کا نام لیا ہے ۔ اسی طرح ممکن ہے کوئی کہے کہ اگر ولااٰخرۃ خیر لک من الاولیکے ثبوت میں عراق اور مصر وغیرہ کی فتوحات کو پیش کیا جاسکتا ہے تو پھر اس بات کا کیا جواب ہے کہ ان فتوحات کے بعد اسلام کا تنزل شروع ہو گیا اور آخرۃ اولیٰ سے بہتر نہ رہی ۔ میں اس کوبھی درست سمجھتا ہوں اور اس کو بھی درست سمجھتا ہوں ۔ اصل بات یہ ہے خد اتعالی نے جو کچھ فرمایا تھا وہ یہ تھا کہ ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے ہمیشہ یہ قانون رہے گا کہ ان کی آخرت اولیٰ سے بہتر ہو گی ۔ جب تک محمد رسول اللہ ﷺ موجود رہے اسلام بڑھتا رہا اور جب محمد رسول اللہ ﷺ کو لوگوں نے چھوڑ دیا اسلام کا تنزل شروع ہو گیا ۔ عراق اور شام اور مصر مسلمانوں کو اس لئے ملے کہ محمد رسول اللہ ﷺ ان میںموجود تھے ۔ بے شک جسمانی اعتبار سے آپ ؐ وفات پا چکے تھے مگر روحانی اعتبار سے آپ ؐ کا وجود امت میں موجودتھا اور گو جسد ِ عنصری کے ساتھ آپؐ دنیا میں زندہ نہیں تھے مگر ابو بکر ؓ کے دل میں محمد رسول اللہ ﷺ زندہ موجود تھے ۔ عمر ؓ کے دل میں محمد رسول اللہ ﷺ زندہ موجود تھے ۔ عثمان ؓ کے دل میں محمد رسول اللہ ﷺ زندہ موجود تھے ۔ علی ؓ کے دل میں محمد رسول اللہ ﷺ زندہ موجود تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ فتوحات پر فتوحات ہوتی چلی گئیں مگر جب وہ لوگ آگئے جن کے دلوں میں محمد رسول اللہ ﷺ زندہ نہ تھے مسلمانوں کا تنزل شروع ہو گیا ۔ آخر غور کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالی نے تو یہ نہیں کہا کہ وللاٰخرۃ خیر لیزید ۔یزید ؔ کے لئے بھی آخرۃ اولیٰ سے بہتر ہو گی ۔ خدا تعالی نے جو کچھ فرمایا تھا وہ یہ تھا کہ ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی ۔ اے محمد رسول اللہ ﷺ تیرے لئے آخرت اولیٰ سے بہتر ہو گی چنانچہ جب تک محمد رسول اللہ ﷺ عملی طور پر دنیا میں موجود رہے مسلمانوں کے ساتھ بھی یہ وعدہ پورا ہوتا رہا ۔ جب وہ لوگ آگئے جن کو محمد(ﷺ) نہیں کہا جا سکتا تھاجو آپ ؐ کے نقش ِ قدم پر چلنے والے نہیں تھے تو خدا تعالی نے بھی ان کو چھوڑ دیا ۔
تب دیکھو ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی کی صداقت کا یہ کیسا شاندار نظارہ تھا کہ جب آپؐ بدرؔ کی جنگ پر تشریف لے گئے تو صرف ۳۱۳ صحابہ ؓ آپ ؐ کے ساتھ تھے ۔ احد ؔ کی جنگ آئی تو ایک ہزار صحابہ ؓ آپ ؐ کے ساتھ تھے ۔ خندق ؔ کی جنگ آئی تو تین ہزار صحابہ ؓآپ ؐ کے ساتھ تھے۔ غرض ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی کے مطابق یہ تعداد بڑھتی چلی گئی ۔
پھرآپ ؐ کا تقویٰ اور صلاح بھی ترقی کرتے چلے گئے ۔ دولت و امارت نے آپ کو جابر اور متشدد نہیں بنایا وہی غربا ء پروری وہی انکسار اور وہی عبادت اور وہی استغناء آخر تک رہا۔ فتح مکہ کے بعد آپ کے گلے میں ایک شخص نے پٹکا ڈال دیا مگر آپ ؐ خاموش رہے ۔ ایک ظالم نے یہ اعتراض کیا کہ تلک قسمۃ لا تراد بھا وجہ اللہ ۔ آپ ؐ نے مال اس طرح تقسیم کیا ہے کہ اس میں خدا تعالی کی خوشنودی مد نظر نہیں ۔ مگر قتل کرنے کی خواہش کرنے والے کو منع فرما دیا۔
جسمانی لحاظ سے دیکھو تو وہ شخص جو اکیلا مکہ میںسے نکلا تھا دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوا ۔ روحانی لحاظ سے دیکھو تو محمد ﷺ جو مکہ میں چار پانچ لوگوں کو پالنے والا تھا وہ مدینہ میں لاکھوں کو پالنے والا بن جاتا ہے اور ان کو اسی طرح پالتا ہے جس طرح مکہ میں وہ چند افراد کو جنہیںانگلیوں پر شمار کیا جا سکتا تھا پالتا تھا۔
جب فتوحات ہوئیںتو حضرت عمر ؓ ایک دن بازار سے رسول کریم ﷺ کے لئے ایک اچھا کوٹ خرید لائے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ کوٹ مجھے بڑا اچھا لگا تھا میں آپ کے لئے خرید لایا ہوں ، اب فتوحات ہوئی ہیں ، بڑے بڑے بادشاہ اور وفود آپ ؐ سے ملنے کے لئے آتے ہیں ۔ جب وہ آئیں آپ ؐ یہ کوٹ پہن لیا کریں۔ رسول کریم ﷺ نے یہ بات سنی تو آپ ؐ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ ؐ نے فرمایا خد ا تعالی نے مجھے ان کاموں کے لئے نہیںبھیجا ، میں اس کوٹ کو نہیں پہن سکتا اسے واپس لے جائو۔ غر ض یہ نہیںہوا کہ فتوحات کے وقت آپ کی حالت میں کوئی فرق پیدا ہو جاتا اور آپ زیادہ اعلیٰ لباس یا زیادہ آسائش کے سامان اپنے لئے پسند فرماتے بلکہ ہمیشہ آپؐکے تقویٰ اور بِرّ میںزیادتی ہی ہوتی چلی گئی ۔
پھر محبوبیت کا یہ حال تھا کہ روز بروز اس میں کمال پیدا ہوتا گیا ۔ مکہ کے لوگ آپ ؐ بے شک فدائی تھے مگر مکہ سے نکلنے کے بعد انہوں نے اپنی فدائیت کے نظارے دکھلائے ۔ مکہ میں صحابہؓ کی فدائیت کا جو نظارہ نظر آتا ہے وہ بہت کم ہے اور ا سکی مثالیںزیادہ نہیں ۔ ایک حضرت علی ؓ کا واقعہ ہے جو فدا ئیت کے ثبوت میںپیش کیا جا سکتاہے اور یا پھر غارِ ثور میں حضرت ابو بکر ؓ کی فدائیت کا واقعہ ہے جو نظرآتا ہے ۔ ان کو مستثنیٰ کر تے ہوئے مکہ میں فدائیت کے نظارے بہت کم نظر آتے ہیں بلکہ ہم دیکھتے ہیںمکہ والے مظالم سے تنگ آکر حبشہ چلے جاتے ہیں اور رسول کریم ﷺ کو اکیلا چھوڑجاتے ہیں ۔ مگر مدینہ میں آپ کو جو انصار و مہاجرین کی جماعت ملی اس نے آپ ؐ سے جس محبت کا سلوک رکھا ہے اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی ۔ جنگِ بدر کے موقع پر انصار نے رسول کریم ﷺ کے لئے ایک الگ مقام بنا دیا اور وہاں دو تیز رفتار اونٹنیاں باندھ کر رسول کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کو اس جگہ بٹھا دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ جنگ ہونے والی ہے ورنہ ہمارے دوسرے بھائی بھی اس سعادت سے محروم نہ رہتے ۔ یا رسول اللہ ! اگر ہم سب کے سب مارے جائیںتو آپ ؐ اور ابوبکر ؓ ان تیزرفتار اونٹنیوں پر سوار ہو کر مدینہ تشریف لے جائیں وہاں اسلام کی ایک بہادر فوج موجود ہے حضور ؐ جو بھی حکم دیں گے ہمارے وہ بھائی اس کو پوری خوشی کے ساتھ قبول کریں گے اور اپنی جانیں اسلام کے لئے قربان کر دیں گے ۔ پھر ہم احد کے موقعہ پردیکھتے ہیں کہ صحابہؓ نے فدائیت کا کیسا شاندار نمونہ دکھایا ۔ ایک مہاجر حضرت طلحہ ؓ تھے جو رسول کریم ﷺ کے پاس کھڑے تھے دشمن کے تیروں کا اصل نشانہ چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ تھے اس لئے جو بھی تیر آپ ؐ کی طرف آتا حضرت طلحہؓ اس کو اپنے ہاتھ پر لے لیتے ۔ یہاں تک کہ تیروں کی بوچھاڑ کہ وجہ سے ان کا ہاتھ شل ہو گیا ۔ کسی نے بعد میں ان سے پوچھا کہ جب آپ کو تیر لگتے تھے تو آپ کے منہ سے آہ نہیں نکلتی تھی؟ حضرت طلحہ ؓ نے جواب دیا آہ نکلنا تو چاہتی تھی مگر میں نکلنے نہیں دیتا تھا تا ایسا نہ ہو کہ میں آہ کروں اور کوئی تیر رسول کریم ﷺ کو جا لگے ۔ دوسرا واقعہ مالک انصاری کا ہے ۔ پہلی فتح کے بعد وہ الگ جا کر کھجوریںکھانے لگے کیونکہ سخت بھوکے تھے ۔ پھرتے ہوئے ایک جگہ آئے تو انہوں نے دیکھا حضرت عمر ؓ ایک ٹیلہ پر بیٹھے ہو ئے رو رہے تھے انہوں نے حیرت سے کہا عمر کیا ہوا یہ رونے کا مقام ہے یا ہنسنے کا ؟ خدا تعالی نے اسلام کو فتح دی ہے اور تم بیٹھے رو رہے ہو ؟ حضرت عمر ؓ نے کہا تم کو پتہ نہیںکہ فتح کے بعد کیا ہوا؟وہ کہنے لگے کیا ہوا؟ حضرت عمر ؓ نے کہا فتح کے بعد لڑائی کا پانسہ پلٹ گیا ۔ مسلمان مال ِ غنیمت جمع کرنے میںمشغول تھے ، لشکر تتر بتر تھا کہ دشمن نے موقع پا کر حملہ کر دیا اور اس نے حملہ ایسا شدید کیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ بھی شہید ہو گئے ۔ مالکؓ نے کہا عمر ؓ پھر تو بیٹھ کر رونے کا کوئی موقعہ نہیں اگر محمد رسول اللہ ﷺ شہید ہو گئے ہیں تو پھر جہاں ہمارا پیارا گیا وہیںہم جائیںگے ۔ یہاں بیٹھنے کا کون سا موقعہ ہے ۔ یہ کہا اور صرف ایک ہی کھجور جو ان کے ہاتھ میں رہ گئی تھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے میرے اور جنت کے درمیان سوائے اس کھجور کے اور کونسی چیز حائل ہے ۔ یہ کہہ کر انہوں نے کھجور کو پھینک دیا اور تلوار لے کر دشمن کے لشکر پر ٹوٹ پڑے ۔ اب بظاہر ان کے دل میں یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ جس شخص کے لئے ہم قربانی کر رہے تھے جب وہی نہیں رہا تو اب قربانی کرنے کا کیا فائدہ ہے مگر وہ یہ نہیں کہتا کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے قربانی کر رہے تھے جب وہ نہیں رہے تواب قربانی کا کیا فائدہ۔ بلکہ وہ کہتے ہیںجس کام کے لئے وہ کھڑے ہوئے تھے اس کام کے لئے ہمیںاسی جوش اور اسی ولولہ کے ساتھ قربانی کرنی چاہیئے جس جوش اور ولولہ کے ساتھ ہم آپؐ کی زندگی میںقربانی کیا کرتے تھے اگر وہ زندہ نہیںرہے تو پرواہ نہیں۔ میںاکیلا جائوں گا اور دشمن سے لڑوں گا ۔ چنانچہ وہ تلوار لے کر اکیلے دشمن پر ٹوٹ پڑے ۔ ایک آدمی تین ہزار کے لشکر کے مقابلہ میںکیا کر سکتا ہے چنانچہ لڑائی کے بعد ان کے جسم کے ستر ٹکڑے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے گئے تب ان کی لاش مکمل ہوئی ۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کس طرح مجنونانہ طورپر لڑے تھے اول تو جب تک زندہ رہے انتہائی دلیری کے ساتھ لڑتے رہے پھر جب ایک ہاتھ کٹا تو دوسرے ہاتھ میں تلوار سنبھال لی ۔ دوسرا ہاتھ کٹ گیا تو منہ میں تلوار لے لی اور دشمن کو مارتے چلے گئے یہ دیکھ کر دشمن کو بھی شدید غصہ پیداہوا اور اس نے ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے ۔ لڑائی کے بعد جب ان کے جسم کے مختلف ٹکڑے اکٹھے کئے گئے تو تلوار کے زخموں کی وجہ سے ان کی لاش پہچانی نہیںجاتی تھی ۔ آخر ان کی ایک انگلی ملی جس پرایک نشان تھا اس نشان کو دیکھ کر مالک انصاری کی بہن نے کہا کہ یہ میرے بھائی کی لاش ہے ۔ غرض ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی کے مطابق آپ ؐ کی محبوبیت میںروز بروز کمال پید ا ہوتا چلا گیا اور صحابہ کرام ؓ نے اپنی فدائیت کے وہ نظارے دکھلائے جو آج تک کسی نبی کے ماننے والے دکھلا نہیںسکے ۔
پھر آپ ؐ کی وفات پر جو واقعہ ہوا وہ صحابہ کرام کی اس محبت کا کتنا بڑا ثبوت ہے جو وہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ رکھتے تھے۔ وہ صحابہ ؓ جو دن رات سنتے تھے کہ مردے زندہ نہیں ہوتے ، وہ صحابہ ؓ جو روزانہ سنتے تھے کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر بھی وفات آسکتی ہے ۔ان پر اس وقت ایسی جنون کی کیفیت طاری ہوگئی کہ باوجود اس مضمون کے جو روزانہ ان کے سامنے دہرایا جاتا تھا ان کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ رسول کریم ﷺ فوت نہیں ہوئے یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ تلوارلے کر کھڑے ہو گئے کہ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ محمد رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے ہیںتو میںاس کی گردن کاٹ دوں گا ۔ حضرت حسان ؓ کہتے ہیں ہمارے دلوں میںمایوسی پید اہو چکی تھی مگر جب عمر ؓ تلوار لے کر کھڑے ہو گئے تو ہمارے دلوںمیں بھی جھوٹی امید پید اہو گئی اور ہم خوش ہوگئے کہ چلو وہ بات غلط نکلی محمد رسول اللہ ﷺ تو زندہ موجود ہیں۔ آخر حضرت ابو بکر ؓ آئے ، منبر پر چڑھے اور انہوں نے تمام لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا من کان منکم یعبد محمد ا فان محمد قد مات کہ تم میں سے جو شخص محمد رسول اللہ ﷺ کی عبادت کیا کرتا تھا تو وہ اچھی طرح سن لے کہ محمد رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے ہیں۔ ومن کان منکم یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت ۔ لیکن تم میںسے جو شخص اللہ تعالی کی عبادت کرتا تھا اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ اللہ زندہ ہے اوروہ کبھی مر نہیں سکتا ۔ پھر آپ ؓ نے یہ آیت پڑھی کہ ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ۔ محمد ﷺ تو صرف اللہ کے رسول ہیںاگر وہ مر جائیںتو کیا تم اپنے ایمان سے پھر جائو گے ۔ جب ابو بکر ؓ نے یہ بات بیان کی تب صحابہ ؓ کی آنکھیںکھلیں۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیںجب انہوں نے یہ آیت پڑھی تب مجھے ہوش آیا اور یا تو میری یہ حالت تھی کہ ابو بکر ؓ کے رعب سے میںفوراً تلوار نہیں چلا سکتاتھا اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ یہ بڈھا اپنی بات ختم کر لے تو میںاس کی گردن اڑا دوں اور یا جب حضرت ابو بکرؓ نے اپنی بات ختم کر لی تو میری ٹانگیں کانپ گئیں اور میںزمین پر گر گیا ۔ اس وقت صحابہ ؓ کو اپنے محبوب کی جدائی سے جس قدر غم ہوا ا س کا اندازہ اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے جو حضرت حسان ؓ نے رسول کریم ﷺ کی وفات پر کہا ۔ جب انہیں یقین آگیا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو چکے ہیںتو حضرت حسان ؓ نے کہا ؎
کنت السواد لناظری فعمی علی الناظر
من شاء بعدک فلیمت فعلیک کنت احاذر
وہ کہتے ہیں جب عمر ؓ کے کھڑے ہونے سے پہلے تو ہم نے سمجھا کہ شاید یہ بات غلط ہو کہ محمد ﷺ وفات پا چکے ہیں مگر جب ابو بکر ؓ نے ہماری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا تو بے اختیار میری زبان پر یہ شعر جاری ہو گیا ؎
کنت السواد لناظری فعمی علی الناظر
من شاء بعدک فلیمت فعلیک کنت احاذر
اے محمد ﷺ توُ تو میری آنکھ کی پتلی تھا تیرے مرنے سے میری آنکھ کی پتلی جاتی رہی ہے اور میں اندھا ہو گیا ہوں اے محمد رسول اللہ ﷺ جب تک تو ُ زندہ رہا مجھے وہ سب کے سب فوائد تجھ سے مل رہے تھے جو کسی کو مل سکتے ہیں ۔ مجھے دین بھی مل رہا تھا اور دنیا بھی مل رہی تھی اور مجھے دنیا کی ہر نعمت اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آتی تھی لیکن آج جب کہ تو زندہ نہیں رہا مَیں اندھا ہو گیا ہوں ۔ اس لئے اے محمد ﷺ کوئی مرے ۔ باپ مرے بیٹا مرے ۔ بیوی مرے بھائی مرے مجھے کسی کی پرواہ نہیں ۔ مجھے تو تیری جان کا ہی ڈر لگا ہوا تھا ۔ دیکھو یہ کیسی شاندار محبت تھی جس کا صحابہ نے رسول کریم ﷺ کی وفات پر نمونہ دکھایا اور جو ثبوت تھا اس بات کا کہ ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی ۔ لوگ مرتے ہیں تو دنیا انہیںبرا بھلا کہتی ہے ۔ کہتے ہیں اچھا ہوا چھٹکارا ہوا ۔ خس کم جہاں پاک ۔ مگر محمد رسول اللہ ﷺ فوت ہوتے ہیں تو بیویاں کیااور بچے کیا اور ساتھی کیا ہر شخص کا دل غمگین ہو جاتا ہے ۔
پھر یہ بھی دیکھ لو کہ پہلاگھر مکہ کا تھا جہاں صرف چند رشتہ دار آپ ؐ کے پاس تھے یا آپ ؐ کے چچا ابو طالب آپ ؐ کی مدد کیا کرتے تھے مگر ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی کے مطابق دوسرا گھر خد اتعالی نے آپ کو مدینہ میں دیا جو پہلے سے بہتر ثابت ہوا مکہ میں صرف دس بیس فدائی تھے اور مدینہ میں شہر کا شہر ۔ مرد کیا اور عورتیں کیا ۔ بچے کیا اور بوڑھے کیا سب آپؐ پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے ۔
پھر ذہانت آپؐ کی آخر تک قائم رہی ۔ انسان بالعموم آخرعمر میںجا کر کمزور دماغ ہو جاتے ہیں اور ان کا علم سلب ہونا شروع ہو جاتا ہے مگر آپ ؐ کے علم اور ذہانت میںآخر تک کوئی فرق نہ آیا بلکہ ہر دن جو آپ ؐ کی زندگی میںآیا پہلے سے بڑھ کر آیا ۔ اسی طرح جو کلام آپ پر نازل ہوا وہ آخر دم تک نازل ہوتا رہا اور ہر روز نئی سے نئی باتوں کا آپؐ کو اللہ تعالی کی طرف سے علم دیا جاتا رہا ۔ غرض کوئی دن آپ کی زندگی میںایسا نہ آیا جب لوگوں نے یہ کہا ہو کہ یہ سٹھیا گیا ہے ، اس کا دماغ کمزور ہوگیا ہے ، اس کا علم جاتا رہا ہے بلکہ ہر دن جو آپؐ پر آیا پہلے سے زیادہ علم لے کر آیا اور پہلے سے زیادہ دنیا کے سکھانے اور سمجھانے اور پڑھانے میں صرف ہوا اور اس طرح اللہ تعالی نے اس آیت کی صداقت کو واضح کر دیا کہ ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی ۔ تیرے لئے آخرت پہلی حالت سے بہترہو گی ۔
ولااٰخرۃ خیر لک من الاولیکے ایک اور معنے بھی ہیں جو قبض اور بسط کی روحانی کیفیات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالی نے ما ودعک ربک وما قلیٰ ۔ میں یہ مضمون بیان کیا تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بسط کی حالت بھی خدا تعالی کی معیت کا ثبوت ہو گی اور ان کی قبض کی حالت بھی ما ودعک ربک وما قلیٰ ۔ کا ثبوت ہو گی۔ اب اس آیت میں یہ بتاتا ہے کہ ہم ایک بات کی تمہیں تسلی دلا دیتے ہیں اور وہ یہ کہ تم ان روحانی لہروں میں یکساں نہیں چلو گے بلکہ پہلے سے اونچے نکلتے چلے جائو گے ۔ لہر کی رفتار دراصل دو قسم کی ہوتی ہے ۔ ایک رفتار تو اس قسم کی ہوتی ہے کہ ایک ہی مقام پر وہ اوپر نیچے ہوتی چلی جاتی ہے لیکن ایک رفتار ا س قسم کی ہوتی ہے کہ ہر دفعہ نیچے آکر وہ پہلے سے اور زیادہ اونچی چلی جاتی ہے یہی مضمون اللہ تعالی نے ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی میں بیان فرمایا ہے کہ بیشک تجھ پر قبض کی حالتیں بھی آئیں گی اور بسط کی حالتیںبھی آئیںگی اور یہ دونوں حالتیںمعیت الہی اور رضا ء باری تعالی کے ساتھ ہوں گی مگر اس کے ساتھ ایک زائد بات یہ بھی ہو گی کہ تیرا نیچے جھکنا ایسا ہی ہو گا جیسے پرندہ نیچے کی طرف اپنا پر مارتا ہے مگر اس کا نیچے جھکنا اسے اور زیادہ بلندی پر لے جانے کا موجب بن جاتا ہے اسی طرح ہر دفعہ تیرا نیچے جھکنا ایسا ہی ہو گا جیسے پرندہ پر مارتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے سے بھی اونچا چلا جاتا ہے ۔ گویا بتا دیا کہ تیری پرواز پرندوں والی ہو گی اور قبض کی ہر حالت جو تجھ پر وارد ہو گی وہ تجھے اور زیادہ بلندی کی طرف لے جائے گی ۔
اس آیت کے ایک اور معنے بھی ہیں اور وہ یہ کہ جو شخص ماموریت کا مدعی ہو وہ جب لوگوں سے ملتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ وجاہت پسندی کے لئے یا لوگوں میںاپنی مقبولیت اور عظمت قائم کرنے کے لئے ملتا ہے ۔ اللہ تعالی اس آیت میںلوگوں کے اس خیال کی تردید کرتا ہے اور فرماتا ہے تو اگر علیحدگی اختیار کرتا ہے تو ہمارے ذکر کے لئے ۔ اور اگر لوگوں سے ملتا ہے تو ہمارے حکم کے ماتحت ۔ پس تیرے متعلق یہ خیال کرنا قطعی طورپر غلط اور بے بنیاد ہے ۔ تیری علیحدگی ذکر کے لئے ہوتی ہے اور تیرا پبلک میں آنا محض بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہوتا ہے ۔ اپنے نفس کے لئے نہیں ہوتا ۔ چنانچہ فرماتا ہے ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی ۔ اے محمد رسول اللہ ﷺ یہ نادان تیری زندگی سے ناواقف ہیں انہیں اتنا بھی معلوم نہیںکہ علیحدگی کی حالت تجھے ہمیشہ پیاری رہتی ہے تو اگر لوگوں سے ملتا ہے تو محض خد ا کے لئے پس ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی میں یہ بتایا کہ آخرۃ تجھے اولیٰ سے زیادہ راحت والی معلوم ہوتی ہے ۔ خَیْرٌ کے معنے راحت والی یا آرام پہنچانے والی چیز کے ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیںکہ ان آیات میںکونسی چیز آخرۃ کہلا سکتی ہے اور کونسی اولیٰ ۔ سو پہلی آیت میںضحی کو پہلے بیان کیاگیا ہے اور لیل کو بعدمیں۔ پس آخرۃ لیل ہوئی اور اولیٰ ضحٰی ہوئی اور ضحٰی یعنی دن کے وقت چونکہ انسان لوگوں سے ملتا ہے اس لئے ضحی جلوت کا قائمقام سمجھی جائے گی ۔ اوررات کو وہ چونکہ علیحدہ ہوتا ہے اس لئے لیل خلوت کا قائمقام سمجھی جائے گی ان معنوں کے مطابق آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ اے ہمارے رسول ! تجھے خلوت سے جلوت کی نسبت زیادہ راحت معلوم ہوتی ہے ۔لوگ تجھے جاہ پسند سمجھتے ہیں حالانکہ تولوگوں سے محض ہمارے حکم کے ماتحت ملتاہے ورنہ رات کو ہم سے راز و نیاز کی باتیںکرنا تجھے زیادہ پسند ہیںاور جو برکات تجھے رات کو ہم دیتے ہیںوہ دن کو ملنے والے انسان تجھے کہاں دے سکتے ہیں۔ پس جب کہ تیری تمام ترقیات تیر ی خلوت کی گھڑیوں سے وابستہ ہیں اور تو اسے دل سے جلوت پر ترجیح دیتا ہے تو لوگوںکا یہ کہنا کہ تو جاہ پسند ہے تیرے دل کو کیوں دکھ پہنچائے کہ یہ اعتراض حقیقت سے دور اور سر تا پا جھوٹ ہے ۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے متعلق بیان فرمائی ہے کہ ’’ میںپوشیدگی کے حجرہ میںتھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے ۔ اس نے گوشہ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا ۔ میںنے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اس نے کہا کہ میںتجھے تما م دنیا میںعزت کے ساتھ شہرت دوں گا۔ پس یہ اس خدا سے پوچھو کہ ایسا تو نے کیوں کیا ۔میرا اس میںکیا قصور ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی ص ۱۴۹) ولااٰخرۃ خیر لک من الاولیمیںاسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ کو جبراً گوشہ تنہائی سے باہر نکالا ۔ ورنہ ان کی خواہش یہی تھی کہ وہ خلوت میںاللہ تعالی کو یاد کرتے رہیں۔ چنانچہ دیکھ لو غارحرا میںجب فرشتے نے کہا اِقْرا تو آپؐ نے یہی جواب دیا کہ ما انا بقاری ۔ میرے سپرد یہ کام کیوں کیاجاتا ہے میںتو اپنے رب کی عبادت کرنا پسند کرتا ہوں ۔ پس اس آیت میںکفار کے اس اعتراض کو رد کیا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ وجاہت پسند ی کے لئے لوگوں سے ملتے ہیںاور بتایا ہے کہ ان نادانوں کو یہ معلوم نہیںکہ ساعت آخرت یعنی لیل تیرے لئے اچھی ہوتی ہے اور تواس سے بہت زیادہ راحت محسوس کرتا ہے ۔ لوگوں کو ملنا تجھے پسند نہیں۔ تو اگر ملتا ہے تو محض خدا تعالی کے حکم سے ۔تیری ذاتی خواہش کا اس میںکوئی دخل نہیںہوتا۔
والضحٰی O والیل اذا سجیٰ O ما ودعک ربک وما قلیٰ O کے ایک معنے یہ بھی کئے گئے ہیں












































یعنی اے میرے رب میری خواہش اب یہی ہے کہ میں تیرے پاس آجائوں ۔ پس ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ ۔ کے الفاظ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اے محمد ﷺ ہم اپنا کام جو تیرے سپرد کرتے ہیں بظاہر وہ بہت لمبا نظر آتا ہے مگر ہم تجھے ایسی توفیق دے دیں گے کہ تو اس کام کو جلدی ختم کر لے گا چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ﷺ نے تیئیس سال کے قلیل مدت میں اپنے تمام کام کو ختم کر لیا۔ اتنے قلیل عرصہ میں اس قدر عظیم الشان کام کو سرانجام دینے کی مثال دنیا میںاور کہیں نظر نہیںآسکتی بلکہ اس کام کی مثال تو کیا اس کے ہزارویں بلکہ لاکھویںحصہ کی مثال بھی دنیا کے اور کسی شخص کی زندگی میں نہیں مل سکتی ۔ دنیا میںبڑے بڑے لوگ گذرے ہیںمگر ان کا انجام کتنا تلخ اور عبرت ناک ہو اہے ۔ ہٹلرؔ کو دیکھ لو اس کا کیا انجام ہوا۔ نیپولین ؔ کو دیکھ لو وہ کیسی خراب حالت میںمرا۔ یہ لوگ بڑے بڑے دعووں کے ساتھ اٹھے تھے اور انہوں نے بظاہر کچھ کامیابی بھی حاصل کی مگر آخر ناکامی کے سوا ان کو کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ پھر یہ بھی ایک غور کرنے والی بات ہے کہ یہ لوگ جن قوموںمیں پیدا ہوئے اور جن لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر ترقی کی طرف بڑھے وہ پہلے ہی قربانی کی روح اپنے اندر رکھنے والے تھے ۔ پہلے ہی ان کے اندریہ جوش پایا جاتا تھا کہ ہم دنیاپر حکومت کریں اور لوگوںپر غلبہ و اقتدار حاصل کریں ۔ نیپولین نے بے شک ترقی حاصل کی مگر وہ ایک ترقی یافتہ قوم کو اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھا ۔ اسی طرح ہٹلرؔنے بے شک فتوحات حاصل کیںمگر ہٹلرؔ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا کہ جرمن قوم دنیا میںسب سے زیادہ منظم اور سب سے زیادہ قربانی کی روح اپنے اندر رکھنے والی سمجھی جاتی تھی لیکن عرب کیا تھا ؟ محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں گوبر دیا گیا جسے بیس سال کے قلیل عرصہ میں انہوں نے سونا بنا دیا اور خالی سونا نہیں بلکہ صاف اور کھرا سونا۔ اخلاق ان کے درست ہو گئے ، تمدن ان کا درست ہو گیا ، علمی حالت ان کی درست ہو گئی ، رعب اور دبدبہ ان کا بڑھ گیا ، عزت ان کی بڑھی ، رتبہ اور شان و شوکت ان کو حاصل ہوا ۔ غرض کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو نامکمل رہ گیا ہو ۔ کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جس میں ان کو کمال تک نہ پہنچا دیا گیا ہو ۔ ہر قسم کی اصلاح خواہ وہ اخلاقی ہو یا دینی ، مذہبی ہو یا عائلی ، اقتصادی ہو یا سیاسی ، محمد رسول اللہ ﷺ نے سر انجام دی ۔ پس فرمایا ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ ۔ گھبرائو نہیں ہم جلدی ہی اس عظیم الشان کام سے فارغ کر دیں گے۔ بے شک ہم نے ایک بہت بڑے کام کی تم پر ذمہ داری ڈالی ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ تمہاری اصل خوشی ہمارے پاس آنے میں ہے اس لئے ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم تجھے جلد ہی ان مقاصد میںکامیاب کر دیںگے ۔ چنانچہ اتنے تھوڑے عرصہ میںاتنا بڑا کام دنیا میںاور کسی نے بھی نہیں کیا ۔ رسول اللہ ﷺ کی عمر وفات کے وقت شمسی لحاظ سے صرف باسٹھ سال تھی اتنی قلیل عمر میں کتنا عظیم الشان کام آپؐ
نے کیا کہ اسے دیکھ کر حیرت آتی ہے ۔
دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ کامل شریعت تجھ پر نازل ہو جائے گی کیونکہ انسان کمال پر راضی ہوتا ہے فرماتا ہے ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ ۔ ہم تجھے اتنا دیں گے کہ توآپ ہی آپ کہہ دے گا کہ اب ترقی کی گنجائش نہیں ۔ جب آخری شریعت آپ ؐ کو دے دی گئی توا س کے بعد آپؐ نے اور کیا مانگنا تھا ۔ بیشک جہاں تک الہی قرب اور اس کے مدارج کا سوال ہے وہ غیر محدود ہیں اور کبھی کوئی مقام ایسا نہیںآسکتا جب انسان یہ کہے کہ اب مجھے کسی اور درجہ قرب کی احتیاج باقی نہیں رہی مگر جہاں تک شریعت کا سوال ہے آخری اور کامل شریعت کے بعد اور کونسی بات باقی رہ سکتی ہے پس فرماتا ہے ہم تجھے وہ کچھ دیں گے کہ تو بھی یہ کہہ دے گا کہ اس سے اوپر اور کوئی درجہ نہیں ۔ چنانچہ جہاں تک انسانی تعلق ہے اس کے لحاظ سے آخری شریعت سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے؟ پس اس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ ہم شریعت کاملہ تجھے عطا کر دینگے ۔
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ آئندہ اسلام کے بچائو کے لئے ایک مستقل نظام قائم کر دیا جائے گا ۔ درحقیقت پہلی خواہش انسان کے دل میںہوتی ہے کہ میںاپنا کام جلد سے جلد پورا کر لوں ۔ دوسری خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو کام میرے سپرد ہو وہ اپنی ذات میں کامل ہو ۔ تیسری خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ کام مٹے نہیں ۔ ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ ۔ میں یہ تینوں باتیں اللہ تعالی نے بیان کر دیں کہ ہم تجھے اس کام سے جلد سے جلد فارغ کر دیں گے ، ہم کامل شریعت تجھے عطا کریں گے اور پھر ایک زائد وعدہ تجھ سے یہ کرتے ہیں کہ جب بھی اس کام میںکوئی نقص پیدا ہو گا اللہ تعالی تیری روحانی اولا د میں سے کسی کو اصلاح خلق کے لئے کھڑا کر دیگا اور اسلام کو تباہ نہ ہونے دیگا۔ اولاد پیدا ہوتی ہے تو لوگ کتنے خوش ہوتے ہیں محض اس لئے کہ وہ ان کے نام کو زندہ رکھے گی لوگوں کی یہ خوشی تو بعض دفعہ بالکل بے حقیقت ہوتی ہے اور جس اولاد کی پیدائش پر وہ خوش ہوتے ہیں وہی ان کو ذلیل کرنے والی بن جاتی ہے مگر فرماتا ہے تیرے لئے یہ حقیقی خوشی کی بات ہے کہ جب بھی کسی روحانی بیٹے کی تجھے ضرورت محسوس ہو گی ہم اسے پیدا کر دیں گے جو تیرے کام کو پھر دنیا میںزندہ کر دیگا۔
الم یجدک یتیما فاویO ص
کیا اس نے تجھے یتیم پا کر (اپنے زیر سایہ ) جگہ نہیں دی ۵؎
۵؎ تفسیر ۔ فرماتا ہے تیرے مستقبل کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ تو محض باتیں ہوئیں ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ ایسا ہو جائے گا۔ یوں تو ہر شخص دوسروں کو تسلی دے سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ یوںہو جائے گا ، ووںہو جائے گا ۔ اس قسم کی باتوں سے کیا بن سکتا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتاہے وہ لوگ جن کے دلوں میں شبہ پایا جاتا ہے وہ تیرا ماضی دیکھ لیںتُو بھی دیکھ اور دنیا بھی دیکھے کہ کیا ہم نے تجھے یتیم نہیں پایا تھا اور کیا ہر موقع پر ایسا نہیںہوا کہ ہم نے تجھے پناہ دی اور تجھے ہر قسم کے نقصان سے بچایا ۔
رسول کریم ﷺ ابھی رحم مادر میںہی تھے کہ آپ ؐ کے والد فوت ہو گئے ۔ جب آپ ؐ کی پیدائش ہوئی تو اللہ تعالی نے آپ ؐ کے دادا عبدالمطلب کے دل میں آپ کی غیر معمولی طور پر محبت پیدا کر دی ۔ عام طور پر ایسے حالات میںانسان کی توجہ پوتوں کی بجائے اپنے دوسرے بیٹوں کی طرف ہوتی ہے مگر عبدالمطلب کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنے بیٹوں کو تو ڈانٹ ڈپٹ لیتے مگر رسول کریم ﷺ سے ہمیشہ محبت اور پیار رکھتے حالانکہ ان کے لڑکے جوان تھے اور وہ ان کی خدمت بھی کرتے رہتے تھے مگر اس کے باوجود اللہ تعالی نے ان کے دل میں رسول کریم ﷺ کی ایسی محبت پیدا کر دی کہ آپؐ اگر تھوڑی دیر کے لئے بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے تو وہ بے چین ہو جاتے تھے ۔ آپؐ کو ہر وقت گودی میں اٹھائے رکھتے تھے ۔ آپؐ کی محبت میں اشعار پڑھتے رہتے تھے اور اپنے بچوں کو ڈانتے رہتے تھے کہ اس کی قدر کیوں نہیں کرتے پھر عربوں میں رواج تھا کہ وہ بچے پالنے کے لئے دائیاں رکھا کرتے تھے آپ ؐ کی والدہ نے چاہا کہ انہیں بھی کوئی دائی مل جائے مگر غربت کی وجہ سے کوئی دائی نہ ملی ۔ آخر اللہ تعالی نے حلیمہؔ کو اس عظیم الشان خدمت کے لئے منتخب فرمایا ۔ حلیمہ ؔؔ وہ تھی جسے ہر دروازہ سے محض اس لئے رد کیا گیا تھا کہ وہ ایک غریب عورت تھی اگر اسے بچہ دے دیا گیا تو وہ اسے کھلائے گی کہاںسے؟ گویا وہ جس کے گھر میں اللہ تعالی نے رسول کریم ﷺ کی پرورش کا سامان کرنا تھا اس کے لئے اللہ تعالی نے مکہ کے تمام بچے حرام کر دئے ۔ وہ جس گھر میںبھی گئی اسے یہی کہا گیا کہ ہم تمہیں اپنا بچہ نہیںدے سکتے ، تم بچہ لے گئیں تو اسے کھلائو گی کہاں سے۔ گویا سارے مکہ میں اس روز ایک بچہ ایسا تھا جسے کوئی دایہ نہ ملی اور ایک دایہ ایسی تھی جسے کوئی بچہ نہ ملا ۔ جب شام ہو گئی اور ادھر حلیمہ کسی بچے کے ملنے سے مایوس ہو گئی اور رسول کریم ﷺ کی والدہ کسی دایہ کے ملنے سے مایوس ہو گیئں تو اللہ تعالی نے حلیمہ کے دل میں ڈالا کہ گو یہ بچہ غریب گھرانے کا ہے اور اس کا والد فوت شدہ ہے مگر میرا خالی جانا دوسرے لوگوں کی ہنسی کا موجب ہو گا چلو میں اسی کو لے چلوں چنانچہ وہ آئی اور رسول کریم ﷺ کو لے گئی ۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے اس کے دل میں رسول کریم ﷺ کی ایسی محبت ڈال دی کہ آپؐ کا دم بھر کے لئے آنکھوں سے اوجھل ہونا اس پر سخت گراں گزرتا اور وہ آپؐ کی محبت میںبے تاب ہو جاتی ۔ تاریخوں میںآتا ہے کہ آپؐ ذرا بھی اس کی آنکھ سے اوجھل ہو تے تو وہ اپنے بچوں کو ڈانٹنے لگ جاتی کہ تم اسے چھوڑ کر کیوں آگئے ہو اور پھر آپؐ کو لانے کے لئے دوڑ پڑتی ۔ غرض باپ کے بعد آپؐ کو حلیمہ جیسی دائی ملی ، عبدالمطلب جیسا محبت کرنے والا دادا ملااور جب عبد المطلب فوت ہو گئے تو اللہ تعالی نے آپؐ کے چچا ابو طالب کے دل میں آپ ؐ کی محبت ڈال دی ۔ ابو طالب کو بھی آپؐ سے بے انتہا محبت تھی ایسی محبت کہ میرے نزدیک دنیا میںبہت کم چچا ہوں گے جنہوں نے اپنے کسی بھتیجے کو اس محبت کے ساتھ پالا ہو ۔ جوان ہوئے تو اللہ تعالی نے ایک مالدار عورت کے دل میں آپؐ کی محبت پیدا کر دی اور خود اس کے دل میںیہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں ان سے شادی کر لوں کیونکہ یہ بہت ہی بلند اخلاق کے مالک ہیں ۔ اس طرح اللہ تعالی نے آپؐ کے لئے گھربار کا سامان پیدا کر دیا ۔ پھر یتیم کے لئے ساتھیوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ماں باپ زندہ ہوتے ہیںتو ان کی خوشنودی کے لئے لوگ دوستیاں اختیار کر تے ہیں لیکن جب مر جاتے ہیں تو ان کے تمام تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور دوستی کا خیال تک بھی ان کے دل میں کبھی نہیں آتا ۔ رسول کریم ﷺ کے والدین چونکہ فوت ہو چکے تھے اس لئے طبعی طور پر آپؐ کو بھی ساتھیوں اور دوستوں کی ضرورت محسوس ہوتی تھی اللہ تعالی نے ابوبکرؓ اور حکیم بن حزام جیسے دوست آپؐ کو عطا فرمادئے ۔ ابو بکرؓ تو شروع میںہی اسلام لے آئے مگر حکیم بن حزام مدتوں کافر رہا مگر کفرکی حالت میںبھی جب لوگ آپؐ کی مخالفت کرتے تو وہ ان کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو جاتا ۔ ایک دفعہ وہ باہر تجارت کے لئے گیا تو وہاں اس کو ایک خاص قسم کا کپڑا ملا وہ کپڑا اسے بہت پسند آیا اور اس نے دل میںکہا کہ اس کپڑے کو پہننے کے قابل میرے دوست محمد (ﷺ ) سے زیادہ کوئی اہل نہیں ۔ چنانچہ وہ کپڑا لے کر مدینہ پہنچا اور رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے یہ کپڑا بڑا پسند آیاتھا میںآپ کے لئے لے آیا ہوں کیونکہ آپ کے سوا یہ کسی کو نہیںسج سکتا ۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میںکافر کا تحفہ قبول نہیں کر سکتا ہاں اگر چاہو تو مجھ سے قیمت لے لو ۔ اس نے کہا اچھا اگر آپؐتحفہ قبول نہیںفرماتے تو قیمت ہی دے دیں کیونکہ میری خواہش یہی ہے کہ آپؐ اس کپڑے کو پہنیں یہ کتنا عشق ہے جو ایک کافر کے دل میں آپؐ کے متعلق تھا اس نے اپنے مذہب کو نہیں چھوڑا مگر کفر کی حالت میں بھی آپ ؐ سے اس قدر پیار تھا کہ سب سے اچھی چیز جو ملی اس کا مستحق آپؐ کو قرار دیا اور تیرہ منزلیںمارتا ہوا مکہ سے مدینہ پہنچا تا آپؐ کی خدمت میں وہ تحفہ پیش کر ے۔ خدا تعالی نے اس کو کافر رکھا اور دیر تک رکھا ۔ شاید یہ ثابت کرنے کے لئے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کی وجہ سے لوگ آپؐ سے محبت کرتے تھے کسی اور وجہ سے نہیں ۔ پھر غلاموں میں سے زیدؓ اور رشتہ داروں میں سے علیؓ۔ غرض اللہ تعالی نے آپؐ کو ایسے ساتھی دیئے جو کسی یتیم کو ملنے ناممکن ہوتے ہیں ۔
۵؎ حل لغات۔ ضالا: ضَلَّ سے اسم فاعل ہے اور ضَلَّ الرَّجُلُ کے معنے ہوتے ہیں ۔ ضِدُّ اِعْتَدٰی جَارَ عَنْ دِیْنٍ اَوْ حَقٍّ اَوْطَرِیْقٍ ۔ وہ دین یا سچائی کے راستہ کو چھوڑ کر ادھر ادھر چلا گیا یا اصل راستہ سے ادھر ادھر ہو گیا نیز ضل فلان الطریق وعن طریق کے معنے ہیں لم یھتد الیہ ۔ اسے راستہ کا پتہ نہ لگا وکذالدار والمنزل وکل شی ء ٍ مقیم لا یھتدی لہ ۔ اسی طرح ہر وہ چیز جس کا پتہ نہ لگے یا جس کی طرف جانے کا راستہ نہ ملے اس پر بھی اس لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے (اقرب) ایک ہوتا ہے راستہ بھول جانا اور گمراہ ہو جانا ۔ اور ایک ہوتا ہے راستے کا علم نہ ہونا ۔ یہ دو الگ الگ مفہوم ہیں اور یہ دونوں معنے ضَلَّ میں پائے جاتے ہیں اور ضل فلان الفر س او البعیر کے معنے ہوتے ہیں ذھبا عنہ گھوڑا یا اونٹ کھو گیا اور ہاتھ سے جاتا رہا ضل عنی کذا کہتے ہیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں ضَاعَ ۔ وہ چیز ضائع ہو گئی ۔ اور ضَلَّ الرَّجُلُ کے معنے ہوتے ہیں مَاتَ وصار ترابا و عظاماً وہ مر گیا اور مر کر مٹی ہو گیا ۔ ضل الما ء فی اللبن کے معنے ہوتے ہیں خفی و غاب ۔ دودھ میں پانی غائب ہو گیا (اقرب) ضل کے معنے کسی کام میںمنہمک ہو جانے کے بھی ہوتے ہیں جیسے قرآن کریم میں آتا ہے ضل سعیھم فی الحیوۃ الدنیا (الکھف ۱۲:۳) ان کی تمام تر کوششیں دنیوی زندگی کے کاموں میں ہی صرف ہو گئیں اسی طرح ضلال کے ایک معنے محبت شدیدہ کے بھی ہوتے ہیں در اصل یہ معنی بھی ضل سعیھم والے معنوں سے ملتے جلتے ہیں کیونکہ محبت میں بھی انسان کامل طور پر ایک طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔ مفردات والے لکھتے ہیں یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت یعقوب ؑ کی نسبت ان کے بیٹوں نے کہا ان ابانا لفی ضلال مبین ( یوسف ) ہمارا باپ کھلی کھلی ضلال میں مبتلا ہے ۔ اس میں ضلال کے معنے گمراہی کے نہیں بلکہ اشارۃالی شغفہ بیوسف و شوقہ الیہ ۔ اس میں ان کی اس محبت اور شوق ملاقات کی طرف اشارہ ہے جو وہ حضرت یوسف ؑ کے متعلق اپنے دل میں رکھتے تھے ۔ گویا ضلال کے ایک معنے کمال درجہ کی محبت اور انتہا درجہ کے شوق کے بھی ہیں اسی طرح قرآن کریم میںجو آتا ہے قد شغفھا حبا انا لنرھا فی ضلال مبین ( یوسف ) اس میں بھی ضلال کے معنے بے انتہا محبت کے ہیں غرض ضلال کا لفظ جہاں اور معنوںکے لئے استعمال ہوتا ہے وہاں اس کے ایک معنے انتہا درجہ کی محبت کے بھی ہوتے ہیں ۔
تفسیر ۔ حل لغات میں جو مختلف معانی بیان کئے جا چکے ہیں ان کے لحاظ سے ووجدک ضالا فھدی کے بھی مختلف معنے ہو جائیں گے۔
پہلے معنے تو اس آیت کے یہ ہیں کہ تمہیں ہمارا راستہ معلوم نہ تھا ، تم شریعت سے بے خبر تھے ، تمہیں معلوم نہیں تھا کہ اللہ تعالی تک پہنچنے کے کیا ذرائع ہیں ۔ ایسی حالت میںہم نے اپنی شریعت تم پر نازل کی اور تمہیں اپنی طرف آنے کا راستہ دکھادیا ۔ دنیا کا کوئی شخص اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ رسول کریم ﷺ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے تھے جس میں کوئی شریعت نہیں تھی مگر اس کے باوجود آپؐ دن رات خدا تعالی کی طرف متوجہ رہتے تھے اور اس کے قرب اور وصال کے حصول کے متمنی تھے اس ملک میں عیسائی بھی موجود تھے اور یہودی بھی موجود تھے اور یہ دونوں قومیں وہ ہیں جن کے پاس خدا تعالی کا کلام موجود تھا مگر باوجود اس کے کہ خدا تعالی کا کلام ان کے پاس تھا انہیں خدا تعالی کی طرف کوئی توجہ نہیں تھی اور وہ اس سے کلی بیگانگت کی حالت میں اپنی زندگی کے ایام بسر کر رہے تھے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کہ یہ حالت تھی کہ آپ کے پاس خدا تعالی کا کوئی کلام نہیں تھا مگر پھر بھی آپ خدا تعالی کی طرف متوجہ تھے ۔ پس یہ امر محمد رسول اللہ ﷺ کے درجہ کی بلندی اور آپ ؐ کی عظمت کا ایک بیّن ثبوت ہے کہ خدا تعالی کا کلام اپنے پاس رکھنے والے تو خدا تعالی سے دور ہو گئے مگر جس کے پاس خدا تعالی کا کوئی کلام نہیں تھا وہ خد ا تعالی کے قریب ہوتا چلا گیا ۔ جب خدا تعالی نے دیکھاکہ یہ وہ شخص ہے جو ہماری طرف آنا چاہتا ہے مگر اسے ہمارے قرب اور وصال کے راستوں کا علم نہیں ہے تو اس نے آپ پر شریعت نازل کر دی اور اس طرح تمام راستوں کو آپؐ کے لئے منکشف کر دیا ۔
آپ ؐ کا پہلے اس کوچہ سے ناواقف ہونا ہر گز قابل اعتراض امر نہیں ۔ ہر صاحب شریعت نبی پر جب خدا تعالی کی وحی نازل ہوتی ہے تب اسے شرعی راستہ کا علم ہوتا ہے اس سے پہلے وہ اس راستہ سے واقف نہیں ہوتا ۔ یہی بات اس جگہ بیان کی گئی ہے کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ تجھے ہمارے راستے کا علم نہیں تھا پھر ہم نے اپنے فضل سے تجھے وہ راستہ دکھا دیا جس کی جستجو تیرے دل میں پائی جاتی تھی ۔
ضَلَّ کے ایک معنے خَفَیَ وَ غَابَ کے بھی بتائے جا چکے ہیں ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت میںخدا تعالی اپنی قدرت اور مہربانی کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے اے محمد ﷺ ایک دن ضحی آئے گی ۔ بڑی بڑی ترقیات اسلام اور مسلمانوں کو حاصل ہوں گی اور لوگ تیرے متعلق کہیں گے واہ وا کیا خوب آدمی تھا ۔ کتنے بڑے کمالات اپنے اندر رکھتا تھا ، کتنے بڑے فضائل اور محاسن کا مالک تھا ۔ کسی طرح اس نے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا اور بھولی بھٹکی مخلوق کو خدا تعالی کے آستانہ پر لاڈالا ۔ مگر ہم ان سے کہتے ہیں وہ غور کریں اور سوچیںکہ آخر تجھے کس نے چنا ۔ کس نے دنیاکی ہدایت کے لئے تیرا انتخاب کیا ، کون تھا جو تجھے گوشہ گمنامی سے دنیا کے سامنے نکال کر لایا۔ اے محمد رسول اللہ ﷺ یہ ہماری نظر ہی تھی جس نے تجھے منتخب کیا۔ ہم نے دیکھا کہ ایک قیمتی موتی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل پڑا ہے لوگ اس کی قدر وقیمت سے نا آشنا ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کس قدر آب و تاب رکھنے والا ہے ۔ ہم نے کان میں سے اس موتی کو نکالا اور اسے دنیا کے سامنے لا رکھا ۔ ہم نے کفرستان میں ایک ہیرا پڑا ہوا دیکھا ایسا ہیرا جس کا کوئی ثانی نہیں تھا ہم نے کفرستان میں سے اس ہیرے کو اٹھایا اور انسانیت کے تاج میں لگا لیا۔ آج تیری چمک کو دیکھ کر دنیا کی نگاہیں خیرہ ہو رہی ہیں ۔ وہ تیرے حسن اور تیرے جلال اور تیرے کمال کو دیکھ کر رطب اللسان ہیں مگر وہ نہیں دیکھتے کہ یہ سب کچھ ہمارے فضل کا نتیجہ ہے ۔ تو لوگوں کی نگاہوںسے بالکل غائب تھا اور دوسروں کا تو کیا ذکر ہے تو خود بھی نہیں جانتا تھا کہ تیرے اندر کون سے کمالات ودیعت کئے گئے ہیں ۔ ہم تجھے نکال لائے اور تیری شوکت اور عظمت کو دنیا پر ظاہر کر دیا ورنہ اور کون تھا جو تیری فطرت صحیحہ کو پہچان سکتا ، ہم ہی تھے جنہوں نے تجھے پہچانا اور گمنامی کے گوشوں سے نکال کر تجھے دنیا میں عزت کے ساتھ مشہور کر دیا۔
پھر ضلال کے ایک معنے محبت شدید ہ کے بھی بتائے جا چکے ہیں ان کے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ ہم نے تجھ کو شدید محبت میںمبتلا دیکھا تیرے اندر تڑپ تھی اپنے پیدا کرنے والے کے لئے تو زمین کو دیکھتا ، تُو آسمان کی بناوٹ پر غور کرتا اور تیری ف طرت تجھے کہتی کہ اس کارخانہ عالم کو پیدا کرنے والا ایک خدا ضرور ہے مگر ادھر تو اس قوم میں پیدا ہوا تھا جس کے پاس کوئی شریعت نہیں تھی اور جسے خدا تک پہنچنے کا کوئی راستہ معلوم نہیں تھا ہم نے دیکھا کہ جیسے یوسفؑ کے لئے یعقوب ؑ تڑپ رہا تھا اس سے بھی زیادہ شوق اور محبت کے ساتھ تو اپنے پیدا کرنے والے کے لئے تڑپ رہا ہے ۔ تیری فطرت تجھے ہماری طرف توجہ دلاتی تھی مگر تجھے ہمارا راستہ ملتا نہ تھا ۔ نیچر کی انگلیاں اٹھ اٹھ کر تجھے بتاتی تھیں کہ تیر ا کوئی مالک ہے ، تیرا کوئی خالق ہے ، تیرا کوئی رازق ہے ۔ تو چاروں طرف دیکھتا اور کہتا کہ میرا خالق اور مالک کہاں ہے؟ میںاس کے پاس جانا چاہتا ہوں ۔ اور چونکہ کوئی شریعت نہیں تھی جس پر چل کر تو ہمارے پاس پہنچ جاتا اس لئے جب ہم نے تیری اس تڑپ اور محبت کا مشاہدہ کیا تو فَھَدٰی اے محمد ہم نے تجھے آواز دے دی کہ ہم یہاں ہیں ہمارے پاس آجائو۔
پھر اس آیت کے ایک معنے اور بھی ہیں۔ اللہ تعالی رسول کریم ﷺ کے متعلق قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ لعلک باخع نفسک الا یکون مومنین ۔ اے محمد ﷺ تو اپنے آپ کو اس غم میں ہلاک کر دیگا کہ یہ لوگ کیوں تجھ پر ایمان نہیں لاتے ۔ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ ضَلّ کے ایک معنے مر کھپ جانے کے بھی ہیں پس ووجدک ضالا فھدی۔ میں اللہ تعالی یہ مضمون بیان فرماتا ہے کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ ہم نے دیکھا کہ تو اپنی قوم کی تباہی اور گمراہی کو دیکھ کر مر رہا تھا ، تو ان کے کفر کو دیکھتا تھا ، تو ان کی بد اخلاقیوںکو دیکھتا تھا ، تو ان کی چوریوں کو دیکھتا تھا ، تو ان کے ڈاکوںکو دیکھتا تھا ، تو ان کے اسراف کو دیکھتاتھا ، تو ان کی اخلاقی اور عائلی کوتاہیوں کو دیکھتا تھا ، تو ان کو علم میں تمام دوسری قوموں سے پیچھے دیکھتا تھا، تو ان کو سیاست میں تمام دوسری قوموں سے پیچھے دیکھتا تھا اور ہم دیکھتے تھے کہ جس طرح تو ہم سے ملنے کے لئے مر رہا تھا اسی طرح تو اپنی قوم کے لئے بھی مر رہا تھا ۔جس طرح تو ہماری محبت کے لئے بے تاب ہو رہا تھا اسی طرح اپنی قوم کے درد میںبھی ہلاک ہو رہا تھا گویا تجھ پروہی کیفیت تھی جو ہم دوسری جگہ ان الفاظ میںبیان کر چکے ہیںکہ لعلک باخع نفسک الا یکون مومنین۔ جب ہم نے دیکھا کہ تو اپنی قوم کے لئے مر رہا ہے ، اس کے غم میں ہلاک ہو رہا ہے ، اس کی اصلاح کی فکر میںگھلتا چلا جا رہا ہے اور دن رات تجھے یہی تڑپ اور یہی فکر ہے کہ کسی طرح میری گری ہوئی قوم ترقی کرے تو ہم نے تجھے وہ رستہ دکھا دیا جس پر چل کر تیری قوم اس موت سے بچ جائے یعنی تجھے قرآن دے دیا جس میں وہ ساری چیزیں موجود ہیں جو نہ صرف مکہ والوں کہ تباہی کو دور کر سکتی ہیںبلکہ ساری دنیا کی ہلاکت اور بربادی کا واحد علاج ہے پس ووجد ک ضالا میںاس جذبہ اصلاح کی طرف اشارہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کے قلب میں اپنی قوم کی اصلا ح اور پھر ساری دنیا کی اصلاح کے متعلق نمایا ں طور پر پایا جاتا تھا او ر درحقیقت یہ جملہ ترجمہ ہے لعلک باخع نفسک الا یکون مومنینکی آیت کا ۔ بَاخِعٌ کے معنے صرف گردن کاٹنے کے نہیںہوتے بلکہ اس رنگ میںگردن کاٹنے کے ہوتے ہیں کہ انسان گردن کی پچھلی نسوں تک اسے کاٹتا چلا جائے اور آخری حد تک اسے پہنچا دے ۔ اس طرح بتایا کہ تجھے اپنی قوم کے کفر اور اس کے خدا سے دور چلے جانے کا اس قدر غم اور اس قدر صدمہ تھا کہ گویا اس غم میں اپنی ساری گردن کاٹ بیٹھا تھا ۔
خد اتعالی کی محبت کے لحاظ سے تو اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے تجھ کو محبت میں بے انتہا صدمہ رسیدہ دیکھا اور آخر تجھے وہ راستہ بتا دیا جس پر چل کر تو ہمارے پاس پہنچ سکتا اور قوم کے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیںکہ ہم نے تجھے اپنی قوم کے غم میں بالکل مردہ کی طرح پایا ۔ جب ہم نے یہ حالت دیکھی تو ہم نے تجھے وہ شریعت دے دی جس سے یہ گری ہوئی اور تباہ شدہ قوم بھی ترقی کی طرف دوڑ پڑے ۔
غرض ان آیات میںاللہ تعالی نے ان احسانات کا ذکر فرمایا ہے جواس نے رسول کریم ﷺ پر کئے ۔ الم یجد ک یتیما فاوی میںتو یہ بتایا کہ ہم نے تیرے جسمانی یتم میںتجھے جسمانی رشتہ دار عطا کئے ۔ تو اس بات کا محتاج تھا کہ کوئی شخص تیری پرورش کرنے والا ہو تا ، تجھے محبت اور پیار سے رکھتا اور تیری ضروریات کو پورا کرتا ۔ سو اللہ تعالی نے یکے بعد دیگرے ایسے لوگ کھڑے کر دیئے جو انتہائی توجہ کے ساتھ تیری پرورش کا فرض سر انجام دیتے رہے اور ہر موقع پر جسمانی طورپر تیری مدد کرتے رہے دوسری طرف روحانی یتم کے لئے ہم نے اپنی محبت اور اپنا فیضان تجھ کو عطا کیا اور تجھے ایسی تعلیم عطا کی جو مکہ والوں کی قعر مذلت سے اٹھا کر ترقی کے بلند تر مینار پر پہنچا نے والی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک دعوی تھا جو محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کیا جا رہا تھا مگر دعوی وہ تھا جسے پرکھا جا سکتا تھا ۔ قرآن کریم لوگوں کے سامنے موجود تھا اور انہیں کہا جا سکتا تھاکہ آئو اور دیکھو کہ اس میںقوموں کو ابھارنے والی تعلیم موجود ہے یا نہیں اسی طرح رسول کریم ﷺ کے قرب اور آپ کے تعلق باللہ کو وہ آپ ؐ کی دعائوں اور آپ کے نشانات کے ذریعہ دیکھ سکتے تھے ۔ غرض نہ وہ الم یجدک یتیم فاوی کی صداقت کا انکار کر سکتے تھے اور نہ ووجدک ضالا فھدی کی صداقت کا انکار کر سکتے تھے ۔ اللہ تعالی ان دو مثالوںکو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب کہ تیری جسمانی پرورش بھی ہم نے کی اور تیر روحانی پرورش بھی ہم نے کی اور ہر قدم پر تیرے ساتھ اپنی تائید رکھی ۔ تو جسمانی توجہ کا محتاج تھا تو ہم نے تیری جسمانی پرورش کی طرف توجہ کی ۔ تو روحانی توجہ کا محتاج تھا تو ہم نے تیری جسمانی روح پر شفقت کی نظر ڈالی ۔ جب ہماری محبت تیرے دل میں پیدا ہوئی تو ہم نے تجھے اپنا چہرہ دکھا دیا اور جب بنی نوع انسان کی محبت تیرے دل میںپیدا ہوئی اور ان کی خرابیوں نے تجھے بے چین کر دیا تو ان کی اصلاح اور حالات کی درستی کے لئے اپنی شریعت تجھ پر نازل کر دی ۔ جب ہم اپنی محبت اور اپنے سلوک کا اس قدر نمونہ تیری ذات میںدکھا چکے ہیںتو یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ آئندہ ترقیات اور ضحی کے متعلق جو خبر دی گئی ہے وہ بھی پوری ہو کررہے گی۔ جس خدا نے تجھے پیچھے نہیںچھوڑا وہ آئندہ کس طرح چھوڑ سکتا ہے ؟
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جس کا جواب دینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ وجہ کیا ہے کہ ضَلَال کے ا ورمعنے تو لے لئے گئے ہیں مگر ایک معنوںکو بالکل ترک کر دیا گیا ہے ۔ ضَلَال کے ایک معنے گمراہ ہوجانے ، خرابی میںمبتلا ہو جانے اور رستہ کو چھوڑدینے کے بھی ہیںمگر ان معنوںکو چھوا تک نہیں گیا ۔ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ہم اس آیت کے یہ معنے کیوں نہ کر لیںکہ اس نے تجھے گمراہ پایا تھا پھر اس نے تجھے ہدایت دے دی ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معنے اس لئے چھوڑے گئے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ معنے یہاں چسپاں نہیں ہوسکتے ۔ دشمن اس آیت کے یہ معنے کرتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ جادہ اعتدال سے یا جادہ شریعت سے ادھر ادھر ہو گئے تھے ۔ یہ معنے خواہ لغتاً صحیح ہوں ہمارے نزدیک اس مقام پر کسی صورت میںبھی چسپاں نہیںہو سکتے اور اس کی یہ وجہ ہے کہ ہدایت ہمیشہ دو قسم کی ہوتی ہے ایک ہدایت شرعی اور ایک ہدایت طبعی یا فطری ۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ تم یہ معنے کیوںنہیںکرتے کہ اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ کو گمراہ پایا اور پھر انہیںہدایت دی ۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ دنیا میںہدایت کی دو ہی قسمیںہوتی ہیںیا ہدایت شرعی ہو جس سے انسان انحراف اختیار کر لے یا ہدایت طبعی اور فطری ہو جس کے خلاف عمل کرنے کے لئے وہ تیار ہو جائے ۔ان دو قسم کی ہدایتوں کے سوا اور کوئی ہدایت نہیںہو سکتی ۔پس وہ لوگ جو اپنے معنوں پر اصرار کرتے ہیں ہم ان سے دریافت کرتے ہیں کہ اس آیت کے کیا معنی ہوں گے ؟ کیا یہ معنے ہوں گے کہ ضل محمد عن شریعۃ المستقلۃ التی کانت القوم علیھا ۔ کہ محمد رسول اللہ ﷺ اس شریعت سے گمراہ ہو گئے جس پر قوم چل رہی تھی ۔ اگر ہم یہ معنے کریں تو بالکل غلط ہوں گے کیونکہ اس وقت کوئی شریعت تھی ہی نہیں اور کوئی شخص بھی یہ تسلیم نہیں کرتا خواہ وہ اسلام کا کیسا ہی شدیدمعاند کیوں نہ ہو کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی قوم کسی شریعت پر قائم تھی اور آپ اس شریعت سے پھر گئے تھے ۔ پس جو بات بالبداہت غلط ہے اور جس کی تکذیب کے لئے کسی دلیل کی بھی ضرورت نہیں وہ بات رسول کریمﷺ کی طرف منسوب کس طرح کی جاسکتی ہے اور کس طرح اس آیت کے یہ معنے کئے جا سکتے ہیں کہ آپ شریعت سے گمراہ ہو چکے تھے مگر خدا تعالی نے آپ کو ہدایت دی ۔ جب کوئی شریعت آپ کی قوم میںموجود ہی نہیں تھی اور آپ کسی شریعت کے مخاطب ہی نہیںتھے تو گمراہی اور ضلالت کے کیا معنے ہوئے ؟ محمد رسول اللہ ﷺ جس قوم میںپیدا ہوئے تھے اس کے پاس کوئی شریعت نہیںتھی ، کوئی آسمانی قانون نہیںتھا جس پر وہ عمل کرتی ، کوئی وحی نہیں تھی جس کو وہ اپنے سامنے رکھا کرتی ۔ ایسی صورت میںہم یہ معنے کس طرح کر سکتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ شریعت سے پھر گئے تھے ۔ شریعت تو اس وقت کوئی تھی ہی نہیں جس کے آپؐ مخاطب ہوتے ۔
دوسرے معنے یہ ہو سکتے ہیں کہ شریعت تو اس وقت بے شک کوئی نہیں تھی مگر آپ نعوذباللہ بد اخلاق تھے ، جادہ اعتدال سے منحرف ہو چکے تھے ، ہدایت طبعی جو اخلاقی اور فطری ہدایت ہوتی ہے اس کے قانون کو آپؐ نے توڑ رکھا تھا اور خدا تعالی نے اسی کی طرف ووجدک ضالا فھدی میں اشارہ کیا ہے ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا یہ معنے یہاں چسپاں ہو تے ہیں یا نہیں ۔ دشمن کہتا ہے کہ ضَآلاًّ کے معنے بد اخلاق کے ہیںگویا اس کے نزدیک رسول کریم ﷺ کی زندگی کا داغدار ہونا اس آیت میںبیان کیا گیا ہے مگر دشمن تو اس آیت کے یہ معنے کرتا ہے اور خدا تعالی دوسری جگہ ان معنوںکو بالکل غلط اور بے ہودہ قرار دیتے ہوئے رسول کریم ﷺ سے فرماتا ہے تو لوگوں کو چیلنج دے کہ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ تیری چالیس سالہ ابتدائی زندگی کا کوئی ایک عیب ہی ثابت کر دیں چنانچہ رسول کریم ﷺ نے چیلنج دیا اور فرمایا فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون ۔ (یونس ۲:۷) میںتم میں چالیس سال تک رہا ہوں اور تم میری زندگی کو دیکھتے چلے آئے ہو اگر تم میں ہمت ہے تو تم سب کے سب مل کر میری ابتدائی چالیس سالہ زندگی کا کوئی ایک عیب ہی ثابت کر کے دکھا دو مگر یاد رکھو تم ایسا کبھی نہیںکر سکو گے کیونکہ میری زندگی بالکل بے عیب ہے اور خدا تعالی نے مجھے ہر قسم کے گناہ سے آج تک محفوظ رکھا ہے ۔ اب بتائو کہ ہم یہ دوسرے معنے بھی کس طرح کر سکتے ہیں ؟ شریعت سے انحراف والی بات تو اس لحاظ سے بالبداہت باطل تھی کہ اس وقت آپ کی قوم کے پاس کوئی شریعت کی کتاب تھی ہی نہیں جس سے انحراف کرنے کا الزام آپ پر عائد ہو سکتا ۔ باقی رہا اخلاق میں کسی قسم کا نقص ہونا سواس کے متعلق محمد رسول اللہ ﷺ کا قرآن کریم میں دعوی موجود ہے کہ میں تم میں ایک لمبا عرصہ رہ چکا ہوں تم میری اس زندگی کا کوئی ایک عیب ہی ثابت نہیں کر سکتے ۔ اس چیلنج کے یہ معنے نہیں تھے کہ میں تم میں ایک لمبا عرصہ رہ چکا ہوں بتائو میں نے قرآن کے احکام پر اس زندگی میں عمل کیا یا نہیں ؟ کیونکہ قرآن کریم تو اس دعوے کے وقت میں نازل ہونا شروع ہوا ہے پہلے تو قرآن کریم تھا ہی نہیں ۔ پس اس آیت میں ہدایت ِ طبعی کی طرف اشارہ ہے نہ کہ ہدایت شرعی کی طرف ۔ اور اللہ تعالی رسول کریم ﷺ سے فرماتا ہے کہ تو لوگوں کو چیلنج دے اور ان سے کہہ کہ وہ بتائیں کہ کیا میری چالیس سالہ زندگی میں کوئی ایک دن بھی ایسا آیا جب میں نے ہدایت طبعی یعنی اخلاق کے خلاف کوئی قدم اٹھایا ہو جب کوئی ایک برائی بھی تم میری طرف منسوب نہیںکر سکتے ، جب کوئی ایک بدی بھی میرے اندر ثابت نہیں کر سکتے تو اب کس طرح کہتے ہو کہ میں برا ہوں ۔ غرض ان میں سے کوئی معنے بھی ایسے نہیں جو رسول کریم ﷺ پر چسپاں ہو سکتے ہوں ۔ جہاں تک ہدایت شرعی کا تعلق ہے عیسائی بھی تسلیم کر تے ہیں کہ نزول قرآن سے قبل اہل مکہ کے پاس کوئی شرعی قانون نہیں تھا اور جب وہ کسی شریعت کے پابند ہی نہ تھے تو وجدک ضالا کے یہ معنے کس طرح ہو سکتے ہیںکہ رسول کریم ﷺ شریعت سے منحرف ہو گئے تھے ۔ دوسرے معنے ہدایت طبعی سے انحراف کے ہو سکتے ہیں مگر وہ بھی رسول کریم ﷺ پر چسپاں نہیں ہو سکتے کیونکہ قرآن کریم میں آپ کی اعلی درجہ کی اخلاقی زندگی کے متعلق چیلن موجود ہے اور لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا گیا ہے کہ آپ نے بے عیب زندگی بسر کی تھی ۔ جب دونوں معنے آپ پر چسپاں نہیں ہوسکتے تو دشمنان اسلام کااس آیت کے یہ معنے کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نعوذ باللہ گمراہ ہو گئے تھے اس مقام پر کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ وجدک ضالا خدا تعالی کی گواہی ہے لیکن فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون اپنی ذات کے متعلق محمد رسول اللہ ﷺ کی اپنی گواہی ہے ان دونوں گواہیوں میں سے بہر حال خدا تعالی کی گواہی کو مقدم قرار دیا جائے گا ۔ اور رسول کریم ﷺ کی اپنی گواہی کو موخر سمجھا جائے گا ۔ اس لحاظ سے بات وہی درست ہو گی جس کی خدا تعالی نے گواہی دی نہ وہ بات جسے رسول کریم ﷺ نے اپنی طرف سے پیش کیا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ گواہی رسول کریم ﷺ کی پانی نہیں بلکہ خدا تعالی کی گواہی ہے ۔ چنانچہ قُلْ کہہ کر اللہ تعالی نے اس گواہی کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اور رسول کریم ﷺ سے کہا ہے کہ ہم تمہارے متعلق اس گواہی کو پیش کرتے ہیں تم لوگوں کے سامنے اسے پیش کر و اور انہیں چیلنج دو کہ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ تمہاری زندگی میں کوئی عیب ثابت کریں ۔ چنانچہ اصل آیت یوں ہے ۔ قل لو شآء اللہ ما تلوتہ علیکم ولا ادرکم بہ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون
( یونس ۲:۷) اس آیت میں قُلْ کہہ کر اللہ تعالی نے بھی اپنی گواہ ساتھ شامل کردی ہے صرف رسول کریم ﷺ کیااکیلی گواہی نہیںرہی ۔ غرض ووجدک ضالا فھدی اگر خدا تعالی کی گواہی ہوتی اور فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون محمد رسول اللہ ﷺ کی اپنی گواہی ہوتی تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ خدائی گواہی کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی اپنی ذات کے متعلق گواہی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ لیکن اللہ تعالی نے قُلْ کہہ کر اپنی گواہی بھی ساتھ ہی شامل کردی ہے ۔ تا یہ نہ سمجھا جائے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے یہ بات اپنے پاس سے کہی ہے پس ان میں سے کوئی گواہی بھی دوسری گواہی کے خلا ف نہیں ہو سکتی ۔
جب دشمن بحث سے تنگ آجائے اور دلائل کے میدان میں وہ بالکل بے بس ہوجائے ۔ تو بعض دفعہ تنگ آکر وہ کہہ دیا کرتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا خدا تعالی کی طرف یہ بات منسوب کرنا ایک دعویٰ ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ اور اپنی طرف سے بات کہنا تعلی اور لاف زنی ہے ۔ دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ کیا لوگ بھی آپ کو ایسا ہی بے عیب سمجھتے تھے جیسا کہ آپ ؐ نے دعویٰ کیا ۔ اگر لوگ آپ ؐ کو بے عیب نہیں سمجھتے تھے تو محض تعلّی کے طور پر ایک بات پیش کر دینے سے کیا بن جاتا ہے ۔ لوگ تو جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے ۔ اور یہ تعلّی صداقت سے کس قدر دور ہے ۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر لوگوں کی گواہی کو لو تب بھی ان کی شہادت محمد رسول اللہ ﷺ کے حق میں ثابت ہوتی ہے ۔ کیونکہ تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ دعوی نبوت سے پہلے رسول کریم ﷺ کو لوگ صدوق اور امین سمجھتے اور آپ ؐ کی راستبازی کے وہ حددرجہ قائل تھے ۔ چنانچہ اللہ تعالی کی طرف سے جب آپ کو انذار کا حکم ہوا تو صفا پہاڑی پر آپ ؐ کھڑے ہوئے اور آپؐ نے نام لے لے کر مختلف قبائل کو بلانا شروع کیا ۔ جب تمام لوگ اکھٹے ہو گئے تو آپ ؐ نے فرمایا ۔ اچھا یہ بتائو اگر میںتم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا لشکر ہے جو تم پر حملہ کرن چاہتا ہے تو کیا تم میری بات کو مان لو گے ؟ انہوں نے کہا ۔ ہاں ۔ کیونکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولنے والا پایا ہے ( بخاری جلد سوم ابواب التفسیر تفسیر سورۃ الشعراء زیر آیت وانذر عشیرتک الاقربین ) حالانکہ یہ بات ایسی تھی جسے بظاہر کوئی شخص تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیںہوسکتا تھا وجہ یہ ہے کہ مکہ کے لوگوں کے جانور وادی میں چرا کرتے تھے اور وہ ایسا علاقہ تھا کہ جس میںکسی لشکر کا چھپ رہنا نا ممکن تھا ۔ کیونکہ وہاں کوئی درختوں کا جنگل نہ تھا بلکہ کھلا میدان تھا ۔ مگر باوجود اس کے کہ ظاہری حالات کے لحا ظ سے ایسا بالکل نا ممکن تھا کہ کوئی لشکر آئے اور مکہ والوں کو اس کا علم نہ ہو ۔ پھر بھی جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں تم کو خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچے ) یہ پہاڑ دراصل ایک معمولی ٹیلہ ہے ۔ ڈلہوزی شملہ جیسا پہاڑ نہیں ) ایک لشکر چھپا ہوا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کو مان لو گے یا نہیں ؟ تو ان سب نے یہ جواب دیا کہ ہم ضرور مان لے گیں ۔ جس کے معنے یہ تھے کہ گویہ بات بالکل ناممکن ہے مگر چونکہ آپ کہیں گے اور آپ وہ ہیں جنہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ اس لئے ہم اس ناممکن بات کو بھی ممکن سمجھ لیںگے اور آپ ؐ کی بات کو درست قراردے دیںگے ۔ جب انہوں نے آپؐ پر اس قدر اعتماد کا اظہار کر دیا تو آپ ؐ نے فرمایا ۔ میںتمہیںخبر دیتا ہوں کہ تم پر خد اکا عذاب نازل ہونے والا ہے تم اپنی اصلاح کر لو ۔ یہ سنتے ہی سب لوگ آپ کو پاگل کہتے اور ہنسی اڑاتے ہوئے منتشر ہو گئے دشمن کی یہ گواہی اس صداقت اور راستبازی کا ایک بین ثبوت ہے جو رسول کریم ﷺ کے اندر پائی جاتی تھی۔
اسی طرح خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت جب حجر اسود کو اس کی اصل جگہ پر رکھنے کے متعلق قبائل قریش میں شدید اختلاف پیدا ہو گیا یہاں تک کہ وہ آپس میں کٹ مرنے کے لئے بھی تیار ہو گئے ۔ اس وقت آخر رسول کریم ﷺ نے ہی اس جھگڑے کو نپٹایا ۔ اور تاریخ میںلکھا ہے کہ جب لوگوں نے رسول کریم ﷺ کو آتے دیکھا تو سب لوگ یک زبان ہو کر پکار اٹھے کہ ھذا الامین رضینا ھذا محمد ۔ امین ۔ امین ۔ اور سب نے کہا کہ ہم اس کے فیصلہ پر راضی ہیں( ابن ہشام جلد اول ) یہ کفار کی دوسری شہادت ہے جو رسول کریم ﷺ کی ابتدائی زندگی کے نہایت ہی اعلیٰ ہونے کا ایک کھلا ثبوت ہے ۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ قریب کی گواہ بیوی ہوتی ہے وہ اپنے شوہر کے جن حالات کو جانتی ہے عام لوگ ان حالات کو نہیں جانتے ۔ اس لئے خاوند کے متعلق بیوی کی گواہی اور تمام گواہیوں سے زیادہ معتبر شمار کی جاتی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو یہ گواہی بھی حاصل ہوئی ۔ چنانچہ جب آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپؐ نے گھبرا کر حضرت خدیجہ ؓ سے اس کا ذکر کیا تو حضرت خدیجہ ؓ نے ان الفاظ میں آپ ؐ کو تسلی دی ۔ کہ کلا واللہ ما یحزیک اللہ ابدا انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق ( بخاری باب بدء الوحی ) خدا کی قسم اللہ آپ ؐ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ ؐ صلہ رحمی کرتے ہیں آپ لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں ۔ آپ ؐ معدوم اخلاق کو اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ آپ مہمان نوازی کرتے ہیں ۔ آپ مصیبت زدوں کی امداد کرتے ہیں۔ آپ ؐ جیسے انسان کو خدا کس طرح ضائع کر سکتا ہے ۔ یہ بیوی کی گواہی ہے جواس بات کو ثابت کرتی ہے کہ آپ ؐ ان معنوں میں ضَالٌّ نہیں تھے جو دشمن کی طرف سے کئے جاتے ہیں۔
پھر بیوی نے تو آپ کی چالیس سالی عمر کے وقت گواہی دی تھی ۔ اس سے پہلے آپؐ کی ۲۴ سالہ عمر میں حضرت خدیجہ ؓ کے غلاموں نے آپ کی نیکی اور راستبازی اور دیانت کی گواہی دی ۔ چنانچہ حضرت خدیجہ ؓ نے جب رسول کریمﷺ کو اپنا مال تجارت دے کر شام میں بھجوایا تو واپسی پر حضرت خدیجہ ؓ نے ایک ایک غلام کو بلا کر اس سے رسول کریم ﷺ کے حالات دریافت کئے ۔ ہر غلام نے آپ ﷺ کی تعریف کی ۔ اور ہر غلام نے کہا کہ ہم نے اس جیسا دیانتدار اور با اخلاق انسان اور کوئی نہیں دیکھا ۔ حضرت خدیجہ ؓ جانتی تھیں کہ تجارتی قافلوں کے ساتھ جن لوگوں کو بھیجا جاتا ہے وہ خود بہت سا مال کھا جاتے ہیں ۔ مگر ان غلاموں نے بتایا کہ انہوں نے نہ صرف خود کوئی مال نہیں کھایا بلکہ ہمیں بھی ناجائز طور پر کوئی تصرف نہیں کرنے دیا ۔ جو رقم ان کے لئے مقرر تھی صرف ویسی لیتے تھے اور اسی رقم میں سے کھانا بھی کھاتے تھے ۔ اس سے زائد انہوں نے ایک پیسہ بھی نہیںلیا۔ یہی وہ حالات تھے جن کو دیکھ کر حضرت خدیجہ ؓ اس قدر متاثر ہوئیں کہ انہوں نے آپ ؐ کو شادی کا پیغام بھجوادیا ۔ غرض تمام گواہیاں جو بچپن سے لے کر چالیس سالہ عمر تک ملتی ہیں وہ سب کی سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ رسول کریم ﷺ اخلاقی لحاظ سے گمراہ نہیں تھے اور جب کہ سب کی سب گواہیاں رسول کریم ﷺ کی زندگی کو پاک اور بے عیب ثابت کر رہی ہیں تو وہ لوگ جو ضَا لًّا کے معنے گمراہ ہو جانے کے کرتے ہیں وہ خود ہی بتائیں کہ ان کے معنے رسول کریم ﷺ پر کس طرح چسپاں ہو سکتے ہیں ۔ شریعت سے گمراہ تو آپ ؐ ہو ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ کوئی شریعت اس وقت تھی ہی نہیں ۔ اگر اخلاقی گمراہ مراد لو تو وہ بھی چسپاں نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ اول سے آخر تک تمام گواہیاں ثابت کر رہی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے ۔ جب آپ ؐ شریعت کے لحاظ سے بھی گمراہ نہیںتھے اور اخلاق کے لحاظ سے بھی گمراہ نہیں تھے تو پھر سوال یہ ہے کہ تیسری کونسی گمراہی ہے جو آپ ؐ کے اندر پائی جاتی تھی ۔ اگر کہو کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ آپ ؐ کفر سے گمراہ ہو گئے تو ہم بے شک کہتے ہیں کہ اٰمَنّاَ وَ صَدَّقْنَا ۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آ پؐ نے کفر کا راستہ اختیار نہیں کیا ۔ مگر جو معنے مخالف کرتے ہیں وہ قطعی طور پر غلط ہیں کیونکہ رسول کریم ﷺ کی زندگی ایک ایک گھڑی اور اس وقت کے حالات دونوں ان معنوں کو بے بنیاد ثابت کر رہے ہیں ۔
ووجدک عآئلاً فاغنیO ط
اور تجھے کثیر العیال پایا تو غنی کر دیا ۔ ۶؎
۶؎ حل لغات ۔ عَائِلاً : عَالَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور عَالَ عَیَالَہ‘ کے معنے ہوتے ہیں کفاھم معاشھم ومافھم۔ اپنے اہل و عیال کے گذارہ کا پوری طرح بندو بست کیا ۔ اور عال الیتیم کے معنے ہوتے ہیں کفلہ و قام بہ یتیم کے اخراجات کا ذمہ وار ہو گیا ۔ اور عال فلان عولا کے معنے ہوتے ہیں کثر عیالہ ۔ اس کا کنبہ زیادہ ہو گیا ۔(اقرب)گویا اس کے دو معنے ہوئے ۔ ایک معنے تو یہ ہیں کہ انسان دوسروں کا کفیل ہو جائے۔ ان کے اخراجات کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لے اور ان کی خبر گیری رکھے ۔ اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ وہ کثیر العیال ہو جائے ۔
تفسیر ۔ ووجدک عآئلاً فاغنی کے دو معنے ہیں ۔ اول یہ کہ ہم نے تجھے کثیر العیال پایا ۔ اور تیری ضرورت پوری کر دی ۔ دوسرے یہ کہ ہم نے دیکھا کہ تو ہی ایک ایسا شخص ہے جو ہر یتیم اور بے کس کی خبرگیری کرتا ہے اس لئے ہم نے بھی تجھے دولت دے دی تا کہ تو ان کی ضروریات کو پور ا کر سکے۔ پہلے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ تو اپنے عیال کی خبر گیری کے قابل نہ تھا مگر ہم نے دولت دے کر تیری غربت کو دور کر دیا ۔ اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ تیرے اندر یہ جذبہ شوق پایا جاتا تھا کہ تو ہر مسکین اور یتیم کو پناہ دے ۔ جو بھی درماندہ اور بیکس انسان تجھے نظر آتا ۔ تو اسے اپنی آغوش شفقت میںلے لیتا ۔ اس کے سر پر اپنی محبت کا ہاتھ رکھتا اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا جب ہم نے تیرے اس جذبہ محبت اور جذبہ ہمدردی کو دیکھا ۔ تو ہم نے بھی اپنی دولت تیرے سپرد کر دی تا کہ تو ہمارے بے کس اور نادار بندوں کا کفیل ہو ۔ یہاں دولت سے مراد صرف جسمانی دولت نہیں بلکہ روحانی دولت بھی مراد ہے اور یتامیٰ و مساکین سے مراد صرف جسمانی یتامیٰ و مساکین نہیں بلکہ روحانی یتامیٰ و مساکین بھی مراد ہیں ۔
جسمانی غرباء اور یتیم جو اس وقت پائے جاتے تھے ۔ ان کے متعلق رسول کریم ﷺ کے دل میں جو تڑپ پائی جاتی تھی اور جس قدر ہمدردی اور محبت آپؐ کے قلب میں ان کے متعلق موجود تھی اس کی مثال دنیا میں کہیں نظر نہیں آسکتی ۔ بے انتہاء تڑپ، بے انتہاء ہمدردی ، اور بے انتہاء محبت رسول کریم ﷺ کے دل میںقوم کے غرباء اور یتامیٰ کے متعلق پائی جاتی تھی ۔ آپ ؐ ان کے حالات کو دیکھتے تو بے تاب ہو جاتے ۔ آپ ؐ کے دن بے چینی میں اور راتیں اضطراب میں کٹتیں۔ محض اس وجہ سے کہ غرباء کا کوئی سہارا نہ تھا۔ یتامیٰ کو کوئی پوچھنے والا نہ تھا ۔ مساکین کی طرف کوئی توجہ کرنے والا نہ تھا ۔ اللہ تعالی جو آپ ؐ کے دل کے اسرار سے آگاہ تھا۔ اس نے جب آپؐ کی اس بے انتہا ء اور غیر معمولی تڑپ کو دیکھا تو آپ ؐ کی ان پاکیزہ خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اس نے حضرت خدیجہ ؓ کے دل میں یہ تحریک پیدا فرما دی کہ میں اپنا سب مال رسول کریم ﷺ کے لئے وقف کر دوں ۔ چنانچہ شادی کے بعد انہوں نے اپنا سارا مال رسول کریم ﷺ کے سپرد فرما دیا ۔ اور آپؐ کو اختیار دے دیا کہ آپ ؐ اس روپیہ میں جس طرح چاہیں تصرف فرمائیں ۔ رسول کریم ﷺ بیشک خود غریب تھے مگر چونکہ غرباء کو دیکھ دیکھ کر آپؐ کا دل دکھتا تھا اور آپ ان کی غربت کو دور کرنے کا اپنے پاس کوئی سامان نہ پاتے تھے اس لئے جب حضرت خدیجہ ؓ نے اپنا سارا مال آپ ؐ کے قدموں میں نثار کر دیا تو آپ ؐ کو اپنی خواہشات کے برلانے اور آرزووں کو پورا کرنے کا موقع میسر آگیا ۔
حضرت خدیجہ ؓ کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف ہزاروں روپیہ رکھنے والی خاتون نہیں تھیں بلکہ لاکھ پتی خاتون تھیں ۔ مستقل طور پر ان کی طرف سے متعدد قافلے تجارت کے لئے شام کی طرف آتے جاتے تھے اور یہ وسیع کاروبار وہی شخص کر سکتا تھا جو اپنے پاس لاکھوں روپیہ رکھتا ہو ۔ جب رسول کریم ﷺ کو حضرت خدیجہ ؓ کی اس عدیم المثال قربانی کے نتیجہ میں دولت کے ڈھیروں ڈھیر مل گئے تو آپ ؐ نے وہ تمام اموال قوم کے غرباء اور یتامیٰ و مساکین میں تقسیم کر کے اپنے دل کو ٹھنڈاکر لیا۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ بھی ہیں کہ جس طرح محمد رسول اللہ ﷺ کے دل میں یہ تڑپ تھی ۔ کہ آپؐ کو خدا تعالی کا وصال حاصل ہو ۔ الہی قرب میں آپؐ کو جگہ ملے اور اس کا الہام آپؐ پر نازل ہو ۔ اسی طرح عرب کی سرزمین میں خدا تعالی کے کچھ اور بندے بھی اپنے رب کی محبت اور اس کے پیار کے لئے تڑپ رہے تھے ۔ وہ بھی آرزو رکھتے تھے کہ ہمارا خدا ہم سے مل جائے ۔ اس کا وصال ہمیںمیسر آئے ۔ اس کی محبت کی گود میں ہم جا بیٹھیں۔ اور اس کی پیاری اور میٹھی آواز ہمارے کانوں میںآئے ۔ مگر وہ بے بس تھے بے کس تھے ۔ کوئی راستہ ان کو نظر نہیں آتا تھا ۔ ایک تڑپ تو موجود تھی مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ اس تڑپ کا کیا علاج ہے ۔ یہ لوگ جو اپنی اپنی جگہوں میں خدا کی رضا کے لئے تلملا رہے تھے ۔ ان میں سے کوئی ابوبکر تھا کوئی عمر تھا ۔ کوئی عثمان تھا ۔ کوئی علی تھا ۔ کوئی زید تھا ۔ کوئی طلحہ تھا ۔ کوئی زبیر تھا ۔ یہ سب لوگ خدا کی محبت میںگھلے جا رہے تھے ۔ ان کی آنکھیںگریاں اور ان کے دل بریاں تھے ۔ اس لئے کہ ان کا محبوب ان سے ملے ۔ فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ ﷺ ! ہم نے جب دیکھا کہ تیرے سوا اور لوگ بھی مکہ بلکہ ساری دنیا میںہیں جو اپنے دلوں میں ہماری محبت رکھتے اور ہماری جستجو لئے لئے بے چین ہیں تو ہم نے ان کی تسلی کے لئے تجھے وہ روحانی غذا مہیا فرما دی جس کے بعد ان کی بکلی جاتی رہی اور وہ پوری سرعت کے ساتھ ہماری طرف دوڑنا شروع ہو گئے ۔ گویا اس آیت میں اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے ہر فطرت کی تسلی کی تعلیم رسول کریم ﷺ کو عطا فرمائی ہے اور اس لئے روحانی عیال کی خبر گیری کا سامان آپکو پوری طرح دے دیا ہے ۔ کوئی فطرت نہیں جس کی آپؐ خبر گیری نہ کر سکتے ہوں ۔ اور کوئی فطرت نہیں جس کی مناسب حال تعلیم آپؐ کی کتاب میں موجود نہ ہو ۔ بے شک کفار اسلام کی اس جامع تعلیم کو تسلیم نہیں کر سکتے مگر انہیں اتنا تو دیکھنا چاہیئے کہ جو لوگ ایمان لائے ہوئے ہیں ان کے دل کی کیا کیفیت ہے ۔ اور آیا ان کو سکون اور اطمینان نصیب ہے یانہیں ۔ آخر وجہ کیا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیںوہ ایمان سے پہلے تو بے قرار تھے ، بے چین اور مضطرب تھے ۔ سمجھتے تھے کہ ہمیں منزل مقصود کا پتہ نہیں مگر جب ایمان لے آئے تو ان کے دلوں میں ٹھنڈک پڑ گئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ ہم جس مقصد کے لئے پیدا کئے گئے تھے وہ مقصد ہمیں حاصل ہو گیا ہے ۔ یہی بات اس زمانہ میںہم حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کے متعلق لوگوں کے سامنے بار بار پیش کر تے ہیں کہ بے شک تم مخالفت کرتے ہو مگر اس کا کیا جواب ہے کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود ؑ پر ایمان لائے ہیں ان کے دل مطمئن ہو چکے ہیں تسلی کی ایک لہر ہے جو ان کے قلوب میںپائی جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا خدا ہم سے مل گیا ہے ۔ کیا کسی کاذب انسان کے ساتھ تعلق رکھنے کے نتیجہ میں بھی یہ ثلج خاطر حاصل ہو سکتا ہے ۔ یہ برکت تو اسی شخص کو مل سکتی ہے جس نے کسی سچے کا دامن پکڑا ہوا ہو۔
غرض اس آیت میںاللہ تعالی فرماتا ہے کہ نہ صرف تجھے ہم نے پالا اور تیری پرورش کا سامان کیا بلکہ تیرے ذریعہ سے اور ہزاروں یتامیٰ و مساکین کی پرورش کا بھی ہم نے انتظام کر دیا ۔ جسمانی یتیم جسمانی مسکین، جسمانی غریب اور جسمانی نادار روٹی کھا کر شہادت دے رہے ہیں ۔ کہ محمد رسول اللہ ﷺ ایک راستباز انسان ہیں اور روحانی یتیم ابوبکر ؓ اور عمر ؓ اور عثمان ؓ اور علی ؓ اور طلحہ ؓ اور زبیر ؓ تیری تعلیم سے مطمئن ہو کر گواہی دے رہے ہیں کہ ہم بڑے بھوکے تھے اگر سیری حاصل ہوئی ہے تو اسی خوان ہدیٰ سے جواس پاک نفس نے پیش کیا ۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ آئندہ بھی خدا ہمیشہ تیرے ساتھ ہو گا ۔ ہمیشہ تیری تائید کرے گا ۔ ہمیشہ تجھے اپنی نصرت عطا کرے گا ۔ جو خدا آج تک تیرے کام آتا رہا ہے جس نے ایک لمحہ کے لئے بھی تجھے کبھی نہیں چھوڑا ۔ وہ آئندہ تجھے کس طرح چھوڑ سکتا ہے ؟
اس آیت کے یہ بھی معنے ہیں کہ آپ ؐ کے روحانی عیال جو ں جوںزیادہ ہوتے جائیں گے اللہ تعالی ان کی خبر گیری کے سامان پیدا کرتا جائے گا ۔ چنانچہ جس قدر معلم علم دین رسول کریم ﷺ کو ملے اور کسی نبی یا بزرگ کو نہیں ملے ۔ اسی وجہ سے آپؐ نے فرمایا اصحابی کالنجوم بایھم اقدیتم اھتدیتم ۔ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا جائو گے ۔
فاما الیتیم فلا تقھر Oط
پس یتیم کو تو دبا نہیں ۷ ؎
۷ ؎ حل لغات۔ لا تقھر ۔ قَھَرَ سے نہی مخاطب کا صیغہ ہے اور قَھَرَہُ کے معنے ہیں غَلَبَہ‘ ۔ اس پر غالب آیا ۔ نیز کہتے ہیں اَخَذْتُھُم قَھْرًا ۔ اور مراد یہ ہوتی ہے اَیْ مِنْ غَیْرِ رِضَا ھُمْ یعنی بغیر ان کی رضا مندی کے ان کو کام پر لگا لیا۔ (اقرب )
مفردات میںہے اَلْقَھْرُ : اَلْغَلَبَۃُ وَالتَّذْلِیْلُ مَعًا وَ یُسْتَعْمَلُ فِیْ کُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا یعنی قہر کے معنی ایسے غلبہ کے ہیں جس کے ساتھ مغلوب کی تذلیل بھی ہو ۔ بعض اوقات قھر کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور ا س کے معنے صرف غلبہ کے ہوتے ہیں یا صرف تذلیل کے (مفردات ) پس لَا تَقْھَرْ کے معنے ہوئے ۔ تو مغلوب نہ کر (۲) تذلیل نہ کر ۔
تفسیر ۔ فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ ﷺ جب ہم نے تیرے ساتھ غیر معمولی طور پر اچھا سلوک کیا ہے تو آئندہ یتیم کے متعلق ہماری تعلیم تمہیںیہ ہے کہ تم اس سے یہ معاملہ کیا کرو جو لَا تَقْھَرْ والا ہو ۔ تمہیں جن اخلاق سے ہم نے نوازا ہے ان کو ہمیشہ بڑھاتے چلے جائو ۔ اور اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھو کہ تم یتیم تھے ہم نے تمہاری پرورش کے سامان پیدا کئے ۔ اب اے محمد رسول اللہ ﷺ دنیا میںہمارے اور بھی بہت سے یتیم بندے ہیں تم ان سے کبھی ایسا سلوک مت کرو جوان کو ذلیل کرنے والا ہو ۔ بلکہ ہمیشہ ان کی فلاح اور بہبودی کا خیال رکھو ۔ ان کا اکرام کرو۔ ان کو ابھارنے اور ترقی دینے کی کوشش کرو اور ان کی ضروریات کو پورا کرو۔
حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ تعالی اپنے بعض بندوں سے فرمائے گا ۔ اے میرے بندو! میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہیںکھلایا ۔ میںپیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہیں پلایا میںبیما ر تھا تم نے میری بیمار پرسی نہیں کی ۔ وہ لوگ گھبرا جائیں گے اور کہیں گے ۔ خدایا تو یہ کیا کہہ رہا ہے تو کب بھوکا تھا کہ ہم نے تجھے کھانا نہیں کھلایا ۔ کب پیاسا تھا کہ ہم نے تجھے پانی نہیں پلایا ۔ کب مریض تھا کہ ہم نے تیری بیمار پرسی نہیں کی ۔ تُو تو خود سارے جہان کو کھانا کھلاتا ۔ ان کو پانی پلاتا اور ان کی ضروریات کو پورا کرتا ہے ۔ ہم ناچیز بندے کیا طاقت رکھتے تھے کہ اے ہمارے رب ہم تیری بیمار پرسی کرسکتے یا تجھے کھانا کھلا سکتے یا تجھے پانی پلا سکتے ۔ اللہ تعالی فرمائے گا یہ درست ہے ۔ مگر میری مراد یہ ہے کہ دنیا میں میرے بعض بندے پیاسے تھے تم نے انہیں پانی نہیں پلایا ۔ بعض بندے ننگے تھے تم نے انہیں کپڑا نہیں دیا ۔ جب تم نے ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا تو گویا تم نے ان کی طرف سے بے پرواہی نہیں کی بلکہ میری طرف سے بے پرواہی کی ۔ وہ میرے بندے تھے جو مختلف قسم کی تکالیف میں مبتلا تھے اس لئے ان کو کھلانا یا پلانا یا پہنانا ایسا ہی تھا جیسے تم مجھے کھلاتے یا مجھے پلاتے یا میری بیمار پرسی کرتے ۔ مگر تم نے اس فرض کو ادا نہیں کیا انجیل میں یہ واقعہ اس طرح آتا ہے کہ خدا تعالی قیامت کے دن بعض بندوں کو بلائے گا اور فرمائے گا ۔ اے میرے بندو! میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا ۔ میں پیاساتھا تم نے مجھے پانی پلایا ۔ میںپردیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں اتار ا ۔ ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا ۔بیمار تھا تم نے میری خبر لی ۔ قید میں تھا تم میرے پاس آئے آئو اب میں اس کی جزادوں ۔ تب لوگ کہیں گے اے خداوند ! ہم نے کب تجھے بھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا یا پیاسا دیکھ کر پانی پلایا۔ ہم نے کب تجھے پردیسی دیکھ کر گھر میں اتارا یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنایا ۔ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے ؟ تب اللہ تعالی بندوں کے جواب میںفرمائے گا ۔ کہ اے میرے بندو!جب تم نے اپنے بھائیوں میں سے کسی کے ساتھ یہ سلوک کیا تو میرے ہی ساتھ کیا ۔ اس لئے اب میںتمہیں اس کی جزاء دیتا ہوں اور جنت میں داخل کرتا ہوں (متی باب ۲۵ آیت ۳۴ تا ۴۰)
فاما الیتیم فلا تقھر میں اسی طرف اشارہ ہے کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ تو یتیم تھا ہم نے تجھے پالا۔ اب دنیا میںہمارے اور بھی بہت سے یتیم بندے ہیں ان کی پرورش تیرے ذمہ ہے اور تیرا فرض ہے کہ تو ان کی نگرانی رکھے اور ان کی تکالیف کا ازالہ کرے ۔
وہ حدیث جواوپر بیان کی جا چکی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یتامیٰ و مساکین کی پرورش کا معاملہ خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے اور خدا تعالی اس پرورش یا عدم پرورش کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے ۔ جوشخص یتیم سے حسن سلوک کرتا ہے وہ اللہ تعالی کی رضا مندی حاصل کرتا ہے اور جو شخص یتیم سے بے اعتنائی کرتا یا اس سے ظالمانہ سلوک کرتا ہے وہ خدا تعالی کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکاتا ہے ۔ لَا تَقْھَرْکہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یتیم کی پرورش اس رنگ میں نہیں کرنی چاہیئے کہ وہ خراب ہو جائے ۔ یعنی نہ ایسی سختی کرو کہ جس کے نتیجہ میں اس کے قویٰ دب جائیں اور وہ ترقی سے محروم ہو جائے اور نہ ایسی نرمی کرو کہ جس سے ناجائز فائدہ اٹھا کر وہ اپنے اوقات اور اپنے قویٰ کو برباد کر دے ۔ قَھْرٌ کے معنے دراصل غلبہ کے ہوتے ہیں ۔ پس لَا تَقْھَرْ کے معنے یہ ہوئے کہ اس سے ایسا معاملہ نہ کرو جس کے نتیجہ میں تم اس کے قوائے دماغیہ اور جسمانیہ پر غالب آجائو اور اس کی ترقی کو نقصان پہنچادو۔ انسانی ترقی کو دو ہی طرح نقصان پہنچتا ہے یا بے جا سختی سے یا بے جا نرمی اور محبت سے ۔ پس لا تقھر کہہ کر اللہ تعالی نے بے جا سختی سے بھی روک دیا اور بے جا نرمی سے بھی منع فرما دیا ۔ اور نصیحت کی کہ یتیم سے تم ایسا ہی معاملہ کرو جو اس کی اچھی تربیت کے لئے ضروری ہو ۔
واما السائل فلا تنھر Oط واما بنعمۃ ربک فحدث Oع
اور سوالی کو تو جھڑک مت اور تو اپنے رب کی نعمت کا ضرور اظہار کرتا رہ ۸ ؎
۸؎ حل لغات ۔ لا تنھر : نھر سے نہی مخاطب کا صیغہ ہے اور نھر السائل کے معنے ہیںزجرہ سائل کو ڈانٹ ڈپٹ کی (اقرب) پس لا تنھر کے معنے ہوں گے ۔ مت ڈانٹ۔
تفسیر ۔ فرماتا ہے سائل کو تم جھڑکو نہیں کیونکہ تم بھی سائل تھے محبت کی بھیک ہم سے مانگنے کے لئے آئے تھے ۔ ہم نے تمہارے سوال کو رد نہ کیا بلکہ تمہارے دامن کو گوہر مقصود سے بھر کر لوٹایا ۔ اب تم سے اور لوگ محبت کی بھیک مانگنے آئیں گے تمہارا فرض ہے کہ تم ان سائلوں کی طرف ہمہ تن متوجہ رہو اور ان کی خواہشات کو پورا کرو۔
اما بنعمۃ ربک فحدث ۔ تحدیث نعمت دو طرح ہوتی ہے ایک اس طرح کہ انسان علیحدگی میں اللہ تعالی کے احسانات کا شکر ادا کرے اور اس کے پیہم فضلوں کو دیکھ کر سجدات شکر بجا لائے اور زبان کو اس کی حمد سے تر رکھے ۔ دوسرا طریق تحدیث نعمت کا یہ ہوتاہے کہ لوگوں میںاللہ تعالی کے احسانات کا ذکر کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ اللہ تعالی نے کتنا بڑا فضل کیا ۔ فرماتا ہے ہم نے جونعمتیں تجھے عطا کی ہیں ان کا خود بھی شکر ادا کرو اور اپنے رب کی ان نعمتوں کا لوگوں میں بھی خوب چرچا کرو ۔ یا خدا تعالی نے جو نعمتیں تجھے دی ہیں ان سے خود بھی فائدہ اٹھائو اور اپنے جسم پر ان کے آثار کو ظاہر کرو۔ اور کچھ حصہ صدقہ و خیرات کے طور پر لوگوں میںبھی تقسیم کرو۔
اس سورۃ کے آخر میں جو تین باتیں بیان کی گئیں ہیں ۔ یہ پہلی بیان کر دہ تین باتوں کے مقابل میں ہیں ۔ پہلے فرمایا تھا ۔ (۱) الم یجد ک یتیما فاویٰ۔ (۲) ووجدک ضالا فھدی (۳) ووجدک عائلا فاغنی۔ تم یتیم تھے ہم نے تمہیں پناہ دی۔ تم ہماری محبت اور اپنی قوم کی نجات کے طالب تھے ہم نے تمہیںاپنی محبت بھی عطا کر دی اور قوم کی نجات کا سامان بھی عطا کر دیا ۔ اسی طرح تم روحانی اور جسمانی یتامیٰ سے گھرے ہوئے تھے ہم نے دونوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان بھی عطا کر دیا ۔ اب تیرا بھی فرض ہے کہ تو یتامی سے ایسا سلوک نہ کر جو ان کی طاقتوں کو توڑ نے والا ہو ۔ تو ہماری محبت کے سائلوں کو جو تیرے دروازہ پر آئیں کبھی مایوس مت لوٹا بلکہ جس طرح ہم نے تیری مرادیں پوری کی ہیں تو ان کی مرادوں کو پورا کر ۔ اور پھر یہ بھی دیکھ کہ ہم نے تجھے عائل بنایا تھا پھر تجھے غنی کر دیا ۔ اب تمہارا کام یہ ہونا چاہیئے کہ ہم نے تجھ پر جو احسان کئے ہیں ان کا تو شکر ادا کر ۔ ہماری نعمتوں سے خود بھی فائدہ اٹھا اور لوگوں میں بھی ان نعماء کو تقسیم کر ۔ یہ اسلامی تعلیم نہیں کہ انسان کو اگر کوئی نعمت ملے تو وہ اسے رد کر دے اور اس سے فائدہ نہ اٹھائے ۔ بد قسمتی سے مسلمانوں کے ایک طبقہ میں روحانیت کا مفہوم نہ سمجھنے کے نتیجہ میںیہ خیال پیدا ہو چکا ہے کہ اللہ تعالی کی نعماء کا استعمال روحانیت کے خلاف ہے ۔ اچھا کھانا کھانا یا اچھا کپڑ اپہننا یا اعلیٰ درجہ کی اشیاء سے فائدہ اٹھانا روحانی لوگوں کا کام نہیں ہو سکتا ۔ مگر یہ لوگوں کی خودساختہ روحانیت ہے اسلام اور عرفان سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ الہیٰ حکم یہی ہے کہ اما بنعمۃ ربک فحدث ۔ انسان کو اللہ تعالی کی طرف سے جو بھی نعمت ملے وہ اس سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے ۔ کاہنوں کیطرح ان نعمتوں کو رد نہ کردے ۔ اس آیت کے روحانی لحاظ سے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے جو تعلیم تجھے عطا کی ہے اس پر خود بھی عمل کرو اور دوسروں سے بھی عمل کرائو ۔ اور جسمانی لحاظ اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے جو نعمتیں تجھے دی ہیں ان سے خود بھی فائدہ اٹھا ئو اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائو ۔ بہر حال رسول کریم ﷺ پر اللہ تعالی نے جو فضل نازل کئے تھے ان کے ذکر کے بعد اللہ تعالی نے آپ سے مطالبہ کیا ہے کہ جیسے تم یتیم تھے اور ہم نے تمہاری خبر گیری کی اسی طرح تم ہمارے یتیموں کی خبر گیری کر و۔ جیسے تم سائل تھے اور ہم سے محبت کی بھیک لینے آئے اور ہم نے تمہاری آرزو کو پورا کر دیا اسی طرح اب ہمارے سائل جو تیرے پاس آئیں تیرا فرض ہے کہ ان کی آرزوئوں کو پور اکرے ۔ پھر جس طرح ہم نے تجھے عائل پا کر غنی کر دیا تھا اسی طرح دنیا میں بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں جن کو اس بات کا کوئی علم نہیں کہ خدا نے ان کی ہدایت کے لئے آسمان سے کتنابڑا نور نازل کیا ہے وہ جہالت کی تاریکیوں میں اپنی عمر بسر کر رہے ہیں اورآسمانی نور کی شعائیں ان تک نہیں پہنچیں ۔ ان کے دل بھی اس شوق میں تڑپ رہے ہیں کہ انہیں خدا تعالی کی محبت حاصل ہو ۔ اس کا پیار ان کی غذا ہو اور اس کا عشق ان کے رگ و ریشہ میں ہو ۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ وہ شمع کہاں ہے جس کے گرد وہ پروانہ وار اپنی جانوں کو قربان کر دیں ۔ ہم نے تجھے آسمانی دولت سے مالا مال کر کے اس لئے بھیجا ہے کہ تو دنیا کے سب لوگوں تک خدا ئے قدوس کی آواز پہنچا دے ۔ سو ڈھنڈورا دو اور خوب دو ۔ تبلیغ کرو اور خوب کرو۔ خدا کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچائو اور خوب پہنچائو ۔ سوتی دنیا کو جگائو اور خوب جگائو ۔ اور جو خزانے خد انے تمہیں عطا کئے ہیں انہیں بلا دریغ لوگوں میں تقسیم کردو کہ یہی وہ مقصد ہے جس کے لئے تمہیں دنیا میںکھڑ اکیا گیا ہے ۔
یہ تینوں آیتوں کا تقابل بھی بتاتا ہے کہ وجدک ضالا میںگمراہی مراد نہیں ۔ کیونکہ یتیم کے مقابل پر یتیم کا ذکر کیا ہے نعمت کے مقابل پر تحدیث بالنعمت کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس لئے لازماً ضالا کے مقابل پر جوآیت ہے اس میں پہلی آیت کے متعلق ہی اشارہ چاہیئے اور اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی سوالی کو رد نہ کر پس ضالا کے معنے بھی سوال کرنے کے ہوں گے اور یہی معنے کئے گئے ہیں ۔ یعنی تو خدا تعالی کی محبت کا سوالی تھا سو ہم نے تیری اس غرض کو پور اکیا اور ہدایت بخشی ۔

سُوْرَۃُالْقَدْرِ مَکِیَّۃ ٌ
سورۃ قدر ۔ یہ سورۃ مکّی ہے نمبر ۱
وَھِیَ خَمْسَُ اٰیَاتٍ دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِیْہَا رُکُوْعٌ وَّاحِدٌ
اوراس کی بسم اللہ کے سوا پانچ (۵) آیات ہیں اور ایک رکوع ہے ۔
۱؎ سورۃالقدر مکی سورۃ ہے لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ مدنی ہے چنانچہ واحدی کا قول ہے کہ ھِیَ اَوَّلَ سُوْرَۃٍ نَزَلَتْ بِالْمَدِیْنَۃِ یہ پہلی سورۃ ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی ۔
اس سورۃ پر بحث کرتے ہوئے مفسرین نے جمہور کی عجیب تعریف کی ہے بعض کہتے ہیںعِنْدَالْجَمْھُوْرِ مَکِّیَّۃٌ اور بعض کہتے ہیںعِنْدَالْجَمْھُوْرِ مَدَنِیَّۃٌ ۔ معلوم نہیں وہ کون سے جمہور ہیں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ جمہور کے نزدیک یہ مکی بھی ہے اور جمہور کے نزدیک یہ مدنی بھی ہے ۔ لطیفہ یہ ہے کہ مفسرین یہ تو کہتے ہیںکہ جمہور کے نزدیک یہ مدنی ہے مگر کسی صحابی کانام نہیں لیتے کہ فلاں فلاں نے اس سورۃ کو مدنی قرار دیا ہے آخر رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ ہی تھے جو اس کے مکی یا مدنی قرات دے سکتے تھے پس جب ان کے نزدیک جمہور نے اسے مدنی قرار دیا ہے تو چاہیئے تھا کہ وہ کچھ صحابہ کا ذکر کرتے اور کہتے کہ فلاں فلاں صحابی نے اسے مدنی قرار دیا ہے مگر باوجود یہ لکھنے کے کہعِنْدَالْجَمْھُوْرِمَدَنِیَّۃٌ پھر اس قسم کی روایتوں کا بھی تفاسیر میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک یہ مکی ہے ۔ جب صحابہؓ اسے مکی قرار دیتے ہیں تو پھر یہ لکھنے کے کیا معنے ہوئے کہ عِنْدَالْجَمْھُوْرِمَدَنِیَّۃٌ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جمہور کا محاورہ جو ہماری کتب میں استعمال کیا جاتاہے کیسا خلاف ِ اصول ہے کہ ہر لکھنے والا جب اپنی رائے کے مطابق دو چار لوگوں کی آراء دیکھ لیتا ہے تو فوراً کہنا شروع کر دیتا ہے کہ جمہور کے نزدیک فلاں بات یوں ہے حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ ہر صحابی اس امر کا ذکر نہیں کیا کرتا کہ فلاں سورۃ مکی ہے یا مدنی ۔ صرف چند صحابہ ایسے امور کا ذکر کیا کرتے ہیں اور جب انہوں نے کھلے لفظوں میں اسے مکی قرار دیا ہے اور مفسرین خود بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر نہ معلوم ان کو کیا خیال آگیا کہ صحابہ ؓ کی اس قطعی رائے کے باوجود انہوں نے اسے مدنی قراردے دیا۔ مستشرقین جن میں سے بعض تو دیانتدارانہ طورپر حقیقت کو معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض پادری یا پادری نما جان بوجھ کر یا تعصب سے واقعات کو بدل دیتے ہیں۔ انہوں نے بھی اسے مکی ہی قرار دیا ہے ۔ نولڈ کے مشہور مستشرق بھی اسے سورۃ الضحیٰ کے معاً بعد کی قرار دیتاہے۔
بعض احادیث میں اس کے نزول کی عجیب وجہ بیان کی گئی ہے ۔ لکھا ہے کہ چار نبیوں کے متعلق یہود میںیہ خیال تھاکہ انہوں نے اسی (۸۰) سال بلا ناغہ بغیر گناہ کے ارتکاب کے خدا تعالی کی عبادت کی ہے اور وہ چار نبی یہ ہیں ایوبؔ۔ زکریاؔ۔حزقیل ؔ۔ یوشعؔ۔ جب یہودیوں کا یہ قول صحابہ ؓ نے سنا تو ان کو رشک پیدا ہوا کہ چار آدمی ایسے گذرے ہیں جنہوں نے اسی سال تک بغیر کسی غلطی کے ارتکاب کے اللہ تعالی کی عبادت کی ہے اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی کہ اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ ………… یعنی تم تو اسی سال کی عبادت پر رشک کرتے ہو اور اسلام کی یہ کیفیت ہے کہ اگر کسی کو لیلۃ القدر میںاللہ تعالی کی عبادت نصیب ہو جائے تو اس کی ایک رات کی عبادت ہی ہزار مہینوں یعنی اسی (۸۰) سال کی عبادت سے بڑھ جاتی ہے ۔ مگر میرے نزدیک یہ روایت قابلِ قبول نہیں اوراسے تسلیم کرنا عقلی طور پر ناممکنہے کیونکہ اگر واقعہ میںکسی کو اسی (۸۰) سال عبادت کرنے کا موقع مل جاتا ہ تو اس پر کسی شخص کو محض ایک رات میں عبادت کرنے کی وجہ سے کس طرح فضیلت دی جا سکتی ہے ۔ اگر کہو کہ ایک رات کی عبادت اتنے سوزو گداز سے لبریز ہو گی ، اتنی محبت اور اللہ تعالی کے اتنے عشق کو ظاہر کرنے والی ہو گی کہ باوجود ایک رات کی عبادت ہونے کے اپنی شان و عظمت میں اسی سال کی عبادتوں سے بڑھ جائے گی تو یہ کوئی ایسی بات نہیںتھی جسے خاص طورپر بیان کیا جاتا ۔ہر شخص جانتا ہے کہ ایک رات کا بھی سوال نہیں اگر ایک گھنٹہ میں بھی کوئی شخص اپنے اخلاص اور اپنی محبت کا کوئی ایسا ثبوت دیدیتا ہے جو دوسرے کی اسی (۸۰) سالہ زندگی میں بھی نہیں ملتا تو یقینا اس کے ایک گھنٹے کے اخلاص دوسرے کی اسی سالہ کوششوں کے نتائج سے بڑھ جائے گا بلکہ میں کہتا ہوں ایک گھنٹے کا بھی سوال نہیں اگر کسی پر ایک منٹ بھی ایسا آجائے تو اس کا وہ ایک منٹ دوسرے شخص کی اسی یا سو سالہ عبادت سے بڑھ جائے گا۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت ابراہیم ؑ پر ایک وقت آیا جبکہ اسی سال کی عمر کے بعد ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا اور پھر جیسا کہ بائیبل اور قرآن قریم دونوں سے ثابت ہے جب وہ بڑا ہوا تو اللہ تعالی نے ان کو حکم دیا کہ اپنے اس بیٹے کو خدا کی راہ میں ذبح کر دو ۔ گو میرے نزدیک اس کی تعبیر یہ تھی کہ اپنے بیٹے کو اس وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ آئو جہاںنہ کھانے کو کچھ ملتا ہے نہ پینے کو ۔ اور اس طرح ظاہری رنگ میں اپنی طرف سے اس پر موت وارد کر دو ۔ مگر چونکہ اس وقت تک انسانی قربانی کا بھی رواج تھا اللہ تعالی نے اس رنگ میںان کو یہ نظارہ دکھا دیا تا کہ ساتھ ہی اس مسئلہ کو بھی حل کر دیا جائے ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے زمانہ کے دستور کے دیکھتے ہوئے سمجھا کہ یہ میرا امتحان ہے اور غالباً اللہ تعالی کہ مراد یہی ہے کہ اسی سال کے بعد میرے ہاں جو بیٹا پیدا ہوا ہے میں اسے عملاً اللہ تعالی کی راہ میںذبح کر دوں ۔ انہوں نے اپنے بیٹے سے ذکر کیا حضرت اسمٰعیل ؑ نے (کہ ہمارے نزدیک وہی تھے جنہوں نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کیا اس اچھی تربیت کے ماتحت جو اپنے ماں باپ سے انہیں حاصل ہو رہی تھی) اس بات پر آمادگی کا اظہار کر دیا اور کہا کہ جب اللہ تعالی کا حکم یہی ہے کہ مجھے ذبح کر دیا جائے تو پھر مجھے اس حکم کی تعمیل میں کوئی عذر نہیں ہو سکتا۔ حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے جنگل میں لے گئے اور انہوں نے حضرت اسمٰعیل ؑ کو ماتھے کے بل گرادیا وہ چھری پھیرنے کے لئے تیار ہی تھے کہ اللہ تعالی کی طرف سے الہام ہوا یَا اِبْرَاھِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّ وْیَا (صافات ۳:۷)اے ابراہیم تم نے اس رویاء کو اپنی طرف سے پورا کر دیا ہے لیکن ہمارا منشاء یہ نہ تھا تم اس واقعہ کی یادگار میں ایک بکرا ذبح کر دو۔ یہ خواب کسی اور صور ت میں پورا ہونے والا ہے ۔
حضرت ابراہیم ؑ کی وہ گھڑی جس میںوہ اللہ تعالی کی خاطر اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے یقیناً کئی لوگوں کی اسی اسی بلکہ سو سو سال کی عبادت سے بھی بڑھ کر تھی ۔ آخر دنیا میںایسے کئی لوگ موجود ہوتے ہیں جو اسی سال کی عمر پاتے ہیں بلکہ سو سو سال تک زندہ رہنے والے لوگ بھی دنیا میںپائے جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جنہوں نے ایک سو بیس ، ایک سو تیس ۔ ایک سو چالیس یا ایک سو پچاس سال کی عمر پائی ۔ میںنے خود ایک شخص کو دیکھا ہے جنہوں نے ایک سو چالیس سال سے اوپر عمر پائی تھی ۔ وہ جب میری بیعت کے لئے آئے تو لاہور سے پیدل چل کر آئے تھے ۔ انہوں نے اپنی عمر کا ذکر کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب ایک دفعہ میرے استاد کے پاس کسی کام کے متعلق دعا کرانے کے لئے آئے تھے اور انہوں نے ایک بھینس انکو تحفہ کے طور پر دی تھی میںاس وقت اتنا جوان تھا کہ وہ بھینس جو مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب نے میرے استاد کو دی اس کے متعلق میرے استاد نے مجھے کہا کہ جائو اور اس کو نہلا لائو۔ یہ روایت انہوں نے آج سے بیس سال پہلے بیان کی تھی اگریہ فرض کر لیا جائے کہ اس وقت وہ صاحب بیس پچیس سال کے تھے جب یہ واقعہ ہوا تو چونکہ بیعت کے وقت تک اندازاً سو سال کا عرصہ اس واقعہ پر گذر چکا تھا اس لئے جب وہ میری بیعت کے لئے آئے اس وقت وہ ایک سو بیس سال کے تھے اور مجھے دوستوں نے بتایا کہ اس کے بعد بھی وہ پندرہ بیس سال زندہ رہے گویا ایک سو چالیس سال سے اوپر عمر انہوں نے پائی اور ایک سو بیس سال کی عمر میںوہ اتنے مضبوط تھے کہ لاہور سے پیدل چل کر قادیان آئے ۔ اب اگر وہ ساری عمر دین کی طرف متوجہ رہے ہوں اور انہوںنے ایک سو بیس سال تک اللہ تعالی کی عبادت کی ہو تب بھی حضرت ابراہیم ؑ کی وہ ایک گھڑی کی عبادت ان کی ایک سو بیس سالہ عبادت سے بڑھ گئی اور خدا تعالی کے فعل نے بھی نتیجہ ظاہر کر دیا کیونکہ جو سلوک اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم ؑ سے کیا ہے وہ ان سے نہیں کیا ۔ اللہ تعالی تو کسی کی نیکی ضائع نہیںکرتا وہ خود فرماتا ہے َفَمَنْْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہ‘ (الزلزال ) جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی نیکی کرتا ہے وہ اس کے اچھے نتیجے کو ضرور دیکھ لیتا ہے ۔ جب اللہ تعالی کسی کی ایک ذرہ کے برابر نیکی بھی ضائع نہیں کرتا تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی ایک سو بیس سال کی عبادت کو ضائع کر دے اور یہ کہنا کہ سوزو گداز اور اخلاص کی وجہ سے بعض دفعہ ایک رات کی عبادت تراسی سال کی عبادت سے بڑھ جاتی ہے ۔ یہ جواب بھی اس موقع پر چسپاں نہیں ہو سکتا کیونکہ روایت میںہے کہ پہلے نبیوں نے اسی سال عبادت کی تھی جس کی خبر سن کر صحابہ ؓ کو افسوس ہوا کہ ہم اس کے مقابل پر کیا پیش کریں گے۔ اگر یہ روایت اس جگہ چسپاں کی جائے تو پھر اس کے یہ معنے ہوں گے کہ نبیوں کی اسی سالہ عبادت سے غیر نبی کی ایک رات کی عبادت بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس میںزیادہ سوز و گداز ہوتا ہے اور یہ دعویٰ بالبداہت باطل ہے ۔ بغرض محال یہ درست بھی ہو تو پھر اس مضمون کو ان الفاظ میںبیان کرنا تو بلاغت کے خلاف ہے اس صورت میں تو یہ کہنا چاہیئے تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ کے دل اس قدر پاک ہیںکہ ان کی ایک لمحے کی عبادت یا ان کی ایک رات کی عبادت ان لوگوں کی اسی سا ل کی عبادت سے بہتر ہے مگر اس کی بجائے فرمایا یہ گیا ہے کہ ایک خاص رات کی عبادت دوسرے اسی (۸۰) سال کی عبادت سے اچھی ہے اور یہ بات یقینا اس یہودی روایت کا جواب نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ صرف ایک رات کو بغیر اور کسی خصوصیت کے دوسرے سالوں پر ترجیح دے دینا عقل کے خلاف ہے اور صرف زبردستی اور دھینگا مشتی ہے جو اللہ تعالی کی شان کے خلاف ہے ۔
یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ اگر اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ ایک معمولی مومن اور متقی انسان اگر ایک رات عبادت میںگزار دے تو وہ پہلے انبیاء کی اسی سالہ عبادتوں سے بھی بڑھ جاتاہے تو اس سے بڑھ کر ظلم اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ان انبیاء کو اسی سال عبادت کرنے کے بعد بھی اتنا انعام نہ ملے جتنا انعام ایک معمولی مسلمان کو محض ایک رات عبادت کرنے کی وجہ سے دے دیا جائے ۔ پس اس حدیث کا یہ مفہوم قرآنی تعلیم اور عقل کے بالکل خلاف ہے ۔
ترتیب ۔ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے تعلق ظاہر ہے وہاں فرمایاتھا اِقْرَا بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ اپنے رب کے نام کے ساتھ پڑھ جس نے پیدا کیا ہے اور مطلب یہ تھا کہ قرآن پڑھ ۔ اب اس سورۃ میںقرآن کی فضیلت اور عظمت کا اظہار کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِالْقَدْرِ یہ قرآن لیلۃ القدر میںنازل کیا گیا ہے یعنی یہ وہ کتاب ہے جو دنیا کی ترقی اور اس کے تنزل کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام فیصلوں پر حاوی ہے یا یوںکہہ لو کہ قرآن کریم دنیا کی ترقی اور اس کے تنزّل کے تمام سامانوں کی تفصیل اپنے اندر رکھتا ہے اور بتاتا ہے کہ آئندہ دنیا کن اصول کے مطابق چل کر ترقی کر سکتی ہے اور کن امور کی پیروی کر کے تباہ ہو سکتی ہے ۔ جو چیز ایسی اہم ہو کہ اس کو قبول کرنے میںدنیا کی نجات اور اس کو رد کرنے میںدنیا کی تباہی ہو اس کا پڑھنا اور بار بار لوگوںکو سنانا جس قدر ضروری ہو سکتا ہے وہ ایک ظاہر امر ہے ہم تو دیکھتے ہیں دنیا میںلوگ معمولی باتوں پر ڈھنڈورا پیٹ دیتے ہیں ۔ عید کا چاند دیکھتے ہیں تو ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں کہ کل عید ہو گی ۔ نیا مال آتا ہے تو تاجر اور دکاندار لوگوں میں یہ ڈھنڈورا پیٹ دیتے ہیںکہ فلاں فلاں مال ہمارے پاس آیا ہے آئو اور اسے لے جائو۔ کسی بادشاہ کے ہاں بیٹا پیدا ہو تو اعلانات کے ذریعہ اس خبر کی خوب تشہیر کی جاتی ہے حالانکہ بعض دفعہ وہ چند دنوں کے بعد ہی مر جاتا ہے اور بعض دفعہ بڑے ہو کر وہ ایسا نالائق ثابت ہوتا ہے کہ باپ دادا کی ساری سلطنت کو کھو دیتا ہے ۔ اسی طرح ٹِڈی سے ملک کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو گورنمنٹ اخباروں میں اعلانات کراتی ہے کہ ٹڈّی دَل آیا ہوا ہے اس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیئے یا مثلاً گورنمنٹ کو معلوم ہو جائے کہ اس دفعہ غلہ کی اچھی قیمت ہو گی یا کپاس کا نرخ بڑھ جائے گا یا بارشیںزیادہ ہوں گی تو گورنمنٹ بار بار ان باتوں کا اعلان کرتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ ہر شخص کے کان تک یہ باتیں پہنچ جائیں۔ جب معمولی معمولی باتوں کے متعلق ڈھنڈورے پیٹے جاتے ہیںاور بڑے جوش سے اعلان کئے جاتے ہیں تو وہ چیز جو بنی نوع انسان کی تقدیر کو لے کرآئی ہو ، جو اپنے اندر دنیا کی ترقی اور اس کے سامانوں کی تفصیل رکھتی ہو ، جس پر عمل لوگوں کو نجات دلانے والااور جس سے انحراف ان کو تباہی کے گڑھے میں گرانے والا ہے اس کا زور و شور سے اعلان کرنا کیوں ضروری نہیں؟
پس اِقْرَا بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق میں جو یہ کہا گیا تھا کہ قرآن کریم کا دنیا میں خوب ڈھنڈورا پیٹو اور اس کی تعلیم کا بار بار اعلان کرو۔ اس سورۃمیں اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ قرآن کریم کا دنیا میں شائع کرنا اس لئے ضروری ہے کہ ہم نے اس کو ایک اندازہ والے زمانہ میں اتارا ہے یعنی یہ کتاب دنیا کی ترقی اور اس کے تنزل کے متعلق تمام اندازے اپنے اندر رکھتی ہے ۔
بِِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ O
(مَیں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرمکرنے والا (اور) بار بار رحم کرنیوالا ہے (شروع کرتا ہوں)
اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِالْقَدْرِ Oج صلے
؎۲ حل لغات ۔ لَیْلَۃٌ :۔ اَللَّیْلُ : مِنْ مَّغْرَبِ الشَّمْسِ اِ لیٰ طُلُوْعِ الْفَجْرِ الصَّادِقِ اَوْ اِلیٰ طُلُوْعِ الشَّمْسَ وَ ھُوْ خِلَافُ النَّھَارِ ۔ یعنی سورج کے غروب ہونے کے وقت سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے کے وقت کو لَیْل کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک سورج کے نکلنے تک کے وقت کو ۔ اور لَیْل کا لفظ نَھَار یعنی دن کے بالمقابل بولا جاتا ہے ۔ بعض علماء لغت کا خیال ہے کہ لَیْلٌ اور لَیْلَۃٌ ایک ہی چیز ہے ۔ جیسے عربی میںعَشِیٌّ اور عَشِیَّۃٌ ہم معنے ہیں ۔ لیکن مرزوقی عالم ِ لغت کہتے ہیں کہ لَیْل کا لفظ نَھَار کے مقابل پر بولا جاتا ہے اور لَیْلَۃ کا یَوْم کے مقابل پر (اقرب)
قَدْرٌ کے معنے مَبْلَغُ الشَّیْ ئِ کے ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کی جو قیمت ہوتی ہے اس کو قَدْرٌ کہتے ہیں۔ اسی طرح قَدْرٌ ایک چیز کے دوسری چیزسے مساوی ہونے کو بھی کہتے ہیں چنانچہ عرب کہتے ہیںھَذَا قَدْرُ ھٰذَا اَیْ مُمَاثِلُہ‘ وَمُسَاوٍلَہُ یعنی فلاں چیز فلاں کے مساوی ہے ۔ اس طرح طاقت کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اور قَدْرٌ کے معنے حرمت ؔ کے بھی ہوتے ہیں اور وقارؔکے بھی ہوتے ہیںاور غِنَاء ٌ کے بھی ہوتے ہیں اور قوتؔ کے بھی ہوتے ہیں اور قَدْر ٌ کے معنے اَلْوَقْتُ الَذِیْ یَلْزِ مُ لِلفِعْلِ کے بھی ہوتے ہیںیعنی جتنے وقت میںکوئی کام ہو سکتا ہو اس کو بھی قَدْر ٌ کہتے ہیںاور چونکہ یہ مصدریہ ہے اس لئے سارے مصدری معنے بھی اس میںپائے جائیںگے۔ اس لحاظ سے اس کے معنے تنگی کے بھی ہیںاور حکم ؔکے بھی اور اقتدارؔ کے بھی اور تعظیم ؔ کے بھی اور تدبیرؔ کے بھی ۔ اور لیلۃ القدر وہ رات بھی ہے جو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میںسے کسی ایک رات میں آتی ہے (اقرب) قرآن کریم میں بعض اور مقامات پر بھی اس رات کا ذکر آتا ہے مگر وہاں الفاظ اس آیت سے مختلف ہیں ۔ ایک جگہ فرماتا ہے اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ مُّبَارَکَۃٍ (الدخان ۱ :۱۴) یعنی ہم نے اسے ایک مبارک رات میں اتارا ہے ۔ پس لَیْلَۃِ الْقَدْر لَیْلَۃِ مُّبَارَکَۃ بھی ہے ایک دوسری جگہ فرماتا ہے شَھْرُ رَمَضَانَ………رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں اللہ تعالی کی طرف سے قرآن اتارا گیا ۔ ان دونوں آیات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کی کسی رات میںقرآن کریم کا نزول ہوا۔ اور اس وجہ اس آیت کو خاص طور پر مبارک قراردیا گیا ۔
تفسیر۔ اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِالْقَدْرِ کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میںنازل کیا ہے ۔ چونکہ پہلی سورۃ میںقرآن کریم کا ذکر آچکا تھا اس لئے یہاں بجائے یہ کہنے کے کہ اِنَّا اَنْزَلْنَا الْقُرْاٰنَ فِیْ لَیْلَۃِالْقَدْرِ اللہ تعالی نے صرف اس کی طرف ضمیر پھیر دی اور کہہ دیا کہ اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِالْقَدْرِ ۔ کیونکہ یہ بات ہر شخص پہلی سورۃ پر نظر ڈال کر آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا تھا اور اس بات کی ضرورت نہیں تھی کہ قرآن کریم کا خاص طورپر نام لیا جاتا۔
لیلۃ اور لیل کے معنے رات کے ہوتے ہیں ۔ مرزوقی عالم ِ لغت کا قول ہے کہ لیل کا لفظ نھار کے مقابل استعمال ہوتا ہے اور لیلۃ کا لفظ یوم کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے (اقرب) قرآن کریم میںلیل اور لیلۃ دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیںلیکن لیل کا لفظ زیادہ استعمال ہوا ہے اور لیلۃ کا کم ۔ میری گنتی کے مطابق لیل کا لفظ ۷۹ مرتبہ قرآن کریم میںاستعمال ہوا ہے اور لیلۃ کا لفظ صرف آٹھ دفعہ ۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ لفظ لیلۃ کا استعمال نزول کلام الہٰی یا اس کے متعلقات کے ساتھ استعمال ہوا ہے ۔ مثلاً ایک دفعہ رمضان کی رات کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے فرماتا ہے اُحِلَّ لَکُمْ لَیلۃ الصیام الرفث الی نساء کم (بقرہ ۲۳: ۷) یعنی تمہارے لئے روزوں کی راتوں میںاپنی عورتوں سے بے تکلف ہونا جائز ہے اور روزوںکے مہینہ یعنی رمضان کے متعلق آتا ہے شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن یعنی رمضان میںقرآن اترنا شروع ہوا تھا ۔ پس رمضان کی راتوں کو لیلۃ کے لفظ سے یاد کرنا لیلۃ کا تعلق کلام الہٰی والے مہینہ سے ظاہر کرتا ہے ۔ اسی طرح تین جگہ لیلۃ کا لفظ حضرت موسیٰ ؑ کی موعود چالیس راتوں کے متعلق استعمال ہوا ہے ۔ اور یہ وہ عرصہ ہے جس میںتورات کے اہم احکام نازل کئے گئے تھے اور جن میں رسول کریم ﷺ کی بعثت کی پیشگوئی کی گئی تھی ۔ چنانچہ سورۃ بقرہ میںہے و اذ وعدنا موسیٰ اربعین لیلۃ (بقرہ ۶:۶)اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا ۔ پھر سورہ اعراف میںآتا ہے و وعدنا موسیٰ ثلثین لیلہ واتممنھا بعشر فتم میقات ربہ اربعین لیلۃ ( ایت ۱۴۳) یعنی اللہ تعالی نے موسیٰ سے تیس راتیں کلام کرنے کا وعدہ کیا مگر بعد میںدس راتیں اور بڑھادیں اور اس طرح اپنے وعدہ کو مکمل کر دیا ۔ ان تینوں آیتوں میںبھی لیلۃ کالفظ کلام الہٰی کے نزول کے لئے استعمال ہوا ہے ۔
ان کے علاوہ چار اور مقام پر لیلۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور چاروں مقامات میںہی نزول ِ قرآن کے متعلق نازل ہوا ہے سورہ دخان میں آتا ہے انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ (ایت ۴) ہم نے اس قرآن کو مبارک رات میں اتارا ہے اور دوسرے اسی سورۃ زیر تفسیر میں ہے ۔ انا انزلناہ فی لیلۃ القدر ہم نے قرآن کریم کو بڑے اندازہ والی رات میں اتارا ہے پھر اسی سورۃ میں اس سے اگلی آیت میں فرماتا ہے وما ادرک ما لیلۃ القدر ۔ اور تجھے کس نے بتایا ہے کہ لیلۃالقدر کیا ہے۔ پھر اس آیت سے اگلی آیت میں فرماتا ہے لیلۃ القدر خیر من الف شھر ۔ لیلۃ القدر ہزار راتوں سے بھی اچھی ہے ۔ گویا آٹھ مقامات پر لیلۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے او ر ہر جگہ نزول کلام الہٰی یا اس کے متعلقات کے متعلق استعمال ہوا ہے ۔ یہ امر اتفاقی نہیں کہلا سکتا ضرور اس میں کوئی حکمت ہے اور لیل اور لیلۃ کے استعمال کا یہ فرق بے معنی نہیں ہے ۔
میرے نزدیک کلام الہٰی والی راتوں کے متعلق لیلۃ کا استعمال اور دوسری راتوں کے متعلق لیل کا استعمال عربی زبان کے اس قاعدہ کی وجہ سے ہے کہ حروف کی زیادتی یا بعد میں آنے والے حروف کی تبدیلی ہمیشہ معنوںمیں زور اور قوت پیدا کرنے کے لئے ہوتی ہے مثلاً رَبَسَ کے معنے مارنے کے ہوتے ہیں اور رَبَضَ کے معنے ہیں شیر کا اپنے شکار کو دبوچ کر دبا لینا۔ یہ ظاہر ہے کہ صرف مارسے شیر کا اس طرح جھپٹنا مار کر دبوچ لینا اور اپنے نیچے دبا لینا زیادہ سخت ہے ۔ اسی طرح قصم اور قضم دونوں کے معنے توڑنے کے ہیں مگر قصم کے معنی خالی توڑنے کے ہیں اور قضم کے معنی توڑ کر کھا جانے کے ہیں اس لئے کہ صؔ سے ض ؔبعد میں آتا ہے ۔ پس صؔکا حرف جس لفظ میں آئے گا اسی مفہوم کے اس الفاظ کے معنے زیادہ زور دار ہوں گے جس میں ص ؔ کی جگہ ضؔ آجائے گا۔ اسی طرح مسّؔ اور مصّؔ کے الفاظ ہیں مس کے معنے چھونے کے ہیں اور مصّ کے معنے اوپر منہ رکھ کر چوسنے کے ہیںیعنی خالی چھونا نہیں بلکہ اپنی طرف کھینچنا اسی طرح نَسَّ النَّاقَۃ َ کے معنے ہیں اسے چلایا اور ڈانٹا اور نَصَّ النَّاقَۃَ کے معنے ہیں اسے چلنے پر خوب انگیخت کیا اور اسے اتنا مجبور کیا کہ وہ اپنی انتہائی طاقت کے مطابق دوڑنے لگی ۔ اسی طرح فسلؔ اور فصل ؔ دونوں لفظ جدائی پر دلالت کرتے ہیں لیکن فصل کی جدائی فسل سے زیادہ ہے کیونکہ ص ؔ سؔ کے بعد آتا ہے ۔ اسی طرح حروف کی زیادتی سے بھی معنوں میں فرق پڑجاتا ہے مثلاً لَبَبٔ کے معنے ہیں کھلے سینہ والا ۔لیکن لَبْلَبٌ جس میں ایک کی جگہ دو لام آجاتے ہیں اس کے معنے ہیں اَلْبَرُّ بِاَھْلِہِ وَالْمُحْسِنُ لِجِیْرَانِہِ۔ اپنے اہل سے حد سے زیادہ نیک سلوک کرنے والا اور اپنے ہمسائیوں پر احسان کرنے والا ۔ گویا خالی سینہ کی وسعت کے معنے ہی نہیں بلکہ اعلی درجہ کا سلوک عملاً کرنے والا لَبْلَبٌ کہلاتا ہے اس لئے کہ لَبَبٌ میںتین حرف ہیں اور لَبْلَبٌ میںچار ہیں۔
عربی قواعد میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بعض تاء اسم فاعل کے آخر میں مبالغہ کے لئے لگا دی جاتی ہے اور بطور قاعدہ صفت مشبہ کے آخر میں لگائی جاتی ہے اور اس میں مبالغہ کے معنے پیدا ہو جاتے ہیں ۔ مثلاً راویؔ عام روایت کرنے والے کو کہتے ہیں اور شعراء کے شعر بیان کرنے والے کو راویۃؔ کہتے ہیں کیونکہ وہ بالعموم ہزاروں لاکھوں شعروں کی روایت کرتے تھے ۔ اسی طرح نَسَّاب نسب بیان کرنے والے کو کہتے ہیں اور نَسَّابۃ مبالغہ کے لئے آتا ہے یعنی خوب اچھی طرح نسب بیان کرنے والا پس لَیْل اور لَیْلۃ میںچونکہ لَیْلَۃ کے حروف لَیْل سے زیادہ ہیں اس لئے اس کے معنوں میں لَیْ سے زیادہ ہیںاس لئے اس کے معنوں میں لَیْل سے زیادہ وسعت ہے اور یہی وجہ ہے کہ لَیْلَۃ ۔ یَوْم کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جس کے معنے نھار سے زیادہ وسیع ہیں اور لَیْل۔ نَھار کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جس کے معنے یَوْم سے محدود ہیں ۔ پس لَیْلَۃکا لفظ ان راتوں یا اس زمانہ کی نسبت استعمال کر کے جن میںکلام الہی نازل ہوتا ہے ان راتوں کی بزرگی اور عظمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
چونکہ الہی کلام میں اعلیٰ ادب کے قواعد کے مطابق کبھی الفاظ اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی مجازی معنوں میں۔ اس آیت کے متعلق یہ بھی سوال ہے کہ آیا اس میں لَیْلَۃ کا لفظ محض رات کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یا ایک لمبے تاریک زمانہ کے متعلق۔ تمام گزشتہ مفسرین اسی طرف گئے ہیں کہ اس آیت میں لیلۃ کے معنے محض رات کے ہیں اور لَیْلَۃ الْقَدْر کے معنے ہیں اندازہ کی رات۔ مفسرین کے نزدیک سورہ دخان میں جو انا انزلنا فی لیلۃ مبارکۃ آیا ہے اس سے بھی یہی رات مراد ہے اور یہ رات رمضان کے مہینہ کی رات ہے جیسا کہ سورہ بقرہ میں آتا ہے شھر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن ۔ پس لیلۃالقدر سے مراد رمضان کی وہ رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا تھا وہ رات مبارک تھی اور اندازہ کی رات تھی یعنی آئندہ خیر و شر کا اندازہ اللہ تعالی نے اس میںکیا۔ قرآم شریف کے نازل ہونے کے متعلق اختلاف ہے بعض کے نزدیک سارا قرآن اسی رات کو لوح محفوظ سے اتر کر بیت العزۃ نامی مقام پر آگیا اس کے بعد آہستہ آہستہ تیئیس سال تک رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا(سعید بن جبیر ابن عباس ؓ بحوالہ ابن الکثیر بر حاشیہ فتح البیان جلد اول صفحہ ۳۷۵) اسی طرح ابن عباس ؓ سے ابن مردویہ نے روایت کی ہے کہ ان سے مقسم نے سوال کیا کہ میرے دل میں ایک شک پیدا ہو گیا ہے ۔ قرآن کریم میں تو آتا ہے کہ قرآن رمضان کے مہینہ میں نازل ہوا لیکن واقعہ یہ ہے کہ ایک لمبے عرصہ میں کچھ کسی مہینہ میں کچھ کسی مہینہ میں اور کچھ کسی مہینہ میں اترا ہے ۔ اس پر ابن عباس نے جواب دیا کہ انہ انزل فی رمضان فی لیلۃ القدر وفی لیلۃ مبارکۃ جملۃ واحدۃ ثم انزل علی مواقع النجوم ترتیلا فی الشھور والایام ۔ یعنی قرآن کریم سب کا سب ایک ہی بار رمضان کے مہینہ اور لیلۃ القدر کی رات میں جو لیلہ مبارکہ بھی کہلاتی ہے اترا تھا ۔ مگر زمین پر مختلف مہینوںاور دنوں میں آہستہ آہستہ نازل ہوا ۔ گویا ان لوگوںکے نزدیک قرآن کریم کے لیلۃ القدر میں اترنے کے معنے یہ ہیں کہ اس رات سے لوح محفوظ سے (یعنی اس مقام سے جہاں ان کے نزدیک ازل سے قرآن کریم لکھا پڑا تھا ) قرآن کریم اتراتھا ۔
بعض کے نزدیک شہر رمضان میں قرآن کریم اترنے سے مراد اس کے نزول کی ابتدا ء ہے ۔ چنانچہ علامہ ابن حیان لکھتے ہیں وقیل الانزال ھنا ھو علی رسول اللہ ﷺ فیکون القراٰن مما عبر بکلہ عن بعضہ والمعنی بدی بانزالہ فیہ علی رسول اللہ ﷺ (تفسیر بحر محیط جلد ۲ ص ۳۹)یعنی بعض علماء اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ قرآن کے اترنے سے مراد اس کا رسول کریمﷺ پر اترنا ہے نہ کہ بیت العزت پر ۔ اور قرآن کریم اترنے سے مراد اس کے کچھ حصہ کا اترنا ہے ۔ پس آیت کے یہ معنے ہیں کہ اس مہینہ میں قرآن کریم رسول کریم ﷺ پر اترنا شروع ہوا تھا ۔
بعض نے انزل فیہ القراٰن کے یہ معنے کئے ہیں کہ رمضان کے بارہ میں قرآن اترا ہے نہ یہ کہ رمضان کے مہینہ میںقرآن اترا ہے ۔ چنانچہ تفسیر فتح البیان میںلکھا ہے و قیل فی معنی الایۃ الذی نزل بفرض صیامہ القراٰن کما تقول نزلت ھذہ الایۃ فی الصلوۃ والزکوۃ نحوذ الک (جلد اول ص ۲۳۷) یعنی بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم کی وحی روزوں کی فرضیت کے بارہ میںنازل ہوئی ہے یہ اسی طرح کا استعمال ہے جیسے کہتے ہیں یہ آیت فی الصلوۃ ہے یعنی یہ آیت نماز کے بارہ میں ہے ۔
عربی لغت سے ثابت ہے کہ فِیْ کے معنے بارہ کے بھی ہوتے ہیں اور اے فی تعلیلیہ کہتے ہیں یعنی فی کے بعد میں آنے والی چیز فی سے پہلے کے مضمون کا سبب ہوتی ہے ۔ چنانچہ قرآن کریم میںدوسری جگہ آتا ہے فذالکن الذی لمتننی فیہ (یوسف ۴:۱۴) یہ وہ یوسف ہے جس کے بارہ میں یا جس کے سبب سے تم مجھ کو الزام دھرتی تھیں ۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے عذبت امراء ۃ فی ھرۃ حبستھا (بخاری جلد دوم کتاب المساقاہ باب فضل سقی الما ) یعنی ایک عورت ایک بلی کو بے کھلائے پلائے باندھ دینے کی وجہ سے دوزخ میںڈالی گئی ۔ انہی معنوں میں فی کا حرف آیت انزل فیہ القراٰن میں استعمال ہوا ہے اور ا س کے معنے یہ ہیں کہ رمضان ایسا مہتم بالشان مہینہ ہے کہ اس کے بارہ میں قرآنی حکم نازل ہوا ہے یعنی قرآن میں جو احکام نازل ہوئے ہیں وہ اہم اور ضروری احکام ہیں ۔ جس بارہ میں قرآن میں حکم آیا ہو سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ اہم حکم ہے ۔
جن لوگوں نے نزدیک اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ رمضان کی ایک خاص رات میں سارا قرآن لوح محفوظ سے سماء الدنیا کے بیت العزۃ میں اترا یا جن کے نزدیک اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ رمضان کی ایک خاص رات کو قرآن کریم کی پہلی وحی نازل ہوئی ۔ ان میں اس خاص رات کے متعلق بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور اس کے متعلق مختلف احادیث بھی بیان کی جاتی ہیں ۔ چنانچہ سند احمد حنبل میںابن الاشقع سے روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا انزلت صحف ابراہیم فی اول لیلۃ من رمضان و انزلت التوراۃ لست مضین من رمضان والانجیل لثلاث عشرۃ خلت من رمضان وانزل اللہ القران لاربع و عشرین خلت من رمضان ۔ یعنی رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابراہیم ؑ کے صحیفے تو رمضان کی پہلی رات میںاترے تھے اور موسیٰ ؑ کی کتاب تورات رمضان کے چھ دن گزرنے کے بعد یعنی ساتویںتاریخ کو اور انجیل تیرھویں کے گزرنے پر یعنی چودھویں رمضان کو اور اللہ تعالی نے قرآن کریم رمضان کی چوبیس راتیں گزرنے پر نازل کیا ۔ بعض لوگوں نے اس سے مراد چھٹی تیرھویں اور چوبیسویںراتیں لی ہیں ساتویں، چودھویںاور پچیسویںراتیں بھی مراد ہو سکتی ہیں۔ بہر حال اس روایت میں بتایا گیا ہے کہ نہ صرف قرآن کریم بلکہ پہلی کتب بھی رمضان کی خاص خاص راتوں میںاترتی تھیں ایک روایت جابر بن عبداللہ سے ابن مردویہ میں بھی مروی ہے اس میں یہ زائد بات بھی بیان ہے کہ زبورؔ رمضان کی بارہ تاریخیںگزرنے پر نازل ہوئی اور انجیل ؔ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ اٹھارہ دن گزرنے پر نازل ہوئی ۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ (۱) قرآن کریم ہی نہیںدوسری کتب بھی رمضان میں ہی اتری ہیں (۲) ان کے نزول میں ایک ترتیب مد نظر رکھی گئی ہے پہلے شروع رمضان اتری پھر ہفتہ بعد پھر ہفتہ بعد کچھ دنوں بعد آخری چوبیسویںیا پچیسویںکو قرآن کریم نازل ہوا۔ اگر ان احادیث کو ظاہر پر محمول کیا جائے تو ان کا مفہوم قرآن کریم، عقل اور نقل کے خلاف معلوم ہوتا ہے ۔قرآن کریم کے خلاف اس لئے کہ قرآن کریم میںاللہ تعالی فرماتا ہے کہ شھر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن (بقرہ ۲۳:۷) یعنی رمضان کا مہینہ وہ ہے کہ جس میں قرآن کریم اترا ہے ۔ اگر پہلے انبیاء کا کلام بھی رمضان میںہی اترا تھا تو رمضان کی فضیلت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور چاہیئے تھا کہ قرآن کریم فرماتا کہ رمضان کا مہینہ تو وہ ہے جس میںہم نے سب کتب سماویہ اتاری ہیںلیکن قرآن کریم ان کا ذکر تک نہیںکرتا ۔ اس میںشک نہیںکہ کسی امر کا ذکر نہ کرنے سے اس کا انکار واجب نہیں آتا لیکن چونکہ ان معنوں کی رو سے ماننا پڑتا ہے کہ رمضان کے مہینہ کی فضیلت بتانی مقصود ہے اور پہلی کتب کا بھی رمضان میں اترنا اس کی فضیلت کو بڑھا دیتا ہے اس لئے ا س امر کا اس جگہ بیان کرنا نہایت ضروری تھا لیکن قرآن کریم نے یہاں اس بات کا ذکر نہیں کیا اور نہ کسی اور جگہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ حدیث درست ہے تو ا سکے معنے ظاہری الفاظ کے مطابق نہیںہیں ۔
دوسرا اعتراض ان روایات پر عقلی طور پر پڑتا ہے اور وہ یہ کہ رمضان قرآن کریم کے نزول کی وجہ سے مبارک ہو گیا ۔ یہ امر تو سمجھ میںآسکتا ہے لیکن یہ امر کہ جو کلام بھی اترے وہ رمضان میںاترے اس کی کوئی وجہ عقل سے معلوم نہیں ہوتی ۔ دوسرا عقلی اعتراض اس پر یہ پڑتا ہے کہ رمضان قمری مہینہ ہے اور اپنی جگہ بدلتا رہتا ہے اگر ایک خاص وقت کلام الہی سے کوئی خا ص تعلق ہو تو یہ امر بھی سمجھ میں آسکتا ہے لیکن جبکہ یہ مہینہ یہود میں رائج نہ تھا وہ یہ سمجھ بھی نہ سکتے تھے کہ ابراہیم ؑ یا موسیٰ ؑ یا دائود ؑ یا مسیح ؑ کے الہامات کب نازل ہوئے ہیں اور اگر کوئی خاص فائد ہ اس نزول میں تھا تو اس سے نفع نہیں اٹھا سکتے تھے کیونکہ انہیں اس امر کا نہ علم تھا اور نہ علم ہو سکتا تھا ۔ پھر ا س بات کی تعیین سے کیا فائدہ کہ کلام الہی ضرور رمضان میںاترے ۔ الہی فعل کسی حکمت سے خالی کس طرح ہو سکتا ہے ؟
تیسرا عقلی اعتراض ان روایات پر یہ پڑتا ہے کہ ان میں حضرت ابراہیم ؑ ۔ موسیٰ ؑ ۔ دائودؑ اور عیسیٰ ؑ کا ذکر تو آتا ہے لیکن اور نبیوں کا ذکر نہیں ۔ روایات بتاتی ہیں کہ پہلی رمضان کو حضرت ابراہیم ؑ پر کتاب اتری ۔ ساتویں کو حضرت موسیٰ ؑ پر ۔ بارھویںکو حضرت دائود ؑ پر اور اٹھارھویں کو حضرت مسیح ؑ پر ۔ اس سے ظاہر ہے پہلے نبی پر رمضان کی پہلی تاریخ میں۔ دوسرے نبی پر اس کے بعد کی تاریخ میں ۔ تیسرے نبی پر اس کے بعد کی تاریخ میں ۔ چوتھے نبی پر اس کے بعد کی تاریخ میں کتاب نازل ہوئی گویا صرف رمضان میں ہی کتاب کا اترنا مقدر نہ کیا گیا تھا بلکہ رمضان کی تاریخوں کا بھی خاص خیال رکھا گیا تھا کہ جو پہلے نبی آئے اس پر رمضان کی پہلی تاریخوں میں کلام اتارا جائے اور بعد میں آنے والوں پر بعد میں اتارا جائے۔ اگر یہ بات ہے تو حضرت نوح ؑ اور دیگر انبیاء جو حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے گزرے ہیں ان پر کس ماہ اور کس تاریخ میں کلام اترا۔ کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ پر پہلی رمضان کو کلام اترا تھا پس حضرت نوح ؑ کیلئے کوئی رات رمضان میں کلام اترنے کی باقی نہیں رہتی ۔ اگر تو آگے پیچھے کلام اتر سکتا ہے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ ان پر پہلی کے بعد کی کسی تاریخ میںکلام اترا ہو گا ۔ لیکن حدیث بتاتی ہے کہ تقدم زمانی کے مطابق رمضان کی تاریخوں میںکلام اتارا گیا ہے پس حضرت نوح ؑ چونکہ حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے گذرے ہیں اس لئے حضرت ابراہیم ؑ پر جس رات کلام اترا اس سے پہلے کسی رات میں ان پر کلام اترنا چاہیئے تھا مگر پہلی رات سے پہلے تو اور کوئی رات ہوتی نہیں پس اگر رمضان میں ہی کلام اترنا چاہیئے تو حضرت نوح ؑ کے لئے کوئی جگہ انبیاء کی صف میں باقی نہیں رہتی ۔
کہا جا سکتا ہے کہ اس جگہ شارع نبیوں کا ذکر ہے اور حضرت نوح ؑ شارع نبی نہ تھے مگر یہ جواب نقل و کلام الہی دونوں کے خلاف ہے ۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ دائود اور نہ حضرت عیسیٰ ؑ شریعت لانے والے تھے ۔ ان کی کتب جیسی بھلی بری بھی موجود ہیں ان میں دیکھ لو شریعت کا نام و نشان نہیں ۔ حضرت دائود ؑ کی زبور ؔ میں تو صرف عشق ِ الہی کا اظہار اور محمد رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیاں ہیں اور کچھ اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے دعائیں ہیں ۔ شریعت سے ان کو دور کاواسطہ بھی نہیں ۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی انجیل کا بھی یہی حال ہے۔ اس میں صرف حضرت عیسیٰ ؑ کی زندگی کے حالات ہیں اور کچھ معجزات کا ذکر ہے باقی اس امر پر زور ہے کہ موسیٰ ؑ کی شریعت پر عمل کرو ۔ اگر دائود ؑ کوئی نئی شریعت لائے تھے تو موسیٰ ؑ کی کتاب کو منسوخ قرار دینا پڑے گا ۔ اس صورت میں اگر عیسیٰ ؑ صاحب شریعت نہ تھے تو انہیں یہ کہنا چاہیئے تھا کہ دائود ؑ کی کتاب پر عمل کرو اور اگر وہ صاحب شریعت تھے تو انہیں یوں کہنا چاہیئے تھا کہ میری شریعت پر عمل کرو مگر انجیل تو شریعت سے اس قدر خالی تھی اور ہے کہ یہود کے اعتراض سے بچنے کے لئے حضرت مسیح ؑ کے حواریوں کو یہ اعلان کئے بغیر چارہ نہ ہوا کہ شریعت *** ہے کیونکہ اگر وہ اسے رحمت قرار دیتے تو یہود کے اس سوال کا کیا جواب دیتے کہ میسح ؑ کی شریعت کہاں ہے کیونکہ وہ نصاری کے زعم میں پہلے نبیوں سے بڑا تھا اور اس وجہ سے اسے دوسروں کی شریعت کا ناسخ بھی ہونا چاہیئے تھا ۔
قرآن کریم کی رو سے اس دعویٰ پر یہ اعتراض آتا ہے کہ قرآن کریم حضرت موسیٰ ؑ کے بعد آنے والے تمام نبیوں کی نسبت فرماتا ہے ولقد اتینا موسی الکتب وقفینا من بعدہ بالرسل واتینا عیسی ابن مریم البینت وایدنا ہ بروح القدس ( البقرہ ۱۱ : ۱۱ آیت ۸۸) یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے پیچھے اور رسول اس کی پیروی کرنے والے بھیجتے رہے آخر میں عیسیٰ بن مریم آئے انہیں بھی کوئی شریعت کی کتاب نہیں ملی صرف نشانات اور تائیدروح القدس انہیں حاصل تھی ۔
اس آیت اور اس مضمون کی دوسری آیات کے ہوتے ہوئے اور خود ان نبیوں کی کتابوں کو دیکھتے ہوئے ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس روایت میں صرف صاحب کتاب نبیوں کا ذکر ہے اس وجہ سے حضرت نوح ؑ کی ذکر نہیں ۔
قرآن کریم کی ایک اور آیت بھی اس مفہوم کو رد کرتی ہے ۔ اللہ تعالی حضرت نوح ؑ اور ابراہم ؑ کی نسبت فرماتا ہے وان من شیعتہ لابراھیم (صافات ۳:۶ آیت ۵۴)نوح کی ہی جماعت میںسے ابراہیم ؑ بھی تھا یعنی حضرت ابراہیم ؑ شارع نبی نہ تھے شارع نبی حضرت نوح ؑ تھے اور حضرت ابراہیم ؑ ان کی شریعت کے اسی طرح تابع تھے جس طرح اسرائیلی نبی حضرت موسیٰ ؑ کی شریعت کے تابع تھے ۔ اس حقیقت پر آگاہ ہو کر کوئی شخص کس طرح یہ کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم کا ذکر اس لئے آیا ہے کہ وہ شارع نبی تھے اور حضرت نوح ؑ کا اس لئے ذکر نہیں آیا کہ وہ شارع نبی نہ تھے ۔
علاوہ ازیں یہ اعتراض بھی اسی توجیہ پر پڑتا ہے کہ اس حدیث میںجس قدر نبیوں کا ذکر ہے وہ اسرائیلی ہیں یہ سوچنے والی بات ہے کہ اسرائیلی نبیوں کا خاص طور پر رمضان سے کیا تعلق تھا بظاہر کوئی نہیں اور اگر اسرائیلی نبیوں کو رمضان سے کوئی خصوصیت نہ تھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی رو سے تو اور اقوام میں بھی نبی گزرے ہیں ان کے لئے رمضان میں کونسی جگہ ہو گی؟ حضرت ابراہیم ؑ سے پہل نبی تو حضرت نوحؑ کیطرح اس لئے محروم ہو جائیں گے کہ حضرت ابراہیم ؑ پر پہلی رمضان کو کلام نازل ہوا تھا اس سے پہلے رمضان کی اور کوئی تاریخ نہیں اور بعد کے اس لئے کہ نبی تو کثیر تعداد میں ہوئے ہیں اور رمضان کے دن تیس ہیںبلکہ انتیس ۔ کیونکہ چوبیسویں یا پچیسویںکو قرآن کریم نازل ہوا تو باقی نبیوں کو اس تاریخ سے پہلے کی کوئی تاریخ ملنی چاہیئے ۔
غرض اگر اس روایت کے معنے ظاہری الفاظ کے مطابق لئے جائیں تو عقلاً بھی اس کے معنے قابل قبول نہیں ہیں ۔
اب میں نقل کو لیتا ہوں ۔ اس روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ سب کتب ایک ہی تاریخ میں یک دم نازل ہوئی ہیں۔ یہ امر دونوں سروںسے باطل ہوتا ہے ۔ آخری نقطہ اس روایت کا قرآن کریم ہے قرآن کریم کی نسبت واضح طور پر معلوم ہے کہ یہ ایک دن میں نازل نہیں ہوا بلکہ تیئیس سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہواہے حتیٰ کہ کفار نے اعتراض کیا کہ لولا نزل علیہ القراٰن جملۃ واحدۃ کذالک لنثبت بہ فوادک ورتلناہ ترتیلا(فرقان ۳:۱ )یعنی کفا رکہتے ہیں کہ قرآن اس پر یک دم کیوں نازل نہ ہوا۔ جو اعتراض وہ کرتے ہیں درست ہے واقعہ میں وہ یکدم نازل نہیں ہوا لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آہستہ آہستہ اتار کر تیرے دل کو مضبوط کرنا چاہیئے تھے (تا پہلے حصہ کی پیشگوئیاں پوری ہو کر دوسرے حصہ میں ا س کی طرف اشارہ ہو اور ایمان کی تقویت کی ایک دائمی بنیاد رکھ دی جائے ) اور ہم نے اس کی ترتیب نہایت اعلیٰ درجہ کی بنائی ہے یعنی نزول قرآن اس رنگ میں ہوا ہے کہ موجودہ وقت کے مومنوں کے ذہن نشین قرآن ہو جائے اور موجودہ وقت کے کافروں کے لئے بہترین طریقہ تبلیغ کا پیدا ہو اور بعد کی دائمی ترتیب ہم نے اور طرح رکھی ہے تا کہ وہ بعد میںآنے والوں کی ضرورت کے مطابق ہو ۔ غرض نزول و ترتیب قرآن نہایت اہم حکمتوں پر مبنی ہے اور اس وجہ سے اس کا ٹکڑے ٹکڑے کر کے زمانہ کی ضرورت کے مطابق اترنا نہایت اہم حکمتوں پر مبنی تھا اب اس آیت کی موجودگی اور تاریخ کی گواہی کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ سارا قرآن ایک رات میںاترآیا تھا ۔
پہلے نبیوں کے متعلق بھی یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ ایک رات میں ان پر کلا م اترا تھا حضرت ابراہیم ؑ کی تاریخ تو ہمارے سامنے نہیںاس لئے ان کے بارہ میں تو ہم کچھ کہہ نہیںسکتے حضرت موسیٰ ؑ دائود ؑ اور حضرت مسیح ؑ کی تاریخ تو ہمارے سامنے ہے ان کی کتب کو دیکھ کر کوئی شخص شبہ بھی نہیںکر سکتا کہ وہ ایک وقت میں ہی نازل ہوئی تھیں۔ حضرت موسیٰ ؑ کی کتب چالیس پچاس سال میںجا کر مدون ہوئی ہیں ۔ ان میںراستوں سفروں ، مقاموں اور لڑائیوں کو بالترتیب ذکر ہے ۔ حتیٰ کہ یہ بھی ذکر ہے کہ کس طرح موسیٰ ؑ نے کس طرح اپنی قوم کی تنظیم کی اور کس طرح وہ جوانی سے ادھیڑ عمر کے ہوئے اور کس طرح بوڑھے ہوئے اور کھڑے ہو کر کام کرنے کے ناقابل ہو گئے ۔ کیا اس مضمون کو ایک رات کا اترا ہوا مضمون کہا جا سکتا ہے؟ بالکل اسی طرح اناجیل کا مضمون ہے اس میں بھی حضرت عیسیٰ ؑ کی دوروں ، لیکچروں ، نشانوں ، خدا کی ہدایتوں کا ترتیب وار ذکر ہے اور کوئی شخص انہیں ایک دن کی اتری ہوئی کتاب نہیں کہہ سکتا ۔ حضرت دائود ؑ کی زبور بھی اسی طرح ہے کہیں اس میںدشمن فوج کے نرغے میں گھر جانے کا ذکر ہے اور پھر اس سے نجات پانے کا ۔ کبھی بیمار پڑجانے کا اور پھر اس سے صحت پانے کا ۔ کبھی دشمنوں کی شرارتوں کا ذکر آتاہے اور پھر ان کے غم سے نجات پانے کا ۔ غرض دائود کی زبور اس کی زندگی کے اتار چڑھائو کی ایک تاریخ ہے اور ا س کی زندگی کے حالات اس سے منعکس ہوتے ہیں پھر اسے ایک دن کا کلام کس طرح کہا جا سکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ نبی کی زندگی اس کے کلام سے الگ نہیں کی جا سکتی بغیر ایک نبی کی زندگی کے حالات معلوم ہونے کے ہم اس کی تعلیم کو بھی اچھی طرح نہیںسمجھ سکتے ۔ نبی اپنے الہام کے لئے بمنزلہ آئینہ کے ہے اور ا س کا الہام اس کی زندگی کے لئے بطور ایک آئینہ ہے ۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو روشن کرتے ہیں اور اس دوہری روشنی میں ہی سے دنیا ہدایت پاتی ہے اس لئے ہر نبی کا کلام اس کی زندگی کے لئے مختلف حالات پرروشنی ڈالتا ہوا ایک لمبے عرصہ میں ختم ہوتا ہے ایک طرف وہ خدا تعالی کی صفات کے تازہ ظہور پر روشنی ڈالتا ہے دوسری طرف اس کی حالت جو ا س کے دشمنوں کی نسبت سے ہوتی ہے اس کے تغیرات پر روشنی ڈال کر خدا تعالی کی تائید اور نصرت کا ثبوت پیش کرتا ہے ۔ تیسری طرف وہ ان مختلف حالات میں نبی کے ایمان اور ا س کے یقین کے مختلف اظہاروں کو پیش کر کے اس کی دیانت داری ، اس کے ایثار اور اس کے روحانی کمالات کو پیش کرتا ہے ۔ اگر شروع میں ہی ایک ہی رات میں کلام نازل ہو جائے تو اس میں یہ باتیں کب جمع ہو سکتی ہیںاور اگر یہ باتیں کسی کلام میںجمع نہ ہوں تو وہ دنیا کی ھدایت اور رشد کا سامان پیدا ہی کب کر سکتا ہے پس ضروری ہے کہ سب نبیوں پر آہستہ آہستہ کلام نازل ہو جس میں ا س تمام روحانی رفعت کی جھلک ملتی ہو ۔ جو وہ نبی اپنی نبوت کے راستہ پر چلتے ہوئے حاصل کرتا گیا ۔ تا دنیا کے سامنے اس کی ابتداء ؔ بھی ہو اور درمیانی ؔ زمانہ بھی اور اس کی انتہا بھی۔
یہ خیال کہ پہلے سب نبیوں پر یک دم کلام الہی نازل ہواتھا سورۃ فرقان کی آیت لو لا نزل علیہ القران جملۃ واحدۃ سے پیدا ہوا ہے ۔ مسلمان مفسروں نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ شاید سب نبیوں پر پہلے جملۃ واحدۃ کلام نازل ہوتا تھا تبھی دشمنوں نے یہ اعتراض کیا ۔ حالانکہ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن کریم میں یہ اعتراض کفار مکہ کی طرف سے نقل کیا گیا ہے اور کفار مکہ تو کسی کتاب کے قائل ہی نہ تھے کجا یہ کہ وہ اس بات کے قائل ہوں کہ سب پہلے کلام الہی یکدم نازل ہوئے تھے اگر یہود و نصاری کی طرف سے یہ اعتراض نقل کیا جاتا تب تو یہ شبہ پیدا بھی ہو سکتا تھا لیکن انہوں نے یہ اعتراض نہیں کیا اس لئے اس اعتراض کی وجہ سے یہ قیاس کرنا کہ پہلے چونکہ یکدم کلام نازل ہوتا تھا اس لئے قرآن کریم پر اعتراض کیا گیا کہ کیوں یہ ایک ہی دفعہ نازل نہیں ہوا بالکل درست نہیں اور قیاس مع الفارق ہے کفار مکہ کے اعتراض کا یہ باعث نہ تھا کہ پہلے نبیوں پر تو ایک دن ہی سب کلام نازل ہو جاتا تھا اور آپ ؐ پر آہستہ آہستہ کلام اتر رہا ہے کیونکہ وہ تو نہ نبوت کے قائل تھے نہ کلام الہی کے ۔ ان کے اعتراض کی بنا ء تو محض عقلی تھی ۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر خدا تعالی نے کلام نازل کیا ہوتا تو یک دم کر دیتا کیونکہ وہ عالم الغیب ہے ۔ کلام کے آہستہ آہستہ نازل ہونے کے تو یہ معنے ہیں کہ محمد (رسول اللہ ﷺ نعوذباللہ من ذالک ) نئے اور بدلنے والے حالات کے مطابق اور نئی ضرورتوں کے پیش آنے پر ایک نیا کلام بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں ۔ چونکہ ان کے اعتراض کی بنیاد عقلی تھی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ پہلے نبیوں پر کلام اکٹھا نازل ہو جاتا تھا اور فرض کرو کہ کفار مکہ ایسا کہتے بھی تھے تو کیا ان کے خیال کو ہم کوئی بھی اہمیت اور قیمت دے سکتے ہیں ۔ کیا وہ علوم آسمانی کے ماہر تھے یا مذہبی تاریخ کا علم ان کو حاصل تھا کہ ہم ان کے اعتراض کو تاریخ مذہب کے لئے کوئی قیمت دیں؟
اس غلطی کے پیدا ہونے کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میںحضرت موسیٰ ؑ کی نسبت آتا ہے کہ انہیں چالیس راتوں کے وعدہ میںالواح ملی تھیں ۔ مسلمان چونکہ اسرائیلی کتب سے واقف نہ تھے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ الواح اور تورات ایک شئے ہیں ۔ حالانکہ الواح صرف دس احکام کا نام ہے اور تورات ان سے سینکڑوں گنے زیادہ امور پر مشتمل ہے ۔ قرآن کریم میں کسی جگہ بھی یہ ذکر نہیں کہ طور پر موسیٰ ؑ کو مکمل تورات ملی تھی ۔ صرف الواح کا ذکر آتا ہے اور تورات بھی اس کی مصدق ہے تو اول تو طور پر جو کچھ نازل ہوا یک دم نازل نہیں ہوا چالیس راتوں میں نازل ہوا دوسرے وہاں جو کچھ نازل ہوا اس اندازہ کے مطابق وحی تو رسول کریم ﷺ کو بھی کئی راتوں میں ہوئی ہے کئی کئی رکوع کا ٹکڑا آپؐ پر یکدم نازل ہو جایا کرتا تھا چنانچہ سورۃ یوسف کی نسبت آتا ہے کہ ساری سورۃ ایک ہی وقت میںنازل ہوئی تھی ۔ حضرت موسیٰ ؑ پر جو کلام طور پہاڑ پر چالیس دن میںنازل ہوا اس سے تو سورۃ یوسف یقینا بڑی ہے ۔ حضرت موسیٰ ؑ کی وحی کے علاوہ دوسرے نبیوں کی وحی کی نسبت تو کوئی قوی یا ضعیف روایت بھی نہیں جس سے معلوم ہو کہ پہلے نبیوں پر کلام الہی یکدم نازل ہو جاتا تھا ۔ اور اگر ایسا لکھا بھی ہوتا تو ہم اسے خلاف عقل کہہ کر رد کر دیتے کیونکہ کلام الہی تو نبی اور خدا کے تعلق کو روشن کرتا رہتا ہے ۔ کیا ہم خیال کر سکتے ہیں کہ کسی نبی پر ایک رات میں سب کلام نازل کر کے خدا تعالی خاموش ہو جائے گا کلام الہی تو الہی تعلق پر شہادت ہوتا ہے کیا اس شہادت کے پیدا ہو جانے سے نبی کی قلبی کیفیت اطمینان والی رہ سکتی ہے ؟ کیا وہ اس محجوب اور محبوب سے دور زندگی کو راحت سے گذار سکتا ہے؟ رسول کریم ﷺ کا چند دن کے وحی کے وقفہ سے کیا حال ہوا تھا ۔ اگر ایک دن کلام کر کے خدا تعالی دوسرے نبیوں سے بقیہ ساری عمر خاموش رہتا تو میں سمجھتا ہوں دشمن تو ان کو مارنے میں ناکام رہتے لیکن یہ خدائی فعل ان کو مارنے میںضرور کامیاب ہو جاتا ۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کی آیت انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ۔ کا یا دوسری آیات جو اوپر لکھی گئی ہیںان کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ قرآن کسی ایک رات میں سب کا سب اتار دیا گیا تھا یا یہ کہ الہی کلام اکھٹا اترا کرتا ہے ۔ کلام الہی کسی نبی پر یک دم نہیں اترا بلکہ آہستہ آہستہ نبوت کے زمانہ سے اس کی موت تک اترتا رہتا ہے تا نبی کے دل کو بھی زیادہ سے زیادہ روشنی ملتی جائے اور اس کے اتباع کا نور ایمان بھی بڑھتا رہے اور اس کے منکروں پر بھی نت نئی حجت تمام ہوتی رہے۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اکٹھا کلام نازل نہیں ہوتا تو پھر کیا احادیث مذکورہ بالا کا یہ دعویٰ کہ آنحضرت ﷺ پر اجمالاً اور پہلے انبیاء پر تفصیلا کلام الٰہی رمضان کی مختلف راتوں میں نازل ہوا درست نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ احادیث صحاح ستہ کی نہیں۔ مسند احمد بن حنبل سعید بن جبیر اور ابن مردویہ کی ہیں اور ان کو وہ درجہ نہیں دیا جاسکتا جو بخاری مسلم کی احادیث کو دیا جاسکتا ہے۔ مسند احمد بن حنبل بے شک ایک مستند کتاب ہے لیکن اس کے متعلق یہ امر محقق ہے کہ اس کی روایات مختلف قسم کی ہیں اور ان کے ان راویوں کی وجہ سے جو امام احمد بن حنبل کے بعد اس کی کتاب کو نقل کرتے ہیں اس میں ایسی بہت سی روایات شامل ہوگئی ہیں جو خود امام احمد بن حنبل کی بتائی ہوئی نہیں ہیں۔ اور بعض ایسی بھی ہیں جن کو امام احمد بن حنبل نے خود مستند قرار نہیں دیا۔ لیکن اگر امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ حدیث مستند بھی ہو تب بھی حدیث قرآن کریم کے مقام پر رکھی نہیں جاسکتی۔ جو حدیث قرآن کریم، واقعات یا عقل کے مقام پر رکھی نہیں جاسکتی۔ جو حدیث قرآن کریم، واقعات یا عقل کے خلاف ہو بہرحال یا اسے غلط قرار دینا پڑے گا یا پھر ا سکے معنے مجاز کے اصول پر کرنے کے ہوں گے۔ چونکہ میں اوپر ثابت کرچکا ہوں کہ ان احادیث کے ظاہری معنے قرآن کریم، کتب سابقہ اور عقل کے خلاف ہیں۔ اس لئے لازماً یا تو ان احادیث کو غلط کہنا ہوگا یا ان کے معنے مجاز و استعارہ کے اصول پر کرنے پڑیں گے۔
اب میں دیکھتا ہوں کہ کیا مجاز و استعارہ کے رُو سے ان احادیث کے کوئی معنے ہوسکتے ہیں؟ میرے نزدیک ایک بات ان روایتوں میں ایسی ہے جو ہماری توجہ کو مجاز استعارہ کی طرف پھیرتی ہے اور وہ یہ کہ باوجود اس کے کے نوح علیہ السلام کو قرآن کریم نے ایک بہت بڑا نبی قرار دیا ہے اور حضرت ابراہیمؑ کو ان کا تابع نبی قر ار دیا ہے اور باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے ہر قوم میں نبی ہونے کی خبر دی ہے۔ اس روایت میں حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت دائودؑ، حضرت مسیحؑ اور رسو ل کریم ﷺ کا ذکر ہے اور پھر باوجود اس کے کہ مسلمانوں میں عام طور پر گو غلط طور پر یہ عقیدہ کا مشہور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار کتابیں اتاری ہیں (درحقیقت نہ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف چار کتابیں اتاری ہیں اور نہ یہ درست ہے کہ ان چار کتابوں میں سے دائودؑ اور حضرت مسیحؑ کی کتب شریعت کی کتب ہیں۔ یقینا چار سے بہت زیادہ کتب مختلف اقوام کی ہدایت کیلئے نازل ہوئی ہیں اور ان بہت سے کتب میں زبور اور انجیل شامل نہیں کیونکہ یہ شریعت کی کتب نہیں ہیں۔ محض اصلاحی اور روحانی ترقی کے متعلق الہامات پر مشتمل ہیں یا چند پیشگوئیاں ان میں مذکور ہیں)۔ ان روایتوں میں پانچ کتابوں کا ذکر معلوم ہوتا ہے کہ غلط العام عقیدہ سے متاثر ہوئے بغیر یہ روایات نقل کی گئی ہیں اس لئے غالب احتمال یہ ہے کہ یہ احادیث درست ہیں ہاں ظاہری معنوں میں نہیں ہیں بلکہ مجاز و استعارہ کا استعمال ان میں کیا گیا ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت ابراہیمؑ ، حضرت موسیٰؑ ، حضرت دائودؑ، حضرت مسیحؑ اور آنحضرت ﷺ ابراہیمی خاندان کے درخشندہ ستارے ہیں اور گو ابراہیم موسوی سلسلہ سے پہلے اور حضرت نوحؑ کے تابع نبیوں میں سے تھے ۔ موسیٰؑ، دائودؑ اور مسیحؑ اسرائیلی سلسلہ کے نبی تھے اور آنحضرت محمدی سلسلہ کے بانی تھے اور نبوت کے سلسلہ کے لحاظ سے یہ پانچوں نبی تین مختلف سلسلوں سے متعلق تھے مگر خاندان کے لحاظ سے یہ پانچوں نبی ایک خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ پس ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں کلام الٰہی کے سلسلہ کے لحاط سے نہیں بلکہ ابراہیمی خاندان کے لحاظ سے نہیں بلکہ ابراہیمی خاندان کے لحاظ سے ایک حکمت بیان کی گئی ہو۔ اگر یہ درست ہے تو نہ حضرت نوحؑ کے ذکر کی اس حدیث میں ضرورت تھی اور نہ دوسری اقوام کے نبیوں کے ذکر کی ضرورت تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان پانچ نبیوں کو رمضان میں الہام ہوا خواہ جزأ خواہ کلاً۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں اس خیال کو اوپر تفصیل سے ردّ کر آیا ہوں۔ پس رمضان سے رمضان کا مہینہ مراد نہیں بلکہ مجازاً سلسلہ الہام کا نام رمضان رکھ دیا گیا ہے۔
رمضان رمض سے نکلا ہے اور رمض کے معنے عربی زبان میں شدید گرمی یا سورج کی شدید تپش کے ہوتے ہیں اور رمضاء کے معنے اس میدان کے ہوتے ہیں جو گرمی کے موسم میں سورج کی براہ راست شعاعوں کی وجہ سے تپ اٹھا ہو۔ چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے ؎
المستجیر بعمر و عند کر بتہ
کالمستجیر من الرمضاء بالنار
یعنی عمرو (اس کا مخالف) سے مصیبت کے وقت مدد مانگنا ایسا ہی ہے جیسا کہ شدید گرم میدان سے بچنے کیلئے کوئی آگ کی پناہ ڈھونڈے یعنی رمضاء کی گرمی آگ کے قریب قریب ہوتی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب رمضان نام اس مہینہ کا رکھا گیا ہے اس وقت یہ مہینہ سخت گرمی کے موسم میں آیا ہوگا۔ بہرحال رمضان کے روزے تو اسلام میں فرض ہوئے اور اس مہینہ کا رمضان بہت پہلے رکھا گیا ہے ۔ پس رکھنے والے نے یہ نام شدت گرما کی وجہ سے ہی رکھا ہوگا اور کلام الٰہی ہمیشہ اسی وقت آتا ہے جبکہ دنیا میں گناہ اور فسق وفجور کی وجہ سے لوگ غضب الٰہی کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابراہیمی نسل پر جو ابتدائی روحانی گرمی کا زمانہ آیا اس میں ابراہیم علیہ السلام پر کلام نازل ہوا اور جب دوسرا زمانہ روحانی اور تپش اور گرمی کا آیا تو دائود علیہ السلام کو بھیج دیا اور جب چوتھا زمانہ آیا تو حضرت مسیحؑ کو بھیج دیا اور جب پانچواں زمانہ آیا تو مجھے بھیج دیا۔ اس صورت میں یہ ایک نصیحت ہے اور زمانہ کے حالات سے ایک سبق دیا گیا ہے اور اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ رمضان میں ان لوگوں پر کلام نازل ہوا سوائے رسول کریم ﷺ کے ۔ کہ آپ کے بارہ میں قوی تاریخی شہادت ملتی ہے کہ آپ پر رمضان میں قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تھا۔
ان مجازی معنوں کے رو سے ایک اور بات بھی معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اس حدیث میں متواتر تاریخوں میں نزول کلام کا ذکر نہیں بلکہ یوں ہے کہ پہلی رمضان کو بار ابراہیمؓ پر کلام نازل ہوا۔ چھٹی موسیٰؑ پر اور بارھویں کو دائودؑ پر اور اٹھارھویں کو مسیحؑ پر اور چوبیس کو رسول کریم ﷺ پر۔ اگر ہم غور سے دیکھیں تو تاریخ سے ابراہیم نسل کے انبیاء کا ظہور جن صدیوں میں معلوم ہوتا ہے یہ تاریخیں اس سے ملتی ہیں۔ حضرت ابراہیم ابراہیمی نسل کے انبیاء کے سب سے پہلے نبی تھے اس لئے لازماً کہنا ہوگا کہ ان پر وحی ابراہیمی سلسلہ کی تاریخ کی پہلی صدی میں ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے متعلق اختلاف ہے۔ مروجہ بائبل میں اسے ۴۲۰ سال کے قریب بتایا گیا ہے مگر بعض اسرائیلی روایتوں میں حضرت موسیٰؑ کا ظہور چھٹی صدی میں بھی بتایا گیا ہے۔ اگر اسے درست سمجھا جائے توموسیٰؑ پر چھٹی رمضان کو کلام نازل ہونا درست آتا ہے۔ اس کے بعد حضرت دائودؑ کا ذکر ہے کہ ان پر بارھویں رمضان کو کلام نازل ہوا۔ حضرت دائودؑ کا وجود اس کڑی کے لحاظ سے خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ اصل اہم وجود اس کڑی میں حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور رسول کریم ﷺ ہیں کہ ابراہیم باپ ہیں اور موسیٰ عیسیٰ ایک بیٹے کے سلسلہ کی کڑی ہیں اور محمدرسول اللہ ﷺ اور مسیح موعودؑ دوسرے بیٹے کے سلسلہ کی کڑی ہیں۔ مسند احمد بن حنبل کی روایت میں حضرت دائودؑ کا ذکر بھی نہیں۔ بہرحال یہ جو دوسری روایت میں ہے کہ دائودؑ کا ذکر بھی نہیں۔ بہرحال یہ جو دوسری روایت میں ہے کہ دائودؑ پر بارھویں تاریخ کو کلام نازل ہوا یہ مروجہ تاریخوں کے مطابق صحیح نہیں اُترتا کیونکہ مروجہ تاریخوں میں حضرت دائودؑ کا زمانہ حضرت ابراہیمؑ کے نو سو سال بعد ہوا ہے مگر پرانی تاریخوں کے مطابق صحیح نہیں اترتا۔ کیونکہ مروجہ تاریخوں میں حضرت دائود کا زمانہ حضرت ابراہیمؑ کے نو سو سال بعد ہوا ہے مگر پرانی تاریخوں کاکوئی ایسا اعتبار بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی غلطی ہو اور حضرت دائودؑ گیارہ سو سال بعد بارھویں صدی میں ہی ہوئے ہوں۔ اس کے بعد حضرت مسیح کا ذکر آتا ہے بائبل کے رو سے واقعہ صلیب حضرت ابراہیم کی بعثت کے ۱۹۲۰ سال بعد ہوا ہے اور ان کی وفات کے لحاظ سے ۱۸۰۰ کچھ سال بعد۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ اٹھارھویں رمضان کے مطابق حضرت عیسیٰؑ پر کلام نازل ہوا۔ گویا ایک سو سے ڈیڑھ سو سال کا فرق ہے مگر یہ فرق اس طرح نکل جاتا ہے کہ اسرائیلی تاریخ کی رو سے موسیٰ اور عیسیٰ کے درمیان کا فاصلہ تیرہ سو سال کا بھی ثابت ہے۔ اگر اس عرصہ کو تسلیم کیا جائے اور قرائن بھی یہی بتاتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سو سال بعد ہوئے ہیں (مگر اس جگہ اس مضمون پر بحث کا وقت نہیں )۔ تو حضرت ابراہیم اور حضرت مسیحؑ کا فاصلہ اٹھارہ صد اور کچھ سال کا بن جاتا ہے اور حدیث کے بتائے ہوئے وقت کے عین مطابق حضرت مسیح کی بعثت بنتی ہے۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ پر چوبیسویں رمضان کا کلام نازل ہوا۔ حضرت عیسیٰ سے رسول کریم ﷺ کی بعثت کا فاصلہ چھ سو آٹھ سال کا ہے۔ اٹھارہ سو کچھ سال میں ۶۰۸ سال جمع کریں تو چوبیس سو کچھ سال ہوتے ہیں۔ گویا حضرت ابراہیمع کے بعد چوبیسویں صدی کے ختم ہونے پر اور پچیسویں صدی کے شروع میں آپ مبعوث ہوئے اور یہ زمانہ حدیث کے عین مطابق ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث میں رمضان سے مراد وہ تاریک زمانے ہیں جو نسل ابراہیم پر آنے والے تھے اور دنوں سے مراد وہ صدیاں ہیں جن میں حدیث میں مذکور انبیاء کا ظہور ہوا اور ان احادیث میں استعارہ کی زبان میں بات کی گئی ہے ظاہر مفہوم لینا ان کا نقل اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔
لیلہ سے مراد : اب سوال یہ ہے کہ لیلۃالقدر سے مراد اس آیت میں کیا ہے کیا حقیقی لیلۃیا مجازی؟اس بارہ میں پہلے مفسرین کا رحجان اسی طرف ہے کہ اس سے مراد حقیقی رات ہے جس میں ان کے نزدیک سارا قرآن لوح محفوظ سے بیت العزۃ پر اترا۔یا یہ کہ اس رات کو نزول قرآن کی ابتداء ہوئی۔جہاں تک یہ سوال ہے کہ قران کریم رمضان میں اترنا شروع ہوا یہ تو تاریخی شہادتوں سے یقینی امر معلوم ہوتا ہے اس لئے شھر رمضان الذی انزل فیہ القرانکے ایک یہ معنے ضرور ہیں کہ قرآن کریم رمضان میں اترنا شروع ہو ا۔باقی رہا کہ وہ کس رات کو اترا اس کے بارہ میں تاریخ میں اختلاف ہے ۔سعید بن جبیر نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ قرآن کریم نصف رمضان میں نازل ہو ا۔گویا پندرہ یا سولہ کو اس کا نزول ہوا ۔جو روایت اوپر بیان کی گئی ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چوبیس رمضان کو نازل ہوا ۔بعض کا خیال ہے کہ بدر کی جنگ سترہ (۱۷)رمضان کو ہوئی تھی اس لئے یہی رات قرآن کریم کے نزول کی بھی ہے ۔کیونکہ ان کے نزدیک قرآن کریم کی آیت یومالتقی الجمعان یوم الفرقان(سورۃ الا نفال ۵ع۱)اسی طرف اشارہ کرتی ہے ۔غرض اس رات کے متعلق جسے لیلۃالقدر کہا گیا ہے اختلاف ہے اور اسکی اہمیت تاریخی تحقیق سے زیادہ ہے بھی نہیں ۔کیونکہ جس تاریخ کو قرآن کریم نازل ہو ااس کے معلوم ہونے سے روحانیت کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچتا۔محدثین عام طور پر چوبیس تاریخ کی رو ایت کو مقدم بتاتے ہیں چنانچہ ابن حجر عسقلانی بخاری کی مشہور شرح کے مصنف اور علامہ زرقانی مواہب اللدنیہ سیرۃنبی کریمﷺ کے شارح مواہب اللدنیہ آٹھ جلدوں میں لکھی ہے دونوں نے اسی روایت کو ترجیح دی ہے کہ قرآن کریم رمضان کی چوبیس تاریخ کو اترنا شروع ہوا ۔اس کے بر خلاف مورخ زیادہ تو سترھویں رمضان کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔اور قرآن کریم کا یہ فرمانا کہ ہم نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے اور اسکی یاد میں رمضان کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کا مقرر کیا جانا یہ دونوں باتیں مل کر اس امر کو ثابت کر دیتی ہیں کہ قرآن کریم کا نزول بہر حال رمضان میں شروع ہوا۔پس اگر اس آیت کے یہ معنے کئے جائیں کہ قرآن کریم کے نازل ہونیوالی مخصوص رات لیلۃ القدر تھی تو اس لحاظ سے محد ثین کے فیصلہ کے مطابق یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ لیلۃ القدر سے مراد اس جگہ چوبیس رمضان ہے اور آیت کے یہ معنے ہونگے کہ ہم نے چوبیس رمضان کو قرآن کریم نازل کیا ہے جو نزول قرآن کی وجہ سے لیلۃ القدر کہلانی چاہیئے۔لیکن تاریخی تحقیق کے مطابق صرف اتنا معلوم ہو گا کہ قرآن کریم کے نزول کا زمانہ رمضان کی کسی تا ریخ کو تھا۔
اس رات کو جس میں قرآن کریم نازل ہوا لیلۃ القدر کیوں کہا گیا ہے اس کی وجہ خود لفظ قدرسے ظاہر ہے ۔حل لغات میں قدرکے معنے لکھے جا چکے ہیں لیکن یاد کو تازہ کرنے کے لئے دو لغات کی کتابوں میں سے کہ ایک قرآن کریم کی لغت کی خاص تفسیر ہے اور ایک عام عربی زبان کی لغت کی اہم کتاب ہے قدرکے معنے دوبارہ یہاں لکھ دئے جاتے ہیں۔
مفردات راغب ہیں جو قرآن کریم کی لغت کی ایک معتبر کتاب ہے لکھا ہے القدر والتقدیر تبیین کمیۃ الشیء۔قدراور تقدیر کے معنے کسی چیز کے اندازہ کا ظاہر کرنا ہوتے ہیں ۔پھر لکھا ہے تقدیر اللہ الا شیاء علی وجھین احدھماباعطاء القدرۃ والثانی بان یجعلھا علی مقدار مخصوص ووجہ مخصوص حسبما اقتضت الحکمۃو ذالک ان فعل اللہ تعالی ضربان ضرب او جدہ بالفعل و معنی ایجادہ بالفعل ان ابد عہ کا ملا دفعۃ واحدۃ لا تعتریہ الزیا دۃ والنقصان الی ان یشاء ان یغنیہ او یبدلہ کا لسموت وما فیھا و منہا ما جعل اصولہ موجودۃ بالفعل و اجزاء ہ بالقوۃ و قدرہ علی وجہ لا یتأتی منہ غیر ماقدرہ فیہ کتقدیرہ فی النواۃ ان ینبت منہ النخل دون التفاح والیزیتون۔ فتقدیراللہ علی وجھین احدھما بالحکم منہ ان یکون کذا اولا یکون کذا امن اعلی سبیل الوجود و اما علی سبیل الامکان و علی ذالک قولہ قد جعل اللہ لکل شی ء قدرا (طلاق ۱ع ۱۷) والثانی باعطاء القدرۃ علیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و قولہ انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ای لیلۃ قیضنا ھا لامور مخصوصۃ۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی تقدیر دو طرح ظاہر ہوتی ہے (۱) کسی کو قدرت دے کر(۲)دوسرے اس طرح کہ کسی چیز کو حکمت کے تقاضٰی کے مطابق مخصوص اندازہ پر بناتا ہے اور مخصوص طریق پر اس کی ساخت کی بناء رکھتا ہے اور یہ اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ایک تو یہ کہ کسی چیز کو ایک ہی بار مکمل طور پر پیدا کر دیتا ہے ۔پھر اسکے بعد اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی جب تک کہ اسے خدا تعالیٰ فنا نہ کر دے یا بدل نہ ڈالے جیسے کہ زمین وآسمان کی پیدائش ہے اور ایک تقدیر اس کی اس طرح ہوتی ہے کہ ایک چیز کو اس طرح پیدا کرتا ہے کہ اصولی طور پر تو وہ موجود ہوتی ہے مگر اس کے تفصیلی خواص پوشیدہ ہوتے ہیں مگر ہوتے موجود ہیں ۔ان کے خلاف اس چیز سے کچھ ظاہر نہیں ہو سکتا ۔مثلا کھجور کی گٹھلی ہے اس گٹھلی میں اصولی طور پر کھجور کی خاصیتیں موجود ہیں مگر کھجور کی تفصیلات اس سے گٹھلی ہونے کی حالت میں ظاہر نہیں مگر جب بھی اسے بوئو اس میں سے کھجور ہی نکلے گی ۔سیب یا زیتون نہیںنکلے گا۔پس اس کی تقدیر جمالی ہے مگر وہ اجمال ایک تفصیل کو اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے جب وہ اجمال کھلنا شروع ہو گا اس سے وہی تفصیل پیدا ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے اس میں مخفی رکھی ہے اس کے خلاف اور کوئی تفصیل پیدا نہ ہوگی۔ غرض تقدیر الٰہی دو طرح ظاہر ہوتی ہے یا تو حکم سے کہ وہ فرمادیتا ہے کہ ایسا ہو یا ایسا نہ ہو۔پس جسے کہتا ہے کہ ہو جاوہ ضرور ہوتا ہے اور جس کی نسبت کہتا ہے ایسا نہ ہو اس کے لئے ہونا ممکن نہیں ہوتا ۔اسی معنوں میں قرآن کریم میں آتا ہے قد جعل اللہ لکل شیء قدرا(سورہ طلاق۱ع۱۷)کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے جو مثبت خواص اس میں رکھے ہیں ان کے سوا اس سے ظاہر نہیں ہوتے اور جن باتوں کی اس سے نفی کی ہے وہ اس سے ظاہر نہیں ہو سکتیں ۔زبان ضرور میٹھے کھٹے کے فرق کو محسوس کرتی ہے مگر سن نہیں سکتی ۔کان کو کتنا کہو نہ سن وہ ضرور سنتا ہے مگر اس سے کہو کہ چکھ تو وہ کبھی نہیںچکھتا ۔دوسرے خدا تعالی کی قدرت اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ قدرت بعض اشیاء میں پیدا کر دی ہے مگر وہ فورا ظاہر نہیں ہوتی بلکہ اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہوتی رہتی ہے گویا یوں کہہ لو کہ اس کی قدرت کے کچھ درخت ہیںاور کچھ گٹھلیاں۔قدرت کے درخت تو اپنی کامل شان سے شروع سے ہی مقررہ پھل دیتے ہیں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی ۔قدرت کی گٹھلیاںاپنے اندر مخفی مادہ رکھتی ہیںجب گٹھلی لگائو گے وہی ظاہر ہو گا جو خدا تعالی نے اس میں طاقت رکھی ہے مگر گٹھلی نہ لگائو تو خدا تعالی کی تقدیر اس گٹھلی کے ساتھ ہی غائب ہو جائے گی گویا یہ قدرت ضرور نہیں کہ ظاہر ہو مگر جب ظاہر ہو گی تو اسی طرح ظاہر ہو گی تو اسی طرح ظاہر ہوگی جس طرح خدا تعالی نے اس کے لئے ظاہر ہونا مقدر کیا ہے ۔انسان کے نطفہ میں انسان بننے کی قدرت ہے مگر ضروری نہیں کہ ہر نطفہ بچہ بن جائے کئی نطفے منی کے ساتھ ہی ضائع ہو جاتے ہیں ۔کئی ماں کے پیٹ سے قبل از وقت نکل جاتے ہیں ۔کئی مردہ پیدا ہوتے ہیں ۔کئی ناقص پید اہوتے ہیں ہاں جو بچہ بھی پیدا ہو گا ،ہوگا انہی خواص سے جو اللہ تعالی نے انسان میں رکھے ہیںغیر انسانی خواص لے کر پیدا نہ ہو گا۔گویا اس تقدیر کے لئے ایک نقطہ مقرر نہیں ایک دائرہ مقرر ہے اس کے اندر یہ آگے پیچھے ہو سکتا ہے ۔پھر لکھا ہے انا انزلنہ فی لیلۃ القدر سے یہ مراد ہے کہ ہم نے قرآن اسی رات میں اتارا ہے جس کو اللہ تعالی نے خاص امور کے لئے مخصوص کر چھوڑا تھا۔
مفردات کی اوپر کی عبارت سے ظاہر ہے کہقدرکے معنے اظہار قدرت کے ہیں جو دو طرح ہوتی ہے ۔اور اسی تقدیر سے جو ایک مخصوص شکل میں ظاہر ہو جاتی ہے اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی ۔صاحب مفردات نے آسمان وزمین کی مثال دی ہے مگر یہ مثال کامل نہیں بہرحال اس سے اس قسم کی تقدیر کا ایک موٹا اندازہ ہو جاتا ہے ورنہ اصل مثال اس کی وہ تقدیر ہے جو اللہ تعالی کی صفات کے متعلق ظاہر ہوتی ہے جسے قانون قدرت کہتے ہیں یعنی وہ قانون جو اللہ تعالی نے اپنی صفات کے ظہور کے لئے مقرر فرمایا ہے ۔مثلا یہ کہ مردے اس دنیا میں جسمانی طور پر زندہ ہوکر نہیںآتے ۔یا غیب کامل کا علم خدا تعالی کے بتائے بغیر کوئی نہیں جانتا ۔تک بندی ٹھیک ہو جائے تو یہ اور بات ہے علم کی بناء پر کوئی شخص غیب کامل کو اللہ تعالی کے بتائے بغیر نہیں جان سکتا وغیرہ وغیرہ ۔دوسرے ایسی تقدیر سے جو با لا جمال ظاہر ہوتی ہے ۔ایک ہی وقت میں ساری تقدیر کا اظہار نہیں ہو جاتا آہستہ آہستہ وہ تقدیر ظاہر ہوتی ہے اور ایک مقرر قانون کے مطابق ظاہر ہوتی ہے ۔پھر لکھا ہے کہ لیلۃ القدر سے مراد وہ رات ہے جسے خاص امور کے لئے اللہ تعالی نے مخصوص کر چھوڑا تھا ۔
ان معنوں کے بتانے کے بعد میں باری باری دونوں معنوں کے رو سے اس آیت کے معنے کرتا ہوں ۔پہلے معنے یہ تھے کہ قدر سے خدا تعالی کی دو قسم کی قدرتوں میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔ اسکے متعلق یاد رکھنا چاہیئے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدر کا لفظ خدا تعالی کی دونوں قدرتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ضرور دونوں قدرتوں میں سے ایک ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک نہ ایک قسم کی قدرت کی طرف اس سے ضرور اشارہ ہوتا ہے مگر ایک ہی وقت میں دونوں قدرتوں کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے۔چنانچہ جب اللہ تعالی کے لئے لفظ قدیر آتا ہے یعنی قدرت والا تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس سے نمبر اول قسم کی قدرت ظاہر ہوتی ہے یا نمبر ۲ قسم کی قدرت ظاہر ہوتی ہے بلکہ اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس سے دونوں قسم کی قدرتیں ظاہر ہوتی ہیں۔اسی طرح اگر کسی جگہ قدر کا لفظ آئے توگو کبھی اس سے قسم اول کی قدرت مراد ہو گی اور کبھی قسم دوم کی۔ یا کبھی اور کسی تیسری قسم کی قدر مراد ہو گی لیکن کبھی وہ سب قسم کی قدر وں کی طرف ایک ہی وقت میں اشارہ کرتا ہو گا ۔اس جگہ بھی یہی معنے ہیں اور القدرمیں الجنسی استغراقی ہے یعنی جتنی قسم کی قدریں ہیں وہ سب اس رات میں جمع تھیں۔مفردات راغب نے دو قدریں لکھی ہیں ۔لیکن بات یہ ہے کہ یہ دو قسمیں پھر آگے دو قدروں میں تقسیم ہوتی ہیں یونی اول قسم کی روحانی قدر اور اول قسم کی جسمانی قدر ۔اور دوم قسم کی روحانی قدر اور دوم قسم کی جسمانی قدر ۔اسی طرح اور قسم کی کئی قدریں ان سے نکلتی چلی آئیں گی۔پس قدرکے لفظ پر الاستعمال کر کے اللہ تعالی نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جس رات میں قرآن کریم نازل ہوا اس میں سب قسم کی خبریں جمع ہو گئی تھیں اور وہ رات تمام قدروں کا مجموعہ تھی ۔
جیسا کہ مفردات راغب والوں نے بتایا ہے کہ پہلی تقسیم قدر کی یہ ہے کہ وہ دفعۃً پیدائش کاملہ والی قدراور آہستہ آہستہ ظاہر ہونے والی اجمالی قدر کی دو قسموں میں منقسم ہو جاتی ہے ۔ان معنوں کی رو سے اس آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم نے یہ دونوں قدریں اس رات میں جمع کر دی تھیں ۔پھر یہ دونوں قدریں جیسا کہ میں بتا چکا ہوںآگے جسمانی اور روحانی قدروں میں تقسیم ہو جاتی ہیںاس لحاظ کے اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ قرآن کریم جس رات میں نازل ہوا تھا اس میں یہ چاروں قسم کی قدریں جمع تھیں۔دفعۃً کامل ظہور والی جسمانی قدر بھی اور روحانی قدر بھی اورآہستہ آہستہ مناسب موقعہ اپنے وجود کو ظاہر کرنے والی جسمانی قدر بھی اور روحانی قدر بھی ۔اب ہم ان قدروں میں سے ایک کو لے کر دیکھتے ہیں کہ کیا نزول قرآن کی رات میں اس کا وجود پایا جاتا تھا ۔پہلی قدر یکدم ظاہر ہونے والی جسمانی قدر ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ سورج یا چاند کی پیدائش کہ شروع دن سے ایک مقصد کے لئے پیدا کئے جاتے ہیں اور جب تک مقدر ہے اپنے کام کو ایک ہی شان سے کرتے جائیں گے ۔اس قدر کے مشابہ رسول کریم ﷺ ک اوجود تھا ۔قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے یاایھا النبی انا ارسلنک شاھداومبشراونذیراوداعیاالی اللہ باذنہ وسراجا منیرا(احزاب۶ع۳آیت۴۶،۴۷)یعنی اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور بشارت دینے والا ،اور ہوشیار کرنے والا اور اللہ تعالی کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور روشن سورج بنا کر بھیجا ہے ۔اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ رسول کریمﷺکی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ سورج کی طرح ہیں۔یعنی آپکے بعض وصف شروع دن سے کامل بنائے گئے تھے اور ان کا ظہور آپکی روحانی پیدائش کے ساتھ ہی مکمل ہو گیا تھا ۔وہ وصف کیا تھے؟انکی طرف اشارہ لفظ سورج سے کردیا گیا ہے ۔سورج کے اندر اپنی پیدائش کے لحاظ سے دو خاص وصف ہیں(۱)اول یہ کہ سب اجرام اسکے گرد چکر لگاتے ہیں (۲)دوم یہ کہ وہ اپنے گرد کی اشیا ء کو روشن کرتا ہے ۔جہاں تک اس کے گرد چکر لگانے کا سوال ہے تمام اجرام بغیر استثناء اس کے گرد چکر لگاتے ہیںاور جہاں تک روشنی دینے کا سوال ہے وہ چیزیں جو اس کے سامنے آجاتی ہیں انہیں وہ روشنی دیتا ہے اس کی پہلی صفت کو جسمانی کہنا چاہئیے اور دوسری کوروحانی۔کیونکہ روحانی صفت کی یہ خصوصیت کہ اس کا ظہور تعلق کی بناء پر ہوتا ہے ۔جیسے اللہ تعالی کی مادی نصرتیں تو ہر شخص کو خواہ مومن ہو خواہ کافر ملتی ہیں لیکن روحانی نصرتیں صرف انہی کو ملتی ہیں جو اس کے نور کے سامنے اپنی روح اور اپنے دل کو کر دیتے ہیں ۔
جس دن قرآن کریم نازل ہوا اسی کے مشابہ جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی قدرتیں ظاہر ہوئیں محمد رسول اللہ ﷺپر جونہی پہلا کلام نازل ہوا آپ دنیا کے لئے سورج قرار دے دئیے گئے اور دنیا کے لئے یہ مقرر کر دیا گیا کہ وہ آپ کے گرد چکر لگائے بے شک رسول کریمﷺ کا روحانی ارتقائہوتا چلا گیا اور اب تک ہو رہا ہے مگر جہاں تک آپ کے گرد تمام دینی اجرام کے چکر لگانے کا سوال ہے اس میں کوئی فرق نہیں آیا ۔جس رات کو آپ پر خدا تعالی کلام نازل ہوا اس رات کو بھی آپ پر ایمان لانا ایسا ہی ضروری تھا جتنا کہ آپ کی زندگی کی آخری گھڑی میں ضروری تھا گویا جو شخص بھی خدا تعالی کے فضل کو حاصل کرنا چاہے اس کے لئے تھا کہ آپ کے گرد گھومے۔کیونکہ آپ اپنی بعثت کی گھڑی سے دنیا کے لئے سورج کی طرح ہو گئے تھے۔تمام نظام عالم کا مدار آپ پر رکھ دیا گیا تھا۔اس کا ظاہر ی نشان خدا تعالی نے یہ مقرر فرمایا کہ جس طرح سورج کو خدا تعالی کے سوا کوئی توڑ نہیں سکتا اسی طرح آپکی ذات کو بھی پہلے کالم کے نزو ل کے وقت سے دنیا کی دستبرد سے مھفوظ کر دیا گیا ۔چنانچہ شروع سے لے کر آخر تک آپ کے دشمنوں نے آپ کو قتل کرنے کے لئے بے حد زور لگایا ،سینکڑوں منصوبے کئے مگر آپ کی ذات پر آنچ نہ آئی کیونکہ آپ کا وجود سورج تھا اور سورج کو فنا کرنے پر کوئی انسان قادر نہیں ہو سکتا ۔
پہلی قدرت کی دوسری قسم روحانی ہے ۔میں نے بتایا ہے کہ سورج کا روشنی دینا روحانی ظہور کے مشابہ ہے کیونکہ روشنی سے وہی فائدہ اٹھا تا ہے جو اسکی طرف منہ کرتا ہے اور روحانی امور کی ہی خصوصیت ہے کہ ہر شخص ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ وہی فائدہ اٹھاتا ہے جو ان کی طرف رغبت کرتا ہے ۔یہ قدرت بھی کامل طور پر رسولکریمﷺ میں پائی جاتی تھی کلام الہٰی کے نازل ہونے کے ساتھ ہی آپ کو فیض روحانی پہنچانے کی قدرت اسی رنگ میں عطا کی گئی جس رنگ میں کہ سورج کو روشنی دینے کی قدرت حاصل ہے جب سے سورج بنا ہے وہ روشنی دیتا ہے اور یکساں روشنی دیتا ہے لیکن اسی کو دیتا ہے جو ا سکے لئے اپنے دروازے کھول دیتا ہے ۔اسی طرح رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے روحانیت کا نور بخشنے کی طاقت بخشی ہے اور اسی دن سے بخشی ہے جب سے کہ آپ نبی ہوئے ہیں اور یہ طاقت گھٹتی بڑھتی نہیں ۔یہ نہیں کہ پہلے دن آپ کا فیض کم تھا اور بعد میں زیادہ ہو گیا جس طرح سورج کی روشنی پہلے دن سے ایک سی ہے اسی طرح آپ کا فیضان نبوت کی پہلی گھڑی سے یکساں ہے نہ اس وقت زیادہ اوراب کم ۔نہ اس وقت کم تھا اور اب زیادہ ہے ۔صرف روشنی لینے والے کے ظرف کا فرق ہے ۔جس طرح زیادہ کھلے دروازوں والے مکان میں روشنی زیادہ پڑتی ہے اور تنگ دروازوں والے مکان میں کم روشنی پڑتی ہے اسی طرح جو اپنے دل کو وسیع کرتا ہے آپکے فیض مبارک سے زیادہ حصہ پا لیتاہے اور جو اپنے دل کو تنگ کرتا ہے وہ کم حصہ پاتا ہے ۔لیکن جہاں تک آپ کے فیض کا تعلق ہے وہ شروع سے ا سوقت تک یکساں رہا ہے اور قیامت تک یکساں رہے گا ۔
غرض جس رات قرآن کریم نازل ہوا اسی رات ایک دم کامل طور پر ظاہر ہونے والی جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی قدرتیں ظاہر ہوئیں اور ایسے کامل طور پر ظاہر ہوئیں کہ اس سے پہلء کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں۔
دوسری قسم قدرت کی وہ ہے جو بیج کی طرح پیدا ہو کر آہستہ آہستہ پھیلتی ہے ۔اس قدرت کی جسمانی اور روحانی دونوں قسموں کا ظہور اس رات میں ہوا ۔چنانچہ انہی آیات میں جو اس دن آپ پر نازل ہوئیں یہ آیت ہے خلق الا نسان من علق جس کے ایک یہ معنے ہیں کہ انسان کی پیدائش یکدم نہیں ہوئی بلکہ وہ پہلے خون کا ایک چھوٹا سا لوتھڑا ہو تا ہے پھر آہستہ آہستہ ترقی کر کے کمال کو پہنچتا ہے اسی طرح اسلام کی جسمانی اور روحانی ترقی ہوگی۔چنانچہہم دیکھتے ہیں کہ پہلے دن اسلام کی گٹھلی جو سورہ علق کے ذریعہ سے رکھی گئی بڑھتے بڑھتے قرآن کریم کے درخت کی شکل اختیار کر گئی جو ا سکا جسمانی ارتقاء تھا۔درحقیقت سارا قرآن ان چند آیتوں کی تفسیر ہے جو پہلے دن نازل ہوئیں کیا ہی لطیف خلاصہ قرآنی تعلیم کا یہ آیات ہیںاقرا باسم ربک الذی خلق ۔اپنے رب کے نام سے پڑھ ۔یعنی ان صفات الٰہیہ کا اظہار کر جو اس وقت تک تجھ پر روشن ہو چکی ہیں کیونکہ وہ انکشاف جو تجھ پر صفات الٰہیہ کا ہوا ہے وہی درست ہے اور اسکے سوا سب تشریحیں صفات الٰہیہ کی غلط ہیں ۔الذی خلقیعنی جس نے سب مخلوق کو پیدا کیا ہے ۔اس لئے سب مخلوق پر اس کا تصرف ہے اور وہ اس کے قبضہ میں ہے توحید باری کا اعلان کرنے کے بعد دنیا تیری مخالفت کرے گی مگر گھبرانے کی بات نہیںآخر مخلوق اللہ تعالی سے وابستہ ہے جب تو خالق کی فرمانبرداری میں لگا ہو گا تو مخلوق تیرا کیا بگاڑ سکتی ہے خلق الا نسان من علق اور یاد رکھ کہ گو تیری باتیں اس وقت تیرے مخاطبوں کو کتنی بری لگیں کتنی عجیب لگیں لیکن انسا ن کے اندر خدا تعالی کو ملنے اور بنی نوع انسان سے نیکی کرنے کی خواہش مخفی طور پر رکھی گئی ہے ۔پہلے لوگ تیرے دشمن ہونگے،خدا تعالی سے منہ موڑنے والے ہونگے،بنی نوع انسان پر ظلم توڑنے والے ہونگے۔لیکن آہستہ آہستہ ان کی اصلاح ہو تی جائے گی اور وہ خدا تعالی کے ساتھ بھی صلح کر لیں گے اور بنی نوع انسان سے بھی ان کے تعلقات اچھے ہو جائیں گے ۔پھر فرماتا ہے اقرا وربک الاکرام الذی علم بالقلم علم الانسان ما لم یعلم۔ہا ں ہاں پڑھ اپنے معزز ترین رب کی مدد سے یعنی ایسی تعلیم کے پیش کرنے پر ضرور مخالفت ہوتی ہے اور خصوصا روحانی اور جسمانی لیڈر شرارت پر آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن خواہ دنیاوی لیڈر ہوں یا مذہبی ،تو ان کی پرواہ نہ کیجیئو کیونکہ ان سب معززوں سے زیادہ معزز خدا تعالی کی ذات ہے وہ تیرے ساتھ ہو گی ۔کیونکہ اس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب انسان کو ارتقاء کی آخری منزل تک پہنچادے اور آئندہ علوم زبان کی بجائے قلم کے ذریعہ سے سکھائے جائیں یعنی علوم کی حفاظت کے لئے قلم کا ستعمال اب بڑھ جائے گا ۔پھر فرماتا ہے کہ خدا تعالی اب ایسے مادی اور روحانی علوم دنیا کو سکھائے گا کہ اس سے پہلے انسان ان سے آگاہ نہ تھا۔
غور کور جو کچھ قرآن کریم میں نازل ہوا ہے سب انہی آیات کی تشریح ہے۔آخر قرآن کیا ہے؟خدا تعالی اور اسکے بندوں کے درمیان صحیح تعلقات کی تعلیم۔یہ دونوں باتیں اجمالا ان آیات میں آگئی ہیں اور اسطرف بھی اشارہ ہے کہ یہ آیات تو ایسی ہیںجیسے کہ ماں کے پیٹ میں نطفہ کی ابتدائی حالت ہوتی ہے۔ان آیات میں بتائی ہوئی تفسیر ترقی کرے گی اور بڑھتے بڑھتے جاندار بچہ اور پھر عالم و فاضل مرد کی طرح ہوجائے گی جو قلم سے کام لیتا ہے اور علوم و فنون کا مخزن ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان آیات میں دونوں باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ایک تو یہ کہ قرآن کریم کی یہ آیات بڑھ کر ایک مکمل کتاب ہوجائیں گی اور دوسرے یہ کہ کتاب کی رو سے انسان علقہ کی حالت سے ترقی کر کے مرد کامل ہو جایا کریں گے قرآن کی تکمیل جسمانی قدرت کا ظہور ہے اور انسانوں کی روحانیت کی تکمیل روحانی قدرت کے ظہور کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ دونوں قدرتیںایسی نہیںکہ یکدم ظاہر ہوئی ہوںیا ہوتی ہوں۔قرآن کریم جب نازل ہوا تو آہستہ آہستہ بڑھتا گیا اور اب بھی جو اسے پڑھتے ہیں آہستہ آہستہ ہی پڑھتے ہیں ۔نہ پہلے یکدم نازل ہوا نہ اب کوئی یکدم اس سے واقف ہوتا ہے ۔اسی طرح روحانی ترقیات جو اسلام کے ذریعہ سے ملتی ہیں وہ بھی گو مبنی تو اسی پیغام پر ہیں جو پہلی رات کو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا مگر ایمان کے مطابق آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہیں اور اس طرح دوسری قسم کی قدرت کے روحانی ظہور کا نمونہ پیش کرتی ہیں۔
دوسرے معنے قدر کے مفرادت راغب نے یہ کئے ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کو اس رات میں اتارا ہے جسے اس نے اپنی خاص قدرتوں کے لئے مخصوص کر چھوڑا تھا ۔یہ معنے بھی درست ہیں کیونکہ رسول کریمﷺکے زمانہ کی خبریں پہلی کتب میں بکثرت موجود تھیں اور آپ کے زمانہ کے نشانات اور اس کی علامات نبیوں کے منہ سے خدا تعالی بیان کروا چکا تھا ۔عین اس بیان کے مطابق قرآن نازل ہوا ۔پس اس آیت میں فرماتا ہے کہ ہم نے اس قرآن کو اسی زمانہ میں اتارا ہے جس میں اس کے اترنے کی پہلے انبیاء خبر دے چکے ہیں۔پھر اس کے ماننے میں تم کو کیا تردد ہو سکتا ہے ۔جب زمانہ وہی ہے جس میں اس موعود نبی اور موعود شریعت نے آنا تھا ۔اور یہ مدعی تمہارے نزدیک جھوٹا ہے اور اسکی کتاب خدا تعالی پر نعوذ باللہ افتراء ہے تو پھر تم بتائو کہ سچاموعود اور سچی شریعت ہے کہاں؟اگر کہو کہ کہیں بھی نہیں تو پھر تم محمد رسول اللہﷺ کا انکار کرنے والے نہ ہو گے بلکہ ساتھ ہی اپنے نبیوں کا انکا رکرنے والے بھی بنو گے۔کیونکہ انہوں نے اس زمانہ میں ایک شریعت کے آنے کی خبر دی ہے ۔اگر یہ جھوٹا ہے اور دوسرا کوئی سچا موعود موجود نہیں تو پھر تمہاری کتابیں بھی جھوٹی ہیں اور تمہارے انبیاء بھی جھوٹے ہیں۔
اقرب المواردنے قدر کے معنے درج ذیل کئے ہیں:۔
(۱)برابر کی چیز کہتے ہیںھذا قدر ھذا۔یہ چیزاس کے برابر کی ہے (۲)حرمت(۳)وقار(۴)غناء(۵)قوت(۶)سہولت۔ان معنوں کے رو سے اس آیت کے معنے یوں بنیں گے۔
۱:۔ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے جو قیمت میں بابر ہے۔
۲:۔ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے حرمت والی ہے۔
۳:۔ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے جو وقار والی رات ہے۔
۴:۔ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے جو غناء والی رات ہے ۔
۵:۔ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے جو قوت والی رات ہے۔
۶:۔ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتاراہے جو سہولت والی رات ہے۔
اب ہم ان چھٹوں معنوں کے متعلق دیکھتے ہیں کہ آیا یہ قرآن کریم پر صادق آتے ہیں یا نہیں ۔
پہلے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ برابر قیمت والی رات میں ہم نے قرآن کریم کو اتارا ہے چونکہ جس چیز کے وہ برابر ہے اس کا یہاں ذکر نہیں ۔اسلئے ہم مقابل والی چیز کو محدود نہیں قرار دے سکتے اور ہمیں اس کے یہی معنے کرنے پڑیں گے ہم نے قرآن کریم کو اس رات میں اتارا ہے جو قیمت میں باقی ساری راتوں کے برابر ہے یعنی یہ رات باقی تمام دنیا کی عمر کے مطابق قیمت رکھتی ہے۔یہ معنے قرآن کریم پر چسپاں ہوتے ہیں۔قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ خاتم النبیین ہیں اور قرآن کریم خاتم الکتب ہے۔قرآن کریم میں انسان کی ترقیات کے لئے سب تعلیمات آگئی ہیں اور قرآن کریم ہی روحانی ارتقاء کا آخری نقطہ ہے پس جب قرآن کریم آخری تعلیم ہے اور محمد رسول اللہﷺ آخری شارع نبی ہیں تو یہ ثابت ہوا کہ باقی تمام انبیاء اور باقی تمام کتب مقصود نہیں بلکہ صرف ذریعہ ہیں اور وہ ذرائع خواہ کتنے بھی زیادہ ہوں وہ مقصود سے ذیادہ اہم نہیں ہو سکتے۔پس یہ کہناکہ ہم نے قرآن کریم کو برابر والی رات میں اتارا ہے درحقیقت اس کے یہی معنے ہیں کہ یہ قرآن آخری کتاب ہے اور یہ اکیلی ان تمام شریعتوں کے مقابلہ میں ہے جو اس وقت تک اتر چکی ہیں اور قرآن کریم کے نزول کا زمانہ اپنی برکات کے لحاظ سے ان تمام انبیاء کے زمانوں کے برابر ہے جو کبھی خدا تعالی کی طرف سے آئے تھے پس انا انزلنہ فی لیلۃالقدرمیں درحقیقت قرآن کریم کے آخری اور سب سے مکمل کتاب ہونے کا دعویٰ بیان کیا گیا ہے اور ان چھوٹے سے الفاظ میں قرآن کریم کی ان ہزاروں خوبیوں کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے جو خدا تعالی نے اس کے الفاظ میں مخفی رکھی ہیں ۔اس مضمون کو اگر تفصیل سے بیان کیا جائے تو اس کے لئے کئی ہزار صفحات کی ایک مستقل کتاب چاہیئے اس لئے میں تفصیل میں نہیں جاتا اسی قدر مضمون کا بیان کرنا کافی سمجھتا ہوں۔
دوسرے معنے اس آیت کے لغت کے لحاظ سے یہ بتائے گئے ہیں کہ قرآن کریم حرمت والی رات میں اترا ہے یعنی قرآن کریم کا نزول ایک ایسی رات میں ہوا ہے یا ایسے تاریک زمانہ میں ہوا ہے جس کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔جو چیز عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے وہ کبھی مٹائی نہیں جاتی۔قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے اما ما ینفع الناس فیمکث فی الا رض(سورہ رعد ۲ع۸)جو چیز نفع رساں ہوتی ہے وہ ہمیشہ کے لئے قائم رکھی جاتی ہے ۔بیت اللہ کو بھی بیت الحرام کہا جاتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور اس کے اعزاز کو ہمیشہ قائم رکھا جاتا ہے پس حرمت والی رات کے معنے یہ ہیں کہ جس کے حقوق کو ہمیشہ قائم رکھا جائے گا ۔ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے بنتے ہیں کہ قرآن کریم اس زمانہ میں اترا ہے جو آخری زمانہ ہے اور جس زمانہ کو کوئی اور زمانہ بدلے گا نہیںاور ہمیشہ اس زمانہ کی عزت کو قائم اور اسکی حکومت کو استوار رکھا جائے گا ۔یہ معنے بھی قرآن کریم پر چسپاں ہوتے ہیں کیونکہ قرآن کریم کے نزول کا زمانہ ہمیشہ کے لئے دنیا کی راہنمائی کا زمانہ قرار دیا گیا ہے ۔جب بھی کوئی شخص ہدایت اور ر اہنمائی حاصل کرنا چاہے اس کو اسی رات کی طرف نظر اٹھانی پڑتی ہے اور اسی رات کی برکتیں انسان کو ہدایت اور راستی پر لا سکتی ہیں اور کبھی بھی اس رات سے نکلی ہوئی ہدایت اور راستی کی راہیں مسدود نہیں ہوتیں۔وہ چلی آتی ہیں اور چلی جائیں گی او ر قیامت تک ان کا سلسلہ ممتد رہے گا ۔
تیسرے معنے اس آیت کے یہ تھے کہ قرآن کریم وقار کی رات میں اتارا گیا ہے ۔قار کے معنے بوجھ ،سمجھ اور عقل کے ہوتے ہیں۔پس اس آیت کے یہ معنے ہوئے کہ قرآن کریم ایک ایسی رات میں اتارا گیا ہے جو عقل اور سمجھ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور بوجھل ہے یعنی جس کی تعلیمات دشمن کے حملہ اور اس کی تنقید سے اپنی جگہ سے ہل نہیں جاتیں۔یہ معنے بھی قرآن شریف پر پوری طرح چسپاں ہوتے ہیں ۔قرآن کریم کی تعلیم اعلی درجہ کی حکمتوں پر مبنی ہے اور ہر ایک حکم جو دیا جاتا ہے اس کی وجہ بھی بتائی جاتی ہے ۔کیوں اس حکم پر عمل کرنا چاہیئے،اس کے کیا فوائد ہیں ،اس کو چھوڑا جائے تو اس کے کیا نقصانات ہوں گے۔اور اسطرح وزنی دلائل سے اسے ثابت کیا جاتا ہے کہ کسی فلسفہ کی تنقید بھی اسکے دلائل کو رد نہیں کر سکتی ۔جو کچھ وہ کہتا ہے وہ ایسی وزنی چیز ہوتی ہے کہ دشمن خواہ اس کو کتنا بھی دھکیلنے کی کوشش کرے آخر اسے شکست تسلیم کرنی پڑتی ہے۔
چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ قرآن کریم ایک ایسی رات میں نازل ہوا ہے جو غناء والی رات ہے ۔غناء کے معنی عربی زبان میں ضرورت کے پورا ہونے اور سہولت کے ہوتے ہیں ۔اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہونگے کہ قرآن کریم اس رات میں نازل ہوا ہے یا اس تاریک زمانہ میں نازل ہوا ہے جو ضرورتوں کو پورا کرنے والا تھا ۔یہ معنے بھی قرآن کریم پر صادق آتے ہیں کیونکہ قرآن کریم کا دعوی ٰ ہے کہ وہ ہر قسم کی روحانی اور دینی ضرورتوں کو پورا کرنے والاہے ۔چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے اولم یکفھم انا انزلنا علیک الکتاب یتلی علیھم(سورہ عنکبوت۵ع۱)کیا ان لوگوں کے لئے کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پر یہ مکمل کتاب اتاری ہے جو سنائی جاتی ہے ۔اسی طرح قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ وہ تفصیل الکتاب ہے (سورہ یونس۴ع۹)یعنی شریعت کی تمام تفصیلات کو بیان کرتا ہے ۔اسی طرح قرآن کریم میں بیان فرمایا گیا ہے وتفصیل کل شیء وھدی ورحمۃ لقوم یومنون(سورہ یوسف۱۲ع۶)یعنی قرآن کریم کی تمام ضروری دینی امور کی تفصیل بیان کرتا ہے اور ہر قسم کے مومنوں کے لئے اس میں ہدایت اور رحمت ہے ۔خواہ اسی آیت زیر تفسیر میں بھی اس مضمون پر روشنی ڈالی گئی ہے چنانچہ فرمایاتنزل الملئکۃوالروح فیھا باذن ربھم من کل امر ہر قسم کی باتیں اللہ تعالی کے اذن سے ملائکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیلۃالقدر کی رات میں لے کر نازل ہوتے ہیں ۔پس قرآن کریم وہ کتاب ہے جو تمام دوسری مذہبی کتب سے انسان کو مستغنی بنا دیتی ہے اور تمام ضراری امور اس میں بیان ہوئے ہیں پس اس کا نزول غناء والے زمانہ میں ہوا ہے۔
پانچویں معنے اس لفظ کے قوت کے ہیں جس کی رو سے اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ قرآن کریم قوت والی رات میں نازل ہوا ہے یعنی اس رات کے ساتھ خدا تعالی کی قوت اور اسکی طاقت وابستہ ہے ۔چنانچہ یہ معنے بھی قرآن کریم پر صادق آتے ہیں اور یہ معنے مفردات امام راغب کے معنوں کے سلسلہ میں اوپر بیان ہو چکے ہیں اس لئے اس جگہ اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں ۔
چھٹے معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم سہولت والی رات میں نازل ہوا ہے۔یہ معنے بھی قرآن کریم اور اس کے زمانہ پر صادق آتے ہیں۔پہلی کتابوں کو دیکھو ان کے اندر مذہب کی بھول بھلیاں بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔نہ عقائد سمجھ میں آسکتے ہیں نہ اعمال قابل اتباع ہیں ۔یہودیوں اور ہندئووں کی تعلیم عبادت کے متعلق اگر لی جائے تو اتنی اتنی شرطیں بلا وجہ عبادت کے ساتھ لگا دی گئی ہیںکہ اول تو سارے آدمی اس طرح عبادت کر ہی نہیں سکتے اور اگر کریں تو تکلیف مالا یطاق میں پڑتے ہیں ۔دوسرے ایسے وہموں میں مبتلا ہوتے ہیں جن کو تسلیم کرنا انسانی دماغ کے لئے بڑا دوبھر اور مشکل ہوتا ہے ۔قرآن کریم ہی ایک ایسی تعلیم ہے جس کا ماننا انسان کے لئے آسان اور جس پرعمل کرنا بھی انسان کے لئے آسان ہے ۔چنانچہ قرآن کریم خود یہ دعویٰ فرماتا ہے کہولقد یسرنا القران للذکر فھل من ممدکر(سورہ قمر۲ع۹)ہم نے قرآن کریم کو کیا بلحاظ دماغ اور کیا بلحاظ عمل کے آسان کر دیا ہے ۔پس کای کوئی شخص ایسا ہے جو نصیحت حاصل کرے یا عمل کرے ۔اس جگہ پر لفظ ذکر استعمال کر کے دونوں معنے لے لئے گئے ہیں ۔ذکر کے معنے یاد کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور عمل کرنے کے بھی ہوتے ہیں پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیمات کا دماغ میں سے گذرنا بھی انسان پر آسان رہتا ہے یعنی ان کا ماننا انسان کو دوبھر معلوم نہیں ہوتا اور قرآن کریم کی تعلیموں پر عمل کرنا بھی انسان کے لئے آسان ہوتا ہے کیونکہ اس میں ہر طاقت اور قوت اور ضعف اور کمزوری کالحاظ رکھا گیا ہے ۔مثلا نماز کا حکم ہے اس کے لئے ارشاد ہے کہ نماز مسجدوں میں پڑ ھنی چاہیئے لیکن ساتھ ہی یہ ارشاد ہے کہ ساری زمین ہی خدا تعالی کی مسجد ہے گویا نہ کسی خاص قسم کے مکان کی ضرورت ہے نہ خاص قسم کے سامان کی ضرورت ہے نہ نماز پڑھنے کے لئے کسی خاص قسم کے پادری یا پنڈت کی ضرورت ہے ۔جس زمین کا چاہو صاف کر لو اور مومنوں میں سے جس کو چاہے آگے کھڑا کر کے نماز پڑھ لو۔لیکن اگر کوئی شخص بیمار ہے یا سفر پر ہے تو جماعت کے بگیر بھی نماز ہو سکتی ہے ۔نماز کے لئے وضو کی شرط ہے لیکن اگر انسان بیمار ہو یا پانی نہ ملے تو وہ بغیر وضو کے تیمم سے بھی نماز پڑھ سکتا ہے ۔اگر اتن ابیمار ہے کہ کھڑا نہیں ہو سکتا تو گھر میں بیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتا ہے اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی طاقت نہیں تو لیٹے ہوئے سر کے اشارہ سے بھی نماز پڑھ سکتا ہے ۔اگر اس حالت سے بھی گیا گذرا مریض ہے تو وہ انگلی یا آنکھ کے اشارہ سے بھی نماز ادا کر سکتا ہے اور جو اسکی بھی طاقت نہ رکھے وہ صرف دل میں ہی نماز کے مضمون کو دہرا کر اپنی نماز ادا کر سکتا ہے ۔بیہوش ہو جائے تو وہی نماز دوسرے وقت میں ادا کرسکتا ہے ۔اور یہ ایک ہی مثال نہیں بلکہ ہر حکم کے متعلق اسی طرح ضرورت اور طاقت کے مطابق تبدیلی پیدا کی گئی ہے ۔پس قرآن کریم کی تعلیم سہولت والی تعلیم ہے۔
اگر کوئی کہے کہ یہاں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ اس رات میں قرآن کریم نازل ہوا ہے یہ کیوں نہ کہا گیا کہ قرآن ایسا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ پر خالی قرآن کا مضمون بیان نہیں بلکہ اس سے زیادہ مضامین کی طرف اشارہ کرنا مد نظر ہے۔جیسا کہ آگے بیان کیا جائے گا ۔یہاں رسول کریم ﷺ کا بھی ذکر ہے اور رسول کریم ﷺ کے تابع اظلال کا بھی ذکر ہے۔اگر آیت کے یہ الفاظ ہوتے کہ قرآن کریم ایسی ایسی شان کا ہے تو یہ مضمون باہر رہ جاتے۔ پس زمانہ کی طرف وہ صفات منسوب کر دی گئی ہیں تا کہ یہ مضمون یکساں طور پر کتاب پر بھی چسپاں ہو اور نبی کریم ﷺ پر بھی چسپاں ہو اور دوسرے معموروں پر بھی چسپاں ہو ۔
جیسا کہ اوپر کے مضمون سے ظاہر ہے میں نے لیلۃالقدر کے دونوں معنے لئے ہیں (۱)یہ بھی کہ وہ معین رات جس میں قرآن کریم نازل ہوا قرآن کریم کے نزول کی وجہ سے ایسی اہمیت رکھتی ہے کہ اسی لیلۃ القدر کہنا چاہیئے(۲)اور یہ معنے بھی میں نے لئے ہیں کہ لیلہ سے مراد وہ رات نہیںجس میں قرآن کریم نازل ہوا بلکہ وہ تاریک زمانہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔اور یہ بتایا گیا ہے کہ ایسے تاریک زمانوں میںہی خدا تعالی کی غیرت جوش میں آکر آئندہ نیکی اور تقویٰ کی بنیا د رکھا کرتی ہے اور جب تاریکی بڑھتے بڑھتے خدا تعالی کے فضل کو کھنچتی ہے تو اس وقت وہ تاریکی کا زمانہ بظاہر تاریک ہوتا ہے لیکن بالقوہ اس کے اندر قدرت خدا وندی پائی جاتی ہے گویا لیلۃ القدر ایک جہت سے رات ہے اور ایک جہت سے دن سے بھی زیادہ شاندار ہے ۔وہ اظہار قدرت کا وقت بھی ہے اور وہ تاریک وقت بھی ہے۔دنیا کی نگاہوں میں وہ تاریکی کی انتہا کو ظاہر کرنے والا وقت ہے اور خدا تعالی کی نظر میں وہ آئندہ آنے والی عظیم الشان روشنی کے لئے ایک بیج کا کام دے رہی ہے گویا اس رات کی مشابہت رحم مادر کے ساتھ ہیجبکہ اس کے اندر نطفہ پڑ چکا ہو تا ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہییخلقم فی بطون امھا تکم خلقا من بعد خلق فی ظلمت ثلاث ذالکم اللہ ربکم لہ الملک (سورہ زمر۱ع۱۵)یعنی خد اتعالی تمہاری مائوں کے پیٹ میں درجہ بدرجہ تین قسم کی ظلمتوں میں سے گذارتے ہوئے تمہیں پیدا کرتا ہے جس کے بعد تم ایک مکمل انسان بن جاتے ہو ۔تمہارا رب ایسا ہے سب اختیا ر اسی کے قبضہ میں ہے ۔پس جس طرح رحم مادر جس کے اندر نطفہ ٹہر گیا ہو ایک تاریک کوٹھڑی کی طرح ہوتا ہے اس میں انسانی پیدائش کی بنیاد رکھی جاتی ہے ۔اسی طرح لیلۃ القدر رحم مادر کی طرح بظاہر تاریک ہے لیکن قوم اور نسل کی پیدائش کی بنیا د اس میں رکھی جاتی ہے۔
تیسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو لیلۃ القدر میں نازل کیا گیا ہے یعنی اس زمانہ میں پیدا کیا گیا ہے جس میں لوگ اللہ تعالی سے دور چلے جاتے ہیں اور آسمانی نور با لکل کھینچ لیا جاتا ہے اور اللہ تعالی کے فضلوں سے انسان محروم رہ جاتا ہے۔یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالی کا کوئی خاص بندہ نازل ہوتا ہے جو دوبارہ دنیا کو روشنی اور ہدایت کی طرف لاتا ہے ۔یہی رات نبی کی سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہوتا ہے۔ اگر دنیا پر تاریک راحانی رات نہ آئی ہو تو اللہ تعالی کی طرف سے اصلاحی نبی نہیں آیا کرتا۔
انبیاء کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک تعمیری اور ایک اصلاحی۔تعمیری انبیاء ہو ہوتے ہیں جو عقائد یا مسائل مہمہ میں خرابی کے وقت نازل ہوتے ہیں اور ایک نئے دین کی تعمیر کرتے ہیں یا ایک نئی تشریع کی بنیاد رکھتے ہیںاور اصلاحی وہ جو بغیر خرابی کے وقوع کے نبی کے کام کو جاری رکھنے کیلئے آتے ہیں ۔تعمیری نبی ایسے ہیں جیسے حضرت موسیٰؑ۔حضرت مسیحؑ۔ اور آنحضرت صعلم کہ یہ اس وقت آئے جب شرائع مٹ چکی تھیں یا ان کے معنے لوگوں کی نظروں سے غائب ہو چکے تھے۔اور اصلاحی نبی ایسے ہیں جیسے کہ حضرت ابراہیمؑ کے بعد اسحاقؑ ان کے بعد یعقوبؑ ان کے بعد یوسفؑ۔ان نبیوں کے وقت میں کوئی خرابی پیدا نہ ہوئی تھی جسے مٹانے اور پھر شریوت کو قائم کرنے کے لئے وہ آئے ہوںبلکہ ان کی بعثت کی غرض صرف یہ تھی کہ تعلیم الٰہی جو آچکی تھی اسے اپنے عمل اور نگرانی سے وہ مزید راسخ کریں یا جو اب تک نہیں مانے ان میں پھیلائیں ۔اصل میں تو یہ دونوں قسم کے نبی ایک نسبتی رات کے وقت میں ظاہر ہوتے ہیں لیکن تعمیری نبیوں کے زمانہ کی تاریکی ظاہر وباہر ہوتی ہے اور اسکا کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یر جعون(سورہ روم۵ع۸آیت۴۲)یعنی یقینا خشکی اور تری میں یعنی نبیوں کو ماننے والی اور نہ ماننے والی قوموں میں فساد ظاہر ہو چکا ہے اور یہ سب کچھ انسانوں کے اعمال سے ہوا ہے۔یعنی خدا تعالی کا کلام چھوڑ دینے کی وجہ سے یہ حالت پیدا ہوئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالی انسانوں کے بعض اعمال کی سزا جن کی سزا اس دنیا میں مقدر ہے ان کو یہاں دے گا تا اس عذاب کی وجہ سے ان کے دل میں توبی کی طرف توجہ پیدا ہو اور وہ دوبارہ خدا تعالی کی طرف رجوع کریں۔
اللہ تعالی اسی تاریکی کی حالت کی طرف اشارہ کر کے اس آیت میں فرماتا ہے انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ کو یقینالیلۃ القدر میں مبعو ث فرمایا یعنی ایسی روحانی رات میں جو تقاضا کرتی ہے کہ اس میں کوئی رسول نازل کیا جائے جو لوگوں کی اصلاح کرے اور انہیں تاریکی سے نکالے۔اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم میں رسول اللہ ﷺ کی نسبت آتا ہے یا اھل الکتاب قد جاء کم رسولنا یبین لکم کثیرامما کنتم تخفون من الکتاب ویعفواعن کثیر قد جاء کم من اللہ نور وکتاب مبینoیھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام و یخرجھم من الظلمت الی النور باذنہ و یھدیہم الی صراط مستقیم (مائدہ۳ ع ۷ آیت ۱۷) یعنی اے اہل کتاب ہمارا رسول تمہارے پاس اس لئے آیا ہے کہ بہت سے انوار بائبل کے جو تمہاری بد عملیوں کی وجہ سے ظاہر نہ ہوسکتے تھے تم پر دوبارہ ظاہر کرے اور تمہاری کمزوریوں سے در گذر کرے سنو!تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی رسول) اور سب باتیں کھول کر بیان کرنے والی ایک کتاب آئی ہے ان میں سے ہر ایک کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انہیں جو ا س کی با ت پر چلتے ہیں سلامتی کے راستوں کی طرف ہدایت بخشتا ہے اور اللہ کا رسول اللہ کے حکم سے انہیں جو اس کی بات مانتے ہیں موجودہ ظلمت سے نکال کر خاص نور کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی طرف لے جاتا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ کا زمانہ تاریکی کا زمانہ تھا یعنی ایک روحانی رات تھی اور ایسے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کو نازل کرکے بنی نوع انسان کو پھر سے سلامتی کی راہیں دکھائیں اور ترقیات کے راستے ان کے لئے کھولے۔ پس انا انزلنہ فی لیلۃ القدرمیں ہُ کی ضمیر محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف بھی جا سکتی ہے اور اس کا قرینہ بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ جس طرح سورۃ العلق میں جو اس سے سے پہلی سورۃ ہے اقرأ کے الفاظ سے قرآن کریم کو پیش کیا گیا تھا اسی طرح اس میں رسول کریم ﷺ کا بھی ذکر تھا۔ چنانچہ اس سورۃ کی مندرجہ ذیل آیت میں آپؐ ہی کا ذکر ہے۔ ارء یت الذی ینھی عبدا اذا صلییعنی تو مجھے اس شخص کا حال تو بتا جو ایک ’’ عظیم الشان بندہ ‘‘ کو جب وہ نمازپڑھتا ہے نماز پڑھنے سے روکتا ہے۔ پس جس طرح انا انزلنہ میں قرآن کریم کی طرف ضمیر کی جاسکتی ہے جیسا کہ پہلے بیان کردہ معنوں میں میں نے اس طرف ضمیر پھیر ی ہے اسی طرح انزلناہُ کی ضمیر ارائیت کی تاء کی طرف اور عبدا کی طرف بھی جا سکتی ہے۔ پس اس آیت کے دوسرے معنے یہ بھی ہیں کہ ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ کو لیلۃ القدر میں اتارا ہے۔
جیسا کہ اوپر بتا چکا ہوں تمام انبیاء کبار اسی زمانہ میں نازل ہوتے ہیں جب دنیا تاریکی اور ظلمت کا دور دورہ ہوتا ہے اور ایسے وقت میں اگرخدا تعالیٰ کی طرف سے نبی نہ آئے تو یقینا لوگوں کے دلوں میں خدا تعالی کی ہستی کے بارہ میں شبہ پیدا ہوگا قرآن کریم بار بار اس دلیل کو پیش کرتا ہے کہ ضرورت کے موقعہ پر اللہ تعالی کی طرف سے کلام نازل ہوتا ہے ۔چنانچہ سورہ یٰس میں آتا ہے وایۃ لھم الارض المیتۃ احیینھا واخرجنا منھا حبا فمنہ یا کلون(یٰس ۳ع۱آیت۳۴) یعنی تمہارے لئے مردہ زمین میں ایک نشان ہے خداتعالی اسے زندہ کرتا ہے اور پھر اس میں سے دانے نکالتا ہے جس میں سے تم کھاتے ہو ۔یعنی جب بھی زمین مردہ ہو جاتی ہے ذخائر کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے خدا تعالی ہمیشہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور زمین کو دوبارہ زندہ کر دیتا ہے یعنی کیا کفار یہ خیال نہیں کرتے کہ خدا جو انکی دنیوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے وہ انکی روحانی ضرورتوں کو پورا نہ کرے گا اور بوقت ضرورت نبی نہ بھیجے گا ۔اسی سورۃ میں آگے چل کر فرماتا ہے اللہ الذی یرسل الریاح فتثیر سحابا فیبسطہ فی السماء کیف یشاء و یجعلہ کسفا فتری الودق یخرج من خللہ فاذ ا اصاب بہ من یشاء من عبادہ اذا ھم یستبشرونO و ان کانوا من قبل ان ینزل علیھم من قبلہ لمبسلینO فانظر الی اثر رحمت اللہ کیف یحی الارض بعد موتھا ان ذالک لمحی الموتی وھو علی کل شی ء قدیرO(روم ۵ع۸ آیت ۴۹ تا ۵۱) یعنی اللہ ہی ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے پھر وہ بادلوں کو اٹھاتی ہیں پھر ان بادلوں کو جس طرح چاہتا ہے پھیلاتا ہے (یعنی ہر ملک کیلئے ہوائوں کے الگ الگ رخ مقرر ہیں جن کے مطابق بادل پھسل جاتے ہیں ) پھر جب ان بادلوں کو اپنے جن بندوں تک چاہتا ہے پہنچاتا ہے تو وہ اچانک (بعد مایوسی کے) خوش ہوجاتے ہیں اور گووہ بہت عرصہ سے اس بارش کے نزول سے ناامید ہوچکے تھے۔ پس تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار کو دیکھ کس طرح وہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کردیتا ہے یہی خدا مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قدر ہے۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ یہاں تو مردوں کو زندہ کرنے کا ذکر ہے کیونکہ گمراہوں کو ہدایت بخشنا یا دینی علوم سے ناواقفوں کو علوم الٰہی کی خبر دینا بھی مردہ زندہ کرنا کہلاتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کی نسبت آتا ہے یاایھاالذین امنوا استجیبوا للہ و للرسول اذا دعاکم لما یحییکم (الانفال ۳ع۷ آیت:۲۵) یعنی اے مومنو! جب خدا اور اس کا رسول تم کو بلائیں تو ان کی بات مانا کرو کیونکہ تم مردہ ہووہ تم کو زندہ کرنے کیلئے بلاتے ہیں اور تمہارا اپنا فائدہ اس میں ہے کہ تم ان کی آواز سنو۔ انہی مروں کی نسبت یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ تاریکی میں پڑے ہوئے ہیں۔ یعنی ان پر رات طاری ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے الذین کذبوا بایتناصم و بکم فی الظلمت من یشاء اللہ یضللہ ومن یشاء یجعلہ علی صراط مستقیم (انعام ۴ع۱۰ آیت: ۴۰) یعنی وہ لوگ جو ہمارے نشانوں کا انکار کرتے ہیںبہرے اور گونگے ہیں اور اندھیروں میںپڑے ہوئے ہیں۔ خداتعالیٰ جس کی نسبت چاہتا ہے گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے اور جس کی نسبت چاہتا ہے اسے سیدھے راستہ پر ڈال دیتا ہے۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ کی نسبت فرماتاہے یخرجھم من الظلمت الی النور (مائدہ ۳ع۷ آیت: ۱۷) یعنی یہ رسول لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے۔
مذکورہ بالاآیات سے ظاہر و ثابت ہے کہ جب بھی دنیا پر روحانی تاریکی چھاجاتی ہے اور لوگ روحانی طور پر مر جاتے ہیںاللہ تعالی کی طرف سے ایک رسول ضرور مبعوث ہوتا ہے ۔پس ان معنوں کی رو سے محمد رسول اللہﷺ کے زمانہ مین جو شدید ترین تاریکی کا زمانہ تھا ایک نبی کا مبعوث ہونا ضروری تھا اور آپکا دعویٰ بالکل مناسب وقت پر تھا ۔دنیا پیاسی ہورہی تھی اسے آسمانی پانی کی ضرورت تھی اس پر موت طاری تھی اسے ایک زندہ کرنے والی ہستی کی احتیاج تھی ۔دنیا پر ایک تاریک رات تاری تھی اسے ایک راحانی سورج کی ضرورت تھی جو رات کی ظلمت کو دور کرے اور اسے ایمان کی روشنی بخشے۔اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ایک دوسری آیت میں محمد رسول اللہ ﷺ کو سراجامنیرا(سورہ احزاب ۶ع۳)قرار دیا ہے ۔غرض یہ فرمایا کہ ہم نے محمد رسول اللہﷺکو لیلۃالقدر میں نازل فرمایا ہے آپ کی صداقت کی ایک ایسی زبردست دلیل دی گئی ہے جس کا کوئی مذہب انکار نہیں کر سکتا ۔کونسا مذہب ہے جو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ دنیا پر جب جب بھی ظلمت اور تاریکی کا دورہ آتا ہے خدا تعالی کی طرف سے ایک مامور اسے روشنی بخشنے کے لئے ضرور اس زمانہ میں مبعوث ہو تا ہے ۔بائبل بھی اس پر متفق ہے۔مسیح کیوں آیا؟اسی لئے کہ بنی اسرائیل پر ایک رات طاری ہو گئی تھی۔ہندو مذہب کرشن جی کی دوبارہ بعثت کا کیوں امید وار ہے؟ اس لئے کہ وہ زمانہ کلجگ کا ہو گا ۔بدھ مت اور زردشت مذہب بھی اسی امر کے مدعی ہیں کہ جب جب تاریکی کا زمانہ دنیا میں آئے گا خدا تعالی کے مامور بھی ظاہر ہوتے رہیں گے۔پھر کس طرح ہو سکتا تھا کہ سب سے زیادہ تاریک زمانہ جس میںمحمد رسول اللہﷺکی بعثت کے وقت دنیا گذر رہی تھی اس میں کوئی مامور مبعوث نہ ہوتا ۔اگر ایسا ہوتا تو سب مذاہب جھوٹے ثابت ہو جاتے۔خدا تعالی کا وجود ایک واہمہ بن کر رہ جاتا۔پس انا انزلنہ فی لیلۃالقدرکی آیت محمد رسول اللہ ﷺکی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہے ۔اس تاریک رات کو روشن کرنے کے کئے محمد رسول اللہ ﷺ کے سوا اور کون آیا ؟اگر محمد رسول اللہ ﷺ کا دعویٰ نعوذ باللہ جھوٹا تھا تو پھر سب مذاہب ہی جھوٹے ہوئے کہ جو ا س امر پر متفق ہیں کہ تاریکی اور ظلمت کے وقت کے لمبا ہو جانیکی صورت میں ضرور خدا تعالی کا روحانی سورج چڑھتا ہے جس طرح جسمانی رات کے بعد خدا تعالی کا جسمانی سورج چڑھتا ہے۔
اس جگہ ایک لطیف یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ مسیحی مصنف جب رسول کریم ﷺ کا ذکر کرتے ہیں تو آپکی کامیابی کی یہ دلیل دیا کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک ایسے زمانے میں آئے تھے جب سارے مذاہب بگڑ چکے تھے اس لئے آپکی تعلیم کامیاب ہو گئی۔انہیں یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ ہم اس دلیل خود محمد رسول اللہﷺکی صداقت کا ثبوت بہم پہنچا رہے ہیں۔اگر اس زمانہ میں سارے مذاہب بگڑ چکے تھے اور اس وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ کو ایک طرف عیسائیوں اور دوسری طرف ایرانیوں پر غلبہ حاصل ہو گیا تو سوال یہ ہے کہ ایسے ہی زمانہ میں تو خدا تعالی کے رسول آیا کرتے ہیں ۔اگر وہ زمانہ واقعہ میں ایسا تھا کہ دنیا کے مذاہب بگڑ چکے تھے اور لوگ اپنے مذاہب کی تعلیمات سے دور جا چکے تھے تو اس سے رسول کریمﷺ کے دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے یا تکذیب ؟کیا نبی دنیا میں ایسے زمانہ میں بھی آیا کرتا ہے جب سارے لوگ راستی اور صداقت پر قائم ہوں اور وہ نیک اور با اخلاق ہوں۔کیا مسیح ؑکی کامیابی کی وجہ یہ نہ تھی کہ لوگ بگڑ چکے تھے اور وہ نیکی اور تقوی ٰ کو ترک کر چکے تھے اس لئے صداقت جھوٹ پر غالب آگئی؟کیا موسی ؑ کی کامیابی کی یہی وجہ نہیں تھی ؟کیا کرشنؑ اور رام چندرؑاور زرتشتؑ اور بدھ کی کامیابی کی یہی وجہ نہیں تھی بلکہ ان کے نزول کی یہی وجہ تھی۔ اگر اس وجہ سے کسی نبی کا جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ کوئی نبی بھی ایسے زمانہ میں نہیں آتا جب لوگ درست حالت میں ہوں۔ہمیشہ ہی بد اخلاقی ،بے ایمانی اور گندگی کے پھیل جانے کی صورت میں ہی نبی آیا کرتے ہیں۔
چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺاور قرآن کریم کو لیلۃالقدر میں اتارتے رہتے ہیں یعنی نہ صرف قرآن کا پہلا نزول ایک تاریک زمانہ میں ہو ا ہے بلکہ آئندہ بھی جب دنیا میں تاریکی کا زمانہ آئے گا قرآن کریم اور محمد رسول اللہﷺ دوبارہ دنیا میں اتریں گے اور پھر بنی نوع انسان کی راہنمائی اور ہدایت کا موجب ہونگے۔یعنی ایسا زمانہ کوئی نہ آئے گا کہ دنیا میں خرا بی ہواور قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلعم اس کی ہدا یت کا موجب نہ ہو سکیں اور کسی نئی شریعت کی ضرورت پیش آجائے بلکہ جب کبھی قرآن کا نور دنیا سے مٹنے لگے گا اور محمد رسول اللہﷺ کی روشنی پر پردہ پڑ جائے گا خدا تعالی دوبارہ محمد رسول اللہ ﷺ کے مثیل روحانی وجودوں کو دنیا میں مبعوث فرمائے گا جو محمد رسول اللہ ﷺکے نور کو بھی ظاہر کریں گے اور قرآن کریم کی تعلیم کو بھی دوبارہ روشن کر دیں گے اور ثابت کر دیں گے کہ خرابی نہ قرآن میں تھی نہ محمد رسول اللہ ﷺ میں تھی بلکہ بنی نوع انسان کے فہموں میں خرابی تھی کہ وہ قرآن کے معنی سمجھنے سے قاصر ہو گئے تھے یا ان کے دلوں میں خرابی تھی کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا نور اپنے اندر لینے سے محروم ہو گئے تھے۔
دوسر جگہ قرآن کریم میں اللہ تعا لی فرماتا ہیھو الذی بعث فی الا میین رسولا منھم یتلو اعلیھم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃوان کانو من قبل لفی ضلال مبین oواخرین منھم لما یلحقو ابھم وھوالعزیز الحکیمo(سورہ جمعہ۱ع۱۱)ان آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے محمد رسول اللہﷺکواس زمانہ میں بھی نازل فرمایا تھا جس زمانہ میں آپکی جسمانی بعثت ہوئی تھی اور آئندہ پھر اس زمانہ میں بھی نازل فرمائے گا جبکہ ایسے ہی حالات پیدا ہو جائیں گے یعنی اللہ تعالہ آپکا ایک مثیل ظاہر فرمائے گا جو آپکی نیابت میں دنیا کو پھر اسلام کی طرف واپس لائے گا اور اسلام کی شوکت کو دنیا میں قائم کرے گا ۔اسی زمانہ کے متعلق رسول کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم بھی آسمان پر اٹھ جائے گا اور وہ موعود پھر قرآن کو واپس لائے گا ۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں لا یبقی من الاسلام الا اسمہ ولا یبقی من ال قران الا رسمہ(مشکوۃ کتاب العلم صفحہ۳۸)قرآن کریم کا صرف نام اور اس کے الفاظ باقی رہ جائیں گے پس وہ موعودپھر قرآن کو آسمان سے واپس لائے گا اور قرآن اپنے کامل علوم اور معرفت سمیت پھر دنیا میں آجائے گا اور یہی نہ ہوگا کہ دنیا کے پاس فقط اس کا نام اور نشان باقی ہو ۔خود اس سورۃ میں بھی اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔چنانچہ آگے چل کر بیان فرمایا گیا ہے تنزل الملئکۃ والروح فیھا جو ایک استمرار کا صیغہ ہے یعنی ایسی لیلۃالقدر کی راتیں کئی آنے والی ہیں اور ان میں خدا تعالی کے ملائکہ اور روح اترا کریں گے۔پس جب لیلۃالقدر کئی آنے والی ہیں اور ان میں ملائکہ اور روح اترنے والے ہیں تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آیت زیر تفسیر میں انزلناکے معنے صرف ماضی کے نہیں بلکہ مستقبل کے بھی ہیں اور قرآن کریم میں ماضی بمعنے مستقبل کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔
میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ اس آیت میں رسول اللہﷺ کے کامل بروزوں کی طرف اشارہ ہے ۔لیکن ناقص بروز بھی بروز ہی ہوتا ہے اس لئے یہ آیت ناقص بروزوں کے متعلق اشارہ کرتی ہے یعنی ایسے زمانہ کے مصلحین کی نسبت بھی جبکہ کامل تاریکی تو نہیں آئے گی لیکن ایک نئی زندگی کی ضرورت انسان کو محسوس ہو گی ۔حدیثوں میں آتا ہے کہ ہر صدی کے سر پر دنیا کو ایک ہوشیار کرنے والے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالی ہر صدی کے سر پر مجددبھیجتا رہے گا ۔ان مجددوں کے متعلق بھی ا س آیت میں پیشگوئی موجود ہے کیونکہ وہ بھی جزوی طور پر محمد رسول اللہ و کے قائم مقام ہوتے ہیں اور ایک جزوی تاریک رات میں ان کا ظہور ہوتا ہے۔
پانچویں معنے ا س آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن لیلۃالقدر کی بزرگی میں نازل فرمایا ہے۔ان معنوں کی رو سے فیکے معنے متعلق کے ہونگے۔یعنی یہ معنے نہیں ہونگے کہ لیلۃالقدر میں قرآن نازل ہوا ہے بلکہ یہ معنے ہونگے کہ لیلۃ القدر کے بارہ میں قرآں کریم نازل ہوا ہے۔بالعموم مفسرین نے یہی معنے لئے ہیں اور وہ اس آیت کے یہ معنے کرتے ہیں کہ قرآن کریم اس لیلۃالقدر کی جو رمضان کے آخر میں آتی ہے ۔بڑائی اور بزرگی بیان کرتا ہے ۔اگر آیت کے یہ معنے کئے جائیں تو سوال پیدا ہوگا کہ وہ لیلۃالقد ر جسکی طرف اس سورۃ میں توجہ دلائی گئی ہے کیا چیز ہے؟مفسرین کا خیال ہے کہ لیلۃالقدر سے مراد اس جگی رمضان کی راتوں میں سے وہ رات ہے جس کا رسول کریم ﷺ کی احادیث میں متعدد جگہ پر ذکر آتا ہے۔امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ قال لما حضر رمضان قال رسول اللہ ﷺ قد جاء کم شھر رمضان شھر مبارک افترض اللہ علیکم صیامہ تفتح فیہ ابواب الجنۃ وتغلق فیہ ابوب الجحیم وقفل فیہ الشیاطین فیہ لیلۃ خیر من الف شھر من غرم خیرھا فیہ فقد حرمیعنی اے لوگو !رمضان کا مہینہ آگیا ہے یہ مبارک مہینہ ہے اللہ تعالی نے تم پر اس مہینہ کے روزے تم پر فرض کئے ہیں ۔اس مہینہ میں جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں (یعنی نیکیوں کی زیادتی ہو جاتی ہے اور مومن روزوں کے اثر کی وجہ سے گناہوں سے بہت اجتناب کرنے لگتے ہیں)اور شیطانوں کو اس مہینہ میں بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں (یعنی جو مسلمان بدیوں کے ارتکاب کے عادی ہو جاتے ہیں وہ بھی اپنے بھائیوں کی قربانیوں کو دیکھ کر احتیاط کرنے لگ جاتے ہیں)اس مہینہ میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینہ سے بہتر ہے جو رمضان میں بھی اس رات کی برکات سے محروم رہے وہ بڑا محروم آدمی ہے۔
نسائی نے بھی ابوایوب انصاریؓ سی اسی مضمون کی روایت نقل کی ہے بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ سے روایت ہے ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من قام لیلۃالقدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہیعنی جو شخص لیلۃالقدر کو خوب جاگے اور عبادت کرے اور یہ اسکی عبادت رسماً یا ریا کے طور پر نہ ہو بلکہ ایمان اور خدا تعالی سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے ہو تو اس کے سب گناہ جو وہ پہلے کر چکا ہے معاف ہو جاتے ہیں۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے رمضان کی ایک رات کا نام لیلۃالقدر رکھا ہے اور اسکی نسبت ایسی صفات بیان فرمائی ہیں جو قرآن کریم کی بیان کردہ لیلۃالقدر سے ملتی ہیں ۔مثلا ًاس کا ہزار مہینوں سے اچھا ہونا یا گناہوں کی بخشش کی صورت میں سلامتی لانا ۔یہ تشابہ ضرور اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ اس سورۃ میں جس لیلۃالقدر کا ذکر ہے اسی کا ذکر احادیث میں ہے یا کم سے کم یہ کہ لیلۃالقدر کی طرف بھی اس سورۃ میں اشارہ ہے۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عقل اور انصاف کے مطابق ہے کہ ایک رات کو جو دوسری راتوں کی طرح ایک رات ہے ایسی برکات کا موجب سمجھ لیا جائے اور کیا یہ انصاف کی بات ہے کہ اس ایک رات میں عبادت کرنے والا سب گذشتہ گناہوں سے نجات پا جائے ۔کیا اس سے نیک اعمال سے استغنا ء پیدا نہیں ہوتا ؟
اس شبہ کا یہ جواب ہے کہ اگر صرف یہ کہہ دیا جائے کہ فلاں رات میں عبادت کرلو تما م گناہ بخشے جائیں گے تو یہ بات ضرور خلاف عقل اور قوم میں وہم پیدا کرنے والی ہے ۔لیکن لیلۃالقدر کے ساتھ جو شرائط اور جو امور وابستہ ہیں ان کے ہوتے ہوئے یہ شبہ درست نہیں رہتا ۔یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے بلکہ انسانی دماغ کی اہم خصوصیتوں میں سے ہے کہ خیالات کا انتقالAssocation of idiasانسانی اعمال پر ایک ہی گہرا اثر رکھتا ہے ۔ایک انسان اپنے عزیز کی قبر پر جاتا ہے تو گو اس کے سامنے صرف مٹی کا ڈھیر ہوتا ہے مگر اس پر رقت طاری ہوجاتی ہے کیونکہ قبر اسے اپنے عزیز کی یاد دلاتی ہے اور اس یاد کے ساتھ ہی حافظہ ان تعلقات کو سامنے لا کھڑا کرتا ہے جو اس مرحوم کی زندگی میں اس کے اور اس عزیز کے درمیان تھے ایک ایک کر کے واقعات اس کے حافظہ میں تازہ ہونے شروع ہو تے ہیںاور اسکے ساتھ یہ احساس مل کر کہ اب وہ باتیں پھر نہیں ہو سکتیں اس کے دل کی کیا کیفیت عجیب قسم کی یوجاتی ہے حلانکہ اس عزیز کی موت کوئی نیا واقعہ نہیں ہوتا اور نہ گذشتہ واقعات کوئی نیا علم پیدا کرتے ہیں مگر وہی پرانی قبراور پرانے واقعات قبر کو دیکھ کر مردہ جذبات کو زندہ کر دیتے ہیں اور سوئے ہوئے احساسات کو جگا دیتے ہیں۔اس طرح لوگ پیدائش کے دن مناتے ہیں ،شادی کے دن مناتے ہیں اس لئے کہ گو شادی اور پیدائش کا علم تو ہر روز ہی ہوتا ہے خاص دنوں میں ان کا علم نیا نہیں ہوتا پیدا ہوتا لیکن انتقال خیالات کا بہترین موقعہ وہی دن پیدا کرتا ہے جس دن کوئی پیدا ہوا ہوتا ہے یا جس دن ایک جوڑے کی شادی ہوئی ہوتی ہے۔اسی حکمت کو مد نظر رکھتے ہوئے رمضان کے مہینہ میں جس میں قرآن کریم جیسی اہم اور ہدایت دینے والی کتاب نازل ہونی شروع ہوئی تھی۔اگر ایک رات اسکی یاد تازہ کرنے کے لئے مقرر ہو جائے اور اللہ تعالی فیصلہ فرمائے کہ چونکہ اس مہینہ میں ہم نے بنی نوع انسان سے ایک نیا عہد باندھا تھا دائمی اور نہ فراموش ہونے والا عہد ۔اس لئے مومنوں کے دلوں میں اس کی یاد تازہ رکھنے کے لئے اور اس بات کا ثبوت مہیا کرنے کے لئے کہ ہم اب تک اس عہدپر قائم ہیں ہم اس مہینہ کی ایک رات کو دعائوں کی قبولیت کے لحاظ سے خاص فضیلت اور برتری بخشتے ہیں تو اس میں کیا حرج کی بات ہے یہ تو عین صواب ہے۔
خداتعالیٰ نے ابراہیم سے ایک عہد باندھا اور اس کی ظاہری علامت کے طور پر ختنہ مقرر فرمایا۔ صرف ایک جسمانی علامت جس سے روحانیت کا کوئی بھی تعلق نہیں۔ ایک حفظان صحت کا اصول، ایک بدنی صفائی کا نشان۔ یہود نے اسے قائم رکھا مگر مسیحیوںنے اسے بھلادیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر نسل ابراہیم اس عہد کو ختنہ کے ذریعہ سے دہراتی چلی آئی ہے تو خداتعالیٰ نے اپنے عہد کو کس طرح دہرایا؟ تورات اس پر بالکل خاموش ہے ۔ فرض کرلو کہ خدا کا یہ عہد تھا کہ کنعان کا ملک ہمیشہ بنو ابراہیم کے پاس رہے گا تو یہ بھی تو نہ ہوا۔ کیونکہ بائبل کے ماننے والوں کے نزدیک ابراہیمی وعدوں کے حقدار صرف بنو اسحق تھے۔ مگر بنو اسحق تو تیرہ سو سال سے اس ملک کی حکومت سے محروم ہیں۔ آخر خداتعالیٰ نے اپنا عہد کیوں بھلادیا۔ مسیحیوں نے بے شک ختنہ چھوڑ دیا لیکن یہود نے تو ختنہ نہیں چھوڑا تھا ان کو کیوں اللہ تعالیٰ نے بھلادیا۔ عہد کے زندہ اور قائم ہونے کی تو یہی علامت ہوسکتی ہے کہ دنوں طرف سے اس کے قائم ہونے کا اعلان ہوتا رہے۔ مگر بائبل کے عہد کا تو یہ حال ہے کہ یہود اب تک ختنہ کرتے چلے آتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ اس باہمی عہد کے اپنے حصہ کو ادا کرنے کا نام نہیں لیتا۔
خداتعالیٰ نے مسلمانوں سے بھی ایک عہد باندھا اور اس کی علامت رمضان کے روزے مقرر فرمائے۔ اس عہد کے مقابل پر مسلمانوں سے بھی ایک عہد اللہ تعالیٰ نے باندھا اور اس عہد کا اعلان رمضان کے مہینہ میں ہوا۔ اس عہد کی علامت ختنہ کو نہیں مقرر کیا گیا کیونکہ ختنہ تو عرب پہلے ہی ابراہیم کی یاد میں کرتے چلے آتے تھے۔ بلکہ اس عہد کی علامت مومنوں کیلئے مقرر کی گئی کہ وہ اس سارے مہینہ کے روزے رکھیں جس میں خداتعالیٰ نے ان سے عہد باندھا تھا اس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ نے بھی اس عہد کے نباہنے کی ایک علامت اپنے لئے مقرر فرمائی اور وہ یہ کہ جب تم رمضان کا مہینہ اس عہد کی یاد میں روزوں میں گزاروں گے تو میں اس کے جواب میں رمضان کی آخری راتوں میں سے ایک رات تمہارے لئے آسمان سے اتروں گا۔ اور اعلان کروں گا کہ اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبوالی والیومنوا بی لعلھم یرشدون (بقرہ ۲۳ع۷) یعنی بندوں کی طرف سے جب اس عہد کی یاد گار رمضان کی صورت میں منائی جائے گی تو میں بھی اس عہد کی یادگار لیلۃ القدر کی صورت میں منائوں گا۔ آسمان سے اپنے بندوں کیلئے اتروں گا اور اعلان کروں گا کہ مانگو تو تمہیں دیا جائے گا، ایمان لائو تو تمہیں ہدایت بخشی جائے گی کیونکہ تم میرے معاہد ہو۔ تم نے اپنے عہد کی رمضان سے یاد تازہ کی، میں اپنے عہد کی لیلۃ القدر سے یاد تازہ کرتاہوں۔ یہ کیسی مبارک علامت ہے۔ ختنہ بھی اچھی چیز ہے لیکن ایک مہینہ بھر خداتعالیٰ کیلئے روزے رکھنے یہ اس علامت نسبت کس قدر زیادہ شاندار اور کس قدر روحانیت کو زندہ کرنے کی علامت ہے۔ اس کے مقابل پر خداتعالی کا جواب بھی کیسا شاندار ہے۔ روپیہ نہیں، چاندی نہیں، ملک نہیں، دولت نہیں، وہ اپنے عہد کی یادگا رکے طور پر مسلمانوں سے لیلۃ القدر جیسی چیز کا وعدہ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ جب تم میرے آخری کلام کے نازل ہونے کی خوشی میں ہمیشہ رمضان کے مہینہ کے روزے رکھا کرو گے اور اس طرح اپنے عہد کو تازہ کرتے رہا کرو گے تو میں بھی تم سے لیلۃ القدر کے ذریعہ سے اپنا عہد تازہ کرتا رہوں گا۔ یعنی اس دن تم پر خاص فضل کیا کروں گا اور تمہاری دعائیں سنا کروں گا، تم کو نیا اور زندہ ایمان بخشا کروں گا تا تم کو معلوم ہوتا رہے کہ میں زندہ خدا ہوں اور اپنے عہد کی نگہداشت میں تم سے پیچھے نہیں ہو بلکہ تم سے زیادہ اپنے عہد کی نگہداشت کرنے والا ہوں۔
یہ دونوں نشان باہمی عہد کے تازہ رکھنے کے کیسے شاندار ہیں خداتعالیٰ کے مسلمانوں کیلئے عہد کا نشان روحانی مقرر کیا جبکہ بنو اسحق کیلئے عہد کا نشان جسمانی یعنی ختنہ تھا اور خداتعالیٰ نے اپنے لئے بھی مسلمانوں سے کئے ہوئے عہد کا نشان روحانی مقرر کیا یعنی لیلۃ القدر ۔ جبکہ بنو اسحق کے عہد کے مقابل میں خداتعالیٰ نے اپنے عہد کی نشانی جسمانی مقرر کی تھی۔ یعنی فلسطین کا یہود کے قبضہ میں رہنا۔ ساری عمر ایک ماہ کے روزے رکھنے کے مقابلہ ختنہ کا فعل کتنا چھوٹا ہے (پھر وہ فعل بھی مسلمان ابراہیم علیہ السلام کی یادگار کے طور پرکرتے چلے آتے ہیں) اور کنعان کی زمین لیلۃ القدر کے مقابلہ پر کتنی حقیر ہے۔ بلکہ وہ تو لیلۃ القدر کے ایک ایک سیکنڈ کے مقابل پر حقیر ہے (اور پھر لطف یہ کہ وہ زمین بھی اور پیشگوئیوں کے مطابق مسلمانوں ہی کو مل گئی ہے)۔
خلاصہ یہ کہ رمضان اور لیلۃ القدر محمدی عہد کی علامت ہیں اسی طرح جس طرح ختنہ اور فلسطین کی بادشاہت ابراہیمی عہد کی علامات ہیں۔رمضان بندوں کی طرف سے عہد وک تازہ رکھنے کا نشان ہے اور ہو عقلمند انسان ادنی تدبر سے معلوم کر سکتا ہے کہ مسلمانوں سے جو عہد خدا تعالی نے باندھا ہے اس کے نشان بہت شاندار ہیں اور روحانی ہیں اور زندہ خدا کی قدرتوں کا اظہار کرتے ہیں ۔کئی قومیں اپنے ملکوں میں ہزاروں سال سے بیٹھی ہیں اور یہ اس بات کی لازمی علامت نہیں کہ خدا تعالی ان کے ساتھ ہے مگر کسی قوم کو اگر لیلۃالقدر مل جائے ایسی رات جس سے خدا تعالی قریب آجائے جس میں خدا تعالی اپنے بندوں کی دعائیں سنے۔جس میں اللہ تعالی علی قدر مراتب اپنے بندوں پر اپنی مرضی ظاہر کرے تو یہ یقینا اس بات کا ثبوت ہو گا کہ خدا تعالی اس قوم سے خوش ہے اور اس سے اپنے عہد کو اس نے بھلایا نہیں۔
ایک اور بات بھی اسی سلسلہ میں یاد رکھنے والی ہے اور وہ یہ کہ خداتعالی نے ابراہیم سے ان کے دونوں بیٹوں کی نسبت عہد لیا تھا اور دونوں کو ختنہ کا پابند کیا تھا ۔بائبل کہتی ہے کہ اسحاقؑ کی اولاد کی نسبت اس نے کہا کہ میں کنعان کا ملک ہمیشہ کے لئے انہیں دوں گا ۔چنانچہ لکھا ہے ’’تب خدا تعالی نے کہا کہ بے شک تیری جورو سرہ تیرے لئے ایک بیٹا جنے گی تو ا سکا نام اسحاق رکھنا اور میں اس سے اور بعد اس کے اسکی اولاد سے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہے قائم کروں گا ‘‘(پیدائش باب۱۷۔آیت۱۹)اس جگہ عہد کے قیام سے مراد کنعان کے ملک پر دائمی قبضہ لیا جاتا ہے اور بائبل کے کئی مقامات سے اسکی تصدیق ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عہد بنو اسمعیل کے بارہ میں بھی تھا کیونکہ ختنہ کا حکم انہیں بھی دیا گیا تھا اور برکت کا وعدہ ان سے بھی تھا ۔چنانچہ لکھا ہے ’’جب اس کے بیٹے اسمعیل کا ختنہ ہوا وہ تیرہ برس کا تھا ‘‘(پیدا ئش باب ۱۷آیت۱۷)نیز لکھا ہے ابراہیم نے دعاکی’’اسمٰعیل تیرے حضور جیتا رہے‘‘(پیدائش باب ۱۷آیت۱۸) اس کے بعد لکھا ہے ’’اور اسمٰعیل کے حق میں میں نے تیری سنی دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروںگا اور اسے بہت بڑھائوں گا ‘‘(پیدا ئش باب ۱۷آیت ۲۰)پھر پیدا ئش ب۲۱ میں لکھا ہے ’’میں اس (اسمٰعیل ) کو ایک بڑی قوم بنائو ں گا ‘‘(آیت۱۸) ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ اسمٰعیل بھی وعدہ میں شامل تھا گو وہ اس وعدہ میں شامل نہ تھا جو کنعان کے قبضہ کے متعلق تھا کیونکہ وہ عہد اسحاق کی نسل کے ساتھ پورا ہونا تھا ۔
یہود ونصاریٰ کو یہ غلطی لگی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عہد صرف اسحاق کی اولاد سے تھا ۔اوپر کی عارتوں سے ظاہر ہے کہ عہد اسمٰعیل اور اسحاق دونوں سے تھا ۔پھر یہ غلطی بنو اسرائیل کو کس طرح لگی ؟اس کا جواب یہ ہے کہ ابراہیمی عہد کی دو شکلیں ہیں ایک مجمل اور ایک مفصل ۔مجمل عہد یہ تھا کہ میں تیری نسل کو برکت دوں گا اور نسل سے مراد اسمٰعیل اور اسحاق دونوں ہیں جیسا کہ اوپر کے حوالوں سے ظاہر ہے ۔مفصل عہد آگے دو حصوں میں تقسیم ہے ۔اسحاق کی نسبت یہ عہد تھا کہ کنعان کی حکومت اسے نسلا بعد نسل حاصل ہوگی ۔بائبل جو بنو اسحاق کی کتاب ہے لازما اس عہد کو یاد رکھنا تھا اس کتاب میں بنو اسمٰعیل کے عہد کا ذکر نہ ہونے کے یہ معنے نہیں کہ بنو اسمٰعیل سے کوئی عہد تھا ہی نہیں ۔کیونکہ بائبل مجمل عہد میں دونوں بیٹوں کو شریک کرتی ہے ۔اسحاق کی نسبت بھی ہے کہ میں اسے برکت دوں گا اور اس برکت کی تشریع یوں کی ہے کہ کنعان کا ملک نسلا بعد نسل اسے ملے گااور اسمٰعیل کی نسبت بھی کہا ہے کہ میں اسے برکت دوں گا ۔اب سوال یہ ہے کہ اسے کس رنگ میں برکت دی جائے گی ؟اس سوال کا جواب بائبل میں تلاش کرنا عبث ہے کیونکہ وہ تو اسرا ئیلی نسل کی تاریخ ہے اس کا جواب تو اسمٰعیلی نسل کی روایات سے معلوم کرنا چاہیئے یا اسمٰعیلی نسل کے انبیاء کے الہام سے کیونکہ اسمٰعیل کی نسبت تفصیلی عہد انہی کو معلوم ہو سکتا ہے۔سو ہم اسمٰعیل کی نسل کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں یہ رویت چلی آتی تھی کہ اسمٰعیل کو خدا تعالی نے مکہ مکرمہ مرکز کے طور پر دیا اور عرب رہائش کے لئے دیا جس پر وہ اسمٰعیل کے وقت سے قابض ہیں چنانچہ قرآن کریم میں جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا جو حضرت اسمٰعیل کی اولاد میں سے تھے اس تفصیلی عہد کا یوں ذکر ہے واذجعلنا البیت مثابۃ للناس وامنا وا تخذوا من مقام ابراہیم مصلی وعہدنا الی ابراہیم واسمعیل ان طھرا بیتی للطائفین والعکفین وارکع السجود واذقال ابراہیم رب اجعل ھذا بلدا امنا وارزق اھلہ من الثمرات من امن منہم باللہ والیوم الاخر قال ومن کفر فامتعہ قلیلا ثم اضطرہ الی عذاب الناروبئس المصیر(بقرہ ۱۵ع۱۵آیت ۱۲۶،۱۲۷)یعنی یاد کرا جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا مرجع بنایا اور امن کا موجب بنایا اور حکم دیا کہ ابراہیمؑ جیسا خلوص اپنی نمازوں اور عبادتوں میں پیدا کرو اور ابراہیمؑ اور اسمٰعیل کو تاکید کی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک رکھو اور جب ابراہیم نے بھی ہم سے دعا کی کہ میرے رب جس طرح تو نے اس مکان کو امن والا بنانے کا وعدہ کیا ہے میں تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو اس مکان کو امن دینے والا بھی بنا (اس طرح یہ خود ہی پر امن نہ ہو بلکہ دوسرے شہروں اور ملکوں کو بھی امن دینے والا ہو)اور اسکے باشندوں میں سے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہوںان کے ایمان کو تازہ کرنے کے لئے اسی وادی غیر ذی زرع میں ہر قسم کے تازہ بتازہ پھل بھی مہیا کرتا رہ۔اسپر اللہ تعالی نے فرمایا تمہاری دعا قبول کی گئی مگر اس اصلاح کے ساتھ کہ جو کافر ہونگے انہیں بھی ہم دنیوی انعامات سے محروم نہیں کریں گے ہاں بوجہ کفر انہیں اخروی عذاب ملے گا ۔یہ عہد کیسا لطیف عہد ہے اسمٰعیل سے اللہ تعالی نے ختنہ کے علاو ہ یہ عہد لیا کہ وہ اوراس کی اولاد خانہ کعبہ کی خدمت کرے اور خدائے واحد کی عبادت کے لئے ایک ایسی پاک عبادت گاہ تیار رکھے جس میں اللہ تعالیٰ کے بندے جمع ہو کر خدائے واحد کی تسبیح و تحمید کریں۔
ختنہ کا عہد تواسمٰعیل کے ساتھ بھی تھا مگر اس کے ساتھ کیا لطیف روحانی عہد بھی شامل کر دیا گیا اور اس کے جواب میں اپنی طرف سے عہد کا نشان یہ مقرر کیا کہ میں خانہ کعبہ اور اس کے گرد کا علاقہ ان کو دوں گا اور وہ ہمیشہ کے لئے امن میں رہیگا کوئی دشمن اسے فتح نہ کر سکے گا اور لوگ حج کے لئے سارے ملک سے (اور آخری زمانہ میں سب دنیا سے)وہاں آتے رہیں گے۔
یہ عہد کا نشان جو اسمٰعیل ؑ اور اسکی نسل سے ہوا کیسا شاندار ہے۔اسحٰق سے صرف دنیوی وعدہ تھا کہ کنعان کا ملک اسے اور اسکی اولاد کو ملے گا جو محض ایک سیاسی وعدہ تھا اور پھر اس ملک کو امن میں رکھنے کاکوئی وعدہ نہ تھا ۔چنانچہ کئی یروشلم اسرائیلی دین کے منکروں کے ہاتھو ں تباہ ہوا ۔لیکن اسمٰعیل سے یہ وعدہ کیا کہ اسے اور اسکی اولاد کو مکہ اور اسکے گرد ونواح پر تلوار کے ذریعہ سے نہیں بلکہ محبت اور حسن عقیدت کے ذریعہ سے حکومت بخشی جائے گی اور خدا تعالی ان کے مر کز کو ہمیشہ دشمن کے ہاتھ سے بجائے گا اور تمام علاقہ پر ان کی روحانی اور ظاہر ی حکومت ہو گی۔روحانی اس طرح کہ لوگ مکہ سے عقیدت رکھیں گے اور وہاں حج کے لئے آئیں گے اور ظاہری اس طرح کہ وہ ملک کے لئے مرکز امن بنا دیا جائے گا اور مکہ کے لوگوں کو سیاسی تصرف بھی اپنے گرد کے علاقہ پر دیا جائے گا ۔
ادنیٰ غور سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اسمٰعیل کا عہد اسحٰق کے عہد سے کہیں زیادہ شاندار ہے ۔اسحٰق اور اسکی اولاد نے جو عہد کا نشان اپنے لئے مقرر کر لیا وہ اسمٰعیل اور اسکی اولاد نے بھی اپنے لئے مقرر کیا یعنی ختنہ ۔لیکن اسکے علاوہ یہ نشان بھی اپنے عہد کا خدا تعالی کے حکم سے مقرر کیا کہ اسمٰعیل اور اسکی نسل خدا ئے واحد کی پرستش کو قائم رکھنے کے لئے جدوجہد کرتی رہے گی اور دنیا سے الگ ہو کر وادی غیر ذی زرع میں ذکر الٰہی کی شمع کو جلائے رکھنے کی ذمہ واری اپنے اوپر اٹھائے گی ۔اس کے مقابل پر اللہ تعالی نے جو اپنے لئے عہد کا نشان مقرر کیا وہ بھی بنو اسحٰق کے مقابل اتنا شاندار ہے ۔وہاں تو صرف یہ وعدہ تھا کہ کنعان پر انہیں حکومت ملے گی مگر یہاں یہ عہد بھی ہے کہ (۱)بنو اسمٰعیل کے مرکز کو ہمیشہ دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھا جائے گا(۲)بنو اسمٰعیل کو بھی مکہ کے گردوپیش پر حکومت ملے گی مگر وہ صرف سیا سی نہیں ہو گی بلکہ روحانی بھی ہو گی۔گویا بنو اسحٰق سے صرف ایک وعدہ تھا کہ کنعان پر انہیں حکومت ملے گی مگر بنو اسمٰعیل سے تین وعدے تھے یعنی مکہ کی حفاظت کا،عرب پر حکومتِ کل عرب پر روحانی اقتدار ہمیشہ قائم رہنے کا۔چونکہ یہ عہد بنو اسمٰعیل سے مخصوص تھا اس لئے لازما انہوں نے ہی اسے محفوظ رکھا۔جس طرح بنو اسحٰق نے اپنے عہد کو بائبل میں محفوظ رکھا۔یہ وہ لطیف نقطہ ہے جو خدا تعالی نے خاص طور پر مجھے سمجھایا ہے اور جس سے عہد ابراہیم کی نسبت وہ سب کشمکش جو بنو اسحٰق اور بنو اسمٰعیل میں چلی آتی ہے دور ہو جاتی ہے ۔یہ درست ہے کہ کنعان کا ملک خدا تعالی نے عہد ابراہیم کے مطابق بنو اسحٰق کو دیا تھا مگر یہ بھی درست ہے کہ ویسا ہی بلکہ اس سے شان میں بہت بڑھ کر عہد بنو اسمٰعیل سے کیا گیا تھا اور وہ بنو اسحٰق کے عہد سے بھی زیادہ شاندار طور پر پورا ہوا۔جیسا کہ آگے سورہ قریش اور سورہ فیل میں ان امور کی تفصیل آئے گی۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ابرا ہیمی عہد میں بنواسحٰق سے ہی کنعان کا وعدہ تھا تو پھر بنو اسمٰعیل کو یہ ملک کیوں ملااور سورہ انبیاء میں یہ پیشگوئی کیوں کی گئی ہے کہ یہ ملک مسلمانوں کو ملے گا جیسا کہ فرماتا ہے ولقد کتبنا فہ الزبور من بعد الذکر ان الارض یر ثھا عبادیے الصا لحون oان فی ھذالبلا غالقوم عبدین(الانبیاء۷ع۷آیت۱۰۶،۱۰۷)یعنی ہم زبور میں ذکر کے بعد لکھ چکے ہیں کہ کنعان کا ملک میرے نیک بندوں کو ملے گا ۔یہ بات ہم عبادت گذار قوم (یعنی مسلمانوں) کو توجہ دلانے کے لئے بیان کر رہے ہیں اور ان کا حق انہیں پہنچاتے ہیں یعنی جب جائز موقعہ آئے تم فلسطین پر حملہ کر دینا اللہ تعالی تمہیں فتح دے گا کیونکہ دائود ؑ نے یہ خبر دے رکھی ہے۔چنانچہ مسلمانوں نے اس اشارہ کو سمجھ لیا اور باوجود اسکے کہ قیصر کی حکومت دنیا کی سب سے طاقتور حکومت تھی چند مٹھی بھر آدمیوں کے ساتھ مسلمان جرنیل اس سے جا بڑھے اور اسے بری طرح شکست دے کر ملک پر قبضہ کر لیا ۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کنعان کے متعلق دو الگ الگ وعدے تھے ایک ابراہیم سے کہ یہ ملک بنو اسحٰق کو ملے گا اور ایک دائود ؑسے کہ یہ اس قوم کو ملے گا جو راستباز اور خدا تعالی کی عبادت گذار ہو گی۔حضرت دائود ؑ اور حضرت ابراہیمؑ کے ہزار بارہ سو سال بعد مبعوث ہوئے تھے ان کے زمانہ میں وہ وقت قریب آرہا تھا کہ بنو اسحٰق کا عہد ختم کیا جائے اس قوم کی قیامت قریب تھی اور اسکی ہلاکت کے راستے کھانے والے تھے اسلئے اللہ تعالی نے ایک اور پیشگوئی حضرت دائود سے کروادی جس میں یہ بتایا گیا کہ عہد ابراہیمی جو حضرت اسحٰق کی نسل سے پورا ہونا تھا اب ختم ہورہا ہے اب اسے نیا رنگ دے دیا جائے گا اور اب کنعان اسحٰق کی اولاد کی بجائے سچے دین کے متبعوں کے قبضے میں چلا جائے گا ۔سو مسلمانوں کا قبضہ فلسطین پر حضرت ابراہیم کی پیشگوئی کے ماتحت نہیں بلکہ حضرت دائود ؑکی پیشگوئی کے مطابق ہے ۔حضرت ابراہیم کے عہد کے مطابق تو ان کا قبضہ مکہ اور حجاز پر ہے اور دائود ؑکی پیشگوئی کے مطابق ان کا قبضہ کنعان یعنی فلسطین پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ کنعان پر مسلمانوں کے قبضہ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم نے حضرت ابراہیم ؑکی پیشگوئی کا حوالہ نہیں دیا بلکہ حضرت دائود کی پیشگوئی کا حوالہ دیا ہے۔حالانکہ حضرت دائودؑکی پیشگوئی حضرت ابراہیم ہی کی پیشگوئی کی تکرار ہوتی تو جو مقدم پیشگوئی تھی اس کا ذکر کرنا چاہیئے تھا اس سلسلہ میں یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ قرآن کریم اور احادیث کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دفعہ عارضی طور پر یہود کا غلبہ اس زمین میں پھر مقدر ہے جس کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں ۔
اب میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ کیا لیلۃالقدر کی کوئی معین رات ہے اور کیا یہ وہی رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔
یہ امر تو ثابت شدہ ہے کہ قرآن کریم رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا لیکن یہ امر واقعی طور پر ثابت نہیں کہ رمضان کی کس رات میں قرآن کریم کے نزول کی ابتداء ہوئی ۔بعض سترہ رمضان کو بتاتے ہیں بعض انیس رمضان کی ،بعض چوبیس رمضان کی قرار دیتے ہیں ۔غرض اس بارہ میں اس کے سوا کہ آخری پند رہ تاریخوںمیں سے کسی تاریخ قرآن کریم اترا تھا کہ کوئی یقینی بات ثابت نہیں ۔لیکن ہر رمضان میں جو لیلۃالقدر آتی ہے اس کے بارہ میں احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ آخری عشرہ میں سے اسی رات میں آتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیلۃالقدر سے مراد معین طور پر وہ رات نہیں جس میں قرآن کریم اترا بلکہ صرف ایک ایسی رات مراد ہے جو نزول قرآن کی یاد میں خدا تعالی نے بطور علامت مقرر فرمائی ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ جو رات بھی اللہ تعالی نے قرآن کریم کے نزول کی علامت کے طور پر مقدر کی ہے کیا وہ ایک معین رات ہے؟تو اسکا جواب یہ ہے کہ نہیں وہ بھی کوئی معین رات نہیں بلکہ رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں چکر لگاتی رہتی ہے۔اس رات کی نسبت مختلف احادیث سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔
ابودائود طیالسی کی روایت ہے کہ عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ قال فی لیلۃ القدرانھا لیلۃ سابعۃ ارتاسعۃ وعشرین یعنی رسول اللہ ﷺ نے لیلۃ القدر کے متعلق فرمایا وہ ستائیسویں یا انتیسویں رات کو ہوتی ہے۔مسند احمد بن حنبل میں عبادۃ الصامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا لیلۃ القدر فی العشرالبواقی من قالہن ابتغاء حسبتھن فان اللہ یغفرلہ ما تقدم من زنبہ وما تأخر وہی لیلۃ وتر تسع اوسبع او خامسۃ او ثالثۃ او اٰخر لیلۃ۔ یعنی لیلۃ القدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہوتی ہے انتیسویں یا ستائیسویں یا پچیسویں یا تئیسویں یا رمضان کی آخری رات ۔
امام احمد حنبل نے ابوذرؓ سے رویت کی ہے کہ میں نے لیلۃ القدر کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ افی رمضان ہی او فی غیرہ یا رسول اللہ لیلۃ القدر رمضان میں ہے یااس کے سوا کسی اور مہینہ میں ؟ اس پر آپ ؐ نے فرمایا ہی فی رمضان۔ وہ رمضان میں ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا صرف انبیاء کے زمانہ میں ہوتی ہے جب وہ فوت ہو جائیں تو پھرنہیں ہوتی یا قیامت کے دن تک قائم رہے گی قال بل ہی الی یوم القیامۃ۔فرمایا نہیں وہ قیامت تک ہے۔میں نے پوچھا رمضان کے کس حصہ میں ہوتی ہے ؟ اس پر فرمایا التمسوھا فی العشرالاول والعشرالاواخرلا تصألنی عن شیء بعدھا۔یعنی یا تو پہلے دہاکہ میں اس کی تلاش کرو یا آخری دہاکہ میں۔ اس کے بعد مجھ سے اس بارہ میںکوئی سوال نہ کرنا۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ کچھ دیر باتیں کرتے رہے میں نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے عرض کیا یا رسول اللہ میرا جوآپ پر حق ہے اس کی قسم دیتے ہوئے کہتا ہوں کہ رمضان کے کونسے دہاکہ میں لیلۃالقدر ہوتی ہے؟اس پر آپ ناراض ہوئے اور فرمایا التمسوھا فی سبع الا واخر لاتسا لنی عن شیء بعد ھا یعنی آخری سات راتوں میں لیلۃالقدر کو تلاش کرو اور دیکھنا اس کے بعد اس بارہ میں مجھ سے کوئی سوال نہ کرنا ۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی آخری سات راتوں میں سے کسی رات میں وہ ہوتی ہے۔
ابودائود نے اپنی سنن میں عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سے لیلۃالقدر کے بارہ میں سوال کیا گیا اور میں بھی سن رہا تھا ۔اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا لیلۃالقدر ہر رمضان میں آتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور آپ کے شاگردوں کا خیال تھا کہ لیلۃالقدر سارے سال آسکتی ہے رمضان سے اسکی خصوصیت نہیں (ابن کثیر جلد ۱۰صفحہ۲۶۲)
ابن زریں کا قول ہے کہ لیلۃالقدر ہر رمضان کے مہینہ کی پہلی رات ہوتی ہے (ابن کثیرجلد۱۰صفحہ۲۶۲)
بعض نے کہا ہے کہ سترہ تاریخ کو لیلۃالقدر ہوتی ہے اور ابودائود نے ابن مسعود ؓ سے بھی ایک موقوف روایت اس بارہ میں نقل کی ہے اور کچھ صحابہ وتابعین اور امام شافعی سے بھی یہ روایت منقول ہے(ابن کثیر جلد۱۰صفحہ۲۶۲)
حسن بصری کا قول ہے کہ قرآن کریم لیلۃالقدر میں نازل ہوا تھا اور قرآن کریم میں لکھا ہے کہ بدر کا دن اور قرآن کریم کے نزول کا دن ایک ہی ہے اور بدر کادن سترہ رمضان جمعہ کا دن تھا اس لئے لیلۃالقدر بھی سترہ رمضان کوہونی چاہیئے(ابن کثیرجلد۱۰صفحہ۲۶۲)
بعض نے کہا ہے کہ انیس رمضان کو لیلۃالقدر ہوتی ہے اور یہ قول حضرت علیؓاور ابن مسعودؓسے روایت کیا جاتا ہے(ابن کثیر جلد ۱۰صفحہ۲۶۳)
بخاری اور مسلم نے ابو سعیدخدری سے روایت نقل کی ہے اعتکف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم العشر الاول من رمضان واعتکفنا معہ فاتاہ جبریل فقال الذی تطلب امامک فاعتکف العشر الوسط واعتکفنا معہ فاتاہ جبریل وقال الذی تطلب امامک ثم قام النبی صلی اللہ علیہ وسلم خطیبا صبیحۃ عشرین من رمضان فقال من اعتکف معی فلیرجع فانی رایت لیلۃالقدروانی انسیتھا وانھا فی لاعشر الا واخر فی وتر وانی رئیت کانی اسجد فی طینوماء وکان سقف المسجد جرید من النخل وما نری فی السماء شیئا فجاء ت قزعۃ فمطرنا فصلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی رئیت اثرا الطین والماء علی جبھۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تصدیق رویا ہ وفی لفظ فی صبح احدی وعشرین و قال الشافی وھذا الحدیث اصح الروایات ۔
یعنی رسول کریم ﷺ نے بھی اور ہم نے بھی رمضان کی پہلی دس تاریخوں میں اعتکاف کیا اس کے خاتمہ پر حضرت جبریل آئے اور رسول کریمﷺ کو خبر دی کہ جس چیز کی آپکو (لیلۃالقدر)تلاش ہے وہ آگے ہے اس پر آپ نے اور ہم سب نے درمیانی دس دنوں کا اعتکاف کیا اس کے خاتمہ پر پھر حضرت جبریل نے ظاہر ہوکر آنحضرتﷺ سے کہا کہ جس چیز کی آپکو تلاش ہے وہ آگے ہے اس پر رسول کریمﷺ نے بیسویں رمضان کی صبح تقریر فرمائی اور فرمایا مجھے لیلۃالقدر کی خبر دی گئی تھی مگر میں اسے بھول گیا ہوں اس لئے اب تم آخری دس راتوں میں سے وتر راتوں میں اسکی تلاش کرو ۔میں نے دیکھا ہے کہ لیلۃالقدر آآآئی ہوئی ہے اور میں مٹی اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں اس وقت مسجد نبوی کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنائی ہوئی تھی ۔اور جس دن آپ نے یہ تقریر فرمائی بادل کا نشان تک نہ تھا پھر اچانک بادک اک ایک ٹکڑاآسمان سے ظاہر ہوا اور بارش شروع ہو گئی پھر جب نبی کریم ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی تو میں نے دیکھا کہ آپکی پیشانی پر مٹی اور پانی کے نشانات ہیں ۔ایسا خواب کی تصدیق کے لئے ہوا ۔اور ابوسعید کی ایک روایت میں یہ واقعہ اکیس رمضان کو ہوا تھا ۔امام شافعی کہتے ہیں اس بارہ میں یہ سب سے پختہ روایت ہے۔
عبداللہ بن انیس سے مسلم نے روایت کی ہے کہ تیس رمضان لیلۃالقدر ہے اور ابو دائود طیاسی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃالقدر چوبیسویں رات کو ہوتی ہے۔مسند احمد بن حنبل نے بھی حضرت بلال ؓسے روایت کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃالقدر چوبیسویں رات کو ہوتی ہے ۔امام بخاری نے بلالؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آخری سات راتوں میں سے پہلی رات لیلۃالقدر ہوتی ہے یعنی یا تیئسویں یا چوبیسویں ۔
مسند احمد کی روایت پہلے درج ہو چکی ہے کہ قرآن چوبیسویں رمضان میں نازل ہونا شروع ہو ا تھا ۔
بخاری نے عبداللہ بن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃالقدر کو رمضان کی آخری دس تاریخوں میں تلاش کرو ۔جب نو باقی ہوں یا سات باقی ہوں یا پانچ باقی ہوں ۔گویا اکیسویں تیئیسویں اور پچیسویں رمضان میں لیلۃالقدر ظاہر ہوتی ہے۔
مسلم نے ابی ابن کعب سے روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ لیلۃالقدر ستایئسویںرمضان کو ہوتی ہے۔عبداللہ بن عباسؓاور معاویہؓ اور عبداللہ بن عمرؓسے بھی یہ روایت ہے کہ لیلۃالقدر ستائیسویں رمضان کو ہوتی ہے عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓنے صحابہ کو جمع کیا تو سب نے اتفاق کیا کہ وہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے کسی میں ہوتی ہے ۔
عبادۃابن الصامت کی روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ آخری دس راتوں مٰن سے کسی طاق راتوں میں سے کسی رات لیلۃالقدر ہوتی ہے یا رمضان کی آخری رات میں ہوتی ہے۔
بخاری میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ تحروا لیلۃالقدر فی الوتر من العشر الاواخر من رمضان یعنی حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے وتر راتوں میں لیلۃالقدر کی تلاش کرو۔
عبادۃالصامت سے روایت کی ہے کہ خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیخرجنا بلیلۃالقدر فتلاحی رجلان من المسلمین فقال خرجت لاخبرکم لیلۃالقدر فتلاحی فلان وفلان فرفعت وعسی ان یکون خیرا لکم فا لتمسرھا فی لتاسعۃ والسا بعۃ والخامسۃ یعنی رسول کریم ﷺ ہمیں لیلۃ القدر کی خبر دینے باہر نکلے ۔باہر دو آدمی لڑ رہے تھے آپ نے تقریر کی اور فرمایا میں تو لیلۃالقدر کی خبر دینے نکلا تھا مگر فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے خدا تعالی نے حافظہ سے اس کا علم اٹھا لیا اور شاید اسی میں بہتری ہو ۔اب تم اسے انتیسویںیا ستائیسویں یا پچیسویں رات میں تلاش کرو۔
ان روایات میں جن میں سے اکثر صحاح کی ہیں بہت اختلاف پایا جاتا ہے ۔رمضان کی پہلی تاریخ سترھویں ،انیسویں،اکیسویں،تیئیسویں،چوبیسویں،پچیسویں،ستائیسویں، انتیسویں،اور تیسویں ساری ہی تاریخوں کو لیلۃالقدر قرار دیا گیا ہے اور عبداللہ بن مسعودؓکے ایک قول کے مطابق تو سارے سال میں کوئی سی رات بھی لیلۃالقدر ہو سکتی ہے۔لیکن حدیثوں پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے صحیح قول یہی ہے کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے کوئی رات اور خصوصاََ طاق راتوں میں سے کوئی رات لیلۃالقدر ہوتی ہے۔
ان روایتوں کو ملا کر دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے اترنے کی خواہ کوئی رات ہو لیلۃالقدر اس رات کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ وہ بدلتی رہتی ہے اور رمضان کی آخری د س راتوں میں سے کسی رات کو اس کا ظہور ہوسکتا ہے کیونکہ اگر قرآن کریم کے اترنے رات ہی لازماً لیلۃالقدر قرار دی جاتی ۔تو اول رسول کریمﷺ یہ نہ فرماتے کہ مجھے لیلۃالقدر کا علم دیا گیا تھا مگر فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے میں بھول گیا ہے آخر قرآں کریم آپ پر اترا تھا آپکو وہ رات تو یاد ہوگی اور اگر یاد نہ بھی ہوگی توآپ کو اس آیت سے یہ تو علم ہوگیاتھا کہ لیلۃ القدر صرف قرآن کریم کے نازل ہونے کی رات ہے اور یہ راتیں کئی نہیں ہو سکتیں ایک ہی رات ایسی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں آپ یہ کیوں فرمایا کرتے کہ فلاں راتوں میں اس کی تلاش کرو۔
دوسرے یہ کہ ایک دفعہ آپ کو لیلۃ القدر بتائی گئی اور وہ اکیسویں رات کو ظاہر ہوئی باوجود اس کے آپ لوگوںسے یہی کہتے رہے کہ آخری عشرہ میں اس کی تلاش کرو۔حالانکہ اگر وہ ایک معین رات ہوتی تو اس کے بعد اسے ہمیشہ رمضان کی اکیسویں رات بتاتے رہے۔پس معلوم ہوا کہ (۱) آپ قرآن کریم کے نزول کی رات کو لازماََ ہمیشہ کے لئے لیلۃ القدر قرار نہیں دیتے تھے (۲)آپ اس کے سوا دوسری راتوں میں سے بھی کسی کو ہمیشہ کے لئے معین لیلۃ القدر نہیں قرار دیتے تھے بلکہ آپ کے نزدیک تو یہ رات قران کریم کے نزول کی یاد میں مقرر کی گئی تھی اور گو اس یادگار کو رمضان کے آخری عشرہ سے مخصوص کر دیا گیا تھامگر نزول کی رات سے مخصوص نہیں کیا گیا تھا۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ گویہ رات نزول قرآن کی یاد میں ہے مگر قرآنی طریق کے مطابق اس سے مزید فائدہ بھی اٹھالیا گیا ہے۔کسی واقعہ کی یاد کے لئے کسی اس پاس کے دن کو مقرر کردیا جائے تو وہ دن وہی فائدہ دیتا ہے جو فائدہ نزول کے دن اس یاد گار کو منانا۔ لیکن اگر ایک ہی رات ہمیشہ کے لئے مخصوص کر دی جائے تو عبادت کی وہ کثرت نہیں ہو سکتی جو غیرمخصوص صورت میں ہوسکتی ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی یاد کو آخری عشرہ میں کسی رات میں مقرر کر کے یہ فائدہ مسلمانوں کے لئے پیدا کر دیا کہ بجائے ایک دن کے وہ دس دن جوش و خروش سے عبادت کریں ۔اگر وہ ایک دن کو لیلۃ القدر مقرر کر دیتا تو کمزور آدمی صرف ایک رات عبادت کرکے خوش ہو جاتا لیکن اس صورت میں کم سے کم دس راتیں تو وہ عبادت میں لگا رہے گا کیونکہ اسے خیال ہوگا کہ شاید یہ رات لیلۃ القدر ہو۔ یا شاید وہ ہو۔اور اس طرح ایک رات کی جگہ دس راتیں متواتر قرآن کریم کے نزول کی نسبت اور اس کی برکات کی نسبت سے غور کرنے کا موقعہ ملتا رہے گا اور ان راتوں میں سے ہر رات کو لیلۃ القدر کا خیال آتارہے گا اور لیلۃ القدر کا خیال آتے ہی قرآن کریم کے نزول اور اس کی برکات کی طرف اس کا ذہن چلا جائے گا اور یہ ایک بہت بڑی برکت اور روحانی فائدہ والی بات ہے۔
آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کو مقرر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ خدمت کے ایام کا آخری وقت ہی انعام کا وقت ہوتا ہے۔
اس وقت تک میں نے یہ بتایا ہے کہ احادیث میں مذکورہ لیلۃ القدر بھی ایک جہت سے اسی لیلۃ القدر سے تعلق رکھتی ہے جا میں قرآن کریم نازل ہواتھا اور یہ کہ ان معنوں کے روسے اصل لیلۃ القدر وہی رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا تھا اور صرف اس کی یاد تازہ رکھنے کے لئے اور اس عہد کو تازہ کرنے کے لئے جو نزول قرآن کریم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت سے باندھا تھا اس لیلۃ القدر مقرر کی ہے اور اس فائدہ کو مد نظر رکھ کر امت کے کمزور لوگ کم از کم دس راتیں تو خوب عبادت کرلیں اس نے رمضان کی آخری دس راتوںمیں اسے چھپا دیا ہے اور معین رات مقرر نہیں کی۔ تاکہ اس کا قیام صرف ایک رسم ہو کر نہ رہ جائے جسے اسلام بہت نا پسند کرتا ہے۔اب جو چاہے رمضان کی آخری راتوں میں اسے تلاش کر سکتا ہے۔اور اس کیا شک ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو دس راتوں میں تلاش کرے گا اسے دین کے ساتھ پہلے سے زیادہ لگائو ہو جائے گا اور اس کے دل میں دین کی محبت پیدا ہو جائے گی اور اس سے یہ امید کی جاسکے گی کہ پہلی غلطیوں کو چھوڑ کر پورے طور پر خدا تعالیٰ کی طرف جھک جائے اور کسی وقت اس کی ہر رات ہی لیلۃ القدر ہو جائے گی۔
عبداللہ بن مسعودؓ اور دوسرے بزرگان دین سے جویہ روایت ثابت ہے کہ لیلۃ القدر سال میں سے کسی رات کو ظاہر ہو سکتی ہے اس کے یہی معنے ہیں کہ انفرادی لیلۃ القدر سال میں کسی وقت آسکتی ہے ورنہ ان کایہ منشاء نہیں کہ رمضان میں یہ لیلۃ القدر نہیں ہوتی۔ کیونکہ خود ان کی دوسری روایت میں رمضان کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کے ظاہر ہونے کا ثبوت ملتا ہے چنانچہ وہ روایات اوپر نقل کی جا چکی ہیں۔ہم یہ تو خیال بھی نہیں کر سکتے کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ نے رسول کریم ﷺ کے قول کو رد کردیا۔ صحابہؓ سے اس بات کی ہر گز امید نہیں کی جا سکتی ہے۔پس ان کے اس قول کے کہ سال کے کسی حصہ میں بھی لیلۃ القدر آسکتی ہے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ فردی لیلۃ القدر سال کی کسی رات کو آسکتی ہے نہ یہ کہ جماعتی لیلۃ القدر جسے وہ خود بھی رسول کریمﷺکی روایت ہے رمضان کی آخری راتوں میں قرار دے چکے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ہر مومن پر روحانی بلوغت کا زمانہ آتا ہے آخر ہر شخص پیدائش کے وقت سے تو روحانیت میں کامل نہیں ہوتا ۔اکثر لوگوں میں جسمانی بلوغت کے بعد ہی کسی وقت روحانی بلوغت کا زمانہ آتا ہے ۔بعض کو جوانی میں بعض کو ادھیڑ عمر میں اور بعض کو بڑھاپے میں اور بعض کو بڑھاپے کے آخر میں۔جس رات بھی کسی مومن کی نسبت اللہ تعالی کا یہ فیصلہ ہوجاتا ہے کہ اب سے یہ ہمارا قطعی جنتی بندہ ہے وہی اسکی لیلۃالقدر ہے اور اسکے لئے رمضان کی کوئی شرط نہیں سارے سال میں کسی وقت کسی کی لیلۃالقدر آسکتی ہے۔اللہ تعالی رحمان رحیم ہے اور اسکی یہ دونوں صفات ہر وقت ظاہر ہوتی رہتی ہیں پس ضروری تھا کہ اللہ تعالی کے خاص فضلوں کے معین اوقات کے علاوہ کوئی اور سلسلہ بھی اس کے فضلوں کا ہوتا جو ہر وقت اور ہر لحظہ ظاہر ہوتا رہتااور یہ انفرادی فضلوں کا ہی سلسلہ ہے کسی مومن بندہ کی لیلۃالقدر کسی دن آجاتی ہے اور کسی کی کسی دن ۔اور اسطرح روزانہ سارے سال میں اللہ تعالی کے فضل اسکے نیک بندوں پر نازہوتے رہتے ہیں ۔پھر سال میں ایک دفعہ قرآن کریم کے نزول کی یاد میں ساری امت پر ایک ہی رات میںرمضان کے آخری عشرہ میں اجتماعی طور پر اللہ تعالی کا فضل نازل ہوتا ہے اور وہ لیلۃالقدر کبری ٰ ہوتی ہے۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ بیشک آخری عشرہ رمضان میں لیلۃالقدر کا مقرر کرنا ایک احسن طریقہ مومنوں کو انعام دینے اور انکی عبادت کی روح کو قائم رکھنے کا تھا لیکن پھر یہ کیوں ہوا کہ کبھی رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ آخری عشرہ میں اس کی تلاش کرو اور کبھی فرمایا کہ ۲۱کو ہوتی ہے کبھی ۲۴ کو اور کبھی کئی طاق راتوں کا ذکر کردیا ۔آپ نے تعین کرنے کی کیوں کوشش کی ؟اس کا جواب یہ ہے کہ اصل قانون لیلۃالقدر کے بارے میں یہی ہے کہ آخری عشرہ میں بدل بدل کر آتی ہے لیکن مومن کو اللہ تعالی اس کا خاص علم دے دیتا ہے چنانچہ ایک دفعہ رسول کریمﷺ کو یہ علم دیا گیا کہ لیلۃالقدر کی رات کو بارش ہوگی اور آپکی مسجد ٹپک پڑے گی چنانچہ رمضان کی ۲۱ کو ایسا ہو گیا ۔ جن صحابہؓ کو اس کا علم ہوا انہوں نے یہ سمجھا کہ شاید لیلۃالقدر ہوتی ہی ۲۱ کو ہے ۔ حالانکہ اس کا صرف یہ مطلب تھا کہ اس رمضان میں لیلتہ القدر۲۱ کوتھی ۔ اس طرح ایک دوسرے موقعہ پر آپ کو لیلتہ القدر بتائی گئی اور بھول گئی توآپ نے آخری طاق راتوںمیں سے کوئی اور خصوصا۲۷کو لیلۃالقدر قرار دیا ۔پس جہاں تک آخری عشرہ میں لیلۃالقدر ہونے کا سوال ہے یہ ایک قانون ہے اور جہاں تک اس عشرہ کی کسی خاص رات کے مطعلق رسول کریمﷺ یا صحابہ ؓ یا دوسرے آئمہء امت کا اشارہ ہے وہ خاص خاص رمضانوں میں ان کے آسمانی یا وجدانی علم کا نتیجہ ہے یہ قانون نہیں بتایا گیا کہ ہمیشہ اسی رات کو لیلۃالقدر ہوا کرے گی ۔
ایسے موقعہ پر طبعاًیہ خیال پیدا ہوتا ہے کیا کوئی ایسی علامت ہے جس معلوم ہو سکے کہ فلاں رات اس رمضان میں لیلۃالقدر تھی؟اس ککا جواب یہ ہے کہ بعض احادیث میں آتا ہے کہ کچھ بجلی چمکتی ہے ہوا ہوتی ہے اور ترشح ہوتا ہے ایک نور آسمان کی طرف جاتا یا آتا نظر آتا ہے مگر اولذکر علامات ضروری نہیں گو اکثر ایسا تجربہ کیا گیا ہے کہ ایسا ہوتا ہے اور آخری علامت نور دیکھنے کی صلحاء کے تجربہ میں آئی ہے یہ ایک کشفی نظارہ ہے ظاہری علامت نہیں جسے ہر ایک شخص دیکھ سکے ۔خود میں نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے لیکن جو میں نے دیکھا ہے وہ دوسروں نے نہیں دیکھا ۔
اصل طریقہ یہی ہے کہ مومن سارے رمضان اللہ تعالی سے دعائیں کرتا رہے اور اخلا ص سے روزے رکھے پھر اللہ تعالی کسی نہ کسی رنگ میں اس پر لیلۃ القدر کا اظہار کر دیتا ہے۔
وماادرک مالیلۃالقدر Oلیلۃالقدر خیرمن الف شھرO
اور (اے مخاطب) تجھے کیا معلوم ہے کہ (یہ عظیم الشان)تقدیر والی رات کیا شئے ہے (یہ عظیم الشان )تقدیر والی رات تو ہزار مہینے سے بھی بہتر ہے۔
تفسیر:۔تجھے کس نے بتایا ہے کہ لیلۃالقدر کیا چیز ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا یہاں جو منشاء ہے اور جس بات کی طرف اشارہ کرنا ہمارے مد نظر ہے عقلی طور پر تم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے ۔یعنی انسانی ذہن تو لیلۃ سے زیادہ سے زیادہ تاریکی کی طرف جاتا ہے مگر ہماری مراد اس لیلۃالقدر سے ہے جو بے انتہاء برکتوں پر مشتمل ہے اور جس کی عظمت کی طرف عام طور پر انسانی ذہن جاہی نہیں سکتا ۔اس طرح وما ادرک مالیلۃالقدرکہہ کر معنوں کو بہت وسعت دے دی کیونکہ اس کے معنے ہیں حدقیاس وفہم سے بالا۔
حل لغات:۔شھر کے معنے عربی زبان میں اظہار کے ہوتے ہیں ۔کیونکہ یہ شھر کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔نیزشھرقمر کو بھی کہتے ہیںجب وہ اپنے کمال کے قریب ہو ۔اسی طرح شھرمہینہ کو بھی کہتے ہیں اور شھرکے معنے عالم کے بھی ہیں کیونکہ وہ مشہور ہوتا ہے۔
تفسیر:۔فرماتا ہے ہم جس لیلۃالقدر کا ذکر کر رہے ہیں گو اس کا نام لیلہ ہے مگر درحقیقت وہخیرہزار شہر سے بھی زیادہ اچھی ہے۔
شھرکے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے اظہار کے بھی ہوتے ہیں اور شھرقمر کو بھی کہتے ہیں جب وہ اپنے کمال کو پہنچ جائے اور شھرمہینہ کو بھی کہتے ہیں اور اسکے معنے مشہور عالم عالم کے بھی ہیں ۔پسخیرمن الف شھرکے ایک یہ معنے ہوئے کہ یہ لیلۃالقدر ہزار اظہار سے بھی بہتر ہے ۔لیلکے متعلق یہ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ تاریکی پیدا کر دیتی اور اشیاء کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا دیتی ہے ،مگر فرماتا ہے کہ جس رات کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ ایک لحاظ سے تو رات ہے کہ اس میں ہزاروں قسم کے فتنے پائے جاتے ہیں اور بے دینی اور الحاد کا زور ہے لیکن اسکے ساتھ اس رات اللہ تعالی کے جلال کے اظہار اور انسانی فطرت کی پوشیدہ نیکیوں کے نمود بھی اتنے سامان پیدا ہورہے ہیں کہ وہ اپنے وقت پر دنیا کو محو حیرت کر دیں گے اس لئے اس رات کی مخفی طاقتوں پر ہزار اظہار اور نمود قربان ہے کیونکہ جس اظہار اور جس نمود کی بنیاد اس میں رکھی جا رہی ہے اس کے مقابلہ پر کوئی اور اظہار اور نمود نہیں ٹھہر سکتا ۔پس گو یہ رات ہے مگر نیکی کی عظیم الشان بنیاد رکھے جانے کی وجہ سے ہزاروں ترقیوں کا زمانہ اس پر قربان ہے۔دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ یہ مومنوں کے لئے رات کا زمانہ ہے کہ انہیں ہر قسم کی تکالیف دی جاتی ہیں ،مارا جاتا ہے،پیٹا جاتا ہے ۔قتل کیا جاتا ہے۔لیکنیہ رات چونکہ قدر کی رات ہے اسلئے اس زمانہ کی تکالیف اور دکھ آئندہ کے آرام اور سکھ سے زیادہ قیمتی ہیں ۔آج وہ زمانہ ہے کہ جو شخص محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لاتا ہے وہ اپنی تمام عزتوں کو کھو بیٹھتا ہے ۔ہر قسم کے طعن وتشنیع کا ہدف بن جاتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اس جیسا برا شخص اور کوئی نہیں ۔مگر اس ذلت میں جو مزا ہے ،ان قربانیوں میں جو راحت ہے اور ان تکالیف میں جو سرور ہے وہ ان ہزار عزتوں میں نہیں جو اسلام کی ترقی کے زمانہ میں لوگوں کو حاصل ہوں گی۔چنانچہ دیکھ لو ابو بکرؓاپنی قوم میں بڑا نیک نام تھا سارا عرب اسکی عزت کرتا تھا ،اس کا ادب واحترام کرتا تھا مگر جب رسول کریم ﷺ کا مرید بن گیا تو وہی لوگ جو اسکی عزت کرتے تھے اسے گالیاں دینے لگ گئے،اسے برا بھلا کہنے لگے،اسے مارنے پیٹنے لگے اور کہنے لگے ابوبکر اچھا تھا مگر اب خراب ہو گیا ہے ۔علیؓ بڑانیک بچہ تھا اس کا باپ عرب کے سرداروں میں سے تھا مگر جب وہ محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لا یا تو وہ لوگ کہنے لگے وہ واجب القتل ہے ۔اسکا مقاطعہ کیا گیا اس کے منہ پر گالیاں دی جاتیں۔اسے ذلیل اور رسوا کیا جاتا ہے اور لوگ خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے بڑااچھا کام کیا ۔عمرؓاپنی مجالس میں بڑی عزت رکھتا ،اہل عرب کے نسب نامہ کے لئے وہ بہترین مورخ سمجھا جاتا ،نوجوانی کی حالت میں بڑے بڑے سرداروں کی مجلس میں جاتا تو لوگ اسے ادب کے مقام پر بٹھا تے ،اس کے ساتھ عزت سے پیش آتے مگر جب وہ محمد رسول ﷺ پر ایمان لایا تو سب لوگ اسے برا بھلا کہنے لگ گئے ۔اس کی مدح سرائی کی بجائے عیب چینی کی جا تی اور اسکو دکھ دے کر خوشی محسوس کی جاتی۔عبداللہ بن سلامؓایمان لائے تو رسول کریم ﷺنے یہود کا امتحان لینے کے لئے ان کو جمع کیا اور فرمایا کہ بتائو عبداللہ بن سلام کیسا ہے؟انہوں نے کہا عبداللہ بن سلام کا کیا کہنا ہے نیکوں کا بیٹا ،اچھوں کی اولاد ،خود بھی شریف اور باپ دادا بھی شریف اس کی نیکی کی کوئی حد ہے ! رسول کریمﷺ نے فرمایا اچھا سنو!وہ مسلمان ہو گیا ہے ۔یہ سنتے ہی کہنے لگے بڑا خبیث ہے ،خبیثوں کا بیٹا تھا اسی لئے خبیث نکلا۔
غرض فرمایا ہم نے قرآن کریم کو ایک قدر والی رات میں نازل کیا ہے۔یہ رات لوگوں کی ظآہری عزتوں کو بالکل چھپا ڈالے گی لوگ نیک ہونگے،معزز ہوں گے،اچھی شہرت رکھنے والے ہوں گے مگرمحمد رسول اللہﷺ پر ایمان لانے کے بعد ان کی عزت اور شہرت اور نیک نامی پر رات چھا جا ئیگی وہ لوگوں کے مطاعن کا ہدف بن جائیں گے اور لوگ کہیں گے کہ وہ بہت برے ہین ۔مگر یہ نہ سمجھو یہ تاریک زمانہ ان کے لئے ذلت کا موجب ہو گا بلکہ نبی کی خاطر اور اسکی معیت میں یہ تکالیف اٹھانا شہرتوں سے اچھا اور زیادہ مبارک ہے۔
اس زمانہ کے بعد شہرتوں کا زمانہ آئے گا ۔لوگ اسلام کی وجہ سے بڑی بڑی شہرتیں پائیں گے ،بڑی عزتوں سے دیکھے جائیں گے ،بے انتہا دنیا کمائیں گے مگر انکی ظاہری عزتیں اور شہرتیںان ما کھانے والوں کے مقابل پر ہیچ ہوں گی ۔چنانچہ دیکھ لو اسلام کے طفیل اس کے حلقئہ اثر میں لوگوں نے کتنی کتنی عزت پائی ۔کتنا رتبہ پایا دینداروں نے بھی اور دیناداروں نے بھی۔مگر وہ اس رات میں پیدا ہونے والے لوگوں کا بھلا کیا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔دین میں امام اباحنیفہ۔امام مالک،امامشافعی،امام احمد بن حنبل ۔حضرت سید عبدالقادر جیلانی،معین الدین چشتی،شہاب الدین سہروردی،محی الدین ابن عربی نقشبندی،امام غزالی نے اپنے زمانہ میں کتنی عزت پائی۔بادشاہ جوتیاں سامنے رکھنے میں اپنی عزت خیال کرتے تھییہ عزت انکی اسلام کی وجہ سے ہی تھی ۔اسکے مقابل پر ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی بلکہ انکے اور ہمارے آقامحمد رسول اللہﷺ نے لیلۃالقدر کے زمانہ میں ماریں کھائیں گالیاں سنیں۔مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان کے بعد بزرگوں کی ترقی کا زمانہ سابق بزرگوں کے تاریک زمانہ سے بہتر تھا ۔خدا گواہ ہے کہ ان بزرگوں سے کہا جاتا ہے کہ تمہاری عمر بھر کی شہرت چھین کر ایک گھنٹہ کے لئے تم کو محمد رسول اللہ ﷺ کے دروازہ پر ماریں کھانے کے لئے کھڑاکیا جا سکتا ہے تو ان پر شادی مرگ کی حالت طاری ہو جاتی اور وہ کہتے کہ بخدا اس سے بہتر اور کوئی سودا نہیں ہو سکتا ۔اس آیت میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھیوں پر کیا برا زمانہ آیا ہے مگر اے سننے والے سن!کہ یہ برا زمانہ تو ضرور ہے تاریکی اپنی انتہا ء کو پہنچی ہوئی ہے مگر یہ تاریک رات لیلۃالقدر ہے ۔جو عزت اس رات میں پیدا ہونے سے انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ عزت ہزار شہرتوں اور عزتوں سے بالا ہے اور آئندہ زمانہ میں بڑی بڑی عزتوں والے لوگ اس تنگی اور دکھ کی رات کے ایک گھنٹہ کو اپنی با زعت زندگیوں کے سو سال پر ترجیح دینگے۔اور دیکھ لوایسا ہی ہوا قرآن کریم کی یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ہم میں سے کس کا دل نہیں کرتا کہ کاش کہ وہ محد رسول اللہﷺکے دروازے پر اسلام کی خاطر کفار کی ماریں کھا رہا ہوتا ۔کاش وہ انکی سخت سے سخت گالیاں سنکر مزے لے رہا ہوتا ۔اصدق الصادقین خدا کا یہ فقرہ کیسا سچا ہے کہ لیلۃالقدر خیر من الف شھر۔۔
یہی حال دنیوی لوگوں کا ہوتا ہے ۔نبی کے زمانہ کے لوگ تو تکالیف اور مصائب برداشت کرتے ہیں اور بعد میں آنے والے ان کے بوئے ہوئے بیجوں کے پھل کھاتے ہیں ۔بنو عباس اور بنو امیہ اپنے تختوں پر بیٹھ کر کیا کیا بڑائیاں کرتے ہوں گے ۔کس طرح فخر سے کہتے ہوں گے تم جانتے ہو ہم کون ہیں ہم عرب کے سردار ہیں ۔ہمارے فلاں فلاں حقوق ہیں ۔ہمارے مقابلہ میں تم کیا حیثیت رکھتے ہو ۔مگر سوال یہ ہے کہ بنو عباس اور بنو امیہ کو بادشاہت کہاں سے ملی؟ان بیجوں سے ملی جو ابوبکرؓاور عمر ؓاور عثمان ؓاور علیؓاور طلحہؓاور زبیر ؓ اوردوسرے صحابہؓنے بوئے ۔ان لوگوں نے بیشک اپنی قربانیوںکے پھل نہیں کھائے مگر خدا تعالی کے نزدیک کون بڑا ہے کیا عبدا لملک بڑا ہے یا ہارون الرشید بڑا ہے؟خدا تعالی کے نزدیک یہ لوگ بڑے نہیں بلکہ ابو بکر ؓ۔عمرؓ۔طلحہؓ۔عثمانؓ۔علیؓ۔اور زبیر بڑے ہیں ۔بلکہ یہ تو الگ رہے اللہ تعالی کے نزدیک ابوہریرہؓ بڑا ہے جسے بعض دفعہ سات سات وقت کا کھانا بھی میسر نہیں آتا تھا بلکہ ابوہریرہ ؓتو کیا ان سے بلالؓ بھی بڑا ہے وہ خواہ غلام تھا مگر اسلام سے پہلے اس کی پھر بھی عزت تھی جب وہ اسلام لایا تو اسکے اعمال اور اسکی نیکی اور اسکی خصلتوں پر پردہ پڑ گیا اور لوگوں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا مگر انہی تکالیف نے اسے وہ رتبہ بخش دیا کہ ہارون الرشید اور عبدالملک کو اگر اسکے دروازے کی جاروب کشی کی خدمت دی جاتی تو یہ بادشاہت سے زیادہ اعزازہوتا۔
یہ سیدھی بات ہے کہ جو لوگ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے تھے یا کسی اور نبی پر ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوئی آخر ان میں کوئی نہ کوئی خوبی پائی جاتی تھی ورنہ جب تک انسان کی فطرت میں نیکی نہ ہو قربانی پر کون تیار ہو سکتا ہے ۔مگر واقعات بتاتے ہیں کہ جب بھی کسی نبی پر لوگ ایمان لاتے ہیں ان کی نیکیاں لوگوں کو بھول جاتی ہیں اور انکے اخلاق سب نظر انداز کر دئے جاتے ہیں اور وہ دینا کی نگاہ میں بالکل ذلیل ہو جاتے ہیں۔
ہمارے سلسلہ میں بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے ایک زمانہ میں بادشاہ بھی شامل ہونگے اور جماعت احمدیہ ترقی کرتے کرتے وہ مقام حاصل کر لے گی کہ تمام دنیا کے مذآہب اس کے مقابلہ میں بالکل بے حقیقت رہ جائیں گے۔اس وقت جماعت احمدیہ کے علماء کو خواہ کتنی بڑی عزت حاصل ہو اگر ان کے دلوں میں ایمان کا ایک ذرہ بھی پایا جاتا ہو گا تو وہ اپنی ساری عزت اس ذلت کے مقابلہ میں ہیچ سمجھیں گے جو موجودہ زمانہ میں احمدیت کو قبول کرنے کی وجہ سے ہماری جاعت کو دیکھنی پڑتی ہے۔میں سمجھتا ہوں اگر امام ابو حنیفہ ،امام احمد بن حنبل،امام شافعی اور امام مالک وغیرہ سے اس زمانہ میں جب دنیا میں چاروں طرف ان کا نام گونج تھا یہ کہا جاتا کہ کیا تم پسند کرتے ہو کہ تم سے یہ ساری عزت لے لی جائے اور تمہیں ابوہریرہؓ کی جگہ کھڑا کر دیا جائے تو وہ بلاواقف یہی جواب دیتے کہ ہمیں منظور ہے حالانکہ ابوہریرہؓ جو بسااوقات فاقہ کی وجہ سے بے ہوش ہو جایا کرتے تھے اور لوگ یہ سمجھ کر کہ انہیں مرگی کا دورہ ہو گیا ہے ان کے سر پر جوتیاں مارا کرتے ۔غرض فرماتا ہے لیلۃ القدرخیر من الف شہر۔ہزار عزتیں جو لوگوں کو آئندہ زمانہ میں حاصل ہوں گی اس لیلۃ پر قربان ہیں۔ہم بے شک گمنامی کے لحاظ سے اس زمانہ کو لیلۃ قرار دے رہے ہیں مگر یہ لیلۃ وہ ہے کہ ہزار ظہور اس ایک گمنامی پر قربان ہو رہے ہوگا۔
(۲) شہرکے معنے عالم کے بھی ہیں ان معنوں کے روسے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اس لیلۃ القدر میں جو معارف اور علوم کھلے ہیں وہ ہزار عالم سے بہتر ہیں۔ا س میں کیا شک ہے کہ زمانہ نبوی میں جو تاریک اور بے دینی میں سارے زمانوں سے بڑھا ہوا تھا قرآن کریم کے ذریعہ سے جو علوم ظاہرہوئے اور خداتعالیٰ نے عرفان کے جو دریا اس وقت بہادئے ان کے مقابل پر ہزار عالم بھی تو کچھ بیان نہیں کرسکتا۔ مسیحی لوگ کہا کرتے ہیں کہ قرآن پہلی کتب کی نقل ہے اور میں انہیں جواب میں کہا کرتا ہوں کہ وہ کتب جن کی قرآن نے نقل کی ہے اور خود قرآن بھی جو ان کی نقل ہے تم سب مسیحی علماء مل کر اس نقل اور جن کتابوں کی وہ نقل ہے ان سب سے استنباط کرکے اب ایک اور مکمل کتاب کیوں نہیں بنادیتے۔ آخر وہ کتب بھی موجودہیں، قرآن کریم بھی موجود ہے اور اس کے بعد جو علوم لوگوں کے نزدیک نئے نکلے وہ بھی موجود ہیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی نسبت ان لوگوں کیلئے زیادہ موقع ہے ، وہ کیوں اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک اور کتاب امور دینیہ اور احکام شریعیہ کے بارہ میں ایسی نہیں بنادیتے جو قرآن کریم سے افضل ہو۔ اگر وہ ایسا کردیں تو بغیر کسی اور دلیل کے اسلام کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مگر منہ سے رطب ویابس باتیں کرتے جانا اور امر ہے اور کچھ کرکے دکھانا اور بات ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اس لیلۃ القدر میں جو علوم اللہ تعالیٰ نے ظاہر کئے اس کے مقابل پر دنیا کے علماء مل کر بھی کچھ نہیں کرسکتے اور قرآن کریم نے جو یہ کہا کہ ہزار عالم سے بھی وہ لیلۃ القدر اچھی ہے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ ڈیڑھ ہزار اس سے اچھا ہے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ عربوں میں ہزار سے اوپر ہندسہ نہ ہوتا تھا۔ جب انہوں نے انتہا کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے تو وہ ہزار کا ہندسہ بولتے تھے ۔ا س عربی محاورہ کے مطابق قرآن کریم نے ہزار کا لفظ بولا ہے اور مطلب یہ ہے کہ دنیا کے زیادہ سے زیادہ عالم مل کر بھی وہ علوم بیان نہیں کرسکتے جو اس لیلۃ القدر میں نازل ہونے والے کلام یا نازل ہونے والے نبی نے بیان کئے ہیں۔ یا آئندہ ایسے ہی تاریک زمانوں میں خداتعالیٰ کے مامور بیان کریں گے۔
اس مضمون سے مسلمانوں کو اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جب جب بھی اسلام پر کوئی مصیبت کا زمانہ آئے انہیں علماء ظاہر کی امداد پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ انہیں چاہئے کہ ایسے تاریک زمانوں میں خداتعالیٰ کی طرف سے اترنے والی امداد کی طرف نظر رکھا کریں کہ جو کچھ آسمانی امداد اور ہدایات سے انہیں حاصل ہوگا وہ ظاہری علماء کی مجموعی کوششوں سے حاصل نہ ہوسکے گا۔ مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ یہ زمانہ اسلام کے گزشتہ زمانوں سے زیادہ تاریک ہے۔ بعدزمانہ نبوی ایسا سخت زمانہ اسلام پر کبھی نہیں آیا ۔ لیکن مسلمان اس بلا کے دور کرنے کیلئے انسانوں پر زیادہ نظر رکھتے ہیں بہ نسبت خدا کے۔ خداتعالیٰ نے ان دنوں میں بھی حسب بشارات قرآنیہ اور حسب وعدہ ان انزلنہ فی لیلۃ القدراپنا ایک معمور بھیجاہے۔ لیکن لوگوں کی اس طرف توجہ نہیں بلکہ خود ساختہ علاجوں کی طرف مائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کی حالت پر رحم فرمائے۔
(۳) تیسرے معنے شھر کے مہینے کے بھی ہیں۔ ان کے رو سے لیلۃ القدر خیر من الف شہر کہ یہ معنے بھی ہیں کہ وہ زمانہ جس میں قرآن کریم نازل ہوا یا جس میں محمد رسول کریم ﷺ نازل ہوئے یا وہ زمانہ جس میں آپ کے بروزِ کامل نازل ہوں گے ہزار مہینوں سے اچھا ہے۔ یعنی تمام زمانوں سے اچھا ہے۔ کیونکہ میں اوپر بتا آیا ہوں کہ عربوں میں ہزار کے معنے ان گنت کے ہوتے تھے۔ کیونکہ ان کے اندر ہزار سے بڑھ کر کسی گنتی کا رواج نہ تھا۔ جب انہوں نے یہ بتانا ہوتا کہ فلاں چیز تو ان گنت ہے تو وہ کہتے تھے کہ وہ تو ہزار ہے۔ پس اسی محاورہ کے مطابق قرآن کریم نے کہا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا زمانہ یا قرآن کریم کا زمانہ یا ان کے بروز کا زمانہ ہزار مہینہ سے اچھا ہے یعنی ان گنت مہینوں سے اچھا ہے۔ کوئی دوسرا زمانہ ان کا مقابلہ نہیں کرسکے گا خواہ آئندہ کا زمانہ ہو یا گزشتہ زمانہ ہو۔
عربوں کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہے جس سے الف شہر کے معنے خوب روشن ہوجاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ نے ایک بدوی سے پوچھاکہ مانگو کیا مانگتے ہو۔ اس نے کہا ہزار دینار دے دیں۔ بادشاہ نے بس اس سے زیادہ مانگو۔ اس پر وہ بدوی بولا کیا ہزار سے اوپر بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟
(۴) چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ہزار سے مراد ہزار ہی کے لئے جائیں ۔ یہ معنے رسول کریم ﷺ کے ناقص اظلال کے متعلق صحیح اترتے ہیں ۔ کیونکہ آپ نے اپنے ناقص اظلال یا مجددوں کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ ہر صدی کے سر پر آئیں گے اور ہزار مہینے کا عرصہ تراسی سال اور چار مہینہ کا ہوتا ہے اور اتنی مدت صدی سے گزرجائے تو صدی کا سر آجاتا ہے۔ پس ہزار مہینے کے لفظاً ہزار کے لے کر اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ ہم قرآن اور محمد رسول اللہ ﷺ کو مجددوں اور آپ کی تعلیمات کے وجود میں ہر صدی کے سر پر نازل کرتے رہیں گے اور ان مجددوں کا زمانہ باقی تراسی سال سے بہتر ہوگا۔ یعنی امت ان کی نگرانی میں جو برکات حاصل کرے گی ان کی عدم موجودگی میں وہ برکات حاصل نہ کرسکے گی۔
(۵) پانچویں معنے اس کے یہ ہیں کہ اسلام کی تعلیم جس زمانہ میں رائج ہو وہ دوسرے سب زمانوں سے مقدم ہے۔ ہم دیکھتے ہیں مسلمانوں کے تنزل اور ان کے ادبار کو دیکھ کر بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ تم جس اسلامی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے اور کہتے ہو کہ اسلامی حکومت دنیا میں مساوات قائم کرتی ہے۔ اسلامی حکومت غرباء کو ان کے حقوق دلاتی ہے۔ اسلامی حکومت ہر قسم کے جھگڑوں اور مناقشات کا سدباب کرتی ہے۔ اسلامی حکومت دنیا میں بین الاقوامی صلح کی داغ بیل ڈالتی ہے۔ اسلامی حکومت دولت کو چند محدود ہاتھوں میں نہیں رہنے دیتی۔ اسلامی حکومت غرباء کو آگے بڑھنے کے مواقع بہم پہنچاتی ہے۔ وہ حکومت کہاں گئی؟ اگر تیس سال تک وہ دنیا میں رہی اور پھر اس کا خاتمہ ہوگیا تو اس اسلامی حکومت کا فائدہ کیا ہوا؟اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیس سال نہیں اگر وہ ایک رات کیلئے بھی قائم ہو تب بھی وہ خیر من الف شہر ہے کیونکہ وہ دنیا میں آکر ایک بیج تو بوگئی ہے، ایک نمونہ تو قائم کرگئی ہے ۔ اگر اس کی شکل اب قائم نہیں رہی تو کیا ہوا۔ جب دنیا میں بیداری پیدا ہوگی وہ مجبور ہوگی کہ حکومت کو ان بنیادں پر قائم کرے جو اسلام نے آج سے تیرہ سو سال پہلے کھڑی کی تھیں۔ اگر یہ نمونہ دنیا میں قائم نہ ہوچکا ہوتا تو دنیا اپنی ترقی کیلئے کیا کرسکتی تھی۔ وہ اندھیروں میں بھٹکتی پھرتی اور اپنی مشکلات کے حل کیلئے کوئی راستہ نہ پاتی۔ اب بے شک دنیا میں اسلامی حکومت نہیں مگر اسلامی حکومت کا نقشہ تو اس کے سامنے ہے۔ جب کبھی دنیا کو اپنی حالت بدلنے کا فکر ہوگا، جب کبھی تبدیلی کا احساس رونما ہوگا لوگوں کے سامنے ایک نمونہ موجود ہوگا۔ وہ کہیں گے آئو ہم اس اسلامی حکومت کی نقل کریں جو آج سے تیرہ سو سال پہلے قائم کی گئی تھی۔ اس طرح پھر اس نمونہ کے ذریعہ دنیا میں روشنی نمودار ہوگئی اور اس کی مشکلات کا خاتمہ ہوگا۔ پس اللہ فرماتا ہے رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے بعد مسلمانوں میں خرابی پید اہوجانے سے اس رات کی قدر کم نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک رات ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ ہزار مہینوں میں چونکہ تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں اس لئے لیلۃ القدر خیر من الف شہر کے یہ معنے ہوئے کہ تم اس زمانہ کا کیا ذکر کرتے ہو ، یہ زمانہ تو تیس ہزار زمانوں سے بڑھ کر ہے۔ اگر بعد میں تاریکی کے تیس ہزار دور بھی آجائیں تب بھی محمد رسول اللہ ﷺ کا زمانہ بے قیمت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تب بھی یہی کہا جائے گا کہ وہ زمانہ آئندہ آنے والے سب زمانوں سے بڑھ کر تھا۔ کیونکہ اس زمانہ میں اسلامی حکومت کا وہ ڈھانچہ قائم کردیا گیا تھا جو قیامت تک آنے والے لوگوں کی صحیح راہنمائی کرنے والا اور ان کی مشکلات کو پورے طور پر دور کرنے والا ہے۔
جو معنے اوپر کئے گئے ہیں ان کے رو سے لیلۃ القدر بمعنے زمانۂ نبوت کی تو تشریح ہوجاتی مگر یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اگر لیلۃ القدر سے اشارہ معروف لیلۃ القدر سے ہے تو پھر اس آیت کے کیا معنے ہوئے کہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے اچھی ہے کیونکہ ہزار مہینوں میں تو تراسی اور لیلۃ القدریں آجائیں گی؟ تواس کا جواب یہ ہے کہ لیلۃ القدر آتی تو ہر سال ہے مگر ہر شخص کو وہ رات میسر تو نہیں آجاتی۔ جو لوگ سچے تقویٰ اور سچی نیکی سے خداتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں انہیں خاص توجہ اور خاص خشوع و خضوع کی حالت میں وہ میسر آتی ہے۔یعنی گو اس کی عام برکات تو عام مسلمانوں کو ہر سال ہی مل جاتی ہیں لیکن اس کا کامل ظہور جبکہ انسان کو یہ معلوم بھی ہوجاتا ہے کہ آج لیلۃ القدر ہے، خاص خاص آدمیوں کو اور کبھی کبھی ہی نصیب ہوتا ہے۔ یہ تجربہ درمیانہ درجہ کے مومنوں کو اپنی عمر میں کبھی ایک دفعہ یا دو دفعہ نصیب ہوتا ہے۔ پس اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص کومحمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں لیلۃ القدر مل جائے اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کی ساری عمر کامیاب ہوگئی۔ اور عمر کا اندازہ تراسی سال لگا کر بتایا ہے کہ ایسے شخص کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ رات اس کی باقی عمر سے افضل ہے اور اسی رات کی خاطر اس کی زندگی گزری ہے اور یہ رات اس کی زندگی کا نچوڑ ہے۔
تنزل الملئکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر O
(ہرقسم کے) فرشتے اور (اخلاص کی ) روح اس (رات) میں اپنے رب کے حکم سے تمام (دینی اور دنیوی) امور (کی خرابی کو درست کرنے) کیلئے اترتے ہیں۔
تفسیر: تنزل الملئکۃ والروح فیھا میں اللہ تعالیٰ ایک زائد بات یہ بتاتا ہے کہ اس کی طرف سے صرف کلام نہیں اترتا بلکہ ملائکہ اور روح دونوں کا اس کے ساتھ نزول ہوتا ہے۔ روح کے معنے کلام کے بھی ہوتے ہیں اور روح کلام الٰہی لانے والے فرشتے کو بھی کہتے ہیں۔ گویا ملائکہ سے مراد عام فرشتے ہیں اور روح سے مراد وہ فرشتے ہیں جو کلامِ الٰہی لانے والے ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ پہلے الٰہی کلام اور اس کے نازل ہونے کا ذکر ہوچکا ہے اس لئے یہاں روح سے کلام الٰہی لانے والے فرشتے مراد نہیں ہوسکتے بلکہ اس سے کچھ اور مرا دہے جیسا کہ آگے چل کر بیان کیا جائے گا۔
فرماتا ہے ہماری سنت یہ ہے کہ جب کسی مامور پر ہم اپنا کلام نازل کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی اپنے ملائکہ کو بھی زمین پر نازل کردیتے ہیں۔ یہاں ملائکہ سے وہی فرشتے مراد ہیں جن کو آدم کے وقت سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ہم نے صرف اپنا کلام محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل نہیں کیا بلکہ ملائکہ کی فوج بھی اس کی تائید کیلئے زمین پر نازل کردی ہے یا آئندہ زمانہ میں قرآن کریم کی خدمت اور اسلام کے احیاء کیلئے جو مامورین آئیں گے …………… وہ اکیلے نہیں آئیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کی تائید اور نصرت کیلئے اور ان کے کام کو چلانے کیلئے ہمیشہ آسمان سے اترتے رہیں گے۔ پس مت سمجھو کہ اپنی تدابیر سے تم ہمارے مامورین کو مغلوب کرلو گے تم میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ایسا کرسکو کیونکہ ملائکہ ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کی کسی انسان میں طاقت نہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آدم کو بھیجا تو ساتھ ہی فرشتوں کو حکم دے دیا کہ جائو اور اس کو سجدہ کرو۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ فرشتوں کے ماتحت جس قدر چیزیں تھیں وہ آدم کے تابع کردی گئی تھیں۔ اسی طرح جب بھی خداتعالیٰ کسی مامور کو مبعوث فرماتا ہے فرشتوں کا لشکر اس کی تائید میں اتار دیتا ہے اور انہیں حکم دیتا ہے کہ جائو اور زمین میں ایسے تغیرات پیدا کرو جو ہمارے مامور کی ترقی کیلئے مفید ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم اپنے مامور کی تائید کیلئے صرف فرشتے ہی آسمان سے نازل نہیں کرتے بلکہ روح بھی نازل کرتے ہیں۔ یہاں روح سے مراد وہ روحانیت اور نئی زندگی ہے جو اہل عالم کے قلوب میں پھونکی جاتی ہے۔ فرماتا ہے محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے لوگوں میں روح نہیں تھی وہ بظاہر زندہ نظر آتے تھے مگر مردوں سے بدتر تھے۔ نہ ان میں قوت فاعلی تھی نہ ان میں ترقی کا احساس تھا نہ ان میں شرافت اور انسانیت کا کوئی جذبہ پایا جاتا تھا۔ محمد رسول اللہ ﷺ آئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ملائکہ کی تحریک کے ذریعہ سے انسان کی خوابیدہ فطرت کو بیدار کرنا شروع کردیا اور دوسری طرف مردہ انسانوں میں زندگی کی روح پھونکنی شروع کردی۔ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی برکت سے مردہ زندہ ہوگئے ، بے جان لاشے چلنے پھرنے لگے۔ صدیوں سے محکوم اور مغلوب قوم کے افراد دنیا کے فاتح اور حکمران بن گئے۔ عرب جس کی دنیا میں کوئی عزت نہیں ملتی ، جسے متمدن اور مہذب ممالک کی نگاہ میں کوئی وقعت حاصل نہیں تھی اس نے جس رنگ میں اسلام پر ایمان لانے کے بعد ترقی کی ہے اسے دیکھ کر حیرت آتی ہے۔ چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کی وجہ سے ان میں بیداری پیدا ہوگئی تھی اور ان کی مردہ رگوں میں بھی زندگی کا خون دوڑنے لگا تھا اس لئے وہ دنیا میں ایسے عظیم الشان تغیرات پیدا کرنے کاموجب بن گئے جنہوں نے اس کی کایا پلٹ دی۔ اسی طرح فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی جب کلام الٰہی نازل ہوگا ہمیشہ اس کے ساتھ ملائکہ اترتے رہیں گے جو قلوب میں ایسی روحانیت، ایسی بیداری، ایسی قربانی ایسا اخلاص پیدا کریں گے کہ دنیا اسے دیکھ کر محو حیرت رہ جائے گی۔ زندگی کی ایک نئی روح لوگوں میں پیدا ہوجائے گی اور وہ اپنے ایمان کے نہایت اعلیٰ نمونے دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ اس زمانہ میں بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے ایسا ہی ہوگا یہاں تک کہ وہ مسلمان جو کثیر ہونے کے باوجود قلیل ہیں، عالم ہونے کے باوجود جاہل ہیں، زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہیں ان میں بھی ایک نئی روح ڈال دی جائے گی۔ یہی روح ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری مردوں میں پھونکاکرتے تھے اور یہی روح ہے جس کی طرف قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ یاایھا الذین امنوا استجیبوا للہ و للرسول اذا دعاکم لما یحییکم (الانفال ۳ع۱۷) اے ایمان والو! تم خدا اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کیا کرو جب وہ تمہیں اس غرض کیلئے بلاتا ہے کہ تمہیں زندہ کرے یعنی تم میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا کردے۔ غرض فرماتا ہے اس زمانہ میں ایک طرف ملائکہ اتریں گے تاکہ وہ دنیا میں ایسے تغیرات پیدا کریں جو محمد رسول اللہ ﷺ کی تائید میں ہوں اور دوسری طرف ان تغیرات سے فائدہ اٹھانے کیلئے ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے ماننے والوں میں روح ڈالیں گے تاکہ ادھر دنیا میں تغیرات ہوں اور ادھر وہ دنیا پر قبضہ کرلیں۔ یہی حال آئندہ بھی ہوگا یعنی ملائکہ بھی اتریں گے اور تقدیر خاص بھی نازل ہوگی اور اس طرح مومنوں کے اندر ایک نئی بیداری اور نئی زندگی، نیا جوش اور نیا عزم پیدا کردیا جائے گا۔
میں نے ایک دفعہ رویاء میں دیکھا کہ میرے ارد گرد ایک بہت بڑا ہجوم ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔میں اس کے سامنے تقریر کرتا ہوں اور لوگوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نبی نہیں تو مجھے کوئی ایک ہی غیر نبی ایسا بتادو جو اپنے بعد علماء کی اس قسم کی جماعت پیدا کر گیا ہو جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے علم لدنی حاصل ہوتا ہو اور جو اس کے کلام کو سمجھانے والے ہوں۔میں رویاء کی حالت میںاس خصوصیت پر زور دیتا ہوں اور کہتا ہوں یہ نبی ہی کی شان ہوتی ہے کہ وہ اپنے بعد ایسی جماعت قائم کر دیتا ہے جس میں نئی زندگی اور نئی روئیدگی کی طاقت ہوتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھ کر اور اس کے کلام کے علوم کو سیکھ کر دنیا میں پھیلاتی اور ان کی اشاعت کرتی ہے(الفضل ۹ مارچ ۴۵ ء؁)یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے جب کوئی نبی دنیا میں آتا ہے وہ اپنی جماعت میں ایک ایسی روح پیدا کر دیتا ہے جس کی مثال دوسروں میں نہیں ملتی۔
باذن ربہم کے دومعنے ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ وہ اذن الٰہی کو لے کر اترتے ہیں اور یہ بھی کہ ان کا اترنا اذن الٰہی سے ہوتا ہے۔پہلی صورت میں بائکا تعلق تنزلکے ساتھ ہوگا یعنی تنزل الملائکۃ والروح فیہا باذن ربہم اور معنے یہ ہوں گے کہ وہ اذن الٰہی کو لے کر اترتے ہیں یعنی کلام الٰہی کی تائید کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے لوگوں کی طرف خدا تعالیٰ کا حکم لاتے ہیں۔دوسری صورت میں یہ جملہ حال ہوگا اور مراد یہ ہوگی کہ ان کا نزول اذن الٰہی سے ہوتا ہے یعنی اس قسم کا تغیربغیر اذن الٰہی کے نہیں ہوتا جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے تب پیدا ہوتا ہے۔علماء کا یہ کام نہیں کہ جب قوم بے جان ہوجائے اور اس میں سے زندگی کی روح بالکل نکل جائے تو وہ دوبارہ اس کو زندہ کرسکیں۔ملائکہ بھی اور روح بھی ہمیشہ خداتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اور اس کے حکم سے آتے ہیں اس لئے جب بھی مذہبی قومی احیاء ہوگا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا انسانی تدبیروں سے مذہب کا احیاء نہیں ہو سکتا۔من کل امر کے معنے ہیں من اجل کل امر او لکل امر۔یعنی ہر امر کی خاطر۔یا اس کے معنے ہیں باکل امر ہر امر کو ساتھ لے کر اترتے ہیں۔
من کل امر کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ ہر امر جو اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہوگا اس کو پوراکرنے اور ہر ایک روک جو اسلام کی ترقی میں حائل ہوگی اس کو دور کر نے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے اور وہ کام جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہوگا اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے سرانجام دے دے گا۔لیکن اس آیت کے ایک اور بھی معنے ہیں اور وہ یہ کہ وہ زمانہ گذرگیا جب ناقص اور جزوی شریعتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا کرتی تھیں۔اب وہ زمانہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے وہ کامل شریعت نازل کردی ہے جو تمام ضروری امور پر حاوی ہے۔اس طرح ابتدائے زمانہ میں ہی قرآن کریم سے کامل ہونے کا دعویٰ کردیا گیا اور بتایا گیا کہ وہ تمام ضروری علوم جو انسان کی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو پوری تفصیل کے ساتھ قرآن کریم میں بیان کردیا ہے۔تم اس شریعت کے بعد یہ نہیں کہ سکوگے کہ بنی نوع انسان کی فلاں ضرورت پوری ہونے سے رہ گئی یا فلاں مسئلہ جس کا حل ضروری تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے حل نہیں کیا ۔شریعت اپنے کمال پر پہنچ گئی ہے اور ہر ضروری امر انسان کی اصلاح اور روحانی ترقی کے ساتھ تعلق تھا اسے اس کتاب میں کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔
اگر مجد دین پراس پیشگوئی کیا جائے توپھر من کل امر کااستعمال ایسا ہی ہوگا جیسے ملکئہ سباکے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے اوتیت من کل شیء(النمل۲ع۱۷) کہ اس کو سب ایسی چیزیں دی گئی تھیں جن کی ان کو ضرورت ہو سکتی تھی۔کیونکہ مجددین کے کام کا حلقہ محدود ہوتا ہے اور وہ محض اپنے علاقہ یا اپنی قوم یا اپنے ملک کی خرابیوںکو دور کرنے کے لئے آتے ہیں اور اس وقت آتے ہیں جب خرابی وسیع اور شدید نہیں ہوتی ۔پس ان کا دائرہ عمل ایسا وسیع نہیں ہوتا کہ ساری دنیا کی اصلاح ان کے ذمہ ہو یا ہر قسم کی اصلاح ان کے ذمہ ہو ۔پس مجددین پر جب اس پیشگوئی کو چسپاں کیا جائے گا تومن کل امر کے معنے سب امور کے نہیں ہونگے بلکہ سب وقتی ضرورت کے امور ہونگے یعنی جس جس خرابی کی اصلاح کے لئے انہیں ملائکہ کی مدد کی ضرورت ہو گی ان خرابیوں کی اصلاح کے لئے ملائکہ نازل کر دئیے جائیں گے یا اسلام کی ترقی کے لئے جن امور کی انہیں ضرورت ہو گی ان امور میں انہیں ملائکہ کی مدد حاصل ہوگی گویامن کل امرکے معنے ہونگے کل ضروری امور ۔لیکن وہ موعود جو بروز کامل کے طور پر ظاہر ہونگے چونکہ وہ اللہ تعالی کے نبی اور رسول کریمﷺ کے کامل بروز ہونگے اس لئے جس طرح رسول کریم ﷺ کے متعلق اس آیت کے یہ معنے تھے کہ قرآنی شریعت کو ہر لحاظ سے کامل کیا جائے گا اسی طرح ان کے متعلق اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کی ساری خوبیاں مخفی ہوجائیںگی تب اللہ تعالی آسمان سے اپنے ملائکہ کو نازل فرمائے گا اور قرآن کریم کی تمام خوبیوںکو دنیا پر دوبارہ ظاہر کریگا ۔اس صورت میں من کل امرکے معنے صرف ضروری امور کے نہیں ہونگے بلکہ تمام امور کے ہونگے یعنی کوئی امر ایسا نہیں ہو گا جس کے لئے آسمان سے فرشتوں کا نزول نہ ہو۔
سلم ھی حتی مطلع الفجرO
(پھر فرشتوں کے اترنے کے بعد تو )سلامتی (ہی سلامتی ہوتی)ہے (اور) یہ (حال )صبح کے طلوع ہونے تک (رہتا)ہے۔
حل لغات: علماء لغت لکھتے ہیں کہ یہاں سلام۔مسلمۃکے معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی سلام بھیجنے والے۔ان کے نزدیک اس کا یہ مطلب ہے کہ فرشتے مومنوں کو یا مومن آپس میں سلام کرتے ہیں ۔مگر اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سلامکا لفظ یہاں سلامتی کے معنوں میں بھی استعمال ہو سکتا ہے ۔پھر آگے چل کر اور اختلاف ہو جاتا ہے بعض لوگمن کل امرپر پہلی آیت کو ختم سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں سلامایک علیحدہ لفظ ہے ۔بعض کے نزدیک سلام کو ھیکے ساتھ لگانا چاہیے یعنیسلام کا من کل امر سے تعلق ہے یعنی آیت یوں ہے من کل امر سلام۔اور ھی۔حتیکے ساتھ لگے گا اور معنے یہ ہونگے کہ یہ حالت مطلع الفجر تک رہے گی۔وہ لوگ جو سلامکو بالکل علیحدہ لفظ قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کے یہ معنے ہیں کہ سلام سلام یعنی یہ زمانہ سلامتی ہی سلامتی کا ہوتا ہے یا لیلۃالقدر میں خد اتعالی کی طرف سے سلامتی ہی سلامتی نازل ہوتی ہے ۔لیکن وہ لوگ جو من کل امر کے ساتھ اس کا تعلق بتاتے ہیں ان کے نزدیک اس کے معنے یہ ہیں کہ ہر امر جو اس رات میں فرشتے لاتے ہیں سلامتی کا موجب ہوتا ہے ۔اور جو لوگ ھیکا سلامکو ساتھ تعلق بتاتے ہیں ان کے نزدیک معنے یہ ہیں کہ فرشتوں کا نزول سلامتی ہی سلامتی ہوتا ہے ۔ابن عباس ؓ کا یہی آخری قول ہے اور در حقیقت یہ سب ہی معنے اس آیت پر چسپاں ہوتے ہیں۔
تفسیر:۔دیکھو ابھی اسلام شروع ہوا ہی تھا کہ اللہ تعالی نے دنیا میں یہ اعلان فرمادیا کہ قرآن کریم ہماری طرف سے جو تعلیم پیش کی جا رہی ہے اپنے اندر محض سلامتی رکھتی ہے کوئی تمدنی یا عائلی یا اخلاقی یا روحانی ضرر نہیں جو اس تعلیم پر عمل کرنے والے کو پہنچ سکتا ہو۔ان معنوں کی روسے تنزل الملائکۃ والروح فیہا باذن ربھم من کل امر سلامپر جملہ ختم ہوگا اور مفہوم یہ ہوگا کہ اس وقت ہماری طرف سے فرشتے جو تعلیم لے کر نازل ہو رہے ہیں ہو نہ صرف تمام امور پر مشتمل ہے بلکہ اپنے اندر کامل سلامتی رکھتی ہے ۔ہو قسم کے ضرر سے پاک،ہر قسم کے نقصان سے محفوظ اور ہر قسم کے عیب سے منزہ ہے اور دنیا یہ طاقت نہیں رکھتی کہ اس تعلیم میں کوئی نقص ثابت کر سکے اور اس صورت میں کہ من کل امر سلام کو الگ جملہ سمجھا جائے آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ خد اتعالی کے فرشتے اللہ تعالی کا حکم لے کر نازل ہو تے ہیں اور ادھر دنیا کی ہر تدبیر اور ہر سعی سے انہیں سلامتی کا پیام دیا جاتا ہے۔یعنی اللہ تعالی دو تغیرات اس وقت دنیا میں پیدا کرتا ہے ۔ایک تو یہ کہ فرشتے اور روحانیت آسمان سے اترتے ہیں اور ایک یہ کہ قانون طبعی اس تحریک کی تائید میں لگ جاتا ہے آسمان سے زمین کا پانی مل جاتا ہے اور نبی کی کامیابی یقینی ہو جاتی ہے ۔اور اگر پہلی آیت کو من کل امر تک ختم سمجھا جائے تو آیت کے یہ معنے ہونگے کہ ملائکہ اور روح اللہ تعالی کے حکم سے ہر قسم کی شریعت لے کر آتے ہیں اور اس زمانہ میںطلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی رہتی ہے یعنی یہ ایام خاص نصرتوں اور فضلوں کے ہوتے ہیں ۔
اور اگر سلامکو دوسرا جملہ اور ھی حتیکو ایک مستقل تیسرا جملہ قرار دیا جائے تو ان آیات کے یہ معنے ہونگے کہ ملائکہ اور روح ہر قسم کے احکام لے کر اس رات میں اترتے ہیں اے لوگو یہ زمانہ سلامتی ہی سلامتی کا ہے اور یہ تمام فرشتون کا اترنا اور روح کا آنا اور سلامتی کا پھیل جانا طلوع فجر تک رہے گا ۔غرض نحوی طور پر جس قدر معنے اس آیت کے بنتے ہیں وہ سب کے سب اس آیت پر چسپاں ہوتے ہیں ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مطلع الفجر سے کیا مراد ہے؟سو یاد رکھنا چاہیئے کہ مطلع الفجر سے مراد وہ وقت ہے جب اسلام کو غلبہ حاصل ہو جائے اور یہ غلبہ ہمیشہ نبی کی وفات کے وقت ہوتا ہے ۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ’’الو صیت‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ اے عزیزو!خد اتعالی کی ہمیشہ سے یہ سنت چلی آئی ہے کہ وہ اپنی دو قدرتیں دکھلاتا ہے تاکہ دشمنو کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرے ۔ ایک قدرت تو وہ ہوتی ہے جس اک نبی کے ذریعہ اظہار ہوتا ہے جب وہ اس راست بازی کا بیج بو دیتا ہے جس کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے ۔اور دوسری قدرت وہ ہوتی ہے جس کا اس کے خلفاء کے ذریعہ تکمیل کے رنگ میں اظہار ہوتا ہے ۔ پس یہاں مطلع الفجر سے نبی کی وفات کا زمانہ مراد ہے اور اللہ تعالی اپنے مومن بندوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ تمہاری تمام سلامتی اس بات میں ہے کہ تم اس رات کی عظمت کو پہچانو اور وہ قربانیاں کرو جن کا اسوقت تم سے مطالبہ کیا جارہا ہے جب فجر کا طلوع ہو گیا اور نبوت کا زمانہ ختم ہو گیا اس وقت آسمان کی نعمتیں آسمان پر رہ جائیں گی اور زمین ان برکات سے حصہ نہیں لے سکے گی جن سے اس وقت حصہ لے رہی ہے ۔
اس جگہ یہ نکتہ خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نبی کے زمانہ کو بار بار دن بھی کہا گیا ہے اور نبی کو سورج۔پھر اسکے زمانہ کو لیلۃالقدر یعنی رات بھی کہا گیا ہے وہی دن اور وہی رات کس طرح ہوا ۔سو یاد رہے کہ وہ الگ الگ نسبتوں کی بناء پر ایک ہی زمانہ کو دن بھی کہا گیا ہء اور رات کا بھی ۔نبی کا زمانہ رات ہوتا ہے بوجہ اس سے پہلی ظلمت کے ۔ اور نبی کا زمانہ رات ہوتا ہے بوجہ اسکے کہ جب وہ اس ظلمت کو دور کردیتا ہے تو ا سکا کام ختم ہو جاتا ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے اسے کہا جاتا ہے کہاب تمہارے جانے کا وقت آگیا ۔جیسے رسول کریم ﷺ نے جب گمراہی اور ضلالت کی تاریکیوں ک ودور کر دیا تو اذا جاء نصر اللہ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا فسبح بحمدہ ربک واستغفرہ انہ کان توابا کے ذریعہ آپ کو وفات کی خبر دی گئی اور بتایا گیا کہ اب ہم تمہیں اپنے پاس بلانے والے ہیں پس چونکہ نبی اس زمانہ مین آتا ہے جب چاروں طرف ظلمت چھائی ہوئی ہوتی ہے اور جب وہ اس ظلمت کو دور کر دیتا اور امن اور ترقی اور کامیابی کا زمانہ آجا تا ہے تو وہ فوت ہو جاتا ہے اس لئے اس کے زمانہ کو رات قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس کا سارا کام رات ہی میں ختم ہو جاتا ہے ۔وہ مشکلات کے زمانہ میں آتا اور مشکلات کو دور ختم ہوتے ہی اللہ تعالی کے پاس چلا جاتا ہے ۔پس چونکہ ظاہری بڑی ترقی نبی کی وفات کے بعد آتی ہے اور کامیابیوں کو سورج ہمیشہ مطلع الفجر کے بعد نکلتا ہے اسلئے نبی کے زمانہ کو رات کہا جاتا ہے اگلا زمانہ جو مطلع الفجر سے شروع ہوتا ہے اور جس میں الٰہی سلسلہ کو دنیا میں غیر معمولی عروج حاصل ہوتا ہے وہ اسی وقت آتا ہے جب فجر کا طلوع ہوجاتاہے یعنی نبی اپنے رب کے پاس جا چکا ہوتا ہے ۔لیکن دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں تک روحانی ترقیات کا سوال ہے نبی کا زمانہ روشنی کا زمانہ ہوتا ہے اور نبی کی وفات کے بعد کا زمانہ تاریکی کا زمانہ ہوتا ہے جب اللہ تعالی کیطرف سے کوئی بنی مبعوث ہوتا ہے اس زمانہ میں آسمان سے نزول وحی کا ایک عجیب سلسلہ شروع ہو تا ہے ،برکات وانوار کی بارش ہوتی ہے،معجزات ونشانات کا ظہور ہوتا ہے،روحانیت کی منازل سالوں اور مہینوں کی بجائے دنوں میں طے ہونے لگتی ہیں اور ایمان واخلاص اور محبت باللہ میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر اس زمانہ کو دن کہا جاتا ہے اسے روشنی اور نور کا زمانہ قرار دیا جاتا ہے جس میں نبی موجود نہیں ہوتا ۔
غرض زمانی تو ایک ہی ہوتا ہے مگر نسبتوں کے فرق کی وجہ سے اسے رات بھی کہا جاتا ہے اور دن بھی ۔وہ رات ہوتا ہے بوجہ اپنی پہلی ظلمت کے اور بوجہ اس کے کہ نبی کے زمانہ میں دنیوی ترقیات پوری نہیںہوتیں۔کامیابیوں اور ترقیات کا زمانہ نبی کی وفات کے بعد آتا ہے مگر بلحاظ خاص افضال الٰہی کے یعنی نزول وحی اور نزول برکات اور تکمیل روحانیت کے اس کا زمانہ دن کا زمانہ ہوتا ہے اور اسکے بعد کا زمانہ رات کا زمانہ ۔کیونکہ اس زمانہ میں دنیا ان برکات سے محروم ہوجاتی ہے جن سے وہ پہلے متمتع ہو کرتی تھی۔ پس روحانی برکات کے لحاظ سے نبی کا زمانہ دن ہوتا ہے اور بعد کا زمانہ رات اور اس وجہ سے اسکی تعلیم کی دنیوی شوکت ابھی پورے طور پر ظاہر نہیںہوئی ہوتی ۔کہ نبی اٹھا لیا جاتا ہے اس کا زمانہ رات کا ہوتا ہے کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ مطلع الفجر تک نبی اپنی قوم میں رہتا ہے ۔چونکہ کوئی بھی نبی دنیوی انعامات حاصل کرنے نہیں آتا اسلئے جب اسکی قربانیوں کے مادی نتائج نکلنے کا وقت آتا ہے اور وہ بیج اپنا پھل دینے لگتا ہے جو اس نے بویا ہوتا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے تم ہمارے پاس آجائو اور یہ انعام ان دوسروں کے لئے رہنے دو جن کی نگا ہ اسے زیادہ قیمتی سمجھتی ہے ۔اسی امر کو مدنظر رکھ کر رسول کریمﷺ نے اپنے صحابہؓ کو نجوم قرار دیا ہے کیونکہ نجوم ہمیشہ رات کو ظاہر ہوتے ہیں آپ فرماتے ہیں اصحابی کا لنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم(تشیید المبانی)یعنی میرے زمانہ میں جو برکات اللہ تعالی نے نازل کی ہیں ان سے حصہ لے کر میرے صحابہؓنجوم بن گئے ہیں اب تو دن کا وقت ہے اور سورج اپنے شعاعوں سے دنیا کو منور کر رہا ہے لیکن میرے بعد دنیا پر رات کا زمانہ آجائے گا اس وقت میرے صحابہ ؓ ستارے بن کر دنیا کے رہنمائی کریں گے اس لئے میرے بعد وہی لوگ کامیاب ہونگے جو رات کی تاریکیوں میں میرے صحابہؓ سے روشنی حاصل کریں گے ۔اس حدیث میں رسول کریم ﷺ نے اپنے زمانہ کو دن قرار دیا ہے اور بعد میں آنے والے زمانہ کو رات کہا ہے ۔لیکن دوسری طرف جہاں تک ظاہری کامیابویں اور فتوحات کا تعلق ہے رسول کریم ﷺ کا زمانہ رات سے مشابہت رکھتا تھا اور بعد میں آنے والا زمانہ دن سے مشابہت رکھتا تھا۔چنانچہ دیکھ لو جب رسول کریم ﷺ وفات پا گئے اللہ تعالی نے اسلام کو ظاہری رنگ میںغلبہ دینا شروع کر دیا یہاں تک کہ اسلام کو ایسی طاقت حاصل ہو گئی کہ ابو بکرب کی آواز جب قیصر سنتا تو ہو اس کو رد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا حالانکہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں یہ حالتتھی کہ آپ کا خط جب اس کے پاس گیا تو اس پر اثر بھی ہوا مگر پھر اپنی قوم سے ڈر گیا اور رسول کریم ﷺ کی بات ماننے کے لئے تیار نہ ہوا ۔حضرت عمر ؓ کا زمانہ آیا تو آپ کو ابوبکرؓ سے بھی زیادہ رعب حاصل ہوا ۔قیصر صرف انکی بات کو سنتا نہیں تھا بلکہ ساتھ ہی دوڑتا بھی تھا کہ اگر میں نے اس کے مطابق عمل نہ کیا تو میرے لئے اچھا نہیں ہوگا اور کسریٰ تو اس وقت بالکل تباہ حال ہو چکا تھا ۔عثمان ؓ کا زمانہ آیا تو ان کو بھی ایسا دبدبہ اور رعب حاصل ہوا کہ چاروں طرف ان کا نام گونجتا تھا اور ہر شخص سمجھتا تھا کہ مجھے امیرالمومنین کے حکم کی اطاعت کرنی چاہیئے ۔اب جہاں تک دنیوی اعزاز کا سوال ہے محمد رسول ﷺ کو وہ عزت حاصل نہیں ہوئی جو ابو بکر ؓاور عمر ؓاور عثمان ؓ کو حاصل ہوئی مگر پھر بھی یہ لوگ روحانی دنیا کے کے نجوم تھے شمس محمد رسول اللہ ﷺ ہی تھے ۔
غرض نبی کی وفات کے معا بعد سے روحانی لحاظ سے رات کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے لیکن جسمانی لحاظ سے نبی کی وفات طلوع فجر پر دلالت کرتی ہے اور معاً بعد سے طلوع آفتاب یعنی ظاہری کامیابیوں کا نظارہ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے ایساہی محمد رسو ل اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہوا ۔ایسا ہی مسیح ناصریؑ اور موسیٰؑ کے زمانہ میں ہوا ۔آپ کے زمانہ میں جو آخری جلسہ ہو ااس میں سات سو آدمی جمع ہوئے تھے ۔مجھے یاد ہے آپ سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے تو ریتی چھلہ میں جہاں بڑ کا درخت ہے وہاں لوگوں کی کثرت اور ان کے اژہام کو دیکھ کر آپ نے فرمایا معلوم ہوتا ہے میرا کام ختم ہوچکا ہے کیونکہ اب غلبہ اور کامیابی کے آثار ظاہر ہو گئے ہیں پھر آپ بار بار احمدیت کی ترقی کا ذکر کرتے اور فرماتے اللہ تعالی نے احمدیت کو کس قدر ترقی بخشی ہے اب تو ہمارے جلسہ میںسات سو آدمی شامل ہونے کے لئے آگئے ہیں یہ اتنی بڑی کامیابی ہے کہ میں سمجھتا ہوں جس کام کے لئے اللہ تعالی نے مجھے بھیجا تھا وہ پورا ہو چکا ہے اب احمدیت کو کوئی مٹا نہیں سکتا ۔
غرض سات سو آدمیوں کے آنے پر آپ اس قدر خوش ہوئے کہ آپ نے سمجھا کہ جس کام کے لئے مجھے کھڑا کیا گیا تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے مگر اب خدا تعالی کے فضل سے یہ حالت ہے کہ صرف درس میں ہی آٹھ آ ٹھ سو آدمی جمع ہو جاتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو کہیں باہر سے نہیں آتے بلکہ قادیان میں رہنے والے ہیں اور جلسہ سالانہ پر تو خدا تعالی کے فضل سے پچیس تیس ہزار آدمی باہر اکٹھا ہو جاتاہے۔غرض ہمارا سلسلہ اللہ تعالی کے فضل سے ترقی پر ترقی کر رہا ہے ۔کوئی دن ایسا نہیں ٍگذرتا جس میں کوئی نہ کوئی شخص بیعت میںشامل نہ ہو ۔ترقی اور عروج اور طاقت میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر اس غلبہ کے باوجود کون کہہ سکتا ہے کہ یہ زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ سے بہتر ہے بے شک ہمیں کامیابیاںزیادہ حاصل ہو رہی ہیں، ترقیات زیادہ حاصل ہو رہی ہیں، غلبہ زیادہ حاصل ہورہا ہے مگر حضرت مسیح موعد علیہ اصلوٰۃ وا لسلام کے زمانہ کو یاد کر کے دل تڑپ اٹھتا ہے اور یہ ساری کامیابیاں بالکل حقیر نظر آنے لگتی ہیں ۔
میرے قرآن پر ایک چھوٹا سا پرانا نوٹ ہے جو ان قلبی کیفیات کو خوب ظاہر کرتا ہے جو نبی کا زمانہ دیکھنے والوں کے اندر پائی جاتی ہیں ۔میں نے سلام پر نوٹ لکھا ہے :۔
’’یعنی اس رات میں سلامتی ہی سلامتی ہے آہ مسیح موعود کا وقت! اس وقت تھوڑے تھے مگر امن تھا ‘‘
بعد میں اللہ تعالی نے ہمیں بڑی بڑی ترقیات دی ہیں مگر یہ ترقیات اس زمانہ کا کہاں مقابلہ کر سکتی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا ۔ بیشک آج دنیوی لحاظ سے جو رتبہ ہم کو حاصل ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حاصل نہیں تھا۔ جتنے لوگ ہماری باتیں ماننے والے موجود ہیں اتنے لوگ باتیں ماننے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں موجود نہیںتھے اتنا خزانہ ہمارے ہاتھ میں ہے اتنا خزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں نہیں تھا۔اب بعض دفعہ خدا تعالی ایک ایک دن میں پچیس پچیس تیس تیس ہزار روپیہ چندے کا بھجوا دیتا ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اتنا چندہ سارے سال میں بھی جمع نہیں ہوتا تھا مگر اس تمام ترقی کے باوجود کون کہہ سکتا ہے کہ یہ زمانہ اس زمانے سے بہتر ہے۔
مجھے یاد ہے جب لنگر خانہ کا خرچ بڑھا اور کثرت سے قادیان میں مہمان آنے شروع ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاص طور پر یہ فکر پیدا ہو گیا کہ اب ان اخراجات کے پورا ہونے کی کیا صورت ہو گی مگر اب یہ حالت ہے کہ خدا تعالی کے فضل سے ایک ایک احمدی لنگر خانہ کا سارا خرچ دے سکتا ہے۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے زلزلہ کے متعلق اپنی پیشگوئیوں کی اشاعت فرما ئی تو قادیان میں کثرت سے احمدی دوست آگئے حضرت مسیح موعود علیہ لسلام بھی دوستوں سمیت باغ میں تشریف لے گئے اور وہاں خیموں میں رہائش شروع کر دی ۔چونکہ ان دنوں قادیان میں زیادہ کثرت سے مہمان آنے لگ گئے تھے ایک دن آپ نے ہماری والدہ سے فرمایا کہ اب تو روپیہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی میرا خیا ل ہے کہ کسی سے قرض لے لیا جائے کیونکہ اب اخراجات کے لئے کوئی روپیہ پاس نہیں رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ ظہر کی نماز کے لئے تشریف لے گئے ۔جب واپس آئے تو اس وقت آپ مسکرا رہے تھے۔واپس آنے کے بعد پہلے آپ کمرہ میں تشریف لے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلے اور والدہ سے فرمایا کہ انسان باوجود خدا تعالی کے متواتر نشانات دیکھنے کے بعض دفعہ بد ظنی سے کام لے لیتا ہے میں نے خیال کیا تھا کہ لنگر کے لئے روپیہ نہیں اب کہیں سے قرض لینا پڑے گا مگر جب میں نماز کے لئے گیا تو ایک شخص جس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ آگے بڑھا اور اس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دے دی ۔میں نے اسکی حالت کو دیکھ کر سمجھا کہ اس میں کچھ پیسے ہونگے ۔مگر جب گھر آکر اسے کھولا تو اس میں سے کئی سو روپیہ نکل آیا۔
اب دیکھو وہ روپیہ آج کل کے چندوں کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا تھا ۔آج اگر کسی کو کہا جائے کہ تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا ایک دن نصیب کیا جاتا ہے۔ بشرطیکہ تم لنگر کا ایک دن کا خرچ دے دو تو وہ کہے گاکہ ایک دن کا خرچ نہیں تم مجھ سارے سال کا خرچ لے لو لیکن خدا کیلئے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک دن دیکھنے دو۔ مگر آج کسی کو وہ بات کہاں نصیب ہوسکتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قربانی کرنے والوں کو نصیب ہوئی۔
افسوس کے لوگوں کے سامنے قربانی کے موقعہ آتے ہیں تو وہ ان سے منہ پھیر لیتے ہیں اور جب وقت گزرجاتا ہے تو حسرت اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کا ش ہم نے فائدہ اٹھایا ہوتا۔ کاش ہم نے وقت کو ضائع نہ کیا ہوتا۔ اب بھی خداتعالیٰ نے ان کیلئے ایک بڑا موقع پیدا کیا ہو ہے۔ خداتعالیٰ کا موعود ان میں موجود ہے اگر وہ چاہے تو صحابہ کی سی خدمت کرکے صحابہ کے سے انعامات حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر کتنے ہیں جو اس نعمت کی قدر کرتے ہیں۔ ہاں بہت لوگ اس وقت روئیں گے اور آہیں بھریں گے جب وہ زمانہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ غرض انبیاء دنیا میں ایک بیج بونے کیلئے آتے ہیں وہ بیج بظاہر ایسے حالات میں بویا جاتا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں وہ ضائع چلا جائے گا مگر اللہ تعالیٰ اپنی قدیم اور ازلی سنت کے مطابق اس بیج کو بڑھتا اور اپنے سلسلہ کو ممتد کرتا چلا جاتا ہے۔ اس دوران میں الٰہی سنت کے مطابق قربانی کے کچھ اور موقعہ پید اہوجاتے ہیں تب وہ لوگ جو خداتعالیٰ کی محبت رکھتے ہیں اپنی حسرتوں کو پورا کرنے کیلئے آگے بڑھتے اور قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پھر بھی سوئے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ زمانہ بھی گزرجاتا ہے اور وہ کف افسوس ملنا شروع کردیتے ہیں کہ ہم نے کچھ نہ کیا۔ آج لوگ حسرتیں کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ نہ ملا مگر اس حسرت کے باوجود وہ موجودہ قربانیوں میں پوری طرح حصہ نہیں لے رہے۔ اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ یہی کہ وہ اس زمانہ کو بھی کھودیں گے اور حسرت کریں گے کہ کاش انہیں مصلح موعود کے زمانہ میں خدمت کا کوئی موقع مل جاتا ۔ حالانکہ ان حسرت کرنے والوں میں بہت لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اس زمانہ کو پایا مگر ان کی آنکھیں بند رہیں انہوں نے وقت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی اور حسرت اور افسوس کے سوا ان کو اور کچھ حاصل نہ ہوا۔

سورۃ العدیت مکیۃ
سورئہ العادیات۔ یہ مکی سورۃ ہے
وھی احدے عشرۃ ایات دون بسملۃ و فیھا رکوع واحد
اس کی بسم ا للہ کے سوا گیارہ آیات ہیں اور ایک رکوع ہے
ابن مسعودؓ۔ جابر ۔ الحسن ۔عکرمہاور عطاء کے نزدیک یہ سورۃ مکی ہے ۔ابن عباسؓ ۔انسؓ۔اور قتادہؓ کے نزدیک مدنی ہے۔عبداللہ بن مسعودؓ چونکہ پرانے صحابی اور السابقون الا ولون میں سے ہیںاسلئے انکی روایت عینی شہادت ہونے کی وجہ سے باقیوں سے زیادہ قابل قبول ہے۔ ابن عباس ؓ کی روایت کے (بوجہ اس کے کہ ابن عباسؓ مدینہ میں بالغ ہوئے ہیں مکی زندگی میں تو وہ دو تین سال کے تھے)صرف اتنے معنے سمجھے جائیں گے کہ انہوں نے مدینہ میں یہ سورۃ سنی ۔ مگر اس سے یہ مراد نہیں لی جا سکتی کہ یہ سورۃ مدینہ میں ہی نازل ہوئی ہے کیونکہ جو سورۃ مکہ میں نازل ہو وہ مدینہ میں بھی سنی جا سکتی ہے۔اسی طرح انسؓ (جو انصار میں سے تھے )کے قول کے بھی اتنے ہی معنے ہوں گے کہ انہوں نے یہ سورۃ مدینہ میں سنی ہے مگر جب عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہوںکہ یہ سورۃ مکی ہے تو بوجہ اس کے کہ وہ مکہ میں ایمان والوںمیں سے ابتدائی لوگوں میں سے تھے اس کے معنے یہ ہیں کہ انہوں نے اس سورۃ کو مکہ میں سنا پس یہ رویت ان کے السابقون الاولون میں سے ہونے کی وجہ سے دوسری روایتوںسے زیادہ مقدم اور اہم ہے مستشرقین نے بھی بلخصوص ویری نے تسلیم کیا ہے یہ سورۃ مکی ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ریورنڈویری کا خیال ادھر گیا ہی نہیںکہ اس کو مکہ ثابت کرنے کے نتیجہ میںایک عظیم الشان پیشگوئی بن جائے گی ۔اگر یہ خیا ل انہیںآجاتا تو وہ کبھی اسے مکہ قرار نہ دیتے کیونکہ ریونڈ ویری کے لئے تو یہ بڑی مصیبت ہے کہ کسی پیشگوئی اور پھر عظیم الشان پیشگوئی کا قرآن کریم سے ثبوت ملتا ہو۔اگر اس طرف اس کا ذہن جا تا تو وہ حسب عادت کہہ دیتے کہ گو اکثر رو ا یات اسے مکی قرار دیتی ہیںلیکن اسکا سٹائل مدنی ہے اس لئے روایتیں غلط ہیں۔یہ ہے مدنی۔
ترتیب مضمون:۔ یاد رکھنا چاہیے کہ پہلی چند سورتوں سے (سوائے آخری ایک دو سورتوں کے)یہ طریق چلا آرہا تھا کہ ایک ہی سورۃ میںرسول کریمﷺ کی بعثت اولیٰ کا بھی ذکر کیا جاتا تھا اور بعثت ثانیہ کا بھی ۔ مگر اب باری باری ایک ایک سورۃ میں ایک ایک زمانہ کا ذکر آتا ہے چنانچہ سورۃ البینہ میں رسول کریمﷺ کی بعثت اولیٰ کا زکر کیا گیا تھا اور سورۃ الزلزال میں آپﷺکی بعثت ثانیہ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ ایک عجیب فرق ہے جو ان آخری سورتوں میں پہلی سورتوں کے مقابل پر پیدا کر دیا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخری سورتیں چھوٹی کر دی گئی ہیںتا کمزور حفظہ والے اور بچے بھی کچھ حصہ قرآن کریم کا آسانی سے یاد کر سکیں۔پہلے چونکہ لمبی سورتیں تھیںاس لئے ایک ہی سورۃ میںدونوں زمانوں کا ذکر کر دیا جاتا تھا اب سورتیں چھوٹی ہو گئی ہیںاس لئے یہ طریق اختیار کر لیا گیا ہے کہ سورہ میں بعثت اولیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے اور دوسری سورۃ میں بعثت ثانیہ کا ذکر کیا جاتا ہے اسی ترتیب کے ماتحت زیر تفسیر سورۃمیں اللہ تعالی نے رسول کریمﷺ کے زمانی کی ترقیات کا ذکر کیا ہے اگلی سورۃ میںپھر آپ ﷺ کی بعثت ثانیہ کا ذکر کیا جائے گا اور کچھ سورتوں تک یہی ترتیب چلتی چلی جائے گی اس کے بعد یہ ترتیب ایک نیا چکر کھائے گی اور پھر اس میں کچھ تبدیلی پید اہو جائے گی ۔ بہرحال سورۃ الزلزال میں چونکہ رسول کریم ﷺ کی بعثت کا ذکر تھا اس لئے سورۃ العادیات میںبعثت اولیٰ کا ذکر کیا گیا ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیمO
(میں ) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور)بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کر تا ہوں)
والعد یت ضبحاO
(مجھے) قسم سے ہے جوش سے آوازیں نکالتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کی ۔
حل لغات:۔ عادیات: عادیۃسے جمع ہے جو عداسے اسم فاعل کا مونث کا صیغہ ہے اور عدا (یعدو عدوا عدوانا و تعداء وعدا)الرجل و غیرہ کے معنے ہوتے ہیںجری و رکضکوئی شخص تیزی کے ساتھ دوڑا۔اس طرح( عدوا و عدوانا)فلا نا عن الا مر کے معنے ہوتے ہیںصرفہ وشغلہ۔ کسی کو کام سے روک دیا ۔اور عدا علیہ کے معنے ہوتے ہیںوثبکسی کے اوپر حملہ کیا یا جھپٹا مارا ۔اور عدالامر یا عداعن ا لامر کے معنے ہوتے ہیںترکہ۔اس کو چھوڑ دیا۔اور عدی (یعدی عدا) لفلانکے معنے ہوتے ہیںابغضہ۔اس نے بغض رکھا (اقرب)
ضبحا:الضبح نوع من العدو۔مفردات میں لکھا ہے کہ ضبحجانوروں کی دوڑوں میں سے ایک دوڑ کا نام ہے ۔ اسی طرح لکھا ہیقیل الضبح و ھو مد الضبح فی العدو۔ یعنی گھوڑے کا اگلے پائوں لمبے کر کے مارنا جس سے بغلون میں فاصلہ ہوتا چلاجائے اس کو ضبحکہتے ہیں۔ اور اقرب میں لکھا ہے الضبح صوت یسمع من صدور ا لخیل عندالعدویعنی ضبحاس آواز کو کہتے ہیںجو دوڑتے وقت گھوڑوں کے سینوں میں نکلتی ہے ۔یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اس سے مراد گھوڑوں کا ہنہنانا نہیںبلکہ دوڑتے وقت ان کے سینوں میں سے جو خاص قسم کی آواز نکلتی ہے اس کو ضبحکہا جاتا ہے ۔لغت والوں نے لکھا ہے کہ یہ آواز اس قسم کی ہوتی ہے جس طرح اہ اہ کیا جاتا ہے ہمارے ملک میں اسے،ہاہ‘ ہاہ‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیںجبکہ ’ہا‘ کو گلا سکیڑ کر ادا کیا جائے۔
ان معانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے وا لعدیت ضبحا کا ترجمہ یہ ہو گا کہ:۔
۱:۔ہم ان دوڑنے والی سو ا ریوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیںجو ضبحکی چال پر دوڑتی ہیں ۔ضبحجیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ ایک قسم کی تیز دوڑ کا نام ہے اور غالبا یہ کودنے والی دوڑ ہو گی جسے سر پٹ کہتے ہیںتبھی ان کے سینوں میں سے آواز پیدا ہوتی ہے ۔پس پہلے معنے یہ ہونگے کہ ہم ان گھوڑوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیںجو دوڑتے وقت ضبحچال اختیار کرتے ہیںیعنی شدت جوش سے کودتے جاتے ہیں۔
۲:۔دوسرے معنے یہ ہونگے وہ دوڑنے والی سواریاںجو اگلے پائوں لمبے کر کے مارتی اور اچھل کر دوڑتی ہیںجس کے نتیجہ میںانکی بغلوں اور بازئووں میں لمبا فاصلہ ہوجاتا ہے انکو ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
۳:۔تیسرے معنے یہ ہونگے کہ ہم ان دوڑنے والی سواریوں کی قسم کھاتے ہیںجبکہ ان کے سینوں میں سے ایک خاص قسم کی آواز پیدا ہونے لگتی ہے ۔
ان میں سے کوئی معنے لے لئے جائیںخواہ یہ معنے لے لئے جائیںکہ ضبحگھوڑے کی ایک تیز دوڑ کا نام ہے تب بھی۔اگر یہ معنے لے لئے جائیںکہ اس میں گھوڑوں کی اس حالت کا ذکر ہے جبکہ وہ لمبا کود کود کر پائوںمارتے ہیںتب بھی۔اور اگر یہ معنے لئے جائیںکہ اس میں گھوڑوں کی اس دوڑ کا ذکر ہے جس میںان کے سینہ میں سے ایک خاص قسم کی آواز پید اہونے لگتی ہے تب بھی۔ان تینوں صورتوں میں یہ امر ظاہر ہے کہ اس آیت میں ایسے گھوڑوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو جوش و خروش سے اور انتہا ئی رغبت اور شوق سے دوڑتے ہیں۔ یہ سیدھی بات ہے کہ گھوڑا خود نہیں دوڑتا بلکہ دوڑانے والا اسے دوڑاتا ہے اس لئے گو یہاں گھوڑوں کا ذکر ہے مگر اس سے مراد وہ سوار ہیں جو گھوڑوں کو تیزی سے دوڑاتے ہیںیا گھوڑوں کو اس طرح دوڑاتے ہیںکہ ان کے سینوں سے آوازنکلنی شروع ہو جاتی ہے وہ ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کا گھوڑا زندہ رہتا ہے یا مرتا ہے یا اس قدر ان میں جوش پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے گھوڑوں کو کوداتے جاتے ہیں۔
تفسیر:۔مجھے اس سورۃ کے متعلق خاص طور خوشی ہے کہ خود صحابہؓ نے اس کے ایسے معنے کئے ہیںجن سے یہ عظیم الشان پیش گوئی کی حامل قرار پاتی ہے ۔ بہت کم آیات ایسی ہیں جن کے معنے کرتے ہوئے گذشتہ مفسرین نے انکو کسی پیش گوئی کا حامل قراردیا ہو۔ میں سمجھتا ہوںکہ ایسی آیات کی تعداد پانچ سات سے ذیادہ نہیں ہو گی ۔با لعموم پرانے مفسر ین کا یہ طریق رہا ہے کہ وہ قرآن کریم کی آیات کا یا قیامت پر چسپاں کر دیتے ہیںیا بعض گذشتہ واقعات کی طرف ان کو منسوب کر دیتے ہیں۔ لیکن اس آیت کے متعلق گوحضرت علیؓاور بعض دوسرے صحابہؓ کا بھی یہ قول ہے کہ اس میں حج کا ذکر ہے لیکن حضرت عبد اللہ بن عباسؓبڑے اصرار کے ساتھ اس امر پر قائم تھے کہ اس سورۃ میں غزوات اسلامیہ کا ذکر ہے اور ان حملوں کی خبر دی گئی ہے جو مسلمانوں نے کفار پر کرنے تھے۔ یہاں آکر ریور نڈویری کا ہمارے ساتھ متفق ہو جانا اور کہنا کہ یہ سورۃ مکی ہے کوئی معمولی بات نہیں۔غالبا ان کا ذہن حج کی طرف ہی چلا گیا ہے ورنہ اگر انہیںپتہ ہوتا کہ مکہ میں گھڑ چڑھے سواروں کا ذکر غزوات اسلامیہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایک زمانہ میں مسلمانوںکو کفار سے لڑائیاں کرنی پڑیں گی تو وہ کبھی اس سورۃ کو مکی قرار نہ دیتے۔
بہرحال گھوڑے کا کودنا مالک کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ پس گو یہاں گھوڑے کا ذکر ہے مگر دراصل والعدیت ضبحا میں سواروں کے جوش کا اظہار ہے۔ ضبحا خواہ تیز دوڑ کا نام ہو خواہ دوڑنے سے جو آواز پید اہوتی ہے اس کی طرف اشارہ ہو، خواہ ٹانگیں اُٹھا اُٹھا کر دوڑنا یا کداتے چلے جانا مراد ہو بہرحال گھوڑا خود نہیں دوڈرتا بلکہ سوار اسے دوڑاتا ہے۔ پس یہ تینوں حالتیں سوار کے قلب کی کیفیت کے متعلق ہیں اور مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں جہاد کا اس قدر جوش ہوگا کہ وہ بے تحاشا اپنے گھوڑوں کا ایڑیاں مار مار کر دوڑاتے ہوئے دشمن کے ملک کی طرف جائیں گے اور اس امر کی ذرا بھی پرواہ نہیں کریں گے کہ ان کے گھوڑے مرتے ہیں یا زندہ رہتے ہیں۔
اگر ضبح کے معنے خاص قسم کی تیز چال کے کئے جائیں تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ وہ سوار آہستہ چلنا برداشت نہیں کرسکیں گے اور اگر اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ تیزی سے لمبے لمبے ڈگ بھرتے چلے جائیں گے تب بھی اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ منزل مقصود سے پیچھے رہنا برداشت نہیں کرسکیں گے۔ غرض تینوں صورتوں میں اس کا ایک ہی مفہوم ہوگا کہ سوار منزل مقصود کی طرف اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا چلا جائے گا مگر اس لئے نہیں کہ وہاں اس کی محبوبہ بیٹھی ہے جس کی ملاقات کیلئے وہ بیتاب ہورہاہے۔ اس لئے بھی نہیں کہ وہاں کسی نے بڑے بڑے اچھے کھانے تیار کئے ہوئے ہیں اور اسے ان کھانوں میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔ اس لئے بھی نہیں کہ وہاں اس کا مال و متاع پڑا ہوا ہے اور وہ دوڑتا ہے کہ کوئی چور اسے اٹھا کر نہ لے جائے۔ اس لئے بھی نہیں کہ وہاں اس کے دوست احباب موجود ہیں اور وہ ان سے ملنے کیلئے مسافت کو جلد طے کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ اس جگہ جارہا ہے جہاں دشمن اس کی جان لینے کا منتظر بیٹھا اور اس لئے جارہا ہے کہ میں اس مقام پر پہنچ کر اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کردوں۔ گویا ڈر اور خوف کی بجائے اس کے دل میں خوشی اور امنگ ہوگی اور وہ انتہائی مسرت اور شادمانی کے جذبات کے ساتھ میدان قتال کی طرف بڑھتا چلا جائے گا۔ پس والعدیت ضبحا میں گو ذکر گھوڑوں کا ہے مگر حقیقتاً اس میں ان مسلمانوں کی قلبی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے جو ان پر سوار ہوں گے۔
اس آیت کے معنوں کے متعلق بھی مختلف روایتیں پائی جاتی ہیں۔ عبداللہ )بن مسعودؓ) کہتے ہیں کہ اس سے مراد اونٹ ہیں۔ حضرت علیؓ بھی یہی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اونٹ ہیں۔ لیکن حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ اس سے مراد گھوڑے ہیں۔ چنانچہ وہ ذکر کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ حج کے دنوں میں خانہ کعبہ کے پاس حطیم میں بیٹھا ہوا عبادت کررہا تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا میں نے آپ سے ایک آیت کا مطلب دریافت کرناہے۔ میں نے کہا پوچھو۔ کہنے لگا والعدیت ضبحا کے کیا معنے ہیں؟ میں نے کہ ا س سے گھوڑے مراد ہیں۔ اس نے جاکر حضرت علیؓ سے اس کا ذکر کردیا یا کسی اور طرح حضرت علیؓ کو یہ بات پہنچ گئی جس پر آپ نے فرمایا یوم بدر میں تو ہمارے پاس گھوڑے نہ تھے۔ گھوڑے تو پہلی دفعہ ایک سریہ میں گئے تھے جو رسول کریم ﷺ نے بھجوایا تھا۔ ابن جریر حضرت ابن عباسؓ کی ایک دوسری روایت میں اس واقعہ کا یوں ذکر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے مجھ سے والعدیت ضبحا فالموریت قدحا کے متعلق سوال کیاکہ اس سے کیا مراد ہے؟ میں نے کہا گھوڑے سوار جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں دھاوا کرنے کے بعد واپس رات کو آتے ہیں توکھانا پکانے کیلئے آگ جلاتے ہیں ۔ اس نے جاکر حضرت علیؓ سے کہا انہوں نے کہا کیا کسی اور سے بھی پوچھا ہے؟ اس نے کہا ہاں عبداللہ بن عباسؓ سے پوچھا ہے۔ انہوں نے کہا جائو اور ان کو بلالائو۔ جب میں گیا تو حضرت علیؓ نے خفا ہوکر کہا کیا تو اس امر کا فتویٰ دیتا ہے جس کا تجھے علم نہیں۔ پہلا غزوہ اسلام میں بدر تھا اور اس میں صرف دو گھوڑے ہمارے ساتھ تھے۔ ایک گھوڑا زبیرؓ کا تھا اور ایک مقدادؓ کا۔ پھر کہا العدیت ضبحا سے مراد حاجی ہیں جو عرفہ سے مزدلفہ کی طرف آتے ہیں اور پھرمزدلفہ سے منیٰ کی طرف اآتے ہیں (عرفہ سے مزدلفہ تیزی سے آتے ہیں)۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس پر اپنے قول سے رجوع کرلیا۔ مگر باوجود اس کے کہ ابن جریر نے یہ روایت لکھی ہے۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ اس کے معنے گھوڑوں کے سوا اور کچھ نہیں بنتے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے سب شاگرد انہی معنوں کے قائل ہیں اور دوسرے علماء بھی یہی معنے مراد لیتے ہیں۔ چنانچہ مجاہد، عکرمہ، عطاء، قتادہ اور ضحاک سب کا یہی قول ہے اور ابن عباسؓ اور عطاء سے یہ مروی ہے کہ گھوڑے اور کتے کے سوا کوئی ضبح نہیں کرتا۔ حل لغات میں بھی بتایا جاچکا ہے کہ ضبح اس آواز کو کہتے ہیں جو تیز دوڑتے وقت گھوڑوں کے سینوں سے پیدا ہوتی ہے۔ پس باوجود اس روایت کے جس میں یہ ذکر کیاگیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اپنے قول سے رجوع کرلیا ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ عبداللہ بن عباسؓ کا آخر تک یہی مذہب رہا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے سب شاگرد انہی معنوں پر کیوں عمر بھر زور دیتے رہتے۔ پس لغت کی شہادت اور ائمہ ادب کے اصرار کے بعد ہم مجبور ہیں کہ والعدیت ضبحاا سے گھوڑے ہی مراد لیں۔ گو استعارۃً اس سے اونٹ بھی مراد لئے جا سکتے ہیںاور یہ جو کہا گیا ہے کہ اس آیت کوغزوات اسلامیہ پر اس لئے چسپاں نہیں کیا جا سکتا کہ جنگ بدر میں مسلمانوںکے پاس گھوڑے نہیں تھے میرے نزدیک درست نہیںبے شک بدر کی جنگ میںصحابہؓ کے پاس زیادہ گھوڑے نہیںتھے مگر بعد کی جنگوں میںوہ کثرت کے ساتھ گھوڑے رکھنے لگ گئے تھے ۔ بدر کی جنگ پر اس آیت کو چسپاں کرتے ہوئے ہم عا دیات سے استعارۃً اونٹ مراد لے لیں گے جس طرحوا لعدیت ضبحاکے اصل معنے دوڑنے والے گھوڑوں کے ہیںلیکن ہم نے اس کے معنے سواروں کے کئے ہیںکیونکہ گھوڑا خود نہیں دوڑتا بلکہ سوار اسے دوڑاتا ہے اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیںکہ گووالعدیت ضبحاسے گھوڑے مراد ہیں مگر بدر میں اس سے استعارۃ اونٹ مراد تھے کیونکہ عربی زبان میں یہ عام طریق ہے کہ بعض دفعہ ایک بڑی چیز کا ذکر کر دیا جاتا ہیاور چھوٹی چیز کا ذکر اس میں خود بخود شامل سمجھا جاتا ہے۔ مردوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو عورتیں اس میںطبعی طور پر شامل سمجھی جاتی ہیں۔اسی طرح اغارت میں چونکہ گھوڑے زیادہ کام آیا کرتے ہیںاس لئے اللہ تعالی نے ان کا ذکر کر دیا اونٹوں کا نام نہیں لیا مگر جب اونٹ جب جنگی کاموں میں استعمال ہوںاستعارۃً اس میں خود بخود آجاتے ہیں۔ پس اگر جنگ بدر پر ان آیات کو چسپاںکرتے ہوئے عادیات سے اونٹ مراد لے لئے جائیںتو اس میں کوئی حرج نہیں، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ بعد میں جوں جوں دن گذرتے گئے صحابہؓ میں گھوڑوں کا استعمال بڑھتا چلا گیا خود رسول کریم ﷺ بھی گھوڑے استعمال کرنے لگے یہاں تک کہ حدیثوں سے دس کے قریب گھوڑے اور گدھے ثابت ہیںجو مختلف وقتوں میں رسول کریمﷺ نے استعمال کئے۔ بہر حا ل اکثر صحابہؓ کی یہ رائے ہے کہ اس سورۃ میں ان غزوات کی خبر دی گئی ہے جو مسلمانوں کو کفار سے پیش آئے چنانچہ ایک حدیث بھی معین صورت میں اس کی تائید میں سامنے آتی ہے ۔ایک صحابی ؓ یہ بیان کرتے ہیںوالعدیت کی سورۃکا شان نزول یہ تھا کہ ایک دفعہ رسول کریمﷺ نے بنو کنا نہ کی طرف ایک سریہ بھجوایا جس کے سردار المنذر بن عمر و الانصاری تھے(یہ لشکر گھوڑوں پر سوار تھا جیسا کہ حضرت علیؓ کی اوپر بیان کردہ روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جب ان کو حضرت عبد اللہ بن عباس کے اس قول کی خبر پہنچی کہ عاد یات ضبحا سے گھوڑے مراد ہیںتو آپ نے فرما یا کہ گھوڑے تو ایک سریہ میں گئے تھے جو رسول کریم ﷺ نے بھجوائے تھے )المنذر بارہ نقباء میں سے ایک تھے جنہوں نے مکہ میںرسول کریم ﷺکے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور جن کو رسول کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں اہنے قبیلے کا سردار اور افسر مقرر فرمایا تھا ۔ایک ماہ تک اس سریہ کے بارہ میں کوئی خبر نہ آئی جس پر منافقوں نے شور مچادیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ سب کے سب مارے گئے ہیں۔ ان کا مقصد ان افواہوں سے یہ تھا کہ مسلمانوں کے دل ٹوٹ جائیںاور آئندہ کسی قسم کی قربانی کے لئے باہر نہ نکلیںجب انہوں نے اس رنگ میں جھوٹا پرا پیگنڈہ شروع کر دیا تویہ سورۃ نازل ہوئی جس میں اس سریہ کا نقشہ کھینچا گیا اور رسول کریم ﷺ کو بتایا گیا کہ وہ سلامت ہیں انہوں نے دشمن پر حملہ کیا ہے اور وہ اپنے حملہ میں کامیاب رہے ہیںچنانچہ چند دنوں کے بعد سریہ واپس آگیا اور اس نے بتایا کہ جس طرح پیش گوئی کی گئی تھی ویسے ہی واقعات اس کے ساتھ پیش آئے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سورت تو مکی ہے لیکن اگر اس روایت کو تسلیم کیا جائے تو اس کے معنے یہ بنتے ہیںکہ یہ سورۃ مدینہ میں نازل ہوئی تھی مکہ میں نہیں۔ایک طرف اسے مکی قرار دینا اور دوسری طرف اس آیت کا شان نزول ایسا بتانا جس سے یہ مدنی ثابت ہو عجیب بات ہے۔اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوںیہ امر کثرت سے ثابت ہے کہ ایک ایک آیت کے کئی کئی شان نزول بتائے گئے ہیںاور محققین کا قول ہے کہ در حقیقت شان نزول کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیںکہ فلاں آیت فلاں واقعہ پر بھی چسپاںہوتی ہیاس جگہ بھی یہی مراد ہے یعنی چونکہ یہ پہلا غزوہ تھا جس میں سب یا بکثرت گھوڑے استعمال کئے گئے تھے اس لئے رسول کریم ﷺنے اس پہلے سے نازل شدہ سورۃ کو ان لوگوں پر جو ایسی خبریں مشہور کرتے تھے چسپاں کیا اور یہ استدلال فرمایا کہ جس سورۃ میں گھڑ سواروں کی خبر ہے وہ ضرور پہلی گھڑ سواروںکی فوج پر تو پوری ہو گی اور چونکہ اس سورۃ میںاسلامی گھڑسواروں کے جیتنے کی خبر ہے اس لئے ضرور یہ لشکر جیت کر آئے گا ۔پس آپﷺ نے اس سورۃ سے استنباط کر کے لوگوں کو بتا دیا کہ وہ سوار جنہیںمیں نے بھجوایا ہے اس پیش گوئی کے ماتحت جیت کر آئیں گے اور تمھاری مایوسانہ طبیعت کا پول کھل جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب منافقین نے یہ افواہیں مشہور کی ہوںتو اللہ تعالی نے اسی پرانے کلام کو دوبارہ نازل کرکے مسلمانوں کو تسلی دی ہو کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیںسریہ واپس آئے گا اور کامیاب وکامران واپس آئے گا کیونکہ اللہ تعالی اس بارہ میں پہلے سے پیش گوئی کر چکا ہے اور تم سمجھ سکتے ہو کہ بہر حال اللہ تعالی کی ہی پیش گوئی پوری ہو گی منافقین کی بات سچی نہیں ہو سکتی ۔ اسکی ایسی ہی مثال ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلامنے تحریر فرمایا ہے کہ:۔
’’ایک مقدمہ میںکہ اس عاجز کے والد مرحوم کی طرف سے اپنے زمینداری حقوق کے متعلق کسی رعیت پر دائر تھا ۔اس خاکسار پر خواب میں یہ ظاہر کیا گیا کہ اس مقدمہ میں ڈگری ہو جائے گی چنانچہ اس عاجز نے وہ خواب ایک آریہ کو کہ جو قادیان میں موجود ہے بتلادی۔ پھر بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ اخیر تاریخ پر صرف مدعا علیہ مع اپنے چند گواہوں کے عدالت میں حاضر ہوا اور اس طرف سے کوئی مختار وغیرہ حاضر نہ ہوا۔ شام کو مدعا علیہ اور سب گواہوں نے واپس آکر بیان کیا کہ مقدمہ خارج ہو گیا ۔اس خبر کو سنتے وہ آریہ تکذیب اور استہزا سے پیش آیا ۔اس وقت جس قدر قلق اور کر ب گذرا بیان میں نہیں آسکتا ۔ کیونکہ قریب قیاس معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ایک گروہ کثیر کا بیان جن میںبے تعلق آدمی بھی تھے خلاف واقعہ ہو۔اس سخت حزن و غم کی حالت میںنہایت شدت سے الہام ہواکہ جو آہنی میخ کی طرح دل کے اندر داخل ہو گیا ۔اور وہ یہ تھا
ڈگری ہو گئی ہے مسلمان ہے
یعنی کیا تو باور نہیں کرتا اور باوجود مسلمان ہونے کے شک کو دخل دیتا ہے۔آخر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت ڈگری ہی ہوئی تھی اور فریق ثانی نے حکم سننے میں دھوکا کھایا تھا‘‘(تذکرہ ۵۔۶)
اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ۃوالسلام اللہ تعالی سے اطلاع پا کر ایک خبر دیتے ہیںاور واقعہ اس کے مطابق ہو تا ہے مگر جب آریہ جھوٹی افواہ مشہور کر دیتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی تسلی دیتا ہے اور دوبارہ بتاتا ہے کہ’’ڈگری ہو گئی ہے مسلمان ہے‘‘ یعنی تم مسلمان ہو تمھیں خدا تعالی کے کلا م پر یقین رکھنا چاہیے واقعہ یہی ہے کہ ڈگری ہو گئی ہے۔ اسی طرح جب منافقین نے جھوٹی افواہیں پھیلانی شروع کر دیںتو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے والعدیت ضبحاوالی آیات دوبارہ رسول کریمﷺ پر نازل کر دی ہوں یہ بتانے کے لئے تم نے ہی جیتنا ہے اور اس بارہ میںہم پہلے سے پیش گوئی کر چکے ہیںمنافقوں کا کیا ہے وہ تو جھوٹ بول رہے ہیں۔
غرض میرے نزدیک یہ دونوں صورتیں ممکن ہیںیہ بھی کہ جب پہلا سریہ گیا اور منافقوں نے مشہور کر نا شروع کر دیا کہ مسلمان سب مارے گئے ہیںتو رسول کریم ﷺ نے یہ فر مایا ہو کہ وہ کس طرح مارے جا سکتے ہیں۔ یہ پہلا سریہ ہے جو گھوڑوں پر گیا ہے اور اس لحاظ سے اس پیش گوئی کا پہلا مصداق ہے جو خدا تعالی نے والعدیت ضبحامیں کی ہوئی ہے اس لئے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ مارے جائیں اور سننے والے نے سمجھا ہوکہ اسی واقعہ پر یہ سورۃ نازل ہوئی ہے ۔حا لانکہ رسول کریم ﷺ کا منشاء یہ تھا کہ جب اللہ تعالی کہہ چکا ہے کہ ہمیں فتح ہو گی تو منافقوں کی یہ بات کس طرح درست ہو سکتی ہے کہ مسلمان مارے گئے ہیں۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ مکی آیات دوبارہ مسلمانوں کی تسلی کے لئے رسول کریمﷺ پر نازل کر دی گئی ہوں۔بہر حال کوئی صورت ہو رسول کریمﷺ نے ان آیات کو پیشگوئی قرار دیا ہے جو ثبوت ہے اس بات کا کہ غذوات اسلامیہ پر ان آیات کو چسپاں کرنا بالکل درست ہے اور رسول کریمﷺ کی تائید ان معنوں کو حاصل ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ لغت میںبعض دوسرے جانور وں کی آواز کو بھی ضبحکہا جاتا ہے۔ مثلاََ الو کی آواز کو بھی ضبحکہتے ہیں۔ لومڑ کی آواز کو بھی ضبح کہتے ہیں ۔کالے سانپ کی آواز کو بھی ضبحکہتے ہیں۔خر گوش کی آواز کو بھی ضبحکہتے ہیں۔ ان جانوروںکی آواز کے علاوہ کمان سے جو آواز نکلتی ہے اسے بھی ضبحکہتے ہیںاور اس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنی چیزوں کے لئے ضبحکا لفظ استعمال ہوتا ہے تو پھر والعدیت ضبحاکو گھوڑوںپر مخصوص طور پر کس طرح چسپاں کیا جا سکتا ہے کیوں نہ یہ سمجھ لیا جائے کہ والعدیت ضبحا والی آیت اونٹوںپر بھی چسپاں ہو سکتی ہے اور حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بیان کردہ معنے با لکل درست ہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ جہاںاستعارہ اور مجاز کا سوال ہے ہم خود تسلیم کرتے ہیںکہ عدیت ضبحا میں اونٹ بھی شامل ہیں۔ کیونکہ جب اس چیز کا ذکر کر دیا گیا ہے جو اغارت میں زیادہ کام آتی ہے یعنی گھوڑے ۔تو اونٹوں کا ذکر مجازی طور پر اس میں خود بخود شامل سمجھا جائے گا کیونکہ اونٹ بھی اغارت میں کام آتے ہیںگو گھوڑے کی نسبت کم ۔لیکن اگر صرف اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ الو یا بعض دوسرے جانوروں کی آواز کے لئے بھی ضبح کا لفظ بول لیتے ہیں یہ کہا جائے کہ چونکہ الو یا فلاں جانور کی آواز کو بھی ضبح کہا جاتا ہے اس لئے ہم اس جگہ والعدیت ضبحا سے اونٹ مراد لیں گے تو یہ قیاس مع الفارق ہو گا کیونکہ اونٹ اور الو میں تو کوئی جوڑ ہی نہیںسوائے اسکے کہ کوئی مزاحیہ رنگ میں کہہ دے کہ اونٹ اور الو میںکیوں جوڑ نہیں۔الو میں بھی الف وائو آتا ہے اور اونٹ میں بھی الف وائو آتا ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیںکہضبح کا لفظ بعض دوسرے جانوروںکی آواز کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے مگر عادیات کے ساتھ مل کرضبحا کے جو معنے بنتے ہیںوہ سوائے گھوڑوں کے اور کسی چیز پر چسپاں نہیں ہو سکتے۔یوں خالیضبح کا لفظ بے شک خرگوش یا الو یا لومڑ کی آواز کے لئے استعمال کر لیاجاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہاںخالی ضبحکا لفظ نہیںبلکہ والعدیت ضبحا کے الفاظ ہیںاس لئے اس آیت کے معنے کرتے ہوئے والعدیت سے ایسے دوڑنے والے ہی مراد لئے جائیں گے جن کے سینہ سے تیز دوڑتے ہوئے آواز نکلتی ہواور اس آواز کو ضبح کہا جاتا ہو ۔ اور میں بتا چکا ہوںکہ لغت میں صاف طور پر لکھا ہے کہ ضبح آواز کو کہا جاتا ہے جو تیز دوڑتے وقت گھوڑوں کے سینوں میں سے نکلتی ہے پس والعدیت ضبحا سے گھوڑے ہی مراد ہونگے نہ کہ کوئی اور چیز ۔اورابلکا ذکر بھی استعارۃ سمجھا جائے گا نہ کہ حقیقی معنوں میں۔
اس آیت کا یہ بھی ایک لطیف پہلو ہے کہ مکہ میں گھوڑے بہت کم ہوتے ہیںوہاں ذیادہ تر اونٹوں کا رواج ہے ۔ جب میں حج کے لئے گیا تو سواری کے لئے گدھا تو مل جاتا تھا مگر گھوڑا نہیں ملتا تھا۔ ہمارے ملک میںچونکہ گدھے پر سوار ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے اس لئے میں نے کہا کہ گھوڑا تلاش کرو بڑی تلاش کے بعد گھوڑا تو نہ ملا خچر مل گئی جس کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ یہ تین ہزار روپیہ کی ہے میں اس پر سوار ہو گیا ۔ ہم اس وقت غار ثور کی طرف جا رہے تھے ا ور میرے باقی ساتھی گدھوں پر سوار تھے ۔میرے ساتھی تو آدھ میل آگے نکل گئے مگر میں پیچھے رہ گیا آخر میں نے بھی خچر چھوڑی اور گدھے پر سوار ہو کر وہاںپہنچا ۔ پس مکہ میں گھوڑے بہت کم ہوتے ہیںاور اس زمانہ میںتو اور بھی کم تھے ۔ جب یہ سورۃ نازل ہوئی زیادہ تر اونٹوں کا رواج تھا مگر اللہ تعالی نے والعدیت ضبحا کی آیت نازل فرما کر اس طرف اشارہ فرما دیا کہ یہ مکہ کے اونٹ سوار ایک دن گھوڑے سوار بننے والے ہیں۔ چنانچہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوںبعد میں مسلمانوں کے پاس گھوڑے بڑھتے چلے گئے اور انکی تعداد بہت زیادہ ہو گئی کیونکہ جنگ میں جتنا کام گھوڑا دے سکتا ہے اتنا کام اونٹ نہیں دے سکتا ۔
اس کے علاوہ مسلمانوں میں گھوڑوں کا رواج اس وجہ سے بھی ترقی پا گیا کہ قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ نے جہاد کے لئے گھوڑے رکھنا اللہ تعالی کی رضا اور اسکی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ قرار دے دیا تھا ۔ مثلا اللہ تعالی نے مسلمانوں کو واضح طور پر یہ حکم دیا تھا کہ اعدو الھم ما استطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل تر ھبون بہ عدو اللہ و عدو کم (الانفال ۸ع۴)تم اپنے دشمنوں کے مقابلہ میںجو کچھ بھی تیا ر کر سکتے ہو کرو اپنی قوت کو بڑھا کر اور اپنے گھوڑوں کو خدا تعالی کی راہ میں وقف کر کے تاکہ اس ذریعہ سے دشمن پر تمھارا رعب قائم ہو جائے اور وہ اپنی ریشہ دوانیوں سے باز آجائے ۔اسی طرح رسول کریم ﷺ نے بار بار مسلمانوں کو ترغیب دلائی کہ اگر وہ جہاد کے لئے گھوڑے رکھیں گے تو انہیں اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑا اجر ملے گا ۔ مثلا آپ نے فرمایا الخیل معقود فی نوا صیہا الخیر الی یوم القیامۃکہ گھوڑوں کی پیشانی میںقیامت تک خیر بندھی ہوئی ہے اسی طرح آپ نے فرمایامن احتبس فر سا فی سبیل اللہ ایمانا با للہ و تصدیقا بو عدہ فان شبعہ ور یہ ورو ثہو بو لہ فی میزان یوم ا لقیامۃ(بخاری جلد ۲ کتاب الجہاد والسیر) کہ جو شخص اللہ تعالی کی راہ میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ اس کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے اپنا گھوڑا وقف کر دیتا ہے اس گھوڑے کا کھانا ،اس کا پینا ، اس کی لید اور اسکا پیشاب سب قیامت کے دن انسان کی میزان میں بطور اعمال نیک کے تولے جائیں گے۔
گھوڑوں کے متعلق تو اس قسم کی متعدد احا دیث آتی ہیںمگر اونٹ کے متعلق کسی حدیث میں نہیں آتا کہ رسول کریم ﷺ نے جہاد کے لئے اس کا رکھنا بھی اسی طرح موجب حسنات قرار دیا ہو۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منشاء الٰہی یہی تھا کہ مسلمان گھوڑے زیادہ رکھیںاور اغراض جہاد کے لئے اونٹوں کی طرف کم توجہ کریں۔
یہ ساری باتیں بتاتی ہیںکہ اس جگہ عادیاتسے گھوڑے ہی مراد ہیںچنانچہ قرآن کریم سے بھی اس کی تصدیق ہو گئی حدیث سے بھی اس کی تصدیق ہو گئی اور لغت کی تائید بھی ان معنوں کو حاصل ہو گئی ۔ کیونکہ لغت بتاتی ہے کہ ضبحگھوڑے کی ایک دوڑ کا بھی نام ہے اور ضبحاس خاص قسم کی آواز کو بھی کہا جاتا ہے جو دوڑتے وقت اس کے سینہ میں سے نکلتی ہے اور والعدیت ضبحاکے معنے یہ ہیںکہ ایـ مسلمانو! آئندہ زمانہ میں تمہیں جنگیں پیش آنے والی ہیںتمہاری ملکی چیز اونٹ ہے مگر ہماری نصیحت یہ ہے کہ تمہیں اپنے پاس زیادہ سے زیادہ گھوڑے رکھنے چاہئیں کیونکہ وہ جنگ میں اونٹوںسے زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں۔ اگر تم گھوڑوں سے کام لو گے تو وہ تمہاری فتح کا موجب ہو جائیں گے ۔ چنانچہ صحابہ ؓ نے ایسا ہی کیا اور روز بروز ان کے گھوڑے بڑھتے چلے گئے۔
فا لموریت قدحاO
پھر (مجھے قسم ہے) چوٹ مار کر چنگاری نکالنے والوں کی
حل لغات:۔موریات:اوریسے اسم فاعل کا جمع مونث کا صیغہ ہے اوراوری الزنہ کے معنے ہوتے ہیںاخرج نارہ۔اس نے چقماق میں سے آگ نکالی یعنی چقماق کو ٹکرایا جس کے نتیجہ میں آگ پیدا ہوئی اور قدح با لزند کے معنے ہیںرام الا یراء بہاس نے چقماق میں سے آگ نکالنے کا ارادہ کیا (اقرب)پسفا لموریت قدحاکے معنے یہ ہوئے کہ وہ قدحکے معنے چونکہ بعض لوگ ٹکرانے کے لیتے ہیںاس لحاظسے معنے یہ ہوں گے کہ وہ ٹکرا کر آگ نکالتے ہیں۔
تفسیر:۔آگ جلانے سے بعض نے گھوڑوں سے سموں سے پیدا ہو نے والیآگ مراد لی ہ (ابن جریر)اور بعض نے جنگ سے واپسی پر کھانا پکانے کی آگ یا مزدلفہ میںآگ جلانا مراد لیا ہے۔حضرت ابن عباسؓنے جنگ سے واپسی پر کھانا پکانے کے لئے آگ جلانا ہی اس کے معنے کئے ہیں۔پرانے زمانے میں چونکہ دیا سلائی نہیں ہوتی تھیں اس لئے گھروں میںعام طور یہ دستور ہوا کرتا تھا کہ رات کو کھانا پکانے کے بعد کسی قدر آگ راکھ میں دفن کر دی جاتی تھی بلکہ آج کل بھی دیہات میں یہی طریق رائج ہے جب شام کا کھاناتیار ہو جاتاہے تو کوئی انگارہ یا سلگتی ہوئی لکڑی کا ٹکڑا راکھ کے نیچے دفن کر دیتے ہیںصبح کے وقت انگارہ نکال کر تھوڑی سی مونج کی رسی اس پر رکھ دیتے ہیںیا لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اکٹھے کر کے اس کے ارد گرد رکھ دیتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد مونج یا لکڑی کے ٹکڑے جل اٹھتے ہیں اور آگ روشن ہو جاتی ہے وہ لوگ جن ک آگ بجھ جاتی ہے اپنے ہمسایہ سے آگ لے لیتے ہیںمگر جنگ میں ایسا نہیں ہو سکتا اس موقعہ پر پرانے زمانہ میں آگ روشن کرنے کے لئے چقماق سے کام لیا جاتا ہے۔چقماق کو جب لوہے سے زور ٹکرائیںتو اس میں سے آگ نکلتی ہے اس وقت ذرا سا کپڑایا سوکھا ہو ا پتی یا مونج کا کوئی ٹکڑا ساتھ رکھ دیا جائے تو فوراً جل اٹھتا ہے ۔آج کل بھی یورپین قوموں میںچقماق کا رواج پایا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں اس کا رواج مٹ گیا ہے ۔ جب ہم چھوٹے تھے تو چقماق سے تماشہ کے طور پر آگ نکالا کرتے تھے اور گنوار لوگ جن کو حقیقت کا علم نہیں ہوتا تھا وہ سمجھتے تھے کہ بڑا معجزہ ہو گیا ہے مگر اب ہندوستا ن مین چقماق کا رواج نہیں رہا ۔ جرمن قوم میں اس کا ذیادہ رو ا ج ہے کسی قدر انگریزوں میں بھی اس کا رواج پایا جاتا ہے چنانچہ جنگ کے دنوں میںسگرٹ اور سگار جلانے کے لئے فوجیوں میں چقماق بھی دئے جاتے تھے ۔ چقماق کو ایک گھومنے والے کے چکر کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور ساتھ ایک سپرنگ لگا ہوا ہوتا ہے جب اس سپرنگ کو دبایا جائے تو لوہے کا چکر تیزی کے ساتھ گھومنے لگتا ہے اور ساتھ کے چقماق کے ساتھ ٹکراتا ہے جس سے شعلہ پیدا ہوتا ہے پاس ہی بتی ہوتی ہے جس کے نیچے کچھ تیل ہوتا ہے وہ فورا اس شعلہ سے جل اٹھتی ہے اور سگرٹ یا سگار جلا لیا جاتا ہے اور پھر فورا بتی کو بجھا دیا جاتا ہے۔جرمنوں میں اس کا رواج بہت ذیا دہ تھا مگر جرمن تجارت کا یہ آلہ ایک جزو تھا ۔ تھوڑے دن ہوئے یہاں کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ فوجیوںکے لئے تیار کئے گئے تھے کیونکہ وہاں آگ آسانی سے نہیں جل سکتی۔
پرانے زمانہ میں بوجہ دیا سلائی نہ ہونے کے فوجوں میں چقماق سے ہی زیادہ تر کام لیا جاتا تھا اس لئے حضرت ابن عباس ؓکی یہ رائے ہے کہ فا لموریت قدحاکے معنے یہ ہیںکہ جب وہ سوار جنگوں سے واپس آتے ہیںتو بیٹھ کر آگ جلاتے اور اپنے لئے کھانا تیار کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فا لموریت قدحاکے فقرہ کے معنے حضرت ابن عباس ؓ کے قول کے مطابق کھانا پکانے کے لئے آگ جلانے کے بھی ہوسکتے ہیں مگر یہاںوہ بات مراد نہیں جو انہوں نے سمجھی ہے یعنی وہ حملہ سے لوٹ کر ایسا کرتے ہیںکیونکہ اس کی تردید اگلی آیت سے ہی ہو جاتی ہے ۔ اگلی آیت میں حملہ کا ذکر کیا گیا ہے اور اس سے پہلے فائہے جو اکثر وبیشتر ترتیب کے لئے آتی ہے ۔ یہ ترتیب خود بتا رہی ہے کہ حملہ بعد میں ہے نہ کہ پہلے۔یعنی پہلیفا لموریت قدحاہے اور پھر فا لموریت قدحا ہے اور پھرفا لمغیرات صبحا،پس اگلی آیت میںمذکور بات اس آیت میں بتائی ہوئی بات کے بعد ہونی چاہیے۔
میرے نزدیک فا لموریت قدحاکے معنے اگر کھانا پکانے کے لئے آگ جلانے کے ہی ہوںتو چونکہ اس کے بعد حملہ کرنے کا ذکر ہے اس کے یہ معنے زیادہ درست ہوں گے کہ صحابہؓ حسب سنت نبوی جب حملہ کرنے کے لئے جاتے ہیں تو فورا حملہ نہیں کر دیتے بلکہ قریب جا کر سواریوں سے اترجاتے ہیںاور کھانا وغیرہ پکاتے ہیںاور رات گذارتے ہیںپھر صبح کو حملہ کرتے ہیں۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی عادت میں یہ بات داخل تھی کہ آپ کبھی سیدھا حملہ نہیں کرتے تھے بلکہ جہاں حملہ کرنا ہوتا تھا اس مقام سے ایک دو میل دور اپنے ڈیرے لگا دیتے اور جب صبح ہوتی تب حملہ کرتے۔ پس اگر اس آیت سے کھانا پکانے کے لئے آگ جلانا ہی مراد ہو تو بھی جنگ سے واپسی پر کھا نا پکانا مراد نہیںبلکہ حملہ سے پہلے کھانا پکا نا مراد ہے۔اگر فا لموریت قدحامیں حملہ کے بعد آگ روشن کرنے اور کھانا پکا نے کا ذکر ہوتا تو اس کے بعدفا لموریات قدحارکھنا اور پھرفالموریت صبحا کہنا صاف بتا رہا ہے کہ اس آیت میں حملہ سے واپسی کا ذکر نہیں بلکہ ذکر یہ ہے کہ جب وہ حملہ کرنے جاتے ہیںتو فوراًحملہ نہیںکردیتے بلکہ رات کو ٹہرتے آگ جلاتے اور کھانا وغیرہ پکاتے ہیں جب صبح ہوتی ہے تب حملہ کرتے ہیں۔
ان آیات میں ایک طرف تو یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی خدمت اور اللہ تعالی کی رضا کے لئے اپنی جان دینے کا اس قدر جوش پایا جاتا ہے کہ جب وہ اپنے زبر دست اور کثیر التعداد دشمنوں کے مقابل پر جاتے ہیںتو وہ اپنے گھوڑوں کو ایڑیاں مارتے اور ان کو دوڑاتے اور کداتے چلے جاتے ہیںاور اس امر کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کے گھوڑے زندہ رہتے ہیں یا مر تے ہیں۔ مگر دوسری طرف ن میں ایسے اعلی درجہ کے اخلاق اسلامی پائے جاتے ہیںکہ جب وہ عین دشمن کے سر پر پہنچ جاتے ہیںاس وقت یکدم حملہ نہیں کرتے بلکہ منزل کرتے ہیںاور کھانا پکاتے ہیںاور رات بسر کرتے ہیںپھر جب صبح ہوتی ہے تب حملہ کرتے ہیں۔چنانچہ رسول کریم ﷺکا تمام یہ معمول رہا کہ آپ کبھی رات کو حملہ نہیں کرتے تھے اور نہ صحابہ ؓ کو شبخون مارنے کی اجازت دیتے تھے۔
دراصل عرب میں الگ الگ قبائل ہوا کرتے تھے اور وہ خانہ بدوش ہونے کی وجہ سے اپنی جگہیں ہمیشہ تبدیل کرتے رہتے تھے اس وجہ سے رسول کریمﷺ حملہ میں بہت محتاط پہلو اختیار فرماتے تھے ۔ آپ فرماتے کہ کبھی رات کو حملہ نہ کرو ممکن ہے ایک قبیلہ اٹھ جائے اور دوسرا قبیلہ اس کی جگہ آبیٹھے اور تم غلطی سے دشمن کی بجائے کسی اور پر حملہ کر دو ۔ اس لئے صبح تک انتظار کرو اگر صبح کو انکی اذان کی آوازتمہارے کان میں آجائے تو تم حملہ نہ کرو اور اگر تم نے حملہ کرنا ہے تو ضروری ہے کہ تمہاری آذان کی آواز ان کے کانوں تک پہنچ جائے اور انہیں معلوم ہو جائے کہ مسلمان حملہ کرنے لے لئے آگئے ہیںسوتے دشمن پر حملہ نہیں کرنا ۔پسفا لموریت قدحامیں صحابہؓ کے اعلی درجہ کے اخلاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ آج مکہ میںمسلمان مغلوب ہیںوہ قریش کے بڑے بڑے رئوسا کی نگا میںمقہور اور ذلیل ہیں۔ دشمن اٹھتا ہے اور انہیں بے دریغ تکالیف دینا شروع کر دیتا ہے اسے کسی خلق کی پرواہ نہیںوہ اپنا واحد مقصد یہ سمجھتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کو دکھ دے خواہ اخلاق میں سے کوئی ایک خلق بھی اس کے پاس نہ رہے ۔ مگر یاد رکھو ایک دن یہ بے کس اور کمزور نظر آنے والے لوگ بھی ترقی کر جائیں گے اور اونٹوں کی بجائے گھوڑوں پر سوار ہو کر اپنی جانیں خدا تعالی کی راہ میں قربان کرنے کے لئے آئیں گے۔عربوں کے لئے گھوڑا عجیب چیز تھی صرف نجدیوں کے پاس گھوڑے ہوا کرتے تھے اور نجدیوں سے مکہ والے بڑے گھبراتے تھے مگر اللہ تعالی پیشگوئی کرتا ہے کہ ایک دن آنے والا ہے جب مسلمان طاقتور ہو جائیں گے اور اپنے پاس کثرت سے گھوڑے رکھنے لگیں گے تم سمجھتے ہو کہ چونکہ مسلمان کمزور ہیں اس لئے جانیں دے رہے ہیں مگر یہ با لکل غلط ہے۔جب یہ طاقتور ہو جائیں گے ،جب یہ گھڑ چڑھے سوار بن جائیں گے اس وقت بھی یہ اپنی جانیںقربان کرنا اپنے لئے انتہائی باعث فخر سمجھیں گے اور ان میں اس قدر جوش ہو گا کہ وہ اپنے گھوڑوں کو ایڑیاں مارتے اور انہیں منزل مقصود کی طرف دوڑاتے چلے جائیں گے ۔ مگر دوسری طرف ان کے اخلاق ایسے اعلی درجہ کے ہوں گے کہ وہ کبھی غا فل دشمن پر حملہ نہیں کریں گے ، کبھی رات کو حملہ نہیں کریں گے ۔ کبھی اچانک حملہ نہیں کریں گے۔ تمہاری حالت تو یہ ہے کہ تم اخلا ق کی پرواہ تک نہیں کرتے جب بھی کوئی مسلمان تمہارے قابو آجائے تم اسے مارنے پیٹنے لگ جاتے ہو مگر یہ اخلاق کو کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیں کریں گے جب یہ طاقتور ہو جائیں گے ۔جب یہ گھڑ چڑھے سوار ہو جائیں گے تب بھی یہ فوراً حملہ نہیں کردیں گے بلکہ جب آئیں گے رات بھر انتظار کریں گے صبح کے وقت اگر تمہاری اذان کی آواز ان کے کانوں میں آئے گی تو یہ تم پر حملہ نہیں کریں گے اور اگر تمہاری اذان نہیں ہو گی تو اپنی اذان کی آواز تمہارے کانوں تک پہنچائیں گے تاکہ تم ہوشیار اور بیدار ہو جائو اور مقابلہ کے لئے تیار ہو کر باہر نکلو۔غرض اس آیت میں مسلمانوںکے نہایت اعلی درجہ کے اخلاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
پھر صرف اخلاق کی طرف ہی نہیںبلکہ اس آیت میں مسلمانوں کی دلیری کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ جو لوگ دشمن سے لڑتے ہیںوہ رات کو آگ بجھا دیا کرتے ہیںیہ نہیں کرتے کہ رات کو آگ روشن رکھیں اور دشمن کو اپنی موجودگی کا علم ہونے دیں مگر مسلمانوںکے متعلق فرمایا کہ وہ حملہ کرنے کے لئے جاتے ہیں تو آگ کو روشن رکھتے ہیںدشمن سے ڈر کر اسے بجھاتے نہیں۔اسی طرح اس آیت میںمسلمانوں کی سخاوت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ عرب لوگ آگ جلانے سے سخاوت اور دلیری دونوں مراد لیا کرتے تھے ۔عرب شاعر اپنے مخالفوںکو مخاطب کر کے کہا کرتے تھے کہ ہماری قوم کی آگ جلتی رہتی ہے لیکن تمہاری قوم کی آگ بجھ جاتی ہے ۔ اس میں دونوں طرف اشارہ ہوا کرتا تھا اس طرف بھی کی ہم بہادر ہیں ۔ہم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ اگر ہم نے آگ روشن کی تو دشمن کو پتہ لگ جائے گا کہ ہم یہاں بیٹھے ہیںاور اس طرف بھی کہ تم رات کو کھانا پکا کر آگ بجھا دیتے ہو تاکہ کوئی مسافر اس آگ کو دیکھ کر تمہارے پاس کھانا کھانے کے لئے نہ آجائے لیکن ہماری قوم مہمان نواز ہے ہماری آگ جلتی رہتی ہے اور جب کوئی مسافر آگ کو روشن دیکھ کر ہمارے پاس آتا ہے تو ہم اسے کھانا کھلاتے ہیں۔ پسفالموریت قدحامیں دونوں باتیںبیان کی گئی ہیں۔ یہ بھی کہ ہم بہادر ہیں ہم روشنیوں کو ڈر سے بجھاتے نہیں بلکہ رات کو دلیری سے روشنی جلاتے ہیںاور یہ بھی کہ تم کنودہو ۔بخل کی وجہ سے کسی کو کھانا کھلانا بھی پسند نہیں کرتے ۔ مگر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنی روشنیاں جلائے رکھتے ہیںتاکہ مسافر اور غربائو مساکین وغیرہ آئیں اور کھانا کھائیں۔ یہ معنے ایسے ہیںجو کنودکے مقابلہ میںاس مقام پر زیادہ عمدگی سے چسپاں ہوتے ہیں۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کئے جو بہت لطیف ہیںکہ اللہ تعالی نے رات کے لئے فا لموریت قدحاکہا ہے اور صبح کے لئے فا ثرن بہ نقعاکہا ہے یعنی دونوں موقعوں پر جو چیز زیادہ ظا ہر ہونے والی تھی اس کا ذکر کیا گیا ہے ۔ رات کو اڑتی ہوئی گرد نظر نہیں آتی اور دن کو آگ کی روشنی نظر نہیں آتی پسموریت قدحاکو پہلے رکھ کر بتایا کہ وہ رات کو روشنیاں جلاتے ہیںاور دشمن کو للکار کر کہتے ہیںکہ دیکھ لو ہم آئے ہوئے ہیںاور صبح کو اپنے گھوڑوں سے گرد اڑاتے ہیںتاکہ وہ دور سے ہی دیکھ لیں کہ ہم آرہے ہیں۔گویا ان دونوں آیتوں میںمسلمانوں کی جرات اور ان کی بہادری کا اعلان کیا گیا ہے۔
فا لمغیرات صبحاO
پھر صبح ہی صبح حملہ کرنے والوں کی۔
حل لغات: مغیرات:اغارسے اسم فاعل مونث کا جمع کا صیغہ ہے اور اغارالرجل کے معنے ہوتے ہیں اتی الغور وہ پانی کے چشمہ پر آیا یا کسی غار وغیرہ پر پہنچا اور اغار زید کے معنے ہوتے ہیں ذھب فی الارضاس نے سفر کیا اور دور نکل گیا۔ اور صرف اغار کے معنے ہوتے ہیں اسرع ودفع فی عدوہ۔ وہ تیزی سے گیا اور اس نے گھوڑوں کو دشمن کی صفوں کیاندر ڈال دیااور اغار علی القوم غارۃ واغارۃومغارا کے معنے ہوتے ہیں دفع علیھم الخیل و اخرجھم من فناء ھم بھجومہ علیھم واوقع بھم انہوںنے حملہ کرکے دشمن کو ان کے صحنوں سے باہر نکالا اور پھر ان پر ٹوٹ پڑے (اقرب) پس مغیرات کے یہ معنے ہوں گے (۱) دور دور نکل جانے والی جماعتیں (۲) اپنے گھوڑوں کو دشمنوں کی صفوں میں ڈالنے والی جماعتیں (۳) دشمن پر حملہ کرکے اسے ان کے صحن سے نکال دینے والی جماعتیں ۔
تفسیر: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اس وصف کو بیان کیا ہے کہ وہ رات کو کبھی حملہ نہیں کریں گے تا ایسا نہ ہو کہ دشمن نا واقفیت کی حالت میں مارا جائے ۔ وہ صبح کے وقت حملہ کریں گے مگر حملہ ایسا شاندار ہوگا کہ دشمن فوراََاپنے گھروں سے نکل کر باہر آجائے گا۔ یہ کیسا بہادری کا طریق ہے جو اسلام نے بطور سنت جاری کیا۔ اس وقت انصاف وبہادری کی مدعی یور پین اقوام راتوں کو برابر دشمن پر حملہ کرتی ہیں اور غفلت میں حملہ کرنا اپنی خاص خوبی قرار دیتی ہیں ۔ مگر اسلام بتاتا ہے کہ مسلمان ایسے نہیں کریں گے وہ ہمیشہ صبح کے وقت حملہ کریں گے جو اس بات کا ثبوت ہوگا کہ مسلمان بہادر ، نڈر اور رحم کرنے والے ہیں ۔ مغیرات کا لفظ بھی ان کی دلیری طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ اغارت کے ایک معنے یہ ہیں کہ دشمن پر حملہ کرکے اسے گھروں سے نکالنا اور پھر اس کا مقابلہ کرنا گویا گھروں میں گھس کر بچوں ، عورتوں ،بوڑھوں کو مارنا ان کا طریق نہ ہوگا بلکہ دشمن کے لڑنے والے لوگوں کو گھروں سے للکار کر نکالنا اور پھر ان کی صفوف پر حملہ کرنا ان کا طریق ہوگا جو ان کے دلیرانہ حملہ کا ایک بہت بڑا ثبوت ہوگا اسی طرح صبحامیں یہ اشارہ ہے کہ وہ رات کو حملہ نہیں کرتے بلکہ جب صبح ہوتی ہے تو اس وقت حملہ کرتے ہیں تاکہ دشمن غافل نہ ہو اور اسے مقابلہ کا پوراموقع ملے۔
فاثرن بہ نقعاo
جس کے نتیجہ میں وہ اس(صبح کے وقت) میں غبار اڑاتے ہیں۔
حل لغات:النقع:الغبار:نقعکے معنے غبار اڑانے کے ہیں ۔ نیز نقعکے معنے الارض الحرۃ الطین یستنقع فیھا الماء کے بھی ہیں یعنی وہ پتھریلی زمین جہاں پانی جمع کیا جاتا ہے اورنقعمکہ کے پاس ایک مقام نام ہے ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ایک مقام منیٰ کا حصہ ہے حضرت علی ؓنے اسی وجہ سے والعدیت ضبحاسے وہ حاجی مراد لئے ہیں جو عرفہ سے مزدلفہ کی طرف اور پھر مزدلفہ سے منیٰ کی طرف تیزی سے آتے ہیں۔ اورنقعکے معنے القاع کے بھی ہوتے ہیں یعنی صاف میدان اور نقعکے معنے محبس المائیعنی تالاب کے بھی ہیں(اقرب)۔
نقعکے معنے ابو عبیدہ نے آواز بلند کرنے کے بھی کئے ہیں اور لبید کا ایک شعر اس کی تائید میں پیش کیا ہے کہ انہوں نے بھی نقعکا لفظ آواز بلند کرنے کے معنوں میں استعمال کیا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی ایک اثر منقول ہے جس میں انہوں نے نقع کے معنے آواز بلند کرنے کے لئے ہیں ۔ چنانچہ جب حضرت خالدؓ بن ولید کی وفات کی خبر آپ کو ملی توکسی نے کہا عورتیں وہاں رو رہی ہیں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہاکیا بات ہے کہ عورتیں بیٹھی ہوئی رورہی ہیں اور کوئی نقع اور لقلقہ نہیںیعنی بلند آواز سے شور کی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔
تفسیر:فاثرن بہ نقعا میں بہ کی ضمیر صبح کی طرف جاتی ہے یعنی فاثرن وقت صبح نقعا وہ صبح کے وقت خوب غبار اڑائیں گے۔ یہاں بھی ایک لطیف بات بیان کی گئی ہے جو مسلمانوں کی شجاعت کی طرف اشارہ کرتی ہے اصل بات یہ ہے کہ فالموریت قدحا سے یہ شبہ پیدا ہوتا تھا کہ مسلمانوں کا رات کو اطمینان سے بیٹھ جانا۔ کھانا پکانا اور دشمن پر آتے ہی حملہ نہ کرنا شاید اس لئے ہے کہ قریب پہنچ کر ان کا جوش جاتا رہتا ہے ۔ پہلے اگر ان سے جوش ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے گھوڑوں کو ایڑیاں مارتے اور ان کو دوڑاتے اور کداتے ہوئے میدان میں پہنچتے ہیں تو اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہمیں پہنچتے ہی لڑائی نہیں کرنی پڑے گی بلکہ ہم اطمینان سے رات بھر آرام کریں گے پس ان کا وہ جوش جس کا ان کی طرف سے پہلے اظہار ہوتا ہے اس قابل نہیں کہ اس کی تعریف کی جائے کیونکہ یہ جوش وہ ا س وقت دکھاتے ہیں جب دشمن سے مقابلہ ابھی دور کی بات ہوتا ہے قریب پہنچ کر ان کا تمام جوش سرد ہو جاتا ہے اور وہ دشمن پر حملہ کرنے کی بجائے کھانا پکانے میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فاثرن بہ نقعا میں اس شبہ کا ازالہ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے مسلمان صرف اسی وقت بہادری اور شوق نہیں دکھاتے جب دشمن دور ہوتا ہے بلکہ اس وقت بھی ان کا جوش تیز ہوتا ہے جب دشمن سامنے آجاتا ہے اور اس جوش سے حملہ کرتے ہیں کہ صبح کے وقت بھی گردوغبار اڑا کر جو کو بھر دیتے ہیں۔ یہ قاعدہ ہے کہ صبح کے وقت شبنم سے گرد دبی ہوئی ہوتی ہے لیکن دوپہر اور شام کو گرد ڈھیلی ہو جاتی ہے اور ادنیٰ حرکت سے بھی اٹھ پڑتی ہے ۔ پس صبح کے وقت گرد اڑانے سے جہاں ان کے طریق عمل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ کبھی رات کو حملہ نہیں کرتے وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے شوق جہاد کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ صبح کے وقت دشمن کو ہوشیار کرکے حملہ کرتے ہیں اور پھر اتنے جوش سے حملہ کرتے ہیں کہ صبح کی بیٹھی ہوئی غبار بھی اڑنے لگ جاتی ہے شام کے وقت تو اڑاہی کرتی ہے چنانچہ دیہات میں شام کے وقت جب جانور چراگاہوں سے واپس آتے ہیں تو گردوغبار سے تمام جو بھرا ہوا ہو تا ہے کیونکہ دن بھر کی دھوپ کی وجہ سے تمام ذرات خشک ہوکر ہوا میں ادھر ادھر پھیلے ہوئے ہوتے ہیں لیکن صبح کے وقت یہ حالت نہیں ہوتی اس وقت شبنم پڑ کر غبار کو کم کر دیتی ہے۔ مگر فرماتا ہے مسلمان اتنی شدت اوراتنے جوش سے حملہ کرتے ہیں کہ صبح کے وقت تمام جو گردو غبار سے اٹ جاتا ہے حالانکہ وہ وقت ایسا ہوتا ہے جب گردو غبار سے جو صاف ہوتا ہے۔
فاثرن بہ نقعا میں بہ کی ضمیر بالمعنی فعل اغارت کی طرف بھی جا سکتی ہے یعنیفاثرن باغارتھم یا اثرن بفعل اغارتہم۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا وہ اغارت کے فعل کی وجہ سے گرداڑانے لگتے ہیں یعنی اغرت اس شدت سے کرتے ہیں کہ اس سے گرد اڑنے لگتی ہے۔اس طرح یہاں باء سببیہ ہو جائے گی اور مطلب یہ ہوگا کہ اثرن لسبب اغارتہم نقعا نقعا کی تنوین سے کثرت اور شدت مراد ہے یعنی اثرن بفعل اغارتہم نقعا کثیرا وہ بے انتہاء گرد اڑاتے ہیں ۔ یہ بات بھی مسلمانوں کے شوق اور ان کی دلیری پر دلالت کرتی ہے۔ اچانک حملہ کرنا ہو تو لوگ کہتے ہیں آہستہ چلو گرد نہ اڑائو ایسا نہ ہو کہ دشمن کو پتہ لگ جائے ۔ مگر خالی گرد نہیں اڑاتے بلکہ بے انتہاء گرد اڑاتے ہیں۔
باء اس جگہ ملا بست کی بھی ہو سکتی ہے اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ بڑے ماہر فن ہیں کیونکہ بے تحاشاگھوڑا دوڑانا فی ذاتہٖ ایک فن ہے جو مہارت چاہتا ہے اور بے تحاشا گھوڑا دوڑاتے ہوئے اپنا نیزہ سنبھال کر رکھنا تا کہ دشمن پر حملہ کیا جاسکے یہ دوسرا فن ہے۔ پس فاثرن بہ نقعا کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ اغارت کے ساتھ ساتھ گھوڑے بھی بے تحاشا دوڑاتے اور اچھالتے چلے جاتے ہیں یعنی ایک طرف گھوڑے بھی دوڑاتے جاتے ہیں اور دوسری طرف لڑائی کا فن بھی قائم رہتا ہے بسا اوقات ایک شخص گھوڑا تو دوڑا لیتاہے لیکن لڑائے کے فن کو قائم نہیں رکھ سکتا ۔جب گھوڑا تیزی سے دوڑ رہا ہو تو وہ نیزے کو سنبھالکر نہیں رکھ سکتا اور نہ دشمن پر حملہ کرسکتا ہے بلکہ حملہ کرنے کے لیے اسے ٹھرنا پڑتاہے ۔مگر ایک دوسرا شخص ایسا ہو تا ہے جو گھوڑے کو بھی تیز دوڑاتا جاتا ہے اور لڑ تا بھی جاتا ہے۔ چنانچہ نیزہ بازی کے وقت عام طورپر دیکھا جاتا ہے کہ بعض سوار گھو ڑے کو دوڑا تے چلے آتے ہیں مگر جب میخ کے پاس آتے ہیں تو گھوڑے کو آہستہ کرلیتے ہیں تاکہ ان کا نشانہ خطا نہ جائے مگر جو اپنے فن میں ماہر ہوتے ہیں وہ اسی تیزی کے ساتھ گھوڑے کو دوڑاتے ہوئے میخ پر نیزہ مارتے ہیں اور اس کو اکھاڑ کر لے جاتے ہیں ۔ جب ملک معظم ہندوستان میں آئے اس وقت جہاں اورکئی قسم کی کھیلیں ان کو دکھائی گئیں وہاں نیزہ بازی کے فن کا بھی ان کے سامنے مظاہرہ کیا گیا اس وقت بعض سوار تو اتنی تیزی سے اپنا گھوڑا دوڑاتے ہوئے آتے کہ ذرا بھی ان کا گھوڑا نہ رکتا اور میخ کو اکھاڑ کر لے جاتے اور بعض ُُُُُُُُُُمیخ کر قریب پہنچ کر رہ جاتے ۔ پھر بعض لوگ تو اپنے فن میں ایسے ماہر تھے کہ وہ بجائے بیٹھنے کے گھوڑے کی پیٹھ پر لیٹ کر اسے تیزی کے ساتھ دوڑاتے ہوئے آتے اور میخ اکھاڑ کر لے جاتے حالانکہ اس وقت معمولی سوار کے لئے بیٹھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔غرض گھوڑے کو تیز دوڑانا اپنی ذات میں ایک فن ہوتا ہے اور پھر اسے تیز دوڑاتے ہوئے اپنے مفوضہ فرض کو کمال خوبی کے ساتھ انجام دینا یہ دوسرا فن ہوتا ہے۔ لڑائی میں صرف گھوڑے کو تیز دوڑانے کا فن کام نہیں آتا بلکہ اس دوسرے فن میں بھی مہارت کا پیدا ہونا ضروری ہوتا ہے کہ گھوڑے کو تیز دوڑاتے ہوئے انسان دشمن پر بھی عمدگی سے حملہ کرسکے ۔ فاثرن بہ نقعا میں ان دونوں باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنیاثرن ملابسا بالاغارۃ۔ مسلمانوں کی یہ حالت کہ ادھر دشمن پر حملہ کرنے کیلئے وہ بالکل تیار ہوتے ہیں اور ادھر وہ اپنے گھوڑوں کو انتہائی تیز دوڑا رہے ہوتے ہیں۔ گھوڑوں کا تیز دوڑناان کو فعل اغارت سے نہیں روکتا۔ یہ بات ان کے کمال درجہ کے شوق و مہارت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ مسلمان رات اور دن جہاد کے لئے تیاریاں کرتے رہتے تھے جس کے نتیجے میں انہیں جنگی فنون میں کامل مہارت حاصل ہو چکی تھی۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے مسجد نبوی ؐ میں حبشیوں کو نیزوں کے کرتب دکھانے کی اجازت دی اور نہ صرف آپ نے ان کو بڑے شوق سے دیکھا بلکہ اپنے اہل بیت کو بھی دکھایا۔ اسی طرح حدیثوں سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام ؓ ہمیشہ تیر اندازی کی مشقیں کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ صحابہ ؓ کی دو پارٹیوں میں تیر اندازی کا مقابلہ ہو رہا تھا کہ رسول کریم ﷺ بھی ایک پارٹی میں شامل ہوگئے۔ یہ دیکھ کر دوسری پارٹی نے اپنے تیر رکھ دیئے اور کہا یا سول اللہ ﷺ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اس پارٹی کا مقابلہ کریں جس میں آپ ؐ ہوں۔
غرض صحابہ کرام ؓاپنے آپ کو ہمیشہ جنگ کے لئے تیار رکھتے اور جنگی فنون میں مہارت پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے اللہ تعالیٰ ان کیاسی مہارت کا ذکر فاثرن بہ نقعا میں کرتا ہے اور فرماتا ہے آج مسلمان تمہیں کمزور اور بے کس نظر آتے ہیں مگر ہم بطور پیشگوئی یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ کمزور نظر آنے والے مسلمان ایک دن نہایت اعلیٰ درجہ کے ماہرفن ہوجائیں گے۔ اغارت انکو تیز دوڑانے سے روک نہیں سکے گی اور تیز دوڑنا ان کو فعل اغارت سے نہیں روک سکے گا۔وہ اغارت بھی کریں گے اور اور جوش وخروش سے گردوغبار بھی اڑاتے جائیں گے یعنی وہ کچے سوار نہیں کہ دوڑیں تو اغارت کی طرف سے توجہ ہٹ جائے اوراغارت کریں تو دوڑ نہ سکیں بلکہ وہ دونوں کام ایک وقت میں کرتے ہیں گھوڑے تیز دوڑاتے ہوئے بھی اپنے جنگی فنون ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے یہ نہیں ہوتا کہ گھوڑے تیز دوڑارہے ہوں تو انہیں اپنی تلواروں اور نیزوں کا ہوش نہ ہو اور تلوریں اور نیزے سنبھالے ہوئے ہوں تو گھوڑوں کو تیز دوڑانے سے قاصر ہوں یہ دونوں باتیں ان میں بیک وقت پائی جائیں گی اور وہ اپنے فن میں ماہر ہوںگے ۔
فوسطن بہ جمعاo
اور اسی (صبح کے وقت ) میں لشکر میں گھس جاتے ہیں۔
تفسیر: فوسطن بہ جمعا میں بہ کی ضمیر نقع کی طرف بھی جاتی ہے اور صبح کی طرف بھی۔اگر بہ کی ضمیر نقعکی طرف سمجھی جائے تو اس آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ دشمن تک برابر گرد اڑاتے چلے جاتے ہیں یعنی جب دشمن کے پاس پہنچتے ہیں تب بھی ان کا جوش وخروش کم نہیں ہوتا بلکہ جس طرح دور سے گھوڑے اور خاک اڑاتے آتے ہیں دشمن کے پاس پہنچ کر بھی ان کی یہ حالت قائم رہتی ہے اور وہ خاک اڑاتے بے جھجک اور بے رکے دشمن کی صفوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ اس آیت میں بھی ان کی بہادری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور درحقیقت صحابہؓ ایسے ہی نڈر اور بہادر تھے اور تاریخ واقعات ان کی اس بہادری پر شاہد ہیں۔
اگر فوسطن بہ جمعا میں بہ کی ضمیر صبح کی طرف پھیری جائے تو اس آیت سے یہ مراد ہوگی کہ وہ صبح کے وقت دشمنوں کی صفوں میں گھس جاتے ہیں۔ اس میں پھر یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ صحابہؓ کبھی اچانک حملہ نہیں کرتے بلکہ وہ اسی وقت حملہ کرتے ہیں جب دشمن ان کے مقابل میں نکل آئے۔آج انگریزوںکو دیکھ لو۔ روسیوں کو دیکھ لو۔ امریکہ کے رہنے والوں کو دیکھ لو۔ سب کوشش کرتے ہیں کہ وہ یکد م سو تے دشمن پر حملہ کریںاور اس کو اپنی بہت بڑی خوبی سمجھا جاتا ہے مگر اللہ تعالی فرماتا ہے ہمارے مومن بندے ایسے نہیں ہوں گے وہ صبح کے وقت جائیں گے شور مچاتے جائیں گے اور اگر پھر بھی دشمن باہر نہیں نکلا تو وہ حملہ نہیں کریں گے بلکہ انتظار کریں گے یہاں تک کہ دشمن ان کے مقابلہ میں اپنے گھروں سے نکل آئے اور یہ مضمون لفظ جمع سے نکلتا ہے کیونکہ یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ دشمن پر حملہ کرتے ہیں کہ اس میں عورت ،بوڑھا ،بچہ سب شامل ہوں بلکہ فرمایا کہ جمع یعنی لشکر میں گھس جاتے ہیںیعنی ان کا حملہ اکے دکے کمزور ضعیف پر نہیں ہوتا ہمیشہ دشمن کے مجتمع لشکر پر حملہ کرتے ہیں۔پس فوسطن بہ جمعا میں دونوں طرف اشارہ ہے اس طرف بھی کہ وہ حملہ کرتے وقت اس بات کو مد نظر رکھتے ہیں کہ رات کے وقت حملہ نہ ہو بلکہ صبح کو ہو اور حملہ ایسی حالت میں ہو کہ جب جمعایعنی دشمن کا لشکر ان کے سامنے کھڑا ہو ۔گویا ان کے گھروں سے نکال کر وہ مقا بلہ کریں گے سوتے دشمن پر اچانک حملہ نہیں کریںگے ۔دوسرے جب دشمن ان کے مقابل پر آتا ہے تب بھی ان کا جوش خروش قائم رہتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ دور سے تو جوش خروش دکھاتے جائیں اور دشمن کے پاس پہنچ کر ان کے جوش سرد ہو جائیں ۔غرض بہ کی ضمیر اگر صبح کی طرف لے جائو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ صبح کو وہ ایسے وقت حملہ کریں گے جب دشمن کا لشکر ان کے مقابلے میں جمع ہو جائے اور اگر بہ کی ضمیر نقعکی طرف لے جائو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ان کا جوش دشمن کو دیکھ کر ڈھیلا نہیں ہوتا بلکہ جب دشمن کو وہ اپنے مقابل میں صفیں باندھے کھڑا دیکھتے ہیں تو ان کا جوش اور بھی بڑھ جاتا ہے اور وہ حملہ کرتے ہوئے اس کی صفوں کے اندر جا گھستے ہیں۔ان میں سے ایک معنوں میں ان کے اخلاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دوسرے معنوں میں انکی اسلام کے لئے شیدائیت اور قربانی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔
فوسطن بہ جمعا میں اگر بہ کی ضمیر صبح کی طرف ہو تو اس کے ایک اور بھی لطیف معنے ہو جائیں گے یعنی اس کے صرف اتنے معنے نہیں ہو ں گے کہ صحابہؓ کبھی رات کو حملہ نہیں کرتے بلکہ اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف بھی پایا جاتا ہے کہ وہ صبح ہی صبح دشمن کی صفوں کو توڑ دیتے ہیں ۔ابن جنی نے بھی یہی معنے کئے ہیںوہ کہتے ہیںمیزن بہ جمعا ای جعلنہ شطرینای قسمین و شقین (معانی)گو ان کا حملہ بڑا کامیاب ہوتا ہے زیادہ دیر نہیں لگتی کہ وہ دشمن کی صفوں میں گھس جاتے ہیںاور ان کو پوری طرح مغلوب کر دیتے ہیں۔فوسطنکا لفظ بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ خالی سامنے کھڑا ہونے سے و سطن بہ جمعا کے الفاظ صادق نہیں آسکتے۔یہ الفاظ اسی صورت میں صادق آسکتے ہیںجب دشمن کی صفوں کو توڑ کر ان کے اندرداخل ہو جانا اس کے مفہوم میں شامل ہو۔در حقیقت اس آیت کا یہی مطلب ہے کہ ہو کفار کے لشکر میں گھس جاتے اور انکی صفوں کو توڑ کر پراگندہ کر دیتے ہیں۔جرنیل کے فرائض میں سے یہ ایک اہم ترین فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی صفوں کو ٹوٹنے نہ دے کیونکہ جب دشمن صفوں کو توڑ کر اندر داخل ہو جائے تو فوج پراگندہ ہو جاتی ہے اور متحدہ مقابلہ کی قوت کو کھو بیٹھتی ہے ۔چنانچہ ہمیشہ ماہر فن جرنیل کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ دشمن کے شدید حملہ کے باوجود اپنی صفوں کو قائم رکھے لیکن کبھی کبھی الا متحر قا لقتال (الانفال۲ع۱۶)کے مطابق دشمن کا زور اتنا بڑھ جاتا ہے کہ افسر سمجھتا ہے کہ گو مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ میں واپس لوٹ کر اس پر دوبارہ حملہ کر سکتا ہوںمگر اس وقت حالت ایسی ہے کہ دو یا چار یا دس منٹ کے لئے صفوںکے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اس وقت ماہر فن جرنیل کا یہ طریق ہوتا ہے کہ وہ اپنی صفیں پیچھے کر لیتا ہے انگریزی میں اسے آڈرلی رٹریٹ یعنی باقاعدہ پیچھے ہٹنا کہتے ہیںمطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی صفوں کو قائم رکھتے ہوئے تھوڑی دیر کے لئے اپنے آپ کو پیچھے ہٹا لیا ۔ پس صفوں کو قائم رکھنا جنگ کے ضروری اصول میں سے ہے۔ اس طرح حملہ کرنے والوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح دشمن کی صفوں مین گھس جائیں۔ انگریزی میں اس طرح داخل ہونے کو سپیئر ہیڈspear head کہتے ہیں۔ جب دشمن کی صفوں میںمقابل کا لشکر داخل ہوجائے تو دشمن پراگندہ ہو جاتا ہے اور اسکا جرنیل اپنے لشکر کو کوئی حکم نہیں دے سکتا۔ایک طرف والوں کو حکم دے تب بھی دوسری طرف والوں کو حکم دے تب بھی ،درمیان میں غنیم کھڑا ہوتا ہے اور وہ آسانی سے انکی تمام تدابیر کا ازالہ کر سکتا ہے۔
غرض دشمن کے دبائو کے تحت بچائو کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ یا تو جرنیل اتنا ہوشیار ہو کہ وہ فورا اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لے اور یا پھر ان میں اتنی اخلاقی قوت باقی ہو کہ اگر جرنیل فوج کے انتشاراور اسکی پراگندگی کی حالت میں بھی حکم دے کہ اتنا پیچھے ہٹ جائو تو فوج اتنا پیچھے ہٹ جائے ورنہ اسکی شکست میںکوئی شبہ نہیں ہوتا ۔
پسفوسطن بہ جمعا میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ صبح ہی صبح دشمن کی صفوں مین گھس جاتے ہیںاور اسی وقت انکو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیںدیر ہی نہیں لگتی۔
ان معنوں میں اس شبہ کا بھی ازالہ ہو جاتا ہے کہفا لمغیرات صبحا میں پہلے ہی بتایا جا چکا تھا کہ وہ صبح کے وقت حملہ کرتے ہیں اور اب فوسطن بہ جمعا میں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ وہ صبح ہی صبح دشمن پر حملہ کرتے ہیں۔
جب صبح کے وقت حملہ کرنے کا ذکر پہلے بھی آچکا تھا تو دوبارہ صبح کے وقت دشمن کی صفوں میں ان کے داخل ہونے کا کیوں ذکر کیا گیا ہے اور یہ تکرار اپنے اندر کیا حکمت رکھتا ہے؟سو اس کا جواب یہ ہے کہ فا لمغیرات صبحا کے بعد فوسطن بہ جمعا میں وہی بیان نہیں کیا گیا بلکہ ایک نیا مضمون بتا یا گیا ہے ۔
جیسا کہ مختصراً پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اللہ تعالی نے فالمغیرات صبحااور فوسطن بہ جمیعامیں یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ مسلمانوں کے حملہ اور انکی فتح میں کوئی لمبا وقت صرف نہیں ہوتا ۔ ان کا حملہ بھی صبح کے وقت ہوتا ہے اور انکی فتح بھی صبح کے وقت ہوتی ہے یعنی ادھر حملہ کرتے ہیں اور ادھر دشمن کو شند گھڑیوں میں ہی مغلوب کر لیتے ہیں۔ فرماتا ہے کہ تم مسلمانوں کی موجودہ کمزور حالت کو دیکھ کر یہ مت خیال کرو کہ ان کا مستقبل بھی ایسا ہی ہوگا ۔ تمھیں آج یہ بے شک کمزور دکھائی دیتے ہیںلیکن درحقیقت یہ ایسے دلیر اور بہادر ہیںکہ جب ہمارے حکم کے تحت یہ تلوار اپنے ہاتھ میں اٹھائیں گے تو ادھر حملہ کریں گے اور ادھر منٹوں میں اپنا سارا کام ختم کر کے دشمن کو مغلوب کر لیں گے اور فتح اور کامرانی کا پرچم لہرانے لگیں گے ۔چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جس قدر غزوات ہوئے ان میں قلعہ بند جنگوں کے سوا کوئی ایک جنگ بھی ایسی نہیں تھی جو چند گھنٹوں میں ختم نہ ہوگئی ہو ۔احزاب کی جنگ بے شک لمبی ہوئی مگر اس کے لئے وہاں صحابہؓ کو خود یہ حکم دیا گیا تھا کہ تم نے حملہ نہیں کرنا صرف دفاع کرنا ہے۔خیبر کی جنگ لمبی ہوئی مگر وہ قلعہ بند جنگ تھی ۔ بنو قریظہ سے جو جنگ ہوئی وہ بھی قلعہ بند جنگ تھی ان کو چھوڑ کر جتنی بھی جنگیں ہوئیںہیںان میں سے کوئی ایک جنگ بھی ایسی نہیں جس کا چند گھنٹوں میں فیصلہ نہ ہو گیا ہو ۔اسی طرح آپ نے جو سریے بھجوائے وہ بھی اسی طرح حیرت انگیز طور پر کامیابی حاصل کر کے واپس آتے رہے۔یہ ایک ایسی غیر معمولی بات ہے جسے دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ ایک جنگ نہیں دو جنگیں نہیں بیس سے زیادہ جنگیں ہیں جو رسول اللہ ﷺ کو پیش آئیں مگر تمام جنگیں ایسی ہیں جو دنوں کی بجائے گھنٹوں بلکہ منٹوں میں ختم نہیں ہوگئیں۔ بدر کی جنگ بہت بڑی جنگ تھی مگر اس کا کتنی جلدی فیصلہ ہوگیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں میرے دائیں بائیںدو انصاری لڑکے کھڑے تھے اور میں اپنے دل میں افسوس کر رہا تھا کہ آج مجھے اپنے دل کے حوصلے نکالنے کا کوئی موقع نہ ملا کیونکہ میرے دائیں بائیں پندرہ پندرہ برس کے دو انصاری لڑکے کھڑے ہیں اگر ماہر فن سپاہی میرے ارد گرد ہوتے تو میں نڈر ہو کر حملہ کر سکتا اور سمجھتا کہ میری پیٹھ بچانے والے موجود ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ابھی یہ خیال میرے دل میں پیدا ہی ہوا تھا کہ مجھے دائیں طرف سے کہنی لگی میں نے مڑ کر دیکھا تو دائیں طرف کے انصاری لڑکے نے آہستگی سے میرے کان میں کہا چچا وہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول کریم ﷺ کو دکھ دیا کرتا تھا میرا جی چاہتا ہے کہ آج اس سے بدلہ لوں۔وہ کہتے ہیں کہ ابھی میں اس کے سوال کا کوئی جواب دینے نہیں پایا تھا کہ مجھے بائیں طرف سے کہنی لگی۔میں نے مڑ کر دیکھا تو بائیں طرف کے انصاری لڑکے نے آہستگی سے جھک کر میرے کان میں کہا وہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول کریم ﷺ کو دکھ دیا کرتا تھا میرا جہ چاہتا ہے کہ آج اس سے بدلہ لوں۔حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کہتے ہیںکہ باوجود تجربہ کار جرنیل ہونے کے میرے دل میں یہ خیال تک نہیں آتا تھا کہ میں ابوجہل کو مار سکوں گا ۔اسلئے جب ان دو انصاری لڑکوں نے یہ سوال کیا تو میں حیران رہ گیا کہ میں اپنے دل میں کیا خیال کر رہا تھا اور انہوں نے مجھ سے کیا سوال کر دیا ۔ میں نے اپنی انگلی اٹھائی اور کہا وہ جو قلب لشکر میں کھڑا ہے جس کے آگے دو جرنیل ننگی تلواریں لئے پہرہ دے رہے ہیں وہ ابو جہل ہے ۔ وہ کہتے ہیںابھی میری انگلی نیچے نہیں ہوئی تھی کہ جس طرح عقاب چڑیا پر حملہ کرتا ہے وہ دونوں لڑکے تیزی کے ساتھ گئے اور بیشتر اس کے کہ وہ ننگی تلواریں سونت کر پہرہ دینے والے جرنیل سنبھلتے انہوں نے ابو جہل کو مار گرایا حلانکہ ان جرنیلوں میں سے ایک ابوجہل کا اپنا لڑکا تھا ۔ جب ابا جہل مارا گیا جو فوج کا کمانڈر تھا تو جنگ درحقیقت ختم ہو گئی بعد میں جو جنگ ہوئی اس کی حیثیت صرف دفاعی رہ جاتی ہے مگر وہ جنگ بھی چند گھنٹے میں ختم ہو گئی ۔ اسی طرح احد کی جنگ میں ہوا بے شک بعدمیں مسلمانوں کی اپنی غلطی کی وجہ سے دشمن کچھ نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو گیا مگر بہر حال ایک دو گھنٹہ میں ہی مسلمانوں نے دشمن کو مغلوب کر لیا تھا حالانکہ رسول کریم ﷺ کے بعد حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓکے زمانہ میں بعض دفعہ دس دس پندرہ پندرہ بیس بیس دن لڑائیاں ہوتی رہی ہیں اور لڑائیاں بھی ایسی جو قلعہ بند نہیں تھیں کھلے میدانوں میں ایک دوسرے کا مقابلہ ہوتا تھا اور متواتر کئی کئی دن چلا جاتا تھا مگر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں چند سو ایک ہزار کے مقابلہ میں آتے تھے یا دو ہزار دس ہزار کے مقابلہ میں کھڑ ے ہوتے تھے اور چند گھنٹوں میں فیصلہ ہو جاتا تھا ۔ تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی تو ایسی نہیں ملتی کہ جنگ میں شام کے وقت یہ کہا گیا ہو کہ اب لڑائی بند ہو صبح سے پھر جنگ کی جائے گی۔رسول کریم ﷺ کی سب لڑائیاں گھنٹوں اور منٹوں میں ختم ہو جاتی تھیں۔ پس فوسطن بہ جمعا میں اللہ تعالی اس حقیقت کا انکشاف فرماتا ہے کہ مسلمان غیر معمولی طاقت رکھنے والے ہوں گے ۔دشمن کی صفوں میں صبح صبح گھس جائیں گے اور ابھی صبح ختم نہیں ہو گی کہ انکی لڑائی ختم ہو جائے گی ۔ کوئی شخص ایک جنگ بھی تاریخ میں سے ایسی پیش نہیں کر سکتا جس میں لڑتے ہوئے رسول کریم ﷺ کے لشکر کو دوسرا دن آگیا ہو بلکہ ابھی شام بھی ہونے نہیں پاتی تھی کہ لڑائی ختم ہو جاتی تھی ۔ رسول کریم ﷺ نے ستائیس (۲۷) غزوات میں حصہ لیا اور اڑتیس (۳۸) سرایا ہیںجو مختلف مواقع پر آپ نے بھجوائے مگر کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جب شام کو دشمن سے کہا گیا ہو کہ اب ٹہر جائو صبح پھر تم سے جنگ کی جائے گی ۔ مگر رسول کریم ﷺ کے بعد وہی صحابہ ؓ تھے پندرہ پندرہ بیس بیس دن تک لڑائی کرتے چلے جاتے تھے تب انہیں فتح حاصل ہوتی تھی۔
ان الا نسان لربہ لکنودO
انسان یقینا اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے۔
حل لغات:۔ الکنود: الکفور یستوی فیہ المذکر والمونث ۔کنودکے معنے کفور کے ہیں یعنی ایسا انسان جو نا شکرا ہو اور اللہ تعالی کے انعامات کا انکار کرنے والا ہو ۔یہ لفظ مرد کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور عورت کے لئے بھی ۔یعنی عورت کا ذکر ہو تو کہیں گے الامراۃالکنود۔اورمرد کا ذکر ہو تو کہیں گے الرجل الکنوداسی طرحکنودکے ایک معنیالکافرکے بھی ہیںکنود سے مراد تو ایسا شخص تھا جو اللہ تعالی کے انعامات کا انکار کرنے والا تھا اور کافر سے مراد ایساشخص ہے جس پر دینی اصطلاح میں کفر کا اطلاق ہوتا ہو۔کنودکے ایک معنے اللوام لربہکے بھی ہیںیعنی اپنے رب پر الزام لگانے والا اور اسے ملامت کرنے والا ۔(اقرب)بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بات بات ہر اللہ تعالی کی ہتک کرتے ہیںکہتے ہیں خدا نے ہمیں کیا دیاہے سب کچھ اس نے امیروں کو دے دیا ہے ۔ ہم اس کا کیوں شکر ادا کریں ۔ہم کیوں نمازیں پڑھیں۔ہمارے سر پر اس نے کونسا احسان کیا ہے غریب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں امیر نمازیں پڑھتے پھریںاور امیر ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہماری صحتیں کمزور ہیںطاقت اور توانائی تو اس نے غریبوں کو دے دی ہے ہم اسکا کیوں شکر ادا کریں۔غرض امیر ہوتا ہے تب بھی اور غریب ہوتا ہے تب بھیوہ ہر وقت خدا تعالی پر عیب لگاتا رہتا ہے اور کہتا ہے میرے ساتھ خدا تعالی نے کونسا سلوک کیا ہے کہ میں اس کی عبادت کروںاسی طرحکنود کے ایک معنے البخیلکے بھی ہیںیعنی ایسا شخص جو اپنے مال کو خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتا ہے اور کنود کے معنے عاصی اور گنہگا ر کے ہیںاور کنود کے ایک معنیالارض لا تنبت شیئاکے بھی ہیں یعنی ایسی زمین جس میں کچھ پیدا نہیں ہوتا یقال ھذہ ارض کنود۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ یہ زمین کنودہے اور اسکے یہ معنے ہوتے ہیںکہ اس میں سے کچھ اگتا نہیں۔ پھر کنود اسے بھی کہتے ہیںجو اکیلا کھائے اور اپنے مال کو خرچ نہ کرے اور اپنے غلام کو مارتا رہے چنانچہ لغت میں لکھا ہے الکنود من یاکل وحدہ و یمنع رفدہ ویضرب عبدہ(اقرب)گویا کمینہ کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ کھانا کھانے بیٹھے تو اکیلا کھائے گا کسی اور کو اپنے کھانے میں شریک نہیں کرے گا خداتعالی نے روپیہ دیا ہو تو اسے خرچ نہیں کرے گا ۔رفد کے معنے ہیں دراصل عطا کے ہوتے ہیںپسیمنع رفدہکا مفہوم یہ ہے کہ اس کے پاس روپیہ ہوتا ہے مال و دولت ہوتی ہے مگر وہ کسی کو دیتا نہیںویضرب عبدہاور بہادری جتاتا ہے کہ غلام کو مارنے لگ جاتا ہے ۔گویا اس کے معنے کمینہ،بخیل اور بزدل انسان کے ہیں۔ کمینہ کا مفہوم اکیلے کھانا کھانے میں آجاتا ہے کیونکہ کھانا ایسی چیز ہیکہ غریب سے غریب آدمی بھی کھا رہا ہو تو دوسرے کو دیکھ کر کہہ دیتا ہے کہ آیئے کھانا کھا لیں۔ مگر اسکی حالت یہ ہوتی ہے کہ اکیلا چھپ کر کھاتا ہے اور کسی دوسرے کو اپنے کھانے میں شریک کرنا پسند نہیں کرتا ۔پھر ساتھ ہی بخیل بھی ہوتا ہے کہ مال اسکے پاس موجود ہوتا ہے مگر کسی کو دینا پسند نہیں کرتا اور پھر طرہ یہ کہ وہ بزدل بھی ہے اپنی ساری بہادری گلاموں یا عورتوں پر جتاتا ہے اور کہتا ہے مار کر تمہارے دانت توڑ دوں گا لیکن اگر کوئی طاقت ور سامنے آجائے تو سر جھکا لیتا ہے ۔ ان معنوں میں سے آخری معنے حدیث میں بھی استعمال ہوئے ہیں ۔چنانچہ ابن ابی حاتم اور ابن جریر دونوں کی رو ایت ہے ابی امامہ فرماتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایاالکنود الذی یا کل وحدہ ویضرب عبدہ ویمنع رفدہ(ابن کثیر)کنودوہ ہے جو اکیلا کھانا کھائے ،اپنے غلام کو مارے پیٹے اور اپنی عطا کو روک لے ۔ میں نے اس سے استنباط کرتے ہوئے کہا ہے کہ کنود وہ ہے جو کمینہ ہو کیونکہ کمینہ انسان ہی کھانا کھانے لگے تو کسی اور کو شریک کران پسند نہیں کرتا ۔اسی طرحکنودوہ ہے جو بزدل ہو اپنے غلاموں یا عورتوںکو مارتا پیٹتا رہتا ہو بہادر کے سامنے اپنی آنکھیں اونچی نہ کر سکتا ہو اور پھر کنود وہ ہے جو بخیل ہو اور اپنی عطا کو روک لے ۔لیکن میں سمجھتا ہوں الکنود الذی یا کل وحدہ میں صرف اسکی کمینگی کی طرف ہی اشارہ نہیں بلکہ اس کے ایک معنے متکبر کے بھی ہیں کیونکہ متکبر آدمی بھی دوسرے کو اپنے ساتھ کھانا کھلانا پسند نہیں کرتا ۔کہتا ہے میں بڑا آدمی ہوں۔اسی طرح اکیلا کھانا کھانے کے ایک اور معنے بھی ہو سکتے ہیںاور وہ یہ کہ وہ صرف اپنے طبقہ کے لوگوں کو دعوتوںوغیرہ میں شریک کرتا ہے نچلے درجہ کے لوگوں کو کھانے کے لئے نہیں بلاتا۔اس صورت میںمن یا کل وحدہکے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ وہ اکیلا کھاتا ہے کسی دوسرے کو شامل نہیں کرتا بلکہ اس کے معنے یہ ہو جائیں گے کہ وہ صرف اپنے جیسے لوگوں کو جو اس کے طبقہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں کھانے میں بلا لیتا ہے لیکن اور لوگوں کی پرواہ نہیں کرتا ۔دعوت کرتا ہے تو بڑے بڑے رئیسوں تک اس کی دعوت محدود ہوتی ہے عوام الناس کو جن میں اکثریت غرباء اور مساکین کی ہوتی ہے پوچھتا تک نہیں۔یہ معنے ایسے ہیں جو کفار پر نہایت عمدگی کے ساتھ چسپاں ہوتے ہیںکیونکہ عرب میں بڑی کثرت سے رواج تھا کہ دعوتوں میں امراء وغیرہ کو تو بلایا جاتا مگر غربا ء کو دعوتوں میں نہ بلایا جاتا تھا ہاں کھانا ان میں تقسیم کر دیا جاتا تھا ۔اگلی آیت بھی ان معنوں کی تائید کرتی ہے کیونکہ اس میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ اگر اسے غرباء کو اپنے ساتھ کھانا کھلانا مشکل نظر آتا تھا تو روپیہ پیسہ سے تو وہ انکی مدد کر سکتا تھا مگر وہ یہ بھی نہیں کرتا ۔
لغت کی کتاب تعریفات میں لکھا ہے ھوالذی یعد المصائب وینسی المواھب۰(اقرب)کنودوہ ہوتا ہے جو مصیبتیں گنتا رہتا ہے کہ فلاں مصیبت مجھے پہنچی۔ فلاں تکلیف مجھے پیش آئی وینسی المواھباور انعامات کو بھول جاتا ہے ۔اسے یہ تو یاد رہتاہے کہ فلاں وقت میں اپنے دوست کے پاس گیا اور اس سے فلاں چیز مانگی جس کے دینے سے اس نے انکار کر دیا مگر وہ دس ہزار چیزیںجو اس نے مختلف اوقات میں دی ہوتی ہیں اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں اور وہ کبھی ان کا ذکر تک نہیں کرتا۔
تفسیر:۔یہاںالانسانسے ہر انسان مراد نہیں بلکہ اشارہ وسطن بہ جمعاوالے انسانوں کی طرف ۔یعنی جس جمع پر انہوں نے حملہ کرنا تھا وہ جمع جن انسانوں پر مشتمل ہے وہ اس جگہ مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ وہ انسان جن پر یہ مسلمان حملہ کریں گے ان کا اپنے رب کے ساتھ اس طرح کا معاملہ ہے ایک تو وہ کافر ہیںخداتعالی کی باتوں کا انکار کررہے ہیں اور دوسرے وہ سخت ناشکرے ہیں ۔خدا تعالی کے احسانات کی وہ ذرا بھی قدر نہیں کرتے ۔خدا تعالی ان پر کتنا بڑا احسان کیا تھا کہ ایک ریتلے علاقہ میںوہ چاروں طرف سے رزق جمع کر کے لاتا اور ان کو کھلاتا پلاتا ہے مگر ان کی حالت یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ خدا تعالی کے ان انعامات کے شکر گذار ہوتے اور جب اس کی طرف سے کوئی پیغام آتا تو وہ دوڑتے ہوئے اس پر عمل کرتے الٹا خدا تعالی کی باتوں کاانکار کر رہے ہیں غریبوں کو کھانا تک نہیں کھلاتے اور غلاموں پر ظلم وستم کے پہاڑ گرارہے ہیں ۔چنانچہ پہلی سورتوں میں مکہ والوں کی اس حالت کا ذکت آچکا ہے کہ وہ غریبوں کو کھانا نہیں کھلاتے ۔صدقہ وخیرات کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔یتامی ومساکین کی خبر گیری نہیں کرتے بلکہ جو کچھ آئے اسے عیاشی میں لٹا دیتے ہیں۔ابکنودکہہ کر ان کی اس حالت کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ انہیں دعویٰ تو یہ ہے کہ م بڑے بہادر ہیں مگر حالت یہ ہے کہ غلاموں کو ہر وقت مارتے پیٹتے رہتے ہیں گویادناء ت اور کمینگی کے ساتھ بزدلی بھی ان میں کمال درجہ کی پائی جاتی ہے کہ کسی طاقتور کا مقابلہ کرنے کی بجائے کمزوروںپر اپنا غصہ نکالتے ہیں ۔بلالؓ قابوآئے تو ان کو مارنے پیٹنے لگ گئے لیکن جب ابوذر غفاریؓ کو مارا تو کسی نے ان سے کہہ دیا کہ جانتے ہو یہ شخص بنو غفار میں سے ہے جو تمہارے تجارتی راستہ پر آباد ہیں اگر ان کو اس بات کا علم ہوا تو وہ تمہارا راستہ روک دیں گے یہ سننا تھا کہ ان کے اوسان خطا ہو گئے اور انہوں نے ابو ذر کو چھوڑ دیا تا ایسا نہ ہو کہ انکی روٹی بند ہو جائے لیکن بلالؓ یا کوئی اور ایسا غلام سامنے آتا جس کی پشت پر کوئی قوم نہ تھی تو اسے پیٹنے لگ جاتے ۔پس فرماتا ہے یہ بھی کوئی انسان ہیں۔متکبر یہ ہیں،بخیل یہ ہیں،کمینے یہ ہیں،بزدل یہ ہیں،کمزور ملے تو اسے کھانا نہیں کھلاتے۔ روپیہ پاس ہو تو کسی پر خرچ نہیں کرتے ۔جب ان کی حالت یہ ہے تو خداتعالی کس طرح برداشت کر سکتا ہے کہ یہ لوگ ملک پر حاکم رہیںیہ تو سزا کے قابل ہیںچنانچہ آج یہ جن غلاموں کو مارتے اور بڑے فخر سے اس کا اظہار کرتے ہیںہم انہی غلاموںکو ایک دن گھوڑوں پر چڑھا کر لائیں گے اور پھر ان کو بتائیں گے کہ بہادر کیسے ہوتے ہیں۔یہ تو اپنی تمام بہادری صرف اس بات میں سمجھتے ہیں کہ غلام ملے تو ان کو مار پیٹ لیا یا کسی عورت کی شرمگاہ میں نیزہ مارااور اسکو ہلاک کردیا یاکوئی بے کس مسلمان قابو آگیاتو اسکی ایک ٹانگ ایک اونٹ سے اور دوسری ٹانگ دوسرے اونٹ سے باندھ دی اور پھر ان اونٹوں کو مخالف اطراف میں دوڑا کر اس کو ٹکرے ٹکرے کر دیا یا یہ بڑی بہادری اس بات میں سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے سینہ پر گرم گرم پتھر رکھے یا انہیں مکہ کے گلی کوچوں میں کھردرے اور نوکیلے پتھروں پر گھسیٹا اور ان کو لہو لہان کر دیا ۔مگر ایک دن آنے والا ہے جب ہم ان کنود کو یہ بتائیں گے کہ بہادر کیسے ہوتے ہیں اور بہادری کس چیز کا نام ہے ۔دیکھو چونکہ یہ سورۃ مکی ہے اور دشمن کو خواہ مخواہ اشتعال دلانا مقصود نہیں اس لئے اللہ تعالی نے ان کی برائیاں بیان کرتے ہوئے ایسا لفظ استعمال کیا ہے جس دوسرے معنے بھی ہو سکتے ہیں تاکہ انکی طبیعت میں اشتعال پیدا نہ ہو اور ان کا ذہن دوسرے معنوں کی طرف چلا جائے ورنہ در حقیقت ان الا نسان لربہ لکنودسے کفار مکہ ہی مراد ہیں اور مراد یہ ہے کہ کفار خداتعالی کے نا شکرے ہیں خداتعالی کی مدد ان کو کہاں مل سکتی ہے ۔چونکہ یہ اپنے رب کی ناشکری کرتے ہیں،غریبوںپر ظلم کرتے ہیں ،فقیروں کو کھانا نہیں کھلاتے،صدقہ وخیرات کو ایک عبث فعل قرار دیتے ہیں اس لئے ایک دن بطور سزا ہم مسلمانوں سے ان پر حملہ کرائیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ برے اعمال کا کیسا عبرتناک انجام ہوا کرتا ہے۔
وانہ علی ذلک لشھید Oوانہ لحب الخیر لشدیدO
اور وہ یقینا اس پر (اپنے قول اور فعل سے) گواہی دے رہا ہے ۔اور وہ یقینا(باوجود اس کے)مال کی محبت میں بہت بڑا تیز ہے۔
تفسیر:۔اس آیت میں فرماتا ہے کہ ان لوگوں میں ایک طرف تو مذکورہ بالا عیوب پائے جاتے ہیں اور دوسری طرف یہ ان عیوب پر فخر کرتے ہیں۔غلاموں یا عورتوں کو مارنا کتنی قابل شرم حرکت ہے مگر ان کی حالت یہ ہے کہ غلاموں کو مارتے ہیںاور پھر فخر کرتے ہیںحالانکہ اگر انسان میں ذرا بھی شرم وحیا کا مادہ ہو اور وہ کسی بچے کو مار رہا ہو یا غلام کو بے دردی سے پیٹ رہا ہو اور کوئی دوسرا شخص اسے کہے کہ تم کیا کر رہے ہو تو وہ ہزار بہانے بنانے لگ جاتا ہے کہ اس نے یہ خرابی کی تھی وہ خرابی کی تھی تا اسکی کمینگی پر پردہ پڑ جائے۔ مگر فرماتا ہے یہ لوگ ایسے ہیں کہ بجائے نادم اور شرمندہ ہونے کے فخر کرتے ہیںاور کہتے ہیں آج ہم نے فلاں کو خوب مارا ۔آج ان کو پتھروں پر خوب گھسیٹا۔آج ان کو گلی کوچوں میں خوب لتاڑا ۔گویا یہ کمبخت انسان ایک تو گندہ اور ناپاک ہے اور پھر اپنی گندگی پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے یہ عیب کیا ہے ،میں نے وہ عیب کیا ہے ۔اسی طرح وہ غریبوں کو نہیں دیتا جب پوچھا جائے تو کہتا ہے اھلکت مالا لبدامیں نے تو ڈھیروں ڈھیر روپیہ خرچ کیا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ایحسب ان لم یرہ احد(البلد)کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا یا لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیںکہ وہ جو کچھ کررہا ہے عزت نفس کے لئے کر رہاہے قوم کی بہبودی یا غرباء کی ترقی کا خیال اس کے ان اخراجات کا محرک نہیںبے شک وہ دن میں کئی کئی اونٹ ذبح کر دیتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ بھوکوں کو کھانا ملے بلکہ اس لئے کہ لوگوں میں اسکی شہرت ہو ۔غرض نہ صرف اس میں متعدد عیوب پائے جاتے ہیںبلکہانہ علی ذلک لشھیدوہ ان عیوب پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھو مجھ میں یہ یہ باتیں پائی جاتیں ہیں۔یا مثلا روپیہ تو پاس ہو ا لیکن اگر کوئی شخص فاقہ زدہ ہوا تو اسکو کھانا نہ کھلایا ۔قرآن کریم میں آتا ہے جب کفار سے یہ کہاجاتا کہ غریبوں کی مدد کرو اور اپنے مال میں سے صدقہ وخیرات دو تو وہ جواب میں کہتے ہیںکہ ان کی مدد کرنا تو خدائی منشاء کی مخالفت کرنا ہے۔چنانچہ اللہ تعالی ان لوگوں کے متعلق فرماتا ہے واذا قیل لھم انفقو مما رزقکم اللہ قال الذین کفرو للذین امنوا انطعم من لو یشاء اللہ اطعمہ ان انتم الا فی ضلال مبین(یس۳ع۲)جب ان سے کہا جاتا ہے کہ غریبوں کو کھانا کھلائو اور اللہ تعالی نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو تو وہ کہتے ہیںہم ان کو کیوں کھانا کھلائیںہم تو اللہ والا فعل کر رہے ہیںاللہ نے انکو نہیں کھلایا ہم نے بھی ان کو نہیں کھلایا ۔تم ایسے لوگوں کو کیوں کھلاتے ہو جن کو خود اللہ تعالی نے بھوکا رکھنا پسند کیا ہے ۔ اس آیت میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے کہ وہ ایک طرف تو غریبوں کو کھانانہیں کھلاتے اور پھر اپنی اس کمینگی اور بے حیائی پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم تو اللہ والا فعل کر رہے ہیں تم ہمیں مورد الزام کس طرح قرار دے سکتے ہو ۔
حل لغات:۔الخیر۔خیر کے معنے ہوتے ہیں وجدان الشیء عل کما لاتہ الا ئقہ کسی چیز میں جو کمالات پائے جانے چاہئیںان تمام کمالات کے ساتھ جب کوئی چیز ہو تو اس کو عربی زبان میں خیرکہتے ہیںاور خیرکے معنے گھوڑوں کے بھی ہوتے ہیںاور خیرکے معنے اس چیز کے بھی ہوتے ہیںجس میں بہت سی خیر پائی جائے یعنی بہتر سے بہتراور خیرمطلق مال کو بھی کہتے ہیں(اقرب)
شدیدکے معنے شجاع،بخیل، قوی،رفیع،الشاناور مضبوط کے ہوتے ہیںاور کنایۃ شدیدکا لفظ متکبر اور عظمت پسند کے معنوں میںبھی استعمال ہوتا ہے اس کی جمع شدائداوراشداءآتی ہے (اقرب)
تفسیر:۔مختلف معانی کے لحاظ سے اس کے معنے ایک تو یہ ہوں گے کہ (۱)اوپر جس انسان کا ذکر ہوا ہے وہ مال کی محبت میں بڑا پکا ہے یعنی اس کی محبت مال سے بہت بڑھی ہوئی ہے (۲)دوسرے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیںکہ یہ آدمی مال کی محبت میں بڑا شجاع ہے یعنی قومی روح اور قومی قربانی اس میں نہیں پائی جاتی یا دینی قربانی اس میں نہیں پائی جاتی اگر خدا تعالی کے لئے کسی قربانی کی ضرورت ہو تو وہ کوئی قربانی نہیں کر سکتا ۔ اگر قوم کی ترقی کے لئے کسی قربانی کی ضرورت ہو تو وہ اس قربانی کو ادا کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا ۔لیکن اگر کہیں سے مال ملتا ہو تو پھر یہ بڑا دلیر ہو جاتا ہے ۔یا اس کا مال چھنتا ہو تو خوب مرنے مارنے کو تیار ہو جاتا ہے۔دین کی ہتک ہو جائے ۔قوم کی ہتک ہو جائے ،قوم کی عزت پر حملہ ہو جائے قوم کی آزادی اور حریت پر حملہ ہو جائے اس کی غیرت جوش میں نہیں آتی وہ بزدل بن کر اپنے گھر میں بیٹھا رہتا ہے لیکن اگر کوئی شخص اس کے مال پر ہاتھ ڈال دے تو پھر جان دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے(۳)تیسرے معنیانہ لحب الخیر لشدیدکے یہ ہو ں گے کہبسبب حب الخیریعنی بخل کی کئی وجوہ ہوتی ہیں۔بخل کے معنے ہوتے ہیں روپیہ روک لینا ۔لیکن یہ ہر شخص جانتا ہے کہ روپیہ روک لینے کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیںضروری نہیں کہ ہر شخص ایک وجہ سے ہی بخل کا ارتکاب کرتا ہو ۔ان وجوہ میں سے جو مال کو روک لینے کے محرک بن جاتے ہیں۔کبھی بخل ناداری کی وجہ سے ہوتا ہے مثلا ایک غریب شخص ہے اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں کھانے کے لئے صرف ایک روٹی پڑی ہے اور وہ ڈرتا ہے اگر یہ ایک روٹی بھی خرچ ہو گئی تو بچے جا گیں گے ان کے کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوگا اس لئے وہ روٹی کو سنبھال کر رکھ لیتا ہے ایسی حالت میں ایک فقیر اس کے دروازہ پر آتا اور خیرات مانگتا ہے مگر وہ اسے روٹی نہیں دیتا ۔اب اس نے بخل تو کیا ہے مگر اس کی یہ وجہ تھی کہ اس کے پاس کافی مال نہیں تھا صرف حسب کفایت تھا یا حسب کفایت سے بھی کم تھا اس وجہ سے وہ اپنا مال دوسرے کو دینے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ پس کبھی بخل ناداری کی وجہ سے ہوتا ہے نادار انسان بے شک اپنے مال کی حفاظت کرتا ہے مگر اس لئے کہ اس کے پاس صرف حسب کفایت ہوتا ہے اس زائد نہیں ۔کبھی بخل یعنی مال کو روک لینا اس لئے ہوا کرتا ہے کہ جس مقصد کے لئے روپیہ خرچ کرنا ہوتا ہے وہ اس کے نزدیک اچھا نہیں ہوتا اگر ایسے مقصد کے لئے جس کو یہ اچھا نہیں سمجھتا کوئی دوسرا شخص لاکھ بار کہے کہ روپیہ خرچ کرو تو وہ کبھی خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا ۔لوگ بے شک اسے طعنہ دیں اسے بخیل اور کنجوس قرار دیں وہ کہے گا تم مجھے بخیل کہو یا کچھ میں روپیہ نہیں دونگا کیونکہ میرے نزدیک جس مقصد کے لئے روپیہ مانگا جاتا ہے وہ پسندیدہ نہیں۔لیکن فرماتا ہے یہ شخص ایسا ہے کہ غریب بھی نہیں ۔پیسے اس کے پاس ہیں ضرورت سے زائد ہیں اور پھر جو مقصد ہے وہ بھی برا نہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ قوم کے غریبوں کا خیال رکھو۔قوم کے مساکین کا خیال رکھو۔قوم کے یتامیٰ کا خیال رکھو ۔یہ کوئی برا مقصد نہیں کہ اس کے لئے روپیہ خرچ کرنے سے انسان کو ہچکچاہٹ ہو ۔اگر کہا جاتا ہے کہ اپنے روپیہ سے کنچنیاں نچوائو یا آتش بازی پر اپنا روپیہ خرچ کرو تو وہ شخص کہہ سکتا تھا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا میرے نزدیک روپیہ کا یہ مصرف درست نہیں۔میں اس بارے میں تمہارے ساتھ اتفاق نہیں کر سکتا۔لیکن یہ شخص نہ تو غریب ہے اور نہ مقصد برا ہے بلکہ اس کے بخیل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مال کی محبت جو فی ذاتہٖ ایک بے مقصد اور ایک بے مدعا شے ہے اسے مال خرچ کرنے سے روکتی ہے ۔یہ امر ظاہر ہے کہ مال کی محبت فی ذاتہٖ مقصود نہیں ہوتی بلکہ مال ذریعہ ہوتا ہے کچھ اور کام کرنے کا مگر یہ بے مقصد و بے مدعا شے جو مال کی محبت ہے اس کے پیچھے روپیہ صرف کرنے سے رکتا ہے اور اتنا احمق ہے کہ یہ اس چیز کو جو ذریعہ ہے مقصود بنا لیتا ہے اور جس مقصد کے حصول کا وہ ذریعہ ہے اسے بھلا دیتا ہے اس سے بڑھ کر حماقت بھلا کیا ہوگی کہ مال جو حوائج کے پورا کرنے کے لئے ذریعہ ہوتا ہے فی ذاتہٖ مقصود نہیں ہوتا اسکو مقصود بنا لیا جائے اور جس غرض کے لئے روپیہ ہوتا ہے اسکو نظر انداز کر دیا جائے۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کسی کے پاس کپڑا تو ہو مگر وہ پھر بھی ننگا پھرے اور جب پوچھا جائے کہ تم کپڑا کیوں نہیں پہنتے تو جواب دے کہ اگر میں نے کپڑا پہنا تو پھٹ جائے گا ۔ایسا شخص اگر احمق نہیں کہلائے گا تو کیا کہلائے گا ۔مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک کے بعض لوگوں کی بھی یہی حالت ہے چنانچہ صبح کے وقت کسی گائوں کی طرف سیر کے لئے نکلو تو تمہیں نظر آئے گا کہ زمیندار ننگے پائو ں روڑوں اور کانٹوں پر چلتا چلا جارہا ہے اور اس نے اپنے ہاتھ میں جوتی اٹھا ئی ہوئی ہے یا سوٹی سے لٹکا کر اس سوٹی کو اپنے کندھوں پر رکھا ہوا ہے۔حلانکہ جاتی تو اس لئے ہوتی ہے کہ کانٹوں اور جھاڑیوں اور کنکروں سے بچائے نہ اس لئے کہ جوتی کو اٹھا لیا جائے اورننگے پائوں کانٹوں اور کنکروں پر چلنا شروع کر دیا جا ئے۔مگر زمین دار بچارہ تو غربت کی وجہ سے ایسا کرتا ہے جانتا ہے کہ میرے پاس ایک ہی جوتی ہے اور میرا فرض ہے کہ میں اسے سنبھال کر رکھوںاگر جوتی پھٹ گئی اور مجھے اپنے بیٹی کے پاس جانا پڑا تو لوگ اسے کیا کہیں گے کہ تیرا باپ ننگے پائوں آگیاہے اور اسکے پاس جوتی کے لئے بھی پیسے نہیں۔ اسی وجہ سے وہ اپنی جوتی سنبھال کر رکھتا ہے اور اسی حالت کو دیکھ کر اس کی غربت پر بھی رحم آتا ہے اور اپنی ملکی حالت پر بھی افسوس آتا ہے ۔مگر وجہ کچھ ہو بہرحال نظارہ یہی ہوتا ہے کہ جو ذریعہ ہے اس کو مقصود بنالیا جاتا ہے اور جس مقصد کے حصول کا وہ ذریعہ ہوتا ہے اسے بھلا دیا جاتا ہے ۔جوتی اسلئے ہوتی ہے کہ پائوں کو زخم سے بچالے مگر زمیندار اپنے پیر کو زخمی ہونے دیتا ہے اور جوتی کو بچاتاہے۔ اسی طرح روپیہ بھی اسیلئے آتاہے کہ انسان اسکو خرچ کر کے فائدہ اٹھائے۔خواہ قومی مفاد پر اسکو خرچ کرے خواہ ذاتی مفاد پر ۔مگر وہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا حالانکہ اگر وہ خدا تعالی کی رضااور اسکے دین کی مدد کے لئے روپیہ خرچ کرنا نہیں چاہتا تھا تو اسے چاہیے تھا کہ قومی مفاد کے لئے ہی روپیہ خرچ کرتا یا ذاتی فائدہ کے لئے روپیہ صرف کر دیتا ۔آخر کسی نہ کسی کام پر تو اسے بہر حال روپیہ صرف کرنا چاہیے تھا ۔خدا کے لئے نہ سہی قوم کے لئے ہی کارخانے جاری کردیتا تاکہ لوگوں کو مزدوری مل جاتی یا انہیں سستا کپڑا ملناشروع ہو جاتا۔ یا مثلا آٹے کی مشین لگا دیتا یا غرباء اور یتامیٰ ومساکین کی ترقی کے لئے کسی صنعت وحرفت یا تجارت کی داغ بیل ڈال دیتا یا مدرسے کھول دیتا تاکہ بچے علم حاصل کریں اور قوم کو عروج حاصل ہو ۔غرض سینکڑوں طریق ایسے تھے جن سے کام لے کر وہ اپنے روپیہ کو ایسے رنگ میں خرچ کر سکتا تھا کہ اسکی ذات کو بھی فائدہ پہنچتا اور اسکی قوم کو بھی فائدہ پہنچتا ۔مگر وہ روپیہ کو غلق میں بند کر کے رکھ لیتا ہے نہ خدا کیلئے خرچ کرتا ہے نہ قومی مفاد کے لئے خرچ کرنے پر تیار ہوتا ہے اور آخر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسکی دولت بڑھتی نہیں بلکہ سمٹ کر محدود ہو جاتی ہے۔کسی صوفی کا قول ہے کہ تو روپیہ دے تاکہ وہ تیری طرف واپس لوٹے تو روپیہ کو روک کر نہ رکھ کہ وہ تیرے لئے عار بن جائے۔دنیا میں جتنی قومیں روپیہ خرچ کرتی ہیں ان کا مال بڑھتا ہے مگر جو روپیہ کو روک کر رکھ لیتی ہیں ان کی دولت کم ہونی شروع ہو جاتی ہے پس فرماتا ہے اگر ان لوگوں کو خدا بھول گیا تھا اور وہ اسکی رضا کے لئے روپیہ خرچ کرنا ایک بے معنی بات سمجھتے تھے تو کم ازکم انہیں اتنا تو چاہیے تھا کہ قوم کے لئے روپیہ خرچ کرتے مگر ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جن چیزوں کے لئے روپیہ رکھا جاتا ہے جن چیزوں کے لئے روپیہ کو تلاش کیا جاتا ہے جن چیزوں کے لئے روپیہ کو حاصل کیا جاتا ہے ان چیزوں کو تو نظر انداز کر دیتے ہیں اور کوشش یہ کرتے ہیں کہ ان کے پاس روپیہ رہ جائے جو فی ذاتہٖ مقصود نہیں ہوتا بلکہ کسی اور چیز کے حصول کا ذریعہ ہوتا ہے۔
اوپر کی آیات کا صوفیاء نے اپنے رنگ میں ایک اور مطلب بیان کیا ہے ۔وہ کہتے ہیںعادیات سے مراد سالکوں کے نفوس ہیںاورمراد یہ ہے کہ وہ کمالات روحانیہ کے حصول کے لئے بے تاب ہو کر دوڑتے اور جدو جہد کرتے ہیںحتٰی کہ ان کا سانس پھول جاتاہے اور لفظ عادیاتمیں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ خیرات اور نیکیوں کے حصول کے لئے صبح شام کام میں لگے رہتے ہیں اور کام کر کے بس نہیں کر دیتے بلکہ اس کے بعد دوسرا کام شروع کر دیتے ہیں۔دوسرا کام ختم ہوتا ہے تو تیسرا کام شروع کر دیتے ہیں۔تیسرا کام شروع ہوتا ہے تو چوتھا کام شروع کر دیتے ہیں۔غرض ایک دوڑ ہے جس میں مشغول ہوتے ہیں۔ابھی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں پھر کسی غریب کی خدمت گذاری میں مصروف ہو جاتے ہیں۔اس سے فارغ ہوتے ہیں تو تعلیم کا کام شروع کر دیتے ہیں وہ کام ختم ہوتا ہے تو کسی اور نیکی کو سر انجام دینے لگ جاتے ہیں ۔غرض یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک دوڑ دوڑ رہے ہیںاور چاہتے ہیںکہ اس میدان میں دوسروں سے سبقت لے جائیں۔پس والعدیت ضبحاسے مراد یہ ہے کہ سالک خدا تعالی کے قرب کے حصول کے لئے ہر رنگ اور ہر طریق کو اختیار کرتے ہیںاور یکے بعد دیگرے نیکی کے کام کرتے چلے جاتے ہیں ۔فالموریت قدحا۔میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ نہ صرف عمل کے ذریعہ بے انتہا تیزی دکھاتے ہیں ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا کام شروع کر دیتے ہیں بلکہ ان کا دماغ بھی خالی نہیں رہتا وہ اپنے افکار کو ملاء اعلی کی دہلیز پر مارتے ہیں یعنی غوروفکر اور تدبر اور سوچ بچار ان کا طرہ امتیاز ہو تا ہے وہ ایک طرف خدا تعالی کے کلام کے معنی معلوم کرتے ہیں تو دوسری طرف قانون قدرت پر گہری نظر ڈال کر اس کی حکمتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔غرض اپنے افکار کو وہ شریعت اور قانون قدرت دونوں پر مارتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں انوار ومعارف پیدا ہونے لگتے ہیں جیسے چقماق پر ضرب لگا نے سے آگ پیدا ہوتی ہے اسی طرح وہ اپنے افکار کے ذریعہ جب ایک طرف شریعت پر اور دوسری طرف قانون قدرت پر ضربیں لگاتے ہیں تو ایک نور ظاہر ہوتا ہے اور اس نور سے صبح پیدا ہوجاتی ہے جس کافالمغیرات صبحامیں ذکر آتا ہے جب انکی کوششوں اور جدو جہد کے نتیجہ میں صبح پیدا ہوتی ہے جس سے مراد انوار سماویہ کا ظہور ہے تو جیسے صبح کے وقت بیسیوں چیزیںجو رات کو نظر نہیں آتیں نظر آنے لگ جاتی ہیں۔اسی طرح ان کو اپنے اور اپنی قوم کے وہ عیوب نظر آنے لگ جاتے ہیں جو انوار سماویہ کے ظہور سے پہلے مخفی ہوتے ہیں۔ انسان کے چہرے پر میل ہوتی ہے ۔ادھر ادھر چیزیں بکھری ہوئی ہوتی ہیں مگر اسے رات کی تاریکی کی وجہ سے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اسکی ذات میں یا اسے گردوپیش کے لوگوں میں کیا کیا نقائص ہیں جب صبح ہوتی ہے تو اسے فورا نظر آجاتا ہے کہ فلاں چیز سیاہ ہے اور فلاں سفید ۔فلاں اچھی ہے اور فلاں بری ۔اسی طرح جب سالک اس مقام پر پہنچتے ہیں تو انوار سماویہ کے ظہور سے جو صبح پیدا ہوتی ہے اسکی روشنی میں انہیں اپنی وہ باریک کمزوریاں بھی معلوم ہو جاتی ہیں جو ان انوار کے ظہور سے پہلے مخفی ہوتی ہیں اور انہیں اپنی قوم کے وہ عیوب بھی نظر آنے شروع ہو جاتے ہیںجو پہلے نظر نہیں آیا کرتے تھے گویا علم کامل نہ ہونے کی وجہ سے جو عیوب پہلے مخفی ہوتے ہیں وہ اس صبح کے نتیجہ میں ظاہر ہو جاتے ہیں اپنے نفس کی بھی اور اپنی قوم کے بھی ۔جب انہیں اپنے اور اپنی قوم کے عیوب نظر آتے ہیں تو فالمغیرات صبحاوہ اس کی وجہ سے مغیر بن جاتے ہیں یعنی اپنے عیوب پر بھی حملہ کر دیتے ہیںاور اپنی قوم کے عیوب پر بھی حملہ کر دیتے ہیں۔اپنی صفائی میں بھی مشغول ہو جاتے ہیں اور اپنی قوم کی صفائی میں بھی مشغول ہو جاتے ہیں۔
فاثرن بہ نقعا۔پھر اس حالت ظہور انوار میں وہ اپنی آوازوں کو بلند سے بلند کرتے چلے جاتے ہیں یعنی جب وہ عادات اور ہوائوہوس پر حملہ کرتے ہیں۔جب وہ اپنے عیوب پر بھی حملہ آور ہو جاتے ہیں اور اپنی قوم کی اصلاح کے لئے اس کے عیوب کو مٹانے کے لئے بھی کمر بستہ وتیار ہو جاتے ہیں تو اس وقت جانتے ہیں کہ ہمیں محض اپنی کوششوں اور تدابیر سے کامیابی نہیں ہوسکتی ہم جتنا زور لگائیں گے وہ بہر حال ناقص ہو گا اور پھر بھی کچھ کمزوریاں ہماری ذات میں باقی رہ جائیں گی اور ہماری قوم بھی باقی رہ جائیں گی ہم اگر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اسکی ایک ہی صورت ہے کہ اپنی کوششوں کے ساتھ اللہ تعالی سے بھی دعائیں کرنی شروع کر دیں کہ وہ اس اہم کام میں ہماری مدد فرمائے اور اپنے فضل سے ہماری ناچیز مساعی میں برکت ڈالے چنانچہ وہ خدا تعالی کے دربار میںاپنی آوازیں بلند کرنی شروع کر دیتے ہیں ۔آہ وزاری اور چیخ وپکار سے کام لیتے ہیں۔درد مندانہ دعائوں سے اس کے فضل کو جذب کرتے ہیں اور کہتے ہیں خدایا تو آاور ہماری مدد کر اور ہمارے دشمن کو تباہ وبرباد کر ۔ جب یہ دونوں باتیں جمع ہو جاتی ہیں یعنی ایک طرف وہ اپنے عیبوں اور اپنی قوم کے عیبوں کو دور کرنے کے لئے ذاتی طور پر کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف خداتعالی کے دربار میں چیخ وپکا ر شروع کر دیتے ہیں اور اس سے دعائیں مانگنے لگ جاتے ہیں کہ وہ انکی مددکرے اور اس دشمن کو تباہ کرے جو انہیں خدا تعالی کی محبت اور اسکے قرب کے راستوں سے دور پھینکنا چاہتا ہے تو وہ کامیاب ہوجاتے ہیں اور وہ اس پہلی جماعت میں مل جاتے ہیں جو ان سے پہلے اعلی عیلین میں شامل ہو چکی ہے یہ معنے فوسطن بہ جمعاکے ہیں یعنی وہ جمعا جو حقیقت میں جماعت کہلانے کی مستحق ہے اس میں وہ بھی شامل ہو جاتے ہیں اس صورت میں یہاں جمعاکی تنوین عظیم الشان کے معنوں میں سمجھی جائے گی اور آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ پھر وہ جماعت جو ایک ہی جماعت کہلانے کی مستحق ہے یعنی اعلی عیلین والی جماعت اس میں جا کر شامل ہو جاتے ہیں اور اپنے اس مقصد کو حاصل کر لیتے ہیں جس کے لئے انہیں دنیا میں پیدا کیا گیا تھا۔
یہ نکتہ جو اوپر بیان کیا گیا ہے کہ سالک ایک طرف تو اپنی کوششوں سے کام لیتے ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالی سے بھی دعائیں کرنی شروع کر دیتے ہیں کہ وہ شیطان کے مقابلہ میں ان کی مدد کرے اس کے متعلق ایک صوفی کا بھی لطیف واقعہ بیان کیا جاتا ہے ۔لکھا ہے کہ ان کے پاس کوئی شاگرد تصوف کے مسائل سیکھنے اور ان کی صحبت سے مستفیض ہونے کے لئے آیا اور کچھ مدت تک اپنی روح کی صفائی کے لئے ان کی خدمت میں حاضر رہا ۔کچھ عرصہ کے بعد علم تصوف سیکھ کر اس نے چاہا کہ میں اب واپس جائوں اور اپنی قوم کی درستی کروں ۔ جب وہ چلنے لگا تو اس نے کہا حضور مجھے کوئی آخری نصیحت کردیں ۔انہون نے کہا تم مجھے یہ بتائو کہ کیا تمہارے ملک میں شیطان ہوتا ہے ؟وہ حیران ہوا کہ مجھ سے یہ کیا سوال کیا گیا ہے کہنے لگا حضور کیا شیطان کسی خاص جگہ کی چیز ہے وہ تو ہر جگہ ہوتاہے۔ انہوں نے فرمایا اچھا اگر کبھی شیطان نے تمہیں پکڑ لیا اور اللہ تعالی کے قرب کے راستہ میں اس نے تمہیں بڑھنے نہ دیا تو تم کیا کروگے ۔علم تو سیکھ گئے ہو لیکن تم جانتے ہو کہ شیطان بھی ہر وقت گھات میں لگا رہتا ہے اور وہ انسان کو گمراہ کرنے کے لئے اپنا پورا زور صرف کر دیتا ہے ۔جب تم نے عبادتیں شروع کیںاور کوشش کی کہ تمہیں اللہ تعالی کے قرب کا کوئی مقام حاصل ہو جائے اور ادھر شیطان نے تمہاری ایڑی پکڑ لی اور وہ تمہیں ورغلانے لگا تو تم کیا کرو گے؟اس نے کہا حضور میں شیطان کا پورا مقابلہ کروں گا ۔انہوں نے کہا بہت اچھا ۔مان لیا کہ تم نے شیطان کا مقابلہ کیا ۔شیطان کو شکست ہو گئی اور تم جیت گئے۔لیکن جب پھر تم آگے بڑھنے لگے اور شیطان نے تمہیں پھر آپکڑا تو تم کیا کرو گے۔آخر شیطان مرتا تو نہیں کہ انسان یہ سمجھ لے کہ میں اسے مار کر امن میں آجائوں گا ۔تم زیادہ سے زیادہ اس کے حملہ سے وقتی طور پر محفوظ ہو سکتے ہو لیکن اس خطرہ سے آزاد نہیں ہو سکتے کہ ممکن ہے وہ تم پر دوبارہ حملہ کر دے ۔ دوبارہ ہٹایا تو تیسری بار حملہ کر دے۔ پس میں تسلیم کر لیتا ہوں کہ تم شیطان کا مقابلہ کروگے اور پھر اس سے اپنا پیچھا چھڑا لو گے لیکن اگر اس نے ہزار مقابلہ کے بعد بھی تمہیں آپکڑا تو کیا کرو گے؟ کہنے لگا میں پھر مقابلہ کروں گا ۔وہ بزرگ فرمانے لگے میں مان لیتا ہوں کہ اب کی د فعہ بھی تم کامیاب ہو جاتے ہو اور شیطان کو تم بھگا دیتے ہو لیکن تم پھر اپنے کام میں مشغول ہو جاتے ہو تو شیطان آجاتا ہے ایسی حالت میں تم اس کا کیا علاج کرو گے ؟وہ حیران ہو کر کہنے لگا کہ پھر مقابلہ کروں گا ۔استاد نے کہا اگر ساری عمر تم نے شیطا ن کے مقابلہ میں ہی گزار دی تو خدا تعالی کے پاس کب پہنچو گے ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے شاگرد سے کہا اب مجھے ایک اور بات بتائو ۔اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے کے لئے جائو اور اس کے صحن میں کتا ہو ۔تم اندر داخل ہونے لگو تو وہ تمہاری ایڑی پکڑ لے تو اس وقت تم کیا کرو گے ؟اس نے کہا اگر میرے پاس ڈنڈا ہو گا تو میں اسے ڈنڈا مارونگا پتھر پڑا ہو گا تو میں پتھراٹھا کر ماروں گا ۔کہنے لگے بہت اچھا تم نے اسے مارا اور وہ علیحدہ ہو گیا ۔لیکن جب پھر تم دوست کے دوازہ کی طرف بڑھنے لگے اور اس نے تمہیں پکڑ لیا تو تم کیا کرو گے ۔کتا تو مکان کی حفاظت کے لئے ہوتا ہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ تمہیں مکان کے اندر داخل ہونے دے ؟کہنے لگا میں پھر اس کا مقابلہ کروں گا اوراسے ہٹائوں گا ۔انہوں نے فرمایا مان لیا کہ اب کی مرتبہ بھی وہ ہٹ گیا اور تم کامیاب ہو گئے لیکن اگر تیسری بار تم پھر بڑھنے لگے اور اس نے تمہیں پھر آپکڑا تو تم کیا کروگے ؟وہ کہنے لگا میں گھر والے کو آواز دوں گا کہ ذرا باہر نکلنا تمہارا کتا مجھے اندر آنے نہیں دیتا اسے روکوکہ میں اندر داخل ہو سکوں ۔ وہ بزرگ فرمانے لگے شیطان کا بھی یہی علاج ہے ۔شیطان اللہ میاں کا کتا ہے جب وہ تمہاری ایڑی آپکڑے اور تمہیںاللہ تعالی کے قرب کی طرف بڑھنے نہ دے تو اللہ میاں کو ہی آواز دینا کہ شیطان مجھے آپکے پاس آنے نہیں دیتا اسے روک لیں ۔یہی طریق ہے جس سے شیطان تم پر حملہ کرنے سے رک سکتا ہے ورنہ تمہارے ہٹانے سے کیا بنتا ہے۔تم دس بار بھی ہٹائو گے تو وہ دس بار تم پر لوٹ لوٹ کر حملہ کرتا رہے گا ۔ اسی کی طرف فا ثرن بہ نقعامیں اشارہ کیا گیا ہے کہ سالک ادھر شیطان کا مقابلہ شروع کر تے ہیں ۔اغارتیں کرتے ہیں ۔تدابیر اور جدوجہد سے کام لیتے ہیں کہ خدایا ہم مر گئے آاور ہماری مدد فرما ! جب یہ دونوں باتیں ملتی ہیں تب اللہ تعالی کی ملاقات میسر آتی ہے ۔جیسے اس بزرگ نے کہا کہ دوست سے ملنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ اپنے دوست سے کہو کہ وہ کتا پکڑ لے۔اسی طرح اگر تم ایک طرف کوشش اور جدوجہد سے کام لو گے اور دوسری طرف خدا تعالی سے انتہائی تضرع اور عجز ونیاز کے ساتھ دعائیں رہوگے تب دعوت شاہی پر جو لوگ پہلے بیٹھے ہیں ان میں تم بھی شامل ہو جائو گے اور اللہ تعالی کے انعامات کے وارث قرار پائو گے۔صوفیاء کے نزدیک فاثرن بہ نقعاسے دلی فریاد والتجا ء کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حل لغات میں بتایا جا چکاہے کہ نقع کے معنے آواز کے بھی ہوتے ہیں ۔
افالا یعلم اذا بعثر ما فی القبور O
کیا وہ نہیں جانتا کہ جب وہ (لوگ) جو قبروں میں ہیں اٹھائے جاہیں گے ۔
حل لغات:۔بعثرکے معنے ہوتے ہیں نظر وفتش۔ کسی بات میں غور وفکر کیا یا کسی پوشیدہ بات کی تفتیش کی ۔اور بعثر الشیء کے معنے ہوتے ہیں فرقہ۔بددہ۔پراگندہ کر دیا ۔استخر جہ فلشفہ واثار ما فیہ۔کسی پوشیدہ چیز کو نکالا اس کو ظاہر کر دیا اور اسکی حقیقت کا اظہار کر دیا ۔قلب بعضہ علی بعضیا نیچے کی چیز کو اوپر کر دیا (اقرب)بعثرمجہول کا صیغہ ہے اس کے معنے ہو نگے (۱)پراگندہ کر دیا گیا (۲) الٹایا گیا (۳) کسی پوشیدہ چیز کو ظاہر کر دیا گیا ۔
تفسیر:۔افلا یعلم ابتدائی ہمزہ استفہام انکاری کا ہے اور چونکہ استفہام کے بعد لاآیا ہے جو دوسری نفی ہے اس لئے اسکے معنے مثبت کے بن جائیں گے اور افلا یعلمکے معنے ہونگے ’’کیا وہ نہیں جانتا ‘‘ اب ظاہر ہے کہ اس فقرہ میں کیا بھی انکار کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور لا کے تو معنے ہی انکار کے ہوتے ہیں پس بوجہ دو انکار جمع ہو جانے کے ایک استفہام انکاری اور ایک لا اس کے معنے مثبت کے ہو گئے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ تم جانتے ہی ہو کہ میں خبیر ہوں اس لئے سنبھل کر چلو ۔ استفہام بہت سے امور کے لئے ہوتا ہے اس جگہ تہدید ووعید کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ کیا وہ نہیں جانتا کہ ہم خبیر ہیں یعنی اسے عقل سے کام لینا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ اگر وہ ان باتوں سے باز نہیں آئے گا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ۔ہماری زبان میں بھی یعنی پنجابی اور اردو دونوں میں یہ محاورہ استعمال ہو تا ہے کہ’’تم جانتے ہی نہیں میں کون ہوں‘‘ اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ تمہیں معلوم نہیں بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ تم جانتے ہی ہو کہ مجھے سزا دینے کی طاقت حاصل ہے اور جب تم اس بات کو بخوبی آگاہ ہو تو پھر تمہیں ڈرنا چاہیے ۔ میں تمہیں ہوشیار کر دیتا ہوں کہ ا سکا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا ۔اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہاری خبر لوں گا ۔یہاں بھی استفہام تہدیدو وعید کے لئے آیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ کیا وہ جانتے نہیں کہ خد اتعالی خبیر ہے یعنی اس بات کو بخوبی جانتے ہیں پھر جانتے بوجھتے ہوئے وہ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے ۔ ہم اس فقرہ سے انہیں پھر ہوشیار کر دیتے ہیں کہ سنبھل کر چلو ۔ایسی ہستی کا جوعلیم وخبیر ہو مقابلہ اچھا نہیں ہوتا ۔کیونکہ واقف ہستی سے جہاں نیک اعمال والا نڈر ہوتا ہے بد اعمال زیادہ ڈرتا ہے۔
اذا بعثر ما فی القبور میں مااستعمال ہوا مہے حالانکہ یہاں انسانوں کا ذکر ہے اور انہی کا انجام اس میں بیان کیا گیا ہے ۔میں پہلے بتا چکا ہوں کہ بعض دفعہ جب کسی صفت کو بیان کرنا مد نظر ہو تا ہے تو اسکی طرف اشارہ کرنے کے لئے بھی ما آجاتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ صفت اچھی ہو یا بری ۔بعض دفعہ اچھی صفت کے لئے ما استعمال ہو جاتا ہے جیسے حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق آتا ہے کہ واللہ اعلم بما و ضعت(آل عمران۴ع۱۲)اور بعض دفعہ بری صفت کے لئے ما استعمال ہو تا ہے جیسے اس جگہ ذوی العقول کے لئے ماآیا ہے اس لئے کہ ان کی صفت تعطل و عدم حرکت کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔
درحقیقت دنیا میں انسان وہ کہلاتا ہے جس میں حرکت ہو ۔ جس کے اندر ترقی کی امنگ ہو ۔جس میں نیک تبدیلی کی خواہش ہو اور جس کے اعمال اس کی زندگی کا ثبوت دے رہے ہوں ۔اگر کوئی شخص زندگی کی علامات اپنے اندر نہیں رکھتا ۔ اسکی امنگیں مردہ ہو چکی ہوں۔اس کی ہمت کوتاہ ہو۔اس کے خیالات افسردہ ہوں ۔ اس کے دل کے کسی گوشہ میں بھی اپنی ترقی کا کوئی جذبہ موجود نہ ہو۔اس کی قوت عملیہ پر مردنی چھائی ہوئی ہو اور اس کے اعمال سے نحوست ٹپک رہی ہو تو ایسے شخص کو قطعاََ زندہ نہیں کہا جا سکتا۔ زندہ وہی کہلاتا ہے جس کے اندر زندگی کے آثار پائے جاتے ہوں۔ اگر کوئی فرد اپنی زندگی کے آثار کو کھو بیٹھتا ہے یا کوئی قوم زندگی کے نشانات اپنے اندر نہیں رکھتی تو وہ ہرگز زندہ نہیں کہلا سکتی۔
اس جگہ ما فی القبور سے اہل مکہ مراد ہیں اور اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ یہ وہ قوم ہے جو ان تمام چیزوں سے محروم ہے جو کسی قوم کی زندگی کا نشان ہوا کرتی ہیں۔ بے شک یہ لوگ بظاہر زندہ اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں مگر در حقیقت مردہ ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں کوئی امنگ نہیں۔ ترقی کی کوئی خواہش نہیں۔ عمل کا کوئی جوش نہیں۔ علم کے حصول کی کوئی تڑپ نہیں۔نیک تغیر پیدا کرنے کا کوئی احساس نہیں۔ یہ چلتے پھرتے زندہ درحقیقت مردہ ہیںاور مردہ بھی ایسے جو ما فی القبورہیں۔ ایک چیز ایسی ہوتی ہے جو باہر پڑی ہوئی ہوتی ہے ایسی چیز کو کوئی دوسرا شخص ہلا بھی سکتا ہے۔ مثلاََ پتھر پڑاہوا ہوتا ہے پتھر ایک بے جان چیزہے مگر چونکہ وہ باہر زمین پرپڑا ہوتا ہے اس لئے بچے اسے ٹھوکر مارتے ہیں تو وہ کہیں کا کہیں چلا جاتا ہے لیکن وہ چیز جو قبور میں دبی پڑی ہو اسے کوئی ہلا نہیں سکتا پس ما فی القبورکہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اول تو خود ان میں حرکت نہیں اور پھر یہ مٹی کے نیچے دفن ہیں کوئی دوسرا شخص بھی ان کو ہلا نہیں سکتا۔یہ ان کی کمال درجہ کی مردنی کا اظہار ہے کہ نہ ان میں خود کوئی حرکت ہے اور نہ کوئی دوسرا انہیں حرکت دے سکتا ہے۔کئی چیزیں بے جان ہوتی ہیں لیکن دوسرے لوگ ان سے کام لیتے ہیں۔مثلاََڈول جس سے پانی نکالا جاتاہے ایک بے جان چیز ہے مگر جب اسے کنوئیں میں ڈالا جاتا ہے تو وہ ہلتا ہے اور پانی لیکر باہر آجاتا ہے۔ اسی طرح چرخی ایک بے جان چیز ہے مگر جب کوئی دوسرا اسے حرکت دیتا ہے تو وہ فوراََ حرکت میں آجاتی ہے۔ مگر جو چیز قبر میں پری ہوئی ہو اس میں نہ خود حرکت ہوتی ہے نہ کوئی دوسرا اس میں حرکت پیدا کر سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس امر کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ مکہ کے لوگ وہ ہیں جن میں کسی رنگ میں بھی بیداری نہیں پائی جاتی۔نہ ان میں خود بیداری ہے نہ کسی بیدار قوم سے ان کا تعلق ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی قوم میں خود تو بیداری نہیں ہوتی مگر بیدار قوم سے مل کر اس کی حالت بدل جاتی ہے۔ مثلاََ ہندوستان کو دیکھ لو بظاہر ایک مردہ ملک ہے مگر چونکہ ایک زندہ قوم یعنی انگریزوں سے اس کا تعلق ہے اس لئے وہ جنگ کے موقع پر دس بیس لاکھ فوج ہندوستان سے نکال ہی لیتے ہیں۔ اس طرح گو ہندوستان کی ساری دولت انگریز لے گئے مگر پھر بھی ایک زندہ قوم سے تعلق ہونے کی وجہ سے اس کی تجارت کی طرف دنیا للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ اب روپیہ چاہے انگریز لے گئے ہوں لیکن ایک زندہ قوم سے تعلق ہونے کی وجہ سے ملک میں بیداری کے آثار پائے جاتے ہیں۔ پس زندگی کی دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو کوئی قوم خود زندہ ہو یا کسی زندہ قوم سے اس کا تعلق ہو۔ مگر جو قبر میں دبی پڑی ہو اس کی ترقی کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔قبر میں دبے ہونے کے معنے یہ ہیں کہ مکہ والوں میں نہ آپ زندگی پائی جاتی ہے نہ کسی زندہ قوم سے ان کا تعلق ہے گویا ان میں ذاتی زندگی بھی نہیں اوروہ اضافی زندگی بھی نہیں جو دوسروں سے تعلق رکھ کر پیدا ہوتی ہے۔
اہل مکہ کی اس انتہا ئی گری ہوئی حالت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے افلا یعلم اذا بعثر ما فی القبور۔ان کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالی ایک ایسا زمانہ لانے والا ہے جب یہی قوم جو نہ ذاتی زندگی رکھتی ہے نہ کسی طاقتورقوم سے اس کا تعلق ہے اس میں بھی ہم حرکت پیدا کر دیں گے۔
یہ ایک عجیب بات ہے جس طرح مقنا طیس لوہے کو کھینچ لیتا ہے اسی طرح اسلام کی بدولت آخر اہل مکہ میں بھی جو ما فی القبورتھے ایک حیرت انگیز بیداری پیدا ہو گئی وہ تھے تو مردہ لیکن رسول کریم ﷺ کی مخا لفت میں ان کی مردہ ہڈیوں میں بھی ایک جان آگئی اور ان میں ایسی حرکت پیدا ہوئی کہ جس کی مثال ان کی زندگی کے دنوں میں دکھائی نہیں دیتی۔آخر عرب لوگ ہمیشہ سے مردہ قوم نہیں تھے ۔ان پر ترقی کا دور بھی آچکا تھا مگر دنیا کی کوئی تاریخ ثابت نہیں کر سکتی کہ اسلام سے پہلے ان میں زندگی کے وہ آثار پائے جاتے ہوںجو اسلام کے ظہور پر ان میں پیدا ہوئے ۔اسلام سے پہلے سارے عرب کی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ مکہ کے لوگوں نے اپنے گھروں سے باہر نکل کر کسی قوم پر حملہ کیا ہو ۔مگر اسلام نے اس مردہ قوم کی ہڈیوں میں بھی ایسا ہیجان پیدا کر دیا اور ایسا جوش اور ولولہ ان کے قلوب میں بھر دیا کہ وہ تین سو میل دو ر اپنے شہر سے باہر نکل گئے اور احد میں انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا ۔حالانکہ مکہ والوں نے کبھی اپنی بڑائی کے زمانہ میں بھی کسی غیر قوم پر حملہ نہیں کیا تھا ۔جیسے ٹمٹماتا ہوا چراغ جب بجھنے لگتا اور اس کا تیل ختم ہونے کے قریب پہنچتا ہے تو وہ آخری دفعہ اچھل کر جلتا اور پھر ختم ہو جاتا ہے اسی طرح جب انہیں اسلام کے مقابلہ میں اپنی موت نظر آئی تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح انہوں نے بھی آخری سنبھالا لیا اور تین سو میل دور اپنے شہر سے نکل کر باہر گئے اور احد میں انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا۔ حالانکہ مکہ والوںنے کبھی اپنی بڑائی کے زمانہ میں بھی کسی غیر قوم پر حملہ نہیں کیا تھا۔ جیسے ٹمٹماتا ہوا چراغ جب بجھنے لگتا ااور اس کا تیل ختم ہونے کے قریب پہنچتا ہے تو آخرا دفعہ وہ اچھل کر جلتا اور پھر ختم ہو جاتا ہے اسی طرح جب انہیں اسلام کے مقابلہ میں اپنی موت نظر آئی تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح انہوں نے بھی آخری سنبھالا لیا اور تین سو میل پر جا کر اسلام سے ٹکر لی۔ چنانچہ احزاب میں انہوں نے حملہ کیا۔ احد میں انہوں نے حملہ کیا۔ بدر اولیٰ میںانہوں نے حملہ کیا اور بدر ثانیہ میں انہوں نے حملہ کیا یہ چار جنگیں ایسی ہیں جن میں مکہ والے تین تین سو میل دور اپنے گھروں سے باہر نکل کر گئے حالانکہ پہلے کسی تاریخ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مکہ کے لوگوں نے اتنی دور جاکر کسی غیر قوم پر حملہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے افلا یعلم اذا بعثرمافی القبور یہ بیشک مردہ ہیں مگر ان مردوں کو بھی ایک دن ہم کھینچ کر باہر لے آئیں گے۔ جیسے بجلی کی رو کسی دوسری چیز پر ڈالو تو وہ بھی اچھلنے کودنے لگ جاتی ہے اسی طرح مکہ والوں کا حال ہوا۔ ان کی مردہ ہڈیوں میں بھی جان آگئی۔ اور گویہ مخالفت کی وجہ سے ہی آئی مگر بہر حال آئی اسلام اور مسلمانوں کے تعلق کی وجہ سے۔ اس کے بغیر ان میں خود بخود پیدا نہیں ہوگئی۔
وحصل ما فی الصدورO
اور جو کچھ سینوں میں (چھپاپڑا)ہے نکال لیا جائے گا۔
تفسیر:۔پہلی آیت میں یہ بتا یا گیا تھا کہ مکہ کے لوگ جو آج تمہیں مردہ دکھائی دیتے ہیں ان کی رگوں میں بھی اسلام اور محمد رسول اللہﷺ کی مخالفت کے جوش میں زندگی کا خون دوڑنے لگے گا اور وہ مسلمانوں کو کچلنے کے لئے بڑھ بڑھ کر حملے شروع کر دیںگے اب اس آیت میں یہ بتاتا ہے کہ ان کے دلوں میں جو کچھ ہے اسے کھینچ کر باہر نکال لیا جائے گا یعنی وہ گند اور خبث اور شرارت جو اس قوم کے دل میں نبوت سے دوری اور شرک کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے اسے ظاہر کر دیا جائے گا اور لوگوں کو بتادیا جائے گا کہ اندرونی طور پر یہ کیسے گندے اور ناپاک انسان ہیں۔
مکہ کے لوگ چونکہ مجاور تھے ان کے کلام میں بڑا تکلف پایا جاتا تھا جو بھی مکہ میں آتا اسے بڑے تپاک سے ملتے اور کہتے آئیے تشریف لائیے۔آپ لات کے پاس جائیں گے ۔عزی ٰپر چڑھاواچڑھائیں گے۔منات کے سامنے ماتھا ٹیکیں گے۔جو بھی خدمت ہو ہم اسے بجا لانے کے لئے حاضر ہیں۔وہ سمجھتا کہ مکہ والے بڑے مہذب ہیں بڑے نیک اور دین کے خادم ہیں دیکھو کس محبت کے ساتھ پیش آتے ہیں اور کیسا اعلی درجہ کا سلوک کرتے ہیں ذرا بھی ان کے ماتھے پر بل نہیں آتا ۔غرض ان کی طبیعتوں میں تو گند بھرا ہوا تھا لیکن بظاہر بڑے مودب تھے اور کسی شخص کے وہم وگمان میں میں بھی نہیں آتا تھا کہ یہ لوگ اخلاق سے عاری ہو چکے ہیں اور دراصل یہی حآل ہر منافق اور چالباز انسان کا ہوتا ہے کہ وہ بظاہر بڑا مودب ہوتا ہے مگر اندرونی طور پر اس کی طبیعت میں گند بھرا ہوا ہوتا ہے ۔لوگ جب حج کے لئے جاتے ہیں تو جہاز سے اترتے ہی انہیں بعض ایسے آدمی مل جاتے ہیں جو بڑی محبت سے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور کہتے ہیں آئیے تشریف لائیے ہم آپکی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ وہ اردو بھی جانتے ہیں ۔وہ پنجابی بھی جانتے ہیں ۔وہ کشمیری بھی جانتے ہیں ۔وہ پشتو بھی جانتے ہیںاور بعض لوگ تو ایسے ہوشیار ہوتے ہیں کہ بڑے اطمینان سے جہاز میں اکر حاجیوں کا اسباب اتارنا شروع کر دیتے ہیں اور قلیوں سے کہتے ہیں کہ ادھر آئو اور اسباب اٹھائو ۔جو شخص ان کے ہتھ کنڈوں سے واقف ہوتا ہے وہ تو جانتا ہے کہ یہ لوٹنے کے لئے آئے ہیں مگر جو ناواقف ہوتا ہے وہ بڑا خوش ہوتا ہے کہ معلوم نہیں یہ لوگ کہاں سے میرے باپ دادا کے واقف نکل آئے ہیں اور الحمدللہ کہتے ہوئے ان کے ساتھ چل پڑتا ہے ۔وہ اسے عزت سے بٹھاتے ہیں ملازموں سے کہتے ہیں کہ ہاتھ دھلائو کھانا لائو ۔پانی پلائو اور جب وہ کھا کر فارغ ہو جاتا ہے تو اس کے سامنے ایک بہت بڑا بل پیش کر دیتے ہیں تب اسے پتہ لگتا ہے کہ یہ تو مجھے لوٹ کر لے گئے ہیں ۔غرض منافق بظاہر بڑا چکنا چپڑاہوتا ہے ۔دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ بڑا مودب ہے حالانکہ اس کے اندرونہ میں کھوٹ بھرا ہوا ہوتا ہے ۔یہی حال مکہ والوں کا تھا کہ ان کے کلام میں بڑا تکلف پیدا ہو گیا تھا مگر دل گند سے بھرے ہوئے تھے ۔پس فرماتا ہے ان کی جو چھپی ہوئی بدیاں ہیں ان کو ہم کھینچ کر باہر نکال دیں گے چنانچہ جب اسلام آیا ان کے سارے تکلفات جاتے رہے اور ان کے وہ گند ظاہر ہوئے کہ الامان۔ انہوں نے غلاموں پر ظلم کئے ۔انہوں نے بچوں پر ظلم کئے ۔انہوں نے عورتوں پر ظلم کئے یہاں تک کہ بعض عورتوں کی شرمگاہوںمیں انہوں نے نیزے مارے اور اس طرح ان کو ہلاک کیا ۔پھر تشبیب کے ذریعہ اس طرح بہتا ن تراشی سے کام لیا اور ایسی ایسی گندی گالیاں دیںکہ اگر انسان میں شرافت کا ایک شمہ بھی باقی ہو تو وہ ایسی حیا سوز حرکات نہیں کر سکتا ۔اس سے زیادہ ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ رسول کریمﷺنماز کے لئے جاتے ہیں تو سجدہ کی حالت میں کفار آپ کے سر پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دیتے ہیں اور پھر قہقہہ مار کر ہنس پڑتے ہیں گویا انہوں نے بہت بڑا کمال کیا ہے ۔ مکہ والوں کا مجاور ہونا درحقیقت یہ مفہوم رکھتا تھا کہ وہ قوم کے دینی پیشوا ئوں اور بزرگوںکا یہ حال تھا کہ محمد رسول اللہﷺ نمازکے لئے جاتے ہیں خدا کے آگے سجدہ کرتے ہیں اور وہ لوگ اونٹ کی اوجھڑی جو غلاظت سے لت پت تھی اٹھا کر آپ کے سر پر رکھ دیتے ہیں اور پھر خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے کتنا اچھاکام کیا ۔پس اللہ تعالی فرماتا ہے اے مکہ والو آج تم بڑے اچھے نظر آرہے ہو اور دنیا تمہارے متعلق سمجھتی ہے کہ یہ تم لات کے پجاری ہو ۔تم عزی کے ماننے والے ہو ۔تم منات کے آگے سر جھکانے والے ہو ۔تم خانہ کعبہ کی حفاظت کرنے والے ہو ۔تم بڑے بزرگ اور خدا رسیدہ ہو حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ تمہارے دل خبث اور شرارت سے بھرے ہوئے ہیںاور ان میں گند ہی گند پایا جاتاہے ہم محمد ﷺکو کھڑا کر کے تمہارے ایک ایک گند کو ظاہر کر دیں گے اور دنیا کو بتا دیں گے کہ تم کیسے ناپاک اور گندے اخلاق کے مالک ہو چنانچہ محمد رسول اللہﷺ کے ظہور کے بعد اہل مکہ کے تکلفات کی چادر سب پارہ پارہ ہو گئی ہو گئی ۔مسلمانوں کو گالیاںدی گئیں ۔عورتوں اور غلاموںپر ظلم کئے گئے۔صحابہؓکوگھروںسے نکالا گیا ۔لڑائیوں میں مارے جانیوالوں کے انہوں نے ناک کان کاٹے اور ان کے کلیجے چبائے۔پھر احسان فراموشی کا اس رنگ میں مظاہرہ کیا گیا کہ ایک دفعہ کفار میں سے کچھ لوگ رسول کریمﷺبطور مہمان آئے۔مدینہ کی آب وہوا کے ناموافق ہونے کی وجہ سے وہ بیمار ہو گئے رسول کریمﷺ نے ان کے علاج کاخاص طور پر اہتمام کیا اور صحابہؓسے فرمایا کہ ان کو اونٹنیوںکا دودھ خوب پلائو ۔چنددنوں کے بعد وہ اچھے ہو گئے تو جاتی دفعہ انہوں نے یہ شروفت کی کہ اونٹوں کے نگران کو مار ڈالا اور اونٹ چرا کر لے گئے یہ کیسی حد درجہ کی خباثت ہے کہ بیماری میں علاج کرواتے ہیںکھاتے پیتے ہیں اور جب اچھے ہوتے ہیں تو اونٹ چرا کر لے جاتے ہیں ۔قادیان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بعض دفعہ ایسا ہوتا تھا اور اب بھی کبھی کبھی ہو جاتا ہے کہ بعض مخالف آتے ہیں ،کھانا کھاتے ہیں ،رہائش اختیار کرتے ہیںاور جب جانے لگتے ہیں تو بستر اٹھا کر لے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے احمدیوں کو خوب زک پہنچائی ۔وہ بھی اونٹوں کا دودھ پیتے رہے علاج کرواتے رہے اور جب اچھے ہو کرجانے لگے تو رسول کریمﷺ کے اونٹوں کے نگران کو قتل کردیا اور اونٹ چرا کر لے گئے ۔
پھر ان کی دھوکہ بازی کی یہ حالت تھی کہ ایک دفعہ بعض لوگ رسول کریمﷺکے پاس آئے اور کہنے لگے وعظ ونصیحت کے لئے ہمارے ساتھ کچھ آدمی روانہ فرمائیں ہماری قوم ہدایت کی متلاشی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اسلام کے مبلغین سے اپنی معلومات میں اضافہ کرے رسول کریم ﷺ نے ستر (۷۰)قاری روانہ کر دئے جب وہ گائوں کے قریب پہنچے تو سب نے مل کر ان کو قتل کر دیا اور پھر بڑے خوش ہوئے کہ ہم نے خوب کیا مسلمانوں کے ستر(۷۰)آدمی ہم نے مار ڈالے ۔حالانکہ اس سے محمد رسولﷺ کا کیا بگڑا۔ان کو خدا تعالی نے اور آدمی دے دئیے مگر بے حیائی تو کفار کی ظاہر ہوئی غرض ظلم۔فساد۔تکبر۔شرارت۔احسان فراموشی۔دھوکے بازی۔کمینگی۔بے حیائی۔اتہام تراشی۔غلاموں کو ستانا۔عورتون اور بچوں کو دکھ دینا ۔سب عیوب ان میں پائے جاتے تھے لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ مکہ کے لوگ ایسے برے ہیں۔اہل عرب سمجھتے تھے کہ مکہ والے کتنے اچھے ہیں دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اللہ تعالی فرماتا ہے آج تم اچھے سمجھے جاتے ہو لیکن یاد رکھو ایک دن ہم تمہارے سب گند ظاہر کر دیں گے ۔چنانچہ اسلام کے آنے پر مکہ والوں کا گند ایسا ظاہر ہوا کہ مجاورت کا مصنوعی تقویٰ دھجی دھجی ہو گیا اور اسی وقت اس کی اصلاح ہوئی جب وہ اسلام کی غلامی میں آکر داخل ہوئے۔
ان ربھم بھم یو مئذ لخبیرO
اس دن ان کا رب یقینا ان کی نگرانی کرنے والا ہو گا۔
تفسیر:۔میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ بصیر اور علیم کے الفاظ صرف علمی حالت پر دلالت کرتے ہیں لیکن خبیر کا لفظ اس علم کے مطابق عمل کرنے پر بھی دلالت کرتا ہے یعنی خبیر میں علاوہ خبر رکھنے کے مجرموں کی سزااور ان کی خبر لینے کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے ۔چنانچہ یہ آیت میرے اس دعویٰ کی مصدق ہے یومئذکا لفظ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے کیونکہ محض علم تو اللہ تعالی کو ہمیشہ حاصل ہے اس دن عالم ہونے کے کوئی معنے ہی نہیں۔پس خبیر میں دو باتوں کی طرف اشارہ ہے ایک یہ کہ اس سے تمہارا کوئی جرم پوشیدہ نہ ہو گا اور دوسرے یہ کہ اس علم تفصیلی کے مطابق وہ اس دن بھی جزادے گا ۔یومئذکے ساتھ قرآن کریم میں صرف خبیر کا استعمال ہوا ہے علیم اور بصیرکا استعمال نہیں ہوا ۔اردو میں بھی ’’ خبر لوں گا‘‘کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جو شاید خبیر کر لفظ سے ہی نکلا ہے ۔اسی طرح پنجابی زبان میں بھی کہتے ہیں’’میں تیری خبر لانگا‘‘اور مراد یہ ہوتی ہے کہ میں تجھے تیرے اعمال کا بدلہ دوں گا ۔پس اللہ تعالی فرماتا ہے ان ربھم بھم یومئذ لخبیر۔اس دن ان کا رب ان کا خبیر ہوگا یعنی نہ صرف ان کے حالات سے واقف ہو گا بلکہ ان حالات کی ان کو جزا بھی دے گا ۔چنانچہ قرآن کریم میں ہمیشہیومئذ لخبیرہی استعمال ہوا ہے یومئذ لعلیم یایومئذلبصیر استعمال نہیں ہوا ۔اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں خبیر سے محض علم مراد نہیں بلکہ ان کو سزا دینا مراد ہے اور ان ربھم بھم یومئذ لخبیر کے معنے یہ ہیں کہ اس دن ان کا رب ان کی خبر لے گا ۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس سورۃ کے آخر میں اللہ تعالی نے ان الفاظ کے ذریعہ اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہم انکی خبر تو ضرور لیں گے مگر پہلے نہیںبلکہحصل مافی الصدورکے بعد ۔جب تک ان کے چھپے ہوئے گند پوری طرح ظاہر نہیں ہو جائیں گے ہم ان کو سزا نہیں دیں گے ۔یہ مجرموں کی سزا کے متعلق ایک ایسا اصل ہے جسے بہت سے لوگ اپنی ناواقفیت کی وجہ سے نظر انداز کر دیا کرتے ہیں اور وہ اللہ تعالی کے فرستادہ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ اگر آپ سچے ہیں تو لوگوں پر مخالفت کے فورا بعد عذاب کیوں نازل نہیں ہو جاتا ۔اس شبہ کا اس آیت میں جواب موجود ہے محمد رسول اللہﷺ کے دشمنوں سے خطاب کرتے ہوئے اس جگہ اسی سوال کا جواب دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ہم ایسا کریں تو لوگوں کے دلوں میں کئی قسم کے شکوک وشبہات پیدا ہونے لگیں اور وہ یہ خیال کرنے لگ جائیں کہ یہ لوگ تو بڑے بزرگ اور نیک تھے اللہ تعالی نے ان کو کیوں ہلاک کر دیا ۔اگر محمد رسول اللہﷺکو حکم ہوتا کہ کفار مکہ کو قتل کر دو کیونکہ ان کے دل گناہ اور ظلم کے ارادوں سے پر ہیں تو لوگ کہتے محمد رسول اللہﷺ اور ان کے ساتھیوں نے کتنا بڑا ظلم کیا ہے ۔یہ لوگ تو بڑے شریف اور نیکو کار تھے ۔خدمت دین کے لئے انہوں نے اپنی زندگیوں کو وقف کیا ہو ا تھا ان کو مارنا کس طرح درست ہو سکتا تھا مگر اب جبکہ ان لوگوں کے گند پوری طرح ظاہر ہو چکے ہیں ۔ان کا ظلم انتہا کو پہنچ چکا ہے ہر شریف انسان کہتا ہے اگر ان لوگوں سے مسلمان نہ لڑتے تو کن سے لڑتے ۔بچوں کو انہوں نے مارا۔عورتوں کو انہوں نے مارا ۔مردوں کو انہوں نے مارا۔غلاموں کو انہوں نے مارا اور اس قدر شرمنا ک مظالم ان پر توڑے کہ ان واقعات کو پڑھکر بے اختیار آنکھوں میں آنسو ڈبڈباآتے ہیں ۔اس سے زیادہ بے حیائی کیا ہو گی کہ رسول کریمﷺ کی ایک لڑکی کو جن کی شادی بعثت سے پہلے کفار میں ہو چکی تھی محض توحید سے نقار رکھنے کی وجہ سے کفار مکہ نے طلاق دلوادی ۔ایک دوسری لڑکی کے خاوند سے آپ نے اس کے قید ہونے کے بعد اقرار لیا کہ وہ آپ کی لڑکی کو مدینہ روانہ کر دے گا اس پر جب اس نے ان کو مکہ سے روانہ کیا اور اونٹ پر سوار ہونے پر کسی بد بخت نے ان کے کجاوے کی رسیاںکاٹ ڈالیں اور وہ نیچے گر گئیں ْوہ اس وقت حاملہ تھیں نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ پہنچ کر اسی چوٹ کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔اب بتائو اس میں کونسی شرافت ہے کہ ایک اکیلی لڑکی اونٹ پر سوار ہو کر مدینی جا رہی ہے وہ حاملہ ہے کسی کا کچھ بگاڑ نہیں رہی مگر کگار شرافت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس پر حملہ کرتے ہیں اسے اونٹ سے گرا دیتے ہیں اور اس قدر تکلیف پہنچاتے ہیں کہ مدینہ پہنچ کر اس کا انتقال ہو جاتا ہے کیا دنیا کا کوئی بھی انسان اس قسم کے سلوک کو جائز قرار دے سکتا ہے اور کیا کوئی شخص بھی اس قسم کے حالات کو دیکھ کر یہ کہ سکتا ہے کہ مکہ والوں میں انسانیت کا کوئی شائبہ بھی پایا جاتا تھا ۔یہ ایسی ذلیل غیر شریفانہ حرکت تھی کہ ہند جیسی دشمن اسلام عورت نے اس کو سن کر اپنے کفر کی حالت میں بھی اسے برداشت نہ کیا اور جب وہ شخص اس کے سامنے آیا تو اسے طعنہ دیا کہ اب مکہ کے بہادر آدمیوں کا شغل بے کس اور حاملہ عورتوں پر حملہ کرنا رہ گیا مسلمان بہادروں کے سامنے بھیگی بلی کی طرح دبک کر بیٹھ جا تے ہیں۔
جب مکہ والوں کے مظا لم بڑھ گئے تو رسول کریمﷺ آخر مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں اگر تم مجھے اس شہر میں دیکھنا پسند نہیں کرتے تو میں تمہارا شہر ہی چھوڑ کر چلا جاتا ہوں تم اب تو میرا پیچھا چھوڑ و۔مگر وہ پھر بھی باز نہیں آتے اور تین سو میل پر پہنچ کر مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں ۔یہ وہ گند ہے جو ان کے دلوں میں مخفی تھا اور جس کے ظہور پر اللہ تعالی نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔پس حصل ما فی الصدور کو پہلے اور ان ربھم بھم یومئذ لخبیرکو بعد میں رکھنا بے معنی نہیں بلکہ اس میںبہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ ہم پہلے ان لوگوں کے گند ظاہر کریں گے اور پھر ان پر مسلمانوں سے حملہ کرائیں گے تا دنیا یہ نہ کہہ سکے کہ محمد رسول اللہﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے ظلم کیا ۔وہ ان برائیوں کے ظاہر ہونے کے بعد ہمارے حکم کے ماتحت ان کو ماریں گے اور خوب ماریں گے اور دنیا بھی تسلیم کریگی کہ مسلمانوں نے جو کچھ کیا درست کیا انہوں نے مارا تو اچھا کیا بلکہ انہیں اور زیادہ مارنا چاہیے تھا کیونکہ وہ اسی بات کے مستحق تھے ۔پسحصل ما فی الصدور کو پہلے رکھ کر اس حجت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو کفار پر پوری کی جائے گی ۔فرماتا ہے ہم انہیں پہلے سزا نہیں دیں گے بلکہ حجت تمام ہونے پر سزا دیں گے بے شک پہلے بھی ان کے دلوں میں وہی گند تاھ جو بعد میں ظا ہر ہوا مگر پہلے ہم سزا دیتے تو دنیا کہتی یہ تو بڑے بزرگ تھے ۔نیک اور پارسا تھے ان کو کیوں سزا دی گئی ہے مگر اب لوگ یہ نہیں کہہ سکیں گے ۔وہ تسلیم کریں گے جو کچھ ان سے سلوک ہوا وہ با لکل بجا اور درست ہے غرض اس آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے ان ربھم بھم یومئذ لخبیر ہم خبیر ہیں ان لوگوں کے اندرونی حالات کو خوب جانتے ہیں مگر ہم حجت تمام ہونیکے بعد ان کو سزا دیں گے ۔پہلے ان کے گندظاہر کریں گے اور پھر مسلمانوں سے حملہ کرائیں گے بے شک ہم خبیر ہیں اور ہم پہلے بھی ان کے حالات کو جانتے تھے مگر ہم نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں کے دلوں میں ان کے تقدس کا کوئی خیال باقی رہے۔ہم اس وقت ان کو سزا دیں گے جب حصل ما فی الصدور ہو جائے گا اور ان کے گند لوگوں پر اچھی طرح ظاہر ہو جائیں گے۔
سورۃ العصر مکیۃ
سورۃالعصریہ سورۃ مکی ہے
وھی ثلاث ا یات دون بسملۃ و فیھا رکوع واحد
اس کی بسم ا للہ کے سوا تین آیات ہیں اور ایک رکوع ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیمO
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے(شروع کرتا ہوں)
سورۃ العصر اکثر مفسرین کے نزدیک مکی ہے۔ مستشرقین کے نزدیک بھی یہ ابتدائی مکی سورتوں میں سے ہے۔ میور نے اسے خواطر نفسیہ ( soliloquise) میں سے قرار دیا ہے۔ یعنی وہ سورتیں جو اس کے نزدیک رسول کریم ﷺ کے مکالمہ بالنفس سے تعلق رکھتی ہیں ان سورتوں میں اس نے سورۃ العصر کو بھی شامل کیا ہے اور چونکہ وہ ان کو بالکل ابتدائی سورتیں قرار دیتا ہے اس لئے اس کے نزدیک یہ بالکل ابتدائی مکی سورۃ ہے۔
بعض روایات میں جو ہیں تو غیر معروف ایک عجیب واقعہ اس سورۃ کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔ عمرو بن عاص سے جبکہ وہ ابھی اسلام نہیں لائے تھے یہ روایت کی جاتی ہے کہ ایک دفعہ وہ اپنے کسی کام کے لئے مسلیمہ کذاب کے پاس گئے۔ اس نے پوچھا تمہارے شہر کے نبی پر کوئی تازہ کلام نازل ہوا ہے تو سنائو۔ عمرو بن عاص نے کہا کہ ایک مختصر سی نئی سورۃ ان پر نازل ہوئی ہے مگر ہے بڑی لطیف اور سورۃ العصر اسے سنائی۔ مسلیمہ نے سورۃ العصر سن کرتھوڑی دیر خاموشی اختیار کی پھر ایک بیہودہ سی عبارت با قافیہ پڑھ کر عمرو بن عاص کو سنائی اور کہا کہ یہ کلام ابھی مجھ پر نازل ہوا ہے۔ پھر پوچھا کہ آپ اس کے بارہ میں کیا کہتے ہیں۔ عمرو بن عاص نے کہا کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو تم کو معلوم ہی ہے کہ میں تم کو جھوٹا سمجھتا ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار پر بھی اس مختصر سورۃ کا ایک گہرا اثر تھا۔ حضرت امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ سورۃ بڑے وسیع مطالب رکھتی ہے اگر کوئی شخص اس سورۃ پر تدبر کرے تو اس کی تمام دینی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ دو صحابیؓ تھے جب بھی وہ آپس میں ملنے کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہونے لگتے تو یہ سورۃ ایک دوسرے کو سناتے اور پھر سلام کر کے رخصت ہوتے۔ اس کے بغیر وہ کبھی جدا نہیں ہوتے تھے گویا صحابہؓ اس سورۃ کے مضمون کی وسعت سے خاص طور پر متاثر تھے۔
ترتیب: جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں گذشتہ چند سورتوں سے یہ طریق چلا آرہا ہے کہ ایک سورۃ اسلام کے ابتدائی زمانہ کے متعلق آتی ہے تو دوسری سورۃ اسلام کے دوسرے زمانہ کے متعلق آتی ہے۔ الھکم التکاثراسلام کے ابتدائی زمانہ کے متعلق تھی اور والعصر ان الانسان لفی خسرآخری زمانہ کے متعلق ہے ۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیوی ترقیات کسی قوم کو تباہی سے نہیں بچا سکتیں۔قوموں پر ترقی کا ایک زمانہ ایسا آیا کرتا ہے جب وہ سمجھتی ہیں کہ اب ہمارے تنزل کی کوئی صورت نہیں ۔ چونکہ اسلام پر بھی ایک ایسا زمانہ آنے والا تھا جب اس کے دشمنو ں نے اپنی مادی ترقیات پر نظر رکھتے ہوئے کہنا تھا کہ اب ہماری تباہی کی کوئی صورت نہیں۔ادھر مسلمانوں نے دشمنوں کی حالت کو دیکھ کر سمجھ لینا تھا کہ ہمارے لیے اب ترقی کی کوئی صورت نہیںاس لیے اس زمانہ کی حالت کا نقشہ صورت العصر میں کھینچا گیا ہے ۔گویا اس میں زمانہء مسیح موعودؑکی پیش گوئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی اس سورۃ کو اپنے زمانہ پر چسپاں فرمایا ہے
حل لغات:۔ عصر۔ کہتے ہیںعصر العنب و نحوہ عصرا: استخرج ماء ہ۔ انگور نچوڑ کر اس کا پانی نکالااور عصرالشیء عنہ کے معنی ہوتے ہیں منعہ ایک چیز کو دوسری چیز کے پاس پہنچنے سے روک دیا اور عصر فلانا کے معنی ہوتے ہیں اعطاہ العطیۃ اسے تحفہ دیا۔ عصر ہ کے معنی ہوتے ہیں حبسہ اس کو روک دیا (اقرب ) اور عصر اس کا مصدر ہے۔ اس لئے سب مصدری معنے بھی اس میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ عصر دن کو بھی کہتے ہیں اور عصر کے معنی رات کے بھی ہوتے ہیں اور عصر کے معنے سورج ڈھلنے سے لے کر شام کے وقت تک کے بھی ہیں اور عصر کے معنی صبح سے لے کر سورج کے ڈھلنے تک کے بھی ہیں (اقرب) ۔ گویا یہ لفظ اپنے اندر متضاد معنی رکھتا ہے۔ اس کے معنی دن کے بھی ہیں یعنی وہ دن جس میں سورج چڑھا ہوا ہوتا ہے کیونکہ دن کا لفظ عام طور پر رات اور دن دونوں کے لئے بولا جا تا ہے اور اس کے معنی رات کے بھی ہیں ۔ اسی طرح اس کے معنی صبح سے زوال تک کے بھی ہیں اور زوال سے شام تک کے بھی ہیں۔ اس کی جمع اعصر و عصور آتی ہے اور اس کے معنی علاوہ اوپر کے معنی کے قبیلہ کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ لغت میں لکھا ہے العصر: الرہط والعشیرۃ اور عصر کے معنی المطر من المعصرات کے بھی ہیں۔ یعنی تیز گھنی بدلیوں میں سے جو بارش برستی ہے اسے بھی عصر کہتے ہیں ۔ اور عصر کے معنی تحفہ اور انعام کے بھی ہوتے ہیں اور عصر : عصر: عصر: دھر یعنی زمانہ کے معنوں پر بھی بولا جاتا ہے۔ اس وقت اس کی جمع پہلی جمع کے علاوہ ایک اور بھی استعمال ہوتی ہے۔ پہلے معنوں کے لحاظ سے تو اس کی جمع صرف اعصر و عصور ہوتی ہے لیکن زمانہ کے معنوں میں اس کی جمع اعصر بھی ہے عصور بھی ہے اور اعصار بھی ہے ۔ پھر آگے اعصار کی جمع الجمع اعاصر آتی ہے ۔ والعصر میں وائو قسم کی ہے اور والعصر کے معنی یہ ہیں کہ ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں عصر کو۔ کس بات کی شہادت کے طور پر؟وہ دوسری آیت میں بیان کی گئی ہے کہ ان الانسان لفی خسر یعنی انسان یقینا گھاٹے میں ہے۔
خسر کے معنی گھاٹے کے ہوتے ہیں چنانچہ خسر التاجر فی بیعہ(خسر و خسر و خسرو خسران و خسراۃ) کے معنی ہوتے ہیں وضع فی تجارتۃ اس نے اپنی تجارت میں نقصان اٹھایا و ضد ربح اور یہ نفع کے مقابل کا لفظ ہے۔ یعنی اس کے معنی گھاٹے کے ہوتے ہیں اسی طرح جب خسرا الرجل کہیں تو اس کے معنی ہوتے ہیں ضل وہ گمراہ ہو گیا۔ لیکن کبھی اس کے معنی ہلک کے بھی ہوتے ہیں یعنی وہ ہلاک ہو گیا (اقرب) پس ان الانسان لفی خسر کے معنی یہ ہوئے کہ انسان یقینا گھاٹے میں ہے یا انسان یقینا گمراہی میں مبتلا ہے یا انسان یقینا ہلاکت کی طرف جا رہا ہے۔
والعصرO ان الانسان لفی خسر O
(مجھے) قسم ہے (آنحضرت صلعم کے ) زمانہ کی (کہ ) یقینا (نبیوں کا مخالف ) انسان ( ہمیشہ ہی )گھاٹے میں ( رہتا ) ہے۔
تفسیر: عصر کے مختلف معانی جو اوپر بتائے گئے ہیں ان کے لحاظ سے اس آیت کے بھی مختلف معنی ہو جائیں گے۔ عصر کے ایک معنی دن کے پہلے حصہ یعنی صبح سے دوپہر تک کے ہیں اور دوسرے معنی دن کے پچھلے حصہ یعنی دوپہر سے شام تک کے ہیں ۔ چونکہ قرآن کریم اپنے مطالب میں ذوالوجوہ ہے اور اس کی ایک ایک آیت اپنے اندر کئی بطون رکھتی ہے اس لئے جتنے معنے کسی لفظ کے لغتََا یا محاورۃََ ہو سکتے ہوں اور وہ کسی آیت پر چسپاں بھی ہوتے ہوں ہم ان تمام معانی کو ملحوظ رکھ سکتے ہیں ۔ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت اگر عصر کے معنے دن کے پہلے اور پچھلے حصہ کے کیے جائیں تو اس جگہ عرفی دن جس کا مادی سورج کے ساتھ تعلق ہے وہ مراد نہیں ہو گا بلکہ رسول کریم ﷺکا زمانہ رسالت مراد ہو گا ۔ کیونکہ قرآن کریم نے صراحتاََ رسول کریمﷺکو سورج قرار دیا ہے جیسا کہ سورۃ الشمس میں اس کا ذکر آتا ہے ۔ جب رسول کریم ﷺسورج ہوئے تو لازمی طور پر آپ کا زمانہ دن کہلائے گا اورایک دن کا ابتدائی حصہ ہو گا اور ایک آخری حصہ ہو گا ۔ پس عصر کے معنی اگر ہم دن کے ابتدائی اور آخری حصہ کے لیںتو جہاں مادی طور پر روزانہ چڑھنے والے سورج کو مد نظر رکھتے ہوئے دن کا ایک ابتدائی حصہ مراد لیتے ہیں اور ایک آخری حصہ مراد لیتے ہیں ۔ وہاں قرآن کریم نے چونکہ خصوصیت کے ساتھ رسول کریم ﷺ کے زمانہ کا نام دن رکھا ہے اس لئے آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم زمانہء نبوت محمدیہؐ کے ابتدائی حصے کو بھی تمہارے سامنے شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ہم زمانہء نبوت محمدیہؐ کے آخری حصہ کو بھی تمہارے سامنے بطور شہادت پیش کرتے ہیں۔ اگر تم ان دونوں حصوں کو دیکھو گے اور ان پر غور اور تدبر سے کام لو گے تو تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ ان الانسان لفی خسر انسان یقینا گھاٹے میں ہے۔
ان معنوں کے رو سے الانسان سے وہ انسان سمجھا جائے گا جو محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں کھڑا ہوا۔ کیونکہ ہر جگہ الفاظ کے ان کی نسبت کے لحاظ سے معنی ہوتے ہیں۔ جب رسول کریم ﷺ سورج ہوئے تو گھاٹا پانے والا انسان بہرحال وہی ہوا جس نے سورج سے فائدہ نہ اٹھایا۔ پس الانسان سے اس جگہ سورج کے مخالف کھڑا ہونے والا انسان مراد ہے۔ یعنی وہ جس نے رسول کریم ﷺ کی بعثت سے فائدہ نہ اٹھایا۔ بالخصوص اس وجہ سے بھی الاالذین امنو و عملوالصلحت میں مومنوں کا استثنیٰ کر دیا گیا ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ الانسان سے غیر مومن انسان مراد ہے نہ کہ مومن۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جگہ کفار کو الانسان کیوں کہا گیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کفار کو الانسان اس لئے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت چلی آئی ہے کہ جب بھی اس کی طرف سے کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے اس پر ابتداء میں ایمان لانے والے عام طور پر ادنیٰ طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں ۔ بے شک وہ عالم ہوں ، متقی ہوں، اللہ تعالیٰ کے احکام کو سمجھنے والے ہوں ، دینی امور میں نہایت بالغ نظر رکھنے والے ہوں، روحانیت اور تقویٰ کے بلند مقام تک پہنچے ہوئے ہوں پھر بھی دینی لحاظ سے وہ ادنیٰ طبقہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس نہ دولت ہوتی ہے نہ حکومت ہوتی ہے نہ ظاہری طاقت ہوتی ہے اور ان کے دشمن ان میں سے ایک ایک چیز کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ صاحب دولت بھی ہو تے ہیں ، وہ صاحب وجاہت بھی ہوتے ہیں اور صاحب حکومت بھی ہوتے ہیں اسی وجہ سے وہ ان کو کسی گنتی اور شمار میں نہیں سمجھتے۔ ہمارے ہاں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ جب کسی کی تحقیر کرنی ہو تو کہا جاتا ہے وہ کونسی گنتی میں ہے یا کہا جاتا ہے وہ بھی کوئی آدمی ہے۔ پس الانسان میں کفار کی اسی ذہنیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مسلمان ان کی نگاہ میں ایسے بے حقیقت ہیں کہ ان کو انسانوں میں شمار ہی نہیں کرتے۔ صرف اپنے آپ کو انسان سمجھتے ہیں۔ پس چونکہ کفار نبیوں کے اتباع کے متعلق ہمیشہ یہ کہا کرتے ہیں کہ وہ بھی کوئی آدمی ہیں۔ آدمی تو ہم ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ان کے مقابل میں طنزیہ رنگ اختیار کرتے ہوئے کہتا ہے یہ جو اپنے آپ کو آدمی سمجھتے ہیں اور انسان قرار دیتے ہیں ہم عصر کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تباہی اور بربادی کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو بے شک انسان قرار دیں اور بے شک محمد رسول اللہ ﷺپر ایمان لانے والوں کے متعلق کہتے رہیں کہ وہ بھی کوئی آدمی ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ اپنے آپ کو انسان قرار دینے والے اور دوسروں کو دائرہ انسانیت سے خارج سمجھنے والے تباہی اور بربادی کے راستہ کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ گویا جس لفظ سے وہ اپنے آپ کو یاد کیا کرتے تھے اور جس لفظ کا استعمال وہ اپنے لئے فخر کا موجب سمجھتے تھے اسی کو طنزیہ طور پر ان کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے قرآن کریم میںایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہیذق انک انت العزیزالکریم ( الدخان ۳ع۱۶) جب دوزخی دوزخ میں ڈالا جائے گا تو اسے کہا جائے گا کہ تو اس عذاب کا مزہ چکھ۔ تو تو بڑا عزت والا ہے تو تو بڑے رتبے والا ہے۔ حالانکہ وہ اس وقت دوزخ میں داخل کیا جا رہا ہو گا اور اس لحاظ سے اس کی عزت اور رتبے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر وہ عزت والا ہوتا تو دوزخ میں کیوں ڈالا جاتا اور اگر رتبے والا ہوتا تو آخرت میں کیوں ذلیل ہوتا۔ اس کا دوزخ میں ڈالا جانا ہی یہ بتاتا ہے کہ نہ اسے عزت حاصل تھی اور نہ اسے رتبہ حاصل تھا۔ مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ دوزخ میں ڈالتے وقت اس سے کہا جائے گا ذق انک انت العزیزالکریم ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ طنزیہ طور پر ان الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ تو تو کہا کرتا تھا کہ میں بڑا عزیز ہوں اور تو کہا کرتا تھا کہ میں بڑا کریم ہوں ۔ آج تو دوزخ میں جا اور دیکھ کہ تیرے عزیز اور کریم ہونے کا دعویٰ کہاں تک حق بجانب تھا۔ اسی طرح الانسان میں وہ دعویٰ انسانیت مراد ہے جو دشمنان اسلام کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ آدمی تو ہم ہیں یہ بھلا کس گنتی اور شمار میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے گنتی اور شمار والے انسان تجھے پتہ لگ جائے گا کہ تو گھاٹے کی طرف جا رہا ہے تیرے دعوے سب خاک میں مل جائیں گے اور جن لوگوں کو تو حقارت کے ساتھ یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتا کہ وہ بھی کوئی انسان ہیں ان بظاہر ادنیٰ نظر آنے والے لوگوں کے مقابلہ میں تجھے ایسی ذلت اور رسوائی نصیب ہو گی کہ دنیا تیرے وجود سے عبرت حاصل کرے گی۔ آخر یہ غور کرنے والی بات ہے کہ وہ اپنے آپ کو الانسان کیوں کہتے تھے۔ ان کا اپنے آپ کو الانسان کہنا اس وجہ سے تھا کہ جو چیزیں ان کے پاس تھیںان کی وجہ سے لوگ یقینی طور پر جیتا کرتے ہیں اور جو چیزیں مسلمانوں کے پاس نہیں تھیں ان کا فقدان لوگوں کے لئے یقینی طور پر شکست کا موجب ہوا کرتا ہے۔ مثلا ً وہ اپنے آپ کو الانسان اس لئے کہتے تھے کہ ہم حاکم ہیں اور مسلمان محکوم ہیں اور یہ ایک واضح امر ہے کہ دنیا میں عام طور پر حاکم ہی جیتا کرتے ہیں محکوم نہیں جیتا کرتے۔ بے شک حاکم بھی بعض دفعہ ہار جاتے ہیں مگر اس وقت جب رعایا ان کے خلاف ہو۔ اگر رعایا ان کے ساتھ ہوتووہ شکست نہیں کھاتے۔ اسی طرح جب وہ کہتے تھے کہ ہم آدمی ہیں مسلمان بھلا کس گنتی اور شمار میں ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوا کرتا تھا کہ ہم تو کثیر ہیں اور یہ ایک چھوٹا سا گروہ ہیں ۔ ان ھولاء لشر ذمۃ قلیلون (الشعراء ۴ع۸) انہوں نے ہمارے مقابلہ میں کیا فتح حاصل کرنی ہے۔ اور یہ بھی ایک واضح امر ہے کہ عام طور پر اکثریت ہی فتح حاصل کرتی ہے اقلیت فتح حاصل نہیں کرتی۔ پھر قوموں کو جتھہ غلبہ دیا کرتا ہے اور یہ جتھہ بھی اہل مکہ کے پاس تھا محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس نہیں تھا۔ اسی طرح قوموں کودولت سے غلبہ حاصل ہوا کرتا ہے مگر دولت بھی دشمنوں کے پاس تھی محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس نہیں تھی۔ قوموں کو سیاست اور اردگرد کی اقوام سے دوستانہ تعلقات کے نتیجہ میں غلبہ حاصل ہوا کرتا ہے مگر سیاست بھی دشمنوں کے قبضہ میں تھی محمد رسول اللہ ﷺ کے قبضہ میں نہیں تھی۔ قوموں کو صنعت وحرفت سے غلبہ حاصل ہوا کرتا ہے مگر صنعت وحرفت بھی محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں نہیں تھی بلکہ کفار مکہ کے ہاتھ میں تھی۔ غرض اتنی چیزیں دنیا میں کسی قوم کو ترقی دینے کا موجب ہوتی ہیں وہ سب کی سب محمد رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کے ہاتھ میں تھیں۔ اور جتنی چیزیں بظاہر کسی قوم کی شکست کا موجب ہوتی ہیں وہ سب محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوںمیں پائی جاتی تھیں پس فرماتا ہے بے شک تم اپنے متعلق کہتے ہو کہ ہم آدمی ہیں اور ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تمہارے پاس وہ تمام چیزیں موجود ہیں جو انسان کو انسان بنا دیتی ہیں ۔ تمہارے پاس حکومت بھی ہے۔ تمہارے پاس دولت بھی ہے۔ تمہارے پاس سیاست بھی ہے۔ تمہارے پاس صنعت وحرفت بھی ہے۔ تمہارے پاس تجارت بھی ہے۔غرض وہ سب چیزیں تمہارے پاس ہیں جن سے دنیا میں قوموں کو عروج حاصل ہوا کرتا ہے مگر باوجود یہ تسلیم کر لینے کے کہ الانسان کہلانے کے تم ہی مستحق ہو۔ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھی دنیوی نقطئہ نگاہ سے کسی گنتی اور شمار میں نہیں ہیں پھر بھی ہم بطور پیش گوئی کے یہ اعلان کرتے ہیں کہ اے کامل انسان ! اے ہر قسم کے سازوسامان رکھنے والے انسان !اس زمانہء محمدیہ ؐ میں تیرے سازوسامان تیرے کام نہیں آئیں گے اور تو گھاٹے میں ہی رہے گا۔ بے شک دنیا میں عام طور پر یہ قانون جاری ہے کہ جب کسی کے پاس سیاست ہو۔ جب کسی کے پاس جتھہ ہو۔ جب کسی کے پاس علم ہو۔ جب کسی کے پاس حکومت ہو۔ جب کسی کے پاس دولت ہو۔ جب کسی کے پاس صنعت و حرفت ہو تو ایسا شخص ضرور جیتا کرتا ہے۔ مگر یہاں ایسا نہیں ہوگا۔ اب زمانہء نبوت محمدیہؐ آگیا ہے اور اب اس قانون کی بجائے ایک اور قانون جاری کر دیا گیا ہے۔ اب دولت کے باوجود تم ہاروگے۔ سیاست کے باوجود تم ہاروگے۔ جتھہ کے باوجود تم ہاروگے۔ علم کے باوجود تم ہاروگے۔ حکومت کے باوجود تم ہاروگے۔صنعت و حرفت کے باوجود تم ہاروگے۔ اور تمہارا یہ ہارنااس بات کا ثبوت ہو گا کہ محمد رسول اللہ ﷺ اپنے دعویٰ رسالت میں سچے ہیں۔ ورنہ اگر کسی کے پاس جتھہ نہ ہو تو اس کا ہارنا کونسا ہارنا ہے۔ اگر کسی کے پاس علم نہ ہو تو اس کا ہارنا کونسا ہارنا ہے۔ اگرکسی کے پاس حکومت نہ ہو تو اس کا ہارنا کونسا ہارنا ہے۔ اگر کسی کے پاس سیاست نہ ہو تو اس کا ہارنا کونسا ہارنا ہے۔ یہ ساری چیزیں ہوتے ہوئے کسی قوم کا گھاٹے میں چلے جانا اصل گھاٹا ہے اور یہی وہ تنزل اور بربادی کا مقام ہے جس کی اہل مکہ کو ان الفاظ میں خبر دی گئی ہے کہ والعصر ان الانسان لفی خسر ۔ ہم اس زمانہ کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ انسان دنیوی طور پر خواہ کتنے سازوسامان رکھتا ہوخدا تعالیٰ کو چھوڑ کر وہ ضرور گھاٹے میں چلا جاتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس بات کی شہادت ہوئی؟اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں عام قاعدہ یہ ہے کہ دنیوی سامانوں سے قومیں جیتا کرتی ہیں ہارا نہیں کرتیں۔اسی وجہ سے لوگ کہا کرتے ہیںکہ چونکہ دنیا میںتعلیم سے ترقی حاصل ہوتی ہے ہمیں بھی تعلیم حاصل کرنی چاہیے یا چونکہ سیاست میں حصہ لینے کی وجہ سے دنیا میں ترقی ہوتی ہے اس لیے ہمیں بھی سیاست میں حصہ لینا چاہیے ۔ وہ اپنی تمام ترقی دنیوی تدابیر سے وابستہ قرار دیتے ہیںاور خیال کرتے ہیں کہ اگر کوئی ترقی کرنا چاہے تو اسکے لیے واحد طریق یہی ہوتا ہے کہ وہ دنیوی سامان اپنے پاس زیادہ سے زیادہ رکھے اس کے پاس علم بھی ہو،اس کے پاس دولت بھی ہو ،اس کے پاس طاقت بھی ہو ، اس کے پاس جتھہ بھی ہو ، اس کے پاس صنعت و حرفت بھی ہو ۔ اور جب کسی کو یہ تمام چیزیں میسر آجائیں تو وہ خیال کرتا ہے کہ اب اس کا ترقی نہ کرسکنا بالکل محال اور ناممکن ہے ۔ چونکہ عام طور پر دنیا میں ہمیں یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ قومی ترقی دنیوی تدابیر سے وابستہ ہوتی ہے اس لیے جب کہا جاتا ہے کہ اگر تم نے خدا تعالی کے احکام پر عمل کیا تو ترقی حاصل کرو گے اور اگر عمل نہ کیا تو گر جائو گے ۔ تو وہ لوگ جو دنیوی تدابیر کو ہی ہر قسم کی کامیابیوں کا علاج سمجھتے ہیں حقارت آمیزہنسی ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم یہ کیا کہ رہے ہو کہ خدا تعالی کے احکام پر عمل کیا توہمیں ترقی ہو گی اور اگر عمل نہ کیا تو ترقی نہیں ہوگی ۔دنیا میں تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ جو شخص دنیوی تدابیر کو اپنے کمال تک پہنچا دیتا ہے وہ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہو جاتا ہے خواہ وہ خدا تعالی کے شرعی احکام کاکتنا ہی منکر ہو اور جب حالت یہ ہے تو تمہارا اللہ تعالیٰ کے وجود کو پیش کرنا اور کہنا کہ خدا تعالیٰ کے احکام سے انحراف کیا تو تم تنزل میں گر جائو گے بالکل خلاف عقل امر ہے۔ خدا تعالیٰ کی حکومت تو ہمیں اس دنیا نظر ہی نہیں آتی ۔ دنیا خدا تعالیٰ کی منکر ہوتی ہے مگر پھر بھی ترقی کرتی جاتی ہے۔ اور جب دنیوی تدابیر سے کام لینے کے نتیجہ میں ہی تمام کارخانہ عمل چل رہا ہے تو ہمیں تمہاری بات کا یقین کیونکر آئے اور کس طرح پتہ لگے کہ خدا تعالیٰ کی حکومت اور اس کا رعباور دبدہ بھی اس دنیامیں جاری ہے ۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ لوگ خداتعالیٰ سے بالکل باغی ہو چکے ہیں مگر پھر بھی ترقی حاصل کر لیتے ہیں ۔ پس اگر تمہاری یہ بات اپنے اندر کوئی وزن رکھتی ہے تو تم خداتعالیٰ کی حکومت کا ہمارے سامنے کوئی ثبوت پیش کرو ۔ ورنہ یہ ایک واضح امر ہے کہ دنیوی ترقیات میں خدا تعالیٰ کوئی دخل نہیں۔ یہ چیز محض دنیوی تدابیر سے وابستہ ہوتی ہے ۔ جو شخص ان تدابیرمیں پورا حصہ لیتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو نہیں لیتا وہ ناکام رہتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ کسی وقت دنیوی تدابیر سے کام لے کر بعض لوگوں کا دنیا پر غالب آجانا یا ترقی کرنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ خدا تعالیٰ کی حکومت اس دنیا میں نہیں ۔ کیونکہ ایک زمانہ ایسا ہوتا ہے جب دنیا کے پاس اپنی ترقی کے تمام سامان موجود ہوتے ہیں ۔ مگر جب کوئی نبی آتا ہے تو اکیلا ہی ساری دنیا کے مقابلہ میں جیت جاتا ہے اور سازو سامان رکھنے والے ناکامی اور نامرادی سے حصہ لیتے ہیں۔ اس وقت پتہ لگ جاتا ہے کہ خدا ہے۔ ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ اکیلا شخص تو جیت جاتا اور ساری دنیا اپنے تمام سامانوں کے ساتھ شکست کھا جاتی پس فرماتا ہے ان الانسان لفی خسر۔یہ جواصول ہے کہ خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرکے کوئی انسان جیت نہیں سکتا اس اصول کو ہر زمانہ میں نہیں دیکھا جاسکتا ۔ صرف زمانہ نبوت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ وقت ایسا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنی طاقت اور قوت اور جلال کا اظہار کرتا ہے۔ اگر اس وقت بھی لوگ جیت جائیں تو بے شک کہا جا سکتا ہے کہ جب زمانہ نبوت میں بھی لوگ غالب آگئے تو خدا تعا لیٰ کی خدائی کا کیا ثبوت رہا۔ مگر جب اس زمانہ میں دنیا اپنے تمام سامانوں کے باوجود کامیاب نہیں ہوتی اور وہ اپنی ہر تدبیر میں بری طرح ناکامی کا منہ دیکھتی ہے تو یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ دنیا پر خدا تعالیٰ کی حکومت ہے۔ اگر کسی زمانہ میں وہ اپنی حکومت ظاہر نہیں کرتا تو اس سے اس کی حکومت کی نفی نہیں ہو جاتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ جا سکتا ہے کہکوئی زمانہ ایسا بھی ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنی حکامت ظاہر نہیں کر نا چاہتا ورنہ اس کی حکومت کی نفی نہیں ہو سکتی کیونکہ زمانہ نبوت میں جب وہ اپنی حکومت ظاہر کرتا ہے تو ساری دنیا اپنے سارے سامانوں کا ساتھ خدا تعالیٰ کے نبی کے مقابلہ میں شکست کھا جاتی ہے۔ غرض خدا تعالیٰ کی حکومت اور اس کے دبدبہ اوراس کی شوکت کا فیصلہ صرف زمانہ نبوت سے ہوا کرتا ہے ۔ اگر زمانہ نبوت نی ہو تو تو دنیا کو دیکھ کر یہ قیاس کر لینا کہ چونکہ دنیا نے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کئے بغیر بڑی ترقی حاصل کر لی ہے اس لئے معلوم ہوا کہ دنیا پر خدا تعالیٰ کی حکومت نہیں بالکل غلط اور باطل خیال ہو گا۔ کیونکہ اگر دنیا پر اس کی حکومت نہیں تو وجہ کیا ہے کہ زمانہ نبوت میں ایک کمزور انسان جو ہر قسم کے سامانوں سے تہیدست ہوتا ہے ساری دنیا کے مقابلہ میں جیت جاتا ہے ۔ آخر اس کی کوئی طبعی وجہ ہونی چاہیئے اور چونکہ طبعی وجہ کوئی نہیں، ادھر ہمیں نبی کا دعویٰ نظر آتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور وہ مجھے مخالف حالات کے باوجود کامیابی عطا فرمائے گا تو یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ وواقعہ میں خدا تعالیٰ کی حکومت اس دنیا پر جاری ہے۔ دنیا میں بھی دیکھ لو ماں باپ کے پاس کئی دفعہ بچے شور مچا رہے ہوتے ہیں مگر وہ ان کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کرتے۔ لیکن ایک اور وقت ایسا آتا ہے جب کوئی بچہ ذرا بھی شور ڈالتا ہے تو باپ اسے ایک تھپڑ رسید کر دیتا ہے اور وہ اسی وقت خاموش ہو جاتا ہے تب پتہ ہے کہ باپ کی حکومت موجود ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ ایک طالبعلم سبق یاد کرکے سکول میں نہیں جاتا تو استاد اسے کچھ بھی نہیں کہتا ۔ مگر ایک دن جب وہ سبق نہیں سناتا تواستاد اسے بید کی سزا دے دیتا ہے اور لوگوں کو پتہ لگ جاتا ہے کہ استاد کی حکومت موجود ہے۔ پس کسی وقت ماں باپ کا اپنے بچوں کو خاموش نہ کرانا یا استاد کا اپنے شاگرد کو بید کی سزا نہ دینا اس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ ماں باپ کی بچوں پر حکومت نہیں یا استاد کی شاگردوں پر حکومت نہیں ۔ کیونکہ جب ماں باپ یا استاد سزا دیتے ہیں ہر ایک کو پتہ لگ جاتا ہے کہ انکی حکومت موجود تھی۔ صرف اتنی بات تھی کہ پہلے انہوں نے اس حکومت سے کام نہیں لیا تھا۔ اسی طرح بیسیوںدفعہ لوگ گورنمنٹ کے خلاف شور مچاتے ہیں مگر گورنمنٹ ان کے متعلق کوئی کاروئی نہیں کرتی ۔ لیکن ایک دن آتا ہے جب حکومت کے خلاف کوئی ذرا سا بھی شور مچائے تو اسے فوراَگرفتار کا لیا جاتا ہے ۔ اب اگر گورنمنٹ کچھ عرصہ تک کسی کو گرفتار نہیں کرتی تو اس کے یہ معنے نہیں ہو تے کہ گورنمنٹ موجود نہیں کیونکہ دوسرے وقت حکومت اسے گرفتار کر کے سزا دے دیتی ہے جو ثبوت ہوتا اس بات کا کہ گورنمنٹ موجود ہے پس گورنمنٹ کا کسی کو نہ پکڑنا اس بات کا ثبوت نہیں ہوتا کہ حکومت نہیں بلکہ اس کا پکڑنااس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ حکومت ہے ۔یہی دلیل اللہ تعالی اس جگہ بیان کرتا ہے کہ زمانہ نبوت محمدیہ کے ہم اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیںکہ انسان خدا تعالی کو چھوڑ کر اپنے طور پر کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔اور اگر کرتا ہے تو اسکے معنے یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالی کی طرف سے اسے ڈھیل دی گئی ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ خدا تعالی کو چھوڑ کر انسان ہمیشہ گھاٹے میں رہتا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب خدا چاہتا ہے کہ دنیا اس کے احکام کے تابع چلے تو وہ اپنا نبی لوگوں میں بھیج دیتا ہے ۔پھر خواہ دنیا کے پاس کتنے بڑے سامان ہوںوہ ان سے کام لے کر بھی جیت نہیں سکتی۔
عصرکے دوسرے معنی دن کے آخری حصہ کے ہیں ان معنوں کے لحاظ سے وا لعصر ان الا نسان لفی خسر کا مفہوم یہ ہے کہ جب اسلام پر تنزل کا زمانہ آئے گا اور اللہ تعالی اپنے دین کے احیا ء کے لئے محمد رسول اللہﷺکو دوبارہ مبعوث فرمائے گا اس وقت پھر محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان رکھنے والوں کے پاس کسی قسم کے ظاہری سامان نہیں ہونگے ۔دنیا سمجھے گی کہ دشمن بڑا طاقتور اور قوی ہے۔ لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی جماعت سخت کمزور ہے ۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی جماعت جیت جائے اور دشمن اپنے تمام سازو سامان کے ساتھ شکست کھا جائے ۔ مگر باوجود اس حقیقت کے کہ دشمن طاقتور ہو گا اور محمد رسول اللہﷺ کو ماننے والے سخت کمزور ہوں گے آخر نتیجہ یہی نکلے گا کہ ان الانسان لفی خسر۔ان کے مقابل کے دشمن جو یہ کہا کریں گے کہ ہم ہی انسان ہیں یہ ہمارے مقابلے میں بھلا کیا حیثیت رکھتے ہیں وہ انسان کہلانے والے ہار جائیں گے اور جن کو کسی گنتی میں نہیں سمجھا جاتا تھا وہ اللہ تعالی کی نصرت اور اسکی تائید کے ساتھ کامیاب ہو جائیں گے پہلے زمانہ میں لوگوں کو اس اصول کی صداقت کا تجربہ ہو چکا ہے ۔دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح وہ لوگ جو محمد رسول اللہﷺاور آپ کے اتباع کوذلیل سمجھا کرتے تھے ہار گئی اور محمد رسول اللہﷺ اور آپ کے ساتھی سامان نہ رکھنے کے باوجود جیت گئے اور پھر فتح و کامیابی کا یہ زمانہ چند سالوں تک نہیں رہا بلکہ صدیوں تک چلتا چلا گیا۔مسلمانوں نے اس وقت سائنس کی ایجادات میں خا ص طور پر دسترس حاصل نہیں کر لی تھی ۔ نہ ان میں تجارت کا کوئی خاص ملکہ پیدا ہو گیا تھا ۔ نہ انہیں علمی لحاظ سے دوسروں پر کوئی غیر معمولی فوقیت حاصل تھی۔ وہ ویسی ہی تجارت کرتے تھے جیسے دوسرے لوگ تجارت کرتے ہیںویسا ہی ان کے پاس مال تھا جیسا دوسروں کے پاس مال تھا ۔ ویسا ہی ان کا علم تھا جیسے دوسروں کا علم تھا ۔ مگر اس کے باوجود اللہ تعا لیٰ نے ہر قسم کی ترقی اسلام کی وابستگی کے سا تھ مخصوص کر دی تھی نہ یورپ میں یہ خوبی پائی جاتی تھی۔نہ چین میں یہ خوبی پائی جاتی تھی ۔ نہ یہ خوبی جاپان میں پائی جاتی تھی۔مگر جو مسلمانوں سے ملتا تھااس اس میں تروی کی روح پیدا ہو جاتی تھی۔اسی طرح علوم مو جو د تھے،محنت کرنے والی قومیں موجود تھیں،روپیہ خرچ کرنے والی لوگ موجود تھے۔مگر اسلام کے سوااور کوئی چیز دنیا کو صدیوں تک ترقی کی طرف نہ لے جا سکی۔آخر وجہ کیا ہے کہ انسانی تدا بیراس وقت ناکرہ ہو گئیں ؟اس کی وجہ در حقیقت یہی تھی کہ وہ زما نہ ظہو رنبوت تھا جس میں خدا تعا لیٰ کا ایک نیاقانون جاری ہو جاتا ہے اور جس میں محض دنیوی تدابیر سے کام نہیں چل سکتا بلکہ ایمان کو عمل کے ساتھ وابستہ کر دیا جاتا ہے ۔اس وقت خدا تعالی کا یہ حکم تھا کہ اب محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں ہی دنیا کی ترقی ہے ۔ جو شخص اپنے آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کے متبعین میں شامل کر لے گا وہ جیت جائے گا اور جو اپنے آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کے متبعین میں شامل نہیں کرے گا وہ ہار جائے گا ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ ہر قوم جو اسلام سے دور رہی ترقی سے بھی دور رہی اور ہر قوم جو اسلام سے وابستہ ہوئی وہ ترقی سے بھی ہمکنار ہوگئی۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو نظارہ تم اسلام کے ابتدائی زمانہ میں دیکھ چکے ہو ویسا ہی نظارہ اسلام کے آخری زمانہ میں بھی رونما ہوگا ۔ چنانچہ اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود میں رسول کریم ﷺ کی دوسری بعثت ہوئی ہے اس زمانہ میں بھی ایسی قومیں موجود ہیں جو سمجھتی ہیں کہ ہم ہی انسان ہیں ۔چنانچہ جب ہو ہیو مینی ٹیرینHUMANITRAIAN کا لفظ استعمال کرتی ہیں۔تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یورپ کے لوگوںکو یورپ کے لوگوں سے سختی نہیں کرنی چاہیئے یا امریکہ کے لوگوں کو امریکہ کے لوگوں سے سختی نہیں کرنی چاہیے اس کے علاوہ ان کا اور کوئی مفہوم نہیں ہوتا ۔ اسی طرح جب وہ حریت و مساوات کے نعرے بلند کرتے ہیںتو اس حریت اور آذادی سے بھی ان کا مطلب صرف اتنا ہوتا ہے کہ مغربی لوگوں کو آذادی ملنی چاہیے ایشیا کے لوگ ان کے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی نہیں ہوتے کیونکہ ایشیا والوں کو وہ انسان ہی نہیں سمجھتے۔ پس فرماتا ہے وہ زمانہ پھر آنے والا ہے جب دنیا کا ایک طبقہ اپنے آپ کو انسان سمجھتے ہوئے باقی سب دنیا کو ذلیل قرار دے گا ۔ اس زمانہء نبوت میں بھی باوجود اسکے کہ دشمنان اسلام کے پاس ہر قسم کے سامان ہوں گے اور دنیا ان کی طاقت کو دیکھتے ہوئے کہے گی کہ یہ لوگ کبھی ہار نہیں سکتے ۔ انکی شوکت کبھی مٹ نہیں سکتی ۔ ان کا رعب اور دبدبہ کبھی زائل نہیں ہو سکتا ۔ ہم تمہیں خبر دیتے ہیں کہ چونکہ وہ زمانہ نبوت ہوگا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی اس زمانہ میں دوسری بعثت ہو گی اس لیے باوجود سامان رکھنے کے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی کمزور نظر آنے والی جماعت کے مقابلہ میں ہار جائیں گے ان کی طاقت کچل دی جائے گی اور یہ نشان دنیا میں پھر ظاہر ہوگا کہ زمانہ نبوت میں جو قوم اللہ تعالی کے انبیاء کے مقابلہ میں کھڑی ہوتی ہے وہ یقینا خسران وتباب میں رہتی ہے ۔ بعض لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ تم ایسا کیوں کہتے ہو کہ نبی پر ایمان لائے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی ۔ دنیا کی ترقی تو دنیوی سامانوں سے وابستہ ہے نہ کہ ایمان باللہ اوع ایمان با لرسل کے ساتھ ۔ جب دنیا میں ہمیشہ سے وہی اقوام جیتتی چلی آئی ہیں جو اپنے ساتھ دنیوی سامان رکھا کرتی ہیں تو اس نظریہ کے خلاف تم یہ نیا نظریہ کیوں پیش کر رہے ہو کہ جب تک لوگ اللہ تعالی کے مامور پر ایمان نہ لائیں وہ کبھی ترقی حاصل نہیں کر سکتے ۔ آج کل بھی احمدیت کے مقابلہ میں مسلم اور غیر مسلم دونوں طبقوں کی طرف سے یہ سوال پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ترقی کا اصل ذریعہ تو یہ ہے کہ مدرسے جاری کئے جائیںیونیورسٹیاں بنائی جائیں۔ کارخانے قائم کئے جائیں ۔صنعت وحرفت کو فروغ دیا جائے ۔ سیاسی امور میں حصہ لیا جائے۔اپنی طاقت اور جتھ کو بڑھایا جائے ۔نہ یہ کہ ان امور کی طرف تو توجہ نہ کی جائے اور نبی پر ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت دینی شروع کر دی جائے ۔ نبی پر ایمان لانا کسی قوم کو ترقی نہیں دے سکتا ۔ ترقی کی صورت صرف یہی ہے کہ دنیوی تدابیر کو اپنے کمال تک پہنچا دیا جائے اور ہر قسم کے ماد ی سامان جو ترقی کے لئے ضروری ہوتے ہیں ان کو جمع کیا جائے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر زمانہ میں دنیا دنیوی اسباب سے ترقی کرتی ہے لیکن زمانہ نبوت میں دنیوی اسباب سی نہیںبلکہ روحانی اسباب سے ترقی کیا کرتی ہے تاکہ خدا کا جلال ظاہر ہو اور تا دنیا کی خادم ثابت ہو ۔ اس کے بغیر اللہ تعالی کی باد شاہت دنیا پر ثابت نہیں ہو سکتی وہ باد شاہت جس کے متعلق حضرت مسیح ناصریؑ نے بھی دعا کی اور کہا اے خدا جس طرح تیری بادشاہت آسمان پر ہے ویسی ہی زمین پر بھی آئے ۔ اگر دنیا ہمیشہ دنیوی سامانوں سے جیتتی چلی جائے تو لوگو ں کو خدا تعالی کی باد شاہت کا کس طرح پتہ لگ سکتا ہے اور وہ کیونکر معلوم کر سکتے ہیںکہ ایک زندہ خدا موجود ہے جس کے منشاء کے خلاف اگر دنیا کی تمام طاقتیں بھی متحد ہو جائیںتو وہ خدا تعالی کے غضب کا نشانہ بن کر تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔ یقینا اگر ایسا نہ ہوتا تو بہت سے لوگ ہدائیت پانے سے محروم رہ جاتے اور اکثر لوگوں پر دین کی برتری مشتبہ ہو جاتی مگر جب دنیوی سامانوںکے خلاف ہوتے ہوئے ایک نبی خبر دیتا ہے کہ میں جیت جائوںگا اور میرے مقابلہ میں جس قدر طاقتیں کھڑی ہیںوہ ہر قسم کے سامان رکھنے کے باوجود ناکام رہیں گی اور پھر واقعہ میں ایسا ہی ہو جاتا ہے تویہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ خدا کی حکومت دنیا میں موجود ہے ۔
آج یورپین مصنف بڑے زور سے لکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ اگر دنیا میں کامیاب ہو گئے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔قیصر کی حکومت اس وقت اپنی اندرونی زوال کی وجہ سے ٹوٹ رہی تھی۔ کسریٰ کی حکومت میں ضعف و اختلال کے آثار پید ہوچکے تھے اور سب لوگ سمجھ رہے تھے کہ یہ حکومتیں اب جلد مٹ جانے والی ہیں۔ ایسی حکومتوں پر اگر محمد رسول اللہ ﷺ غالب آگئے تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں جسے معجزہ قرار دیاجاسکے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا عرب کی حالت قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کی سی اچھی تھی؟ اگر اچھی ہوتی تب تو کہا جاسکتا تھا کہ چونکہ عرب کی حالت اچھی تھی اس لئے اہل عرب نے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو تاراج کردیا۔ مگر ہر شخص جو تاریخ سے معمولی واقفیت بھی رکھتا ہے جانتا ہے کہ قیصر و کسریٰ کے مقابلہ میں عرب کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ پس سوال یہ ہے کہ کیا قیصر و کسریٰ کی حکومتوں نے عرب کے مقابلہ میں ہی ٹوٹنا تھا اور پھر ان عربوں کے مقابلہ میں جن کا اپنا حال خراب تھا اور کیا عرب کے لوگوں میں بھی اس شخص کے ہاتھ سے قیصر و کسریٰ کی حکومتوںنے پاش پاش ہونا تھا جس کوکچلنے کیلئے خود عرب کے لوگ کھڑے ہوگئے تھے؟ اور وہ سمجھتے تھے کہ قیصر و کسریٰ تو الگ رہے، عرب کے لوگ تو الگ رہے صرف مکہ کے رہنے والے ہی اس کو کچلنے کیلئے کافی ہیں۔ ہر شخص جو حالات پر غور کرکے صحیح نتائج اخذ کرنے کا ملکہ اپنے اندر رکھتا ہے وہ ایک لمحہ کیلئے بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو وہ اکیلا پاش پاش کرنے کی اپنے اندر اہلیت رکھتا تھا جس کے متعلق خود مکہ کی بستی والے یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہمارے مقابلہ میں بھی نہیں ٹھہر سکتا ہم اسے کچل کر رکھ دیں گے۔ مگر جب مکہ کی بستی والے یہ کہہ رہے تھے کہ ہم اسے مٹادیں گے اس وقت وہ اپنی کمزوری کے باوجود دنیا کو پکار کرکہتا تھا کہ مکہ اور عرب تو کیا ہے میں قیصر وکسریٰ کی حکومتوںکو بھی مٹادوں گا۔ اور ہم دیکھتے کہ جیسا کہ اس نے کہا تھا ویسا ہی وقوع میں آگیا۔ اگر یہ باتیں ایسی ہی ظاہر تھیں جیسے آج یورپین مصنّفین لکھتے ہیں تو مکہ کے لوگ کیوں کہتے تھے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو مٹادیں گے۔ عرب کے لوگ کیوں کہتے تھے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو مٹادیں گے۔ ان کا بڑے زور سے یہ اعلان کرنا کہ اسلام کو ہم کچل کر رکھ دیں گے بتاتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ ﷺ اپنے اندر کوئی طاقت نہیں رکھتے۔ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں تو کجا مکہ کی بستی والوں کا مقابلہ کرنا بھی ان کی طاقت سے باہر ہے۔ مگر پھر وہ زمانہ آیا جب وہ اکیلا اور کمزور شخص بڑھا اور بڑھتے بڑھتے اس مقام تک پہنچا کہ قیصر و کسریٰ بھی اس کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکے۔ یہی حالت اِس وقت ہماری ہے۔ ہم دنیا میں سب سے زیادہ کمزور اور سب سے زیادہ بے سامان ہیں اور کوئی شخص ظاہری سامانوں کے لحاظ سے یہ خیال بھی نہیں کرسکتا کہ ہم کسی دن دنیا پر غالب آجائیں گے۔ لیکن آج سے دو تین سو سال کے بعد جب احمدیت کا سب جہان پر غلبہ ہوگیا یورپین مصنّفین کی طرح بعض ایسے مصنّف پید اہوجائیں گے جو کہیں گے کہ احمدیت نے اگر غلبہ پالیا تو یہ کونسی بڑی بات ہے۔ دنیا میں اس وقت حالات ہی ایسے پیدا ہورہے تھے کہ جن کے نتیجہ میں اس نے جیت جانا تھا۔ یورپ میں تنزل کے آثار پیدا تھے۔ ایشیا میں تنزل کے آثار پیدا تھے اور حکومتوں کی بنیادیں کھوکھلی ہوچکی تھیں۔ ایسی حالت میں اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ پیشگوئی شائع کردی کہ ایک زمانہ میں سارے جہان میں احمدیت غالب آجائے گی تو یہ کوئی پیشگوئی نہیں کہلاسکتی۔ مگر سوال تویہ ہے کہ کیا آج دنیا میں کوئی شخص ایسا ہے جو اس دعویٰ کو معقول قرار دے سکے کہ واقعہ میں ایک دن احمدیت کا سب جہان پر غلطہ ہوجائے گا۔ اگر آج نہیں کہتے تو دو تین سو سال کے بعد غلبہ میسر آنے پر یہ کہنا کہ غلبہ تو ہو ہی جانا تھا اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ یہ لوگوں کے جھوٹا ہونے کی ایک بیّن علامت ہوتی ہے کہ جب وقت گزرجاتا ہے تو نشاناتِ الٰہیہ پر پردہ ڈالنے کیلئے کئی قسم کے بہانے بنانے لگ جاتے ہیں اور پیشگوئیوں کی وقعت کم کرنے کیلئے یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ زمانہ کے حالات ہی ایسے تھے جن سے یہ نتیجہ نکلتا۔ مگر محمد رسول اللہ ﷺ کا زمانہ تو گزرچکا۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے اور آپ نے بطور پیشگوئی یہ اعلان فرمایا ہے کہ
’’اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگو ئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا ۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلادے گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن اآتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی‘‘۔ (تذکرہ ص ۴۶۲)
مولوی ثناء اللہ صاحب بارہا اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اس پیشگوئی پر مدتیں گزرچکی ہیں مگر ابھی تک احمدیت کو غلبہ میسر نہیں آیا۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے پر جب احمدیت کو دنیا میں کامل غلبہ حاصل ہوگیااس مولوی ثناء اللہ صاحب کے جو چیلے موجود ہوں گے وہ کہیں گے کہ یہ تو نظر ہی آرہاتھا کہ جماعت احمدیہ نے جیت جانا ہے۔ اس وقت نزل کے آثار یورپ میں پیدا ہوچکے تھے۔ اس وقت تنزل کے آثار ہندوئوں میں پیدا ہوچکے تھے۔ اس وقت تنزل کے آثار مسلمانوں میں پید اہوچکے تھے اور حالات کا تقاضا یہی تھا کہ احمدیت ان کے مقابلہ میں جیت جاتی۔ غرض مخالفین کا ہمیشہ سے یہی دستور چلا آیاہے کہ پہلے تو غلبہ کو ناممکن بناتے ہیں اور جب غلبہ میسر آجاتا ہے تو کہنا شروع کردیتے ہیں کہ اس میں عجیب بات کوئی نہیں حالات کا تقاضا یہی تھا کہ انہیں غلبہ میسر آجاتا۔ بہرحال ہر زمانہ میں دنیا، دنیا کے اسباب سے وابستہ ہوتی ہے لیکن زمانۂ نبوت میں اللہ تعالیٰ اسے نبوت کے ساتھ وابستہ کرکے اپنی حکومت ظاہر کرتا ہے۔ ورنہ دنیوی حکومت کا انبیاء سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ خدا کی خدائی ظاہر کرنے کیلئے دنیا میں آتے ہیں اور یہ خدائی ان کے زمانہ میں اس رنگ میں ظاہر ہوتی ہے کہ بغیر مادی اسباب کے ایک گری ہوئی قوم کو وہ اٹھانے اور اسے دنیا پر غالب کرکے دکھادیتے ہیں۔ تب لوگوں کو پتہ لگتا ہے کہ دنیوی ترقی میں صرف ہماری کوششوں کا دخل نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی حکومت کا بھی دخل ہے۔ جب تک وہ دخل نہ دے اس وقت تک تو تدابیر کام کرتی رہتی ہیں لیکن جب وہ دخل دے دے تو ساری دنیا بے بس ہوجاتی ہے اور اس کی کوئی تدبیر اسے کامیاب نہیں کرسکتی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت دنیوی تدابیر باطل ہوجاتی ہیں ۔ باطل نہیں ہوتیں بلکہ ایمان کے ساتھ مل کر نتیجہ پیدا کرتی ہیں اس کے بغیر نہیں۔ جیسا کہ اگلی آیت میں یہ مضمون بیان کیا گیاہے۔
رسول کریم ﷺ نے بھی اپنے زمانہ کو عصر کا زمانہ قرار دیا ہے گو ان معنوں کے لحاظ سے نہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں بلکہ اور معنوں کے لحاظ سے۔ چنانچہ بخاری میں روایت آتی ہے کہ ایک شخص نے عمارت بنانے کیلئے بہت سے مزدور کام پر لگائے جنہوں نے ظہر تک کام کیا۔ پھر اس نے ایک اور پارٹی مقرر کی جس نے عصر تک کام کیا۔ اس کے بعد اس نے ایک تیسری پارٹی مقرر کی جس نے شام تک کام کیا۔ جب دن ختم ہونے پر اس نے مزدوری تقسیم کی تو سب کو برابر بدلہ دیا۔ اس پر پہلوں نے اعتراض کیا کہ ہم نے زیاہ لمبا عرصہ کام کیا تھا مگر ہمیں بھی اتنا ہی بدلہ دیا گیاہے جتنا ان لوگوں کو بدلہ دیا گیا ہے جنہوں نے ظہر سے عصر تک یا عصر سے مغرب تک کام کیا ہے۔ مالک مکان نے انہیں جواب دیا کہ میں نے جو تم سے وعدہ کیا تھا آیا اس وعدہ کو میں نے پورا کردیا ہے یانہیں۔ جب میں نے اس وعدہ کو پورا کردیا ہے جو میں نے تمہارے ساتھ کیا تھا اور تمہارا حق نہیں مارا تو تمہیں یہ شکوہ کیوں پیدا ہوا کہ میںنے دوسروں کو تھوڑے وقت کی مزدوری پر بھی تمہارے برابر بدلہ دے دیا۔ اگر میں تمہیں کم مزدوری دیتا تو بے شک تم اعتراض کرسکتے تھے لیکن جب میں نے تمہیں پوری مزدوری دے دی تو اس کے بعد اگر میں نے کسی کو کام سے زیادہ بدلہ دے دیاہے تو اس پر تمہیں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا پہلی مزدور قوم سے یہودی مراد ہیں ۔ دوسری مزدور قوم سے نصاریٰ مراد ہیں اور تیسری مزدور قوم سے اے مسلمانو تم مرادہو۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ رسول کریم ﷺ نے بھی ایک مفہوم کے لحا ظ سے اپنے زمانہ کو عصر کا زمانہ قرار دیا ہے۔
عصر کے معنے رھط اور عشیرۃ کے بھی ہوتے ہیں یعنی قبیلہ اور قوم کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اس لحاظ سے والعصر ان الانسان لفی خسر کے معنے یہ ہونگے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کی قوم کو اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ انسان یقینا گھاٹے کی طرف جا رہا ہے ۔ ان معنوں کے لحاظ سے یہاں انسان سے عام انسان مراد ہے اور قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ باقی دنیا تو تمہاری نظروں سے اوجھل ہے لیکن مکہ والے تمہارے سامنے ہیں ۔اگر تم اور لوگوںکے حالات کو نہیں دیکھ سکتے تو کیا مکہ والوں کو بھی نہیں دیکھ سکتے کہ ان کی حالت کہاں سے کہاں جاپہنچی ہے۔ مکہ کے لوگ ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ جیسے پاک انبیاء کی نسل میں سے ہیں۔ خانہ کعبہ کے پاس رہنے والے ہیں۔ ان کی طرف دیکھو کہ باوجود اس کے کہ یہ ایک اچھے خاندان میں سے ہیں اور خانہ کعبہ کی حفاظت کا کام ان کے سپرد کیا گیا تھا۔ پھر بھی یہ روز بروز خداتعالیٰ سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اپنے فرائض اور ذمہ واریوں کو سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کی کوشش کریں۔ یہ لوگ مجاور بن کر بیٹھ گئے ہیں اور ان کی دن رات یہی کوشش رہتی ہے کہ لات اور منات اور عزی کو لوگ سجدے کریں اور ان پر چڑھاوے چڑھائیں جس سے ان کا گزارہ ہو۔ پس والعصر کے معنے یہ ہوئے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کی قوم کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ سب سے بڑھ کر یہ قوم اس بات کی مستحق تھی کہ خداتعالیٰ کے نام کو دنیا میں پھیلاتی مگر یہ قوم بھی مجاور بن کر بیٹھ گئی اور خداتعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کی بجائے نفسانی خواہشات کے پیچھے چل پڑی ہے۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ ضلالت اور گمراہی اب پورے طور پر مسلط ہوچکی ہے اور ضروری تھا کہ ان حالات کی اصلاح کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی مبعوث ہوتا۔
تیسرے معنے عصر کے رات کے ہیں۔ ان معنوں کی رو سے ایک عام قاعدہ اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جب قوم پر تباہی کا زمانہ آتا ہے تو اس سے نکلنے کی راہ صرف ایمان و عمل صالح ہی رہ جاتا ہے یعنی بغیر خدائی ہدایت کے وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرتی۔ یہ امر ظاہر ہے کہ رات کا زمانہ تاریکی کا زمانہ ہوتا ہے۔ پس اس جگہ والعصر سے وہ زمانہ مراد ہے جب کسی قوم پر تباہی وارد ہوجاتی ہے اور کامیابی کی کوئی شعاع اسے دکھائی نہیں دیتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم رات کے زمانہ کو یعنی تباہی اور بربادی کے زمانہ کو اس بات کی شہادت کے طور پر تمہارے سامنے پیش کرتے ہیںکہ ان الانسان لفی خسر الا الذین امنوا وعملوا الصلحت جب قوموں پر تنزل آجاتا ہے تو اس وقت ایسی قومیں جو کسی دینی سلسلہ سے تعلق رکھتی ہیں اس تباہی سے کبھی بچ نہیں سکتیں سوائے اس کے کہ ان کے احیاء کیلئے کوئی نبی آئے اور انہیں اس پرایمان لانے کی سعادت حاصل ہوجائے۔ یہ ایک ایسا قاعدہ ہے جس کے خلاف دنیا میں کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ جب بھی کوئی مذہبی جماعت گری ہے ہمیشہ کسی نبی کے ذریعہ ہی اس کا احیاء ہوا ہے اس کے بغیر کسی قوم کا آج تک احیاء نہیں ہوا۔ مثلاً تاریخ بتاتی ہے کہ پہلے حضرت کرشنؑ آئے اور پھر حضرت رامچندرؑ آئے یا ہندوئوں کے خیال کے مطابق حضرت کرشنؑ آئے ان میں سے کوئی صورت سمجھ لو۔ ہمارے نزدیک پہلے حضرت کرشن کے ذریعہ ہندو قوم کو ترقی حاصل ہوئی اور پھر ایک لمبے عرصہ کے بعدجب ان میں تنزل پیدا ہوا تو وہ تنزل اس وقت دور ہوا جب حضرت رام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوگئے۔ یا ہندئوں کے عقیدہ کے مطابق پہلے حضرت رام کے ذریعہ ان کو ترقی ملی ار بعد میں حضرت کرشن نے ان کو عروج تک پہنچایا۔ اس کے بعد جب پھر ان میں تنزل پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت بدھ کو لوگوں کو کی ہدایت کیلئے مبعوث فرمادیا جن پر ایمان لاکر قوم کاتنزل دور ہوا۔ بہرحال جب بھی کسی مذہبی جماعت کو تنزل کے بعد عروج ہوا ہے ہمیشہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ حاصل ہوا ہے۔ دنیوی تدابیر سے کام لے کر آج تک کوئی ایک مذہبی جماعت بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکی یہ اللہ تعالیٰ کا ایک اٹل قانون ہے جس کے خلاف ہمیں کوئی نظارہ نظر نہیں آتا اور کوئی شخص ایسی مثال پیش نہیں کرسکتا کہ فلاں جماعت جس کا مذہب کے ساتھ تعلق تھا ترقی کے بعد گرچکی تھی مگر محض دنیوی تدابیر سے کام لے کر اس نے دوبارہ عروج حاصل کرلیا۔ مذہبی جماعتوں کے زوال کے بعد ترقی اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ وابستہ کردی ہے۔ جو قوم یہ وابستگی پیدا کرلیتی ہے وہ عروج حاصل کرلیتی ہے اور جو اس وابستگی سے محروم رہتی ہے وہ خواہ لاکھ تدابیر اختیار کرے کبھی اپنے زوال کو دور نہیں کرسکتی۔ مثلاً یہودیوں کو دیکھ لو پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی طرف مبعوث ہوئے اور انہوں نے قوم کو عروج تک پہنچایا ۔ اس کے بعد جب ان میں تنزل پیدا ہوا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے اور انہوں نے ایک گری ہوئی قوم کو ترقی کے بلند مینار تک پہنچادیا۔ پھر تنزل پیدا ہوا تو حضرت شمعونؑ آگئے جنہوں نے قوم کی اصلاح کی پھر تنز ل پیدا ہوا تو حضرت دائود آگئے اور انہوںنے اصلاح کی۔ غرض ہمیشہ انبیاء کے ذریعہ ہی ان کو ترقی حاصل ہوئی۔ ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ نبی پر ایمان لائے بغیر انہیں محض دنیوی تدابیر سے عروج حاصل ہوگیا۔ اسی طرح بابل کی حکومت نے ان کو تباہ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے عزرا نبی کو کھڑا کردیا جس نے ان کی ذلت دور کی۔ پھر گرے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمادیا۔ یہ نہیں ہوا کہ دنیوی لیڈروں کی اتباع کرکے انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہو یا مادی تدابیر نے ان کو ترقی تک پہنچادیا ہو۔ یہی قانون اب مسلمانوں کے متعلق بھی کام کررہا ہے۔ مسلمان اپنی نادانی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری کامیابی کا ذریعہ یہ ہے کہ ہم انجمنیںبنائیں، مدرسے جاری کریں، یونیورسٹیاں اور کالج قائم کریں، صنعت و حرفت اور تجارت کی طرف توجہ کریں اور اس طرح اپنی ذلت و نکہبت کو دور کرکے ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہوجائیں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ آ ج تک کوئی ایک مثال بھی تو ایسی نہیں ملتی کہ کسی مذہبی جماعت کو تنزل کے بعد محض دنیوی تدابیر سے غلبہ حاصل ہوگیا ہو۔ جب بھی کوئی مذہبی جماعت گری ہے اسے نبی کے ذریعہ ہی دوبارہ عروج حاصل ہوا ہے۔ اس کے بغیر عروج حاصل ہونے کی کوئی ایک مثال بھی تاریخ سے پیش نہیں کی جاسکتی۔
بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اگر یہ بات درست ہے تو انگلستان کیوں ترقی کرگیا یا امریکہ کیوں ترقی کردیا۔ یہ لوگ کس نبی پرایمان لائے تھے کہ انہیں ساری دنیا پر غلبہ حاصل ہوگیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ بات ہی غلط ہے کہ انگلستان اور امریکہ وغیرہ نے تنزل کے بعد ترقی کی ہے۔ ان قوموں میں سے سوائے جاپان کے اور کوئی قوم ایسی نہیں جس نے ترقی کے مقام سے گرنے کے بعد دوبارہ عروج حاصل کیا ہو۔ ان کے متعلق یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے وحشیانہ حالت سے ترقی کرتے کرتے عروج حاصل کرلیا۔ مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک دفعہ ترقی حاصل کرنے کے بعد جب یہ لوگ بالکل گر گئے تھے تو دوبارہ اپنی تدابیر سے انہوں نے ساری دنیاپر غلبہ حاصل کرلیا۔میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ کوئی مذہبی جماعت (یعنی جو سچے مذہب کی طرف منسوب ہو) جو ایک دفعہ ترقی حاصل کرنے کے بعد گرجائے وہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک کوئی نبی اس کی طرف مبعوث نہ ہو۔ مگر یہ قومیں تو وہ ہیں جو ترقی حاصل کرنے کے بعد ابھی گری نہیں۔ انہوںنے بے شک ادنیٰ حالت سے ترقی کرتے کرتے یہ مقام حاصل کیا ہے مگر یہ نہیں ہوا کہ تنزل کے بعد انہوں نے دوبارہ ترقی کی ہو۔ صرف جاپان کی مثال اس سوال میں پیش کی جاسکتی ہے مگر وہ بھی یہاں چسپاںنہں ہوتی۔ اس لئے کہ اگر کوئی قوم خالص دنیوی ذرائع سے کام لے کر ترقی کرجاتی ہے تو وہ وہی قوم ہوتی ہے جس میں نور الہام بند ہوچکا ہوتاہے۔ جب تک کوئی قوم نور الہام سے دور نہیں ہوتی اور وہ کسی سچے نبی کو جس کا زمانہ نبوت جاری ہوتا ہے مان رہی ہوتی ہے اس وقت تک وہ قوم کبھی دوبارہ ترقی نہیں کرسکتی جب تک کسی مامور کے ذریعہ اسے ترقی نہ ملے۔ چونکہ آج کل مسلمانوں کے سوا باقی تمام اقوام زندہ دین سے دور ہوچکی ہیں اس لئے ہندو اگر خالص دنیوی تدابیر سے کام لے کر ترقی کرلیں تو وہ کرسکتی ہیں کیونکہ وہ سچے دین کی طرف منسوب نہیں۔ جب وہ ایک سچے دین کی طرف منسوب تھے اور جب تک ہندو مذہب زندہ تھا پہلے کرشن اآئے جن پر ایمان لاکر انہیں ترقی حاصل ہوئی۔ پھر رام آئے جن پر ایمان لاکر انہیں ترقی حاصل ہوئی۔ پھر بدھ آئے جن پر ایمان لاکر انہیں ترقی حاصل ہوئی یا ہندوئوں کے نزدیک پہلے رام پھر کرشن اور پھر بدھ آئے اور ان کے ذریعہ انہیں ترقی حاصل ہوئی۔لیکن بدھ کے بعد چونکہ ہندو مذہب اور پھر بدھ مذہب منسوخ ہوگیا اس لئے اب اگر ہندو محض دنیوی تدابیر سے ترقی کرجائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن مسلمان کبھی دنیوی تدابیر سے ترقی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ مسلمان ایک سچے مذہب کوماننے والے ہیں اور جس جماعت کا یہ حال ہو وہ تنزل کے بعد بغیر اللہ تعالیٰ کے کسی نبی کی بعثت کے دوبارہ ترقی نہیں کیا کرتی۔ عیسائی اگر تنزل کے بعد ترقی کرجائیں تو اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں کیونکہ عیسائیوں سے اب اللہ تعالیٰ اپنی محبت کے تمام تعلقات منقطع کرچکا ہے اور ان کا مذہب منسوخ ہوچکا ہے۔
پس یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون کہ دنیا کی ترقی دین کے ساتھ وابستہ ہے ہر قوم کے متعلق نہیں بلکہ ان اقوام کے متعلق ہے جو ابھی اللہ تعالیٰ کے الہام سے محروم نہ ہوئیں۔ اگر ان کو بھی دین کے بغیر دنیا میں ترقی مل جائے تو پھر دین کا کسی قوم کے پاس بھی حصہ نہ رہے اور خداتعالیٰ کا خانہ بالکل خالی ہوجائے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اب مسلمانوں کو کبھی ترقی نہیں دے سکتا جب تک وہ الا الذین امنوا وعملواالصلحت میں اپنے آپ کو شامل نہیں کرلیتے۔ آج اللہ تعالیٰ کنفیوشس مذہب کے پیروئوں کو بالکل چھوڑ بیٹھا ہے، زرتشتی مذہب کے پیروئوں کو بالکل چھوڑ بیٹھا ہے، بدھ مذہب کے پیروئوں کو بالکل چھوڑ بیٹھا ہے، ہندومذہب کے پیروئوں و بالکل چھوڑ بیٹھا ہے، عیسائی مذہب کے پیروئوں کو بالکل چھوڑ بیٹھا ہے اور ان کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی زمیندار کا بیل بڈھا ہوجائے تو وہ اسے کھلا چھوڑ دیتا ہے اور اس بات کی پروا تک نہیں کرتا کہ وہ رات کو گھر واپس آتا ہے یا نہیں۔ لیکن مسلمانوں کی مثا ل دودھ دینے والی گائے کی سی ہے۔ ایک بڈھا بیل جسے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے اس کے متعلق مالک کا اور قانون ہوتا ہے اور گھر کی دودھ دینے والی گائے کے متعلق مالک کا اور قانون ہوتا ہے۔ بوڑھا بیل اگر رات کو گھر میں نہیں آتا تو مالک اس کی پروا بھی نہیں کرتا۔لیکن اگر دودھیلی گائے رات کو گھر میں نہ آئے تو وہ ادھر ادھر دوڑا پھرتا ہے اور ہر ایک سے پوچھتا ہے کہ میری گائے کدھر گئی۔ پس وہ جماعتیں جن کا خداتعالیٰ سے روحانی تعلق باقی ہوتا ہے ان کے متعلق خداتعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ ان کی اصلاح اور ترقی بغیر نبی کے نہیں ہوتی۔ پس انگلستان اور امریکہ اور جاپان وغیرہ کی مثالیں یہاں چسپاں نہیں ہوتیں۔ یہ قانون ان اقوام کے متعلق ہے جن کا بھی خداتعالیٰ سے کچھ تعلق ہوتا ہے نہ ان کے متعلق جو خداتعالیٰ سے بغاوت اختیار کرکے نور الہام سے کلیۃً محروم ہوجاتی ہیں۔
چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ دن کو ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ انسان گھاٹے میں ہے۔ اس سے قاعدہ کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ جب شمس رسالت کا طلوع ہوتا ہے تو کوئی قوم جو اس کے مقابل پر ہو بغیر اس پر ایمان لانے کے تباہی سے نہیں بچ سکتی۔
پانچویں معنے اس کے یہ ہیں کہ ہم عطیہ کو شہادت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ دنیا پر احسان کرتا اور نبوت اور کلام بھیجتا ہے تو صرف مومن ہی ترقی کرسکتے ہیں دوسرے لوگ ترقیا ت سے محروم رہ جاتے ہیں۔
خسر کے معنے جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ عربی زبان میں گھاٹے کے بھی ہیں، گمراہی کے بھی ہیں اور ہلاکت اور بربادی کے بھی ہیں۔ ان تینوں میں سے ہلاکت کے معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر اس آیت کو اسلام کے آخری زمانہ پر چسپاں کیا جائے تو الانسان سے مراد ’’مردِ مغرب‘‘ ہوگا اور اس میں یہ پیشگوئی پائی جائے گی کہ مغربی لوگ صرف اپنے آپ کو انسان سمجھیں گے باقی دنیا میں کسی کو بھی انسان سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہوںگے اور لفی خسر کا مفہوم یہ ہوگا کہ جتنا جتنا وہ اپنے آپ کو کامل انسان بنائیں گے اتنا ہی ان کی ہلاکت کا سامان پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ چنانچہ اب یہ حقیقت دنیا پر منکشف ہورہی ہے کہ جس قدر تہذیب ترقی کررہی ہے اسی قدر تباہی اور بربادی کے سامان بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ انہی سامانوں میںایٹم بم ہے جو اس جنگ میں ایجاد کیا گیا۔ یہ ایک ایسا خطرناک اور تباہ کن ہتھیار ہے کہ جنرل میکارتھر نے اپنے ایک اعلان میں صاف طور پر کہا ہے کہ یا تو ہمیں اسلحہ کی اس ترقی کے مقابلہ میں اپنے اخلاق میں بھی نمایاں ترقی کرنی پڑے گی ورنہ اگر اخلاق میں ترقی نہ ہوئی تو دنیا کی تباہی میں کوئی شبہ نہیں۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان فرمائی ہے کہ وہ جتنا جتنا اپنے آپ کو الانسان قرار دیں گے اوریہ دعویٰ کریں گے کہ ہم میں بڑے بڑے سائنسدان ہیں، بڑے بڑے حساب دان ہیں، بڑے بڑے ماہرین تجارت ہیں ، بڑے بڑے صناع ہیں، بڑے بڑے موجد ہیں اتنا ہی وہ ہلاکت کے قریب ہوتے جائیںگے اور اپنی قبر اپنے ہاتھوں سے کھودیں گے۔
اسی طرح خسر کے معنے ضلالت کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ آخری زمانہ میں لوگ مومنوں کو ذلیل اور ادنیٰ سمجھیں گے اور اپنے آپ کو ہی انسان سمجھیں گے لیکن ہدایت صرف مومنوں کے پاس ہوگی۔اس وقت ایک موعود کا پیدا ہونا اور عصر کامل یعنی نبی کا وجود اس امر کا ثبوت ہوگا کہ بظاہر کامل نظر آنے والا انسان گمراہی میں مبتلا ہے یعنی دنیا مغربی لوگوں پر غلطی ثابت کرنے کا زریعہ صرف نبی کا وجود ہوگا ۔ ورنہ اور کوئی صورت نہ ہوگی کہ ان کی گمراہی ثابت کی جا سکے صرف روحانی طور پر ہی یہ امر ثابت ہوسکے گا ۔ اس صورت میں العصر سے مراد کامل عصر ہوگا اور کامل عصر وہی ہوتا ہے جس میں خدا تعالیٰ کا نبی لوگوں کی ہدایت کے لئے معبوث ہو۔ پس فرماتا ہے اس وقت ایک قوم کی ایسی حالت ہوگی کہ وہ اپنے آپ کو ہی انسان سمجھے گی کسی اور کوانسان قرار دینے کے لئے تیار نہیں ہوگی مگر ہوگی گمراہ ۔اور اس کی گمراہی کے ثابت ہونے کا دنیا کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہوگا صرف روحانی طور پر یہ امر ثابت ہوسکے گا۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ اصلوٰۃوالسلام کی بعثت کے بعد مغربی لوگوں کی گمراہی ثابت کرنا کونسا مشکل کام رہ گیا ہے ہم میں سے ہر شخص علی الاعلان کہہ سکتا ہے کہ اہل مغرب گمراہ ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا ایک نبی آیا جسے ہم نے تو مان لیا مگر مغرب اس کا منکر ہے اس لئے ہم ہدایت پر ہیں اور وہ گمراہی پر۔ مگر باقی مذاہب کس ذریعہ سے یورپ پر اپنی برتری ثابت کر سکتے ہیں ۔ وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم مغرب پر فوقیت رکھتے ہیں یا ہمارے پاس تو ہدایت ہے لیکن مغرب کے پاس ہدایت نہیں ۔ وہ حیران و پریشان کھڑے ہیں اور ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے وہ یورپ کی گمراہی ثابت کرسکیں۔ اسلام زندہ باد یا غیرمذاہب مردہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کرنا کوئی مشکل امر نہیں جو شخص چاہے یہ نعرے بلند کرسکتا ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کے دلوں پر بھی اسلام کا اثر ہے یا محض زبان تک ان کے دعوے محدود ہیں؟ اگر کوئی شخص مسلمانوں کے حالات پر گہرا غور کرے تو اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ آج مسلمانوں پر اسلام کاکچھ بھی اثر نہیں۔ وہ بظاہر اسلام زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہیں مگر چلتے یورپ کے پیچھے ہی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم تو ہمیں تباہی سے نہیں بچا سکتی لیکن یورپ کی تقلید ہمیں بچاسکتی ہے۔ اگر اس حصہ کو الگ کرلیا جائے جو سیاسی جدوجہد سے تعلق رکھتا ہے اور یہ دیکھا جائے کہ سیاسی رنگ میں یورپ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ایک مسلمان کیا بننا چاہتا ہے تو صاف طور پر دکھائی دیتا ہے کہ یورپ کی سیاسی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد ایک مسلمان انگلستان کا چرچل تو بننا چاہتا ہے مگر وہ یہ نہیں چاہتا ہے کہ میں عرب کا ابوبکرؓ بن جائوں۔ وہ یہ تو خواہش رکھتا ہے کہ میری گردن مغرب کے سیاسی دبائو سے آزاد ہوجائے مگر اس آزادی کے بعد اس کا مقصد ابوبکرؓ بننا نہیں یا عمرؓ اور عثمانؓ بننا نہیں بلکہ وہ چاہتا ہے کہ میں آزادی کے بعد انگلستان کا اٹیلی بنوں یا امریکہ کا ٹرومین بن جائوں یا روس کاسٹالن بن جائوں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے یورپین ممالک کی بااقتدار شخصیتیں یکے بعد دیگرے آتی ہیں اور وہ ایک سردآہ کھینچ کر کہتا ہے کہ کاش مجھ موقع ملے تو میں بھی مغرب کی طرح دنیا پر حکمرانی کروں۔ مگر یہ بات کہ میںجلال الدین سیوطیؒ بن جائوں یا امام بخاریؒ بن جائوں یا سیّد عبدالقادر جیلانیؒ بن نائوں کبھی وسوسہ کے طور پر بھی کسی مسلمان کے دل میں پیدا نہیں ہوتی۔ پس فرماتا ہے اس وقت کوئی جماعت ایسی نہیں ہوگی جو مردِ مغرب کو گمراہی پر سمجھنے والی ہو۔ ہر قوم اس کی نقل کرنا چاہے گی اور اس کی تقلید پر ہی اپنی تمام کامیابی کا دارومدار سمجھے گی۔ سیاسی آزادی بالکل الگ چیز ہے اس آزادی کے معنے صرف اتنے ہیں کہ ہم کو بھی ویسی ہی برتری مل جائے جیسے مغرب کو حاصل ہے۔ ورنہ اس سیاسی آزادی کے بعد ہر قوم کے دل میں خواہش یہی پائی جاتی ہے کہ مجھے بھی مغرب کی طرح اقتدار حاصل ہو۔ بہرحال اس وقت کوئی قوم ایسی نہیں ہوگی جو مغربی لوگوں کی گمراہی ثابت کرسکے صرف نبی کا وجود ہوگا جس پر ایمان لانے کی وجہ سے ایک جماعت نہایت اطمینان کے ساتھ یہ کہے گی کہ یورپ کے لوگ کہاں جیت سکتے ہیں۔ جیتنا تو ہم نے ہے جو ایک نبی پر ایمان لائے ہیں۔ گویا امید جو جیتنے کا ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے صرف مومنوں کو نصیب ہوگا۔ دوسری اقوام جو نہ مومن ہوں گی اور نہ مرد مغرب کی ساتھی وہ حیران و پریشان ہوں گی۔ نہ مردِ مغرب ان کو اپنے ساتھ شامل کرے گا اور نہ اس کی کمزوری اور گمراہی انہیں نظر آسکے گی۔ اس لئے وہ سرگردان و حیران ہوں گی۔ امیدکا کوئی پہلو انہیں نظر نہ آتا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈر یورپ کے سامنے ہمیں اپالوجی APOLOGY کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وہ کھلے اور واضح الفاظ میں مغرب کی برائی اس پر ظاہر کرسکیں۔ سید امیر علی صاحب نے اپنی کتب میں یورپین مصنفین کے اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے مگر انہوں نے سب جگہ اپالوجی سے کام لیا ہے اور کہا ہے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یورپین مصنفین کے اسلام کے خلاف اعتراضات درست ہیں مگر ہماری التجا صرف اس قدر ہے کہ اسلام کے متعلق زیادہ سخت رائے قائم نہ کی جائے کیونکہ اسلام ایسے زمانہ میں آیا تھا جب دنیا ابھی ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے تھی۔ اس لئے اس کے کئی مسائل موجودہ زمانہ کی ضروریات کے لئے مکتفی نہیں ہوسکتے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپالوجی کو بالکل ردّ کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں یورپین لوگوں پر ان کی گمراہی ثابت کی ہے اور بتایا ہے کہ اسلام نے جو کچھ کہا ہے اس کا ایک ایک حرف درست ہے۔ اس پر اعتراض کرنا خود اپنی حماقت کا ثبوت بہم پہنچانا ہے۔ چنانچہ آج تک ہم دشمنوں کی طرف سے اسی وجہ سے گالیاں کھاتے ہیں کہ ہم نے آریوں پر بھی اعتراضات کئے۔ ہم نے ہندوئوں پر بھی اعتراضات کئے۔ ہم نے سکھوں پر بھی اعتراضات کئے۔ ہم نے عیسائیوں پر بھی اعتراضات کئے۔ ہم نے جینیوں اور بدھوں پر بھی اعتراضات کئے۔ ہم نے زرتشتیوں پر بھی اعتراضات کئے۔ ہم نے یہودیوں پر بھی اعتراضات کئے۔ غرض کوئی مذہب اور فرقہ ایسا نہیں جس کی اسلام کے مقابلہ میں ہماری طرف گمراہی ثابت نہ کی گئی ہو اور ہم نے ان پر ایسے وزنی اعتراضات نہ کئے ہوں کہ جن کا جواب دینا ان کے لئے بالکل ناممکن ہے۔ مگر بجائے اس کے کہ مسلمان ہمارے اس کام کی قدر کرتے انہوں نے الٹا ہمیں گالیاں دینا شروع کردیا اور کہتے لگے کہ ہم اسلام کے خلاف غیرمسلموں کو اشتعال دلارہے ہیں۔ چنانچہ ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے مظہر علی صاحب اظہر کا ایک رسالہ میں نے دیکھا جس میں انہوں نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ آریوں نے اگر اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیں تو اس کی بڑی وجہ مرزا صاحب نے آریوں پر اعتراضات کرنے شروع کردیئے تھے۔ اگر وہ اعتراضات نہ کرتے تو آریہ بھی اسلام کی مخالفت نہ کرتے۔ گویا دوسرے الفاظ میں مظہرعلی صاحب اظہر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو دشمن کے مقابلہ میں اپالوجی کرنی چاہئے تھے۔ بجائے اس کے کہ اس کے اعتراضات کے جواب دیتے کہتے کہ خدا کے واسطے آپ ہم پر سختی نہ کریں۔ محمد رسول اللہ ﷺ تو نعوذ باللہ ایک جاہل امت کے سردار تھے وہ موجودہ زمانہ کے مسائل کو کہا ں سمجھ سکتے تھے یا قرآن کریم کی تعلیم نعوذ باللہ موجودہ زمانہ میں کام نہیں آسکتی۔ یہ تو صرف عرب کیلئے مخصوص تھی۔ موجودہ زمانہ میں مغربی علوم ہی لوگوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچاسکتے ہیں۔ مگر چونکہ مرزا صاحب نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوںنے کھلے طور پر کہا کہ محمد رسول اللہ ﷺ سب انبیاء سے افضل ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیم دنیا کی تمام تعلیموں سے اعلیٰ ہے۔ جاہل اور احمق وہ لوگ ہیں جو آپ پر اعتراضات کرتے ہیں اور قرآنی تعلیم کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اس لئے بقول مظہرعلی صاحب آریوں کو جوش آگیا اور وہ اسلام کا مقابلہ کرنے لگ گئے۔ اگر مرزا صاحب ایسا نہ کرتے تو ان کو بھی مقابلہ کا جوش پیدا نہ ہوتا۔
غرض سب مسلمانوں کے دلوں میں آج امید بالکل مٹ چکی ہے۔ صرف ہماری جماعت ایسی ہے جو اپنے اندر ایک پرامید دل رکھتے ہوئے مغرب کی گمراہی ثابت کررہی ہے اور یقین رکھتی ہے کہ مغرب اس کے مقابلہ میں کبھی جیت نہیں سکتا۔ پس والعصر ان الانسان لفی خسر کے معنے یہ ہوئے کہ ہم العصر یعنی زمانۂ نبوت کو اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ آخری زمانہ میں باقی ساری قومیں یورپ کے دبدبہ اور اس کی شوکت اور حشمت سے مرعوب ہوجائیں گی اور وہ سمجھیں گی کہ دنیا کی نجات صرف مغرب کی تقلید میں ہے۔ لیکن ایک جماعت جو ایمان اور عمل صالحہ کی دولت سے مشرف ہوگی اس کے افراد اس خیال کوباطل قرار دیں گے ۔ وہ کہیں گے کہ یورپ ہمارے مقابلہ میں کہاں جیت سکتا ہے اس نے تو یقینا تبا ہ ہوجانا ہے۔ باقی قومیں چونکہ صرف دنیوی نقطۂ نگاہ سے مغرب کو دیکھیں گی اس لئے یورپ کا مرد انہیں مردِ کامل نظر آئے گا۔ لیکن وہ لوگ جو یورپ کو روحانی نقطہ نگاہ سے دیکھیں گے انہیں یورپ کا مرد ’’مردِ بیمار‘‘ نظر آئے گا۔ چنانچہ آج بالکل یہی کیفیت رونما ہے۔ آج یورپ کے لوگوں کو ٹرکی مرد بیمار نظر آتا ہے اور ایشیائی ممالک کو یورپ مرد توانا دکھائی دیتا ہے لیکن جماعت احمدیہ کے افراد کو باقی تمام دنیا کے خلاف یورپ مرد بیمار نظر آتا ہے اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ مردِ بیمارکبھی ہم پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتا۔
الا الذین امنوا و عملوا الصالحت وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر O
مگر وہ لوگ جو (انبیاء) پر ایمان لے آئے اور (پھر) انہوں نے (موقعہ کے) مناسب عمل کئے اور (اصول) صداقت پر قائم رہنے کی آپس میں ایک دوسرے کو تلقین کی اور (مشکلات پیش آمدہ پر) صبر (سے کام لینے ) کی ایک دوسرے کو ہدایت کرتے رہے (ایسے لوگ کبھی بھی گھاٹے میں نہیں ہوسکتے)۔
حل لغات: صالحات صلح سے ہے اور صلح الشیء اصلاحا و صلوحا و صلاحیۃ )ضدفسد اوزال عنہ الفساد۔ یعنی صلح الشیء کے معنے ہوتے ہیں چیز درست ہوگئی یا اس میں جو خرابی پائی جاتی تھی وہ دور ہوگئی اور الصالح کے معنے ہوتے ہیں القائم بما علیہ من حقوق العباد و حقوق اللہ تعالی ایسا شخص جو ان تمام حقوق کو ادا کرے جو خدا اور اس کے بندوں کی طرف سے اس پر عائد ہوتے ہں۔ اسی طرح کہتے ہیں ھو صالح لکذا ای لہ الیۃ للقیام بہ یعنی جب ھو صالح لکذا کہا جائے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ س شخص میں کام کو کما حقہ سرانجام دینے کی اہلیت پائی جاتی ہے۔ پس الاالذین امنوا و عملوا الصلحت کے معنے یہ ہوئے کہ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے ایسے عمل کئے جو فساد و خرابی سے پاک ہیں یا موقعہ کے مناسب ہیں یا جن سے حقوق اللہ و حقوق العباد ادا ہوجاتے ہیں۔
تواصوا۔ تواصی سے جمع کا صیغہ ہے اور تواصی القوم کے معنے ہوتے ہیں وصی بعضھم بعضا قوم کے افراد نے ایک دوسرے کو تاکید کی (اقرب)۔ پس تواصوا بالحق کے معنے یہ ہوئے کہ وہ ایک دوسرے کو حق کی تاکید کرتے ہیں۔
الحق: ضد الباطل حق کے معنے ایسے بات کے ہیں جو جھوٹ کے خلاف ہو۔ اور حق کے معنے الامرالمقضی کے بھی ہیں یعنی ایسا امر جو وقت اورحالات کے مطابق ہو اور حق کے معنے عدل کے بھی ہیں اور حق کے معنے مال کے بھی ہیں اور حق کے معنے بادشاہت کے بھی ہیں اور حق کا لفظ الموجود الثابت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی وہ چیز جو حقیقی وجود رکھتی ہو اور دنیا میں قائم رہنے والے ہو۔ اور حق کے معنے الیقین بعد الشک کے بھی ہیں یعنی شک کے بعد اگر کسی شخص کے دل میں یقین پید اہوجائے تو اس کو بھی حق کہا جاتا ہے۔ اور حق کے معنے موت کے بھی ہیں۔ اور حق کے معنے حزم و احتیاط کے بھی ہیں اور حق اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے بھی ایک نام ہے(اقرب)۔
الصبر: ترک الشکوی من البدوی لغیر اللہ لا الی اللہ یعنی صبر مصیبت کے وقت شکایت کو چھوڑ دینے کا نام ہے۔ لیکن یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ صبر کے مفہوم میں صرف اتنی بات شامل ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے پاس شکوہ نہ کرے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی شخص اپنی شکایت بیان کرتا ہے تو یہ بات صبر کے خلاف نہیں۔ چنانچہ لغت میں لکھا ہے فاذا دعا اللہ العبد فی کشف الضر لا یقدح یعنی جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کو پکارے اور اسے کہے کہ اے میرے رب میری فلاں مصیبت کو دور کردے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے صبر کے خلاف حرکت کی(اقرب)۔ وفی الکلیات الصبر فی المصیبۃ۔ ابوالبقاء جو ایک بہت بڑے ادیب گزرے ہیں انہوں نے اپنی کتاب کلیات میں لکھا ہے کہ صبر کا لفظ جو عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور دوسروں سے کہا جاتا کہ صبر کرو۔ یہ صرف مصیبت کے وقت استعمال ہوتا ہے۔ جب کسی حادثہ کے وارد ہونے پر دوسرے شخص سے کہا جائے کہ آپ صبر سے کام لیں تو اس کے معنے صرف اتنے ہوئے ہیں کہ آپ جزع فزع نہ کریں یا اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کریںیا آہ و فغاں سے اپنی آواز بلند ہ کریں۔ و ایا فی المحاربۃ فشجاعۃ۔ لیکن کبھی لڑائی کیلئے بھی صبر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت اس کے معنے شجاعت اور بہادری کے ہوتے ہیں۔ و فی امساک النفس عن الفضول فقناعۃ وعفۃ۔ اسی طرح صبر کا لفظ کبھی امساک النفس کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اگر انسان اپنے نفس کو لغو اور فضول کاموں میں مبتلا ہونے سے روکے تو اس وقت بھی صبر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے لیکن ا س کی دو قسمیں ہیں۔ اگر مال کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا جائے اور مراد یہ ہو کہ دوسرے نے بے جا طور پر اپنا مال صرف کرنے سے اجتناب کیا ہے تو ایسی صورت میں صبر کے معنے قناعت کے ہوں گے اور جب یہ کہا جائے کہ فلاں شخص بڑا صابر ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ بڑا قانع ہے۔ اپنے مال کی حفاظت کرتا اور اسے بے جا طور پر صرف نہیں کرتا۔ لیکن جب اخلاق کے متعلق یہ لفظ بولا جائے اور کہا جائے کہ فلاں شخص اپنے نفس کو روک کر رکھتا ہے تو اس کے معنے عفت اور پاکیزگی کے ہوں گے وفی امساک کلام الضمیر کتمان۔ اسی طرح کبھی صبر کا لفظ اپنے دل کی بات کو ظاہر نہ کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ غرض اس لفظ کے کئی معنے ہیں۔ صبر کے معنے جرأت اور بہادری کے بھی ہیں۔ صبر کے معنے قناعت کے بھی ہیں۔ صبر کے معنے عفت کے بھی ہیں اور صبر کے معنے رازاداری کے بھی ہیں۔
تفسیر: الا الذین امنوا و عملوا الصلحت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی اعمال کے متعلق ایک نہایت اہم نکتہ بیان کیا ہے جسے نظر انداز کرنے کی وجہ سے بسا اوقات لوگوں کو کئی قسم کی ٹھوکریں لگ جاتی ہیں۔ دنیا میں عام طور پر یہ طریق ہے کہ لوگ بعض اعمال کو اچھا اور بعض کو برا قرار دیتے ہیں اورپھر کوشش کرتے ہیں کہ جو اعمال ان کے نزدیک اچھے ہیں ان کو اختیار کریں اور جو اعمال ان کے نزدیک اچھے ہیں ان کو اختیار کریں اور جو اعمال ان کے نزدیک برے ہیں ان سے اجتناب کریں۔ جن اعمال کو وہ اچھا سمجھتے ہیں ان کو اعمال صالحہ قرار دیتے ہیں اور جن اعمال کو وہ برا سمجھتے ہیں ان کو اعمال سیئہ کہتے ہیں۔ حالانکہ عمل صالح کسی مخصو عمل کا نام نہیں بلکہ ہر ایسا عمل جو مناسب حال ہو اور جو انسان کی روحانی یا جسمانی ضرورت کے مطابق ہو اس کو عمل صالح کہا جاتا ہے۔ یہ قرآن کریم کی ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ اس نے ان کے اعمال کے متعلق جو دین کے مطابق ہوتے ہیں ایک ایسی اصطلاح رکھی ہے جو اپنی ذات میں کامل ہے اور جس میں اس حقیقت کو واضح کردیا گیا ہے کہ کس عمل کو تم اچھا کہہ سکتے ہو اور کس کو برا۔ باقی مذاہب بنی نو انسان کو صرف اتنی تعلیم دیتے ہیں کہ تم اچھے اعمال بجالائو لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اچھے اعمال کی تعریف کیا ہے۔ اگر کسی سے پوچھا جائے کہ اچھے اعمال بتائو تو وہ فوراً کہہ دتیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اچھا عمل ہے، روزہ رکھا اچھا عمل ہے، غریبوں کی خدمت کرنا اچھا عمل ہے، صدقہ و خیرات دینا اچھا عمل ہے۔ حالانکہ یہ مکمل جواب نہیں۔ اسلام صرف نماز کو عمل صالح قرار نہیں دیتا۔ بلکہ اسلام کے نزدیک عمل صالح وہ عمل ہے جو مناسب حال ہو اور انسان کی روحانی یا جسمانی ضروریات کے مطابق ہو۔ مثلاً روزہ رکھناکتنی بڑی نیکی ہے مگر روزہ رکھنا بھی کبھی اچھا ہوتا ہے اور کبھی برا۔ جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص عید کے دن روزہ رکھتا ہے وہ شیطان ہے۔ اگر روزہ رکھنا ہر حالت میں عمل صالح ہوتا تو رسول کریم ﷺ یہ کیوں فرماتے کہ عید کے دن روزہ رکھنے والا شیطان ہوتا ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ روزہ اپنی ذات میں اچھا نہیں بلکہ اس وقت اچھا ہے جب خداتعالیٰ کا حکم اس کے متعلق موجود ہو۔ اسی طرح نماز بڑی اچھی چیز ہے مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جو شخص ایسی حالت میں نماز پڑھتا ہے جب سورج اس کے سر پر ہو یا سورج کے طلوع اور اس کے غروب ہوتے وقت نماز پڑھتا ہے وہ شیطان ہے۔ اگر نماز اپنی ذات میں عمل صالح ہوتا تو رسول کریم ﷺ طلوعِ آفتاب یا غروبِ آفتاب کے وقت نماز پڑھنے والے کو گنہگار کیوں قرار دیتے یا اس وقت جب سورج سر پر ہو جو شخص نماز پڑھے اسے شیطان کیوں قرار دیتے ۔ مگر یہ تو ایسے احکام ہیں جن کی حکمتیں سب کو معلوم نہیں ہوتیں۔ اتنی بات تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا ایک نبی دشمن کے مقابلہ میں کھڑا ہو۔ دشمن اپنے پورے زور سے حملہ کررہا ہو اور وہ نبی اور اس پر ایمان لانے والے دشمن کے حملہ کے دفاع میں مشغول ہوں تو ایسی حالت میں اگر کوئی شخص میدان جہاد کو چھوڑ کر ایک طرف مصلی بچھا کر نماز شروع کردے تو ہر شخص اسے دیکھ کر کہے گا کہ وہ شیطان ہے۔ اس وقت یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ شخص کتنا بڑانیک ہے مصلٰی بچھا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہا ہے اور اس سے رو رو کردعائیںکررہا ہے۔ بلکہ جو شخص بھی اسے دیکھے گا اسے منافق اور غدار قرار دے گا اورکہے گا کہ جو شخص جہاد کو چھوڑ کر ایک کونہ میں چھپ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہا ہے اور اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ دشمن کا حملہ کتنا شدید ہے یا مسلمانوں کو اس وقت کتنے بڑے مصائب کا سامنا ہے۔ وہ نمازی نہیں بلکہ اسلام کا دشمن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا ہے۔ اسی طرح روزہ بڑی اچھی چیز ہے مگر ایک دفعہ جبکہ ایک جہاد کے موقعہ پر بعض صحابہؓ نے روزے نہ رکھے اور بعض نے رکھ لئے۔ جنہوں نے روزے رکھے تھے وہ میدان میں پہنچ کر نڈھال ہوکر گرگئے اور جن کے روزے نہیں تھے وہ بڑی پھرتی سے جہاد کی تیاری کرنے لگ گئے۔ تو رسول کریم ﷺ نے یہ نظارہ دیکھ کر فرمایا آج روزہ داروں سے بے روزہ بڑھ گئے۔ اگر روزہ ہر حالت میں عمل صالح ہوتا تو رسول کریم ﷺ یہ کیوں فرماتے کہ آج روزہ داروں سے بے روزہ بڑ گئے۔ آپ کا روزہ داروں پر غیرروزہ داروں کو ترجیح دینا صاف بتاتا ہے کہ روزہ رکھنا بھی بعض حالات میں عمل صالح ہوتا ہے اوربعض حالات میں عمل غیرصالح۔ چونکہ جہاد میں طاقت اور ہمت کی ضرورت تھی اس لئے جن لوگوں نے اس دن روزہ نہ رکھا ان کو رسول کریم ﷺنے روزہ داروں سے زیادہ قابل تعریف سمجھا۔ غرض عمل صالح کے معنے ایسے عمل کے ہوتے ہیں جن میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پوری طرح ملحوظ رکھا گیا ہو۔ اگر ان حقوق کو ملحوظ نہ رکھا جائے توکوئی عمل عمل صالح نہیں کہلاسکتا خواہ بظاہر وہ کتنا اچھا نظر آتا ہو۔ دراصل اسلام یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ خالی عمل کوئی عمل نہیں بلکہ ہمیشہ کسی عمل کی خوبی یا اس کی برائی نسبتی طور پر دیکھی جاتی ہے۔ بسااوقات ایک عمل ایک قت میں اچھا ہوتا ہے لیکن دوسرے وقت میں برا ہوجاتا ہے۔ پس اس آیت میں عمل صالح کے معنی محض اچھے کام کے نہیں بلکہ ایسے کام کے ہیں جو نسبتی لحاظ سے بھی اچھا ہوا۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ ہر عمل جو تم کو اچھا نظر آتا ہو وہ کرو۔بلکہ اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ تم وہ کام کرو جو وقت کے لحاظ سے بھی مناسب ہو کیونکہ ہر عمل خواہ بظاہر کتنا اچھا نظر آتا ہو ایک دوسرے وقت میں برا بن جاتا ہے۔ مثلاً رحم کا مادہ ہے جب کسی شخص سے پوچھا جائے کہ بتائورحم کسی چیز ہے تو وہ فوراً کہہ دے گاکہ رحم سے بڑھ کر اور کونسی چیز ہوسکتی ہے یہ تو بڑی نیکی ہے۔ حالانکہ انسانی زندگی میں بعض اوقات ایسے بھی آجاتے ہیں جب رحم ایک خطرناک جرم بن جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی آنکھوں سے کسی چور کو سیندھ لگاتا دیکھے اور وہ خیال کرلے کہ مجھے اس پر رحم کرنا چاہئے اگر میں نے پولیس میں اطلاع دی یا اس کو خود ہی گرفتار کرلیا تو اس پر مقدمہ چلے گا اور یہ کئی سالوں کیلئے قید ہو جائے گا۔ اس کے بیوی بچے الگ پریشان ہوں گے او ریہ علیحدہ مصیبت میں مبتلا ہوگا۔ تو کوئی شخص اس فعل پر اس کی تعریف نہیں کرے گا۔ ہر شخص جو اس واقعہ کو سنے گا کہے گا کہ اس نے سخت برا کام کیا ہے اسے چاہئے تھا کہ چور کو فوراً گرفتار کرلیتا۔ اس کا رحم سے کام لینا اور چور کو گرفتار نہ کرنا خوبی نہیں بلکہ انتہا درجہ کا نقص اور عیب تھا۔ اب دیکھو رحم ایک وقت اچھی چیزوں میں شمار ہوتا ہے دوسرے وقت بری چیز بن جاتا ہے اور ہر شخص اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو قتل کرنے کیلئے جارہا ہو اور اس راز کا ایک تیسرے شخص کو بھی علم ہو مگر وہ پولیس میں اس جہ سے اطلاع نہ دے کہ اگر میں نے اطلاع دی تو وہ پکڑا جائے گا اور اس کے بیوی بچوں کو تکلیف ہوگی تویہ ہرگز رحم نہیں کہلائے گا۔ اسی طرح اور ہزاروںمواقع انسانی زندگی میں ایسے آتے ہیں جب بہتر سے بہتراور اچھے سے اچھا کام بھی برا بن جاتا ہے اور انسان کا فرض ہے کہ اس سے بچے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ عمل صالح کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور مومنوں کو ہدایت دی ہے کہ تم صرف ایسے کام نہ کر وجو بغیر نسبت کے تمہیں اچھے نظر آتے ہیں بلکہ تم وہ کام کیا کرو جو اردگرد کے حالات اور نسبت کے لحاظ سے بھی اچھے معلوم ہوتے ہوں۔ پس الا الذین امنوا وعملوا الصلحت کے معنے یہ ہیں کہ سب لوگ گھاٹے میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان لاتے اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں یعنی ایسے کام کرتے ہیں جو اضافی لحاظ سے اچھے ہوتے ہیں۔ یورپ کے لوگ اس بات پر بڑا فخر کیا کرتے ہیں کہ نظریۂ اضافت آئن سٹائن نے ایجاد کیا ہے۔ حالانکہ یہ وہ نظریہ ہے جو آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسی وجہ سے قرآن کریم میں ہر جگہ عمل صالح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنے نظریۂ اضافت کے ہی ہیں یعنی کام اپنی ذات کے لحاظ سے نہیں بلکہ اضافی لحاظ سے اچھے قرار پاتے ہیں۔ میں اوپر ایسے کاموں کی مثالیں پیش کرچکا ہوں جو بظاہر اچھے نظر آتے ہیں لیکن نسبتی لحاظ سے بعض دوسرے مقامات پر برے بن جاتے ہیں۔ اب میں ایک برے کام کی مثال پیش کرتا ہوں جو اضافی نقطہ نظر سے قابل تعریف قرار پاتا ہے۔ فرض کرو کسی شخص کا باپ ایک جگہ بیٹھا ہے اور سانپ اس کے جسم پر چڑھ رہاہے مگر اسے کوئی علم نہیں کہ میرے جسم پر سانپ چڑھا جارہا ہے۔ یہ نظارہ اس کا لڑکا دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر میں نے ذرا بھی غفلت کی تو سانپ میرے باپ کو ڈس لے گا۔ ایسی حالت میں اگر اس کے اند کچھ بھی عقل و شعور کا مادہ پایا جاتا ہو تو وہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کرے گا کہ زور سے ایک ڈنڈا اس سانپ کو مارے یا اگر جوتا اس کے پاس پڑا ہو تو اسی کو اٹھا کو اس سختی سے سانپ پر مارے کہ وہ مر جائے یا ڈر کر بھاگ جائے اور اسے کاٹنے کا موقع ہی نہ ملے۔ اب جہاں تک فعل کا سوال ہے یہی کہا جائے گاکہ اس نے اپنے باپ کوڈنڈا مارا یا جوتا اٹھا کر اس نے اپنے باپ کی طرف پھینکا۔ مگر جو شخص بھی اس واقعہ کو سنے گا یہ نہیں کہے گا کہ وہ بڑا نالائق اور خبیث تھا اس نے اپنے باپ کو جوتا مارا۔ بلکہ ہر شخص اس کی تعریف کرے گا اور کہے گا کہ وہ بڑا نیک اور سعادت مند بچہ تھا اس نے اپنے باپ کی حفاظت کی اور ایسی پھرتی سے کام لیا کہ سانپ کے ڈسنے کا موقع ہی نہ آیا اور وہ مرگیا یا ڈر کر بھاگ گیا۔ پس جس طرح اچھے کام بعض دفعہ اضافی لحاظ سے برے بن جاتے ہیں اسی طرح برے کام بعض دفعہ اضافی لحاظ سے اچھے بن جاتے ہیں۔ اور یہ وہ نظریہ ہے جسے آئن سٹائن نے نہیں بلکہ سب سے پہلے قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ قرآن کریم اس بات پر بار بار زور دیتا ہے کہ عمل وہی اچھا ہے جو صالح ہو اور جس میں تمام حالات کو مدنظر رکھ لیاگیا ہو۔ پس نظریہ اضافت عملو ا الصلحت میں بتادیا گیاہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ نیک عمل کرو۔ وہ کسی کا نام گڈ رایکشن رکھتے ہیں تو کسی کا نام بیڈ ایکشن۔ لیکن وہ اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ ایکشن اپنی ذات میں نہ کوئی اچھا ہے نہ برا۔ اگر کوئی ایکشن اچھا ہے تو نسبتی لحاظ سے اور اگر برا ہے تو نسبتی لحاظ سے۔ قتل کتنی بری چیز ہے لیکن لڑائی میں یہ کتنی اچھی چیز بن جاتا ہے۔ پس کوئی ایکشن اپنی ذات میںاچھا نہیں اور کوئی ایکشن اپنی ذات میں برا نہیں۔ صرف نسبت کے لحاظ سے ایک ایکشن اچھا بن جاتا ہے اور نسبت کے لحاظ سے ہی دوسرا ایکشن برا بن جاتا ہے۔ اور یہی معنے عملوا الصلحت کے ہیں یعنی مومنوں کو وہ اعمال صالحہ بجالانے چاہئیںجو اضافی طور پر اعلیٰ قرار دیئے جاسکیں (مگر یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ قرآن کریم اس اضافی نیکی کو بیان نہیں کرتا بلکہ انسان پر چھوڑ دیتا ہے تمام اضافی ضروری تفصیلات وہ خود بھی بیان کرتا ہے اور انتخاب کے اصول اس نے خود بیان کئے ہیں یا رسول کریم ﷺ کی زبان سے بیان کروائے گئے ہیں)۔
یہ امر پہلے بتایا جاچکا ہے کہ خسر کے معنے ضلالت کے بھی ہوتے ہیں۔گھاٹے کے بھی ہوتے ہیں اور تباہی اور بربادی کے بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ان تینوں معانی پر روشنی ڈالنے کے لیے(۱)ا لاا لذین امنوا (۲)وعملواالصا لحت(۳)وتواصوابالصبرمیںتین قسم کے لوگوں کا ہی استثنیٰ کیا ہے۔ فرماتا ہے وہ لوگ جن میںتین خاصیتیں پائی جائیں گی یعنی ان کے اندر ایمان بھی ہوگا ان کے اندر عمل صالح بھی ہوگا اور وہ تواصوابلحق و تواصوا با لصبرپر بھی عمل کرنے والے ہونگے وہ خسر سے محفوظ رہیں گے ۔ گویا خسر کے بھی تین ہی معنے تھے اور اس کے مقابل استثنیٰ بھی تین قسم کے لوگوںکا ہی کیا گیا ہے اور اس طرح ایک ایک بات کا رد ایک ایک بات میں کر دیا گیا ہے ۔ یعنی ایک قسم کا خسر ایک بات سے ،دوسری قسم کا خسر دوسری بات سے،اور تیسری قسم کا خسر تیسری بات سے رد کر دیا ہے۔یہ بناوٹ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ قرآن کریم لغت کے معا نی کو پوری طرح ملحوظ رکھتا ہے ۔ کیونکہ خسرکے بھی تین معنے تھے اور اس کے مقابل میں بھی تین باتیں ہی پیش کی گئی ہیں۔خسر کے پہلے معنی گمراہی اور ضلالت کے ہیںاس کے مقابل میں اللہ تعالی نے الا ا لذین امنواکو رکھا۔یہ بنانے کے لیے کہ اس وقت صرف مومنوں کی جماعت گمراہی سے محفوظ ہوگی کیونکہ وہ وقت کے مامور پر ایمان لانے والی ہوگی اور سب لوگ گمراہ اور صداقت سے دور ہوں گے۔پس گمراہی کے معنوں کو امنوانے رد کر دیا ۔دوسرے معنے خسر کے گھاٹے کے ہیں۔ اس کو رد کرنے اور لوگوںکو یہ بتانے کے لیے کہ گھاٹے سے بھی صرف مومنوں کی جماعت محفوظ ہوگی اللہ تعالی نے عملوا الصالحت کے الفاظ رکھ دئیے۔ گھاٹا آخر کیوں ہوتا ہے اسی لیے کہ انسان مناسب حال عمل نہیں کرتا ۔ اگر کوئی تاجر وقت پر کسی چیز کو خریدے گا نہیں۔ وقت پرکسی چیز کو بیچے گا نہیں تو یہ لازمی بات ہے کہ اس کو اپنی تجارت میں خسارہ ہوگالیکن اگر وہ عمل صا لح اختیار کرے گا یعنی اعمال صالح بجا لائے گا جو تجارت کے مناسب حال ہوںتو وہ گھا ٹے سے بچ جائے گا۔پس مناسب حال اعمال انسان کو گھاٹے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ چونکہ مومن مناسب حال اعمال بجا لائینگے اس لئے وہ گھاٹے سے بھی محفوظ رہیں گے۔
خسرکے تیسرے معنے ہلاکت اور بربادی کے ہیںاس کے مقابل اللہ تعالی نے وتواصوا با لحق وتوابالصبررکھ دیا کہ مومن نہ صرف گمراہی سے محفوظ ہوں گے نہ صرف گھاٹے سے محفوظ ہوں گے بلکہ توا صوا با لحق وتواصوا با لصبرکی وجہ سے وہ ہلاکت اور بربادی سے بھی محفوظ ہوں گے۔یہ صاف بات ہے کہ دنیا میں جب کوئی نئی صداقت آتی ہے لوگوں میں اس کی مخالفت شروع ہو جاتی ہے اور اکثر لوگ اس کو مٹانے کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ اور جب کسی اقلیت کو اکثریت کی مخالفت کا سامناہو۔حکومت اس کی مخالف ہو جائے، رعایا اس کی دشمن ہو جائے، تاجر اس کو مٹانے پر کمر بستہ ہو جائیں،صناع اس کی ہلاکت کے درپے ہو جائیں۔ اسی طرح عالم کیا اور جاہل کیا ، بڑے کیا اور چھوٹے کیا سب کے سب اس ارادہ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں کہ ہم اس کو کچل دیں گے تو ایسی حالت میںاس کے لیے تباہی سے بچنے کے دو ہی ذرائع ہوتے ہیں۔
اول: اس کے پاس ہلاکت سے بچنے کے مکمل سامان ہوں۔
دوم: ان سامانوں سے کام لیا جائے۔
سامان نہ ہوںتب بھی انسان ہلاکت سے نہیں بچ سکتا اور اگر سامانوں سے کام نہ لیا جائے تب بھی انسان بربادی سے محفوظ نہیں رہ سکتا ۔ پانی نہ ہو تب بھی انسان پیاسا مر جاتا ہے اور اگر پانی تو ہو مگر اس کو پیا نہ جائے تب بھی انسان مر جاتا ہے۔
پہلاذریعہ تو مومنوں کو حاصل ہوتا ہے وہ اللہ تعالی کے مامور پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کی عملی قوت نہایت اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ ایسے اعمال بجا لاتے ہیں جو موقع اور محل کے مناسب ہوں۔اور پھر اس کے ساتھ ہی ایک زائد بات یہ بھی ہوتی ہے کہ انہیں اپنی کامیابی کے متعلق خدا تعالی کا وعدہ نظر آرہا ہوتا ہے اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ دنیا خواہ کس قدر مخالفت کرے وہ ہمیں کبھی مٹا نہیں سکتی۔ پس جہاں تک ہلاکت سے محفوظ رہنے کے سامانوں کا سوال ہے وہ مومنوں کو پورے طور پر حاصل ہوتے ہیں۔ان کے اندر ایمان بھی ہوتا ہے ان کے اندر قوت عمل بھی ہوتی ہے اور انہیں اپنی کامیابی کے متعلق خدا تعالی کے وعدوں کی بناء پر کامل یقین بھی ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے بعد کامیابی کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ سامانوںسے کام لیا جائے۔وتواصوا بالحق وتوا صواا با لصبر میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ خالی عمل صالح انسان کے لیے کافی نہیں ہوتا بلکہ جب توا صوا با لحق وتوا صوا با لصبرکا مقام کسی قوم کو حاصل ہوتا ہے تب وہ ہلاکت سے بچا کرتی ہے اس کے بغیر نہیں۔
وتوا صوا با لحقکیا چیز ہے؟اس کے متعلق یہ ا مر یاد رکھناچاہیے کہ چونکہ حق کے ایک معنے صداقت کے بھی ہیں اس لیے وتوا صوا با لحق کے ایک معنے تو یہ ہونگے کہ مومن اصول صداقت پر خود بھی قائم ہونگے اور دوسروں کو بھی قائم کریں گے یعنی مومنوں کی یہ حالت ہو گی کہ ان میں سے ہر شخص نہ صرف خود صداقت کو قبول کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہے گا بلکہ دوسروں کو بھی نصیحت کرے گا کہ وہ ہمیشہ صداقت کو قبول کرنے کے لیے تیار رہا کریں۔ پہلی اور بڑی چیز جو کسی قوم کی ہلاکت کا باعث ہوتی ہے وہ غلط نظریوں پر اس قوم کا قائم ہو جانا ہے۔ جب کسی قوم کے سامنے غلط نظریے ہوگے لازماً وہ غلط نتائج ہر پہنچے گی اور غلط نتائج سے غلط اعمال ظاہر ہو نگے۔ پس تواصوا با لحق میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ قوم غلط نظریوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ ہاں جب کوئی سچی بات اس کے سامنے پیش ہو گی تو وہ اسے فوراً قبول کر لے گی۔ یہ امر انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ جس چیز سے کسی کو وابستگی ہو جائے وہ اس سے ہٹا نہیں کرتا ۔صرف صداقت کی جستجو کا احساس ہی اسے ان بندھنوں سے نجات دیا کرتا ہے۔ورنہ جب ایک لمبی عادت کسی غلطی کے متعلق قوم میں پائی جائے اور صداقت کی جستجو کا احساس اس کے قلب میں نہ رہے تو اس غلچی کو ترک کرنا لوگوں کے لیے سخت مشکل ہوتا ہے وہ سچائی پر اعتراض کرنے کے لیے تو تیار ہو جاتے ہیںمگر یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ اپنی غلطی کی اصلاح کریں۔
جب کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تو کئی لوگوں کے دلوں میں اس کے متعلق حسد پیدا ہو گیا مگرچونکہ وہ خود کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے تھے اس لیے انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کولمبس نے اگر امریکہ دریافت کر لیا ہے تو اس میں کونسی بڑی بات ہے یہ کام تا ہم میں سے ہر شخص کر سکتا تھا۔جو بھی جہاز میں سوار ہو کر نکل پڑتا آخر ایک دن اس نے امریکہ پہنچ ہی جانا تھا ۔ یہ کوئی ایسا کانامہ نہیں جسے سراہا جائے اور جس کے سر انجام دینے پر کولمبس کی تعریف کی جائے۔جب کالمبس کو معلوم ہوا کہ میرے متعلق بعض لوگ اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں ۔تو اس نے ایک پارٹی میں بہت سے لوگوں کو مدعو کیا اور اپنی جیب میں سے ایک انڈا نکال کر ان سے کہا کہ اسے میز پر کھڑا کر دو ۔سب ادھر ادھر دیکھنے لگے اور کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ انڈے کو میز پر کس طرھ کھڑا کیا جائے۔کولمبس نے سوئی نکالی ا ور انڈے میں سوراخ کرکے اس میں سے تھوڑا سا لعاب نکالا اور انڈے کو چپکا کر میز پر کھڑا کردیا۔ اس پر لوگ کہنے لگے کہ یہ کون سے بڑی بات تھی یہ تو ہم بھی کرسکتے تھے۔ کولمبس نے کہا میں نے سنا ہے کہ تم امریکہ کے متعلق یہ کہہ رہے ہو کہ اگر کولمبس نے اس کی دریافت کرلی ہے تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں۔ اگر ہمیں موقعہ ملتا تو ہم بھی دریافت کرلیتے۔ امریکہ دریافت کرنے کا تو تمہیں موقعہ نہیں ملا لیکن انڈے کو میز پر کھڑا کرنے کا تو تمہیں موقع مل گیا تھا پھر تم کیوں اس کو کھڑا نہ کرسکے۔ اصل بات یہ ہے ک صداقت کے اصول بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ سوال صرف کام کرنے اور صداقت سے وابستگی پیدا کرنے کا ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں سچائی کی تلاش کا جذبہ ہوتا ہے وہ معمولی معمولی باتوں سے بڑے بڑے اہم نتائج اخذ کرلیتے ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ سچائی ہمیں کہاں سے ملی ہے۔ وہ سچائی کی طرف ایک پیاسے کی طرح اُمڈ کر جاتے ہیںاور اپنے سابق خیالات کو فوراً ترک کردیتے ہیں لیکن جن لوگوں کے دلوں میں صداقت کا کوئی احساس نہیں ہوتا ان کے لئے اپنی غلطیوں کو چھوڑنا سخت مشکل ہوجاتا ہے۔
آخر یہ بھی کوئی مسئلہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرے نہیں بلکہ آسمان پر زندہ موجود ہیں۔ جب ساری دنیا آدم سے لے کر اب تک مرتی چلی آئی ہے تو یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام موت سے بچ جاتے اور وہ تمام بنی نوع انسان کے خلاف زندہ آسمان پر چلے جاتے مگر چونکہ مسلمان اس عقیدہ سے وابستہ ہوگئے ہیں اس لئے انہیں اس کو چھوڑنا ایک مصیبت معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح اور کئی قسم کے غلط مسائل ہیں جو زمانہ نبوت سے بُعد کی وجہ سے مسلمانوں میں رائج ہوچکے ہیں اور جن سے ادھر ادھر ہونا ان پر نہایت شاق گزرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ہمت سے کام لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لے آئے تو یہ طوق اور سلاسل ایک آن میں کٹ جاتے ہیں اور اسے کچھ بھی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ اور لوگوں کو تو یہ نظرآتا ہے کہ فلاں بات امام غزالیؒ نے کہی ہے ہم اسے کس طرح چھوڑ دیں۔ فلاں بات جنیدؒ نے کہی ہے ہم اسے کس طرح چھوڑ دیں ۔ فلاں بات سیدعبدالقادر جیلانیؒ نے کہی ہے ہم اسے کس طرح چھوڑ دیں۔ فلاں بات امام رازیؒ نے کہی ہے ہم اسے کس طرح چھوڑ دیں۔ فلاں مسئلہ امام ابوحنیفہؒ نے بیان کیا ہے ہم اسے کس طرح چھوڑ دیں۔ فلاں مسئلہ امام شافعیؒ نے بیان کیا ہے ہم اسے کس طرح چھوڑ دیں۔لیکن ایک احمدی جانتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک مامور پر ایمان لاچکا ہے اور خداتعالیٰ کی طرف سے کلام لانے والا محمد رسول اللہ ﷺ کا حکم میرے سامنے ہے جو کچھ وہ کہے گا وہ درست ہوگا اور جس بات کی وہ تردید کرے گا وہ غلط ہوگی۔ مجھے اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں کہ امام رازی یا امام غزالی یا امام ابوحنیفہ نے کیا کہا ہے میں نے تو یہ دیکھنا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺنے کیا کہا ہے اور مسیح موعود علیہ السلام نے خداتعالیٰ سے کیا ہدایت پائی ہے۔
غرض ہر قوم میں مختلف قسم کی غلطیاں پائی جاتی ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آتا ہے توپچھلے سارے تعلقات کٹ جاتے ہیں۔ آخر بڑے بڑے آدمی بھی تو غلطی کرسکتے ہیں۔ اگر ہزار مسائل وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے پیدا کرتے ہیں تو ایک دو مسئلوں میں ان سے غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں۔ مگر ایک ایک غلطی اکٹھی ہوتے ہوئے غلطیوں کا طومار بن جاتا ہے جس میں لوگ پھنس جاتے ہیں اور وہ حیران ہوتے ہیں کہ ہم اس دلدل میں سے کس طرح نکلیں گے اگر ہم نکلے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم اپنے بزرگوںکے خلاف قدم اٹھارہے ہیں۔ پس جب تک کوئی شخص نبی پر ایمان نہیں لاتا وہ کئی قسم کی مشکلات میں پھنسارہتا ہے۔ لیکن ادھر اسے نبوت پر ایمان نصیب ہوتا ہے اور ادھر یکدم اس کے تمام بوجھ اتر جاتے ہیں اور وہ رسیاں جنہوں نے اس کو جکڑا ہوتا ہے سب ایک ایک کرکے ٹوٹ جاتی ہیں۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو ایمان نصیب ہوتا ہے اس کے تمام گناہ دھل جاتے ہیں۔ اس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے کسی نبی پرایمان لاتا ہے اس کی پچھلی تمام روایتی قیود ختم ہوجاتی ہیں۔ وہ تمام رسیاں جن سے اس کا جوڑ جوڑ جکڑا ہوا ہوتا ہے کٹ جاتی ہیں اور وہ حریت اور آزادی کی فضا میں پہلی مرتبہ سانس لیتا ہے کیونکہ نبی کے ماننے والے اس اصل پر قائم ہوتے ہیں کہ جو سچی بات ہے اس کو ہم نے ماننا ہے اور جو غلط بات ہے اس کو ہم نے نہیں ماننا خواہ اسے کسی کی طرف سے پیش کیا جارہا ہو۔ گویا وہ طوق جنہوں نے اس کی گردن کو جھکایا ہوا ہوتا ہے اور وہ سلاسل جو اس کے پائوں میں پڑی ہوتی ہیں سب کٹ جاتی ہیں اور وہ سچائی کا علمبردار بن جاتا ہے۔ پس تواصوا بالحق کے پہلے معنے یہ ہی کہ مومن اصول صداقت پر خود بھی پوری طرح قائم ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(۲) حق کے ایک معنے جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے اللہ تعالیٰ کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے تواصو بالحق کے یہ معنے ہیں کہ مومن خداتعالیٰ سے خود بھی مخلصانہ تعلقات رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس سے مخلصانہ تعلقات پیدا کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ درحقیقت اقوام میں دیرینہ عادات کی وجہ سے آہستہ آہستہ خداتعالیٰ کا وجود بالکل غائب ہوجاتا ہے اور اس کی بجائے ایک نئی شکل پیداہوجاتی ہے جس کی وہ پرستش کرنے لگتے ہیں۔ آج دنیا میں جس قدر مذاہب پائے جاتے ہیں سب کی یہی حالت ہے۔ عیسائیت کو دیکھ لو ، ہند ومذہب کو دیکھ لو ۔ اَور مذاہب پر نظر ڈال لو۔ سب کی اصلی شکل تو مٹ چکی ہے لیکن قولی روایات نے ان کو ایک نئی شکل دے دی ہے جس کے وہ پرستار بنے ہوئے ہیں۔ یہ نئی شکل مذہب کی قائم کردہ نہیں ہوتی بلکہ قوم کے بگڑے ہوئے خیالات و تصورات کی قائم کردہ ہوتی ہے۔ جب دنیا میں اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی آتا ہے تو یہ سارے بت ایک ایک کرکے گر جاتے ہیں اور اصلی خدا لوگوں کے سامنے آجاتا ہے تب لوگ بت پرستی کے گڑھوں سے نکلتے اور اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی محبت کے میدان میں بڑھنے لگتے ہیں۔ پس تواصوا بالحق کے ایک معنے یہ ہیں کہ مومن اللہ تعالیٰ سے مخلصانہ تعلقات رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ تم حقیقی خدا کی پرستش کرواور اسی سے اپنے تعلقات بڑھائو۔ بتوں کی پرستش میں تم اپنا وقت ضائع مت کرو۔
(۳) حق کے تیسرے معنے عدل کے ہیں۔ اس لحاظ سے تواصوا بالحق کے معنے یہ ہیں کہ مومن خود بھی عدل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی عدل سے کام لینے کی نصیحت کرتے ہیں۔ درحقیقت ایک بڑی بھاری خرابی قومی روایات کی وجہ سے یہ پیدا ہوجاتی ہے کہ لوگ عدل و انصاف سے کام لینا ترک کردیتے ہیں۔ ہزاروں خاندان دنیا میںایسے پائے جاتے ہیں جو اپنی پرانی روایات پر جمے ہوئے ہیں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم میں سے فلاں نے یہ یہ خرابی کی مگر اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ ہم خاندانوں کے افراد کو چھوڑ نہیں سکتے ہم مجبور ہیں کہ ان کا ساتھ دیں اور اپنے خاندان کو دوسروں کے مقابلہ میں ذلیل نہ ہونے دیں۔ پس قدیم تعلقات کی وجہ سے عدل کی روح بالکل مٹ جاتی ہے لیکن جب نبی آتا ہے تو دنیامیں ایک انقلاب پیدا ہوجاتا ہے اور عدل و انصاف کی وہ روح جو پائوں تلے مسلی جارہی ہوتی ہے ازسرنو زندہ ہوجاتی ہے وہ لوگ جنہیں اس پر ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوتی ہے کہتے ہیںکہ ہم دنیا میں انصاف قائم کریں گے ۔ ہم مظلوم کو اس کا حق دلائیں گے۔ ہم ظالم کو اس کے کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔ ہم یہ کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ سرمایہ دارمزدور پر ظلم کرے یا امیر غریب کو لوٹنے کی کوشش کرے وہ عدل و انصاف کے پیکر ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ ہمیشہ عدل و انصاف سے کام لینا چاہئے۔
(۴) حق کے چوتھے معنے الیقین بعد الشک کے ہیں۔ اس لحاظ سے تواصوا بالحق کے یہ معنے ہوں گے کہ مومن شکوک و شبہات پر یا قیاس و تخمین پر اپنے ایمان کی بنیاد نہیں رکھتے بلکہ اپنے عقائد کی بنیاد یقین پر رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ تم خداتعالیٰ کے متعلق محض رسمی اعتقاد پیدانہ کرو بلکہ وہ ایمان پیدا کرو جو مشاہدہ پر مبنی ہوتا ہے ۔ درحقیقت یقین پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ نبی کا وجود ہی ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے اور وہ اپنی صداقت کے زندہ نشانات لوگوں کے سامنے پیش کرتاہے تو شکوک و شبہات بالکل مٹ جاتے ہیں اور قیاس و تخمین کی بجائے ایمان کی بنیاد مشاہدہ پر آجاتی ہے پس تواصوا بالحق کے معنے یہ ہیں کہ مومن خود بھی یقین پر قائم ہوتے ہیں اور دوسروں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ تم خداتعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پیدا کرو۔ رسمی ایمان تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا۔ آج مسلمانوں کی یہی کیفیت ہے کہ ان کے اندر اسلام اور رسول کریم ﷺ پر محض رسمی ایمان پایا جاتا ہے۔ وہ ایمان جس کی یقین پر بنیادیں ہوتی ہیں اور وہ ایمان جو مستحکم اور غیرمتزلزل ہوتا ہے اس کا وجود ان میں کلی طور پر مفقود ہے۔ بے شک وہ بظاہر اسلام کو سچا مذہب سمجھتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر بھی ایمان رکھتے ہیں لیکن اگر ان سے پوچھا جائے کہ تم اسلام کیوںمانتے ہو یا رسول کریم ﷺ کی رسالت پر کیوں ایمان رکھتے ہو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اسلام اور رسول کریم ﷺ کو محض اس لئے سچا مانتے ہیںکہ ان کے ماں باپ یہ عقیدہ رکھتے تھے یا اس لئے سچا مانتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے گھر پیداہو گئے ہیں ۔اس سے بڑھ کر ان کے پاس اپنے مذہب کی سچائی کاکوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ میں نے خود کئی تعلیم یافتہ لوگوں سے یہ سوال کرکے دیکھا ہے مگر مجھے ہمیشہ ان کی طرف سے مایوس کن جواب ملا ہے جو ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ آج مسلمانوں کے دلوں میں اپنے مذہب کی سچائی پر کوئی یقین نہیں وہ محض رسمی رنگ میں اسلام سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں ورنہ ان کے دل کے اندرونی گوشے یقین اور وثوق سے بالکل خالی ہیں۔ ایک بہت بڑے آدمی جو اس وقت ہندوستان میں چوٹی کے علمی مقام پر ہیں ان سے میں نے ایک دفعہ پوچھا کہ آپ رسول کریم ﷺ کوکیوں مانتے ہیں؟ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ میں کیوں رسول کریم ﷺ کو مانتا ہوں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اب مسلمانوں میں محض رسمی ایمان رہ گیا ہے اور وہ مذہب پر غور کرنے کے عادی نہیں رہے۔ اسی وجہ سے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا میں ماموریت کا اعلان فرمایا تو مسلمان آپ پر اعتراض کرنے لگ گئے ہیں کیونکہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ایک خیالی وجود کو مان رہے تھے۔ حقیقت ان کی نظروں سے پوشیدہ تھی۔ پس تواصوا بالحق کے معنے یہ ہیں کہ نبی کوماننے والے خود بھی یقین پر قائم ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی رسمی ایمان کے دائرہ سے نکال کر حقیقی ایمان کے دائرہ میں لانے کی کوشش کرتے ہیںاور چونکہ ان کو عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر بات کو سوچ سمجھ کر مانیں اندھی تقلید اختیار نہ کریں اس لئے وہ ہر بات کی حکمت کو معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں تو سمجھ کر پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں تو سمجھ کر رکھتے ہیں، حج کرتے ہیں تو سمجھ کر کرتے ہیں، چندہ دیتے ہیں تو سمجھ کر دیتے ہیں، صدقہ و خیرات میں حصہ لیتے ہیں تو سمجھ کر لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے کاموں میں بشاشت پائی جاتی ہے اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کا فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ ان کے کاموں کی بنیاد یقین پر ہوتی ہے تخمینہ اور قیاس پر نہیں۔
(۵) حق کے ایک معنے حزم اور احتیاط کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے وتواصوا بالحق کے یہ معنے ہیں کہ مومن حزم پر قائم ہوتے اور دوسروں کو بھی اس پر قائم کرتے ہیں۔ یہ خوبی بھی نبی پر ایمانلانے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے باقی تمام اقوام تہور کا شکار Desperate ہوکر اپنی طاقت کو بالکل کھو بیٹھتی ہیں لیکن نبی پر ایمان لانے والوں کے سامنے ایک بلند مقصد ہوتا ہے۔ دین کا جھنڈا اُن کے ہاتھ میں ہوتا ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری ان میں سے ایک ایک فرد پر عائد ہوتی ہے اور چونکہ وہ ایک بہت بڑی امانت کے حامل ہوتے ہیں۔اس لئے وہ اونچ نیچ کو دیکھتے ہوئے سنبھل سنبھل کر اپنے قدم بڑھاتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ وہ گر پڑیں اور جس جھنڈے کو انہوں نے فتح و کامرانی کے ساتھ دشمن کے مقام پر گاڑتا ہے وہ سرنگوں ہوجائے۔ لیکن دوسری قومیں صرف اتنا جانتی ہیں کہ ہمارا کام یہ ہوجائے کہ ہم مرجائیں یا ماردیں۔ اس وجہ سے وہ اندھا دھند حملہ کرتی اور اپنی طاقت کو ضائع کردیتی ہے۔ پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مومن اپنے ہر کام میں حزم و احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی ہمیشہ محتاط راہ پر چلنے کی تاکید کرتے ہیں۔
(۶) اسی طرح حق کے ایک معنے موت کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے وتواصوا بالحق کے یہ معنے ہیں کہ مومن خود بھی موت کو خوشی سے قبول کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ ڈرو نہیں اپنی جان اللہ تعالیٰ کے راستہ پر قربان کرو۔ گویا مومن جماعت قربانی اور ایثار کی مجسمہ ہوتی ہے اور موت کا ڈر اس کے دل کے کسی گوشہ میں بھی نہیں ہوتا۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیاں ہماری کامیابی کے متعلق موجود ہیں اگر ہم زندہ رہے تو فاتح ہوگئے اور اگر مرگئے تو اگلے جہان میں آرام سے زندگی بسر کریں گے۔ دونوں صورتوں میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ زندگی میں بھی فائدہ ہے اور موت میں بھی فائدہ ہے۔ زندہ رہے تو کامیابی یقینی ہے اور اگر مرگئے تواگلے جہاں میں ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے وارث ہوں گے۔ اس یقین کی وجہ سے جو دلیری مومنوں میں پائی جاتی ہے اس کاعشر عشیر بھی کسی اور قوم میں نہیں ہوتا۔ جب بدر کے میدان میں کفار ار مسلمان ایک دوسرے کے مقابل میں پہنچ گئے تو کفار نے ایک شخص کو یہ پتہ لگانے کیلئے بھیجاکہ مسلمان کتنے ہیں اور ان کے سازوسامان کاکیا حال ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ وہ آدمی نہایت ہوشیار تھا کیونکہ واپس جاکر اس نے کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ مسلمان تین سو سوا تین سو کے قریب ہیں اور یہ بات بالکل ٹھیک تھی کیونکہ مسلمان تین سو تیرہ تھے۔ مگر اس نے کہا اے میرے بھائیو! میرا مشورہ یہ ہے کہ تم لڑائی کا خیال بالکل چھوڑ دو کیونکہ میں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر آدمیوں کو نہیں بلکہ موتوں کو سوار دیکھا ہے۔یعنی ان میں سے ہر شخص کے چہرہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ آج اس نیت اور ارادہ کے ساتھ آیا ہے کہ میں زندہ واپس نہیں جائوں گا۔ اور جو قوم اس نیت اور ارادہ کے ساتھ میدان میں آئے اس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔یہی تواصوا بالحق کے معنے ہیں کہ مومن نڈر اور بہادر ہوتے ہیں وہ موت سے نہیں ڈرتے بلکہ خوشی سے اس کو قبول کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ تم موت سے مت ڈرو گویا تواصوا بالحق میں مومنوں کے ایمان اور یقین کی طرف اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ انہیں صداقت پر اتنا کامل یقین ہوتا ہے کہ بجائے اس کے کہ موت کو برا سمجھیں اسے اپنے لئے خوشخبری سمجھتے ہیں اور نہ صرف خود موت کیلئے تیار رہتے ہیں بلکہ اپنے ساتھیوں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر تم کامیابی چاہتے ہو تو موت کیلئے تیار رہا کرو۔
پھر فرماتا ہے وتواصوا بالصبر مومنوں کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ خود بھی صبر کرتے اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ صبر کے معنے یہ ہیں کہ ان کے اندر مظالم کو برداشت کرنے کی طاقت ہوتی ہے۔ اسی طرح صبر کے ایک معنے استقلال کے بھی ہیں گویا مومنوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی سچائی کو قبول کرتے ہیں تو اس کے بعد انہیں اس بات کی کچھ پروا نہیںہوتی کہ دشمن انہیں مصائب میں مبتلا کرتا ہے یا ان پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ بڑی ہمت کے ساتھ تمام مشکلات کوبرداشت کرتے ہیں اسی طرح نیکیوں پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں۔ یعنی استقلال کا مادہ ان میں پایا جاتا ہے اور وہ دوسروں کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیںکہ تمہیں اپنے اندر استقلال اور مصائب کو برداشت کرنے کا مادہ پید اکرناچاہئے۔
ان آیات سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ مومن کا مذہب قومی مذہب ہوتا ہے اس کی نیک خواہشات صرف اپنی ذات تک محدود نہیںہوتیں بلکہ تمام بنی نوع انسان تک وسیع ہوتی ہیں۔ وہ ایک عالمگیر مواخات کا زبردست حامی ہوتا ہے اور تمام چھوٹوں اور بڑں کو ایک سلسلہ میں منسلک کرنا چاہتا ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ کہ صرف میں نیک بنوں بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ میرا ساتھی بھی نیک ہو اور دنیا میں صلح اور آشتی کی بنیاد ایسی مضبوط ہو کہ کوئی زلزلہ اس کو جنبش میں نہ لاسکے۔ یہی باتیں ہیں جو دنیا میں قوموں کو ہلاکت سے بچایا کرتی ہیں۔ جس قوم کے افراد میں یہ باتیں پائی جائیں اس قوم کو کوئی ہلاک نہیں کرسکتاخواہ اس کے دس افرا دہوں، سو ہوں، ہزار ہوں، دس ہزار ہوں وہ بہرحال غالب آتی اور دنیا میں قائم رہتی ہے۔ پس فرماتا ہے والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین امنوا و عملوا الصلحت وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر۔ ہم زمانہ نبوت کو یا دہر کو یا رسول کریم ﷺ کے آخری زمانہ کو اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ چونکہ یہ تین صفتیں مومنوں کے اندر پائی جائیں گی اس لئے وہ یقینا جیت جائیں گے اور چونکہ یہ تین صفتیں ان کے دشمنوں کے اندر نہیں پائی جائیں گی اس لئے وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ضرور ہاریں گے۔
سورۃ الھمزۃ مکیۃ
سورئہ ہمزہ ۔ یہ مکی سورۃ ہے
وھی تسع ایات دون بسملۃ و فیھا رکوع واحد
اس کی بسم ا للہ کے سوا نو آیات ہیں اور ایک رکوع ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیمO
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے(شروع کرتا ہوں)
ویل لکل ھمزۃ لمزۃ O
ہر غیبت کرنے والے (اور) عیب چینی کرنے والے کیلئے عذاب (ہی عذاب) ہے۔
سورۃ ہمزہ اکثر مفسرین کے نزدیک مکی ہے ۔ مستشرقین یورپ بھی اسے ابتدائی مکی سورتوں میں سے قرار دیتے ہیں ۔ اس سورۃ میں زمانہ رسالت کے لوگوں کا حال بتایا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دکھ دیتے تھے اور اپنے اموال پر مغرور تھے۔ ھمزو لمز کے معنے عیب چینی اور غیبت کے بھی ہوتے ہیںاور دکھ اور تکلیف دینے کے بھی ہوتے ہیں اور یہ دونوں معنی یہاں چسپاں ہوتے ہیں۔یعنی وہ دکھ بھی دیتے تھے اور عیب چینی اور غیبت بھی کرتے تھے۔ پھر اس سورۃمیں یہ بتایا گیا ہے کہ باوجود اہل مکہ کے مالدار ہونے کے اور باوجوداپنے اموال پر فخر کرنے کے اور باوجود اس کے کہ وہ مسلمانوں کو حقیر سمجھتے تھے ان کی طرف کئی قسم کے عیوب منسوب کرتے تھے اور ان کی غیبتیں کیا کرتے تھے پھر بھی وہ لوگ ایک ایسے دکھ میں مبتلا ہو جائیں گے اور ایک ایسے عذاب سے پکڑے جائیں گے کہ ان کے دلوں کا چین بالکل اڑ جائے گا اور وہ ہلاک اوربرباد ہو جائیں گے۔
ترتیب: اس سورت کا پہلی سورۃ سے تعلق اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے ۔یعنی یہ سورتیںیکے بعد دیگر ے باری باری اسلام کے ابتدای دور اوراآخریددور کے متعلق آرہی ہیں پہلی سورۃ یعنی والعصر کا تعلق زیادہ تر آخری دور کے ساتھ ہے ۔اب اس سورۃ میںاسلام کے پہلے دور کا ذکر کیا گیا ہے۔ در حقیقت یہ چھوٹی چھوٹی سورتیں جو قرآن کریم کے آخر میں ترتیب مستقل کے طور رکھی گئی ہیںترتیب نزول کے مطابق ابتدائے اسلام میں نازل ہوئی تھیں سوائے چند ایک کے جو بعد از ہجرت نازل ہوئیں۔ ان سورتوں میں رسول کریم ﷺ کی بعثت کے دونوں دوروں کامتوازی ذکر کیا گیا ہے مگر جیسا کہ قرآن کریم کا اسلوب ہے یہ ذکر اس طرح ہے کہ اس زمانہ کے لوگ آخری دور والی سورتوں سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اور دور اول والی سو ر توں سے آج کل کے لوگ بھی برابر کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔یہ قرآن کریم کا عظیم الشان معجزہ ہے کہ جس وقت اسلام صرف چند افراد پر مشتمل تھا اسی وقت اس کی ترقی کے بعد تنزل اور اسکے تنزل کے بعد کی ترقیات کا کیا جا رہا تھا اسقدر عظیم الشان علم غیب اور کسی کتاب مین نہیں پایا جا سکتا ۔گویا اللہ تعالی کے اظہار علی الغیب کا کمال قرآن کریم میںاپنی مکمل شکل میںظاہر ہوا ہے۔
حل لغات: ویل۔عذاب کے نازل ہونے یاہلاکت کے نازل ہونیکے معنوں میں آتا ہے یعنی اس بات کے بتانے کے لئے جس شخص کے متعلق یہ لفظ بولا جاتا ہے اسکو اپنے مال یا عزت یا راحت و چین کے بارہ میں کوئی تکلیف پہنچے گی ۔گویا وہ تمام چیزیں جن کو انسان اچھا سمجھتا ہے یا جن کو اپنی عزت اور آرام کا موجب سمجھتا ہے اور جن کے ضائع ہونے پر وہ افسوس کا اظہار کرتا ہے ان کے کھوئے جانے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہو تو ویلکا لفظ استعمال کیا جاتا ہے پس ویل لکل ھمزٰۃ لمزۃ کے معنے یہ ہوئے کہ عذاب آنے والا ہے ہر ھمزہ اور لمزہ پر یا اپنی عزت کی چیزیںاور راحت وآرام کی چیزیں ہمزہ اور لمزہ کھونے والا ہے ۔ یہ لفظ جب کسی کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ وہ اس عذاب اور ہلاکت کا مستحق ہی ہے یونہی اتفاقی یا ظلما اس کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوا مثلا اگر کسی شخص پر ظلما کوئی ایذاء وارد ہو تو اس کے بارہ میں یہ نہ کہیںگے کہ ویل۔
ھمزہ اور لمزہ عربی زبان کے لحاظ سے ایک ہی معنے رکھتے ہیں کیونکہ م اور ز ان دونوں میں پائے جاتے ہیں۔اور عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ حروف بھی معنوں پر دلالت کرتے ہیںاور جب ایک قسم کے حروف ہوں تو ان کے معنوں میں اشتراک پایا جاتاہے۔ان دونوں لفظوں میں م ز مشترک ہیںصرف فرق یہ ہے کہ ایک سے پہلے ہ ہے اور ایک سے پہلے ل آخری دونوں حروف دونوں لفظوں میں مشترک ہیںجس کے یہ معنے ہیں کہ ان کے معنوں میں شدید اتصال ہونا چاہیے۔چنانچہ ایسا ہی ہے اور دونوں کے معنے بہت حد تک مشترک ہیں۔ چنا نچہ لغت میں لکھا ہے ھمزہ ھمزا: غمزہ۔یعنی اس کو اشارہ کیا نخسہ۔ اس کو انگلی ماری۔دفعہ اسکو دھکا دیا۔ضربہ۔اس کو مارا ۔عضہ اس کو کاٹا۔ اغتا بہ اس کی غیبت کی۔کسرہاس کو توڑ دیا۔ھمزا لشیطان الانسان۔ھمس فی قلبہ وسواسا۔شیطان نے انسان کے دل میںوسوسہ ڈالا۔ھمز بہ الارض: صر عہاس کو زمین پر دے مارا ۔ھمز ا لفرس؛نھسہ با لمہماز لیعدو۔گھوڑے کو ایڑ لگائی تا کہ وہ تیزی سے دوڑیھمزا لعنب ۔عصرہ۔انگوروں کو نچوڑا (اقرب)
الغرض ھمز کے معنے آنکھ مارنے کے بھی ہیں۔انگلی مارنے کے بھی ہیں۔دھکا دینے کے بھی ہیں۔کاٹنے کے بھی ہیں۔ پیٹنے کے بھی ہیں۔اسی طرح ھمز کے معنے غیبت کے بھی ہیں۔زمین پر اٹھا کر دے مارنے کے بھی ہیں۔ گھوڑے کو ایڑ مارنے کے بھی ہیںاور کسی چیز کو نچوڑنے کے بھی ہیں۔
لمز(یلمز لمزا)کے معنے ہیںعابہاس پر عیب لگا یا اور اس کے معنیا شارالیہ بعینہ و نحوھا مع کلام خفی کے بھی ہیں(اقرب)یعنی جب مجلس میں لوگ بیٹھے ہوںاور کوئی ایسا شخص آجائے جسے ذلیل سمجھا جاتا ہو تو وہ لوگ جو آپس میںگہرے دوست ہوتے ہیںاس کی طرف آنکھ سے اشارہ کرتے ہیںجس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لو جی فلاں شخص بھی ہماری مجلس کو خراب کرنے کے لئے آگیاہے۔مگر لمز اس وقت آنکھ سے اشارہ کرنے کو کہتے ہیںجب اشارہ کے ساتھ کوئی بات بھی آہستگی سے کہی جائے مثلا آنکھ سے اشارہ کیا اور سا تھ ہی کہہ دیا کہ’’تشریف لے آئے ہیں‘‘ مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ہماری مجلس کو خراب کرنے کے لئے آ گیا ہے۔ گو الفاظ یہ استعمال کئے جاتے ہیںکہ’’تشریف لے آئے ہیں‘‘۔پس لمز کا لفظ اسوقت استعمال کرتے ہیںجب اشارہ کے ساتھ بعض الفاظ بھی کہے جائیں۔ اسی طرح اس کے معنے دھکا دینے کے بھی ہیں۔مارنے کے بھی ہیں اور عیب چینی کے بھی ہیںخصوصا اس عیب چینی کے جو کسی کے سامنے کی جائے۔
ان معنوں سے پتہ لگتا ہے کہھمزہ اور لمزہ کے معنوں میں شدید اشتراک پایا جاتا ہے دونوں کے معنے مارنے کے بھی ہیں۔ دونوںکے معنے دھکا دینے کے بھی ہیںاور دونوں کے معنے عیب چینی کے بھی ہیں۔ لیکن ھمز میںاس عیب چینی کی طر ف اشارہ ہوتا ہے جو غیبت کا رنگ رکھتی ہو یعنی کسی کی پیٹھ پیچھے کی جائے۔ پھر ھمز میں توڑنے کے معنے بھی شامل ہیں۔اس لحاظ سے وہ حرکت جو ہاتھ یا سر سے اس طرح کی جائے جس طرح کوئی چیز ٹوٹ کر نیچے گرتی ہے مثلا ہاتھ کو جھٹکا دے دیا جائے یا گردن کو خاص طریق پر حرکت دی جائے تو اس کے لئے بھی ھمز کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
جہاںتک مارنے اور دھکا دینے کا سوال ہے یہ معنے ھمز اور لمز دونوں میں پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح عیب چینی کے معنے بھی دونوں میں پائے جاتے ہیںلیکن ھمز میں اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ منہ پر عیب چینی کی جائے پھر ھمز کے ایک زائد معنے نچوڑنے کے بھی ہیں۔
تفسیر: مفسرین میں حتی کہ صحابہؓ اور تا بعین میں بھی اس آیت کے متعلق کثیر اختلاف پایا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوںالفاظ لغت میںقریبا ہم معنی ہیں۔ کسی نے ھمز کے معنے عیب چینی کے کئے ہیں اور لمز کے معنے غیبت کے کئے ہیںاور کسی نے لمز کے معنے عیب چینی کے کئے ہیںاور ھمز کے معنے غیبت کے کئے ہیں۔ لیکن اس اختلاف کی اصل وجہ وہی ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے کہ یہ دونوں لفظ قریب المعنی ہیںاور اس وجہ سے مختلف لوگوں کو ان کے معنے کرنے میںشبہ واقع ہو گیا ہے چونکہ یہ دونوں الفاظ قریب المعنی تھے وہ پورے طور پر یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ اس آیت میں ھمز کن معنوں میں استعمال ہوا ہے اور لمز کن معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لغت کی تدوین بعد کے زمانہ میں ہوئی ہے ۔جب کسی علمی زبان کا دنیا میں رواج شروع ہوتا ہے اسی وقت اس کی لغت مکمل نہیں ہو جاتی بلکہ آہستہ آہستہ لغت کی کتابیں مدون ہونی شروع ہوتی ہیں تب لوگ کسی صحیح نتیجہ پر پہنچتے ہیںاس سے پہلے نہیں۔اسی وجہ سے جہاں تک لغت کا سوال ہے ابتدائی زمانہ کے مفسرین کے معنے ایسی تعین نہیں کرتے جیسی تعین بعد کے مفسرین کرتے ہیںکیونکہ بعد میں آنے والے مفسرین کو لغت کی مکمل کتا بیں مل گئیں جو پہلے موجود نہیں تھیں۔ مثلا ہمارے زمانہ میں تاج ا لعروس موجود ہے ۔لسان العرب موجود ہے اور لغت کی یہ دونوں کتا بیں اپنے اندر بہت وسیع معلومات رکھتی ہیں اور ان میں بڑی بڑی باریکیاں بیان ہیں۔لیکن تاج العروس آج سے تین سو سال پہلے لکھی گئی تھی اور لسان العرب آج سے چھ سات سو سال پہلے لکھی گئی تھی۔اس سے قبل ایک لمبا عرصہ ایسا گذرا ہے جس میں لغت کی کتابیں مدون نہیں تھیں۔گو عربی زبام کا ایک بہت بڑا کمال ہے کہ تھوڑے عرصہ میں ہی اس نے اپنی لغت کو عروج تک پہنچا دیا ۔ پھر بھی میرے نزدیک ابھی اس میں ترقی کی گنجائش ہے اور یہ لغت زیادہ بہتر طور پر مکمل ہو سکتی ہے کیونکہ آئمہ لغت نے بعض جگہ سیر کن بحثیں نہیں کیں۔ لیکن پھر بھی ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ اس قدر عظیم الشان علمی ذخیرہ ہے کہ انگریز مصنف لین پول ایک جگہ عربی لغت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ کاش ہماری زبان کی کوئی ایسی لغت ہوتی جیسی عربی زبان کی ہے ۔ گو اس فقرہ کے ذریعہ اس نے تسلیم کیا ہے کہ عربی زبان کی لغت مکمل ہے مگر میرا خیال ہے جس رنگ میں ہم لغت کی تحقیق و تد قیق کرتے ہیں اور جس قسم کی تحقیق کی قرآن کریم کی تفسیر کے لئے ہمیں ضرورت پیش آتی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ابھی اور زیادہ لغت کی تحقیق کی ضرورت ہے ۔ پرانی لغتوں میںایک خفیف سا نقص یہ پایا جاتا ہے کہ بعض جگہ مفسرین کے اقوال کو بھی لغت میں شامل کر لیا گیا ہے۔اگر اس نقص کو دور کر دیا جائے اور لغت کی حکمت کو واضح کیا جائے تو عربی زبان کی ایک ایسی لغت مکمل ہو جائے گی جس کی مثال دنیا کی اور کسی زبان میں نہیں مل سکے گی ۔
بہر حال جب دو قریب المعنیٰ الفاظ آجائیںتو ان دونوں کا آپس میںجو اختلاف ہوتا ہے صرف اس کو لیا جاتا ہے ۔ کیونکہ بلاغت کا یہ قاعدہ ہے کہ جب دو لفظ بولے جائیں اور وہ دونوں آپس میں مشترک معنے رکھتے ہوں تو دوسرے لفظ کے صرف وہ معنے لینے چاہئییں جن میں اس کا پہلے سے اختلاف پایا جاتاہو۔ یہ امر ظاہر ہے کہ مشترک معنوں کے لئے دو لفظوں کی ضرورت نہیں ہو سکتی ایک لفظ بھی پورا کام دے سکتا ہے۔ پس جب دو لفظ اکٹھے استعمال ہوں اور دونوں قریب المعنیٰ ہوں تو ہمیشہ دوسرے لفظ کے وہ معنے لئے جاتے ہیں جن میں وہ پہلے سے مختلف ہو۔ اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے دو صوتیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ ھمز کو مار پیٹ کے معنوں میں لیا جائے کیونکہ ھمز میں ماریا جسمانی ضرب کے معنے زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ اصل میں ھمز کے معنے کسر یعنی توڑنے کے ہوتے ہیں پس چونکہ اس کے اصل معنے توڑنے کے ہیں اس لئے ھمز میں مارنے پیٹنے کے معنے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ پس ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم ھمز کے معنے مارنے پیٹنے کے لیں اور لمز کے دوسرے معنے لے لیں یعنی عیب چینی وغیرہ کے۔ اور دسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ھمز ہم غیبت کے کر لیں اور لمز کے معنے عیب چینی کے کئے جائیں۔ یہ فرق میں نے کیوں کیا ہے؟ یعنی میں کیوں کہتا ہوں کہ ھمز کے معنے مارنے پیٹنے کے ہیں اور لمز کے معنے عیب چینی کے ہیں یا ھمز کے معنے غیبت کے ہیں اور لمز کے معنے عیب چینی کے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فصیح کلام میں ہمیشہ تدریج پائی جاتی ہے اور یہ تدریج کبھی اقسام کے لحاظ کے سے ہوتی ہے اور کبھی ڈگری کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ مثلاََ ایک ادیب شخص اگر کسی کے متعلق یہ بیان کرنا چاہے گا کہ وہ کافی بوجھ اٹھا سکتا ہے تو وہ کہے گا کہ فلاں شخص ایک من بوجھ اٹھا سکتا ہے بلکہ دو من بھی اٹھا سکتا ہے۔لیکن جو ادیب نہیں وہ کہے گا کہ فلاں شخص دو من بوجھ اٹھا سکتا ہے بلکہ ایک من بھی اٹھا سکتا ہے۔ ہر شخص جو اس فقرہ کو سنے گا یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ یہ فقرہ فصاحت سے گرا ہوا ہے کیونکہ جب اس نے یہ کہہ دیا تھا کہ فلاں شخص د و من بوجھ اٹھا سکتا ہے تو اسے علیحدہ طور پر یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ ایک من بوجھ بھی اٹھا سکتا ہے کیونکہ ایک من بوجھ دومن بوجھ میں شامل تھا۔ اسی طرح کوئی سمجھدار انسان یہ کہے گا کہ فلاں شخص بڑا کام بھی کرسکتا ہے اور چھوٹابھی۔ یا ایم اے پاس بھی ہے اور بی اے بھی ۔ ہاں یہ ضرور کہے گا کہ فلاں شخص بی اے پاس ہے بلکہ ایم اے بھی پاس ہے یا فلاں بات کرنے کی مقدرت رکھتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر فلاں بات کے کرنے کی بھی اس میں اہلیت پائی جاتی ہے۔ یا ادیب ہی بلکہ شاعر بھی ہے ۔ مگر پہلے بڑی بات بیان کی جائے اور پھر چھوٹی ۔ یہ فصیح کلام کے بالکل منافی ہوتاہے۔ ا س نقطئہ نگاہ کے ماتحت اگر ھمز ولمز میں سے ایک کے معنے ہم غیبت کے کرلیں اور دوسرے کے معنے منہ پر عیب چینی کے کرلئے جائیں تو یہ بالکل درست ہونگے کیونکہ ان معنی میں تدریج پائی جائے گی جو ہر فصیح کلام کی ایک ممتاز خوبی ہوتی ہے۔ جو شخص غیبت کرنے کا عادی ہوتا ہے اس میں بہادری نہیں ہوتی۔ کچھ نہ کچھ ڈر اس کی طبیعت میں پایا جاتا ہے۔ گو عیب چینی کرنے کے لحاظ سے دونوں گنہگار ہوتے ہیں وہ شخص بھی گناہ کرتا ہے جو کسی کی پیٹھ پیچھے عیب چینی کرتا ہے اور وہ شخص بھی گناہ کرتا ہے جو کسی کے منہ پر اس کے عیوب بیان کرنے شروع کردیتا ہے لیکن باوجود اس کے کہ وہ دونوں گنہگار ہوتے ہیں پھر بھی ان میں ایک فرق پایا جاتا ہے ۔ جس شخص میں بزدلی زیادہ ہوتی ہے وہ پیٹھ کے پیچھے عیب بیان کرتا ہے اور جو شخص شرارت میں بڑھ جاتا ہے وہ پیٹھ پیچھے بھی عیب چینی کرتاہے اور سامنے بھی کسی کا عیب بیان کرنے سے باز نہیں آتا ۔ اس لحاظ سے ھمز اور لمز دونوں کے معنی میں ایک تدریج پائی جائے گی۔ ھمز سے وہ شخص مراد ہوگا جو غیبت کرتا ہے اور لمز سے وہ شخص مراد ہوگاجو غیبت ہی نہیں کرتا بلکہ منہ پر بھی گالیاں دینے لگ جا تا ہے۔
دوسری صورت میں نے یہ بتای تھی کہ کبھی اقسام کے لحاظ سے بھی کلام میںتدریج پائی جاتی ہے ۔ مگر اقسام سے میری مرادظاہری قسمیںنہیںبلکہ وہ قسمیںہیںجنکی علم ا لنفس پر بنیاد ہوتی ہے۔مثلاََ مار پیٹ بظاہر اعتراض کرنے سے زیادہ سخت نظر آتی ہے لیکن دوسری طرف ہمیںیہ بھی نظر آتا ہے کہ بعض دفعہ غصہ میں آکر انسان مار تو بیٹھتا ہے اور دوسرے کو برا بھلا بھی کہہ دیتا ہے لیکن سچائی کا انکار کرنا اس کے لئے بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ اب بظاہر سچائی کا انکار کم نظر آتاہے اور مارپیٹ زیادہ سخت چیز دکھائی دیتی ہے لیکن علم النفس کے تحت مارپیٹ کم درجہ رکھتی ہے اور سچائی کا انکار بڑی خطرناک چیز ہے ۔ مارنے کو تو مائیں بھی اپنے بچوں کو مارلیتی ہیں۔ باپ بھی اپنے بچوں کو مارلیتے ہیں۔ استاد بھی اپنے شاگردوں کو مارلیتے ہیں لیکن اگر انہی کو پوچھا جائے کہ بتائو تمہاری مارپیٹ زیادہ سخت ہے یا بچوں کا جھوٹ بولنا یا کسی ار برائی میں ان کا ملوث ہونا زیادہ خطرناک ہے؟تو ہر شخص کہے گا کہ مارپیٹ اخلاقی خرابیوں کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی۔ اس تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ویل لکل ھمزۃ لمزۃ میں ھمز کے معنے مارپیٹ کے لئے جائیں ا ور لمز کے معنے عیب چینی کے ہوں گے یعنی وہ لوگ نہ صرف مارتے پیٹتے ہیں بلکہ یہاں تک ان کی نوبت پہنچ چکی ہے کہ جن امور کی صداقت ان پر واضح ہوچکی ہے ان کا بھی انکار کرتے ہیں یعنی وہ تمام حسن جو محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہؓ میں پایا جاتا ہے۔ وہ تمام خوبیاں جو اللہ تعالیٰ نے اسلام میں پیدا فرمائی ہیں اور وہ تمام بھلائیاں جو اسلامی تعلیم میںرکھی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک ایک حسن اور ایک ایک خوبی اور ایک ایک بھلائی کا وہ بڑی سختی سے انکار کررہے ہیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ سچی باتیں کہتے ہیں تو ان کو جھوٹا قرار دیا جاتا ہے۔ وہ انصاف قائم کرتے ہیں تو ان کو ظالم کہا جاتا ہے۔ وہ امن قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو فسادی بتایا جاتا ہے ۔ غرض کوئی خوبی اور بھلائی ایسی نہیں جس کا کفار کی طرف سے انکار نہ کیا جارہا ہو اور یہ حالت یقینا ایسی ہے جو پہلی حالت سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ مارپیٹ میں تو صرف غصہ کا اظہار ہوتا ہے لیکن کسی سچائی کا انکار یا طعنہ زنی یا دوسروں کی تحقیر و تذلیل کا ارتکاب ایسے امور ہیں جو اخلاق اور روحانیت کے کلی فقدان پر دلالت کرتے ہیں اور جن کے اثرات بہت دیرپا ہوتے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تلوار کے زخم مندمل ہوجاتے ہیں مگر وہ زخم جو زبان کی چھری دوسروں کے قلب پر پید اکرتی ہے کبھی مندمل نہیں ہوتے۔ غرض مارپیٹ کی نسبت طعنہ زنی اور تحقیر و تذلیل کے کلمات جو دوسروں کے متعلق استعمال کئے جائیں بہت زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ پس ھمز کے معنے مارنے پیٹنے کے ہیں اور لمز کے معنے تحقیر و تذلیل اور سچائیوں کا انکار کرنے کے ہیں۔ بظاہر مارپیٹ زیادہ سخت نظر آتی ہے لیکن علم النفس کے ماتحت مارپیٹ کم درجہ رکھتی ہے اور سچائی کا انکار زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ یہی حکمت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ھمز کو پہلے رکھا اور لمز جس میں اخلاقی برائی زیادہ تھی اس کا بعدمیں بیان کیا۔ لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یونہی ھمز کو پہلے رکھ دیا ہے اور لمز کو بعد میں۔ حالانکہ ھمز کو پہلے ہی رکھنا چاہئے تھا اور لمز کو بعد میں ہی رکھنا چاہئے تھا۔ اگر لمز کو پہلے اور ھمز کو بعد میں رکھا جاتا تو کلام اپنی فصاحت کھو بیٹھتا ۔ یہ قرآن کریم کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے کہ اس نے جہاں بھی کسی لفظ کو استعمال کیا موقع اور محل کو مدنظر رکھتے ہوئے استعمال کیا گیا ہے۔ اگر اس لفظ کو ذرا بھی ادھر ادھر کردیا جائے تو بہت بڑا نقص واقع ہوجاتا ہے۔
اس سورۃ میں گو رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے لوگوں کا خصوصیت سے ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اس ایک عام قاعدہ کا بھی استنباط ہوتا ہے ۔ قرآن کریم کا یہ طریق ہے کہ وہ ایسے رنگ میں بات کرتا ہے کہ ہر زمانے کے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور کسی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا نہ ہو کہ یہ بات میرے متعلق نہیں بلکہ کسی گذشتہ زمانہ کے لوگوں کے متعلق ہے ۔ بعض نے لکھا ہے کہ ھمز اور لمزمیں مغیرہ ،عاص بن وائل اور شریک کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ چونکہ یہ لوگ اسلام کے خلاف ہمیشہ ناجائز حرکات کیا کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے ذریعہ ان کو انتباہ فرمادیا اگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان پر عذاب نازل کردیا جائے گا۔ مگر میرے نزدیک کوئی وجہ نہیں کہ اس سورۃ کے وسیع مضمون کو اس طرح محدود کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر یہ سورت محض مغیرہ کے کسی فعل کی وجہ سے نازل ہوئی تھی یا صرف عاص بن وائل کواس میں مخاطب کیا گیا تھا یا صرف شریک کا اس میںذکر تھاتو اللہ تعا لیٰ یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ ویل لعاص بن وائل یا ویل لسمغیرہ یا ویل لشریک مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا بلکہ ویل لکل ھمزۃ لمزۃکہا ہے ۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ کلام میں جب کسی خاص شخص کی تعین کر دی جائے تومضمون نا مکمل ہو جاتا ہے مثلا اگر ہم کہیں ویل لزید زید کے لئے ہلاکت ہے تو ہر شخص یہ دریا فت کرنے کی کوشش کرے گا کہ زید کیوں برا ہے یا اس میں کونسی خرابی پائی جاتی ہے کہ اس کے متعلق ویل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ویل لکل ھمزہ لمزہ تو ہر شخص کہے گا کہ یہ با کل درست ہے جو غیبت کرتا ہے یا جسے عیب چینی کی عادت ہے یا سچائیوں کا انکار کرتا ہے تو وہ ضرور برا ہے اور اس قابل ہے کہ اس کو سزا ملے ۔
چونکہ قرآن کریم ہر زمانہ کے لوگوں کی ہدائیت کا سامان اپنے اندر رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لئے ایک مکمل دستور العمل قرار دیا ہے اس لئے اگر اس سورۃ میںکسی کا نام لیا جاتا تواس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ مثلا اگر یہ کہا جاتا کہ ویل لعاص بن وائل تو اسسے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا تھا وہ مر گیا اسکی اولاد بھی مر گئی ۔ اولاد کی اولاد بھی مر گئیاور پھر اس اولاد کی اولاد بھی مر گئی ۔ بلکہ اس کی اولاد بعد میں مسلمان بھی ہو گئی اور اسلام کی خدمت میں اس نے اپنی عمر بسر کر دی ۔ اب ہمیں اس سے کیا فائدہ ہو سکتا تھا کہ ویل لعاص بن وائل یا ویل لمغیرۃ یا ویل لشر یکلیکن جب یہ کہا گیا کہ ویل لکل ھمزۃ لمزۃ تو قیامت تک ہر شخص کو فا ئدہ پہنچ سکتاہے اور ہر شخص کوشش کرے گا کہ میں ھمزہ لمزہ نہ بنوں۔ پس چونکہ قرآن کریم ایک دائمی شریعت ہے جس میں ہر زمانہ کے لوگوں کی اصلاح کا سامان رکھا گیا ہے اس لئے قرآن کریم وہ الفاظ استعمال کرتا ہے جو قیامت تک کام آنے والے ہوںاور جن سے ہر زمانہ کے لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہوں۔ پس اگر بعض اشخاص کے نام لے لئے جاتے تو اس کلام کا فائدہ اسی زمانہ میں ختم ہو جاتا اور ہمارے لئے یہ آیات محض گذشتہ تا ریخ کا ورق بن جاتیں۔ ہم سمجھتے کہ کوئی عاص بن وائل تھا جس پر عذاب آیا یا کوئی مغیرہ تھا جس میں فلاں فلاں خرابیاں پائی جا تی تھیں یا کوئی شریک تھا جو اس قسم کی عادات رکھتا تھا ۔ چنانچہ جب ہم اس سورت پر پہنچتے فورا کہہ اٹھتے کہ ہمیں اس سے کیا غرض ہے یہ ایک پرانا واقعہ بیان کیا جارہا ہے ہمیں اس کو پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اب ہم ایسا نہیں کہہ سکتے ۔ اب ہر شخص مجبور ہے اس امر پر کہ وہ ہمزہ اور لمزہ نہ بنے تاکہ وہ اللہ تعالی کی ناراضگی کا مورد نہ بن جائے ۔ پس خواہ یہ آیات مغیرہ کے متعلق ہوں یا عاص بن وائل کے متعلق یا شریک کے متعلق ۔ اللہ تعا لیٰ نے اس سورۃ میںشخصی بحث نہیں کی بلکہ فلسفیانہ بحث کی ہے اگر شخصی بحث کی جاتی تو یہ کلام متروک ہو جاتا لیکن فلسفیانہ بحث کی وجہ سے پہلے بھی یہ کلام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاتا رہا ہے ، اب بھی پہنچا رہا ہے اور آئندہ بھی پہنچاتا رہے گا اور جس شخص میں بھی یہ باتیں پائی جائیں گی اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ میں اپنی اصلاح کی طرف توجہ کروںایسا نہ ہو کہ میں اللہ تعالی کی ناراضگی کا مورد بن جائوں۔ بہر حال اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ویل لکل ھمزۃ لمزۃ ہر شخص جو دوسروں کو کچل کر آپ بڑا بننا چاہتا ہے یا دوسروں کی عیب چینی میں مشغول رہتا ہے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ اپنی ان حرکات سے باز نہیں آئے گا تو اللہ تعالی کا عذاب اس پر نازل ہو گا ۔ اس صورت میں لمز کے معنے تو عیب چینی کے ہوں گے ۔ ھمز کے معنے متکبر اور مغرور انسان کے ہوں گے کیونکہ مار پیٹ ہمیشہ مغرور انسان کا شیوہ ہوتا ہے اور اس کی غرض اس قسم کے ظالمانہ سلوک سے یہی ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کو کچل دے اور اس پر اپنی طاقت کا اظہار کرے ۔
دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اپنی نعمتوں کو کھو بیٹھے گا اور سخت حسرت اور افسوس کرے گا ۔ ہر وہ شخص جو دوسروں کی غیبتیں کرتا ہے بلکہ غیبت پر ہی منحصر نہیںمنہ پر بھی دوسروں کے عیوب بیان کر دیتا ہے اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیںکرتا کہ میں جھوٹ بھی بول رہا ہوںاور دوسرے کا دل بھی دکھا رہا ہوں۔
غیبت کے متعلق بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اگر اسکا کوئی سچا عیب اسکی عدم موجودگی میں بیان کیا جائے تو وہ غیبت میں داخل نہیں ہوتا ہاں اگر جھوٹی بات بیان کی جائے تو وہ غیبت ہوتی ہے حلانکہ یہ صحیح نہیںغیبت کا اطلاق ہمیشہ ایسی سچی بات پر ہوتا ہے جو کسی دوسرے کو بدنام کرنے کے لئے اس کی غیر حاضری میں بیان کی جائے اگر جھوٹی بات بیان کی جائے تو وہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہوگا۔احادیث میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریمﷺ سے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ غیبت تو بری چیز ہوئی اگر اپنے بھائی کا کوئی سچا عیب اس کی موجودگی میں بیان کیا جائے تو آیا یہ تو منع نہیں؟رسول کریمﷺ نے فرمایا کسی کی عدم موجودگی میںاس کا سچا عیب بیان کرنا ہی غیبت ہے ورنہ اگر دوسرے کے متعلق جھوٹی بات بیان کی جائے تو یہ بہتان بن جائے گا ۔ اسلام نے غیبت کی ممانعت کے متعلق جو حکم دیا ہے اس میں حکمت یہ ہے بسا اوقت انسان دوسرے کے متعلق ایک رائے قائم کر تا ہے اور اپنے آپ کے اس رائے میں حق بجانب بھی سمجھتا ہے لیکن در حقیقت اسکی رائے صحیح نہیں ہوتی ۔ ہم نے بیسیوں دفعہ دیکھا ہے کہ ایک شخص دوسرے کے متعلق ایک قطعی رائے قائم کر لیتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ میری رائے درست ہے لیکن ہوتی غلط ہے ۔ ایسی صورت میںاگر دوسرا شخص سامنے بیٹھا ہوگا اور اس کے متعلق کسی رائے کا اظہار کیا جائے گا تو وہ لازماً اپنی برات کرے گا اور کہے گا کہ تمہیں میرے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے میرے اندر یہ نقص نہیں پایاجاتا ۔ پس خواہ کسی کے نزدیک کوئی بات سچی ہو جب وہ دوسرے شخص کی عدم موجودگی میں بیان کرتا ہے اور وہ بات ایسی ہے جس سے اس کے بھائی کی عزت کی تنقیص ہوتی ہے یا اسکے علم کی تنقیص ہوتی ہے یا اسکے رتبہ کی تنقیص ہوتی ہے تو قرآن کریم اور احادیث کی رو سے وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ اس طرح اس نے اپنے بھائی کو اپنی برات پیش کرنے کے حق سے محروم کر دیا ہے۔
چونکہ یہ سورۃ گذشتہ ترتیب کے مطابق رسول کریمﷺکے زمانہ کے متعلق ہے اس لئے اس سورۃ میں اس زمانہ کے کفار کا حال بتایا گیا ہے کہ ان کا رات دن یہ کام رہتا تھا کہ مسلمانوں کو مارتے انکو مصائب اور تکالیف میںمبتلا کرتے اور ان پر قسم قسم کے مظالم توڑتے پھر اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی شیوہ تھا کہ وہ ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہتے یعنی صرف خود ہی ان کے دشمن نہیں تھے بلکہ انکی کوشش یہ ہوتی تھی کہ دوسرے لوگ بھی انکے دشمن بن جائیں۔آخر کسی کا عیب بیان کرنے کی کیا غرض ہوتی ہے یہی کہ دوسروں کو بھی برانگیختہ کیا جائے ۔پس ھمز کے لحاظ سے تو انکی یہ حالت تھی کہ وہ مسلمانوں کو مارتے اور ان کو مختلف مصائب میں مبتلا کرتے ۔ لیکن لمز کے لحاظ سے وہ اسبات کی کوشش کرتے تھے کہ باقی دنیا کو بھی مسلمانوں کا دشمن بنا دیں کفار کی ان شرمناک حرکات کا ذکر تے ہوئے اللہ تعالی اس آیت میں بیان فرماتا ہے کہ وہ تمام اشخاص جو محمد رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہؓ کو دکھ دیتے اور دوسری طرف ان کے خلاف پرا پیگنڈہ کرتے رہتے ہیںاور اس طرح پبلک کو بھی اسلام کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیںانہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ان پر ایسا عذاب نازل ہونے والا ہے جس سے ان کے دلوں کا چین بالکل اڑ جائے گا اور انکی امیدیں سب خاک میں مل جائیں گے۔
ن الذی جمع ما لا وعددہO
جو مال کو جمع کرتا ہے اور اسکو شمار کرتا رہتا ہے
حل لغات:۔عدد المال حسبہ عدۃ للدھریعنی جبعددالمالکہا جائے تو اسکے معنے یہ ہوتے ہیںکہ اس نے مصیبت کے دنوں میںکام آنے کے لئے پنا مال جمع کیا (اقرب)دنیا میں جب کوئی شخص اپنی ذاتی ضروریات کے لئے مثلا شادی بیاہ کے لئے یا بیماریوں اور مقدمات وغیرہ کے لئے کچھ روپیہ پس انداز کرتا ہے تو اس مال کو عدہکہتے ہیںپسجمع مالاوعددہ کے معنے یہ ہوں گے کہ اس نے روپیہ جمع کیا اور پھر یہ خیال کیا کہ یہ روپیہ میری مصیبت کے وقت کام آئے گا یا دشمن کے حملوں سے میری حفاظت کا ذریعہ ثابت ہوگا یا اور ضروریات کو پورا کرنے کا موجب ہوگا ۔
پھرعددکے معنے گننے کے بھی ہوتے ہیںلیکن عام طور پر عربی زبان میںعددکا لفظ گننے کے لئے آئے تو متعدد چیزوں کے لئے آتا ہے ۔ مثلا کہا جائے گا عدالدراھم۔اس نے دراہم گنے کیونکہ دراہم متعدد ہوتے ہیں۔ لیکن عددالمالکہیں تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ اس نے اپنا مال کسی ضرورت کے لئے سنبھال کر رکھا ۔ گننے کے معنے اس میںنہیں پائے جائیں گے ۔ ہاں اگر مال کو کلیکٹوٹرم قرار دیا جائے یعنی ایسی چیز جو ہوتی تو ایک ہے مگر دلالت تعدد پر کرتی ہے تو اس لحاظ سے اس کے معنے گننے کے بھی ہوسکتے ہیںاور جمع مالاوعددہکے یہ معنے ہونگے کہ وہ سخت لالچی اور حریص ہے ۔ایک طرف مال جمع کرتا ہے اور دوسری طرف اس کو ہمیشہ گنتا رہتا ہے کہ میرے پاس آج اتنا روپیہ جمع ہو گیا ہے کل اتنے روپے جمع ہو جائیں گے ۔
اسی طرح عددکا لفظ بعض دفعہ کسی چیز کے اوصاف بیان کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ عربی میں کہتے ہیںعددالمیت اس نے میت کو گنا اور مراد یہ ہوتی ہے کہعد منا قبہ اس نے میت کے مناقب بیان کئے اور کہا کہ وہ بڑا سخی تھا ،بڑا بہادر تھا یا بڑا سمجھدار تھا ۔چونکہ اخلاق کئی قسم کے ہوتے ہیںاس لئے مختلف صفات اور عادات کے لحاظ سے بھی عدد لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے ۔ اس صورت میں جمع ما لاوعددہ کے یہ معنے ہونگے کہ وہ مال جمع کرتا ہے اور پھر اسکی خوبیاں بیان کرنی شروع کر دیتا ہے کہ اگر مال کو روک کر رکھا جائے اور ان لوگوںکی تقلید نہ کی جائے جو ضروریات کے پیش آنے پر فورا روپیہ خرچ کر دیا کرتے ہیںتو اسکے بڑے فوائد ہوتے ہیں۔اصل قراء ت تو عددہ ہی ہے لیکن بعض قراء نے اس کو عددہ بھی پڑھا ہے۔
تفسیر:۔ عام محاورہ کے مطابق اس آیت میں جمع ا لمال کے الفاظ ہونے چاہیے تھے مگر اللہ تعالی نے جمع المالکی بجائیجمع مالافرمایا ہے ۔اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ایسا کیوں کیا ہے اور مالا کی تنوین اپنے اندر کیاحکمت رکھتی ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تنوین اپنے اندر تین حکمتیں رکھتی ہے۔
اول:۔ یہ تنوین تحقیر کی بھی ہو سکتی ہے ۔
دوم:۔ یہ تنوین تقبیح کی بھی ہو سکتی ہے۔
سوم:۔ یہ تنوین تعظیم کی بھی ہو سکتی ہے ۔
پہلی صورت میںالذی جمع مالا کے یہ معنے ہو ں گے کہ جس نے تھوڑا سا مال جمع کیا اور پھر اس پر فخر کرنے لگا ۔ یہاں تھوڑے مال کا یہ مفہوم نہیں کہ اس نے کم روپیہ جمع کیا بلکہ مطلب یہ ہے کہ دنیا کا مال خواہ کسی نے ڈھیروں ڈھیر جمع کر لیا ہو بہر حال ایک فانی متاع ہے اور وہ خدا تعالی کی دین اور اسکے بدلہ کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔اسی وجہ سے قرآن کریم میں دنیا کے اموال کے متعلق یہ صرا حتا فرمایا گیا ہے کہفما متاع الحیوۃ الدنیا فی ا لاخرۃالا قلیل(التوبہ۶ع۱۲)دنیا کی متاع آخرت کے مقابلہ میں نہایت قلیل چیز ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خواہ ساری دنیا کا مالک بن جائے بہرحال چالیس پچاس سال کے بعد مر جاتا ہے اور پھر اس لحاظ سے بھی متاع الحیٰوۃ قلیل ہے کہ انسان نے مر کر اگلے جہان جانا ہے اگر کسی انسان نے اس مقام پر اپنے لئے کوئی سرمایہ جمع نہیں کیا تو دنیا کے اموال اسے کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیںاور اگر کسی انسان نے اس جگہ اپنے لئے سرمایہ جمع کیا ہوا ہے تب بھی اس کے مقابلہ میںدنیا کا مال کوئی حقیقت نہیں رکھتا غرض کوئی نقطہ نگاہ لے لو بہر حال دنیا کا متاع قلیل ہے۔پسجمع مالا کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ جمع مالا قلیلا۔اس نے دنیا کی تھوڑی سی پونجی جمع کر لی اور پھر اس پر گھمنڈ کرنا شروع کر دیا کہ میں بڑا مال دار بن گیا ہوں۔
(۲)تقبیح کی صورت میں اس کے یہ معنے ہونگے کہ الذی جمع مالا حراما۔ایسا مال اس نے جمع کیا جو نہایت ردی اور خبیث تھا ۔ حالانکہ عقلمند انسان کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب اسے کوئی گندی چیز ملے تو اسے اٹھا کر پھینک دے نہ یہ کہ اسے حفاظت کے ساتھ اپنے گھر لے آئے ۔ اگر کسی کو کوئی کھوٹا سکہ مل جائے تو وہ اسے اٹھا کر اپنی جیب میں نہیں رکھ لیتا یا اسے نجاست سے لتھڑی ہوئی کوئی چیز مل جائے تو وہ اسے اپنے گھر نہیں لے آتا مگر ان لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ مال اپنے پاس رکھتے ہیں جو گندہ ہے اور جسے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے اکٹھا کیا گیا ہے حالانکہ انہیں چاہیئے تھا کہ ایسا مال فوراََپھینک دیتے اور ایک لمحہ کیلئے بھی اس کو اپنے پاس رکھنے کے لئے تیار نہ ہوتے ۔
(۳) تعظیم کی صورت میں اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ الذی جمع مالا کثیرا ۔ جس نے بہت سا مال جمع کیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں لاکھوں روپیہ بھی بالکل حقیر چیز ہے لیکن بندہ جب اپنی نگاہ سے اس مال کو دیکھتا ہے تو اسے بہت بڑا مال معلوم ہوتا ہے اگر کسی کے پاس ہزار روپے بھی جمع ہوجائیںتووہ خیال کرتا ہے کہ میرے پاس بہت روپیہ جمع ہوگیا ہے۔ حالانکہ ہزار روپیہ موجودہ زمانہ میں کوئی حقیقت ہی نہیںرکھتا ۔وہ مفسرین جنہوں نے ان آیات کو کفارمکہ پر چسپاں کیا ہے انہوں نے الذی جمع مالا کے ماتحت لکھا ہے کہ شریک کے پاس پندرہ ہزار درہم تھے جن کی وجہ سے وہ دوسروں پر فخر کا اظہار کیا کرتا تھا ۔ پندرہ ہزار درہم آج کل کے حساب سے صرف پانچ ہزار روپے بنتے ہیںاور یہ روپیہ موجودہ زمانہ کی دولت کے لحاظ سے کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا ۔ ہندوستان میں ہی اگر کسی کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ بڑا مال دار ہے اس کے پاس پانچ ہزار روپے ہیں تو سب لوگ ہنس پڑیں گے کہ کیسی احمقانہ بات کی گئی ہے پانچ ہزار روپے بھی کوئی چیز ہیں۔ مگر عرب میں یہ بہت بڑی دولت سمجھی جاتی تھی اور اگر کسی کے پاس اتنا روپیہ جمع ہو جاتا تو وہ خیال کیاکرتا تھا کہ اب مجھ سے بڑا اور کون ہو سکتا ہے میرے پاس تو پانچ ہزار روپے جمع ہیں ۔ لیکن موجوہ زمانہ میں دنیا کی عمارت کا یہ حال یہ ہے کہ ہندو ستان کے اکژ حصے ایسے ہیں جہاںصر ف اسی شخص کو مالدار سمجھا جاتا ہے جس کے پاس دس پندرہ لاکھ روپے ہوں ۔ لیکن اگر بمبئی چلے جائو تو وہاں دس پندرہ لاکھ والے کو کوئی شخص مالدار کہنے کے لئے تیار نہیں ہوگا وہاں اسی نوے لاکھ یا ایک کروڑ روپیہ رکھنے والے کو مالدار کہا جاتا ہے ۔اس کے بعد انگلستان چلے جائو تو وہاں ایک کروڑ روپیہ رکھنے والے کو کوئی شخص مالدار نہیں کہے گا وہاں دس پندرہ کروڑ رکھنے والے کو مالدار سمجھا جاتا ہے پھر امریکہ چلے جائو تو وہاں دس پندرہ کروڑ والے شخص کو کوئی مالدار نہیں کہتا وہاں ڈیڑھ دو کروڑ یا اس سے بھی زیادہ سالانہ انکم رکھنے والے کو مالدار سمجھا جاتا ہے ۔غرض امارت کا معیار موجودہ زمانہ میں بہت بلند ہو گیا ہے ۔لیکن عربوں کے لئے یہی بات بڑی تھی کہ ان میں سے کسی کے پاس پانچ چھ ہزار روپیہ جمع ہو گیا ۔پسجمع مالامیںتنوین تعظیم کی بھی ہو سکتی ہے لیکن اس صورت میں یہ تعظیم اس انسان یا اس قوم کے نقطہ نگاہ سے ہو گی جس نے مال جمع کیا ہے اور آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ میں نے بڑا مال جمع کر لیا ہے ۔بہر حال اس آیت کے تینوں معنے ہو سکتے ہیں۔ یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ اس نے بہت سا مال جمع کیا ہے۔اور یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ اس نے گندہ اور ردی مال جمع کیا ہے ۔
عددہ۔عددکے معنے جو اوپر بیان کئے گئے ہیںوہ سب کے سب ا س مقام پر چسپاں ہوتے ہیںچنانچہ دنیا میںجس قدر بخیل لوگ پائے جاتے ہیںان سب میں یہ نقص ہوتا ہے کہ وہ روپیہ جمع کرتے ہیںاور پھر ہمیشہ گنتے رہتے ہیںکہ اب ہمارے پاس اتنے روپے ہو گئے ہیںاب ہزار روپیہ ہو گیا ہے اب لاکھ روپیہ ہو گیا ہے ، اب کروڑ روپیہ ہو گیا ہے ۔ انہیں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ اگر اس مال کو کسی نفع مند کام پر لگا یا جاتا یا بنی نوع انسان کی بھلائی کے کاموں پر صرف کیا جاتا تو کیسا اچھا ہوتا اور کتنے لوگوں کو اس سے فائدہ ہوتا ۔پھر یہ بھی ایک عام مرض بخیل لوگوں میں ہوتا ہے کہ وہ روپیہ تو جمع کرتے ہیںمگر قومی ضروریات تو الگ رہیں اپنی ذاتی ضروریات پر بھی اس کو خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔بخیل کی بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ جب اس سے کہا جائے کہ تم روپیہ کیوں خرچ نہیں کرتے تو وہ کہتا ہے کہ یہ روپیہ تو کسی دن کے لئے رکھا ہوا ہے پہلے اس کو کس طرح خرچ کر دوں۔ مگر اسکی ساری عمر گذر جاتی ہے اور اس کا وہ دن کبھی نہیں آتا ۔روپیہ غلق میں ہی بند رہتا ہے یہاں تک کہ وہ مر جاتا ہے ۔بعد میں اس کی اولاد شراب اور جوئے میں اسکے روپیہ کو برباد کر دیتی ہے یا کنچنیوںکے ناچ گانے میں سب جائدادلٹا دی جاتی ہے ۔لیکن اسکی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ خود بیمار ہو،اس کی بیوی بیمار ہو ،اس کا بچہ بیمار ہو ،اس کا بھائی بیمار ہو،اور اسے کہا جائے کہ علاج کرائو تو کہتا ہے یہ روپیہ تو کسی دن کے لئے رکھا ہوا ہے ۔اسی طرح اسکی ساری عمر کٹ جاتی ہے۔وہ ننگا رہتا ہے،وہ بھوکا رہتا ہے،وہ بیمار رہتا ہے،وہ مصائب میں مبتلا رہتا ہے ،اسکے بیوی بچے تکالیف اٹھاتے ہیںمگر اس کا وہ دن نہیں آتا جس کے لئے اس نے روپیہ جمع کیا ہوا ہوتا ہے ۔
تیسرے معنے اسکے یہ ہیںکہ بجائے اسکے کہ وہ مال خرچ کرے اور پبلک کو روپیہ کے چکر سے فائدہ پہنچے وہ اپنے اس فعل کی خوبیاںبیان کرتا رہتا ہے اور دوسروں سے بھی یہی کہتا ہے کہ ہمیشہ روپیہ اپنے پاس رکھنا چاہیے اس کا یہ یہ فائدہ ہوتا ہے یعنی بجائے اسکے کہ وہ اپنے اس فعل پر نادم اور شرمندہ ہو وہ فخر کرتا ہے اور دوسروں سے بھی یہی کہتا ہے کہ روپیہ کی انسان کو اپنی زندگی میں بڑی ضرورت پیش آتی ہے انسان کو چاہیے کہ وہ ذاتی یا قومی ضروریات کو نظر انداز کر دیا کرے گویا نادم اور شرمندہ ہونے کی بجائے وہ الٹا گناہ پر فخر کرتا ہے ۔
یحسب ان ما لہ اخلدہo
وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس(کے نام) کو باقی رکھے گا
تفسیر:۔ یحسب ان ما لہ اخلدہ۔اس آیت میںیہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ روپیہ خرچ کرنے میں بخل سے کیوں کام لیا جاتا ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے یحسب ان ما لہ اخلدہ۔وہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال اسکی بقاء کا باعث ہو گا یعنی مالدار لوگوں میںبخل کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے دلوں میںیہ احساس ہوتا ہے کہ جمع کیا ہوا مال ہمارے خاندان کی عزت کا موجب ہوگا۔ اسی وجہ سے وہ تکالیف برداشت کرتے ہیں مگر روپیہ خرچ نہیں کرتے۔ ایک ادنیٰ بخیل کے ذہن میں تو یہ بات ہوتی ہے کہ میں آج سے دس سال کے بعد اپنے بیٹے کی شادی پر یا اپنے مکان کی تعمیرپر روپیہ خرچ کروں گا مگر بڑے بخیل کے ذہن میں بات نہیں ہوتی۔ وہ چاہتا ہے کہ میں بھی روپیہ جمع رکھوں میری اولاد بھی روپیہ جمع کرتی جائے اور اس کی اولاد بھی روپیہ جمع کرتی جائے تاکہ ہمارے خاندان کا نام اور اس کی شہرت قائم رہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مال رہنے کی وجہ سے ہمارے خاندان کو دائمی عزت حاصل ہوجائے گی۔ حالانکہ اگر وہ سوچے تو اسے روزانہ یہ نظارے نظر آسکتے ہیں کہ ایک شخص بڑی مشکل سے روپیہ جمع کرتا ہے وہ خود بھوکا رہتا ہے، پیاسا رہتا ہے، ننگا رہتا ہے، بیمار رہتا ہے مگر روپیہ خرچ نہیں کرتا۔ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کافی مال جمع ہوجائے مگر جب مر جاتا ہے تو اس کی اولاد تمام روپیہ عیاشی میں برباد کردیتی ہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ چونکہ مہاراجہ جموں کے شاہی طبیب تھے اسی لئے ریاست کے کئی مالدار لوگوں سے آپ کے تعلقات رہا کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے ایک دفعہ ایک بڑا مالدار شخص مرگیا تو تھوڑے دنوں کے بعد ایک مجھے ایک شخص نے آکر کہا کہ اس کے بیٹے نے عجیب طرح روپیہ لٹانا شروع کردیا ہے۔ میں نے کہا کس طرحـ؟ وہ کہنے لگا ایک دن وہ بازار میں سے گزررہا تھا کہ اس نے ایک بزاز کو تھان میں سے کچھ کپڑا پھاڑتے دیکھا جس میں سے چر کی آواز پید اہوئی۔ یہ آواز اسے ایسی پسند آئی کہ اب اس کا دن رات یہی کام ہے کہ وہ بازار سے کپڑے کے تھان منگواتا ہے اور اپنے نوکروں سے کہتا ہے کہ میرے سامنے صبح سے شام تک پھاڑتے رہو ۔ کیونکہ کپڑے کے پھاڑنے سے جو چر کی آواز نکلتی ہے وہ مجھے بڑی اچھی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے میں نے اسے بلا کر سمجھایا اور کہا کہ اس طرح روپیہ برباد مت کرو یہ بالکل لغو طریق ہے۔ اس نے جواب دیا مولوی صاحب جو مزا اس چر میں ہے وہ اور کسی چیز میں نہیں۔ تم اسے دماغ کی خرابی کہہ لو مگر آخر ہوا کیا؟ یہی کہ باپ نے جو روپیہ جمع کیا تھا وہ سب برباد ہوگیا۔ باپ نے نامعلوم کن کن مصیبتوں سے روپیہ جمع کیا ہوگا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے بیٹے کے دماغ میں ایسی خرابی پیدا کردی کہ اس نے تما م روپیہ برباد کردیا۔ اسی طرح ایسے ایسے بخیل بنئے جو ساری عمر دال سے بھی روٹی نہیں کھاتے اور روپیہ جمع کرتے رہتے ہیں ان کی اولادیں جوئے اور سٹہ میں سب روپیہ برباد کردیتی ہیں۔ پس فرماتا ہے یحسب ان مالہ اخلدہ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ قائم رکھے گا۔ حالانکہ مال قائم نہیں رکھتا بلکہ خداتعالیٰ کا فضل قائم رکھتا ہے۔ حضرت دائود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے کسی نیک آدمی کی اولاد کو سات پشت تک فاقہ کرتے اور بھیک مانگتے نہیں دیکھا۔ حالانکہ کئی کروڑ پتی ایسے ہوتے ہیں جن کی اولادیں اپنی زندگی کے دن فاقوں میں بسر کردیتی ہیں۔ پس خداتعالیٰ سے تعلق ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو خلود بخشتا ہے۔ جو شخص انفاق فی سبیل اللہ سے کام لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال کو بے دریغ خرچ کرتا رہتا ہے وہی شخص ہے جس کا مال اس کی بقا کا باعث ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایا بتائو تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جسے اس کے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ پسندیدہ ہو۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہمیں اپنے مال سے اپنے وارث کا مال زیادہ محبوب ہو۔ ہمیں تو وہی مال پسند ہوتا ہے جو ہمارا اپنا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر یاد رکھو تمہارا مال وہی ہے جسے تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہو۔ ورنہ جو کچھ تمہارے مال میں سے باقی رہ جاتا ہے وہ تمہارا نہیں بلکہ وہ تمہارے ورثاء کا ہے کیونکہ تمہاری آنکھ کے بند ہوتے ہی اس پر قبضہ کرلیا جاتا ہے (مشکوٰۃ کتاب الرقاق فی النصائح)۔ یہ حدیث اسی مضمون کو بیان کرتی ہے کہ مال وہی کام آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا گیا ہو۔ کیونکہ دوسرا مال تو غیروں کے کام آتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص ایسا ہو جو قیامت کے دن پر ایمان نہ رکھتا ہو اور اس کا عقیدہ نہ ہو کہ مرنے کے بعد کوئی شخص جنت میں جاتا ہے اور کوئی دوزخ میں اور جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کیا ہوا ہوتا ہے اسے بہت بڑا اجر ملتا ہے۔ تب بھی اتنی بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ اگر قومی ضروریات پر روپیہ خرچ کیا جائے تو انسان کا نیک نام باقی رہ جاتا ہے اور لوگ تعریف کرتے ہیں کہ فلاں شخص قوم کا بڑا خادم تھا یا غرباء کا بڑا ہمدرد تھا یا یتامیٰ اور بیوگان کا بہت خیال رکھنے والا تھا ۔ لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ لوگ ایک طرف تو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ دوسرے کے مال سے انہیں اپنا مال زیادہ پیارا ہوتا ہے مگر عملاً وہ یہ کررہے ہوتے ہیں کہ وہ مال جو انہوں نے اپنے ساتھ لے جانا ہوتا ہے یا جس نے ان کی نیک نامی کا موجب بننا ہوتا ہے اسے تو وہ پیار نہیں کرتے اور جو مال دوسروں کے کام آنے والا ہوتا ہے اسے وہ پیار کرتے اور کوشش کرتے ہیں کہ مذہبی یا قومی ضروریات پر روپیہ خرچ کرنے کی بجائے اسے جمع رکھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا ہوا مال ہی انسان کو خلود بخشتا ہے۔ جمع کیا ہوا مال خلود نہیں بخشتا۔
کلا لینبذن فی الحطمۃ O وما ادرک ماالحطمۃ O ناراللہ الموقدۃ O التی تطلع علی الافئدۃO
ہرگز ایسا نہیں (جیسا اس کا خیال ہے بلکہ) وہ یقینا (اپنے مال سمیت) حطمہ میں پھینکا جائے گا اور (اے مخاطب) تجھے کیا معلوم ہے کہ یہ حطمہ کیا شے ہے۔ یہ (حطمہ) اللہ تعالیٰ کی آگ ہے خوب بھڑکائی ہوئی جو دلوں کے اندر تک جا پہنچے گی۔
حل لغات: حطمۃ کے معنے عربی زبان میں توڑنے کے بھی ہوتے ہیں اور حطمہ کے معنے آگ کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ لغت میں لکھا ہے حطمہ: کسرہ الحطمۃ: النار الشدیدۃ (منجد) پس حطمہ کے معنے ہوئے توڑنے والی یا حطمۃ کے معنے ہوئے ایسی آگ جو سخت بھڑکنے والی ہے۔
تفسیر: اللہ تعالیٰ اس آیت میں کفار کو ان کا انجام بتاتا ہے کہ اس وقت تو ان کی یہ حالت ہے کہ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں مسلمانوں کو مارتے اور دکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح مال کے گھمنڈ میں وہ اپنے آپ کو معزز سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان کی ہمارے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا ہے۔ یہ ذلیل اور ادنیٰ درجہ کے لوگ ہیں یا جب مسلمان روپیہ خرچ کرتے ہیں تو کہتے ہیں یہ نیک نامی چاہتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں توکہتے ہیں دکھاوے کیلئے پڑھتے ہیں ، صدقہ و خیرات دیتے ہیں توکہتے ہیں نام و نمود کیلئے ایسا کرتے ہیں۔ غرض ان کے ہر نیک کام کو برے رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ لیکن ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ جس مقام پر وہ کھڑے ہوں وہ کوئی عزت بخشنے والا نہیں ۔ فرماتا ہے کلا دشمن اس خیال میں نہ رہے کہ جس مقام پر مسلمان کھڑے ہیں وہ تباہی و بربادی کی طرف لے جانے والا ہے اور جس مقام پر وہ اپنے آپ کو سمجھتا ہے وہ قائم رہنے والا ہے لینبذن فی الحطمۃ وہ ایک بھڑکنے والی آگ میں ڈالا جائے گا۔ یہ بھڑکنے والی آگ کیا ہے؟ مفسرین نے اپنی عادت کے مطابق اسے قیامت پر چسپاں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لینبذن فی الحطمۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ مگر میرے نزدیک چونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کیلئے دنیوی عذاب بھی خداتعالیٰ کی طرف سے مقدر ہوتے ہیں اور وہ بھی اپنی شدت کے لحاظ سے دوزخ کا عذاب کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس لئے حطمۃ سے یہاں دنیا کی آگ مراد ہے اوراگر اس کے معنے توڑنے کے لئے جائیں تب بھی اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم ان کی شوکت کو بالکل توڑ پھوڑ دیں گے۔
وما ادرک مالحطمۃ۔ قرآن کریم میں جہاں بھی ماادرک کے الفاظ آتے ہیں وہاں اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم نے اس مقام پر جو لفظ رکھا ہے وہ عربی زبان کے لحاظ سے کئی معنوں میں استعمال ہوسکتا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اس لفظ کے یہاں فلاں معنے ہیں۔ علم طریق تو یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی ایسا لفظ آجائے جو کسی معنوں میں استعمال ہوتا ہو تو اس کے سارے معنے لئے جاسکتے ہیں۔لیکن جب خداتعالیٰ کا یہ منشاء نہ ہو کہ سارے معنے لئے جائیں بلکہ یہ منشاء ہو کہ صرف فلاں معنے لئے جائیں تو اس وقت کہہ دیا جاتا ہے کہ ماادرک تجھے کس نے بتایا ہے کہ اس کے کیا معنے ہیں۔ یعنی اس لفظ کے کئی معنے ہوسکتے ہیں لیکن ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ اس مقا م پر ہمارے مدنظر کون سے معنے ہیں۔
ناراللہ الموقدۃ التی تطلع علی الافئدۃ ۔ فرماتا ہے یہاں حطمۃ کے معنے اللہ تعالیٰ کی اس آگ کے ہیں جو خوب بھڑکائی گئی ہے۔ آگ دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک آگ وہ ہوتی ہے جسے بندے بھڑکاتے ہیں ، وہ لکڑیاں جمع کرتے اور دیاسلائی سے آگ روشن کرتے ہیں اور ایک آگ وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ جلاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی آگ بھی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک آگ تو اگلے جہان کی ہے جو دوزخ کی شکل میں ظاہر ہوگی اور ایک آگ ایسی ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں ہی بھڑکایا جاتا ہے اور یہی وہ آگ ہے جسے عذاب کہا جاتا ہے ۔ پس ناراللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ عذاب ہے جو کفار کیلئے اس دنیا میں مقدر تھا۔ لکڑکی آگ پر پانی ڈالو تو وہ بجھ جاتی ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کیلئے کفار کے خوب آگ بھڑکائی مگر اللہ تعالیٰ نے بادل بھیج دئے۔ ادھر آگ روشن ہوئی اور ادھر بارش برسنی شروع ہوگئی جس سے تمام آگ بجھ گئی۔ آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جانے دو آج بارش نے ہماری آگ بجھادی ہے پھر کسی وقت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈال دیں گے مگر کفر کا جوش چونکہ عارضی ہوتا ہے انہی میں سے کچھ لوگ بول پڑے کہ ابراہیم بھی تو ہمارے رشتہ داروں میں سے ہے اس کو جلانے کا کیا فائدہ ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعد میںدوبارہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کی کوشش نہیں کی۔ پس بندوں کی جلائی ہوئی آگ بجھ سکتی ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو للہ تعالیٰ نے بندوں کی جلائی ہوئی آگ سے سلامت نکال لیا لیکن خدا تعالیٰ کی جلائی ہوئی آگ میں کوئی شخص دوسرے کو نکال نہیں سکتا کیونکہ بسا اوقات دل میںآگ لگ رہی ہوتی ہے اور انسان کوشش بھی کرتا ہے کہ میں اس آگ سے نکلوں مگر وہ نہیں نکل سکتا۔ چنانچہ اس آگ کی اللہ تعالیٰ نے خودہی اس آگے تشریح کردی ہے کہ تطلع علی الافئدۃ ہماری یہ آگ دلوں پر بھڑکائی گئی ہے لکڑیوں کی آگ نہیں کہ پانی سے بجھ سکے یہ دل کی آگ ہے جس کے شعلے انکو ہر وقت بھسم کررہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی ترقی کو دیکھتے ہیں تو ان کے دل جلتے ہیں۔ غم واندوہ سے کباب ہوجاتے ہیں۔ حسرت و افسوس سے ان کی زندگیاں تلخ ہو رہی ہیں مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس دکھ کا ہم کیا علاج کریں ۔
بدر کے موقع پر جب ابوجہل اپنے لشکر کے سمیت نکلا تو اس کو خیال تک نہیں تھا کہ مسلمانوں سے ہماری جنگ ہونے والی ہے ۔ خود مسلمانوں بھی یہ سمجھتے تھے کہ صرف کفار کے تجارتی قافلہ سے ان کا مقابلہ ہوگا ۔اسی وجہ سے بہت سے جانثار صحابہ ؓ اس جنگ میں شامل نہیں ہوسکے مگر اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے ماتحت کفار اور مسلمانوں کے لشکر کو آمنے سامنے لے آیا اور رسول کریم ﷺ نے بھی صحابہ کو بتادیا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ کفار سے جنگ کی جائے جب دونوں لشکر صف بستہ ہوگئے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے اپنے دائیں بائیں دیکھا ۔ وہ کہتے ہیں میرے دل میں بڑی مدت سے یہ ولولے تھے کہ کبھی کفار سے جنگ ہو تو ان مظالم کا بدلہ لوں جو وہ مسلمانوں پر کرتے چلے آئے ہیں مگر سپاہی تبھی اچھا لڑ سکتاہے جب اس کا دایاں اور بایاں پہلو مضبوط ہو جو اس کی پیٹھ کو دشمن کے حملہ سے محفوظ رکھے۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں جب میں نے یہ دیکھنے کیلئے اپنے اردگردنظر ڈالی کہ آج میرے دائیں بائیں کون کھڑے ہیں تو میرا دل بیٹھ گیا کیونکہ میرے دائیں طرف بھی پندرہ برس کا ایک انصاری لڑکا کھڑا تھا اور میرے بائیں طرف بھی پندرہ برس کا ایک انصاری لڑکا کھڑا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے سخت حسرت پیدا ہوئی کہ آج میں اپنے دل کے حوصلے کس طرح نکالوں گا۔ کاش میرے دائیں بائیں کوئی مضبوط اور ماہر فن سپاہی ہوتے تاکہ میں بھی اپنی مہارت کے جوہر دکھاسکتا۔ ان پندرہ پندرہ برس کے بچوں نے کیا کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں ابھی یہ خیال میرے دل میں گزرا ہی تھا کہ دائیں طرف کے انصاری نوجوان نے میرے پہلو میں آہستہ سے کہنی ماری۔ میں نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا تو اس نے کہا چچا ذرا جھک کر اپنے کان میں میری بات سننا (عرب میں رواج تھا کہ بڑی عمر والوں کو چھوٹے بچے اور نوجوان چچا کہا کرتے تھے) میں نے اس کی طرف کان جھکایا تو اس نے کہا چچا وہ ابوجہل کون سا ہے جو رسول اللہ ﷺ کو دکھ دیا کرتا تھا۔ میرا جی چاہتا ہے ہے کہ آج اس سے بدلہ لوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سوال پر میرے دل میں سخت حسرت پیدا ہوئی کہ یہ چھوٹاسا بچہ مجھ سے کیا سوال کررہا ہے۔ مگر ابھی میں نے اس کوکوئی جواب نہیں دیا تھا کہ بائیں طرف سے میرے پہلو میں کہنی لگی۔ میں اس کی طرف مڑا تو اس نے کہا چچا ذرا جھک کر اپنے کان میں میری بات تو سننا۔ میں جھکا تو اس نے کہا چچا ابوجہل کون ہے۔ میں نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو بہت دکھ دیا کرتا تھا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آج اس سے بدلہ لوں۔ ان دونوں نے آہستگی سے یہ بات اس لئے کہی کہ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ میرا دوسرا ساتھی اس بات کو سن لے اور وہ بھی اس شرف میں حصہ دار بن جائے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں باوجود تجربہ کار اور ہوشیار جرنیل ہونے کے میرے دل کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ میں ابوجہل کو مارسکوں گا۔ اس لئے جب ان دو نوجوان لڑکوں نے مجھ سے یہ سوال کیا تو میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی۔ میں نے اپنی انگلی اٹھائی اور کہا کہ دیکھو وہ جو فوج کے اندر کھڑا ہے جس نے سر پر خود پہنا ہوا ہے جو سر سے پائوں تک زرہ میں ملبوس ہے اور جس کے سامنے دو بہادر سپاہی ننگی تلواریں لئے پہرہ دے رہے ہیں وہ ابوجہل ہے۔ ان دو سپاہیوں میں سے ایک ابوجہل کا اپنا بیٹا عکرمہ تھا اور دوسرا ایک بہادر سردار تھا۔ وہ کہتے ہیں ابھی میرا ہاتھ نیچے نہیں گرا تھا کہ جس طرح باز چڑیا پر جھپٹا مارتا ہے اسی طرح وہ دونوں بے تحاشا دوڑ پڑے اور ایسی تیزی کے ساتھ دشمن کے لشکر میں جاگھسے کہ کفار حیرت سے منہ دیکھتے رہ گئے۔ انہیں ہوش ہی نہ آیا کہ وہ ان لڑکوں کو روکیں یہاں تک کہ وہ بڑھتے ہوئے ابوجہل کے سر پر جا پہنچے۔ اس وقت ایک محافظ کو خیال آیا اور اس نے تلوار چلائی جس سے ایک لڑکے کا ہاتھ کٹ گیا مگر اس نے کوئی پروا نہ کی اور جھٹ اپنے لٹکے ہوئے بازو پر پائوں رکھا اور اسے کھینچ کر جسم سے الگ کردیا۔ پھر دونوں نے آگے بڑھ کر ابوجہل ایسا شدید زخمی کیا کہ وہ زمین پر گرگیا گو مرا کچھ دیر بعد۔
غرض جنگ ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ مدینہ کے دو نوجوان لڑکوں نے جن کو مکہ والے حقارت سے ذلیل کیاکرتے تھے ابوجہل کو مارگرایا۔ مدینہ کے لوگ سبزی ترکاری بیچ کر گزارہ کیا کرتے تھے اور جس طرح ہمارے ملک میں بعض زمیندار اپنی بیوقوفی سے ارائیوں کو حقارت سے دیکھا کرتے ہیں اسی طرح مکہ والے مدینہ کے لوگوں کے متعلق کہا کرتے تھے کہ یہ سبزی ترکاری بیچنے والے لڑائی کے فنون کو کیا جانیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا نشان دیکھو انہی مدینہ والوں میں سے دو نوجوان لڑکوں نے ابوجہل کو مارڈالا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں جب لڑائی ختم ہوگئی تومیں یہ دیکھنے نکلا کہ ابوجہل کا کیا حال ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ زخموں کی شدت سے کراہ رہا ہے۔ میں نے اسے کہا سنائو کیا حال ہے؟ اس نے کہا مجھے اپنی موت کا غم نہیں کیونکہ سپاہی جنگ میں مرا ہی کرتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے تو یہ کہ مدینہ کے نوجوانوں نے مجھے مارا۔ پھر اس نے عبداللہ بن مسعودؓ سے کہا کہ مجھے زخموں کی وجہ سے سخت تکلیف ہے۔ تم صرف اتنا کرو کہ تلوار سے میری گردن کاٹ دو مگر دیکھنا ذرا لمبی کاٹنا۔ کیونکہ جرنیلوں کی گردن ہمیشہ لمبی کاٹی جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں میں نے اسے کہا تیری اس آخری حسرت کو بھی پورا نہیں کروں گا۔ چنانچہ میں نے تھوڑی کے قریب سے اس کی گردن کاٹی۔ اب دیکھو ابوجہل کے دل میں اس وقت کتنی جلن ہوگی۔ کجا یہ کہ ابوجہل اس امید پر میدان میں آیا تھا کہ آج محمد رسول اللہ ﷺ کو مار ڈالوں گا اور کجا یہ کہ پندرہ پندرہ برس کے دو نوجوان لڑکوں نے اسے مار ڈالا اور مارا بھی ایسی حالت میں کہ اس کے سامنے پہرہ کیلئے دو زبردست جرنیل کھڑے تھے۔ ایک ان میں سے اس کا اپنا لڑکا تھا اور ایک اور جرنیل تھا۔ پھر اس نے زردہ بھی پہنی ہوئی تھی۔ خَود بھی اس کے سر پر تھا۔ مگر کوئی تدبیر کام نہ آئی اور وہ ہزاروں حسرتیں لئے ہوئے اس جہاں سے گزرگیا۔ اس وقت اس کے دل میں جو آگ جل رہی ہوگی اور جس حسرت سے اس نے اپنی جان دی ہوگی اس کا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔
اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار نے جس شخص کو صلح کی گفتگو کیلئے اپنا لیڈر بناکر بھیجا وہ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں بیٹھا بڑے دھڑلے سے باتیں کررہا تھا اور ہاتھ پر ہاتھ مار کر اپنی فوقیت جتا رہا تھا کہ عین اس وقت زنجیروںکی کھڑکھڑاہٹ کی آواز آنی شروع ہوئی۔ لوگوں نے دیکھا تو اس سردار کا لڑکا گرتا پڑتا رسول کریم ﷺ کی طرف آرہا تھا۔ جب وہ قریب پہنچا تو اس نے کہا یارسول اللہ میں آپ پر ایمان لاچکا ہوں۔میرے باپ نے میرے پائوں میں بیڑیاں ڈال کر مجھ گھر میں قید کررکھا تھا تاکہ میں بھاگ کر مدینہ نہ پہنچ جائوں ۔ آج یہ ادھر صلح کی گفتگو کرنے کیلئے آیا تو مجھے موقع مل گیا اور میں گرتے پڑتے یہاں پہنچ گیا۔ اس وقت اپنے بیتے کی گفتگو سن کر کفار کے سردار کی جو حالت ہوئی ہو گی وہ کیسی عبرت ناک ہو گی وہ کفار کی طرف سے صلح کی گفتگو کے لئے آیا ہوا تھا اور سینہ تان کر بڑے فخر سے باتیں کر رہا تھا کہ عین اسی مجلس میں اس کا بیٹاآتا ہے اور اپنے آپ کو رسول کریم ﷺ کے قدموں میںڈالتے ہوئے کہتا ہے یا رسول اللہ میں آپ پر ایمان لاتا ہوں۔غرض اللہ تعالی نے ایسے ایسے سامان پیدا کئے کہ کفار کے دل ہر وقت جل کر خاکستر ہوتے رہتے تھے اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ اس آگ کع بجھانے کا ہم کیا انتظام کریں کوئی بڑا خاندان ایسا نہیں تھا جس کے افراد رسول کریمﷺ کی غلامی میں نہ آچکے ہوں۔حضرت زبیرؓ ایک بڑے خاندان میں سے تھے حضرت طلحہؓ ایک بڑے خاندان میں سے تھے ۔ حضرت عمرؓایک بڑے خاندان میں سے تھے۔حضرت عثمانؓایک بڑے خاندان میں سے تھے ۔حضرت عثمان بن مظعونؓ ایک بڑے خاندان میں سے تھے ۔اسی طرح حضرت عمرؓو بن العاص اور خالد ؓ بن ولید مکہ کے چوٹی کے خاندان میں سے تھے ۔عاص مخالف تھے مگر عمرو مسلمان ہو گئے ۔ ولید مخالف تھے مگر خالد مسلمان ہو گئے۔ غرض ہزاروںلوگ ایسے تھے جو اسلام کے شدید دشمن تھے مگر ان کی اولادوں نے اپنے آپ کو محمدرسول اللہ ﷺ کے قدموں میں ڈال دیا اور میدان جنگ میں اپنے باپوں اور رشتہ داروں کے خلاف تلواریںچلائیں۔
حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ ایک دفعہ رسول کریمﷺ کے ساتھ کھانے میں شریک تھے کہ مختلف امور پر باتیں شروع ہو گئیں۔ حضرت عبدالرحمن جو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے تھے اور جو بعد میں مسلمان ہوئے بدر اور احد کی جنگ میں کفار کی طرف سے لڑائی میں شریک ہوئے تھے انہوں نے کھا نا کھاتے ہوئے باتوں باتوں میں کہا ،ابا جان اس جنگ میں جب فلاں جگہ سے آپ گذرے تھے تو اس وقت میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا اور میں اگر چاہتا تو حملہ کر کے آپ کو ہلاک کر سکتا تھا مگر میں نے کہا اپنے باپ کو کیا مارنا ہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جوب دیا خدا نے تجھے ایمان نصیب کرنا تھا اس لئے تو بچ گیا ورنہ خدا کی قسم اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا ۔غرض کفار کے لئے یہ ایک بہت بڑا عذاب تھا کہ جس مذہب کو مٹانے کے لئے وہ کمر بستہ رہتے تھے اسی مذہب میں ان کے اپنے بیٹے اور بھا ئی اور رشتہ دار شامل ہونے لگ گئے ان واقعات کو دیکھ دیکھ کر ان کے دلوں میں کس قدر حسرت پیدا ہوتی ہوگی ۔ کہ ہم میں سے کسی کی بیوی اسلام میں داخل ہے ،کسی کا باپ اسلام میں داخل ہے ،کسی کا بیٹا اسلام میں داخل ہے کسی کا کوئی اور دوست اور رشتہ دار اسلام میں داخل ہے گویا وہ تو اپنی جانیں اسلام کے مٹانے کے لئے صرف کر رہے تھے اور اللہ تعالی انہیں میں سے ایک ایک کر کے لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ رہا تھا ،حقیقت میں یہ ایک بہت بڑا عذاب تھا کہ جس مذہب کو کچلنے کے لئے وہ کھڑے تھے اسی مذہب میں ان کے اپنے دوست اور عزیز ترین رشتہ دار شامل ہو گئے اور وہ اسلام کا جھنڈا اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے اپنے باپوںاور اپنے بھائیوں کے خلاف تلواریں چلانے لگ گئے۔ غرض فرماتا ہینا ر اللہ المو قدہ التی تطلع علی الا فئدۃ۔اللہ تعالی کفار کے دلوں پر ایک شدید آگ بھڑ کائے گا ۔ لوگ بظاہر دیکھتے تو کہتے عاص بن وائل کتنا بڑا آدمی ہے بڑے فخر سے اپنا تہہ بند لٹکا ئے چلا جا رہا ہے یا ولید کتنا بڑا آدمی ہے مگر ان بڑے آدمیوں کی یہ حالت ہوتی تھی کہ ان کے دلوں میں ہر وقت ایک آگ لگی ہوتی تھی کہ ہمارا بیٹا مسلمان ہو گیا ۔ ہمارا بھائی مسلمان ہو گیا۔ہمارا فلاں رشتہ دار مسلمان ہو گیا اب ہم کریں تو کیا کریں۔
انھا علیھم مو صدۃ O فی عمد ممددۃO
(پھر)وہ (آگ اور تیز کرنے کے لئے)ان پر (سب طرف سے) بند کر دی جائے گی درانحا لیکہ(وہ لوگ اس وقت) لمبے ستو نوں کے ساتھ بندھے ہوں گے۔
حل لغات:۔مو صدۃ؛ الموصد المطبق والمغلق۔بند کی گئی۔عمد۔ عمودکی جمع ہے اور عمود کے معنے ستون کے ہیں(اقرب)
تفسیر:۔اس آیت میں اس آگ کی شدت بیان کی گئی ہے جو کفار کے قلوب پر بھڑ کائی جانے والی تھی اللہ تعالی فرماتا ہے تم اس آگ کو معمولی مت سمجھو۔
جس طرح بھٹی کی آگ سب آگوں سے ذیا دہ شدید ہوگی۔ اسے چاروں طرف سے بند کر کے رکھا جائے گا اور اسکی بھڑاس بھی باہر نہیں نکلے گی۔
اس’’بند آگ‘‘ کی مثال کفار مکہ کا وہ فیصلہ ہے جو انہوں نے بدر کی جنگ کے بعد کیا ۔ اس جنگ میں چونکہ مکہ والوں کے تمام چوٹی کے لیڈر ہلاک ہو چکے تھے اس لئے انہوں نے سمجھا کہ اگر ماتم کیا گیا تو ہماری تمام عزت خاک میں مل جائے گی۔چنانچہ انہوں نے فیصلہ کر دیا کہ کوئی شخص بدر میں ہلاک ہونے والوں پر روئے نہیں۔ یہ حکم اپنی نوعیت کے لحاظ سے نہایت شدید تھا مگر اپنی قوم کے فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے مکہ کا ایک ایک فرد اپنے سینہ میںغم و الم کی ایک بے پناہ آگ دبا کر خاموش ہو گیا ۔ انکی آنکھیں اپنے مرنے والوں کی یاد میںآنسو ئوں کی موسلا دھار بارشبرسانا چاہتی تھیں ان کی زبانیں آہ و فغاں اور نالہ و فریا سے ایک شور بر پا کرنا چاہتی تھیںمگر وہ کیا کر سکتے تھے قوم کا فیصلہ تھا کی آج تمھارے لئے ماتم جائز نہیں۔ تم اپنی زبانوں کو بند رکھو۔تم اپنے آنسوئوں کو مت گرنے دو ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں تک یہ خبریں پہنچیںتو وہ خوش ہوںکہ ہم نے خوب بدلہ لیا ۔یہ حالت ایک لمبے عرصے تک رہی ۔عورتوں کو اپنے خاوندوں پر ،مائوں کو اپنے بیٹوں پر،بھائیوں کو اپنے بھائیوں پر ،اور دوستوں کو اپنے دوستوں پو رونے کی اجازت نہیں تھی۔ان کے سینے اس بند آگ کی تپش سے اندر ہی اندر جل رہے تھے مگر قوم کے فیصلہ کی خلاف ورزی کی ان میں سے کسی میں جرات نہیں تھی۔ ایک دن کسی مسافر کی اونٹنی مر گئی اور اسنے مکہ کی گلیوں میںسے گذرتے ہوئے اس کے غم میں ماتم کا قصیدہ پڑھنا شروع کر دیا ۔ یہ آواز سن کر ایک بوڑھا شخص جس کے دو نوجوان بیٹے اس جنگ میں ہلاک ہو چکے تھے کود کر اپنے گھر میں سے باہر نکل آیا اور اس نے بلند آواز سے کہا ہائے افسوس اس شخص کو اپنی اونٹنی پر رونے کی اجازت ہے مگر مجھے جس کے دو نوجوان بیٹے جنگ میں مارے گئے ہیںرونے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ یکدم تمام لوگ اپنے اپنے گھروں میں سے نکل آئے اور انہوں نے کہا ہم تو جل کر مر گئے ہیں۔ ہم آگ سے پھنکے جا رہے ہیںہم اب زیادہ صبر نہیں کر سکتے۔ چنانچہ انہوں نے چوکوں اور بازاروںمیں جمع ہو کر پیٹنا شروع کر دیا اور تمام مکہ میں کہرام مچ گیا ۔
غرض فرماتا ہینار اللہ المو قدہ التی تطلع علی الافئدۃآگ ان کے دلوں پر خوب بھڑکائی جائے گی اور پھر وہ آگ چاروں طرف سے بند ہو گی ۔ اس کے شعلے ان کی ایڑی سے لے کر چوٹی تک پہنچیں گے اور انہیں جھلس کر رکھ دیں گے۔
فی عمد ممددۃ۔یہعلیھم کی ضمیر مجرور کا حال واقعہ ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ مو ثقین فی عمد ممددۃ کفار کا یہ حال ہو گا کہ جب آگ ان پر بھڑکائی جائے گی تو وہ بڑے بڑے اونچے ستونوں سے بندھے ہوئے ہوں گے۔ جسطرح ستونوں سے اگر کسی شخص کو باندھ دیا جائے تو اس کا جسم اکڑا رہتا ہے اور باوجود کوشش کے وہ ادھر ادھر نہیں ہو سکتا اسی طرح فرماتا ہے ہم ان کفار کو ایسا عذاب دیں گے کہ وہ باوجود کوشش اور خواہش کے اس عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ نہیں پائیں گے چنانچہ یہ پیشگوئی اس رنگ میں پوری ہوئی کہ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے اپنے بیٹے،بھائی دوست اور رشتہ دار سب مسلمان ہو گئے۔کوئی اور قوم ابتداء میں مسلمان ہوتی تو شاید ان کو اتنی تکلیف نہ ہوتی مگر جب ان کے اپنے جگر گوشے رسول کریم ﷺ پر ایمان لے آئے اور انہوں نے اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تو یہ ان کے لئے ایسی ہی بات تھی جیسے کسی کو اونچے ستونوں سے باندھ دیا جائے اور وہ حرکت تک نہ کر سکے ۔اونچے ستونوں کے الفاظ اس لئے استعمال کئے گئے کہ عام طور پر سنگساری اور جلانے کے لئے کمر تک گڑی ہوئی لکڑی یا ستون سے باندھا کرتے تھے ۔ بڑے ستون کہہ کر بتایا کہ جسم کے اوپر کا حصہ بھی جکڑا ہو اہو گا ۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہفی عمد ممددۃ کوموصدۃکی صفت قرار دیا جائے۔ممددۃکے معنی چونکہ مطو لۃ کے ہیںاس لئے اس آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ بڑے بڑے لمبے ستونوں میںآگ جل رہی ہو گی یعنی جس بھٹی میں وہ جلائے جائیں گے وہ بہت بلند ہو گی ۔یہ قاعدہ ہے کہ جتنی لمبی بھٹی ہوتی ہے اتنی آگ زیادہ تیز ہوتی ہے پسفی عمد ممددۃمیںایک طرف تو اس آگ کی شدت بیان کی گئی ہے کہ وہ انتہا درجہ کی حدت اپنے اندر رکھتی ہو گی اور دوسری طرف یہ بتایا گیا ہے کہ کفار کی حلت ایسی ہو گی جیسے ستونوں سے بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ بچنے کی بہت کوشش کریں گے مگر انہیں اپنے بچائو کی کوئی صورت نظر نہیں آئے گی ۔ چنانچہ آخر یہی حالت کفار مکہ کی ہو گئی جب ان کے اپنے بیٹے رسول کریم ﷺ پر ایمان لے آئے تو ان کی بات کون سنتا تھا ۔اگر وہ ان سے کہتے بھی کہ تم ہم میں پھر واپس آجائو اور اپنا آبائی مذہب اختیارکر لو تو ان کی بات ماننے کے لئے کون تیار ہو سکتا تھا ۔ یہ ایمان کا معاملہ تھا اس میں کسی باپ یا ماں کا کیا دخل تھا اور کون شخص ان کی بات مان سکتا تھا ۔
غرض فی عمد ممددۃکے دونوں معنے ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی کہ ان کے لئے عذاب کی بھٹیاں بڑی بڑی اونچی بنائی جائیں گی اور یہ بھی کہ وہ با لکل بے کس اور بے بس ہو جائیں گے ۔ انہیں عذاب پہنچے گا مگر وہ سر سے پا تک بندھے ہوئے ہوں گے کچھ کر نہیں سکیں گے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
بعض لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ تم کہتے ہو اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے کیا اس کی زبان ہے جس سے وہ بولتا ہے۔ ہم کہتے ہیں اس کی زبان تو نہیں مگر اس میں قدرت موجود ہے اور وہ اپنی قدرت سے بغیر زبان کے کلام پیدا کردیتا ہے۔ یہی حال جبریل کا ہے وہ ملک ہے مگر ہر موقع کے مناسب حال مختلف شکلیں بدل لیتا ہے۔ کبھی ماں کی شکل اختیارکرلیتا ہے، کبھی بیٹی کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی بیٹے کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی بیوی کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی مرد کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی انسانی شکل کے علاوہ کبوتر یا کسی اور جانور کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اور شکلوں کے اس اختلاف سے یہ بیان کرنا مقصود ہوتا ہے کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا جو کلام نازل ہورہا ہے اس کی کیا شان ہے یا تمہارے دوستوں کیلئے اس کی کیا شان ہے یا تمہارے دشمنوں کیلئے اس کی کیا شان ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو صورتوں میں الہام نازل ہوتا ہے۔ ایک الہام ان فقرات کی صورت میں نازل ہوتا ہے جو جبریل کی زبان سے بندہ سنتا ہے اور ایک الہام خود جبریل کی شکل میں ہوتا ہے۔ اگر وہ مہیب اور خوفناک شکل میں آسمان اور زمین کے درمیان ایک بہت بڑی کرسی پر بیٹھا ہوا رسول کریم ﷺ کو نظر آیا تو اس کے معنے یہ تھے کہ وہ کلام جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والا ہے اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اب ساری زمین پر قضا جاری کرنے والا ہے۔ ساری دنیا کی قضا اب اس کلام کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہی عمل خداتعالیٰ کے ہاں مقبول ہوگا جو اس کلام کے مطابق ہوگا۔ اور وہ عمل جو اس کلام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسان بجالائے گا اسے ردّ کردیا جائے گا۔ جب رسول کریم ﷺ کی استمالت قلب مراد تھی اس وقت جبریل آپ کو غار حرا میں ایک خوبصورت نوجوان کی شکل میں نظر آیا اور جب صحابہؓ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ یہ جبریل ہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو تو اس وقت جبریل ایک صحابی کی شکل میں نظر آیا تاکہ وہ خود بھی پتہ لگاسکیں کہ رسول کریم ﷺ سے جو شخص باتیں کررہا تھا وہ وحیہ کلبی نہیں بلکہ جبریل ہی ہے۔ غرض جبریل ہمیشہ فی صورۃ معینۃ نازل ہوتا ہے نہ کہ فی الصورۃ المعینۃ اپنی ذاتی شکل و صورت میں۔
پھر کہتے ہیں واما بسماع کلام من غیر معاینۃ کسماع موسی کلام اللہ کبھی ایساہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک کلام تو نازل ہوتا ہے مگر جبریل اس کے ساتھ نہیں آتا۔ کان میں آواز آتی ہے انسان اس آواز کو سنتا اور سمجھا ہے مگر کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا۔ واما بالقام فی الروع کما ذکر علیہ السلام ان روح القدس نفث من روعی اور کبھی کوئی بات بطور القاء دل میں ڈال دی جاتی ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ روح القدس نے ایک بات میرے دل میں ڈالی ہے کوئی معین الفاظ نہیں تھے جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئے ہوں۔ ورنہ آپ ان کا بھی ذکر فرماتے یا کہتے کہ جبریل نے مجھے آکر یوں کہا ہے۔ آپ نے ان میں سے کوئی بات نہیں کہی صرف اتنا فرمایا ہے کہ ان روح القدس نفث فی روعی روح القدس نے میرے قبل میں فلاں بات ڈالی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی کا یک طریق یہ بھی ہے کہ دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات ڈال دی جاتی ہے (مگر اس سے یہ مراد ہے کہ انسان پر ساتھ یہ انکشاف ہوتا ہے کہ جبریل یا کوئی دوسرا فرشتہ یا خداتعالیٰ بذات خود باہر سے یہ بات میرے دل میں ڈال رہا ہے اور خود میرے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہورہا)۔ واما بالھام نحو اوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ اور یا کبھی کلام الٰہیہ کا نزول الہام کے ذریعہ سے ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے ام موسیٰ کی طرف وحی کی۔ واما بتسخیر نحو قولہ اوحی رب الی النحل اور کبھی وحی تسخیر ہوتی ہے یعنی طبعی طور پر کسی چیز کی فطرت میں ایک بات پیدا کردی جاتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی۔ اس جگہ وحی سے مرادوحی لفظی نہیں بلکہ وحی تسخیر ہے۔ وحی تسخیر سے یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عربی اردو یا انگریزی زبان میں کوئی کلام نازل ہوتا ہے۔ یہ بھی مراد نہیں کہ تمثیلی زبان میں کوئی نظارہ دکھایا جاتا ہے اور یہ بھی مراد نہیں کہ جبریل بھیجا جاتا ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض کام بعض چیزوں کی فطرت میں داخل کردیتا ہے اور وہ مجبور ہوتی ہیں کہ اسی رنگ میں کام کریں جس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو مسخر کردیا ہے۔ جیسے سورج مسخر ہے، ایک مقررہ منزل کی طرف چلنے پر اور زمین مسخر ہے سورج کے گرد گھومنے پر۔ اسی طرح کوئی پودا پھول پیدا کرنے پر مسختر ہے۔ گویا فطرت میں جو بات ودیعت کردی جائے اسے وحی تسخیر کہتے ہیں۔ اسی قسم کی وحی مکھی کو ہوئی ہے او بمنام یا رئویا اور خواب کی حالت میں کوئی نقشہ انسان کو نظر آجاتا ہے کما قال علیہ السلام انقطع الوحی و بقیت المبشرات جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ وحی منقطع ہوگئی اور مبشرات باقی رہ گئے ہیں اور مبشرات سے مراد کیا ہے رؤیا المومن ۔ مومن جو سچے رئویا دیکھتا ہے ان کو مبشرات کہا جاتا ہے۔ فالالھام والتسخیر والمنام دل علیہ قولہ الا وحیا۔ پس الہام تسخیر اور منام پر قرآن کریم کی آیت میں الا وحیا کے جو لفظ استعمال ہوئے ہیں وہ دلالت کرتے ہیں وسماع الکلام غیر معائنۃ دل علیہ قولہ و من ورایٔ حجاب ۔اور وہ کلام جس کی کانوں میں تو آواز آتی ہے مگر کوئی شکل نظر نہیں آتی اس پر اللہ تعالی کا یہ قول دلالت کرتاہے کہ او من ورایٔ حجاب ۔ و تبلیغ جبریل فی صورۃ معینۃ دل علیہ قول او یرسل رسولا فیوحی۔ اور وحی کی یہ صورت ہے کہ بعض دفعہ جبریل اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتا ہے اس پر یہ آیت شاہد ہے کہ او یرسل رسولا یعنی اللہ تعالیٰ اس رنگ میں بھی وحی نازل کرتا ہے کہ بعض دفعہ اپنی کسی فرشتے کو بھیج دیتا ہے جو واسطہ بن کر اس کا پیغام بندے کو پہنچاتا ہے۔ وحی الٰہی کے متعلق مفردات والوں کی مذکورہ بالا تشریح کے متعلق میں یہ امر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک اس میں بعض غلطیاں ہیں جو زمانہ نبوت سے بعد کی وجہ سے ان سے ظاہر ہوئی ہیں اور جن کا اس بحث کے ضمن میں مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔
سب سے پہلی اور بڑی غلطی تو یہ ہے کہ وحی الٰہی کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے دو مختلف مضامین کو مخلوط کردیا ہے۔ وہ بتانا یہ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کلام نازل ہوتا ہے اس کی کیا قسمیں ہیں۔ مگر اس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس وحی کو بھی بیان کردیا ہے جو مکھی کی طرف ہوئی۔ حالانکہ یہ بالکل واضح بات تھی کہ وہ یہ بحث نہیں کررہے تھے کہ لغت کے لحاط سے وحی کے کیا معنے ہیں یا وحی کا اطلاق کن کن معانی پر ہوسکتا ہے۔ بلکہ وہ بتانے یہ لگے تھے کہ بشر پر جو وحی الٰہی نازل ہوتی ہے اس کی کیا قسمیں ہیں۔ مگر ان کا ذکر کرتے ہوئے اس وحی کا بھی انہوں نے ذکر کردیا جو مکھی کی طرف ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے بحث یہ اُٹھائی تھ کہ ویقال للکلمۃ الالھیۃ التی تلقی الی انبیاء ہ و اولیاء ہ وحیکہ ان کلماتِ الٰہیہ کو بھی وحی کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے اولیاء کی طرف نازل ہوتے ہیں وذالک اضرب اور اس کی کئی قسمیں ہیں۔ حسب ما دل علیہ قولہ وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا الی قولہ باذنہ مایشاء جیسا کہ خداتعالیٰ کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ کسی انسان سے اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرتا مگر اس رنگ میں یہ اس پر براہِ راست وحی نازل کرتا ہے یا اس سے وراء حجاب گفتگو کرتا ہے یا اس کی طرف کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ اس وحی کا ذکر رہاہے جو بشر پر نازل ہوتی ہے مگر اس کی تشریح کرتے ہوئے مفردات والے لکھتے ہیں واما بتسخیر نحو قولہ واوحی ربک الی النحل یا وحی تسخیر ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی۔ جب اس جگہ اس وحی کا ذکر ہورہا تھا جو بشر پر نازل پر ہوتی ہے تو غیر بشر کی وحی کا اس تشریح میں ذکر ہی کس طرح آسکتا تھا۔ پس پہلی غلطی تو یہ ہے کہ آیت اور لغت کو انہوں نے مخلوط کردیا ہے۔ بیشک لغت کے لحاظ سے یہ بات صحیح ہے کہ وحی کی یک قسم وحی تسخیر بھی ہے جیسا کہ شہد کی مکھی کی طرف وحی ہوئی مگر ماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا میں بشر کا ذکر ہے غیر بشر کا ذکر نہیں۔ مگر تشریح کرتے ہوئے وہ مکھی کا ذکر بھی لے آئے اور ان کے ذہن پر آیت قرآنی کی تشریح کی بجائے لغت غالب آگئی ۔ انہیں یہ خیال نہ رہا کہ یہاں اس وحی کا ذکر ہے جو بشر کی طرف ہوتی ہے۔ اس وحی کا ذکر ہی نہیں جو غیر بشر کی طرف ہو۔ اس لئے وحی تسخیر کا اس دوران میں کوئی ذکر ہی نہیں آسکتا تھا۔
دوسری غلطی یہ ہے کہ وہ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ذالک اما برسول تشاھد تری ذاتہ یا تو یہ کلام کسی رسول کے ذریعہ آتا ہے جس کی شکل سامنے نظر آتی ہے و یسمع کلامہ اور اس کی آواز بھی سنی جاتی ہے واما بسماع کلام من غیر معائنۃ یا بغیر کسی چیز کے دکھائی دینے کے محض آواز آجاتی ہے۔ کسماع موسی کلام اللہ جیسے موسیٰؑ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا۔ واما بالقاء فی الروع یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات دل میں ڈال دی جاتی ہے مگر اس کے بعد کہتے ہیں واما بالھام نحو و اوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ یا یہ کلام الہام کے ذریعہ نازل ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے ام موسیٰ کی طرف وحی کی۔ جب اللہ تعالیٰ کے کلام کی ایک وہ قسم بھی آچکی جس میں جبریل کا نزول ہوتا ہے، وہ قسم بھی آچکی ہے جس میں آواز سنائی دیتی ہے، وہ قسم بھی آچکی جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بات دل میں ڈال دی جاتی ہے تو پھر الہام کونسا باقی رہا جس کا وہ علیحدہ ذکر کررہے ہیں اور جس کی مثال میں انہوں نے ام موسیٰ کا واقعہ پیش کیا ہے۔ یہ صاف بات ہے کہ جبریل کے ذریعہ جو کلام آتا ہے وہ بھی الہام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر آواز آتی ہے تو وہ بھی الہام ہوتا ہے اور یہی الہام تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو ہوا مگر انہوں نے اما کہہ کر ایک اور شق قائم کردی ہے کہ وحی کی ایک قسم الہام بھی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو الہام ہوا کہ ان ارضعیہ حالانکہ یہ بات ان کی پہلی بیان کردہ قسموں میں شامل ہے کوئی علیحدہ بات نہیں جسے زائد طور پر اما کہہ کر بیان کرنے کی ضرورت ہوتی۔ اس موقعہ پر یا تو انہیں یہ بتانا چاہئے تھا کہ وحی اور چیز ہوتی ہے اور الہام اور چیز۔ اس لئے میں الہام کا علیحدہ ذکر کررہا ہوں اور الہام اور وحی میں یہ فرق ہوتا ہے مگر انہوں نے کوئی فرق نہی ںکیا اور بلاوجہ ایک علیحدہ شق اما کہہ کر قائم کردی حالانکہ یہ پہلے مضمون سے کوئی مغائر مضمون نہیں ہے۔
اگر کہا جائے کہ الہام کے معنے ان کے نزدیک ’’درد دل انداختن‘‘ کے ہوتے ہیں یعنی وہ بات جو دل میں ڈال دی جائے اسے الہام کہتے ہیں اور جو کلام الفاظ کی شکل میں نازل ہو اسے وحی کہتے ہیں۔ اسی لئے انہوںنے الہام کا علیحدہ ذکر کیاہے تو یہ بات بھی غلط ہے۔ کیونکہ وہ اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ اما بالقاء فی الروع کما ذکر علیہ السلام ان روح القدس نفث فی روعیکہ وحی بعض دفعہ القاء فی الروع کی صورت میں بھی ہوتی ہے۔ جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ روح القدس نے یہ بات میرے دل میں ڈال دی ہے۔ جب القاء فی الروع کا پہلے ذکر آچکا ہے تو اس کے بعد امابالھام نحو و اوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ کہنا بتاتا ہے کہ ان کا یہ منشاء نہیں ہوسکتا کہ الہام سے مراد درد دل انداختن ہے کیونکہ یہ مضمون پہلے آچکا ہے۔
میرے نزدیک تو انہوں نے بھول کر دوبارہ اما بالھام نحو و اوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ الخ لکھ دیا ہے۔ چنانچہ مجمع البحار والوں نے کہا ہے کہ مفردات راغب کی یہ بات غلط ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں واوحینا الی ام موسی وحی اعلام لا الہام لقولہ تعالیٰ انا رادو ہ الیک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف یہ وحی جو نازل ہوئی تھی کہ انا رادوہ الیک ہم اسے الہام نہیں کہہ سکتے کیونکہ الہام تو درد دل انداختن کو کہتے ہیں اور یہاں صاف الفاظ موجود ہیں کہ انا رادوہ الیک ہم اسے تیری طرف واپس لوٹائیں گے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ دل میں کوئی بات ڈالی جائے مگر اس کے الفاظ معین صورت میں نظر نہیں آتے۔ الفاظ کا معین صورت میں نازل ہونا بتارہا ہے کہ الہام نہیں اعلام ہے ۔ اعلام کے معنے اظہار کے ہوتے ہیں اور الہام سابق مفسرین کے نزدیک درد دل انداختن کو کہا جاتا ہے۔ یہ بھی عربی زبان کا ایک کمال ہے کہ حروف کے معمولی فرق کے ساتھ معانی میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر ایک آدمی سے کوئی بات کہی جائے تو اسے اعلان کہتے ہیں ۔ چونکہ میم پہلے آتا ہے اور نون بعد میںاس لئے ایک آدمی سے تعلق رکھنے والی بات کو اعلام کہا جاتا ہے اور زیادہ آدمیوں سے تعلق رکھنے والی بات کو اعلان کہا جاتا ہے۔ بہرحال مجمع البحار والوں نے ان الفاظ میں مفردات کی ہی تردید کی ہے کہ اس میں جو لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو الہام ہو یہ صحیح نہیں۔ انہیں وحی اعلام ہوئی تھی کیونکہ اس کے معین الفاط تھے۔ وہ الہام نہ تھی کیونکہ الہام تو درد دل انداختن کو کہا جاتا ہے۔ میرے نزدیک مفردات والوں نے بھول کر الہام کا دوبارہ ذکر کردیا ہے۔ کیونکہ قلبی الہام کا وہ اس سے پہلے خود ذکر کرچکے ہیں یا ممکن ہے ان کا مفہوم کچھ اور ہو ، مبہم عبارت کی وجہ سے اس کا مطلب صحیح سمجھ میں نہ آتا ہو۔
الغرض وحی کے معنے کرتے ہوئے امام راغب صاحب نے جو یہ تشریح کی ہے کہ فالالھام والتسخیر والمنام دل علیہ قول الا وحیا کہ الہام (جس کے معنے سابق علماء کے نزدیک درد دل انداختن کے ہیں) اور تسخیر اور منام یہ وحی کے ماتحت آتے ہیں اور وراء حجاب سے مراد انہوں نے یہ لیا ہے کہ خداتعالیٰ خود کلام کرے لیکن نظر نہ آئے اور یرسل رسولا کا مطلب یہ لیا ہے کہ خداتعالیٰ خود کلام نہ کرے بلکہ جبریل کے واسطہ سے اپنا کلام بھجوائے اور جبریل نظر نہ آئے۔ میرے نزدیک ان کی یہ تشریح درست نہیں کیونکہ نہ ہر وحی قرآنی کے وقت جبریل نظر آتے تھے نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سارا کلام من وراء حجاب تھا۔ پھر ان کا من وراء حجاب سے یہ مراد لینا کہ خداتعالیٰ نظر نہ آئے تو یہ تعریف تو ہر وحی پر چسپاں ہوگی خواہ کسی قسم کی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الواء ہے۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو منام کا نام وحی رکھتے ہیں مگر ساتھ ہی رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بھی نقل کرتے ہیں کہ انقطع الوحی و بقیت المبشرات وحی منقطع ہوگئی اب صرف مبشرات باقی رہی گئے ہیں اور مبشرات سے مراد وہ سچے رئویا ہیں جو مومنوں کو ہوتے ہیں۔ اگر منام کا نام ہی وحی ہے تو پھر یوں کہنا چاہئے تھا کہ انقطع کلام ورایٔ الحجاب الا الوحی۔ اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو پس پردہ ہوا کرتا تھا وہ اب بند ہوچکا ہے اب صرف وحی باقی رہ گئی ہے جس سے مراد خوابیں ہیں۔ پس یہ تشریح جو مفردات والوں نے کی ہے اس قابل نہیں کہ اسے قبول کیاجائے۔
اصل بات یہ ہے کہ الہام کے معنے سمجھنے میں پہلے علماء کو بہت غلط فہمی ہوئی ہے اور اسی بناء پر وہ الہام کی تعریف یہ کرتے رہے ہیں کہ درد دل انداختن۔ ایسی بات جو دل میں ڈال دی جائے اس کو الہام کہتے ہیں۔ حالانکہ الہام اور وحی دونوں ایک ہی چیزیں ہیں اور ان میں کسی قسم کا فرق نہیں۔ یہ صرف صوفیاء کی اصطلاح تھی کہ انہوں نے اس کلام کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نازل ہوتا تھا الہام کہنا شروع کردیا تاکہ لوگ کسی فتنہ میں نہ پڑیں ورنہ الہام اور وحی میں کوئی فرق نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی کئی جگہ الہام کا لفظ استعمال کیا ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ میں اس کلام کو الہام صرف اس لئے کہتا ہوں کہ صوفیاء نے ایک اصطلاح قائم کردی ہے اور لوگوں میں اس اصطلاح کا رواج ہوگیا ہے۔ ورنہ میں اس بات کا قائل نہیں کہ الہام اور چیز ہے اور وحٰ اور چیز۔ جس چیز کا نام لوگ الہام رکھتے ہیں اسی چیز کا نام وحی ہے۔ پس الہام و ہ اصطلاح ہے جو لفظی کلام کے متعلق صوفیاء نے قائم کی ہے ورنہ قرآن کریم میں ہر جگہ وحی کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے الہام کا لفظ صرف ایک جگہ استعمال ہوا ہے اور وہ بھی وحی کے معنوں میں نہیں بلکہ میلانِ طبیعت کے معنوں میں جیسا کہ فرماتا ہے فالھمھا فجورھا و تقوھا (الشمس ۱۶ع۱) اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو برائیوں اور نیکیوں کے متعلق الہام کیا ہے۔ اب اس کے معنے کسی خارجی الہام کے نہیں بلکہ صرف میلانِ طبع کے معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ تسخیر اور میلان میں فرق ہوتا ہے۔ میلان تو اختیاری ہوتا ہے لیکن تسخیر اختیاری نہیں ہوتی بلکہ جس لائن پر کسی چیز کو کھڑا کردیا جائے تو وہ مجبور ہوتی ہے کہ اسی لائن پر کھڑی رہے اور اس سے ذرا بھی اِدھر اُدھر نہ ہو۔ مثلاً مکھی یہ نہیں کرسکتی کہ وہ شہد بنانا چھوڑے دے لیکن انسان کو اختیار ہے کہ چاہے تو تقویٰ اختیار کرے اور چاہے تو فجور کے راستہ پر چل پڑے۔ پس الہام کا لفظ جو مفردات والوں کے استعمال کیا ہے قرآن کریم میں ان معنوں میں استعمال ہی نہیں ہوا جن معنوں میں انہوں نے استعمال کیا ہے اور نہ الہام کا لفظ آیت میں ان معنوں میں استعمال ہوا ہے جو صوفیاء مراد لیتے ہیں۔ یہ لفظ بعد کے زمانہ میں صوفیاء نے لفظی وحی کیلئے ایجاد کیا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے متعلق یہ وضاحت فرمادی ہے کہ جو کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوتا ہے وہی وحی ہے مگر چونکہ لوگوں میں اس کے متعلق الہام کا لفظ رائج ہے اس لئے میں بھی اسے الہام کہہ دیتا ہوں ورنہ الہام اور وحی دونوں مترادف الفاظ ہیں ان میں کوئی فرق نہیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں جو یہ مسئلہ پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنا کلام ملائکہ کے ذریعہ نازل فرماتاہے اس کے یہ معنے نہیں کہ ملائکہ صرف او یرسل رسولا والی وحی کے ساتھ نازل ہوتے ہیں بلا واسطہ وحی کے ساتھ نازل نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کے ہر الہام کے ساتھ ملائکہ کا نزول ہوتا ہے اور کوئی ایک الہام بھی ایسا نہیں ہوسکتا جس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ اس کے ساتھ فرشتے نازل نہیں ہوتے۔ مگر بعض لوگ غلط فہمی سے اس کا یہ مطلب لے لیتے ہیں کہ جبریل ہر الہام کے ساتھ آکر کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے فلاں بات آپ کو پہنچانے کا حکم دیا ہے حالانکہ یہ بات صحیح نہیں۔ ملائکہ کے نزول کے صرف اتنے معنے ہیں کہ ہر الہام فرشتوں کی حفاظت کے ساتھ آتا ہے۔ یہ معنے نہیں کہ ہر الہام کے ساتھ فرشتے آکر یہ کہتے بھی ہیں کہ ہیں فلاں بات پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات اس کی تائید میں موجود ہیں۔ مثلاً ایک الہام میں تو یہ ذکر آگیا کہ جاء نی ائل (تذکرہ ص ۶۰۳)۔ میرے پاس جبریل آیا۔ مگر باقی الہامات کے ساتھ یہ بات بیان نہیں ہوئی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ اس رنگ میں نہیں جس رنگ میں لوگ سمجھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ جب آپ کو یہ الہام ہوا تھا کہ انی مع الافواج اتیک بغتۃ (تذکرہ ص ۵۰۶) تو فرشتوں نے آکر یہ کہا ہو کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ الہام نازل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایسا نہیں ہوا کرتا بلکہ بندہ اس وقت یہ محسوس کیا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست ایک کلام مجھ پر نازل ہورہا ہے مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے اس کلام کے ساتھ حفاظت کیلئے ضرور آتے ہیں۔ عام لوگوں کے الہامات کے ساتھ اس لئے نہیں آتے کہ اگر ان الہامات میں کوئی گڑ بڑ بھی ہوجائے تو پروا نہیں ہوتی لیکن انبیاء یا ان سے اتر کر وہ لوگ جو دنیا کی اصلاح کیلئے کھڑے کئے جاتے ہیںان کے الہامات چونکہ لوگوں کیلئے حجت ہوتے ہیں اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ فرشتوں کی حفاظت میں اتارے جائیں۔ بہرحال الہامات کے ساتھ فرشتوں کا نازل ہونا یہ معنے نہیں رکھتا کہ مثلاً جب آیت الم ذالک الکتب لاریب فیہ اتری تھی تو اس وقت جبریل نے یہ آکر کہا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں یہ آیت آپ تک پہنچائوں۔ ایسا ذکر صرف چند سورتوں کے متعلق آیا ہے۔ مثلا سورۃ البینہ کے متعلق آتا ہے یا یہ آتاہے کہ رمضان المبارک کے ایام میں جبریل آتے اور جس قدر حصہ قرآن نازل ہوچکا ہوتا رسول کریم ﷺ کے ساتھ مل کر اس کا تکرار کیا کرتے۔ مگر ہر الہام کے متعلق نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ احادیث سے کہ جبریل آکر یہ کہتا ہو کہ مجھے خدا نے فلاں بات پہنچانے کا حکم دیا ہے۔ ہاں ہر الہام کے ساتھ حفاظت جبریل ضرور ہوتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ الہام کے وقت چونکہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ایک آواز پیدا کرتا ہے اور اس آواز میں شیطان بھی دخل دے سکتا ہے اس لئے فرشتوں کا ساتھ ہونا ضروری ہوتا ہے تاکہ بندہ کے دل میں وہ اس وحی کی صداقت کے متعلق یقین پیدا کریں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب میں لکھا ہے کہ خواہ مجھے صلیب پر لٹکادیا جائے مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتاکہ وہ کلام جو مجھ پر نازل ہوتا ہے اسی خدا کا کلام ہے جس نے آدمؑ سے کلام کیا، جس نے نوحؑ سے کلام کیا، جس نے ابراہیمؑ سے کلام کیا، جس نے موسیٰؑ سے کلام کیا، جس نے عیسیٰؑ سے کلام کیا اور جس نے سب سے بڑھ کر محمد مصطفی ﷺ سے کلام کیا۔ یہ یقین فرشتوں کی حفاظت کی وجہ سے ہی پید اہوتا ہے مگر عام لوگوں کے الہامات کے ساتھ چونکہ فرشتے نہیں اترتے اس لئے باوجود الہا کے ان کے اندر یقین اور ثبات اور استقلال نہیں پایا جاتا ۔ ہم نے دیکھا ہے بعض لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ خدا نے بتایا ہے کہ آپ سچے ہیں ۔ اس وقت وہ روتے بھی ہیں گڑگڑاتے بھی ہیں اپنے سابق اعمال پر پشیمانی او رندامت کا بھی اظہار کرتے ہیں مگر چند دنوں کے بعد ہی مرتد ہوجاتے ہیں۔ اب جہاں تک ان کی بات کا تعلق ہوتا ہے وہ سچی ہوتی ہیں واقعہ میں انہیں الہام ہوا ہوتا ہے اور اسی کی بناء پر وہ بیعت کیلئے آتے ہیں مگر چونکہ فرشتے ان کے ساتھ نہیں ہوتے ان کے قلب کو وہ ثبات نہیں بخشا جاتا جو انبیاء و اولیاء کے قلوب کو بخشا جاتا ہے اسی لئے وہ تھوڑے سے ابتلاء کو بھی برداشت نہیں کرسکتے اور ٹھوکر کھاجاتے ہیں۔ لیکن نبی کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ پہلے الہام کے ساتھ ہی اس کے دل کو غیرمعمولی ثبات عطا کیاجاتا ہے اور اپنے الہام پر سب سے پہلا ایمان لانے والا خود نبی کا وجود ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر نبی اپنے آپ کو انا اول المسلمین (الانعام ۷ع۲۰) یا انا اول المومنین (الاعراف ۷ع۱۷) قرار دیتا ہے۔ کیونکہ اگر اسے خود یقین نہ ہو تو وہ دوسروں کے دل میں کس طرح یقین پیدا کرسکتا ہے۔ چونکہ پہلا یقین خود نبی کے دل میں پیدا کیا جاتا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ بعد میں ساری دنیا مخالف ہوجاتی ہے اور بعض دفعہ انذاری پیشگوئیاں اپنی مخفی یا ظاہر شرائط کی بناء پر ٹل جاتی ہیں اسے ایک لمحہ بھر کیلئے بھی اپنے الہامات کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب آتھم والی پیشگوئی کی اورمیعاد کے ختم ہونے کا دن آیا تو مجھے وہ نظارہ اب تک یاد ہے کہ آج کل جہاں حکیم مولوی قطب الدین صاحب کا مطب ہے وہاں لوگ جمع ہوئے اور چیخیں مارمار کر دعائیں کرنے لگے کہ الٰہی یہ پیشگوئی ضرور پوری ہوجائے۔ ایک پٹھان عبدالعزیز ہوا کرتا تھا وہ تو دیوار کے ساتھ بے تحاشا اپنا سر مارتا اور کہتا خدایا اب یہ سورج نہ ڈوبے جب تک آتھم نہ مرجائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس کا علم ہوا تو آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ چیخیں مار مار کر انہوں نے آسمان سر پر اٹھالیا ہے اگر جھوٹے ہوں گے تو ہم ہوں گے ان کو کس بات کا فکر ہے۔
اب دیکھو جماعت کے لوگ گھبرارہے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے صرف کلام سنا تھا ملائکہ کے نزول کی وجہ سے جو ثباتِ قلب عطا کیا جاتا ہے وہ ان کو حاصل نہیں تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلب کو غیر معمولی ثبات حاصل تھا اور آپ سمجھتے تھے کہ یہ چیخ و پکار بے معنی بات ہے جس خدا کا کلام مجھ پر نازل ہوا ہے وہ اپنے کلام کو آپ پور اکرے گا اور اگر کسی شرط کی وجہ سے وہ ٹل جائے تب بھی کیا ہوا انذاری پیشگوئیوں کے متعلق جو سنت چلی آرہی ہے بہرحال اسی کے مطابق ہوگا اس لئے گھبراہٹ اور فکر کی کوئی بات نہیں۔
پس اللہ تعالیٰ کے کلام کے ساتھ خواہ وہ بلا واسطہ نازل ہو فرشتوں کا آنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر یہ خیال کرلینا کہ ہر کلام کے ساتھ فرشتہ آکر یہ کہتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاں بات پہنچاتا ہوں بالکل غلط ہے۔ حدیثوں میں بھی صرف پانچ سات ایسی مثالیں مل سکتی ہیں جن میں اتانی جبریل کے الفاظ آتے ہوں مگر اور کسی جگہ یہ ذکر نہیں آتا یا رمضان کے متعلق آتا ہے کہ ان ایام میں جبریل آتے اور رسول کریم ﷺ کے ساتھ مل کر قرآن کریم کی تلاوت کرتے مگر یہ صورت بالکل اور ہے۔ اس میں جبریل کی حقیقت محض ایک سامع کی ہوتی تھی اور جبریل کا آنا اس لئے ضروری تھا کہ رسول کریم ﷺ کیلئے قرآن کریم کا ہرلفظ یاد رکھنا ضروری تھا۔ باقی لوگ اگر قرآن کریم پڑھنے میں کوئی غلطی کرتے تو اور لوگ اس کی اصلاح کرسکتے تھے لیکن اگر رسول کریم ﷺ کوئی غلطی کرتے تو لوگ کس طرح درست کرتے وہ سمجھتے کہ شاید رسول کریم ﷺ پر اسی رنگ میں کلام نازل ہوا ہے یا پہلے کلام میں کوئی تبدیلی ہوگئی ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے جبریل کو سامع بنادیا تاکہ اگر تلاوت میں رسول کریم ﷺ سے کوئی غلطی ہوجائے تو جبریل آپ کو بتادیں اور آپ اس کی اصلاح کرلیں۔ پس یہ صورت بالکل اور ہے اس سے یہ استدلال نہیں ہوسکتا کہ ہر کلام کے ساتھ اس رنگ میں فرشتے کا نازل ہونا ضروری ہے کہ وہ آکر یہ کہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے فلاں بات آپ کو پہنچانے کا حکم دیا ہے۔ ایسا طریق صرف بعض الہامات میں اختیار کیا جاتا ہے باقی الہامات کے ساتھ فرشتوں کا نزول صرف اتنا مفہوم رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام فرشتوں کی حفاظت میں نازل فرماتاہے۔
پھر امام راغب لکھتے ہیں و قولہ ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او قال اوحی الی ولم یوح الیہ شی ء فذالک لمن یدعی شیئا من انواع ما ذکرنہ من الوحی ای نوع ادعاہ من غیر ان حصل لہ۔ یعنی یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر دیدہ دانستہ جھوٹ باندھے یا کہے کہ میری طرف وحی کی گئی ہے۔ حالانکہ اس کی طرف کوئی وحی نہ ہوئی ہو۔ اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ ذالک لمن یدعی شیئا من انواع ما ذکرنہ من الوحی ۔ یہ وعید اس شخص کے بارہ میں ہے جو وحی کے متعلق ہماری بیان کردہ قسموں میں سے کسی شق کے ماتحت آجائے اور دعویٰ کرے کہ مجھ پر فلاں قسم کی وحی نازل ہوتی ہے۔ ای نوع ادعاہ من غیر ان حصل لہ۔ یہ سوال نہیں ہوگا کہ فلاں قسم کی وحی کے متعلق اس نے دعویٰ کیا ہے اور فلاں قسم کی وحی کے متعلق اس نے دعویٰ نہیں کیا۔ اوپر کی بیان کردہ قسموں میں سے خواہ کسی قسم کی وحی کا وہ دعویٰ کرے اور اس کی حالت یہ ہو کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی وحی نازل نہ ہوتی ہو تو بہرحال وہ اس آیت کے ماتحت آجائے گا اور اللہ تعالیٰ کا عذاب اس پر نازل ہوگا۔
یہ ایک نہایت ہی لطیف بات ہے جو مفردات والوں نے بیان کی ہے۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ لغت نے تو وحی کے کئی معنے بیان کئے ہیں جن میں سے بعض ایسے ہیں جن کا وحی الٰہی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او قال اوحی الی ولم یوح الیہ شیء میں کس قسم کی وحی کا ذکر کیا گیاہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں صرف اس وحی الٰہی کا ذکر کیا گیا ہے جس کی مختلف اقسام ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ اگر کسی شخص کا دعویٔ وحی و الہام ان شقوں کے ماتحت نہیں آئے گا تو اس پر اس آیت کا اطلاق بھی نہیں ہوگا۔ یہ آیت صرف اسی شخص پر چسپاں ہوگی جو وحی الٰہی کی بیان کردہ قسموں میں سے کسی قسم کا ادّعا کرتا ہو۔ یہ ایک لطیف نکتہ ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہائیوں کو سخت دھوکا لگا ہے۔ وہ اپنے پاس سے وحی کی ایک تعریف کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں جب بہاء اللہ اس بات کا مدعی تھا کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور تمہارے نزدیک وہ جھوٹ اور افتراء سے کام لے رہا تھا تو اس پر عذاب کیوں نہ آیا۔ حالانہ عذاب صرف اس شخص پر نازل ہوسکتا ہے جو وحی کے متعلق قرآن کریم کی بیان کردہ قسموں میں سے کسی قسم کا دعویٰ کرے نہ یہ کہ خلاف قرآن اورخلافِ اسلام اور خلافِ مذہب وحی کی ایک نئی تعریف کرکے اور اپنے آپ کو اس وحی کا مورد قرار دے کر یہ شور مچانا شروع کردے کہ جب میں اپنے اوپر وحی نازل ہونے کا مدعی ہوں تو مجھ پر عذاب کیوں نہیں آتا۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے مفتری علی اللہ پر عذاب نازل کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے مگر بہرحال یہ عذاب اسی شخص پر نازل ہوسکتا ہے جو اس قسم کی وحی کا دعویٰ کرے جس سے سابق انبیاء کی نبوتیں مشتبہ ہونے لگ جائیں۔ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ مجھ پر اس قسم کی وحی نازل ہوتی ہے جس قسم کی وحی انبیاء سابقین پرنازل ہوا کرتی تھی ۔ جس طرح آدمؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیاتھا یا نوحؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا یا ابراہیمؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا یا موسیٰؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا یا عیسیٰؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا یا محمد رسول اللہ ﷺ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا۔ اسی طرح مجھ سے خداتعالیٰ کلام کرتا ہے اور وہ کلام اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے بھی ویسا ہی ہے جیسے انبیاء کا کلام ہوتا ہے تو پھر بے شک اس کے جھوٹے ہونے کی صورت میں خطرہ ہوسکتا ہے کہ لوگ ٹھوکر نہ کھائیں اور بے شک اس وقت ضروری ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے عذاب سے ہلاک کرے۔ لیکن اگر وحی کی اپنے پا س سے ایک نئی تشریح کرتا ہے اور اس نئی قسم کی وحی کا اپنے آپ کو مورد قرار دیتا ہے تو وہ قرآنی وعید کے ماتحت نہیں آسکتا۔ جیسے بہائیوں کی حالت ہے کہ ان کے نزدیک وحی صرف قلبی خیالات کا نام ہے۔ وہ بہاء اللہ کی نسبت لفظی الہام کے قائل نہیں ہیں الا ماشاء اللہ۔وہ سمجھتے ہیں انسان کے دل میں جو بھی خیال پیدا ہوتا ہے وہ وحی ہوتا ہے۔ یہی حال لاہور کے میاں غلام محمد کا ہے وہ بھی اپنے دل کے خیالات کا نام وحی رکھ لیتے ہیں۔ اب اگر دنیا میں کوئی شخص ایسا ہے جو کہتا ہے کہ میرے دل میں جو بھی خیال اُٹھتا ہے وہ وحی ہے تو اللہ تعالیٰ کو اسے سزا دینے کی کیا ضرورت ہے۔ ہر شخص ایسے مدعی کا پاگل ہونا آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سزا دینے کی تو تب ضرورت محسوس ہو جب کسی کے دعویٔ وحی و الہام سے محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت مشتبہ ہونے لگے یا موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کی وحی کا معاملہ مشتبہ ہونے لگے اور یہ معاملہ اسی وقت مشتبہ ہوسکتا ہے جب کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ مجھ پر اسی رنگ میںکلام نازل ہوتا ہے جس رنگ میں کلام موسیٰؑ پر نازل ہوا۔ یا مجھ پر اسی رنگ میںکلام نازل ہوتاہے جس رنگ میں عیسیٰؑ پر کلام نازلہوا۔ یا مجھ پر اسی رنگ میں کلام نازل ہوتا ہے جس رنگ میں کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر کلام نازل ہوا۔ جب تک کوئی شخص اس قسم کی وحی کا اپنے آپ کو مورد قرار نہیں دیتا اس کے دعویٰ سے کوئی حقیقی خطرہ پیدا نہیں ہوتا۔ پس اس کا لازماً الٰہی گرفت میں آنا بھی ضروری نہیں ہوتا۔ پس مفردات والے کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں تقول اور افتراء علی اللہ سے کام لینے والوں کیلئے جس عذاب کی خبر دی گئی ہے وہ اسی صورت میں نازل ہوسکتا ہے جب کوئی شخص جھوٹے طور پر اس وحی کا دعویٰ کرے جس کے مختلف اقسام کا ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں۔ ان میں سے خواہ کسی قسم کا وہ مدعی بن جائے اللہ تعالیٰ اسے یقینا عذاب دے گا۔ مثلاً وہ یہی کہے کہ مجھ سے جبریل اسی طرح کلام کرتا ہے جس طرح اس نے محمد رسول اللہ ﷺ سے کلام کیا تھا یا کہے کہ الفاظ معینہ مجھ پر نازل ہوتے ہیں یا یہ کہے کہ حالت منام میں مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف باتیں بتائی جاتی ہیں اور واقعہ یہ ہو کہ نہ جبریل اس سے کلام کرتا ہو نہ الفاظ معینہ اس پر نازل ہوتے ہوں نہ تمثیلی نظاروں میں اسے غیب کی خبروں سے مطلع کیاجاتا ہو تو ایسا شخص یقینا قرآنی وعید کے ماتحت آئے گا۔ لیکن اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میرے دل میں جو بھی خیال اُٹھتا ہے وہ وحی ہے تو چونکہ یہ قرآنی وحی کی قسموںمیںشامل نہیں اورچونکہ اس طریق سے نہ کسی نبی کی نبوت مشتبہ ہوتی ہے اور نہ کسی دانا شخص کو دھوکا لگ سکتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کو اسے عذا ب دینے کی ضرورت بھی نہی ہوتی۔ہر انسان اپنی عقل سے کام لے کر فوراً فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ پاگل ہے یا شرارتی۔ اس میں دھوکا لگنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ ہاں اگر وہ یہ کہے کہ مجھ پر جبریل نازل ہوتا ہے اور وہ مجھے اللہ تعالیٰ کا کلام پہنچاتا ہے یا کہے کہ خداتعالیٰ میرے کانوں پر یا میری زبان پر معین الفاظ میں اپنا کلام نازل کرتا ہے یا حالت منام میں غیب کی خبروں سے اطلاع دیتا ہے تب بے شک اس پر عذاب نازل ہوگا۔ یہ بہت عمدہ استدلال ہے جو مفردات والوں نے کیا ہے۔
پھر لکھتے ہیں یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لاالہ الا انا فاعبدون (انبیاء ۲ع۲) ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہمیشہ اس کی طرف یہ وحی نازل کرتے رہے کہ سوائے میرے اور کوئی خدا نہیں تم ہمیشہ میری ہی عبادت کیاکرو۔ فھذا الوحی ھو عام فی جمیع انواعہ و ذالک ان معرفۃ وحدانیۃ اللہ تعالی و معرفۃ وجوب عبادتۃ لیست مقصورۃ علی الوحی المختص باولی الاعزم من الرسل بل یعرف ذالک بالعقل والالھام کما یعرف بالسمع فاذا القصد من الایۃ تنبیہ انہ من المحال ان یکون رسولہ لا یعرف وحدانیۃ اللہ و وجوب عبادتہ۔ یعنی اس آیت میں جو وحی کا لفظ ہے اس سے لفظی وحی مراد نہیں بلکہانبیاء کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جو توحید کا مادہ رکھا ہوا ہوتا ہے وہ مرادہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس فطرتی مادہ کے مطابق ہر نبی کو یہ علم ہوتا ہے کہ میں نے اللہ تعالی کی ہی عبادت کرنی ہے اور کسی کی عبادت نہیں کرنی۔ گویا ان کے نزدیک اس جگہ وحی سے مخصوص وحی مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ہر نبی کی فطرت میں یہ مادہ رکھ دیا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور شرک کے کبھی قریب بھینہ جائے۔ مگرمیرے نزدیک یہ معنے بالکل غلط ہیں۔ اگر توحید کے متعلق اللہ تعالیٰ کو اپنے انبیاء کی طرف مخصوص وحی نازل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہی فطرتی مادہ کافی ہوتا جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف س عطا کیاجاتا ہے تو رسول کریم ﷺکی طرف کیوں ایسی بیسیوںآیات نازل ہوئی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا مسئلہ بڑے زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے؟ یہ امر ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کبھی شرک نہیں کیا۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ مشرکین مکہ میں سے بعض آدمیوں نے آپ کے سامنے کچھ کھانا رکھا مگر چونکہ وہ کھانا بتوں کے چڑھاوے کا تھا آپ نے اس کے کھانے سے انکار کردیا اور زید بن عمرو کی طرف سرکادیا جو حضرت عمرؓ کے چچازاد بھائی تھے اور اس وقت آپ کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ مگر انہوں نے بھی وہ کھانا نہ کھایا بلکہ قریش کو مخاطب کرکے کہا کہ ہم بتوں کے چڑھاوے کا کھانا نہیں کھایا کرتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ ابتداء سے ہی توحید کے قائل تھے اور شرک کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے مگر اس کے باوجود قرآن کریم میں توحید کا مضمون آیا ہے۔ قرآن کریم کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ توحید کے مضامین سے بھرا پڑا ہے اور اس میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا ذکر آتا ہے۔ پس یہ معنے جو مفردات والوں ے کئے ہیں صحیح نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا مادہ پیدا کردیا جاتا ہے کہ وہ طبعی طور پر شرک سے متنفر ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی طرف توحید کے متعلق کسی وحی کے نازل کرنے کی ضرورت ہوتی۔ باوجود اس کے کہ وہ ذاتی طور پر توحید کے قائل ہوتے ہیں شرک سے متنفر ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے سامنے سربسجود ہونے کو جائز نہیں سمجھتے پھر بھی ان کی طرف توحید کے متعلق وحی نازل کی جاتی ہے اور قرآن کریم میں اس کی بیسیوں مثالیں ملتی ہیں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں وقولہ تعالی واذ اوحیت الی الحواریین فذالک وحی بواسطۃ عیسی علیہ السلام۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ اوحیت الی الحواریین۔ میں نے حواریوں کی طرف وحی کی اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر حواری کو رات کے وقت الگ الگ وحی ہوئی تھی کہ اُٹھ میاں! ہمارے نبی کی مدد کر۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وحی ہوئی اور انہوں نے وہ وحی حواریوں تک پہنچادی یہ با ت واقعہ میں درست ہے اور اس آیت کا یہی مطلب ہے۔ و اوحینا لیھم فعل الخیرات فذالک وحی الی الامم بواسطۃ الانبیاء۔ اور یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ ہم نے ان کی طرف وحی کی کہ وہ نیک کام کریں یہ وحی امتوں کی طرف ان کی انبیاء کے واسطہ سے تھی۔ میرا خیال ہے کہ اس موقعہ پر مفردات والوں نے قرآن کریم کو کھول کر نہیں دیکھا ورنہ وہ ایسا نہ لکھتے۔ انہوں نے الیھم کے لفظ سے یہ سمجھ لیا کہ اس سے تمام بنی نوع انسان مراد ہیںحالانکہ یہ درست نہیں۔ یہ آیت سورئہ انبیاء میں آتی ہے اور وہاں حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ واوحینا لیھم فعل الخیرات و اقام الصلوٰۃ و ایتاء الزکوۃ و کانوا لنا عابدین (الانبیاء ۵ع۵) ہم نے ان کی طرف وحی کی کہ وہ نیک کام کریں۔ نمازوں کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں وکانوا لنا عابدین اور وہ لوگ ہمارے عبادت گزار بندے تھے۔ پس اس جگہ عام لوگوں کاذکر نہیں بلکہ صرف حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کا ذکر ہے مگر انہوں نے ھم کی ضمیر کی وجہ سے یہ خیال کرلیا کہ اس سے عامۃ المسلمین مراد ہیں۔ پھر یہ بھی صحیح نہیں کہ اس سے مراد صرف وہ وحی ہے جو انبیاء کے واسطہ سے امتوں سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ یہ احکام ایسے ہیں جو انبیاء کے ساتھ بھی تعلق رکھتے ہیں۔ کیا انبیاء کو فعل الخیرات کاحکم نہیں ہوتا یا انبیاء کو اقامۃ الصلوٰۃ کا حکم نہیں ہوتا یا انبیاء کو ایتاء الزکوٰۃ کا حکم نہیں ہوتا؟ جب انبیاء کے ساتھ بھی یہ احکام تعلق رکھتے ہیں تو ان کا یہ کہنا درست نہ رہا کہ اس سے صرف وہ وحی مراد ہے جو انبیاء کے واسطہ سے امتوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہوتی ہے۔
پھر لکھتے ہیں ومن الوحی المختص بالنبی علی السلام اتبع ما اوحی الیک من ربک ان اتبع الا مایوحی الی۔ وحی کی ایک قسم وہ ہے جو رسول کریم ﷺ کی ذات کے ساتھ مختص تھی جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اتبع مااوحی الیک من ربک (الانعام ۱۹ع۱۴) تیری طرف جو وحی نازل کی گئی ہے اس کی اتباع کر یا قرآن کریم میں آتا ہے ان اتبع الا ما یوحی الی (الانعام ۱۱ع۵) میں تو اسی بات کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کے ذریعہ نازل کی جاتی ہے۔ مگر یہ معنے بھی صحیح نہیں۔ رسول کریم ﷺ پر جو وحی نازل ہوتی تھی وہ سب کیلئے تھی۔ صرف آپ کی ذات کے ساتھ وہ مخصوص نہیں تھی وقولہ و اوحینا الی موسی و اخیہ فوحیہ الی موسی بوساطۃ جبریل و وحیہ تعالیٰ الی ھارون بوساطۃ جبریل وموسی۔ اور یہ جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کی طرف وحی کی فوحیہ الی موسی بوساطۃ جبریل۔ پس موسیٰ ؑ کی طرف اللہ تعالیٰ کی جو وحی نازل ہوتی تھی وہ جبریل کی وساطت سے نازل ہوتی تھی۔ ووحیہ الی ھارون بوساطۃ جبریل و موسی لیکن ہارون کی طرف اللہ تعالیٰ کی جو وحی ہوتی تھی وہ جبریل اورموسیٰؑ دونوں کی وساطت سے ہوتی تھی۔ یعنی کبھی موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی کو ہارون کی وحی بھی قرار دے دیا جاتا تھا اورکچھ وحی حضرت ہارونؑ پر بھی براہ راست نازل ہوتی تھی۔ یہاں مفردات والوں نے ایک لطیف نکتہ بیان کیا ہے جو پیغامیوں کے ردّ میں بہت کام آسکتاہے۔
پیغامیوں کی طرف سے ہمیشہ یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ نبی کسی کا متبع نہیں ہوتا۔ میں نے اس کے جواب میں انہیں بارہا کہا تھا کہ تمہاری یہ بات بالکل غلط ہے تم حضرت ہارون علیہ السلام کی طرف دیکھو وہ نبی تھے مگر باوجود نبی ہونے کے حضر ت موسیٰ علیہ السلام کے تابع تھے۔ پس تمہاری یہ بات درست نہیں کہ نبی کسی کا تابع نہیں ہوسکتا۔ اگر درست ہوتی تو حضرت ہارونؑ موسیٰؑ کے کس طرح متبع ہوجاتے۔ ہارون تو موسیٰؑ کے اس قدر متبع تھے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پہاڑ پر گئے اور ان کی قوم شرک میں مبتلا ہوگئی تو وہ سخت ناراضگی اور غضب کی حالت میں واپس آئے اور حضرت ہارون علیہ السلام سے نہایت سختی کے ساتھ کہا کہ افعصیت امری (طٰہٰ ۱۴ع۵) کیا میرے صریح حکم کی اس طرح خلاف ورزی کی جاتی ہے؟ اگر وہ متبع نہ ہوتے تو حضرت موسیٰؑ ان پر کس طرح خفا ہوسکتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خفا ہونا اور ان سے جواب طلب کرنا بتاتا ہے کہ وہ موسیٰؑ کے تابع تھے۔ پس یہ صحیح نہیں کہ نبی کسی کا تابع نہیں ہوسکتا۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہارونؑ موسیٰؑ کے تابع نہیں تھے تو دونوں پر وحی کس طرح نازل ہوتی تھی؟ اس کے جواب میں غیر مبائعین یہ کہا کرتے ہیں کہ دونوں پر برابر وحی نازل ہوتی تھی۔ جو وحی موسیٰ پر ہوتی تھی وہی وحی ہارونؑ پر بھی نازل کردی جاتی تھی۔ تورات بھی دونوں پر اتری تھی۔ ادھر موسیٰ پر تورات کا نزول ہوتا تھا اور ادھر ہارون پر تورات کا نزول ہوتا تھا۔ یہ بات اتنی احمقانہ ہے کہ اسے سن کر حیرت آتی ہے کہ ایک ہی وقت ایک کلام دو مختلف انسانوں پر بغیر کسی حکمت کے نازل کیا جاتا ہو۔ گویا نعوذباللہ خداتعالیٰ کو شبہ تھا کہ ایسا نہ میں کسی ایک کی طرف وحی نازل کروں تو وہ دوسرے کو جھوٹ بول کر کچھ اور بتادے۔ اس لئے خداتعالیٰ کو یہ احتیاط کرنی پڑی کہ ادھر موسیٰ پر وہ کلام نازل کرتا اور ادھر ہارون پر نازل کرتا تاکہ اگر موسیٰ جھوٹ بولے تو ہارون پکڑ لے اور ہارون جھوٹ بولے تو موسیٰ پکڑلے۔ مگر مفردات والوں نے اس مسئلہ کو بالکل صاف کردیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں جو یہ آیت آتی ہے کہ اوحینا الی موسیٰ و اخیہ ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کی طرف وحی کی اس سے کیا مراد ہے؟ آیا یہ مراد ہے کہ موسیٰ کو الگ وحی کی اور ہارون کو الگ۔ تورات ادھر موسیٰ پر نازل کی جاتی اور ادھر ہارون پر۔ یا اس سے کچھ اور مراد ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس سے مرا یہ ہے کہ موسیٰ کی طرف جو وحی ہوتی تھی وہ جبریل کے واسطہ سے تھی یعنی موسیٰ پر جبریل کی حفاظت میں وحی نازل ہوتی تھی۔ اس کے بعد موسیٰ وہ بات ہارون تک پہنچادیتے تھے اور موسیٰ کی معرفت اس الہام کا ہارون تک پہنچ جانا ہی ہارون کی وحی تھا۔ مگر چونکہ ہارون خود بھی نبی تھے اس لئے کبھی کبھی انہیں اپنے طور پر بھی الہام ہوجاتا تھا۔ مگر وہ الہامات جو شریعت اور احکام کے ساتھ تعلق رکھتے تھے وہ براہِ راست موسیٰ کو ہی ہوتے تھے۔ اور پھر موسیٰ علیہ السلام ان احکام کو حضرت ہارونؑ تک پہنچاتے تھے۔ گویا ہارون موسیٰ کو یہ کہنے کا حق نہیں رکھتے تھے کہ مجھے آج فلاں وحی ہوئی ہے۔ آپ اس کے مطابق عمل کریں۔ ہاں موسیٰ یہ حق رکھتے تھے کہ ہارون کو اللہ تعالیٰ کی وحی سے باخبر کریں اور انہیں اس کے مطابق عمل کرنے کی تاکید کریں۔ البتہ ہارون چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اس لئے بعض دفعہ ان پر بھی وحی نازل ہوجاتی تھی مگر ایسی ہی جس کا شریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ آخر وحی کی صرف اتنی ہی غرض تو نہیں ہوتی کہ اس میں شریعت کے احکام بیان کئے جائیں۔ بلکہ وحی اس لئے بھی نازل ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے اپنی محبت اور پیار کا اظہار کرنا چاہتا ہے، اس کے ایمان کو ترقی دینا چاہتا ہے، اس کے عرفان اور یقین میں زیادتی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پس ہارون چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اس لئگ بعض دفعہ ان پر بھی اس قسم کی وحی نازل ہوجاتی تھی جو غیرتشریعی ہوتی اور جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنی محبت اور پیار کا اظہار کرتا۔ مگر بہرحال شرعی وحی صرف موسیٰ پر نازل ہوتی تھی اور حضرت موسیٰ وہ وحی ہارون کو سنادیتے۔
غرض مفردات والوں نے اس آیت کی تشریح میں تابع اور متبوع کا فرق بیان کردیا ہے اور وہ مسئلہ جس میں ہمارا پیغامیوں سے دیر سے نزاع چلا آرہا ہے اس کا نہایت عمدگی کے ساتھ فیصلہ کردیا ہے۔
و قولہ اذ یوحی رب الی الملئکۃ انی معکم فذالک وحی الیھم بوساطۃ اللوح والقلم ۔ اور یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ تیرا رب ملائکہ کی طرف وحی کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ انی معکم میں تمہارے ساتھ ہوں۔یہ وحی ان کی طرف لوح و قلم کے واسطہ سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں فیما قیل یعنی بعض لوگوں کا یہی خیا ل ہے مجھے تو اس عقیدہ سے اتفاق نہیں مگر پرانے مفسرین کا یہی خیال تھا کہ خداتعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو حکم دیا اور اس نے لوح پر وہ سب کچھ لکھ دیا جو دنیا میںہونے والا تھا۔ اب ملائکہ جو کچھ پہنچاتے ہیں وہ اسی لوح سے ماخوذ ہوتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک وحی کا پہلا نزول قلم پر ہوا۔ قلم سے لوح پر لکھا گیا اور پھر لوح سے ملائکہ اخذ کرتے اور اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اس کے احکام اور پیغام دنیا میں پھیلاتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ عقیدہ ایسا ہی ہے جس کی رسول کریم ﷺ کی بعض احادیث سے تردید ہوتی ہے۔ مثلاً حدیثوں میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو سب سے پہلے جبریل کو کہتا ہے کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں اس کے بعد جبریل اور فرشتوں کو اطلاع دیتا ہے۔ وہ فرشتے اور فرشتوں کو خبر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے یہ بات تمام فرشتوں میں پھیل جاتی ہے اور اس شخص کی لوگوں میں مقبولیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر لوح پر ہی سب کچھ لکھا ہوا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کو جبریل سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی وہ خودبخود لوح سے تمام حالات معلوم کرسکتے ہیں۔ بہرحال یہ پرانے مفسرین کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنی وحی قلم پر نازل کی، قلم سے لوح پر لکھا گیا اور لوح سے فرشتے پڑھ پڑھ کر بندوں پر وحی نازل کرتے ہیں۔
وقولہ و اوحی فی کل سماء امرھا فان کان الوحی الی اھل السماء فقط فالموحی الیھم محذوف ذکرہ کانہ قال اوحی الی الملئکۃ لان اھل السماء ھم الملئکۃ و یکون کقولہ اذ یوحی ربک الی الملئکۃ و ان کان الموحی الیہ ھی السموت فذالک تسخیر عند من یجعل السماء غیر حی و نطق عند من جعلہ حیا۔ اور یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ اوحی فی کل سماء امرھا اللہ تعالیٰ نے ہر سماء میں وحی کے ذریعہ اپنا حکم بھیج دیا۔ اگر اس آیت میں سماء سے اہل سماء مراد لئے جائیں تو چونکہ اہل سماء ملائکہ ہوتے ہیں اس لئے عربی زبان میں اوحی فی کل سماء امرھا کا ترجمہ یوں ہوگا کہ اوحی الی الملئکۃ امورا متعلقا بالسماء۔ اس نے ملائکہ کی طرف ان امور کے بارہ میں وحی کی جن کا آسمان کے ساتھ تعلق تھا۔ اس مفہوم کی صورت میں قرآن کریم کی یہ آتی بھی اس کے ہم معنی سمجھی جائے گی کہ اذ یوحی ربک الی الملئکۃ لیکن اگر کوئی شخص موحیٰ الیہ سے مراد سماوات لے تو ان کے متعلق یہ بھی کلام ہوسکتا مگر اس صورت میں حذفِ اضافت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بلکہ سماوات کو موحٰی الیہ تسلیم کرنے کی صورت میں اس کے دو معنے ہوں گے۔ وہ جن کے نزدیک سماوات کوئی زندہ وجود نہیں۔ وہ تو اس سے تسخیر مراد لیتے ہیں یعنی اوحی فی کل سماء امرھا کامطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کاموں کے متعلق سماوات کو مسخر کردیا ہے اور اسی تسخیر کو وحی قرار دیا گیاہے۔ لیکن وہ لوگ جو آسمانوں کو زندہ وجود قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کے معنے تسخیر کے نہیں بلکہ یہ مراد ہوں گے کہ خداتعالیٰ نے ان سے کلام کیا۔ و قولہ بان ربک اوحی لھا فقریب من الاول اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے زمین کے متعلق فرمایا ہے کہ بان ربک اوحی لھا اس میں وحی کے معنے تسخیر کے ہی کرنے پڑیں گے کیونکہ یہ ظاہر بات ہے کہ زمین بولتی نہیں اور نہ اس میں عقل پائی جاتی ہے۔ پس چونکہ زمین کی طرف بولنا منسوب کردیاگیا ہے حالانکہ وہ بولتی نہیں اور اس کی طرف عقل منسوب کردی گئی ہے حالانکہ اس میں عقل نہیں۔ اس لئے یہ حالات ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم یہاں مجازی معنے مراد لیں اور سمجھ لیں کہ اس جگہ سے وحیٔ حقیقی یا وحیٔ لفظی مراد نہیں بلکہ اوحٰی کا لفظ زمین کو مسخر کرنے کے معنے میں استعمال ہوا ہے۔ (مفردات)
وحی کے معنے عربی زبان میں تو اوپر بیان ہوچکے ہیں۔ اب میں اپنے معنے بیان کرتا ہوں۔ قرآن کریم اور احادیث کے مطالعہ سے نیز صاحب تجربہ لوگوں کی شہادت سے اس امر کا انکشاف ہوتا ہے کہ وحی کئی اقسام کی ہوتی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ اس بارہ میں ایک نقص قرآنی موجود ہے جو یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورایٔ حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنہ ما یشاء انہ علی حکیم (الشوریٰ ۶ع۵) اس آیت کے میرے نزدیک مفسرین نے صحیح معنے نہیں سمجھے جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے او من وراء حجاب کے غلط معنے لے لئے ہیں۔ انہوں نے وحی کے معنے منام اور تسخیر وغیرہ کے کردیئے ہیں اور ورای حجاب کے یہ معنے کرلئے ہیں کہ جب خداتعالیٰ نظر نہ آتا ہو جس کی مثال میں وہ موسیٰ کا کلام پشی کرتے ہیں اور یرسل رسولا کے معنے یہ کئے ہیں کہ جب جبریل کلام کے ساتھ آئے اور وہ نظر بھی آئے۔ آخری صورت میں ہمارا اور ان کا اس فرق سے اتفاق ہے کہ ہم جبریل کے ذریعہ سے کلام آنے تو کو صحیح تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ہر ایسی وحی کے نزول کے وقت جبریل نظر بھی آتا تھا۔ چند مثالوں پر دھوکا کھاکر یہ غلط قیاس کرلیا گیا ہے۔ پہلی ااور دوسری صورت پر ہمیں کلی طور پر اعتراض ہے۔ پہلی صورت پر تو یہ اعتراض ہے کہ قرآن کریم میں پینسٹھ دفعہ وحی کا لفظ الی کے صلہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ مگر کہیں بھی قرآن کریم میں وحی کا لفظ محض تصویری زبان کے معنوں میں نہیں آیا۔ بے شک بعض جگہ مجازی معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے جیسے ایک جگہ وحی کے معنے تسخیر کے آگئے ہیں۔ لیکن ان مجازی معنوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جہاں بھی وحی کا لفظ ایا ہے ایسے ہی اظہار کے متعلق آیا ہے جس کے ساتھ کلام بھی تھا۔ اب کیا یہ عجیب بات نہیں ہوگی کہ ہم قرآن کریم کی تفسیر کریں اور وحی پر بحث کرتے ہوئے پینسٹھ جگہ جن معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ان معنوں کو تو نہ لیں اور وحی کے معنے خالص تصویری زبان کے کرلیں۔ ان پینسٹھ مقامات کے علاوہ پانچ اور بھی جگہیں ہیں جہاں وحی کا لفظ استعمال ہوا ہے اور وہاں بھی بمعنے کلام ہی استعمال ہوا ہے صرف ایک جگہ ایسی ہے جہاں وحی کے معنے تسخیر کے علاوہ اور کچھ نہیں کئے جاسکتے اور وہ جگہ وہی ہے جہاں شہد کی مکھی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اوحی ربک الی النحل (النحل ۱۵ع۹) یعنی تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی۔ اس آیت کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کہ اس میں وحی کا لفظ مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے باقی سارے قرآن میں ہر جگہ وحی کا لفظ ایسے ہی اظہار کے متعلق استعمال ہوا ہے جس کے ساتھ کلام بھی ہو۔ اور جب ہر جگہ قرآن کریم یہی مراد لیتا ہے تو یہ کیسی عجیب بات ہوگی کہ جن معنوں میں قرآن کریم اس لفظ کا استعمال کرتا ہے ان معنوں کو تو ہم نہ لیں اور اس کے اور معنے کرنے شروع کردیں۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ جب کوئی مجبوری پیش آئے تو ہم اس کے معنوں میں مجاز اور استعارہ مراد لے لیں مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ ہمیں کوئی مجبوری بھی پیش نہ آئے اور ہم قرآن کریم کے استعمال کو کلی طور پر نظر انداز کرکے ان معنوں کو لے لیں جو قرآن کریم نے کسی ایک جگہ بھی نہیں کئے۔
مفسرین کی یہ تشریح کہ او من ورایٔ حجاب سے مراد موسیٰ کا کلام ہے۔ یہ بھی کسی رنگ میں قابل قبول نہیں سمجھتی جاسکتی۔ کیونکہ الا وحیا کے بعد او من وراء حجاب کے معنے اگر ہم موسیٰ کے کلام کے کریں تو اس کے معنے یہ نہیں ہوں گے کہ موسیٰ پر وحی نہیں ہوئی حالانکہ موسیٰ کا کلام رسول کریم ﷺ کو مستثنیٰ کرتے ہوئے سب سے مقدم وحی ہے۔ جسے کسی صورت میں بھی دائرہ وحی سے خارج نہیں کیاجاسکتا۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ خود یہ لوگ رسول کریم ﷺ کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انقطع الوحی و بقیت المبشرات رؤیا المومن ۔ وحی منقطع ہوگئی صر ف مبشرات باقی رہ گئے ہیں جس سے مراد وہ سچے رئویا ہیں جو مومن کو دکھائے جاتے ہیں۔ یہ حدیث بھی بتاتی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے وحی کو اول درجہ دیا ہے اور منام کو دوسر ادرجہ۔ اگر جیسا کہ ان لوگوں کا عقیدہ ہے منام کا نام ہی وحی ہوتا تو پھر بجائے یہ کہنے کے کہ انقطع الوحی و بقیت المبشرات رسول کریم ﷺ کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ انقطع الکلام ورایٔ الحجاب و بقی الوحی۔ وراء حجاب اللہ تعالیٰ جو کلام کیا کرتا تھا وہ منقطع ہوچکا ہے اب صرف وحی باقی رہ گئی ہے جس سے مراد خوابیں وغیرہ ہیں مگر رسول کریم ﷺ نے انقطع الوحی کہنے کے بعد بقیت المبشرات فرمایا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے نزدیک بھی وحی کے معنے محض منام کے نہیں ہیں۔ پس ان کے معنے بالبداہت باطل اور قرآنی محاورہ کے خلاف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وحی کے معنے جہاں اشارہ، رمز اور تحریر کے ہیں وہاں ایسے کلام کے بھی ہیں جو دوسروں سے مخفی رکھ کر کیا جائے۔ چنانچہ لغت سے یہ امر ثابت کیا جاچکا ہے کہ وحی کے معنے اشارہ، رمز اور تحریر کے بھی ہیں اور ایسے کلام کے بھی ہیں جو دوسروں سے مخفی رکھ کر کیا جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں وحی کا لفظ زیادہ تر مؤخر الذکر معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے پہلے معنے بہت کم استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً منام کے معنوں میں تو قرآن کریم میں کسی ایک جگہ بھی وحی کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ رمز، اشارہ یا تحریر کے معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے مگر صرف ایک جگہ یعنی حضرت زکریا والی مثال میں رمز کے معنوں میں یا مکھی والی مثال میں تسخیرکے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ باقی کسی جگہ بھی اشارہ، رمز ، تحریر یا تسخیر وغیرہ کے معنے نہیں آئے حالانکہ یہ لفظ قرآن کریم میں ستر جگہ استعمال ہوا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا نام وحی اس لئے رکھا ہے کہ یہ کلام دوسروں سے مخفی رکھ کر کیا جاتا ہے۔ چونکہ وحی ایک ایسی چیز ہے جو عام لوگوں کے تجربہ میں نہیں آتی وہ صرف اتنی بات جانتے ہیں کہ جب کوئی شخص بات کرتا ہے تو اسے سب لوگ سن سکتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ زید سے بات کی جائے تو زید اس کو سن لے اور بکر جو پاس ہی بیٹھا ہوا ہے وہ نہ سنے۔ اس لئے جب وہ سنتے ہیں کہ دنیا میں ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ اگر خدا اس سے کلام کرتا توکیا ہم اس کلام کو نہ سنتے؟ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرتا اور ہم اس کلام کو سننے سے محروم رہتے۔ جب دنیا میں زید سے کوئی شخص گفتگو کرتا ہے تو بکر بھی سنتا ہے، خالد بھی سنتا ہے، عمرو بھی سنتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ صرف زید سنے۔ اسی طرح اگر موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا یا عیسٰیؑ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا یا محمد رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا تو ضروری تھا کہ ہمارے کانوں میں بھی اس کی آواز آتی۔ چونکہ یہ اعتراض عام طور پر لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا نام وحی رکھ دیا یہ بتانے کیلئے کہ ایک کلام ایسا ہوتا ہے جو تم دوسروں سے چھپا کر کرتے ہو جس سے تم بات کرنا چاہتے ہو وہ تو سنتا ہے مگر جس سے تم بات کومخفی رکھنا چاہتے ہو وہ اس کو نہیں سنتا۔ مثلاً بعض دفعہ انسان دوسرے کے کان میں ایک بات کہہ دیتا ہے اب وہ شخص تو تمہاری بات سن لیتا ہے جس کے کان میں تم نے بات کہی ہوتی ہے مگر دوسرے لوگ اس کے سننے سے محروم رہتے ہیں۔ جب دنیا میں روزانہ تم ایسا کرتے ہو اور تمہاری آنکھوں کے سامنے اس قسم کے واقعات آتے رہتے ہیں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارا کلام بھی اسی رنگ میں ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا کلام اپنے اندر بہت بڑا شرف رکھتا ہے اور ہمارا کلام مخصوص ہوتا ہے ہر شخص کے روحانی قرب اور اس کے درجہ کے لحاظ سے۔ اس لئے ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے کلام کے سننے میں وہ لوگ بھی شریک ہوسکیں جن کو ہم اس شرف کا مستحق نہیں سمجھتے۔ یہی حکمت ہے جس کی بناء پر ہم نے اپنی قدرت سے ایک ایسا ذریعہ نکالا ہے جس کے نتیجہ میں ہم بات بھی کرجاتے ہیں اور کوئی غیر شخص ہماری بات کو سن بھی نہیں سکتا۔ پس چونکہ وحی میں یہ حقیقت مدنظر ہوتی ہے کہ مخاطب سنے اور غیر مخاطب نہ سنے اور چونکہ ساتھ ہی اس امر پر زور دینا بھی مدنظر ہوتا ہے کہ ایسا کلام واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے نفسانی خیالات کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا نام وحی رکھ دیا یہ بتانے کیلئے کہ تم اس کلام کو بے حقیقت نہ سمجھو۔ یہ ویسا ہی یقینی اور قطعی کلام ہوتا ہے جیسے تم آپس میں ملتے ہو تو بعض دفعہ مخفی طور پر دوسرے کے کان میں بات کہہ دیتے ہو۔ بتائو جس کے کان میں کوئی بات کہی جائے کیا اسے بات کے سننے میں کوئی شبہ ہوسکتاہے؟ نہ اسے شبہ ہوتا ہے نہ بات کرنے والے کو کوئی شبہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے کلام کو مخفی طور پر بندے کے کان میں یا اس کے دل یا اس کی زبان وغیرہ پر نازل کردیتا ہے۔ یہ بتانے کیلئے کہ میں اس راز میں دوسروں کو شریک کرنا نہیں چاہتا یا اس کے واسطہ سے یہ کلام دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہوں تاکہ اس کی قبولیت اور عظمت دنیا میں قائم ہو۔ ورنہ وہ ویسا ہی یقینی اور قطعی کلام ہوتاہے جیسے دو دوست جب آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کا ایک دوسرے سے کلام کرنا قطعی اور یقینی ہوتا ہے۔ غرض وحی اس کلام کا نام رکھ کر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ خداتعالیٰ جو اپنے بندوں سے بولتا ہے اس میں اور انسانی کلام میں کوئی فرق نہیں۔ صرف یہ فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آواز کو اس طرح پید اکرتا ہے کہ صرف وہی اسے سنے جسے سنانا مقصود ہے ورنہ وہ ویسا ہی یقینی کلام ہے جیسا کہ دو بولنے والوں میں استعمال ہوتا ہے۔
باقی رہے ایسے خواب جو تصویری زبان میں ہوں وہ من ورایٔ حجاب کلام ہوتا ہے یعنی تعبیر طلب۔ دکھایا کچھ اور جاتا ہے اور مضمون اس کے پیچھے چھپا ہوتا ہے۔ وراء حجاب کے معنے بھی یہی ہیں کہ حقیقت ایک پردہ کے پیچھے مستور ہوتی ہے تم اس پردہ کو اٹھائو گے تو وہ تمہیں نظر آجائے گی بغیر پردہ اٹھانے کے تم اصل حقیقت سے آگاہ نہیں ہوسکتے۔ گویا وحی کے معنے تو لفظی کلام کے ہیں جس کی غرض اس کلام کو غیروں سے چھپانا ہوتا ہے اور من ورایٔ حجاب کے معنے یہ ہیں کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اس طرح کلام کرتا ہے کہ حقیقت کو خود اس شخص کیلئے بھی پردہ کے پیچھے مخفی کردیتا ہے جس پر وہ نازل ہورہا ہوتا ہے۔ جب تک اس پردہ کو نہ اٹھایا جائے اس وقت تک حقیقت کا انسان کو پورے طور پر علم نہیں ہوسکتا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے فرعون نے ایک دفعہ رئویا میں دیکھا کہ سات پتلی گائیں سات موٹی گئیں کھارہی ہیں۔ اب خواہ تم سارا دن کہتے ہو کہ پتلی گائیں موٹی گائیں کھارہی ہیں۔ پتلی گائیں موٹی گائیں کھارہی ہیں کوئی دوسرا شخص کچھ بھی نہیں سمجھے گا کہ تمہارا اس کلام سے منشاء کیا ہے۔ سب تمہاری بات کو سن کر ہنسیں گے کہ پاگل ہوگیا ہے۔ لیکن پردہ اُٹھائو تو اس کے پیچھے یہ حقیقت مخفی ہوگی کہ قحط کے سات سال خوشحالی کے سات سالوں کے جمع کئے ہوئے غلوں کو کھاجائیں گے۔ پس جس چیز کو متقدمین نے موسیٰ کے کلام کی مثال قرار دیا ہے وہ درست نہیں۔ موسیٰ کا کلام وحی میں ہی شامل ہے اور ماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ ہم کلامِ خفی میں بات کرتے ہیں یعنی وہ شخص تو ہماری بات سن لیتا ہے جس کو سنانا ہمارے مدنظر ہوتا ہے لیکن دوسرا شخص ہماری بات کو نہیں سن سکتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کلام مشتبہ ہوتا ہے۔ وہ کلام مشتبہ نہیں بلکہ ویسا ہی یقینی ہوتا ہے جیسے زید اور بکر آپس میں باتیں کرتے ہیں تو انہیں ایک دوسرے کی گفتگو سننے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا۔ مگر چونکہ ہم دوسروں کو نہیں سنانا چاہتے اس لئے جس طرح انسان دوسرے کے کان میں بات کہہ دیتا ہے ہم بھی ایسے رنگ میںبات کرتے ہیں کہ صرف وہی شخص سنتا ہے جس کو ہم سنانا چاہتے ہیں دوسرا شخص ہماری بات کو نہیں سن سکتا۔ ہاںایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ کہ کسی کے کان میں بات کرنے والا تو طبعی قوانین سے مجبور ہوتا ہے اور وہ ڈرتاہے کہ اگر میں نے زیادہ زور سے بات کی تو دوسرے لوگ بھی سن لیں گے اس لئے وہ آہستگی سے بات کرتا ہے مگر ہم بلند آواز سے بات کرتے ہیں اور پھر بھی صرف وہی شخص ہماری بات سن سکتا ہے جس پر ہم وحی نازل کرنا چاہتے ہیں دوسرے لوگ ہماری آواز کو نہیں سن سکتے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ہم رمز سے بات کرتے ہیں یعنی جب تک انسان حجاب نہ اُٹھائے اس پر حقیقت منکشف نہیں ہوتی۔ اس کے بعد او یرسل رسولا میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ایک وحی ایسی ہوتی ہے جو بالواسطہ آتی ہے ہم اپنے بندے سے بے شک کلام کرتے ہیں مگر براہ راست نہیں بلکہ ہم ملک رسول سے بات کرتے ہیں اور ملک رسول آگے بشر رسول سے کرتا ہے مگر بہرحال یہ بھی وحی ہی ہوتی ہے۔ ملک رسول کے ذریعہ کوئی بات پہنچانے سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ شق وحی کے دائرہ سے خارج ہے اسی لئے یرسل رسولا کے بعد فیوحی کا لفظ دوہرایا گیا ہے یہ بتانے کیلئے کہ یہ شق بھی وحی الٰہی میں ہی شامل ہے۔ اس کے بعد باذنہ کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ ملک رسول اپنے پاس سے کوئی بات نہیں کہتا ہمارے اذن اور منشاء سے وہ بات پہنچاتا ہے گویا ہے تو وہ بھی کلام مگر اس کلام کے پہنچانے میں ایک واسطہ پیدا کردیا گیا ہے۔ اس طرح آیت کا لفظ لفظ بالکل اپنے مقام پر کھڑا ہے۔ ماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا الگ چیزہے، اومن ورایٔ حجاب الگ چیز ہے اور یرسل رسولا الگ چیز ہے۔ یہ تین قسمیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں اور تینوں میں او کالفظ رکھ کر بتایا ہے کہ ان تینوں میں مغائرت پائی جاتی ہے۔ الا وحیا سے مرادہے وحیا بغیر الواسطۃ۔ او من ورایٔ حجاب سے مراد ہے فی المنام بالواسطۃ یعنی اللہ تعالیٰ ملک رسول کو وحی کرتا ہے اور وہ بشر رسول کو کرتا ہے۔ چونکہ وحی کی یہ قسم بالواسطہ ہے اور شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ یہ دائرہ وحی سے خارج نہ ہو اس لئے ضروری تھا کہ اس کے ساتھ وضاحت کردی جاتی کہ یہ قسم بھی وحی الٰہی میں شامل ہے چنانچہ اسی لئے فیوحی باذنہ ما یشاء کہہ کر وحی کالفظ اللہ تعالیٰ نے دہرادیا اور بتادیا کہ یہ شق بھی وحی الٰہی میں شامل ہے۔
غرض اس آیت کے ماتحت وحی کی تین اقسام ہوگئیں۔
(۱) حقیقی بلا واسطہ وحی - کہ خداتعالیٰ کا کلام بندہ پر بغیر کسی واسطہ کے نازل ہو (۲) دوسری جسے قرآن کریم نے تیسرے درجہ پر رکھا ہے مگر میں تقریب تفہیم کیلئے اسے پہلے بیان کردیتا ہوں وہ حقیقی بالواسطہ وحی ہے جس میں خداتعالیٰ اپنا کلام فرشتے پر نازل کرتا ہے اور فرشتہ بندے تک پہنچاتا ہے۔ (۳) تیسری تابع وحی ہے جس میں خداتعالیٰ کی طرف سے الفاظ نازل نہیں ہوتے بلکہ مضمون کو تعبیر طلب مثال میں یا بے تعبیر طلب نظارہ میں دکھایا جاتا ہے اور اس کو لفظوں میں تبدیل کرنا بندہ کے سپرد کردیا جاتاہے۔
چونکہ حقیقت حجاب کے پیچھے مخفی ہوتی ہے اس لئے انسان جب تعبیر طلب تمثیل یا نظارہ دیکھتا ہے تو وہ اپنے قیاس سے کام لے کر حقیقت کو اپنے الفاظ میں بیان کردیتا ہے اور کہتا ہے مجھے خدا نے یوں بتایا ہے۔ فرض کرووہ لوگوں سے کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ تیرا لڑکا کامل ہوجائے گا تو یہ ضروری نہیں کہ خدا نے اسے یہ خبر ان الفاظ میں ہی دی ہو کہ ’’تیرا لڑکا کامل ہوجائے گا‘‘ بلکہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ نظارہ دکھایا ہو کہ وہ اپنے بچے کو ذبح کررہا ہے۔ چونکہ یہ نظارہ مشابہ ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعہ سے اس لئے گو اسے نظارہ یہ دکھایا گیا ہو کہ وہ اپنے بچے کو ذبح کررہا ہے مگر وہ اسماعیلی واقعہ پر قیاس کرکے اس وراء حجاب کلام کو تعبیری زبان میں بیان کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ میرا لڑکا بہت بڑا مقام حاصل کرنے والا ہے یا وہ بڑے رتبہ پر پہنچ جائے گا۔ اب جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے وہ اس کے اپنے ہیں اللہ تعالیٰ نے اسے ان الفاظ میں خبر نہیں دی کہ ’’تیرا لڑکا کامل ہوجائے گا‘‘ یا ’’ بڑے رتبہ پر پہنچ جائے گا‘‘ اس نے صرف یہ نظارہ دکھایا کہ وہ اپنے بچے کو ذبح کررہا ہے مگر یہ اس کی تعبیر کرتا اور لوگوں میں اس کا اعلان کردیتا ہے۔ اب اگر اس کی تعبیر سو فی صدی درست ہو تب بھی وہ قسم کھا کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کہاہے کہ ’’تیرا بچہ ایک کامل شخص ہوگا‘‘۔ وہ قسم کھا کر یہ تو کہہ سکتا ہے کہ خدا نے مجھے اس اس رنگ میں نظارہ دکھایا ہے مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ پانچ الفاظ بتائے ہیں۔ یہ وہی شخص کہے گا جس پر لفظاً الہام نازل ہوا ہووہ بے شک قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ مجھے خدا نے کہا ہے ’’تیرا‘‘۔ مجھے خدا نے کہا ہے ’’بچہ‘‘۔ مجھے خدا نے کہا ہے ’’بڑا‘‘۔ مجھے خدا نے کہا ہے ’’آدمی‘‘۔ مجھے خدا نے کہا ہے ’’ہوجائے گا‘‘ مگر ایسا شخص جس نے صرف نظارہ دیکھا ہے یہ تو قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ میں مفہوم بیان کررہا ہوں خداتعالیٰ کی طرف سے ہے مگر الفاط کے متعلق قسم نہیں کھاسکتا۔
چونکہ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنا مافی الضمیر لفظوں میں ہی بتاسکتا ہے خواہ بول کر خواہ لکھ کر ۔ اس لئے وہ وحی زیادہ شاندار سمجھی جاتی ہے جو الفاظ میں آجائے۔ خوا ہ لکھے ہوئے الفاظ اس کے سامنے آجائیں۔ خواہ اسے آواز سنائی دے جس کے معین الفاظ ہوں۔ خواہ الفاظ اس کی زبان پر یا دل پر جاری کردیئے جائیں (دل میں آئیں نہیں بلکہ جاری کئے جائیں۔ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے) اور وہ ایک ایک لفظ کے متعلق قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں۔ اسی طرح خواہ یہ کلام بلاواسطہ نازل ہو یا بالواسطہ کسی ملک رسول کے ذریعہ نازل ہو جب بھی کوئی الٰہی کلام لفظوں میں موجود ہو اور انسان دوسروں کو اس کلام میں معین الفاظ سنا کر کہہ سکتاہو کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوئے ہیں تو وہ وحی زیادہ اعلیٰ اور زیادہ شاندار سمجھی جاتی ہے اور جو تعبیری زبان میں وحی نازل ہو یا تصویری زبان میں نازل ہو چونکہ اس کے بیان کرنے میں انسان کو اپنے الفاظ اختیا کرنے پڑتے ہیں اور اس میں غلطی کا زیادہ احتمال ہوتا ہے اس لئے اسے پہلی قسم کی دونوں وحیوں سے ادنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ دراصل جس طرح لغت والے کہتے ہیں کہ وضع لغت کے لحاظ سے فلاں لفظ کے یہ معنے ہیں اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ وضع وحی کے لحاظ سے وحی کے مقدم معنے اس وحی کے ہیں جو الفاظ میں نازل ہو۔ پھر استعارہ اور مجاز کے طور پر دوسری قسموں کیلئے بھی اس لفظ کا استعمال کرلیتے ہیں۔ مگر بہرحال یہ دونوں قسم کی وحی پہلی وحی سے ادنیٰ سمجھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ اسے وحی کے نام سے موسوم ہی نہیں کرتے۔ چنانچہ امت محمدیہ میں جو صوفیا گزرے ہیں ان کا یہ طریق رہا ہے کہ وہ صرف وحی لفظی کو وحی کہتے تھے باقی قسموں کو وحی قرا رنہیں دیتے تھے بلکہ خواب یا کشف کہہ دیتے تھے۔ چنانچہ وحی ، کشف اور رئویا کا لفظ بار بار ان کی کتابوں میں استعمال ہوتا ہے اور یہ محاورہ اتنی کثرت سے استعمال ہونے لگا ہے کہ موجودہ زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے حقیقت کھل جانے کے باوجود ہم بھی اکثر اسی محاورہ کو استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ خود میں نے بارہا اپنی تقریروں اور تحریروں میں وحی، کشف اور رئویا کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ چونکہ وحی کا لفظ کثرت سے لفظی کلام کیلئے استعمال ہوتا ہے اس لئے صوفیاء نے اس لفظ کو صرف لفظی وحی کیلئے مخصوص کرلیا ہے۔ باقی قسمیں جو درحقیقت وحی کی ہی مختلف شقیں ہوتی ہیں ان کو وہ وحی قرار نہیں دیتے بلکہ کشف یا رئویا کہہ دیتے ہیں۔ پھر بعض لوگ تو اور بھی اونچے چلے گئے ہیں وہ صرف نبی کی وحی کو وحی کہتے ہیں۔ غیر نبی کی وحی کو وحی نہیں بلکہ الہام قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس امتیاز کی بنیاد اس امر پر ہے کہ ان میں سے ایک چیز شبہ سے بالا ہے اور دوسری چیز اپنے اندر شبہ کا احتمال رکھتی ہے۔ نبی کی وحی چونکہ شبہ سے بالا ہوتی ہے اس لئے وہ اسے وحی کہتے ہیں لیکن غیر نبی کی وحی چونکہ احتمال کا شبہ رکھتی ہے اس لئے وہ اسے وحی نہیں الہام کہتے ہیں ۔ الہام کے معنے گو عام طور پر درد دل انداختن کے کئے جاتے ہیں۔ مگر میں نے خود صوفیاء کی کتابوں میں وہ لفظی وحی دیکھی ہے جو ان کی طرف نازل ہوئی ۔ وہ کئی جگہ لکھتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایسا کہا اور پھر اس وحی کے معین الفاظ ان کی کتابوں میں درج ہوتے ہیں مگر باوجود لفظوں میں وحی نازل ہونے کے وہ یہ نہیں کہتے کہ ہم پر وحی نازل ہوئی ہے بلکہ وہ اس کا نام الہام رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان الوحی من خواص الانبیاء المرسلین والالھام من خواص الولایۃ (والثانی) ان الوحی مشروط بالتبلیغ۔ یعنی وحٰ کا نزول خاص نبیوں سے جو مرسل ہو تعلق رکھتا ہے اور الہام ولایت کی خصوصیات سے ہے۔ دوسرے وہ کہتے ہیں کہ وحی کا لفط اسی کلام کے ساتھ مخصوص ہے جسے انہی الفاظ میں لوگوں تک پہنچانے کا حکم ہو۔ اس تشریح کے مطابق اگر ان پر لفظی کلام نازل ہو تو وہ اسے الہام کہہ دیتے ہیں۔ اگر آنکھوں دیکھا نظارہ ہو تو وہ اسے کشف کہہ دیتے ہیں۔ اور اگر اگر حالت منام میں تصویری زبان میں کوئی نظارہ دکھایا جائے تو وہ اسے رئویا کہہ دیتے ہیں۔ بہرحال اپنے مذاق کے مطابق انہوں نے اس کو ایک نئی شکل دے دی ہے۔ ان کے نزدیک وحی کے معنے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا وہ قطعی اور یقینی کلام جو انبیا ء پر نازل ہوتا ہے اور الہام کے معنے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا کسی غیر نبی پر لفظی کلام کی صورت میں اپنا منشاء ظاہر کرنا۔ چونکہ اس شق کو نہ وہ رئویا میں شامل کرسکتے تھے نہ کشف میں کیونکہ اس کے ساتھ کوئی نظارہ نہی ہوتا اور دوسری طرف وہ اس کو وحی بھی قرار نہیںدے سکتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک وحی صرف اسی کلام کو کہا جاسکتا ہے جو انبیا ء پر نازل ہو۔ اس لئے انہوںنے اس کا ایک نیا نام یعنی الہام رکھ دیا تاکہ نبی اور غیر نبی پر نازل ہونے والے کلام میں ایک امتیاز قائم ہوجائے۔ بہرحال چونکہ وراء حجاب کلام میں غلطی کا زیادہ احتمال ہوتا ہے اور اس کے بیان کرنے میں انسان کو اپنے الفاظ اختیار کرنے پڑتے ہیں اس لئے پہلی قسم کی دونوں وحیوں یعنی حقیقی بلا واسطہ وحی اور حقیقی بالواسطہ وحی سے ادنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض لوگ جیسا کہ میں بتاچکا ہوں اسے وحی کے لفظ سے موسوم ہی نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں ہم نے خواب میں ایسا دیکھا ہے یا ہم نے کشف میں فلاں نظارہ دیکھا ہے۔ پھر خواب یا کشف کا نظارہ اس لئے بھی ادنیٰ سمجھا جاتا ہے کہ خواب یا کشف وحی متلو میں نہیں آسکتا۔ اعلیٰ اسے اعلیٰ متلو وحی ہے اور تصویری زبان کی وحی متلو نہیں ہوسکتی۔ متلو وحی وہ ہوتی ہے جسے پڑھا جاسکے مگر خواب یا کشف کی صورت میں جب کوئی بات بتائی جائے تو وہ پڑھی نہیں جاسکتی۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ انسان ایک نظارہ دیکھ لے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ اس نظارہ کو وہ پڑھ سکے یا دوسروں کو پڑھا سکے۔ وہ اس نظارہ کی کیفیت کو اپنے الفاظ میں بیان کرسکتا ہے مگر یہ نہیں کرسکتا کہ کشف یا خواب پڑھ کر سنادے۔ پڑھ کر وہی چیز سنائی جاسکتی ہے جو کہ الفاظ کی شکل میں ہو نہ کہ نظارہ کی شکل میں۔ پس وہ وحی جو من وراء حجاب ہوتی ہے چونکہ اس میں کشفی طور پر ایک نظارہ دکھایا جاتا ہے یا حالت منام میں کوئی بات تصویری یا تعبیری زبان میں بتائی جاتی ہے اور اسے پڑھا نہیں جاسکتا اس لئے لفظی وحی سے اس کا مقام ادنیٰ سمجھا جاتا ہے اور یہی تمام صاحب تجربہ لوگوں کا قول ہے کہ وحی الٰہی میں سے اعلیٰ مقام وحی لفظی کو حاصل ہے کیونکہ وہ پڑھی جاتی ہے۔ خواب چونکہ پڑھی نہیں جاتی یا کشف چونکہ پڑھا نہیں جاتا اس لئے اسے لفظی وحی کا جو وحی متلو ہوتی ہے مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔ مثلاً رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ رئویا میں دیکھا کہ گائیں ذبح کی گئی ہیں۔ اب ہم اس کو ویسی ہی قطعی اور یقینی وحی سمجھتے ہیں جیسے آپ پر لفظی وحی نازل ہوئی۔ مگر سوال تویہ ہے کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر کس طرح آسکتا تھا۔ کیا گائیوں کی تصویریں قرآن کریم میں بنادی جاتیں اور اس طرح بتایا جاتا کہ یہ نظارہ تھا جو رسول کریم ﷺ کو دکھایا گیا؟ اور اگر تصویر ہی بنادی جاتی تو پھر بھی یہ سوال رہ جاتا کہ اس کو پڑھا کس طرح جائے؟ پس چونکہ اس وحی کو پڑھا نہیں جاسکتا اس لئے اسے دوسری وحیوں سے ادنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ ہاں تصویری زبان کی وحی میں بھی بعض خاص فوائد ہوتے ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس وحی کا کیا فائدہ ہے نبی پر ہمیشہ کلام ہی کیوں نازل نہیں ہوتا؟ کیوں اس پر کشف یا رئویا میں بعض دفعہ حالات کا انکشاف کیا جاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تصویری زبان کی وحی میں بھی بعض ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے اس کی ضرورت سے استغناء ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک فائدہ تو اس وحی میں یہ ہے کہ گو کلام میں بھی اجمال کو مدنظر رکھا جاسکتا ہے مگر تصویری زبان میں تو بعض دفعہ ایسا اجمال ہوتا ہے جو کسی فقرہ میں بھی نہیں ہوسکتا۔ اس کی مثال یوں سمجھ ہو کہ اگر رئویا یا کشف کی حالت میں کسی کی صورت آنکھوں کے سامنے پھرادی جائے اس کے ماتھے پر شکن پڑے ہوئے ہوں اور دس بیس مختلف قسم کے جذبات اس کے چہرہ سے عیاں ہورہے ہوں تو یہ نظارہ ایک ساعت میں اسے دکھایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر انہی جذبات کو الفاظ کی صورت میں اد اکیا جائے تو خواہ کیسے بھی مجمل الفاظ ہوں اور اس قدر اختصار کو ملحوظ رکھا گیا ہو پھر بھی دس پندرہ فقروں میں وہ مضمون ادا ہوگا اور ممکن ہے پھر بھی کوئی خامی رہ جائے۔ پس ایسے مواقع پر جب اجمال اور اجمال صورت میں اللہ تعالیٰ کوئی بات بتانا چاہتا ہو اور الفاظ سے بہتر اور مؤثر پیرایہ میں قلیل سے قلیل وقت میں کوئی بات اپنے بندہ پر ظاہر کرنا چاہتا ہو تو اس وقت اللہ تعالیٰ تصویری زبان میں وحی نازل کرتا ہے ایک نظارہ آنکھوں کے سامنے پھرا دیتا ہے اور اس طرح وہ باتیں جو دس بیس فقروں کی محتاج ہوتی ہیں آن کی آن میں انسان پر منکشف ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح تصویری زبان میں وحی نازل کرنے کے اور بھی کئی فوائد ہوتے ہیں مثلاً بعض دفعہ کسی مومن بندے کی استمالت قلب مدنظر ہوتی ہے جس کے ماتحت اللہ تعالیٰ کلام کی بجائے تصویری زبان اختیار کرلیتا ہے۔ فرض کرو اللہ تعالیٰ یہ مضمون بیان کرنا چاہتا ہے کہ گھبرائو نہیں دین کو تقویت حاصل ہوجائے گی اور نبی کا ایک مرید ایسا ہے جس کا نام عبدالقوی اس کو دکھادے گا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ عبدالقوی کو دکھانے سے گو یہ مضمون بھی بیان ہوگیا کہ دین کی تقویت حاصل ہوگی مگر ساتھ ہی عبدالقوی کا دل بھی خوش ہوجائے گا کہ میںبھی اپنے نبی کی خواب میں آگیا ہوں یا مثلاً رسول کریم ﷺ نے اگر کبھی ابوبکرؓ کو دیکھا یا عمرؓ کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کا منشاء محض ایک مضمون بیان کرنانہیں تھا بلکہ ابوبکرؓ اور عمرؓ کی استمالت قلب بھی مدنظر تھی۔ اور اللہ تعالیٰ چاہتاتھا کہ وہ خواب سن کر خوش ہوجائیں کہ ہم بھی رسول کریم ﷺ کی خواب میں آگئے ہیں۔ پس بعض دفعہ مضمون بیان کرنے کے علاوہ زائد طور پر کسی مومن کی دلجوئی اور استمالت قلب بھی مدنظر ہوتی ہے جو تصویری زبان میں وحی نازل کرنے سے پوری ہوجاتی ہے۔ پس تصویری زبان میں وحی کا نزول بے فائدہ نہیںہوتا بلکہ اس کے کئی اغراض ہوتے ہیں اور کئی فوائد ہوتے ہیں جن کو خداتعالیٰ زائد طور پر ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ بے شک وہ فوائد مقصود بالذات نہیں ہوتے صرف ضمنی ہوتے ہیں مگر بہرحال وہ ضمنی فوائد تصویری زبان کے ذریعہ ہی ظاہر ہوتے ہیںلفظی کلام کے ذریعہ ظاہر نہیں ہوسکتے۔ انہی فوائد کی وجہ سے بعض دفعہ اہم معاملات بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تصویری زبان میں دکھائے جاتے ہیں مگر اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ اسے وحی لفظی میں دوبارہ بیان کردیا جاتا ہے گویا تصویری زبان میں بھی ایک نظارہ دکھادیا جاتا ہے اور کلامی زبان میں بھی اس کو بیان کردیا جاتا ہے۔ اس طرح دونوں فوائد پیدا کردیئے جاتے ہیں۔ وہ فوائد بھی جو کلام سے وابستہ ہوتے ہیں اور وہ فوائد بھی جو تصویری زبان سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ اس کی مثال رسول کریم ﷺ کا واقعہ معراج اور واقعہ اسراء ہیں کہ دونوں ذرائع سے ان کا اظہار کیا گیا۔ واقعہ معراج کا حدیثوں میں بھی تفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے اور قرآن کریم نے بھی سورئہ نجم میں اس کو بیان کردیا ہے۔ اسی طرح واقعہ اسراء تصویری زبان میں آپ کو دکھادیا گیا اور سورئہ بنی اسرائیل میں لفظی وحی میں بھی اس کا ذکر کردیا گیا۔ قرآن کریم میں تو اس کا ذکر اس لئے کردیا گیا کہ یہ واقعہ وحی متلو میں آجائے اور نظارہ آپ کو اس لئے دکھایاگیا کہ جو زائد فوائد تصویری زبان میں وحی سے وابستہ ہوتے ہیں وہ بھی حاصل ہوجائیں۔ مثلاً اگر غور کیاجائے تو واقعہ اسراء کا صرف اتنا مفہوم تھا کہ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو تمام انبیاء پر فضیلت عطا فرمائے گا۔ لیکن جب رسول کریم ﷺ کو یہ نظارہ دکھایا گیا کہ جبریل آپ کے پاس براق لائے اور آپ اس پر سوار ہوکر بیت المقدس تک پہنچے اور پھر آپ نے لوگوں کے سامنے یہ بات بیان فرمائی اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ بیت المقدس سے ہو آئے ہیں تو ہمیں اس کا نقشہ بتائیں جس پر رسول کریم ﷺ نے انہیں بتایا کہ بیت المقدس ایسا ہے ایسا ہے۔ تو اس سے لوگوں کے ایمانوں میں جو تازگی پیدا ہوئی ہوگی وہ محض لفظی کلام سے کہاں پیدا ہوسکتی تھی یا مثلاً احادیث میں آتا ہے کہ واپسی کے وقت آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ ایک قافلہ مکہ کی طرف آرہا ہے اور اس قافلہ والوں کا ایک اونٹ گم ہوگیا ہے جس کی وہ تلاش کررہے ہیں۔ آپ نے یہ بات بھی کفار کے سامنے بیان کردی ۔ چنانچہ چند دن بعد معلوم ہوا کہ بعینہٖ یہ واقعہ مکہ کے ایک قافلہ سے پیش آیا تھا اور جب وہ قافلہ مکہ میں پہنچا تو اس نے تسلیم کیا کہ بات درست ہے۔ اب یہ ایک زائد فائدہ تھا جو رسول کریم ﷺ کو اسراء کا نظارہ دکھانے سے حاصل ہوا کہ لوگوں کے ایمان بڑھ گئے اور کفار جو رسول کریم ﷺ پر اعتراض کرتے تھے کہ آپ نعوذ باللہ افتراء سے کام لیتے ہیں ان کا منہ بند ہوگیا۔ غرض اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنے اہم کلام سے اظہار کیلئے تصویری زبان کو بھی استعمال کرلیتا ہے یعنی تمثیلی زبان میں بھی ایک واقعہ بیان کردیتا ہے اور پھر لفظی وحی میں بھی اس کا ذکر کردیتا ہے لیکن بہرحال دائمی کلام لفظی ہی ہوتا ہے تصویری کلام نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام بھی اسی قسم کا ہے جس میں دونوں صورتیں اختیار کی گئی ہیں تصویری زبان بھی اور لفظی الہام بھی۔ آپ کا الہام ہے جاء نی ائل واختار و ادارا اصبعہو اشاء ان وعداللہ اتی فطوبی لمن وجد ورئٰ ی(تذکرہ ص ۶۰۳) میرے پاس جبریل آیا اور اس نے مجھے چن لیا۔ اس نے اپنی انگلی کو گرد ش دی اور اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آگیا ہے پس مبارک وہ جو اس کو پائے اور دیکھے۔ اب دیکھو یہ ایک نظارہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دکھایا گیا کہ جبریل آپ کے پاس ایا اس نے اپنی انگلی کو گردش دی اور اشارہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ پھر اس واقعہ کو کلام کی صورت میں بھی لے آیا تاکہ اور لوگ بھی اس سے متاثر ہوں۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے ایک بڑا اونچا پہاڑ دیکھا ہے تو جو اثر اس کا دیکھنے والے پر ہوتا ہے وہ سننے والے پر نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بعض دفعہ کسی واقعہ کو نظارہ کی صورت میں لاکر اس کے اثر کو زیادہ گہرا کرنا چاہتا ہے مگر پھر الہام میں بھی اسے بیان کردیتا ہے تاکہ دوسروں پر بھی اثر ہو۔ مثلاً جبریل نے اپنی انگلی سے جو اشارہ کیا ہوگا اس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جو اثر ہوا ہوگا وہ اثر خالی لفظوں سے نہیں ہوسکتاتھا۔ لیکن اس کے مقابلہ میں دوسرے لوگوں پر صرف خواب کا ذکر کرنے سے کوئی اثر نہیں ہوسکتا تھا ان کیلئے ضروری تھا کہ لفظی الہام نازل کیا جاتا۔ یہی حکمت ہے جس کے ماتحت اللہ تعالیٰ اپنے اہم کلام کو بعض دفعہ دونوں صورتوں میں بیان کردیتا ہے تصویری زبان میں بھی اور لفظی الہام میں بھی۔ اس بحث کے بعد اب میں یہ چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے جو تین اقسام وحی کی بیان کی ہیں ان کی آگے تجربہ کی بناء پر اور بھی کئی قسمیں ہیں جو یہ ہیں:
(۱) خواب تعبیر طلب منفرد و مشترک: مثلاً ایک شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ فلاں شخص کے مکان کی دیوار گرگئی ہے۔ اب ضروری نہیں کہ اس کے مکان کی دیوار ہی گرے بلکہ اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جو اس کی حفاظت کا ذریعہ ہے یا اس کو مشکلات و حوادث سے بچانے والے ہیں وہ اس کا ساتھ چھوڑ جائیں گے یا ان پر وبال آجائے گا۔ یہ خواب کبھی منفرد ہوتی ہے یعنی صرف ایک شخص ہی دیکھتا ہے اور کبھی مشترک ہوتی ہے یعنی ایسی ہی خواب دوسر ے کو بھی آجاتی ہے۔ دراصل غیر نبی کا کلام چونکہ قطعی اور یقینی نہیں ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ طریق رکھا ہوا ہے کہ بعض دفعہ بعینہٖ ویسا ہی رئویا دوسرے وک بھی دکھا دیا جاتا ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں اس کا کئی دفعہ تجربہ کیا ہے کہ بعض دفعہ جس قسم کی خواب آتی ہے بعینہٖ اسی قسم کی خواب دوسرے کو آجاتی ہے۔ میں نے ایک دفعہ اپنی مجلس میں ایک رئویا یا ذکر کیا جو ۲۴ مئی ۱۹۴۴؁ء کے الفضل میں شائع ہوچکا ہے اس کے بعد ایک دوست نے بتایا کہ مجھے ایک غیراحمدی دوست نے اپنا ایک رئویا سنایا تھا اور بتایا تھا کہ اسے خواب میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ رئویا خلیفۃ المسیح کو بھی دکھایا گیا ہے۔ چنانچہ میں ’’الفضل‘‘ میں آپ کا رئویا پڑھ کر حیران رہ گیا کہ ایسا ہی رئویا اس غیراحمدی دوست نے دیکھا تھا (الفضل ۲۷ مئی ۱۹۴۵؁ء) پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نظارے تو مختلف دکھائے جاتے ہیں مگر ان کی تعبیر ایک ہی ہوتی ہے۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے روس کے متعلق میں نے ایک رئویا دیکھا جو الفضل یکم ستمبر ۱۹۴۵؁ء میں شائع ہوچکا ہے۔ میں نے جس تاریخ کو یہ خواب دیکھا ہے اس کے دوسرے دن ہی میاں روشن دین صاحب زرگر کا مجھے ایک خط ملا جس میں انہوں نے لکھا کہ میں نے روس کے متعلق یہ رئویا دیکھا ہے اور اس کی تعبیر بھی وہی تھی جومیرے رئویا کی تھی۔ اب دیکھو مجھے ان کی خواب کا علم نہیں انہیں میری خواب کا علم نہیں۔ میں الفضل والوں کو خواب لکھتا ہوں اور میاں روشن دین مجھے لکھتے ہیں اور دونوں کی تعبیر ایک ہی ہوتی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنے بندے کو یہ یقین دلانے کیلئے کہ تمہاری خواب بالکل سچی ہے ویسی ہی خواب دوسروں کو بھی دکھادیتا ہے۔ بعض دفعہ تو دونوں کا ایک جیسا نظارہ ہوتا ہے اور بعض دفعہ نظارہ تو جدا جدا ہوتا ہے مگر تعبیر ایک ہی ہوتی ہے۔ غرض پہلی قسم یہ ہے کہ انسان ایسا رئویا دیکھتا ہے جو تعبیر طلب ہوتا ہے یہ خواب منفرد بھی ہوتی ہے اور مشترک بھی۔ یعنی کبھی صرف خود ایک نظارہ دیکھتا ہے اور کبھی ویسا ہی نظارہ دوسروں کو بھی دکھادیا جاتا ہے۔
(۲) خواب مثل فلق الصبح منفرد ومشترک: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان رئویا میں دیکھتا ہے کہ دیوار گرگئی اور دوسرے دن واقعہ میں ایسا رئویا میں دیکھتا ہے کہ دیوار گرگئی اور دوسرے دن واقعہ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بارش برستی ہے اور مکان کی دیوار گر جاتی ہے۔ یہ خواب بھی کبھی منفرد ہوتی ہے اور کبھی دوسرے کو بھی ویسی ہی خواب آجاتی ہے اور جو کچھ دیکھا جاتا ہے ویسا ہی ظہور میں آجاتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ اس کی تعبیر ظاہر ہو بلکہ جس رنگ میں خواب کے ذریعہ کوئی بات بتائی جاتی ہے اسی رنگ اور اسی شکل میں فلق الصبح کی طرح وہ بات پوری ہوجاتی ہے۔ اس قسم کی خوابوں کا بھی مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت تجربہ ہے اور میں نے دیکھا ہے بسااوقات جس طرح رات کو ایک نظارہ دیکھا جاتا ہے ویسا ہی دن کو ہونے لگ جاتا ہے۔ اور چونکہ اس قسم کے واقعات بڑی کثرت سے ہوئے ہیں اس لئے بعض دفعہ تو وہم سا ہونے لگتا ہے کہ کیا یہ واقعہ دوبارہ تو نہیں ہوریا۔ یہ خواب بھی بعض دفعہ منفرد ہوتی ہے اور بعض دفعہ مشترک۔ یعنی کبھی تو اس قسم کی خواب دیکھنے میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوتا لیکن کبھی ویسا ہی نظارہ دسرے لوگ بھی دیکھ لیتے ہیں۔
(۳) نظارہ نیم خواب تعبیر طلب منفرد و مشترک: بعض دفعہ انسان پورے طور پر سویا ہوا نہیں ہوتا بلکہ نیم خواب کی سی حالت اس پر طاری ہوتی ہے۔ کچھ جاگ رہا ہوتا ہے اور کچھ غنودگی کی طرف اس کی طبیعت مائل ہوتی ہے کہ اس حالت نیم خوابی میں وہ ایک نظارہ دیکھتا ہے جو تعبیر طلب ہوتا ہے۔ یہ نظارہ بھی دونوں قسم کا ہوتا ہے یعنی منفرد بھی ہوتا ہے اور مشترک بھی۔
(۴) نظارہ نیم خواب مثل فلق الصبح منفرد و مشترک: انسان بعض دفعہ نیم خوابی کی حالت میں ایک نظارہ دیکھتا ہے مگر وہ تعبیر طلب نہیں ہوتا بلکہ بعینہٖ اسی رنگ میں پور اہوجاتا ہے جس رنگ میں اس نے نظارہ دیکھا ہوتا ہے۔ یہ نظارہ بھی منفرد اور مشترک دونوں قسم کا ہوتا ہے۔
(۵) نظارہ بیداری تعبیر طلب منفرد و مشترک: بعض دفعہ بیداری میں ایک نظارہ دیکھا جاتا ہے لیکن وہ ہوتا تعبیر طلب ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے فلاں دن آپ کو فلاں اسٹیشن پر دیکھا تھا کیا آپ وہاں تشریف لے گئے تھے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ہم تو وہاں نہیں گئے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کشفی طور پر ہمیں دیکھا ہوگا۔ تو بعض دفعہ عین بیداری کی حالت میں ایک نظارہ دکھایا جاتا ہے مگر وہ ہوتا تعبیر طلب ہے۔ یہ نظارہ بھی منفرد اور مشترک دونوں قسم کا ہوتا ہے۔
(۶) نظارئہ بیداری مثل فلق الصبح منفرد و مشترک: کبھی بیداری میں ایک نظارہ دکھایا جاتا ہے مگر وہ تعبیر طلب نہیں ہوتا بلکہ فلق الصبح کی طرح اسی رنگ میں ظاہر ہوجاتا ہے جس رنگ میں اللہ تعالیٰ انسان کو نظارہ دکھاتاہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کشوف میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ ایک دعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کشفی حالت میں دیکھا کہ مبارک احمد چٹائی کے پاس گر پڑا ہے اور اسے سخت چوٹ آئی ہے۔ ابھی اس کشف پر تین منٹ سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہوگا کہ مبارک احمد جو چٹائی کے پاس کھڑا تھا اس کا پیر پھسل گیا اور اسے سخت چوٹ آئی اور اس کے کپڑے خون سے بھر گئے (تذکرہ ص۳۸۶)۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے مجھے ایک دفعہ پیچش کی شکایت تھی اور چونکہ مجھے بار بار قضائے حاجت کیلئے جانا پڑتا اس لئے میں چاہتا تھا کہ پاخانہ کی اچھی طرح صفائی ہوجائے تاکہ طبیعت میں انقباض پیدا نہ ہو۔ خاکروبہ آئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے جگہ صاف کردی ہے اس وقت شاید اس نے جھوٹ بولا یا کوئی کونہ صاف کرنا اسے بھول گیا تھا کہ اس نے جواب میں کہا میں نے جگہ صاف کردی ہے۔ اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کشفی حالت طاری ہوئی اور آپ نے دیکھا کہ ایک کونہ میں نجاست پڑی ہے۔ اس پر آپ نے اسے کہا تم جھوٹ کیوں بولتی ہو فلاں کونہ تو ابھی گندا ہے اور تم نے اس کی صفائی نہیں کی۔ وہ یہ سن کر حیران رہ گئی کہ انہیں اندر بیٹھے کس طرح علم ہوگیاہے کہ میں نے پوری صفائی نہیں کی (تذکرہ ص ۴۶۵)۔ یہ نظارہ بھی منفرد اور مشترک دونوں رنگ رکھتا ہے یعنی کبھی صرف ایک شخص کو نظارہ دکھایا جاتا ہے اور کبھی ویسا ہی نظارہ دوسروں کو بھی دکھایا جاتا ہے۔
(۷) کلام بلاواسطہ جو کانوں پر گرتاہے منفرد و مشترک: بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کا کلام الفاظ کی صورت میں انسانی کانوں پر نازل ہوتا ہے اور غیب سے آواز آتی ہے کہ یوں ہوگیا ہے یا یوں ہوجائے گا یا یوں کر۔ گویا ماضی کے صیغہ میں بھی یہ کلام نازل ہوتا ہے، مستقبل کے صیغہ میں بھی نازل ہوتا ہے اور امر کی صورت میں بھی نازل ہوتا ہے۔ یہ بلاواسطہ کلام جس کی کانوں میں آواز سنائی دیتی ہے اس کی بھی دونوں حیثیتیں ہیں یعنی یہ منفرد بھی ہوتا ہے اور مشترک بھی۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ صرف ملہم کو ایک آواز سنائی دیتی ہے اور کبھی ویسی ہی آواز دوسرے کو بھی آجاتی ہے۔ اس قسم کا مجھے ذاتی طو رپر تجربہ حاصل ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا کہ انی مع الافواج اتیک بغتۃ۔ میں اپنی افواج کے ساتھ اچانک تیری مدد کیلئے آئوں گا۔ جس رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام ہوا اسی رات ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آج یہ الہام ہوا ہے کہ انی مع الافواج اتیک بغتۃ۔ جب صبح ہوئی تو مفتی محمد صادق صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جو تازہ الہامات ہوئے ہوں وہ اندر سے لکھوالائوں۔ مفتی صاحب نے اس ڈیوٹی پر مجھے مقرر کیا ہوا تھا اور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تازہ الہامات آپ سے لکھوا کر مفتی صاحب کو لاکر دے دیا کرتا تھا تاکہ وہ انہیں اخبار میں شائع کردیں۔ اس روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب الہامات لکھ کر دئے و جلدی میں آپ یہ الہام لکھنا بھول گئے کہ انی مع الافواج اتیک بغتۃ ۔ میں ںے جب ان الہامات کو پڑھا تو میں شرم کی وجہ سے یہ جرأت بھی نہ کرسکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس بارہ میں کچھ عرض کرو اور یہ بھی جی نہ مانتا تھا کہ جو مجھے بتایا گیا تھا اسے غلط سمجھ لوں۔ اسی حالت میں کئی دفعہ میں آپ سے عرض کرنے کیلئے دروازہ کے پاس جاتا مگر پھر لوٹ آتا۔ پھر جاتا اور پھر لوٹ آتا۔ آخر میں نے جرأت سے کام لے کر کہہ ہی دیا کہ رات مجھے ایک فرشتہ نے بتایا تھا کہ آپ کو الہام ہوا ہے انی مع الافواج اتیک بغتۃ مگر ان الہامات میں اس کا ذکر نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا یہ الہام ہوا تھا مگر لکھتے ہوئے میں بھول گیا ۔ چنانچہ کاپی کھولی تو اس میں وہ الہام بھی درج تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر اس الہام کو بھی اخبار کی اشاعت کیلئے درج فرمادیا۔ اب یہ ایک بلا واسطہ کلام تھا جو آپ کے کانوں پر نازل ہوا مگر ساتھ ہی مجھے بھی بتادیا گیا کہ آپ کو یہ الہام ہوا ہے۔
(۸) کلام بلا واسطہ جو قلب پر گرتا ہے منفرد و مشترک: یہ قسم ایسی ہے جو پہلی قسم سے علیحدہ ہے۔ پہلی قسم میں تو کان پرکلام نازل ہوتا ہے مگر اس قسم میں انسانی قلب پر کلام نازل ہوتا ہے۔کان کی حس چونکہ معروف ہے اس لئے اسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے مگر اس حس کو سمجھنا ہر ایک کا کام نہیں ہے۔ لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ کا ایک یہ بھی طریق ہے یہ وہ بعض دفعہ انسانی قلب کو اپنی وحی کا مہبط بنادیتا ہے۔ انسان یہ محسوس نہیں کرتا کہ اس کے کان پر الفاظ نازل ہوئے ہیں بلکہ وہ اپنے قلب پر ان الفاظ کا ’نزول‘ محسوس کرتا ہے (یہ بات خیال سے بالکل جداگانہ ہے)۔ یہ کلام بھی منفرد اور مشترک دونوں قسم کا ہوتا ہے۔
(۹) کلام بلا واسطہ جو زبان پر نازل ہوتاہے منفرد ومشترک: یعنی الہام کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ بعض دفعہ کان کوئی آواز نہیں سن رہے ہوتے لیکن زبان پر بے تحاشا ایک فقرہ جاری ہوتا ہے جسے بار بار وہ دہراتی چلی جاتی ہے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زبان کسی اور کے قبضہ میں ہے اور وہ جلدی جلدی ایک فقرہ بولتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ ربودگی کی کیفیت جو انسان پرطاری ہوتی ہے جاتی رہتی ہے مگر اس کے بعد بھی کچھ دیر تک زبان پر یہ تصرف جاری رہتا ہے اور وہ جلدی جلدی اس فقرہ کو دہراتی رہتی ہے تاکہ انسان کو اچھی طرح یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پرکیا الہام نازل کیا ہے۔ ایسے الہام میں بھی کبھی بطور گواہی دوسروں کو شریک کردیا جاتا ہے۔
(۱۰) کلام بلا واسطہ جو آنکھوں پر نازل ہوتا ہے منفرد و مشترک: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام آنکھوں پر نازل ہوتا ہے یعنی لکھے ہوئے الفاظ پیش کئے جاتے ہیں جن کو پڑھ کر انسان اللہ تعالیٰ کے منشاء سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ یہ کلام بھی دونوں رنگ میں ہوتا ہے یعنی منفرد طور پر بھی اور مشترک طور پر بھی۔ کبھی تو صرف اسے کوئی لکھی ہوئی چیز نظر آجاتی ہے اور کبھی دوسرے لوگ بھی اس نظارہ میں شریک کردیئے جاتے ہیں۔ یہ امر بتایا جاچکا ہے کہ لغت کے لحاظ سے وحی کے ایک معنے تحریر کے بھی ہیں۔ یہ معنے اس دسویں قسم میں آجاتے ہیں کیونکہ اس میں الفاظ تحریرکی صورت میں دکھائے جاتے ہیں اور درحقیقت وحی کی قطعیت الفاظ کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے۔ کان، آنکھ، زبان یا دل کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی۔ جو وحی الفاظ کی صورت میں نازل ہو وہ بہرحال اور تمام وحیوں سے زیادہ شاندار سمجھی جائے گی اور اس کی قطعیت میں کوئی شبہ نہیں ہوگا خواہ یہ قطعیت کان سے حاصل ہو خواہ دل سے حاصل ہو خواہ زبان سے حاصل ہو خواہ آنکھ سے حاصل ہو۔ جس وحی سے متعلق انسان قسم کھاکر کہہ سکتا ہو کہ اس کا لفظ لفظ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس کی زبر اس کی زیر اس کا لام اور اس کامیم سب خدا نے نازل کیا ہے وہ وحی کی تما م قسموں میں سے زیادہ اعلیٰ سمجھی جائے گی۔
(۱۱) کلام بلا واسطہ جو کانوں پر گرتا ہے اور زبان بھی شریک کردی جاتی ہے: یعنی وہ کلام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے صرف کانوں پر نازل نہیں ہوتا بلکہ زبان بھی اسے دہراتی چلی جاتی ہے اور جب ربودیت کی حالت جاتی رہتی ہے تو کان محسوس کررہے ہوتے ہیں کہ ہم نے خداتعالیٰ کا کلام سنا اورساتھ ہی زبان بھی گواہی دے رہی ہوتی ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوا۔
(۱۲) کلام بلا واسطہ جو آنکھوں پر گرتا ہے اور زبان بھی اس میں شریک کردی جاتی ہے: یعنی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تختی دکھائی جاتی ہے جس پر الفاظ لکھے ہوئے ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی زبان بھی اس الفاظ کو دہراتی چلی جاتی ہے۔
(۱۳) کلام بلا واسطہ جو قلب پر گرتاہے اور زبان بھی اس میں شریک کردی جاتی ہے۔
(۱۴) کلام بلا واسطہ جس میں دونوں حواس ظاہری اور تیسرا باطنی شرک بھی کردیئے جاتے ہیں۔ یعنی کبھی اتنے جلال سے خداتعالیٰ کا کلام نازل ہوتا ہے کہ ادھر وہ قلب پر گررہا ہوتا ہے ادھر کانوں پر نازل ہورہا ہوتا ہے اور پھر تیسری طرف زبان بھی اس کو دہراتی چلی جاتی ہے۔
(۱۵) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتہ کے ذریعہ سنایا جاتا ہے اس کلام میںواسطہ پیدا کر دیا جاتا ہے ۔ بجائے اس کے کہ انسان براہ راست اللہ تعالی کے کلام کو سنے اسے فرشتہ نظر آتا ہے جو کہتا ہے کہ بات یوں ہے جیسے غار حرا میںہوا۔
(۱۶) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتہ کے ذریعہ دکھایا جاتا ہے جیسے بعض حدیثوں میں ذکر آیا ہے کہ غار حراء میں جبریل نے رسول کریم ﷺ کو حریر پر لکھی ہوئی ایک تحریر بھی دکھائی
(۱۷) کلام بالواسطہ جو نہ نظر آنے والے فرشتہ کے ذریعہ سنایا جا تا ہے اس میں کوئی فرشتہ نظر نہیں آتا مگر آواز سنائی دیتی ہے کہ میں ایسا کہتا ہوں یا فرشتہ کہتا ہے کہ مجھے خدا نے یہ بات پہنچانے کا حکم دیا ہے
(۱۸) کلام بالواسطہ جو نہ نظر آنے والے فرشتہ کے ذریعے دکھایا جاتا ہے آنکھوں کے سامنے تختی آتی ہے جس پر کچھ لکھا ہو ا ہوتا ہے اور صاف پتہ لگتاہے کہ کسی اور ہاتھ نے اسے آگے کر دیا ہے مگر فرشتہ نظر نہیں آتا۔
(۱۹) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتہ کے ذریعہ سے یقنطہ میں سنایا جاتا ہے اور دوسرے اس میں شریک نہیں ہوتے یعنی انسان کے حواس ظاہری پور ا کام کر رہے ہوتے ہیں کہ اسے فرشتہ نظرآتا ہے جو اللہ تعالی کا کلام سناتا ہے مگر کوئی دوسراشخص اس میں شریک نہیں ہوتا نہ وہ فرشتہ کو دیکھتا ہے اور نہ اس کی آواز سن سکتا ہے ۔
(۲۰) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتہ کے ذریعہ سنایا جاتا ہے ۔ اور دوسرے اس میں سماعاً شریک ہوتے ہیںرویتہ نہیںبخاری میںآتا ہے حضرت عائشہ ؓ نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کو کسی سے باتیں کرتے سنا۔ حضرت عائشہ ؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ آپ ؐکس سے باتیں کر رہے ہیں ۔ آپ ؐ نے فرمایا جبریل آیا ہے جو مجھ سے باتیں کر رہا ہے اور وہ تمہیںالسلام علیکم کہتا ہے ۔ اب دیکھو حضرت عائشہ ؓ نے با تیں سن لیں مگر انہیں فرشتہ نظر نہ آیا ۔ پس یہ وہ قسم ہے جس میں او ر لوگ سماعاً تو شریک کر دئے جاتے ہیں مگر روئیۃ نہیں ۔
(۲۱) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتے کے ذریعہ سے سنایا جاتا ہے اور دوسرے لوگ اس میں سماعاً و روئیۃً شریک ہوتے ہیں جیسے وحیہ کلبی کی شکل میںجبریل کے آنے کا واقعہ ہے ۔ وہ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں آئے آپ ؐسے باتیں کرتے رہے اور صحابہ نے ان کو اچھی طرح دیکھا ۔ جب وہ چلے گئے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ذالک جبریل وہ جبریل تھے جو تمہیں دین کی باتیں سکھانے آئے ۔ ا س کلام کو صحابہ ؓ نے بھی سنا اور فرشتہ کو بھی دیکھا ۔
(۲۲) خواب، کلام اور حقیقت ظاہر تینوں کا اشتراک بعض دفعہ ایک نظارہ میں تینوں صورتیںجمع کر دی جاتی ہے ۔ اس میںخواب بھی ہوتی ہے ، اس میںکلام بھی ہوتا ہے اور اس میں حقیقت ظاہر بھی ہوتی ہے ۔ جیسے حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ سرخی کے چھینٹوں والا واقعہ پیش آیا جس کے نشانات آپ ؑ کے کرتہ پر بھی پائے گئے ۔ اس میں تینوں باتیں موجود تھیں ۔ یعنی خواب میں ایک نظارہ بھی دکھایا گیا ۔ اللہ تعالی نے آپ ؑ سے بات بھی کی اور پھر ظاہر میں سرخی کے چھینٹوں کا نشان قائم کر دیا ۔ پس وحی کی بائیسویں قسم وہ ہے جس میںخواب ، کلام اور حقیقت ظاہر تینوں کا اشتراک پایا جاتا ہے ۔
(۲۳) وحی کی تیئیسویں قسم وحی قلبی خفی ہے یعنی وہ وحی جس میںالفاظ نہیں ہوتے صرف دل پر اللہ تعالی کے منشاء کا القاء ہوتا ہے ۔ جیسے رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ روح القدس کی طرف سے فلاں بات میرے دل میںڈال دی گئی ہے اور اب مجھے اس میں کسی قسم کا تردد نہیں ۔ یہ الفاظ صاف بتاتے ہیںکہ رسول کریم ﷺ پر یہ وحی الفاظ کی شکل میں نازل نہیں ہوئی بلکہ یہ صرف قلبی وحی تھی جو القاء کی صورت میں نازل ہوئی ۔
اس وحی کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ وحی دوسری وحیوں کے ساتھ مل کر آتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وحی دوسری وحیوں کے بعد آتی ہے تا کہ لوگوں کو کسی قسم کا دھوکہ نہ لگے ۔ بہائیوں کو تمام تر دھوکہ اسی آخری تیئیسویں وحی کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لگا ہے ہم اس وحی سے انکار نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا اپنا تجربہ بھی یہی ہے کہ اس قسم کی وحی ہوتی ہے اور رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود ؑ کے ارشادات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وحی کی ایک قسم قلبی خفی وحی بھی ہے ۔ پس ہم یہ تو نہیںکہہ سکتے کہ بہائی جس وحی کا ادعا کرتے ہیں اسکا کوئی وجود ہی نہیں۔ مگر ہم یہ ضرور کہیںگے کہ بہائیوں نے اس وحی کی حقیقت کو نہیںسمجھا ۔ وہ اپنے دل کے ہر خیال کا نام وحی رکھنے کے عادی ہیں۔ چنانچہ بہاء اللہ کے دل میں جو خیال آتا تھا وہ کہہ دیتے تھے کہ یہ وحی ہے ۔ اس طرح وہ جو کچھ لکھتے ہیںاس کو وحی قلبی خفی قرار دے دیتے ہیں۔ ہمیںچونکہ خود اعتراف ہے کہ وحی کی ایک قسم وہ بھی ہوتی ہے جس میں الفاظ نازل نہیں ہوتے صرف قلب میںاللہ تعالی کی طرف سے القاء کیا جاتا ہے اس لئے وہ بعض دفعہ لوگوں کو دھوکہ دینے میںکامیاب ہو جاتے ہیں ۔ مگر ایک بات ایسی ہے جو اس بحث کے سلسلہ میں ہماری جماعت کے دوستوں کو یاد رکھنی چاہیئے اور جو بہائیوں کے پھیلائے ہوئے زہر کے ازالہ میںبہت کام آسکتی ہے اور وہ یہ کہ مامورین کے تجربات میں یہ بات آئی ہے کہ یہ وحی دوسری وحیوں کے ساتھ مل کر آتی ہے اکیلی نہیںآتی ۔ اگر اکیلی آجائے توہر آدمی کہہ سکتا ہے کہ مجھے بھی وحی ہوتی ہے اور پھر یہ امتیاز کرنا مشکل ہو جائے کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ سے کام لے رہا ہے اس نقص کے ازالہ کے لئے اللہ تعالی نے یہ صورت رکھی ہے کہ وہ پہلے اپنے بندہ پر اور قسموں کی وحی نازل کرتا ہے اور جب اس میں بیان کردہ واقعات کے پورا ہونے سے لوگوں کو یہ یقین آجاتا ہے کہ فلاں شخص سچ بول رہا ہے تو اس کے بعد اس پر وحی قلبی خفی بھی نازل کر دیتا ہے ۔ یہ نہیں ہوتا کہ اسے اپنی سچائی کا اور تو کوئی نشان نہ دیا جائے اور صرف قلبی خفی وحی اس کی طرف نازل کرنی شروع کر دی جائے ۔ اور یہ لفظ وحی کے مقابلہ پر کمیت میںبہت ہی کم ہوتی ہے ۔ میںاس کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں ۔ میرے پاس ایک دفعہ عبدا للہ تیما پوری آئے اور کہنے لگے آپ مجھے کیوں نہیں مانتے اور مرزا صاحب کو مانتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ مرز ا صاحب کو ہم اس لئے مانتے ہیںکہ آپ ؑ کی صداقت کے ہم نے متواتر نشانات دیکھے اور ہمیں یقین آگیا کہ آپ ؑ سچے ہیں۔ کہنے لگے یہ تو بعد کی باتیں ہیں شروع شروع میںجو لوگ آپ پر ایمان لائے تھے انہوں نے کونسا نشان دیکھا تھا ؟ مثلاً حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ آپ پر ایمان لائے سوال یہ ہے کہ وہ کس نشان کو دیکھ کر آپ کی صداقت کے قائل ہوگئے تھے ؟ میں نے کہا دنیا میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ابو بکر ؓ کی طرح نشانات دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ سمجھتے ہیں اگر ہم نشانا ت دیکھ کر ایمان لائے تو اس سے ہمارا درجہ کم ہو جائے گا ۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق حدیثوں میںصاف طور پر آتا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ کے دعویٰ نبوت کی خبر ان کو پہنچی اور وہ آپ سے یہ دریافت کرنے آئے کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ نے الہام کا دعوی کیا ہے تو اس وقت رسول کریم ﷺ نے چاہا کہ اپنی صداقت کے متعلق کچھ وضاحت فرمائیں مگر حضرت ابو بکر ؓ نے آپ ؐ کو روک دیا اور کہاآپ ؐ صرف اتنا بتائیںکہ کیا آپ نے دعوی کیا ہے کہ آپ اللہ تعالی کے نبی ہیں اور جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہاں تو حضرت ابو بکر نے کہا یا رسول اللہ میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور پھر کہا میں نے اس لئے دلائل سننے سے انکار کیا تھا کہ اگر میں دلائل سن کر ایمان لاتا تو میں اپنے ایمان کے کمزور ہونے کا ثبوت مہیا کرنے والا ہوتا ۔ میںنہیں چاہتا تھا کہ میرے ایمان کی بنیاد نئے دلائل اور نشانات پر ہو ۔ بلکہ میںچاہتا تھا کہ میں جو مشاہدہ آپ کے اخلاق کا کر چکا ہوں اسی کی بنا پر آپ پر ایمان لانے کی سعادت حاصل کروں ۔ یہی حال حضرت خلیفۃ اول ؓ کا تھا ۔ عبداللہ تیما پوری کہنے لگے تو پھر میرے متعلق آپ یہ کیوں شرط قائم کرتے ہیں کہ میرے لئے نشان دکھا نا ضروری ہے ۔ میں نے کہا کہ یہ بھی ٹھیک ہے کہ نبی کے دعویٰ کے ابتداء میں ایمان لانے والے ان زبردست نشانات کے ظہور سے پہلے ایمان لاتے ہیںجو بعد میں ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن ان کیلئے بھی اللہ تعالی ایمان لانے کی یقینی صورتیں پیدا کر دیتا ہے ۔ اور وہ اس نبی کا گذشتہ نمونہ اور عمل ہوتا ہے مگر اس سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اس کے ذاتی واقف ہوں ۔ حضرت ابوبکر ؓ کے سامنے رسول کریم ﷺ کی صداقت امانت اور بنی نوع انسان کی خدمت تھی ، حضرت خلیفہ اول کے سامنے حضرت مسیح موعود ؑ کا تعلق باللہ ، اسلام کے احیاء کا جوش اور اس کے لئے غیر معمولی علمی خدمت تھی جس کہ وجہ سے آپ نے براہین احمدیہ جیسی معجزانہ کتاب لکھی۔ ابتدائی زمانہ کے راستباز لوگ دیکھ رہے تھے کہ آپ نے براہین احمدیہ کے نام سے ایک ایسی کتاب لکھی ہے جس میں صداقت اسلام کے ایسے زبر دست دلائل دئے اور اس طرح تحدی سے دشمنان دین کو مقابلہ کے لئے للکارا ہے کہ یہ کام بغیر تائید الہی کے نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے نیک لوگ جن کے دل صاف تھے فوراً پکار اٹھے کہ یہ شخص اسلام کا پہلوان اور دین کو دشمنوں کے نرغے سے محفوظ رکھنے والا ہے ۔ اس کے بعد جب آپ نے دعویٰ کیا تو جو لوگ آپ کے حالات سے واقف تھے وہ فوراً آپ پر ایمان لے آئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ جس شخص کو خدا تعالی نے وہ نور بخشا تھا جس کی بنا ء پر اس نے براہین احمدیہ جیسی عظیم الشان کتاب لکھی وہ کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا ۔ جس نے اسلام کی پہلے حفاظت کی ہے وہ اگر اب بھی اس کی حفاظت کا دعویٰ کرتا ہے تو بالکل سچ کہتا ہے ، چنانچہ لوگوں نے براہین کا نشان دیکھنے کے بعد کسی مزید نشان دیکھنے کی ضرورت نہ سمجھی اور آپ کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گئے ۔ عبداللہ تیما پوری کہنے لگے تو پھر میرے متعلق آپ کیا نشان چاہتے ہیں ؟ میں نے کہا براہین احمدیہ نا مکمل رہ گئی ہے اور شاید اللہ تعالی نے ا س کو اسی لئے نا مکمل رہنے دیا ہے کہ کوئی آنے والا اس کو مکمل کرے ۔ اب آپ اس بات کے مدعی ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو مامور بنایا ہے آپ اس کو مکمل کر دیں تو میںآپ کو آپ کے دعویٰ میں صادق تسلیم کر لوں گا اور سمجھ لوں گا کہ آپ کی صداقت کے لئے یہ نشان کافی ہے ۔ اس پر وہ اچھا کہہ کر چلے گئے مگر آج تک ایک سطر بھی براہین احمدیہ کی تکمیل کے لئے نہیں لکھ سکے ۔
جس طرح مامورین کی بعثت والی زندگی سے پہلے اللہ تعالی ایسے شواہد پیدا کر دیتا ہے جو لوگوں کے لئے ایمان کے محرک ہوتے ہیں۔ اسی طرح وحی قلبی خفی کے نازل ہونے کے ادعا کرنیوالے انسان کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس پر وہ دوسری وحی بھی نازل ہوتی ہو اور اس کی صداقت کے ایسے دلائل اور شواہد پائے جاتے ہوں جن کی بنا ء پر کسی شخص کے دل میںاس کے وہمی یا پاگل ہونے کا خیال نہ گزرے ۔ مثلاً رسول کریم ﷺ نے جب فرمایا کہ روح القدس نے فلاں بات میرے دل میںڈال دی ہے تو صحابہ ؓ کو اس کے ماننے میں کوئی تامل نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس سے پہلے رسول کریم ﷺ پر فلق الصبح کی طرح پوری ہونیوالی وحی بھی نازل ہو چکی تھی ۔ جبریل کے ذریعہ بھیجی جانے والی وحی بھی نازل ہو چکی تھی اور وہ کلام بھی آپ پر نازل ہو چکا تھا جو من وراء حجاب ہوتا ہے۔ اور وہ سمجھ سکتے تھے کہ جس شخص نے ہمیشہ سچی باتیں ہمارے سامنے بیان کی ہیںوہ اب بھی جو کچھ کہہ رہا ہے کبھی غلط نہیںہو سکتا۔ حدیثوں میںآتا ہے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہاآپ نے میرا اتنا قرض دینا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میںتو تمہاری رقم واپس کر چکا ہوں اس نے کہا آپ واپس دے چکے ہیں تو کوئی گواہ پیش کریں ۔ اس پر ایک صحابی کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میںاللہ تعالی کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اس یہودی کے روپے ادا کر دیئے ہیں ۔ جب وہ واپس چلا گیا تو رسول کریم ﷺ نے اس صحابی سے پوچھا میں نے یہ قرض واپس کیا ہے اس وقت تو تم موجود نہیں تھے؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ جانے بھی دیجئے آپ آسمان کی باتیں ہمیںبتاتے ہیںتو ہم آپ پر ایمان لے آتے ہیں کیا زمین کی بات آپ کہیں گے تو ہم اس پر ایمان نہیںلائیں گے ۔ جس طرح ہم آپ کی آسمان والی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اسی طرح ہم آپ کو زمین سے تعلق رکھنے والی باتوں میں بھی سچا اور راستباز سمجھتے ہیں یہ بات جو اس صحابی ؓ نے بیان کی بالکل درست ہے ۔ کیونکہ جو شخص خدا تعالی کا مامور اور مرسل ہے اگر وہ کوئی بات کہے گا تو بہر حال سچ ہو گی ۔یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ غلط بات کہے ۔ چنانچہ جب اس صحابیؓ نے یہ بات کہی تو رسول کریم ﷺ نے اسے ملامت نہیںکی بلکہ آپ خوش ہوئے اور فرمایا آئندہ اس شخص کی گواہی دو گواہوں کے برابر سمجھی جائے ۔ یہ فضیلت اسے دوسروں پر اسی لئے عطا کی گئی کہ اس نے محض دوستی کی خاطر بات نہیں کی بلکہ اپنی گواہی کی بنیاد اس نے کلام الہی پر رکھی اور کہا کہ جس شخص پر خدا تعالی روزانہ اپنا کلام نازل کرتا ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اس کی دوسری بات بھی جو زمین سے تعلق رکھنے والی ہے کبھی غلط نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح جس شخص پر اللہ تعالی وحی قلبی خفی نازل کرتا ہے اسے دوسرے شواہد بھی عطا کرتا ہے تاکہ لوگوں کو دھوکہ نہ لگے اور وہ سمجھ لیں کہ جو شخص پہلی وحی کے بیان کرنے میںراستبازی سے کام لے رہا ہے وہ اس وحی میں بھی ضرور صادق اور راستباز ہے ۔ لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ نہ اس پر کثرت سے وحی لفظی نازل ہوتی ہے نہ اس پروحی جبریلی نازل ہوتی ہے نہ اس پر تصویری یا تعبیری زبان میں وحی نازل ہوتی ہے اور وہ دعویٰ یہ کرتا ہے کہ مجھے وحی قلبی خفی ہوتی ہے تو اس کا یہ دعویٰ کسی عقلمند کی نگاہ میںقابل قبول نہیںہو سکتا ۔ ہر شخص کہے گا کہ وہ پاگل ہے جو اپنے دل کے خیالات کا نام وحی رکھ رہا ہے ۔ غرض یہ وحی بڑا فتنہ پیدا کرنے والی چیز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی اس وحی کو کلام لفظی اور جبریلی اور غیر جبریلی کے تابع رکھتا ہے ۔ جس شخص پر بکثرت یہ تین وحیاں نازل ہوں وہ اگر کہے کہ مجھ پر وحی قلبی خفی نازل ہوتی ہے توہم اسے فریب خوردہ نہیںکہیں گے اور اس کی بات مان لیں گے ۔ لیکن جب کوئی دوسرا شخص یہ کہے جس پر کوئی اور وحی نازل نہ ہوتی ہو تو ہم سمجھیں گے وہ پاگل ہے ۔ یہی حال بہاء اللہ اور لاہور کے غلا م محمد کا ہے ہم ان لوگوں کو بھی عام معیار عقل سے گرا ہوا خیال کرتے ہیں۔
دوسرے یہ وحی امور غیبیہ کے متعلق ہوتی ہے امور احکامیہ کے بارہ میں نہیںتا کہ دھوکہ نہ لگے ۔ کیونکہ امور غیبیہ میںفتنہ کا اندیشہ نہیںہوتا ان کی تفسیر بعد میںہو جاتی ہے مگر امور احکامیہ کے نزول کی کوئی تفسیر بعد میں نہیں ہوتی ۔
کلام الہی کے متعلق یہ با ت بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ سب اقسام کلام حقیقت ظاہر اور مجاز دونوں قسم کی عبارتوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ اس میںصرف حقیقت ظاہری پائی جاتی ہو ۔ بلکہ جس طرح منام میں دیکھی گئی چیز تعبیر طلب ہوتی ہے اسی طرح وہ کلام بھی جو اللہ تعالی نے اپنے بندہ پر نازل فرمایا ہے اس میں مجاز اور استعارات پائے جاتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ منام میںجو نظارہ دکھایا جائے وہ اکثر تعبیر طلب ہوتا ہے لیکن الفاظ کی صورت میں جو کلام نازل ہوتا ہے اس میںسے بعض تاویل طلب ہوتا ہے اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے جب غیر احمدیوں کے سامنے ہم قرآن کریم کی آیات کے وہ مطالب بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالی نے ان میںمخفی رکھے ہوئے ہیں تو وہ کہہ دیا کرتے ہیںتم تو کلام الہی کی تاویل کرتے ہو ۔ بجائے ا س کے کہ ظاہرالفاظ جس حقیقت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں تم اس کو لو تو الفاظ کی تاویل کرنا شروع کر دیتے ہو ۔ ان کے ذہن میں یہ بات مرکوز ہوتی ہے کہ کلام الہی کی تاویل نہیں کی جا سکتی بلکہ ہمیشہ اس کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے ہی دیکھا جا سکتا ہے اور اگر تاویل کی جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر کلام الہی کی تاویل کی جائے تو پھر تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا۔ یہ ایسی عقل کے خلاف بات ہے کہ اسے سن کر حیرت آتی ہے ۔ آخر دنیا میںعام بول چال جو روزانہ بیداری کی حالت میں کی جاتی ہے اس میںمجاز استعمال ہوتا ہے یا نہیں ہوتا اور پھر ان باتوں کے بعد دنیا میںکوئی ٹھکانہ رہتا ہے یا نہیں رہتا؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ دنیا میںجو باتیںکی جاتی ہیںان میں استعارات بھی ہوتے ہیں ، ان میںمجاز بھی ہوتا ہے اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر کلام میںمجاز استعمال کیا گیا تو دنیا میںکوئی ٹھکانہ نہیںرہے گا ۔ غالب کا کلام پڑھ لیا جائے، ذوق کے کلام کو دیکھ لیا جائے وہ مجاز اور استعارے استعمال کرتے ہیں یا نہیں ؟ اور کیا ان کے کلام کے بعد دنیا میںکوئی ٹھکانہ رہتا ہے یا نہیںرہتا؟ ہم تو دیکھتے ہیں بڑے بڑے ادیب اور بڑے بڑے شاعر روزانہ مجاز اور استعارے اپنے کلام میںاستعمال کرتے ہیںاور کوئی شخص ان کے اس طریق پر اعتراض نہیں کرتا ۔ اگر ان کے کلام کے بعد دنیا میںٹھکانہ قائم رہتا ہے ۔ تو کیا خدا تعالی کا کلام ہی ایک ایسی چیز ہے کہ اگر اس میں مجاز یا استعارہ آجائے تو دنیا میںکوئی ٹھکانہ نہیںرہتا ؟ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ معترضین خدا تعالی کے کلام کو اتنی خوبیوں کا حامل بھی نہیںسمجھتے جتنی خوبیاں ان کے نزدیک انسانی کلام میں موجود ہونی چاہیئں ۔ خدا تعالی اپنے کلام میںمجاز اور استعارہ استعمال کرے تو انہیں اعتراض سوجھ جاتا ہے لیکن اگر بڑے بڑے ادیبوں کے کلام میںمجاز اور استعارہ استعمال ہو تو اس وقت وہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیںکہ یہ بڑا فصیح کلام ہے ۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ مجاز اور استعارہ استعمال کی وجہ سے ہمیںا س کلام کے سمجھنے میں شبہ پیدا ہو گیا ہے وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ مجاز اور استعارہ کے استعمال کر لیا گیا ہے تو پھر تو کلام کا اعتبار اٹھ گیا ۔ وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ مجاز اور استعارہ کے استعمال کی وجہ سے زبان بگڑ گئی ہے بلکہ وہ اس کلام سے مزہ اٹھا تے ہیں ۔ اس کی بلاغت کی تعریف کرتے ہیں اور اسے سارے کلام پر ترجیح دیتے ہیں آخر غالب کو دوسروں پر کیا فوقیت حاصل ہے یا ذوقؔکو دوسروں پر کیا فوقیت حاصل ہے یہی کہ وہ مجاز اور استعارہ میں حقیقت کو بیان کرتے ہیں اور لوگ سن کر کہتے ہیں کہ غالب اور ذوق نے کمال کر دیا ۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ جسے عام کلام میں اعلی درجے کا کمال سمجھا جاتا ہے وہ کمال اگر الہی کلام میںآجائے تو کہتے ہیںکہ پھر تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا ۔ جب عام بول چال جو بیداری میں کی جاتی ہے اس میںبھی مجاز کثرت سے استعمال ہوتا ہے تو پھر وحی میںکیوںنہ ہو؟استعارہ اور مجاز تو بلاغت کی جان ہوتے ہیں کلام الہی ان کے بر محل استعمال سے کیوں محروم ہو؟ ہاں جس طرح انسانی بول چال میںمجاز اور استعارہ کے باوجود غلطی سے بچنے کے ذرائع موجود ہیں ایسے ہی ذرائع کلام الہی کو بھی حاصل ہیں ۔ ان کی موجودگی میں عقلمند کو دھوکہ نہیںلگ سکتا اور بے وقوف کو تو ہر بات سے دھوکہ لگ سکتا ہے ۔ جیسے ایک بیوقوف کی مثال ہے کہ اس نے یہ سن کر کہ اگر بتادو میری جھولی میںکیا ہے تو ان میںسے ایک انڈا تم کو دے دوں کہ کہ کچھ اتہ پتہ بتائو تو بتائوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو ذرائع انسانی کلام میںغلطی سے محفوظ رہنے کے لئے اختیار کئے جا تے ہیں وہ کلام الہی کے لئے بھی استعمال ہو سکتے ہیں ۔ آخر یہ صاف بات ہے کہ جب مجاز استعمال کیا جائے تو لازما ً اس کا کوئی نہ کوئی قرینہ ہو گا ۔ قرینہ کے بغیر ہی اگر مجاز استعمال ہونے لگے تو پھر بے شک دنیا میں اندھیرا پڑ جائے ۔ مثلاً اگر میں کہوں کہ کل فلاںوفات یافتہ شخص میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے یوں کہا توچونکہ وہ صاحب فوت شدہ ہوں گے اس لئے میری یہ بات حقیقت پر مشتمل نہیں سمجھی جائے گی ۔ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ فلاں صاحب (جو زندہ ہوں) میرے پاس آئے ۔ اور یہ بات سن کر بعض لوگ جھگڑا شروع کر دیں ایک کہے گا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواب میں آئے تھے اور دوسرا کہے کہ نہیںظاہر میںآئے تھے تو یہ بے وقوفی ہو گی ۔ کیونکہ پہلے قول میںیہ قرینہ موجود تھا کہ جن صاحب کا ذکر تھا وہ فوت ہو چکے ہیں اور وہ بہر حال خواب میںہی آسکتے ہیں ظاہرمیں نہیں ۔ لیکن دوسرے قول میں یہ قرینہ نہیں ۔ پس مجاز اور استعارہ جب بھی کلام میںاستعمال کیا جائے گا۔ اس کے لئے قرائن کا ہونا ضروری ہو گا تا کہ ہر شخص سمجھ سکے کہ جو بات بیان کی جارہی ہے وہ کلام حقیقت ہے یا کلام مجاز۔ لیکن بہر حال دنیا میںہمیشہ مجاز اور استعارات استعمال کئے جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ لوگوں پر ان استعمالات کی وجہ سے کسی کلام کا سمجھنا مشتبہ ہو جائے وہ ایسے کلام سے نہایت لطف اٹھاتے اور استعارات کو فصاحت کی جان قرار دیتے ہیں ۔ پس جس طرح مجاز اور استعارہ انسانی کلام میںچار چاند لگا دیا کرتا ہے اسی طرح الہی کلام میں بھی مجاز اور استعارات کا استعمال اس کے حسن کو دوبالا کر دیتے اور اس کی شان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتے ہیں ۔ پس یہ بالکل غلط خیال ہے کہ خدا تعالی کے کلام میںمجازا ور استعارہ کے استعمال سے حقیقت چھپ جاتی ہے ۔ مجاز اور استعارہ پہچاننے کے دنیا میںکچھ قواعد مقرر ہیں ۔ جو بند وں کے کلام پر بھی چسپاں ہو سکتے ہیں ۔ اور خدا تعالی کے کلام پر بھی ۔ اگر ان قواعد کے مطابق مجاز و استعارہ کا استعمال بتایا جائے گا تو ماننا پڑے گا کہ وہ معنے درست ہیں اگر ان کے خلاف معنے کئے جائیں گے تو ان معنوں کو غلط قرار دیا جائیگا شبہ پید اہونے کا کوئی سوال ہی نہیں۔
یومئذ یصدر الناس اشتاتا لیروا اعمالہم O ط
؎ ۷ حل لغات ۔ اشتاتا کے معنے ہیں متفرقین یعنی گروہ در گروہ ۔
تفسیر ۔ مفسرین نے اس کے معنے آخرت کے لحاظ سے کئے ہیں ۔ چونکہ انہوں نے تمام سورۃ کو آخرت پر چسپاں کیا ہے اس لئے اس کے معنے بھی انہوں نے نیک و بد ۔ جنتی و دوزخی اور سفید و سیاہ کے کئے ہیں ۔ مگر سفید و سیاہ سے انگریز و ہندوستانی مراد نہیں بلکہ ان کا اشارہ یوم تبیض وجوہ و تسوع وجوہ ( ال عمران ۱۱: ۲) کی طرف ہے کہ آخرت میںکچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے چہرے سفید ہوں گے اور کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے چہرے سیاہ ہوں گے یعنی کچھ سرخ رو ہوں گے کچھ زیر الزام آئیں گے ( دیکھ لو یہیں مجاز آگیا) اسی طرح وہ اشتاتا کے معنے دائیں طرف والے اور بائیں طرف والے کے کرتے ہیں میں چونکہ اسے آخری زمانہ کے متعلق سمجھتا ہوں جس میں رسول کریم ﷺ کی بعثت ثانیہ مقدر تھی اس لئے میں اس کے یہ معنے کرتا ہوں کہ اس وقت جتھہ بندی زوروں پر ہو گی ۔ اور پارٹی بازی بہت ہو گی ۔ یومئذ یصدر الناس اشتاتا ۔ یہ ایک خاص علامت ہے جو پہلے کسی زمانہ میں رونما نہیں ہوئی صرف موجودہ زمانہ ہی ایسا ہے جس میں یہ علامت نمایا ں طور پر نظر آتی ہے ۔ پہلے زمانوں میں صرف منفرد کوششیں کی جاتی تھیں۔ اجتماع اور اتحاد کا رنگ ان میں مفقود تھا ۔ اس زمانہ میںایک اچھے تاجر کے صرف اتنے معنے تھے کہ زید نے کچھ روپیہ لیا اور اس نے اپنے شہر میںتجارت شروع کر دی ۔ یا اچھے صناع کے معنے صرف اتنے تھے کہ فلاں ترکھان اچھی چیزیں بناتا ہے یا فلاں لوہار ہوہے کا کام خوب جانتا ہے یا مزدور کے معنے صرف اتنے تھے کہ ایک غریب شخص کسی امیر کے ہاں ملازم ہو گیا یا اس کا کوئی اور کام معین معاوضہ پر کرنے لگا اس زمانہ میںبھی بے شک مزدور بعض دفعہ آقا سے لڑ رہا ہوتا تھا اور اگر آقا کو غصہ آتا تو وہ مزدور پر اپنا غصہ نکال لیتا ۔ مگر بہر حال ہر تاجرؔ ہر صناعؔ ہر مزدورؔ اور ہر سرماؔیہ دار انفرادی جدوجہد کرتا تھا ۔ اسے اپنے ہم پیشہ دوسرے لوگوں کے حقوق اور ان کے مطالبات سے کوئی تعلق نہیںہو تا تھا زید چاہتا تھا کہ میرا معاملہ سدھر جائے اور بکر چاہتا تھا کہ میرا معاملہ سدھر جائے مگر قرآن کریم اس جگہ یہ خبر دیتا ہے کہ آخری زمانہ میںیہ اختلافات جتھہ بندی کی شکل اختیار کر لینگے اور پارٹی سسٹم بہت ترقی کر جائیگی۔ اور لوگ یہ پارٹی بازی اس لئے کریں گے لیرواعمالھم کہ اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھیںیعنی انہیںیقین ہو گا کہ جتھہ بندی سے کام کرنے کے نتائج اچھے نکلتے ہیں ۔ اگر جتھہ بندی نہیں ہو گی تو ہمارے کام کا کوئی نتیجہ نہیںنکلے گا پہلے زمانہ میںمزدور اگر آقا کے رویہ سے بہت تنگ آجاتا تو وہ کہہ دیا کرتاتھا کہ میری مزدوری مجھے دے دیں میںچلا جاتا ہوں ۔ مگر اس زمانہ میں جب مزدوروں نے دیکھا کہ اس طرح مالکوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ بجائے اس کے کہ زید کا نوکر زید کے پاس جائے ، بکر کا نوکر بکر کے پاس جائے ، خالد کا نوکر خالد کے پاس جائے اور انفرادی رنگ میں اپنا مطالبہ پیش کر ے سب اکٹھے ہو جائو اور مل کر اپنے حقوق کا سوال اٹھا ئو ۔ چنانچہ زید کا نوکر اور بکر کا نوکر اور خالد کا نوکر اور سلیم کا نوکر اور حامد کا نوکر سب اکٹھے مل جاتے ہیں اور وہ اپنی ایک ایسوسی ایشین قائم کر لیتے ہیں ۔ جب کسی مطالبہ کا وقت آئے تو سارے نوکر مل جاتے ہیںاور متحدہ طور پر اپنے حقوق کے متعلق شور مچانا شروع کر دیتے ہیں مثلاً تنخواہ بڑھانے کا سوال ہو تو بجائے اس کے کہ زید کا نوکر زید سے ، بکر کا نوکر بکر سے اور خالد کا نوکر خالد سے الگ الگ مطالبہ کرے سب مل کر اپنے مالکوں کے سامنے متحدہ طور پر مطالبہ رکھ دیتے ہیں۔ اور مالک مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کے حق کو تسلیم کریں ۔ پس فرماتا ہے یومئذ یصدر الناس اشتاتا اس دن انفرادی جدوجہد کی بجائے تما م لوگ جتھہ بندی کر کے آئیںگے اور اس لئے آئیںگے لیرو اعمالھم تا کہ ان کے اعمال ان کو دکھائیںجائیں ۔ یعنی ان کے فعل کا نتیجہ نکل آئے ۔ انفرادی رنگ میںکوشش کرنے سے چونکہ ہر شخص کی طاقت ضائع چلی جاتی ہے اور کوئی اچھا نتیجہ برآمد نہیںہوتا اس لئے وہ اس دن جتھہ بندی اور پارٹی سسٹم کی طرف مائل ہو جائیںگے اور متحدہ محاز قائم کر کے اپنے مطالبات پیش کریں گے تا کہ ان کی آواز میںاثر پیدا ہو اور وہ مطالبات جو ان کی طرف سے پیش کئے جائیں ان کو قبول کرنے کے لئے دوسرے لوگ تیار ہوں چنانچہ دیکھ لو کنسرویٹو ؔ۔ لبرلؔ۔ لیبرؔ۔ ڈیموکریٹؔ۔ ری پبلکن ؔ ۔ راڈیکلؔ۔ نہلسٹؔ۔ نیشنلسٹؔ۔ سوشلسٹؔ۔ ناٹسی ؔ۔ فاسیؔ۔ فلانجےؔ۔کمیونسٹؔ۔ مہاسبھا ؔ ۔ کانگریسی ؔ۔ مسلم لیگی ؔ۔ یونی ؔنسٹ۔ وفدؔسٹ۔ سعد سٹؔ۔ وغیرہ وغیرہ ہزاروں پارٹیاں دنیا میںبن رہی ہیں اور سب ایک ہی وجہ بتاتے ہیں کہ بغیر جتھہ کے اچھا نتیجہ نکل نہیںسکتا ۔ پس فرماتا ہے یومئذ یصدر الناس اشتاتا لیرو اعمالھم ۔ لوگ اس زمانہ میںپارٹیاں بنا کر اس لئے کام کریں گے تا کہ ان کے کاموں کے اچھے نتیجے نکلیں ۔ بے شک یہ خیالات دنیا میں پہلے بھی موجود تھے اور یہی چیزیں کو آج دنیا میں نظر آتی ہیںپہلے بھی پائی جاتی تھیں ۔ پہلے بھی کئی مزدور تھے جو یہ کہا کرتے تھے کہ غریبوں کو کوئی پوچھتا نہیںاور کئی آقا اپنے ملازموں سے کہا کرتے تھے کہ اگر تم نے ذرا بھی گستاخی کی تو تمہیں کان سے پکڑکر نکال دیا جائیگا۔ مگر پہلے زمانہ اور اس زمانہ میںفرق یہ ہے کہ پہلے پارٹی بازی اور جتھہ بندی نہیں تھی اب ہر گروہ نے اپنی الگ الگ تنظیم کر کے الگ الگ سوسائٹیاں قائم کر لی ہیں ۔ ایک طرف ایمپلائز ایسوسی ایشن ہوتی ہے تو دوسری طرف دوسری ایمپلائز ایسوسی ایشن کام کر رہی ہوتی ہے ۔ ایک طرف ریلوے اونرز ایسوسی ایشن بنتی ہے تو دوسری طرف ریلوے ایمپلائز ایسوسی ایشن قائم ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح کسی جگہ کول مائنرز ایسوسی ایشن قائم ہے تو کسی جگہ کول اونرز ایسوسی ایشن کام کر رہی ہے ۔ غرض ایک دوسرے کے مقابلہ میںسوسائٹیاں بن چکی ہیں ۔ ایک نوکروں کی ایسوسی ایشن ہے تو دوسری مالکوں کی ۔ ایک ان لوگوں کی ایسوسی ایشن ہے جو سیاسیات میں غالب ہیںتو ایک ان لوگوں کی ایسوسی ایشن ہے جو سیاسیات میںمغلوب ہیںگویا ہر طرف جتھہ بن گیا ہے اور اب فردفرد کوشش نہیںکرتا بلکہ گروہ گروہ کوشش کرتا ہے یہی خبر تھی جو اللہ تعالی نے اس آیت میںدی کہ یومئذ یصدر الناس اشتاتا اس دن فرد فرد کوشش نہیںکرے گا بلکہ گروہ گروہ کوشش کرے گا ۔ لیرو اعمالھم تا کہ ان کی کوششوں کے اچھے نتائج برآمد ہوں اور وہ اپنی قوتوں کو ضائع کرنے والے نہ ہوں ۔ اس جگہ ھُم کی ضمیر اسی لئے لائی گئی ہے کہ اس میں متعدد گروہوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہر گروہ اپنے اپنے حقوق کے متعلق جدوجہد کرے گا ۔ لیبرؔ مل کر کوشش کریں گے کہ لیبر کے حق میںنتیجہ نکل آئے ۔ سوشلسٹ ؔ مل کر کوشش کریں گے کہ سوشلسٹ کے حق میںنتیجہ نکل آئے نیشنلسٹ ؔ مل کر کوشش کریں گے کہ کمیونسٹ کے حق میںنتیجہ نکل آئے ۔ غرض ہر پارٹی جتھہ بازی کے ذریعہ اپنے حقوق کو حاصل کر نے کی جدوجہد کرے گی ۔ چنانچہ آج دنیا میںہزاروں پارٹیاں بن رہی ہیںاور کتابوں میںصاف طور پر لکھا جاتا ہے کہ پہلے زمانوں میں ناکامی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ مل کر کام نہیںکیا جاتا تھا اب ہم مل کر کام کریںگے اور اپنی آواز کو زیادہ سے زیادہ موثر اور نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کریں گے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ٹھیک ہے ہمارا بھی یہی منشاء تھا کہ انفرادی کوشش کی جگہ اس دن قومی کوشش ہو تا خوب اچھی طرح خیر و شر کا فرق ظاہر ہو جائے ۔ اس جگہ لیرواعمالھم میںجہاں بندوں کی طرف سے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد شروع ہونیکا ذکر ہے وہاں اللہ تعالی کی طرف سے بھی ان کی تائید کا اشارہ پایا جاتا ہے یعنی جہاں وہ اپنے اپنے دائرہ اور اپنے اپنے رنگ میںکوشش کررہے ہوں گے وہاں خدا تعالی بھی کوشش کر رہا ہو گا ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے ومکروا ومکراللہ واللہ خیر الماکرین ۔ (ا ٓل عمران ۵ :۱۳) انہوں نے بھی تدبیریں کی اور اللہ نے بھی تدبیرکی اور اللہ تعالی تمام تدابیر کرنے والوں سے بہتر ہے اسی طرح فرماتا ہے لوگ یہ تجویز کریں گے کہ ہم مل کر کام کریں گے اور ہم بھی ان کو پوری طرح موقع دیں گے تا کہ ان کے دلوں میں کوئی حسرت نہ رہے اور لوگ قومی طورپر اپنے حوصلے نکال کر آخر اس امر کو تسلیم کریں کہ قانون اور پارٹی وہی اچھی ہے جسے خداتعالی بنائے۔
پہلے زمانہ میں جب رسول کریم ﷺ کے مقابلہ میں ابو جہل اٹھا اور وہ اپنی تمام کوششوں اور منصوبہ بازیوں کے باوجود ناکام و نامراد ہوا اور ناکامی و نامرادی کی حالت میںہی مرا۔ تو گو اللہ تعالی کا یہ ایک بہت بڑا نشان تھا جو ظاہر ہوا اور جس نے رسول کریم ﷺ کی صداقت کو آفتاب نصف النہار کی طرح ظاہر کر دیا مگر پھر بھی یہ انفرادی مقابلہ تھا قومی نہیں ۔ قومی مقابلہ ہجرت کے بعد شروع ہوا جس نے کفار عرب کی مجموعی طاقت کو توڑ دیا ۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میںبے شک آپ کا شدید مقابلہ ہوا مگر اس وقت مقابلہ کی تمام تر صورت انفرادی جدوجہد تک محدود تھی ۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی الگ مقابلہ کر رہے تھے ۔ مولوی ثناء اللہ صاحب الگ مقابلہ کر رہتے تھے ۔ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی الگ مقابلہ کر رہے تھے ۔ بے شک الکفر ملۃ واحدۃ کے مطابق ان تمام کے تیروں کا نشانہ حضرت مسیح موعود ؑ کی ہی ذات تھی لیکن بہر حال انہوں نے آپ کا اکٹھا مقابلہ نہیں کیا۔ ہر شخص الگ الگ شہر میںالگ الگ رنگ میں مقابلہ کر رہا تھا ۔ مولوی محمد حسین صاحب کسی رنگ میں مخالفت کر رہے تھے تو مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کسی اور رنگ میں۔ مگر چونکہ یہ زمانہ وہ تھا جس میں یومئذ یصدرالناس اشتاتا کی پیشگوئی کا ظہور ہونے والا تھا اسی لئے اللہ تعالی نے 1934 ء میںاحرار کو جماعت احمدیہ کے مقابلہ کے لئے کھڑا کر دیا اور انہوں نے اعلان کیا کہ ہم جماعت احمدیہ کو کچل کر رکھ دیں گے پہلے کیا تھا ۔ پہلے کوئی لدھیانہ میں مخالفت کر رہا تھا ۔ کوئی لاہور میںمخالفت کر رہا تھا کوئی دہلی میں مخالفت کر رہا تھا اور کوئی بٹالہ میں مخالفت کر رہا تھا ۔ اب ہم مل کر جماعت احمدیہ کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالیںگے چنانچہ احرار کے ساتھ کانگرس بھی مل گئی ۔ اور پھر کسی مصلحت کے ما تحت حکومت بھی ان کے ساتھ مل گئی۔ یہ مخالفت کا طوفان درحقیقت مظاہرہ تھا یومئذ یصدرالناس اشتاتا کا ۔ لیکن اس کو جو نتیجہ نکلا وہ خدا تعالی کے فضل اور حمایت ِ احمدیت کو ظاہر کر رہا ہے ۔ اب شیعوں نے ہمارے خلاف سر نکالنا شروع کر دیا ہے ۔ اور وہ بھی احرار کی طرح یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہم جماعت احمدیہ کو کچل دیںگے ۔ غرض وہ مقابلہ جو پہلے انفرادی رنگ میںکیا جاتا تھا اب قومی مقابلوں کے رنگ میں تبدیل ہو چکا ہے اور احمدیت اپنی جدوجہد کے سلسلہ میںاسی منزل میں سے گزر رہی ہے ۔
فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ O ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ O
پھر جس نے ایک ذرہ کے برابر (بھی ) نیکی کی ہو گی وہ اس (کے نتیجہ ) کو دیکھ لے گا ۔ اور جس نے ایک ذرہ کے برابر (بھی )بدی کی ہو گی وہ اس (کے نتیجہ ) کو دیکھ لیگا۔ ۸ ؎
۸؎ تفسیر ۔ فرماتا ہے لوگوں کے اکٹھا کام کرنے سے ہمارے اس قانون کی سچائی ثابت ہو گی کہ جو شخص ایک ذرہ بھر بھی عمل خیر دوسروں کے ساتھ مل کر کرے گا وہ اس کا نتیجہ دیکھ لیگا اور جو شخص ایک ذرہ بھر بھی عمل شر دوسروں کے ساتھ مل کر کریگا وہ اس کا نتیجہ دیکھ لے گا۔ یعنی اس زمانہ میںچونکہ ہر شخص اپنی پارٹی سے مل کر کام کرے گا اس لئے ہر قسم کے کام کا نتیجہ نمایا ں نکلے گا۔ کیونکہ مشترک کام ذرہ ذرہ مل کر بھی پہاڑ ہو جاتا ہے الگ کیا ہوا کام ذرہ کے مطابق ہو تو اس کا نتیجہ محسوس کرنا مشکل ہوتا ہے مگر وہ ذرہ بھر کام جو قوم کے ساتھ مل کر کیا ہو چھپ نہیںسکتا کیونکہ دوسروں کے ذروں سے مل کر وہ پہاڑ بن جاتا ہے ۔ پس فرماتا ہے چونکہ اس دن پارٹیاں مل کر کام کریںگی ہر کام کا نتیجہ نمایا ں نظر آئے گا اور عمل کاایک ذرہ بھی ضائع نہیںہو گا اس میںکوئی شبہ نہیں کہ انسانی عمل کا ایک ذرہ دنیا میں کوئی قیمت نہیںرکھتا اور وہ ہوا میں اڑ کر لوگوں کی نظروں سے غائب ہو جاتا ہے لیکن جب ایک گروہ کا گروہ اپنا اپنا ذرہ لے آئے تو ہر ذرہ دوسرے ذرات کے ساتھ مل کر ایک پہاڑ کی صورت اخیتار کر لیتا ہے اور اس طرح کوئی ذرہ بھی نمایاں ہونے سے نہیںرہ سکتا۔ یہ مضمون در حقیقت گزشتہ آیت کے تسلسل میںہی ہے اور اللہ تعالی یہ بیان فرماتا ہے کہ اس دن یصدرالناس اشتاتا کا کیوں ظہور ہو گا ۔ فرماتاہے یہ ظہور اس لئے ہو گا تا ہمارے اس قانون کی سچائی نمایاں ہو جائے کہ دنیا میںجو شخص چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی کرتا ہے اور وہ اس کا نتیجہ دیکھ لیتا ہے خواہ وہ عمل خیر ہو یا عمل شر اگر انفرادی اعمال خیر اور انفرادی اعمال شر پر اس آیت کو چسپاں کیا جائے تو اس کے کوئی معنے ہی نہیںبنتے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قیامت کے دن ہر شخص کا عمل خیر اور عمل شر نمایا ں ہو گااور ہم بھی اس کو تسلیم کرتے ہیںلیکن دنیا میںایسا نہیںہوتا ۔ دنیا میں لوگ بڑے بڑے خیر کے کام کرتے ہیں اور وہ چھپے رہتے ہیں۔اسی طرح بڑے بڑے شر کے کام کرتے ہیں اور وہ چھپے رہتے ہیں ۔ اگر دنیا میںہر خیر اور ہر شر نمایاں ہو تو لوگوں کو گناہوں پر دلیری ہی کیوں پیدا ہو ۔ ہزاروں لوگ ایسے پائے جاتے ہیںجو بڑے بڑے خیر کے کام کرتے ہیں مگر چونکہ وہ فرداً فرداً کرتے ہیں انکا کوئی ایسا نتیجہ نہیںنکلتا جس سے لوگوں کے دلوں میںخیر کی تحریک پیدا ہو ۔ اسی طرح ہزاروں ہزار لوگ شر کرتے ہیں مگر چونکہ وہ فرداً فرداً کرتے ہیں اس لئے ان کے شر کا کوئی ایسا نتیجہ نہیںنکلتا جس کو دیکھ کر لوگ مرعوب ہو جائیں اور اعمال شر کو ہمیشہ کے لئے ترک کر دیں۔ مگر فرماتا ہے ہم جس زمانہ کی خبر دے رہے ہیں اس میںخیر کرنیوالے بھی اپنے اپنے عمل کا ذرہ لا کر ایک جگہ ڈال دیں گے اس کا طبعی طور پر یہ نتیجہ نکلے گا کہ جب ساری دنیا کے خیر اکٹھے ہو جائیںگے تو وہ بھی ایک پہاڑ بن جائیں گے اور جب ساری دنیا کے شر اکٹھے ہو جائیںگے تو وہ بھی ایک پہاڑ بن جائیںگے ۔ گویا ان الفاظ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ا س دن کفر و اسلام کا نظامی مقابلہ ہو گا ایک طرف کفر اپنے تمام لشکر کو اکٹھا کر کے نظام قائم کرے گا اور دوسری طرف اسلام کے احیاء اور اس کی تقویت کے لئے اعمال خیر کرنے والوں کا ایک نظام قائم کیا جائے گا اور پھر ان دونوں نظاموں کا آپس میںٹکرائو ہو گا ۔ کفر چاہے گا کہ وہ اسلام کو ختم کر دے اور اسلام چاہے گاکہ وہ کفر کو تباہ کر دے یہ پیشگوئی جو ان آیات میںکی گئی ہے اس پر غور کر کے دیکھ لو پہلے کسی زمانہ میںیہ پوری نہیںہوئی ۔ نہ کفرنے اجتماعی مقابلہ کے لئے کوئی نظام قائم کیا اور نہ اسلام میںکفر کا سر کچلنے کے لئے کوئی باقاعدہ نظام قائم ہوا۔ رسول کریم ﷺ کو جب کبھی چندہ کی ضرورت محسوس ہوتی تو آپ صحابہ ؓ کو اکٹھا فرماتے اور ان کے سامنے چندے کا اعلان کر دیتے ۔ صحابہ ؓ اس وقت اپنی اپنی توفیق کے مطابق رسول کریم ﷺ کی خدمت میںاپنا چندہ پیش کر دیتے ۔ یہ نظر نہیںآتا کہ رسول کریمﷺ نے کوئی بیت المال قائم کیا ہو اور ایک نظام کے ما تحت جماعت کے ہر فرد سے باقاعدہ چندہ وصول کیا جاتا ہو ۔ مگر اس زمانہ میںحضرت مسیح موعود ؑ نے ابتدائے دعویٰ میں ہی پانچ مدات قائم فرمادیںجن کا ’’فتح اسلام ‘‘میںتفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے ۔ اور لوگوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اسلام کے احیاء اور اس کی ترقی کے لئے ان مدات میںروپیہ ارسال کریں۔ گویا آپ نے اپنی بعثت کے ساتھ ہی ایک نظام کی بنیادرکھ دی اور پھر رفتہ رفتہ اس کی بنیادوں کو اور بھی پختہ اور مضبوط بنا دیایہاں تک آپ نے اعلان فرما دیا کہ جوشخص تین ماہ تک اس سلسلہ کے لئے کوئی روپیہ ارسال نہیںکرتا اس کا ہماری جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیںسمجھا جا سکتا۔ غرض اسلام کے احیاء کے لئے اللہ تعالی نے ایک نظام قائم فرما دیا ہے ادھر کفر نے بھی اپنی طاقتیں جمع کر لی ہیں اور وہ اسلام کو کچلنے کے لئے مختلف قسم کی تدابیر میں منہمک ہے مسیحیت ؔ کی تبلیغ ، آریہ سماج کی تبلیغ، سکھوں کی تبلیغ، یہودیت ؔ کی تبلیغ انفرادی طور پر نہیں ہو رہی بلکہ بڑی بڑی سوسائٹیاں لاکھوں کروڑوں روپیہ جمع کر کے باقاعدہ طور پر کر رہی ہیں ۔ پس فرماتا ہے جب وہ آخری زمانہ آئے گا جس میں ہمارے رسول کی بعثت ثانیہ مقدر ہے توہم ادھر خیر کرنے والوں کو کہیں گے کہ تم اکٹھے ہو جائو ۔ ادھر شر کرنے والوں ک ملائکہ تحریک کریں گے کہ تم اکٹھے ہو جائو ۔ اس طرح کفر و اسلام کا عظیم الشان ٹکرائو ہو گا جس میں آخر اسلام کو فتح ہو گی اور یہ سب کچھ ہم اس لئے کریں گے تا دنیا کے لوگ یہ نہ کہہ سکیںکہ ہم تو غافل رہے ہمیں تو اپنے دل کے حوصلے نکالنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ اگر ملتا تو ہم اسلام کو کبھی ترقی کرنے نہ دیتے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ہم نہیں چاہتے کہ کفر کے دل میں کوئی حسرت باقی رہ جائے اسے اپنے حوصلے نکالنے کا موقع نہ ملے اور وہ یہ کہہ سکے کہ اگر مجھے تیاری کا موقع ملتا تو میں بتا دیتا کہ اسلام دنیا میں نہیں پھیل سکتا ۔ ہم اسے پوری طرح موقع دیں گے اور اعمال شر کرنے والے اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوں گے ۔ وہ خوب سمجھتے ہوں گے کہ وہ کیا مقصد لے کر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے کیا کیا ارادے ہیں ۔ اسی طرح اعمال خیر کرنے والے بھی اپنی ذمہ واریوں سے اچھی طرح آگاہ ہوں گے ۔ اس وجہ سے کفر و اسلام کی باہمی ٹکر کو جو نتیجہ نکلے گا وہ آخری اورقطعی ہو گا اور شر کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ مجھے خیر کے مقابلہ کی فرصت نہیں ملی ۔
یہ تو دینی معاملہ کی میں نے مثال پیش کی ہے اگر دنیوی مثالیں لے لو تب بھی یہ تمہیںنظر آئے گا کہ جس طرح اس زمانہ میں مختلف پارٹیوں کی صورت میں مل کر کام کیا جاتا ہے اسکی پہلے زمانہ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ مثلاً جہاں تک ظالم لوگوں کی موجودگی کا تعلق ہے یہ عنصر صرف اس زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر زمانہ میں ظالم لوگ ہوتے رہے ہیں اور ہر زمانہ میں لوگوں کو ان سے شکائتیں ہوتی رہی ہیں ۔ چنانچہ پہلے زمانوں میں بھی کئی ایسے نوکر ہوتے تھے جو اپنے آقائوں کو مار ڈالتے تھے ۔ ہزاروں واقعات ایسے پائے جاتے ہیں کہ آقا نے اپنے نوکر کو کسی بات پر گالی دی تو اس نے برا منایا اور رات کو جب وہ سورہا تھا اسے قتل کر دیا گیا ۔ مگر اس کا کوئی گہرا یا دیر پا اثر نہیں ہوا کرتا تھا زیادہ سے زیادہ یہی سمجھا جاتا تھا کہ زید کو اس کے نوکر نے قتل کر دیا یا بکر کو اس کے نوکر نے قتل کر دیا ہے ۔ دنیا کو اس کا کوئی نتیجہ نظر نہیںآتا تھا کیونکہ یہ کام اور دوسرے کاموں میں چھپ جاتا۔ مگرا س زمانہ میں جب روس میں کمیونسٹوں نے سر اٹھایا اور انہوں نے مل کر اپنے مالکوں کو مار ڈالا تو اس کا کتنا عظیم الشان نتیجہ نکلا کہ حکومت ہی بدل گئی ۔ اسی طرح مزدور نا خوش ہو کر پہلے زمانہ میں کام چھوڑ دیا کرتے تھے اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا تھا کہ دنیا میںکیا تغیر ہوا ہے لیکن اس زمانہ میں لیبر سٹرائکس کے ذریعہ سے مالکوں کی گردنیںیوں جھک جاتی ہیں کہ خدا یاد آجاتا ہے ۔ یہی حال سود کا ہے ۔ سود لوگ لیتے ہی چلے آتے ہیں لیکن اس زمانہ میںبنکو ں کے ذریعہ سے دنیا کو اس طرح قابوکر لیا گیا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ پہلے کسی گائوں کے ایک کونہ میںبیٹھ کر بنیا چند لوگوں سے سود لیتا اور کسی کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا تھا مگر اب ایسے بنک نکل آئے ہیںجنکی ساری دنیا میں شاخیں ہیں اور اس طرح سود کا جال وسیع کر کے ساری دنیا کو قابو کر لیا گیا ہے ۔ صنعت و حرفت بھی ہمیشہ سے چلی آتی ہے لیکن اب کمپنیوں کے ذریعہ سے اس طرح دوسرے ملکوں کا دیوالیہ نکالا گیا ہے کہ غریب حیران و پریشان نظر آتے ہیں ۔ پہلے زمانہ میں صرف معمولی تاجر ہوا کرتے تھے لیکن اس زمانہ میںکمپنیاں نکل آئی ہیں ۔ پہلے خواہ کوئی کتنا بڑا تاجر ہو جائے لوگوں کو اس کا پتہ بھی نہیں لگتا تھا اور وہ لوگوں کی دولت کو بھی زیادہ نہیں کھینچ سکتا تھا ۔ مگر اس زمانہ میں کمپنیوں نے اس طرح دولت کھینچی ہے کہ بڑے بڑے صاحب حیثیت لوگ کمپنیوں میں ملازمت اختیار کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں بجائے اس کے کہ انہیںگورنمنٹ سروس میںکوئی جگہ ملے ۔ لارڈ مانڈ انگلستان کا وزیر خزانہ تھا مگر وزارت چھوڑ کر وہ امپیریل کیمیکل انڈسٹری میںملازم ہو گیا ۔ اسی طرح ایک او ر مشہور شخص غالباً سر کینر نام تھا وہ بھی پہلے وزیر خزانہ تھا مگر پھر اس عہدہ سے الگ ہو کر ریلوے کمپنی میں ملازم ہو گیا ۔ وزارت کے عہدہ کی صورت میںاسے پانچ ہزار پونڈ ملتے تھے مگر ریلوے کمپنی میںملازمت اختیار کرنے پر اسے تیس ہزار پونڈ ملنے لگ گئے گویا قریبا ً پانچ لاکھ روپے سالانہ اس کی تنخواہ میں اضافہ ہو گیا ۔ غرض کمپنیوں نے تجارت اور صنعت و حرفت کے ذریعہ اس قدر دولت کھینچی ہے کہ پرانے زمانہ میں کسی بڑے سے بڑے صناع او ر بڑے سے بڑے تاجر کی بھی اتنی آمد نہیںہوتی تھی جتنی آج کل کمپنیوں کے نوکروں کو تنخواہیں ملتی ہیں ۔ پھر کمپنیوں سے ترقی کر کے ٹرسٹ بن گئے ہیں ۔ اور ٹرسٹ سے ترقی کرکے کارٹل بن گئے ہیںاسی طرح ہر کام لوگوں نے اجتماعی رنگ میںشروع کر کے اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔
غرض یصدرالناس اشتاتا نے یعنی ایک دوسرے کی بالمقابل ایک ایک کر کے نکلنے کی جگہ پارٹی پارٹی بن کر نکلنے نے وہ نمونہ دکھایا کہ دنیا نے کبھی نہ دیکھا تھا ۔ یہ پارٹیاں خیر کا کام کرتی ہیں تو وہ بھی ایک عظیم الشان شکل میںظاہر ہوتا ہے اور اگر برا کام کرتی ہیں تو وہ بھی ایک مہیب اور دل پر کپکپی نازل کر دینے والی شکل میں نظر آتا ہے ۔ چونکہ مومن بھی اس دن مل کر کام کریں گے اس لئے ان کے خیر کے نتائج بھی بڑے شاندار ہوں گے بلکہ چونکہ خیر کا دس گنا اجر ہے اس لئے ان کے خیر کے نتائج شر کے نتائج پر غالب آجائیںگے ۔
یہ معنے تو ترتیب کے لحا ظ سے ہوئے ۔ یوں بھی اپنی ذات میںیہ آیت نہایت اہم ہے ۔ رسول کریم ﷺ اس آیت کی نسبت فرماتے ہیں ( آپ ؐ سے گدھوں کے بارہ میں پوچھا گیا کہ ان کے رکھنے کا کیا ثواب ہے تو فرمایا ما انزل اللہ فیھا شیئا الا ھذہ الایۃ الفازۃ الجامعۃ من یعمل مثقال ذرۃ خیر ایرہ ۔ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ ۔ فازۃ کے معنے ہیں منع کرنے والی اور جامعۃ کے معنے ہیں سمیٹنے والی یعنی رسول کریم ﷺ نے فرمایا اس بارہ میں مجھ پر اللہ تعالی کی طرف سے یہ ایک فازہ اور جامعہ آیت نازل ہو چکی ہے کہ من یعمل مثقال ذرۃ خیر ایرہ ۔ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ یعنی ہر چیز جس کو نکالنا مقصود ہے اس کو اس آیت کے ذریعہ نکال دیا گیا ہے اور ہر چیز جس کو سمیٹنا مقصود ہے اس کو اس آیت کے ذریعہ سمیٹ لیا گیا ہے ۔ گویا یہ آیت جزائے خیر و شر کے متعلق ایک جامع مانع قاعدہ پر مشتمل ہے ۔ جزائے خیر اور جزائے شر سے تعلق رکھنے والی کوئی بات نہیںجو اس میں بیان نہ کی گئی ہو اگر غور کر کے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ دنیا میں انسان ہزاروں کام خیر یا شر سے تعلق رکھنے والے کرتا ہے مگر وہ خیر اور شر کے سب کام مٹ جاتے ہیں اور کسی کو علم بھی نہیںہوتا کہ زید نے فلاں خیر کا کام کیا تھا یا بکر سے فلاں شر کا صدور ہوا تھا ۔ بیسیوں انسان دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی بدخواہی کے خیالات اپنے دلوں میں رکھتے ہیں مگر جن لوگوں کی برائی کے خیالات ہر وقت ان کے دل و دماغ میںپرورش پا رہے ہوتے ہیں ان کو اس بات کا کچھ بھی علم نہیں ہوتا کہ فلاں شخص ہمارے متعلق کیسے برے خیالات رکھتا ہے ۔رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا جو شخص کسی کے متعلق غیبت میںکوئی برا کلمہ کہتا ہے اور ایک تیسرا شخص جو اس بات کو سن رہا ہوتا ہے اس جگہ سے اٹھ کر دوسرے شخص کے پاس چلا جاتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ تمہارے متعلق آج فلاں نے یہ بات کہی ہے تو اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی نے دوسرے کی طرف تیر پھینکا مگر وہ تیر اس کو لگا نہیں بلکہ زمین پر گر پڑا ۔ یہ دیکھ کر ایک اور شخص دوڑا دوڑا آیا اور اس نے وہ تیر اٹھا کر اپنے ہاتھوں سے دوسرے کے سینہ میں پیوست کر دیا ۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ہزاروں لوگ دوسروں کی بدخواہی کے خیالات اپنے دلوں میںرکھتے ہیں مگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیںہوتا نہ دوسروں کو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے متعلق فلاں شخص کیسے گندے خیالات رکھتا ہے اور نہ اس کے ان خیالات کا دنیا میں کوئی نتیجہ ظاہر ہوتا ہے۔اسی طرح ہزاروں لوگ ایسے ہیں جن کے دلوں میں دوسروـں کے متعلق نیک خیالات پیدا ہوتے ہیں ،مگر اُن دوسرے اشخاص کو کچھ بھی علم نہیں ہوتا کہ فلاں شخص کو ہم سے محبت ہے یا اُس کا دل ہماری ہمدردی اور خیرخواہی کے جذبات سے لبریز ہے۔ایک شخص کو دوسرے سے غائبانہ محبت ہوتی ہے مگر اس وجہ سے کہ محبت اُس کے دل میں مخفی ہوتی ہے دوسرا شخص میرا دوست ہے۔مجھ سے محبت کرتا ہے ۔اور میری مصیبت کی گھڑیوں میں میرا سااتھ دینے والا ہے ۔اس کے علاوہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو شخص آپس میں گہرے دوست ہوتے ہیں ،اُن کے ایک دوسرے سے مخلصانہ تعلقات ہوتے ہیں اور وہ مصیبت میں ایک دوسرے کے اندرونی جذبات کا علم نہیں ہوتا۔اُن میں سے ایک شخص راتوں کو اُٹھتا اور اﷲ تعالیٰ سے اُس کے لئے رو رو کر دعائیں مانگتا ہے مگر دوسرے کو کبھ معلوم نہیں ہوتا کہ رات کی تاریکیوں میں جب ساری دنیا محوِ استراحت ہوتی ہے میرا دوست میرے لئے اﷲ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہے اور وہ میری بھلائی کے لئے اﷲ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کو کھٹکھٹارہا ہے۔
غرض دنیا مین ہمیں یہ نظاہر نظر آتا ہے کہ ہزاروں ہزار اعمال خیر اور ہزاروں عمال شر لوگوں کی نگاہ سے مخفی رہتے ہیں ۔لیکن فرماتا ہے اﷲ تعالیٰ کے معاملہ میں یہ بات نہیں اﷲ تعالیٰ کے حضور کسی کا خفیف شر بھی ضائع نہیں جاتا ۔وہ ہر خیر سے آگاہ ہے وہ ہر شر سے واقف ہے ۔اور خواہ کوئی کتنا ہی حقیر اور معمولی کام ہو اس کی نگاہ سے مخفی نہیں ہو سکتا ۔تم مت سمجھو کہ جس طرح بنی نوع انسان کے معاملات میں تمہارے خیر کے اعمال بھی مخفی رہتے ہیں اور تمہارے شر کے اعمال بھی مخفی رہتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کا حال ہو گا ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ خَیْرً ایَّرَہٗ۔وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ۔بنی نوع انسان کے معاملہ میں بسا اوقات تمہارے خیر کے پہاڑ بھی غائب ہو جاتے ہیں اسی طرح بنی نوع انسان کے معاملہ میں تمہارے شر کے پہاڈ بھی غائب ہو جاتے ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ سے کوئی عمل مخفی نہیں ہو سکتا ۔دنیا میں تو ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص عملِ شر کرے اور دوسرے لوگوں سے مخفی رہے مگر خدا تعالیٰ کے حضور ایسا نہیں ہو سکتا ۔مثلاً دنیا میں ہزاروں راقعات ایسے ہو تے رہتے ہیں کہ بعض لوگ چوری چھپے زہر دے دیتے ہیں اور باوجود تلاش و جستجو کے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کس نے زہر دی۔ اسی طرح ہزاروں قاتل ایسے ہوتے ہیں جو پکڑے نہیں جاتے ۔اب جہاں تک شر کا تعلق ہے قاتل نے دوسرے پر شر کا ایک پہاڑ گرا دیا مگر وہ مخفی رہا۔کئی لوگ دوسرے کو جنگل میں اکیلا پا کر قیل کر دیتے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی کہ کس نے قتل کیا ہے ۔بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص دوسرے کو علحدگی میں قتل کر کے آجائے اور پھر اسی کے مقتول کے بیٹے کا دوست بن جائے۔وہ دونوں دانت کاٹی روٹی کھانے لگیں اس کا بیٹا اپنے دوست کے لئے جان تک دینے کے لئے تیار رہے اور اسے یہ معلوم تک نہ ہو کہ میرے باپ کو اسی شخص نے قتل کیا تھا جس سے میں محبت کی پینگیں پڑھا رہا ہوں۔غرض دنیا میں ہمیشہ یہ نظارے نظر آتے ہیں ۔غرض ایک شخص دوسرے پر شر کا پہاڑ اُٹھا کر دوسرے پر گرا دیتا ہے مگر خود اس طرح غائب ہو جاتا ہے کہ دوسرے کو پتہ تک نہیں چلتا کہ میرے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ہے۔اور چونکہ بہت سے اعمال خیر اور بہت سے اعمال شردنیا میں ظاہر نہیں ہوتے اس لئے ضروری تھا کہ ایک ہستی ایسی ہوتی جس کے علم میں انسان کا ہر چھوٹے سے چھوٹا فعل آجا تا اور وہ اس کے مطابق اس کو بدلہ دیتا تاکہ خیر کرنے والے کو یہ حسرت نہ رہے کہ میری فلاں نیکی ضائع چلی گئی اور شر کرنے والے کو یہ غرور نہ رہے کہ میں نے فلاں شر تو کیا مگر اس کے تلخ انجام سے محفوظ رہا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے اعمال خیر اور بہت سے اعمال شر ظاہر ہو جاتے ہیں بالخصوص وہ اعمال خیر یا وہ اعمال شر جو عظیم الشان ہو عام طور پر مخفی نہیں رہتا اور لوگوں کو اس کا ضرور علم ہو جا تا ہے لیکن چھوٹے گناہ اور چھوٹی نیکیا ں تو ہزاروں تو ایسی ہیں جو بالکل مخفی رہتی ہیں مثلاً کسی کے دل میں نیکی کا خیال آنا یہ خود ایک عمل خیر ہے اور کسی کے دل میں برائی کا پیدا ہونا یہ خود ایک عمل شرہے مگر کون دوسرے کے دل کو پھاڑ کر دیکھ سکتا ہے کہ اس میں شر پید ا ہے یا عمل خیر پرورش پا رہا ہے۔لیکن جب ایک زندہ اور علیم و خبیر ہستی موجود ہو تو پھر اس عمر کا کوئی خدشہ نہیں رہ سکتا کہ میری نیکی مخفی رہ جائے گی یا بدی چھپ سکے گی کیونکہ وہ ہستی ہروقت انسان کی نگران ہوگی اور اس کے چھوٹے سے چھوٹے عمل کو بھی ضائع نہیں جانے دے گی ۔
پھر اگر ہم انسانی اعمال پر نظر دوڑائیں اور بنی نوع انسان کی اکثریت کو دیکھیں تو ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسانی اعمال سب کے سب بڑے نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے اکثر چھوٹے ہوتے ہیں ۔بڑا عمل کرنے کی کسی کسی انسان کو توفیق ملتی ہے ورنہ ہزاروں انسان ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی ساری عمر گزر جاتی ہے مگر ان کو کوئی بڑا کام کرنے کی توفیق نہیں ملتی اور اس وجہ سے وہ نمایاں کام طور پر لوگوں کے سامنے نہیں آتے۔ وہ دنیا کی نگاہوں سے مخفی ہونے کی حالت میں ہی دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ان کی حیثیت با لکل ان بوٹیوں کی سی ہوتی ہے جو پہاڑوں میں پیدا ہوتی ہیں اور کچھ عرصہ بعد مرجھا جاتی ہیں نہ ان سے کوئی فائدہ اُٹھا تھا ہے نہ ان کسی کو ان کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے ۔پس اگر دنیا کا کوئی خدا نہ ہوتا ۔اگر ایک ایسی ہستی موجود نہ ہوتی جس کی نظر انسان کے دل کے مخفی گوشوں تک وسیع ہے اور جو انسان کے چھوٹے سے چھوٹے عمل کو بھی جاننے والا اور انسان کو اس کی جزا دینے والا ہے تو وہ لوگ زندہ ہی مر جاتے جن کی ساری عمر گزر جاتی ہے مگر ان سے کوئی بڑا عمل ظاہر نہیں ہوتا۔یہی حکمت ہے کہ اسلام نے بنی نوع انسان کو یہ مژدہ ِ جانفزاسنایا کہ اس عالم کا ایک خدا ہے جس کی نگاہ میں انسان کا ہر چھوٹے سے چھوٹا کام آجا تا ہے۔اگر کوئی عمل خیر کرتا ہے تو وہ بھی اﷲ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے اور اگر کوئی عمل شر کرتا ہے تو بھی خدا تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے ۔تم مت مسجھو کہ تمہارے اعمال ضائع چلے جائیں گے اور ان کا کوئی نتیجہ رونمانہیں ہوگا۔اگر دنیا میں تمہارے اعمال خیر مخفی رہے اور کسی نے ان کو نہیں دیکھا تو تم مت گھبرائو آسمان پر ایک زندہ خدا موجود ہے جو تمہارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور تمہیں نیکیوں کی جزا دے گا اور تمہارا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اس کے سامنے اسی طرح آ جائے گا جس طرح کوئی بڑے سے بڑا کام آتا ہے۔
غرض یہ آیت ایسی ہے جو انسانی زندگی کی کایا پلٹنے والی ہے اور لوگوں کے قلوب میں ایک نئی امنگ ،نئی روح اور نئی بیداری پیدا کرنے والی ہے اگر یہ آیت نہ اترتی تو اکثر انسان اپنے آپ کو لاوارث سمجھتے کیونکہ اکثر انسان ایسے ہوتے ہیں جن کی نہ خیر عظیم الشان ہوتی ہے نہ شر عظیم الشان ہوتا ہے ۔دس اربوں آدمیوں کی دنیا میں اگر تم قاتل تلاش کرنے لگو تو وہ بھی تمہیں زیادہ سے زیادہ لاکھ دو لاکھ ملیں گے اور تم دیکھو گے کہ دنیا میں شر کے لحاظ سے بھی صرف چند کی طرف لوگوں کی توجہ پھرتی ہے سب کی طرف نہیں ۔حالانکہ ایک قاتل یا ایک ڈاکو یا ایک چور جسے برا سمجھا جاتا ہے اس کے مقابل میں اور بھی لاکھوں لوگ ہوتے ہیں جن سے شر ظاہر ہوتا رہتا ہے مگر لوگوں پر ان کے شر کی کیفیت مخفی رہتی ہے ۔مثلاً قاتل تو اپنی زندگی میں ایک یا دو قتل کرتا ہے مگر ایک اور آدمی ایسا ہوتا ہے جس سے سارا دن شر ظاہر ہوتا رہتا ہے ۔کسی کو اچھے لباس میں ملبوس دیکھتا ہے تو اس کا دل کباب ہو تجاتا ہے ۔کسی کو اچھا کھانا کھاتے دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ اس کمبخت کا گلا بھی نہیں گھٹتا ۔کسی کو آرام و آسائش میں زندگی بسر کرتے دیکھتا ہے تو جل بھن کر رہ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مرتا بھی نہیں اس کمبخت پر کوئی بیماری بھی نہیں آتی کہ اسے بھی تکلیف کا احساس ہو ۔غرض سارادن اس سے شر ظاہر ہوتا رہتا ہے مگر اس کے شر کی دنیا میں کوئی نمائش نہیں ہوتی اور اسی حالت میں اس کی ساری عمر گزر جاتی ہے ۔اس کے مقابل میں ایک اور شخص ایسا ہوتا ہے جس کے پاس کروڑ دو کروڑ رپیا نہیں ہوتا کہ وہ آکسفورڈ یو نیو رسٹی قائم کردے یا کوئی اور علمی ادارہ قائم کرے بلکہ اکثر لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ کی راہ میں چند پیسے دینے کی بھی توفیق نہیں ہوتی مگر وہ سارا دن اپنے دل میں یہی کہتے رہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ دنیا کا بھلا کرے۔اﷲ تعالیٰ دنیا کو بلائوں سے بجات دے ۔اﷲ تعالیٰ لوگوں کی مصیبتوں اور ان کی تکلیفوںدور کرے ۔اﷲتعالیٰ ان کے لئے اپنے فضل کے دروازے کھولے یہی دعائیں ان کے ورد زبان رہتی ہیں اور اسی حالت میں دنیا سے گزر جاتے ہیں کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ ان سے کیا کیا خیر ظاہر ہوتی رہی ہے اگر لوگوں کا خدائے تعالیٰ کے ساتھ معاملہ نہ ہو اور ساری دنیا اسی طرح مر جائے جس طرح پہاڑوں میں پیدا ہونے والی بوٹیاں چند دن اپنی بہار دکھا کر خاک ہو جاتی ہیں تو ان کے اعمال خیر بھی فناہو جاتے اوراعمال شر بھی فنا ہو جاتے۔نہ نیکوں کو ان کی نیکی کا فائیدہ پہنچتا اور نہ بدوں کو ان کی شرارتوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ۔نیک لوگ اپنے آپ کو لاوارث سمجھتے اور بڑے لوگ تمرد اور سرکشی میں بڑھ جاتے اور وہ سمجھتے کہ ہم سے کوئی گر فت کرنے والا نہیں ہے جو کچھ ہمارے جی میں آئے ہم کر سکتے ہیں ۔قرآن کریم فرماتاہے کہ اگر تمہارے دل میں یہ خیال آئے تو غلطی کرو گے مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ۔ایک خدا ہے جو اس دنیا کو پید ا کرنے والا ہے اور اس کی نظر سے انسان کو باریک سے باریک عمل خیر بھی پوشیدہ نہیں ہوتا اس لئے اے کمزور اور بیمار انسان ! اے لولے لنگڑے انسان ! اے غریب اور نادار انسان ! تو مت گھبرا۔آسمان پر ایک خدا تیرے حالات کو دیکھ رہا ہے اور اس کی نگاہ سے تیرا کوئی عمل پوشیدہ نہیں۔اے کمزور اور نا تاقت انسان ! جو کسی کی مدد نہیں کر سکتا ۔اے بیمار اور نہیف انسان جو دینی خدمات کی ادائیگی کے لئے اپنے اندر چلنے پھرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا تیرا دل گھبرا تا ہو گا کہ لوگ تو نیکیوں میں حصہ لے گئے اور میںمحروم رہ گیا۔تو پریشان مت ہو تیرا دل اپنی بیکسی کو دیکھ کر گھبرائے نہیں تیری وہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی جو بھی ان حالات میں تجھ سے ظاہر ہوتی ہے ،تیرا چھوٹے سے چھوٹا وہ نیک خیال بھی جو تیرے دل کے ندرونی گوشوں میں پیدا ہوتا ہے اﷲتعالیٰ کے حضور وہی قدر و قیمت رکھتا ہے جو دوسروں کے بڑے بڑے اعمال خیر رکھتے ہیں ۔بیشک تو نے جب دین کی خدمت کے لئے ایک پیسا یا دھیلا نکال کر دیا تو لوگ تجھ پر حقارت کی ہنسی ہنسے۔تو نے ایک روٹی کا ٹکڑا پیش کیا تو وہ تجھ پر مسکرائے اور انہوں نے کہا کہ اس روٹی کے ٹکڑے سے کیا بن جائے گا مگر تو مت گھبرا ۔مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہ۔تیرے عمل خواہ کتنے حقیرہوں ،تیری کوششیں خواہ کتنی عدنہ ہوں ، تیری بے کسی خوای کس قدر ظاہر ہو ، بیشک دنیا نے تیرے اعمال کی قدر نہیں کی ،اس کی نگاہ تیرے خیر کو دیکھنے سے قاصر رہی ہے مگر خدا تیرے عمل خیر کو دیکھ رہا ہے اور وہ ایک دن تجھ کو بھی اپنے ان کاموں کے نتائج دکھا دے گا۔
دوسری طرف یہ آیت عمل شرک کرنے والوں کو یہ تنبیہ کرتی ہے ان سے کہتی ہے کہ اے شریر انسان ! تو جوچوریچھپے شرار تیں کرت ہے تجھے چوروں میں بھی عظمت حاصل نہیں تجھے ڈاکئوں میں بھی عظمت حاصل نہیں اور تجھے شر کر تے ہوئے دنیا میں کسی نے نہیں دیکھا مگر ہم تجھے دیکھ رہے ہیں اور ہم تجھ کو ان شرارتوں کا ایک دن پوری طرح مزا چکھا دیں گے ۔غرض جزائے خیر و شر کے متعلق یہ ایک ایسا عظیم الشان اصل ہے کہ اگر اس کو پوری طرح سمجھ لیا جائے تو صحیح نیکی پیدا ہوتی ہے اور بدی سے بچنے کا صحیح جزبہ انسانی قلب میں پیدا ہو جاتا ہے ۔
بعض لوگ کہ دیا کرتے ہیں کہ پھر تواس کا یہ نتیجہ نکلا کہ نہ جنت ہے نہ دوزخ ۔جب ہر بدہ کا بدلہ ضرور دیکھنا ہو گا تو پھر بخشش اور توبہ کے کیا معنے ہوئے ۔اور جب ہر خیر کا بدلا ضرور دیکھانا ہوگا تو پھر دوزخ میں لوگ کیوں ڈالے جائیں گے ۔گویا ایک آیت وہ ہے جو جنت کی نفی کرتی ہے اور دوسری آیت وہ ہے جو دوزخ کی نفی کرتی ہے ۔مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہ۔دوزخ کی نفی کر رہی ہے اور ٗ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ شَرّاً یَّرَہجنت کی نفی کر رہی ہے ۔پس یہ سیک ایسی آیت ہوئی کہ دو دھاری تلوار بن کر اس نے جنت کو بھی اُڑا دیا ور دوزخ کو بھی اُڑا دیا ۔جنت کو بھی بیکار کرار دے دیا ااور دوزخ کو بھی بیکار کرار دے دیا۔اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سچ ہے کہ کوئی چیز ضائع نہیں ہو تی ۔لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح دنیا میں حساب ہوتا ہے اس طرح خدا تعالیٰ کے قانون میں بھی حساب مقدر ہے ۔فرض کرو زید اور دو آدمی ہیں اور زید کے بکر کے پاس ایک ہزار روپے ہیں لیکن زید کے زمعہ بکر کے دو ہزار روپے ہیں ۔اب یہ لازمی بات ہے کہ جب حساب ہے کہ بکر اس سے صرف ایک ہزار روپیہ مزید لے کر اپنے گھر چلا جائے گا ۔ایسی صورت میں کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ بکر کاہزار وپیہ ضائع ہو گیا۔بکر کا اس سے دو ہزار لے جانا ہی بتاتا ہے کہ اس کا ہزار ضائع نہیں گیا بلکہ کام آگیا کیونکہ بکر نے تو دو ہزار روپے لینے تھے مگر کیونکہ زید کے ایک ہزار روپے اس کے پاس پہلے سے موجود تھے اس لئے دو ہزار میں سے ایک ہزار وضع ہو گئے ۔اور زید کو دو ہزار کی بجائے صرف ایک ہزار روپیہ زائد دینا پڑا۔یہی حال نیکیوں اور بدیوں کا ہے ۔اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے آقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَ فَیِ النَّھَا رِ وَ زُلَفً مِنَ الَّیْلِ ۔اِنْ الْحَسَنٰتِ یُذْ ھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ذَالِکَ ذِکْرٰی لِلذَّ ا لِرِیْنَ (ھود :۱۰)تم نمازیں قائم کرو صبح کو بھی اور شام کو بھی اور اسی طرح رات کے دونوں کناروں میں یعنی ہر تغیر جو واقع ہو تا ہے اس میں تمہیں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے ۔دن آئے تو تم عبادت کرو دن جانے لگے تو تم عبادت کرو۔رات آئے تو تم عبادت کرو رات جانے لگے تو تم عبادت کرو۔ اِنْ الْحَسَنٰتِ یُذْ ھِبْنَ السَّیِّاٰتِدنیا میں ہر تبدیلی کوئی نہ کوئی اثر چھوڑ جاتی ہے اور وہ تغیر اور تبدیلی یا تو خیر کا موجب ہوتی ہے یا شر کا موجب ہوتی ہے ۔اگر تم اﷲ تعالیٰ کی عبادت بجا لائو گے اور ہر تغیر کے وقت اﷲتعالیٰ کی طرف جھکو گے تو اگر وہ تغیر تمہارے لئے کسی شر اک موجب ہو گا تو عبادت کرنے سے وہ شر دور ہو جایت گا ۔اور اگر کسی شر کا موجب نہیں ہو گا تو تمہارے اعمال خیر میں اظافہ ہوتا رہے گا دونوں طرف تمہارا فائدہ ہی فائدہ ہے ۔جب نیا دن آئے گا تو یا تمہارے لئے خیر لایے گا یا شر لائے گا اور جب دن جائے گا تو یا تمہارے لئے خیر چھوڑ جائے گا یا شر چھوڑ جائے گا ۔اسی طرح رات آئے گی تو یا تمہارے لئے خیر لائے گی یا شر لائے گی اور جب رات جائے گی تو یا تمہارے لئے خیر چھوڑ جائے گی یا شر چھوڑ جائے گی ۔اگر تم ہر تغیر کے وقت اﷲ تعالیٰ کی عبادت بجالائو گے تو تمہاری نمازیں اور تمہاری عبادتیں اور تمہاری دعائیں شر کو اڑا دیں گی ۔کیونکہ بحر حال رات اپنے آنے اور جانے کے وقت اسی طرح دن اپنے آنے اور جانے کے وقت یا خیر لائے گا یا شر لائے گا۔ یا خیر چھوڑ جائے گا یا شر چھوڑ جائے گا ۔اگر دن آتے اور جاتے تمہارے لئے شر چھوڑ گیا اور تم نے نماز پڑھ لی ہے تو دن کا شر دورہو جائے گا اوراگر رات آتے اور جاتے تمہارے لئے شر چھوڑ گئی ہے اور تم نے نماز پڑھ لی ہے تو رات کا شر دور ہو جائے گا۔اِنْ الْحَسَنٰتِ یُذْ ھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ۔اﷲ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ نیکی بدی کا ازالہ کر دیا کرتی ہے ۔اگر بدی ہو تو نیکی سے فوراً کٹ جاتی ہے اور خیر ہی خیر ہو تو پھر عبادت تمہاری نیکیوں کو اور بڑھا دے گی ۔یہ ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ ان نیکیوں کو شر کے ازالہ پر خرچ کیا جائے ۔پہر حال اﷲ تعالیٰ یہ ہدایت دیتا ہے کہ جب تم سے کوئی شر ظاہر ہو یا کسی شر کا امکان تمہارے لئے پیدا ہو تو تم فوراً نیکی کر لیا کرو تاکہ بدی کٹ جائے اور تمہیں اس کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔ذَالِکَ ذِکْرٰی لِلذَّ ا لِرِیْنَ یہ ایک گر ہے جو ہم نے تمہیں بتا دیا ہے اگر تم اپنے پہلو کو ہمیشہ مضبوط رکھان اچاہتے ہو تو ہماری اس نصیحت کو یاد رکھو کہ دن اور رات کے آتے جاتے وقت ضرور عبادت کر لیا کرو۔جب دن آئے گا تو یا تمہارے لئے خیر لائے گا یا شر لائے گا اسی طرح جب رات آئے گی تویا تمہارے لئے خیر لائے گی یا شر لائے گی ۔جب دن جائے گا تو یا تمہارے لئے خیر چھوڑ جائے گا یا شر چھوڑ جائے گا اور جب رات جائے گی تو وہ بھی تمہارے لئے یا خیر چھوڑ جائے گی یا شر چھوڑ جائے گی تم ہر تغیر کے وقت عبادت کر لیا کرو اگر دن اور رات کا آنا جانا تمہارے لیے خیر لائے گا تو تمہاری خیر دگنی ہو جائے گی اور اگر شر لائے گا تو عبادت سے وہ شر کٹ جائے گا اور تمہارا پہلو یقینی طور پر محفوظ ہو جائے گا ۔
اسی طرح فر ما تاہے مَا َ مَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَا زِ یْنُہٗ فَھُوَ فِی عِیْشَہٍ رَّ اضِیَہٍ وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوا زِیْنُہٗ فَاُمَّہٗ ھَا وِ یَہٌ وَمَآ اَذَرَاکَ مَا ھِیَہْ نَا رٌحَا مِیَۃٌ(القارعہ) جس کے وزن بھاری ہو جائیں گے (بھاری کا یہ مطلب ہے کہ بمقابلہ بدی کے اس کی نیکیاں بڑھ جائیں گی) اُسے ہمارے قریب کا مقام حاصل ہو گا اور اُس کی اُخروی حیات سنور جائے گی ۔ وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوا زِیْنُہٗ لیکن جس کے وزن ہلکے رہیں گے ٗ فَاُمَّہٗ ھَا وِ یَہ ۔اُس کی ماں ہاویہ ہوگی۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وزن اصل میں نیکی کا ہی ہوتا ہے بدی کا نہیں ہوتا۔اس مسئلہ کے نہ سمجھنے کی وجہ سے بھی لوگوں نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ وزن والی چیز صرف نیکی ہی ہوتی ہے بدی کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔پس ٍ وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوا زِیْنُہٗ کا یہ مطلب ہے کہ جس کی بدیوں نے اس کی نیکیوں کو کاٹ نہیں دیا اور ٍ وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوا زِیْنُہٗ کا یہ مطلب ہے کہ جس کا وزن گھٹ کیا یعنی نیکیاں باقی نہ رہیں ۔ٗ فَاُمَّہٗ ھَا وِ یَۃٌ وہ دوزخ میں گرایا جائے گا۔
پھر فرمایا وَالْوَزْنُیَوْمَعِذِ نِ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِ یْنُہٗ فَا ُ و لٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِ یْنُہٗ فَاُو لٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْ ا اَنْفُسَھُمْ بِمَا کَا نُوْا بِاٰ یَا تِنَا یَظْلِمُوْنَ(اعراف :۱)اُس دن وزن کا ہونا ایک قطعی اور یقینی بات ہے ۔جس کے وزن بھاری ہو جائیں گے یعنی بدیاں اُڑجائیں گی اور نیکیاں باقی رہ جائیں گی وہ کامیاب ہو جائے گا ۔اور جس کے وزن ہلکے ہو جائیں گے اور وزن کے ہلکے ہونے کے معنی ہیں کہ اس کے بدیاں زیادہ ہو ں گی ۔نیکیاں اُن بدیوں کو اُڑا نے کے لئے انسان کے پاس نہیں ہوں گی ۔ فَاُو لٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْ ا اَنْفُسَھُم یہ ہو لوگ ہیں جو مقصان پانے والے ہوں گی بِمَا کَا نُوْا بِاٰ یَا تِنَا یَظْلِمُوْنَ کیونکہ یہ لوگ ہماری آیات کے ساتھ ظلم کیا کرتے تھے ۔
ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ خیال کہ جب ہر بدی کا بدلہ انسان نے ضرور دیکھنا ہے تو پھر بخشش اور توبع کے کیا معنی ہوئے اور جب ہر خیر کا بدلہ انسان نے ضرور دیکھنا ہے تو پھر دوزخ کا کیا فائیدہ ہوا بلکل غلط ہے ہر انسان نے جو عمل خیر کیا ہوگا وہ بھی قیامت کے دن موجود ہوگا اور جو اس نے عمل شر کیا ہوگا وہ بھی قیامت کے دن موجود ہو گا ۔وہ اپنے خیر کو بھی دیکھے گا اور اپنے شر کو بھی دیکھے گا اور دونوں کے تقابل کے نتیجہ میں جو چیز زیادہ ہو گی وہ دوسرے حصہ کو کاٹ دے گی ۔خیر زیادہ ہو گا تو اس کی وجہ سے شر کٹ جائے گا اور گر شر زیادہ ہو گا تو خیر کٹ جائے گا بہر حال چھوٹا حساب بڑے حساب میں سے وضع کر لیا جائے گا مثلاً ایک شخص ایسا ہے جس نے دس ہزار نیکی کی اورایک ہزار بدی ۔ایک اور شخص ایسا ہے جس نے دس ہزار نیکی کی اور پانچ سو بدی ۔ایک اور شخص ایسا ہے جس نے دس ہزار نیکی کی اور دو سو بدی کی ۔ایک اور شخص ایسا ہے جس نے دس ہزار نیکی کی مگر بدی کوئی ایک بھی نہیں کی تو لازماً وہ شخص جس نے کوئی بدی نہیں کی وہ اونچے درجہ پر ہوگا اس کے نیچے وہ شخص جس نے دوسو بدیاں کی ۔اس سے نیچے وہ شخص ہوگا جس نے ایک ہزار بدیاںکیں ۔بیشک یہ سب لوگ جنت میں ہوں گے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سب نے اپنے شر کو دیکھ لیا۔ اس نے بھی دیکھ لیا جس نے ایک ہزار بدیاں کی تھیں کیونکہ اسے وہ مقام نہ ملا جو پانچ سو بدیاں کرنے والے کو ملا اور اس نے بھی شر دیکھ لیا جس نے پانچ سو بدیاں کی تھیں کیانکہ اسے وہ مقام نہ ملا جو دوسو بدیاں کرنے والے کو ملا۔اور اس نے بھی شر دیکھ لیا جس نے دو سو بدیاں کی تھیں کیونکہ اسے وہ مقام نہ ملا جو اس شخص کو ملا جس نے کوئی بدی بھی نہیں کی تھی۔آخر یہ واضع بات ہے کہ کیوں محمد رسول اﷲ ﷺمحمدؐیت کے بلند ترین مقام پر فائز ہوں گے۔ابو بکر کیوں ابوبکر ؓ کے مقام پر ہو گا ۔عمر کیوں عمر ؓ کے مقام پر ہو گا اور عام مومن کیوں عام مومن کے مقام پر ہوں گے ۔اسی لئے کہ رسول کریم ﷺ نے کوئی بدی نہیں کی ۔اس لئے آپ کو اﷲ تعالیٰ کے قرب کا انتہائی مقام مل گیا ۔ابو بکر ؓ سے کچھ غلطیاں ہوئیں اس لئے انہیں وہ مقام نہ ملا جو محمد رسول اﷲ ﷺ کو دیا گیا ۔پس ابو بکر ؓ نے اپنے شر کو دیکھ لیا ۔ اس کے بعد عمر ؓ کو ابو بکر ؓ کا مقام بھی نہ ملا پس عمرؓ نے بھی اپنے شر کا دیکھ لیا اسی طرح ہر مومن جو جنت میں گیا جب اُسے ابو بکر ؓ اور عمر ؓ کا مقام نہ ملا تو اس نے بھی اپنا شر دیکھ لیا ۔کیونکہ جس قدر کسی کے اعمال میں شر کا دخل ہوتا ہے اسی قدر اس کے اعمال خیر میں کٹوتی ہو جاتی ہے اور یہی شر کو دیکھنے کا مفہوم ہے۔عیسائی لوگ بڑی ہنسی اُڑا یا کرتے ہیں کہ اسلام کا خدا بہی کھاتے والا خدا ہے حلانکہ سچی بات یہ ہے کہ اس کے بغیر امن قائم ہی نہیں ہو سکتا۔خود عیسائیوں سے اگر پوچھا جائے کہ جس مقام پر حضرت عیسیٰ ؑ کو سمجھتے ہو کیا اسی مقام پرقیامت کے دن تمام مومن ہوں گے تو یقینا وہ یہی کہیں گے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت عیسیٰ ؑ کو اور مقام پر رکھے گا اور مومنوں کو اور مقام پر ۔اور جب خود ان کا یہ اعتقاد ہے تو وہ اسلام پر کس منہ سے یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ اسلام کا خدا بہی کھاتے والا خدا ہے ۔
اسی طرح فرماتا ہے مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشَرُاَمْثَالِھَا وَمَنْ جَآ ئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزٰی اِلَّا مِثْلَھَا وَ ھُمْ لَا یُظْلِمُوْ نَ(انعام ۲۰)جو شخص نیک عمل کرے گا اسے اس کے عمل کی قیمت سے دس گنے ہ زیادہ اجر ملے گا اور جو بد عمل کرے گا سے اس کے عمل سے زیادہ کسی صورت بھی سزا نہیں ملے گی اور یقینا ہماری طعف سے بدوں پر بھی کسی قسم کا ظلم روا نہیں رکھا جائے گا۔اس آیت نے اس خطرح کو دور کر دیا جو مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَاَ ذَرَّ ۃٍ شَرًّ ایَّرَہٗ کی وجہ سہر مومن کو محسوس ہوتا تھا کہ جب ایک چھوٹی سے چھوٹی بدی کا انجام بھی مجھے دیکھنا پڑے گا تو میری مغفرت کی کیا صورت ہو گی ۔اﷲ تعالیٰ بتاتا ہے کہ نیکی بڑھتی ہے اور اس کا دن گنے اجر دیا جاتا ہے لیکن بدی کے متعلق ہماری یہ قانون ہے کہ ۃِ فَلَا یُجْزٰی اِلَّا مِثْلَھَا ۔اس کا اس کے مطابق بدلہ دیا جاتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ اسے دس بیس گنا بڑھا دیا جائے اس لئے اگر تمہیں یہ خطرہ ہے کہ تمہیں اپنے شر کا برا نجام نہ دیکھنا پڑے تو ہ تمہیں یہ علاج بتاتے ہیں کہ تم نیکی کا بیج بودو۔نیکی کا بیج ہمارے قانون کے مطابق بڑھے گا اور ترقی کرے گا یہاں تک کہ تمہاری ایک ایک خیر دس دس نیکیوں کی شکل اختیار کرے گی لیکن بدی کا بیج چھپ نہیں سکتا۔ اس لئے نیکیوں کے غلبہ کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ تمہاری مغفرت کے سامان پید افرما دے گا ۔
در حقیقت قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ خیر اور شر کی مثال ایک اچھے اور گندے بیج کی سی ہے ۔اچھا بیج پھل پیدا کرتا ہے لیکن سڑا ہوا بیج کوئی پھل پیدا نہیں کرتا اگر تم زمین میں کوئی سڑا ہوا بیج بودو تو یہ نہیں ہوگا کہ اس کے نتیجہ میں ایک سڑا ہو بیج پید اہو جائے ۔لیکن اگر تم اچھا بیج بو دو ایک دانے سے کئی کئی سو دانے پیدا ہو جاتے ہیں ۔اسی طرح بدی کیونکہ سڑتی ہوئی چیز ہے وہ اپنی زار تک محدود رہتی ہے اگر تم چاہتے ہو کہ بدیاں تمہاری نجات کی راہ میں حائل ہوں تو تمہیں چاہتے ہو کہ بدیاں تمہاری نجات کی راہ میں حائل نہ ہوں تو تمہیں ہماری نصیحت یہ ہے کہ تم کثرت سے نیکیاں بجا لائو۔
پھر فرماتا ہے وَ ھُوَ الَّذِیْ یُقْبِلُ التُّوْ بَۃَ عَنْ عِبَا دِہٖ وَیتَعْفُوْ ا عَنِ السَّیِّاٰ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ (شوریٰ :۳)وہ خدا ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا۔اُن کی کو تا ہیوں سے درگزر کرتا اور وہ سب کچھ جانتا ہے جو ہو کرتے ہیں۔
پھر فرماتاہے وَمَآاَصَا بَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِکُمْ وَ یَعْپُوْا عَنْ کثِیْرٍ (شوریٰ :۴)تمہیں جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ اپنے اعمال کے نتیجہ میں پہنچتی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ انسان کے اکثر گناہوں سے چشم پوشی کرتا ہے۔
اِن آیات سے وہ اعتراض باطل ہو گیا لوگوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے کہ اگر نیکی کا بدلہ ہے اور ہر بدی کی سزا مقدر ہے تو پھر جنت اور دوزخ کے کیا معنے ہوئے۔اگر ہر خیر کا بدلہ ہم نے ضرور دیکھنا ہے تو پھر دوزخ اُڈ گئی اور اگر ہر بدی کا بدلہ ہم نے ضرور دیکھانا ہے تو پھر جنت اُڑ گئی۔اُپر کی بیان کردہ آیات نے اس اعتراض کا باطل ہونا ثانت کر دیا ہے اور بتادیا ہے کہ باوجود اس کے کہ ہر نیکی قابل جزا ہے اور ہر بدی قابل پاداش پھر بھی جنت اپنی جگہ قائم رہے گی اور دوزخ میں گر ا یا جائے گا اور جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی وہ جنت میں داخل کیا جائیگا جس کی بدیوں کی کثرت اُس کی نیکیوں کی کثرت کو کھا جائے گی وہ دوزخ میں چلا جائے گا اور جس کی نیکیوں کی کثرت اُسکی بدیوں کو کھا جائے گی وہ جنت میں چلا جائے گا ۔غرض جنت بھی قائم رہی اور دوزخ بھی۔
اسی طرح احادیث میں آتا ہے ابن جریر حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کی کَانَ اَبُوْ بَکْرٍ یَأْ کُلُ مَعَ النَّبِیِّ مَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَنَزَلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَلَ ذَرَّۃٍ خَیْرً ایَّرَ ہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّ ایَّرَ ہٗ ۔ حضرت ابو بکر ؓ رسول کریم ﷺ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ جو شخص ایک ذرّہ بھر بھی بدی نیکی کرے گا اُس کا انجام دیکھ لے گا اور جو شخص ایک ذرّہ بھر بھی بدی کرے گا وہ اُس کا انجام دیکھ لے گا فَرَفَعَ اَبُوْ بَکْرٍ یَدَہٗ ۔ حضرت ابو بکر ؓ یہ آیت سُن کر گھبرا گئے اور انہوں نے کھانے سے اپنا ہاتھ اُٹھا لیا وَ قَ لَ یَا رسُوْ لَ اﷲ اِنّی ْ اُخْذٰ ی بِمَا عَمِلْتُ مِنْ مِّثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ شَرٍّاور کہا یا رسول اﷲ کیا ایک ذرّہ بھر بھی بدی مجھ سے سرزد ہوئی تو قیامت کے دن مجھے اُس کی سزا ملے گی اگر ایسا ہوا تب بڑی مشکل ہے۔فَقَالَ یَا اَبَا بَکْرٍ مَارَأَ یْتَ فِی الدُّنْیَا مِمَّا تَکْرَہُ فَبِمَثَا قِیْلِ ذَ رِّ الشَّرِّ وَ یَدَّ خِرُا ﷲ ُ لَکَ مَثَا قِیْلَ الْخَیْرِ حَتّٰی تُوَفّٰے یَوْمَ الْقِیَا مَۃَ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ ٹھیک ہے مگر اے ابو بکر تم گھبرائو نہیں دنیا میں انسان کو جو تکلیفیں پہنچتی ہیں وہ ذرہ ٔشر کی وجہ سے پہنچتی ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ شر کے ذروں کو یہیں ختم کر دے گا اور خیر کے ذروں کو باقی رکھے گا اور انہی کی بنا پر مومن کو جنت میں داخل کیا جائے گا ۔
اس حدیث کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ ہر ایک کے لئے نہیں بلکہ ابو بکر ؓ یا ابو بکر ؓ جیسے مقام کے انسان کے لئے ہے۔حضرت ابو بکر ؓ کی اتنی ہی بدیاں تھیں جو دنیا میں ختم ہو سکتی تھیں اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ تمہارا شر اتنا ہی ہے کہ اگر تمہیں کبھی بخار چڑھا یا روپیہ ضائع ہو گیا یا کوئی اورتکلیف پہنچی تو اسی میں وہ ذرہ شر ختم ہو جائے گا اور قیامت کے دن تمہارے اعمال میں خیر ہی خیر ہو گا ۔
اسی طرح اب جریر ہی حضرت عمرو بن عاص سے روایت کرتے ہیں اِنَّہٗ قَلَ لَمَّا نَزَلَتْ اِذَ زُلْذِلَتْالْاَرضُ زِلْزَالَھَا وَ اَبُوْ بَکْرٰالصِّدِّیْقُ رَضِیَ اﷲُ عَنْہٗ قَعِدٌ فَبَکیٰ حِیْنَ اُنْزِلِتْ یعنی جب یہ صورت نازل ہوئی کہ اِذَا ذُلْزِ لَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا تو اُسوقت حضرت ابو بکر ؓ رسول کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔آپ نے یہ صورت سنی تو رو پڑے ۔فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یُبْکِیْکَ یَا اَبَا بَکْرٍ رسول کریم ﷺ نے اُن سے فرمایا اے ابو بکر تمہیں کس بات نے رُلا یا ہے ؟ قَالَ یُبْکِیْنِیْ ھٰذِ ہِ السُّوْ رَۃُ ۔حضرت ابو بکر ؓ نے کہا یا رسوک اﷲ مجھے تو اس صورت نے رُلا یا ہے تعنی اگر ہم نے شر کا ایک ذرّہ بھی دیکھنا ہے تب بھی ہم جنت سے محروم رہے فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ لَوْلَا اِنَّکُمْ تُخْطِئُوْنَ وَقُذْ ہِبُو نَ فَیَغْفِرِ لَکُمْ لَخَلَقَ اﷲُ اُمَّۃً یُخْطِئُوْنَ وَیُذْنِبُوْنَ فَیَغْفِرَ لَھُمْ رسول کریم ﷺ نے فرمایا گھبرا ئو نہیں بے شک مومن شر بھی دیکھیں گے مگر شر دیکھنے سے مراد ان کا اپنے گناہوں سے توبہ کرناہے جب کوئی انسان سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو یہی اس کا شر کو دیکھنا ہو جا تا ہے کیونکہ توبہ اسی وقت کی جاتی ہے جب انسان کا دل ندامت سے پُر ہو جائے اور وہ اپنے گزشتہ گناہوں کو یاد کرکے سخت شرمندہ ہو اور محسوس کرے کہ اُس نے اپنی زندگی میں بڑی بھاری غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے جن کی اُسے تلافی کرنے چاہئے ۔پس چونکہ توبہ کے وقت انسان کا دل ذخمی ہو تا ہے اور وہ اپنے گناہوں کو یاد کر کر کے سخت شرم سار ہوتا ہے اس لئے یہی اس کا اپنے شر کو دیکھنا ہو تا ہے ۔اگر وہ شر نہ کرتا تو اس کے دل کو اس رنگ میں تکلیف بھی نہ پہنچتی ۔
اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو پیدا ہی اس رنگ میں کیا ہے کہ اس نے اُن میں صفت قدرت رکھ دی ہے یعنی وہ بدی بھی کر سکتے ہیں اور نیکی بھی کر سکتے ہیں ۔اگر کویہ صاحب قدرت مخلوق نہ ہوتی تو اﷲ تعالیٰ کی بعض صفات دنیا پر ظاہر نہ ہو سکتیں ۔صاحب قدرت مخلوق ہو نے کی وجہ سے کیانکہ لوگوں سے بدیاں بھی سر زد ہو تی ہیں اور نیکیاں بھی اس لئے اس کی کئی صفات ظاہر ہوتی رہتی ہیں کہیں غفاری کی صفت ظاہر ہورہی ہے، کہیںستاری کی صفت ظاہر ہورہی ہے ،کہیں رضاقیت کی صفت ظاہر ہو رہی ہے،کہیں امانت کی صفت ظاہر ہو رہی ہے ،کہیں اہیاء کی صفت ظاہر ہو رہی ہے اور یہ سب صفات وہ ہیں جو انسانہ پیدائش کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم گناہ نہ کرو اورخدا تعالیٰ تمہاری توبہ پر مغفرت سے کام نہ لے تو ْ لَخَلَقَ اﷲُ اُمَّۃً یُخْطِئُوْنَ وَیُذْنِبُوْنَ فَیَغْفِرَ لَھُم اﷲ تعالیٰ یقینا اورلوگ ایسے پیدا کر دے جو گناہ کریں اور اﷲ تعالیٰ ان کو معاف کرے۔اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا تعالیٰ کو گناہ پسندہیں بلکہ یہ کہ صاحب قدرت مخلوق ہی صفات الٰہیہ کو ظاہر کرتی ہے ۔اگر صاحب قدرت مخلوق دنیا
میں نہ ہوتی تو اس کی بعض صفات بھی ظاہر نہ ہوتیں اور جب انسان کو صاحب قدرت بنایا گیا ہے تو بہر حال صاحب قدرت مخلوق میں سے کچھ گناہ گار بھی ضرور ہوں گے۔یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ہوں تو صاحب قدرت مگر ہر شخص نیکی پر مجبور ہو۔انسان کا صاحب قدرت ہونا ہی بتا رہا ہے کہ انسا نوں میں سے کُچھ بدیوں کا بھی ارتکاب کریں گے اور پھر ان میں سے جو چاہیں گے ان کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہوگا تا اگر ان کا دل شرمندہ ہو اور ندامت کی آگ میں جل کر صاف ہو جائے تو توبہ کے ذریعہ ان کے گناہ معاف ہو جائیں اور اس طرح اﷲ تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی رہیں ۔
اسی طرح ابن ابی حاتم ابی سعید الخدری سے روایت کرتے ہیں کہ ۔قَا لَ لَمَّا اُنْزِ لَتْ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَا لَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ یَّرَہٗ قُلْتُ یَا رَسُوْلْ اﷲِ اِنّیِ ْ لَرَأ یِ عَمَلِیْ قَالَ نَعَمْ ۔یعنی ابو سعید خدری کہتے ہیںکہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرً ا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَا لَ ذَرَّشَرً ایَّرَہٗ۔ تو میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲکیا میں اپنے ہر عمل کا نتیجہ دیکھوں گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔قُلْتُ تِلْکَ الْکِبَارُ الْکِبَارُ میں نے کہا بڑے بڑے عمل بھی نظر آئیں گے؟ قالَ نَعَمْ فرمایا ہاں قُلْتُ تِلْکَ الصِّغَا رُ الصِّغَارُ ۔میں نے کہا چھوٹے چھوٹے عمل بھی نظر آئیں گے؟قَا لَ نَعَمْ۔آپ نے فرمایا ہاں۔قُلْتُ وَاثکلی اُمّیْ ۔میں نے کہا میری میں مجھ کو روئے پھر تو میں مرا۔قَالَ آبْشِرْ یَا اَبَا سَحِیْدٍ فَاِنَّ الْحَسَنَۃً بِعَشَرِ اَمَثَا لِہَا یَعْنِی اِلٰی سَبْعِ مِا ئَۃِ صِعْفٍ وَّ یَضْعَفُ اﷲُلِمَنْ یَشَآ ئَ۔آپ نے فرمایا اے ابو سعید یہ آیت گھبراہٹ پیدا کرنے والی نہیں یہ تو نیکی اور بدی کی جزا کے متعلق اﷲ تعالیٰ کے قانون کو بیان کرتی ہے۔کافر بے شک گھبرا سکتا ہے لیکن مومن کے لئے گھبرا نے کی کوئی وجہ نہیں ۔کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر نیکی کا دس گنے اجر ملے گا۔پس یہ جو اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ جو شخص نیکی کا ایک ذرہ بھی کرے گا وہ اسے دیکھے گا ۔اس میں خیر دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ جس شخص کی ایک نیکی ہوگی اسے دس گنے بڑا کر کے دکھایا جائے گا یعنی جو شخص کوئی ایک نیکی بجا لائے گا خدا تعالیٰ کے حضور اس کی دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور پھر ان دس نیکیوں کو سات گنا کیا جائے گا ۔گویا ایک نیکی کا اجر ستر گنے تک پہنچا دیا جائے گا اور اﷲ تعالیٰ جسے چاہے گا اس سے بھی زیادہ بدلہ دے گا ۔وَالسَّیِّئَۃُ بِمِثْلِھَا اُوْیَغْفِرُاﷲ۔لیکن اگر کسی نے کوئی بدی کی ہوگی تو اس کا بدلہ اسے اتنا ہی ملے گا جتنا اس نے اس سے قصور سر زد ہوا ہو گا یا اﷲ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا ۔یعنی نیکی کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا جو قائدہ ہے وہ بدی کے متعلق نہیں ۔پس مومن کے لئے گھبراہٹ کا کوئی مقام نہیں ہاں اگر کافر گھبرائے تو وہ اس کا سزا وار ہے ۔پھر آپ نے فرمایاوَلَنْ یَنْجُوَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ بِعَمَلِہِ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنے عمل کے زور سے نجات حاسل کر سکے ۔نجات کا موجب عمل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے ۔قُلْتُ وَلَا اَنْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ ۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ کیا آپ بھی اپنے عمل سے نجات نہیں پائیں گے؟ قَالَ وَلَ اَنَا اِلَّا اَنْ یَّتَغَمَّدَنِی اﷲُ مِنْہُ بِرَحْمَۃٍ ۔آپ نے فرمایا میں بھی اپنے عمل سے نجات نہیں پاسکتا میری مغفرت بھی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ اﷲتعالیٰ امجھے اپنے فضل سے ڈھانپ لے ۔در حقیقت اگر ہم غور کریں تو بات وہی ہے جو غالب نے کہی :
؎جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اگر نبی نیکی کرتا ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کی دہ ہوئی طاقتوں سے ہی کرتا ہے۔پس اگر منطقی طور پر دیکھا جائے تو نبی کے ہاتھ میں بھی
سوائے فضل کے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اگر اس نے نماز پڑھی ہے یا روزہ رکھا ہے یا حج کیا ہے یا صدقہ و خیرات میں حصہ لیا ہے یا اور نیکیاں کی ہیں تو وہ سب کی سب خدا تعالیٰ کی عطا کردہ طاقتوں سے کی ہیں اس لئے خالص منطقی نظریہ سے یہ اگر دیکھا جائے تو نبی کی نجات بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔بے شک عملی نظریہ میں ایک شخص نیک ہوتا ہے اورایک بد ۔لیکن منطقی نظریہ کے ماتحت کوئی بڑے سے بڑا نیک بھی محض اعمال کی بنا پر جنات کا مستحق نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ اس نے جو کچھ کیا اﷲ تعالیٰ کی طاقتوں سے کام لے کر کیا ہے ۔اس لیے حدیث میں رسول کریم ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے خالص منطقی نظریہ کے ماتحت فرمایا ہے عملی نظریہ کے ماتحت نہیں ۔
اس طرح ابن ابی حاتم سعید بن جبیر اﷲ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَلَ ذَرَّۃٍ خَیْرً ایَّرَ ہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّ ایَّرَ ہٗ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت کس واقعہ پر ظاہر ہوئی تھی۔میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ روایات میں کسی آیت کا جو شان نظول بیان کیا جاتا ہے اس کے صرف اتنے معنے ہوتے ہیں کہ یہ واقعہ بھی فلاں آیت پر چسپاں ہوتا ہے۔یہ معنے نہیں ہوتے کہ اگر وہ واقعہ نہ ہوتا تو آیت کا نزول بھی نہ ہوتا ۔بہر حال سعید بن جبیر ؓ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرً ا(الدھر:۱۹؍ ۱)وہ لوگ اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں تو اس وقت صحابہ ؓ یہ خیال کیا کرتے تھے کہ ہمیں اﷲ تعالیٰ کی راہ میں تھوڑی سے چیز دینے پر کیا اجر مل سکتا ہے اجر تو اسی خیر پر ملے گا جو بہت بڑی ہو گی۔ضمناً میں یہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ اَسِیْرً اکہ کئی معنے ہو سکتے ہیں۔ عَلیٰ حُبِّہ کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ عَلیٰ حُبِّ الطَّعَامِ یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ عَلیٰ حُبِّ اطْعَامِ الطَّعَامِ ۔اور یہ منے بھی ہو سکتے ہیں کہ عَلیٰ حُبِّ اﷲِ یعنی اس آیت مین تین درجے بیان کئے گئے ہیں اور بیاتا گیا ہے کہ مومن مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ عَلیٰ حُبِّ الطَّعَامِ با وجود ما ل کی محبت یا طعام کی محبت کے یعنی باوجود اس کے کہ انہیں خود کھانے کی محبت ہوتی ہے پھر بھی وہ غرباء و مساکین کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے اور اپنی ضروریات کو پسِ پشت ڈال کر ان کو کھانا کھلانا مقدم سمجھتے ہیں ۔
اس کے بعد سعید بن جبیرؓ کہتے ہیں کہ یُکْتَبُ لِکُلِّ بَرٍ وَفَا جرٍ سَیِّئَۃٍ سَیِّعَۃٌ وَّ بِکُلِّ حَسَنَۃٍ عَشْرُحَسَنَاتٍ۔ہر شخص جو نیک یا بد ہو گا اس کی نیکی بدی کی جزا کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا کانون یہ ہے کہ جو شخص کسی بدی کا ارتکاب کرتا ہے اس کی ایک بدہ کے مقابل میں اﷲ تعالیٰ کے حضورصرف ایک ہی بدی لکھی جاتی ہے ۔لیکن جو شخص کوئی ایک نیکی بجا لاتا ہے تواس کی ایک نیکی کے مقابلہ میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا چلا جاتا ہے ۔یعنی بدی کے نتیجہ میں صرف ایک بدی لکھی جاتی ہے اور نیکی کے نتیجہ میں ایک نہیں بلکہ دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔فَاِذَا کَنَا یَوْمُ الّقِیَا مَۃِ جب قیامت کا دن آئے گا تو ضَا عَفَ اﷲُ حَسَنَا تِ الْمُؤُمِنِیْنَ اَیْضًا بِکُلِّ وَحَدَۃٍ عَشَرً ا اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کی حسنات کو پھر بڑھائے گا اور ایک ایک نیکی کو دس گنا کرے گا ۔یعنی ایک نیکی تو وہ پہلے بڑھا چکا ہوگا اور ایک ایک نیکی کو دس دس نیکیوں کی شکل میں تبدیل کر چکا ہو گا لیکن جب قیامت کا دن آئے گا تو پھر اُن بڑھائی ہوئی نیکیوں میں سے ایک ایک دس گنا کرے گا ۔گویا ایک نیکی کی جزا سوگنے تک پہنچا دے گا ۔لوگوں نے تو :
؎ دَہ در دنیا ستر در آخرت
ایک محاورہ ایجاد کیا ہوا ہے لیکن اگر احادیث کے مفہوم کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ محاورہ یوں بنتا ہے کہ :
؎ دَہ در دنیا سو در آخرت
وَیَمْحُوْا عَنْہُ بِکُلِّ حَسَنَۃٍ عَشَرَ سَیِّاٰتٍ۔ دوسری طرف اﷲ تعالیٰ اس کی ہر نیکی کے بدلہ میں اس کی دس بدیوں کو دور کر دے گا ۔یعنی اگر اس نے ایک نیکی کی ہوگی تو وہ اس کی دس بدیاں مٹ دے گا ۔دس نیکیاں کی ہوں گی تو سو بدیاں مٹا دے گا اور اگر سو نیکیاں کی ہوِ گی تو ہزار بدیاں مٹٓ دے گا گویا دونوں رنگ میں اسے جزائے خیر عطا کی جائے گی ۔اس رنگ میں بھی کہ اس کی ایک ایک نیکی کو دس گنے اور پھر سو گنے تک بڑھا دیا جائے گا اوراس رنگ میں بھی اس کی ہر نیکی کے مقابلہ میں دس بدیوں کو مٹا دیا جائے گا۔ بات یہ ہے کہ اصل چیز محبت الہیٰ ہے اور یہ رستی شریعت نے اسی کے لئے تجویز کیا ہے جس کا دل اﷲ تعالیٰ کے عشق اور اس کی محبت سے لبریز ہوگا۔ اس کے لئے نہیں جس کا دل سخت ہو اور جواﷲ تعالیٰ کی محبت کا کوئی طمع بھی اپنے قلب میں نہ رکھتا ہو اگر نیکی کرتا ہو تو وہ بھی اتفاقیہ طورپر اور اگر بدہ سے بچتا ہو تو و ہ بھی اتفاقیہ طورپر ۔نہ اس کی نیکی کا باعث خدا تعالیٰ کی محبت ہو اور نہ اس کا بدی سے بچنا خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے ماتحت ہو ۔ایسا شخص اس انعام سے حصہ نہیں لے سکتا یہ انعام اسی کے لئے مقدر ہے جس کا دل اﷲ تعالیٰ کی محبت سے سرشار ہو گا ۔اور جو اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود محبت الٰہی کی آگ اپنے اندت رکھتا ہو گا۔اور یقینا جس دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو گی اسے کبھی دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا ۔اﷲ تعالیٰ کسی نہ کسی طرح اس کی نجات کا سامان پید اکردے گا اور حساب بنا بنا کر اور مختلف ذرائع اور طریق اختیار کرکے اسے جنت میں لے جانے کی کوشش کرے گا ۔چنانچہ اسی روایت کا آخری حصہ یہ ہے کہ فَمَنْ زَادَتْ حَسَنَا تُہٗ عَلٰی سَیِّاٰ تِہٖ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ دَخَلَ الْجَنَّۃً۔اگر یہ تمام طریق اختیار کرنے کے بعد بھی کوئی شخص جس کی بدیوں سے اس کی نیکیاں صرف ایک ذرہ کے برابر بھی زیادہ ہوئیں تو اﷲ تعالیٰ اس کے متعلق اپنے فرشتوں سے فرمائے گا جائو اسے جنت میں ڈال دو ۔اس کا مفہوم یہی ہے کہ جو شخص سچا مومن ہو گا اور جس کے متعلق اﷲ تعالیٰ جانتا ہو گا کہ اسے ایمان صادق حاصل ہے اس کو بچانے کے لئے اﷲ تعالیٰ ہر تدبیر اختیار کرے گا کہ وہ دوزخ میں نہ جائے جیسے ماں اپنے بچے کو مصیبت سے بچانے کے لئے اپنے سارے ذرائع صرف کر دیتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ اسے کوئی تکلیف نہ ہو ۔
رسول کریم ﷺ کو صحابہ ؓ سے جو محبت تھی اور صحابہ ؓ کے دل میں رسول کریم ﷺ کا جو عشق پایا جاتا تھا وہ بھی اپنے اندربعض اس قسم کی مثالیں رکھتا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں سچی محبت ہو وہاں کوئی نہ کوئی ذریعہ دوسرے شخص کو مصیبت سے بچانے کے لئے نکال ہی لیا جاتا ہے۔حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا کہ یا رسول اﷲ مجھ سے فلاں خطا سر زد ہو گئی ہے اب میں کیا کروں ۔آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم غلام آزاد کر سکتے ہو ؟اس نے کہا مجھ میں غلام آزاد کرنے کی کہاں طاقت ہے ۔آپ نے فرمایا اچھا کیا تم دو مہینے متواتر روزے یکھ سکتے ہو ؟ اس نے عرض کیا روضے رکھنے کی بھی مجھ میں ہمت نہیں ۔آپ نے فرمایاتو پھر ساٹھ مسکینوںکوکھانا کھلا دو ۔کہنے لگا یا رسول اﷲ میں کہاں سے کھلائوں میرے پاس تو ان کو کھلانے کے لئے کچھ نہیں ۔ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ کوئی شخص کھجوروں سے بھرا ہوا ٹوکرا رسول کریم ﷺ کے پاس لایا رسول کریم ﷺ نے اسے فرمایالو میاں یہ کھجوریں اُٹھا ئو اور مساکین میں تقسیم کردو تمہارے گناہ کا کفارہ ہو گائے گا ۔اس نے کھجوریں اُٹھا لین اور کہنے لگا یا
رسول اﷲ ایک اور بات بھی عرض کرنے کے قابل ہے آپ نے فرمایا کیا ؟کہنے لگا مدینے میں مجھ سے بڑھ کر تو کوئی اور غریب شخص نہیں۔میں کسے تلاش کروں گا ۔آپ یہ سن کر ہنس پڑے فرمایا جائو یہ کھجوریں خود ہی کھا لو۔تمہاری طرف سے کفارہ ہو گا ۔اسی طرح وہ شخص جو خدا تعالیٰ سے سچی محبت رکھتا ہو گا اور جس نے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش اور سعی اس بات کے لئے صرف کی ہوگی کہ اس کا انجام بخیر ہو اور وہ اﷲ تعالیٰ کے منعم اعلیہ گروہ میں شامل ہو جائے اگر سکی وجہ سے اپنی کوشش میں سو فیصدی کامیاب نہ ہو سکا تب بھی اﷲ تعالیٰ اس کی تپش محبت کو رائیگاں جانے نہیں دے گا ۔بلکہ وہ اس کے ایمان اور اس کے دل کے اخلاص کے مطابق اس سے سلوک کرے گا اور کوئی نہ کوئی راہ اس کی نجات کی نکال لے گا اور اپنے فرشتوں کا حکم دے گا کہ جائو اور میرے بندے کو جنت میں داخل کر دو۔

سُورۃالْبِیِّنَۃِ مَدَنِیَّۃٌ
سورہ بیّنہ یہ سورۃ مدنی ہے- ۱؎
وَھِیَ ثِمَانَی اٰیاتٍ دُونَ البَسْمِلَۃِ وَفِیْھَا رُکُوعٌ وَّحِدٌ
سوُرۃ البینہ مدنی ہے- ۱؎
جمہور مفسرّین کے نزدیک یہ سورۃ مدنی ہے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ یہ مدنی ہے ابن مررد نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ یہ سورۃ مکّی ہے- ابو حیّہ بدرسی سے راویت ہے کہ جب سورۃ لَمْ یَکُنْ سب کی سب نازل ہوئی ہے ( یعنی یہ اکٹھی نازل ہوئی ہے) تو جبریل نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے کہ اکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ یہ سورۃ ابی بن کعبؓ کو یاد کرادیں- اس پر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا یہ حکم مجھے پہنچایاہے کہ میں سورۃ تم کو یاد کرا دوں ابّی بن کعبؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرا بھی خدا تعالیٰ کے حضور میں ذکر آیا تھا؟ آپ نے فرمایا ہاں اس پر ابّی بن کعبؓ خوشی کے مارے روپڑے-یہ رایت سند احمد اور طبرانی میںاور ابن مردویہ میں مروہی ہے- بخاری اور مسلم نے بھی حضرت انسؓ سے یہ راویت نقل کی ہے لیکن بخاری اور مسلم کی رایت میں الفاظ نہیں کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی اُس وقت آپ نے یہ فرمایا- دوسرے بخاری اور مسلم کی رایت مین جبریل کا بھی ذکر نہیں- صرف اتنا ذکر آتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ھکم دیا ہے کہ مَیں یہ سورۃ تم کو پڑھا دوں- گو بخاری اور مسلم کی رایت میں یہ ذکر نہیں آتا کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی اُس وقت آپ نے ابّی کعبؓ سے یہ فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ تمہیںیاد کرانے کا حکم دیا ہے مگر چونکہ دوسری راویت یاد کرانے کا حکم دیا ہے مگر چونکہ دوسری روایت میں یہ ذکر آ گیا ہے جو مسند احمد بن جنبل جیسی مستند کتاب نے بھی نقل کی ہے اِس لئے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ صحیح راویت کی بنا ء پر یہ سورۃ مدنی ہی ہے کیونکہ ابی کعبؓ انصاری تھے اور مدینہ میں مسلمان ہوئے پس جو سورۃ اُن کے زمانہ میں نازل ہوئی وہ مدنی ہی ہو سکتی ہے مسیحی مستشرق بھی مانتے ہیں کہ یہ سورۃ مدنی ہے- …… چنانچہ ریورنڈ ہیری اس سورۃ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ مدنی ہے اور جرمن مستشرق نولڈکے نے اِسے سورئہ بقرہ کے معاً بعد کے زمانہ میں نازل شدہ قرار دیا ہے-
اس جگہ ایک لطیفہ بھی بیان کرنے کے قابل ہے ریورنڈویری اس سورۃ کے متعلق لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس سورۃ کو مکی قرار دیا ہے جیسا کہ اوپر روایت بیان ہو چکی ہے بعض لوگوں سے مراد حضرت عائشہ ؓ ہیں کیونکہ اُنہی کی نسبت روایت ہے کہ انہوں نے اسے مکّی قرار یا- ریورنڈ ویری کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی یعنی اُسے مکی قرار دینے کی اُن کے پاس سوائے اس کے کوئی وجہ نہیں کہ یہ سورۃ مکی سورتوں میں شامل کی گئی ہے- تعجب ہے ایک طرف تو عیسائی مؤرخ شیعوں کی ہمنوائی میں قرآن کریم کی کو بیاضِ عثمانی قرار دیتے ہیں کم سے کم ترتیبِ سُور کو حضرت عثمانؓ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور دوسری طرف حضرت عائشہؓ کے اس قول کو کہ یہ سورۃ مکّی ہے اس بات کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے کہ یہ سورۃ مکّی سورتوں میں رکھی ہوئی ہی حالانکہ اگر یہ قول کے مطابق یہ کہا جا سکتا تھا کہ اُس نے اس سورۃ کو مکّی سورتوں میں رکھا ہوا دیکھ کر اُسے مکّی قرار دے دیا- لیکن یہ قول تو اُس کا ہے- جو خلافتِ عثمان سے بہت سے پہلے مسلمان تھیں- پس اگر یہ اعتراض
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے- (شروع کرتا ہوں )
لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ مَنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَ
وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے یعنی اہل کتاب اور مشرک ( دونوں ہی ) کبھی ( اپنے
الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّنَ حَتّٰی تَاْ تِیَھُمْ الْبَیِّنَۃُ
کفر سے باز رہنے والے نہ تھے جب تک کہ اُن کے پاس واضح دلیل نہ آ جاتی ۲؎
در ست ہے تو اُن کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ ترتیب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کہ ہے تبھی اس سے حضرت عائشہؓ جنہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی عمر گذاری تھی وہ عثمانؓ کی ترتیب سے دھوکا کھا جاتیں- قرآن کریم کے متعلق حضرت عائشہؓ کے نظریے یقینا عثمانی جمعِ قرآن سے پہلے قائم ہو چکے تھے پس اگر حضرت عائشہؓ نے اس کے مکّی ہونے کا عقیدہ اس لئے قائم کیا کہ یہ مکّی سورتوں میں رکھی گئی ہے تو معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ کے ہوش سنبھالنیسے پہلے یہ سورۃ مکّی سورتوں میں رکھی گئی ہے تو معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ کے ہوش سنبھالنے سے پہلے یہ سورۃ مکّی سورتوں میں رکھی جا چکی تھی- پس ترتیب قرآن رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ثابت ہوئی نہ کہ عیسائی مؤرخین کے مطابق عثمانؓ کی؟
پھر ایک اورلطیفہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ریورنڈویری نے آخری سب سورتوں کو مکّی قرار دیا ہے اور حضرت عائشہؓ پر یہ الزام لگایا ہے کہ انہوں نے اس سورۃ کو محض اس لیے مکّی قرار دیا ہے کہ یہ مکّی سورتوں میں رکھی ہوئی ہے - حالانکہ ریورنڈویری کی یہ لا علمی ہے کہ انہوں نے آخری سب سورتوں کو مکّی قرار دیا ہے- اس سورۃ کو تو خیر صرف حضرت عائشہؓ نے مکّی قرار دیا ہے لیکن اس سورۃ سے اگلی سورۃ کو یعنی سورہ زلزال کو اکثر لوگوں نے مدنی قرار دیا ہے اور قرآن کے مرّوج مطبوعہ نسخوں میں اس کے اُور مدنی ہی لکھا ہوا ہے پھر اس آخری مجموعہ سُور میں سورئہ دالنصر بھی ہے جو نہ صرف بالاتفاق مدنی ہے بلکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام کی نازل شدہ ہے - بعض صحابہؓ نے اسے غزوئہ خیبر سے واپسی کے وقت نازل شدہ قرار دیا ہے اور بعض نے اسے حجتہ الوداع میں منٰی کے مقام پر نازل شدہ قرار دیا ہے جس کے بعد رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم صرف اسی دن زندہ رہے- پس جب اس مجموعہ میں یقینا مدنی سورتیں موجود ہیں تو سوائے ایک جاہل انسان کے کون شخص حضرت عائشہؓ پر یہ الزام لگا سکتا ہے کہ انہوں نے اس سورۃ کو آخری سورتوں میں رکھے جانے کی وجہ سے مکّی قرار دیا ہاں اصل واقعہ کر ہمیں انکار نہیں کہ یہ سورۃ مدنی ہے- جیسا کہ اکثر صحابہؓ اور تابعین کی روایات سے ثابت ہے اور جمہور مفسرین کا عقیدہ ہے ہمیں صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ مسیحی مصنف بغیر دلیل کے تعصب کی بناء پر اسلامی تاریخ پر حملہ کر دیتے ہیں-
ترتیب
اس کا تعلق پہلی سورتوں سے یہ ہے کہ پہلی دو سورتوں میں قرآن کریم کے نزول کا ذکر تھا اور اُس کی ذاتی خوبیاں بیان کی گئی تھیں اب اس سورۃ میں قرآن کریم کے اُس اثر کو بیان کی گئی تھیںاب اس سورۃ میں قرآن کریم کے اُس اثر کو بیان کیا گیا ہے جو غیر اقوام سے تعلق رکھتا ہے چنانچہ فرمایا کہ اگر یہ قرآن نہ آتا تو اہلِ کتاب اور غیر اہل کتاب اپنے غلط رویہ سے باز نہ آ سکتے تھے- اس سورۃ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا نام بَیَّنَہ رکھا گیا ہے- کیونکہ آپ قرآن کریم لائے اور اصلاحِ عالم کے لئے آپ نے قرآن کریم کے نزول کو ضروری قرار دیا-
۲؎حل لغات
مُنْفَکِّنَ - اِنْفَکَّ سے مُنْفَکِّنَ۳اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اور اِنْفَکَّ فَکَّ سے انفعال کا صیغہ ہے فَکَّ کے اصل معنے کھولنے یا جدا کرنے کے ہوتے ہیں- پس اِنْفَکَّ کے معنے ہوئے کُھل گیا یا جُدا ہو گیا-علاوہ ازیں عربی زبان میں اِنْفَکَّ کے مندرجہ ذیل معانی استعمال ہوتے ہیں (۱) کہتے ہیں اِنْفَکّ قَدَ مُہ‘ :ذَالَتْ اُس کا قدم اپنی جگہ سے ہٹ گیا (۳) اِنْفَکَّتْ اِصْبَعُہ‘ اِنْفَرَجَتْ انگلی کھلی گئی (۳) اِنْفَکَّ وَرْ کُہ‘ ذَاغَ عَنْ مَّوْ ضِعِہٖ- جوڑا اپنی جگہ سے ہل گیا - (۴) اِنْفَکَّ الشَّیْ ئُ الْمُشْتَبَکُ اِنْفَصَلَ - جُڑی ہوئی چیز الگ ہو گئی (۶) اِنْفَکَّتِ الرَّقبُۃُ مِنَ الرِّقِّ- اُعْتِقَتْ گردن کھل گئی یعنی غلام آزاد کر دیا گیا ( اقرب) اور جب محارہ میں مَا انْفَکَّ یَفْعَلُ کَذّا - کہیں تو اس کے معنے ہونے ہیں- مَا انْفَکَّ کَانَ کے اخوت میں شمار ہوتا ہے چونکہ اِنْفَکَّ کے معنے الگ ہو جانے کے ہیں اس لئے جب اس سے پہلے نفی آ جائے تو اس کے معنے اثبات کے بن جاتے ہیں اور اس صورت میں وہ کسی چیز کے تسلسل کے ساتھ ہونے کے معنے دیتا ہے- (اقرب)
بَیِّنَۃٌ ۱؎
بَیِّنٌکی مونث ہے اور ان معنوں کے رُو سے یہ لفظ کسی واضح اور جلی چیز کے معنے دیتا ہے لیکن علاوہ اس کے کہ بَیِّنٌ کی مونث ہے اس کے مستقل معنے بھی ہیں اور وُہ دلیل اور حجت کے ہیں (اقرب)
تفیسر
قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے تمام بنی نوع انسان کو دو حصوں مین تقسیم کیا ہے ایک حصے کا کا نام اُن نے اہل کتاب رکھا ہے اور دوسرے حصے کا نام اُس نے مشرک رکھا ہے- قرآنی اصطلاح کے مطابق دنیا کا کوئی حصہ ان دوقسموں سے باہر نہیں یا تو نبی نوع انسان
(۲۲) قرآنی اصلاح میں دو قسم کے لوگ اہل کتاب اور مشرک
اہلِ کتاب میں سے ہوں گے یا نبی نوع انسان مشرکین میں سے ہوں گے اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بظاہر بعض لوگ ایسے بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں- جنہیں نہ تو ہل کتاب میں سے کہا جا سکتا ہے نہ مشرکوں میں سے- جیسے دہریہ ہیں- دہریہ بظاہر نہ اہل کتاب میں سے نظر آتے ہیں نہ مشرکوں میں سے- لیکن قرآن کریم کی اصطلاح میں سہ دونوں میں سے ایک گروہ میں ضرور شامل ہیں اور قرآنی اصطلاح سے نتیجہ نکالتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مشرکوں میں شامل ہیں- درحقیقت اس اصطاح میں ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے اور وہ کہ قرآن کریم اس بات کا مدعی ہے کہ توحید بغیر الہام کے نہیں آ سکتی- یہ تو ہو سکت اہے کہ ایک شخص اہل کتاب میں سے ہو اور مشرک ہو لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص اہلِ کتاب میں سے نہ ہو اور مدحّد ہو- پس جو اہل کتاب میں سے نہیں وہ ضرور مشرک ہے اور جو اہلِ کتاب میں سے ہے وہ یا موحّد ہے یا مشرک ہے- کیونکہ توحید نام ہے صفاتِ الہٰیہ کو خدا تعالیٰ کی طرف صحیح طور پر منسوب کرنے کا- اور یہ مقام سوائے اہلِکتاب کے اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفات کو صحیح طور پر وہی شخص خدا کی طرف منسوب کر سکتا ہے جس کی الہام الہٰی نے راہنمائی کی ہو یاجیسے ایسے الہام کا علم حاصل ہو- ایک دہریہ بظاہر خدا تعالیٰ کا منکر ہے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ وہ صفتِ خلق کو یا قانونِ قدرت کی طرف منسوب کرتا ہے یا اتفاق کی طرف منسوب کرتا ہے اور گو وہ خدا تعالیٰ کا قائل نہیں- مگر خدا تعالیٰ کے ماننے والے کے نزدیک تو اُس نے شرک ہی کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفت کسی اور کی طرف منسوب کر دی- پس خود دہریہ کے نقطہ نگاہ سے وہ منکر ہے مگر مذہبی آدمی کے نقطہ نگاہ سے وہ مشرک ہے کیونکہ اُس نے خدائی صفات کو دوسرے کی طرف منسوب کردیا- بہرحال قرآن کریم نے دنیا کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے ایک اہل ِ کتاب اور دوسرے مشرک- جب قرآن کریم اہلِ کتاب اور مشرک کے الفاظ اکٹھے استعمال کرے تو اُس کی اصطلاح کے رُو سے اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ سب غیر مسلم دنیا- یہ تمہید مَیں نے اس لئے اٹھائی ہے کہ اگلام مضمون اس کے بغیر سمجھ نہیں آ سکتا-
یاد رکھناچاہیے کہ اِس سورۃ میں ایک بہت بڑے مسئلہ کا حل کیا گیا ہے اور یہ آیت اُس مسئلہ کے بارے میں بطور نصّ واقعہ ہوئی ہے- مسیحی مصنّفین ہمیشہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ قرآن کریم کا دعویٰ ( جہانتک ایمان کا سوال ہے) صرف غیر کتاب سے متعلق ہے اور وہ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں یہود کی نسبت آتاہے - وِمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمٓا اَنْزَلَ اﷲُ فَاُلٰٓئک ھُمُ الْکَافِرُوْنَ ( مائدہ ع ۷،۱۱)جو شخص اُس کلام کے مطابق حکم نہیں دیتا جو خدا تعالیٰ نے اُتارا ہے وہ کافر ہے- اور مسیحیوں کی نسبت فرماتا ہے وَلْیَحْکُمْ اَھْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَٓا اَنْذَلَ اﷲُ فَاُولٰٓئکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ ( مائدہ ع ۷،۱۱) اِن آیات سے وہ استدال کرتے ہیں کہ چونکہ قرآن کریم نے یہودیوں اور عیسائیوں پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اپنی کتابوں پر عمل کیوں نہیں کرتے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک تورات اور انجیل اب تک قابلِ عمل ہیں اور جب تورات اور انجیل اب تک قابلِ عمل ہیں تو معلوم ہوا کہ کم سے کم اہلِ کتاب کے لئے تو یہ ضروری نہیں کہ وہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں- پس وہ کہتے ہیں کہ ہمیں قرآن کریم کے دعویٰ پر غور کرنے کی ضرورت نہیں اگر وہ جھوٹا ہے تو جھوٹا ہی ہے اور اگر سچا ہے تو ہمیں ماننے کا پابند نہیں کرتا اور جب ہم اس کاماننے کے پابند نہیں تو ہمیں اس پر وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت کیا؟ اِس کے جواب میں مسلمانوں کی طرف سے یہ آیات پیش کی جاتی ہیں:-
اوّل- قُلْ یَآاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ ِاِلَیْکُمْ جَمِیْعََا ( اعراف ع ۳۰ ،۱۰)یعنی اے نبی تُو لوگوں سے کہہ دے میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں-
(۲) مَٓا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ کَآ فَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ( سبا ع ۳،۹) ہم نے تجھے سب لوگوں کے لئے بشیر و نذیر کی حیثیت سے بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے-
پھر قرآن مجید میں آتا ہے وَاُوْحِیَ اِلَیْ ھٰذَا لْقُرْانُ لِاُنْذِرِکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغَ ( الانعام ع ۸،۲)
یہ قرآن میرے اُوپر اس لئے نازل کیا گیا ہے تا کہ مَیں تم کو بھی اور جس شخص تک یہ کلام پہنچے اُس کو بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائوں-
اِن آیتوں کا جواب مسیحیوں کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ اَلنَّاس سے مراد قرآن کریم میں ہر جگہ مشرکین مکّہ ہوتے ہیں اس لئے سب لوگوں سے مراد سب مکّہ والے ہیں نہ کہ اہلِ کتاب- یہ خیال اَلنَّاس جہاں بھی قرآن کریم میں آیسا ہے اس کے مراد مکّہ کے مشرکین ہوتے ہیں گو غلب ہے لیکن خود بعض مسلمان مفسّرین نے ہی پیدا کیا ہے اور یہ خیال عیسائی مصنفین کے دل میں اس قدر گھر کر گیا ہے کہ سورئہ بقرہ ع ۳ کی آیت یَٓاَ یُّھَا النَّاسُ اعُبُدُ وْ ارَبَّکُمْ کا ترجمہ سیلؔ نے یوں کیا ہے-
۲۱۱ مسیحی مصنفین کا قرآن مجید کو غیر اہل کتاب کے لئے مخصوص کرنا اور اس کی تردید
’’ اے مکّے والو! اپنے رب کی عبادر کرو‘‘
پس اس خیال کی موجودگی میں جس کو خود بعض مسلمان مفسّرین نے قوی کر دیا ہے ہمارے لئے صرف یہ لمبا طریق باقی رہ جاتا ہے کہ ہم پہلے اُن کی یہ غلطی دُور کریں اور یہ ثابت کریں اِلنَّاس امیں اہل کتاب بھی شامل ہیں-
تیسری آیت میں گو مَنْ بَلَغَ کے الفاظ ہیں مگر عیسائی پہلی دو آیتوں کے تابع اس کے بھی یہی معنے کر لیتے ہیں کہ موجودہ مکّہ والے اور آئندہ زمانہ کے مکّہ والے-
باقی آیات جو اہل کتاب کو ایمان لانے کی طرف بلاتی ہیں مثلاً (۱) وَلَوْ اٰمَنَ اَھَلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ مِنْھُمْ الْمُؤمِنُوْنَ وَ اِکْثَرُ ھُمْ الْفَاسِقُوْنَ ( آل عمران ع ۱۲ ۳ )
یعنی اگر اہل کتاب ایمان لاتے تو یہ اُن کے لئے بہتر تھا اُن میں سے بعض مومن ہیں اور اکثر فاسق- اسی طرح (۲) وَمَنْ یَّکفُرُبِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْ عِدُ عِدُہ‘ (ھود ع۲)کہ مختلف گروہوں میں سے جو لوگ اِس قرآن کا انکار کرتے ہیں اُن کا ٹھکانہ آگ ہے-اور پھر ( ۳) قُلْ لِلّذِیْنَ اُوْتُوالُکِتٰبَ وَلْاُ مِّیِْیْنَ ئَ اَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْ ا فَقَدِ اھْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَ لَّوْا فِاِنَّمَا عَلَیْنٰکَ الْبَلَاغُ وِاﷲُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ (اٰلِ عمران ع ۲،۱۰)
تُو اہل کتاب اور اُمِیوں سے کہہ دے کہ تم السلام لاتے ہو یا نہیں اگر وہ اسلام لے آئیں تو سمجھ لو کہ وہ ہدایت پا گئے اور اگر پھر جائیں تو تیرا کام صرف ہدایت پہنچانا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حالات کو خوب دیکھنے والا ہے- (۴) قُلْ لَّٓا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اِجْرًا ط اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ ( الانعام ع ۱۰، ۱۶)تو کہہ دے کہ مَیں اس پر تم کوئی اجر نہیں مانگتا یہ تو جہانوں کے لئے ایک نصیحت ہے- یہ اور اسی قسم کی دوسری آیات جن میں جہانوں کے الفاظ قرآ ن کریم یا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے استعمال کئے گئے ہیں اُن کے متعلق مسیحی مبلّغ یہ کہہ دیتے ہیں کہ احزاب کالفظ خود تمہارے قرآن میں عرب کے قبائل کے متعلق آتا ہے اس لئے احزاب سے کُل دنیا کس طرح مراد لی جا سکتی ہے اور عَا لِمِیْن کا لفظ جب حضرت مریمؑ اور بنی اسرائیل کے دوسرے لوگوںکے متعلق آتاہے تو تم اس کے معنے صرف بنی اسرائیل کے کرتے ہو اور اگر وہاں عَا لِمِیْن کے معنے صرف عرب کے قبائل کے کیوں نہیں ہو سکتے ؟اور جو باقی آیتیں ہیں اُن میں صرف ایمان کے لئے بُلایا گیا ہے ایمان لانا ضروری قرار نہیں دیا گیا- زیادہ سے زیادہ اِن آیتوں کے یہ معنے لئے جا سکتے ہیں کہ اگر اہل کتاب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو بھی مان لیں تو زیادہ اچھا ہے مگر اہل کتاب کو نہ ماننے کی وجہ سے مجرم تو نہیں قرار دیا گیا- گو یہ استدال مسیحیوں کو کچّا بلکہ غلط ہے لیکن ایک لمبا راستہ ہمیں اُن کو منوانے کے لئے اختیار کرنا پڑتا ہے بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قرآن کریم کی وہ آیات جو اس بات کی تائید میں ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سب دنیا کی طرف رسول ہیں اور قرآن کریم سب دنیا کے لیے کتاب ہے اس کے متعلق شبہات (جو گو غلط ہیں) پیدا کرنے اور مسیحیوں کو اس ٹھوکر میں مبتلا کرنے کے سا مان خود مسلمان مفسّرین نے کئے ہیں اور بعض شبہات ایسے ہیں جو اپنی نا فہمی اور پورا تدّبر نہ کرنے کی وجہ سے غیر مسلموں کو اپنے طور پر اپیدا ہو گئے ہیں یہی وجہ سے کہ اہل کتاب کو ایمان لانے کی جو دعوت قرآن کریم میں دی گئی ہے اُس کو وہ صرف ایک زائد خیر قرار دیتے ہیں لازمی اور قطعی قرار نہیں دیتے حالانکہ قرآن کریم نے نہ صرف اُن ایات میں جن کو اُوپر درج کیا گیا ہے اہل کتاب کا ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے بلکہ جیسا کہ آگے چل کر ثابت کیا جائے گا صاف اور کھلے الفاظ میں اس امر کا اعلان کی اہے کہ اہلِ کتاب کفر میں مبتلا ہو چکے ہیں اور اب اُن کی نجات کی صرف یہی صورت باقی رہ گئی ہے کہ وُہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں اور آپ کی غلامی اختیار کریں-
قرآن کریم کے بعد جب ہم کتب احادیث کو دیکھتے ہیں تو اُن میں بھی ایسی بہت سی روایات پائی جاتی ہیں جن سے قطعی اور یقینی طوپر ثابت ہو تاہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سب جہان کی طرف مبعوث ہوئے ہیں چنانچہ مسند احمدمیں حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بُعِثْتُ اِلَی الاَْحْمَرِ وَالاَ سْوَدِ- میں گورے اور کالے سب لوگوںکی طرف مبعوث ہوا ہوں- اسی طرح مسند احمد ہیںعَنْ عَمْرِِ و ابْنِ شُعِیْبِِ عَنْ اَبِیْہِ عِنْ جَدِّہٖ روایت ہے کہ اِمَّا اَنَا فَاُرْسِلْنٰتُ اِلَی النَّاسِ کُلِّھِمْ عِامَّۃََ وَ کَانَ مَنْ قَبْلِیْ اِنَّمَا یُرْ سَلُ اِلیٰ قَوْ مِہٖ یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری یہ خصوصیت ہے کہ میں تمام بنی نوع انسا کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں اور مجھ سے پہلے جو رسول تھے صرف اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث کئے گئے تھے- اس حدیث میں بھی بے شک اَلنَّاس کا لفظ ہے اور میں نے اوپر کی آیات پر بحث کرتے ہوئے بتایا تھا کہ عیسائی کہتے ہیں قرآن کریم اَلنَّاس سے مراد ہمیشہ مکّہ کے لوگ ہوتے ہیں یہودی اور عیسائی نہیں ہوتے مگر ایک تو یہاں دلیل موجود ہے کہ آپ نے اپنی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوں فرمایا کَانَ مَنْ قَبْلِیْ اِنَّمَا یُرْ سَلُ اِلیٰ قَوْمِہٖ- مجھ سے پہلے جو رسول گزرے ہیں وہ صرف اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوا کرتے تھے - چونکہ یہاں قوم کے مقابلہ میں اِلنَّاس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لئے اِلنَّاسُ کے معنے ساری !…………………… دنیا کے ہوں ہوں گے ورنہ مکّہ کے لوگ ہم قوم ہی تھے اور اگر النَّاسُ سے مراد یہاں صرف اہلِ مکّہ ہوتے تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی کوئی خصوصیت باقی نہ رہتی کیونکہ جس طرح اگر آپ بھی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہو گئے تو اس میں کوئی خصوصیت نہیں ہو سکتی تھی- اصل بات یہی ہے کہ یہاں اپنا اور سابق انبیاء کا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے مقابلہ کیا ہے اور بتایا کہ پہلے انبیاء تو اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے مگر میں اَلنَّاس کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں - اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی غرض یہ ہے کہ میں صرف اپنی قوم کے طرف نہیں بھیجا گیا بلکہ قوم سے زائد لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں پس اُرْ سِلْتُ الَی النَّاسِ کُلِّھِمْ عَامَّۃََ سے مرادیہاں ساری دنیا ہے محض قوم مراد نہیں-
دوسرےؔ حدیثوں میں صراحتاً اَلنَاسُ کا لفظ بولا جاتا ہے اور اُس سے مراد مکّہ کے مشرک نہیں ہوتے بلکہ دوسرے لوگ ہوتے ہیں چنانچہ حدیث بدر میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے مشورہ طلب فرمایا اور مہاجرین یکے بعد دیگرے اُٹھ اُٹھ کر مشورہ دینے لدگے تو ہر مہاجر جب مشورہ دے کر بیٹھ جاتا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے اَشِیْرُ وْلِیْ اَیُّھَا النَاسُ اے لوگو مجھے مشورہ دو- اب دیکھ لو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے نَاسٌ کا لفظ استعمال کیا مگر اس سے مکّہ کے مشرک مراد نہیں تھے بلکہ انصار مراد تھے چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہ فرمایا کہ اے لوگو مجھے مشورہ دو تع سعد بن معاذؓ کھڑے ہوئے اور انہوں کے عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ کی مراد ہم سے ہے کہ اس موقعہ پر ہم بھی اپنے خیالات کا اظہار کریں- رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیثوں کی شہادت اس امر کی تائید میں موجود ہے کہ اَلنَّاس کا لفظ استعمال کا لفظ استعمال کیا اور مآپ کی مراد اس سے انصار تھے- پھر اس حدیث میں تو وضاحت موجود ہے کہ قوم کا مقابلہ میں ناسؔ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ یہاں اَلنَّاس سے قوم مراد نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان مراد ہیں خواہ وہ دنیا کی کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں-
اسی طرح حدیث میں آتا ہے مَنْ سَبِعَ بِیْ مِنْ اُمَّتِیْ اَوْ یَھُوْدِیٌّ اَوْ نَصْرَا نِیٌّفَلَمْ یُؤ مِنْ بَیْ لَمْ یَدْ خُلِ الْجَنَۃَ ( مسند احمد عن ابی سعید بن جبیر عن ابی موسیٰ اشعری)
اس حدیث کے الفاظ میں کچھ غلطی ہے جس کو آگے ظاہر کیا جائے گا موجودہ صورت میں اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علی وسلم نے فرمایا- جس شخص نے میری اُمت میں سے میرے متعلق بات سُنی یا کسی یہودی یا نصرانی نے میرا ذکر سُنا اور پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لایا - وہ جنّت میں داخل نہیں ہو گا- اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُمّت اور ہے اور یہودی اور نصرانی اور ہیں مگر درحقیقت یہ راوی کی غلطی ہے کہ اُس نے رسول کریم صلے اللہ علیہوسلم کے الفاظ صحیح طور پر نہیں سمجھا اور یہودی اور نصرانی نے ساتھ ’’ اَوْ‘‘ کا لفظ بڑھا دیا- اس کی وجہ درحقیقت یہ ہے کہ عام طور پر لوگ اُمت کے معنے ایمان لانے والے لوگوں کے سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اُمت کے لفظ کا اطلاق انہی لوگوں پر ہوتا ہے جو کسی نبی پر ایمان رکھتے ہوں اس محاورہ کی وجہ سے جو عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ہوتا ہے راوی نے سمجھا کہ شاید مجھے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے الفاظ صحیح یاد نہیں رہے ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ آپ اپنی اُمّت میں کسی یہودی یا نصرانی کو بھی شامل سمجھتے اس لئے اُس نے حدیث بیان کرتے وقت ’’ اَوْ‘‘ ’’ اَوْ‘‘ کا لفظ بڑھادیا اور سمجھا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو گا کہ مَنْ سَمِعَ بِیْ مِنْ اُمَّتِیْ اَوْ یَھُوْدِ یٌّ اَوْ نَصْرِانِیْ ٌفَلَمْ یُؤ مِنْ بَیْ لَمْ یَدْ خُلِ الْجَنَۃَ - جس شخص نے میری اُمت سے میری بات سُنا- یہ صاف بات ہے کہ اگر اُمَّتِیْ سے مراد ماننے والے لوگ ہیں تو کیا کوئی ماننے والا ایسا بھی ہو سکتا ہے جس نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہ سُنا ہو؟ یہ بات عقل کے بالکل خلاف ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے تو ہو مگر اُس نے آپ کا ذکر نہ سُنا ہو- پس خود اُمت کالفظ جو اس حدیث میں استعمال کیا گیا ہے- بتا رہا ہے کہ یہاں اُمّت سے مراد صرف ماننے والے نہیں بلکہ ہر وہ شخص ہے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے پیغام کا مخاطب ہے چنانچہ مسلم کی ایک روایت جو ابو موسیٰ اشعری سے مروی ہے اس غلطی کو واضح کرتی ہے کہ بتاتی ہے ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا اصل منشاء کیا تھا- مسلم نے ابو موسیٰ اشعری سے یہ راویت اس طرح نقل کی ہے وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِ ہٖ لَا یَسْمَعُ بِیْ رِجْلُ مِّنْ ھٰذِہٖ الْاُ مَّۃِ یَھُوْدِیٌّ وَّلَا نَصْرَابِیٌ ثُمَّ لَا یُوْ مِنُ بِیْ اِلاَّ دَخَلَ النَّارَ یعنی ابو موسیٰ شعری بیان کرتے ہیںرسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میری اُمّت میں سے کوئی شخص میرا ذکر نہیں سُنے گا خواہ یہودی ہو یا نصرانی ثُمَّ لَا یُوْ مِنُ بِیْ پھروہ مجھ پر ایمان نہیں لائے گااِالاَّ دَخَلَ النَّارَ تو وہ ضرور آگ میں داخل کیا جائے گا-
یہ روایت صحتِ الفاظ کے لحاظ سے زیادہ درست ہے کیونکہ اِ س میں اُمّت اور یہود نصاریٰ کو الگ الگ بیان نہیں کیا گیا بلکہ یہود نصارٰی کو اُمّت کا ایک حصہ بتایا گیا ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے وضاحتاً یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہود نصارٰی اگر آپ پر ایمان لائیں تو یہ نہیں کہ اُن کا ایمان لانا صرف ایک زائد خیر کا رنگ رکھتے گا بلکہ اگر وہ ایمان نہیں لائیں گے تو اللہ انکو دوزخ میں ڈالے گا-
اس حدیث سے یہ وضاحت ہو گئی کہ پہلی روایت میں بھی درحقیقت یہودی اور نصرانی کے الفاظ اُمّت کے بدل کے طور پر استعمال کئے گئے تھے مگر راوی نے غلطی سے ’’ اَوْ‘‘’’ اَوْ‘‘ بڑھا کر فقرہ اس طرح بنا دیا کہ منْ سَمِعَ مِنْ اُمَّتِیْ اَوْ یَھُوْدِیٌّ اَوْ نَصَرَانِیٌّ
امام احمد بن جنبل ایک دوسری روایت بھی انہی الفاظ کی تصدیق کرتی ہے چنانچہ اُس روایت کے الفاظ یہ ہیں- عِنْ اِ بِیْ ھُرَیْرَۃً عِنْ رَّسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عِلَیْہِ وَسَلَّمَ وِالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا یَسْمَعُ بِیْ اِحْدٌ مِّنْ ھٰذِہٖ الْاُ مَّۃِ یِھُوْدِیٌّ اَوْ نَصْرِانِیٌّ ثُمَّ یَمُوْتُ وَلاَیُؤ مِنُ بِالَّذِیْ اُرْسِلْتُ بِہٖ اِلَّا کَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِ- یعنی حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ و تصّرف میں میری جان ہے کہ اس اُمت میں سے کوئی شخص میرا ذکر نہیں سنے گا خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی اور پھر وہ ایسی حالت میں مر جائے گا کہ اُس پیغام پر ایمان نہ لائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے دیا گیا ہے اِلَّا کَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِمگر وہ یقینا دوزخی ہو گا یہ حدیث باالصراحت اس حقیقت پر روشنی ڈال رہی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہود اور انصارٰی دونوں کو اپنی اُمّت میں شامل کیا ہے پس اُوپر کی احایث میں بھی اُمّت سے مراد صرف ماننے والے نہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے پیغام کے مخاطب ہیں- درحقیقت اُمّت میں صرف وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو نبی ایمان لاتے اور اُس کے حلقہ غلامی میں اپنے آپ کو شامل کر لیتے ہیں اور دوسرے مفہوم کے لحاظ سے اُمّت سے مراد تمام لوگ ہوتے ہیں جو کسی نبی کے مخاطب ہوتے ہیں جن کے لئے نبی پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے خواہ اپنی عملی حالت کے لحاظ سے وہ منکروں میں ہی شامل ہوں- اس جگہ اُمّت سے مراد یہی دوسرا مفہوم ہے یعنی اُمت پر ایمان لانے والے مراد نہیں بلکہ وہ لوگ جن کے لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے وہ سب کے سب اُمت کے دائرہ میں شامل ہیں اور سول کریم صلے اللہ علیہ وسلم صاف طور پر فرماتے ہیں کہ اس اُمت میں شامل اور نصارٰی بھی آپ کی اُمت میں شامل ہیں ) مگر وہ ایسی حالت میں مر جائے کہ اُسے مجھ پر ایمان لانا نصیب نہ ہو تو وہ دوزخ میں داخل کیا جائے گا-
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ماننا صرف مستحب و مرحّج ہی نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ پر واجب اور فرض ہے اور اس کی تعمیل نہ کرنا اُنہیں دوزخی بنا دیتا ہے لیکن چکڑالویوں، معّزیوں اور حنفیوں نے احادیث کا انکار اور تخفیف کر کے مسیحیوں کے لئے اس میں شک پیدا کرنے کا راستہ کھول دیا ہے-
گو مومنوں کے لئے اوپر کی آیات اور احادیث واضح الدلالۃ ہیں لیکن چونکہ ہمیں ایسے دشمن سے واسطہ پڑنا تھا جو مسلمانوں کے اختلافات کے متعلق وسیع معلومات رکھنے والا تھا اور اُن قوموں سے اسلام کا مقابلہ ہونے والا تھا جو اپنے آپ کو اعلیٰ درکہ کی منقّد بتاتی ہیں اس لئے ضروری تھا کہ قرآن کریم میں اس کے متعلق کوئی نقصِ صریح آ جاتی تا کہ دشمن کو اس بارہ میں اعتراض کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ نہ آتا-
اب بیشتر اس کے کہ مَیان آیت زیر تفسیر کے مضمون کی طرف آئوں اُن احادیث کے متعلق جو اوپر بیان ہوئی ہیں- دو باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں-
اوّل اِن احایث میں جو مَنْ سَمِعَ بِیْ کے الفاظ آتے ہیں اِن سے مراد محض سماع نہیں بلکہ سماعِ حُجّت ہے کیونکہ سزا بغیر حُجّتِ قاطعہ کے نہیں ہوتی - یعنی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حدیث میں جو مَنْ سِمِعَ بِیْ لَا یَسْمَعُ بِیْ کے الفاظ آتے ہیں اُن کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی کو محض اتنا علم ہو جائے کہ بانی اسلام نبوت کے مدعی ہیں اور آپ پر ایمان نہ لائے تو وُہ دوزخی ہو جائے گا کیونکہ خود احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کوکوئی سزا نہیں ملے گی مثلاً پاگل کے متعلق آتا ہے کہ اُسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی- اب جہاں تک سننے کا تعلق ہے اس امر سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ سنتا ایک پاگل بھی ہے مگر اسکے باوجود اُسے سزا نہیں ہو گی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالی سماع کافی نہیں اگر خالی سماع کافی ہوتا تو ایک مجنوں اور فاتر العقل کو بھی سزا ملنی چاہیے مگر احادیث بالصراحت بتاتی ہیں کہ پاگل مرفوع القلم ہوتا ہے اور اُسے اپنے مجنونانہ افعال کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سزا نہیں ملے گی- یہ امتیاز اِسی لئے رکھا گیا ہے کہ پاگل سنتا تو ہے مگر سمجھتا نہیں- اِسی طرح جس شخص نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا صرف ذکر سُنا ہے اُس پر حجت تمام نہیں ہوئی- وہ بھی سزا کا مستحق قرار نہیں دیا جاسکتا- کیونکہ سزاتمام حُجّت یا حقیقت کو پورے طور پر سمجھ لینے کے بعد وارد ہوتی ہے اور جب اُس اور جب اُس نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کو سمجھا نہیں تو وہ سزا کامستحق کس طرح ہو سکتا ہے؟
دوسرے اِن احادیث سے یہ ابات ثابت ہوتی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے کفراور سزا کو الگ الگ امور قرار دیا ہے- یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو ہمارے اور پیغاموں کے درمیان ایک مدّت سے مابہ النّزاع چلا آ رہا ہے- جب وہ کہتے ہیں کہ کیا وہ شخص جس نے مرزا صساحب کا نام بھی نہیں سُنا کافر ہے؟ اور ہم جوا ب میںکہتے ہیں کہ ہاں جسنے مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا کافر ہی ہیتو وہ شور مچانے لگ جاتے ہیں کہ دیکھو یہ کتنے بڑے ظلم کی بات ہے کہ جس شخص نے مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا اُسے جہنمی میں فرق ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے خوداس حدیث میں صاف طور پر بیان فرما دیا ہے کہ کفر اور سزا یہ دو الگ الگ امور ہیں یہ تو ہر مسلمان تسلیم کرے گا کہ جس شخص نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں سُنا وہ کافر ہے -مَیں سمجھتا ہُوں مسلمانوں میں سے کوئی ایک فرقہ بھی ایسا نہیں جو اس بارہ میں اختلاف رکھتا ہوں اور اُن لوگوں کو جنہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کانام بھی نہیں سُنا مومن قرار دیتا ہو- مثلاً وہ لوگ جنہوںنے اہل کتاب کو کافر قرار نہیں دیا اور جو اتنا قلیل طبقہ ہے کہ کسی اعتناء کے قابل نہیں اُن کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جمہور مسلمانوں کا قطعی طور پر یہ فیصلہ ہے کہ دُنیا میںدو ہی گروہ ہیں یا مسلمان یا کافر- اب جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا میں دو ہی گروہ سمجھے جا سکتے ہیں یا مسلمان یا کافر- وہ اُن مسیحیوں یا اُن یہودیوں یا اُن ہندوئوں یا اُن زرتشتیوں یا اُن شنٹوازم کے ماننے والے جاپانیوں یا کنفیوشس کے ماننے والے چینیوں کو جنہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کانام بھی نہیں سُنا کیا قرار دیں گے؟ کیا یہ کہیں گے کہ وہ مسلمان ہیں؟ یہ تو صاف بات ہے کہ مسلمان نے نام سے وہی بلوائے جاتے ہیں جنہوں نے کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ پڑھا اور جنہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر حقیقی طور پر یا ظاہر میں ایمان لانا نصیب ہوا- جب مسلمان کی ظاہری تعریف یہ ہے کہ وہ کلمہ طیبہ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان ظاہر کرتا ہو تو یہ بات واضح ہو گئی کہ جنہوں کے کلمہ طیّبہ نہیں پڑھا اور جنہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا نصیب نہیں ہوااُنہیں بہرحال ہم کافر ہی کہیں گے- مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے یہں کہ اُن کے کفر کے باوجود اُن کو سزا نہیں ملے گی- سزا صرف اُن لوگوں کو ہو گی جنہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ذکر سُنا یعنی اُن کے کانوں تک رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچا اُن پر حُجت تمامہوئی اور پھر بھی وہ اپنے کفر پر قائم رہے، اسلام میں داخل ہونے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لئے تیار نہ ہوئے- اس سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اور انبیاء تو الگ رہے اپنی ذات کے متعلق بھی یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ مجھے نہ ماننا ( بشرطیکہ کسی پر حُجت تمام نہ ہوئی ہو) انسان کو دوزخی نہیں بناتا ہاں اُسے کافر ضرور بنا دیتاہے چاہے دنیا کے وہ کسی کونہ میں رہنے والا ہو اور چاہے اُس نے سات پشت سے بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا نام نہ سُنا ہو وہ کافر ہو گا اور ضرور ہو گا مگر سزا تمام حُجت کے بعد ہوتی ہے اس سے پہلے نہیں- گویا یہ قاعدہ جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے سزا کے متعلق ہے کفر کے متعلق نہیں- چنانچہ صریح طور پر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ دو ولگ الگ تقسیمین کر دی ہیں کفر کو الگ قرار دیا ہے اور سزا کو الگ قرار دیا ہے - یہی عقیدہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے متعلق ہے کہ جس شخص نے حضرت مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا وہ کافر ہے مگر ہم اسے دوزخی قرار نہیں دے سکتے نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس شخص نے حضرت مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا وہ جہنمی ہے- ممکن ہے اللہ تعالیٰ اگلے جہاں میں اُن کا دوبارہ امتحان لے اور ممکن ہے کہ فطرتی ایمان پر ہی اُس کو بکش دے- بہرحال ہم اُس کی سزا کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے مگرہم اس بات پر مجبور ہیں کہ اُسے کافر قرار دیں کیونکہ اسلام میں دو ہی اصطلاحیں ہیں- ایک اصطلاح مومن کی ہے اور ایک اصطلاح کافر کی ہے جس نے کسی نبی کو مان لیا وہ مومن ہے اور جس نے کسی نبی کو نہیں مانا وہ کافر ہے- چاہیے اُس کا نہ ماننا عدمِ علم کی بنا پر ہو اور چاہے اُس کا نہ کاماننا شرارت کی بناء پر ہو- اگر اُس نے عدمِ علم کی وجہ سے کسی نبی کو نہیں مانا تو وہ کافر یعنی نہ ماننے والا تو ہے مگر دوزخی نہیں اور اگر کسی شرارت سے نہیں مانا تو وہ کافر یعنی نہ ماننے والا بھی اور دوزخی بھی ہے-
افسوس کہ اس نکتہ کو نہ سمجھ کر آج کل پیغامی گمراہ ہو رہے ہیں اور جب وہ مجھ پر حملہ کرتے ہیں تو دراصل رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ کفر و سزاء کا فرق خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور متعدد احادث میں کفر اورجہنمی ہونے کو الگ الگ رکھا گیا ہے - ظاہر ہے کہ پیغامیوں کے لئے وہ ہی راستے کھلے ہیں- یا تو وہ کہیں کہ جس نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں سُنا وہ کافر نہیں مسلمان ہے- اگر وہ یہ کہدیں گے کہ جس شخص نے حضرت مرزا صاحب کا نام نہیں سُنا وہ کافر نہیں مسلمان ہے- اس صورت میں وہ ایک نئی اصطلاح قائم کر دیں گے اور ہمارا اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا کہ ہم اُن سے خطاب کے وقت شر کو دُور کرنے کے لئے اس اصطلاح کو اُن کے مقابلہ میں تسلیم کر لیں اور یا پھر دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ یہ کہیں کہ کافر وہ قابلِ سزا لازم و ملزوم نہیں ایک گ۴وہ کو کافر تو کہا جائے گا مگر قابلِ سزا نہیں- اس صورت میں بھی ہمارا اور اُن کا جھگڑا ختم ہو جاتا ہے-
اس تمہید کے بعد میں بتاتا ہوں کہ آیت زیر تفسیر میں اُن لوگوں کا جو اہل کتاب کو کافر قرار نہیں دیتے یا جو سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا قرآن کریم کے رُو سے اہل کتاب کے لئے ضروری نہ تھا- ردّہے- اور صاف بتایا گیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ماننا اہلِ کتاب اور مشرکین دونوں کے لئے ضروری تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ اہلِ کتاب اور مشرکین دونوں کو کافر قرار دیتا ہے اور اسلام (یعنی دینِ حق قبول کرنا) صرف رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے پر موقوف ظاہر کرتا ہے-
یہ جو میں نے کہا ہے کہ اس آیت میں اُن لوگوںکا ردّ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا قرآن کریم کے رُو سے اہلِ کتاب کے لئے ضروری نہ تھا- اس فقرہ میں ان لوگوں سے میری مراد عیسائی مؤرخ ہیں- اس اعتراض سے اُن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ قرآن کریم کی عدم ضرورت کو واضح کریں اور ثابت کریں کہ قرآن کریم ایسی کتاب نہیں جس پر ایمان لانا اہل کتاب کے لئے بھی ضروری ہو اُن کے لئے تورات انجیل پر ایمان رکھنا ہی کافی ہے- اور یہ جو میں نے کہا ے کہ اِس آیت میں اُن لوگوں کا بھی ردّ ہے جو اہل کتاب کو کافر نہیں قرار دیتے یہ بعض معزّلیوں کا خیال ہے جو اہل کتاب کو ایک تیسرا گروہ قرار دیتے ہیں- اسی طرح یوروپین مستشرقین کے اعتراضات سے ڈر کر نیچری خیالات رکھنے والے مسلمان بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ اہلِ کتاب کو قرآن کریم نے کہیں کافر کہا اِس سے ان کی غرض یہ ہوتی کہ کہیں عیسائی چِڑ نہ جائیں اور اسلام پر اَور زیادہ اعتراضات نہ کرنے لگیں- بہر حال اس آیت میں ان دونوں خیالات کا ردّ کیا گیا ہے اور واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ماننا اہل کتاب اور مشرکین دونوں کے لئے ضروری ہے کیونکہ فرماتا ہے لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاحَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیِّنَۃُ- کافروں کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا مشرک کہ وہ اپنے کفر سے الگ ہو سکتے تا وقتیکہ اُن کے پاس بیّنہ نہ آ جاتی- اس آیت میں لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاکے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب کافروں اور مشرک کافروں کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اپنے کفر کو چھوڑ سکتے-
اِنَفَکَّ کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے جُدا ہونے کے ہیں- پس مُنْفَکِّیْنَ کے معنے ہوئے جدا ہونے والے یا الگ ہونے والے- سوا یہ ہے کہ اُن کے لیے کس چیز سے انفکاک نا ممکن تھا- اس کا جواب یہ ہے کہ، اُسی کفر سے جس کا اس آیت میں ذکر آتا ہے یعنی اہل کتاب کافر اور مشرک کافر کفر کو چھوڑ ہی نہیں سکتے تھے اور کوئی صورت ایسی نہیں تھی کہ وہ کفر سے آزاد ہو سکتے سوائے اس کے کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم آتے- محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلمکے آنے بغیر نہ اہل کتاب کفر سے نکل سکتے تھے نہ مشرک کفر سے نکل سکتے تھے- گویا اہل کتاب اور مشرکین دونوں کے متعلق صراحتاً ، وضاحتاً اور دلالۃً بتا دیا کہ وہ کافر ہیں اور یہ کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد وہی شخص خدا تعالیٰ کا مقبول ہو سکتا ہے یا وہی شخص سچے دین پر قائم سمجھا جا سکتا ہے جو محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے-
اس آیت میں مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ کے الفاظ آتے ہیں اور مِنْ کے اصل معنے ابتدائے غایت کے سمجھے جاتے ہیں لیکن چونکہ کثرت سے مِنْ بعضیّہ بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے ممکن ہے یہ شبہ کسی شخص کے دل میں پیدا ہو کہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اِھْلِ الْکِتٰبِمیں بھی مِنْ بعضیہ ہی استعمال ہوا ہے اور مطلب یہ ے کہ اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کافروں کا گروہ ہر اہل کتاب کے متعلق یہ بیان نہیں کیا گیا کہ وہ کافر ہے بلکہ یہ آیت صرف بعض اہل کتاب کی نسبت ہے جو کافر تھے ہر ایک اہل کتاب کافر نہیں تھا- اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر اس کا مفہوم یہ لیا جائے کہ اہل کتاب میں سے جنہوں نے اب تک اسلام قبول نہیں کیا تو یہ درست ہے ہم بھی اس قسم کے بعض کو ماننے کے لئے تیار ہیں یعنی جو اب تک اہل کتاب ایمان نہیں لائے وہ کافر ہیں یا جواب تک مشرک ایمان نہیں لائے وہ کافر ہیں- لیکن اگر مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِکے یہ معنے لئے جائیں جو اہل کتاب مسلمان نہیں ہوئے اُن میں کچھ کافر ہیں اور کچھ نہیں تو یہ اس لئے بالبداہت باطل ہیں کہ اہل کتاب پر وَالْمُشْرِکِیْنَ کا عطف ہے- اگر تو یہ ہوتا کہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَالْمُشْرِ کُوْنَ تو پھر سمجھا جا سکتا تھا کہ مِنْ صرف اہل کتاب کے ساتھ لگتا ہے مشرکوںکے ساتھ نہیں لگتا - لیکن اللہ تعالیٰ نے وَالْمُشْرِ کُوْنَ کی بجائے وَلْمُشْرِکِیْنَ فرمایا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ جو حکم اہل کتاب کے لئے ہے وہی حکم مشرکوں کے لئے بھی ہے پس اگر اس آیت کے یہ معنے لئے جائیں کہ اہل کتاب میں سے جو ایمان نہیں لائے اُن میں سے بھی کچھ مومن ہیں اور کچھ کافر تو پھر اس کے ساتھ ہی یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ مشرک جو اب تک ایمان نہیں لائے اُن میں سے کچھ مومن اور کچھ کافر- اور آیت کو یُوں سمجھنا پڑے گا کہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ امُشْتِلِمِیْنَ عَلیٰ بَعْضِ اَ ھْلِ الِکِتٰبِ وَبَعَضِ الْمُشْرِکِیْنَ اور بات بالبداہت غلط ہے- عیسائی بھی باوجود شدید دشمنِ اسلام ہونے کے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی رُو سے سب غیر اہل کتاب مشرک کافر ہیں اور اس میں کوئی استثنٰی نہیں- بہرحال اگر اس آیت میں مِنْ کو بعضیہ قرار دیاجائے تو چونکہ وِالْمُشرِکِیْنَ کا عطف اہل کتاب پر ہے اور لئے تسلیم کرنا پڑتا ہے ہے کہ کچھ مشرک مومن ہیں اور کچھ مشرک کافر- حالانکہ یہ بالبداہت باطل ہے- پس یہ غلط ہے کہ اس آیت میں مِنْ بعضیہ استعمال ہوا ہے- یہاں مِنْ بعضیہ نہیں بلکہ بیانیہ ہے اور آیت کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ لِمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ مُشْتَمِلِیْنَ عَلیٰ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَلْمُشْرِکِیْنَچونکہ مشرکین مجرور ہے اس لئے مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ کے سوا کسی اور پر عطف نہیں ہو سکتا اگر اِلَّذِیْنَ پر عطف ہوتا تو یہ مر فوع ہوتا پس کسی صورت میں بھی یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ بعض اہل کتاب کافر ہیں اور بعض نہیں- بلکہ لازماً اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ کفار خواہ اہل کتاب ہوں یا مشرک سب کے سب کافر ہیں اور اس کفر سے بچ نہیں سکتے تھے جب تک رسول اُن کے پاس نہیں آتا-
غرض کَفَرُوْا سے مراد اہل کتاب اور مشرکین دونوں ہیں دونوں میں اور جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں قرآن کریم کا یہ محاورہ ہے کہ جب وہ اہل کتاب اور مشرکین کا ذکر کرتا ہے تو اُس سے مراد ساری غیر مسلم دنیا ہو تی ہے کیونکہ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے مسلمانوں کے سوا دنیا میں دو ہی گروہ ہو سکتے ہیں یا اہل کتاب ہوں گے یا مشرک ہوں گے- پس اہل کتاب اور مشرکین سے مراد قرآنی محاورہ کے مطابق تمام غیر مسلم دنیا ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ کفار میں سے یعنی غیر مسلموں میں سے خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا مشرک (اس میں کوئی استثنٰی نہیں) اپنے کفر سے اُس وقت تک نہیں نکل سکتا تھے جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نہ ہوتی-
قرآن کریم میں بعض اَور مقامات پر بھی مِنْ بیانیہ استعمال ہوا ہے مثلاً ایک جگہ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُو االرِّ جْسَ مِنَ الْاَ وْ ثَانِ ( الحج ع ۱۱، ۴) اس کے یہ معنے نہیں کہ کچھ بُت پاکیزہ ہوتے ہیں اور کچھ گندے بلکہ مطلب یہ ے کہ فَاجْتَنِبُو االرِّ جْسَ مِنَ الْاَ وْ ثَانَ تم گندگی یعنی بتوں کی پرستش اور ان کی عبادت سے بچو- یہاں مِنْ بیانیہ ہی استعمال ہوا ہے اور چونکہ یہ حال ہے اس لئے اگر ہم عربی میں اس آیت کاترجمہ کریں تو یو ہو گا- لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا حَالَ کَوْ نِھُمْ مُشْتَمِلِیْنَ عَلیٰ جِمیْعِ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَ جَمِیْعِ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفِکِّیْنَ حَتّٰی تَاْ تِیْھُمُ الْبَیِّنَۃُ- چنانچہ دوسری قرأت اِن معنوں کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہے اور وہ قرأت عبد اللہ بن مسعود کی ہے اُن کی قرأت یہ ہے لَمْ یَکُنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَ الْ مُشْرِ کُوْنَ مُنْفِکِّیْنَ ( فتح اسلام)پس علاوہاس کے خود فقرہ کی بنائوٹ اور وَالْمُشْرِکِیْنَ کے اہل کتاب پر ہے- اس حقیقت کو واضح کر رہی ہیں یہاں مِنْ بعضیہ نہیں ہو سکتا ابن مسعُودؓ کی قرأت نے مزید تصدیق کر دی کہ یہاں کسی صورت میں بھی مِنْ کو بعضیہ قرار نہیں دیا جا سکتا-
دوسری بات جو نہایت اہم اور موجودہ زمانہ کے جھگڑوںمیں بہت کام آنے والی ہے اور اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ کُفر پہلے ہوتا ہے اور نبی بعد میں آتا ہے- یہ بات ایسی واضح ہے کہ اس آیت پرذرا سا غور بھی انسان پر اس حقیقت کو روشن کر دیتا ہے کہ نبی پیچھے آتا ہے اور کفر پہلے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اِھْلِ الْکِتٰبِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْ تِیْھُمُ الْبَیْنَۃُ کفار خواہ اہل ہوں یا مشرک کبھی بھی اپنے کفر کو چھوڑ نہیں سکتے تھے جب تک اُن کے پاس بیّنہ نہ آ جاتی- مِنْ کو بیانیہ تسلیم کرنے کی صورت میں ’’ خواہ‘‘ کا لفظ گو اُس کے معنوں کو پوری طرح ظاہر نہیں کرتا مگر چونکہ اُردو میں ’ خواہ‘ کا لظ اُن مضمون کو قریب الفہم کر دیتا ہے جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے اس لئے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ کفار خواہ اہل کتاب میں سے ہوں اور خواہ مشرکوں میں سے ، کبھی بھی اپنے کفر کو چھوڑ نہیں سکتے تھے جب تک اُن کے پاس بیّنہ نہ آتی- ’’ جب تک ‘‘ کے الفاظ جب کسی فقرہ میں استعمال کئے جائیں تو اُس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ’جب تک‘ کے بعد بیان ہونے والی شے، سے پہلے بیان شدہ شے ہے یا اُس کا اِس سے پہلے ہونا ضروری ہے- مثلاً یہ کہا جائے کہ وہ شخص اپنے گھر سے نہیں نکلا سکتاجب تک میرا پیغام اُس کے پاس نہ پہنچ جائے- تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پیغام پیچھے جائے گا اوروہ گھر میں پہلے بیٹھا ہوا ہو گا- اسی طرح لِمْ یَکُنْ اور حَتّٰی کے الفاظ جب کسی فقرہ میں استعمال ہوں گے تو اُس کے معنے یہ ہوں گے کہ لَمْ یَکُن میں بیان شدہ بات حَتّٰی سے پہلے واقع ہو چکی ہے- اس سے صاف پتہ لگا کہ بَیِّنَۃ کے آنے سے پہلے وہ لوگ کافرہو چکے تھے- بینّہ یعنی رسول نے اُن کو کافر نہیں بنایا بلکہ بیّنہ کے آنے سے پہلے ہی وہ کافر بن چکے تھے - غرض کفر پہلے ہوتا ہے اور نبی بعد میں آتا ہے نبی کا فر گر نہیں ہوتا بلکہ کفر کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے- جب بھی کوئی نبی دنیا میں آتا ہے اُس کا انکار کرنے کے بعد لوگ کافر نہیں بنتے ہیں
۲ نبی کافر گر نہیں ہوتا بلکہ کفر کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے-
بلکہ پہلے ہی وہ کافر بن چکے ہوتے ہیں نبی صرف ان کے کفر کا اظہار کرتا ہے پس یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ نبی کا انکار کر کے لوگ کافر بنتے ہیں یہ ایک غیر محتاط کام ہے جس ہم بھی زبان کے عام محاورہ کے مطابق بعض دفعہ استعمال کر لیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بھی رواج کے مطابق اس کو استعمال کیا ہے مگر حقیقتاً یہ ہمارا یہ مفہوم ہوتا ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا یہ مفہوم تھا یہ نبی کافر بناتا ہی بلکہ ہمارا مفہوم بھی یہ ہوتا ہے اورحضرت مسیح موعودکا بھی مفہوم یہی ہوتا ہے کہ نبی لوگوں کے کفر کا اظہار کرتا ہے گو عرف عُام ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہ دیا جاتا ہے کہ نبی کا انکار کر کے لوگ کافر بنتے ہیں بہر حال حقیقت یہ ہے کہ نبی کافر نہیں بناتا نبی کا انکار کر کے لوگ کافر نہیں ہوتے بلکہ نبی کے انکار سے ان کا کفر ظاہر ہو جاتا ہے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک شخص جس کے کبھی خربوزہ نہیں دیکھا یہ کہے کہ میں نے خربوزہ کھایا ہے- اب جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے یہ ایک واضح امر ہو گا کہ اُس نے جھوٹ سے کام لیا ہے مگر اس کا یہ جھوٹ اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتا جب تک ہم خربوزہ اس کے سامنے لا کر نہ رکھ دیں اور پھر اس سے پوچھ نہ لیں کہ بتائو یہ کیا چیز ہے؟ اگر ہم ایک خربوزہ اس کے سامنے لا کر رہ دیتے ہیں اورپھر اس سے پوچھتے یہ کہ بتائو یہ کیا چیز ہے اور وہ جواب میں کہتا ہے کہ مجھے علم نہیں تو یہ اس بات کا ایک واضح ثبوت ہو گا کہ جب اس نے کہا تھا کہ میں نے خربوزہ کھایا ہے تواس نے جھوٹ اور کذب بیانی سے کام لیا تھا مگر اس کے جھوٹ بولنے کے باوجود اور خربوزہ کے آنے پر اُس کا جھوٹ ظاہر ہونے کے باوجود دنیا میں یہ کبھی نہیں کہا جائے گا کہ خربوزے نے اس کو جھوٹا نہیں بنایا بلکہ خربوزے نے آ کر اس جھوٹ کو ظاہر کیا ہے ورنہ جھوٹا تو وہ پہلے ہی تھا- اسی طرح لوگ کہتے ہیں ہم موسیٰؑ کو مانتے ہیں لوگ کہتے ہیں عیسیٰؑ کو مانتے ہیں اور جب وہ یہ کہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم موسیٰ اور عیسٰی کو مانتے ہیں تو اس سے ان کی کیا مراد ہوتی ہے؟ یہ مراد تو نہیں ہوتی کہ موسیٰ ؑ اور عیسیٰؑ آدمی تھے یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ وہ آدمی تھے پس ان کا یہ کہنا کہ ہم موسٰیؑ اور عیسٰؑی کو مانتے ہیں اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ ہم مانتے ہیں کہ موسٰیؑ ایک آدمی تھا یا ہم مانتے ہیں کہ عیسٰیؑ آدمی تھا بلکہ ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ موسیٰؑ کی نبوت کو ہم شناخت کرتے ہیں عیسٰیؑ نبی کی نبوت کو ہم شناخت کرتے ہیں اور جب وہ انبیاء کی نبوت کو شناخت کرنے کا ملکہ اپنے اندر رکھتے ہیں تو یہ لازمی بات ہے کہ جب بھی کوئی نبی دنیا میں ظاہر ہو گا وہ اس کو فورا پہچان لیں گے کیونکہ جو شخص ایک جنس کی کسی چیز کو شناخت کرنے کا ملکہ رکھتا ہے وہ اُسی جنس کی دوسری چیزکو بھی شناخت کر سکتا ہے جو شخص آم کو پہچانتا ہے اُس کے سامنے جب بھی آم رکھا جائے گا فوراً کہ اٹھے گا یا جو شخص خربوزہ پہچانتا ہے اُس کے سامنے جب بھی خربوزہ لایا جائے گا اُسے شناخت میں کوئی دقت واقعہ نہیں ہو گی-وہ فوراً کہ دے گا کہ یہ خربوزہ ہے اس طرح وہ شخص جس نے نبوت کو شناخت کر لیا ہے اس کو کسی نبی کے پہچاننے میں کوئی دقت ہی پیش نہیں آ سکتی - نوعؑ آئے گا تو اُس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے اسے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے ابراہیم ؑ آئے گا تو اس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے اُسے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے -موسی ؑ آئے گا تو اس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے - عیسیٰؑ آئے گا تو اس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے اسے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے تو ان کے متعلق وہ کہے گا میں نے انہیں پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کے سچے نبی ہیں لیکن اگر اس نے واقعہ میں نوعؑ اور ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شناخت نہیں کیا ان کی نبوت کو اس نے نہیں پہچانا تو جھوٹے طور پر یہ دعویٰ کرتا ہے - کہ میں نے انبیاء علیہ اسلام کی نبوت کو پہچانا ہوا ہے تو گو وہ منہ سے اس امر کا دعویدار ہو گا کہ میں نوعؑ کو بھی پہچانتا ہوں ، ابراہیم ؑکو بھی پہچانتا ہوں ،موسیٰؑ کو بھی پہچانتا ہوں ،عیسیٰؑ کو بھی پہچانتا ہوں ، مگر جب محمد رسول صلے اللہ و علیہ وسلم کا نبوت کا جامہ پہن کر ان کے سامنے آ ئیں گے تو کہ دے گا کہ آپ نعوذ باللہ جھوٹے ہیں اس سے صاف پتہ لگ جائے گا کہ اس کا یہ کہنا کہ میں نوحؑ اور ابرہیمؑ اور موسٰیؑ اور عیسیٰؑ کو پہنچانتا ہوں محض اِدّعاتھا اور نہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ وہی جُببّہ جو ابراہیم نے پہنچا ، وہی جُببہ جو موسیٰ نے پہنچا، وہی جُببہ جوعیسیٰؑ نے پہنچا،وہی جببہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پہن کر آتے تو وہ آپ کی شناخت سے محروم رہتا؟ اُس کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت سے محروم رہنا اس بات کا ثبوت ہو گا کہ وہ پہلے بھی نبوت کی حقیقت کو نہیں سمجھتا تھا اور اُس کا یہ کہنا بالکل دھوکا اور فریب تھا کہ میں نوحؑ کو مانتا ہوں ، مَیں ابرہیم کو مانتا ہوں مَیں موسیٰؑ کو مانتا ہوں کیونکہ جب ویسی ہی نبوت اُس کے سامنے آئی تو وہ اُس کو پہنچان نہ سکتا جس سے پتہ لگ گیا کہ اُس نے نہ موسیٰؑ کو پہچانا تھا- نہ عیسیٰؑ کو پہچانا تھا اور نہ دنیا کی کسی اور نبی کو پہچانا تھا - پس اس آیت نے بتا دیا کہ دنیا میں جب بھی کوئی نبی ظاہر ہوتا ہے وہ لوگوں کو کافر نہیں بناتا بلکہ اُن کے کر کا صرف اظہار کرتا ہے ورنہ کافر نہیں بناتا بلکہ اُن کے کفر کا صرف اظہار کرتا ہے ورنہ کافر وہ اس سے پہلے ہی بن چکے ہوتے ہیں اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد یہ کتنی فضول بحث بن جاتی ہے جہ فلاں نبی کا انکار کفر ہوتا ہے اور فلاں نبی کا انکار کفر نہیں ہوتا حالانکہ کفر کسی نبی کا انکار کے بعد پیدا نہیں ہوتا بلکہ پہلے ہی لوگوں کے اندر پیدا ہو چکا ہوتا ہے- کفر نوحؑ کے انکار کا نام نہیں - کفرابرہیم ؑکے انکار کا نام نہیں - کفرموسیٰؑ کے انکار کا نام نہیں - کفرعیسیٰؑ کے انکار کا نام نہیں -بلکہ اصل کفر نام ہے نبوت کے انکار کا- یہ جو ہم کہہ دیا کرتے ہیں کہ موسیٰؑ اور عیسیٰؑ یا کسی اور نبی کا انکار کفر ہے یہ صرف اصطلاحی طور پر ہم کہا کرتے ہیں - چونکہ موسیٰؑ نبگی ہے اور اُس کا انکار نبوت کے انکار کے مترادف ہے اس لئے موسیٰؑ کا انکار کفر ہے ورنہ موسیٰؑ آدمی کا انکار کفر نہیں یا عیسیٰؑ آدمی کاانکار کفر نہیں یا محمدِ عربیؐ کا انکار کفر نہیں- بلکہ موسیٰؑ نبی کا انکار کفر ہے یا عیسیٰؑ نبی کا انکاور کفر ہے یا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا انکار کفر ہے- اور یہ کفر بھی ان معنوں میں نہیں کہ اُس نے شخص کا انکار کیا ہے بلکہ اِن معنوں میں ہے کہ اُس نے تمام انبیاء کی نبوت سے انکار کیا ہے بلکہ اِن معنوں میں ہے کہ اُس نے تمام انبیاء کی نبوت سے انکاور کی اہے ورنہ اگر وہ کسی ایک نبی کی نبوت کو بھی صحیح معنوں میں پہچاننے والا ہوتا تو وہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ اُس کے سامنے ایک دوسرا شخص وہی نبوت کا جامہ پہن کر آتا تو وہ اس کا انکار کر دیتا اور کہہ دیتا کہ وہ کافر ہے- جو شخص نبوت کو پہچانتا ہے اُس کے سامنے جب کوئی شخص نبوت کا جامعہ پہن کر آئے گا تو بجائے اس کے کہ وہ اُس پر ایمان لائے اُسے کافر اور بے دین قرار دینے لگ جائے گا اور اس طرح اس بات کا ثبوت مہیا کر دے گا کہ اُس کا پہلے انبیاء کی نبوت پر ایمان لانے کا دعویٰ بھی محض ایک دھوکا تھا- اگر وہ موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو ماننے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہی جامہ جب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر دیکھتا ہے تو آپ کو کافر کہنے لگ جاتا ہے تو یہ صاف اور واضح ثبوت اس بات کا ہے کہ اُس نے موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کی نبوت کو بھی نہیں پہچانا مگر چونکہ اُس کے ماں باپ کہتے تھے کہ عیسیٰؑ نبی ہے اِس لئے اُس نے عیسیٰؑ کو بھی مان لیاورنہ درحقیقت نہ وہ موسیٰؑ پر ایمان رکھتا تھا نہ عیسیٰؑ پر ایمان رکھتا تھا اور نہ کسی اور نبی پر ایمان رکھتا تھا-
پس حقیقت یہ ہے کہ نبوت کا انکار کفر ہے نہ کہ زید یا بکر یا خالد کا انکار- چونکہ آنے والا اُسی قسم کا جامہ پہن کر آتا ہے جس قسم کا جامہ پہلے انبیاء پہن کر آئے اس لئے جب لوگ اُس کا انکار کر دیتے ہیں تو اُن کے متعلق یہ نہیں سمجھا جاتا کہ انہوں نے کسی ایک شخص کا انکار کیا بلکہ یہ سمجھا جات اہے کہ انہوں نے نبوت کا انکار کیا ہے - اب یہ سیدھی بات ہے کہ حضرت مرزا صاحب کا کوئی نام رکھ لو جو باتیں انہوں نے لوگوں کے سامنے پیش کی ہیں وہ وہی ہیں جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے لوگوں نے سامنے پیش کیں اور جو سلوک لوگوں نے آپ سے کیا وہ ویسا ہی ہے جیسے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم یا اَور انبیاء سے دنیا نے کیا- یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس کا پیغامی بھی انکار نہیں کرسکتے - اَور تو اَور خود مولوی محمدؐ علی صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت پر منہاجِ نبوت کو مدنظر رکھتے ہوئے غور کرنا چاہیے- جس کے معنے یہ ہیں کہ آپ نے ویسی ہی باتیں پیش کی تھیں جیسی باتیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے پیش کیں یا جیسی باتیں موسیٰؑ نے پیش کی تھیں یا جیسی باتیں عیسیٰؑ نے پیش کی تھیں- جیسی باتیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے پیش کیں تھیں- اورجو سلوک دنیا نے آپ سے کیا ویسا ہی سلوک اُس نے پہلے انبیاء سے بھی کیا تھا- اوراگر یہ ٹھیک ہے تو پھر ویسی ہی باتوں پر جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے پیش کیں یا جیسی باتیں موسیٰؑ نے پیش کیں تھیں یا جیسی باتیں عیسیٰؑ نے پیش کی تھیں- اور جو سلوک دنیا نے آپ سے کیا ویساہی سلوک اُس نے پہلے انبیاء سے بھی کیا تھا- اور اگر یہ ٹھیک ہے تو پھر ویسی ہی باتوں پر جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے پیش کیں یا موسیٰؑ اور عیسیٰؑ نے پیش کیں جو شخص آپ کو کافر کہتا ہے وہ نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو بھی کافر کہتا ہے موسیٰؑ کو بھی کافر کہتا ہے ، عیسیٰؑ کو بھی کافر کہتا ہے- پس یہ کہنا کہ فلاں نبی کا انکار انسان کو کافر بناتا ہے اور فلاں کا نہیں ایک بے تعلق بحث ہے- نبی تو صرف کفر کو ظاہر کرتا ہے اُس کا کسی کو کافر بنانے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ یہ بحث کی جائے کہ فلاں قسم کے نبی کا انکار کفر ہوتا ہے اور فلاں قسم کے نبی کا انکار کفر نہیں ہوتا- اگر کوئی بحث ہو سکتی ہے تو یہ کہ فلاں نبی اُس وقت آتا ہے جب دنیا مومن ہوتی ہے اور فلاں نبی اُس وقت آتا ہے جب دنیا کافر ہوتی ہے اور یہ بات بالبداہت باطل ہے- پس درحقیقت اس آیت کو سمجھ لینے کے بعد کہلَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اِھْلِ الْکِتٰبِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْ تِیْھُمُ الْبَیْنَۃُکفر و اسلام کے متعلق کو

یہ کئے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ جو ایک آنے والے رسول کی امید لگائے بیٹھے تھے وہ اس امید پر قائم رہے کہ جب تک کہ رسول نہ آ گیا یعنی جب وہ رسول آ گیا جس کی وہ امید کیا کرتے تھے تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہمیں تو کسی رسول کی امید نہیں تھی حالانکہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی کے معنے سوائے اس کے ہو ہی نہیں سکتے کہ پہلا مضمون دوسرے سے معلّق ہے جب تک دوسری حالت نہ ظاہر ہو جائے پہلی حالت بدل ہی نہ سکتی تھی- پس رسول کے آنے تک رُکے نہ تھے اِس آیت کے معنے ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اِن معنوں می تعلیق مشروط نہیں پائی جاتی بلکہ صرف ایک واقعہ کا اظہار ہے جو اِس قسم کی عبارت کے منافی ہے-
تعجب ہے کہ پرانے مفسرین میں سے بھی بعض نے یہی معنے کئے یہں حالانکہ وہ عربی زبان کے بڑے ماہر تھے اُن کا اس عربی عبار ت میں سے یہ معنے نکال لینا ایک حیرت کی بات ہے
(۸) آیت لَمْ یَکُن الخ کا ترجمہ کرنے میں بعض مفرسن کو ٹھوکر
مگر پھر خود ہی اُن کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ اگر اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ آنے والے نبی کے اظار سے یعنی اس عقیدہ کے اظہار سے ایک موعود رسول آنے والا ہے وہ نہیں رکے جب تک کہ نبی نہیں آ گیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں تو اہل کتاب کے ساتھ مشرکین کا بھی ذکر آتا ہے کیا مشرک بھی یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ایک رسول دنیا میں آنے والا ہے- پھر اس کا خود ہی انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ کچھ مشرک لوگ اہل کتاب کے اثر کے ماتحت یہ امید رکھتے تھے یکہ ایک رسول انے والا ہے- حالانکہ یہ عبارت ایسی ہے کہ اس سے ’’ کچھ‘‘ کا استنباط ہو ہی نہیں سکتا- تمام مشرکوں کو اہلِ کتاب کے ساتھ شریک کیاگیا ہے اس لئے یہ کہا ہی نہیں جا ستکا کہ یہاں بعض مشرکوں کا ذکر ہے اور بعض کا نہیں- قرآن کریم تو یہ کہاتا ہے کہ سب اہل کتاب اور
۲۷۱ آیت لَمْ یَکُن الخ کا صحیح ترجمہ
مشرک رُکنے والے نہیں تھے- پس اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ وُو اس اعلان سے نہیں رکے کہ ایک موعود آنے والا ہے تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ ہر مشرک یہ امید رکھتا تھا کہ رسول آئے گا حالانکہ یہ امر باالبداست باطل ہے- مشرکوں میں تو ایسے لوگ بھی تھے جو نزولِ الہام کے بھی قائم نہیں تھے کجا یہ کہ وہ کسی مامور کی بعثت کا انتظار کر رہے ہوتے- پھر اگر یہی معنے کئے جائیں کہ وہ ایک مامور کی اُمید سے نہیں رُکے جب تک کہ رسول اُن کے پاس نہیں آ گیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں لَمْ یَکُنْ مُنْفکِّیْنَ کے کیا معنے ہوئے؟ اس فقرہ کے تو یہ معنے ہیں کہ وہ رسول کے آنے کے بغیر اپنے مام سے اِدھر اُدھر ہل نہیں سکتے اور رسول کے آنے پر یہ کہتا کہ ہم کسی رسول کے منتظر نہیں تھے یا ہمیں کسی مامور کی امید نہیں تھی-
اس میں ہٹ نہ سکنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- رسول کی آمد کا انکار تو جو چاہے اپنے ارادہ سے کر سکتا ہے-
علاوہ ازیں یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس آیت کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ امر اول کا بدلنا منشاء الہٰی کے ماتحت ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ ایسا ہو جائے کیونکہ لِمْ یَکُنْ فَا عِلاً حَتّٰی کے معنے عربی زبان میں قائل کی اس خواہش کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ بہتر ہے کہ ایسا تغیر ہو جائے- لیکن جو معنے اُن مفسروں نے کئے ہیں اُن سے خدا تعالیٰ کی خواہش نہیں بلکہ عدم خواہش ظاہر ہوتی ہے کیونکہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ یہ لوگ رسول کی آمد کا انتظار چھوڑ دیں کیونکہ ایسا کرنا گمراہی ہے اور خدا تعالیٰ کسی کے گمراہ ہو جانے کو پسند نہیں کرتا- اُردو زبان میں بھی اس قسم کی عبارات کے معنوں پرغور کرو تو حقیقت کھُل جائے گی- اگر کوئی کہے کہ جب تک اُستاد نہ رکھا اس لڑکے اس کے بے شک یہ معنے ہیں کہ اُستاد رکھنے سے اُس نے پڑھا لیکن ساتھ ہی یہ امر بھی ظاہر ہے کہ کہنے والے کی خواہش بھی اس میں مخفی ہے کہ لڑکے کے پڑھ جانے کو وہ پسند کرتا تھا یہ نہیں کہ وہ پسند نہیں کرتا تھا اسی امر کو مد نظر رکھتے ہوئے ان مفسرین کے معنوں کو دیکھو تو اس آیت کا ترجمعہ اُن کے خیال کے مطابق یہ ہو گا کہ رسول آتا تب کہیں جا کر ان لوگوں نے رسول کی آمد کا انتظار چھوڑا اور ظاہر ہے کہ اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ کہنے والا چاہتا تھا- کہ یہ رسول کی آمد کا انتظار چھوڑ دیں اور ایسا خیال اللہ تعالیٰ
رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً Oلا
یعنی اللہ ( کی طرف )سے آنے والا ایک رسول جو (اُنہیں ایسے) پاکیزہ صحیفے پڑھ کر سُناتا ؎۳
کی نسبت سخت گستاخانہ خیال ہے
علامہ واحدی کہتے ہیں کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے ضلات وکفر کو ظاہر نہیں کیا اہل کتاب اور مشرک اپنے کفر سے بعض نہ آئے اور چونکہ اس مقام پر ان کے دل میں بھی نہ شبہ پید اہوا ہے کہ یہاں تو سب اہل کتاب اور مشرکین کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایمان لانے والے اہل کتاب اور مشرکوں کے بارہ میں ہے یعنی اہل کتاب میں سے کافر اور مشرکوں میں سے کافر نہ رکے یعنی ایمان حالانکہ یہاں صاف طور پر کَفَرُوْا کا لفظ آتاہے اگر ان کا خیال درست ہو تو یوں کہنا چاہیے تھا اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا کہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی پھر لکھتے ہیںوَھٰذِہِ الْاٰ یَۃُ مِنْ اَصْحَبِ مَا فِی الْقُرْاٰنِ نَظْمًا وَ تَفْسِیْراً وَقَدْ تَخَبَّطَ فِیْہِ الْکِبَا رُ مِنَ الْعُلَمَائِ وَ سَلَکُوْافِیْ تَفْسِیْرِ ھَا طُرُ قًا لَا تُفْضِیْ بِھِمْ اِلیَ الصَّوَابِ(فتح البیان) یعنی یہ آیت عبارت اور تفیسر کے لحاظ سے قرآن کریم کی مشکل ترین آیتوں میں سے ہے اور بڑے بڑے علماء اس میں ٹھوکریں کھاتے رہے ہیں اور انہوں نے اس کے معنے کریت ہوئے اس طریق استعمال اختیار کئے ہیں جو انہیں صحیح نتیجہ پر پہنچانے سے قاصر رہے ہیں -
جہاں یہ بات درست ہے کہ بعض علماء نے اس کے معنوں میں ادبی غلطیاں کی ہیں یعنی جو معنی نہیں ہو سکتے تھے وہ کر دیئے ہیں مثلاً یہ کہ یہود نے انتظارِ نبی کا چھوڑا جب تک نبی کا آ گیا وہاں علامہ وحدی کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے صحیح مطلب سمجھا ہے یہ بھی غلط ہے کیونکہ ان کے معنے بھی درست نہیں لَمْ یَکُنْ مُنْفَکِّیْنَ کے معنے ’’ وہ نہیں رُکے‘‘ کسی صورت میں بھی درست نہیں اس کے معنے ہمیشہ ’’ وہ رُکنے والے نہ تھے‘‘ کے ہوتے ہیں بہرحال اس آیت کے معنے سمجھنے میں دقتیں ضرور پیش آئی ہیں مگر یہ دقّتیں خود پیدا کردہ ہیں کیونکہ مُنْفَکِّیْنَ کے حقیقی معنوں کی طرف توجہ نہیں کی گئی - اگر سیاق عبارت سے اس کا مفہوم نکال لیا جاتا تو بات آسان ہو جاتی کَفَرُوْ کا لفظ پہلے گزر چکا تھا- اس لئے مُنْفَکِّیْنَ کے معنے یہی ہو سکتے تھے کہ مُنْفَکِّیْنَ عَنْ کُفْرِ ھِمْ -اگر َ عَنْ کُفْرِ ھِمْکو محدف نکال لیا جاتا تو معنوں کی دقتیں پیش نہ آتی اور مضمون بالکل ظاہر ہو جاتا-
۳ حل لغات-
طَََھَّرَہٗ کے معنے ہوتے ہیں جَعَلَہٗ طَا ھِرًا- اُس کو پاک کر دیا ( اقرب) کے لحاظ سے مُطَھَّرَۃٌ کے معنے ہوئے- ایسے صحیفے جو پاک کئے گئے ہیں اور چونکہ عربی زبان تَطْھِیْرَ ۃٌ کے معنے ہوئے - ایسے صحیفے جو پاک کئے گئے ہیں چونکہ عربی زبان میں تَطْھِیْرَ ۃٌ کا لفظ ختان کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس ذریعہ سے زائد چیزیں نکال دیتے ہیں اِس لئیمُطَھَّرَۃٌ کے یہ معنے ہوئے کہ اییس چیز جس میں زوائد نکال دیئے گئے ہوں- پس مُطَھَّرَۃٌ کے دو معنے ہوئے ایک یہ کہ جس میں سے گند نکالا یا گیا ہو اور دوسرے یہ کہ جس میں سے زوائد نکال دیئے گئے ہیں- اِسی طرح طَھَّرَ الشَّیْ ئَ بَاالْمَائِ کے معنے ہوتے ہیں غَسَلَہٗ اس کو پانی سے دھودیا- ( اقرب) اس لحاظ سے مُطَھَّرَۃٌ کے معنے ہوں گے دُھلے دُھلائے-
مفردات راغب میں لکھا ہے الطَّھَارَۃُ ضَرْ بَانِ
۲مُطَھَّرَۃٌ کے معنے امام راغب کے نزدیک
طہارت دو قسم کی ہوتی ہے طَھَارَۃُ جِسْمٍ وَطَھَارَۃُ نَفْسٍ ایک جسم کی طہارت اور ایک نفس کی طہارت - وَحُمِلَ عَلَیْھَا عَا مَّۃُ الاْیَاتِ اور قرآن کریم وہ تمام آیات جن میں طہارت کا لفظ آیا ہے وہاں یہ لفظ انہیں معنوں میں استعمال ہوا ہے
۲ عربی زبان میں صفائی اور پاکیزگی کے معنے ادا کرنے کے لئے سات الفاظ اور اُن کے استعمال میں فرق
وَقَوْلُہٗ فِیْ صِفَۃِ الْقُرْاٰنِ مَرْ فُوْ عَۃِِ مُّطَھَّرَ ۃِِ وَقَوْ لُہٗ وَ ثِیَا بَکَ فَطَھِّر- یعنی قران کریم میں دوسری جگہ صورت عبس میں جو مَرْ فُوْ عَۃِِ مُّطَھَّرَ ۃِِ کے الفاظ آتے ہیں یا صورئہ مدثر میں وَ ثِیَا بَکَ فَطَھِّرْ کے الفاظ آتے ہیںقِیْلَ مَعْنَاہُ نَفْسَکَ - فَنَفِّھَامِنَ الْمُعَائِبِ- ان دونوں کے معنے یہ ہیں کہ معائب سے اپنے نفس کو پاک کر - مفردات والے چونکہ اختصار سے کام لیتے ہیں اسی لئے انہوں نے دونوں آیتوں کے یکجا معنے کر دیئے ہیں اور ان کی مراد یہ ہے کہ یہی معنے مَرْفُوْ عَۃٍ مُطَھَّرَۃٍ کے بھی ہیں- یعنی بلند شان والا اور عیبوں سے پاک - وَ قَوْلَہٗ وَطَھِّرْ بَیْتَی وَقَوْ لُہٗ وَ عَھِدْ نَآ اِلیٰ اِبْر اھِیْمَ وَ اِسْمعِیْلَ اِنْ طِھِّرَ ا بَیْتِیْ فَحَثَّ عَلَیٰ تَطْھِیْرِ الْکَتَبَۃِ مِنْ نَجَاسَۃِ الْاَوْثَانِ یعنی قرآن میں جو آتا ہے کہ طَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّٓا ئِفِیْنَ وَالْقَآ ئِمِیْنَ وَالرُّ کَّعِ السُّجُوْدِ ( الحج ع۴،۱۱) یا دوسری جگہ فرمایا ہے وَعَھِدْ نَا اِلیٰ اِبْرِھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَ ا بَیْتِیْ للطَّآئِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعٍ السُّجُوْدِ ( البقرہ ع ۱۵) ان ہر دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ترغیب دلائی ہے کہ وہ کعبہ کو بتوں کی نجاست سے پاک کر دیں - پس تطہیر کے ایک معنے شر ک سے پاک کر نے کے ہوئے گویا لغت کی ان دونوں کتابوں کی رُو سے نجاست ظاہری اور نجاست باطنی دونوں کو دور کرنے کے لئے تطہیر کا لفظ استعمال ہوتا ہے معانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے مُطَّھْرَۃٌ کے پانچ معنے ہوئے-
مُطَّھْرَہ کے پانچ معنے
اوّل - نجاست ظاہری سے پاک
دوم- زوائد سے پاک
سوم- دُھلے دُھلائے
چہارم - طہارت باطنی رکھنے والے
پنجم- شرک سے پاک
عربی زبان میں پاکیزگی کے مفہوم کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہ یہ ہیں
نَظَا فَۃٌ - طَھَارَۃٌ- طِیْبَۃٌ- نَقَائٌ- زَکَا ئٌ - صَفَائٌ - نَذَا ھَۃٌ
اِن میں سے طہارت جسمی اور نفسی ہوتی ہے یعنی نجس کے مقابل پر یہ لفظ استعمال ہوتا ہے- قرآن کریم میں پانی کو طہور کہا گیا ہے لیکن اس کے مقابل میں مٹی کو طیب کہا گیا ہے چنانچہ فرماتا ہے- وَاَنْذَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآ ئًً طَھُوْرًا ( الفرقان ع ۳،۵)
مٹی کے متعلق فرمایا ہے کہ فَتَیَمَّمُوْاطَیِّباً ( المائدہ ع ۲،۶)
اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ تو فرمایا طِھِّرْ بَیْتِیَ ( الحج ع ۴،۱۱)
لیکن عربی محاورہ کے مطابق یہ نہیں کہا جائے گا طَیِّبْ بَیْتِیْ- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ (۱) طہارت میں خارجی نجاست کے دُور کرنے کی طرف اشارہ ہوتا ہے اسی طرح تطہیر کے خارجی نجاست خواہ جسمانی ہو یا روحانی اس کو دُور کرنے کے بھی ہوتے ہیں لیکن طِیْبَۃٌ کا لفظ ذاتی جوہر کی طرف اشارہ کرتا ہے خارجی نجاست کی طرف نہیں- چنانچہ تطَْھِّر کے معنے تو صاف کرنے کے ہوتے ہیں لیکن طیب کالفظ جب ایک عرب بولے کا تو خارجی نجاست کو دُور کرنے کے معنوں میں وہ اسی کبھی استعمال نہیں کرے گا بلکہ اس کے معنے مزیدار اچھا بنانے یا مزیدار یا اچھا پانے کے ہوتے ہیں چنانچہ طِیَّبَ الشَّیْ ئَ کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ اُس کے نجاست ظاہری دُور کر دی بلکہ طیب ہمیشہ مزیدار یا اچھا بنانے یا مزیدار یا اچھا پانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مثلاً طَیَّبَ اللَّحْمَ کے معنے ہوتے ہیں اُس نے گوشت اچھا پکایا اور اُسے مزیدار بنایا - یا اس کے معنے ہوں گے کہ اُس نے گوشت کو اچھا پایا کھانا کھایا تو کہا کہ کھانا بہت اچھا پکایا گیا تھا- یا خوب مزیدار تھا- اگر زمین پر بوٹی گر جائے تو ہم یہ تو کہیں کہ طِھِّرْ اِس بوٹی کو صاف کرو لیکن یہ نہیں کہہ سکتے طِیِّب - لیکن اچھا پکانے یا اچھا پانے کے مفہوم کو جب ہم ادا کرنا چاہیں گے تو اس کے لیے طِھِّرکا لفظ استعمال نہیں کریں گے- اسی طرح طیب کے معنی امن یا سکون دینے کے بھی ہوتے ہیں یعنی اصلاح ِنفس کے -
پس طِھَارَۃٌ اور طِیْبَۃٌ میں یہ فرق ہے کہ طہارت نجاست خارجی سے حفاظت پر دلالت کرتی ہے -مگر طیبہ ذاتی خوبی پر دلالت کرتی ہے جیسے مزاؔ - خوبصورتیؔ- مٹھاسؔ یا کسی چیز کا فائدہؔ بخش ہونا - ایک میٹھی اور مزیدار شے کو ہم طیب کہیں طاہر نہیں کہیں گے یامثلاً کوئی چیز خوبصورت ہو یا مفید ہو تو ہم اس کو طبیب تو کہیں گے مگر طاہر ؔنہیں کہیں گے - اسی طرح کسی چیز کو نجاست لگ جائے تو اس کو صاف کرنے کے لیے طاہر کہیں گے طیب نہیں- بہرحال طاہر تب کہیں گے جب نجاست ظاہری سے کسی چیز کو بچایا جائے- خواہ یہ نجاست جسمانی ہو یا روحانی- مثلاً ایک طاہرالقلب انسان ہو یعنی وساوس شیطانی سے پاک ہو تو اسے بھی ہم طاہر کہہ دے گے اور اگر کوئی شخص نہا دھو کر نکلا ہو تو اُسے بھی طاہر کہا جائے گا-
نظافت ؔبھی خارجی نجاست سے پاکیزگی کا نام ہے جیسے میل وغیرہ سے یا حسنُ و خوبصورتی کا مالک ہونے پر یہ لفظ دلالت کرتا ہے -کہتے ہیں نَظُفَ الشَّیْ ئُ میل کچل سے پاک تھی یا خوبصورت تھی لیکن کبھی یہ لفظ باطنی نجاست سے پاک ہونے کے لیے بھی بول لیا جاتا ہے - کہتے ہیں کہتے ہیں فُلَانٌ نَظِیْفُ الْاَ خَلَا قِ یعنی فلاں شخص مہذب ہے مگر یہ لفظ اخلاق کے لیے بولا جائے گا یا میل کچیل کے لیے-مزیدار یا لطیف کے نہیں بولا جائے گا اور صفائی کے لیے زیادہ تر ظاہر قسم کی صفائی کے لیے بولا جائے گا نہ کہ باطنی صفائی پر اسی طرح اخلاق کے لیے تو بولا جائے گا روحانی صفائی کے لیے نہیں اسی وجہ سے اس کے معنے طاہرؔ سے مختلف ہیں کہ وہ رُوحانی پاکیزگی اور نفسانی پاکیزگی پر زیادہ دلالت کرتا ہے - اس لفظ کو طیب سے اس امر میں مشارقت ہے کہ حسنُ و بہا کے لیے بھی نظافت کا لفظ آتا ہے- یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا مگر حدیث میں اصل معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے اور استعارۃً بھی استعمال ہوا ہے جیسے حدیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نَظِّفُوْااَفْوَاھَکُمْ اپنے مُونہوں کو پاک کیا کرو - اس جگہ پاک کرنے کے معنے یہ ہیں کہ جھوٹ فریب اور دغا وغیرہ کے اپنے آپ کو بچائو اور کہیں کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالو جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو- یہاں نظافتؔ کا لفظ استعارۃً استعمال ہوا ہے نہ کہ اصل ظاہری معنوں میں -
نِقَاء کا لفظ بھی قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا حدیث میں ہوا ہے- اس کے اصل معنے مغز نکالنے کے ہوتے ہیں اور ان معنوں کی رُو سے استعارۃً صفائی کے معنوں سے بھی استعمال ہونے لگ گیا ہے جیسے چھلکے کو دُور کر مغز نکلالتے ہیں یا ہڈی تو طور کر گودہ نکالتے ہیں- انہوں معنوں سے استدلال کر کے محاورہ میں نظیفؔ - حسین اور خالص نے معنے دینے لگ گیا ہے-
زُکٰوۃٌ کے اصل معنے اندرونی نجاست کے دُور کرنے کے ہوتے ہیں لیکن کبھی ظاہری صفائی کے معنوں میں بھی استعارۃً استعمال ہو جاتا ہے - قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے -
صفائٌ کے معنی ملائوٹ سے نجاست پانے کے ہوتے ہیں استعارۃ ظاہری صفائی کے لیے بھی استعمال ہو جاتا ہے-
نَزَاھَۃٌ کے معنے اصل میں تو دُور ہونے کے ہوتے ہیں لیکن محاورہ میں جو چیز گندگی اور فساد سے دُور ہو اُس کے لیے بھی یہ لفظ بولا جانے لگا ہے-
ان سب لفظوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ طاہرؔ سب سے اعلیٰ اور کامل لفظ ہے جو صفائی کے مفہوم کے لیے عربی زبان میں استعمال ہوتا ہے- کیونکہ اس ک معنی وسیع ہیں اور بظاہر و باطن دونوں حالتوں سے صفائی پر بیک وقت دلالت کرتا ہے- اور طیبؔ کی نسبت جو معنوں میں اس کے بہت زیادہ قریب ہے یہ زیادہ مضبوط ہے کیونکہ قران کریم نے اصل کے لیے طہارت اور نائب کے لیے طیب کا لفظ استعمال کیا ہے جیسے پانی کے متعلق یہ تو فرمایا ہے کہ مَآ ئََ طَھُوْ رًا ( الفرقان ع۵،۳)لیکن مٹی کی نسبت فرمایا ہے صَعِیْدًا طَیِّبًا ( المائدہ ع ۲،۶)
تفسیر-
اس سے پہلے یہ بتایا جا چکا ہے کہ اہل کتاب اور مشرک کفر کو کبھی چھوڑ ہی نہیں سکتے تھے جب تک ان کے پاس بینّہ نہ آ جاتی- بینّہ کے معنی جیسا کہ واضح اور جلی کے ہوتے ہیں پس-حَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیّنَُۃُ کے معنے یہ تھی-
بَیِّنَۃ کے معنے
کہ جب تک ایک واضح اور روشن چیز ان کے پاس نہ آ جاتی وہ کفر سے نکل نہیں سکتے تھے اور چونکہ بینّہ کے ایک معنی دلیل اور حجت کے بھی ہوتے ہیں اس لیے اس آیت کے یہ بھی معنے ہیں کہ جب تک اُن کے پاس دلیل اور حجت نہ آ جاتی وہ اپنے کفر سے باز رہنے والے نہیں تھے- اب اس آیت میں یہ بتاتا ہے کہ بینّہ سے مراد ہر دلیل نہیں کہ تم یہ خیال کر لو کہ دلائل اور براہین سے وہ اپنے کفر کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو سکتے تھے- اسی حکمت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے حَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیّنَُۃُنہیںفرمایا بلکہ حَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیّنَُۃُفرمایا ہے- یعنی بینّہ پر الف لام داخل کیا ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ایسی کفر و شرک کے زمانہ میں جب چاروں طرف معصیت کی تاریک گھٹائیں چھائی ہوں ہر دلیل کام نہیں آیا کرتی- جیسے اس زمانہ میں بھی بعض لوگوں سے سامنے جب حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ پیش کیا جاتا ہے
۱ حضرت مسیح موعود ؑ کی بعثت کی ضرورت
تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں آپ پر ایمان لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہمارے لیے قرآن کریم کافی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ بالکل غلط ہے ایسے زمانہ میں الْبَیِّنَۃ کی ضرورت ہوتی ہے الْبَیِّنَۃ سے ہماری مراد رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ ہے یعنی ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ کا رسول ہی دنیاکی اصلاح کر سکتا ہے کوئی کتاب لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہوتی جب چاروں طرف کفر پھیل جائے ،جب لوگ خدا تعالیٰ سے غافل ہو جائیں، جب اس سے محبت اور پیار کے تعلقات منقطع کر لیں تو خواہ ہو اہل کتاب ہی ہوں اُس وقت کوئی الہامی کتاب بھی ان کے کام نہیں آتی رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِکام آتا ہے- ایساشخص ہی لوگوں کی نجات کا باعث بن سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت اور نبوت و رسالت کے مقام کھڑا ہو اور اپنے قوت قدسیہ سے نفوس کو پاکیزہ کرنے کی استعداد رکھتا ہو- اگر یہاں صرف بینّہؔ کا لفظ ہوتا تو لوگ کہتے کہ بینّہ سے مراد کتاب ہے اور مطلب یہ ہے کہ کتاب لوگوں کی اصلاح کے لیے کافی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذکر کرنے کے بعد بینّہ کا ذکر کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اُن کے پاس کتاب موجود تھی مگر وہ ان کو کفر سے نہ بچا سکی- باوجود اہل کتاب ہونے کے ایسے گرے کہ کفار میں شامل ہو گے اسی لیے یہ سمجھنا کہ کتاب لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی ہوتی ہے بہت بڑی غلط فہمی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے موقع پر وہی دلیل کام آتی ہے رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ کی شکل میں ہو دوسری کوئی دلیل کام نہیں آیا کرتی خواہ کتاب موجود ہو، تحریف الحاق سے مبرّا ہوپھر بھی ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ خداتعالیٰ پر تازہ ایمان پیدا ہو، اس سے تازہ تعلق ہو، اس کی محبت اور پیار کے تازہ کرشمے ظاہر ہوں اور یہ بات بغیر نمونہ اور بغیر اللہ تعالیٰ کی نشانات کے حاصل نہیں ہو سکتی بے شک اس وقت کتاب تو ہوتی ہے مگر وہ بولتی نہیں لوگوں کے لیے اس کا وجود اور عدم وجود بالکل یکساں حیثیت رکھتا ہے مگر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی رسول مبعوث ہوتا ہے تو اُس کے ذریعے وہ کتاب پھر بولنے لگتی ہے، پھر اس کے انوار لوگوں کے قلوب کو گرماتے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار کرتے ہیں اور پھر ان کے ایمانوں میں ایک نئی تازگی پیدا ہو جاتی ہے-
اس آیت نے چکڑالویوں کا بھی ردّ کر دیا جو کہتے ہیں کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب قرآن لیکر آئے ہیں تو اس کے بعد کسی رسول کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے یہ خیالات بالکل غلط ہیں وسیع فساد کے وقت میں وہی دلیل کام آیا کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے رسول کی شکل میں ظاہر ہو کتاب لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہو سکتی- اُس وقت وہ بینہ کام آتی ہے رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ کی شکل میں ظاہر ہو کیونکہ یہ وقت محتاط ہوتا ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک زندہ وجود ظاہر جو اللہ تعالیٰ کے تازہ نشانات کو ظاہر کرنے والا ہو اس کی طرف سے نئے نئے نشانات دیکھانے والا ہو اُس کے محبت اور پیار کے خوابیدہ جذبات کو بیدار کرنے والا اور قلوب میں عشقِ الہٰی کی آگ کو بھڑکانے والا ہواور وہ دنیا پر یہ ظاہر کر سکتا ہوں کہ ہمارا خدا آج بھی ویسا ہی زندہ ہے جیسے پہلے زندہ تھا اب بھی ویسا ہی کلام کرتاتھا جیسے پہلے کلام کیا کرتا تھا اور اب بھی اپنے پیاروں کی تائید میں ویسے ہی نشانات دیکھتا ہے جیسے پہلے دیکھایا کرتا تھا- تب لوگوں کے دلوں کے تالے کھلتے اور ان کے اندر زندگی کے آثار پیدا ہونے شروع ہوتے ہیں اس کے بغیر ان کی روحانی زندگی کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہوتایَتْلُوْ اصُحُفًا مُّطَھَّرَۃً- مُطَھَّر کے معنے حل لغات میں آ چکے ہیں -
اوّل - عیب سے پاک
دوم - زوائد سے پاک
سوم- دھلا دھلایا
چہارم - ظاہری نفس سے پاک
پنجم - شرک س پاک
پسیَتْلُوْ اصُحُفًا مُّطَھَّرَۃً کے یہ معنے ہوئے کہ وہ ایسے صحیفے پڑھ کر سُناتا ہے کہ عیبوں سے پاک کیے ہوئے ہیں ان معنوں کی رُو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ (۱) پہلی کتابوںمیں بعض باتیں غلط اور اللہ تعالیٰ کے الہام کے خلاف مل گئیںتھیں اور وہ کتب اُس صورت میں باقی نہیں رہی تھیں جس صورت میں کہ وہ نبی پر اترائی گئیں تھیں اب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ اُن تعلیمات کو جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہ ہوئی تھیں بلکہ بعد میں لوگوں نے ان کتابوں میں ملا دی تھی دُور کر دیا اور اتنا حصہ تعلیم کا قران کریم میں نازل فرما دیا جو واقعہ میں خداتعالیٰ کی سے نازل ہوا تھا-گویا عیب سے پاک کیا ہوا کہ معنے ہیں کہ جو نقائص پہلی کتب میں پیدا ہو گئے تھے انہیں اس کتاب میں دُور کر دیا گیا ہے یا جو باتیں مل گئیں تھی ان کی اصلاح کی گئی ہے -
ایک معنے اس لحاظ سے بھی بنیں گے کہ گو بعض حصے پہلی کتابوں کے واقعہ میں الہامی ہیں لیکن موجودہ زمانہ کے لحاظ سے وہ قابل عمل نہیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو بھی چھوڑ دیا کیونکہ گو منبع کے لحاظ سے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں - مگر مُّطَھَّرَۃًکے زوائد سے پاک کے تھے اِن لحاظ سے اب خدا تعالیٰ نے انہیں منسوخ قرار دے دیا ہے- پس کامل کتاب میں اب اُن کا کوئی مقام نہیں ہے-
دوسرے معنے مُّطَھَّرَۃًکے زوائد سے پاک کے تھے ان کے لحاظ سے آیت کا یہ مفہوم تھا کہ ایسی باتیںجنہیں گو خراب تو نہیں کہا جا سکتا مگر وہ زوائد میں سے ہیں اُنہیں بھی قرآن کریم نے ترک کر دیا ہے پہلی چیز کی مثال ایسی ہے جیسے پہلے زمانہ میں شراب حرام نہ تھی اسلام نے شراب کو حرام قرار دے دیا- یا پہلے زمانہ میں سود کلیتًہ حرام نہ تھا لیکن قرآن کریم نے سُود کو کلیۃً حرام قرار دے دیا گیا- اور زوائد ؔکی مثال ایسی ہے جیسے پہلے زمانہ میں عبادت کے لیے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ خاص طور پر پاک کیے گئے مقام پر ہی عبادت ہو سکتی ہے
۲۷۱ صُحف کے مطہرہ ہونے کا مطلب
اور اس قسم کی شرطیں بھی تھیں کہ ایسے پردے ہوں - ایسا مکان ہو - یہ باتیں اپنی ذات میں بری تو نہیں لیکن عبادت کے لحاظ سے زوائد ہیں - ان سب قیّود کو اسلام نے اُڑا دیا- بے شک اسلام نے بھی ایک سیدھی سادی مسجد عبادت کے لیے مقرر فرمائی ہے- لیکن اُس کو عبادت کے لیے ضروری قرار نہیں دیا ہے- اگر مسجد نہ ہو تو تب بھی مسلمان کی عبادت ہو جاتی ہے- مگر یہود و نصاری کی عبادت کے لیے ایک خاص مقام اور ایک خاص قسم کی تیاری کی قید تھی جو اسلام میں نہیں کیونکہ قرآنی تعلیم مختون ہے یعنی اس میں سے زوائد کاٹ دیئے گئے ہیں صرف ضروری امور کو لے لیا گیا ہے-
تیسرے معنے مطہر کے دھلے ہوئے کے ہیں - دھلی ہوئی چیز اصل چیز سے علیحدہ نہیں ہوتی صرف اصل چیز پر جو خارجی اثرات ہوتے ہیں ان میں تبدیلی پیدا کر دی جاتی ہے- ان معنوں کے لحاظ سے مُطَھَّرَ ۃً کا مفہوم یہ ہو گا کہ وہ فقہی پیچیدگیاں جو یہودیوں یا عیسائیوں نے پیدا کر دی تھیں ان سے قرآن کریم نے نجات دلائی ہے- یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب بھی کسی مذہب پر لمبا زمانہ گزر جاتا ہے اُس کے ساتھ فقہی پیچیدگیاں شامل ہو جاتی ہیں- فقہ کی اصل غرض تو یہ ہوتی ہے کہ جو مسائل اہل کتاب میں نص نے طور پر نہیں آئے ان کا استخراج کیا جائے- لیکن آہستہ آہستہ جب فقہ میں ضعف آتا ہے خود اصل مسائل میں تصرّف شروع ہو جاتا ہے- اسی قسم کی نقائص کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو اباحت کی طرف لے جاتے ہیں اورکچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو ظاہر کی طرف انتہا درجہ کی شدت کے ساتھ بلاتے ہیں یہی حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کا تھا اگر یہودیوں کے سزاکی تعلیم پر بے انتہا زور دیا تھا- تو عیسائیت نے نرمی کی تعلیم پر بے انتہا زور دے دیا- اب یہ دونوں مسائل ہی ضروری تھی لیکن یہودی فقہ اور عیسائی فقہ نے ان دونوں کو الگ الگ احکام کی شکل میں بدل دیا- جب اسلام آیا تو اس نے اس پیچیدگی کو بالکل دور کر دیا اور غلط فقہ کا تعلیم پر جو اثر تھا اس کو دھودیا مثلاً اسلام نے بھی کہا ہے کہ دانت کے بدلے دانت آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان - مگر اسلام نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہی عفو بڑی اچھی چیز ہے تمہیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے اسی طرح اسلام نے بھی یہی کہا کہ نرمی اور عفو بڑی اچھی چیز ہے مگر ساتھ ہی کہا کہ فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اﷲِ(الشوریَ ع۴،۵) اُسی وقت عفو جائز ہے جب عفوکے نتیجہ میں مجرم کی اصلاح کی امید ہو اگر یہ خیال ہو عفو کہ مجرم کو اور بھی بگاڑ دے گا اور اُسے بُرے اعمال پر اور زیادہ جرت دلا دے گا تو اس وقت عفو سے کام لینا تمہارے لیے جائز نہیں غرض یہودی تعلیم میں زور کہ ضرور دانت کے بدلہ میں دانت توڑو - آنکھ کے بدلہ میںآنکھ پھوڑواور کان کے بدلہ میں کان کاٹو فقہ کا ہی نتیجہ تھا اور نہ موسیٰؑ کی تعلیم میں یہ بات نہ تھی اسی طرح عیسائیت کی تعلیم میں یہ بات کہ تم ضرور معاف کرو اور اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اسکی طرف پھیر دو فقہ کی وجہ سے ہی تھی- مگر حضرت مسیحؑ تو صاف کہتے ہیں کہ میں تورات کو بدلنے کے لیے نہیں آیا- جب وہ تورات کو بدلنے کے لیے نہیں آئے تو اُس کے قانون سزا کو وہ کلیتہً کس طرح مٹا سکتے تھے-
غرض وہ فقہی پیچیدگیاں جو یہودیوں اور عیسائیوں نے پیدا کر دی تھیں اور غلط فقہ کی وجہ سے جو نقائص رونما ہو گئے تھے قرآن کریم نے ان سب کو دُور کر دیا ہے اور یہی قرآن کریم کا مطہرّ یعنی دُھلا دُھلایا ہونا ہے- کہ اُس نے ایسی تعلیم دی جو ہر قسم کی پیچیدگیوں سے پاک ہے-
چوتھے معنے مُطَھَّرَ ۃٌ کے ہیں ظاہری نقصوں سے پاک - ظاہری نقاص میں سے سب سے بڑا قص زبان کا ہوتا ہے کیونکہ کتاب کا ظاہر اُس کی زبان ہی ہوتی ہے اس لحاظ سے مُطَھَّرَۃٌکے معنے یہ بنیں گے زبان کے نقصوں سے پاک ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا انکار دشمنانِ اسلام نے بھی نہیں کیا ناذو نادر کے طور پر کوئی غیبی دشمن یا ایسا دشمن جو انصاف کوبالکل نظر انداز کر چکا ہو قرآن کریم کی زبان میں اعتراض کر دے تو اور بات ہے ورنہ بالعموم اُن عیسائیوں اور یہودیوں نے بھی جو عرب کے رہنے والے تھے قرآن کریم کی زبان کی تعریف کی ہے اور یورپین مصنف جو غیر متعصّب ہیں انہوں نے بھی اس کی زبان کی داد دینے سے گریز نہیں کیا مُطَھَّرَ ۃٌ میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم زبان کے نقصوں سے پاک ہے نہایت لطیف اور فصیح زبان میں نازل ہوا ہے اور پڑھنے والے کو حسنِ زبان سے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے -
ظاہری نقصوں سے پاک کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ زبان میٹھی اور دلکش ہو یعنی ظاہری نقص سے پاک ہونا ایک تو یہ ہے کہ زبان میں کوئی نقص نہ ہو تقیل الفاظ نہ ہوں- غیر طبعی محاورات نہ ہوں- دوسرے یہ بھی ظاہری نقص سے پاک ہونے کی علامت ہے کہ زبان شیریں اور دل کش ہو- کہ خوبی بھی قرآن کریم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اُس کی عبارت ایسی لطیف ہے کہ پڑھنے والا یہ نہیں سمجھتا کہ میں نثر پڑھ رہا ہوں یا نظم پڑھ رہا ہوں- ایک عیسائی مصنف نے قرآن کریم کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہیں ایک بڑی لطیف بات لکھی ہے وہ کہتا ہے قرآن کریم کا ترجمہ جب ہماری زبان میں کیا جاتا ہے- تو عام طور پر لوگ اس کے متعلق کہ دیا کرتے ہیں کہ یہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا وہ کہتا ہے قرآن کریم کا ترجمہ سمجھ میں آ کس طرح سکتا ہے اُس کا سٹائل ایسا ہے کہ نہ اُسے نثر کہا جا سکتا ہے نہ نظم- جب تک اس کے سٹائل کو مدِّ نظر نہ رکھا جائے اُس کے معنے کو پوری طرح سمجھا نہیں جا سکتا- پھر ایک ظاہری نقص فحش کلامی کا ہوتا ہے مگر قرآن کریم اِس نقص سے بھی کلیۃً پاک ہے - اُسے مضامین وہ ادا کرنے پڑتے ہیں کہ بعض دفعہ بغیر الفاظ کے ننگا ہونے کے اُن کو ادا نہیں کیا جا سکتا مگر قرآن کریم ان تمام مقامات پر سے ایسی عمدگی سے گذر جا سکتا مگر قرآن کریم ان تمام مقامات پر سے ایسی عمدگی سے گذر جاتا ہے کہ مطلب بھی ادا ہو جاتا ہے اور طبعِ نازک پر گراں بھی نہیں گذرتا- اس کے مقابلہ میں ویدوں اور بائیبل وغیرہ میں بعض دفعہ ایسی باتیں آ جاتی ہیں کہ اُن کا پڑھنا بالکل نا ممکن ہو جاتا ہے ویدوں میں ایک منتر آتا ہے کہ فلاں بزرگ پیدا ہونے لگا تو چونکہ گندی جگہ سے گزرنے سے اُس نے انکار کر دیا پیٹ پھاڑ کر اُسے نکالا گیا- اِس قسم کے الفاظ انسان کی طبیعت پر سخت گراں گذرتے ہیں مگر اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ویدوں میں ایسے منتر موجود یہں جن میں فحش کلامی پائی جاتی ہے- اِسی طرح بائیبل کے متعلق خود عیسائیوں نے اعتراف کیا ہے کہ اُس کے بعض حصّے ایسے گندے یہں کہ اُن کا پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو تو وہ حصے پڑھا ہی نہیں سکتے مگر قرآن کریم میں کوئی بات ایسی نہیں جس سے حّسِ لطیف کو کوئی صدمہ پہنچتا ہو-
پھر ایک ظاہر ی نقص کلام میں دل آزاری کا پایا جاتا ہوتا ہے- پڑھنے والا جب کسی ایسی کتاب کو پڑھتا ہے جس میں دوسروں کی دل آزاری سے کام لیا گیا ہو تو وہ بُرا مناتا اور اُس کا قلب سخت اذّیت محسوس کرتا ہے مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے جس میں کسی قوم کی دل آزاری نہیں کی گئی اور اگر کسی جگہ مجبوراً قرآن کریم کوبعض سخت الفاظ استعمال بھی کرنے پڑے ہیں تو وہاں اُس نے کسی کا نام نہیں لیا صرف اصولاً ذکر کر دیا ہے کہ بعض انسان ایسے ہوتے ہیں - یہ نہیں کہا کہ مکّہ والے ایسے ہیں یا یہودی ایسے ہیں یا عیسائی ایسے ہیں- اس کے مقابل پر جب دوسری الہامی کتب کو دیکھا جاتا ہے تو اُن میں یہ نقص نمایاں طور پر نظر آتا ہے- حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق ہی انجیل میں آتا ہے کہ اُنہوں نے فریسیوں اور فقہیوں سے جب انہوں نے نشان کا مطالبہ کیا تو کہا کہ اس زمانہ کے بد اور حرامکار لوگ مجھ سے نشان مانگتے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ یونس نبی کے نشان کے سوا اَور کوئی نشان نہیں دکھایا جائے گا- اِن الفاظ کو آج بھی یہودی پڑھتے ہوں گے تو سمجھتے ہوں گے کہ بد کار اور حرامکار وغیرہ الفاظ ہمارے باپ دادوں کے متعلق ہی استعمال کئے گئے ہیں یا مثلاًحضرت مسیح ؑ نے اپنے دشمنوں کو سانپ اور سانپوں کے بچے قرار دیا ہے اور انجیل میں یہ الفاظ آج تک موجود ہیں- یہودی جب بھی یہ الفاظ پڑھتے ہوں گے اُن کے دل دُکھتے ہوں گے یہ سخت الفاط ہمارے آباء کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں- وہاں کسی کا نام نہیں لیا بلکہ اشارۃً ذکر کر دیا ہے کہ بعض لوگوں میں یا بعض قوموں میں یہ یہ نقائص پائے جاتے ہیں یا فلاں فلاں اخلاقی خرابیاں اُن میں موجود ہیں- دشمن اِن الفاظ کو پڑھتا ہے تو اُس کے دل پر چوٹ نہیں لگتی وہ فوراً کہہ دیتا ہے کہ میں تو ایسا نہیں یہ اَور لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے پس قرآن کریم کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ اُس میں دل آزاری کی کوئی بات نہیں-
مُطَھَّرَۃًکے لفظ سے باطنی خوبی کی طرف بھی اشارہ ہے ایک کتاب کی بڑی باطنی خوبی یہی ہو سکتی ہے کہ جب مطالب کا بیان کرنا ضروری ہو اُس میں اُن کو پوری طرح بیان کر دیا جائے کسی قسم کا نقص اُن کے بیان کرنے میں نہ رہ جائے- یہ خوبی بھی قرآن کریم میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے- اُس نے جس مضمون کو بھی لیا ہے - ایسی عمدگی سے ادا کیا ہے کہ اُس میں کسی قسم کا نقص ثابت نہیں کیا جا سکتا-
غرض قرآن کریم مطالب مقصودہ کے بیان کرنے سے قاصر نہیں- جو مطلب اُس نے لیا ہے اُس پر سیر کن بحث ایسی زبان میں کر دی ہے کہ ہر پڑھنے والا اسے سمجھتا ہے اور ہر مضمون کو ایسا کھول دیا ہے کہ حد ہی کر دی ہے- یہ خوبیاں بظاہر معمولی ہیں لیکن قوموں کی اصلاح اور اُن کی بیداری کے لئے اتنی اہم ہیں کہ ان کے بغیر مقصد میں کامیابی ہو ہی نہیں سکتی- یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے سب سے زیادہ دنیا کی اصلاح کی ہے-
باطنی گند سے پاکیزگی کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اُس کی تعلیم پاک ہو- کوئی خلافِ فطرت بات اس میں شامل نہ ہو-یہ امر بھی قرآن کریم میں انتہا درجہ تک پایا جاتا ہے اور ہر شخص جو قرانی تعلیم پر ادنیٰ سا بھی تد بّر کرے اُسے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کتاب میں کوئی بات ایسی نہیں جو خلافِ فطرت ہو- دوسری کتابوں کو پڑھو تو اُن میں کئی ایسی باتیں آ جاتی ہیں جو خلافِ فطرت ہوتی ہیں-
پھر قرآن کریم کی ایک یہ خوبی ہے کہ اُس میں ہر فطرت کے مطابق تعلیم پائی جاتی ہے- کسی قسم کا انسان ہو جب بھی قرانی تعلیم اُس کے سامنے پیش کی جائے وہ اُس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا- انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کے مادّے رکھے ہیں کہیں غصّے کا مادّہ اُس میں پایا جاتا ہے، کہیں رحم کا مادّہ اُس میں پایا جاتا ہے، یہ دونوں مادے اپنی اپنی جگہ پر نہایت اہم اور ضروری ہیں پس کامل کتاب وہی ہو سکتی ہے جو ہر قسم کی فطرت کو ملحوظ رکھ کر تعلیم دے- اگر وہ ہر فطرت کو ملحوظ نہیں رکھتی تو یہ لازمی بات ہے کہ سب انسانوں کی پیاس اُس کتاب سے نہیں بجھے گی اور جس فطرت کے خلاف اُس کتاب میں کوئی تعلیم پائی جائے گی وہ فطرت اُس سے بغاوت کرے گی- مثلاً وہ شخص جس کی طبیعت میں غصّے کا مادہ زیادہ ہے جب وُہ انجیل میں پڑھتا ہے کہ اگر کوئی شخص تیرے گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے تو ناک بھوں چڑھا کر کہتا ہے کہ یہ بھی کوئی کتاب ہے یہ تو زنخوں کی کتاب ہے اِس پر کون عمل کر سکتا ہے- اس کے مقابل میں جب ایک رحم دل انسان بائیبل کی یہ تعلیم پڑھتا ہے کہ دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان تو وہ گھبرا کر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے یہ خدا کی کتاب نہیں ہو سکتی جس میں اس قدر سخت دلی کی تعلیم دی گئی ہے- مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے جس میں ہر فطرت کے تقاضا کو ملحوظ رکھا گیا ہے- سخاوت کا مضمون آتا ہے تو ایک سخی کا دل اُس سے تسلی پا کر اٹھتا ہے- اگر اقتصادیات سے دلچسپی رکھنے والا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اپنے مال کو اس طرح نہیں لٹنا چاہیے کہ قوم کمزور ہو جائے تو وہ جب قرآن کریم میں پڑھتا ہے کہ مال بھی خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے- اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے تو اقتصادی آدمی بھی تسلی پا کر اٹھتا ہے اور وہ کہتا ہے ضرور ایسا ہی ہونا چاہیے- یہی سمت ہے جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ کتابِ مکنون میں ہی یعنی گو اس کی ایک نقل آسمانی کاتبوں نے انسانی دماغوں پر بھی لکھ دی ہے- فطرت انسانی جن چیزوں کا تقاضا کرتی ہے وہ سب قرآن میں ہیں اور قرآن جن چیزوں کا حکم دیتا ہے وہ سب انسانی فطرت میں موجود ہیں گویا اِس کی ایک کاپی انسانی دماغ پر لکھی ہوئی ہے اور ایک کاپی قرآن کریم کے اوراق پر لکھی ہوئی ہے- اِسی لئے جب کوئی شخص سمجھ کر اور عقل سے کام لے کر قرآن کریم پڑھتا ہے تو اُسے یوںمعلوم ہوتا ہے کہ کہیں باہر سے حکم نہیں مل رہے بلکہ اُس کے دل کی آواز کو خوبصورت لفظوں میں پیش کیا جا رہا ہے گویا قرآن کریم کوئی نئی شریعت بیان نہیں کرتا بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اگر گرامو فون کی سوئی انسان کے دماغ پر رکھ دی گئی ہے اور وہ انسان فطرت کی تحریروں کو لفظوں کی زبان میں بدل کر رکھتی جاتی ہے- کوئی حکم گراں نہیں گذرتا، کوئی تعلیم نا مناسب معلوم نہیں ہوتی- کوئی لفظ طبیعت میں خلجان پیدا نہیں کرتا بلکہ ہرلفظ اور ہرحرف ایک حکیم ہستی کی طرف سے نازل شدہ معلوم ہوتا ہے-
پھر مُطَھَّہرَۃً کے دونوں معنوں کے لحاظ سے یعنی صفائی کے لحاظ سے اورشرک سے پاک ہونے کے لحاظ سے ایک اَور بھی لطیف مناسبت اِس آیت میں پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس سورۃ میں دو قوموں کا ذکر ہے- اہل ایک کتاب کا اور دوسرے مشرکین کا- اہل کاتاب کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں اہل کتاب کی کتابوں کے نقائص دُور کئے گئے ہیں اور مشرکوں کے لحاظ سے اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس کتاب میں شرک کے بیخکنی کر دی گئی ہے گویا ظاہری صفائی کے معنے اہل کتاب کے لحاظ سے ہیں اور باطنی صفائی کے معنے مشرکوں کے لحاظ سے ہیں- پس دوسرے معنے اس کے اہل کتاب اور مشرکین کی نسبت سے ہیں اور وہ یہ کہ جس طرح اہل کتاب اور
فِیْہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ O
جن میںقائم رہنے والے احکام ہوں ؎۴
مشرکوں کی اصطلاح کے لئے یہ کتاب آئی ہے- اسی طرح اہل کتاب کے لئے اِس میں اُن کتب کو پاک و صاف کر کے بیان کیا گیا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم جس طرح شرک سے پاک ہے اُس کی مثال دنیا کی اور کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی اور یہی اصلاح کا صحیح طریق ہے- حقیقی اصلاح کبھی بھی دو ٹوک اعلان بغیر نہیں ہوا کرتی- یہ ایک عام فلسفانہ مسئلہ ہے کہ جب کبھی نقص بڑھ جاتا ہے اس کے لیے ریڈیکل چینجز RADICAL CHANGESیعنی غیر معمولی انقلاب کی ضرورت پیش آتی ہے- شرک کے خلاف غیر مصالحانہ رنگ جیسا قرآن کریم نے اختیار کی اہے اور کسی کتاب نے اختیار نہیں کیا- وہ کوئی لپٹی نہیں رکھتا اسی وجہ سے دوسری سب اقوام شرک کے ازالہ میں ناکام رہی ہیں صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جہ اس کے ماننے والے ہی شرک سے نہیں بجے بلکہ اُس کی تعلیم کی وجہ سے اُس کے ہمسایہ قومیں بھی شرک سے نفرت کا اظہار کرنے لگی ہیںعیسائیت کیسا مشر کا نہ مذہب ہے لیکن اسلامی تعلیم کے زیر اثر کے نیچے مشرک سے مشرک عیسائی بھی کہتا ہے کہ ہمارے مذہب میں کوئی شرک نہیں پایا جاتا- وہ اپنے مذہب کو تو نہیں چھوڑتا مگر کم سے کم شرک کا لفظ اب اُسے بھیانک نظر آنے لگ گی اہے اور وہ اتنا کہنے پر ضرور مجبور ہو گیا ہے کہ ہم مشرک نہیں ہیں- اسلام ہندوستان میں آیا تو اُس نے بتیس کروڑ دیوتا ماننے والے لوگون میں برہموئوں اور آریہ سماج کی شکل میں تبدیل کر کے ایک خدا کا اعلان کرنے پر مجبور کر دیا پس حق یہی ہے کہ صُحفِ مُطہّرہ وہی اہل کتاب اور مشرکوں کی اصلاح کر سکتے تھے اور یہ اُنہی کا کام تھا کہ ایک طرف سابق نبیوں کی اُمّتوں کو اُن کے پاک شدہ تعلیم دے کر پاک کر یں اور دوسری طرف غیر مصالحانہ انداز میں توحید کی تعلیم پیش کر کے شرک کو دُور کریں- پس قرآن کریم کا یہ دعویٰ بالکل سچ ہے - لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ مَنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّنَ حَتّٰی تَاْ تِیَھُمْ الْبَیِّنَۃُ oرَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْ اصُحُفًا مُّطَھَّرَۃً- ممکن ہی نہیں تھا کہ اہل کتاب اور مشرکین اپنے کفر سے باز آتے یہاں تک کہ انکے پاس ایک روشن دلیل آ جاتی کیسی روشن دلیل؟ اللہ کی طرف سے آنے والا ایک رسول جو ایک طرف تو اپنے عمل سے خدا تعالیٰ پر ایمان پیدا کرتا اور دوسری طرف ایسے صحیفے پڑھتا جو یہودیوں اور عیسائیوں اور دوسرے اہل کتاب کے سامنے اُن کی مسخ شدہ تعلیموں کو پاک کر کے رکھ دیتے اور تیسری طرف مشرکوں کے مشرکانہ عقیدوں کو سخت حملوں کے ساتھ کچل ڈالتا-
۴؎ حل لغات- قَیِّمَۃ - قَیِّمٌ کے معنے متولّی کے قِیِّمَۃ ہوتے ہیں چنانچہ لغت میں لکھا ہے کہ اَلْقَیِّمُ عَلَی الْاَمْرِ مُتَوَلِّیْہِ یعنی جب یہ کہا جائے کہ فلاں کام پر فلاں شخص قیم ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ اُس کا متولی ہے- وَھِیَ قَیْمَۃٌ اور اگر کوئی عورت متولّیہ ہو تو اُسے قَیِّمَۃٌ کہا جائے گا-
وَالْقَیِّمَۃُ: اَلدِّ یَا نَۃُ الْمُسْتَقِیْمَۃُ - اور قَیمہ کے ایک معنے ایسے مذہب کے بھی ہوتے ہیں جس میں کوئی کجی بہ پائی جاتی ہو- ( اقرب)
مفردات میں لکھا ہے دِیْناً قَیِّمًا اَیْ ثَابِتًا مُقَوِّمًا لاُِ مُوْ رِ مَعَا ثِھِمْ وَ مَعَادِ ھِمْ یعنی قیّم کے معنے
۲ قَیِّمَۃ کے معنے امام راغب کے نزدیک
ہیں ثابت رہنے والا دین- غیر مترلزل دین جو لوگوں کی معاش اور اُن کی معاد کو ٹھیک کردینے والا ہو- پھر کہتے ہیں یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌ فَقَدْ اَشَارَ بِقَوْلِہٖ صُحُفاً مُّطَھَّرَۃً اِلَی الْقُرْاٰنِ وَبِقَوِ
لِہٖ صَحُفاً مُّطَھَّرَۃً اِلیَ الْْقُرٰانِ
وَبِقَوْلِہٖ کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ اِ لیٰ مَا فِیْہِ مِنْ مَعَا نِیْ کُتُبِ اﷲتَعَالیٰ فَاِنَّ الْقُرْاٰنِ مَجْمَعُ ثَمَرَۃِ کُتُبِ اﷲِ تَعَالیٰ فَاِ نَّ الْقُرْ اٰنَ مَجْمَعُ ثَمَرَۃِ کُتُبِ اﷲِ تَعَالیٰ الْمُتَقَدَّ مَۃِ یعنی یہ جو قرآن کریم میںآتا ہے کہ فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ اِن الفاظ سے اللہ تعالیٰ اِس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ
وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوالْکِتٰبَ اِلَّا مَنْ بَعْدِ مَا جَٓا ئَ تْھُمُ الْبَیِّنَۃٌ oط
اور( عجیب بات یہ ہے ) جن لوگوں کو ( قرآن مجید جیسی مکمل ) کتاب دی گئی ہے- ۱؎ وہ اس واضح دلیل ( یعنی رسول) کے آنے کے بعد ہی ( مختلف گروہوں میں ) تقسیم ہوئے ہیں ۵؎
سابق الہامی کتب کے جس قدر مطالب ہیں وہ اس میں آ گئے ہیں کیونکہ قرآن کریم گذشتہ تمام الہٰی کتب کا مجموعہ ہے گویا فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ کے معنے یہ ہیں کہ وہ سب تعلیمیں جو گذشتہ انبیاء کے زمانہ میں نازل ہوئی تھیں اُن میں سے ایسی تعلیمیں جو قائم رہنے کے مستحق تھیں اور نبی نوع انسان کی معاش اور اُن کے معاد کو درست کرنے والی تھیں اور ساری کی ساری تعلیمیں قرآن کریم میں آ گئی ہیں-
تفسیر - قَیّمَۃٌکے معنے متولّی اور مستقیم کے بیان کئے جا چکے ہیں اُن معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے-
۲۱۱ قرآن مجید میں کُتَبٌ قِیِّمَۃ ہونے سے مراد
اوّلؔ اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ قرآن کریم میں ایسے احکام ہیں جو انسان کے متولی ہیں- متولی اُس کو کہا کرتے ہیں جو دوسرے کا اصلاح کرتا ہے، اُس کی نگرانی کا فرض ادا کرتا ہے، اُس کی حفاظت کرتا ہے اور اُس کی قوتون کو صحیح کاموں میں صرف کرتا ہے- پس فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌ کے یہ معنے ہوں گے کہ قرآن کریم میں ایسے احکام پائے جاتے ہیں جن سے بنی نوع انسان کو ہر قسم کی ذلّت اور خرابی اور نقص سے بچایا جاتا ہے- اُنکی صحیح تربیت کی جاتی ہے اور اُنہیں اپنے قویٰ کو بہتر سے بہتر طور پر استعمال کرنے کا طریق بتایا جاتا ہے گویا فطرتِ انسانی کو ہر قسم کے نقص سے بچانے اور اپنی طاقتوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ طور پر ظاہر کرنے کا کام وہ سکھاتا ہے-
(۲)اِسی طرح فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌ کے یہ معنے ہونگے کہ وہ ایسا مذہب پیش کرتا ہے جو ہر قسم کی کجروں اور خرابیوں سے پاک اور سیدھے راستے پر لے جانے والا ہے-
(۳) اور فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌْْکے یہ بھی معنے ہوں گے کہ وہ انسان کی تمام ضرورتوں کو خواہ اِس دنیا سے تعلق رکھنے والی ہوں خواہ مرنے کے بعد کی زندگی سے تعلق رکھنے والی ہوں پوارا کرتا ہے اور اس میں ایسی تعلیم پائی جاتی ہے جو بدلنے والی نہیں قائم رہنے والی اور ثابت رہنے والی تعلیم ہے- گویا صحفِ مطہرہ میں تو زیادہ زور پچھلی تعلیموں کی خرابیوں کو دور کرنے اور شرک سے بچانے پر تھا اور فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌمیں اس بات پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور اس میں ایسی تعلیم ہے جو آئندہ دائمی طور پر انسان کے لئے ضروری ہو گی اور غیر متزلزل اور اور غیر متبدل ہو گی-
مفردات راغب کے معنوں کے لحاظ سے فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌکے ایک یہ بھی معنے ہوں گے کہ اس میں وہ تمام تعلیمات آ گئی ہیں جو مستقل اور ہر زمانہ کے لئے تھیں اور پہلی کتب میں بیان ہو چکی ہیں- گویا گذشتہ تعلیموں میں سے جس قدر اچھی تعلیمیں تھیں وہ سب کی سب اس میں آ گئی ہیں-
۵؎ تفیسر- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی تھی متفرق نہیں ہوئے مگر اُس وقت جب اُن کے پاس بینہ آئی جب وہ رسول آ گیا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے تب انہوں نے تفرقہ کیا یہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے مخاطب اہل کتاب کی یعنی قرآن کریم کے نازل ہونے کے وقت جو اہل کتاب دنیا میں موجود تھے اُن کی ایک عجیب حقیقت بیان کی ہے فرماتا ہے قرآن کریم آتا تو اس لئے تھا کہ اُن کو غلط رستوں اور غلط تعلیموں سے بچا کر ایک نقطہ پر لا کر جمع کر دے مگر ان لوگون نے بجائے اس کے کہ قرآن کریم کی تعلیم سے فائدہ اٹھاتے ، اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرتے ، اپنی کتابوں میںشامل ہو جانے والی غلط تعلیموں سے
نوٹ:۱؎ تفسیر میں اِس آیت کی جو تشریح کی گئی ہے- اس کے علاوہ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اس سورۃ کی پہلی آیت میں جو یہ دعویٰ کیا گیا تھا اہل کتاب اور مشرک کبھی اپنے کفر کو چھوڑ کر توحید پر قائم نہ ہو سکتے تھے جب تک اُن کے پاس آنحضرت صلعم مبعوث ہو کر نہ آجاتے- اس دعویٰ کی دلیل میں اس آیت کو پیش کیا گیا ہے- یعنی بتایا گیا ہے کہ دیکھو آنحضرت صلعم کی بعثت کے بعد مشرکین اور اہل کتاب میں سے دو فریق ہو گئے - ایک گروہ تو اپنے کفر اور شرک کو چھوڑ کر توحید پر قائم ہو گا اور ایک مخالف راہ اختیار کر کے پہلی حالت پر قائم رہا- گویا قرآن مجید جس مقصد کے لئے آیا تھا کہ ایک حصہ اہل کتاب اور مشرکین کا اس کے ذریعہ کفر سے نکل آئے وہ واقع ہو گیا-
متنبہ ہو جاتے اُلٹا قرآن کریم کی مخالفت شروع کر دی اور صداقت سے اَور بھی زیادہ بدکنے لگ گئے یعنی جب تک یہ تعلیم نہیں آئی اُس وقت تک اگر یہ غلطی میں مبتلا رہے تو خیر معذور بھی سمجھے جا سکتے تھے جب اُنہیں سچائی مل گئی تھی تب تو انہیں صحیح راستے پر چل پڑنا چاہیے تھا مگر تعلیم آنے کے بعد یہ اور زیادہ سچائی کے مخالف ہو گئے- قرآن کریم سے پہلے تویہ لوگ کہہ دیا کرتے تھے کہ الہام بھی ہو سکتا ہے- انسان اللہ تعالیٰ کا مقرب بھی ہو سکتا ہے - نبی اور رسول بھی بن سکتا ہے مگر جب قرآن آتا تو اس بات پر زور دینے لگ گئے کہ موسیٰؑ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا حالانکہ پہلے یہودی خود زور دیا کرتے تھے کہ موسیٰؑ کی پیشگوئی کے مطابق ایک ایسا وجود آنے والا ہے جو آتشی شریعت اپنے ساتھ رکھتا ہو گا- یہی حال عیسائیوں کا تھا عیسائی بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پہلی اور دوسری بعثت کے درمیانی عرصہ میں فارقیط آئے گا- مگر جب وہ موعود آ گیا جس کی موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کی پیشگوئیوں میں خبر دی گئی تھی تو انہوں نے کہہ دیا کہ کوئی فارقیط نہیں آئے گا بجائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اِس انعام پر کہ اُس نے گذشتہ انبیاء کی پیشگوئیوں کو پورا کرتے ہوئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا صداقت اور ہدایت کے قریب آتے، جو صداقتیں پہلے مانتے تھے اُن کو بھی انہوں کے چھوڑ دیا-
ایسا ہی نقشہ موجودہ زمانہ میں نظر آ رہا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بعثت کے قریب زمانہ میں مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی جو مدرسہ دیو بند کے بانی تھے اپنی کتاب میں نہایت وضاحت سے لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد غیر تشریعی نبی آ سکتا ہے مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام یہی بات پیش کرتے ہیں تو مولوی محمد قاسم صاحب کے شاگرد دیوبندی علماء کہتے کوئی نبی نہیں آ سکتا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد دروزہ نبوت کلیۃً مسدود ہو چکا ہے اب نہ شرعی نبی آ سکتا ہے نہ غیر شرعی نبی آ سکتا ہے- غرض اُنہی کے شاگرد اور اُنہی کے مدرسہ میں پڑھتے ہوئے اُن باتوں کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمائیں اور جب کی تصدیق خود اُن کی اپنی کتب سے ہوتی ہے-
اسی طرح حضرت مسیح علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعویٰ سے پہلے بڑے بڑے مولوی منبروں پر کھڑے ہو کر ایسے اشعار پڑھا کرتے تھے جن میں یہ ذکر ہوتا تھا کہ عیسیٰؑ بھی مر چکا اور موسیٰؑ بھی- مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وفاتِ مسیحؑ کا مسئلہ پیش کیا تو تمام علماء کو اپنی باتیں بھول گئیں اور وہ یہ شور مچانے لگ گئے کہ عیسیٰ زندہ ہے عیسٰی زندہ ہے-
اسی طرح یا تو ایک زمانہ میں سارے مسلمانوں کی غفلت اور اُن کی سُستی کا اصل
۲۱۱ بینّہ آنیکے بعد اہل کتاب کے متفرق ہونے کا مطلب
باعث یہ تھا کہ اُن کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور تمام کفار کے اموال لوٹ کر ہمارے سپرد کر دیں گے اور ہم بڑے آرام سے زندگی بسر ہمارے سپرد کر دیں گے اور ہم بڑے آرام سے زندگی بسر کریں گے اور اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ دعویٰ کیا کہ میں ہی مسیح موعود ہوں اور میں ہی وہ مامور ہوں جس کی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی تو مسلمانوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ کسی عیسیٰ نے نہیں آنا قرآن میں تواِس قسم کی کوئی خبر ہی نہیں اور اگر حدیثیں کہتی ہیں تو وہ غلط ہیں- غرض یا تو پہلے تمام قوم کی بنیادی اس امر پر تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور ہمارے گھروں کو زرد وجواہر سے بھر ویں گے اور یا آج یہ حالت ہے کہ وہ اُن تمام پیشگوئیوں سے منکر ہو گئے ہیں جو مسیح موعود کے متعلق پائی جاتی ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں کسی مسیح کی ضرورت نہیں- پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا تَفَرَّ قَا لَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتَابَ اِ لاَّ مِنْ بَعْدِ مَا جَآ ئَ تْھُمُ الْبَیِّنَۃُ- چاہیے تھا کہ قرآن کریم کے نازل ہونے پر وہ اُن تعلیموں پر غور کرتے جو محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم اُن کے سامنے پیش کر رہے ہیں- مگر ہوا یہ کہ جتنا حق وہ پہلے مانتے تھے اُس کو بھی انہوں نے چھوڑ دیا اور صداقت سے اَور بھی دُور چلے گئے-
وَمَٓا اُمِرُٓوْ اِ لاَّ لِیَعْبُدُو االلّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ۵حُنَفَآ ئَ وَیَقِیْمُو الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْ تُوا الذَّکٰوۃَ وَ ذَلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ oط
حالانکہ (جو لوگ ایمان نہیں لائے)انہیں ( اس رسول کے ذریعہ بس ) یہ ہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی اس طرح عبادت کریں کہ اطاعت صرف اُسی کے لئے رہ جائے ( اس حال میں کہ) وہ اپنے نیک میلانوں میںثابت قدم رہنے والے ہوں اور ( پھر صرف اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ) نماز با جماعت ادا کرتے رہیں اور زکوۃ دیں اور ( ہمیشہ صداقت پر ) قائم رہنے والی جماعت کا دین ہے- ۵؎
۶؎ حل لغات:
مُخْلِصِیْنَ : اَخَلَصَ سے اسم فاعل کا جمع کا صیغہ ہے اور اَخَلَصَ سے باب اِفْعَال ہے- خَلَصَ الشَّیْ ئُ خُلُوْ صََا وَ خَلَا صََا کے معنے ہیں صَا وَ خا لِصََا کوئی شے خالص ہو گئی- خالص کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جس میں کوئی غیر چیز ملی ہوئی نہ ہو اور جب خَلَصَ مِنَ التَّلَفِ کہا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں نَجَا بچ گیا وَسَلِمَ اور سلامت رہا- اور خَلَصَ الْمَآ ئُ مِنَ الْکَدَرِ کے معنے ہوتے ہیں صَفَاکے جو معنے ہیں وہ حقیقی نہیں یعنے جب خَلَصَ الْمَا ئُ مِنَ کَدْرِ کہتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ پانی میں کدر آتا ہی نہیں- اور خِلَصَ اِلَیْہِ وَ بِہِ الشَّیْ ئُ کے معنے ہوتے ہیں وَصَلَ وہ چیز اس تک پہنچ گئی - یعنی جب یہ کہیں کہ خَلَصَ فَلَا نٌّ اِلَیْہِ یا خَلَصَ فُلَا نٌّ بِہِ تو یہ دونوں کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ پہنچ گیا- انہی معنوں میں عربی زبان کا یہ فقرہ ہے کہ خَلَصْتُ بِمُسْتَوِیْ مِنَ الْاَ رْضِ میں سے میدان میں پہنچ گیا ( اقرب) اسی طرح اَخْلَصَ السَّمْنُ کے معنے ہوتے ہیں اَخَذَ خُلَا صَتَہٗ گھی کا خالص حصہ الگ کر لیا اور اَخْلَصَ فِیْ الطَّاعَۃِ کے معنے ہوتے ہیں تَرَکَ الّرِ یَائَ اُس نے دیاء چھوڑ دیا- اور اَخْلَصَ لَہُ النَّصِیْحَۃَ وَالحُبَّ کے معنے ہوتے ہیں خَلَـصَھُما عِنِ الْغِشِّ- اُس نے نصیحت اور محبت میںکسی قسم کا فریب یا کھوٹ نہیں رکھا- اور اَخْلَصَ الشَّیْ ئَ کے معنے ہوتے ہیں اِخْتَارَہٗ اس کو چُن لیا ( اقرب)
مفردات والے لکھتے ہیں اَلْخَا لِصُ کَا لصَّا فِیْ - خالص کے معنے بھی وہی ہوتے ہیں جو صافی کے ہوتے ہیں اِلاَّ اَنَّ الْخَالِصَ ھُوْ مَا زَالَ عَنْہُ شَوْبُہٗ بَعْدَ اَںْ کَانَ فِیْہِ ہاں خالص اور صافی میں یہ فرق ہے کہ خالص اُس کو کہتے ہیں جس میں ملاوٹ کو الگ کر لیا گیا ہو بَعْدَ اَنْ کَانَ فِیْہِ ایسی حالت میں جب کہ اُس کے اندر پہلے ملاوٹ موجود ہو- وَالصَّافِیْ قَدْ یُقَالُ لِمَا لَا شَوْبَ فِیْہُ اور صافی دونوں کے لئے بولا جاتا ہے اُس کے لئے بھی جس میں ملاوٹ کبھی ہوئی ہی نہیں پھر لکھتے ہیں کہ یہ قرآن مجید میں آتا ہے- وَنَحْنُ لَہٗ مُخلِصُوْنَ اس کا مطلب ہے اِخْلَاصُ الْمُسْلِمِیْنَ اَنَّھُمْ مِنَ التَّشْبِیْہِ وَ النَّصَارٰی مِنَ التَّثْلِیْثِ- ہم ہر شرک اور تشبیہ سے بچے ہوئے ہیں نہ شرک جلی کرتے ہیں اور نہ شرکِ خفی- اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن اس کے معنے بھی یہی ہیں نَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ کے ہیں- اور آیت اِنَّہٗ کَانَ مُخْلِصاً الخ میں اِخْلَاص کا مطلب ہے اَلتَّبَرِّیْ عَنْ مُخْلِصاً الخ میں اِخْلَا ص کے مطلب ہے اَلتَّبَرِّیْ عَنْ کُِلِّ مَا دُوْنِ اﷲِ تَعْالیٰ یعنی کامل توحید کے سوا ہر چیز
۱؎ ذٰلِکَ دِیْنَ القیمۃ کاجو حرف محذوف ہے یعنی الملۃ القیمہ یعنی قائم رہنے والی جماعت چونکہ مخدوف کو ظاہر کئے بغیر ترجمہ درست نہ ہوتا تھا اس نے مخدوف کو ظاہر کر دیا گیا-
جب انسان تبّری کر لے اور کہے کہ مَیں سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا تو وہ مخلص کہلاتا ہے-
اَلدِّیْنُ : وَانَ کا مصدر ہے اور دَانَ (یَدِیْنُ دِیْناً وَ دَ یَانَۃً ) الرُّجُلُ کے معنے ہیں عَزَّ- وہ عزت پا گیا- اور وَانَ الرُّجُلُ کے یہ بھی معنے ہیں کہ ذَلَّ وہ ذلیل ہو گیا ماتحت ہو گیا- اور دَانَ کے معنے اَطَاعَ کے بھی ہیں اور عَصَیٰ کے بھی ہیں گویا یہ حروفِ اضداد میں سے ہے یعنی اُلٹ معنے بھی اس میں پائے جاتے ہیں اس کے معنے اطاعت کے بھی ہیں اور اس کے معنے نا فرمانی کے بھی ہیں- اس طرف اس کے معنے عزت کے بھی ہیں اور ذلت کے بھی یا بڑے کے بھی ہیں اور چھوٹے کے بھی- اسی طرح اس کے معنے اطاعت کے بھی ہیں اور نا فرمانی کے بھی اور دَانَ کے یہ بھی معنے ہوتے ہیں کہ اِعْتَادَ وہ عادی ہو گیا- یہاں بھٰ اس کے معنے اپنے اندر اضداد کا رنگ رکھتے ہیں یعنی اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ اِعْتَادَ خَیْرًا وہ خیر کا عادی ہو گیا اور اس کے معنے ہیں کہ اِعْتَادَ شَرًّا وہ شر کا عادی ہو گا- اور دَانَ کے معنے بیمار ہوجانے کے بھی ہیں چنانچہ لُغت میں اس کے معنے یہ لکھے ہیں کہ اَصَا بَہُ الدَّائُ اُسے بیماری لگ گئی اور دَانَ فُلاَنُ فَلَانًا کیم معنے ہوتے ہیں خَدَمِہٗ اُس کی خدمت کی یعنی دوسرے کا خادم بن گیا اور دَانَ فُلانٌ کے معنے مَلِکُہٗ کے بھی ہیں یعنی اُس کا مالک ہو گیا اور دَانَ کے معنے حَمَلَہٗ عَلیٰ مَا یَکْرَ ہُ کے بھی ہوتے ہیں یعنی جس چیز کو وہ پسند نہیں کرتا اُس پر مجبور کیا اور دَانَ فُلانٌ کے معنے اِسْتَعْبُدَہٗ کے بھی ہوتے ہیں یعنی اس کو غلام بنا لیا اور یہ بھی معنے ہیں کہ حَکَمَ عَلَیْہِ اُس پر حکم چلایا- اور دَانَ فُلَانٌ کے معنے اَذَلَّہٗ کے بھی ہوتے ہیں یعنی اس کو اپنے ماتحت کر لیا چنانچہ حدیث میں آتاہے اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ - ہوشیار وہ ہے جس نے اپنے نفس کو تابع کرلیا اور موت کے بعد کے زمانہ کے لئے عمل کیا ( مفردات)
ان معنوں کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ دِیْنٌ جو مصدر ہے اس کے اُوپر کے مصدری معنوں کے علاوہ اور کیا معنے ہیں
۱ الدّین
لُغت میں دِیْنٌ کے کئی معنے لکھے جو نیچے لکھے ہیں درج کئے جاتے ہیں
(۱) اَلْجَزَائُ وَالْمُکَفَاۃُ- بدلہ (۲) الطَّاعَتُہ- اطاعت اور فرمانبرداری (۳) اَلْحِسَابُ - محاسبہ کرنا (۴) اَلْقُھْرْ وَالْغَلَبَۃُ وَ الاِسْتِعَلاَئُ - یہ تینوں الفاظ اعربی زبان میں غلبہ کا مفہوم ادا کرنیح کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور ان تینوں میں بہت تھوڑا تھوڑا فرق ہے- ( اَلسُّطَانُ وَ الْمُلْکَ وَ الْحُکَمْ- بادشاہت اور حکومت- اَ لسُِیْرۃُ طبیعت ( ۷) اَلتَّدَ بِیْرُ تدبیر کرنا- (۸) اِسْمٌ لِجَمِیْعِ مَا یُعْبَدُ بِہِ اﷲُ- دین نام ہے اُن تمام طریقوں کا جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے - مثلاً مسلمانوںمیںنمازپڑھنا- یا حج بیت اللہ کے لئے جانا اللہ تعالیٰ کی عبادت سمجھا جاتا ہے یہ طریق عبادت عربی زبان کے لحاظ سے دین کہلائے گا اسی طرح ہندوئوں کے طریق عبادت میں جو بھی شکل ہو وہ دین کہلائے گی عیسائیوں کے طریق عبادت میں جو بھی شکل ہو وہ دین کہلائے گی یہودیوں کے طریق عبادت میں جو بھی شکل ہو دہ دین کہلائے گی یہودیوں اور زرتشیوں وغرہ کے طریق عبادت میں جو بھی شکل ہو وہ دین کہلائے گی - گویا عبادت ِالہٰی خواہ کسی بھی طریق سے کی جائے اُس کا نام دین ہوتا ہے- (۹) اِلْمِلَّۃُ - طریقہ (۱۰)اَلْوَرَعُ بزرگانہ اعمال جن سے روحانیت کو ترقی حاصل ہوتی ہے- (۱۱)اَلْحَالُ - حال (۱۲)اَلْقَضَائُ- فیصلہ(۱۳)اَلْعَادَۃُ- عادت (۱۴)اَلشّانُ اس کے معنے بھی حالت کے ہی ہوتے ہیں مگر اچھی حالت کے- قرآن کریم میں بھی شانؔ کا لفظ استعمال ہوا ہے- جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کُلٌّ یُوْمٍ حُوَفِیْ شَاْنٍ (الرحمن ع ۲،۱۲) کہ ہر روز اللہ تعالیٰ ایک نئی شان میں ہوتا ہے-
حُنَفآ ئَ۲
حُنَفآ ئَ:حَنِیْفٌ کے جمع ہے جو حَنَفَ سے صفت مشبہ ہے اورحَنَفَ الشَّيْ ئُ حَنْفاً کے منعے ہوتے ہیں مَالَ کوئی چیز اپنی جگہ سے جُھک گئی اور حُنِیْفٌ کے معنے ہیں اَلصَّحِیْعُ الْمَیْلِ اِلیَ الْاِسْلَامِ الثَّابِتُ عَلَیْہِ - خدا تالیٰ کی اطاعت اورفرمانبرادری کے طرف سچا ذوق اور اُس پر ثابت قدمی گویا اس کے صرف اتنے معنے نہیں کہ انسان کے اندر نیکی کی طرف میلان پایا جائے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اُسے کی نیکی پر ثبات حاصل ہو- اور اُس کے اندر استقلال کامادہ پایا جاتا ہو- محاورہ میں کُلٌّ مَنْ کَانَ عَلیٰ دِیْنِ اِبْرَاھِیْمَ کے معنوں میں حنیف کا لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی ہر وہ شخص جو دینِ ابراہیم پر ہو محاورہ میں اُسے حنیف کہا جاتا ہے اور جماسی کا قول ہے کہ اَلْحَنِیْفُ اَلْمَائِلُ عَنْ دِیْنٍ اِلیٰ دِیْنِِ- یعنی ایک دین سے دوسرے دین کی طرف جو شخص مائل ہوا اُسے حنیف کہتے ہیں وَاَصْلُہٗ مِنَ الْحَنَفِ فِی الرِّجْلِ اور اصل میں وہ کجی جو کسی بیماری یا چوٹ کے نتیجہ میں بعض دفعہ انسانی پائوں میں واقع ہو جاتی ہے اُس پر یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے- مگر پھر اسی بناء پر جو شخص اپنے جدّی دین کو بدلنے کی طرف مائل ہو جائے اُسے بھی حنیف کہہ دیا جاتا ہے وَفِی الْکُلِّیَّاتِ فِیْ کُلِّ مَوْ ضِعٍ مِنَ الْقُرْاٰنِ اَلْحَنِیْفُ مَعَ الْمُسْلِمِ فَھُوَ الْحَآجُّ نَحْوَ وَلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمََا- کلیاتِ ابو البقاء میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں بھی حنیف کا لفظ مسلم کے لفظ کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے وہاں اس کے معنے حاجی کے ہوتے ہیں جیسے کَانَ حَنِیْفََا مُسْلِمََا کے یہ معنے ہوتے ہیں کَانَ حٓا جّاً مُسْلِمًا وہ حج کرنے والا مسلم تھا- وَ فِیْ کُلِّ مَوْ ضِعٍ ذُکِرَ وَحْدَہٗ فَھُوَا لْمُسْلِمُ نَحْوَ حَنِیْفاً لِلّٰہِ اور ہر موقع پر جہاں اکیلا یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے وہاں اس کے معنے مسلم کے ہوتے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے َ حَنِیْفاً لِلّٰہِ یعنی مُسْلِمًا لِلّٰہِ پھر لکھا ہے وَالْحَنِیْفُ اَیْضاً: اَلْمُسْتَقِیْمُ یعنی حنیف کے ایک معنے سیدھے راستہ پر چلنے والا کے بھی ہوتے ہیں ( اقرب)
کلیات نے جو یہ معنے کئے یہں جہاں حنیف کالفظ مسلم کے ساتھ استعمال ہووہاں اس کے معنے حاجی کے ہوتے ہیں یہ محض زبردستی ہے- جہاں تک میں نے آیات قرآنیہ پر غور کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ قرآنی محاورہ کے مطابق حنیف اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو سارے نبیوں کو ماننے والا ہو اور شرک کا کسی رنگ میں ارتکاب کرنے والا نہ ہو- قرآن کریم کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن دونوں میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی اُس شخص کو بھی حنیف کہا گیا ہے جو شرک سے کامل طورپر مجتنب ہو- گویا حُنَفَائَ وہ ہیں جو سارے نبیوں کو ماننے والے اورکسی سچائی کا انکار کرنیوالے نہ ہوں اور مشرک نہ ہوں ان میں ایک معنے مثبت کے لحاظ سے ہیں ار ایک معنے منفی کے لحاظ سے- سارے نبیوں کو ماننا مثبت پہلو ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات اور اُس کے صفات میں کسی کو شرک نہ ٹھہرانا یہ منفی پہلو ہے غرض میرے نزدیک قران کریم میں جہاں کَانَ حَنِیْفاً مُسْلِمًا کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہاں حنیف کالفظ حاجی کے معنوں میں نہیں بلکہ تمام انبیاء پر ایمان رکھنے والے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور مسلم کا لفظ اعمالِ صحیحہ کو بجا لانے والے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے درحقیقت قرآن کریم پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں اسلام کالفظ دو معنوں کے لحاظ سے استعمال ہوتا ہے کہ اُس میں اسلام بمعنے ظاہر بھی اور اسلام بمعنے اعمالِ صحیحہ بھی- پس قرآن کریم میں جہاں حنیف اور مسلم کے الفاظ اکٹھے استعمال ہوئے ہیں وہاں میرے نزدیک اس کے معنے یہ ہیں کہ عقیدہ میں بھی راسخ اور عمل میں بھی کامل- گویا ساری صداقتوں کو ماننے والا اور پھرتمانیک باتوںپر عمل کرنے والا-
تفسیر- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَآ اُمِرُٓوْا الاَّ لِیَیْبُدُوْاﷲَ- اور اُن کو کوئی حکم نہیں دیا گیا سوائے اس کے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ- دین کو اُسی کے لئے خالص کرتے ہوئے دین کے ایک معنے جیسا کہ اُوپر بتایا جا چکا ہے اطاعت کے ہوتے ہیں اور یہاں کے علاوہ دوسرے معنوں کے جن کے تفصیل آگے بیان کی جا ئے گی ایک یہ معنے بھی چسپاں ہوتے ہیں کہ وہ اپنی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خالص کردیں یعنی اُن کے پیر - اُن کے پنڈت اُن کے پادری- ان کے کاہن- اُن کے راہب اور اُن کے بڑے برے عالم اُن سے اپنی غلامی کرا رہے تھے اور اس طرح دنیا میں انسانیت کی انتہائی تذلیل ہو رہی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر یہ نہیں کیا کہ اُنہیں اپنی غلامی کی طرف بلوایا ہو یا کہا ہو کہ اپنے پنڈتوں اور پادریوں اور مولویوں کو چھوڑ کر تم میرے غلام بن جائو بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو صرف اتنا کہا کہ تم اِن غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر خالص اللہ کے غلام بن جائو- یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر اُن کو غصّہ آتا یا اُن کی طبائع میں اشتعال پیدا ہو جاتا- اُنہی کی بہبودی کے لئے محبت اور پیار کے ساتھ اُنکے سامنے ایک بات پیش کی گئی تھی مگر بجائے اس کے کہ وہ اس پر غور کرتے اور اپنے نیک تغّیر پیدا کرتے اُنہیں غصہ آ گیا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر قسم کی تدابیر سے کام لینے لگ گئے- دنیا میں جب کوئی شخص کے فائدہ کی بات کہتا ہے تو دوسرا ممنون احسان ہوتا ہے کہ میں غلطی میں مبتلا تھا مگر فلاں نے مجھے آگاہ کر کے ہلاکت سے بچالیا- مگر ان نادانوں کی یہ حالت ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے جب آ کر کہا کہ آئو میں تمہیں اُس غلامی سے نجات دُوں جس کا تم مدّتوں سے شکار ہوچکے ہو- وہ اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ اﷲِ جو تم نے بنائے ہوئے ہیں اُن سے تمہارے جسموں اور رُوحوں کو آزاد کرائوںَ تم اپنے پیروں کو سجدہ کرتے ہو، تم اُن کے پائوں کو ہاتھ لگاتے ہو، تم اُن کو اپنی حاجات کا پورا کرنے والا سمجھتے ہو اور اس طرح نہ صرف انسانیت کے شرف اور اُس کی عظمت کو بٹّہ لگاتے ہو- بلکہ اُس خدا کی بھی توہین کرتے ہو- جو تمہارا خالق اور مالک ہے - مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث فرمایا ہے کہ میں تمہیں خالص اللہ تعالیٰ کا غلام بنا دُوں تو بجائے اس کے کہ وہ نصیحت سے فائدہ اُٹھاتے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ڈنڈے لے کر کھڑے ہو گئے کہ تم دین کو خراب کرتے ہو-
وَمَا اُمِرُوْ کے معنے بعض نے یہ کئے ہیں کہ ان لوگوں کی کتب میں ہی حکم دیا گیا تھا مگر اس جگہ یہ معنے چسپاں نہیں ہوتے اِن الفاظ سے اِس جگہ یہ مراد ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیم پیش کی اُس میں سوائے اس کے کیا حکم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور خالص اُسی کی اطاعت کرو اور اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اﷲِ کی غلامی ترک کر دو- کیا یہ حکم ایسا تھا کہ وُہ بُرا مناتے یا ایسا تھا کہ وہ اس پر خوش ہوتے اور دوڑتے ہوئے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو جاتے؟ اس حکم کے ذریعہ عیسائیوں کو اپنے پادریوں سے آزادی حاصل ہو رہی تھی اور مشرکین کو اپنے کاہنوں سے آزادی حاصل ہو رہی تھی مگر بجائے اس کے کہ وہ خوش ہوتے اُلٹا ناراض ہو گئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو کچلنے کے لیے کھڑے ہو گئے-
درحقیقت اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبوت کی ضرورت
نبوت کی ضرورت ۲
بتائی ہے کہ جب تمہارے عقلی اور ذہنی قویٰ میں اس درجہ انحطاط رُونما ہو چکا ہے کہ تم یہ بھی سمجھ نہیں سکتے کہ تمہارا اپنا فائدہ کس بات میں ہے تو اگر ایسی گری ہوئی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری اصلاح کے لئے کوئی نبی نہیں آئے گا تو کب آئے گا-نبی آنے کا وہی وقت ہوتا ہے جب قومی تنزّل اِس قدر بڑھ چکا ہوتا ہے- کہ لوگوں کو بُرے بھلے کی بھی تمیز نہیں رہتی- ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبِرِّ وَ الْبَحَرِ ( الروم ع ۵،۸) کی کیفیت دنیا میں پورے طور پر رُونما ہو جاتی ہے اور رُوحانی اور اخلاقی قوتیں بالکل مردہ ہو جاتی ہیں- مگر باوجود اس قدر تنزل اور ادبار کے وہ سمجھتے یہ ہیں کہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت نہیں- پس فرماتا ہے جب تمہاری حالت یہ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اگر تمہارے فائدہ کی بھی کوئی بات کرتے ہیں تو تم اُن سے لڑنے لگ جاتے ہو- تو یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نبی کے آنے کی اشدضرورت ہے اگر اب بھی نبی نہ آتا تو تم لوگ بالکل تباہ ہو جاتے- پس وَمَآ اُمِرُوْ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْاﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے ایک معنی یہ ہیں کہ اُنہیں سوائے اس کے کیا حکم دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے دین کو خالص کر و- یعنی اس سے پہلے یہ اقوام رہبان اور کہان اور اساقف کی غلامی کر رہی تھیں، امراء کی فرمانبرداری میں جانیں گنوا رہی تھیں- اسلام نے آ کر انہیں نجات دی مگر بجائے شکر گزار ہونے کے اَور دُور چلے گئے اور اپنے محسن سے لڑنا شروع کر دیا-
اب میں تفصیل کے ساتھ ان معنوں کے لحاظ سے جن کو اُوپر بیان کیا گیا ہے اِس آیت کا الگ الگ مفہوم بیان کرتا ہوں-
مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کا مطلب مختلف معانی کے مطابق جو لُغت بتائے گئے ہیں یہ ہوا کہ اُنہیں صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ
اوّل ااطاعت اللہ تعالیٰ کی کریں ( کیونکہ دِیْن کے ایک معنے اطاعت کے بھی ہیں) دوسروں کی اطاعت کا اِس میں کوئی شائبہ نہ ہو- اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی اطاعت جائز نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ
(الف) خداتعالیٰ کی اطاعت بندوں کی خاطر نہ کریں بلکہ خداتعالیٰ کے لئے اپنی اطاعت کو خالص کر دیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت خدا ہی کی خاطر کریں بندوں کی خاطر نہ کریں- دُنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی اطاعتِ الہٰی محض لوگوں کے ڈر سے ہوتی ہے -
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے پہلے معنے خداتعالیٰ کی اطاعت خدا تعالیٰ کی خاطر کرنا-
وہ احکام الہٰی پر اس لئے عمل نہیں کرتے کہ خدا یوں فرماتا بلکہ اس لئے اُن پر عمل کرتے ہیں کہ اُن کی قوم یا رسم یا رسم و رواج اس کا مطالبہ کرتا ہے مثلاً عیسائی گرجے جاتا ہے اِس لئے نہیں کہ خدا نے حکم دیا ہے بلکہ اس لئے کہ اگروہ گرجے میں نہ جائے تو اُس کی قوم برا مناتی ہے یا اگر یہودی اپنی عبادت گاہ میں جاتا ہے یا ہندو مندر جاتا ہے یا مسلمان مسجد میں جاتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اُس کا عبادت گاہ میں جانا یامندر میں جانا یا مسجد میں جانا اس لئے جانا نہیں ہوتا ہے کہ خدا کا حکم ہے عبادت کرو بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ اُس کی قوم اُس سے یہ امید رکھتی ہے - اِسی طرح بہت سے احکام پر انسان رواجاً عمل کرتا ہے یا اپنی نسانی خواہش کے مطابق عمل کرتا ہے مثلاً خدا نے کہا ہے کہ کمزور پر رحم کرو اور اپنے ساتھ تعاون کرنے والے کو نیک بد لہ دو- یہ دونوں حکم ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں اور ان دونوں حکموں کے ماتحت بچوں سے نیک سلوک اور بیویوں سے حُسن معاملت یا دوستوں کے ساتھ نیک معاملہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے - مگر کتنے لوگ ہیں جو اس لئے اپنی دوست کے ساتھ نیک معاملہ کرتے ہیں یا بچوں کی تربیت کرتے ہیں- یا عورتوں سے حسنِ معاملہ کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے اکثر لوگ یا تو طبعی جذبات کے ماتحت ایسا کرتے ہیں یا دوسرے لوگوں کو نیک رائے حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں- اسی طرح غریبوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے - یا یتیموں اور بیوائوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم یا گیا ہے ہر مذہب میں ہے مگر کتنے عیسائی یا یہودی یا ہندو یا آج کل کے مسلمان ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ایسا کرتے ہیں اکثر ایسے ہی ہیں جو لوگوں میں نیک نامی حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں جب تک انسان اس مرض میں مبتلا ہوتا اور جتنا جتنا حصہ اس مرض میں مبتلا رہتا ہے اُس وقت تک اور اُسی حد تک اُس کا دین ناقص ہوتا ہے کیونکہ اُس کادل روز مرہ کے کاموں میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلکہ دوسرے لوگوں کی طرف جھکا رہتا ہے اور وہ حقیقی محبت جو انابت الی اللہ سے پیدا ہوتی ہے اُس کے دل میں پیدا نہیں ہوتی- اور پھر وہ سمجھے نہ سمجھے، مانے نہ مانے مشرک بھی ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کاحصّہ لوگوںکو دیتا ہے- اِسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے مُنہ میں بھی ایک لقمہ اِیْمَاناً وَ اِحْتِسَاباً ڈالتا ہے تو وہ ایک لقمہ ڈالنا خدا تعالیٰ کی کتاب میں اُس کے لئے صدقہ کے طور پر لکھا جاتا ہے بیوی الگ خوش ہوگئی، اُس کی محبت کا جذبہ الگ پورا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کے رجسٹر میں اُس کا نام نیک اعمال بجالانے والوں میں لکھا گیا- یہی اصل تمام دوسرے کاموں پر بھی چسپاں ہوتا ہے- اسلام دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کا حکم دیتا ہے خدا ہی کا ہو جانے کی تعلیم دیتا ہے لیکن اکثر لوگ دنیوی کام کرنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں پھر یہ حکم کس طرح پورا ہو سکتا ہے؟ اُسی طریق سے جس کی طرف رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے اُوپر کے حکم میں اشارہ فرمایا ہے- یعنی اپنے دینوی کاموں کو بھی خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اُس کی خوشنودی کے لئے کرے- اِس طرح اس کا ہر کام عبادت بن جائے اور جبکہ وہ ظاہر میں دنیا کا کام کرتا ہوا نظر آئے گا اس کا ہر کام عبادت ہو جائیگا یہی نکتہ تصوف کی جان ہے اور تصوف کی بنیاد کلی طور پر اسی نکتہ پر کھڑی ہے اس پر عمل کر کے انسان روحانیت کی اعلیٰ منازل کو آسانی سے طے کرسکتا ہے اور لحظہ بہ لحظہ خدا تعالیٰ کے قرب میں ترقی کر سکتا ہے-
(باء) دوسرا مفہوم اِن معنوں کے رُو سے اس کا یہ ہے کہ بندوں کی اطاعت خداتعالیٰ کے لئے کریں- پہلا مفہوم تو یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت بندوں کی خاطر نہ کریںاور دوسرا مفہوم یہ بنے گا کہ بندوں کی اطاعت خدا تعالیٰ کے لئے کریں پہلے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم یہ تھا کہ مُخْلِصِیْنَ لِلّٰہِ اِطَاعَۃَ اﷲِ-اور دوسرے پہلو کے لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ مُخْلِصِیْنَ لِلّٰہِ اِطَاعَۃَ الْعِبَادِ- یعنی اللہ تعالیٰ نے بندوں کی اطاعت ہر صورت میں نا جائز نہیں کی بلکہ بعض دفعہ خود حکم دیا ہے کہ اُن کی اطاعت کرو جیسا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- اَطِیْعُو اللّٰہَ وَ اَطِیْعُو االرَّسُوْلَ وَاُولیِ الْاَمْرِمِنْکُمْ ( النساء ع ۵،۸) اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اُس کے رسول کی اطاعت کرو اور اُولی کی اطاعت کرو پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اولی الا مر کی اطاعت بھی ضروری قرار دی گئی ہے لیکن شرط رکھ ہے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن جب تم بندوں کی اطاعت کرو تو خدا کی وجہ سے کرو یعنی مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ اُسی حد تک اور اُسی شخص یا اُسی قوم کی اطاعت کریں جس حد تک اور جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب لوگوں نے ٹیکس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ قیصر کی چیز قیصر کو دو اور خدا تعالیٰ کی چیز خدا تعالیٰ کی دو- اِس کا یہی مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ کی خالص اطاعت کے یہ معنے نہیں کہ دوسرے کسی کا اطاعت جائز نہیں بلکہ جس حد تک اور جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اُس حد تک اور اُس شخص کی اطاعت کرنا- اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایسا کیاجائے تو خدا تعالیٰ ہی کی اطاعت کہلاتا ہے- پس اللہ تعالیٰ کے لئے اطاعت کو خالص کرنے کے معنے یہ ہیں کہ انسان جب خدا تعالیٰ کی اطاعت کرے تو بندوں کی خاطر نہ کرے اور جب بندوں کی اطاعت کرے تو خدا تعالیٰ کی خاطر کرے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ انگریزوں
۱؎ بندوں کی اطاعت خدا تعالیٰ کی خاطر کرنا
کے مطیع تھے حالانکہ آپ جس حد تک بھی انگریزی حکومت کی اطاعت کرتے تھے اس لئے انگریز کی اطاعت میں آپ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرتے تھے- چونکہ اللہ تعالیٰ حاکمِ وقت کی اطاعت کا حکم دیا ہے یا اُس کے ملک سے نکل جانے کا - اس لئے اگر آپ ایسا نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکلنے والے قرار پاتے- مگر جو لوگ یہ سمجھتے ہوئے انگریز کی اطاعت جائز نہیں پھر انگریزوں کے ملک میں رہتے ہیں - اور اُن کے قانون کی پابندی کرتے ہیں اُن کا یک ایک منٹ گناہ میں گذر رہا ہے - کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہوئے کہ انگریز کی اطاعت جائز نہیں پھر انگریز کی اطاعت کرتے ہی حالانکہ اگر اُن کا عقیدہ صحیح ہے تو انہیں انگریزوں کی حکومت سے فوراً باہر نکل آنا جانا چاہیے تھا-
(۲) دوسرے معنے دِیْن کے جو اس جگہ لگتے ہیں قہر اور غلبہ اور استعلاء کے ہیں اِن
۲؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے دوسرے معنے کہ غلبہ اور استعلاء ملنے کے بعد اس کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کر دیں-
معنوں کے رُو سے سے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مخاطبین رسو ل کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے صرف اتنا مطالبہ کیا گیا تھا کہ غلبہ اور استعلاء تم کو ملے تو اس غلبہ اور استعلاء کو اللہ تعالیٰ ہی کے لئے وقف کر دیا کرو کیونکہ غلبہ اور استعلاء اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلِ اللّٰھُمَّ مَالِکِ تُؤ تِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآ ئُ وَ تَنْذِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآ ئُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ ( آل عمران ع ۳،۱۱)
یعنی جب غلبہ اور استعلاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے تو اُسے اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خرچ کرنا چاہیے نہ کہ اپنے نفس کی بڑائی اور تکبر اور ظلم اور دوسروں کو اپنی غلامی میں لانے کے لئے- اِسی حکم کے نہ سمجھنے اور نہ ماننے کی وجہ سے تمام سیاسی نظام تباہ ہوتے ہیں- لوگ غلبہ کے وقت خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں اور غلبہ دینے کی غرض کو بھول جاتے ہیں اور اُن پر ظلم کرنے لگ جاتے ہیں - جب کبھی کوئی قوم دنیا پر غالب ہوئی اُس نے خداتعالیٰ کو بھلا دیا اور اُس کے بندوں کے حقوق کو بھی جنہیں ادا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اُسے غلبہ دیا تھا بھلا دیا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ بادشاہت کے بعد بھی کبھی اپنے آپ کو بادشاہ نہیں سمجھا اور کسی بادشاہ کو نہیں کہنے دیا- جس طرح اللہ تعالیٰ کا بندہ اپنے آپ کو غلبہ سے پہلے سمجھتے تھے اسی طرح غلبہ کے ملنے کے بعد وہی نمازیں رہیں، وہی روزے رہے، وہی ذکر الہٰی رہا بلکہ ار کوئی فرق پڑا تو کہی کہ فِاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ جب دینوی جنگوں اور لڑائیوں میں کمی آئے تو خد تعالیٰ کی عبادت اور اور زیادہ بڑھ جائو- اِسی طرح غلبہ ملنے سے پہلے جس طرح آپ اپنے آپ کو بندوںکا خادم سمجھتے رہے اِسی طرح غلبہ ملنے کے بعد بھی آپ اپنے آپ کو خادم سمجھتے رہے اور جوانی کی عمر میں مکّہ میں جب آپ کے پاس کچھ نہ تھا تب بھی غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کی مدد اپنے ہاتھ سے کرتے تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت خدیجہؓ کی دولت عطا فرما دی- یعنی شادی کے بعد حضرت خدیجہؓ نے اپنا سارا مال آپ کے سپرد کر دیا تو آپ نے یہ نہیں کیا کہ اُس مال کو اپنی ذات پر استعمال کرلیں- آپ نے یہ نہیں سمجھا کہ میری بیوی نے یہ مال مجھے دیا ہے تو اب میں یہ مال اُسے کے آرام اور آسائش کے لئے خرچ کر دوں اور اس مال کو غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرناشروع کر دیا- جب آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے حکومت عطا فرمائی اور عرب اور اُس کی تمام اقوام کو آپ کے تابع کر دیا اور عرب کاتما ٹیکس اور جزیہ آپ کے ہاتھوں میں آنے لگا تببھی آپ نے اُس سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اُٹھایا اور وفات کے وقت جب کہ آپ نے آخری وصیت اپنی قوم کو یہی فرمائی کہ میں تمہیں عورتوں اور کمزوروں سے نیک سلوک کے بارہ میں آخری نصیحت کرتا ہوں اور وفات کے وقت سخت کرب اور تکلیف کی حالت میں آپ بار بار فرماتے تھے کہ خدا یہوونصاریٰ پر *** کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا- یہ سخت الفاظ اتنے یہودونصاریٰ کی نسبت نہیں تھے جتنا اِن میں اس طرف اشار ہ تھا کہ اگر میری قوم نے بھی میری قبر کو عبادت گاہ بنایا تو صرف خدا تعالیٰ کی *** اُن پر نہیں پڑے گی بلکہ میری *** بھی اُس کے ساتھ شامل ہو گی-
غرض غلبہ کے وقت بھی آپ نے نہ خدا تعالیٰ کے حق کو تلف کیا اور نہ بندوں کے حقوق کو تلف ہونے دیا- اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍّ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَدٍ وَّبَارکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ-
آپ کے صحابہؓ نے بھی اس تعلیم پر اعلیٰ سے اعلیٰ عمل کر کے دکھایا- خلفاء راجہ حقوق العباد کے ادا کرنے کی ایک بینقیر مثال گذرے ہیں- ایک طرف خدا تعالیٰ کو انہوں نے مضبوطی سے پکڑے رکھا اور دوسری طرف بندوں کے حقوق بھی خوب ادا کئے ایسے کہ اس کی مثال دنیا میںنہیں ملتی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ وہ بادشاہ نہ تھے پریذیڈنٹ تھے مگر پہلا سوال تو یہ ہے کہ اُنہیں پریذیڈنٹ بننے پر مجبور کس نے کیا؟ آخر یہ عہدہ اُن کو اسلام نے ہی دیا اور اس عہدہ کی حیثیت کو انہوں نے اسلامی احکام کے ماتحت ہی قائم رکھا مگر یہ بات بھی تو نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ خواہ اُنہیں پریذیڈنٹ ہی قرار دیا جائے مگر اُن کا انتخاب ساری عمر کے لئے ہوتا تھا نہ کہ تین یا چار سال کے لئے- جیسا کہ ڈیما کریسی کے پریذیڈنٹوں کا آج کل انتخاب ہوتا ہے یقیقناً اگر ان کو صرف صدر جمہوریت کا ہی عہدہ دیا جائے تو بھی یہ بات علم النفس کے ماتحت اور سیاسی اصول کے تحت ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ تین چار سال کے لئے چنے جانے والے صدر اور ساری عمر کے لیے چُنے جانے والے صدر میں بہت بڑا فرق ہوتا ہیہ - تین چار سال کے لئے چنے جانے والے صدر کے سامنے وہ دن ہوتے جب وہ اس عہدہ سے الگ کر دیا جائے گا اور پھر ایک معمولی حیثیت کا انسان بن جائے گا لیکن ساری عمر کے لئے چُناجانے والا صدر جانتا ہے کہ اب اس مقام سے اُترنے کا کوئی امکان نہیں اور اُس کے اہل ملک بھی جانتے ہیں کہ اس حیثیت کے سوا اور کسی حیثیت میں اب وہ اُن کے سامنے نہیں آئے گا- پس جس شان و شوکت کا وہ مستحق سمجھا جا سکتا مگر اس ڈیماکریسی اور جمہوریت کیزمانہ میں سہ سالہ اور چار سالہ میعاد کے لئے چُنے وانے والے صدروں کی زندگیوں کو دیکھ لو ملک کا کتنا روپیہ اُن پر صرف ہوتا ہے- صدر جمہوریت امریکہ پر ہر سال جو روپیہ خرچ ہوتا ہے انگلستان کے بادشاہ پر بھی اتنا خرچ نہیں ہوتا- مگر اس کے مقابل میں خلفاء رابعہ کس طرح پبلک کے روپیہ کی حفاظت کرتے تھے وہ ایک تاریخی امر ہے کہ اپنے اور بیگانے اُس سے واقف ہیں صرف نہایت ہی قلیل رقوم اُنہیں گذارے کے لئے ملتی تھیں اور خود اپنی جائیدادوں کو بھی وہ بنی نوع انسان کے لئے خرچ کرتے رہتے تھے- حضرت عثمانؓ اُن خلفاء میں سے ہیں جن پر اپنوں اور بیگانوں نے بہت سے اعتراضات کئے ہیں جب اُن کی عمر کے آخری حصہ میں کچھ لوگوں کے بغاوت کی اور اُن کے خلاف کئی قسم کے اعتراضات کئے تو اُن میں سے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ انہوں نے بہت سے روپے فلاں فلاں اشخاص کو دئے ہیں- حضرت عثمانؓ نے اس کا جواب دیا کہ اسلام کے خزانہ پر سب ہی مسلمانوں کا حق ہے اگر میں قومی خزانہ سے ان لوگوں کو دیتا تو بھی کوئی اعتراج کی بات نہ تھی مگر تم قومی رجسٹروں کو دیکھ لو میں اُن کو قومی خزانہ سے روپیہ نہیں دیا بلکہ اپنی ذاتی جائیداد میں سے دیا ہے گویا اُن کی ذاتی جائیداد قومی خزانہ کے لئے ایک منبعِ آمد تھی- پس ان لوگوں نے اپنے غلبہ استعلاء کو محض خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کیا نہ کہ اپنی شان بڑھانے کے لئے- اور یہی وہ چیز ہے جو قوموں کو دوام بخشتی ہے اگر مسلماں اس تعلیم پر عمل کرتے تو کبھی زوال کا مُنہ نہ دیکھتے-
(۳) تیسرے معنے دِیْن کے جو یہاں لگتے ہیں ملک و حکم کے ہیں- ان معنوں کے رُو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ ہم نے یہی حکم دیا تھا کہ حکم اللہ تعالیٰ کے لئے رہے- جو وہ کہتا ہے اُسے جاری کیا جائے جس سے وہ روکتا ہے اُس سے رُکا جائے اپنی نفسانی خواہشات اور ارادوں کو شریعت میں دخل انداز نہ ہونے دیا جائے- اسلام جس وقت نازل ہواہے- اس موٹی صداقت کا بڑی بُری طرح سے انکار کیاجاتا رہا تھا- ہر شخص جو اس بات کو مانتا ہے کہ خد اتعالیٰ کی طرف سے کوئی کلام اُس کی قوم کی ہدایت کے لئے آیا اُسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰا کی طرف سے آنے والے ایسے کلام کو کلی طور پر انسانی دستبرد سے محفوظ رکھنا چاہیے - لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام جس وقت نازل ہوا ہے ہر قوم نے اپنی شریعت کی چار کو پارہ پارہ کر دیا تھا اور خدا تعالیٰ کے دین کا یک تولہ اُن کے خیالات کے منوں میں باقی رہ گیا تھا اب تک جو برا حال ان شریعتوں کا ہو رہا ہے وہ عبرت کے لئے کافی ہے مسیح ؑجن کی ساری عمر کی کمائی صرف اتنا فقرہ ہے کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے اس تعلیم کی مسیحیوں نے کتنی مٹی پلید گی ہے- اگر مسیحی حکومتوں کے دشمنوں نے ڈائنامیٹ کے بمپ اُن کے علاقوں پر پھینکے ہیں تو انہوں نے صبر نہیں کیا جب تک اٹومک بمپ ایجاد نہیں کر لیا-
پھر یہ سب امور شریعت کے مطابق بتائے جاتے ہیں- حال ہی میں انگلستان کے گرجوں کے سب سے بڑے پادری نے اپنے ایک ماتحت پادری کے مُنہ پر یہ کہہ کر تھپّر مارا کہ اٹومک بمب بھی خدائی نشانوں میں سے ایک نشان ہے کیونکہ ایک ماتحت پادری نے کہا تھا کہ میری فطرت اس بمب کے استعمال سے حاصل کی ہوئی فتح پر گرجے میں خوشی منانے پر طیار نہیں- مگر مسیحیت نے موسوی شریعت کو سرتاپا *** بنا کر چھوڑا- یہی حال دوسری کتابوں کا ہے کہ اُن کے اندر بھی اس قدرتحریف اور تبدیلی کر دی گئی ہے اور اس قدر انسانی خیالات اُن میںملاوے گئے ہیں کہ اُن کی شکل مسخ ہو گئی ہے- آج ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر موسیٰؑ عیسیٰؑ - کرشن ؑ اور زرتشتؑ دنیا میں آئیںتو وہ قرآن کریم کی طرف دوڑیں گے یہ ہماری ہی تعلیم ہے جسے
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے تیسرے معنے
زیادہ جلا دیدیا گیا ہے- اور جو تعلیمات اُن کی طرف منسوب کی جاتی ہیں وہ اُن کے پاس ہے مُنہ موڑ کر گذر جائیں گے کہ یہ گندی تعلیمیں معلوم نہیں کس نے دنیا میں پھیلا دیں-
اسلام زیر تفسیر آیت کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کے سامنے پر زور احتجاج کرتا ہے کہ شریعت کے بارہ میں انسانی وسعت اندازی کے سلسلہ کو بند کیا جائے
۲؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کیپانچویںمعنے
وَمَآ اُمِرُوْ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْاﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن اور خدا تعالیٰ کے کلام میں دخل اندازی نہ کی جائے- اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان بھی بعد کے زمانہ میں بگڑے اور بہت بگڑے مگر انہوں نے اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کی اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی مدد اور اُس کے منشاء کے ماتحت آج بھی محفوظ ہے- بے شک فقہ میں مسلمانوں نے بھی خوب کتر بیونت کی مگر خدا کا کلام چونکہ محفوظ ہے اِس لئے اس کتر بیونت سے مستقل نقصان اسلام کو نہ پہنچا ہے اور نہ پہنچ سکتا ہے-
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے چوتھے معنے
(۴) چوتھے دین کے جویہاں لگ سکتے ہیں سیرۃ کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اُنہیں صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریںاپنی سیرۃ کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے یعنی اپنی سیرت کے بنانے میں کسی اورکو شریک نہ کرو بلکہ اپنے اخلاق کلی طور پر اللہ تعالیٰ کی صفات کے مطابق بنائو- گویا وہ حدیث جو رواہ کے لحاظ سے ایسی مضبوط نہیں سمجھی جاتی جیسی دوسری حدیثیں ہیں تَخَلَّقُوْ بِاَ خْلَاقِ اﷲِ کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرو، اِس آیت کے رو سے بالکل درست ثابت ہوتی اور مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے معنے یہ بنتے ہیں کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ السِّیْرَۃَ - اپنی سیرت خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کر دو یعنی جب تک الہٰی صفات کے اور کسی اور کا عکس اُس پر نہ پڑے جس طرح خدا تعالیٰ رب ہے تم بھی رب بنو جس طرح وہ رحمان ہے تم بھی رحمان بنو- جس طرح وہ رحمان ہے تم بھی رحمان بنو- جس طرح وہ رحیم ہے تم بھی رحیم بنو جس طرح وہ مالک یوم الدّین ہے تم بھی اندھے قاضی نہ بنو- بلکہ مالک یوم الدّین بنو- اصلاح اور درستی اصل غرض تمہارے سامنے ہے- خدا تعالیٰ کی طرح رازق بنو- غفار بنو ستار بنو- نیک باتوں اور قوموں اور مُردون کے لئے محی بنو اور بری باتوں اور برے افراد کے لیے ممیت بنو- اسی طرح حفیظ بنو سباسط بنو- قیوم بنو وغیرہ وغیرہ-
(۵) پانچویں معنے دِیْن کے جو یہاں چسپاں ہوتے ہیں تدبیر کے ہیں- ہر فرد دنیا میں کچھ نہ کچھ جدّو جہد کرتا ہے اور ہر فرد سے میری مراد ہر معقول فرد ہے- ورنہ دنیا میںایسے احمق بھی ہوتے ہیںجو سونے اور کھانے پینے میں ہی اپنی عمر میں گذار دیتے ہیںوہ درحقیقت انسانیت کے دائرہ میں ہی شمار نہیں کئے جا سکتے- ہر شریف انسان کچھ جدّوجہد کرتا ہے- اور ہر زندہ دل انسان کسی نہ کسی فن کی رغبت رکھتا ہے کسی کو سائنس سے دلچسپی ہوتی ہے کوئی حساب میں شغف رکھتا ہے کوئی سیاست کی طرف مائل ہوتاہے کوئی تجارت میں انہماک رکھتا ہے کوئی زراعت کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ان سب امور کا حصول کئی وجوہ سے ہوتا ہے بہر حال دنیا میں جو یہ نظارہ نظر آتا ہے-کہ کوئی سائنس کی طرف توجہ کر رہا ہے، کوئی حساب کی طرف توجہ کر رہاہے، کوئی تجارت کی طرف مائل ہے کوئی زرات میں دلچسپی رکھتا ہے، کوئی سیاسیات میںاپنی عمر بسر کر رہا ہے - اس پر جب غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عام طر پر لوگوں کی تدابیر یا اپنے نفس کے فائدہ کیلئے ان امور کی طرف توجہ کرتے ہیں سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے سائنس میں ترقی کرلی تو کئی قسم کی ایجادیں کریں گے- کارخانے جاری کریں گے اور مالی لحاظ سے بہت کچھ نفح اُٹھائیں گے - یاحساب میں شغف رکھتے ہیں تو اس لئے کہ ترقی کر کے ہم انجینئر بن جائیںگے اور دنیا میں اعزاز حاصل کریں گے یا تجارت کرتے ہیں تو اس لئے کہ اپنے لئے اور اپنے خاندان کے افراد کے لئے ہمارے پاس بہت سا روپیہ اکٹھا ہو جائے گا- یا زراعت کریں گے تو اس فن میں بھی اُن کے مدّ نظر محض اپنا فائدہ ہوگا- اِسی طرح سیاسیات میں اُن کی دلچسپی کسی قومی مفاد کے لیے نہیں ہوتی بلکہ ذاتی اعزاز کا حصول اس تمام جدوجہد کا بنیادی نقطہ ہوتا ہے- لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے یہں جو ذاتیات سے بہت بالا ہوتے ہیں اُن کے مدّ نظر اپنے ذاتی مفاد اُس قدر نہیں ہوتے جس قدر قومی مفاد اُن کے مدّنظر ہوتے ہیں- اُن میں سے اگر ایک سائنس دان سائنس میں شغف رکھتا ہے تو اُس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میری قوم کی اس ذریعہ سے طاقت حاسل ہو جائے اگر کوئی حساب کی طرف توجہ کرتا ہے تو اُس کی غرض بھی اِس علم سے اپنی قوم کو فائندہ پہنچانا ہوتا ہے- اگر کوئی تجارت سے میری قوم مضبوط ہوجائے غرض یہ لوگ اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر قربان کرنے والے ہوتے ہیں ان میں سے کچھ لوگ زراعت کی طرف توجہ کرتے ہیں تو اُن کے مدّنظر محض یہ غرج نہیں ہوتی کہ ہم ہل چلائیں گے کھیتی باڑی کریں گے اور نفح کمائیں گے بلکہ وہ فنِ زراعت اس لئے سیکھتے ہیں تا کہ اُن کی قوم ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکل جائے- اسی طرح جب اُن میں سے بعض لوگ سیاست میں حصہ لیتے ہیں تو اِس لئے نہیں کہ اُن کو ذاتی طور پر غلبہ اور نفوذ حاصل ہو جائے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ سیاسیات میں حصّہ لینے کے نتیجے میں اُن کی قوم کو غلبہ حاصل ہو - غرض دنیا میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جن کی تمام جدّوجہد کا مرکزی نقطہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کو ذاتی طور پرکوئی فائدہ حاصل ہو جائے اورکچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو محض قومی مفاد کے لئے ہر قسم کی جدوجہد کرتے ہیں اُن کا علوم کی طرف توجہ کرنا مختلف فنون میں مہارت حاصل کرنا اور مختلف قسم کے شعبوں میں کام کرنا اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ شہرت کے بھوکے ہوتے ہیں یا عزت کے متلاشی ہوتے ہیں یا مال و دولت کے شائق ہوتے ہیں بلکہ وہ اِس لئے اپنی عمر میں ان کاموں میں صرف کر دیتے ہیں کہ اُن کی قوم سر بلند ہو اور اُسے دنیا میں عزت کا مقام حاصل ہو - اللہ تعالیٰ اِس آیت میں یہ فرماتاہے کہ جب بھی دنیا مین ایسا طریق عمل جاری ہو گا غلط قسم کی رقابت پیدا ہو گی اور تباہی اور بربادی اس کے نتیجے میں آئے گی پس انسان کو چاہیے کہ اپنی سب جدوجہد اللہ تعالیٰ کے لئے کرد ے- اگر اُسے حساب کا شو ق ہے اور وہ اس علم میں ترقی کرنا چاہتا ہے تو بے شک کرے اور خوب کرے- اگر اُسے سائنس کا شوق ہے اور وہ نئی نئی ایجادات کرنا چاہتا ہے تو بے شک سائنس کی طرف توجہ کرے اور دنیا میں نئی نئی ایجادیں کرے- اگر اُسے تجارت کا شوق ہے تو بے شک خوب مال ودولت کمائے- اگر اُسے زراعت کا شوق ہے اور وہ اس علم پر غور کرتے ہوئے نئے نئے امور دریافت کرنا چاہتا ہے تو بے شک ایسا کرے کیونکہ خدا نے یہ فطرت پیدا کی ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان کام کرے بے کار نہ بیٹھے مگر چاہیے کہ اُس کی سب تدبیریں اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں یہ ظاہر ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے لئے جدوجہد کرے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندوں کو اپنی جدّوجہد میں ثمرات سے محروم نہیں کرے گا- جب وہ خدا کے لئے ایس اکرے گا تو اُس کی یہ غرض نہیں ہوگی کہ انگلستان کو کچل دے، نہ انگلستان کی یہ غرض ہو گی کہ فرانس کو کچل دے، نہ امریکہ کی یہ غرض ہو گی کہ رُوس کو کچل دے- جب ہر شخص اللہ تعالیٰ کے لئے کوشش کرے گا تو اُس کی کوششیں تمام بنی نوع انسان کے لئے مفید ہوں گی اور غلط قسم کی رقابت اور عداوت دنیا میں پیدا نہیں ہو گی- تمام تباہی اسی وجہ سے واقعہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے ذاتی یا قومی مفاد کے لئے دوسروںکے حقوق کو غصب کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس امر کو کلی طور پر نظر انداز کر دیتا ہے کہ اُسے اپنی جدوجہد کے ثمرات میں تمام بنی نوع انسان کو شریک کرنا چاہیے- یہ تو علمی زمانہ ہے مگر پھر بھی دیکھا جاتا ہے کہ باپ داداکی دولت سے ذرا بھی حصہ مل جائے تو لوگ غافل ہوجاتے ہیں ہر قسم کے کاموں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں اب ہمیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے باپ دادا سے ہمیں بہت بڑی جائیداد مل گئی ہے اور اب ہمارا کام یہی ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور سو رہیں یہ قطعاً خیال نہیں کیا جاتا کہ انسان پیدائش اِس لئے نہیں ہوئی کہ وہ کھائے پییَ اور سو رہے بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے جیسا کہ اِنّیْ جَاعِلٌّ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ( البقرہ ع۴) سے ظاہر ہے اور جب انسان اِس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے تو اُسے غور کرنا چاہیے کہ اُس کے لئے نکما پن کس طرح جائز ہو سکتا ہے - اگر اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ نکّما بیٹھا ہوا ہوتا تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کوئی کام نہیں کرتا اس لئے اگر انسان بھی کوئی کام نہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں- مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نکما نہیں بیٹھا بلکہ وہ اپنی تمام صفات سے کام لے رہا ہے، کہیں اُن کو مار رہا ہے کہیں اُن کی مغفرت کے سامان کر رہا ہے- کہیں اُن پر رحمت نازل کر رہا ہے، کہیں اُن پر عذاب بھیج رہا ہے،کہیں اُن کو ترقی دے رہا ہے- کہیں تنزّل کے سامان کر رہاہے- غرض دن رات وہ کام میں لگا ہوا ہے اور یہی وہ انسانوں سے چاہتا ہے کہ جس طرح میں کام میں لگا ہوا ہوں اسی طرح تم بھی کام میں لگ جائو اورکبھی غفلت اور سستی کو اپنے قریب بھی نہ آنے دو- مگر افسوس کہ لوگوں کی حالت یہ ے کہ انکو ذرا بھی سہولت کے سامان میّسر آ جائیں تو وہ سست ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہمیں کام کرنے کی ضرورت نہیں -ہمارے ملک میں عام محاورہ ہے کہ جب کسی آسورہ حال سے پوچھا جائے کہ سُنائو کیا حال ہے تو وہ کہتا ہے کہ اللہ کا بڑا فضل ہے کھانے پینے کا سامان خدا تعالیٰ نے بہت کچھ دے دیا ہے- اب ہمارا کام اتنا ہی ہے- کہ کھائیں پیَیں عیش و آرام میں اپنا وقت گزاریں اور سو جائیں-یہ ایک *** ہے جو ہندوستانیوں کے سروں پر مسلّط ہے اور جس نے اُن کوترقی کی دوڑ مین بہت پیچھے کر دیا ہے- وہ جدّ جہد اور عمل صرف اس بات کا نام سمجھتے ہیں کہ اپنی ذات کو فائدہ پہنچ جائے یا اپنے خاندان کو فائدہ پہنچ جائے یا اپنے خاندان کو فائدہ پہنچ بنی نوع انسان کو اپنی جدوجہد کے ثمرات میں شریک کرنے کے لیے وہ تیار نہیں ہوتے- اس کے مقابل میں یورپ کے لوگوں میں جہاں اور کئی قسم کے نقائص ہیں وہاں اِس نقص کو انہوں نے قومی طور پر بالکل دور کر دیا ہے- وہاں امیر اور غریب سب کام کرتے ہیں اور باوجود بڑے بڑے اُمراء کی موجودگی کے اُن میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آتا جو کام نہ کر رہا ہو اِلاّ ماشاء اللہ ہر قوم میں کچھ نہ کچھ گندے اور خراب افراد بھی ہوتے ہیں اُن کومستثنیٰ کرتے ہوئے اکثریت ایسے ہی لوگوں کی نظر آتی ہے جو اربوں ارب روپیہ کے مالک ہیں مگر خود بھی کام کرتے ہیں اُن کی بیویاں بھی کام کرتی ہیں اُن کے بچے بھی کام کرتے ہیں اسی طرح اُن کے خاندان کے دوسرے افراد بھی کام کرتے ہیں اور وہ کبھی کام کرنا اپنے لئے ننگ اور عار کا موجب نہیں سمجھتے مگر اس کے باوجود یا تو اپنے نفس کے لئے سب کچھ کرتے ہیں اپنے ملک کی ترقی اور اُس کی خوشحالی کے لئے کام کرتے ہیں یا قومی برتری کا احساس اُس کے مدّ نظر ہوتا ہے یا نفسانی خواہشات اُن کے پیش نظر ہوتی ہیں اسی لئے باوجود کام کرنے کے خرابیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں - پہلے زمانہ میں بھی باپ دادا کی جائیداد پر قبضہ کر لینے کی وجہ سے بعض لوگ کام نہیں کرتے تھے مگر خرابیاںکم ہوتی تھیں کیونکہ قومی برتری کا احساس اُن کے دلوں میں نہیں ہوتا تھا وہ صرف اپنے ذاتی مفاد کومدنظر رکھا کرتے تھے مگر چونکہ ذاتی مفاد کی بجائے قومی مفاد کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے اور دنیا کاایک بہت بڑا حصہ اپنے اعمال اس لئے بجا لاتا ہے کہ اُس کی قوم کو دوسروں پر تفوق حاصل ہو، اُس کی قوم کو دوسروں پر غیر معمولی اقتدار اور غلبہ میّسر ہو، اُس کی قوم کو بہت بڑی طاقت حاصل ہو- اس لئے کام کرنے کے باوجود اس زمانہ میں خرابیاں زیادہ پیدا ہو رہی ہیں- پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم تدبیریں کرو اور ضرور کرو کیونکہ ہم نے تم کو پیدا ہی اسی لئے کیا ہے کہ تم کام کرو مگر دیکھو ہماری نصیحت یہ ے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن اپنی ساری تدبیریں خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دو- ذاتی آرام یا قومی مفاد تمہارے مدنظر نہ ہو بلکہ تمہاری تمام جدوجہد محض اللہ تعالیٰ کی رضاء اور اُس کی خوشنودی کے حصول کے لئے ہو- غور کرو یہ کیسا سنہری اصل ہے اور کس طرح اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں دنیا میں امن قائم ہو جاتا ہے اس ذریعہ سے ایک طرف اللہ تعالیٰ نے نکما پن دُور فرما دیا اور نبی نوع انسان سے کہہ دیاکہ دیکھو ہم یہ پسند نہیں کرتے تم بیکار رہو اور دنیا میں آ کر کوئی کام نہ کرو اور دوسری طرف کہ دیا کہ ہم یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ تم جھوٹی رقابتیں پیدا کرنی شروع کر دو- تم کام کرو اور خوب کرو مگر جھوٹی رقابتیں پیدا نہ کرو- دوسرے ملکوں یاقومون کو تباہ کرنیکی کوشش نہ کرو بلکہ ہر کام اللہ تعالیٰ کی خاطر کرو- یہ امر ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے ہر کام کرے گا ذاتی یا قومی برتری کا احساس اس کے دل میں نہیں ہو گا وہ دوسروں کے حقوق کو کچلنے کے لئے بھی کوئی قدم نہیں اٹھا ئیے گا یہی وجہ ہے کہ اسلامی حکومت کے زمانہ میں ( یعنی جب جب اور جہاں اسلامی اصول پر حکومت کی گئی ) کبھی غیر قوموں کو کچلنے کی کوشش نہیں کی گئی- سات آٹھ سو سال تک مسلمانوں کو حکومت کرنے کا موقع ملا ہے اور یہ بہت بڑا عرصہ ہے اس قدر لمبے عہد حکومت کے باوجود کسی مسلمان حکومت نے ہمسایہ ممالک کو تباہ کرنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ اُن کے مقابلہ میں مسلمانوں کے پاس بہت کچھ طاقت تھی اور وہ اگر چاہتے تو آسانی سے اُن کی اقتصادی حالتوں کو تبہ کر سکتے تھے- مگر باوجود طاقتور ہونے کے، باوجود بادشاہ ہونے کے، باوجود ہمسایہ ممالک کی کمزوری کے کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کو کچلنے کے لئے مسلمانوں نے کوئی اقدام کیا ہو ایبے سینا کی واضح مثال ہے تیرہ سو سال وہ مسلمانوں کی ہمسائیگی میں رہا مگر اُس کی آزادی میں کوئی فرق نہ آیا- اس کے مقابلہ میں عیسائیوں میں صرف ایک صدی افریقہ میں غلبہ ہوا تو انہوں نے ایبے سینیا کو کچل دیا حالانکہ ایبے سینیا والے اُن کے کم مذہب تھے اور اس لحاظ سے وہ اس بات کا زیادہ حق رکھتے تھے کہ اُن کے ملک پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے- مگر عیسائیوں نے کسی بات کی پروا نہ کی- نہ انصاف کی مدنظر رکھا نہ دیانت اور رواداری کی پروا اور اپنے غلبہ کے گھمنڈ میں کمزور ممالک پرحملہ کر کے اُن کے اپنا ماتحت بنا لیا - یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ مسلمان قرآنی احکام کے مطابق اپنی تمام کوششیں محض اللہ تعالیٰ کی رضاء کو مدنظر رکھتے ہوئے عمل میں لاتے تھے- چونکہ ایبے سینیا- یوگنڈا- اور ایسٹ افریقہ وغیرہ نے مسلمانوں کو چھیڑا نہیں اس لئے باوجود زبردست مسلمان حکومتوں کے پہلو میں بیٹھے ہونے کے کسی نے اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا اور یہ حالت برابر چلتی گئی یہاں تک کہ انتہائی مُردود اور گری ہوئی حالت میں بھی اُن کے اندر یہ خوبی قائم رہی اور انہوں نے غیر اقوام کو کچلنے کی کبھی کوشش نہیں ی- لیکن یوروپین قوموں نے جہاں بھی سر نکالا انہوںنے غیر ممالک کو کچل ڈالا- میںہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ یوروپین قوموں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے بچوں کو کھیلتے ہوئے جب کوئی چیز مل جاتی تو وہ کہتے ہیں ’’ لبّھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پا دی ‘‘ یہ بھی غیر ملکوں پر قبضہ کرتے چلتے جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں یہ تو ایک بڑی چیزتھی جو ہمیں مل گئی- پھر اس کے ساتھ ہی وہ اس کے ساتھ ہی وہ اخلاق کے بھی دعویدار بنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے یہ قبضہ امن قائم کرنے اورلوگوں کو تہذیب و شائستگی کے اصول سکھانے کے لئے کیا ہے - اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ دعویٰ بالکل غلط ہے اگر واقعہ میں تمہارے اندر اخلاق پائے جاتے تھے اور تمہارے مدنظر ذاتی یا قومی مفاد نہیں تھا تو تمہارا فرض یہ تھا کہ تم بجائے غیرممالک پر قبضہ کرنے اور اُس کی دولت سے فائدہ اُٹھانے کے اُن ممالک میںجاتے، لوگوں کی تربیت کرتے ، انکو علم سکھاتے اور پھر واپس آ جاتے- گویا جو کچھ کرتے اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے کرتے نفسانیت کا اُس میں کوئی شائبہ نہ ہوتا- مگر تم نے تو جو کچھ کیا اپنے نفس کے لئے کیا اور یہ وہ چیز ہے جو دنیا اور امن قائم نہیں کرتی بلکہ بد امنی اور ظلم اور دَور دَورہ کا موجب بن جاتی ہے اگر انگریز افریقہ میں جاتے اور بجائے اُس پر قبضہ کرنے کے لوگوں سے کہتے ہم تمہاری ترقی کے لئے آئے ہیں- پھر انکو تعلیم دلاتے، اُن کو کاشت کے اصول سکھاتے - مدرسے اور کارخانے قائم کرتے ، مال و دولت کو ترقی بتاتے تہذیب اور شائستگی کے اُصول سکھاتے اور جب وہ یہ سب کچھ سیکھ جاتے تو کہتے لو اب ہم واپس جاتے ہیں- یہ ملک تمہارا ہے ہم تو محض تمہاری خدمت کرنے کے لئے آئے تھے تو یقینا وہ اپنے دعوتے میں سچے سمجھے جا سکتے تھے اور کہا جا سکتا تھا کہ اُن کی کوششیں اپنے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور نبی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے تھیں - مگر یہ کیا طریق ہے کہ افریقین لوگوںکو الگ بیٹھا دیا- اُن کی زمینوں اورجائیدادوں پر قبضہ کر لیا اور پھر راگ الا اپنا شروع کر دیا کہ ہم نے تو یہ قبضہ افریقین لوگوں کی ترقی اور اُن کے فائدہ کے لئے کیا ہے اور یہی ہمدردی کاجذبہ اِس کا محرک ہوا ہے-
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے چھے معنے
چھٹے معنے اس عبارت کے ہیں-یہ معنے بھی یہاں لگتے ہیں اور مراد یہ کہ شرک نہ کرو سب قسم کی عبادات اللہ تعالیٰ کے لئے کرو-
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے ساتویں معنے
(۷) ساتویں مناسب معنے اس کے وَرَع کے ہیں یعنی نیکی اور نیک اعمال اِن معنوں کے رُو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا ریاء اور سُمْعَۃ کو باکل ترک کر دو اور سب زہد وتعبد صرف اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے ہو- یہ نہ ہو کہ تمہارے جُبے اور دستاریں اور کہانت اور پادری کاعہدہ لوگوں میں عزت حاصل کرنے اور اُن سے اطاعت کرانے کے لئے ہو بلکہ تمہارا زہد و تعبد محض خدتعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے ہو- یہ بات ایسی ہے جس کی طرف غیر قومیں تو الگ رہیں خود مسلمانوں کو بھی بہت کم توجہ ہے-وہ نمازیں پڑھنے اورروزے رکھنے اور زکٰوۃ دینے اور حج کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رضاء مدّ نظر نہیں رکھتے بلکہ اُن کامقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ لوگوں میں ہماری عزت قائم ہو جائے اور ہمیں بڑا نمازییا بڑا عابد کہنے لگ جائیں- اِسی طرح حج بھی زُہد کیے علامت ہوتی ہے مگر ہمارے ملک میں عام طور پر حج کو بھی اپنی شرکت کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور ہر شخص جوحج کر آئے وہ اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھنا اپنا فرض سمجھتا ہے- میں جب حج کے لئے گیا تو ایک اور مسلمان نوجوان میرے ساتھ جہاز میں سوا ر تھا - وہ اپنے آپ کو دین کے متعلق اس قدر غیرت مند سمجھتا تھا کہ جب اُسے معلوم ہوا کہ میں احمدی ہوں تو وہ بار بار اپنا ہاتھ مار کر کہتاکہ وہ جہاز نہیں ڈوبتا جس میں ایساشخص سفر کر رہا ہے- حالانکہ اِسی جہاز میں وہ کود بھی سفر کر رہا تھا اور اگر جہاز ڈوبتا تو اُس کا ڈوبنا بھی یقینی تھا-بہرحال ایک طرف تودین کے متعلق وہ اس قدر غیرت کا اظہار کرتا تھا اور دوسری طرف اُس کی حالت یہ تھی کہ میں نے اُسے مکّہ سے منیٰ جاتے ہوئے جو عین حج کا وقت ہوتا ہے اُردو کے نہایت گندے عشقیہ اشعارپڑھتے ہوئے سُنا- ایک دن باوجود اس کے بعض اور کینہ کے میں اُس کے قریب چلا ہی گیا اور میں نے اُسے کہا کہ آپ کو دین کا بہت شوق معلوم ہوتا ہے مگر یہ کیابات ہے کہ منیٰ میں مَیں نے آپ کو بہت گندے اشعار پڑھتے سنا کہنے لگا بات اسل میں یہ ہے کہ ہم سورت کے تاجر ہیں اور ہمارے علاقہ میں حاجیوں کو بہت عزت کی نگارہ سے دیکھا جاتا ہے ہماری ہول سیل کی دوکان ہے اور ارد گرد کے علاقوں سے اکثر لوگ ہمارے دوکان سے ہی مال خرید کر لے جاتے ہیں مگر گذشتہ سال ہمارے پاس کی دوکان والاحج کر آیا اور اُس نے اپنے نام کے ساتھ حاجی کا ٹائٹل لگا کر دوکان پربورڈ آویزاں کر دیا- نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے گاہک بھی اُدھر جانے شروع ہو گئے کیونکہ لوگوں نے خیال کیاکہ حاجی صاحب سے سودا خریدنا چاہیے اس میں ثواب بھی ہو گا یہ دیکھ کر میرے باپ نے مجھے کہا کہ کم بخت تو بھی حج کر آ اور نہ اگر یہی حالت رہی تو ہماری دوکان بالکل تباہ ہو جائے گی- چنانچہ میں اسی لئے حج کے لئے آیا ہوں اب یہاں سے جانے کے بعد میں بھی اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھ کر بورڈ لٹکا دوں گا اور ہمیں تجارت میں جو گھاٹا ہوا ہے وہ جاتا رہے گا- اُس وقت اُسے تو میں نے کچھ نہ کہا مگر دل میں مجھے اُس کی حالت پر سخت افسوس آیا کہ کُجا اسکی غیرت کی یہ کیفیت تھی کہ وہ بار بار اپنے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہتا ہائے وہ جہاز بھی غرق نہیں ہو جاتا جس میں ایسا شخص سوار ہے اور کجا یہ حال ہے کہ وہ حج کرنے کے لئے آیا ہے مگر اُسے ذرا بھی یہ احساس نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضاء کی خاطر حج کرے بلکہ اُس کے مدنظر محض اتنی بات ہے کہ میں حاجی کہلائوں - لوگ میری عزت کریں اور وہ دوکان پر کثرت کے ساتھ سودا خریدنے کے لئے آنے لگیں - تو دنیا میں بہت لوگ ایسے ہیں جو زُہد و تعبّد میں لوگوں کی خوشنودی اور اُن کی واہ واہ حاصل کرنے کے لئے حصّہ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت سے اُن کا دل بالکل خالی ہوتا ہے مثلاً عیسائیوں میں پادریوں کی بہت بڑی عزت سمجھی جاتی ہے اور جتنے یوروپین اُمراء خاندان ہیں وہ ایک ایک لڑکا ضرور چرچ کی خدمت میں لگا دیتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ اُنکے دل میں عیسائیت کی کوئی عظمت ہے یا وہ سمجھتے ہیں کہ پادری بن کر ہمارا لڑکا اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل کرے گا بلکہ صرف اس لئے ایسا کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اس کے بغیر ہمارے خاندانوں کا سیاسی لحاظ سے کوئی اثر قائم نہیں ہو سکتا- یہ مسلمانوںکی بد قسمتی ہے کہ انہوں نے علماء کی عزمت نہیں کی جس کی وجہ سے امراء کی توجہ دین کی طرف سے بالکل ہٹ گئی مگر یورو پین قومیں اپنے پادریوں کی بڑی عزت کرتی ہیں اس وجہ سے امراء کو ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ ہمیں سیاسی رنگ میں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ورنہ عوام میں ہمارے خلاف جوش پیدا ہو جائے گا اور وہ رسوخ جو ہمیں حاصل ہے جاتا رہے گا پس چونکہ زُہد و تعبد کے اعمال بساا وقات لوگ اس لئے بجا لاتے ہیں کہ اُن کی قوم میں عزت اور رسوخ حاصل ہو- اس لئے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تم ریاء اور سمعت کے خیالات کو اپنے دل کے کسی گوشہ میں بھی داخل نہ ہونے دو اور جس قدر نیک اعمال بجا لائو ان کی تہ میں صرف یہی جذبہ کار فرما ہوکہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل ہو جائے مخلوق سے توجہ ہٹا کر صرف خالق پر اپنی نظر رکھو اور اپنے اعمال صالحہ کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کر دو کہ وہی اعمال اُس کی درگاہ میں مقبول ہوتے ہیں جو اس کی رضا کے لئے کئے جائیں- جن اعمال پر دیاء کا داغ لگ جاتا ہے وہ انسان کے مُنہ پر مارے جاتے ہیں اور ثواب کی بجائے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا موجب بن جاتے ہیں-
(۸) آٹھویں مناسب معنے جو یہاں لگ سکتے ہیں عادت کے ہیں اِن معنوں کے رُو سے اس آیت کا مفہوم ہو گا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ایسے فرمانبردار بنو کہ تمہاری عادت بھی اللہ تعالیٰ کے تابع ہو جائیں- بظاہر ہر عادت کی عبادت بُری ہو تی ہے مثلاً اگر کوئی شخص صرف عادت کی نماز پڑھتا ہے یعنی اُسے نماز کی عادت ہو گئی یا
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کےآٹھویں معنے
اُس کے ماں باپ نے اُسے روزے رکھنے پر مجبور کیا تھا جس کی وجہ سے اُسے روزوں کی عادت ہو گئی یا کسی اَور نیک کام پر اُس کے مان باپ نے اُسے مجبور کیا اور رفتہ رفتہ اُس نیک کام کی اُسے عادت ہو گئی تو یہ عادت بُری سمجھی جاتی ہے - لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ عادتیں دو قسم کی ہوتی ہیں وہ عادت کی عبادت بُری ہوتی ہے جس کی ابتداء بھی عادت سے ہو- یعنی جب کسی نے کوئی کام بغیر سمجھے بوجھے کی ہو اور فتہ رفتہ وہ کام اس کی طبیعت میں داخل ہو گیا ہو تو یہ عادت اچھی نہیں سمجھی جا سکتی- مثلاً کسی شخص سے زید کو کوئی بات کہی اور اُس نے بغیر سوچے سمجھے اُس کے مطابق کام کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ اُس بات کی اُسے عادت ہو گئی یا کسی اَور کے کہنے کی بجائے اُس نے خود ہی کسی کام کی آہستہ عادت اختیار کر لی تو یہ عادت قطعاً کوئی قیمت نہیں رکھتی- لیکن ایک شخص ایس اہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے لیے اور اس کی محبت اور اُس کے عشق سے عبادات ار نیک اعمال میں حصہ لینا شروع کرتا ہے اور عمل کرتے کرتے وُہ اُس کا جزو بدن ہو جاتے ہیں اور آپ ہی آپ بغیر کسی ارادہ کے وہ افعال اس سے ظاہر ہونے لگتے ہیں ایسے شخص کی عادت کی عبادت رسمی عبادت نہیں کہلا سکتی - کیونکہ اُس نے خلوص کے ساتھ، محبت کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایسا کیا اور متواتر کرتا چلا گیا یہاں تک کہ عبادت اُس کا جزوِ بدن بن گئی- اب جو فعل اس عادت کے نتیجہ میں ظاہر ہو گا وہ یقینا خوبی کہلائے گا کیونکہ اُس نے دیدہ و دانستہ اپنے نفس پر جبر کر کے خداتعالیٰ کی رضاء کے حصول کے لئے ایک فعل اتنی بار کیا وہ اُس کے رگ و ریشہ میں پیوست ہو گیا یہ جبری عادت نہیں ہوتی کہ اُسے بُرا قرار دیا جا سکے نہ بے دھیان کی عادت نہیں ہوتی کہ اُسے بُرا قرار دیا جا سکے نہ بے دھیان کی عادت ہوتی ہے کہ اُسے لغو کہا جا سکے- یہ ایک نیک عادت ہوتی ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے محض اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے اختیار کی جاتی ہے اور چونکہ خدائی قانون یہ ہے کہ جب ایک شخص لذّت اور شوق سے متواتر کئی فعل کرے تو وہ کام اُس سے آپ ہی آپ سرزد ہو تا جاتا ہے- اِس لئے ایسے شخص کی عادت کی عبادت رسمی نہیں کہلاتی بلکہ وہ اطاعت کا منتیٰ کہلاتی ہے-
(۲)دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ انسان کو کئی قسم کی عادات خاص خاندانوں یا قوموں میں رہنے کی وجہ سے پڑ جاتی ہیں- مثلاً چائے نوشوں میں چائے کی عادت ہوتی ہے، اچھے خوش خور لوگوں میں اچھا کھانا کھانے کی عادت ہوتی ہے خوش لباسوں میں رہنے کی وجہ سے انسان کو خوش لباسی کی عادت ہو جاتی ہے- اس لئے ایک معنے اِس آیت کے یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو اس طرح اللہ تعالیٰ کا بنائو کہ اگر تم کو کوئی عادت پڑے تو وہ اللہ کی ہو نہ کہ اپنے گرد وپیش کے لوگوں کے اثر سے تم نے وہ عادت اختیار کی ہو- گویا اس میں یہ اشارہ کیا گیاہے کہ تم لغو عادات سے مومن کو بچنا چاہیے- یوں تو عادتیں انسان کو ضرور پڑ جاتیہیں کوئی انسان دنیامیں ایسا نہیں ہوتاجسے کچھ نہ کچھ عادت نہ ہو- مگر کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے گردو پیش کے لوگوں سے صرف اتنا اثرلیتے ہیں کہ اُنہیں اچھا کھانا کھاتے دیکھتے ہیں تو خود بھی اچھا کھانا کھانے لگ جاتے ہیں- اُنہیں اچھا لباس پہنتے دیکھتے ہیںتو خود بھی اچھا لباس پہننے لگ جاتے ہیں- اُنہیں آرام کی زندگی بسر کرتے دیکھتے ہیں تو خود بھی آرام کی زندگی بسر کرنے لگ جاتے ہیں لیکن ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو لوگوں سے صرف نیکی اور تقویٰ اور عبادت کا اثر قبول کرتا ہے- اب جہاں تک دوسروں سے اثر قبول کرنے کا سوال ہے دونوں نے اثر قبول کیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنے نفس کے آرام کے لیے گروہ پیش کا اثر قبول کیا اور دوسرے نے خدا تعالیٰ کی رضاء کے لئے صرف وہ اثر قبول کیا جس کا نیکی اور تقویٰ کے ساتھ تعلق تھا- گو یا وہ شخص جس نے اچھا کھانے یا اچھا پینے یا اچھا پہننے کا اثر قبول کیا تھا اُس نے اپنے دل کے آئینے کو غیروں کے سامنے کیا اور وہ شخص جس نے اپنے اندر نماز اور روزہ اور صدقہ و خیرات کی عادتیں پیدا کیں اُس نے اپنا آئینہ خدا کے سامنے کر دیا- پس فرماتاہے تمہیں دنیا کی میں رہ کر عادتیں تو ضرور پڑنی ہیں مگرایسی کوشش کرو کہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے اعمال کا تواتر ہو-
نبی نوع انسان کے اعمال کا تو اثر نہ ہو جیسے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی نظریں نیچی رکھو اگر اتفاقیہ طور پر کسی غیر عورت پر تمہاری نگاہ پڑ جاتی ہے تو اس میں کوئی گناہ نہیں- لیکن اگر تم دوسری نگاہ اُس پر ڈالو گے تو گنہگار بن جائو گے- اِس ممانعت میں بھی یہی حکمت ہے کہ اگر انسان دوسری بار نگاہ ڈالے گا تو اُس کا یہ نگا ہ ڈالنا بالا ارادہ ہو گا- اور جب وہ ایک کام بالا ارادہ کر ے گا تویہ لازمی بات ہے کہ وہ کام آہستہ آہستہ عادت میں داخل ہونا شروع ہو جائے گا پس مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے ایک معنے یہ یہں کہ تو بُرے افعال کا تکرار ن کر بلکہ اُن اعمال کا تکرار کر جو تجھے خدا تعالیٰ تک پہنچانے والے ہوں یعنی جن کاموں کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اُن کا تکرار کرو اور جن کاموں سے خد ا تعالیٰ نے حکم دیا ہے - اُن کا تکرار کرو اور جن کاموں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اُن کے گردو پیش کے اثرات کی وجہ سے عادت پیدا نہ کرو- گویااس کے معنے یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو گردو پیش کے برے اثرات سے بالکل آزاد کر لو حتیٰ کہ تم کو دوسروں کے بد اثرات سے کوئی عادت نہ پڑے بلکہ صرف نیک اثرات کو قبول کرو-
عادت بھی ایک بہت بڑی ظلمت ہوتی ہیں بعض دفعہ یہ انسان کو دوسرے کا خوشامدی بنا دیتی ہیں- بعض دفعہ ڈرپوک بنا دیتی ہیں- بعض دفعہ سُست بنا دیتی ہیں اور انسان بڑے بڑے کاموں میں حصہ لینے سے محروم ہو جاتا ہے- مثلاً حُقّہ کی عادت ہے، افیون کی عادت ہے یا چائے کی عادت ہے ایسے لوگوں کو اگر جہاد کے لئے جانا پڑے تو اُن کے قدم ڈگمگا جائیں گے کیونکہ جہاد میں یہ چیزیں میّسر نہیں آ سکتیں - لڑائی میں بسا اوقات انسان کوئی کئی کئی وقت کا فاقہ کرنا پڑتا ہے-
بسا اوقات جنگلوں میں راتیں گذارنی پڑتی ہیں ، بسا اوقات نہایت معمولی اور ردّی غذا کھا کر گزارہ کرنا پڑتا ہے- ایسے مواقع پروہ شخص جسے شراب کی عادت ہو یا افیون کی عادت ہو حقہ اور نسوار کی عادت ہو کبھی دلیری سے آگے نہیں آ سکتا کیونکہ اُس کی عادات اِس قربانی میں دیوار بن کر حائل ہو جائیں گی اور وہ سمجھے گا کہ اگر میں اس جنگ میں شامل ہوَا تو مجھے سخت تکلیف اُٹھانی پڑے گی-
موجودہ جنگ میں سپاہیوں کی سب سے بڑی مشکلات یہی تھی کہ ہمیں شراب نہیں ملتی ہمیں سگریٹ نہیں ملتے اور یہ شکایت اس قدر بڑھ گئی کہ انگری افسروں کے لئے اس کا ازالہ کرنا بالکل نا ممکن ہو گیا- چنانچہ پارلیمنٹ کے موجودہ انتخابات میں مسٹر چرچل کے شکست کی وجہ بھی یہی ہوئی کہ ووٹ سب اُن کے خلاف تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ ایسی گورنمنٹ ہر گز قائم رہنے کی مستحق نہیں جس نے لڑائی میں ہمارے لئے شراب مہیا نہیں کی، جس نے کثرت سے ہمیں سگریٹ نہیں پہنچائے اور اس طرح وہ ہماری تکلیف کا موجب ہوئی ہے- حالانکہ انگریز افسر بھی سچے تھے وہ لڑائی کا سامان جمع کرتے یا شرابیں اور سگریٹ تیار کر کر کے فوفیوں کو بھجواتے؟ پس اس آیت میں مومنوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ سوائے ذکر الہٰی اور نیکی کے کاموں کے جو خدا تعالیٰ کی رضا کا موجب ہیں اور کسی چیز کی عادت نہ پڑنے دو تا کہ تم کو کبھی غیر کے آگے جھکنے یا قومی خدمات میں سستی کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے-
حُنَفَآئَ- مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے جو معنے اوپر بیان کئے گئے ہیں اُن میں چونکہ حَنِیْف کے وہ معانی بھی آ جاتے ہیں جو حل لغات میں بیان کئے جا چکے ہیں اِس لئے میں اِس جگہ حَنِیْف کے صرف اتنے ہی معنے لیتا ہوں کہ ’’ نیک میلانوں پر ثابت قدم رہنا‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اوپر کی تشریحات کے بعد صرف یہی ایک معنے باقی رہ جاتے ہیں جن کاایک بیان کرنا ضروری ہے-
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہیں اوپر کا حکم اس مزید ہدایت کے ساتھ دیتے ہیں کہ تم اپنے آپ میں نیک باتوں پر استقلال پیدا کرو یعنی ہم چاہتے ہیں کہ ایک تو مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن َ کے جو معنے ہیں وہ تمہارے اندر پیدا ہو جائیں اور دوسرے تم میں استقلال پیدا ہو جائے- یہ ہو کہ نیکیوں پر چند دن تو بڑے جوش و خروش سے عمل کرو اور تھک کر بیٹھ جائو- درحقیقت بڑی غلطی انسان کی یہ ہوتی ہے کہ ونیکیوں پر دوام اختیار نہیں کرتا صرف چند دن عمل کرتااور پھر اُن کو چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے- حالانکہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہی نیکی مقبول ہو سکتی ہے جس پر دوام اختیار کیا جائے اور دوام پیدا نہیں ہو سکتا جب تک انسان کے اندر استقلال کا مادہ نہ ہو- پس اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دینے کے بعد کہ تمہاری تدابیرؔ اور تمہارا حکمؔ تمہاری سیرۃؔ اور تمہاری تدابیرؔ اور تمہاری عباداتؔ اور تمہاری نیکی اور تمہاری عادات سب کی سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جانی چاہیں-…………
حُنَفَآئَ کہا کر یہ مزید حکم دے دیا کہ جب ایسے مقامات تمہارے اندر پیدا ہو جائیں تو پھر اُن پر ثابت قدم رہو ایس انہ ہو کہ سُستی کر کے اس مقام پر سے تمہارا قدم لڑ کھڑا جائے اَور تمہاری نیکیاں سب ضائع چلی جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہی عبادت نفع رکھتی ہے جس میں دوام پایا جائے-
۲۱۱؎ حُنَفَآئَ کے معنے نیک میلانوں پر ثابت قدم رہنا
رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ گھر میں داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کی ایک بیوی نے چھت سے ایک رسّہ لڑکا رکھا ہے- رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ کیسا رسّہ ہے؟ انہوں نے جواب کہ رسول اللہ یہ اس لئے ہے کہ جب عبادت کرتے کرتے اُونگھ آنے لگے تو اس سے سہارا لے لیا جائے- رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِسے کھول دو- اللہ تعالیٰ کو وہی عبادت پسند ہے جس میں دوام پایا جائے اگرچہ وہ کتنی ہی قلیل ہو- وہ عبادت پسند نہیں جس کے نتیجے میں انسان کی طبیعت میں ملاں پیدا ہو جائے اور چند دن کے بعد وہ اُس کو ترک کرنے پرمجبور ہو جائے-
بعض لوگ غلطی سے اس کے معنے یہ سمجھتے ہیں کہ کسی دن کم اور کسی دن زیادہ عبادت نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمیشہ ایک جیسی عبادت کرنی چاہیے مگر یہ معنے بالبداہت باطل ہیں- کیونکہ انسان بعض دفعہ بیماری کی وجہس ے یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے زیادہ عبادت نہیں کر سکتا اور بعض دفعہ اُس کے چھوڑنے پر بھی مجبور ہر جاتا ہے - خود رسول کریم صلے ا للہ علیہ وسلم کے متعلق بھی ثابت ہے کہ بعض دفعہ آپ رات کو پورے آٹھ نفل نہیں پڑھ سکے پس اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ تم نفلی عبادات کو کم و پیش نہ کرو بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب تم کوئی عبادت شروع کرو تو پھر اُسے کرتے چلے جائو-یہ نہ ہو کہ چند دن نفل پڑھو اور پھر چھوڑ دو- یا بعض دفعہ تو ساری ساری رات تہجد پڑھتے رہو ار پھر چھوڑ دو- یا بعض دفعہ تو ساری ساری رات تہجد پڑھتے رہو اور بعض دفعہ تو ساری ساری رات تہجدپڑھتے رہو اوربعض دفعہ دونفل بھی نہ پڑھو- یہ عدم استقلال کا مرض ہے جس سے ہر مومن کو کلّی طور پر محفوظ ہونا چاہیے اور اُسے سمجھ لینا چاہیئے کہ نیکی وہی ہے جس پر دوام اختیار کیا جائے-
وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْ تُو الذُّکٰوۃَ:-
لِیَعْبُدُ واﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے بعد وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کا ذکر کرنا صاف بتا رہا ہے کہ اس جگہ اقامتِ الصلوۃ کا ذکرکرنا صاف بتا رہا ہے کہ اس جگہ اقامتِ صلوٰۃ سے مراد محض عبادت نہیں- اگر محض عبادت اس جگہ مراد ہوتی تو اُس کے علیحدہ ذکر کرنے کے کوئی معنے ہی نہیں تھے لِیَعْبُدُ واﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں یہ مفہوم بڑی وضاحت سے آ چکا تھا اور بتایا جاچکاتھا کہ مومنوں کا فرض ہے کہ وہ خالص الل تعالیٰ کی عبادت کریں اور اُسی کی پرستش کریں یعنی نماز اور روزہ ار حج زکٰوۃ وغیرہ - میں اپنی عمر بسر کریں پس جب وہاں عبادت کا وضاحتہً ذکر آ چکا تھا تو اس کے بعد وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کہنا کہ مومن وہ ہیں جو اقامت صلٰوۃ کرتے یہں صاف بتاتا ہے کہ اس جگہ اقامتِ صلٰوۃ عبادت کے علاوہ کوئی ار مفہوم رکھتی ہے اور وہ وہی مفہوم ہے جو میں نے اپنے خطبات اور تقاریر میں بار ہا بتایا ہے کہ اقامت صلٰوۃ سے مراد با جماعت نماز ادا کرنا ہے یوں اقامتِ صلٰوۃ کے یہ بھی معنے ہوتے ہیں کہ عبادت کو کھڑا کرنا عینی نماز کو اُس کو تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنا- مگر اقامت کے معنوں کو اگر ہم کلّی طور پر دیکھیں تو پھر نماز کو کھڑا کرنے کے معنی یہ بن جائیں گے کہ وہ دنیا میں قائم ہو جائے - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام نے اقامت صلوٰۃ کے ایک یہ معنے بھی لئے ہیں کہ مومن اپنی نمازوں کو بار بار کھڑا کرتے ہیں- نماز گرتی ہے تو وہ اُسے کھڑا کرتے ہیں پھر گرتی ہے تو وہ پھر کھڑا کرتے ہیں پھر گرتی ہے تو وہ پھر کھڑا کرتے ہیں- مطلب یہ ہے کہ اُنہیں نماز میں خشوع و خضوع پیدا نہیں ہوتا یا اللہ تعالیٰ کی طرف کامل توجہ نہیں ہوتی تو وہ بار بار اپنی نمازوں کو سنوارنے اور اُن کے پورے طور پر درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس آیت میں یہ معنے مراد نہیں- اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقامتِ صلٰوۃ کے ایک یہ معنے بھی ہوتے ہیں اور ان معنوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے بڑا زور دیا ہے کہ نماز گرتی ہے تو مومن اُس کو کھڑا کرتا ہے پھر گرتی ہے تو پھر کھڑا کرتا ہے- مگر چونکجہ یہ مضمون وَمَٓااُمِرُوْا اِلاَّ لِیَعْبُدُ واﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں آ چکا ہے اس لئیوَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کے یہاں کوئی زائد معنے ہوں گے جو میرے نزدیک دو ہیں-
اوّل نماز کا کھڑا کرنا اپنے اندر یہ مفہوم رکھتا ہے کہ دنیا میں نماز کا رواج قائم کر دیا جائے جیسے ہماری زبان میں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے یہ رسم جاری کر دی ہے کہ اِسی طرح اللہ تعالیٰ مومنوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وہ لوگوں میں نماز قائم کریں یعنی صرف خود ہی نماز نہ پڑھیں بلکہ تمام لوگوں میں نماز کی خوبیاں بیان کریں- اُنہیں نماز پڑھنے کی تحریک کریں اگر انہیں نماز پڑھنی نہیں آتی تو انہیں نماز پڑھنا سکھائیں- اگر کوئی شخص نماز کا ترجمہ نہیں جانتا تو اُسے نماز کا ترجمہپڑھائیں اگر کوئی شخص نمازیں ادا کرنیکی لوگوں کو تحریک کر رہا ہو، کوئی شخص نماز پڑھنے والوں میں نماز کی مزید رغبت پیدا کر رہا ہو- اس طرح کوئی مومن ایسا نہ ہو جو وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کے حکم پر عمل نہ کر رہا ہو- پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارا صرف یہی کام نہیں کہ تم خود نمازیں پڑھو بلکہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم لوگو ں کو نماز کی تحریک کر کے ، اِنْ پڑھوں کو نماز کا ترجمہ سکھا کے ، نماز پڑھنے والوں کو نماز کی مزید رغبت دلا کے دنیا میں پوری مضبوطی کے ساتھ نمازوں کا رواج قائم کر دو- یہ سب امور ایسے ہیں جو اقامتِ صلوٰۃ میں شامل ہیں-
دوسرے معنے جو اقامت صلوٰۃ کے یہاں چسپاں ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ تمہارا صرف یہی فرض نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ تم جماعت کے ساتھ نماز پڑھو- مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں صرف عبادت کا حکم نہیں دیتے بلکہ باجماعت عبادت کا حکم دیتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام فروی مذہب نہیں بلکہ قومی مذہب ہے-باقی سارے مذاہب میں اگر افراد الگ الگ عبادت کرتے ہیں تو وہ بڑے زاہد، بڑے عابد، بڑے پرہیز گار اور بڑے عارف سمجھے جاتے ہیں- لوگ اُن کی نیکی اور تقدّس کے قائل ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں- جنہیں اﷲ تعالیٰ کا قرب اور اُن کا وصال حاصل ہے- مگر اسلام کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص با جماعت نماز ادا نہیں کرتا تو خواہ وہ علیحدگی میں کتنی عبادتیں کرتارہتا ہو وہ ہرگز نیک اور پارسا نہیں سمجھا جا سکتا اور اُسے ہرگز قوم میں عزت کا مقام نہیں دیا جا سکتا- یہ ایک بہت بڑا فرق ہے جو اسلام اور غیر مذاہب میں پایا جاتا ہے- باقی سب مذاہب پر غور کر کے دیکھ لو وہ انفرادی عبادات کو بہت بڑی اہمیت دیتے ہیں یہاں تک کہ بسا اوقات بڑی بڑی دُور سے پنڈت اور پادری اور راہب اور عوام الناس کے جوق در جوق یہ سُن کر فلاں سادھو چالیس سے غار میں عبادت کر رہا ہے اُس کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں، اُسے نذریں دیتے ہیں، اُس کے آگے سجدے کرتے ہیں، اُسے اپنا حاجت روا سمجھ کر اُس سے بڑی عاجزی سے التجائیں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سادھو سے بڑا اور کون ہو سکتا ہے- یہ وہ ہے جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چالیس سے پہاڑ کی ایک غار میں بیٹھا اﷲ اﷲ کر رہا ہے- مگر اسلام کہتا ہے- ایسا شخص ہرگز خدا تعالیٰ کا مقرب نہیں- وہ تو بہت بڑا بے دین ہے جس سے اقامتِ صلوٰۃ کے حکم کو نظر انداز کر دیا ہے جس نے یُقِیْمُوا الصّلوٰۃ کے حکم کو پس پشت پھینک دیا ہے- جو شخص قوم سے کٹ گیا ہے- جس نے قوم کی بہتری اور اس کی فلاں و بہبود کی کبھی فکر نہیں ، جو گوشۂ تنہائی میں بیٹھ رہا ہے وہ تو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سخت سزا کا مستحق ہے- کجا یہ کہ اُسے نیک اور خدارسیدہ سمجھا جائے-
پس وہ لوگ جن کو دوسری قومیں محض علیحدگی میں عبادت کرنے کی وجہ سے بزرگ قرار دیتی ہیں اسلام اُن کو مرتد اور مردود قرار دیتا ہے- دنیا اُن کو خدا رسیدہ سمجھتی ہے اور اسلام اُن کو اﷲ تعالیٰ کے قرب سے راندہ ہوا سمجھتا ہے- کیونکہ اسلام کہتا ہے- یُقِیْمُوا الصّلوٰۃ ہم نے تمہیں صرف اتنا حکم نہیں دیا کہ تم نمازیں پڑھو بلکہ ہمارا حکم یہ ہے کہ تم لوگوں کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھو- اور اپنی ہی حالت کو درست نہ کرو بلکہ ساری قوم کو سہارا دے کر اُس کی روحانیت کو بلند کرو اور قوم سے دُور نہ بھاگو بلکہ اس کے ساتھ رہو اور ہوشیار چوکیدار کی طرح اُس کے اخلاق اور اُس کی روحانیت کا پہرہ دو-
اس آیت میں دوسرا حکم زکوٰۃ کا دیا گیا ہے اور قرآن کریم میں جہاں بھی ایتائِ زکوٰۃ کا ذکر آتا ہے- ہمیشہ اقامتِ صلوٰۃ کے بعد آتا ہے- اس میں ایک نہایت ہی لطیف اشارہ اس امر کی طرف پایا جاتا ہے کہ جب تک کوئی شخص اپنی قوم کی شکستہ حالی سے واقف نہیں ہوتا اُس وقت تک وہ اُن کی کوئی خدمت بھی نہیں کر سکتا- وہ شخص جو کسی پہاڑ کی کھوہ میں جا کر بیٹھ رہا ہے اور دن رات سبحان اﷲ سبحان اﷲ کہتا رہتاہے اُسے کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں یا غُرباء ننگے پھر رہے ہیں یا مساکین پیسہ پیسہ کے لئے دربدر خاک چھان رہے ہیں یا روپہ کی کمی کی وجہ سے وہ علم سے محروم ہو رہے ہیں- اُسے اِن میں سے کسی بات کا بھی علم نہیں ہو سکتا اور جب علم نہیں ہو گا تو وہ اپنی قوم کے لئے کوشش کیا کرے گا- غرباء کے لئے جدوجہد یا مساکین کی ترقی کے لئے کوشش اُسی وقت ہو سکتی ہے جب انسان کو علم ہو کہ اُس کی قوم میں غرباء پائے جاتے ہیں، اُس کی جماعت میں مساکین موجود ہیں اور اُس کا فرض ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلائے، پیاسوں کو پانی پلائے، ننگوں کو کپڑے دے اور بیماروںکا علاج کرے اور یہ علم اُس وقت نہیں ہو سکتا جب تک انسان مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کا عادی نہ ہو- جب وہ مسجد میں آ ئے گا کہ تو دیکھے گا کہ اُس کے پاس ہی ایک طرف تو ایسا شخص کھڑا ہے جس نے اعلیٰ درجہ کا لباس پہنا ہوا ہے ، قیمتی عطر لگایا ہوا ہے، باصحت اور تنومند ہے اور دوسری طرف ایک ایسا شخص کھڑا ہے جس کے پھٹے پُرانے کپڑے ہیں، اُس کے لباس اور جسم کی بدبو سے دماغ پھٹا جاتا ہے اور اُس کے چہرہ پر جُھریاں پڑی ہوئی ہیں- وہ یہ نظاّرہ دیکھے گا تو اُس کا دل تڑپ اُٹھے گا اور کہنے میرا فرض ہے کہ میں قوم کے غرباء کے لئے اپنا روپیہ خرچ کروں اور اُن کی تکالیف کو دور کروں- یا وہ مسجد میں جائے گا تو دیکھے گا کہ وہاں ایک نوجوان بیٹھا ہے- بیس پچیس سال اُس کی عمر ہے، اُٹھتی جوانی کا زمانہ ہے- مگر اُس کی حالت یہ ہے کہ کلے پچکے ہوئے ہیں، آنکھیں اندر دھنسی ہوئی ہیں، کپڑوں کا بُرا حال ہے اور ضعف اُس کے جسم سے ظاہر ہے- وہ یہ حالت دیکھ کر لازماً پوچھے گا کہ میاں! تمہارا کیا حال ہے، تم اتنے خستہ حال کیوں نظر آ رہے ہو؟ اس کے جواب یا تو وہ کہے گا کہ میں بیمار ہوں علاج کے لئے میرے پاس کوئی پیسہ نہیں اور یا کہے گا کہ بیمار تو مگر کھانے پینے کا میرے پاس کوئی سامان نہیں- اس پر دوسرا شخص اُسے کہہ سکتا ہے کہ تم جوان آدمی ہو کماتے کیوں نہیں؟ وہ کہے گا میں کیا کروں بخاری کا کام مجھے آتا ہے مگر بخاری کے آلات وغیرہ خریدنے کی مجھ میں استطاعت نہیں یا معماری جانتا ہوں یا کپڑا بننا جانتا ہوں یا لوہارے کا کام جانتا ہوں مگر سامانوں سے تہیدست ہونے کی وجہ سے بے کار بیٹھاہوں- اس پر اُسے فکر پیدا ہو گا کہ میرا فرض ہے- مَیں اِس کی مدد کروں اور اِسی طرح قوم کے جو دوسرے غرباء ہیں اُن کی تکالیف دُور کرنے میں حصہ لوں تاکہ یہ بھی باعزت زندگی بسر کر سکیں- پس حقیقت یہ ہے کہ ایتائِ زکوٰۃ کی تحریک اقامتِ صلوٰۃ سے ہی ہوتی ہے اور اسلام نے پانچ وقت نماز جماعت کی ادائیگی کا حکم دے کر ایک ایسا اعلیٰ درجے کا راستہ کھول دیا ہے کہ اگر اس حکم پر عمل کیا جائے تو قوم کے حالات سے نہایت آسانی کے ساتھ واقفیت ہو سکتی ہے- بھلا ایک انگریز لارڈ کو اپنی قوم کے حالات کی کیا واقفیت ہو سکتی ہے- وہ گھر میں رہتا ہے تو وردیاں پہنے ہوئے نوکر اُس کی خدمت کے لئے موجود ہوتے ہیں جو اُس کے دسترخوان سے اپنا پیٹ ضرورت سے زیادہ بھر کر موٹے ہو رہے ہوتے ہیں- کلب میں جاتا ہے تو اُس کی سوسائٹی کے لوگ اُس کے دائیں بائیں ہوتے ہیں- اُسے کچھ علم نہیں ہو سکتا کہ غرباء پر کیا کچھ گذر رہی ہے- لیکن ایک مسلمان جو پانچ وقت مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتا ہے اور ہر روز پانچ دفعہ لوگوں کی شکلیں دیکھتا ہے اُسے بڑی آسانی سے پتہ لگتا رہتا ہے کہ اُس کی قوم کا کیا حال ہے اور اُسے قومی ترقی کے لئے کن امور کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے-
وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ- وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ- کے یہ معنے ہیں کہ ’’یہ ہے قائم رہنے والی قوم کا دین-‘‘ یہاں مضاف حذف کر دیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ- یعنی دنیا میں جو اُمّت قائم رہنا چاہے اُسے ایسا ہی طریق اختیار کرنا ضروری ہے- اس جگہ دین کے معنے طریق کے ہیں یا حال کے ہیں یا شان کے ہیں- اور اس طرح اوپر کے بیان کردہ سب معنے اس میں آ جاتے ہیں یعنی دنیا میں قائم رہنے والی اُمت کا یہی طریق اور یہی حال ہوتا ہے- اور چونکہ قیمۃ ٌ کے معنے مُتْوَلِّیْ کے بھی ہیں اس لئے ان معنوں کے رُو سے اِس آیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ جس قوم کو اﷲ تعالیٰ دنیا میں متولی بنائے اُسے ایسا ہی طریق اختیار کرنا چاہئیے ورنہ وہ اپنے فرض کو پورا کرنے والی نہ ہو گی- بہرحال اس آیت کے دو معنے ہوئے ایک یہ کہ قائم رہنے والی قوم کے یہ آثار ہوتے ہیں اور دوسرے یہ کہ جس قوم کو اﷲ تعالیٰ متولی بنائے اُسے ایسا ہی خصائل اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں- مطلب یہ ہے کہ جس قوم میں یہ علامات پیدا ہو جائیں اﷲ تعالیٰ اُسے دنیا کا متولّی بنا دیتا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ میں اﷲ تعالیٰ نے دو امور کی طرف اشارہ فرمایا تھا- اقامت صلوٰۃ میں اﷲ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ کی اتھا کہ مومن اﷲ تعالیٰ سے صلح رکھتے اور ان کے حقوق کو پوری دیانتداری کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور ایتاء زکوٰۃ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ مومن بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرتے، اُن کی خدمت میں پورے جوش سے حصہ لیتے اور اُن کے حقوق کو پوری تندہی سے ادا کرتے ہیں- اب فرماتاہے وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ- جو اُمت دنیا میں قائم رہنا چاہے اُسے ایسا ہی طریق اختیار کرنا چاہئیے یعنی اگر انسان اﷲ تعالیٰ سے بھی صلح رکھیں اور بنی نوع انسان سے بھی صلح رکھیں تو اُن پر کبھی تباہی نہیں آ سکتی- بگاڑ ہمیشہ اُسی وقت پید اہوتاہے جب لوگ یا تو خدا تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کر لیتے ہیں اور اُس کی طرف سے عذاب اور تباہیاں آنے لگتی ہیں یا پھر بنی نوع انسان کو اپنے خلافِ بھڑکا لیتے ہیں اور اِس کے نتیجہ میں بغاوت، ڈاکے، قتل اور خونریزیاں شروع ہو جاتی ہیں- دنیا میں عذاب آخر کیوں آتا ہے- طاعون دنیا میں کیوں آئی- زلازل کیوں آ رہے ہیں؟ اسی لئے کہ لوگوں نے خدا تعالیٰ سے اپنے تعلقات بگاڑ لئے- اس کے مقابل میں لوگ آپس میں کیوں لڑتے ہیں؟ اسی لئے کہ کچھ لوگ دوسروں پر ظلم کرتے اور اُن کے حقوق کی ادائیگی میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں جب یہ بات لوگوں کو قوتِ برداشت سے بڑھ جاتی ہے تو وُہ لڑائی شروع کر دیتے ہیں- یہی فساد کو دو وجوہ ہیں یا اللہ تعالیٰ سے بگاڑ- یا نبی نوع انسان سے بگاڑ - اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر کوئی قوم اقامت الصلوۃ اور ایتائِ زکوۃ پر عمل کر لے خدا تعالیٰ سے بھی صلح رکھے ار اُس کے بندوں سے بھی- تو اُس پر کبھی تباہی نہیں آ سکتی- تباہی کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ سے اپنے تعلقات بگاڑ لیتے ہیں اور اُن پر عذاب آنا شروع ہو جاتا ہے- اِسی طرح بندوں سے اپنے تعلقات بگاڑ لیتے ہیں اور لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں- محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم دنیا کے لئے کیاپیغام لائے تھے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ سے بھی صلح کر لو اور اُس کے بندوں سے بھی صلح کر لو تا کہ تم ہر قسم کے زوال سے محفوظ رہو- اس میں بھلا کونسی چیز تھی جس کی بناء پر لوگوں نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی مخالفت شروع کر دی؟ یہ بات تو سراسر اُن کے فائدہ کے لئے کہی گئی تھی مگر اُنہوں نے اُلٹا اپنے محسن کے خلاف جنگ شروع کر دی-
دوسرے معنوں کے لحاظ سے اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس قوم کو اللہ تعالیٰ دنیا میں متولی بنائے اُسے ایسا طریق اختیار کرنا چاہیے ورنہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں سخت کوتاہی سے کام لینے والی سمجھی جائے گی- ایک مضمون کے لحاظ سے قوم کی ذاتی خوبی بیان کی گئی ہے- یہ معنے کہ صحیح راستہ پر چلنے والی، دنیا میں قائم رہنے والی اور تباہی سے بچنے والی قوم کی یہ علامات ہوا کرتی ہیں اُس کی ذاتی خوبی پر دلالت کرتے ہیں - اور یہ معنے کہ جس اوم کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کا متولی اور حاکم بنائے اور اُسے اپنے اندر تمام بنان کردہ خوبیاں پیدا کرنی چاہیں ورنہ وہ حکومت کی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرنے والے نہیں سمجھی جا سکتی، اُس کی نسبتی کمالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں-
افسوس کہ مسلمانوں نے اُن اخلاق کو جو یہاں بیان ہوئے ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے تھوڑے عرصہ بعد ہی چھوڑ دیا اور جوں جوں وہ ان اخلاق کو چھوڑتے چلے گئے اللہ تعالیٰ بھی اُن کو چھوڑتا چلا گیا- اب احمدیت کے لئے موقعہ ہے کہ وہ اِن اخلاق کو دوبارہ قائم کرے- مگر یہ اخلاق کبھی مستقل طور پر قائم نہیں رہیں گے جب تک قرآن کریم لوگوں کے دماغوں میں بار بار اور زور سے داخل نہ کیا جائے گا اور اُسے ساری قوم میں زندہ نہ کیا جائے گا-
۲؎ ذَاِلکَ دِیْنُ الْقَیْمَۃِ پر ویری کا بودا اعتراض
ویری نے اس جگہ ایک عجیب اعتراض کیا ہے وُہ ذَاِلکَ دِیْنُ الْقَیْمَۃِ کا ترجمہ کرتا ہے - ’’ یہ سچا دین ہے‘‘ اورپھر اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محمد صاحبؑ یعنی انہوں نے ان تینوں مذاہب کی ایک ہی تعلیم بتائی اور کر دیا کہ یہودی - عیسائی اور مسلمان سب کایہی مذہب ہے - گویا دائمی مذہب کے معنے اُنہوں نے یہ لئے کہ آدم سے لے کر آج تک دنیا کا ایک ہی مذہب رہا ہے ( مسلمانوں میں سے بھی بعض بے وقوف
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْامِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَادِ جِھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ط
اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کفر پر قائم رہنے والے لوگ یقیناً جہنم کی آگ میں داخل ہوں گے
اُولٰٓئکَ ھُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ oطاِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُو الصّٰلِحٰتِ ط اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا وَ
(اور وہ)اُس میں رہتے چلے جائیں گے- وہی لوگ ( ہاں وہی لوگ) بد ترین خلائق ہیں-
عَمِلُو االصّٰلِحٰتِ ط اُولٰٓئکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ oط
( اس کے مقابل پر ) وہ لوگ جو اہل کتاب اور مشرکوں میں سے ایمان لے آئے اور انہوں نے (ایمان کے ) مناسب حال عمل بھی کئے وہ لوگ ہاں وہی لوگ بہترین خلائق ہیں ۷؎
یہی عقیدہ رکھتے ہیں ) اور چونکہ یہ بات غلط ہے اس لئے اُنہوں نے اپنے جھوٹا نبی ہونے کا آپ ہی ثبوت مہیا کر دیا ہے-
اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو پادری صاحب نے اس آیت کا ترجمہ غلط کیا ہے ( ترجمہ توسیل کا ہے مگر چونکہ انہوں نے اس ترجمہ کو قبول کر کے اعتراض کیا ہے اس لئے یہ ترجمہ الہٰی کی طرف منسوب ہو گا) اس کا ترجمہ ’’ سچا دین‘‘ نہیں بلکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ’’ یہ قائم رہنے والی قوم کا دین ہے ‘‘ یا قائم رہنے والی قوم کی حالت ہے ‘‘ کیونکہ قِیِّمِۃ دین کی صفت نیہں ہے اور عربی زبان میں قواعد کے مطابق ایسا ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ دین مذکر ہے اور قیمّہ مونث ہے اور مذکر کی صفت مؤنث نہیں بن سکتی- پس عربی زبان کے قواعد کا موصوف مخدوف سمجھنا ہو گا اور سیاق و سباق عبارت سے اَلْمِلَّۃ یا ایسا ہی کوئی لفظ ہو سکتا ہے اور اسی قاعدہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے اس آیت کی یہ تشریح کی ہے کہ ذَاِلکَ دِیْنُ الْقَیْمَۃِ
دوسرے اِس آیت سے ایک دین ماننا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس جگہ پر تو باقی تمام مقامات سے زیادہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ یہوو اور نصاریٰ کا دین مختلف ہے تبھی قرآن کریم کے متعلق صُحُفََا مُّطَھَرَۃً اور فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ کہا گیا ہے تعجب ہے کہ جس جگہ قرآن کریم نے اختلاف پر زوردیا ہے وہیں ویری صاحب کو یہ اعتراض سوجھا ہے کہ اسلام مسیحیت اور یہودیت سب کو ایک ہی مذہب قرار دیا گیا ہے-
۷؎ تفسیر
میں نے جہاں لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْمِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفِکِّیْنَ حَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیْنَۃُ میں مِنْ کو بیانیہ قرار دیا تھا وہاں میرے نزدیک اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْھَامیں منْ بعضیہ اور کَفَرُوْا سے نا واقفیت کا کفر مراد نہیں بلکہ وہ کفر مراد ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے اختیار کیا جاتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کی یہ سزا ہو گی کہ وہ جہنم کی آگ میں داخل کئے جائیں گے اور اُس میں ہمیشہ وہ جہنم کی آگ میں داخل کئے جائیں گے اور اُس میں ہمیشہ رہیں گے- یہ سزا بتلا رہی ہے کہ یہاں اہل کتاب اور مشرکین میں سے ایسے کفار کا ہی ذکر کیا جا رہا ہے جنہوں نے جان بوجھ کر کفر کیا- جن پر حُجت کا اتمام ہو گیا اور جن کا اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی عُذر قابلِ شُنوائی نہ رہا- ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں داخل کئے جائیں گے اور اُس میں رہتے چلے جائیں گے پھر فرماتا ہیاُولٰٓئکَ ھُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃ یہی وہ لوگ ہیں جو تمام مخلوق میں سے بد ترین ہیں- اس کے مقابل میں مومنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اُولٰٓئکَ ھُمْ خَیْرالْبَرِیَّۃُ وہ لوگ تمام مخلوق میں سے بہتر ہیں-
شر اور خیر کے الفاظ ایسے ہیں جو ہیں تو اِسم تفصیل مگر کثرتِ استعمال کی وجہ سے اُن کا ہمزہ اُڑگیا ہے اس لئے اشر اور اخیر کی شکل میں استعمال نہیں ہوئے-
شَرُّ الْبَرِیَّۃ کے معنے ہیں بنی نوع انسان میں سب سے بد ترین یہ لوگ صرف بُرے نہیں بلکہ تمام مخلوق میںسے بد ترین ہیں اور خَیْرالْبَرِیَّۃ کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے وہ تمام مخلوق میںسے بہترین ہیں - گویا کفار سب سے بُرے ہیں اور مومن سب سے اچھے ہیں یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین کے علاوہ غیر مسلم دنیا میں کوئی قوم ہی نہیں؟ میں بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم میں جب بھی اہل کتاب اور مشرکین کا ذکر کیا جائے تو اُس سے مراد تمام غیر مسلم دنیا ہوتی ہے کیونکہ غیر مسلم دو حلقوں میں ہی تقسیم کئے جا سکتے ہیں یا وہ اہل کتاب ہونگے یا وہ مشرک ہوں گے- پس جب کہ دنیا میں صرف دو ہی گرو پائے جاتے ہیں - اہل کتاب اور مشرک- تو سوال یہ ہے کہ اہل کتاب اور مشرک بُرے کن سے ہوئے-
اسی طرح جب مومنوں کے سوا دنیا میں کوئی اَور ایماندار جماعت ہی نہیں تو وہ اچھے کن سے ہوئے؟ بے شک ایک زمانہ ایسا گذرا ہے جب الگ الگ قوموں کی طرف الگ الگ انبیاء مبعوث ہوا کرتے تھے اور ہر قوم صرف اپنے نبی پر ایمان لانے کی پابند تھی اُسے یہ ضرورت نہیں تھی کہ وہ دوسری قوم کے نبی پر ایمان لائے اُس وقت اگر یہ کہا جاتا کہ مومن تمام مخلوق میں سے بہترین تو خیال کیا جا سکتا تھا کہ اس سے مراد یہ ے کہ وہ زرتشی مومنوں سے اچھے ہیں یا کرشنی مومنوں سے اچھے ہیں یا موسوی مومنوں سے اچھے ہیں مگر جب مومنوں کا ایک ہی گروہ ہے تو وہ اچھے کس طرح سے ہوئے- اسی طرح جب اہل کتاب اور مشرکین کے سوا اور کوئی کافر ہی نہیں تو بُرے کس سے ہوئے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جو اس مقام پر پیدا ہوتا ہے کہ جب کافروں کے سوا اور کوئی کافر ہی نہیں تو وہ بُرے کس سے ہوئے اور جب مومنوں کے سوا اور کوئی مومن ہی نہیں تو وہ اچھے کس سے ہوئے؟
درحقیقت اِن آیات میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی اُمت کا پہلے انبیاء کی اُمتوں سے مقابلہ کیا گیا ہے اسی طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا مقابلہ پہلے انبیاء کے دشمنوں سے کیا گیا ہے اور اسی بناء پر شر اور البریّہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے محمد صلے اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا ہے وہ پہلے تمام انبیاء کے دشمنوں سے بدتر ہیں اور وہ لوگ جنہیں محمد صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوتی ہے وہ پہلے تمام انبیاء کی اُمتوں سے اچھے ہیں- پس شر البریہ اور خیر البریہ کے الفاظ موجودہزمانہ کی مخلوق کے لحاظ سے نہیں کہ یہ سوال پیدا ہو کہ جب مومنوں کے سوا اور کوئی مومن ہی نہیں تو وہ اچھے کس سے ہوئے ؟ بلکہ یہ الفاظ پہلے زمانہ کے لوگوں کے مقابل میں ہیں- اور اُولئکَ ھُمُ شَرُّ الْبَرِیَّہ کے کے معنے یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلے علیہ وسلم کے منکر موسیٰؑ کے منکروں سے بھی بد تر ہیں- عیسٰیؑ کے منکروں سے بھی بدتر ہیں- کرشنؑ کے منکروں سے بھی بدتر ہیں- زرتشت کے منکروں سے بھی بد تر اور اُولٰٓئکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِکے معنے یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مومن موسیٰؑ کے مومنوں سے بھی ہیں- زرتشتؑ کے مومنوں سے بھی اچھے ہیں- غرض اُن کا مقابلہ پہلی اقوام کے ساتھ کیا گیا ہے اور اس مقابلہ کی بناء پر ہی کفار کو شر البّریہ اور مومنوں کو خیر البریّہ کہا گیا ہے- کیوں؟ اس لئے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ۔
وہ تعلیم لائے تھے جو فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃ کی مصداق تھی، جو صحفِ مطہّرہ پر مشتمل تھی اور جس میں تمام انبیاء سابقین کی اعلیٰ تعلیم شامل تھی - پس نوحؑ کی اُمّت نے صرف موسیٰ ؑ کی تعلیم پر عمل کیا- عیسیٰ کی اُمّت نے صرف عیسیٰؑ کی تعلیم پر عمل کیا- کرشنؑ کی اُمّت نے صرف کرشنؑ کی تعلیم پر عمل کیا- زرتشتؑ کی اُمّت نے صرف زرتشت۔
جَزَآؤُ ھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا ط رَ ضِیَ اللّٰہُ
اُن کا بدلہ اُن کے رب کی حضور میں قائم رہنے والی باغات ہوں گے جن کے تلے نہریں بہتی ہوں گی- وہ اُن میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے اللہ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ اُس ( اللہ) سے
عَنْہْمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ oع
راضی ہو گئے- یہی (جزا) اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے ۸؎

تفسیر کبیر
جلد نہم
سُوْرَۃُالشَّمْسِِ مَکِیَّۃ ٌ
سورۃ شمس ۔ یہ سورۃ مکّی ہے نمبر ۱
وَھِیَ خَمْسَ عَشْرَۃَ اٰیَۃً دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِیْہَا رُکُوْعٌ وَّاحِدٌ
اور بسم اللہ کے سوا اس میں پندرہ (۱۵) آیات ہیں اور ایک رکوع ہے ۔
نمبر ۱ ۔ یہ سورۃ مکی ہے ابن عباس ؓ کی روایت ہے نَزَلَتْبِمَکَّۃَ کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی تھی ایسی ہی روایت ابن الزبیر ؓسے بھی ہے ۔ عقبہ ابن عامر کی روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ظہر کی نماز میں سُوْرَۃُالشَّمْس اورسُوْرَۃُالضُّحٰی پڑھا کریں ۔ مطلب یہ کہ اس وقت زیادہ لمبی سورتیں نہ پڑھا کریں ۔ نیز ان دونوں سورتوں کو ظہر کے وقت سے مناسبت بھی ہے ۔ (فتح البیان )
پادری ویری کے نزدیک پہلانصف حصہ پہلے سال کا اور آخری نصف تیسرے چوتھے سال کا معلوم ہوتا ہوتا ہے کیونکہ آخری حصہ میںمخالفت ِ انبیاء کا ذکر ہے ۔ وہ کہتے ہیں چونکہ اس سورۃ کے آخری حصہ میں انبیاء کی مخالفت کا ذکر ہے اور انبیاء کی مخالفت کا ذکر اسی وقت اور اسی سلسلہ میں ہو سکتا ہے جب رسول کریم ﷺ کی ظاہری مخالفت مکہ میں شروع ہو گئی ہو اور منظم مخالفت تیسرے سال کے آخر یا چوتھے سال کے شروع میں ہوئی ہے اس لئے سورۃ کا یہ حصہ اُسی وقت کا ہے ۔
یہ تو درست ہے کہ یہ سورۃ ابتدائی زمانہ کی ہے اور بالکل ممکن ہے کہ پہلے سال کی ہو یا دوسرے سال کی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تیسرے سال کے ساتھ اس کا تعلق ہو لیکن ویری کا یہ قیاس کرنا بالکل لغو بات ہے کہ چونکہ اس میں مخالفتِ انبیاء کا اجمالاً ذکر ہے اس لئے آدھا حصہ پہلے نازل ہو چکا تھا اور آدھا حصہ بعد میںنازل ہوا ۔ پہلاحصہ پہلے سال میں نازل ہوا اور دوسرا حصہ تیسرے یا چوتھے سال میں نازل ہوا کیونکہ محض مخالفتِ انبیاء کاذکر مخالفت کے شروع ہو جانے سے تعلق نہیں رکھتا۔ ہم تو قرآن کریم کو اللہ تعالی کا کلام سمجھتے ہیں اور اس شک میں پڑنا بالکل خلاف عقل ہے کہ اللہ تعالی کو آئندہ مخالفت کا علم تھا یا نہیں لیکن پادری ویری اور ان کے ہم خیالوں کے نقطہ نگاہ کو مد نظر رکھ کر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسااجمالی ذکر مخالفت کا بھی اسی وقت آسکتا ہے ۔ جب کہ مخالفت کے آثار شروع ہو چکے ہوں ۔ اگر یہ لوگ قرآن کریم کو انسانی کلام سمجھتے ہیں تو بھی انہیں یہ خیال کرنا چاہیئے کہ ہر شخص جو ایک نئی بات دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے وہ قدرتی طور پر اُن کے انکار کی امید بھی کرتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ انکا ر کی شدت یا اس کی نوعیت کا اندازہ نہ لگا سکے مگر انکار و تردید کی امید ضرور رکھتا ہے آخر کون عقل مند یہ خیال بھی کر سکتا ہے کہ ایک شخص اپنی قوم کے عقائد کے خلاف اس کے مذہب کے خلاف اور اس کے رسم و رواج کے خلاف دعویٰ کرے اور پھر وہ یہ امید رکھے کہ لوگ مجھے فوراً ماننے لگ جائیں گے۔ پس ضروری ہے کہ لوگ اس کی بات کا انکار کریں۔ ہاں اگر وہ سچا ہو توآخر میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے قبولیت کے آثار دیکھ لے گا ۔
جیسا کہ مَیں اوپر کئی مواقع پر بیان کر چکا ہوں کہ یہ درست ہے کہ اگر مخالفت کی تفصیلات بیان کی جائیں تو ایک حکمت سے پر کتاب ضرور اس امر کو ملحوظ رکھ لیتی ہے کہ وہ تفصیلات یا تو اشارے کنائے میں بیان ہوں اور یا ایسے وقت کے قریب بیان ہوں جب وہ واقعات رونما ہونے والے ہوں تا مخالف یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں انگیخت کی گئی ہے ۔ مخالفت کی انگیخت کا الزام دور کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اگر پیشگوئی کے طور پر واقعات بیان کئے جائیں تو اس کے الفاظ چبنے والے نہ ہوں ۔ مگر یہ امر ہم صرف تفصیلات کے متعلق تسلیم کرتے ہیں۔ محض یہ بات بیان کرنا کہ سچائی کی مخالفت ہوا ہی کرتی ہے یہ کوئی ایسا مضمون نہیں جس سے لوگ چڑ جائیں۔ ہر روز ہر مجلس میں جب بھی صداقت کا ذکر ہو تو لوگ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہر نئی صداقت کی مخالفت ہوتی ہے مگر اس سے نہ انگیخت ہوتی ہے نہ کسی کے دل میں جوش پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی فتنہ و فسا درونما ہوتا ہے ۔
قرآن کریم کے متعلق پادری ویری کو قیاس کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ کئی صدیاں اس کے نزول کے بعد پیدا ہوئے ہیںاور عقل سے اس کے نزول کی تاریخیں معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ چونکہ اس میںمخالفت کا ذکر ہے اور وہ بھی آپ کی مخالفت کا نہیں بلکہ ایک گذشتہ نبی کی مخالفت کا ۔ اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ یہ آخری حصہ اس وقت کا ہے جب کہ آپ کی منظم مخالفت مکہ میں شروع ہو گئی تھی ۔ مگر ہم یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ان کا طریق استدلال بالکل غلط ہے ایک ایسی مثال پیش کرتے ہیں جو تاریخی واقعات پر مبنی ہیں اور جس سے کسی صورت میں بھی انکار نہیں کیاجاسکتا ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ جن کا سب زمانہ تاریخی ہے ا ٓپ کو براہین احمدیہ کی اشاعت سے بھی پہلے الہام ہوا کہ ـ’’ کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا ‘‘(تذکرہ صفحہ ۲۷۱) اس الہام میں مخالفت کا ذکر ہے اور مخالفت کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے زور آور حملوں کا بھی ذکرہے لیکن ایک تو دنیا کا لفظ استعمال کر کے مفہوم کو ایسا وسیع کر دیا کہ مسلمان سمجھیںشاید عیسائیوں کا ذکر ہے اور عیسائی سمجھیںشاید مسلمانوں کا ذکر ہے ۔ پھربجائے خصوصیت سے یہ ذکر کرنے کے کہ صوفیاء بھی مخالفت کریں گے اور اکابراور علماء بھی مخالفت کریں گے عام رنگ میں اللہ تعالیٰ نے اس مخالفت کی طرف ان الفاظ میںاشارہ کر دیا کہ ’’ دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا ‘‘ ۔ مگر یہ الہام آپؑ کو اس وقت ہواجب آپ براہین ِ احمدیہ لکھ رہے تھے اور لوگ آپ پر بڑ ا اعتقاد رکھتے تھے یہاں تک کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بعد میںشدید مخالف ہو گئے اور احمدیت کی دشمنی کو انہوں نے انتہا تک پہنچا دیا اور جو اپنے تکبر اور رعونت کی وجہ سے کسی کی با ت ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے انہوں نے بھی براہین احمدیہ کو پڑھ کر لکھا کہ:۔
’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں۔ لَعَلَّ اللہ َ یُحْدِ ثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْراً‘‘
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق لکھا کہ :۔
’’ اس کا مولف بھی اسلام کی مالی ، جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے ‘‘
پھر اس خیال سے کہ کہیں لوگ مبالغہ سمجھ کر اس رائے کو غلط نہ قرار دے دیں انہوں نے زور دیتے ہوئے لکھا کہ :۔
’’ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشائی مبالغہ سمجھے تو ہم کوکم از کم ایک ایسی کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ سماج و برہمو سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشان دہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت ِ مالی و جانی و قلمی و لسانی کے علاوہ نصرت ِ حالی کا بیڑااٹھا لیا ہو اور مخالفین ِ اسلام اور منکرین ِ الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آکر اس کاتجربہ و مشاہد ہ کرلے اور اس تجربہ و مشاہد ہ کا اقوام ِغیر کو مزا بھی چکھا دیا ہو‘‘۔ (اشاعۃ السنتہ جون ۔ جولائی اگست ۱۸۸۴ء )
اب دیکھو جس وقت دنیا تعریف کر رہی تھی ، جب بڑے بڑے رئوساء اور نواب آپ سے خط و کتابت رکھتے اور آپ کو دعا کے لئے لکھتے رہتے تھے ، جب علماء اور عوام آپ سے عقیدت رکھتے تھے اور جب مخالفت کے دنیا میں کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا:۔
ــ ’’ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیانے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘ ۔
وہ مخالفتیں جو اب ہو رہی ہیں یا گذشتہ عرصہ میں ہو چکی ہیں ان کا کیسا مختصر مگر مکمل نقشہ اوپر کے الفاظ میں کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے آخر یہ غور کرنے والی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ بات کس نے بتا دی تھی کہ آپ کی دنیا میں شدید مخالفت ہو گی ۔ ایسی مخالفت کہ اس کے مقابلہ میں خدا تعالی کو بھی سچائی کے اظہار کے لئے زور آور حملوں سے کام لینے کی ضرورت پیش آئے گی ۔ یہ امر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس امر کے مدعی تھے کہ میں رسول کریم ﷺ کا خادم ہوں ۔ پس جس ہستی نے ایک خادم اور غلام کو ایسے زمانہ میں جبکہ مخالفت کا نام و نشان تک نہیں تھا اس امر کی اطلاع دے دی کی تیری مخالفت ہونے والی ہے ۔ ویری جیسے عقلمند کو اس سے سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ ہستی آقا کو بھی قبل از وقت خبر دے سکتی تھی ۔ مگر بوجہ اُس تعصب کے جو مسیح پادریوں میں بالعموم پایا جاتا ہے اور بوجہ اس مخالفت کے جو لوگوں کو اسلام سے ہے پادری ویری کے لئے یہ سمجھنا بڑا مشکل ہے کہ ابتدائی زمانہ میں ہی جب مخالفت کا کہیں وجود نہیں تھا آپ کو اس کا کیونکر علم ہو گیا ۔ وہیری صاحب کو سمجھ لینا چاہیئے کہ اس میں محمد ﷺ کے علم کا سوال نہیں بلکہ خدا تعالی کے علم کا سوال ہے لیک فرض کرو یہ سورۃ محمد ﷺ کی اپنی بنائی ہوئی ہے تب بھی انہیں اتنا سمجھ لینا چاہیئے کہ تفصیلات کا بے شک علم نہ ہو لیکن قوم کے اعتقادات اور اُس کے رسوم و رواج کے بالکل خلاف ایک نئی بات پیش کرنے والا ہر شخص سمجھتا ہے کہ قوم میری مخالفت کرے گی ۔ رسول کریم ﷺ کو جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا پہلی وحی کے نزول کے بعد ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور اُس نے آپ سے کہا کہ تیری قوم سخت مخالفت کریگی یہاں تک کہ تجھے مکہ میں سے نکال دے گی ۔ توآپ نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ لوگ میری مخالفت کریں؟ اُس نے کہا آج تک کوئی ایسا رسول نہیں آیا جس کی اُس کی قوم نے مخالفت نہ کی ہو۔ پس اگر یہ سورۃ پہلے سال کی سمجھو تب بھی ورقہ بن نوفل نے آپ کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر دیا تھا اور بتا دیا تھا کہ دنیا آپ کی مخالفت کرے گی ۔ الغرض محض مخالفت کا ذکر اس امر کا ثبوت نہیںہو سکتا کہ یہ سورۃ مخالفت کے قریب زمانہ کی یا خود مخالفت کے زمانہ کی ہے ۔ ہاں بعض تفصیلاتِ معّینہ اس امر کی ایک غالب دلیل ہوتی ہیں کہ وہ اس زمانہ یا س کے قریب کی ہیں مگر قطعی ثبوت اور حجت وہ بھی نہیں ہو سکتیں ۔ بہر حال محض سورۃ کے آخری حصہ میں مخالفتِ انبیاء کا ذکر آجانے سے یہ خیال کر لینا کہ یہ حصہ تیسرے یا چوتھے سال کا ہے بالکل بعید از قیاس امر ہے ۔
ہم کُلّی طور پر انکارنہیںکرتے ممکن ہے یہ سورۃ تیسرے سال کی ہی ہو مگر اس وجہ سے اسے تیسرے یا چوتھے سال کے ابتدائی حصہ کی قرار دینا کہ اس میں مخالفتِ انبیاء کا ذکر آتاہے محض دشمنی اور عداوت کا نتیجہ ہے ۔
ترتیب: سر میور کہتے ہیں کہ یہ چند سورتیں یعنی شمس اور اس سے دو پہلی اور دو بعد کی سورتیں یعنی سورہ فجر سورہ بلد ، سورہ لیل اور سورہ ضحی اظہار خیالات کا رنگ رکھتی ہیں اور ایسی ہی ہیں جیسے کوئی شخص اپنے نفس سے باتیں کر رہا ہو۔ میور کے ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے غارِ حرا میں رہ کر اپنی قوم کے حالات پر جو کچھ غور کیا اور اُس کے نتیجہ میں آپ کو جو خرابیاں اپنی قوم میں نظر آئیں اور جو کچھ فیصلے آپ کے دل نے اُن دنوں میں کئے اب ان سورتوں میں آپ ان کا اظہار کر رہے ہیں ۔ یوروپین مصنفین اس قسم کا اظہار ِ خیالات کو سیلیلوکیز SOLILOQUIESکہتے ہیں یعنی دل کے خیالات سے متاثر ہو کر خود اپنے آپ سے باتیں کرنا ۔
گویا یوروپین مصنفین کے نزدیک یہ سورتیںکیا ہیں یہ وہ آہیں ہیں جو آپ کے تڑپتے ہوئے دل سے اُٹھیں، یہ وہ نالے ہیں جو قوم کی حالتِ زار پر آپ نے بلند کئے اور یہ وہ فغاں ہے جس نے حرا کی تاریکیوں میں ایک شور پیدا کیا ۔ دنیا اپنی عیاشیوںمیں مبتلا تھی، لوگ اللہ تعالی سے غافل ہ بیگانہ ہو چکے تھے مگر محمد رسول اللہ ﷺ اپنی قوم کی حالت پر تنہائی کی گھڑیوں میں آہیں بلند کر رہے تھے ، نالہ و فریاد سے ایک شور بپا کر رہے تھے ، درد و کرب اور انتہائی اضطراب کے عالم میں اپنے دن گذار رہے تھے اور آخر آپ کی آہیں ، آپ کے نالے اور آپ کی فریادیں ان سورتوں کی شکل میں دنیا پر ظاہر ہو گئیں۔
دشمن نے یہ بات خواہ کسی رنگ میں کہی ہو مگر ہے ایک لطیف بات ۔ دشمن کی غرض تو ان الفاظ سے یہ ہے کہ ان سورتوں میں جن جذبات کا اظہار ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے اپنے جذبات ہیں آپ اپنے دل میں جو کچھ سوچا کرتے اور جن جذبات و کیفیات سے آپ گذرا کرتے تھے اُنہی جذبات و کیفیات کا آپ نے ان سورتوں میں اظہار فرما دیا ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بھی اپنے کلام میں انسانی جذبات کو ظاہر کیا کرتا ہے ۔ اگر یہ محمد رسول اللہ ﷺ کے جذبات تھے توہم اس کے معنے یہ لیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لئے صحیح انتخاب کیا اور ایسے شخص کو اس عظیم الشان کام کی سر انجام دہی کے لئے چنا جس کے اپنے جذبات بھی خدا تعالیٰ کے ارادوں کے ساتھ مل گئے تھے پس ہم دشمن کی اس بات کو ردّنہیں کرتے بلکہ ایک نئے نقطئہ نگاہ کے ماتحت تسلیم کر لیتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں اگر یہ صحیح ہے کہ ان سورتوں میں محمد رسول اللہ ﷺ کے اس دکھ اور اس درد اور اس تالّم کا اظہار کیا گیا ہے جو آپ اپنی قوم کے متعلق محسوس کرتے تھے تو یہ امر بتاتا ہے کہ کس طرح محمد رسو ل اللہ ﷺ غلاموں اور یتیموں کی حالت کو دیکھ دیکھ کر زار ہو رہے تھے ۔ کیا کیا خیالات تھے جو آپ کے دل میںپیدا ہوتے تھے اور کیا کیا جذبات تھے جو آپ کے دل میں ہیجان بپا رکھتے تھے ۔ آپ سمجھتے تھے کہ میری قوم جب تک اپنے ان افعال میں تبدیلی پیدا نہیں کرے گی وہ کبھی ترقی نہیں کر سکے گی ۔ تم اِسے انسانی کلام سمجھ لو۔ تم اس کلام کو بناوٹی کلا م قرار دے دوبہر حال تمہیں تسلیم کرنا پڑے گاکہ جس انسان کے آگے آنے کی وجہ سے یہ ہو کہ ظلم اور استبداد کو میں برداشت نہیں کر سکتا ، یتیموں اور بیکسوں کی آہ و زاری کو میں دیکھ نہیں سکتا ، غریبوں اور ناداروں کے حقوق کا اتلاف کبھی جائز نہیں سمجھا جا سکتا ، غلاموں پر تشدّد کبھی روانہیں رکھا جاسکتا اُس کی بڑائی اور اس کی نیکی اور ا س کی عظمت کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ انہی حالات کو دیکھ دیکھ کر وہ حراء کی تاریکیوں کو پسند کرتا ہے ، وہ دنیا سے ایک عرصہ تک جدا رہنا پسند کرتا ہے اور پھر جب وہ دنیا کی طرف واپس آتا ہے تو اس لئے نہیں آتا کہ وہ اپنے لئے عزت چاہتا ہے ، اس لئے نہیں آتا کہ وہ اپنے لئے حکومت چاہتا ہے بلکہ اس لئے آتاہے کہ قوم کے گرے ہوئے طبقہ کو ابھارے ، اس کی برائیوں کو دور کرے اور اس کی اصلاح کر کے اسے دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لاکر کھڑا کر دے ۔ میور کہتا ہے یہ سولیلوکیز SOLILOQUIESہیں یہ وہ باتیں ہیں جوانسان اپنے نفس سے کیا کرتا ہے ، یہ وہ خیالات ہیں جو گہری خلوت میں انسان کے دل میں خود بخودپیدا ہو جایا کرتے ہیں لیکن اگر محمد رسول اللہ ﷺ کے یہی خیالات تھے اور اگر آپ کے قلب کی گہرائیوں میں بار بار یہی جذبات موجزن رہتے تھے کہ ان غلاموں کو کون پوچھے گا ، ان یتیموں کو کون پوچھے گا ، ان مساکین کو کون پوچھے گا مجھے خلوت کو چھوڑ دینا چاہیئے اور اس وقت تک مجھے دم نہیں لینا چاہیئے جب تک بڑے بڑے رئیس اور سردار اپنے ان مظالم سے توبہ نہیں کر لیتے ۔ تو میں سمجھتاہوںیہی خیالات اپنی ذات میں اتنے پاکیزہ ہیں کہ دنیا کا کوئی ہوشمند انسان آپ کی فضیلت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا
بہر حال دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو قرآن مجید کو خداتعالیٰ کا کلام قرار دیا جائے یا انسان کا ۔اگر خدا تعالیٰ کا کلام مان لیا جائے تب تو کوئی اعتراض نہیں رہتالیکن اگر یہ انسان کے خیالات ہیں تو ایسے پاک نفس انسانکے خیالات ہیں جس کی پاکیزگی اور تقدس سے کوئی شخص انکار کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
اس سورۃ کا تعلق دوسری سورتوںسے سمجھنے کے لئے اس امر کو مد نظر رکھنا چاہیئے کہ یہ پانچوں سورتیں جن کا ذکر سورتوں کی ترتیب کے سلسلہ میں پہلے کیا جا چکا ہے اپنے اندر یہ مضمون رکھتی ہیں کہ غرباء اور یتامیٰ و مساکین کی مدد کرنی چاہیئے چنانچہ سورۃ الفجر میں آتا ہے کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ ……… پھر سورۃ البلد میں آتا ہے وَمَا…………… پھر انہی اخلاق کا سورہ الشمس میںذکر ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاَلْھَمَھَا……………… پھر سورۃ الیل میں فرماتا ہے فَا َمَّا ……… اسی طرح آتا ہے وَ سَیُجَنَّبُھَا ……… پھر سورۃ الضحیٰ میں آتاہے فَا َمَّا ……… اس سے ظاہر ہے کہ یہ پانچوں سورتیں آپس میں ایک گہرا تعلق رکھتی ہیں اور ان میں زیادہ تر اخلاق فاضلہ پر زور دیا گیا ہے بالخصوص ایسے اخلاق پر جو قومی ترقی سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں غریب ، مظلوم ، بے کس اور گرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے اور ان کے لئے ترقی کے وسائل اختیار کرنے کی تحریک پائی جاتی ہے ۔ ان جذبات کو خواہ دشمن محمد رسول اللہ ﷺ کے اپنے جذبات قرار دے تب بھی ظاہر ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے جن جذبات سے متاثر ہو کر اصلاح کا بیڑا اٹھایا وہ جذبات غرباء اور یتامیٰ و مساکین کی خدمت کے تھے۔
بحر محیط کے مصنف لکھتے ہیںکہ پہلی سورۃ سے اس کا تعلق یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں اللہ تعالی نے مکہ کی قسم کھائی تھی اب کچھ بلندیوں اور پستیوں کی قسم کھاتا ہے ۔ میرے دل میں سب سے زیادہ قدر بحر محیط کے مصنف کی ہے کیونکہ تفسیر کا وہ حصہ جس سے مجھے لگائو ہے یعنی ترتیب سور کا مضمون ۔ اس سے ان کو بھی لگائو ہے مگر یہاں آکر وہ بڑی پھسپھسی بات کہہ گئے ہیں۔ ان پانچ سورتوں کا مضمون (جن سورتوں کا پہلے ذکر ہو چکا ہے ) آپس میںبڑا گہرا تعلق رکھتا ہے ۔ اگر ہم سورۃ البلد کو سورۃ الشمس کے مضمون سے ملا دیں تو یہ سورۃ اگلی سورۃ سے جا ملتی ہے ۔ پس اس سورۃ کی ترتیب کے متعلق تو کوئی مشکل پیش ہی نہیں آسکتی ۔ اس سے پہلی سورۃ میں بھی غرباء کے لئے اموال کو خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے پس کم سے کم ان مضامین کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سورۃ ما قبل اور ما بعد کی سورتوں سے نہایت گہرا تعلق رکھتی ہے ۔ اگر بحر محیط کے مصنف اتنی بات ہی بیان کر دیتے تو ایک معقول بات ہوتی مگر یہ کیا پھسپھسی بات ہے کہ پہلے چونکہ مکہ کی قسم کھائی تھی اس لئے اللہ تعالی نے کہا کہ آئو اب لگتے ہاتھوں ایک اونچی اور ایک نیچی چیز کی قسم بھی کھا لیں یہ محض مجبوری کی بات ہے چونکہ اُن کا ذہن اصل ترتیب کی طرف نہیں گیاانہوں نے یہ تاویل کر لی ۔ بیشک جہاں تک ایسوسی ایشن آف آئیڈیاز ’یعنی بات سے بات پیدا ہو جانے ‘ کا سوال ہے یہ بات صحیح ہے کہ جب انسان کو ایک خیال پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس قسم کا دوسرا خیال بھی پیدا ہو جاتا ہے جب انسان کہتا ہے کہ محض فلاں شخص نہیں ملا تو اُس کی بیوی اور بچوں کا خیال آجاتاہے ۔ پھر اُن کے وطن کا بھی خیال آ جاتا ہے اور پھر اسی طرح یہ خیالات بڑھتے بڑھتے اور کئی رنگ اختیار کر لیتے ہیں ۔ پس ایساہوتا رہتا ہے او ر ہمیشہ ایک سے دوسرا خیال پیدا ہو جاتا ہے لیکن یہ قاعدہ انسانوں کی نسبت ہے نہ کہ اللہ تعالی کی نسبت ۔ انسان تو چیزوں کو بھولا ہوا ہوتاہے۔ پس جب ایک چیز کا خیال کسی وجہ سے اسے آتا ہے تو اُس کے ساتھ تعلق رکھنے والی اشیاء بھی اسے یاد آنا شروع ہو جاتی ہیں مگر ہم اس جگہ کسی شاعر کے شعروں کے ربط پر غور نہیں کر رہے بلکہ اللہ تعالی کے کلام پر غور کر رہے ہیں جو عالم الغیب ہے اور جو ’ایسوسی ایشن آف آئیڈیاز ‘ یا بات سے با ت یاد آجانے کے قاعدہ سے بالا اور پاک ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں خانہ کعبہ کی بنیاد کی غرض بیان کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ ہم اس شہر کی قسم کھاتے ہیں اور پھر اس شہر کو بنانے والے ابراہیم ؑ کی بھی قسم کھاتے ہیں ابراہیم ؑنے یہ شہر اس لئے بنایا تھا کہ یہاں امن قائم رہے اور لوگ اللہ تعالی کے نام پر اپنی زندگیاں وقف کرتے رہیں مگر اب کیا ہے اب اُس کی یہ حالت ہے کہ اَنْتَ حِلّ’‘م بِھٰذَا الْبَلَدِ اے محمد رسول اللہ ! تجھے اس میں تنگ کرنا حلا ل سمجھا جاتا ہے ابراہیم ؑ نے جب مکہ بنایا تو اس وقت اس نے اللہ تعالی سے یہ دعا کی تھی کہ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًااٰمَنًاوَّ ارْزُقْ اَھْلَہُ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللہ ِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ( البقرۃ ۱: ۱۵)یعنی اے میرے رب! میں اس بستی کو امن کیلئے بساتا ہوں ۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ ابراہیم ؑ کے اپنے بچہ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کو مکہ میں ہرقسم کی تکالیف کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس شخص نے دعا یہ کی تھی کہ خدایا یہاں باہر سے آنے والوں کو بھی امن میسر آجائے کیا اس کا کلیجہ یہ دیکھ کر ٹھنڈا ہو سکتا ہے کہ اُس کیاپنے بچہ کو اس شہر میں ہر قسم کے مصائب کا تختہ ء مشق بنایا جا رہا ہے اگر کہو کہ ابراہیمؑ نے بیشک امن کی دعاکی تھی مگر اب ایک ایسا شخص پیدا ہو گیا ہے جس نے ہمارے عقائد کے خلاف باتیں پھیلانا شروع کر دی ہیں اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان باتوں کا ازالہ کریں خواہ اس کے نتیجہ میںمکہ کا امن برباد ہی کیوں نہ ہو جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک یہ تمہارے عقائد کے خلاف باتیں پھیلا رہا ہے اور تمہیں ان باتوں کو سن کر اشتعال پیدا ہوتا ہے مگر کیا ابراہیم ؑ کی دوسری دعا تمہیںیاد نہیں؟ اُس نے صرف یہی دعا نہیں کی تھی کہ مکہ میںامن قائم رہے بلکہ اُس نے یہ بھی دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًامّنْھُم یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ۔ (البقرہ ۔ : ۱۵) جب اُس نے یہ دعا کی تھی تو کیا اس کے مدنظر یہ بات تھی یا نہیں کہ ایک دن آئے گا جبکہ تم لوگ خراب ہو جائوگے ۔ اگر تم نے خراب نہیں ہونا تھا تو کسی رسول کے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ لیکن جب اس نے ایک رسول کے آنے کی پیشگوئی کر دی تو اس پیشگوئی کے ساتھ ہی اُس نے یہ بھی فیصلہ کر دیا کہ میرے بعد میری قوم خراب ہو جائے گی اور اُس وقت ایک ایسے رسول کی ضرورت ہو گی جو اُن کے عقائد کی اصلاح کرے اور ان کی خرابیوں کو دور کرے ۔ اس قسم کی خرابیاں پیدا ہونے کے بغیر وہ رسول نہیں آسکتا تھا جو یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ کا مصداق ہوتا ۔ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا جب مکہ والے آیات ِ الٰہیہ کو بھول جائیں گے یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا جبکہ مکہ والے کتاب الہٰی کو بھول جائیں گے ۔ پھر کتاب کے ساتھ حکمت کے لفظ کا اضافہ بتاتا ہے کہ ایک زمانہ آئیگا جبکہ مکہ والوں کی عقلیں ماری جائیں گی اوروہ نہایت ہی احمقانہ عقائد میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ اسی طرح یُزَکِّیْھِمْکا لفظ بتاتا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ مکہ والے تقویٰ سے دور جا پڑینگے اور ضرورت ہو گی کہ ایک رسول ان میں مبعوث ہو جو دوبارہ ان کو ہدایت پر قائم کرے ۔ پس فرمایا کہ مکہ کی بنیاد ایک وسیع نظام کے قیام کے لئے تھی جس میں روحانی ، اعتقادی ، سیاسی ، تمدنی ، عائلی ، اقتصادی ، علمی ، بین الاقوامی ، فکری اور اخلاقی تعلیمات اور ان کی حکمتوں اور ضرورتوں کا بیان ہو اور صرف خیال آرائی نہ ہو بلکہ عملی طور پر انسانی فکر اور عمل اور معاملہ کی اصلاح مد نظر ہو ۔روحانی اور اعتقادی تعلیمات کا ذکر یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَاب میںآتا ہے ان تما م تعلیمات کی حکمتوںاورضرورتوں کا بیان تعلیم الحکمۃمیں آجاتا ہے اور یہ امر کہ صرف خیال آرائی نہ ہو بلکہ عملی طور پر انسانی فکر اور عمل اور معاملہ کی اصلاح مد نظر ہو اور یہ کلام عملاً کیا جائے یہ یُزَکِّیْھِمْ میں آجاتا ہے ۔
غرض یہ ایک بہت بڑی پیشگوئی تھی اور بہت بڑا کام تھا جو دنیا میں ہونے والا تھا۔ اس بڑے کام کے لئے ابرہیم ؑ کی نسل میںایک کامل بیٹے کی ضرورت تھی ایسے بیٹے کے بغیریہ کام کبھی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ جب ابراہیم ؑ نے یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا تو یہ امر ظاہر ہے کہ فِیْھِمْ سے مراد ان کی اپنی قوم تھی اور ان کا مطلب یہ تھا کہ تو میری قوم میں ایک کامل رسول بھیجیو پس ابراہیم ؑ ایک کامل بیٹے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیںجس کے بغیر یہ کام تکمیل نہیں پا سکتا تھا اب اس سورۃ میں اس شخص ِ کامل کی استعدادوں کی تفصیلی ذکر فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ فلاں فلاں استعدادوں والے ہی یہ کام کر سکتے ہیں دوسری استعدادوں والے یہ کام نہیں کر سکتے۔
اصل میں بحر محیط کے مصنف کو سورج اور چاند کے لفظوں سے شبہ ہوا ہے یا آسمان اور زمین کے الفاظ سے یہ شبہ پیداہوا ہے کہ شایدان الفاظ کا تعلق پہلی سورۃ سے ہے کیونکہ اس سورۃ کے شروع میں ہی والشمس وضحھا ۔ والقمرا ذا تلہا ۔ والنھار اذا جلہا ۔ والیل اذا یغشہا ۔ والسماء وما بنہا ۔ والارض و ما طحہا ۔ کے الفاظ آگئے ہیں ۔ چونکہ ابتداء میں ہی یہ الفاظ آگئے ہیںانہوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ ان الفاظ کا پہلی سورۃ سے تعلق ہے اور چونکہ پہلی سورۃ میں مکہ کی قسم کھائی گئی تھی اور یہاں سورج اور چانداور آسمان اور زمین کا ذکر آتا تھا انہوں نے خیال کر لیا کہ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے تعلق یہ ہے کہ پہلے مکہ کی قسم کھائی گئی تھی اب کچھ بلندیوں اورپستیوں کی قسم کھائی گئی ہے ۔ حالانکہ یہ الفاظ اصل مقصود اس سورۃ میں نہیں بلکہ یہ مقصود کی تفاصیل بیان کر نے کے لئے بطور امثلہ کے آئے ہیں اصل مقصود تو وہ نفسِ کاملہ ہے جو تقویٰ اور فجورکی راہوں سے کامل طور پر واقف ہوتاہے اور پھر اسے ابھارتا چلا جاتا ہے یعنی صرف دین ِ فطرت پر نہیں رہتا بلکہ دین ِ شریعت کو بھی حاصل کرتا ہے اس نفس ِ کاملہ اور اس کی استعدادوں کو آسانی سے سمجھانے کے لئے اللہ تعالی نے یہاںبعض مثالیں بیان فرمائی ہیں ۔ مگر انہوں نے سمجھا کہ اصل مقصود سورج اور چاند ہے حالانکہ اصل مقصود سورج اور چاند نہیں بلکہ نفسِ کاملہ ہے ۔
پہلی سورۃ میں اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ووالد و ما ولد ہم والد کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے والد کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ اب یہ بتانا چاہیئے تھا کہ وہ ولد کیسا ہونا چاہیئے چنانچہ اس سورۃ میں اللہ تعالی اس کی وضاحت کرتا ہے اور بتاتاہے کہ جس ولد کے متعلق ہماری طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ اللہ تعالی کی آیات کی تلاوت کرے گا، کتاب اور حکمت کھائے گا اور لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کرے گا وہ کن استعدادوں کا مالک ہو گا چنانچہ ان استعدادوں کی یہاں تشریح کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ نفسِ کامل میں کون کون سی استعدادیں ہونی چاہئیں ۔ یہ بھی بتایا ہے کہ نفسِ کامل دو قسم کے ہوتے ہیں اور پھران دونوں کی مثالیں بیان کر کے اس امر کو واضح کیا ہے کہ ا س زمانہ میںکس قسم کے نفسِ کامل کی ضرورت ہے اور یہ کہ جب تک ایسا نفسِ کامل کی مثال میں سورج اور چاند کا ذکر کیا گیا ہے نہ کہ سورج اورچاند اصل مقصود ہیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ O
(مَیں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرمکرنے والا بار بار رحم کرنیوالا ہے (شروع کرتا ہوں)
وَالشَّمْسِ وَضُحٰھَا O ص لا
(مجھے) قسم ہے سورج کی اور اس کے طلوع ہو کر اونچا ہو جانے کی (ایت نمبر ۲)
نمبر ۲ حل لغات شَمْس’‘ کے معنی سورج کے ہوتے ہیں۔ مگر ش ۔ م۔ س کے مادہ ترکیبی کے لحاظ سے شمس کے معنی ایسے وجود کے بھی ہوسکتے ہیں جو کسی کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھنے کے لئے تیار نہ ہو۔ بلکہ اپنی ذات میں کامل ہو ۔ چنانچہ عربی زبان میں کہتے ہیں شمس الرجل ۔ امتنع و ابیٰ کہ اس نے دوسروں کو اپنے سے کم درجہ کا سمجھ کر ان کی اطاعت کرنے سے انکار کر دیا ۔ اور جب گھوڑے کے لئے شمس الفرس کہیں تو معنے یہ ہوتے ہیں کان لایمکن احدا من ظھرہ ولا من الاسراج والالجام ولایکاد یستقر ۔ کہ گھوڑا کسی طرح بھی قابو نہ آسکا ۔ اور اس نے کسی کو اپنی پیٹھ پر نہ بیٹھنے دیا نہ زین ڈالنے دی اور نہ لگام ڈالنے دی (اقرب) گویا شمس ایسے وجود کو کہتے ہیں جس کی روشنی ذاتی ہو اور اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو دوسروں کی اطاعت برداشت نہ کرے یہ مفہوم اس سے نکلتا ہے کہ شمس کے معنے ہیں ایسا وجود جو اطاعت برداشت نہیں کر سکتا ۔ اب جو شخص اطاعت برداشت نہیں کرتا بوجہ اس کے کہ اس میں تکبر پایا جاتا ہے وہ تو بڑا ہے لیکن جو شخص اس لئیاطاعت نہیںکرتاکہ خدا نے اسے پیدا ہی دوسروں کے آگے چلنے کے لئے کیا ہے وہ برانہیں۔ گویا دو قسم کے اباء ہوتے ہیں ایک اباء وہ ہوتا ہے جس میں تابع یہ کہتا ہے کہ میںدوسروں کی بات نہیں مانتا ۔
لیکن ایک اباء اس انسان کا ہوتا ہے جسے پیدا ہی بڑا بننے کے لئے کیا جاتا ہے ۔ جیسے ایک عالم کا یہ کا م ہے کہ وہ فتویٰ دے اب اگر کوئی جاہل شخص اسے کہے کہ اس طرح فتویٰ نہ دو بلکہ اسطرح دو تو وہ فوراً انکار کر دے گا اور کہے گا کہ تمہارا حق نہیںکہ میرے معاملات میں دخل دو مگر اس کا انکار متکبرانہ انکار نہیںہوگا۔ قرآن کریم میں بھی ان معنوں میںاباء کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ویابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکافرون ( توبہ ۵:۱۱) اللہ تعالی اپنے نور کے قائم ہو جانے کے سوا ہر دوسری تحریک سے انکار کرتا ہے یہ ظاہر ہے کہ خدا تعالی کا انکار تکبر والا انکار نہیں کہلا سکتا۔ اسی طرح عربی کا محاورہ ہے بادشاہ سے کہتے ہیں ۔ ابیت ا للعن ۔ آپ نے *** کا انکار کیامطلب یہ کہ آپ ایسے شریف ہیں کہ کسی قسم کی *** کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے۔ اسی طرح کہتے ہیں رجل ابی فلاںشخص ظلم اٹھانے سے انکاری ہے پس شمس کے معنی گو سورج کے ہیں مگر شمس کے مادہ کے اعتبار سے اس کے معنے اباء کے بھی ہیں اور ان معنوںکے لحاظ سے اس سے مراد وہ وجود ہو گا جو کسی کی ناواجب اطاعت سے انکار کرے اور مطلب یہ ہو گا کہ ایسا وجود جس کی قابلیتیں ہی ایسی ہیں کہ وہ کسی کی اطاعت کے لئے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ خدا نے اسے دنیاکا لیڈر بنایا ہے اس کا کام صرف یہی ہے کہ وہ دوسروں کی راہنمائی کرے اس کا یہ کام نہیں کہ کسی کی ماتحتی اختیار کرے ۔
الضحیٰ : ضَحَا( ضَحَا یَضْحُوْا ضحواً)کے معنی ہوتے ہیں کوئی چیز ظاہر ہوگئی چنانچہ کہتے ہیں ضحا الطریق : بدَا و ظَھَر َ۔ کہ راستہ ظاہر ہو گیا (اقرب) اور جب سورج کی روشنی زیادہ نکل آئے تو اس وقت کو ضحی کہتے ہیںلیکن اس سے پہلے وقت کو جو طلوع آفتاب کا ہوتاہے اور جس میں روشنی پوری طرح ظاہر نہیں ہوتی ضحوۃ کہتے ہیں ۔ بعض نے اور زیادہ فرق کیا ہے ان کے نزدیک سورج نکلتے وقت کو ضحوۃ کہتے ہیں ۔ جب سورج کچھ بلند ہوتا ہے تو اس وقت کو ضحی کہتے ہیں اور پھر نصف النہار سے زوال تک کے وقت کو ضحاء’‘ کہتے ہیں ۔ (اقرب)
تفسیر۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں شہادت کے طور پرپیش کرتا ہوں سورج کو اور اس کے ظہور اور روشنی کو ۔
دنیا میں ہر چیز دو حیثیتیں رکھتی ہے ایک اس کی ذاتی حقیقت حساب اور وزن کے لحاظ سے اور ایک اس کی حقیقت دوسری چیزوں کی نسبت کے لحاظ سے ۔ مثلاً فرض کرو ایک درخت دس فٹ اونچا ہے یہ دس فٹ قد اس کا اصلی قد ہوگا اور بغیر دوسری چیزوں کی نسبت کے اسے اس درخت کا اصلی قد قرار دیا جائے گا مگر ایک قد اس کا نسبتی ہو گا۔ مثلاً ایک شخص پندرہ بیس فٹ کے ٹیلے پر چڑھ جائے تو لازماً درخت کی ساری لمبائی اسے نظر نہیں آئے گی بلکہ بعض دفعہ اونچائی اور زاویہ نگاہ کے مطابق اسے وہ درخت دو فٹ کا نظر آئے گا۔ بعض دفعہ چار فٹ کا نظر آئے گا۔ یا ایک شخص گڑھے میں ہے تو اسے وہ درخت بہت لمبا نظر آئے گا اور دس کی بجائے تیرہ یا چودہ فٹ کا معلوم ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص دور سے درخت کو دیکھتا ہے تو وہ اسے بہت چھوٹا معلوم ہوتا ہے ۔ دور سے ہم پہاڑ دیکھتے ہیں تو باوجود اس کے کہ وہ بعض دفعہ دو ہزار بعض دفعہ چار ہزار اور بعض دفعہ بیس بیس ہزار فٹ اونچے ہوتے ہیںدور سے دیکھنے کی وجہ سے ایسے نظر آتے ہیں جیسے کوئی اونچا سا خیمہ لگا ہوا ہو ۔ اسی طرح اگر درخت کے نیچے لیٹ کر اوپر کی طرف دیکھا جائے تو درخت کا بالکل اور نظارہ نظر آئے گا۔ کسی مینار کے نیچے کھڑے ہو کر اوپرکی طرف دیکھو تو خواہ وہ ایک سو یا ڈیڑھ سو فٹ کا ہو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ پانچ سو یا ہزار فٹ کا ہے لیکن اگر ہوائی جہاز میں بیٹھ کر مینار کو دیکھا جائے تو وہی مینار بہت چھوٹا نظر آتا ہے ۔ غرض ہر چیز کی ایک حقیقت ذاتی حسابی ہوتی ہے جو طبعی حالات میں نظر آتی ہے اور ایک حقیقت اُس کی دوسری چیزوں کے لحاظ سے نظر آتی ہے ۔ ایک شخص ساری رات سوچتا ہے بڑے بڑے اہم مسائل پر تدبر کرتا ہے فلسفہ اور ہیت کی باریکیوں پر غور کرتا ہے ، سیاست اور اقتصادکے بڑے بڑے نکات حل کرتاہے ، قوموں کی ترقی اور ان کے تنزل کے وجوہ پر غور کرتا ہے اور اسی میں اپنی تمام رات بسر کردیتا ہے ۔ صبح اسے کوئی شخص ملتا ہے تو وہ ان مسائل میں سے کوئی ایک بات اس کے سامنے بیان کر تا ہے ۔ اب زید جس نے ساری رات سوچ کر سو اہم مسائل حل کئے تھے اس کی نسبت کے لحا ظ سے جو علم دوسرے شخص کو اس سے حاصل ہوا وہ صرف 1/100تھا ۔ پھر ایک اور شخص ملتا ہے اور اس سے بھی وہ بعض مسائل کا ذکر کر دیتا ہے فرض کرو وہ اس کے سامنے دو مسئلے بیان کرتا ہے تو اب دوسرے شخص کو جو روشنی حاصل ہوئی وہ دو فیصد ہے گویا ایک اس کی ذاتی روشنی ہے اور ایک اس کی وہ روشنی ہے جو دوسرے لوگوں کے لحاظ سے ہے اس کی ذاتی روشنی تو یہ ہے کہ اس نے سو(100) مسئلے حل کئے ہیں لیکن اس کی نسبتی روشنی یہ ہے کہ ایک شخص ملتا ہے تو وہ اس کے سامنے ایک مسئلہ بیان کرتاہے ، دوسرا شخص ملتا ہے تو اس کے سامنے دو مسئلے بیان کرتا ہے ، تیسرا شخص ملتا ہے تو اس کے سامنے تین مسئلے بیان کرتا ہے اور وہ اس کی ذاتی روشنی کا اسی قدر اندازہ لگاتے ہیں جس قدر علم ان کو اس شخص سے حاصل ہو چکا ہوتا ہے پھر ایک اور شخص اسے ملتا ہے اور وہ اس کے سامنے ان مسائل کے متعلق ایک لمبی تقریر کرتا اور سو میں سے پچاس مسئلے بیان کردیتا ہے اب اس کے لحاظ سے اس کی علمی روشنی کی بالکل اور کیفیت ہو گی اور وہ اس کا اندازہ ان پچاس مسائل سے لگائے گا جو اسے بتائے گئے تھے اس کے بعد اگر کوئی اور شخص اسے ملتا ہے اور وہ اس کے سامنے سو کے سو مسائل بیان کر دیتا ہے تو وہ اس کے سامنے بالکل گویا عرفانی طور پر ننگا ہو جاتا ہے ۔ اب وہ شخص جس کے سامنے صرف ایک مسئلہ بیان ہوا تھا وہ بھی کہتا ہے کہ فلاں نے بڑے لمبے غور کے بعد یہ بات نکالی ہے مگر وہ اس کے صرف 1/100حصہ کو جانتا ہے ، جس کے سامنے دو باتیںبیان ہوئی تھیں وہ اس کے 2/100حصہ کو جانتا ہے جس کے سامنے دس باتیں بیان ہوئی تھیں وہ اس کے 1/10حصہ کو جانتا ہے اور جس کے سامنے پچاس باتیں بیان ہوئیں تھیں وہ اس کی 1/2 حقیقت کو جانتا ہے اور جس کے سامنے سو باتیں بیان ہوئی تھیں وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اس کی ساری حقیقت کو جان لیا مگر واقعہ یہ ہوتا ہے کہ اس نے اس سے پہلی رات بھی غور کیا ہوتا ہے اور اس پہلی رات بھی غور کیا ہوتا ہے اوراس پہلی رات بھی غور کیا ہوتا ہے یہان تک کہ وہ خود بھی کئی باتیں بظاہر بھول گیا ہوتا ہے اور اسے اپنی حقیقت کا بھی پورا علم نہیں رہتا لیکن خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ ا س کے اندر کیا کیا حقیقتیں پیدا ہوچکی ہیں۔
درحقیقت ہر انسان میں ایک ملکہ ظہور ہوتاہے اور ایک اس کے اندر بالقوۃ طاقتیں ہوتی ہیں ۔ اگر تم سے کوئی پوچھے کہ تم اردو کے کتنے الفاظ جانتے ہواور تم گننے لگو تو تم پچاس ساٹھ یا سو سے زیادہ الفاظ شمارنہیں کر سکو گے لیکن اگر تمہارے سامنے کوئی کتاب رکھ دی جائے تو تم کہو گے کہ میں یہ الفاظ بھی جانتا ہوں اور وہ الفاظ بھی جانتا ہوں تو اپنی قابلیتوں کا انسان خود بھی اندازہ نہیں کر سکتا کجا یہ کہ دوسروں کی قابلیتوں کا اندازہ لگا سکے ۔ تم سورج کے سامنے مختلف درجہ کی صفائی کی چیزوں کو رکھ دو تو گو اس سب پر سورج کی پوری روشنی ہی پڑے گی مگر صفائیکے مختلف مدارج کی وجہ سے ہر چیز کے لحاظ سے اس کی روشنیاں بالکل الگ الگ ہوں گی حالانکہ سورج کی ذاتی روشنی تو ایک ہی ہے اسی طرح لیمپ کی ایک تو وہ روشنی ہے جو اس کے اندر جلنے والے تیل کی نسبت سے پیدا ہوتی ہے وہ ایک ہی درجہ کی ہے لیکن ایک وہ روشنی ہے جو مختلف چیزوںپر پڑ کر اپنے حجم اور اپنی وسعت کو بدلتی چلی جاتی ہے ۔ یہی مضمون اس جگہ بیان کیا گیا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے والشمس ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں سورج کو وضحہا اور اس کی روشنی کو جو اس کی ذاتی روشنی ہے ۔
وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰھَا
اور چاند کی جب وہ اس (یعنی سورج) کے پیچھے آتا ہے (ایت نمبر ۳)
حل لغات تلا فلا نا(تلواً) کے معنی ہیں تَبِعَہ‘ اس کا پورا تابع ہو گیا (اقرب) اس آیت کی مفسرین نے مختلف تشریحات کی ہیں بعض نے کہا ہے کہ اتباع کے یہ معنے ہیں کہ جس وقت سورج ڈوبے معاً اس کی جگہ چاند روشنی دینے لگے اور یہ مہینہ کی پہلی پندرہ تاریخوں میں ہوتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تابع کے معنے یہ ہیں کہ سورج کی سب روشنی اور نور اس نے لے لیا اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ چاند پورا ہو جائے یعنی چودھوین پندرھویں سولھویں تاریخوں کا چاند۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب سورج چڑھے اس وقت یہ ساتھ چڑھے تو یہ تَلٰھَا ہے ۔ یعنی جب چاند بالکل نظرنہیں آتا۔ یعنی مہینہ کی آخری دو راتیں۔ قتادہ کہتے ہیں اس سے مراد وہ دن ہیں جب چاند ہلال ہوتا ہے ۔ فراء کہتے ہیں کہ اس کے معنے ہیں کہ چاند سورج سے روشنی لیتا ہے ۔ جہاں تک ہلال کے معنوں کا سوال ہے وہ تو بالبداہت غلط ہیںکیونکہ یہاں قمر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور چاندکو قمر اس وقت کہتے ہیں جب وہ ہلال نہیں رہتا ۔ باقی معنوں میں سے اس کے پورا ہونے کے معنے زیادہ صحیح ہیں کیونکہ چودھویں رات کے چاندمیں دونوں مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ وہ جسمانی طور پر بھی سورج کے ڈوبنے کے ساتھ ہی چڑھتا ہے اور سورج کے ساتھ ہی چلا جاتا ہے اور روشنی کے لحاظ سے بھی وہی پورا تابع ہوتا ہے یعنی پوری سورج کی روشنی وہی لیتا ہے پس ان معنوں کودوسرے معنوں پر ترجیح حاصل ہے ۔
تفسیر ۔ فرماتا ہے ہم شہادت کے طور پر قمر کو بھی پیش کرتے ہیں یعنی ایک ایسے وجود کو جس میں روشنی اخذ کرنے اور اس کو اپنے اندر جذب کرنے کا مادہ پایا جاتاہے مثلاً شیشہ ہے اس میں بھی روشنی جذب کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے یا سفید پانی ہے اس میںبھی روشنی کو جذب کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے یا مثلاً ابرک کے ٹکڑے ہیں ان میں بھی روشنی جذب کرنے کا مادہ ہوتاہے ۔لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں روشنی جذب کرنے کا مادہ نہیں ہوتا۔ ہمارے سامنے ایک شخص بیٹھاہوا ہوتا ہے اور اس پر سورج کی روشنی پڑ رہی ہوتی ہے مگر ہم اسے یہ نہیں کہتے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جائو ایسا نہ ہو کہ ہم اندھے ہو جائیں ۔ لیکن اگر وہی روشنی کسی شیشہ کے ذریعہ آنکھوں پر پڑے تو خطرناک نقصان پہنچ جاتا ہے یہاں تک کہ بعض دفعہ جب شیشہ کی چمک آنکھوں پر پڑتی ہے تو بینائی ضائع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سارادن سورج چمکتا ہے گھاس پر اس کی روشنی پڑتی ہے تو انسان اسے دیکھ دیکھ کر لطف اٹھاتا ہے لیکن مصر میں بڑے بڑے ریت کے میدان ہیںچونکہ موٹی ریت میںچمکنے کا مادہ ہے اور ہر چمکدار چیز اپنی روشنی کو اپنے مقابل کی طرف بھی پھینکتی ہے ان میدانوں میںسے گذرتے ہوئے بعض لوگ ایک منٹ میں اندھے ہو جاتے ہیں ۔ مصر میں ایسے سینکڑوں اندھے پائے جاتے ہیں جن کی آنکھیں بالکل اچھی تھیںمگر وہ کسی ایسے ہی ریت کے میدان میں غلطی سے چلے گئے اور اندھے ہو گئے ۔ یہی حال موٹر کی روشنی کا ہوتا ہے جب رات کو موٹر آرہا ہو اور اس کے لیمپ میں سے تیز شعائیں نکل رہی ہوں تو کئی حادثے ہو جاتے ہیں ۔ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ حادثہ کس طرح ہو گیا جبکہ موٹر کے سامنے لیمپ روشن تھا اور اس کی دور دور تک روشنی پھیل رہی تھی ۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ دور سے اس کی روشنی اس طرح چمک کر پھیلتی ہے کہ انسان کو یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ موٹر یہاں ہے یا وہاں اور وہ اس کی لپیٹ میں آکر ماراجاتا ہے ۔ درحقیقت ایک تو لیمپ کی ذاتی روشنی ہوتی ہے اور ایک وہ ری فلیکٹر ہوتے ہیں جو اس روشنی کو دور پھینک دیتے ہیں ۔ اگر ری فلیکٹر نہ ہو تو روشنی بہت محدود جگہ میںرہتی ہے لیکن جب روشنی کے ساتھ ری فلیکٹر مل جاتاہے تو اس کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور وہ دور دور تک اندھیروں کو زائل کردیتا ہے ۔ قمر کے معنے در اصل ری فلیکٹرکے ہی ہیںیعنی ایسا وجود جس میں ذاتی طور پر یہ قابلیت ہوتی ہے کہ وہ سورج سے نور لے کر اسے دوسروں کی طرف پھینک دے ۔ یہ خیال نہیںکرن چاہیئے کہ اگر قمر کی جگہ کوئی سا بھی اور ستارہ رکھ دیا جائے تو وہ بھی سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کر کے دوسروں کی طرف پھینک سکتاہے ہر ستارہ یہ قابلیت نہیں رکھتا۔ اللہ تعالی نے ہمارے نظام ِ شمسی میں صرف قمر ہی میں یہ قابلیت پیدا کی ہے کہ وہ سورج سے اس کی روشنی اخذ کرے اور پھر اسے اپنے اندر جذب کر کے دوسروں کی طر ف پھینک کر ان کو منور کر دے ۔ اسی لئے چاند کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کسی قسم کی آبادی کے قابل نہیں ہے اگر وہ قابل آبادی ہوتا تو اس میں درخت ہوتے ، گھاس ہوتا بڑے بڑے جنگلات ہوتے ۔ مگر یہ چیزیں چاند میں نہیں ہیں ۔ کیونکہ اگر یہ چیزیں ہوتیں تو وہ روشنی کو اپنے اندر جذب کر کے دوسروں کی طرف پھینک نہیںسکتا تھا ۔ مگر چونکہ اللہ تعالی نے چاند کو ری فلیکٹر کے طور پر بنایا ہے اس لئے اُس نے چاندمیں ریت کے بڑے بڑے میدان پیدا کر دیئے ہیں جب سورج کی روشنی اُن پر پڑتی ہے تو وہ ریت کے میدان ری فلیکٹر کے طور پر اس کی دنیا پر پھینک دیتے ہیں ۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے وَالْقَمَرِ ہم تمہارے سامنے ایک ایسے وجود کو پیش کرتے ہیں جو قمری حیثیت رکھتا ہے مگر صرف قمر کے وجود کو نہیں بلکہ قمر کی اس حالت کو جب وہ پوری طرح سورج کے سامنے آکراس کی ساری روشنی کو اپنے سارے وجود میں لے لیتا ہے بے شک قمر میںیہ خوبی ہے کہ وہ روشنی لے کر دوسروں کی طرف پھینک دیتا ہے لیکن روشنی اس کے سامنے نہ ہو گی تو وہ پھینکے گا کیا؟ اس لئے صرف قمر کو شہادت کے طور پر پیش نہیں کیا گیا بلکہ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا اِذَا تَلٰہَا ہم قمر کو ایسی حالت میں شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جب وہ سورج کی روشنی کو لے سکتا ہے اور پھر دوسروںکی طرف پھینک سکتا ہے لیکن یہ اس کی ذاتی خوبی اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتی جب تک وہ سورج کے سامنے نہ آجائے اگر سورج کے سامنے آجائے تو اس کی یہ خوبی ظاہر ہو جاتی ہے اور اگر سورج اور چاند کے درمیان کوئی اور چیز حائل ہو جائے جیسے بعض دفعہ زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کو گرہن لگ جاتا ہے اور وہ سورج کی روشنی کو زمین کی طرف پھینکنے سے قاصر رہتا ہے یا مثلاً پہلی رات کا چاند ہے اس وقت بھی وہ سورج کے سامنے پورے طور پر نہیں ہوتا اسی لئے وہ اس وقت قمر یا بدر کی بجائے ہلال کی صورت میں نمودار ہوتا ہے مگر جب چودھویںرات آجائے تو چاند مکمل طور پر سورج کے سامنے آجاتا ہے اور اس کی روشنی اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا پر جلوہ گر ہوتی ہے پس اللہ تعالی فرماتا ہے وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا ہم چاند کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں مگر خالی چاند کو نہیں بلکہ چاند کی اس حالت میں شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جب وہ کامل طور پر سورج کے سامنے آجاتاہے اور اس کی روشنی کو جذب کر کے دوسری دنیا کو منور کر دیتا ہے گویا اس کا کمال ِ نور اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب سورج کے عین سامنے آجاتا ہے اور یہی اس کے حسن کے کمال کا موقع ہوتا ہے کہ اس میں ذاتی طور پر یہ قابلیت بھی ہوتی ہے کہ وہ سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کرے اورپھر اس کے اندر یہ قابلیت بھی ہوتی ہے کہ اس روشنی کو دوسروں کی طرف پھینک دے اور دنیا کی تاریکیوں کو دور کر دے ۔ اب مکمل طورپر دونوں آیات کا مفہوم یہ ہوگا کہ وَالْشَّمْسِ ہم سورج کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں ذاتی روشنی پائی جاتی ہے وَضُحَہَا اور اسکی ذاتی روشنی کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں وَا لْقَمَرَ اور ہم چاند کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں روشن چیز کی روشنی کو لینے اور پھر اسے دوسرے وجودوں پر پھینک کر انہیں روشن کر دینے کی قابلیت پائی جاتی ہے اور چاند کی شہادت ہم اس حالت میں پیش کرتے ہیں جبکہ وہ عملاً سورج سے پوری روشنی لیکر دنیا کو روشن کر رہا ہوتا ہے ۔
وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا
اور دن کی جب وہ اس (یعنی سورج ) کو ظاہر کر دیتا ہے ( ایت نمبر ۴)
نمبر ۴ تفسیر بظاہر تو دن کو سورج پیدا کرتا ہے نہ یہ کہ دن سورج کی روشنی کو ظاہر کرتاہے مگر یہاں چونکہ استعارہ والاکلام ہے اور ضحی سے مراد سورج کی ذاتی روشنی تھی اس نہار سے مراد زمین کا اس کے سامنے آکر سورج کو دکھا دینا ہے ۔ جب ہم د ن کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ سورج چمکنے لگ گیا ہے کیونکہ سورج تو ہر وقت چمکتا رہتا ہے ۔ دن سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ہماری زمین سورج کے سامنے آگئی ہے پس وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا کے یہ معنے ہوئے کہ جب زمین نے سورج کے سامنے آکر سورج کو دکھا دیا ۔ ضُحٰھَا کا مطلب اور تھا ضُحٰھَا سے سور ج کی ذاتی روشنی کی طرف اشارہ تھا خواہ وہ دنیا کے سامنے ہو یا نہ ہو سورج بہر حال چمک رہا ہوتا ہے اس کے سامنے بادل آجائیں یا زمین اس کی طرف سے رخ بدل لے اس کی ذاتی روشنی میں کوئی فرق نہیںپڑتا لیکن باوجود سورج کے ہر وقت چمکتے رہنے کے رات کے وقت کو نہار نہیں کہیںگے کیونکہ نہار یا دن اس وقت کو کہتے ہیں جب سورج ہمارے حصہ ملک کے سامنے ہوتا ہے خواہ اس کے سامنے بادل ہی کیوں نہ آگیاہو اور جب وہ ہمارے حصہ ملک کے سامنے نہ ہو تو خواہ اس کے آگے بادل نہ ہوں ہمارے ملک والے اس وقت کو دن نہیں کہیں گے اور یہ نہیں کہیں گے کہ سورج روشن ہے پس نَھَار اور مفہوم پیدا کرتا ہے اور ضُحٰھَا اور مفہوم پیدا کرتا ہے ۔ ضُحَی الشَّمْسِ ہر وقت قائم رہتی ہے خواہ سورج کسی حصہ دنیا کے سامنے ہو یا نہ ہو ۔ کیونکہ وہ سورج کی ذاتی روشنی پر دلالت کرتی ہے اور نہار دنیا کے مختلف حصوں کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے کبھی یہاں دن کبھی وہاں ۔ کیونکہ دن اس وقت کو کہتے ہیں جب زمین سورج کے سامنے ہو کر لوگوںکو اپنی ضُحیٰ دکھا تی ہے ۔
وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا
اور رات کی جب وہ اس کو ڈھانپ دے ۔ ایت نمبر ۵
نمبر۵ تفسیر وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَاسے مراد رات کے وقت زمین کا منہ پھیر کر سورج کو اوجھل کر دینا ہے ۔ رات کیا ہوتی ہے ؟ جب سورج کی طرف سے زمین اپنی پیٹھ پھیر لیتی ہے اور اندھیرا ہو جاتا ہے تو اسے رات کہتے ہیں پس چونکہ لَیْل ایک زمینی فعل کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اس لئے یہاں لَیْل کے متعلق یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ دن کی روشنی کو ڈھانپ لیتی ہے لیکن اصل مطلب یہ ہے کہ زمین سورج کی طرف چکر کاٹ کر لَیْل پیدا کر دیتی ہے گویا وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا میں تو زمین کی اس حالت کا ذکر کیا تھا جب وہ سورج کے سامنے آکر آبادی کو سورج دکھا دیتی ہے اور وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا میں زمین کی اس کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے جب وہ سورج سے اپنا منہ موڑ کر لَیْل پیدا کر دیتی اور دنیا کی نظروں سے سورج کو روپوش کر دیتی ہے ۔
یہ چار چیزیں ہیں جو الگ الگ معنے رکھتی ہیں وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَاسے سورج اور اس کی ذاتی روشنی مراد ہے والقمراذاتلہا سے چاند اور اس کی عکسی روشنی مراد ہے وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا میںزمین اور اس کی انعکاسی روشنی مرادہے وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا میںزمین اور اس کی نور سے محرومی مراد ہے ۔ سورج تو اپنے اندر ذاتی طور پر یہ وصف رکھتا ہے کہ وہ دنیا کو روشن کرے لیکن چاند میںبالقوۃ روشنی اخذ کرنے کی طاقت ہوتی ہے یعنی اس کے اندر یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ سورج سے روشنی لے اور اپنے اندر جذب کر کے اسے دوسروں تک پہنچا دے جیسے ری فلیکٹر ہوتے ہیںکہ وہ لیمپ کی روشنی کو بہت دور تک پھیلا دیتے ہیں ۔ اب خواہ چاند چمک نہ رہا ہو لیکن چمکنے کی قابلیت اس میں موجود ہوتی ہے جب وہ سورج کے سامنے آجاتا ہے تو اس کی یہ قابلیت ظاہر ہو جاتی ہے اور وہ اس کی روشنی کو دوسروں تک پھینکنے لگ جاتا ہے شمس اور قمر کے ذکر کے بعد اللہ تعالی نے وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا میںرات کو بطور مثال پیش کیا ہے جب زمین کے چکر کاٹ کر جانے کے وقت سورج اوجھل ہو جاتا ہے ۔
ان چار آیات میںچار الگ الگ زمانوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میںاللہ تعالی رسول کریم ﷺ کو پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہم سورج کو تمہارے سامنے بطورمثال پیش کرتے ہیں جب تک اپنی ذات میںچمکنے والا وجود دنیا میں نہ آئے بالخصوص ایسے زمانہ میں جب نور بالکل مٹ چکا ہو اس وقت دنیا کبھی ترقی کی طرف اپنا قدم اٹھا نہیں سکتی جیسے بجھی ہوئی آگ ہو تو اس سے دوسری آگ روشن نہیںہو سکتی یا بجھا ہوا دیا ہو تو اس سے دوسرا دیا روشن نہیں ہو سکتا ۔ ری فلیکٹر اسی وقت فائدہ دیتا ہے جب نور موجود ہو ۔ مثلاً اگر لیمپ جل رہا ہو اور اس پر ری فلیکٹرلگا دیا جائے تو بے شک اس کی روشنی دور تک پھیل جائے گی یا جیسے بیٹریوں کی روشنی بہت معمولی ہوتی ہے لیکن اوپر کا شیشہ جو ری فلیکٹر کے طور پر لگا ہوا ہوتا ہے اس کی معمولی روشنی کو بھی دور تک پھیلا دیتا ہے اگر اس شیشہ کو تم نکال دو تو بیٹری کا روشنی آدھی سے بھی کم رہ جائیگی ۔ بہر حال ری فلیکٹر اسی صورت میںکام آسکتا ہے جب نورموجود ہو ، روشنی اپنی کسی نہ کسی شکل میں قائم ہو لیکن اگر نور مٹ چکا ہو، تما م روشنیاں گُل ہو چکی ہوں تو اس وقت ایساہی وجود کام آسکتا ہے جو ذاتی طور پر اپنے اندر روشنی رکھتا ہو۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے ہم تمہارے سامنے سورج کو پیش کرتے ہیں جو اپنے اندر ذاتی روشنی رکھتا ہے اور جو ظلمتوں کو دور کرنے کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا ذریعہ ہوتا ہے ۔ اس کے بعد روشنی کا دوسرا ذریعہ چاند ہوتا ہے اور وہ بھی ایسی حالت میں جب وہ سورج کے سامنے آجاتا ہے اس وقت وہ بھی دنیا کو اپنی شعاعوں سے منور کر دیتا ہے ۔ یہ دو ذرائع ہیں جو دنیا میںانتشار ِ نور کے لئے کام آتے ہیں اللہ تعالی ان مثالوں کو کفارِ مکہ کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے تم اچھی طرح سوچ لو کیا تمہارے پاس ان دونوں ذرائع میں سے کوئی ایک بھی ذریعہ موجود ہے، کیا تمہارے پاس کوئی شمس ایسا ہے جو اپنے اندر ذاتی روشنی رکھتا ہو؟ شمس سے مرادوہ وقت ہوتا ہے جب شریعت لانے والا وجود براہ راست دنیا کو فائدہ پہنچا رہا ہو ۔ پھر فرماتا ہے اگر کسی شمس کو تم پیش نہ کر سکو تو تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ گو شمس ہم میںموجود نہیں مگر اس سے اکتسابِ نور کر کے ایک چاند ہم کو منور کر رہاہے ۔ بہر حال دو ہی چیزیں دنیا کو منور کر سکتی ہیں یا تو ذاتی روشنی رکھنے والا کوئی وجود ہو اور اگر اس کی روشنی دور چلی جائے تو پھر ا س کے بالمقابل آجانے والا کوئی ری فلیکٹر جو اس کی روشنی کو جذب کر کے دوسروں تک پہنچادے ۔ ان دو صورتوں کے علاوہ روشنی حاصل کرنے کی اور کوئی صورت نہیں ۔ اسی قاعدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے کہ اے مکہ والو! تمہیں تو ان دونوں حالتوں میں سے کوئی حالت بھی نصیب نہیں ۔ مثلاً پہلی چیز یہ ہوتی ہے کہ شریعت موجود ہو مگر تمہاری یہ حالت ہے کہ تمہارے پاس نہ نوح ؑ کاقانون ہے نہ ابراہیم ؑ کا قانون ہے نہ اور نبی کا قانون ہے اور جب تمہارے پاس کوئی قانون ہی نہیں تو تم اپنے متعلق کیاامید کر سکتے ہو اور کس طرح اس غلط خیال پر قائم ہو کہ تمہارے باپ دادا کی بجھی ہوئی روشنیاں تمہارے کام آجائیں گی ۔ تمہاری حالت تو ایسی ہے کہ تمہیں لازمی طورپر ایک شارع نبی کی ضرورت ہے کیونکہ ساری شریعتیں تم میںمفقود ہیں اور جب کہ سب کی سب شرائع مفقود ہو چکی ہیں تو اب ضروری ہے کہ کوئی شمس ِ ھدایت آئے جو ان تاریکیوں کو اجالے سے بدل دے ۔ جبتک ایسا وجو نہیں آتا جو اپنے اندر ذاتی طور پر روشنی رکھنے والاہو اس وقت تک پرانے لیمپ جو بجھ چکے ہیں تمہارے کسی کام نہیںآسکتے۔
روشنی کے حصول کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ قمر ظاہر ہو جائے ۔ مگر قمر بھی اسی وقت مفید ہو سکتا ہے جب شمس تو موجود ہو مگر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائے اس کے بغیروہ کسی کام نہیںآسکتا ۔ اگر تم یہ کہو کہ ہم قمر سے فائدہ اٹھا لینگے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ تم میںکوئی شریعت موجو د نہیںکہ غیر شریعت والا کوئی قمر ظاہر ہو جائے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے زمین کی اس حالت کو پیش کیا ہے جب وہ نہار پیدا کرتی ہے اور آخر میں اس حالت کو رکھا گیا ہے جب زمین سورج کے پیٹھ موڑ کر لوگوں کے لئے لیل پیدا کر دیتی ہے ۔
ان آیات میںاسلام کے دو اہم زمانوں کی طرف نہا یت ہی بلیغ انداز میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میں تو اسلام کی غرض کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ محمد ﷺ اپنی ذات میںچمکنے والے سورج ہیں جوں جوں یہ سورج طلوع کرتا جائے گا وہ نور جو ذاتی طور پر سورج کے اندر موجود ہے زمین میں پھیلتا چلا جائے گا۔ چنانچہ لو قرآن جو آج ہمارے ہاتھوںمیں ہے یہ محمد ﷺ کے نفسِ مطّہر سے ہی نکل کر آیا ہے ۔خدا نے اس عظیم الشان کلام کے نزول کے لئے آپ کو چنا اور پھر آپ کے ذریعہ یہ کلام ہمارے ہاتھوں تک پہنچا ۔ وہ تفصیلات جوقرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور وہ غیر متبدل تعلیمات جن کو اسلام نے پیش کیا ہے خواہ وہ تزکیہ نفوس سے تعلق رکھتی ہوں یا سیاسی اور تنظیمی تعلیمات ہوں یا اخلاقی اور اقتصادی تعلیمات ہوں بہر حال وہ سب کی سب محمد ﷺ کے سینہ سے نکل کر ہم تک پہنچتی ہیں ۔پس آپ وہ شمس تھے جن کی ضحی اپنی ذات میں آپ کی صدا قت کی ایک بڑی دلیل تھی دنیا خواہ آپ کو مانے یا نہ مانے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ دنیا قرآن کریم کو بند کر کے رکھ دے اور کہے کہ قرآن کریم کے مضامین بالکل خراب ہیں پھر بھی جب تک قرآن دنیا میں موجود ہے رسول کریم ﷺ کی ضحی دنیا میں موجود رہے گی ۔ جب دن کے وقت ایک شخص اپنے کمرہ کے دروازے بند کر کے اندر بیٹھ رہتا ہے یا جب زمین چکر کھا کر سورج کو لوگوں کی نگاہ سے اوجھل کر دیتی ہے اُس وقت سورج کاوجود تو غائب نہیں ہو جاتا۔ سورج بہر حال موجود ہوتا ہے ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ زمین اس سے اپنی پیٹھ موڑ لے یا کوئی شخص اپنے کمرہ کے دروازے بند کر کے اس کی روشنی کو اندر داخل نہ ہونے دے ۔ اسی طرح وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میں بتایا کہ رسول کریم ﷺ ضحی والے وجود ہیں چاہے تم اس نور سے فائدہ اٹھائو یا نہ اٹھائو ان کا تو نور بہر حال ظاہر ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ دنیا ایک دن تسلیم کرے گی کہ آپ حقیقت میں روحانی سورج تھے پس دنیا ان کے سامنے آئے یا نہ آئے اس کا کوئی سوال نہیں ۔ دنیا اس شمس کے سامنے آئے گی تو منور ہو جائے گی اور اگر نہ آئے گی تو یہ شمس بہر حال شمس ہے اس کی ضحی پر اس بات کا کوئی اثر نہیںہو سکتا کہ لوگوں نے اسکی طرف سے اپنی پیٹھ موڑلی ہے ۔
فرض کرو رسول کریم ﷺ پر ایک آدمی بھی ایمان نہ لاتا تو اس سے کیا ہو سکتا تھا جو روحانی اور اخلاقی تعلیمات آپ نے دی ہیں ، جو سیاسی تعلیمات آپ نے دی ہیں ، جو اقتصادی تعلیمات آپ نے دی ہیں، جو علمی تعلیمات آپ نے دی ہیں ان سے آپ کا بہر حال شمس ہونا ظاہر ہو جاتا۔ جب ایک وجود کو خدا تعالی نے شمس بنا کر بھیجا تو خواہ مکہ والے آپ پر ایمان نہ لاتے ۔ اہل عرب آپ کو سچا تسلیم نہ کرتے وہ یہ تو کہہ سکتے تھے کہ اس شمس سے نہار پیدا نہیں ہوا ، دنیا نے اس سورج سے روشنی اخذ نہیں کی مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ یہ شمس ، شمس نہیں تھا ۔ جب ایک شخص نئی شریعت لاتا ہے تو خواہ ہزار سال کے بعد لوگ اسے مانیں بہر حال اس کا شمس ہوناپہلے دن سے ہی ثابت ہوتا ہے ۔ یہ تو ہم کہیں گے کہ دنیا اس کے سامنے دو سو سال کے بعد آئی یا ہزار سال کے بعد آئی مگر یہ نہیں کہیں گے کہ وہ شمس اپنی ذات میں ایک روشن وجود نہیں تھا پس وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میں بتایا کہ محمدﷺ اپنی ذات میں ایسا نور رکھتے ہیں کہ تم چاہے مانو یا نہ مانوان کا کچھ بگڑ نہیں سکتا ۔
پھر فرمایا ہے وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا یعنی آپ کے بعد بعض اور وجودبھی آئیں گے جو قمر کی حیثیت رکھیں گے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ نہ صرف ایسے شمس ہیں جو اپنی ذات میں روشن اور پُر انوار ہیں بلکہ خدا تعالی نے آپ کے نور سے اکتساب کرنے کے لئے بعض قمر بھی پیدا کر دئیے ہیں جو ہر زمانہ میں اِن کے نور کو دنیا میں پھیلاتے رہیں گے گویا اول تو یہ اپنی ذات میںسورج ہے پھر یہ ایسا سورج ہے جس کے لئے خدا تعالی نے ری فلیکٹر بھی پیدا کر دئیے ہیں۔ اگر لوگ اس سورج کی طرف سے اپنا منہ موڑ لیں گے تو خدا تعالی پھر بھی انہیںبھاگنے نہ دے گااس کے مقابل پر ایک چاند آکھڑا ہو گا اور اس سے روشنی اخذ کر کے دنیا پر پھینکنے لگے گا۔ اور اس طرح پھر دنیا اس کے نور سے حصہ لینے لگے گی۔
اگر تم زمین سورج اور چاند کو آدمی سمجھ لو تو تمثیلی رنگ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ زمین جب روٹھ کر سورج سے اپنا منہ پھیر لیتی ہے تو چاند کہتا ہے تم اس سے بھاگ کر کہاں جاتی ہو میں اس سے نور حاصل کر کے تم پر ڈال دوں گا۔ غرض بتایا کہ دنیا خواہ پیٹھ پھیر لے ، خواہ وہ اس شمس روحانی سے منہ موڑ لے پھر بھی اس سورج سے اکتساب ِ نور کرتے ہوئے ایسے قمر دنیا میں بھیجے جائیں گے جو پھر ظلمت کدہ عالم کو بقعہ نور بنا دیں گے اگر کوئی قمر نہ ہوتا اور دنیا اپنی پیٹھ سورج کی طرف پھیر دیتی تو لازماً تاریکی ہی تاریکی ہو جاتی ۔ اجالا ہونے کی کوئی صورت نہ ہوتی یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی شارع نبی آیا دنیا نے کچھ عرصہ کے بعد اس سے اپنا منہ موڑ لیا اور تاریکی و ظلمت کے بادل اس پر چھا گئے ۔مگر فرمایا محمد ﷺ ایسے نبی نہیں یہ وہ شمس ہیں جس کے پیچھے قمر لگے ہوئے ہیں یہ وہ معشوق ہے جس کے عاشق اس کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔ دنیا اگر روٹھے گی تو قمر اس کو روشنی پہنچانے کے لئے ظاہر ہو جائیں گے ۔
وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَامیں بتایا کہ ہمارا یہ سورج صرف اپنی ذات میں ہی روشنی نہیں رکھتا بلکہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ دنیا بھی اس سے روشنی لے لیگی ۔ اس جگہ نہار سے مراد زمانہ نبوی ؐ نہیں بلکہ نہار سے مراد بعد کازمانہ ہے جب سورج تو نہ ہوگا مگر دن کا وقت سورج کو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لاتا رہے گا ٰیہاں تک کہ رات آجائے گی اور وہ اسے ڈھانپ لے گی اور ایک بار دنیا پھر معلوم کر لے گی کہ سورج کے بغیر گذارہ نہیں اور اس سے دوسری خسران و تباب کا موجب ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جسمانی اور روحانی سورج میں ایک فرق بتایا ہے ۔ جسمانی سورج تو جب تک موجود رہتاہے دن چڑھارہتا ہے اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے رات آجاتی ہے لیکن روحانی سورج کی روشنی اس کے غائب ہونے کے بعد بڑھنی شروع ہوتی ہے گویا دنیوی دن تو سورج کے ہوتے ہوئے چڑھتا ہے لیکن روحانی دن سورج کے غائب ہونے کے بعداپنے کمال کو پہنچتا ہے ۔ چنانچہ دیکھ لو قرآن اور حدیث نے ساری دنیا کو منور کیا مگر اس وقت جب رسول کریم ﷺ وفات پا چکے تھے، جب روحانی سورج لوگوں کی نظروں سے غائب ہو چکا تھا ۔ یہ روحانی اور جسمانی سورج میں ایک نمایاں فرق ہے ۔ جسمانی سورج کا دن اس وقت چڑھتاہے جب سورج نکلتا ہے مگر روحانی سورج کا دن اس وقت کمال کو پہنچتا ہے جب وہ غائب ہو جاتا ہے ۔
جسمانی سورج کے طلوع ہونے پر لوگ خوشیاں مناتے ہیں لیکن جب روحانی سورج طلوع کرتا ہے تو لوگ مخالفت کاایک طوفان بپا کرتے ہیں ۔ کوئی گالی نہیں ہوتی جو اسے نہ دی جائے، کوئی الزام نہیں ہوتا جو اس کے متعلق تراشانہ جائے ۔ ہر کوشش کا ماحصل یہی ہوتاہے کہ کہیںاس سورج کی ضیاء دنیا میں نہ پھیل جائے۔ مگر جب وہ سورج دنیا کی جسمانی نظروں سے غائب ہو جاتا ہے تو اسکی روشنی بڑھنے لگتی ہے اور لوگ یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ بڑا اچھا آدمی تھا ہم بھی اسے مانتے ہیں ، ہم بھی اس پر ایمان لاتے ہیں ۔ یہی اثر تھا جس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک دفعہ ایسا رلایا کہ میدہ کے نرم نرم پھلکے کا ایک لقمہ تک ان کے گلے سے نیچے اترنامشکل ہو گیا ۔ جب کسریٰ کو شکست ہوئی اور مال ِ غنیمت مسلمانو ںکے ہاتھ آیا تو ان میں سے کچھ ہوائی چکیاں بھی تھیں جن سے باریک آٹا پیسا جاتا تھا اس سے پہلے مکہ اور مدینہ کے رہنے والے سل بٹہ پر دانوں کوپیس لیا کرتے اور پھونکوں سے اس کے چھلکے اڑا کر روٹی پکا لیا کرتے تھے ۔ جب مدینہ میں ہوائی چکیاں آئیں اور ان سے باریک میدہ تیار کیا گیا تو حضرت عمر ؓ نے حکم دیا کہ پہلا آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیش کیا جائے تا کہ سب سے پہلے آپ ہی اس آٹے کی نرم نرم روٹی کھائیں ۔ چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق وہ آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں پیش ہوا ۔ آپ نے ایک عورت کو دیا کہ وہ اسے گوندھ کر روٹی تیار کرے ۔ جب میدے کے گرم گرم اور نرم نرم پُھلکے تیا ر کر کے آپ کے سامنے لائے گئے تو آپ نے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے ایک لقمہ توڑا اور اپنے منہ میں رکھ لیا مگر وہ لقمہ آپ نے اپنے منہ میں ڈالا ہی تھا کہ آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوگرنے لگے دیکھنے والی عورتیں حیران رہ گئیں کہ آپ کے آنسو کیوں گرنے لگے ہیں۔ چنانچہ کسی نے آپ سے پوچھا خیر تو ہے کیسی عمدہ اور نرم روٹی ہے اور آپ کے گلے میں پھنس رہی ہے ؟ انہوںنے جواب دیا میرے گلے میں یہ روٹی اپنی خشکی کی وجہ سے نہیں پھنسی بلکہ اپنی نرمی کے باعث پھنسی ہے ۔ رنج کے واقعات نے مجھے رنجیدہ نہیں کیا بلکہ خوشی کی گھڑیوں نے مجھے افسردہ بنا دیا ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب محمد ﷺ ہم میں موجود تھے انہی کی برکت سے آج یہ نعمتیںہمیں میسر ہیں مگر آپ کا یہ حال تھا کہ مدتوں گھر میں آگ نہیں جلتی تھی اور اگر روٹی پکتی بھی تو اس طرح کہ ہم سل بٹہ پر غلہ پیس لیا کرتے اور پھونکوں سے اس کے چھلکے اڑا کر روٹی پکا لیا کرتے ۔ مجھے خیال آتا ہے کہ یہ نعمتیں ہمیں جس کے طفیل میسر آئی ہیں وہ تو آج ہم میں نہیں کہ ہم یہ نعمت اس کے سامنے پیش کرتے اور دولتیں اس کے قدموں پر نثار کرتے لیکن ہم جن کا ان کامیابیوں کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ یہ خیال تھا جس نے مجھے تڑپا دیا اور جس کی وجہ سے میدے کا نرم نرم لقمہ بھی میرے گلے میں پھنس گیا ۔ تو روحانی عالم میں یہی قانون جاری ہے کہ نہار اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب سورج نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا کہ ہم دن کو پیش کرتے ہیںجب وہ سورج کو ظاہر کردے گا سورج سامنے نہیں ہو گا مگر دن اس بات کا ثبوت ہو گا کہ سورج ضرور چڑھا تھا ۔ چنانچہ دیکھ لو ابو بکر ؓ اور عمر ؓ کے زمانہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت جس طرح ظاہر ہوئی اور اسلام کی دھاک دنیا کے قلوب پر بیٹھی یہ ظہور رسول کریم ﷺ کے سامنے نہیں ہوا ۔ غرض روحانی اور جسمانی دن میں یہ فرق ہے کہ جسمانی دن کے وقت سورج موجود ہوتا ہے مگر روحانی نہا ر کا زمانہ وہ ہوتا ہے جب جسمانی طور پر سورج غائب ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے حضرت مسیح موعود ؑ نے ’’الوصیت ‘‘ میں اپنی وفات کی خبر دیتے ہوئے جماعت کو نصیحت فرمائی ہے کہ ’’ تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی ہے غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیا مت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت آنہیں سکتی جب تک میں نہ جائوں ۔ لیکن میں جب جائوں گا تو پھر خدا تعالی اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا تعالی کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا تعالی فرماتاہے کہ میںاس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے ‘‘
وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا پھر فرماتا ہے تیری امت پر ایک وہ زمانہ بھی آنے والا ہے جب سورج سے وہ اپنا منہ موڑ لے گی اور نہار کی بجائے لیل کا زمانہ اس پر آجائے گا ۔ بجائے اس کے کہ امت ِ محمدیہ ؐ کے یہ افرا د رسول کریم ﷺ کے احکام کو فراموش کر دیں گے اور عیاشیوں میں مبتلا ہو کر شیطانی راستوں کو اختیار کر لیں گے اس وقت اللہ تعالی ان سے فرمائے گاخواہ تم ہم کو بھول جائو ہم تمہیں نہیں بھول سکتے۔ خواہ تم ہم سے روٹھ جائو ہم تمہیں نہیں چھوڑ سکتے ۔ چنانچہ جب رات ان پر چھا جائے گی اور دنیا بزبان ِ حال ایک سورج کا مطالبہ کر رہی ہو گی اللہ تعالی پھر ایک چاند کو جو سورج کا قائم مقام ہوتا ہے چڑھا دے گا اور وہ محمد ﷺ سے روشنی لے کر اسے ساری دنیا میں پھیلا دے گا۔
غرض اللہ تعالی نے وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا ۔ وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا میں اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ بعض انفاس اپنے اندر ذاتی فضیلت رکھتے ہیںاور وہ دنیا کو چمکا دیتے ہیں ۔ اور دراصل ایسے ہی وجود دنیا کی اصلاح کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس کے بالمقابل بعض انفاس قمر کی حالت رکھتے ہیں اور اسی وقت دنیا کی ہدایت کا موجب ہوتے ہیں جب وہ سورج کے پیچھے آتے ہیں یعنی ان کا نور ذاتی نہیں بلکہ مکتسب ہوتا ہے ۔ ان دونوں حالتوں کو اللہ تعالی نے بطور شاہد پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ اصلاح عالم بغیران دو قسم کے وجودوں کے نہیں ہو سکتی یا نفسِ کامل یا متبع کامل ۔ نفس ِ کامل وہ ہے جس کا ذکروَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میں آتا ہے ۔اور متبع کامل وہ ہے جس کا ذکر وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا میں آتا ہے ۔ جب تک ان دونوں صفات میں سے کوئی ایک صفت موجود نہ ہو کوئی شخص اصلاح کا فرض سر انجام نہیں دے سکتا ۔ یا تو اصلاح کاکام وہ شخص کر سکتا ہے جو شمس ہو اور اللہ تعالی نے اسے اس غرض کے لئے پیدا کیا ہو کہ وہ شریعت لائے اور یا پھر وہ ایسا متبع کامل ہو کہ اپنے متبوع کے نور کو لے کر اس غرض کو پورا کر دے جس کے لئے اسے دنیا میں بھیجا گیا تھا ۔ گویا اصل غرض شریعت سے ہوتی ہے ۔ جب شریعت ِلفظی موجود نہیں ہوتی اس وقت نفس ِکامل کے ذریعہ دنیا میں شریعت کو نازل کیا جاتا ہے اور جب شریعت ِ لفظی غائب نہیں ہوتی صرف عمل مفقود ہوتا ہے اس وقت ظلّی طورپر وہ شریعت دوبارہ متبع کامل پر نازل ہوتی ہے اور وہ دنیا میں قیامِ شریعت کا فرض سر انجام دیتا ہے ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جس کا جواب دینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ آیا یہ اتفاقی بات ہے کہ ایک کو خدا تعالی شریعت دے دیتا ہے اور ایک کو متبع بنا دیتا ہے اگر وہ یوں کرتا کہ متبع کو شریعت دے دیتا اور شریعت والے کو تابع کے مقام پر کھڑا کر دیتا تو کیا ایسا ہو جاتا؟ اس کے متعلق یہ امر سمجھ لینا چاہیئے کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ۔ صاحب ِ شریعت اور متبع محض اتفاق سے نہیں ہو جاتے بلکہ یہ دونوں الگ الگ استعدادیں ہیں اور شمس و قمر کی مثالوں میں یہ دونوں امر بیان کئے گئے ہیں ۔ چنانچہ یہ بتایا جا چکا ہے کہ استعداد ِ شمسی والا وجود پہلے آتا ہے اور استعدادِ قمری والے وجود پیچھے آتے ہیں جو اس کے کام کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس سے ایک اور استدلال بھی ہوتا ہے جس سے احمدیت کے ایک اہم مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے ایک شخص شمس ہو اپنے زمانہ کا اور دوسرے زمانہ کا قمر بننے کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بڑے زمانہ کا قمر ہو مگر چھوٹے زمانہ کا شمس ہونے کی قابلیت نہ رکھتا ہو ۔ یہ الگ الگ قابلیتیں ہیں اور اللہ تعالی نے ہر استعداد کو دیکھ کر فطری مناسبت کے لحاظ سے ان کو شمس و قمر کا مقام دیا ہے اس وجہ سے ایک زمانہ کا قمر خواہ کام کے لحاظ سے قمر ہو لیکن روحانیت کے لحاظ سے پہلے دور کے شمس سے زیادہ ہو سکتا ہے لیکن اپنے شمس سے زیادہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس نے روشنی اپنے شمس سے لی ہوتی ہے اور بوجہ اس کے نور مکتسب ہونے کے اپنے شمس سے بڑھنے کی طاقت کسی قمر میں نہیں ہوسکتی ۔ لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے زمانہ کے شمس سے بڑا ہو ۔ مثلاً آگ اپنی ذات میںایک شمس کا وجود رکھتی ہے کیونکہ خود جل رہی ہوتی ہے اس کا نور مکتسب نہیں ہوتا بلکہ اندر سے پیدا ہوتا ہے مگر قمر کی روشنی کے سامنے وہ بالکل ماند ہوتی ہے ۔ جب ہم آگ جلاتے ہیں تو صرف دو یا چار گز جگہ کو روشن کر تی ہے اس سے زیادہ نہیں اور اگر ہم اسے اونچا بھی لے جائیں تب بھی وہ زیادہ دور تک اپنی روشنی کو نہیںپھیلا سکتی بلکہ اگر ہم اسے کافی اونچا لے جائیں تو وہ شاید تاریکی ہی بن جائے اور اس کا اپنا وجود بھی دکھائی نہ دے ۔ آگ اور چاند کی روشنی میں یہ فرق اس لئے ہوتا ہے کہ گویا قمر تابع ہے مگر اس کا متبوع اس قدر روشن ہے اور دوسری روشنیوں سے اس قدر زیادہ چمک اس میں پائی جاتی ہے کہ اس کا قمر بالذات روشنیوں سے زیادہ روشن ہو جاتا او ر دوسرے شموس سے بھی اپنی روشنی میں بڑھ جاتا ہے ۔
حقیقت وہی ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتب میں بار ہا بتائی ہے کہ شموس ایسے لوگ بنائے جاتے ہیںجو اقدام اور جنگی قوت اور سیاسی اقتدار کا ملکہ اپنے اندر رکھتے ہیں کیونکہ شریعت کے نفاذ کے لئے ان قابلیتوں کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے کہ ان میں یہ سب قابلیتیںپائی جاتی تھیں۔ لیکن قمر ایسے وجود بنائے جاتے ہیں جو سوز و گداز اور نرمی اور نصیحت کا مادہ اپنے اند ر زیادہ رکھتے ہی اس جہ سے ہمیشہ ان کی زندگیاں مختلف ہوتی ہیں اور باوجود ایک کام کرنے کے دونوں دور اس طرح مختلف نظر آتے ہیںجس طرح دو الگ الگ وجود ہوتے ہیں۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام دونوں نے ایک کام کیا مگر موسیٰ اور عیسیٰ کی زندگیاں دیکھی جائیں تو وہ بالکل الگ قسم کی نظر آتی ہیں۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگیوں کو دیکھا جاے تو ان میں بھی ایک نمایا ںفرق نظر آتا ہے ۔ رسول کریم ﷺ میں شروع سے ہی اقدام اور جنگی قوت اور تحکیم نظام کا مادہ نمایا ں تھا لیکن حضرت مسیح موعود ؑ میں سوز و گدازاور نرمی کا مادہ پایا جاتاتھا اور اپنی جماعت کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے کہ سیاست سے کوئی تعلق نہ رکھو تمہاراکام یہی ہے کہ تم نرمی اور محبت سے اللہ تعالی کا پیغام لوگوں تک پہنچا ئو یہ ایسا ہی ہے جیسے سورج کی روشنی ہی قمر کے ذریعہ آتی ہے مگر ان دونوں روشنیوں میں کتنا عظیم الشان فرق ہوتا ہے سورج کی روشنی دیکھو تو وہ بالکل الگ نظر آتی ہے یہی چیز ہے جس کا نام حضرت مسیح موعود ؑ نے جلالی اور جمالی رکھا ہے شمس اپنے اندر جلالی رنگ رکھتا ہے اور قمر اپنے اندر جمالی رنگ رکھتا ہے ۔ یوں شمس میں بھی ایک حد تک جمال پایا جاتا ہے اور قمر میں بھی ایک حد تک جلال پایا جاتا ہے مگر باوجود اس کے شمس کی غالب قوت جلالی ہوتی ہے اور قمر کی غالب قوت جمالی ہوتی ہے پس چونکہ یہ دونوں الگ الگ فطرتیں ہیں اس لئے محض تابع ہونے کی وجہ سے ہر قمر کو ہر شمس سے ادنیٰ قرار نہیں دیاجا سکتا ۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پہلا شمس چونکہ شرعی نبی تھا اس لئے وہ سب قمروںسے بڑھ کر تھا سب قمروں سے بڑھ کر نہیںکہہ سکتے بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے قمروں سے بڑھ کر تھا کیونکہ ہر قمر صرف اپنے شمس سے ادنیٰ ہوگا مگر اپنے شمس سے ادنیٰ قمر تمام دوسرے شموس سے بڑے درجہ کا ہو سکتا ہے ۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آگ بالذات روشن ہے مگر قمر کے مقابلہ میںاس کی روشنی بہت ادنیٰ ہے یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
یعنی اے میرے شمس روحانی تو چونکہ بہت روشن تھا اس لئے تیرا قمر دوسرے تمام شموس سے اپنی روشنی میں بڑھ گیا ۔ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت ہمارا یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ رسول کریم ﷺ کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی تمام انبیاء سے اپنے درجہ اور مقام کے لحاظ سے افضل ہیں ۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ دوسرے شموس سے کس طرح بڑھ سکتے ہیں مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام صاحب ِ شریعت نبی تھے ان سے حضرت مسیح موعود ؑ کا مقام کس طرح بلند ہو گیا یا بعض اور قوموں میں صاحب ِ شریعت نبی گذرے ہیں ان سے آپ بڑے کس طرح قرار دیئے جا سکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک مہ انبیاء بڑے تھے مگر اُن شموس اور قمر میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ یہ بیشک قمر ہے مگر یہ قمر اس شمس کا ہے جو پہلے تمام شموس سے بہت زیادہ روشن تھا اس لئے یہ لازم تھا کہ اس شمس کا قمر اپنی روشنی میں پہلے شموس سے بھی بڑھ جا تا ۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی جگہ پر ایک ہزار لیمپ ہو اور ہر لیمپ کا ایک ایک ری فلیکٹرہو تو اگر اس ہزار لیمپ کے مقابلہ میںایک لیمپ ایسا ہو جس میں دو ہزار لیمپ کے برابر روشنی کی طاقت وہ تو اس کا ری فلیکٹر اپنی روشنی میں ایک ہزار لیمپ سے بڑھ جائے گا۔ فرض کرو اس ہزار لیمپ میں سے کوئی پچاس کینڈل پاور کا ہے اور اس طرح مجموعی طور پر ان کی طاقت دولاکھ کینڈل پاور کی بن جاتی ہے تو اگر ان کے مقابلہ میں تین لاکھ کینڈل پاور کا صرف ایک ہی لیمپ ہو تو اس کا ری فلیکٹر باقی تمام روشنیوں کو مات کر دے گا اور باوجود قمر ہونے کے دوسرے شموس پر غالب آجائے گا۔
اس جگہ شمس و قمر سے مراد عام وجود بھی ہو سکتے ہیں۔ اور شمس و قمر سے شمس ِ اسلام اور قمر ِاسلام بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ ان دونوں شہادتوں سے یہ بتایا ہے کہ یہ دونوں وجود ابراہیمی پیشگوئی کی صداقت کا ثبوت ہوں گے اور مکہ کو عظیم الشان مرکز بنانے کا موجب ہوںگے ۔
اوراگر عام معنے لئے جائیں تو آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ایسے ہی وجودوں سے اصلاح کی بنیاد پڑتی ہے جب تک ایسے وجود پیدا نہ ہوں اصلاح نہیں ہو سکتی اور اگر اب ایسا نہ ہو گا تو ابراہیم کی پیشگوئی غلط ہو جائے گی ۔
وَالسَّمَائِ وَمَا بَنٰھَا ص لا۔ وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰھَا ص لا۔
اور آسمان کی اور اس کے بنائے جانے کی ۔ اور زمین کی اور اس کے بچھائے جانے کی
آیت نمبر ۶
حل لغات ۔ طَحَا الَّشْی ئَ کے معنے ہیں بَسَطَہ ُ وَمَدَّہ‘ کسی چیز کو پھیلایا (اقرب)
تفسیر ۔ نحوی یہاں ’’ما‘‘ کے دو معنے کرتے ہیں بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ ’’ ما ‘‘ اَلَّذِیْ کے معنوں میں ہے اور مَنْ کا قائمقام ہے گویا یہاں ’’ما‘‘ مَنْ کی جگہ استعمال ہوا ہے اور آیت دراصل یوں ہے کہ وَالسَّمَائِ وَمَنْ بَنٰھَاہم شہادت کے طور پر آسمان کو پیش کرتے ہیں اور اسے بھی جس نے اسے بنایا ۔
ا س کے متعلق سورۃ البلد کے تفسیری نوٹوں میں یہ امر واضح کیا جا چکا ہے کہ قرآن کریم میں ’’ما ‘‘ مَنْ کے معنوں میں بھی استعمال کیا گیا ہے چنانچہ حضرت مریم علیہ السلام جب پیدا ہوئیں تو ان کی والدہ نے کہا یا اللہ میںنے تو بیٹی جنی ہے حالانکہ میں چاہتی تھی کہ لڑکا پیدا ہو اور اسے میں تبلیغ کے لئے وقف کروں ۔ اس موقع پر قرآن کریم میں یہ الفاظ آتے ہیںوَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ (آل ِ عمران ۴:۱۲) حالانکہ لڑکی کے لئے مَنْ کا لفظ استعمال ہونا چاہیئے تھا اسی طرح فرماتا ہے فَانْکِحُو ا مَا طَابَ لَکُمْ مِن َالنِّسَائِ مَثْنیٰ وَثُلٰثَ وَ رُبٰعَ (النساء ۱ : ۱۲) یعنی تمہیں عورتوںمیںسے جو پسند آئیںان کے ساتھ شادی کر لو ۔ دو کرو ۔ تین کرو یا چار کرو یہ تمہارا اختیار ہے ہماری طرف سے اس میںکوئی روک نہیں ۔ اب عورت ذوی العلم افراد میں سے ہے اور اس کے لئے مَا کی بجائے مَنْ کا لفظ استعمال کرنا چاہیئے تھا مگر بجائے یہ کہنے کے کہ فَانْکِحُو ا مَنْ طَابَ لَکُم اللہ تعالی نے فَانْکِحُو ا مَا طَابَ لَکُم فرمایا ہے ۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اللہ تعالی نے یہاں دونوں جگہ ما کا لفظ کیوں رکھا ہے جبکہ مَنْ کا لفظ اس غرض کے لئے لغت نے وضع کیا ہوا تھا اوروہ اس موقع پر استعمال بھی ہو سکتا تھا ۔ آخر وجہ کیا ہے کہ خدا تعالی نیایک وضعی لفظ چھوڑ کر اس کی جگہ ایک غیر وضعی لفظ رکھ دیا؟ اس کی صاحب ِ کشاف نے ایک نہایت لطیف توجیہ کی ہے جو میرے نزدیک درست ہے وہ کہتے ہیں مَنْ کی جگہ مَا کا لفظ اسی وقت استعمال ہوتا ہے جب وجود پر کوئی صفت غالب آگئی ہو یعنی کبھی کوئی وجود ایسا ہوتا ہے کہ اس کی کوئی صفت اس کے عام انسان ہونے پر غالب آجاتیہے اس وقت چونکہ کسی مخصوص صفت پر زور دینا مقصود ہوتا ہے ’’مَا‘‘ کو مَنْ کا قائمقام کر دیا جاتا ہے ۔ مثلاً وَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ یہ لڑکی جو تو نے جنی ہے اس میں وہ صفت جو تو لڑکے میں امید رکھتی تھی کس شان میں پائی جاتی ہے چونکہ صفت غیر ذوی العلم میںسے ہے اس لئے ’’ما‘‘ کا لفظ استعمال کر کے اس کی ایک مخصوص قابلیت کی طرف اشارہ کر دیا اگروَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَنْ وَضَعَت کہا جاتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ اللہ تعالی کو پتہ ہے کہ یہ لڑکی ہے حالانکہ اللہ تعالی کو تو پتہ ہی تھا کہ وہ لڑکی ہے یا لڑکا ۔ خدا تعالی کے وجود پر ایمان لانے والوں کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اللہ تعالی کو اس بات کا علم ہے کہ تو نے کیا جنا ہے وہ تو پہلے ہی معلوم تھا کہ اللہ تعالی ا س بات کو جانتا ہے ۔ پس اگر وَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَنْ وَضَعَتکہا جاتا تو اس میں کوئی خاص بات نہ ہوتی مگروَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَت کہہ کر اس طرف اشارہ کیا کہ مریم کی ماں کو کیا پتہ ہے کہ اس میں کیا کیا صفات پائی جاتی ہیں لیکن اللہ تعالی جانتا ہے کہ اس میں کیسی عظیم الشان صفات اور قابلیتیں پائی جاتی ہیں۔ پس ’’ما‘ کا لفظ مریم کی قابلیت اور اس کی صفات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے استعمال کیا ہے اگر مَنْ ہوتا تو اس کے اتنے ہی معنے ہوتے کہ اللہ تعالی کو پتہ ہے یہ لڑکی ہے مگر ’’ما‘‘ کا لفظ استعمال کر کے اس طرف اشارہ کر دیا ک آگے آگے دیکھیو ہوتا ہے کہ
جب یہ بڑی ہو گی تمہیں معلوم ہو گا کہ یہ کسی عظیم الشان لڑکی ہے گویا وَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَت کے لحاظ سے یہ ایک پیشگوئی بن گئی مگر وَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَنْ وَضَعَت کے لحا ظ سے محض ایک واقعہ کا اظہار ہوتا ۔
اسی طرح فَانْکِحُو ا مَا طَابَ لَکُمْ مِن َالنِّسَائِ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بسا اوقات شادی بیاہ کے تعلقات محض جذباتی ہوتے ہیں اور انسان عورت کو نہیںدیکھتا بلکہ اس کی کسی خاص صفت کو دیکھتا ہے ۔ بہت سے لوگ عورت کے جمال پر اتنے فریفتہ ہو جاتے ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ عورت کس خاندان میںسے ہے ، اس کا آنا ہمارے ماں باپ کے لئے یا ہمارے خاندان کے لئے کسی تکلیف کا باعث تو نہیں ہو جائے گا ۔وہ اس کی صورت پر اتنے عاشق ہوتے ہیں کہ اور تمام باتو ں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کئی لوگ صرف مال دیکھ کر شادی کر دیتے ہیں ، کئی لوگ صرف حسب و نسب اور اعلیٰ خاندان دیکھ کر شادی کرتے ہیں ، کئی لوگ صرف اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے عورت سے شادی کرتے ہیں اور کئی لوگ صرف اخلاق فاضلہ کی شہرت سن کر شادی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ غرض کوئی ایک صفت اتنی غالب آجاتی ہے کہ انسان اس صفت کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے کہ عورت سے شادی کرے پس فَانْکِحُو ا مَا طَابَ لَکُم میں اللہ تعالی نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہم جانتے ہیں تم عورتوں کے ساتھ شادی کرتے وقت تما م وجوہ کو نہیں دیکھتے بلکہ کوئی ایک چیز تمہیں پسند آجاتی ہے اور تم ان پر لٹو ہو جاتے ہو ۔ کبھی تمہیں حسن پسند آجاتا ہے اور تم شادی کر لیتے ہو ، کبھی تمہیں مال اچھا لگتا ہے اور تم شادی کر لیتے ہو ، کبھی تمہیںخاندان اچھا لگتا ہے اور تم شادی کر لیتے ہو ، کبھی تمہیںاخلاق اچھے لگتے ہیں اور تم شادی کر لیتے ہو ۔ گویا اس آیت میں انسانی فطرت کے اس جوہر کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ عورت سے شادی نہیں کرتا بلکہ اس کی کسی صفت سے شادی کرتا ہے ، کبھی مال کی وجہ سے شادی کرتا ہے ، کبھی حسن کی وجہ سے شادی کرتا ہے ، کبھی تعلیم کی وجہ سے شادی کرتا ہے ، کبھی حسب و نسب کی وجہ سے شادی کرتاہے ، کبھی دین کی وجہ سے شادی کرتا ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تُنْکَحُ الْمَرْاَۃُ لِاَرْبَعٍ لِمَا لِھَا وَ لِحَسَبِھَا وَ لِجَمَا لِھَا وَلِدِیْنِھَا فَا ظْفُرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِ بَتْ یَدَاکَ (بخاری کتاب النکاح) یہ حدیث بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ شادی کسی صفت ِ غالبہ کے لحاظ سے کی جاتی ہے مگر رسول کریم ﷺ نے بطور نصیحت فرمایا کہ جب تم نے صفت ِ غالبہ کے لحاظ سے ہی شادی کرنی ہے تو پھر تم وہ ’’ما‘‘نہ اختیار کرو جو حسن کا قائمقام ہو یا حسب و نسب کا قائمقام ہو ۔ یہ عربی زبان کا ایک بہت بڑا کمال ہے کہ الفاظ کے معمولی ہیر پھیر سے اس میں نئے سے نئے معنے پیدا ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنا آخری کلام اس زبان میںنازل فرمایا۔ واقعہ یہی ہے کہ بعض دفعہ کوئی صفت اس قدر غالب آجاتی ہے کہ وہ وجود کو ڈھانپ دیتی ہے ۔مریم ؑ کی ماںکو صرف ایک لڑکی نظر آتی تھی مگر اللہ کو صفتِ مریمیت نظر آتی تھی ۔ اسی طرح مرد بعض دفعہ عورت کو بھول جاتا ہے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی باقی سب امور کو نظر اندازکر دیتا ہے صرف ا س کا حسن یااس کا خاندان یا اس کی کوئی اور ادا اسے اپنی طرف مائل کر لیتی ہے اس وقت اس لحاظ سے وہ مَنْ نہیںبلکہ ما ہی ہو جاتی ہے ۔ بہرحال جہاں ذات کی بجائے کسی صفت کا غلبہ مدِ نظر ہو اور اس صفت پر خاص طور پر زور دینا مقصود ہو وہاں قرآن کریم مَنْ کی جگہ ’’ما‘‘ کا لفظ استعمال کرتاہے پس انہی معنوںسے اس جگہ وَ مَا بَنٰہَا کے الفاظ آئے ہیں یعنی یہ بتانے کے لئے کہ اللہ تعالی کی صفت صنعت کو اپنے سامنے رکھو۔
وہ لوگ جنہوں نے ان معنوں کو قبول نہیں کیا وہ ’’ما‘‘ کو مصدریہ قرار دیتے ہیں ۔ قتادہ ، مبرد اور زجاج یہی کہتے ہیںیہ قول درحقیقت ان لوگوں کا ہے جو ’’ما‘‘ کو افرادِ ذوی العقل کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں سمجھتے وہ ہر جگہ مصدر کے معنے کرتے ہیں اور کہتے ہیںکہ جس جگہ ’’ما‘‘ آجائے وہ جملہ کو مصدریہ بنا دیتاہے ۔ ا س صورت میں آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم آسمان اور اسے بنانے کی یعنی خدا تعالی کی صنعت کی شہادت تمہارے سامنے پیش کرتے ہیںاس صورت میں بھی شہادت تو خدا تعالی کے فعل کی ہی ہو گی مگر براہ راست آسمان کی بناوٹ کو پیش کرنا سمجھا جائے گا ۔ لیکن اگر ’’ما‘‘ کو مَنْ کے معنوں میں لیا جائے تو آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم تمہارے سامنے آسمان کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیںاور اس صانع عظیم کو کہ جب انسان اس کی صنعت کو دیکھتا ہے تو محو ہو جاتا ہے یعنی تم آسمان کو دیکھو اور جس نے اسے بنایا ہے اس کو بھی یعنی اس کی عظیم الشان صنعت کو دیکھو ۔ جب انسان اللہ تعالی کی اس صنعت کو دیکھے تو حیران رہ جاتا ہے اور اللہ تعالی کی قدرت اور اس کی جبروت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے پس چونکہ یہاں خدا تعالیٰ کی صفت پر زور دینا مقصود تھا اور کائنات ِ عالم میںسے آسمان کی بناوٹ ۔ اس کی بلندی اور اس کے فوائد کی طرف بنی نوع انسان کو متوجہ کرنا تھا اس لئے یہاں ’’ما‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ۔
اسی طرح وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰہَا میںاگر ’’ما‘‘ کو مصدریہ قرار دیا جائے تو آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم شہادت کے طور پر زمین کو پیش کرتے ہیںاور اس کے بچھے ہوئے ہونے کو بھی ۔ لیکن اگر مَا کو مَنْ کے معنو ں میں لیا جائے تو ایت کے معنے یہ ہوں گے کہ تم زمین کو دیکھو اور اس کے اس بچھانے والے کو دیکھو جس کی عظیم الشان صنعت کا یہ نمونہ ہے ۔
بہت سے سیارے ایسے ہیں جو رہائش کے قابل نہیںاسی طرح بعض زمینیںایسی ہیں جو انسانی رہائش کے قابل نہیں ہوتیں ۔ بعض تو ایسی ہوتی ہیںکہ انسان وہاں رہ ہی نہیںسکتا کیونکہ ہوا جس پر انسانی زندگی کا تما م دارومدار ہے وہاں اس قدر ہلکی ہوتی ہے کہ پھیپھڑوں میں جا ہی نہیں سکتی اور بعض زمینیںایسی ہوتی ہیںکہ وہاں ہوا تو موجود ہوتی ہے مگر وہ اپنے اندر ایسی کیمیائی ترکیب نہیںرکھتی کہ زندگی کا باعث بن سکے ۔ اسی طرح کئی زمینیں ایسی ہیں جہاں انسان جیسی مخلوق ٹِک ہی نہیں سکتی اگر اس قسم کی مخلوق وہاں ہو تو یا وہ زمین پر چل ہی نہیں سکے گی اور اگر چلے گی تو فوراً گر جائے گی اور یا پھر وہاں کی زہریلی ہوا اس کو فوراً ہلاک کردے گی ۔ غرض زمین کے ساتھ اللہ تعالی نے اس کے قابل رہائش ہونے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ بعض زمینیں ایسی ہیں جو انسانی رہائش کے قابل نہیں ہیں چنانچہ وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰہَا میں اللہ تعالی اسی صنعت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالی نے زمین کو تمہاری رہائش کے قابل بنایا ہے اور یہ اس کا ایک بہت بڑا احسان ہے جس سے اس نے تمہیں نوازا۔
میں نے دیکھا ہے بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہر زمین رہائش کے قابل ہوتی ہے چنانچہ جب وہ قرآن کریم میںاس قسم کے الفاظ دیکھتے ہیں جن میں اللہ تعالی کے اس احسان یا اس کی صنعت کا ذکر ہوتا ہے کہ اس نے زمین کو رہائش کے قابل بنایا ہے تو وہ حیران ہوتے ہیںکہ اس ذکر کا فائدہ ہی کیا تھا ہم نے بہرحال زمین میں ہی رہنا تھا اگر یہ زمین نہ ہوتی تو کوئی اور زمین ہوجاتی اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑسکتا تھا ۔ وہ لوگ جو اس قسم کے خیالات میں مبتلا ہوتے ہیں در حقیقت علم ہیئت سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں۔ موجودہ تحقیقات نے اس امر کو ثابت کر دیا ہے کہ ہر زمین رہائش کے قابل نہیں ہوتی ۔ بعض زمینیںایسی ہیں کہ اگر وہاں انسان جائے تو ایک منٹ کے اندر اندر ہلاک ہو جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے ہی سب سے پہلے اس نکتہ کو دنیا پر ظاہر کیا ہے کہ ہر زمین رہائش کے قابل نہیں ہے او ر یہ قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کا ایک زبر دست ثبوت ہے ۔ قرآن ایک اُمّی پر نازل ہوا اور اس زمانہ میں نازل ہوا جب کہ علم ہیئت کی ترقی بالکل محدود تھی اور اس قسم کے مسائل کی طر ف کوئی انسانی نظر نہیں جا سکتی تھی اس زمانہ میں اللہ تعالی نے وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰہَا میں یہ ایک نہایت ہی لطیف راز بیان فرمایا کہ ہر زمین رہائش کے قابل نہیں ہے اس لئے جب تم زمین کو دیکھو تو صانع عظیم کی اس صنعت پر غور کرو کہ کس طرح اس نے تمہارے لئے اس زمین کو قابل ِ رہائش بنایا اور زندگی کے ہر قسم کے سامان اس نے تمہارے لئے مہیا کئے۔ سپکٹروسکوپ SPECTROSCOPE کی ایجاد کو صرف ستّر سال ہوئے ہیں ۔ اس آلہ کی ایجاد سے پہلے دنیا اس حقیقت سے ناواقف تھی مگر جب سے یہ آلہ ایجاد ہوا ہے علم ِ ہیئت کے ماہرین نے اس راز کا انکشاف کیا ہے کہ ہر ستارہ رہنے کے قابل نہیں ہے وہ سیاروں کی روشنی کا سپکٹروسکوپ کے ذریعہ سے کیمیاوی تجزیہ کرتے ہیں اور اس کے اندازہ لگاتے ہیں کہ اس سیارہ میں کیا کیا دھاتیں ہیں اور وہاں کی فضا کیسی ہے ۔ اس ایجاد کے نتیجہ میں انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر زمین اس قابل نہیں کہ اس میں رہائش اختیا ر کی جاسکے مگر اللہ تعالی نے سپکٹروسکوپ کی ایجاد سے تیرہ سو برس پہلے یہ فرمادیا تھا کہ وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰہَا ہماری اس صنعت پر تم غور کرو کہ ہم نے اس زمین کو تمہاری رہائش کے قابل بنایا ہے ۔ تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بھی ایک ویسی ہی زمین ہے جیسے اور زمینیں ہیں بلکہ تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ وہ زمین ہے جسے خدا تعالی نے خاص طور پر نسل انسانی کی رہائش او ر اس کی آبادی کے قابل بنایا ۔ گویا خدا تعالی کی یہ صفت ہے کہ وہ جو بھی کام کرتا ہے اس کے مناسب حال ایک ماحول بھی تیار کرتا ہے یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ انسان پیدا کرتا اور زمین کو اس کے مناسب حال نہ بناتا ۔ یا انسان پیدا کرتا اور وہ زمین سے فائدہ نہ اٹھا سکتا ۔ اللہ تعالی کی شان سے یہ بالکل بعید ہے کہ وہ ایسا کرتا۔
ان معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالی کی اس عظیم الشان صنعت پر غور کرو جو آسمان اور زمین دونوں میں کام کر رہی ہے اور جس کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے فرماتا ہے ہم تمہارے سامنے آسمان کو اور جس نے اسے اس طرح بنایاہے بطور شہادت پیش کرتے ہیںاسی طرح ہم تمہارے سامنے زمین کو اور جس نے اسے اس طرح بچھایا ہے بطور شہادت پیش کرتے ہیں۔ تم آسمان کو اس کی بلندی اور رفعت کے لحاظ سے دیکھو اورزمین کو اس کی ان قابلیتوں کے لحاظ سے دیکھو جن کی وجہ سے انسان اس میں بسنے کے قابل ہوا ہے اور سمجھ لو کہ آسمانی اور زمینی شہادتیں جس کے حق میں ہوں وہ جھوٹا کس طرح ہو سکتا ہے یا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ادھر اللہ تعالی آسمان بناتا جو بڑا مضبوط او ر اعلی درجے کا ہے دوسری طرف وہ زمین کو اس قابل بناتا کہ اس میں بنی نو ع انسان رہائش اختیار کر سکیںاو ر پھر یہ تمام کارخانہ عالم محض عبث ہوتا اور انسانی پیدائش کا کوئی مقصد نہ ہوتا ۔ کیا تم نہیںدیکھتے کہ اس نے زمین کو بہت سے دوسرے سیاروں سے مختلف شکل دی ہے وہاں ذی روح زندہ نہیں رہ سکتے ، وہ سانس نہیںلے سکتے ، وہ چل پھر نہیں سکتے ۔ مگر یہ زمین خدا تعالی نے ایسی بنائی ہے کہ اس میںذی روح افراد سانس لے سکتے ہیں، ان کے دماغ پوری طرح کام کر سکتے ہیں اور وہ اپنی ہر ضرورت اس ماحول میں سے مہیا کر سکتے ہیں ۔ ورنہ ایسی زمین بھی ہو سکتی تھی کہ مختلف گیسوں کی وجہ سے حیوان تو اس میں بس سکتے مگر انسان نہ بس سکتا ۔ مگر چونکہ انسان کے لئے ایک ایسے ماحول کی ضرورت تھی جس میں اس کا دماغی نشوونما جاری رہتا ۔ اس لئے اللہ تعالی نے زمین کے اندر ایسی قابلیتیںپیدا کر دیں کہ انسان اس میں بلا دریغ رہائش اختیار کر کے اپنے دماغی ارتقاء کو جاری رکھ سکتاہے ۔
اللہ تعالی آسمان اور زمین کی اس مثال کو پیش کرتے ہوئے اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ جب اس نے اتنا بڑا کارخانہ بنایا ہے اور اس کارخانہ کا ہر پرزہ انسان کی خدمت کے لئے لگا ہوا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تمہاری پیدائش اپنے اندر کوئی حکمت نہ رکھتی ہو اور تمہیں اللہ تعالی نے بلا وجہ محض لغو طور پر دنیا میں پیدا کر دیا ہو ۔ ادھر آسمان کو نہایت مضبوط اور اعلی درجہ کا بنانا، ادھر زمین کو رہائش کے قابل بنانا اور اس طرح قانون ِ قدرت کا ایک وسیع اور طویل نظام کی شکل اختیا ر کرلینا بتاتا ہے کہ اللہ تعالی کا یہ کام عبث نہیں۔ جب تم اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تیاری کو عبث نہیں کہتے تو تم اتنے بڑے نظام کو عبث کس طرح قرار دے سکتے ہو تمہیں بہرحال ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالی کا کوئی بہت بڑا مقصد او ربڑا بھاری مدعا ہے جو اس کارخانہ عالم کے پیچھے کام کر رہا ہے اور ضرور ہے کہ اس کا وہ منشاء ایک دن ظاہر ہو اور وہ مقصد پورا ہو جس کے لئے اس نے آسمان اور زمین کا نظام قائم فرمایا تھا ۔ اگر مادیات میں اس نے ایک طرف آسمان میںبلندی اور فیوض کی طاقت رکھی ہے اور دوسری طرف زمین میں رہائش اور دماغ کو نشوونما دینے کی قابلیت رکھی ہے تو یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ وہ تمہارے جسمانی آرام کاتو خیال رکھے اور روحانی آرام کو نظر انداز کر دے ۔ وہ تمہارے چند روزہ فوائد کے لئے تو اتنا بڑا کارخانہ جاری کر دے اور تمہارے ابدی فوائد کے لئے کوئی نظام قائم نہ کرے۔ جس خدا نے جسمانیات کے لحا ظ سے تمہارا ساتھ نہیں چھوڑا وہ روحانیات کے لحاظ سے بھی تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑ سکتا ۔ تم زمین اور آسمان پر اگر مخلّی بالطبع ہو کر غور کر و تو تمہیںمعلوم ہو گا کہ جس خدا کی طرف سے تمہارے روحانی ارتقاء کے لئے بھی ایسے قوانین کا آنا ضروری ہے جو نہایت اعلی درجہ کی زندگی بسر کرنے کے قابل بنا دیں تا کہ جس طرح اس نے زمین کو جسمانیات کے لحاظ سے رہنے کے قابل بنایا ہے اسی طرح وہ روحانیت کے لحاظ سے رہنے کے قابل بنائے ورنہ خدا تعالی پر یہ الزام عائد ہو گا کہ اس نے جسم کا تو خیال رکھا مگر روح کا خیال نہ رکھا۔ اس نے مادی ترقی کے سامان تو مہیا کئے مگر روحانی ترقی کے سامان مہیا نہ کئے۔ اور یہ ایک ایسا الزام ہے جسے خدا تعالی کی صفات بالکل ردّ کرتی ہیں۔ اس نے جسمانی نظام کے بالمقابل ایک روحانی نظام بھی قائم کیا ہے اور جس طرح جسم کی ترقی کے اس نے سامان کئے ہیں اسی طرح روح کی ترقی کے بھی اس نے سامان کئے ہیں ۔نادان انسان جسمانیات کو دیکھتا اور روحانیت سے آنکھیں بند کر لیتا ہے حالانکہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالی زمین کو جسمانی لحاظ سے تو رہائش کے قابل بنائے مگر روحانی لحاظ سے وہ اس کو قابلِ رہائش بنانے کا کوئی انتظام نہ کرے ۔ یا تو یہ کہو کہ مادی لحاظ سے بھی زمین میں یہ قابلیت نہیں کہ اس میں انسان رہ سکیںاور اگر تم یہ نہیں کہہ سکتے تو تمہیں ماننا پڑے گا کہ روحانی لحاظ سے بھی اس میں یہ ضرور قابلیت پائی جاتی ہے اور وہی قابلیت ہے جس کے ماتحت وہ لوگ جو آج اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی کو قبول کرنے کے لئے دوڑتے چلے آئیں گے تم خواہ کس قدر زور لگا لو فطرتِ انسانی میں نیکی پائی جاتی ہے اور وہی نیکی ہے جو ایک دن محمد رسول اللہ ﷺ پر لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر دے گی ۔ جس طرح زمین اپنے آپ کو آسمانی فیوض سے الگ نہیں کر سکتی اسی طرح انسانی قلوب بھی آسمانی وحی سے الگ نہیں رہ سکتے ضرور ہے کہ وہ ایک دن متاثر ہوں اور اس طرح جسمانی اور روحانی نظام کی ایک دن مطابقت ثابت ہو۔
دوسری صورت میں اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تم آسمان اور اس کی بناوٹ کو دیکھو اور سمجھ لو کہ آسمان کی بناوٹ ہی فیض رسانی کے لئے ہے اور زمین کی بناوٹ ہی سائل اور مانگنے والے کی ہے پس بغیر اس آسمانی نورانی وجود کے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے تم لوگ کوئی بھی خوبی ظاہر نہیں کر سکتے آسمان کا کام آسمان ہی کر سکتا ہے اور زمین اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتی کہ وہ آسمان کی طرف منہ کر ے او ر اُس کے فیوض کو حاصل کر کے زندگی حاصل کرے ۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ قرآن کریم میں آسمان سے مراد صرف جَوّ نہیں ہوتا بلکہ تمام ستارے، سیارے اور روشنیاں وغیرہ اس سے مراد ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے جس طرح ان کے بغیر زمین کام نہیں دے سکتی اسی طرح محمد رسو ل اللہ ﷺ کے بغیر تم بھی کوئی خوبی ظاہر نہیںکر سکتے اور پھر جس طرح آسمانی فیوض سے زمین انکار نہیں کر سکتی اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کے روحانی فیوض سے بھی تم ہمیشہ کے لئے انکار نہیں کر سکتے اگر زمین کے سامنے سورج آئے تو کیازمین اس وقت کہہ سکتی ہے کہ میں روشنی نہیں لیتی ۔ وہ مجبور ہے کہ سورج سے روشنی حاصل کرے ۔ اسی طرح جب محمد رسول اللہ ﷺ ظاہر ہو گئے ہیں تو اب دنیا آپ کا زیادہ دیر تک انکار نہیں کر سکے گی وہ ضرور آپ پر ایمان لائے گی ۔ اس مضمون کی وضاحت اللہ تعالی نے اگلی آیت میںفرمائی ہے
وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا ص لا
اور انسانی نفس کی اور اس کے بے عیب بنا ئے جانے کی ۔ آیت نمبر ۷
نمبر ۷ حل لغات۔ سَوّٰی کے لئے دیکھو حل لغات نمبر ۳ سورۃ الاعلی جلد ہشتم
تفسیر۔ پہلی آیت کی طرح اس کے بھی دو معنے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ہم نفس کو بطور شہادت پیش کرتے ہیں اور اس کو بھی جس نے اسے معتد ل القویٰ بنایا ۔ سَوّٰی کے معنے معتدل القویٰ کے بنانے کے ہوتے ہیں اور سورۃ الاعلیٰ کے تفسیری نوٹوں میں اس کا مفصل ذکر آچکا ہے جس طرح پہلی آیت میںبتایا تھا کہ ہم نے زمین کو قابلِ رہائش بنایا اسی طرح یہاں یہ بھی بتایا ہے کہ ہم نے نفس کا تسویہ کیا اور اس میںایسی قوت پیدا کی ہے کہ وہ اعتدال سے ترقی کی طرف جاتاہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے اگر تمہارے نفس میں یہ شہادت موجود نہ ہوتی اور جس طرح ہم نے زمین کو طحیٰ کیا ہے اس طرح تمہارے نفوس کا تسویہ نہ کیاہوتا تو تم کہہ سکتے تھے کہ ہم پر یہ مثال چسپاں نہیں ہو سکتی لیکن جب نفوس ِ انسانی میںاعتدال کو اختیار کر کے ترقی کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے تو تم یہ نہیںکہہ سکتے نفسِ انسانی خود اس امر پر شاہد ہے کہ کوئی نور اسے آسمان سے ملنا چاہیئے جس طرح زمین آسمانی روشنی کی محتاج ہوتی ہے اسی طرح تم آسمانی نور کے محتاج ہو ۔ تم دیکھتے ہو کہ اگر آسمان سے پانی نہ برسے تو زمین کی تمام سر سبزی و شادابی مٹ جاتی ہے ۔ اس کے درخت مرجھا جاتے ہیں ، اس کے پانی خشک ہو جاتے ہیں ، اس کی روئید گیاںگل سڑ جاتی ہیں اور وہی زمین جو اپنی لطافت سے انسانی آنکھو ں میںنور پیدا کر رہی ہے ایک لمبے عرصہ تک بارش نہ ہونے کے نتیجہ میں ایسی بنجر اور ویران ہو جاتی ہے کہ اسے دیکھ کر انسان گھبرا جاتا ہے یہی حال عالم روحانی کا ہے آسمان سے جب تک وحی و الہام کا پانی نازل نہ ہو روحانیت کے تما م کھیت مر جھا جاتے ہیں تما م روئیدگیاں گل سڑ جاتی ہیں اور وحی و الہام کی بارش منقطع ہونے سے ارتقا ء دماغی بھی بند ہو جاتا ہے اس وقت یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ جس طرح آسمان کا زمین کے ساتھ تعلق ہے اسی طرح وحی و الہام کا قلوب ِ انسانی کے ساتھ تعلق ہے ۔ اگر آسمان زمین کی ہوا کو صاف نہ کرتا رہے تو انسانوں کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے کیونکہ وہ گندی ہوا جو سانس کے ذریعہ پھیپھڑوں میںسے خارج ہوتی ہے جمع ہوتی رہے او ر وہی انسان کو دوبارہ اندر لے جانی پڑے مگر اللہ تعالی نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے اور اس کی جگہ سرد ہوا آجاتی ہے جو ہر قسم کے مضر اثرات سے پاک ہوتی ہے ۔ اگر کسی کمرہ میںپانچ سو یا ہزار آدمی بیٹھے ہوں اور ان کی سانس کی ہوا اوپر کو نہ جائے اور نہ اس کی جگہ تازہ ہوا آئے تو چند منٹ میں ہی تمام لوگ مر جائیںمگر اب کسی کو احساس بھی نہیںہوتا کہ ہم اپنے تنفس سے ہوا کو کس قدر گندہ کر رہے ہیں کیونکہ آسمان ساتھ ہی ساتھ صفائی کا کام کر رہا ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ ضرورت سے بھی زیادہ آدمی ایک کمرہ میںاکٹھے ہو جاتے ہیں تو ان کو کوئی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ انسان جس ہوا کو گندہ کرتا ہے آسمان اسے اٹھا کر لے جاتا ہے اور اس کی جگہ پاکیزہ ہوا میسر آجاتی ہے ۔ اس سے ظاہر کہ زمین بغیر آسمانی اشتراک کے کوئی کام نہیںکر سکتی ۔ اب بتاتا ہے کہ جس طرح زمین میں مختلف قسم کی قابلیتیںپائی جاتی ہیں ۔ انسان کے اندر ایک تڑپ ہے ترقی کی، پیاس ہے صداقت کی ، ندامت ہے غلطی پر اور ہر شے کی حقیقت معلوم کرنے کی اس کے اندر جستجو ہے ۔ بچہ ابھی بولنا ہی سیکھتا ہے تو ماںباپ کا دماغ چاٹ لیتا ہے اور بات بات پر پوچھتاہے یہ کیا ہے وہ کیا ہے ۔ لیمپ نظر آتا ہے تو پوچھتا ہے یہ کیا ہے ، بلی نظر آتی ہے تو پوچھتا ہے یہ کیا ہے ، کتا نظر آتا ہے تو پوچھتا ہے یہ کیا ہے غرض ہر نئی چیز جو اس کے سامنے آتی ہے اس کے متعلق وہ اپنی ماں یا اپنے باپ سے یہ ضرور دریافت کرتا ہے کہ یہ کیا ہے ۔ یورپ میںکئی کئی جلدوںمیںاس قسم کی کتابیںلکھی گئی ہیںجب میں بچوں کے ان سوالات کے جوابات درج ہوتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں جب بچہ اس قسم کے سوالات کرتا ہے درحقیقت وہی وقت اس کے دماغی نشوونما کا ہوتا ہے مگر ماں باپ کو چونکہ خود ان سوالات کا صحیح جواب معلوم نہیں ہوتا وہ ادھر ادھر کی باتوں میں اس کے سوال کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ جب وہ بجلی کے متعلق پوچھتا ہے کہ یہ کیا ہے تو ہر شخص فوراً جواب نہیںدے سکتا کہ یہ کیا ہے اگر وہ کہیگا کہ بجلی ہے تو بچہ کہے گا بجلی کی ہوتی ہے؟اس پر کئی لوگوں کو خاموش ہونا پڑتا ہے اور کئی یہ کہہ کر بچے کو خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہیںاس کا پتہ نہیںیہ لیمپ ہے جو جل رہا ہے ۔ پس چونکہ اکثر ماں باپ بچوں کے سوالات کا صحیح جواب نہیںدے سکتے اس لئے یورپ میں اس قسم کی کئی کتابیںلکھی گئی ہیں جن میں بڑی بڑی علمی باتیں آسان الفاظ میں بیان ہوتی ہیں تا کہ جب بچہ تم سے پوچھے کہ یہ کیا ہے یا وہ کیا ہے تو تم ایسا جواب دے سکو جو صحیح ہو اور جسے بچہ سمجھ سکے ۔ پھر بچہ میں ایک یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ جب اس سے کوئی غلط بات کہہ دو تو وہ رونے لگ جاتا ہے اگر روٹی پڑی ہو اور کہہ دو کہ روٹی نہیںہے تو وہ چیخیںمار کر رونا شروع کر دے گا یا بچہ بیمار ہو اور تم اسے کہہ دو کہ تم بیمار نہیںہو تو وہ جھٹ رونا شروع کر دے گا کیونکہ اس میں یہ حس پائی جاتی ہے کہ میرے سامنے سچی بات بیان کی جائے۔ اسی طرح کوئی کھلونا بچے کو دے دو تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ اسے توڑ پھوڑدیتا ہے ا س کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پہلے وہ اس کی شکل سے اس کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب شکل سے اسے کچھ معلوم نہیں ہوتا تو وہ سمجھتا ہے شاید اس کے اندر کوئی حقیقت پائی جاتی ہے چنانچہ وہ اس حقیقت کی جستجو میںاسے توڑ دیتا ہے اور پھر توڑ کر خود ہی رونا لگ جاتا ہے لوگ حیران ہو تے ہیں کہ خود ہی اس نے کھلونا توڑا ہے اور خود ہی رونے لگ گیا ہے وہ یہ نہیںسمجھتے کہ بچہ روتااس لئے ہے کہ میں نے تو کھلونا اس لئے توڑا تھا کہ مجھے پتہ لگے اس کے اندر کیا ہے مگر مجھے پھر بھی کچھ معلوم نہیں ہوا۔ وہ اس لئے نہیں روتا کہ کھلونا کیوں ٹوٹا ہے کیونکہ وہ تو اس نے خود توڑا ہوتا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ کھلونے کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے اس کو توڑتا ہے مگر جب اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی تو رونے لگ جاتا ہے ، سمجھتا ہے کہ کھلونابھی گیا اور یہ بھی پتہ نہ لگا کہ اس کی کیا حقیقت تھی ۔ پھر جب بڑا ہوتاہے تو مختلف علوم کا اسے شغف ہو جاتا ہے ۔ دراصل یہ شغف بھی اپنی اپنی مناسبت کے لحاظ سے ہوتا ہے کبھی بچے باہر جاتے ہیں اور وہ کسی لوہار کو کام کرتا دیکھتے ہیں تو وہ وہیںکھڑے ہو جاتے ہیں کہ یہ کام کس طرح کرتا ہے ۔ کبھی کسی نجار کو دیکھتے ہیں تو اس کے کام کو دیکھنے میں محو ہو جاتے ہیں۔ اس طرح اپنی اپنی مناسبت کے لحاظ سے کسی کو لوہار ے کام کا شوق ہو جاتا ہے ، کسی کو نجاری کا کام پسند آ جاتا ہے ، کسی کو معماری کا کام پسند آجاتاہے ،کسی کو اور کام پسند آ جاتا ہے ہمارے ہاں ایک ملازمہ کا لڑکاہے اس کو یہی شوق ہے کہ میں بڑاہوکر کاتب بنوں گا معلوم ہوتا ہے اس نے کسی کاتب کونہایت خوشخط حروف لکھتے دیکھا تو اس کو بھی خیال آگیا کہ میںبھی بڑا ہو کر کاتب بنوں گا اور اسی طرح خوبصورت طریق پر لکھاکروںگا ۔
ہمارے ملک کی تباہی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے مذاق اور ان کی طبیعت کی مناسبت کا خیال نہیں رکھا جاتا اور بڑے ہو کر ان کو ایسے کاموں پر لگا دیا جاتا ہے جن کے ساتھ ان کی طبعیت کی کوئی مناسبت نہیں ہوتی نہ ان کاموں کی طرف ان کا کوئی ذاتی میلان ہوتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری عمر کام کرنے کے باوجود ترقی سے محروم رہتے ہیں ۔ حالانکہ طریق یہ ہونا چاہیئے کہ یا تو بچوں کے مذاق اور ان کی طبیعت کے مطابق ان کے لئے کام مہیا کیا جائے اور یاپھر بچپن میں ہی ان کے اندر وہ رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جو رنگ ماں باپ ان میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں نہ والدین بچہ میں اپنی مرضی کا صحیح مذاق پیدا کرتے ہیں نہ اس کے مذاق اور طبیعت کی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہیں اور اس طرح اس میں دوغلہ پن پیدا ہو جاتا ہے ۔ جب وہ بڑا ہوتا ہے تو چونکہ اس کا طبعی میلان اور ہوتاہے اور سپرد شدہ کام اور ہوتا ہے اس لئے اس کے نفس میںلڑائی شروع ہو جاتی ہے اور آخری نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اس کا ذہن کند ہو جاتا ہے ۔ آئندہ نسلوں کی درستی اور قوموں کی ترقی کی صرف دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو وعظ اور نصیحت سے بچوں کو صحیح مذاق کی طرف لایا جائے اور ان کے لئے بچپن سے ہی ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے کہ وہ وہی کچھ سوچنے لگیں جو ہم چاہتے ہیں اور وہی کچھ دیکھنے لگیں جو ہم چاہتے ہیں ۔ اور اگر ہم ان کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی مرضی کا صحیح مذاق ان میں پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو پھر دوسری صورت یہ ہے کہ بچوں کے مذاق کو ملحوظ رکھا جائے ۔ اگر کوئی انجنیئر بننا چاہتا ہے تو اسے انجنیئر بنا دیا جائے ، اگر کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو اسے ڈاکٹر بنا دیا جائے ، اگر کوئی مدرس بننا چاہتا ہے تو اسے مدرس بنا دیا جائے کیونکہ ہم نے اس کے اندر اپنا وجود پیدا نہیں کیا اور جب اپنا وجود ہم نے اس کے اندر پیدا نہیں کیا تو اب اگر اس کے ذاتی مذاق کو بھی ہم ٹھکرا دیں تو یہ بالکل بچوں والی بات ہو جائے گی جو کھلونے لے کر توڑ دیتے ہیں مگر پھر بھی ان کو حقیقت معلوم نہیں ہوتی ۔ ہم بھی اس ذریعہ سے قوم کے ایک مفید حصہ کو ضائع کرنے والے قرا ر پائیں گے ۔
پھر ہم دیکھتے ہیں مختلف علوم میں انسان کا شغف اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ بعض دفعہ غیب معلوم کرنے کے لئے اپنی عقل سے راستے تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے چنانچہ یورپ کو دیکھ لو وہ علوم میں کس قدر ترقی کر چکا ہے ۔ مگر ادھر تو یہ حال ہے کہ یورپ خدا تعالی کا انکار کر رہا ہے ، مذہب سے بالکل لا پروا ہے اور ادھر اس کی حماقت کا یہ حال ہے کہ ذرا کوئی کہہ دے میں ہتھیلی دیکھ کر آئندہ کے حالات بتا سکتاہوں تو بڑے بڑے لائق پروفیسر اور وکیل اور ڈاکٹر اور انجنئیر اپنے ہاتھ کھول کو اس کے سامنے بیٹھ جائیں گے اور کہیں گے کہ ہمیںآئندہ کے حالات بتائیے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر فطرتی طورپر یہ مادہ ہے کہ وہ حقیقت ِ عالم اور راز ِ کائنا ت کو معلوم کرنا چاہتا ہے ۔ انہوں نے اپنے جھوٹے علم پر غرور کرتے ہوئے خدا تعالی کا تو انکار کر دیا مگر فطرت میںجو جستجو تھی کہ اس دنیا کا ایک منبع ہے جس کو دریافت کرنا چاہیئے اس جستجو کو وہ نہ مٹا سکے چنانچہ غیب معلوم کرنے کے لئے ہاتھ دکھانا صاف بتا رہا ہے کہ انسان کی اس مادی دنیا سے تسلی نہیں ہو سکتی وہ علوم ماوراء الطبیعات کے حصول کے لئے ہر وقت پریشان رہتا ہے اور یہی پیاس ہے جو اسے کبھی کسی راستہ پر لے جاتی ہے اور کبھی کسی راستہ پر ۔ کوئی پامسٹری میںلگا ہوا ہے ، کوئی تاش کے پتوں سے غیب معلوم کرنا چاہتا ہے ، کوئی ستاروں کو دیکھ کر ان سے آئندہ کے حالا ت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے ، کوئی زمین پر لکیریں کھینچ کھینچ کر غیب معلوم کرتا ہے ، کوئی تسبیح کے منکے مار مار کر یہ کوشش کرتا ہے کہ اسے غیب کی کوئی خبر معلوم ہو جائے ۔ طاق منکا آجائے تو کہتے ہیں کامیابی ہو گی اور اگر جفت آجائیںتو کہتے ہیں ناکامی ہو گی۔ اسی طرح بعض لوگ قرعہ ڈالتے ہیں ۔ بعض تیروں سے آئندہ کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض یہ کوشش کہ راز ِ کائنات دریافت کئے جائیں ہر شخص میںپائی جاتی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اس کے لئے صحیح طریق اختیار کرتا ہے یا غلط۔ میںایک دفعہ کراچی گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ منڈی میں کپاس کی قیمت بڑھنے لگی ہے اس وقت بظاہر آثار ایسے تھے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ کپا س کی قیمت گر جائے گی مگر ہوا یہ کہ اس کی قیمت بڑھ گئی ۔میَں نے لوگوںسے پوچھا کہ بات کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ امرتسر سے ایک سادھو آیا ہے اس سے تاجروں نے آئندہ کے بعض حالات دریافت کئے تو اس نے کہا کہ کپاس کی قیمت بڑھ جائے گی ۔ یہ سنتے ہی تمام تاجروں نے کپاس خریدنی شروع کر دی اور اس کی قیمت بڑھ گئی ۔ مگر چونکہ کوئی حقیقی طاقت اس کے پیچھے نہیں تھی دو چار دن تو قیمت چڑھی مگر پھر کم ہونے لگی اور اس قدر کم ہو گئی کہ کئی تاجروں کے دیوالے نکل گئے۔ طبعی اصول تو یہ ہے کہ چیز کم ہو اور کارخانوں کی مانگ زیادہ ہو اس وقت قیمت بے شک بڑھتی ہے لیکن اگر چیز کافی ہو اور کسی عارضی وجہ سے گاہک زیادہ آگئے ہوں تو اس کی قیمت میں عارضی طور پر اضافہ ہو سکتا ہے چنانچہ اس کے بعد کراچی کے کئی تاجروںکے دیوالے نکل گئے کیونکہ بمبئی والوں نے اس قیمت پر روئی خریدنے سے انکار کر دیا ، نیو یارک والوں نے انکار کر دیا، لنکا شائر والوں نے انکار کر دیا ، اوراس طرح ہزاروں دیوالیہ ہو گئے ۔ اب یہ ایک حماقت کی بات تھی کہ کسی سادھو سے دریافت کیا جائے کہ آئندہ کے حالات بتائو اور پھر جو کچھ وہ اناپ شناپ بتادے اس کے مطابق عمل شروع کر دیا جائے مگراس حماقت کا ارتکاب ان سے اس لئے ہوا کہ انسان چاہتا ہے مجھے علم ِ غیب کا کسی طرح پتہ لگ جائے اور اس کے لئے بعض دفعہ ایسے ایسے احمقانہ طریق اختیار کرتا ہے کہ حیرت آتی ہے ۔ غرض انسانی فطرت میں راز ِ کائنات معلوم کرنے کی جستجو پائی جاتی ہے اور یہ علوم خواہ کتنے غلط ہوں اس امر پر ایک کھلی شہاد ت ہیں کہ انسانی علوم ماوراء الطبعیات کی پیاس رکھتا ہے اور ان کے بغیر اسے چین نہیں آتا ۔ پھر وہ علوم دنیاوی کی تحقیق میںلگتاہے ، کہیں آسمانی عالم کی کھال ادھیڑ نے لگتا ہے ، روشنیوںکو پھاڑتا ہے ، ستاروں کی چالیںدیکھ دیکھ کر آئندہ کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کرتاہے ، پھر زمین کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو کہیں کانیں دریافت کرتا ہے ، کہیںخزانوں کی دریافت کرتا ہے ، کوئی شخص پیتل کی ، کوئی لوہے کی، کوئی سونے اور کوئی چاندی کی کانیں دریافت کرنے میںمشغول ہو جاتا ہے ، کوئی جڑی بوٹیوں کے خواص معلوم کرتا اور ان کی تحقیق پر تحقیق کرتا چلا جاتا ہے ، کوئی دھاتوں کے کشتے بنا تا ہے ، کوئی ہوا ، کوئی پانی ، کوئی بجلی، کوئی آگ اور کوئی دخان کو قابو میںلانے کی کوشش کرتا ہے ، کوئی ذرا ذرا سی بات پر جنات کے خیال میںمشغول ہو جاتا ہے ۔ کسی نے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ میں نے فلاں عمل پڑھا تھا اس کی اس قدر تاثیر ہوئی کہ بس جنات قابو ہوتے ہوتے رہ گئے ۔ وہ سنتا ہے تو اس کے سر پر بھی جنون سوار ہو جاتا ہے ۔ اور وہ بھی جنات کو قابو میں لانے کے لئے سر گرم عمل ہو جاتا ہے ۔ جس طرح کیمیا گر دوسروں کو دھوکہ دینے کے لئے کہہ دیا کرتے ہیںکہ میں نے فلاں نسخہ بنایا اور سونا بنتے بنتے رہ گیا ۔ اسی طرح وہ کہتا ہے کہ میں نے فلاں عمل کیا تو جنات قابو ہوتے ہوتے رہ گئے ۔ دوسرا شخص سنتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ یہ تو قابو نہ کر سکا مگر میںان کو ضرور قابو کر لوں گا چنانچہ وہ کسی میدان میں اپنے ارد گرد لکیریں کھینچ کر بیٹھ جاتا اور منہ سے بڑبڑانے لگ جاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ ابھی جنات میرے قابو میں آجائیںگے ۔ اگر مادی تغیرات ہی کافی سمجھے جاتے تو عاقل اور جاہل دونوں اس قسم کی جدو جہد میںکیوں مشغول ہوتے ۔ آخر وجہ کیا ہے کہ یورپ کا عاقل بھی اسی میںمشغول ہے اور ہندوستان کا جاہل بھی اِسی میں مشغول ہے ۔ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ خالص مادی علوم سے انسانی قلب تسلی نہیں پاتا بلکہ وہ ما وراء الطبعیات علوم کی جستجو چاہتا ہے ۔
غرض ہر طرف سے مادی علام میں سرنگ لگانے کی یہ جدو جہد بتاتی ہے کہ اس کے اندر کسی بالائی طاقت کو پانے کی ایک تڑپ ہے جو کبھی کبھی مادی بوجھوں میںدب کر سب کانشس حالت میںچلی جاتی ہے۔ یعنی یہ حقیقت کہ خدا ہے اور اس نے دنیا بنائی ہے غائب ہو جاتی ہے مگر اس کی جدو جہد بتا رہی ہوتی ہے کہ اس کے پیچھے بے جانے وہی جذبہ کار فرما ہے ۔ بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ جاگتے ہوئے انسان اپنے نفس کو قابو میںرکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب وہ سو جاتا ہے تو اس کے قلب کے اندرونی خیالا ت بعض دفعہ اس کی حرکات سے ظاہر ہو جاتے ہیںکئی لوگ ایسے ہوتے ہیںجو کسی کی کوئی چیز چرا لیتے ہیں دن بھر تو وہ اپنے نفس کو قابو میںرکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی کو ان کی اس چوری کا علم نہ ہو مگر چونکہ سارا دن ان کے دماغ پر یہی خیال مسلط رہتاہے اس لئے جب وہ سوتے ہیںتھوڑی دیر کے بعد ہی بڑبڑانے لگتے ہیں اور ان کی چوری کا لوگوںکو علم ہو جاتا ہے ۔ بہت سے چور ایسے ہوتے ہیں جن کا لوگوں کو پتہ نہیں لگتا مگر چونکہ انہیں ہر وقت یہی خیال رہتا ہے کہ کہیںلوگوںکو ہماری چوری کا علم نہ ہو جائے اس لئے جب وہ سوتے ہیںخواب کی حالت میںبڑبڑانے لگتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں دیکھنا دیکھنا فلاں کونہ میںنہ جانا وہاں میرا مال پڑا ہے ۔ دیکھنا کہیںپولیس کو خبر نہ دے دینا ۔ کبھی بڑبڑاتے ہوئے کہیں گے میں نے فلاں کو خوب لوٹا ہے ۔ لوگ ان باتوں کو سنتے ہیںتو انہیںفوراً پتہ لگ جاتا ہے کہ یہی چور ہے چنانچہ تحقیق پر تمام مال برآمد ہو جاتاہے۔ اسی طرح بعض قاتل ایسے ہوتے ہیں جو جاگتے ہوئے تو اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب سو جاتے ہیں بڑبڑانے لگتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں ارے فلاں شخص کی روح آگئی ہے ، ارے مجھے کیوں مارتے ہو ، مجھے معاف کر دو میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا ۔ ہمسایہ ان آوازوں کو سنتا ہے تو اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہی شخص قاتل ہے ۔ تو انسان کے سب کانشس مائینڈ (غیر شعوری دماغ) میںبہت سے حقائق پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جب اس کا کانشس مائینڈ (شعوری دماغ ) غافل ہوتا ہے تو سب کانشس مائینڈ ان خیالات کو ظاہر کر دیتا ہے جیسے سوتے ہوئے یا رویا ء میںیا مسمریزم کے ماتحت دوسروں کی زبان سے کئی باتیںنکل آتی ہیں۔ اسی طرح دنیا میںبہت سے لوگ ایسے ہیں جو خدا تعالی کے وجود کا انکار کرتے ہیں مگر ان کی زندگی کے حالات ان کے سب کانشس مائینڈ کی کیفیات کو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کسی اور ہستی کی تلاش کی خواہش مٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں مگر ان کے حالات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس خواہش کو مٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکے وہ صرف ان خیالات کو دھکیل کر عارضی طورپر پیچھے ہٹانے میںکامیاب ہوتے ہیں مستقل طورپر نہیں۔ اور چونکہ یہ تڑپ اکثر سب کانشس حالت میںرہتی ہے انسان اس کا اقرار نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھی تھک کر جس طرح بچہ جب کھلونے کی ساخت کو سمجھ نہیں سکتا تو اسے بٹوں سے توڑنے لگتا ہے یہ بھی چڑ کر کسی پیدا کرنے والے کا انکار کر دیتا ہے اور آپ ہی آپ بنے ہوئے عالم کا وجود تسلیم کرنے لگتا ہے ۔ گھروں میں اکثر یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ جب بچہ کسی کھلونے کو توڑ پھوڑ دیتا ہے تو بعض دفعہ کھسیانا ہو کر کہہ دیتا ہے کہ مجھے کھلونے کی ضرورت نہیں۔ در حقیقت ان الفاظ کے ذریعہ وہ اس بات کا غصہ نکالتا ہے کہ میںنے کھلونا بھی توڑا اور مجھے اس کی حقیقت کا بھی علم نہ ہوا۔ دہریہ بھی ایسے ہی ہوتے ہیںوہ اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے خدا تعالی کی ہستی کا انکار کرتے ہیںورنہ ان کے سب کانشس مائینڈ میںخدا تعالی کی ہستی کی شہادت موجود ہوتی ہے اور وہ ادھر ادھر کو تلاش بھی کرتے ہیںمگر جب وہ ہستی ان کو ملتی نہیں تو اس کا انکار کر دیتے ہیں اور جس طرح بچہ کہتا ہے مجھے کھلونے کی ضرورت نہیںوہ بھی کہہ دیتے ہیںکہ ہمیںکسی خدا کی ضرورت نہیں۔ بعض دفعہ ماں اپنے بچہ سے دل لگی کے طور پر کہہ دیتی ہے کہ میںنے فلاں چیز تمہیں نہیں دینی ۔ بچہ سنتا ہے تو منہ بسورتے ہوئے کہہ دیتا ہے کہ میںنے یہ چیز لینی ہی نہیں مگر پھر للچائی ہوئے نگاہوں سے دیکھتا ہے کہ کسی طرح یہ چیز مجھے مل جائے ۔ اسی طرح انسان بعض دفعہ کھسیانہ ہو کر کہہ دیتا ہے کہ مجھے خدا کی ضرورت نہیںمگر اس سے بھی اس کی پیاس نہیں بجھتی کیونکہ خود اس کی کوشش بتارہی ہوتی ہے کہ اس کا یہ نتیجہ غلط ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق یہ کہنا کہ وہ آپ ہی آپ ہے اسکے معنے یہ ہوتے ہیںکہ ہم اس چیز کی انتہاء تک پہنچ چکے ہیں۔ اگر کسی دریا کے کنارے صرف دو میل تک چل کر کوئی شخص کہہ دے کہ اس دریا کا کوئی منبع نہیں تو یہ اس کی حماقت ہو گی اگر وہ چلتا چلا جائے تو بہر حال اس کا منبع مل جائے گا ۔ اسی طرح جب تک دنیا کے انتہائی سبب کو معلوم نہ کیا جائے یہ کہنا کہ دنیا کا کوئی خدا نہیںاحمقانہ بات ہے یہ نتیجہ تو منتہائے اسباب پر پہنچکر نکالا جا سکتاہے اس سے پہلے نہیں اور اگر اس کا یہ نتیجہ درست ہے تو اسے مزید تجسس اور تحقیق بند کر دینی چاہیئے مگر یہ پھر بھی مزید تجسس اور جستجو میں لگا رہتا ہے بلکہ اب بھی نئی سے نئی باتیںنکل رہی ہیںاور جستجو اور تلاش کا ایک دریا ہے جو دنیا میںجاری ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ لو گ ابھی منبع تک نہیں پہنچے اور جب وہ منبع تک پہنچے ہی نہیںتو منبع کا تعین کرنے کا انہیںکیا حق ہے ؟ اللہ تعالی ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا ہم نے تمہارے قویٰ میں اعلی درجہ کی طاقت پید اکی ہے اور ایسا مادہ ہم نے تمہارے اندرودیعت کیا ہے کہ تم پل صرا ط پر چلنے کی قابلیت رکھتے ہو ۔ پل صراط پروہی شخص چل سکتا ہے جو دائیںطرف گزرنے سے بھی بچتا ہے اور بائیں طرف گزرنے سے بھی بچتاہے اور پھر اپنے اندر یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ آگے کی طرف بڑھتا چلا جائے گویا انسان میںاللہ تعالی نے ادھر ترقی کا مادہ پیدا کیا ہے اُدھر اُسے اپنا دایا ں اور اپنا بایاں پہلو مضبوط بنانے کی طاقت عطا فرمائی ہے جب اس نے انسان کو اس طرح متعدل القویٰ بنایا ہے تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ اس کے لئے راستہ نہ بناتا اور منزل مقصود پر اسے نہ پہنچاتا۔ انسان کی منزل مقصود خدا تعالی ہے اور وہ اس منزل مقصود پر اسی وقت پہنچ سکتا ہے جب وہ دائیںطرف کا بھی خیال رکھے اور بائیں طرف کا بھی خیال رکھے ۔ متعدل القویٰ وہی شخص ہوتا ہے جو کسی ایک طرف کو جھکا ہوا نہ ہو ۔ اسی طرح جب خدا تعالی نے انسان کو متعدل القویٰ بنایا تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ وہ اپنے اندر ایسی قابلیت رکھتا ہے کہ دائیں طرف گرنے سے بھی محفو ظ رہ سکتا ہے اور بائیں طرف گرنے سے بھی محفوظ رہ سکتا ہے ۔ انسان کی تما م تر کامیابی اسی میں ہوتی ہے کہ وہ دائیں بائیں گڑھوں سے بچ کر سیدھا چلے اور منزل مقصود سے درے نہ ٹھہرے ۔ یہی دو چیزیں مذہب کی جان ہیں اور یہی وہ حقیقت ہے جسے حضرت مسیح موعود ؑ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ مذہب کی بڑی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان خدا تعالی سے بھی اعلی درجہ کا تعلق رکھے اور بنی نو ع انسان سے بھی اعلی درجہ کا تعلق رکھے ۔ نہ حقوق اللہ بجا لانے میں کوئی کوتاہی کرے اور نہ حقوق العباد کی بجا آوری میں کوئی کوتاہی کرے۔ غرض انسان کو ایک معتدل القویٰ نفس عطا کیا گیا ہے اس میں ترقی کا ماد ہ ہے جو اعلی درجہ کے مقصود تک پہنچنے کے لئے ہے ۔ پھر اس میںاپنے دائیں اور بائیںکو محفوظ رکھنے کا مادہ ہے جس سے اخلا ق کی تکمیل ہوتی ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ فلاں کام مجھے کرنا چاہیئے اور فلاں نہیں ۔ فلاں کام میرے لئے مفید ہے اور فلاں مضر۔ جب انسان کے اندر یہ تمام قابلیتیں پائی جاتی ہیںتو تم کسی راہنمااور معلم کا کیونکر انکار کر سکتے ہو ؟
(۲) مصدری معنوں کے لحاظ سے اس کا یہ مطلب ہو گا کہ انسان معتدل القویٰ ہے اس لئے اس کا معتدل القویٰ ہونا کسی راہنماکی طرف بلاتا ہے گویا دلیل ایک ہی ہے صرف نقطہ نگاہ کو بدلا ہے ۔ پہلے معنوں کے لحاظ سے یہ کہا گیا ہے کہ انسان کو معتدل القویٰ بنانے والا اس کی راہنمائی کی صورت کیوں پیدا نہ کرے گا اور دوسرے لحاظ سے یہ معنی ہوں گے کہ اس کا معتدل القویٰ ہونا اس امر کا متقاضی ہے کہ کوئی ا س اعتدال کو کام میں لانے والا رہنمابھی ہو ۔ گویا مَا کے معنے اگر خدا تعالی کی ذات کی طرف توجہ دلانے کے سمجھے جائیںتو آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جس ذات نے انسان میں یہ صفات پیدا کی ہیںوہ کوئی علاج نہ بتاتا اور رہنمائی کی صورت پیدا نہ کرتا ۔ لیکن اگر مصدری معنے لئے جائیں تو یہ مطلب ہو گا کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان میں یہ قوتیں تو موجود ہوں مگر ان قوتوں کے ظہور کا کوئی سامان نہ ہو ۔ مفہوم ایک ہی ہے مگر ایک استدلال نفس کی بناوٹ سے کیا گیا ہے اور دوسرا استدلال نفس کو بنانیوالے کے لحاظ سے کیا گیا ہے ۔
تیسرے معنیوَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا کے یہ ہیںکہ ہم اس نفس کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو عظیم الشان ہے اور جس کی طرف آپ ہی آپ انگلیاں اٹھتی ہیں یعنی ہر زمانہ کے نفس کامل اور اس خدا کو پیش کرتے ہیں جس نے ایسے کامل وجود کو بنایا ۔ یہاں نفس گو نکرہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے مگر حقیقتاً اس کی تنوین تفخیم اور تعظیم کے لئے ہے اور نَفْسٍ سے مراد ہر نفس نہیں بلکہ عظیم الشان نفس ہے ( تنوین کا تفخیم اور تعظیم کے لئے آنا عربی زبان کا ایک مروج قاعدہ ہے) اور مراد یہ ہے کہ ہم اس شخص کی طرف تم کو توجہ دلاتے ہیں جو اپنی عظمت ِ شا ن کی وجہ سے اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ گو اس کا نام نہ لو مگر ہر انگلی اس کی طرف خود بخود اٹھنے لگتی ہے ۔ اس امر کا قرآن کریم کے بعض او ر مقامات سے بھی ثبوت ملتاہے کہ ہر زمانہ میںاللہ تعالی کی طرف سے جو نبی آتا ہے اس کے دعوے سے پہلے ہی لوگوں کی اس کی طرف انگلیاں اٹھنی شروع ہو جاتی ہیں اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہی وہ شخص ہے جو ہماری قوم کا کامیاب کر سکتا ہے چنانچہ حضرت صالح علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالی قرآن کریم میںذکر فرماتا ہے کہ ان کی قوم کے افرادنے ان سے کہا یَا صَالِحُ قَدْ کُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوَّ ا قَبْلَ ھٰذَا ( ہود ایت ۶ ) یعنی ا ے صالح ہمیںتو تم پر بڑی بڑی امیدیں تھیں اور ہم سمجھتے تھے تو بڑے اعلی اخلاق کا مالک ہے تیرے اندر قوت عملیہ پائی جاتی ہے اور تو قوم کی ترقی کا بڑا فکر رکھتا ہے ہمیںتو امید تھی کہ تو قوم کو اٹھا کر کہیںکا کہیں لے جائے گا مگر تُو تو بڑ ا خراب نکلا اور تونے ہماری تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ تُو ہمیںیہ کہنے لگ گیا ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریق ِ عمل کو چھوڑ دیںاور تیری بات کو مان کر بتوں کی پرستش نہ کریں ۔ اب یہ امر ظاہر ہے کہ جن باتوں میں حضرت صالح علیہ السلام کی قوم اپنی ترقی سمجھتی تھی ان باتوں میںحضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم کی ترقی نہیں سمجھتے تھے۔ وہ جھوٹ اور فریب اور خدا تعالی سے بُعد میں اپنی ترقی سمجھتے تھے اور حضرت صالح علیہ السلام صداقت اور ہدایت اور خدا تعالی سے تعلق میں اپنی قوم کی ترقی سمجھتے تھے ۔ بہر حال انہیں یہ امید ضرور تھی کہ ہماری ترقی صالح ؑ کے ساتھ وابستہ ہے اور ان کی یہ رائے بالکل درست تھی گو اپنے تنزل کا علاج وہ جن باتوں کو قرار دیتے تھے وہ درست نہیں تھا ۔ یہی رنگ رسول کریم ﷺ کا نظر آتا ہے اور یہی رنگ حضرت مسیح موعود ؑ میں پایا جاتا تھا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالی کے خسر صوفی احمد جان صاحب ؓ لدھیانوی نے دعویٰ سے پہلے ہی حضرت مسیح موعود ؑ کو لکھ دیا تھا کہ
ہم مریضو ں کی ہے تمہیں پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
گویا دنیا کی نگاہیںاسی وقت سے آپ کی طرف بلند ہو رہی تھیںاور جو انگلی بھی اٹھتی وہ آپ کی طرف اشارہ کرتی ۔ مولوی برہان الدینؓ صاحب جو حضرت مسیح موعود ؑ کے نہایت مخلص صحابی تھے انہوں نے سنا کہ جب ابتدا میںمَیں نے حضرت مسیح موعود ؑ کا ذکر سنا اور مجھے معلوم ہوا کہ پنجاب کے ایک گائوں میں ایسا شخص ظاہر ہوا ہے جس سے اسلام کی آئندہ ترقی وابستہ معلوم ہوتی ہے اور وہی عیسائیوں اور ہندووں وغیرہ کے اعتراضات کا جواب دیتا ہے تو میں نے ارادہ کیا کہ آپ کو دیکھنا چاہیئے ۔ چنانچہ میںقادیان آیا مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کسی مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے گئے ہیں۔ میں گورداسپور پہنچا اور آپ کے جائے قیام کو دریافت کرتا ہوا ڈاک بنگلہ میںگیا جہاں حضرت مسیح موعود ؑ ان دنوں تشریف رکھتے تھے ۔ باہر حافظ حامد علی صاحب بیٹھے تھے مَیں نے ان سے کہا کہ میںحضرت میرزا صاحب کی زیارت کرنے کے لئے آیا ہوں کسی طرح مجھے آپ ؑ کی زیارت کرادیں ۔ انہوں نے کہا اس وقت زیارت نہیں ہو سکتی حضرت مسیح موعود ؑ ایک ضروری اشتہار لکھ رہے ہیں ۔ میں نے ان کی منتیںبھی کیں مگر انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی۔آخر میں ایک طرف مایوس ہو کر بیٹھ گیا اور میں نے ارادہ کر لیاحا فظ حامد علی صاحب ذرا اِدھر اُدھر ہوں تو میں بغیر پوچھے ہی کمرہ کی چِک اٹھا کر آپ کی زیارت کر لوں گا ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد ہی حافظ صاحب جو کسی کام کے لئے اٹھے تو میں چپکے سے دروازے کی طرف بڑھا اور چِک اٹھا کر اندرکی طرف جھانکا اُس وقت حضرت مسیح موعود ؑ کاغذ ہاتھ میںلئے جلدی جلدی کمرہ میںٹہل رہے تھے اور آپ کی پیٹھ دروازے کی طرف تھی ۔ میرا اندازہ یہ تھا کہ ابھی آپ کو واپس آنے میں کچھ دیر لگے گی اور میں اطمینان سے آپ کی زیارت کر سکوں گامگر حضرت مسیح موعو د ؑ جلدی واپس لوٹ آئے اُس وقت مجھ پر ایسا رعب طاری ہوا کہ میں ڈر کے مارے وہاں سے بھاگ اٹھا اور میں نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ آپ ضرور سچے ہیں جو شخص اتنا تیز تیز چلتا ہے اس نے ضرور دور تک جانا ہے ۔
غرض الٰہی سنت یہ ہے کہ ہر زمانہ کا جو نفس کامل ہو اس کی طرف خود بخود لوگوں کی انگلیاں اٹھنی شروع ہو جاتی ہیں اور وہ اسے دیکھ کر اس حقیقت کا بر ملا اظہار شروع کر دیتے ہیں کہ یہ شخص دنیا میںضرور کوئی اہم تغیر پیدا کر کے رہے گا۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے ہم ہر زمانہ کے نفس کامل اور اس خدا کو پیش کریتے ہیں جو ایسے کامل وجود پیدا کیا کرتا ہے یا اس زمانہ کا نفسِ کامل( جس سے مراد رسول کریم ﷺہیں ) اور جس نے اسے بنایا ہے اس کو اور اسی طرح اس نفسِ کامل کے اظلال کو تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کو دیکھ لو آپ زندگی کے ہر شعبہ میں کامل الوجود ثابت ہوئے ہیں۔ لوگ اپنے اموال کو اپنی ذات پر خرچ کرتے تھے مگر محمد رسول اللہ ﷺ اپنے تمام اموال اپنی قوم کے لئے خرچ کرتے تھے ۔لوگ اپنے اوقات کو جوئے اور شراب نوشی وغیرہ میں صرف کرتے تھے مگر محمد رسول اللہ ﷺ اپنے تمام اوقات اپنی قوم کی بہبودی کے لئے خرچ کرتے تھے۔ لوگ اپنے اوقات جہالت کے لئے خرچ کرتے تھے اور آپ ؐ اپنے اوقات علم کے لئے خرچ کرتے تھے ۔ لوگ اپنے دماغ دنیوی باتوں میں مشغول رکھتے تھے اور آپ ؐ اپنے دماغ کو اگر ایک طرف خدا تعالی کے احکام کی اتباع میں مشغول رکھتے تھے تو دوسری طرف بنی نوع انسان کی تکالیف دور کرنے کے لئے اس سے کام لیتے تھے اور یہ تو آپ کی دعویٰ نبوت سے پہلے کی حالت تھی جب آپ نے اللہ تعالی کے حکم کے ماتحت نبوت کا اعلان فرمایا اور عملی رنگ میں آپ کا ہر کام لوگوں کی نظروں کے سامنے آگیا تو اس وقت آپ اگر فوج کے ساتھ گئے تو بہترین جرنیل ثابت ہوئے ، قضا کا کام اپنے ہاتھ میں لیا تو بہترین قاضی ثابت ہوئے ، اِفتاء کا وقت آیا تو بہترین مفتی ثابت ہوئے، تبلیغ کا وقت آیا تو بہترین مبلغ ثابت ہوئے ، گھر میں گئے تو بہترین خاون ثابت ہوئے ، بچوں سے تعلق رکھا تو بہترین باپ ثابت ہوئے ، دوستوں سے ملے تو بہترین دوست ثابت ہوئے ۔ غرض کوئی ایک بات بھی نہیں جس میں آپ دوسروںسے دوسرے درجہ پر رہیں ہوں بلکہ ہر خوبی میں آپ نے چوٹی کا مقام حاصل کیا اور اس طرح اپنے نفس کے کامل ہونے کا دنیا کے سامنے ایک ناقابل ِ تردید ثبوت مہیا کر دیا ۔ اللہ تعالی نفسِ کامل کی اس شہادت کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے تم غور کرو کہ کیا ایسا شخص جس میں یہ یہ صفات پائی جاتی ہوں کبھی ہار سکتا ہے! ایک فن کا ماہر ہار سکتا ہے ، دو فنون کا ماہر ہار سکتا ہے مگر یہ تو وہ ہے جو ہر فن میں کامل ہے ۔ دنیا اس کے متعلق یہ خیال بھی کس طرح کر سکتی ہے کہ یہ ہار جائے گا اور وہ جیت جائے گی اس میں اگر زیادہ قابلیتیںہوں تو پھر بے شک وہ جیت سکتی ہے لیکن جب کہ اس میں محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میںکوئی قابلیت ہی نہیں پائی جاتی تو وہ جیت کس طرح سکتی ہے ؟
فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَا ص لا ایت نمبر ۸
پھر اس (یعنی خد ا) نے اس (نفس) پر اس کی بدکاری (کی راہوں) اور اس کے تقویٰ (کے راستوں ) کو کھول دیا ۔
تفسیر ۔ پہلی آیت میں اگر ’’ما‘‘ کے معنے مَنْ کے ہونگے تو ضمیر ’’ما‘‘ کی طرف جائے گی او ر اگر مصدری معنے لئے جائیںگے تو ضمیر بالمعنیٰ سمجھی جائے گی ۔ وہ لوگ جنہوں نے ’’ما‘‘ کو مَنْ کے معنوں میں لیا ہے وہ اس موقعہ پر ’’ما‘‘ کو مصدریہ کہنے والوں پر اعتراض کرتے ہی کہ ان کے معنے درست نہیں اگر درست ہیں تو وہ بتائیں کہ اَلْھَمَھَا میںاَلْھَمَ کا فائل کون ہے مصدر تو فائل نہیں ہو سکتا کیونکہ تسویہ الہام نہیںکر سکتا الہا م تو ایک طاقتور ہستی کر سکتی ہے مگر مصدر کے معنے کرنے والے بھی علم ادب کے بہت بڑے ماہر ہیں انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ تمہارا استدلال بالکل غلط ہے ۔ عربی زبان میں معنوں کی طرف ضمیر پھیرنے کا کثرت سے رواج پایا جاتا ہے پس بناء ۔ طحیٰ اور تسویہ جس کی طرف منسوب ہوں گے اسی کی طرف بالمعنی ضمیر بھی تسلیم کی جائے گی یعنی بناء طحیٰ اور تسویہ کا جو بانی ہے یعنی اللہ تعالی کی ذات ، اس کی طرف بالمعنیٰ ضمیر تسلیم کی جائے گی ۔ بہر حال آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آسمانی اور زمینی نظام کے بنانے اور انسانی نفس میں اابلیت رکھنے کے بعد اسے چھوڑ ا نہیںبلکہ اس کے اندر فجور و تقویٰ کی حس رکھی ہے اور اس مادہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ گویا دونوں صورتوں میں خواہ مصدری معنے لئے جائیں یا ’’ما‘‘ کے معنے مَنْ کے سمجھے جائیںآیت کا یہ مطلب ہو گا کہ اللہ تعالی نے ہر انسان میں نفس ِ لوامہ پیدا کیا ہے اور ہر انسان میں یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ وہ بعض باتوں کو اچھا اور بعض باتوں کو بر اسمجھتا ہے ۔
یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے سمجھنے میں بہت سے لوگ غلطی کھا جاتے ہیں اور وہ بجائے مسئلہ کو اس رنگ میں پیش کرنے کے کہ ہر انسان کچھ باتوں کو اچھا سمجھتا اور کچھ باتوں کو بُرا سمجھتا ہے وہ اس رنگ میں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہر انسان سمجھتا ہے کہ قتل برا ہے ۔ یا ہر انسان سمجھتا ہے کہ جھوٹ بولنا بُرا ہے یا ہر انسان سمجھتا ہے کہ ڈاکہ ڈالنا بُرا ہے ۔ اس پر اس کے مخالف جواب دے دیتے ہیں کہ تم کہتے ہو ہر شخص جھوٹ کو بُرا سمجھتا ہے حالانکہ دنیا میںکئی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیںکہ جھوٹ کے بغیر گذارہ ہی نہیں ہو سکتا ۔ اگر تمہاری یہ بات درست ہے کہ فجور اور تقویٰ کا الہام اللہ تعالی نے نفس ِ انسانی میں کیا ہے تو چاہیئے تھا کہ ہر شخص جھوٹ کو برا سمجھتا یا ہر شخص قتل کو بُرا سمجھتا مگر واقعہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ دنیا میں جھوٹ بولتے ہیں اور چونکہ ان کے نفس میں ہدایت نہیں ہوتی اور متواتر جھوٹ بول بول کر انکی فطرت مسخ ہو چکی ہوتی ہے وہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر دنیا میںگزارہ ہی نہیںہو سکتا۔ یا مثلاً سختی کامادہ ہے یہ بہت سے لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ میں نے اپنی جماعت میں ہی دیکھا ہے بار بار لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ سختی سے کام نہ لیا کریںمحبت اور پیار سے دوسروں تک اپنی باتیں پہنچایا کریں مگر پھر بھی وہ اپنی عادت سے مجبور ہونے کی وجہ سے بسا اوقات سختی پر اُتر آتے ہیں اور بعض تو مجھے بھی کہہ دیتے ہیں کہ لوگ سختی کے بغیر کبھی نہیںمان سکتے ، نرمی کام خراب کر دیا کرتی ہے ۔ اب اگرہم یہ کہیں کہ ہر شخص سختی کو بُرا سمجھتا ہے تو یہ واقعات کے خلاف ہو گا کیونکہ دنیا میںکئی لوگ سختی سے کام لیتے ہیں اور باوجود سمجھانے کے بھی وہ اپنی عادت کو ترک کرنے کے لئے تیا ر نہیںہوتے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نرمی اچھی نہیں دنیا کا اصل علاج سختی ہے ۔ اسی طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو چوری کو برانہیں سمجھتے ، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جھوٹ کو برا نہیں سمجھتے ، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قتل کو برا نہیں سمجھتے ۔ پس اگر اس کے یہ معنے لئے جائیں کہ ہر انسان چوری کو یا جھوٹ کو یا قتل وغیرہ جرائم کے ارتکاب کو بُرا سمجھتاہے تو یہ بالکل غلط ہو گا ۔ دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جو ان افعال کو برا نہیں سمجھتے ۔ یا مثلاً گوشت خوری ہے اس کے متعلق مسلمانوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے دنیا میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اس میں کوئی بُرائی نہیںسمجھتے اور ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اس کوبہت بڑا گناہ سمجھتے ہیںاور گوشت خوری سے ان کو اتنی شدید نفرت ہوتی ہے کہ کھانا تو الگ رہا اگر گوشت کا کوئی شخص ان کے سامنے نام بھی لے لے تو انہیںقے آجاتی ہے ۔ ہماری جماعت میں سردار فضل حق صاحب ایک نو مسلم دوست تھے وہ سکھ مذہب کو ترک کر کے اسلام میں داخل ہوئے تھے وہ کئی سال تک مسلمان رہے اور دوسروں کو بھی اسلام کی تبلیغ کرتے رہے ان کی یہ حالت تھی کہ وہ سالہا سال تک گائے کے گوشت سے شدید متنفّر رہے (ممکن ہے قادیان سے جانے کے بعد انکا یہ حال نہ رہا ہو مگر جب تک وہ قادیان میں رہے انکا یہی حال تھا) مجھے خوب یاد ہے وہ ایک دفعہ مہمان خانہ میں آکر ٹھہرے چونکہ وہ گائے کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس لئے بعض دوستوں نے یہ طے کر لیا کہ جس طرح بھی ہو سکے ان کو گوشت ضرور کھلانا ہے ۔ ایک دن بھائی عبدالرحیم صاحب ۔شیخ عبد العزیز صاحب اور بعض اور دوست ان سے اصرار کرنے لگے کہ آج تو ہم نے آپ کو ضرور گائے کا گوشت کھلانا ہے ۔ وہ یہ سنتے ہی اٹھ کر بھاگے ۔ وہ آگے آگے تھے اور وہ دوست ان کے پیچھے پیچھے ۔ مجھے وہ نظارہ اب تک یاد ہے کہ وہ کبھی ایک چارپائی سے کود کر دوسری طرف چلے جاتے وہاں ان کا پیچھا ہوتا تو تیسری چارپائی سے کود کر بھاگتے اور جب لوگوں نے ان کو پھر بھی نہ چھوڑا تو وہ ایک کمرہ سے نکل کر دوسرے کمرہ میںبھاگ گئے مگر لوگ بھی ان کے پیچھے پیچھے تھے آخر اسی بھاگ دوڑ میں ان کو اتنے زور کی قے آئی کہ ان کے دوست دیکھ کر ڈر گئے اور انہوں نے ان کو چھوڑدیا اور سمجھ لیا کہ اگر اب بھی ہم ان کو گائے کا گوشت کھانے پر مجبور کریںگے تو یہ سخت ظلم ہوگا ۔تو دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جو گوشت خوری سے سخت نفرت رکھتے ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کو گوشت خوری کے بغیر چین ہی نہیںآتا ۔مگر اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ گوشت کھانا انسانی فطرت میں داخل ہے یا گوشت نہ کھانا انسانی فطرت میںداخل ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ کانشنس کے معنے صرف اتنے احساس کے ہیں کہ انسان بعض باتوں کو بُرا اور بعض باتوں کو اچھا سمجھتا ہے کانشنس میں یہ بات شامل نہیں کہ فلاں چیز اچھی ہے اور فلاںچیز بری ۔ یہ بات عادت سے تعلق رکھتی ہے جیسی کسی کو عادت ہو گی ویسے ہی اس کا اس چیز کے متعلق احساس ہو گا مگر بہر حال کوئی انسان دنیا میں ایسا نہیں ہو سکتا جو ہر چیز کو اچھا کہتا ہو یا ہر چیز کو برا سمجھتا ہو ۔ ہر انسان یہی کہے گا کہ بُرا کام نہیںکرنا چاہیئے اور ہر انسان یہی کہے گا کہ اچھا کام ضرورکرنا چاہیئے ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ برے کام کو اچھا سمجھتا ہو یا اچھے کام کو برا سمجھتا ہو مگر یہ احساس اس کے اندر ضرور پایا جاتا ہے کہ دنیا میں کچھ چیزیں اچھی ہیں اور کچھ چیزیں بُری ہیں ۔ مجھے اچھی چیزیں اختیار کرنی چاہئیں اور بُری چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیئے ۔ یہی معنے فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَاکے ہیں کہ ہر انسان یہ کہتا ہے کہ کچھ بُری چیزیں ہیں اور ہر انسان یہ کہتا ہے کہ کچھ اچھی چیزیں ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ ہر انسان میں اچھی اور بُری چیزوں کے امتیاز کا مادہ رکھا گیا ہے اور جب یہ بات ہے تو دلیل مکمل ہو جاتی ہے یعنی جب ہر انسان کے اندر یہ مادہ پایا جاتاہے کہ وہ کسی چیز کو اچھا اور کسی چیز کو برا کہتا ہے تو ضروری ہے کہ کوئی ایسی ہستی بھی ہو جو اسے بتائے کہ کون کون سی چیزیں اچھی ہیں اور کون کون سی چیزیں بُری ہیں ۔ یہ دلیل ہے جو اللہ تعالی نے اپنی ہستی کے ثبوت میں لوگوںکے سامنے پیش کی ہے اور یہ دلیل ہے جس کا کوئی رد کسی بڑے سے بڑے دہریہ کے پا س بھی نہیں ہے ۔ مگر میں نے دیکھا ہے لوگ بالعموم اس دلیل کو پورے طور پر سمجھتے نہیں اور وہ ایسے رنگ میں اسے مخالف کے سامنے پیش کر دیتے ہیں جو اپنے اندر کمزوری رکھتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی اس دلیل کا اپنی کتب میںبعض جگہ ذکر فرمایا ہے مگر لوگ پھر بھی جب نفس لوامہ کی شہادت پیش کریں گے اس رنگ میں پیش کریں گے کہ ہر شخص جھوٹ کو برُا سمجھتا ہے یا ہر شخص قتل اور چوری کو بُرا سمجھتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ جہاں تک سب کانشس مائنڈ کا سوال ہے اس کے لحا ظ سے یہ باتیں بُری ہیں اور ہر انسان سب کانشس مائنیڈ میں ان کو برا سمجھتاہے مگر کانشس مائینڈ میں وہ ان کو بُرا نہیں سمجھتا اور نہ وہ بحث کے وقت ان چیزوںکی بُرائی کا قائل ہو سکتا ہے اور اگر قائل بھی ہو تو لمبی بحث کے بعد ہوتا ہے جس میںسب کانشس مائینڈ سے ان چیزوں کی بُرائی اس کے کانشس مائینڈمیںلانی پڑتی ہے مگر ایسا ہر شخص نہیں کر سکتا یہ ماہرفن کا ہی کام ہوتا ہے کہ وہ سب کانشس مائنڈ سے کانشس مائینڈ میں کسی چیز کو منتقل کردے۔
حضرت خلیفہ اول ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میرے پاس ایک دفعہ ایک چور علاج کے لئے آیا ۔ میںنے اسے نصیحت کیکہ تم نے کیا لغو پیشہ اختیار کیا ہوا ہے تمہیں چاہیئے کہ محنت کرواور کمائو ۔ یہ کیسی بری بات ہے کہ تم چوری جیسا ذلیل کام کرتے ہو اور تمہیں ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ تم مضبو ط اور ہٹے کٹے ہو محنت کر واور کمائو چوری کیوںکرتے ہو؟ وہ کہنے لگا مولوی صاحب ہمارے جیسی محنت بھی دنیا میں کوئی شخص کرتا ہے؟ لوگ تو دن کو محنت کرتے ہیں لیکن ہم وہ ہیں جو رات کو محنت کرتے ہیں ۔ سخت سردی کے دن ہوتے ہیں ، جسم ٹھٹھررہے ہوتے ہیں ، تاریکی سے قدم قدم پر ٹھوکریں لگتی ہیں، جان کا خوف ہوتا ہے مگر پھر بھی ہم ان تما باتوں کو نظر اندا ز کرتے ہوئے اپنے کام کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ اب بتائیے ہم سے بڑ ھ کر بھی دنیا میں کوئی محنت کرتا ہے؟آپ فرماتے تھے جب اس نے یہ جواب دیا تو میں نے سمجھ لیا کہ اس شخص کی فطرت بالکل مسخ ہو چکی ہے اب اس کو چوری کی برائی کا قائل کرنے کے لئے کسی اور طریق سے کام لینا چاہیئے۔ چنانچہ مَیں نے اس سے گفتگو کا رخ بدل لیا اور بعض اور امور کے متعلق باتیں کرتا رہا ۔ جب کچھ دیر گذر گئی تو میں نے اس سے کہا اچھا یہ بتائو کہ تم چوری کرتے کس طرح ہو اور کتنے آدمی اس میںشریک ہوتے ہیں؟ کہنے لگا حکیم صاحب بات یہ ہے کہ چوری کے لئے کئی آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے سب سے پہلے تو ہم گھر کے کسی آدمی کو ساتھ ملاتے ہیں جو ہمیں بتاتا ہے کہ کتنے کمرے ہیں ، ان کمروںکاکیا نقشہ ہے ، اور کس کس رخ میں وہ واقعہ ہوئے ہیں تا کہ ہم پکڑے نہ جائیں۔پھر ہمیںوہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کس کس جگہ مال پڑا ہوا ہے ، کون سے ٹرنک میں زیورات ہیں ، اس ٹرنک کا رنگ کیسا ہے اور وہ کس کونے میں رکھا ہوا ہے ۔ یااگر روپیہ کہیں دبا کر رکھا ہوا ہے تو کس جگہ دبایا ہوا ہے ۔ یہ سب باتیں ہم اس ے دریافت کر لیتے ہیں ۔ اس کے بعد ہم ایک ایسے شخص کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں جو سیندھ لگانے میں ماہر ہوتا ہے تا کہ وہ اس طرح سیندھ لگائے کہ کسی کو پتہ تک نہ لگے اور باوجود دیوار توڑنے کے کوئی آواز پیدا نہ ہو ۔ وہ سیندھ لگا کر الگ ہو جاتا ہے کیونکہ سیندھ لگانے کا اس کی طبیعت پراتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ مزید کوئی کام کرنے کے ناقابل ہوتا ہے ۔ اس کے بعد تیسراشخص آگے آتا ہے جسے گھر کا نقشہ یاد کرایا ہوا ہوتا ہے وہ اندر داخل ہوتاہے اور جہاںجہاں اسباب ہوتا ہے وہاں سے اٹھا کر باہر پہنچا دیتا ہے اس وقت دیوار کے پاس ہی ہمارا ایک آدمی تیار کھڑا ہوتا ہے جوں جوں وہ اسباب پہنچاتاجاتا ہے ہمارا آدمی اس کو سمیٹتا چلا جاتا ہے اور ایک آدمی ایسا ہوتا ہے جو دور ایک کونے میں کھڑا رہتا ہے تا کہ اگر کوئی آدمی گذر رہا ہو تو وہ اطلاع دے سکے ۔ جب اس طرح چوری کے کام سے ہمیں فراغت ہو جاتی ہے تو گھر پہنچ کر ہم تما م زیورات ایک سنار کو دے دیتے ہیں جوان کو گلا کر سونے کی ڈلیاں بنا دیتا ہے کیونکہ زیورات اپنی اصل شکل میں ہم فروخت نہیں کر سکتے اگر کریںتو یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں پکڑے ہی نہ جائیں۔ اس لئے ہم نے سنار رکھا ہوا ہوتاہے تا کہ جونہی کوئی زیور آئے فوراً اسے گلا دیا جائے ۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ فرماتے تھے جب اس نے یہ داستان بیان کی تو میںنے کہا کہ تمہاری اتنی محنت اور عرقریزی کے بعد اگر وہ سُنار اُس سونے کو کھا جائے تو پھر؟ اس پر وہ بے اختیار ہو کر بولا اگر وہ چوری کرے تو ہم اس بے ایمان اور خبیث کا سر نہ اڑا دیں ۔ہم تو کبھی اس کو زندہ نہ رہنے دیں۔ میں نے کہا کہ ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ چوری کوئی عیب کی بات نہیںاور ابھی کہہ رہے ہو کہ وہ خبیث چوری کرے تو اس کا سر اڑا دیں ۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ خود تمہاری فطرت چوری کو ناپسند کرتی ہے اور وہ اسے خباثت اور بے ایمانی کاکام قرار دیتی ہے ۔ ورنہ وجہ کیا ہے کہ جو کام تم خود کرتے ہو اسی کام کی وجہ سے تمہیں سنار پر غصہ آجائے اس پر وہ شرمندہ ہو گیا ۔ تو فطرت جو مسخ ہو چکی ہو وہ بعض دفعہ ابھر بھی آتی ہے مگر اس طرح فطرت کو ابھارنا ہر شخص کا کام نہیںہوتا یہ ماہر فن ہی کام کر سکتا ہے اور پھر بعض جگہ باوجود کوشش کے بھی مسخ شدہ فطرت نہیںابھرتی جیسے وہ لوگ جو گوشت کھانے کے مخالف ہیں اور وہ اسے ’’جیو ہتیا‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ ان سے جب گفتگو ہو تو ہم کہتے ہیں کہ جب تمہارے زخموں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں تو تم دوائوں سے ان کیڑوں کومارتے ہو یا نہیں؟ اگر تم مارتے ہو اور تمہارے دماغ میں اس وقت جیو ہتیا کا خیال نہیں آتا بلکہ تم سمجھتے ہو کہ ادنیٰ چیز کو اعلیٰ کے لئے قربان ہی ہونا چاہیئے تو تمہیں گوشت خوری پر کیا اعتراض پیدا ہوتاہے ۔ اس رنگ میںجب ان کو سمجھایا جائے تو بعض دفعہ تو وہ سمجھ جاتے ہیں مگر بعض دفعہ نہیں بھی سمجھتے۔ بہر حال اصل دلیل جسے حضرت مسیح موعود ؑ نے بار بار استعمال کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسانی کانشس میں نیکی اور بدی کا احساس پایا جاتا ہے یعنی ہر شخص میں خواہ وہ کسی مذہب و ملت کا پیرو ہو یہ احساس پایا جاتا ہے کہ کچھ چیزیں اچھی ہیں اور کچھ چیزیںبُری ہیں۔ یہ نہیں کہ فلاںچیز اچھی ہے اور فلاں بری ۔ یہ علم الاخلاق ہے ۔ کانشنس کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیں کہ ہر انسان میں ایک مادہ پایا جاتا ہے جو بتاتا ہے کہ کوئی چیز اچھی ہے اور کوئی چیز بری ہے ۔ تم ساری دنیا میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیںدکھا سکتے جو یہ کہتا ہے کہ ہر چیز اچھی ہے یا ہر چیز بُری ہے ۔ وہ کسی کو اچھا سمجھتا ہو گا اور کسی کو برا سمجھتا ہوگا ۔ مثلاً چور چوری کو اچھا سمجھیگا مگر قتل کو برا سمجھیگا ۔ یا قاتل قتل کو اچھا سمجھے گا مگر وعدہ کی خلاف ورزی کر برا سمجھے گا ۔یا ظالم ظلم کو اچھا سمجھے گا مگر جھوٹ پر انہیں غصہ آجائے گا ۔یا جھوٹا جھوٹ کو اچھا سمجھے گا مگر قتل پر اسے غصہ آجائے گا۔ غرض اخلاق اور مذہب سے تعلق رکھنے والے جس قدر افراد دنیا میںپائے جاتے ہیں ہندو کیا اور عیسائی کیااور مسلمان کیا اور سکھ اور یہودی کیا اور چوڑے کیا اور عالم کیا اور جاہل کیا ہر انسان میںیہ مادہ پایا جاتا ہے کہ کچھ کام مجھے کرنے چاہئیںاور کچھ کام نہیں کرنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ اسی مادہ کے لحاظ سے جو ہر انسان میںپایا جاتا ہے ۔ فرماتا ہے فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَا ۔ ہم نے اس کو الہام کیا ہے اس کے فجور اوراس کے تقویٰ کے متعلق۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں مصدر استعمال کیا ہے یہ نہیں کہا کہ ہم نے اسے فجو ر والی باتوںکا الہام کیا ہے یا تقوی اور پاکیزگی کی تفصیلات اس پر الہام کے ذریعہ روشن کی ہیں ۔ اللہ تعالی نے صرف یہ فرمایا ہے کہ ہم نے اسے فجور اور تقوی کا الہام کیاہے یعنی ہر انسان میںفجور اور تقویٰ کی حس پائی جاتی ہے اور ہر انسان میں اللہ تعالی نے ایسا مادہ رکھا ہے کہ وہ اس بات کو خوب سمجھتا ہے کہ میرے نفس کے لئے کچھ باتیں اچھی ہیں اور کچھ بُری ہیں ۔ یہی دلیل ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ نے پیش کی ہے اور یہی دلیل ہے جو قرآن کریم پیش کرتا ہے اور یہی دلیل ہے جسے مَیں نے بھی اپنی کتب میں بعض مقامات پر بیان کیا ہے مگر لوگ غلطی سے تفصیلات میں چلے جاتے ہیں اور وہ معین نیکیوں اور معین بد یوں کوبطور مثال پیش کر دیتے ہیں حالانکہ اس دلیل کا یہ مطلب نہیںکہ جسے ہم فجور سمجھتے ہیںیا جسے ہم تقویٰ سمجھتے ہیںاس کا علم ہر انسان کو ہے یا ہر انسان ان کو واقعہ میں برا یا اچھا سمجھتا ہے بلکہ دلیل یہ ہے کہ ہر شخص میںیہ احساس پایا جاتا ہے کہ کچھ چیزیں اچھی ہیں اور کچھ چیزیںبر ی ہیں۔ اس کے بعد اختلاف ہو جاتا ہے کوئی کسی کو اچھا سمجھتا ہے اور کسی کو بُرا۔ کوئی کسی کو قابلِ تعریف قرار دے دیتا ہے اور کسی کو قابلِ مذمت۔ مگر ہمیںاس اختلاف کی تفصیلات سے سروکار نہیںہمارے لئے یہ کافی ہے کہ ادھر تو نیکی بدی کی حس ہر اک میں ہے ادھر انسان نیکی بدی کی تعیین میں شدید اختلاف رکھتا ہے ۔ پس ضروری ہے کہ اس فطرتی مادہ کی صحیح راہنمائی کرنے والی کوئی ایسی ہستی ہو جو انسانی ضرورتوں کی اچھی طرح سمجھتی ہو اور پھر وہ انسان کو بتائے کہ کون سی باتیںواقعہ میں اچھی ہیں اور کون سی باتیں واقعہ میں بری ہیں۔کن باتوں پر تمہیںعمل کرنا چاہیئے اور کن باتوں سے تمہیںاجتناب کرنا چاہیئے ۔ یہ تو ان عام معنوں کے لحاظ سے ا س آیت کا مطلب ہے جو نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا کے کئے گئے تھے لیکن اس کے علاوہ ایک خاص معنے بھی کئے گئے تھے یعنی اس میں ہر زمانہ کے نفس کامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایسے نفس کامل کو اللہ تعالی ہمیشہ الہام کے ذریعہ فجور و تقویٰ کی راہیں بتاتا چلا آیا ہے گویا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَا میں حذف مضاف سمجھا جائے گااور اس کے معنے یہ ہوں گے کہ فجور والی باتیں بتاتا ہے یا تقویٰ والی باتیں بتاتا ہے یعنی اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ وہ نفس کامل پر الہام نازل کرتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ فجور والی باتیںکونسی ہیںاور تقویٰ والی باتیںکون سی ہیں:
قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا ص لا
جس نے اس (نفس )کو پاک کیا ۔ وہ تو (سمجھو کہ ) اپنے مقصود کو پا گیا ۔ ایت نمبر ۹
نمبر ۹ حل لغات ۔ زَکّٰی ۔ زَکٰی سے باب تفعیل ہے اور زَکَی الشَّیْ ء ُ کے معنے ہیں نَمَا ۔ کوئی چیز بڑھ گئی (اقرب) اور جب زَکَّا ہُ اللّٰہُ کہیں تو معنے ہوتے ہیں۔ اَنْمَا ہُ ۔ اللہ نے اس کو بڑھایا اور اونچا کیا(تاج) نیز زَکّٰی کے معنے ہیں طَھَرَہُ ۔ اس کو پاک کیا (اقرب)
تفسیر ۔ فرماتا ہے اس الہام کے بعد جو شخص اس کی پیروی کر کے اپنے نفس کو ٹھیک راہ پر چلاتاہے وہ بامراد ہو جاتا ہے یعنی الہام فطرت جو مجمل الہام ہوتا ہے اس کی پیروی اور اطاعت کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ نبی کاالہام تفصیلی ہوتا ہے لیکن فطرت کا الہام مجمل ہوتا ہے ۔ یہاں تفصیلی الہام کا ذکر نہیں بلکہ مجمل الہام کا ذکر ہے اور اللہ تعالی فرماتاہے کہ فجور اور تقوی کا وہ مجمل علم جو انسان کو ملا تھا اور جس کے مطابق وہ سمجھتا تھا کہ دنیا میںکچھ بری چیزیںہیںاور کچھ اچھی چیزیںہیں ، مجھے بری چیزوں سے بچنا چاہیئے اور اچھی چیزوں کو اختیار کرنا چاہیئے ۔ جو شخص اس مجمل علم کو صحیح طور پر استعمال کرتا ہے اور فطرت کی اس راہنمائی کے ماتحت اپنے نفس کو اونچا کرتا ہے وہ فلاح پا لیتا ہے یعنی اپنے خد اسے واصل ہو کر صاحب الہام ہو جاتا ہے ۔ ان معنوں کے لحا ظ سے قَدْ اَفْلَحَ میں وحی حقیقی کے پانے کا ذکر ہے اور اَلْھَمَھَا میںوحی مجمل کے نازل ہونے کا بیان ہے جو ہر فطرت ِانسانی پر نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالی اس حقیقت کی طرف بنی نوع انسان کو توجہ دلاتا ہے کہ جو شخص اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ خدا تعالی نے میرے اندر اعتدال پید ا کیا ہے غور و فکر سے کام لیتے ہوئے اعتدال کی راہوں پر چلتا ہے اور فجورکی وہ حس جو اللہ تعالی نے اس کی فطرت میںرکھی ہے اس کے کام لے کر وہ بری باتوں سے بچتا ہے او ر تقوی کی حس جو اس کے اندر پیدا کی گئی ہے اس سے کام لے کر وہ اچھی باتوں کو اختیار کرتا ہے اور اپنے نفس کو اس پیہم جدو جہد اور کوشش کے نتیجہ میںاونچا کر دیتا اور اخلاقی زندگی بسر کرتا ہے ایک دن آتا ہے کہ اللہ تعالی کا الہام اس پر نازل ہو جاتا ہے اور خدا تعالی کا قرب اس کو حاصل ہو جاتاہے ۔ زَکّٰی کے معنے اونچاکرنے کے بھی ہوتے ہیں اور زَکّٰی کے معنے پاک کرنے کے بھی ہوتے ہیںاس جگہ نفس کو اونچا کرنے کے معنے چسپاں ہوتے ہیں کیونکہ ایسا شخص فجور اور تقویٰ کی حس سے کام لے کر فطرت کے مقام سے بلند ہو کر اخلاقی زندگی میںداخل ہو جاتاہے اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود صاحب ِ الہام ہو جاتا ہے ۔
دوسرے معنے نفسِ کامل کے لحاظ سے اس آیت کے یہ ہیںکہ جب ہم نفسِ کامل کو تفاصیل ِ فجو ر اور تفاصیل ِ تقوی بتاتے ہیںاور دنیا کو ان تفاصیل کا علم ہو جاتا ہے تو قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وہ انسان جو ان باتوںسے فائدہ اٹھاتا اور نفس کامل کی تعلیم پر چل کر تزکیہ نفس کرتاہے اسے فلاح حاصل ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالی کے مقربین میںشامل ہو جاتاہے گویا نبی کی اطاعت اور اس کے احکام کی پیروی کر کے وہ وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا کا قائمقام ہو جاتا ہے اور اس تفصیلی الہام کا تابع بنتے ہوئے اپنے اپنے درجہ کے لحاظ سے نبی کا قمر بن جاتا ہے ۔ درحقیقت ہر مومن اپنے اپنے درجہ کے مطابق نبی کا قمر ہوتاہے اور اپنے اپنے رنگ میں کامل تعلیم پر چلنے کے نتیجہ میںفلاح حاصل کر لیتا ہے گویا پہلے معنوں کی رو سے قَدْ اَفْلَحَ میں وحی جلی کا ذکر ہے اور اَلْھَمَھَا میں وحی خفی کا ۔ اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے پہلی آیت میںوحی جلی کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں وحی تابع کا ذکر ہے فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَا میں اس وحی جلی کا ذکر ہے جو نبی پر نازل ہوتی ہے اور قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا میں وحی تابع کا ذکر ہے گویا وہ نور جو پہلے باہر سے آیا تھا نبی کی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میںانسان کے اندر بھی پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔
وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا ط
اور جس نے اسے (مٹی میں ) گاڑ دیا (سمجھو کہ ) وہ نامراد ہو گیا ۔ ایت نمبر ۱۰
حل لغات ۔ خَابَ : اَفْلَحَ کے مقابل کا لفظ ہے اور اس کے معنے ہوتے ہیں ۔ ناکام ہوا ۔ نامراد ہوا۔ (اقرب) دَسّٰی : دَسٰی سے مزید ہے اور دَسٰی یَدْسُوْا (دَسْوًا وَ رَسٰی یَدْسُوْا دَسْیًا ) کے معنے ہیں ۔نَقِیْضُ نَمٰی وَ زَکٰی یعنی یہ نَمٰی اور زَکٰی کے مقابل کے الفاظ ہیں اور اس میں ان کے الٹ معنے پائے جاتے ہیںیعنی وہ نہ بڑھا ۔ اور اس میںبرکت نہ ہوئی اور دَسّٰی کے معنے ہیں اَغْوَاہُ وَ اَفْسَوَہُ ۔ اس کو گمراہ کیا اور خراب کیا (اقرب) بعض نے دَسّٰھَا کا اصل دَسَّسَھَا قرار دیا ہے اس لحاظ سے اس کا اصل دَسَّ ہو گا ۔ دَسَّ الشَّیْء’ (دَسًّا) تَحْتَ التُّرَابِ کے معنے ہوتے ہیں اَدْخَلَہُ فِیْہِ وَ اَخْفَاہُ کسی چیز کو زمین میں دبا دیا یا زمین کے نیچے دفن کر دیا اور دَسَّسَ کے معنے بھی یہی ہوتے ہیں ۔ مگر دَسَّسَ دَسَّ سے زیادہ قوی ہوتا ہے اور مبالغہ کے لئے استعمال ہوتا ہے (اقرب) پس جب یہ لفظ کسی کے متعلق استعمال کیا جائے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنی طاقتوں کو ابھارتا اس نے ان کو مٹا دیا ۔ اسی طرح اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ا س نے ان ک مٹی میں ملا دیا ۔
تفسیر۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ جس نے اس وحی کو نہ مانا وہ ناکام ہوا کیونکہ وحی الہی فطرت کی طاقتوں کو ابھار نے کے لئے آتی ہے جس نے اِسے رد کر دیا اُس نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اپنے آپ کو ہلاک کر لیا۔
حقیقت یہ ہے کہ صحیح تعلیم ہمیشہ فطرت کے مطابق ہوتی ہے ۔ جو تعلیم فطرت کے جذبات کو کچلنے والی ہو وہ سچی نہیںہو سکتی کیونکہ وحی اس لئے ناز ل ہوتی ہے کہ نفس کو اونچا کیاجائے اس لئے نازل نہیںہوتی کہ اسے مارا جائے اور اس کی طاقتوں کو کچل کر رکھ دیا جائے ۔ اسی حکمت کے ماتحت قرآن کریم نے رہبانیت سے منع کیا ہے اور اسی حکمت کے ماتحت اس نے طیب چیزوں کو اپنے نفس پر حرام قرار دے دینا جائز نہیں رکھا۔ دوسرے مذاہب فطر ت کی بعض طاقتوں کو کچلتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ نیکی ہے مگر اسلام اسے نیکی قرار نہیں دیتا ۔ اسلام یہ کہتا ہے اللہ تعالی نے تمہارے اندر جو قوتیں پیدا کی ہیں صرف ان کا تسویہ ہونا چاہیئے اور ان کے استعمال میں اعتدال کو ملحوظ رکھنا چاہیئے ۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ فطرت کو مار دو بلکہ وہ کہتا ہے تم فطرت سے اونچا مقام حاصل کرنے کی کوشش کرو کیونکہ فطرت کا علم ایک مجمل علم ہوتا ہے اور مجمل علم سے نجات نہیںہو سکتی محض کسی کا یہ کہہ دینا کہ فلاںشخص لاہور میں رہتا ہے ہمیںکچھ فائدہ نہیںپہنچا سکتا جب تک ہمیںیہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ فلاں محلہ اور فلاں گلی میں رہتا ہے یا فلاںموڑپرا س کا مکان ہے تا کہ ہمیں اس کی تلاش میں کوئی دقت نہ ہو اور آسانی سے ہم اس کے مکان پر پہنچ سکیں،۔ پس قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا O وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا کے یہ معنے ہوئے کہ اگر تم اپنی فطری طاقتوں کو ابھارتے ہو تو الہی مدد کو حاصل کر لیتے ہولیکن اگر تم ان طاقتوں کو دباتے ہو اور اس چیز کو ضائع کر دیتے ہو جو تمہیںہتھیار کے طور پر دی گئی تھی تو تم کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص سفر پر جانے لگے تو ہم اسے ہتھیار کے طور پر سونٹا بھی دے دیتے ہیں اور تلوار بھی دے دیتے ہیں۔ سونٹا ہم اس لئے دیتے ہیںکہ بعض جگہ تلوار کام نہیںآسکتی اور تلوار ہم اس لئے دیتے ہیں کہ بعض جگہ سونٹاکام نہیںآسکتا ۔ اگر راستہ میںکوئی سانپ آجائے تو اس وقت تلوار کام نہیںدے سکتی بلکہ سونٹا کام دے گا لیکن اگر دشمن سے مقابلہ ہو جائے تو اس وقت سونٹا اتنا کام نہیں دے سکتا جتنا کام تلوار دے سکتی ہے یا مثلاً کسی جگہ کثرت سے کانٹے ہوں اور رستہ صاف کرنے کے لئے ضرورت ہو تو وہاں سونٹا توکام دے سکتا ہے مگر تلوار کام نہیںدے سکے گی ۔ گویا سونٹا اور تلواردونوں اس کے لئے ضروری ہوں گے کوئی ہتھیار کسی وقت کام آجائے گا اور کوئی ہتھیار کسی وقت کام آجائے گا۔ اگر وہ ان دونوںمیںسے کسی ایک ہتھیار کو لغو سمجھ کر پھینک دے گا تو یہ یقینی بات ہے کہ جب اسے ضرورت پیش آئے گی تو سخت تکلیف اُٹھائے گا اور اسے اعتراف کرنا پڑے گا کہ میںنے اپنے ہتھیار کو پھینکنے میں سخت غلطی کی ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالی نے جس قدر قوتیں پیدا کی ہیں سب انسان کی ترقی اور اس کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیںاور یہ وہ ہتھیار ہیں جن سے مختلف مقامات پر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اگر ہم ان میںسے کسی ایک ہتھیار کو بھی پھینک دیتے اور اپنی کسی قوت کو لغو قرار دے کر کچل دیتے ہیں تو ہم اپنی کامیابی کی منزل کو اپنے ہاتھ سے دور کرنے والے بن جاتے ہیں۔ مثلاً خدا تعالی نے انسان میں عفو کی بھی قوت پیدا کی ہے اور انتقام کی قوت بھی پیدا کی ہے اور یہ دونوں قوتیں ایسی ہیں جن کا بر محل استعمال دنیا کی ترقی میں بہت ممد ثابت ہوتا ہے ۔ کئی مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں عفو سے کام لینا ضروری ہوتا ہے اور کئی مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں انتقام سے کام لینا ضروری ہوتا ہے۔ نہ ہر جگہ عفو قابل تعریف ہوتا ہے نہ ہر جگہ انتقام قابل تعریف ہوتا ہے بہر حال یہ دونوں قوتیں اپنی اپنی جگہ نہایت ضروری ہیں لیکن اگر ہم عفو کی قوت کو کچل دیتے ہیں یا انتقام کی قوت کو لغوقرار دے کر اس سے کام نہیںلیتے تو ہم اپنی ناکامی کے سامان آپ مہیا کرتے ہیں ۔ کامیابی اسی وقت ہو سکتی ہے جب فطرت کو کچلا نہ جائے بلکہ اللہ تعالی نے جس قدر قویٰ پیدا کئے ہیں ان کا بر محل استعمال کیا جائے ۔ جو شخص اپنی فطرت کو کچل کر یہ خیال کرتا ہے کہ وہ بڑا با اخلاق ہے یا اپنی فطری استعدادوں کو مٹا کر یہ سمجھتا ہے کہ اس نے نیکی کا بہت بڑا مقام حاصل کر لیا ہے وہ انتہا درجہ کی غلطی کا ارتکاب کر تا ہے ۔ نیکی اس بات کا نام نہیں کہ فطرت کو کچل دیا جائے یا اللہ تعالی کی پیدا کردہ طاقتوں کو ضائع کر دیا جائے بلکہ نیکی یہ ہے کہ فطرت کو بیدار کیا جائے اور ان قوتوں سے صحیح رنگ میں کام لیا جائے ۔ اللہ تعالی نے اسی مضمون کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ جو شخص فطرت کو کچل دیتا اور اس کی قوتوں کو ضائع کر دیتا ہے وہ کبھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا ۔ دوسرے معنوں کی رو سے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ جس شخص نے اپنی روح کو فطرتی نور سے ہدایت لے کر ابھارا وہ با مراد ہوا یعنی نور الہام کو پا لیا مگر جس نے ایسا نہ کیا وہ نامراد رہا یعنی نہ خود اسے نور براہ راست مل سکے گا اور نہ دوسرے کے طفیل مل سکے گا کیونکہ فطرت تو ایک آئینہ تھی اور فطرت نے ہی شمس سے ری فلیکٹر کے طور پر نور لینا تھا ۔ جس نے اس فطرت کو زمین میںدبا دیا اسے روشنی کہاں سے آسکتی ہے وہ تو ظلمت میں ہی گرفتار رہے گا اور ظلمت میںہی اس جہان سے گذر جائے گا۔
کَذَّ بَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰھَآ Oص لا
ثمود نے اپنی حد سے بڑھی ہوئی سر کشی کی وجہ سے (زمانے کے نبی کو) جھٹلایا۔ آیت نمبر ۱۱
حل لغات۔ طَغْوٰی : طَغٰی سے ہے اور یہ واوی بھی ہے اور یائی بھی ۔ یعنی طَغٰی یَطْغُوْ طَغْواً بھی استعمال ہوتا ہے اور طَغٰی یَطْغِیْ طَغًا وَ طُغْیَانًا بھی استعمال ہوتا ہے ۔ واوی اور یائی دونوں میںمعنوں کے لحاظ سے اختلاف ہے لیکن ایک معنے طَغٰی کے ایسے ہیں جو واوی اور یائی دونوں میں مشترک ہیںاور وہ معنے ہیںجَاوَ زَالْقَدْرَوَالْحَدَّ۔ فلاں شخص حد سے نکل گیا ۔ لیکن طَغٰی یَطْغٰی جو یائی ہے اس کے بعض اور معنے بھی ہوتے ہیں چنانچہ جب کہیں طَغَی الْکَافِرُتو اس کے معنے ہوتے ہیں عَلَا فِی الْکُفْرِ کہ کافر شخص کفر میںحد سے بڑھ گیا ۔ اور طَغٰی فُلَان’‘ کے معنے ہوتے ہیں اَشْرَفَ فِی الْمَعَاصِیْ وَالظُّلْمِ۔ وہ ظلم اور معاصی میںحد سے بڑھ گیا ۔ اور طَغَی الْمَآئُ کے معنے ہوتے ہیںاِرْتَفَعَ پانی بلند ہو گیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ طَغْوٰی کے معنے گناہوں میں حد سے بڑھ جانے کے ہیںلیکن دراصل یہ معنے یائی کے ہیں واوی کے نہیں اور یہاں چونکہ طَغْوٰی ہے جو واوی ہے اس لئے اس کے معنے تَجَاوُز’‘ عَنِ الْقَدْرِ وَالْحَدِّ کے ہی ہیں ۔ یعنی اپنے اندازہ اور حد سے آگے نکل گیا۔
تفسیر ۔ اس آیت میںاللہ تعالی نے کفار کے سامنے مثال پیش کی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ دیکھو ثمود کے پاس نور آیا پھر جیسا کہ تم خود مانتے ہو کیونکہ وہ عرب کے نبی تھے تمہارے آباء نے اس کو رد کر دیا اور بوجہ اندازہ و حدود سے آگے نکل جانے کے ردّ کیا یعنی وہ سَوّٰھَا کے مصداق نہ رہے اور اعتدال کو ترک کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معتدل تعلیم اُن کی برداشت سے باہرثابت ہوئی ۔ یہاں اللہ تعالی نے دَسَّ کا طریق بتایا ہے کہ وہ دو ہی طرح ہو سکتا ہے یا تو جتنی قوت انسان کے اندر موجود ہوتی ہے وہ اس سے آگے نکل جاتا ہے اور یا پھر جتنی قوت موجود ہوتی ہے اس سے پیچھے رہ جاتا ہے ۔ حد سے نکل جانا دونوں طرح ہی ہوتا ہے اس طرح بھی کہ انسان اگلی طرف کو چلا جائے اور اس طرح بھی کہ پچھلی طرف کو آجائے ۔ا یسے کاموں سے فطرت کانور مارا جاتا ہے اور اس کی قوتیں کچلی جاتی ہیں ۔ فرماتا ہے ثمود کی بھی یہی کیفیت تھی وہ لوگ اپنے کاموں میں حد سے آگے نکل گئے تھے خدا تعالی نے ایک وسطی تعلیم ان کے لئے نازل کی تھی مگر وہ اس درمیانی خط پر کھڑے ہونے کی بجائے کبھی ادھر چلے جاتے اور کبھی ادھر چلے جاتے ۔ درمیانی راستہ جو پل صراط ہوتا ہے اور جس پر ہر مومن کو اس دنیا میں چلنا پڑتا ہے اس راستہ پر وہ نہیں چلتے تھے بلکہ یا دائیںطرف کو نکل جاتے تھے یا بائیںطرف کو نکل جاتے ، اعتدال کو انہوں نے ترک کر دیا تھا۔
اِذِانْبَعَثَ اَشْقٰھَا O فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ نَاقَۃَ اللّٰہِ وَ سُقْیٰھَا O
جبکہ ان (کی قوم) میں سے سب سے بڑابد بخت (اس کی مخالفت کے لئے) کھڑا ہوا تب ان (یعنی ثمود کے آدمیوں) کو اللہ کے رسول نے کہا کہ اللہ ( کے دین ) کی (خدمت کے لئے وقف) اونٹنی کو (آزاد پھرنے سے ) اور اسے (گھاٹوں پر ) پانی پلانے سے مت روکو۔ آیت نمبر ۱۲۔ ۱۳
ایت ۱۲ تفسیر ۔ اس آیت میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے جس کی طرف سورۃ الغاشیہ کی آیت عَامِلَۃ’‘ نَاصِبَۃ’‘ میںاشارہ کیا گیا تھاکہ کفار ایک منّظم مخالفت شروع کرنے والے ہیںاب اس سورۃ میں اسی قسم کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کر کے بتایا ہے کہ جس طرح ثمود نے باقاعدہ لیڈر مقررکر کے مخالفت کی تھی اسی طرح کفار کرنے والے ہیںچنانچہ اس اشقی الناس نے جس طرح حضرت ثمود ؑ کو تبلیغ سے روکا تم بھی تھوڑے دنوں تک ایسے ہی منصوبے کرو گے اور اسلام کو اپنی مجموعی قوت سے مٹانے کی کوشش کرو گے مگر یاد رکھو جس طرح انہیںناکامی ہوئی اور وہ خدا تعالی کے عذاب کا نشانہ بن گئے اسی طرح تم بھی اس مقابلہ میںکبھی کامیاب نہیںہو سکتے۔
ایت ۱۳ تفسیر ۔یہ ایک نہایت لطیف مثال ہے مگر افسوس ہے کہ لوگوں نے اس کی حکمت کونہیں سمجھا اور انہوں نے خیال کر لیا ہے کہ وہ ناقہ اپنے اندر کوئی خاص عظمت اور شان رکھتی تھی جس کی کونچیں کاٹنے پر ثمود کی قوم اللہ تعالی کے عذاب کا نشانہ بن گئی ۔ اسی لئے بعض مفسرین نے اس ناقہ کے متعلق یہ عجیب بات لکھ دی ہے کہ وہ پہاڑ سے پیدا ہوئی تھی عام اونٹنیوں کی طرح نہیں تھی حالانکہ نبی کی موجودگی میں یہ ہو ہی کس طرح سکتا تھا کہ نبی کو دکھ دینے کی وجہ سے تو قوم پر عذاب نازل نہ ہو اور ناقہ کی کونچیں کاٹنے پر عذاب نازل ہو جائے!
اصل بات یہ ہے کہ حضرت صالح ؑ عرب میں مبعوث ہوئے تھے اور عرب میں اونٹوں پر سواری کی جاتی تھی ۔ حضرت صالح ؑ بھی اپنی اونٹنی پر سوار ہوتے اور ادھر ادھر تبلیغ کے لئے نکل جاتے ۔ لوگ کھلے طور پر حضرت صالح ؑ کا مقابلہ کرنے سے ڈرتے تھے کیونکہ ان کے رشتہ دار موجود تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے صالح ؑ کو کوئی تکلیف پہنچائی تو اس کے رشتہ دار ہم سے بدلہ لینے کے لئے کھڑے ہو جائیںگے مگر چونکہ وہ تبلیغ بھی پسند نہیں کرتے تھے اس لئے وہ بعض اور طریق آپ کو دکھ پہنچانے کے لئے اختیار کر لیتے تھے ۔ انہی میں سے ایک طریق یہ تھا کہ جب حضر ت صالح ؑ تبلیغ کے لئے ارد گر د کے علاقوں میں نکل جاتے تو کسی جگہ کے لوگ کہتے کہ ہم ان کی اونٹنی کو پانی نہیںپلائیں گے ، کسی جگہ کے لوگ کہتے کہ ہم کھانے کے لئے کچھ نہیںدیں گے ۔ ان کی غرض یہ تھی کہ جب انہیں اونٹنی کے لئے پانی اور چارہ وغیرہ نہ ملا تو یہ خود بخود اس قسم کے سفروں سے رک جائیںگے اور تبلیغ میں روک پیدا ہو جائے گی ۔ حضرت صالح ؑ نے ان کو سمجھایا کہ تم اس ناقہ کو آزاد پھرنے دو اور اس کے پانی پینے میں روک نہ بنو کیونکہ اس طرح میری تبلیغ میںرو ک واقعہ ہو جائیگی ۔ یہ مطلب نہیں تھا کہ تم مجھے تو اپنے پاس بے شک نہ آنے دو مگر یہ اونٹنی آئے تو اسے پانی پلا دینا ۔ اُنہیں اونٹنی سے کوئی دشمنی نہیںتھی انہیں اگر دشمنی تھی تو حضرت صالح ؑ سے ۔ اور وہ کہتے تھے کہ وہ اونٹنی پر سوار ہو کر ارد گرد کے علاقوں میں ایک شور پید اکر دیتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی طرف توجہ دلاتے ہیںایسا نہیں ہونا چاہیئے ۔ یہ چیز تھی جو ان کی طبائع پر سخت گراں گزرتی تھی او ر آخر اس کا علاج انہوں نے یہ سوچا کہ جب حضرت صالح ؑ باہر نکلتے تو ان کی اونٹنی کو وہ کہیں پانی نہ پینے دیتے اس پر حضرت صالح ؑ نے اظہارِ ناراضگی کرتے ہوئے کہا نَاقَۃَ اللّٰہِ وَ سُقْیٰھَا کہ یہ طریق درست نہیں کہ تم میری اس ناقہ کو آزاد پھرنے دو اور اس کے پانی میں روک نہ بنو یعنی تم مختلف ذرائع سے میری تبلیغ میں روک بن رہے ہو اپنے اس طریق کو چھوڑ و اور مجھے آزاد پھرنے دو تا کہ میں خدا تعالی کا پیغام سب لوگوں تک پہنچاتا رہوں ۔
میں نے بعض دفعہ گھوڑے کی سواری کرتے ہوئے خود تجربہ کیا ہے کہ جب کسی احمدی گائوں کے قریب سے گذروں تو وہاں کے لوگ بعض دفعہ میرے گھوڑے کی باگ پکڑ لیتے ہیں اُن کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ میں تو گھوڑے سے اتر پڑوں اور گھوڑا ان کے حوالے کر دوں تا کہ وہ اسے اپنے گائوں میں لے جائیںبلکہ ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میںخود تھوڑی دیر کے لئے ان کے گائو ں میںچلوں ۔ اسی طرح ثمود کی یہ غرض نہیںتھی کہ وہ ناقہ کو روکیںبلکہ ان کی غرض یہ تھی کہ وہ حضرت صالح ؑ کو تبلیغ سے روکیںاور جب حضرت صالح ؑ نے ان سے کہا کہ میری اس ناقہ کو چھوڑ دو تو ان کا یہ مطلب نہیں تھا کہ میرے ساتھ تو جیسا چاہو سلوک کرو مگر اس ناقہ کو کچھ نہ کہو بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ تم میری تبلیغ میںروک مت بنو اگر تم اسی طرح میری اونٹنی کو پانی پینے سے روکتے رہے تو میری تبلیغ رک جائے گی اور علاقوں کے علاقے ہدایت پانے سے محروم رہ جائیںگے ۔
فَکَذَّ بُوْہُ فَعَُرُوْھَا ص لا
اس پر انہوں نے اس (رسول) کو جھٹلایا ۔ پھر اس (اونٹنی ) کی کونچیںکاٹ دیں۔ ٰٓایت نمبر ۱۴
۱۴ حل لغات ۔ عَقَرُوْا : عَقَرَ سے جمع کا صیغہ ہے اور عَقَرَ الْاِبِلَ کے معنے ہوتے ہیں قَطَعَ قَوَا ئِ مَہَا بِالسَّیْفِ یعنی اس نے اونٹوںکی کونچیں کاٹ دیں(اقرب) پس عَقَرُوْھَا کے معنے ہونگے اس کی کونچیں کاٹ دیں۔
تفسیر ۔ حضرت صالح ؑ کے سمجھانے کے باوجود ثمود نے ان کی بات کی طرف کوئی توجہ نہ کی ۔ انہوں نے اسے جھٹلایا اور ناقہ کی کونچیں کاٹ دیں یعنی اپنے ارادوں کا انہوں نے علی الاعلان اظہار کر دیا اور کہہ دیا کہ تم خواہ کچھ کہو ہم تمہیںتبلیغ نہیں کرنے دیں گے ۔
فَدَمْدَمَ عَلَیْہَمْ رَبُّھُمْ بِذَنْبِھِمْ فَسَوّٰ ھَا O وَ لَا یَخَافُ عُقْبٰھَا O ع
جس پر ان کے رب نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاکت نازل کی اور اس (قوم) کو (مار کر زمین کے) برابر کر دیا ۔ اور وہ (اسی طرح ) ان (مکہ والوں ) کے انجام کی بھی پروانہیں کرے گا۔
۱۵ حل لغات دَمْدَمَ الشَّیْ ئَ کے معنے ہوتے ہیں اَلْزَقَہُ بِالْاَرْضِ اسے زمین کے ساتھ پیوست کر دیا ۔ دَمْدَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ کے معنے ہوتے ہیں اَھْلَکَھُمْ ۔ خدا تعالی نے ان کو ہلا ک کر دیا ۔ اور دَمْدَمَ فُلَان ٌ عَلیٰ فُلَانٍ کے معنے ہوتے ہیں کَلَّمَہُ مُغْضِبًا ۔ اُس سے غصہ کے ساتھ کلام کیا (اقرب)
تفسیر ۔ فرماتا ہے چونکہ انہوں نے ہمارے رسول کی بات نہ مانی اس لئے ہم نے ان پر عذاب نازل کیا اور عذاب بھی ایسا سخت کہ فَسَوّٰھَا خد ا نے انہیںزمین کے ساتھ ملا دیا اور ان کے چھوٹوں اور بڑوں کو اس طرح تباہ کیا کہ ان کا نشان تک دنیا میں نہ رہا۔
قرآن کریم اپنے کلام میں کیسی بلاغت کی شان رکھتا ہے کہ پہلے فرمایا تھا وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا ہم نے انسان کو معتدل القویٰ بنایا ہے اور خود انسانی نفس اس امر پر شاہد ہے کہ اسے کوئی نور آسمان سے ملنا چاہیئے اب فرماتا ہے چونکہ انہوں نے اس تسویہ کے قدر نہ کی اور ہمارے احکام کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اس لئے ہم نے ان کا دوسری طرح تسویہ کر دیا کہ ان کا نشان تک دنیا سے مٹا دیا ۔ یہ بلاغت کا کمال ہے کہ جس چیز کا انہوں نے انکار کیا تھا عذاب کے معنوں میںبھی وہی لفظ اس جگہ استعمال کر دیا اور فرمایا کہ چونکہ انہوں نے تسویہ سے انکار کیا تھا ہم نے ان کا اس رنگ میںتسویہ کر دیا کہ ان کا ملک تباہ کر دیا ، انکی عمارتیں گر گئیں، قوم ہلاگ ہو گئی اور اتنا بڑا زلزلہ آیا کہ ان کا نشان تک باقی نہ رہا ۔
۱۶ حل لغات ۔ عُقْبٰی کے معنے ہوتے ہیں جَزَآئُ الْاَمْرِ۔ کسی کام کی جزاء ۔اور عُقْبٰی کے معنے اٰخِرْ کُلِّ شَیْیئٍ کے بھی ہوتے ہیں یعنی چیز کا آخری حصہ ۔
تفسیر ۔ عُقْبٰھَا میں ھَا کی ضمیر دَمْدَمَۃ کی طرف جاتی ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب دَمْدَمَۃ نازل کرنے کا وقت آتا ہے اور کوئی قوم کلی ہلاکت کی مستحق ہو جاتی ہے تو پھر اللہ تعالی یہ نہیں دیکھتا کہ ان کے متعلقین کا کیا حال ہو گا یا یہ کہ اس سزا کا نتیجہ کیسا خطرناک نکلے گا۔ بعض دفعہ ساری قوم ہلاک نہیں ہوتی بلکہ اس کا کچھ حصہ بچ رہتا ہے جو دنیا میں انتہا ء طور پر ذلیل ہو جاتا ہے مگر فرماتا ہے جب ہماری طر ف سے کسی قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو پھر ہم اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ اس قوم کے بقیہ افراد کیا کیا تکالیف اٹھائیں گے ۔ جب قوم کی اکثریت خدا تعالی کے غضب کی مستحق ہو جاتی ہے اور خاموش رہنے والے گو مقابلہ نہیںکرتے مگر نبی کی تائید بھی نہیںکرتے تو وہ بھی اکثریت کے ساتھ ہی تباہ و برباد کر دیئے جاتے ہیں ۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالی ظلم کرتاہے یا اندھا دھند عذاب نازل کر دیتا ہے بلکہ جس قوم کے استیصال کا وہ فیصلہ کرتا ہے انصاف کے ماتحت کرتا ہے اور جب کہ وہ خود اپنے انجام کو نہیں دیکھتی تو اللہ تعالی اس کے انجام کو کیوں دیکھے۔ اس آیت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ کفار مکہ بھی ثمود کی طرح نبی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان کو یاد رکھنا چاہئیے کہ جس طرح ثمود کو تباہ کرتے وقت اللہ تعالی نے ایک عام عذاب نازل کیا تھا اسی طرح وہ اہل مکہ پر بھی ایک عذاب نازل کرے گا۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ ثمود کی قوم بہ حیثیت قوم تباہ ہو گئی تھی مگر مکہ والے رسول کریم ﷺ کے غلبہ کے بعد بھی باقی رہے ۔ لیکن اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں ۔ بعض دفعہ تباہی جسمانی نہیںروحانی ہوتی ہے ۔ ثمود جسمانی طور پر کلی ہلاکت میں مبتلا ہوئے اور مکہ والے مذہبی طور پر ۔ چنانچہ ان کے مذہب اور طور طریق کا نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔
سُوْرَۃُالَّیْل ِ مَکِیَّۃ ٌ
سورہ لیل ۔ یہ سورۃ مکّی ہے نمبر ۱
وَھِیَ اِحْدیٰ وَعِشْرُوْنَ اٰیَۃً دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِیْہَا رُکُوْعٌ وَّاحِدٌ
اور اس کی بسم اللہ کے سوا اکیس (۲۱) آیات ہیں اور ایک رکوع ہے ۔
نمبر ۱ یہ سورۃ بقول مفسرین جمہور کے نزدیک مکّی ہے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ جمہور کا لفظ جو عام طور استعمال کیا جاتا ہے اس کے کبھی کبھی تو یہ معنے ہوتے ہیں کہ اکثر کی رائے یہ ہے لیکن کبھی کبھی یہ لفظ صرف حسن کلام کے طور پر استعمال کر لیتے ہیں ۔ درحقیت سب تو الگ رہے اکثر بھی اس مسئلہ سے متفق نہیں ہوتے لیکن مصنف لکھ دیتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک وہ اس طرح ہے اور اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اور ہمارے ہم خیال یہ کہتے ہیں ۔ جمہور کے معنے اصطلاحی طورپر عظیم الشان کثرت کے ہیں اور جب یہ لفظ واقعہ میں عظیم الشان کثرت کے معنے رکھتا ہو اور صحیح طور پر انہی معنوں میں استعمال ہو تو بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ جب یہ معلوم ہوجائے کہ صحابہ کی بڑی اکثریت یا تابعین یا تبع تابعین کی غالب اکثریت فلاں معنوں پر قائم تھی تو ی امر واقعہ میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے لیکن جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں کبھی کبھی جمہور کے معنے ضرورتاً یہ بھی لے لئے جاتے ہیں کہ مصنف اور اس کے ہم خیالو ں کا کیا خیال ہے ۔ بعض دفعہ ایک معنوں کی رو چل جاتی ہے ۔ ایک شخص کسی آیت کے ایک معنے لکھتا ہے پھر اس سے دوسرا نقل کرتا ہے اس کے بعد اس سے تیسرا نقل کرتا ہے پھر چوتھا اور پھر پانچواں نقل کرتاہے ۔ اس صورت میںجمہور کے معنے صرف اتنے ہی ہوتے ہیں کہ پانچ دس کتابوں میںایک ہی معنے لکھے نظر آتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ جمہور کا لفظ لکھ کر صحابہ ؓ کی ایک لسٹ دے دی جاتی ہے کہ یہ یہ صحابی ان معنوں کے خلاف ہیں۔ گویا جمہور سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک شخص کے معنے لے کر چونکہ لوگوں نے ان کے پے در پے نقل کرنا شروع کر دیا اس لئے ہم کہہ رہے ہیںکہ جمہور کے نزدیک اس آیت کے یہی معنے ہیں یا دوسرے الفاظ میں جمہور سے ان کی مراد نقالوں کی اکثریت ہوتی ہے نہ ان لوگوںکی اکثریت جو صحابہ ؓ ہیں یا تابعین ہیں یا تبع تابعین ہیں۔ لیکن اس سورۃ کے متعلق جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ جمہور کے نزدیک مکی ہے یہ اصلی معنوں میں ہے کیونکہ کسی صحابی کا قول مقابل میں نہیںآتا۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اسے مدنی بھی کہا ہے مگر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت عبدا للہ بن زبیر ؓ دونوں اس کو مکی قرار دیتے ہیں اور چونکہ یہ دو جلیل القدر صحابہؓاس سورۃ کے مکی ہونے کی تائید میںہیں اور اس کے خلاف کسی صحابی کا قول ثابت نہیںاس لئے ہم جمہور کے معنے یہاں غالب اکثریت کے ہی قرار دینگے۔
بعض مفسرین کہتے ہیں یہ سورۃ مکی بھی ہے او ر مدنی بھی ۔ درحقیقت یہ ایسے ہی لوگوں کا خیال ہوتا ہے جو مضامین سے سورۃ کے مکی یا مدنی ہونے کا فیصلہ کیا کرتے ہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ مضامین کی بناء پر بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے بلکہ میں نے خود کئی مقاما ت پر مضامین سے استنباط کر کے بتایا ہے کہ ان معنوں کی بناء پر فلاں فلاں روایات کو ترجیح حاصل ہے مگر یہ درست نہیں ہوتا کہ کوئی شخص محض قیاس سے فیصلہ کر دے ۔ قیاس کسی واقعہ یا روایت کی تائید میں تو مفید ہو سکتا ہے مگر تاریخ کے مقابلہ میں صرف قیاس پر اعتماد درست نہیں ہوتا۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک شخص پوری کنہ تک نہ پہنچ سکے اور وہ عقلی طور پر کوئی قیاس کر لے ۔ مثلاً مضمون سے قیاس کر لیا اور ایک نتیجہ نکال لیا مگر یہ کہنا کہ ضروری ہے فلاں قسم کا مضمون مدنی سورتوں میںہی پایا جائے یا مکی سورتوں میں ہی پایا جائے یہ وہی غلطی ہے جس میں یوروپین مصنفین مبتلا ہوئے ہیں۔ مثلاً تاریخ کہتی ہے کہ فلاں سورۃ مکی ہے مگر وہ کہہ دیتے ہیں کہ نہیںیہ سورۃ تو مدنی ہے کیونکہ اس میںفلاں فلاں ذکر پایا جاتا ہے یا تاریخ کسی سورۃ کو مدنی کہتی ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ سورۃتو مکی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں فلاں فلاں مضمون آتا ہے حالانکہ یہ صرف ان کا قیاس ہوتاہے اور قیاس تاریخ کے مقابل پر نہیںلایا جا سکتا ۔ ہاں اگرتاریخ کسی سورۃ کو مکی کہتی ہو اور اس کی تائید میں ہم کوئی قیاس لے آئیں تو یہ درست ہو سکتا ہے یا تاریخ کسی سورۃ کو مدنی کہتی ہو اور ہم اس کی تائید میں کسی قیاس سے بھی کام لے لیںتو یہ جائز ہو گا۔ بہر حال مضمون سے قیاس کرنا دلیل مرجح تو بن سکتا ہے بالذات دلیل نہیںقرار پا سکتا۔ چنانچہ اس سورۃ کے متعلق برخلاف ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے مضمون کی وجہ سے بغیر کسی تاریخی شاہد کے اسے مدنی قرار دیا ہے میں یہ استنباط کرتا ہوں کہ یہ سورۃ مکی ہے اور وہ اس طرح کہ اس سورۃ سے پہلی دو سورتیں اور اس کے بعد کی دو سورتیںمکی ہیںاور ان دونوں سورتوںسے مضمون کے لحاظ سے یہ سورۃ بہت قریبی مشارکت رکھتی ہے اور چونکہ تاریخی شہادت بھی ا س امر کی ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے ۔ اس لئے میری یہ دلیل دلیل کہلانے کی مستحق ہے کیونکہ تاریخی شہادت کی تائید میں ہے ۔
میںپہلے بتا چکا ہوں کہ پہلی چند سورتوں میںمسلسل ایک خاص رنگ میںصدقہ و خیرات اور غریبوں کی خبر گیری کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک ذکر تو ایسا ہوتا ہے جو اپنے اندر کوئی خصوصیت نہیںرکھتا صرف عمومی طور پر ایک بات کہہ دی جاتی ہے مگر یہ وہ سورتیںہیں جن کے تمام مضامین اس رنگ میںچلتے ہیں کہ صدقہ دینے والے یا نہ دینے والے ، غربا ء کی ضروریات پر خرچ کرنیوالے یا نہ خرچ کرنے والے قومی لحاظ سے اپنی اپنی حالت کے مطابق ترقی پا جاتے ہیں یا تباہ ہو جاتے ہیں۔ یہی مضمون اس سورۃ میں بھی پایا جاتا ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اِنِّیْ لَاَقُوْلُ اِنَّ ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ نَزَلَتْ فِی السَّمَاحَۃِ وَالْبُخْلِ (فتح البیان تمہید تفسیر سورۃ الیل) یعنی میںیقینا کہہ سکتاہوں کہ یہ سورۃ سخاوت اور بخل کے مضمون کے بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے ۔ پس جب ایک روایت موجود ہے جو تاریخی لحاظ سے اس سورۃ کو مکی قرار دیتی ہے تو دلیل مرجح کے طورپر اس سورۃ کی اندرونی شہادت بھی ان لوگوں کے رد میں پیش کی جاسکتی ہے جو اس کو مدنی کہتے ہیں اور ہم یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ نہ صرف روایات اس کو مکی قرار دیتی ہیںبلکہ اس سورۃ کا مضمون بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ روایت کے خلا ف ہم کسی قیاس کو پیش کر دیں سوائے اس کے کہ وہ قیاس بعض دوسری روایتوں پر مبنی ہو مثلاً بعض دفعہ قرآن کریم میںایک مضمون آتا ہے جسے ہم لوگوں کے سامنے بیان کر تے ہیںاب اگر اس مضمون کے متعلق روایات میںاختلاف پایا جاتا ہو تو لازماً ان روایات کو ترجیح حاصل ہو گی جن کی تائید قرآنی مضمون سے بھی ہوتی ہو ۔ ورنہ واقعات کے بارہ میںمحض قیاس آرائی ثابت شدہ تاریخی روایات کے مقابلہ میںکوئی حیثیت نہیںرکھتی۔
سر میور کا خیال ہے کہ یہ سورۃ بالکل ابتدائی سورتوں میںسے ہے ۔پادری ویری لکھتے ہیں کہ یہ سورۃ ہے تو ابتدائی مگر تبلیغ عامہ کے زمانہ کی ہے یعنی تیسرے چوتھے یا پانچویںسال کی ہے کیونکہ اس میںمنکروں کے لئے عذاب کی خبر ہے پادری وھیری کا یہ خیال میرے نزدیک درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس جگہ انذار عام قسم کا نہیں بلکہ اس میںخاص او ر قریب میںآنے والے واقعات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے ۔
جابر بن سمرہؓ سے بیہقی نے روایت کی ہے کہ رسول کریم ﷺ ظہر اور عصر میں وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی اور اسی قسم کی سورتیںپڑھا کرتے تھے ۔
ترتیب ۔ اس سورۃ کا مضمون بھی وہی ہے جو پہلی سورتوں میں بیان ہوتا آرہا ہے یعنی اس میں بھی ترقی اسلام کا ذکر ہے پہلی سورتوں اور اس سورۃ کے مضمون میں فرق صرف یہ ہے کہ اس سے پہلی سورۃ میںیہ نقطہء نگاہ بیان کیا گیاتھا کہ ایک نظام کامل کے لانیوالے کے بغیر کعبہ کی تعمیر کی غرض پوری نہیںہوتی اور ایسی ہی وجود کے آنے سے قوم کو ترقی حاصل نہیںہو سکتی ۔ اس سورۃ میں بھی وہی مضمون ہے مگر اس میںزور معلّم کی زندگی پر اس قدر نہیں دیا گیا جس قدر کہ متعلّمین اور ان کے مخالفوں کی زندگیوں کے فرق پر دیا گیاہے ۔ پہلی سورۃ میںیہ مضمون تھا کہ اچھے معلم کو اگر اچھا متعلم مل جائے تو وہ دنیا کی کایا پلٹ دیتا ہے اور یہ کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو جو شاگرد ملے ہیںوہ ایسے اعلیٰ درجہ کے ہیںکہ ان کی زندگیوں کو دیکھ کر انسان کے دل میںیہ مایوسی پیدا ہی نہیںہو سکتی کہ عرب کی حالت کیوں کر پلٹا کھا ئے گی ۔ اللہ تعالی کفار مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ ﷺ کو مل رہے ہیںان کی زندگیاںتمہاری زندگیوں سے بالکل مختلف ہیں ۔ دنیا میں اچھا استاد بڑا کام کر جاتا ہے او ر لائق شاگرد بھی بڑا کام کر جاتا ہے لیکن جہاں لائق استاد اور لائق شاگرد مل جائیںتو وہاں نُوْرٌ عَلیٰ نُوْرٍ کا معاملہ ہو جاتا ہے ۔ اگر اچھے استاد کو برے شاگرد ملیںتو اس کاکام اس قدر نہیںچمکتا اور نہ نالائق استاد کے اچھے شاگرد زیادہ ترقی کر سکتے ہیں۔ مگر یہاںتو اچھے استاد کو اچھے شاگرد بھی مل گئے ہیں پس یہ دینِ محمدی ؐ کے غلبہ کی ایک بیّن علامت ہے (مزید تفصیل کے لئے دیکھو وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَ الْاُنْثٰی ص ۴۷)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ O
(مَیں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرمکرنے والا بار بار رحم کرنیوالا ہے (شروع کرتا ہوں)
وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی O لا
(مجھے ) قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانک لے ایت نمبر ۲
تفسیر ۔ اس سے پہلی سورۃ میںفرمایا تھا وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی یعنی رات کو ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ وہ سورج کو ڈھانپ لیتی ہے مگر ا س سورۃ میں یَغْشٰی کا کوئی مفعول بیان نہیںہوا جس سے پتہ لگے کہ غَشْیٌ کا عمل کس چیز پر ہوا ہے بلکہ اس کو بغیر کسی قید کے بیان کیا گیا ہے پس معلوم ہوا کہ یَغْشٰی کے معنے اس سورۃ میں زیادہ وسیع لئے گئے ہیں ۔ پہلی سورۃ میں تاریکی کا صرف وہ پہلو مراد تھا جو سورج کے ڈھانپنے سے ظاہر ہوتا ہے تاریکی کے دوسرے نتائج کی طرف اشارہ نہ کیا گیا تھا مگر اس جگہ اس کے علاوہ اور معانی بھی لئے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ الفاظ کے لحا ظ سے اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ رات کی تاریکی کی وجہ سے سورج ہی نہیں پوشیدہ ہوا بلکہ دوسری اشیا ء بھی اوجھل ہو گئی ہیں۔
قرآن کریم میںایک جگہ یہ مضمون آتا ہے کہ رات دن کو ڈھانپتی ہے یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ (الاعراف ۷: ۱۴)اسی طرح یہ بھی آتا ہے کہ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ (الفلق) یعنی ہم پناہ مانگتے ہیں تاریک رات سے جب وہ ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے اور یہ بھی آتا ہے کہ رات سورج کو ڈھانپ لیتی ہے جیسا کہ اس سے پہلی سورۃ میں ہی فرمایا تھا وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا چونکہ ان تینوں معنوں کی آیت زیر تفسیر متحمل ہو سکتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم غور کریں کہ یہ تینوں معنے ہی اس جگہ پائے جاتے ہیںیا کسی دوسری دلیل کی وجہ سے ان میںسے صرف ایک یا دو معنے مراد ہیں ان کے سوا معنے مراد نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سورۃ میں ایک ایسا قرینہ پایا جاتا ہے جو اس کے معنوں کو محدود کر دیتا ہے اور جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ صرف یہی معنے مراد ہیں کہ جب رات ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے ۔ وہ قرینہ یہ ہے کہ یہاں وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی کے بعد وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی بیان ہوا ہے اگر وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰیکی آیت وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰیسے پہلے ہوتی تو اس آیت کے معنے کرتے ہوئے دن کو ڈھانکنے یا سورج کو ڈھانکنے کا مفہوم زیادہ قرینِ قیاس ہوتا مگر چونکہ یہاں وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی کی آیت کے بعد وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی کی آیت بیان ہوئی ہے اس لئے یہ قرینہ اس بات کی طرف ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ یہاں دن یا سورج کی بجائے دوسری چیزوں کو ڈھانکنے کا مفہوم غالب طورپر پایا جاتا ہے پس بجائے اس کے کہ ہم تینوں معنے یہاں مراد لیںاس قرینہ کی وجہ سے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اس آیت کے صرف یہی معنے ہوں گے کہ ہم رات کو شہادت کے طور پر پیش کر تے ہیںجبکہ وہ ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے یعنی انسان ۔ جانور اور دوسری چیزیںسب اندھیرے تلے آجاتی ہیں۔
وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰیO لا
اور دن کی جب وہ خوب روشن ہو جائے آیت نمبر ۳
نمبر ۳ تفسیر ۔ اس آیت اور سورۃ الشمس کی آیت وَالنَّھَارِ اِذَا َجَلّٰہَا میںایک فرق ہے وہاں نَھَار کے بعد اِذَا جَلّٰہَا کے الفاظ آتے ہیںمگر یہاں فرماتا ہے وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی وہاں یہ ذکر تھا کہ زمین سورج کے سامنے آکراس کو ظاہر کر دیتی ہے او ر یہاں یہ ذکر ہے کہ سورج کی روشنی سے مستفیض ہو کر دن روشن ہو گیا ۔ وہاں تمام اشارے اس بات کیطرف تھے کہ استاد اپنے فن میںکامل ہے وہ دنیا کو اپنے فیوض سے مستفیض کر دے گا گویا وہاں استاد کے وجود پر زور دیا گیا ہے مگر یہاں شاگردوں کی قابلیت پر زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ خواہ یہ کہہ دو کہ استاد نے شاگرد کو پڑھایا یا یہ کہہ دو کہ شاگرد نے استاد سے پڑھا ۔ اس سے کلام میںکوئی خاص فرق نہیںپڑ سکتا سوائے اس کے کہ جب ہم کہتے ہیں استاد نے پڑھایا تو اس میںزیادہ زور اس بات پر ہوتا ہے کہ استاد نے محنت کی اور اس نے توجہ سے اپنے فرض کو ادا کیا ۔ اور جب ہم کہتے ہیںشاگرد نے استاد سے پڑھا تو اس میںزیادہ زور اس بات پر ہوتا ہے کہ شاگرد نے بھی محنت سے کام لیا ۔ اسی طرح وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی میں زیادہ زور اس بات پر ہے کہ دن روشن ہو گیا یعنی جو زمین کی نسبت رکھنے والا یا شاگردکی نسبت رکھنے والا وجود ہے اس کی قابلیتوں پر زور دیا گیا ہے مگروَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا میں سورج یعنی استاد کی قابلیتوں پر زور دیا گیا ہے ۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ اس سورۃ میں گو مثال رات اور دن کی دی گئی ہے جیسے پہلی سورۃ میں رات او ر دن کی مثال دی گئی تھی مگر مفہوم الگ الگ ہے ۔ پہلی سورۃ میں دن کی روشنی کا پہلے ذکر کیا تھا اور اس کے مقابل پر شمس کا بھی پہلے ذکر تھا ۔ چنانچہ پہلے نمبر پر وَالشَّمْسِ وَضُحٰہَا کہا گیا تھا اور اس کے مقابل میں وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰہَا کا ذکر تھا ۔ دوسرے نمبر پر قمر کا ذکر تھا جیسا کہ فرمایا وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا ۔ اور اس کے مقابل پر وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا کا ذکر تھا ۔ گویا شمس کے مقابلہ میں نہار کو رکھا گیا ہے اور قمر کے مقابلہ میں لیل کو ۔ پھر جس طرح شمس کو پہلے بیان کیا تھا اور قمر کو بعد میں، اسی طرح اللہ تعالی نے نہار کو پہلے رکھا تھا اور لیل کو بعد میں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں شمس ِ نبوت اور قمر رسالت کا ذکر تھا ۔ افاضہ اور استفاضہ کا مضمون بیان کیا گیا تھا اور اس امر کا ذکر کیا گیا تھا کہ فلاں نے نور کا افاضہ کیا اور فلاں نے اس سے فیض حاصل کیا۔ اس مناسبت کی بنا ء پر پہلے نور اور دن کا ذکر تھا اور بعد میںرات اور قمر کا ذکر تھا مگر یہاں رات کا ذکر پہلے ہے اور دن کا بعد میں۔ کیونکہ اس جگہ رسول کریم ﷺ کے کمالات کا ذکر اصل مطلوب نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کے اتباع اور کفار کا مقابلہ کیا گیا ہے ۔ پس بوجہ کفر کے مقدم اور کثیر ہونے کے رات کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور دن کابوجہ مسلمانوں کے موخرالزمان اور تھوڑے ہونے کے بعد میںکیا گیا ہے ۔پہلی سورۃ میں یہ ذکر تھا کہ دنیا کو منور کرنے کے لئے ہم نے ایک روحانی سورج افق ِ آسمان پر پید اکیا ہے دنیا اس سورج کی روشنی کو خواہ کس قدر چھپانا چاہے اب یہ قطعی طورپر ناممکن ہے کہ وہ اس روشنی کو روک سکے یا س نور کو پھیلنے نہ دے ۔ یہ روشنی اب بڑھے گی اور بڑھتی چلی جائے گی یہاں تک کہ ساری دنیا کو ڈھانپ لے گی ۔ مگر ایک لمبا عرصہ گذرنے کے بعد پھر ایک زمانہ ایسا آئے گاجس میں یہ سورج لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا زمین والے اپنی پیٹھ موڑ لیں گے تاریکی چھا جائے گی اور روشنی جاتی رہے گی اس وقت اللہ تعالی پھر ایک قمر پیدا کرے گا جو ا س شمس سے اکتسابِ نور کر کے دنیا کو منور کردے گا۔ پس چونکہ وہاں اسلام کے زمانہ سے بات شروع کی گئی تھی طبعی طور پر شمس اور نہار کا ذکر پہلے ہونا چاہئیے تھا مگر یہاں کفر و اسلام کا مقابلہ ہے اور کفر چونکہ پہلے تھا اور اسلام بعد میں آیا اس لئے لیل کا پہلے ذکر کیا گیا اور نہار کا بعد میں ۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ کفر چونکہ اس زمانہ میںکثیر تھا اور مسلمان اس زمانہ میں قلیل التعداد تھے اس مناسبت کی بنا ء پر بھی اللہ تعالی نے لَیْل کا ذکر پہلے کیا اور نَھَار کا بعد میں ۔ اور اس طرح یہ پیشگوئی کی کہ رات کی حالت جو تم پر طاری ہے وہ اب دورہونے والی ہے اس کے بعد دن کی حالت آئے گی یا اس رات کے نتیجہ میں جو جو گمراہیاں اور خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں ساکنینِ نہار اب ان کو دور کرنے والے ہیں (مزید تفصیل اس کی اگلی آیت کے نیچے آئے گی )
وَماَ خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی O لا
اور نر و مادہ کی پیدائش کی آیت نمبر ۴
نمبر ۴ تفسیر۔ اس آیت کے متعلق حضرت ابو الدرداء کو سخت غلُّو تھا ۔ ان کے خیال میںوَماَ خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی کی جگہ اس آیت میں وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثٰی کے الفا ظ ہیں۔ چنانچہ علقمہ سے ابن جریر نے روایت کی ہے کہ میں ایک دفعہ شام گیا تو ابو الدرداء قافلہ میں آئے اور پوچھا کیا تم میںکوئی ایسا ہے جو عبداللہ بن مسعود ؓ سے قرأت پڑھا ہوا ہو ؟ اس پر لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا ۔ اس پر میں نے بھی کہا کہ ہاں میںنے ان سے قرآن پڑھا ہے اس پر انہوں نے کہا کہ آپ نے عبداللہ بن مسعود کو یہ آیت کس طرح پڑھتے ہوئے سنا ہے میں نے بتایا کہ وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی O وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی O وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثٰیOاس پر ابوالدرداء نے کہا کہ میں نے بھی رسول کریم ﷺ کو اسی طرح پڑھتے سنا ہے ۔ اور یہاں کے لوگ چاہتے ہیںکہ میں وَماَ خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی پڑھوں مگر میں ایسا نہیںکروںگا میں ان کے پیچھے نہیںچلوں گا۔ یہ مضمون بتغیّر الفاظ و مطالب مختلف راویوں سے مختلف کتب ِ حدیث میں حضرت ابوالدرداء سے مروی ہے ۔
اس بارہ میں یاد رکھنا چاہیئے کہ قرأتوں کا فرق شروع زمانہ سے چلا آیا ہے ۔ پوری واقفیت نہ رکھنے والے مسلمان بعض دفعہ ایسی روایتوںسے گھبر ا جاتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر یہ روائتیں درست ہیں تو پھر ہمارا یہ کہنا درست نہیںہو سکتا کہ قرآن کریم کامل طور پر محفوظ ہے اور اس میں کسی قسم کی تغیر و تبدل نہیں ہوا ۔ مگر ایسا نتیجہ نکالنا درست نہ ہوگا۔ اس لئے کہ شروع زمانہ سے ہی نسخ کے منکر اور حفاظتِ قرآنیہ کے قائل قرأت کے اس فرق کو تسلیم کرتے چلے آئے ہیں مگر باوجود اس فرق کے ان کے نزدیک یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ ایک قرأت دوسری کو منسوخ نہیں کرتی اور دوسرے مضمون میںفرق نہیں ڈالتی ۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک قرأت ایسا مضمون بیان کرے جس کی دوسری قرأت حامل نہ ہو سکے ہاں بعض دفعہ وہ مضمون کو وسیع کر دیتی ہے اور اس کی مصدق ہوتی ہے ۔ در اصل بعض زبانوں کے فرق کی وجہ سے یا بعض مضامین کو نمایاں کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سبعۃ احرف پر نازل کیا ہے یعنی اس کی سا ت قرأتیںہیں ۔ ان قرأتوں کی وجہ سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے کہ قرآنِ کریم میںکوئی اختلاف ہے بلکہ اسے زبانوں کے فرق کا ایک طبعی نتیجہ سمجھنا چاہیئے ۔ بسا اوقات ایک ہی لفظ ہوتا ہے مگر ایک ہی ملک کے ایک حصہ کے لوگ اسے ایک طر ح بولتے ہیںاور اسی ملک کے دوسرے حصہ کے لوگ اسے اور طرح بولتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ لفظ بدل گیا ہے یا اس لفظ کا مفہوم تبدیل ہو گیا ہے ۔ لفظ بتغیر قلیل وہی رہے گا اس لفظ کے معنے بھی وہی رہیں گے صرف اس وجہ سے کہ کوئی قوم اس لفظ کو صحیح رنگ میں ادا نہیںکر سکتی وہ اپنی زبان میں ادا کرنے کے لئے اس کی کوئی اور شکل بنا لے گی ۔ رسوک کریم ﷺ کے زمانہ میں چونکہ عرب کی آبادی کم تھی قبائل ایک دوسرے سے دور دور رہتے تھے اس لئے ان کے لہجوں اور تلفظ میں بہت فرق ہوتا تھا ۔ زبان ایک ہی تھی مگر بعض الفاظ کا تلفظ مختلف ہوتا تھا اور بعض دفعہ ایک معنی کے لئے ایک قبیلہ میںایک لفظ بولا جاتا تھا دوسرے قبیلہ میںدوسرا لفظ بولا جاتا تھا ان حالات رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے اجازت دے دی کہ فلاں فلاںالفاظ جو مختلف قبائل کے لوگوں کی زبان پر نہیںچڑھتے ۔ ان کی جگہ فلاں فلاں الفاظ وہ استعمال کر لیا کریں۔ چنانچہ جب تک عرب ایک قوم کی صورت اختیار نہیںکر گی اس وقت تک یہی طریق ان میں رائج رہا۔ اگر اس کی اجازت نہ دی جاتی تو قرآن کریم کا یاد کرنا اور پڑھنا مکہ کے باشندوں کے سوا دوسرے لوگوں کے لئے مشکل ہوتا اور قرآن کریم ا س سرعت سے نہ پھیلتا جس طرح کہ وہ پھیلا ۔ قبائل کی زبان کا یہ فرق غیر تعلیم یافتہ لوگوں میںاب تک بھی ہے تعلیم یا فتہ لوگ تو کتابوں سے ایک ہی زبان سیکھتے ہیں لیکن غیر تعلیم یافتہ لوگ چونکہ آپس میںبول کر زبان سیکھتے ہیں ان میں بجائے ملکی زبان کے قبائلی زبان کا رواج زیادہ ہوتا ہے ۔
میں جب حج کے لئے گیا تو ایک یمنی لڑکا جو سولہ سترہ سال کا تھا اور جو سیٹھ ابو بکر صاحب کا ملازم تھا قافلہ کے ساتھ چلا جا رہا تھا ۔ میں راستہ میں عربی زبان میں اس سے گفتگو کرتا رہا اور میں نے دیکھا کہ وہ میری اکثر باتوں کو سمجھ جاتا اور ان کا جواب بھی دیتا مگر بعض دفعہ حیرت سے میرے منہ کو دیکھنے لگ جاتا اور کہتا کہ میںآپ کی بات کو سمجھا نہیں۔ میں حیران ہوا کہ یہ بات کیا ہے کہ یہ لڑکا عربی سمجھتا بھی ہے مگر کبھی کبھی رک بھی جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ کی بات کو نہیںسمجھا۔ جب میں مکہ پہنچا تو میں نے کسی سے ذکر کیا کہ یہ لڑکا عرب ہے اور عربی کوخوب سمجھتا ہے مگر باتیں کرتے کرتے بعض جگہ رک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میری سمجھ میں بات نہیں آئی معلوم نہیںاس کی کیا وجہ ہے ۔ تو ان صاحب نے بتایا کہ یہ لڑکا یمنی ہے اور یمنیوں اور حجازیوں کے بعض الفاظ میںبڑا بھاری فرق ہوتا ہے اس لئے یہ اسی اختلاف کے موقعہ پر ایک دوسرے کی بات نہیںسمجھتے چنانچہ انہوں نے اس فرق کے بارہ میں یہ لطیفہ سنایا کہ مکہ میںایک امیر عورت تھی اس کا ایک یمنی ملازم تھا وہ عورت حقہ پینے کی عادی تھی وہاں عام رواج یہ ہے کہ حقہ کے نیچے کا پانی کا برتن شیشے کا ہوتا ہے اس لئے اسے کہتے بھی شیشہ ہی ہیں ۔ ایک دن اس عورت نے اپنے ملازم کو بلایا اور اس سے کہا غَیِّرِالشِّیْشَۃَ شیشہ بدل دو۔ لفظ تواس نے یہ کہے کہ شیشہ بدل دو مگر محاورہ کے مطابق اس کے یہ معنے ہیںکہ ا سکا پانی گرا کر نیا پانی بدل کر ڈال دو۔ ملازم نے یہ فقرہ سنا تو اس کے جواب میں کہا سَتِّی ْ ھٰذَا طَیِّبٌ ۔ بیگم صاحبہ یہ تو بڑا اچھا معلوم ہوتا ہے ۔ عورت نے پھر کہا کہ قُلْتُ لَکَ غَیِّرِ الشِّیْشَۃَ ۔ میں نے جو تم کو کہا ہے کہ بدل دو تم انکار کیوں کرتے ہو ۔ نوکر نے پھر حیرت کا اظہار کیااور کہا کہ سَتِیْ ھٰذَا طَیِّبٌ ۔ میری آقا یہ تو اچھا بھلا ہے ۔ آخر آخر آقا نے ڈانٹ کر کہا تم میرے نوکر ہو یا حاکم ہو میں جو تم سے کہہ رہی ہوں کہ اسے بدل دو تم میری بات کیوں نہیں مانتے ۔ نوکر نے شیشہ اٹھایا اورباہر جا کر اس زور سے زمین پر مارا کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔ عور ت نے کہا ارے یہ تم نے کیا غضب کیا ۔ اتنا قیمتی برتن تم نے توڑ کر رکھ دیا ۔ نوکر نے کہا میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ برتن اچھا ہے مگر آپ مانتی نہیں تھیں ۔ اب جو میں نے توڑ دیا ہے تو آپ ناراض ہو رہی ہیں ۔ عورت نوکر پر سخت خفا ہوئی مگر ایک یمنی زبان کے واقف نے اسے سمجھایا کہ نوکر کا قصور نہیں کیونکہ حجاز میں غَیِّرْ کے معنے بدلنے کے ہیں اور محاورہ میںجب شیشہ کے ساتھ بولا جائے تو اس کے پانی بدلنے کے ہو جاتے ہیں۔ یمنی زبان میںتَغْیِیْر کے معنے توڑنے کے ہوتے ہیں پس جب تم نے غَیِّرِ الشِّیْشَۃَ کہا تو نوکر اپنی زبان کے مطابق یہ سمجھا کہ تم اسے برتن توڑنے کا حکم دے رہی ہو اسی لئے وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ بی بی یہ تو اچھا بھلا ہے اسے کیوں تڑوا رہی ہو ۔ مگر جب تم نہ مانیں اور بار بار زور دیا تو وہ غریب کیا کرتا ۔ اب دیکھو غَیِّرِ الشِّیْشَۃایک معمولی فقرہ ہے مگر زبان کے فرق کی وجہ سے یمنی نوکر نے اس کے کچھ کے کچھ معنے سمجھ لئے ۔ اس قسم کے الفاظ جو زبان کے اختلاف کی وجہ سے معانی میںبھی فرق پید اکر دیتے ہیں اگر قرآن کریم میں اپنی اصل صورت میں ہی پڑھے جاتے تو یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ان قبائل کو سخت مشکلات پیش آتیں اور ان کے لئے قرآن کریم کا سمجھنا مشکل ہو جاتا۔ اس نقص کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالی نے ایسے ہم معنی الفاظ پڑھنے کی اجازت دی جن سے قرآن کریم کے سمجھنے اور اس کے صحیح تلفظ کے ادا کرنے میں مختلف قبائل ِ عرب کو دقت پیش نہ آئے ۔ پس مضمون تو وہی رہا صرف بعض الفاظ یا بعض محاورات جو ایک قوم میں استعمال ہوتے ہیںاور دوسری قوم میں نہیں اللہ تعالی نے ان الفاظ یا ان محاورات کی جگہ ان کی زبان کے الفاظ یا اپنی زبان کے محاورات انہیں بتا دیئے تا کہ قرآن کریم کے مضامین کی حفاظت ہو سکے اور زبان کے فرق کی وجہ سے اس کی کسی بات کو سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل نہ ہوجائے۔ اسی طرح اس کا پڑھنا اور یاد کرنا بھی مشکل نہ رہے ورنہ اصل قرأت قرآن کریم کی وہی ہے جو حجازی زبان کے مطابق ہے اس تفصیل کو معلوم کر کے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک عارضی اجازت تھی اصل کلام وہی تھا جو ابتداً رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا۔ ان الفاظ کے قائمقام اسی وقت تک استعمال ہو سکتے تھے جب تک قبائل آپس میںمتحد نہ ہو جاتے ۔ چنانچہ حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں جب بجائے اس کے کہ مکہ والے مکہ میں رہتے ۔ مدینہ والے مدینہ میںرہتے ۔نجد والے نجد میں رہتے ۔ طائف والے طائف میں رہتے ۔ یمن والے یمن میںرہتے اور وہ ایک دوسرے کی زبان اور محاورات سے واقف ہوتے ۔ مدینہ دارالحکومت بن گیا تو تمام قومیں ایک ہو گئیں کیونکہ اس وقت مدینہ والے حاکم تھے جن میں ایک بڑا طبقہ مہاجرین مکہ کا تھا اور خود اہل مدینہ بھی اہل مکہ کی صحبت میںحجازی عربی سیکھ چکے تھے پس چونکہ قانون کا نفاذ ان کی طرف سے ہوتا ہے ، مال ان کے قبضہ میں ہوتا ہے اور دنیا کی نگاہیں انہیں کی طرف اٹھتیں ہیں ۔ اس وقت طائف کے بھی اور نجد کے بھی اور مکہ کے بھی اور یمن کے بھی اور دوسرے علاقوں کے بھی اکثر لوگ مدینہ میں آتے جاتے تھے اور مدینہ کے مہاجرو انصار سے ملتے اور دین سیکھتے تھے اور اسی طرح سب ملک کی علمی زبان ایک ہو تی جاتی تھی ۔ پھر کچھ ان لوگوں میںسے مدینہ میں ہی آکر بس گئے تھے ان کی زبان تو گویا بالکل ہی حجازی ہو گئی تھی ۔ یہ لوگ جب اپنے وطنوں کو جاتے ہوں گے تو چونکہ یہ علماء اور استادہوتے تھے یقینا ان کے علاقہ پر ان کے جانے کی وجہ سے بھی ضرور اثر پڑتا تھا ۔ علاوہ ازیں جنگوں کی وجہ سے عرب کے مختلف قبائل کو اکٹھا رہنے کا موقع ملتا تھا اور افسر چونکہ اکابر صحابہ ؓہوتے تھے ان کی صحبت اور ان کی نقل کی طبعی خواہش بھی زبان میںیک رنگی پید ا کرتی تھی ۔ پس گو ابتداء میں تو لوگوں کو قرآن کریم کی زبان سمجھنے میں دقتیں پیش آتی ہوں گی مگر مدینہ کے دارالحکومت بننے کے بعد جب تمام عرب کا مرکز مدینہ منورہ بن گیا اور قبائل اور اقوام نے بار بار وہاں آنا شروع کر دیا تو پھر اس اختلاف کا کوئی امکان نہ رہا ۔ کیونکہ اس وقت تمام علمی مذاق کے لوگ قرآنی زبان سے پوری طرح واقف ہو چکے تھے ۔ چنانچہ جب لوگ اچھی طرح واقف ہو گئے تو حضرت عثمان ؓ نے حکم دیا کہ آئندہ صرف حجازی قرأت پڑھی جائے اور کوئی قرأت پڑھنے کی اجازت نہیں۔ آپ کے اس حکم کا مطلب یہی تھا کہ اب لوگ حجازی زبان کو عام طور پر جاننے لگ گئے ہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ انہیں حجازی عربی کے الفاظ کا بدل استعمال کرنے کی اجازت دی جائے ۔ حضرت عثمان ؓ کے اس حکم کی وجہ سے ہی شیعہ لوگ جو سنّیوں کے مخالف ہیں کہا کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن بیاضِ عثمانی ہے حالانکہ یہ اعتراض بالکل غلط ہے حضرت عثمان ؓ کے زمانہ تک عربوں کے میل جول پر ایک لمبا عرصہ گذر چکا تھا اور وہ آپس کے میل جول کی وجہ سے ایک دوسرے کی زبانوں کے فرق سے پوری طرح آگاہ ہو چکے تھے ۔ اس وقت اس بات کی کوئی ضروت نہیںتھی کہ اور قرأتوں میںبھی لوگوں کو قرآن کریم پڑھنے کی اجازت دی جاتی۔ یہ اجازت محض وقتی طور پر تھی اور اس ضروت کے ماتحت تھی کہ ابتدائی زمانہ تھا قومیں متفرق تھیں اور زبان کے معمولی معمولی فرق کی وجہ سے الفاظ کے معنے بھی تبدیل ہو جاتے تھے اس نقص کی وجہ سے عارضی طور پر بعض الفاظ کو جو ان قبائل میں رائج تھے اصل وحی کے بدل کے طور پر خدا تعالیٰ کی وحی کے مطابق پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی تا کہ قرآن کریم کے احکام کے سمجھنے اور ا س کی تعلیم سے روشناس ہونے میں کسی قسم کی روک حائل نہ ہو اور ہر زبان والا اپنی زبان کے محاورات میں اس کے احکام کو سمجھ سکے اور اپنے لہجہ کے مطابق پڑھ سکے ۔ جب بیس سال کا عرصہ اس اجازت پر گذر گیا ، زمانہ ایک نئی شکل اختیار کر گیا ، قومیں ایک نیا رنگ اختیار کر گئیں ، وہ عرب جو متفر ق قبائل پر مشتمل تھا ایک زبردست قوم بلکہ ایک زبردست حکومت بن گیا ، آئین ِ ملک کا نفاذ اور نظام ِ تعلیم کا اجراء ان کے ہاتھ میں آگیا ، مناصب کی تقسیم ان کے اختیار میں آ گئی، حدوداور قصاص کے احکام کا اجراء انہوں نے شروع کر دیا تو اس کے بعد اصلی قرآنی زبان کے سمجھنے میں لوگوں کو کوئی دقت نہ رہی اور جب یہ حالت پیدا ہو گئی تو حضرت عثمان ؓ نے بھی اس عارضی اجازت کو جو محض وقتی حالات کے ماتحت دی گئی تھی منسوخ کر دیا اور یہی اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا مگر شیعہ لوگ حضرت عثمانؓ کے سب سے بڑا قصور اگر قرار دیتے ہیں تو یہی کہ انہوں نے مختلف قرأتوں کو مٹا کر ایک قرأت جاری کر دی۔ حالانکہ اگر وہ غور کرتے تو آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے مختلف قرأتوں میں قرآن کریم پڑھنے کی اجازت اسلام کے دوسرے دور میں دی ہے ابتدائی دور میں نہیں دی جس کے صاف معنے یہ ہیںکہ قرآن کریم کا نزول گو حجازی زبان میں ہوا ہے مگر قرأتوں میں فرق دوسرے قبائل کے اسلام لانے پر ہوا۔ چونکہ بعض دفعہ ایک قبیلہ اپنی زبان کے لحاظ سے دوسرے قبیلہ سے کچھ فرق رکھتا تھا اور یا تو وہ تلفظ صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتاتھا یا ان الفاظ کے معنوں کے لحاظ سے فرق ہو جاتا تھا اس لئے رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت بعض اختلافی الفاظ کے لہجہ کے بدلنے یا اس کی جگہ دوسرا لفظ رکھنے کی اجازت دے دی۔ مگر اس کا آیات کے معانی یا ان کے مفہوم پر کوئی اثر نہیںپڑتا تھا بلکہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی تو فرق پڑتا ۔چنانچہ اس کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک سورۃ عبداللہ بن مسعود ؓ کو اور طرح پڑھائی اور حضرت عمر ؓ کو اور طرح پڑھائی کیونکہ حضرت عمر ؓ خالص شہری تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ گڈریا تھے اور اس وجہ سے بدوی لوگوں سے ان کا تعلق زیادہ تھا ۔ پس دونو ں زبانوں میں بہت فرق تھا ۔ ایک دن عبداللہ بن مسعود ؓ قرآن کریم کی وہی سورۃ پڑھ رہے تھے کہ حضرت عمر ؓ پاس سے گذرے اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ کو کسی قدر فرق سے اس سورۃ کی تلاوت کرتے سنا۔ انہیں بڑا تعجب آیا کہ یہ کیا بات ہے کہ الفاظ کچھ اور ہیںاور یہ کچھ اور طرح پڑھ رہے ہیں ۔ چنانچہ انہوںنے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے گلے میں پٹکا ڈالا اور کہا چلو رسول کریم ﷺ کے پاس میںابھی تمہارا معاملہ پیش کرتا ہوں تم سورۃ کے بعض الفاظ اور طرح پڑھ رہے ہو اور اصل سورۃ اور طرح ہے ۔ غرض وہ انہیں رسول کریم ﷺ کے پاس لائے اور عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ﷺ آپ نے یہ سورۃ مجھے اور طرح پڑھائی تھی اور عبداللہ بن مسعود ؓ اور طرح پڑھ رہے تھے رسول کریم ﷺ نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے فرمایا تم یہ سورۃ کس طرح پڑھ رہے تھے؟ وہ ڈرے اور کانپنے لگ گئے کہ کہیں مجھ سے غلطی نہ ہو گئی ہو مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ڈرو نہیںپڑھو۔ انہوں نے پڑھ کر سنائی تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے ۔ حضرت عمر ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ نے تو مجھے اور طرح پڑھائی تھی ۔ آپ ؐ نے فرمایا وہ بھی ٹھیک ہے پھر آپؐ نے فرمایا قرآن کریم سات قرأتوں میں نازل کیا گیا ہے تم ان معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑا نہ کرو۔ اس فرق کی وجہ در اصل یہی تھی کہ رسول کریم ﷺ نے سمجھا عبداللہ بن مسعود ؓ گڈریا ہیں۔ اور ان کا لہجہ اور ہے اس لئے ان کے لہجے کے مطابق جو قرأت تھی وہ انہیں پڑھائی ۔ حضرت عمر ؓ کے متعلق آپ ؐ نے سوچا کہ یہ خالص شہری ہیں اس لئے انہیں اصل مکّی زبان کی نازل شدہ قرأت بتائی۔ چنانچہ آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو انکی اپنی زبان میں سورۃ پڑھنے کی اجازت دے دی اور حضرت عمر ؓ کو خالص شہری زبان میںوہ سورۃ پڑھا دی ۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فرق ہیں جو مختلف قرأتوں کی وجہ سے پیدا ہو گئے تھے مگر ان کا نفس ِ مضمون پر کوئی اثر نہیںپڑتاتھا ہر شخص سمجھتا تھا کہ یہ تمدن اور تعلیم اور زبان کے فرق کا ایک لازمی نتیجہ ہے ۔
میں ایک دفعہ کراچی میں تھا کہ وہاں ایک ایجنٹ ایک کروڑ پتی تاجر کو مجھ سے ملانے کے لئے لایا ۔ ایجنٹ شہری تھا اور تاجر گنواری علاقہ کا ۔ جب وہ تاجر مجھ سے بات کرنے لگا تو مجھ سے مخاطب کر کے کہتا کہ ’تم نوں‘ یہ بات معلوم ہو گی ۔ اب اول تو تم کا لفظ شہریوں میںمعزز آدمی کو خطاب کرتے ہوئے استعمال نہیںکرتے دوسرے تم کے ساتھ ’نوں‘ لگانا تو اور بھی معیوب ہے۔ اردو میںکہیں گے تم کو نہ کہ تم نوں۔ جب وہ تاجر مجھے تم نوں کہتا تو میںنے دیکھا اسے ساتھ لانے والا ایجنٹ بے حد اضطراب کے ساتھ اپنی کرسی پر پہلو بدلنے لگ جاتا اور میر ی طرف دیکھتا کہ ان پر اس گفتگو کا کیا اثر ہوا ہے اور مجھے تاجر کے تم نوں اور ایجنٹ کی گھبراہٹ پر لطف آرہا تھا ۔ اب معنوں کے لحاظ سے ’آپ کو‘ اور ’تم نوں ‘ میں کوئی بھی فرق نہیں لیکن ایک شہری کے لئے ’تم نوں‘ کہنا اور ایک انبالہ پٹیالہ کے گنوار کے لئے ’آ پ کو ‘ کہنا ایک مجاہد ہ سے کم نہیں ۔ پنجاب میںگجرات کی طرف کے لوگ پکرنے کو ’پھدنا‘ کہتے ہیں اور ہماری طرف کے لوگ ’پھڑنا‘ ۔ ہم لوگ پھدنا کہیں تو ماتھے پر پسینہ آجاتا ہے گجراتی پھڑنا کہتے ہیں توان کے گلے میں پھندے پڑتے ہیں۔ گورداسپور میں شریر آدمی کوشُہْدا کہتے ہیں ۔ ضلع سرگودہا میںشریف اور نیک طبیعت کو شُہْدا کہتے ہیں ۔ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول ؓ کی ایک عزیزہ آئی کسی ذکر پر اس نے آپ کی نسبت کہا ’اوساں شہدے نوں انہاں گلاں دا کہہ پتا ‘۔ یعنی مولوی صاحب شریف آدمی ہیں ان کو ایسی باتوں کا کیا علم ۔ اس طرف کی مستورات نے ایک دفعہ اس فقرہ کو سنا اور حیا ء کے ماتحت برداشت کر گئیں مگر اتفاق سے اس نے پھر دہرایا تو وہ اس سے دست و گریباں ہونے کو تیار ہو گئیں اور کہا کہ کچھ حیا ء کرو تم تو گالیاں دے رہی ہو ۔ اس غریب نے حیرت سے پوچھا کہ میں تعریف کر رہی ہوں کہ گالیاں دیتی ہوں۔ ’’ اوہ شُہْدا تے ہے ‘‘ ۔ آخر کسی عورت نے جو اس فرق کو سمجھتی تھی اس جوش کو ٹھنڈا کیا ۔ اب دیکھو کسی کتاب میںجو سارے پنجاب کے لئے لکھی گئی ہو کسی بزرگ کی نسبت شُہْدے کا لفظ آجائے تو اس کی توضیح یا دوسرے علاقہ کے لئے دوسرے لفظ کا استعمال مقرر کرنا ضروری ہو گا یا نہیں ؟ یہی ضرورت اس زمانہ میں مختلف قرأتوں کی اجازت کی تھی لیکن جب تمدن اور حکومت کے ذریعہ سے قبائلی حالت کی جگہ ایک قومیت اور ایک زبان نے لے لی اور سب لوگ حجازی زبان سے پوری طرح آشنا ہو گئے تو حضرت عثمان ؓ نے سمجھا اور صحیح سمجھا کہ اب ان قرأتوں کو قائم رکھنا اختلاف کو قائم رکھنے کا موجب ہو گا ا س لئے ان قرأتوں کا عام استعمال اب بند کرنا چاہئیے باقی کتب ِ قرأت میں تو وہ محفوظ رہیں گی۔ پس انہوں نے اس نیک خیال کے ماتحت عام استعمال میں حجازی اور اصل قرأت کے سوا باقی قرأتوں سے منع فرما دیا اور عربوں اور عجمیوں کو ایک ہی قرأت پر جمع کرنے کے لئے تلاوت کے لئے ایسے نسخوں کی اجازت دے دی جو حجازی اور ابتدائی قرأت کے مطابق تھے۔
ابن اُم عبد کا یہ واقعہ بھی اسی قسم کے قرأت کے اختلاف کے متعلق ہے ۔ عربی زبان میں مَا کا استعمال کئی معنوں میں ہوتا ہے ما نافیہ بھی ہے اور مصدریہ بھی اور مَا مَنْ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ جب مصدری معنے اور مَنْ کے معنے دونوں ہی مراد ہوں تو ایسے مقام پر مَنْ کا استعمال کرنا یا مصدر کا استعمال کرنا مفید نہیں ہو سکتا کیونکہ مصدر ایک معنے دے گا اور مَنْ دوسرے معنے دے گا دونوںمعنے کسی ایک طریق کے استعمال سے ظاہر نہ ہوں گے مگر چونکہ ایسے کئی مواقع قرآن کریم میں آتے ہیں جب کہ مصدری معنے اور مَنْ کے معنے دونوں ہی بتانے مقصود ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ایسے مواقع پر مَا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تا یہ دونوں مفہوم ظاہر ہوں ۔ مگر بعض عرب قبائل مَا کے مصدری معنے تو کرتے ہیںلیکن مَا کا استعمال مَنْ کی جگہ ناجائز سمجھتے ہیں اس لئے اس استعمال سے ان کے لئے مشکل پیش آجاتی تھی پس اس کو دور کرنے کے لئے وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثٰی کی قرأت کی بھی اجازت دے دی گئی ۔ جو جملہ ایک حد تک مَا کا مفہوم ادا کر دیتا ہے لیکن چونکہ ویسا مکمل مفہوم ادا نہیں کر تا جیسے مَا اس لئے اصل قرآنی عبارت کے طور پر اسے استعمال نہیں کیا گیا صرف عارضی قرأت کے طور پر اس کا استعمال جائز رکھا گیا۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابوالدرداء کو کوئی غلطی لگی ہو جب وہ خود کہتے ہیںکہ صحابہ ؓ مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی پڑھوں ۔ تو اس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اس بارہ میں ضرور کوئی بھول چوک واقعہ ہو گئی ہے ورنہ صحابہ ؓکی اکثریت ان پر یہ زور نہ ڈالتی کہ اصل قرأت وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ہی ہے وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثی نہیں ہے پس اول تو ضروری نہیں کہ ہم اس کو دوسری قرأت قرار دیں جب کثرت سے صحابہؓ کہتے ہیں کہ یہ قرأت نہیں تو ضروری ہے کہ ہم اسے قرأت قرار نہ دیں بلکہ ابوالدرداء کی رائے کو غلط سمجھیں ۔ لیکن اگر اس قرأت کو تسلیم کر لیا جائے تب بھی جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس سے آیت کے معنوں میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ اور قرأت کا اختلاف قرآن کریم کے کسی نقص پر نہیں بلکہ اس کے معنوں کی وسعت پر دلالت کرتا ہے ۔
قریب کے زمانہ میں ایک انگریز نے قرآن کریم کے تین پرانے نسخے نکالے ہیں وہ حلب میں ایک مسیحی مونسٹری MONESTRYمیں پروفیسر مقر رتھا ۔ اس نے اپنے زعم میںقرآن کریم کے تین پرانے نسخے حاصل کئے ہیں اور ان کے باہمی اختلافات کو اس نے LEAVES FROM THREE DIFFERENT QURANS یعنی ’’ قرآن کے پرانے تین نسخوں کے متفرق اوراق‘‘ کے نام سے شائع کر دیا ۔ جب وہ کتاب شائع ہوئی تو لوگوں میں بڑا شور اٹھا اور عیسائیوں میںیہ سمجھا جانے لگا کہ اب قرآن کریم کی حفاظت کا دعویٰ بالکل باطل ہو گیا ہے ۔ میں نے بھی وہ کتاب منگوائی تا کہ میں دیکھوں کہ قرآن کی حفاظت کے خلاف اس میں کون سے دلائل دئے گئے ہیں ۔ جب میں نے اسے پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ جو نسخے اس کے پیش کئے گئے ہیںان میں اسی قسم کا اختلاف ہے کی کسی جگہ مَا کی جگہ مَنْ ہے اور کسی جگہ مَنْ کی جگہ مَا ہے ۔ کسی جگہ قالُوْا کے آگے الف ہے اور کسی جگہ الف نہیں۔ کسی جگہ ہُ کی بجائے ھُمْکی ضمیر استعمال کی گئی ہے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ اس قرآنی نسخہ کا اختلاف یا تو بعض قرأتوں پر مبنی تھا یا کتابت کی غلطیاں تھیںاور بس ۔ میں نے اسے پڑھ کر نتیجہ نکالا کہ اگر ان مزعومہ قدیم نسخوںکو درست سمجھا جائے تب بھی اس سے قرآن کریم کے محفوظ ہونے کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ اس کی عبارت معنوں کے لحاظ سے کوئی فرق پیدا نہیں کرتیں۔ صرف کسی جگہ مَاکی جگہ مَنْ اور ہُ کی جگہ ھُمْ کی ضمیر بدلی ہوئی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مختلف قرأتوں کا فرق ہے اور کچھ بھی نہیں۔ غرض عیسائیوں کے کتب خانہ میں سے بھی کوئی کتاب ایسی نہ نکلی جو قرأت کے اس ف کے علاوہ قرآن کریم کے نسخوں میںکوئی اور فرق ثابت کر سکتی۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی اسی قرأت کے فرق کو بعض جگہ پیش کیا ہے ۔ مثلاً وَاِنْ مِّنْ اَھْلِالْکِتٰبِ اِلَّا لَیُوْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہٖ کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ مَوْتِہٖ کی بجائے ایک قرأت مَوْتِھِمْ بھی آتی ہے جو آپ کے بیان کردہ مضمون کی تائید کرتی ہے ۔ پس قرأتوں کا اختلاف یا تو قبائلی زبانو ں کے فرق کے ضرر سے بچانے کے لئے ہے یا قرآنی معنوں کی وسعت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ۔
اختلاف ِ قرأت کی حکمت بتانے کے بعد میں اب آیت کی تفسیر کی طرف توجہ کرتا ہوں ۔ اس سورۃ میںبتایا گیا ہے کہ رات کے وقت انسانی اعمال اور قسم کے ہوتے ہیںاور دن کے وقت اور قسم کے ۔ مثلاً رات کو لوگ سونے کی تیاری کرتے ہیںاور دن کو کام کرنے کی تیاری کرتے ہیں ۔ آدمی وہی ہوتا ہے لیکن پھر بھی اس کے اعمال الگ الگ اوقات میںالگ الگ اقسام کے ہوتے ہیں ۔ وہی آدمی جو دن کے وقت دوڑا بھاگا پھرتا ہے رات کے وقت بستر پر لیٹے ہوئے خراٹے مار رہا ہوتا ہے ۔ دن کو اس کی ہوشیاری اور چالاکی دیکھ کر حیرت آتی ہے اور رات کو اس کی نیند اور غفلت دیکھ کر حیرت آتی ہے ۔ اور اگر فطرتیں ہی الگ الگ ہوں تو پھر تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے ۔ بعض کہ یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ جاگتے ہوئے بھی سو رہے ہوتے ہیںاور بعض کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ سوتے ہوئے بھی جاگ رہے ہوتے ہیں۔ حماسہ میں تَابَّطَ شَرًّا کا واقعہ آتا ہے (یہ صفاتی نام ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی بغل میں شرارت دبائے پھرتاتھا ) اس لڑکے کا باپ مر گیا اور اپنے بیٹے کے لئے بہت بڑی جائیداد چھوڑ گیا ۔ اس کی والدہ نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔ سوتیلے باپ نے جائیداد دیکھ کر چاہا کہ میں اس لڑکے کا خاتمہ کر دوں تا کہ اکیلا اس جائیداد سے فائدہ اٹھائوں ۔ چنانچہ وہ اسے سیرکے بہانے کہیں باہر لے گیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ رات کو جب یہ سو جائے گا تو میں اسے قتل کر دوں گا ۔ جب لڑکا سو گیا تو باپ اٹھا تا کہ اسے مار ڈالے مگر اس کے پائوں زمین پر ابھی پڑے ہی تھے کہ لڑکا تلوار لے کر کھڑا ہو گیا اور پوچھا کیا بات ہے ۔ باپ نے کہا کچھ نہیں یونہی کسی کام کے لئے اٹھا تھا ۔ گھنٹہ دو گھنٹے گزرنے کے بعد وہ پھر اٹھا کہ اسے قتل کر دے مگر اس کے اٹھنے کے ساتھ ہی لڑکا پھر بیدار ہو گیا اور پوچھنے لگا کیا بات ہے ۔ باپ نے پھر کوئی بہانہ کر دیا ۔ اسی طرح ساری رات وہ اس کوشش میںرہا کہ کسی طرح لڑکا سو جائے تو مَیں اسے قتل کر دوں مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا ۔ جب بھی اٹھتالڑکا تلوار لے کر کھڑا ہوجاتا اور کہتا کیا بات ہے؟لڑکا مضبوط تھا اور یہ بڑی عمر کا تھا اس وجہ سے بھی اس پر ڈر غالب آگیا اور آخر دوسرے دن وہ اسے واپس لے آیا اور اس نے سمجھ لیا کہ میں اسے قتل نہیں کر سکتا ۔ الغرض بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ سوتے ہوئے بھی جاگ رہی ہوتی ہیں ذرا کوئی آہٹ ہو فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں ۔لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر دن کو بھی رات کی کیفیت طاری رہتی ہے وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگ جاتے ہیں اور بعض بڑے اطمینان کے ساتھ ایک طرف لیٹ کر سو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالی ا س سورۃ میںانہی کیفیات کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے ایک رات کی حالت ہوتی ہے اور ایک دن کی ۔ رات کا وقت ایسا ہوتا ہے کہ خواہ کوئی چست اور ہوشیار ہو اس پر بھی نیند طاری ہو جاتی ہے ۔ بعض تو ایسے سوتے ہیں کہ کتنا جھنجھوڑو ان کی آنکھ نہیں کھلتی ۔ بار بار جگانے پر بھی بیدار نہیں ہوتے ۔ سردیاں ہو تو لحاف میں سے نہیں نکلتے اور گرمیاں ہو ں تو پانی کے چھینٹے مارنے پر بھی پہلو بدل کر سو جاتے ہیں لیکن دن کا وقت کام کا ہوتا ہے اس میں چست آدمی تو اپنی ترقی کے لئے کئی قسم کے کاموں کو اختیار کر لیتا ہے لیکن سست آدمی کو دن کے وقت تو کچھ نہ کچھ کام کرنا ہی پڑتا ہے مگر رات ساری اس کے سوتے ہی گذرتی ہے ۔ رات اور دن کی طرح انسانوں کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ بعض قوموں پر رات کا زمانہ آیا ہوا ہوتا ہے اور بعض پر دن کا زمانہ ہوتاہے ۔ جو قومیں رات کے مشابہ ہوتی ہیں یا یوںکہو کہ جن پر رات آئی ہوئی ہوتی ہے وہ دن کو بھی سوتے ہیں اور رات کو بھی سوتے ہیں یعنی رات تو سوئے گذر جاتی ہے دن بھی کسی ایسے کام میں نہیں گذرتے کہ ان کے لئے یا ان کی قوم کے لئے کوئی اچھا نتیجہ نکلے ۔ اور اس کے برخلاف جن اقوام پر دن کا زمانہ ہوتا ہے ان کے دن تو کام میں گذرتے ہیں ان کی راتیں بھی بیکار نہیںجاتیں اور وہ تاریکیوں اور مصیبتوں کے اوقات میں بھی اتنا کام کر جاتے ہیںکہ رات والی قوموں کو دن کے وقت یعنی ہر قسم کے سامانوں کی موجودگی میں بھی اتنے کام کا موقعہ نہیں ملتا ۔ اسی کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے فرماتا ہے وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی ۔ ہم شہادت کے طورپر رات کو پیش کرتے ہیںجب وہ ڈھانپ لیتی ہے یعنی انسانی قویٰ پر چھا جاتی ہے جب سب لوگ سو جاتے ہیں اور حرکت کی جگہ سکون لے لیتا ہے گویا صرف تاریکی ہی نہیں ہوتی بلکہ عملاً ہر شے کو رات ڈھانک لیتی ہے ۔ رات کو اندھیرے میں سفر کرو تو راستہ بہت کم طے ہوتا ہے کیونکہ سنبھل سنبھل کر چلنا پڑتا ہے ۔ موٹر میں بھی سفر کیا جائے تو رات کو اس کی رفتار آدھی رہ جاتی ہے کیونکہ خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی نیچے نہ آجائے یا اندھیرے کی وجہ سے کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے ۔ اس وجہ سے ڈرائیور موٹر کی رفتار کم کر دیتا ہے ۔ پھر اگر وہ خود ہی سو جائے تو اور بھی خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ بہرحال رات کو صرف تاریکی ہی نہیں ہوتی بلکہ عملاً ہر شے کو وہ ڈھانپ لیتی ہے یعنی صرف جسم ہی نہیں بلکہ جب انسان سو جاتا ہے تو اس کی عقل اور فکر بھی رات کی حکومت میں آجاتا ہے پھر اسے اپنے برے بھلے کی کچھ تمیز نہیں رہتی ۔ یہ تو رات کی کیفیت تھی اس کے بعد فرمایا ہم اس کے بالمقابل تمہارے سامنے دن کو پیش کرتے ہیں جب وہ اس قدر روشن ہو جاتا ہے کہ سونا اور غافل رہنا بالکل نا ممکن ہوتا ہے ۔
یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ پہلی آیت میں خدا تعالی نے صرف رات کو پیش نہیں کیا کیونکہ رات کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جس میں سب لوگ جاگ رہے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ مسلمان تو لازماً سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں پھر کچھ دیر کے بعد عشاء کی نماز پڑھتے ہیں اور سنتوں اور وتر کی ادائیگی کے بعد ذکر الہی کرتے ہیں اس کے بعد وہ سونے کی تیاری کرتے ہیں یا جو لوگ مطالعہ کرنا چاہیں وہ پہلے مطالعہ کرتے ہیں اور پھر سوتے ہیں ۔ عیاش قومیں تھیئٹر و سینمائوں ، ناچ گھروں ، شراب خانوں میں اپنے وقت خرچ کرتی ہیں امراء کلبوں میں تاش و بِلْیرْڈ کھیلتے ہیں پس ساری رات سونے کے کام نہیں آتی بلکہ رات کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جس میں لوگ بیدار رہتے ہیں ۔ اس لئے اللہ تعالی نے صرف لیل کو بطور شہادت پیش نہیں کیا بلکہ وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی فرمایا ہے یعنی ہم رات کی اس حالت کو تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں جب وہ عملاً ہر چیز کو ڈھانک لیتی ہے اور صرف جسم ہی نہیںبلکہ انسانی عقل اور دماغ کا بھی وہ احاطہ کر لیتی ہے ۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے نَھار کا ذکر کیا ہے مگر نَھار کے ساتھ ہی تَجَلّٰی کا لفظ رکھ دیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ ہم دن کے اس حصہ کو شہادت کے طورپر پیش کررہے ہیں جب وہ اس قدر روشن ہو جاتا ہے کہ سونا اور غافل رہنا بالکل ناممکن ہو جاتاہے۔ ابتدائی حصہ کو پیش نہیں کر رہے کیونکہ صبح کے وقت کچھ لوگ سو جاتے ہیں مگر جب دن زیادہ چڑھ جائے تو پھر کوئی نہیں سوتا۔
صوفیا ء میں یہ عام رواج رہا ہے کہ وہ صبح کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لئے سو جایا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی بھی یہی عادت تھی کہ آپ صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لئے استراحت فرماتے ۔ پس اللہ تعالی یہاں نھار کے ابتدائی حصہ کی مثال پیش نہیں کرتا بلکہ اس حصہ کی مثال پیش کرتا ہے جب وہ روشن ہو جاتا ہے یعنی روشنی اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ انسان اگر سونا بھی چاہے تو وہ نہیں سو سکتا ۔ یہ دونوں حالتیں یعنی رات کی وہ حالت جب وہ ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے اور دن کی وہ حالت جب سونے والے بھی جاگ اٹھتے ہیں اللہ تعالی بطور مثال کفار کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے یہی فرق تمہاری حالت اور محمد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی حالت میں ہے ۔ تمہاری تمام قوتوں پر تھکان اور خوابیدگی کا اثر ہے ۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عرب نے گو کوئی خاص ترقی نہیںکی تھی مگر جتنی ترقی بھی کی تھی وہ ان کی تھکان کا موجب بن گئی تھی۔ مکہ کا مجاور ہونا سب سے بڑی عزت سمجھا جاتا تھا اور جیسے مندر کے پجاریوں کی حالت ہوتی ہے وہی حالت ان کی تھی ۔ قوت عملیہ فنا ہو چکی تھی اور ان کے اعمال نے ان میں کوفت پیداکر دی تھی ۔ غرض اللہ تعالی ان کو بتاتا ہے کہ تمہاری تمام قوتوں پر تھکان اور خوابیدگی کا اثر ہے تم لمبی جہالت اور لمبی عیش کے بعد زیادہ سے زیادہ سونا چاہتے ہو مگر محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی حالت میں بیداری اور ہوشیاری اور قوت عملیہ پائی جاتی ہے ۔ وہ جاگنا اور کام کرنا چاہتے ہیں اور تم سونا اور غافل رہنا چاہتے ہو پھر تمہارا اور ان کا کیا مقابلہ؟ سوتا جاگتے کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے ؟ تمہاری حالتوں پر رات کی خوابیدگی طاری ہے اور ان کی حالتوں پر دن کی بیداری غالب ہے ۔ ان کی راتیں بھی دن ہوتی ہیں اور تمہارے دن بھی رات ہوتے ہیں پھر تمہارا اور ان کا کیا مقابلہ ؟ جب تک تم بھی رات کے بعد دن کی حالت پیدا نہ کرو تم کبھی سکھ نہیں پا سکتے۔
اس کے بعد فرماتا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ہم اس خدا کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے نر اور مادہ پیدا کیا ہے اور جن سے دنیا میں آئندہ نسل ترقی کر تی ہے یعنی جس طرح دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حالتوں پر ہمیشہ دن کی بیداری طاری رہتی ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حالتوں پر ہمیشہ رات کی خوابیدگی غالب رہتی ہے اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں رجولیت کا مادہ ہوتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں نسوانیت کا مادہ ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی فیوض پہنچانے والے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ جو لوگ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ ذَکر ہوتے ہیں اور جو لوگ استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ انثٰی ہوتے ہیں اور جو لوگ نہ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں نہ استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ خنثٰی ہوتے ہیں ۔ ان سے دنیا میںکبھی بھی کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا۔ فرماتا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ۔ ہم نر و مادہ کی پیدائش کو بھی شہادت کے طورپر پیش کرتے ہیں یعنی نر میں افاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ دوسرے کو بچہ دیتا ہے اور مادہ میں استفاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ بچہ کو اس سے لیتی اور اس کی پرورش کرتی ہے ۔ یہی دو قوتیں ہیں جن کے ملنے سے دنیا میں اہم نتائج پیدا ہوتے ہیں اگر نر اور مادہ آپس نہ ملیں تو نسلِ انسانی کا سلسلہ بالکل منقطع ہو جائے۔
بعض نے اس موقع پر اعتراض کیا ہے کہ قرآن کریم نے یہ تو کہا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی یعنی خدا تعالی نے ذکر اور انثیٰ کو پیدا کیا ہے مگر اس نے خثنٰی کا ذکر نہیں کیا حالانکہ یہ بھی بتانا چاہئیے تھا کہ اسے کس نے پیدا کیا ہے ۔ مجھے علمی کتابوں میں اس قسم کا اعتراض پڑھ کر حیرت آئی ہے اور پھر اور زیادہ حیرت مجھے اس بات پر آئی ہے کہ مفسرین نے اس کا جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے اور جواب یہ دیا ہے کہ جو ہمارے نزدیک خثنٰی ہے خدا تعالی کے نزدیک وہ بہر حال یا ذکر ہے یا انثٰی ہے اس سے باہر نہیں۔ یہ بھی ایک مجبوری کا جواب ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کنثیٰ کوئی پیدائش نہیں بلکہ وہ پیدائش کا ایک بگاڑ ہے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے شربت بناتے وقت پاس سے کوئی خاکروب پیشاب کا پاٹ لے کر گزرے اور ٹھوکر سے اچھل کر پیشاب کا کوئی قطرہ شربت کے گلاس میں جا گرے یا اپنا ہی بچہ کھڑے ہو کر پیشاب کر دے اور شربت میں کوئی قطرہ جا گرے تو ایسے شربت کو ہم شربت کی ایک قسم نہیںکہیں گے بلکہ یہ سمجھیں گے کہ وہ ناپاک شربت ہے ۔ کیا کوئی عقلمند دنیا میںایسا ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ ایک شربت تو وہ ہوتا ہے جس میںایسنس ملا ہوا ہوتا ہے اور ایک شربت وہ ہوتا ہے جس میں پیشاب پڑا ہوا ہوتا ہے کیونکہ جس میںغلطی سے پیشاب کا کوئی قطرہ جا گرا ہے وہ شربت نہیںبلکہ ناپاک شدہ شربت ہے ۔ اسی طرح خدا تعالی نے ہر ایک کو یا ذکرپیدا کیا ہے یا انثٰی پیدا کیا ہے ۔ اگر ماں باپ اپنے اندر کوئی خرابی پیدا کر لیتے ہیں اور ان کی صحت میں اس قسم کا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے کہ بجائے ذکر یا انثٰی کے خثنٰی پیدا ہو جاتا ہے تو یہ نہیںکہا جائے گا کہ یہ بھی ایک پیدائش ہے بلکہ صرف یہ کہا جائے گا کہ یہ پیدائش کا ایک بگاڑ ہے جو اس رنگ میں ظاہر ہو گیا ۔ خنثٰی کو بھی پیدائش قرار دینا ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ خد اتعالی آنکھیںدیتا ہے تو دوسرا جواب میں کہے کہ دنیا میں اندھے بھی تو ہوتے ہیں۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات کیسی بیہودہ ہے اگر کوئی اندھا ہوا ہے تو اپنے ماں باپ کی کسی نادانی یا غفلت یا بیماری کے نتیجہ میںہوا ہے ۔ خدا تعالی نے بہرحال ہر انسان کو آنکھوں والا بنایا ہے کسی کا اندھا پیدا ہونا ایک بگاڑ اور خرابی ہے نئی پیدائش نہیں ہے ۔ مجھے تو حیرت آتی ہے ہمارے مفسرین نے اس بحث کو اٹھایا ہی کیوں کہ خدا تعالی نے ذکراور انثٰی کا ہی کیوں ذکر کیا ہے خنثٰی کا ذکر کیوں نہیںکیا خنثٰی ہونا تو ایسے ہی ہے جیسے کسی کا ناک کٹا ہوا ہو یا کسی کی آنکھ ماری ہوئی ہو یا کسی کی ٹانگ کٹی ہوئی ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ سب انسانی پیدائش کے مختلف بگاڑ ہیں ۔ کسی کی آنکھیں نہیں ہوتیں ، کسی کے ہاتھ نہیں ہوتے، کسی کی زبان نہیں ہوتی ، کسی کی انگلیاں کم و بیش ہوتی ہیں ۔ اگر ان میں سے ہر چیز کو پیدائش کی ایک نئی قسم قرار دے دیا جائے تو پھر تو ہزار ہا اس قسم کی پیدائشیں نکل آئیں گی ۔ دنیا میں ہر شخص کی خدا تعالی نے دو ٹانگیں پیدا کی ہیں لیکن بعض دفعہ ماں باپ کی بے احتیاطی یا کسی رحمی نقص کی وجہ سے ایسا بچہ پید ا ہو جاتا ہے جس کی تین ٹانگیں ہوتی ہیں ۔ اسی طرح خدا تعالی نے ہر ایک کو الگ الگ جسم عطا کیا ہے لیکن بعض دفعہ اس قسم کے جڑے ہوئے بچے پید اہو جاتے ہیں جن کو اپریشن کے ذریعہ ایک دوسرے سے الگ کرنا پڑتا ہے اور بعض دفعہ تو اپریشن کے ذریعہ بھی ان کو الگ نہیںکیا جاسکتا بظاہر دو دھڑ آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں لیکن دونوں کا جگر ایک ہوتا ہے یا دل ایک ہوتا ہے یا معدہ ایک ہوتا ہے یا تلی ایک ہوتی ہے اور وہ ساری عمر اسی طرح جڑے جڑے گزار دیتے ہیں۔ پس خالی خنثٰی کا ذکر ہی نہیں پھر تو انہیں اس قسم کے تمام بگاڑ پیش کرنے چاہیئے تھے اور کہنا چاہیئے تھا کہ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دو بچے آپس میں بالکل جڑے ہوئے ہوتے اور پھر ان کو الگ الگ کرنا پڑتا ہے ۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دونوں کا ایک ہی جگر ، ایک ہی قلب ، ایک ہی پھیپھڑا اور ایک ہی معدہ ہوتاہے اور انہیں جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں بچہ تو ہوتا ہے مگر اس کی آنکھیں نہیں ہوتی ۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دو کی بجائے تین ٹانگیں بن جاتی ہیں حالانکہ یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو پیدائش کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں ان کو پیش کر کے قرآن مجید پر یہ اعتراض کرنا کہ اس نے صرف ذکراور انثٰی کا نام لیا ہے خنثٰی کا نام نہیں لیا معترضین کی نادانی اور حماقت کا ثبوت ہے اور مفسرین کو چاہیئے تھا کہ بجائے اس کے کہ اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے کہتے کہ یہ اعتراض کسی احمق کی زبان سے نکلا ہے دنیا میں دو ہی پیدائشیں ہوتی ہیں ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں ذکرانیت ہوتی ہے اور ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں نسوانیت ہوتی ہے یہ دونوں وجود آپس میں ملتے ہیںتب ایک تیسرا وجود پیدا ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں ۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی سلسلہ پیدائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم دنیا میں غور کر کے دیکھ لو آئندہ نسلوں کی ترقی صرف ذکر اور انثٰی سے ہوتی ہے ایک کے اندر افاضہ کا فعل پایا جاتا ہے اور دوسرے کے اندر استفاضہ کا فعل پایا جاتا ہے یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تب کوئی نتیجہ پیدا ہوتا ہے اگر یہ دونوں آپس میں نہیںملیںگے تو کوئی نتیجہ پیدا نہیںہو گا۔ وہ شخص جس میں افاضہ کا مادہ نہیں اگر وہ کہے کہ مجھے کسی دوسرے سے فیض حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تو وہ نادان ہو گا ۔ اسی طرح جس میں استفاضہ کا مادہ نہیں وہ بھی بغیر کسی دوسرے وجود کے اپنی قوت افاضہ کا اظہار نہیں کر سکتا ۔ یہ افاضہ اور استفاضہ کی قوتیںآپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ اگر کسی قوم کے افراد یہ کہیں کہ ہم خود کام کر سکتے ہیں ہمیں کسی دوسرے کی راہنمائی یا مدد کی ضرورت نہیں ، کسی دوسرے کی قوت کے ہم محتاج نہیں ، ہمارے بازوئوں میںاتنی طاقت موجود ہے کہ ہم بغیر کسی کی مدد کے ترقی کی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں مگران میں افاضہ کی قوت نہ پائی جاتی ہو تو ان کے سب دعاوی باطل ہوںگے ۔ جب ان میںافاضہ کی قوت ہی نہیں تو وہ بغیر کسی راہنما کی مدد کے آگے بڑھ ہی کس طرح سکتے ہیں؟ وہ اگر ترقی کر سکتے ہیں تو اسی صورت میں کہ ان میں استفاضہ کی قوت ہو ۔ ان میں یہ مادہ ہو کہ وہ دوسرے سے فیوض حاصل کر سکیںکیونکہ ان کی حیثیت ری فلیکٹر کی سی ہے وہ اصل روشنی نہیں بلکہ ایک ائینہ انعکاس ہیں ۔ اگر اصل روشنی وہ اپنے آئینہ ظلّیت میں منعکس نہیں کریںگے تو سوائے تاریکی اور اندھیر ے کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔ بہر حال جس طرح نر اور مادہ کے باہمی اتصال سے نسل ترقی کرتی ہے اسی طرح قومیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب ایک راہنما ایسا موجو د ہو جو قوت افاضہ اپنے اندر رکھتا ہو اور قوم کے افراد ایسے ہوں جو قوت استفاضہ اپنے اندر رکھتے ہوں ۔ اللہ تعالی یہی مثال کفار کے سامنے پیش کرتا ہے اور انہیںبتاتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں تمہاری کوئی حیثیت ہی نہیں محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ ؓ کا باہمی جوڑ دنیا میں ایک زبردست نتیجہ پیدا کریگا کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ وہ ہیں جن میں قوتِ افاضہ کمال درجہ کی پائی جاتی ہے اور صحابہ کرام ٖؓ وہ ہیں جن میں قوتِ استفاضہ کامل طورپر پائی جاتی ہے ۔ وہ دونوں آپس میںمل بیٹھیں گے تو ایک نئی دنیا آباد کرنے کا باعث بنیں گے جس طرح مرد اور عورت آپس میں ملتے ہیں تو بچہ تولد ہوتا ہے اسی طرح رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کا روحانی تعلق ایک نئی آبادی کا پیش خیمہ ہے ۔ مگر اے مکہ والو! تم وہ ہو کہ نہ تم میںذکر کی قابلیت پائی جاتی ہے اور نہ اُنْثٰی کی قابلیت پائی جاتی ہے تم اسی طرح سوتے سوتے مر جائو گے تمہاری غفلتیں تم کو ڈبو دیںگی کیونکہ تم نر تو ہو نہیں اور نسوانی طاقتیں اپنے اندر پیدا نہیں کرتے گویا مخنث کی صورت بن رہے ہو ۔ تم آئندہ کس نیک انجام یا بھلائی کی امید کر سکتے ہو؟
لوگ کہتے ہیں کہ یہاں خنثٰی کا ذکر نہیں حالانکہ یہ اگر خنثٰی کا ذکر نہیں تو اور کیا ہے کہ محمد ﷺ میں افاضہ کی قوت ہے اور صحابہ میں استفاضہ کی قوت کامل طور پر پائی جاتی ہے ۔ مگر ا ے مکہ والو! تم میں نہ افاضہ کی قوت پائی جاتی ہے اور نہ استفاضہ کی ، اس لئے تم روحانی طور پر خنثٰی ہو ۔ نہ ذکر ہو نہ انثٰی ہو ۔ نہ تم میں نر کی قابلیت موجو د ہے کہ تم دوسروں کو نور پہنچا سکو اور نہ تم میں نسائیت پائی جاتی ہے کہ تم محمد ﷺ سے اکتساب ِ نور کر سکو ۔ پھر تم دنیا میں ترقی کس طرح کر سکتے ہو تم تو خنثٰی ہو اور خنثٰی کی نسل نہیں چلتی ۔ پس روحانی دنیا کے کامل آدم محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور روحانی دنیا کی کامل حوائیں صحابہ کرام ؓ ہیں اور خنثٰی مکہ کے منکرین ہیں ۔
اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی O ط
کہ تمہاری کوششیں یقینا مختلف ہیں ۔ ایت نمبر ۵
نمبر ۵ حل لغات ۔ شَتّٰی : ۔ اَشْیَاء ٌ شَتّٰی کے معنے ہوتے ہیں مُخْتَلِفَۃٌ ۔ مختلف اشیاء (اقرب)
تفسیر ۔ فرماتا ہے تمہاری اور مسلمانوں کی سعی آپس میں بڑا اختلاف رکھتی ہے ۔ تمہاری تمام سعی سونے کی تیاری میں ہے اور ان کی تمام سعی قومی بیداری اور ترقی کے لئے ہے ۔ تمہاری سعی تاریکی کے سردار شیطان کے حق میں ہے اور ان کی سعی خدا تعالی کے حق میں ہے جو خود نور اور نور کا پیدا کرنے والا ہے ۔ پھر تمہاری اور ان کی کوششوں کا نتیجہ ایک کس طرح ہو سکتا ہے ؟ تمہاری تمام سعی اس بات کے لئے وقف ہو رہی ہے کہ بستر بچھائو ۔ تکیہ لگائو اور لحاف رکھو تا کہ ہم سو جائیں اور صحابہ ؓ کی تمام سعی اب بات کے لئے وقف ہو رہی ہے کہ اٹھو ہل جو تو ، زمینوں میں بیج ڈالو، زمین کو پانی دو، اور کاشت کی اچھی طرح نگرانی کرو تا کہ اعلی درجہ کی فصل تیار ہو ۔ اب تم خود ہی سوچ لو کہ سونے والے کچھ کمایا کرتے ہیں یا جاگنے والے کمایاکرتے ہیں ؟ تم پر رات طاری ہے اور ان پر دن کی کیفیت طاری ہے جب تم دونوں کی کوششیں بالکل الگ الگ ہیں تو ان دونوںکا ایک نتیجہ کس طرح نکل سکتا ہے اور تم کس طرح خیال بھی کر سکتے ہو کہ رات کو سونے والوں اور دن کے وقت ہل جوتنے والوں کا ایک سا انجام ہو گا؟
دوسرے معنے اس آیت کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ تم خنثٰی ہو اور نر سے بھاگ رہے ہو مگر یہ انثٰی ہیں اور نر سے بھاگ نہیں رہے بلکہ اس سے تعلق پیدا کر رہے ہیں اب تم خود ہی سمجھ لو کہ تمہارے ہاں روحانی اولاد کس طرح پیدا ہو سکتی ہے؟ اولاد انہی دلہنوں کے ہاں پیدا ہوتی ہے جو دولہا کی طرف جاتی ہیں مگر جو دولہا سے بھاگ جائیں ان کے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی ۔ یہی حال محمد ﷺ اور آپ کے مخاطبین کا ہے ۔ محمد ﷺ کے صحابہؓ جانتے ہیں کہ ہم میں رجولیت والی طاقت نہیں بلکہ استفاضہ والی طاقت ہے اس لئے وہ اپنے روحانی دولہا کے پاس جاتے ہیں مگر تم میں وہ طاقت تو ہے نہیں کہ اپنے زور سے کوئی نتیجہ پیدا کر سکو ۔ صرف اللہ تعالی نے تم میں استفاضہ والی قوت رکھی ہے مگر تم میں اپنی شامتِ اعمال سے ایسی بیماری پیدا ہوچکی ہے کہ تم دولہا کو پہچانتی تک نہیں اور اس سے دور بھاگ رہی ہو ۔ تمہاری حالت لیل والی ہے اور ان کی نہار والی ۔ وہ انثٰی ہونے کے لحاظ سے وقت کے دولہا کی طرف جا رہے ہیں اور تم دولہا سے بھاگ رہے ہو اور جب تمہاری اور ان کی حالت میںاس قدر نمایا ں فرق ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا کہ تمہیںترقی حاصل ہو ، تمہارے ہاں بھی نورِ آسمانی کی پیدائش ہو اور تم بھی دنیا میں سر بلند ہو ؟روحانی ثمرات تو انہی سے پیدا ہوں گے تم سے نہیں ۔ اور آئندہ دنیا انہی دلہنوں سے آباد ہو گی جو دولہا کے ہاں جاتی ہیں ۔ ان سے آباد نہیں ہو سکتی جو دولہا کے قریب جانا پسند نہیں کرتیں ۔ تم مت خیال کرو کہ دنیا کی آئندہ ترقی میںتمہارا بھی کوئی حصہ ہو گا اب دنیا کی آبادی مسلمانوں کی وجہ سے ہو گی اور وہی قوم ترقی کرے گی جس پر دن چڑھا ہوا ہے اور جو قربانیوں سے کام لے رہی ہے ۔ تن آسانیوں کے لئے مرمٹنے والے وجود ان نعمتوں کو حاصل نہیں کر سکتے۔
اب اگلی آیت میں اللہ تعالی تاریکی اور روشنی کا فرق اور نسائیت کاملہ والی اور بانجھ کا فرق بتاتا ہے اور ایک مثال کے ذریعہ اس امر کو واضح کر تا ہے ۔
فَاَمَّا مَنْ عَعْٰی وَاتَّقٰی O لا وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی O لا فَسَنُیَسِّرُہ‘ لِلْیُسْرٰی O ط
پس جس نے (خد اکی راہ میں ) دیا اور تقویٰ (اختیار ) کیا ۔ اور نیک بات کی تصدیق کی اسے تو ہم ضرور آسانی (کے مواقع ) بہم پہنچا ئینگے ۔ ایت نمبر ۶
نمبر ۶ حل لغات ۔ یَسَّرَ الشَّیْ ئَ لِفُلَانٍ کے معنے ہوتے ہیںسَھَّلَہ‘ لَہ‘ ۔ اس کے لئے ا سامر کو آساں کر دیا (اقرب) پس نُیَسِّرُ کے معنے ہوں گے ۔ ہم آسان کر دیں گے ۔
تفسیر ۔ فرماتا ہے دن کی مثال اور نسائیت کاملہ والی قوم کی مثال اس شخص کی سی ہے جو (۱) اَعْطیٰ (۲) وَاتَّقٰی (۳) وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی کا مصداق ہو۔ یہاں ایک نہایت ہی لطیف مضمون بیان کیا گی ہے اَعْطٰی کے معنے ہوتے ہیں دوسرے کو دیا ۔ اور اِتَّقٰی کے معنے ہوتے ہیں پرہیز گاری اختیار کی ۔ پس اَعْطٰی میں عمل کی درستی کی طرف اشارہ ہے اور اِتَّقٰی میںجذبات کی درستی اور ان کی صحت کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی میںاچھی باتوں کی تصدیق کا ذکر ہے اور تصدیق کا تعلق انسانی فکر کے ساتھ ہوتا ہے پس عمل اور جذبات کی درستی کے ساتھ فکر کی درستی کا ذکر بھی شامل کر دیا اور اس طرح بتایا کہ ترقی کرنے والی قوم کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے عمل میں بھی صحت ہو، اس کے جذبات میں بھی صحت ہو اور اس کے افکار میںبھی صحت ہو ۔ اَعْطٰی میںعمل کی صحت کا ذکر ہے اِتَقٰی میںجذبات کی صحت کا ذکر ہے اور صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی میںافکار کی صحت کا ذکر ہے کیونکہ اَعْطٰی کے معنے ہوتے ہیں وہ دیتا ہے یعنی اس کا عمل صحیح ہے ۔ اِتَّقٰی کے معنے ہوتے ہیں وہ ہر بری بات سے ڈرتا ہے یعنی اس کے جذبات صحیح ہیں اور صَدَّقََ بِالْحُسْنٰی کے معنے ہیںوہ اچھی باتوں کی تصدیق کرتا ہے یعنی اس کے افکار صحیح ہیں ۔ یہاں تین اصلاحوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسانی تکمیل کے لئے یہ تینوںاصلاحیں ضروری ہیں۔ الفاظ مختصر ہیں مگر ان مختصر الفاظ میں علم النفس کا ایک نہایت اہم نکتہ بیان کیا گیا ہے اور بنی نوع انسان کے سامنے اس روشن حقیقت کو رکھا گیا ہے کہ عمل، جذبات اور فکر کی درستی سے ہی انسان پورے طور پر اچھا ہوتا ہے یعنی عمل صحیح ، احساس صحیح اور فکر صحیح۔ یہ تین کمالات جب تک کوئی قوم اپنے اندر پید انہیں کرلیتی وہ ترقی نہیںکر سکتی ۔ علم ِ کامل افکار کی درستی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، احساس ِ کامل جذبات کی درستی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور عمل ِ کامل اعمال کی درستی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ۔ یہ تین چیزیں ہیں جن سے کامیابی ہوتی ہے اگر علم ِ صحیح نہ ہو تو یہ لازمی بات ہے کہ اسکے جذبات بھی بگڑ جائیںگے اور ا س کا عمل بھی بگڑا ہوا ہو گا ۔ مثلاً پسا ہوا نمک اور میٹھا دونوں ہم شکل ہوتے ہیں اگر ہم کسی کو میٹھا دے دیں اور وہ اسے نمک سمجھ کر ہنڈیا میںڈال لے تو چونکہ اس کا علم صحیح نہیںہو گا نتیجہ بھی خراب ہی پیدا ہو گا ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ میٹھے کو نمک سمجھ کر ہنڈیا میں ڈال لے تو میٹھا نمک بن جائے ۔ غلط علم ہمیشہ غلط عمل اور غلط جذبات پیدا کیا کرتا ہے۔
بسا اوقات عورتیں آنکھ میں ڈالنے والی دوا یا مالش کرنے کی دوا بچوں کو غلطی سے پلا دیتی ہیں اور وہ ہلاک ہو جاتے ہیں یہ نہیں ہوتا کہ ان کے غلط علم کا کوئی غلط نتیجہ پیدا نہ ہو ۔ پس غلط علم غلط عمل اور غلط جذبات پیدا کرتا ہے ۔ فرض کرو کہ کسی شخص کا بچہ گم ہو جائے اور باوجود تلاش کے وہ اپنے ماں باپ کو نہ ملے لیکن ہو زندہ ، اور کسی نہ کسی طرح پل کر کسی اور شہر میںاپنا کاروبار شروع کر دے اور اتنا لمبا عرصہ اس علیحدگی پر گذر جائے کہ وہ اپنے باپ کی شکل تک بھول جائے اس کے بعد فرض کرو ایک دن اس کا باپ اسی شہر میں آجائے اور بوجہ غربت کے مزدوری شروع کر دے اور بیٹا مثلاً سفر پر جاتے ہوئے یا گھر بدلتے ہوئے یا سوداگھر پہنچانے کے لئے ایک مزدور کا محتاج ہو اور اس کی نظر اپنے باپ پر پڑے تو کیا اس کے دل میں محبت اور رقت کے جذبات پیدا ہو جائیں گے ؟ ہرگز نہیںبلکہ بوجہ غلط علم کے وہ اپنے باپ کو ایک مزدور کی شکل میں ہی دیکھے گا اور بے تکلفی سے کہہ دے گا او بڈھے ادھر آئو یہ سامان اٹھا کر فلاں جگہ تک لے چلو تم کو اتنے پیسے ملیںگے ۔ تو باوجود اس کے کہ حقیقت کے لحا ظ سے وہ جوان بیٹا ہو گا اور بڈھا اس کا باپ ہو گا لیکن چونکہ اسے علم نہیں ہو گا کہ یہ میرا باپ ہے بلکہ وہ اسے ایک مزدور سمجھ رہا ہو گا ۔ اس لئے اس کے دل میں کوئی جذبہ ہمدردی اپنے باپ کے متعلق پیدا نہیںہو گا وہ اس سے اسی طرح کام لے گا جس طرح ایک عام مزدورسے کام لیا جاتاہے پس غلط علم کے نتیجہ میں ہمیشہ غلط جذبات پیدا ہوتے ہیں اور غلط جذبات کے نتیجہ میںہمیشہ غلط عمل پیدا ہوتا ہے ۔ علم محرک ہے جذبات کا اور جذبات محرک ہیںعمل کے۔صحیح عمل تبھی پیدا ہو تا ہے جب جذبات اعلیٰ درجہ کے ہوں اور صحیح جذبات تبھی پیدا ہوتے ہیں جب علم اعلیٰ درجہ کا ہو ۔ صحیح جذبات کے بغیر اچھا عمل کبھی پیدا نہیں ہو سکتا ۔ ماں کی محبت کو دیکھ لو وہ کس طرح اپنے بچہ کے لئے مرتی چلی جاتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اگر کسی نوکر کو بیس گنا معاوضہ بھی دے دیا جائے تب بھی وہ کبھی اس طرح دن رات کام نہیں کر سکتا جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کے لئے تکلیف برداشت کرتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ نوکر جذبہ سے کام نہیں کرتا اس کاکام صرف فکر سے تعلق رکھتا ہے جذبات غائب ہوتے ہیں ۔ تو صحیح عمل کے لئے صحیح جذبات کی ضرورت ہوتی ہے اور صحیح جذبات کے لئے صحیح علم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مگر جب یہ تینوں چیزیںاکٹھی ہو جائیں تو پھر تو وہ قوم یا فرد جوان تینوں خوبیوں کو اپنے اندر پید ا کر لیتا ہے اپنی ذات میں کامل ہو جاتا ہے ۔ اَعْطٰی میں اللہ تعالی نے اعمال کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ روپیہ جمع نہیں کرتے ۔ اِتَّقٰی میں جذبات کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ بری باتوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے ۔ پہلی سورتوں میں یہ ذکر کیا تھا کہ کفار کی یہ عادت ہے کہ وہ روپیہ قومی ضروریات کے لئے خرچ نہیں کرتے بلکہ لغو باتوں میںاس کو ضائع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے ۔ یَقُوْلُ اَھْلَکْتُ مَا لًا لُّبَدًا (البلد ) وہ کہتا ہے میںنے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کی تردید کی تھی اور بتایا تھا کہ بے شک تم نے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا مگر قومی ضروریا ت کے لئے نہیں ، یتامیٰ اور مساکین کی خبر گیری کے لئے نہیں، غرباء کی ترقی کے لئے نہیں بلکہ اپنی عزت اور اپنے نام و نمود کے لئے۔ اس لئے تمہارا وہ مال خرچ کرنا مال کو برباد کرنا تھا ۔ گویا خرچ تو اس نے بھی کیا تھا مگر غلط طریق پر ۔ اسی طرح فرماتا تھا ۔ وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاکَ اَکْلًا لَّمًّا (الفجر ) تم اپنے باپ دادا کی جائیدادوں کو تباہ کر دیتے ہو ۔ غرض پہلی سورتوں میں بتایا ہے کہ کفار اپنا مال خرچ تو کرتے ہیں مگر صحیح مقامات پر خرچ نہیںکرتے اسراف میں اس کو ضائع کر دیتے ہیں اور جہاں خرچ کرنا ضروری ہوتا ہے وہاں بخل اور امساک سے کام لیتے ہیں۔ اب یہ بتا تا ہے کہ مومن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اَعْطٰی وہ دیتا ہے یعنی قومی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اور جب بھی کسی قربانی کی ضرورت ہو وہ فوراً اس کے لئے تیا ر ہو جاتا ہے ۔
یہاں یہ ایک نقطہ یاد رکھنے والا ہے کہ اللہ تعالی نے اَعْطَی الْمَالَ نہیں فرمایا بلکہ صرف اَعْطٰی کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ درحقیقت یہ عربی زبان کا کمال ہے جو کسی اور زبان کو حاصل نہیں کہ کسی جگہ مفعول حذف کر کے اور کسی جگہ الفاظ کو اضافتوں سے آزاد کر کے معانی میں وسعت پیدا کر دی جاتی ہے ۔ اگر اَعْطَی اَلْمَالَ فرماتا تو اس کے معنے صرف مال خرچ کرنے کے ہوتے مگر اب چونکہ صرف اَعْطٰی فرمایا ہے اس لئے اس کے معنے اَعْطَی اَلْمَالَ کے بھی ہو سکتے ہیںاَعْطَی اَلْعِلْمَ کے بھی ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح ہر ایسی چیز کے بھی ہو سکتے ہیں جو کسی کو دی جاسکتی ہے ۔ یہ ایسی ہے بات ہے جیسے قرآن کریم میںدوسرے مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے مِمَّا رَزَقْنَا ھُمْ یُنْفقُوْنَ ۔ (البقرہ ) ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے اس کا ایک حصہ وہ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرتے ہیں ۔ یہاں بھی اللہ تعالی نے عام رنگ میںانفاق کا ذکر کر کے اس کے معنوں کو وسیع کر دیا یعنی اس کے پاس مال ہو تو وہ مال تو خرچ کرتا ہے ، علم ہو تو علم خرچ کرتا ہے ، وقت ہو تو وقت خرچ کرتا ہے غرض جو کچھ اللہ تعالی نے اسے عطا کیا ہو وہ اسے لوگوں کی بھلائی کے لئے خرچ کرتا رہتا ہے ۔ اسی طرح اَعْطٰی میںاللہ تعالی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کیا دیتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ساری چیزیں جو ا س کو حاصل ہوں لوگوں کے لئے خرچ کرتا ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کو طاقت دی ہو تو وہ طاقت دیتا ہے ، وقت دیا ہو تو وقت دیتا ہے ۔ ہمارے ملک میں بھی وقت کے لئے دینے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، اسی طرح مال دیا ہو تو مال دیتا ہے ، اعلیٰ درجہ کے قویٰ عطا کئے ہوں تو ان سے ایسا کام لیتا ہے جو بنی نوع انسا ن کو فائدہ پہنچانے والا ہو ۔ غرض اَعْطٰی کہہ کر اللہ تعالی نے اس کے معنوں کو وسیع کر دیا ہے۔ پھر وَاتَّقٰی میںیہ بتایا کہ وہ جو کچھ کرتا ہے تقویٰ کے ماتحت کرتا ہے اور ڈرتا ہے کہ مَیںغلطی سے کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھوں جس سے لوگوں کو فائدہ کی بجائے نقصان پہنچ جائے ۔ اگر کوئی شخص کسی کو اتنا روپیہ دے دیتا ہے کہ وہ اسے عیاشی میںضائع کرنا شروع کر دیتاہے تو یہ اس روپیہ کا بالکل غلط استعمال ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ظالم کو طاقت پہنچادیتا ہے تویہ بھی اس قوت کا برمحل استعمال نہیںہو گا۔ اسی طرح اَعْطٰی کے ساتھ اللہ تعالی نے وَاتَّقٰی کے الفاظ کا اضافہ کیا اور بتایا کہ وہ دیتا تو ہے مگر ساتھ ہی ڈرتا ہے کہ میں کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھوں جس سے دنیا کی علمی یا عملی یا سیاسی یا عائلی حالت کو کوئی نقصان پہنچ جائے اور میں ثواب کی بجائے اللہ تعالی کی ناراضگی کا مورد بن جائوں۔
وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی میں یہ بتایا کہ وہ صرف اسی پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ وہ افکار کی درستی میں بھی لگا رہتا ہے ۔ صحیح عقائد اختیار کرنے کی جدوجہد کرتاہے اور کوشش کرتا ہے کہ بہتر سے بہتر عقیدہ کی تصدیق کرے ۔ گویا َصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیکہہ کر یہ بتایا کہ وہ علم کی زیادتی کی کوشش کرتا رہتا ہے حُسْنٰی کے معنے صرف اچھی چیز کے نہیں بلکہ نہایت اعلی درجہ کی چیز کے ہیں اور معنے یہ ہیں کہ وہ احسن سے احسن چیز کی تصدیق کرتا ہے یعنی اپنے علم کو کمال تک پہنچا دیتا ہے ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو ترتیب اوپر بتائی گئی ہے اس میں علم کو محرک جذبات بتایا گیا ہے اور جذبات کو محرک عمل قرا ردیا گیا ہے مگر یہاں عمل پہلے ہے جذبات کا ذکر بعد میں ہے اور فکر کا اس کے بعد میں ۔ گویا ترتیب بالکل الٹ ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ ترتیب اللہ تعالی نے درجہ کی بلندی کے اظہار کے لئے الٹ دی ہے چونکہ یہاں قومی مقابلے کا ذکر تھا جس میںعمل نمایا ں نظر آتا ہے اس لئے اسے پہلے ،اس کے محرک کو اس کے بعد اور اس کے محرک کو اس کے بعد رکھا گیا ہے ورنہ پیدائش کے لحاظ سے علم پہلے ہے جذبات دوسرے درجہ پر اور عمل تیسرے درجہ پر ۔ لیکن قومی مقابلہ میں جذبات اور علم دونوں چھپے ہوئے ہوتے ہیں ۔ صرف عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جو دوسروں کے سامنے آتی ہے ۔ یہاں چونکہ کفار اور مسلمانوں کا مقابلہ کیا گیا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں تمہارا اپنی کامیابی کے متعلق ادّعا بالکل لغو ہے ۔ جو خوبیاں مسلمانوں میںپائی جاتی ہیں وہ تم میں موجود ہی نہیں اس لئے یہ لازمی بات ہے کہ مسلمان کامیاب ہوں اور تم ان کے مقابلہ میںشکست کھائواس لئے یہاں عمل کا پہلے ذکر کیا گیا ہے ۔ اگر جذبات اور افکار کو پہلے پیش کیا جاتا تو وہ ان کی اہمیت کو تسلیم نہیں کر سکتے تھے مثلاً اگر یہ کہا جاتا کہ صحابہ ؓ کا علم تمہارے علم سے بہتر ہے تو وہ کہتے کہ یہ بالکل غلط ہے ہمارا علم ان سے ہزار درجہ بہتر ہے لیکن جب یہ کہا جاتا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو غریبوں کی خدمت کرتے ہیں اور تم وہ ہو جو غریبوں کے لئے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتے تو اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیںتھا پس چونکہ یہاں کفر کا مقابلہ تھا اس لئے اس مقابلہ کی اہمیت کے لحاظ سے عمل کا پہلے ذکر کیا گیا ہے ورنہ جہاں تک محرکات کا سوال ہے علم پہلے ہے جذبات بعدمیں اور عمل اس کے بعد ہے ۔ مگر جہاں تک برے اور بھلے کے مقابلہ کا سوال ہے سب سے پہلے لوگوں کے سامنے عمل آتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے وہ آسانی کے ساتھ اپنا اور مسلمانوں کا مقابلہ کر سکتے تھے اس غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالی نے یہاں ترتیب الٹ دی ہے ۔ عمل کا پہلے ذکر کیا ہے اور جذبات اور افکار کا بعد میں۔ کیونکہ کفار کو عمل کے ذکر سے ہی جھوٹا کیا جاسکتا تھا جذبات اور علم کے متعلق وہ سو سو حجتیں کر سکتے تھے۔
اس کے بعد فرماتا ہے جو شخص ان صفات کا حامل ہوفَسَنُیَسِّرُہ‘ لِلْیُسْرٰی ۔ ہم ایسے آدمی کو ضرور یُسْرٰی مہیا کر دیں گے ۔ اس جملہ کے دو معنے ہیں ایک تو یہ کہ اسے ایسے حالا ت میسر آجائیںگے جن سے وہ آسانی کے ساتھ غالب آسکے ۔ آسانی میسر آجانے کے یہی معنے ہواکرتے ہیں کہ افعال کے نتائج انسانی ارادوں کے مطابق نکلنے شروع ہو جائیںاور جب کسی کو اس کے ارادوں کے مطابق سامان میسر آجائیںتو اسے آسانی ہو جاتی ہے پس اس کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ ہم اس کے ہر کام میں آسانی پیدا کر دیں گے ۔ دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ہم رفتہ رفتہ اس پر نیک عمل کو آسا ن کر دیں گے یعنی عمل صالح پہلے بڑا گراں گزرتا تھا جب کسی سے کہا جاتا ہے کہ تم اپنے اعمال کو بھی درست کرو ، اپنے جذبات کو بھی درست کرو، اپنے افکارکو بھی درست کرو تو وہ گھبرا جاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ تو بڑا مشکل ہے مجھ سے یہ کام نہیں ہو سکے گا۔ مگر فرماتا ہے جب کوئی شخص اس راستہ پر چل پڑے اور ہمت کے ساتھ ان افعال کی بجا آوری میںمشغول ہو جائے تو ہمار ی سنت یہ ہے کہ ہم ان کاموں کی سرانجام دہی اس کے لئے آسان کر دیتے ہیں ۔ پھر ا س کی طبیعت پر کوئی بوجھ نہیں رہتا بلکہ وہ دلی خوشی اور بشاشت کے ساتھ ان کو بجا لاتا ہے ۔ پہلے دن جب کسی کو نماز پڑھنے کے لئے کہا جائے تو اسے بڑی مشکل نظر آتی ہے مگر رفتہ رفتہ اسے ایسی عادت ہو جاتی ہے کہ کسی ایک نماز کو چھوڑنا بھی اسے موت سے بدتر معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن ابتدائً انسان کے سامنے جب کوئی اہم عمل ِ صالح آتا ہے وہ گھبرا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا بجا لانا مشکل ہو گا مگر اللہ تعالی فرماتا ہے فَسَنُیَسِّرُہ‘ لِلْیُسْرٰی حقیقت یہ ہے کہ اصل میں آسان عمل ِ صالح ہے اور مشکل چیز برائی ہے ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُراٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر ۱ : ۸) ہم نے قرآن کو ہدایت کے لئے بالکل آسان بنا دیا ہے کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں جو اس نسخہ کو استعمال کرے اور اپنے رب کو راضی کر لے۔ اصل یُسْرٰی خدائی تعلیم ہے جس سے انسان کی روح کوترقی حاصل ہوتی ہے مگر پہلے عُسْرٰی نظر آتی ہے اور انسان اس پر عمل کرنے سے گھبراتا ہے اس لئے فرمایا کہ صحابہ کرام جو محمد رسول اللہﷺ کی قوت روحانیہ سے استفاضہ حاصل کریںگے ہم ان کے لئے بظاہر مشکل نظر آنے والے اعمال ِ صالحہ کو آسان کر دیں گے اور ان کی طبائع میں ان اعمال کی طرف خاص رغبت پیدا ہو جائے گی ۔ کیونکہ جو شخص علم صحیح اور جذبات صحیح اور عمل صحیح سے کام لیتا ہے اس کی نظر کی غلطی کو درست کر دیا جا تا ہے اس وجہ سے اسے ان کاموں میںلذت اور سرور محسوس ہونے لگتا ہے جو دوسروں کو مشکل نظر آتے ہیں۔
وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی O وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی O فَسَنُیَسِّرُہ‘ لِلْعُسْرٰی O
اور ایسا( شخص )جس نے بخل سے کام لیا اور بے پرواہی کا اظہار کیا اور نیک بات کو جھٹلایا اسے ہم تکلیف (کا سامان ) بہم پہنچائیں گے نمبر ۷
نمبر ۷ تفسیر ۔ پہلی آیات کے بالمقابل ان آیات میں بھی تین باتیں بیان کی گئی ہیں۔ بَخِلَ ، اَعْطیٰ کے مقابلہ میں رکھا گیا ہے اور اِسْتَغْنیٰ ، اِتَّقٰی کے مقابلہ میں ۔ کیونکہ اِتَّقٰی کے معنے ہیں خدا تعالی سے ڈرنا کہ وہ کسی غلطی کی وجہ سے مجھ سے خفا نہ ہو جائے اور اِسْتَغْنٰی کے معنے ہیں بے پرواہ ہو جانا یعنی انسان کا یہ کہنا کہ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ خدا مجھ سے خفا ہوتا ہے یا نہیں۔ چونکہ اس قسم کا استغناء تقویٰ کے خلاف ہوتا ہے اس لئے اِتَّقٰی کے مقابلہ میں اِسْتَغْنٰے کا لفظ رکھا گیا ہے ۔ تیسری بات مسلمانوں کے متعلق یہ بیان کی گئی تھی کہ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی ۔ اس کے مقابلہ میں کفار کی نسبت کَذَّبَ بِالْحُسْنٰی کا ذکر کر دیا کہ وہ اچھی باتوں کا انکار کرتے ہیں ۔ غرض یہ تینوں باتیں پہلی تین چیزوں کے مقابل میں رکھی گئی ہیں۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ وہ شخص جو بخل کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے مال دیا ہے ، عزت دی ہے ، طاقت دی ہے ، وقت دیا ہے مگر وہ ان میں سے کسی چیز کو بھی خدا تعالی کی راہ میں خرچ نہیں کرتا اور پھر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مجھے کسی کی پرواہ نہیں میرا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے ۔ یہ الفاظ عام طور پر گندی طبیعت کے لوگ استعمال کیا کرتے ہیں جب انہیںکسی برائی سے روکا جائے تو وہ کہتے ہیں ہمیں کسی کی پرواہ نہیں ،کوئی شخص ہمار اکیا بگاڑ لے گا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے جو شخص بخل کے ساتھ یہ گند بھی اپنی طبیعت میں رکھتا ہے وَکَذَّبَ بالْحُسْنٰی اور پھر اس کا فکر بھی غلط ہے وہ دنیا میںکیا ترقی کر سکتا ہے ۔ طبیعت میں استغناء کا ہونا بتاتا ہے کہ صحیح جذبات مفقود ہیں کیونکہ جذبات ِ صحیحہ محبت پیدا کیا کرتے ہیں استغناء پیدا نہیں کیا کرتے ۔ بچہ مرنے لگتا ہے تو ماں نہیں کہتی بے شک مرے مجھے اس کی پرواہ نہیںلیکن نوکر بعض دفعہ یہ الفاظ کہہ دیتا ہے کیونکہ اس کے جذبات اور رنگ کے ہوتے ہیں ۔ بہرحال صحیح جذبات کا نہ ہونا استغناء پیدا کرتا ہے ، صحیح عمل کا نہ ہونا بخل پیدا کرتا ہے اور صحیح فکر کا نہ ہونا تکذیب پیدا کرتا ہے ۔ جس طرح پہلی آیات میں یہ بتاتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں غلط علم ، غلط جذبات اور غلط فکر پایا جاتاہے اور چونکہ یہ دونوںمثالیںمسلمانوں اور کفار کی ہیں اس لئے اللہ تعالی ان امور کا ذکر کرتے ہوئے کفار کو بتاتا ہے کہ تم میںجب یہ یہ نقائص پائے جاتے ہیںاور مسلمانوں میں اس کے مقابلہ میں بہت بڑی خوبیاں پائی جاتی ہیںتو تم ان کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہو؟ ان کے کاموں کا نتیجہ تو یہ ہوگا کہ ہم ان کے لئے یُسْرٰی مہیا کر دیںگے مگر تمہارے کاموں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم تمہارے لئے عُسْرٰی مہیا کر دیںگے ۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے سارے کام بگڑتے چلے جائیںگے جس کام کو بھی ہاتھ لگائو گے خراب ہو جائے گا ۔ اور یا پھر یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ان اعمال کے نتیجہ میںتمہارے لئے نیکی کا حصول زیادہ سے زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ اصل کام اعمال ِ صالح ہی ہیں ان اعمال سے انسان جتنا دور ہوتا چلا جاتا ہے اتنا ہی نیکی کی طرف لوٹنا اس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے گویا دو باتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ نیکی کا حصول مشکل ہو جائے گادوسرے یہ کہ تم جو کام بھی کرو گے اسی کا نتیجہ الٹ ہو گا کیونکہ تمہارے عمل میں خرابی پیدا ہو چکی ہے ، تمہارے اندر بے پرواہی ہے جو جذبات کے فقدان اور ان کی خرابی کی دلیل ہے اور پھر تمہارے اندر تکذیب پائی جاتی ہے جو ذہن و فکر کی نادرستی اور غلط علم کا ثبوت ہے ۔ یہ ساری باتیں مل کر تمہاری ہلاکت اور بربادی کا موجب بن جائیں گی۔
وَمَا یُغْنِیْ عَنْہُ مَا لُہ‘ اِذَاتَرَدّٰیOط
اور جب وہ ہلاک ہو گا تو اس کا مال اسے کوئی فائدہ نہ پہنچائے گا۔ آیت نمبر ۸
نمبر ۸ حل لغات تَرَدّٰی فِی الْھُوَّۃ کے معنے ہیں سَقَطَ فِیْھَا ۔وہ گڑھے میں گر گیا(اقرب) مفردات میں ہے کہ اَلتَّرَدِّیْ کے معنے ہیں التَّعَرُّضُ لِلْھَلَا کِ اپنے آپ کو ہلاکت کے لئے پیش کرنا (مفردات) پس تَرَدّٰی کے معنے ہوں گے۔ گر گیا (۲) ہلاکت کے سامنے ہوا۔
تفسیر ۔ فرماتاہے جب مذکورہ بالا صفات والا گروہ ہلاک ہونے کے قریب پہنچے گا یا اپنے مقام سے گر جائے گا تو اسے اس کا مال کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا ۔ جب تک عزت حاصل ہے وہ بے شک فخر کر لے لیکن جب تنزل کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہلاکت قریب آگئی اس وقت کوئی چیز اس کے کام نہیں آئے گی ۔ اس وقت وہ اچھے کام بھی کریگا تو ان کا کوئی نتیجہ پید انہیں ہو گا کیونکہ عذاب کی ساعت سر پر کھڑی ہو گی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک خدا تعالی کی طرف سے ہلاکت کا فیصلہ نہ ہو اس وقت تک مال ، دولت اور عزت پر چیز انسان کے کام آجاتی ہے لیکن جب تباہی کا فیصلہ ہو جائے تو پھر کوئی چیز کام نہیںآتی ۔ انسان مال خرچ کرتاہے تو الٹا نتیجہ پیدا ہوتا ہے ، رحم کرتا ہے تو الٹا نتیجہ پیدا ہوتا ہے ۔ نہ دولت کام آتی ہے نہ عزت کام آتی ہے نہ نرمی اور محبت کام آتی ہے ۔ پہلے اگر وہ صدقہ کرتا ہے تو لوگ اس کی قدر کرتے ہیں مگر پھر وہ صدقہ کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں اب ہمیںرشوت دے رہا ہے ۔ پہلے نرمی کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں حسن ِ اخلاق سے کام لے رہا ہے پھر اس وقت نرمی کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ ہماری منتیں کر رہا ہے ۔ گویا سارے حالات ا س کے مخالف ہو جاتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں رہتی جو ا سکو فائدہ پہنچا سکے۔
غرض فرمایا وَمَا یُغْنِیْ عَنْہُ مَا لُہ‘ اِذَاتَرَدّٰی ۔ جب اس کی ہلاکت کا وقت آجائے گا تو اس وقت وہ وہی کام کرے گا جو ہم اب اسے کرنے کو کہتے ہیںمگر یہ نہیں کرتا ۔ لیکن اس وقت ان کاموں کا الٹا نتیجہ پیدا ہو گا مال دے گا تو لوگ کہیں گے ہمیں رشوت دیتا ہے ۔ نرمی سے بولے گا تو لوگ کہیںگے ہماری خوشامد کرتا ہے ۔
ایت نمبر ۹ ، ۱۰
اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی O وَ اِنَّ لَنَا لَلْاٰخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی O
ہدایت دینا یقینا ہمار ے ہی ذمہ ہے ۔ اور ہر بات کی انتہا اور ابتداء بھی یقینا ہمارے ہی اختیار میں ہے ۔ ۹ ، ۱۰
نمبر ۹ تفسیر ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دوسروںکو فائدہ پہنچانا ، تقوی اللہ اختیار کرنا اور اچھی باتوں کی تصدیق کرنا یہ ان اعمال میں سے ہیں جو قوموں کو ترقی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور بخل سے کام لینا ، استغنٰی ظاہر کرنا اور سچی باتوں کی تکذیب میں حصہ لینا یہ ان اعمال میںسے ہیںجو قوموں کو ہلاکت کے گڑھے میںگرا دیتے ہیںمگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریک رات کے مارے ہوئے لوگوں کو خدا تعالی ہی ہدایت دے سکتا ہے ۔ اِنَّ عَلَیْنَا کے معنے ہیں ۔ ہم پر واجب ہے یا ہمارا ہی یہ کام ہے یعنی بنی نوع انسان سے بوجہ حقیقی شفقت اور مہربانی رکھنے کے یہ ہمارا ہی کام ہے کہ ہم ان کو ہدایت دیں انسان کا کام نہیں کہ وہ اپنے لئے آپ ہدایت تجویز کر لے کیونکہ بسا اوقات انسان اپنے نفس کے متعلق ایک فیصلہ کر تا ہے اور وہ غلط ہوتا ہے۔ بخیل اپنے متعلق فیصلہ کرتا ہے اور وہ غلط ہوتا ہے ۔ ظالم اپنے متعلق فیصلہ کرتاہے اور وہ غلط ہوتا ہے ۔ جاہل اپنے متعلق ایک فیصلہ کرتا ہے اور وہ غلط ہوتا ہے ۔ پس خواہ وہ اپنے متعلق خود ہی کوئی فیصلہ کر لیتے پھر بھی وہ اپنے نفس کے اتنے خیر خواہ نہیں ہو سکتے جتنے ہم ان کے خیر خواہ ہیں ۔ اس لئے باوجود اس کے کہ وہ انکار کرتے ہیں ، مخالفتیں کرتے ہیں ، گالیاں دیتے ہیں ، مومنوں کو تکالیف پہنچاتے ہیںپھر بھی ہم ان کو ہدایت دیتے چلے جاتے ہیںکیونکہ ہم انسان کو پید اکرنے والے ہیں ، ہم مشفق اور مہربان ہیں ، ہم رحمن اور رحیم ہیں، ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہیںاور باوجود ان کے انکار کے انہیں ہدایت دیتے چلے جاتے ہیں۔
نمبر ۱۰ تفسیر ۔ اس آیت میں اللہ تعالی کفار کو بتاتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ تمہاری راہ میں وہ کونسی مشکلات ہیں جن کی بناء پر تم سچائی کو قبول نہیں کرتے۔ تمہارے لئے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ تم دنیا چھوڑنے کے لئے تیار نہیںہو۔ تم دیکھتے ہو کہ مسلمان اپنے مال کی پرواہ نہیں کرتے ۔ جب بھی کوئی قومی اور ملی ضرورت پیش آتی ہے وہ اپنے اموال کو بلا دریغ قربان کر دیتے ہیں مگر تم اپنے اموال کو سنبھال سنبھال کر رکھتے ہو اسی لئے تم مسلمانوں کے متعلق کہتے ہو کہ وہ پاگل ہیں تباہ اور برباد ہو جائیں گے کیونکہ وہ اپنے اموال کو ضائع کر رہے ہیں۔ لیکن ہم تباہ نہیں ہو سکتے کیونکہ ہم اپنے مال کو حفاظت سے رکھتے ہیں ۔ فرماتا ہے یہ خیال ہے جو تمہار ے دلوں میںپایا جاتا ہے مگر تمہیں اس حقیقت کا علم نہیں کہ ہمارے پاس ہی آخرت ہے اور ہمارے پاس ہی دنیا ہے ۔ تم دنیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہیںدنیا بھی نہیںملے گی اوردین بھی تمہارے ہاتھ سے چلا جائے گا کیونکہ دنیا بھی ہمارے پاس ہے اور آخرت بھی ہمارے پاس ہے اس کے مقابلہ میںیہ مسلمان دنیا کو چھوڑ رہے ہیں مگر ہم انہیں آخرت بھی دیں گے اور دنیا بھی دیں گے ۔ تم سمجھ رہے ہو کہ یہ اپنا نقصان کر رہے ہیں مگر یہ نقصان نہیںکر رہے جب یہ ہمارے پاس پہنچیںگے تو جس چیز کو چھوڑ کر یہ لوگ چلے تھے وہ وہیں کھڑی ہو گی اور یہ اس کو حاصل کر لیں گے ۔ تم جانتے ہو کہ یہ لوگ ہمارے پاس آرہے ہیں جب یہ ہمارے پا س آرہے ہیں تو گو اس نیت اور ارادہ سے آرہے ہیں کہ ہمیںآخرت ملے گی مگر چونکہ دنیا بھی ہمارے پا س ہو گی اس لئے وہ بھی ان کو مل جائے گی اور تم لوگ آخرت چھوڑ کر دنیا کے پاس جا رہے ہو اور چونکہ دنیا ہمارے پاس ہے اور تم ہماری طرف نہیں آرہے اس لئے تمہاری جد وجہد کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا بھی تمہارے ہاتھ سے جائے گی اور آخرت کی نعمتوں سے بھی تم محروم ہو جائو گے ۔ گویا کفار کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کسی شخص کے پاس بہت سا مال و اسباب تھا اور وہ اکیلا سفر کررہا تھا ایک چور نے اسے دیکھا تو اس نے ارادہ کیا کہ میں کسی طرح اس کا مال اڑائوں آخر سوچنے کے بعد اس نے یہ تجویز نکالی کہ ایک نیا اور اعلیٰ جوتا رستہ میں پھینک دیا اور خود ایک طرف چھپ گیا ۔ جب وہ شخص جوتے کے پاس پہنچا تو اسے بڑا پسند آیا اور اس نے اسے اٹھا لیا مگر پھر خیال آیا کہ میں نے ایک جوتا کیا کرنا ہے اگر دوسرا جوتا بھی ساتھ ہوتا تو کام بھی آتا صرف ایک جوتا کیا کام دے سکتا ہے چنانچہ وہ اسے وہیں چھوڑ کر آگے چل پڑا ۔ کچھ دور آگے جا کر چور نے دوسرا جوتا پھینکا ہوا تھا جب وہ وہاں پہنچا تو اسے اپنی بے وقوفی پر افسوس آیا او ر اس نے کہا کہ مجھ سے کیسی سخت غلطی ہوئی کہ میں وہ جوتا اسی جگہ چھوڑ آیا اگر میںچھوڑ کرنہ آتا تو مکمل جوتا بن جاتا ۔ اس خیال کے آنے پر اس نے اسباب وہیں رکھا اور جوتا لینے کے لئے واپس چل پڑا ۔ چور کو موقع مل گیا اور اس نے اسباب بھی اٹھا لیا اور جوتا بھی ۔ جب وہ واپس گیا تو دیکھا کہ وہاں جوتا نہیںکیونکہ وہ جوتا چور اٹھا کر لے آیا تھا ۔ اب یہ پھر خالی ہاتھ اپنے اسباب کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہاںاسباب بھی نہیں اور جوتا بھی غائب ہے۔
یہی کافر کی حالت ہوتی ہے وہ آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی طرف جاتا ہے لیکن آخرت تو اس کے ہاتھ سے نکل ہی چکی تھی دنیا بھی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے کیونکہ دنیا خدا تعالی کے پاس ہوتی ہے اور وہ اس راستہ پر چل رہا ہوتا ہے جو شیطان کی طرف جاتا ہے ۔ ادھر مومن کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو چھوڑ کرآخرت کی طرف جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے دنیا کی ضرورت نہیں مجھے صرف آخرت کی ضرورت ہے ۔ مگر جب خد اتعالی کے پاس پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ دنیا اس کے پیچھے پیچھے چلی آرہی تھی اور وہ آخرت کے ساتھ کھڑی ہے ۔ اب جب کافر دنیا کے پا س جاتا ہے تو وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا نہ آخرت ہوتی ہے نہ دنیا ہوتی ہے پس فرماتا ہے وہ ہمارے پاس آئے تو اخرت کی تلاش میں تھے مگر جب وہ ہمارے پاس پہنچے تو انہوں نے اولیٰ کو بھی وہیں کھڑے پایا۔
نمبر ۱۱ حل لغات ۔ تَلَظّٰی اصل میں تَتَلَظّٰی ہے مگر تاء گر گئی ہے اور تَلَظّٰتِ النّٰارُ کے معنی ہیںتَلَھَّبَتْ۔ آگ بھڑک اٹھی (اقرب)
تفسیر۔ کَذَّبَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ صحیح اعتقاد نہیں رکھتا اور تَوَلّٰی میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ صحیح جذبات اور صحیح عمل سے کام نہیںلیتا تھا۔ پس چونکہ فکری ، جذباتی اور عملی تینوں خرابیاں اس میں پائی جاتی تھیںاس لئے اس کا انجام اچھا نہ ہوا ۔ کَذَّبَ کا لفظ اعتقادی خرابیوں کے لئے آیا ہے اور تَوَلّٰی کا لفظ جذبات اور اعمال کی خرابی پر دلالت کرتا ہے ۔
نمبر ۱۲ تفسیر ۔ وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقٰی سے یہ مراد نہیںکہ صرف ایسا شخص ہی دوزخ کی آگ سے بچایا جائے گا جو بہت متقی ہو۔ معمولی درجہ کا مومن نہیں بچایا جائے گا ۔ کیونکہ یہاں تقویٰ کا تقویٰ سے مقابلہ نہیں بلکہ تقویٰ اور کفر کا مقابلہ ہے ۔ پس اس آیت کے یہ معنے نہیں کہ متقیوں میںسے زیادہ نیک بچایا جائے گا بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ تم بھی اپنے متعلق کہتے ہو کہ ہم میں تقویٰ پایا جاتا ہے اور مومن بھی اپنے متعلق کہتے ہیں کہ ہم میں تقویٰ پایا جاتا ہے اب ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ان کا تقویٰ صحیح ہے لیکن تمہارا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ تم میں تقویٰ پایا جاتا ہے گویا یہاں مومنوں کے تقویٰ کا کفار کے خیالی تقویٰ سے مقابلہ کیا گیا ہے ورنہ یہ معنے نہیں کہ سب سے اعلیٰ متقی تو بہشت میں جائے گا اور ادنیٰ درجہ کا مومن اور متقی بہشت سے محروم رہینگے ۔ ایسے معنے کرنے قرآن کریم کی ان آیات کے بالکل خلاف ہیں جن میں اللہ تعالی نے صاف طور پر یہ فرمایا ہے کہ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہ‘ (الزلزال) جو شخص ایک ذرہ

نمبر ۱۱ تفسیر ۔ اس آیت میں اللہ تعالی اَتْقٰی کی تشریح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ کون سے فرماتا ہے اَتْقٰی وہ ہے جو اپنا مال اس نیت اور ارادہ سے دیتا ہے کہ میں پاک ہو جائوں ۔ یُوْتِیْ …… ۔ کہ وہ اپنا مال دیتا ہے ایسی حالت میں کہ وہ پاک ہونا چاہتا ہے ۔ دوسری بات اس میںیہ ہوتی ہے کہ وَمَا …… کسی شخص کا اس پر کوئی احسان نہیں ہوتا کسی کی نعمت میں سے کوئی نعمت اس کے پاس نہیں ہوتی یعنی کسی کا سابق احسان اس پر نہیں ہوتا جس کا وہ بدلہ دے رہا ہو ۔ اس کے اعمال کی یہ غرض نہیں ہوتی کہ میں کسی کا احسان اتاروں بلکہ وہ ایسے اعمال کرتا ہے جن سے اس کا دوسروں پر احسان ہوجاتا ہے گویا وہ یہ تو چاہتا ہے کہ اس کا کسی نہ کسی رنگ میںدوسروں پر احسان ہو مگر وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس پر کسی کا احسان ہو ۔
نمبر ۱۲ حل لغات ۔ اَلْوَجْہُ کے معنے ہیں اَلْمَرْضَا ۃُ ۔ رضا مندی (اقرب)
تفسیر ۔ مومن کہ علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اموال اس رنگ میں خرچ کرتا ہے کہ اس پر کسی کا احسان نہیں ہوتا جس کا وہ بدلہ اتار رہا ہو بلکہ بغیر اس کے کہ اس پر کسی کا سابق احسان ہو وہ اپنے رب کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے صدقہ و خیرات کرتا یا بنی نوع انسان کی امداد کے لئے اپنا روپیہ صرف کرتا ہے ۔ یہاں رب کی صفت اعلیٰ بیان فرمائی ہے جو سب سے بڑا ہے اس سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بیشک انسانوں پر دوسرے انسانوں کے بھی احسان ہوتے ہیں لیکن چونکہ اصل محسن اللہ تعالی ہے اور سب سے زیادہ وہی مربیّ ہے اس لئے مومن اس کی رضا کو سب دوسرے محسنوں کی رضاء پر مقدم کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالی کی خوشنودی کے لئے کام کیا تو چونکہ سب احسانوں کا منبع وہ ہے اس لئے سارے ہی محسنوں کا بدلہ بھی اتر گیا ۔
نمبر ۱۳ تفسیر ۔ فرماتا ہے جب ایک شخص اپنے اموال خرچ کرتا ہے اور اس کے مدنظر محض خدا تعالی کی رضامندی ہوتی ہے یہ غرض نہیں ہوتی کہ وہ کسی سابق احسان کا بدلہ اتارے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ تو میری رضاء کے لئے اس قدر جدوجہد کرے اور میں اس سے راضی نہ ہوں ۔ جب وہ خد اکی رضاء کے لئے ایسا کر رہا ہے تو یقینا خدا بھی اس سے راضی ہو جائے گا۔ جب ایک کمزور اور ناتواں بندہ دنیا سے اپنی توجہات ہٹا کر محض خدا تعالی کی رضاء کے لئے اپنے اموال کو قربان کر رہا ہو تو خدا تعالی کی شان سے یہ بالکل بعید ہوتا ہے کہ وہ اسے اپنی رضاء کی خلعت ِ فاخرہ نہ پہنائے اور اسے اپنے پیاروں میںشامل نہ کر لے ایسا شخص یقینا اپنے مقصد کو حاصل کر لیتا اور خدا تعالی کی رضا ء کا ایک دن وارث ہو جاتا ہے کیونکہ وہ دنیا کے طریق اور اس کے معمول کے خلاف اپنی قربانی کا لوگوں سے کوئی معاوضہ طلب نہیںکرتا ۔ دنیا میں لوگ قربانیاں کرتے ہیں تو اس لئے کہ انہیں عہدے مل جائیں یا افسران بالا کی خوشنودی ان کو حاصل ہو جائے یا ان کی تنخواہ میںاضافہ ہو جائے یا پبلک میں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے مگر یہ وہ شخص ہوتاہے جو ہر قسم کی دنیوی غرض سے اپنے دل کو صاف کر دیتا ہے وہ یہ نہیں چاہتا کہ لوگ میری تعریف کریں یا میرے کاموں پر واہ واہ کے نعرے بلند کریں یا مجھے پبلک میں کوئی خاص عزت دی جائے وہ صرف اپنے رب کی رضا ء کا بھوکا ہوتا ہے اوراس کے مد نظر محض یہ بات ہوتی ہے کہ جس طرح میںدوسروں کا خیال رکھتا ہوں اسی طرح اللہ تعالی میرا خیال رکھے اور وہ میرے گناہوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے مجھ سے راضی ہو جائے ۔ اللہ تعالی فرماتاہے جب وہ دنیا کے تمام دروازوں کو چھوڑ کر میرے دروازہ پر آگرا ہے اور ہر قسم کی خوشنودیوں کو اس نے محض میری خوشنودی کے لئے ترک کر دیا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں اس کا خیال نہ رکھوں ، جس طرح اس نے اِبْتِغَائً لِوَجْہِ اللہ اپنے اموال کی قربانی کی ہے اسی طرح میں اس پر راضی ہو جائوں گا اور اسے اپنے قرب میںجگہ دونگا۔
وَلَسَوْفَ یَرْضٰی میںوہی بات بیان کی گئی ہے جو یَآاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِی اِلَی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً میں بیان کی گئی تھی ۔ صرف یہ فرق ہے کہ وہاں رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً کے الفا ظ تھے اور یہاں یہ الفاظ ہیں کہ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی ۔ ورنہ مفہوم اور معنی کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ بندے کی خواہش یہ تھی کہ میرا خدا مجھ سے راضی ہو جائے گویا بندے کا راضی ہونا اس پر منحصر تھا کہ اس کا خدا تعالی اس سے راضی ہو جائے وَلَسَوْفَ یَرْضٰی نے بتا دیا کہ وہ مَرْضِیَّۃ بن جائے گا یعنی خدا اس سے راضی ہو جائے گا اور چونکہ بندہ کی خواہش تھی اس لئے خدا تعالی کے راضی ہونے کے بعد یہ بھی راضی ہو جائے گا اور جب یہ مقام اسے حاصل ہو جائے گا تو پھر یہ بھی یقینی بات ہے کہ وہ فَادْخُلِیْ فِیْ ……… کابھی مستحق ہو جائے گا اور جس شخص کو جنت حاصل ہو جائے وہ ہر قسم کی مکروہات سے امن میں آجاتا ہے ۔
غرض اس سورۃ کا اختتام اللہ تعالی نے اس بات پر فرمایا ہے کہ مسلمان دنیا میں کامیاب ہونگے لیکن کفار باوجود اپنی شدید مخالفت کے کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکیںگے ۔ مسلمانوں کی محنت اور ان کی قربانیاں اور کفار کی سستی اور ان کا قربانیوں میں حصہ نہ لینا ، مسلمانوں کے اندر افاضہ استفاضہ دونوں قوتوں کا موجود ہونا اور کفار کے اندر افاضہ کی قوت کا نہ ہونا اور استفاضہ کی قوت سے کام نہ لینا ان دونوں کا ایک نتیجہ نہیں نکل سکتا کیونکہ کفار اور مسلمانوں کے کام بالکل الگ الگ ہیں ۔ مسلمانوں کے کاموں سے خدا راضی ہو جائیگا لیکن کفار کے کاموں سے نہیں ۔ یہاں گو الٹ نتیجہ اللہ تعالی نے بیان نہیں کیا مگر وہ نتیجہ خودبخود نکل آتا ہے کہ کفار کو ان کے کاموں کے نتیجہ میں خدا تعالی کی رضاء حاصل نہیں ہو گی اور وہ اس کے غضب کا نشانہ بن کر تباہ و برباد ہو جائیں گے ۔


سورۃ الضحیٰ
۱؎ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نَزَ لَتْ بِمَکَّۃَ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی تھی ۔ بعض کہتے ہیں فرّۃ الوحی کے بعد یہ سورۃ نازل ہوئی تھی اس لئے رسول کریم ﷺ جب یہ سورۃ پڑھتے یا اس کی تلاوت سنتے تو اس وقت تکبیر کہنے کا حکم دیتے ۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ آپ صرف اتنا کہتے کہ اللّٰہُ اَکْبَرْ کہو لیکن بعض دوسری روایات میںیہ آیا ہے کہ آپ اللّٰہُ اَکْبَر لَآاِ لٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اللّٰہُ اَکْبَر فرمایا کرتے تھے ۔
بخاری میںروایت ہے کہ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ بیمار ہوئے اور تہجد کے لئے نہ اٹھے دو تین راتیں اسی طرح گذر گئیں اس پر ایک ہمسایہ مخالف عورت آئی اور رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے کہنے لگی معلوم ہوتاہے تیرے شیطان نے (نعوذ باللہ ) تجھے چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ دو تین رات سے تیرے پاس نہیں آیا ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تہجد کے وقت آپ بلند آواز سے تلاوت کیا کرتے تھے اور وہ اپنے خیال میں یہ سمجھتی تھی کہ آپ جو قرآن پڑھ رہے ہیں یہ درحقیقت کوئی سکھانے والا آپ کو سکھا رہا ہے جب بیماری کی وجہ سے آپ نہ اٹھے اور دو تین راتیں اسی حالت میں گذر گئیں تو اس نے قیاس کیا کہ نعوذ باللہ آپ کو جو شخص سکھاتا تھا یا جو روح سکھاتی تھی اس نے آپ کو چھوڑ دیا ہے اس پر سورۃ الضحیٰ نازل ہوئی ۔
جندب ؓ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل کچھ عرصہ تک وحی لے کر نہ اترے اس پر کفار نے کہا قَدْ وُدِّعَ مُحَمَّدٌ (صلعم) محمد ﷺ پر جو بھی کلام اترتا تھا اس کا اترنا اب بند ہو گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے چھوڑ دیا گیا ہیفَنََزَ لَتْ مَا وَدَّ عَکَ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ وَالضُّحیٰ وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی O مَا وَدَّ عَکَ رَبُّکَ وَ ماَقَلیٰ ۔
جندبؓ سے ہی ایک دوسری روایت ہے کہ ایک دفعہ کچھ عرصہ تک وحی بند رہی تو آپ کی ایک چچیری بہن نے کہا مَا اَریٰ …… کہ میرا تو یہ خیال ہے کہ تمہارا صاحب تم سے خفا ہو گیا ہے اس نے صاحب کا لفظ اس لئے بولا کہ جو لوگ خدا کو اس کلام کا نازل کرنے والا قرار دیتے ہیں وہ اس سے خدا مراد لے لیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شیطان آپ پر یہ کلام نازل کرتا ہے وہ اس سے شیطان مراد لے لیں ۔ بہرحال اس نے کہا جو بھی کلام نازل کیا کرتاتھا خواہ وہ خدا تھا یا شیطان معلوم ہوتا ہے وہ اب تم سے خفا ہو گیا ہے اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی ۔
یہ مختلف روایات ہیں جو اس سورۃ کے نزول کے متعلق بیان کی جاتی ہیں ۔ ایک میں آتا ہے کہ ایک ہمسائی نے آکر کہا ۔ ایک میںآتا ہے کہ لوگوں میں یہ چرچا ہوا اور ایک میںآتا ہے کہ آپ کی چچیر ی بہن نے کہا ۔ اب دو ہی صورتیںہیں یا تو ہم یہ کہیںکہ یہ ساری روایتیں غلط ہیں اور فیصلہ کر دیں کہ ان روایات کا سورۃ کے نزول سے کوئی بھی تعلق نہیں ۔ اور یا پھر یہ طریق اختیار کریں جو میرے نزدیک صحیح ہے کہ ایک وقت میں ایک واقعہ پر مختلف لوگ چہ میگوئیاں کرتے ہیں اور ان چہ میگوئیوں کو اس واقعہ سے کسی ملتی جلتی عبارت کے ساتھ چسپاںکر لیا جاتا ہے مثلاً حضرت مسیح موعود ؑ کو ایک دفعہ الہام ہوا۔ A WORLD AND TWO GIRLSـ’’ اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز‘‘ (تذکرہ ص ۵۳۷) حافظ احمد اللہ صاحب ان دنوں قادیان آرہے تھے راستہ میںانہوں نے کسی دوست سے پوچھا کہ کوئی تازہ وحی سنائو جو حضرت مسیح موعود ؑ پر نازل ہوئی ہو اس نے کہا ابھی ایک الہام ہوا ہے کہ ’’اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز‘‘ ۔ حافظ احمد اللہ صاحب نے جھٹ کا غذ لیا اور حضرت مسیح موعو د ؑ کو لکھا مبارک ہو الہام پورا ہو گیا میںاکیلا نہیں آیا بلکہ میرے ساتھ دو لڑکیاں بھی آرہی تھیں اور یہ الہام اسی واقعہ پر چسپاں ہوتا ہے ۔ پھر میں نے بعض اور لوگوں کو دیکھا کہ ان میںسے جس کی دو بیٹیاں اور ایک لڑکا تھا اس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ الہام میرے متعلق ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ہماری جماعت میں دو درجن کے قریب ایسے لوگ تھے جنہوں نے مختلف پیرایوں میںیہ الہام اپنے اوپر چسپاں کیا۔ تو بعض دفعہ ایک ملتی جلتی چیز ہوتی ہے جسے انسان اپنے خیال میں کسی الہام پر چسپاں کر دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں نے اس الہام کی شان ِ نزول کا پتہ لگا لیا حالانکہ الہامات کے معانی ہمیشہ ان کی ترتیب سے سمجھے جاتے ہیں اگر اس ترتیب سے وہ علیحدہ کر لئے جائیں تو ہر ٹکڑہ کے کوئی نہ کوئی معنے ہو جائیں گے مثلاً کوئی شخص کہتا ہے ۔ ادھر آئو۔ اب یہ الفاظ ایسے ہیں جو ہر شخص استعمال کر سکتا ہے مگر موقع کے لحا ظ سے پتہ لگ جائے گا کہ اس کا مخاطب کون شخص ہے ۔ فرض کرو زید سامنے ہو اور اس وقت کوئی شخص آواز دے کہ ادھر آئو تو ہر شخص سمجھ جائے گا کہ اس سے مراد زید ہے کوئی اور شخص نہیں۔ لیکن اگر اس فقرہ کو موقع سے الگ کر لو تو دنیا کے ہر شخص پر یہ چسپاں ہو جائے گا ۔ اسی طرح جو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ آیت فلاں موقعہ پر نازل ہوئی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ قریب زمانہ میں اس سے کوئی ملتا جلتا واقعہ لوگوں کو نظر آتا ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ یہی واقعہ اس آیت کے نازل ہونے کا اصل سبب ہے چنانچہ وہ اس آیت کو اپنی سمجھ کے مطابق اس واقعہ پر چسپاں کر دیتے ہیں اور اگر ایک سے زیادہ ملتے جلتے واقعات ہوں تو مختلف لوگوں کی قیاس آرائیوں کی وجہ سے اس قسم کی روایات میں بہت کچھ اختلاف واقع ہو جاتا ہے جیسا کہ اسی سورۃ کے شان ِ نزول کے متعلق تین مختلف واقعات پیش کئے جاتے ہیں ۔ کوئی ہمسائی عورت کا واقعہ پیش کرتا ہے ۔ کوئی کفار کے عام خیالات کو اس سورۃ کے نزول کا اصل باعث قرار دیتا ہے اور کوئی آپ کی چچیری بہن کا واقعہ اس کا موجب قراردیتا ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ابتدائی سورۃ ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ابتدائی ایام میںکچھ دنوں کے لئے وحی رکی بھی ہو کیونکہ منشاء الہیٰ یہ تھا کہ آپ پر نزول وحی کی وجہ سے جو ہیبت طاری ہوئی ہے اس پر کچھ وقت گزر جائے اور وحی آپ میںسموئی جائے پہلے پہلے جب ایک واقعہ ہوتا ہے تو انسان اس کی اہمیت کو فوراً نہیں سمجھ جاتا بلکہ آہستہ آہستہ اس کے قلب پر حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے جیسے رسول کریم ﷺ کو ایک موقعہ پر مدینہ والوں نے کہا کہ یا رسول اللہ وہ وقت اور تھا جب ہم نے آپ سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ آور ہوا تو ہم آپ کی مدد کریں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑنا پڑا تو ہم مدد کے ذمہ دار نہیں ہوں گے ۔ یا رسول اللہ وہ وقت ایسا تھا جب ہمیں آپ کی حقیقت کا علم نہیںتھا اور اسی وجہ سے ایسا معاہدہ کیا گیا تھا مگر اب ہم پر آپ کی حقیقت کھل گئی ہے ، آپ کی شان اور عظمت کا ہمیں علم ہو چکا ہے اس لئے اب کسی معاہدے کا سوال نہیں ۔ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے ، آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیںگے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گذرے ۔ تو اہم واقعات کو فوراً سمجھنا بڑا مشکل ہوتا ہے ۔ آہستہ آہستہ ان کی حقیقت کھلتی ہے اور انسان کو پتہ لگتا ہے کہ الہٰی منشا ء کیا ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے پہلے وحی نازل کی پھر ایک وقفہ ڈال دیا ۔ اس عرصہ میں آپ نے وحی پر تدبر کیا ، اپنے کام کی اہمیت کو سمجھا اور اس طرح اپنے ایمان اور اپنے عزم اور اپنے استقلال میں پہلے سے بہت زیادہ اضافہ کر لیا۔ جب خد اتعالی نے دیکھا کہ اب فزع کا کوئی سوال نہیںرہا ، آپ کام کے لئے تیار ہو چکے ہیں اور وحی والہام کی اہمیت آپ کے دل میںداخل ہو چکی ہے تو اللہ تعالی نے آپ کو پیغام پر پیغام دینے شروع کر دیئے ۔ غرض پیغام اور پیغام کی تیاری میں کچھ وقفہ چاہیئے وہ وقفہ اس طرح ہوا کہ پہلے اقرا ء باسم ربک الذی خلق والی سورۃ نازل ہوئی ۔ پھر سورۃ المدثر وغیرہ نازل ہوئیں ۔ یہ سورتیں آپ کی طرف اللہ تعالی کا پیغام لائی تھیں ، آئندہ کے متعلق کئی قسم کی بشارات اپنے اندر رکھتی تھیںاور آپ کو یہ کہنے آئی تھیںکہ ایک بہت بڑا کام تمہارے سپرد کیا جا رہا ہے اس کے لئے تیار ہو جائو۔ یہ کام کس رنگ میںہونا تھا اور کیا کیا محنتیںآپ کو اس غرض کے لئے کرنی تھیں۔ اس کے لئے رسول کریم ﷺ کے دماغ کو تیار ہونا چاہیئے تھا ۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ ادھر الہام ہوتا اور ادھر کہہ دیا جاتا کہ جائو اور کام کرو ۔ درمیان میں بہرحال ایک وقفہ کی ضرورت تھی ۔ چنانچہ گذشتہ انبیاء کے ساتھ بھی اللہ تعالی کا یہی سلوک رہا ہے کہ پہلے ان کو الہام ہوا او ر پھر ایک وقفہ پیدا کیا گیا تا کہ اس عرصہ میںان کا دماغ آئندہ کے کام کے متعلق پوری طرح تیار ہو جائے ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ کو دیکھو فلسطین سے جاتے ہوئے آپ کو الہام ہو ا انی انا ربک فاخلع نعلیک انک بالواد المقدس طوی (طٰہٰ ) اے موسیٰ میں ہی تیرا رب ہوں پس اپنی جوتیاں اتار دے کیونکہ تو مقدس وادی طوی میںہے ۔ مگر اس کے باوجود ایک وقفہ ہوا اور مصر پہنچ کر دوبارہ وحی کا سلسلہ شروع ہوا ۔ فلسطین سے اس زمانہ میںمصر پہنچنا کوئی معمولی بات نہیں تھی کم سے کم دو مہینے صرف ہو جاتے تھے بلکہ بعض دفعہ چھ چھ ماہ بھی صرف ہو جاتے کیونکہ مخدوش راستوں کی وجہ سے قافلوں کے ساتھ سفر کیا جاتا تھا اور بعض دفعہ تو قافلہ جلد مل جاتا اور بعض دفعہ چھ چھ ماہ تک انتظار کرنا پڑتا کہ کب قافلہ تیار ہو اور اس سفر کو طے کیا جائے ۔ یہ تیاری کا وقت تھا جو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو ملا کہ چند ماہ پہلے ابتدائی وحی نازل ہوئی پھر ایک وقفہ پیدا کیاگیا تا کہ اس عرصہ میںآپ اپنے کام کی اہمیت کے مطابق تیاری کر لیں۔ اور جب اللہ تعالی نے دیکھا کہ تیاری ہو چکی ہے تو اس کے بعد تورات کا نزول ہوا ۔ ایسا ہی رسول کریم ﷺ کے ساتھ ہوا ۔ اقراء باسم ربک الذی خلق۔ کا حکم دیکر اللہ تعالی نے کچھ وقفہ پیدا کر دیا ۔ آپ اس وقفہ میں ان تمام باتوں کو سوچتے رہے اور غور کرتے رہے کہ الہٰی منشاء کیا ہے ۔ جب دنیا کے حالات پر آپ نے غور کیا اور سمجھ لیا کہ یہ یہ خرابیاں ہیں جن کو میں نے دور کرنا ہے ۔ ورقہ بن نوفل نے آپ کی توجہ کو حضرت موسیٰ ؑ کی وحی کی طرف پھیر دیا اور قوم کے حالات کو بھی آپ نے اچھی طرح دیکھ لیا اور اس کی اصلاح کے لئے کمر باندھ لی تب اللہ تعالی کی طرف سے آپ کی ہمت بندھانے کے لئے کچھ بشارتیںنازل ہوئیں ۔ اسی طرح دشمنوںکے متعلق کچھ انذار کی خبریں نازل ہونا شروع ہو گئیں ۔ اس دوران میں دشمنوں نے جو جو باتیں کیں لوگوں نے ان تمام باتوں کو اس سورۃ پر چسپاں کر دیا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ سورۃ ان واقعات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے حالانکہ اس سورۃ کا ان واقعات کے ساتھ کوئی جوڑہی نہیں۔ ایک عورت نے کوئی بات کہہ دی تواس کا والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلیٰ ۔ کے ساتھ کیا جوڑ ہوا ؟ اگر عورت یہ بات نہ کہتی تو کیا خدا تعالی آپ کو تسلی نہ دیتا؟ ہم مان لیتے ہیں کہ مکہ والوں نے یہ باتیں کہیں، یہ بھی مان لیتے ہیں کہ آپ کی کسی چچیری بہن نے کوئی بات کہی اور اس وقت کہی جب اس سورۃ کے کچھ حصوں سے ان باتوں کا توارد ہو گیا مگر پھر بھی یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سورۃ انہی واقعات کی وجہ سے نازل ہوئی ہے اگر یہ واقعات نہ ہوتے تو یہ سورۃ نازل نہ ہوتی ۔
درحقیقت اکثر محل قرآن کریم کی آیات کے نزول کے جو لوگوں کی طرف سے بتائے جاتے ہیں حقیقتاً ایسے نہیں ۔ اسی لئے ان میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے جیسے اس جگہ ہوا کہ کوئی کہتا ہے ایک ہمسائی عورت کی ایک بے معنی بات کی وجہ سے یہ سورۃ نازل ہوئی ۔ کوئی کہتا ہے کفار میں چونکہ چونکہ فترۃ الوحی پر عام چرچا ہو گیا تھا اس لئے یہ سورۃ نازل ہوئی ۔ کوئی کہتا ہے اس سور ۃ کے نزول کا محرک آپ کی چچیری بہن کا واقعہ ہے ۔ اسی طرح اور بھی کئی آیات ہیں جن کے متعلق بعض صحابہ کہتے ہیں کہ یہ میرے متعلق نازل ہوئی اور بعض کہتے ہیں کہ یہ میرے متعلق نازل ہوئی جیسے ’’ اے ورلڈ اینڈ ٹو گرلز ‘‘ کے الہام پر بہت سے احمدیوں کو غلط فہمی ہو گئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ الہام ہمارے متعلق ہے ۔
سر میورؔ کے نزدیک یہ سورۃ سورۃ البلد کے بعد کی نازل شدہ ہے لیکن نولڈ ؔ کے نزدیک سورۃ الانشراح کے بعد نازل ہوئی ہے ۔ میرے نزدیک یہ سورۃ اپنے مضمون سے ظاہر کرتی ہے کہ بہت ہی ابتدائی سورتوں میں سے ہے کیونکہ اس میںرسول کریم ﷺ کو کہا گیا ہے فاماالیتیم فلا تقھر ۔ واماالسائل فلا تنھر ۔ یعنی یتیم پر سختی نہ کر واور سائل کو رد نہ کرو ۔ لیکن پہلی سورتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ مسلمان ایسا ہی کرتے ہیں ۔ پس اگر روایات کی تائید میں یہ بات پیش کی جائے کہ اس میںچونکہ حکم دیا گیا ہے کہ ایسا کرو اور عمل ہمیشہ حکم کے بعد ہوتا ہے اس لئے یہ اندرونی شہادت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ یہ سورۃ پہلے نازل ہوئی ہے اور دوسری سورتیں جن میں مسلمانوں کے عمل کا ذکرہے وہ اس کے بعد نازل ہوئی ہیں تو یہ بات قرین قیاس سمجھی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے یہاں ابتدائی حکم نہیں دیابلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس سورۃ کے شروع میںجن انعامات کا وعدہ دیا گیا ہے یا جن انعامات کے ظہور کی خبر دی گئی ہے جب وہ انعامات نازل ہو جائیںتو ان کے شکریہ کے طورپر جو عمل کرنے کے لئے کہا جائے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس وقت نازل ہوا ہے جیسے حضرت زکریا ؑ کو کہا گیا کہ تو نے روزے رکھنے ہیں (مریم ) اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ روزے اسی وقت فرض ہوئے تھے اس سے پہلے نہیں ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ فرض تو پہلے سے تھے مگر اللہ تعالی نے کہا کہ اب بھی تم روزے رکھو۔ اس لئے ضروری نہیں کہ ہم قطعی طورپر ان احکام سے یہ نتیجہ نکال سکیں کہ چونکہ ان میںحکم ہے اور حکم پہلے ہونا چاہیئے اور عمل بعد میں ۔ اس لئے یہ سورۃ بہت پہلے نازل ہوئی ہے بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس سورۃ میںیہ حکم دیا گیا ہے کہ گو یہ کام پہلے بھی تم کرتے ہو مگر جب یہ الہامات نازل ہو جائیں تو ان کے شکریہ کے طورپر اور بھی ان کاموں کی طرف توجہ کرنا۔
ترتیب۔ پہلی سورتوں اور اس سورۃ کا مضمون اس لحاظ سے ایک ہی ہے کہ ان میں مکہ والوں کی اسی قسم کی بدیوں کا ذکر تھا یو یتامٰی اور مساکین کی نسبت ان سے سر زد ہوتی تھیں۔ اور اس میں بھی یتامٰی اور مساکینکا ہی ذکر ہے اور اموال کی حفاظت اور ان کو صحیح طورپر خرچ کرنے کی نصیحت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ سورۃ الضحیٰ میںصرف رسول کریم ﷺ اور آپ کے ذریعہ آپ کے اتباع کو ایسا کرنے کی نصیحت کی گئی ہے اور پہلی سورتوں میں یہ مقابلہ تھا کہ دوسرے ایسا نہیں کرتے لیکن مسلمان ایسا کرتے ہیں۔
اس سورۃ کا دوسرا تعلق پہلی سورتوں سے یہ ہے کہ پہلی سورتوں میںیہ ذکر تھا کہ بندہ خدا تعالی سے کیا سلوک کرتا ہے اور یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالی بندے سے کیا سلوک کرتا ہے مثلاً پہلی سورۃ میںزیادہ زور اس بات پر تھا کہ بندہ خدا تعالی کے لئے صدقہ و خیرات کرتا ہے ۔ جیسے فرمایا تھا وسیجنبھا الاتقی الذی یوتی مالہ یتزکی ۔ وما لا حد عندہ من نعمۃ تجزی ۔ الا ابتغاء وجہ ربہ الاعلی ۔ ولسوف یرضی ۔ گو وہا ں نیک اور متقی بندے کے عمل کا ذکر تھا کہ وہ یوں کرتا ہے لیکن یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالی اپنے نیک اور متقی بندے یعنی نفس کامل سے کیسا سلوک کرتا ہے ۔ گویا پہلی سورتوں کے مضامین بالخصوص سورۃ الیل کے مضمون کا یہ تتمہ ہے ۔
۲ ؎ حل لغات ۔ ضحی : تھوڑا سا دن نکل چکے تو اس وقت سے ضحی شروع ہو تی ہے اور زوال تک جاتی ہے لیکن بعض کے نزدیک زوال کے قریب جا کر ضحی کا وقت نہیں رہتا بلکہ وہ ضحاء ٌ کہلاتا ہے ۔ (اقرب)
سجیٰ کے معنے ہیں جب اندھیرا ترقی کرتے کرتے اپنے کمال کو پہنچ جائے۔ چنانچہ مفردات میں لکھا ہے والیل اذا سجیٰ ای سکن ۔ جب رات ٹھہر جاتی ہے اور اس کا اندھیرا اور نہیں بڑھتا جتنا اس نے بڑھنا ہوتا ہے بڑھ جاتا ہے ۔ ودعک : دوع الرجل کے معنے ہوتے ہیں ھجرہ کسی کوچھوڑ دیا ۔ (اقرب) قلی :۔ قلا فلان (قلی و قلاء ) کے معنے ہوتے ہیں ابغضہ و کرھہ غایۃ الکراھۃ فترکہ ۔ کسی پر ناراضگی کا اظہار کیا اور اس کو انتہائی طور پر ناپسند کیا ۔ اور ناپسندیدگی کی بناء پر چھوڑدیا ۔ جب قلا الابل کہیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں طردھا و ساقھا ۔ اس نے اونٹ کو چلایا اور دھتکارا یعنی اسے مار کے آگے ہنکایا ۔ (قلا الابل میںقلا واوی ہے یعنی آخر میں اصل واو ہے اور قلی فلان میں آخر میںیاء ہے (اقرب)
تفسیر ۔ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ایک ضحی اور ایک لیل خصوصیت رکھتی ہیں ۔ ضحی وہ دوپہر ہے جبکہ آپ مکہ کو فتح کر کے اس میںداخل ہوئے تھے اور والیل اذا سجی سے مرا د وہ رات ہے جب کہ آپ نے مکہ کو چھوڑا تھا گویا والضحیٰ کے معنے ہوئے ایک خصوصیت رکھنے والا دن ۔ اور والیل اذا سجیٰ کے معنے ہوئے ایک خصوصیت رکھنے والی رات ۔ اور درحقیقت رسول کریم ﷺ کی زندگی کے بڑے واقعات اگر کوئی خلاصۃ ً پوچھے تو یہی دو ہیں۔ دشمنوں نے آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا پھر خدا تعالی نے اپنے خاص نشانات سے دشمنوں کو تباہ کر کے آپ کو ایک فاتح کی حیثیت میں مکہ میںداخل فرمایا۔ انہی دو واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے ہم تیری سچائی کی شہادت کے طورپر یا اگلے مضمون کی سچائی کو واضح کرنے کے لئے ایک ضحی کو پیش کرتے ہیں اور ایک ایسی رات کو پیش کرتے ہیں جو تاریکی سے اپنے اردگرد کی تمام چیزوں کو ڈھانپ لے گی ۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ یہاں ضحی پہلے ہے اور رات پیچھے حالانکہ فتح مکہ بعد میں ہوئی ہے اور ہجرت پہلی ہوئی ہے ۔ اس کے متعلق یہ امر یاد رکھناچاہیئے کہ دوسری جگہ قرآن مجید میںآتا ہے رب ادخلنی مد خل صدق و اخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا (بنی اسرائیل ) ان آیتوںمیں صاف پیشگوئی فتح مکہ کی ہے کیونکہ فتح مکہ کے موقعہ پر ہی آپ بت توڑتے اور فرماتے جاتے تھے کہ جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا (جو اوپر کی آیات کے بعد آتا ہے ) آپ نے اپنے عمل سے واضح فرما دیا کہ وہ جو پیشگوئی کی گئی تھی کہ رب ادخلنی مد خل صدق و اخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا آج پوری ہو گئی ہے ۔ اس آیت میںبھی ادخلنی مدخل صدق کو پہلے رکھا گیا ہے جس میںمکہ میں داخل ہونے کی خبر دی گئی تھی او ر اخرجنی مخرج صدق کو بعد میں بیان کیا گیا ہے جس میں ہجرت کی پیشگوئی تھی حالانکہ ہجرت پہلے ہوئی تھی اور فتح مکہ بعد میں۔ اس کی وجہ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں یہ ہے کہ الہٰی سنت یہ ہے کہ وہ اپنے پیاروں سے بات کرتے ہوئے خوشی کی خبر پہلے سناتا ہے اور تکلیف کا ذکر بعد میں کرتا ہے تا کہ خوشی کا خبر رنج کی کلفت کو کم کرنے کا موجب بن جائے۔ اس طرح دونوں مطلب پورے ہو جاتے ہیں غم کی خبر بھی سنا دی جاتی ہے مگر چونکہ پہلے خوشی کی خبر آجاتی ہے اس لئے تکلیف کا احساس نسبتاً کم ہو جاتا ہے ۔ دنیا میں بھی ہوشیار پیغامبر کا یہی طریق ہوتا ہے جب کسی کا رشتہ دار بیمار ہو ار دوسرا شخص پوچھے کہ سنائو میرے فلاں رشتہ دار کا کیا حال ہے تو وہ کہتا ہے الحمد للہ وہ اب اچھے ہیں پچھلے دنوں شدید بیمار ہو گئے تھے اس طرح وہ خوشی کی خبر بھی سنا دیتا ہے اور یہ بھی بتا دیتا ہے کہ درمیان میںبعض ایسے اوقات بھی آگئے تھے جبکہ ڈاکٹر ان کی زندگی سے مایوس ہو گئے تھے ۔ مگر بجائے یہ کہنے کے کہ ان کی حالت نہایت نازک ہو گئی تھی وہ پہلے یہ فقرہ کہتا ہے کہ الحمد للہ وہ اب اچھے ہیں اس کے بعد وہ غم کی خبر سناتا ہے یہی طریق ہر اچھے پیغامبر کا ہوتا ہے کہ وہ بعد کے اچھے انجام کو پہلے بتا دیتا ہے اور تکلیف کا بعد میںذکر کرتا ہے ۔ لیکن س کے بالکل الٹ بعض لوگوں کو ایسا بھی دیکھا جاتاہے کہ وہ اپنی حماقت کی وجہ سے خطرہ کی بات کو پہلے بیان کریںگے اور خوشی کی خبر کو دبا کر بیٹھ جائیں گے اور ان سے پوچھا جائے کہ بتائو خیریت ہے تو وہ یہ نہیںکہیں گے کہ خیریت ہے بلکہ پہلے جب تک گھنٹہ بھر اپنا دکھڑا نہیںرو لیںگے انہیں چین نہیں آئے گا ۔ اسی طرح جب کسی کے سپرد کوئی ضروری کام کیا جائے اور وہ کام کر کے واپس آئے تو آتے ہی ایک لمبی کہانی شروع کر دے گا اور بعد میں کہے گا کہ الحمد للہ کام ہو گیا ۔ اس سے یہ نہیں ہو سکتا کہ آتے ہی کہہ دے الحمدللہ کام ہو گیا بلکہ پہلے اپنی مشکلات کا رونا رونے لگتا ہے اور گھنٹہ بھر کے بعد کہتا ہے الحمدللہ میںکامیاب ہو گیا ۔ تو بعض طبائع ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں بات کرنے کا اس وقت تک مزا نہیںآتا جب تک وہ دوسروں کو اچھی طرح ڈر ا نہ لیںمگر الہٰی طریق یہ ہے کہ وہ پہلے خوشی کی خبر سناتا ہے اور کہتا ہے ہم تمہیںبتا دیتے ہیں کہ نتیجہ اچھا ہو گا اس کے بعد بتا تا ہے کہ درمیان میںکچھ تکلیفیں بھی آئیں گی کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ جب انجام بخیر ہے تو بات کو شروع کرتے ہی بندے کے دل کو دکھ دینا شروع کر دے ۔ یہی طریق رب ادخلنی مد خل صدق و اخرجنی مخرج صدق میںاختیار کیا گیا ہے کہ فتح مکہ کی خبر کو پہلے رکھا ہے اور ہجرت کا ذکر بعد میں کیا ہے ۔ جب مسلمانوں کو پتہ لگ گیا کہ آخر ہم نے مکہ فتح کر کے اسی جگہ آنا ہے تو ان کو تسلی ہو گئی کہ درمیان میںاگر ہجرت بھی کرنی پڑی تو کیا ہوا۔ اسی بناء پر یہاں بھی والضحٰے کو پہلے اور والیل اذا سجیٰ کو بعد میںرکھا گیا ہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ دو (۲) محل اس بات کو ثابت کر دیں گے کہ ماودعک ربک وما قلیٰ ۔ تیرے رب نے تجھے نہیں چھوڑا اور وہ تجھ سے ناراض نہیں ہوا ۔ اور چونکہ وہ غرض جو والضحیٰ کے پہلے رکھنے کی تھی پوری ہو گئی تھی ینعی غرض یہ تھی کہ رسول کریم ﷺ کو ا س بات کا صدمہ نہ پہنچے کہ تجھے ہجرت کرنی پڑے گی ۔ اسی بناء پر خدا تعالی نے رات کا ذکر پیچھے کر دیا اور دن کا ذکر پہلے رکھا مگر چونکہ اس آیت سے غرض پوری ہو گی اس لئے اگلی آیت میں اللہ تعالی نے ترتیب اصلی کو قائم کر دیا ۔ چنانچہ ما ودعک ربک جواب ہے والیل اذا سجیٰ کا اور ما قلی جواب ہے والضحیٰ کا ۔ چونکہ غرض پوری ہو چکی تھی اور اب اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ واقعاتی ترتیب کو بدلا جاتا اس لئے اللہ تعالی نے پہلی آیات کی ترتیب کو الٹ دیا اور فرمایا اے محمد ﷺ ! جب والیل اذا سجیٰ میں بیان کردہ واقعہ ہو گا اور مکہ تجھے چھوڑنا پڑے گا تو اللہ تعالی تجھے اس وقت چھوڑے گا نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ غار ثور میںجب حضرت ابو بکر گھبرائے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ دشمن اتنا قریب پہنچ گیا ہے کہ اگر وہ ذرا اپنے سر کو جھکائے تو ہمیںاس غار میں سے دیکھ سکتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لاتحزن ان اللہ معنا ۔ غم مت کر خدا ہمارے ساتھ ہے ۔ اس جگہ یہ سوال ہوتا ہے کہ خدا تعالی نے کب فرمایا تھا کہ میں ہجرت کے گھڑیوں میں تیرے ساتھ ہوں گا تو اس کا جواب یہ ہے وہ الہی وعدہ اسی سورۃ میں تھا ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے جب والیل اذا سجی میں بیان شدہ واقعہ کا ظہور ہوگا تو تیرا رب تجھے نہیںچھوڑے گا ۔ چنانچہ اسی وعدہ کی بناء پر آپ نے نہایت دلیری سے فرمایا لا تحزن ان اللہ معنا۔ ابو بکر ! کیوں گھبرا رہے ہو خدا ہمارے ساتھ ہے وہ پہلے سے یہ وعدہ سورۃ الضحی میں کر چکا ہے پس ڈرنے کی بات نہیں ۔ آخر یہ خدا تعالی کی معیت ہی تھی کہ دونوں طرف قطار باندھے دشمن کھڑا ہے آپ کے مکان کا سنگین پہرہ دے رہا ہے اور آپ نہایت اطمینان کے ساتھ اس سے درمیان سے گزر جاتے ہیں اور وہ یہ خیال کر لیتا ہے کہ یہ محمد ﷺ نہیں بلکہ کوئی اور جا رہا ہے ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ تاریخ میںیہ ذکر آتا ہے (گو حوالہ یاد نہیں رہا) کہ بعد میںایک پہرے دار نے کہا کہ میں نے خود آپ کو مکان میںسے نکلتے اور وہاںسے گزرتے دیکھا مگر میں نے یہ نہیں سمجھا کہ آپ جا رہے ہیں بلکہ خیال کیا کہ کوئی اور جا رہا ہے ۔ بہرحال یہ خد اتعالی کی معیت ہی تھی کہ آپ دشمنوں کی نظروں کے سامنے نکل گئے اور وہ آپ کو پکڑ نہ سکا ۔ پھر یہ خدا تعالی ہی کی معیت تھی کہ جب آپ غار ثور میںپہنچے تو باوجود اس کے کہ کفار کے کھوجی نے یہ کہہ دیا تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ یا تو یہاںہیںاور یا پھر آسمان پر چلے گئے ہیں ان کو یہ جرأت تک نہ ہوئی کہ وہ آگے بڑھ کر اس غار کے اندر جھانک سکیںوہ اپنے کھوجی پر مضحکہ اڑانے لگے کہ آج یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے کیا اس غار میں بھی کوئی چھپ سکتا ہے یا کوئی شخص آسمان پر بھی جا سکتا ہے کہ کہتا ہے کہ اگر وہ یہاں نہیںتو آسمان پر چلے گئے ہیں یہ خدا تعالی کی معیت کا ایسا کھلا اور واضح ثبوت ہے کہ دشمن سے دشمن انسان بھی اس کو سن کر انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔
دوسری چیز فتح مکہ ہے اس کے لئے ماقلی کا لفظ خد اتعالی نے استعمال کیا ہے ۔ مکہ والوں کا یہ خیال تھا کہ جو شخص مکہ پر حملہ کرے گا خد اکا غضب اس پر نازل ہو گا ۔ وہ ابرہہؔ کے حملہ کو دیکھ چکے تھے کہ کس طرح وہ اپنے لائو لشکر سمیت حملہ آور ہوا اور پھر کس طرح خدا تعالی نے اسے اپنے غضب کا نشانہ بنادیا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ مکہ پر حملہ کرنے والا چونکہ خدا تعالی کی نارضا مندی کا مورد بنتا ہے اس لئے وہ تباہ ہو جاتا ہے مگر اللہ تعالی فرماتا ہے تیرے معاملہ میںایسا نہیں ہو گا بلکہ ضحی کا وقت اس بات کی شہادت دے گا کہ تیرا خدا تجھ سے ناراض نہیں اگر وہ ناراض ہوتا تو تجھ پر عذاب کیوں نازل نہ کرتا۔تجھ پر اس کا عذاب نازل نہ کرنا بلکہ تیری تائید اور نصرت کرنا اور تیرے راستہ سے ہر قسم کی روکوںکو دور کرنا اور تجھے اپنے لشکر سمیت فتح و کامرانی کا جھنڈا اڑاتے ہوئے مکہ میںداخل ہونے کا موقع دینا بتا رہا ہے کہ الہی منشاء یہی تھا کہ تو آئے اور اس بلد الحرام کو فتح کر کے اس میںداخل ہو جائے ۔پس والیل اذا سجی میں بیان شدہ واقعہ کے ظہور نے بتا دیا کہ خدا تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ کو نہیںچھوڑا اور والضحیٰ میںبیان شدہ واقعہ نے بتا دیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے کسی فعل سے خدا تعالی ناراض نہیں خواہ وہ صدیوں کے فیصلہ کے خلاف ہی کیوںنہ ہو ۔ ابراہیم کے وقت سے خدا تعالی کی یہ سنت چلی آرہی تھی کہ مکہ پر حملہ کرنا جائز نہیں جو شخص مکہ پر حملہ کرے گا وہ تباہ ہو جائے گا مگر محمد رسول اللہ ﷺ مکہ کو فتح کرنے کے لئے جا تے ہیں رات کو نہیں بلکہ دن دہاڑے مکہ میں داخل ہوتے ہیں ۔ دنیا بھی دیکھ رہی ہے خدا بھی دیکھ رہا ہے خدا تعالی کے فرشتے بھی دیکھ رہے ہیں مگر آپ پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوتا ۔ آپ کے لشکر پر کوئی تباہی نہیںآتی بلکہ اگر کچھ ہوتا ہے تو یہ کہ مکہ والوں کی گردنیں پکڑ کر خدا تعالی محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے کہ ان سے جو چاہو سلوک کرو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مکہ میںداخلہ عین خدا تعالی کے منشاء کے مطابق تھا ورنہ ۲۵ سو سال سے جو سلوک اللہ تعالی مکہ پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ کرتا چلا آیا تھا وہ آپ کے ساتھ کیوں نہ کرتا ۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے تیری مکہ سے رات کے وقت ہجرت اس بات کا ثبوت ہو گی کہ خدا تعالی نے تجھے نہیں چھوڑا اور تیرا دن دہاڑے مکہ میں فاتحانہ شان کے ساتھ داخل ہونا اس بات کا ثبوت ہو گا کہ خد ا تجھ سے خفا نہیںہے ۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیںکہ ضحی روشنی اور سجیٰ اندھیرے پر دلالت کرتا ہے اور یہ دونوں حالتیں انسان پر آتی رہتی ہیں ۔ یعنی کبھی اس پرتکالیف آتی ہیں اور کبھی اس کے لئے خوشی کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں ، کبھی کامیابیاں اور ترقیات حاصل ہوتی ہیںاور کبھی ناکامیاں اور تکالیف پیش آتی ہیں یہ اتار چڑھائو دنیا میںہمیشہ ہوتا رہتا ہے کبھی ترقی کا وقت آتا ہے تو کبھی تنزل کا ، کبھی خوشی پہنچ جاتی ہے تو کبھی غم ، کبھی اولاد پیدا ہو تی ہے کبھی مر جاتی ہے ، کبھی بیمار ہو جاتا ہے کبھی تندرست ہو جاتا ہے ، کبھی دشمن کو مغلوب کر لیتا ہے اور کبھی دشمن کے عارضی طور پر جیتنے کا موقعہ آجاتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا بھی ایک الہام ہے کہ ع
’’ دشمن کا بھی ایک وار نکلا‘‘ (تذکرہ ص ۵۵۳)
تو دشمن کے وار بھی نکل آتے ہیں ۔ لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب انہیںکوئی تکلیف پہنچتی ہے یا ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو جیسے قرآن مجید میںہی کئی جگہ نقشہ کھینچا گیا ہے وہ شور مچانے لگ جاتے ہیں کہ ہائے مارے گئے ، ہائے مارے گئے ۔ اس کے مقابل میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کو ترقیات ملتی ہیں تو وہ تکبر میںمبتلا ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں انما او تیتہ علی علم عندی (القصص ۸ : ۱۱) ہمیںجو کچھ ملا ہے اپنے زور بازو سے ملا ہے ، ہمارے اندر قابلیتیں ہی ایسی تھیں کہ ہمیں یہ ترقیات حاصل ہوتیں ، ہم نے یوں کیا ہم نے ووں کیا اور پھر ہمیںیہ اعزاز حاصل ہوا ۔گویا جب ان کو اللہ تعالی کی طرف سے برکات حاصل ہوتی ہیں یا ترقیات سے ان کو حصہ ملتا ہے ان میںتکبر پیدا ہو جاتا ہے اور جب مشکلات آتی ہیں تو اس وقت بالکل مایوس ہو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے جہاں دشمن ایسا ہے کہ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کہتا ہے ربی اھانن (الفجر ) میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا اور خوشی پہنچتی ہے تو کہتا ہے ربی اکرمن ۔ ہاں جی ہم توہیں ہی ایسے کہ خدا ہماری عزت کرتا۔ ایسے لوگوں کے بالمقابل اے محمد رسول اللہ تیری یہ حالت نہیںبلکہ والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلیٰ ۔ ہم تیری یہ دونوں حالتیں دشمنوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ تیرا نفس کامل اتنا اعلی درجے کا ہے کہ تیرا سلوک اپنے رب سے ہمیشہ اس قسم کا ہو گا کہ ہر مایوسی اور تکلیف کے وقت خدا تجھے بھولے گا نہیں بلکہ یاد رہے گا ۔ مایوسی کبھی تیرے قریب بھی نہیںآئے گی اور خوشی کے وقت کبھی تکبر تیرے پاس بھی نہیںپھٹکے گا ۔ جب تجھ پر انعامات نازل ہوں گے تُو یہ نہیں کہے گا میںنے یہ انعام بزورِ بازو حاصل کیا ہے اور اس طرح خدا تعالی کو ناراض کر لے گا بلکہ تو کہے گا کہ خدا تعالی نے یہ انعام بخشا ہے اور اس طرح خدا تعالی کی خفگی کو پاس بھی نہیںآنے دے گا ۔ اسی طرح جب تجھے تکلیفیں آئیں گی اس وقت بھی تو خد اپر کوئی الزام نہیںلائے گا ۔ بلکہ اسی کی کنار عاطفت کی طرف تو ہر وقت جھکا رہیگا اور اس وجہ سے خد اتعالی تیرے پاس آکھڑا ہو گا۔ اب دیکھو یہ دونوں چیزیں رسول کریم ﷺ کی زندگی میںکتنی نمایا ں نظر آتی ہیں ۔
وہ بھی ایک لیلؔ تھی جب آپ کو مکہ سے ہجرت کے لئے نکلنا پڑا اور غارِ ثور میںآپ پناہ گزیں ہوئے اور وہ بھی ایک لیلؔ تھی جو آپ پر اس وقت آئی جب ابو طالب آپ کے چچا نے ایک دن آپ کو بلایا اور کہا اے میرے بھتیجے ! اب تیری قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے ۔ آج بڑے بڑے رئوسا ء اکٹھے ہو کر میرے پاس آئے تھے اور وہ مجھے کہتے تھے کہ ابو طالب صرف تیری حفاظت کی وجہ سے ہم نے تیرے بھتیجے کو اب تک چھوڑا ہوا ہے ۔ ہم نے تیرا بڑا لحاظ کیا کیونکہ تو شہر کا رئیس ہے مگر آخر یہ ظلم کب تک برداشت کیا جاسکتا ہے ۔ ہم یہ نہیںکہتے کہ وہ ہمارے بتوں کی پرستش کرے بلکہ ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے بتوں کو برا نہ کہا کرے۔ اگر وہ اتنی معمولی سی بات بھی ماننے کے لئے تیار نہ ہوا اور اس نے ہمارے معبودوں کو برا کہنا ترک نہ کیا تو ہم تجھے بھی سرداری سے جواب دے دیں گے اور آئندہ تیری کوئی عزت نہیںکریںگے ۔ نمبردار کے لئے اپنی نمبرداری چھوڑنی بڑی مشکل ہوتی ہے اور دنیا میںسب سے بڑی مصیبت اگر اسے نظر آتی ہے تو یہی کہ کہیں مجھے اپنی چودھراہٹ نہ چھوڑنی پڑے ۔ وہ اس بات کو برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ آج تو وہ اس شان کے ساتھ بیٹھا ہو کہ لوگ آتے ہوں اور کہتے ہوں چودھری صاحب آپ جو کچھ فرمائیںوہ ہمارے سر آنکھوںپر ۔ ہم آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار ہیں اور دوسرے دن اس کی یہ حالت ہو کہ لوگوں نے ڈھنڈے اٹھائے ہوئے ہوں اور اسے کہتے ہوں کہ ہمارے گائوں میں سے نکل جائو۔ ابو طالب چونکہ مسلمان نہیںتھے اس لئے ان کے لئے یہ بڑی مصیبت تھی ۔ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو بلایا ان کی آنکھوں میںآنسو بھر آئے اور انہوں نے کہا اے میرے بھتیجے مجھ سے جس قدر ہو سکا میںنے تیری مدد کی ہے آج تیری قوم کے بڑے بڑے سردار مجھے بھی آخری نوٹس دے گئے ہیں کہ یا اپنے بھتیجے کے ساتھ رہو یا ہمارے ساتھ مل جائو۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ تو ان کے بتوں کی پرستش کرے وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ تو ان کو برا کہنا چھوڑ دے میںتجھ سے پوچھتا ہوں کہ کیا ایسا نہیںہو سکتا کہ تو کچھ نرمی اختیار کر لے؟ورنہ وہ تجھے بھی نوٹس دے گئے ہیں اور مجھے بھی کہہ گئے ہیں کہ اگر آئندہ تو نے اپنے بھتیجے کی مدد کی تو تیری سرداری بند۔ رسول کریم ﷺ نے یہ سنا تو بغیر کسی توقف کے آپ نے جواب دیا کہ اے چچا ! آپ نے میری بڑی مدد کی ہے مگر یہ معاملہ تو دین کا ہے اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑ ا کر دیں اور پھر کہیں کہ میں کوئی تبدیلی کروں تب بھی میںکوئی تبدیلی نہیںکر سکتا ۔ اے چچا ! اب اس کا ایک ہی علاج ہے اگر آپ کو آپ کی قوم میری خاطر چھوڑتی ہے تو پھر آپ مجھے چھوڑ دیںاور اپنی قوم سے مل جائیں۔ دیکھو یہ والیل اذا سجیٰ کا ایک وقت تھا جو محمد رسول اللہ ﷺ پر آیا ۔ طاقت آپ کے پاس نہیںتھی بلکہ ابو طالب کے پاس تھی مگر جس کے پاس طاقت تھی وہ گھبرا جاتاہے اور جس کے پاس طاقت نہیںتھی وہ کہتا ہے کہ جب باقیوں نے مجھے چھوڑا ہے تو آپ بھی مجھے چھوڑ دیںمیںاپنے عقائد میںکوئی تبدیلی نہیںکر سکتا ۔ یہ ایک رات تھی تاریک اور بھیانک رات ۔ جس میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں (سوائے ان کے جو اللہ تعالی سے مویّد ہوں ) جو مقاومت کی روح اپنے ندر قائم رکھ سکیں لیکن اس تاریک رات میںبھی آپ نے ثابت کر دیا کہ ما ودعک ربک و ما قلی ۔ آپ نے کوئی فعل ایسا نہ کیا جس پر خدا تعالی بندہ کو چھوڑ دیا کرتا ہے آپ نے کوئی ایسا فعل نہ کیا جس پر خدتعالی خفا ہو جایا کرتا ہے بلکہ آپ نے وہ کچھ کیا جس پر خدا تعالی اور بھی قریب ہو جایا کرتا ہے ، جس پر وہ اور بھی خوش ہو جایا کرتا ہے ۔
کیاتم سمجھ نہیں سکتے کہ جب عرش پر خدا تعالی نے محمد رسول اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہو گا کہ اے چچا آپ بھی چھوڑ دیں میں خدا تعالی کو نہیں چھوڑ سکتا تو خدا تعالی ایک عاشق کی طرح آپ کی طرف یہ کہتے ہوئے نہ جھکا ہو گا کہ دنیا تجھے چھوڑ دے پر میں تجھے نہ چھوڑوں گا۔ اللہ تعالی غیر مادی چیز ہے اور اس کا تعلق اپنے بندوں سے روحانی ہوتا ہے جسمانی نہیں ۔ لیکن تمثیلی طور پر اپنے ذہن میں نقشہ جمانے کے لئے اگر تم فرض کر لو کہ اللہ تعالی کی محبت مادی محبت ہوتی یا اس کی نفرت مادی نفرت ہوتی تو جب رسول کریم ﷺ نے ابو طالب کو یہ جواب دیا تھا کہ چچا اگر یہی بات ہے تو پھر آپ مجھے بے شک چھوڑ دیں اس وقت اگر خدا تعالی دو گز پر کھڑا ہوگا تو یقینا اس فقرہ کے بعد وہ آپ کے پاس آکھڑا ہوا ہو گا اور اگر خدا تعالی کی خوشنودی پہلے آپ کو دس نمبر کی حاصل تھی تو اس واقعہ کے بعد وہ بیس نمبر تک پہنچ گئی ہو گی۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی اے محمد رسول اللہ ! ہر رات جو تیری زندگی میںآئے گی ، ہر رات جو تجھ پر گزرے گی وہ اس بات کو ثابت کرنے والی ہو گی کہ ماودعک ربک وما قلی ۔ کہ نہ تو تیرے خدانے تجھے چھوڑا ہے اور نہ تجھ سے ناراض ہوا ہے بلکہ وہ تجھ سے ہر گھڑی زیادہ قریب ہوتا جائیگا۔
غارثور میںابو بکر جیسا بہادر آدمی گھبراجاتا ہے ۔ اپنے لئے نہیں بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے ۔ مگر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ جس کے لئے کوئی آفت نہیں تھی جو اگر پکڑا بھی جاتا تو لوگ اسے ڈانٹ ڈپٹ کر چھوڑ دیتے اور زیادہ سے زیادہ اسے یہی کہتے کہ تو اس کے ساتھ کیوں آگیا تھا کیونکہ ابو بکر ؓ کی مکہ والے بہت عزت کیا کرتے تھے وہ تو گھبرا جاتا ہے مگر جس پر آفت آئی ہوئی ہے ، جس کے ساتھ اس مصیبت کابراہ رات تعلق ہے ، وہ نہایت اطمینان کے ساتھ کہتا ہے لا تحزن ان اللہ معنا تو جتنا آپ کے ساتھ خدا تعالی کا پہلے تعلق ہو گا وہ اور بھی بڑھ گیا ہو گا، وہ اور بھی سمٹ کر آپ کے قریب آگیا ہو گا اور جتنا خدا تعالی آپ سے پہلے خوش تھا وہ اس سے بھی زیادہ خوش ہو گیا ہو گا۔ پھر ایک تاریک گھڑی وہ تھی جبکہ احد ؔ میں آپ زخمی ہوئے اور اس قسم کے واقعات جمع ہو گئے کہ اسلامی لشکر کی فتح شکست کی صورت میں تبدیل ہو گئی۔ ا س جنگ میں ایک درہ ایسا تھا جہاں رسول کریم ﷺ نے اپنے بعض آدمی چن کر کھڑے کئے تھے اور انہیں حکم دیا تھا کہ جنگ کی خواہ کوئی حالت ہو تم نے اس درہ کو نہیں چھوڑنا ۔ جب کفار کا لشکر منتشر ہو گیا تو انہوں نے غلطی سے اجتہاد کیا کہ اب یہاں ٹھہرنے کا کیا فائدہ ہے ہم بھی چلیں اور لڑائی میں کچھ حصہ لیں ۔ ان کے سردار نے انہیں کہا بھی کہ رسول کریم ﷺ کا حکم ہے کہ ہم یہ درہ چھوڑ کر نہ جائیں مگر انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کا یہ مطلب تو نہ تھا کہ فتح ہو جائے تب بھی یہیں کھڑے رہو۔ آپ کے ارشاد کا تو یہ مطلب تھا کہ جب تک جنگ ہوتی رہے اس درہ کو نہ چھوڑنا ۔ اب چونکہ فتح ہو چکی ہے دشمن بھاگ رہا ہے ہمیں بھی تو کچھ ثواب جہاد کا حاصل کرنا چاہیئے ۔ چنانچہ وہ درہ خالی ہو گیا ۔ حضرت خالد بن ولید جو اس وقت تک ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے جوجوان تھے اور ان کی نگاہ بہت تیز تھی وہ جب اپنے لشکر سمیت بھاگے جارہے تھے انہوں نے اتفاقاً پیچھے کی طرف نظر ڈالی تو درہ کو خالی پایا یہ دیکھتے ہی وہ واپس لوٹے اور مسلمانوں کی پشت پر حملہ کر دیا ۔ مسلمانوں کے لئے یہ حملہ چونکہ بالکل غیر متوقع تھا اس لئے ان پر سخت گھبراہٹ طاری ہو گئی اور بوجہ بکھرے ہوئے ہونے کے دشمن کا مقابلہ نہ کر سکے ۔ میدان میںکفار نے قبضہ کر لیا اور اکثر صحابہ سراسیمگی اور اضطراب کی حالت میں مدینہ کی طرف بھاگ پڑے یہاں تک کہ رسول کریمﷺ کے گرد صرف بارہ صحابہ ؓ رہ گئے اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ بارہ بھی نہیں صرف تین آدمی رسول کریم ﷺ کے ارد گرد رہ گئے اور کفار نے خاص طورپر رسول کریم ﷺ پر تیر اندازی شروع کر دی لیکن باوجود ان نازک حالات کے آپ برابر دشمن کا مقابلہ میںکھڑے رہے اور اپنے مقام سے نہیں ہلے ۔ آخر دشمن نے یک دم ریلہ کر دیا اور وہ چند آدمی بھی دھکیلے گئے اور رسول کریم ﷺ زخمی ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے ۔ آپ پر بعض اور صحابہ ؓ جو آپ کی حفاظت کر رہے تھے شہید ہو کر گر گئے اور اس طرح رسول کریم ﷺ تھوڑی دیر کے لئے صحابہ ؓ کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور لشکر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول کریمﷺ شہید ہو گئے ہیں ۔ یہ خبر صحابہ ؓ کے لئے اور بھی پریشان کن ثابت ہوئی اور ان کی رہی سہی ہمت بھی جاتی رہی ۔ جو صحابہ ؓ اس وقت آپ کے ارد گرد موجود تھے اور زندہ تھے انہوں نے لاشوں کو ہٹا کر رسول کریم ﷺ کو گڑھے میں سے نکالا اور حفاظت کے لئے آپ ؐ کے ارد گرد کھڑے ہو گئے ۔ اس وقت جب دشمن اپنی فتح کے نشے میں مخمور تھا ، جب اسلامی لشکر سخت ضعف اور انتشار کی حالت میںتھا ، جب رسول کریم ﷺ کے ارد گرد صرف چند صحابہ ؓ تھے، باقی سب کے سب میدان سے بھاگ چکے تھے ۔ ابو سفیان نے پکار کر کہا کہ بتائو تم میں محمد (ﷺ) ہے؟ صحابہ ؓ نے جواب دینا چاہا مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا خاموش رہو اور کوئی جواب نہ دو۔ پھر اس نے پوچھا کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہے ؟ مراد اس کی یہ تھی کی کیا حضرت ابو بکر زندہ ہیں ۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مت جواب دو۔ پھر اس نے پوچھا کیا تم میں عمر موجو د ہے ؟ اس کا جواب دینے سے آپ نے منع فرمایا ۔ تب اس نے خوش ہو کر کہا اُعْلُ ھُبُلْ اُعْلُ ھُبُلْ ۔ ہبل کی شان بلند ہو ، ہبل کی شان بلند ہو ، یعنی ہبل دیوتا نے ان سب کو مار دیا اور اس کی شان بلند ہوئی جب اس نے یہ الفاظ کہے تو باوجود اس کے کہ ابھی ابھی دشمن صحابہ ؓکو نقصان پہنچا کر ہٹا تھا ۔ ابھی صحابہ ؓ میدان سے بھاگ رہے تھے بلکہ بعض تو ایسے بھاگے تھے کہ انہوں نے مدینہ جا کر دم لیاتھا ۔ غرض باوجو د اس کے کہ ایک حصہ بھاگا جا رہا تھا اور ایک حصہ پراگندہ اور منتشر تھا اور صرف چند صحابہ ؓ جو انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے رسول کریم ﷺ کے اردگرد تھے جب اس نے یہ الفاظ کہے تو آپؐ برداشت نہ کرسکے اور آپ ؐ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا جواب کیوں نہیں دیتے ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ہم کیا جواب دیں ۔ آپ نے فرمایا کہو ۔اللہ اعلی و اجل ۔ اللہ اعلی و اجل ۔ تمہارا ہبل کی چیز ہے اللہ ہی سب سے بلند رتبہ اور شان رکھنے والا ہے ۔ کہتے ہیں ’’آبیل مجھے مار‘‘ کئی ہزار کا لشکر سامنے پڑا ہے وہ فتح کے نشے میں مخمور ہے ۔ مسلمانوں کا کثیر حصہ میدانِ جنگ سے واپس جا چکاہے اور دشمن دعوے کرتا ہے کہ اس نے محمد رسول اللہ ﷺ اور اکابر صحابہ کو بھی ہلاک کر دیا ہے ۔ یہ کتنی تاریک رات تھی جو محمد رسول اللہ ﷺ پر آئی مگر اس تاریک رات میںبھی جب کہ چند صحابہ ؓ آپ کے ارد گرد تھے اور خطرہ تھا کہ دشمن آپ پر حملہ نہ کر دے ۔ جب اس نے ہبل کی تعریف کی تو رسول اللہ ﷺ جو صحابہ ؓ کو مصلحتاً اب تک جواب دینے سے روکتے چلے آئے تھے بڑے جوش سے فرمانے لگے اس کو کیوں جواب نہیںدیتے کہ اللہ اعلی و اجل ۔ اللہ اعلی و اجل ۔ صحابہ ؓ نے یہ جواب دیا اور اس طرح آپ ؐ نے اپنے عمل سے دشمن کو چیلنج کیا کہ میں یہاں موجود ہوں اگر تم میں ہمت ہے تو آجائو۔ وہ دشمن جس نے ایک ہزار سپاہی کو بھگا دیا تھا اس کی زبان سے اس وقت شرک کا کلمہ سننا آپ ؐ کی طاقت برداشت سے باہر ہو گیا جبکہ آپ ؐ صرف چند صحابہ ؓ سمیت اس کی زد میںتھے اور زخموں کی وجہ سے کمزور ہو رہے تھے اور انتہائی نازک حالات کی پروانہ کرتے ہوئے آپ نے خدا کا نام اس وقت بھی بلند کر دیا۔ یہ ایک رات تھی جو آپؐ پر آئی مگر اس رات سے کیا نتیجہ نکلا؟ یہی کہ ماودعک ربک وما قلی ۔ آپؐ کا خدا تعالی سے تعلق اور بھی بڑھ گیا اور آپ نے کوئی ایسا فعل نہ کیا جس سے وہ ناراض ہوتا۔
پھر ایک رات وہ تھی جبکہ غزوہ خندق کے موقع پر دشمن آیا۔ اس نے اپنی طرف سے ساری تیاریاں کر لیں کہ وہ مسلمانوںکو زیر کرے گا اور ان کو شکست دے گا ۔ لیکن اس تاریکی کے وقت میںاتفاق کی بات ہے رات ہی تھی جب دشمن کو شکست ہوئی ۔ رات کا وقت تھا مسلمان بظاہر مایوس ہو چکے تھے ، دشمن پندرہ دن سے ان کا محاصرہ کئے ہوئے تھا ، خوراک وغیرہ کے سامانوں میں سخت کمی آچکی تھی ، مدد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اور مسلمان سخت گھبرا رہے تھے کہ نہ معلوم اب کیا بنے گا۔ سامان اتنے کم تھے کہ مسلمان خود کہتے تھے ہمارے ہاتھ پائو ں سردی سے سن ہو رہے تھے مگر ہمارے پاس کپڑے نہیں تھے کہ ہم ان کو اوڑھ کر اپنی سردی کو دور کر سکیں ۔ غرض یہی کیفیت تھی کہ ایک دفعہ آدھی رات کے وقت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی ہے ! ایک صحابی ؓ بولے اور کہا یا رسول اللہ ؐ میںحاضر ہوں ۔ آپ ؐ نے فرمایا تم نہیں۔ کوئی اور ۔ جب تھوڑی دیر تک کوئی اور شخص نہ بولا تو آپ ؐ نے پھر فرمایا ۔ کوئی ہے! اس پر پھر وہی صحابی بولا کہ یارسول اللہ میںحاضر ہوں آپؐ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور ۔ جب دوسری دفعہ بھی کوئی اور شخص نہ بولا تو رسول کریم ﷺ نے پھر فرمایا کوئی ہے ! اس پر پھر وہی صحابی بولا اور کہنے لگا یا رسول اللہ میںحاضر ہوں ۔ آپ ؐ ہنس پڑے اور فرمایا جائو اور باہر جا کر دیکھو مجھے اللہ تعالی نے اطلاع دی ہے کہ دشمن بھاگ گیا ہے ۔ اب دیکھو رات کو مسلمان سوتے ہیں تو انتہائی مایوسی کی حالت میںمگر ابھی صبح نہیں ہوتی، آدھی رات کا وقت ہوتا ہے ، تاریکی چاروں طرف مسلط ہوتی ہے کہ اس رات کی تاریکی میںاللہ تعالی رسول کریم ﷺ کو خبر دیتا ہے کہ دشمن بھاگ گیا ہے ۔ گویا تاریکی میں جہاں اور لوگ گھبرا رہے تھے آپ ؐ خدا تعالی کی طرف جھکے ہوئے تھے اور اس سے دعائیںکر رہے تھے ۔ وہ صحابی کہتے ہیں میں باہر گیا تو دیکھا کہ تمام جنگل خالی پڑا ہے اور دشمنوں کے خیمے سب غائب ہیں ۔ ایک اور صحابی کہتے ہیں جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی ہے ! تو میں اس وقت جاگ رہا تھا مگر شدت ِ سردی کی وجہ سے میرے ہاتھ پائوں تو الگ میری زبان بھی سن ہو چکی تھی اور اس وجہ سے میں جواب نہیں دے سکتا تھا ، سنتا تھا مگر بولنے کی طاقت اپنے اندر نہیں پاتا تھا کیونکہ کپڑے کافی نہ تھے اور برف پڑی ہوئی تھی ۔ یہ تکالیف آئیں مصائب وآلام کی گھڑیاں آپ ؐ پر گزریں مگر ان تمام لیالی میں ہر لیل کے وقت اللہ تعالی نے ثابت کر دیا کہ وہ آپ ؐ کے ساتھ ہے ۔ پھر ضحی کے اوقات بھی آپؐ پر آئے چنانچہ فتح مکہ کے بعد سارے عرب کی فتح آئی اور کامیابی و کامرانی آپؐ کے قدموں کو چومنے لگی مگر کامیابیوں کے اوقات نے بھی کیا ثابت کیا ؟ یہی کہ ماودعک ربک وما قلی لوگوں کہ یہ حالت ہوتی ہے کہ ترقیات کے وقت ان میں کبر پیدا ہو جاتا ہے فتح کے وقت نشہ غرور ان میںسما جاتا ہے مگر رسول کریم ﷺ کی قلبی کیفیات کا تم اس سے اندازہ لگائو کہ فتح مکہ کے وقت جب لشکر ِ اسلامی مکہ کی طرف بڑھتا چلا آرہا تھا صحابہ ؓ کے دلوں میںسخت جوش پایا جاتا تھا خصوصاً انصار کے دل میںمکہ والوں کے خلاف بہت زیادہ جوش تھا ۔ بے شک مہاجرین بھی اس جوش سے خالی نہیں تھے مگر مہاجرین پر ان کے مظالم کا اتنا اثر نہیں تھا جتنا انصار کو یہ سن سن کر جوش آتا تھا کہ مکہ والے رسول کریم ﷺ اور آپ ؐ کے ساتھیوں کے ساتھ یہ یہ سلوک کرتے رہے ہیں ۔ اسی جوش کی حالت میں ایک انصاری جرنیل نے ابو سفیان کو دیکھا تو اس کی زبان سے یہ فقرہ نکل گیا آج ہم نے تم سے بدلے لینے ہیں ، آج ان مظالم کا ہم نے انتقام لینا ہے جو مکہ والوں نے محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ؐ کے ساتھیوں پر کئے ۔ کوئی اور ہوتا تو جرنیل کو بلا کر اسے تمغہ لگا دیتا اور کہتا شاباش! وفادار ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ مگر رسول کریم ﷺ نے اس کو بلایا اور فرمایا مکہ تو خدا تعالی کا متبرک مقام ہے ہمیںاپنی خوشیوں اور کامیابیوں میں اس کی اس برکت کو نہیں بھول جانا چاہیئے جو خدا تعالی نے اسے عطا کی ہے ۔ تم نے بڑی غلطی کی جو ایسا فقرہ اپنی زبان سے نکالا ۔ میںتمہیں جرنیل کے عہدے سے معزول کرتاہوں ۔ دیکھو ایک ہی موقع آپؐ کی زندگی میں ایسا آیا جبکہ دشمن جو ایک لمبے عرصہ تک خطرناک سے خطرناک مظالم توڑتا رہا تھا اس کی گردنیں آپ ؐکے ہاتھ میںتھیں ۔ ہو سکتا تھا کہ خود آپ ؐ کے دل میںہی یہ خیال آجاتا کہ میںان لوگوں سے آج خوب بدلہ لوں گا اور خود بھی ایسا فقرہ کہہ دیتے یا اگر خود نہ کہتے تواور کہنے والوں کی باتیں پسند کرتے یا اگر ظاہر میںپسند نہ کرتے تو دل میںہی پسند کرتے اور کہتے یہ لوگ میرے بڑے وفادار ہیں، مجھ پر جو مظالم ہوئے ان کا کس قدر ان میں احساس پایا جاتا ہے ، کتنا جوش ہے جو ان کی حرکات سے پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہو رہا ہے ۔ مگر رسول کریم ﷺ نے اسے جرنیل کے عہدہ سے ہی معزول کر دیا اور فرمایا ہمارے لئے یہ تکبر کے اظہار کا موقع نہیں۔
پھر دیکھو وہ ضحی کا ہی وقت تھا جب آپؐمکہ میںداخل ہوئے اور آپؐ نے فرمایا اے عتبہؔ شیبہؔ اور ولید ؔ کی اولادو! اور اے عتبہ شیبہ اور ولید کے چچو ، بھائیواور بھانجو! تم نے مجھے انتہائی بے کسی اور بے بسی کی حالت میںمکہ سے نکال دیا تھا اب تم میرے قابو میں ہو بتائو میں تم سے کیا سلوک کروں؟ انہوں نے کہا ہم آپؐ سے اسی سلوک کی امید رکھتے ہیں جو آپ ؐ کی شان کے شایان ہو اور وہی سلوک چاہتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا ۔ آپ ؐ نے فرمایا ٹھیک ہے لا تثریب علیکم الیوم اذھبو افانتم الطلقاء ۔ جائو میں تمہیںکچھ نہیںکہتا ۔ تم آزاد ہو ۔ یہ دوسری ضحی تھی جو آپ ؐ پر آئی مگر اس ضحی نے بھی بتا دیا کہ کبر اور خود پسندی کبھی آپ ؐکے قریب بھی نہیں آئی تھی ۔ قومیںآئیں۔ وفود آئے اور ہر طرف سے آکر انہوں نے آپکی اطاعت کو قبول کیا مگر کبھی بھی یہ بات ظاہر نہیںہوتی کہ آپ ؐ نے ان لوگوں میںکبھی اپنی شان کا کوئی خاص اظہار کیا ہو۔
تیسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے والضحی والیل اذا سجیٰ ۔ کچھ لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیںجن پر دن چڑھتے ہیں تو وہ اپنے دنوں کو کھیل میں، تماشا میں ، جوئے میں، شراب میںاور اسی قسم کی اور لغویات میںختم کر دیتے ہیں اور جب رات آتی ہے تو اس کو ناچ گانے اور سونے میںختم کر دیتے ہیں اللہ تعالی فرماتا ہے مگر اے محمد ﷺ ایسے لوگوں کے مقابل پر تیر ادن بھی اس قسم کا ہو گا اور تیری راتیں بھی اس قسم کی ہوں گی کہ ہر دیکھنے والے کے سامنے تیرے ساتھی ان دنوں اور ان راتوں کو پیش کر سکیں گے اور اسے کہہ سکیںگے کہ بتائو کیا تمہارے دن محمد ﷺ کے دنوں کی طرح ہیں اور کیا اس حالت میںدن گزارنے والے کو کبھی خدا تعالی چھوڑ سکتا ہے یا س سے ناراض ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح تیری راتیںایسی گذریںگی کہ تم ہر شخص کے سامنے اپنی ان راتوں کو پیش کر کے کہہ سکو گے کہ میری راتوں کو دیکھو اور بتائو کہ کیا ایسی راتوں والے کو خدا تعالی چھوڑ سکتا ہے؟ غرض فرمایا ۔ والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی اے محمد ﷺ ہم تیرے دنوں کو ایسا کر دیں گے اور تیری راتوں کو بھی ایسا کر دیں گے کہ تیر ادن بھی اس بات کی شہادت دے گا کہ تجھے خد انے نہیںچھوڑا ۔ اور تیری رات بھی اس بات کی شہادت دے گی کہ تیرا خدا تجھ سے ناراض نہیںہے ۔ یہ وہی دعویٰ ہے جو فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون (یونس۲:۷)میںکیا گیا ہے کہ میںتم میںایک لمبی عمر گزار چکا ہوں کیا تم ثابت کر سکتے ہو کہ میں نے اس عرصہ میںکسی ایک بدی کا بھی ارتکاب کیا ہو ۔ اگر تم سب کے سب مل جائو تب بھی میری چالیس سالہ ابتدائی زندگی پر کوئی داغ ثابت نہیںکر سکتے ۔ مگر یہ دعویٰ تو گزری ہوئی عمر کے متعلق ہے اور والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی میں آئندہ زندگی کے متعلق دعوی کر دیا اور فرمایاکہ میرے دن تمہارے سامنے ہیں ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں دن تمہارے سامنے گذرے گا ۔ اسی طرح میری راتیںبھی تمہارے سامنے ہوں گی اورایک کے بعد دوسری رات گزرتی چلی جائے گی لیکن یاد رکھو میری زندگی کا ہر دن جو گزرے گا وہ ثبوت ہو گا اس بات کا کہ ما ودعنی ربی وما قلانی ۔ اسی طرح ہر رات جو مجھ پر گزرے گی وہ ثبوت ہو گی اس بات کا کہ ما ودعنی ربی وما قلانی ۔
غرض خدا تعالی اس آیت میںمحمد رسول اللہﷺ کو آپ کی صداقت کی ایک نئی دلیل سکھاتا ہے اور فرماتا ہے میںیہ پیشگوئی کرتا ہوں کہ تیرا ہر دن میری رضامندی میںگزرے گا اور تیری ہر رات میری رضامندی میں گذرے گی۔ تیری پہلی زندگی کے متعلق میں چیلنج کر چکا ہوں اب یہ دوسرا چیلنج آئندہ زندگی ک متعلق ہے ۔ پچھلی زندگی کے متعلق تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نے اس وقت سوچا نہیںتھا اگر غور کرتے تو ممکن تھا کہ کوئی نقص نظر آجاتا ۔ فرماتا ہے اگرمحمد رسول اللہ ﷺ کی اس زندگی کے متعلق تمہارا یہ عذر ہے تو اب دوسری زندگی پر کوئی اعتراض کر لینا اور دیکھنا کہ اس کی زندگی کی ایک ایک ساعت، ایک ایک رات اور ایک ایک دن اپنے فائدہ اور اپنے آرام کے لئے خرچ ہوتا ہے یا بنی نوع انسا ن کے فائدہ اور آرام کے لئے خرچ ہوتا ہے ۔
چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ قبض و بسط کی دونوں حالتیں رسول کریم ﷺ کی اچھی ہوں گی ۔ اللہ تعالی قابض بھی ہے اور باسط بھی ، اور اس کے اپنے بندوں سے یہ دونوں سلوک ہوتے ہیں ۔ جس طرح دنیوی معاملات میں کوئی آرام کی ساعت ہوتی ہے اور کوئی تکلیف کی ۔ اسی طرح روحانی عالم میں کبھی کوئی ساعت ایسی آتی ہے جس میں انسان بہت زیادہ خدا تعالی کے سامنے جھکا ہوا ہوتا ہے اور کبھی اس پر قبض کی ساعت آجاتی ہے ۔ حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ ایک صحابی رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور آکر رو پڑے ۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! میںتو منافق ہوں رسول کریم ﷺ نے فرمایا میںتو تم کو مومن سمجھتا ہوں وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ! مومن نہیں میںتو منافق ہوں جب میں آپ کی مجلس میں بیٹھا ہوا ہوتا ہوں تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف جنت ہے اور ایک طرف دوزخ ۔ جو بھی خیال میرے دل میںگزرتا ہے یا جو بھی عمل میں کرتا ہوں جنت اور دوزخ کو دیکھ کر کرتا ہوں ۔ مگر جب گھر جاتا ہوں تو یہ حالت نہیں رہتی ۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ تو عین ایمان ہے اگر خدا تعالی ہر وقت ایک جیسی حالت رکھے تو تم مر نہ جائو۔ تو قبض اور بسط کی حالت ہر انسان پر آتی ہے چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مدارج کے اختلاف کی وجہ سے ایک انسان کی قبض کی حالت دوسرے انسان کی قبض کی حالت سے جدا گانہ ہو یا ایک انسان کی بسط کی حالت دوسرے انسان کی بسط کی حالت سے مختلف ہو لیکن بہرحال قبض اور بسط کی گھڑیاں ہر انسان پر آتی ہیں۔ ایک وقت وہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے دوسرے وقت وہ اپنے بیوی بچوں سے کھیل رہا ہوتا ہے تیسرے وقت وہ پاخانہ میںبیٹھا ہوا ہوتا ہے ۔ یہ علیحدہ علیحدہ حالتیں ہیں جن میں سے ہر انسان گزرتا ہے ۔ ان میں سے نماز اور روزہ بسط کی حالتیں ہیں اور بیوی بچوں سے کھیلنا یا پاخانہ میںجانا یا دنیا کے کسی اور کام میں مشغول ہو جانا یہ قبض کی حالتیں ہیں ۔ بہت لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں کہ وہ عبادت گزار بھی ہوتے ہیں ، روزہ دار بھی ہوتے ہیں ، حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہوتے ہیں ،ذکر الہی بھی کرتے ہیں ، زکواۃ بھی دیتے ہیںمگر جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو نماز ہی پڑھتے ہیں ، جب حج کر تے ہیں تو حج ہی کرتے ہیں ، جب زکواۃ دیتے ہیں تو زکواۃ ہی دیتے ہیں مگر جب وہ روٹی کھاتے ہیں اس وقت وہ صرف روٹی ہی کھا رہے ہوتے ہیں ، جب وہ کپڑے پہنتے ہیں اس وقت وہ صرف کپڑے ہی پہن رہے ہوتے ہیں ، جب وہ بیوی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں اس وقت وہ صرف بیوی سے ہی باتیں کر رہے ہوتے ہیں ، جب وہ بچوں سے تلعب کر تے ہیں اس وقت بچوں سے ہی تلعب کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان کی دنیا دنیا ہوتی ہے اور ان کا دین دین ہوتا ہے ۔ مگر اللہ تعالی فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی اے محمد ﷺ تیری تو دنیا ہی نرالی ہے ۔ تیری قبض کی حالت بھی خدا کے لئے ہوتی ہے اور تیری بسط کی حالت بھی خداکے لئے ہوتی ہے ۔ جب تو بیوی سے ہنس رہا ہوتا ہے اس وقت تو بیوی سے نہیں ہنستا بلکہ ہمارے حکم کی تعمیل کرتا ہے کیونکہ تو کہتا ہے میںاپنی بیوی سے اس لئے ہنس رہا ہوں کہ میرا خدا کہتا ہے میںاپنی بیوی سے اس رنگ میںپیش آئوں ۔ جب تو کھانا کھا رہا ہوتا ہے اس وقت تو صرف کھانا نہیں کھاتا بلکہ بسم اللہ سے شروع کرتا ہے اور الحمد للہ پر ختم کرتا ہے اور درمیان میں سبحان اللہ سبحان اللہ کہتارہتا ہے ۔ جب تو پانی پیتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ تو دنیا دار لوگوں کی طرح صرف پانی پئے بلکہ تو کہتا ہے میںیہ پانی اس لئے پی رہا ہوں کہ میرے رب نے یہ چیز میری طرف بھیجی ہے ۔ بارش آتی ہے تو لوگ اس سے کیسا لطف اٹھاتے ہیں مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی کیا کیفیت تھی ایک دفعہ بادل آیا آسمان سے ہلکی ہلکی بوندیں برسیں رسول کریم ﷺ اپنے کمرہ سے باہر تشریف لائے زبان نکالی اس پر بارش کا ایک قطرہ لیا اور فرمایا میرے رب کی طرف سے یہ تازہ نعمت آئی ہے ۔ آپ ؐ نے بھی لوگوں کو یہی نصیحت کی کہ میںتمہیںیہ نہیں کہتا تم اپنی بیویوں سے حظ نہ اٹھائو ، میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ کھائو نہیں، میںتمہیںیہ نہیں کہتا کہ پہنونہیں ۔ میںتمہیںیہ کہتا ہوں کہ تم جو کچھ کرو احتساباً کرو ۔ اس نیت اور ارادہ کے ماتحت کرو کہ اللہ تعالی کی رضا تمہیںحاصل ہو جائے ۔ اگر تم اپنے تمام کاموں میں اس نیت کو ہمیشہ مد نظر رکھو گے اور اللہ تعالی کی رضا کا حصول تمہارا اصل مقصد ہو گا تو میں تمہیں کہتا ہوں اس کے بعد اگر تم اپنی بیوی کے منہ میں احتساباً ایک لقمہ بھی ڈالتے ہو تو فھم صدقۃ وہ بھی ایک صدقہ ہو گا۔ اب دیکھو وہ شخص لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے مگر رسول کریم ﷺ اسے صدقہ قرار دیتے ہیں حالانکہ جس سے انسان کو محبت ہوتی ہے اسے بہر حال وہ کھلاتا ہے وہ یہ تو پسند کر سکتا ہے کہ میںخود بھوکا رہوں مگر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ جس سے مجھے محبت ہے اسے بھوک کی تکلیف ہو ۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ اپنی بیوی کو کھلائے گا خد اتعالی کے حضور یہ نہیں لکھا جائے گا کہ اس نے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالا بلکہ خدا تعالی کے حضور یہ لکھا جائے گا کہ اس نے ہماری رضا کی خاطر صدقہ کیا ۔ اسی طرح ملازموں سے معاملہ ہے ، ہمسایوں سے معاملہ ہے ، دوستوں سے معاملہ ہے۔ جب انسان ان تمام معاملات میںخدا تعالی کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے اور اسکی خوشنودی کے حصول کے لئے وہ یہ سب کام کرتا ہے تو بظاہر یہ دنیوی نظر آنے والے کام بھی اس کے لئے دین بن جاتے ہیںاور اللہ تعالی کے حضور اس کے یہ کام ایسے ہی سمجھے جاتے ہیںجیسے وہ عبادت میں اپنا وقت گزار رہا ہو۔ پس فرمایا والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ اے محمد رسول اللہ ﷺ تیری بسط اور قبض کی حالتیں دونوں ہمارے لئے ہیں تو بظاہر اپنی بیوی سے ہنس رہا ہوگا مگر دل میں ہمارے ساتھ پیار کر رہا ہو گا ۔ تو بظاہر اپنے بچوں سے پیار کر رہا ہو گا مگر دل میں ہمارے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کر رہا ہو گا ۔ تو بظاہر ہمسایوں کے ساتھ دلجوئی کی باتیں کر رہا ہو گا مگر اصل میں تیری باتیں ہمارے ساتھ ہو رہی ہوں گی ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ توان کے پاس بیٹھا ہے حالانکہ تو ان کے پاس نہیں بلکہ ہمارے پاس بیٹھا ہوتا ہے ۔ جب تیر اہر فعل ہمارے لئے ہے ، جب تیری ہر حرکت اورہر سکون ہمارے لئے ہے اور جب تو دین اور دنیا دونوں راہوں سے خدا تعالی کا قرب حاصل کر رہا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم لیل اور نھار میںتجھے چھوڑ دیں ؟ جب ہم نہ تیرے کھانے پر ناراض ہیں ، نہ پینے پر ناراض ہیں ، نہ معاشرت پر ناراض ہیں، نہ ہمسایوں سے تعلقات پر ناراض ہیں، نہ کسی اور کام پر ناراض ہیں، تو ہم تجھے چھوڑ کس طرح سکتے ہیں؟ یہ تو عبادتیں ہیں جو تو ہماری خاطر بجا لا رہا ہے ان عبادتوں پر ہم نے خفا کیا ہونا ہے ہم تو خوش ہی ہوں گے کہ تو نے ہماری خاطر دنیا کو بھی دین بنا لیا ۔ غرض چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ قبض اور بسط کی حالتیں رسول کریم ﷺ کی اچھی ہوں گی یعنی جب آپ ؐ عبادت میں مشغول ہوں گے تو ہونگے ہی ۔ جب آپ دنیوی کام کریں گے جو بمنزلہ لیلؔ ہوتے ہیںتب بھی آپ خدا تعالی کی خوشنودی ہی مد نظر رکھیں گے اور دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالی آپ سے رات دن جدا نہیں ہوتا اور نہ آپ کے کسی فعل سے ناراض ہوتا ہے ۔
پانچویں معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ دن کام کا وقت ہوتا ہے اور رات انسان کے آرام کا وقت ہوتا ہے فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ہم تیرے دنوں کو پیش کر تے ہیں جب تو تبلیغ میں مصروف ہوتا ہے اور تیری راتوں کو پیش کرتے ہیں جب تو مکالمہ الہی میں مشغول ہوتا ہے ۔ تیر ادن خدا کے اس فعل کا ثبوت ہے کہ ما ودعک ربک ۔ تیرے رب نے تجھے نہیں چھوڑا ۔ دوسرے الفاظ میں یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ واللہ یعصمک من الناس (المائدہ ۱۰: ۱۴) چنانچہ دیکھ لو دن کے وقت آپ ؐ کی تبلیغ اور نشست و برخاست کن لوگوں میں تھی ، کفار مکہ میںجو ہر وقت آپ ؐ کو مارنے کی فکر میں رہتے تھے مگر اللہ تعالی فرماتا ہے تیرا دن اس بات کی شہادت دے گا کہ ہم تیرے ساتھ ہیں ورنہ دشمن جو ہر وقت تیرے پاس رہتاہے اسے کونسی چیز تجھے ہلا ک کرنے سے روک سکتی ہے اس کی سب سے بڑی خواہش تو یہی ہے کہ تجھے ہلا ک کر دے مگر باوجود اس خواہش اور ارادہ کے اور باوجود اس بات کے کہ دن کو تم انہیں لوگوں کے ساتھ رہتے ہو وہ تمہیںقتل نہیں کر سکتے ۔ پس تیر ا دن اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تیرے ساتھ ہے اور تیری رات ثبوت ہوتی ہے اس بات کا کہ وما قلی۔ خدا تجھ سے ناراض نہیں ۔ دن کو لوگ تجھ پر اپنے غیظ و غضب اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک آتا ہے تجھے فریبی کہتا ہے ، دوسرا آتا ہے تو تجھے دھوکہ باز کہہ دیتا ہے ، تیسرا آتا ہے تو تجھے عزت کا خواہش مند کہہ کر چلا جاتا ہے ۔ غرض ہزاروں قسم کی گالیاں اور ہزاروںقسم کے الزامات ہیں جو تجھے دشمنوں سے سننے پڑتے ہیں مگر اللہ تعالی فرماتا ہے دن اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں۔ دن کو لوگ تجھے اپنی دشمنی کی وجہ سے ہلاک کر سکتے ہیںمگر چونکہ ہم تمہارے ساتھ ہوتے ہیں وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ وہ گالیاںدیتے ہیں ،وہ تجھے برا بھلا کہتے ہیں، وہ تیرے ہلاک کرنے کے لئے کئی قسم کے منصوبے کرتے ہیں مگر اپنی تمام کوششوں میں ناکامی اور نامرادی کا منہ دیکھتے ہیںاور اس طرح دن کی ایک ایک گھڑی تیری صداقت اور راستبازی کا دنیا میںاعلان کررہی ہوتی ہے ۔ اس کے بعد جب سارے دن کی گالیاں سن کر رات آتی ہے اور تم سمجھتے ہو کہ میں کیا کروں مجھ سے تو ساری دنیا ناراض ہے اس وقت ہم تجھے تسلی دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو تجھ سے ناراض نہیں ۔ دنیا اگر ناراض ہے تو بے شک ہو ۔
میں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک نوٹ بک دیکھی ۔ آپ ؑ کا معمول تھا کہ جب کوئی پاک جذبہ آپؑ کے دل میں اٹھتا آپ ؑ اسے لکھ لیتے ۔ اس نوٹ بک میں آپ نے ایک جگہ خدا تعالی کو مخاطب کر کے لکھا تھا :۔
’’ او میرے مولا۔ میرے پیارے مالک ، میرے محبوب ۔ میرے معشوق خدا ! دنیا کہتی ہے تو کافر ہے مگر کیا تجھ سے پیارا مجھے کوئی اور مل سکتا ہے؟ اگر ہو تو اس کی خاطر تجھے چھوڑ دوں ۔ لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ جب لوگ دنیا سے غافل ہو جاتے ہیںجب میرے دوستوں اور دشمنوں کو علم تک نہیںہوتا کہ میں کس حال میںہوںاس وقت تو مجھے جگاتا ہے اور محبت سے پیار سے فرماتا ہے کہ غم نہ کھا میںتیرے ساتھ ہوں تو پھر اے میرے مولا یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس احسان کے ہوتے ہوئے پھر میںتجھے چھوڑدوں ۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔‘‘ (بدر مورخہ ۱۱ جنوری ۱۲ء ص ۶)
یہی مضمون اللہ تعالی نے ما ودعک ربک وما قلی میںبیان فرمایا ہے کہ دن ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ میںتیرے ساتھ ہوں دشمن تیری طرف اپنا ہاتھ نہیں بڑھا سکتا ۔ اور رات ثبوت ہوتی ہے اس بات کا کہ میںتجھ سے ناراض نہیں ۔ تو دن کے وقت دشمن کے منہ سے کئی قسم کی ناراضگی کی باتیں سنتا ہے اور تیرا دل سخت غمزدہ ہوتا ہے مگر جب رات آتی ہے تو ہم تجھ سے کہتے ہیںتو دشمن کی ان گالیوں سے مت گھبرا ہم تجھ سے خوش ہیں ۔ پس دن کی حفاظت اور رات کا مکالمہ الہی دونوں ا س بات کا ثبوت ہیں کہ ما ودعک ربک وما قلی ۔
چھٹے معنے یہ ہیں کہ ایک روحانی قبض و بسط کا وقت بھی ہر انسان پر آیا کرتا ہے جس کا اس آیت میںذکر کیا گیا ہے ۔ جہاں میں نے خالص دینی اور جسمانی کاموں کے متعلق قبض و بسط کی کیفیات کا ذکر کیا تھا وہاں ایک وقت انسان کی حالت پر ایسا بھی آتا ہے جب اس کی روحانی حالت پر قبض کی حالت طاری ہو جاتی ہے اس میں بھی چھوٹے اوربڑے سب یکساں ہیں اور سارے انسانوں پر ہی یہ قبض و بسط کا دور آتا ہے اس دور کا آنا بھی انسانی ترقیات کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے ۔ اللہ تعالی رسول کریم ﷺ سے فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی جیسے بعض روحانی دور رسول کریم ﷺ پر اس رنگ میں آئے کہ وحی کانزول کچھ دنوں کے لئے بند ہو گیا جو روحانی طور پر ایک وقفہ تھا جو اللہ تعالی نے پیدا کر دیا ۔ اسی طرح فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ہم ان وقتوںکو بھی پیش کرتے ہیں جو تیرے لئے ضحی کا رنگ رکھتے ہیں اور ہم ان وقتوں کو بھی پیش کرتے ہیںجو تیرے لئے لیل کا رنگ رکھتے ہیں ۔ یعنی تیری روحانی حالت پر ہمیشہ ضحی کی کیفیت نہیںرہے گی بلکہ کبھی کبھی رات کی تاریکی کی سی حالت بھی آئے گی ۔ مثلاً کبھی نزول وحی میں روک پیدا ہو جائیگی یا قلب میںوہ بلندی نہیں ہو گی جو دوسرے وقتوں میں تجھے نظر آئے گی ۔ مگر تیرے قلب کی یہ کیفیت دوسرے لوگوں سے بالکل مختلف ہو گی ۔ اور لوگوں کے دلوں میںجب قبض آتی ہے تو وہ خدا تعالی سے دور جا پڑتے ہیں مگر فرمایا ما ودعک ربک و ما قلی ۔ تیری ضحی کی حالت بھی خدا کو پیاری ہو گی اور تیری لیل ؔ کی حالت بھی خدا کو پیاری ہو گی ۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میںجس قدر چیزیں پائی جاتی ہیں وہ سب لہروں میںچلتی ہیں ۔پہاڑ ہیں تو وہ لہروں میںچلتے ہیں ۔ دریا ہیںتو وہ لہروں میںچلتے ہیں ۔ ہوائیں ہیں تووہ لہروں میںچلتی ہیں۔ بجلیاں ہیں تو وہ لہروں میںچلتی ہیں ، غرض ہر چیز اپنے اندر لہریں رکھتی ہے ۔ جس طرح مادیات میں لہروں کا قانون جاری ہے اسی طرح روحانیت میںبھی مختلف لہریںچلتی رہتی ہیںلیکن بعض لہریںایسی ہوتی ہیںکہ ان لہروں کی جو ادنیٰ حالت ہوتی ہے وہ بھی کفر کی ہوتی ہے ۔ اگر ان لہروں میںکبھی انسان پر خشیت بھی طاری ہوتی ہے تو وہ ایسی نہیںہوتی جو ایمان کی علامت ہو ۔ اس کے مقابل پر بعض لہریںایسی ہوتی ہیں کہ ان کی ادنیٰ حالت کفر کی ہوتی ہے اور اعلیٰ حالت ایمان کی ہوتی ہے اور بعض ایسی روحانی حالتیں ہوتی ہیں کہ ادنیٰ حالت گو کفر کی نہیںہوتی مگر خدا تعالی کی معیت کی بھی نہیں ہوتی ۔ یعنی وہ گو ادنیٰ حالت خدا تعالی کی ناراضگی والی نہ ہو مگر ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ایسے شخص کو خدا تعالی کی معیت حاصل ہے ۔ ایک حالت عدم معیت کی ہوتی ہے اور ایک حالت حصول معیت کی ہوتی ہے یہ الگ الگ مقام ہیں جو روحانی درجات کے حصول کے وقت پیش آتے ہیں ۔ ایسے شخص کی ادنیٰ حالت کو دیکھ کر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اسے خدا تعالی کی مقبولیت حاصل ہے گو ہم یہ بھی نہیںکہیں گے کہ خدا تعالی نے اسے چھوڑ ا ہوا ہے ہاں اس کی اعلی حالت بیشک خدا تعالی کی معیت کا ثبوت ہوتی ہے ۔ لیکن ایک مقام وہ ہے کہ جب انسان نیچے آئے تب بھی اس خدا تعالی کی معیت حاصل ہوتی ہے پس فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ اے محمد ﷺ روحانی لہروں میںتیرے لئے وہ وقت بھی آتا ہے جو ضحی کا ہوتا ہے اور جب تو کلی طور پر خدا کے سامنے ہوتا ہے اور تیرے لئے وہ وقت بھی آتا ہے جب تجھ پر قبض طاری ہوتی ہے مگر ما ودعک ربک وماقلی ۔ تیری قبض کی حالت بھی خدا کی معیت کے ماتحت ہو گی اور تیری بسط کی حالت بھی خدا کی معیت کے ماتحت ہو گی ۔ صرف معیت کے مدارج میں فرق ہو گا یہ نہیں ہو گا کہ خداتعالی کی معیت کا مقام جو تجھے حاصل ہے وہ کسی حالت میں جاتا رہے ۔ تیری دونوں حالتیں خواہ وہ قبض کی ہوں یا بسط کی خدا کی معیت اور اس کی خوشنودی کا ثبوت ہوں گی صرف کمی بیشی کا فرق ہو گا مگر یہ نہیں ہو گا کہ معیت جاتی رہے ۔ یہ وہی مقام ہے جسے صوفیاء نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ حسنات الابرار سیئات المقربین در اصل اس مقام کو کھول کر بیان کر نا سخت مشکل ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نے بجائے کھلے طورپر ا س کا ذکر کرنے کے اشاروں اشاروں میںہی بیان کر دیا کہ حسنات الابرار سیئات المقربین یعنی وہ مقام جو ابرار کے لئے بسط کا ہوتا ہے اور جسے وہ حصول عرفان کے بلند ترین درجہ سمجھتے ہیںوہ مقربین کے لئے قبض کا مقام ہوتا ہے ۔ انہوں نے بھی اشاروں میںیہ بات بیان کی ہے اور میں بھی اس بات پر مجبور ہوں کہ اشاروں تک اس بات کو محدود رکھوں ۔ حقیقت میںیہ روحانی لہریں ہوتی ہیں جو کبھی اونچی چلی جاتی ہیں اور کبھی نیچے کی طرف آجاتی ہیں۔ ان کے لئے اس بات کو بیان کرنا مشکل تھا اور میرے لئے نسبتا ً آسانی ہے کیوں کہ لہروں کے علم نے اس مسئلہ کو سمجھنے میں بہت کچھ سہولت پیدا کر دی ہے ۔ بہرحال اللہ تعالی اس آیت میں یہ مضمون بیان فرماتا ہے کہ محمدی مقام کی نچلی لہریں بھی ما ودعک ربک وما قلی کا ثبوت ہیںاور محمدی مقام کی اونچی لہریں بھی ما ودعک ربک وما قلی کے ماتحت ہیں ۔ دونوں حالتوں میں خدا تعالی کی معیت آپ ؐ کے شامل حال رہے گی اور کبھی کوئی مقام خدا تعالی کی ناراضگی یا اس کی باپسندیدگی کا نہیںآئے گا ۔ جس طرح پرندہ اڑتا ہے تو ایک جھٹکا کھاتا ہے اور بظاہر نظر آتا ہے کہ وہ نیچے ہوا ہے حالانکہ وہ اڑان کا ایک حصہ ہے اسی طرح رسول کریم ﷺ کے لئے اللہ تعالی کی صفت قبض اس طرح ظاہر ہو گی کہ ہر قبض کی حالت بسط کا موجب بنے گی اور اوپر اٹھانے کا ذریعہ ہو گی۔
ساتویں معنے والضحی والیل اذا سجی کے یہ ہیں کہ ہر نبی کی دو زندگیاں ہوتی ہیں ایک اس کی فردی زندگی ہوتی ہے اور ایک اس کی سلسلہ کی زندگی ہوتی ہے ۔ فردی زندگی کے لحاظ سے اگر اس آیت کے مضمون کو لیا جائے تو ضحی اور لیل دونوں زمانے رسول کریم ﷺ کی جسمانی حیات کے ساتھ تعلق رکھیں گے لیکن جب اس آیت کو آپؐ کی قومی زندگی پر چسپاں کیا جائے گا تو ضحی اور لیل سے رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد کے وہ دور مراد ہوں گے جو امت محمدیہ پر آنے والے تھے ۔ اللہ تعالی اس آیت میںاسی جماعتی زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے والضحی والیل اذا سجیٰ ۔ ہم اس وقت کو بھی پیش کرتے ہیں جو تیری قومی اور جماعتی زندگی کے لئے ضحی کی حیثیت رکھتا ہو گا اور ہم اس وقت کو بھی پیش کرتے ہیں جو تیری قومی اور جماعتی زندگی کے لئے لیل کا مصداق ہو گا ۔ دنیا میں ہر قوم پر ترقی اور تنزل کے مختلف دور آتے ہیں کبھی اقبال اور فتح مندی اس کے شامل حال ہوتی ہے اور کبھی ادبار اور ناکامی کی گھٹائیںاس پر چھائی ہوتی ہیں بالعموم قومیں ترقی کر کے جب تنزل کی طرف جاتی ہیںتو ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد ہو جاتی ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ محمد ﷺ کا جو زمانہ نبوت ہے یعنی آپ ؐ کے دعویٰ سے لے کر قیامت تک کا زمانہ یہ دور تنزل سے بالکل محفوظ رہے گا ۔ ضحی کی روشنی یکساں جلوہ گر رہے گی ، کبھی لوگ خدا سے دور نہیں ہو ں گے اور ادباریا گمراہی کا زمانہ امت محمدیہ پر نہیںآئے گا بلکہ ہم مانتے ہیں کہ ضحی کی حالتیں بھی امت محمد یہ پر آئیں گے اور والیل اذا سجی کی حالت بھی رونما ہو گی لیکن اس کے ساتھ ہی محمد ﷺ کی قومی حیات کے متعلق ہم ایک وعدہ کرتے ہیں جو دنیا کی اور کسی قوم کے ساتھ ہم نے نہیںکیا کہ اس کی ضحٰی بھی ما ودعک ربک وما قلی کے ماتحت ہو گی اور اس کی لیل بھی ما ودعک ربک وما قلی کا ثبوت ہو گی ۔
جہاں تک ماننے والوں کا تعلق ہے بے شک ان کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے کبھی ان پر ضحی کی گھڑیاں آئیںگی اور کبھی لیل کی تاریکی ان پر چھا جائے گی ۔ مگر جہاں تک شریعت محمدیہ کا اور لوگوں کے خدا تعالی سے تعلق کا تسلسل ہے اس کے لحاظ سے کوئی دور ایسا نہیںہو گا جو ما ودعک ربک وما قلی کے ماتحت نہ ہو۔ قوم پر بے شک تنزل آجائے گا ، لوگ کیْل کی شکل میں بدل جائیں گے ۔ مگر جتنا حصہ محمدیت ؐ کا زندہ رہنا ضروری ہے وہ خدا تعالی کی خوشنودی اور اس کی معیت کے ماتحت قائم رہے گا ۔ اس میں درحقیقت اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جہاں دوسری اقوام خدا تعالی کو چھوڑ کر ترقی کر جاتی ہیں وہاں تیری قوم سے ایسا نہ ہوگا ۔ بلکہ تیری قوم پر جب ضحٰی کا دور آئے گا۔ خدا سے الگ ہو کر دوسری قوموں کیطرح مسلمان کبھی ترقی نہیں کر سکتے ۔ چنانچہ دیکھ لو وہ تمام دوسری اقوام جن میں اللہ تعالی کے انبیاء مبعوث ہوئے تھے جب ان پر روحانی تنزل کا زمانہ آیا تو باوجود اس کے کہ انہوں نے خدا تعالی کو چھوڑ ا ہوا تھا وہ دنیوی لحاظ سے ترقی کر گئیں مگر فرماتا ہے تیری قوم سے ایسا نہیں ہو گا بلکہ اس پر جب بھی ضحٰی کا وقت آئے گا ما ودعک ربک وما قلی کے ماتحت آئے گا۔ اور جب کبھی اللہ تعالی ان کو دنیوی ترقی نصیب کرے گا اس کے ساتھ ہی ان کا دین بھی درست ہو جائے گا۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ان پر ضحی کا وقت ایسی حالت میںآجائے جب خدا تعالی نے انہیں چھوڑا ہو ا ہو یا ان کی دینی اور اخلاقی حالت نا گفتہ بہ ہو ۔ عیسائیوں کو دیکھ لو ان پر دنیوی ترقی کا دور بے شک آیا مگر کس وقت ؟ جب عملی لحاظ سے عیسائیت بالکل مر چکی تھی ۔ تین سو سال کے بعد جب عیسائی روحانی لحاظ سے سخت کمزور ہو چکے تھے اور ان میںحضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو چکی تھیں اس وقت ان پر دینوی ضحٰی کا زمانہ آیا ۔ مگر اللہ تعالی فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ ﷺ تیری امت کے ساتھ ایسا نہیںہو گا ۔ مسلمانوں پر ضحٰی کا دور اسی وقت آئے گا جب خد اتعالی سے ان کا تعلق ہو گا ۔ اگر خدا تعالی سے ان کا تعلق اپنی بداعمالی کی وجہ سے کٹ چکا ہو گا تو ضحی کا دور بھی ان پر کبھی نہیں آئیگا ۔ ضحی کا دور اسی وقت آئیگا جب عملی طور پر وہ خد اسے تعلق رکھ رہے ہوں گے چنانچہ دیکھ لو خلافت راشدہ کا زمانہ جو اسلام کی ترقی کا زمانہ تھا اس وقت یہ دونوں باتیں موجود تھیں ایک طرف روحانیت کا غلبہ موجود تھا اور دوسری طرف دنیوی ضحی کا دور جاری تھا مگر موجودہ زمانہ میںجب تنزل کا دور آیا تو باوجود اس کے کہ مسلمانوں نے ایک ایک کر کے وہ تمام تدا بیر اختیار کیںجو مختلف اقوام اپنی ترقی کے لئے اختیار کرتی ہیں پھر بھی وہ ضحٰی کا دور واپس نہ لا سکے۔ مسلمانوں نے کہا غیر قومیںسود کی وجہ سے ترقی کر گئی ہیں آئو ہم بھی سود لینا شروع کر دیں تا کہ ہم بھی ترقی کی اس دوڑ میں حصہ لے سکیں ۔ انہوں نے سود لیا مگر جہاںدوسری اقوام سود کی وجہ سے ترقی کر گئیں وہاں مسلمان سود لینے کے باوجود تنزل اور ادبار میں گرتے چلے گئے ۔ پھر مسلمانوں نے کہا دنیا میںتعلیم سے ترقی ہوئی ہے آئو ہم بھی تعلیم کی طرف توجہ کریں چنانچہ انہوں نے بڑے زور سے اپنی تعلیمی حالت کو درست کرنا شروع کر دیا مگر جہاں دوسری اقوام تعلیم کی طرف توجہ کرنے کے نتیجہ میںترقی کر گئیں وہاں مسلمان تعلیم میںحصہ لینے کے باوجود گرتے چلے گئے ۔ پھر مسلمانوں نے کہا تجارت میںحصہ لینے سے ترقی ہوا کرتی ہے آئو ہم تجارتوں کی طرف توجہ کریں تا کہ ہم غیر قوموں کی طرح دنیا پر غالب آسکیںچنانچہ انہوں نے تجارتوں کی طرف توجہ کی مگر جہاں دوسری اقوام تجارت سے دنیا میںغالب آگئیںوہاں مسلمان تجارت میںحصہ لینے کے باوجود ذلیل سے ذلیل تر ہوتے چلے گئے ۔ غرض مسلمانوں نے اپنا پورا زور اس غرض کے لئے صرف کردیا کہ وہ کسی طرح ترقی کریں مگر ایک چیز بھی ان کو آگے بڑھانے کا موجب نہ بن سکی حالانکہ یہی وہ چیزیں ہیں جن سے غیر اقوام ترقی کر رہی ہیں۔ پس دنیا میںجس قدر قومیںپائی جاتی ہیں وہ مذہب کو چھوڑنے کے بعد بھی ترقی کر جاتی ہیں مگر مسلمانوں کے متعلق اللہ تعالی نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ ان پر ضحی کا دور ہمیشہ ما ودعک ربک وما قلی کے ماتحت آئے گا یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ خد اتعالی کو چھوڑ دیں اور خدا تعالی ان کو چھوڑ دے اور پھر بھی غیر قوموں کیطرح ترقی کر جائیں۔ اس کی ایک مادی وجہ ہے اور ایک روحانی ۔ مادی وجہ تو یہ ہے کہ پہلے مذاہب کی تعلیمات سوائے یہود کے اس طرح کی تفصیلی نہیںجس طرح اسلام کی تعلیم اپنے اندر تفصیل رکھتی ہے اس لئے ان کو چھوڑ کر بھی اقوام ترقی کر جاتی ہیں کیونکہ ذہنی کشمکش کوئی نہیں ہوتی وہ جو حالت بھی اختیار کرتی ہیں اسی کا نام اپنا مذہب رکھ لیتی ہیں ۔ جیسے مسیحت ہے یا ہندو مت ہے لیکن اسلام کی تعلیم تفصیلی اور محفوظ ہے اور ہمیشہ محفوظ رہے گی اسے چھوڑ کر جب بھی مسلمان آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے ان کے دماغ میں ایک ذہنی کشمکش شروع ہو جائے گی جو اطمینان قلب کو دور کر دیتی ہے اور یا تو مذہب سے دست بردار کر وا دیتی ہے یا ترقی سے روک دیتی ہے ۔
روحانی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی قوم کو بغیر مذہب کے خدا تعالی ترقی کرنے دے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالی نے اس قوم کو چھوڑ دیا کیونکہ اس کے بعد کوئی ایسا کوڑا نہیںرہتا جو اس قوم کی تنبیہ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہو ۔ اللہ تعالی نے گزشتہ قوموں کو مذہب کے بغیر بھی دنیوی ترقی دے دی کیونکہ خد اتعالی ان قوموں کو چھوڑچکا تھا ۔ مگر فرماتا ہے اے محمدرسول اللہ ﷺ ہم نے چونکہ تجھے کبھی نہیں چھوڑنا اس لئے ہم تیری قوم کو بھی کبھی نہیںچھوڑیں گے اور وہ بغیر مذہب کی درستی کے دنیا میں کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے ۔ کیونکہ اگر ہم مذہب کے بغیر ہی ان کو ترقی دے دیں تو وہ غلطی سے یہ سمجھ لیں گے کہ خدا تعالی ہم سے خوش ہے اور وہ دین سے اور بھی دور جا پڑیںگے ۔ اس لئے ہم دین سے غفلت کی حالت میں کبھی ان پر ضحٰی نہیں لائیں گے ۔ بلکہ جب بھی وہ دین سے غافل ہوں گے اور لیل کی حالت ان پر وارد ہو گی ہم انہیں سزا دیںگے کیونکہ اگر ہم سزا نہ دیںتواس میں ان کی موت ہے ۔ پس فرمایا مسلمان جب تک دین پر عمل پیرا رہیں گے ہم ان کے ساتھ رہیں گے اور انہیں دنیوی ترقیات سے بھی حصہ دیں گے مگر جب وہ ہمیںچھوڑ دیں گے ہم بھی ان کو چھوڑ دیںگے اور ان کی ان کی بد اعمالی کی سز ا دیں گے ۔ مگر ا س لئے نہیں کہ ان پر موت آئے بلکہ اس لئے کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ وہ پھر تیری طرف واپس آئیں اور تیرے دین کو مضبوطی سے پکڑ لیں ۔ گویا دونوں حالتوں میںہمارا ان کے ساتھ معاملہ محض اس لئے ہو گا کہ وہ تیرے دامن سے وابستہ رہیں اور کبھی ایک آن اور ایک لمحہ کے لئے بھی اسے چھوڑنے کا خیال نہ کریں ۔ جب وہ ترقی کریں گے ایسی حالت میںکریں گے کہ تو ان کے ساتھ ہو گا ۔ اور جب تو ان کے ساتھ نہیں ہو گا ہم انہیںسرزنش کریں گے تا کہ روشنی اور ضحی والا دور پھر واپس آجائے ۔ گویا تاریکی اور تنزل کی گھڑیوں میں بھی ہمارا ان کے ساتھ ایسا سلوک ہو گا جو ما ودعک ربک وما قلی کا ثبوت ہو گا ۔ ہم انہیں سرزنش اور تنبیہ کریں گے تاکہ وہ اپنی حالت کو بدل لیں اور جب اس تنبیہ کے بعد قوم تیری طر ف واپس لوٹے گی پھر تیرے انوار اور برکات کا دنیا میںظہور شروع ہو جائے گا گویا ضحی کے وقت بھی ما ودعک ربک وما قلی کا ظہور ہو گا ۔ ضحی کے وقت اس طرح کہ جب کبھی وہ ترقی کریںگے اسلام کا نور دنیا کو نظر آنے لگ جائے گا اور لیل کے وقت اس طرح کہ جب ان میںتنزل واقعہ ہو گا خدا تعالی کوڑے مار مار کر تیری طرف واپس لائے گا یا خدا تعالی کوئی روحانی سلسلہ ایسا پھر قائم کر دے گا جو تیرے جلال اور جمال کو دنیا پر ظاہر کر نے والا ہو گا۔
غرض روحانی طورپر چونکہ اسلام آخری مذہب ہے اس لئے اللہ تعالی کی خاص تقدیریں مسلمانوں کو بغیر اسلام کے ترقی کرنے نہیں دیتیں تا کہ وہ مطمئن ہو کر دین سے غافل اور بے پرواہ نہ ہو جائیں ۔ اور یہی مضمون والضحٰی اورما ودعک ربک وما قلی میںبیان کیا ہے کہ اسلامی ترقی اور الہی قرب ہمیشہ قدم بقدم بڑھیں گے ۔ الہی قرب اور معیت اور رضا ء کے بغیر امت مسلمہ کو ترقی نہیں ہو گی جب بھی مسلمان دین کو چھوڑ دیں گے ترقیات ِ دنیویہ سے بھی محروم ہو جائیں گے ۔
آٹھویں معنے والیل اذا سجیٰ کے یہ ہیں کہ اسلام پر تنزل کا زمانہ بھی آئے گا مگر وہ دائمی نہیں ہو گا اور ما ودعک ربک وما قلی۔ کا ایک ثبوت ہوگا یعنی پھر وہ زمانہ اچھے زمانہ سے بدل جائے گا یعنی ہر تاریکی کے بعد روشنی کا زمانہ آتا رہے گا ۔ تاریکی کے زمانہ میں معیت اور رضا ء الہی کی یہی دلیل ہوتی ہے کہ وہ جاتی رہے پس رات کے زمانہ میں بھی خدا تعالی کے راضی رہنے کے یہی معنے ہیں کہ خدا تعالی پھر اسلام کی تازگی کے سامان پیدا کر دے گا پھر اللہ تعالی اپنا کوئی مامور لوگوں کی اصلاح کے لئے کھڑا کر دے گا۔ مسلمان اپنی کوششوں سے مایوس ہو کر اس کی طرف آئیں گے اور چونکہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا قائم مقام ہو گا اس لئے اس کی طرف آنا تیری طرف واپس آنا ہو گا۔
نویں معنے اس آیت کے یہ ہیںکہ شریعت ِ اسلامیہ ترقی اور تنزل دونوں زمانوں میں محفوظ رہے گی ۔ قومیں شریعتوں کو دونوں زمانوں میں بدل دیتی ہیںبعض تنزل کے زمانہ میں اپنی غفلت سے بدلنے دیتی ہیں اور بعض ترقی کے زمانہ میں اپنی اغراض کے لئے بدل دیتی ہیں لیکن اللہ تعالی فرماتا ہے والضحی والیل اذا سجیٰ ۔ پہلی جماعتوں کی یہ کیفیت رہی ہے کہ یا تو ضحی اور ترقی کے زمانہ میںجب وہ عیاشی میںمبتلا ہو گئیں ۔ انہوں نے شریعت کے ان احکام کو بدل ڈالا جو ان کی خواہشات میں حائل تھے ۔جیسے عیسائیت میں جب حکومت آئی اور غالب قوم نے کہا کہ ہفتہ کی بجائے اتوار عبادت کا دن مقرر کر دیا جائے کیونکہ ہمیں اس میں سہولت ہے تو عیسائیوں نے فوراً اس کو بدل دیا اور ہفتہ کی بجائے اتوار کا دن عبادت کے لئے مقرر کر دیا ۔ یا اس قوم کے افراد نے جب کہا کہ کفر کی حالت میںہم اپنی عید فلاں فلاں دنوں میں منایا کرتے تھے عیسائیت میںبھی وہی دن مقرر ہونے چاہئیں تو عیسائیوں نے اس کو بھی مان لیااور عیسوی احکام کو بدل ڈالا ۔ اور یا پھر شریعت کے احکام تنزل کے زمانہ میں بدل جاتے ہیں جب قوم میںغفلت پیدا ہوجاتی ہے اور شرعی احکام کی عظمت اس کی نگاہ سے زائل ہو جاتی ہے غرض دو اوقات میںہی شریعتیں بدلی جاتی ہیں کبھی ضحی کے وقت شریعتیں بدلی جاتی ہیں اور کبھی لیل کے وقت ۔ ضحی کے وقت عیاشی کے لئے احکام شرعیہ کو قومیں بدل دیتی ہیں اور لیل کے وقت یا تودشمن ان کی کتابوں کو جلا دیتے ہیں اور یا اپنی کمزوری کی وجہ سے وہ خود ہی اس کی حفاظت کا فرض سر انجام نہیں دے سکتیں ۔ جیسے بختؔنصر جب یہود کو جلا وطن کر کے لے گیا تو وہ یہودی قوم کے لئے لیل کا وقت تھا ۔ جب وہ واپس اپنے وطن میںآئے تو ان کی کتاب تورات غائب تھی ۔ چنانچہ اس وقت عزراؔ نبی نے مع چند احبار کے تورات کو اکٹھا کیا مگر بہرحال وہ ویسی نہیں تھی جیسی حضرت موسیٰ ؑ پر نازل ہوئی تھی ۔ غرض شرائع دو زمانوں میں بدلی جاتی ہیں یا ترقی کے زمانہ میںیا تنزل کے زمانہ میں ۔ ترقی کے زمانہ میںقوم شریعت کو اس لئے بدلتی ہے تا کہ وہ عیاشی میں حصہ لے سکے اور تنزل کے زمانہ میںقوم کی غفلت اور کوتاہی سے شرعی احکام بدلے جاتے ہیں تا دشمن شریعت کی کتابوں کو جلا دیتا ہے تا کہ یگا نگت اور اتحاد کی روح قوم سے مٹ جائے ۔ اللہ تعالی اس امر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے یہ دونوں حالتیںتیری قوم پر نہیں آئیںگی اور ترقی اور تنزل دونوں دور میںہم تیرے ساتھ رہیں گے اور تیرے کام کو تباہ نہیںہونے دیں گے ۔ رسول کریم ﷺ تو آخر ایک دن فوت ہونے والے تھے صرف قرآن ہی ایک ایسی کتاب تھی جو قیامت تک موجود رہنے والی تھی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ خواہ تیری قوم پر ترقی کے اوقات آئیںیا تنزل کی گھڑیاں آئیںہم اس کلام کو جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے کبھی بدلنے نہیں دیں گے اور ہمیشہ اس کی حفاظت کریں گے ۔ اصل بات یہ ہے کہ محض قومی تنزل کوئی حقیقت نہیں رکھتا وہ تنزل تو افراد کی خرابی پردلالت کرتا ہے اگر کوئی قوم تنزل کے بعد ترقی کر جائے تو پھر اس کی گزشتہ ناکامیوں کا داغ دھل سکتا ہے لیکن اگر شریعت بدل جائے اور قوم ترقی کر جائے تو اس ترقی کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔ پس جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ محض قومی تنزل نہیںیا لوگوں کی حالت کا بدل جانا نہیںبلکہ اصل اہمیت رکھنے والی چیز رسول کا بدل جانا ہے یعنی اس کی تعلیم کا بدل جانا اور اس کے کلام کا خراب ہو جانا۔ سو اس کی حفاظت کا اللہ تعالی نے ان آیات میںوعدہ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ترقی اور تنزل دونوں دور میںہم اس کلام کی حفاظت کریںگے جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے ۔
ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی ۔ O ط
اور (دیکھ تو سہی کہ ) تیری ہر پیچھے آنے والی گھڑی پہلی سے بہتر ہوتی ہے ۔
۳؎ تفسیر ۔ بہت سے ترقی کرنے والے یکدم بڑھتے ہیں مگر آخر ٹھوکر کھاتے اور گر جاتے ہیں ۔ چنانچہ دیکھ لو ہٹلر ؔ ۔ نیپولین ؔ ۔ تیمور ؔ اور سکندرؔ سب ایسے ہیں جو دنیا میں بڑھے اور انہوں نے ترقی کی مگر آخر ناکامی پر ان کا خاتمہ ہوا ۔ اسی طرح اور کئی بڑے بڑے لوگ دنیا میںگزرے ہیں جنہوں نے حیرت انگیز ترقیات کیںمگر آخر وہ گر گئے اور ان کی تمام شہرت اور ناموری جاتی رہی ۔ پھر بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بڑے ذہین ہوتے ہیں مگر آخر میںپاگل ہو جاتے ہیں یا اپنی ذہانت کو کھو بیٹھتے ہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب آزادؔ لاہور میں رہتے تھے بڑے ذہین اورقابل آدمی تھے بہت بڑی علمیت کے مالک تھے مگر آخر میںان کے دماغ میںنقص واقع ہو گیا اور یہ حالت ہو گئی کہ وہ بازار میں سے گذرتے تو لوگ اکھٹے ہو جاتے اور جب ان سے کوئی بات کرتا تووہ اسے گالیاں دینے لگ جاتے ۔ عالم ہوتے ہیں مگر آخر میں جاہل ہو جاتے ہیں ، ان کا حافظہ خراب ہو جاتا ہے اور وہ علم جو انہوں نے سیکھا ہوتا ہے سب بھول جاتا ہے ۔ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جومحبوب ہوتے ہیں مگر آخر میں متروک ہو جاتے ہیں بلکہ جس قدر جسمانی محبوب ہوتے ہیں ان سب کا یہی حشر ہوتا ہے ۔ جوانی میں ہر شخص ان کی طرف دیکھتا ہے مگر جب ان کے دانت گرجاتے ہیں ، جب ان کی کمر جھک جاتی ہے ، جب ان کے چہرہ پر جھریا ں پڑجاتی ہیں ۔ تو بد صورت سے بد صورت انسان بھی ان کو دیکھ کر ہنستا ہے اور کیسا ہے یہ کیسا بد شکل انسان ہے ۔
فرانس کا ایک قصہ مشہور ہے ۔ ایک شخص نے فرانس کی ایک بڑھیا عورت کو دیکھا تو اس کی شکل و صورت اور رفتار کو دیکھ کر سخت کراہت کا اظہار کیا وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی اور اسے ایک تصویر دکھا کر کہا کہ جانتے ہو یہ کس کی تصویر ہے ؟ وہ کہنے لگا ہاں میںجانتا ہوں یہ فلاں حسین عورت کی تصویر ہے میری ماں اس کی سہیلی تھی اور یہ عورت اتنی حسین اور خوبصورت تھی کہ سارا پیرس اس پر شید ا تھا ۔ جب وہ یہ بات کہہ چکا تو عورت کہنے لگی یہ میری ہی تصویر ہے ۔ تو کئی محبوب ہوتے ہیں مگر آخر میں مبغوض ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالی فرماتا ہے اے ہمارے رسول ! تیرا یہ حال نہیں ہو گا ۔ تجھ کو جو ترقیات ملیں گی وہ ہر قدم پر بڑھتی چلی جائیںگی ۔ پہلے مدینہ کا گرد و نواح صاف ہوا، پھر مکہ فتح ہوا، پھر سارا عرب پھر شام اور عراق اور مصر فتح ہوئے ۔ غرض ہر قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا ۔
ممکن ہے کوئی کہے کہ مکہ تو آپ ؐ کے ہاتھوں پر فتح ہوا تھا مگر عراق اور مصر وغیرہ تو محمد رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد فتح ہوئے ہیں اس لئے شاید غلطی سے یہ نام لے لئے گئے ہیںمگر میںنے غلطی نہیںکی میںنے دیدہ و دانستہ شام اور عراق اور مصر وغیرہ کا نام لیا ہے ۔ اسی طرح ممکن ہے کوئی کہے کہ اگر ولااٰخرۃ خیر لک من الاولیکے ثبوت میں عراق اور مصر وغیرہ کی فتوحات کو پیش کیا جاسکتا ہے تو پھر اس بات کا کیا جواب ہے کہ ان فتوحات کے بعد اسلام کا تنزل شروع ہو گیا اور آخرۃ اولیٰ سے بہتر نہ رہی ۔ میں اس کوبھی درست سمجھتا ہوں اور اس کو بھی درست سمجھتا ہوں ۔ اصل بات یہ ہے خد اتعالی نے جو کچھ فرمایا تھا وہ یہ تھا کہ ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے ہمیشہ یہ قانون رہے گا کہ ان کی آخرت اولیٰ سے بہتر ہو گی ۔ جب تک محمد رسول اللہ ﷺ موجود رہے اسلام بڑھتا رہا اور جب محمد رسول اللہ ﷺ کو لوگوں نے چھوڑ دیا اسلام کا تنزل شروع ہو گیا ۔ عراق اور شام اور مصر مسلمانوں کو اس لئے ملے کہ محمد رسول اللہ ﷺ ان میںموجود تھے ۔ بے شک جسمانی اعتبار سے آپ ؐ وفات پا چکے تھے مگر روحانی اعتبار سے آپ ؐ کا وجود امت میں موجودتھا اور گو جسد ِ عنصری کے ساتھ آپؐ دنیا میں زندہ نہیں تھے مگر ابو بکر ؓ کے دل میں محمد رسول اللہ ﷺ زندہ موجود تھے ۔ عمر ؓ کے دل میں محمد رسول اللہ ﷺ زندہ موجود تھے ۔ عثمان ؓ کے دل میں محمد رسول اللہ ﷺ زندہ موجود تھے ۔ علی ؓ کے دل میں محمد رسول اللہ ﷺ زندہ موجود تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ فتوحات پر فتوحات ہوتی چلی گئیں مگر جب وہ لوگ آگئے جن کے دلوں میں محمد رسول اللہ ﷺ زندہ نہ تھے مسلمانوں کا تنزل شروع ہو گیا ۔ آخر غور کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالی نے تو یہ نہیں کہا کہ وللاٰخرۃ خیر لیزید ۔یزید ؔ کے لئے بھی آخرۃ اولیٰ سے بہتر ہو گی ۔ خدا تعالی نے جو کچھ فرمایا تھا وہ یہ تھا کہ ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی ۔ اے محمد رسول اللہ ﷺ تیرے لئے آخرت اولیٰ سے بہتر ہو گی چنانچہ جب تک محمد رسول اللہ ﷺ عملی طور پر دنیا میں موجود رہے مسلمانوں کے ساتھ بھی یہ وعدہ پورا ہوتا رہا ۔ جب وہ لوگ آگئے جن کو محمد(ﷺ) نہیں کہا جا سکتا تھاجو آپ ؐ کے نقش ِ قدم پر چلنے والے نہیں تھے تو خدا تعالی نے بھی ان کو چھوڑ دیا ۔
تب دیکھو ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی کی صداقت کا یہ کیسا شاندار نظارہ تھا کہ جب آپؐ بدرؔ کی جنگ پر تشریف لے گئے تو صرف ۳۱۳ صحابہ ؓ آپ ؐ کے ساتھ تھے ۔ احد ؔ کی جنگ آئی تو ایک ہزار صحابہ ؓ آپ ؐ کے ساتھ تھے ۔ خندق ؔ کی جنگ آئی تو تین ہزار صحابہ ؓآپ ؐ کے ساتھ تھے۔ غرض ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی کے مطابق یہ تعداد بڑھتی چلی گئی ۔
پھرآپ ؐ کا تقویٰ اور صلاح بھی ترقی کرتے چلے گئے ۔ دولت و امارت نے آپ کو جابر اور متشدد نہیں بنایا وہی غربا ء پروری وہی انکسار اور وہی عبادت اور وہی استغناء آخر تک رہا۔ فتح مکہ کے بعد آپ کے گلے میں ایک شخص نے پٹکا ڈال دیا مگر آپ ؐ خاموش رہے ۔ ایک ظالم نے یہ اعتراض کیا کہ تلک قسمۃ لا تراد بھا وجہ اللہ ۔ آپ ؐ نے مال اس طرح تقسیم کیا ہے کہ اس میں خدا تعالی کی خوشنودی مد نظر نہیں ۔ مگر قتل کرنے کی خواہش کرنے والے کو منع فرما دیا۔
جسمانی لحاظ سے دیکھو تو وہ شخص جو اکیلا مکہ میںسے نکلا تھا دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوا ۔ روحانی لحاظ سے دیکھو تو محمد ﷺ جو مکہ میں چار پانچ لوگوں کو پالنے والا تھا وہ مدینہ میں لاکھوں کو پالنے والا بن جاتا ہے اور ان کو اسی طرح پالتا ہے جس طرح مکہ میں وہ چند افراد کو جنہیںانگلیوں پر شمار کیا جا سکتا تھا پالتا تھا۔
جب فتوحات ہوئیںتو حضرت عمر ؓ ایک دن بازار سے رسول کریم ﷺ کے لئے ایک اچھا کوٹ خرید لائے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ کوٹ مجھے بڑا اچھا لگا تھا میں آپ کے لئے خرید لایا ہوں ، اب فتوحات ہوئی ہیں ، بڑے بڑے بادشاہ اور وفود آپ ؐ سے ملنے کے لئے آتے ہیں ۔ جب وہ آئیں آپ ؐ یہ کوٹ پہن لیا کریں۔ رسول کریم ﷺ نے یہ بات سنی تو آپ ؐ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ ؐ نے فرمایا خد ا تعالی نے مجھے ان کاموں کے لئے نہیںبھیجا ، میں اس کوٹ کو نہیں پہن سکتا اسے واپس لے جائو۔ غر ض یہ نہیںہوا کہ فتوحات کے وقت آپ کی حالت میں کوئی فرق پیدا ہو جاتا اور آپ زیادہ اعلیٰ لباس یا زیادہ آسائش کے سامان اپنے لئے پسند فرماتے بلکہ ہمیشہ آپؐکے تقویٰ اور بِرّ میںزیادتی ہی ہوتی چلی گئی ۔
پھر محبوبیت کا یہ حال تھا کہ روز بروز اس میں کمال پیدا ہوتا گیا ۔ مکہ کے لوگ آپ ؐ بے شک فدائی تھے مگر مکہ سے نکلنے کے بعد انہوں نے اپنی فدائیت کے نظارے دکھلائے ۔ مکہ میں صحابہؓ کی فدائیت کا جو نظارہ نظر آتا ہے وہ بہت کم ہے اور ا سکی مثالیںزیادہ نہیں ۔ ایک حضرت علی ؓ کا واقعہ ہے جو فدا ئیت کے ثبوت میںپیش کیا جا سکتاہے اور یا پھر غارِ ثور میں حضرت ابو بکر ؓ کی فدائیت کا واقعہ ہے جو نظرآتا ہے ۔ ان کو مستثنیٰ کر تے ہوئے مکہ میں فدائیت کے نظارے بہت کم نظر آتے ہیں بلکہ ہم دیکھتے ہیںمکہ والے مظالم سے تنگ آکر حبشہ چلے جاتے ہیں اور رسول کریم ﷺ کو اکیلا چھوڑجاتے ہیں ۔ مگر مدینہ میں آپ کو جو انصار و مہاجرین کی جماعت ملی اس نے آپ ؐ سے جس محبت کا سلوک رکھا ہے اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی ۔ جنگِ بدر کے موقع پر انصار نے رسول کریم ﷺ کے لئے ایک الگ مقام بنا دیا اور وہاں دو تیز رفتار اونٹنیاں باندھ کر رسول کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کو اس جگہ بٹھا دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ جنگ ہونے والی ہے ورنہ ہمارے دوسرے بھائی بھی اس سعادت سے محروم نہ رہتے ۔ یا رسول اللہ ! اگر ہم سب کے سب مارے جائیںتو آپ ؐ اور ابوبکر ؓ ان تیزرفتار اونٹنیوں پر سوار ہو کر مدینہ تشریف لے جائیں وہاں اسلام کی ایک بہادر فوج موجود ہے حضور ؐ جو بھی حکم دیں گے ہمارے وہ بھائی اس کو پوری خوشی کے ساتھ قبول کریں گے اور اپنی جانیں اسلام کے لئے قربان کر دیں گے ۔ پھر ہم احد کے موقعہ پردیکھتے ہیں کہ صحابہؓ نے فدائیت کا کیسا شاندار نمونہ دکھایا ۔ ایک مہاجر حضرت طلحہ ؓ تھے جو رسول کریم ﷺ کے پاس کھڑے تھے دشمن کے تیروں کا اصل نشانہ چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ تھے اس لئے جو بھی تیر آپ ؐ کی طرف آتا حضرت طلحہؓ اس کو اپنے ہاتھ پر لے لیتے ۔ یہاں تک کہ تیروں کی بوچھاڑ کہ وجہ سے ان کا ہاتھ شل ہو گیا ۔ کسی نے بعد میں ان سے پوچھا کہ جب آپ کو تیر لگتے تھے تو آپ کے منہ سے آہ نہیں نکلتی تھی؟ حضرت طلحہ ؓ نے جواب دیا آہ نکلنا تو چاہتی تھی مگر میں نکلنے نہیں دیتا تھا تا ایسا نہ ہو کہ میں آہ کروں اور کوئی تیر رسول کریم ﷺ کو جا لگے ۔ دوسرا واقعہ مالک انصاری کا ہے ۔ پہلی فتح کے بعد وہ الگ جا کر کھجوریںکھانے لگے کیونکہ سخت بھوکے تھے ۔ پھرتے ہوئے ایک جگہ آئے تو انہوں نے دیکھا حضرت عمر ؓ ایک ٹیلہ پر بیٹھے ہو ئے رو رہے تھے انہوں نے حیرت سے کہا عمر کیا ہوا یہ رونے کا مقام ہے یا ہنسنے کا ؟ خدا تعالی نے اسلام کو فتح دی ہے اور تم بیٹھے رو رہے ہو ؟ حضرت عمر ؓ نے کہا تم کو پتہ نہیںکہ فتح کے بعد کیا ہوا؟وہ کہنے لگے کیا ہوا؟ حضرت عمر ؓ نے کہا فتح کے بعد لڑائی کا پانسہ پلٹ گیا ۔ مسلمان مال ِ غنیمت جمع کرنے میںمشغول تھے ، لشکر تتر بتر تھا کہ دشمن نے موقع پا کر حملہ کر دیا اور اس نے حملہ ایسا شدید کیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ بھی شہید ہو گئے ۔ مالکؓ نے کہا عمر ؓ پھر تو بیٹھ کر رونے کا کوئی موقعہ نہیں اگر محمد رسول اللہ ﷺ شہید ہو گئے ہیں تو پھر جہاں ہمارا پیارا گیا وہیںہم جائیںگے ۔ یہاں بیٹھنے کا کون سا موقعہ ہے ۔ یہ کہا اور صرف ایک ہی کھجور جو ان کے ہاتھ میں رہ گئی تھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے میرے اور جنت کے درمیان سوائے اس کھجور کے اور کونسی چیز حائل ہے ۔ یہ کہہ کر انہوں نے کھجور کو پھینک دیا اور تلوار لے کر دشمن کے لشکر پر ٹوٹ پڑے ۔ اب بظاہر ان کے دل میں یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ جس شخص کے لئے ہم قربانی کر رہے تھے جب وہی نہیں رہا تو اب قربانی کرنے کا کیا فائدہ ہے مگر وہ یہ نہیں کہتا کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے قربانی کر رہے تھے جب وہ نہیں رہے تواب قربانی کا کیا فائدہ۔ بلکہ وہ کہتے ہیںجس کام کے لئے وہ کھڑے ہوئے تھے اس کام کے لئے ہمیںاسی جوش اور اسی ولولہ کے ساتھ قربانی کرنی چاہیئے جس جوش اور ولولہ کے ساتھ ہم آپؐ کی زندگی میںقربانی کیا کرتے تھے اگر وہ زندہ نہیںرہے تو پرواہ نہیں۔ میںاکیلا جائوں گا اور دشمن سے لڑوں گا ۔ چنانچہ وہ تلوار لے کر اکیلے دشمن پر ٹوٹ پڑے ۔ ایک آدمی تین ہزار کے لشکر کے مقابلہ میںکیا کر سکتا ہے چنانچہ لڑائی کے بعد ان کے جسم کے ستر ٹکڑے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے گئے تب ان کی لاش مکمل ہوئی ۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کس طرح مجنونانہ طورپر لڑے تھے اول تو جب تک زندہ رہے انتہائی دلیری کے ساتھ لڑتے رہے پھر جب ایک ہاتھ کٹا تو دوسرے ہاتھ میں تلوار سنبھال لی ۔ دوسرا ہاتھ کٹ گیا تو منہ میں تلوار لے لی اور دشمن کو مارتے چلے گئے یہ دیکھ کر دشمن کو بھی شدید غصہ پیداہوا اور اس نے ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے ۔ لڑائی کے بعد جب ان کے جسم کے مختلف ٹکڑے اکٹھے کئے گئے تو تلوار کے زخموں کی وجہ سے ان کی لاش پہچانی نہیںجاتی تھی ۔ آخر ان کی ایک انگلی ملی جس پرایک نشان تھا اس نشان کو دیکھ کر مالک انصاری کی بہن نے کہا کہ یہ میرے بھائی کی لاش ہے ۔ غرض ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی کے مطابق آپ ؐ کی محبوبیت میںروز بروز کمال پید ا ہوتا چلا گیا اور صحابہ کرام ؓ نے اپنی فدائیت کے وہ نظارے دکھلائے جو آج تک کسی نبی کے ماننے والے دکھلا نہیںسکے ۔
پھر آپ ؐ کی وفات پر جو واقعہ ہوا وہ صحابہ کرام کی اس محبت کا کتنا بڑا ثبوت ہے جو وہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ رکھتے تھے۔ وہ صحابہ ؓ جو دن رات سنتے تھے کہ مردے زندہ نہیں ہوتے ، وہ صحابہ ؓ جو روزانہ سنتے تھے کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر بھی وفات آسکتی ہے ۔ان پر اس وقت ایسی جنون کی کیفیت طاری ہوگئی کہ باوجود اس مضمون کے جو روزانہ ان کے سامنے دہرایا جاتا تھا ان کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ رسول کریم ﷺ فوت نہیں ہوئے یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ تلوارلے کر کھڑے ہو گئے کہ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ محمد رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے ہیںتو میںاس کی گردن کاٹ دوں گا ۔ حضرت حسان ؓ کہتے ہیں ہمارے دلوں میںمایوسی پید اہو چکی تھی مگر جب عمر ؓ تلوار لے کر کھڑے ہو گئے تو ہمارے دلوںمیں بھی جھوٹی امید پید اہو گئی اور ہم خوش ہوگئے کہ چلو وہ بات غلط نکلی محمد رسول اللہ ﷺ تو زندہ موجود ہیں۔ آخر حضرت ابو بکر ؓ آئے ، منبر پر چڑھے اور انہوں نے تمام لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا من کان منکم یعبد محمد ا فان محمد قد مات کہ تم میں سے جو شخص محمد رسول اللہ ﷺ کی عبادت کیا کرتا تھا تو وہ اچھی طرح سن لے کہ محمد رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے ہیں۔ ومن کان منکم یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت ۔ لیکن تم میںسے جو شخص اللہ تعالی کی عبادت کرتا تھا اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ اللہ زندہ ہے اوروہ کبھی مر نہیں سکتا ۔ پھر آپ ؓ نے یہ آیت پڑھی کہ ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ۔ محمد ﷺ تو صرف اللہ کے رسول ہیںاگر وہ مر جائیںتو کیا تم اپنے ایمان سے پھر جائو گے ۔ جب ابو بکر ؓ نے یہ بات بیان کی تب صحابہ ؓ کی آنکھیںکھلیں۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیںجب انہوں نے یہ آیت پڑھی تب مجھے ہوش آیا اور یا تو میری یہ حالت تھی کہ ابو بکر ؓ کے رعب سے میںفوراً تلوار نہیں چلا سکتاتھا اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ یہ بڈھا اپنی بات ختم کر لے تو میںاس کی گردن اڑا دوں اور یا جب حضرت ابو بکرؓ نے اپنی بات ختم کر لی تو میری ٹانگیں کانپ گئیں اور میںزمین پر گر گیا ۔ اس وقت صحابہ ؓ کو اپنے محبوب کی جدائی سے جس قدر غم ہوا ا س کا اندازہ اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے جو حضرت حسان ؓ نے رسول کریم ﷺ کی وفات پر کہا ۔ جب انہیں یقین آگیا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو چکے ہیںتو حضرت حسان ؓ نے کہا ؎
کنت السواد لناظری فعمی علی الناظر
من شاء بعدک فلیمت فعلیک کنت احاذر
وہ کہتے ہیں جب عمر ؓ کے کھڑے ہونے سے پہلے تو ہم نے سمجھا کہ شاید یہ بات غلط ہو کہ محمد ﷺ وفات پا چکے ہیں مگر جب ابو بکر ؓ نے ہماری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا تو بے اختیار میری زبان پر یہ شعر جاری ہو گیا ؎
کنت السواد لناظری فعمی علی الناظر
من شاء بعدک فلیمت فعلیک کنت احاذر
اے محمد ﷺ توُ تو میری آنکھ کی پتلی تھا تیرے مرنے سے میری آنکھ کی پتلی جاتی رہی ہے اور میں اندھا ہو گیا ہوں اے محمد رسول اللہ ﷺ جب تک تو ُ زندہ رہا مجھے وہ سب کے سب فوائد تجھ سے مل رہے تھے جو کسی کو مل سکتے ہیں ۔ مجھے دین بھی مل رہا تھا اور دنیا بھی مل رہی تھی اور مجھے دنیا کی ہر نعمت اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آتی تھی لیکن آج جب کہ تو زندہ نہیں رہا مَیں اندھا ہو گیا ہوں ۔ اس لئے اے محمد ﷺ کوئی مرے ۔ باپ مرے بیٹا مرے ۔ بیوی مرے بھائی مرے مجھے کسی کی پرواہ نہیں ۔ مجھے تو تیری جان کا ہی ڈر لگا ہوا تھا ۔ دیکھو یہ کیسی شاندار محبت تھی جس کا صحابہ نے رسول کریم ﷺ کی وفات پر نمونہ دکھایا اور جو ثبوت تھا اس بات کا کہ ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی ۔ لوگ مرتے ہیں تو دنیا انہیںبرا بھلا کہتی ہے ۔ کہتے ہیں اچھا ہوا چھٹکارا ہوا ۔ خس کم جہاں پاک ۔ مگر محمد رسول اللہ ﷺ فوت ہوتے ہیں تو بیویاں کیااور بچے کیا اور ساتھی کیا ہر شخص کا دل غمگین ہو جاتا ہے ۔
پھر یہ بھی دیکھ لو کہ پہلاگھر مکہ کا تھا جہاں صرف چند رشتہ دار آپ ؐ کے پاس تھے یا آپ ؐ کے چچا ابو طالب آپ ؐ کی مدد کیا کرتے تھے مگر ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی کے مطابق دوسرا گھر خد اتعالی نے آپ کو مدینہ میں دیا جو پہلے سے بہتر ثابت ہوا مکہ میں صرف دس بیس فدائی تھے اور مدینہ میں شہر کا شہر ۔ مرد کیا اور عورتیں کیا ۔ بچے کیا اور بوڑھے کیا سب آپؐ پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے ۔
پھر ذہانت آپؐ کی آخر تک قائم رہی ۔ انسان بالعموم آخرعمر میںجا کر کمزور دماغ ہو جاتے ہیں اور ان کا علم سلب ہونا شروع ہو جاتا ہے مگر آپ ؐ کے علم اور ذہانت میںآخر تک کوئی فرق نہ آیا بلکہ ہر دن جو آپ ؐ کی زندگی میںآیا پہلے سے بڑھ کر آیا ۔ اسی طرح جو کلام آپ پر نازل ہوا وہ آخر دم تک نازل ہوتا رہا اور ہر روز نئی سے نئی باتوں کا آپؐ کو اللہ تعالی کی طرف سے علم دیا جاتا رہا ۔ غرض کوئی دن آپ کی زندگی میںایسا نہ آیا جب لوگوں نے یہ کہا ہو کہ یہ سٹھیا گیا ہے ، اس کا دماغ کمزور ہوگیا ہے ، اس کا علم جاتا رہا ہے بلکہ ہر دن جو آپؐ پر آیا پہلے سے زیادہ علم لے کر آیا اور پہلے سے زیادہ دنیا کے سکھانے اور سمجھانے اور پڑھانے میں صرف ہوا اور اس طرح اللہ تعالی نے اس آیت کی صداقت کو واضح کر دیا کہ ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی ۔ تیرے لئے آخرت پہلی حالت سے بہترہو گی ۔
ولااٰخرۃ خیر لک من الاولیکے ایک اور معنے بھی ہیں جو قبض اور بسط کی روحانی کیفیات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالی نے ما ودعک ربک وما قلیٰ ۔ میں یہ مضمون بیان کیا تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بسط کی حالت بھی خدا تعالی کی معیت کا ثبوت ہو گی اور ان کی قبض کی حالت بھی ما ودعک ربک وما قلیٰ ۔ کا ثبوت ہو گی۔ اب اس آیت میں یہ بتاتا ہے کہ ہم ایک بات کی تمہیں تسلی دلا دیتے ہیں اور وہ یہ کہ تم ان روحانی لہروں میں یکساں نہیں چلو گے بلکہ پہلے سے اونچے نکلتے چلے جائو گے ۔ لہر کی رفتار دراصل دو قسم کی ہوتی ہے ۔ ایک رفتار تو اس قسم کی ہوتی ہے کہ ایک ہی مقام پر وہ اوپر نیچے ہوتی چلی جاتی ہے لیکن ایک رفتار ا س قسم کی ہوتی ہے کہ ہر دفعہ نیچے آکر وہ پہلے سے اور زیادہ اونچی چلی جاتی ہے یہی مضمون اللہ تعالی نے ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی میں بیان فرمایا ہے کہ بیشک تجھ پر قبض کی حالتیں بھی آئیں گی اور بسط کی حالتیںبھی آئیںگی اور یہ دونوں حالتیںمعیت الہی اور رضا ء باری تعالی کے ساتھ ہوں گی مگر اس کے ساتھ ایک زائد بات یہ بھی ہو گی کہ تیرا نیچے جھکنا ایسا ہی ہو گا جیسے پرندہ نیچے کی طرف اپنا پر مارتا ہے مگر اس کا نیچے جھکنا اسے اور زیادہ بلندی پر لے جانے کا موجب بن جاتا ہے اسی طرح ہر دفعہ تیرا نیچے جھکنا ایسا ہی ہو گا جیسے پرندہ پر مارتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے سے بھی اونچا چلا جاتا ہے ۔ گویا بتا دیا کہ تیری پرواز پرندوں والی ہو گی اور قبض کی ہر حالت جو تجھ پر وارد ہو گی وہ تجھے اور زیادہ بلندی کی طرف لے جائے گی ۔
اس آیت کے ایک اور معنے بھی ہیں اور وہ یہ کہ جو شخص ماموریت کا مدعی ہو وہ جب لوگوں سے ملتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ وجاہت پسندی کے لئے یا لوگوں میںاپنی مقبولیت اور عظمت قائم کرنے کے لئے ملتا ہے ۔ اللہ تعالی اس آیت میںلوگوں کے اس خیال کی تردید کرتا ہے اور فرماتا ہے تو اگر علیحدگی اختیار کرتا ہے تو ہمارے ذکر کے لئے ۔ اور اگر لوگوں سے ملتا ہے تو ہمارے حکم کے ماتحت ۔ پس تیرے متعلق یہ خیال کرنا قطعی طورپر غلط اور بے بنیاد ہے ۔ تیری علیحدگی ذکر کے لئے ہوتی ہے اور تیرا پبلک میں آنا محض بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہوتا ہے ۔ اپنے نفس کے لئے نہیں ہوتا ۔ چنانچہ فرماتا ہے ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی ۔ اے محمد رسول اللہ ﷺ یہ نادان تیری زندگی سے ناواقف ہیں انہیں اتنا بھی معلوم نہیںکہ علیحدگی کی حالت تجھے ہمیشہ پیاری رہتی ہے تو اگر لوگوں سے ملتا ہے تو محض خد ا کے لئے پس ولااٰخرۃ خیر لک من الاولی میں یہ بتایا کہ آخرۃ تجھے اولیٰ سے زیادہ راحت والی معلوم ہوتی ہے ۔ خَیْرٌ کے معنے راحت والی یا آرام پہنچانے والی چیز کے ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیںکہ ان آیات میںکونسی چیز آخرۃ کہلا سکتی ہے اور کونسی اولیٰ ۔ سو پہلی آیت میںضحی کو پہلے بیان کیاگیا ہے اور لیل کو بعدمیں۔ پس آخرۃ لیل ہوئی اور اولیٰ ضحٰی ہوئی اور ضحٰی یعنی دن کے وقت چونکہ انسان لوگوں سے ملتا ہے اس لئے ضحی جلوت کا قائمقام سمجھی جائے گی ۔ اوررات کو وہ چونکہ علیحدہ ہوتا ہے اس لئے لیل خلوت کا قائمقام سمجھی جائے گی ان معنوں کے مطابق آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ اے ہمارے رسول ! تجھے خلوت سے جلوت کی نسبت زیادہ راحت معلوم ہوتی ہے ۔لوگ تجھے جاہ پسند سمجھتے ہیں حالانکہ تولوگوں سے محض ہمارے حکم کے ماتحت ملتاہے ورنہ رات کو ہم سے راز و نیاز کی باتیںکرنا تجھے زیادہ پسند ہیںاور جو برکات تجھے رات کو ہم دیتے ہیںوہ دن کو ملنے والے انسان تجھے کہاں دے سکتے ہیں۔ پس جب کہ تیری تمام ترقیات تیر ی خلوت کی گھڑیوں سے وابستہ ہیں اور تو اسے دل سے جلوت پر ترجیح دیتا ہے تو لوگوںکا یہ کہنا کہ تو جاہ پسند ہے تیرے دل کو کیوں دکھ پہنچائے کہ یہ اعتراض حقیقت سے دور اور سر تا پا جھوٹ ہے ۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے متعلق بیان فرمائی ہے کہ ’’ میںپوشیدگی کے حجرہ میںتھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے ۔ اس نے گوشہ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا ۔ میںنے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اس نے کہا کہ میںتجھے تما م دنیا میںعزت کے ساتھ شہرت دوں گا۔ پس یہ اس خدا سے پوچھو کہ ایسا تو نے کیوں کیا ۔میرا اس میںکیا قصور ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی ص ۱۴۹) ولااٰخرۃ خیر لک من الاولیمیںاسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ کو جبراً گوشہ تنہائی سے باہر نکالا ۔ ورنہ ان کی خواہش یہی تھی کہ وہ خلوت میںاللہ تعالی کو یاد کرتے رہیں۔ چنانچہ دیکھ لو غارحرا میںجب فرشتے نے کہا اِقْرا تو آپؐ نے یہی جواب دیا کہ ما انا بقاری ۔ میرے سپرد یہ کام کیوں کیاجاتا ہے میںتو اپنے رب کی عبادت کرنا پسند کرتا ہوں ۔ پس اس آیت میںکفار کے اس اعتراض کو رد کیا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ وجاہت پسند ی کے لئے لوگوں سے ملتے ہیںاور بتایا ہے کہ ان نادانوں کو یہ معلوم نہیںکہ ساعت آخرت یعنی لیل تیرے لئے اچھی ہوتی ہے اور تواس سے بہت زیادہ راحت محسوس کرتا ہے ۔ لوگوں کو ملنا تجھے پسند نہیں۔ تو اگر ملتا ہے تو محض خدا تعالی کے حکم سے ۔تیری ذاتی خواہش کا اس میںکوئی دخل نہیںہوتا۔
والضحٰی O والیل اذا سجیٰ O ما ودعک ربک وما قلیٰ O کے ایک معنے یہ بھی کئے گئے ہیں












































یعنی اے میرے رب میری خواہش اب یہی ہے کہ میں تیرے پاس آجائوں ۔ پس ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ ۔ کے الفاظ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اے محمد ﷺ ہم اپنا کام جو تیرے سپرد کرتے ہیں بظاہر وہ بہت لمبا نظر آتا ہے مگر ہم تجھے ایسی توفیق دے دیں گے کہ تو اس کام کو جلدی ختم کر لے گا چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ﷺ نے تیئیس سال کے قلیل مدت میں اپنے تمام کام کو ختم کر لیا۔ اتنے قلیل عرصہ میں اس قدر عظیم الشان کام کو سرانجام دینے کی مثال دنیا میںاور کہیں نظر نہیںآسکتی بلکہ اس کام کی مثال تو کیا اس کے ہزارویں بلکہ لاکھویںحصہ کی مثال بھی دنیا کے اور کسی شخص کی زندگی میں نہیں مل سکتی ۔ دنیا میںبڑے بڑے لوگ گذرے ہیںمگر ان کا انجام کتنا تلخ اور عبرت ناک ہو اہے ۔ ہٹلرؔ کو دیکھ لو اس کا کیا انجام ہوا۔ نیپولین ؔ کو دیکھ لو وہ کیسی خراب حالت میںمرا۔ یہ لوگ بڑے بڑے دعووں کے ساتھ اٹھے تھے اور انہوں نے بظاہر کچھ کامیابی بھی حاصل کی مگر آخر ناکامی کے سوا ان کو کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ پھر یہ بھی ایک غور کرنے والی بات ہے کہ یہ لوگ جن قوموںمیں پیدا ہوئے اور جن لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر ترقی کی طرف بڑھے وہ پہلے ہی قربانی کی روح اپنے اندر رکھنے والے تھے ۔ پہلے ہی ان کے اندریہ جوش پایا جاتا تھا کہ ہم دنیاپر حکومت کریں اور لوگوںپر غلبہ و اقتدار حاصل کریں ۔ نیپولین نے بے شک ترقی حاصل کی مگر وہ ایک ترقی یافتہ قوم کو اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھا ۔ اسی طرح ہٹلرؔنے بے شک فتوحات حاصل کیںمگر ہٹلرؔ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا کہ جرمن قوم دنیا میںسب سے زیادہ منظم اور سب سے زیادہ قربانی کی روح اپنے اندر رکھنے والی سمجھی جاتی تھی لیکن عرب کیا تھا ؟ محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں گوبر دیا گیا جسے بیس سال کے قلیل عرصہ میں انہوں نے سونا بنا دیا اور خالی سونا نہیں بلکہ صاف اور کھرا سونا۔ اخلاق ان کے درست ہو گئے ، تمدن ان کا درست ہو گیا ، علمی حالت ان کی درست ہو گئی ، رعب اور دبدبہ ان کا بڑھ گیا ، عزت ان کی بڑھی ، رتبہ اور شان و شوکت ان کو حاصل ہوا ۔ غرض کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو نامکمل رہ گیا ہو ۔ کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جس میں ان کو کمال تک نہ پہنچا دیا گیا ہو ۔ ہر قسم کی اصلاح خواہ وہ اخلاقی ہو یا دینی ، مذہبی ہو یا عائلی ، اقتصادی ہو یا سیاسی ، محمد رسول اللہ ﷺ نے سر انجام دی ۔ پس فرمایا ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ ۔ گھبرائو نہیں ہم جلدی ہی اس عظیم الشان کام سے فارغ کر دیں گے۔ بے شک ہم نے ایک بہت بڑے کام کی تم پر ذمہ داری ڈالی ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ تمہاری اصل خوشی ہمارے پاس آنے میں ہے اس لئے ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم تجھے جلد ہی ان مقاصد میںکامیاب کر دیںگے ۔ چنانچہ اتنے تھوڑے عرصہ میںاتنا بڑا کام دنیا میںاور کسی نے بھی نہیں کیا ۔ رسول اللہ ﷺ کی عمر وفات کے وقت شمسی لحاظ سے صرف باسٹھ سال تھی اتنی قلیل عمر میں کتنا عظیم الشان کام آپؐ
نے کیا کہ اسے دیکھ کر حیرت آتی ہے ۔
دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ کامل شریعت تجھ پر نازل ہو جائے گی کیونکہ انسان کمال پر راضی ہوتا ہے فرماتا ہے ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ ۔ ہم تجھے اتنا دیں گے کہ توآپ ہی آپ کہہ دے گا کہ اب ترقی کی گنجائش نہیں ۔ جب آخری شریعت آپ ؐ کو دے دی گئی توا س کے بعد آپؐ نے اور کیا مانگنا تھا ۔ بیشک جہاں تک الہی قرب اور اس کے مدارج کا سوال ہے وہ غیر محدود ہیں اور کبھی کوئی مقام ایسا نہیںآسکتا جب انسان یہ کہے کہ اب مجھے کسی اور درجہ قرب کی احتیاج باقی نہیں رہی مگر جہاں تک شریعت کا سوال ہے آخری اور کامل شریعت کے بعد اور کونسی بات باقی رہ سکتی ہے پس فرماتا ہے ہم تجھے وہ کچھ دیں گے کہ تو بھی یہ کہہ دے گا کہ اس سے اوپر اور کوئی درجہ نہیں ۔ چنانچہ جہاں تک انسانی تعلق ہے اس کے لحاظ سے آخری شریعت سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے؟ پس اس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ ہم شریعت کاملہ تجھے عطا کر دینگے ۔
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ آئندہ اسلام کے بچائو کے لئے ایک مستقل نظام قائم کر دیا جائے گا ۔ درحقیقت پہلی خواہش انسان کے دل میںہوتی ہے کہ میںاپنا کام جلد سے جلد پورا کر لوں ۔ دوسری خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو کام میرے سپرد ہو وہ اپنی ذات میں کامل ہو ۔ تیسری خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ کام مٹے نہیں ۔ ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ ۔ میں یہ تینوں باتیں اللہ تعالی نے بیان کر دیں کہ ہم تجھے اس کام سے جلد سے جلد فارغ کر دیں گے ، ہم کامل شریعت تجھے عطا کریں گے اور پھر ایک زائد وعدہ تجھ سے یہ کرتے ہیں کہ جب بھی اس کام میںکوئی نقص پیدا ہو گا اللہ تعالی تیری روحانی اولا د میں سے کسی کو اصلاح خلق کے لئے کھڑا کر دیگا اور اسلام کو تباہ نہ ہونے دیگا۔ اولاد پیدا ہوتی ہے تو لوگ کتنے خوش ہوتے ہیں محض اس لئے کہ وہ ان کے نام کو زندہ رکھے گی لوگوں کی یہ خوشی تو بعض دفعہ بالکل بے حقیقت ہوتی ہے اور جس اولاد کی پیدائش پر وہ خوش ہوتے ہیں وہی ان کو ذلیل کرنے والی بن جاتی ہے مگر فرماتا ہے تیرے لئے یہ حقیقی خوشی کی بات ہے کہ جب بھی کسی روحانی بیٹے کی تجھے ضرورت محسوس ہو گی ہم اسے پیدا کر دیں گے جو تیرے کام کو پھر دنیا میںزندہ کر دیگا۔
الم یجدک یتیما فاویO ص
کیا اس نے تجھے یتیم پا کر (اپنے زیر سایہ ) جگہ نہیں دی ۵؎
۵؎ تفسیر ۔ فرماتا ہے تیرے مستقبل کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ تو محض باتیں ہوئیں ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ ایسا ہو جائے گا۔ یوں تو ہر شخص دوسروں کو تسلی دے سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ یوںہو جائے گا ، ووںہو جائے گا ۔ اس قسم کی باتوں سے کیا بن سکتا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتاہے وہ لوگ جن کے دلوں میں شبہ پایا جاتا ہے وہ تیرا ماضی دیکھ لیںتُو بھی دیکھ اور دنیا بھی دیکھے کہ کیا ہم نے تجھے یتیم نہیں پایا تھا اور کیا ہر موقع پر ایسا نہیںہوا کہ ہم نے تجھے پناہ دی اور تجھے ہر قسم کے نقصان سے بچایا ۔
رسول کریم ﷺ ابھی رحم مادر میںہی تھے کہ آپ ؐ کے والد فوت ہو گئے ۔ جب آپ ؐ کی پیدائش ہوئی تو اللہ تعالی نے آپ ؐ کے دادا عبدالمطلب کے دل میں آپ کی غیر معمولی طور پر محبت پیدا کر دی ۔ عام طور پر ایسے حالات میںانسان کی توجہ پوتوں کی بجائے اپنے دوسرے بیٹوں کی طرف ہوتی ہے مگر عبدالمطلب کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنے بیٹوں کو تو ڈانٹ ڈپٹ لیتے مگر رسول کریم ﷺ سے ہمیشہ محبت اور پیار رکھتے حالانکہ ان کے لڑکے جوان تھے اور وہ ان کی خدمت بھی کرتے رہتے تھے مگر اس کے باوجود اللہ تعالی نے ان کے دل میں رسول کریم ﷺ کی ایسی محبت پیدا کر دی کہ آپؐ اگر تھوڑی دیر کے لئے بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے تو وہ بے چین ہو جاتے تھے ۔ آپؐ کو ہر وقت گودی میں اٹھائے رکھتے تھے ۔ آپؐ کی محبت میں اشعار پڑھتے رہتے تھے اور اپنے بچوں کو ڈانتے رہتے تھے کہ اس کی قدر کیوں نہیں کرتے پھر عربوں میں رواج تھا کہ وہ بچے پالنے کے لئے دائیاں رکھا کرتے تھے آپ ؐ کی والدہ نے چاہا کہ انہیں بھی کوئی دائی مل جائے مگر غربت کی وجہ سے کوئی دائی نہ ملی ۔ آخر اللہ تعالی نے حلیمہؔ کو اس عظیم الشان خدمت کے لئے منتخب فرمایا ۔ حلیمہ ؔؔ وہ تھی جسے ہر دروازہ سے محض اس لئے رد کیا گیا تھا کہ وہ ایک غریب عورت تھی اگر اسے بچہ دے دیا گیا تو وہ اسے کھلائے گی کہاںسے؟ گویا وہ جس کے گھر میں اللہ تعالی نے رسول کریم ﷺ کی پرورش کا سامان کرنا تھا اس کے لئے اللہ تعالی نے مکہ کے تمام بچے حرام کر دئے ۔ وہ جس گھر میںبھی گئی اسے یہی کہا گیا کہ ہم تمہیں اپنا بچہ نہیںدے سکتے ، تم بچہ لے گئیں تو اسے کھلائو گی کہاں سے۔ گویا سارے مکہ میں اس روز ایک بچہ ایسا تھا جسے کوئی دایہ نہ ملی اور ایک دایہ ایسی تھی جسے کوئی بچہ نہ ملا ۔ جب شام ہو گئی اور ادھر حلیمہ کسی بچے کے ملنے سے مایوس ہو گئی اور رسول کریم ﷺ کی والدہ کسی دایہ کے ملنے سے مایوس ہو گیئں تو اللہ تعالی نے حلیمہ کے دل میں ڈالا کہ گو یہ بچہ غریب گھرانے کا ہے اور اس کا والد فوت شدہ ہے مگر میرا خالی جانا دوسرے لوگوں کی ہنسی کا موجب ہو گا چلو میں اسی کو لے چلوں چنانچہ وہ آئی اور رسول کریم ﷺ کو لے گئی ۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے اس کے دل میں رسول کریم ﷺ کی ایسی محبت ڈال دی کہ آپؐ کا دم بھر کے لئے آنکھوں سے اوجھل ہونا اس پر سخت گراں گزرتا اور وہ آپؐ کی محبت میںبے تاب ہو جاتی ۔ تاریخوں میںآتا ہے کہ آپؐ ذرا بھی اس کی آنکھ سے اوجھل ہو تے تو وہ اپنے بچوں کو ڈانٹنے لگ جاتی کہ تم اسے چھوڑ کر کیوں آگئے ہو اور پھر آپؐ کو لانے کے لئے دوڑ پڑتی ۔ غرض باپ کے بعد آپؐ کو حلیمہ جیسی دائی ملی ، عبدالمطلب جیسا محبت کرنے والا دادا ملااور جب عبد المطلب فوت ہو گئے تو اللہ تعالی نے آپؐ کے چچا ابو طالب کے دل میں آپ ؐ کی محبت ڈال دی ۔ ابو طالب کو بھی آپؐ سے بے انتہا محبت تھی ایسی محبت کہ میرے نزدیک دنیا میںبہت کم چچا ہوں گے جنہوں نے اپنے کسی بھتیجے کو اس محبت کے ساتھ پالا ہو ۔ جوان ہوئے تو اللہ تعالی نے ایک مالدار عورت کے دل میں آپؐ کی محبت پیدا کر دی اور خود اس کے دل میںیہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں ان سے شادی کر لوں کیونکہ یہ بہت ہی بلند اخلاق کے مالک ہیں ۔ اس طرح اللہ تعالی نے آپؐ کے لئے گھربار کا سامان پیدا کر دیا ۔ پھر یتیم کے لئے ساتھیوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ماں باپ زندہ ہوتے ہیںتو ان کی خوشنودی کے لئے لوگ دوستیاں اختیار کر تے ہیں لیکن جب مر جاتے ہیں تو ان کے تمام تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور دوستی کا خیال تک بھی ان کے دل میں کبھی نہیں آتا ۔ رسول کریم ﷺ کے والدین چونکہ فوت ہو چکے تھے اس لئے طبعی طور پر آپؐ کو بھی ساتھیوں اور دوستوں کی ضرورت محسوس ہوتی تھی اللہ تعالی نے ابوبکرؓ اور حکیم بن حزام جیسے دوست آپؐ کو عطا فرمادئے ۔ ابو بکرؓ تو شروع میںہی اسلام لے آئے مگر حکیم بن حزام مدتوں کافر رہا مگر کفرکی حالت میںبھی جب لوگ آپؐ کی مخالفت کرتے تو وہ ان کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو جاتا ۔ ایک دفعہ وہ باہر تجارت کے لئے گیا تو وہاں اس کو ایک خاص قسم کا کپڑا ملا وہ کپڑا اسے بہت پسند آیا اور اس نے دل میںکہا کہ اس کپڑے کو پہننے کے قابل میرے دوست محمد (ﷺ ) سے زیادہ کوئی اہل نہیں ۔ چنانچہ وہ کپڑا لے کر مدینہ پہنچا اور رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے یہ کپڑا بڑا پسند آیاتھا میںآپ کے لئے لے آیا ہوں کیونکہ آپ کے سوا یہ کسی کو نہیںسج سکتا ۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میںکافر کا تحفہ قبول نہیں کر سکتا ہاں اگر چاہو تو مجھ سے قیمت لے لو ۔ اس نے کہا اچھا اگر آپؐتحفہ قبول نہیںفرماتے تو قیمت ہی دے دیں کیونکہ میری خواہش یہی ہے کہ آپؐ اس کپڑے کو پہنیں یہ کتنا عشق ہے جو ایک کافر کے دل میں آپؐ کے متعلق تھا اس نے اپنے مذہب کو نہیں چھوڑا مگر کفر کی حالت میں بھی آپ ؐ سے اس قدر پیار تھا کہ سب سے اچھی چیز جو ملی اس کا مستحق آپؐ کو قرار دیا اور تیرہ منزلیںمارتا ہوا مکہ سے مدینہ پہنچا تا آپؐ کی خدمت میں وہ تحفہ پیش کر ے۔ خدا تعالی نے اس کو کافر رکھا اور دیر تک رکھا ۔ شاید یہ ثابت کرنے کے لئے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کی وجہ سے لوگ آپؐ سے محبت کرتے تھے کسی اور وجہ سے نہیں ۔ پھر غلاموں میں سے زیدؓ اور رشتہ داروں میں سے علیؓ۔ غرض اللہ تعالی نے آپؐ کو ایسے ساتھی دیئے جو کسی یتیم کو ملنے ناممکن ہوتے ہیں ۔
۵؎ حل لغات۔ ضالا: ضَلَّ سے اسم فاعل ہے اور ضَلَّ الرَّجُلُ کے معنے ہوتے ہیں ۔ ضِدُّ اِعْتَدٰی جَارَ عَنْ دِیْنٍ اَوْ حَقٍّ اَوْطَرِیْقٍ ۔ وہ دین یا سچائی کے راستہ کو چھوڑ کر ادھر ادھر چلا گیا یا اصل راستہ سے ادھر ادھر ہو گیا نیز ضل فلان الطریق وعن طریق کے معنے ہیں لم یھتد الیہ ۔ اسے راستہ کا پتہ نہ لگا وکذالدار والمنزل وکل شی ء ٍ مقیم لا یھتدی لہ ۔ اسی طرح ہر وہ چیز جس کا پتہ نہ لگے یا جس کی طرف جانے کا راستہ نہ ملے اس پر بھی اس لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے (اقرب) ایک ہوتا ہے راستہ بھول جانا اور گمراہ ہو جانا ۔ اور ایک ہوتا ہے راستے کا علم نہ ہونا ۔ یہ دو الگ الگ مفہوم ہیں اور یہ دونوں معنے ضَلَّ میں پائے جاتے ہیں اور ضل فلان الفر س او البعیر کے معنے ہوتے ہیں ذھبا عنہ گھوڑا یا اونٹ کھو گیا اور ہاتھ سے جاتا رہا ضل عنی کذا کہتے ہیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں ضَاعَ ۔ وہ چیز ضائع ہو گئی ۔ اور ضَلَّ الرَّجُلُ کے معنے ہوتے ہیں مَاتَ وصار ترابا و عظاماً وہ مر گیا اور مر کر مٹی ہو گیا ۔ ضل الما ء فی اللبن کے معنے ہوتے ہیں خفی و غاب ۔ دودھ میں پانی غائب ہو گیا (اقرب) ضل کے معنے کسی کام میںمنہمک ہو جانے کے بھی ہوتے ہیں جیسے قرآن کریم میں آتا ہے ضل سعیھم فی الحیوۃ الدنیا (الکھف ۱۲:۳) ان کی تمام تر کوششیں دنیوی زندگی کے کاموں میں ہی صرف ہو گئیں اسی طرح ضلال کے ایک معنے محبت شدیدہ کے بھی ہوتے ہیں در اصل یہ معنی بھی ضل سعیھم والے معنوں سے ملتے جلتے ہیں کیونکہ محبت میں بھی انسان کامل طور پر ایک طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔ مفردات والے لکھتے ہیں یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت یعقوب ؑ کی نسبت ان کے بیٹوں نے کہا ان ابانا لفی ضلال مبین ( یوسف ) ہمارا باپ کھلی کھلی ضلال میں مبتلا ہے ۔ اس میں ضلال کے معنے گمراہی کے نہیں بلکہ اشارۃالی شغفہ بیوسف و شوقہ الیہ ۔ اس میں ان کی اس محبت اور شوق ملاقات کی طرف اشارہ ہے جو وہ حضرت یوسف ؑ کے متعلق اپنے دل میں رکھتے تھے ۔ گویا ضلال کے ایک معنے کمال درجہ کی محبت اور انتہا درجہ کے شوق کے بھی ہیں اسی طرح قرآن کریم میںجو آتا ہے قد شغفھا حبا انا لنرھا فی ضلال مبین ( یوسف ) اس میں بھی ضلال کے معنے بے انتہا محبت کے ہیں غرض ضلال کا لفظ جہاں اور معنوںکے لئے استعمال ہوتا ہے وہاں اس کے ایک معنے انتہا درجہ کی محبت کے بھی ہوتے ہیں ۔
تفسیر ۔ حل لغات میں جو مختلف معانی بیان کئے جا چکے ہیں ان کے لحاظ سے ووجدک ضالا فھدی کے بھی مختلف معنے ہو جائیں گے۔
پہلے معنے تو اس آیت کے یہ ہیں کہ تمہیں ہمارا راستہ معلوم نہ تھا ، تم شریعت سے بے خبر تھے ، تمہیں معلوم نہیں تھا کہ اللہ تعالی تک پہنچنے کے کیا ذرائع ہیں ۔ ایسی حالت میںہم نے اپنی شریعت تم پر نازل کی اور تمہیں اپنی طرف آنے کا راستہ دکھادیا ۔ دنیا کا کوئی شخص اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ رسول کریم ﷺ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے تھے جس میں کوئی شریعت نہیں تھی مگر اس کے باوجود آپؐ دن رات خدا تعالی کی طرف متوجہ رہتے تھے اور اس کے قرب اور وصال کے حصول کے متمنی تھے اس ملک میں عیسائی بھی موجود تھے اور یہودی بھی موجود تھے اور یہ دونوں قومیں وہ ہیں جن کے پاس خدا تعالی کا کلام موجود تھا مگر باوجود اس کے کہ خدا تعالی کا کلام ان کے پاس تھا انہیں خدا تعالی کی طرف کوئی توجہ نہیں تھی اور وہ اس سے کلی بیگانگت کی حالت میں اپنی زندگی کے ایام بسر کر رہے تھے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کہ یہ حالت تھی کہ آپ کے پاس خدا تعالی کا کوئی کلام نہیں تھا مگر پھر بھی آپ خدا تعالی کی طرف متوجہ تھے ۔ پس یہ امر محمد رسول اللہ ﷺ کے درجہ کی بلندی اور آپ ؐ کی عظمت کا ایک بیّن ثبوت ہے کہ خدا تعالی کا کلام اپنے پاس رکھنے والے تو خدا تعالی سے دور ہو گئے مگر جس کے پاس خدا تعالی کا کوئی کلام نہیں تھا وہ خد ا تعالی کے قریب ہوتا چلا گیا ۔ جب خدا تعالی نے دیکھاکہ یہ وہ شخص ہے جو ہماری طرف آنا چاہتا ہے مگر اسے ہمارے قرب اور وصال کے راستوں کا علم نہیں ہے تو اس نے آپ پر شریعت نازل کر دی اور اس طرح تمام راستوں کو آپؐ کے لئے منکشف کر دیا ۔
آپ ؐ کا پہلے اس کوچہ سے ناواقف ہونا ہر گز قابل اعتراض امر نہیں ۔ ہر صاحب شریعت نبی پر جب خدا تعالی کی وحی نازل ہوتی ہے تب اسے شرعی راستہ کا علم ہوتا ہے اس سے پہلے وہ اس راستہ سے واقف نہیں ہوتا ۔ یہی بات اس جگہ بیان کی گئی ہے کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ تجھے ہمارے راستے کا علم نہیں تھا پھر ہم نے اپنے فضل سے تجھے وہ راستہ دکھا دیا جس کی جستجو تیرے دل میں پائی جاتی تھی ۔
ضَلَّ کے ایک معنے خَفَیَ وَ غَابَ کے بھی بتائے جا چکے ہیں ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت میںخدا تعالی اپنی قدرت اور مہربانی کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے اے محمد ﷺ ایک دن ضحی آئے گی ۔ بڑی بڑی ترقیات اسلام اور مسلمانوں کو حاصل ہوں گی اور لوگ تیرے متعلق کہیں گے واہ وا کیا خوب آدمی تھا ۔ کتنے بڑے کمالات اپنے اندر رکھتا تھا ، کتنے بڑے فضائل اور محاسن کا مالک تھا ۔ کسی طرح اس نے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا اور بھولی بھٹکی مخلوق کو خدا تعالی کے آستانہ پر لاڈالا ۔ مگر ہم ان سے کہتے ہیں وہ غور کریں اور سوچیںکہ آخر تجھے کس نے چنا ۔ کس نے دنیاکی ہدایت کے لئے تیرا انتخاب کیا ، کون تھا جو تجھے گوشہ گمنامی سے دنیا کے سامنے نکال کر لایا۔ اے محمد رسول اللہ ﷺ یہ ہماری نظر ہی تھی جس نے تجھے منتخب کیا۔ ہم نے دیکھا کہ ایک قیمتی موتی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل پڑا ہے لوگ اس کی قدر وقیمت سے نا آشنا ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کس قدر آب و تاب رکھنے والا ہے ۔ ہم نے کان میں سے اس موتی کو نکالا اور اسے دنیا کے سامنے لا رکھا ۔ ہم نے کفرستان میں ایک ہیرا پڑا ہوا دیکھا ایسا ہیرا جس کا کوئی ثانی نہیں تھا ہم نے کفرستان میں سے اس ہیرے کو اٹھایا اور انسانیت کے تاج میں لگا لیا۔ آج تیری چمک کو دیکھ کر دنیا کی نگاہیں خیرہ ہو رہی ہیں ۔ وہ تیرے حسن اور تیرے جلال اور تیرے کمال کو دیکھ کر رطب اللسان ہیں مگر وہ نہیں دیکھتے کہ یہ سب کچھ ہمارے فضل کا نتیجہ ہے ۔ تو لوگوں کی نگاہوںسے بالکل غائب تھا اور دوسروں کا تو کیا ذکر ہے تو خود بھی نہیں جانتا تھا کہ تیرے اندر کون سے کمالات ودیعت کئے گئے ہیں ۔ ہم تجھے نکال لائے اور تیری شوکت اور عظمت کو دنیا پر ظاہر کر دیا ورنہ اور کون تھا جو تیری فطرت صحیحہ کو پہچان سکتا ، ہم ہی تھے جنہوں نے تجھے پہچانا اور گمنامی کے گوشوں سے نکال کر تجھے دنیا میں عزت کے ساتھ مشہور کر دیا۔
پھر ضلال کے ایک معنے محبت شدید ہ کے بھی بتائے جا چکے ہیں ان کے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ ہم نے تجھ کو شدید محبت میںمبتلا دیکھا تیرے اندر تڑپ تھی اپنے پیدا کرنے والے کے لئے تو زمین کو دیکھتا ، تُو آسمان کی بناوٹ پر غور کرتا اور تیری ف طرت تجھے کہتی کہ اس کارخانہ عالم کو پیدا کرنے والا ایک خدا ضرور ہے مگر ادھر تو اس قوم میں پیدا ہوا تھا جس کے پاس کوئی شریعت نہیں تھی اور جسے خدا تک پہنچنے کا کوئی راستہ معلوم نہیں تھا ہم نے دیکھا کہ جیسے یوسفؑ کے لئے یعقوب ؑ تڑپ رہا تھا اس سے بھی زیادہ شوق اور محبت کے ساتھ تو اپنے پیدا کرنے والے کے لئے تڑپ رہا ہے ۔ تیری فطرت تجھے ہماری طرف توجہ دلاتی تھی مگر تجھے ہمارا راستہ ملتا نہ تھا ۔ نیچر کی انگلیاں اٹھ اٹھ کر تجھے بتاتی تھیں کہ تیر ا کوئی مالک ہے ، تیرا کوئی خالق ہے ، تیرا کوئی رازق ہے ۔ تو چاروں طرف دیکھتا اور کہتا کہ میرا خالق اور مالک کہاں ہے؟ میںاس کے پاس جانا چاہتا ہوں ۔ اور چونکہ کوئی شریعت نہیں تھی جس پر چل کر تو ہمارے پاس پہنچ جاتا اس لئے جب ہم نے تیری اس تڑپ اور محبت کا مشاہدہ کیا تو فَھَدٰی اے محمد ہم نے تجھے آواز دے دی کہ ہم یہاں ہیں ہمارے پاس آجائو۔
پھر اس آیت کے ایک معنے اور بھی ہیں۔ اللہ تعالی رسول کریم ﷺ کے متعلق قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ لعلک باخع نفسک الا یکون مومنین ۔ اے محمد ﷺ تو اپنے آپ کو اس غم میں ہلاک کر دیگا کہ یہ لوگ کیوں تجھ پر ایمان نہیں لاتے ۔ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ ضَلّ کے ایک معنے مر کھپ جانے کے بھی ہیں پس ووجدک ضالا فھدی۔ میں اللہ تعالی یہ مضمون بیان فرماتا ہے کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ ہم نے دیکھا کہ تو اپنی قوم کی تباہی اور گمراہی کو دیکھ کر مر رہا تھا ، تو ان کے کفر کو دیکھتا تھا ، تو ان کی بد اخلاقیوںکو دیکھتا تھا ، تو ان کی چوریوں کو دیکھتا تھا ، تو ان کے ڈاکوںکو دیکھتا تھا ، تو ان کے اسراف کو دیکھتاتھا ، تو ان کی اخلاقی اور عائلی کوتاہیوں کو دیکھتا تھا ، تو ان کو علم میں تمام دوسری قوموں سے پیچھے دیکھتا تھا، تو ان کو سیاست میں تمام دوسری قوموں سے پیچھے دیکھتا تھا اور ہم دیکھتے تھے کہ جس طرح تو ہم سے ملنے کے لئے مر رہا تھا اسی طرح تو اپنی قوم کے لئے بھی مر رہا تھا ۔جس طرح تو ہماری محبت کے لئے بے تاب ہو رہا تھا اسی طرح اپنی قوم کے درد میںبھی ہلاک ہو رہا تھا گویا تجھ پروہی کیفیت تھی جو ہم دوسری جگہ ان الفاظ میںبیان کر چکے ہیںکہ لعلک باخع نفسک الا یکون مومنین۔ جب ہم نے دیکھا کہ تو اپنی قوم کے لئے مر رہا ہے ، اس کے غم میں ہلاک ہو رہا ہے ، اس کی اصلاح کی فکر میںگھلتا چلا جا رہا ہے اور دن رات تجھے یہی تڑپ اور یہی فکر ہے کہ کسی طرح میری گری ہوئی قوم ترقی کرے تو ہم نے تجھے وہ رستہ دکھا دیا جس پر چل کر تیری قوم اس موت سے بچ جائے یعنی تجھے قرآن دے دیا جس میں وہ ساری چیزیں موجود ہیں جو نہ صرف مکہ والوں کہ تباہی کو دور کر سکتی ہیںبلکہ ساری دنیا کی ہلاکت اور بربادی کا واحد علاج ہے پس ووجد ک ضالا میںاس جذبہ اصلاح کی طرف اشارہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کے قلب میں اپنی قوم کی اصلا ح اور پھر ساری دنیا کی اصلاح کے متعلق نمایا ں طور پر پایا جاتا تھا او ر درحقیقت یہ جملہ ترجمہ ہے لعلک باخع نفسک الا یکون مومنینکی آیت کا ۔ بَاخِعٌ کے معنے صرف گردن کاٹنے کے نہیںہوتے بلکہ اس رنگ میںگردن کاٹنے کے ہوتے ہیں کہ انسان گردن کی پچھلی نسوں تک اسے کاٹتا چلا جائے اور آخری حد تک اسے پہنچا دے ۔ اس طرح بتایا کہ تجھے اپنی قوم کے کفر اور اس کے خدا سے دور چلے جانے کا اس قدر غم اور اس قدر صدمہ تھا کہ گویا اس غم میں اپنی ساری گردن کاٹ بیٹھا تھا ۔
خد اتعالی کی محبت کے لحاظ سے تو اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے تجھ کو محبت میں بے انتہا صدمہ رسیدہ دیکھا اور آخر تجھے وہ راستہ بتا دیا جس پر چل کر تو ہمارے پاس پہنچ سکتا اور قوم کے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیںکہ ہم نے تجھے اپنی قوم کے غم میں بالکل مردہ کی طرح پایا ۔ جب ہم نے یہ حالت دیکھی تو ہم نے تجھے وہ شریعت دے دی جس سے یہ گری ہوئی اور تباہ شدہ قوم بھی ترقی کی طرف دوڑ پڑے ۔
غرض ان آیات میںاللہ تعالی نے ان احسانات کا ذکر فرمایا ہے جواس نے رسول کریم ﷺ پر کئے ۔ الم یجد ک یتیما فاوی میںتو یہ بتایا کہ ہم نے تیرے جسمانی یتم میںتجھے جسمانی رشتہ دار عطا کئے ۔ تو اس بات کا محتاج تھا کہ کوئی شخص تیری پرورش کرنے والا ہو تا ، تجھے محبت اور پیار سے رکھتا اور تیری ضروریات کو پورا کرتا ۔ سو اللہ تعالی نے یکے بعد دیگرے ایسے لوگ کھڑے کر دیئے جو انتہائی توجہ کے ساتھ تیری پرورش کا فرض سر انجام دیتے رہے اور ہر موقع پر جسمانی طورپر تیری مدد کرتے رہے دوسری طرف روحانی یتم کے لئے ہم نے اپنی محبت اور اپنا فیضان تجھ کو عطا کیا اور تجھے ایسی تعلیم عطا کی جو مکہ والوں کی قعر مذلت سے اٹھا کر ترقی کے بلند تر مینار پر پہنچا نے والی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک دعوی تھا جو محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کیا جا رہا تھا مگر دعوی وہ تھا جسے پرکھا جا سکتا تھا ۔ قرآن کریم لوگوں کے سامنے موجود تھا اور انہیں کہا جا سکتا تھاکہ آئو اور دیکھو کہ اس میںقوموں کو ابھارنے والی تعلیم موجود ہے یا نہیں اسی طرح رسول کریم ﷺ کے قرب اور آپ کے تعلق باللہ کو وہ آپ ؐ کی دعائوں اور آپ کے نشانات کے ذریعہ دیکھ سکتے تھے ۔ غرض نہ وہ الم یجدک یتیم فاوی کی صداقت کا انکار کر سکتے تھے اور نہ ووجدک ضالا فھدی کی صداقت کا انکار کر سکتے تھے ۔ اللہ تعالی ان دو مثالوںکو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب کہ تیری جسمانی پرورش بھی ہم نے کی اور تیر روحانی پرورش بھی ہم نے کی اور ہر قدم پر تیرے ساتھ اپنی تائید رکھی ۔ تو جسمانی توجہ کا محتاج تھا تو ہم نے تیری جسمانی پرورش کی طرف توجہ کی ۔ تو روحانی توجہ کا محتاج تھا تو ہم نے تیری جسمانی روح پر شفقت کی نظر ڈالی ۔ جب ہماری محبت تیرے دل میں پیدا ہوئی تو ہم نے تجھے اپنا چہرہ دکھا دیا اور جب بنی نوع انسان کی محبت تیرے دل میںپیدا ہوئی اور ان کی خرابیوں نے تجھے بے چین کر دیا تو ان کی اصلاح اور حالات کی درستی کے لئے اپنی شریعت تجھ پر نازل کر دی ۔ جب ہم اپنی محبت اور اپنے سلوک کا اس قدر نمونہ تیری ذات میںدکھا چکے ہیںتو یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ آئندہ ترقیات اور ضحی کے متعلق جو خبر دی گئی ہے وہ بھی پوری ہو کررہے گی۔ جس خدا نے تجھے پیچھے نہیںچھوڑا وہ آئندہ کس طرح چھوڑ سکتا ہے ؟
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جس کا جواب دینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ وجہ کیا ہے کہ ضَلَال کے ا ورمعنے تو لے لئے گئے ہیں مگر ایک معنوںکو بالکل ترک کر دیا گیا ہے ۔ ضَلَال کے ایک معنے گمراہ ہوجانے ، خرابی میںمبتلا ہو جانے اور رستہ کو چھوڑدینے کے بھی ہیںمگر ان معنوںکو چھوا تک نہیں گیا ۔ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ہم اس آیت کے یہ معنے کیوں نہ کر لیںکہ اس نے تجھے گمراہ پایا تھا پھر اس نے تجھے ہدایت دے دی ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معنے اس لئے چھوڑے گئے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ معنے یہاں چسپاں نہیں ہوسکتے ۔ دشمن اس آیت کے یہ معنے کرتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ جادہ اعتدال سے یا جادہ شریعت سے ادھر ادھر ہو گئے تھے ۔ یہ معنے خواہ لغتاً صحیح ہوں ہمارے نزدیک اس مقام پر کسی صورت میںبھی چسپاں نہیںہو سکتے اور اس کی یہ وجہ ہے کہ ہدایت ہمیشہ دو قسم کی ہوتی ہے ایک ہدایت شرعی اور ایک ہدایت طبعی یا فطری ۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ تم یہ معنے کیوںنہیںکرتے کہ اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ کو گمراہ پایا اور پھر انہیںہدایت دی ۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ دنیا میںہدایت کی دو ہی قسمیںہوتی ہیںیا ہدایت شرعی ہو جس سے انسان انحراف اختیار کر لے یا ہدایت طبعی اور فطری ہو جس کے خلاف عمل کرنے کے لئے وہ تیار ہو جائے ۔ان دو قسم کی ہدایتوں کے سوا اور کوئی ہدایت نہیںہو سکتی ۔پس وہ لوگ جو اپنے معنوں پر اصرار کرتے ہیں ہم ان سے دریافت کرتے ہیں کہ اس آیت کے کیا معنی ہوں گے ؟ کیا یہ معنے ہوں گے کہ ضل محمد عن شریعۃ المستقلۃ التی کانت القوم علیھا ۔ کہ محمد رسول اللہ ﷺ اس شریعت سے گمراہ ہو گئے جس پر قوم چل رہی تھی ۔ اگر ہم یہ معنے کریں تو بالکل غلط ہوں گے کیونکہ اس وقت کوئی شریعت تھی ہی نہیں اور کوئی شخص بھی یہ تسلیم نہیں کرتا خواہ وہ اسلام کا کیسا ہی شدیدمعاند کیوں نہ ہو کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی قوم کسی شریعت پر قائم تھی اور آپ اس شریعت سے پھر گئے تھے ۔ پس جو بات بالبداہت غلط ہے اور جس کی تکذیب کے لئے کسی دلیل کی بھی ضرورت نہیں وہ بات رسول کریمﷺ کی طرف منسوب کس طرح کی جاسکتی ہے اور کس طرح اس آیت کے یہ معنے کئے جا سکتے ہیں کہ آپ شریعت سے گمراہ ہو چکے تھے مگر خدا تعالی نے آپ کو ہدایت دی ۔ جب کوئی شریعت آپ کی قوم میںموجود ہی نہیں تھی اور آپ کسی شریعت کے مخاطب ہی نہیںتھے تو گمراہی اور ضلالت کے کیا معنے ہوئے ؟ محمد رسول اللہ ﷺ جس قوم میںپیدا ہوئے تھے اس کے پاس کوئی شریعت نہیںتھی ، کوئی آسمانی قانون نہیںتھا جس پر وہ عمل کرتی ، کوئی وحی نہیں تھی جس کو وہ اپنے سامنے رکھا کرتی ۔ ایسی صورت میںہم یہ معنے کس طرح کر سکتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ شریعت سے پھر گئے تھے ۔ شریعت تو اس وقت کوئی تھی ہی نہیں جس کے آپؐ مخاطب ہوتے ۔
دوسرے معنے یہ ہو سکتے ہیں کہ شریعت تو اس وقت بے شک کوئی نہیں تھی مگر آپ نعوذباللہ بد اخلاق تھے ، جادہ اعتدال سے منحرف ہو چکے تھے ، ہدایت طبعی جو اخلاقی اور فطری ہدایت ہوتی ہے اس کے قانون کو آپؐ نے توڑ رکھا تھا اور خدا تعالی نے اسی کی طرف ووجدک ضالا فھدی میں اشارہ کیا ہے ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا یہ معنے یہاں چسپاں ہو تے ہیں یا نہیں ۔ دشمن کہتا ہے کہ ضَآلاًّ کے معنے بد اخلاق کے ہیںگویا اس کے نزدیک رسول کریم ﷺ کی زندگی کا داغدار ہونا اس آیت میںبیان کیا گیا ہے مگر دشمن تو اس آیت کے یہ معنے کرتا ہے اور خدا تعالی دوسری جگہ ان معنوںکو بالکل غلط اور بے ہودہ قرار دیتے ہوئے رسول کریم ﷺ سے فرماتا ہے تو لوگوں کو چیلنج دے کہ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ تیری چالیس سالہ ابتدائی زندگی کا کوئی ایک عیب ہی ثابت کر دیں چنانچہ رسول کریم ﷺ نے چیلنج دیا اور فرمایا فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون ۔ (یونس ۲:۷) میںتم میں چالیس سال تک رہا ہوں اور تم میری زندگی کو دیکھتے چلے آئے ہو اگر تم میں ہمت ہے تو تم سب کے سب مل کر میری ابتدائی چالیس سالہ زندگی کا کوئی ایک عیب ہی ثابت کر کے دکھا دو مگر یاد رکھو تم ایسا کبھی نہیںکر سکو گے کیونکہ میری زندگی بالکل بے عیب ہے اور خدا تعالی نے مجھے ہر قسم کے گناہ سے آج تک محفوظ رکھا ہے ۔ اب بتائو کہ ہم یہ دوسرے معنے بھی کس طرح کر سکتے ہیں ؟ شریعت سے انحراف والی بات تو اس لحاظ سے بالبداہت باطل تھی کہ اس وقت آپ کی قوم کے پاس کوئی شریعت کی کتاب تھی ہی نہیں جس سے انحراف کرنے کا الزام آپ پر عائد ہو سکتا ۔ باقی رہا اخلاق میں کسی قسم کا نقص ہونا سواس کے متعلق محمد رسول اللہ ﷺ کا قرآن کریم میں دعوی موجود ہے کہ میں تم میں ایک لمبا عرصہ رہ چکا ہوں تم میری اس زندگی کا کوئی ایک عیب ہی ثابت نہیں کر سکتے ۔ اس چیلنج کے یہ معنے نہیں تھے کہ میں تم میں ایک لمبا عرصہ رہ چکا ہوں بتائو میں نے قرآن کے احکام پر اس زندگی میں عمل کیا یا نہیں ؟ کیونکہ قرآن کریم تو اس دعوے کے وقت میں نازل ہونا شروع ہوا ہے پہلے تو قرآن کریم تھا ہی نہیں ۔ پس اس آیت میں ہدایت ِ طبعی کی طرف اشارہ ہے نہ کہ ہدایت شرعی کی طرف ۔ اور اللہ تعالی رسول کریم ﷺ سے فرماتا ہے کہ تو لوگوں کو چیلنج دے اور ان سے کہہ کہ وہ بتائیں کہ کیا میری چالیس سالہ زندگی میں کوئی ایک دن بھی ایسا آیا جب میں نے ہدایت طبعی یعنی اخلاق کے خلاف کوئی قدم اٹھایا ہو جب کوئی ایک برائی بھی تم میری طرف منسوب نہیںکر سکتے ، جب کوئی ایک بدی بھی میرے اندر ثابت نہیں کر سکتے تو اب کس طرح کہتے ہو کہ میں برا ہوں ۔ غرض ان میں سے کوئی معنے بھی ایسے نہیں جو رسول کریم ﷺ پر چسپاں ہو سکتے ہوں ۔ جہاں تک ہدایت شرعی کا تعلق ہے عیسائی بھی تسلیم کر تے ہیں کہ نزول قرآن سے قبل اہل مکہ کے پاس کوئی شرعی قانون نہیں تھا اور جب وہ کسی شریعت کے پابند ہی نہ تھے تو وجدک ضالا کے یہ معنے کس طرح ہو سکتے ہیںکہ رسول کریم ﷺ شریعت سے منحرف ہو گئے تھے ۔ دوسرے معنے ہدایت طبعی سے انحراف کے ہو سکتے ہیں مگر وہ بھی رسول کریم ﷺ پر چسپاں نہیں ہو سکتے کیونکہ قرآن کریم میں آپ کی اعلی درجہ کی اخلاقی زندگی کے متعلق چیلن موجود ہے اور لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا گیا ہے کہ آپ نے بے عیب زندگی بسر کی تھی ۔ جب دونوں معنے آپ پر چسپاں نہیں ہوسکتے تو دشمنان اسلام کااس آیت کے یہ معنے کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نعوذ باللہ گمراہ ہو گئے تھے اس مقام پر کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ وجدک ضالا خدا تعالی کی گواہی ہے لیکن فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون اپنی ذات کے متعلق محمد رسول اللہ ﷺ کی اپنی گواہی ہے ان دونوں گواہیوں میں سے بہر حال خدا تعالی کی گواہی کو مقدم قرار دیا جائے گا ۔ اور رسول کریم ﷺ کی اپنی گواہی کو موخر سمجھا جائے گا ۔ اس لحاظ سے بات وہی درست ہو گی جس کی خدا تعالی نے گواہی دی نہ وہ بات جسے رسول کریم ﷺ نے اپنی طرف سے پیش کیا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ گواہی رسول کریم ﷺ کی پانی نہیں بلکہ خدا تعالی کی گواہی ہے ۔ چنانچہ قُلْ کہہ کر اللہ تعالی نے اس گواہی کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اور رسول کریم ﷺ سے کہا ہے کہ ہم تمہارے متعلق اس گواہی کو پیش کرتے ہیں تم لوگوں کے سامنے اسے پیش کر و اور انہیں چیلنج دو کہ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ تمہاری زندگی میں کوئی عیب ثابت کریں ۔ چنانچہ اصل آیت یوں ہے ۔ قل لو شآء اللہ ما تلوتہ علیکم ولا ادرکم بہ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون
( یونس ۲:۷) اس آیت میں قُلْ کہہ کر اللہ تعالی نے بھی اپنی گواہ ساتھ شامل کردی ہے صرف رسول کریم ﷺ کیااکیلی گواہی نہیںرہی ۔ غرض ووجدک ضالا فھدی اگر خدا تعالی کی گواہی ہوتی اور فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون محمد رسول اللہ ﷺ کی اپنی گواہی ہوتی تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ خدائی گواہی کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی اپنی ذات کے متعلق گواہی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ لیکن اللہ تعالی نے قُلْ کہہ کر اپنی گواہی بھی ساتھ ہی شامل کردی ہے ۔ تا یہ نہ سمجھا جائے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے یہ بات اپنے پاس سے کہی ہے پس ان میں سے کوئی گواہی بھی دوسری گواہی کے خلا ف نہیں ہو سکتی ۔
جب دشمن بحث سے تنگ آجائے اور دلائل کے میدان میں وہ بالکل بے بس ہوجائے ۔ تو بعض دفعہ تنگ آکر وہ کہہ دیا کرتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا خدا تعالی کی طرف یہ بات منسوب کرنا ایک دعویٰ ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ اور اپنی طرف سے بات کہنا تعلی اور لاف زنی ہے ۔ دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ کیا لوگ بھی آپ کو ایسا ہی بے عیب سمجھتے تھے جیسا کہ آپ ؐ نے دعویٰ کیا ۔ اگر لوگ آپ ؐ کو بے عیب نہیں سمجھتے تھے تو محض تعلّی کے طور پر ایک بات پیش کر دینے سے کیا بن جاتا ہے ۔ لوگ تو جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے ۔ اور یہ تعلّی صداقت سے کس قدر دور ہے ۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر لوگوں کی گواہی کو لو تب بھی ان کی شہادت محمد رسول اللہ ﷺ کے حق میں ثابت ہوتی ہے ۔ کیونکہ تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ دعوی نبوت سے پہلے رسول کریم ﷺ کو لوگ صدوق اور امین سمجھتے اور آپ ؐ کی راستبازی کے وہ حددرجہ قائل تھے ۔ چنانچہ اللہ تعالی کی طرف سے جب آپ کو انذار کا حکم ہوا تو صفا پہاڑی پر آپ ؐ کھڑے ہوئے اور آپؐ نے نام لے لے کر مختلف قبائل کو بلانا شروع کیا ۔ جب تمام لوگ اکھٹے ہو گئے تو آپ ؐ نے فرمایا ۔ اچھا یہ بتائو اگر میںتم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا لشکر ہے جو تم پر حملہ کرن چاہتا ہے تو کیا تم میری بات کو مان لو گے ؟ انہوں نے کہا ۔ ہاں ۔ کیونکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولنے والا پایا ہے ( بخاری جلد سوم ابواب التفسیر تفسیر سورۃ الشعراء زیر آیت وانذر عشیرتک الاقربین ) حالانکہ یہ بات ایسی تھی جسے بظاہر کوئی شخص تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیںہوسکتا تھا وجہ یہ ہے کہ مکہ کے لوگوں کے جانور وادی میں چرا کرتے تھے اور وہ ایسا علاقہ تھا کہ جس میںکسی لشکر کا چھپ رہنا نا ممکن تھا ۔ کیونکہ وہاں کوئی درختوں کا جنگل نہ تھا بلکہ کھلا میدان تھا ۔ مگر باوجود اس کے کہ ظاہری حالات کے لحا ظ سے ایسا بالکل نا ممکن تھا کہ کوئی لشکر آئے اور مکہ والوں کو اس کا علم نہ ہو ۔ پھر بھی جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں تم کو خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچے ) یہ پہاڑ دراصل ایک معمولی ٹیلہ ہے ۔ ڈلہوزی شملہ جیسا پہاڑ نہیں ) ایک لشکر چھپا ہوا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کو مان لو گے یا نہیں ؟ تو ان سب نے یہ جواب دیا کہ ہم ضرور مان لے گیں ۔ جس کے معنے یہ تھے کہ گویہ بات بالکل ناممکن ہے مگر چونکہ آپ کہیں گے اور آپ وہ ہیں جنہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ اس لئے ہم اس ناممکن بات کو بھی ممکن سمجھ لیںگے اور آپ ؐ کی بات کو درست قراردے دیںگے ۔ جب انہوں نے آپؐ پر اس قدر اعتماد کا اظہار کر دیا تو آپ ؐ نے فرمایا ۔ میںتمہیںخبر دیتا ہوں کہ تم پر خد اکا عذاب نازل ہونے والا ہے تم اپنی اصلاح کر لو ۔ یہ سنتے ہی سب لوگ آپ کو پاگل کہتے اور ہنسی اڑاتے ہوئے منتشر ہو گئے دشمن کی یہ گواہی اس صداقت اور راستبازی کا ایک بین ثبوت ہے جو رسول کریم ﷺ کے اندر پائی جاتی تھی۔
اسی طرح خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت جب حجر اسود کو اس کی اصل جگہ پر رکھنے کے متعلق قبائل قریش میں شدید اختلاف پیدا ہو گیا یہاں تک کہ وہ آپس میں کٹ مرنے کے لئے بھی تیار ہو گئے ۔ اس وقت آخر رسول کریم ﷺ نے ہی اس جھگڑے کو نپٹایا ۔ اور تاریخ میںلکھا ہے کہ جب لوگوں نے رسول کریم ﷺ کو آتے دیکھا تو سب لوگ یک زبان ہو کر پکار اٹھے کہ ھذا الامین رضینا ھذا محمد ۔ امین ۔ امین ۔ اور سب نے کہا کہ ہم اس کے فیصلہ پر راضی ہیں( ابن ہشام جلد اول ) یہ کفار کی دوسری شہادت ہے جو رسول کریم ﷺ کی ابتدائی زندگی کے نہایت ہی اعلیٰ ہونے کا ایک کھلا ثبوت ہے ۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ قریب کی گواہ بیوی ہوتی ہے وہ اپنے شوہر کے جن حالات کو جانتی ہے عام لوگ ان حالات کو نہیں جانتے ۔ اس لئے خاوند کے متعلق بیوی کی گواہی اور تمام گواہیوں سے زیادہ معتبر شمار کی جاتی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو یہ گواہی بھی حاصل ہوئی ۔ چنانچہ جب آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپؐ نے گھبرا کر حضرت خدیجہ ؓ سے اس کا ذکر کیا تو حضرت خدیجہ ؓ نے ان الفاظ میں آپ ؐ کو تسلی دی ۔ کہ کلا واللہ ما یحزیک اللہ ابدا انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق ( بخاری باب بدء الوحی ) خدا کی قسم اللہ آپ ؐ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ ؐ صلہ رحمی کرتے ہیں آپ لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں ۔ آپ ؐ معدوم اخلاق کو اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ آپ مہمان نوازی کرتے ہیں ۔ آپ مصیبت زدوں کی امداد کرتے ہیں۔ آپ ؐ جیسے انسان کو خدا کس طرح ضائع کر سکتا ہے ۔ یہ بیوی کی گواہی ہے جواس بات کو ثابت کرتی ہے کہ آپ ؐ ان معنوں میں ضَالٌّ نہیں تھے جو دشمن کی طرف سے کئے جاتے ہیں۔
پھر بیوی نے تو آپ کی چالیس سالی عمر کے وقت گواہی دی تھی ۔ اس سے پہلے آپؐ کی ۲۴ سالہ عمر میں حضرت خدیجہ ؓ کے غلاموں نے آپ کی نیکی اور راستبازی اور دیانت کی گواہی دی ۔ چنانچہ حضرت خدیجہ ؓ نے جب رسول کریمﷺ کو اپنا مال تجارت دے کر شام میں بھجوایا تو واپسی پر حضرت خدیجہ ؓ نے ایک ایک غلام کو بلا کر اس سے رسول کریم ﷺ کے حالات دریافت کئے ۔ ہر غلام نے آپ ﷺ کی تعریف کی ۔ اور ہر غلام نے کہا کہ ہم نے اس جیسا دیانتدار اور با اخلاق انسان اور کوئی نہیں دیکھا ۔ حضرت خدیجہ ؓ جانتی تھیں کہ تجارتی قافلوں کے ساتھ جن لوگوں کو بھیجا جاتا ہے وہ خود بہت سا مال کھا جاتے ہیں ۔ مگر ان غلاموں نے بتایا کہ انہوں نے نہ صرف خود کوئی مال نہیں کھایا بلکہ ہمیں بھی ناجائز طور پر کوئی تصرف نہیں کرنے دیا ۔ جو رقم ان کے لئے مقرر تھی صرف ویسی لیتے تھے اور اسی رقم میں سے کھانا بھی کھاتے تھے ۔ اس سے زائد انہوں نے ایک پیسہ بھی نہیںلیا۔ یہی وہ حالات تھے جن کو دیکھ کر حضرت خدیجہ ؓ اس قدر متاثر ہوئیں کہ انہوں نے آپ ؐ کو شادی کا پیغام بھجوادیا ۔ غرض تمام گواہیاں جو بچپن سے لے کر چالیس سالہ عمر تک ملتی ہیں وہ سب کی سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ رسول کریم ﷺ اخلاقی لحاظ سے گمراہ نہیں تھے اور جب کہ سب کی سب گواہیاں رسول کریم ﷺ کی زندگی کو پاک اور بے عیب ثابت کر رہی ہیں تو وہ لوگ جو ضَا لًّا کے معنے گمراہ ہو جانے کے کرتے ہیں وہ خود ہی بتائیں کہ ان کے معنے رسول کریم ﷺ پر کس طرح چسپاں ہو سکتے ہیں ۔ شریعت سے گمراہ تو آپ ؐ ہو ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ کوئی شریعت اس وقت تھی ہی نہیں ۔ اگر اخلاقی گمراہ مراد لو تو وہ بھی چسپاں نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ اول سے آخر تک تمام گواہیاں ثابت کر رہی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے ۔ جب آپ ؐ شریعت کے لحاظ سے بھی گمراہ نہیںتھے اور اخلاق کے لحاظ سے بھی گمراہ نہیں تھے تو پھر سوال یہ ہے کہ تیسری کونسی گمراہی ہے جو آپ ؐ کے اندر پائی جاتی تھی ۔ اگر کہو کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ آپ ؐ کفر سے گمراہ ہو گئے تو ہم بے شک کہتے ہیں کہ اٰمَنّاَ وَ صَدَّقْنَا ۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آ پؐ نے کفر کا راستہ اختیار نہیں کیا ۔ مگر جو معنے مخالف کرتے ہیں وہ قطعی طور پر غلط ہیں کیونکہ رسول کریم ﷺ کی زندگی ایک ایک گھڑی اور اس وقت کے حالات دونوں ان معنوں کو بے بنیاد ثابت کر رہے ہیں ۔
ووجدک عآئلاً فاغنیO ط
اور تجھے کثیر العیال پایا تو غنی کر دیا ۔ ۶؎
۶؎ حل لغات ۔ عَائِلاً : عَالَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور عَالَ عَیَالَہ‘ کے معنے ہوتے ہیں کفاھم معاشھم ومافھم۔ اپنے اہل و عیال کے گذارہ کا پوری طرح بندو بست کیا ۔ اور عال الیتیم کے معنے ہوتے ہیں کفلہ و قام بہ یتیم کے اخراجات کا ذمہ وار ہو گیا ۔ اور عال فلان عولا کے معنے ہوتے ہیں کثر عیالہ ۔ اس کا کنبہ زیادہ ہو گیا ۔(اقرب)گویا اس کے دو معنے ہوئے ۔ ایک معنے تو یہ ہیں کہ انسان دوسروں کا کفیل ہو جائے۔ ان کے اخراجات کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لے اور ان کی خبر گیری رکھے ۔ اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ وہ کثیر العیال ہو جائے ۔
تفسیر ۔ ووجدک عآئلاً فاغنی کے دو معنے ہیں ۔ اول یہ کہ ہم نے تجھے کثیر العیال پایا ۔ اور تیری ضرورت پوری کر دی ۔ دوسرے یہ کہ ہم نے دیکھا کہ تو ہی ایک ایسا شخص ہے جو ہر یتیم اور بے کس کی خبرگیری کرتا ہے اس لئے ہم نے بھی تجھے دولت دے دی تا کہ تو ان کی ضروریات کو پور ا کر سکے۔ پہلے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ تو اپنے عیال کی خبر گیری کے قابل نہ تھا مگر ہم نے دولت دے کر تیری غربت کو دور کر دیا ۔ اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ تیرے اندر یہ جذبہ شوق پایا جاتا تھا کہ تو ہر مسکین اور یتیم کو پناہ دے ۔ جو بھی درماندہ اور بیکس انسان تجھے نظر آتا ۔ تو اسے اپنی آغوش شفقت میںلے لیتا ۔ اس کے سر پر اپنی محبت کا ہاتھ رکھتا اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا جب ہم نے تیرے اس جذبہ محبت اور جذبہ ہمدردی کو دیکھا ۔ تو ہم نے بھی اپنی دولت تیرے سپرد کر دی تا کہ تو ہمارے بے کس اور نادار بندوں کا کفیل ہو ۔ یہاں دولت سے مراد صرف جسمانی دولت نہیں بلکہ روحانی دولت بھی مراد ہے اور یتامیٰ و مساکین سے مراد صرف جسمانی یتامیٰ و مساکین نہیں بلکہ روحانی یتامیٰ و مساکین بھی مراد ہیں ۔
جسمانی غرباء اور یتیم جو اس وقت پائے جاتے تھے ۔ ان کے متعلق رسول کریم ﷺ کے دل میں جو تڑپ پائی جاتی تھی اور جس قدر ہمدردی اور محبت آپؐ کے قلب میں ان کے متعلق موجود تھی اس کی مثال دنیا میں کہیں نظر نہیں آسکتی ۔ بے انتہاء تڑپ، بے انتہاء ہمدردی ، اور بے انتہاء محبت رسول کریم ﷺ کے دل میںقوم کے غرباء اور یتامیٰ کے متعلق پائی جاتی تھی ۔ آپ ؐ ان کے حالات کو دیکھتے تو بے تاب ہو جاتے ۔ آپ ؐ کے دن بے چینی میں اور راتیں اضطراب میں کٹتیں۔ محض اس وجہ سے کہ غرباء کا کوئی سہارا نہ تھا۔ یتامیٰ کو کوئی پوچھنے والا نہ تھا ۔ مساکین کی طرف کوئی توجہ کرنے والا نہ تھا ۔ اللہ تعالی جو آپ ؐ کے دل کے اسرار سے آگاہ تھا۔ اس نے جب آپؐ کی اس بے انتہا ء اور غیر معمولی تڑپ کو دیکھا تو آپ ؐ کی ان پاکیزہ خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اس نے حضرت خدیجہ ؓ کے دل میں یہ تحریک پیدا فرما دی کہ میں اپنا سب مال رسول کریم ﷺ کے لئے وقف کر دوں ۔ چنانچہ شادی کے بعد انہوں نے اپنا سارا مال رسول کریم ﷺ کے سپرد فرما دیا ۔ اور آپؐ کو اختیار دے دیا کہ آپ ؐ اس روپیہ میں جس طرح چاہیں تصرف فرمائیں ۔ رسول کریم ﷺ بیشک خود غریب تھے مگر چونکہ غرباء کو دیکھ دیکھ کر آپؐ کا دل دکھتا تھا اور آپ ان کی غربت کو دور کرنے کا اپنے پاس کوئی سامان نہ پاتے تھے اس لئے جب حضرت خدیجہ ؓ نے اپنا سارا مال آپ ؐ کے قدموں میں نثار کر دیا تو آپ ؐ کو اپنی خواہشات کے برلانے اور آرزووں کو پورا کرنے کا موقع میسر آگیا ۔
حضرت خدیجہ ؓ کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف ہزاروں روپیہ رکھنے والی خاتون نہیں تھیں بلکہ لاکھ پتی خاتون تھیں ۔ مستقل طور پر ان کی طرف سے متعدد قافلے تجارت کے لئے شام کی طرف آتے جاتے تھے اور یہ وسیع کاروبار وہی شخص کر سکتا تھا جو اپنے پاس لاکھوں روپیہ رکھتا ہو ۔ جب رسول کریم ﷺ کو حضرت خدیجہ ؓ کی اس عدیم المثال قربانی کے نتیجہ میں دولت کے ڈھیروں ڈھیر مل گئے تو آپ ؐ نے وہ تمام اموال قوم کے غرباء اور یتامیٰ و مساکین میں تقسیم کر کے اپنے دل کو ٹھنڈاکر لیا۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ بھی ہیں کہ جس طرح محمد رسول اللہ ﷺ کے دل میں یہ تڑپ تھی ۔ کہ آپؐ کو خدا تعالی کا وصال حاصل ہو ۔ الہی قرب میں آپؐ کو جگہ ملے اور اس کا الہام آپؐ پر نازل ہو ۔ اسی طرح عرب کی سرزمین میں خدا تعالی کے کچھ اور بندے بھی اپنے رب کی محبت اور اس کے پیار کے لئے تڑپ رہے تھے ۔ وہ بھی آرزو رکھتے تھے کہ ہمارا خدا ہم سے مل جائے ۔ اس کا وصال ہمیںمیسر آئے ۔ اس کی محبت کی گود میں ہم جا بیٹھیں۔ اور اس کی پیاری اور میٹھی آواز ہمارے کانوں میںآئے ۔ مگر وہ بے بس تھے بے کس تھے ۔ کوئی راستہ ان کو نظر نہیں آتا تھا ۔ ایک تڑپ تو موجود تھی مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ اس تڑپ کا کیا علاج ہے ۔ یہ لوگ جو اپنی اپنی جگہوں میں خدا کی رضا کے لئے تلملا رہے تھے ۔ ان میں سے کوئی ابوبکر تھا کوئی عمر تھا ۔ کوئی عثمان تھا ۔ کوئی علی تھا ۔ کوئی زید تھا ۔ کوئی طلحہ تھا ۔ کوئی زبیر تھا ۔ یہ سب لوگ خدا کی محبت میںگھلے جا رہے تھے ۔ ان کی آنکھیںگریاں اور ان کے دل بریاں تھے ۔ اس لئے کہ ان کا محبوب ان سے ملے ۔ فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ ﷺ ! ہم نے جب دیکھا کہ تیرے سوا اور لوگ بھی مکہ بلکہ ساری دنیا میںہیں جو اپنے دلوں میں ہماری محبت رکھتے اور ہماری جستجو لئے لئے بے چین ہیں تو ہم نے ان کی تسلی کے لئے تجھے وہ روحانی غذا مہیا فرما دی جس کے بعد ان کی بکلی جاتی رہی اور وہ پوری سرعت کے ساتھ ہماری طرف دوڑنا شروع ہو گئے ۔ گویا اس آیت میں اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے ہر فطرت کی تسلی کی تعلیم رسول کریم ﷺ کو عطا فرمائی ہے اور اس لئے روحانی عیال کی خبر گیری کا سامان آپکو پوری طرح دے دیا ہے ۔ کوئی فطرت نہیں جس کی آپؐ خبر گیری نہ کر سکتے ہوں ۔ اور کوئی فطرت نہیں جس کی مناسب حال تعلیم آپؐ کی کتاب میں موجود نہ ہو ۔ بے شک کفار اسلام کی اس جامع تعلیم کو تسلیم نہیں کر سکتے مگر انہیں اتنا تو دیکھنا چاہیئے کہ جو لوگ ایمان لائے ہوئے ہیں ان کے دل کی کیا کیفیت ہے ۔ اور آیا ان کو سکون اور اطمینان نصیب ہے یانہیں ۔ آخر وجہ کیا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیںوہ ایمان سے پہلے تو بے قرار تھے ، بے چین اور مضطرب تھے ۔ سمجھتے تھے کہ ہمیں منزل مقصود کا پتہ نہیں مگر جب ایمان لے آئے تو ان کے دلوں میں ٹھنڈک پڑ گئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ ہم جس مقصد کے لئے پیدا کئے گئے تھے وہ مقصد ہمیں حاصل ہو گیا ہے ۔ یہی بات اس زمانہ میںہم حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کے متعلق لوگوں کے سامنے بار بار پیش کر تے ہیں کہ بے شک تم مخالفت کرتے ہو مگر اس کا کیا جواب ہے کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود ؑ پر ایمان لائے ہیں ان کے دل مطمئن ہو چکے ہیں تسلی کی ایک لہر ہے جو ان کے قلوب میںپائی جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا خدا ہم سے مل گیا ہے ۔ کیا کسی کاذب انسان کے ساتھ تعلق رکھنے کے نتیجہ میں بھی یہ ثلج خاطر حاصل ہو سکتا ہے ۔ یہ برکت تو اسی شخص کو مل سکتی ہے جس نے کسی سچے کا دامن پکڑا ہوا ہو۔
غرض اس آیت میںاللہ تعالی فرماتا ہے کہ نہ صرف تجھے ہم نے پالا اور تیری پرورش کا سامان کیا بلکہ تیرے ذریعہ سے اور ہزاروں یتامیٰ و مساکین کی پرورش کا بھی ہم نے انتظام کر دیا ۔ جسمانی یتیم جسمانی مسکین، جسمانی غریب اور جسمانی نادار روٹی کھا کر شہادت دے رہے ہیں ۔ کہ محمد رسول اللہ ﷺ ایک راستباز انسان ہیں اور روحانی یتیم ابوبکر ؓ اور عمر ؓ اور عثمان ؓ اور علی ؓ اور طلحہ ؓ اور زبیر ؓ تیری تعلیم سے مطمئن ہو کر گواہی دے رہے ہیں کہ ہم بڑے بھوکے تھے اگر سیری حاصل ہوئی ہے تو اسی خوان ہدیٰ سے جواس پاک نفس نے پیش کیا ۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ آئندہ بھی خدا ہمیشہ تیرے ساتھ ہو گا ۔ ہمیشہ تیری تائید کرے گا ۔ ہمیشہ تجھے اپنی نصرت عطا کرے گا ۔ جو خدا آج تک تیرے کام آتا رہا ہے جس نے ایک لمحہ کے لئے بھی تجھے کبھی نہیں چھوڑا ۔ وہ آئندہ تجھے کس طرح چھوڑ سکتا ہے ؟
اس آیت کے یہ بھی معنے ہیں کہ آپ ؐ کے روحانی عیال جو ں جوںزیادہ ہوتے جائیں گے اللہ تعالی ان کی خبر گیری کے سامان پیدا کرتا جائے گا ۔ چنانچہ جس قدر معلم علم دین رسول کریم ﷺ کو ملے اور کسی نبی یا بزرگ کو نہیں ملے ۔ اسی وجہ سے آپؐ نے فرمایا اصحابی کالنجوم بایھم اقدیتم اھتدیتم ۔ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا جائو گے ۔
فاما الیتیم فلا تقھر Oط
پس یتیم کو تو دبا نہیں ۷ ؎
۷ ؎ حل لغات۔ لا تقھر ۔ قَھَرَ سے نہی مخاطب کا صیغہ ہے اور قَھَرَہُ کے معنے ہیں غَلَبَہ‘ ۔ اس پر غالب آیا ۔ نیز کہتے ہیں اَخَذْتُھُم قَھْرًا ۔ اور مراد یہ ہوتی ہے اَیْ مِنْ غَیْرِ رِضَا ھُمْ یعنی بغیر ان کی رضا مندی کے ان کو کام پر لگا لیا۔ (اقرب )
مفردات میںہے اَلْقَھْرُ : اَلْغَلَبَۃُ وَالتَّذْلِیْلُ مَعًا وَ یُسْتَعْمَلُ فِیْ کُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا یعنی قہر کے معنی ایسے غلبہ کے ہیں جس کے ساتھ مغلوب کی تذلیل بھی ہو ۔ بعض اوقات قھر کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور ا س کے معنے صرف غلبہ کے ہوتے ہیں یا صرف تذلیل کے (مفردات ) پس لَا تَقْھَرْ کے معنے ہوئے ۔ تو مغلوب نہ کر (۲) تذلیل نہ کر ۔
تفسیر ۔ فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ ﷺ جب ہم نے تیرے ساتھ غیر معمولی طور پر اچھا سلوک کیا ہے تو آئندہ یتیم کے متعلق ہماری تعلیم تمہیںیہ ہے کہ تم اس سے یہ معاملہ کیا کرو جو لَا تَقْھَرْ والا ہو ۔ تمہیں جن اخلاق سے ہم نے نوازا ہے ان کو ہمیشہ بڑھاتے چلے جائو ۔ اور اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھو کہ تم یتیم تھے ہم نے تمہاری پرورش کے سامان پیدا کئے ۔ اب اے محمد رسول اللہ ﷺ دنیا میںہمارے اور بھی بہت سے یتیم بندے ہیں تم ان سے کبھی ایسا سلوک مت کرو جوان کو ذلیل کرنے والا ہو ۔ بلکہ ہمیشہ ان کی فلاح اور بہبودی کا خیال رکھو ۔ ان کا اکرام کرو۔ ان کو ابھارنے اور ترقی دینے کی کوشش کرو اور ان کی ضروریات کو پورا کرو۔
حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ تعالی اپنے بعض بندوں سے فرمائے گا ۔ اے میرے بندو! میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہیںکھلایا ۔ میںپیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہیں پلایا میںبیما ر تھا تم نے میری بیمار پرسی نہیں کی ۔ وہ لوگ گھبرا جائیں گے اور کہیں گے ۔ خدایا تو یہ کیا کہہ رہا ہے تو کب بھوکا تھا کہ ہم نے تجھے کھانا نہیں کھلایا ۔ کب پیاسا تھا کہ ہم نے تجھے پانی نہیں پلایا ۔ کب مریض تھا کہ ہم نے تیری بیمار پرسی نہیں کی ۔ تُو تو خود سارے جہان کو کھانا کھلاتا ۔ ان کو پانی پلاتا اور ان کی ضروریات کو پورا کرتا ہے ۔ ہم ناچیز بندے کیا طاقت رکھتے تھے کہ اے ہمارے رب ہم تیری بیمار پرسی کرسکتے یا تجھے کھانا کھلا سکتے یا تجھے پانی پلا سکتے ۔ اللہ تعالی فرمائے گا یہ درست ہے ۔ مگر میری مراد یہ ہے کہ دنیا میں میرے بعض بندے پیاسے تھے تم نے انہیں پانی نہیں پلایا ۔ بعض بندے ننگے تھے تم نے انہیں کپڑا نہیں دیا ۔ جب تم نے ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا تو گویا تم نے ان کی طرف سے بے پرواہی نہیں کی بلکہ میری طرف سے بے پرواہی کی ۔ وہ میرے بندے تھے جو مختلف قسم کی تکالیف میں مبتلا تھے اس لئے ان کو کھلانا یا پلانا یا پہنانا ایسا ہی تھا جیسے تم مجھے کھلاتے یا مجھے پلاتے یا میری بیمار پرسی کرتے ۔ مگر تم نے اس فرض کو ادا نہیں کیا انجیل میں یہ واقعہ اس طرح آتا ہے کہ خدا تعالی قیامت کے دن بعض بندوں کو بلائے گا اور فرمائے گا ۔ اے میرے بندو! میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا ۔ میں پیاساتھا تم نے مجھے پانی پلایا ۔ میںپردیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں اتار ا ۔ ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا ۔بیمار تھا تم نے میری خبر لی ۔ قید میں تھا تم میرے پاس آئے آئو اب میں اس کی جزادوں ۔ تب لوگ کہیں گے اے خداوند ! ہم نے کب تجھے بھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا یا پیاسا دیکھ کر پانی پلایا۔ ہم نے کب تجھے پردیسی دیکھ کر گھر میں اتارا یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنایا ۔ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے ؟ تب اللہ تعالی بندوں کے جواب میںفرمائے گا ۔ کہ اے میرے بندو!جب تم نے اپنے بھائیوں میں سے کسی کے ساتھ یہ سلوک کیا تو میرے ہی ساتھ کیا ۔ اس لئے اب میںتمہیں اس کی جزاء دیتا ہوں اور جنت میں داخل کرتا ہوں (متی باب ۲۵ آیت ۳۴ تا ۴۰)
فاما الیتیم فلا تقھر میں اسی طرف اشارہ ہے کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ تو یتیم تھا ہم نے تجھے پالا۔ اب دنیا میںہمارے اور بھی بہت سے یتیم بندے ہیں ان کی پرورش تیرے ذمہ ہے اور تیرا فرض ہے کہ تو ان کی نگرانی رکھے اور ان کی تکالیف کا ازالہ کرے ۔
وہ حدیث جواوپر بیان کی جا چکی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یتامیٰ و مساکین کی پرورش کا معاملہ خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے اور خدا تعالی اس پرورش یا عدم پرورش کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے ۔ جوشخص یتیم سے حسن سلوک کرتا ہے وہ اللہ تعالی کی رضا مندی حاصل کرتا ہے اور جو شخص یتیم سے بے اعتنائی کرتا یا اس سے ظالمانہ سلوک کرتا ہے وہ خدا تعالی کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکاتا ہے ۔ لَا تَقْھَرْکہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یتیم کی پرورش اس رنگ میں نہیں کرنی چاہیئے کہ وہ خراب ہو جائے ۔ یعنی نہ ایسی سختی کرو کہ جس کے نتیجہ میں اس کے قویٰ دب جائیں اور وہ ترقی سے محروم ہو جائے اور نہ ایسی نرمی کرو کہ جس سے ناجائز فائدہ اٹھا کر وہ اپنے اوقات اور اپنے قویٰ کو برباد کر دے ۔ قَھْرٌ کے معنے دراصل غلبہ کے ہوتے ہیں ۔ پس لَا تَقْھَرْ کے معنے یہ ہوئے کہ اس سے ایسا معاملہ نہ کرو جس کے نتیجہ میں تم اس کے قوائے دماغیہ اور جسمانیہ پر غالب آجائو اور اس کی ترقی کو نقصان پہنچادو۔ انسانی ترقی کو دو ہی طرح نقصان پہنچتا ہے یا بے جا سختی سے یا بے جا نرمی اور محبت سے ۔ پس لا تقھر کہہ کر اللہ تعالی نے بے جا سختی سے بھی روک دیا اور بے جا نرمی سے بھی منع فرما دیا ۔ اور نصیحت کی کہ یتیم سے تم ایسا ہی معاملہ کرو جو اس کی اچھی تربیت کے لئے ضروری ہو ۔
واما السائل فلا تنھر Oط واما بنعمۃ ربک فحدث Oع
اور سوالی کو تو جھڑک مت اور تو اپنے رب کی نعمت کا ضرور اظہار کرتا رہ ۸ ؎
۸؎ حل لغات ۔ لا تنھر : نھر سے نہی مخاطب کا صیغہ ہے اور نھر السائل کے معنے ہیںزجرہ سائل کو ڈانٹ ڈپٹ کی (اقرب) پس لا تنھر کے معنے ہوں گے ۔ مت ڈانٹ۔
تفسیر ۔ فرماتا ہے سائل کو تم جھڑکو نہیں کیونکہ تم بھی سائل تھے محبت کی بھیک ہم سے مانگنے کے لئے آئے تھے ۔ ہم نے تمہارے سوال کو رد نہ کیا بلکہ تمہارے دامن کو گوہر مقصود سے بھر کر لوٹایا ۔ اب تم سے اور لوگ محبت کی بھیک مانگنے آئیں گے تمہارا فرض ہے کہ تم ان سائلوں کی طرف ہمہ تن متوجہ رہو اور ان کی خواہشات کو پورا کرو۔
اما بنعمۃ ربک فحدث ۔ تحدیث نعمت دو طرح ہوتی ہے ایک اس طرح کہ انسان علیحدگی میں اللہ تعالی کے احسانات کا شکر ادا کرے اور اس کے پیہم فضلوں کو دیکھ کر سجدات شکر بجا لائے اور زبان کو اس کی حمد سے تر رکھے ۔ دوسرا طریق تحدیث نعمت کا یہ ہوتاہے کہ لوگوں میںاللہ تعالی کے احسانات کا ذکر کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ اللہ تعالی نے کتنا بڑا فضل کیا ۔ فرماتا ہے ہم نے جونعمتیں تجھے عطا کی ہیں ان کا خود بھی شکر ادا کرو اور اپنے رب کی ان نعمتوں کا لوگوں میں بھی خوب چرچا کرو ۔ یا خدا تعالی نے جو نعمتیں تجھے دی ہیں ان سے خود بھی فائدہ اٹھائو اور اپنے جسم پر ان کے آثار کو ظاہر کرو۔ اور کچھ حصہ صدقہ و خیرات کے طور پر لوگوں میںبھی تقسیم کرو۔
اس سورۃ کے آخر میں جو تین باتیں بیان کی گئیں ہیں ۔ یہ پہلی بیان کر دہ تین باتوں کے مقابل میں ہیں ۔ پہلے فرمایا تھا ۔ (۱) الم یجد ک یتیما فاویٰ۔ (۲) ووجدک ضالا فھدی (۳) ووجدک عائلا فاغنی۔ تم یتیم تھے ہم نے تمہیں پناہ دی۔ تم ہماری محبت اور اپنی قوم کی نجات کے طالب تھے ہم نے تمہیںاپنی محبت بھی عطا کر دی اور قوم کی نجات کا سامان بھی عطا کر دیا ۔ اسی طرح تم روحانی اور جسمانی یتامیٰ سے گھرے ہوئے تھے ہم نے دونوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان بھی عطا کر دیا ۔ اب تیرا بھی فرض ہے کہ تو یتامی سے ایسا سلوک نہ کر جو ان کی طاقتوں کو توڑ نے والا ہو ۔ تو ہماری محبت کے سائلوں کو جو تیرے دروازہ پر آئیں کبھی مایوس مت لوٹا بلکہ جس طرح ہم نے تیری مرادیں پوری کی ہیں تو ان کی مرادوں کو پورا کر ۔ اور پھر یہ بھی دیکھ کہ ہم نے تجھے عائل بنایا تھا پھر تجھے غنی کر دیا ۔ اب تمہارا کام یہ ہونا چاہیئے کہ ہم نے تجھ پر جو احسان کئے ہیں ان کا تو شکر ادا کر ۔ ہماری نعمتوں سے خود بھی فائدہ اٹھا اور لوگوں میں بھی ان نعماء کو تقسیم کر ۔ یہ اسلامی تعلیم نہیں کہ انسان کو اگر کوئی نعمت ملے تو وہ اسے رد کر دے اور اس سے فائدہ نہ اٹھائے ۔ بد قسمتی سے مسلمانوں کے ایک طبقہ میں روحانیت کا مفہوم نہ سمجھنے کے نتیجہ میںیہ خیال پیدا ہو چکا ہے کہ اللہ تعالی کی نعماء کا استعمال روحانیت کے خلاف ہے ۔ اچھا کھانا کھانا یا اچھا کپڑ اپہننا یا اعلیٰ درجہ کی اشیاء سے فائدہ اٹھانا روحانی لوگوں کا کام نہیں ہو سکتا ۔ مگر یہ لوگوں کی خودساختہ روحانیت ہے اسلام اور عرفان سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ الہیٰ حکم یہی ہے کہ اما بنعمۃ ربک فحدث ۔ انسان کو اللہ تعالی کی طرف سے جو بھی نعمت ملے وہ اس سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے ۔ کاہنوں کیطرح ان نعمتوں کو رد نہ کردے ۔ اس آیت کے روحانی لحاظ سے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے جو تعلیم تجھے عطا کی ہے اس پر خود بھی عمل کرو اور دوسروں سے بھی عمل کرائو ۔ اور جسمانی لحاظ اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے جو نعمتیں تجھے دی ہیں ان سے خود بھی فائدہ اٹھا ئو اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائو ۔ بہر حال رسول کریم ﷺ پر اللہ تعالی نے جو فضل نازل کئے تھے ان کے ذکر کے بعد اللہ تعالی نے آپ سے مطالبہ کیا ہے کہ جیسے تم یتیم تھے اور ہم نے تمہاری خبر گیری کی اسی طرح تم ہمارے یتیموں کی خبر گیری کر و۔ جیسے تم سائل تھے اور ہم سے محبت کی بھیک لینے آئے اور ہم نے تمہاری آرزو کو پورا کر دیا اسی طرح اب ہمارے سائل جو تیرے پاس آئیں تیرا فرض ہے کہ ان کی آرزوئوں کو پور اکرے ۔ پھر جس طرح ہم نے تجھے عائل پا کر غنی کر دیا تھا اسی طرح دنیا میں بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں جن کو اس بات کا کوئی علم نہیں کہ خدا نے ان کی ہدایت کے لئے آسمان سے کتنابڑا نور نازل کیا ہے وہ جہالت کی تاریکیوں میں اپنی عمر بسر کر رہے ہیں اورآسمانی نور کی شعائیں ان تک نہیں پہنچیں ۔ ان کے دل بھی اس شوق میں تڑپ رہے ہیں کہ انہیں خدا تعالی کی محبت حاصل ہو ۔ اس کا پیار ان کی غذا ہو اور اس کا عشق ان کے رگ و ریشہ میں ہو ۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ وہ شمع کہاں ہے جس کے گرد وہ پروانہ وار اپنی جانوں کو قربان کر دیں ۔ ہم نے تجھے آسمانی دولت سے مالا مال کر کے اس لئے بھیجا ہے کہ تو دنیا کے سب لوگوں تک خدا ئے قدوس کی آواز پہنچا دے ۔ سو ڈھنڈورا دو اور خوب دو ۔ تبلیغ کرو اور خوب کرو۔ خدا کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچائو اور خوب پہنچائو ۔ سوتی دنیا کو جگائو اور خوب جگائو ۔ اور جو خزانے خد انے تمہیں عطا کئے ہیں انہیں بلا دریغ لوگوں میں تقسیم کردو کہ یہی وہ مقصد ہے جس کے لئے تمہیں دنیا میںکھڑ اکیا گیا ہے ۔
یہ تینوں آیتوں کا تقابل بھی بتاتا ہے کہ وجدک ضالا میںگمراہی مراد نہیں ۔ کیونکہ یتیم کے مقابل پر یتیم کا ذکر کیا ہے نعمت کے مقابل پر تحدیث بالنعمت کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس لئے لازماً ضالا کے مقابل پر جوآیت ہے اس میں پہلی آیت کے متعلق ہی اشارہ چاہیئے اور اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی سوالی کو رد نہ کر پس ضالا کے معنے بھی سوال کرنے کے ہوں گے اور یہی معنے کئے گئے ہیں ۔ یعنی تو خدا تعالی کی محبت کا سوالی تھا سو ہم نے تیری اس غرض کو پور اکیا اور ہدایت بخشی ۔

سُوْرَۃُالْقَدْرِ مَکِیَّۃ ٌ
سورۃ قدر ۔ یہ سورۃ مکّی ہے نمبر ۱
وَھِیَ خَمْسَُ اٰیَاتٍ دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِیْہَا رُکُوْعٌ وَّاحِدٌ
اوراس کی بسم اللہ کے سوا پانچ (۵) آیات ہیں اور ایک رکوع ہے ۔
۱؎ سورۃالقدر مکی سورۃ ہے لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ مدنی ہے چنانچہ واحدی کا قول ہے کہ ھِیَ اَوَّلَ سُوْرَۃٍ نَزَلَتْ بِالْمَدِیْنَۃِ یہ پہلی سورۃ ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی ۔
اس سورۃ پر بحث کرتے ہوئے مفسرین نے جمہور کی عجیب تعریف کی ہے بعض کہتے ہیںعِنْدَالْجَمْھُوْرِ مَکِّیَّۃٌ اور بعض کہتے ہیںعِنْدَالْجَمْھُوْرِ مَدَنِیَّۃٌ ۔ معلوم نہیں وہ کون سے جمہور ہیں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ جمہور کے نزدیک یہ مکی بھی ہے اور جمہور کے نزدیک یہ مدنی بھی ہے ۔ لطیفہ یہ ہے کہ مفسرین یہ تو کہتے ہیںکہ جمہور کے نزدیک یہ مدنی ہے مگر کسی صحابی کانام نہیں لیتے کہ فلاں فلاں نے اس سورۃ کو مدنی قرار دیا ہے آخر رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ ہی تھے جو اس کے مکی یا مدنی قرات دے سکتے تھے پس جب ان کے نزدیک جمہور نے اسے مدنی قرار دیا ہے تو چاہیئے تھا کہ وہ کچھ صحابہ کا ذکر کرتے اور کہتے کہ فلاں فلاں صحابی نے اسے مدنی قرار دیا ہے مگر باوجود یہ لکھنے کے کہعِنْدَالْجَمْھُوْرِمَدَنِیَّۃٌ پھر اس قسم کی روایتوں کا بھی تفاسیر میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک یہ مکی ہے ۔ جب صحابہؓ اسے مکی قرار دیتے ہیں تو پھر یہ لکھنے کے کیا معنے ہوئے کہ عِنْدَالْجَمْھُوْرِمَدَنِیَّۃٌ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جمہور کا محاورہ جو ہماری کتب میں استعمال کیا جاتاہے کیسا خلاف ِ اصول ہے کہ ہر لکھنے والا جب اپنی رائے کے مطابق دو چار لوگوں کی آراء دیکھ لیتا ہے تو فوراً کہنا شروع کر دیتا ہے کہ جمہور کے نزدیک فلاں بات یوں ہے حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ ہر صحابی اس امر کا ذکر نہیں کیا کرتا کہ فلاں سورۃ مکی ہے یا مدنی ۔ صرف چند صحابہ ایسے امور کا ذکر کیا کرتے ہیں اور جب انہوں نے کھلے لفظوں میں اسے مکی قرار دیا ہے اور مفسرین خود بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر نہ معلوم ان کو کیا خیال آگیا کہ صحابہ ؓ کی اس قطعی رائے کے باوجود انہوں نے اسے مدنی قراردے دیا۔ مستشرقین جن میں سے بعض تو دیانتدارانہ طورپر حقیقت کو معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض پادری یا پادری نما جان بوجھ کر یا تعصب سے واقعات کو بدل دیتے ہیں۔ انہوں نے بھی اسے مکی ہی قرار دیا ہے ۔ نولڈ کے مشہور مستشرق بھی اسے سورۃ الضحیٰ کے معاً بعد کی قرار دیتاہے۔
بعض احادیث میں اس کے نزول کی عجیب وجہ بیان کی گئی ہے ۔ لکھا ہے کہ چار نبیوں کے متعلق یہود میںیہ خیال تھاکہ انہوں نے اسی (۸۰) سال بلا ناغہ بغیر گناہ کے ارتکاب کے خدا تعالی کی عبادت کی ہے اور وہ چار نبی یہ ہیں ایوبؔ۔ زکریاؔ۔حزقیل ؔ۔ یوشعؔ۔ جب یہودیوں کا یہ قول صحابہ ؓ نے سنا تو ان کو رشک پیدا ہوا کہ چار آدمی ایسے گذرے ہیں جنہوں نے اسی سال تک بغیر کسی غلطی کے ارتکاب کے اللہ تعالی کی عبادت کی ہے اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی کہ اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ ………… یعنی تم تو اسی سال کی عبادت پر رشک کرتے ہو اور اسلام کی یہ کیفیت ہے کہ اگر کسی کو لیلۃ القدر میںاللہ تعالی کی عبادت نصیب ہو جائے تو اس کی ایک رات کی عبادت ہی ہزار مہینوں یعنی اسی (۸۰) سال کی عبادت سے بڑھ جاتی ہے ۔ مگر میرے نزدیک یہ روایت قابلِ قبول نہیں اوراسے تسلیم کرنا عقلی طور پر ناممکنہے کیونکہ اگر واقعہ میںکسی کو اسی (۸۰) سال عبادت کرنے کا موقع مل جاتا ہ تو اس پر کسی شخص کو محض ایک رات میں عبادت کرنے کی وجہ سے کس طرح فضیلت دی جا سکتی ہے ۔ اگر کہو کہ ایک رات کی عبادت اتنے سوزو گداز سے لبریز ہو گی ، اتنی محبت اور اللہ تعالی کے اتنے عشق کو ظاہر کرنے والی ہو گی کہ باوجود ایک رات کی عبادت ہونے کے اپنی شان و عظمت میں اسی سال کی عبادتوں سے بڑھ جائے گی تو یہ کوئی ایسی بات نہیںتھی جسے خاص طورپر بیان کیا جاتا ۔ہر شخص جانتا ہے کہ ایک رات کا بھی سوال نہیں اگر ایک گھنٹہ میں بھی کوئی شخص اپنے اخلاص اور اپنی محبت کا کوئی ایسا ثبوت دیدیتا ہے جو دوسرے کی اسی (۸۰) سالہ زندگی میں بھی نہیں ملتا تو یقینا اس کے ایک گھنٹے کے اخلاص دوسرے کی اسی سالہ کوششوں کے نتائج سے بڑھ جائے گا بلکہ میں کہتا ہوں ایک گھنٹے کا بھی سوال نہیں اگر کسی پر ایک منٹ بھی ایسا آجائے تو اس کا وہ ایک منٹ دوسرے شخص کی اسی یا سو سالہ عبادت سے بڑھ جائے گا۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت ابراہیم ؑ پر ایک وقت آیا جبکہ اسی سال کی عمر کے بعد ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا اور پھر جیسا کہ بائیبل اور قرآن قریم دونوں سے ثابت ہے جب وہ بڑا ہوا تو اللہ تعالی نے ان کو حکم دیا کہ اپنے اس بیٹے کو خدا کی راہ میں ذبح کر دو ۔ گو میرے نزدیک اس کی تعبیر یہ تھی کہ اپنے بیٹے کو اس وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ آئو جہاںنہ کھانے کو کچھ ملتا ہے نہ پینے کو ۔ اور اس طرح ظاہری رنگ میں اپنی طرف سے اس پر موت وارد کر دو ۔ مگر چونکہ اس وقت تک انسانی قربانی کا بھی رواج تھا اللہ تعالی نے اس رنگ میںان کو یہ نظارہ دکھا دیا تا کہ ساتھ ہی اس مسئلہ کو بھی حل کر دیا جائے ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے زمانہ کے دستور کے دیکھتے ہوئے سمجھا کہ یہ میرا امتحان ہے اور غالباً اللہ تعالی کہ مراد یہی ہے کہ اسی سال کے بعد میرے ہاں جو بیٹا پیدا ہوا ہے میں اسے عملاً اللہ تعالی کی راہ میںذبح کر دوں ۔ انہوں نے اپنے بیٹے سے ذکر کیا حضرت اسمٰعیل ؑ نے (کہ ہمارے نزدیک وہی تھے جنہوں نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کیا اس اچھی تربیت کے ماتحت جو اپنے ماں باپ سے انہیں حاصل ہو رہی تھی) اس بات پر آمادگی کا اظہار کر دیا اور کہا کہ جب اللہ تعالی کا حکم یہی ہے کہ مجھے ذبح کر دیا جائے تو پھر مجھے اس حکم کی تعمیل میں کوئی عذر نہیں ہو سکتا۔ حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے جنگل میں لے گئے اور انہوں نے حضرت اسمٰعیل ؑ کو ماتھے کے بل گرادیا وہ چھری پھیرنے کے لئے تیار ہی تھے کہ اللہ تعالی کی طرف سے الہام ہوا یَا اِبْرَاھِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّ وْیَا (صافات ۳:۷)اے ابراہیم تم نے اس رویاء کو اپنی طرف سے پورا کر دیا ہے لیکن ہمارا منشاء یہ نہ تھا تم اس واقعہ کی یادگار میں ایک بکرا ذبح کر دو۔ یہ خواب کسی اور صور ت میں پورا ہونے والا ہے ۔
حضرت ابراہیم ؑ کی وہ گھڑی جس میںوہ اللہ تعالی کی خاطر اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے یقیناً کئی لوگوں کی اسی اسی بلکہ سو سو سال کی عبادت سے بھی بڑھ کر تھی ۔ آخر دنیا میںایسے کئی لوگ موجود ہوتے ہیں جو اسی سال کی عمر پاتے ہیں بلکہ سو سو سال تک زندہ رہنے والے لوگ بھی دنیا میںپائے جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جنہوں نے ایک سو بیس ، ایک سو تیس ۔ ایک سو چالیس یا ایک سو پچاس سال کی عمر پائی ۔ میںنے خود ایک شخص کو دیکھا ہے جنہوں نے ایک سو چالیس سال سے اوپر عمر پائی تھی ۔ وہ جب میری بیعت کے لئے آئے تو لاہور سے پیدل چل کر آئے تھے ۔ انہوں نے اپنی عمر کا ذکر کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب ایک دفعہ میرے استاد کے پاس کسی کام کے متعلق دعا کرانے کے لئے آئے تھے اور انہوں نے ایک بھینس انکو تحفہ کے طور پر دی تھی میںاس وقت اتنا جوان تھا کہ وہ بھینس جو مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب نے میرے استاد کو دی اس کے متعلق میرے استاد نے مجھے کہا کہ جائو اور اس کو نہلا لائو۔ یہ روایت انہوں نے آج سے بیس سال پہلے بیان کی تھی اگریہ فرض کر لیا جائے کہ اس وقت وہ صاحب بیس پچیس سال کے تھے جب یہ واقعہ ہوا تو چونکہ بیعت کے وقت تک اندازاً سو سال کا عرصہ اس واقعہ پر گذر چکا تھا اس لئے جب وہ میری بیعت کے لئے آئے اس وقت وہ ایک سو بیس سال کے تھے اور مجھے دوستوں نے بتایا کہ اس کے بعد بھی وہ پندرہ بیس سال زندہ رہے گویا ایک سو چالیس سال سے اوپر عمر انہوں نے پائی اور ایک سو بیس سال کی عمر میںوہ اتنے مضبوط تھے کہ لاہور سے پیدل چل کر قادیان آئے ۔ اب اگر وہ ساری عمر دین کی طرف متوجہ رہے ہوں اور انہوںنے ایک سو بیس سال تک اللہ تعالی کی عبادت کی ہو تب بھی حضرت ابراہیم ؑ کی وہ ایک گھڑی کی عبادت ان کی ایک سو بیس سالہ عبادت سے بڑھ گئی اور خدا تعالی کے فعل نے بھی نتیجہ ظاہر کر دیا کیونکہ جو سلوک اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم ؑ سے کیا ہے وہ ان سے نہیں کیا ۔ اللہ تعالی تو کسی کی نیکی ضائع نہیںکرتا وہ خود فرماتا ہے َفَمَنْْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہ‘ (الزلزال ) جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی نیکی کرتا ہے وہ اس کے اچھے نتیجے کو ضرور دیکھ لیتا ہے ۔ جب اللہ تعالی کسی کی ایک ذرہ کے برابر نیکی بھی ضائع نہیں کرتا تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی ایک سو بیس سال کی عبادت کو ضائع کر دے اور یہ کہنا کہ سوزو گداز اور اخلاص کی وجہ سے بعض دفعہ ایک رات کی عبادت تراسی سال کی عبادت سے بڑھ جاتی ہے ۔ یہ جواب بھی اس موقع پر چسپاں نہیں ہو سکتا کیونکہ روایت میںہے کہ پہلے نبیوں نے اسی سال عبادت کی تھی جس کی خبر سن کر صحابہ ؓ کو افسوس ہوا کہ ہم اس کے مقابل پر کیا پیش کریں گے۔ اگر یہ روایت اس جگہ چسپاں کی جائے تو پھر اس کے یہ معنے ہوں گے کہ نبیوں کی اسی سالہ عبادت سے غیر نبی کی ایک رات کی عبادت بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس میںزیادہ سوز و گداز ہوتا ہے اور یہ دعویٰ بالبداہت باطل ہے ۔ بغرض محال یہ درست بھی ہو تو پھر اس مضمون کو ان الفاظ میںبیان کرنا تو بلاغت کے خلاف ہے اس صورت میں تو یہ کہنا چاہیئے تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ کے دل اس قدر پاک ہیںکہ ان کی ایک لمحے کی عبادت یا ان کی ایک رات کی عبادت ان لوگوں کی اسی سا ل کی عبادت سے بہتر ہے مگر اس کی بجائے فرمایا یہ گیا ہے کہ ایک خاص رات کی عبادت دوسرے اسی (۸۰) سال کی عبادت سے اچھی ہے اور یہ بات یقینا اس یہودی روایت کا جواب نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ صرف ایک رات کو بغیر اور کسی خصوصیت کے دوسرے سالوں پر ترجیح دے دینا عقل کے خلاف ہے اور صرف زبردستی اور دھینگا مشتی ہے جو اللہ تعالی کی شان کے خلاف ہے ۔
یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ اگر اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ ایک معمولی مومن اور متقی انسان اگر ایک رات عبادت میںگزار دے تو وہ پہلے انبیاء کی اسی سالہ عبادتوں سے بھی بڑھ جاتاہے تو اس سے بڑھ کر ظلم اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ان انبیاء کو اسی سال عبادت کرنے کے بعد بھی اتنا انعام نہ ملے جتنا انعام ایک معمولی مسلمان کو محض ایک رات عبادت کرنے کی وجہ سے دے دیا جائے ۔ پس اس حدیث کا یہ مفہوم قرآنی تعلیم اور عقل کے بالکل خلاف ہے ۔
ترتیب ۔ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے تعلق ظاہر ہے وہاں فرمایاتھا اِقْرَا بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ اپنے رب کے نام کے ساتھ پڑھ جس نے پیدا کیا ہے اور مطلب یہ تھا کہ قرآن پڑھ ۔ اب اس سورۃ میںقرآن کی فضیلت اور عظمت کا اظہار کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِالْقَدْرِ یہ قرآن لیلۃ القدر میںنازل کیا گیا ہے یعنی یہ وہ کتاب ہے جو دنیا کی ترقی اور اس کے تنزل کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام فیصلوں پر حاوی ہے یا یوںکہہ لو کہ قرآن کریم دنیا کی ترقی اور اس کے تنزّل کے تمام سامانوں کی تفصیل اپنے اندر رکھتا ہے اور بتاتا ہے کہ آئندہ دنیا کن اصول کے مطابق چل کر ترقی کر سکتی ہے اور کن امور کی پیروی کر کے تباہ ہو سکتی ہے ۔ جو چیز ایسی اہم ہو کہ اس کو قبول کرنے میںدنیا کی نجات اور اس کو رد کرنے میںدنیا کی تباہی ہو اس کا پڑھنا اور بار بار لوگوںکو سنانا جس قدر ضروری ہو سکتا ہے وہ ایک ظاہر امر ہے ہم تو دیکھتے ہیں دنیا میںلوگ معمولی باتوں پر ڈھنڈورا پیٹ دیتے ہیں ۔ عید کا چاند دیکھتے ہیں تو ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں کہ کل عید ہو گی ۔ نیا مال آتا ہے تو تاجر اور دکاندار لوگوں میں یہ ڈھنڈورا پیٹ دیتے ہیںکہ فلاں فلاں مال ہمارے پاس آیا ہے آئو اور اسے لے جائو۔ کسی بادشاہ کے ہاں بیٹا پیدا ہو تو اعلانات کے ذریعہ اس خبر کی خوب تشہیر کی جاتی ہے حالانکہ بعض دفعہ وہ چند دنوں کے بعد ہی مر جاتا ہے اور بعض دفعہ بڑے ہو کر وہ ایسا نالائق ثابت ہوتا ہے کہ باپ دادا کی ساری سلطنت کو کھو دیتا ہے ۔ اسی طرح ٹِڈی سے ملک کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو گورنمنٹ اخباروں میں اعلانات کراتی ہے کہ ٹڈّی دَل آیا ہوا ہے اس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیئے یا مثلاً گورنمنٹ کو معلوم ہو جائے کہ اس دفعہ غلہ کی اچھی قیمت ہو گی یا کپاس کا نرخ بڑھ جائے گا یا بارشیںزیادہ ہوں گی تو گورنمنٹ بار بار ان باتوں کا اعلان کرتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ ہر شخص کے کان تک یہ باتیں پہنچ جائیں۔ جب معمولی معمولی باتوں کے متعلق ڈھنڈورے پیٹے جاتے ہیںاور بڑے جوش سے اعلان کئے جاتے ہیں تو وہ چیز جو بنی نوع انسان کی تقدیر کو لے کرآئی ہو ، جو اپنے اندر دنیا کی ترقی اور اس کے سامانوں کی تفصیل رکھتی ہو ، جس پر عمل لوگوں کو نجات دلانے والااور جس سے انحراف ان کو تباہی کے گڑھے میں گرانے والا ہے اس کا زور و شور سے اعلان کرنا کیوں ضروری نہیں؟
پس اِقْرَا بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق میں جو یہ کہا گیا تھا کہ قرآن کریم کا دنیا میں خوب ڈھنڈورا پیٹو اور اس کی تعلیم کا بار بار اعلان کرو۔ اس سورۃمیں اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ قرآن کریم کا دنیا میں شائع کرنا اس لئے ضروری ہے کہ ہم نے اس کو ایک اندازہ والے زمانہ میں اتارا ہے یعنی یہ کتاب دنیا کی ترقی اور اس کے تنزل کے متعلق تمام اندازے اپنے اندر رکھتی ہے ۔
بِِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ O
(مَیں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرمکرنے والا (اور) بار بار رحم کرنیوالا ہے (شروع کرتا ہوں)
اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِالْقَدْرِ Oج صلے
؎۲ حل لغات ۔ لَیْلَۃٌ :۔ اَللَّیْلُ : مِنْ مَّغْرَبِ الشَّمْسِ اِ لیٰ طُلُوْعِ الْفَجْرِ الصَّادِقِ اَوْ اِلیٰ طُلُوْعِ الشَّمْسَ وَ ھُوْ خِلَافُ النَّھَارِ ۔ یعنی سورج کے غروب ہونے کے وقت سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے کے وقت کو لَیْل کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک سورج کے نکلنے تک کے وقت کو ۔ اور لَیْل کا لفظ نَھَار یعنی دن کے بالمقابل بولا جاتا ہے ۔ بعض علماء لغت کا خیال ہے کہ لَیْلٌ اور لَیْلَۃٌ ایک ہی چیز ہے ۔ جیسے عربی میںعَشِیٌّ اور عَشِیَّۃٌ ہم معنے ہیں ۔ لیکن مرزوقی عالم ِ لغت کہتے ہیں کہ لَیْل کا لفظ نَھَار کے مقابل پر بولا جاتا ہے اور لَیْلَۃ کا یَوْم کے مقابل پر (اقرب)
قَدْرٌ کے معنے مَبْلَغُ الشَّیْ ئِ کے ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کی جو قیمت ہوتی ہے اس کو قَدْرٌ کہتے ہیں۔ اسی طرح قَدْرٌ ایک چیز کے دوسری چیزسے مساوی ہونے کو بھی کہتے ہیں چنانچہ عرب کہتے ہیںھَذَا قَدْرُ ھٰذَا اَیْ مُمَاثِلُہ‘ وَمُسَاوٍلَہُ یعنی فلاں چیز فلاں کے مساوی ہے ۔ اس طرح طاقت کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اور قَدْرٌ کے معنے حرمت ؔ کے بھی ہوتے ہیں اور وقارؔکے بھی ہوتے ہیںاور غِنَاء ٌ کے بھی ہوتے ہیں اور قوتؔ کے بھی ہوتے ہیں اور قَدْر ٌ کے معنے اَلْوَقْتُ الَذِیْ یَلْزِ مُ لِلفِعْلِ کے بھی ہوتے ہیںیعنی جتنے وقت میںکوئی کام ہو سکتا ہو اس کو بھی قَدْر ٌ کہتے ہیںاور چونکہ یہ مصدریہ ہے اس لئے سارے مصدری معنے بھی اس میںپائے جائیںگے۔ اس لحاظ سے اس کے معنے تنگی کے بھی ہیںاور حکم ؔکے بھی اور اقتدارؔ کے بھی اور تعظیم ؔ کے بھی اور تدبیرؔ کے بھی ۔ اور لیلۃ القدر وہ رات بھی ہے جو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میںسے کسی ایک رات میں آتی ہے (اقرب) قرآن کریم میں بعض اور مقامات پر بھی اس رات کا ذکر آتا ہے مگر وہاں الفاظ اس آیت سے مختلف ہیں ۔ ایک جگہ فرماتا ہے اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ مُّبَارَکَۃٍ (الدخان ۱ :۱۴) یعنی ہم نے اسے ایک مبارک رات میں اتارا ہے ۔ پس لَیْلَۃِ الْقَدْر لَیْلَۃِ مُّبَارَکَۃ بھی ہے ایک دوسری جگہ فرماتا ہے شَھْرُ رَمَضَانَ………رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں اللہ تعالی کی طرف سے قرآن اتارا گیا ۔ ان دونوں آیات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کی کسی رات میںقرآن کریم کا نزول ہوا۔ اور اس وجہ اس آیت کو خاص طور پر مبارک قراردیا گیا ۔
تفسیر۔ اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِالْقَدْرِ کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میںنازل کیا ہے ۔ چونکہ پہلی سورۃ میںقرآن کریم کا ذکر آچکا تھا اس لئے یہاں بجائے یہ کہنے کے کہ اِنَّا اَنْزَلْنَا الْقُرْاٰنَ فِیْ لَیْلَۃِالْقَدْرِ اللہ تعالی نے صرف اس کی طرف ضمیر پھیر دی اور کہہ دیا کہ اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِالْقَدْرِ ۔ کیونکہ یہ بات ہر شخص پہلی سورۃ پر نظر ڈال کر آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا تھا اور اس بات کی ضرورت نہیں تھی کہ قرآن کریم کا خاص طورپر نام لیا جاتا۔
لیلۃ اور لیل کے معنے رات کے ہوتے ہیں ۔ مرزوقی عالم ِ لغت کا قول ہے کہ لیل کا لفظ نھار کے مقابل استعمال ہوتا ہے اور لیلۃ کا لفظ یوم کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے (اقرب) قرآن کریم میںلیل اور لیلۃ دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیںلیکن لیل کا لفظ زیادہ استعمال ہوا ہے اور لیلۃ کا کم ۔ میری گنتی کے مطابق لیل کا لفظ ۷۹ مرتبہ قرآن کریم میںاستعمال ہوا ہے اور لیلۃ کا لفظ صرف آٹھ دفعہ ۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ لفظ لیلۃ کا استعمال نزول کلام الہٰی یا اس کے متعلقات کے ساتھ استعمال ہوا ہے ۔ مثلاً ایک دفعہ رمضان کی رات کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے فرماتا ہے اُحِلَّ لَکُمْ لَیلۃ الصیام الرفث الی نساء کم (بقرہ ۲۳: ۷) یعنی تمہارے لئے روزوں کی راتوں میںاپنی عورتوں سے بے تکلف ہونا جائز ہے اور روزوںکے مہینہ یعنی رمضان کے متعلق آتا ہے شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن یعنی رمضان میںقرآن اترنا شروع ہوا تھا ۔ پس رمضان کی راتوں کو لیلۃ کے لفظ سے یاد کرنا لیلۃ کا تعلق کلام الہٰی والے مہینہ سے ظاہر کرتا ہے ۔ اسی طرح تین جگہ لیلۃ کا لفظ حضرت موسیٰ ؑ کی موعود چالیس راتوں کے متعلق استعمال ہوا ہے ۔ اور یہ وہ عرصہ ہے جس میںتورات کے اہم احکام نازل کئے گئے تھے اور جن میں رسول کریم ﷺ کی بعثت کی پیشگوئی کی گئی تھی ۔ چنانچہ سورۃ بقرہ میںہے و اذ وعدنا موسیٰ اربعین لیلۃ (بقرہ ۶:۶)اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا ۔ پھر سورہ اعراف میںآتا ہے و وعدنا موسیٰ ثلثین لیلہ واتممنھا بعشر فتم میقات ربہ اربعین لیلۃ ( ایت ۱۴۳) یعنی اللہ تعالی نے موسیٰ سے تیس راتیں کلام کرنے کا وعدہ کیا مگر بعد میںدس راتیں اور بڑھادیں اور اس طرح اپنے وعدہ کو مکمل کر دیا ۔ ان تینوں آیتوں میںبھی لیلۃ کالفظ کلام الہٰی کے نزول کے لئے استعمال ہوا ہے ۔
ان کے علاوہ چار اور مقام پر لیلۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور چاروں مقامات میںہی نزول ِ قرآن کے متعلق نازل ہوا ہے سورہ دخان میں آتا ہے انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ (ایت ۴) ہم نے اس قرآن کو مبارک رات میں اتارا ہے اور دوسرے اسی سورۃ زیر تفسیر میں ہے ۔ انا انزلناہ فی لیلۃ القدر ہم نے قرآن کریم کو بڑے اندازہ والی رات میں اتارا ہے پھر اسی سورۃ میں اس سے اگلی آیت میں فرماتا ہے وما ادرک ما لیلۃ القدر ۔ اور تجھے کس نے بتایا ہے کہ لیلۃالقدر کیا ہے۔ پھر اس آیت سے اگلی آیت میں فرماتا ہے لیلۃ القدر خیر من الف شھر ۔ لیلۃ القدر ہزار راتوں سے بھی اچھی ہے ۔ گویا آٹھ مقامات پر لیلۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے او ر ہر جگہ نزول کلام الہٰی یا اس کے متعلقات کے متعلق استعمال ہوا ہے ۔ یہ امر اتفاقی نہیں کہلا سکتا ضرور اس میں کوئی حکمت ہے اور لیل اور لیلۃ کے استعمال کا یہ فرق بے معنی نہیں ہے ۔
میرے نزدیک کلام الہٰی والی راتوں کے متعلق لیلۃ کا استعمال اور دوسری راتوں کے متعلق لیل کا استعمال عربی زبان کے اس قاعدہ کی وجہ سے ہے کہ حروف کی زیادتی یا بعد میں آنے والے حروف کی تبدیلی ہمیشہ معنوںمیں زور اور قوت پیدا کرنے کے لئے ہوتی ہے مثلاً رَبَسَ کے معنے مارنے کے ہوتے ہیں اور رَبَضَ کے معنے ہیں شیر کا اپنے شکار کو دبوچ کر دبا لینا۔ یہ ظاہر ہے کہ صرف مارسے شیر کا اس طرح جھپٹنا مار کر دبوچ لینا اور اپنے نیچے دبا لینا زیادہ سخت ہے ۔ اسی طرح قصم اور قضم دونوں کے معنے توڑنے کے ہیں مگر قصم کے معنی خالی توڑنے کے ہیں اور قضم کے معنی توڑ کر کھا جانے کے ہیں اس لئے کہ صؔ سے ض ؔبعد میں آتا ہے ۔ پس صؔکا حرف جس لفظ میں آئے گا اسی مفہوم کے اس الفاظ کے معنے زیادہ زور دار ہوں گے جس میں ص ؔ کی جگہ ضؔ آجائے گا۔ اسی طرح مسّؔ اور مصّؔ کے الفاظ ہیں مس کے معنے چھونے کے ہیں اور مصّ کے معنے اوپر منہ رکھ کر چوسنے کے ہیںیعنی خالی چھونا نہیں بلکہ اپنی طرف کھینچنا اسی طرح نَسَّ النَّاقَۃ َ کے معنے ہیں اسے چلایا اور ڈانٹا اور نَصَّ النَّاقَۃَ کے معنے ہیں اسے چلنے پر خوب انگیخت کیا اور اسے اتنا مجبور کیا کہ وہ اپنی انتہائی طاقت کے مطابق دوڑنے لگی ۔ اسی طرح فسلؔ اور فصل ؔ دونوں لفظ جدائی پر دلالت کرتے ہیں لیکن فصل کی جدائی فسل سے زیادہ ہے کیونکہ ص ؔ سؔ کے بعد آتا ہے ۔ اسی طرح حروف کی زیادتی سے بھی معنوں میں فرق پڑجاتا ہے مثلاً لَبَبٔ کے معنے ہیں کھلے سینہ والا ۔لیکن لَبْلَبٌ جس میں ایک کی جگہ دو لام آجاتے ہیں اس کے معنے ہیں اَلْبَرُّ بِاَھْلِہِ وَالْمُحْسِنُ لِجِیْرَانِہِ۔ اپنے اہل سے حد سے زیادہ نیک سلوک کرنے والا اور اپنے ہمسائیوں پر احسان کرنے والا ۔ گویا خالی سینہ کی وسعت کے معنے ہی نہیں بلکہ اعلی درجہ کا سلوک عملاً کرنے والا لَبْلَبٌ کہلاتا ہے اس لئے کہ لَبَبٌ میںتین حرف ہیں اور لَبْلَبٌ میںچار ہیں۔
عربی قواعد میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بعض تاء اسم فاعل کے آخر میں مبالغہ کے لئے لگا دی جاتی ہے اور بطور قاعدہ صفت مشبہ کے آخر میں لگائی جاتی ہے اور اس میں مبالغہ کے معنے پیدا ہو جاتے ہیں ۔ مثلاً راویؔ عام روایت کرنے والے کو کہتے ہیں اور شعراء کے شعر بیان کرنے والے کو راویۃؔ کہتے ہیں کیونکہ وہ بالعموم ہزاروں لاکھوں شعروں کی روایت کرتے تھے ۔ اسی طرح نَسَّاب نسب بیان کرنے والے کو کہتے ہیں اور نَسَّابۃ مبالغہ کے لئے آتا ہے یعنی خوب اچھی طرح نسب بیان کرنے والا پس لَیْل اور لَیْلۃ میںچونکہ لَیْلَۃ کے حروف لَیْل سے زیادہ ہیں اس لئے اس کے معنوں میں لَیْ سے زیادہ ہیںاس لئے اس کے معنوں میں لَیْل سے زیادہ وسعت ہے اور یہی وجہ ہے کہ لَیْلَۃ ۔ یَوْم کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جس کے معنے نھار سے زیادہ وسیع ہیں اور لَیْل۔ نَھار کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جس کے معنے یَوْم سے محدود ہیں ۔ پس لَیْلَۃکا لفظ ان راتوں یا اس زمانہ کی نسبت استعمال کر کے جن میںکلام الہی نازل ہوتا ہے ان راتوں کی بزرگی اور عظمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
چونکہ الہی کلام میں اعلیٰ ادب کے قواعد کے مطابق کبھی الفاظ اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی مجازی معنوں میں۔ اس آیت کے متعلق یہ بھی سوال ہے کہ آیا اس میں لَیْلَۃ کا لفظ محض رات کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یا ایک لمبے تاریک زمانہ کے متعلق۔ تمام گزشتہ مفسرین اسی طرف گئے ہیں کہ اس آیت میں لیلۃ کے معنے محض رات کے ہیں اور لَیْلَۃ الْقَدْر کے معنے ہیں اندازہ کی رات۔ مفسرین کے نزدیک سورہ دخان میں جو انا انزلنا فی لیلۃ مبارکۃ آیا ہے اس سے بھی یہی رات مراد ہے اور یہ رات رمضان کے مہینہ کی رات ہے جیسا کہ سورہ بقرہ میں آتا ہے شھر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن ۔ پس لیلۃالقدر سے مراد رمضان کی وہ رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا تھا وہ رات مبارک تھی اور اندازہ کی رات تھی یعنی آئندہ خیر و شر کا اندازہ اللہ تعالی نے اس میںکیا۔ قرآم شریف کے نازل ہونے کے متعلق اختلاف ہے بعض کے نزدیک سارا قرآن اسی رات کو لوح محفوظ سے اتر کر بیت العزۃ نامی مقام پر آگیا اس کے بعد آہستہ آہستہ تیئیس سال تک رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا(سعید بن جبیر ابن عباس ؓ بحوالہ ابن الکثیر بر حاشیہ فتح البیان جلد اول صفحہ ۳۷۵) اسی طرح ابن عباس ؓ سے ابن مردویہ نے روایت کی ہے کہ ان سے مقسم نے سوال کیا کہ میرے دل میں ایک شک پیدا ہو گیا ہے ۔ قرآن کریم میں تو آتا ہے کہ قرآن رمضان کے مہینہ میں نازل ہوا لیکن واقعہ یہ ہے کہ ایک لمبے عرصہ میں کچھ کسی مہینہ میں کچھ کسی مہینہ میں اور کچھ کسی مہینہ میں اترا ہے ۔ اس پر ابن عباس نے جواب دیا کہ انہ انزل فی رمضان فی لیلۃ القدر وفی لیلۃ مبارکۃ جملۃ واحدۃ ثم انزل علی مواقع النجوم ترتیلا فی الشھور والایام ۔ یعنی قرآن کریم سب کا سب ایک ہی بار رمضان کے مہینہ اور لیلۃ القدر کی رات میں جو لیلہ مبارکہ بھی کہلاتی ہے اترا تھا ۔ مگر زمین پر مختلف مہینوںاور دنوں میں آہستہ آہستہ نازل ہوا ۔ گویا ان لوگوںکے نزدیک قرآن کریم کے لیلۃ القدر میں اترنے کے معنے یہ ہیں کہ اس رات سے لوح محفوظ سے (یعنی اس مقام سے جہاں ان کے نزدیک ازل سے قرآن کریم لکھا پڑا تھا ) قرآن کریم اتراتھا ۔
بعض کے نزدیک شہر رمضان میں قرآن کریم اترنے سے مراد اس کے نزول کی ابتدا ء ہے ۔ چنانچہ علامہ ابن حیان لکھتے ہیں وقیل الانزال ھنا ھو علی رسول اللہ ﷺ فیکون القراٰن مما عبر بکلہ عن بعضہ والمعنی بدی بانزالہ فیہ علی رسول اللہ ﷺ (تفسیر بحر محیط جلد ۲ ص ۳۹)یعنی بعض علماء اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ قرآن کے اترنے سے مراد اس کا رسول کریمﷺ پر اترنا ہے نہ کہ بیت العزت پر ۔ اور قرآن کریم اترنے سے مراد اس کے کچھ حصہ کا اترنا ہے ۔ پس آیت کے یہ معنے ہیں کہ اس مہینہ میں قرآن کریم رسول کریم ﷺ پر اترنا شروع ہوا تھا ۔
بعض نے انزل فیہ القراٰن کے یہ معنے کئے ہیں کہ رمضان کے بارہ میں قرآن اترا ہے نہ یہ کہ رمضان کے مہینہ میںقرآن اترا ہے ۔ چنانچہ تفسیر فتح البیان میںلکھا ہے و قیل فی معنی الایۃ الذی نزل بفرض صیامہ القراٰن کما تقول نزلت ھذہ الایۃ فی الصلوۃ والزکوۃ نحوذ الک (جلد اول ص ۲۳۷) یعنی بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم کی وحی روزوں کی فرضیت کے بارہ میںنازل ہوئی ہے یہ اسی طرح کا استعمال ہے جیسے کہتے ہیں یہ آیت فی الصلوۃ ہے یعنی یہ آیت نماز کے بارہ میں ہے ۔
عربی لغت سے ثابت ہے کہ فِیْ کے معنے بارہ کے بھی ہوتے ہیں اور اے فی تعلیلیہ کہتے ہیں یعنی فی کے بعد میں آنے والی چیز فی سے پہلے کے مضمون کا سبب ہوتی ہے ۔ چنانچہ قرآن کریم میںدوسری جگہ آتا ہے فذالکن الذی لمتننی فیہ (یوسف ۴:۱۴) یہ وہ یوسف ہے جس کے بارہ میں یا جس کے سبب سے تم مجھ کو الزام دھرتی تھیں ۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے عذبت امراء ۃ فی ھرۃ حبستھا (بخاری جلد دوم کتاب المساقاہ باب فضل سقی الما ) یعنی ایک عورت ایک بلی کو بے کھلائے پلائے باندھ دینے کی وجہ سے دوزخ میںڈالی گئی ۔ انہی معنوں میں فی کا حرف آیت انزل فیہ القراٰن میں استعمال ہوا ہے اور ا س کے معنے یہ ہیں کہ رمضان ایسا مہتم بالشان مہینہ ہے کہ اس کے بارہ میں قرآنی حکم نازل ہوا ہے یعنی قرآن میں جو احکام نازل ہوئے ہیں وہ اہم اور ضروری احکام ہیں ۔ جس بارہ میں قرآن میں حکم آیا ہو سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ اہم حکم ہے ۔
جن لوگوں نے نزدیک اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ رمضان کی ایک خاص رات میں سارا قرآن لوح محفوظ سے سماء الدنیا کے بیت العزۃ میں اترا یا جن کے نزدیک اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ رمضان کی ایک خاص رات کو قرآن کریم کی پہلی وحی نازل ہوئی ۔ ان میں اس خاص رات کے متعلق بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور اس کے متعلق مختلف احادیث بھی بیان کی جاتی ہیں ۔ چنانچہ سند احمد حنبل میںابن الاشقع سے روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا انزلت صحف ابراہیم فی اول لیلۃ من رمضان و انزلت التوراۃ لست مضین من رمضان والانجیل لثلاث عشرۃ خلت من رمضان وانزل اللہ القران لاربع و عشرین خلت من رمضان ۔ یعنی رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابراہیم ؑ کے صحیفے تو رمضان کی پہلی رات میںاترے تھے اور موسیٰ ؑ کی کتاب تورات رمضان کے چھ دن گزرنے کے بعد یعنی ساتویںتاریخ کو اور انجیل تیرھویں کے گزرنے پر یعنی چودھویں رمضان کو اور اللہ تعالی نے قرآن کریم رمضان کی چوبیس راتیں گزرنے پر نازل کیا ۔ بعض لوگوں نے اس سے مراد چھٹی تیرھویں اور چوبیسویںراتیں لی ہیں ساتویں، چودھویںاور پچیسویںراتیں بھی مراد ہو سکتی ہیں۔ بہر حال اس روایت میں بتایا گیا ہے کہ نہ صرف قرآن کریم بلکہ پہلی کتب بھی رمضان کی خاص خاص راتوں میںاترتی تھیں ایک روایت جابر بن عبداللہ سے ابن مردویہ میں بھی مروی ہے اس میں یہ زائد بات بھی بیان ہے کہ زبورؔ رمضان کی بارہ تاریخیںگزرنے پر نازل ہوئی اور انجیل ؔ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ اٹھارہ دن گزرنے پر نازل ہوئی ۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ (۱) قرآن کریم ہی نہیںدوسری کتب بھی رمضان میں ہی اتری ہیں (۲) ان کے نزول میں ایک ترتیب مد نظر رکھی گئی ہے پہلے شروع رمضان اتری پھر ہفتہ بعد پھر ہفتہ بعد کچھ دنوں بعد آخری چوبیسویںیا پچیسویںکو قرآن کریم نازل ہوا۔ اگر ان احادیث کو ظاہر پر محمول کیا جائے تو ان کا مفہوم قرآن کریم، عقل اور نقل کے خلاف معلوم ہوتا ہے ۔قرآن کریم کے خلاف اس لئے کہ قرآن کریم میںاللہ تعالی فرماتا ہے کہ شھر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن (بقرہ ۲۳:۷) یعنی رمضان کا مہینہ وہ ہے کہ جس میں قرآن کریم اترا ہے ۔ اگر پہلے انبیاء کا کلام بھی رمضان میںہی اترا تھا تو رمضان کی فضیلت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور چاہیئے تھا کہ قرآن کریم فرماتا کہ رمضان کا مہینہ تو وہ ہے جس میںہم نے سب کتب سماویہ اتاری ہیںلیکن قرآن کریم ان کا ذکر تک نہیںکرتا ۔ اس میںشک نہیںکہ کسی امر کا ذکر نہ کرنے سے اس کا انکار واجب نہیں آتا لیکن چونکہ ان معنوں کی رو سے ماننا پڑتا ہے کہ رمضان کے مہینہ کی فضیلت بتانی مقصود ہے اور پہلی کتب کا بھی رمضان میں اترنا اس کی فضیلت کو بڑھا دیتا ہے اس لئے ا س امر کا اس جگہ بیان کرنا نہایت ضروری تھا لیکن قرآن کریم نے یہاں اس بات کا ذکر نہیں کیا اور نہ کسی اور جگہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ حدیث درست ہے تو ا سکے معنے ظاہری الفاظ کے مطابق نہیںہیں ۔
دوسرا اعتراض ان روایات پر عقلی طور پر پڑتا ہے اور وہ یہ کہ رمضان قرآن کریم کے نزول کی وجہ سے مبارک ہو گیا ۔ یہ امر تو سمجھ میںآسکتا ہے لیکن یہ امر کہ جو کلام بھی اترے وہ رمضان میںاترے اس کی کوئی وجہ عقل سے معلوم نہیں ہوتی ۔ دوسرا عقلی اعتراض اس پر یہ پڑتا ہے کہ رمضان قمری مہینہ ہے اور اپنی جگہ بدلتا رہتا ہے اگر ایک خاص وقت کلام الہی سے کوئی خا ص تعلق ہو تو یہ امر بھی سمجھ میں آسکتا ہے لیکن جبکہ یہ مہینہ یہود میں رائج نہ تھا وہ یہ سمجھ بھی نہ سکتے تھے کہ ابراہیم ؑ یا موسیٰ ؑ یا دائود ؑ یا مسیح ؑ کے الہامات کب نازل ہوئے ہیں اور اگر کوئی خاص فائد ہ اس نزول میں تھا تو اس سے نفع نہیں اٹھا سکتے تھے کیونکہ انہیں اس امر کا نہ علم تھا اور نہ علم ہو سکتا تھا ۔ پھر ا س بات کی تعیین سے کیا فائدہ کہ کلام الہی ضرور رمضان میںاترے ۔ الہی فعل کسی حکمت سے خالی کس طرح ہو سکتا ہے ؟
تیسرا عقلی اعتراض ان روایات پر یہ پڑتا ہے کہ ان میں حضرت ابراہیم ؑ ۔ موسیٰ ؑ ۔ دائودؑ اور عیسیٰ ؑ کا ذکر تو آتا ہے لیکن اور نبیوں کا ذکر نہیں ۔ روایات بتاتی ہیں کہ پہلی رمضان کو حضرت ابراہیم ؑ پر کتاب اتری ۔ ساتویں کو حضرت موسیٰ ؑ پر ۔ بارھویںکو حضرت دائود ؑ پر اور اٹھارھویں کو حضرت مسیح ؑ پر ۔ اس سے ظاہر ہے پہلے نبی پر رمضان کی پہلی تاریخ میں۔ دوسرے نبی پر اس کے بعد کی تاریخ میں ۔ تیسرے نبی پر اس کے بعد کی تاریخ میں ۔ چوتھے نبی پر اس کے بعد کی تاریخ میں کتاب نازل ہوئی گویا صرف رمضان میں ہی کتاب کا اترنا مقدر نہ کیا گیا تھا بلکہ رمضان کی تاریخوں کا بھی خاص خیال رکھا گیا تھا کہ جو پہلے نبی آئے اس پر رمضان کی پہلی تاریخوں میں کلام اتارا جائے اور بعد میں آنے والوں پر بعد میں اتارا جائے۔ اگر یہ بات ہے تو حضرت نوح ؑ اور دیگر انبیاء جو حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے گزرے ہیں ان پر کس ماہ اور کس تاریخ میں کلام اترا۔ کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ پر پہلی رمضان کو کلام اترا تھا پس حضرت نوح ؑ کیلئے کوئی رات رمضان میں کلام اترنے کی باقی نہیں رہتی ۔ اگر تو آگے پیچھے کلام اتر سکتا ہے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ ان پر پہلی کے بعد کی کسی تاریخ میںکلام اترا ہو گا ۔ لیکن حدیث بتاتی ہے کہ تقدم زمانی کے مطابق رمضان کی تاریخوں میںکلام اتارا گیا ہے پس حضرت نوح ؑ چونکہ حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے گذرے ہیں اس لئے حضرت ابراہیم ؑ پر جس رات کلام اترا اس سے پہلے کسی رات میں ان پر کلام اترنا چاہیئے تھا مگر پہلی رات سے پہلے تو اور کوئی رات ہوتی نہیں پس اگر رمضان میں ہی کلام اترنا چاہیئے تو حضرت نوح ؑ کے لئے کوئی جگہ انبیاء کی صف میں باقی نہیں رہتی ۔
کہا جا سکتا ہے کہ اس جگہ شارع نبیوں کا ذکر ہے اور حضرت نوح ؑ شارع نبی نہ تھے مگر یہ جواب نقل و کلام الہی دونوں کے خلاف ہے ۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ دائود اور نہ حضرت عیسیٰ ؑ شریعت لانے والے تھے ۔ ان کی کتب جیسی بھلی بری بھی موجود ہیں ان میں دیکھ لو شریعت کا نام و نشان نہیں ۔ حضرت دائود ؑ کی زبور ؔ میں تو صرف عشق ِ الہی کا اظہار اور محمد رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیاں ہیں اور کچھ اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے دعائیں ہیں ۔ شریعت سے ان کو دور کاواسطہ بھی نہیں ۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی انجیل کا بھی یہی حال ہے۔ اس میں صرف حضرت عیسیٰ ؑ کی زندگی کے حالات ہیں اور کچھ معجزات کا ذکر ہے باقی اس امر پر زور ہے کہ موسیٰ ؑ کی شریعت پر عمل کرو ۔ اگر دائود ؑ کوئی نئی شریعت لائے تھے تو موسیٰ ؑ کی کتاب کو منسوخ قرار دینا پڑے گا ۔ اس صورت میں اگر عیسیٰ ؑ صاحب شریعت نہ تھے تو انہیں یہ کہنا چاہیئے تھا کہ دائود ؑ کی کتاب پر عمل کرو اور اگر وہ صاحب شریعت تھے تو انہیں یوں کہنا چاہیئے تھا کہ میری شریعت پر عمل کرو مگر انجیل تو شریعت سے اس قدر خالی تھی اور ہے کہ یہود کے اعتراض سے بچنے کے لئے حضرت مسیح ؑ کے حواریوں کو یہ اعلان کئے بغیر چارہ نہ ہوا کہ شریعت *** ہے کیونکہ اگر وہ اسے رحمت قرار دیتے تو یہود کے اس سوال کا کیا جواب دیتے کہ میسح ؑ کی شریعت کہاں ہے کیونکہ وہ نصاری کے زعم میں پہلے نبیوں سے بڑا تھا اور اس وجہ سے اسے دوسروں کی شریعت کا ناسخ بھی ہونا چاہیئے تھا ۔
قرآن کریم کی رو سے اس دعویٰ پر یہ اعتراض آتا ہے کہ قرآن کریم حضرت موسیٰ ؑ کے بعد آنے والے تمام نبیوں کی نسبت فرماتا ہے ولقد اتینا موسی الکتب وقفینا من بعدہ بالرسل واتینا عیسی ابن مریم البینت وایدنا ہ بروح القدس ( البقرہ ۱۱ : ۱۱ آیت ۸۸) یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے پیچھے اور رسول اس کی پیروی کرنے والے بھیجتے رہے آخر میں عیسیٰ بن مریم آئے انہیں بھی کوئی شریعت کی کتاب نہیں ملی صرف نشانات اور تائیدروح القدس انہیں حاصل تھی ۔
اس آیت اور اس مضمون کی دوسری آیات کے ہوتے ہوئے اور خود ان نبیوں کی کتابوں کو دیکھتے ہوئے ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس روایت میں صرف صاحب کتاب نبیوں کا ذکر ہے اس وجہ سے حضرت نوح ؑ کی ذکر نہیں ۔
قرآن کریم کی ایک اور آیت بھی اس مفہوم کو رد کرتی ہے ۔ اللہ تعالی حضرت نوح ؑ اور ابراہم ؑ کی نسبت فرماتا ہے وان من شیعتہ لابراھیم (صافات ۳:۶ آیت ۵۴)نوح کی ہی جماعت میںسے ابراہیم ؑ بھی تھا یعنی حضرت ابراہیم ؑ شارع نبی نہ تھے شارع نبی حضرت نوح ؑ تھے اور حضرت ابراہیم ؑ ان کی شریعت کے اسی طرح تابع تھے جس طرح اسرائیلی نبی حضرت موسیٰ ؑ کی شریعت کے تابع تھے ۔ اس حقیقت پر آگاہ ہو کر کوئی شخص کس طرح یہ کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم کا ذکر اس لئے آیا ہے کہ وہ شارع نبی تھے اور حضرت نوح ؑ کا اس لئے ذکر نہیں آیا کہ وہ شارع نبی نہ تھے ۔
علاوہ ازیں یہ اعتراض بھی اسی توجیہ پر پڑتا ہے کہ اس حدیث میںجس قدر نبیوں کا ذکر ہے وہ اسرائیلی ہیں یہ سوچنے والی بات ہے کہ اسرائیلی نبیوں کا خاص طور پر رمضان سے کیا تعلق تھا بظاہر کوئی نہیں اور اگر اسرائیلی نبیوں کو رمضان سے کوئی خصوصیت نہ تھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی رو سے تو اور اقوام میں بھی نبی گزرے ہیں ان کے لئے رمضان میں کونسی جگہ ہو گی؟ حضرت ابراہیم ؑ سے پہل نبی تو حضرت نوحؑ کیطرح اس لئے محروم ہو جائیں گے کہ حضرت ابراہیم ؑ پر پہلی رمضان کو کلام نازل ہوا تھا اس سے پہلے رمضان کی اور کوئی تاریخ نہیں اور بعد کے اس لئے کہ نبی تو کثیر تعداد میں ہوئے ہیں اور رمضان کے دن تیس ہیںبلکہ انتیس ۔ کیونکہ چوبیسویں یا پچیسویںکو قرآن کریم نازل ہوا تو باقی نبیوں کو اس تاریخ سے پہلے کی کوئی تاریخ ملنی چاہیئے ۔
غرض اگر اس روایت کے معنے ظاہری الفاظ کے مطابق لئے جائیں تو عقلاً بھی اس کے معنے قابل قبول نہیں ہیں ۔
اب میں نقل کو لیتا ہوں ۔ اس روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ سب کتب ایک ہی تاریخ میں یک دم نازل ہوئی ہیں۔ یہ امر دونوں سروںسے باطل ہوتا ہے ۔ آخری نقطہ اس روایت کا قرآن کریم ہے قرآن کریم کی نسبت واضح طور پر معلوم ہے کہ یہ ایک دن میں نازل نہیں ہوا بلکہ تیئیس سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہواہے حتیٰ کہ کفار نے اعتراض کیا کہ لولا نزل علیہ القراٰن جملۃ واحدۃ کذالک لنثبت بہ فوادک ورتلناہ ترتیلا(فرقان ۳:۱ )یعنی کفا رکہتے ہیں کہ قرآن اس پر یک دم کیوں نازل نہ ہوا۔ جو اعتراض وہ کرتے ہیں درست ہے واقعہ میں وہ یکدم نازل نہیں ہوا لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آہستہ آہستہ اتار کر تیرے دل کو مضبوط کرنا چاہیئے تھے (تا پہلے حصہ کی پیشگوئیاں پوری ہو کر دوسرے حصہ میں ا س کی طرف اشارہ ہو اور ایمان کی تقویت کی ایک دائمی بنیاد رکھ دی جائے ) اور ہم نے اس کی ترتیب نہایت اعلیٰ درجہ کی بنائی ہے یعنی نزول قرآن اس رنگ میں ہوا ہے کہ موجودہ وقت کے مومنوں کے ذہن نشین قرآن ہو جائے اور موجودہ وقت کے کافروں کے لئے بہترین طریقہ تبلیغ کا پیدا ہو اور بعد کی دائمی ترتیب ہم نے اور طرح رکھی ہے تا کہ وہ بعد میںآنے والوں کی ضرورت کے مطابق ہو ۔ غرض نزول و ترتیب قرآن نہایت اہم حکمتوں پر مبنی ہے اور اس وجہ سے اس کا ٹکڑے ٹکڑے کر کے زمانہ کی ضرورت کے مطابق اترنا نہایت اہم حکمتوں پر مبنی تھا اب اس آیت کی موجودگی اور تاریخ کی گواہی کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ سارا قرآن ایک رات میںاترآیا تھا ۔
پہلے نبیوں کے متعلق بھی یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ ایک رات میں ان پر کلا م اترا تھا حضرت ابراہیم ؑ کی تاریخ تو ہمارے سامنے نہیںاس لئے ان کے بارہ میں تو ہم کچھ کہہ نہیںسکتے حضرت موسیٰ ؑ دائود ؑ اور حضرت مسیح ؑ کی تاریخ تو ہمارے سامنے ہے ان کی کتب کو دیکھ کر کوئی شخص شبہ بھی نہیںکر سکتا کہ وہ ایک وقت میں ہی نازل ہوئی تھیں۔ حضرت موسیٰ ؑ کی کتب چالیس پچاس سال میںجا کر مدون ہوئی ہیں ۔ ان میںراستوں سفروں ، مقاموں اور لڑائیوں کو بالترتیب ذکر ہے ۔ حتیٰ کہ یہ بھی ذکر ہے کہ کس طرح موسیٰ ؑ نے کس طرح اپنی قوم کی تنظیم کی اور کس طرح وہ جوانی سے ادھیڑ عمر کے ہوئے اور کس طرح بوڑھے ہوئے اور کھڑے ہو کر کام کرنے کے ناقابل ہو گئے ۔ کیا اس مضمون کو ایک رات کا اترا ہوا مضمون کہا جا سکتا ہے؟ بالکل اسی طرح اناجیل کا مضمون ہے اس میں بھی حضرت عیسیٰ ؑ کی دوروں ، لیکچروں ، نشانوں ، خدا کی ہدایتوں کا ترتیب وار ذکر ہے اور کوئی شخص انہیں ایک دن کی اتری ہوئی کتاب نہیں کہہ سکتا ۔ حضرت دائود ؑ کی زبور بھی اسی طرح ہے کہیں اس میںدشمن فوج کے نرغے میں گھر جانے کا ذکر ہے اور پھر اس سے نجات پانے کا ۔ کبھی بیمار پڑجانے کا اور پھر اس سے صحت پانے کا ۔ کبھی دشمنوں کی شرارتوں کا ذکر آتاہے اور پھر ان کے غم سے نجات پانے کا ۔ غرض دائود کی زبور اس کی زندگی کے اتار چڑھائو کی ایک تاریخ ہے اور ا س کی زندگی کے حالات اس سے منعکس ہوتے ہیں پھر اسے ایک دن کا کلام کس طرح کہا جا سکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ نبی کی زندگی اس کے کلام سے الگ نہیں کی جا سکتی بغیر ایک نبی کی زندگی کے حالات معلوم ہونے کے ہم اس کی تعلیم کو بھی اچھی طرح نہیںسمجھ سکتے ۔ نبی اپنے الہام کے لئے بمنزلہ آئینہ کے ہے اور ا س کا الہام اس کی زندگی کے لئے بطور ایک آئینہ ہے ۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو روشن کرتے ہیں اور اس دوہری روشنی میں ہی سے دنیا ہدایت پاتی ہے اس لئے ہر نبی کا کلام اس کی زندگی کے لئے مختلف حالات پرروشنی ڈالتا ہوا ایک لمبے عرصہ میں ختم ہوتا ہے ایک طرف وہ خدا تعالی کی صفات کے تازہ ظہور پر روشنی ڈالتا ہے دوسری طرف اس کی حالت جو ا س کے دشمنوں کی نسبت سے ہوتی ہے اس کے تغیرات پر روشنی ڈال کر خدا تعالی کی تائید اور نصرت کا ثبوت پیش کرتا ہے ۔ تیسری طرف وہ ان مختلف حالات میں نبی کے ایمان اور ا س کے یقین کے مختلف اظہاروں کو پیش کر کے اس کی دیانت داری ، اس کے ایثار اور اس کے روحانی کمالات کو پیش کرتا ہے ۔ اگر شروع میں ہی ایک ہی رات میں کلام نازل ہو جائے تو اس میں یہ باتیں کب جمع ہو سکتی ہیںاور اگر یہ باتیں کسی کلام میںجمع نہ ہوں تو وہ دنیا کی ھدایت اور رشد کا سامان پیدا ہی کب کر سکتا ہے پس ضروری ہے کہ سب نبیوں پر آہستہ آہستہ کلام نازل ہو جس میں ا س تمام روحانی رفعت کی جھلک ملتی ہو ۔ جو وہ نبی اپنی نبوت کے راستہ پر چلتے ہوئے حاصل کرتا گیا ۔ تا دنیا کے سامنے اس کی ابتداء ؔ بھی ہو اور درمیانی ؔ زمانہ بھی اور اس کی انتہا بھی۔
یہ خیال کہ پہلے سب نبیوں پر یک دم کلام الہی نازل ہواتھا سورۃ فرقان کی آیت لو لا نزل علیہ القران جملۃ واحدۃ سے پیدا ہوا ہے ۔ مسلمان مفسروں نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ شاید سب نبیوں پر پہلے جملۃ واحدۃ کلام نازل ہوتا تھا تبھی دشمنوں نے یہ اعتراض کیا ۔ حالانکہ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن کریم میں یہ اعتراض کفار مکہ کی طرف سے نقل کیا گیا ہے اور کفار مکہ تو کسی کتاب کے قائل ہی نہ تھے کجا یہ کہ وہ اس بات کے قائل ہوں کہ سب پہلے کلام الہی یکدم نازل ہوئے تھے اگر یہود و نصاری کی طرف سے یہ اعتراض نقل کیا جاتا تب تو یہ شبہ پیدا بھی ہو سکتا تھا لیکن انہوں نے یہ اعتراض نہیں کیا اس لئے اس اعتراض کی وجہ سے یہ قیاس کرنا کہ پہلے چونکہ یکدم کلام نازل ہوتا تھا اس لئے قرآن کریم پر اعتراض کیا گیا کہ کیوں یہ ایک ہی دفعہ نازل نہیں ہوا بالکل درست نہیں اور قیاس مع الفارق ہے کفار مکہ کے اعتراض کا یہ باعث نہ تھا کہ پہلے نبیوں پر تو ایک دن ہی سب کلام نازل ہو جاتا تھا اور آپ ؐ پر آہستہ آہستہ کلام اتر رہا ہے کیونکہ وہ تو نہ نبوت کے قائل تھے نہ کلام الہی کے ۔ ان کے اعتراض کی بنا ء تو محض عقلی تھی ۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر خدا تعالی نے کلام نازل کیا ہوتا تو یک دم کر دیتا کیونکہ وہ عالم الغیب ہے ۔ کلام کے آہستہ آہستہ نازل ہونے کے تو یہ معنے ہیں کہ محمد (رسول اللہ ﷺ نعوذباللہ من ذالک ) نئے اور بدلنے والے حالات کے مطابق اور نئی ضرورتوں کے پیش آنے پر ایک نیا کلام بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں ۔ چونکہ ان کے اعتراض کی بنیاد عقلی تھی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ پہلے نبیوں پر کلام اکٹھا نازل ہو جاتا تھا اور فرض کرو کہ کفار مکہ ایسا کہتے بھی تھے تو کیا ان کے خیال کو ہم کوئی بھی اہمیت اور قیمت دے سکتے ہیں ۔ کیا وہ علوم آسمانی کے ماہر تھے یا مذہبی تاریخ کا علم ان کو حاصل تھا کہ ہم ان کے اعتراض کو تاریخ مذہب کے لئے کوئی قیمت دیں؟
اس غلطی کے پیدا ہونے کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میںحضرت موسیٰ ؑ کی نسبت آتا ہے کہ انہیں چالیس راتوں کے وعدہ میںالواح ملی تھیں ۔ مسلمان چونکہ اسرائیلی کتب سے واقف نہ تھے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ الواح اور تورات ایک شئے ہیں ۔ حالانکہ الواح صرف دس احکام کا نام ہے اور تورات ان سے سینکڑوں گنے زیادہ امور پر مشتمل ہے ۔ قرآن کریم میں کسی جگہ بھی یہ ذکر نہیں کہ طور پر موسیٰ ؑ کو مکمل تورات ملی تھی ۔ صرف الواح کا ذکر آتا ہے اور تورات بھی اس کی مصدق ہے تو اول تو طور پر جو کچھ نازل ہوا یک دم نازل نہیں ہوا چالیس راتوں میں نازل ہوا دوسرے وہاں جو کچھ نازل ہوا اس اندازہ کے مطابق وحی تو رسول کریم ﷺ کو بھی کئی راتوں میں ہوئی ہے کئی کئی رکوع کا ٹکڑا آپؐ پر یکدم نازل ہو جایا کرتا تھا چنانچہ سورۃ یوسف کی نسبت آتا ہے کہ ساری سورۃ ایک ہی وقت میںنازل ہوئی تھی ۔ حضرت موسیٰ ؑ پر جو کلام طور پہاڑ پر چالیس دن میںنازل ہوا اس سے تو سورۃ یوسف یقینا بڑی ہے ۔ حضرت موسیٰ ؑ کی وحی کے علاوہ دوسرے نبیوں کی وحی کی نسبت تو کوئی قوی یا ضعیف روایت بھی نہیں جس سے معلوم ہو کہ پہلے نبیوں پر کلام الہی یکدم نازل ہو جاتا تھا ۔ اور اگر ایسا لکھا بھی ہوتا تو ہم اسے خلاف عقل کہہ کر رد کر دیتے کیونکہ کلام الہی تو نبی اور خدا کے تعلق کو روشن کرتا رہتا ہے ۔ کیا ہم خیال کر سکتے ہیں کہ کسی نبی پر ایک رات میں سب کلام نازل کر کے خدا تعالی خاموش ہو جائے گا کلام الہی تو الہی تعلق پر شہادت ہوتا ہے کیا اس شہادت کے پیدا ہو جانے سے نبی کی قلبی کیفیت اطمینان والی رہ سکتی ہے ؟ کیا وہ اس محجوب اور محبوب سے دور زندگی کو راحت سے گذار سکتا ہے؟ رسول کریم ﷺ کا چند دن کے وحی کے وقفہ سے کیا حال ہوا تھا ۔ اگر ایک دن کلام کر کے خدا تعالی دوسرے نبیوں سے بقیہ ساری عمر خاموش رہتا تو میں سمجھتا ہوں دشمن تو ان کو مارنے میں ناکام رہتے لیکن یہ خدائی فعل ان کو مارنے میںضرور کامیاب ہو جاتا ۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کی آیت انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ۔ کا یا دوسری آیات جو اوپر لکھی گئی ہیںان کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ قرآن کسی ایک رات میں سب کا سب اتار دیا گیا تھا یا یہ کہ الہی کلام اکھٹا اترا کرتا ہے ۔ کلام الہی کسی نبی پر یک دم نہیں اترا بلکہ آہستہ آہستہ نبوت کے زمانہ سے اس کی موت تک اترتا رہتا ہے تا نبی کے دل کو بھی زیادہ سے زیادہ روشنی ملتی جائے اور اس کے اتباع کا نور ایمان بھی بڑھتا رہے اور اس کے منکروں پر بھی نت نئی حجت تمام ہوتی رہے۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اکٹھا کلام نازل نہیں ہوتا تو پھر کیا احادیث مذکورہ بالا کا یہ دعویٰ کہ آنحضرت ﷺ پر اجمالاً اور پہلے انبیاء پر تفصیلا کلام الٰہی رمضان کی مختلف راتوں میں نازل ہوا درست نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ احادیث صحاح ستہ کی نہیں۔ مسند احمد بن حنبل سعید بن جبیر اور ابن مردویہ کی ہیں اور ان کو وہ درجہ نہیں دیا جاسکتا جو بخاری مسلم کی احادیث کو دیا جاسکتا ہے۔ مسند احمد بن حنبل بے شک ایک مستند کتاب ہے لیکن اس کے متعلق یہ امر محقق ہے کہ اس کی روایات مختلف قسم کی ہیں اور ان کے ان راویوں کی وجہ سے جو امام احمد بن حنبل کے بعد اس کی کتاب کو نقل کرتے ہیں اس میں ایسی بہت سی روایات شامل ہوگئی ہیں جو خود امام احمد بن حنبل کی بتائی ہوئی نہیں ہیں۔ اور بعض ایسی بھی ہیں جن کو امام احمد بن حنبل نے خود مستند قرار نہیں دیا۔ لیکن اگر امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ حدیث مستند بھی ہو تب بھی حدیث قرآن کریم کے مقام پر رکھی نہیں جاسکتی۔ جو حدیث قرآن کریم، واقعات یا عقل کے مقام پر رکھی نہیں جاسکتی۔ جو حدیث قرآن کریم، واقعات یا عقل کے خلاف ہو بہرحال یا اسے غلط قرار دینا پڑے گا یا پھر ا سکے معنے مجاز کے اصول پر کرنے کے ہوں گے۔ چونکہ میں اوپر ثابت کرچکا ہوں کہ ان احادیث کے ظاہری معنے قرآن کریم، کتب سابقہ اور عقل کے خلاف ہیں۔ اس لئے لازماً یا تو ان احادیث کو غلط کہنا ہوگا یا ان کے معنے مجاز و استعارہ کے اصول پر کرنے پڑیں گے۔
اب میں دیکھتا ہوں کہ کیا مجاز و استعارہ کے رُو سے ان احادیث کے کوئی معنے ہوسکتے ہیں؟ میرے نزدیک ایک بات ان روایتوں میں ایسی ہے جو ہماری توجہ کو مجاز استعارہ کی طرف پھیرتی ہے اور وہ یہ کہ باوجود اس کے کے نوح علیہ السلام کو قرآن کریم نے ایک بہت بڑا نبی قرار دیا ہے اور حضرت ابراہیمؑ کو ان کا تابع نبی قر ار دیا ہے اور باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے ہر قوم میں نبی ہونے کی خبر دی ہے۔ اس روایت میں حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت دائودؑ، حضرت مسیحؑ اور رسو ل کریم ﷺ کا ذکر ہے اور پھر باوجود اس کے کہ مسلمانوں میں عام طور پر گو غلط طور پر یہ عقیدہ کا مشہور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار کتابیں اتاری ہیں (درحقیقت نہ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف چار کتابیں اتاری ہیں اور نہ یہ درست ہے کہ ان چار کتابوں میں سے دائودؑ اور حضرت مسیحؑ کی کتب شریعت کی کتب ہیں۔ یقینا چار سے بہت زیادہ کتب مختلف اقوام کی ہدایت کیلئے نازل ہوئی ہیں اور ان بہت سے کتب میں زبور اور انجیل شامل نہیں کیونکہ یہ شریعت کی کتب نہیں ہیں۔ محض اصلاحی اور روحانی ترقی کے متعلق الہامات پر مشتمل ہیں یا چند پیشگوئیاں ان میں مذکور ہیں)۔ ان روایتوں میں پانچ کتابوں کا ذکر معلوم ہوتا ہے کہ غلط العام عقیدہ سے متاثر ہوئے بغیر یہ روایات نقل کی گئی ہیں اس لئے غالب احتمال یہ ہے کہ یہ احادیث درست ہیں ہاں ظاہری معنوں میں نہیں ہیں بلکہ مجاز و استعارہ کا استعمال ان میں کیا گیا ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت ابراہیمؑ ، حضرت موسیٰؑ ، حضرت دائودؑ، حضرت مسیحؑ اور آنحضرت ﷺ ابراہیمی خاندان کے درخشندہ ستارے ہیں اور گو ابراہیم موسوی سلسلہ سے پہلے اور حضرت نوحؑ کے تابع نبیوں میں سے تھے ۔ موسیٰؑ، دائودؑ اور مسیحؑ اسرائیلی سلسلہ کے نبی تھے اور آنحضرت محمدی سلسلہ کے بانی تھے اور نبوت کے سلسلہ کے لحاظ سے یہ پانچوں نبی تین مختلف سلسلوں سے متعلق تھے مگر خاندان کے لحاظ سے یہ پانچوں نبی ایک خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ پس ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں کلام الٰہی کے سلسلہ کے لحاط سے نہیں بلکہ ابراہیمی خاندان کے لحاظ سے نہیں بلکہ ابراہیمی خاندان کے لحاظ سے ایک حکمت بیان کی گئی ہو۔ اگر یہ درست ہے تو نہ حضرت نوحؑ کے ذکر کی اس حدیث میں ضرورت تھی اور نہ دوسری اقوام کے نبیوں کے ذکر کی ضرورت تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان پانچ نبیوں کو رمضان میں الہام ہوا خواہ جزأ خواہ کلاً۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں اس خیال کو اوپر تفصیل سے ردّ کر آیا ہوں۔ پس رمضان سے رمضان کا مہینہ مراد نہیں بلکہ مجازاً سلسلہ الہام کا نام رمضان رکھ دیا گیا ہے۔
رمضان رمض سے نکلا ہے اور رمض کے معنے عربی زبان میں شدید گرمی یا سورج کی شدید تپش کے ہوتے ہیں اور رمضاء کے معنے اس میدان کے ہوتے ہیں جو گرمی کے موسم میں سورج کی براہ راست شعاعوں کی وجہ سے تپ اٹھا ہو۔ چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے ؎
المستجیر بعمر و عند کر بتہ
کالمستجیر من الرمضاء بالنار
یعنی عمرو (اس کا مخالف) سے مصیبت کے وقت مدد مانگنا ایسا ہی ہے جیسا کہ شدید گرم میدان سے بچنے کیلئے کوئی آگ کی پناہ ڈھونڈے یعنی رمضاء کی گرمی آگ کے قریب قریب ہوتی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب رمضان نام اس مہینہ کا رکھا گیا ہے اس وقت یہ مہینہ سخت گرمی کے موسم میں آیا ہوگا۔ بہرحال رمضان کے روزے تو اسلام میں فرض ہوئے اور اس مہینہ کا رمضان بہت پہلے رکھا گیا ہے ۔ پس رکھنے والے نے یہ نام شدت گرما کی وجہ سے ہی رکھا ہوگا اور کلام الٰہی ہمیشہ اسی وقت آتا ہے جبکہ دنیا میں گناہ اور فسق وفجور کی وجہ سے لوگ غضب الٰہی کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابراہیمی نسل پر جو ابتدائی روحانی گرمی کا زمانہ آیا اس میں ابراہیم علیہ السلام پر کلام نازل ہوا اور جب دوسرا زمانہ روحانی اور تپش اور گرمی کا آیا تو دائود علیہ السلام کو بھیج دیا اور جب چوتھا زمانہ آیا تو حضرت مسیحؑ کو بھیج دیا اور جب پانچواں زمانہ آیا تو مجھے بھیج دیا۔ اس صورت میں یہ ایک نصیحت ہے اور زمانہ کے حالات سے ایک سبق دیا گیا ہے اور اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ رمضان میں ان لوگوں پر کلام نازل ہوا سوائے رسول کریم ﷺ کے ۔ کہ آپ کے بارہ میں قوی تاریخی شہادت ملتی ہے کہ آپ پر رمضان میں قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تھا۔
ان مجازی معنوں کے رو سے ایک اور بات بھی معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اس حدیث میں متواتر تاریخوں میں نزول کلام کا ذکر نہیں بلکہ یوں ہے کہ پہلی رمضان کو بار ابراہیمؓ پر کلام نازل ہوا۔ چھٹی موسیٰؑ پر اور بارھویں کو دائودؑ پر اور اٹھارھویں کو مسیحؑ پر اور چوبیس کو رسول کریم ﷺ پر۔ اگر ہم غور سے دیکھیں تو تاریخ سے ابراہیم نسل کے انبیاء کا ظہور جن صدیوں میں معلوم ہوتا ہے یہ تاریخیں اس سے ملتی ہیں۔ حضرت ابراہیم ابراہیمی نسل کے انبیاء کے سب سے پہلے نبی تھے اس لئے لازماً کہنا ہوگا کہ ان پر وحی ابراہیمی سلسلہ کی تاریخ کی پہلی صدی میں ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے متعلق اختلاف ہے۔ مروجہ بائبل میں اسے ۴۲۰ سال کے قریب بتایا گیا ہے مگر بعض اسرائیلی روایتوں میں حضرت موسیٰؑ کا ظہور چھٹی صدی میں بھی بتایا گیا ہے۔ اگر اسے درست سمجھا جائے توموسیٰؑ پر چھٹی رمضان کو کلام نازل ہونا درست آتا ہے۔ اس کے بعد حضرت دائودؑ کا ذکر ہے کہ ان پر بارھویں رمضان کو کلام نازل ہوا۔ حضرت دائودؑ کا وجود اس کڑی کے لحاظ سے خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ اصل اہم وجود اس کڑی میں حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور رسول کریم ﷺ ہیں کہ ابراہیم باپ ہیں اور موسیٰ عیسیٰ ایک بیٹے کے سلسلہ کی کڑی ہیں اور محمدرسول اللہ ﷺ اور مسیح موعودؑ دوسرے بیٹے کے سلسلہ کی کڑی ہیں۔ مسند احمد بن حنبل کی روایت میں حضرت دائودؑ کا ذکر بھی نہیں۔ بہرحال یہ جو دوسری روایت میں ہے کہ دائودؑ کا ذکر بھی نہیں۔ بہرحال یہ جو دوسری روایت میں ہے کہ دائودؑ پر بارھویں تاریخ کو کلام نازل ہوا یہ مروجہ تاریخوں کے مطابق صحیح نہیں اُترتا کیونکہ مروجہ تاریخوں میں حضرت دائودؑ کا زمانہ حضرت ابراہیمؑ کے نو سو سال بعد ہوا ہے مگر پرانی تاریخوں کے مطابق صحیح نہیں اترتا۔ کیونکہ مروجہ تاریخوں میں حضرت دائود کا زمانہ حضرت ابراہیمؑ کے نو سو سال بعد ہوا ہے مگر پرانی تاریخوں کاکوئی ایسا اعتبار بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی غلطی ہو اور حضرت دائودؑ گیارہ سو سال بعد بارھویں صدی میں ہی ہوئے ہوں۔ اس کے بعد حضرت مسیح کا ذکر آتا ہے بائبل کے رو سے واقعہ صلیب حضرت ابراہیم کی بعثت کے ۱۹۲۰ سال بعد ہوا ہے اور ان کی وفات کے لحاظ سے ۱۸۰۰ کچھ سال بعد۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ اٹھارھویں رمضان کے مطابق حضرت عیسیٰؑ پر کلام نازل ہوا۔ گویا ایک سو سے ڈیڑھ سو سال کا فرق ہے مگر یہ فرق اس طرح نکل جاتا ہے کہ اسرائیلی تاریخ کی رو سے موسیٰ اور عیسیٰ کے درمیان کا فاصلہ تیرہ سو سال کا بھی ثابت ہے۔ اگر اس عرصہ کو تسلیم کیا جائے اور قرائن بھی یہی بتاتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سو سال بعد ہوئے ہیں (مگر اس جگہ اس مضمون پر بحث کا وقت نہیں )۔ تو حضرت ابراہیم اور حضرت مسیحؑ کا فاصلہ اٹھارہ صد اور کچھ سال کا بن جاتا ہے اور حدیث کے بتائے ہوئے وقت کے عین مطابق حضرت مسیح کی بعثت بنتی ہے۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ پر چوبیسویں رمضان کا کلام نازل ہوا۔ حضرت عیسیٰ سے رسول کریم ﷺ کی بعثت کا فاصلہ چھ سو آٹھ سال کا ہے۔ اٹھارہ سو کچھ سال میں ۶۰۸ سال جمع کریں تو چوبیس سو کچھ سال ہوتے ہیں۔ گویا حضرت ابراہیمع کے بعد چوبیسویں صدی کے ختم ہونے پر اور پچیسویں صدی کے شروع میں آپ مبعوث ہوئے اور یہ زمانہ حدیث کے عین مطابق ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث میں رمضان سے مراد وہ تاریک زمانے ہیں جو نسل ابراہیم پر آنے والے تھے اور دنوں سے مراد وہ صدیاں ہیں جن میں حدیث میں مذکور انبیاء کا ظہور ہوا اور ان احادیث میں استعارہ کی زبان میں بات کی گئی ہے ظاہر مفہوم لینا ان کا نقل اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔
لیلہ سے مراد : اب سوال یہ ہے کہ لیلۃالقدر سے مراد اس آیت میں کیا ہے کیا حقیقی لیلۃیا مجازی؟اس بارہ میں پہلے مفسرین کا رحجان اسی طرف ہے کہ اس سے مراد حقیقی رات ہے جس میں ان کے نزدیک سارا قرآن لوح محفوظ سے بیت العزۃ پر اترا۔یا یہ کہ اس رات کو نزول قرآن کی ابتداء ہوئی۔جہاں تک یہ سوال ہے کہ قران کریم رمضان میں اترنا شروع ہوا یہ تو تاریخی شہادتوں سے یقینی امر معلوم ہوتا ہے اس لئے شھر رمضان الذی انزل فیہ القرانکے ایک یہ معنے ضرور ہیں کہ قرآن کریم رمضان میں اترنا شروع ہو ا۔باقی رہا کہ وہ کس رات کو اترا اس کے بارہ میں تاریخ میں اختلاف ہے ۔سعید بن جبیر نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ قرآن کریم نصف رمضان میں نازل ہو ا۔گویا پندرہ یا سولہ کو اس کا نزول ہوا ۔جو روایت اوپر بیان کی گئی ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چوبیس رمضان کو نازل ہوا ۔بعض کا خیال ہے کہ بدر کی جنگ سترہ (۱۷)رمضان کو ہوئی تھی اس لئے یہی رات قرآن کریم کے نزول کی بھی ہے ۔کیونکہ ان کے نزدیک قرآن کریم کی آیت یومالتقی الجمعان یوم الفرقان(سورۃ الا نفال ۵ع۱)اسی طرف اشارہ کرتی ہے ۔غرض اس رات کے متعلق جسے لیلۃالقدر کہا گیا ہے اختلاف ہے اور اسکی اہمیت تاریخی تحقیق سے زیادہ ہے بھی نہیں ۔کیونکہ جس تاریخ کو قرآن کریم نازل ہو ااس کے معلوم ہونے سے روحانیت کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچتا۔محدثین عام طور پر چوبیس تاریخ کی رو ایت کو مقدم بتاتے ہیں چنانچہ ابن حجر عسقلانی بخاری کی مشہور شرح کے مصنف اور علامہ زرقانی مواہب اللدنیہ سیرۃنبی کریمﷺ کے شارح مواہب اللدنیہ آٹھ جلدوں میں لکھی ہے دونوں نے اسی روایت کو ترجیح دی ہے کہ قرآن کریم رمضان کی چوبیس تاریخ کو اترنا شروع ہوا ۔اس کے بر خلاف مورخ زیادہ تو سترھویں رمضان کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔اور قرآن کریم کا یہ فرمانا کہ ہم نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے اور اسکی یاد میں رمضان کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کا مقرر کیا جانا یہ دونوں باتیں مل کر اس امر کو ثابت کر دیتی ہیں کہ قرآن کریم کا نزول بہر حال رمضان میں شروع ہوا۔پس اگر اس آیت کے یہ معنے کئے جائیں کہ قرآن کریم کے نازل ہونیوالی مخصوص رات لیلۃ القدر تھی تو اس لحاظ سے محد ثین کے فیصلہ کے مطابق یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ لیلۃ القدر سے مراد اس جگہ چوبیس رمضان ہے اور آیت کے یہ معنے ہونگے کہ ہم نے چوبیس رمضان کو قرآن کریم نازل کیا ہے جو نزول قرآن کی وجہ سے لیلۃ القدر کہلانی چاہیئے۔لیکن تاریخی تحقیق کے مطابق صرف اتنا معلوم ہو گا کہ قرآن کریم کے نزول کا زمانہ رمضان کی کسی تا ریخ کو تھا۔
اس رات کو جس میں قرآن کریم نازل ہوا لیلۃ القدر کیوں کہا گیا ہے اس کی وجہ خود لفظ قدرسے ظاہر ہے ۔حل لغات میں قدرکے معنے لکھے جا چکے ہیں لیکن یاد کو تازہ کرنے کے لئے دو لغات کی کتابوں میں سے کہ ایک قرآن کریم کی لغت کی خاص تفسیر ہے اور ایک عام عربی زبان کی لغت کی اہم کتاب ہے قدرکے معنے دوبارہ یہاں لکھ دئے جاتے ہیں۔
مفردات راغب ہیں جو قرآن کریم کی لغت کی ایک معتبر کتاب ہے لکھا ہے القدر والتقدیر تبیین کمیۃ الشیء۔قدراور تقدیر کے معنے کسی چیز کے اندازہ کا ظاہر کرنا ہوتے ہیں ۔پھر لکھا ہے تقدیر اللہ الا شیاء علی وجھین احدھماباعطاء القدرۃ والثانی بان یجعلھا علی مقدار مخصوص ووجہ مخصوص حسبما اقتضت الحکمۃو ذالک ان فعل اللہ تعالی ضربان ضرب او جدہ بالفعل و معنی ایجادہ بالفعل ان ابد عہ کا ملا دفعۃ واحدۃ لا تعتریہ الزیا دۃ والنقصان الی ان یشاء ان یغنیہ او یبدلہ کا لسموت وما فیھا و منہا ما جعل اصولہ موجودۃ بالفعل و اجزاء ہ بالقوۃ و قدرہ علی وجہ لا یتأتی منہ غیر ماقدرہ فیہ کتقدیرہ فی النواۃ ان ینبت منہ النخل دون التفاح والیزیتون۔ فتقدیراللہ علی وجھین احدھما بالحکم منہ ان یکون کذا اولا یکون کذا امن اعلی سبیل الوجود و اما علی سبیل الامکان و علی ذالک قولہ قد جعل اللہ لکل شی ء قدرا (طلاق ۱ع ۱۷) والثانی باعطاء القدرۃ علیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و قولہ انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ای لیلۃ قیضنا ھا لامور مخصوصۃ۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی تقدیر دو طرح ظاہر ہوتی ہے (۱) کسی کو قدرت دے کر(۲)دوسرے اس طرح کہ کسی چیز کو حکمت کے تقاضٰی کے مطابق مخصوص اندازہ پر بناتا ہے اور مخصوص طریق پر اس کی ساخت کی بناء رکھتا ہے اور یہ اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ایک تو یہ کہ کسی چیز کو ایک ہی بار مکمل طور پر پیدا کر دیتا ہے ۔پھر اسکے بعد اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی جب تک کہ اسے خدا تعالیٰ فنا نہ کر دے یا بدل نہ ڈالے جیسے کہ زمین وآسمان کی پیدائش ہے اور ایک تقدیر اس کی اس طرح ہوتی ہے کہ ایک چیز کو اس طرح پیدا کرتا ہے کہ اصولی طور پر تو وہ موجود ہوتی ہے مگر اس کے تفصیلی خواص پوشیدہ ہوتے ہیں مگر ہوتے موجود ہیں ۔ان کے خلاف اس چیز سے کچھ ظاہر نہیں ہو سکتا ۔مثلا کھجور کی گٹھلی ہے اس گٹھلی میں اصولی طور پر کھجور کی خاصیتیں موجود ہیں مگر کھجور کی تفصیلات اس سے گٹھلی ہونے کی حالت میں ظاہر نہیں مگر جب بھی اسے بوئو اس میں سے کھجور ہی نکلے گی ۔سیب یا زیتون نہیںنکلے گا۔پس اس کی تقدیر جمالی ہے مگر وہ اجمال ایک تفصیل کو اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے جب وہ اجمال کھلنا شروع ہو گا اس سے وہی تفصیل پیدا ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے اس میں مخفی رکھی ہے اس کے خلاف اور کوئی تفصیل پیدا نہ ہوگی۔ غرض تقدیر الٰہی دو طرح ظاہر ہوتی ہے یا تو حکم سے کہ وہ فرمادیتا ہے کہ ایسا ہو یا ایسا نہ ہو۔پس جسے کہتا ہے کہ ہو جاوہ ضرور ہوتا ہے اور جس کی نسبت کہتا ہے ایسا نہ ہو اس کے لئے ہونا ممکن نہیں ہوتا ۔اسی معنوں میں قرآن کریم میں آتا ہے قد جعل اللہ لکل شیء قدرا(سورہ طلاق۱ع۱۷)کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے جو مثبت خواص اس میں رکھے ہیں ان کے سوا اس سے ظاہر نہیں ہوتے اور جن باتوں کی اس سے نفی کی ہے وہ اس سے ظاہر نہیں ہو سکتیں ۔زبان ضرور میٹھے کھٹے کے فرق کو محسوس کرتی ہے مگر سن نہیں سکتی ۔کان کو کتنا کہو نہ سن وہ ضرور سنتا ہے مگر اس سے کہو کہ چکھ تو وہ کبھی نہیںچکھتا ۔دوسرے خدا تعالی کی قدرت اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ قدرت بعض اشیاء میں پیدا کر دی ہے مگر وہ فورا ظاہر نہیں ہوتی بلکہ اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہوتی رہتی ہے گویا یوں کہہ لو کہ اس کی قدرت کے کچھ درخت ہیںاور کچھ گٹھلیاں۔قدرت کے درخت تو اپنی کامل شان سے شروع سے ہی مقررہ پھل دیتے ہیں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی ۔قدرت کی گٹھلیاںاپنے اندر مخفی مادہ رکھتی ہیںجب گٹھلی لگائو گے وہی ظاہر ہو گا جو خدا تعالی نے اس میں طاقت رکھی ہے مگر گٹھلی نہ لگائو تو خدا تعالی کی تقدیر اس گٹھلی کے ساتھ ہی غائب ہو جائے گی گویا یہ قدرت ضرور نہیں کہ ظاہر ہو مگر جب ظاہر ہو گی تو اسی طرح ظاہر ہو گی تو اسی طرح ظاہر ہوگی جس طرح خدا تعالی نے اس کے لئے ظاہر ہونا مقدر کیا ہے ۔انسان کے نطفہ میں انسان بننے کی قدرت ہے مگر ضروری نہیں کہ ہر نطفہ بچہ بن جائے کئی نطفے منی کے ساتھ ہی ضائع ہو جاتے ہیں ۔کئی ماں کے پیٹ سے قبل از وقت نکل جاتے ہیں ۔کئی مردہ پیدا ہوتے ہیں ۔کئی ناقص پید اہوتے ہیں ہاں جو بچہ بھی پیدا ہو گا ،ہوگا انہی خواص سے جو اللہ تعالی نے انسان میں رکھے ہیںغیر انسانی خواص لے کر پیدا نہ ہو گا۔گویا اس تقدیر کے لئے ایک نقطہ مقرر نہیں ایک دائرہ مقرر ہے اس کے اندر یہ آگے پیچھے ہو سکتا ہے ۔پھر لکھا ہے انا انزلنہ فی لیلۃ القدر سے یہ مراد ہے کہ ہم نے قرآن اسی رات میں اتارا ہے جس کو اللہ تعالی نے خاص امور کے لئے مخصوص کر چھوڑا تھا۔
مفردات کی اوپر کی عبارت سے ظاہر ہے کہقدرکے معنے اظہار قدرت کے ہیں جو دو طرح ہوتی ہے ۔اور اسی تقدیر سے جو ایک مخصوص شکل میں ظاہر ہو جاتی ہے اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی ۔صاحب مفردات نے آسمان وزمین کی مثال دی ہے مگر یہ مثال کامل نہیں بہرحال اس سے اس قسم کی تقدیر کا ایک موٹا اندازہ ہو جاتا ہے ورنہ اصل مثال اس کی وہ تقدیر ہے جو اللہ تعالی کی صفات کے متعلق ظاہر ہوتی ہے جسے قانون قدرت کہتے ہیں یعنی وہ قانون جو اللہ تعالی نے اپنی صفات کے ظہور کے لئے مقرر فرمایا ہے ۔مثلا یہ کہ مردے اس دنیا میں جسمانی طور پر زندہ ہوکر نہیںآتے ۔یا غیب کامل کا علم خدا تعالی کے بتائے بغیر کوئی نہیں جانتا ۔تک بندی ٹھیک ہو جائے تو یہ اور بات ہے علم کی بناء پر کوئی شخص غیب کامل کو اللہ تعالی کے بتائے بغیر نہیں جان سکتا وغیرہ وغیرہ ۔دوسرے ایسی تقدیر سے جو با لا جمال ظاہر ہوتی ہے ۔ایک ہی وقت میں ساری تقدیر کا اظہار نہیں ہو جاتا آہستہ آہستہ وہ تقدیر ظاہر ہوتی ہے اور ایک مقرر قانون کے مطابق ظاہر ہوتی ہے ۔پھر لکھا ہے کہ لیلۃ القدر سے مراد وہ رات ہے جسے خاص امور کے لئے اللہ تعالی نے مخصوص کر چھوڑا تھا ۔
ان معنوں کے بتانے کے بعد میں باری باری دونوں معنوں کے رو سے اس آیت کے معنے کرتا ہوں ۔پہلے معنے یہ تھے کہ قدر سے خدا تعالی کی دو قسم کی قدرتوں میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔ اسکے متعلق یاد رکھنا چاہیئے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدر کا لفظ خدا تعالی کی دونوں قدرتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ضرور دونوں قدرتوں میں سے ایک ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک نہ ایک قسم کی قدرت کی طرف اس سے ضرور اشارہ ہوتا ہے مگر ایک ہی وقت میں دونوں قدرتوں کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے۔چنانچہ جب اللہ تعالی کے لئے لفظ قدیر آتا ہے یعنی قدرت والا تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس سے نمبر اول قسم کی قدرت ظاہر ہوتی ہے یا نمبر ۲ قسم کی قدرت ظاہر ہوتی ہے بلکہ اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس سے دونوں قسم کی قدرتیں ظاہر ہوتی ہیں۔اسی طرح اگر کسی جگہ قدر کا لفظ آئے توگو کبھی اس سے قسم اول کی قدرت مراد ہو گی اور کبھی قسم دوم کی۔ یا کبھی اور کسی تیسری قسم کی قدر مراد ہو گی لیکن کبھی وہ سب قسم کی قدر وں کی طرف ایک ہی وقت میں اشارہ کرتا ہو گا ۔اس جگہ بھی یہی معنے ہیں اور القدرمیں الجنسی استغراقی ہے یعنی جتنی قسم کی قدریں ہیں وہ سب اس رات میں جمع تھیں۔مفردات راغب نے دو قدریں لکھی ہیں ۔لیکن بات یہ ہے کہ یہ دو قسمیں پھر آگے دو قدروں میں تقسیم ہوتی ہیں یونی اول قسم کی روحانی قدر اور اول قسم کی جسمانی قدر ۔اور دوم قسم کی روحانی قدر اور دوم قسم کی جسمانی قدر ۔اسی طرح اور قسم کی کئی قدریں ان سے نکلتی چلی آئیں گی۔پس قدرکے لفظ پر الاستعمال کر کے اللہ تعالی نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جس رات میں قرآن کریم نازل ہوا اس میں سب قسم کی خبریں جمع ہو گئی تھیں اور وہ رات تمام قدروں کا مجموعہ تھی ۔
جیسا کہ مفردات راغب والوں نے بتایا ہے کہ پہلی تقسیم قدر کی یہ ہے کہ وہ دفعۃً پیدائش کاملہ والی قدراور آہستہ آہستہ ظاہر ہونے والی اجمالی قدر کی دو قسموں میں منقسم ہو جاتی ہے ۔ان معنوں کی رو سے اس آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم نے یہ دونوں قدریں اس رات میں جمع کر دی تھیں ۔پھر یہ دونوں قدریں جیسا کہ میں بتا چکا ہوںآگے جسمانی اور روحانی قدروں میں تقسیم ہو جاتی ہیںاس لحاظ کے اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ قرآن کریم جس رات میں نازل ہوا تھا اس میں یہ چاروں قسم کی قدریں جمع تھیں۔دفعۃً کامل ظہور والی جسمانی قدر بھی اور روحانی قدر بھی اورآہستہ آہستہ مناسب موقعہ اپنے وجود کو ظاہر کرنے والی جسمانی قدر بھی اور روحانی قدر بھی ۔اب ہم ان قدروں میں سے ایک کو لے کر دیکھتے ہیں کہ کیا نزول قرآن کی رات میں اس کا وجود پایا جاتا تھا ۔پہلی قدر یکدم ظاہر ہونے والی جسمانی قدر ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ سورج یا چاند کی پیدائش کہ شروع دن سے ایک مقصد کے لئے پیدا کئے جاتے ہیں اور جب تک مقدر ہے اپنے کام کو ایک ہی شان سے کرتے جائیں گے ۔اس قدر کے مشابہ رسول کریم ﷺ ک اوجود تھا ۔قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے یاایھا النبی انا ارسلنک شاھداومبشراونذیراوداعیاالی اللہ باذنہ وسراجا منیرا(احزاب۶ع۳آیت۴۶،۴۷)یعنی اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور بشارت دینے والا ،اور ہوشیار کرنے والا اور اللہ تعالی کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور روشن سورج بنا کر بھیجا ہے ۔اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ رسول کریمﷺکی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ سورج کی طرح ہیں۔یعنی آپکے بعض وصف شروع دن سے کامل بنائے گئے تھے اور ان کا ظہور آپکی روحانی پیدائش کے ساتھ ہی مکمل ہو گیا تھا ۔وہ وصف کیا تھے؟انکی طرف اشارہ لفظ سورج سے کردیا گیا ہے ۔سورج کے اندر اپنی پیدائش کے لحاظ سے دو خاص وصف ہیں(۱)اول یہ کہ سب اجرام اسکے گرد چکر لگاتے ہیں (۲)دوم یہ کہ وہ اپنے گرد کی اشیا ء کو روشن کرتا ہے ۔جہاں تک اس کے گرد چکر لگانے کا سوال ہے تمام اجرام بغیر استثناء اس کے گرد چکر لگاتے ہیںاور جہاں تک روشنی دینے کا سوال ہے وہ چیزیں جو اس کے سامنے آجاتی ہیں انہیں وہ روشنی دیتا ہے اس کی پہلی صفت کو جسمانی کہنا چاہئیے اور دوسری کوروحانی۔کیونکہ روحانی صفت کی یہ خصوصیت کہ اس کا ظہور تعلق کی بناء پر ہوتا ہے ۔جیسے اللہ تعالی کی مادی نصرتیں تو ہر شخص کو خواہ مومن ہو خواہ کافر ملتی ہیں لیکن روحانی نصرتیں صرف انہی کو ملتی ہیں جو اس کے نور کے سامنے اپنی روح اور اپنے دل کو کر دیتے ہیں ۔
جس دن قرآن کریم نازل ہوا اسی کے مشابہ جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی قدرتیں ظاہر ہوئیں محمد رسول اللہ ﷺپر جونہی پہلا کلام نازل ہوا آپ دنیا کے لئے سورج قرار دے دئیے گئے اور دنیا کے لئے یہ مقرر کر دیا گیا کہ وہ آپ کے گرد چکر لگائے بے شک رسول کریمﷺ کا روحانی ارتقائہوتا چلا گیا اور اب تک ہو رہا ہے مگر جہاں تک آپ کے گرد تمام دینی اجرام کے چکر لگانے کا سوال ہے اس میں کوئی فرق نہیں آیا ۔جس رات کو آپ پر خدا تعالی کلام نازل ہوا اس رات کو بھی آپ پر ایمان لانا ایسا ہی ضروری تھا جتنا کہ آپ کی زندگی کی آخری گھڑی میں ضروری تھا گویا جو شخص بھی خدا تعالی کے فضل کو حاصل کرنا چاہے اس کے لئے تھا کہ آپ کے گرد گھومے۔کیونکہ آپ اپنی بعثت کی گھڑی سے دنیا کے لئے سورج کی طرح ہو گئے تھے۔تمام نظام عالم کا مدار آپ پر رکھ دیا گیا تھا۔اس کا ظاہر ی نشان خدا تعالی نے یہ مقرر فرمایا کہ جس طرح سورج کو خدا تعالی کے سوا کوئی توڑ نہیں سکتا اسی طرح آپکی ذات کو بھی پہلے کالم کے نزو ل کے وقت سے دنیا کی دستبرد سے مھفوظ کر دیا گیا ۔چنانچہ شروع سے لے کر آخر تک آپ کے دشمنوں نے آپ کو قتل کرنے کے لئے بے حد زور لگایا ،سینکڑوں منصوبے کئے مگر آپ کی ذات پر آنچ نہ آئی کیونکہ آپ کا وجود سورج تھا اور سورج کو فنا کرنے پر کوئی انسان قادر نہیں ہو سکتا ۔
پہلی قدرت کی دوسری قسم روحانی ہے ۔میں نے بتایا ہے کہ سورج کا روشنی دینا روحانی ظہور کے مشابہ ہے کیونکہ روشنی سے وہی فائدہ اٹھا تا ہے جو اسکی طرف منہ کرتا ہے اور روحانی امور کی ہی خصوصیت ہے کہ ہر شخص ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ وہی فائدہ اٹھاتا ہے جو ان کی طرف رغبت کرتا ہے ۔یہ قدرت بھی کامل طور پر رسولکریمﷺ میں پائی جاتی تھی کلام الہٰی کے نازل ہونے کے ساتھ ہی آپ کو فیض روحانی پہنچانے کی قدرت اسی رنگ میں عطا کی گئی جس رنگ میں کہ سورج کو روشنی دینے کی قدرت حاصل ہے جب سے سورج بنا ہے وہ روشنی دیتا ہے اور یکساں روشنی دیتا ہے لیکن اسی کو دیتا ہے جو ا سکے لئے اپنے دروازے کھول دیتا ہے ۔اسی طرح رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے روحانیت کا نور بخشنے کی طاقت بخشی ہے اور اسی دن سے بخشی ہے جب سے کہ آپ نبی ہوئے ہیں اور یہ طاقت گھٹتی بڑھتی نہیں ۔یہ نہیں کہ پہلے دن آپ کا فیض کم تھا اور بعد میں زیادہ ہو گیا جس طرح سورج کی روشنی پہلے دن سے ایک سی ہے اسی طرح آپ کا فیضان نبوت کی پہلی گھڑی سے یکساں ہے نہ اس وقت زیادہ اوراب کم ۔نہ اس وقت کم تھا اور اب زیادہ ہے ۔صرف روشنی لینے والے کے ظرف کا فرق ہے ۔جس طرح زیادہ کھلے دروازوں والے مکان میں روشنی زیادہ پڑتی ہے اور تنگ دروازوں والے مکان میں کم روشنی پڑتی ہے اسی طرح جو اپنے دل کو وسیع کرتا ہے آپکے فیض مبارک سے زیادہ حصہ پا لیتاہے اور جو اپنے دل کو تنگ کرتا ہے وہ کم حصہ پاتا ہے ۔لیکن جہاں تک آپ کے فیض کا تعلق ہے وہ شروع سے ا سوقت تک یکساں رہا ہے اور قیامت تک یکساں رہے گا ۔
غرض جس رات قرآن کریم نازل ہوا اسی رات ایک دم کامل طور پر ظاہر ہونے والی جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی قدرتیں ظاہر ہوئیں اور ایسے کامل طور پر ظاہر ہوئیں کہ اس سے پہلء کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں۔
دوسری قسم قدرت کی وہ ہے جو بیج کی طرح پیدا ہو کر آہستہ آہستہ پھیلتی ہے ۔اس قدرت کی جسمانی اور روحانی دونوں قسموں کا ظہور اس رات میں ہوا ۔چنانچہ انہی آیات میں جو اس دن آپ پر نازل ہوئیں یہ آیت ہے خلق الا نسان من علق جس کے ایک یہ معنے ہیں کہ انسان کی پیدائش یکدم نہیں ہوئی بلکہ وہ پہلے خون کا ایک چھوٹا سا لوتھڑا ہو تا ہے پھر آہستہ آہستہ ترقی کر کے کمال کو پہنچتا ہے اسی طرح اسلام کی جسمانی اور روحانی ترقی ہوگی۔چنانچہہم دیکھتے ہیں کہ پہلے دن اسلام کی گٹھلی جو سورہ علق کے ذریعہ سے رکھی گئی بڑھتے بڑھتے قرآن کریم کے درخت کی شکل اختیار کر گئی جو ا سکا جسمانی ارتقاء تھا۔درحقیقت سارا قرآن ان چند آیتوں کی تفسیر ہے جو پہلے دن نازل ہوئیں کیا ہی لطیف خلاصہ قرآنی تعلیم کا یہ آیات ہیںاقرا باسم ربک الذی خلق ۔اپنے رب کے نام سے پڑھ ۔یعنی ان صفات الٰہیہ کا اظہار کر جو اس وقت تک تجھ پر روشن ہو چکی ہیں کیونکہ وہ انکشاف جو تجھ پر صفات الٰہیہ کا ہوا ہے وہی درست ہے اور اسکے سوا سب تشریحیں صفات الٰہیہ کی غلط ہیں ۔الذی خلقیعنی جس نے سب مخلوق کو پیدا کیا ہے ۔اس لئے سب مخلوق پر اس کا تصرف ہے اور وہ اس کے قبضہ میں ہے توحید باری کا اعلان کرنے کے بعد دنیا تیری مخالفت کرے گی مگر گھبرانے کی بات نہیںآخر مخلوق اللہ تعالی سے وابستہ ہے جب تو خالق کی فرمانبرداری میں لگا ہو گا تو مخلوق تیرا کیا بگاڑ سکتی ہے خلق الا نسان من علق اور یاد رکھ کہ گو تیری باتیں اس وقت تیرے مخاطبوں کو کتنی بری لگیں کتنی عجیب لگیں لیکن انسا ن کے اندر خدا تعالی کو ملنے اور بنی نوع انسان سے نیکی کرنے کی خواہش مخفی طور پر رکھی گئی ہے ۔پہلے لوگ تیرے دشمن ہونگے،خدا تعالی سے منہ موڑنے والے ہونگے،بنی نوع انسان پر ظلم توڑنے والے ہونگے۔لیکن آہستہ آہستہ ان کی اصلاح ہو تی جائے گی اور وہ خدا تعالی کے ساتھ بھی صلح کر لیں گے اور بنی نوع انسان سے بھی ان کے تعلقات اچھے ہو جائیں گے ۔پھر فرماتا ہے اقرا وربک الاکرام الذی علم بالقلم علم الانسان ما لم یعلم۔ہا ں ہاں پڑھ اپنے معزز ترین رب کی مدد سے یعنی ایسی تعلیم کے پیش کرنے پر ضرور مخالفت ہوتی ہے اور خصوصا روحانی اور جسمانی لیڈر شرارت پر آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن خواہ دنیاوی لیڈر ہوں یا مذہبی ،تو ان کی پرواہ نہ کیجیئو کیونکہ ان سب معززوں سے زیادہ معزز خدا تعالی کی ذات ہے وہ تیرے ساتھ ہو گی ۔کیونکہ اس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب انسان کو ارتقاء کی آخری منزل تک پہنچادے اور آئندہ علوم زبان کی بجائے قلم کے ذریعہ سے سکھائے جائیں یعنی علوم کی حفاظت کے لئے قلم کا ستعمال اب بڑھ جائے گا ۔پھر فرماتا ہے کہ خدا تعالی اب ایسے مادی اور روحانی علوم دنیا کو سکھائے گا کہ اس سے پہلے انسان ان سے آگاہ نہ تھا۔
غور کور جو کچھ قرآن کریم میں نازل ہوا ہے سب انہی آیات کی تشریح ہے۔آخر قرآن کیا ہے؟خدا تعالی اور اسکے بندوں کے درمیان صحیح تعلقات کی تعلیم۔یہ دونوں باتیں اجمالا ان آیات میں آگئی ہیں اور اسطرف بھی اشارہ ہے کہ یہ آیات تو ایسی ہیںجیسے کہ ماں کے پیٹ میں نطفہ کی ابتدائی حالت ہوتی ہے۔ان آیات میں بتائی ہوئی تفسیر ترقی کرے گی اور بڑھتے بڑھتے جاندار بچہ اور پھر عالم و فاضل مرد کی طرح ہوجائے گی جو قلم سے کام لیتا ہے اور علوم و فنون کا مخزن ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان آیات میں دونوں باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ایک تو یہ کہ قرآن کریم کی یہ آیات بڑھ کر ایک مکمل کتاب ہوجائیں گی اور دوسرے یہ کہ کتاب کی رو سے انسان علقہ کی حالت سے ترقی کر کے مرد کامل ہو جایا کریں گے قرآن کی تکمیل جسمانی قدرت کا ظہور ہے اور انسانوں کی روحانیت کی تکمیل روحانی قدرت کے ظہور کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ دونوں قدرتیںایسی نہیںکہ یکدم ظاہر ہوئی ہوںیا ہوتی ہوں۔قرآن کریم جب نازل ہوا تو آہستہ آہستہ بڑھتا گیا اور اب بھی جو اسے پڑھتے ہیں آہستہ آہستہ ہی پڑھتے ہیں ۔نہ پہلے یکدم نازل ہوا نہ اب کوئی یکدم اس سے واقف ہوتا ہے ۔اسی طرح روحانی ترقیات جو اسلام کے ذریعہ سے ملتی ہیں وہ بھی گو مبنی تو اسی پیغام پر ہیں جو پہلی رات کو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا مگر ایمان کے مطابق آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہیں اور اس طرح دوسری قسم کی قدرت کے روحانی ظہور کا نمونہ پیش کرتی ہیں۔
دوسرے معنے قدر کے مفرادت راغب نے یہ کئے ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کو اس رات میں اتارا ہے جسے اس نے اپنی خاص قدرتوں کے لئے مخصوص کر چھوڑا تھا ۔یہ معنے بھی درست ہیں کیونکہ رسول کریمﷺکے زمانہ کی خبریں پہلی کتب میں بکثرت موجود تھیں اور آپ کے زمانہ کے نشانات اور اس کی علامات نبیوں کے منہ سے خدا تعالی بیان کروا چکا تھا ۔عین اس بیان کے مطابق قرآن نازل ہوا ۔پس اس آیت میں فرماتا ہے کہ ہم نے اس قرآن کو اسی زمانہ میں اتارا ہے جس میں اس کے اترنے کی پہلے انبیاء خبر دے چکے ہیں۔پھر اس کے ماننے میں تم کو کیا تردد ہو سکتا ہے ۔جب زمانہ وہی ہے جس میں اس موعود نبی اور موعود شریعت نے آنا تھا ۔اور یہ مدعی تمہارے نزدیک جھوٹا ہے اور اسکی کتاب خدا تعالی پر نعوذ باللہ افتراء ہے تو پھر تم بتائو کہ سچاموعود اور سچی شریعت ہے کہاں؟اگر کہو کہ کہیں بھی نہیں تو پھر تم محمد رسول اللہﷺ کا انکار کرنے والے نہ ہو گے بلکہ ساتھ ہی اپنے نبیوں کا انکا رکرنے والے بھی بنو گے۔کیونکہ انہوں نے اس زمانہ میں ایک شریعت کے آنے کی خبر دی ہے ۔اگر یہ جھوٹا ہے اور دوسرا کوئی سچا موعود موجود نہیں تو پھر تمہاری کتابیں بھی جھوٹی ہیں اور تمہارے انبیاء بھی جھوٹے ہیں۔
اقرب المواردنے قدر کے معنے درج ذیل کئے ہیں:۔
(۱)برابر کی چیز کہتے ہیںھذا قدر ھذا۔یہ چیزاس کے برابر کی ہے (۲)حرمت(۳)وقار(۴)غناء(۵)قوت(۶)سہولت۔ان معنوں کے رو سے اس آیت کے معنے یوں بنیں گے۔
۱:۔ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے جو قیمت میں بابر ہے۔
۲:۔ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے حرمت والی ہے۔
۳:۔ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے جو وقار والی رات ہے۔
۴:۔ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے جو غناء والی رات ہے ۔
۵:۔ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے جو قوت والی رات ہے۔
۶:۔ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتاراہے جو سہولت والی رات ہے۔
اب ہم ان چھٹوں معنوں کے متعلق دیکھتے ہیں کہ آیا یہ قرآن کریم پر صادق آتے ہیں یا نہیں ۔
پہلے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ برابر قیمت والی رات میں ہم نے قرآن کریم کو اتارا ہے چونکہ جس چیز کے وہ برابر ہے اس کا یہاں ذکر نہیں ۔اسلئے ہم مقابل والی چیز کو محدود نہیں قرار دے سکتے اور ہمیں اس کے یہی معنے کرنے پڑیں گے ہم نے قرآن کریم کو اس رات میں اتارا ہے جو قیمت میں باقی ساری راتوں کے برابر ہے یعنی یہ رات باقی تمام دنیا کی عمر کے مطابق قیمت رکھتی ہے۔یہ معنے قرآن کریم پر چسپاں ہوتے ہیں۔قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ خاتم النبیین ہیں اور قرآن کریم خاتم الکتب ہے۔قرآن کریم میں انسان کی ترقیات کے لئے سب تعلیمات آگئی ہیں اور قرآن کریم ہی روحانی ارتقاء کا آخری نقطہ ہے پس جب قرآن کریم آخری تعلیم ہے اور محمد رسول اللہﷺ آخری شارع نبی ہیں تو یہ ثابت ہوا کہ باقی تمام انبیاء اور باقی تمام کتب مقصود نہیں بلکہ صرف ذریعہ ہیں اور وہ ذرائع خواہ کتنے بھی زیادہ ہوں وہ مقصود سے ذیادہ اہم نہیں ہو سکتے۔پس یہ کہناکہ ہم نے قرآن کریم کو برابر والی رات میں اتارا ہے درحقیقت اس کے یہی معنے ہیں کہ یہ قرآن آخری کتاب ہے اور یہ اکیلی ان تمام شریعتوں کے مقابلہ میں ہے جو اس وقت تک اتر چکی ہیں اور قرآن کریم کے نزول کا زمانہ اپنی برکات کے لحاظ سے ان تمام انبیاء کے زمانوں کے برابر ہے جو کبھی خدا تعالی کی طرف سے آئے تھے پس انا انزلنہ فی لیلۃالقدرمیں درحقیقت قرآن کریم کے آخری اور سب سے مکمل کتاب ہونے کا دعویٰ بیان کیا گیا ہے اور ان چھوٹے سے الفاظ میں قرآن کریم کی ان ہزاروں خوبیوں کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے جو خدا تعالی نے اس کے الفاظ میں مخفی رکھی ہیں ۔اس مضمون کو اگر تفصیل سے بیان کیا جائے تو اس کے لئے کئی ہزار صفحات کی ایک مستقل کتاب چاہیئے اس لئے میں تفصیل میں نہیں جاتا اسی قدر مضمون کا بیان کرنا کافی سمجھتا ہوں۔
دوسرے معنے اس آیت کے لغت کے لحاظ سے یہ بتائے گئے ہیں کہ قرآن کریم حرمت والی رات میں اترا ہے یعنی قرآن کریم کا نزول ایک ایسی رات میں ہوا ہے یا ایسے تاریک زمانہ میں ہوا ہے جس کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔جو چیز عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے وہ کبھی مٹائی نہیں جاتی۔قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے اما ما ینفع الناس فیمکث فی الا رض(سورہ رعد ۲ع۸)جو چیز نفع رساں ہوتی ہے وہ ہمیشہ کے لئے قائم رکھی جاتی ہے ۔بیت اللہ کو بھی بیت الحرام کہا جاتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور اس کے اعزاز کو ہمیشہ قائم رکھا جاتا ہے پس حرمت والی رات کے معنے یہ ہیں کہ جس کے حقوق کو ہمیشہ قائم رکھا جائے گا ۔ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے بنتے ہیں کہ قرآن کریم اس زمانہ میں اترا ہے جو آخری زمانہ ہے اور جس زمانہ کو کوئی اور زمانہ بدلے گا نہیںاور ہمیشہ اس زمانہ کی عزت کو قائم اور اسکی حکومت کو استوار رکھا جائے گا ۔یہ معنے بھی قرآن کریم پر چسپاں ہوتے ہیں کیونکہ قرآن کریم کے نزول کا زمانہ ہمیشہ کے لئے دنیا کی راہنمائی کا زمانہ قرار دیا گیا ہے ۔جب بھی کوئی شخص ہدایت اور ر اہنمائی حاصل کرنا چاہے اس کو اسی رات کی طرف نظر اٹھانی پڑتی ہے اور اسی رات کی برکتیں انسان کو ہدایت اور راستی پر لا سکتی ہیں اور کبھی بھی اس رات سے نکلی ہوئی ہدایت اور راستی کی راہیں مسدود نہیں ہوتیں۔وہ چلی آتی ہیں اور چلی جائیں گی او ر قیامت تک ان کا سلسلہ ممتد رہے گا ۔
تیسرے معنے اس آیت کے یہ تھے کہ قرآن کریم وقار کی رات میں اتارا گیا ہے ۔قار کے معنے بوجھ ،سمجھ اور عقل کے ہوتے ہیں۔پس اس آیت کے یہ معنے ہوئے کہ قرآن کریم ایک ایسی رات میں اتارا گیا ہے جو عقل اور سمجھ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور بوجھل ہے یعنی جس کی تعلیمات دشمن کے حملہ اور اس کی تنقید سے اپنی جگہ سے ہل نہیں جاتیں۔یہ معنے بھی قرآن شریف پر پوری طرح چسپاں ہوتے ہیں ۔قرآن کریم کی تعلیم اعلی درجہ کی حکمتوں پر مبنی ہے اور ہر ایک حکم جو دیا جاتا ہے اس کی وجہ بھی بتائی جاتی ہے ۔کیوں اس حکم پر عمل کرنا چاہیئے،اس کے کیا فوائد ہیں ،اس کو چھوڑا جائے تو اس کے کیا نقصانات ہوں گے۔اور اسطرح وزنی دلائل سے اسے ثابت کیا جاتا ہے کہ کسی فلسفہ کی تنقید بھی اسکے دلائل کو رد نہیں کر سکتی ۔جو کچھ وہ کہتا ہے وہ ایسی وزنی چیز ہوتی ہے کہ دشمن خواہ اس کو کتنا بھی دھکیلنے کی کوشش کرے آخر اسے شکست تسلیم کرنی پڑتی ہے۔
چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ قرآن کریم ایک ایسی رات میں نازل ہوا ہے جو غناء والی رات ہے ۔غناء کے معنی عربی زبان میں ضرورت کے پورا ہونے اور سہولت کے ہوتے ہیں ۔اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہونگے کہ قرآن کریم اس رات میں نازل ہوا ہے یا اس تاریک زمانہ میں نازل ہوا ہے جو ضرورتوں کو پورا کرنے والا تھا ۔یہ معنے بھی قرآن کریم پر صادق آتے ہیں کیونکہ قرآن کریم کا دعوی ٰ ہے کہ وہ ہر قسم کی روحانی اور دینی ضرورتوں کو پورا کرنے والاہے ۔چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے اولم یکفھم انا انزلنا علیک الکتاب یتلی علیھم(سورہ عنکبوت۵ع۱)کیا ان لوگوں کے لئے کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پر یہ مکمل کتاب اتاری ہے جو سنائی جاتی ہے ۔اسی طرح قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ وہ تفصیل الکتاب ہے (سورہ یونس۴ع۹)یعنی شریعت کی تمام تفصیلات کو بیان کرتا ہے ۔اسی طرح قرآن کریم میں بیان فرمایا گیا ہے وتفصیل کل شیء وھدی ورحمۃ لقوم یومنون(سورہ یوسف۱۲ع۶)یعنی قرآن کریم کی تمام ضروری دینی امور کی تفصیل بیان کرتا ہے اور ہر قسم کے مومنوں کے لئے اس میں ہدایت اور رحمت ہے ۔خواہ اسی آیت زیر تفسیر میں بھی اس مضمون پر روشنی ڈالی گئی ہے چنانچہ فرمایاتنزل الملئکۃوالروح فیھا باذن ربھم من کل امر ہر قسم کی باتیں اللہ تعالی کے اذن سے ملائکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیلۃالقدر کی رات میں لے کر نازل ہوتے ہیں ۔پس قرآن کریم وہ کتاب ہے جو تمام دوسری مذہبی کتب سے انسان کو مستغنی بنا دیتی ہے اور تمام ضراری امور اس میں بیان ہوئے ہیں پس اس کا نزول غناء والے زمانہ میں ہوا ہے۔
پانچویں معنے اس لفظ کے قوت کے ہیں جس کی رو سے اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ قرآن کریم قوت والی رات میں نازل ہوا ہے یعنی اس رات کے ساتھ خدا تعالی کی قوت اور اسکی طاقت وابستہ ہے ۔چنانچہ یہ معنے بھی قرآن کریم پر صادق آتے ہیں اور یہ معنے مفردات امام راغب کے معنوں کے سلسلہ میں اوپر بیان ہو چکے ہیں اس لئے اس جگہ اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں ۔
چھٹے معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم سہولت والی رات میں نازل ہوا ہے۔یہ معنے بھی قرآن کریم اور اس کے زمانہ پر صادق آتے ہیں۔پہلی کتابوں کو دیکھو ان کے اندر مذہب کی بھول بھلیاں بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔نہ عقائد سمجھ میں آسکتے ہیں نہ اعمال قابل اتباع ہیں ۔یہودیوں اور ہندئووں کی تعلیم عبادت کے متعلق اگر لی جائے تو اتنی اتنی شرطیں بلا وجہ عبادت کے ساتھ لگا دی گئی ہیںکہ اول تو سارے آدمی اس طرح عبادت کر ہی نہیں سکتے اور اگر کریں تو تکلیف مالا یطاق میں پڑتے ہیں ۔دوسرے ایسے وہموں میں مبتلا ہوتے ہیں جن کو تسلیم کرنا انسانی دماغ کے لئے بڑا دوبھر اور مشکل ہوتا ہے ۔قرآن کریم ہی ایک ایسی تعلیم ہے جس کا ماننا انسان کے لئے آسان اور جس پرعمل کرنا بھی انسان کے لئے آسان ہے ۔چنانچہ قرآن کریم خود یہ دعویٰ فرماتا ہے کہولقد یسرنا القران للذکر فھل من ممدکر(سورہ قمر۲ع۹)ہم نے قرآن کریم کو کیا بلحاظ دماغ اور کیا بلحاظ عمل کے آسان کر دیا ہے ۔پس کای کوئی شخص ایسا ہے جو نصیحت حاصل کرے یا عمل کرے ۔اس جگہ پر لفظ ذکر استعمال کر کے دونوں معنے لے لئے گئے ہیں ۔ذکر کے معنے یاد کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور عمل کرنے کے بھی ہوتے ہیں پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیمات کا دماغ میں سے گذرنا بھی انسان پر آسان رہتا ہے یعنی ان کا ماننا انسان کو دوبھر معلوم نہیں ہوتا اور قرآن کریم کی تعلیموں پر عمل کرنا بھی انسان کے لئے آسان ہوتا ہے کیونکہ اس میں ہر طاقت اور قوت اور ضعف اور کمزوری کالحاظ رکھا گیا ہے ۔مثلا نماز کا حکم ہے اس کے لئے ارشاد ہے کہ نماز مسجدوں میں پڑ ھنی چاہیئے لیکن ساتھ ہی یہ ارشاد ہے کہ ساری زمین ہی خدا تعالی کی مسجد ہے گویا نہ کسی خاص قسم کے مکان کی ضرورت ہے نہ خاص قسم کے سامان کی ضرورت ہے نہ نماز پڑھنے کے لئے کسی خاص قسم کے پادری یا پنڈت کی ضرورت ہے ۔جس زمین کا چاہو صاف کر لو اور مومنوں میں سے جس کو چاہے آگے کھڑا کر کے نماز پڑھ لو۔لیکن اگر کوئی شخص بیمار ہے یا سفر پر ہے تو جماعت کے بگیر بھی نماز ہو سکتی ہے ۔نماز کے لئے وضو کی شرط ہے لیکن اگر انسان بیمار ہو یا پانی نہ ملے تو وہ بغیر وضو کے تیمم سے بھی نماز پڑھ سکتا ہے ۔اگر اتن ابیمار ہے کہ کھڑا نہیں ہو سکتا تو گھر میں بیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتا ہے اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی طاقت نہیں تو لیٹے ہوئے سر کے اشارہ سے بھی نماز پڑھ سکتا ہے ۔اگر اس حالت سے بھی گیا گذرا مریض ہے تو وہ انگلی یا آنکھ کے اشارہ سے بھی نماز ادا کر سکتا ہے اور جو اسکی بھی طاقت نہ رکھے وہ صرف دل میں ہی نماز کے مضمون کو دہرا کر اپنی نماز ادا کر سکتا ہے ۔بیہوش ہو جائے تو وہی نماز دوسرے وقت میں ادا کرسکتا ہے ۔اور یہ ایک ہی مثال نہیں بلکہ ہر حکم کے متعلق اسی طرح ضرورت اور طاقت کے مطابق تبدیلی پیدا کی گئی ہے ۔پس قرآن کریم کی تعلیم سہولت والی تعلیم ہے۔
اگر کوئی کہے کہ یہاں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ اس رات میں قرآن کریم نازل ہوا ہے یہ کیوں نہ کہا گیا کہ قرآن ایسا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ پر خالی قرآن کا مضمون بیان نہیں بلکہ اس سے زیادہ مضامین کی طرف اشارہ کرنا مد نظر ہے۔جیسا کہ آگے بیان کیا جائے گا ۔یہاں رسول کریم ﷺ کا بھی ذکر ہے اور رسول کریم ﷺ کے تابع اظلال کا بھی ذکر ہے۔اگر آیت کے یہ الفاظ ہوتے کہ قرآن کریم ایسی ایسی شان کا ہے تو یہ مضمون باہر رہ جاتے۔ پس زمانہ کی طرف وہ صفات منسوب کر دی گئی ہیں تا کہ یہ مضمون یکساں طور پر کتاب پر بھی چسپاں ہو اور نبی کریم ﷺ پر بھی چسپاں ہو اور دوسرے معموروں پر بھی چسپاں ہو ۔
جیسا کہ اوپر کے مضمون سے ظاہر ہے میں نے لیلۃالقدر کے دونوں معنے لئے ہیں (۱)یہ بھی کہ وہ معین رات جس میں قرآن کریم نازل ہوا قرآن کریم کے نزول کی وجہ سے ایسی اہمیت رکھتی ہے کہ اسی لیلۃ القدر کہنا چاہیئے(۲)اور یہ معنے بھی میں نے لئے ہیں کہ لیلہ سے مراد وہ رات نہیںجس میں قرآن کریم نازل ہوا بلکہ وہ تاریک زمانہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔اور یہ بتایا گیا ہے کہ ایسے تاریک زمانوں میںہی خدا تعالی کی غیرت جوش میں آکر آئندہ نیکی اور تقویٰ کی بنیا د رکھا کرتی ہے اور جب تاریکی بڑھتے بڑھتے خدا تعالی کے فضل کو کھنچتی ہے تو اس وقت وہ تاریکی کا زمانہ بظاہر تاریک ہوتا ہے لیکن بالقوہ اس کے اندر قدرت خدا وندی پائی جاتی ہے گویا لیلۃ القدر ایک جہت سے رات ہے اور ایک جہت سے دن سے بھی زیادہ شاندار ہے ۔وہ اظہار قدرت کا وقت بھی ہے اور وہ تاریک وقت بھی ہے۔دنیا کی نگاہوں میں وہ تاریکی کی انتہا کو ظاہر کرنے والا وقت ہے اور خدا تعالی کی نظر میں وہ آئندہ آنے والی عظیم الشان روشنی کے لئے ایک بیج کا کام دے رہی ہے گویا اس رات کی مشابہت رحم مادر کے ساتھ ہیجبکہ اس کے اندر نطفہ پڑ چکا ہو تا ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہییخلقم فی بطون امھا تکم خلقا من بعد خلق فی ظلمت ثلاث ذالکم اللہ ربکم لہ الملک (سورہ زمر۱ع۱۵)یعنی خد اتعالی تمہاری مائوں کے پیٹ میں درجہ بدرجہ تین قسم کی ظلمتوں میں سے گذارتے ہوئے تمہیں پیدا کرتا ہے جس کے بعد تم ایک مکمل انسان بن جاتے ہو ۔تمہارا رب ایسا ہے سب اختیا ر اسی کے قبضہ میں ہے ۔پس جس طرح رحم مادر جس کے اندر نطفہ ٹہر گیا ہو ایک تاریک کوٹھڑی کی طرح ہوتا ہے اس میں انسانی پیدائش کی بنیاد رکھی جاتی ہے ۔اسی طرح لیلۃ القدر رحم مادر کی طرح بظاہر تاریک ہے لیکن قوم اور نسل کی پیدائش کی بنیا د اس میں رکھی جاتی ہے۔
تیسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو لیلۃ القدر میں نازل کیا گیا ہے یعنی اس زمانہ میں پیدا کیا گیا ہے جس میں لوگ اللہ تعالی سے دور چلے جاتے ہیں اور آسمانی نور با لکل کھینچ لیا جاتا ہے اور اللہ تعالی کے فضلوں سے انسان محروم رہ جاتا ہے۔یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالی کا کوئی خاص بندہ نازل ہوتا ہے جو دوبارہ دنیا کو روشنی اور ہدایت کی طرف لاتا ہے ۔یہی رات نبی کی سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہوتا ہے۔ اگر دنیا پر تاریک راحانی رات نہ آئی ہو تو اللہ تعالی کی طرف سے اصلاحی نبی نہیں آیا کرتا۔
انبیاء کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک تعمیری اور ایک اصلاحی۔تعمیری انبیاء ہو ہوتے ہیں جو عقائد یا مسائل مہمہ میں خرابی کے وقت نازل ہوتے ہیں اور ایک نئے دین کی تعمیر کرتے ہیں یا ایک نئی تشریع کی بنیاد رکھتے ہیںاور اصلاحی وہ جو بغیر خرابی کے وقوع کے نبی کے کام کو جاری رکھنے کیلئے آتے ہیں ۔تعمیری نبی ایسے ہیں جیسے حضرت موسیٰؑ۔حضرت مسیحؑ۔ اور آنحضرت صعلم کہ یہ اس وقت آئے جب شرائع مٹ چکی تھیں یا ان کے معنے لوگوں کی نظروں سے غائب ہو چکے تھے۔اور اصلاحی نبی ایسے ہیں جیسے کہ حضرت ابراہیمؑ کے بعد اسحاقؑ ان کے بعد یعقوبؑ ان کے بعد یوسفؑ۔ان نبیوں کے وقت میں کوئی خرابی پیدا نہ ہوئی تھی جسے مٹانے اور پھر شریوت کو قائم کرنے کے لئے وہ آئے ہوںبلکہ ان کی بعثت کی غرض صرف یہ تھی کہ تعلیم الٰہی جو آچکی تھی اسے اپنے عمل اور نگرانی سے وہ مزید راسخ کریں یا جو اب تک نہیں مانے ان میں پھیلائیں ۔اصل میں تو یہ دونوں قسم کے نبی ایک نسبتی رات کے وقت میں ظاہر ہوتے ہیں لیکن تعمیری نبیوں کے زمانہ کی تاریکی ظاہر وباہر ہوتی ہے اور اسکا کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یر جعون(سورہ روم۵ع۸آیت۴۲)یعنی یقینا خشکی اور تری میں یعنی نبیوں کو ماننے والی اور نہ ماننے والی قوموں میں فساد ظاہر ہو چکا ہے اور یہ سب کچھ انسانوں کے اعمال سے ہوا ہے۔یعنی خدا تعالی کا کلام چھوڑ دینے کی وجہ سے یہ حالت پیدا ہوئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالی انسانوں کے بعض اعمال کی سزا جن کی سزا اس دنیا میں مقدر ہے ان کو یہاں دے گا تا اس عذاب کی وجہ سے ان کے دل میں توبی کی طرف توجہ پیدا ہو اور وہ دوبارہ خدا تعالی کی طرف رجوع کریں۔
اللہ تعالی اسی تاریکی کی حالت کی طرف اشارہ کر کے اس آیت میں فرماتا ہے انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ کو یقینالیلۃ القدر میں مبعو ث فرمایا یعنی ایسی روحانی رات میں جو تقاضا کرتی ہے کہ اس میں کوئی رسول نازل کیا جائے جو لوگوں کی اصلاح کرے اور انہیں تاریکی سے نکالے۔اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم میں رسول اللہ ﷺ کی نسبت آتا ہے یا اھل الکتاب قد جاء کم رسولنا یبین لکم کثیرامما کنتم تخفون من الکتاب ویعفواعن کثیر قد جاء کم من اللہ نور وکتاب مبینoیھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام و یخرجھم من الظلمت الی النور باذنہ و یھدیہم الی صراط مستقیم (مائدہ۳ ع ۷ آیت ۱۷) یعنی اے اہل کتاب ہمارا رسول تمہارے پاس اس لئے آیا ہے کہ بہت سے انوار بائبل کے جو تمہاری بد عملیوں کی وجہ سے ظاہر نہ ہوسکتے تھے تم پر دوبارہ ظاہر کرے اور تمہاری کمزوریوں سے در گذر کرے سنو!تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی رسول) اور سب باتیں کھول کر بیان کرنے والی ایک کتاب آئی ہے ان میں سے ہر ایک کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انہیں جو ا س کی با ت پر چلتے ہیں سلامتی کے راستوں کی طرف ہدایت بخشتا ہے اور اللہ کا رسول اللہ کے حکم سے انہیں جو اس کی بات مانتے ہیں موجودہ ظلمت سے نکال کر خاص نور کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی طرف لے جاتا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ کا زمانہ تاریکی کا زمانہ تھا یعنی ایک روحانی رات تھی اور ایسے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کو نازل کرکے بنی نوع انسان کو پھر سے سلامتی کی راہیں دکھائیں اور ترقیات کے راستے ان کے لئے کھولے۔ پس انا انزلنہ فی لیلۃ القدرمیں ہُ کی ضمیر محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف بھی جا سکتی ہے اور اس کا قرینہ بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ جس طرح سورۃ العلق میں جو اس سے سے پہلی سورۃ ہے اقرأ کے الفاظ سے قرآن کریم کو پیش کیا گیا تھا اسی طرح اس میں رسول کریم ﷺ کا بھی ذکر تھا۔ چنانچہ اس سورۃ کی مندرجہ ذیل آیت میں آپؐ ہی کا ذکر ہے۔ ارء یت الذی ینھی عبدا اذا صلییعنی تو مجھے اس شخص کا حال تو بتا جو ایک ’’ عظیم الشان بندہ ‘‘ کو جب وہ نمازپڑھتا ہے نماز پڑھنے سے روکتا ہے۔ پس جس طرح انا انزلنہ میں قرآن کریم کی طرف ضمیر کی جاسکتی ہے جیسا کہ پہلے بیان کردہ معنوں میں میں نے اس طرف ضمیر پھیر ی ہے اسی طرح انزلناہُ کی ضمیر ارائیت کی تاء کی طرف اور عبدا کی طرف بھی جا سکتی ہے۔ پس اس آیت کے دوسرے معنے یہ بھی ہیں کہ ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ کو لیلۃ القدر میں اتارا ہے۔
جیسا کہ اوپر بتا چکا ہوں تمام انبیاء کبار اسی زمانہ میں نازل ہوتے ہیں جب دنیا تاریکی اور ظلمت کا دور دورہ ہوتا ہے اور ایسے وقت میں اگرخدا تعالیٰ کی طرف سے نبی نہ آئے تو یقینا لوگوں کے دلوں میں خدا تعالی کی ہستی کے بارہ میں شبہ پیدا ہوگا قرآن کریم بار بار اس دلیل کو پیش کرتا ہے کہ ضرورت کے موقعہ پر اللہ تعالی کی طرف سے کلام نازل ہوتا ہے ۔چنانچہ سورہ یٰس میں آتا ہے وایۃ لھم الارض المیتۃ احیینھا واخرجنا منھا حبا فمنہ یا کلون(یٰس ۳ع۱آیت۳۴) یعنی تمہارے لئے مردہ زمین میں ایک نشان ہے خداتعالی اسے زندہ کرتا ہے اور پھر اس میں سے دانے نکالتا ہے جس میں سے تم کھاتے ہو ۔یعنی جب بھی زمین مردہ ہو جاتی ہے ذخائر کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے خدا تعالی ہمیشہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور زمین کو دوبارہ زندہ کر دیتا ہے یعنی کیا کفار یہ خیال نہیں کرتے کہ خدا جو انکی دنیوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے وہ انکی روحانی ضرورتوں کو پورا نہ کرے گا اور بوقت ضرورت نبی نہ بھیجے گا ۔اسی سورۃ میں آگے چل کر فرماتا ہے اللہ الذی یرسل الریاح فتثیر سحابا فیبسطہ فی السماء کیف یشاء و یجعلہ کسفا فتری الودق یخرج من خللہ فاذ ا اصاب بہ من یشاء من عبادہ اذا ھم یستبشرونO و ان کانوا من قبل ان ینزل علیھم من قبلہ لمبسلینO فانظر الی اثر رحمت اللہ کیف یحی الارض بعد موتھا ان ذالک لمحی الموتی وھو علی کل شی ء قدیرO(روم ۵ع۸ آیت ۴۹ تا ۵۱) یعنی اللہ ہی ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے پھر وہ بادلوں کو اٹھاتی ہیں پھر ان بادلوں کو جس طرح چاہتا ہے پھیلاتا ہے (یعنی ہر ملک کیلئے ہوائوں کے الگ الگ رخ مقرر ہیں جن کے مطابق بادل پھسل جاتے ہیں ) پھر جب ان بادلوں کو اپنے جن بندوں تک چاہتا ہے پہنچاتا ہے تو وہ اچانک (بعد مایوسی کے) خوش ہوجاتے ہیں اور گووہ بہت عرصہ سے اس بارش کے نزول سے ناامید ہوچکے تھے۔ پس تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار کو دیکھ کس طرح وہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کردیتا ہے یہی خدا مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قدر ہے۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ یہاں تو مردوں کو زندہ کرنے کا ذکر ہے کیونکہ گمراہوں کو ہدایت بخشنا یا دینی علوم سے ناواقفوں کو علوم الٰہی کی خبر دینا بھی مردہ زندہ کرنا کہلاتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کی نسبت آتا ہے یاایھاالذین امنوا استجیبوا للہ و للرسول اذا دعاکم لما یحییکم (الانفال ۳ع۷ آیت:۲۵) یعنی اے مومنو! جب خدا اور اس کا رسول تم کو بلائیں تو ان کی بات مانا کرو کیونکہ تم مردہ ہووہ تم کو زندہ کرنے کیلئے بلاتے ہیں اور تمہارا اپنا فائدہ اس میں ہے کہ تم ان کی آواز سنو۔ انہی مروں کی نسبت یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ تاریکی میں پڑے ہوئے ہیں۔ یعنی ان پر رات طاری ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے الذین کذبوا بایتناصم و بکم فی الظلمت من یشاء اللہ یضللہ ومن یشاء یجعلہ علی صراط مستقیم (انعام ۴ع۱۰ آیت: ۴۰) یعنی وہ لوگ جو ہمارے نشانوں کا انکار کرتے ہیںبہرے اور گونگے ہیں اور اندھیروں میںپڑے ہوئے ہیں۔ خداتعالیٰ جس کی نسبت چاہتا ہے گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے اور جس کی نسبت چاہتا ہے اسے سیدھے راستہ پر ڈال دیتا ہے۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ کی نسبت فرماتاہے یخرجھم من الظلمت الی النور (مائدہ ۳ع۷ آیت: ۱۷) یعنی یہ رسول لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے۔
مذکورہ بالاآیات سے ظاہر و ثابت ہے کہ جب بھی دنیا پر روحانی تاریکی چھاجاتی ہے اور لوگ روحانی طور پر مر جاتے ہیںاللہ تعالی کی طرف سے ایک رسول ضرور مبعوث ہوتا ہے ۔پس ان معنوں کی رو سے محمد رسول اللہﷺ کے زمانہ مین جو شدید ترین تاریکی کا زمانہ تھا ایک نبی کا مبعوث ہونا ضروری تھا اور آپکا دعویٰ بالکل مناسب وقت پر تھا ۔دنیا پیاسی ہورہی تھی اسے آسمانی پانی کی ضرورت تھی اس پر موت طاری تھی اسے ایک زندہ کرنے والی ہستی کی احتیاج تھی ۔دنیا پر ایک تاریک رات تاری تھی اسے ایک راحانی سورج کی ضرورت تھی جو رات کی ظلمت کو دور کرے اور اسے ایمان کی روشنی بخشے۔اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ایک دوسری آیت میں محمد رسول اللہ ﷺ کو سراجامنیرا(سورہ احزاب ۶ع۳)قرار دیا ہے ۔غرض یہ فرمایا کہ ہم نے محمد رسول اللہﷺکو لیلۃالقدر میں نازل فرمایا ہے آپ کی صداقت کی ایک ایسی زبردست دلیل دی گئی ہے جس کا کوئی مذہب انکار نہیں کر سکتا ۔کونسا مذہب ہے جو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ دنیا پر جب جب بھی ظلمت اور تاریکی کا دورہ آتا ہے خدا تعالی کی طرف سے ایک مامور اسے روشنی بخشنے کے لئے ضرور اس زمانہ میں مبعوث ہو تا ہے ۔بائبل بھی اس پر متفق ہے۔مسیح کیوں آیا؟اسی لئے کہ بنی اسرائیل پر ایک رات طاری ہو گئی تھی۔ہندو مذہب کرشن جی کی دوبارہ بعثت کا کیوں امید وار ہے؟ اس لئے کہ وہ زمانہ کلجگ کا ہو گا ۔بدھ مت اور زردشت مذہب بھی اسی امر کے مدعی ہیں کہ جب جب تاریکی کا زمانہ دنیا میں آئے گا خدا تعالی کے مامور بھی ظاہر ہوتے رہیں گے۔پھر کس طرح ہو سکتا تھا کہ سب سے زیادہ تاریک زمانہ جس میںمحمد رسول اللہﷺکی بعثت کے وقت دنیا گذر رہی تھی اس میں کوئی مامور مبعوث نہ ہوتا ۔اگر ایسا ہوتا تو سب مذاہب جھوٹے ثابت ہو جاتے۔خدا تعالی کا وجود ایک واہمہ بن کر رہ جاتا۔پس انا انزلنہ فی لیلۃالقدرکی آیت محمد رسول اللہ ﷺکی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہے ۔اس تاریک رات کو روشن کرنے کے کئے محمد رسول اللہ ﷺ کے سوا اور کون آیا ؟اگر محمد رسول اللہ ﷺ کا دعویٰ نعوذ باللہ جھوٹا تھا تو پھر سب مذاہب ہی جھوٹے ہوئے کہ جو ا س امر پر متفق ہیں کہ تاریکی اور ظلمت کے وقت کے لمبا ہو جانیکی صورت میں ضرور خدا تعالی کا روحانی سورج چڑھتا ہے جس طرح جسمانی رات کے بعد خدا تعالی کا جسمانی سورج چڑھتا ہے۔
اس جگہ ایک لطیف یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ مسیحی مصنف جب رسول کریم ﷺ کا ذکر کرتے ہیں تو آپکی کامیابی کی یہ دلیل دیا کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک ایسے زمانے میں آئے تھے جب سارے مذاہب بگڑ چکے تھے اس لئے آپکی تعلیم کامیاب ہو گئی۔انہیں یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ ہم اس دلیل خود محمد رسول اللہﷺکی صداقت کا ثبوت بہم پہنچا رہے ہیں۔اگر اس زمانہ میں سارے مذاہب بگڑ چکے تھے اور اس وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ کو ایک طرف عیسائیوں اور دوسری طرف ایرانیوں پر غلبہ حاصل ہو گیا تو سوال یہ ہے کہ ایسے ہی زمانہ میں تو خدا تعالی کے رسول آیا کرتے ہیں ۔اگر وہ زمانہ واقعہ میں ایسا تھا کہ دنیا کے مذاہب بگڑ چکے تھے اور لوگ اپنے مذاہب کی تعلیمات سے دور جا چکے تھے تو اس سے رسول کریمﷺ کے دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے یا تکذیب ؟کیا نبی دنیا میں ایسے زمانہ میں بھی آیا کرتا ہے جب سارے لوگ راستی اور صداقت پر قائم ہوں اور وہ نیک اور با اخلاق ہوں۔کیا مسیح ؑکی کامیابی کی وجہ یہ نہ تھی کہ لوگ بگڑ چکے تھے اور وہ نیکی اور تقوی ٰ کو ترک کر چکے تھے اس لئے صداقت جھوٹ پر غالب آگئی؟کیا موسی ؑ کی کامیابی کی یہی وجہ نہیں تھی ؟کیا کرشنؑ اور رام چندرؑاور زرتشتؑ اور بدھ کی کامیابی کی یہی وجہ نہیں تھی بلکہ ان کے نزول کی یہی وجہ تھی۔ اگر اس وجہ سے کسی نبی کا جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ کوئی نبی بھی ایسے زمانہ میں نہیں آتا جب لوگ درست حالت میں ہوں۔ہمیشہ ہی بد اخلاقی ،بے ایمانی اور گندگی کے پھیل جانے کی صورت میں ہی نبی آیا کرتے ہیں۔
چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺاور قرآن کریم کو لیلۃالقدر میں اتارتے رہتے ہیں یعنی نہ صرف قرآن کا پہلا نزول ایک تاریک زمانہ میں ہو ا ہے بلکہ آئندہ بھی جب دنیا میں تاریکی کا زمانہ آئے گا قرآن کریم اور محمد رسول اللہﷺ دوبارہ دنیا میں اتریں گے اور پھر بنی نوع انسان کی راہنمائی اور ہدایت کا موجب ہونگے۔یعنی ایسا زمانہ کوئی نہ آئے گا کہ دنیا میں خرا بی ہواور قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلعم اس کی ہدا یت کا موجب نہ ہو سکیں اور کسی نئی شریعت کی ضرورت پیش آجائے بلکہ جب کبھی قرآن کا نور دنیا سے مٹنے لگے گا اور محمد رسول اللہﷺ کی روشنی پر پردہ پڑ جائے گا خدا تعالی دوبارہ محمد رسول اللہ ﷺ کے مثیل روحانی وجودوں کو دنیا میں مبعوث فرمائے گا جو محمد رسول اللہ ﷺکے نور کو بھی ظاہر کریں گے اور قرآن کریم کی تعلیم کو بھی دوبارہ روشن کر دیں گے اور ثابت کر دیں گے کہ خرابی نہ قرآن میں تھی نہ محمد رسول اللہ ﷺ میں تھی بلکہ بنی نوع انسان کے فہموں میں خرابی تھی کہ وہ قرآن کے معنی سمجھنے سے قاصر ہو گئے تھے یا ان کے دلوں میں خرابی تھی کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا نور اپنے اندر لینے سے محروم ہو گئے تھے۔
دوسر جگہ قرآن کریم میں اللہ تعا لی فرماتا ہیھو الذی بعث فی الا میین رسولا منھم یتلو اعلیھم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃوان کانو من قبل لفی ضلال مبین oواخرین منھم لما یلحقو ابھم وھوالعزیز الحکیمo(سورہ جمعہ۱ع۱۱)ان آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے محمد رسول اللہﷺکواس زمانہ میں بھی نازل فرمایا تھا جس زمانہ میں آپکی جسمانی بعثت ہوئی تھی اور آئندہ پھر اس زمانہ میں بھی نازل فرمائے گا جبکہ ایسے ہی حالات پیدا ہو جائیں گے یعنی اللہ تعالہ آپکا ایک مثیل ظاہر فرمائے گا جو آپکی نیابت میں دنیا کو پھر اسلام کی طرف واپس لائے گا اور اسلام کی شوکت کو دنیا میں قائم کرے گا ۔اسی زمانہ کے متعلق رسول کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم بھی آسمان پر اٹھ جائے گا اور وہ موعود پھر قرآن کو واپس لائے گا ۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں لا یبقی من الاسلام الا اسمہ ولا یبقی من ال قران الا رسمہ(مشکوۃ کتاب العلم صفحہ۳۸)قرآن کریم کا صرف نام اور اس کے الفاظ باقی رہ جائیں گے پس وہ موعودپھر قرآن کو آسمان سے واپس لائے گا اور قرآن اپنے کامل علوم اور معرفت سمیت پھر دنیا میں آجائے گا اور یہی نہ ہوگا کہ دنیا کے پاس فقط اس کا نام اور نشان باقی ہو ۔خود اس سورۃ میں بھی اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔چنانچہ آگے چل کر بیان فرمایا گیا ہے تنزل الملئکۃ والروح فیھا جو ایک استمرار کا صیغہ ہے یعنی ایسی لیلۃالقدر کی راتیں کئی آنے والی ہیں اور ان میں خدا تعالی کے ملائکہ اور روح اترا کریں گے۔پس جب لیلۃالقدر کئی آنے والی ہیں اور ان میں ملائکہ اور روح اترنے والے ہیں تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آیت زیر تفسیر میں انزلناکے معنے صرف ماضی کے نہیں بلکہ مستقبل کے بھی ہیں اور قرآن کریم میں ماضی بمعنے مستقبل کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔
میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ اس آیت میں رسول اللہﷺ کے کامل بروزوں کی طرف اشارہ ہے ۔لیکن ناقص بروز بھی بروز ہی ہوتا ہے اس لئے یہ آیت ناقص بروزوں کے متعلق اشارہ کرتی ہے یعنی ایسے زمانہ کے مصلحین کی نسبت بھی جبکہ کامل تاریکی تو نہیں آئے گی لیکن ایک نئی زندگی کی ضرورت انسان کو محسوس ہو گی ۔حدیثوں میں آتا ہے کہ ہر صدی کے سر پر دنیا کو ایک ہوشیار کرنے والے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالی ہر صدی کے سر پر مجددبھیجتا رہے گا ۔ان مجددوں کے متعلق بھی ا س آیت میں پیشگوئی موجود ہے کیونکہ وہ بھی جزوی طور پر محمد رسول اللہ و کے قائم مقام ہوتے ہیں اور ایک جزوی تاریک رات میں ان کا ظہور ہوتا ہے۔
پانچویں معنے ا س آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن لیلۃالقدر کی بزرگی میں نازل فرمایا ہے۔ان معنوں کی رو سے فیکے معنے متعلق کے ہونگے۔یعنی یہ معنے نہیں ہونگے کہ لیلۃالقدر میں قرآن نازل ہوا ہے بلکہ یہ معنے ہونگے کہ لیلۃ القدر کے بارہ میں قرآں کریم نازل ہوا ہے۔بالعموم مفسرین نے یہی معنے لئے ہیں اور وہ اس آیت کے یہ معنے کرتے ہیں کہ قرآن کریم اس لیلۃالقدر کی جو رمضان کے آخر میں آتی ہے ۔بڑائی اور بزرگی بیان کرتا ہے ۔اگر آیت کے یہ معنے کئے جائیں تو سوال پیدا ہوگا کہ وہ لیلۃالقد ر جسکی طرف اس سورۃ میں توجہ دلائی گئی ہے کیا چیز ہے؟مفسرین کا خیال ہے کہ لیلۃالقدر سے مراد اس جگی رمضان کی راتوں میں سے وہ رات ہے جس کا رسول کریم ﷺ کی احادیث میں متعدد جگہ پر ذکر آتا ہے۔امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ قال لما حضر رمضان قال رسول اللہ ﷺ قد جاء کم شھر رمضان شھر مبارک افترض اللہ علیکم صیامہ تفتح فیہ ابواب الجنۃ وتغلق فیہ ابوب الجحیم وقفل فیہ الشیاطین فیہ لیلۃ خیر من الف شھر من غرم خیرھا فیہ فقد حرمیعنی اے لوگو !رمضان کا مہینہ آگیا ہے یہ مبارک مہینہ ہے اللہ تعالی نے تم پر اس مہینہ کے روزے تم پر فرض کئے ہیں ۔اس مہینہ میں جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں (یعنی نیکیوں کی زیادتی ہو جاتی ہے اور مومن روزوں کے اثر کی وجہ سے گناہوں سے بہت اجتناب کرنے لگتے ہیں)اور شیطانوں کو اس مہینہ میں بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں (یعنی جو مسلمان بدیوں کے ارتکاب کے عادی ہو جاتے ہیں وہ بھی اپنے بھائیوں کی قربانیوں کو دیکھ کر احتیاط کرنے لگ جاتے ہیں)اس مہینہ میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینہ سے بہتر ہے جو رمضان میں بھی اس رات کی برکات سے محروم رہے وہ بڑا محروم آدمی ہے۔
نسائی نے بھی ابوایوب انصاریؓ سی اسی مضمون کی روایت نقل کی ہے بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ سے روایت ہے ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من قام لیلۃالقدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہیعنی جو شخص لیلۃالقدر کو خوب جاگے اور عبادت کرے اور یہ اسکی عبادت رسماً یا ریا کے طور پر نہ ہو بلکہ ایمان اور خدا تعالی سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے ہو تو اس کے سب گناہ جو وہ پہلے کر چکا ہے معاف ہو جاتے ہیں۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے رمضان کی ایک رات کا نام لیلۃالقدر رکھا ہے اور اسکی نسبت ایسی صفات بیان فرمائی ہیں جو قرآن کریم کی بیان کردہ لیلۃالقدر سے ملتی ہیں ۔مثلا ًاس کا ہزار مہینوں سے اچھا ہونا یا گناہوں کی بخشش کی صورت میں سلامتی لانا ۔یہ تشابہ ضرور اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ اس سورۃ میں جس لیلۃالقدر کا ذکر ہے اسی کا ذکر احادیث میں ہے یا کم سے کم یہ کہ لیلۃالقدر کی طرف بھی اس سورۃ میں اشارہ ہے۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عقل اور انصاف کے مطابق ہے کہ ایک رات کو جو دوسری راتوں کی طرح ایک رات ہے ایسی برکات کا موجب سمجھ لیا جائے اور کیا یہ انصاف کی بات ہے کہ اس ایک رات میں عبادت کرنے والا سب گذشتہ گناہوں سے نجات پا جائے ۔کیا اس سے نیک اعمال سے استغنا ء پیدا نہیں ہوتا ؟
اس شبہ کا یہ جواب ہے کہ اگر صرف یہ کہہ دیا جائے کہ فلاں رات میں عبادت کرلو تما م گناہ بخشے جائیں گے تو یہ بات ضرور خلاف عقل اور قوم میں وہم پیدا کرنے والی ہے ۔لیکن لیلۃالقدر کے ساتھ جو شرائط اور جو امور وابستہ ہیں ان کے ہوتے ہوئے یہ شبہ درست نہیں رہتا ۔یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے بلکہ انسانی دماغ کی اہم خصوصیتوں میں سے ہے کہ خیالات کا انتقالAssocation of idiasانسانی اعمال پر ایک ہی گہرا اثر رکھتا ہے ۔ایک انسان اپنے عزیز کی قبر پر جاتا ہے تو گو اس کے سامنے صرف مٹی کا ڈھیر ہوتا ہے مگر اس پر رقت طاری ہوجاتی ہے کیونکہ قبر اسے اپنے عزیز کی یاد دلاتی ہے اور اس یاد کے ساتھ ہی حافظہ ان تعلقات کو سامنے لا کھڑا کرتا ہے جو اس مرحوم کی زندگی میں اس کے اور اس عزیز کے درمیان تھے ایک ایک کر کے واقعات اس کے حافظہ میں تازہ ہونے شروع ہو تے ہیںاور اسکے ساتھ یہ احساس مل کر کہ اب وہ باتیں پھر نہیں ہو سکتیں اس کے دل کی کیا کیفیت عجیب قسم کی یوجاتی ہے حلانکہ اس عزیز کی موت کوئی نیا واقعہ نہیں ہوتا اور نہ گذشتہ واقعات کوئی نیا علم پیدا کرتے ہیں مگر وہی پرانی قبراور پرانے واقعات قبر کو دیکھ کر مردہ جذبات کو زندہ کر دیتے ہیں اور سوئے ہوئے احساسات کو جگا دیتے ہیں۔اس طرح لوگ پیدائش کے دن مناتے ہیں ،شادی کے دن مناتے ہیں اس لئے کہ گو شادی اور پیدائش کا علم تو ہر روز ہی ہوتا ہے خاص دنوں میں ان کا علم نیا نہیں ہوتا پیدا ہوتا لیکن انتقال خیالات کا بہترین موقعہ وہی دن پیدا کرتا ہے جس دن کوئی پیدا ہوا ہوتا ہے یا جس دن ایک جوڑے کی شادی ہوئی ہوتی ہے۔اسی حکمت کو مد نظر رکھتے ہوئے رمضان کے مہینہ میں جس میں قرآن کریم جیسی اہم اور ہدایت دینے والی کتاب نازل ہونی شروع ہوئی تھی۔اگر ایک رات اسکی یاد تازہ کرنے کے لئے مقرر ہو جائے اور اللہ تعالی فیصلہ فرمائے کہ چونکہ اس مہینہ میں ہم نے بنی نوع انسان سے ایک نیا عہد باندھا تھا دائمی اور نہ فراموش ہونے والا عہد ۔اس لئے مومنوں کے دلوں میں اس کی یاد تازہ رکھنے کے لئے اور اس بات کا ثبوت مہیا کرنے کے لئے کہ ہم اب تک اس عہدپر قائم ہیں ہم اس مہینہ کی ایک رات کو دعائوں کی قبولیت کے لحاظ سے خاص فضیلت اور برتری بخشتے ہیں تو اس میں کیا حرج کی بات ہے یہ تو عین صواب ہے۔
خداتعالیٰ نے ابراہیم سے ایک عہد باندھا اور اس کی ظاہری علامت کے طور پر ختنہ مقرر فرمایا۔ صرف ایک جسمانی علامت جس سے روحانیت کا کوئی بھی تعلق نہیں۔ ایک حفظان صحت کا اصول، ایک بدنی صفائی کا نشان۔ یہود نے اسے قائم رکھا مگر مسیحیوںنے اسے بھلادیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر نسل ابراہیم اس عہد کو ختنہ کے ذریعہ سے دہراتی چلی آئی ہے تو خداتعالیٰ نے اپنے عہد کو کس طرح دہرایا؟ تورات اس پر بالکل خاموش ہے ۔ فرض کرلو کہ خدا کا یہ عہد تھا کہ کنعان کا ملک ہمیشہ بنو ابراہیم کے پاس رہے گا تو یہ بھی تو نہ ہوا۔ کیونکہ بائبل کے ماننے والوں کے نزدیک ابراہیمی وعدوں کے حقدار صرف بنو اسحق تھے۔ مگر بنو اسحق تو تیرہ سو سال سے اس ملک کی حکومت سے محروم ہیں۔ آخر خداتعالیٰ نے اپنا عہد کیوں بھلادیا۔ مسیحیوں نے بے شک ختنہ چھوڑ دیا لیکن یہود نے تو ختنہ نہیں چھوڑا تھا ان کو کیوں اللہ تعالیٰ نے بھلادیا۔ عہد کے زندہ اور قائم ہونے کی تو یہی علامت ہوسکتی ہے کہ دنوں طرف سے اس کے قائم ہونے کا اعلان ہوتا رہے۔ مگر بائبل کے عہد کا تو یہ حال ہے کہ یہود اب تک ختنہ کرتے چلے آتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ اس باہمی عہد کے اپنے حصہ کو ادا کرنے کا نام نہیں لیتا۔
خداتعالیٰ نے مسلمانوں سے بھی ایک عہد باندھا اور اس کی علامت رمضان کے روزے مقرر فرمائے۔ اس عہد کے مقابل پر مسلمانوں سے بھی ایک عہد اللہ تعالیٰ نے باندھا اور اس عہد کا اعلان رمضان کے مہینہ میں ہوا۔ اس عہد کی علامت ختنہ کو نہیں مقرر کیا گیا کیونکہ ختنہ تو عرب پہلے ہی ابراہیم کی یاد میں کرتے چلے آتے تھے۔ بلکہ اس عہد کی علامت مومنوں کیلئے مقرر کی گئی کہ وہ اس سارے مہینہ کے روزے رکھیں جس میں خداتعالیٰ نے ان سے عہد باندھا تھا اس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ نے بھی اس عہد کے نباہنے کی ایک علامت اپنے لئے مقرر فرمائی اور وہ یہ کہ جب تم رمضان کا مہینہ اس عہد کی یاد میں روزوں میں گزاروں گے تو میں اس کے جواب میں رمضان کی آخری راتوں میں سے ایک رات تمہارے لئے آسمان سے اتروں گا۔ اور اعلان کروں گا کہ اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبوالی والیومنوا بی لعلھم یرشدون (بقرہ ۲۳ع۷) یعنی بندوں کی طرف سے جب اس عہد کی یاد گار رمضان کی صورت میں منائی جائے گی تو میں بھی اس عہد کی یادگار لیلۃ القدر کی صورت میں منائوں گا۔ آسمان سے اپنے بندوں کیلئے اتروں گا اور اعلان کروں گا کہ مانگو تو تمہیں دیا جائے گا، ایمان لائو تو تمہیں ہدایت بخشی جائے گی کیونکہ تم میرے معاہد ہو۔ تم نے اپنے عہد کی رمضان سے یاد تازہ کی، میں اپنے عہد کی لیلۃ القدر سے یاد تازہ کرتاہوں۔ یہ کیسی مبارک علامت ہے۔ ختنہ بھی اچھی چیز ہے لیکن ایک مہینہ بھر خداتعالیٰ کیلئے روزے رکھنے یہ اس علامت نسبت کس قدر زیادہ شاندار اور کس قدر روحانیت کو زندہ کرنے کی علامت ہے۔ اس کے مقابل پر خداتعالی کا جواب بھی کیسا شاندار ہے۔ روپیہ نہیں، چاندی نہیں، ملک نہیں، دولت نہیں، وہ اپنے عہد کی یادگا رکے طور پر مسلمانوں سے لیلۃ القدر جیسی چیز کا وعدہ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ جب تم میرے آخری کلام کے نازل ہونے کی خوشی میں ہمیشہ رمضان کے مہینہ کے روزے رکھا کرو گے اور اس طرح اپنے عہد کو تازہ کرتے رہا کرو گے تو میں بھی تم سے لیلۃ القدر کے ذریعہ سے اپنا عہد تازہ کرتا رہوں گا۔ یعنی اس دن تم پر خاص فضل کیا کروں گا اور تمہاری دعائیں سنا کروں گا، تم کو نیا اور زندہ ایمان بخشا کروں گا تا تم کو معلوم ہوتا رہے کہ میں زندہ خدا ہوں اور اپنے عہد کی نگہداشت میں تم سے پیچھے نہیں ہو بلکہ تم سے زیادہ اپنے عہد کی نگہداشت کرنے والا ہوں۔
یہ دونوں نشان باہمی عہد کے تازہ رکھنے کے کیسے شاندار ہیں خداتعالیٰ کے مسلمانوں کیلئے عہد کا نشان روحانی مقرر کیا جبکہ بنو اسحق کیلئے عہد کا نشان جسمانی یعنی ختنہ تھا اور خداتعالیٰ نے اپنے لئے بھی مسلمانوں سے کئے ہوئے عہد کا نشان روحانی مقرر کیا یعنی لیلۃ القدر ۔ جبکہ بنو اسحق کے عہد کے مقابل میں خداتعالیٰ نے اپنے عہد کی نشانی جسمانی مقرر کی تھی۔ یعنی فلسطین کا یہود کے قبضہ میں رہنا۔ ساری عمر ایک ماہ کے روزے رکھنے کے مقابلہ ختنہ کا فعل کتنا چھوٹا ہے (پھر وہ فعل بھی مسلمان ابراہیم علیہ السلام کی یادگار کے طور پرکرتے چلے آتے ہیں) اور کنعان کی زمین لیلۃ القدر کے مقابلہ پر کتنی حقیر ہے۔ بلکہ وہ تو لیلۃ القدر کے ایک ایک سیکنڈ کے مقابل پر حقیر ہے (اور پھر لطف یہ کہ وہ زمین بھی اور پیشگوئیوں کے مطابق مسلمانوں ہی کو مل گئی ہے)۔
خلاصہ یہ کہ رمضان اور لیلۃ القدر محمدی عہد کی علامت ہیں اسی طرح جس طرح ختنہ اور فلسطین کی بادشاہت ابراہیمی عہد کی علامات ہیں۔رمضان بندوں کی طرف سے عہد وک تازہ رکھنے کا نشان ہے اور ہو عقلمند انسان ادنی تدبر سے معلوم کر سکتا ہے کہ مسلمانوں سے جو عہد خدا تعالی نے باندھا ہے اس کے نشان بہت شاندار ہیں اور روحانی ہیں اور زندہ خدا کی قدرتوں کا اظہار کرتے ہیں ۔کئی قومیں اپنے ملکوں میں ہزاروں سال سے بیٹھی ہیں اور یہ اس بات کی لازمی علامت نہیں کہ خدا تعالی ان کے ساتھ ہے مگر کسی قوم کو اگر لیلۃالقدر مل جائے ایسی رات جس سے خدا تعالی قریب آجائے جس میں خدا تعالی اپنے بندوں کی دعائیں سنے۔جس میں اللہ تعالی علی قدر مراتب اپنے بندوں پر اپنی مرضی ظاہر کرے تو یہ یقینا اس بات کا ثبوت ہو گا کہ خدا تعالی اس قوم سے خوش ہے اور اس سے اپنے عہد کو اس نے بھلایا نہیں۔
ایک اور بات بھی اسی سلسلہ میں یاد رکھنے والی ہے اور وہ یہ کہ خداتعالی نے ابراہیم سے ان کے دونوں بیٹوں کی نسبت عہد لیا تھا اور دونوں کو ختنہ کا پابند کیا تھا ۔بائبل کہتی ہے کہ اسحاقؑ کی اولاد کی نسبت اس نے کہا کہ میں کنعان کا ملک ہمیشہ کے لئے انہیں دوں گا ۔چنانچہ لکھا ہے ’’تب خدا تعالی نے کہا کہ بے شک تیری جورو سرہ تیرے لئے ایک بیٹا جنے گی تو ا سکا نام اسحاق رکھنا اور میں اس سے اور بعد اس کے اسکی اولاد سے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہے قائم کروں گا ‘‘(پیدائش باب۱۷۔آیت۱۹)اس جگہ عہد کے قیام سے مراد کنعان کے ملک پر دائمی قبضہ لیا جاتا ہے اور بائبل کے کئی مقامات سے اسکی تصدیق ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عہد بنو اسمعیل کے بارہ میں بھی تھا کیونکہ ختنہ کا حکم انہیں بھی دیا گیا تھا اور برکت کا وعدہ ان سے بھی تھا ۔چنانچہ لکھا ہے ’’جب اس کے بیٹے اسمعیل کا ختنہ ہوا وہ تیرہ برس کا تھا ‘‘(پیدا ئش باب ۱۷آیت۱۷)نیز لکھا ہے ابراہیم نے دعاکی’’اسمٰعیل تیرے حضور جیتا رہے‘‘(پیدائش باب ۱۷آیت۱۸) اس کے بعد لکھا ہے ’’اور اسمٰعیل کے حق میں میں نے تیری سنی دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروںگا اور اسے بہت بڑھائوں گا ‘‘(پیدا ئش باب ۱۷آیت ۲۰)پھر پیدا ئش ب۲۱ میں لکھا ہے ’’میں اس (اسمٰعیل ) کو ایک بڑی قوم بنائو ں گا ‘‘(آیت۱۸) ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ اسمٰعیل بھی وعدہ میں شامل تھا گو وہ اس وعدہ میں شامل نہ تھا جو کنعان کے قبضہ کے متعلق تھا کیونکہ وہ عہد اسحاق کی نسل کے ساتھ پورا ہونا تھا ۔
یہود ونصاریٰ کو یہ غلطی لگی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عہد صرف اسحاق کی اولاد سے تھا ۔اوپر کی عارتوں سے ظاہر ہے کہ عہد اسمٰعیل اور اسحاق دونوں سے تھا ۔پھر یہ غلطی بنو اسرائیل کو کس طرح لگی ؟اس کا جواب یہ ہے کہ ابراہیمی عہد کی دو شکلیں ہیں ایک مجمل اور ایک مفصل ۔مجمل عہد یہ تھا کہ میں تیری نسل کو برکت دوں گا اور نسل سے مراد اسمٰعیل اور اسحاق دونوں ہیں جیسا کہ اوپر کے حوالوں سے ظاہر ہے ۔مفصل عہد آگے دو حصوں میں تقسیم ہے ۔اسحاق کی نسبت یہ عہد تھا کہ کنعان کی حکومت اسے نسلا بعد نسل حاصل ہوگی ۔بائبل جو بنو اسحاق کی کتاب ہے لازما اس عہد کو یاد رکھنا تھا اس کتاب میں بنو اسمٰعیل کے عہد کا ذکر نہ ہونے کے یہ معنے نہیں کہ بنو اسمٰعیل سے کوئی عہد تھا ہی نہیں ۔کیونکہ بائبل مجمل عہد میں دونوں بیٹوں کو شریک کرتی ہے ۔اسحاق کی نسبت بھی ہے کہ میں اسے برکت دوں گا اور اس برکت کی تشریع یوں کی ہے کہ کنعان کا ملک نسلا بعد نسل اسے ملے گااور اسمٰعیل کی نسبت بھی کہا ہے کہ میں اسے برکت دوں گا ۔اب سوال یہ ہے کہ اسے کس رنگ میں برکت دی جائے گی ؟اس سوال کا جواب بائبل میں تلاش کرنا عبث ہے کیونکہ وہ تو اسرا ئیلی نسل کی تاریخ ہے اس کا جواب تو اسمٰعیلی نسل کی روایات سے معلوم کرنا چاہیئے یا اسمٰعیلی نسل کے انبیاء کے الہام سے کیونکہ اسمٰعیل کی نسبت تفصیلی عہد انہی کو معلوم ہو سکتا ہے۔سو ہم اسمٰعیل کی نسل کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں یہ رویت چلی آتی تھی کہ اسمٰعیل کو خدا تعالی نے مکہ مکرمہ مرکز کے طور پر دیا اور عرب رہائش کے لئے دیا جس پر وہ اسمٰعیل کے وقت سے قابض ہیں چنانچہ قرآن کریم میں جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا جو حضرت اسمٰعیل کی اولاد میں سے تھے اس تفصیلی عہد کا یوں ذکر ہے واذجعلنا البیت مثابۃ للناس وامنا وا تخذوا من مقام ابراہیم مصلی وعہدنا الی ابراہیم واسمعیل ان طھرا بیتی للطائفین والعکفین وارکع السجود واذقال ابراہیم رب اجعل ھذا بلدا امنا وارزق اھلہ من الثمرات من امن منہم باللہ والیوم الاخر قال ومن کفر فامتعہ قلیلا ثم اضطرہ الی عذاب الناروبئس المصیر(بقرہ ۱۵ع۱۵آیت ۱۲۶،۱۲۷)یعنی یاد کرا جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا مرجع بنایا اور امن کا موجب بنایا اور حکم دیا کہ ابراہیمؑ جیسا خلوص اپنی نمازوں اور عبادتوں میں پیدا کرو اور ابراہیمؑ اور اسمٰعیل کو تاکید کی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک رکھو اور جب ابراہیم نے بھی ہم سے دعا کی کہ میرے رب جس طرح تو نے اس مکان کو امن والا بنانے کا وعدہ کیا ہے میں تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو اس مکان کو امن دینے والا بھی بنا (اس طرح یہ خود ہی پر امن نہ ہو بلکہ دوسرے شہروں اور ملکوں کو بھی امن دینے والا ہو)اور اسکے باشندوں میں سے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہوںان کے ایمان کو تازہ کرنے کے لئے اسی وادی غیر ذی زرع میں ہر قسم کے تازہ بتازہ پھل بھی مہیا کرتا رہ۔اسپر اللہ تعالی نے فرمایا تمہاری دعا قبول کی گئی مگر اس اصلاح کے ساتھ کہ جو کافر ہونگے انہیں بھی ہم دنیوی انعامات سے محروم نہیں کریں گے ہاں بوجہ کفر انہیں اخروی عذاب ملے گا ۔یہ عہد کیسا لطیف عہد ہے اسمٰعیل سے اللہ تعالی نے ختنہ کے علاو ہ یہ عہد لیا کہ وہ اوراس کی اولاد خانہ کعبہ کی خدمت کرے اور خدائے واحد کی عبادت کے لئے ایک ایسی پاک عبادت گاہ تیار رکھے جس میں اللہ تعالیٰ کے بندے جمع ہو کر خدائے واحد کی تسبیح و تحمید کریں۔
ختنہ کا عہد تواسمٰعیل کے ساتھ بھی تھا مگر اس کے ساتھ کیا لطیف روحانی عہد بھی شامل کر دیا گیا اور اس کے جواب میں اپنی طرف سے عہد کا نشان یہ مقرر کیا کہ میں خانہ کعبہ اور اس کے گرد کا علاقہ ان کو دوں گا اور وہ ہمیشہ کے لئے امن میں رہیگا کوئی دشمن اسے فتح نہ کر سکے گا اور لوگ حج کے لئے سارے ملک سے (اور آخری زمانہ میں سب دنیا سے)وہاں آتے رہیں گے۔
یہ عہد کا نشان جو اسمٰعیل ؑ اور اسکی نسل سے ہوا کیسا شاندار ہے۔اسحٰق سے صرف دنیوی وعدہ تھا کہ کنعان کا ملک اسے اور اسکی اولاد کو ملے گا جو محض ایک سیاسی وعدہ تھا اور پھر اس ملک کو امن میں رکھنے کاکوئی وعدہ نہ تھا ۔چنانچہ کئی یروشلم اسرائیلی دین کے منکروں کے ہاتھو ں تباہ ہوا ۔لیکن اسمٰعیل سے یہ وعدہ کیا کہ اسے اور اسکی اولاد کو مکہ اور اسکے گرد ونواح پر تلوار کے ذریعہ سے نہیں بلکہ محبت اور حسن عقیدت کے ذریعہ سے حکومت بخشی جائے گی اور خدا تعالی ان کے مر کز کو ہمیشہ دشمن کے ہاتھ سے بجائے گا اور تمام علاقہ پر ان کی روحانی اور ظاہر ی حکومت ہو گی۔روحانی اس طرح کہ لوگ مکہ سے عقیدت رکھیں گے اور وہاں حج کے لئے آئیں گے اور ظاہری اس طرح کہ وہ ملک کے لئے مرکز امن بنا دیا جائے گا اور مکہ کے لوگوں کو سیاسی تصرف بھی اپنے گرد کے علاقہ پر دیا جائے گا ۔
ادنیٰ غور سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اسمٰعیل کا عہد اسحٰق کے عہد سے کہیں زیادہ شاندار ہے ۔اسحٰق اور اسکی اولاد نے جو عہد کا نشان اپنے لئے مقرر کر لیا وہ اسمٰعیل اور اسکی اولاد نے بھی اپنے لئے مقرر کیا یعنی ختنہ ۔لیکن اسکے علاوہ یہ نشان بھی اپنے عہد کا خدا تعالی کے حکم سے مقرر کیا کہ اسمٰعیل اور اسکی نسل خدا ئے واحد کی پرستش کو قائم رکھنے کے لئے جدوجہد کرتی رہے گی اور دنیا سے الگ ہو کر وادی غیر ذی زرع میں ذکر الٰہی کی شمع کو جلائے رکھنے کی ذمہ واری اپنے اوپر اٹھائے گی ۔اس کے مقابل پر اللہ تعالی نے جو اپنے لئے عہد کا نشان مقرر کیا وہ بھی بنو اسحٰق کے مقابل اتنا شاندار ہے ۔وہاں تو صرف یہ وعدہ تھا کہ کنعان پر انہیں حکومت ملے گی مگر یہاں یہ عہد بھی ہے کہ (۱)بنو اسمٰعیل کے مرکز کو ہمیشہ دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھا جائے گا(۲)بنو اسمٰعیل کو بھی مکہ کے گردوپیش پر حکومت ملے گی مگر وہ صرف سیا سی نہیں ہو گی بلکہ روحانی بھی ہو گی۔گویا بنو اسحٰق سے صرف ایک وعدہ تھا کہ کنعان پر انہیں حکومت ملے گی مگر بنو اسمٰعیل سے تین وعدے تھے یعنی مکہ کی حفاظت کا،عرب پر حکومتِ کل عرب پر روحانی اقتدار ہمیشہ قائم رہنے کا۔چونکہ یہ عہد بنو اسمٰعیل سے مخصوص تھا اس لئے لازما انہوں نے ہی اسے محفوظ رکھا۔جس طرح بنو اسحٰق نے اپنے عہد کو بائبل میں محفوظ رکھا۔یہ وہ لطیف نقطہ ہے جو خدا تعالی نے خاص طور پر مجھے سمجھایا ہے اور جس سے عہد ابراہیم کی نسبت وہ سب کشمکش جو بنو اسحٰق اور بنو اسمٰعیل میں چلی آتی ہے دور ہو جاتی ہے ۔یہ درست ہے کہ کنعان کا ملک خدا تعالی نے عہد ابراہیم کے مطابق بنو اسحٰق کو دیا تھا مگر یہ بھی درست ہے کہ ویسا ہی بلکہ اس سے شان میں بہت بڑھ کر عہد بنو اسمٰعیل سے کیا گیا تھا اور وہ بنو اسحٰق کے عہد سے بھی زیادہ شاندار طور پر پورا ہوا۔جیسا کہ آگے سورہ قریش اور سورہ فیل میں ان امور کی تفصیل آئے گی۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ابرا ہیمی عہد میں بنواسحٰق سے ہی کنعان کا وعدہ تھا تو پھر بنو اسمٰعیل کو یہ ملک کیوں ملااور سورہ انبیاء میں یہ پیشگوئی کیوں کی گئی ہے کہ یہ ملک مسلمانوں کو ملے گا جیسا کہ فرماتا ہے ولقد کتبنا فہ الزبور من بعد الذکر ان الارض یر ثھا عبادیے الصا لحون oان فی ھذالبلا غالقوم عبدین(الانبیاء۷ع۷آیت۱۰۶،۱۰۷)یعنی ہم زبور میں ذکر کے بعد لکھ چکے ہیں کہ کنعان کا ملک میرے نیک بندوں کو ملے گا ۔یہ بات ہم عبادت گذار قوم (یعنی مسلمانوں) کو توجہ دلانے کے لئے بیان کر رہے ہیں اور ان کا حق انہیں پہنچاتے ہیں یعنی جب جائز موقعہ آئے تم فلسطین پر حملہ کر دینا اللہ تعالی تمہیں فتح دے گا کیونکہ دائود ؑ نے یہ خبر دے رکھی ہے۔چنانچہ مسلمانوں نے اس اشارہ کو سمجھ لیا اور باوجود اسکے کہ قیصر کی حکومت دنیا کی سب سے طاقتور حکومت تھی چند مٹھی بھر آدمیوں کے ساتھ مسلمان جرنیل اس سے جا بڑھے اور اسے بری طرح شکست دے کر ملک پر قبضہ کر لیا ۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کنعان کے متعلق دو الگ الگ وعدے تھے ایک ابراہیم سے کہ یہ ملک بنو اسحٰق کو ملے گا اور ایک دائود ؑسے کہ یہ اس قوم کو ملے گا جو راستباز اور خدا تعالی کی عبادت گذار ہو گی۔حضرت دائود ؑ اور حضرت ابراہیمؑ کے ہزار بارہ سو سال بعد مبعوث ہوئے تھے ان کے زمانہ میں وہ وقت قریب آرہا تھا کہ بنو اسحٰق کا عہد ختم کیا جائے اس قوم کی قیامت قریب تھی اور اسکی ہلاکت کے راستے کھانے والے تھے اسلئے اللہ تعالی نے ایک اور پیشگوئی حضرت دائود سے کروادی جس میں یہ بتایا گیا کہ عہد ابراہیمی جو حضرت اسحٰق کی نسل سے پورا ہونا تھا اب ختم ہورہا ہے اب اسے نیا رنگ دے دیا جائے گا اور اب کنعان اسحٰق کی اولاد کی بجائے سچے دین کے متبعوں کے قبضے میں چلا جائے گا ۔سو مسلمانوں کا قبضہ فلسطین پر حضرت ابراہیم کی پیشگوئی کے ماتحت نہیں بلکہ حضرت دائود ؑکی پیشگوئی کے مطابق ہے ۔حضرت ابراہیم کے عہد کے مطابق تو ان کا قبضہ مکہ اور حجاز پر ہے اور دائود ؑکی پیشگوئی کے مطابق ان کا قبضہ کنعان یعنی فلسطین پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ کنعان پر مسلمانوں کے قبضہ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم نے حضرت ابراہیم ؑکی پیشگوئی کا حوالہ نہیں دیا بلکہ حضرت دائود کی پیشگوئی کا حوالہ دیا ہے۔حالانکہ حضرت دائودؑکی پیشگوئی حضرت ابراہیم ہی کی پیشگوئی کی تکرار ہوتی تو جو مقدم پیشگوئی تھی اس کا ذکر کرنا چاہیئے تھا اس سلسلہ میں یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ قرآن کریم اور احادیث کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دفعہ عارضی طور پر یہود کا غلبہ اس زمین میں پھر مقدر ہے جس کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں ۔
اب میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ کیا لیلۃالقدر کی کوئی معین رات ہے اور کیا یہ وہی رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔
یہ امر تو ثابت شدہ ہے کہ قرآن کریم رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا لیکن یہ امر واقعی طور پر ثابت نہیں کہ رمضان کی کس رات میں قرآن کریم کے نزول کی ابتداء ہوئی ۔بعض سترہ رمضان کو بتاتے ہیں بعض انیس رمضان کی ،بعض چوبیس رمضان کی قرار دیتے ہیں ۔غرض اس بارہ میں اس کے سوا کہ آخری پند رہ تاریخوںمیں سے کسی تاریخ قرآن کریم اترا تھا کہ کوئی یقینی بات ثابت نہیں ۔لیکن ہر رمضان میں جو لیلۃالقدر آتی ہے اس کے بارہ میں احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ آخری عشرہ میں سے اسی رات میں آتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیلۃالقدر سے مراد معین طور پر وہ رات نہیں جس میں قرآن کریم اترا بلکہ صرف ایک ایسی رات مراد ہے جو نزول قرآن کی یاد میں خدا تعالی نے بطور علامت مقرر فرمائی ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ جو رات بھی اللہ تعالی نے قرآن کریم کے نزول کی علامت کے طور پر مقدر کی ہے کیا وہ ایک معین رات ہے؟تو اسکا جواب یہ ہے کہ نہیں وہ بھی کوئی معین رات نہیں بلکہ رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں چکر لگاتی رہتی ہے۔اس رات کی نسبت مختلف احادیث سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔
ابودائود طیالسی کی روایت ہے کہ عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ قال فی لیلۃ القدرانھا لیلۃ سابعۃ ارتاسعۃ وعشرین یعنی رسول اللہ ﷺ نے لیلۃ القدر کے متعلق فرمایا وہ ستائیسویں یا انتیسویں رات کو ہوتی ہے۔مسند احمد بن حنبل میں عبادۃ الصامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا لیلۃ القدر فی العشرالبواقی من قالہن ابتغاء حسبتھن فان اللہ یغفرلہ ما تقدم من زنبہ وما تأخر وہی لیلۃ وتر تسع اوسبع او خامسۃ او ثالثۃ او اٰخر لیلۃ۔ یعنی لیلۃ القدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہوتی ہے انتیسویں یا ستائیسویں یا پچیسویں یا تئیسویں یا رمضان کی آخری رات ۔
امام احمد حنبل نے ابوذرؓ سے رویت کی ہے کہ میں نے لیلۃ القدر کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ افی رمضان ہی او فی غیرہ یا رسول اللہ لیلۃ القدر رمضان میں ہے یااس کے سوا کسی اور مہینہ میں ؟ اس پر آپ ؐ نے فرمایا ہی فی رمضان۔ وہ رمضان میں ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا صرف انبیاء کے زمانہ میں ہوتی ہے جب وہ فوت ہو جائیں تو پھرنہیں ہوتی یا قیامت کے دن تک قائم رہے گی قال بل ہی الی یوم القیامۃ۔فرمایا نہیں وہ قیامت تک ہے۔میں نے پوچھا رمضان کے کس حصہ میں ہوتی ہے ؟ اس پر فرمایا التمسوھا فی العشرالاول والعشرالاواخرلا تصألنی عن شیء بعدھا۔یعنی یا تو پہلے دہاکہ میں اس کی تلاش کرو یا آخری دہاکہ میں۔ اس کے بعد مجھ سے اس بارہ میںکوئی سوال نہ کرنا۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ کچھ دیر باتیں کرتے رہے میں نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے عرض کیا یا رسول اللہ میرا جوآپ پر حق ہے اس کی قسم دیتے ہوئے کہتا ہوں کہ رمضان کے کونسے دہاکہ میں لیلۃالقدر ہوتی ہے؟اس پر آپ ناراض ہوئے اور فرمایا التمسوھا فی سبع الا واخر لاتسا لنی عن شیء بعد ھا یعنی آخری سات راتوں میں لیلۃالقدر کو تلاش کرو اور دیکھنا اس کے بعد اس بارہ میں مجھ سے کوئی سوال نہ کرنا ۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی آخری سات راتوں میں سے کسی رات میں وہ ہوتی ہے۔
ابودائود نے اپنی سنن میں عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سے لیلۃالقدر کے بارہ میں سوال کیا گیا اور میں بھی سن رہا تھا ۔اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا لیلۃالقدر ہر رمضان میں آتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور آپ کے شاگردوں کا خیال تھا کہ لیلۃالقدر سارے سال آسکتی ہے رمضان سے اسکی خصوصیت نہیں (ابن کثیر جلد ۱۰صفحہ۲۶۲)
ابن زریں کا قول ہے کہ لیلۃالقدر ہر رمضان کے مہینہ کی پہلی رات ہوتی ہے (ابن کثیرجلد۱۰صفحہ۲۶۲)
بعض نے کہا ہے کہ سترہ تاریخ کو لیلۃالقدر ہوتی ہے اور ابودائود نے ابن مسعود ؓ سے بھی ایک موقوف روایت اس بارہ میں نقل کی ہے اور کچھ صحابہ وتابعین اور امام شافعی سے بھی یہ روایت منقول ہے(ابن کثیر جلد۱۰صفحہ۲۶۲)
حسن بصری کا قول ہے کہ قرآن کریم لیلۃالقدر میں نازل ہوا تھا اور قرآن کریم میں لکھا ہے کہ بدر کا دن اور قرآن کریم کے نزول کا دن ایک ہی ہے اور بدر کادن سترہ رمضان جمعہ کا دن تھا اس لئے لیلۃالقدر بھی سترہ رمضان کوہونی چاہیئے(ابن کثیرجلد۱۰صفحہ۲۶۲)
بعض نے کہا ہے کہ انیس رمضان کو لیلۃالقدر ہوتی ہے اور یہ قول حضرت علیؓاور ابن مسعودؓسے روایت کیا جاتا ہے(ابن کثیر جلد ۱۰صفحہ۲۶۳)
بخاری اور مسلم نے ابو سعیدخدری سے روایت نقل کی ہے اعتکف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم العشر الاول من رمضان واعتکفنا معہ فاتاہ جبریل فقال الذی تطلب امامک فاعتکف العشر الوسط واعتکفنا معہ فاتاہ جبریل وقال الذی تطلب امامک ثم قام النبی صلی اللہ علیہ وسلم خطیبا صبیحۃ عشرین من رمضان فقال من اعتکف معی فلیرجع فانی رایت لیلۃالقدروانی انسیتھا وانھا فی لاعشر الا واخر فی وتر وانی رئیت کانی اسجد فی طینوماء وکان سقف المسجد جرید من النخل وما نری فی السماء شیئا فجاء ت قزعۃ فمطرنا فصلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی رئیت اثرا الطین والماء علی جبھۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تصدیق رویا ہ وفی لفظ فی صبح احدی وعشرین و قال الشافی وھذا الحدیث اصح الروایات ۔
یعنی رسول کریم ﷺ نے بھی اور ہم نے بھی رمضان کی پہلی دس تاریخوں میں اعتکاف کیا اس کے خاتمہ پر حضرت جبریل آئے اور رسول کریمﷺ کو خبر دی کہ جس چیز کی آپکو (لیلۃالقدر)تلاش ہے وہ آگے ہے اس پر آپ نے اور ہم سب نے درمیانی دس دنوں کا اعتکاف کیا اس کے خاتمہ پر پھر حضرت جبریل نے ظاہر ہوکر آنحضرتﷺ سے کہا کہ جس چیز کی آپکو تلاش ہے وہ آگے ہے اس پر رسول کریمﷺ نے بیسویں رمضان کی صبح تقریر فرمائی اور فرمایا مجھے لیلۃالقدر کی خبر دی گئی تھی مگر میں اسے بھول گیا ہوں اس لئے اب تم آخری دس راتوں میں سے وتر راتوں میں اسکی تلاش کرو ۔میں نے دیکھا ہے کہ لیلۃالقدر آآآئی ہوئی ہے اور میں مٹی اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں اس وقت مسجد نبوی کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنائی ہوئی تھی ۔اور جس دن آپ نے یہ تقریر فرمائی بادل کا نشان تک نہ تھا پھر اچانک بادک اک ایک ٹکڑاآسمان سے ظاہر ہوا اور بارش شروع ہو گئی پھر جب نبی کریم ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی تو میں نے دیکھا کہ آپکی پیشانی پر مٹی اور پانی کے نشانات ہیں ۔ایسا خواب کی تصدیق کے لئے ہوا ۔اور ابوسعید کی ایک روایت میں یہ واقعہ اکیس رمضان کو ہوا تھا ۔امام شافعی کہتے ہیں اس بارہ میں یہ سب سے پختہ روایت ہے۔
عبداللہ بن انیس سے مسلم نے روایت کی ہے کہ تیس رمضان لیلۃالقدر ہے اور ابو دائود طیاسی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃالقدر چوبیسویں رات کو ہوتی ہے۔مسند احمد بن حنبل نے بھی حضرت بلال ؓسے روایت کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃالقدر چوبیسویں رات کو ہوتی ہے ۔امام بخاری نے بلالؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آخری سات راتوں میں سے پہلی رات لیلۃالقدر ہوتی ہے یعنی یا تیئسویں یا چوبیسویں ۔
مسند احمد کی روایت پہلے درج ہو چکی ہے کہ قرآن چوبیسویں رمضان میں نازل ہونا شروع ہو ا تھا ۔
بخاری نے عبداللہ بن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃالقدر کو رمضان کی آخری دس تاریخوں میں تلاش کرو ۔جب نو باقی ہوں یا سات باقی ہوں یا پانچ باقی ہوں ۔گویا اکیسویں تیئیسویں اور پچیسویں رمضان میں لیلۃالقدر ظاہر ہوتی ہے۔
مسلم نے ابی ابن کعب سے روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ لیلۃالقدر ستایئسویںرمضان کو ہوتی ہے۔عبداللہ بن عباسؓاور معاویہؓ اور عبداللہ بن عمرؓسے بھی یہ روایت ہے کہ لیلۃالقدر ستائیسویں رمضان کو ہوتی ہے عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓنے صحابہ کو جمع کیا تو سب نے اتفاق کیا کہ وہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے کسی میں ہوتی ہے ۔
عبادۃابن الصامت کی روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ آخری دس راتوں مٰن سے کسی طاق راتوں میں سے کسی رات لیلۃالقدر ہوتی ہے یا رمضان کی آخری رات میں ہوتی ہے۔
بخاری میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ تحروا لیلۃالقدر فی الوتر من العشر الاواخر من رمضان یعنی حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے وتر راتوں میں لیلۃالقدر کی تلاش کرو۔
عبادۃالصامت سے روایت کی ہے کہ خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیخرجنا بلیلۃالقدر فتلاحی رجلان من المسلمین فقال خرجت لاخبرکم لیلۃالقدر فتلاحی فلان وفلان فرفعت وعسی ان یکون خیرا لکم فا لتمسرھا فی لتاسعۃ والسا بعۃ والخامسۃ یعنی رسول کریم ﷺ ہمیں لیلۃ القدر کی خبر دینے باہر نکلے ۔باہر دو آدمی لڑ رہے تھے آپ نے تقریر کی اور فرمایا میں تو لیلۃالقدر کی خبر دینے نکلا تھا مگر فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے خدا تعالی نے حافظہ سے اس کا علم اٹھا لیا اور شاید اسی میں بہتری ہو ۔اب تم اسے انتیسویںیا ستائیسویں یا پچیسویں رات میں تلاش کرو۔
ان روایات میں جن میں سے اکثر صحاح کی ہیں بہت اختلاف پایا جاتا ہے ۔رمضان کی پہلی تاریخ سترھویں ،انیسویں،اکیسویں،تیئیسویں،چوبیسویں،پچیسویں،ستائیسویں، انتیسویں،اور تیسویں ساری ہی تاریخوں کو لیلۃالقدر قرار دیا گیا ہے اور عبداللہ بن مسعودؓکے ایک قول کے مطابق تو سارے سال میں کوئی سی رات بھی لیلۃالقدر ہو سکتی ہے۔لیکن حدیثوں پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے صحیح قول یہی ہے کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے کوئی رات اور خصوصاََ طاق راتوں میں سے کوئی رات لیلۃالقدر ہوتی ہے۔
ان روایتوں کو ملا کر دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے اترنے کی خواہ کوئی رات ہو لیلۃالقدر اس رات کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ وہ بدلتی رہتی ہے اور رمضان کی آخری د س راتوں میں سے کسی رات کو اس کا ظہور ہوسکتا ہے کیونکہ اگر قرآن کریم کے اترنے رات ہی لازماً لیلۃالقدر قرار دی جاتی ۔تو اول رسول کریمﷺ یہ نہ فرماتے کہ مجھے لیلۃالقدر کا علم دیا گیا تھا مگر فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے میں بھول گیا ہے آخر قرآں کریم آپ پر اترا تھا آپکو وہ رات تو یاد ہوگی اور اگر یاد نہ بھی ہوگی توآپ کو اس آیت سے یہ تو علم ہوگیاتھا کہ لیلۃ القدر صرف قرآن کریم کے نازل ہونے کی رات ہے اور یہ راتیں کئی نہیں ہو سکتیں ایک ہی رات ایسی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں آپ یہ کیوں فرمایا کرتے کہ فلاں راتوں میں اس کی تلاش کرو۔
دوسرے یہ کہ ایک دفعہ آپ کو لیلۃ القدر بتائی گئی اور وہ اکیسویں رات کو ظاہر ہوئی باوجود اس کے آپ لوگوںسے یہی کہتے رہے کہ آخری عشرہ میں اس کی تلاش کرو۔حالانکہ اگر وہ ایک معین رات ہوتی تو اس کے بعد اسے ہمیشہ رمضان کی اکیسویں رات بتاتے رہے۔پس معلوم ہوا کہ (۱) آپ قرآن کریم کے نزول کی رات کو لازماََ ہمیشہ کے لئے لیلۃ القدر قرار نہیں دیتے تھے (۲)آپ اس کے سوا دوسری راتوں میں سے بھی کسی کو ہمیشہ کے لئے معین لیلۃ القدر نہیں قرار دیتے تھے بلکہ آپ کے نزدیک تو یہ رات قران کریم کے نزول کی یاد میں مقرر کی گئی تھی اور گو اس یادگار کو رمضان کے آخری عشرہ سے مخصوص کر دیا گیا تھامگر نزول کی رات سے مخصوص نہیں کیا گیا تھا۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ گویہ رات نزول قرآن کی یاد میں ہے مگر قرآنی طریق کے مطابق اس سے مزید فائدہ بھی اٹھالیا گیا ہے۔کسی واقعہ کی یاد کے لئے کسی اس پاس کے دن کو مقرر کردیا جائے تو وہ دن وہی فائدہ دیتا ہے جو فائدہ نزول کے دن اس یاد گار کو منانا۔ لیکن اگر ایک ہی رات ہمیشہ کے لئے مخصوص کر دی جائے تو عبادت کی وہ کثرت نہیں ہو سکتی جو غیرمخصوص صورت میں ہوسکتی ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی یاد کو آخری عشرہ میں کسی رات میں مقرر کر کے یہ فائدہ مسلمانوں کے لئے پیدا کر دیا کہ بجائے ایک دن کے وہ دس دن جوش و خروش سے عبادت کریں ۔اگر وہ ایک دن کو لیلۃ القدر مقرر کر دیتا تو کمزور آدمی صرف ایک رات عبادت کرکے خوش ہو جاتا لیکن اس صورت میں کم سے کم دس راتیں تو وہ عبادت میں لگا رہے گا کیونکہ اسے خیال ہوگا کہ شاید یہ رات لیلۃ القدر ہو۔ یا شاید وہ ہو۔اور اس طرح ایک رات کی جگہ دس راتیں متواتر قرآن کریم کے نزول کی نسبت اور اس کی برکات کی نسبت سے غور کرنے کا موقعہ ملتا رہے گا اور ان راتوں میں سے ہر رات کو لیلۃ القدر کا خیال آتارہے گا اور لیلۃ القدر کا خیال آتے ہی قرآن کریم کے نزول اور اس کی برکات کی طرف اس کا ذہن چلا جائے گا اور یہ ایک بہت بڑی برکت اور روحانی فائدہ والی بات ہے۔
آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کو مقرر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ خدمت کے ایام کا آخری وقت ہی انعام کا وقت ہوتا ہے۔
اس وقت تک میں نے یہ بتایا ہے کہ احادیث میں مذکورہ لیلۃ القدر بھی ایک جہت سے اسی لیلۃ القدر سے تعلق رکھتی ہے جا میں قرآن کریم نازل ہواتھا اور یہ کہ ان معنوں کے روسے اصل لیلۃ القدر وہی رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا تھا اور صرف اس کی یاد تازہ رکھنے کے لئے اور اس عہد کو تازہ کرنے کے لئے جو نزول قرآن کریم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت سے باندھا تھا اس لیلۃ القدر مقرر کی ہے اور اس فائدہ کو مد نظر رکھ کر امت کے کمزور لوگ کم از کم دس راتیں تو خوب عبادت کرلیں اس نے رمضان کی آخری دس راتوںمیں اسے چھپا دیا ہے اور معین رات مقرر نہیں کی۔ تاکہ اس کا قیام صرف ایک رسم ہو کر نہ رہ جائے جسے اسلام بہت نا پسند کرتا ہے۔اب جو چاہے رمضان کی آخری راتوں میں اسے تلاش کر سکتا ہے۔اور اس کیا شک ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو دس راتوں میں تلاش کرے گا اسے دین کے ساتھ پہلے سے زیادہ لگائو ہو جائے گا اور اس کے دل میں دین کی محبت پیدا ہو جائے گی اور اس سے یہ امید کی جاسکے گی کہ پہلی غلطیوں کو چھوڑ کر پورے طور پر خدا تعالیٰ کی طرف جھک جائے اور کسی وقت اس کی ہر رات ہی لیلۃ القدر ہو جائے گی۔
عبداللہ بن مسعودؓ اور دوسرے بزرگان دین سے جویہ روایت ثابت ہے کہ لیلۃ القدر سال میں سے کسی رات کو ظاہر ہو سکتی ہے اس کے یہی معنے ہیں کہ انفرادی لیلۃ القدر سال میں کسی وقت آسکتی ہے ورنہ ان کایہ منشاء نہیں کہ رمضان میں یہ لیلۃ القدر نہیں ہوتی۔ کیونکہ خود ان کی دوسری روایت میں رمضان کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کے ظاہر ہونے کا ثبوت ملتا ہے چنانچہ وہ روایات اوپر نقل کی جا چکی ہیں۔ہم یہ تو خیال بھی نہیں کر سکتے کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ نے رسول کریم ﷺ کے قول کو رد کردیا۔ صحابہؓ سے اس بات کی ہر گز امید نہیں کی جا سکتی ہے۔پس ان کے اس قول کے کہ سال کے کسی حصہ میں بھی لیلۃ القدر آسکتی ہے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ فردی لیلۃ القدر سال کی کسی رات کو آسکتی ہے نہ یہ کہ جماعتی لیلۃ القدر جسے وہ خود بھی رسول کریمﷺکی روایت ہے رمضان کی آخری راتوں میں قرار دے چکے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ہر مومن پر روحانی بلوغت کا زمانہ آتا ہے آخر ہر شخص پیدائش کے وقت سے تو روحانیت میں کامل نہیں ہوتا ۔اکثر لوگوں میں جسمانی بلوغت کے بعد ہی کسی وقت روحانی بلوغت کا زمانہ آتا ہے ۔بعض کو جوانی میں بعض کو ادھیڑ عمر میں اور بعض کو بڑھاپے میں اور بعض کو بڑھاپے کے آخر میں۔جس رات بھی کسی مومن کی نسبت اللہ تعالی کا یہ فیصلہ ہوجاتا ہے کہ اب سے یہ ہمارا قطعی جنتی بندہ ہے وہی اسکی لیلۃالقدر ہے اور اسکے لئے رمضان کی کوئی شرط نہیں سارے سال میں کسی وقت کسی کی لیلۃالقدر آسکتی ہے۔اللہ تعالی رحمان رحیم ہے اور اسکی یہ دونوں صفات ہر وقت ظاہر ہوتی رہتی ہیں پس ضروری تھا کہ اللہ تعالی کے خاص فضلوں کے معین اوقات کے علاوہ کوئی اور سلسلہ بھی اس کے فضلوں کا ہوتا جو ہر وقت اور ہر لحظہ ظاہر ہوتا رہتااور یہ انفرادی فضلوں کا ہی سلسلہ ہے کسی مومن بندہ کی لیلۃالقدر کسی دن آجاتی ہے اور کسی کی کسی دن ۔اور اسطرح روزانہ سارے سال میں اللہ تعالی کے فضل اسکے نیک بندوں پر نازہوتے رہتے ہیں ۔پھر سال میں ایک دفعہ قرآن کریم کے نزول کی یاد میں ساری امت پر ایک ہی رات میںرمضان کے آخری عشرہ میں اجتماعی طور پر اللہ تعالی کا فضل نازل ہوتا ہے اور وہ لیلۃالقدر کبری ٰ ہوتی ہے۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ بیشک آخری عشرہ رمضان میں لیلۃالقدر کا مقرر کرنا ایک احسن طریقہ مومنوں کو انعام دینے اور انکی عبادت کی روح کو قائم رکھنے کا تھا لیکن پھر یہ کیوں ہوا کہ کبھی رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ آخری عشرہ میں اس کی تلاش کرو اور کبھی فرمایا کہ ۲۱کو ہوتی ہے کبھی ۲۴ کو اور کبھی کئی طاق راتوں کا ذکر کردیا ۔آپ نے تعین کرنے کی کیوں کوشش کی ؟اس کا جواب یہ ہے کہ اصل قانون لیلۃالقدر کے بارے میں یہی ہے کہ آخری عشرہ میں بدل بدل کر آتی ہے لیکن مومن کو اللہ تعالی اس کا خاص علم دے دیتا ہے چنانچہ ایک دفعہ رسول کریمﷺ کو یہ علم دیا گیا کہ لیلۃالقدر کی رات کو بارش ہوگی اور آپکی مسجد ٹپک پڑے گی چنانچہ رمضان کی ۲۱ کو ایسا ہو گیا ۔ جن صحابہؓ کو اس کا علم ہوا انہوں نے یہ سمجھا کہ شاید لیلۃالقدر ہوتی ہی ۲۱ کو ہے ۔ حالانکہ اس کا صرف یہ مطلب تھا کہ اس رمضان میں لیلتہ القدر۲۱ کوتھی ۔ اس طرح ایک دوسرے موقعہ پر آپ کو لیلتہ القدر بتائی گئی اور بھول گئی توآپ نے آخری طاق راتوںمیں سے کوئی اور خصوصا۲۷کو لیلۃالقدر قرار دیا ۔پس جہاں تک آخری عشرہ میں لیلۃالقدر ہونے کا سوال ہے یہ ایک قانون ہے اور جہاں تک اس عشرہ کی کسی خاص رات کے مطعلق رسول کریمﷺ یا صحابہ ؓ یا دوسرے آئمہء امت کا اشارہ ہے وہ خاص خاص رمضانوں میں ان کے آسمانی یا وجدانی علم کا نتیجہ ہے یہ قانون نہیں بتایا گیا کہ ہمیشہ اسی رات کو لیلۃالقدر ہوا کرے گی ۔
ایسے موقعہ پر طبعاًیہ خیال پیدا ہوتا ہے کیا کوئی ایسی علامت ہے جس معلوم ہو سکے کہ فلاں رات اس رمضان میں لیلۃالقدر تھی؟اس ککا جواب یہ ہے کہ بعض احادیث میں آتا ہے کہ کچھ بجلی چمکتی ہے ہوا ہوتی ہے اور ترشح ہوتا ہے ایک نور آسمان کی طرف جاتا یا آتا نظر آتا ہے مگر اولذکر علامات ضروری نہیں گو اکثر ایسا تجربہ کیا گیا ہے کہ ایسا ہوتا ہے اور آخری علامت نور دیکھنے کی صلحاء کے تجربہ میں آئی ہے یہ ایک کشفی نظارہ ہے ظاہری علامت نہیں جسے ہر ایک شخص دیکھ سکے ۔خود میں نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے لیکن جو میں نے دیکھا ہے وہ دوسروں نے نہیں دیکھا ۔
اصل طریقہ یہی ہے کہ مومن سارے رمضان اللہ تعالی سے دعائیں کرتا رہے اور اخلا ص سے روزے رکھے پھر اللہ تعالی کسی نہ کسی رنگ میں اس پر لیلۃ القدر کا اظہار کر دیتا ہے۔
وماادرک مالیلۃالقدر Oلیلۃالقدر خیرمن الف شھرO
اور (اے مخاطب) تجھے کیا معلوم ہے کہ (یہ عظیم الشان)تقدیر والی رات کیا شئے ہے (یہ عظیم الشان )تقدیر والی رات تو ہزار مہینے سے بھی بہتر ہے۔
تفسیر:۔تجھے کس نے بتایا ہے کہ لیلۃالقدر کیا چیز ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا یہاں جو منشاء ہے اور جس بات کی طرف اشارہ کرنا ہمارے مد نظر ہے عقلی طور پر تم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے ۔یعنی انسانی ذہن تو لیلۃ سے زیادہ سے زیادہ تاریکی کی طرف جاتا ہے مگر ہماری مراد اس لیلۃالقدر سے ہے جو بے انتہاء برکتوں پر مشتمل ہے اور جس کی عظمت کی طرف عام طور پر انسانی ذہن جاہی نہیں سکتا ۔اس طرح وما ادرک مالیلۃالقدرکہہ کر معنوں کو بہت وسعت دے دی کیونکہ اس کے معنے ہیں حدقیاس وفہم سے بالا۔
حل لغات:۔شھر کے معنے عربی زبان میں اظہار کے ہوتے ہیں ۔کیونکہ یہ شھر کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔نیزشھرقمر کو بھی کہتے ہیںجب وہ اپنے کمال کے قریب ہو ۔اسی طرح شھرمہینہ کو بھی کہتے ہیں اور شھرکے معنے عالم کے بھی ہیں کیونکہ وہ مشہور ہوتا ہے۔
تفسیر:۔فرماتا ہے ہم جس لیلۃالقدر کا ذکر کر رہے ہیں گو اس کا نام لیلہ ہے مگر درحقیقت وہخیرہزار شہر سے بھی زیادہ اچھی ہے۔
شھرکے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے اظہار کے بھی ہوتے ہیں اور شھرقمر کو بھی کہتے ہیں جب وہ اپنے کمال کو پہنچ جائے اور شھرمہینہ کو بھی کہتے ہیں اور اسکے معنے مشہور عالم عالم کے بھی ہیں ۔پسخیرمن الف شھرکے ایک یہ معنے ہوئے کہ یہ لیلۃالقدر ہزار اظہار سے بھی بہتر ہے ۔لیلکے متعلق یہ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ تاریکی پیدا کر دیتی اور اشیاء کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا دیتی ہے ،مگر فرماتا ہے کہ جس رات کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ ایک لحاظ سے تو رات ہے کہ اس میں ہزاروں قسم کے فتنے پائے جاتے ہیں اور بے دینی اور الحاد کا زور ہے لیکن اسکے ساتھ اس رات اللہ تعالی کے جلال کے اظہار اور انسانی فطرت کی پوشیدہ نیکیوں کے نمود بھی اتنے سامان پیدا ہورہے ہیں کہ وہ اپنے وقت پر دنیا کو محو حیرت کر دیں گے اس لئے اس رات کی مخفی طاقتوں پر ہزار اظہار اور نمود قربان ہے کیونکہ جس اظہار اور جس نمود کی بنیاد اس میں رکھی جا رہی ہے اس کے مقابلہ پر کوئی اور اظہار اور نمود نہیں ٹھہر سکتا ۔پس گو یہ رات ہے مگر نیکی کی عظیم الشان بنیاد رکھے جانے کی وجہ سے ہزاروں ترقیوں کا زمانہ اس پر قربان ہے۔دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ یہ مومنوں کے لئے رات کا زمانہ ہے کہ انہیں ہر قسم کی تکالیف دی جاتی ہیں ،مارا جاتا ہے،پیٹا جاتا ہے ۔قتل کیا جاتا ہے۔لیکنیہ رات چونکہ قدر کی رات ہے اسلئے اس زمانہ کی تکالیف اور دکھ آئندہ کے آرام اور سکھ سے زیادہ قیمتی ہیں ۔آج وہ زمانہ ہے کہ جو شخص محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لاتا ہے وہ اپنی تمام عزتوں کو کھو بیٹھتا ہے ۔ہر قسم کے طعن وتشنیع کا ہدف بن جاتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اس جیسا برا شخص اور کوئی نہیں ۔مگر اس ذلت میں جو مزا ہے ،ان قربانیوں میں جو راحت ہے اور ان تکالیف میں جو سرور ہے وہ ان ہزار عزتوں میں نہیں جو اسلام کی ترقی کے زمانہ میں لوگوں کو حاصل ہوں گی۔چنانچہ دیکھ لو ابو بکرؓاپنی قوم میں بڑا نیک نام تھا سارا عرب اسکی عزت کرتا تھا ،اس کا ادب واحترام کرتا تھا مگر جب رسول کریم ﷺ کا مرید بن گیا تو وہی لوگ جو اسکی عزت کرتے تھے اسے گالیاں دینے لگ گئے،اسے برا بھلا کہنے لگے،اسے مارنے پیٹنے لگے اور کہنے لگے ابوبکر اچھا تھا مگر اب خراب ہو گیا ہے ۔علیؓ بڑانیک بچہ تھا اس کا باپ عرب کے سرداروں میں سے تھا مگر جب وہ محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لا یا تو وہ لوگ کہنے لگے وہ واجب القتل ہے ۔اسکا مقاطعہ کیا گیا اس کے منہ پر گالیاں دی جاتیں۔اسے ذلیل اور رسوا کیا جاتا ہے اور لوگ خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے بڑااچھا کام کیا ۔عمرؓاپنی مجالس میں بڑی عزت رکھتا ،اہل عرب کے نسب نامہ کے لئے وہ بہترین مورخ سمجھا جاتا ،نوجوانی کی حالت میں بڑے بڑے سرداروں کی مجلس میں جاتا تو لوگ اسے ادب کے مقام پر بٹھا تے ،اس کے ساتھ عزت سے پیش آتے مگر جب وہ محمد رسول ﷺ پر ایمان لایا تو سب لوگ اسے برا بھلا کہنے لگ گئے ۔اس کی مدح سرائی کی بجائے عیب چینی کی جا تی اور اسکو دکھ دے کر خوشی محسوس کی جاتی۔عبداللہ بن سلامؓایمان لائے تو رسول کریم ﷺنے یہود کا امتحان لینے کے لئے ان کو جمع کیا اور فرمایا کہ بتائو عبداللہ بن سلام کیسا ہے؟انہوں نے کہا عبداللہ بن سلام کا کیا کہنا ہے نیکوں کا بیٹا ،اچھوں کی اولاد ،خود بھی شریف اور باپ دادا بھی شریف اس کی نیکی کی کوئی حد ہے ! رسول کریمﷺ نے فرمایا اچھا سنو!وہ مسلمان ہو گیا ہے ۔یہ سنتے ہی کہنے لگے بڑا خبیث ہے ،خبیثوں کا بیٹا تھا اسی لئے خبیث نکلا۔
غرض فرمایا ہم نے قرآن کریم کو ایک قدر والی رات میں نازل کیا ہے۔یہ رات لوگوں کی ظآہری عزتوں کو بالکل چھپا ڈالے گی لوگ نیک ہونگے،معزز ہوں گے،اچھی شہرت رکھنے والے ہوں گے مگرمحمد رسول اللہﷺ پر ایمان لانے کے بعد ان کی عزت اور شہرت اور نیک نامی پر رات چھا جا ئیگی وہ لوگوں کے مطاعن کا ہدف بن جائیں گے اور لوگ کہیں گے کہ وہ بہت برے ہین ۔مگر یہ نہ سمجھو یہ تاریک زمانہ ان کے لئے ذلت کا موجب ہو گا بلکہ نبی کی خاطر اور اسکی معیت میں یہ تکالیف اٹھانا شہرتوں سے اچھا اور زیادہ مبارک ہے۔
اس زمانہ کے بعد شہرتوں کا زمانہ آئے گا ۔لوگ اسلام کی وجہ سے بڑی بڑی شہرتیں پائیں گے ،بڑی عزتوں سے دیکھے جائیں گے ،بے انتہا دنیا کمائیں گے مگر انکی ظاہری عزتیں اور شہرتیںان ما کھانے والوں کے مقابل پر ہیچ ہوں گی ۔چنانچہ دیکھ لو اسلام کے طفیل اس کے حلقئہ اثر میں لوگوں نے کتنی کتنی عزت پائی ۔کتنا رتبہ پایا دینداروں نے بھی اور دیناداروں نے بھی۔مگر وہ اس رات میں پیدا ہونے والے لوگوں کا بھلا کیا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔دین میں امام اباحنیفہ۔امام مالک،امامشافعی،امام احمد بن حنبل ۔حضرت سید عبدالقادر جیلانی،معین الدین چشتی،شہاب الدین سہروردی،محی الدین ابن عربی نقشبندی،امام غزالی نے اپنے زمانہ میں کتنی عزت پائی۔بادشاہ جوتیاں سامنے رکھنے میں اپنی عزت خیال کرتے تھییہ عزت انکی اسلام کی وجہ سے ہی تھی ۔اسکے مقابل پر ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی بلکہ انکے اور ہمارے آقامحمد رسول اللہﷺ نے لیلۃالقدر کے زمانہ میں ماریں کھائیں گالیاں سنیں۔مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان کے بعد بزرگوں کی ترقی کا زمانہ سابق بزرگوں کے تاریک زمانہ سے بہتر تھا ۔خدا گواہ ہے کہ ان بزرگوں سے کہا جاتا ہے کہ تمہاری عمر بھر کی شہرت چھین کر ایک گھنٹہ کے لئے تم کو محمد رسول اللہ ﷺ کے دروازہ پر ماریں کھانے کے لئے کھڑاکیا جا سکتا ہے تو ان پر شادی مرگ کی حالت طاری ہو جاتی اور وہ کہتے کہ بخدا اس سے بہتر اور کوئی سودا نہیں ہو سکتا ۔اس آیت میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھیوں پر کیا برا زمانہ آیا ہے مگر اے سننے والے سن!کہ یہ برا زمانہ تو ضرور ہے تاریکی اپنی انتہا ء کو پہنچی ہوئی ہے مگر یہ تاریک رات لیلۃالقدر ہے ۔جو عزت اس رات میں پیدا ہونے سے انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ عزت ہزار شہرتوں اور عزتوں سے بالا ہے اور آئندہ زمانہ میں بڑی بڑی عزتوں والے لوگ اس تنگی اور دکھ کی رات کے ایک گھنٹہ کو اپنی با زعت زندگیوں کے سو سال پر ترجیح دینگے۔اور دیکھ لوایسا ہی ہوا قرآن کریم کی یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ہم میں سے کس کا دل نہیں کرتا کہ کاش کہ وہ محد رسول اللہﷺکے دروازے پر اسلام کی خاطر کفار کی ماریں کھا رہا ہوتا ۔کاش وہ انکی سخت سے سخت گالیاں سنکر مزے لے رہا ہوتا ۔اصدق الصادقین خدا کا یہ فقرہ کیسا سچا ہے کہ لیلۃالقدر خیر من الف شھر۔۔
یہی حال دنیوی لوگوں کا ہوتا ہے ۔نبی کے زمانہ کے لوگ تو تکالیف اور مصائب برداشت کرتے ہیں اور بعد میں آنے والے ان کے بوئے ہوئے بیجوں کے پھل کھاتے ہیں ۔بنو عباس اور بنو امیہ اپنے تختوں پر بیٹھ کر کیا کیا بڑائیاں کرتے ہوں گے ۔کس طرح فخر سے کہتے ہوں گے تم جانتے ہو ہم کون ہیں ہم عرب کے سردار ہیں ۔ہمارے فلاں فلاں حقوق ہیں ۔ہمارے مقابلہ میں تم کیا حیثیت رکھتے ہو ۔مگر سوال یہ ہے کہ بنو عباس اور بنو امیہ کو بادشاہت کہاں سے ملی؟ان بیجوں سے ملی جو ابوبکرؓاور عمر ؓاور عثمان ؓاور علیؓاور طلحہؓاور زبیر ؓ اوردوسرے صحابہؓنے بوئے ۔ان لوگوں نے بیشک اپنی قربانیوںکے پھل نہیں کھائے مگر خدا تعالی کے نزدیک کون بڑا ہے کیا عبدا لملک بڑا ہے یا ہارون الرشید بڑا ہے؟خدا تعالی کے نزدیک یہ لوگ بڑے نہیں بلکہ ابو بکر ؓ۔عمرؓ۔طلحہؓ۔عثمانؓ۔علیؓ۔اور زبیر بڑے ہیں ۔بلکہ یہ تو الگ رہے اللہ تعالی کے نزدیک ابوہریرہؓ بڑا ہے جسے بعض دفعہ سات سات وقت کا کھانا بھی میسر نہیں آتا تھا بلکہ ابوہریرہ ؓتو کیا ان سے بلالؓ بھی بڑا ہے وہ خواہ غلام تھا مگر اسلام سے پہلے اس کی پھر بھی عزت تھی جب وہ اسلام لایا تو اسکے اعمال اور اسکی نیکی اور اسکی خصلتوں پر پردہ پڑ گیا اور لوگوں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا مگر انہی تکالیف نے اسے وہ رتبہ بخش دیا کہ ہارون الرشید اور عبدالملک کو اگر اسکے دروازے کی جاروب کشی کی خدمت دی جاتی تو یہ بادشاہت سے زیادہ اعزازہوتا۔
یہ سیدھی بات ہے کہ جو لوگ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے تھے یا کسی اور نبی پر ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوئی آخر ان میں کوئی نہ کوئی خوبی پائی جاتی تھی ورنہ جب تک انسان کی فطرت میں نیکی نہ ہو قربانی پر کون تیار ہو سکتا ہے ۔مگر واقعات بتاتے ہیں کہ جب بھی کسی نبی پر لوگ ایمان لاتے ہیں ان کی نیکیاں لوگوں کو بھول جاتی ہیں اور انکے اخلاق سب نظر انداز کر دئے جاتے ہیں اور وہ دینا کی نگاہ میں بالکل ذلیل ہو جاتے ہیں۔
ہمارے سلسلہ میں بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے ایک زمانہ میں بادشاہ بھی شامل ہونگے اور جماعت احمدیہ ترقی کرتے کرتے وہ مقام حاصل کر لے گی کہ تمام دنیا کے مذآہب اس کے مقابلہ میں بالکل بے حقیقت رہ جائیں گے۔اس وقت جماعت احمدیہ کے علماء کو خواہ کتنی بڑی عزت حاصل ہو اگر ان کے دلوں میں ایمان کا ایک ذرہ بھی پایا جاتا ہو گا تو وہ اپنی ساری عزت اس ذلت کے مقابلہ میں ہیچ سمجھیں گے جو موجودہ زمانہ میں احمدیت کو قبول کرنے کی وجہ سے ہماری جاعت کو دیکھنی پڑتی ہے۔میں سمجھتا ہوں اگر امام ابو حنیفہ ،امام احمد بن حنبل،امام شافعی اور امام مالک وغیرہ سے اس زمانہ میں جب دنیا میں چاروں طرف ان کا نام گونج تھا یہ کہا جاتا کہ کیا تم پسند کرتے ہو کہ تم سے یہ ساری عزت لے لی جائے اور تمہیں ابوہریرہؓ کی جگہ کھڑا کر دیا جائے تو وہ بلاواقف یہی جواب دیتے کہ ہمیں منظور ہے حالانکہ ابوہریرہؓ جو بسااوقات فاقہ کی وجہ سے بے ہوش ہو جایا کرتے تھے اور لوگ یہ سمجھ کر کہ انہیں مرگی کا دورہ ہو گیا ہے ان کے سر پر جوتیاں مارا کرتے ۔غرض فرماتا ہے لیلۃ القدرخیر من الف شہر۔ہزار عزتیں جو لوگوں کو آئندہ زمانہ میں حاصل ہوں گی اس لیلۃ پر قربان ہیں۔ہم بے شک گمنامی کے لحاظ سے اس زمانہ کو لیلۃ قرار دے رہے ہیں مگر یہ لیلۃ وہ ہے کہ ہزار ظہور اس ایک گمنامی پر قربان ہو رہے ہوگا۔
(۲) شہرکے معنے عالم کے بھی ہیں ان معنوں کے روسے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اس لیلۃ القدر میں جو معارف اور علوم کھلے ہیں وہ ہزار عالم سے بہتر ہیں۔ا س میں کیا شک ہے کہ زمانہ نبوی میں جو تاریک اور بے دینی میں سارے زمانوں سے بڑھا ہوا تھا قرآن کریم کے ذریعہ سے جو علوم ظاہرہوئے اور خداتعالیٰ نے عرفان کے جو دریا اس وقت بہادئے ان کے مقابل پر ہزار عالم بھی تو کچھ بیان نہیں کرسکتا۔ مسیحی لوگ کہا کرتے ہیں کہ قرآن پہلی کتب کی نقل ہے اور میں انہیں جواب میں کہا کرتا ہوں کہ وہ کتب جن کی قرآن نے نقل کی ہے اور خود قرآن بھی جو ان کی نقل ہے تم سب مسیحی علماء مل کر اس نقل اور جن کتابوں کی وہ نقل ہے ان سب سے استنباط کرکے اب ایک اور مکمل کتاب کیوں نہیں بنادیتے۔ آخر وہ کتب بھی موجودہیں، قرآن کریم بھی موجود ہے اور اس کے بعد جو علوم لوگوں کے نزدیک نئے نکلے وہ بھی موجود ہیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی نسبت ان لوگوں کیلئے زیادہ موقع ہے ، وہ کیوں اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک اور کتاب امور دینیہ اور احکام شریعیہ کے بارہ میں ایسی نہیں بنادیتے جو قرآن کریم سے افضل ہو۔ اگر وہ ایسا کردیں تو بغیر کسی اور دلیل کے اسلام کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مگر منہ سے رطب ویابس باتیں کرتے جانا اور امر ہے اور کچھ کرکے دکھانا اور بات ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اس لیلۃ القدر میں جو علوم اللہ تعالیٰ نے ظاہر کئے اس کے مقابل پر دنیا کے علماء مل کر بھی کچھ نہیں کرسکتے اور قرآن کریم نے جو یہ کہا کہ ہزار عالم سے بھی وہ لیلۃ القدر اچھی ہے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ ڈیڑھ ہزار اس سے اچھا ہے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ عربوں میں ہزار سے اوپر ہندسہ نہ ہوتا تھا۔ جب انہوں نے انتہا کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے تو وہ ہزار کا ہندسہ بولتے تھے ۔ا س عربی محاورہ کے مطابق قرآن کریم نے ہزار کا لفظ بولا ہے اور مطلب یہ ہے کہ دنیا کے زیادہ سے زیادہ عالم مل کر بھی وہ علوم بیان نہیں کرسکتے جو اس لیلۃ القدر میں نازل ہونے والے کلام یا نازل ہونے والے نبی نے بیان کئے ہیں۔ یا آئندہ ایسے ہی تاریک زمانوں میں خداتعالیٰ کے مامور بیان کریں گے۔
اس مضمون سے مسلمانوں کو اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جب جب بھی اسلام پر کوئی مصیبت کا زمانہ آئے انہیں علماء ظاہر کی امداد پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ انہیں چاہئے کہ ایسے تاریک زمانوں میں خداتعالیٰ کی طرف سے اترنے والی امداد کی طرف نظر رکھا کریں کہ جو کچھ آسمانی امداد اور ہدایات سے انہیں حاصل ہوگا وہ ظاہری علماء کی مجموعی کوششوں سے حاصل نہ ہوسکے گا۔ مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ یہ زمانہ اسلام کے گزشتہ زمانوں سے زیادہ تاریک ہے۔ بعدزمانہ نبوی ایسا سخت زمانہ اسلام پر کبھی نہیں آیا ۔ لیکن مسلمان اس بلا کے دور کرنے کیلئے انسانوں پر زیادہ نظر رکھتے ہیں بہ نسبت خدا کے۔ خداتعالیٰ نے ان دنوں میں بھی حسب بشارات قرآنیہ اور حسب وعدہ ان انزلنہ فی لیلۃ القدراپنا ایک معمور بھیجاہے۔ لیکن لوگوں کی اس طرف توجہ نہیں بلکہ خود ساختہ علاجوں کی طرف مائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کی حالت پر رحم فرمائے۔
(۳) تیسرے معنے شھر کے مہینے کے بھی ہیں۔ ان کے رو سے لیلۃ القدر خیر من الف شہر کہ یہ معنے بھی ہیں کہ وہ زمانہ جس میں قرآن کریم نازل ہوا یا جس میں محمد رسول کریم ﷺ نازل ہوئے یا وہ زمانہ جس میں آپ کے بروزِ کامل نازل ہوں گے ہزار مہینوں سے اچھا ہے۔ یعنی تمام زمانوں سے اچھا ہے۔ کیونکہ میں اوپر بتا آیا ہوں کہ عربوں میں ہزار کے معنے ان گنت کے ہوتے تھے۔ کیونکہ ان کے اندر ہزار سے بڑھ کر کسی گنتی کا رواج نہ تھا۔ جب انہوں نے یہ بتانا ہوتا کہ فلاں چیز تو ان گنت ہے تو وہ کہتے تھے کہ وہ تو ہزار ہے۔ پس اسی محاورہ کے مطابق قرآن کریم نے کہا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا زمانہ یا قرآن کریم کا زمانہ یا ان کے بروز کا زمانہ ہزار مہینہ سے اچھا ہے یعنی ان گنت مہینوں سے اچھا ہے۔ کوئی دوسرا زمانہ ان کا مقابلہ نہیں کرسکے گا خواہ آئندہ کا زمانہ ہو یا گزشتہ زمانہ ہو۔
عربوں کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہے جس سے الف شہر کے معنے خوب روشن ہوجاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ نے ایک بدوی سے پوچھاکہ مانگو کیا مانگتے ہو۔ اس نے کہا ہزار دینار دے دیں۔ بادشاہ نے بس اس سے زیادہ مانگو۔ اس پر وہ بدوی بولا کیا ہزار سے اوپر بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟
(۴) چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ہزار سے مراد ہزار ہی کے لئے جائیں ۔ یہ معنے رسول کریم ﷺ کے ناقص اظلال کے متعلق صحیح اترتے ہیں ۔ کیونکہ آپ نے اپنے ناقص اظلال یا مجددوں کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ ہر صدی کے سر پر آئیں گے اور ہزار مہینے کا عرصہ تراسی سال اور چار مہینہ کا ہوتا ہے اور اتنی مدت صدی سے گزرجائے تو صدی کا سر آجاتا ہے۔ پس ہزار مہینے کے لفظاً ہزار کے لے کر اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ ہم قرآن اور محمد رسول اللہ ﷺ کو مجددوں اور آپ کی تعلیمات کے وجود میں ہر صدی کے سر پر نازل کرتے رہیں گے اور ان مجددوں کا زمانہ باقی تراسی سال سے بہتر ہوگا۔ یعنی امت ان کی نگرانی میں جو برکات حاصل کرے گی ان کی عدم موجودگی میں وہ برکات حاصل نہ کرسکے گی۔
(۵) پانچویں معنے اس کے یہ ہیں کہ اسلام کی تعلیم جس زمانہ میں رائج ہو وہ دوسرے سب زمانوں سے مقدم ہے۔ ہم دیکھتے ہیں مسلمانوں کے تنزل اور ان کے ادبار کو دیکھ کر بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ تم جس اسلامی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے اور کہتے ہو کہ اسلامی حکومت دنیا میں مساوات قائم کرتی ہے۔ اسلامی حکومت غرباء کو ان کے حقوق دلاتی ہے۔ اسلامی حکومت ہر قسم کے جھگڑوں اور مناقشات کا سدباب کرتی ہے۔ اسلامی حکومت دنیا میں بین الاقوامی صلح کی داغ بیل ڈالتی ہے۔ اسلامی حکومت دولت کو چند محدود ہاتھوں میں نہیں رہنے دیتی۔ اسلامی حکومت غرباء کو آگے بڑھنے کے مواقع بہم پہنچاتی ہے۔ وہ حکومت کہاں گئی؟ اگر تیس سال تک وہ دنیا میں رہی اور پھر اس کا خاتمہ ہوگیا تو اس اسلامی حکومت کا فائدہ کیا ہوا؟اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیس سال نہیں اگر وہ ایک رات کیلئے بھی قائم ہو تب بھی وہ خیر من الف شہر ہے کیونکہ وہ دنیا میں آکر ایک بیج تو بوگئی ہے، ایک نمونہ تو قائم کرگئی ہے ۔ اگر اس کی شکل اب قائم نہیں رہی تو کیا ہوا۔ جب دنیا میں بیداری پیدا ہوگی وہ مجبور ہوگی کہ حکومت کو ان بنیادں پر قائم کرے جو اسلام نے آج سے تیرہ سو سال پہلے کھڑی کی تھیں۔ اگر یہ نمونہ دنیا میں قائم نہ ہوچکا ہوتا تو دنیا اپنی ترقی کیلئے کیا کرسکتی تھی۔ وہ اندھیروں میں بھٹکتی پھرتی اور اپنی مشکلات کے حل کیلئے کوئی راستہ نہ پاتی۔ اب بے شک دنیا میں اسلامی حکومت نہیں مگر اسلامی حکومت کا نقشہ تو اس کے سامنے ہے۔ جب کبھی دنیا کو اپنی حالت بدلنے کا فکر ہوگا، جب کبھی تبدیلی کا احساس رونما ہوگا لوگوں کے سامنے ایک نمونہ موجود ہوگا۔ وہ کہیں گے آئو ہم اس اسلامی حکومت کی نقل کریں جو آج سے تیرہ سو سال پہلے قائم کی گئی تھی۔ اس طرح پھر اس نمونہ کے ذریعہ دنیا میں روشنی نمودار ہوگئی اور اس کی مشکلات کا خاتمہ ہوگا۔ پس اللہ فرماتا ہے رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے بعد مسلمانوں میں خرابی پید اہوجانے سے اس رات کی قدر کم نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک رات ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ ہزار مہینوں میں چونکہ تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں اس لئے لیلۃ القدر خیر من الف شہر کے یہ معنے ہوئے کہ تم اس زمانہ کا کیا ذکر کرتے ہو ، یہ زمانہ تو تیس ہزار زمانوں سے بڑھ کر ہے۔ اگر بعد میں تاریکی کے تیس ہزار دور بھی آجائیں تب بھی محمد رسول اللہ ﷺ کا زمانہ بے قیمت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تب بھی یہی کہا جائے گا کہ وہ زمانہ آئندہ آنے والے سب زمانوں سے بڑھ کر تھا۔ کیونکہ اس زمانہ میں اسلامی حکومت کا وہ ڈھانچہ قائم کردیا گیا تھا جو قیامت تک آنے والے لوگوں کی صحیح راہنمائی کرنے والا اور ان کی مشکلات کو پورے طور پر دور کرنے والا ہے۔
جو معنے اوپر کئے گئے ہیں ان کے رو سے لیلۃ القدر بمعنے زمانۂ نبوت کی تو تشریح ہوجاتی مگر یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اگر لیلۃ القدر سے اشارہ معروف لیلۃ القدر سے ہے تو پھر اس آیت کے کیا معنے ہوئے کہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے اچھی ہے کیونکہ ہزار مہینوں میں تو تراسی اور لیلۃ القدریں آجائیں گی؟ تواس کا جواب یہ ہے کہ لیلۃ القدر آتی تو ہر سال ہے مگر ہر شخص کو وہ رات میسر تو نہیں آجاتی۔ جو لوگ سچے تقویٰ اور سچی نیکی سے خداتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں انہیں خاص توجہ اور خاص خشوع و خضوع کی حالت میں وہ میسر آتی ہے۔یعنی گو اس کی عام برکات تو عام مسلمانوں کو ہر سال ہی مل جاتی ہیں لیکن اس کا کامل ظہور جبکہ انسان کو یہ معلوم بھی ہوجاتا ہے کہ آج لیلۃ القدر ہے، خاص خاص آدمیوں کو اور کبھی کبھی ہی نصیب ہوتا ہے۔ یہ تجربہ درمیانہ درجہ کے مومنوں کو اپنی عمر میں کبھی ایک دفعہ یا دو دفعہ نصیب ہوتا ہے۔ پس اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص کومحمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں لیلۃ القدر مل جائے اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کی ساری عمر کامیاب ہوگئی۔ اور عمر کا اندازہ تراسی سال لگا کر بتایا ہے کہ ایسے شخص کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ رات اس کی باقی عمر سے افضل ہے اور اسی رات کی خاطر اس کی زندگی گزری ہے اور یہ رات اس کی زندگی کا نچوڑ ہے۔
تنزل الملئکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر O
(ہرقسم کے) فرشتے اور (اخلاص کی ) روح اس (رات) میں اپنے رب کے حکم سے تمام (دینی اور دنیوی) امور (کی خرابی کو درست کرنے) کیلئے اترتے ہیں۔
تفسیر: تنزل الملئکۃ والروح فیھا میں اللہ تعالیٰ ایک زائد بات یہ بتاتا ہے کہ اس کی طرف سے صرف کلام نہیں اترتا بلکہ ملائکہ اور روح دونوں کا اس کے ساتھ نزول ہوتا ہے۔ روح کے معنے کلام کے بھی ہوتے ہیں اور روح کلام الٰہی لانے والے فرشتے کو بھی کہتے ہیں۔ گویا ملائکہ سے مراد عام فرشتے ہیں اور روح سے مراد وہ فرشتے ہیں جو کلامِ الٰہی لانے والے ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ پہلے الٰہی کلام اور اس کے نازل ہونے کا ذکر ہوچکا ہے اس لئے یہاں روح سے کلام الٰہی لانے والے فرشتے مراد نہیں ہوسکتے بلکہ اس سے کچھ اور مرا دہے جیسا کہ آگے چل کر بیان کیا جائے گا۔
فرماتا ہے ہماری سنت یہ ہے کہ جب کسی مامور پر ہم اپنا کلام نازل کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی اپنے ملائکہ کو بھی زمین پر نازل کردیتے ہیں۔ یہاں ملائکہ سے وہی فرشتے مراد ہیں جن کو آدم کے وقت سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ہم نے صرف اپنا کلام محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل نہیں کیا بلکہ ملائکہ کی فوج بھی اس کی تائید کیلئے زمین پر نازل کردی ہے یا آئندہ زمانہ میں قرآن کریم کی خدمت اور اسلام کے احیاء کیلئے جو مامورین آئیں گے …………… وہ اکیلے نہیں آئیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کی تائید اور نصرت کیلئے اور ان کے کام کو چلانے کیلئے ہمیشہ آسمان سے اترتے رہیں گے۔ پس مت سمجھو کہ اپنی تدابیر سے تم ہمارے مامورین کو مغلوب کرلو گے تم میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ایسا کرسکو کیونکہ ملائکہ ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کی کسی انسان میں طاقت نہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آدم کو بھیجا تو ساتھ ہی فرشتوں کو حکم دے دیا کہ جائو اور اس کو سجدہ کرو۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ فرشتوں کے ماتحت جس قدر چیزیں تھیں وہ آدم کے تابع کردی گئی تھیں۔ اسی طرح جب بھی خداتعالیٰ کسی مامور کو مبعوث فرماتا ہے فرشتوں کا لشکر اس کی تائید میں اتار دیتا ہے اور انہیں حکم دیتا ہے کہ جائو اور زمین میں ایسے تغیرات پیدا کرو جو ہمارے مامور کی ترقی کیلئے مفید ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم اپنے مامور کی تائید کیلئے صرف فرشتے ہی آسمان سے نازل نہیں کرتے بلکہ روح بھی نازل کرتے ہیں۔ یہاں روح سے مراد وہ روحانیت اور نئی زندگی ہے جو اہل عالم کے قلوب میں پھونکی جاتی ہے۔ فرماتا ہے محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے لوگوں میں روح نہیں تھی وہ بظاہر زندہ نظر آتے تھے مگر مردوں سے بدتر تھے۔ نہ ان میں قوت فاعلی تھی نہ ان میں ترقی کا احساس تھا نہ ان میں شرافت اور انسانیت کا کوئی جذبہ پایا جاتا تھا۔ محمد رسول اللہ ﷺ آئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ملائکہ کی تحریک کے ذریعہ سے انسان کی خوابیدہ فطرت کو بیدار کرنا شروع کردیا اور دوسری طرف مردہ انسانوں میں زندگی کی روح پھونکنی شروع کردی۔ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی برکت سے مردہ زندہ ہوگئے ، بے جان لاشے چلنے پھرنے لگے۔ صدیوں سے محکوم اور مغلوب قوم کے افراد دنیا کے فاتح اور حکمران بن گئے۔ عرب جس کی دنیا میں کوئی عزت نہیں ملتی ، جسے متمدن اور مہذب ممالک کی نگاہ میں کوئی وقعت حاصل نہیں تھی اس نے جس رنگ میں اسلام پر ایمان لانے کے بعد ترقی کی ہے اسے دیکھ کر حیرت آتی ہے۔ چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کی وجہ سے ان میں بیداری پیدا ہوگئی تھی اور ان کی مردہ رگوں میں بھی زندگی کا خون دوڑنے لگا تھا اس لئے وہ دنیا میں ایسے عظیم الشان تغیرات پیدا کرنے کاموجب بن گئے جنہوں نے اس کی کایا پلٹ دی۔ اسی طرح فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی جب کلام الٰہی نازل ہوگا ہمیشہ اس کے ساتھ ملائکہ اترتے رہیں گے جو قلوب میں ایسی روحانیت، ایسی بیداری، ایسی قربانی ایسا اخلاص پیدا کریں گے کہ دنیا اسے دیکھ کر محو حیرت رہ جائے گی۔ زندگی کی ایک نئی روح لوگوں میں پیدا ہوجائے گی اور وہ اپنے ایمان کے نہایت اعلیٰ نمونے دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ اس زمانہ میں بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے ایسا ہی ہوگا یہاں تک کہ وہ مسلمان جو کثیر ہونے کے باوجود قلیل ہیں، عالم ہونے کے باوجود جاہل ہیں، زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہیں ان میں بھی ایک نئی روح ڈال دی جائے گی۔ یہی روح ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری مردوں میں پھونکاکرتے تھے اور یہی روح ہے جس کی طرف قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ یاایھا الذین امنوا استجیبوا للہ و للرسول اذا دعاکم لما یحییکم (الانفال ۳ع۱۷) اے ایمان والو! تم خدا اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کیا کرو جب وہ تمہیں اس غرض کیلئے بلاتا ہے کہ تمہیں زندہ کرے یعنی تم میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا کردے۔ غرض فرماتا ہے اس زمانہ میں ایک طرف ملائکہ اتریں گے تاکہ وہ دنیا میں ایسے تغیرات پیدا کریں جو محمد رسول اللہ ﷺ کی تائید میں ہوں اور دوسری طرف ان تغیرات سے فائدہ اٹھانے کیلئے ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے ماننے والوں میں روح ڈالیں گے تاکہ ادھر دنیا میں تغیرات ہوں اور ادھر وہ دنیا پر قبضہ کرلیں۔ یہی حال آئندہ بھی ہوگا یعنی ملائکہ بھی اتریں گے اور تقدیر خاص بھی نازل ہوگی اور اس طرح مومنوں کے اندر ایک نئی بیداری اور نئی زندگی، نیا جوش اور نیا عزم پیدا کردیا جائے گا۔
میں نے ایک دفعہ رویاء میں دیکھا کہ میرے ارد گرد ایک بہت بڑا ہجوم ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔میں اس کے سامنے تقریر کرتا ہوں اور لوگوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نبی نہیں تو مجھے کوئی ایک ہی غیر نبی ایسا بتادو جو اپنے بعد علماء کی اس قسم کی جماعت پیدا کر گیا ہو جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے علم لدنی حاصل ہوتا ہو اور جو اس کے کلام کو سمجھانے والے ہوں۔میں رویاء کی حالت میںاس خصوصیت پر زور دیتا ہوں اور کہتا ہوں یہ نبی ہی کی شان ہوتی ہے کہ وہ اپنے بعد ایسی جماعت قائم کر دیتا ہے جس میں نئی زندگی اور نئی روئیدگی کی طاقت ہوتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھ کر اور اس کے کلام کے علوم کو سیکھ کر دنیا میں پھیلاتی اور ان کی اشاعت کرتی ہے(الفضل ۹ مارچ ۴۵ ء؁)یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے جب کوئی نبی دنیا میں آتا ہے وہ اپنی جماعت میں ایک ایسی روح پیدا کر دیتا ہے جس کی مثال دوسروں میں نہیں ملتی۔
باذن ربہم کے دومعنے ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ وہ اذن الٰہی کو لے کر اترتے ہیں اور یہ بھی کہ ان کا اترنا اذن الٰہی سے ہوتا ہے۔پہلی صورت میں بائکا تعلق تنزلکے ساتھ ہوگا یعنی تنزل الملائکۃ والروح فیہا باذن ربہم اور معنے یہ ہوں گے کہ وہ اذن الٰہی کو لے کر اترتے ہیں یعنی کلام الٰہی کی تائید کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے لوگوں کی طرف خدا تعالیٰ کا حکم لاتے ہیں۔دوسری صورت میں یہ جملہ حال ہوگا اور مراد یہ ہوگی کہ ان کا نزول اذن الٰہی سے ہوتا ہے یعنی اس قسم کا تغیربغیر اذن الٰہی کے نہیں ہوتا جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے تب پیدا ہوتا ہے۔علماء کا یہ کام نہیں کہ جب قوم بے جان ہوجائے اور اس میں سے زندگی کی روح بالکل نکل جائے تو وہ دوبارہ اس کو زندہ کرسکیں۔ملائکہ بھی اور روح بھی ہمیشہ خداتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اور اس کے حکم سے آتے ہیں اس لئے جب بھی مذہبی قومی احیاء ہوگا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا انسانی تدبیروں سے مذہب کا احیاء نہیں ہو سکتا۔من کل امر کے معنے ہیں من اجل کل امر او لکل امر۔یعنی ہر امر کی خاطر۔یا اس کے معنے ہیں باکل امر ہر امر کو ساتھ لے کر اترتے ہیں۔
من کل امر کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ ہر امر جو اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہوگا اس کو پوراکرنے اور ہر ایک روک جو اسلام کی ترقی میں حائل ہوگی اس کو دور کر نے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے اور وہ کام جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہوگا اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے سرانجام دے دے گا۔لیکن اس آیت کے ایک اور بھی معنے ہیں اور وہ یہ کہ وہ زمانہ گذرگیا جب ناقص اور جزوی شریعتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا کرتی تھیں۔اب وہ زمانہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے وہ کامل شریعت نازل کردی ہے جو تمام ضروری امور پر حاوی ہے۔اس طرح ابتدائے زمانہ میں ہی قرآن کریم سے کامل ہونے کا دعویٰ کردیا گیا اور بتایا گیا کہ وہ تمام ضروری علوم جو انسان کی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو پوری تفصیل کے ساتھ قرآن کریم میں بیان کردیا ہے۔تم اس شریعت کے بعد یہ نہیں کہ سکوگے کہ بنی نوع انسان کی فلاں ضرورت پوری ہونے سے رہ گئی یا فلاں مسئلہ جس کا حل ضروری تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے حل نہیں کیا ۔شریعت اپنے کمال پر پہنچ گئی ہے اور ہر ضروری امر انسان کی اصلاح اور روحانی ترقی کے ساتھ تعلق تھا اسے اس کتاب میں کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔
اگر مجد دین پراس پیشگوئی کیا جائے توپھر من کل امر کااستعمال ایسا ہی ہوگا جیسے ملکئہ سباکے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے اوتیت من کل شیء(النمل۲ع۱۷) کہ اس کو سب ایسی چیزیں دی گئی تھیں جن کی ان کو ضرورت ہو سکتی تھی۔کیونکہ مجددین کے کام کا حلقہ محدود ہوتا ہے اور وہ محض اپنے علاقہ یا اپنی قوم یا اپنے ملک کی خرابیوںکو دور کرنے کے لئے آتے ہیں اور اس وقت آتے ہیں جب خرابی وسیع اور شدید نہیں ہوتی ۔پس ان کا دائرہ عمل ایسا وسیع نہیں ہوتا کہ ساری دنیا کی اصلاح ان کے ذمہ ہو یا ہر قسم کی اصلاح ان کے ذمہ ہو ۔پس مجددین پر جب اس پیشگوئی کو چسپاں کیا جائے گا تومن کل امر کے معنے سب امور کے نہیں ہونگے بلکہ سب وقتی ضرورت کے امور ہونگے یعنی جس جس خرابی کی اصلاح کے لئے انہیں ملائکہ کی مدد کی ضرورت ہو گی ان خرابیوں کی اصلاح کے لئے ملائکہ نازل کر دئیے جائیں گے یا اسلام کی ترقی کے لئے جن امور کی انہیں ضرورت ہو گی ان امور میں انہیں ملائکہ کی مدد حاصل ہوگی گویامن کل امرکے معنے ہونگے کل ضروری امور ۔لیکن وہ موعود جو بروز کامل کے طور پر ظاہر ہونگے چونکہ وہ اللہ تعالی کے نبی اور رسول کریمﷺ کے کامل بروز ہونگے اس لئے جس طرح رسول کریم ﷺ کے متعلق اس آیت کے یہ معنے تھے کہ قرآنی شریعت کو ہر لحاظ سے کامل کیا جائے گا اسی طرح ان کے متعلق اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کی ساری خوبیاں مخفی ہوجائیںگی تب اللہ تعالی آسمان سے اپنے ملائکہ کو نازل فرمائے گا اور قرآن کریم کی تمام خوبیوںکو دنیا پر دوبارہ ظاہر کریگا ۔اس صورت میں من کل امرکے معنے صرف ضروری امور کے نہیں ہونگے بلکہ تمام امور کے ہونگے یعنی کوئی امر ایسا نہیں ہو گا جس کے لئے آسمان سے فرشتوں کا نزول نہ ہو۔
سلم ھی حتی مطلع الفجرO
(پھر فرشتوں کے اترنے کے بعد تو )سلامتی (ہی سلامتی ہوتی)ہے (اور) یہ (حال )صبح کے طلوع ہونے تک (رہتا)ہے۔
حل لغات: علماء لغت لکھتے ہیں کہ یہاں سلام۔مسلمۃکے معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی سلام بھیجنے والے۔ان کے نزدیک اس کا یہ مطلب ہے کہ فرشتے مومنوں کو یا مومن آپس میں سلام کرتے ہیں ۔مگر اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سلامکا لفظ یہاں سلامتی کے معنوں میں بھی استعمال ہو سکتا ہے ۔پھر آگے چل کر اور اختلاف ہو جاتا ہے بعض لوگمن کل امرپر پہلی آیت کو ختم سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں سلامایک علیحدہ لفظ ہے ۔بعض کے نزدیک سلام کو ھیکے ساتھ لگانا چاہیے یعنیسلام کا من کل امر سے تعلق ہے یعنی آیت یوں ہے من کل امر سلام۔اور ھی۔حتیکے ساتھ لگے گا اور معنے یہ ہونگے کہ یہ حالت مطلع الفجر تک رہے گی۔وہ لوگ جو سلامکو بالکل علیحدہ لفظ قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کے یہ معنے ہیں کہ سلام سلام یعنی یہ زمانہ سلامتی ہی سلامتی کا ہوتا ہے یا لیلۃالقدر میں خد اتعالی کی طرف سے سلامتی ہی سلامتی نازل ہوتی ہے ۔لیکن وہ لوگ جو من کل امر کے ساتھ اس کا تعلق بتاتے ہیں ان کے نزدیک اس کے معنے یہ ہیں کہ ہر امر جو اس رات میں فرشتے لاتے ہیں سلامتی کا موجب ہوتا ہے ۔اور جو لوگ ھیکا سلامکو ساتھ تعلق بتاتے ہیں ان کے نزدیک معنے یہ ہیں کہ فرشتوں کا نزول سلامتی ہی سلامتی ہوتا ہے ۔ابن عباس ؓ کا یہی آخری قول ہے اور در حقیقت یہ سب ہی معنے اس آیت پر چسپاں ہوتے ہیں۔
تفسیر:۔دیکھو ابھی اسلام شروع ہوا ہی تھا کہ اللہ تعالی نے دنیا میں یہ اعلان فرمادیا کہ قرآن کریم ہماری طرف سے جو تعلیم پیش کی جا رہی ہے اپنے اندر محض سلامتی رکھتی ہے کوئی تمدنی یا عائلی یا اخلاقی یا روحانی ضرر نہیں جو اس تعلیم پر عمل کرنے والے کو پہنچ سکتا ہو۔ان معنوں کی روسے تنزل الملائکۃ والروح فیہا باذن ربھم من کل امر سلامپر جملہ ختم ہوگا اور مفہوم یہ ہوگا کہ اس وقت ہماری طرف سے فرشتے جو تعلیم لے کر نازل ہو رہے ہیں ہو نہ صرف تمام امور پر مشتمل ہے بلکہ اپنے اندر کامل سلامتی رکھتی ہے ۔ہو قسم کے ضرر سے پاک،ہر قسم کے نقصان سے محفوظ اور ہر قسم کے عیب سے منزہ ہے اور دنیا یہ طاقت نہیں رکھتی کہ اس تعلیم میں کوئی نقص ثابت کر سکے اور اس صورت میں کہ من کل امر سلام کو الگ جملہ سمجھا جائے آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ خد اتعالی کے فرشتے اللہ تعالی کا حکم لے کر نازل ہو تے ہیں اور ادھر دنیا کی ہر تدبیر اور ہر سعی سے انہیں سلامتی کا پیام دیا جاتا ہے۔یعنی اللہ تعالی دو تغیرات اس وقت دنیا میں پیدا کرتا ہے ۔ایک تو یہ کہ فرشتے اور روحانیت آسمان سے اترتے ہیں اور ایک یہ کہ قانون طبعی اس تحریک کی تائید میں لگ جاتا ہے آسمان سے زمین کا پانی مل جاتا ہے اور نبی کی کامیابی یقینی ہو جاتی ہے ۔اور اگر پہلی آیت کو من کل امر تک ختم سمجھا جائے تو آیت کے یہ معنے ہونگے کہ ملائکہ اور روح اللہ تعالی کے حکم سے ہر قسم کی شریعت لے کر آتے ہیں اور اس زمانہ میںطلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی رہتی ہے یعنی یہ ایام خاص نصرتوں اور فضلوں کے ہوتے ہیں ۔
اور اگر سلامکو دوسرا جملہ اور ھی حتیکو ایک مستقل تیسرا جملہ قرار دیا جائے تو ان آیات کے یہ معنے ہونگے کہ ملائکہ اور روح ہر قسم کے احکام لے کر اس رات میں اترتے ہیں اے لوگو یہ زمانہ سلامتی ہی سلامتی کا ہے اور یہ تمام فرشتون کا اترنا اور روح کا آنا اور سلامتی کا پھیل جانا طلوع فجر تک رہے گا ۔غرض نحوی طور پر جس قدر معنے اس آیت کے بنتے ہیں وہ سب کے سب اس آیت پر چسپاں ہوتے ہیں ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مطلع الفجر سے کیا مراد ہے؟سو یاد رکھنا چاہیئے کہ مطلع الفجر سے مراد وہ وقت ہے جب اسلام کو غلبہ حاصل ہو جائے اور یہ غلبہ ہمیشہ نبی کی وفات کے وقت ہوتا ہے ۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ’’الو صیت‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ اے عزیزو!خد اتعالی کی ہمیشہ سے یہ سنت چلی آئی ہے کہ وہ اپنی دو قدرتیں دکھلاتا ہے تاکہ دشمنو کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرے ۔ ایک قدرت تو وہ ہوتی ہے جس اک نبی کے ذریعہ اظہار ہوتا ہے جب وہ اس راست بازی کا بیج بو دیتا ہے جس کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے ۔اور دوسری قدرت وہ ہوتی ہے جس کا اس کے خلفاء کے ذریعہ تکمیل کے رنگ میں اظہار ہوتا ہے ۔ پس یہاں مطلع الفجر سے نبی کی وفات کا زمانہ مراد ہے اور اللہ تعالی اپنے مومن بندوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ تمہاری تمام سلامتی اس بات میں ہے کہ تم اس رات کی عظمت کو پہچانو اور وہ قربانیاں کرو جن کا اسوقت تم سے مطالبہ کیا جارہا ہے جب فجر کا طلوع ہو گیا اور نبوت کا زمانہ ختم ہو گیا اس وقت آسمان کی نعمتیں آسمان پر رہ جائیں گی اور زمین ان برکات سے حصہ نہیں لے سکے گی جن سے اس وقت حصہ لے رہی ہے ۔
اس جگہ یہ نکتہ خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نبی کے زمانہ کو بار بار دن بھی کہا گیا ہے اور نبی کو سورج۔پھر اسکے زمانہ کو لیلۃالقدر یعنی رات بھی کہا گیا ہے وہی دن اور وہی رات کس طرح ہوا ۔سو یاد رہے کہ وہ الگ الگ نسبتوں کی بناء پر ایک ہی زمانہ کو دن بھی کہا گیا ہء اور رات کا بھی ۔نبی کا زمانہ رات ہوتا ہے بوجہ اس سے پہلی ظلمت کے ۔ اور نبی کا زمانہ رات ہوتا ہے بوجہ اسکے کہ جب وہ اس ظلمت کو دور کردیتا ہے تو ا سکا کام ختم ہو جاتا ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے اسے کہا جاتا ہے کہاب تمہارے جانے کا وقت آگیا ۔جیسے رسول کریم ﷺ نے جب گمراہی اور ضلالت کی تاریکیوں ک ودور کر دیا تو اذا جاء نصر اللہ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا فسبح بحمدہ ربک واستغفرہ انہ کان توابا کے ذریعہ آپ کو وفات کی خبر دی گئی اور بتایا گیا کہ اب ہم تمہیں اپنے پاس بلانے والے ہیں پس چونکہ نبی اس زمانہ مین آتا ہے جب چاروں طرف ظلمت چھائی ہوئی ہوتی ہے اور جب وہ اس ظلمت کو دور کر دیتا اور امن اور ترقی اور کامیابی کا زمانہ آجا تا ہے تو وہ فوت ہو جاتا ہے اس لئے اس کے زمانہ کو رات قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس کا سارا کام رات ہی میں ختم ہو جاتا ہے ۔وہ مشکلات کے زمانہ میں آتا اور مشکلات کو دور ختم ہوتے ہی اللہ تعالی کے پاس چلا جاتا ہے ۔پس چونکہ ظاہری بڑی ترقی نبی کی وفات کے بعد آتی ہے اور کامیابیوں کو سورج ہمیشہ مطلع الفجر کے بعد نکلتا ہے اسلئے نبی کے زمانہ کو رات کہا جاتا ہے اگلا زمانہ جو مطلع الفجر سے شروع ہوتا ہے اور جس میں الٰہی سلسلہ کو دنیا میں غیر معمولی عروج حاصل ہوتا ہے وہ اسی وقت آتا ہے جب فجر کا طلوع ہوجاتاہے یعنی نبی اپنے رب کے پاس جا چکا ہوتا ہے ۔لیکن دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں تک روحانی ترقیات کا سوال ہے نبی کا زمانہ روشنی کا زمانہ ہوتا ہے اور نبی کی وفات کے بعد کا زمانہ تاریکی کا زمانہ ہوتا ہے جب اللہ تعالی کیطرف سے کوئی بنی مبعوث ہوتا ہے اس زمانہ میں آسمان سے نزول وحی کا ایک عجیب سلسلہ شروع ہو تا ہے ،برکات وانوار کی بارش ہوتی ہے،معجزات ونشانات کا ظہور ہوتا ہے،روحانیت کی منازل سالوں اور مہینوں کی بجائے دنوں میں طے ہونے لگتی ہیں اور ایمان واخلاص اور محبت باللہ میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر اس زمانہ کو دن کہا جاتا ہے اسے روشنی اور نور کا زمانہ قرار دیا جاتا ہے جس میں نبی موجود نہیں ہوتا ۔
غرض زمانی تو ایک ہی ہوتا ہے مگر نسبتوں کے فرق کی وجہ سے اسے رات بھی کہا جاتا ہے اور دن بھی ۔وہ رات ہوتا ہے بوجہ اپنی پہلی ظلمت کے اور بوجہ اس کے کہ نبی کے زمانہ میں دنیوی ترقیات پوری نہیںہوتیں۔کامیابیوں اور ترقیات کا زمانہ نبی کی وفات کے بعد آتا ہے مگر بلحاظ خاص افضال الٰہی کے یعنی نزول وحی اور نزول برکات اور تکمیل روحانیت کے اس کا زمانہ دن کا زمانہ ہوتا ہے اور اسکے بعد کا زمانہ رات کا زمانہ ۔کیونکہ اس زمانہ میں دنیا ان برکات سے محروم ہوجاتی ہے جن سے وہ پہلے متمتع ہو کرتی تھی۔ پس روحانی برکات کے لحاظ سے نبی کا زمانہ دن ہوتا ہے اور بعد کا زمانہ رات اور اس وجہ سے اسکی تعلیم کی دنیوی شوکت ابھی پورے طور پر ظاہر نہیںہوئی ہوتی ۔کہ نبی اٹھا لیا جاتا ہے اس کا زمانہ رات کا ہوتا ہے کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ مطلع الفجر تک نبی اپنی قوم میں رہتا ہے ۔چونکہ کوئی بھی نبی دنیوی انعامات حاصل کرنے نہیں آتا اسلئے جب اسکی قربانیوں کے مادی نتائج نکلنے کا وقت آتا ہے اور وہ بیج اپنا پھل دینے لگتا ہے جو اس نے بویا ہوتا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے تم ہمارے پاس آجائو اور یہ انعام ان دوسروں کے لئے رہنے دو جن کی نگا ہ اسے زیادہ قیمتی سمجھتی ہے ۔اسی امر کو مدنظر رکھ کر رسول کریمﷺ نے اپنے صحابہؓ کو نجوم قرار دیا ہے کیونکہ نجوم ہمیشہ رات کو ظاہر ہوتے ہیں آپ فرماتے ہیں اصحابی کا لنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم(تشیید المبانی)یعنی میرے زمانہ میں جو برکات اللہ تعالی نے نازل کی ہیں ان سے حصہ لے کر میرے صحابہؓنجوم بن گئے ہیں اب تو دن کا وقت ہے اور سورج اپنے شعاعوں سے دنیا کو منور کر رہا ہے لیکن میرے بعد دنیا پر رات کا زمانہ آجائے گا اس وقت میرے صحابہ ؓ ستارے بن کر دنیا کے رہنمائی کریں گے اس لئے میرے بعد وہی لوگ کامیاب ہونگے جو رات کی تاریکیوں میں میرے صحابہؓ سے روشنی حاصل کریں گے ۔اس حدیث میں رسول کریم ﷺ نے اپنے زمانہ کو دن قرار دیا ہے اور بعد میں آنے والے زمانہ کو رات کہا ہے ۔لیکن دوسری طرف جہاں تک ظاہری کامیابویں اور فتوحات کا تعلق ہے رسول کریم ﷺ کا زمانہ رات سے مشابہت رکھتا تھا اور بعد میں آنے والا زمانہ دن سے مشابہت رکھتا تھا۔چنانچہ دیکھ لو جب رسول کریم ﷺ وفات پا گئے اللہ تعالی نے اسلام کو ظاہری رنگ میںغلبہ دینا شروع کر دیا یہاں تک کہ اسلام کو ایسی طاقت حاصل ہو گئی کہ ابو بکرب کی آواز جب قیصر سنتا تو ہو اس کو رد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا حالانکہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں یہ حالتتھی کہ آپ کا خط جب اس کے پاس گیا تو اس پر اثر بھی ہوا مگر پھر اپنی قوم سے ڈر گیا اور رسول کریم ﷺ کی بات ماننے کے لئے تیار نہ ہوا ۔حضرت عمر ؓ کا زمانہ آیا تو آپ کو ابوبکرؓ سے بھی زیادہ رعب حاصل ہوا ۔قیصر صرف انکی بات کو سنتا نہیں تھا بلکہ ساتھ ہی دوڑتا بھی تھا کہ اگر میں نے اس کے مطابق عمل نہ کیا تو میرے لئے اچھا نہیں ہوگا اور کسریٰ تو اس وقت بالکل تباہ حال ہو چکا تھا ۔عثمان ؓ کا زمانہ آیا تو ان کو بھی ایسا دبدبہ اور رعب حاصل ہوا کہ چاروں طرف ان کا نام گونجتا تھا اور ہر شخص سمجھتا تھا کہ مجھے امیرالمومنین کے حکم کی اطاعت کرنی چاہیئے ۔اب جہاں تک دنیوی اعزاز کا سوال ہے محمد رسول ﷺ کو وہ عزت حاصل نہیں ہوئی جو ابو بکر ؓاور عمر ؓاور عثمان ؓ کو حاصل ہوئی مگر پھر بھی یہ لوگ روحانی دنیا کے کے نجوم تھے شمس محمد رسول اللہ ﷺ ہی تھے ۔
غرض نبی کی وفات کے معا بعد سے روحانی لحاظ سے رات کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے لیکن جسمانی لحاظ سے نبی کی وفات طلوع فجر پر دلالت کرتی ہے اور معاً بعد سے طلوع آفتاب یعنی ظاہری کامیابیوں کا نظارہ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے ایساہی محمد رسو ل اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہوا ۔ایسا ہی مسیح ناصریؑ اور موسیٰؑ کے زمانہ میں ہوا ۔آپ کے زمانہ میں جو آخری جلسہ ہو ااس میں سات سو آدمی جمع ہوئے تھے ۔مجھے یاد ہے آپ سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے تو ریتی چھلہ میں جہاں بڑ کا درخت ہے وہاں لوگوں کی کثرت اور ان کے اژہام کو دیکھ کر آپ نے فرمایا معلوم ہوتا ہے میرا کام ختم ہوچکا ہے کیونکہ اب غلبہ اور کامیابی کے آثار ظاہر ہو گئے ہیں پھر آپ بار بار احمدیت کی ترقی کا ذکر کرتے اور فرماتے اللہ تعالی نے احمدیت کو کس قدر ترقی بخشی ہے اب تو ہمارے جلسہ میںسات سو آدمی شامل ہونے کے لئے آگئے ہیں یہ اتنی بڑی کامیابی ہے کہ میں سمجھتا ہوں جس کام کے لئے اللہ تعالی نے مجھے بھیجا تھا وہ پورا ہو چکا ہے اب احمدیت کو کوئی مٹا نہیں سکتا ۔
غرض سات سو آدمیوں کے آنے پر آپ اس قدر خوش ہوئے کہ آپ نے سمجھا کہ جس کام کے لئے مجھے کھڑا کیا گیا تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے مگر اب خدا تعالی کے فضل سے یہ حالت ہے کہ صرف درس میں ہی آٹھ آ ٹھ سو آدمی جمع ہو جاتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو کہیں باہر سے نہیں آتے بلکہ قادیان میں رہنے والے ہیں اور جلسہ سالانہ پر تو خدا تعالی کے فضل سے پچیس تیس ہزار آدمی باہر اکٹھا ہو جاتاہے۔غرض ہمارا سلسلہ اللہ تعالی کے فضل سے ترقی پر ترقی کر رہا ہے ۔کوئی دن ایسا نہیں ٍگذرتا جس میں کوئی نہ کوئی شخص بیعت میںشامل نہ ہو ۔ترقی اور عروج اور طاقت میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر اس غلبہ کے باوجود کون کہہ سکتا ہے کہ یہ زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ سے بہتر ہے بے شک ہمیں کامیابیاںزیادہ حاصل ہو رہی ہیں، ترقیات زیادہ حاصل ہو رہی ہیں، غلبہ زیادہ حاصل ہورہا ہے مگر حضرت مسیح موعد علیہ اصلوٰۃ وا لسلام کے زمانہ کو یاد کر کے دل تڑپ اٹھتا ہے اور یہ ساری کامیابیاں بالکل حقیر نظر آنے لگتی ہیں ۔
میرے قرآن پر ایک چھوٹا سا پرانا نوٹ ہے جو ان قلبی کیفیات کو خوب ظاہر کرتا ہے جو نبی کا زمانہ دیکھنے والوں کے اندر پائی جاتی ہیں ۔میں نے سلام پر نوٹ لکھا ہے :۔
’’یعنی اس رات میں سلامتی ہی سلامتی ہے آہ مسیح موعود کا وقت! اس وقت تھوڑے تھے مگر امن تھا ‘‘
بعد میں اللہ تعالی نے ہمیں بڑی بڑی ترقیات دی ہیں مگر یہ ترقیات اس زمانہ کا کہاں مقابلہ کر سکتی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا ۔ بیشک آج دنیوی لحاظ سے جو رتبہ ہم کو حاصل ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حاصل نہیں تھا۔ جتنے لوگ ہماری باتیں ماننے والے موجود ہیں اتنے لوگ باتیں ماننے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں موجود نہیںتھے اتنا خزانہ ہمارے ہاتھ میں ہے اتنا خزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں نہیں تھا۔اب بعض دفعہ خدا تعالی ایک ایک دن میں پچیس پچیس تیس تیس ہزار روپیہ چندے کا بھجوا دیتا ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اتنا چندہ سارے سال میں بھی جمع نہیں ہوتا تھا مگر اس تمام ترقی کے باوجود کون کہہ سکتا ہے کہ یہ زمانہ اس زمانے سے بہتر ہے۔
مجھے یاد ہے جب لنگر خانہ کا خرچ بڑھا اور کثرت سے قادیان میں مہمان آنے شروع ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاص طور پر یہ فکر پیدا ہو گیا کہ اب ان اخراجات کے پورا ہونے کی کیا صورت ہو گی مگر اب یہ حالت ہے کہ خدا تعالی کے فضل سے ایک ایک احمدی لنگر خانہ کا سارا خرچ دے سکتا ہے۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے زلزلہ کے متعلق اپنی پیشگوئیوں کی اشاعت فرما ئی تو قادیان میں کثرت سے احمدی دوست آگئے حضرت مسیح موعود علیہ لسلام بھی دوستوں سمیت باغ میں تشریف لے گئے اور وہاں خیموں میں رہائش شروع کر دی ۔چونکہ ان دنوں قادیان میں زیادہ کثرت سے مہمان آنے لگ گئے تھے ایک دن آپ نے ہماری والدہ سے فرمایا کہ اب تو روپیہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی میرا خیا ل ہے کہ کسی سے قرض لے لیا جائے کیونکہ اب اخراجات کے لئے کوئی روپیہ پاس نہیں رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ ظہر کی نماز کے لئے تشریف لے گئے ۔جب واپس آئے تو اس وقت آپ مسکرا رہے تھے۔واپس آنے کے بعد پہلے آپ کمرہ میں تشریف لے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلے اور والدہ سے فرمایا کہ انسان باوجود خدا تعالی کے متواتر نشانات دیکھنے کے بعض دفعہ بد ظنی سے کام لے لیتا ہے میں نے خیال کیا تھا کہ لنگر کے لئے روپیہ نہیں اب کہیں سے قرض لینا پڑے گا مگر جب میں نماز کے لئے گیا تو ایک شخص جس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ آگے بڑھا اور اس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دے دی ۔میں نے اسکی حالت کو دیکھ کر سمجھا کہ اس میں کچھ پیسے ہونگے ۔مگر جب گھر آکر اسے کھولا تو اس میں سے کئی سو روپیہ نکل آیا۔
اب دیکھو وہ روپیہ آج کل کے چندوں کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا تھا ۔آج اگر کسی کو کہا جائے کہ تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا ایک دن نصیب کیا جاتا ہے۔ بشرطیکہ تم لنگر کا ایک دن کا خرچ دے دو تو وہ کہے گاکہ ایک دن کا خرچ نہیں تم مجھ سارے سال کا خرچ لے لو لیکن خدا کیلئے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک دن دیکھنے دو۔ مگر آج کسی کو وہ بات کہاں نصیب ہوسکتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قربانی کرنے والوں کو نصیب ہوئی۔
افسوس کے لوگوں کے سامنے قربانی کے موقعہ آتے ہیں تو وہ ان سے منہ پھیر لیتے ہیں اور جب وقت گزرجاتا ہے تو حسرت اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کا ش ہم نے فائدہ اٹھایا ہوتا۔ کاش ہم نے وقت کو ضائع نہ کیا ہوتا۔ اب بھی خداتعالیٰ نے ان کیلئے ایک بڑا موقع پیدا کیا ہو ہے۔ خداتعالیٰ کا موعود ان میں موجود ہے اگر وہ چاہے تو صحابہ کی سی خدمت کرکے صحابہ کے سے انعامات حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر کتنے ہیں جو اس نعمت کی قدر کرتے ہیں۔ ہاں بہت لوگ اس وقت روئیں گے اور آہیں بھریں گے جب وہ زمانہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ غرض انبیاء دنیا میں ایک بیج بونے کیلئے آتے ہیں وہ بیج بظاہر ایسے حالات میں بویا جاتا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں وہ ضائع چلا جائے گا مگر اللہ تعالیٰ اپنی قدیم اور ازلی سنت کے مطابق اس بیج کو بڑھتا اور اپنے سلسلہ کو ممتد کرتا چلا جاتا ہے۔ اس دوران میں الٰہی سنت کے مطابق قربانی کے کچھ اور موقعہ پید اہوجاتے ہیں تب وہ لوگ جو خداتعالیٰ کی محبت رکھتے ہیں اپنی حسرتوں کو پورا کرنے کیلئے آگے بڑھتے اور قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پھر بھی سوئے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ زمانہ بھی گزرجاتا ہے اور وہ کف افسوس ملنا شروع کردیتے ہیں کہ ہم نے کچھ نہ کیا۔ آج لوگ حسرتیں کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ نہ ملا مگر اس حسرت کے باوجود وہ موجودہ قربانیوں میں پوری طرح حصہ نہیں لے رہے۔ اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ یہی کہ وہ اس زمانہ کو بھی کھودیں گے اور حسرت کریں گے کہ کاش انہیں مصلح موعود کے زمانہ میں خدمت کا کوئی موقع مل جاتا ۔ حالانکہ ان حسرت کرنے والوں میں بہت لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اس زمانہ کو پایا مگر ان کی آنکھیں بند رہیں انہوں نے وقت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی اور حسرت اور افسوس کے سوا ان کو اور کچھ حاصل نہ ہوا۔

سورۃ العدیت مکیۃ
سورئہ العادیات۔ یہ مکی سورۃ ہے
وھی احدے عشرۃ ایات دون بسملۃ و فیھا رکوع واحد
اس کی بسم ا للہ کے سوا گیارہ آیات ہیں اور ایک رکوع ہے
ابن مسعودؓ۔ جابر ۔ الحسن ۔عکرمہاور عطاء کے نزدیک یہ سورۃ مکی ہے ۔ابن عباسؓ ۔انسؓ۔اور قتادہؓ کے نزدیک مدنی ہے۔عبداللہ بن مسعودؓ چونکہ پرانے صحابی اور السابقون الا ولون میں سے ہیںاسلئے انکی روایت عینی شہادت ہونے کی وجہ سے باقیوں سے زیادہ قابل قبول ہے۔ ابن عباس ؓ کی روایت کے (بوجہ اس کے کہ ابن عباسؓ مدینہ میں بالغ ہوئے ہیں مکی زندگی میں تو وہ دو تین سال کے تھے)صرف اتنے معنے سمجھے جائیں گے کہ انہوں نے مدینہ میں یہ سورۃ سنی ۔ مگر اس سے یہ مراد نہیں لی جا سکتی کہ یہ سورۃ مدینہ میں ہی نازل ہوئی ہے کیونکہ جو سورۃ مکہ میں نازل ہو وہ مدینہ میں بھی سنی جا سکتی ہے۔اسی طرح انسؓ (جو انصار میں سے تھے )کے قول کے بھی اتنے ہی معنے ہوں گے کہ انہوں نے یہ سورۃ مدینہ میں سنی ہے مگر جب عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہوںکہ یہ سورۃ مکی ہے تو بوجہ اس کے کہ وہ مکہ میں ایمان والوںمیں سے ابتدائی لوگوں میں سے تھے اس کے معنے یہ ہیں کہ انہوں نے اس سورۃ کو مکہ میں سنا پس یہ رویت ان کے السابقون الاولون میں سے ہونے کی وجہ سے دوسری روایتوںسے زیادہ مقدم اور اہم ہے مستشرقین نے بھی بلخصوص ویری نے تسلیم کیا ہے یہ سورۃ مکی ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ریورنڈویری کا خیال ادھر گیا ہی نہیںکہ اس کو مکہ ثابت کرنے کے نتیجہ میںایک عظیم الشان پیشگوئی بن جائے گی ۔اگر یہ خیا ل انہیںآجاتا تو وہ کبھی اسے مکہ قرار نہ دیتے کیونکہ ریونڈ ویری کے لئے تو یہ بڑی مصیبت ہے کہ کسی پیشگوئی اور پھر عظیم الشان پیشگوئی کا قرآن کریم سے ثبوت ملتا ہو۔اگر اس طرف اس کا ذہن جا تا تو وہ حسب عادت کہہ دیتے کہ گو اکثر رو ا یات اسے مکی قرار دیتی ہیںلیکن اسکا سٹائل مدنی ہے اس لئے روایتیں غلط ہیں۔یہ ہے مدنی۔
ترتیب مضمون:۔ یاد رکھنا چاہیے کہ پہلی چند سورتوں سے (سوائے آخری ایک دو سورتوں کے)یہ طریق چلا آرہا تھا کہ ایک ہی سورۃ میںرسول کریمﷺ کی بعثت اولیٰ کا بھی ذکر کیا جاتا تھا اور بعثت ثانیہ کا بھی ۔ مگر اب باری باری ایک ایک سورۃ میں ایک ایک زمانہ کا ذکر آتا ہے چنانچہ سورۃ البینہ میں رسول کریمﷺ کی بعثت اولیٰ کا زکر کیا گیا تھا اور سورۃ الزلزال میں آپﷺکی بعثت ثانیہ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ ایک عجیب فرق ہے جو ان آخری سورتوں میں پہلی سورتوں کے مقابل پر پیدا کر دیا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخری سورتیں چھوٹی کر دی گئی ہیںتا کمزور حفظہ والے اور بچے بھی کچھ حصہ قرآن کریم کا آسانی سے یاد کر سکیں۔پہلے چونکہ لمبی سورتیں تھیںاس لئے ایک ہی سورۃ میںدونوں زمانوں کا ذکر کر دیا جاتا تھا اب سورتیں چھوٹی ہو گئی ہیںاس لئے یہ طریق اختیار کر لیا گیا ہے کہ سورہ میں بعثت اولیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے اور دوسری سورۃ میں بعثت ثانیہ کا ذکر کیا جاتا ہے اسی ترتیب کے ماتحت زیر تفسیر سورۃمیں اللہ تعالی نے رسول کریمﷺ کے زمانی کی ترقیات کا ذکر کیا ہے اگلی سورۃ میںپھر آپ ﷺ کی بعثت ثانیہ کا ذکر کیا جائے گا اور کچھ سورتوں تک یہی ترتیب چلتی چلی جائے گی اس کے بعد یہ ترتیب ایک نیا چکر کھائے گی اور پھر اس میں کچھ تبدیلی پید اہو جائے گی ۔ بہرحال سورۃ الزلزال میں چونکہ رسول کریم ﷺ کی بعثت کا ذکر تھا اس لئے سورۃ العادیات میںبعثت اولیٰ کا ذکر کیا گیا ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیمO
(میں ) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور)بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کر تا ہوں)
والعد یت ضبحاO
(مجھے) قسم سے ہے جوش سے آوازیں نکالتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کی ۔
حل لغات:۔ عادیات: عادیۃسے جمع ہے جو عداسے اسم فاعل کا مونث کا صیغہ ہے اور عدا (یعدو عدوا عدوانا و تعداء وعدا)الرجل و غیرہ کے معنے ہوتے ہیںجری و رکضکوئی شخص تیزی کے ساتھ دوڑا۔اس طرح( عدوا و عدوانا)فلا نا عن الا مر کے معنے ہوتے ہیںصرفہ وشغلہ۔ کسی کو کام سے روک دیا ۔اور عدا علیہ کے معنے ہوتے ہیںوثبکسی کے اوپر حملہ کیا یا جھپٹا مارا ۔اور عدالامر یا عداعن ا لامر کے معنے ہوتے ہیںترکہ۔اس کو چھوڑ دیا۔اور عدی (یعدی عدا) لفلانکے معنے ہوتے ہیںابغضہ۔اس نے بغض رکھا (اقرب)
ضبحا:الضبح نوع من العدو۔مفردات میں لکھا ہے کہ ضبحجانوروں کی دوڑوں میں سے ایک دوڑ کا نام ہے ۔ اسی طرح لکھا ہیقیل الضبح و ھو مد الضبح فی العدو۔ یعنی گھوڑے کا اگلے پائوں لمبے کر کے مارنا جس سے بغلون میں فاصلہ ہوتا چلاجائے اس کو ضبحکہتے ہیں۔ اور اقرب میں لکھا ہے الضبح صوت یسمع من صدور ا لخیل عندالعدویعنی ضبحاس آواز کو کہتے ہیںجو دوڑتے وقت گھوڑوں کے سینوں میں نکلتی ہے ۔یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اس سے مراد گھوڑوں کا ہنہنانا نہیںبلکہ دوڑتے وقت ان کے سینوں میں سے جو خاص قسم کی آواز نکلتی ہے اس کو ضبحکہا جاتا ہے ۔لغت والوں نے لکھا ہے کہ یہ آواز اس قسم کی ہوتی ہے جس طرح اہ اہ کیا جاتا ہے ہمارے ملک میں اسے،ہاہ‘ ہاہ‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیںجبکہ ’ہا‘ کو گلا سکیڑ کر ادا کیا جائے۔
ان معانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے وا لعدیت ضبحا کا ترجمہ یہ ہو گا کہ:۔
۱:۔ہم ان دوڑنے والی سو ا ریوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیںجو ضبحکی چال پر دوڑتی ہیں ۔ضبحجیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ ایک قسم کی تیز دوڑ کا نام ہے اور غالبا یہ کودنے والی دوڑ ہو گی جسے سر پٹ کہتے ہیںتبھی ان کے سینوں میں سے آواز پیدا ہوتی ہے ۔پس پہلے معنے یہ ہونگے کہ ہم ان گھوڑوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیںجو دوڑتے وقت ضبحچال اختیار کرتے ہیںیعنی شدت جوش سے کودتے جاتے ہیں۔
۲:۔دوسرے معنے یہ ہونگے وہ دوڑنے والی سواریاںجو اگلے پائوں لمبے کر کے مارتی اور اچھل کر دوڑتی ہیںجس کے نتیجہ میںانکی بغلوں اور بازئووں میں لمبا فاصلہ ہوجاتا ہے انکو ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
۳:۔تیسرے معنے یہ ہونگے کہ ہم ان دوڑنے والی سواریوں کی قسم کھاتے ہیںجبکہ ان کے سینوں میں سے ایک خاص قسم کی آواز پیدا ہونے لگتی ہے ۔
ان میں سے کوئی معنے لے لئے جائیںخواہ یہ معنے لے لئے جائیںکہ ضبحگھوڑے کی ایک تیز دوڑ کا نام ہے تب بھی۔اگر یہ معنے لے لئے جائیںکہ اس میں گھوڑوں کی اس حالت کا ذکر ہے جبکہ وہ لمبا کود کود کر پائوںمارتے ہیںتب بھی۔اور اگر یہ معنے لئے جائیںکہ اس میں گھوڑوں کی اس دوڑ کا ذکر ہے جس میںان کے سینہ میں سے ایک خاص قسم کی آواز پید اہونے لگتی ہے تب بھی۔ان تینوں صورتوں میں یہ امر ظاہر ہے کہ اس آیت میں ایسے گھوڑوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو جوش و خروش سے اور انتہا ئی رغبت اور شوق سے دوڑتے ہیں۔ یہ سیدھی بات ہے کہ گھوڑا خود نہیں دوڑتا بلکہ دوڑانے والا اسے دوڑاتا ہے اس لئے گو یہاں گھوڑوں کا ذکر ہے مگر اس سے مراد وہ سوار ہیں جو گھوڑوں کو تیزی سے دوڑاتے ہیںیا گھوڑوں کو اس طرح دوڑاتے ہیںکہ ان کے سینوں سے آوازنکلنی شروع ہو جاتی ہے وہ ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کا گھوڑا زندہ رہتا ہے یا مرتا ہے یا اس قدر ان میں جوش پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے گھوڑوں کو کوداتے جاتے ہیں۔
تفسیر:۔مجھے اس سورۃ کے متعلق خاص طور خوشی ہے کہ خود صحابہؓ نے اس کے ایسے معنے کئے ہیںجن سے یہ عظیم الشان پیش گوئی کی حامل قرار پاتی ہے ۔ بہت کم آیات ایسی ہیں جن کے معنے کرتے ہوئے گذشتہ مفسرین نے انکو کسی پیش گوئی کا حامل قراردیا ہو۔ میں سمجھتا ہوںکہ ایسی آیات کی تعداد پانچ سات سے ذیادہ نہیں ہو گی ۔با لعموم پرانے مفسر ین کا یہ طریق رہا ہے کہ وہ قرآن کریم کی آیات کا یا قیامت پر چسپاں کر دیتے ہیںیا بعض گذشتہ واقعات کی طرف ان کو منسوب کر دیتے ہیں۔ لیکن اس آیت کے متعلق گوحضرت علیؓاور بعض دوسرے صحابہؓ کا بھی یہ قول ہے کہ اس میں حج کا ذکر ہے لیکن حضرت عبد اللہ بن عباسؓبڑے اصرار کے ساتھ اس امر پر قائم تھے کہ اس سورۃ میں غزوات اسلامیہ کا ذکر ہے اور ان حملوں کی خبر دی گئی ہے جو مسلمانوں نے کفار پر کرنے تھے۔ یہاں آکر ریور نڈویری کا ہمارے ساتھ متفق ہو جانا اور کہنا کہ یہ سورۃ مکی ہے کوئی معمولی بات نہیں۔غالبا ان کا ذہن حج کی طرف ہی چلا گیا ہے ورنہ اگر انہیںپتہ ہوتا کہ مکہ میں گھڑ چڑھے سواروں کا ذکر غزوات اسلامیہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایک زمانہ میں مسلمانوںکو کفار سے لڑائیاں کرنی پڑیں گی تو وہ کبھی اس سورۃ کو مکی قرار نہ دیتے۔
بہرحال گھوڑے کا کودنا مالک کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ پس گو یہاں گھوڑے کا ذکر ہے مگر دراصل والعدیت ضبحا میں سواروں کے جوش کا اظہار ہے۔ ضبحا خواہ تیز دوڑ کا نام ہو خواہ دوڑنے سے جو آواز پید اہوتی ہے اس کی طرف اشارہ ہو، خواہ ٹانگیں اُٹھا اُٹھا کر دوڑنا یا کداتے چلے جانا مراد ہو بہرحال گھوڑا خود نہیں دوڈرتا بلکہ سوار اسے دوڑاتا ہے۔ پس یہ تینوں حالتیں سوار کے قلب کی کیفیت کے متعلق ہیں اور مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں جہاد کا اس قدر جوش ہوگا کہ وہ بے تحاشا اپنے گھوڑوں کا ایڑیاں مار مار کر دوڑاتے ہوئے دشمن کے ملک کی طرف جائیں گے اور اس امر کی ذرا بھی پرواہ نہیں کریں گے کہ ان کے گھوڑے مرتے ہیں یا زندہ رہتے ہیں۔
اگر ضبح کے معنے خاص قسم کی تیز چال کے کئے جائیں تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ وہ سوار آہستہ چلنا برداشت نہیں کرسکیں گے اور اگر اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ تیزی سے لمبے لمبے ڈگ بھرتے چلے جائیں گے تب بھی اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ منزل مقصود سے پیچھے رہنا برداشت نہیں کرسکیں گے۔ غرض تینوں صورتوں میں اس کا ایک ہی مفہوم ہوگا کہ سوار منزل مقصود کی طرف اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا چلا جائے گا مگر اس لئے نہیں کہ وہاں اس کی محبوبہ بیٹھی ہے جس کی ملاقات کیلئے وہ بیتاب ہورہاہے۔ اس لئے بھی نہیں کہ وہاں کسی نے بڑے بڑے اچھے کھانے تیار کئے ہوئے ہیں اور اسے ان کھانوں میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔ اس لئے بھی نہیں کہ وہاں اس کا مال و متاع پڑا ہوا ہے اور وہ دوڑتا ہے کہ کوئی چور اسے اٹھا کر نہ لے جائے۔ اس لئے بھی نہیں کہ وہاں اس کے دوست احباب موجود ہیں اور وہ ان سے ملنے کیلئے مسافت کو جلد طے کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ اس جگہ جارہا ہے جہاں دشمن اس کی جان لینے کا منتظر بیٹھا اور اس لئے جارہا ہے کہ میں اس مقام پر پہنچ کر اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کردوں۔ گویا ڈر اور خوف کی بجائے اس کے دل میں خوشی اور امنگ ہوگی اور وہ انتہائی مسرت اور شادمانی کے جذبات کے ساتھ میدان قتال کی طرف بڑھتا چلا جائے گا۔ پس والعدیت ضبحا میں گو ذکر گھوڑوں کا ہے مگر حقیقتاً اس میں ان مسلمانوں کی قلبی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے جو ان پر سوار ہوں گے۔
اس آیت کے معنوں کے متعلق بھی مختلف روایتیں پائی جاتی ہیں۔ عبداللہ )بن مسعودؓ) کہتے ہیں کہ اس سے مراد اونٹ ہیں۔ حضرت علیؓ بھی یہی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اونٹ ہیں۔ لیکن حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ اس سے مراد گھوڑے ہیں۔ چنانچہ وہ ذکر کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ حج کے دنوں میں خانہ کعبہ کے پاس حطیم میں بیٹھا ہوا عبادت کررہا تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا میں نے آپ سے ایک آیت کا مطلب دریافت کرناہے۔ میں نے کہا پوچھو۔ کہنے لگا والعدیت ضبحا کے کیا معنے ہیں؟ میں نے کہ ا س سے گھوڑے مراد ہیں۔ اس نے جاکر حضرت علیؓ سے اس کا ذکر کردیا یا کسی اور طرح حضرت علیؓ کو یہ بات پہنچ گئی جس پر آپ نے فرمایا یوم بدر میں تو ہمارے پاس گھوڑے نہ تھے۔ گھوڑے تو پہلی دفعہ ایک سریہ میں گئے تھے جو رسول کریم ﷺ نے بھجوایا تھا۔ ابن جریر حضرت ابن عباسؓ کی ایک دوسری روایت میں اس واقعہ کا یوں ذکر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے مجھ سے والعدیت ضبحا فالموریت قدحا کے متعلق سوال کیاکہ اس سے کیا مراد ہے؟ میں نے کہا گھوڑے سوار جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں دھاوا کرنے کے بعد واپس رات کو آتے ہیں توکھانا پکانے کیلئے آگ جلاتے ہیں ۔ اس نے جاکر حضرت علیؓ سے کہا انہوں نے کہا کیا کسی اور سے بھی پوچھا ہے؟ اس نے کہا ہاں عبداللہ بن عباسؓ سے پوچھا ہے۔ انہوں نے کہا جائو اور ان کو بلالائو۔ جب میں گیا تو حضرت علیؓ نے خفا ہوکر کہا کیا تو اس امر کا فتویٰ دیتا ہے جس کا تجھے علم نہیں۔ پہلا غزوہ اسلام میں بدر تھا اور اس میں صرف دو گھوڑے ہمارے ساتھ تھے۔ ایک گھوڑا زبیرؓ کا تھا اور ایک مقدادؓ کا۔ پھر کہا العدیت ضبحا سے مراد حاجی ہیں جو عرفہ سے مزدلفہ کی طرف آتے ہیں اور پھرمزدلفہ سے منیٰ کی طرف اآتے ہیں (عرفہ سے مزدلفہ تیزی سے آتے ہیں)۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس پر اپنے قول سے رجوع کرلیا۔ مگر باوجود اس کے کہ ابن جریر نے یہ روایت لکھی ہے۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ اس کے معنے گھوڑوں کے سوا اور کچھ نہیں بنتے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے سب شاگرد انہی معنوں کے قائل ہیں اور دوسرے علماء بھی یہی معنے مراد لیتے ہیں۔ چنانچہ مجاہد، عکرمہ، عطاء، قتادہ اور ضحاک سب کا یہی قول ہے اور ابن عباسؓ اور عطاء سے یہ مروی ہے کہ گھوڑے اور کتے کے سوا کوئی ضبح نہیں کرتا۔ حل لغات میں بھی بتایا جاچکا ہے کہ ضبح اس آواز کو کہتے ہیں جو تیز دوڑتے وقت گھوڑوں کے سینوں سے پیدا ہوتی ہے۔ پس باوجود اس روایت کے جس میں یہ ذکر کیاگیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اپنے قول سے رجوع کرلیا ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ عبداللہ بن عباسؓ کا آخر تک یہی مذہب رہا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے سب شاگرد انہی معنوں پر کیوں عمر بھر زور دیتے رہتے۔ پس لغت کی شہادت اور ائمہ ادب کے اصرار کے بعد ہم مجبور ہیں کہ والعدیت ضبحاا سے گھوڑے ہی مراد لیں۔ گو استعارۃً اس سے اونٹ بھی مراد لئے جا سکتے ہیںاور یہ جو کہا گیا ہے کہ اس آیت کوغزوات اسلامیہ پر اس لئے چسپاں نہیں کیا جا سکتا کہ جنگ بدر میں مسلمانوںکے پاس گھوڑے نہیں تھے میرے نزدیک درست نہیںبے شک بدر کی جنگ میںصحابہؓ کے پاس زیادہ گھوڑے نہیںتھے مگر بعد کی جنگوں میںوہ کثرت کے ساتھ گھوڑے رکھنے لگ گئے تھے ۔ بدر کی جنگ پر اس آیت کو چسپاں کرتے ہوئے ہم عا دیات سے استعارۃً اونٹ مراد لے لیں گے جس طرحوا لعدیت ضبحاکے اصل معنے دوڑنے والے گھوڑوں کے ہیںلیکن ہم نے اس کے معنے سواروں کے کئے ہیںکیونکہ گھوڑا خود نہیں دوڑتا بلکہ سوار اسے دوڑاتا ہے اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیںکہ گووالعدیت ضبحاسے گھوڑے مراد ہیں مگر بدر میں اس سے استعارۃ اونٹ مراد تھے کیونکہ عربی زبان میں یہ عام طریق ہے کہ بعض دفعہ ایک بڑی چیز کا ذکر کر دیا جاتا ہیاور چھوٹی چیز کا ذکر اس میں خود بخود شامل سمجھا جاتا ہے۔ مردوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو عورتیں اس میںطبعی طور پر شامل سمجھی جاتی ہیں۔اسی طرح اغارت میں چونکہ گھوڑے زیادہ کام آیا کرتے ہیںاس لئے اللہ تعالی نے ان کا ذکر کر دیا اونٹوں کا نام نہیں لیا مگر جب اونٹ جب جنگی کاموں میں استعمال ہوںاستعارۃً اس میں خود بخود آجاتے ہیں۔ پس اگر جنگ بدر پر ان آیات کو چسپاںکرتے ہوئے عادیات سے اونٹ مراد لے لئے جائیںتو اس میں کوئی حرج نہیں، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ بعد میں جوں جوں دن گذرتے گئے صحابہؓ میں گھوڑوں کا استعمال بڑھتا چلا گیا خود رسول کریم ﷺ بھی گھوڑے استعمال کرنے لگے یہاں تک کہ حدیثوں سے دس کے قریب گھوڑے اور گدھے ثابت ہیںجو مختلف وقتوں میں رسول کریمﷺ نے استعمال کئے۔ بہر حا ل اکثر صحابہؓ کی یہ رائے ہے کہ اس سورۃ میں ان غزوات کی خبر دی گئی ہے جو مسلمانوں کو کفار سے پیش آئے چنانچہ ایک حدیث بھی معین صورت میں اس کی تائید میں سامنے آتی ہے ۔ایک صحابی ؓ یہ بیان کرتے ہیںوالعدیت کی سورۃکا شان نزول یہ تھا کہ ایک دفعہ رسول کریمﷺ نے بنو کنا نہ کی طرف ایک سریہ بھجوایا جس کے سردار المنذر بن عمر و الانصاری تھے(یہ لشکر گھوڑوں پر سوار تھا جیسا کہ حضرت علیؓ کی اوپر بیان کردہ روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جب ان کو حضرت عبد اللہ بن عباس کے اس قول کی خبر پہنچی کہ عاد یات ضبحا سے گھوڑے مراد ہیںتو آپ نے فرما یا کہ گھوڑے تو ایک سریہ میں گئے تھے جو رسول کریم ﷺ نے بھجوائے تھے )المنذر بارہ نقباء میں سے ایک تھے جنہوں نے مکہ میںرسول کریم ﷺکے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور جن کو رسول کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں اہنے قبیلے کا سردار اور افسر مقرر فرمایا تھا ۔ایک ماہ تک اس سریہ کے بارہ میں کوئی خبر نہ آئی جس پر منافقوں نے شور مچادیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ سب کے سب مارے گئے ہیں۔ ان کا مقصد ان افواہوں سے یہ تھا کہ مسلمانوں کے دل ٹوٹ جائیںاور آئندہ کسی قسم کی قربانی کے لئے باہر نہ نکلیںجب انہوں نے اس رنگ میں جھوٹا پرا پیگنڈہ شروع کر دیا تویہ سورۃ نازل ہوئی جس میں اس سریہ کا نقشہ کھینچا گیا اور رسول کریم ﷺ کو بتایا گیا کہ وہ سلامت ہیں انہوں نے دشمن پر حملہ کیا ہے اور وہ اپنے حملہ میں کامیاب رہے ہیںچنانچہ چند دنوں کے بعد سریہ واپس آگیا اور اس نے بتایا کہ جس طرح پیش گوئی کی گئی تھی ویسے ہی واقعات اس کے ساتھ پیش آئے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سورت تو مکی ہے لیکن اگر اس روایت کو تسلیم کیا جائے تو اس کے معنے یہ بنتے ہیںکہ یہ سورۃ مدینہ میں نازل ہوئی تھی مکہ میں نہیں۔ایک طرف اسے مکی قرار دینا اور دوسری طرف اس آیت کا شان نزول ایسا بتانا جس سے یہ مدنی ثابت ہو عجیب بات ہے۔اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوںیہ امر کثرت سے ثابت ہے کہ ایک ایک آیت کے کئی کئی شان نزول بتائے گئے ہیںاور محققین کا قول ہے کہ در حقیقت شان نزول کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیںکہ فلاں آیت فلاں واقعہ پر بھی چسپاںہوتی ہیاس جگہ بھی یہی مراد ہے یعنی چونکہ یہ پہلا غزوہ تھا جس میں سب یا بکثرت گھوڑے استعمال کئے گئے تھے اس لئے رسول کریم ﷺنے اس پہلے سے نازل شدہ سورۃ کو ان لوگوں پر جو ایسی خبریں مشہور کرتے تھے چسپاں کیا اور یہ استدلال فرمایا کہ جس سورۃ میں گھڑ سواروں کی خبر ہے وہ ضرور پہلی گھڑ سواروںکی فوج پر تو پوری ہو گی اور چونکہ اس سورۃ میںاسلامی گھڑسواروں کے جیتنے کی خبر ہے اس لئے ضرور یہ لشکر جیت کر آئے گا ۔پس آپﷺ نے اس سورۃ سے استنباط کر کے لوگوں کو بتا دیا کہ وہ سوار جنہیںمیں نے بھجوایا ہے اس پیش گوئی کے ماتحت جیت کر آئیں گے اور تمھاری مایوسانہ طبیعت کا پول کھل جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب منافقین نے یہ افواہیں مشہور کی ہوںتو اللہ تعالی نے اسی پرانے کلام کو دوبارہ نازل کرکے مسلمانوں کو تسلی دی ہو کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیںسریہ واپس آئے گا اور کامیاب وکامران واپس آئے گا کیونکہ اللہ تعالی اس بارہ میں پہلے سے پیش گوئی کر چکا ہے اور تم سمجھ سکتے ہو کہ بہر حال اللہ تعالی کی ہی پیش گوئی پوری ہو گی منافقین کی بات سچی نہیں ہو سکتی ۔ اسکی ایسی ہی مثال ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلامنے تحریر فرمایا ہے کہ:۔
’’ایک مقدمہ میںکہ اس عاجز کے والد مرحوم کی طرف سے اپنے زمینداری حقوق کے متعلق کسی رعیت پر دائر تھا ۔اس خاکسار پر خواب میں یہ ظاہر کیا گیا کہ اس مقدمہ میں ڈگری ہو جائے گی چنانچہ اس عاجز نے وہ خواب ایک آریہ کو کہ جو قادیان میں موجود ہے بتلادی۔ پھر بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ اخیر تاریخ پر صرف مدعا علیہ مع اپنے چند گواہوں کے عدالت میں حاضر ہوا اور اس طرف سے کوئی مختار وغیرہ حاضر نہ ہوا۔ شام کو مدعا علیہ اور سب گواہوں نے واپس آکر بیان کیا کہ مقدمہ خارج ہو گیا ۔اس خبر کو سنتے وہ آریہ تکذیب اور استہزا سے پیش آیا ۔اس وقت جس قدر قلق اور کر ب گذرا بیان میں نہیں آسکتا ۔ کیونکہ قریب قیاس معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ایک گروہ کثیر کا بیان جن میںبے تعلق آدمی بھی تھے خلاف واقعہ ہو۔اس سخت حزن و غم کی حالت میںنہایت شدت سے الہام ہواکہ جو آہنی میخ کی طرح دل کے اندر داخل ہو گیا ۔اور وہ یہ تھا
ڈگری ہو گئی ہے مسلمان ہے
یعنی کیا تو باور نہیں کرتا اور باوجود مسلمان ہونے کے شک کو دخل دیتا ہے۔آخر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت ڈگری ہی ہوئی تھی اور فریق ثانی نے حکم سننے میں دھوکا کھایا تھا‘‘(تذکرہ ۵۔۶)
اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ۃوالسلام اللہ تعالی سے اطلاع پا کر ایک خبر دیتے ہیںاور واقعہ اس کے مطابق ہو تا ہے مگر جب آریہ جھوٹی افواہ مشہور کر دیتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی تسلی دیتا ہے اور دوبارہ بتاتا ہے کہ’’ڈگری ہو گئی ہے مسلمان ہے‘‘ یعنی تم مسلمان ہو تمھیں خدا تعالی کے کلا م پر یقین رکھنا چاہیے واقعہ یہی ہے کہ ڈگری ہو گئی ہے۔ اسی طرح جب منافقین نے جھوٹی افواہیں پھیلانی شروع کر دیںتو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے والعدیت ضبحاوالی آیات دوبارہ رسول کریمﷺ پر نازل کر دی ہوں یہ بتانے کے لئے تم نے ہی جیتنا ہے اور اس بارہ میںہم پہلے سے پیش گوئی کر چکے ہیںمنافقوں کا کیا ہے وہ تو جھوٹ بول رہے ہیں۔
غرض میرے نزدیک یہ دونوں صورتیں ممکن ہیںیہ بھی کہ جب پہلا سریہ گیا اور منافقوں نے مشہور کر نا شروع کر دیا کہ مسلمان سب مارے گئے ہیںتو رسول کریم ﷺ نے یہ فر مایا ہو کہ وہ کس طرح مارے جا سکتے ہیں۔ یہ پہلا سریہ ہے جو گھوڑوں پر گیا ہے اور اس لحاظ سے اس پیش گوئی کا پہلا مصداق ہے جو خدا تعالی نے والعدیت ضبحامیں کی ہوئی ہے اس لئے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ مارے جائیں اور سننے والے نے سمجھا ہوکہ اسی واقعہ پر یہ سورۃ نازل ہوئی ہے ۔حا لانکہ رسول کریم ﷺ کا منشاء یہ تھا کہ جب اللہ تعالی کہہ چکا ہے کہ ہمیں فتح ہو گی تو منافقوں کی یہ بات کس طرح درست ہو سکتی ہے کہ مسلمان مارے گئے ہیں۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ مکی آیات دوبارہ مسلمانوں کی تسلی کے لئے رسول کریمﷺ پر نازل کر دی گئی ہوں۔بہر حال کوئی صورت ہو رسول کریمﷺ نے ان آیات کو پیشگوئی قرار دیا ہے جو ثبوت ہے اس بات کا کہ غذوات اسلامیہ پر ان آیات کو چسپاں کرنا بالکل درست ہے اور رسول کریمﷺ کی تائید ان معنوں کو حاصل ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ لغت میںبعض دوسرے جانور وں کی آواز کو بھی ضبحکہا جاتا ہے۔ مثلاََ الو کی آواز کو بھی ضبحکہتے ہیں۔ لومڑ کی آواز کو بھی ضبح کہتے ہیں ۔کالے سانپ کی آواز کو بھی ضبحکہتے ہیں۔خر گوش کی آواز کو بھی ضبحکہتے ہیں۔ ان جانوروںکی آواز کے علاوہ کمان سے جو آواز نکلتی ہے اسے بھی ضبحکہتے ہیںاور اس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنی چیزوں کے لئے ضبحکا لفظ استعمال ہوتا ہے تو پھر والعدیت ضبحاکو گھوڑوںپر مخصوص طور پر کس طرح چسپاں کیا جا سکتا ہے کیوں نہ یہ سمجھ لیا جائے کہ والعدیت ضبحا والی آیت اونٹوںپر بھی چسپاں ہو سکتی ہے اور حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بیان کردہ معنے با لکل درست ہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ جہاںاستعارہ اور مجاز کا سوال ہے ہم خود تسلیم کرتے ہیںکہ عدیت ضبحا میں اونٹ بھی شامل ہیں۔ کیونکہ جب اس چیز کا ذکر کر دیا گیا ہے جو اغارت میں زیادہ کام آتی ہے یعنی گھوڑے ۔تو اونٹوں کا ذکر مجازی طور پر اس میں خود بخود شامل سمجھا جائے گا کیونکہ اونٹ بھی اغارت میں کام آتے ہیںگو گھوڑے کی نسبت کم ۔لیکن اگر صرف اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ الو یا بعض دوسرے جانوروں کی آواز کے لئے بھی ضبح کا لفظ بول لیتے ہیں یہ کہا جائے کہ چونکہ الو یا فلاں جانور کی آواز کو بھی ضبح کہا جاتا ہے اس لئے ہم اس جگہ والعدیت ضبحا سے اونٹ مراد لیں گے تو یہ قیاس مع الفارق ہو گا کیونکہ اونٹ اور الو میں تو کوئی جوڑ ہی نہیںسوائے اسکے کہ کوئی مزاحیہ رنگ میں کہہ دے کہ اونٹ اور الو میںکیوں جوڑ نہیں۔الو میں بھی الف وائو آتا ہے اور اونٹ میں بھی الف وائو آتا ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیںکہضبح کا لفظ بعض دوسرے جانوروںکی آواز کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے مگر عادیات کے ساتھ مل کرضبحا کے جو معنے بنتے ہیںوہ سوائے گھوڑوں کے اور کسی چیز پر چسپاں نہیں ہو سکتے۔یوں خالیضبح کا لفظ بے شک خرگوش یا الو یا لومڑ کی آواز کے لئے استعمال کر لیاجاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہاںخالی ضبحکا لفظ نہیںبلکہ والعدیت ضبحا کے الفاظ ہیںاس لئے اس آیت کے معنے کرتے ہوئے والعدیت سے ایسے دوڑنے والے ہی مراد لئے جائیں گے جن کے سینہ سے تیز دوڑتے ہوئے آواز نکلتی ہواور اس آواز کو ضبح کہا جاتا ہو ۔ اور میں بتا چکا ہوںکہ لغت میں صاف طور پر لکھا ہے کہ ضبح آواز کو کہا جاتا ہے جو تیز دوڑتے وقت گھوڑوں کے سینوں میں سے نکلتی ہے پس والعدیت ضبحا سے گھوڑے ہی مراد ہونگے نہ کہ کوئی اور چیز ۔اورابلکا ذکر بھی استعارۃ سمجھا جائے گا نہ کہ حقیقی معنوں میں۔
اس آیت کا یہ بھی ایک لطیف پہلو ہے کہ مکہ میں گھوڑے بہت کم ہوتے ہیںوہاں ذیادہ تر اونٹوں کا رواج ہے ۔ جب میں حج کے لئے گیا تو سواری کے لئے گدھا تو مل جاتا تھا مگر گھوڑا نہیں ملتا تھا۔ ہمارے ملک میںچونکہ گدھے پر سوار ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے اس لئے میں نے کہا کہ گھوڑا تلاش کرو بڑی تلاش کے بعد گھوڑا تو نہ ملا خچر مل گئی جس کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ یہ تین ہزار روپیہ کی ہے میں اس پر سوار ہو گیا ۔ ہم اس وقت غار ثور کی طرف جا رہے تھے ا ور میرے باقی ساتھی گدھوں پر سوار تھے ۔میرے ساتھی تو آدھ میل آگے نکل گئے مگر میں پیچھے رہ گیا آخر میں نے بھی خچر چھوڑی اور گدھے پر سوار ہو کر وہاںپہنچا ۔ پس مکہ میں گھوڑے بہت کم ہوتے ہیںاور اس زمانہ میںتو اور بھی کم تھے ۔ جب یہ سورۃ نازل ہوئی زیادہ تر اونٹوں کا رواج تھا مگر اللہ تعالی نے والعدیت ضبحا کی آیت نازل فرما کر اس طرف اشارہ فرما دیا کہ یہ مکہ کے اونٹ سوار ایک دن گھوڑے سوار بننے والے ہیں۔ چنانچہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوںبعد میں مسلمانوں کے پاس گھوڑے بڑھتے چلے گئے اور انکی تعداد بہت زیادہ ہو گئی کیونکہ جنگ میں جتنا کام گھوڑا دے سکتا ہے اتنا کام اونٹ نہیں دے سکتا ۔
اس کے علاوہ مسلمانوں میں گھوڑوں کا رواج اس وجہ سے بھی ترقی پا گیا کہ قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ نے جہاد کے لئے گھوڑے رکھنا اللہ تعالی کی رضا اور اسکی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ قرار دے دیا تھا ۔ مثلا اللہ تعالی نے مسلمانوں کو واضح طور پر یہ حکم دیا تھا کہ اعدو الھم ما استطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل تر ھبون بہ عدو اللہ و عدو کم (الانفال ۸ع۴)تم اپنے دشمنوں کے مقابلہ میںجو کچھ بھی تیا ر کر سکتے ہو کرو اپنی قوت کو بڑھا کر اور اپنے گھوڑوں کو خدا تعالی کی راہ میں وقف کر کے تاکہ اس ذریعہ سے دشمن پر تمھارا رعب قائم ہو جائے اور وہ اپنی ریشہ دوانیوں سے باز آجائے ۔اسی طرح رسول کریم ﷺ نے بار بار مسلمانوں کو ترغیب دلائی کہ اگر وہ جہاد کے لئے گھوڑے رکھیں گے تو انہیں اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑا اجر ملے گا ۔ مثلا آپ نے فرمایا الخیل معقود فی نوا صیہا الخیر الی یوم القیامۃکہ گھوڑوں کی پیشانی میںقیامت تک خیر بندھی ہوئی ہے اسی طرح آپ نے فرمایامن احتبس فر سا فی سبیل اللہ ایمانا با للہ و تصدیقا بو عدہ فان شبعہ ور یہ ورو ثہو بو لہ فی میزان یوم ا لقیامۃ(بخاری جلد ۲ کتاب الجہاد والسیر) کہ جو شخص اللہ تعالی کی راہ میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ اس کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے اپنا گھوڑا وقف کر دیتا ہے اس گھوڑے کا کھانا ،اس کا پینا ، اس کی لید اور اسکا پیشاب سب قیامت کے دن انسان کی میزان میں بطور اعمال نیک کے تولے جائیں گے۔
گھوڑوں کے متعلق تو اس قسم کی متعدد احا دیث آتی ہیںمگر اونٹ کے متعلق کسی حدیث میں نہیں آتا کہ رسول کریم ﷺ نے جہاد کے لئے اس کا رکھنا بھی اسی طرح موجب حسنات قرار دیا ہو۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منشاء الٰہی یہی تھا کہ مسلمان گھوڑے زیادہ رکھیںاور اغراض جہاد کے لئے اونٹوں کی طرف کم توجہ کریں۔
یہ ساری باتیں بتاتی ہیںکہ اس جگہ عادیاتسے گھوڑے ہی مراد ہیںچنانچہ قرآن کریم سے بھی اس کی تصدیق ہو گئی حدیث سے بھی اس کی تصدیق ہو گئی اور لغت کی تائید بھی ان معنوں کو حاصل ہو گئی ۔ کیونکہ لغت بتاتی ہے کہ ضبحگھوڑے کی ایک دوڑ کا بھی نام ہے اور ضبحاس خاص قسم کی آواز کو بھی کہا جاتا ہے جو دوڑتے وقت اس کے سینہ میں سے نکلتی ہے اور والعدیت ضبحاکے معنے یہ ہیںکہ ایـ مسلمانو! آئندہ زمانہ میں تمہیں جنگیں پیش آنے والی ہیںتمہاری ملکی چیز اونٹ ہے مگر ہماری نصیحت یہ ہے کہ تمہیں اپنے پاس زیادہ سے زیادہ گھوڑے رکھنے چاہئیں کیونکہ وہ جنگ میں اونٹوںسے زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں۔ اگر تم گھوڑوں سے کام لو گے تو وہ تمہاری فتح کا موجب ہو جائیں گے ۔ چنانچہ صحابہ ؓ نے ایسا ہی کیا اور روز بروز ان کے گھوڑے بڑھتے چلے گئے۔
فا لموریت قدحاO
پھر (مجھے قسم ہے) چوٹ مار کر چنگاری نکالنے والوں کی
حل لغات:۔موریات:اوریسے اسم فاعل کا جمع مونث کا صیغہ ہے اوراوری الزنہ کے معنے ہوتے ہیںاخرج نارہ۔اس نے چقماق میں سے آگ نکالی یعنی چقماق کو ٹکرایا جس کے نتیجہ میں آگ پیدا ہوئی اور قدح با لزند کے معنے ہیںرام الا یراء بہاس نے چقماق میں سے آگ نکالنے کا ارادہ کیا (اقرب)پسفا لموریت قدحاکے معنے یہ ہوئے کہ وہ قدحکے معنے چونکہ بعض لوگ ٹکرانے کے لیتے ہیںاس لحاظسے معنے یہ ہوں گے کہ وہ ٹکرا کر آگ نکالتے ہیں۔
تفسیر:۔آگ جلانے سے بعض نے گھوڑوں سے سموں سے پیدا ہو نے والیآگ مراد لی ہ (ابن جریر)اور بعض نے جنگ سے واپسی پر کھانا پکانے کی آگ یا مزدلفہ میںآگ جلانا مراد لیا ہے۔حضرت ابن عباسؓنے جنگ سے واپسی پر کھانا پکانے کے لئے آگ جلانا ہی اس کے معنے کئے ہیں۔پرانے زمانے میں چونکہ دیا سلائی نہیں ہوتی تھیں اس لئے گھروں میںعام طور یہ دستور ہوا کرتا تھا کہ رات کو کھانا پکانے کے بعد کسی قدر آگ راکھ میں دفن کر دی جاتی تھی بلکہ آج کل بھی دیہات میں یہی طریق رائج ہے جب شام کا کھاناتیار ہو جاتاہے تو کوئی انگارہ یا سلگتی ہوئی لکڑی کا ٹکڑا راکھ کے نیچے دفن کر دیتے ہیںصبح کے وقت انگارہ نکال کر تھوڑی سی مونج کی رسی اس پر رکھ دیتے ہیںیا لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اکٹھے کر کے اس کے ارد گرد رکھ دیتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد مونج یا لکڑی کے ٹکڑے جل اٹھتے ہیں اور آگ روشن ہو جاتی ہے وہ لوگ جن ک آگ بجھ جاتی ہے اپنے ہمسایہ سے آگ لے لیتے ہیںمگر جنگ میں ایسا نہیں ہو سکتا اس موقعہ پر پرانے زمانہ میں آگ روشن کرنے کے لئے چقماق سے کام لیا جاتا ہے۔چقماق کو جب لوہے سے زور ٹکرائیںتو اس میں سے آگ نکلتی ہے اس وقت ذرا سا کپڑایا سوکھا ہو ا پتی یا مونج کا کوئی ٹکڑا ساتھ رکھ دیا جائے تو فوراً جل اٹھتا ہے ۔آج کل بھی یورپین قوموں میںچقماق کا رواج پایا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں اس کا رواج مٹ گیا ہے ۔ جب ہم چھوٹے تھے تو چقماق سے تماشہ کے طور پر آگ نکالا کرتے تھے اور گنوار لوگ جن کو حقیقت کا علم نہیں ہوتا تھا وہ سمجھتے تھے کہ بڑا معجزہ ہو گیا ہے مگر اب ہندوستا ن مین چقماق کا رواج نہیں رہا ۔ جرمن قوم میں اس کا ذیادہ رو ا ج ہے کسی قدر انگریزوں میں بھی اس کا رواج پایا جاتا ہے چنانچہ جنگ کے دنوں میںسگرٹ اور سگار جلانے کے لئے فوجیوں میں چقماق بھی دئے جاتے تھے ۔ چقماق کو ایک گھومنے والے کے چکر کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور ساتھ ایک سپرنگ لگا ہوا ہوتا ہے جب اس سپرنگ کو دبایا جائے تو لوہے کا چکر تیزی کے ساتھ گھومنے لگتا ہے اور ساتھ کے چقماق کے ساتھ ٹکراتا ہے جس سے شعلہ پیدا ہوتا ہے پاس ہی بتی ہوتی ہے جس کے نیچے کچھ تیل ہوتا ہے وہ فورا اس شعلہ سے جل اٹھتی ہے اور سگرٹ یا سگار جلا لیا جاتا ہے اور پھر فورا بتی کو بجھا دیا جاتا ہے۔جرمنوں میں اس کا رواج بہت ذیا دہ تھا مگر جرمن تجارت کا یہ آلہ ایک جزو تھا ۔ تھوڑے دن ہوئے یہاں کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ فوجیوںکے لئے تیار کئے گئے تھے کیونکہ وہاں آگ آسانی سے نہیں جل سکتی۔
پرانے زمانہ میں بوجہ دیا سلائی نہ ہونے کے فوجوں میں چقماق سے ہی زیادہ تر کام لیا جاتا تھا اس لئے حضرت ابن عباس ؓکی یہ رائے ہے کہ فا لموریت قدحاکے معنے یہ ہیںکہ جب وہ سوار جنگوں سے واپس آتے ہیںتو بیٹھ کر آگ جلاتے اور اپنے لئے کھانا تیار کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فا لموریت قدحاکے فقرہ کے معنے حضرت ابن عباس ؓ کے قول کے مطابق کھانا پکانے کے لئے آگ جلانے کے بھی ہوسکتے ہیں مگر یہاںوہ بات مراد نہیں جو انہوں نے سمجھی ہے یعنی وہ حملہ سے لوٹ کر ایسا کرتے ہیںکیونکہ اس کی تردید اگلی آیت سے ہی ہو جاتی ہے ۔ اگلی آیت میں حملہ کا ذکر کیا گیا ہے اور اس سے پہلے فائہے جو اکثر وبیشتر ترتیب کے لئے آتی ہے ۔ یہ ترتیب خود بتا رہی ہے کہ حملہ بعد میں ہے نہ کہ پہلے۔یعنی پہلیفا لموریت قدحاہے اور پھر فا لموریت قدحا ہے اور پھرفا لمغیرات صبحا،پس اگلی آیت میںمذکور بات اس آیت میں بتائی ہوئی بات کے بعد ہونی چاہیے۔
میرے نزدیک فا لموریت قدحاکے معنے اگر کھانا پکانے کے لئے آگ جلانے کے ہی ہوںتو چونکہ اس کے بعد حملہ کرنے کا ذکر ہے اس کے یہ معنے زیادہ درست ہوں گے کہ صحابہؓ حسب سنت نبوی جب حملہ کرنے کے لئے جاتے ہیں تو فورا حملہ نہیں کر دیتے بلکہ قریب جا کر سواریوں سے اترجاتے ہیںاور کھانا وغیرہ پکاتے ہیںاور رات گذارتے ہیںپھر صبح کو حملہ کرتے ہیں۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی عادت میں یہ بات داخل تھی کہ آپ کبھی سیدھا حملہ نہیں کرتے تھے بلکہ جہاں حملہ کرنا ہوتا تھا اس مقام سے ایک دو میل دور اپنے ڈیرے لگا دیتے اور جب صبح ہوتی تب حملہ کرتے۔ پس اگر اس آیت سے کھانا پکانے کے لئے آگ جلانا ہی مراد ہو تو بھی جنگ سے واپسی پر کھا نا پکانا مراد نہیںبلکہ حملہ سے پہلے کھانا پکا نا مراد ہے۔اگر فا لموریت قدحامیں حملہ کے بعد آگ روشن کرنے اور کھانا پکا نے کا ذکر ہوتا تو اس کے بعدفا لموریات قدحارکھنا اور پھرفالموریت صبحا کہنا صاف بتا رہا ہے کہ اس آیت میں حملہ سے واپسی کا ذکر نہیں بلکہ ذکر یہ ہے کہ جب وہ حملہ کرنے جاتے ہیںتو فوراًحملہ نہیںکردیتے بلکہ رات کو ٹہرتے آگ جلاتے اور کھانا وغیرہ پکاتے ہیں جب صبح ہوتی ہے تب حملہ کرتے ہیں۔
ان آیات میں ایک طرف تو یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی خدمت اور اللہ تعالی کی رضا کے لئے اپنی جان دینے کا اس قدر جوش پایا جاتا ہے کہ جب وہ اپنے زبر دست اور کثیر التعداد دشمنوں کے مقابل پر جاتے ہیںتو وہ اپنے گھوڑوں کو ایڑیاں مارتے اور ان کو دوڑاتے اور کداتے چلے جاتے ہیںاور اس امر کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کے گھوڑے زندہ رہتے ہیں یا مر تے ہیں۔ مگر دوسری طرف ن میں ایسے اعلی درجہ کے اخلاق اسلامی پائے جاتے ہیںکہ جب وہ عین دشمن کے سر پر پہنچ جاتے ہیںاس وقت یکدم حملہ نہیں کرتے بلکہ منزل کرتے ہیںاور کھانا پکاتے ہیںاور رات بسر کرتے ہیںپھر جب صبح ہوتی ہے تب حملہ کرتے ہیں۔چنانچہ رسول کریم ﷺکا تمام یہ معمول رہا کہ آپ کبھی رات کو حملہ نہیں کرتے تھے اور نہ صحابہ ؓ کو شبخون مارنے کی اجازت دیتے تھے۔
دراصل عرب میں الگ الگ قبائل ہوا کرتے تھے اور وہ خانہ بدوش ہونے کی وجہ سے اپنی جگہیں ہمیشہ تبدیل کرتے رہتے تھے اس وجہ سے رسول کریمﷺ حملہ میں بہت محتاط پہلو اختیار فرماتے تھے ۔ آپ فرماتے کہ کبھی رات کو حملہ نہ کرو ممکن ہے ایک قبیلہ اٹھ جائے اور دوسرا قبیلہ اس کی جگہ آبیٹھے اور تم غلطی سے دشمن کی بجائے کسی اور پر حملہ کر دو ۔ اس لئے صبح تک انتظار کرو اگر صبح کو انکی اذان کی آوازتمہارے کان میں آجائے تو تم حملہ نہ کرو اور اگر تم نے حملہ کرنا ہے تو ضروری ہے کہ تمہاری آذان کی آواز ان کے کانوں تک پہنچ جائے اور انہیں معلوم ہو جائے کہ مسلمان حملہ کرنے لے لئے آگئے ہیںسوتے دشمن پر حملہ نہیں کرنا ۔پسفا لموریت قدحامیں صحابہؓ کے اعلی درجہ کے اخلاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ آج مکہ میںمسلمان مغلوب ہیںوہ قریش کے بڑے بڑے رئوسا کی نگا میںمقہور اور ذلیل ہیں۔ دشمن اٹھتا ہے اور انہیں بے دریغ تکالیف دینا شروع کر دیتا ہے اسے کسی خلق کی پرواہ نہیںوہ اپنا واحد مقصد یہ سمجھتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کو دکھ دے خواہ اخلاق میں سے کوئی ایک خلق بھی اس کے پاس نہ رہے ۔ مگر یاد رکھو ایک دن یہ بے کس اور کمزور نظر آنے والے لوگ بھی ترقی کر جائیں گے اور اونٹوں کی بجائے گھوڑوں پر سوار ہو کر اپنی جانیں خدا تعالی کی راہ میں قربان کرنے کے لئے آئیں گے۔عربوں کے لئے گھوڑا عجیب چیز تھی صرف نجدیوں کے پاس گھوڑے ہوا کرتے تھے اور نجدیوں سے مکہ والے بڑے گھبراتے تھے مگر اللہ تعالی پیشگوئی کرتا ہے کہ ایک دن آنے والا ہے جب مسلمان طاقتور ہو جائیں گے اور اپنے پاس کثرت سے گھوڑے رکھنے لگیں گے تم سمجھتے ہو کہ چونکہ مسلمان کمزور ہیں اس لئے جانیں دے رہے ہیں مگر یہ با لکل غلط ہے۔جب یہ طاقتور ہو جائیں گے ،جب یہ گھڑ چڑھے سوار بن جائیں گے اس وقت بھی یہ اپنی جانیںقربان کرنا اپنے لئے انتہائی باعث فخر سمجھیں گے اور ان میں اس قدر جوش ہو گا کہ وہ اپنے گھوڑوں کو ایڑیاں مارتے اور انہیں منزل مقصود کی طرف دوڑاتے چلے جائیں گے ۔ مگر دوسری طرف ان کے اخلاق ایسے اعلی درجہ کے ہوں گے کہ وہ کبھی غا فل دشمن پر حملہ نہیں کریں گے ، کبھی رات کو حملہ نہیں کریں گے ۔ کبھی اچانک حملہ نہیں کریں گے۔ تمہاری حالت تو یہ ہے کہ تم اخلا ق کی پرواہ تک نہیں کرتے جب بھی کوئی مسلمان تمہارے قابو آجائے تم اسے مارنے پیٹنے لگ جاتے ہو مگر یہ اخلاق کو کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیں کریں گے جب یہ طاقتور ہو جائیں گے ۔جب یہ گھڑ چڑھے سوار ہو جائیں گے تب بھی یہ فوراً حملہ نہیں کردیں گے بلکہ جب آئیں گے رات بھر انتظار کریں گے صبح کے وقت اگر تمہاری اذان کی آواز ان کے کانوں میں آئے گی تو یہ تم پر حملہ نہیں کریں گے اور اگر تمہاری اذان نہیں ہو گی تو اپنی اذان کی آواز تمہارے کانوں تک پہنچائیں گے تاکہ تم ہوشیار اور بیدار ہو جائو اور مقابلہ کے لئے تیار ہو کر باہر نکلو۔غرض اس آیت میں مسلمانوںکے نہایت اعلی درجہ کے اخلاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
پھر صرف اخلاق کی طرف ہی نہیںبلکہ اس آیت میں مسلمانوں کی دلیری کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ جو لوگ دشمن سے لڑتے ہیںوہ رات کو آگ بجھا دیا کرتے ہیںیہ نہیں کرتے کہ رات کو آگ روشن رکھیں اور دشمن کو اپنی موجودگی کا علم ہونے دیں مگر مسلمانوںکے متعلق فرمایا کہ وہ حملہ کرنے کے لئے جاتے ہیں تو آگ کو روشن رکھتے ہیںدشمن سے ڈر کر اسے بجھاتے نہیں۔اسی طرح اس آیت میںمسلمانوں کی سخاوت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ عرب لوگ آگ جلانے سے سخاوت اور دلیری دونوں مراد لیا کرتے تھے ۔عرب شاعر اپنے مخالفوںکو مخاطب کر کے کہا کرتے تھے کہ ہماری قوم کی آگ جلتی رہتی ہے لیکن تمہاری قوم کی آگ بجھ جاتی ہے ۔ اس میں دونوں طرف اشارہ ہوا کرتا تھا اس طرف بھی کی ہم بہادر ہیں ۔ہم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ اگر ہم نے آگ روشن کی تو دشمن کو پتہ لگ جائے گا کہ ہم یہاں بیٹھے ہیںاور اس طرف بھی کہ تم رات کو کھانا پکا کر آگ بجھا دیتے ہو تاکہ کوئی مسافر اس آگ کو دیکھ کر تمہارے پاس کھانا کھانے کے لئے نہ آجائے لیکن ہماری قوم مہمان نواز ہے ہماری آگ جلتی رہتی ہے اور جب کوئی مسافر آگ کو روشن دیکھ کر ہمارے پاس آتا ہے تو ہم اسے کھانا کھلاتے ہیں۔ پسفالموریت قدحامیں دونوں باتیںبیان کی گئی ہیں۔ یہ بھی کہ ہم بہادر ہیں ہم روشنیوں کو ڈر سے بجھاتے نہیں بلکہ رات کو دلیری سے روشنی جلاتے ہیںاور یہ بھی کہ تم کنودہو ۔بخل کی وجہ سے کسی کو کھانا کھلانا بھی پسند نہیں کرتے ۔ مگر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنی روشنیاں جلائے رکھتے ہیںتاکہ مسافر اور غربائو مساکین وغیرہ آئیں اور کھانا کھائیں۔ یہ معنے ایسے ہیںجو کنودکے مقابلہ میںاس مقام پر زیادہ عمدگی سے چسپاں ہوتے ہیں۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کئے جو بہت لطیف ہیںکہ اللہ تعالی نے رات کے لئے فا لموریت قدحاکہا ہے اور صبح کے لئے فا ثرن بہ نقعاکہا ہے یعنی دونوں موقعوں پر جو چیز زیادہ ظا ہر ہونے والی تھی اس کا ذکر کیا گیا ہے ۔ رات کو اڑتی ہوئی گرد نظر نہیں آتی اور دن کو آگ کی روشنی نظر نہیں آتی پسموریت قدحاکو پہلے رکھ کر بتایا کہ وہ رات کو روشنیاں جلاتے ہیںاور دشمن کو للکار کر کہتے ہیںکہ دیکھ لو ہم آئے ہوئے ہیںاور صبح کو اپنے گھوڑوں سے گرد اڑاتے ہیںتاکہ وہ دور سے ہی دیکھ لیں کہ ہم آرہے ہیں۔گویا ان دونوں آیتوں میںمسلمانوں کی جرات اور ان کی بہادری کا اعلان کیا گیا ہے۔
فا لمغیرات صبحاO
پھر صبح ہی صبح حملہ کرنے والوں کی۔
حل لغات: مغیرات:اغارسے اسم فاعل مونث کا جمع کا صیغہ ہے اور اغارالرجل کے معنے ہوتے ہیں اتی الغور وہ پانی کے چشمہ پر آیا یا کسی غار وغیرہ پر پہنچا اور اغار زید کے معنے ہوتے ہیں ذھب فی الارضاس نے سفر کیا اور دور نکل گیا۔ اور صرف اغار کے معنے ہوتے ہیں اسرع ودفع فی عدوہ۔ وہ تیزی سے گیا اور اس نے گھوڑوں کو دشمن کی صفوں کیاندر ڈال دیااور اغار علی القوم غارۃ واغارۃومغارا کے معنے ہوتے ہیں دفع علیھم الخیل و اخرجھم من فناء ھم بھجومہ علیھم واوقع بھم انہوںنے حملہ کرکے دشمن کو ان کے صحنوں سے باہر نکالا اور پھر ان پر ٹوٹ پڑے (اقرب) پس مغیرات کے یہ معنے ہوں گے (۱) دور دور نکل جانے والی جماعتیں (۲) اپنے گھوڑوں کو دشمنوں کی صفوں میں ڈالنے والی جماعتیں (۳) دشمن پر حملہ کرکے اسے ان کے صحن سے نکال دینے والی جماعتیں ۔
تفسیر: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اس وصف کو بیان کیا ہے کہ وہ رات کو کبھی حملہ نہیں کریں گے تا ایسا نہ ہو کہ دشمن نا واقفیت کی حالت میں مارا جائے ۔ وہ صبح کے وقت حملہ کریں گے مگر حملہ ایسا شاندار ہوگا کہ دشمن فوراََاپنے گھروں سے نکل کر باہر آجائے گا۔ یہ کیسا بہادری کا طریق ہے جو اسلام نے بطور سنت جاری کیا۔ اس وقت انصاف وبہادری کی مدعی یور پین اقوام راتوں کو برابر دشمن پر حملہ کرتی ہیں اور غفلت میں حملہ کرنا اپنی خاص خوبی قرار دیتی ہیں ۔ مگر اسلام بتاتا ہے کہ مسلمان ایسے نہیں کریں گے وہ ہمیشہ صبح کے وقت حملہ کریں گے جو اس بات کا ثبوت ہوگا کہ مسلمان بہادر ، نڈر اور رحم کرنے والے ہیں ۔ مغیرات کا لفظ بھی ان کی دلیری طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ اغارت کے ایک معنے یہ ہیں کہ دشمن پر حملہ کرکے اسے گھروں سے نکالنا اور پھر اس کا مقابلہ کرنا گویا گھروں میں گھس کر بچوں ، عورتوں ،بوڑھوں کو مارنا ان کا طریق نہ ہوگا بلکہ دشمن کے لڑنے والے لوگوں کو گھروں سے للکار کر نکالنا اور پھر ان کی صفوف پر حملہ کرنا ان کا طریق ہوگا جو ان کے دلیرانہ حملہ کا ایک بہت بڑا ثبوت ہوگا اسی طرح صبحامیں یہ اشارہ ہے کہ وہ رات کو حملہ نہیں کرتے بلکہ جب صبح ہوتی ہے تو اس وقت حملہ کرتے ہیں تاکہ دشمن غافل نہ ہو اور اسے مقابلہ کا پوراموقع ملے۔
فاثرن بہ نقعاo
جس کے نتیجہ میں وہ اس(صبح کے وقت) میں غبار اڑاتے ہیں۔
حل لغات:النقع:الغبار:نقعکے معنے غبار اڑانے کے ہیں ۔ نیز نقعکے معنے الارض الحرۃ الطین یستنقع فیھا الماء کے بھی ہیں یعنی وہ پتھریلی زمین جہاں پانی جمع کیا جاتا ہے اورنقعمکہ کے پاس ایک مقام نام ہے ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ایک مقام منیٰ کا حصہ ہے حضرت علی ؓنے اسی وجہ سے والعدیت ضبحاسے وہ حاجی مراد لئے ہیں جو عرفہ سے مزدلفہ کی طرف اور پھر مزدلفہ سے منیٰ کی طرف تیزی سے آتے ہیں۔ اورنقعکے معنے القاع کے بھی ہوتے ہیں یعنی صاف میدان اور نقعکے معنے محبس المائیعنی تالاب کے بھی ہیں(اقرب)۔
نقعکے معنے ابو عبیدہ نے آواز بلند کرنے کے بھی کئے ہیں اور لبید کا ایک شعر اس کی تائید میں پیش کیا ہے کہ انہوں نے بھی نقعکا لفظ آواز بلند کرنے کے معنوں میں استعمال کیا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی ایک اثر منقول ہے جس میں انہوں نے نقع کے معنے آواز بلند کرنے کے لئے ہیں ۔ چنانچہ جب حضرت خالدؓ بن ولید کی وفات کی خبر آپ کو ملی توکسی نے کہا عورتیں وہاں رو رہی ہیں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہاکیا بات ہے کہ عورتیں بیٹھی ہوئی رورہی ہیں اور کوئی نقع اور لقلقہ نہیںیعنی بلند آواز سے شور کی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔
تفسیر:فاثرن بہ نقعا میں بہ کی ضمیر صبح کی طرف جاتی ہے یعنی فاثرن وقت صبح نقعا وہ صبح کے وقت خوب غبار اڑائیں گے۔ یہاں بھی ایک لطیف بات بیان کی گئی ہے جو مسلمانوں کی شجاعت کی طرف اشارہ کرتی ہے اصل بات یہ ہے کہ فالموریت قدحا سے یہ شبہ پیدا ہوتا تھا کہ مسلمانوں کا رات کو اطمینان سے بیٹھ جانا۔ کھانا پکانا اور دشمن پر آتے ہی حملہ نہ کرنا شاید اس لئے ہے کہ قریب پہنچ کر ان کا جوش جاتا رہتا ہے ۔ پہلے اگر ان سے جوش ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے گھوڑوں کو ایڑیاں مارتے اور ان کو دوڑاتے اور کداتے ہوئے میدان میں پہنچتے ہیں تو اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہمیں پہنچتے ہی لڑائی نہیں کرنی پڑے گی بلکہ ہم اطمینان سے رات بھر آرام کریں گے پس ان کا وہ جوش جس کا ان کی طرف سے پہلے اظہار ہوتا ہے اس قابل نہیں کہ اس کی تعریف کی جائے کیونکہ یہ جوش وہ ا س وقت دکھاتے ہیں جب دشمن سے مقابلہ ابھی دور کی بات ہوتا ہے قریب پہنچ کر ان کا تمام جوش سرد ہو جاتا ہے اور وہ دشمن پر حملہ کرنے کی بجائے کھانا پکانے میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فاثرن بہ نقعا میں اس شبہ کا ازالہ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے مسلمان صرف اسی وقت بہادری اور شوق نہیں دکھاتے جب دشمن دور ہوتا ہے بلکہ اس وقت بھی ان کا جوش تیز ہوتا ہے جب دشمن سامنے آجاتا ہے اور اس جوش سے حملہ کرتے ہیں کہ صبح کے وقت بھی گردوغبار اڑا کر جو کو بھر دیتے ہیں۔ یہ قاعدہ ہے کہ صبح کے وقت شبنم سے گرد دبی ہوئی ہوتی ہے لیکن دوپہر اور شام کو گرد ڈھیلی ہو جاتی ہے اور ادنیٰ حرکت سے بھی اٹھ پڑتی ہے ۔ پس صبح کے وقت گرد اڑانے سے جہاں ان کے طریق عمل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ کبھی رات کو حملہ نہیں کرتے وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے شوق جہاد کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ صبح کے وقت دشمن کو ہوشیار کرکے حملہ کرتے ہیں اور پھر اتنے جوش سے حملہ کرتے ہیں کہ صبح کی بیٹھی ہوئی غبار بھی اڑنے لگ جاتی ہے شام کے وقت تو اڑاہی کرتی ہے چنانچہ دیہات میں شام کے وقت جب جانور چراگاہوں سے واپس آتے ہیں تو گردوغبار سے تمام جو بھرا ہوا ہو تا ہے کیونکہ دن بھر کی دھوپ کی وجہ سے تمام ذرات خشک ہوکر ہوا میں ادھر ادھر پھیلے ہوئے ہوتے ہیں لیکن صبح کے وقت یہ حالت نہیں ہوتی اس وقت شبنم پڑ کر غبار کو کم کر دیتی ہے۔ مگر فرماتا ہے مسلمان اتنی شدت اوراتنے جوش سے حملہ کرتے ہیں کہ صبح کے وقت تمام جو گردو غبار سے اٹ جاتا ہے حالانکہ وہ وقت ایسا ہوتا ہے جب گردو غبار سے جو صاف ہوتا ہے۔
فاثرن بہ نقعا میں بہ کی ضمیر بالمعنی فعل اغارت کی طرف بھی جا سکتی ہے یعنیفاثرن باغارتھم یا اثرن بفعل اغارتہم۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا وہ اغارت کے فعل کی وجہ سے گرداڑانے لگتے ہیں یعنی اغرت اس شدت سے کرتے ہیں کہ اس سے گرد اڑنے لگتی ہے۔اس طرح یہاں باء سببیہ ہو جائے گی اور مطلب یہ ہوگا کہ اثرن لسبب اغارتہم نقعا نقعا کی تنوین سے کثرت اور شدت مراد ہے یعنی اثرن بفعل اغارتہم نقعا کثیرا وہ بے انتہاء گرد اڑاتے ہیں ۔ یہ بات بھی مسلمانوں کے شوق اور ان کی دلیری پر دلالت کرتی ہے۔ اچانک حملہ کرنا ہو تو لوگ کہتے ہیں آہستہ چلو گرد نہ اڑائو ایسا نہ ہو کہ دشمن کو پتہ لگ جائے ۔ مگر خالی گرد نہیں اڑاتے بلکہ بے انتہاء گرد اڑاتے ہیں۔
باء اس جگہ ملا بست کی بھی ہو سکتی ہے اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ بڑے ماہر فن ہیں کیونکہ بے تحاشاگھوڑا دوڑانا فی ذاتہٖ ایک فن ہے جو مہارت چاہتا ہے اور بے تحاشا گھوڑا دوڑاتے ہوئے اپنا نیزہ سنبھال کر رکھنا تا کہ دشمن پر حملہ کیا جاسکے یہ دوسرا فن ہے۔ پس فاثرن بہ نقعا کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ اغارت کے ساتھ ساتھ گھوڑے بھی بے تحاشا دوڑاتے اور اچھالتے چلے جاتے ہیں یعنی ایک طرف گھوڑے بھی دوڑاتے جاتے ہیں اور دوسری طرف لڑائی کا فن بھی قائم رہتا ہے بسا اوقات ایک شخص گھوڑا تو دوڑا لیتاہے لیکن لڑائے کے فن کو قائم نہیں رکھ سکتا ۔جب گھوڑا تیزی سے دوڑ رہا ہو تو وہ نیزے کو سنبھالکر نہیں رکھ سکتا اور نہ دشمن پر حملہ کرسکتا ہے بلکہ حملہ کرنے کے لیے اسے ٹھرنا پڑتاہے ۔مگر ایک دوسرا شخص ایسا ہو تا ہے جو گھوڑے کو بھی تیز دوڑاتا جاتا ہے اور لڑ تا بھی جاتا ہے۔ چنانچہ نیزہ بازی کے وقت عام طورپر دیکھا جاتا ہے کہ بعض سوار گھو ڑے کو دوڑا تے چلے آتے ہیں مگر جب میخ کے پاس آتے ہیں تو گھوڑے کو آہستہ کرلیتے ہیں تاکہ ان کا نشانہ خطا نہ جائے مگر جو اپنے فن میں ماہر ہوتے ہیں وہ اسی تیزی کے ساتھ گھوڑے کو دوڑاتے ہوئے میخ پر نیزہ مارتے ہیں اور اس کو اکھاڑ کر لے جاتے ہیں ۔ جب ملک معظم ہندوستان میں آئے اس وقت جہاں اورکئی قسم کی کھیلیں ان کو دکھائی گئیں وہاں نیزہ بازی کے فن کا بھی ان کے سامنے مظاہرہ کیا گیا اس وقت بعض سوار تو اتنی تیزی سے اپنا گھوڑا دوڑاتے ہوئے آتے کہ ذرا بھی ان کا گھوڑا نہ رکتا اور میخ کو اکھاڑ کر لے جاتے اور بعض ُُُُُُُُُُمیخ کر قریب پہنچ کر رہ جاتے ۔ پھر بعض لوگ تو اپنے فن میں ایسے ماہر تھے کہ وہ بجائے بیٹھنے کے گھوڑے کی پیٹھ پر لیٹ کر اسے تیزی کے ساتھ دوڑاتے ہوئے آتے اور میخ اکھاڑ کر لے جاتے حالانکہ اس وقت معمولی سوار کے لئے بیٹھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔غرض گھوڑے کو تیز دوڑانا اپنی ذات میں ایک فن ہوتا ہے اور پھر اسے تیز دوڑاتے ہوئے اپنے مفوضہ فرض کو کمال خوبی کے ساتھ انجام دینا یہ دوسرا فن ہوتا ہے۔ لڑائی میں صرف گھوڑے کو تیز دوڑانے کا فن کام نہیں آتا بلکہ اس دوسرے فن میں بھی مہارت کا پیدا ہونا ضروری ہوتا ہے کہ گھوڑے کو تیز دوڑاتے ہوئے انسان دشمن پر بھی عمدگی سے حملہ کرسکے ۔ فاثرن بہ نقعا میں ان دونوں باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنیاثرن ملابسا بالاغارۃ۔ مسلمانوں کی یہ حالت کہ ادھر دشمن پر حملہ کرنے کیلئے وہ بالکل تیار ہوتے ہیں اور ادھر وہ اپنے گھوڑوں کو انتہائی تیز دوڑا رہے ہوتے ہیں۔ گھوڑوں کا تیز دوڑناان کو فعل اغارت سے نہیں روکتا۔ یہ بات ان کے کمال درجہ کے شوق و مہارت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ مسلمان رات اور دن جہاد کے لئے تیاریاں کرتے رہتے تھے جس کے نتیجے میں انہیں جنگی فنون میں کامل مہارت حاصل ہو چکی تھی۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے مسجد نبوی ؐ میں حبشیوں کو نیزوں کے کرتب دکھانے کی اجازت دی اور نہ صرف آپ نے ان کو بڑے شوق سے دیکھا بلکہ اپنے اہل بیت کو بھی دکھایا۔ اسی طرح حدیثوں سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام ؓ ہمیشہ تیر اندازی کی مشقیں کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ صحابہ ؓ کی دو پارٹیوں میں تیر اندازی کا مقابلہ ہو رہا تھا کہ رسول کریم ﷺ بھی ایک پارٹی میں شامل ہوگئے۔ یہ دیکھ کر دوسری پارٹی نے اپنے تیر رکھ دیئے اور کہا یا سول اللہ ﷺ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اس پارٹی کا مقابلہ کریں جس میں آپ ؐ ہوں۔
غرض صحابہ کرام ؓاپنے آپ کو ہمیشہ جنگ کے لئے تیار رکھتے اور جنگی فنون میں مہارت پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے اللہ تعالیٰ ان کیاسی مہارت کا ذکر فاثرن بہ نقعا میں کرتا ہے اور فرماتا ہے آج مسلمان تمہیں کمزور اور بے کس نظر آتے ہیں مگر ہم بطور پیشگوئی یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ کمزور نظر آنے والے مسلمان ایک دن نہایت اعلیٰ درجہ کے ماہرفن ہوجائیں گے۔ اغارت انکو تیز دوڑانے سے روک نہیں سکے گی اور تیز دوڑنا ان کو فعل اغارت سے نہیں روک سکے گا۔وہ اغارت بھی کریں گے اور اور جوش وخروش سے گردوغبار بھی اڑاتے جائیں گے یعنی وہ کچے سوار نہیں کہ دوڑیں تو اغارت کی طرف سے توجہ ہٹ جائے اوراغارت کریں تو دوڑ نہ سکیں بلکہ وہ دونوں کام ایک وقت میں کرتے ہیں گھوڑے تیز دوڑاتے ہوئے بھی اپنے جنگی فنون ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے یہ نہیں ہوتا کہ گھوڑے تیز دوڑارہے ہوں تو انہیں اپنی تلواروں اور نیزوں کا ہوش نہ ہو اور تلوریں اور نیزے سنبھالے ہوئے ہوں تو گھوڑوں کو تیز دوڑانے سے قاصر ہوں یہ دونوں باتیں ان میں بیک وقت پائی جائیں گی اور وہ اپنے فن میں ماہر ہوںگے ۔
فوسطن بہ جمعاo
اور اسی (صبح کے وقت ) میں لشکر میں گھس جاتے ہیں۔
تفسیر: فوسطن بہ جمعا میں بہ کی ضمیر نقع کی طرف بھی جاتی ہے اور صبح کی طرف بھی۔اگر بہ کی ضمیر نقعکی طرف سمجھی جائے تو اس آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ دشمن تک برابر گرد اڑاتے چلے جاتے ہیں یعنی جب دشمن کے پاس پہنچتے ہیں تب بھی ان کا جوش وخروش کم نہیں ہوتا بلکہ جس طرح دور سے گھوڑے اور خاک اڑاتے آتے ہیں دشمن کے پاس پہنچ کر بھی ان کی یہ حالت قائم رہتی ہے اور وہ خاک اڑاتے بے جھجک اور بے رکے دشمن کی صفوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ اس آیت میں بھی ان کی بہادری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور درحقیقت صحابہؓ ایسے ہی نڈر اور بہادر تھے اور تاریخ واقعات ان کی اس بہادری پر شاہد ہیں۔
اگر فوسطن بہ جمعا میں بہ کی ضمیر صبح کی طرف پھیری جائے تو اس آیت سے یہ مراد ہوگی کہ وہ صبح کے وقت دشمنوں کی صفوں میں گھس جاتے ہیں۔ اس میں پھر یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ صحابہؓ کبھی اچانک حملہ نہیں کرتے بلکہ وہ اسی وقت حملہ کرتے ہیں جب دشمن ان کے مقابل میں نکل آئے۔آج انگریزوںکو دیکھ لو۔ روسیوں کو دیکھ لو۔ امریکہ کے رہنے والوں کو دیکھ لو۔ سب کوشش کرتے ہیں کہ وہ یکد م سو تے دشمن پر حملہ کریںاور اس کو اپنی بہت بڑی خوبی سمجھا جاتا ہے مگر اللہ تعالی فرماتا ہے ہمارے مومن بندے ایسے نہیں ہوں گے وہ صبح کے وقت جائیں گے شور مچاتے جائیں گے اور اگر پھر بھی دشمن باہر نہیں نکلا تو وہ حملہ نہیں کریں گے بلکہ انتظار کریں گے یہاں تک کہ دشمن ان کے مقابلہ میں اپنے گھروں سے نکل آئے اور یہ مضمون لفظ جمع سے نکلتا ہے کیونکہ یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ دشمن پر حملہ کرتے ہیں کہ اس میں عورت ،بوڑھا ،بچہ سب شامل ہوں بلکہ فرمایا کہ جمع یعنی لشکر میں گھس جاتے ہیںیعنی ان کا حملہ اکے دکے کمزور ضعیف پر نہیں ہوتا ہمیشہ دشمن کے مجتمع لشکر پر حملہ کرتے ہیں۔پس فوسطن بہ جمعا میں دونوں طرف اشارہ ہے اس طرف بھی کہ وہ حملہ کرتے وقت اس بات کو مد نظر رکھتے ہیں کہ رات کے وقت حملہ نہ ہو بلکہ صبح کو ہو اور حملہ ایسی حالت میں ہو کہ جب جمعایعنی دشمن کا لشکر ان کے سامنے کھڑا ہو ۔گویا ان کے گھروں سے نکال کر وہ مقا بلہ کریں گے سوتے دشمن پر اچانک حملہ نہیں کریںگے ۔دوسرے جب دشمن ان کے مقابل پر آتا ہے تب بھی ان کا جوش خروش قائم رہتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ دور سے تو جوش خروش دکھاتے جائیں اور دشمن کے پاس پہنچ کر ان کے جوش سرد ہو جائیں ۔غرض بہ کی ضمیر اگر صبح کی طرف لے جائو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ صبح کو وہ ایسے وقت حملہ کریں گے جب دشمن کا لشکر ان کے مقابلے میں جمع ہو جائے اور اگر بہ کی ضمیر نقعکی طرف لے جائو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ان کا جوش دشمن کو دیکھ کر ڈھیلا نہیں ہوتا بلکہ جب دشمن کو وہ اپنے مقابل میں صفیں باندھے کھڑا دیکھتے ہیں تو ان کا جوش اور بھی بڑھ جاتا ہے اور وہ حملہ کرتے ہوئے اس کی صفوں کے اندر جا گھستے ہیں۔ان میں سے ایک معنوں میں ان کے اخلاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دوسرے معنوں میں انکی اسلام کے لئے شیدائیت اور قربانی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔
فوسطن بہ جمعا میں اگر بہ کی ضمیر صبح کی طرف ہو تو اس کے ایک اور بھی لطیف معنے ہو جائیں گے یعنی اس کے صرف اتنے معنے نہیں ہو ں گے کہ صحابہؓ کبھی رات کو حملہ نہیں کرتے بلکہ اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف بھی پایا جاتا ہے کہ وہ صبح ہی صبح دشمن کی صفوں کو توڑ دیتے ہیں ۔ابن جنی نے بھی یہی معنے کئے ہیںوہ کہتے ہیںمیزن بہ جمعا ای جعلنہ شطرینای قسمین و شقین (معانی)گو ان کا حملہ بڑا کامیاب ہوتا ہے زیادہ دیر نہیں لگتی کہ وہ دشمن کی صفوں میں گھس جاتے ہیںاور ان کو پوری طرح مغلوب کر دیتے ہیں۔فوسطنکا لفظ بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ خالی سامنے کھڑا ہونے سے و سطن بہ جمعا کے الفاظ صادق نہیں آسکتے۔یہ الفاظ اسی صورت میں صادق آسکتے ہیںجب دشمن کی صفوں کو توڑ کر ان کے اندرداخل ہو جانا اس کے مفہوم میں شامل ہو۔در حقیقت اس آیت کا یہی مطلب ہے کہ ہو کفار کے لشکر میں گھس جاتے اور انکی صفوں کو توڑ کر پراگندہ کر دیتے ہیں۔جرنیل کے فرائض میں سے یہ ایک اہم ترین فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی صفوں کو ٹوٹنے نہ دے کیونکہ جب دشمن صفوں کو توڑ کر اندر داخل ہو جائے تو فوج پراگندہ ہو جاتی ہے اور متحدہ مقابلہ کی قوت کو کھو بیٹھتی ہے ۔چنانچہ ہمیشہ ماہر فن جرنیل کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ دشمن کے شدید حملہ کے باوجود اپنی صفوں کو قائم رکھے لیکن کبھی کبھی الا متحر قا لقتال (الانفال۲ع۱۶)کے مطابق دشمن کا زور اتنا بڑھ جاتا ہے کہ افسر سمجھتا ہے کہ گو مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ میں واپس لوٹ کر اس پر دوبارہ حملہ کر سکتا ہوںمگر اس وقت حالت ایسی ہے کہ دو یا چار یا دس منٹ کے لئے صفوںکے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اس وقت ماہر فن جرنیل کا یہ طریق ہوتا ہے کہ وہ اپنی صفیں پیچھے کر لیتا ہے انگریزی میں اسے آڈرلی رٹریٹ یعنی باقاعدہ پیچھے ہٹنا کہتے ہیںمطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی صفوں کو قائم رکھتے ہوئے تھوڑی دیر کے لئے اپنے آپ کو پیچھے ہٹا لیا ۔ پس صفوں کو قائم رکھنا جنگ کے ضروری اصول میں سے ہے۔ اس طرح حملہ کرنے والوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح دشمن کی صفوں مین گھس جائیں۔ انگریزی میں اس طرح داخل ہونے کو سپیئر ہیڈspear head کہتے ہیں۔ جب دشمن کی صفوں میںمقابل کا لشکر داخل ہوجائے تو دشمن پراگندہ ہو جاتا ہے اور اسکا جرنیل اپنے لشکر کو کوئی حکم نہیں دے سکتا۔ایک طرف والوں کو حکم دے تب بھی دوسری طرف والوں کو حکم دے تب بھی ،درمیان میں غنیم کھڑا ہوتا ہے اور وہ آسانی سے انکی تمام تدابیر کا ازالہ کر سکتا ہے۔
غرض دشمن کے دبائو کے تحت بچائو کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ یا تو جرنیل اتنا ہوشیار ہو کہ وہ فورا اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لے اور یا پھر ان میں اتنی اخلاقی قوت باقی ہو کہ اگر جرنیل فوج کے انتشاراور اسکی پراگندگی کی حالت میں بھی حکم دے کہ اتنا پیچھے ہٹ جائو تو فوج اتنا پیچھے ہٹ جائے ورنہ اسکی شکست میںکوئی شبہ نہیں ہوتا ۔
پسفوسطن بہ جمعا میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ صبح ہی صبح دشمن کی صفوں مین گھس جاتے ہیںاور اسی وقت انکو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیںدیر ہی نہیں لگتی۔
ان معنوں میں اس شبہ کا بھی ازالہ ہو جاتا ہے کہفا لمغیرات صبحا میں پہلے ہی بتایا جا چکا تھا کہ وہ صبح کے وقت حملہ کرتے ہیں اور اب فوسطن بہ جمعا میں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ وہ صبح ہی صبح دشمن پر حملہ کرتے ہیں۔
جب صبح کے وقت حملہ کرنے کا ذکر پہلے بھی آچکا تھا تو دوبارہ صبح کے وقت دشمن کی صفوں میں ان کے داخل ہونے کا کیوں ذکر کیا گیا ہے اور یہ تکرار اپنے اندر کیا حکمت رکھتا ہے؟سو اس کا جواب یہ ہے کہ فا لمغیرات صبحا کے بعد فوسطن بہ جمعا میں وہی بیان نہیں کیا گیا بلکہ ایک نیا مضمون بتا یا گیا ہے ۔
جیسا کہ مختصراً پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اللہ تعالی نے فالمغیرات صبحااور فوسطن بہ جمیعامیں یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ مسلمانوں کے حملہ اور انکی فتح میں کوئی لمبا وقت صرف نہیں ہوتا ۔ ان کا حملہ بھی صبح کے وقت ہوتا ہے اور انکی فتح بھی صبح کے وقت ہوتی ہے یعنی ادھر حملہ کرتے ہیں اور ادھر دشمن کو شند گھڑیوں میں ہی مغلوب کر لیتے ہیں۔ فرماتا ہے کہ تم مسلمانوں کی موجودہ کمزور حالت کو دیکھ کر یہ مت خیال کرو کہ ان کا مستقبل بھی ایسا ہی ہوگا ۔ تمھیں آج یہ بے شک کمزور دکھائی دیتے ہیںلیکن درحقیقت یہ ایسے دلیر اور بہادر ہیںکہ جب ہمارے حکم کے تحت یہ تلوار اپنے ہاتھ میں اٹھائیں گے تو ادھر حملہ کریں گے اور ادھر منٹوں میں اپنا سارا کام ختم کر کے دشمن کو مغلوب کر لیں گے اور فتح اور کامرانی کا پرچم لہرانے لگیں گے ۔چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جس قدر غزوات ہوئے ان میں قلعہ بند جنگوں کے سوا کوئی ایک جنگ بھی ایسی نہیں تھی جو چند گھنٹوں میں ختم نہ ہوگئی ہو ۔احزاب کی جنگ بے شک لمبی ہوئی مگر اس کے لئے وہاں صحابہؓ کو خود یہ حکم دیا گیا تھا کہ تم نے حملہ نہیں کرنا صرف دفاع کرنا ہے۔خیبر کی جنگ لمبی ہوئی مگر وہ قلعہ بند جنگ تھی ۔ بنو قریظہ سے جو جنگ ہوئی وہ بھی قلعہ بند جنگ تھی ان کو چھوڑ کر جتنی بھی جنگیں ہوئیںہیںان میں سے کوئی ایک جنگ بھی ایسی نہیں جس کا چند گھنٹوں میں فیصلہ نہ ہو گیا ہو ۔اسی طرح آپ نے جو سریے بھجوائے وہ بھی اسی طرح حیرت انگیز طور پر کامیابی حاصل کر کے واپس آتے رہے۔یہ ایک ایسی غیر معمولی بات ہے جسے دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ ایک جنگ نہیں دو جنگیں نہیں بیس سے زیادہ جنگیں ہیں جو رسول اللہ ﷺ کو پیش آئیں مگر تمام جنگیں ایسی ہیں جو دنوں کی بجائے گھنٹوں بلکہ منٹوں میں ختم نہیں ہوگئیں۔ بدر کی جنگ بہت بڑی جنگ تھی مگر اس کا کتنی جلدی فیصلہ ہوگیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں میرے دائیں بائیںدو انصاری لڑکے کھڑے تھے اور میں اپنے دل میں افسوس کر رہا تھا کہ آج مجھے اپنے دل کے حوصلے نکالنے کا کوئی موقع نہ ملا کیونکہ میرے دائیں بائیں پندرہ پندرہ برس کے دو انصاری لڑکے کھڑے ہیں اگر ماہر فن سپاہی میرے ارد گرد ہوتے تو میں نڈر ہو کر حملہ کر سکتا اور سمجھتا کہ میری پیٹھ بچانے والے موجود ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ابھی یہ خیال میرے دل میں پیدا ہی ہوا تھا کہ مجھے دائیں طرف سے کہنی لگی میں نے مڑ کر دیکھا تو دائیں طرف کے انصاری لڑکے نے آہستگی سے میرے کان میں کہا چچا وہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول کریم ﷺ کو دکھ دیا کرتا تھا میرا جی چاہتا ہے کہ آج اس سے بدلہ لوں۔وہ کہتے ہیں کہ ابھی میں اس کے سوال کا کوئی جواب دینے نہیں پایا تھا کہ مجھے بائیں طرف سے کہنی لگی۔میں نے مڑ کر دیکھا تو بائیں طرف کے انصاری لڑکے نے آہستگی سے جھک کر میرے کان میں کہا وہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول کریم ﷺ کو دکھ دیا کرتا تھا میرا جہ چاہتا ہے کہ آج اس سے بدلہ لوں۔حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کہتے ہیںکہ باوجود تجربہ کار جرنیل ہونے کے میرے دل میں یہ خیال تک نہیں آتا تھا کہ میں ابوجہل کو مار سکوں گا ۔اسلئے جب ان دو انصاری لڑکوں نے یہ سوال کیا تو میں حیران رہ گیا کہ میں اپنے دل میں کیا خیال کر رہا تھا اور انہوں نے مجھ سے کیا سوال کر دیا ۔ میں نے اپنی انگلی اٹھائی اور کہا وہ جو قلب لشکر میں کھڑا ہے جس کے آگے دو جرنیل ننگی تلواریں لئے پہرہ دے رہے ہیں وہ ابو جہل ہے ۔ وہ کہتے ہیںابھی میری انگلی نیچے نہیں ہوئی تھی کہ جس طرح عقاب چڑیا پر حملہ کرتا ہے وہ دونوں لڑکے تیزی کے ساتھ گئے اور بیشتر اس کے کہ وہ ننگی تلواریں سونت کر پہرہ دینے والے جرنیل سنبھلتے انہوں نے ابو جہل کو مار گرایا حلانکہ ان جرنیلوں میں سے ایک ابوجہل کا اپنا لڑکا تھا ۔ جب ابا جہل مارا گیا جو فوج کا کمانڈر تھا تو جنگ درحقیقت ختم ہو گئی بعد میں جو جنگ ہوئی اس کی حیثیت صرف دفاعی رہ جاتی ہے مگر وہ جنگ بھی چند گھنٹے میں ختم ہو گئی ۔ اسی طرح احد کی جنگ میں ہوا بے شک بعدمیں مسلمانوں کی اپنی غلطی کی وجہ سے دشمن کچھ نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو گیا مگر بہر حال ایک دو گھنٹہ میں ہی مسلمانوں نے دشمن کو مغلوب کر لیا تھا حالانکہ رسول کریم ﷺ کے بعد حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓکے زمانہ میں بعض دفعہ دس دس پندرہ پندرہ بیس بیس دن لڑائیاں ہوتی رہی ہیں اور لڑائیاں بھی ایسی جو قلعہ بند نہیں تھیں کھلے میدانوں میں ایک دوسرے کا مقابلہ ہوتا تھا اور متواتر کئی کئی دن چلا جاتا تھا مگر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں چند سو ایک ہزار کے مقابلہ میں آتے تھے یا دو ہزار دس ہزار کے مقابلہ میں کھڑ ے ہوتے تھے اور چند گھنٹوں میں فیصلہ ہو جاتا تھا ۔ تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی تو ایسی نہیں ملتی کہ جنگ میں شام کے وقت یہ کہا گیا ہو کہ اب لڑائی بند ہو صبح سے پھر جنگ کی جائے گی۔رسول کریم ﷺ کی سب لڑائیاں گھنٹوں اور منٹوں میں ختم ہو جاتی تھیں۔ پس فوسطن بہ جمعا میں اللہ تعالی اس حقیقت کا انکشاف فرماتا ہے کہ مسلمان غیر معمولی طاقت رکھنے والے ہوں گے ۔دشمن کی صفوں میں صبح صبح گھس جائیں گے اور ابھی صبح ختم نہیں ہو گی کہ انکی لڑائی ختم ہو جائے گی ۔ کوئی شخص ایک جنگ بھی تاریخ میں سے ایسی پیش نہیں کر سکتا جس میں لڑتے ہوئے رسول کریم ﷺ کے لشکر کو دوسرا دن آگیا ہو بلکہ ابھی شام بھی ہونے نہیں پاتی تھی کہ لڑائی ختم ہو جاتی تھی ۔ رسول کریم ﷺ نے ستائیس (۲۷) غزوات میں حصہ لیا اور اڑتیس (۳۸) سرایا ہیںجو مختلف مواقع پر آپ نے بھجوائے مگر کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جب شام کو دشمن سے کہا گیا ہو کہ اب ٹہر جائو صبح پھر تم سے جنگ کی جائے گی ۔ مگر رسول کریم ﷺ کے بعد وہی صحابہ ؓ تھے پندرہ پندرہ بیس بیس دن تک لڑائی کرتے چلے جاتے تھے تب انہیں فتح حاصل ہوتی تھی۔
ان الا نسان لربہ لکنودO
انسان یقینا اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے۔
حل لغات:۔ الکنود: الکفور یستوی فیہ المذکر والمونث ۔کنودکے معنے کفور کے ہیں یعنی ایسا انسان جو نا شکرا ہو اور اللہ تعالی کے انعامات کا انکار کرنے والا ہو ۔یہ لفظ مرد کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور عورت کے لئے بھی ۔یعنی عورت کا ذکر ہو تو کہیں گے الامراۃالکنود۔اورمرد کا ذکر ہو تو کہیں گے الرجل الکنوداسی طرحکنودکے ایک معنیالکافرکے بھی ہیںکنود سے مراد تو ایسا شخص تھا جو اللہ تعالی کے انعامات کا انکار کرنے والا تھا اور کافر سے مراد ایساشخص ہے جس پر دینی اصطلاح میں کفر کا اطلاق ہوتا ہو۔کنودکے ایک معنے اللوام لربہکے بھی ہیںیعنی اپنے رب پر الزام لگانے والا اور اسے ملامت کرنے والا ۔(اقرب)بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بات بات ہر اللہ تعالی کی ہتک کرتے ہیںکہتے ہیں خدا نے ہمیں کیا دیاہے سب کچھ اس نے امیروں کو دے دیا ہے ۔ ہم اس کا کیوں شکر ادا کریں ۔ہم کیوں نمازیں پڑھیں۔ہمارے سر پر اس نے کونسا احسان کیا ہے غریب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں امیر نمازیں پڑھتے پھریںاور امیر ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہماری صحتیں کمزور ہیںطاقت اور توانائی تو اس نے غریبوں کو دے دی ہے ہم اسکا کیوں شکر ادا کریں۔غرض امیر ہوتا ہے تب بھی اور غریب ہوتا ہے تب بھیوہ ہر وقت خدا تعالی پر عیب لگاتا رہتا ہے اور کہتا ہے میرے ساتھ خدا تعالی نے کونسا سلوک کیا ہے کہ میں اس کی عبادت کروںاسی طرحکنود کے ایک معنے البخیلکے بھی ہیںیعنی ایسا شخص جو اپنے مال کو خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتا ہے اور کنود کے معنے عاصی اور گنہگا ر کے ہیںاور کنود کے ایک معنیالارض لا تنبت شیئاکے بھی ہیں یعنی ایسی زمین جس میں کچھ پیدا نہیں ہوتا یقال ھذہ ارض کنود۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ یہ زمین کنودہے اور اسکے یہ معنے ہوتے ہیںکہ اس میں سے کچھ اگتا نہیں۔ پھر کنود اسے بھی کہتے ہیںجو اکیلا کھائے اور اپنے مال کو خرچ نہ کرے اور اپنے غلام کو مارتا رہے چنانچہ لغت میں لکھا ہے الکنود من یاکل وحدہ و یمنع رفدہ ویضرب عبدہ(اقرب)گویا کمینہ کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ کھانا کھانے بیٹھے تو اکیلا کھائے گا کسی اور کو اپنے کھانے میں شریک نہیں کرے گا خداتعالی نے روپیہ دیا ہو تو اسے خرچ نہیں کرے گا ۔رفد کے معنے ہیں دراصل عطا کے ہوتے ہیںپسیمنع رفدہکا مفہوم یہ ہے کہ اس کے پاس روپیہ ہوتا ہے مال و دولت ہوتی ہے مگر وہ کسی کو دیتا نہیںویضرب عبدہاور بہادری جتاتا ہے کہ غلام کو مارنے لگ جاتا ہے ۔گویا اس کے معنے کمینہ،بخیل اور بزدل انسان کے ہیں۔ کمینہ کا مفہوم اکیلے کھانا کھانے میں آجاتا ہے کیونکہ کھانا ایسی چیز ہیکہ غریب سے غریب آدمی بھی کھا رہا ہو تو دوسرے کو دیکھ کر کہہ دیتا ہے کہ آیئے کھانا کھا لیں۔ مگر اسکی حالت یہ ہوتی ہے کہ اکیلا چھپ کر کھاتا ہے اور کسی دوسرے کو اپنے کھانے میں شریک کرنا پسند نہیں کرتا ۔پھر ساتھ ہی بخیل بھی ہوتا ہے کہ مال اسکے پاس موجود ہوتا ہے مگر کسی کو دینا پسند نہیں کرتا اور پھر طرہ یہ کہ وہ بزدل بھی ہے اپنی ساری بہادری گلاموں یا عورتوں پر جتاتا ہے اور کہتا ہے مار کر تمہارے دانت توڑ دوں گا لیکن اگر کوئی طاقت ور سامنے آجائے تو سر جھکا لیتا ہے ۔ ان معنوں میں سے آخری معنے حدیث میں بھی استعمال ہوئے ہیں ۔چنانچہ ابن ابی حاتم اور ابن جریر دونوں کی رو ایت ہے ابی امامہ فرماتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایاالکنود الذی یا کل وحدہ ویضرب عبدہ ویمنع رفدہ(ابن کثیر)کنودوہ ہے جو اکیلا کھانا کھائے ،اپنے غلام کو مارے پیٹے اور اپنی عطا کو روک لے ۔ میں نے اس سے استنباط کرتے ہوئے کہا ہے کہ کنود وہ ہے جو کمینہ ہو کیونکہ کمینہ انسان ہی کھانا کھانے لگے تو کسی اور کو شریک کران پسند نہیں کرتا ۔اسی طرحکنودوہ ہے جو بزدل ہو اپنے غلاموں یا عورتوںکو مارتا پیٹتا رہتا ہو بہادر کے سامنے اپنی آنکھیں اونچی نہ کر سکتا ہو اور پھر کنود وہ ہے جو بخیل ہو اور اپنی عطا کو روک لے ۔لیکن میں سمجھتا ہوں الکنود الذی یا کل وحدہ میں صرف اسکی کمینگی کی طرف ہی اشارہ نہیں بلکہ اس کے ایک معنے متکبر کے بھی ہیں کیونکہ متکبر آدمی بھی دوسرے کو اپنے ساتھ کھانا کھلانا پسند نہیں کرتا ۔کہتا ہے میں بڑا آدمی ہوں۔اسی طرح اکیلا کھانا کھانے کے ایک اور معنے بھی ہو سکتے ہیںاور وہ یہ کہ وہ صرف اپنے طبقہ کے لوگوں کو دعوتوںوغیرہ میں شریک کرتا ہے نچلے درجہ کے لوگوں کو کھانے کے لئے نہیں بلاتا۔اس صورت میںمن یا کل وحدہکے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ وہ اکیلا کھاتا ہے کسی دوسرے کو شامل نہیں کرتا بلکہ اس کے معنے یہ ہو جائیں گے کہ وہ صرف اپنے جیسے لوگوں کو جو اس کے طبقہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں کھانے میں بلا لیتا ہے لیکن اور لوگوں کی پرواہ نہیں کرتا ۔دعوت کرتا ہے تو بڑے بڑے رئیسوں تک اس کی دعوت محدود ہوتی ہے عوام الناس کو جن میں اکثریت غرباء اور مساکین کی ہوتی ہے پوچھتا تک نہیں۔یہ معنے ایسے ہیں جو کفار پر نہایت عمدگی کے ساتھ چسپاں ہوتے ہیںکیونکہ عرب میں بڑی کثرت سے رواج تھا کہ دعوتوں میں امراء وغیرہ کو تو بلایا جاتا مگر غربا ء کو دعوتوں میں نہ بلایا جاتا تھا ہاں کھانا ان میں تقسیم کر دیا جاتا تھا ۔اگلی آیت بھی ان معنوں کی تائید کرتی ہے کیونکہ اس میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ اگر اسے غرباء کو اپنے ساتھ کھانا کھلانا مشکل نظر آتا تھا تو روپیہ پیسہ سے تو وہ انکی مدد کر سکتا تھا مگر وہ یہ بھی نہیں کرتا ۔
لغت کی کتاب تعریفات میں لکھا ہے ھوالذی یعد المصائب وینسی المواھب۰(اقرب)کنودوہ ہوتا ہے جو مصیبتیں گنتا رہتا ہے کہ فلاں مصیبت مجھے پہنچی۔ فلاں تکلیف مجھے پیش آئی وینسی المواھباور انعامات کو بھول جاتا ہے ۔اسے یہ تو یاد رہتاہے کہ فلاں وقت میں اپنے دوست کے پاس گیا اور اس سے فلاں چیز مانگی جس کے دینے سے اس نے انکار کر دیا مگر وہ دس ہزار چیزیںجو اس نے مختلف اوقات میں دی ہوتی ہیں اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں اور وہ کبھی ان کا ذکر تک نہیں کرتا۔
تفسیر:۔یہاںالانسانسے ہر انسان مراد نہیں بلکہ اشارہ وسطن بہ جمعاوالے انسانوں کی طرف ۔یعنی جس جمع پر انہوں نے حملہ کرنا تھا وہ جمع جن انسانوں پر مشتمل ہے وہ اس جگہ مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ وہ انسان جن پر یہ مسلمان حملہ کریں گے ان کا اپنے رب کے ساتھ اس طرح کا معاملہ ہے ایک تو وہ کافر ہیںخداتعالی کی باتوں کا انکار کررہے ہیں اور دوسرے وہ سخت ناشکرے ہیں ۔خدا تعالی کے احسانات کی وہ ذرا بھی قدر نہیں کرتے ۔خدا تعالی ان پر کتنا بڑا احسان کیا تھا کہ ایک ریتلے علاقہ میںوہ چاروں طرف سے رزق جمع کر کے لاتا اور ان کو کھلاتا پلاتا ہے مگر ان کی حالت یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ خدا تعالی کے ان انعامات کے شکر گذار ہوتے اور جب اس کی طرف سے کوئی پیغام آتا تو وہ دوڑتے ہوئے اس پر عمل کرتے الٹا خدا تعالی کی باتوں کاانکار کر رہے ہیں غریبوں کو کھانا تک نہیں کھلاتے اور غلاموں پر ظلم وستم کے پہاڑ گرارہے ہیں ۔چنانچہ پہلی سورتوں میں مکہ والوں کی اس حالت کا ذکت آچکا ہے کہ وہ غریبوں کو کھانا نہیں کھلاتے ۔صدقہ وخیرات کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔یتامی ومساکین کی خبر گیری نہیں کرتے بلکہ جو کچھ آئے اسے عیاشی میں لٹا دیتے ہیں۔ابکنودکہہ کر ان کی اس حالت کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ انہیں دعویٰ تو یہ ہے کہ م بڑے بہادر ہیں مگر حالت یہ ہے کہ غلاموں کو ہر وقت مارتے پیٹتے رہتے ہیں گویادناء ت اور کمینگی کے ساتھ بزدلی بھی ان میں کمال درجہ کی پائی جاتی ہے کہ کسی طاقتور کا مقابلہ کرنے کی بجائے کمزوروںپر اپنا غصہ نکالتے ہیں ۔بلالؓ قابوآئے تو ان کو مارنے پیٹنے لگ گئے لیکن جب ابوذر غفاریؓ کو مارا تو کسی نے ان سے کہہ دیا کہ جانتے ہو یہ شخص بنو غفار میں سے ہے جو تمہارے تجارتی راستہ پر آباد ہیں اگر ان کو اس بات کا علم ہوا تو وہ تمہارا راستہ روک دیں گے یہ سننا تھا کہ ان کے اوسان خطا ہو گئے اور انہوں نے ابو ذر کو چھوڑ دیا تا ایسا نہ ہو کہ انکی روٹی بند ہو جائے لیکن بلالؓ یا کوئی اور ایسا غلام سامنے آتا جس کی پشت پر کوئی قوم نہ تھی تو اسے پیٹنے لگ جاتے ۔پس فرماتا ہے یہ بھی کوئی انسان ہیں۔متکبر یہ ہیں،بخیل یہ ہیں،کمینے یہ ہیں،بزدل یہ ہیں،کمزور ملے تو اسے کھانا نہیں کھلاتے۔ روپیہ پاس ہو تو کسی پر خرچ نہیں کرتے ۔جب ان کی حالت یہ ہے تو خداتعالی کس طرح برداشت کر سکتا ہے کہ یہ لوگ ملک پر حاکم رہیںیہ تو سزا کے قابل ہیںچنانچہ آج یہ جن غلاموں کو مارتے اور بڑے فخر سے اس کا اظہار کرتے ہیںہم انہی غلاموںکو ایک دن گھوڑوں پر چڑھا کر لائیں گے اور پھر ان کو بتائیں گے کہ بہادر کیسے ہوتے ہیں۔یہ تو اپنی تمام بہادری صرف اس بات میں سمجھتے ہیں کہ غلام ملے تو ان کو مار پیٹ لیا یا کسی عورت کی شرمگاہ میں نیزہ مارااور اسکو ہلاک کردیا یاکوئی بے کس مسلمان قابو آگیاتو اسکی ایک ٹانگ ایک اونٹ سے اور دوسری ٹانگ دوسرے اونٹ سے باندھ دی اور پھر ان اونٹوں کو مخالف اطراف میں دوڑا کر اس کو ٹکرے ٹکرے کر دیا یا یہ بڑی بہادری اس بات میں سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے سینہ پر گرم گرم پتھر رکھے یا انہیں مکہ کے گلی کوچوں میں کھردرے اور نوکیلے پتھروں پر گھسیٹا اور ان کو لہو لہان کر دیا ۔مگر ایک دن آنے والا ہے جب ہم ان کنود کو یہ بتائیں گے کہ بہادر کیسے ہوتے ہیں اور بہادری کس چیز کا نام ہے ۔دیکھو چونکہ یہ سورۃ مکی ہے اور دشمن کو خواہ مخواہ اشتعال دلانا مقصود نہیں اس لئے اللہ تعالی نے ان کی برائیاں بیان کرتے ہوئے ایسا لفظ استعمال کیا ہے جس دوسرے معنے بھی ہو سکتے ہیں تاکہ انکی طبیعت میں اشتعال پیدا نہ ہو اور ان کا ذہن دوسرے معنوں کی طرف چلا جائے ورنہ در حقیقت ان الا نسان لربہ لکنودسے کفار مکہ ہی مراد ہیں اور مراد یہ ہے کہ کفار خداتعالی کے نا شکرے ہیں خداتعالی کی مدد ان کو کہاں مل سکتی ہے ۔چونکہ یہ اپنے رب کی ناشکری کرتے ہیں،غریبوںپر ظلم کرتے ہیں ،فقیروں کو کھانا نہیں کھلاتے،صدقہ وخیرات کو ایک عبث فعل قرار دیتے ہیں اس لئے ایک دن بطور سزا ہم مسلمانوں سے ان پر حملہ کرائیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ برے اعمال کا کیسا عبرتناک انجام ہوا کرتا ہے۔
وانہ علی ذلک لشھید Oوانہ لحب الخیر لشدیدO
اور وہ یقینا اس پر (اپنے قول اور فعل سے) گواہی دے رہا ہے ۔اور وہ یقینا(باوجود اس کے)مال کی محبت میں بہت بڑا تیز ہے۔
تفسیر:۔اس آیت میں فرماتا ہے کہ ان لوگوں میں ایک طرف تو مذکورہ بالا عیوب پائے جاتے ہیں اور دوسری طرف یہ ان عیوب پر فخر کرتے ہیں۔غلاموں یا عورتوں کو مارنا کتنی قابل شرم حرکت ہے مگر ان کی حالت یہ ہے کہ غلاموں کو مارتے ہیںاور پھر فخر کرتے ہیںحالانکہ اگر انسان میں ذرا بھی شرم وحیا کا مادہ ہو اور وہ کسی بچے کو مار رہا ہو یا غلام کو بے دردی سے پیٹ رہا ہو اور کوئی دوسرا شخص اسے کہے کہ تم کیا کر رہے ہو تو وہ ہزار بہانے بنانے لگ جاتا ہے کہ اس نے یہ خرابی کی تھی وہ خرابی کی تھی تا اسکی کمینگی پر پردہ پڑ جائے۔ مگر فرماتا ہے یہ لوگ ایسے ہیں کہ بجائے نادم اور شرمندہ ہونے کے فخر کرتے ہیںاور کہتے ہیں آج ہم نے فلاں کو خوب مارا ۔آج ان کو پتھروں پر خوب گھسیٹا۔آج ان کو گلی کوچوں میں خوب لتاڑا ۔گویا یہ کمبخت انسان ایک تو گندہ اور ناپاک ہے اور پھر اپنی گندگی پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے یہ عیب کیا ہے ،میں نے وہ عیب کیا ہے ۔اسی طرح وہ غریبوں کو نہیں دیتا جب پوچھا جائے تو کہتا ہے اھلکت مالا لبدامیں نے تو ڈھیروں ڈھیر روپیہ خرچ کیا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ایحسب ان لم یرہ احد(البلد)کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا یا لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیںکہ وہ جو کچھ کررہا ہے عزت نفس کے لئے کر رہاہے قوم کی بہبودی یا غرباء کی ترقی کا خیال اس کے ان اخراجات کا محرک نہیںبے شک وہ دن میں کئی کئی اونٹ ذبح کر دیتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ بھوکوں کو کھانا ملے بلکہ اس لئے کہ لوگوں میں اسکی شہرت ہو ۔غرض نہ صرف اس میں متعدد عیوب پائے جاتے ہیںبلکہانہ علی ذلک لشھیدوہ ان عیوب پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھو مجھ میں یہ یہ باتیں پائی جاتیں ہیں۔یا مثلا روپیہ تو پاس ہو ا لیکن اگر کوئی شخص فاقہ زدہ ہوا تو اسکو کھانا نہ کھلایا ۔قرآن کریم میں آتا ہے جب کفار سے یہ کہاجاتا کہ غریبوں کی مدد کرو اور اپنے مال میں سے صدقہ وخیرات دو تو وہ جواب میں کہتے ہیںکہ ان کی مدد کرنا تو خدائی منشاء کی مخالفت کرنا ہے۔چنانچہ اللہ تعالی ان لوگوں کے متعلق فرماتا ہے واذا قیل لھم انفقو مما رزقکم اللہ قال الذین کفرو للذین امنوا انطعم من لو یشاء اللہ اطعمہ ان انتم الا فی ضلال مبین(یس۳ع۲)جب ان سے کہا جاتا ہے کہ غریبوں کو کھانا کھلائو اور اللہ تعالی نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو تو وہ کہتے ہیںہم ان کو کیوں کھانا کھلائیںہم تو اللہ والا فعل کر رہے ہیںاللہ نے انکو نہیں کھلایا ہم نے بھی ان کو نہیں کھلایا ۔تم ایسے لوگوں کو کیوں کھلاتے ہو جن کو خود اللہ تعالی نے بھوکا رکھنا پسند کیا ہے ۔ اس آیت میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے کہ وہ ایک طرف تو غریبوں کو کھانانہیں کھلاتے اور پھر اپنی اس کمینگی اور بے حیائی پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم تو اللہ والا فعل کر رہے ہیں تم ہمیں مورد الزام کس طرح قرار دے سکتے ہو ۔
حل لغات:۔الخیر۔خیر کے معنے ہوتے ہیں وجدان الشیء عل کما لاتہ الا ئقہ کسی چیز میں جو کمالات پائے جانے چاہئیںان تمام کمالات کے ساتھ جب کوئی چیز ہو تو اس کو عربی زبان میں خیرکہتے ہیںاور خیرکے معنے گھوڑوں کے بھی ہوتے ہیںاور خیرکے معنے اس چیز کے بھی ہوتے ہیںجس میں بہت سی خیر پائی جائے یعنی بہتر سے بہتراور خیرمطلق مال کو بھی کہتے ہیں(اقرب)
شدیدکے معنے شجاع،بخیل، قوی،رفیع،الشاناور مضبوط کے ہوتے ہیںاور کنایۃ شدیدکا لفظ متکبر اور عظمت پسند کے معنوں میںبھی استعمال ہوتا ہے اس کی جمع شدائداوراشداءآتی ہے (اقرب)
تفسیر:۔مختلف معانی کے لحاظ سے اس کے معنے ایک تو یہ ہوں گے کہ (۱)اوپر جس انسان کا ذکر ہوا ہے وہ مال کی محبت میں بڑا پکا ہے یعنی اس کی محبت مال سے بہت بڑھی ہوئی ہے (۲)دوسرے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیںکہ یہ آدمی مال کی محبت میں بڑا شجاع ہے یعنی قومی روح اور قومی قربانی اس میں نہیں پائی جاتی یا دینی قربانی اس میں نہیں پائی جاتی اگر خدا تعالی کے لئے کسی قربانی کی ضرورت ہو تو وہ کوئی قربانی نہیں کر سکتا ۔ اگر قوم کی ترقی کے لئے کسی قربانی کی ضرورت ہو تو وہ اس قربانی کو ادا کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا ۔لیکن اگر کہیں سے مال ملتا ہو تو پھر یہ بڑا دلیر ہو جاتا ہے ۔یا اس کا مال چھنتا ہو تو خوب مرنے مارنے کو تیار ہو جاتا ہے۔دین کی ہتک ہو جائے ۔قوم کی ہتک ہو جائے ،قوم کی عزت پر حملہ ہو جائے قوم کی آزادی اور حریت پر حملہ ہو جائے اس کی غیرت جوش میں نہیں آتی وہ بزدل بن کر اپنے گھر میں بیٹھا رہتا ہے لیکن اگر کوئی شخص اس کے مال پر ہاتھ ڈال دے تو پھر جان دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے(۳)تیسرے معنیانہ لحب الخیر لشدیدکے یہ ہو ں گے کہبسبب حب الخیریعنی بخل کی کئی وجوہ ہوتی ہیں۔بخل کے معنے ہوتے ہیں روپیہ روک لینا ۔لیکن یہ ہر شخص جانتا ہے کہ روپیہ روک لینے کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیںضروری نہیں کہ ہر شخص ایک وجہ سے ہی بخل کا ارتکاب کرتا ہو ۔ان وجوہ میں سے جو مال کو روک لینے کے محرک بن جاتے ہیں۔کبھی بخل ناداری کی وجہ سے ہوتا ہے مثلا ایک غریب شخص ہے اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں کھانے کے لئے صرف ایک روٹی پڑی ہے اور وہ ڈرتا ہے اگر یہ ایک روٹی بھی خرچ ہو گئی تو بچے جا گیں گے ان کے کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوگا اس لئے وہ روٹی کو سنبھال کر رکھ لیتا ہے ایسی حالت میں ایک فقیر اس کے دروازہ پر آتا اور خیرات مانگتا ہے مگر وہ اسے روٹی نہیں دیتا ۔اب اس نے بخل تو کیا ہے مگر اس کی یہ وجہ تھی کہ اس کے پاس کافی مال نہیں تھا صرف حسب کفایت تھا یا حسب کفایت سے بھی کم تھا اس وجہ سے وہ اپنا مال دوسرے کو دینے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ پس کبھی بخل ناداری کی وجہ سے ہوتا ہے نادار انسان بے شک اپنے مال کی حفاظت کرتا ہے مگر اس لئے کہ اس کے پاس صرف حسب کفایت ہوتا ہے اس زائد نہیں ۔کبھی بخل یعنی مال کو روک لینا اس لئے ہوا کرتا ہے کہ جس مقصد کے لئے روپیہ خرچ کرنا ہوتا ہے وہ اس کے نزدیک اچھا نہیں ہوتا اگر ایسے مقصد کے لئے جس کو یہ اچھا نہیں سمجھتا کوئی دوسرا شخص لاکھ بار کہے کہ روپیہ خرچ کرو تو وہ کبھی خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا ۔لوگ بے شک اسے طعنہ دیں اسے بخیل اور کنجوس قرار دیں وہ کہے گا تم مجھے بخیل کہو یا کچھ میں روپیہ نہیں دونگا کیونکہ میرے نزدیک جس مقصد کے لئے روپیہ مانگا جاتا ہے وہ پسندیدہ نہیں۔لیکن فرماتا ہے یہ شخص ایسا ہے کہ غریب بھی نہیں ۔پیسے اس کے پاس ہیں ضرورت سے زائد ہیں اور پھر جو مقصد ہے وہ بھی برا نہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ قوم کے غریبوں کا خیال رکھو۔قوم کے مساکین کا خیال رکھو۔قوم کے یتامیٰ کا خیال رکھو ۔یہ کوئی برا مقصد نہیں کہ اس کے لئے روپیہ خرچ کرنے سے انسان کو ہچکچاہٹ ہو ۔اگر کہا جاتا ہے کہ اپنے روپیہ سے کنچنیاں نچوائو یا آتش بازی پر اپنا روپیہ خرچ کرو تو وہ شخص کہہ سکتا تھا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا میرے نزدیک روپیہ کا یہ مصرف درست نہیں۔میں اس بارے میں تمہارے ساتھ اتفاق نہیں کر سکتا۔لیکن یہ شخص نہ تو غریب ہے اور نہ مقصد برا ہے بلکہ اس کے بخیل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مال کی محبت جو فی ذاتہٖ ایک بے مقصد اور ایک بے مدعا شے ہے اسے مال خرچ کرنے سے روکتی ہے ۔یہ امر ظاہر ہے کہ مال کی محبت فی ذاتہٖ مقصود نہیں ہوتی بلکہ مال ذریعہ ہوتا ہے کچھ اور کام کرنے کا مگر یہ بے مقصد و بے مدعا شے جو مال کی محبت ہے اس کے پیچھے روپیہ صرف کرنے سے رکتا ہے اور اتنا احمق ہے کہ یہ اس چیز کو جو ذریعہ ہے مقصود بنا لیتا ہے اور جس مقصد کے حصول کا وہ ذریعہ ہے اسے بھلا دیتا ہے اس سے بڑھ کر حماقت بھلا کیا ہوگی کہ مال جو حوائج کے پورا کرنے کے لئے ذریعہ ہوتا ہے فی ذاتہٖ مقصود نہیں ہوتا اسکو مقصود بنا لیا جائے اور جس غرض کے لئے روپیہ ہوتا ہے اسکو نظر انداز کر دیا جائے۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کسی کے پاس کپڑا تو ہو مگر وہ پھر بھی ننگا پھرے اور جب پوچھا جائے کہ تم کپڑا کیوں نہیں پہنتے تو جواب دے کہ اگر میں نے کپڑا پہنا تو پھٹ جائے گا ۔ایسا شخص اگر احمق نہیں کہلائے گا تو کیا کہلائے گا ۔مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک کے بعض لوگوں کی بھی یہی حالت ہے چنانچہ صبح کے وقت کسی گائوں کی طرف سیر کے لئے نکلو تو تمہیں نظر آئے گا کہ زمیندار ننگے پائو ں روڑوں اور کانٹوں پر چلتا چلا جارہا ہے اور اس نے اپنے ہاتھ میں جوتی اٹھا ئی ہوئی ہے یا سوٹی سے لٹکا کر اس سوٹی کو اپنے کندھوں پر رکھا ہوا ہے۔حلانکہ جاتی تو اس لئے ہوتی ہے کہ کانٹوں اور جھاڑیوں اور کنکروں سے بچائے نہ اس لئے کہ جوتی کو اٹھا لیا جائے اورننگے پائوں کانٹوں اور کنکروں پر چلنا شروع کر دیا جا ئے۔مگر زمین دار بچارہ تو غربت کی وجہ سے ایسا کرتا ہے جانتا ہے کہ میرے پاس ایک ہی جوتی ہے اور میرا فرض ہے کہ میں اسے سنبھال کر رکھوںاگر جوتی پھٹ گئی اور مجھے اپنے بیٹی کے پاس جانا پڑا تو لوگ اسے کیا کہیں گے کہ تیرا باپ ننگے پائوں آگیاہے اور اسکے پاس جوتی کے لئے بھی پیسے نہیں۔ اسی وجہ سے وہ اپنی جوتی سنبھال کر رکھتا ہے اور اسی حالت کو دیکھ کر اس کی غربت پر بھی رحم آتا ہے اور اپنی ملکی حالت پر بھی افسوس آتا ہے ۔مگر وجہ کچھ ہو بہرحال نظارہ یہی ہوتا ہے کہ جو ذریعہ ہے اس کو مقصود بنالیا جاتا ہے اور جس مقصد کے حصول کا وہ ذریعہ ہوتا ہے اسے بھلا دیا جاتا ہے ۔جوتی اسلئے ہوتی ہے کہ پائوں کو زخم سے بچالے مگر زمیندار اپنے پیر کو زخمی ہونے دیتا ہے اور جوتی کو بچاتاہے۔ اسی طرح روپیہ بھی اسیلئے آتاہے کہ انسان اسکو خرچ کر کے فائدہ اٹھائے۔خواہ قومی مفاد پر اسکو خرچ کرے خواہ ذاتی مفاد پر ۔مگر وہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا حالانکہ اگر وہ خدا تعالی کی رضااور اسکے دین کی مدد کے لئے روپیہ خرچ کرنا نہیں چاہتا تھا تو اسے چاہیے تھا کہ قومی مفاد کے لئے ہی روپیہ خرچ کرتا یا ذاتی فائدہ کے لئے روپیہ صرف کر دیتا ۔آخر کسی نہ کسی کام پر تو اسے بہر حال روپیہ صرف کرنا چاہیے تھا ۔خدا کے لئے نہ سہی قوم کے لئے ہی کارخانے جاری کردیتا تاکہ لوگوں کو مزدوری مل جاتی یا انہیں سستا کپڑا ملناشروع ہو جاتا۔ یا مثلا آٹے کی مشین لگا دیتا یا غرباء اور یتامیٰ ومساکین کی ترقی کے لئے کسی صنعت وحرفت یا تجارت کی داغ بیل ڈال دیتا یا مدرسے کھول دیتا تاکہ بچے علم حاصل کریں اور قوم کو عروج حاصل ہو ۔غرض سینکڑوں طریق ایسے تھے جن سے کام لے کر وہ اپنے روپیہ کو ایسے رنگ میں خرچ کر سکتا تھا کہ اسکی ذات کو بھی فائدہ پہنچتا اور اسکی قوم کو بھی فائدہ پہنچتا ۔مگر وہ روپیہ کو غلق میں بند کر کے رکھ لیتا ہے نہ خدا کیلئے خرچ کرتا ہے نہ قومی مفاد کے لئے خرچ کرنے پر تیار ہوتا ہے اور آخر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسکی دولت بڑھتی نہیں بلکہ سمٹ کر محدود ہو جاتی ہے۔کسی صوفی کا قول ہے کہ تو روپیہ دے تاکہ وہ تیری طرف واپس لوٹے تو روپیہ کو روک کر نہ رکھ کہ وہ تیرے لئے عار بن جائے۔دنیا میں جتنی قومیں روپیہ خرچ کرتی ہیں ان کا مال بڑھتا ہے مگر جو روپیہ کو روک کر رکھ لیتی ہیں ان کی دولت کم ہونی شروع ہو جاتی ہے پس فرماتا ہے اگر ان لوگوں کو خدا بھول گیا تھا اور وہ اسکی رضا کے لئے روپیہ خرچ کرنا ایک بے معنی بات سمجھتے تھے تو کم ازکم انہیں اتنا تو چاہیے تھا کہ قوم کے لئے روپیہ خرچ کرتے مگر ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جن چیزوں کے لئے روپیہ رکھا جاتا ہے جن چیزوں کے لئے روپیہ کو تلاش کیا جاتا ہے جن چیزوں کے لئے روپیہ کو حاصل کیا جاتا ہے ان چیزوں کو تو نظر انداز کر دیتے ہیں اور کوشش یہ کرتے ہیں کہ ان کے پاس روپیہ رہ جائے جو فی ذاتہٖ مقصود نہیں ہوتا بلکہ کسی اور چیز کے حصول کا ذریعہ ہوتا ہے۔
اوپر کی آیات کا صوفیاء نے اپنے رنگ میں ایک اور مطلب بیان کیا ہے ۔وہ کہتے ہیںعادیات سے مراد سالکوں کے نفوس ہیںاورمراد یہ ہے کہ وہ کمالات روحانیہ کے حصول کے لئے بے تاب ہو کر دوڑتے اور جدو جہد کرتے ہیںحتٰی کہ ان کا سانس پھول جاتاہے اور لفظ عادیاتمیں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ خیرات اور نیکیوں کے حصول کے لئے صبح شام کام میں لگے رہتے ہیں اور کام کر کے بس نہیں کر دیتے بلکہ اس کے بعد دوسرا کام شروع کر دیتے ہیں۔دوسرا کام ختم ہوتا ہے تو تیسرا کام شروع کر دیتے ہیں۔تیسرا کام شروع ہوتا ہے تو چوتھا کام شروع کر دیتے ہیں۔غرض ایک دوڑ ہے جس میں مشغول ہوتے ہیں۔ابھی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں پھر کسی غریب کی خدمت گذاری میں مصروف ہو جاتے ہیں۔اس سے فارغ ہوتے ہیں تو تعلیم کا کام شروع کر دیتے ہیں وہ کام ختم ہوتا ہے تو کسی اور نیکی کو سر انجام دینے لگ جاتے ہیں ۔غرض یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک دوڑ دوڑ رہے ہیںاور چاہتے ہیںکہ اس میدان میں دوسروں سے سبقت لے جائیں۔پس والعدیت ضبحاسے مراد یہ ہے کہ سالک خدا تعالی کے قرب کے حصول کے لئے ہر رنگ اور ہر طریق کو اختیار کرتے ہیںاور یکے بعد دیگرے نیکی کے کام کرتے چلے جاتے ہیں ۔فالموریت قدحا۔میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ نہ صرف عمل کے ذریعہ بے انتہا تیزی دکھاتے ہیں ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا کام شروع کر دیتے ہیں بلکہ ان کا دماغ بھی خالی نہیں رہتا وہ اپنے افکار کو ملاء اعلی کی دہلیز پر مارتے ہیں یعنی غوروفکر اور تدبر اور سوچ بچار ان کا طرہ امتیاز ہو تا ہے وہ ایک طرف خدا تعالی کے کلام کے معنی معلوم کرتے ہیں تو دوسری طرف قانون قدرت پر گہری نظر ڈال کر اس کی حکمتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔غرض اپنے افکار کو وہ شریعت اور قانون قدرت دونوں پر مارتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں انوار ومعارف پیدا ہونے لگتے ہیں جیسے چقماق پر ضرب لگا نے سے آگ پیدا ہوتی ہے اسی طرح وہ اپنے افکار کے ذریعہ جب ایک طرف شریعت پر اور دوسری طرف قانون قدرت پر ضربیں لگاتے ہیں تو ایک نور ظاہر ہوتا ہے اور اس نور سے صبح پیدا ہوجاتی ہے جس کافالمغیرات صبحامیں ذکر آتا ہے جب انکی کوششوں اور جدو جہد کے نتیجہ میں صبح پیدا ہوتی ہے جس سے مراد انوار سماویہ کا ظہور ہے تو جیسے صبح کے وقت بیسیوں چیزیںجو رات کو نظر نہیں آتیں نظر آنے لگ جاتی ہیں۔اسی طرح ان کو اپنے اور اپنی قوم کے وہ عیوب نظر آنے لگ جاتے ہیں جو انوار سماویہ کے ظہور سے پہلے مخفی ہوتے ہیں۔ انسان کے چہرے پر میل ہوتی ہے ۔ادھر ادھر چیزیں بکھری ہوئی ہوتی ہیں مگر اسے رات کی تاریکی کی وجہ سے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اسکی ذات میں یا اسے گردوپیش کے لوگوں میں کیا کیا نقائص ہیں جب صبح ہوتی ہے تو اسے فورا نظر آجاتا ہے کہ فلاں چیز سیاہ ہے اور فلاں سفید ۔فلاں اچھی ہے اور فلاں بری ۔اسی طرح جب سالک اس مقام پر پہنچتے ہیں تو انوار سماویہ کے ظہور سے جو صبح پیدا ہوتی ہے اسکی روشنی میں انہیں اپنی وہ باریک کمزوریاں بھی معلوم ہو جاتی ہیں جو ان انوار کے ظہور سے پہلے مخفی ہوتی ہیں اور انہیں اپنی قوم کے وہ عیوب بھی نظر آنے شروع ہو جاتے ہیںجو پہلے نظر نہیں آیا کرتے تھے گویا علم کامل نہ ہونے کی وجہ سے جو عیوب پہلے مخفی ہوتے ہیں وہ اس صبح کے نتیجہ میں ظاہر ہو جاتے ہیں اپنے نفس کی بھی اور اپنی قوم کے بھی ۔جب انہیں اپنے اور اپنی قوم کے عیوب نظر آتے ہیں تو فالمغیرات صبحاوہ اس کی وجہ سے مغیر بن جاتے ہیں یعنی اپنے عیوب پر بھی حملہ کر دیتے ہیںاور اپنی قوم کے عیوب پر بھی حملہ کر دیتے ہیں۔اپنی صفائی میں بھی مشغول ہو جاتے ہیں اور اپنی قوم کی صفائی میں بھی مشغول ہو جاتے ہیں۔
فاثرن بہ نقعا۔پھر اس حالت ظہور انوار میں وہ اپنی آوازوں کو بلند سے بلند کرتے چلے جاتے ہیں یعنی جب وہ عادات اور ہوائوہوس پر حملہ کرتے ہیں۔جب وہ اپنے عیوب پر بھی حملہ آور ہو جاتے ہیں اور اپنی قوم کی اصلاح کے لئے اس کے عیوب کو مٹانے کے لئے بھی کمر بستہ وتیار ہو جاتے ہیں تو اس وقت جانتے ہیں کہ ہمیں محض اپنی کوششوں اور تدابیر سے کامیابی نہیں ہوسکتی ہم جتنا زور لگائیں گے وہ بہر حال ناقص ہو گا اور پھر بھی کچھ کمزوریاں ہماری ذات میں باقی رہ جائیں گی اور ہماری قوم بھی باقی رہ جائیں گی ہم اگر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اسکی ایک ہی صورت ہے کہ اپنی کوششوں کے ساتھ اللہ تعالی سے بھی دعائیں کرنی شروع کر دیں کہ وہ اس اہم کام میں ہماری مدد فرمائے اور اپنے فضل سے ہماری ناچیز مساعی میں برکت ڈالے چنانچہ وہ خدا تعالی کے دربار میںاپنی آوازیں بلند کرنی شروع کر دیتے ہیں ۔آہ وزاری اور چیخ وپکار سے کام لیتے ہیں۔درد مندانہ دعائوں سے اس کے فضل کو جذب کرتے ہیں اور کہتے ہیں خدایا تو آاور ہماری مدد کر اور ہمارے دشمن کو تباہ وبرباد کر ۔ جب یہ دونوں باتیں جمع ہو جاتی ہیں یعنی ایک طرف وہ اپنے عیبوں اور اپنی قوم کے عیبوں کو دور کرنے کے لئے ذاتی طور پر کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف خداتعالی کے دربار میں چیخ وپکا ر شروع کر دیتے ہیں اور اس سے دعائیں مانگنے لگ جاتے ہیں کہ وہ انکی مددکرے اور اس دشمن کو تباہ کرے جو انہیں خدا تعالی کی محبت اور اسکے قرب کے راستوں سے دور پھینکنا چاہتا ہے تو وہ کامیاب ہوجاتے ہیں اور وہ اس پہلی جماعت میں مل جاتے ہیں جو ان سے پہلے اعلی عیلین میں شامل ہو چکی ہے یہ معنے فوسطن بہ جمعاکے ہیں یعنی وہ جمعا جو حقیقت میں جماعت کہلانے کی مستحق ہے اس میں وہ بھی شامل ہو جاتے ہیں اس صورت میں یہاں جمعاکی تنوین عظیم الشان کے معنوں میں سمجھی جائے گی اور آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ پھر وہ جماعت جو ایک ہی جماعت کہلانے کی مستحق ہے یعنی اعلی عیلین والی جماعت اس میں جا کر شامل ہو جاتے ہیں اور اپنے اس مقصد کو حاصل کر لیتے ہیں جس کے لئے انہیں دنیا میں پیدا کیا گیا تھا۔
یہ نکتہ جو اوپر بیان کیا گیا ہے کہ سالک ایک طرف تو اپنی کوششوں سے کام لیتے ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالی سے بھی دعائیں کرنی شروع کر دیتے ہیں کہ وہ شیطان کے مقابلہ میں ان کی مدد کرے اس کے متعلق ایک صوفی کا بھی لطیف واقعہ بیان کیا جاتا ہے ۔لکھا ہے کہ ان کے پاس کوئی شاگرد تصوف کے مسائل سیکھنے اور ان کی صحبت سے مستفیض ہونے کے لئے آیا اور کچھ مدت تک اپنی روح کی صفائی کے لئے ان کی خدمت میں حاضر رہا ۔کچھ عرصہ کے بعد علم تصوف سیکھ کر اس نے چاہا کہ میں اب واپس جائوں اور اپنی قوم کی درستی کروں ۔ جب وہ چلنے لگا تو اس نے کہا حضور مجھے کوئی آخری نصیحت کردیں ۔انہون نے کہا تم مجھے یہ بتائو کہ کیا تمہارے ملک میں شیطان ہوتا ہے ؟وہ حیران ہوا کہ مجھ سے یہ کیا سوال کیا گیا ہے کہنے لگا حضور کیا شیطان کسی خاص جگہ کی چیز ہے وہ تو ہر جگہ ہوتاہے۔ انہوں نے فرمایا اچھا اگر کبھی شیطان نے تمہیں پکڑ لیا اور اللہ تعالی کے قرب کے راستہ میں اس نے تمہیں بڑھنے نہ دیا تو تم کیا کروگے ۔علم تو سیکھ گئے ہو لیکن تم جانتے ہو کہ شیطان بھی ہر وقت گھات میں لگا رہتا ہے اور وہ انسان کو گمراہ کرنے کے لئے اپنا پورا زور صرف کر دیتا ہے ۔جب تم نے عبادتیں شروع کیںاور کوشش کی کہ تمہیں اللہ تعالی کے قرب کا کوئی مقام حاصل ہو جائے اور ادھر شیطان نے تمہاری ایڑی پکڑ لی اور وہ تمہیں ورغلانے لگا تو تم کیا کرو گے؟اس نے کہا حضور میں شیطان کا پورا مقابلہ کروں گا ۔انہوں نے کہا بہت اچھا ۔مان لیا کہ تم نے شیطان کا مقابلہ کیا ۔شیطان کو شکست ہو گئی اور تم جیت گئے۔لیکن جب پھر تم آگے بڑھنے لگے اور شیطان نے تمہیں پھر آپکڑا تو تم کیا کرو گے۔آخر شیطان مرتا تو نہیں کہ انسان یہ سمجھ لے کہ میں اسے مار کر امن میں آجائوں گا ۔تم زیادہ سے زیادہ اس کے حملہ سے وقتی طور پر محفوظ ہو سکتے ہو لیکن اس خطرہ سے آزاد نہیں ہو سکتے کہ ممکن ہے وہ تم پر دوبارہ حملہ کر دے ۔ دوبارہ ہٹایا تو تیسری بار حملہ کر دے۔ پس میں تسلیم کر لیتا ہوں کہ تم شیطان کا مقابلہ کروگے اور پھر اس سے اپنا پیچھا چھڑا لو گے لیکن اگر اس نے ہزار مقابلہ کے بعد بھی تمہیں آپکڑا تو کیا کرو گے؟ کہنے لگا میں پھر مقابلہ کروں گا ۔وہ بزرگ فرمانے لگے میں مان لیتا ہوں کہ اب کی د فعہ بھی تم کامیاب ہو جاتے ہو اور شیطان کو تم بھگا دیتے ہو لیکن تم پھر اپنے کام میں مشغول ہو جاتے ہو تو شیطان آجاتا ہے ایسی حالت میں تم اس کا کیا علاج کرو گے ؟وہ حیران ہو کر کہنے لگا کہ پھر مقابلہ کروں گا ۔استاد نے کہا اگر ساری عمر تم نے شیطا ن کے مقابلہ میں ہی گزار دی تو خدا تعالی کے پاس کب پہنچو گے ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے شاگرد سے کہا اب مجھے ایک اور بات بتائو ۔اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے کے لئے جائو اور اس کے صحن میں کتا ہو ۔تم اندر داخل ہونے لگو تو وہ تمہاری ایڑی پکڑ لے تو اس وقت تم کیا کرو گے ؟اس نے کہا اگر میرے پاس ڈنڈا ہو گا تو میں اسے ڈنڈا مارونگا پتھر پڑا ہو گا تو میں پتھراٹھا کر ماروں گا ۔کہنے لگے بہت اچھا تم نے اسے مارا اور وہ علیحدہ ہو گیا ۔لیکن جب پھر تم دوست کے دوازہ کی طرف بڑھنے لگے اور اس نے تمہیں پکڑ لیا تو تم کیا کرو گے ۔کتا تو مکان کی حفاظت کے لئے ہوتا ہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ تمہیں مکان کے اندر داخل ہونے دے ؟کہنے لگا میں پھر اس کا مقابلہ کروں گا اوراسے ہٹائوں گا ۔انہوں نے فرمایا مان لیا کہ اب کی مرتبہ بھی وہ ہٹ گیا اور تم کامیاب ہو گئے لیکن اگر تیسری بار تم پھر بڑھنے لگے اور اس نے تمہیں پھر آپکڑا تو تم کیا کروگے ؟وہ کہنے لگا میں گھر والے کو آواز دوں گا کہ ذرا باہر نکلنا تمہارا کتا مجھے اندر آنے نہیں دیتا اسے روکوکہ میں اندر داخل ہو سکوں ۔ وہ بزرگ فرمانے لگے شیطان کا بھی یہی علاج ہے ۔شیطان اللہ میاں کا کتا ہے جب وہ تمہاری ایڑی آپکڑے اور تمہیںاللہ تعالی کے قرب کی طرف بڑھنے نہ دے تو اللہ میاں کو ہی آواز دینا کہ شیطان مجھے آپکے پاس آنے نہیں دیتا اسے روک لیں ۔یہی طریق ہے جس سے شیطان تم پر حملہ کرنے سے رک سکتا ہے ورنہ تمہارے ہٹانے سے کیا بنتا ہے۔تم دس بار بھی ہٹائو گے تو وہ دس بار تم پر لوٹ لوٹ کر حملہ کرتا رہے گا ۔ اسی کی طرف فا ثرن بہ نقعامیں اشارہ کیا گیا ہے کہ سالک ادھر شیطان کا مقابلہ شروع کر تے ہیں ۔اغارتیں کرتے ہیں ۔تدابیر اور جدوجہد سے کام لیتے ہیں کہ خدایا ہم مر گئے آاور ہماری مدد فرما ! جب یہ دونوں باتیں ملتی ہیں تب اللہ تعالی کی ملاقات میسر آتی ہے ۔جیسے اس بزرگ نے کہا کہ دوست سے ملنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ اپنے دوست سے کہو کہ وہ کتا پکڑ لے۔اسی طرح اگر تم ایک طرف کوشش اور جدوجہد سے کام لو گے اور دوسری طرف خدا تعالی سے انتہائی تضرع اور عجز ونیاز کے ساتھ دعائیں رہوگے تب دعوت شاہی پر جو لوگ پہلے بیٹھے ہیں ان میں تم بھی شامل ہو جائو گے اور اللہ تعالی کے انعامات کے وارث قرار پائو گے۔صوفیاء کے نزدیک فاثرن بہ نقعاسے دلی فریاد والتجا ء کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حل لغات میں بتایا جا چکاہے کہ نقع کے معنے آواز کے بھی ہوتے ہیں ۔
افالا یعلم اذا بعثر ما فی القبور O
کیا وہ نہیں جانتا کہ جب وہ (لوگ) جو قبروں میں ہیں اٹھائے جاہیں گے ۔
حل لغات:۔بعثرکے معنے ہوتے ہیں نظر وفتش۔ کسی بات میں غور وفکر کیا یا کسی پوشیدہ بات کی تفتیش کی ۔اور بعثر الشیء کے معنے ہوتے ہیں فرقہ۔بددہ۔پراگندہ کر دیا ۔استخر جہ فلشفہ واثار ما فیہ۔کسی پوشیدہ چیز کو نکالا اس کو ظاہر کر دیا اور اسکی حقیقت کا اظہار کر دیا ۔قلب بعضہ علی بعضیا نیچے کی چیز کو اوپر کر دیا (اقرب)بعثرمجہول کا صیغہ ہے اس کے معنے ہو نگے (۱)پراگندہ کر دیا گیا (۲) الٹایا گیا (۳) کسی پوشیدہ چیز کو ظاہر کر دیا گیا ۔
تفسیر:۔افلا یعلم ابتدائی ہمزہ استفہام انکاری کا ہے اور چونکہ استفہام کے بعد لاآیا ہے جو دوسری نفی ہے اس لئے اسکے معنے مثبت کے بن جائیں گے اور افلا یعلمکے معنے ہونگے ’’کیا وہ نہیں جانتا ‘‘ اب ظاہر ہے کہ اس فقرہ میں کیا بھی انکار کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور لا کے تو معنے ہی انکار کے ہوتے ہیں پس بوجہ دو انکار جمع ہو جانے کے ایک استفہام انکاری اور ایک لا اس کے معنے مثبت کے ہو گئے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ تم جانتے ہی ہو کہ میں خبیر ہوں اس لئے سنبھل کر چلو ۔ استفہام بہت سے امور کے لئے ہوتا ہے اس جگہ تہدید ووعید کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ کیا وہ نہیں جانتا کہ ہم خبیر ہیں یعنی اسے عقل سے کام لینا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ اگر وہ ان باتوں سے باز نہیں آئے گا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ۔ہماری زبان میں بھی یعنی پنجابی اور اردو دونوں میں یہ محاورہ استعمال ہو تا ہے کہ’’تم جانتے ہی نہیں میں کون ہوں‘‘ اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ تمہیں معلوم نہیں بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ تم جانتے ہی ہو کہ مجھے سزا دینے کی طاقت حاصل ہے اور جب تم اس بات کو بخوبی آگاہ ہو تو پھر تمہیں ڈرنا چاہیے ۔ میں تمہیں ہوشیار کر دیتا ہوں کہ ا سکا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا ۔اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہاری خبر لوں گا ۔یہاں بھی استفہام تہدیدو وعید کے لئے آیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ کیا وہ جانتے نہیں کہ خد اتعالی خبیر ہے یعنی اس بات کو بخوبی جانتے ہیں پھر جانتے بوجھتے ہوئے وہ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے ۔ ہم اس فقرہ سے انہیں پھر ہوشیار کر دیتے ہیں کہ سنبھل کر چلو ۔ایسی ہستی کا جوعلیم وخبیر ہو مقابلہ اچھا نہیں ہوتا ۔کیونکہ واقف ہستی سے جہاں نیک اعمال والا نڈر ہوتا ہے بد اعمال زیادہ ڈرتا ہے۔
اذا بعثر ما فی القبور میں مااستعمال ہوا مہے حالانکہ یہاں انسانوں کا ذکر ہے اور انہی کا انجام اس میں بیان کیا گیا ہے ۔میں پہلے بتا چکا ہوں کہ بعض دفعہ جب کسی صفت کو بیان کرنا مد نظر ہو تا ہے تو اسکی طرف اشارہ کرنے کے لئے بھی ما آجاتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ صفت اچھی ہو یا بری ۔بعض دفعہ اچھی صفت کے لئے ما استعمال ہو جاتا ہے جیسے حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق آتا ہے کہ واللہ اعلم بما و ضعت(آل عمران۴ع۱۲)اور بعض دفعہ بری صفت کے لئے ما استعمال ہو تا ہے جیسے اس جگہ ذوی العقول کے لئے ماآیا ہے اس لئے کہ ان کی صفت تعطل و عدم حرکت کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔
درحقیقت دنیا میں انسان وہ کہلاتا ہے جس میں حرکت ہو ۔ جس کے اندر ترقی کی امنگ ہو ۔جس میں نیک تبدیلی کی خواہش ہو اور جس کے اعمال اس کی زندگی کا ثبوت دے رہے ہوں ۔اگر کوئی شخص زندگی کی علامات اپنے اندر نہیں رکھتا ۔ اسکی امنگیں مردہ ہو چکی ہوں۔اس کی ہمت کوتاہ ہو۔اس کے خیالات افسردہ ہوں ۔ اس کے دل کے کسی گوشہ میں بھی اپنی ترقی کا کوئی جذبہ موجود نہ ہو۔اس کی قوت عملیہ پر مردنی چھائی ہوئی ہو اور اس کے اعمال سے نحوست ٹپک رہی ہو تو ایسے شخص کو قطعاََ زندہ نہیں کہا جا سکتا۔ زندہ وہی کہلاتا ہے جس کے اندر زندگی کے آثار پائے جاتے ہوں۔ اگر کوئی فرد اپنی زندگی کے آثار کو کھو بیٹھتا ہے یا کوئی قوم زندگی کے نشانات اپنے اندر نہیں رکھتی تو وہ ہرگز زندہ نہیں کہلا سکتی۔
اس جگہ ما فی القبور سے اہل مکہ مراد ہیں اور اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ یہ وہ قوم ہے جو ان تمام چیزوں سے محروم ہے جو کسی قوم کی زندگی کا نشان ہوا کرتی ہیں۔ بے شک یہ لوگ بظاہر زندہ اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں مگر در حقیقت مردہ ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں کوئی امنگ نہیں۔ ترقی کی کوئی خواہش نہیں۔ عمل کا کوئی جوش نہیں۔ علم کے حصول کی کوئی تڑپ نہیں۔نیک تغیر پیدا کرنے کا کوئی احساس نہیں۔ یہ چلتے پھرتے زندہ درحقیقت مردہ ہیںاور مردہ بھی ایسے جو ما فی القبورہیں۔ ایک چیز ایسی ہوتی ہے جو باہر پڑی ہوئی ہوتی ہے ایسی چیز کو کوئی دوسرا شخص ہلا بھی سکتا ہے۔ مثلاََ پتھر پڑاہوا ہوتا ہے پتھر ایک بے جان چیزہے مگر چونکہ وہ باہر زمین پرپڑا ہوتا ہے اس لئے بچے اسے ٹھوکر مارتے ہیں تو وہ کہیں کا کہیں چلا جاتا ہے لیکن وہ چیز جو قبور میں دبی پڑی ہو اسے کوئی ہلا نہیں سکتا پس ما فی القبورکہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اول تو خود ان میں حرکت نہیں اور پھر یہ مٹی کے نیچے دفن ہیں کوئی دوسرا شخص بھی ان کو ہلا نہیں سکتا۔یہ ان کی کمال درجہ کی مردنی کا اظہار ہے کہ نہ ان میں خود کوئی حرکت ہے اور نہ کوئی دوسرا انہیں حرکت دے سکتا ہے۔کئی چیزیں بے جان ہوتی ہیں لیکن دوسرے لوگ ان سے کام لیتے ہیں۔مثلاََڈول جس سے پانی نکالا جاتاہے ایک بے جان چیز ہے مگر جب اسے کنوئیں میں ڈالا جاتا ہے تو وہ ہلتا ہے اور پانی لیکر باہر آجاتا ہے۔ اسی طرح چرخی ایک بے جان چیز ہے مگر جب کوئی دوسرا اسے حرکت دیتا ہے تو وہ فوراََ حرکت میں آجاتی ہے۔ مگر جو چیز قبر میں پری ہوئی ہو اس میں نہ خود حرکت ہوتی ہے نہ کوئی دوسرا اس میں حرکت پیدا کر سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس امر کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ مکہ کے لوگ وہ ہیں جن میں کسی رنگ میں بھی بیداری نہیں پائی جاتی۔نہ ان میں خود بیداری ہے نہ کسی بیدار قوم سے ان کا تعلق ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی قوم میں خود تو بیداری نہیں ہوتی مگر بیدار قوم سے مل کر اس کی حالت بدل جاتی ہے۔ مثلاََ ہندوستان کو دیکھ لو بظاہر ایک مردہ ملک ہے مگر چونکہ ایک زندہ قوم یعنی انگریزوں سے اس کا تعلق ہے اس لئے وہ جنگ کے موقع پر دس بیس لاکھ فوج ہندوستان سے نکال ہی لیتے ہیں۔ اس طرح گو ہندوستان کی ساری دولت انگریز لے گئے مگر پھر بھی ایک زندہ قوم سے تعلق ہونے کی وجہ سے اس کی تجارت کی طرف دنیا للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ اب روپیہ چاہے انگریز لے گئے ہوں لیکن ایک زندہ قوم سے تعلق ہونے کی وجہ سے ملک میں بیداری کے آثار پائے جاتے ہیں۔ پس زندگی کی دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو کوئی قوم خود زندہ ہو یا کسی زندہ قوم سے اس کا تعلق ہو۔ مگر جو قبر میں دبی پڑی ہو اس کی ترقی کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔قبر میں دبے ہونے کے معنے یہ ہیں کہ مکہ والوں میں نہ آپ زندگی پائی جاتی ہے نہ کسی زندہ قوم سے ان کا تعلق ہے گویا ان میں ذاتی زندگی بھی نہیں اوروہ اضافی زندگی بھی نہیں جو دوسروں سے تعلق رکھ کر پیدا ہوتی ہے۔
اہل مکہ کی اس انتہا ئی گری ہوئی حالت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے افلا یعلم اذا بعثر ما فی القبور۔ان کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالی ایک ایسا زمانہ لانے والا ہے جب یہی قوم جو نہ ذاتی زندگی رکھتی ہے نہ کسی طاقتورقوم سے اس کا تعلق ہے اس میں بھی ہم حرکت پیدا کر دیں گے۔
یہ ایک عجیب بات ہے جس طرح مقنا طیس لوہے کو کھینچ لیتا ہے اسی طرح اسلام کی بدولت آخر اہل مکہ میں بھی جو ما فی القبورتھے ایک حیرت انگیز بیداری پیدا ہو گئی وہ تھے تو مردہ لیکن رسول کریم ﷺ کی مخا لفت میں ان کی مردہ ہڈیوں میں بھی ایک جان آگئی اور ان میں ایسی حرکت پیدا ہوئی کہ جس کی مثال ان کی زندگی کے دنوں میں دکھائی نہیں دیتی۔آخر عرب لوگ ہمیشہ سے مردہ قوم نہیں تھے ۔ان پر ترقی کا دور بھی آچکا تھا مگر دنیا کی کوئی تاریخ ثابت نہیں کر سکتی کہ اسلام سے پہلے ان میں زندگی کے وہ آثار پائے جاتے ہوںجو اسلام کے ظہور پر ان میں پیدا ہوئے ۔اسلام سے پہلے سارے عرب کی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ مکہ کے لوگوں نے اپنے گھروں سے باہر نکل کر کسی قوم پر حملہ کیا ہو ۔مگر اسلام نے اس مردہ قوم کی ہڈیوں میں بھی ایسا ہیجان پیدا کر دیا اور ایسا جوش اور ولولہ ان کے قلوب میں بھر دیا کہ وہ تین سو میل دو ر اپنے شہر سے باہر نکل گئے اور احد میں انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا ۔حالانکہ مکہ والوں نے کبھی اپنی بڑائی کے زمانہ میں بھی کسی غیر قوم پر حملہ نہیں کیا تھا ۔جیسے ٹمٹماتا ہوا چراغ جب بجھنے لگتا اور اس کا تیل ختم ہونے کے قریب پہنچتا ہے تو وہ آخری دفعہ اچھل کر جلتا اور پھر ختم ہو جاتا ہے اسی طرح جب انہیں اسلام کے مقابلہ میں اپنی موت نظر آئی تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح انہوں نے بھی آخری سنبھالا لیا اور تین سو میل دور اپنے شہر سے نکل کر باہر گئے اور احد میں انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا۔ حالانکہ مکہ والوںنے کبھی اپنی بڑائی کے زمانہ میں بھی کسی غیر قوم پر حملہ نہیں کیا تھا۔ جیسے ٹمٹماتا ہوا چراغ جب بجھنے لگتا ااور اس کا تیل ختم ہونے کے قریب پہنچتا ہے تو آخرا دفعہ وہ اچھل کر جلتا اور پھر ختم ہو جاتا ہے اسی طرح جب انہیں اسلام کے مقابلہ میں اپنی موت نظر آئی تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح انہوں نے بھی آخری سنبھالا لیا اور تین سو میل پر جا کر اسلام سے ٹکر لی۔ چنانچہ احزاب میں انہوں نے حملہ کیا۔ احد میں انہوں نے حملہ کیا۔ بدر اولیٰ میںانہوں نے حملہ کیا اور بدر ثانیہ میں انہوں نے حملہ کیا یہ چار جنگیں ایسی ہیں جن میں مکہ والے تین تین سو میل دور اپنے گھروں سے باہر نکل کر گئے حالانکہ پہلے کسی تاریخ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مکہ کے لوگوں نے اتنی دور جاکر کسی غیر قوم پر حملہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے افلا یعلم اذا بعثرمافی القبور یہ بیشک مردہ ہیں مگر ان مردوں کو بھی ایک دن ہم کھینچ کر باہر لے آئیں گے۔ جیسے بجلی کی رو کسی دوسری چیز پر ڈالو تو وہ بھی اچھلنے کودنے لگ جاتی ہے اسی طرح مکہ والوں کا حال ہوا۔ ان کی مردہ ہڈیوں میں بھی جان آگئی۔ اور گویہ مخالفت کی وجہ سے ہی آئی مگر بہر حال آئی اسلام اور مسلمانوں کے تعلق کی وجہ سے۔ اس کے بغیر ان میں خود بخود پیدا نہیں ہوگئی۔
وحصل ما فی الصدورO
اور جو کچھ سینوں میں (چھپاپڑا)ہے نکال لیا جائے گا۔
تفسیر:۔پہلی آیت میں یہ بتا یا گیا تھا کہ مکہ کے لوگ جو آج تمہیں مردہ دکھائی دیتے ہیں ان کی رگوں میں بھی اسلام اور محمد رسول اللہﷺ کی مخالفت کے جوش میں زندگی کا خون دوڑنے لگے گا اور وہ مسلمانوں کو کچلنے کے لئے بڑھ بڑھ کر حملے شروع کر دیںگے اب اس آیت میں یہ بتاتا ہے کہ ان کے دلوں میں جو کچھ ہے اسے کھینچ کر باہر نکال لیا جائے گا یعنی وہ گند اور خبث اور شرارت جو اس قوم کے دل میں نبوت سے دوری اور شرک کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے اسے ظاہر کر دیا جائے گا اور لوگوں کو بتادیا جائے گا کہ اندرونی طور پر یہ کیسے گندے اور ناپاک انسان ہیں۔
مکہ کے لوگ چونکہ مجاور تھے ان کے کلام میں بڑا تکلف پایا جاتا تھا جو بھی مکہ میں آتا اسے بڑے تپاک سے ملتے اور کہتے آئیے تشریف لائیے۔آپ لات کے پاس جائیں گے ۔عزی ٰپر چڑھاواچڑھائیں گے۔منات کے سامنے ماتھا ٹیکیں گے۔جو بھی خدمت ہو ہم اسے بجا لانے کے لئے حاضر ہیں۔وہ سمجھتا کہ مکہ والے بڑے مہذب ہیں بڑے نیک اور دین کے خادم ہیں دیکھو کس محبت کے ساتھ پیش آتے ہیں اور کیسا اعلی درجہ کا سلوک کرتے ہیں ذرا بھی ان کے ماتھے پر بل نہیں آتا ۔غرض ان کی طبیعتوں میں تو گند بھرا ہوا تھا لیکن بظاہر بڑے مودب تھے اور کسی شخص کے وہم وگمان میں میں بھی نہیں آتا تھا کہ یہ لوگ اخلاق سے عاری ہو چکے ہیں اور دراصل یہی حآل ہر منافق اور چالباز انسان کا ہوتا ہے کہ وہ بظاہر بڑا مودب ہوتا ہے مگر اندرونی طور پر اس کی طبیعت میں گند بھرا ہوا ہوتا ہے ۔لوگ جب حج کے لئے جاتے ہیں تو جہاز سے اترتے ہی انہیں بعض ایسے آدمی مل جاتے ہیں جو بڑی محبت سے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور کہتے ہیں آئیے تشریف لائیے ہم آپکی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ وہ اردو بھی جانتے ہیں ۔وہ پنجابی بھی جانتے ہیں ۔وہ کشمیری بھی جانتے ہیں ۔وہ پشتو بھی جانتے ہیںاور بعض لوگ تو ایسے ہوشیار ہوتے ہیں کہ بڑے اطمینان سے جہاز میں اکر حاجیوں کا اسباب اتارنا شروع کر دیتے ہیں اور قلیوں سے کہتے ہیں کہ ادھر آئو اور اسباب اٹھائو ۔جو شخص ان کے ہتھ کنڈوں سے واقف ہوتا ہے وہ تو جانتا ہے کہ یہ لوٹنے کے لئے آئے ہیں مگر جو ناواقف ہوتا ہے وہ بڑا خوش ہوتا ہے کہ معلوم نہیں یہ لوگ کہاں سے میرے باپ دادا کے واقف نکل آئے ہیں اور الحمدللہ کہتے ہوئے ان کے ساتھ چل پڑتا ہے ۔وہ اسے عزت سے بٹھاتے ہیں ملازموں سے کہتے ہیں کہ ہاتھ دھلائو کھانا لائو ۔پانی پلائو اور جب وہ کھا کر فارغ ہو جاتا ہے تو اس کے سامنے ایک بہت بڑا بل پیش کر دیتے ہیں تب اسے پتہ لگتا ہے کہ یہ تو مجھے لوٹ کر لے گئے ہیں ۔غرض منافق بظاہر بڑا چکنا چپڑاہوتا ہے ۔دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ بڑا مودب ہے حالانکہ اس کے اندرونہ میں کھوٹ بھرا ہوا ہوتا ہے ۔یہی حال مکہ والوں کا تھا کہ ان کے کلام میں بڑا تکلف پیدا ہو گیا تھا مگر دل گند سے بھرے ہوئے تھے ۔پس فرماتا ہے ان کی جو چھپی ہوئی بدیاں ہیں ان کو ہم کھینچ کر باہر نکال دیں گے چنانچہ جب اسلام آیا ان کے سارے تکلفات جاتے رہے اور ان کے وہ گند ظاہر ہوئے کہ الامان۔ انہوں نے غلاموں پر ظلم کئے ۔انہوں نے بچوں پر ظلم کئے ۔انہوں نے عورتوں پر ظلم کئے یہاں تک کہ بعض عورتوں کی شرمگاہوںمیں انہوں نے نیزے مارے اور اس طرح ان کو ہلاک کیا ۔پھر تشبیب کے ذریعہ اس طرح بہتا ن تراشی سے کام لیا اور ایسی ایسی گندی گالیاں دیںکہ اگر انسان میں شرافت کا ایک شمہ بھی باقی ہو تو وہ ایسی حیا سوز حرکات نہیں کر سکتا ۔اس سے زیادہ ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ رسول کریمﷺنماز کے لئے جاتے ہیں تو سجدہ کی حالت میں کفار آپ کے سر پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دیتے ہیں اور پھر قہقہہ مار کر ہنس پڑتے ہیں گویا انہوں نے بہت بڑا کمال کیا ہے ۔ مکہ والوں کا مجاور ہونا درحقیقت یہ مفہوم رکھتا تھا کہ وہ قوم کے دینی پیشوا ئوں اور بزرگوںکا یہ حال تھا کہ محمد رسول اللہﷺ نمازکے لئے جاتے ہیں خدا کے آگے سجدہ کرتے ہیں اور وہ لوگ اونٹ کی اوجھڑی جو غلاظت سے لت پت تھی اٹھا کر آپ کے سر پر رکھ دیتے ہیں اور پھر خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے کتنا اچھاکام کیا ۔پس اللہ تعالی فرماتا ہے اے مکہ والو آج تم بڑے اچھے نظر آرہے ہو اور دنیا تمہارے متعلق سمجھتی ہے کہ یہ تم لات کے پجاری ہو ۔تم عزی کے ماننے والے ہو ۔تم منات کے آگے سر جھکانے والے ہو ۔تم خانہ کعبہ کی حفاظت کرنے والے ہو ۔تم بڑے بزرگ اور خدا رسیدہ ہو حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ تمہارے دل خبث اور شرارت سے بھرے ہوئے ہیںاور ان میں گند ہی گند پایا جاتاہے ہم محمد ﷺکو کھڑا کر کے تمہارے ایک ایک گند کو ظاہر کر دیں گے اور دنیا کو بتا دیں گے کہ تم کیسے ناپاک اور گندے اخلاق کے مالک ہو چنانچہ محمد رسول اللہﷺ کے ظہور کے بعد اہل مکہ کے تکلفات کی چادر سب پارہ پارہ ہو گئی ہو گئی ۔مسلمانوں کو گالیاںدی گئیں ۔عورتوں اور غلاموںپر ظلم کئے گئے۔صحابہؓکوگھروںسے نکالا گیا ۔لڑائیوں میں مارے جانیوالوں کے انہوں نے ناک کان کاٹے اور ان کے کلیجے چبائے۔پھر احسان فراموشی کا اس رنگ میں مظاہرہ کیا گیا کہ ایک دفعہ کفار میں سے کچھ لوگ رسول کریمﷺبطور مہمان آئے۔مدینہ کی آب وہوا کے ناموافق ہونے کی وجہ سے وہ بیمار ہو گئے رسول کریمﷺ نے ان کے علاج کاخاص طور پر اہتمام کیا اور صحابہؓسے فرمایا کہ ان کو اونٹنیوںکا دودھ خوب پلائو ۔چنددنوں کے بعد وہ اچھے ہو گئے تو جاتی دفعہ انہوں نے یہ شروفت کی کہ اونٹوں کے نگران کو مار ڈالا اور اونٹ چرا کر لے گئے یہ کیسی حد درجہ کی خباثت ہے کہ بیماری میں علاج کرواتے ہیںکھاتے پیتے ہیں اور جب اچھے ہوتے ہیں تو اونٹ چرا کر لے جاتے ہیں ۔قادیان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بعض دفعہ ایسا ہوتا تھا اور اب بھی کبھی کبھی ہو جاتا ہے کہ بعض مخالف آتے ہیں ،کھانا کھاتے ہیں ،رہائش اختیار کرتے ہیںاور جب جانے لگتے ہیں تو بستر اٹھا کر لے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے احمدیوں کو خوب زک پہنچائی ۔وہ بھی اونٹوں کا دودھ پیتے رہے علاج کرواتے رہے اور جب اچھے ہو کرجانے لگے تو رسول کریمﷺ کے اونٹوں کے نگران کو قتل کردیا اور اونٹ چرا کر لے گئے ۔
پھر ان کی دھوکہ بازی کی یہ حالت تھی کہ ایک دفعہ بعض لوگ رسول کریمﷺکے پاس آئے اور کہنے لگے وعظ ونصیحت کے لئے ہمارے ساتھ کچھ آدمی روانہ فرمائیں ہماری قوم ہدایت کی متلاشی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اسلام کے مبلغین سے اپنی معلومات میں اضافہ کرے رسول کریم ﷺ نے ستر (۷۰)قاری روانہ کر دئے جب وہ گائوں کے قریب پہنچے تو سب نے مل کر ان کو قتل کر دیا اور پھر بڑے خوش ہوئے کہ ہم نے خوب کیا مسلمانوں کے ستر(۷۰)آدمی ہم نے مار ڈالے ۔حالانکہ اس سے محمد رسولﷺ کا کیا بگڑا۔ان کو خدا تعالی نے اور آدمی دے دئیے مگر بے حیائی تو کفار کی ظاہر ہوئی غرض ظلم۔فساد۔تکبر۔شرارت۔احسان فراموشی۔دھوکے بازی۔کمینگی۔بے حیائی۔اتہام تراشی۔غلاموں کو ستانا۔عورتون اور بچوں کو دکھ دینا ۔سب عیوب ان میں پائے جاتے تھے لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ مکہ کے لوگ ایسے برے ہیں۔اہل عرب سمجھتے تھے کہ مکہ والے کتنے اچھے ہیں دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اللہ تعالی فرماتا ہے آج تم اچھے سمجھے جاتے ہو لیکن یاد رکھو ایک دن ہم تمہارے سب گند ظاہر کر دیں گے ۔چنانچہ اسلام کے آنے پر مکہ والوں کا گند ایسا ظاہر ہوا کہ مجاورت کا مصنوعی تقویٰ دھجی دھجی ہو گیا اور اسی وقت اس کی اصلاح ہوئی جب وہ اسلام کی غلامی میں آکر داخل ہوئے۔
ان ربھم بھم یو مئذ لخبیرO
اس دن ان کا رب یقینا ان کی نگرانی کرنے والا ہو گا۔
تفسیر:۔میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ بصیر اور علیم کے الفاظ صرف علمی حالت پر دلالت کرتے ہیں لیکن خبیر کا لفظ اس علم کے مطابق عمل کرنے پر بھی دلالت کرتا ہے یعنی خبیر میں علاوہ خبر رکھنے کے مجرموں کی سزااور ان کی خبر لینے کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے ۔چنانچہ یہ آیت میرے اس دعویٰ کی مصدق ہے یومئذکا لفظ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے کیونکہ محض علم تو اللہ تعالی کو ہمیشہ حاصل ہے اس دن عالم ہونے کے کوئی معنے ہی نہیں۔پس خبیر میں دو باتوں کی طرف اشارہ ہے ایک یہ کہ اس سے تمہارا کوئی جرم پوشیدہ نہ ہو گا اور دوسرے یہ کہ اس علم تفصیلی کے مطابق وہ اس دن بھی جزادے گا ۔یومئذکے ساتھ قرآن کریم میں صرف خبیر کا استعمال ہوا ہے علیم اور بصیرکا استعمال نہیں ہوا ۔اردو میں بھی ’’ خبر لوں گا‘‘کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جو شاید خبیر کر لفظ سے ہی نکلا ہے ۔اسی طرح پنجابی زبان میں بھی کہتے ہیں’’میں تیری خبر لانگا‘‘اور مراد یہ ہوتی ہے کہ میں تجھے تیرے اعمال کا بدلہ دوں گا ۔پس اللہ تعالی فرماتا ہے ان ربھم بھم یومئذ لخبیر۔اس دن ان کا رب ان کا خبیر ہوگا یعنی نہ صرف ان کے حالات سے واقف ہو گا بلکہ ان حالات کی ان کو جزا بھی دے گا ۔چنانچہ قرآن کریم میں ہمیشہیومئذ لخبیرہی استعمال ہوا ہے یومئذ لعلیم یایومئذلبصیر استعمال نہیں ہوا ۔اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں خبیر سے محض علم مراد نہیں بلکہ ان کو سزا دینا مراد ہے اور ان ربھم بھم یومئذ لخبیر کے معنے یہ ہیں کہ اس دن ان کا رب ان کی خبر لے گا ۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس سورۃ کے آخر میں اللہ تعالی نے ان الفاظ کے ذریعہ اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہم انکی خبر تو ضرور لیں گے مگر پہلے نہیںبلکہحصل مافی الصدورکے بعد ۔جب تک ان کے چھپے ہوئے گند پوری طرح ظاہر نہیں ہو جائیں گے ہم ان کو سزا نہیں دیں گے ۔یہ مجرموں کی سزا کے متعلق ایک ایسا اصل ہے جسے بہت سے لوگ اپنی ناواقفیت کی وجہ سے نظر انداز کر دیا کرتے ہیں اور وہ اللہ تعالی کے فرستادہ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ اگر آپ سچے ہیں تو لوگوں پر مخالفت کے فورا بعد عذاب کیوں نازل نہیں ہو جاتا ۔اس شبہ کا اس آیت میں جواب موجود ہے محمد رسول اللہﷺ کے دشمنوں سے خطاب کرتے ہوئے اس جگہ اسی سوال کا جواب دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ہم ایسا کریں تو لوگوں کے دلوں میں کئی قسم کے شکوک وشبہات پیدا ہونے لگیں اور وہ یہ خیال کرنے لگ جائیں کہ یہ لوگ تو بڑے بزرگ اور نیک تھے اللہ تعالی نے ان کو کیوں ہلاک کر دیا ۔اگر محمد رسول اللہﷺکو حکم ہوتا کہ کفار مکہ کو قتل کر دو کیونکہ ان کے دل گناہ اور ظلم کے ارادوں سے پر ہیں تو لوگ کہتے محمد رسول اللہﷺ اور ان کے ساتھیوں نے کتنا بڑا ظلم کیا ہے ۔یہ لوگ تو بڑے شریف اور نیکو کار تھے ۔خدمت دین کے لئے انہوں نے اپنی زندگیوں کو وقف کیا ہو ا تھا ان کو مارنا کس طرح درست ہو سکتا تھا مگر اب جبکہ ان لوگوں کے گند پوری طرح ظاہر ہو چکے ہیں ۔ان کا ظلم انتہا کو پہنچ چکا ہے ہر شریف انسان کہتا ہے اگر ان لوگوں سے مسلمان نہ لڑتے تو کن سے لڑتے ۔بچوں کو انہوں نے مارا۔عورتوں کو انہوں نے مارا ۔مردوں کو انہوں نے مارا۔غلاموں کو انہوں نے مارا اور اس قدر شرمنا ک مظالم ان پر توڑے کہ ان واقعات کو پڑھکر بے اختیار آنکھوں میں آنسو ڈبڈباآتے ہیں ۔اس سے زیادہ بے حیائی کیا ہو گی کہ رسول کریمﷺ کی ایک لڑکی کو جن کی شادی بعثت سے پہلے کفار میں ہو چکی تھی محض توحید سے نقار رکھنے کی وجہ سے کفار مکہ نے طلاق دلوادی ۔ایک دوسری لڑکی کے خاوند سے آپ نے اس کے قید ہونے کے بعد اقرار لیا کہ وہ آپ کی لڑکی کو مدینہ روانہ کر دے گا اس پر جب اس نے ان کو مکہ سے روانہ کیا اور اونٹ پر سوار ہونے پر کسی بد بخت نے ان کے کجاوے کی رسیاںکاٹ ڈالیں اور وہ نیچے گر گئیں ْوہ اس وقت حاملہ تھیں نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ پہنچ کر اسی چوٹ کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔اب بتائو اس میں کونسی شرافت ہے کہ ایک اکیلی لڑکی اونٹ پر سوار ہو کر مدینی جا رہی ہے وہ حاملہ ہے کسی کا کچھ بگاڑ نہیں رہی مگر کگار شرافت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس پر حملہ کرتے ہیں اسے اونٹ سے گرا دیتے ہیں اور اس قدر تکلیف پہنچاتے ہیں کہ مدینہ پہنچ کر اس کا انتقال ہو جاتا ہے کیا دنیا کا کوئی بھی انسان اس قسم کے سلوک کو جائز قرار دے سکتا ہے اور کیا کوئی شخص بھی اس قسم کے حالات کو دیکھ کر یہ کہ سکتا ہے کہ مکہ والوں میں انسانیت کا کوئی شائبہ بھی پایا جاتا تھا ۔یہ ایسی ذلیل غیر شریفانہ حرکت تھی کہ ہند جیسی دشمن اسلام عورت نے اس کو سن کر اپنے کفر کی حالت میں بھی اسے برداشت نہ کیا اور جب وہ شخص اس کے سامنے آیا تو اسے طعنہ دیا کہ اب مکہ کے بہادر آدمیوں کا شغل بے کس اور حاملہ عورتوں پر حملہ کرنا رہ گیا مسلمان بہادروں کے سامنے بھیگی بلی کی طرح دبک کر بیٹھ جا تے ہیں۔
جب مکہ والوں کے مظا لم بڑھ گئے تو رسول کریمﷺ آخر مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں اگر تم مجھے اس شہر میں دیکھنا پسند نہیں کرتے تو میں تمہارا شہر ہی چھوڑ کر چلا جاتا ہوں تم اب تو میرا پیچھا چھوڑ و۔مگر وہ پھر بھی باز نہیں آتے اور تین سو میل پر پہنچ کر مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں ۔یہ وہ گند ہے جو ان کے دلوں میں مخفی تھا اور جس کے ظہور پر اللہ تعالی نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔پس حصل ما فی الصدور کو پہلے اور ان ربھم بھم یومئذ لخبیرکو بعد میں رکھنا بے معنی نہیں بلکہ اس میںبہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ ہم پہلے ان لوگوں کے گند ظاہر کریں گے اور پھر ان پر مسلمانوں سے حملہ کرائیں گے تا دنیا یہ نہ کہہ سکے کہ محمد رسول اللہﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے ظلم کیا ۔وہ ان برائیوں کے ظاہر ہونے کے بعد ہمارے حکم کے ماتحت ان کو ماریں گے اور خوب ماریں گے اور دنیا بھی تسلیم کریگی کہ مسلمانوں نے جو کچھ کیا درست کیا انہوں نے مارا تو اچھا کیا بلکہ انہیں اور زیادہ مارنا چاہیے تھا کیونکہ وہ اسی بات کے مستحق تھے ۔پسحصل ما فی الصدور کو پہلے رکھ کر اس حجت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو کفار پر پوری کی جائے گی ۔فرماتا ہے ہم انہیں پہلے سزا نہیں دیں گے بلکہ حجت تمام ہونے پر سزا دیں گے بے شک پہلے بھی ان کے دلوں میں وہی گند تاھ جو بعد میں ظا ہر ہوا مگر پہلے ہم سزا دیتے تو دنیا کہتی یہ تو بڑے بزرگ تھے ۔نیک اور پارسا تھے ان کو کیوں سزا دی گئی ہے مگر اب لوگ یہ نہیں کہہ سکیں گے ۔وہ تسلیم کریں گے جو کچھ ان سے سلوک ہوا وہ با لکل بجا اور درست ہے غرض اس آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے ان ربھم بھم یومئذ لخبیر ہم خبیر ہیں ان لوگوں کے اندرونی حالات کو خوب جانتے ہیں مگر ہم حجت تمام ہونیکے بعد ان کو سزا دیں گے ۔پہلے ان کے گندظاہر کریں گے اور پھر مسلمانوں سے حملہ کرائیں گے بے شک ہم خبیر ہیں اور ہم پہلے بھی ان کے حالات کو جانتے تھے مگر ہم نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں کے دلوں میں ان کے تقدس کا کوئی خیال باقی رہے۔ہم اس وقت ان کو سزا دیں گے جب حصل ما فی الصدور ہو جائے گا اور ان کے گند لوگوں پر اچھی طرح ظاہر ہو جائیں گے۔
سورۃ العصر مکیۃ
سورۃالعصریہ سورۃ مکی ہے
وھی ثلاث ا یات دون بسملۃ و فیھا رکوع واحد
اس کی بسم ا للہ کے سوا تین آیات ہیں اور ایک رکوع ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیمO
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے(شروع کرتا ہوں)
سورۃ العصر اکثر مفسرین کے نزدیک مکی ہے۔ مستشرقین کے نزدیک بھی یہ ابتدائی مکی سورتوں میں سے ہے۔ میور نے اسے خواطر نفسیہ ( soliloquise) میں سے قرار دیا ہے۔ یعنی وہ سورتیں جو اس کے نزدیک رسول کریم ﷺ کے مکالمہ بالنفس سے تعلق رکھتی ہیں ان سورتوں میں اس نے سورۃ العصر کو بھی شامل کیا ہے اور چونکہ وہ ان کو بالکل ابتدائی سورتیں قرار دیتا ہے اس لئے اس کے نزدیک یہ بالکل ابتدائی مکی سورۃ ہے۔
بعض روایات میں جو ہیں تو غیر معروف ایک عجیب واقعہ اس سورۃ کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔ عمرو بن عاص سے جبکہ وہ ابھی اسلام نہیں لائے تھے یہ روایت کی جاتی ہے کہ ایک دفعہ وہ اپنے کسی کام کے لئے مسلیمہ کذاب کے پاس گئے۔ اس نے پوچھا تمہارے شہر کے نبی پر کوئی تازہ کلام نازل ہوا ہے تو سنائو۔ عمرو بن عاص نے کہا کہ ایک مختصر سی نئی سورۃ ان پر نازل ہوئی ہے مگر ہے بڑی لطیف اور سورۃ العصر اسے سنائی۔ مسلیمہ نے سورۃ العصر سن کرتھوڑی دیر خاموشی اختیار کی پھر ایک بیہودہ سی عبارت با قافیہ پڑھ کر عمرو بن عاص کو سنائی اور کہا کہ یہ کلام ابھی مجھ پر نازل ہوا ہے۔ پھر پوچھا کہ آپ اس کے بارہ میں کیا کہتے ہیں۔ عمرو بن عاص نے کہا کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو تم کو معلوم ہی ہے کہ میں تم کو جھوٹا سمجھتا ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار پر بھی اس مختصر سورۃ کا ایک گہرا اثر تھا۔ حضرت امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ سورۃ بڑے وسیع مطالب رکھتی ہے اگر کوئی شخص اس سورۃ پر تدبر کرے تو اس کی تمام دینی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ دو صحابیؓ تھے جب بھی وہ آپس میں ملنے کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہونے لگتے تو یہ سورۃ ایک دوسرے کو سناتے اور پھر سلام کر کے رخصت ہوتے۔ اس کے بغیر وہ کبھی جدا نہیں ہوتے تھے گویا صحابہؓ اس سورۃ کے مضمون کی وسعت سے خاص طور پر متاثر تھے۔
ترتیب: جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں گذشتہ چند سورتوں سے یہ طریق چلا آرہا ہے کہ ایک سورۃ اسلام کے ابتدائی زمانہ کے متعلق آتی ہے تو دوسری سورۃ اسلام کے دوسرے زمانہ کے متعلق آتی ہے۔ الھکم التکاثراسلام کے ابتدائی زمانہ کے متعلق تھی اور والعصر ان الانسان لفی خسرآخری زمانہ کے متعلق ہے ۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیوی ترقیات کسی قوم کو تباہی سے نہیں بچا سکتیں۔قوموں پر ترقی کا ایک زمانہ ایسا آیا کرتا ہے جب وہ سمجھتی ہیں کہ اب ہمارے تنزل کی کوئی صورت نہیں ۔ چونکہ اسلام پر بھی ایک ایسا زمانہ آنے والا تھا جب اس کے دشمنو ں نے اپنی مادی ترقیات پر نظر رکھتے ہوئے کہنا تھا کہ اب ہماری تباہی کی کوئی صورت نہیں۔ادھر مسلمانوں نے دشمنوں کی حالت کو دیکھ کر سمجھ لینا تھا کہ ہمارے لیے اب ترقی کی کوئی صورت نہیںاس لیے اس زمانہ کی حالت کا نقشہ صورت العصر میں کھینچا گیا ہے ۔گویا اس میں زمانہء مسیح موعودؑکی پیش گوئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی اس سورۃ کو اپنے زمانہ پر چسپاں فرمایا ہے
حل لغات:۔ عصر۔ کہتے ہیںعصر العنب و نحوہ عصرا: استخرج ماء ہ۔ انگور نچوڑ کر اس کا پانی نکالااور عصرالشیء عنہ کے معنی ہوتے ہیں منعہ ایک چیز کو دوسری چیز کے پاس پہنچنے سے روک دیا اور عصر فلانا کے معنی ہوتے ہیں اعطاہ العطیۃ اسے تحفہ دیا۔ عصر ہ کے معنی ہوتے ہیں حبسہ اس کو روک دیا (اقرب ) اور عصر اس کا مصدر ہے۔ اس لئے سب مصدری معنے بھی اس میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ عصر دن کو بھی کہتے ہیں اور عصر کے معنی رات کے بھی ہوتے ہیں اور عصر کے معنے سورج ڈھلنے سے لے کر شام کے وقت تک کے بھی ہیں اور عصر کے معنی صبح سے لے کر سورج کے ڈھلنے تک کے بھی ہیں (اقرب) ۔ گویا یہ لفظ اپنے اندر متضاد معنی رکھتا ہے۔ اس کے معنی دن کے بھی ہیں یعنی وہ دن جس میں سورج چڑھا ہوا ہوتا ہے کیونکہ دن کا لفظ عام طور پر رات اور دن دونوں کے لئے بولا جا تا ہے اور اس کے معنی رات کے بھی ہیں ۔ اسی طرح اس کے معنی صبح سے زوال تک کے بھی ہیں اور زوال سے شام تک کے بھی ہیں۔ اس کی جمع اعصر و عصور آتی ہے اور اس کے معنی علاوہ اوپر کے معنی کے قبیلہ کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ لغت میں لکھا ہے العصر: الرہط والعشیرۃ اور عصر کے معنی المطر من المعصرات کے بھی ہیں۔ یعنی تیز گھنی بدلیوں میں سے جو بارش برستی ہے اسے بھی عصر کہتے ہیں ۔ اور عصر کے معنی تحفہ اور انعام کے بھی ہوتے ہیں اور عصر : عصر: عصر: دھر یعنی زمانہ کے معنوں پر بھی بولا جاتا ہے۔ اس وقت اس کی جمع پہلی جمع کے علاوہ ایک اور بھی استعمال ہوتی ہے۔ پہلے معنوں کے لحاظ سے تو اس کی جمع صرف اعصر و عصور ہوتی ہے لیکن زمانہ کے معنوں میں اس کی جمع اعصر بھی ہے عصور بھی ہے اور اعصار بھی ہے ۔ پھر آگے اعصار کی جمع الجمع اعاصر آتی ہے ۔ والعصر میں وائو قسم کی ہے اور والعصر کے معنی یہ ہیں کہ ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں عصر کو۔ کس بات کی شہادت کے طور پر؟وہ دوسری آیت میں بیان کی گئی ہے کہ ان الانسان لفی خسر یعنی انسان یقینا گھاٹے میں ہے۔
خسر کے معنی گھاٹے کے ہوتے ہیں چنانچہ خسر التاجر فی بیعہ(خسر و خسر و خسرو خسران و خسراۃ) کے معنی ہوتے ہیں وضع فی تجارتۃ اس نے اپنی تجارت میں نقصان اٹھایا و ضد ربح اور یہ نفع کے مقابل کا لفظ ہے۔ یعنی اس کے معنی گھاٹے کے ہوتے ہیں اسی طرح جب خسرا الرجل کہیں تو اس کے معنی ہوتے ہیں ضل وہ گمراہ ہو گیا۔ لیکن کبھی اس کے معنی ہلک کے بھی ہوتے ہیں یعنی وہ ہلاک ہو گیا (اقرب) پس ان الانسان لفی خسر کے معنی یہ ہوئے کہ انسان یقینا گھاٹے میں ہے یا انسان یقینا گمراہی میں مبتلا ہے یا انسان یقینا ہلاکت کی طرف جا رہا ہے۔
والعصرO ان الانسان لفی خسر O
(مجھے) قسم ہے (آنحضرت صلعم کے ) زمانہ کی (کہ ) یقینا (نبیوں کا مخالف ) انسان ( ہمیشہ ہی )گھاٹے میں ( رہتا ) ہے۔
تفسیر: عصر کے مختلف معانی جو اوپر بتائے گئے ہیں ان کے لحاظ سے اس آیت کے بھی مختلف معنی ہو جائیں گے۔ عصر کے ایک معنی دن کے پہلے حصہ یعنی صبح سے دوپہر تک کے ہیں اور دوسرے معنی دن کے پچھلے حصہ یعنی دوپہر سے شام تک کے ہیں ۔ چونکہ قرآن کریم اپنے مطالب میں ذوالوجوہ ہے اور اس کی ایک ایک آیت اپنے اندر کئی بطون رکھتی ہے اس لئے جتنے معنے کسی لفظ کے لغتََا یا محاورۃََ ہو سکتے ہوں اور وہ کسی آیت پر چسپاں بھی ہوتے ہوں ہم ان تمام معانی کو ملحوظ رکھ سکتے ہیں ۔ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت اگر عصر کے معنے دن کے پہلے اور پچھلے حصہ کے کیے جائیں تو اس جگہ عرفی دن جس کا مادی سورج کے ساتھ تعلق ہے وہ مراد نہیں ہو گا بلکہ رسول کریم ﷺکا زمانہ رسالت مراد ہو گا ۔ کیونکہ قرآن کریم نے صراحتاََ رسول کریمﷺکو سورج قرار دیا ہے جیسا کہ سورۃ الشمس میں اس کا ذکر آتا ہے ۔ جب رسول کریم ﷺسورج ہوئے تو لازمی طور پر آپ کا زمانہ دن کہلائے گا اورایک دن کا ابتدائی حصہ ہو گا اور ایک آخری حصہ ہو گا ۔ پس عصر کے معنی اگر ہم دن کے ابتدائی اور آخری حصہ کے لیںتو جہاں مادی طور پر روزانہ چڑھنے والے سورج کو مد نظر رکھتے ہوئے دن کا ایک ابتدائی حصہ مراد لیتے ہیں اور ایک آخری حصہ مراد لیتے ہیں ۔ وہاں قرآن کریم نے چونکہ خصوصیت کے ساتھ رسول کریم ﷺ کے زمانہ کا نام دن رکھا ہے اس لئے آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم زمانہء نبوت محمدیہؐ کے ابتدائی حصے کو بھی تمہارے سامنے شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ہم زمانہء نبوت محمدیہؐ کے آخری حصہ کو بھی تمہارے سامنے بطور شہادت پیش کرتے ہیں۔ اگر تم ان دونوں حصوں کو دیکھو گے اور ان پر غور اور تدبر سے کام لو گے تو تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ ان الانسان لفی خسر انسان یقینا گھاٹے میں ہے۔
ان معنوں کے رو سے الانسان سے وہ انسان سمجھا جائے گا جو محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں کھڑا ہوا۔ کیونکہ ہر جگہ الفاظ کے ان کی نسبت کے لحاظ سے معنی ہوتے ہیں۔ جب رسول کریم ﷺ سورج ہوئے تو گھاٹا پانے والا انسان بہرحال وہی ہوا جس نے سورج سے فائدہ نہ اٹھایا۔ پس الانسان سے اس جگہ سورج کے مخالف کھڑا ہونے والا انسان مراد ہے۔ یعنی وہ جس نے رسول کریم ﷺ کی بعثت سے فائدہ نہ اٹھایا۔ بالخصوص اس وجہ سے بھی الاالذین امنو و عملوالصلحت میں مومنوں کا استثنیٰ کر دیا گیا ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ الانسان سے غیر مومن انسان مراد ہے نہ کہ مومن۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جگہ کفار کو الانسان کیوں کہا گیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کفار کو الانسان اس لئے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت چلی آئی ہے کہ جب بھی اس کی طرف سے کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے اس پر ابتداء میں ایمان لانے والے عام طور پر ادنیٰ طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں ۔ بے شک وہ عالم ہوں ، متقی ہوں، اللہ تعالیٰ کے احکام کو سمجھنے والے ہوں ، دینی امور میں نہایت بالغ نظر رکھنے والے ہوں، روحانیت اور تقویٰ کے بلند مقام تک پہنچے ہوئے ہوں پھر بھی دینی لحاظ سے وہ ادنیٰ طبقہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس نہ دولت ہوتی ہے نہ حکومت ہوتی ہے نہ ظاہری طاقت ہوتی ہے اور ان کے دشمن ان میں سے ایک ایک چیز کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ صاحب دولت بھی ہو تے ہیں ، وہ صاحب وجاہت بھی ہوتے ہیں اور صاحب حکومت بھی ہوتے ہیں اسی وجہ سے وہ ان کو کسی گنتی اور شمار میں نہیں سمجھتے۔ ہمارے ہاں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ جب کسی کی تحقیر کرنی ہو تو کہا جاتا ہے وہ کونسی گنتی میں ہے یا کہا جاتا ہے وہ بھی کوئی آدمی ہے۔ پس الانسان میں کفار کی اسی ذہنیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مسلمان ان کی نگاہ میں ایسے بے حقیقت ہیں کہ ان کو انسانوں میں شمار ہی نہیں کرتے۔ صرف اپنے آپ کو انسان سمجھتے ہیں۔ پس چونکہ کفار نبیوں کے اتباع کے متعلق ہمیشہ یہ کہا کرتے ہیں کہ وہ بھی کوئی آدمی ہیں۔ آدمی تو ہم ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ان کے مقابل میں طنزیہ رنگ اختیار کرتے ہوئے کہتا ہے یہ جو اپنے آپ کو آدمی سمجھتے ہیں اور انسان قرار دیتے ہیں ہم عصر کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تباہی اور بربادی کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو بے شک انسان قرار دیں اور بے شک محمد رسول اللہ ﷺپر ایمان لانے والوں کے متعلق کہتے رہیں کہ وہ بھی کوئی آدمی ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ اپنے آپ کو انسان قرار دینے والے اور دوسروں کو دائرہ انسانیت سے خارج سمجھنے والے تباہی اور بربادی کے راستہ کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ گویا جس لفظ سے وہ اپنے آپ کو یاد کیا کرتے تھے اور جس لفظ کا استعمال وہ اپنے لئے فخر کا موجب سمجھتے تھے اسی کو طنزیہ طور پر ان کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے قرآن کریم میںایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہیذق انک انت العزیزالکریم ( الدخان ۳ع۱۶) جب دوزخی دوزخ میں ڈالا جائے گا تو اسے کہا جائے گا کہ تو اس عذاب کا مزہ چکھ۔ تو تو بڑا عزت والا ہے تو تو بڑے رتبے والا ہے۔ حالانکہ وہ اس وقت دوزخ میں داخل کیا جا رہا ہو گا اور اس لحاظ سے اس کی عزت اور رتبے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر وہ عزت والا ہوتا تو دوزخ میں کیوں ڈالا جاتا اور اگر رتبے والا ہوتا تو آخرت میں کیوں ذلیل ہوتا۔ اس کا دوزخ میں ڈالا جانا ہی یہ بتاتا ہے کہ نہ اسے عزت حاصل تھی اور نہ اسے رتبہ حاصل تھا۔ مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ دوزخ میں ڈالتے وقت اس سے کہا جائے گا ذق انک انت العزیزالکریم ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ طنزیہ طور پر ان الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ تو تو کہا کرتا تھا کہ میں بڑا عزیز ہوں اور تو کہا کرتا تھا کہ میں بڑا کریم ہوں ۔ آج تو دوزخ میں جا اور دیکھ کہ تیرے عزیز اور کریم ہونے کا دعویٰ کہاں تک حق بجانب تھا۔ اسی طرح الانسان میں وہ دعویٰ انسانیت مراد ہے جو دشمنان اسلام کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ آدمی تو ہم ہیں یہ بھلا کس گنتی اور شمار میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے گنتی اور شمار والے انسان تجھے پتہ لگ جائے گا کہ تو گھاٹے کی طرف جا رہا ہے تیرے دعوے سب خاک میں مل جائیں گے اور جن لوگوں کو تو حقارت کے ساتھ یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتا کہ وہ بھی کوئی انسان ہیں ان بظاہر ادنیٰ نظر آنے والے لوگوں کے مقابلہ میں تجھے ایسی ذلت اور رسوائی نصیب ہو گی کہ دنیا تیرے وجود سے عبرت حاصل کرے گی۔ آخر یہ غور کرنے والی بات ہے کہ وہ اپنے آپ کو الانسان کیوں کہتے تھے۔ ان کا اپنے آپ کو الانسان کہنا اس وجہ سے تھا کہ جو چیزیں ان کے پاس تھیںان کی وجہ سے لوگ یقینی طور پر جیتا کرتے ہیں اور جو چیزیں مسلمانوں کے پاس نہیں تھیں ان کا فقدان لوگوں کے لئے یقینی طور پر شکست کا موجب ہوا کرتا ہے۔ مثلا ً وہ اپنے آپ کو الانسان اس لئے کہتے تھے کہ ہم حاکم ہیں اور مسلمان محکوم ہیں اور یہ ایک واضح امر ہے کہ دنیا میں عام طور پر حاکم ہی جیتا کرتے ہیں محکوم نہیں جیتا کرتے۔ بے شک حاکم بھی بعض دفعہ ہار جاتے ہیں مگر اس وقت جب رعایا ان کے خلاف ہو۔ اگر رعایا ان کے ساتھ ہوتووہ شکست نہیں کھاتے۔ اسی طرح جب وہ کہتے تھے کہ ہم آدمی ہیں مسلمان بھلا کس گنتی اور شمار میں ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوا کرتا تھا کہ ہم تو کثیر ہیں اور یہ ایک چھوٹا سا گروہ ہیں ۔ ان ھولاء لشر ذمۃ قلیلون (الشعراء ۴ع۸) انہوں نے ہمارے مقابلہ میں کیا فتح حاصل کرنی ہے۔ اور یہ بھی ایک واضح امر ہے کہ عام طور پر اکثریت ہی فتح حاصل کرتی ہے اقلیت فتح حاصل نہیں کرتی۔ پھر قوموں کو جتھہ غلبہ دیا کرتا ہے اور یہ جتھہ بھی اہل مکہ کے پاس تھا محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس نہیں تھا۔ اسی طرح قوموں کودولت سے غلبہ حاصل ہوا کرتا ہے مگر دولت بھی دشمنوں کے پاس تھی محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس نہیں تھی۔ قوموں کو سیاست اور اردگرد کی اقوام سے دوستانہ تعلقات کے نتیجہ میں غلبہ حاصل ہوا کرتا ہے مگر سیاست بھی دشمنوں کے قبضہ میں تھی محمد رسول اللہ ﷺ کے قبضہ میں نہیں تھی۔ قوموں کو صنعت وحرفت سے غلبہ حاصل ہوا کرتا ہے مگر صنعت وحرفت بھی محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں نہیں تھی بلکہ کفار مکہ کے ہاتھ میں تھی۔ غرض اتنی چیزیں دنیا میں کسی قوم کو ترقی دینے کا موجب ہوتی ہیں وہ سب کی سب محمد رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کے ہاتھ میں تھیں۔ اور جتنی چیزیں بظاہر کسی قوم کی شکست کا موجب ہوتی ہیں وہ سب محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوںمیں پائی جاتی تھیں پس فرماتا ہے بے شک تم اپنے متعلق کہتے ہو کہ ہم آدمی ہیں اور ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تمہارے پاس وہ تمام چیزیں موجود ہیں جو انسان کو انسان بنا دیتی ہیں ۔ تمہارے پاس حکومت بھی ہے۔ تمہارے پاس دولت بھی ہے۔ تمہارے پاس سیاست بھی ہے۔ تمہارے پاس صنعت وحرفت بھی ہے۔ تمہارے پاس تجارت بھی ہے۔غرض وہ سب چیزیں تمہارے پاس ہیں جن سے دنیا میں قوموں کو عروج حاصل ہوا کرتا ہے مگر باوجود یہ تسلیم کر لینے کے کہ الانسان کہلانے کے تم ہی مستحق ہو۔ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھی دنیوی نقطئہ نگاہ سے کسی گنتی اور شمار میں نہیں ہیں پھر بھی ہم بطور پیش گوئی کے یہ اعلان کرتے ہیں کہ اے کامل انسان ! اے ہر قسم کے سازوسامان رکھنے والے انسان !اس زمانہء محمدیہ ؐ میں تیرے سازوسامان تیرے کام نہیں آئیں گے اور تو گھاٹے میں ہی رہے گا۔ بے شک دنیا میں عام طور پر یہ قانون جاری ہے کہ جب کسی کے پاس سیاست ہو۔ جب کسی کے پاس جتھہ ہو۔ جب کسی کے پاس علم ہو۔ جب کسی کے پاس حکومت ہو۔ جب کسی کے پاس دولت ہو۔ جب کسی کے پاس صنعت و حرفت ہو تو ایسا شخص ضرور جیتا کرتا ہے۔ مگر یہاں ایسا نہیں ہوگا۔ اب زمانہء نبوت محمدیہؐ آگیا ہے اور اب اس قانون کی بجائے ایک اور قانون جاری کر دیا گیا ہے۔ اب دولت کے باوجود تم ہاروگے۔ سیاست کے باوجود تم ہاروگے۔ جتھہ کے باوجود تم ہاروگے۔ علم کے باوجود تم ہاروگے۔ حکومت کے باوجود تم ہاروگے۔صنعت و حرفت کے باوجود تم ہاروگے۔ اور تمہارا یہ ہارنااس بات کا ثبوت ہو گا کہ محمد رسول اللہ ﷺ اپنے دعویٰ رسالت میں سچے ہیں۔ ورنہ اگر کسی کے پاس جتھہ نہ ہو تو اس کا ہارنا کونسا ہارنا ہے۔ اگر کسی کے پاس علم نہ ہو تو اس کا ہارنا کونسا ہارنا ہے۔ اگرکسی کے پاس حکومت نہ ہو تو اس کا ہارنا کونسا ہارنا ہے۔ اگر کسی کے پاس سیاست نہ ہو تو اس کا ہارنا کونسا ہارنا ہے۔ یہ ساری چیزیں ہوتے ہوئے کسی قوم کا گھاٹے میں چلے جانا اصل گھاٹا ہے اور یہی وہ تنزل اور بربادی کا مقام ہے جس کی اہل مکہ کو ان الفاظ میں خبر دی گئی ہے کہ والعصر ان الانسان لفی خسر ۔ ہم اس زمانہ کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ انسان دنیوی طور پر خواہ کتنے سازوسامان رکھتا ہوخدا تعالیٰ کو چھوڑ کر وہ ضرور گھاٹے میں چلا جاتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس بات کی شہادت ہوئی؟اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں عام قاعدہ یہ ہے کہ دنیوی سامانوں سے قومیں جیتا کرتی ہیں ہارا نہیں کرتیں۔اسی وجہ سے لوگ کہا کرتے ہیںکہ چونکہ دنیا میںتعلیم سے ترقی حاصل ہوتی ہے ہمیں بھی تعلیم حاصل کرنی چاہیے یا چونکہ سیاست میں حصہ لینے کی وجہ سے دنیا میں ترقی ہوتی ہے اس لیے ہمیں بھی سیاست میں حصہ لینا چاہیے ۔ وہ اپنی تمام ترقی دنیوی تدابیر سے وابستہ قرار دیتے ہیںاور خیال کرتے ہیں کہ اگر کوئی ترقی کرنا چاہے تو اسکے لیے واحد طریق یہی ہوتا ہے کہ وہ دنیوی سامان اپنے پاس زیادہ سے زیادہ رکھے اس کے پاس علم بھی ہو،اس کے پاس دولت بھی ہو ،اس کے پاس طاقت بھی ہو ، اس کے پاس جتھہ بھی ہو ، اس کے پاس صنعت و حرفت بھی ہو ۔ اور جب کسی کو یہ تمام چیزیں میسر آجائیں تو وہ خیال کرتا ہے کہ اب اس کا ترقی نہ کرسکنا بالکل محال اور ناممکن ہے ۔ چونکہ عام طور پر دنیا میں ہمیں یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ قومی ترقی دنیوی تدابیر سے وابستہ ہوتی ہے اس لیے جب کہا جاتا ہے کہ اگر تم نے خدا تعالی کے احکام پر عمل کیا تو ترقی حاصل کرو گے اور اگر عمل نہ کیا تو گر جائو گے ۔ تو وہ لوگ جو دنیوی تدابیر کو ہی ہر قسم کی کامیابیوں کا علاج سمجھتے ہیں حقارت آمیزہنسی ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم یہ کیا کہ رہے ہو کہ خدا تعالی کے احکام پر عمل کیا توہمیں ترقی ہو گی اور اگر عمل نہ کیا تو ترقی نہیں ہوگی ۔دنیا میں تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ جو شخص دنیوی تدابیر کو اپنے کمال تک پہنچا دیتا ہے وہ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہو جاتا ہے خواہ وہ خدا تعالی کے شرعی احکام کاکتنا ہی منکر ہو اور جب حالت یہ ہے تو تمہارا اللہ تعالیٰ کے وجود کو پیش کرنا اور کہنا کہ خدا تعالیٰ کے احکام سے انحراف کیا تو تم تنزل میں گر جائو گے بالکل خلاف عقل امر ہے۔ خدا تعالیٰ کی حکومت تو ہمیں اس دنیا نظر ہی نہیں آتی ۔ دنیا خدا تعالیٰ کی منکر ہوتی ہے مگر پھر بھی ترقی کرتی جاتی ہے۔ اور جب دنیوی تدابیر سے کام لینے کے نتیجہ میں ہی تمام کارخانہ عمل چل رہا ہے تو ہمیں تمہاری بات کا یقین کیونکر آئے اور کس طرح پتہ لگے کہ خدا تعالیٰ کی حکومت اور اس کا رعباور دبدہ بھی اس دنیامیں جاری ہے ۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ لوگ خداتعالیٰ سے بالکل باغی ہو چکے ہیں مگر پھر بھی ترقی حاصل کر لیتے ہیں ۔ پس اگر تمہاری یہ بات اپنے اندر کوئی وزن رکھتی ہے تو تم خداتعالیٰ کی حکومت کا ہمارے سامنے کوئی ثبوت پیش کرو ۔ ورنہ یہ ایک واضح امر ہے کہ دنیوی ترقیات میں خدا تعالیٰ کوئی دخل نہیں۔ یہ چیز محض دنیوی تدابیر سے وابستہ ہوتی ہے ۔ جو شخص ان تدابیرمیں پورا حصہ لیتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو نہیں لیتا وہ ناکام رہتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ کسی وقت دنیوی تدابیر سے کام لے کر بعض لوگوں کا دنیا پر غالب آجانا یا ترقی کرنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ خدا تعالیٰ کی حکومت اس دنیا میں نہیں ۔ کیونکہ ایک زمانہ ایسا ہوتا ہے جب دنیا کے پاس اپنی ترقی کے تمام سامان موجود ہوتے ہیں ۔ مگر جب کوئی نبی آتا ہے تو اکیلا ہی ساری دنیا کے مقابلہ میں جیت جاتا ہے اور سازو سامان رکھنے والے ناکامی اور نامرادی سے حصہ لیتے ہیں۔ اس وقت پتہ لگ جاتا ہے کہ خدا ہے۔ ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ اکیلا شخص تو جیت جاتا اور ساری دنیا اپنے تمام سامانوں کے ساتھ شکست کھا جاتی پس فرماتا ہے ان الانسان لفی خسر۔یہ جواصول ہے کہ خدا تعالیٰ کا مقابلہ کرکے کوئی انسان جیت نہیں سکتا اس اصول کو ہر زمانہ میں نہیں دیکھا جاسکتا ۔ صرف زمانہ نبوت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ وقت ایسا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنی طاقت اور قوت اور جلال کا اظہار کرتا ہے۔ اگر اس وقت بھی لوگ جیت جائیں تو بے شک کہا جا سکتا ہے کہ جب زمانہ نبوت میں بھی لوگ غالب آگئے تو خدا تعا لیٰ کی خدائی کا کیا ثبوت رہا۔ مگر جب اس زمانہ میں دنیا اپنے تمام سامانوں کے باوجود کامیاب نہیں ہوتی اور وہ اپنی ہر تدبیر میں بری طرح ناکامی کا منہ دیکھتی ہے تو یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ دنیا پر خدا تعالیٰ کی حکومت ہے۔ اگر کسی زمانہ میں وہ اپنی حکومت ظاہر نہیں کرتا تو اس سے اس کی حکومت کی نفی نہیں ہو جاتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ جا سکتا ہے کہکوئی زمانہ ایسا بھی ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنی حکامت ظاہر نہیں کر نا چاہتا ورنہ اس کی حکومت کی نفی نہیں ہو سکتی کیونکہ زمانہ نبوت میں جب وہ اپنی حکومت ظاہر کرتا ہے تو ساری دنیا اپنے سارے سامانوں کا ساتھ خدا تعالیٰ کے نبی کے مقابلہ میں شکست کھا جاتی ہے۔ غرض خدا تعالیٰ کی حکومت اور اس کے دبدبہ اوراس کی شوکت کا فیصلہ صرف زمانہ نبوت سے ہوا کرتا ہے ۔ اگر زمانہ نبوت نی ہو تو تو دنیا کو دیکھ کر یہ قیاس کر لینا کہ چونکہ دنیا نے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کئے بغیر بڑی ترقی حاصل کر لی ہے اس لئے معلوم ہوا کہ دنیا پر خدا تعالیٰ کی حکومت نہیں بالکل غلط اور باطل خیال ہو گا۔ کیونکہ اگر دنیا پر اس کی حکومت نہیں تو وجہ کیا ہے کہ زمانہ نبوت میں ایک کمزور انسان جو ہر قسم کے سامانوں سے تہیدست ہوتا ہے ساری دنیا کے مقابلہ میں جیت جاتا ہے ۔ آخر اس کی کوئی طبعی وجہ ہونی چاہیئے اور چونکہ طبعی وجہ کوئی نہیں، ادھر ہمیں نبی کا دعویٰ نظر آتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور وہ مجھے مخالف حالات کے باوجود کامیابی عطا فرمائے گا تو یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ وواقعہ میں خدا تعالیٰ کی حکومت اس دنیا پر جاری ہے۔ دنیا میں بھی دیکھ لو ماں باپ کے پاس کئی دفعہ بچے شور مچا رہے ہوتے ہیں مگر وہ ان کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کرتے۔ لیکن ایک اور وقت ایسا آتا ہے جب کوئی بچہ ذرا بھی شور ڈالتا ہے تو باپ اسے ایک تھپڑ رسید کر دیتا ہے اور وہ اسی وقت خاموش ہو جاتا ہے تب پتہ ہے کہ باپ کی حکومت موجود ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ ایک طالبعلم سبق یاد کرکے سکول میں نہیں جاتا تو استاد اسے کچھ بھی نہیں کہتا ۔ مگر ایک دن جب وہ سبق نہیں سناتا تواستاد اسے بید کی سزا دے دیتا ہے اور لوگوں کو پتہ لگ جاتا ہے کہ استاد کی حکومت موجود ہے۔ پس کسی وقت ماں باپ کا اپنے بچوں کو خاموش نہ کرانا یا استاد کا اپنے شاگرد کو بید کی سزا نہ دینا اس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ ماں باپ کی بچوں پر حکومت نہیں یا استاد کی شاگردوں پر حکومت نہیں ۔ کیونکہ جب ماں باپ یا استاد سزا دیتے ہیں ہر ایک کو پتہ لگ جاتا ہے کہ انکی حکومت موجود تھی۔ صرف اتنی بات تھی کہ پہلے انہوں نے اس حکومت سے کام نہیں لیا تھا۔ اسی طرح بیسیوںدفعہ لوگ گورنمنٹ کے خلاف شور مچاتے ہیں مگر گورنمنٹ ان کے متعلق کوئی کاروئی نہیں کرتی ۔ لیکن ایک دن آتا ہے جب حکومت کے خلاف کوئی ذرا سا بھی شور مچائے تو اسے فوراَگرفتار کا لیا جاتا ہے ۔ اب اگر گورنمنٹ کچھ عرصہ تک کسی کو گرفتار نہیں کرتی تو اس کے یہ معنے نہیں ہو تے کہ گورنمنٹ موجود نہیں کیونکہ دوسرے وقت حکومت اسے گرفتار کر کے سزا دے دیتی ہے جو ثبوت ہوتا اس بات کا کہ گورنمنٹ موجود ہے پس گورنمنٹ کا کسی کو نہ پکڑنا اس بات کا ثبوت نہیں ہوتا کہ حکومت نہیں بلکہ اس کا پکڑنااس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ حکومت ہے ۔یہی دلیل اللہ تعالی اس جگہ بیان کرتا ہے کہ زمانہ نبوت محمدیہ کے ہم اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیںکہ انسان خدا تعالی کو چھوڑ کر اپنے طور پر کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔اور اگر کرتا ہے تو اسکے معنے یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالی کی طرف سے اسے ڈھیل دی گئی ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ خدا تعالی کو چھوڑ کر انسان ہمیشہ گھاٹے میں رہتا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب خدا چاہتا ہے کہ دنیا اس کے احکام کے تابع چلے تو وہ اپنا نبی لوگوں میں بھیج دیتا ہے ۔پھر خواہ دنیا کے پاس کتنے بڑے سامان ہوںوہ ان سے کام لے کر بھی جیت نہیں سکتی۔
عصرکے دوسرے معنی دن کے آخری حصہ کے ہیں ان معنوں کے لحاظ سے وا لعصر ان الا نسان لفی خسر کا مفہوم یہ ہے کہ جب اسلام پر تنزل کا زمانہ آئے گا اور اللہ تعالی اپنے دین کے احیا ء کے لئے محمد رسول اللہﷺکو دوبارہ مبعوث فرمائے گا اس وقت پھر محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان رکھنے والوں کے پاس کسی قسم کے ظاہری سامان نہیں ہونگے ۔دنیا سمجھے گی کہ دشمن بڑا طاقتور اور قوی ہے۔ لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی جماعت سخت کمزور ہے ۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی جماعت جیت جائے اور دشمن اپنے تمام سازو سامان کے ساتھ شکست کھا جائے ۔ مگر باوجود اس حقیقت کے کہ دشمن طاقتور ہو گا اور محمد رسول اللہﷺ کو ماننے والے سخت کمزور ہوں گے آخر نتیجہ یہی نکلے گا کہ ان الانسان لفی خسر۔ان کے مقابل کے دشمن جو یہ کہا کریں گے کہ ہم ہی انسان ہیں یہ ہمارے مقابلے میں بھلا کیا حیثیت رکھتے ہیں وہ انسان کہلانے والے ہار جائیں گے اور جن کو کسی گنتی میں نہیں سمجھا جاتا تھا وہ اللہ تعالی کی نصرت اور اسکی تائید کے ساتھ کامیاب ہو جائیں گے پہلے زمانہ میں لوگوں کو اس اصول کی صداقت کا تجربہ ہو چکا ہے ۔دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح وہ لوگ جو محمد رسول اللہﷺاور آپ کے اتباع کوذلیل سمجھا کرتے تھے ہار گئی اور محمد رسول اللہﷺ اور آپ کے ساتھی سامان نہ رکھنے کے باوجود جیت گئے اور پھر فتح و کامیابی کا یہ زمانہ چند سالوں تک نہیں رہا بلکہ صدیوں تک چلتا چلا گیا۔مسلمانوں نے اس وقت سائنس کی ایجادات میں خا ص طور پر دسترس حاصل نہیں کر لی تھی ۔ نہ ان میں تجارت کا کوئی خاص ملکہ پیدا ہو گیا تھا ۔ نہ انہیں علمی لحاظ سے دوسروں پر کوئی غیر معمولی فوقیت حاصل تھی۔ وہ ویسی ہی تجارت کرتے تھے جیسے دوسرے لوگ تجارت کرتے ہیںویسا ہی ان کے پاس مال تھا جیسا دوسروں کے پاس مال تھا ۔ ویسا ہی ان کا علم تھا جیسے دوسروں کا علم تھا ۔ مگر اس کے باوجود اللہ تعا لیٰ نے ہر قسم کی ترقی اسلام کی وابستگی کے سا تھ مخصوص کر دی تھی نہ یورپ میں یہ خوبی پائی جاتی تھی۔نہ چین میں یہ خوبی پائی جاتی تھی ۔ نہ یہ خوبی جاپان میں پائی جاتی تھی۔مگر جو مسلمانوں سے ملتا تھااس اس میں تروی کی روح پیدا ہو جاتی تھی۔اسی طرح علوم مو جو د تھے،محنت کرنے والی قومیں موجود تھیں،روپیہ خرچ کرنے والی لوگ موجود تھے۔مگر اسلام کے سوااور کوئی چیز دنیا کو صدیوں تک ترقی کی طرف نہ لے جا سکی۔آخر وجہ کیا ہے کہ انسانی تدا بیراس وقت ناکرہ ہو گئیں ؟اس کی وجہ در حقیقت یہی تھی کہ وہ زما نہ ظہو رنبوت تھا جس میں خدا تعا لیٰ کا ایک نیاقانون جاری ہو جاتا ہے اور جس میں محض دنیوی تدابیر سے کام نہیں چل سکتا بلکہ ایمان کو عمل کے ساتھ وابستہ کر دیا جاتا ہے ۔اس وقت خدا تعالی کا یہ حکم تھا کہ اب محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں ہی دنیا کی ترقی ہے ۔ جو شخص اپنے آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کے متبعین میں شامل کر لے گا وہ جیت جائے گا اور جو اپنے آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کے متبعین میں شامل نہیں کرے گا وہ ہار جائے گا ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ ہر قوم جو اسلام سے دور رہی ترقی سے بھی دور رہی اور ہر قوم جو اسلام سے وابستہ ہوئی وہ ترقی سے بھی ہمکنار ہوگئی۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو نظارہ تم اسلام کے ابتدائی زمانہ میں دیکھ چکے ہو ویسا ہی نظارہ اسلام کے آخری زمانہ میں بھی رونما ہوگا ۔ چنانچہ اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود میں رسول کریم ﷺ کی دوسری بعثت ہوئی ہے اس زمانہ میں بھی ایسی قومیں موجود ہیں جو سمجھتی ہیں کہ ہم ہی انسان ہیں ۔چنانچہ جب ہو ہیو مینی ٹیرینHUMANITRAIAN کا لفظ استعمال کرتی ہیں۔تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یورپ کے لوگوںکو یورپ کے لوگوں سے سختی نہیں کرنی چاہیئے یا امریکہ کے لوگوں کو امریکہ کے لوگوں سے سختی نہیں کرنی چاہیے اس کے علاوہ ان کا اور کوئی مفہوم نہیں ہوتا ۔ اسی طرح جب وہ حریت و مساوات کے نعرے بلند کرتے ہیںتو اس حریت اور آذادی سے بھی ان کا مطلب صرف اتنا ہوتا ہے کہ مغربی لوگوں کو آذادی ملنی چاہیے ایشیا کے لوگ ان کے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی نہیں ہوتے کیونکہ ایشیا والوں کو وہ انسان ہی نہیں سمجھتے۔ پس فرماتا ہے وہ زمانہ پھر آنے والا ہے جب دنیا کا ایک طبقہ اپنے آپ کو انسان سمجھتے ہوئے باقی سب دنیا کو ذلیل قرار دے گا ۔ اس زمانہء نبوت میں بھی باوجود اسکے کہ دشمنان اسلام کے پاس ہر قسم کے سامان ہوں گے اور دنیا ان کی طاقت کو دیکھتے ہوئے کہے گی کہ یہ لوگ کبھی ہار نہیں سکتے ۔ انکی شوکت کبھی مٹ نہیں سکتی ۔ ان کا رعب اور دبدبہ کبھی زائل نہیں ہو سکتا ۔ ہم تمہیں خبر دیتے ہیں کہ چونکہ وہ زمانہ نبوت ہوگا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی اس زمانہ میں دوسری بعثت ہو گی اس لیے باوجود سامان رکھنے کے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی کمزور نظر آنے والی جماعت کے مقابلہ میں ہار جائیں گے ان کی طاقت کچل دی جائے گی اور یہ نشان دنیا میں پھر ظاہر ہوگا کہ زمانہ نبوت میں جو قوم اللہ تعالی کے انبیاء کے مقابلہ میں کھڑی ہوتی ہے وہ یقینا خسران وتباب میں رہتی ہے ۔ بعض لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ تم ایسا کیوں کہتے ہو کہ نبی پر ایمان لائے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی ۔ دنیا کی ترقی تو دنیوی سامانوں سے وابستہ ہے نہ کہ ایمان باللہ اوع ایمان با لرسل کے ساتھ ۔ جب دنیا میں ہمیشہ سے وہی اقوام جیتتی چلی آئی ہیں جو اپنے ساتھ دنیوی سامان رکھا کرتی ہیں تو اس نظریہ کے خلاف تم یہ نیا نظریہ کیوں پیش کر رہے ہو کہ جب تک لوگ اللہ تعالی کے مامور پر ایمان نہ لائیں وہ کبھی ترقی حاصل نہیں کر سکتے ۔ آج کل بھی احمدیت کے مقابلہ میں مسلم اور غیر مسلم دونوں طبقوں کی طرف سے یہ سوال پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ترقی کا اصل ذریعہ تو یہ ہے کہ مدرسے جاری کئے جائیںیونیورسٹیاں بنائی جائیں۔ کارخانے قائم کئے جائیں ۔صنعت وحرفت کو فروغ دیا جائے ۔ سیاسی امور میں حصہ لیا جائے۔اپنی طاقت اور جتھ کو بڑھایا جائے ۔نہ یہ کہ ان امور کی طرف تو توجہ نہ کی جائے اور نبی پر ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت دینی شروع کر دی جائے ۔ نبی پر ایمان لانا کسی قوم کو ترقی نہیں دے سکتا ۔ ترقی کی صورت صرف یہی ہے کہ دنیوی تدابیر کو اپنے کمال تک پہنچا دیا جائے اور ہر قسم کے ماد ی سامان جو ترقی کے لئے ضروری ہوتے ہیں ان کو جمع کیا جائے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر زمانہ میں دنیا دنیوی اسباب سے ترقی کرتی ہے لیکن زمانہ نبوت میں دنیوی اسباب سی نہیںبلکہ روحانی اسباب سے ترقی کیا کرتی ہے تاکہ خدا کا جلال ظاہر ہو اور تا دنیا کی خادم ثابت ہو ۔ اس کے بغیر اللہ تعالی کی باد شاہت دنیا پر ثابت نہیں ہو سکتی وہ باد شاہت جس کے متعلق حضرت مسیح ناصریؑ نے بھی دعا کی اور کہا اے خدا جس طرح تیری بادشاہت آسمان پر ہے ویسی ہی زمین پر بھی آئے ۔ اگر دنیا ہمیشہ دنیوی سامانوں سے جیتتی چلی جائے تو لوگو ں کو خدا تعالی کی باد شاہت کا کس طرح پتہ لگ سکتا ہے اور وہ کیونکر معلوم کر سکتے ہیںکہ ایک زندہ خدا موجود ہے جس کے منشاء کے خلاف اگر دنیا کی تمام طاقتیں بھی متحد ہو جائیںتو وہ خدا تعالی کے غضب کا نشانہ بن کر تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔ یقینا اگر ایسا نہ ہوتا تو بہت سے لوگ ہدائیت پانے سے محروم رہ جاتے اور اکثر لوگوں پر دین کی برتری مشتبہ ہو جاتی مگر جب دنیوی سامانوںکے خلاف ہوتے ہوئے ایک نبی خبر دیتا ہے کہ میں جیت جائوںگا اور میرے مقابلہ میں جس قدر طاقتیں کھڑی ہیںوہ ہر قسم کے سامان رکھنے کے باوجود ناکام رہیں گی اور پھر واقعہ میں ایسا ہی ہو جاتا ہے تویہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ خدا کی حکومت دنیا میں موجود ہے ۔
آج یورپین مصنف بڑے زور سے لکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ اگر دنیا میں کامیاب ہو گئے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔قیصر کی حکومت اس وقت اپنی اندرونی زوال کی وجہ سے ٹوٹ رہی تھی۔ کسریٰ کی حکومت میں ضعف و اختلال کے آثار پید ہوچکے تھے اور سب لوگ سمجھ رہے تھے کہ یہ حکومتیں اب جلد مٹ جانے والی ہیں۔ ایسی حکومتوں پر اگر محمد رسول اللہ ﷺ غالب آگئے تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں جسے معجزہ قرار دیاجاسکے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا عرب کی حالت قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کی سی اچھی تھی؟ اگر اچھی ہوتی تب تو کہا جاسکتا تھا کہ چونکہ عرب کی حالت اچھی تھی اس لئے اہل عرب نے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو تاراج کردیا۔ مگر ہر شخص جو تاریخ سے معمولی واقفیت بھی رکھتا ہے جانتا ہے کہ قیصر و کسریٰ کے مقابلہ میں عرب کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ پس سوال یہ ہے کہ کیا قیصر و کسریٰ کی حکومتوں نے عرب کے مقابلہ میں ہی ٹوٹنا تھا اور پھر ان عربوں کے مقابلہ میں جن کا اپنا حال خراب تھا اور کیا عرب کے لوگوں میں بھی اس شخص کے ہاتھ سے قیصر و کسریٰ کی حکومتوںنے پاش پاش ہونا تھا جس کوکچلنے کیلئے خود عرب کے لوگ کھڑے ہوگئے تھے؟ اور وہ سمجھتے تھے کہ قیصر و کسریٰ تو الگ رہے، عرب کے لوگ تو الگ رہے صرف مکہ کے رہنے والے ہی اس کو کچلنے کیلئے کافی ہیں۔ ہر شخص جو حالات پر غور کرکے صحیح نتائج اخذ کرنے کا ملکہ اپنے اندر رکھتا ہے وہ ایک لمحہ کیلئے بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو وہ اکیلا پاش پاش کرنے کی اپنے اندر اہلیت رکھتا تھا جس کے متعلق خود مکہ کی بستی والے یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہمارے مقابلہ میں بھی نہیں ٹھہر سکتا ہم اسے کچل کر رکھ دیں گے۔ مگر جب مکہ کی بستی والے یہ کہہ رہے تھے کہ ہم اسے مٹادیں گے اس وقت وہ اپنی کمزوری کے باوجود دنیا کو پکار کرکہتا تھا کہ مکہ اور عرب تو کیا ہے میں قیصر وکسریٰ کی حکومتوںکو بھی مٹادوں گا۔ اور ہم دیکھتے کہ جیسا کہ اس نے کہا تھا ویسا ہی وقوع میں آگیا۔ اگر یہ باتیں ایسی ہی ظاہر تھیں جیسے آج یورپین مصنّفین لکھتے ہیں تو مکہ کے لوگ کیوں کہتے تھے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو مٹادیں گے۔ عرب کے لوگ کیوں کہتے تھے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو مٹادیں گے۔ ان کا بڑے زور سے یہ اعلان کرنا کہ اسلام کو ہم کچل کر رکھ دیں گے بتاتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ ﷺ اپنے اندر کوئی طاقت نہیں رکھتے۔ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں تو کجا مکہ کی بستی والوں کا مقابلہ کرنا بھی ان کی طاقت سے باہر ہے۔ مگر پھر وہ زمانہ آیا جب وہ اکیلا اور کمزور شخص بڑھا اور بڑھتے بڑھتے اس مقام تک پہنچا کہ قیصر و کسریٰ بھی اس کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکے۔ یہی حالت اِس وقت ہماری ہے۔ ہم دنیا میں سب سے زیادہ کمزور اور سب سے زیادہ بے سامان ہیں اور کوئی شخص ظاہری سامانوں کے لحاظ سے یہ خیال بھی نہیں کرسکتا کہ ہم کسی دن دنیا پر غالب آجائیں گے۔ لیکن آج سے دو تین سو سال کے بعد جب احمدیت کا سب جہان پر غلبہ ہوگیا یورپین مصنّفین کی طرح بعض ایسے مصنّف پید اہوجائیں گے جو کہیں گے کہ احمدیت نے اگر غلبہ پالیا تو یہ کونسی بڑی بات ہے۔ دنیا میں اس وقت حالات ہی ایسے پیدا ہورہے تھے کہ جن کے نتیجہ میں اس نے جیت جانا تھا۔ یورپ میں تنزل کے آثار پیدا تھے۔ ایشیا میں تنزل کے آثار پیدا تھے اور حکومتوں کی بنیادیں کھوکھلی ہوچکی تھیں۔ ایسی حالت میں اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ پیشگوئی شائع کردی کہ ایک زمانہ میں سارے جہان میں احمدیت غالب آجائے گی تو یہ کوئی پیشگوئی نہیں کہلاسکتی۔ مگر سوال تویہ ہے کہ کیا آج دنیا میں کوئی شخص ایسا ہے جو اس دعویٰ کو معقول قرار دے سکے کہ واقعہ میں ایک دن احمدیت کا سب جہان پر غلطہ ہوجائے گا۔ اگر آج نہیں کہتے تو دو تین سو سال کے بعد غلبہ میسر آنے پر یہ کہنا کہ غلبہ تو ہو ہی جانا تھا اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ یہ لوگوں کے جھوٹا ہونے کی ایک بیّن علامت ہوتی ہے کہ جب وقت گزرجاتا ہے تو نشاناتِ الٰہیہ پر پردہ ڈالنے کیلئے کئی قسم کے بہانے بنانے لگ جاتے ہیں اور پیشگوئیوں کی وقعت کم کرنے کیلئے یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ زمانہ کے حالات ہی ایسے تھے جن سے یہ نتیجہ نکلتا۔ مگر محمد رسول اللہ ﷺ کا زمانہ تو گزرچکا۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے اور آپ نے بطور پیشگوئی یہ اعلان فرمایا ہے کہ
’’اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگو ئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا ۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلادے گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن اآتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی‘‘۔ (تذکرہ ص ۴۶۲)
مولوی ثناء اللہ صاحب بارہا اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اس پیشگوئی پر مدتیں گزرچکی ہیں مگر ابھی تک احمدیت کو غلبہ میسر نہیں آیا۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے پر جب احمدیت کو دنیا میں کامل غلبہ حاصل ہوگیااس مولوی ثناء اللہ صاحب کے جو چیلے موجود ہوں گے وہ کہیں گے کہ یہ تو نظر ہی آرہاتھا کہ جماعت احمدیہ نے جیت جانا ہے۔ اس وقت نزل کے آثار یورپ میں پیدا ہوچکے تھے۔ اس وقت تنزل کے آثار ہندوئوں میں پیدا ہوچکے تھے۔ اس وقت تنزل کے آثار مسلمانوں میں پید اہوچکے تھے اور حالات کا تقاضا یہی تھا کہ احمدیت ان کے مقابلہ میں جیت جاتی۔ غرض مخالفین کا ہمیشہ سے یہی دستور چلا آیاہے کہ پہلے تو غلبہ کو ناممکن بناتے ہیں اور جب غلبہ میسر آجاتا ہے تو کہنا شروع کردیتے ہیں کہ اس میں عجیب بات کوئی نہیں حالات کا تقاضا یہی تھا کہ انہیں غلبہ میسر آجاتا۔ بہرحال ہر زمانہ میں دنیا، دنیا کے اسباب سے وابستہ ہوتی ہے لیکن زمانۂ نبوت میں اللہ تعالیٰ اسے نبوت کے ساتھ وابستہ کرکے اپنی حکومت ظاہر کرتا ہے۔ ورنہ دنیوی حکومت کا انبیاء سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ خدا کی خدائی ظاہر کرنے کیلئے دنیا میں آتے ہیں اور یہ خدائی ان کے زمانہ میں اس رنگ میں ظاہر ہوتی ہے کہ بغیر مادی اسباب کے ایک گری ہوئی قوم کو وہ اٹھانے اور اسے دنیا پر غالب کرکے دکھادیتے ہیں۔ تب لوگوں کو پتہ لگتا ہے کہ دنیوی ترقی میں صرف ہماری کوششوں کا دخل نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی حکومت کا بھی دخل ہے۔ جب تک وہ دخل نہ دے اس وقت تک تو تدابیر کام کرتی رہتی ہیں لیکن جب وہ دخل دے دے تو ساری دنیا بے بس ہوجاتی ہے اور اس کی کوئی تدبیر اسے کامیاب نہیں کرسکتی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت دنیوی تدابیر باطل ہوجاتی ہیں ۔ باطل نہیں ہوتیں بلکہ ایمان کے ساتھ مل کر نتیجہ پیدا کرتی ہیں اس کے بغیر نہیں۔ جیسا کہ اگلی آیت میں یہ مضمون بیان کیا گیاہے۔
رسول کریم ﷺ نے بھی اپنے زمانہ کو عصر کا زمانہ قرار دیا ہے گو ان معنوں کے لحاظ سے نہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں بلکہ اور معنوں کے لحاظ سے۔ چنانچہ بخاری میں روایت آتی ہے کہ ایک شخص نے عمارت بنانے کیلئے بہت سے مزدور کام پر لگائے جنہوں نے ظہر تک کام کیا۔ پھر اس نے ایک اور پارٹی مقرر کی جس نے عصر تک کام کیا۔ اس کے بعد اس نے ایک تیسری پارٹی مقرر کی جس نے شام تک کام کیا۔ جب دن ختم ہونے پر اس نے مزدوری تقسیم کی تو سب کو برابر بدلہ دیا۔ اس پر پہلوں نے اعتراض کیا کہ ہم نے زیاہ لمبا عرصہ کام کیا تھا مگر ہمیں بھی اتنا ہی بدلہ دیا گیاہے جتنا ان لوگوں کو بدلہ دیا گیا ہے جنہوں نے ظہر سے عصر تک یا عصر سے مغرب تک کام کیا ہے۔ مالک مکان نے انہیں جواب دیا کہ میں نے جو تم سے وعدہ کیا تھا آیا اس وعدہ کو میں نے پورا کردیا ہے یانہیں۔ جب میں نے اس وعدہ کو پورا کردیا ہے جو میں نے تمہارے ساتھ کیا تھا اور تمہارا حق نہیں مارا تو تمہیں یہ شکوہ کیوں پیدا ہوا کہ میںنے دوسروں کو تھوڑے وقت کی مزدوری پر بھی تمہارے برابر بدلہ دے دیا۔ اگر میں تمہیں کم مزدوری دیتا تو بے شک تم اعتراض کرسکتے تھے لیکن جب میں نے تمہیں پوری مزدوری دے دی تو اس کے بعد اگر میں نے کسی کو کام سے زیادہ بدلہ دے دیاہے تو اس پر تمہیں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا پہلی مزدور قوم سے یہودی مراد ہیں ۔ دوسری مزدور قوم سے نصاریٰ مراد ہیں اور تیسری مزدور قوم سے اے مسلمانو تم مرادہو۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ رسول کریم ﷺ نے بھی ایک مفہوم کے لحا ظ سے اپنے زمانہ کو عصر کا زمانہ قرار دیا ہے۔
عصر کے معنے رھط اور عشیرۃ کے بھی ہوتے ہیں یعنی قبیلہ اور قوم کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اس لحاظ سے والعصر ان الانسان لفی خسر کے معنے یہ ہونگے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کی قوم کو اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ انسان یقینا گھاٹے کی طرف جا رہا ہے ۔ ان معنوں کے لحاظ سے یہاں انسان سے عام انسان مراد ہے اور قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ باقی دنیا تو تمہاری نظروں سے اوجھل ہے لیکن مکہ والے تمہارے سامنے ہیں ۔اگر تم اور لوگوںکے حالات کو نہیں دیکھ سکتے تو کیا مکہ والوں کو بھی نہیں دیکھ سکتے کہ ان کی حالت کہاں سے کہاں جاپہنچی ہے۔ مکہ کے لوگ ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ جیسے پاک انبیاء کی نسل میں سے ہیں۔ خانہ کعبہ کے پاس رہنے والے ہیں۔ ان کی طرف دیکھو کہ باوجود اس کے کہ یہ ایک اچھے خاندان میں سے ہیں اور خانہ کعبہ کی حفاظت کا کام ان کے سپرد کیا گیا تھا۔ پھر بھی یہ روز بروز خداتعالیٰ سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اپنے فرائض اور ذمہ واریوں کو سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کی کوشش کریں۔ یہ لوگ مجاور بن کر بیٹھ گئے ہیں اور ان کی دن رات یہی کوشش رہتی ہے کہ لات اور منات اور عزی کو لوگ سجدے کریں اور ان پر چڑھاوے چڑھائیں جس سے ان کا گزارہ ہو۔ پس والعصر کے معنے یہ ہوئے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کی قوم کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ سب سے بڑھ کر یہ قوم اس بات کی مستحق تھی کہ خداتعالیٰ کے نام کو دنیا میں پھیلاتی مگر یہ قوم بھی مجاور بن کر بیٹھ گئی اور خداتعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کی بجائے نفسانی خواہشات کے پیچھے چل پڑی ہے۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ ضلالت اور گمراہی اب پورے طور پر مسلط ہوچکی ہے اور ضروری تھا کہ ان حالات کی اصلاح کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی مبعوث ہوتا۔
تیسرے معنے عصر کے رات کے ہیں۔ ان معنوں کی رو سے ایک عام قاعدہ اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جب قوم پر تباہی کا زمانہ آتا ہے تو اس سے نکلنے کی راہ صرف ایمان و عمل صالح ہی رہ جاتا ہے یعنی بغیر خدائی ہدایت کے وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرتی۔ یہ امر ظاہر ہے کہ رات کا زمانہ تاریکی کا زمانہ ہوتا ہے۔ پس اس جگہ والعصر سے وہ زمانہ مراد ہے جب کسی قوم پر تباہی وارد ہوجاتی ہے اور کامیابی کی کوئی شعاع اسے دکھائی نہیں دیتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم رات کے زمانہ کو یعنی تباہی اور بربادی کے زمانہ کو اس بات کی شہادت کے طور پر تمہارے سامنے پیش کرتے ہیںکہ ان الانسان لفی خسر الا الذین امنوا وعملوا الصلحت جب قوموں پر تنزل آجاتا ہے تو اس وقت ایسی قومیں جو کسی دینی سلسلہ سے تعلق رکھتی ہیں اس تباہی سے کبھی بچ نہیں سکتیں سوائے اس کے کہ ان کے احیاء کیلئے کوئی نبی آئے اور انہیں اس پرایمان لانے کی سعادت حاصل ہوجائے۔ یہ ایک ایسا قاعدہ ہے جس کے خلاف دنیا میں کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ جب بھی کوئی مذہبی جماعت گری ہے ہمیشہ کسی نبی کے ذریعہ ہی اس کا احیاء ہوا ہے اس کے بغیر کسی قوم کا آج تک احیاء نہیں ہوا۔ مثلاً تاریخ بتاتی ہے کہ پہلے حضرت کرشنؑ آئے اور پھر حضرت رامچندرؑ آئے یا ہندوئوں کے خیال کے مطابق حضرت کرشنؑ آئے ان میں سے کوئی صورت سمجھ لو۔ ہمارے نزدیک پہلے حضرت کرشن کے ذریعہ ہندو قوم کو ترقی حاصل ہوئی اور پھر ایک لمبے عرصہ کے بعدجب ان میں تنزل پیدا ہوا تو وہ تنزل اس وقت دور ہوا جب حضرت رام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوگئے۔ یا ہندئوں کے عقیدہ کے مطابق پہلے حضرت رام کے ذریعہ ان کو ترقی ملی ار بعد میں حضرت کرشن نے ان کو عروج تک پہنچایا۔ اس کے بعد جب پھر ان میں تنزل پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت بدھ کو لوگوں کو کی ہدایت کیلئے مبعوث فرمادیا جن پر ایمان لاکر قوم کاتنزل دور ہوا۔ بہرحال جب بھی کسی مذہبی جماعت کو تنزل کے بعد عروج ہوا ہے ہمیشہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ حاصل ہوا ہے۔ دنیوی تدابیر سے کام لے کر آج تک کوئی ایک مذہبی جماعت بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکی یہ اللہ تعالیٰ کا ایک اٹل قانون ہے جس کے خلاف ہمیں کوئی نظارہ نظر نہیں آتا اور کوئی شخص ایسی مثال پیش نہیں کرسکتا کہ فلاں جماعت جس کا مذہب کے ساتھ تعلق تھا ترقی کے بعد گرچکی تھی مگر محض دنیوی تدابیر سے کام لے کر اس نے دوبارہ عروج حاصل کرلیا۔ مذہبی جماعتوں کے زوال کے بعد ترقی اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ وابستہ کردی ہے۔ جو قوم یہ وابستگی پیدا کرلیتی ہے وہ عروج حاصل کرلیتی ہے اور جو اس وابستگی سے محروم رہتی ہے وہ خواہ لاکھ تدابیر اختیار کرے کبھی اپنے زوال کو دور نہیں کرسکتی۔ مثلاً یہودیوں کو دیکھ لو پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی طرف مبعوث ہوئے اور انہوں نے قوم کو عروج تک پہنچایا ۔ اس کے بعد جب ان میں تنزل پیدا ہوا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے اور انہوں نے ایک گری ہوئی قوم کو ترقی کے بلند مینار تک پہنچادیا۔ پھر تنزل پیدا ہوا تو حضرت شمعونؑ آگئے جنہوں نے قوم کی اصلاح کی پھر تنز ل پیدا ہوا تو حضرت دائود آگئے اور انہوںنے اصلاح کی۔ غرض ہمیشہ انبیاء کے ذریعہ ہی ان کو ترقی حاصل ہوئی۔ ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ نبی پر ایمان لائے بغیر انہیں محض دنیوی تدابیر سے عروج حاصل ہوگیا۔ اسی طرح بابل کی حکومت نے ان کو تباہ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے عزرا نبی کو کھڑا کردیا جس نے ان کی ذلت دور کی۔ پھر گرے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمادیا۔ یہ نہیں ہوا کہ دنیوی لیڈروں کی اتباع کرکے انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہو یا مادی تدابیر نے ان کو ترقی تک پہنچادیا ہو۔ یہی قانون اب مسلمانوں کے متعلق بھی کام کررہا ہے۔ مسلمان اپنی نادانی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری کامیابی کا ذریعہ یہ ہے کہ ہم انجمنیںبنائیں، مدرسے جاری کریں، یونیورسٹیاں اور کالج قائم کریں، صنعت و حرفت اور تجارت کی طرف توجہ کریں اور اس طرح اپنی ذلت و نکہبت کو دور کرکے ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہوجائیں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ آ ج تک کوئی ایک مثال بھی تو ایسی نہیں ملتی کہ کسی مذہبی جماعت کو تنزل کے بعد محض دنیوی تدابیر سے غلبہ حاصل ہوگیا ہو۔ جب بھی کوئی مذہبی جماعت گری ہے اسے نبی کے ذریعہ ہی دوبارہ عروج حاصل ہوا ہے۔ اس کے بغیر عروج حاصل ہونے کی کوئی ایک مثال بھی تاریخ سے پیش نہیں کی جاسکتی۔
بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اگر یہ بات درست ہے تو انگلستان کیوں ترقی کرگیا یا امریکہ کیوں ترقی کردیا۔ یہ لوگ کس نبی پرایمان لائے تھے کہ انہیں ساری دنیا پر غلبہ حاصل ہوگیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ بات ہی غلط ہے کہ انگلستان اور امریکہ وغیرہ نے تنزل کے بعد ترقی کی ہے۔ ان قوموں میں سے سوائے جاپان کے اور کوئی قوم ایسی نہیں جس نے ترقی کے مقام سے گرنے کے بعد دوبارہ عروج حاصل کیا ہو۔ ان کے متعلق یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے وحشیانہ حالت سے ترقی کرتے کرتے عروج حاصل کرلیا۔ مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک دفعہ ترقی حاصل کرنے کے بعد جب یہ لوگ بالکل گر گئے تھے تو دوبارہ اپنی تدابیر سے انہوں نے ساری دنیاپر غلبہ حاصل کرلیا۔میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ کوئی مذہبی جماعت (یعنی جو سچے مذہب کی طرف منسوب ہو) جو ایک دفعہ ترقی حاصل کرنے کے بعد گرجائے وہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک کوئی نبی اس کی طرف مبعوث نہ ہو۔ مگر یہ قومیں تو وہ ہیں جو ترقی حاصل کرنے کے بعد ابھی گری نہیں۔ انہوںنے بے شک ادنیٰ حالت سے ترقی کرتے کرتے یہ مقام حاصل کیا ہے مگر یہ نہیں ہوا کہ تنزل کے بعد انہوں نے دوبارہ ترقی کی ہو۔ صرف جاپان کی مثال اس سوال میں پیش کی جاسکتی ہے مگر وہ بھی یہاں چسپاںنہں ہوتی۔ اس لئے کہ اگر کوئی قوم خالص دنیوی ذرائع سے کام لے کر ترقی کرجاتی ہے تو وہ وہی قوم ہوتی ہے جس میں نور الہام بند ہوچکا ہوتاہے۔ جب تک کوئی قوم نور الہام سے دور نہیں ہوتی اور وہ کسی سچے نبی کو جس کا زمانہ نبوت جاری ہوتا ہے مان رہی ہوتی ہے اس وقت تک وہ قوم کبھی دوبارہ ترقی نہیں کرسکتی جب تک کسی مامور کے ذریعہ اسے ترقی نہ ملے۔ چونکہ آج کل مسلمانوں کے سوا باقی تمام اقوام زندہ دین سے دور ہوچکی ہیں اس لئے ہندو اگر خالص دنیوی تدابیر سے کام لے کر ترقی کرلیں تو وہ کرسکتی ہیں کیونکہ وہ سچے دین کی طرف منسوب نہیں۔ جب وہ ایک سچے دین کی طرف منسوب تھے اور جب تک ہندو مذہب زندہ تھا پہلے کرشن اآئے جن پر ایمان لاکر انہیں ترقی حاصل ہوئی۔ پھر رام آئے جن پر ایمان لاکر انہیں ترقی حاصل ہوئی۔ پھر بدھ آئے جن پر ایمان لاکر انہیں ترقی حاصل ہوئی یا ہندوئوں کے نزدیک پہلے رام پھر کرشن اور پھر بدھ آئے اور ان کے ذریعہ انہیں ترقی حاصل ہوئی۔لیکن بدھ کے بعد چونکہ ہندو مذہب اور پھر بدھ مذہب منسوخ ہوگیا اس لئے اب اگر ہندو محض دنیوی تدابیر سے ترقی کرجائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن مسلمان کبھی دنیوی تدابیر سے ترقی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ مسلمان ایک سچے مذہب کوماننے والے ہیں اور جس جماعت کا یہ حال ہو وہ تنزل کے بعد بغیر اللہ تعالیٰ کے کسی نبی کی بعثت کے دوبارہ ترقی نہیں کیا کرتی۔ عیسائی اگر تنزل کے بعد ترقی کرجائیں تو اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں کیونکہ عیسائیوں سے اب اللہ تعالیٰ اپنی محبت کے تمام تعلقات منقطع کرچکا ہے اور ان کا مذہب منسوخ ہوچکا ہے۔
پس یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون کہ دنیا کی ترقی دین کے ساتھ وابستہ ہے ہر قوم کے متعلق نہیں بلکہ ان اقوام کے متعلق ہے جو ابھی اللہ تعالیٰ کے الہام سے محروم نہ ہوئیں۔ اگر ان کو بھی دین کے بغیر دنیا میں ترقی مل جائے تو پھر دین کا کسی قوم کے پاس بھی حصہ نہ رہے اور خداتعالیٰ کا خانہ بالکل خالی ہوجائے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اب مسلمانوں کو کبھی ترقی نہیں دے سکتا جب تک وہ الا الذین امنوا وعملواالصلحت میں اپنے آپ کو شامل نہیں کرلیتے۔ آج اللہ تعالیٰ کنفیوشس مذہب کے پیروئوں کو بالکل چھوڑ بیٹھا ہے، زرتشتی مذہب کے پیروئوں کو بالکل چھوڑ بیٹھا ہے، بدھ مذہب کے پیروئوں کو بالکل چھوڑ بیٹھا ہے، ہندومذہب کے پیروئوں و بالکل چھوڑ بیٹھا ہے، عیسائی مذہب کے پیروئوں کو بالکل چھوڑ بیٹھا ہے اور ان کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی زمیندار کا بیل بڈھا ہوجائے تو وہ اسے کھلا چھوڑ دیتا ہے اور اس بات کی پروا تک نہیں کرتا کہ وہ رات کو گھر واپس آتا ہے یا نہیں۔ لیکن مسلمانوں کی مثا ل دودھ دینے والی گائے کی سی ہے۔ ایک بڈھا بیل جسے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے اس کے متعلق مالک کا اور قانون ہوتا ہے اور گھر کی دودھ دینے والی گائے کے متعلق مالک کا اور قانون ہوتا ہے۔ بوڑھا بیل اگر رات کو گھر میں نہیں آتا تو مالک اس کی پروا بھی نہیں کرتا۔لیکن اگر دودھیلی گائے رات کو گھر میں نہ آئے تو وہ ادھر ادھر دوڑا پھرتا ہے اور ہر ایک سے پوچھتا ہے کہ میری گائے کدھر گئی۔ پس وہ جماعتیں جن کا خداتعالیٰ سے روحانی تعلق باقی ہوتا ہے ان کے متعلق خداتعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ ان کی اصلاح اور ترقی بغیر نبی کے نہیں ہوتی۔ پس انگلستان اور امریکہ اور جاپان وغیرہ کی مثالیں یہاں چسپاں نہیں ہوتیں۔ یہ قانون ان اقوام کے متعلق ہے جن کا بھی خداتعالیٰ سے کچھ تعلق ہوتا ہے نہ ان کے متعلق جو خداتعالیٰ سے بغاوت اختیار کرکے نور الہام سے کلیۃً محروم ہوجاتی ہیں۔
چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ دن کو ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ انسان گھاٹے میں ہے۔ اس سے قاعدہ کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ جب شمس رسالت کا طلوع ہوتا ہے تو کوئی قوم جو اس کے مقابل پر ہو بغیر اس پر ایمان لانے کے تباہی سے نہیں بچ سکتی۔
پانچویں معنے اس کے یہ ہیں کہ ہم عطیہ کو شہادت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ دنیا پر احسان کرتا اور نبوت اور کلام بھیجتا ہے تو صرف مومن ہی ترقی کرسکتے ہیں دوسرے لوگ ترقیا ت سے محروم رہ جاتے ہیں۔
خسر کے معنے جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ عربی زبان میں گھاٹے کے بھی ہیں، گمراہی کے بھی ہیں اور ہلاکت اور بربادی کے بھی ہیں۔ ان تینوں میں سے ہلاکت کے معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر اس آیت کو اسلام کے آخری زمانہ پر چسپاں کیا جائے تو الانسان سے مراد ’’مردِ مغرب‘‘ ہوگا اور اس میں یہ پیشگوئی پائی جائے گی کہ مغربی لوگ صرف اپنے آپ کو انسان سمجھیں گے باقی دنیا میں کسی کو بھی انسان سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہوںگے اور لفی خسر کا مفہوم یہ ہوگا کہ جتنا جتنا وہ اپنے آپ کو کامل انسان بنائیں گے اتنا ہی ان کی ہلاکت کا سامان پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ چنانچہ اب یہ حقیقت دنیا پر منکشف ہورہی ہے کہ جس قدر تہذیب ترقی کررہی ہے اسی قدر تباہی اور بربادی کے سامان بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ انہی سامانوں میںایٹم بم ہے جو اس جنگ میں ایجاد کیا گیا۔ یہ ایک ایسا خطرناک اور تباہ کن ہتھیار ہے کہ جنرل میکارتھر نے اپنے ایک اعلان میں صاف طور پر کہا ہے کہ یا تو ہمیں اسلحہ کی اس ترقی کے مقابلہ میں اپنے اخلاق میں بھی نمایاں ترقی کرنی پڑے گی ورنہ اگر اخلاق میں ترقی نہ ہوئی تو دنیا کی تباہی میں کوئی شبہ نہیں۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان فرمائی ہے کہ وہ جتنا جتنا اپنے آپ کو الانسان قرار دیں گے اوریہ دعویٰ کریں گے کہ ہم میں بڑے بڑے سائنسدان ہیں، بڑے بڑے حساب دان ہیں، بڑے بڑے ماہرین تجارت ہیں ، بڑے بڑے صناع ہیں، بڑے بڑے موجد ہیں اتنا ہی وہ ہلاکت کے قریب ہوتے جائیںگے اور اپنی قبر اپنے ہاتھوں سے کھودیں گے۔
اسی طرح خسر کے معنے ضلالت کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ آخری زمانہ میں لوگ مومنوں کو ذلیل اور ادنیٰ سمجھیں گے اور اپنے آپ کو ہی انسان سمجھیں گے لیکن ہدایت صرف مومنوں کے پاس ہوگی۔اس وقت ایک موعود کا پیدا ہونا اور عصر کامل یعنی نبی کا وجود اس امر کا ثبوت ہوگا کہ بظاہر کامل نظر آنے والا انسان گمراہی میں مبتلا ہے یعنی دنیا مغربی لوگوں پر غلطی ثابت کرنے کا زریعہ صرف نبی کا وجود ہوگا ۔ ورنہ اور کوئی صورت نہ ہوگی کہ ان کی گمراہی ثابت کی جا سکے صرف روحانی طور پر ہی یہ امر ثابت ہوسکے گا ۔ اس صورت میں العصر سے مراد کامل عصر ہوگا اور کامل عصر وہی ہوتا ہے جس میں خدا تعالیٰ کا نبی لوگوں کی ہدایت کے لئے معبوث ہو۔ پس فرماتا ہے اس وقت ایک قوم کی ایسی حالت ہوگی کہ وہ اپنے آپ کو ہی انسان سمجھے گی کسی اور کوانسان قرار دینے کے لئے تیار نہیں ہوگی مگر ہوگی گمراہ ۔اور اس کی گمراہی کے ثابت ہونے کا دنیا کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہوگا صرف روحانی طور پر یہ امر ثابت ہوسکے گا۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ اصلوٰۃوالسلام کی بعثت کے بعد مغربی لوگوں کی گمراہی ثابت کرنا کونسا مشکل کام رہ گیا ہے ہم میں سے ہر شخص علی الاعلان کہہ سکتا ہے کہ اہل مغرب گمراہ ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا ایک نبی آیا جسے ہم نے تو مان لیا مگر مغرب اس کا منکر ہے اس لئے ہم ہدایت پر ہیں اور وہ گمراہی پر۔ مگر باقی مذاہب کس ذریعہ سے یورپ پر اپنی برتری ثابت کر سکتے ہیں ۔ وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم مغرب پر فوقیت رکھتے ہیں یا ہمارے پاس تو ہدایت ہے لیکن مغرب کے پاس ہدایت نہیں ۔ وہ حیران و پریشان کھڑے ہیں اور ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے وہ یورپ کی گمراہی ثابت کرسکیں۔ اسلام زندہ باد یا غیرمذاہب مردہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کرنا کوئی مشکل امر نہیں جو شخص چاہے یہ نعرے بلند کرسکتا ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کے دلوں پر بھی اسلام کا اثر ہے یا محض زبان تک ان کے دعوے محدود ہیں؟ اگر کوئی شخص مسلمانوں کے حالات پر گہرا غور کرے تو اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ آج مسلمانوں پر اسلام کاکچھ بھی اثر نہیں۔ وہ بظاہر اسلام زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہیں مگر چلتے یورپ کے پیچھے ہی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم تو ہمیں تباہی سے نہیں بچا سکتی لیکن یورپ کی تقلید ہمیں بچاسکتی ہے۔ اگر اس حصہ کو الگ کرلیا جائے جو سیاسی جدوجہد سے تعلق رکھتا ہے اور یہ دیکھا جائے کہ سیاسی رنگ میں یورپ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ایک مسلمان کیا بننا چاہتا ہے تو صاف طور پر دکھائی دیتا ہے کہ یورپ کی سیاسی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد ایک مسلمان انگلستان کا چرچل تو بننا چاہتا ہے مگر وہ یہ نہیں چاہتا ہے کہ میں عرب کا ابوبکرؓ بن جائوں۔ وہ یہ تو خواہش رکھتا ہے کہ میری گردن مغرب کے سیاسی دبائو سے آزاد ہوجائے مگر اس آزادی کے بعد اس کا مقصد ابوبکرؓ بننا نہیں یا عمرؓ اور عثمانؓ بننا نہیں بلکہ وہ چاہتا ہے کہ میں آزادی کے بعد انگلستان کا اٹیلی بنوں یا امریکہ کا ٹرومین بن جائوں یا روس کاسٹالن بن جائوں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے یورپین ممالک کی بااقتدار شخصیتیں یکے بعد دیگرے آتی ہیں اور وہ ایک سردآہ کھینچ کر کہتا ہے کہ کاش مجھ موقع ملے تو میں بھی مغرب کی طرح دنیا پر حکمرانی کروں۔ مگر یہ بات کہ میںجلال الدین سیوطیؒ بن جائوں یا امام بخاریؒ بن جائوں یا سیّد عبدالقادر جیلانیؒ بن نائوں کبھی وسوسہ کے طور پر بھی کسی مسلمان کے دل میں پیدا نہیں ہوتی۔ پس فرماتا ہے اس وقت کوئی جماعت ایسی نہیں ہوگی جو مردِ مغرب کو گمراہی پر سمجھنے والی ہو۔ ہر قوم اس کی نقل کرنا چاہے گی اور اس کی تقلید پر ہی اپنی تمام کامیابی کا دارومدار سمجھے گی۔ سیاسی آزادی بالکل الگ چیز ہے اس آزادی کے معنے صرف اتنے ہیں کہ ہم کو بھی ویسی ہی برتری مل جائے جیسے مغرب کو حاصل ہے۔ ورنہ اس سیاسی آزادی کے بعد ہر قوم کے دل میں خواہش یہی پائی جاتی ہے کہ مجھے بھی مغرب کی طرح اقتدار حاصل ہو۔ بہرحال اس وقت کوئی قوم ایسی نہیں ہوگی جو مغربی لوگوں کی گمراہی ثابت کرسکے صرف نبی کا وجود ہوگا جس پر ایمان لانے کی وجہ سے ایک جماعت نہایت اطمینان کے ساتھ یہ کہے گی کہ یورپ کے لوگ کہاں جیت سکتے ہیں۔ جیتنا تو ہم نے ہے جو ایک نبی پر ایمان لائے ہیں۔ گویا امید جو جیتنے کا ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے صرف مومنوں کو نصیب ہوگا۔ دوسری اقوام جو نہ مومن ہوں گی اور نہ مرد مغرب کی ساتھی وہ حیران و پریشان ہوں گی۔ نہ مردِ مغرب ان کو اپنے ساتھ شامل کرے گا اور نہ اس کی کمزوری اور گمراہی انہیں نظر آسکے گی۔ اس لئے وہ سرگردان و حیران ہوں گی۔ امیدکا کوئی پہلو انہیں نظر نہ آتا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈر یورپ کے سامنے ہمیں اپالوجی APOLOGY کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وہ کھلے اور واضح الفاظ میں مغرب کی برائی اس پر ظاہر کرسکیں۔ سید امیر علی صاحب نے اپنی کتب میں یورپین مصنفین کے اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے مگر انہوں نے سب جگہ اپالوجی سے کام لیا ہے اور کہا ہے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یورپین مصنفین کے اسلام کے خلاف اعتراضات درست ہیں مگر ہماری التجا صرف اس قدر ہے کہ اسلام کے متعلق زیادہ سخت رائے قائم نہ کی جائے کیونکہ اسلام ایسے زمانہ میں آیا تھا جب دنیا ابھی ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے تھی۔ اس لئے اس کے کئی مسائل موجودہ زمانہ کی ضروریات کے لئے مکتفی نہیں ہوسکتے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپالوجی کو بالکل ردّ کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں یورپین لوگوں پر ان کی گمراہی ثابت کی ہے اور بتایا ہے کہ اسلام نے جو کچھ کہا ہے اس کا ایک ایک حرف درست ہے۔ اس پر اعتراض کرنا خود اپنی حماقت کا ثبوت بہم پہنچانا ہے۔ چنانچہ آج تک ہم دشمنوں کی طرف سے اسی وجہ سے گالیاں کھاتے ہیں کہ ہم نے آریوں پر بھی اعتراضات کئے۔ ہم نے ہندوئوں پر بھی اعتراضات کئے۔ ہم نے سکھوں پر بھی اعتراضات کئے۔ ہم نے عیسائیوں پر بھی اعتراضات کئے۔ ہم نے جینیوں اور بدھوں پر بھی اعتراضات کئے۔ ہم نے زرتشتیوں پر بھی اعتراضات کئے۔ ہم نے یہودیوں پر بھی اعتراضات کئے۔ غرض کوئی مذہب اور فرقہ ایسا نہیں جس کی اسلام کے مقابلہ میں ہماری طرف گمراہی ثابت نہ کی گئی ہو اور ہم نے ان پر ایسے وزنی اعتراضات نہ کئے ہوں کہ جن کا جواب دینا ان کے لئے بالکل ناممکن ہے۔ مگر بجائے اس کے کہ مسلمان ہمارے اس کام کی قدر کرتے انہوں نے الٹا ہمیں گالیاں دینا شروع کردیا اور کہتے لگے کہ ہم اسلام کے خلاف غیرمسلموں کو اشتعال دلارہے ہیں۔ چنانچہ ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے مظہر علی صاحب اظہر کا ایک رسالہ میں نے دیکھا جس میں انہوں نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ آریوں نے اگر اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیں تو اس کی بڑی وجہ مرزا صاحب نے آریوں پر اعتراضات کرنے شروع کردیئے تھے۔ اگر وہ اعتراضات نہ کرتے تو آریہ بھی اسلام کی مخالفت نہ کرتے۔ گویا دوسرے الفاظ میں مظہرعلی صاحب اظہر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو دشمن کے مقابلہ میں اپالوجی کرنی چاہئے تھے۔ بجائے اس کے کہ اس کے اعتراضات کے جواب دیتے کہتے کہ خدا کے واسطے آپ ہم پر سختی نہ کریں۔ محمد رسول اللہ ﷺ تو نعوذ باللہ ایک جاہل امت کے سردار تھے وہ موجودہ زمانہ کے مسائل کو کہا ں سمجھ سکتے تھے یا قرآن کریم کی تعلیم نعوذ باللہ موجودہ زمانہ میں کام نہیں آسکتی۔ یہ تو صرف عرب کیلئے مخصوص تھی۔ موجودہ زمانہ میں مغربی علوم ہی لوگوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچاسکتے ہیں۔ مگر چونکہ مرزا صاحب نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوںنے کھلے طور پر کہا کہ محمد رسول اللہ ﷺ سب انبیاء سے افضل ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیم دنیا کی تمام تعلیموں سے اعلیٰ ہے۔ جاہل اور احمق وہ لوگ ہیں جو آپ پر اعتراضات کرتے ہیں اور قرآنی تعلیم کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اس لئے بقول مظہرعلی صاحب آریوں کو جوش آگیا اور وہ اسلام کا مقابلہ کرنے لگ گئے۔ اگر مرزا صاحب ایسا نہ کرتے تو ان کو بھی مقابلہ کا جوش پیدا نہ ہوتا۔
غرض سب مسلمانوں کے دلوں میں آج امید بالکل مٹ چکی ہے۔ صرف ہماری جماعت ایسی ہے جو اپنے اندر ایک پرامید دل رکھتے ہوئے مغرب کی گمراہی ثابت کررہی ہے اور یقین رکھتی ہے کہ مغرب اس کے مقابلہ میں کبھی جیت نہیں سکتا۔ پس والعصر ان الانسان لفی خسر کے معنے یہ ہوئے کہ ہم العصر یعنی زمانۂ نبوت کو اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ آخری زمانہ میں باقی ساری قومیں یورپ کے دبدبہ اور اس کی شوکت اور حشمت سے مرعوب ہوجائیں گی اور وہ سمجھیں گی کہ دنیا کی نجات صرف مغرب کی تقلید میں ہے۔ لیکن ایک جماعت جو ایمان اور عمل صالحہ کی دولت سے مشرف ہوگی اس کے افراد اس خیال کوباطل قرار دیں گے ۔ وہ کہیں گے کہ یورپ ہمارے مقابلہ میں کہاں جیت سکتا ہے اس نے تو یقینا تبا ہ ہوجانا ہے۔ باقی قومیں چونکہ صرف دنیوی نقطۂ نگاہ سے مغرب کو دیکھیں گی اس لئے یورپ کا مرد انہیں مردِ کامل نظر آئے گا۔ لیکن وہ لوگ جو یورپ کو روحانی نقطہ نگاہ سے دیکھیں گے انہیں یورپ کا مرد ’’مردِ بیمار‘‘ نظر آئے گا۔ چنانچہ آج بالکل یہی کیفیت رونما ہے۔ آج یورپ کے لوگوں کو ٹرکی مرد بیمار نظر آتا ہے اور ایشیائی ممالک کو یورپ مرد توانا دکھائی دیتا ہے لیکن جماعت احمدیہ کے افراد کو باقی تمام دنیا کے خلاف یورپ مرد بیمار نظر آتا ہے اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ مردِ بیمارکبھی ہم پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتا۔
الا الذین امنوا و عملوا الصالحت وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر O
مگر وہ لوگ جو (انبیاء) پر ایمان لے آئے اور (پھر) انہوں نے (موقعہ کے) مناسب عمل کئے اور (اصول) صداقت پر قائم رہنے کی آپس میں ایک دوسرے کو تلقین کی اور (مشکلات پیش آمدہ پر) صبر (سے کام لینے ) کی ایک دوسرے کو ہدایت کرتے رہے (ایسے لوگ کبھی بھی گھاٹے میں نہیں ہوسکتے)۔
حل لغات: صالحات صلح سے ہے اور صلح الشیء اصلاحا و صلوحا و صلاحیۃ )ضدفسد اوزال عنہ الفساد۔ یعنی صلح الشیء کے معنے ہوتے ہیں چیز درست ہوگئی یا اس میں جو خرابی پائی جاتی تھی وہ دور ہوگئی اور الصالح کے معنے ہوتے ہیں القائم بما علیہ من حقوق العباد و حقوق اللہ تعالی ایسا شخص جو ان تمام حقوق کو ادا کرے جو خدا اور اس کے بندوں کی طرف سے اس پر عائد ہوتے ہں۔ اسی طرح کہتے ہیں ھو صالح لکذا ای لہ الیۃ للقیام بہ یعنی جب ھو صالح لکذا کہا جائے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ س شخص میں کام کو کما حقہ سرانجام دینے کی اہلیت پائی جاتی ہے۔ پس الاالذین امنوا و عملوا الصلحت کے معنے یہ ہوئے کہ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے ایسے عمل کئے جو فساد و خرابی سے پاک ہیں یا موقعہ کے مناسب ہیں یا جن سے حقوق اللہ و حقوق العباد ادا ہوجاتے ہیں۔
تواصوا۔ تواصی سے جمع کا صیغہ ہے اور تواصی القوم کے معنے ہوتے ہیں وصی بعضھم بعضا قوم کے افراد نے ایک دوسرے کو تاکید کی (اقرب)۔ پس تواصوا بالحق کے معنے یہ ہوئے کہ وہ ایک دوسرے کو حق کی تاکید کرتے ہیں۔
الحق: ضد الباطل حق کے معنے ایسے بات کے ہیں جو جھوٹ کے خلاف ہو۔ اور حق کے معنے الامرالمقضی کے بھی ہیں یعنی ایسا امر جو وقت اورحالات کے مطابق ہو اور حق کے معنے عدل کے بھی ہیں اور حق کے معنے مال کے بھی ہیں اور حق کے معنے بادشاہت کے بھی ہیں اور حق کا لفظ الموجود الثابت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی وہ چیز جو حقیقی وجود رکھتی ہو اور دنیا میں قائم رہنے والے ہو۔ اور حق کے معنے الیقین بعد الشک کے بھی ہیں یعنی شک کے بعد اگر کسی شخص کے دل میں یقین پید اہوجائے تو اس کو بھی حق کہا جاتا ہے۔ اور حق کے معنے موت کے بھی ہیں۔ اور حق کے معنے حزم و احتیاط کے بھی ہیں اور حق اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے بھی ایک نام ہے(اقرب)۔
الصبر: ترک الشکوی من البدوی لغیر اللہ لا الی اللہ یعنی صبر مصیبت کے وقت شکایت کو چھوڑ دینے کا نام ہے۔ لیکن یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ صبر کے مفہوم میں صرف اتنی بات شامل ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے پاس شکوہ نہ کرے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی شخص اپنی شکایت بیان کرتا ہے تو یہ بات صبر کے خلاف نہیں۔ چنانچہ لغت میں لکھا ہے فاذا دعا اللہ العبد فی کشف الضر لا یقدح یعنی جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کو پکارے اور اسے کہے کہ اے میرے رب میری فلاں مصیبت کو دور کردے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے صبر کے خلاف حرکت کی(اقرب)۔ وفی الکلیات الصبر فی المصیبۃ۔ ابوالبقاء جو ایک بہت بڑے ادیب گزرے ہیں انہوں نے اپنی کتاب کلیات میں لکھا ہے کہ صبر کا لفظ جو عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور دوسروں سے کہا جاتا کہ صبر کرو۔ یہ صرف مصیبت کے وقت استعمال ہوتا ہے۔ جب کسی حادثہ کے وارد ہونے پر دوسرے شخص سے کہا جائے کہ آپ صبر سے کام لیں تو اس کے معنے صرف اتنے ہوئے ہیں کہ آپ جزع فزع نہ کریں یا اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کریںیا آہ و فغاں سے اپنی آواز بلند ہ کریں۔ و ایا فی المحاربۃ فشجاعۃ۔ لیکن کبھی لڑائی کیلئے بھی صبر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت اس کے معنے شجاعت اور بہادری کے ہوتے ہیں۔ و فی امساک النفس عن الفضول فقناعۃ وعفۃ۔ اسی طرح صبر کا لفظ کبھی امساک النفس کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اگر انسان اپنے نفس کو لغو اور فضول کاموں میں مبتلا ہونے سے روکے تو اس وقت بھی صبر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے لیکن ا س کی دو قسمیں ہیں۔ اگر مال کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا جائے اور مراد یہ ہو کہ دوسرے نے بے جا طور پر اپنا مال صرف کرنے سے اجتناب کیا ہے تو ایسی صورت میں صبر کے معنے قناعت کے ہوں گے اور جب یہ کہا جائے کہ فلاں شخص بڑا صابر ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ بڑا قانع ہے۔ اپنے مال کی حفاظت کرتا اور اسے بے جا طور پر صرف نہیں کرتا۔ لیکن جب اخلاق کے متعلق یہ لفظ بولا جائے اور کہا جائے کہ فلاں شخص اپنے نفس کو روک کر رکھتا ہے تو اس کے معنے عفت اور پاکیزگی کے ہوں گے وفی امساک کلام الضمیر کتمان۔ اسی طرح کبھی صبر کا لفظ اپنے دل کی بات کو ظاہر نہ کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ غرض اس لفظ کے کئی معنے ہیں۔ صبر کے معنے جرأت اور بہادری کے بھی ہیں۔ صبر کے معنے قناعت کے بھی ہیں۔ صبر کے معنے عفت کے بھی ہیں اور صبر کے معنے رازاداری کے بھی ہیں۔
تفسیر: الا الذین امنوا و عملوا الصلحت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی اعمال کے متعلق ایک نہایت اہم نکتہ بیان کیا ہے جسے نظر انداز کرنے کی وجہ سے بسا اوقات لوگوں کو کئی قسم کی ٹھوکریں لگ جاتی ہیں۔ دنیا میں عام طور پر یہ طریق ہے کہ لوگ بعض اعمال کو اچھا اور بعض کو برا قرار دیتے ہیں اورپھر کوشش کرتے ہیں کہ جو اعمال ان کے نزدیک اچھے ہیں ان کو اختیار کریں اور جو اعمال ان کے نزدیک اچھے ہیں ان کو اختیار کریں اور جو اعمال ان کے نزدیک برے ہیں ان سے اجتناب کریں۔ جن اعمال کو وہ اچھا سمجھتے ہیں ان کو اعمال صالحہ قرار دیتے ہیں اور جن اعمال کو وہ برا سمجھتے ہیں ان کو اعمال سیئہ کہتے ہیں۔ حالانکہ عمل صالح کسی مخصو عمل کا نام نہیں بلکہ ہر ایسا عمل جو مناسب حال ہو اور جو انسان کی روحانی یا جسمانی ضرورت کے مطابق ہو اس کو عمل صالح کہا جاتا ہے۔ یہ قرآن کریم کی ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ اس نے ان کے اعمال کے متعلق جو دین کے مطابق ہوتے ہیں ایک ایسی اصطلاح رکھی ہے جو اپنی ذات میں کامل ہے اور جس میں اس حقیقت کو واضح کردیا گیا ہے کہ کس عمل کو تم اچھا کہہ سکتے ہو اور کس کو برا۔ باقی مذاہب بنی نو انسان کو صرف اتنی تعلیم دیتے ہیں کہ تم اچھے اعمال بجالائو لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اچھے اعمال کی تعریف کیا ہے۔ اگر کسی سے پوچھا جائے کہ اچھے اعمال بتائو تو وہ فوراً کہہ دتیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اچھا عمل ہے، روزہ رکھا اچھا عمل ہے، غریبوں کی خدمت کرنا اچھا عمل ہے، صدقہ و خیرات دینا اچھا عمل ہے۔ حالانکہ یہ مکمل جواب نہیں۔ اسلام صرف نماز کو عمل صالح قرار نہیں دیتا۔ بلکہ اسلام کے نزدیک عمل صالح وہ عمل ہے جو مناسب حال ہو اور انسان کی روحانی یا جسمانی ضروریات کے مطابق ہو۔ مثلاً روزہ رکھناکتنی بڑی نیکی ہے مگر روزہ رکھنا بھی کبھی اچھا ہوتا ہے اور کبھی برا۔ جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص عید کے دن روزہ رکھتا ہے وہ شیطان ہے۔ اگر روزہ رکھنا ہر حالت میں عمل صالح ہوتا تو رسول کریم ﷺ یہ کیوں فرماتے کہ عید کے دن روزہ رکھنے والا شیطان ہوتا ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ روزہ اپنی ذات میں اچھا نہیں بلکہ اس وقت اچھا ہے جب خداتعالیٰ کا حکم اس کے متعلق موجود ہو۔ اسی طرح نماز بڑی اچھی چیز ہے مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جو شخص ایسی حالت میں نماز پڑھتا ہے جب سورج اس کے سر پر ہو یا سورج کے طلوع اور اس کے غروب ہوتے وقت نماز پڑھتا ہے وہ شیطان ہے۔ اگر نماز اپنی ذات میں عمل صالح ہوتا تو رسول کریم ﷺ طلوعِ آفتاب یا غروبِ آفتاب کے وقت نماز پڑھنے والے کو گنہگار کیوں قرار دیتے یا اس وقت جب سورج سر پر ہو جو شخص نماز پڑھے اسے شیطان کیوں قرار دیتے ۔ مگر یہ تو ایسے احکام ہیں جن کی حکمتیں سب کو معلوم نہیں ہوتیں۔ اتنی بات تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا ایک نبی دشمن کے مقابلہ میں کھڑا ہو۔ دشمن اپنے پورے زور سے حملہ کررہا ہو اور وہ نبی اور اس پر ایمان لانے والے دشمن کے حملہ کے دفاع میں مشغول ہوں تو ایسی حالت میں اگر کوئی شخص میدان جہاد کو چھوڑ کر ایک طرف مصلی بچھا کر نماز شروع کردے تو ہر شخص اسے دیکھ کر کہے گا کہ وہ شیطان ہے۔ اس وقت یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ شخص کتنا بڑانیک ہے مصلٰی بچھا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہا ہے اور اس سے رو رو کردعائیںکررہا ہے۔ بلکہ جو شخص بھی اسے دیکھے گا اسے منافق اور غدار قرار دے گا اورکہے گا کہ جو شخص جہاد کو چھوڑ کر ایک کونہ میں چھپ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہا ہے اور اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ دشمن کا حملہ کتنا شدید ہے یا مسلمانوں کو اس وقت کتنے بڑے مصائب کا سامنا ہے۔ وہ نمازی نہیں بلکہ اسلام کا دشمن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا ہے۔ اسی طرح روزہ بڑی اچھی چیز ہے مگر ایک دفعہ جبکہ ایک جہاد کے موقعہ پر بعض صحابہؓ نے روزے نہ رکھے اور بعض نے رکھ لئے۔ جنہوں نے روزے رکھے تھے وہ میدان میں پہنچ کر نڈھال ہوکر گرگئے اور جن کے روزے نہیں تھے وہ بڑی پھرتی سے جہاد کی تیاری کرنے لگ گئے۔ تو رسول کریم ﷺ نے یہ نظارہ دیکھ کر فرمایا آج روزہ داروں سے بے روزہ بڑھ گئے۔ اگر روزہ ہر حالت میں عمل صالح ہوتا تو رسول کریم ﷺ یہ کیوں فرماتے کہ آج روزہ داروں سے بے روزہ بڑ گئے۔ آپ کا روزہ داروں پر غیرروزہ داروں کو ترجیح دینا صاف بتاتا ہے کہ روزہ رکھنا بھی بعض حالات میں عمل صالح ہوتا ہے اوربعض حالات میں عمل غیرصالح۔ چونکہ جہاد میں طاقت اور ہمت کی ضرورت تھی اس لئے جن لوگوں نے اس دن روزہ نہ رکھا ان کو رسول کریم ﷺنے روزہ داروں سے زیادہ قابل تعریف سمجھا۔ غرض عمل صالح کے معنے ایسے عمل کے ہوتے ہیں جن میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پوری طرح ملحوظ رکھا گیا ہو۔ اگر ان حقوق کو ملحوظ نہ رکھا جائے توکوئی عمل عمل صالح نہیں کہلاسکتا خواہ بظاہر وہ کتنا اچھا نظر آتا ہو۔ دراصل اسلام یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ خالی عمل کوئی عمل نہیں بلکہ ہمیشہ کسی عمل کی خوبی یا اس کی برائی نسبتی طور پر دیکھی جاتی ہے۔ بسااوقات ایک عمل ایک قت میں اچھا ہوتا ہے لیکن دوسرے وقت میں برا ہوجاتا ہے۔ پس اس آیت میں عمل صالح کے معنی محض اچھے کام کے نہیں بلکہ ایسے کام کے ہیں جو نسبتی لحاظ سے بھی اچھا ہوا۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ ہر عمل جو تم کو اچھا نظر آتا ہو وہ کرو۔بلکہ اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ تم وہ کام کرو جو وقت کے لحاظ سے بھی مناسب ہو کیونکہ ہر عمل خواہ بظاہر کتنا اچھا نظر آتا ہو ایک دوسرے وقت میں برا بن جاتا ہے۔ مثلاً رحم کا مادہ ہے جب کسی شخص سے پوچھا جائے کہ بتائورحم کسی چیز ہے تو وہ فوراً کہہ دے گاکہ رحم سے بڑھ کر اور کونسی چیز ہوسکتی ہے یہ تو بڑی نیکی ہے۔ حالانکہ انسانی زندگی میں بعض اوقات ایسے بھی آجاتے ہیں جب رحم ایک خطرناک جرم بن جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی آنکھوں سے کسی چور کو سیندھ لگاتا دیکھے اور وہ خیال کرلے کہ مجھے اس پر رحم کرنا چاہئے اگر میں نے پولیس میں اطلاع دی یا اس کو خود ہی گرفتار کرلیا تو اس پر مقدمہ چلے گا اور یہ کئی سالوں کیلئے قید ہو جائے گا۔ اس کے بیوی بچے الگ پریشان ہوں گے او ریہ علیحدہ مصیبت میں مبتلا ہوگا۔ تو کوئی شخص اس فعل پر اس کی تعریف نہیں کرے گا۔ ہر شخص جو اس واقعہ کو سنے گا کہے گا کہ اس نے سخت برا کام کیا ہے اسے چاہئے تھا کہ چور کو فوراً گرفتار کرلیتا۔ اس کا رحم سے کام لینا اور چور کو گرفتار نہ کرنا خوبی نہیں بلکہ انتہا درجہ کا نقص اور عیب تھا۔ اب دیکھو رحم ایک وقت اچھی چیزوں میں شمار ہوتا ہے دوسرے وقت بری چیز بن جاتا ہے اور ہر شخص اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو قتل کرنے کیلئے جارہا ہو اور اس راز کا ایک تیسرے شخص کو بھی علم ہو مگر وہ پولیس میں اس جہ سے اطلاع نہ دے کہ اگر میں نے اطلاع دی تو وہ پکڑا جائے گا اور اس کے بیوی بچوں کو تکلیف ہوگی تویہ ہرگز رحم نہیں کہلائے گا۔ اسی طرح اور ہزاروںمواقع انسانی زندگی میں ایسے آتے ہیں جب بہتر سے بہتراور اچھے سے اچھا کام بھی برا بن جاتا ہے اور انسان کا فرض ہے کہ اس سے بچے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ عمل صالح کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور مومنوں کو ہدایت دی ہے کہ تم صرف ایسے کام نہ کر وجو بغیر نسبت کے تمہیں اچھے نظر آتے ہیں بلکہ تم وہ کام کیا کرو جو اردگرد کے حالات اور نسبت کے لحاظ سے بھی اچھے معلوم ہوتے ہوں۔ پس الا الذین امنوا وعملوا الصلحت کے معنے یہ ہیں کہ سب لوگ گھاٹے میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان لاتے اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں یعنی ایسے کام کرتے ہیں جو اضافی لحاظ سے اچھے ہوتے ہیں۔ یورپ کے لوگ اس بات پر بڑا فخر کیا کرتے ہیں کہ نظریۂ اضافت آئن سٹائن نے ایجاد کیا ہے۔ حالانکہ یہ وہ نظریہ ہے جو آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسی وجہ سے قرآن کریم میں ہر جگہ عمل صالح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنے نظریۂ اضافت کے ہی ہیں یعنی کام اپنی ذات کے لحاظ سے نہیں بلکہ اضافی لحاظ سے اچھے قرار پاتے ہیں۔ میں اوپر ایسے کاموں کی مثالیں پیش کرچکا ہوں جو بظاہر اچھے نظر آتے ہیں لیکن نسبتی لحاظ سے بعض دوسرے مقامات پر برے بن جاتے ہیں۔ اب میں ایک برے کام کی مثال پیش کرتا ہوں جو اضافی نقطہ نظر سے قابل تعریف قرار پاتا ہے۔ فرض کرو کسی شخص کا باپ ایک جگہ بیٹھا ہے اور سانپ اس کے جسم پر چڑھ رہاہے مگر اسے کوئی علم نہیں کہ میرے جسم پر سانپ چڑھا جارہا ہے۔ یہ نظارہ اس کا لڑکا دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر میں نے ذرا بھی غفلت کی تو سانپ میرے باپ کو ڈس لے گا۔ ایسی حالت میں اگر اس کے اند کچھ بھی عقل و شعور کا مادہ پایا جاتا ہو تو وہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کرے گا کہ زور سے ایک ڈنڈا اس سانپ کو مارے یا اگر جوتا اس کے پاس پڑا ہو تو اسی کو اٹھا کو اس سختی سے سانپ پر مارے کہ وہ مر جائے یا ڈر کر بھاگ جائے اور اسے کاٹنے کا موقع ہی نہ ملے۔ اب جہاں تک فعل کا سوال ہے یہی کہا جائے گاکہ اس نے اپنے باپ کوڈنڈا مارا یا جوتا اٹھا کر اس نے اپنے باپ کی طرف پھینکا۔ مگر جو شخص بھی اس واقعہ کو سنے گا یہ نہیں کہے گا کہ وہ بڑا نالائق اور خبیث تھا اس نے اپنے باپ کو جوتا مارا۔ بلکہ ہر شخص اس کی تعریف کرے گا اور کہے گا کہ وہ بڑا نیک اور سعادت مند بچہ تھا اس نے اپنے باپ کی حفاظت کی اور ایسی پھرتی سے کام لیا کہ سانپ کے ڈسنے کا موقع ہی نہ آیا اور وہ مرگیا یا ڈر کر بھاگ گیا۔ پس جس طرح اچھے کام بعض دفعہ اضافی لحاظ سے برے بن جاتے ہیں اسی طرح برے کام بعض دفعہ اضافی لحاظ سے اچھے بن جاتے ہیں۔ اور یہ وہ نظریہ ہے جسے آئن سٹائن نے نہیں بلکہ سب سے پہلے قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ قرآن کریم اس بات پر بار بار زور دیتا ہے کہ عمل وہی اچھا ہے جو صالح ہو اور جس میں تمام حالات کو مدنظر رکھ لیاگیا ہو۔ پس نظریہ اضافت عملو ا الصلحت میں بتادیا گیاہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ نیک عمل کرو۔ وہ کسی کا نام گڈ رایکشن رکھتے ہیں تو کسی کا نام بیڈ ایکشن۔ لیکن وہ اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ ایکشن اپنی ذات میں نہ کوئی اچھا ہے نہ برا۔ اگر کوئی ایکشن اچھا ہے تو نسبتی لحاظ سے اور اگر برا ہے تو نسبتی لحاظ سے۔ قتل کتنی بری چیز ہے لیکن لڑائی میں یہ کتنی اچھی چیز بن جاتا ہے۔ پس کوئی ایکشن اپنی ذات میںاچھا نہیں اور کوئی ایکشن اپنی ذات میں برا نہیں۔ صرف نسبت کے لحاظ سے ایک ایکشن اچھا بن جاتا ہے اور نسبت کے لحاظ سے ہی دوسرا ایکشن برا بن جاتا ہے۔ اور یہی معنے عملوا الصلحت کے ہیں یعنی مومنوں کو وہ اعمال صالحہ بجالانے چاہئیںجو اضافی طور پر اعلیٰ قرار دیئے جاسکیں (مگر یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ قرآن کریم اس اضافی نیکی کو بیان نہیں کرتا بلکہ انسان پر چھوڑ دیتا ہے تمام اضافی ضروری تفصیلات وہ خود بھی بیان کرتا ہے اور انتخاب کے اصول اس نے خود بیان کئے ہیں یا رسول کریم ﷺ کی زبان سے بیان کروائے گئے ہیں)۔
یہ امر پہلے بتایا جاچکا ہے کہ خسر کے معنے ضلالت کے بھی ہوتے ہیں۔گھاٹے کے بھی ہوتے ہیں اور تباہی اور بربادی کے بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ان تینوں معانی پر روشنی ڈالنے کے لیے(۱)ا لاا لذین امنوا (۲)وعملواالصا لحت(۳)وتواصوابالصبرمیںتین قسم کے لوگوں کا ہی استثنیٰ کیا ہے۔ فرماتا ہے وہ لوگ جن میںتین خاصیتیں پائی جائیں گی یعنی ان کے اندر ایمان بھی ہوگا ان کے اندر عمل صالح بھی ہوگا اور وہ تواصوابلحق و تواصوا با لصبرپر بھی عمل کرنے والے ہونگے وہ خسر سے محفوظ رہیں گے ۔ گویا خسر کے بھی تین ہی معنے تھے اور اس کے مقابل استثنیٰ بھی تین قسم کے لوگوںکا ہی کیا گیا ہے اور اس طرح ایک ایک بات کا رد ایک ایک بات میں کر دیا گیا ہے ۔ یعنی ایک قسم کا خسر ایک بات سے ،دوسری قسم کا خسر دوسری بات سے،اور تیسری قسم کا خسر تیسری بات سے رد کر دیا ہے۔یہ بناوٹ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ قرآن کریم لغت کے معا نی کو پوری طرح ملحوظ رکھتا ہے ۔ کیونکہ خسرکے بھی تین معنے تھے اور اس کے مقابل میں بھی تین باتیں ہی پیش کی گئی ہیں۔خسر کے پہلے معنی گمراہی اور ضلالت کے ہیںاس کے مقابل میں اللہ تعالی نے الا ا لذین امنواکو رکھا۔یہ بنانے کے لیے کہ اس وقت صرف مومنوں کی جماعت گمراہی سے محفوظ ہوگی کیونکہ وہ وقت کے مامور پر ایمان لانے والی ہوگی اور سب لوگ گمراہ اور صداقت سے دور ہوں گے۔پس گمراہی کے معنوں کو امنوانے رد کر دیا ۔دوسرے معنے خسر کے گھاٹے کے ہیں۔ اس کو رد کرنے اور لوگوںکو یہ بتانے کے لیے کہ گھاٹے سے بھی صرف مومنوں کی جماعت محفوظ ہوگی اللہ تعالی نے عملوا الصالحت کے الفاظ رکھ دئیے۔ گھاٹا آخر کیوں ہوتا ہے اسی لیے کہ انسان مناسب حال عمل نہیں کرتا ۔ اگر کوئی تاجر وقت پر کسی چیز کو خریدے گا نہیں۔ وقت پرکسی چیز کو بیچے گا نہیں تو یہ لازمی بات ہے کہ اس کو اپنی تجارت میں خسارہ ہوگالیکن اگر وہ عمل صا لح اختیار کرے گا یعنی اعمال صالح بجا لائے گا جو تجارت کے مناسب حال ہوںتو وہ گھا ٹے سے بچ جائے گا۔پس مناسب حال اعمال انسان کو گھاٹے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ چونکہ مومن مناسب حال اعمال بجا لائینگے اس لئے وہ گھاٹے سے بھی محفوظ رہیں گے۔
خسرکے تیسرے معنے ہلاکت اور بربادی کے ہیںاس کے مقابل اللہ تعالی نے وتواصوا با لحق وتوابالصبررکھ دیا کہ مومن نہ صرف گمراہی سے محفوظ ہوں گے نہ صرف گھاٹے سے محفوظ ہوں گے بلکہ توا صوا با لحق وتواصوا با لصبرکی وجہ سے وہ ہلاکت اور بربادی سے بھی محفوظ ہوں گے۔یہ صاف بات ہے کہ دنیا میں جب کوئی نئی صداقت آتی ہے لوگوں میں اس کی مخالفت شروع ہو جاتی ہے اور اکثر لوگ اس کو مٹانے کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ اور جب کسی اقلیت کو اکثریت کی مخالفت کا سامناہو۔حکومت اس کی مخالف ہو جائے، رعایا اس کی دشمن ہو جائے، تاجر اس کو مٹانے پر کمر بستہ ہو جائیں،صناع اس کی ہلاکت کے درپے ہو جائیں۔ اسی طرح عالم کیا اور جاہل کیا ، بڑے کیا اور چھوٹے کیا سب کے سب اس ارادہ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں کہ ہم اس کو کچل دیں گے تو ایسی حالت میںاس کے لیے تباہی سے بچنے کے دو ہی ذرائع ہوتے ہیں۔
اول: اس کے پاس ہلاکت سے بچنے کے مکمل سامان ہوں۔
دوم: ان سامانوں سے کام لیا جائے۔
سامان نہ ہوںتب بھی انسان ہلاکت سے نہیں بچ سکتا اور اگر سامانوں سے کام نہ لیا جائے تب بھی انسان بربادی سے محفوظ نہیں رہ سکتا ۔ پانی نہ ہو تب بھی انسان پیاسا مر جاتا ہے اور اگر پانی تو ہو مگر اس کو پیا نہ جائے تب بھی انسان مر جاتا ہے۔
پہلاذریعہ تو مومنوں کو حاصل ہوتا ہے وہ اللہ تعالی کے مامور پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کی عملی قوت نہایت اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ ایسے اعمال بجا لاتے ہیں جو موقع اور محل کے مناسب ہوں۔اور پھر اس کے ساتھ ہی ایک زائد بات یہ بھی ہوتی ہے کہ انہیں اپنی کامیابی کے متعلق خدا تعالی کا وعدہ نظر آرہا ہوتا ہے اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ دنیا خواہ کس قدر مخالفت کرے وہ ہمیں کبھی مٹا نہیں سکتی۔ پس جہاں تک ہلاکت سے محفوظ رہنے کے سامانوں کا سوال ہے وہ مومنوں کو پورے طور پر حاصل ہوتے ہیں۔ان کے اندر ایمان بھی ہوتا ہے ان کے اندر قوت عمل بھی ہوتی ہے اور انہیں اپنی کامیابی کے متعلق خدا تعالی کے وعدوں کی بناء پر کامل یقین بھی ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے بعد کامیابی کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ سامانوںسے کام لیا جائے۔وتواصوا بالحق وتوا صواا با لصبر میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ خالی عمل صالح انسان کے لیے کافی نہیں ہوتا بلکہ جب توا صوا با لحق وتوا صوا با لصبرکا مقام کسی قوم کو حاصل ہوتا ہے تب وہ ہلاکت سے بچا کرتی ہے اس کے بغیر نہیں۔
وتوا صوا با لحقکیا چیز ہے؟اس کے متعلق یہ ا مر یاد رکھناچاہیے کہ چونکہ حق کے ایک معنے صداقت کے بھی ہیں اس لیے وتوا صوا با لحق کے ایک معنے تو یہ ہونگے کہ مومن اصول صداقت پر خود بھی قائم ہونگے اور دوسروں کو بھی قائم کریں گے یعنی مومنوں کی یہ حالت ہو گی کہ ان میں سے ہر شخص نہ صرف خود صداقت کو قبول کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہے گا بلکہ دوسروں کو بھی نصیحت کرے گا کہ وہ ہمیشہ صداقت کو قبول کرنے کے لیے تیار رہا کریں۔ پہلی اور بڑی چیز جو کسی قوم کی ہلاکت کا باعث ہوتی ہے وہ غلط نظریوں پر اس قوم کا قائم ہو جانا ہے۔ جب کسی قوم کے سامنے غلط نظریے ہوگے لازماً وہ غلط نتائج ہر پہنچے گی اور غلط نتائج سے غلط اعمال ظاہر ہو نگے۔ پس تواصوا با لحق میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ قوم غلط نظریوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ ہاں جب کوئی سچی بات اس کے سامنے پیش ہو گی تو وہ اسے فوراً قبول کر لے گی۔ یہ امر انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ جس چیز سے کسی کو وابستگی ہو جائے وہ اس سے ہٹا نہیں کرتا ۔صرف صداقت کی جستجو کا احساس ہی اسے ان بندھنوں سے نجات دیا کرتا ہے۔ورنہ جب ایک لمبی عادت کسی غلطی کے متعلق قوم میں پائی جائے اور صداقت کی جستجو کا احساس اس کے قلب میں نہ رہے تو اس غلچی کو ترک کرنا لوگوں کے لیے سخت مشکل ہوتا ہے وہ سچائی پر اعتراض کرنے کے لیے تو تیار ہو جاتے ہیںمگر یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ اپنی غلطی کی اصلاح کریں۔
جب کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تو کئی لوگوں کے دلوں میں اس کے متعلق حسد پیدا ہو گیا مگرچونکہ وہ خود کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے تھے اس لیے انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کولمبس نے اگر امریکہ دریافت کر لیا ہے تو اس میں کونسی بڑی بات ہے یہ کام تا ہم میں سے ہر شخص کر سکتا تھا۔جو بھی جہاز میں سوار ہو کر نکل پڑتا آخر ایک دن اس نے امریکہ پہنچ ہی جانا تھا ۔ یہ کوئی ایسا کانامہ نہیں جسے سراہا جائے اور جس کے سر انجام دینے پر کولمبس کی تعریف کی جائے۔جب کالمبس کو معلوم ہوا کہ میرے متعلق بعض لوگ اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں ۔تو اس نے ایک پارٹی میں بہت سے لوگوں کو مدعو کیا اور اپنی جیب میں سے ایک انڈا نکال کر ان سے کہا کہ اسے میز پر کھڑا کر دو ۔سب ادھر ادھر دیکھنے لگے اور کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ انڈے کو میز پر کس طرھ کھڑا کیا جائے۔کولمبس نے سوئی نکالی ا ور انڈے میں سوراخ کرکے اس میں سے تھوڑا سا لعاب نکالا اور انڈے کو چپکا کر میز پر کھڑا کردیا۔ اس پر لوگ کہنے لگے کہ یہ کون سے بڑی بات تھی یہ تو ہم بھی کرسکتے تھے۔ کولمبس نے کہا میں نے سنا ہے کہ تم امریکہ کے متعلق یہ کہہ رہے ہو کہ اگر کولمبس نے اس کی دریافت کرلی ہے تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں۔ اگر ہمیں موقعہ ملتا تو ہم بھی دریافت کرلیتے۔ امریکہ دریافت کرنے کا تو تمہیں موقعہ نہیں ملا لیکن انڈے کو میز پر کھڑا کرنے کا تو تمہیں موقع مل گیا تھا پھر تم کیوں اس کو کھڑا نہ کرسکے۔ اصل بات یہ ہے ک صداقت کے اصول بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ سوال صرف کام کرنے اور صداقت سے وابستگی پیدا کرنے کا ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں سچائی کی تلاش کا جذبہ ہوتا ہے وہ معمولی معمولی باتوں سے بڑے بڑے اہم نتائج اخذ کرلیتے ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ سچائی ہمیں کہاں سے ملی ہے۔ وہ سچائی کی طرف ایک پیاسے کی طرح اُمڈ کر جاتے ہیںاور اپنے سابق خیالات کو فوراً ترک کردیتے ہیں لیکن جن لوگوں کے دلوں میں صداقت کا کوئی احساس نہیں ہوتا ان کے لئے اپنی غلطیوں کو چھوڑنا سخت مشکل ہوجاتا ہے۔
آخر یہ بھی کوئی مسئلہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرے نہیں بلکہ آسمان پر زندہ موجود ہیں۔ جب ساری دنیا آدم سے لے کر اب تک مرتی چلی آئی ہے تو یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام موت سے بچ جاتے اور وہ تمام بنی نوع انسان کے خلاف زندہ آسمان پر چلے جاتے مگر چونکہ مسلمان اس عقیدہ سے وابستہ ہوگئے ہیں اس لئے انہیں اس کو چھوڑنا ایک مصیبت معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح اور کئی قسم کے غلط مسائل ہیں جو زمانہ نبوت سے بُعد کی وجہ سے مسلمانوں میں رائج ہوچکے ہیں اور جن سے ادھر ادھر ہونا ان پر نہایت شاق گزرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ہمت سے کام لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لے آئے تو یہ طوق اور سلاسل ایک آن میں کٹ جاتے ہیں اور اسے کچھ بھی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ اور لوگوں کو تو یہ نظرآتا ہے کہ فلاں بات امام غزالیؒ نے کہی ہے ہم اسے کس طرح چھوڑ دیں۔ فلاں بات جنیدؒ نے کہی ہے ہم اسے کس طرح چھوڑ دیں ۔ فلاں بات سیدعبدالقادر جیلانیؒ نے کہی ہے ہم اسے کس طرح چھوڑ دیں۔ فلاں بات امام رازیؒ نے کہی ہے ہم اسے کس طرح چھوڑ دیں۔ فلاں مسئلہ امام ابوحنیفہؒ نے بیان کیا ہے ہم اسے کس طرح چھوڑ دیں۔ فلاں مسئلہ امام شافعیؒ نے بیان کیا ہے ہم اسے کس طرح چھوڑ دیں۔لیکن ایک احمدی جانتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک مامور پر ایمان لاچکا ہے اور خداتعالیٰ کی طرف سے کلام لانے والا محمد رسول اللہ ﷺ کا حکم میرے سامنے ہے جو کچھ وہ کہے گا وہ درست ہوگا اور جس بات کی وہ تردید کرے گا وہ غلط ہوگی۔ مجھے اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں کہ امام رازی یا امام غزالی یا امام ابوحنیفہ نے کیا کہا ہے میں نے تو یہ دیکھنا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺنے کیا کہا ہے اور مسیح موعود علیہ السلام نے خداتعالیٰ سے کیا ہدایت پائی ہے۔
غرض ہر قوم میں مختلف قسم کی غلطیاں پائی جاتی ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آتا ہے توپچھلے سارے تعلقات کٹ جاتے ہیں۔ آخر بڑے بڑے آدمی بھی تو غلطی کرسکتے ہیں۔ اگر ہزار مسائل وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے پیدا کرتے ہیں تو ایک دو مسئلوں میں ان سے غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں۔ مگر ایک ایک غلطی اکٹھی ہوتے ہوئے غلطیوں کا طومار بن جاتا ہے جس میں لوگ پھنس جاتے ہیں اور وہ حیران ہوتے ہیں کہ ہم اس دلدل میں سے کس طرح نکلیں گے اگر ہم نکلے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم اپنے بزرگوںکے خلاف قدم اٹھارہے ہیں۔ پس جب تک کوئی شخص نبی پر ایمان نہیں لاتا وہ کئی قسم کی مشکلات میں پھنسارہتا ہے۔ لیکن ادھر اسے نبوت پر ایمان نصیب ہوتا ہے اور ادھر یکدم اس کے تمام بوجھ اتر جاتے ہیں اور وہ رسیاں جنہوں نے اس کو جکڑا ہوتا ہے سب ایک ایک کرکے ٹوٹ جاتی ہیں۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو ایمان نصیب ہوتا ہے اس کے تمام گناہ دھل جاتے ہیں۔ اس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے کسی نبی پرایمان لاتا ہے اس کی پچھلی تمام روایتی قیود ختم ہوجاتی ہیں۔ وہ تمام رسیاں جن سے اس کا جوڑ جوڑ جکڑا ہوا ہوتا ہے کٹ جاتی ہیں اور وہ حریت اور آزادی کی فضا میں پہلی مرتبہ سانس لیتا ہے کیونکہ نبی کے ماننے والے اس اصل پر قائم ہوتے ہیں کہ جو سچی بات ہے اس کو ہم نے ماننا ہے اور جو غلط بات ہے اس کو ہم نے نہیں ماننا خواہ اسے کسی کی طرف سے پیش کیا جارہا ہو۔ گویا وہ طوق جنہوں نے اس کی گردن کو جھکایا ہوا ہوتا ہے اور وہ سلاسل جو اس کے پائوں میں پڑی ہوتی ہیں سب کٹ جاتی ہیں اور وہ سچائی کا علمبردار بن جاتا ہے۔ پس تواصوا بالحق کے پہلے معنے یہ ہی کہ مومن اصول صداقت پر خود بھی پوری طرح قائم ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(۲) حق کے ایک معنے جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے اللہ تعالیٰ کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے تواصو بالحق کے یہ معنے ہیں کہ مومن خداتعالیٰ سے خود بھی مخلصانہ تعلقات رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس سے مخلصانہ تعلقات پیدا کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ درحقیقت اقوام میں دیرینہ عادات کی وجہ سے آہستہ آہستہ خداتعالیٰ کا وجود بالکل غائب ہوجاتا ہے اور اس کی بجائے ایک نئی شکل پیداہوجاتی ہے جس کی وہ پرستش کرنے لگتے ہیں۔ آج دنیا میں جس قدر مذاہب پائے جاتے ہیں سب کی یہی حالت ہے۔ عیسائیت کو دیکھ لو ، ہند ومذہب کو دیکھ لو ۔ اَور مذاہب پر نظر ڈال لو۔ سب کی اصلی شکل تو مٹ چکی ہے لیکن قولی روایات نے ان کو ایک نئی شکل دے دی ہے جس کے وہ پرستار بنے ہوئے ہیں۔ یہ نئی شکل مذہب کی قائم کردہ نہیں ہوتی بلکہ قوم کے بگڑے ہوئے خیالات و تصورات کی قائم کردہ ہوتی ہے۔ جب دنیا میں اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی آتا ہے تو یہ سارے بت ایک ایک کرکے گر جاتے ہیں اور اصلی خدا لوگوں کے سامنے آجاتا ہے تب لوگ بت پرستی کے گڑھوں سے نکلتے اور اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی محبت کے میدان میں بڑھنے لگتے ہیں۔ پس تواصوا بالحق کے ایک معنے یہ ہیں کہ مومن اللہ تعالیٰ سے مخلصانہ تعلقات رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ تم حقیقی خدا کی پرستش کرواور اسی سے اپنے تعلقات بڑھائو۔ بتوں کی پرستش میں تم اپنا وقت ضائع مت کرو۔
(۳) حق کے تیسرے معنے عدل کے ہیں۔ اس لحاظ سے تواصوا بالحق کے معنے یہ ہیں کہ مومن خود بھی عدل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی عدل سے کام لینے کی نصیحت کرتے ہیں۔ درحقیقت ایک بڑی بھاری خرابی قومی روایات کی وجہ سے یہ پیدا ہوجاتی ہے کہ لوگ عدل و انصاف سے کام لینا ترک کردیتے ہیں۔ ہزاروں خاندان دنیا میںایسے پائے جاتے ہیں جو اپنی پرانی روایات پر جمے ہوئے ہیں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم میں سے فلاں نے یہ یہ خرابی کی مگر اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ ہم خاندانوں کے افراد کو چھوڑ نہیں سکتے ہم مجبور ہیں کہ ان کا ساتھ دیں اور اپنے خاندان کو دوسروں کے مقابلہ میں ذلیل نہ ہونے دیں۔ پس قدیم تعلقات کی وجہ سے عدل کی روح بالکل مٹ جاتی ہے لیکن جب نبی آتا ہے تو دنیامیں ایک انقلاب پیدا ہوجاتا ہے اور عدل و انصاف کی وہ روح جو پائوں تلے مسلی جارہی ہوتی ہے ازسرنو زندہ ہوجاتی ہے وہ لوگ جنہیں اس پر ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوتی ہے کہتے ہیںکہ ہم دنیا میں انصاف قائم کریں گے ۔ ہم مظلوم کو اس کا حق دلائیں گے۔ ہم ظالم کو اس کے کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔ ہم یہ کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ سرمایہ دارمزدور پر ظلم کرے یا امیر غریب کو لوٹنے کی کوشش کرے وہ عدل و انصاف کے پیکر ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ ہمیشہ عدل و انصاف سے کام لینا چاہئے۔
(۴) حق کے چوتھے معنے الیقین بعد الشک کے ہیں۔ اس لحاظ سے تواصوا بالحق کے یہ معنے ہوں گے کہ مومن شکوک و شبہات پر یا قیاس و تخمین پر اپنے ایمان کی بنیاد نہیں رکھتے بلکہ اپنے عقائد کی بنیاد یقین پر رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ تم خداتعالیٰ کے متعلق محض رسمی اعتقاد پیدانہ کرو بلکہ وہ ایمان پیدا کرو جو مشاہدہ پر مبنی ہوتا ہے ۔ درحقیقت یقین پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ نبی کا وجود ہی ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے اور وہ اپنی صداقت کے زندہ نشانات لوگوں کے سامنے پیش کرتاہے تو شکوک و شبہات بالکل مٹ جاتے ہیں اور قیاس و تخمین کی بجائے ایمان کی بنیاد مشاہدہ پر آجاتی ہے پس تواصوا بالحق کے معنے یہ ہیں کہ مومن خود بھی یقین پر قائم ہوتے ہیں اور دوسروں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ تم خداتعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پیدا کرو۔ رسمی ایمان تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا۔ آج مسلمانوں کی یہی کیفیت ہے کہ ان کے اندر اسلام اور رسول کریم ﷺ پر محض رسمی ایمان پایا جاتا ہے۔ وہ ایمان جس کی یقین پر بنیادیں ہوتی ہیں اور وہ ایمان جو مستحکم اور غیرمتزلزل ہوتا ہے اس کا وجود ان میں کلی طور پر مفقود ہے۔ بے شک وہ بظاہر اسلام کو سچا مذہب سمجھتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر بھی ایمان رکھتے ہیں لیکن اگر ان سے پوچھا جائے کہ تم اسلام کیوںمانتے ہو یا رسول کریم ﷺ کی رسالت پر کیوں ایمان رکھتے ہو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اسلام اور رسول کریم ﷺ کو محض اس لئے سچا مانتے ہیںکہ ان کے ماں باپ یہ عقیدہ رکھتے تھے یا اس لئے سچا مانتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے گھر پیداہو گئے ہیں ۔اس سے بڑھ کر ان کے پاس اپنے مذہب کی سچائی کاکوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ میں نے خود کئی تعلیم یافتہ لوگوں سے یہ سوال کرکے دیکھا ہے مگر مجھے ہمیشہ ان کی طرف سے مایوس کن جواب ملا ہے جو ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ آج مسلمانوں کے دلوں میں اپنے مذہب کی سچائی پر کوئی یقین نہیں وہ محض رسمی رنگ میں اسلام سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں ورنہ ان کے دل کے اندرونی گوشے یقین اور وثوق سے بالکل خالی ہیں۔ ایک بہت بڑے آدمی جو اس وقت ہندوستان میں چوٹی کے علمی مقام پر ہیں ان سے میں نے ایک دفعہ پوچھا کہ آپ رسول کریم ﷺ کوکیوں مانتے ہیں؟ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ میں کیوں رسول کریم ﷺ کو مانتا ہوں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اب مسلمانوں میں محض رسمی ایمان رہ گیا ہے اور وہ مذہب پر غور کرنے کے عادی نہیں رہے۔ اسی وجہ سے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا میں ماموریت کا اعلان فرمایا تو مسلمان آپ پر اعتراض کرنے لگ گئے ہیں کیونکہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ایک خیالی وجود کو مان رہے تھے۔ حقیقت ان کی نظروں سے پوشیدہ تھی۔ پس تواصوا بالحق کے معنے یہ ہیں کہ نبی کوماننے والے خود بھی یقین پر قائم ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی رسمی ایمان کے دائرہ سے نکال کر حقیقی ایمان کے دائرہ میں لانے کی کوشش کرتے ہیںاور چونکہ ان کو عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر بات کو سوچ سمجھ کر مانیں اندھی تقلید اختیار نہ کریں اس لئے وہ ہر بات کی حکمت کو معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں تو سمجھ کر پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں تو سمجھ کر رکھتے ہیں، حج کرتے ہیں تو سمجھ کر کرتے ہیں، چندہ دیتے ہیں تو سمجھ کر دیتے ہیں، صدقہ و خیرات میں حصہ لیتے ہیں تو سمجھ کر لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے کاموں میں بشاشت پائی جاتی ہے اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کا فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ ان کے کاموں کی بنیاد یقین پر ہوتی ہے تخمینہ اور قیاس پر نہیں۔
(۵) حق کے ایک معنے حزم اور احتیاط کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے وتواصوا بالحق کے یہ معنے ہیں کہ مومن حزم پر قائم ہوتے اور دوسروں کو بھی اس پر قائم کرتے ہیں۔ یہ خوبی بھی نبی پر ایمانلانے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے باقی تمام اقوام تہور کا شکار Desperate ہوکر اپنی طاقت کو بالکل کھو بیٹھتی ہیں لیکن نبی پر ایمان لانے والوں کے سامنے ایک بلند مقصد ہوتا ہے۔ دین کا جھنڈا اُن کے ہاتھ میں ہوتا ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری ان میں سے ایک ایک فرد پر عائد ہوتی ہے اور چونکہ وہ ایک بہت بڑی امانت کے حامل ہوتے ہیں۔اس لئے وہ اونچ نیچ کو دیکھتے ہوئے سنبھل سنبھل کر اپنے قدم بڑھاتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ وہ گر پڑیں اور جس جھنڈے کو انہوں نے فتح و کامرانی کے ساتھ دشمن کے مقام پر گاڑتا ہے وہ سرنگوں ہوجائے۔ لیکن دوسری قومیں صرف اتنا جانتی ہیں کہ ہمارا کام یہ ہوجائے کہ ہم مرجائیں یا ماردیں۔ اس وجہ سے وہ اندھا دھند حملہ کرتی اور اپنی طاقت کو ضائع کردیتی ہے۔ پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مومن اپنے ہر کام میں حزم و احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی ہمیشہ محتاط راہ پر چلنے کی تاکید کرتے ہیں۔
(۶) اسی طرح حق کے ایک معنے موت کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے وتواصوا بالحق کے یہ معنے ہیں کہ مومن خود بھی موت کو خوشی سے قبول کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ ڈرو نہیں اپنی جان اللہ تعالیٰ کے راستہ پر قربان کرو۔ گویا مومن جماعت قربانی اور ایثار کی مجسمہ ہوتی ہے اور موت کا ڈر اس کے دل کے کسی گوشہ میں بھی نہیں ہوتا۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیاں ہماری کامیابی کے متعلق موجود ہیں اگر ہم زندہ رہے تو فاتح ہوگئے اور اگر مرگئے تو اگلے جہان میں آرام سے زندگی بسر کریں گے۔ دونوں صورتوں میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ زندگی میں بھی فائدہ ہے اور موت میں بھی فائدہ ہے۔ زندہ رہے تو کامیابی یقینی ہے اور اگر مرگئے تواگلے جہاں میں ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے وارث ہوں گے۔ اس یقین کی وجہ سے جو دلیری مومنوں میں پائی جاتی ہے اس کاعشر عشیر بھی کسی اور قوم میں نہیں ہوتا۔ جب بدر کے میدان میں کفار ار مسلمان ایک دوسرے کے مقابل میں پہنچ گئے تو کفار نے ایک شخص کو یہ پتہ لگانے کیلئے بھیجاکہ مسلمان کتنے ہیں اور ان کے سازوسامان کاکیا حال ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ وہ آدمی نہایت ہوشیار تھا کیونکہ واپس جاکر اس نے کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ مسلمان تین سو سوا تین سو کے قریب ہیں اور یہ بات بالکل ٹھیک تھی کیونکہ مسلمان تین سو تیرہ تھے۔ مگر اس نے کہا اے میرے بھائیو! میرا مشورہ یہ ہے کہ تم لڑائی کا خیال بالکل چھوڑ دو کیونکہ میں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر آدمیوں کو نہیں بلکہ موتوں کو سوار دیکھا ہے۔یعنی ان میں سے ہر شخص کے چہرہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ آج اس نیت اور ارادہ کے ساتھ آیا ہے کہ میں زندہ واپس نہیں جائوں گا۔ اور جو قوم اس نیت اور ارادہ کے ساتھ میدان میں آئے اس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔یہی تواصوا بالحق کے معنے ہیں کہ مومن نڈر اور بہادر ہوتے ہیں وہ موت سے نہیں ڈرتے بلکہ خوشی سے اس کو قبول کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ تم موت سے مت ڈرو گویا تواصوا بالحق میں مومنوں کے ایمان اور یقین کی طرف اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ انہیں صداقت پر اتنا کامل یقین ہوتا ہے کہ بجائے اس کے کہ موت کو برا سمجھیں اسے اپنے لئے خوشخبری سمجھتے ہیں اور نہ صرف خود موت کیلئے تیار رہتے ہیں بلکہ اپنے ساتھیوں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر تم کامیابی چاہتے ہو تو موت کیلئے تیار رہا کرو۔
پھر فرماتا ہے وتواصوا بالصبر مومنوں کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ خود بھی صبر کرتے اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ صبر کے معنے یہ ہیں کہ ان کے اندر مظالم کو برداشت کرنے کی طاقت ہوتی ہے۔ اسی طرح صبر کے ایک معنے استقلال کے بھی ہیں گویا مومنوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی سچائی کو قبول کرتے ہیں تو اس کے بعد انہیں اس بات کی کچھ پروا نہیںہوتی کہ دشمن انہیں مصائب میں مبتلا کرتا ہے یا ان پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ بڑی ہمت کے ساتھ تمام مشکلات کوبرداشت کرتے ہیں اسی طرح نیکیوں پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں۔ یعنی استقلال کا مادہ ان میں پایا جاتا ہے اور وہ دوسروں کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیںکہ تمہیں اپنے اندر استقلال اور مصائب کو برداشت کرنے کا مادہ پید اکرناچاہئے۔
ان آیات سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ مومن کا مذہب قومی مذہب ہوتا ہے اس کی نیک خواہشات صرف اپنی ذات تک محدود نہیںہوتیں بلکہ تمام بنی نوع انسان تک وسیع ہوتی ہیں۔ وہ ایک عالمگیر مواخات کا زبردست حامی ہوتا ہے اور تمام چھوٹوں اور بڑں کو ایک سلسلہ میں منسلک کرنا چاہتا ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ کہ صرف میں نیک بنوں بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ میرا ساتھی بھی نیک ہو اور دنیا میں صلح اور آشتی کی بنیاد ایسی مضبوط ہو کہ کوئی زلزلہ اس کو جنبش میں نہ لاسکے۔ یہی باتیں ہیں جو دنیا میں قوموں کو ہلاکت سے بچایا کرتی ہیں۔ جس قوم کے افراد میں یہ باتیں پائی جائیں اس قوم کو کوئی ہلاک نہیں کرسکتاخواہ اس کے دس افرا دہوں، سو ہوں، ہزار ہوں، دس ہزار ہوں وہ بہرحال غالب آتی اور دنیا میں قائم رہتی ہے۔ پس فرماتا ہے والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین امنوا و عملوا الصلحت وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر۔ ہم زمانہ نبوت کو یا دہر کو یا رسول کریم ﷺ کے آخری زمانہ کو اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ چونکہ یہ تین صفتیں مومنوں کے اندر پائی جائیں گی اس لئے وہ یقینا جیت جائیں گے اور چونکہ یہ تین صفتیں ان کے دشمنوں کے اندر نہیں پائی جائیں گی اس لئے وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ضرور ہاریں گے۔
سورۃ الھمزۃ مکیۃ
سورئہ ہمزہ ۔ یہ مکی سورۃ ہے
وھی تسع ایات دون بسملۃ و فیھا رکوع واحد
اس کی بسم ا للہ کے سوا نو آیات ہیں اور ایک رکوع ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیمO
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے(شروع کرتا ہوں)
ویل لکل ھمزۃ لمزۃ O
ہر غیبت کرنے والے (اور) عیب چینی کرنے والے کیلئے عذاب (ہی عذاب) ہے۔
سورۃ ہمزہ اکثر مفسرین کے نزدیک مکی ہے ۔ مستشرقین یورپ بھی اسے ابتدائی مکی سورتوں میں سے قرار دیتے ہیں ۔ اس سورۃ میں زمانہ رسالت کے لوگوں کا حال بتایا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دکھ دیتے تھے اور اپنے اموال پر مغرور تھے۔ ھمزو لمز کے معنے عیب چینی اور غیبت کے بھی ہوتے ہیںاور دکھ اور تکلیف دینے کے بھی ہوتے ہیں اور یہ دونوں معنی یہاں چسپاں ہوتے ہیں۔یعنی وہ دکھ بھی دیتے تھے اور عیب چینی اور غیبت بھی کرتے تھے۔ پھر اس سورۃمیں یہ بتایا گیا ہے کہ باوجود اہل مکہ کے مالدار ہونے کے اور باوجوداپنے اموال پر فخر کرنے کے اور باوجود اس کے کہ وہ مسلمانوں کو حقیر سمجھتے تھے ان کی طرف کئی قسم کے عیوب منسوب کرتے تھے اور ان کی غیبتیں کیا کرتے تھے پھر بھی وہ لوگ ایک ایسے دکھ میں مبتلا ہو جائیں گے اور ایک ایسے عذاب سے پکڑے جائیں گے کہ ان کے دلوں کا چین بالکل اڑ جائے گا اور وہ ہلاک اوربرباد ہو جائیں گے۔
ترتیب: اس سورت کا پہلی سورۃ سے تعلق اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے ۔یعنی یہ سورتیںیکے بعد دیگر ے باری باری اسلام کے ابتدای دور اوراآخریددور کے متعلق آرہی ہیں پہلی سورۃ یعنی والعصر کا تعلق زیادہ تر آخری دور کے ساتھ ہے ۔اب اس سورۃ میںاسلام کے پہلے دور کا ذکر کیا گیا ہے۔ در حقیقت یہ چھوٹی چھوٹی سورتیں جو قرآن کریم کے آخر میں ترتیب مستقل کے طور رکھی گئی ہیںترتیب نزول کے مطابق ابتدائے اسلام میں نازل ہوئی تھیں سوائے چند ایک کے جو بعد از ہجرت نازل ہوئیں۔ ان سورتوں میں رسول کریم ﷺ کی بعثت کے دونوں دوروں کامتوازی ذکر کیا گیا ہے مگر جیسا کہ قرآن کریم کا اسلوب ہے یہ ذکر اس طرح ہے کہ اس زمانہ کے لوگ آخری دور والی سورتوں سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اور دور اول والی سو ر توں سے آج کل کے لوگ بھی برابر کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔یہ قرآن کریم کا عظیم الشان معجزہ ہے کہ جس وقت اسلام صرف چند افراد پر مشتمل تھا اسی وقت اس کی ترقی کے بعد تنزل اور اسکے تنزل کے بعد کی ترقیات کا کیا جا رہا تھا اسقدر عظیم الشان علم غیب اور کسی کتاب مین نہیں پایا جا سکتا ۔گویا اللہ تعالی کے اظہار علی الغیب کا کمال قرآن کریم میںاپنی مکمل شکل میںظاہر ہوا ہے۔
حل لغات: ویل۔عذاب کے نازل ہونے یاہلاکت کے نازل ہونیکے معنوں میں آتا ہے یعنی اس بات کے بتانے کے لئے جس شخص کے متعلق یہ لفظ بولا جاتا ہے اسکو اپنے مال یا عزت یا راحت و چین کے بارہ میں کوئی تکلیف پہنچے گی ۔گویا وہ تمام چیزیں جن کو انسان اچھا سمجھتا ہے یا جن کو اپنی عزت اور آرام کا موجب سمجھتا ہے اور جن کے ضائع ہونے پر وہ افسوس کا اظہار کرتا ہے ان کے کھوئے جانے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہو تو ویلکا لفظ استعمال کیا جاتا ہے پس ویل لکل ھمزٰۃ لمزۃ کے معنے یہ ہوئے کہ عذاب آنے والا ہے ہر ھمزہ اور لمزہ پر یا اپنی عزت کی چیزیںاور راحت وآرام کی چیزیں ہمزہ اور لمزہ کھونے والا ہے ۔ یہ لفظ جب کسی کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ وہ اس عذاب اور ہلاکت کا مستحق ہی ہے یونہی اتفاقی یا ظلما اس کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوا مثلا اگر کسی شخص پر ظلما کوئی ایذاء وارد ہو تو اس کے بارہ میں یہ نہ کہیںگے کہ ویل۔
ھمزہ اور لمزہ عربی زبان کے لحاظ سے ایک ہی معنے رکھتے ہیں کیونکہ م اور ز ان دونوں میں پائے جاتے ہیں۔اور عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ حروف بھی معنوں پر دلالت کرتے ہیںاور جب ایک قسم کے حروف ہوں تو ان کے معنوں میں اشتراک پایا جاتاہے۔ان دونوں لفظوں میں م ز مشترک ہیںصرف فرق یہ ہے کہ ایک سے پہلے ہ ہے اور ایک سے پہلے ل آخری دونوں حروف دونوں لفظوں میں مشترک ہیںجس کے یہ معنے ہیں کہ ان کے معنوں میں شدید اتصال ہونا چاہیے۔چنانچہ ایسا ہی ہے اور دونوں کے معنے بہت حد تک مشترک ہیں۔ چنا نچہ لغت میں لکھا ہے ھمزہ ھمزا: غمزہ۔یعنی اس کو اشارہ کیا نخسہ۔ اس کو انگلی ماری۔دفعہ اسکو دھکا دیا۔ضربہ۔اس کو مارا ۔عضہ اس کو کاٹا۔ اغتا بہ اس کی غیبت کی۔کسرہاس کو توڑ دیا۔ھمزا لشیطان الانسان۔ھمس فی قلبہ وسواسا۔شیطان نے انسان کے دل میںوسوسہ ڈالا۔ھمز بہ الارض: صر عہاس کو زمین پر دے مارا ۔ھمز ا لفرس؛نھسہ با لمہماز لیعدو۔گھوڑے کو ایڑ لگائی تا کہ وہ تیزی سے دوڑیھمزا لعنب ۔عصرہ۔انگوروں کو نچوڑا (اقرب)
الغرض ھمز کے معنے آنکھ مارنے کے بھی ہیں۔انگلی مارنے کے بھی ہیں۔دھکا دینے کے بھی ہیں۔کاٹنے کے بھی ہیں۔ پیٹنے کے بھی ہیں۔اسی طرح ھمز کے معنے غیبت کے بھی ہیں۔زمین پر اٹھا کر دے مارنے کے بھی ہیں۔ گھوڑے کو ایڑ مارنے کے بھی ہیںاور کسی چیز کو نچوڑنے کے بھی ہیں۔
لمز(یلمز لمزا)کے معنے ہیںعابہاس پر عیب لگا یا اور اس کے معنیا شارالیہ بعینہ و نحوھا مع کلام خفی کے بھی ہیں(اقرب)یعنی جب مجلس میں لوگ بیٹھے ہوںاور کوئی ایسا شخص آجائے جسے ذلیل سمجھا جاتا ہو تو وہ لوگ جو آپس میںگہرے دوست ہوتے ہیںاس کی طرف آنکھ سے اشارہ کرتے ہیںجس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لو جی فلاں شخص بھی ہماری مجلس کو خراب کرنے کے لئے آگیاہے۔مگر لمز اس وقت آنکھ سے اشارہ کرنے کو کہتے ہیںجب اشارہ کے ساتھ کوئی بات بھی آہستگی سے کہی جائے مثلا آنکھ سے اشارہ کیا اور سا تھ ہی کہہ دیا کہ’’تشریف لے آئے ہیں‘‘ مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ہماری مجلس کو خراب کرنے کے لئے آ گیا ہے۔ گو الفاظ یہ استعمال کئے جاتے ہیںکہ’’تشریف لے آئے ہیں‘‘۔پس لمز کا لفظ اسوقت استعمال کرتے ہیںجب اشارہ کے ساتھ بعض الفاظ بھی کہے جائیں۔ اسی طرح اس کے معنے دھکا دینے کے بھی ہیں۔مارنے کے بھی ہیں اور عیب چینی کے بھی ہیںخصوصا اس عیب چینی کے جو کسی کے سامنے کی جائے۔
ان معنوں سے پتہ لگتا ہے کہھمزہ اور لمزہ کے معنوں میں شدید اشتراک پایا جاتا ہے دونوں کے معنے مارنے کے بھی ہیں۔ دونوںکے معنے دھکا دینے کے بھی ہیںاور دونوں کے معنے عیب چینی کے بھی ہیں۔ لیکن ھمز میںاس عیب چینی کی طر ف اشارہ ہوتا ہے جو غیبت کا رنگ رکھتی ہو یعنی کسی کی پیٹھ پیچھے کی جائے۔ پھر ھمز میں توڑنے کے معنے بھی شامل ہیں۔اس لحاظ سے وہ حرکت جو ہاتھ یا سر سے اس طرح کی جائے جس طرح کوئی چیز ٹوٹ کر نیچے گرتی ہے مثلا ہاتھ کو جھٹکا دے دیا جائے یا گردن کو خاص طریق پر حرکت دی جائے تو اس کے لئے بھی ھمز کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
جہاںتک مارنے اور دھکا دینے کا سوال ہے یہ معنے ھمز اور لمز دونوں میں پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح عیب چینی کے معنے بھی دونوں میں پائے جاتے ہیںلیکن ھمز میں اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ منہ پر عیب چینی کی جائے پھر ھمز کے ایک زائد معنے نچوڑنے کے بھی ہیں۔
تفسیر: مفسرین میں حتی کہ صحابہؓ اور تا بعین میں بھی اس آیت کے متعلق کثیر اختلاف پایا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوںالفاظ لغت میںقریبا ہم معنی ہیں۔ کسی نے ھمز کے معنے عیب چینی کے کئے ہیں اور لمز کے معنے غیبت کے کئے ہیںاور کسی نے لمز کے معنے عیب چینی کے کئے ہیںاور ھمز کے معنے غیبت کے کئے ہیں۔ لیکن اس اختلاف کی اصل وجہ وہی ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے کہ یہ دونوں لفظ قریب المعنی ہیںاور اس وجہ سے مختلف لوگوں کو ان کے معنے کرنے میںشبہ واقع ہو گیا ہے چونکہ یہ دونوں الفاظ قریب المعنی تھے وہ پورے طور پر یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ اس آیت میں ھمز کن معنوں میں استعمال ہوا ہے اور لمز کن معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لغت کی تدوین بعد کے زمانہ میں ہوئی ہے ۔جب کسی علمی زبان کا دنیا میں رواج شروع ہوتا ہے اسی وقت اس کی لغت مکمل نہیں ہو جاتی بلکہ آہستہ آہستہ لغت کی کتابیں مدون ہونی شروع ہوتی ہیں تب لوگ کسی صحیح نتیجہ پر پہنچتے ہیںاس سے پہلے نہیں۔اسی وجہ سے جہاں تک لغت کا سوال ہے ابتدائی زمانہ کے مفسرین کے معنے ایسی تعین نہیں کرتے جیسی تعین بعد کے مفسرین کرتے ہیںکیونکہ بعد میں آنے والے مفسرین کو لغت کی مکمل کتا بیں مل گئیں جو پہلے موجود نہیں تھیں۔ مثلا ہمارے زمانہ میں تاج ا لعروس موجود ہے ۔لسان العرب موجود ہے اور لغت کی یہ دونوں کتا بیں اپنے اندر بہت وسیع معلومات رکھتی ہیں اور ان میں بڑی بڑی باریکیاں بیان ہیں۔لیکن تاج العروس آج سے تین سو سال پہلے لکھی گئی تھی اور لسان العرب آج سے چھ سات سو سال پہلے لکھی گئی تھی۔اس سے قبل ایک لمبا عرصہ ایسا گذرا ہے جس میں لغت کی کتابیں مدون نہیں تھیں۔گو عربی زبام کا ایک بہت بڑا کمال ہے کہ تھوڑے عرصہ میں ہی اس نے اپنی لغت کو عروج تک پہنچا دیا ۔ پھر بھی میرے نزدیک ابھی اس میں ترقی کی گنجائش ہے اور یہ لغت زیادہ بہتر طور پر مکمل ہو سکتی ہے کیونکہ آئمہ لغت نے بعض جگہ سیر کن بحثیں نہیں کیں۔ لیکن پھر بھی ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ اس قدر عظیم الشان علمی ذخیرہ ہے کہ انگریز مصنف لین پول ایک جگہ عربی لغت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ کاش ہماری زبان کی کوئی ایسی لغت ہوتی جیسی عربی زبان کی ہے ۔ گو اس فقرہ کے ذریعہ اس نے تسلیم کیا ہے کہ عربی زبان کی لغت مکمل ہے مگر میرا خیال ہے جس رنگ میں ہم لغت کی تحقیق و تد قیق کرتے ہیں اور جس قسم کی تحقیق کی قرآن کریم کی تفسیر کے لئے ہمیں ضرورت پیش آتی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ابھی اور زیادہ لغت کی تحقیق کی ضرورت ہے ۔ پرانی لغتوں میںایک خفیف سا نقص یہ پایا جاتا ہے کہ بعض جگہ مفسرین کے اقوال کو بھی لغت میں شامل کر لیا گیا ہے۔اگر اس نقص کو دور کر دیا جائے اور لغت کی حکمت کو واضح کیا جائے تو عربی زبان کی ایک ایسی لغت مکمل ہو جائے گی جس کی مثال دنیا کی اور کسی زبان میں نہیں مل سکے گی ۔
بہر حال جب دو قریب المعنیٰ الفاظ آجائیںتو ان دونوں کا آپس میںجو اختلاف ہوتا ہے صرف اس کو لیا جاتا ہے ۔ کیونکہ بلاغت کا یہ قاعدہ ہے کہ جب دو لفظ بولے جائیں اور وہ دونوں آپس میں مشترک معنے رکھتے ہوں تو دوسرے لفظ کے صرف وہ معنے لینے چاہئییں جن میں اس کا پہلے سے اختلاف پایا جاتاہو۔ یہ امر ظاہر ہے کہ مشترک معنوں کے لئے دو لفظوں کی ضرورت نہیں ہو سکتی ایک لفظ بھی پورا کام دے سکتا ہے۔ پس جب دو لفظ اکٹھے استعمال ہوں اور دونوں قریب المعنیٰ ہوں تو ہمیشہ دوسرے لفظ کے وہ معنے لئے جاتے ہیں جن میں وہ پہلے سے مختلف ہو۔ اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے دو صوتیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ ھمز کو مار پیٹ کے معنوں میں لیا جائے کیونکہ ھمز میں ماریا جسمانی ضرب کے معنے زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ اصل میں ھمز کے معنے کسر یعنی توڑنے کے ہوتے ہیں پس چونکہ اس کے اصل معنے توڑنے کے ہیں اس لئے ھمز میں مارنے پیٹنے کے معنے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ پس ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم ھمز کے معنے مارنے پیٹنے کے لیں اور لمز کے دوسرے معنے لے لیں یعنی عیب چینی وغیرہ کے۔ اور دسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ھمز ہم غیبت کے کر لیں اور لمز کے معنے عیب چینی کے کئے جائیں۔ یہ فرق میں نے کیوں کیا ہے؟ یعنی میں کیوں کہتا ہوں کہ ھمز کے معنے مارنے پیٹنے کے ہیں اور لمز کے معنے عیب چینی کے ہیں یا ھمز کے معنے غیبت کے ہیں اور لمز کے معنے عیب چینی کے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فصیح کلام میں ہمیشہ تدریج پائی جاتی ہے اور یہ تدریج کبھی اقسام کے لحاظ کے سے ہوتی ہے اور کبھی ڈگری کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ مثلاََ ایک ادیب شخص اگر کسی کے متعلق یہ بیان کرنا چاہے گا کہ وہ کافی بوجھ اٹھا سکتا ہے تو وہ کہے گا کہ فلاں شخص ایک من بوجھ اٹھا سکتا ہے بلکہ دو من بھی اٹھا سکتا ہے۔لیکن جو ادیب نہیں وہ کہے گا کہ فلاں شخص دو من بوجھ اٹھا سکتا ہے بلکہ ایک من بھی اٹھا سکتا ہے۔ ہر شخص جو اس فقرہ کو سنے گا یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ یہ فقرہ فصاحت سے گرا ہوا ہے کیونکہ جب اس نے یہ کہہ دیا تھا کہ فلاں شخص د و من بوجھ اٹھا سکتا ہے تو اسے علیحدہ طور پر یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ ایک من بوجھ بھی اٹھا سکتا ہے کیونکہ ایک من بوجھ دومن بوجھ میں شامل تھا۔ اسی طرح کوئی سمجھدار انسان یہ کہے گا کہ فلاں شخص بڑا کام بھی کرسکتا ہے اور چھوٹابھی۔ یا ایم اے پاس بھی ہے اور بی اے بھی ۔ ہاں یہ ضرور کہے گا کہ فلاں شخص بی اے پاس ہے بلکہ ایم اے بھی پاس ہے یا فلاں بات کرنے کی مقدرت رکھتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر فلاں بات کے کرنے کی بھی اس میں اہلیت پائی جاتی ہے۔ یا ادیب ہی بلکہ شاعر بھی ہے ۔ مگر پہلے بڑی بات بیان کی جائے اور پھر چھوٹی ۔ یہ فصیح کلام کے بالکل منافی ہوتاہے۔ ا س نقطئہ نگاہ کے ماتحت اگر ھمز ولمز میں سے ایک کے معنے ہم غیبت کے کرلیں اور دوسرے کے معنے منہ پر عیب چینی کے کرلئے جائیں تو یہ بالکل درست ہونگے کیونکہ ان معنی میں تدریج پائی جائے گی جو ہر فصیح کلام کی ایک ممتاز خوبی ہوتی ہے۔ جو شخص غیبت کرنے کا عادی ہوتا ہے اس میں بہادری نہیں ہوتی۔ کچھ نہ کچھ ڈر اس کی طبیعت میں پایا جاتا ہے۔ گو عیب چینی کرنے کے لحاظ سے دونوں گنہگار ہوتے ہیں وہ شخص بھی گناہ کرتا ہے جو کسی کی پیٹھ پیچھے عیب چینی کرتا ہے اور وہ شخص بھی گناہ کرتا ہے جو کسی کے منہ پر اس کے عیوب بیان کرنے شروع کردیتا ہے لیکن باوجود اس کے کہ وہ دونوں گنہگار ہوتے ہیں پھر بھی ان میں ایک فرق پایا جاتا ہے ۔ جس شخص میں بزدلی زیادہ ہوتی ہے وہ پیٹھ کے پیچھے عیب بیان کرتا ہے اور جو شخص شرارت میں بڑھ جاتا ہے وہ پیٹھ پیچھے بھی عیب چینی کرتاہے اور سامنے بھی کسی کا عیب بیان کرنے سے باز نہیں آتا ۔ اس لحاظ سے ھمز اور لمز دونوں کے معنی میں ایک تدریج پائی جائے گی۔ ھمز سے وہ شخص مراد ہوگا جو غیبت کرتا ہے اور لمز سے وہ شخص مراد ہوگاجو غیبت ہی نہیں کرتا بلکہ منہ پر بھی گالیاں دینے لگ جا تا ہے۔
دوسری صورت میں نے یہ بتای تھی کہ کبھی اقسام کے لحاظ سے بھی کلام میںتدریج پائی جاتی ہے ۔ مگر اقسام سے میری مرادظاہری قسمیںنہیںبلکہ وہ قسمیںہیںجنکی علم ا لنفس پر بنیاد ہوتی ہے۔مثلاََ مار پیٹ بظاہر اعتراض کرنے سے زیادہ سخت نظر آتی ہے لیکن دوسری طرف ہمیںیہ بھی نظر آتا ہے کہ بعض دفعہ غصہ میں آکر انسان مار تو بیٹھتا ہے اور دوسرے کو برا بھلا بھی کہہ دیتا ہے لیکن سچائی کا انکار کرنا اس کے لئے بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ اب بظاہر سچائی کا انکار کم نظر آتاہے اور مارپیٹ زیادہ سخت چیز دکھائی دیتی ہے لیکن علم النفس کے تحت مارپیٹ کم درجہ رکھتی ہے اور سچائی کا انکار بڑی خطرناک چیز ہے ۔ مارنے کو تو مائیں بھی اپنے بچوں کو مارلیتی ہیں۔ باپ بھی اپنے بچوں کو مارلیتے ہیں۔ استاد بھی اپنے شاگردوں کو مارلیتے ہیں لیکن اگر انہی کو پوچھا جائے کہ بتائو تمہاری مارپیٹ زیادہ سخت ہے یا بچوں کا جھوٹ بولنا یا کسی ار برائی میں ان کا ملوث ہونا زیادہ خطرناک ہے؟تو ہر شخص کہے گا کہ مارپیٹ اخلاقی خرابیوں کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی۔ اس تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ویل لکل ھمزۃ لمزۃ میں ھمز کے معنے مارپیٹ کے لئے جائیں ا ور لمز کے معنے عیب چینی کے ہوں گے یعنی وہ لوگ نہ صرف مارتے پیٹتے ہیں بلکہ یہاں تک ان کی نوبت پہنچ چکی ہے کہ جن امور کی صداقت ان پر واضح ہوچکی ہے ان کا بھی انکار کرتے ہیں یعنی وہ تمام حسن جو محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہؓ میں پایا جاتا ہے۔ وہ تمام خوبیاں جو اللہ تعالیٰ نے اسلام میں پیدا فرمائی ہیں اور وہ تمام بھلائیاں جو اسلامی تعلیم میںرکھی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک ایک حسن اور ایک ایک خوبی اور ایک ایک بھلائی کا وہ بڑی سختی سے انکار کررہے ہیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ سچی باتیں کہتے ہیں تو ان کو جھوٹا قرار دیا جاتا ہے۔ وہ انصاف قائم کرتے ہیں تو ان کو ظالم کہا جاتا ہے۔ وہ امن قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو فسادی بتایا جاتا ہے ۔ غرض کوئی خوبی اور بھلائی ایسی نہیں جس کا کفار کی طرف سے انکار نہ کیا جارہا ہو اور یہ حالت یقینا ایسی ہے جو پہلی حالت سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ مارپیٹ میں تو صرف غصہ کا اظہار ہوتا ہے لیکن کسی سچائی کا انکار یا طعنہ زنی یا دوسروں کی تحقیر و تذلیل کا ارتکاب ایسے امور ہیں جو اخلاق اور روحانیت کے کلی فقدان پر دلالت کرتے ہیں اور جن کے اثرات بہت دیرپا ہوتے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تلوار کے زخم مندمل ہوجاتے ہیں مگر وہ زخم جو زبان کی چھری دوسروں کے قلب پر پید اکرتی ہے کبھی مندمل نہیں ہوتے۔ غرض مارپیٹ کی نسبت طعنہ زنی اور تحقیر و تذلیل کے کلمات جو دوسروں کے متعلق استعمال کئے جائیں بہت زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ پس ھمز کے معنے مارنے پیٹنے کے ہیں اور لمز کے معنے تحقیر و تذلیل اور سچائیوں کا انکار کرنے کے ہیں۔ بظاہر مارپیٹ زیادہ سخت نظر آتی ہے لیکن علم النفس کے ماتحت مارپیٹ کم درجہ رکھتی ہے اور سچائی کا انکار زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ یہی حکمت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ھمز کو پہلے رکھا اور لمز جس میں اخلاقی برائی زیادہ تھی اس کا بعدمیں بیان کیا۔ لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یونہی ھمز کو پہلے رکھ دیا ہے اور لمز کو بعد میں۔ حالانکہ ھمز کو پہلے ہی رکھنا چاہئے تھا اور لمز کو بعد میں ہی رکھنا چاہئے تھا۔ اگر لمز کو پہلے اور ھمز کو بعد میں رکھا جاتا تو کلام اپنی فصاحت کھو بیٹھتا ۔ یہ قرآن کریم کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے کہ اس نے جہاں بھی کسی لفظ کو استعمال کیا موقع اور محل کو مدنظر رکھتے ہوئے استعمال کیا گیا ہے۔ اگر اس لفظ کو ذرا بھی ادھر ادھر کردیا جائے تو بہت بڑا نقص واقع ہوجاتا ہے۔
اس سورۃ میں گو رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے لوگوں کا خصوصیت سے ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اس ایک عام قاعدہ کا بھی استنباط ہوتا ہے ۔ قرآن کریم کا یہ طریق ہے کہ وہ ایسے رنگ میں بات کرتا ہے کہ ہر زمانے کے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور کسی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا نہ ہو کہ یہ بات میرے متعلق نہیں بلکہ کسی گذشتہ زمانہ کے لوگوں کے متعلق ہے ۔ بعض نے لکھا ہے کہ ھمز اور لمزمیں مغیرہ ،عاص بن وائل اور شریک کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ چونکہ یہ لوگ اسلام کے خلاف ہمیشہ ناجائز حرکات کیا کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے ذریعہ ان کو انتباہ فرمادیا اگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان پر عذاب نازل کردیا جائے گا۔ مگر میرے نزدیک کوئی وجہ نہیں کہ اس سورۃ کے وسیع مضمون کو اس طرح محدود کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر یہ سورت محض مغیرہ کے کسی فعل کی وجہ سے نازل ہوئی تھی یا صرف عاص بن وائل کواس میں مخاطب کیا گیا تھا یا صرف شریک کا اس میںذکر تھاتو اللہ تعا لیٰ یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ ویل لعاص بن وائل یا ویل لسمغیرہ یا ویل لشریک مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا بلکہ ویل لکل ھمزۃ لمزۃکہا ہے ۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ کلام میں جب کسی خاص شخص کی تعین کر دی جائے تومضمون نا مکمل ہو جاتا ہے مثلا اگر ہم کہیں ویل لزید زید کے لئے ہلاکت ہے تو ہر شخص یہ دریا فت کرنے کی کوشش کرے گا کہ زید کیوں برا ہے یا اس میں کونسی خرابی پائی جاتی ہے کہ اس کے متعلق ویل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ویل لکل ھمزہ لمزہ تو ہر شخص کہے گا کہ یہ با کل درست ہے جو غیبت کرتا ہے یا جسے عیب چینی کی عادت ہے یا سچائیوں کا انکار کرتا ہے تو وہ ضرور برا ہے اور اس قابل ہے کہ اس کو سزا ملے ۔
چونکہ قرآن کریم ہر زمانہ کے لوگوں کی ہدائیت کا سامان اپنے اندر رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لئے ایک مکمل دستور العمل قرار دیا ہے اس لئے اگر اس سورۃ میںکسی کا نام لیا جاتا تواس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ مثلا اگر یہ کہا جاتا کہ ویل لعاص بن وائل تو اسسے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا تھا وہ مر گیا اسکی اولاد بھی مر گئی ۔ اولاد کی اولاد بھی مر گئیاور پھر اس اولاد کی اولاد بھی مر گئی ۔ بلکہ اس کی اولاد بعد میں مسلمان بھی ہو گئی اور اسلام کی خدمت میں اس نے اپنی عمر بسر کر دی ۔ اب ہمیں اس سے کیا فائدہ ہو سکتا تھا کہ ویل لعاص بن وائل یا ویل لمغیرۃ یا ویل لشر یکلیکن جب یہ کہا گیا کہ ویل لکل ھمزۃ لمزۃ تو قیامت تک ہر شخص کو فا ئدہ پہنچ سکتاہے اور ہر شخص کوشش کرے گا کہ میں ھمزہ لمزہ نہ بنوں۔ پس چونکہ قرآن کریم ایک دائمی شریعت ہے جس میں ہر زمانہ کے لوگوں کی اصلاح کا سامان رکھا گیا ہے اس لئے قرآن کریم وہ الفاظ استعمال کرتا ہے جو قیامت تک کام آنے والے ہوںاور جن سے ہر زمانہ کے لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہوں۔ پس اگر بعض اشخاص کے نام لے لئے جاتے تو اس کلام کا فائدہ اسی زمانہ میں ختم ہو جاتا اور ہمارے لئے یہ آیات محض گذشتہ تا ریخ کا ورق بن جاتیں۔ ہم سمجھتے کہ کوئی عاص بن وائل تھا جس پر عذاب آیا یا کوئی مغیرہ تھا جس میں فلاں فلاں خرابیاں پائی جا تی تھیں یا کوئی شریک تھا جو اس قسم کی عادات رکھتا تھا ۔ چنانچہ جب ہم اس سورت پر پہنچتے فورا کہہ اٹھتے کہ ہمیں اس سے کیا غرض ہے یہ ایک پرانا واقعہ بیان کیا جارہا ہے ہمیں اس کو پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اب ہم ایسا نہیں کہہ سکتے ۔ اب ہر شخص مجبور ہے اس امر پر کہ وہ ہمزہ اور لمزہ نہ بنے تاکہ وہ اللہ تعالی کی ناراضگی کا مورد نہ بن جائے ۔ پس خواہ یہ آیات مغیرہ کے متعلق ہوں یا عاص بن وائل کے متعلق یا شریک کے متعلق ۔ اللہ تعا لیٰ نے اس سورۃ میںشخصی بحث نہیں کی بلکہ فلسفیانہ بحث کی ہے اگر شخصی بحث کی جاتی تو یہ کلام متروک ہو جاتا لیکن فلسفیانہ بحث کی وجہ سے پہلے بھی یہ کلام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاتا رہا ہے ، اب بھی پہنچا رہا ہے اور آئندہ بھی پہنچاتا رہے گا اور جس شخص میں بھی یہ باتیں پائی جائیں گی اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ میں اپنی اصلاح کی طرف توجہ کروںایسا نہ ہو کہ میں اللہ تعالی کی ناراضگی کا مورد بن جائوں۔ بہر حال اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ویل لکل ھمزۃ لمزۃ ہر شخص جو دوسروں کو کچل کر آپ بڑا بننا چاہتا ہے یا دوسروں کی عیب چینی میں مشغول رہتا ہے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ اپنی ان حرکات سے باز نہیں آئے گا تو اللہ تعالی کا عذاب اس پر نازل ہو گا ۔ اس صورت میں لمز کے معنے تو عیب چینی کے ہوں گے ۔ ھمز کے معنے متکبر اور مغرور انسان کے ہوں گے کیونکہ مار پیٹ ہمیشہ مغرور انسان کا شیوہ ہوتا ہے اور اس کی غرض اس قسم کے ظالمانہ سلوک سے یہی ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کو کچل دے اور اس پر اپنی طاقت کا اظہار کرے ۔
دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اپنی نعمتوں کو کھو بیٹھے گا اور سخت حسرت اور افسوس کرے گا ۔ ہر وہ شخص جو دوسروں کی غیبتیں کرتا ہے بلکہ غیبت پر ہی منحصر نہیںمنہ پر بھی دوسروں کے عیوب بیان کر دیتا ہے اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیںکرتا کہ میں جھوٹ بھی بول رہا ہوںاور دوسرے کا دل بھی دکھا رہا ہوں۔
غیبت کے متعلق بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اگر اسکا کوئی سچا عیب اسکی عدم موجودگی میں بیان کیا جائے تو وہ غیبت میں داخل نہیں ہوتا ہاں اگر جھوٹی بات بیان کی جائے تو وہ غیبت ہوتی ہے حلانکہ یہ صحیح نہیںغیبت کا اطلاق ہمیشہ ایسی سچی بات پر ہوتا ہے جو کسی دوسرے کو بدنام کرنے کے لئے اس کی غیر حاضری میں بیان کی جائے اگر جھوٹی بات بیان کی جائے تو وہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہوگا۔احادیث میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریمﷺ سے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ غیبت تو بری چیز ہوئی اگر اپنے بھائی کا کوئی سچا عیب اس کی موجودگی میں بیان کیا جائے تو آیا یہ تو منع نہیں؟رسول کریمﷺ نے فرمایا کسی کی عدم موجودگی میںاس کا سچا عیب بیان کرنا ہی غیبت ہے ورنہ اگر دوسرے کے متعلق جھوٹی بات بیان کی جائے تو یہ بہتان بن جائے گا ۔ اسلام نے غیبت کی ممانعت کے متعلق جو حکم دیا ہے اس میں حکمت یہ ہے بسا اوقت انسان دوسرے کے متعلق ایک رائے قائم کر تا ہے اور اپنے آپ کے اس رائے میں حق بجانب بھی سمجھتا ہے لیکن در حقیقت اسکی رائے صحیح نہیں ہوتی ۔ ہم نے بیسیوں دفعہ دیکھا ہے کہ ایک شخص دوسرے کے متعلق ایک قطعی رائے قائم کر لیتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ میری رائے درست ہے لیکن ہوتی غلط ہے ۔ ایسی صورت میںاگر دوسرا شخص سامنے بیٹھا ہوگا اور اس کے متعلق کسی رائے کا اظہار کیا جائے گا تو وہ لازماً اپنی برات کرے گا اور کہے گا کہ تمہیں میرے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے میرے اندر یہ نقص نہیں پایاجاتا ۔ پس خواہ کسی کے نزدیک کوئی بات سچی ہو جب وہ دوسرے شخص کی عدم موجودگی میں بیان کرتا ہے اور وہ بات ایسی ہے جس سے اس کے بھائی کی عزت کی تنقیص ہوتی ہے یا اسکے علم کی تنقیص ہوتی ہے یا اسکے رتبہ کی تنقیص ہوتی ہے تو قرآن کریم اور احادیث کی رو سے وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ اس طرح اس نے اپنے بھائی کو اپنی برات پیش کرنے کے حق سے محروم کر دیا ہے۔
چونکہ یہ سورۃ گذشتہ ترتیب کے مطابق رسول کریمﷺکے زمانہ کے متعلق ہے اس لئے اس سورۃ میں اس زمانہ کے کفار کا حال بتایا گیا ہے کہ ان کا رات دن یہ کام رہتا تھا کہ مسلمانوں کو مارتے انکو مصائب اور تکالیف میںمبتلا کرتے اور ان پر قسم قسم کے مظالم توڑتے پھر اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی شیوہ تھا کہ وہ ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہتے یعنی صرف خود ہی ان کے دشمن نہیں تھے بلکہ انکی کوشش یہ ہوتی تھی کہ دوسرے لوگ بھی انکے دشمن بن جائیں۔آخر کسی کا عیب بیان کرنے کی کیا غرض ہوتی ہے یہی کہ دوسروں کو بھی برانگیختہ کیا جائے ۔پس ھمز کے لحاظ سے تو انکی یہ حالت تھی کہ وہ مسلمانوں کو مارتے اور ان کو مختلف مصائب میں مبتلا کرتے ۔ لیکن لمز کے لحاظ سے وہ اسبات کی کوشش کرتے تھے کہ باقی دنیا کو بھی مسلمانوں کا دشمن بنا دیں کفار کی ان شرمناک حرکات کا ذکر تے ہوئے اللہ تعالی اس آیت میں بیان فرماتا ہے کہ وہ تمام اشخاص جو محمد رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہؓ کو دکھ دیتے اور دوسری طرف ان کے خلاف پرا پیگنڈہ کرتے رہتے ہیںاور اس طرح پبلک کو بھی اسلام کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیںانہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ان پر ایسا عذاب نازل ہونے والا ہے جس سے ان کے دلوں کا چین بالکل اڑ جائے گا اور انکی امیدیں سب خاک میں مل جائیں گے۔
ن الذی جمع ما لا وعددہO
جو مال کو جمع کرتا ہے اور اسکو شمار کرتا رہتا ہے
حل لغات:۔عدد المال حسبہ عدۃ للدھریعنی جبعددالمالکہا جائے تو اسکے معنے یہ ہوتے ہیںکہ اس نے مصیبت کے دنوں میںکام آنے کے لئے پنا مال جمع کیا (اقرب)دنیا میں جب کوئی شخص اپنی ذاتی ضروریات کے لئے مثلا شادی بیاہ کے لئے یا بیماریوں اور مقدمات وغیرہ کے لئے کچھ روپیہ پس انداز کرتا ہے تو اس مال کو عدہکہتے ہیںپسجمع مالاوعددہ کے معنے یہ ہوں گے کہ اس نے روپیہ جمع کیا اور پھر یہ خیال کیا کہ یہ روپیہ میری مصیبت کے وقت کام آئے گا یا دشمن کے حملوں سے میری حفاظت کا ذریعہ ثابت ہوگا یا اور ضروریات کو پورا کرنے کا موجب ہوگا ۔
پھرعددکے معنے گننے کے بھی ہوتے ہیںلیکن عام طور پر عربی زبان میںعددکا لفظ گننے کے لئے آئے تو متعدد چیزوں کے لئے آتا ہے ۔ مثلا کہا جائے گا عدالدراھم۔اس نے دراہم گنے کیونکہ دراہم متعدد ہوتے ہیں۔ لیکن عددالمالکہیں تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ اس نے اپنا مال کسی ضرورت کے لئے سنبھال کر رکھا ۔ گننے کے معنے اس میںنہیں پائے جائیں گے ۔ ہاں اگر مال کو کلیکٹوٹرم قرار دیا جائے یعنی ایسی چیز جو ہوتی تو ایک ہے مگر دلالت تعدد پر کرتی ہے تو اس لحاظ سے اس کے معنے گننے کے بھی ہوسکتے ہیںاور جمع مالاوعددہکے یہ معنے ہونگے کہ وہ سخت لالچی اور حریص ہے ۔ایک طرف مال جمع کرتا ہے اور دوسری طرف اس کو ہمیشہ گنتا رہتا ہے کہ میرے پاس آج اتنا روپیہ جمع ہو گیا ہے کل اتنے روپے جمع ہو جائیں گے ۔
اسی طرح عددکا لفظ بعض دفعہ کسی چیز کے اوصاف بیان کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ عربی میں کہتے ہیںعددالمیت اس نے میت کو گنا اور مراد یہ ہوتی ہے کہعد منا قبہ اس نے میت کے مناقب بیان کئے اور کہا کہ وہ بڑا سخی تھا ،بڑا بہادر تھا یا بڑا سمجھدار تھا ۔چونکہ اخلاق کئی قسم کے ہوتے ہیںاس لئے مختلف صفات اور عادات کے لحاظ سے بھی عدد لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے ۔ اس صورت میں جمع ما لاوعددہ کے یہ معنے ہونگے کہ وہ مال جمع کرتا ہے اور پھر اسکی خوبیاں بیان کرنی شروع کر دیتا ہے کہ اگر مال کو روک کر رکھا جائے اور ان لوگوںکی تقلید نہ کی جائے جو ضروریات کے پیش آنے پر فورا روپیہ خرچ کر دیا کرتے ہیںتو اسکے بڑے فوائد ہوتے ہیں۔اصل قراء ت تو عددہ ہی ہے لیکن بعض قراء نے اس کو عددہ بھی پڑھا ہے۔
تفسیر:۔ عام محاورہ کے مطابق اس آیت میں جمع ا لمال کے الفاظ ہونے چاہیے تھے مگر اللہ تعالی نے جمع المالکی بجائیجمع مالافرمایا ہے ۔اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ایسا کیوں کیا ہے اور مالا کی تنوین اپنے اندر کیاحکمت رکھتی ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تنوین اپنے اندر تین حکمتیں رکھتی ہے۔
اول:۔ یہ تنوین تحقیر کی بھی ہو سکتی ہے ۔
دوم:۔ یہ تنوین تقبیح کی بھی ہو سکتی ہے۔
سوم:۔ یہ تنوین تعظیم کی بھی ہو سکتی ہے ۔
پہلی صورت میںالذی جمع مالا کے یہ معنے ہو ں گے کہ جس نے تھوڑا سا مال جمع کیا اور پھر اس پر فخر کرنے لگا ۔ یہاں تھوڑے مال کا یہ مفہوم نہیں کہ اس نے کم روپیہ جمع کیا بلکہ مطلب یہ ہے کہ دنیا کا مال خواہ کسی نے ڈھیروں ڈھیر جمع کر لیا ہو بہر حال ایک فانی متاع ہے اور وہ خدا تعالی کی دین اور اسکے بدلہ کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔اسی وجہ سے قرآن کریم میں دنیا کے اموال کے متعلق یہ صرا حتا فرمایا گیا ہے کہفما متاع الحیوۃ الدنیا فی ا لاخرۃالا قلیل(التوبہ۶ع۱۲)دنیا کی متاع آخرت کے مقابلہ میں نہایت قلیل چیز ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خواہ ساری دنیا کا مالک بن جائے بہرحال چالیس پچاس سال کے بعد مر جاتا ہے اور پھر اس لحاظ سے بھی متاع الحیٰوۃ قلیل ہے کہ انسان نے مر کر اگلے جہان جانا ہے اگر کسی انسان نے اس مقام پر اپنے لئے کوئی سرمایہ جمع نہیں کیا تو دنیا کے اموال اسے کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیںاور اگر کسی انسان نے اس جگہ اپنے لئے سرمایہ جمع کیا ہوا ہے تب بھی اس کے مقابلہ میںدنیا کا مال کوئی حقیقت نہیں رکھتا غرض کوئی نقطہ نگاہ لے لو بہر حال دنیا کا متاع قلیل ہے۔پسجمع مالا کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ جمع مالا قلیلا۔اس نے دنیا کی تھوڑی سی پونجی جمع کر لی اور پھر اس پر گھمنڈ کرنا شروع کر دیا کہ میں بڑا مال دار بن گیا ہوں۔
(۲)تقبیح کی صورت میں اس کے یہ معنے ہونگے کہ الذی جمع مالا حراما۔ایسا مال اس نے جمع کیا جو نہایت ردی اور خبیث تھا ۔ حالانکہ عقلمند انسان کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب اسے کوئی گندی چیز ملے تو اسے اٹھا کر پھینک دے نہ یہ کہ اسے حفاظت کے ساتھ اپنے گھر لے آئے ۔ اگر کسی کو کوئی کھوٹا سکہ مل جائے تو وہ اسے اٹھا کر اپنی جیب میں نہیں رکھ لیتا یا اسے نجاست سے لتھڑی ہوئی کوئی چیز مل جائے تو وہ اسے اپنے گھر نہیں لے آتا مگر ان لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ مال اپنے پاس رکھتے ہیں جو گندہ ہے اور جسے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے اکٹھا کیا گیا ہے حالانکہ انہیں چاہیئے تھا کہ ایسا مال فوراََپھینک دیتے اور ایک لمحہ کیلئے بھی اس کو اپنے پاس رکھنے کے لئے تیار نہ ہوتے ۔
(۳) تعظیم کی صورت میں اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ الذی جمع مالا کثیرا ۔ جس نے بہت سا مال جمع کیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں لاکھوں روپیہ بھی بالکل حقیر چیز ہے لیکن بندہ جب اپنی نگاہ سے اس مال کو دیکھتا ہے تو اسے بہت بڑا مال معلوم ہوتا ہے اگر کسی کے پاس ہزار روپے بھی جمع ہوجائیںتووہ خیال کرتا ہے کہ میرے پاس بہت روپیہ جمع ہوگیا ہے۔ حالانکہ ہزار روپیہ موجودہ زمانہ میں کوئی حقیقت ہی نہیںرکھتا ۔وہ مفسرین جنہوں نے ان آیات کو کفارمکہ پر چسپاں کیا ہے انہوں نے الذی جمع مالا کے ماتحت لکھا ہے کہ شریک کے پاس پندرہ ہزار درہم تھے جن کی وجہ سے وہ دوسروں پر فخر کا اظہار کیا کرتا تھا ۔ پندرہ ہزار درہم آج کل کے حساب سے صرف پانچ ہزار روپے بنتے ہیںاور یہ روپیہ موجودہ زمانہ کی دولت کے لحاظ سے کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا ۔ ہندوستان میں ہی اگر کسی کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ بڑا مال دار ہے اس کے پاس پانچ ہزار روپے ہیں تو سب لوگ ہنس پڑیں گے کہ کیسی احمقانہ بات کی گئی ہے پانچ ہزار روپے بھی کوئی چیز ہیں۔ مگر عرب میں یہ بہت بڑی دولت سمجھی جاتی تھی اور اگر کسی کے پاس اتنا روپیہ جمع ہو جاتا تو وہ خیال کیاکرتا تھا کہ اب مجھ سے بڑا اور کون ہو سکتا ہے میرے پاس تو پانچ ہزار روپے جمع ہیں ۔ لیکن موجوہ زمانہ میں دنیا کی عمارت کا یہ حال یہ ہے کہ ہندو ستان کے اکژ حصے ایسے ہیں جہاںصر ف اسی شخص کو مالدار سمجھا جاتا ہے جس کے پاس دس پندرہ لاکھ روپے ہوں ۔ لیکن اگر بمبئی چلے جائو تو وہاں دس پندرہ لاکھ والے کو کوئی شخص مالدار کہنے کے لئے تیار نہیں ہوگا وہاں اسی نوے لاکھ یا ایک کروڑ روپیہ رکھنے والے کو مالدار کہا جاتا ہے ۔اس کے بعد انگلستان چلے جائو تو وہاں ایک کروڑ روپیہ رکھنے والے کو کوئی شخص مالدار نہیں کہے گا وہاں دس پندرہ کروڑ رکھنے والے کو مالدار سمجھا جاتا ہے پھر امریکہ چلے جائو تو وہاں دس پندرہ کروڑ والے شخص کو کوئی مالدار نہیں کہتا وہاں ڈیڑھ دو کروڑ یا اس سے بھی زیادہ سالانہ انکم رکھنے والے کو مالدار سمجھا جاتا ہے ۔غرض امارت کا معیار موجودہ زمانہ میں بہت بلند ہو گیا ہے ۔لیکن عربوں کے لئے یہی بات بڑی تھی کہ ان میں سے کسی کے پاس پانچ چھ ہزار روپیہ جمع ہو گیا ۔پسجمع مالامیںتنوین تعظیم کی بھی ہو سکتی ہے لیکن اس صورت میں یہ تعظیم اس انسان یا اس قوم کے نقطہ نگاہ سے ہو گی جس نے مال جمع کیا ہے اور آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ میں نے بڑا مال جمع کر لیا ہے ۔بہر حال اس آیت کے تینوں معنے ہو سکتے ہیں۔ یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ اس نے بہت سا مال جمع کیا ہے۔اور یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ اس نے گندہ اور ردی مال جمع کیا ہے ۔
عددہ۔عددکے معنے جو اوپر بیان کئے گئے ہیںوہ سب کے سب ا س مقام پر چسپاں ہوتے ہیںچنانچہ دنیا میںجس قدر بخیل لوگ پائے جاتے ہیںان سب میں یہ نقص ہوتا ہے کہ وہ روپیہ جمع کرتے ہیںاور پھر ہمیشہ گنتے رہتے ہیںکہ اب ہمارے پاس اتنے روپے ہو گئے ہیںاب ہزار روپیہ ہو گیا ہے اب لاکھ روپیہ ہو گیا ہے ، اب کروڑ روپیہ ہو گیا ہے ۔ انہیں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ اگر اس مال کو کسی نفع مند کام پر لگا یا جاتا یا بنی نوع انسان کی بھلائی کے کاموں پر صرف کیا جاتا تو کیسا اچھا ہوتا اور کتنے لوگوں کو اس سے فائدہ ہوتا ۔پھر یہ بھی ایک عام مرض بخیل لوگوں میں ہوتا ہے کہ وہ روپیہ تو جمع کرتے ہیںمگر قومی ضروریات تو الگ رہیں اپنی ذاتی ضروریات پر بھی اس کو خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔بخیل کی بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ جب اس سے کہا جائے کہ تم روپیہ کیوں خرچ نہیں کرتے تو وہ کہتا ہے کہ یہ روپیہ تو کسی دن کے لئے رکھا ہوا ہے پہلے اس کو کس طرح خرچ کر دوں۔ مگر اسکی ساری عمر گذر جاتی ہے اور اس کا وہ دن کبھی نہیں آتا ۔روپیہ غلق میں ہی بند رہتا ہے یہاں تک کہ وہ مر جاتا ہے ۔بعد میں اس کی اولاد شراب اور جوئے میں اسکے روپیہ کو برباد کر دیتی ہے یا کنچنیوںکے ناچ گانے میں سب جائدادلٹا دی جاتی ہے ۔لیکن اسکی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ خود بیمار ہو،اس کی بیوی بیمار ہو ،اس کا بچہ بیمار ہو ،اس کا بھائی بیمار ہو،اور اسے کہا جائے کہ علاج کرائو تو کہتا ہے یہ روپیہ تو کسی دن کے لئے رکھا ہوا ہے ۔اسی طرح اسکی ساری عمر کٹ جاتی ہے۔وہ ننگا رہتا ہے،وہ بھوکا رہتا ہے،وہ بیمار رہتا ہے،وہ مصائب میں مبتلا رہتا ہے ،اسکے بیوی بچے تکالیف اٹھاتے ہیںمگر اس کا وہ دن نہیں آتا جس کے لئے اس نے روپیہ جمع کیا ہوا ہوتا ہے ۔
تیسرے معنے اسکے یہ ہیںکہ بجائے اسکے کہ وہ مال خرچ کرے اور پبلک کو روپیہ کے چکر سے فائدہ پہنچے وہ اپنے اس فعل کی خوبیاںبیان کرتا رہتا ہے اور دوسروں سے بھی یہی کہتا ہے کہ ہمیشہ روپیہ اپنے پاس رکھنا چاہیے اس کا یہ یہ فائدہ ہوتا ہے یعنی بجائے اسکے کہ وہ اپنے اس فعل پر نادم اور شرمندہ ہو وہ فخر کرتا ہے اور دوسروں سے بھی یہی کہتا ہے کہ روپیہ کی انسان کو اپنی زندگی میں بڑی ضرورت پیش آتی ہے انسان کو چاہیے کہ وہ ذاتی یا قومی ضروریات کو نظر انداز کر دیا کرے گویا نادم اور شرمندہ ہونے کی بجائے وہ الٹا گناہ پر فخر کرتا ہے ۔
یحسب ان ما لہ اخلدہo
وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس(کے نام) کو باقی رکھے گا
تفسیر:۔ یحسب ان ما لہ اخلدہ۔اس آیت میںیہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ روپیہ خرچ کرنے میں بخل سے کیوں کام لیا جاتا ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے یحسب ان ما لہ اخلدہ۔وہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال اسکی بقاء کا باعث ہو گا یعنی مالدار لوگوں میںبخل کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے دلوں میںیہ احساس ہوتا ہے کہ جمع کیا ہوا مال ہمارے خاندان کی عزت کا موجب ہوگا۔ اسی وجہ سے وہ تکالیف برداشت کرتے ہیں مگر روپیہ خرچ نہیں کرتے۔ ایک ادنیٰ بخیل کے ذہن میں تو یہ بات ہوتی ہے کہ میں آج سے دس سال کے بعد اپنے بیٹے کی شادی پر یا اپنے مکان کی تعمیرپر روپیہ خرچ کروں گا مگر بڑے بخیل کے ذہن میں بات نہیں ہوتی۔ وہ چاہتا ہے کہ میں بھی روپیہ جمع رکھوں میری اولاد بھی روپیہ جمع کرتی جائے اور اس کی اولاد بھی روپیہ جمع کرتی جائے تاکہ ہمارے خاندان کا نام اور اس کی شہرت قائم رہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مال رہنے کی وجہ سے ہمارے خاندان کو دائمی عزت حاصل ہوجائے گی۔ حالانکہ اگر وہ سوچے تو اسے روزانہ یہ نظارے نظر آسکتے ہیں کہ ایک شخص بڑی مشکل سے روپیہ جمع کرتا ہے وہ خود بھوکا رہتا ہے، پیاسا رہتا ہے، ننگا رہتا ہے، بیمار رہتا ہے مگر روپیہ خرچ نہیں کرتا۔ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کافی مال جمع ہوجائے مگر جب مر جاتا ہے تو اس کی اولاد تمام روپیہ عیاشی میں برباد کردیتی ہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ چونکہ مہاراجہ جموں کے شاہی طبیب تھے اسی لئے ریاست کے کئی مالدار لوگوں سے آپ کے تعلقات رہا کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے ایک دفعہ ایک بڑا مالدار شخص مرگیا تو تھوڑے دنوں کے بعد ایک مجھے ایک شخص نے آکر کہا کہ اس کے بیٹے نے عجیب طرح روپیہ لٹانا شروع کردیا ہے۔ میں نے کہا کس طرحـ؟ وہ کہنے لگا ایک دن وہ بازار میں سے گزررہا تھا کہ اس نے ایک بزاز کو تھان میں سے کچھ کپڑا پھاڑتے دیکھا جس میں سے چر کی آواز پید اہوئی۔ یہ آواز اسے ایسی پسند آئی کہ اب اس کا دن رات یہی کام ہے کہ وہ بازار سے کپڑے کے تھان منگواتا ہے اور اپنے نوکروں سے کہتا ہے کہ میرے سامنے صبح سے شام تک پھاڑتے رہو ۔ کیونکہ کپڑے کے پھاڑنے سے جو چر کی آواز نکلتی ہے وہ مجھے بڑی اچھی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے میں نے اسے بلا کر سمجھایا اور کہا کہ اس طرح روپیہ برباد مت کرو یہ بالکل لغو طریق ہے۔ اس نے جواب دیا مولوی صاحب جو مزا اس چر میں ہے وہ اور کسی چیز میں نہیں۔ تم اسے دماغ کی خرابی کہہ لو مگر آخر ہوا کیا؟ یہی کہ باپ نے جو روپیہ جمع کیا تھا وہ سب برباد ہوگیا۔ باپ نے نامعلوم کن کن مصیبتوں سے روپیہ جمع کیا ہوگا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے بیٹے کے دماغ میں ایسی خرابی پیدا کردی کہ اس نے تما م روپیہ برباد کردیا۔ اسی طرح ایسے ایسے بخیل بنئے جو ساری عمر دال سے بھی روٹی نہیں کھاتے اور روپیہ جمع کرتے رہتے ہیں ان کی اولادیں جوئے اور سٹہ میں سب روپیہ برباد کردیتی ہیں۔ پس فرماتا ہے یحسب ان مالہ اخلدہ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ قائم رکھے گا۔ حالانکہ مال قائم نہیں رکھتا بلکہ خداتعالیٰ کا فضل قائم رکھتا ہے۔ حضرت دائود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے کسی نیک آدمی کی اولاد کو سات پشت تک فاقہ کرتے اور بھیک مانگتے نہیں دیکھا۔ حالانکہ کئی کروڑ پتی ایسے ہوتے ہیں جن کی اولادیں اپنی زندگی کے دن فاقوں میں بسر کردیتی ہیں۔ پس خداتعالیٰ سے تعلق ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو خلود بخشتا ہے۔ جو شخص انفاق فی سبیل اللہ سے کام لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال کو بے دریغ خرچ کرتا رہتا ہے وہی شخص ہے جس کا مال اس کی بقا کا باعث ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایا بتائو تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جسے اس کے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ پسندیدہ ہو۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہمیں اپنے مال سے اپنے وارث کا مال زیادہ محبوب ہو۔ ہمیں تو وہی مال پسند ہوتا ہے جو ہمارا اپنا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر یاد رکھو تمہارا مال وہی ہے جسے تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہو۔ ورنہ جو کچھ تمہارے مال میں سے باقی رہ جاتا ہے وہ تمہارا نہیں بلکہ وہ تمہارے ورثاء کا ہے کیونکہ تمہاری آنکھ کے بند ہوتے ہی اس پر قبضہ کرلیا جاتا ہے (مشکوٰۃ کتاب الرقاق فی النصائح)۔ یہ حدیث اسی مضمون کو بیان کرتی ہے کہ مال وہی کام آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا گیا ہو۔ کیونکہ دوسرا مال تو غیروں کے کام آتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص ایسا ہو جو قیامت کے دن پر ایمان نہ رکھتا ہو اور اس کا عقیدہ نہ ہو کہ مرنے کے بعد کوئی شخص جنت میں جاتا ہے اور کوئی دوزخ میں اور جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کیا ہوا ہوتا ہے اسے بہت بڑا اجر ملتا ہے۔ تب بھی اتنی بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ اگر قومی ضروریات پر روپیہ خرچ کیا جائے تو انسان کا نیک نام باقی رہ جاتا ہے اور لوگ تعریف کرتے ہیں کہ فلاں شخص قوم کا بڑا خادم تھا یا غرباء کا بڑا ہمدرد تھا یا یتامیٰ اور بیوگان کا بہت خیال رکھنے والا تھا ۔ لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ لوگ ایک طرف تو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ دوسرے کے مال سے انہیں اپنا مال زیادہ پیارا ہوتا ہے مگر عملاً وہ یہ کررہے ہوتے ہیں کہ وہ مال جو انہوں نے اپنے ساتھ لے جانا ہوتا ہے یا جس نے ان کی نیک نامی کا موجب بننا ہوتا ہے اسے تو وہ پیار نہیں کرتے اور جو مال دوسروں کے کام آنے والا ہوتا ہے اسے وہ پیار کرتے اور کوشش کرتے ہیں کہ مذہبی یا قومی ضروریات پر روپیہ خرچ کرنے کی بجائے اسے جمع رکھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا ہوا مال ہی انسان کو خلود بخشتا ہے۔ جمع کیا ہوا مال خلود نہیں بخشتا۔
کلا لینبذن فی الحطمۃ O وما ادرک ماالحطمۃ O ناراللہ الموقدۃ O التی تطلع علی الافئدۃO
ہرگز ایسا نہیں (جیسا اس کا خیال ہے بلکہ) وہ یقینا (اپنے مال سمیت) حطمہ میں پھینکا جائے گا اور (اے مخاطب) تجھے کیا معلوم ہے کہ یہ حطمہ کیا شے ہے۔ یہ (حطمہ) اللہ تعالیٰ کی آگ ہے خوب بھڑکائی ہوئی جو دلوں کے اندر تک جا پہنچے گی۔
حل لغات: حطمۃ کے معنے عربی زبان میں توڑنے کے بھی ہوتے ہیں اور حطمہ کے معنے آگ کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ لغت میں لکھا ہے حطمہ: کسرہ الحطمۃ: النار الشدیدۃ (منجد) پس حطمہ کے معنے ہوئے توڑنے والی یا حطمۃ کے معنے ہوئے ایسی آگ جو سخت بھڑکنے والی ہے۔
تفسیر: اللہ تعالیٰ اس آیت میں کفار کو ان کا انجام بتاتا ہے کہ اس وقت تو ان کی یہ حالت ہے کہ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں مسلمانوں کو مارتے اور دکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح مال کے گھمنڈ میں وہ اپنے آپ کو معزز سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان کی ہمارے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا ہے۔ یہ ذلیل اور ادنیٰ درجہ کے لوگ ہیں یا جب مسلمان روپیہ خرچ کرتے ہیں تو کہتے ہیں یہ نیک نامی چاہتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں توکہتے ہیں دکھاوے کیلئے پڑھتے ہیں ، صدقہ و خیرات دیتے ہیں توکہتے ہیں نام و نمود کیلئے ایسا کرتے ہیں۔ غرض ان کے ہر نیک کام کو برے رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ لیکن ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ جس مقام پر وہ کھڑے ہوں وہ کوئی عزت بخشنے والا نہیں ۔ فرماتا ہے کلا دشمن اس خیال میں نہ رہے کہ جس مقام پر مسلمان کھڑے ہیں وہ تباہی و بربادی کی طرف لے جانے والا ہے اور جس مقام پر وہ اپنے آپ کو سمجھتا ہے وہ قائم رہنے والا ہے لینبذن فی الحطمۃ وہ ایک بھڑکنے والی آگ میں ڈالا جائے گا۔ یہ بھڑکنے والی آگ کیا ہے؟ مفسرین نے اپنی عادت کے مطابق اسے قیامت پر چسپاں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لینبذن فی الحطمۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ مگر میرے نزدیک چونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کیلئے دنیوی عذاب بھی خداتعالیٰ کی طرف سے مقدر ہوتے ہیں اور وہ بھی اپنی شدت کے لحاظ سے دوزخ کا عذاب کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس لئے حطمۃ سے یہاں دنیا کی آگ مراد ہے اوراگر اس کے معنے توڑنے کے لئے جائیں تب بھی اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم ان کی شوکت کو بالکل توڑ پھوڑ دیں گے۔
وما ادرک مالحطمۃ۔ قرآن کریم میں جہاں بھی ماادرک کے الفاظ آتے ہیں وہاں اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم نے اس مقام پر جو لفظ رکھا ہے وہ عربی زبان کے لحاظ سے کئی معنوں میں استعمال ہوسکتا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اس لفظ کے یہاں فلاں معنے ہیں۔ علم طریق تو یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی ایسا لفظ آجائے جو کسی معنوں میں استعمال ہوتا ہو تو اس کے سارے معنے لئے جاسکتے ہیں۔لیکن جب خداتعالیٰ کا یہ منشاء نہ ہو کہ سارے معنے لئے جائیں بلکہ یہ منشاء ہو کہ صرف فلاں معنے لئے جائیں تو اس وقت کہہ دیا جاتا ہے کہ ماادرک تجھے کس نے بتایا ہے کہ اس کے کیا معنے ہیں۔ یعنی اس لفظ کے کئی معنے ہوسکتے ہیں لیکن ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ اس مقا م پر ہمارے مدنظر کون سے معنے ہیں۔
ناراللہ الموقدۃ التی تطلع علی الافئدۃ ۔ فرماتا ہے یہاں حطمۃ کے معنے اللہ تعالیٰ کی اس آگ کے ہیں جو خوب بھڑکائی گئی ہے۔ آگ دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک آگ وہ ہوتی ہے جسے بندے بھڑکاتے ہیں ، وہ لکڑیاں جمع کرتے اور دیاسلائی سے آگ روشن کرتے ہیں اور ایک آگ وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ جلاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی آگ بھی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک آگ تو اگلے جہان کی ہے جو دوزخ کی شکل میں ظاہر ہوگی اور ایک آگ ایسی ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں ہی بھڑکایا جاتا ہے اور یہی وہ آگ ہے جسے عذاب کہا جاتا ہے ۔ پس ناراللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ عذاب ہے جو کفار کیلئے اس دنیا میں مقدر تھا۔ لکڑکی آگ پر پانی ڈالو تو وہ بجھ جاتی ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کیلئے کفار کے خوب آگ بھڑکائی مگر اللہ تعالیٰ نے بادل بھیج دئے۔ ادھر آگ روشن ہوئی اور ادھر بارش برسنی شروع ہوگئی جس سے تمام آگ بجھ گئی۔ آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جانے دو آج بارش نے ہماری آگ بجھادی ہے پھر کسی وقت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈال دیں گے مگر کفر کا جوش چونکہ عارضی ہوتا ہے انہی میں سے کچھ لوگ بول پڑے کہ ابراہیم بھی تو ہمارے رشتہ داروں میں سے ہے اس کو جلانے کا کیا فائدہ ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعد میںدوبارہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کی کوشش نہیں کی۔ پس بندوں کی جلائی ہوئی آگ بجھ سکتی ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو للہ تعالیٰ نے بندوں کی جلائی ہوئی آگ سے سلامت نکال لیا لیکن خدا تعالیٰ کی جلائی ہوئی آگ میں کوئی شخص دوسرے کو نکال نہیں سکتا کیونکہ بسا اوقات دل میںآگ لگ رہی ہوتی ہے اور انسان کوشش بھی کرتا ہے کہ میں اس آگ سے نکلوں مگر وہ نہیں نکل سکتا۔ چنانچہ اس آگ کی اللہ تعالیٰ نے خودہی اس آگے تشریح کردی ہے کہ تطلع علی الافئدۃ ہماری یہ آگ دلوں پر بھڑکائی گئی ہے لکڑیوں کی آگ نہیں کہ پانی سے بجھ سکے یہ دل کی آگ ہے جس کے شعلے انکو ہر وقت بھسم کررہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی ترقی کو دیکھتے ہیں تو ان کے دل جلتے ہیں۔ غم واندوہ سے کباب ہوجاتے ہیں۔ حسرت و افسوس سے ان کی زندگیاں تلخ ہو رہی ہیں مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس دکھ کا ہم کیا علاج کریں ۔
بدر کے موقع پر جب ابوجہل اپنے لشکر کے سمیت نکلا تو اس کو خیال تک نہیں تھا کہ مسلمانوں سے ہماری جنگ ہونے والی ہے ۔ خود مسلمانوں بھی یہ سمجھتے تھے کہ صرف کفار کے تجارتی قافلہ سے ان کا مقابلہ ہوگا ۔اسی وجہ سے بہت سے جانثار صحابہ ؓ اس جنگ میں شامل نہیں ہوسکے مگر اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے ماتحت کفار اور مسلمانوں کے لشکر کو آمنے سامنے لے آیا اور رسول کریم ﷺ نے بھی صحابہ کو بتادیا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ کفار سے جنگ کی جائے جب دونوں لشکر صف بستہ ہوگئے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے اپنے دائیں بائیں دیکھا ۔ وہ کہتے ہیں میرے دل میں بڑی مدت سے یہ ولولے تھے کہ کبھی کفار سے جنگ ہو تو ان مظالم کا بدلہ لوں جو وہ مسلمانوں پر کرتے چلے آئے ہیں مگر سپاہی تبھی اچھا لڑ سکتاہے جب اس کا دایاں اور بایاں پہلو مضبوط ہو جو اس کی پیٹھ کو دشمن کے حملہ سے محفوظ رکھے۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں جب میں نے یہ دیکھنے کیلئے اپنے اردگردنظر ڈالی کہ آج میرے دائیں بائیں کون کھڑے ہیں تو میرا دل بیٹھ گیا کیونکہ میرے دائیں طرف بھی پندرہ برس کا ایک انصاری لڑکا کھڑا تھا اور میرے بائیں طرف بھی پندرہ برس کا ایک انصاری لڑکا کھڑا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے سخت حسرت پیدا ہوئی کہ آج میں اپنے دل کے حوصلے کس طرح نکالوں گا۔ کاش میرے دائیں بائیں کوئی مضبوط اور ماہر فن سپاہی ہوتے تاکہ میں بھی اپنی مہارت کے جوہر دکھاسکتا۔ ان پندرہ پندرہ برس کے بچوں نے کیا کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں ابھی یہ خیال میرے دل میں گزرا ہی تھا کہ دائیں طرف کے انصاری نوجوان نے میرے پہلو میں آہستہ سے کہنی ماری۔ میں نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا تو اس نے کہا چچا ذرا جھک کر اپنے کان میں میری بات سننا (عرب میں رواج تھا کہ بڑی عمر والوں کو چھوٹے بچے اور نوجوان چچا کہا کرتے تھے) میں نے اس کی طرف کان جھکایا تو اس نے کہا چچا وہ ابوجہل کون سا ہے جو رسول اللہ ﷺ کو دکھ دیا کرتا تھا۔ میرا جی چاہتا ہے ہے کہ آج اس سے بدلہ لوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سوال پر میرے دل میں سخت حسرت پیدا ہوئی کہ یہ چھوٹاسا بچہ مجھ سے کیا سوال کررہا ہے۔ مگر ابھی میں نے اس کوکوئی جواب نہیں دیا تھا کہ بائیں طرف سے میرے پہلو میں کہنی لگی۔ میں اس کی طرف مڑا تو اس نے کہا چچا ذرا جھک کر اپنے کان میں میری بات تو سننا۔ میں جھکا تو اس نے کہا چچا ابوجہل کون ہے۔ میں نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو بہت دکھ دیا کرتا تھا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آج اس سے بدلہ لوں۔ ان دونوں نے آہستگی سے یہ بات اس لئے کہی کہ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ میرا دوسرا ساتھی اس بات کو سن لے اور وہ بھی اس شرف میں حصہ دار بن جائے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں باوجود تجربہ کار اور ہوشیار جرنیل ہونے کے میرے دل کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ میں ابوجہل کو مارسکوں گا۔ اس لئے جب ان دو نوجوان لڑکوں نے مجھ سے یہ سوال کیا تو میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی۔ میں نے اپنی انگلی اٹھائی اور کہا کہ دیکھو وہ جو فوج کے اندر کھڑا ہے جس نے سر پر خود پہنا ہوا ہے جو سر سے پائوں تک زرہ میں ملبوس ہے اور جس کے سامنے دو بہادر سپاہی ننگی تلواریں لئے پہرہ دے رہے ہیں وہ ابوجہل ہے۔ ان دو سپاہیوں میں سے ایک ابوجہل کا اپنا بیٹا عکرمہ تھا اور دوسرا ایک بہادر سردار تھا۔ وہ کہتے ہیں ابھی میرا ہاتھ نیچے نہیں گرا تھا کہ جس طرح باز چڑیا پر جھپٹا مارتا ہے اسی طرح وہ دونوں بے تحاشا دوڑ پڑے اور ایسی تیزی کے ساتھ دشمن کے لشکر میں جاگھسے کہ کفار حیرت سے منہ دیکھتے رہ گئے۔ انہیں ہوش ہی نہ آیا کہ وہ ان لڑکوں کو روکیں یہاں تک کہ وہ بڑھتے ہوئے ابوجہل کے سر پر جا پہنچے۔ اس وقت ایک محافظ کو خیال آیا اور اس نے تلوار چلائی جس سے ایک لڑکے کا ہاتھ کٹ گیا مگر اس نے کوئی پروا نہ کی اور جھٹ اپنے لٹکے ہوئے بازو پر پائوں رکھا اور اسے کھینچ کر جسم سے الگ کردیا۔ پھر دونوں نے آگے بڑھ کر ابوجہل ایسا شدید زخمی کیا کہ وہ زمین پر گرگیا گو مرا کچھ دیر بعد۔
غرض جنگ ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ مدینہ کے دو نوجوان لڑکوں نے جن کو مکہ والے حقارت سے ذلیل کیاکرتے تھے ابوجہل کو مارگرایا۔ مدینہ کے لوگ سبزی ترکاری بیچ کر گزارہ کیا کرتے تھے اور جس طرح ہمارے ملک میں بعض زمیندار اپنی بیوقوفی سے ارائیوں کو حقارت سے دیکھا کرتے ہیں اسی طرح مکہ والے مدینہ کے لوگوں کے متعلق کہا کرتے تھے کہ یہ سبزی ترکاری بیچنے والے لڑائی کے فنون کو کیا جانیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا نشان دیکھو انہی مدینہ والوں میں سے دو نوجوان لڑکوں نے ابوجہل کو مارڈالا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں جب لڑائی ختم ہوگئی تومیں یہ دیکھنے نکلا کہ ابوجہل کا کیا حال ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ زخموں کی شدت سے کراہ رہا ہے۔ میں نے اسے کہا سنائو کیا حال ہے؟ اس نے کہا مجھے اپنی موت کا غم نہیں کیونکہ سپاہی جنگ میں مرا ہی کرتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے تو یہ کہ مدینہ کے نوجوانوں نے مجھے مارا۔ پھر اس نے عبداللہ بن مسعودؓ سے کہا کہ مجھے زخموں کی وجہ سے سخت تکلیف ہے۔ تم صرف اتنا کرو کہ تلوار سے میری گردن کاٹ دو مگر دیکھنا ذرا لمبی کاٹنا۔ کیونکہ جرنیلوں کی گردن ہمیشہ لمبی کاٹی جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں میں نے اسے کہا تیری اس آخری حسرت کو بھی پورا نہیں کروں گا۔ چنانچہ میں نے تھوڑی کے قریب سے اس کی گردن کاٹی۔ اب دیکھو ابوجہل کے دل میں اس وقت کتنی جلن ہوگی۔ کجا یہ کہ ابوجہل اس امید پر میدان میں آیا تھا کہ آج محمد رسول اللہ ﷺ کو مار ڈالوں گا اور کجا یہ کہ پندرہ پندرہ برس کے دو نوجوان لڑکوں نے اسے مار ڈالا اور مارا بھی ایسی حالت میں کہ اس کے سامنے پہرہ کیلئے دو زبردست جرنیل کھڑے تھے۔ ایک ان میں سے اس کا اپنا لڑکا تھا اور ایک اور جرنیل تھا۔ پھر اس نے زردہ بھی پہنی ہوئی تھی۔ خَود بھی اس کے سر پر تھا۔ مگر کوئی تدبیر کام نہ آئی اور وہ ہزاروں حسرتیں لئے ہوئے اس جہاں سے گزرگیا۔ اس وقت اس کے دل میں جو آگ جل رہی ہوگی اور جس حسرت سے اس نے اپنی جان دی ہوگی اس کا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔
اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار نے جس شخص کو صلح کی گفتگو کیلئے اپنا لیڈر بناکر بھیجا وہ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں بیٹھا بڑے دھڑلے سے باتیں کررہا تھا اور ہاتھ پر ہاتھ مار کر اپنی فوقیت جتا رہا تھا کہ عین اس وقت زنجیروںکی کھڑکھڑاہٹ کی آواز آنی شروع ہوئی۔ لوگوں نے دیکھا تو اس سردار کا لڑکا گرتا پڑتا رسول کریم ﷺ کی طرف آرہا تھا۔ جب وہ قریب پہنچا تو اس نے کہا یارسول اللہ میں آپ پر ایمان لاچکا ہوں۔میرے باپ نے میرے پائوں میں بیڑیاں ڈال کر مجھ گھر میں قید کررکھا تھا تاکہ میں بھاگ کر مدینہ نہ پہنچ جائوں ۔ آج یہ ادھر صلح کی گفتگو کرنے کیلئے آیا تو مجھے موقع مل گیا اور میں گرتے پڑتے یہاں پہنچ گیا۔ اس وقت اپنے بیتے کی گفتگو سن کر کفار کے سردار کی جو حالت ہوئی ہو گی وہ کیسی عبرت ناک ہو گی وہ کفار کی طرف سے صلح کی گفتگو کے لئے آیا ہوا تھا اور سینہ تان کر بڑے فخر سے باتیں کر رہا تھا کہ عین اسی مجلس میں اس کا بیٹاآتا ہے اور اپنے آپ کو رسول کریم ﷺ کے قدموں میںڈالتے ہوئے کہتا ہے یا رسول اللہ میں آپ پر ایمان لاتا ہوں۔غرض اللہ تعالی نے ایسے ایسے سامان پیدا کئے کہ کفار کے دل ہر وقت جل کر خاکستر ہوتے رہتے تھے اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ اس آگ کع بجھانے کا ہم کیا انتظام کریں کوئی بڑا خاندان ایسا نہیں تھا جس کے افراد رسول کریمﷺ کی غلامی میں نہ آچکے ہوں۔حضرت زبیرؓ ایک بڑے خاندان میں سے تھے حضرت طلحہؓ ایک بڑے خاندان میں سے تھے ۔ حضرت عمرؓایک بڑے خاندان میں سے تھے۔حضرت عثمانؓایک بڑے خاندان میں سے تھے ۔حضرت عثمان بن مظعونؓ ایک بڑے خاندان میں سے تھے ۔اسی طرح حضرت عمرؓو بن العاص اور خالد ؓ بن ولید مکہ کے چوٹی کے خاندان میں سے تھے ۔عاص مخالف تھے مگر عمرو مسلمان ہو گئے ۔ ولید مخالف تھے مگر خالد مسلمان ہو گئے۔ غرض ہزاروںلوگ ایسے تھے جو اسلام کے شدید دشمن تھے مگر ان کی اولادوں نے اپنے آپ کو محمدرسول اللہ ﷺ کے قدموں میں ڈال دیا اور میدان جنگ میں اپنے باپوں اور رشتہ داروں کے خلاف تلواریںچلائیں۔
حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ ایک دفعہ رسول کریمﷺ کے ساتھ کھانے میں شریک تھے کہ مختلف امور پر باتیں شروع ہو گئیں۔ حضرت عبدالرحمن جو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے تھے اور جو بعد میں مسلمان ہوئے بدر اور احد کی جنگ میں کفار کی طرف سے لڑائی میں شریک ہوئے تھے انہوں نے کھا نا کھاتے ہوئے باتوں باتوں میں کہا ،ابا جان اس جنگ میں جب فلاں جگہ سے آپ گذرے تھے تو اس وقت میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا اور میں اگر چاہتا تو حملہ کر کے آپ کو ہلاک کر سکتا تھا مگر میں نے کہا اپنے باپ کو کیا مارنا ہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جوب دیا خدا نے تجھے ایمان نصیب کرنا تھا اس لئے تو بچ گیا ورنہ خدا کی قسم اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا ۔غرض کفار کے لئے یہ ایک بہت بڑا عذاب تھا کہ جس مذہب کو مٹانے کے لئے وہ کمر بستہ رہتے تھے اسی مذہب میں ان کے اپنے بیٹے اور بھا ئی اور رشتہ دار شامل ہونے لگ گئے ان واقعات کو دیکھ دیکھ کر ان کے دلوں میں کس قدر حسرت پیدا ہوتی ہوگی ۔ کہ ہم میں سے کسی کی بیوی اسلام میں داخل ہے ،کسی کا باپ اسلام میں داخل ہے ،کسی کا بیٹا اسلام میں داخل ہے کسی کا کوئی اور دوست اور رشتہ دار اسلام میں داخل ہے گویا وہ تو اپنی جانیں اسلام کے مٹانے کے لئے صرف کر رہے تھے اور اللہ تعالی انہیں میں سے ایک ایک کر کے لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ رہا تھا ،حقیقت میں یہ ایک بہت بڑا عذاب تھا کہ جس مذہب کو کچلنے کے لئے وہ کھڑے تھے اسی مذہب میں ان کے اپنے دوست اور عزیز ترین رشتہ دار شامل ہو گئے اور وہ اسلام کا جھنڈا اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے اپنے باپوںاور اپنے بھائیوں کے خلاف تلواریں چلانے لگ گئے۔ غرض فرماتا ہینا ر اللہ المو قدہ التی تطلع علی الا فئدۃ۔اللہ تعالی کفار کے دلوں پر ایک شدید آگ بھڑ کائے گا ۔ لوگ بظاہر دیکھتے تو کہتے عاص بن وائل کتنا بڑا آدمی ہے بڑے فخر سے اپنا تہہ بند لٹکا ئے چلا جا رہا ہے یا ولید کتنا بڑا آدمی ہے مگر ان بڑے آدمیوں کی یہ حالت ہوتی تھی کہ ان کے دلوں میں ہر وقت ایک آگ لگی ہوتی تھی کہ ہمارا بیٹا مسلمان ہو گیا ۔ ہمارا بھائی مسلمان ہو گیا۔ہمارا فلاں رشتہ دار مسلمان ہو گیا اب ہم کریں تو کیا کریں۔
انھا علیھم مو صدۃ O فی عمد ممددۃO
(پھر)وہ (آگ اور تیز کرنے کے لئے)ان پر (سب طرف سے) بند کر دی جائے گی درانحا لیکہ(وہ لوگ اس وقت) لمبے ستو نوں کے ساتھ بندھے ہوں گے۔
حل لغات:۔مو صدۃ؛ الموصد المطبق والمغلق۔بند کی گئی۔عمد۔ عمودکی جمع ہے اور عمود کے معنے ستون کے ہیں(اقرب)
تفسیر:۔اس آیت میں اس آگ کی شدت بیان کی گئی ہے جو کفار کے قلوب پر بھڑ کائی جانے والی تھی اللہ تعالی فرماتا ہے تم اس آگ کو معمولی مت سمجھو۔
جس طرح بھٹی کی آگ سب آگوں سے ذیا دہ شدید ہوگی۔ اسے چاروں طرف سے بند کر کے رکھا جائے گا اور اسکی بھڑاس بھی باہر نہیں نکلے گی۔
اس’’بند آگ‘‘ کی مثال کفار مکہ کا وہ فیصلہ ہے جو انہوں نے بدر کی جنگ کے بعد کیا ۔ اس جنگ میں چونکہ مکہ والوں کے تمام چوٹی کے لیڈر ہلاک ہو چکے تھے اس لئے انہوں نے سمجھا کہ اگر ماتم کیا گیا تو ہماری تمام عزت خاک میں مل جائے گی۔چنانچہ انہوں نے فیصلہ کر دیا کہ کوئی شخص بدر میں ہلاک ہونے والوں پر روئے نہیں۔ یہ حکم اپنی نوعیت کے لحاظ سے نہایت شدید تھا مگر اپنی قوم کے فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے مکہ کا ایک ایک فرد اپنے سینہ میںغم و الم کی ایک بے پناہ آگ دبا کر خاموش ہو گیا ۔ انکی آنکھیں اپنے مرنے والوں کی یاد میںآنسو ئوں کی موسلا دھار بارشبرسانا چاہتی تھیں ان کی زبانیں آہ و فغاں اور نالہ و فریا سے ایک شور بر پا کرنا چاہتی تھیںمگر وہ کیا کر سکتے تھے قوم کا فیصلہ تھا کی آج تمھارے لئے ماتم جائز نہیں۔ تم اپنی زبانوں کو بند رکھو۔تم اپنے آنسوئوں کو مت گرنے دو ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں تک یہ خبریں پہنچیںتو وہ خوش ہوںکہ ہم نے خوب بدلہ لیا ۔یہ حالت ایک لمبے عرصے تک رہی ۔عورتوں کو اپنے خاوندوں پر ،مائوں کو اپنے بیٹوں پر،بھائیوں کو اپنے بھائیوں پر ،اور دوستوں کو اپنے دوستوں پو رونے کی اجازت نہیں تھی۔ان کے سینے اس بند آگ کی تپش سے اندر ہی اندر جل رہے تھے مگر قوم کے فیصلہ کی خلاف ورزی کی ان میں سے کسی میں جرات نہیں تھی۔ ایک دن کسی مسافر کی اونٹنی مر گئی اور اسنے مکہ کی گلیوں میںسے گذرتے ہوئے اس کے غم میں ماتم کا قصیدہ پڑھنا شروع کر دیا ۔ یہ آواز سن کر ایک بوڑھا شخص جس کے دو نوجوان بیٹے اس جنگ میں ہلاک ہو چکے تھے کود کر اپنے گھر میں سے باہر نکل آیا اور اس نے بلند آواز سے کہا ہائے افسوس اس شخص کو اپنی اونٹنی پر رونے کی اجازت ہے مگر مجھے جس کے دو نوجوان بیٹے جنگ میں مارے گئے ہیںرونے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ یکدم تمام لوگ اپنے اپنے گھروں میں سے نکل آئے اور انہوں نے کہا ہم تو جل کر مر گئے ہیں۔ ہم آگ سے پھنکے جا رہے ہیںہم اب زیادہ صبر نہیں کر سکتے۔ چنانچہ انہوں نے چوکوں اور بازاروںمیں جمع ہو کر پیٹنا شروع کر دیا اور تمام مکہ میں کہرام مچ گیا ۔
غرض فرماتا ہینار اللہ المو قدہ التی تطلع علی الافئدۃآگ ان کے دلوں پر خوب بھڑکائی جائے گی اور پھر وہ آگ چاروں طرف سے بند ہو گی ۔ اس کے شعلے ان کی ایڑی سے لے کر چوٹی تک پہنچیں گے اور انہیں جھلس کر رکھ دیں گے۔
فی عمد ممددۃ۔یہعلیھم کی ضمیر مجرور کا حال واقعہ ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ مو ثقین فی عمد ممددۃ کفار کا یہ حال ہو گا کہ جب آگ ان پر بھڑکائی جائے گی تو وہ بڑے بڑے اونچے ستونوں سے بندھے ہوئے ہوں گے۔ جسطرح ستونوں سے اگر کسی شخص کو باندھ دیا جائے تو اس کا جسم اکڑا رہتا ہے اور باوجود کوشش کے وہ ادھر ادھر نہیں ہو سکتا اسی طرح فرماتا ہے ہم ان کفار کو ایسا عذاب دیں گے کہ وہ باوجود کوشش اور خواہش کے اس عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ نہیں پائیں گے چنانچہ یہ پیشگوئی اس رنگ میں پوری ہوئی کہ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے اپنے بیٹے،بھائی دوست اور رشتہ دار سب مسلمان ہو گئے۔کوئی اور قوم ابتداء میں مسلمان ہوتی تو شاید ان کو اتنی تکلیف نہ ہوتی مگر جب ان کے اپنے جگر گوشے رسول کریم ﷺ پر ایمان لے آئے اور انہوں نے اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تو یہ ان کے لئے ایسی ہی بات تھی جیسے کسی کو اونچے ستونوں سے باندھ دیا جائے اور وہ حرکت تک نہ کر سکے ۔اونچے ستونوں کے الفاظ اس لئے استعمال کئے گئے کہ عام طور پر سنگساری اور جلانے کے لئے کمر تک گڑی ہوئی لکڑی یا ستون سے باندھا کرتے تھے ۔ بڑے ستون کہہ کر بتایا کہ جسم کے اوپر کا حصہ بھی جکڑا ہو اہو گا ۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہفی عمد ممددۃ کوموصدۃکی صفت قرار دیا جائے۔ممددۃکے معنی چونکہ مطو لۃ کے ہیںاس لئے اس آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ بڑے بڑے لمبے ستونوں میںآگ جل رہی ہو گی یعنی جس بھٹی میں وہ جلائے جائیں گے وہ بہت بلند ہو گی ۔یہ قاعدہ ہے کہ جتنی لمبی بھٹی ہوتی ہے اتنی آگ زیادہ تیز ہوتی ہے پسفی عمد ممددۃمیںایک طرف تو اس آگ کی شدت بیان کی گئی ہے کہ وہ انتہا درجہ کی حدت اپنے اندر رکھتی ہو گی اور دوسری طرف یہ بتایا گیا ہے کہ کفار کی حلت ایسی ہو گی جیسے ستونوں سے بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ بچنے کی بہت کوشش کریں گے مگر انہیں اپنے بچائو کی کوئی صورت نظر نہیں آئے گی ۔ چنانچہ آخر یہی حالت کفار مکہ کی ہو گئی جب ان کے اپنے بیٹے رسول کریم ﷺ پر ایمان لے آئے تو ان کی بات کون سنتا تھا ۔اگر وہ ان سے کہتے بھی کہ تم ہم میں پھر واپس آجائو اور اپنا آبائی مذہب اختیارکر لو تو ان کی بات ماننے کے لئے کون تیار ہو سکتا تھا ۔ یہ ایمان کا معاملہ تھا اس میں کسی باپ یا ماں کا کیا دخل تھا اور کون شخص ان کی بات مان سکتا تھا ۔
غرض فی عمد ممددۃکے دونوں معنے ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی کہ ان کے لئے عذاب کی بھٹیاں بڑی بڑی اونچی بنائی جائیں گی اور یہ بھی کہ وہ با لکل بے کس اور بے بس ہو جائیں گے ۔ انہیں عذاب پہنچے گا مگر وہ سر سے پا تک بندھے ہوئے ہوں گے کچھ کر نہیں سکیں گے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
بعض لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ تم کہتے ہو اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے کیا اس کی زبان ہے جس سے وہ بولتا ہے۔ ہم کہتے ہیں اس کی زبان تو نہیں مگر اس میں قدرت موجود ہے اور وہ اپنی قدرت سے بغیر زبان کے کلام پیدا کردیتا ہے۔ یہی حال جبریل کا ہے وہ ملک ہے مگر ہر موقع کے مناسب حال مختلف شکلیں بدل لیتا ہے۔ کبھی ماں کی شکل اختیارکرلیتا ہے، کبھی بیٹی کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی بیٹے کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی بیوی کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی مرد کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی انسانی شکل کے علاوہ کبوتر یا کسی اور جانور کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اور شکلوں کے اس اختلاف سے یہ بیان کرنا مقصود ہوتا ہے کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا جو کلام نازل ہورہا ہے اس کی کیا شان ہے یا تمہارے دوستوں کیلئے اس کی کیا شان ہے یا تمہارے دشمنوں کیلئے اس کی کیا شان ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو صورتوں میں الہام نازل ہوتا ہے۔ ایک الہام ان فقرات کی صورت میں نازل ہوتا ہے جو جبریل کی زبان سے بندہ سنتا ہے اور ایک الہام خود جبریل کی شکل میں ہوتا ہے۔ اگر وہ مہیب اور خوفناک شکل میں آسمان اور زمین کے درمیان ایک بہت بڑی کرسی پر بیٹھا ہوا رسول کریم ﷺ کو نظر آیا تو اس کے معنے یہ تھے کہ وہ کلام جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والا ہے اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اب ساری زمین پر قضا جاری کرنے والا ہے۔ ساری دنیا کی قضا اب اس کلام کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہی عمل خداتعالیٰ کے ہاں مقبول ہوگا جو اس کلام کے مطابق ہوگا۔ اور وہ عمل جو اس کلام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسان بجالائے گا اسے ردّ کردیا جائے گا۔ جب رسول کریم ﷺ کی استمالت قلب مراد تھی اس وقت جبریل آپ کو غار حرا میں ایک خوبصورت نوجوان کی شکل میں نظر آیا اور جب صحابہؓ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ یہ جبریل ہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو تو اس وقت جبریل ایک صحابی کی شکل میں نظر آیا تاکہ وہ خود بھی پتہ لگاسکیں کہ رسول کریم ﷺ سے جو شخص باتیں کررہا تھا وہ وحیہ کلبی نہیں بلکہ جبریل ہی ہے۔ غرض جبریل ہمیشہ فی صورۃ معینۃ نازل ہوتا ہے نہ کہ فی الصورۃ المعینۃ اپنی ذاتی شکل و صورت میں۔
پھر کہتے ہیں واما بسماع کلام من غیر معاینۃ کسماع موسی کلام اللہ کبھی ایساہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک کلام تو نازل ہوتا ہے مگر جبریل اس کے ساتھ نہیں آتا۔ کان میں آواز آتی ہے انسان اس آواز کو سنتا اور سمجھا ہے مگر کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا۔ واما بالقام فی الروع کما ذکر علیہ السلام ان روح القدس نفث من روعی اور کبھی کوئی بات بطور القاء دل میں ڈال دی جاتی ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ روح القدس نے ایک بات میرے دل میں ڈالی ہے کوئی معین الفاظ نہیں تھے جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئے ہوں۔ ورنہ آپ ان کا بھی ذکر فرماتے یا کہتے کہ جبریل نے مجھے آکر یوں کہا ہے۔ آپ نے ان میں سے کوئی بات نہیں کہی صرف اتنا فرمایا ہے کہ ان روح القدس نفث فی روعی روح القدس نے میرے قبل میں فلاں بات ڈالی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی کا یک طریق یہ بھی ہے کہ دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات ڈال دی جاتی ہے (مگر اس سے یہ مراد ہے کہ انسان پر ساتھ یہ انکشاف ہوتا ہے کہ جبریل یا کوئی دوسرا فرشتہ یا خداتعالیٰ بذات خود باہر سے یہ بات میرے دل میں ڈال رہا ہے اور خود میرے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہورہا)۔ واما بالھام نحو اوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ اور یا کبھی کلام الٰہیہ کا نزول الہام کے ذریعہ سے ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے ام موسیٰ کی طرف وحی کی۔ واما بتسخیر نحو قولہ اوحی رب الی النحل اور کبھی وحی تسخیر ہوتی ہے یعنی طبعی طور پر کسی چیز کی فطرت میں ایک بات پیدا کردی جاتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی۔ اس جگہ وحی سے مرادوحی لفظی نہیں بلکہ وحی تسخیر ہے۔ وحی تسخیر سے یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عربی اردو یا انگریزی زبان میں کوئی کلام نازل ہوتا ہے۔ یہ بھی مراد نہیں کہ تمثیلی زبان میں کوئی نظارہ دکھایا جاتا ہے اور یہ بھی مراد نہیں کہ جبریل بھیجا جاتا ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض کام بعض چیزوں کی فطرت میں داخل کردیتا ہے اور وہ مجبور ہوتی ہیں کہ اسی رنگ میں کام کریں جس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو مسخر کردیا ہے۔ جیسے سورج مسخر ہے، ایک مقررہ منزل کی طرف چلنے پر اور زمین مسخر ہے سورج کے گرد گھومنے پر۔ اسی طرح کوئی پودا پھول پیدا کرنے پر مسختر ہے۔ گویا فطرت میں جو بات ودیعت کردی جائے اسے وحی تسخیر کہتے ہیں۔ اسی قسم کی وحی مکھی کو ہوئی ہے او بمنام یا رئویا اور خواب کی حالت میں کوئی نقشہ انسان کو نظر آجاتا ہے کما قال علیہ السلام انقطع الوحی و بقیت المبشرات جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ وحی منقطع ہوگئی اور مبشرات باقی رہ گئے ہیں اور مبشرات سے مراد کیا ہے رؤیا المومن ۔ مومن جو سچے رئویا دیکھتا ہے ان کو مبشرات کہا جاتا ہے۔ فالالھام والتسخیر والمنام دل علیہ قولہ الا وحیا۔ پس الہام تسخیر اور منام پر قرآن کریم کی آیت میں الا وحیا کے جو لفظ استعمال ہوئے ہیں وہ دلالت کرتے ہیں وسماع الکلام غیر معائنۃ دل علیہ قولہ و من ورایٔ حجاب ۔اور وہ کلام جس کی کانوں میں تو آواز آتی ہے مگر کوئی شکل نظر نہیں آتی اس پر اللہ تعالی کا یہ قول دلالت کرتاہے کہ او من ورایٔ حجاب ۔ و تبلیغ جبریل فی صورۃ معینۃ دل علیہ قول او یرسل رسولا فیوحی۔ اور وحی کی یہ صورت ہے کہ بعض دفعہ جبریل اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتا ہے اس پر یہ آیت شاہد ہے کہ او یرسل رسولا یعنی اللہ تعالیٰ اس رنگ میں بھی وحی نازل کرتا ہے کہ بعض دفعہ اپنی کسی فرشتے کو بھیج دیتا ہے جو واسطہ بن کر اس کا پیغام بندے کو پہنچاتا ہے۔ وحی الٰہی کے متعلق مفردات والوں کی مذکورہ بالا تشریح کے متعلق میں یہ امر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک اس میں بعض غلطیاں ہیں جو زمانہ نبوت سے بعد کی وجہ سے ان سے ظاہر ہوئی ہیں اور جن کا اس بحث کے ضمن میں مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔
سب سے پہلی اور بڑی غلطی تو یہ ہے کہ وحی الٰہی کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے دو مختلف مضامین کو مخلوط کردیا ہے۔ وہ بتانا یہ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کلام نازل ہوتا ہے اس کی کیا قسمیں ہیں۔ مگر اس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس وحی کو بھی بیان کردیا ہے جو مکھی کی طرف ہوئی۔ حالانکہ یہ بالکل واضح بات تھی کہ وہ یہ بحث نہیں کررہے تھے کہ لغت کے لحاط سے وحی کے کیا معنے ہیں یا وحی کا اطلاق کن کن معانی پر ہوسکتا ہے۔ بلکہ وہ بتانے یہ لگے تھے کہ بشر پر جو وحی الٰہی نازل ہوتی ہے اس کی کیا قسمیں ہیں۔ مگر ان کا ذکر کرتے ہوئے اس وحی کا بھی انہوں نے ذکر کردیا جو مکھی کی طرف ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے بحث یہ اُٹھائی تھ کہ ویقال للکلمۃ الالھیۃ التی تلقی الی انبیاء ہ و اولیاء ہ وحیکہ ان کلماتِ الٰہیہ کو بھی وحی کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے اولیاء کی طرف نازل ہوتے ہیں وذالک اضرب اور اس کی کئی قسمیں ہیں۔ حسب ما دل علیہ قولہ وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا الی قولہ باذنہ مایشاء جیسا کہ خداتعالیٰ کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ کسی انسان سے اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرتا مگر اس رنگ میں یہ اس پر براہِ راست وحی نازل کرتا ہے یا اس سے وراء حجاب گفتگو کرتا ہے یا اس کی طرف کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ اس وحی کا ذکر رہاہے جو بشر پر نازل ہوتی ہے مگر اس کی تشریح کرتے ہوئے مفردات والے لکھتے ہیں واما بتسخیر نحو قولہ واوحی ربک الی النحل یا وحی تسخیر ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی۔ جب اس جگہ اس وحی کا ذکر ہورہا تھا جو بشر پر نازل پر ہوتی ہے تو غیر بشر کی وحی کا اس تشریح میں ذکر ہی کس طرح آسکتا تھا۔ پس پہلی غلطی تو یہ ہے کہ آیت اور لغت کو انہوں نے مخلوط کردیا ہے۔ بیشک لغت کے لحاظ سے یہ بات صحیح ہے کہ وحی کی یک قسم وحی تسخیر بھی ہے جیسا کہ شہد کی مکھی کی طرف وحی ہوئی مگر ماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا میں بشر کا ذکر ہے غیر بشر کا ذکر نہیں۔ مگر تشریح کرتے ہوئے وہ مکھی کا ذکر بھی لے آئے اور ان کے ذہن پر آیت قرآنی کی تشریح کی بجائے لغت غالب آگئی ۔ انہیں یہ خیال نہ رہا کہ یہاں اس وحی کا ذکر ہے جو بشر کی طرف ہوتی ہے۔ اس وحی کا ذکر ہی نہیں جو غیر بشر کی طرف ہو۔ اس لئے وحی تسخیر کا اس دوران میں کوئی ذکر ہی نہیں آسکتا تھا۔
دوسری غلطی یہ ہے کہ وہ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ذالک اما برسول تشاھد تری ذاتہ یا تو یہ کلام کسی رسول کے ذریعہ آتا ہے جس کی شکل سامنے نظر آتی ہے و یسمع کلامہ اور اس کی آواز بھی سنی جاتی ہے واما بسماع کلام من غیر معائنۃ یا بغیر کسی چیز کے دکھائی دینے کے محض آواز آجاتی ہے۔ کسماع موسی کلام اللہ جیسے موسیٰؑ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا۔ واما بالقاء فی الروع یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات دل میں ڈال دی جاتی ہے مگر اس کے بعد کہتے ہیں واما بالھام نحو و اوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ یا یہ کلام الہام کے ذریعہ نازل ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے ام موسیٰ کی طرف وحی کی۔ جب اللہ تعالیٰ کے کلام کی ایک وہ قسم بھی آچکی جس میں جبریل کا نزول ہوتا ہے، وہ قسم بھی آچکی ہے جس میں آواز سنائی دیتی ہے، وہ قسم بھی آچکی جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بات دل میں ڈال دی جاتی ہے تو پھر الہام کونسا باقی رہا جس کا وہ علیحدہ ذکر کررہے ہیں اور جس کی مثال میں انہوں نے ام موسیٰ کا واقعہ پیش کیا ہے۔ یہ صاف بات ہے کہ جبریل کے ذریعہ جو کلام آتا ہے وہ بھی الہام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر آواز آتی ہے تو وہ بھی الہام ہوتا ہے اور یہی الہام تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو ہوا مگر انہوں نے اما کہہ کر ایک اور شق قائم کردی ہے کہ وحی کی ایک قسم الہام بھی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو الہام ہوا کہ ان ارضعیہ حالانکہ یہ بات ان کی پہلی بیان کردہ قسموں میں شامل ہے کوئی علیحدہ بات نہیں جسے زائد طور پر اما کہہ کر بیان کرنے کی ضرورت ہوتی۔ اس موقعہ پر یا تو انہیں یہ بتانا چاہئے تھا کہ وحی اور چیز ہوتی ہے اور الہام اور چیز۔ اس لئے میں الہام کا علیحدہ ذکر کررہا ہوں اور الہام اور وحی میں یہ فرق ہوتا ہے مگر انہوں نے کوئی فرق نہی ںکیا اور بلاوجہ ایک علیحدہ شق اما کہہ کر قائم کردی حالانکہ یہ پہلے مضمون سے کوئی مغائر مضمون نہیں ہے۔
اگر کہا جائے کہ الہام کے معنے ان کے نزدیک ’’درد دل انداختن‘‘ کے ہوتے ہیں یعنی وہ بات جو دل میں ڈال دی جائے اسے الہام کہتے ہیں اور جو کلام الفاظ کی شکل میں نازل ہو اسے وحی کہتے ہیں۔ اسی لئے انہوںنے الہام کا علیحدہ ذکر کیاہے تو یہ بات بھی غلط ہے۔ کیونکہ وہ اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ اما بالقاء فی الروع کما ذکر علیہ السلام ان روح القدس نفث فی روعیکہ وحی بعض دفعہ القاء فی الروع کی صورت میں بھی ہوتی ہے۔ جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ روح القدس نے یہ بات میرے دل میں ڈال دی ہے۔ جب القاء فی الروع کا پہلے ذکر آچکا ہے تو اس کے بعد امابالھام نحو و اوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ کہنا بتاتا ہے کہ ان کا یہ منشاء نہیں ہوسکتا کہ الہام سے مراد درد دل انداختن ہے کیونکہ یہ مضمون پہلے آچکا ہے۔
میرے نزدیک تو انہوں نے بھول کر دوبارہ اما بالھام نحو و اوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ الخ لکھ دیا ہے۔ چنانچہ مجمع البحار والوں نے کہا ہے کہ مفردات راغب کی یہ بات غلط ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں واوحینا الی ام موسی وحی اعلام لا الہام لقولہ تعالیٰ انا رادو ہ الیک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف یہ وحی جو نازل ہوئی تھی کہ انا رادوہ الیک ہم اسے الہام نہیں کہہ سکتے کیونکہ الہام تو درد دل انداختن کو کہتے ہیں اور یہاں صاف الفاظ موجود ہیں کہ انا رادوہ الیک ہم اسے تیری طرف واپس لوٹائیں گے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ دل میں کوئی بات ڈالی جائے مگر اس کے الفاظ معین صورت میں نظر نہیں آتے۔ الفاظ کا معین صورت میں نازل ہونا بتارہا ہے کہ الہام نہیں اعلام ہے ۔ اعلام کے معنے اظہار کے ہوتے ہیں اور الہام سابق مفسرین کے نزدیک درد دل انداختن کو کہا جاتا ہے۔ یہ بھی عربی زبان کا ایک کمال ہے کہ حروف کے معمولی فرق کے ساتھ معانی میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر ایک آدمی سے کوئی بات کہی جائے تو اسے اعلان کہتے ہیں ۔ چونکہ میم پہلے آتا ہے اور نون بعد میںاس لئے ایک آدمی سے تعلق رکھنے والی بات کو اعلام کہا جاتا ہے اور زیادہ آدمیوں سے تعلق رکھنے والی بات کو اعلان کہا جاتا ہے۔ بہرحال مجمع البحار والوں نے ان الفاظ میں مفردات کی ہی تردید کی ہے کہ اس میں جو لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو الہام ہو یہ صحیح نہیں۔ انہیں وحی اعلام ہوئی تھی کیونکہ اس کے معین الفاط تھے۔ وہ الہام نہ تھی کیونکہ الہام تو درد دل انداختن کو کہا جاتا ہے۔ میرے نزدیک مفردات والوں نے بھول کر الہام کا دوبارہ ذکر کردیا ہے۔ کیونکہ قلبی الہام کا وہ اس سے پہلے خود ذکر کرچکے ہیں یا ممکن ہے ان کا مفہوم کچھ اور ہو ، مبہم عبارت کی وجہ سے اس کا مطلب صحیح سمجھ میں نہ آتا ہو۔
الغرض وحی کے معنے کرتے ہوئے امام راغب صاحب نے جو یہ تشریح کی ہے کہ فالالھام والتسخیر والمنام دل علیہ قول الا وحیا کہ الہام (جس کے معنے سابق علماء کے نزدیک درد دل انداختن کے ہیں) اور تسخیر اور منام یہ وحی کے ماتحت آتے ہیں اور وراء حجاب سے مراد انہوں نے یہ لیا ہے کہ خداتعالیٰ خود کلام کرے لیکن نظر نہ آئے اور یرسل رسولا کا مطلب یہ لیا ہے کہ خداتعالیٰ خود کلام نہ کرے بلکہ جبریل کے واسطہ سے اپنا کلام بھجوائے اور جبریل نظر نہ آئے۔ میرے نزدیک ان کی یہ تشریح درست نہیں کیونکہ نہ ہر وحی قرآنی کے وقت جبریل نظر آتے تھے نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سارا کلام من وراء حجاب تھا۔ پھر ان کا من وراء حجاب سے یہ مراد لینا کہ خداتعالیٰ نظر نہ آئے تو یہ تعریف تو ہر وحی پر چسپاں ہوگی خواہ کسی قسم کی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الواء ہے۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو منام کا نام وحی رکھتے ہیں مگر ساتھ ہی رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بھی نقل کرتے ہیں کہ انقطع الوحی و بقیت المبشرات وحی منقطع ہوگئی اب صرف مبشرات باقی رہی گئے ہیں اور مبشرات سے مراد وہ سچے رئویا ہیں جو مومنوں کو ہوتے ہیں۔ اگر منام کا نام ہی وحی ہے تو پھر یوں کہنا چاہئے تھا کہ انقطع کلام ورایٔ الحجاب الا الوحی۔ اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو پس پردہ ہوا کرتا تھا وہ اب بند ہوچکا ہے اب صرف وحی باقی رہ گئی ہے جس سے مراد خوابیں ہیں۔ پس یہ تشریح جو مفردات والوں نے کی ہے اس قابل نہیں کہ اسے قبول کیاجائے۔
اصل بات یہ ہے کہ الہام کے معنے سمجھنے میں پہلے علماء کو بہت غلط فہمی ہوئی ہے اور اسی بناء پر وہ الہام کی تعریف یہ کرتے رہے ہیں کہ درد دل انداختن۔ ایسی بات جو دل میں ڈال دی جائے اس کو الہام کہتے ہیں۔ حالانکہ الہام اور وحی دونوں ایک ہی چیزیں ہیں اور ان میں کسی قسم کا فرق نہیں۔ یہ صرف صوفیاء کی اصطلاح تھی کہ انہوں نے اس کلام کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نازل ہوتا تھا الہام کہنا شروع کردیا تاکہ لوگ کسی فتنہ میں نہ پڑیں ورنہ الہام اور وحی میں کوئی فرق نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی کئی جگہ الہام کا لفظ استعمال کیا ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ میں اس کلام کو الہام صرف اس لئے کہتا ہوں کہ صوفیاء نے ایک اصطلاح قائم کردی ہے اور لوگوں میں اس اصطلاح کا رواج ہوگیا ہے۔ ورنہ میں اس بات کا قائل نہیں کہ الہام اور چیز ہے اور وحٰ اور چیز۔ جس چیز کا نام لوگ الہام رکھتے ہیں اسی چیز کا نام وحی ہے۔ پس الہام و ہ اصطلاح ہے جو لفظی کلام کے متعلق صوفیاء نے قائم کی ہے ورنہ قرآن کریم میں ہر جگہ وحی کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے الہام کا لفظ صرف ایک جگہ استعمال ہوا ہے اور وہ بھی وحی کے معنوں میں نہیں بلکہ میلانِ طبیعت کے معنوں میں جیسا کہ فرماتا ہے فالھمھا فجورھا و تقوھا (الشمس ۱۶ع۱) اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو برائیوں اور نیکیوں کے متعلق الہام کیا ہے۔ اب اس کے معنے کسی خارجی الہام کے نہیں بلکہ صرف میلانِ طبع کے معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ تسخیر اور میلان میں فرق ہوتا ہے۔ میلان تو اختیاری ہوتا ہے لیکن تسخیر اختیاری نہیں ہوتی بلکہ جس لائن پر کسی چیز کو کھڑا کردیا جائے تو وہ مجبور ہوتی ہے کہ اسی لائن پر کھڑی رہے اور اس سے ذرا بھی اِدھر اُدھر نہ ہو۔ مثلاً مکھی یہ نہیں کرسکتی کہ وہ شہد بنانا چھوڑے دے لیکن انسان کو اختیار ہے کہ چاہے تو تقویٰ اختیار کرے اور چاہے تو فجور کے راستہ پر چل پڑے۔ پس الہام کا لفظ جو مفردات والوں کے استعمال کیا ہے قرآن کریم میں ان معنوں میں استعمال ہی نہیں ہوا جن معنوں میں انہوں نے استعمال کیا ہے اور نہ الہام کا لفظ آیت میں ان معنوں میں استعمال ہوا ہے جو صوفیاء مراد لیتے ہیں۔ یہ لفظ بعد کے زمانہ میں صوفیاء نے لفظی وحی کیلئے ایجاد کیا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے متعلق یہ وضاحت فرمادی ہے کہ جو کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوتا ہے وہی وحی ہے مگر چونکہ لوگوں میں اس کے متعلق الہام کا لفظ رائج ہے اس لئے میں بھی اسے الہام کہہ دیتا ہوں ورنہ الہام اور وحی دونوں مترادف الفاظ ہیں ان میں کوئی فرق نہیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں جو یہ مسئلہ پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنا کلام ملائکہ کے ذریعہ نازل فرماتاہے اس کے یہ معنے نہیں کہ ملائکہ صرف او یرسل رسولا والی وحی کے ساتھ نازل ہوتے ہیں بلا واسطہ وحی کے ساتھ نازل نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کے ہر الہام کے ساتھ ملائکہ کا نزول ہوتا ہے اور کوئی ایک الہام بھی ایسا نہیں ہوسکتا جس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ اس کے ساتھ فرشتے نازل نہیں ہوتے۔ مگر بعض لوگ غلط فہمی سے اس کا یہ مطلب لے لیتے ہیں کہ جبریل ہر الہام کے ساتھ آکر کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے فلاں بات آپ کو پہنچانے کا حکم دیا ہے حالانکہ یہ بات صحیح نہیں۔ ملائکہ کے نزول کے صرف اتنے معنے ہیں کہ ہر الہام فرشتوں کی حفاظت کے ساتھ آتا ہے۔ یہ معنے نہیں کہ ہر الہام کے ساتھ فرشتے آکر یہ کہتے بھی ہیں کہ ہیں فلاں بات پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات اس کی تائید میں موجود ہیں۔ مثلاً ایک الہام میں تو یہ ذکر آگیا کہ جاء نی ائل (تذکرہ ص ۶۰۳)۔ میرے پاس جبریل آیا۔ مگر باقی الہامات کے ساتھ یہ بات بیان نہیں ہوئی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ اس رنگ میں نہیں جس رنگ میں لوگ سمجھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ جب آپ کو یہ الہام ہوا تھا کہ انی مع الافواج اتیک بغتۃ (تذکرہ ص ۵۰۶) تو فرشتوں نے آکر یہ کہا ہو کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ الہام نازل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایسا نہیں ہوا کرتا بلکہ بندہ اس وقت یہ محسوس کیا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست ایک کلام مجھ پر نازل ہورہا ہے مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے اس کلام کے ساتھ حفاظت کیلئے ضرور آتے ہیں۔ عام لوگوں کے الہامات کے ساتھ اس لئے نہیں آتے کہ اگر ان الہامات میں کوئی گڑ بڑ بھی ہوجائے تو پروا نہیں ہوتی لیکن انبیاء یا ان سے اتر کر وہ لوگ جو دنیا کی اصلاح کیلئے کھڑے کئے جاتے ہیںان کے الہامات چونکہ لوگوں کیلئے حجت ہوتے ہیں اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ فرشتوں کی حفاظت میں اتارے جائیں۔ بہرحال الہامات کے ساتھ فرشتوں کا نازل ہونا یہ معنے نہیں رکھتا کہ مثلاً جب آیت الم ذالک الکتب لاریب فیہ اتری تھی تو اس وقت جبریل نے یہ آکر کہا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں یہ آیت آپ تک پہنچائوں۔ ایسا ذکر صرف چند سورتوں کے متعلق آیا ہے۔ مثلا سورۃ البینہ کے متعلق آتا ہے یا یہ آتاہے کہ رمضان المبارک کے ایام میں جبریل آتے اور جس قدر حصہ قرآن نازل ہوچکا ہوتا رسول کریم ﷺ کے ساتھ مل کر اس کا تکرار کیا کرتے۔ مگر ہر الہام کے متعلق نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ احادیث سے کہ جبریل آکر یہ کہتا ہو کہ مجھے خدا نے فلاں بات پہنچانے کا حکم دیا ہے۔ ہاں ہر الہام کے ساتھ حفاظت جبریل ضرور ہوتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ الہام کے وقت چونکہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ایک آواز پیدا کرتا ہے اور اس آواز میں شیطان بھی دخل دے سکتا ہے اس لئے فرشتوں کا ساتھ ہونا ضروری ہوتا ہے تاکہ بندہ کے دل میں وہ اس وحی کی صداقت کے متعلق یقین پیدا کریں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب میں لکھا ہے کہ خواہ مجھے صلیب پر لٹکادیا جائے مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتاکہ وہ کلام جو مجھ پر نازل ہوتا ہے اسی خدا کا کلام ہے جس نے آدمؑ سے کلام کیا، جس نے نوحؑ سے کلام کیا، جس نے ابراہیمؑ سے کلام کیا، جس نے موسیٰؑ سے کلام کیا، جس نے عیسیٰؑ سے کلام کیا اور جس نے سب سے بڑھ کر محمد مصطفی ﷺ سے کلام کیا۔ یہ یقین فرشتوں کی حفاظت کی وجہ سے ہی پید اہوتا ہے مگر عام لوگوں کے الہامات کے ساتھ چونکہ فرشتے نہیں اترتے اس لئے باوجود الہا کے ان کے اندر یقین اور ثبات اور استقلال نہیں پایا جاتا ۔ ہم نے دیکھا ہے بعض لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ خدا نے بتایا ہے کہ آپ سچے ہیں ۔ اس وقت وہ روتے بھی ہیں گڑگڑاتے بھی ہیں اپنے سابق اعمال پر پشیمانی او رندامت کا بھی اظہار کرتے ہیں مگر چند دنوں کے بعد ہی مرتد ہوجاتے ہیں۔ اب جہاں تک ان کی بات کا تعلق ہوتا ہے وہ سچی ہوتی ہیں واقعہ میں انہیں الہام ہوا ہوتا ہے اور اسی کی بناء پر وہ بیعت کیلئے آتے ہیں مگر چونکہ فرشتے ان کے ساتھ نہیں ہوتے ان کے قلب کو وہ ثبات نہیں بخشا جاتا جو انبیاء و اولیاء کے قلوب کو بخشا جاتا ہے اسی لئے وہ تھوڑے سے ابتلاء کو بھی برداشت نہیں کرسکتے اور ٹھوکر کھاجاتے ہیں۔ لیکن نبی کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ پہلے الہام کے ساتھ ہی اس کے دل کو غیرمعمولی ثبات عطا کیاجاتا ہے اور اپنے الہام پر سب سے پہلا ایمان لانے والا خود نبی کا وجود ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر نبی اپنے آپ کو انا اول المسلمین (الانعام ۷ع۲۰) یا انا اول المومنین (الاعراف ۷ع۱۷) قرار دیتا ہے۔ کیونکہ اگر اسے خود یقین نہ ہو تو وہ دوسروں کے دل میں کس طرح یقین پیدا کرسکتا ہے۔ چونکہ پہلا یقین خود نبی کے دل میں پیدا کیا جاتا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ بعد میں ساری دنیا مخالف ہوجاتی ہے اور بعض دفعہ انذاری پیشگوئیاں اپنی مخفی یا ظاہر شرائط کی بناء پر ٹل جاتی ہیں اسے ایک لمحہ بھر کیلئے بھی اپنے الہامات کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب آتھم والی پیشگوئی کی اورمیعاد کے ختم ہونے کا دن آیا تو مجھے وہ نظارہ اب تک یاد ہے کہ آج کل جہاں حکیم مولوی قطب الدین صاحب کا مطب ہے وہاں لوگ جمع ہوئے اور چیخیں مارمار کر دعائیں کرنے لگے کہ الٰہی یہ پیشگوئی ضرور پوری ہوجائے۔ ایک پٹھان عبدالعزیز ہوا کرتا تھا وہ تو دیوار کے ساتھ بے تحاشا اپنا سر مارتا اور کہتا خدایا اب یہ سورج نہ ڈوبے جب تک آتھم نہ مرجائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس کا علم ہوا تو آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ چیخیں مار مار کر انہوں نے آسمان سر پر اٹھالیا ہے اگر جھوٹے ہوں گے تو ہم ہوں گے ان کو کس بات کا فکر ہے۔
اب دیکھو جماعت کے لوگ گھبرارہے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے صرف کلام سنا تھا ملائکہ کے نزول کی وجہ سے جو ثباتِ قلب عطا کیا جاتا ہے وہ ان کو حاصل نہیں تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلب کو غیر معمولی ثبات حاصل تھا اور آپ سمجھتے تھے کہ یہ چیخ و پکار بے معنی بات ہے جس خدا کا کلام مجھ پر نازل ہوا ہے وہ اپنے کلام کو آپ پور اکرے گا اور اگر کسی شرط کی وجہ سے وہ ٹل جائے تب بھی کیا ہوا انذاری پیشگوئیوں کے متعلق جو سنت چلی آرہی ہے بہرحال اسی کے مطابق ہوگا اس لئے گھبراہٹ اور فکر کی کوئی بات نہیں۔
پس اللہ تعالیٰ کے کلام کے ساتھ خواہ وہ بلا واسطہ نازل ہو فرشتوں کا آنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر یہ خیال کرلینا کہ ہر کلام کے ساتھ فرشتہ آکر یہ کہتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاں بات پہنچاتا ہوں بالکل غلط ہے۔ حدیثوں میں بھی صرف پانچ سات ایسی مثالیں مل سکتی ہیں جن میں اتانی جبریل کے الفاظ آتے ہوں مگر اور کسی جگہ یہ ذکر نہیں آتا یا رمضان کے متعلق آتا ہے کہ ان ایام میں جبریل آتے اور رسول کریم ﷺ کے ساتھ مل کر قرآن کریم کی تلاوت کرتے مگر یہ صورت بالکل اور ہے۔ اس میں جبریل کی حقیقت محض ایک سامع کی ہوتی تھی اور جبریل کا آنا اس لئے ضروری تھا کہ رسول کریم ﷺ کیلئے قرآن کریم کا ہرلفظ یاد رکھنا ضروری تھا۔ باقی لوگ اگر قرآن کریم پڑھنے میں کوئی غلطی کرتے تو اور لوگ اس کی اصلاح کرسکتے تھے لیکن اگر رسول کریم ﷺ کوئی غلطی کرتے تو لوگ کس طرح درست کرتے وہ سمجھتے کہ شاید رسول کریم ﷺ پر اسی رنگ میں کلام نازل ہوا ہے یا پہلے کلام میں کوئی تبدیلی ہوگئی ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے جبریل کو سامع بنادیا تاکہ اگر تلاوت میں رسول کریم ﷺ سے کوئی غلطی ہوجائے تو جبریل آپ کو بتادیں اور آپ اس کی اصلاح کرلیں۔ پس یہ صورت بالکل اور ہے اس سے یہ استدلال نہیں ہوسکتا کہ ہر کلام کے ساتھ اس رنگ میں فرشتے کا نازل ہونا ضروری ہے کہ وہ آکر یہ کہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے فلاں بات آپ کو پہنچانے کا حکم دیا ہے۔ ایسا طریق صرف بعض الہامات میں اختیار کیا جاتا ہے باقی الہامات کے ساتھ فرشتوں کا نزول صرف اتنا مفہوم رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام فرشتوں کی حفاظت میں نازل فرماتاہے۔
پھر امام راغب لکھتے ہیں و قولہ ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او قال اوحی الی ولم یوح الیہ شی ء فذالک لمن یدعی شیئا من انواع ما ذکرنہ من الوحی ای نوع ادعاہ من غیر ان حصل لہ۔ یعنی یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر دیدہ دانستہ جھوٹ باندھے یا کہے کہ میری طرف وحی کی گئی ہے۔ حالانکہ اس کی طرف کوئی وحی نہ ہوئی ہو۔ اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ ذالک لمن یدعی شیئا من انواع ما ذکرنہ من الوحی ۔ یہ وعید اس شخص کے بارہ میں ہے جو وحی کے متعلق ہماری بیان کردہ قسموں میں سے کسی شق کے ماتحت آجائے اور دعویٰ کرے کہ مجھ پر فلاں قسم کی وحی نازل ہوتی ہے۔ ای نوع ادعاہ من غیر ان حصل لہ۔ یہ سوال نہیں ہوگا کہ فلاں قسم کی وحی کے متعلق اس نے دعویٰ کیا ہے اور فلاں قسم کی وحی کے متعلق اس نے دعویٰ نہیں کیا۔ اوپر کی بیان کردہ قسموں میں سے خواہ کسی قسم کی وحی کا وہ دعویٰ کرے اور اس کی حالت یہ ہو کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی وحی نازل نہ ہوتی ہو تو بہرحال وہ اس آیت کے ماتحت آجائے گا اور اللہ تعالیٰ کا عذاب اس پر نازل ہوگا۔
یہ ایک نہایت ہی لطیف بات ہے جو مفردات والوں نے بیان کی ہے۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ لغت نے تو وحی کے کئی معنے بیان کئے ہیں جن میں سے بعض ایسے ہیں جن کا وحی الٰہی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او قال اوحی الی ولم یوح الیہ شیء میں کس قسم کی وحی کا ذکر کیا گیاہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں صرف اس وحی الٰہی کا ذکر کیا گیا ہے جس کی مختلف اقسام ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ اگر کسی شخص کا دعویٔ وحی و الہام ان شقوں کے ماتحت نہیں آئے گا تو اس پر اس آیت کا اطلاق بھی نہیں ہوگا۔ یہ آیت صرف اسی شخص پر چسپاں ہوگی جو وحی الٰہی کی بیان کردہ قسموں میں سے کسی قسم کا ادّعا کرتا ہو۔ یہ ایک لطیف نکتہ ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہائیوں کو سخت دھوکا لگا ہے۔ وہ اپنے پاس سے وحی کی ایک تعریف کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں جب بہاء اللہ اس بات کا مدعی تھا کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور تمہارے نزدیک وہ جھوٹ اور افتراء سے کام لے رہا تھا تو اس پر عذاب کیوں نہ آیا۔ حالانہ عذاب صرف اس شخص پر نازل ہوسکتا ہے جو وحی کے متعلق قرآن کریم کی بیان کردہ قسموں میں سے کسی قسم کا دعویٰ کرے نہ یہ کہ خلاف قرآن اورخلافِ اسلام اور خلافِ مذہب وحی کی ایک نئی تعریف کرکے اور اپنے آپ کو اس وحی کا مورد قرار دے کر یہ شور مچانا شروع کردے کہ جب میں اپنے اوپر وحی نازل ہونے کا مدعی ہوں تو مجھ پر عذاب کیوں نہیں آتا۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے مفتری علی اللہ پر عذاب نازل کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے مگر بہرحال یہ عذاب اسی شخص پر نازل ہوسکتا ہے جو اس قسم کی وحی کا دعویٰ کرے جس سے سابق انبیاء کی نبوتیں مشتبہ ہونے لگ جائیں۔ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ مجھ پر اس قسم کی وحی نازل ہوتی ہے جس قسم کی وحی انبیاء سابقین پرنازل ہوا کرتی تھی ۔ جس طرح آدمؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیاتھا یا نوحؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا یا ابراہیمؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا یا موسیٰؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا یا عیسیٰؑ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا یا محمد رسول اللہ ﷺ سے خداتعالیٰ نے کلام کیا تھا۔ اسی طرح مجھ سے خداتعالیٰ کلام کرتا ہے اور وہ کلام اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے بھی ویسا ہی ہے جیسے انبیاء کا کلام ہوتا ہے تو پھر بے شک اس کے جھوٹے ہونے کی صورت میں خطرہ ہوسکتا ہے کہ لوگ ٹھوکر نہ کھائیں اور بے شک اس وقت ضروری ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے عذاب سے ہلاک کرے۔ لیکن اگر وحی کی اپنے پا س سے ایک نئی تشریح کرتا ہے اور اس نئی قسم کی وحی کا اپنے آپ کو مورد قرار دیتا ہے تو وہ قرآنی وعید کے ماتحت نہیں آسکتا۔ جیسے بہائیوں کی حالت ہے کہ ان کے نزدیک وحی صرف قلبی خیالات کا نام ہے۔ وہ بہاء اللہ کی نسبت لفظی الہام کے قائل نہیں ہیں الا ماشاء اللہ۔وہ سمجھتے ہیں انسان کے دل میں جو بھی خیال پیدا ہوتا ہے وہ وحی ہوتا ہے۔ یہی حال لاہور کے میاں غلام محمد کا ہے وہ بھی اپنے دل کے خیالات کا نام وحی رکھ لیتے ہیں۔ اب اگر دنیا میں کوئی شخص ایسا ہے جو کہتا ہے کہ میرے دل میں جو بھی خیال اُٹھتا ہے وہ وحی ہے تو اللہ تعالیٰ کو اسے سزا دینے کی کیا ضرورت ہے۔ ہر شخص ایسے مدعی کا پاگل ہونا آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سزا دینے کی تو تب ضرورت محسوس ہو جب کسی کے دعویٔ وحی و الہام سے محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت مشتبہ ہونے لگے یا موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کی وحی کا معاملہ مشتبہ ہونے لگے اور یہ معاملہ اسی وقت مشتبہ ہوسکتا ہے جب کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ مجھ پر اسی رنگ میںکلام نازل ہوتا ہے جس رنگ میں کلام موسیٰؑ پر نازل ہوا۔ یا مجھ پر اسی رنگ میںکلام نازل ہوتاہے جس رنگ میں عیسیٰؑ پر کلام نازلہوا۔ یا مجھ پر اسی رنگ میں کلام نازل ہوتا ہے جس رنگ میں کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر کلام نازل ہوا۔ جب تک کوئی شخص اس قسم کی وحی کا اپنے آپ کو مورد قرار نہیں دیتا اس کے دعویٰ سے کوئی حقیقی خطرہ پیدا نہیں ہوتا۔ پس اس کا لازماً الٰہی گرفت میں آنا بھی ضروری نہیں ہوتا۔ پس مفردات والے کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں تقول اور افتراء علی اللہ سے کام لینے والوں کیلئے جس عذاب کی خبر دی گئی ہے وہ اسی صورت میں نازل ہوسکتا ہے جب کوئی شخص جھوٹے طور پر اس وحی کا دعویٰ کرے جس کے مختلف اقسام کا ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں۔ ان میں سے خواہ کسی قسم کا وہ مدعی بن جائے اللہ تعالیٰ اسے یقینا عذاب دے گا۔ مثلاً وہ یہی کہے کہ مجھ سے جبریل اسی طرح کلام کرتا ہے جس طرح اس نے محمد رسول اللہ ﷺ سے کلام کیا تھا یا کہے کہ الفاظ معینہ مجھ پر نازل ہوتے ہیں یا یہ کہے کہ حالت منام میں مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف باتیں بتائی جاتی ہیں اور واقعہ یہ ہو کہ نہ جبریل اس سے کلام کرتا ہو نہ الفاظ معینہ اس پر نازل ہوتے ہوں نہ تمثیلی نظاروں میں اسے غیب کی خبروں سے مطلع کیاجاتا ہو تو ایسا شخص یقینا قرآنی وعید کے ماتحت آئے گا۔ لیکن اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میرے دل میں جو بھی خیال اُٹھتا ہے وہ وحی ہے تو چونکہ یہ قرآنی وحی کی قسموںمیںشامل نہیں اورچونکہ اس طریق سے نہ کسی نبی کی نبوت مشتبہ ہوتی ہے اور نہ کسی دانا شخص کو دھوکا لگ سکتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کو اسے عذا ب دینے کی ضرورت بھی نہی ہوتی۔ہر انسان اپنی عقل سے کام لے کر فوراً فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ پاگل ہے یا شرارتی۔ اس میں دھوکا لگنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ ہاں اگر وہ یہ کہے کہ مجھ پر جبریل نازل ہوتا ہے اور وہ مجھے اللہ تعالیٰ کا کلام پہنچاتا ہے یا کہے کہ خداتعالیٰ میرے کانوں پر یا میری زبان پر معین الفاظ میں اپنا کلام نازل کرتا ہے یا حالت منام میں غیب کی خبروں سے اطلاع دیتا ہے تب بے شک اس پر عذاب نازل ہوگا۔ یہ بہت عمدہ استدلال ہے جو مفردات والوں نے کیا ہے۔
پھر لکھتے ہیں یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لاالہ الا انا فاعبدون (انبیاء ۲ع۲) ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہمیشہ اس کی طرف یہ وحی نازل کرتے رہے کہ سوائے میرے اور کوئی خدا نہیں تم ہمیشہ میری ہی عبادت کیاکرو۔ فھذا الوحی ھو عام فی جمیع انواعہ و ذالک ان معرفۃ وحدانیۃ اللہ تعالی و معرفۃ وجوب عبادتۃ لیست مقصورۃ علی الوحی المختص باولی الاعزم من الرسل بل یعرف ذالک بالعقل والالھام کما یعرف بالسمع فاذا القصد من الایۃ تنبیہ انہ من المحال ان یکون رسولہ لا یعرف وحدانیۃ اللہ و وجوب عبادتہ۔ یعنی اس آیت میں جو وحی کا لفظ ہے اس سے لفظی وحی مراد نہیں بلکہانبیاء کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جو توحید کا مادہ رکھا ہوا ہوتا ہے وہ مرادہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس فطرتی مادہ کے مطابق ہر نبی کو یہ علم ہوتا ہے کہ میں نے اللہ تعالی کی ہی عبادت کرنی ہے اور کسی کی عبادت نہیں کرنی۔ گویا ان کے نزدیک اس جگہ وحی سے مخصوص وحی مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ہر نبی کی فطرت میں یہ مادہ رکھ دیا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور شرک کے کبھی قریب بھینہ جائے۔ مگرمیرے نزدیک یہ معنے بالکل غلط ہیں۔ اگر توحید کے متعلق اللہ تعالیٰ کو اپنے انبیاء کی طرف مخصوص وحی نازل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہی فطرتی مادہ کافی ہوتا جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف س عطا کیاجاتا ہے تو رسول کریم ﷺکی طرف کیوں ایسی بیسیوںآیات نازل ہوئی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا مسئلہ بڑے زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے؟ یہ امر ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کبھی شرک نہیں کیا۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ مشرکین مکہ میں سے بعض آدمیوں نے آپ کے سامنے کچھ کھانا رکھا مگر چونکہ وہ کھانا بتوں کے چڑھاوے کا تھا آپ نے اس کے کھانے سے انکار کردیا اور زید بن عمرو کی طرف سرکادیا جو حضرت عمرؓ کے چچازاد بھائی تھے اور اس وقت آپ کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ مگر انہوں نے بھی وہ کھانا نہ کھایا بلکہ قریش کو مخاطب کرکے کہا کہ ہم بتوں کے چڑھاوے کا کھانا نہیں کھایا کرتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ ابتداء سے ہی توحید کے قائل تھے اور شرک کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے مگر اس کے باوجود قرآن کریم میں توحید کا مضمون آیا ہے۔ قرآن کریم کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ توحید کے مضامین سے بھرا پڑا ہے اور اس میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا ذکر آتا ہے۔ پس یہ معنے جو مفردات والوں ے کئے ہیں صحیح نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا مادہ پیدا کردیا جاتا ہے کہ وہ طبعی طور پر شرک سے متنفر ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی طرف توحید کے متعلق کسی وحی کے نازل کرنے کی ضرورت ہوتی۔ باوجود اس کے کہ وہ ذاتی طور پر توحید کے قائل ہوتے ہیں شرک سے متنفر ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے سامنے سربسجود ہونے کو جائز نہیں سمجھتے پھر بھی ان کی طرف توحید کے متعلق وحی نازل کی جاتی ہے اور قرآن کریم میں اس کی بیسیوں مثالیں ملتی ہیں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں وقولہ تعالی واذ اوحیت الی الحواریین فذالک وحی بواسطۃ عیسی علیہ السلام۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ اوحیت الی الحواریین۔ میں نے حواریوں کی طرف وحی کی اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر حواری کو رات کے وقت الگ الگ وحی ہوئی تھی کہ اُٹھ میاں! ہمارے نبی کی مدد کر۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وحی ہوئی اور انہوں نے وہ وحی حواریوں تک پہنچادی یہ با ت واقعہ میں درست ہے اور اس آیت کا یہی مطلب ہے۔ و اوحینا لیھم فعل الخیرات فذالک وحی الی الامم بواسطۃ الانبیاء۔ اور یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ ہم نے ان کی طرف وحی کی کہ وہ نیک کام کریں یہ وحی امتوں کی طرف ان کی انبیاء کے واسطہ سے تھی۔ میرا خیال ہے کہ اس موقعہ پر مفردات والوں نے قرآن کریم کو کھول کر نہیں دیکھا ورنہ وہ ایسا نہ لکھتے۔ انہوں نے الیھم کے لفظ سے یہ سمجھ لیا کہ اس سے تمام بنی نوع انسان مراد ہیںحالانکہ یہ درست نہیں۔ یہ آیت سورئہ انبیاء میں آتی ہے اور وہاں حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ واوحینا لیھم فعل الخیرات و اقام الصلوٰۃ و ایتاء الزکوۃ و کانوا لنا عابدین (الانبیاء ۵ع۵) ہم نے ان کی طرف وحی کی کہ وہ نیک کام کریں۔ نمازوں کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں وکانوا لنا عابدین اور وہ لوگ ہمارے عبادت گزار بندے تھے۔ پس اس جگہ عام لوگوں کاذکر نہیں بلکہ صرف حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کا ذکر ہے مگر انہوں نے ھم کی ضمیر کی وجہ سے یہ خیال کرلیا کہ اس سے عامۃ المسلمین مراد ہیں۔ پھر یہ بھی صحیح نہیں کہ اس سے مراد صرف وہ وحی ہے جو انبیاء کے واسطہ سے امتوں سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ یہ احکام ایسے ہیں جو انبیاء کے ساتھ بھی تعلق رکھتے ہیں۔ کیا انبیاء کو فعل الخیرات کاحکم نہیں ہوتا یا انبیاء کو اقامۃ الصلوٰۃ کا حکم نہیں ہوتا یا انبیاء کو ایتاء الزکوٰۃ کا حکم نہیں ہوتا؟ جب انبیاء کے ساتھ بھی یہ احکام تعلق رکھتے ہیں تو ان کا یہ کہنا درست نہ رہا کہ اس سے صرف وہ وحی مراد ہے جو انبیاء کے واسطہ سے امتوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہوتی ہے۔
پھر لکھتے ہیں ومن الوحی المختص بالنبی علی السلام اتبع ما اوحی الیک من ربک ان اتبع الا مایوحی الی۔ وحی کی ایک قسم وہ ہے جو رسول کریم ﷺ کی ذات کے ساتھ مختص تھی جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اتبع مااوحی الیک من ربک (الانعام ۱۹ع۱۴) تیری طرف جو وحی نازل کی گئی ہے اس کی اتباع کر یا قرآن کریم میں آتا ہے ان اتبع الا ما یوحی الی (الانعام ۱۱ع۵) میں تو اسی بات کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کے ذریعہ نازل کی جاتی ہے۔ مگر یہ معنے بھی صحیح نہیں۔ رسول کریم ﷺ پر جو وحی نازل ہوتی تھی وہ سب کیلئے تھی۔ صرف آپ کی ذات کے ساتھ وہ مخصوص نہیں تھی وقولہ و اوحینا الی موسی و اخیہ فوحیہ الی موسی بوساطۃ جبریل و وحیہ تعالیٰ الی ھارون بوساطۃ جبریل وموسی۔ اور یہ جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کی طرف وحی کی فوحیہ الی موسی بوساطۃ جبریل۔ پس موسیٰ ؑ کی طرف اللہ تعالیٰ کی جو وحی نازل ہوتی تھی وہ جبریل کی وساطت سے نازل ہوتی تھی۔ ووحیہ الی ھارون بوساطۃ جبریل و موسی لیکن ہارون کی طرف اللہ تعالیٰ کی جو وحی ہوتی تھی وہ جبریل اورموسیٰؑ دونوں کی وساطت سے ہوتی تھی۔ یعنی کبھی موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی کو ہارون کی وحی بھی قرار دے دیا جاتا تھا اورکچھ وحی حضرت ہارونؑ پر بھی براہ راست نازل ہوتی تھی۔ یہاں مفردات والوں نے ایک لطیف نکتہ بیان کیا ہے جو پیغامیوں کے ردّ میں بہت کام آسکتاہے۔
پیغامیوں کی طرف سے ہمیشہ یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ نبی کسی کا متبع نہیں ہوتا۔ میں نے اس کے جواب میں انہیں بارہا کہا تھا کہ تمہاری یہ بات بالکل غلط ہے تم حضرت ہارون علیہ السلام کی طرف دیکھو وہ نبی تھے مگر باوجود نبی ہونے کے حضر ت موسیٰ علیہ السلام کے تابع تھے۔ پس تمہاری یہ بات درست نہیں کہ نبی کسی کا تابع نہیں ہوسکتا۔ اگر درست ہوتی تو حضرت ہارونؑ موسیٰؑ کے کس طرح متبع ہوجاتے۔ ہارون تو موسیٰؑ کے اس قدر متبع تھے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پہاڑ پر گئے اور ان کی قوم شرک میں مبتلا ہوگئی تو وہ سخت ناراضگی اور غضب کی حالت میں واپس آئے اور حضرت ہارون علیہ السلام سے نہایت سختی کے ساتھ کہا کہ افعصیت امری (طٰہٰ ۱۴ع۵) کیا میرے صریح حکم کی اس طرح خلاف ورزی کی جاتی ہے؟ اگر وہ متبع نہ ہوتے تو حضرت موسیٰؑ ان پر کس طرح خفا ہوسکتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خفا ہونا اور ان سے جواب طلب کرنا بتاتا ہے کہ وہ موسیٰؑ کے تابع تھے۔ پس یہ صحیح نہیں کہ نبی کسی کا تابع نہیں ہوسکتا۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہارونؑ موسیٰؑ کے تابع نہیں تھے تو دونوں پر وحی کس طرح نازل ہوتی تھی؟ اس کے جواب میں غیر مبائعین یہ کہا کرتے ہیں کہ دونوں پر برابر وحی نازل ہوتی تھی۔ جو وحی موسیٰ پر ہوتی تھی وہی وحی ہارونؑ پر بھی نازل کردی جاتی تھی۔ تورات بھی دونوں پر اتری تھی۔ ادھر موسیٰ پر تورات کا نزول ہوتا تھا اور ادھر ہارون پر تورات کا نزول ہوتا تھا۔ یہ بات اتنی احمقانہ ہے کہ اسے سن کر حیرت آتی ہے کہ ایک ہی وقت ایک کلام دو مختلف انسانوں پر بغیر کسی حکمت کے نازل کیا جاتا ہو۔ گویا نعوذباللہ خداتعالیٰ کو شبہ تھا کہ ایسا نہ میں کسی ایک کی طرف وحی نازل کروں تو وہ دوسرے کو جھوٹ بول کر کچھ اور بتادے۔ اس لئے خداتعالیٰ کو یہ احتیاط کرنی پڑی کہ ادھر موسیٰ پر وہ کلام نازل کرتا اور ادھر ہارون پر نازل کرتا تاکہ اگر موسیٰ جھوٹ بولے تو ہارون پکڑ لے اور ہارون جھوٹ بولے تو موسیٰ پکڑلے۔ مگر مفردات والوں نے اس مسئلہ کو بالکل صاف کردیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں جو یہ آیت آتی ہے کہ اوحینا الی موسیٰ و اخیہ ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کی طرف وحی کی اس سے کیا مراد ہے؟ آیا یہ مراد ہے کہ موسیٰ کو الگ وحی کی اور ہارون کو الگ۔ تورات ادھر موسیٰ پر نازل کی جاتی اور ادھر ہارون پر۔ یا اس سے کچھ اور مراد ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس سے مرا یہ ہے کہ موسیٰ کی طرف جو وحی ہوتی تھی وہ جبریل کے واسطہ سے تھی یعنی موسیٰ پر جبریل کی حفاظت میں وحی نازل ہوتی تھی۔ اس کے بعد موسیٰ وہ بات ہارون تک پہنچادیتے تھے اور موسیٰ کی معرفت اس الہام کا ہارون تک پہنچ جانا ہی ہارون کی وحی تھا۔ مگر چونکہ ہارون خود بھی نبی تھے اس لئے کبھی کبھی انہیں اپنے طور پر بھی الہام ہوجاتا تھا۔ مگر وہ الہامات جو شریعت اور احکام کے ساتھ تعلق رکھتے تھے وہ براہِ راست موسیٰ کو ہی ہوتے تھے۔ اور پھر موسیٰ علیہ السلام ان احکام کو حضرت ہارونؑ تک پہنچاتے تھے۔ گویا ہارون موسیٰ کو یہ کہنے کا حق نہیں رکھتے تھے کہ مجھے آج فلاں وحی ہوئی ہے۔ آپ اس کے مطابق عمل کریں۔ ہاں موسیٰ یہ حق رکھتے تھے کہ ہارون کو اللہ تعالیٰ کی وحی سے باخبر کریں اور انہیں اس کے مطابق عمل کرنے کی تاکید کریں۔ البتہ ہارون چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اس لئے بعض دفعہ ان پر بھی وحی نازل ہوجاتی تھی مگر ایسی ہی جس کا شریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ آخر وحی کی صرف اتنی ہی غرض تو نہیں ہوتی کہ اس میں شریعت کے احکام بیان کئے جائیں۔ بلکہ وحی اس لئے بھی نازل ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے اپنی محبت اور پیار کا اظہار کرنا چاہتا ہے، اس کے ایمان کو ترقی دینا چاہتا ہے، اس کے عرفان اور یقین میں زیادتی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پس ہارون چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اس لئگ بعض دفعہ ان پر بھی اس قسم کی وحی نازل ہوجاتی تھی جو غیرتشریعی ہوتی اور جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنی محبت اور پیار کا اظہار کرتا۔ مگر بہرحال شرعی وحی صرف موسیٰ پر نازل ہوتی تھی اور حضرت موسیٰ وہ وحی ہارون کو سنادیتے۔
غرض مفردات والوں نے اس آیت کی تشریح میں تابع اور متبوع کا فرق بیان کردیا ہے اور وہ مسئلہ جس میں ہمارا پیغامیوں سے دیر سے نزاع چلا آرہا ہے اس کا نہایت عمدگی کے ساتھ فیصلہ کردیا ہے۔
و قولہ اذ یوحی رب الی الملئکۃ انی معکم فذالک وحی الیھم بوساطۃ اللوح والقلم ۔ اور یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ تیرا رب ملائکہ کی طرف وحی کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ انی معکم میں تمہارے ساتھ ہوں۔یہ وحی ان کی طرف لوح و قلم کے واسطہ سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں فیما قیل یعنی بعض لوگوں کا یہی خیا ل ہے مجھے تو اس عقیدہ سے اتفاق نہیں مگر پرانے مفسرین کا یہی خیال تھا کہ خداتعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو حکم دیا اور اس نے لوح پر وہ سب کچھ لکھ دیا جو دنیا میںہونے والا تھا۔ اب ملائکہ جو کچھ پہنچاتے ہیں وہ اسی لوح سے ماخوذ ہوتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک وحی کا پہلا نزول قلم پر ہوا۔ قلم سے لوح پر لکھا گیا اور پھر لوح سے ملائکہ اخذ کرتے اور اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اس کے احکام اور پیغام دنیا میں پھیلاتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ عقیدہ ایسا ہی ہے جس کی رسول کریم ﷺ کی بعض احادیث سے تردید ہوتی ہے۔ مثلاً حدیثوں میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو سب سے پہلے جبریل کو کہتا ہے کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں اس کے بعد جبریل اور فرشتوں کو اطلاع دیتا ہے۔ وہ فرشتے اور فرشتوں کو خبر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے یہ بات تمام فرشتوں میں پھیل جاتی ہے اور اس شخص کی لوگوں میں مقبولیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر لوح پر ہی سب کچھ لکھا ہوا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کو جبریل سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی وہ خودبخود لوح سے تمام حالات معلوم کرسکتے ہیں۔ بہرحال یہ پرانے مفسرین کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنی وحی قلم پر نازل کی، قلم سے لوح پر لکھا گیا اور لوح سے فرشتے پڑھ پڑھ کر بندوں پر وحی نازل کرتے ہیں۔
وقولہ و اوحی فی کل سماء امرھا فان کان الوحی الی اھل السماء فقط فالموحی الیھم محذوف ذکرہ کانہ قال اوحی الی الملئکۃ لان اھل السماء ھم الملئکۃ و یکون کقولہ اذ یوحی ربک الی الملئکۃ و ان کان الموحی الیہ ھی السموت فذالک تسخیر عند من یجعل السماء غیر حی و نطق عند من جعلہ حیا۔ اور یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ اوحی فی کل سماء امرھا اللہ تعالیٰ نے ہر سماء میں وحی کے ذریعہ اپنا حکم بھیج دیا۔ اگر اس آیت میں سماء سے اہل سماء مراد لئے جائیں تو چونکہ اہل سماء ملائکہ ہوتے ہیں اس لئے عربی زبان میں اوحی فی کل سماء امرھا کا ترجمہ یوں ہوگا کہ اوحی الی الملئکۃ امورا متعلقا بالسماء۔ اس نے ملائکہ کی طرف ان امور کے بارہ میں وحی کی جن کا آسمان کے ساتھ تعلق تھا۔ اس مفہوم کی صورت میں قرآن کریم کی یہ آتی بھی اس کے ہم معنی سمجھی جائے گی کہ اذ یوحی ربک الی الملئکۃ لیکن اگر کوئی شخص موحیٰ الیہ سے مراد سماوات لے تو ان کے متعلق یہ بھی کلام ہوسکتا مگر اس صورت میں حذفِ اضافت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بلکہ سماوات کو موحٰی الیہ تسلیم کرنے کی صورت میں اس کے دو معنے ہوں گے۔ وہ جن کے نزدیک سماوات کوئی زندہ وجود نہیں۔ وہ تو اس سے تسخیر مراد لیتے ہیں یعنی اوحی فی کل سماء امرھا کامطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کاموں کے متعلق سماوات کو مسخر کردیا ہے اور اسی تسخیر کو وحی قرار دیا گیاہے۔ لیکن وہ لوگ جو آسمانوں کو زندہ وجود قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کے معنے تسخیر کے نہیں بلکہ یہ مراد ہوں گے کہ خداتعالیٰ نے ان سے کلام کیا۔ و قولہ بان ربک اوحی لھا فقریب من الاول اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے زمین کے متعلق فرمایا ہے کہ بان ربک اوحی لھا اس میں وحی کے معنے تسخیر کے ہی کرنے پڑیں گے کیونکہ یہ ظاہر بات ہے کہ زمین بولتی نہیں اور نہ اس میں عقل پائی جاتی ہے۔ پس چونکہ زمین کی طرف بولنا منسوب کردیاگیا ہے حالانکہ وہ بولتی نہیں اور اس کی طرف عقل منسوب کردی گئی ہے حالانکہ اس میں عقل نہیں۔ اس لئے یہ حالات ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم یہاں مجازی معنے مراد لیں اور سمجھ لیں کہ اس جگہ سے وحیٔ حقیقی یا وحیٔ لفظی مراد نہیں بلکہ اوحٰی کا لفظ زمین کو مسخر کرنے کے معنے میں استعمال ہوا ہے۔ (مفردات)
وحی کے معنے عربی زبان میں تو اوپر بیان ہوچکے ہیں۔ اب میں اپنے معنے بیان کرتا ہوں۔ قرآن کریم اور احادیث کے مطالعہ سے نیز صاحب تجربہ لوگوں کی شہادت سے اس امر کا انکشاف ہوتا ہے کہ وحی کئی اقسام کی ہوتی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ اس بارہ میں ایک نقص قرآنی موجود ہے جو یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورایٔ حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنہ ما یشاء انہ علی حکیم (الشوریٰ ۶ع۵) اس آیت کے میرے نزدیک مفسرین نے صحیح معنے نہیں سمجھے جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے او من وراء حجاب کے غلط معنے لے لئے ہیں۔ انہوں نے وحی کے معنے منام اور تسخیر وغیرہ کے کردیئے ہیں اور ورای حجاب کے یہ معنے کرلئے ہیں کہ جب خداتعالیٰ نظر نہ آتا ہو جس کی مثال میں وہ موسیٰ کا کلام پشی کرتے ہیں اور یرسل رسولا کے معنے یہ کئے ہیں کہ جب جبریل کلام کے ساتھ آئے اور وہ نظر بھی آئے۔ آخری صورت میں ہمارا اور ان کا اس فرق سے اتفاق ہے کہ ہم جبریل کے ذریعہ سے کلام آنے تو کو صحیح تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ہر ایسی وحی کے نزول کے وقت جبریل نظر بھی آتا تھا۔ چند مثالوں پر دھوکا کھاکر یہ غلط قیاس کرلیا گیا ہے۔ پہلی ااور دوسری صورت پر ہمیں کلی طور پر اعتراض ہے۔ پہلی صورت پر تو یہ اعتراض ہے کہ قرآن کریم میں پینسٹھ دفعہ وحی کا لفظ الی کے صلہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ مگر کہیں بھی قرآن کریم میں وحی کا لفظ محض تصویری زبان کے معنوں میں نہیں آیا۔ بے شک بعض جگہ مجازی معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے جیسے ایک جگہ وحی کے معنے تسخیر کے آگئے ہیں۔ لیکن ان مجازی معنوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جہاں بھی وحی کا لفظ ایا ہے ایسے ہی اظہار کے متعلق آیا ہے جس کے ساتھ کلام بھی تھا۔ اب کیا یہ عجیب بات نہیں ہوگی کہ ہم قرآن کریم کی تفسیر کریں اور وحی پر بحث کرتے ہوئے پینسٹھ جگہ جن معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ان معنوں کو تو نہ لیں اور وحی کے معنے خالص تصویری زبان کے کرلیں۔ ان پینسٹھ مقامات کے علاوہ پانچ اور بھی جگہیں ہیں جہاں وحی کا لفظ استعمال ہوا ہے اور وہاں بھی بمعنے کلام ہی استعمال ہوا ہے صرف ایک جگہ ایسی ہے جہاں وحی کے معنے تسخیر کے علاوہ اور کچھ نہیں کئے جاسکتے اور وہ جگہ وہی ہے جہاں شہد کی مکھی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اوحی ربک الی النحل (النحل ۱۵ع۹) یعنی تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی۔ اس آیت کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کہ اس میں وحی کا لفظ مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے باقی سارے قرآن میں ہر جگہ وحی کا لفظ ایسے ہی اظہار کے متعلق استعمال ہوا ہے جس کے ساتھ کلام بھی ہو۔ اور جب ہر جگہ قرآن کریم یہی مراد لیتا ہے تو یہ کیسی عجیب بات ہوگی کہ جن معنوں میں قرآن کریم اس لفظ کا استعمال کرتا ہے ان معنوں کو تو ہم نہ لیں اور اس کے اور معنے کرنے شروع کردیں۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ جب کوئی مجبوری پیش آئے تو ہم اس کے معنوں میں مجاز اور استعارہ مراد لے لیں مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ ہمیں کوئی مجبوری بھی پیش نہ آئے اور ہم قرآن کریم کے استعمال کو کلی طور پر نظر انداز کرکے ان معنوں کو لے لیں جو قرآن کریم نے کسی ایک جگہ بھی نہیں کئے۔
مفسرین کی یہ تشریح کہ او من ورایٔ حجاب سے مراد موسیٰ کا کلام ہے۔ یہ بھی کسی رنگ میں قابل قبول نہیں سمجھتی جاسکتی۔ کیونکہ الا وحیا کے بعد او من وراء حجاب کے معنے اگر ہم موسیٰ کے کلام کے کریں تو اس کے معنے یہ نہیں ہوں گے کہ موسیٰ پر وحی نہیں ہوئی حالانکہ موسیٰ کا کلام رسول کریم ﷺ کو مستثنیٰ کرتے ہوئے سب سے مقدم وحی ہے۔ جسے کسی صورت میں بھی دائرہ وحی سے خارج نہیں کیاجاسکتا۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ خود یہ لوگ رسول کریم ﷺ کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انقطع الوحی و بقیت المبشرات رؤیا المومن ۔ وحی منقطع ہوگئی صر ف مبشرات باقی رہ گئے ہیں جس سے مراد وہ سچے رئویا ہیں جو مومن کو دکھائے جاتے ہیں۔ یہ حدیث بھی بتاتی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے وحی کو اول درجہ دیا ہے اور منام کو دوسر ادرجہ۔ اگر جیسا کہ ان لوگوں کا عقیدہ ہے منام کا نام ہی وحی ہوتا تو پھر بجائے یہ کہنے کے کہ انقطع الوحی و بقیت المبشرات رسول کریم ﷺ کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ انقطع الکلام ورایٔ الحجاب و بقی الوحی۔ وراء حجاب اللہ تعالیٰ جو کلام کیا کرتا تھا وہ منقطع ہوچکا ہے اب صرف وحی باقی رہ گئی ہے جس سے مراد خوابیں وغیرہ ہیں مگر رسول کریم ﷺ نے انقطع الوحی کہنے کے بعد بقیت المبشرات فرمایا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے نزدیک بھی وحی کے معنے محض منام کے نہیں ہیں۔ پس ان کے معنے بالبداہت باطل اور قرآنی محاورہ کے خلاف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وحی کے معنے جہاں اشارہ، رمز اور تحریر کے ہیں وہاں ایسے کلام کے بھی ہیں جو دوسروں سے مخفی رکھ کر کیا جائے۔ چنانچہ لغت سے یہ امر ثابت کیا جاچکا ہے کہ وحی کے معنے اشارہ، رمز اور تحریر کے بھی ہیں اور ایسے کلام کے بھی ہیں جو دوسروں سے مخفی رکھ کر کیا جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں وحی کا لفظ زیادہ تر مؤخر الذکر معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے پہلے معنے بہت کم استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً منام کے معنوں میں تو قرآن کریم میں کسی ایک جگہ بھی وحی کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ رمز، اشارہ یا تحریر کے معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے مگر صرف ایک جگہ یعنی حضرت زکریا والی مثال میں رمز کے معنوں میں یا مکھی والی مثال میں تسخیرکے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ باقی کسی جگہ بھی اشارہ، رمز ، تحریر یا تسخیر وغیرہ کے معنے نہیں آئے حالانکہ یہ لفظ قرآن کریم میں ستر جگہ استعمال ہوا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا نام وحی اس لئے رکھا ہے کہ یہ کلام دوسروں سے مخفی رکھ کر کیا جاتا ہے۔ چونکہ وحی ایک ایسی چیز ہے جو عام لوگوں کے تجربہ میں نہیں آتی وہ صرف اتنی بات جانتے ہیں کہ جب کوئی شخص بات کرتا ہے تو اسے سب لوگ سن سکتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ زید سے بات کی جائے تو زید اس کو سن لے اور بکر جو پاس ہی بیٹھا ہوا ہے وہ نہ سنے۔ اس لئے جب وہ سنتے ہیں کہ دنیا میں ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ اگر خدا اس سے کلام کرتا توکیا ہم اس کلام کو نہ سنتے؟ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرتا اور ہم اس کلام کو سننے سے محروم رہتے۔ جب دنیا میں زید سے کوئی شخص گفتگو کرتا ہے تو بکر بھی سنتا ہے، خالد بھی سنتا ہے، عمرو بھی سنتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ صرف زید سنے۔ اسی طرح اگر موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا یا عیسٰیؑ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا یا محمد رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا تو ضروری تھا کہ ہمارے کانوں میں بھی اس کی آواز آتی۔ چونکہ یہ اعتراض عام طور پر لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا نام وحی رکھ دیا یہ بتانے کیلئے کہ ایک کلام ایسا ہوتا ہے جو تم دوسروں سے چھپا کر کرتے ہو جس سے تم بات کرنا چاہتے ہو وہ تو سنتا ہے مگر جس سے تم بات کومخفی رکھنا چاہتے ہو وہ اس کو نہیں سنتا۔ مثلاً بعض دفعہ انسان دوسرے کے کان میں ایک بات کہہ دیتا ہے اب وہ شخص تو تمہاری بات سن لیتا ہے جس کے کان میں تم نے بات کہی ہوتی ہے مگر دوسرے لوگ اس کے سننے سے محروم رہتے ہیں۔ جب دنیا میں روزانہ تم ایسا کرتے ہو اور تمہاری آنکھوں کے سامنے اس قسم کے واقعات آتے رہتے ہیں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارا کلام بھی اسی رنگ میں ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا کلام اپنے اندر بہت بڑا شرف رکھتا ہے اور ہمارا کلام مخصوص ہوتا ہے ہر شخص کے روحانی قرب اور اس کے درجہ کے لحاظ سے۔ اس لئے ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے کلام کے سننے میں وہ لوگ بھی شریک ہوسکیں جن کو ہم اس شرف کا مستحق نہیں سمجھتے۔ یہی حکمت ہے جس کی بناء پر ہم نے اپنی قدرت سے ایک ایسا ذریعہ نکالا ہے جس کے نتیجہ میں ہم بات بھی کرجاتے ہیں اور کوئی غیر شخص ہماری بات کو سن بھی نہیں سکتا۔ پس چونکہ وحی میں یہ حقیقت مدنظر ہوتی ہے کہ مخاطب سنے اور غیر مخاطب نہ سنے اور چونکہ ساتھ ہی اس امر پر زور دینا بھی مدنظر ہوتا ہے کہ ایسا کلام واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے نفسانی خیالات کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا نام وحی رکھ دیا یہ بتانے کیلئے کہ تم اس کلام کو بے حقیقت نہ سمجھو۔ یہ ویسا ہی یقینی اور قطعی کلام ہوتا ہے جیسے تم آپس میں ملتے ہو تو بعض دفعہ مخفی طور پر دوسرے کے کان میں بات کہہ دیتے ہو۔ بتائو جس کے کان میں کوئی بات کہی جائے کیا اسے بات کے سننے میں کوئی شبہ ہوسکتاہے؟ نہ اسے شبہ ہوتا ہے نہ بات کرنے والے کو کوئی شبہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے کلام کو مخفی طور پر بندے کے کان میں یا اس کے دل یا اس کی زبان وغیرہ پر نازل کردیتا ہے۔ یہ بتانے کیلئے کہ میں اس راز میں دوسروں کو شریک کرنا نہیں چاہتا یا اس کے واسطہ سے یہ کلام دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہوں تاکہ اس کی قبولیت اور عظمت دنیا میں قائم ہو۔ ورنہ وہ ویسا ہی یقینی اور قطعی کلام ہوتاہے جیسے دو دوست جب آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کا ایک دوسرے سے کلام کرنا قطعی اور یقینی ہوتا ہے۔ غرض وحی اس کلام کا نام رکھ کر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ خداتعالیٰ جو اپنے بندوں سے بولتا ہے اس میں اور انسانی کلام میں کوئی فرق نہیں۔ صرف یہ فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آواز کو اس طرح پید اکرتا ہے کہ صرف وہی اسے سنے جسے سنانا مقصود ہے ورنہ وہ ویسا ہی یقینی کلام ہے جیسا کہ دو بولنے والوں میں استعمال ہوتا ہے۔
باقی رہے ایسے خواب جو تصویری زبان میں ہوں وہ من ورایٔ حجاب کلام ہوتا ہے یعنی تعبیر طلب۔ دکھایا کچھ اور جاتا ہے اور مضمون اس کے پیچھے چھپا ہوتا ہے۔ وراء حجاب کے معنے بھی یہی ہیں کہ حقیقت ایک پردہ کے پیچھے مستور ہوتی ہے تم اس پردہ کو اٹھائو گے تو وہ تمہیں نظر آجائے گی بغیر پردہ اٹھانے کے تم اصل حقیقت سے آگاہ نہیں ہوسکتے۔ گویا وحی کے معنے تو لفظی کلام کے ہیں جس کی غرض اس کلام کو غیروں سے چھپانا ہوتا ہے اور من ورایٔ حجاب کے معنے یہ ہیں کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اس طرح کلام کرتا ہے کہ حقیقت کو خود اس شخص کیلئے بھی پردہ کے پیچھے مخفی کردیتا ہے جس پر وہ نازل ہورہا ہوتا ہے۔ جب تک اس پردہ کو نہ اٹھایا جائے اس وقت تک حقیقت کا انسان کو پورے طور پر علم نہیں ہوسکتا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے فرعون نے ایک دفعہ رئویا میں دیکھا کہ سات پتلی گائیں سات موٹی گئیں کھارہی ہیں۔ اب خواہ تم سارا دن کہتے ہو کہ پتلی گائیں موٹی گائیں کھارہی ہیں۔ پتلی گائیں موٹی گائیں کھارہی ہیں کوئی دوسرا شخص کچھ بھی نہیں سمجھے گا کہ تمہارا اس کلام سے منشاء کیا ہے۔ سب تمہاری بات کو سن کر ہنسیں گے کہ پاگل ہوگیا ہے۔ لیکن پردہ اُٹھائو تو اس کے پیچھے یہ حقیقت مخفی ہوگی کہ قحط کے سات سال خوشحالی کے سات سالوں کے جمع کئے ہوئے غلوں کو کھاجائیں گے۔ پس جس چیز کو متقدمین نے موسیٰ کے کلام کی مثال قرار دیا ہے وہ درست نہیں۔ موسیٰ کا کلام وحی میں ہی شامل ہے اور ماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ ہم کلامِ خفی میں بات کرتے ہیں یعنی وہ شخص تو ہماری بات سن لیتا ہے جس کو سنانا ہمارے مدنظر ہوتا ہے لیکن دوسرا شخص ہماری بات کو نہیں سن سکتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کلام مشتبہ ہوتا ہے۔ وہ کلام مشتبہ نہیں بلکہ ویسا ہی یقینی ہوتا ہے جیسے زید اور بکر آپس میں باتیں کرتے ہیں تو انہیں ایک دوسرے کی گفتگو سننے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا۔ مگر چونکہ ہم دوسروں کو نہیں سنانا چاہتے اس لئے جس طرح انسان دوسرے کے کان میں بات کہہ دیتا ہے ہم بھی ایسے رنگ میںبات کرتے ہیں کہ صرف وہی شخص سنتا ہے جس کو ہم سنانا چاہتے ہیں دوسرا شخص ہماری بات کو نہیں سن سکتا۔ ہاںایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ کہ کسی کے کان میں بات کرنے والا تو طبعی قوانین سے مجبور ہوتا ہے اور وہ ڈرتاہے کہ اگر میں نے زیادہ زور سے بات کی تو دوسرے لوگ بھی سن لیں گے اس لئے وہ آہستگی سے بات کرتا ہے مگر ہم بلند آواز سے بات کرتے ہیں اور پھر بھی صرف وہی شخص ہماری بات سن سکتا ہے جس پر ہم وحی نازل کرنا چاہتے ہیں دوسرے لوگ ہماری آواز کو نہیں سن سکتے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ہم رمز سے بات کرتے ہیں یعنی جب تک انسان حجاب نہ اُٹھائے اس پر حقیقت منکشف نہیں ہوتی۔ اس کے بعد او یرسل رسولا میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ایک وحی ایسی ہوتی ہے جو بالواسطہ آتی ہے ہم اپنے بندے سے بے شک کلام کرتے ہیں مگر براہ راست نہیں بلکہ ہم ملک رسول سے بات کرتے ہیں اور ملک رسول آگے بشر رسول سے کرتا ہے مگر بہرحال یہ بھی وحی ہی ہوتی ہے۔ ملک رسول کے ذریعہ کوئی بات پہنچانے سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ شق وحی کے دائرہ سے خارج ہے اسی لئے یرسل رسولا کے بعد فیوحی کا لفظ دوہرایا گیا ہے یہ بتانے کیلئے کہ یہ شق بھی وحی الٰہی میں ہی شامل ہے۔ اس کے بعد باذنہ کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ ملک رسول اپنے پاس سے کوئی بات نہیں کہتا ہمارے اذن اور منشاء سے وہ بات پہنچاتا ہے گویا ہے تو وہ بھی کلام مگر اس کلام کے پہنچانے میں ایک واسطہ پیدا کردیا گیا ہے۔ اس طرح آیت کا لفظ لفظ بالکل اپنے مقام پر کھڑا ہے۔ ماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا الگ چیزہے، اومن ورایٔ حجاب الگ چیز ہے اور یرسل رسولا الگ چیز ہے۔ یہ تین قسمیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں اور تینوں میں او کالفظ رکھ کر بتایا ہے کہ ان تینوں میں مغائرت پائی جاتی ہے۔ الا وحیا سے مرادہے وحیا بغیر الواسطۃ۔ او من ورایٔ حجاب سے مراد ہے فی المنام بالواسطۃ یعنی اللہ تعالیٰ ملک رسول کو وحی کرتا ہے اور وہ بشر رسول کو کرتا ہے۔ چونکہ وحی کی یہ قسم بالواسطہ ہے اور شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ یہ دائرہ وحی سے خارج نہ ہو اس لئے ضروری تھا کہ اس کے ساتھ وضاحت کردی جاتی کہ یہ قسم بھی وحی الٰہی میں شامل ہے چنانچہ اسی لئے فیوحی باذنہ ما یشاء کہہ کر وحی کالفظ اللہ تعالیٰ نے دہرادیا اور بتادیا کہ یہ شق بھی وحی الٰہی میں شامل ہے۔
غرض اس آیت کے ماتحت وحی کی تین اقسام ہوگئیں۔
(۱) حقیقی بلا واسطہ وحی - کہ خداتعالیٰ کا کلام بندہ پر بغیر کسی واسطہ کے نازل ہو (۲) دوسری جسے قرآن کریم نے تیسرے درجہ پر رکھا ہے مگر میں تقریب تفہیم کیلئے اسے پہلے بیان کردیتا ہوں وہ حقیقی بالواسطہ وحی ہے جس میں خداتعالیٰ اپنا کلام فرشتے پر نازل کرتا ہے اور فرشتہ بندے تک پہنچاتا ہے۔ (۳) تیسری تابع وحی ہے جس میں خداتعالیٰ کی طرف سے الفاظ نازل نہیں ہوتے بلکہ مضمون کو تعبیر طلب مثال میں یا بے تعبیر طلب نظارہ میں دکھایا جاتا ہے اور اس کو لفظوں میں تبدیل کرنا بندہ کے سپرد کردیا جاتاہے۔
چونکہ حقیقت حجاب کے پیچھے مخفی ہوتی ہے اس لئے انسان جب تعبیر طلب تمثیل یا نظارہ دیکھتا ہے تو وہ اپنے قیاس سے کام لے کر حقیقت کو اپنے الفاظ میں بیان کردیتا ہے اور کہتا ہے مجھے خدا نے یوں بتایا ہے۔ فرض کرووہ لوگوں سے کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ تیرا لڑکا کامل ہوجائے گا تو یہ ضروری نہیں کہ خدا نے اسے یہ خبر ان الفاظ میں ہی دی ہو کہ ’’تیرا لڑکا کامل ہوجائے گا‘‘ بلکہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ نظارہ دکھایا ہو کہ وہ اپنے بچے کو ذبح کررہا ہے۔ چونکہ یہ نظارہ مشابہ ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعہ سے اس لئے گو اسے نظارہ یہ دکھایا گیا ہو کہ وہ اپنے بچے کو ذبح کررہا ہے مگر وہ اسماعیلی واقعہ پر قیاس کرکے اس وراء حجاب کلام کو تعبیری زبان میں بیان کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ میرا لڑکا بہت بڑا مقام حاصل کرنے والا ہے یا وہ بڑے رتبہ پر پہنچ جائے گا۔ اب جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے وہ اس کے اپنے ہیں اللہ تعالیٰ نے اسے ان الفاظ میں خبر نہیں دی کہ ’’تیرا لڑکا کامل ہوجائے گا‘‘ یا ’’ بڑے رتبہ پر پہنچ جائے گا‘‘ اس نے صرف یہ نظارہ دکھایا کہ وہ اپنے بچے کو ذبح کررہا ہے مگر یہ اس کی تعبیر کرتا اور لوگوں میں اس کا اعلان کردیتا ہے۔ اب اگر اس کی تعبیر سو فی صدی درست ہو تب بھی وہ قسم کھا کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کہاہے کہ ’’تیرا بچہ ایک کامل شخص ہوگا‘‘۔ وہ قسم کھا کر یہ تو کہہ سکتا ہے کہ خدا نے مجھے اس اس رنگ میں نظارہ دکھایا ہے مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ پانچ الفاظ بتائے ہیں۔ یہ وہی شخص کہے گا جس پر لفظاً الہام نازل ہوا ہووہ بے شک قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ مجھے خدا نے کہا ہے ’’تیرا‘‘۔ مجھے خدا نے کہا ہے ’’بچہ‘‘۔ مجھے خدا نے کہا ہے ’’بڑا‘‘۔ مجھے خدا نے کہا ہے ’’آدمی‘‘۔ مجھے خدا نے کہا ہے ’’ہوجائے گا‘‘ مگر ایسا شخص جس نے صرف نظارہ دیکھا ہے یہ تو قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ میں مفہوم بیان کررہا ہوں خداتعالیٰ کی طرف سے ہے مگر الفاط کے متعلق قسم نہیں کھاسکتا۔
چونکہ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنا مافی الضمیر لفظوں میں ہی بتاسکتا ہے خواہ بول کر خواہ لکھ کر ۔ اس لئے وہ وحی زیادہ شاندار سمجھی جاتی ہے جو الفاظ میں آجائے۔ خوا ہ لکھے ہوئے الفاظ اس کے سامنے آجائیں۔ خواہ اسے آواز سنائی دے جس کے معین الفاظ ہوں۔ خواہ الفاظ اس کی زبان پر یا دل پر جاری کردیئے جائیں (دل میں آئیں نہیں بلکہ جاری کئے جائیں۔ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے) اور وہ ایک ایک لفظ کے متعلق قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں۔ اسی طرح خواہ یہ کلام بلاواسطہ نازل ہو یا بالواسطہ کسی ملک رسول کے ذریعہ نازل ہو جب بھی کوئی الٰہی کلام لفظوں میں موجود ہو اور انسان دوسروں کو اس کلام میں معین الفاظ سنا کر کہہ سکتاہو کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوئے ہیں تو وہ وحی زیادہ اعلیٰ اور زیادہ شاندار سمجھی جاتی ہے اور جو تعبیری زبان میں وحی نازل ہو یا تصویری زبان میں نازل ہو چونکہ اس کے بیان کرنے میں انسان کو اپنے الفاظ اختیا کرنے پڑتے ہیں اور اس میں غلطی کا زیادہ احتمال ہوتا ہے اس لئے اسے پہلی قسم کی دونوں وحیوں سے ادنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ دراصل جس طرح لغت والے کہتے ہیں کہ وضع لغت کے لحاظ سے فلاں لفظ کے یہ معنے ہیں اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ وضع وحی کے لحاظ سے وحی کے مقدم معنے اس وحی کے ہیں جو الفاظ میں نازل ہو۔ پھر استعارہ اور مجاز کے طور پر دوسری قسموں کیلئے بھی اس لفظ کا استعمال کرلیتے ہیں۔ مگر بہرحال یہ دونوں قسم کی وحی پہلی وحی سے ادنیٰ سمجھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ اسے وحی کے نام سے موسوم ہی نہیں کرتے۔ چنانچہ امت محمدیہ میں جو صوفیا گزرے ہیں ان کا یہ طریق رہا ہے کہ وہ صرف وحی لفظی کو وحی کہتے تھے باقی قسموں کو وحی قرا رنہیں دیتے تھے بلکہ خواب یا کشف کہہ دیتے تھے۔ چنانچہ وحی ، کشف اور رئویا کا لفظ بار بار ان کی کتابوں میں استعمال ہوتا ہے اور یہ محاورہ اتنی کثرت سے استعمال ہونے لگا ہے کہ موجودہ زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے حقیقت کھل جانے کے باوجود ہم بھی اکثر اسی محاورہ کو استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ خود میں نے بارہا اپنی تقریروں اور تحریروں میں وحی، کشف اور رئویا کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ چونکہ وحی کا لفظ کثرت سے لفظی کلام کیلئے استعمال ہوتا ہے اس لئے صوفیاء نے اس لفظ کو صرف لفظی وحی کیلئے مخصوص کرلیا ہے۔ باقی قسمیں جو درحقیقت وحی کی ہی مختلف شقیں ہوتی ہیں ان کو وہ وحی قرار نہیں دیتے بلکہ کشف یا رئویا کہہ دیتے ہیں۔ پھر بعض لوگ تو اور بھی اونچے چلے گئے ہیں وہ صرف نبی کی وحی کو وحی کہتے ہیں۔ غیر نبی کی وحی کو وحی نہیں بلکہ الہام قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس امتیاز کی بنیاد اس امر پر ہے کہ ان میں سے ایک چیز شبہ سے بالا ہے اور دوسری چیز اپنے اندر شبہ کا احتمال رکھتی ہے۔ نبی کی وحی چونکہ شبہ سے بالا ہوتی ہے اس لئے وہ اسے وحی کہتے ہیں لیکن غیر نبی کی وحی چونکہ احتمال کا شبہ رکھتی ہے اس لئے وہ اسے وحی نہیں الہام کہتے ہیں ۔ الہام کے معنے گو عام طور پر درد دل انداختن کے کئے جاتے ہیں۔ مگر میں نے خود صوفیاء کی کتابوں میں وہ لفظی وحی دیکھی ہے جو ان کی طرف نازل ہوئی ۔ وہ کئی جگہ لکھتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایسا کہا اور پھر اس وحی کے معین الفاظ ان کی کتابوں میں درج ہوتے ہیں مگر باوجود لفظوں میں وحی نازل ہونے کے وہ یہ نہیں کہتے کہ ہم پر وحی نازل ہوئی ہے بلکہ وہ اس کا نام الہام رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان الوحی من خواص الانبیاء المرسلین والالھام من خواص الولایۃ (والثانی) ان الوحی مشروط بالتبلیغ۔ یعنی وحٰ کا نزول خاص نبیوں سے جو مرسل ہو تعلق رکھتا ہے اور الہام ولایت کی خصوصیات سے ہے۔ دوسرے وہ کہتے ہیں کہ وحی کا لفط اسی کلام کے ساتھ مخصوص ہے جسے انہی الفاظ میں لوگوں تک پہنچانے کا حکم ہو۔ اس تشریح کے مطابق اگر ان پر لفظی کلام نازل ہو تو وہ اسے الہام کہہ دیتے ہیں۔ اگر آنکھوں دیکھا نظارہ ہو تو وہ اسے کشف کہہ دیتے ہیں۔ اور اگر اگر حالت منام میں تصویری زبان میں کوئی نظارہ دکھایا جائے تو وہ اسے رئویا کہہ دیتے ہیں۔ بہرحال اپنے مذاق کے مطابق انہوں نے اس کو ایک نئی شکل دے دی ہے۔ ان کے نزدیک وحی کے معنے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا وہ قطعی اور یقینی کلام جو انبیا ء پر نازل ہوتا ہے اور الہام کے معنے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا کسی غیر نبی پر لفظی کلام کی صورت میں اپنا منشاء ظاہر کرنا۔ چونکہ اس شق کو نہ وہ رئویا میں شامل کرسکتے تھے نہ کشف میں کیونکہ اس کے ساتھ کوئی نظارہ نہی ہوتا اور دوسری طرف وہ اس کو وحی بھی قرار نہیںدے سکتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک وحی صرف اسی کلام کو کہا جاسکتا ہے جو انبیا ء پر نازل ہو۔ اس لئے انہوںنے اس کا ایک نیا نام یعنی الہام رکھ دیا تاکہ نبی اور غیر نبی پر نازل ہونے والے کلام میں ایک امتیاز قائم ہوجائے۔ بہرحال چونکہ وراء حجاب کلام میں غلطی کا زیادہ احتمال ہوتا ہے اور اس کے بیان کرنے میں انسان کو اپنے الفاظ اختیار کرنے پڑتے ہیں اس لئے پہلی قسم کی دونوں وحیوں یعنی حقیقی بلا واسطہ وحی اور حقیقی بالواسطہ وحی سے ادنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض لوگ جیسا کہ میں بتاچکا ہوں اسے وحی کے لفظ سے موسوم ہی نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں ہم نے خواب میں ایسا دیکھا ہے یا ہم نے کشف میں فلاں نظارہ دیکھا ہے۔ پھر خواب یا کشف کا نظارہ اس لئے بھی ادنیٰ سمجھا جاتا ہے کہ خواب یا کشف وحی متلو میں نہیں آسکتا۔ اعلیٰ اسے اعلیٰ متلو وحی ہے اور تصویری زبان کی وحی متلو نہیں ہوسکتی۔ متلو وحی وہ ہوتی ہے جسے پڑھا جاسکے مگر خواب یا کشف کی صورت میں جب کوئی بات بتائی جائے تو وہ پڑھی نہیں جاسکتی۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ انسان ایک نظارہ دیکھ لے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ اس نظارہ کو وہ پڑھ سکے یا دوسروں کو پڑھا سکے۔ وہ اس نظارہ کی کیفیت کو اپنے الفاظ میں بیان کرسکتا ہے مگر یہ نہیں کرسکتا کہ کشف یا خواب پڑھ کر سنادے۔ پڑھ کر وہی چیز سنائی جاسکتی ہے جو کہ الفاظ کی شکل میں ہو نہ کہ نظارہ کی شکل میں۔ پس وہ وحی جو من وراء حجاب ہوتی ہے چونکہ اس میں کشفی طور پر ایک نظارہ دکھایا جاتا ہے یا حالت منام میں کوئی بات تصویری یا تعبیری زبان میں بتائی جاتی ہے اور اسے پڑھا نہیں جاسکتا اس لئے لفظی وحی سے اس کا مقام ادنیٰ سمجھا جاتا ہے اور یہی تمام صاحب تجربہ لوگوں کا قول ہے کہ وحی الٰہی میں سے اعلیٰ مقام وحی لفظی کو حاصل ہے کیونکہ وہ پڑھی جاتی ہے۔ خواب چونکہ پڑھی نہیں جاتی یا کشف چونکہ پڑھا نہیں جاتا اس لئے اسے لفظی وحی کا جو وحی متلو ہوتی ہے مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔ مثلاً رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ رئویا میں دیکھا کہ گائیں ذبح کی گئی ہیں۔ اب ہم اس کو ویسی ہی قطعی اور یقینی وحی سمجھتے ہیں جیسے آپ پر لفظی وحی نازل ہوئی۔ مگر سوال تویہ ہے کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر کس طرح آسکتا تھا۔ کیا گائیوں کی تصویریں قرآن کریم میں بنادی جاتیں اور اس طرح بتایا جاتا کہ یہ نظارہ تھا جو رسول کریم ﷺ کو دکھایا گیا؟ اور اگر تصویر ہی بنادی جاتی تو پھر بھی یہ سوال رہ جاتا کہ اس کو پڑھا کس طرح جائے؟ پس چونکہ اس وحی کو پڑھا نہیں جاسکتا اس لئے اسے دوسری وحیوں سے ادنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ ہاں تصویری زبان کی وحی میں بھی بعض خاص فوائد ہوتے ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس وحی کا کیا فائدہ ہے نبی پر ہمیشہ کلام ہی کیوں نازل نہیں ہوتا؟ کیوں اس پر کشف یا رئویا میں بعض دفعہ حالات کا انکشاف کیا جاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تصویری زبان کی وحی میں بھی بعض ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے اس کی ضرورت سے استغناء ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک فائدہ تو اس وحی میں یہ ہے کہ گو کلام میں بھی اجمال کو مدنظر رکھا جاسکتا ہے مگر تصویری زبان میں تو بعض دفعہ ایسا اجمال ہوتا ہے جو کسی فقرہ میں بھی نہیں ہوسکتا۔ اس کی مثال یوں سمجھ ہو کہ اگر رئویا یا کشف کی حالت میں کسی کی صورت آنکھوں کے سامنے پھرادی جائے اس کے ماتھے پر شکن پڑے ہوئے ہوں اور دس بیس مختلف قسم کے جذبات اس کے چہرہ سے عیاں ہورہے ہوں تو یہ نظارہ ایک ساعت میں اسے دکھایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر انہی جذبات کو الفاظ کی صورت میں اد اکیا جائے تو خواہ کیسے بھی مجمل الفاظ ہوں اور اس قدر اختصار کو ملحوظ رکھا گیا ہو پھر بھی دس پندرہ فقروں میں وہ مضمون ادا ہوگا اور ممکن ہے پھر بھی کوئی خامی رہ جائے۔ پس ایسے مواقع پر جب اجمال اور اجمال صورت میں اللہ تعالیٰ کوئی بات بتانا چاہتا ہو اور الفاظ سے بہتر اور مؤثر پیرایہ میں قلیل سے قلیل وقت میں کوئی بات اپنے بندہ پر ظاہر کرنا چاہتا ہو تو اس وقت اللہ تعالیٰ تصویری زبان میں وحی نازل کرتا ہے ایک نظارہ آنکھوں کے سامنے پھرا دیتا ہے اور اس طرح وہ باتیں جو دس بیس فقروں کی محتاج ہوتی ہیں آن کی آن میں انسان پر منکشف ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح تصویری زبان میں وحی نازل کرنے کے اور بھی کئی فوائد ہوتے ہیں مثلاً بعض دفعہ کسی مومن بندے کی استمالت قلب مدنظر ہوتی ہے جس کے ماتحت اللہ تعالیٰ کلام کی بجائے تصویری زبان اختیار کرلیتا ہے۔ فرض کرو اللہ تعالیٰ یہ مضمون بیان کرنا چاہتا ہے کہ گھبرائو نہیں دین کو تقویت حاصل ہوجائے گی اور نبی کا ایک مرید ایسا ہے جس کا نام عبدالقوی اس کو دکھادے گا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ عبدالقوی کو دکھانے سے گو یہ مضمون بھی بیان ہوگیا کہ دین کی تقویت حاصل ہوگی مگر ساتھ ہی عبدالقوی کا دل بھی خوش ہوجائے گا کہ میںبھی اپنے نبی کی خواب میں آگیا ہوں یا مثلاً رسول کریم ﷺ نے اگر کبھی ابوبکرؓ کو دیکھا یا عمرؓ کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کا منشاء محض ایک مضمون بیان کرنانہیں تھا بلکہ ابوبکرؓ اور عمرؓ کی استمالت قلب بھی مدنظر تھی۔ اور اللہ تعالیٰ چاہتاتھا کہ وہ خواب سن کر خوش ہوجائیں کہ ہم بھی رسول کریم ﷺ کی خواب میں آگئے ہیں۔ پس بعض دفعہ مضمون بیان کرنے کے علاوہ زائد طور پر کسی مومن کی دلجوئی اور استمالت قلب بھی مدنظر ہوتی ہے جو تصویری زبان میں وحی نازل کرنے سے پوری ہوجاتی ہے۔ پس تصویری زبان میں وحی کا نزول بے فائدہ نہیںہوتا بلکہ اس کے کئی اغراض ہوتے ہیں اور کئی فوائد ہوتے ہیں جن کو خداتعالیٰ زائد طور پر ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ بے شک وہ فوائد مقصود بالذات نہیں ہوتے صرف ضمنی ہوتے ہیں مگر بہرحال وہ ضمنی فوائد تصویری زبان کے ذریعہ ہی ظاہر ہوتے ہیںلفظی کلام کے ذریعہ ظاہر نہیں ہوسکتے۔ انہی فوائد کی وجہ سے بعض دفعہ اہم معاملات بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تصویری زبان میں دکھائے جاتے ہیں مگر اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ اسے وحی لفظی میں دوبارہ بیان کردیا جاتا ہے گویا تصویری زبان میں بھی ایک نظارہ دکھادیا جاتا ہے اور کلامی زبان میں بھی اس کو بیان کردیا جاتا ہے۔ اس طرح دونوں فوائد پیدا کردیئے جاتے ہیں۔ وہ فوائد بھی جو کلام سے وابستہ ہوتے ہیں اور وہ فوائد بھی جو تصویری زبان سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ اس کی مثال رسول کریم ﷺ کا واقعہ معراج اور واقعہ اسراء ہیں کہ دونوں ذرائع سے ان کا اظہار کیا گیا۔ واقعہ معراج کا حدیثوں میں بھی تفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے اور قرآن کریم نے بھی سورئہ نجم میں اس کو بیان کردیا ہے۔ اسی طرح واقعہ اسراء تصویری زبان میں آپ کو دکھادیا گیا اور سورئہ بنی اسرائیل میں لفظی وحی میں بھی اس کا ذکر کردیا گیا۔ قرآن کریم میں تو اس کا ذکر اس لئے کردیا گیا کہ یہ واقعہ وحی متلو میں آجائے اور نظارہ آپ کو اس لئے دکھایاگیا کہ جو زائد فوائد تصویری زبان میں وحی سے وابستہ ہوتے ہیں وہ بھی حاصل ہوجائیں۔ مثلاً اگر غور کیاجائے تو واقعہ اسراء کا صرف اتنا مفہوم تھا کہ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو تمام انبیاء پر فضیلت عطا فرمائے گا۔ لیکن جب رسول کریم ﷺ کو یہ نظارہ دکھایا گیا کہ جبریل آپ کے پاس براق لائے اور آپ اس پر سوار ہوکر بیت المقدس تک پہنچے اور پھر آپ نے لوگوں کے سامنے یہ بات بیان فرمائی اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ بیت المقدس سے ہو آئے ہیں تو ہمیں اس کا نقشہ بتائیں جس پر رسول کریم ﷺ نے انہیں بتایا کہ بیت المقدس ایسا ہے ایسا ہے۔ تو اس سے لوگوں کے ایمانوں میں جو تازگی پیدا ہوئی ہوگی وہ محض لفظی کلام سے کہاں پیدا ہوسکتی تھی یا مثلاً احادیث میں آتا ہے کہ واپسی کے وقت آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ ایک قافلہ مکہ کی طرف آرہا ہے اور اس قافلہ والوں کا ایک اونٹ گم ہوگیا ہے جس کی وہ تلاش کررہے ہیں۔ آپ نے یہ بات بھی کفار کے سامنے بیان کردی ۔ چنانچہ چند دن بعد معلوم ہوا کہ بعینہٖ یہ واقعہ مکہ کے ایک قافلہ سے پیش آیا تھا اور جب وہ قافلہ مکہ میں پہنچا تو اس نے تسلیم کیا کہ بات درست ہے۔ اب یہ ایک زائد فائدہ تھا جو رسول کریم ﷺ کو اسراء کا نظارہ دکھانے سے حاصل ہوا کہ لوگوں کے ایمان بڑھ گئے اور کفار جو رسول کریم ﷺ پر اعتراض کرتے تھے کہ آپ نعوذ باللہ افتراء سے کام لیتے ہیں ان کا منہ بند ہوگیا۔ غرض اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنے اہم کلام سے اظہار کیلئے تصویری زبان کو بھی استعمال کرلیتا ہے یعنی تمثیلی زبان میں بھی ایک واقعہ بیان کردیتا ہے اور پھر لفظی وحی میں بھی اس کا ذکر کردیتا ہے لیکن بہرحال دائمی کلام لفظی ہی ہوتا ہے تصویری کلام نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام بھی اسی قسم کا ہے جس میں دونوں صورتیں اختیار کی گئی ہیں تصویری زبان بھی اور لفظی الہام بھی۔ آپ کا الہام ہے جاء نی ائل واختار و ادارا اصبعہو اشاء ان وعداللہ اتی فطوبی لمن وجد ورئٰ ی(تذکرہ ص ۶۰۳) میرے پاس جبریل آیا اور اس نے مجھے چن لیا۔ اس نے اپنی انگلی کو گرد ش دی اور اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آگیا ہے پس مبارک وہ جو اس کو پائے اور دیکھے۔ اب دیکھو یہ ایک نظارہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دکھایا گیا کہ جبریل آپ کے پاس ایا اس نے اپنی انگلی کو گردش دی اور اشارہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ پھر اس واقعہ کو کلام کی صورت میں بھی لے آیا تاکہ اور لوگ بھی اس سے متاثر ہوں۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے ایک بڑا اونچا پہاڑ دیکھا ہے تو جو اثر اس کا دیکھنے والے پر ہوتا ہے وہ سننے والے پر نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بعض دفعہ کسی واقعہ کو نظارہ کی صورت میں لاکر اس کے اثر کو زیادہ گہرا کرنا چاہتا ہے مگر پھر الہام میں بھی اسے بیان کردیتا ہے تاکہ دوسروں پر بھی اثر ہو۔ مثلاً جبریل نے اپنی انگلی سے جو اشارہ کیا ہوگا اس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جو اثر ہوا ہوگا وہ اثر خالی لفظوں سے نہیں ہوسکتاتھا۔ لیکن اس کے مقابلہ میں دوسرے لوگوں پر صرف خواب کا ذکر کرنے سے کوئی اثر نہیں ہوسکتا تھا ان کیلئے ضروری تھا کہ لفظی الہام نازل کیا جاتا۔ یہی حکمت ہے جس کے ماتحت اللہ تعالیٰ اپنے اہم کلام کو بعض دفعہ دونوں صورتوں میں بیان کردیتا ہے تصویری زبان میں بھی اور لفظی الہام میں بھی۔ اس بحث کے بعد اب میں یہ چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے جو تین اقسام وحی کی بیان کی ہیں ان کی آگے تجربہ کی بناء پر اور بھی کئی قسمیں ہیں جو یہ ہیں:
(۱) خواب تعبیر طلب منفرد و مشترک: مثلاً ایک شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ فلاں شخص کے مکان کی دیوار گرگئی ہے۔ اب ضروری نہیں کہ اس کے مکان کی دیوار ہی گرے بلکہ اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جو اس کی حفاظت کا ذریعہ ہے یا اس کو مشکلات و حوادث سے بچانے والے ہیں وہ اس کا ساتھ چھوڑ جائیں گے یا ان پر وبال آجائے گا۔ یہ خواب کبھی منفرد ہوتی ہے یعنی صرف ایک شخص ہی دیکھتا ہے اور کبھی مشترک ہوتی ہے یعنی ایسی ہی خواب دوسر ے کو بھی آجاتی ہے۔ دراصل غیر نبی کا کلام چونکہ قطعی اور یقینی نہیں ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ طریق رکھا ہوا ہے کہ بعض دفعہ بعینہٖ ویسا ہی رئویا دوسرے وک بھی دکھا دیا جاتا ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں اس کا کئی دفعہ تجربہ کیا ہے کہ بعض دفعہ جس قسم کی خواب آتی ہے بعینہٖ اسی قسم کی خواب دوسرے کو آجاتی ہے۔ میں نے ایک دفعہ اپنی مجلس میں ایک رئویا یا ذکر کیا جو ۲۴ مئی ۱۹۴۴؁ء کے الفضل میں شائع ہوچکا ہے اس کے بعد ایک دوست نے بتایا کہ مجھے ایک غیراحمدی دوست نے اپنا ایک رئویا سنایا تھا اور بتایا تھا کہ اسے خواب میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ رئویا خلیفۃ المسیح کو بھی دکھایا گیا ہے۔ چنانچہ میں ’’الفضل‘‘ میں آپ کا رئویا پڑھ کر حیران رہ گیا کہ ایسا ہی رئویا اس غیراحمدی دوست نے دیکھا تھا (الفضل ۲۷ مئی ۱۹۴۵؁ء) پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نظارے تو مختلف دکھائے جاتے ہیں مگر ان کی تعبیر ایک ہی ہوتی ہے۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے روس کے متعلق میں نے ایک رئویا دیکھا جو الفضل یکم ستمبر ۱۹۴۵؁ء میں شائع ہوچکا ہے۔ میں نے جس تاریخ کو یہ خواب دیکھا ہے اس کے دوسرے دن ہی میاں روشن دین صاحب زرگر کا مجھے ایک خط ملا جس میں انہوں نے لکھا کہ میں نے روس کے متعلق یہ رئویا دیکھا ہے اور اس کی تعبیر بھی وہی تھی جومیرے رئویا کی تھی۔ اب دیکھو مجھے ان کی خواب کا علم نہیں انہیں میری خواب کا علم نہیں۔ میں الفضل والوں کو خواب لکھتا ہوں اور میاں روشن دین مجھے لکھتے ہیں اور دونوں کی تعبیر ایک ہی ہوتی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنے بندے کو یہ یقین دلانے کیلئے کہ تمہاری خواب بالکل سچی ہے ویسی ہی خواب دوسروں کو بھی دکھادیتا ہے۔ بعض دفعہ تو دونوں کا ایک جیسا نظارہ ہوتا ہے اور بعض دفعہ نظارہ تو جدا جدا ہوتا ہے مگر تعبیر ایک ہی ہوتی ہے۔ غرض پہلی قسم یہ ہے کہ انسان ایسا رئویا دیکھتا ہے جو تعبیر طلب ہوتا ہے یہ خواب منفرد بھی ہوتی ہے اور مشترک بھی۔ یعنی کبھی صرف خود ایک نظارہ دیکھتا ہے اور کبھی ویسا ہی نظارہ دوسروں کو بھی دکھادیا جاتا ہے۔
(۲) خواب مثل فلق الصبح منفرد ومشترک: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان رئویا میں دیکھتا ہے کہ دیوار گرگئی اور دوسرے دن واقعہ میں ایسا رئویا میں دیکھتا ہے کہ دیوار گرگئی اور دوسرے دن واقعہ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بارش برستی ہے اور مکان کی دیوار گر جاتی ہے۔ یہ خواب بھی کبھی منفرد ہوتی ہے اور کبھی دوسرے کو بھی ویسی ہی خواب آجاتی ہے اور جو کچھ دیکھا جاتا ہے ویسا ہی ظہور میں آجاتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ اس کی تعبیر ظاہر ہو بلکہ جس رنگ میں خواب کے ذریعہ کوئی بات بتائی جاتی ہے اسی رنگ اور اسی شکل میں فلق الصبح کی طرح وہ بات پوری ہوجاتی ہے۔ اس قسم کی خوابوں کا بھی مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت تجربہ ہے اور میں نے دیکھا ہے بسااوقات جس طرح رات کو ایک نظارہ دیکھا جاتا ہے ویسا ہی دن کو ہونے لگ جاتا ہے۔ اور چونکہ اس قسم کے واقعات بڑی کثرت سے ہوئے ہیں اس لئے بعض دفعہ تو وہم سا ہونے لگتا ہے کہ کیا یہ واقعہ دوبارہ تو نہیں ہوریا۔ یہ خواب بھی بعض دفعہ منفرد ہوتی ہے اور بعض دفعہ مشترک۔ یعنی کبھی تو اس قسم کی خواب دیکھنے میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوتا لیکن کبھی ویسا ہی نظارہ دسرے لوگ بھی دیکھ لیتے ہیں۔
(۳) نظارہ نیم خواب تعبیر طلب منفرد و مشترک: بعض دفعہ انسان پورے طور پر سویا ہوا نہیں ہوتا بلکہ نیم خواب کی سی حالت اس پر طاری ہوتی ہے۔ کچھ جاگ رہا ہوتا ہے اور کچھ غنودگی کی طرف اس کی طبیعت مائل ہوتی ہے کہ اس حالت نیم خوابی میں وہ ایک نظارہ دیکھتا ہے جو تعبیر طلب ہوتا ہے۔ یہ نظارہ بھی دونوں قسم کا ہوتا ہے یعنی منفرد بھی ہوتا ہے اور مشترک بھی۔
(۴) نظارہ نیم خواب مثل فلق الصبح منفرد و مشترک: انسان بعض دفعہ نیم خوابی کی حالت میں ایک نظارہ دیکھتا ہے مگر وہ تعبیر طلب نہیں ہوتا بلکہ بعینہٖ اسی رنگ میں پور اہوجاتا ہے جس رنگ میں اس نے نظارہ دیکھا ہوتا ہے۔ یہ نظارہ بھی منفرد اور مشترک دونوں قسم کا ہوتا ہے۔
(۵) نظارہ بیداری تعبیر طلب منفرد و مشترک: بعض دفعہ بیداری میں ایک نظارہ دیکھا جاتا ہے لیکن وہ ہوتا تعبیر طلب ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے فلاں دن آپ کو فلاں اسٹیشن پر دیکھا تھا کیا آپ وہاں تشریف لے گئے تھے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ہم تو وہاں نہیں گئے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کشفی طور پر ہمیں دیکھا ہوگا۔ تو بعض دفعہ عین بیداری کی حالت میں ایک نظارہ دکھایا جاتا ہے مگر وہ ہوتا تعبیر طلب ہے۔ یہ نظارہ بھی منفرد اور مشترک دونوں قسم کا ہوتا ہے۔
(۶) نظارئہ بیداری مثل فلق الصبح منفرد و مشترک: کبھی بیداری میں ایک نظارہ دکھایا جاتا ہے مگر وہ تعبیر طلب نہیں ہوتا بلکہ فلق الصبح کی طرح اسی رنگ میں ظاہر ہوجاتا ہے جس رنگ میں اللہ تعالیٰ انسان کو نظارہ دکھاتاہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کشوف میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ ایک دعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کشفی حالت میں دیکھا کہ مبارک احمد چٹائی کے پاس گر پڑا ہے اور اسے سخت چوٹ آئی ہے۔ ابھی اس کشف پر تین منٹ سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہوگا کہ مبارک احمد جو چٹائی کے پاس کھڑا تھا اس کا پیر پھسل گیا اور اسے سخت چوٹ آئی اور اس کے کپڑے خون سے بھر گئے (تذکرہ ص۳۸۶)۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے مجھے ایک دفعہ پیچش کی شکایت تھی اور چونکہ مجھے بار بار قضائے حاجت کیلئے جانا پڑتا اس لئے میں چاہتا تھا کہ پاخانہ کی اچھی طرح صفائی ہوجائے تاکہ طبیعت میں انقباض پیدا نہ ہو۔ خاکروبہ آئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے جگہ صاف کردی ہے اس وقت شاید اس نے جھوٹ بولا یا کوئی کونہ صاف کرنا اسے بھول گیا تھا کہ اس نے جواب میں کہا میں نے جگہ صاف کردی ہے۔ اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کشفی حالت طاری ہوئی اور آپ نے دیکھا کہ ایک کونہ میں نجاست پڑی ہے۔ اس پر آپ نے اسے کہا تم جھوٹ کیوں بولتی ہو فلاں کونہ تو ابھی گندا ہے اور تم نے اس کی صفائی نہیں کی۔ وہ یہ سن کر حیران رہ گئی کہ انہیں اندر بیٹھے کس طرح علم ہوگیاہے کہ میں نے پوری صفائی نہیں کی (تذکرہ ص ۴۶۵)۔ یہ نظارہ بھی منفرد اور مشترک دونوں رنگ رکھتا ہے یعنی کبھی صرف ایک شخص کو نظارہ دکھایا جاتا ہے اور کبھی ویسا ہی نظارہ دوسروں کو بھی دکھایا جاتا ہے۔
(۷) کلام بلاواسطہ جو کانوں پر گرتاہے منفرد و مشترک: بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کا کلام الفاظ کی صورت میں انسانی کانوں پر نازل ہوتا ہے اور غیب سے آواز آتی ہے کہ یوں ہوگیا ہے یا یوں ہوجائے گا یا یوں کر۔ گویا ماضی کے صیغہ میں بھی یہ کلام نازل ہوتا ہے، مستقبل کے صیغہ میں بھی نازل ہوتا ہے اور امر کی صورت میں بھی نازل ہوتا ہے۔ یہ بلاواسطہ کلام جس کی کانوں میں آواز سنائی دیتی ہے اس کی بھی دونوں حیثیتیں ہیں یعنی یہ منفرد بھی ہوتا ہے اور مشترک بھی۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ صرف ملہم کو ایک آواز سنائی دیتی ہے اور کبھی ویسی ہی آواز دوسرے کو بھی آجاتی ہے۔ اس قسم کا مجھے ذاتی طو رپر تجربہ حاصل ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا کہ انی مع الافواج اتیک بغتۃ۔ میں اپنی افواج کے ساتھ اچانک تیری مدد کیلئے آئوں گا۔ جس رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام ہوا اسی رات ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آج یہ الہام ہوا ہے کہ انی مع الافواج اتیک بغتۃ۔ جب صبح ہوئی تو مفتی محمد صادق صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جو تازہ الہامات ہوئے ہوں وہ اندر سے لکھوالائوں۔ مفتی صاحب نے اس ڈیوٹی پر مجھے مقرر کیا ہوا تھا اور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تازہ الہامات آپ سے لکھوا کر مفتی صاحب کو لاکر دے دیا کرتا تھا تاکہ وہ انہیں اخبار میں شائع کردیں۔ اس روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب الہامات لکھ کر دئے و جلدی میں آپ یہ الہام لکھنا بھول گئے کہ انی مع الافواج اتیک بغتۃ ۔ میں ںے جب ان الہامات کو پڑھا تو میں شرم کی وجہ سے یہ جرأت بھی نہ کرسکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس بارہ میں کچھ عرض کرو اور یہ بھی جی نہ مانتا تھا کہ جو مجھے بتایا گیا تھا اسے غلط سمجھ لوں۔ اسی حالت میں کئی دفعہ میں آپ سے عرض کرنے کیلئے دروازہ کے پاس جاتا مگر پھر لوٹ آتا۔ پھر جاتا اور پھر لوٹ آتا۔ آخر میں نے جرأت سے کام لے کر کہہ ہی دیا کہ رات مجھے ایک فرشتہ نے بتایا تھا کہ آپ کو الہام ہوا ہے انی مع الافواج اتیک بغتۃ مگر ان الہامات میں اس کا ذکر نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا یہ الہام ہوا تھا مگر لکھتے ہوئے میں بھول گیا ۔ چنانچہ کاپی کھولی تو اس میں وہ الہام بھی درج تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر اس الہام کو بھی اخبار کی اشاعت کیلئے درج فرمادیا۔ اب یہ ایک بلا واسطہ کلام تھا جو آپ کے کانوں پر نازل ہوا مگر ساتھ ہی مجھے بھی بتادیا گیا کہ آپ کو یہ الہام ہوا ہے۔
(۸) کلام بلا واسطہ جو قلب پر گرتا ہے منفرد و مشترک: یہ قسم ایسی ہے جو پہلی قسم سے علیحدہ ہے۔ پہلی قسم میں تو کان پرکلام نازل ہوتا ہے مگر اس قسم میں انسانی قلب پر کلام نازل ہوتا ہے۔کان کی حس چونکہ معروف ہے اس لئے اسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے مگر اس حس کو سمجھنا ہر ایک کا کام نہیں ہے۔ لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ کا ایک یہ بھی طریق ہے یہ وہ بعض دفعہ انسانی قلب کو اپنی وحی کا مہبط بنادیتا ہے۔ انسان یہ محسوس نہیں کرتا کہ اس کے کان پر الفاظ نازل ہوئے ہیں بلکہ وہ اپنے قلب پر ان الفاظ کا ’نزول‘ محسوس کرتا ہے (یہ بات خیال سے بالکل جداگانہ ہے)۔ یہ کلام بھی منفرد اور مشترک دونوں قسم کا ہوتا ہے۔
(۹) کلام بلا واسطہ جو زبان پر نازل ہوتاہے منفرد ومشترک: یعنی الہام کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ بعض دفعہ کان کوئی آواز نہیں سن رہے ہوتے لیکن زبان پر بے تحاشا ایک فقرہ جاری ہوتا ہے جسے بار بار وہ دہراتی چلی جاتی ہے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زبان کسی اور کے قبضہ میں ہے اور وہ جلدی جلدی ایک فقرہ بولتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ ربودگی کی کیفیت جو انسان پرطاری ہوتی ہے جاتی رہتی ہے مگر اس کے بعد بھی کچھ دیر تک زبان پر یہ تصرف جاری رہتا ہے اور وہ جلدی جلدی اس فقرہ کو دہراتی رہتی ہے تاکہ انسان کو اچھی طرح یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پرکیا الہام نازل کیا ہے۔ ایسے الہام میں بھی کبھی بطور گواہی دوسروں کو شریک کردیا جاتا ہے۔
(۱۰) کلام بلا واسطہ جو آنکھوں پر نازل ہوتا ہے منفرد و مشترک: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام آنکھوں پر نازل ہوتا ہے یعنی لکھے ہوئے الفاظ پیش کئے جاتے ہیں جن کو پڑھ کر انسان اللہ تعالیٰ کے منشاء سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ یہ کلام بھی دونوں رنگ میں ہوتا ہے یعنی منفرد طور پر بھی اور مشترک طور پر بھی۔ کبھی تو صرف اسے کوئی لکھی ہوئی چیز نظر آجاتی ہے اور کبھی دوسرے لوگ بھی اس نظارہ میں شریک کردیئے جاتے ہیں۔ یہ امر بتایا جاچکا ہے کہ لغت کے لحاظ سے وحی کے ایک معنے تحریر کے بھی ہیں۔ یہ معنے اس دسویں قسم میں آجاتے ہیں کیونکہ اس میں الفاظ تحریرکی صورت میں دکھائے جاتے ہیں اور درحقیقت وحی کی قطعیت الفاظ کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے۔ کان، آنکھ، زبان یا دل کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی۔ جو وحی الفاظ کی صورت میں نازل ہو وہ بہرحال اور تمام وحیوں سے زیادہ شاندار سمجھی جائے گی اور اس کی قطعیت میں کوئی شبہ نہیں ہوگا خواہ یہ قطعیت کان سے حاصل ہو خواہ دل سے حاصل ہو خواہ زبان سے حاصل ہو خواہ آنکھ سے حاصل ہو۔ جس وحی سے متعلق انسان قسم کھاکر کہہ سکتا ہو کہ اس کا لفظ لفظ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس کی زبر اس کی زیر اس کا لام اور اس کامیم سب خدا نے نازل کیا ہے وہ وحی کی تما م قسموں میں سے زیادہ اعلیٰ سمجھی جائے گی۔
(۱۱) کلام بلا واسطہ جو کانوں پر گرتا ہے اور زبان بھی شریک کردی جاتی ہے: یعنی وہ کلام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے صرف کانوں پر نازل نہیں ہوتا بلکہ زبان بھی اسے دہراتی چلی جاتی ہے اور جب ربودیت کی حالت جاتی رہتی ہے تو کان محسوس کررہے ہوتے ہیں کہ ہم نے خداتعالیٰ کا کلام سنا اورساتھ ہی زبان بھی گواہی دے رہی ہوتی ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوا۔
(۱۲) کلام بلا واسطہ جو آنکھوں پر گرتا ہے اور زبان بھی اس میں شریک کردی جاتی ہے: یعنی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تختی دکھائی جاتی ہے جس پر الفاظ لکھے ہوئے ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی زبان بھی اس الفاظ کو دہراتی چلی جاتی ہے۔
(۱۳) کلام بلا واسطہ جو قلب پر گرتاہے اور زبان بھی اس میں شریک کردی جاتی ہے۔
(۱۴) کلام بلا واسطہ جس میں دونوں حواس ظاہری اور تیسرا باطنی شرک بھی کردیئے جاتے ہیں۔ یعنی کبھی اتنے جلال سے خداتعالیٰ کا کلام نازل ہوتا ہے کہ ادھر وہ قلب پر گررہا ہوتا ہے ادھر کانوں پر نازل ہورہا ہوتا ہے اور پھر تیسری طرف زبان بھی اس کو دہراتی چلی جاتی ہے۔
(۱۵) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتہ کے ذریعہ سنایا جاتا ہے اس کلام میںواسطہ پیدا کر دیا جاتا ہے ۔ بجائے اس کے کہ انسان براہ راست اللہ تعالی کے کلام کو سنے اسے فرشتہ نظر آتا ہے جو کہتا ہے کہ بات یوں ہے جیسے غار حرا میںہوا۔
(۱۶) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتہ کے ذریعہ دکھایا جاتا ہے جیسے بعض حدیثوں میں ذکر آیا ہے کہ غار حراء میں جبریل نے رسول کریم ﷺ کو حریر پر لکھی ہوئی ایک تحریر بھی دکھائی
(۱۷) کلام بالواسطہ جو نہ نظر آنے والے فرشتہ کے ذریعہ سنایا جا تا ہے اس میں کوئی فرشتہ نظر نہیں آتا مگر آواز سنائی دیتی ہے کہ میں ایسا کہتا ہوں یا فرشتہ کہتا ہے کہ مجھے خدا نے یہ بات پہنچانے کا حکم دیا ہے
(۱۸) کلام بالواسطہ جو نہ نظر آنے والے فرشتہ کے ذریعے دکھایا جاتا ہے آنکھوں کے سامنے تختی آتی ہے جس پر کچھ لکھا ہو ا ہوتا ہے اور صاف پتہ لگتاہے کہ کسی اور ہاتھ نے اسے آگے کر دیا ہے مگر فرشتہ نظر نہیں آتا۔
(۱۹) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتہ کے ذریعہ سے یقنطہ میں سنایا جاتا ہے اور دوسرے اس میں شریک نہیں ہوتے یعنی انسان کے حواس ظاہری پور ا کام کر رہے ہوتے ہیں کہ اسے فرشتہ نظرآتا ہے جو اللہ تعالی کا کلام سناتا ہے مگر کوئی دوسراشخص اس میں شریک نہیں ہوتا نہ وہ فرشتہ کو دیکھتا ہے اور نہ اس کی آواز سن سکتا ہے ۔
(۲۰) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتہ کے ذریعہ سنایا جاتا ہے ۔ اور دوسرے اس میں سماعاً شریک ہوتے ہیںرویتہ نہیںبخاری میںآتا ہے حضرت عائشہ ؓ نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کو کسی سے باتیں کرتے سنا۔ حضرت عائشہ ؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ آپ ؐکس سے باتیں کر رہے ہیں ۔ آپ ؐ نے فرمایا جبریل آیا ہے جو مجھ سے باتیں کر رہا ہے اور وہ تمہیںالسلام علیکم کہتا ہے ۔ اب دیکھو حضرت عائشہ ؓ نے با تیں سن لیں مگر انہیں فرشتہ نظر نہ آیا ۔ پس یہ وہ قسم ہے جس میں او ر لوگ سماعاً تو شریک کر دئے جاتے ہیں مگر روئیۃ نہیں ۔
(۲۱) کلام بالواسطہ جو نظر آنیوالے فرشتے کے ذریعہ سے سنایا جاتا ہے اور دوسرے لوگ اس میں سماعاً و روئیۃً شریک ہوتے ہیں جیسے وحیہ کلبی کی شکل میںجبریل کے آنے کا واقعہ ہے ۔ وہ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں آئے آپ ؐسے باتیں کرتے رہے اور صحابہ نے ان کو اچھی طرح دیکھا ۔ جب وہ چلے گئے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ذالک جبریل وہ جبریل تھے جو تمہیں دین کی باتیں سکھانے آئے ۔ ا س کلام کو صحابہ ؓ نے بھی سنا اور فرشتہ کو بھی دیکھا ۔
(۲۲) خواب، کلام اور حقیقت ظاہر تینوں کا اشتراک بعض دفعہ ایک نظارہ میں تینوں صورتیںجمع کر دی جاتی ہے ۔ اس میںخواب بھی ہوتی ہے ، اس میںکلام بھی ہوتا ہے اور اس میں حقیقت ظاہر بھی ہوتی ہے ۔ جیسے حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ سرخی کے چھینٹوں والا واقعہ پیش آیا جس کے نشانات آپ ؑ کے کرتہ پر بھی پائے گئے ۔ اس میں تینوں باتیں موجود تھیں ۔ یعنی خواب میں ایک نظارہ بھی دکھایا گیا ۔ اللہ تعالی نے آپ ؑ سے بات بھی کی اور پھر ظاہر میں سرخی کے چھینٹوں کا نشان قائم کر دیا ۔ پس وحی کی بائیسویں قسم وہ ہے جس میںخواب ، کلام اور حقیقت ظاہر تینوں کا اشتراک پایا جاتا ہے ۔
(۲۳) وحی کی تیئیسویں قسم وحی قلبی خفی ہے یعنی وہ وحی جس میںالفاظ نہیں ہوتے صرف دل پر اللہ تعالی کے منشاء کا القاء ہوتا ہے ۔ جیسے رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ روح القدس کی طرف سے فلاں بات میرے دل میںڈال دی گئی ہے اور اب مجھے اس میں کسی قسم کا تردد نہیں ۔ یہ الفاظ صاف بتاتے ہیںکہ رسول کریم ﷺ پر یہ وحی الفاظ کی شکل میں نازل نہیں ہوئی بلکہ یہ صرف قلبی وحی تھی جو القاء کی صورت میں نازل ہوئی ۔
اس وحی کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ وحی دوسری وحیوں کے ساتھ مل کر آتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وحی دوسری وحیوں کے بعد آتی ہے تا کہ لوگوں کو کسی قسم کا دھوکہ نہ لگے ۔ بہائیوں کو تمام تر دھوکہ اسی آخری تیئیسویں وحی کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لگا ہے ہم اس وحی سے انکار نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا اپنا تجربہ بھی یہی ہے کہ اس قسم کی وحی ہوتی ہے اور رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود ؑ کے ارشادات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وحی کی ایک قسم قلبی خفی وحی بھی ہے ۔ پس ہم یہ تو نہیںکہہ سکتے کہ بہائی جس وحی کا ادعا کرتے ہیں اسکا کوئی وجود ہی نہیں۔ مگر ہم یہ ضرور کہیںگے کہ بہائیوں نے اس وحی کی حقیقت کو نہیںسمجھا ۔ وہ اپنے دل کے ہر خیال کا نام وحی رکھنے کے عادی ہیں۔ چنانچہ بہاء اللہ کے دل میں جو خیال آتا تھا وہ کہہ دیتے تھے کہ یہ وحی ہے ۔ اس طرح وہ جو کچھ لکھتے ہیںاس کو وحی قلبی خفی قرار دے دیتے ہیں۔ ہمیںچونکہ خود اعتراف ہے کہ وحی کی ایک قسم وہ بھی ہوتی ہے جس میں الفاظ نازل نہیں ہوتے صرف قلب میںاللہ تعالی کی طرف سے القاء کیا جاتا ہے اس لئے وہ بعض دفعہ لوگوں کو دھوکہ دینے میںکامیاب ہو جاتے ہیں ۔ مگر ایک بات ایسی ہے جو اس بحث کے سلسلہ میں ہماری جماعت کے دوستوں کو یاد رکھنی چاہیئے اور جو بہائیوں کے پھیلائے ہوئے زہر کے ازالہ میںبہت کام آسکتی ہے اور وہ یہ کہ مامورین کے تجربات میں یہ بات آئی ہے کہ یہ وحی دوسری وحیوں کے ساتھ مل کر آتی ہے اکیلی نہیںآتی ۔ اگر اکیلی آجائے توہر آدمی کہہ سکتا ہے کہ مجھے بھی وحی ہوتی ہے اور پھر یہ امتیاز کرنا مشکل ہو جائے کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ سے کام لے رہا ہے اس نقص کے ازالہ کے لئے اللہ تعالی نے یہ صورت رکھی ہے کہ وہ پہلے اپنے بندہ پر اور قسموں کی وحی نازل کرتا ہے اور جب اس میں بیان کردہ واقعات کے پورا ہونے سے لوگوں کو یہ یقین آجاتا ہے کہ فلاں شخص سچ بول رہا ہے تو اس کے بعد اس پر وحی قلبی خفی بھی نازل کر دیتا ہے ۔ یہ نہیں ہوتا کہ اسے اپنی سچائی کا اور تو کوئی نشان نہ دیا جائے اور صرف قلبی خفی وحی اس کی طرف نازل کرنی شروع کر دی جائے ۔ اور یہ لفظ وحی کے مقابلہ پر کمیت میںبہت ہی کم ہوتی ہے ۔ میںاس کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں ۔ میرے پاس ایک دفعہ عبدا للہ تیما پوری آئے اور کہنے لگے آپ مجھے کیوں نہیں مانتے اور مرزا صاحب کو مانتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ مرز ا صاحب کو ہم اس لئے مانتے ہیںکہ آپ ؑ کی صداقت کے ہم نے متواتر نشانات دیکھے اور ہمیں یقین آگیا کہ آپ ؑ سچے ہیں۔ کہنے لگے یہ تو بعد کی باتیں ہیں شروع شروع میںجو لوگ آپ پر ایمان لائے تھے انہوں نے کونسا نشان دیکھا تھا ؟ مثلاً حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ آپ پر ایمان لائے سوال یہ ہے کہ وہ کس نشان کو دیکھ کر آپ کی صداقت کے قائل ہوگئے تھے ؟ میں نے کہا دنیا میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ابو بکر ؓ کی طرح نشانات دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ سمجھتے ہیں اگر ہم نشانا ت دیکھ کر ایمان لائے تو اس سے ہمارا درجہ کم ہو جائے گا ۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق حدیثوں میںصاف طور پر آتا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ کے دعویٰ نبوت کی خبر ان کو پہنچی اور وہ آپ سے یہ دریافت کرنے آئے کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ نے الہام کا دعوی کیا ہے تو اس وقت رسول کریم ﷺ نے چاہا کہ اپنی صداقت کے متعلق کچھ وضاحت فرمائیں مگر حضرت ابو بکر ؓ نے آپ ؐ کو روک دیا اور کہاآپ ؐ صرف اتنا بتائیںکہ کیا آپ نے دعوی کیا ہے کہ آپ اللہ تعالی کے نبی ہیں اور جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہاں تو حضرت ابو بکر نے کہا یا رسول اللہ میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور پھر کہا میں نے اس لئے دلائل سننے سے انکار کیا تھا کہ اگر میں دلائل سن کر ایمان لاتا تو میں اپنے ایمان کے کمزور ہونے کا ثبوت مہیا کرنے والا ہوتا ۔ میںنہیں چاہتا تھا کہ میرے ایمان کی بنیاد نئے دلائل اور نشانات پر ہو ۔ بلکہ میںچاہتا تھا کہ میں جو مشاہدہ آپ کے اخلاق کا کر چکا ہوں اسی کی بنا پر آپ پر ایمان لانے کی سعادت حاصل کروں ۔ یہی حال حضرت خلیفۃ اول ؓ کا تھا ۔ عبداللہ تیما پوری کہنے لگے تو پھر میرے متعلق آپ یہ کیوں شرط قائم کرتے ہیں کہ میرے لئے نشان دکھا نا ضروری ہے ۔ میں نے کہا کہ یہ بھی ٹھیک ہے کہ نبی کے دعویٰ کے ابتداء میں ایمان لانے والے ان زبردست نشانات کے ظہور سے پہلے ایمان لاتے ہیںجو بعد میں ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن ان کیلئے بھی اللہ تعالی ایمان لانے کی یقینی صورتیں پیدا کر دیتا ہے ۔ اور وہ اس نبی کا گذشتہ نمونہ اور عمل ہوتا ہے مگر اس سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اس کے ذاتی واقف ہوں ۔ حضرت ابوبکر ؓ کے سامنے رسول کریم ﷺ کی صداقت امانت اور بنی نوع انسان کی خدمت تھی ، حضرت خلیفہ اول کے سامنے حضرت مسیح موعود ؑ کا تعلق باللہ ، اسلام کے احیاء کا جوش اور اس کے لئے غیر معمولی علمی خدمت تھی جس کہ وجہ سے آپ نے براہین احمدیہ جیسی معجزانہ کتاب لکھی۔ ابتدائی زمانہ کے راستباز لوگ دیکھ رہے تھے کہ آپ نے براہین احمدیہ کے نام سے ایک ایسی کتاب لکھی ہے جس میں صداقت اسلام کے ایسے زبر دست دلائل دئے اور اس طرح تحدی سے دشمنان دین کو مقابلہ کے لئے للکارا ہے کہ یہ کام بغیر تائید الہی کے نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے نیک لوگ جن کے دل صاف تھے فوراً پکار اٹھے کہ یہ شخص اسلام کا پہلوان اور دین کو دشمنوں کے نرغے سے محفوظ رکھنے والا ہے ۔ اس کے بعد جب آپ نے دعویٰ کیا تو جو لوگ آپ کے حالات سے واقف تھے وہ فوراً آپ پر ایمان لے آئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ جس شخص کو خدا تعالی نے وہ نور بخشا تھا جس کی بنا ء پر اس نے براہین احمدیہ جیسی عظیم الشان کتاب لکھی وہ کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا ۔ جس نے اسلام کی پہلے حفاظت کی ہے وہ اگر اب بھی اس کی حفاظت کا دعویٰ کرتا ہے تو بالکل سچ کہتا ہے ، چنانچہ لوگوں نے براہین کا نشان دیکھنے کے بعد کسی مزید نشان دیکھنے کی ضرورت نہ سمجھی اور آپ کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گئے ۔ عبداللہ تیما پوری کہنے لگے تو پھر میرے متعلق آپ کیا نشان چاہتے ہیں ؟ میں نے کہا براہین احمدیہ نا مکمل رہ گئی ہے اور شاید اللہ تعالی نے ا س کو اسی لئے نا مکمل رہنے دیا ہے کہ کوئی آنے والا اس کو مکمل کرے ۔ اب آپ اس بات کے مدعی ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو مامور بنایا ہے آپ اس کو مکمل کر دیں تو میںآپ کو آپ کے دعویٰ میں صادق تسلیم کر لوں گا اور سمجھ لوں گا کہ آپ کی صداقت کے لئے یہ نشان کافی ہے ۔ اس پر وہ اچھا کہہ کر چلے گئے مگر آج تک ایک سطر بھی براہین احمدیہ کی تکمیل کے لئے نہیں لکھ سکے ۔
جس طرح مامورین کی بعثت والی زندگی سے پہلے اللہ تعالی ایسے شواہد پیدا کر دیتا ہے جو لوگوں کے لئے ایمان کے محرک ہوتے ہیں۔ اسی طرح وحی قلبی خفی کے نازل ہونے کے ادعا کرنیوالے انسان کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس پر وہ دوسری وحی بھی نازل ہوتی ہو اور اس کی صداقت کے ایسے دلائل اور شواہد پائے جاتے ہوں جن کی بنا ء پر کسی شخص کے دل میںاس کے وہمی یا پاگل ہونے کا خیال نہ گزرے ۔ مثلاً رسول کریم ﷺ نے جب فرمایا کہ روح القدس نے فلاں بات میرے دل میںڈال دی ہے تو صحابہ ؓ کو اس کے ماننے میں کوئی تامل نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس سے پہلے رسول کریم ﷺ پر فلق الصبح کی طرح پوری ہونیوالی وحی بھی نازل ہو چکی تھی ۔ جبریل کے ذریعہ بھیجی جانے والی وحی بھی نازل ہو چکی تھی اور وہ کلام بھی آپ پر نازل ہو چکا تھا جو من وراء حجاب ہوتا ہے۔ اور وہ سمجھ سکتے تھے کہ جس شخص نے ہمیشہ سچی باتیں ہمارے سامنے بیان کی ہیںوہ اب بھی جو کچھ کہہ رہا ہے کبھی غلط نہیںہو سکتا۔ حدیثوں میںآتا ہے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہاآپ نے میرا اتنا قرض دینا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میںتو تمہاری رقم واپس کر چکا ہوں اس نے کہا آپ واپس دے چکے ہیں تو کوئی گواہ پیش کریں ۔ اس پر ایک صحابی کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میںاللہ تعالی کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اس یہودی کے روپے ادا کر دیئے ہیں ۔ جب وہ واپس چلا گیا تو رسول کریم ﷺ نے اس صحابی سے پوچھا میں نے یہ قرض واپس کیا ہے اس وقت تو تم موجود نہیں تھے؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ جانے بھی دیجئے آپ آسمان کی باتیں ہمیںبتاتے ہیںتو ہم آپ پر ایمان لے آتے ہیں کیا زمین کی بات آپ کہیں گے تو ہم اس پر ایمان نہیںلائیں گے ۔ جس طرح ہم آپ کی آسمان والی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اسی طرح ہم آپ کو زمین سے تعلق رکھنے والی باتوں میں بھی سچا اور راستباز سمجھتے ہیں یہ بات جو اس صحابی ؓ نے بیان کی بالکل درست ہے ۔ کیونکہ جو شخص خدا تعالی کا مامور اور مرسل ہے اگر وہ کوئی بات کہے گا تو بہر حال سچ ہو گی ۔یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ غلط بات کہے ۔ چنانچہ جب اس صحابیؓ نے یہ بات کہی تو رسول کریم ﷺ نے اسے ملامت نہیںکی بلکہ آپ خوش ہوئے اور فرمایا آئندہ اس شخص کی گواہی دو گواہوں کے برابر سمجھی جائے ۔ یہ فضیلت اسے دوسروں پر اسی لئے عطا کی گئی کہ اس نے محض دوستی کی خاطر بات نہیں کی بلکہ اپنی گواہی کی بنیاد اس نے کلام الہی پر رکھی اور کہا کہ جس شخص پر خدا تعالی روزانہ اپنا کلام نازل کرتا ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اس کی دوسری بات بھی جو زمین سے تعلق رکھنے والی ہے کبھی غلط نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح جس شخص پر اللہ تعالی وحی قلبی خفی نازل کرتا ہے اسے دوسرے شواہد بھی عطا کرتا ہے تاکہ لوگوں کو دھوکہ نہ لگے اور وہ سمجھ لیں کہ جو شخص پہلی وحی کے بیان کرنے میںراستبازی سے کام لے رہا ہے وہ اس وحی میں بھی ضرور صادق اور راستباز ہے ۔ لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ نہ اس پر کثرت سے وحی لفظی نازل ہوتی ہے نہ اس پروحی جبریلی نازل ہوتی ہے نہ اس پر تصویری یا تعبیری زبان میں وحی نازل ہوتی ہے اور وہ دعویٰ یہ کرتا ہے کہ مجھے وحی قلبی خفی ہوتی ہے تو اس کا یہ دعویٰ کسی عقلمند کی نگاہ میںقابل قبول نہیںہو سکتا ۔ ہر شخص کہے گا کہ وہ پاگل ہے جو اپنے دل کے خیالات کا نام وحی رکھ رہا ہے ۔ غرض یہ وحی بڑا فتنہ پیدا کرنے والی چیز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی اس وحی کو کلام لفظی اور جبریلی اور غیر جبریلی کے تابع رکھتا ہے ۔ جس شخص پر بکثرت یہ تین وحیاں نازل ہوں وہ اگر کہے کہ مجھ پر وحی قلبی خفی نازل ہوتی ہے توہم اسے فریب خوردہ نہیںکہیں گے اور اس کی بات مان لیں گے ۔ لیکن جب کوئی دوسرا شخص یہ کہے جس پر کوئی اور وحی نازل نہ ہوتی ہو تو ہم سمجھیں گے وہ پاگل ہے ۔ یہی حال بہاء اللہ اور لاہور کے غلا م محمد کا ہے ہم ان لوگوں کو بھی عام معیار عقل سے گرا ہوا خیال کرتے ہیں۔
دوسرے یہ وحی امور غیبیہ کے متعلق ہوتی ہے امور احکامیہ کے بارہ میں نہیںتا کہ دھوکہ نہ لگے ۔ کیونکہ امور غیبیہ میںفتنہ کا اندیشہ نہیںہوتا ان کی تفسیر بعد میںہو جاتی ہے مگر امور احکامیہ کے نزول کی کوئی تفسیر بعد میں نہیں ہوتی ۔
کلام الہی کے متعلق یہ با ت بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ سب اقسام کلام حقیقت ظاہر اور مجاز دونوں قسم کی عبارتوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ اس میںصرف حقیقت ظاہری پائی جاتی ہو ۔ بلکہ جس طرح منام میں دیکھی گئی چیز تعبیر طلب ہوتی ہے اسی طرح وہ کلام بھی جو اللہ تعالی نے اپنے بندہ پر نازل فرمایا ہے اس میں مجاز اور استعارات پائے جاتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ منام میںجو نظارہ دکھایا جائے وہ اکثر تعبیر طلب ہوتا ہے لیکن الفاظ کی صورت میں جو کلام نازل ہوتا ہے اس میںسے بعض تاویل طلب ہوتا ہے اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے جب غیر احمدیوں کے سامنے ہم قرآن کریم کی آیات کے وہ مطالب بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالی نے ان میںمخفی رکھے ہوئے ہیں تو وہ کہہ دیا کرتے ہیںتم تو کلام الہی کی تاویل کرتے ہو ۔ بجائے ا س کے کہ ظاہرالفاظ جس حقیقت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں تم اس کو لو تو الفاظ کی تاویل کرنا شروع کر دیتے ہو ۔ ان کے ذہن میں یہ بات مرکوز ہوتی ہے کہ کلام الہی کی تاویل نہیں کی جا سکتی بلکہ ہمیشہ اس کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے ہی دیکھا جا سکتا ہے اور اگر تاویل کی جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر کلام الہی کی تاویل کی جائے تو پھر تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا۔ یہ ایسی عقل کے خلاف بات ہے کہ اسے سن کر حیرت آتی ہے ۔ آخر دنیا میںعام بول چال جو روزانہ بیداری کی حالت میں کی جاتی ہے اس میںمجاز استعمال ہوتا ہے یا نہیں ہوتا اور پھر ان باتوں کے بعد دنیا میںکوئی ٹھکانہ رہتا ہے یا نہیں رہتا؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ دنیا میںجو باتیںکی جاتی ہیںان میں استعارات بھی ہوتے ہیں ، ان میںمجاز بھی ہوتا ہے اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر کلام میںمجاز استعمال کیا گیا تو دنیا میںکوئی ٹھکانہ نہیںرہے گا ۔ غالب کا کلام پڑھ لیا جائے، ذوق کے کلام کو دیکھ لیا جائے وہ مجاز اور استعارے استعمال کرتے ہیں یا نہیں ؟ اور کیا ان کے کلام کے بعد دنیا میںکوئی ٹھکانہ رہتا ہے یا نہیںرہتا؟ ہم تو دیکھتے ہیں بڑے بڑے ادیب اور بڑے بڑے شاعر روزانہ مجاز اور استعارے اپنے کلام میںاستعمال کرتے ہیںاور کوئی شخص ان کے اس طریق پر اعتراض نہیں کرتا ۔ اگر ان کے کلام کے بعد دنیا میںٹھکانہ قائم رہتا ہے ۔ تو کیا خدا تعالی کا کلام ہی ایک ایسی چیز ہے کہ اگر اس میں مجاز یا استعارہ آجائے تو دنیا میںکوئی ٹھکانہ نہیںرہتا ؟ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ معترضین خدا تعالی کے کلام کو اتنی خوبیوں کا حامل بھی نہیںسمجھتے جتنی خوبیاں ان کے نزدیک انسانی کلام میں موجود ہونی چاہیئں ۔ خدا تعالی اپنے کلام میںمجاز اور استعارہ استعمال کرے تو انہیں اعتراض سوجھ جاتا ہے لیکن اگر بڑے بڑے ادیبوں کے کلام میںمجاز اور استعارہ استعمال ہو تو اس وقت وہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیںکہ یہ بڑا فصیح کلام ہے ۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ مجاز اور استعارہ استعمال کی وجہ سے ہمیںا س کلام کے سمجھنے میں شبہ پیدا ہو گیا ہے وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ مجاز اور استعارہ کے استعمال کر لیا گیا ہے تو پھر تو کلام کا اعتبار اٹھ گیا ۔ وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ مجاز اور استعارہ کے استعمال کی وجہ سے زبان بگڑ گئی ہے بلکہ وہ اس کلام سے مزہ اٹھا تے ہیں ۔ اس کی بلاغت کی تعریف کرتے ہیں اور اسے سارے کلام پر ترجیح دیتے ہیں آخر غالب کو دوسروں پر کیا فوقیت حاصل ہے یا ذوقؔکو دوسروں پر کیا فوقیت حاصل ہے یہی کہ وہ مجاز اور استعارہ میں حقیقت کو بیان کرتے ہیں اور لوگ سن کر کہتے ہیں کہ غالب اور ذوق نے کمال کر دیا ۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ جسے عام کلام میں اعلی درجے کا کمال سمجھا جاتا ہے وہ کمال اگر الہی کلام میںآجائے تو کہتے ہیںکہ پھر تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا ۔ جب عام بول چال جو بیداری میں کی جاتی ہے اس میںبھی مجاز کثرت سے استعمال ہوتا ہے تو پھر وحی میںکیوںنہ ہو؟استعارہ اور مجاز تو بلاغت کی جان ہوتے ہیں کلام الہی ان کے بر محل استعمال سے کیوں محروم ہو؟ ہاں جس طرح انسانی بول چال میںمجاز اور استعارہ کے باوجود غلطی سے بچنے کے ذرائع موجود ہیں ایسے ہی ذرائع کلام الہی کو بھی حاصل ہیں ۔ ان کی موجودگی میں عقلمند کو دھوکہ نہیںلگ سکتا اور بے وقوف کو تو ہر بات سے دھوکہ لگ سکتا ہے ۔ جیسے ایک بیوقوف کی مثال ہے کہ اس نے یہ سن کر کہ اگر بتادو میری جھولی میںکیا ہے تو ان میںسے ایک انڈا تم کو دے دوں کہ کہ کچھ اتہ پتہ بتائو تو بتائوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو ذرائع انسانی کلام میںغلطی سے محفوظ رہنے کے لئے اختیار کئے جا تے ہیں وہ کلام الہی کے لئے بھی استعمال ہو سکتے ہیں ۔ آخر یہ صاف بات ہے کہ جب مجاز استعمال کیا جائے تو لازما ً اس کا کوئی نہ کوئی قرینہ ہو گا ۔ قرینہ کے بغیر ہی اگر مجاز استعمال ہونے لگے تو پھر بے شک دنیا میں اندھیرا پڑ جائے ۔ مثلاً اگر میں کہوں کہ کل فلاںوفات یافتہ شخص میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے یوں کہا توچونکہ وہ صاحب فوت شدہ ہوں گے اس لئے میری یہ بات حقیقت پر مشتمل نہیں سمجھی جائے گی ۔ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ فلاں صاحب (جو زندہ ہوں) میرے پاس آئے ۔ اور یہ بات سن کر بعض لوگ جھگڑا شروع کر دیں ایک کہے گا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواب میں آئے تھے اور دوسرا کہے کہ نہیںظاہر میںآئے تھے تو یہ بے وقوفی ہو گی ۔ کیونکہ پہلے قول میںیہ قرینہ موجود تھا کہ جن صاحب کا ذکر تھا وہ فوت ہو چکے ہیں اور وہ بہر حال خواب میںہی آسکتے ہیں ظاہرمیں نہیں ۔ لیکن دوسرے قول میں یہ قرینہ نہیں ۔ پس مجاز اور استعارہ جب بھی کلام میںاستعمال کیا جائے گا۔ اس کے لئے قرائن کا ہونا ضروری ہو گا تا کہ ہر شخص سمجھ سکے کہ جو بات بیان کی جارہی ہے وہ کلام حقیقت ہے یا کلام مجاز۔ لیکن بہر حال دنیا میںہمیشہ مجاز اور استعارات استعمال کئے جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ لوگوں پر ان استعمالات کی وجہ سے کسی کلام کا سمجھنا مشتبہ ہو جائے وہ ایسے کلام سے نہایت لطف اٹھاتے اور استعارات کو فصاحت کی جان قرار دیتے ہیں ۔ پس جس طرح مجاز اور استعارہ انسانی کلام میںچار چاند لگا دیا کرتا ہے اسی طرح الہی کلام میں بھی مجاز اور استعارات کا استعمال اس کے حسن کو دوبالا کر دیتے اور اس کی شان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتے ہیں ۔ پس یہ بالکل غلط خیال ہے کہ خدا تعالی کے کلام میںمجازا ور استعارہ کے استعمال سے حقیقت چھپ جاتی ہے ۔ مجاز اور استعارہ پہچاننے کے دنیا میںکچھ قواعد مقرر ہیں ۔ جو بند وں کے کلام پر بھی چسپاں ہو سکتے ہیں ۔ اور خدا تعالی کے کلام پر بھی ۔ اگر ان قواعد کے مطابق مجاز و استعارہ کا استعمال بتایا جائے گا تو ماننا پڑے گا کہ وہ معنے درست ہیں اگر ان کے خلاف معنے کئے جائیں گے تو ان معنوں کو غلط قرار دیا جائیگا شبہ پید اہونے کا کوئی سوال ہی نہیں۔
یومئذ یصدر الناس اشتاتا لیروا اعمالہم O ط
؎ ۷ حل لغات ۔ اشتاتا کے معنے ہیں متفرقین یعنی گروہ در گروہ ۔
تفسیر ۔ مفسرین نے اس کے معنے آخرت کے لحاظ سے کئے ہیں ۔ چونکہ انہوں نے تمام سورۃ کو آخرت پر چسپاں کیا ہے اس لئے اس کے معنے بھی انہوں نے نیک و بد ۔ جنتی و دوزخی اور سفید و سیاہ کے کئے ہیں ۔ مگر سفید و سیاہ سے انگریز و ہندوستانی مراد نہیں بلکہ ان کا اشارہ یوم تبیض وجوہ و تسوع وجوہ ( ال عمران ۱۱: ۲) کی طرف ہے کہ آخرت میںکچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے چہرے سفید ہوں گے اور کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے چہرے سیاہ ہوں گے یعنی کچھ سرخ رو ہوں گے کچھ زیر الزام آئیں گے ( دیکھ لو یہیں مجاز آگیا) اسی طرح وہ اشتاتا کے معنے دائیں طرف والے اور بائیں طرف والے کے کرتے ہیں میں چونکہ اسے آخری زمانہ کے متعلق سمجھتا ہوں جس میں رسول کریم ﷺ کی بعثت ثانیہ مقدر تھی اس لئے میں اس کے یہ معنے کرتا ہوں کہ اس وقت جتھہ بندی زوروں پر ہو گی ۔ اور پارٹی بازی بہت ہو گی ۔ یومئذ یصدر الناس اشتاتا ۔ یہ ایک خاص علامت ہے جو پہلے کسی زمانہ میں رونما نہیں ہوئی صرف موجودہ زمانہ ہی ایسا ہے جس میں یہ علامت نمایا ں طور پر نظر آتی ہے ۔ پہلے زمانوں میں صرف منفرد کوششیں کی جاتی تھیں۔ اجتماع اور اتحاد کا رنگ ان میں مفقود تھا ۔ اس زمانہ میںایک اچھے تاجر کے صرف اتنے معنے تھے کہ زید نے کچھ روپیہ لیا اور اس نے اپنے شہر میںتجارت شروع کر دی ۔ یا اچھے صناع کے معنے صرف اتنے تھے کہ فلاں ترکھان اچھی چیزیں بناتا ہے یا فلاں لوہار ہوہے کا کام خوب جانتا ہے یا مزدور کے معنے صرف اتنے تھے کہ ایک غریب شخص کسی امیر کے ہاں ملازم ہو گیا یا اس کا کوئی اور کام معین معاوضہ پر کرنے لگا اس زمانہ میںبھی بے شک مزدور بعض دفعہ آقا سے لڑ رہا ہوتا تھا اور اگر آقا کو غصہ آتا تو وہ مزدور پر اپنا غصہ نکال لیتا ۔ مگر بہر حال ہر تاجرؔ ہر صناعؔ ہر مزدورؔ اور ہر سرماؔیہ دار انفرادی جدوجہد کرتا تھا ۔ اسے اپنے ہم پیشہ دوسرے لوگوں کے حقوق اور ان کے مطالبات سے کوئی تعلق نہیںہو تا تھا زید چاہتا تھا کہ میرا معاملہ سدھر جائے اور بکر چاہتا تھا کہ میرا معاملہ سدھر جائے مگر قرآن کریم اس جگہ یہ خبر دیتا ہے کہ آخری زمانہ میںیہ اختلافات جتھہ بندی کی شکل اختیار کر لینگے اور پارٹی سسٹم بہت ترقی کر جائیگی۔ اور لوگ یہ پارٹی بازی اس لئے کریں گے لیرواعمالھم کہ اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھیںیعنی انہیںیقین ہو گا کہ جتھہ بندی سے کام کرنے کے نتائج اچھے نکلتے ہیں ۔ اگر جتھہ بندی نہیں ہو گی تو ہمارے کام کا کوئی نتیجہ نہیںنکلے گا پہلے زمانہ میںمزدور اگر آقا کے رویہ سے بہت تنگ آجاتا تو وہ کہہ دیا کرتاتھا کہ میری مزدوری مجھے دے دیں میںچلا جاتا ہوں ۔ مگر اس زمانہ میں جب مزدوروں نے دیکھا کہ اس طرح مالکوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ بجائے اس کے کہ زید کا نوکر زید کے پاس جائے ، بکر کا نوکر بکر کے پاس جائے ، خالد کا نوکر خالد کے پاس جائے اور انفرادی رنگ میں اپنا مطالبہ پیش کر ے سب اکٹھے ہو جائو اور مل کر اپنے حقوق کا سوال اٹھا ئو ۔ چنانچہ زید کا نوکر اور بکر کا نوکر اور خالد کا نوکر اور سلیم کا نوکر اور حامد کا نوکر سب اکٹھے مل جاتے ہیں اور وہ اپنی ایک ایسوسی ایشین قائم کر لیتے ہیں ۔ جب کسی مطالبہ کا وقت آئے تو سارے نوکر مل جاتے ہیںاور متحدہ طور پر اپنے حقوق کے متعلق شور مچانا شروع کر دیتے ہیں مثلاً تنخواہ بڑھانے کا سوال ہو تو بجائے اس کے کہ زید کا نوکر زید سے ، بکر کا نوکر بکر سے اور خالد کا نوکر خالد سے الگ الگ مطالبہ کرے سب مل کر اپنے مالکوں کے سامنے متحدہ طور پر مطالبہ رکھ دیتے ہیں۔ اور مالک مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کے حق کو تسلیم کریں ۔ پس فرماتا ہے یومئذ یصدر الناس اشتاتا اس دن انفرادی جدوجہد کی بجائے تما م لوگ جتھہ بندی کر کے آئیںگے اور اس لئے آئیںگے لیرو اعمالھم تا کہ ان کے اعمال ان کو دکھائیںجائیں ۔ یعنی ان کے فعل کا نتیجہ نکل آئے ۔ انفرادی رنگ میںکوشش کرنے سے چونکہ ہر شخص کی طاقت ضائع چلی جاتی ہے اور کوئی اچھا نتیجہ برآمد نہیںہوتا اس لئے وہ اس دن جتھہ بندی اور پارٹی سسٹم کی طرف مائل ہو جائیںگے اور متحدہ محاز قائم کر کے اپنے مطالبات پیش کریں گے تا کہ ان کی آواز میںاثر پیدا ہو اور وہ مطالبات جو ان کی طرف سے پیش کئے جائیں ان کو قبول کرنے کے لئے دوسرے لوگ تیار ہوں چنانچہ دیکھ لو کنسرویٹو ؔ۔ لبرلؔ۔ لیبرؔ۔ ڈیموکریٹؔ۔ ری پبلکن ؔ ۔ راڈیکلؔ۔ نہلسٹؔ۔ نیشنلسٹؔ۔ سوشلسٹؔ۔ ناٹسی ؔ۔ فاسیؔ۔ فلانجےؔ۔کمیونسٹؔ۔ مہاسبھا ؔ ۔ کانگریسی ؔ۔ مسلم لیگی ؔ۔ یونی ؔنسٹ۔ وفدؔسٹ۔ سعد سٹؔ۔ وغیرہ وغیرہ ہزاروں پارٹیاں دنیا میںبن رہی ہیں اور سب ایک ہی وجہ بتاتے ہیں کہ بغیر جتھہ کے اچھا نتیجہ نکل نہیںسکتا ۔ پس فرماتا ہے یومئذ یصدر الناس اشتاتا لیرو اعمالھم ۔ لوگ اس زمانہ میںپارٹیاں بنا کر اس لئے کام کریں گے تا کہ ان کے کاموں کے اچھے نتیجے نکلیں ۔ بے شک یہ خیالات دنیا میں پہلے بھی موجود تھے اور یہی چیزیں کو آج دنیا میں نظر آتی ہیںپہلے بھی پائی جاتی تھیں ۔ پہلے بھی کئی مزدور تھے جو یہ کہا کرتے تھے کہ غریبوں کو کوئی پوچھتا نہیںاور کئی آقا اپنے ملازموں سے کہا کرتے تھے کہ اگر تم نے ذرا بھی گستاخی کی تو تمہیں کان سے پکڑکر نکال دیا جائیگا۔ مگر پہلے زمانہ اور اس زمانہ میںفرق یہ ہے کہ پہلے پارٹی بازی اور جتھہ بندی نہیں تھی اب ہر گروہ نے اپنی الگ الگ تنظیم کر کے الگ الگ سوسائٹیاں قائم کر لی ہیں ۔ ایک طرف ایمپلائز ایسوسی ایشن ہوتی ہے تو دوسری طرف دوسری ایمپلائز ایسوسی ایشن کام کر رہی ہوتی ہے ۔ ایک طرف ریلوے اونرز ایسوسی ایشن بنتی ہے تو دوسری طرف ریلوے ایمپلائز ایسوسی ایشن قائم ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح کسی جگہ کول مائنرز ایسوسی ایشن قائم ہے تو کسی جگہ کول اونرز ایسوسی ایشن کام کر رہی ہے ۔ غرض ایک دوسرے کے مقابلہ میںسوسائٹیاں بن چکی ہیں ۔ ایک نوکروں کی ایسوسی ایشن ہے تو دوسری مالکوں کی ۔ ایک ان لوگوں کی ایسوسی ایشن ہے جو سیاسیات میں غالب ہیںتو ایک ان لوگوں کی ایسوسی ایشن ہے جو سیاسیات میںمغلوب ہیںگویا ہر طرف جتھہ بن گیا ہے اور اب فردفرد کوشش نہیںکرتا بلکہ گروہ گروہ کوشش کرتا ہے یہی خبر تھی جو اللہ تعالی نے اس آیت میںدی کہ یومئذ یصدر الناس اشتاتا اس دن فرد فرد کوشش نہیںکرے گا بلکہ گروہ گروہ کوشش کرے گا ۔ لیرو اعمالھم تا کہ ان کی کوششوں کے اچھے نتائج برآمد ہوں اور وہ اپنی قوتوں کو ضائع کرنے والے نہ ہوں ۔ اس جگہ ھُم کی ضمیر اسی لئے لائی گئی ہے کہ اس میں متعدد گروہوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہر گروہ اپنے اپنے حقوق کے متعلق جدوجہد کرے گا ۔ لیبرؔ مل کر کوشش کریں گے کہ لیبر کے حق میںنتیجہ نکل آئے ۔ سوشلسٹ ؔ مل کر کوشش کریں گے کہ سوشلسٹ کے حق میںنتیجہ نکل آئے نیشنلسٹ ؔ مل کر کوشش کریں گے کہ کمیونسٹ کے حق میںنتیجہ نکل آئے ۔ غرض ہر پارٹی جتھہ بازی کے ذریعہ اپنے حقوق کو حاصل کر نے کی جدوجہد کرے گی ۔ چنانچہ آج دنیا میںہزاروں پارٹیاں بن رہی ہیںاور کتابوں میںصاف طور پر لکھا جاتا ہے کہ پہلے زمانوں میں ناکامی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ مل کر کام نہیںکیا جاتا تھا اب ہم مل کر کام کریںگے اور اپنی آواز کو زیادہ سے زیادہ موثر اور نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کریں گے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ٹھیک ہے ہمارا بھی یہی منشاء تھا کہ انفرادی کوشش کی جگہ اس دن قومی کوشش ہو تا خوب اچھی طرح خیر و شر کا فرق ظاہر ہو جائے ۔ اس جگہ لیرواعمالھم میںجہاں بندوں کی طرف سے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد شروع ہونیکا ذکر ہے وہاں اللہ تعالی کی طرف سے بھی ان کی تائید کا اشارہ پایا جاتا ہے یعنی جہاں وہ اپنے اپنے دائرہ اور اپنے اپنے رنگ میںکوشش کررہے ہوں گے وہاں خدا تعالی بھی کوشش کر رہا ہو گا ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے ومکروا ومکراللہ واللہ خیر الماکرین ۔ (ا ٓل عمران ۵ :۱۳) انہوں نے بھی تدبیریں کی اور اللہ نے بھی تدبیرکی اور اللہ تعالی تمام تدابیر کرنے والوں سے بہتر ہے اسی طرح فرماتا ہے لوگ یہ تجویز کریں گے کہ ہم مل کر کام کریں گے اور ہم بھی ان کو پوری طرح موقع دیں گے تا کہ ان کے دلوں میں کوئی حسرت نہ رہے اور لوگ قومی طورپر اپنے حوصلے نکال کر آخر اس امر کو تسلیم کریں کہ قانون اور پارٹی وہی اچھی ہے جسے خداتعالی بنائے۔
پہلے زمانہ میں جب رسول کریم ﷺ کے مقابلہ میں ابو جہل اٹھا اور وہ اپنی تمام کوششوں اور منصوبہ بازیوں کے باوجود ناکام و نامراد ہوا اور ناکامی و نامرادی کی حالت میںہی مرا۔ تو گو اللہ تعالی کا یہ ایک بہت بڑا نشان تھا جو ظاہر ہوا اور جس نے رسول کریم ﷺ کی صداقت کو آفتاب نصف النہار کی طرح ظاہر کر دیا مگر پھر بھی یہ انفرادی مقابلہ تھا قومی نہیں ۔ قومی مقابلہ ہجرت کے بعد شروع ہوا جس نے کفار عرب کی مجموعی طاقت کو توڑ دیا ۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میںبے شک آپ کا شدید مقابلہ ہوا مگر اس وقت مقابلہ کی تمام تر صورت انفرادی جدوجہد تک محدود تھی ۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی الگ مقابلہ کر رہے تھے ۔ مولوی ثناء اللہ صاحب الگ مقابلہ کر رہتے تھے ۔ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی الگ مقابلہ کر رہے تھے ۔ بے شک الکفر ملۃ واحدۃ کے مطابق ان تمام کے تیروں کا نشانہ حضرت مسیح موعود ؑ کی ہی ذات تھی لیکن بہر حال انہوں نے آپ کا اکٹھا مقابلہ نہیں کیا۔ ہر شخص الگ الگ شہر میںالگ الگ رنگ میں مقابلہ کر رہا تھا ۔ مولوی محمد حسین صاحب کسی رنگ میں مخالفت کر رہے تھے تو مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کسی اور رنگ میں۔ مگر چونکہ یہ زمانہ وہ تھا جس میں یومئذ یصدرالناس اشتاتا کی پیشگوئی کا ظہور ہونے والا تھا اسی لئے اللہ تعالی نے 1934 ء میںاحرار کو جماعت احمدیہ کے مقابلہ کے لئے کھڑا کر دیا اور انہوں نے اعلان کیا کہ ہم جماعت احمدیہ کو کچل کر رکھ دیں گے پہلے کیا تھا ۔ پہلے کوئی لدھیانہ میں مخالفت کر رہا تھا ۔ کوئی لاہور میںمخالفت کر رہا تھا کوئی دہلی میں مخالفت کر رہا تھا اور کوئی بٹالہ میں مخالفت کر رہا تھا ۔ اب ہم مل کر جماعت احمدیہ کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالیںگے چنانچہ احرار کے ساتھ کانگرس بھی مل گئی ۔ اور پھر کسی مصلحت کے ما تحت حکومت بھی ان کے ساتھ مل گئی۔ یہ مخالفت کا طوفان درحقیقت مظاہرہ تھا یومئذ یصدرالناس اشتاتا کا ۔ لیکن اس کو جو نتیجہ نکلا وہ خدا تعالی کے فضل اور حمایت ِ احمدیت کو ظاہر کر رہا ہے ۔ اب شیعوں نے ہمارے خلاف سر نکالنا شروع کر دیا ہے ۔ اور وہ بھی احرار کی طرح یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہم جماعت احمدیہ کو کچل دیںگے ۔ غرض وہ مقابلہ جو پہلے انفرادی رنگ میںکیا جاتا تھا اب قومی مقابلوں کے رنگ میں تبدیل ہو چکا ہے اور احمدیت اپنی جدوجہد کے سلسلہ میںاسی منزل میں سے گزر رہی ہے ۔
فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ O ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ O
پھر جس نے ایک ذرہ کے برابر (بھی ) نیکی کی ہو گی وہ اس (کے نتیجہ ) کو دیکھ لے گا ۔ اور جس نے ایک ذرہ کے برابر (بھی )بدی کی ہو گی وہ اس (کے نتیجہ ) کو دیکھ لیگا۔ ۸ ؎
۸؎ تفسیر ۔ فرماتا ہے لوگوں کے اکٹھا کام کرنے سے ہمارے اس قانون کی سچائی ثابت ہو گی کہ جو شخص ایک ذرہ بھر بھی عمل خیر دوسروں کے ساتھ مل کر کرے گا وہ اس کا نتیجہ دیکھ لیگا اور جو شخص ایک ذرہ بھر بھی عمل شر دوسروں کے ساتھ مل کر کریگا وہ اس کا نتیجہ دیکھ لے گا۔ یعنی اس زمانہ میںچونکہ ہر شخص اپنی پارٹی سے مل کر کام کرے گا اس لئے ہر قسم کے کام کا نتیجہ نمایا ں نکلے گا۔ کیونکہ مشترک کام ذرہ ذرہ مل کر بھی پہاڑ ہو جاتا ہے الگ کیا ہوا کام ذرہ کے مطابق ہو تو اس کا نتیجہ محسوس کرنا مشکل ہوتا ہے مگر وہ ذرہ بھر کام جو قوم کے ساتھ مل کر کیا ہو چھپ نہیںسکتا کیونکہ دوسروں کے ذروں سے مل کر وہ پہاڑ بن جاتا ہے ۔ پس فرماتا ہے چونکہ اس دن پارٹیاں مل کر کام کریںگی ہر کام کا نتیجہ نمایا ں نظر آئے گا اور عمل کاایک ذرہ بھی ضائع نہیںہو گا اس میںکوئی شبہ نہیں کہ انسانی عمل کا ایک ذرہ دنیا میں کوئی قیمت نہیںرکھتا اور وہ ہوا میں اڑ کر لوگوں کی نظروں سے غائب ہو جاتا ہے لیکن جب ایک گروہ کا گروہ اپنا اپنا ذرہ لے آئے تو ہر ذرہ دوسرے ذرات کے ساتھ مل کر ایک پہاڑ کی صورت اخیتار کر لیتا ہے اور اس طرح کوئی ذرہ بھی نمایاں ہونے سے نہیںرہ سکتا۔ یہ مضمون در حقیقت گزشتہ آیت کے تسلسل میںہی ہے اور اللہ تعالی یہ بیان فرماتا ہے کہ اس دن یصدرالناس اشتاتا کا کیوں ظہور ہو گا ۔ فرماتاہے یہ ظہور اس لئے ہو گا تا ہمارے اس قانون کی سچائی نمایاں ہو جائے کہ دنیا میںجو شخص چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی کرتا ہے اور وہ اس کا نتیجہ دیکھ لیتا ہے خواہ وہ عمل خیر ہو یا عمل شر اگر انفرادی اعمال خیر اور انفرادی اعمال شر پر اس آیت کو چسپاں کیا جائے تو اس کے کوئی معنے ہی نہیںبنتے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قیامت کے دن ہر شخص کا عمل خیر اور عمل شر نمایا ں ہو گااور ہم بھی اس کو تسلیم کرتے ہیںلیکن دنیا میںایسا نہیںہوتا ۔ دنیا میں لوگ بڑے بڑے خیر کے کام کرتے ہیں اور وہ چھپے رہتے ہیں۔اسی طرح بڑے بڑے شر کے کام کرتے ہیں اور وہ چھپے رہتے ہیں ۔ اگر دنیا میںہر خیر اور ہر شر نمایاں ہو تو لوگوں کو گناہوں پر دلیری ہی کیوں پیدا ہو ۔ ہزاروں لوگ ایسے پائے جاتے ہیںجو بڑے بڑے خیر کے کام کرتے ہیں مگر چونکہ وہ فرداً فرداً کرتے ہیں انکا کوئی ایسا نتیجہ نہیںنکلتا جس سے لوگوں کے دلوں میںخیر کی تحریک پیدا ہو ۔ اسی طرح ہزاروں ہزار لوگ شر کرتے ہیں مگر چونکہ وہ فرداً فرداً کرتے ہیں اس لئے ان کے شر کا کوئی ایسا نتیجہ نہیںنکلتا جس کو دیکھ کر لوگ مرعوب ہو جائیں اور اعمال شر کو ہمیشہ کے لئے ترک کر دیں۔ مگر فرماتا ہے ہم جس زمانہ کی خبر دے رہے ہیں اس میںخیر کرنیوالے بھی اپنے اپنے عمل کا ذرہ لا کر ایک جگہ ڈال دیں گے اس کا طبعی طور پر یہ نتیجہ نکلے گا کہ جب ساری دنیا کے خیر اکٹھے ہو جائیںگے تو وہ بھی ایک پہاڑ بن جائیں گے اور جب ساری دنیا کے شر اکٹھے ہو جائیںگے تو وہ بھی ایک پہاڑ بن جائیںگے ۔ گویا ان الفاظ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ا س دن کفر و اسلام کا نظامی مقابلہ ہو گا ایک طرف کفر اپنے تمام لشکر کو اکٹھا کر کے نظام قائم کرے گا اور دوسری طرف اسلام کے احیاء اور اس کی تقویت کے لئے اعمال خیر کرنے والوں کا ایک نظام قائم کیا جائے گا اور پھر ان دونوں نظاموں کا آپس میںٹکرائو ہو گا ۔ کفر چاہے گا کہ وہ اسلام کو ختم کر دے اور اسلام چاہے گاکہ وہ کفر کو تباہ کر دے یہ پیشگوئی جو ان آیات میںکی گئی ہے اس پر غور کر کے دیکھ لو پہلے کسی زمانہ میںیہ پوری نہیںہوئی ۔ نہ کفرنے اجتماعی مقابلہ کے لئے کوئی نظام قائم کیا اور نہ اسلام میںکفر کا سر کچلنے کے لئے کوئی باقاعدہ نظام قائم ہوا۔ رسول کریم ﷺ کو جب کبھی چندہ کی ضرورت محسوس ہوتی تو آپ صحابہ ؓ کو اکٹھا فرماتے اور ان کے سامنے چندے کا اعلان کر دیتے ۔ صحابہ ؓ اس وقت اپنی اپنی توفیق کے مطابق رسول کریم ﷺ کی خدمت میںاپنا چندہ پیش کر دیتے ۔ یہ نظر نہیںآتا کہ رسول کریمﷺ نے کوئی بیت المال قائم کیا ہو اور ایک نظام کے ما تحت جماعت کے ہر فرد سے باقاعدہ چندہ وصول کیا جاتا ہو ۔ مگر اس زمانہ میںحضرت مسیح موعود ؑ نے ابتدائے دعویٰ میں ہی پانچ مدات قائم فرمادیںجن کا ’’فتح اسلام ‘‘میںتفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے ۔ اور لوگوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اسلام کے احیاء اور اس کی ترقی کے لئے ان مدات میںروپیہ ارسال کریں۔ گویا آپ نے اپنی بعثت کے ساتھ ہی ایک نظام کی بنیادرکھ دی اور پھر رفتہ رفتہ اس کی بنیادوں کو اور بھی پختہ اور مضبوط بنا دیایہاں تک آپ نے اعلان فرما دیا کہ جوشخص تین ماہ تک اس سلسلہ کے لئے کوئی روپیہ ارسال نہیںکرتا اس کا ہماری جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیںسمجھا جا سکتا۔ غرض اسلام کے احیاء کے لئے اللہ تعالی نے ایک نظام قائم فرما دیا ہے ادھر کفر نے بھی اپنی طاقتیں جمع کر لی ہیں اور وہ اسلام کو کچلنے کے لئے مختلف قسم کی تدابیر میں منہمک ہے مسیحیت ؔ کی تبلیغ ، آریہ سماج کی تبلیغ، سکھوں کی تبلیغ، یہودیت ؔ کی تبلیغ انفرادی طور پر نہیں ہو رہی بلکہ بڑی بڑی سوسائٹیاں لاکھوں کروڑوں روپیہ جمع کر کے باقاعدہ طور پر کر رہی ہیں ۔ پس فرماتا ہے جب وہ آخری زمانہ آئے گا جس میں ہمارے رسول کی بعثت ثانیہ مقدر ہے توہم ادھر خیر کرنے والوں کو کہیں گے کہ تم اکٹھے ہو جائو ۔ ادھر شر کرنے والوں ک ملائکہ تحریک کریں گے کہ تم اکٹھے ہو جائو ۔ اس طرح کفر و اسلام کا عظیم الشان ٹکرائو ہو گا جس میں آخر اسلام کو فتح ہو گی اور یہ سب کچھ ہم اس لئے کریں گے تا دنیا کے لوگ یہ نہ کہہ سکیںکہ ہم تو غافل رہے ہمیں تو اپنے دل کے حوصلے نکالنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ اگر ملتا تو ہم اسلام کو کبھی ترقی کرنے نہ دیتے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ہم نہیں چاہتے کہ کفر کے دل میں کوئی حسرت باقی رہ جائے اسے اپنے حوصلے نکالنے کا موقع نہ ملے اور وہ یہ کہہ سکے کہ اگر مجھے تیاری کا موقع ملتا تو میں بتا دیتا کہ اسلام دنیا میں نہیں پھیل سکتا ۔ ہم اسے پوری طرح موقع دیں گے اور اعمال شر کرنے والے اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوں گے ۔ وہ خوب سمجھتے ہوں گے کہ وہ کیا مقصد لے کر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے کیا کیا ارادے ہیں ۔ اسی طرح اعمال خیر کرنے والے بھی اپنی ذمہ واریوں سے اچھی طرح آگاہ ہوں گے ۔ اس وجہ سے کفر و اسلام کی باہمی ٹکر کو جو نتیجہ نکلے گا وہ آخری اورقطعی ہو گا اور شر کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ مجھے خیر کے مقابلہ کی فرصت نہیں ملی ۔
یہ تو دینی معاملہ کی میں نے مثال پیش کی ہے اگر دنیوی مثالیں لے لو تب بھی یہ تمہیںنظر آئے گا کہ جس طرح اس زمانہ میں مختلف پارٹیوں کی صورت میں مل کر کام کیا جاتا ہے اسکی پہلے زمانہ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ مثلاً جہاں تک ظالم لوگوں کی موجودگی کا تعلق ہے یہ عنصر صرف اس زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر زمانہ میں ظالم لوگ ہوتے رہے ہیں اور ہر زمانہ میں لوگوں کو ان سے شکائتیں ہوتی رہی ہیں ۔ چنانچہ پہلے زمانوں میں بھی کئی ایسے نوکر ہوتے تھے جو اپنے آقائوں کو مار ڈالتے تھے ۔ ہزاروں واقعات ایسے پائے جاتے ہیں کہ آقا نے اپنے نوکر کو کسی بات پر گالی دی تو اس نے برا منایا اور رات کو جب وہ سورہا تھا اسے قتل کر دیا گیا ۔ مگر اس کا کوئی گہرا یا دیر پا اثر نہیں ہوا کرتا تھا زیادہ سے زیادہ یہی سمجھا جاتا تھا کہ زید کو اس کے نوکر نے قتل کر دیا یا بکر کو اس کے نوکر نے قتل کر دیا ہے ۔ دنیا کو اس کا کوئی نتیجہ نظر نہیںآتا تھا کیونکہ یہ کام اور دوسرے کاموں میں چھپ جاتا۔ مگرا س زمانہ میں جب روس میں کمیونسٹوں نے سر اٹھایا اور انہوں نے مل کر اپنے مالکوں کو مار ڈالا تو اس کا کتنا عظیم الشان نتیجہ نکلا کہ حکومت ہی بدل گئی ۔ اسی طرح مزدور نا خوش ہو کر پہلے زمانہ میں کام چھوڑ دیا کرتے تھے اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا تھا کہ دنیا میںکیا تغیر ہوا ہے لیکن اس زمانہ میں لیبر سٹرائکس کے ذریعہ سے مالکوں کی گردنیںیوں جھک جاتی ہیں کہ خدا یاد آجاتا ہے ۔ یہی حال سود کا ہے ۔ سود لوگ لیتے ہی چلے آتے ہیں لیکن اس زمانہ میںبنکو ں کے ذریعہ سے دنیا کو اس طرح قابوکر لیا گیا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ پہلے کسی گائوں کے ایک کونہ میںبیٹھ کر بنیا چند لوگوں سے سود لیتا اور کسی کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا تھا مگر اب ایسے بنک نکل آئے ہیںجنکی ساری دنیا میں شاخیں ہیں اور اس طرح سود کا جال وسیع کر کے ساری دنیا کو قابو کر لیا گیا ہے ۔ صنعت و حرفت بھی ہمیشہ سے چلی آتی ہے لیکن اب کمپنیوں کے ذریعہ سے اس طرح دوسرے ملکوں کا دیوالیہ نکالا گیا ہے کہ غریب حیران و پریشان نظر آتے ہیں ۔ پہلے زمانہ میں صرف معمولی تاجر ہوا کرتے تھے لیکن اس زمانہ میںکمپنیاں نکل آئی ہیں ۔ پہلے خواہ کوئی کتنا بڑا تاجر ہو جائے لوگوں کو اس کا پتہ بھی نہیں لگتا تھا اور وہ لوگوں کی دولت کو بھی زیادہ نہیں کھینچ سکتا تھا ۔ مگر اس زمانہ میں کمپنیوں نے اس طرح دولت کھینچی ہے کہ بڑے بڑے صاحب حیثیت لوگ کمپنیوں میں ملازمت اختیار کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں بجائے اس کے کہ انہیںگورنمنٹ سروس میںکوئی جگہ ملے ۔ لارڈ مانڈ انگلستان کا وزیر خزانہ تھا مگر وزارت چھوڑ کر وہ امپیریل کیمیکل انڈسٹری میںملازم ہو گیا ۔ اسی طرح ایک او ر مشہور شخص غالباً سر کینر نام تھا وہ بھی پہلے وزیر خزانہ تھا مگر پھر اس عہدہ سے الگ ہو کر ریلوے کمپنی میں ملازم ہو گیا ۔ وزارت کے عہدہ کی صورت میںاسے پانچ ہزار پونڈ ملتے تھے مگر ریلوے کمپنی میںملازمت اختیار کرنے پر اسے تیس ہزار پونڈ ملنے لگ گئے گویا قریبا ً پانچ لاکھ روپے سالانہ اس کی تنخواہ میں اضافہ ہو گیا ۔ غرض کمپنیوں نے تجارت اور صنعت و حرفت کے ذریعہ اس قدر دولت کھینچی ہے کہ پرانے زمانہ میں کسی بڑے سے بڑے صناع او ر بڑے سے بڑے تاجر کی بھی اتنی آمد نہیںہوتی تھی جتنی آج کل کمپنیوں کے نوکروں کو تنخواہیں ملتی ہیں ۔ پھر کمپنیوں سے ترقی کر کے ٹرسٹ بن گئے ہیں ۔ اور ٹرسٹ سے ترقی کرکے کارٹل بن گئے ہیںاسی طرح ہر کام لوگوں نے اجتماعی رنگ میںشروع کر کے اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔
غرض یصدرالناس اشتاتا نے یعنی ایک دوسرے کی بالمقابل ایک ایک کر کے نکلنے کی جگہ پارٹی پارٹی بن کر نکلنے نے وہ نمونہ دکھایا کہ دنیا نے کبھی نہ دیکھا تھا ۔ یہ پارٹیاں خیر کا کام کرتی ہیں تو وہ بھی ایک عظیم الشان شکل میںظاہر ہوتا ہے اور اگر برا کام کرتی ہیں تو وہ بھی ایک مہیب اور دل پر کپکپی نازل کر دینے والی شکل میں نظر آتا ہے ۔ چونکہ مومن بھی اس دن مل کر کام کریں گے اس لئے ان کے خیر کے نتائج بھی بڑے شاندار ہوں گے بلکہ چونکہ خیر کا دس گنا اجر ہے اس لئے ان کے خیر کے نتائج شر کے نتائج پر غالب آجائیںگے ۔
یہ معنے تو ترتیب کے لحا ظ سے ہوئے ۔ یوں بھی اپنی ذات میںیہ آیت نہایت اہم ہے ۔ رسول کریم ﷺ اس آیت کی نسبت فرماتے ہیں ( آپ ؐ سے گدھوں کے بارہ میں پوچھا گیا کہ ان کے رکھنے کا کیا ثواب ہے تو فرمایا ما انزل اللہ فیھا شیئا الا ھذہ الایۃ الفازۃ الجامعۃ من یعمل مثقال ذرۃ خیر ایرہ ۔ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ ۔ فازۃ کے معنے ہیں منع کرنے والی اور جامعۃ کے معنے ہیں سمیٹنے والی یعنی رسول کریم ﷺ نے فرمایا اس بارہ میں مجھ پر اللہ تعالی کی طرف سے یہ ایک فازہ اور جامعہ آیت نازل ہو چکی ہے کہ من یعمل مثقال ذرۃ خیر ایرہ ۔ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ یعنی ہر چیز جس کو نکالنا مقصود ہے اس کو اس آیت کے ذریعہ نکال دیا گیا ہے اور ہر چیز جس کو سمیٹنا مقصود ہے اس کو اس آیت کے ذریعہ سمیٹ لیا گیا ہے ۔ گویا یہ آیت جزائے خیر و شر کے متعلق ایک جامع مانع قاعدہ پر مشتمل ہے ۔ جزائے خیر اور جزائے شر سے تعلق رکھنے والی کوئی بات نہیںجو اس میں بیان نہ کی گئی ہو اگر غور کر کے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ دنیا میں انسان ہزاروں کام خیر یا شر سے تعلق رکھنے والے کرتا ہے مگر وہ خیر اور شر کے سب کام مٹ جاتے ہیں اور کسی کو علم بھی نہیںہوتا کہ زید نے فلاں خیر کا کام کیا تھا یا بکر سے فلاں شر کا صدور ہوا تھا ۔ بیسیوں انسان دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی بدخواہی کے خیالات اپنے دلوں میں رکھتے ہیں مگر جن لوگوں کی برائی کے خیالات ہر وقت ان کے دل و دماغ میںپرورش پا رہے ہوتے ہیں ان کو اس بات کا کچھ بھی علم نہیں ہوتا کہ فلاں شخص ہمارے متعلق کیسے برے خیالات رکھتا ہے ۔رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا جو شخص کسی کے متعلق غیبت میںکوئی برا کلمہ کہتا ہے اور ایک تیسرا شخص جو اس بات کو سن رہا ہوتا ہے اس جگہ سے اٹھ کر دوسرے شخص کے پاس چلا جاتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ تمہارے متعلق آج فلاں نے یہ بات کہی ہے تو اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی نے دوسرے کی طرف تیر پھینکا مگر وہ تیر اس کو لگا نہیں بلکہ زمین پر گر پڑا ۔ یہ دیکھ کر ایک اور شخص دوڑا دوڑا آیا اور اس نے وہ تیر اٹھا کر اپنے ہاتھوں سے دوسرے کے سینہ میں پیوست کر دیا ۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ہزاروں لوگ دوسروں کی بدخواہی کے خیالات اپنے دلوں میںرکھتے ہیں مگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیںہوتا نہ دوسروں کو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے متعلق فلاں شخص کیسے گندے خیالات رکھتا ہے اور نہ اس کے ان خیالات کا دنیا میں کوئی نتیجہ ظاہر ہوتا ہے۔اسی طرح ہزاروں لوگ ایسے ہیں جن کے دلوں میں دوسروـں کے متعلق نیک خیالات پیدا ہوتے ہیں ،مگر اُن دوسرے اشخاص کو کچھ بھی علم نہیں ہوتا کہ فلاں شخص کو ہم سے محبت ہے یا اُس کا دل ہماری ہمدردی اور خیرخواہی کے جذبات سے لبریز ہے۔ایک شخص کو دوسرے سے غائبانہ محبت ہوتی ہے مگر اس وجہ سے کہ محبت اُس کے دل میں مخفی ہوتی ہے دوسرا شخص میرا دوست ہے۔مجھ سے محبت کرتا ہے ۔اور میری مصیبت کی گھڑیوں میں میرا سااتھ دینے والا ہے ۔اس کے علاوہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو شخص آپس میں گہرے دوست ہوتے ہیں ،اُن کے ایک دوسرے سے مخلصانہ تعلقات ہوتے ہیں اور وہ مصیبت میں ایک دوسرے کے اندرونی جذبات کا علم نہیں ہوتا۔اُن میں سے ایک شخص راتوں کو اُٹھتا اور اﷲ تعالیٰ سے اُس کے لئے رو رو کر دعائیں مانگتا ہے مگر دوسرے کو کبھ معلوم نہیں ہوتا کہ رات کی تاریکیوں میں جب ساری دنیا محوِ استراحت ہوتی ہے میرا دوست میرے لئے اﷲ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہے اور وہ میری بھلائی کے لئے اﷲ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کو کھٹکھٹارہا ہے۔
غرض دنیا مین ہمیں یہ نظاہر نظر آتا ہے کہ ہزاروں ہزار اعمال خیر اور ہزاروں عمال شر لوگوں کی نگاہ سے مخفی رہتے ہیں ۔لیکن فرماتا ہے اﷲ تعالیٰ کے معاملہ میں یہ بات نہیں اﷲ تعالیٰ کے حضور کسی کا خفیف شر بھی ضائع نہیں جاتا ۔وہ ہر خیر سے آگاہ ہے وہ ہر شر سے واقف ہے ۔اور خواہ کوئی کتنا ہی حقیر اور معمولی کام ہو اس کی نگاہ سے مخفی نہیں ہو سکتا ۔تم مت سمجھو کہ جس طرح بنی نوع انسان کے معاملات میں تمہارے خیر کے اعمال بھی مخفی رہتے ہیں اور تمہارے شر کے اعمال بھی مخفی رہتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کا حال ہو گا ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ خَیْرً ایَّرَہٗ۔وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ۔بنی نوع انسان کے معاملہ میں بسا اوقات تمہارے خیر کے پہاڑ بھی غائب ہو جاتے ہیں اسی طرح بنی نوع انسان کے معاملہ میں تمہارے شر کے پہاڈ بھی غائب ہو جاتے ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ سے کوئی عمل مخفی نہیں ہو سکتا ۔دنیا میں تو ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص عملِ شر کرے اور دوسرے لوگوں سے مخفی رہے مگر خدا تعالیٰ کے حضور ایسا نہیں ہو سکتا ۔مثلاً دنیا میں ہزاروں راقعات ایسے ہو تے رہتے ہیں کہ بعض لوگ چوری چھپے زہر دے دیتے ہیں اور باوجود تلاش و جستجو کے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کس نے زہر دی۔ اسی طرح ہزاروں قاتل ایسے ہوتے ہیں جو پکڑے نہیں جاتے ۔اب جہاں تک شر کا تعلق ہے قاتل نے دوسرے پر شر کا ایک پہاڑ گرا دیا مگر وہ مخفی رہا۔کئی لوگ دوسرے کو جنگل میں اکیلا پا کر قیل کر دیتے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی کہ کس نے قتل کیا ہے ۔بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص دوسرے کو علحدگی میں قتل کر کے آجائے اور پھر اسی کے مقتول کے بیٹے کا دوست بن جائے۔وہ دونوں دانت کاٹی روٹی کھانے لگیں اس کا بیٹا اپنے دوست کے لئے جان تک دینے کے لئے تیار رہے اور اسے یہ معلوم تک نہ ہو کہ میرے باپ کو اسی شخص نے قتل کیا تھا جس سے میں محبت کی پینگیں پڑھا رہا ہوں۔غرض دنیا میں ہمیشہ یہ نظارے نظر آتے ہیں ۔غرض ایک شخص دوسرے پر شر کا پہاڑ اُٹھا کر دوسرے پر گرا دیتا ہے مگر خود اس طرح غائب ہو جاتا ہے کہ دوسرے کو پتہ تک نہیں چلتا کہ میرے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ہے۔اور چونکہ بہت سے اعمال خیر اور بہت سے اعمال شردنیا میں ظاہر نہیں ہوتے اس لئے ضروری تھا کہ ایک ہستی ایسی ہوتی جس کے علم میں انسان کا ہر چھوٹے سے چھوٹا فعل آجا تا اور وہ اس کے مطابق اس کو بدلہ دیتا تاکہ خیر کرنے والے کو یہ حسرت نہ رہے کہ میری فلاں نیکی ضائع چلی گئی اور شر کرنے والے کو یہ غرور نہ رہے کہ میں نے فلاں شر تو کیا مگر اس کے تلخ انجام سے محفوظ رہا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے اعمال خیر اور بہت سے اعمال شر ظاہر ہو جاتے ہیں بالخصوص وہ اعمال خیر یا وہ اعمال شر جو عظیم الشان ہو عام طور پر مخفی نہیں رہتا اور لوگوں کو اس کا ضرور علم ہو جا تا ہے لیکن چھوٹے گناہ اور چھوٹی نیکیا ں تو ہزاروں تو ایسی ہیں جو بالکل مخفی رہتی ہیں مثلاً کسی کے دل میں نیکی کا خیال آنا یہ خود ایک عمل خیر ہے اور کسی کے دل میں برائی کا پیدا ہونا یہ خود ایک عمل شرہے مگر کون دوسرے کے دل کو پھاڑ کر دیکھ سکتا ہے کہ اس میں شر پید ا ہے یا عمل خیر پرورش پا رہا ہے۔لیکن جب ایک زندہ اور علیم و خبیر ہستی موجود ہو تو پھر اس عمر کا کوئی خدشہ نہیں رہ سکتا کہ میری نیکی مخفی رہ جائے گی یا بدی چھپ سکے گی کیونکہ وہ ہستی ہروقت انسان کی نگران ہوگی اور اس کے چھوٹے سے چھوٹے عمل کو بھی ضائع نہیں جانے دے گی ۔
پھر اگر ہم انسانی اعمال پر نظر دوڑائیں اور بنی نوع انسان کی اکثریت کو دیکھیں تو ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسانی اعمال سب کے سب بڑے نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے اکثر چھوٹے ہوتے ہیں ۔بڑا عمل کرنے کی کسی کسی انسان کو توفیق ملتی ہے ورنہ ہزاروں انسان ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی ساری عمر گزر جاتی ہے مگر ان کو کوئی بڑا کام کرنے کی توفیق نہیں ملتی اور اس وجہ سے وہ نمایاں کام طور پر لوگوں کے سامنے نہیں آتے۔ وہ دنیا کی نگاہوں سے مخفی ہونے کی حالت میں ہی دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ان کی حیثیت با لکل ان بوٹیوں کی سی ہوتی ہے جو پہاڑوں میں پیدا ہوتی ہیں اور کچھ عرصہ بعد مرجھا جاتی ہیں نہ ان سے کوئی فائدہ اُٹھا تھا ہے نہ ان کسی کو ان کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے ۔پس اگر دنیا کا کوئی خدا نہ ہوتا ۔اگر ایک ایسی ہستی موجود نہ ہوتی جس کی نظر انسان کے دل کے مخفی گوشوں تک وسیع ہے اور جو انسان کے چھوٹے سے چھوٹے عمل کو بھی جاننے والا اور انسان کو اس کی جزا دینے والا ہے تو وہ لوگ زندہ ہی مر جاتے جن کی ساری عمر گزر جاتی ہے مگر ان سے کوئی بڑا عمل ظاہر نہیں ہوتا۔یہی حکمت ہے کہ اسلام نے بنی نوع انسان کو یہ مژدہ ِ جانفزاسنایا کہ اس عالم کا ایک خدا ہے جس کی نگاہ میں انسان کا ہر چھوٹے سے چھوٹا کام آجا تا ہے۔اگر کوئی عمل خیر کرتا ہے تو وہ بھی اﷲ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے اور اگر کوئی عمل شر کرتا ہے تو بھی خدا تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے ۔تم مت مسجھو کہ تمہارے اعمال ضائع چلے جائیں گے اور ان کا کوئی نتیجہ رونمانہیں ہوگا۔اگر دنیا میں تمہارے اعمال خیر مخفی رہے اور کسی نے ان کو نہیں دیکھا تو تم مت گھبرائو آسمان پر ایک زندہ خدا موجود ہے جو تمہارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور تمہیں نیکیوں کی جزا دے گا اور تمہارا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اس کے سامنے اسی طرح آ جائے گا جس طرح کوئی بڑے سے بڑا کام آتا ہے۔
غرض یہ آیت ایسی ہے جو انسانی زندگی کی کایا پلٹنے والی ہے اور لوگوں کے قلوب میں ایک نئی امنگ ،نئی روح اور نئی بیداری پیدا کرنے والی ہے اگر یہ آیت نہ اترتی تو اکثر انسان اپنے آپ کو لاوارث سمجھتے کیونکہ اکثر انسان ایسے ہوتے ہیں جن کی نہ خیر عظیم الشان ہوتی ہے نہ شر عظیم الشان ہوتا ہے ۔دس اربوں آدمیوں کی دنیا میں اگر تم قاتل تلاش کرنے لگو تو وہ بھی تمہیں زیادہ سے زیادہ لاکھ دو لاکھ ملیں گے اور تم دیکھو گے کہ دنیا میں شر کے لحاظ سے بھی صرف چند کی طرف لوگوں کی توجہ پھرتی ہے سب کی طرف نہیں ۔حالانکہ ایک قاتل یا ایک ڈاکو یا ایک چور جسے برا سمجھا جاتا ہے اس کے مقابل میں اور بھی لاکھوں لوگ ہوتے ہیں جن سے شر ظاہر ہوتا رہتا ہے مگر لوگوں پر ان کے شر کی کیفیت مخفی رہتی ہے ۔مثلاً قاتل تو اپنی زندگی میں ایک یا دو قتل کرتا ہے مگر ایک اور آدمی ایسا ہوتا ہے جس سے سارا دن شر ظاہر ہوتا رہتا ہے ۔کسی کو اچھے لباس میں ملبوس دیکھتا ہے تو اس کا دل کباب ہو تجاتا ہے ۔کسی کو اچھا کھانا کھاتے دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ اس کمبخت کا گلا بھی نہیں گھٹتا ۔کسی کو آرام و آسائش میں زندگی بسر کرتے دیکھتا ہے تو جل بھن کر رہ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مرتا بھی نہیں اس کمبخت پر کوئی بیماری بھی نہیں آتی کہ اسے بھی تکلیف کا احساس ہو ۔غرض سارادن اس سے شر ظاہر ہوتا رہتا ہے مگر اس کے شر کی دنیا میں کوئی نمائش نہیں ہوتی اور اسی حالت میں اس کی ساری عمر گزر جاتی ہے ۔اس کے مقابل میں ایک اور شخص ایسا ہوتا ہے جس کے پاس کروڑ دو کروڑ رپیا نہیں ہوتا کہ وہ آکسفورڈ یو نیو رسٹی قائم کردے یا کوئی اور علمی ادارہ قائم کرے بلکہ اکثر لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ کی راہ میں چند پیسے دینے کی بھی توفیق نہیں ہوتی مگر وہ سارا دن اپنے دل میں یہی کہتے رہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ دنیا کا بھلا کرے۔اﷲ تعالیٰ دنیا کو بلائوں سے بجات دے ۔اﷲ تعالیٰ لوگوں کی مصیبتوں اور ان کی تکلیفوںدور کرے ۔اﷲتعالیٰ ان کے لئے اپنے فضل کے دروازے کھولے یہی دعائیں ان کے ورد زبان رہتی ہیں اور اسی حالت میں دنیا سے گزر جاتے ہیں کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ ان سے کیا کیا خیر ظاہر ہوتی رہی ہے اگر لوگوں کا خدائے تعالیٰ کے ساتھ معاملہ نہ ہو اور ساری دنیا اسی طرح مر جائے جس طرح پہاڑوں میں پیدا ہونے والی بوٹیاں چند دن اپنی بہار دکھا کر خاک ہو جاتی ہیں تو ان کے اعمال خیر بھی فناہو جاتے اوراعمال شر بھی فنا ہو جاتے۔نہ نیکوں کو ان کی نیکی کا فائیدہ پہنچتا اور نہ بدوں کو ان کی شرارتوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ۔نیک لوگ اپنے آپ کو لاوارث سمجھتے اور بڑے لوگ تمرد اور سرکشی میں بڑھ جاتے اور وہ سمجھتے کہ ہم سے کوئی گر فت کرنے والا نہیں ہے جو کچھ ہمارے جی میں آئے ہم کر سکتے ہیں ۔قرآن کریم فرماتاہے کہ اگر تمہارے دل میں یہ خیال آئے تو غلطی کرو گے مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ۔ایک خدا ہے جو اس دنیا کو پید ا کرنے والا ہے اور اس کی نظر سے انسان کو باریک سے باریک عمل خیر بھی پوشیدہ نہیں ہوتا اس لئے اے کمزور اور بیمار انسان ! اے لولے لنگڑے انسان ! اے غریب اور نادار انسان ! تو مت گھبرا۔آسمان پر ایک خدا تیرے حالات کو دیکھ رہا ہے اور اس کی نگاہ سے تیرا کوئی عمل پوشیدہ نہیں۔اے کمزور اور نا تاقت انسان ! جو کسی کی مدد نہیں کر سکتا ۔اے بیمار اور نہیف انسان جو دینی خدمات کی ادائیگی کے لئے اپنے اندر چلنے پھرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا تیرا دل گھبرا تا ہو گا کہ لوگ تو نیکیوں میں حصہ لے گئے اور میںمحروم رہ گیا۔تو پریشان مت ہو تیرا دل اپنی بیکسی کو دیکھ کر گھبرائے نہیں تیری وہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی جو بھی ان حالات میں تجھ سے ظاہر ہوتی ہے ،تیرا چھوٹے سے چھوٹا وہ نیک خیال بھی جو تیرے دل کے ندرونی گوشوں میں پیدا ہوتا ہے اﷲتعالیٰ کے حضور وہی قدر و قیمت رکھتا ہے جو دوسروں کے بڑے بڑے اعمال خیر رکھتے ہیں ۔بیشک تو نے جب دین کی خدمت کے لئے ایک پیسا یا دھیلا نکال کر دیا تو لوگ تجھ پر حقارت کی ہنسی ہنسے۔تو نے ایک روٹی کا ٹکڑا پیش کیا تو وہ تجھ پر مسکرائے اور انہوں نے کہا کہ اس روٹی کے ٹکڑے سے کیا بن جائے گا مگر تو مت گھبرا ۔مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہ۔تیرے عمل خواہ کتنے حقیرہوں ،تیری کوششیں خواہ کتنی عدنہ ہوں ، تیری بے کسی خوای کس قدر ظاہر ہو ، بیشک دنیا نے تیرے اعمال کی قدر نہیں کی ،اس کی نگاہ تیرے خیر کو دیکھنے سے قاصر رہی ہے مگر خدا تیرے عمل خیر کو دیکھ رہا ہے اور وہ ایک دن تجھ کو بھی اپنے ان کاموں کے نتائج دکھا دے گا۔
دوسری طرف یہ آیت عمل شرک کرنے والوں کو یہ تنبیہ کرتی ہے ان سے کہتی ہے کہ اے شریر انسان ! تو جوچوریچھپے شرار تیں کرت ہے تجھے چوروں میں بھی عظمت حاصل نہیں تجھے ڈاکئوں میں بھی عظمت حاصل نہیں اور تجھے شر کر تے ہوئے دنیا میں کسی نے نہیں دیکھا مگر ہم تجھے دیکھ رہے ہیں اور ہم تجھ کو ان شرارتوں کا ایک دن پوری طرح مزا چکھا دیں گے ۔غرض جزائے خیر و شر کے متعلق یہ ایک ایسا عظیم الشان اصل ہے کہ اگر اس کو پوری طرح سمجھ لیا جائے تو صحیح نیکی پیدا ہوتی ہے اور بدی سے بچنے کا صحیح جزبہ انسانی قلب میں پیدا ہو جاتا ہے ۔
بعض لوگ کہ دیا کرتے ہیں کہ پھر تواس کا یہ نتیجہ نکلا کہ نہ جنت ہے نہ دوزخ ۔جب ہر بدہ کا بدلہ ضرور دیکھنا ہو گا تو پھر بخشش اور توبہ کے کیا معنے ہوئے ۔اور جب ہر خیر کا بدلا ضرور دیکھانا ہوگا تو پھر دوزخ میں لوگ کیوں ڈالے جائیں گے ۔گویا ایک آیت وہ ہے جو جنت کی نفی کرتی ہے اور دوسری آیت وہ ہے جو دوزخ کی نفی کرتی ہے ۔مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہ۔دوزخ کی نفی کر رہی ہے اور ٗ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ شَرّاً یَّرَہجنت کی نفی کر رہی ہے ۔پس یہ سیک ایسی آیت ہوئی کہ دو دھاری تلوار بن کر اس نے جنت کو بھی اُڑا دیا ور دوزخ کو بھی اُڑا دیا ۔جنت کو بھی بیکار کرار دے دیا ااور دوزخ کو بھی بیکار کرار دے دیا۔اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سچ ہے کہ کوئی چیز ضائع نہیں ہو تی ۔لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح دنیا میں حساب ہوتا ہے اس طرح خدا تعالیٰ کے قانون میں بھی حساب مقدر ہے ۔فرض کرو زید اور دو آدمی ہیں اور زید کے بکر کے پاس ایک ہزار روپے ہیں لیکن زید کے زمعہ بکر کے دو ہزار روپے ہیں ۔اب یہ لازمی بات ہے کہ جب حساب ہے کہ بکر اس سے صرف ایک ہزار روپیہ مزید لے کر اپنے گھر چلا جائے گا ۔ایسی صورت میں کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ بکر کاہزار وپیہ ضائع ہو گیا۔بکر کا اس سے دو ہزار لے جانا ہی بتاتا ہے کہ اس کا ہزار ضائع نہیں گیا بلکہ کام آگیا کیونکہ بکر نے تو دو ہزار روپے لینے تھے مگر کیونکہ زید کے ایک ہزار روپے اس کے پاس پہلے سے موجود تھے اس لئے دو ہزار میں سے ایک ہزار وضع ہو گئے ۔اور زید کو دو ہزار کی بجائے صرف ایک ہزار روپیہ زائد دینا پڑا۔یہی حال نیکیوں اور بدیوں کا ہے ۔اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے آقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَ فَیِ النَّھَا رِ وَ زُلَفً مِنَ الَّیْلِ ۔اِنْ الْحَسَنٰتِ یُذْ ھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ذَالِکَ ذِکْرٰی لِلذَّ ا لِرِیْنَ (ھود :۱۰)تم نمازیں قائم کرو صبح کو بھی اور شام کو بھی اور اسی طرح رات کے دونوں کناروں میں یعنی ہر تغیر جو واقع ہو تا ہے اس میں تمہیں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے ۔دن آئے تو تم عبادت کرو دن جانے لگے تو تم عبادت کرو۔رات آئے تو تم عبادت کرو رات جانے لگے تو تم عبادت کرو۔ اِنْ الْحَسَنٰتِ یُذْ ھِبْنَ السَّیِّاٰتِدنیا میں ہر تبدیلی کوئی نہ کوئی اثر چھوڑ جاتی ہے اور وہ تغیر اور تبدیلی یا تو خیر کا موجب ہوتی ہے یا شر کا موجب ہوتی ہے ۔اگر تم اﷲ تعالیٰ کی عبادت بجا لائو گے اور ہر تغیر کے وقت اﷲتعالیٰ کی طرف جھکو گے تو اگر وہ تغیر تمہارے لئے کسی شر اک موجب ہو گا تو عبادت کرنے سے وہ شر دور ہو جایت گا ۔اور اگر کسی شر کا موجب نہیں ہو گا تو تمہارے اعمال خیر میں اظافہ ہوتا رہے گا دونوں طرف تمہارا فائدہ ہی فائدہ ہے ۔جب نیا دن آئے گا تو یا تمہارے لئے خیر لایے گا یا شر لائے گا اور جب دن جائے گا تو یا تمہارے لئے خیر چھوڑ جائے گا یا شر چھوڑ جائے گا ۔اسی طرح رات آئے گی تو یا تمہارے لئے خیر لائے گی یا شر لائے گی اور جب رات جائے گی تو یا تمہارے لئے خیر چھوڑ جائے گی یا شر چھوڑ جائے گی ۔اگر تم ہر تغیر کے وقت اﷲ تعالیٰ کی عبادت بجالائو گے تو تمہاری نمازیں اور تمہاری عبادتیں اور تمہاری دعائیں شر کو اڑا دیں گی ۔کیونکہ بحر حال رات اپنے آنے اور جانے کے وقت اسی طرح دن اپنے آنے اور جانے کے وقت یا خیر لائے گا یا شر لائے گا۔ یا خیر چھوڑ جائے گا یا شر چھوڑ جائے گا ۔اگر دن آتے اور جاتے تمہارے لئے شر چھوڑ گیا اور تم نے نماز پڑھ لی ہے تو دن کا شر دورہو جائے گا اوراگر رات آتے اور جاتے تمہارے لئے شر چھوڑ گئی ہے اور تم نے نماز پڑھ لی ہے تو رات کا شر دور ہو جائے گا۔اِنْ الْحَسَنٰتِ یُذْ ھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ۔اﷲ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ نیکی بدی کا ازالہ کر دیا کرتی ہے ۔اگر بدی ہو تو نیکی سے فوراً کٹ جاتی ہے اور خیر ہی خیر ہو تو پھر عبادت تمہاری نیکیوں کو اور بڑھا دے گی ۔یہ ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ ان نیکیوں کو شر کے ازالہ پر خرچ کیا جائے ۔پہر حال اﷲ تعالیٰ یہ ہدایت دیتا ہے کہ جب تم سے کوئی شر ظاہر ہو یا کسی شر کا امکان تمہارے لئے پیدا ہو تو تم فوراً نیکی کر لیا کرو تاکہ بدی کٹ جائے اور تمہیں اس کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔ذَالِکَ ذِکْرٰی لِلذَّ ا لِرِیْنَ یہ ایک گر ہے جو ہم نے تمہیں بتا دیا ہے اگر تم اپنے پہلو کو ہمیشہ مضبوط رکھان اچاہتے ہو تو ہماری اس نصیحت کو یاد رکھو کہ دن اور رات کے آتے جاتے وقت ضرور عبادت کر لیا کرو۔جب دن آئے گا تو یا تمہارے لئے خیر لائے گا یا شر لائے گا اسی طرح جب رات آئے گی تویا تمہارے لئے خیر لائے گی یا شر لائے گی ۔جب دن جائے گا تو یا تمہارے لئے خیر چھوڑ جائے گا یا شر چھوڑ جائے گا اور جب رات جائے گی تو وہ بھی تمہارے لئے یا خیر چھوڑ جائے گی یا شر چھوڑ جائے گی تم ہر تغیر کے وقت عبادت کر لیا کرو اگر دن اور رات کا آنا جانا تمہارے لیے خیر لائے گا تو تمہاری خیر دگنی ہو جائے گی اور اگر شر لائے گا تو عبادت سے وہ شر کٹ جائے گا اور تمہارا پہلو یقینی طور پر محفوظ ہو جائے گا ۔
اسی طرح فر ما تاہے مَا َ مَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَا زِ یْنُہٗ فَھُوَ فِی عِیْشَہٍ رَّ اضِیَہٍ وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوا زِیْنُہٗ فَاُمَّہٗ ھَا وِ یَہٌ وَمَآ اَذَرَاکَ مَا ھِیَہْ نَا رٌحَا مِیَۃٌ(القارعہ) جس کے وزن بھاری ہو جائیں گے (بھاری کا یہ مطلب ہے کہ بمقابلہ بدی کے اس کی نیکیاں بڑھ جائیں گی) اُسے ہمارے قریب کا مقام حاصل ہو گا اور اُس کی اُخروی حیات سنور جائے گی ۔ وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوا زِیْنُہٗ لیکن جس کے وزن ہلکے رہیں گے ٗ فَاُمَّہٗ ھَا وِ یَہ ۔اُس کی ماں ہاویہ ہوگی۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وزن اصل میں نیکی کا ہی ہوتا ہے بدی کا نہیں ہوتا۔اس مسئلہ کے نہ سمجھنے کی وجہ سے بھی لوگوں نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ وزن والی چیز صرف نیکی ہی ہوتی ہے بدی کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔پس ٍ وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوا زِیْنُہٗ کا یہ مطلب ہے کہ جس کی بدیوں نے اس کی نیکیوں کو کاٹ نہیں دیا اور ٍ وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوا زِیْنُہٗ کا یہ مطلب ہے کہ جس کا وزن گھٹ کیا یعنی نیکیاں باقی نہ رہیں ۔ٗ فَاُمَّہٗ ھَا وِ یَۃٌ وہ دوزخ میں گرایا جائے گا۔
پھر فرمایا وَالْوَزْنُیَوْمَعِذِ نِ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِ یْنُہٗ فَا ُ و لٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِ یْنُہٗ فَاُو لٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْ ا اَنْفُسَھُمْ بِمَا کَا نُوْا بِاٰ یَا تِنَا یَظْلِمُوْنَ(اعراف :۱)اُس دن وزن کا ہونا ایک قطعی اور یقینی بات ہے ۔جس کے وزن بھاری ہو جائیں گے یعنی بدیاں اُڑجائیں گی اور نیکیاں باقی رہ جائیں گی وہ کامیاب ہو جائے گا ۔اور جس کے وزن ہلکے ہو جائیں گے اور وزن کے ہلکے ہونے کے معنی ہیں کہ اس کے بدیاں زیادہ ہو ں گی ۔نیکیاں اُن بدیوں کو اُڑا نے کے لئے انسان کے پاس نہیں ہوں گی ۔ فَاُو لٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْ ا اَنْفُسَھُم یہ ہو لوگ ہیں جو مقصان پانے والے ہوں گی بِمَا کَا نُوْا بِاٰ یَا تِنَا یَظْلِمُوْنَ کیونکہ یہ لوگ ہماری آیات کے ساتھ ظلم کیا کرتے تھے ۔
ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ خیال کہ جب ہر بدی کا بدلہ انسان نے ضرور دیکھنا ہے تو پھر بخشش اور توبع کے کیا معنی ہوئے اور جب ہر خیر کا بدلہ انسان نے ضرور دیکھنا ہے تو پھر دوزخ کا کیا فائیدہ ہوا بلکل غلط ہے ہر انسان نے جو عمل خیر کیا ہوگا وہ بھی قیامت کے دن موجود ہوگا اور جو اس نے عمل شر کیا ہوگا وہ بھی قیامت کے دن موجود ہو گا ۔وہ اپنے خیر کو بھی دیکھے گا اور اپنے شر کو بھی دیکھے گا اور دونوں کے تقابل کے نتیجہ میں جو چیز زیادہ ہو گی وہ دوسرے حصہ کو کاٹ دے گی ۔خیر زیادہ ہو گا تو اس کی وجہ سے شر کٹ جائے گا اور گر شر زیادہ ہو گا تو خیر کٹ جائے گا بہر حال چھوٹا حساب بڑے حساب میں سے وضع کر لیا جائے گا مثلاً ایک شخص ایسا ہے جس نے دس ہزار نیکی کی اورایک ہزار بدی ۔ایک اور شخص ایسا ہے جس نے دس ہزار نیکی کی اور پانچ سو بدی ۔ایک اور شخص ایسا ہے جس نے دس ہزار نیکی کی اور دو سو بدی کی ۔ایک اور شخص ایسا ہے جس نے دس ہزار نیکی کی مگر بدی کوئی ایک بھی نہیں کی تو لازماً وہ شخص جس نے کوئی بدی نہیں کی وہ اونچے درجہ پر ہوگا اس کے نیچے وہ شخص جس نے دوسو بدیاں کی ۔اس سے نیچے وہ شخص ہوگا جس نے ایک ہزار بدیاںکیں ۔بیشک یہ سب لوگ جنت میں ہوں گے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سب نے اپنے شر کو دیکھ لیا۔ اس نے بھی دیکھ لیا جس نے ایک ہزار بدیاں کی تھیں کیونکہ اسے وہ مقام نہ ملا جو پانچ سو بدیاں کرنے والے کو ملا اور اس نے بھی شر دیکھ لیا جس نے پانچ سو بدیاں کی تھیں کیانکہ اسے وہ مقام نہ ملا جو دوسو بدیاں کرنے والے کو ملا۔اور اس نے بھی شر دیکھ لیا جس نے دو سو بدیاں کی تھیں کیونکہ اسے وہ مقام نہ ملا جو اس شخص کو ملا جس نے کوئی بدی بھی نہیں کی تھی۔آخر یہ واضع بات ہے کہ کیوں محمد رسول اﷲ ﷺمحمدؐیت کے بلند ترین مقام پر فائز ہوں گے۔ابو بکر کیوں ابوبکر ؓ کے مقام پر ہو گا ۔عمر کیوں عمر ؓ کے مقام پر ہو گا اور عام مومن کیوں عام مومن کے مقام پر ہوں گے ۔اسی لئے کہ رسول کریم ﷺ نے کوئی بدی نہیں کی ۔اس لئے آپ کو اﷲ تعالیٰ کے قرب کا انتہائی مقام مل گیا ۔ابو بکر ؓ سے کچھ غلطیاں ہوئیں اس لئے انہیں وہ مقام نہ ملا جو محمد رسول اﷲ ﷺ کو دیا گیا ۔پس ابو بکر ؓ نے اپنے شر کو دیکھ لیا ۔ اس کے بعد عمر ؓ کو ابو بکر ؓ کا مقام بھی نہ ملا پس عمرؓ نے بھی اپنے شر کا دیکھ لیا اسی طرح ہر مومن جو جنت میں گیا جب اُسے ابو بکر ؓ اور عمر ؓ کا مقام نہ ملا تو اس نے بھی اپنا شر دیکھ لیا ۔کیونکہ جس قدر کسی کے اعمال میں شر کا دخل ہوتا ہے اسی قدر اس کے اعمال خیر میں کٹوتی ہو جاتی ہے اور یہی شر کو دیکھنے کا مفہوم ہے۔عیسائی لوگ بڑی ہنسی اُڑا یا کرتے ہیں کہ اسلام کا خدا بہی کھاتے والا خدا ہے حلانکہ سچی بات یہ ہے کہ اس کے بغیر امن قائم ہی نہیں ہو سکتا۔خود عیسائیوں سے اگر پوچھا جائے کہ جس مقام پر حضرت عیسیٰ ؑ کو سمجھتے ہو کیا اسی مقام پرقیامت کے دن تمام مومن ہوں گے تو یقینا وہ یہی کہیں گے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت عیسیٰ ؑ کو اور مقام پر رکھے گا اور مومنوں کو اور مقام پر ۔اور جب خود ان کا یہ اعتقاد ہے تو وہ اسلام پر کس منہ سے یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ اسلام کا خدا بہی کھاتے والا خدا ہے ۔
اسی طرح فرماتا ہے مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشَرُاَمْثَالِھَا وَمَنْ جَآ ئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزٰی اِلَّا مِثْلَھَا وَ ھُمْ لَا یُظْلِمُوْ نَ(انعام ۲۰)جو شخص نیک عمل کرے گا اسے اس کے عمل کی قیمت سے دس گنے ہ زیادہ اجر ملے گا اور جو بد عمل کرے گا سے اس کے عمل سے زیادہ کسی صورت بھی سزا نہیں ملے گی اور یقینا ہماری طعف سے بدوں پر بھی کسی قسم کا ظلم روا نہیں رکھا جائے گا۔اس آیت نے اس خطرح کو دور کر دیا جو مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَاَ ذَرَّ ۃٍ شَرًّ ایَّرَہٗ کی وجہ سہر مومن کو محسوس ہوتا تھا کہ جب ایک چھوٹی سے چھوٹی بدی کا انجام بھی مجھے دیکھنا پڑے گا تو میری مغفرت کی کیا صورت ہو گی ۔اﷲ تعالیٰ بتاتا ہے کہ نیکی بڑھتی ہے اور اس کا دن گنے اجر دیا جاتا ہے لیکن بدی کے متعلق ہماری یہ قانون ہے کہ ۃِ فَلَا یُجْزٰی اِلَّا مِثْلَھَا ۔اس کا اس کے مطابق بدلہ دیا جاتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ اسے دس بیس گنا بڑھا دیا جائے اس لئے اگر تمہیں یہ خطرہ ہے کہ تمہیں اپنے شر کا برا نجام نہ دیکھنا پڑے تو ہ تمہیں یہ علاج بتاتے ہیں کہ تم نیکی کا بیج بودو۔نیکی کا بیج ہمارے قانون کے مطابق بڑھے گا اور ترقی کرے گا یہاں تک کہ تمہاری ایک ایک خیر دس دس نیکیوں کی شکل اختیار کرے گی لیکن بدی کا بیج چھپ نہیں سکتا۔ اس لئے نیکیوں کے غلبہ کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ تمہاری مغفرت کے سامان پید افرما دے گا ۔
در حقیقت قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ خیر اور شر کی مثال ایک اچھے اور گندے بیج کی سی ہے ۔اچھا بیج پھل پیدا کرتا ہے لیکن سڑا ہوا بیج کوئی پھل پیدا نہیں کرتا اگر تم زمین میں کوئی سڑا ہوا بیج بودو تو یہ نہیں ہوگا کہ اس کے نتیجہ میں ایک سڑا ہو بیج پید اہو جائے ۔لیکن اگر تم اچھا بیج بو دو ایک دانے سے کئی کئی سو دانے پیدا ہو جاتے ہیں ۔اسی طرح بدی کیونکہ سڑتی ہوئی چیز ہے وہ اپنی زار تک محدود رہتی ہے اگر تم چاہتے ہو کہ بدیاں تمہاری نجات کی راہ میں حائل ہوں تو تمہیں چاہتے ہو کہ بدیاں تمہاری نجات کی راہ میں حائل نہ ہوں تو تمہیں ہماری نصیحت یہ ہے کہ تم کثرت سے نیکیاں بجا لائو۔
پھر فرماتا ہے وَ ھُوَ الَّذِیْ یُقْبِلُ التُّوْ بَۃَ عَنْ عِبَا دِہٖ وَیتَعْفُوْ ا عَنِ السَّیِّاٰ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ (شوریٰ :۳)وہ خدا ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا۔اُن کی کو تا ہیوں سے درگزر کرتا اور وہ سب کچھ جانتا ہے جو ہو کرتے ہیں۔
پھر فرماتاہے وَمَآاَصَا بَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِکُمْ وَ یَعْپُوْا عَنْ کثِیْرٍ (شوریٰ :۴)تمہیں جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ اپنے اعمال کے نتیجہ میں پہنچتی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ انسان کے اکثر گناہوں سے چشم پوشی کرتا ہے۔
اِن آیات سے وہ اعتراض باطل ہو گیا لوگوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے کہ اگر نیکی کا بدلہ ہے اور ہر بدی کی سزا مقدر ہے تو پھر جنت اور دوزخ کے کیا معنے ہوئے۔اگر ہر خیر کا بدلہ ہم نے ضرور دیکھنا ہے تو پھر دوزخ اُڈ گئی اور اگر ہر بدی کا بدلہ ہم نے ضرور دیکھانا ہے تو پھر جنت اُڑ گئی۔اُپر کی بیان کردہ آیات نے اس اعتراض کا باطل ہونا ثانت کر دیا ہے اور بتادیا ہے کہ باوجود اس کے کہ ہر نیکی قابل جزا ہے اور ہر بدی قابل پاداش پھر بھی جنت اپنی جگہ قائم رہے گی اور دوزخ میں گر ا یا جائے گا اور جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی وہ جنت میں داخل کیا جائیگا جس کی بدیوں کی کثرت اُس کی نیکیوں کی کثرت کو کھا جائے گی وہ دوزخ میں چلا جائے گا اور جس کی نیکیوں کی کثرت اُسکی بدیوں کو کھا جائے گی وہ جنت میں چلا جائے گا ۔غرض جنت بھی قائم رہی اور دوزخ بھی۔
اسی طرح احادیث میں آتا ہے ابن جریر حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کی کَانَ اَبُوْ بَکْرٍ یَأْ کُلُ مَعَ النَّبِیِّ مَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَنَزَلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَلَ ذَرَّۃٍ خَیْرً ایَّرَ ہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّ ایَّرَ ہٗ ۔ حضرت ابو بکر ؓ رسول کریم ﷺ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ جو شخص ایک ذرّہ بھر بھی بدی نیکی کرے گا اُس کا انجام دیکھ لے گا اور جو شخص ایک ذرّہ بھر بھی بدی کرے گا وہ اُس کا انجام دیکھ لے گا فَرَفَعَ اَبُوْ بَکْرٍ یَدَہٗ ۔ حضرت ابو بکر ؓ یہ آیت سُن کر گھبرا گئے اور انہوں نے کھانے سے اپنا ہاتھ اُٹھا لیا وَ قَ لَ یَا رسُوْ لَ اﷲ اِنّی ْ اُخْذٰ ی بِمَا عَمِلْتُ مِنْ مِّثْقَالَ ذَرَّ ۃٍ شَرٍّاور کہا یا رسول اﷲ کیا ایک ذرّہ بھر بھی بدی مجھ سے سرزد ہوئی تو قیامت کے دن مجھے اُس کی سزا ملے گی اگر ایسا ہوا تب بڑی مشکل ہے۔فَقَالَ یَا اَبَا بَکْرٍ مَارَأَ یْتَ فِی الدُّنْیَا مِمَّا تَکْرَہُ فَبِمَثَا قِیْلِ ذَ رِّ الشَّرِّ وَ یَدَّ خِرُا ﷲ ُ لَکَ مَثَا قِیْلَ الْخَیْرِ حَتّٰی تُوَفّٰے یَوْمَ الْقِیَا مَۃَ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ ٹھیک ہے مگر اے ابو بکر تم گھبرائو نہیں دنیا میں انسان کو جو تکلیفیں پہنچتی ہیں وہ ذرہ ٔشر کی وجہ سے پہنچتی ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ شر کے ذروں کو یہیں ختم کر دے گا اور خیر کے ذروں کو باقی رکھے گا اور انہی کی بنا پر مومن کو جنت میں داخل کیا جائے گا ۔
اس حدیث کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ ہر ایک کے لئے نہیں بلکہ ابو بکر ؓ یا ابو بکر ؓ جیسے مقام کے انسان کے لئے ہے۔حضرت ابو بکر ؓ کی اتنی ہی بدیاں تھیں جو دنیا میں ختم ہو سکتی تھیں اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ تمہارا شر اتنا ہی ہے کہ اگر تمہیں کبھی بخار چڑھا یا روپیہ ضائع ہو گیا یا کوئی اورتکلیف پہنچی تو اسی میں وہ ذرہ شر ختم ہو جائے گا اور قیامت کے دن تمہارے اعمال میں خیر ہی خیر ہو گا ۔
اسی طرح اب جریر ہی حضرت عمرو بن عاص سے روایت کرتے ہیں اِنَّہٗ قَلَ لَمَّا نَزَلَتْ اِذَ زُلْذِلَتْالْاَرضُ زِلْزَالَھَا وَ اَبُوْ بَکْرٰالصِّدِّیْقُ رَضِیَ اﷲُ عَنْہٗ قَعِدٌ فَبَکیٰ حِیْنَ اُنْزِلِتْ یعنی جب یہ صورت نازل ہوئی کہ اِذَا ذُلْزِ لَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا تو اُسوقت حضرت ابو بکر ؓ رسول کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔آپ نے یہ صورت سنی تو رو پڑے ۔فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا یُبْکِیْکَ یَا اَبَا بَکْرٍ رسول کریم ﷺ نے اُن سے فرمایا اے ابو بکر تمہیں کس بات نے رُلا یا ہے ؟ قَالَ یُبْکِیْنِیْ ھٰذِ ہِ السُّوْ رَۃُ ۔حضرت ابو بکر ؓ نے کہا یا رسوک اﷲ مجھے تو اس صورت نے رُلا یا ہے تعنی اگر ہم نے شر کا ایک ذرّہ بھی دیکھنا ہے تب بھی ہم جنت سے محروم رہے فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ لَوْلَا اِنَّکُمْ تُخْطِئُوْنَ وَقُذْ ہِبُو نَ فَیَغْفِرِ لَکُمْ لَخَلَقَ اﷲُ اُمَّۃً یُخْطِئُوْنَ وَیُذْنِبُوْنَ فَیَغْفِرَ لَھُمْ رسول کریم ﷺ نے فرمایا گھبرا ئو نہیں بے شک مومن شر بھی دیکھیں گے مگر شر دیکھنے سے مراد ان کا اپنے گناہوں سے توبہ کرناہے جب کوئی انسان سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو یہی اس کا شر کو دیکھنا ہو جا تا ہے کیونکہ توبہ اسی وقت کی جاتی ہے جب انسان کا دل ندامت سے پُر ہو جائے اور وہ اپنے گزشتہ گناہوں کو یاد کرکے سخت شرمندہ ہو اور محسوس کرے کہ اُس نے اپنی زندگی میں بڑی بھاری غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے جن کی اُسے تلافی کرنے چاہئے ۔پس چونکہ توبہ کے وقت انسان کا دل ذخمی ہو تا ہے اور وہ اپنے گناہوں کو یاد کر کر کے سخت شرم سار ہوتا ہے اس لئے یہی اس کا اپنے شر کو دیکھنا ہو تا ہے ۔اگر وہ شر نہ کرتا تو اس کے دل کو اس رنگ میں تکلیف بھی نہ پہنچتی ۔
اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو پیدا ہی اس رنگ میں کیا ہے کہ اس نے اُن میں صفت قدرت رکھ دی ہے یعنی وہ بدی بھی کر سکتے ہیں اور نیکی بھی کر سکتے ہیں ۔اگر کویہ صاحب قدرت مخلوق نہ ہوتی تو اﷲ تعالیٰ کی بعض صفات دنیا پر ظاہر نہ ہو سکتیں ۔صاحب قدرت مخلوق ہو نے کی وجہ سے کیانکہ لوگوں سے بدیاں بھی سر زد ہو تی ہیں اور نیکیاں بھی اس لئے اس کی کئی صفات ظاہر ہوتی رہتی ہیں کہیں غفاری کی صفت ظاہر ہورہی ہے، کہیںستاری کی صفت ظاہر ہورہی ہے ،کہیں رضاقیت کی صفت ظاہر ہو رہی ہے،کہیں امانت کی صفت ظاہر ہو رہی ہے ،کہیں اہیاء کی صفت ظاہر ہو رہی ہے اور یہ سب صفات وہ ہیں جو انسانہ پیدائش کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم گناہ نہ کرو اورخدا تعالیٰ تمہاری توبہ پر مغفرت سے کام نہ لے تو ْ لَخَلَقَ اﷲُ اُمَّۃً یُخْطِئُوْنَ وَیُذْنِبُوْنَ فَیَغْفِرَ لَھُم اﷲ تعالیٰ یقینا اورلوگ ایسے پیدا کر دے جو گناہ کریں اور اﷲ تعالیٰ ان کو معاف کرے۔اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا تعالیٰ کو گناہ پسندہیں بلکہ یہ کہ صاحب قدرت مخلوق ہی صفات الٰہیہ کو ظاہر کرتی ہے ۔اگر صاحب قدرت مخلوق دنیا
میں نہ ہوتی تو اس کی بعض صفات بھی ظاہر نہ ہوتیں اور جب انسان کو صاحب قدرت بنایا گیا ہے تو بہر حال صاحب قدرت مخلوق میں سے کچھ گناہ گار بھی ضرور ہوں گے۔یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ہوں تو صاحب قدرت مگر ہر شخص نیکی پر مجبور ہو۔انسان کا صاحب قدرت ہونا ہی بتا رہا ہے کہ انسا نوں میں سے کُچھ بدیوں کا بھی ارتکاب کریں گے اور پھر ان میں سے جو چاہیں گے ان کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہوگا تا اگر ان کا دل شرمندہ ہو اور ندامت کی آگ میں جل کر صاف ہو جائے تو توبہ کے ذریعہ ان کے گناہ معاف ہو جائیں اور اس طرح اﷲ تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی رہیں ۔
اسی طرح ابن ابی حاتم ابی سعید الخدری سے روایت کرتے ہیں کہ ۔قَا لَ لَمَّا اُنْزِ لَتْ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَا لَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ یَّرَہٗ قُلْتُ یَا رَسُوْلْ اﷲِ اِنّیِ ْ لَرَأ یِ عَمَلِیْ قَالَ نَعَمْ ۔یعنی ابو سعید خدری کہتے ہیںکہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرً ا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَا لَ ذَرَّشَرً ایَّرَہٗ۔ تو میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲکیا میں اپنے ہر عمل کا نتیجہ دیکھوں گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔قُلْتُ تِلْکَ الْکِبَارُ الْکِبَارُ میں نے کہا بڑے بڑے عمل بھی نظر آئیں گے؟ قالَ نَعَمْ فرمایا ہاں قُلْتُ تِلْکَ الصِّغَا رُ الصِّغَارُ ۔میں نے کہا چھوٹے چھوٹے عمل بھی نظر آئیں گے؟قَا لَ نَعَمْ۔آپ نے فرمایا ہاں۔قُلْتُ وَاثکلی اُمّیْ ۔میں نے کہا میری میں مجھ کو روئے پھر تو میں مرا۔قَالَ آبْشِرْ یَا اَبَا سَحِیْدٍ فَاِنَّ الْحَسَنَۃً بِعَشَرِ اَمَثَا لِہَا یَعْنِی اِلٰی سَبْعِ مِا ئَۃِ صِعْفٍ وَّ یَضْعَفُ اﷲُلِمَنْ یَشَآ ئَ۔آپ نے فرمایا اے ابو سعید یہ آیت گھبراہٹ پیدا کرنے والی نہیں یہ تو نیکی اور بدی کی جزا کے متعلق اﷲ تعالیٰ کے قانون کو بیان کرتی ہے۔کافر بے شک گھبرا سکتا ہے لیکن مومن کے لئے گھبرا نے کی کوئی وجہ نہیں ۔کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر نیکی کا دس گنے اجر ملے گا۔پس یہ جو اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ جو شخص نیکی کا ایک ذرہ بھی کرے گا وہ اسے دیکھے گا ۔اس میں خیر دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ جس شخص کی ایک نیکی ہوگی اسے دس گنے بڑا کر کے دکھایا جائے گا یعنی جو شخص کوئی ایک نیکی بجا لائے گا خدا تعالیٰ کے حضور اس کی دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور پھر ان دس نیکیوں کو سات گنا کیا جائے گا ۔گویا ایک نیکی کا اجر ستر گنے تک پہنچا دیا جائے گا اور اﷲ تعالیٰ جسے چاہے گا اس سے بھی زیادہ بدلہ دے گا ۔وَالسَّیِّئَۃُ بِمِثْلِھَا اُوْیَغْفِرُاﷲ۔لیکن اگر کسی نے کوئی بدی کی ہوگی تو اس کا بدلہ اسے اتنا ہی ملے گا جتنا اس نے اس سے قصور سر زد ہوا ہو گا یا اﷲ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا ۔یعنی نیکی کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا جو قائدہ ہے وہ بدی کے متعلق نہیں ۔پس مومن کے لئے گھبراہٹ کا کوئی مقام نہیں ہاں اگر کافر گھبرائے تو وہ اس کا سزا وار ہے ۔پھر آپ نے فرمایاوَلَنْ یَنْجُوَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ بِعَمَلِہِ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنے عمل کے زور سے نجات حاسل کر سکے ۔نجات کا موجب عمل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے ۔قُلْتُ وَلَا اَنْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ ۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ کیا آپ بھی اپنے عمل سے نجات نہیں پائیں گے؟ قَالَ وَلَ اَنَا اِلَّا اَنْ یَّتَغَمَّدَنِی اﷲُ مِنْہُ بِرَحْمَۃٍ ۔آپ نے فرمایا میں بھی اپنے عمل سے نجات نہیں پاسکتا میری مغفرت بھی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ اﷲتعالیٰ امجھے اپنے فضل سے ڈھانپ لے ۔در حقیقت اگر ہم غور کریں تو بات وہی ہے جو غالب نے کہی :
؎جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اگر نبی نیکی کرتا ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کی دہ ہوئی طاقتوں سے ہی کرتا ہے۔پس اگر منطقی طور پر دیکھا جائے تو نبی کے ہاتھ میں بھی
سوائے فضل کے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اگر اس نے نماز پڑھی ہے یا روزہ رکھا ہے یا حج کیا ہے یا صدقہ و خیرات میں حصہ لیا ہے یا اور نیکیاں کی ہیں تو وہ سب کی سب خدا تعالیٰ کی عطا کردہ طاقتوں سے کی ہیں اس لئے خالص منطقی نظریہ سے یہ اگر دیکھا جائے تو نبی کی نجات بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔بے شک عملی نظریہ میں ایک شخص نیک ہوتا ہے اورایک بد ۔لیکن منطقی نظریہ کے ماتحت کوئی بڑے سے بڑا نیک بھی محض اعمال کی بنا پر جنات کا مستحق نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ اس نے جو کچھ کیا اﷲ تعالیٰ کی طاقتوں سے کام لے کر کیا ہے ۔اس لیے حدیث میں رسول کریم ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے خالص منطقی نظریہ کے ماتحت فرمایا ہے عملی نظریہ کے ماتحت نہیں ۔
اس طرح ابن ابی حاتم سعید بن جبیر اﷲ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَلَ ذَرَّۃٍ خَیْرً ایَّرَ ہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّ ایَّرَ ہٗ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت کس واقعہ پر ظاہر ہوئی تھی۔میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ روایات میں کسی آیت کا جو شان نظول بیان کیا جاتا ہے اس کے صرف اتنے معنے ہوتے ہیں کہ یہ واقعہ بھی فلاں آیت پر چسپاں ہوتا ہے۔یہ معنے نہیں ہوتے کہ اگر وہ واقعہ نہ ہوتا تو آیت کا نزول بھی نہ ہوتا ۔بہر حال سعید بن جبیر ؓ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرً ا(الدھر:۱۹؍ ۱)وہ لوگ اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں تو اس وقت صحابہ ؓ یہ خیال کیا کرتے تھے کہ ہمیں اﷲ تعالیٰ کی راہ میں تھوڑی سے چیز دینے پر کیا اجر مل سکتا ہے اجر تو اسی خیر پر ملے گا جو بہت بڑی ہو گی۔ضمناً میں یہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ اَسِیْرً اکہ کئی معنے ہو سکتے ہیں۔ عَلیٰ حُبِّہ کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ عَلیٰ حُبِّ الطَّعَامِ یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ عَلیٰ حُبِّ اطْعَامِ الطَّعَامِ ۔اور یہ منے بھی ہو سکتے ہیں کہ عَلیٰ حُبِّ اﷲِ یعنی اس آیت مین تین درجے بیان کئے گئے ہیں اور بیاتا گیا ہے کہ مومن مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ عَلیٰ حُبِّ الطَّعَامِ با وجود ما ل کی محبت یا طعام کی محبت کے یعنی باوجود اس کے کہ انہیں خود کھانے کی محبت ہوتی ہے پھر بھی وہ غرباء و مساکین کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے اور اپنی ضروریات کو پسِ پشت ڈال کر ان کو کھانا کھلانا مقدم سمجھتے ہیں ۔
اس کے بعد سعید بن جبیرؓ کہتے ہیں کہ یُکْتَبُ لِکُلِّ بَرٍ وَفَا جرٍ سَیِّئَۃٍ سَیِّعَۃٌ وَّ بِکُلِّ حَسَنَۃٍ عَشْرُحَسَنَاتٍ۔ہر شخص جو نیک یا بد ہو گا اس کی نیکی بدی کی جزا کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا کانون یہ ہے کہ جو شخص کسی بدی کا ارتکاب کرتا ہے اس کی ایک بدہ کے مقابل میں اﷲ تعالیٰ کے حضورصرف ایک ہی بدی لکھی جاتی ہے ۔لیکن جو شخص کوئی ایک نیکی بجا لاتا ہے تواس کی ایک نیکی کے مقابلہ میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا چلا جاتا ہے ۔یعنی بدی کے نتیجہ میں صرف ایک بدی لکھی جاتی ہے اور نیکی کے نتیجہ میں ایک نہیں بلکہ دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔فَاِذَا کَنَا یَوْمُ الّقِیَا مَۃِ جب قیامت کا دن آئے گا تو ضَا عَفَ اﷲُ حَسَنَا تِ الْمُؤُمِنِیْنَ اَیْضًا بِکُلِّ وَحَدَۃٍ عَشَرً ا اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کی حسنات کو پھر بڑھائے گا اور ایک ایک نیکی کو دس گنا کرے گا ۔یعنی ایک نیکی تو وہ پہلے بڑھا چکا ہوگا اور ایک ایک نیکی کو دس دس نیکیوں کی شکل میں تبدیل کر چکا ہو گا لیکن جب قیامت کا دن آئے گا تو پھر اُن بڑھائی ہوئی نیکیوں میں سے ایک ایک دس گنا کرے گا ۔گویا ایک نیکی کی جزا سوگنے تک پہنچا دے گا ۔لوگوں نے تو :
؎ دَہ در دنیا ستر در آخرت
ایک محاورہ ایجاد کیا ہوا ہے لیکن اگر احادیث کے مفہوم کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ محاورہ یوں بنتا ہے کہ :
؎ دَہ در دنیا سو در آخرت
وَیَمْحُوْا عَنْہُ بِکُلِّ حَسَنَۃٍ عَشَرَ سَیِّاٰتٍ۔ دوسری طرف اﷲ تعالیٰ اس کی ہر نیکی کے بدلہ میں اس کی دس بدیوں کو دور کر دے گا ۔یعنی اگر اس نے ایک نیکی کی ہوگی تو وہ اس کی دس بدیاں مٹ دے گا ۔دس نیکیاں کی ہوں گی تو سو بدیاں مٹا دے گا اور اگر سو نیکیاں کی ہوِ گی تو ہزار بدیاں مٹٓ دے گا گویا دونوں رنگ میں اسے جزائے خیر عطا کی جائے گی ۔اس رنگ میں بھی کہ اس کی ایک ایک نیکی کو دس گنے اور پھر سو گنے تک بڑھا دیا جائے گا اوراس رنگ میں بھی اس کی ہر نیکی کے مقابلہ میں دس بدیوں کو مٹا دیا جائے گا۔ بات یہ ہے کہ اصل چیز محبت الہیٰ ہے اور یہ رستی شریعت نے اسی کے لئے تجویز کیا ہے جس کا دل اﷲ تعالیٰ کے عشق اور اس کی محبت سے لبریز ہوگا۔ اس کے لئے نہیں جس کا دل سخت ہو اور جواﷲ تعالیٰ کی محبت کا کوئی طمع بھی اپنے قلب میں نہ رکھتا ہو اگر نیکی کرتا ہو تو وہ بھی اتفاقیہ طورپر اور اگر بدہ سے بچتا ہو تو و ہ بھی اتفاقیہ طورپر ۔نہ اس کی نیکی کا باعث خدا تعالیٰ کی محبت ہو اور نہ اس کا بدی سے بچنا خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے ماتحت ہو ۔ایسا شخص اس انعام سے حصہ نہیں لے سکتا یہ انعام اسی کے لئے مقدر ہے جس کا دل اﷲ تعالیٰ کی محبت سے سرشار ہو گا ۔اور جو اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود محبت الٰہی کی آگ اپنے اندت رکھتا ہو گا۔اور یقینا جس دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو گی اسے کبھی دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا ۔اﷲ تعالیٰ کسی نہ کسی طرح اس کی نجات کا سامان پید اکردے گا اور حساب بنا بنا کر اور مختلف ذرائع اور طریق اختیار کرکے اسے جنت میں لے جانے کی کوشش کرے گا ۔چنانچہ اسی روایت کا آخری حصہ یہ ہے کہ فَمَنْ زَادَتْ حَسَنَا تُہٗ عَلٰی سَیِّاٰ تِہٖ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ دَخَلَ الْجَنَّۃً۔اگر یہ تمام طریق اختیار کرنے کے بعد بھی کوئی شخص جس کی بدیوں سے اس کی نیکیاں صرف ایک ذرہ کے برابر بھی زیادہ ہوئیں تو اﷲ تعالیٰ اس کے متعلق اپنے فرشتوں سے فرمائے گا جائو اسے جنت میں ڈال دو ۔اس کا مفہوم یہی ہے کہ جو شخص سچا مومن ہو گا اور جس کے متعلق اﷲ تعالیٰ جانتا ہو گا کہ اسے ایمان صادق حاصل ہے اس کو بچانے کے لئے اﷲ تعالیٰ ہر تدبیر اختیار کرے گا کہ وہ دوزخ میں نہ جائے جیسے ماں اپنے بچے کو مصیبت سے بچانے کے لئے اپنے سارے ذرائع صرف کر دیتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ اسے کوئی تکلیف نہ ہو ۔
رسول کریم ﷺ کو صحابہ ؓ سے جو محبت تھی اور صحابہ ؓ کے دل میں رسول کریم ﷺ کا جو عشق پایا جاتا تھا وہ بھی اپنے اندربعض اس قسم کی مثالیں رکھتا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں سچی محبت ہو وہاں کوئی نہ کوئی ذریعہ دوسرے شخص کو مصیبت سے بچانے کے لئے نکال ہی لیا جاتا ہے۔حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا کہ یا رسول اﷲ مجھ سے فلاں خطا سر زد ہو گئی ہے اب میں کیا کروں ۔آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم غلام آزاد کر سکتے ہو ؟اس نے کہا مجھ میں غلام آزاد کرنے کی کہاں طاقت ہے ۔آپ نے فرمایا اچھا کیا تم دو مہینے متواتر روزے یکھ سکتے ہو ؟ اس نے عرض کیا روضے رکھنے کی بھی مجھ میں ہمت نہیں ۔آپ نے فرمایاتو پھر ساٹھ مسکینوںکوکھانا کھلا دو ۔کہنے لگا یا رسول اﷲ میں کہاں سے کھلائوں میرے پاس تو ان کو کھلانے کے لئے کچھ نہیں ۔ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ کوئی شخص کھجوروں سے بھرا ہوا ٹوکرا رسول کریم ﷺ کے پاس لایا رسول کریم ﷺ نے اسے فرمایالو میاں یہ کھجوریں اُٹھا ئو اور مساکین میں تقسیم کردو تمہارے گناہ کا کفارہ ہو گائے گا ۔اس نے کھجوریں اُٹھا لین اور کہنے لگا یا
رسول اﷲ ایک اور بات بھی عرض کرنے کے قابل ہے آپ نے فرمایا کیا ؟کہنے لگا مدینے میں مجھ سے بڑھ کر تو کوئی اور غریب شخص نہیں۔میں کسے تلاش کروں گا ۔آپ یہ سن کر ہنس پڑے فرمایا جائو یہ کھجوریں خود ہی کھا لو۔تمہاری طرف سے کفارہ ہو گا ۔اسی طرح وہ شخص جو خدا تعالیٰ سے سچی محبت رکھتا ہو گا اور جس نے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش اور سعی اس بات کے لئے صرف کی ہوگی کہ اس کا انجام بخیر ہو اور وہ اﷲ تعالیٰ کے منعم اعلیہ گروہ میں شامل ہو جائے اگر سکی وجہ سے اپنی کوشش میں سو فیصدی کامیاب نہ ہو سکا تب بھی اﷲ تعالیٰ اس کی تپش محبت کو رائیگاں جانے نہیں دے گا ۔بلکہ وہ اس کے ایمان اور اس کے دل کے اخلاص کے مطابق اس سے سلوک کرے گا اور کوئی نہ کوئی راہ اس کی نجات کی نکال لے گا اور اپنے فرشتوں کا حکم دے گا کہ جائو اور میرے بندے کو جنت میں داخل کر دو۔

سُورۃالْبِیِّنَۃِ مَدَنِیَّۃٌ
سورہ بیّنہ یہ سورۃ مدنی ہے- ۱؎
وَھِیَ ثِمَانَی اٰیاتٍ دُونَ البَسْمِلَۃِ وَفِیْھَا رُکُوعٌ وَّحِدٌ
سوُرۃ البینہ مدنی ہے- ۱؎
جمہور مفسرّین کے نزدیک یہ سورۃ مدنی ہے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ یہ مدنی ہے ابن مررد نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ یہ سورۃ مکّی ہے- ابو حیّہ بدرسی سے راویت ہے کہ جب سورۃ لَمْ یَکُنْ سب کی سب نازل ہوئی ہے ( یعنی یہ اکٹھی نازل ہوئی ہے) تو جبریل نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے کہ اکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ یہ سورۃ ابی بن کعبؓ کو یاد کرادیں- اس پر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا یہ حکم مجھے پہنچایاہے کہ میں سورۃ تم کو یاد کرا دوں ابّی بن کعبؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرا بھی خدا تعالیٰ کے حضور میں ذکر آیا تھا؟ آپ نے فرمایا ہاں اس پر ابّی بن کعبؓ خوشی کے مارے روپڑے-یہ رایت سند احمد اور طبرانی میںاور ابن مردویہ میں مروہی ہے- بخاری اور مسلم نے بھی حضرت انسؓ سے یہ راویت نقل کی ہے لیکن بخاری اور مسلم کی رایت میں الفاظ نہیں کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی اُس وقت آپ نے یہ فرمایا- دوسرے بخاری اور مسلم کی رایت مین جبریل کا بھی ذکر نہیں- صرف اتنا ذکر آتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ھکم دیا ہے کہ مَیں یہ سورۃ تم کو پڑھا دوں- گو بخاری اور مسلم کی رایت میں یہ ذکر نہیں آتا کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی اُس وقت آپ نے ابّی کعبؓ سے یہ فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ تمہیںیاد کرانے کا حکم دیا ہے مگر چونکہ دوسری راویت یاد کرانے کا حکم دیا ہے مگر چونکہ دوسری روایت میں یہ ذکر آ گیا ہے جو مسند احمد بن جنبل جیسی مستند کتاب نے بھی نقل کی ہے اِس لئے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ صحیح راویت کی بنا ء پر یہ سورۃ مدنی ہی ہے کیونکہ ابی کعبؓ انصاری تھے اور مدینہ میں مسلمان ہوئے پس جو سورۃ اُن کے زمانہ میں نازل ہوئی وہ مدنی ہی ہو سکتی ہے مسیحی مستشرق بھی مانتے ہیں کہ یہ سورۃ مدنی ہے- …… چنانچہ ریورنڈ ہیری اس سورۃ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ مدنی ہے اور جرمن مستشرق نولڈکے نے اِسے سورئہ بقرہ کے معاً بعد کے زمانہ میں نازل شدہ قرار دیا ہے-
اس جگہ ایک لطیفہ بھی بیان کرنے کے قابل ہے ریورنڈویری اس سورۃ کے متعلق لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس سورۃ کو مکی قرار دیا ہے جیسا کہ اوپر روایت بیان ہو چکی ہے بعض لوگوں سے مراد حضرت عائشہ ؓ ہیں کیونکہ اُنہی کی نسبت روایت ہے کہ انہوں نے اسے مکّی قرار یا- ریورنڈ ویری کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی یعنی اُسے مکی قرار دینے کی اُن کے پاس سوائے اس کے کوئی وجہ نہیں کہ یہ سورۃ مکی سورتوں میں شامل کی گئی ہے- تعجب ہے ایک طرف تو عیسائی مؤرخ شیعوں کی ہمنوائی میں قرآن کریم کی کو بیاضِ عثمانی قرار دیتے ہیں کم سے کم ترتیبِ سُور کو حضرت عثمانؓ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور دوسری طرف حضرت عائشہؓ کے اس قول کو کہ یہ سورۃ مکّی ہے اس بات کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے کہ یہ سورۃ مکّی سورتوں میں رکھی ہوئی ہی حالانکہ اگر یہ قول کے مطابق یہ کہا جا سکتا تھا کہ اُس نے اس سورۃ کو مکّی سورتوں میں رکھا ہوا دیکھ کر اُسے مکّی قرار دے دیا- لیکن یہ قول تو اُس کا ہے- جو خلافتِ عثمان سے بہت سے پہلے مسلمان تھیں- پس اگر یہ اعتراض
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے- (شروع کرتا ہوں )
لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ مَنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَ
وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے یعنی اہل کتاب اور مشرک ( دونوں ہی ) کبھی ( اپنے
الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّنَ حَتّٰی تَاْ تِیَھُمْ الْبَیِّنَۃُ
کفر سے باز رہنے والے نہ تھے جب تک کہ اُن کے پاس واضح دلیل نہ آ جاتی ۲؎
در ست ہے تو اُن کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ ترتیب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کہ ہے تبھی اس سے حضرت عائشہؓ جنہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی عمر گذاری تھی وہ عثمانؓ کی ترتیب سے دھوکا کھا جاتیں- قرآن کریم کے متعلق حضرت عائشہؓ کے نظریے یقینا عثمانی جمعِ قرآن سے پہلے قائم ہو چکے تھے پس اگر حضرت عائشہؓ نے اس کے مکّی ہونے کا عقیدہ اس لئے قائم کیا کہ یہ مکّی سورتوں میں رکھی گئی ہے تو معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ کے ہوش سنبھالنیسے پہلے یہ سورۃ مکّی سورتوں میں رکھی گئی ہے تو معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ کے ہوش سنبھالنے سے پہلے یہ سورۃ مکّی سورتوں میں رکھی جا چکی تھی- پس ترتیب قرآن رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ثابت ہوئی نہ کہ عیسائی مؤرخین کے مطابق عثمانؓ کی؟
پھر ایک اورلطیفہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ریورنڈویری نے آخری سب سورتوں کو مکّی قرار دیا ہے اور حضرت عائشہؓ پر یہ الزام لگایا ہے کہ انہوں نے اس سورۃ کو محض اس لیے مکّی قرار دیا ہے کہ یہ مکّی سورتوں میں رکھی ہوئی ہے - حالانکہ ریورنڈویری کی یہ لا علمی ہے کہ انہوں نے آخری سب سورتوں کو مکّی قرار دیا ہے- اس سورۃ کو تو خیر صرف حضرت عائشہؓ نے مکّی قرار دیا ہے لیکن اس سورۃ سے اگلی سورۃ کو یعنی سورہ زلزال کو اکثر لوگوں نے مدنی قرار دیا ہے اور قرآن کے مرّوج مطبوعہ نسخوں میں اس کے اُور مدنی ہی لکھا ہوا ہے پھر اس آخری مجموعہ سُور میں سورئہ دالنصر بھی ہے جو نہ صرف بالاتفاق مدنی ہے بلکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام کی نازل شدہ ہے - بعض صحابہؓ نے اسے غزوئہ خیبر سے واپسی کے وقت نازل شدہ قرار دیا ہے اور بعض نے اسے حجتہ الوداع میں منٰی کے مقام پر نازل شدہ قرار دیا ہے جس کے بعد رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم صرف اسی دن زندہ رہے- پس جب اس مجموعہ میں یقینا مدنی سورتیں موجود ہیں تو سوائے ایک جاہل انسان کے کون شخص حضرت عائشہؓ پر یہ الزام لگا سکتا ہے کہ انہوں نے اس سورۃ کو آخری سورتوں میں رکھے جانے کی وجہ سے مکّی قرار دیا ہاں اصل واقعہ کر ہمیں انکار نہیں کہ یہ سورۃ مدنی ہے- جیسا کہ اکثر صحابہؓ اور تابعین کی روایات سے ثابت ہے اور جمہور مفسرین کا عقیدہ ہے ہمیں صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ مسیحی مصنف بغیر دلیل کے تعصب کی بناء پر اسلامی تاریخ پر حملہ کر دیتے ہیں-
ترتیب
اس کا تعلق پہلی سورتوں سے یہ ہے کہ پہلی دو سورتوں میں قرآن کریم کے نزول کا ذکر تھا اور اُس کی ذاتی خوبیاں بیان کی گئی تھیں اب اس سورۃ میں قرآن کریم کے اُس اثر کو بیان کی گئی تھیںاب اس سورۃ میں قرآن کریم کے اُس اثر کو بیان کیا گیا ہے جو غیر اقوام سے تعلق رکھتا ہے چنانچہ فرمایا کہ اگر یہ قرآن نہ آتا تو اہلِ کتاب اور غیر اہل کتاب اپنے غلط رویہ سے باز نہ آ سکتے تھے- اس سورۃ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا نام بَیَّنَہ رکھا گیا ہے- کیونکہ آپ قرآن کریم لائے اور اصلاحِ عالم کے لئے آپ نے قرآن کریم کے نزول کو ضروری قرار دیا-
۲؎حل لغات
مُنْفَکِّنَ - اِنْفَکَّ سے مُنْفَکِّنَ۳اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اور اِنْفَکَّ فَکَّ سے انفعال کا صیغہ ہے فَکَّ کے اصل معنے کھولنے یا جدا کرنے کے ہوتے ہیں- پس اِنْفَکَّ کے معنے ہوئے کُھل گیا یا جُدا ہو گیا-علاوہ ازیں عربی زبان میں اِنْفَکَّ کے مندرجہ ذیل معانی استعمال ہوتے ہیں (۱) کہتے ہیں اِنْفَکّ قَدَ مُہ‘ :ذَالَتْ اُس کا قدم اپنی جگہ سے ہٹ گیا (۳) اِنْفَکَّتْ اِصْبَعُہ‘ اِنْفَرَجَتْ انگلی کھلی گئی (۳) اِنْفَکَّ وَرْ کُہ‘ ذَاغَ عَنْ مَّوْ ضِعِہٖ- جوڑا اپنی جگہ سے ہل گیا - (۴) اِنْفَکَّ الشَّیْ ئُ الْمُشْتَبَکُ اِنْفَصَلَ - جُڑی ہوئی چیز الگ ہو گئی (۶) اِنْفَکَّتِ الرَّقبُۃُ مِنَ الرِّقِّ- اُعْتِقَتْ گردن کھل گئی یعنی غلام آزاد کر دیا گیا ( اقرب) اور جب محارہ میں مَا انْفَکَّ یَفْعَلُ کَذّا - کہیں تو اس کے معنے ہونے ہیں- مَا انْفَکَّ کَانَ کے اخوت میں شمار ہوتا ہے چونکہ اِنْفَکَّ کے معنے الگ ہو جانے کے ہیں اس لئے جب اس سے پہلے نفی آ جائے تو اس کے معنے اثبات کے بن جاتے ہیں اور اس صورت میں وہ کسی چیز کے تسلسل کے ساتھ ہونے کے معنے دیتا ہے- (اقرب)
بَیِّنَۃٌ ۱؎
بَیِّنٌکی مونث ہے اور ان معنوں کے رُو سے یہ لفظ کسی واضح اور جلی چیز کے معنے دیتا ہے لیکن علاوہ اس کے کہ بَیِّنٌ کی مونث ہے اس کے مستقل معنے بھی ہیں اور وُہ دلیل اور حجت کے ہیں (اقرب)
تفیسر
قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے تمام بنی نوع انسان کو دو حصوں مین تقسیم کیا ہے ایک حصے کا کا نام اُن نے اہل کتاب رکھا ہے اور دوسرے حصے کا نام اُس نے مشرک رکھا ہے- قرآنی اصطلاح کے مطابق دنیا کا کوئی حصہ ان دوقسموں سے باہر نہیں یا تو نبی نوع انسان
(۲۲) قرآنی اصلاح میں دو قسم کے لوگ اہل کتاب اور مشرک
اہلِ کتاب میں سے ہوں گے یا نبی نوع انسان مشرکین میں سے ہوں گے اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بظاہر بعض لوگ ایسے بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں- جنہیں نہ تو ہل کتاب میں سے کہا جا سکتا ہے نہ مشرکوں میں سے- جیسے دہریہ ہیں- دہریہ بظاہر نہ اہل کتاب میں سے نظر آتے ہیں نہ مشرکوں میں سے- لیکن قرآن کریم کی اصطلاح میں سہ دونوں میں سے ایک گروہ میں ضرور شامل ہیں اور قرآنی اصطلاح سے نتیجہ نکالتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مشرکوں میں شامل ہیں- درحقیقت اس اصطاح میں ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے اور وہ کہ قرآن کریم اس بات کا مدعی ہے کہ توحید بغیر الہام کے نہیں آ سکتی- یہ تو ہو سکت اہے کہ ایک شخص اہل کتاب میں سے ہو اور مشرک ہو لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص اہلِ کتاب میں سے نہ ہو اور مدحّد ہو- پس جو اہل کتاب میں سے نہیں وہ ضرور مشرک ہے اور جو اہلِ کتاب میں سے ہے وہ یا موحّد ہے یا مشرک ہے- کیونکہ توحید نام ہے صفاتِ الہٰیہ کو خدا تعالیٰ کی طرف صحیح طور پر منسوب کرنے کا- اور یہ مقام سوائے اہلِکتاب کے اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفات کو صحیح طور پر وہی شخص خدا کی طرف منسوب کر سکتا ہے جس کی الہام الہٰی نے راہنمائی کی ہو یاجیسے ایسے الہام کا علم حاصل ہو- ایک دہریہ بظاہر خدا تعالیٰ کا منکر ہے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ وہ صفتِ خلق کو یا قانونِ قدرت کی طرف منسوب کرتا ہے یا اتفاق کی طرف منسوب کرتا ہے اور گو وہ خدا تعالیٰ کا قائل نہیں- مگر خدا تعالیٰ کے ماننے والے کے نزدیک تو اُس نے شرک ہی کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفت کسی اور کی طرف منسوب کر دی- پس خود دہریہ کے نقطہ نگاہ سے وہ منکر ہے مگر مذہبی آدمی کے نقطہ نگاہ سے وہ مشرک ہے کیونکہ اُس نے خدائی صفات کو دوسرے کی طرف منسوب کردیا- بہرحال قرآن کریم نے دنیا کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے ایک اہل ِ کتاب اور دوسرے مشرک- جب قرآن کریم اہلِ کتاب اور مشرک کے الفاظ اکٹھے استعمال کرے تو اُس کی اصطلاح کے رُو سے اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ سب غیر مسلم دنیا- یہ تمہید مَیں نے اس لئے اٹھائی ہے کہ اگلام مضمون اس کے بغیر سمجھ نہیں آ سکتا-
یاد رکھناچاہیے کہ اِس سورۃ میں ایک بہت بڑے مسئلہ کا حل کیا گیا ہے اور یہ آیت اُس مسئلہ کے بارے میں بطور نصّ واقعہ ہوئی ہے- مسیحی مصنّفین ہمیشہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ قرآن کریم کا دعویٰ ( جہانتک ایمان کا سوال ہے) صرف غیر کتاب سے متعلق ہے اور وہ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں یہود کی نسبت آتاہے - وِمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمٓا اَنْزَلَ اﷲُ فَاُلٰٓئک ھُمُ الْکَافِرُوْنَ ( مائدہ ع ۷،۱۱)جو شخص اُس کلام کے مطابق حکم نہیں دیتا جو خدا تعالیٰ نے اُتارا ہے وہ کافر ہے- اور مسیحیوں کی نسبت فرماتا ہے وَلْیَحْکُمْ اَھْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَٓا اَنْذَلَ اﷲُ فَاُولٰٓئکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ ( مائدہ ع ۷،۱۱) اِن آیات سے وہ استدال کرتے ہیں کہ چونکہ قرآن کریم نے یہودیوں اور عیسائیوں پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اپنی کتابوں پر عمل کیوں نہیں کرتے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک تورات اور انجیل اب تک قابلِ عمل ہیں اور جب تورات اور انجیل اب تک قابلِ عمل ہیں تو معلوم ہوا کہ کم سے کم اہلِ کتاب کے لئے تو یہ ضروری نہیں کہ وہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں- پس وہ کہتے ہیں کہ ہمیں قرآن کریم کے دعویٰ پر غور کرنے کی ضرورت نہیں اگر وہ جھوٹا ہے تو جھوٹا ہی ہے اور اگر سچا ہے تو ہمیں ماننے کا پابند نہیں کرتا اور جب ہم اس کاماننے کے پابند نہیں تو ہمیں اس پر وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت کیا؟ اِس کے جواب میں مسلمانوں کی طرف سے یہ آیات پیش کی جاتی ہیں:-
اوّل- قُلْ یَآاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ ِاِلَیْکُمْ جَمِیْعََا ( اعراف ع ۳۰ ،۱۰)یعنی اے نبی تُو لوگوں سے کہہ دے میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں-
(۲) مَٓا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ کَآ فَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ( سبا ع ۳،۹) ہم نے تجھے سب لوگوں کے لئے بشیر و نذیر کی حیثیت سے بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے-
پھر قرآن مجید میں آتا ہے وَاُوْحِیَ اِلَیْ ھٰذَا لْقُرْانُ لِاُنْذِرِکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغَ ( الانعام ع ۸،۲)
یہ قرآن میرے اُوپر اس لئے نازل کیا گیا ہے تا کہ مَیں تم کو بھی اور جس شخص تک یہ کلام پہنچے اُس کو بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائوں-
اِن آیتوں کا جواب مسیحیوں کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ اَلنَّاس سے مراد قرآن کریم میں ہر جگہ مشرکین مکّہ ہوتے ہیں اس لئے سب لوگوں سے مراد سب مکّہ والے ہیں نہ کہ اہلِ کتاب- یہ خیال اَلنَّاس جہاں بھی قرآن کریم میں آیسا ہے اس کے مراد مکّہ کے مشرکین ہوتے ہیں گو غلب ہے لیکن خود بعض مسلمان مفسّرین نے ہی پیدا کیا ہے اور یہ خیال عیسائی مصنفین کے دل میں اس قدر گھر کر گیا ہے کہ سورئہ بقرہ ع ۳ کی آیت یَٓاَ یُّھَا النَّاسُ اعُبُدُ وْ ارَبَّکُمْ کا ترجمہ سیلؔ نے یوں کیا ہے-
۲۱۱ مسیحی مصنفین کا قرآن مجید کو غیر اہل کتاب کے لئے مخصوص کرنا اور اس کی تردید
’’ اے مکّے والو! اپنے رب کی عبادر کرو‘‘
پس اس خیال کی موجودگی میں جس کو خود بعض مسلمان مفسّرین نے قوی کر دیا ہے ہمارے لئے صرف یہ لمبا طریق باقی رہ جاتا ہے کہ ہم پہلے اُن کی یہ غلطی دُور کریں اور یہ ثابت کریں اِلنَّاس امیں اہل کتاب بھی شامل ہیں-
تیسری آیت میں گو مَنْ بَلَغَ کے الفاظ ہیں مگر عیسائی پہلی دو آیتوں کے تابع اس کے بھی یہی معنے کر لیتے ہیں کہ موجودہ مکّہ والے اور آئندہ زمانہ کے مکّہ والے-
باقی آیات جو اہل کتاب کو ایمان لانے کی طرف بلاتی ہیں مثلاً (۱) وَلَوْ اٰمَنَ اَھَلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ مِنْھُمْ الْمُؤمِنُوْنَ وَ اِکْثَرُ ھُمْ الْفَاسِقُوْنَ ( آل عمران ع ۱۲ ۳ )
یعنی اگر اہل کتاب ایمان لاتے تو یہ اُن کے لئے بہتر تھا اُن میں سے بعض مومن ہیں اور اکثر فاسق- اسی طرح (۲) وَمَنْ یَّکفُرُبِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْ عِدُ عِدُہ‘ (ھود ع۲)کہ مختلف گروہوں میں سے جو لوگ اِس قرآن کا انکار کرتے ہیں اُن کا ٹھکانہ آگ ہے-اور پھر ( ۳) قُلْ لِلّذِیْنَ اُوْتُوالُکِتٰبَ وَلْاُ مِّیِْیْنَ ئَ اَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْ ا فَقَدِ اھْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَ لَّوْا فِاِنَّمَا عَلَیْنٰکَ الْبَلَاغُ وِاﷲُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ (اٰلِ عمران ع ۲،۱۰)
تُو اہل کتاب اور اُمِیوں سے کہہ دے کہ تم السلام لاتے ہو یا نہیں اگر وہ اسلام لے آئیں تو سمجھ لو کہ وہ ہدایت پا گئے اور اگر پھر جائیں تو تیرا کام صرف ہدایت پہنچانا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حالات کو خوب دیکھنے والا ہے- (۴) قُلْ لَّٓا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اِجْرًا ط اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ ( الانعام ع ۱۰، ۱۶)تو کہہ دے کہ مَیں اس پر تم کوئی اجر نہیں مانگتا یہ تو جہانوں کے لئے ایک نصیحت ہے- یہ اور اسی قسم کی دوسری آیات جن میں جہانوں کے الفاظ قرآ ن کریم یا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے استعمال کئے گئے ہیں اُن کے متعلق مسیحی مبلّغ یہ کہہ دیتے ہیں کہ احزاب کالفظ خود تمہارے قرآن میں عرب کے قبائل کے متعلق آتا ہے اس لئے احزاب سے کُل دنیا کس طرح مراد لی جا سکتی ہے اور عَا لِمِیْن کا لفظ جب حضرت مریمؑ اور بنی اسرائیل کے دوسرے لوگوںکے متعلق آتاہے تو تم اس کے معنے صرف بنی اسرائیل کے کرتے ہو اور اگر وہاں عَا لِمِیْن کے معنے صرف عرب کے قبائل کے کیوں نہیں ہو سکتے ؟اور جو باقی آیتیں ہیں اُن میں صرف ایمان کے لئے بُلایا گیا ہے ایمان لانا ضروری قرار نہیں دیا گیا- زیادہ سے زیادہ اِن آیتوں کے یہ معنے لئے جا سکتے ہیں کہ اگر اہل کتاب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو بھی مان لیں تو زیادہ اچھا ہے مگر اہل کتاب کو نہ ماننے کی وجہ سے مجرم تو نہیں قرار دیا گیا- گو یہ استدال مسیحیوں کو کچّا بلکہ غلط ہے لیکن ایک لمبا راستہ ہمیں اُن کو منوانے کے لئے اختیار کرنا پڑتا ہے بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قرآن کریم کی وہ آیات جو اس بات کی تائید میں ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سب دنیا کی طرف رسول ہیں اور قرآن کریم سب دنیا کے لیے کتاب ہے اس کے متعلق شبہات (جو گو غلط ہیں) پیدا کرنے اور مسیحیوں کو اس ٹھوکر میں مبتلا کرنے کے سا مان خود مسلمان مفسّرین نے کئے ہیں اور بعض شبہات ایسے ہیں جو اپنی نا فہمی اور پورا تدّبر نہ کرنے کی وجہ سے غیر مسلموں کو اپنے طور پر اپیدا ہو گئے ہیں یہی وجہ سے کہ اہل کتاب کو ایمان لانے کی جو دعوت قرآن کریم میں دی گئی ہے اُس کو وہ صرف ایک زائد خیر قرار دیتے ہیں لازمی اور قطعی قرار نہیں دیتے حالانکہ قرآن کریم نے نہ صرف اُن ایات میں جن کو اُوپر درج کیا گیا ہے اہل کتاب کا ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے بلکہ جیسا کہ آگے چل کر ثابت کیا جائے گا صاف اور کھلے الفاظ میں اس امر کا اعلان کی اہے کہ اہلِ کتاب کفر میں مبتلا ہو چکے ہیں اور اب اُن کی نجات کی صرف یہی صورت باقی رہ گئی ہے کہ وُہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں اور آپ کی غلامی اختیار کریں-
قرآن کریم کے بعد جب ہم کتب احادیث کو دیکھتے ہیں تو اُن میں بھی ایسی بہت سی روایات پائی جاتی ہیں جن سے قطعی اور یقینی طوپر ثابت ہو تاہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سب جہان کی طرف مبعوث ہوئے ہیں چنانچہ مسند احمدمیں حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بُعِثْتُ اِلَی الاَْحْمَرِ وَالاَ سْوَدِ- میں گورے اور کالے سب لوگوںکی طرف مبعوث ہوا ہوں- اسی طرح مسند احمد ہیںعَنْ عَمْرِِ و ابْنِ شُعِیْبِِ عَنْ اَبِیْہِ عِنْ جَدِّہٖ روایت ہے کہ اِمَّا اَنَا فَاُرْسِلْنٰتُ اِلَی النَّاسِ کُلِّھِمْ عِامَّۃََ وَ کَانَ مَنْ قَبْلِیْ اِنَّمَا یُرْ سَلُ اِلیٰ قَوْ مِہٖ یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری یہ خصوصیت ہے کہ میں تمام بنی نوع انسا کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں اور مجھ سے پہلے جو رسول تھے صرف اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث کئے گئے تھے- اس حدیث میں بھی بے شک اَلنَّاس کا لفظ ہے اور میں نے اوپر کی آیات پر بحث کرتے ہوئے بتایا تھا کہ عیسائی کہتے ہیں قرآن کریم اَلنَّاس سے مراد ہمیشہ مکّہ کے لوگ ہوتے ہیں یہودی اور عیسائی نہیں ہوتے مگر ایک تو یہاں دلیل موجود ہے کہ آپ نے اپنی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوں فرمایا کَانَ مَنْ قَبْلِیْ اِنَّمَا یُرْ سَلُ اِلیٰ قَوْمِہٖ- مجھ سے پہلے جو رسول گزرے ہیں وہ صرف اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوا کرتے تھے - چونکہ یہاں قوم کے مقابلہ میں اِلنَّاس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لئے اِلنَّاسُ کے معنے ساری !…………………… دنیا کے ہوں ہوں گے ورنہ مکّہ کے لوگ ہم قوم ہی تھے اور اگر النَّاسُ سے مراد یہاں صرف اہلِ مکّہ ہوتے تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی کوئی خصوصیت باقی نہ رہتی کیونکہ جس طرح اگر آپ بھی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہو گئے تو اس میں کوئی خصوصیت نہیں ہو سکتی تھی- اصل بات یہی ہے کہ یہاں اپنا اور سابق انبیاء کا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے مقابلہ کیا ہے اور بتایا کہ پہلے انبیاء تو اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے مگر میں اَلنَّاس کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں - اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی غرض یہ ہے کہ میں صرف اپنی قوم کے طرف نہیں بھیجا گیا بلکہ قوم سے زائد لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں پس اُرْ سِلْتُ الَی النَّاسِ کُلِّھِمْ عَامَّۃََ سے مرادیہاں ساری دنیا ہے محض قوم مراد نہیں-
دوسرےؔ حدیثوں میں صراحتاً اَلنَاسُ کا لفظ بولا جاتا ہے اور اُس سے مراد مکّہ کے مشرک نہیں ہوتے بلکہ دوسرے لوگ ہوتے ہیں چنانچہ حدیث بدر میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے مشورہ طلب فرمایا اور مہاجرین یکے بعد دیگرے اُٹھ اُٹھ کر مشورہ دینے لدگے تو ہر مہاجر جب مشورہ دے کر بیٹھ جاتا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے اَشِیْرُ وْلِیْ اَیُّھَا النَاسُ اے لوگو مجھے مشورہ دو- اب دیکھ لو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے نَاسٌ کا لفظ استعمال کیا مگر اس سے مکّہ کے مشرک مراد نہیں تھے بلکہ انصار مراد تھے چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہ فرمایا کہ اے لوگو مجھے مشورہ دو تع سعد بن معاذؓ کھڑے ہوئے اور انہوں کے عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ کی مراد ہم سے ہے کہ اس موقعہ پر ہم بھی اپنے خیالات کا اظہار کریں- رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیثوں کی شہادت اس امر کی تائید میں موجود ہے کہ اَلنَّاس کا لفظ استعمال کا لفظ استعمال کیا اور مآپ کی مراد اس سے انصار تھے- پھر اس حدیث میں تو وضاحت موجود ہے کہ قوم کا مقابلہ میں ناسؔ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ یہاں اَلنَّاس سے قوم مراد نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان مراد ہیں خواہ وہ دنیا کی کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں-
اسی طرح حدیث میں آتا ہے مَنْ سَبِعَ بِیْ مِنْ اُمَّتِیْ اَوْ یَھُوْدِیٌّ اَوْ نَصْرَا نِیٌّفَلَمْ یُؤ مِنْ بَیْ لَمْ یَدْ خُلِ الْجَنَۃَ ( مسند احمد عن ابی سعید بن جبیر عن ابی موسیٰ اشعری)
اس حدیث کے الفاظ میں کچھ غلطی ہے جس کو آگے ظاہر کیا جائے گا موجودہ صورت میں اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علی وسلم نے فرمایا- جس شخص نے میری اُمت میں سے میرے متعلق بات سُنی یا کسی یہودی یا نصرانی نے میرا ذکر سُنا اور پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لایا - وہ جنّت میں داخل نہیں ہو گا- اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُمّت اور ہے اور یہودی اور نصرانی اور ہیں مگر درحقیقت یہ راوی کی غلطی ہے کہ اُس نے رسول کریم صلے اللہ علیہوسلم کے الفاظ صحیح طور پر نہیں سمجھا اور یہودی اور نصرانی نے ساتھ ’’ اَوْ‘‘ کا لفظ بڑھا دیا- اس کی وجہ درحقیقت یہ ہے کہ عام طور پر لوگ اُمت کے معنے ایمان لانے والے لوگوں کے سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اُمت کے لفظ کا اطلاق انہی لوگوں پر ہوتا ہے جو کسی نبی پر ایمان رکھتے ہوں اس محاورہ کی وجہ سے جو عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ہوتا ہے راوی نے سمجھا کہ شاید مجھے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے الفاظ صحیح یاد نہیں رہے ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ آپ اپنی اُمّت میں کسی یہودی یا نصرانی کو بھی شامل سمجھتے اس لئے اُس نے حدیث بیان کرتے وقت ’’ اَوْ‘‘ ’’ اَوْ‘‘ کا لفظ بڑھادیا اور سمجھا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو گا کہ مَنْ سَمِعَ بِیْ مِنْ اُمَّتِیْ اَوْ یَھُوْدِ یٌّ اَوْ نَصْرِانِیْ ٌفَلَمْ یُؤ مِنْ بَیْ لَمْ یَدْ خُلِ الْجَنَۃَ - جس شخص نے میری اُمت سے میری بات سُنا- یہ صاف بات ہے کہ اگر اُمَّتِیْ سے مراد ماننے والے لوگ ہیں تو کیا کوئی ماننے والا ایسا بھی ہو سکتا ہے جس نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہ سُنا ہو؟ یہ بات عقل کے بالکل خلاف ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے تو ہو مگر اُس نے آپ کا ذکر نہ سُنا ہو- پس خود اُمت کالفظ جو اس حدیث میں استعمال کیا گیا ہے- بتا رہا ہے کہ یہاں اُمّت سے مراد صرف ماننے والے نہیں بلکہ ہر وہ شخص ہے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے پیغام کا مخاطب ہے چنانچہ مسلم کی ایک روایت جو ابو موسیٰ اشعری سے مروی ہے اس غلطی کو واضح کرتی ہے کہ بتاتی ہے ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا اصل منشاء کیا تھا- مسلم نے ابو موسیٰ اشعری سے یہ راویت اس طرح نقل کی ہے وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِ ہٖ لَا یَسْمَعُ بِیْ رِجْلُ مِّنْ ھٰذِہٖ الْاُ مَّۃِ یَھُوْدِیٌّ وَّلَا نَصْرَابِیٌ ثُمَّ لَا یُوْ مِنُ بِیْ اِلاَّ دَخَلَ النَّارَ یعنی ابو موسیٰ شعری بیان کرتے ہیںرسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میری اُمّت میں سے کوئی شخص میرا ذکر نہیں سُنے گا خواہ یہودی ہو یا نصرانی ثُمَّ لَا یُوْ مِنُ بِیْ پھروہ مجھ پر ایمان نہیں لائے گااِالاَّ دَخَلَ النَّارَ تو وہ ضرور آگ میں داخل کیا جائے گا-
یہ روایت صحتِ الفاظ کے لحاظ سے زیادہ درست ہے کیونکہ اِ س میں اُمّت اور یہود نصاریٰ کو الگ الگ بیان نہیں کیا گیا بلکہ یہود نصارٰی کو اُمّت کا ایک حصہ بتایا گیا ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے وضاحتاً یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہود نصارٰی اگر آپ پر ایمان لائیں تو یہ نہیں کہ اُن کا ایمان لانا صرف ایک زائد خیر کا رنگ رکھتے گا بلکہ اگر وہ ایمان نہیں لائیں گے تو اللہ انکو دوزخ میں ڈالے گا-
اس حدیث سے یہ وضاحت ہو گئی کہ پہلی روایت میں بھی درحقیقت یہودی اور نصرانی کے الفاظ اُمّت کے بدل کے طور پر استعمال کئے گئے تھے مگر راوی نے غلطی سے ’’ اَوْ‘‘’’ اَوْ‘‘ بڑھا کر فقرہ اس طرح بنا دیا کہ منْ سَمِعَ مِنْ اُمَّتِیْ اَوْ یَھُوْدِیٌّ اَوْ نَصَرَانِیٌّ
امام احمد بن جنبل ایک دوسری روایت بھی انہی الفاظ کی تصدیق کرتی ہے چنانچہ اُس روایت کے الفاظ یہ ہیں- عِنْ اِ بِیْ ھُرَیْرَۃً عِنْ رَّسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عِلَیْہِ وَسَلَّمَ وِالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا یَسْمَعُ بِیْ اِحْدٌ مِّنْ ھٰذِہٖ الْاُ مَّۃِ یِھُوْدِیٌّ اَوْ نَصْرِانِیٌّ ثُمَّ یَمُوْتُ وَلاَیُؤ مِنُ بِالَّذِیْ اُرْسِلْتُ بِہٖ اِلَّا کَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِ- یعنی حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ و تصّرف میں میری جان ہے کہ اس اُمت میں سے کوئی شخص میرا ذکر نہیں سنے گا خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی اور پھر وہ ایسی حالت میں مر جائے گا کہ اُس پیغام پر ایمان نہ لائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے دیا گیا ہے اِلَّا کَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِمگر وہ یقینا دوزخی ہو گا یہ حدیث باالصراحت اس حقیقت پر روشنی ڈال رہی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہود اور انصارٰی دونوں کو اپنی اُمّت میں شامل کیا ہے پس اُوپر کی احایث میں بھی اُمّت سے مراد صرف ماننے والے نہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے پیغام کے مخاطب ہیں- درحقیقت اُمّت میں صرف وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو نبی ایمان لاتے اور اُس کے حلقہ غلامی میں اپنے آپ کو شامل کر لیتے ہیں اور دوسرے مفہوم کے لحاظ سے اُمّت سے مراد تمام لوگ ہوتے ہیں جو کسی نبی کے مخاطب ہوتے ہیں جن کے لئے نبی پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے خواہ اپنی عملی حالت کے لحاظ سے وہ منکروں میں ہی شامل ہوں- اس جگہ اُمّت سے مراد یہی دوسرا مفہوم ہے یعنی اُمت پر ایمان لانے والے مراد نہیں بلکہ وہ لوگ جن کے لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے وہ سب کے سب اُمت کے دائرہ میں شامل ہیں اور سول کریم صلے اللہ علیہ وسلم صاف طور پر فرماتے ہیں کہ اس اُمت میں شامل اور نصارٰی بھی آپ کی اُمت میں شامل ہیں ) مگر وہ ایسی حالت میں مر جائے کہ اُسے مجھ پر ایمان لانا نصیب نہ ہو تو وہ دوزخ میں داخل کیا جائے گا-
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ماننا صرف مستحب و مرحّج ہی نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ پر واجب اور فرض ہے اور اس کی تعمیل نہ کرنا اُنہیں دوزخی بنا دیتا ہے لیکن چکڑالویوں، معّزیوں اور حنفیوں نے احادیث کا انکار اور تخفیف کر کے مسیحیوں کے لئے اس میں شک پیدا کرنے کا راستہ کھول دیا ہے-
گو مومنوں کے لئے اوپر کی آیات اور احادیث واضح الدلالۃ ہیں لیکن چونکہ ہمیں ایسے دشمن سے واسطہ پڑنا تھا جو مسلمانوں کے اختلافات کے متعلق وسیع معلومات رکھنے والا تھا اور اُن قوموں سے اسلام کا مقابلہ ہونے والا تھا جو اپنے آپ کو اعلیٰ درکہ کی منقّد بتاتی ہیں اس لئے ضروری تھا کہ قرآن کریم میں اس کے متعلق کوئی نقصِ صریح آ جاتی تا کہ دشمن کو اس بارہ میں اعتراض کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ نہ آتا-
اب بیشتر اس کے کہ مَیان آیت زیر تفسیر کے مضمون کی طرف آئوں اُن احادیث کے متعلق جو اوپر بیان ہوئی ہیں- دو باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں-
اوّل اِن احایث میں جو مَنْ سَمِعَ بِیْ کے الفاظ آتے ہیں اِن سے مراد محض سماع نہیں بلکہ سماعِ حُجّت ہے کیونکہ سزا بغیر حُجّتِ قاطعہ کے نہیں ہوتی - یعنی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حدیث میں جو مَنْ سِمِعَ بِیْ لَا یَسْمَعُ بِیْ کے الفاظ آتے ہیں اُن کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی کو محض اتنا علم ہو جائے کہ بانی اسلام نبوت کے مدعی ہیں اور آپ پر ایمان نہ لائے تو وُہ دوزخی ہو جائے گا کیونکہ خود احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کوکوئی سزا نہیں ملے گی مثلاً پاگل کے متعلق آتا ہے کہ اُسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی- اب جہاں تک سننے کا تعلق ہے اس امر سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ سنتا ایک پاگل بھی ہے مگر اسکے باوجود اُسے سزا نہیں ہو گی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالی سماع کافی نہیں اگر خالی سماع کافی ہوتا تو ایک مجنوں اور فاتر العقل کو بھی سزا ملنی چاہیے مگر احادیث بالصراحت بتاتی ہیں کہ پاگل مرفوع القلم ہوتا ہے اور اُسے اپنے مجنونانہ افعال کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سزا نہیں ملے گی- یہ امتیاز اِسی لئے رکھا گیا ہے کہ پاگل سنتا تو ہے مگر سمجھتا نہیں- اِسی طرح جس شخص نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا صرف ذکر سُنا ہے اُس پر حجت تمام نہیں ہوئی- وہ بھی سزا کا مستحق قرار نہیں دیا جاسکتا- کیونکہ سزاتمام حُجّت یا حقیقت کو پورے طور پر سمجھ لینے کے بعد وارد ہوتی ہے اور جب اُس اور جب اُس نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کو سمجھا نہیں تو وہ سزا کامستحق کس طرح ہو سکتا ہے؟
دوسرے اِن احادیث سے یہ ابات ثابت ہوتی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے کفراور سزا کو الگ الگ امور قرار دیا ہے- یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو ہمارے اور پیغاموں کے درمیان ایک مدّت سے مابہ النّزاع چلا آ رہا ہے- جب وہ کہتے ہیں کہ کیا وہ شخص جس نے مرزا صساحب کا نام بھی نہیں سُنا کافر ہے؟ اور ہم جوا ب میںکہتے ہیں کہ ہاں جسنے مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا کافر ہی ہیتو وہ شور مچانے لگ جاتے ہیں کہ دیکھو یہ کتنے بڑے ظلم کی بات ہے کہ جس شخص نے مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا اُسے جہنمی میں فرق ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے خوداس حدیث میں صاف طور پر بیان فرما دیا ہے کہ کفر اور سزا یہ دو الگ الگ امور ہیں یہ تو ہر مسلمان تسلیم کرے گا کہ جس شخص نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں سُنا وہ کافر ہے -مَیں سمجھتا ہُوں مسلمانوں میں سے کوئی ایک فرقہ بھی ایسا نہیں جو اس بارہ میں اختلاف رکھتا ہوں اور اُن لوگوں کو جنہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کانام بھی نہیں سُنا مومن قرار دیتا ہو- مثلاً وہ لوگ جنہوںنے اہل کتاب کو کافر قرار نہیں دیا اور جو اتنا قلیل طبقہ ہے کہ کسی اعتناء کے قابل نہیں اُن کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جمہور مسلمانوں کا قطعی طور پر یہ فیصلہ ہے کہ دُنیا میںدو ہی گروہ ہیں یا مسلمان یا کافر- اب جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا میں دو ہی گروہ سمجھے جا سکتے ہیں یا مسلمان یا کافر- وہ اُن مسیحیوں یا اُن یہودیوں یا اُن ہندوئوں یا اُن زرتشتیوں یا اُن شنٹوازم کے ماننے والے جاپانیوں یا کنفیوشس کے ماننے والے چینیوں کو جنہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کانام بھی نہیں سُنا کیا قرار دیں گے؟ کیا یہ کہیں گے کہ وہ مسلمان ہیں؟ یہ تو صاف بات ہے کہ مسلمان نے نام سے وہی بلوائے جاتے ہیں جنہوں نے کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ پڑھا اور جنہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر حقیقی طور پر یا ظاہر میں ایمان لانا نصیب ہوا- جب مسلمان کی ظاہری تعریف یہ ہے کہ وہ کلمہ طیبہ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان ظاہر کرتا ہو تو یہ بات واضح ہو گئی کہ جنہوں کے کلمہ طیّبہ نہیں پڑھا اور جنہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا نصیب نہیں ہوااُنہیں بہرحال ہم کافر ہی کہیں گے- مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے یہں کہ اُن کے کفر کے باوجود اُن کو سزا نہیں ملے گی- سزا صرف اُن لوگوں کو ہو گی جنہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ذکر سُنا یعنی اُن کے کانوں تک رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچا اُن پر حُجت تمامہوئی اور پھر بھی وہ اپنے کفر پر قائم رہے، اسلام میں داخل ہونے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لئے تیار نہ ہوئے- اس سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اور انبیاء تو الگ رہے اپنی ذات کے متعلق بھی یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ مجھے نہ ماننا ( بشرطیکہ کسی پر حُجت تمام نہ ہوئی ہو) انسان کو دوزخی نہیں بناتا ہاں اُسے کافر ضرور بنا دیتاہے چاہے دنیا کے وہ کسی کونہ میں رہنے والا ہو اور چاہے اُس نے سات پشت سے بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا نام نہ سُنا ہو وہ کافر ہو گا اور ضرور ہو گا مگر سزا تمام حُجت کے بعد ہوتی ہے اس سے پہلے نہیں- گویا یہ قاعدہ جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے سزا کے متعلق ہے کفر کے متعلق نہیں- چنانچہ صریح طور پر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ دو ولگ الگ تقسیمین کر دی ہیں کفر کو الگ قرار دیا ہے اور سزا کو الگ قرار دیا ہے - یہی عقیدہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے متعلق ہے کہ جس شخص نے حضرت مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا وہ کافر ہے مگر ہم اسے دوزخی قرار نہیں دے سکتے نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس شخص نے حضرت مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا وہ جہنمی ہے- ممکن ہے اللہ تعالیٰ اگلے جہاں میں اُن کا دوبارہ امتحان لے اور ممکن ہے کہ فطرتی ایمان پر ہی اُس کو بکش دے- بہرحال ہم اُس کی سزا کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے مگرہم اس بات پر مجبور ہیں کہ اُسے کافر قرار دیں کیونکہ اسلام میں دو ہی اصطلاحیں ہیں- ایک اصطلاح مومن کی ہے اور ایک اصطلاح کافر کی ہے جس نے کسی نبی کو مان لیا وہ مومن ہے اور جس نے کسی نبی کو نہیں مانا وہ کافر ہے- چاہیے اُس کا نہ ماننا عدمِ علم کی بنا پر ہو اور چاہے اُس کا نہ کاماننا شرارت کی بناء پر ہو- اگر اُس نے عدمِ علم کی وجہ سے کسی نبی کو نہیں مانا تو وہ کافر یعنی نہ ماننے والا تو ہے مگر دوزخی نہیں اور اگر کسی شرارت سے نہیں مانا تو وہ کافر یعنی نہ ماننے والا بھی اور دوزخی بھی ہے-
افسوس کہ اس نکتہ کو نہ سمجھ کر آج کل پیغامی گمراہ ہو رہے ہیں اور جب وہ مجھ پر حملہ کرتے ہیں تو دراصل رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ کفر و سزاء کا فرق خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور متعدد احادث میں کفر اورجہنمی ہونے کو الگ الگ رکھا گیا ہے - ظاہر ہے کہ پیغامیوں کے لئے وہ ہی راستے کھلے ہیں- یا تو وہ کہیں کہ جس نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں سُنا وہ کافر نہیں مسلمان ہے- اگر وہ یہ کہدیں گے کہ جس شخص نے حضرت مرزا صاحب کا نام نہیں سُنا وہ کافر نہیں مسلمان ہے- اس صورت میں وہ ایک نئی اصطلاح قائم کر دیں گے اور ہمارا اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا کہ ہم اُن سے خطاب کے وقت شر کو دُور کرنے کے لئے اس اصطلاح کو اُن کے مقابلہ میں تسلیم کر لیں اور یا پھر دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ یہ کہیں کہ کافر وہ قابلِ سزا لازم و ملزوم نہیں ایک گ۴وہ کو کافر تو کہا جائے گا مگر قابلِ سزا نہیں- اس صورت میں بھی ہمارا اور اُن کا جھگڑا ختم ہو جاتا ہے-
اس تمہید کے بعد میں بتاتا ہوں کہ آیت زیر تفسیر میں اُن لوگوں کا جو اہل کتاب کو کافر قرار نہیں دیتے یا جو سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا قرآن کریم کے رُو سے اہل کتاب کے لئے ضروری نہ تھا- ردّہے- اور صاف بتایا گیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ماننا اہلِ کتاب اور مشرکین دونوں کے لئے ضروری تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ اہلِ کتاب اور مشرکین دونوں کو کافر قرار دیتا ہے اور اسلام (یعنی دینِ حق قبول کرنا) صرف رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے پر موقوف ظاہر کرتا ہے-
یہ جو میں نے کہا ہے کہ اس آیت میں اُن لوگوںکا ردّ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا قرآن کریم کے رُو سے اہلِ کتاب کے لئے ضروری نہ تھا- اس فقرہ میں ان لوگوں سے میری مراد عیسائی مؤرخ ہیں- اس اعتراض سے اُن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ قرآن کریم کی عدم ضرورت کو واضح کریں اور ثابت کریں کہ قرآن کریم ایسی کتاب نہیں جس پر ایمان لانا اہل کتاب کے لئے بھی ضروری ہو اُن کے لئے تورات انجیل پر ایمان رکھنا ہی کافی ہے- اور یہ جو میں نے کہا ے کہ اِس آیت میں اُن لوگوں کا بھی ردّ ہے جو اہل کتاب کو کافر نہیں قرار دیتے یہ بعض معزّلیوں کا خیال ہے جو اہل کتاب کو ایک تیسرا گروہ قرار دیتے ہیں- اسی طرح یوروپین مستشرقین کے اعتراضات سے ڈر کر نیچری خیالات رکھنے والے مسلمان بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ اہلِ کتاب کو قرآن کریم نے کہیں کافر کہا اِس سے ان کی غرض یہ ہوتی کہ کہیں عیسائی چِڑ نہ جائیں اور اسلام پر اَور زیادہ اعتراضات نہ کرنے لگیں- بہر حال اس آیت میں ان دونوں خیالات کا ردّ کیا گیا ہے اور واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ماننا اہل کتاب اور مشرکین دونوں کے لئے ضروری ہے کیونکہ فرماتا ہے لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاحَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیِّنَۃُ- کافروں کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا مشرک کہ وہ اپنے کفر سے الگ ہو سکتے تا وقتیکہ اُن کے پاس بیّنہ نہ آ جاتی- اس آیت میں لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاکے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب کافروں اور مشرک کافروں کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اپنے کفر کو چھوڑ سکتے-
اِنَفَکَّ کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے جُدا ہونے کے ہیں- پس مُنْفَکِّیْنَ کے معنے ہوئے جدا ہونے والے یا الگ ہونے والے- سوا یہ ہے کہ اُن کے لیے کس چیز سے انفکاک نا ممکن تھا- اس کا جواب یہ ہے کہ، اُسی کفر سے جس کا اس آیت میں ذکر آتا ہے یعنی اہل کتاب کافر اور مشرک کافر کفر کو چھوڑ ہی نہیں سکتے تھے اور کوئی صورت ایسی نہیں تھی کہ وہ کفر سے آزاد ہو سکتے سوائے اس کے کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم آتے- محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلمکے آنے بغیر نہ اہل کتاب کفر سے نکل سکتے تھے نہ مشرک کفر سے نکل سکتے تھے- گویا اہل کتاب اور مشرکین دونوں کے متعلق صراحتاً ، وضاحتاً اور دلالۃً بتا دیا کہ وہ کافر ہیں اور یہ کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد وہی شخص خدا تعالیٰ کا مقبول ہو سکتا ہے یا وہی شخص سچے دین پر قائم سمجھا جا سکتا ہے جو محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے-
اس آیت میں مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ کے الفاظ آتے ہیں اور مِنْ کے اصل معنے ابتدائے غایت کے سمجھے جاتے ہیں لیکن چونکہ کثرت سے مِنْ بعضیّہ بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے ممکن ہے یہ شبہ کسی شخص کے دل میں پیدا ہو کہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اِھْلِ الْکِتٰبِمیں بھی مِنْ بعضیہ ہی استعمال ہوا ہے اور مطلب یہ ے کہ اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کافروں کا گروہ ہر اہل کتاب کے متعلق یہ بیان نہیں کیا گیا کہ وہ کافر ہے بلکہ یہ آیت صرف بعض اہل کتاب کی نسبت ہے جو کافر تھے ہر ایک اہل کتاب کافر نہیں تھا- اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر اس کا مفہوم یہ لیا جائے کہ اہل کتاب میں سے جنہوں نے اب تک اسلام قبول نہیں کیا تو یہ درست ہے ہم بھی اس قسم کے بعض کو ماننے کے لئے تیار ہیں یعنی جو اب تک اہل کتاب ایمان نہیں لائے وہ کافر ہیں یا جواب تک مشرک ایمان نہیں لائے وہ کافر ہیں- لیکن اگر مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِکے یہ معنے لئے جائیں جو اہل کتاب مسلمان نہیں ہوئے اُن میں کچھ کافر ہیں اور کچھ نہیں تو یہ اس لئے بالبداہت باطل ہیں کہ اہل کتاب پر وَالْمُشْرِکِیْنَ کا عطف ہے- اگر تو یہ ہوتا کہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَالْمُشْرِ کُوْنَ تو پھر سمجھا جا سکتا تھا کہ مِنْ صرف اہل کتاب کے ساتھ لگتا ہے مشرکوںکے ساتھ نہیں لگتا - لیکن اللہ تعالیٰ نے وَالْمُشْرِ کُوْنَ کی بجائے وَلْمُشْرِکِیْنَ فرمایا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ جو حکم اہل کتاب کے لئے ہے وہی حکم مشرکوں کے لئے بھی ہے پس اگر اس آیت کے یہ معنے لئے جائیں کہ اہل کتاب میں سے جو ایمان نہیں لائے اُن میں سے بھی کچھ مومن ہیں اور کچھ کافر تو پھر اس کے ساتھ ہی یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ مشرک جو اب تک ایمان نہیں لائے اُن میں سے کچھ مومن اور کچھ کافر- اور آیت کو یُوں سمجھنا پڑے گا کہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ امُشْتِلِمِیْنَ عَلیٰ بَعْضِ اَ ھْلِ الِکِتٰبِ وَبَعَضِ الْمُشْرِکِیْنَ اور بات بالبداہت غلط ہے- عیسائی بھی باوجود شدید دشمنِ اسلام ہونے کے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی رُو سے سب غیر اہل کتاب مشرک کافر ہیں اور اس میں کوئی استثنٰی نہیں- بہرحال اگر اس آیت میں مِنْ کو بعضیہ قرار دیاجائے تو چونکہ وِالْمُشرِکِیْنَ کا عطف اہل کتاب پر ہے اور لئے تسلیم کرنا پڑتا ہے ہے کہ کچھ مشرک مومن ہیں اور کچھ مشرک کافر- حالانکہ یہ بالبداہت باطل ہے- پس یہ غلط ہے کہ اس آیت میں مِنْ بعضیہ استعمال ہوا ہے- یہاں مِنْ بعضیہ نہیں بلکہ بیانیہ ہے اور آیت کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ لِمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ مُشْتَمِلِیْنَ عَلیٰ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَلْمُشْرِکِیْنَچونکہ مشرکین مجرور ہے اس لئے مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ کے سوا کسی اور پر عطف نہیں ہو سکتا اگر اِلَّذِیْنَ پر عطف ہوتا تو یہ مر فوع ہوتا پس کسی صورت میں بھی یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ بعض اہل کتاب کافر ہیں اور بعض نہیں- بلکہ لازماً اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ کفار خواہ اہل کتاب ہوں یا مشرک سب کے سب کافر ہیں اور اس کفر سے بچ نہیں سکتے تھے جب تک رسول اُن کے پاس نہیں آتا-
غرض کَفَرُوْا سے مراد اہل کتاب اور مشرکین دونوں ہیں دونوں میں اور جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں قرآن کریم کا یہ محاورہ ہے کہ جب وہ اہل کتاب اور مشرکین کا ذکر کرتا ہے تو اُس سے مراد ساری غیر مسلم دنیا ہو تی ہے کیونکہ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے مسلمانوں کے سوا دنیا میں دو ہی گروہ ہو سکتے ہیں یا اہل کتاب ہوں گے یا مشرک ہوں گے- پس اہل کتاب اور مشرکین سے مراد قرآنی محاورہ کے مطابق تمام غیر مسلم دنیا ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ کفار میں سے یعنی غیر مسلموں میں سے خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا مشرک (اس میں کوئی استثنٰی نہیں) اپنے کفر سے اُس وقت تک نہیں نکل سکتا تھے جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نہ ہوتی-
قرآن کریم میں بعض اَور مقامات پر بھی مِنْ بیانیہ استعمال ہوا ہے مثلاً ایک جگہ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُو االرِّ جْسَ مِنَ الْاَ وْ ثَانِ ( الحج ع ۱۱، ۴) اس کے یہ معنے نہیں کہ کچھ بُت پاکیزہ ہوتے ہیں اور کچھ گندے بلکہ مطلب یہ ے کہ فَاجْتَنِبُو االرِّ جْسَ مِنَ الْاَ وْ ثَانَ تم گندگی یعنی بتوں کی پرستش اور ان کی عبادت سے بچو- یہاں مِنْ بیانیہ ہی استعمال ہوا ہے اور چونکہ یہ حال ہے اس لئے اگر ہم عربی میں اس آیت کاترجمہ کریں تو یو ہو گا- لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا حَالَ کَوْ نِھُمْ مُشْتَمِلِیْنَ عَلیٰ جِمیْعِ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَ جَمِیْعِ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفِکِّیْنَ حَتّٰی تَاْ تِیْھُمُ الْبَیِّنَۃُ- چنانچہ دوسری قرأت اِن معنوں کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہے اور وہ قرأت عبد اللہ بن مسعود کی ہے اُن کی قرأت یہ ہے لَمْ یَکُنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَ الْ مُشْرِ کُوْنَ مُنْفِکِّیْنَ ( فتح اسلام)پس علاوہاس کے خود فقرہ کی بنائوٹ اور وَالْمُشْرِکِیْنَ کے اہل کتاب پر ہے- اس حقیقت کو واضح کر رہی ہیں یہاں مِنْ بعضیہ نہیں ہو سکتا ابن مسعُودؓ کی قرأت نے مزید تصدیق کر دی کہ یہاں کسی صورت میں بھی مِنْ کو بعضیہ قرار نہیں دیا جا سکتا-
دوسری بات جو نہایت اہم اور موجودہ زمانہ کے جھگڑوںمیں بہت کام آنے والی ہے اور اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ کُفر پہلے ہوتا ہے اور نبی بعد میں آتا ہے- یہ بات ایسی واضح ہے کہ اس آیت پرذرا سا غور بھی انسان پر اس حقیقت کو روشن کر دیتا ہے کہ نبی پیچھے آتا ہے اور کفر پہلے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اِھْلِ الْکِتٰبِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْ تِیْھُمُ الْبَیْنَۃُ کفار خواہ اہل ہوں یا مشرک کبھی بھی اپنے کفر کو چھوڑ نہیں سکتے تھے جب تک اُن کے پاس بیّنہ نہ آ جاتی- مِنْ کو بیانیہ تسلیم کرنے کی صورت میں ’’ خواہ‘‘ کا لفظ گو اُس کے معنوں کو پوری طرح ظاہر نہیں کرتا مگر چونکہ اُردو میں ’ خواہ‘ کا لظ اُن مضمون کو قریب الفہم کر دیتا ہے جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے اس لئے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ کفار خواہ اہل کتاب میں سے ہوں اور خواہ مشرکوں میں سے ، کبھی بھی اپنے کفر کو چھوڑ نہیں سکتے تھے جب تک اُن کے پاس بیّنہ نہ آتی- ’’ جب تک ‘‘ کے الفاظ جب کسی فقرہ میں استعمال کئے جائیں تو اُس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ’جب تک‘ کے بعد بیان ہونے والی شے، سے پہلے بیان شدہ شے ہے یا اُس کا اِس سے پہلے ہونا ضروری ہے- مثلاً یہ کہا جائے کہ وہ شخص اپنے گھر سے نہیں نکلا سکتاجب تک میرا پیغام اُس کے پاس نہ پہنچ جائے- تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پیغام پیچھے جائے گا اوروہ گھر میں پہلے بیٹھا ہوا ہو گا- اسی طرح لِمْ یَکُنْ اور حَتّٰی کے الفاظ جب کسی فقرہ میں استعمال ہوں گے تو اُس کے معنے یہ ہوں گے کہ لَمْ یَکُن میں بیان شدہ بات حَتّٰی سے پہلے واقع ہو چکی ہے- اس سے صاف پتہ لگا کہ بَیِّنَۃ کے آنے سے پہلے وہ لوگ کافرہو چکے تھے- بینّہ یعنی رسول نے اُن کو کافر نہیں بنایا بلکہ بیّنہ کے آنے سے پہلے ہی وہ کافر بن چکے تھے - غرض کفر پہلے ہوتا ہے اور نبی بعد میں آتا ہے نبی کا فر گر نہیں ہوتا بلکہ کفر کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے- جب بھی کوئی نبی دنیا میں آتا ہے اُس کا انکار کرنے کے بعد لوگ کافر نہیں بنتے ہیں
۲ نبی کافر گر نہیں ہوتا بلکہ کفر کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے-
بلکہ پہلے ہی وہ کافر بن چکے ہوتے ہیں نبی صرف ان کے کفر کا اظہار کرتا ہے پس یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ نبی کا انکار کر کے لوگ کافر بنتے ہیں یہ ایک غیر محتاط کام ہے جس ہم بھی زبان کے عام محاورہ کے مطابق بعض دفعہ استعمال کر لیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بھی رواج کے مطابق اس کو استعمال کیا ہے مگر حقیقتاً یہ ہمارا یہ مفہوم ہوتا ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا یہ مفہوم تھا یہ نبی کافر بناتا ہی بلکہ ہمارا مفہوم بھی یہ ہوتا ہے اورحضرت مسیح موعودکا بھی مفہوم یہی ہوتا ہے کہ نبی لوگوں کے کفر کا اظہار کرتا ہے گو عرف عُام ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہ دیا جاتا ہے کہ نبی کا انکار کر کے لوگ کافر بنتے ہیں بہر حال حقیقت یہ ہے کہ نبی کافر نہیں بناتا نبی کا انکار کر کے لوگ کافر نہیں ہوتے بلکہ نبی کے انکار سے ان کا کفر ظاہر ہو جاتا ہے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک شخص جس کے کبھی خربوزہ نہیں دیکھا یہ کہے کہ میں نے خربوزہ کھایا ہے- اب جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے یہ ایک واضح امر ہو گا کہ اُس نے جھوٹ سے کام لیا ہے مگر اس کا یہ جھوٹ اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتا جب تک ہم خربوزہ اس کے سامنے لا کر نہ رکھ دیں اور پھر اس سے پوچھ نہ لیں کہ بتائو یہ کیا چیز ہے؟ اگر ہم ایک خربوزہ اس کے سامنے لا کر رہ دیتے ہیں اورپھر اس سے پوچھتے یہ کہ بتائو یہ کیا چیز ہے اور وہ جواب میں کہتا ہے کہ مجھے علم نہیں تو یہ اس بات کا ایک واضح ثبوت ہو گا کہ جب اس نے کہا تھا کہ میں نے خربوزہ کھایا ہے تواس نے جھوٹ اور کذب بیانی سے کام لیا تھا مگر اس کے جھوٹ بولنے کے باوجود اور خربوزہ کے آنے پر اُس کا جھوٹ ظاہر ہونے کے باوجود دنیا میں یہ کبھی نہیں کہا جائے گا کہ خربوزے نے اس کو جھوٹا نہیں بنایا بلکہ خربوزے نے آ کر اس جھوٹ کو ظاہر کیا ہے ورنہ جھوٹا تو وہ پہلے ہی تھا- اسی طرح لوگ کہتے ہیں ہم موسیٰؑ کو مانتے ہیں لوگ کہتے ہیں عیسیٰؑ کو مانتے ہیں اور جب وہ یہ کہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم موسیٰ اور عیسٰی کو مانتے ہیں تو اس سے ان کی کیا مراد ہوتی ہے؟ یہ مراد تو نہیں ہوتی کہ موسیٰ ؑ اور عیسیٰؑ آدمی تھے یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ وہ آدمی تھے پس ان کا یہ کہنا کہ ہم موسٰیؑ اور عیسٰؑی کو مانتے ہیں اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ ہم مانتے ہیں کہ موسٰیؑ ایک آدمی تھا یا ہم مانتے ہیں کہ عیسٰیؑ آدمی تھا بلکہ ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ موسیٰؑ کی نبوت کو ہم شناخت کرتے ہیں عیسٰیؑ نبی کی نبوت کو ہم شناخت کرتے ہیں اور جب وہ انبیاء کی نبوت کو شناخت کرنے کا ملکہ اپنے اندر رکھتے ہیں تو یہ لازمی بات ہے کہ جب بھی کوئی نبی دنیا میں ظاہر ہو گا وہ اس کو فورا پہچان لیں گے کیونکہ جو شخص ایک جنس کی کسی چیز کو شناخت کرنے کا ملکہ رکھتا ہے وہ اُسی جنس کی دوسری چیزکو بھی شناخت کر سکتا ہے جو شخص آم کو پہچانتا ہے اُس کے سامنے جب بھی آم رکھا جائے گا فوراً کہ اٹھے گا یا جو شخص خربوزہ پہچانتا ہے اُس کے سامنے جب بھی خربوزہ لایا جائے گا اُسے شناخت میں کوئی دقت واقعہ نہیں ہو گی-وہ فوراً کہ دے گا کہ یہ خربوزہ ہے اس طرح وہ شخص جس نے نبوت کو شناخت کر لیا ہے اس کو کسی نبی کے پہچاننے میں کوئی دقت ہی پیش نہیں آ سکتی - نوعؑ آئے گا تو اُس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے اسے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے ابراہیم ؑ آئے گا تو اس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے اُسے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے -موسی ؑ آئے گا تو اس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے - عیسیٰؑ آئے گا تو اس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے اسے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے تو ان کے متعلق وہ کہے گا میں نے انہیں پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کے سچے نبی ہیں لیکن اگر اس نے واقعہ میں نوعؑ اور ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شناخت نہیں کیا ان کی نبوت کو اس نے نہیں پہچانا تو جھوٹے طور پر یہ دعویٰ کرتا ہے - کہ میں نے انبیاء علیہ اسلام کی نبوت کو پہچانا ہوا ہے تو گو وہ منہ سے اس امر کا دعویدار ہو گا کہ میں نوعؑ کو بھی پہچانتا ہوں ، ابراہیم ؑکو بھی پہچانتا ہوں ،موسیٰؑ کو بھی پہچانتا ہوں ،عیسیٰؑ کو بھی پہچانتا ہوں ، مگر جب محمد رسول صلے اللہ و علیہ وسلم کا نبوت کا جامہ پہن کر ان کے سامنے آ ئیں گے تو کہ دے گا کہ آپ نعوذ باللہ جھوٹے ہیں اس سے صاف پتہ لگ جائے گا کہ اس کا یہ کہنا کہ میں نوحؑ اور ابرہیمؑ اور موسٰیؑ اور عیسیٰؑ کو پہنچانتا ہوں محض اِدّعاتھا اور نہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ وہی جُببّہ جو ابراہیم نے پہنچا ، وہی جُببہ جو موسیٰ نے پہنچا، وہی جُببہ جوعیسیٰؑ نے پہنچا،وہی جببہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پہن کر آتے تو وہ آپ کی شناخت سے محروم رہتا؟ اُس کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت سے محروم رہنا اس بات کا ثبوت ہو گا کہ وہ پہلے بھی نبوت کی حقیقت کو نہیں سمجھتا تھا اور اُس کا یہ کہنا بالکل دھوکا اور فریب تھا کہ میں نوحؑ کو مانتا ہوں ، مَیں ابرہیم کو مانتا ہوں مَیں موسیٰؑ کو مانتا ہوں کیونکہ جب ویسی ہی نبوت اُس کے سامنے آئی تو وہ اُس کو پہنچان نہ سکتا جس سے پتہ لگ گیا کہ اُس نے نہ موسیٰؑ کو پہچانا تھا- نہ عیسیٰؑ کو پہچانا تھا اور نہ دنیا کی کسی اور نبی کو پہچانا تھا - پس اس آیت نے بتا دیا کہ دنیا میں جب بھی کوئی نبی ظاہر ہوتا ہے وہ لوگوں کو کافر نہیں بناتا بلکہ اُن کے کر کا صرف اظہار کرتا ہے ورنہ کافر نہیں بناتا بلکہ اُن کے کفر کا صرف اظہار کرتا ہے ورنہ کافر وہ اس سے پہلے ہی بن چکے ہوتے ہیں اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد یہ کتنی فضول بحث بن جاتی ہے جہ فلاں نبی کا انکار کفر ہوتا ہے اور فلاں نبی کا انکار کفر نہیں ہوتا حالانکہ کفر کسی نبی کا انکار کے بعد پیدا نہیں ہوتا بلکہ پہلے ہی لوگوں کے اندر پیدا ہو چکا ہوتا ہے- کفر نوحؑ کے انکار کا نام نہیں - کفرابرہیم ؑکے انکار کا نام نہیں - کفرموسیٰؑ کے انکار کا نام نہیں - کفرعیسیٰؑ کے انکار کا نام نہیں -بلکہ اصل کفر نام ہے نبوت کے انکار کا- یہ جو ہم کہہ دیا کرتے ہیں کہ موسیٰؑ اور عیسیٰؑ یا کسی اور نبی کا انکار کفر ہے یہ صرف اصطلاحی طور پر ہم کہا کرتے ہیں - چونکہ موسیٰؑ نبگی ہے اور اُس کا انکار نبوت کے انکار کے مترادف ہے اس لئے موسیٰؑ کا انکار کفر ہے ورنہ موسیٰؑ آدمی کا انکار کفر نہیں یا عیسیٰؑ آدمی کاانکار کفر نہیں یا محمدِ عربیؐ کا انکار کفر نہیں- بلکہ موسیٰؑ نبی کا انکار کفر ہے یا عیسیٰؑ نبی کا انکاور کفر ہے یا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا انکار کفر ہے- اور یہ کفر بھی ان معنوں میں نہیں کہ اُس نے شخص کا انکار کیا ہے بلکہ اِن معنوں میں ہے کہ اُس نے تمام انبیاء کی نبوت سے انکار کیا ہے بلکہ اِن معنوں میں ہے کہ اُس نے تمام انبیاء کی نبوت سے انکاور کی اہے ورنہ اگر وہ کسی ایک نبی کی نبوت کو بھی صحیح معنوں میں پہچاننے والا ہوتا تو وہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ اُس کے سامنے ایک دوسرا شخص وہی نبوت کا جامہ پہن کر آتا تو وہ اس کا انکار کر دیتا اور کہہ دیتا کہ وہ کافر ہے- جو شخص نبوت کو پہچانتا ہے اُس کے سامنے جب کوئی شخص نبوت کا جامعہ پہن کر آئے گا تو بجائے اس کے کہ وہ اُس پر ایمان لائے اُسے کافر اور بے دین قرار دینے لگ جائے گا اور اس طرح اس بات کا ثبوت مہیا کر دے گا کہ اُس کا پہلے انبیاء کی نبوت پر ایمان لانے کا دعویٰ بھی محض ایک دھوکا تھا- اگر وہ موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو ماننے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہی جامہ جب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر دیکھتا ہے تو آپ کو کافر کہنے لگ جاتا ہے تو یہ صاف اور واضح ثبوت اس بات کا ہے کہ اُس نے موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کی نبوت کو بھی نہیں پہچانا مگر چونکہ اُس کے ماں باپ کہتے تھے کہ عیسیٰؑ نبی ہے اِس لئے اُس نے عیسیٰؑ کو بھی مان لیاورنہ درحقیقت نہ وہ موسیٰؑ پر ایمان رکھتا تھا نہ عیسیٰؑ پر ایمان رکھتا تھا اور نہ کسی اور نبی پر ایمان رکھتا تھا-
پس حقیقت یہ ہے کہ نبوت کا انکار کفر ہے نہ کہ زید یا بکر یا خالد کا انکار- چونکہ آنے والا اُسی قسم کا جامہ پہن کر آتا ہے جس قسم کا جامہ پہلے انبیاء پہن کر آئے اس لئے جب لوگ اُس کا انکار کر دیتے ہیں تو اُن کے متعلق یہ نہیں سمجھا جاتا کہ انہوں نے کسی ایک شخص کا انکار کیا بلکہ یہ سمجھا جات اہے کہ انہوں نے نبوت کا انکار کیا ہے - اب یہ سیدھی بات ہے کہ حضرت مرزا صاحب کا کوئی نام رکھ لو جو باتیں انہوں نے لوگوں کے سامنے پیش کی ہیں وہ وہی ہیں جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے لوگوں نے سامنے پیش کیں اور جو سلوک لوگوں نے آپ سے کیا وہ ویسا ہی ہے جیسے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم یا اَور انبیاء سے دنیا نے کیا- یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس کا پیغامی بھی انکار نہیں کرسکتے - اَور تو اَور خود مولوی محمدؐ علی صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت پر منہاجِ نبوت کو مدنظر رکھتے ہوئے غور کرنا چاہیے- جس کے معنے یہ ہیں کہ آپ نے ویسی ہی باتیں پیش کی تھیں جیسی باتیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے پیش کیں یا جیسی باتیں موسیٰؑ نے پیش کی تھیں یا جیسی باتیں عیسیٰؑ نے پیش کی تھیں- جیسی باتیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے پیش کیں تھیں- اورجو سلوک دنیا نے آپ سے کیا ویسا ہی سلوک اُس نے پہلے انبیاء سے بھی کیا تھا- اوراگر یہ ٹھیک ہے تو پھر ویسی ہی باتوں پر جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے پیش کیں یا جیسی باتیں موسیٰؑ نے پیش کیں تھیں یا جیسی باتیں عیسیٰؑ نے پیش کی تھیں- اور جو سلوک دنیا نے آپ سے کیا ویساہی سلوک اُس نے پہلے انبیاء سے بھی کیا تھا- اور اگر یہ ٹھیک ہے تو پھر ویسی ہی باتوں پر جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے پیش کیں یا موسیٰؑ اور عیسیٰؑ نے پیش کیں جو شخص آپ کو کافر کہتا ہے وہ نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو بھی کافر کہتا ہے موسیٰؑ کو بھی کافر کہتا ہے ، عیسیٰؑ کو بھی کافر کہتا ہے- پس یہ کہنا کہ فلاں نبی کا انکار انسان کو کافر بناتا ہے اور فلاں کا نہیں ایک بے تعلق بحث ہے- نبی تو صرف کفر کو ظاہر کرتا ہے اُس کا کسی کو کافر بنانے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ یہ بحث کی جائے کہ فلاں قسم کے نبی کا انکار کفر ہوتا ہے اور فلاں قسم کے نبی کا انکار کفر نہیں ہوتا- اگر کوئی بحث ہو سکتی ہے تو یہ کہ فلاں نبی اُس وقت آتا ہے جب دنیا مومن ہوتی ہے اور فلاں نبی اُس وقت آتا ہے جب دنیا کافر ہوتی ہے اور یہ بات بالبداہت باطل ہے- پس درحقیقت اس آیت کو سمجھ لینے کے بعد کہلَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اِھْلِ الْکِتٰبِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْ تِیْھُمُ الْبَیْنَۃُکفر و اسلام کے متعلق کو

یہ کئے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ جو ایک آنے والے رسول کی امید لگائے بیٹھے تھے وہ اس امید پر قائم رہے کہ جب تک کہ رسول نہ آ گیا یعنی جب وہ رسول آ گیا جس کی وہ امید کیا کرتے تھے تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہمیں تو کسی رسول کی امید نہیں تھی حالانکہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی کے معنے سوائے اس کے ہو ہی نہیں سکتے کہ پہلا مضمون دوسرے سے معلّق ہے جب تک دوسری حالت نہ ظاہر ہو جائے پہلی حالت بدل ہی نہ سکتی تھی- پس رسول کے آنے تک رُکے نہ تھے اِس آیت کے معنے ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اِن معنوں می تعلیق مشروط نہیں پائی جاتی بلکہ صرف ایک واقعہ کا اظہار ہے جو اِس قسم کی عبارت کے منافی ہے-
تعجب ہے کہ پرانے مفسرین میں سے بھی بعض نے یہی معنے کئے یہں حالانکہ وہ عربی زبان کے بڑے ماہر تھے اُن کا اس عربی عبار ت میں سے یہ معنے نکال لینا ایک حیرت کی بات ہے
(۸) آیت لَمْ یَکُن الخ کا ترجمہ کرنے میں بعض مفرسن کو ٹھوکر
مگر پھر خود ہی اُن کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ اگر اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ آنے والے نبی کے اظار سے یعنی اس عقیدہ کے اظہار سے ایک موعود رسول آنے والا ہے وہ نہیں رکے جب تک کہ نبی نہیں آ گیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں تو اہل کتاب کے ساتھ مشرکین کا بھی ذکر آتا ہے کیا مشرک بھی یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ایک رسول دنیا میں آنے والا ہے- پھر اس کا خود ہی انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ کچھ مشرک لوگ اہل کتاب کے اثر کے ماتحت یہ امید رکھتے تھے یکہ ایک رسول انے والا ہے- حالانکہ یہ عبارت ایسی ہے کہ اس سے ’’ کچھ‘‘ کا استنباط ہو ہی نہیں سکتا- تمام مشرکوں کو اہلِ کتاب کے ساتھ شریک کیاگیا ہے اس لئے یہ کہا ہی نہیں جا ستکا کہ یہاں بعض مشرکوں کا ذکر ہے اور بعض کا نہیں- قرآن کریم تو یہ کہاتا ہے کہ سب اہل کتاب اور
۲۷۱ آیت لَمْ یَکُن الخ کا صحیح ترجمہ
مشرک رُکنے والے نہیں تھے- پس اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ وُو اس اعلان سے نہیں رکے کہ ایک موعود آنے والا ہے تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ ہر مشرک یہ امید رکھتا تھا کہ رسول آئے گا حالانکہ یہ امر باالبداست باطل ہے- مشرکوں میں تو ایسے لوگ بھی تھے جو نزولِ الہام کے بھی قائم نہیں تھے کجا یہ کہ وہ کسی مامور کی بعثت کا انتظار کر رہے ہوتے- پھر اگر یہی معنے کئے جائیں کہ وہ ایک مامور کی اُمید سے نہیں رُکے جب تک کہ رسول اُن کے پاس نہیں آ گیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں لَمْ یَکُنْ مُنْفکِّیْنَ کے کیا معنے ہوئے؟ اس فقرہ کے تو یہ معنے ہیں کہ وہ رسول کے آنے کے بغیر اپنے مام سے اِدھر اُدھر ہل نہیں سکتے اور رسول کے آنے پر یہ کہتا کہ ہم کسی رسول کے منتظر نہیں تھے یا ہمیں کسی مامور کی امید نہیں تھی-
اس میں ہٹ نہ سکنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- رسول کی آمد کا انکار تو جو چاہے اپنے ارادہ سے کر سکتا ہے-
علاوہ ازیں یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس آیت کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ امر اول کا بدلنا منشاء الہٰی کے ماتحت ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ ایسا ہو جائے کیونکہ لِمْ یَکُنْ فَا عِلاً حَتّٰی کے معنے عربی زبان میں قائل کی اس خواہش کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ بہتر ہے کہ ایسا تغیر ہو جائے- لیکن جو معنے اُن مفسروں نے کئے ہیں اُن سے خدا تعالیٰ کی خواہش نہیں بلکہ عدم خواہش ظاہر ہوتی ہے کیونکہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ یہ لوگ رسول کی آمد کا انتظار چھوڑ دیں کیونکہ ایسا کرنا گمراہی ہے اور خدا تعالیٰ کسی کے گمراہ ہو جانے کو پسند نہیں کرتا- اُردو زبان میں بھی اس قسم کی عبارات کے معنوں پرغور کرو تو حقیقت کھُل جائے گی- اگر کوئی کہے کہ جب تک اُستاد نہ رکھا اس لڑکے اس کے بے شک یہ معنے ہیں کہ اُستاد رکھنے سے اُس نے پڑھا لیکن ساتھ ہی یہ امر بھی ظاہر ہے کہ کہنے والے کی خواہش بھی اس میں مخفی ہے کہ لڑکے کے پڑھ جانے کو وہ پسند کرتا تھا یہ نہیں کہ وہ پسند نہیں کرتا تھا اسی امر کو مد نظر رکھتے ہوئے ان مفسرین کے معنوں کو دیکھو تو اس آیت کا ترجمعہ اُن کے خیال کے مطابق یہ ہو گا کہ رسول آتا تب کہیں جا کر ان لوگوں نے رسول کی آمد کا انتظار چھوڑا اور ظاہر ہے کہ اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ کہنے والا چاہتا تھا- کہ یہ رسول کی آمد کا انتظار چھوڑ دیں اور ایسا خیال اللہ تعالیٰ
رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً Oلا
یعنی اللہ ( کی طرف )سے آنے والا ایک رسول جو (اُنہیں ایسے) پاکیزہ صحیفے پڑھ کر سُناتا ؎۳
کی نسبت سخت گستاخانہ خیال ہے
علامہ واحدی کہتے ہیں کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے ضلات وکفر کو ظاہر نہیں کیا اہل کتاب اور مشرک اپنے کفر سے بعض نہ آئے اور چونکہ اس مقام پر ان کے دل میں بھی نہ شبہ پید اہوا ہے کہ یہاں تو سب اہل کتاب اور مشرکین کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایمان لانے والے اہل کتاب اور مشرکوں کے بارہ میں ہے یعنی اہل کتاب میں سے کافر اور مشرکوں میں سے کافر نہ رکے یعنی ایمان حالانکہ یہاں صاف طور پر کَفَرُوْا کا لفظ آتاہے اگر ان کا خیال درست ہو تو یوں کہنا چاہیے تھا اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا کہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی پھر لکھتے ہیںوَھٰذِہِ الْاٰ یَۃُ مِنْ اَصْحَبِ مَا فِی الْقُرْاٰنِ نَظْمًا وَ تَفْسِیْراً وَقَدْ تَخَبَّطَ فِیْہِ الْکِبَا رُ مِنَ الْعُلَمَائِ وَ سَلَکُوْافِیْ تَفْسِیْرِ ھَا طُرُ قًا لَا تُفْضِیْ بِھِمْ اِلیَ الصَّوَابِ(فتح البیان) یعنی یہ آیت عبارت اور تفیسر کے لحاظ سے قرآن کریم کی مشکل ترین آیتوں میں سے ہے اور بڑے بڑے علماء اس میں ٹھوکریں کھاتے رہے ہیں اور انہوں نے اس کے معنے کریت ہوئے اس طریق استعمال اختیار کئے ہیں جو انہیں صحیح نتیجہ پر پہنچانے سے قاصر رہے ہیں -
جہاں یہ بات درست ہے کہ بعض علماء نے اس کے معنوں میں ادبی غلطیاں کی ہیں یعنی جو معنی نہیں ہو سکتے تھے وہ کر دیئے ہیں مثلاً یہ کہ یہود نے انتظارِ نبی کا چھوڑا جب تک نبی کا آ گیا وہاں علامہ وحدی کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے صحیح مطلب سمجھا ہے یہ بھی غلط ہے کیونکہ ان کے معنے بھی درست نہیں لَمْ یَکُنْ مُنْفَکِّیْنَ کے معنے ’’ وہ نہیں رُکے‘‘ کسی صورت میں بھی درست نہیں اس کے معنے ہمیشہ ’’ وہ رُکنے والے نہ تھے‘‘ کے ہوتے ہیں بہرحال اس آیت کے معنے سمجھنے میں دقتیں ضرور پیش آئی ہیں مگر یہ دقّتیں خود پیدا کردہ ہیں کیونکہ مُنْفَکِّیْنَ کے حقیقی معنوں کی طرف توجہ نہیں کی گئی - اگر سیاق عبارت سے اس کا مفہوم نکال لیا جاتا تو بات آسان ہو جاتی کَفَرُوْ کا لفظ پہلے گزر چکا تھا- اس لئے مُنْفَکِّیْنَ کے معنے یہی ہو سکتے تھے کہ مُنْفَکِّیْنَ عَنْ کُفْرِ ھِمْ -اگر َ عَنْ کُفْرِ ھِمْکو محدف نکال لیا جاتا تو معنوں کی دقتیں پیش نہ آتی اور مضمون بالکل ظاہر ہو جاتا-
۳ حل لغات-
طَََھَّرَہٗ کے معنے ہوتے ہیں جَعَلَہٗ طَا ھِرًا- اُس کو پاک کر دیا ( اقرب) کے لحاظ سے مُطَھَّرَۃٌ کے معنے ہوئے- ایسے صحیفے جو پاک کئے گئے ہیں اور چونکہ عربی زبان تَطْھِیْرَ ۃٌ کے معنے ہوئے - ایسے صحیفے جو پاک کئے گئے ہیں چونکہ عربی زبان میں تَطْھِیْرَ ۃٌ کا لفظ ختان کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس ذریعہ سے زائد چیزیں نکال دیتے ہیں اِس لئیمُطَھَّرَۃٌ کے یہ معنے ہوئے کہ اییس چیز جس میں زوائد نکال دیئے گئے ہوں- پس مُطَھَّرَۃٌ کے دو معنے ہوئے ایک یہ کہ جس میں سے گند نکالا یا گیا ہو اور دوسرے یہ کہ جس میں سے زوائد نکال دیئے گئے ہیں- اِسی طرح طَھَّرَ الشَّیْ ئَ بَاالْمَائِ کے معنے ہوتے ہیں غَسَلَہٗ اس کو پانی سے دھودیا- ( اقرب) اس لحاظ سے مُطَھَّرَۃٌ کے معنے ہوں گے دُھلے دُھلائے-
مفردات راغب میں لکھا ہے الطَّھَارَۃُ ضَرْ بَانِ
۲مُطَھَّرَۃٌ کے معنے امام راغب کے نزدیک
طہارت دو قسم کی ہوتی ہے طَھَارَۃُ جِسْمٍ وَطَھَارَۃُ نَفْسٍ ایک جسم کی طہارت اور ایک نفس کی طہارت - وَحُمِلَ عَلَیْھَا عَا مَّۃُ الاْیَاتِ اور قرآن کریم وہ تمام آیات جن میں طہارت کا لفظ آیا ہے وہاں یہ لفظ انہیں معنوں میں استعمال ہوا ہے
۲ عربی زبان میں صفائی اور پاکیزگی کے معنے ادا کرنے کے لئے سات الفاظ اور اُن کے استعمال میں فرق
وَقَوْلُہٗ فِیْ صِفَۃِ الْقُرْاٰنِ مَرْ فُوْ عَۃِِ مُّطَھَّرَ ۃِِ وَقَوْ لُہٗ وَ ثِیَا بَکَ فَطَھِّر- یعنی قران کریم میں دوسری جگہ صورت عبس میں جو مَرْ فُوْ عَۃِِ مُّطَھَّرَ ۃِِ کے الفاظ آتے ہیں یا صورئہ مدثر میں وَ ثِیَا بَکَ فَطَھِّرْ کے الفاظ آتے ہیںقِیْلَ مَعْنَاہُ نَفْسَکَ - فَنَفِّھَامِنَ الْمُعَائِبِ- ان دونوں کے معنے یہ ہیں کہ معائب سے اپنے نفس کو پاک کر - مفردات والے چونکہ اختصار سے کام لیتے ہیں اسی لئے انہوں نے دونوں آیتوں کے یکجا معنے کر دیئے ہیں اور ان کی مراد یہ ہے کہ یہی معنے مَرْفُوْ عَۃٍ مُطَھَّرَۃٍ کے بھی ہیں- یعنی بلند شان والا اور عیبوں سے پاک - وَ قَوْلَہٗ وَطَھِّرْ بَیْتَی وَقَوْ لُہٗ وَ عَھِدْ نَآ اِلیٰ اِبْر اھِیْمَ وَ اِسْمعِیْلَ اِنْ طِھِّرَ ا بَیْتِیْ فَحَثَّ عَلَیٰ تَطْھِیْرِ الْکَتَبَۃِ مِنْ نَجَاسَۃِ الْاَوْثَانِ یعنی قرآن میں جو آتا ہے کہ طَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّٓا ئِفِیْنَ وَالْقَآ ئِمِیْنَ وَالرُّ کَّعِ السُّجُوْدِ ( الحج ع۴،۱۱) یا دوسری جگہ فرمایا ہے وَعَھِدْ نَا اِلیٰ اِبْرِھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَ ا بَیْتِیْ للطَّآئِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعٍ السُّجُوْدِ ( البقرہ ع ۱۵) ان ہر دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ترغیب دلائی ہے کہ وہ کعبہ کو بتوں کی نجاست سے پاک کر دیں - پس تطہیر کے ایک معنے شر ک سے پاک کر نے کے ہوئے گویا لغت کی ان دونوں کتابوں کی رُو سے نجاست ظاہری اور نجاست باطنی دونوں کو دور کرنے کے لئے تطہیر کا لفظ استعمال ہوتا ہے معانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے مُطَّھْرَۃٌ کے پانچ معنے ہوئے-
مُطَّھْرَہ کے پانچ معنے
اوّل - نجاست ظاہری سے پاک
دوم- زوائد سے پاک
سوم- دُھلے دُھلائے
چہارم - طہارت باطنی رکھنے والے
پنجم- شرک سے پاک
عربی زبان میں پاکیزگی کے مفہوم کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہ یہ ہیں
نَظَا فَۃٌ - طَھَارَۃٌ- طِیْبَۃٌ- نَقَائٌ- زَکَا ئٌ - صَفَائٌ - نَذَا ھَۃٌ
اِن میں سے طہارت جسمی اور نفسی ہوتی ہے یعنی نجس کے مقابل پر یہ لفظ استعمال ہوتا ہے- قرآن کریم میں پانی کو طہور کہا گیا ہے لیکن اس کے مقابل میں مٹی کو طیب کہا گیا ہے چنانچہ فرماتا ہے- وَاَنْذَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآ ئًً طَھُوْرًا ( الفرقان ع ۳،۵)
مٹی کے متعلق فرمایا ہے کہ فَتَیَمَّمُوْاطَیِّباً ( المائدہ ع ۲،۶)
اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ تو فرمایا طِھِّرْ بَیْتِیَ ( الحج ع ۴،۱۱)
لیکن عربی محاورہ کے مطابق یہ نہیں کہا جائے گا طَیِّبْ بَیْتِیْ- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ (۱) طہارت میں خارجی نجاست کے دُور کرنے کی طرف اشارہ ہوتا ہے اسی طرح تطہیر کے خارجی نجاست خواہ جسمانی ہو یا روحانی اس کو دُور کرنے کے بھی ہوتے ہیں لیکن طِیْبَۃٌ کا لفظ ذاتی جوہر کی طرف اشارہ کرتا ہے خارجی نجاست کی طرف نہیں- چنانچہ تطَْھِّر کے معنے تو صاف کرنے کے ہوتے ہیں لیکن طیب کالفظ جب ایک عرب بولے کا تو خارجی نجاست کو دُور کرنے کے معنوں میں وہ اسی کبھی استعمال نہیں کرے گا بلکہ اس کے معنے مزیدار اچھا بنانے یا مزیدار یا اچھا پانے کے ہوتے ہیں چنانچہ طِیَّبَ الشَّیْ ئَ کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ اُس کے نجاست ظاہری دُور کر دی بلکہ طیب ہمیشہ مزیدار یا اچھا بنانے یا مزیدار یا اچھا پانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مثلاً طَیَّبَ اللَّحْمَ کے معنے ہوتے ہیں اُس نے گوشت اچھا پکایا اور اُسے مزیدار بنایا - یا اس کے معنے ہوں گے کہ اُس نے گوشت کو اچھا پایا کھانا کھایا تو کہا کہ کھانا بہت اچھا پکایا گیا تھا- یا خوب مزیدار تھا- اگر زمین پر بوٹی گر جائے تو ہم یہ تو کہیں کہ طِھِّرْ اِس بوٹی کو صاف کرو لیکن یہ نہیں کہہ سکتے طِیِّب - لیکن اچھا پکانے یا اچھا پانے کے مفہوم کو جب ہم ادا کرنا چاہیں گے تو اس کے لیے طِھِّرکا لفظ استعمال نہیں کریں گے- اسی طرح طیب کے معنی امن یا سکون دینے کے بھی ہوتے ہیں یعنی اصلاح ِنفس کے -
پس طِھَارَۃٌ اور طِیْبَۃٌ میں یہ فرق ہے کہ طہارت نجاست خارجی سے حفاظت پر دلالت کرتی ہے -مگر طیبہ ذاتی خوبی پر دلالت کرتی ہے جیسے مزاؔ - خوبصورتیؔ- مٹھاسؔ یا کسی چیز کا فائدہؔ بخش ہونا - ایک میٹھی اور مزیدار شے کو ہم طیب کہیں طاہر نہیں کہیں گے یامثلاً کوئی چیز خوبصورت ہو یا مفید ہو تو ہم اس کو طبیب تو کہیں گے مگر طاہر ؔنہیں کہیں گے - اسی طرح کسی چیز کو نجاست لگ جائے تو اس کو صاف کرنے کے لیے طاہر کہیں گے طیب نہیں- بہرحال طاہر تب کہیں گے جب نجاست ظاہری سے کسی چیز کو بچایا جائے- خواہ یہ نجاست جسمانی ہو یا روحانی- مثلاً ایک طاہرالقلب انسان ہو یعنی وساوس شیطانی سے پاک ہو تو اسے بھی ہم طاہر کہہ دے گے اور اگر کوئی شخص نہا دھو کر نکلا ہو تو اُسے بھی طاہر کہا جائے گا-
نظافت ؔبھی خارجی نجاست سے پاکیزگی کا نام ہے جیسے میل وغیرہ سے یا حسنُ و خوبصورتی کا مالک ہونے پر یہ لفظ دلالت کرتا ہے -کہتے ہیں نَظُفَ الشَّیْ ئُ میل کچل سے پاک تھی یا خوبصورت تھی لیکن کبھی یہ لفظ باطنی نجاست سے پاک ہونے کے لیے بھی بول لیا جاتا ہے - کہتے ہیں کہتے ہیں فُلَانٌ نَظِیْفُ الْاَ خَلَا قِ یعنی فلاں شخص مہذب ہے مگر یہ لفظ اخلاق کے لیے بولا جائے گا یا میل کچیل کے لیے-مزیدار یا لطیف کے نہیں بولا جائے گا اور صفائی کے لیے زیادہ تر ظاہر قسم کی صفائی کے لیے بولا جائے گا نہ کہ باطنی صفائی پر اسی طرح اخلاق کے لیے تو بولا جائے گا روحانی صفائی کے لیے نہیں اسی وجہ سے اس کے معنے طاہرؔ سے مختلف ہیں کہ وہ رُوحانی پاکیزگی اور نفسانی پاکیزگی پر زیادہ دلالت کرتا ہے - اس لفظ کو طیب سے اس امر میں مشارقت ہے کہ حسنُ و بہا کے لیے بھی نظافت کا لفظ آتا ہے- یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا مگر حدیث میں اصل معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے اور استعارۃً بھی استعمال ہوا ہے جیسے حدیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نَظِّفُوْااَفْوَاھَکُمْ اپنے مُونہوں کو پاک کیا کرو - اس جگہ پاک کرنے کے معنے یہ ہیں کہ جھوٹ فریب اور دغا وغیرہ کے اپنے آپ کو بچائو اور کہیں کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالو جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو- یہاں نظافتؔ کا لفظ استعارۃً استعمال ہوا ہے نہ کہ اصل ظاہری معنوں میں -
نِقَاء کا لفظ بھی قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا حدیث میں ہوا ہے- اس کے اصل معنے مغز نکالنے کے ہوتے ہیں اور ان معنوں کی رُو سے استعارۃً صفائی کے معنوں سے بھی استعمال ہونے لگ گیا ہے جیسے چھلکے کو دُور کر مغز نکلالتے ہیں یا ہڈی تو طور کر گودہ نکالتے ہیں- انہوں معنوں سے استدلال کر کے محاورہ میں نظیفؔ - حسین اور خالص نے معنے دینے لگ گیا ہے-
زُکٰوۃٌ کے اصل معنے اندرونی نجاست کے دُور کرنے کے ہوتے ہیں لیکن کبھی ظاہری صفائی کے معنوں میں بھی استعارۃً استعمال ہو جاتا ہے - قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے -
صفائٌ کے معنی ملائوٹ سے نجاست پانے کے ہوتے ہیں استعارۃ ظاہری صفائی کے لیے بھی استعمال ہو جاتا ہے-
نَزَاھَۃٌ کے معنے اصل میں تو دُور ہونے کے ہوتے ہیں لیکن محاورہ میں جو چیز گندگی اور فساد سے دُور ہو اُس کے لیے بھی یہ لفظ بولا جانے لگا ہے-
ان سب لفظوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ طاہرؔ سب سے اعلیٰ اور کامل لفظ ہے جو صفائی کے مفہوم کے لیے عربی زبان میں استعمال ہوتا ہے- کیونکہ اس ک معنی وسیع ہیں اور بظاہر و باطن دونوں حالتوں سے صفائی پر بیک وقت دلالت کرتا ہے- اور طیبؔ کی نسبت جو معنوں میں اس کے بہت زیادہ قریب ہے یہ زیادہ مضبوط ہے کیونکہ قران کریم نے اصل کے لیے طہارت اور نائب کے لیے طیب کا لفظ استعمال کیا ہے جیسے پانی کے متعلق یہ تو فرمایا ہے کہ مَآ ئََ طَھُوْ رًا ( الفرقان ع۵،۳)لیکن مٹی کی نسبت فرمایا ہے صَعِیْدًا طَیِّبًا ( المائدہ ع ۲،۶)
تفسیر-
اس سے پہلے یہ بتایا جا چکا ہے کہ اہل کتاب اور مشرک کفر کو کبھی چھوڑ ہی نہیں سکتے تھے جب تک ان کے پاس بینّہ نہ آ جاتی- بینّہ کے معنی جیسا کہ واضح اور جلی کے ہوتے ہیں پس-حَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیّنَُۃُ کے معنے یہ تھی-
بَیِّنَۃ کے معنے
کہ جب تک ایک واضح اور روشن چیز ان کے پاس نہ آ جاتی وہ کفر سے نکل نہیں سکتے تھے اور چونکہ بینّہ کے ایک معنی دلیل اور حجت کے بھی ہوتے ہیں اس لیے اس آیت کے یہ بھی معنے ہیں کہ جب تک اُن کے پاس دلیل اور حجت نہ آ جاتی وہ اپنے کفر سے باز رہنے والے نہیں تھے- اب اس آیت میں یہ بتاتا ہے کہ بینّہ سے مراد ہر دلیل نہیں کہ تم یہ خیال کر لو کہ دلائل اور براہین سے وہ اپنے کفر کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو سکتے تھے- اسی حکمت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے حَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیّنَُۃُنہیںفرمایا بلکہ حَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیّنَُۃُفرمایا ہے- یعنی بینّہ پر الف لام داخل کیا ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ایسی کفر و شرک کے زمانہ میں جب چاروں طرف معصیت کی تاریک گھٹائیں چھائی ہوں ہر دلیل کام نہیں آیا کرتی- جیسے اس زمانہ میں بھی بعض لوگوں سے سامنے جب حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ پیش کیا جاتا ہے
۱ حضرت مسیح موعود ؑ کی بعثت کی ضرورت
تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں آپ پر ایمان لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہمارے لیے قرآن کریم کافی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ بالکل غلط ہے ایسے زمانہ میں الْبَیِّنَۃ کی ضرورت ہوتی ہے الْبَیِّنَۃ سے ہماری مراد رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ ہے یعنی ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ کا رسول ہی دنیاکی اصلاح کر سکتا ہے کوئی کتاب لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہوتی جب چاروں طرف کفر پھیل جائے ،جب لوگ خدا تعالیٰ سے غافل ہو جائیں، جب اس سے محبت اور پیار کے تعلقات منقطع کر لیں تو خواہ ہو اہل کتاب ہی ہوں اُس وقت کوئی الہامی کتاب بھی ان کے کام نہیں آتی رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِکام آتا ہے- ایساشخص ہی لوگوں کی نجات کا باعث بن سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت اور نبوت و رسالت کے مقام کھڑا ہو اور اپنے قوت قدسیہ سے نفوس کو پاکیزہ کرنے کی استعداد رکھتا ہو- اگر یہاں صرف بینّہؔ کا لفظ ہوتا تو لوگ کہتے کہ بینّہ سے مراد کتاب ہے اور مطلب یہ ہے کہ کتاب لوگوں کی اصلاح کے لیے کافی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذکر کرنے کے بعد بینّہ کا ذکر کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اُن کے پاس کتاب موجود تھی مگر وہ ان کو کفر سے نہ بچا سکی- باوجود اہل کتاب ہونے کے ایسے گرے کہ کفار میں شامل ہو گے اسی لیے یہ سمجھنا کہ کتاب لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی ہوتی ہے بہت بڑی غلط فہمی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے موقع پر وہی دلیل کام آتی ہے رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ کی شکل میں ہو دوسری کوئی دلیل کام نہیں آیا کرتی خواہ کتاب موجود ہو، تحریف الحاق سے مبرّا ہوپھر بھی ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ خداتعالیٰ پر تازہ ایمان پیدا ہو، اس سے تازہ تعلق ہو، اس کی محبت اور پیار کے تازہ کرشمے ظاہر ہوں اور یہ بات بغیر نمونہ اور بغیر اللہ تعالیٰ کی نشانات کے حاصل نہیں ہو سکتی بے شک اس وقت کتاب تو ہوتی ہے مگر وہ بولتی نہیں لوگوں کے لیے اس کا وجود اور عدم وجود بالکل یکساں حیثیت رکھتا ہے مگر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی رسول مبعوث ہوتا ہے تو اُس کے ذریعے وہ کتاب پھر بولنے لگتی ہے، پھر اس کے انوار لوگوں کے قلوب کو گرماتے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار کرتے ہیں اور پھر ان کے ایمانوں میں ایک نئی تازگی پیدا ہو جاتی ہے-
اس آیت نے چکڑالویوں کا بھی ردّ کر دیا جو کہتے ہیں کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب قرآن لیکر آئے ہیں تو اس کے بعد کسی رسول کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے یہ خیالات بالکل غلط ہیں وسیع فساد کے وقت میں وہی دلیل کام آیا کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے رسول کی شکل میں ظاہر ہو کتاب لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہو سکتی- اُس وقت وہ بینہ کام آتی ہے رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ کی شکل میں ظاہر ہو کیونکہ یہ وقت محتاط ہوتا ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک زندہ وجود ظاہر جو اللہ تعالیٰ کے تازہ نشانات کو ظاہر کرنے والا ہو اس کی طرف سے نئے نئے نشانات دیکھانے والا ہو اُس کے محبت اور پیار کے خوابیدہ جذبات کو بیدار کرنے والا اور قلوب میں عشقِ الہٰی کی آگ کو بھڑکانے والا ہواور وہ دنیا پر یہ ظاہر کر سکتا ہوں کہ ہمارا خدا آج بھی ویسا ہی زندہ ہے جیسے پہلے زندہ تھا اب بھی ویسا ہی کلام کرتاتھا جیسے پہلے کلام کیا کرتا تھا اور اب بھی اپنے پیاروں کی تائید میں ویسے ہی نشانات دیکھتا ہے جیسے پہلے دیکھایا کرتا تھا- تب لوگوں کے دلوں کے تالے کھلتے اور ان کے اندر زندگی کے آثار پیدا ہونے شروع ہوتے ہیں اس کے بغیر ان کی روحانی زندگی کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہوتایَتْلُوْ اصُحُفًا مُّطَھَّرَۃً- مُطَھَّر کے معنے حل لغات میں آ چکے ہیں -
اوّل - عیب سے پاک
دوم - زوائد سے پاک
سوم- دھلا دھلایا
چہارم - ظاہری نفس سے پاک
پنجم - شرک س پاک
پسیَتْلُوْ اصُحُفًا مُّطَھَّرَۃً کے یہ معنے ہوئے کہ وہ ایسے صحیفے پڑھ کر سُناتا ہے کہ عیبوں سے پاک کیے ہوئے ہیں ان معنوں کی رُو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ (۱) پہلی کتابوںمیں بعض باتیں غلط اور اللہ تعالیٰ کے الہام کے خلاف مل گئیںتھیں اور وہ کتب اُس صورت میں باقی نہیں رہی تھیں جس صورت میں کہ وہ نبی پر اترائی گئیں تھیں اب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ اُن تعلیمات کو جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہ ہوئی تھیں بلکہ بعد میں لوگوں نے ان کتابوں میں ملا دی تھی دُور کر دیا اور اتنا حصہ تعلیم کا قران کریم میں نازل فرما دیا جو واقعہ میں خداتعالیٰ کی سے نازل ہوا تھا-گویا عیب سے پاک کیا ہوا کہ معنے ہیں کہ جو نقائص پہلی کتب میں پیدا ہو گئے تھے انہیں اس کتاب میں دُور کر دیا گیا ہے یا جو باتیں مل گئیں تھی ان کی اصلاح کی گئی ہے -
ایک معنے اس لحاظ سے بھی بنیں گے کہ گو بعض حصے پہلی کتابوں کے واقعہ میں الہامی ہیں لیکن موجودہ زمانہ کے لحاظ سے وہ قابل عمل نہیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو بھی چھوڑ دیا کیونکہ گو منبع کے لحاظ سے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں - مگر مُّطَھَّرَۃًکے زوائد سے پاک کے تھے اِن لحاظ سے اب خدا تعالیٰ نے انہیں منسوخ قرار دے دیا ہے- پس کامل کتاب میں اب اُن کا کوئی مقام نہیں ہے-
دوسرے معنے مُّطَھَّرَۃًکے زوائد سے پاک کے تھے ان کے لحاظ سے آیت کا یہ مفہوم تھا کہ ایسی باتیںجنہیں گو خراب تو نہیں کہا جا سکتا مگر وہ زوائد میں سے ہیں اُنہیں بھی قرآن کریم نے ترک کر دیا ہے پہلی چیز کی مثال ایسی ہے جیسے پہلے زمانہ میں شراب حرام نہ تھی اسلام نے شراب کو حرام قرار دے دیا- یا پہلے زمانہ میں سود کلیتًہ حرام نہ تھا لیکن قرآن کریم نے سُود کو کلیۃً حرام قرار دے دیا گیا- اور زوائد ؔکی مثال ایسی ہے جیسے پہلے زمانہ میں عبادت کے لیے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ خاص طور پر پاک کیے گئے مقام پر ہی عبادت ہو سکتی ہے
۲۷۱ صُحف کے مطہرہ ہونے کا مطلب
اور اس قسم کی شرطیں بھی تھیں کہ ایسے پردے ہوں - ایسا مکان ہو - یہ باتیں اپنی ذات میں بری تو نہیں لیکن عبادت کے لحاظ سے زوائد ہیں - ان سب قیّود کو اسلام نے اُڑا دیا- بے شک اسلام نے بھی ایک سیدھی سادی مسجد عبادت کے لیے مقرر فرمائی ہے- لیکن اُس کو عبادت کے لیے ضروری قرار نہیں دیا ہے- اگر مسجد نہ ہو تو تب بھی مسلمان کی عبادت ہو جاتی ہے- مگر یہود و نصاری کی عبادت کے لیے ایک خاص مقام اور ایک خاص قسم کی تیاری کی قید تھی جو اسلام میں نہیں کیونکہ قرآنی تعلیم مختون ہے یعنی اس میں سے زوائد کاٹ دیئے گئے ہیں صرف ضروری امور کو لے لیا گیا ہے-
تیسرے معنے مطہر کے دھلے ہوئے کے ہیں - دھلی ہوئی چیز اصل چیز سے علیحدہ نہیں ہوتی صرف اصل چیز پر جو خارجی اثرات ہوتے ہیں ان میں تبدیلی پیدا کر دی جاتی ہے- ان معنوں کے لحاظ سے مُطَھَّرَ ۃً کا مفہوم یہ ہو گا کہ وہ فقہی پیچیدگیاں جو یہودیوں یا عیسائیوں نے پیدا کر دی تھیں ان سے قرآن کریم نے نجات دلائی ہے- یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب بھی کسی مذہب پر لمبا زمانہ گزر جاتا ہے اُس کے ساتھ فقہی پیچیدگیاں شامل ہو جاتی ہیں- فقہ کی اصل غرض تو یہ ہوتی ہے کہ جو مسائل اہل کتاب میں نص نے طور پر نہیں آئے ان کا استخراج کیا جائے- لیکن آہستہ آہستہ جب فقہ میں ضعف آتا ہے خود اصل مسائل میں تصرّف شروع ہو جاتا ہے- اسی قسم کی نقائص کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو اباحت کی طرف لے جاتے ہیں اورکچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو ظاہر کی طرف انتہا درجہ کی شدت کے ساتھ بلاتے ہیں یہی حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کا تھا اگر یہودیوں کے سزاکی تعلیم پر بے انتہا زور دیا تھا- تو عیسائیت نے نرمی کی تعلیم پر بے انتہا زور دے دیا- اب یہ دونوں مسائل ہی ضروری تھی لیکن یہودی فقہ اور عیسائی فقہ نے ان دونوں کو الگ الگ احکام کی شکل میں بدل دیا- جب اسلام آیا تو اس نے اس پیچیدگی کو بالکل دور کر دیا اور غلط فقہ کا تعلیم پر جو اثر تھا اس کو دھودیا مثلاً اسلام نے بھی کہا ہے کہ دانت کے بدلے دانت آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان - مگر اسلام نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہی عفو بڑی اچھی چیز ہے تمہیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے اسی طرح اسلام نے بھی یہی کہا کہ نرمی اور عفو بڑی اچھی چیز ہے مگر ساتھ ہی کہا کہ فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اﷲِ(الشوریَ ع۴،۵) اُسی وقت عفو جائز ہے جب عفوکے نتیجہ میں مجرم کی اصلاح کی امید ہو اگر یہ خیال ہو عفو کہ مجرم کو اور بھی بگاڑ دے گا اور اُسے بُرے اعمال پر اور زیادہ جرت دلا دے گا تو اس وقت عفو سے کام لینا تمہارے لیے جائز نہیں غرض یہودی تعلیم میں زور کہ ضرور دانت کے بدلہ میں دانت توڑو - آنکھ کے بدلہ میںآنکھ پھوڑواور کان کے بدلہ میں کان کاٹو فقہ کا ہی نتیجہ تھا اور نہ موسیٰؑ کی تعلیم میں یہ بات نہ تھی اسی طرح عیسائیت کی تعلیم میں یہ بات کہ تم ضرور معاف کرو اور اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اسکی طرف پھیر دو فقہ کی وجہ سے ہی تھی- مگر حضرت مسیحؑ تو صاف کہتے ہیں کہ میں تورات کو بدلنے کے لیے نہیں آیا- جب وہ تورات کو بدلنے کے لیے نہیں آئے تو اُس کے قانون سزا کو وہ کلیتہً کس طرح مٹا سکتے تھے-
غرض وہ فقہی پیچیدگیاں جو یہودیوں اور عیسائیوں نے پیدا کر دی تھیں اور غلط فقہ کی وجہ سے جو نقائص رونما ہو گئے تھے قرآن کریم نے ان سب کو دُور کر دیا ہے اور یہی قرآن کریم کا مطہرّ یعنی دُھلا دُھلایا ہونا ہے- کہ اُس نے ایسی تعلیم دی جو ہر قسم کی پیچیدگیوں سے پاک ہے-
چوتھے معنے مُطَھَّرَ ۃٌ کے ہیں ظاہری نقصوں سے پاک - ظاہری نقاص میں سے سب سے بڑا قص زبان کا ہوتا ہے کیونکہ کتاب کا ظاہر اُس کی زبان ہی ہوتی ہے اس لحاظ سے مُطَھَّرَۃٌکے معنے یہ بنیں گے زبان کے نقصوں سے پاک ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا انکار دشمنانِ اسلام نے بھی نہیں کیا ناذو نادر کے طور پر کوئی غیبی دشمن یا ایسا دشمن جو انصاف کوبالکل نظر انداز کر چکا ہو قرآن کریم کی زبان میں اعتراض کر دے تو اور بات ہے ورنہ بالعموم اُن عیسائیوں اور یہودیوں نے بھی جو عرب کے رہنے والے تھے قرآن کریم کی زبان کی تعریف کی ہے اور یورپین مصنف جو غیر متعصّب ہیں انہوں نے بھی اس کی زبان کی داد دینے سے گریز نہیں کیا مُطَھَّرَ ۃٌ میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم زبان کے نقصوں سے پاک ہے نہایت لطیف اور فصیح زبان میں نازل ہوا ہے اور پڑھنے والے کو حسنِ زبان سے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے -
ظاہری نقصوں سے پاک کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ زبان میٹھی اور دلکش ہو یعنی ظاہری نقص سے پاک ہونا ایک تو یہ ہے کہ زبان میں کوئی نقص نہ ہو تقیل الفاظ نہ ہوں- غیر طبعی محاورات نہ ہوں- دوسرے یہ بھی ظاہری نقص سے پاک ہونے کی علامت ہے کہ زبان شیریں اور دل کش ہو- کہ خوبی بھی قرآن کریم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اُس کی عبارت ایسی لطیف ہے کہ پڑھنے والا یہ نہیں سمجھتا کہ میں نثر پڑھ رہا ہوں یا نظم پڑھ رہا ہوں- ایک عیسائی مصنف نے قرآن کریم کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہیں ایک بڑی لطیف بات لکھی ہے وہ کہتا ہے قرآن کریم کا ترجمہ جب ہماری زبان میں کیا جاتا ہے- تو عام طور پر لوگ اس کے متعلق کہ دیا کرتے ہیں کہ یہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا وہ کہتا ہے قرآن کریم کا ترجمہ سمجھ میں آ کس طرح سکتا ہے اُس کا سٹائل ایسا ہے کہ نہ اُسے نثر کہا جا سکتا ہے نہ نظم- جب تک اس کے سٹائل کو مدِّ نظر نہ رکھا جائے اُس کے معنے کو پوری طرح سمجھا نہیں جا سکتا- پھر ایک ظاہری نقص فحش کلامی کا ہوتا ہے مگر قرآن کریم اِس نقص سے بھی کلیۃً پاک ہے - اُسے مضامین وہ ادا کرنے پڑتے ہیں کہ بعض دفعہ بغیر الفاظ کے ننگا ہونے کے اُن کو ادا نہیں کیا جا سکتا مگر قرآن کریم ان تمام مقامات پر سے ایسی عمدگی سے گذر جا سکتا مگر قرآن کریم ان تمام مقامات پر سے ایسی عمدگی سے گذر جاتا ہے کہ مطلب بھی ادا ہو جاتا ہے اور طبعِ نازک پر گراں بھی نہیں گذرتا- اس کے مقابلہ میں ویدوں اور بائیبل وغیرہ میں بعض دفعہ ایسی باتیں آ جاتی ہیں کہ اُن کا پڑھنا بالکل نا ممکن ہو جاتا ہے ویدوں میں ایک منتر آتا ہے کہ فلاں بزرگ پیدا ہونے لگا تو چونکہ گندی جگہ سے گزرنے سے اُس نے انکار کر دیا پیٹ پھاڑ کر اُسے نکالا گیا- اِس قسم کے الفاظ انسان کی طبیعت پر سخت گراں گذرتے ہیں مگر اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ویدوں میں ایسے منتر موجود یہں جن میں فحش کلامی پائی جاتی ہے- اِسی طرح بائیبل کے متعلق خود عیسائیوں نے اعتراف کیا ہے کہ اُس کے بعض حصّے ایسے گندے یہں کہ اُن کا پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو تو وہ حصے پڑھا ہی نہیں سکتے مگر قرآن کریم میں کوئی بات ایسی نہیں جس سے حّسِ لطیف کو کوئی صدمہ پہنچتا ہو-
پھر ایک ظاہر ی نقص کلام میں دل آزاری کا پایا جاتا ہوتا ہے- پڑھنے والا جب کسی ایسی کتاب کو پڑھتا ہے جس میں دوسروں کی دل آزاری سے کام لیا گیا ہو تو وہ بُرا مناتا اور اُس کا قلب سخت اذّیت محسوس کرتا ہے مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے جس میں کسی قوم کی دل آزاری نہیں کی گئی اور اگر کسی جگہ مجبوراً قرآن کریم کوبعض سخت الفاظ استعمال بھی کرنے پڑے ہیں تو وہاں اُس نے کسی کا نام نہیں لیا صرف اصولاً ذکر کر دیا ہے کہ بعض انسان ایسے ہوتے ہیں - یہ نہیں کہا کہ مکّہ والے ایسے ہیں یا یہودی ایسے ہیں یا عیسائی ایسے ہیں- اس کے مقابل پر جب دوسری الہامی کتب کو دیکھا جاتا ہے تو اُن میں یہ نقص نمایاں طور پر نظر آتا ہے- حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق ہی انجیل میں آتا ہے کہ اُنہوں نے فریسیوں اور فقہیوں سے جب انہوں نے نشان کا مطالبہ کیا تو کہا کہ اس زمانہ کے بد اور حرامکار لوگ مجھ سے نشان مانگتے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ یونس نبی کے نشان کے سوا اَور کوئی نشان نہیں دکھایا جائے گا- اِن الفاظ کو آج بھی یہودی پڑھتے ہوں گے تو سمجھتے ہوں گے کہ بد کار اور حرامکار وغیرہ الفاظ ہمارے باپ دادوں کے متعلق ہی استعمال کئے گئے ہیں یا مثلاًحضرت مسیح ؑ نے اپنے دشمنوں کو سانپ اور سانپوں کے بچے قرار دیا ہے اور انجیل میں یہ الفاظ آج تک موجود ہیں- یہودی جب بھی یہ الفاظ پڑھتے ہوں گے اُن کے دل دُکھتے ہوں گے یہ سخت الفاط ہمارے آباء کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں- وہاں کسی کا نام نہیں لیا بلکہ اشارۃً ذکر کر دیا ہے کہ بعض لوگوں میں یا بعض قوموں میں یہ یہ نقائص پائے جاتے ہیں یا فلاں فلاں اخلاقی خرابیاں اُن میں موجود ہیں- دشمن اِن الفاظ کو پڑھتا ہے تو اُس کے دل پر چوٹ نہیں لگتی وہ فوراً کہہ دیتا ہے کہ میں تو ایسا نہیں یہ اَور لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے پس قرآن کریم کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ اُس میں دل آزاری کی کوئی بات نہیں-
مُطَھَّرَۃًکے لفظ سے باطنی خوبی کی طرف بھی اشارہ ہے ایک کتاب کی بڑی باطنی خوبی یہی ہو سکتی ہے کہ جب مطالب کا بیان کرنا ضروری ہو اُس میں اُن کو پوری طرح بیان کر دیا جائے کسی قسم کا نقص اُن کے بیان کرنے میں نہ رہ جائے- یہ خوبی بھی قرآن کریم میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے- اُس نے جس مضمون کو بھی لیا ہے - ایسی عمدگی سے ادا کیا ہے کہ اُس میں کسی قسم کا نقص ثابت نہیں کیا جا سکتا-
غرض قرآن کریم مطالب مقصودہ کے بیان کرنے سے قاصر نہیں- جو مطلب اُس نے لیا ہے اُس پر سیر کن بحث ایسی زبان میں کر دی ہے کہ ہر پڑھنے والا اسے سمجھتا ہے اور ہر مضمون کو ایسا کھول دیا ہے کہ حد ہی کر دی ہے- یہ خوبیاں بظاہر معمولی ہیں لیکن قوموں کی اصلاح اور اُن کی بیداری کے لئے اتنی اہم ہیں کہ ان کے بغیر مقصد میں کامیابی ہو ہی نہیں سکتی- یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے سب سے زیادہ دنیا کی اصلاح کی ہے-
باطنی گند سے پاکیزگی کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اُس کی تعلیم پاک ہو- کوئی خلافِ فطرت بات اس میں شامل نہ ہو-یہ امر بھی قرآن کریم میں انتہا درجہ تک پایا جاتا ہے اور ہر شخص جو قرانی تعلیم پر ادنیٰ سا بھی تد بّر کرے اُسے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کتاب میں کوئی بات ایسی نہیں جو خلافِ فطرت ہو- دوسری کتابوں کو پڑھو تو اُن میں کئی ایسی باتیں آ جاتی ہیں جو خلافِ فطرت ہوتی ہیں-
پھر قرآن کریم کی ایک یہ خوبی ہے کہ اُس میں ہر فطرت کے مطابق تعلیم پائی جاتی ہے- کسی قسم کا انسان ہو جب بھی قرانی تعلیم اُس کے سامنے پیش کی جائے وہ اُس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا- انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کے مادّے رکھے ہیں کہیں غصّے کا مادّہ اُس میں پایا جاتا ہے، کہیں رحم کا مادّہ اُس میں پایا جاتا ہے، یہ دونوں مادے اپنی اپنی جگہ پر نہایت اہم اور ضروری ہیں پس کامل کتاب وہی ہو سکتی ہے جو ہر قسم کی فطرت کو ملحوظ رکھ کر تعلیم دے- اگر وہ ہر فطرت کو ملحوظ نہیں رکھتی تو یہ لازمی بات ہے کہ سب انسانوں کی پیاس اُس کتاب سے نہیں بجھے گی اور جس فطرت کے خلاف اُس کتاب میں کوئی تعلیم پائی جائے گی وہ فطرت اُس سے بغاوت کرے گی- مثلاً وہ شخص جس کی طبیعت میں غصّے کا مادہ زیادہ ہے جب وُہ انجیل میں پڑھتا ہے کہ اگر کوئی شخص تیرے گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے تو ناک بھوں چڑھا کر کہتا ہے کہ یہ بھی کوئی کتاب ہے یہ تو زنخوں کی کتاب ہے اِس پر کون عمل کر سکتا ہے- اس کے مقابل میں جب ایک رحم دل انسان بائیبل کی یہ تعلیم پڑھتا ہے کہ دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان تو وہ گھبرا کر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے یہ خدا کی کتاب نہیں ہو سکتی جس میں اس قدر سخت دلی کی تعلیم دی گئی ہے- مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے جس میں ہر فطرت کے تقاضا کو ملحوظ رکھا گیا ہے- سخاوت کا مضمون آتا ہے تو ایک سخی کا دل اُس سے تسلی پا کر اٹھتا ہے- اگر اقتصادیات سے دلچسپی رکھنے والا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اپنے مال کو اس طرح نہیں لٹنا چاہیے کہ قوم کمزور ہو جائے تو وہ جب قرآن کریم میں پڑھتا ہے کہ مال بھی خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے- اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے تو اقتصادی آدمی بھی تسلی پا کر اٹھتا ہے اور وہ کہتا ہے ضرور ایسا ہی ہونا چاہیے- یہی سمت ہے جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ کتابِ مکنون میں ہی یعنی گو اس کی ایک نقل آسمانی کاتبوں نے انسانی دماغوں پر بھی لکھ دی ہے- فطرت انسانی جن چیزوں کا تقاضا کرتی ہے وہ سب قرآن میں ہیں اور قرآن جن چیزوں کا حکم دیتا ہے وہ سب انسانی فطرت میں موجود ہیں گویا اِس کی ایک کاپی انسانی دماغ پر لکھی ہوئی ہے اور ایک کاپی قرآن کریم کے اوراق پر لکھی ہوئی ہے- اِسی لئے جب کوئی شخص سمجھ کر اور عقل سے کام لے کر قرآن کریم پڑھتا ہے تو اُسے یوںمعلوم ہوتا ہے کہ کہیں باہر سے حکم نہیں مل رہے بلکہ اُس کے دل کی آواز کو خوبصورت لفظوں میں پیش کیا جا رہا ہے گویا قرآن کریم کوئی نئی شریعت بیان نہیں کرتا بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اگر گرامو فون کی سوئی انسان کے دماغ پر رکھ دی گئی ہے اور وہ انسان فطرت کی تحریروں کو لفظوں کی زبان میں بدل کر رکھتی جاتی ہے- کوئی حکم گراں نہیں گذرتا، کوئی تعلیم نا مناسب معلوم نہیں ہوتی- کوئی لفظ طبیعت میں خلجان پیدا نہیں کرتا بلکہ ہرلفظ اور ہرحرف ایک حکیم ہستی کی طرف سے نازل شدہ معلوم ہوتا ہے-
پھر مُطَھَّہرَۃً کے دونوں معنوں کے لحاظ سے یعنی صفائی کے لحاظ سے اورشرک سے پاک ہونے کے لحاظ سے ایک اَور بھی لطیف مناسبت اِس آیت میں پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس سورۃ میں دو قوموں کا ذکر ہے- اہل ایک کتاب کا اور دوسرے مشرکین کا- اہل کاتاب کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں اہل کتاب کی کتابوں کے نقائص دُور کئے گئے ہیں اور مشرکوں کے لحاظ سے اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس کتاب میں شرک کے بیخکنی کر دی گئی ہے گویا ظاہری صفائی کے معنے اہل کتاب کے لحاظ سے ہیں اور باطنی صفائی کے معنے مشرکوں کے لحاظ سے ہیں- پس دوسرے معنے اس کے اہل کتاب اور مشرکین کی نسبت سے ہیں اور وہ یہ کہ جس طرح اہل کتاب اور
فِیْہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ O
جن میںقائم رہنے والے احکام ہوں ؎۴
مشرکوں کی اصطلاح کے لئے یہ کتاب آئی ہے- اسی طرح اہل کتاب کے لئے اِس میں اُن کتب کو پاک و صاف کر کے بیان کیا گیا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم جس طرح شرک سے پاک ہے اُس کی مثال دنیا کی اور کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی اور یہی اصلاح کا صحیح طریق ہے- حقیقی اصلاح کبھی بھی دو ٹوک اعلان بغیر نہیں ہوا کرتی- یہ ایک عام فلسفانہ مسئلہ ہے کہ جب کبھی نقص بڑھ جاتا ہے اس کے لیے ریڈیکل چینجز RADICAL CHANGESیعنی غیر معمولی انقلاب کی ضرورت پیش آتی ہے- شرک کے خلاف غیر مصالحانہ رنگ جیسا قرآن کریم نے اختیار کی اہے اور کسی کتاب نے اختیار نہیں کیا- وہ کوئی لپٹی نہیں رکھتا اسی وجہ سے دوسری سب اقوام شرک کے ازالہ میں ناکام رہی ہیں صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جہ اس کے ماننے والے ہی شرک سے نہیں بجے بلکہ اُس کی تعلیم کی وجہ سے اُس کے ہمسایہ قومیں بھی شرک سے نفرت کا اظہار کرنے لگی ہیںعیسائیت کیسا مشر کا نہ مذہب ہے لیکن اسلامی تعلیم کے زیر اثر کے نیچے مشرک سے مشرک عیسائی بھی کہتا ہے کہ ہمارے مذہب میں کوئی شرک نہیں پایا جاتا- وہ اپنے مذہب کو تو نہیں چھوڑتا مگر کم سے کم شرک کا لفظ اب اُسے بھیانک نظر آنے لگ گی اہے اور وہ اتنا کہنے پر ضرور مجبور ہو گیا ہے کہ ہم مشرک نہیں ہیں- اسلام ہندوستان میں آیا تو اُس نے بتیس کروڑ دیوتا ماننے والے لوگون میں برہموئوں اور آریہ سماج کی شکل میں تبدیل کر کے ایک خدا کا اعلان کرنے پر مجبور کر دیا پس حق یہی ہے کہ صُحفِ مُطہّرہ وہی اہل کتاب اور مشرکوں کی اصلاح کر سکتے تھے اور یہ اُنہی کا کام تھا کہ ایک طرف سابق نبیوں کی اُمّتوں کو اُن کے پاک شدہ تعلیم دے کر پاک کر یں اور دوسری طرف غیر مصالحانہ انداز میں توحید کی تعلیم پیش کر کے شرک کو دُور کریں- پس قرآن کریم کا یہ دعویٰ بالکل سچ ہے - لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ مَنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّنَ حَتّٰی تَاْ تِیَھُمْ الْبَیِّنَۃُ oرَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْ اصُحُفًا مُّطَھَّرَۃً- ممکن ہی نہیں تھا کہ اہل کتاب اور مشرکین اپنے کفر سے باز آتے یہاں تک کہ انکے پاس ایک روشن دلیل آ جاتی کیسی روشن دلیل؟ اللہ کی طرف سے آنے والا ایک رسول جو ایک طرف تو اپنے عمل سے خدا تعالیٰ پر ایمان پیدا کرتا اور دوسری طرف ایسے صحیفے پڑھتا جو یہودیوں اور عیسائیوں اور دوسرے اہل کتاب کے سامنے اُن کی مسخ شدہ تعلیموں کو پاک کر کے رکھ دیتے اور تیسری طرف مشرکوں کے مشرکانہ عقیدوں کو سخت حملوں کے ساتھ کچل ڈالتا-
۴؎ حل لغات- قَیِّمَۃ - قَیِّمٌ کے معنے متولّی کے قِیِّمَۃ ہوتے ہیں چنانچہ لغت میں لکھا ہے کہ اَلْقَیِّمُ عَلَی الْاَمْرِ مُتَوَلِّیْہِ یعنی جب یہ کہا جائے کہ فلاں کام پر فلاں شخص قیم ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ اُس کا متولی ہے- وَھِیَ قَیْمَۃٌ اور اگر کوئی عورت متولّیہ ہو تو اُسے قَیِّمَۃٌ کہا جائے گا-
وَالْقَیِّمَۃُ: اَلدِّ یَا نَۃُ الْمُسْتَقِیْمَۃُ - اور قَیمہ کے ایک معنے ایسے مذہب کے بھی ہوتے ہیں جس میں کوئی کجی بہ پائی جاتی ہو- ( اقرب)
مفردات میں لکھا ہے دِیْناً قَیِّمًا اَیْ ثَابِتًا مُقَوِّمًا لاُِ مُوْ رِ مَعَا ثِھِمْ وَ مَعَادِ ھِمْ یعنی قیّم کے معنے
۲ قَیِّمَۃ کے معنے امام راغب کے نزدیک
ہیں ثابت رہنے والا دین- غیر مترلزل دین جو لوگوں کی معاش اور اُن کی معاد کو ٹھیک کردینے والا ہو- پھر کہتے ہیں یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌ فَقَدْ اَشَارَ بِقَوْلِہٖ صُحُفاً مُّطَھَّرَۃً اِلَی الْقُرْاٰنِ وَبِقَوِ
لِہٖ صَحُفاً مُّطَھَّرَۃً اِلیَ الْْقُرٰانِ
وَبِقَوْلِہٖ کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ اِ لیٰ مَا فِیْہِ مِنْ مَعَا نِیْ کُتُبِ اﷲتَعَالیٰ فَاِنَّ الْقُرْاٰنِ مَجْمَعُ ثَمَرَۃِ کُتُبِ اﷲِ تَعَالیٰ فَاِ نَّ الْقُرْ اٰنَ مَجْمَعُ ثَمَرَۃِ کُتُبِ اﷲِ تَعَالیٰ الْمُتَقَدَّ مَۃِ یعنی یہ جو قرآن کریم میںآتا ہے کہ فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ اِن الفاظ سے اللہ تعالیٰ اِس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ
وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوالْکِتٰبَ اِلَّا مَنْ بَعْدِ مَا جَٓا ئَ تْھُمُ الْبَیِّنَۃٌ oط
اور( عجیب بات یہ ہے ) جن لوگوں کو ( قرآن مجید جیسی مکمل ) کتاب دی گئی ہے- ۱؎ وہ اس واضح دلیل ( یعنی رسول) کے آنے کے بعد ہی ( مختلف گروہوں میں ) تقسیم ہوئے ہیں ۵؎
سابق الہامی کتب کے جس قدر مطالب ہیں وہ اس میں آ گئے ہیں کیونکہ قرآن کریم گذشتہ تمام الہٰی کتب کا مجموعہ ہے گویا فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ کے معنے یہ ہیں کہ وہ سب تعلیمیں جو گذشتہ انبیاء کے زمانہ میں نازل ہوئی تھیں اُن میں سے ایسی تعلیمیں جو قائم رہنے کے مستحق تھیں اور نبی نوع انسان کی معاش اور اُن کے معاد کو درست کرنے والی تھیں اور ساری کی ساری تعلیمیں قرآن کریم میں آ گئی ہیں-
تفسیر - قَیّمَۃٌکے معنے متولّی اور مستقیم کے بیان کئے جا چکے ہیں اُن معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے-
۲۱۱ قرآن مجید میں کُتَبٌ قِیِّمَۃ ہونے سے مراد
اوّلؔ اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ قرآن کریم میں ایسے احکام ہیں جو انسان کے متولی ہیں- متولی اُس کو کہا کرتے ہیں جو دوسرے کا اصلاح کرتا ہے، اُس کی نگرانی کا فرض ادا کرتا ہے، اُس کی حفاظت کرتا ہے اور اُس کی قوتون کو صحیح کاموں میں صرف کرتا ہے- پس فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌ کے یہ معنے ہوں گے کہ قرآن کریم میں ایسے احکام پائے جاتے ہیں جن سے بنی نوع انسان کو ہر قسم کی ذلّت اور خرابی اور نقص سے بچایا جاتا ہے- اُنکی صحیح تربیت کی جاتی ہے اور اُنہیں اپنے قویٰ کو بہتر سے بہتر طور پر استعمال کرنے کا طریق بتایا جاتا ہے گویا فطرتِ انسانی کو ہر قسم کے نقص سے بچانے اور اپنی طاقتوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ طور پر ظاہر کرنے کا کام وہ سکھاتا ہے-
(۲)اِسی طرح فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌ کے یہ معنے ہونگے کہ وہ ایسا مذہب پیش کرتا ہے جو ہر قسم کی کجروں اور خرابیوں سے پاک اور سیدھے راستے پر لے جانے والا ہے-
(۳) اور فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌْْکے یہ بھی معنے ہوں گے کہ وہ انسان کی تمام ضرورتوں کو خواہ اِس دنیا سے تعلق رکھنے والی ہوں خواہ مرنے کے بعد کی زندگی سے تعلق رکھنے والی ہوں پوارا کرتا ہے اور اس میں ایسی تعلیم پائی جاتی ہے جو بدلنے والی نہیں قائم رہنے والی اور ثابت رہنے والی تعلیم ہے- گویا صحفِ مطہرہ میں تو زیادہ زور پچھلی تعلیموں کی خرابیوں کو دور کرنے اور شرک سے بچانے پر تھا اور فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌمیں اس بات پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور اس میں ایسی تعلیم ہے جو آئندہ دائمی طور پر انسان کے لئے ضروری ہو گی اور غیر متزلزل اور اور غیر متبدل ہو گی-
مفردات راغب کے معنوں کے لحاظ سے فِیْھَا کُتُبٌ قَّیِّمَۃٌکے ایک یہ بھی معنے ہوں گے کہ اس میں وہ تمام تعلیمات آ گئی ہیں جو مستقل اور ہر زمانہ کے لئے تھیں اور پہلی کتب میں بیان ہو چکی ہیں- گویا گذشتہ تعلیموں میں سے جس قدر اچھی تعلیمیں تھیں وہ سب کی سب اس میں آ گئی ہیں-
۵؎ تفیسر- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی تھی متفرق نہیں ہوئے مگر اُس وقت جب اُن کے پاس بینہ آئی جب وہ رسول آ گیا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے تب انہوں نے تفرقہ کیا یہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے مخاطب اہل کتاب کی یعنی قرآن کریم کے نازل ہونے کے وقت جو اہل کتاب دنیا میں موجود تھے اُن کی ایک عجیب حقیقت بیان کی ہے فرماتا ہے قرآن کریم آتا تو اس لئے تھا کہ اُن کو غلط رستوں اور غلط تعلیموں سے بچا کر ایک نقطہ پر لا کر جمع کر دے مگر ان لوگون نے بجائے اس کے کہ قرآن کریم کی تعلیم سے فائدہ اٹھاتے ، اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرتے ، اپنی کتابوں میںشامل ہو جانے والی غلط تعلیموں سے
نوٹ:۱؎ تفسیر میں اِس آیت کی جو تشریح کی گئی ہے- اس کے علاوہ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اس سورۃ کی پہلی آیت میں جو یہ دعویٰ کیا گیا تھا اہل کتاب اور مشرک کبھی اپنے کفر کو چھوڑ کر توحید پر قائم نہ ہو سکتے تھے جب تک اُن کے پاس آنحضرت صلعم مبعوث ہو کر نہ آجاتے- اس دعویٰ کی دلیل میں اس آیت کو پیش کیا گیا ہے- یعنی بتایا گیا ہے کہ دیکھو آنحضرت صلعم کی بعثت کے بعد مشرکین اور اہل کتاب میں سے دو فریق ہو گئے - ایک گروہ تو اپنے کفر اور شرک کو چھوڑ کر توحید پر قائم ہو گا اور ایک مخالف راہ اختیار کر کے پہلی حالت پر قائم رہا- گویا قرآن مجید جس مقصد کے لئے آیا تھا کہ ایک حصہ اہل کتاب اور مشرکین کا اس کے ذریعہ کفر سے نکل آئے وہ واقع ہو گیا-
متنبہ ہو جاتے اُلٹا قرآن کریم کی مخالفت شروع کر دی اور صداقت سے اَور بھی زیادہ بدکنے لگ گئے یعنی جب تک یہ تعلیم نہیں آئی اُس وقت تک اگر یہ غلطی میں مبتلا رہے تو خیر معذور بھی سمجھے جا سکتے تھے جب اُنہیں سچائی مل گئی تھی تب تو انہیں صحیح راستے پر چل پڑنا چاہیے تھا مگر تعلیم آنے کے بعد یہ اور زیادہ سچائی کے مخالف ہو گئے- قرآن کریم سے پہلے تویہ لوگ کہہ دیا کرتے تھے کہ الہام بھی ہو سکتا ہے- انسان اللہ تعالیٰ کا مقرب بھی ہو سکتا ہے - نبی اور رسول بھی بن سکتا ہے مگر جب قرآن آتا تو اس بات پر زور دینے لگ گئے کہ موسیٰؑ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا حالانکہ پہلے یہودی خود زور دیا کرتے تھے کہ موسیٰؑ کی پیشگوئی کے مطابق ایک ایسا وجود آنے والا ہے جو آتشی شریعت اپنے ساتھ رکھتا ہو گا- یہی حال عیسائیوں کا تھا عیسائی بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پہلی اور دوسری بعثت کے درمیانی عرصہ میں فارقیط آئے گا- مگر جب وہ موعود آ گیا جس کی موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کی پیشگوئیوں میں خبر دی گئی تھی تو انہوں نے کہہ دیا کہ کوئی فارقیط نہیں آئے گا بجائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اِس انعام پر کہ اُس نے گذشتہ انبیاء کی پیشگوئیوں کو پورا کرتے ہوئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا صداقت اور ہدایت کے قریب آتے، جو صداقتیں پہلے مانتے تھے اُن کو بھی انہوں کے چھوڑ دیا-
ایسا ہی نقشہ موجودہ زمانہ میں نظر آ رہا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بعثت کے قریب زمانہ میں مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی جو مدرسہ دیو بند کے بانی تھے اپنی کتاب میں نہایت وضاحت سے لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد غیر تشریعی نبی آ سکتا ہے مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام یہی بات پیش کرتے ہیں تو مولوی محمد قاسم صاحب کے شاگرد دیوبندی علماء کہتے کوئی نبی نہیں آ سکتا رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد دروزہ نبوت کلیۃً مسدود ہو چکا ہے اب نہ شرعی نبی آ سکتا ہے نہ غیر شرعی نبی آ سکتا ہے- غرض اُنہی کے شاگرد اور اُنہی کے مدرسہ میں پڑھتے ہوئے اُن باتوں کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمائیں اور جب کی تصدیق خود اُن کی اپنی کتب سے ہوتی ہے-
اسی طرح حضرت مسیح علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعویٰ سے پہلے بڑے بڑے مولوی منبروں پر کھڑے ہو کر ایسے اشعار پڑھا کرتے تھے جن میں یہ ذکر ہوتا تھا کہ عیسیٰؑ بھی مر چکا اور موسیٰؑ بھی- مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وفاتِ مسیحؑ کا مسئلہ پیش کیا تو تمام علماء کو اپنی باتیں بھول گئیں اور وہ یہ شور مچانے لگ گئے کہ عیسیٰ زندہ ہے عیسٰی زندہ ہے-
اسی طرح یا تو ایک زمانہ میں سارے مسلمانوں کی غفلت اور اُن کی سُستی کا اصل
۲۱۱ بینّہ آنیکے بعد اہل کتاب کے متفرق ہونے کا مطلب
باعث یہ تھا کہ اُن کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور تمام کفار کے اموال لوٹ کر ہمارے سپرد کر دیں گے اور ہم بڑے آرام سے زندگی بسر ہمارے سپرد کر دیں گے اور ہم بڑے آرام سے زندگی بسر کریں گے اور اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ دعویٰ کیا کہ میں ہی مسیح موعود ہوں اور میں ہی وہ مامور ہوں جس کی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی تو مسلمانوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ کسی عیسیٰ نے نہیں آنا قرآن میں تواِس قسم کی کوئی خبر ہی نہیں اور اگر حدیثیں کہتی ہیں تو وہ غلط ہیں- غرض یا تو پہلے تمام قوم کی بنیادی اس امر پر تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور ہمارے گھروں کو زرد وجواہر سے بھر ویں گے اور یا آج یہ حالت ہے کہ وہ اُن تمام پیشگوئیوں سے منکر ہو گئے ہیں جو مسیح موعود کے متعلق پائی جاتی ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں کسی مسیح کی ضرورت نہیں- پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا تَفَرَّ قَا لَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتَابَ اِ لاَّ مِنْ بَعْدِ مَا جَآ ئَ تْھُمُ الْبَیِّنَۃُ- چاہیے تھا کہ قرآن کریم کے نازل ہونے پر وہ اُن تعلیموں پر غور کرتے جو محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم اُن کے سامنے پیش کر رہے ہیں- مگر ہوا یہ کہ جتنا حق وہ پہلے مانتے تھے اُس کو بھی انہوں نے چھوڑ دیا اور صداقت سے اَور بھی دُور چلے گئے-
وَمَٓا اُمِرُٓوْ اِ لاَّ لِیَعْبُدُو االلّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ۵حُنَفَآ ئَ وَیَقِیْمُو الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْ تُوا الذَّکٰوۃَ وَ ذَلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ oط
حالانکہ (جو لوگ ایمان نہیں لائے)انہیں ( اس رسول کے ذریعہ بس ) یہ ہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی اس طرح عبادت کریں کہ اطاعت صرف اُسی کے لئے رہ جائے ( اس حال میں کہ) وہ اپنے نیک میلانوں میںثابت قدم رہنے والے ہوں اور ( پھر صرف اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ) نماز با جماعت ادا کرتے رہیں اور زکوۃ دیں اور ( ہمیشہ صداقت پر ) قائم رہنے والی جماعت کا دین ہے- ۵؎
۶؎ حل لغات:
مُخْلِصِیْنَ : اَخَلَصَ سے اسم فاعل کا جمع کا صیغہ ہے اور اَخَلَصَ سے باب اِفْعَال ہے- خَلَصَ الشَّیْ ئُ خُلُوْ صََا وَ خَلَا صََا کے معنے ہیں صَا وَ خا لِصََا کوئی شے خالص ہو گئی- خالص کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جس میں کوئی غیر چیز ملی ہوئی نہ ہو اور جب خَلَصَ مِنَ التَّلَفِ کہا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں نَجَا بچ گیا وَسَلِمَ اور سلامت رہا- اور خَلَصَ الْمَآ ئُ مِنَ الْکَدَرِ کے معنے ہوتے ہیں صَفَاکے جو معنے ہیں وہ حقیقی نہیں یعنے جب خَلَصَ الْمَا ئُ مِنَ کَدْرِ کہتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ پانی میں کدر آتا ہی نہیں- اور خِلَصَ اِلَیْہِ وَ بِہِ الشَّیْ ئُ کے معنے ہوتے ہیں وَصَلَ وہ چیز اس تک پہنچ گئی - یعنی جب یہ کہیں کہ خَلَصَ فَلَا نٌّ اِلَیْہِ یا خَلَصَ فُلَا نٌّ بِہِ تو یہ دونوں کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ پہنچ گیا- انہی معنوں میں عربی زبان کا یہ فقرہ ہے کہ خَلَصْتُ بِمُسْتَوِیْ مِنَ الْاَ رْضِ میں سے میدان میں پہنچ گیا ( اقرب) اسی طرح اَخْلَصَ السَّمْنُ کے معنے ہوتے ہیں اَخَذَ خُلَا صَتَہٗ گھی کا خالص حصہ الگ کر لیا اور اَخْلَصَ فِیْ الطَّاعَۃِ کے معنے ہوتے ہیں تَرَکَ الّرِ یَائَ اُس نے دیاء چھوڑ دیا- اور اَخْلَصَ لَہُ النَّصِیْحَۃَ وَالحُبَّ کے معنے ہوتے ہیں خَلَـصَھُما عِنِ الْغِشِّ- اُس نے نصیحت اور محبت میںکسی قسم کا فریب یا کھوٹ نہیں رکھا- اور اَخْلَصَ الشَّیْ ئَ کے معنے ہوتے ہیں اِخْتَارَہٗ اس کو چُن لیا ( اقرب)
مفردات والے لکھتے ہیں اَلْخَا لِصُ کَا لصَّا فِیْ - خالص کے معنے بھی وہی ہوتے ہیں جو صافی کے ہوتے ہیں اِلاَّ اَنَّ الْخَالِصَ ھُوْ مَا زَالَ عَنْہُ شَوْبُہٗ بَعْدَ اَںْ کَانَ فِیْہِ ہاں خالص اور صافی میں یہ فرق ہے کہ خالص اُس کو کہتے ہیں جس میں ملاوٹ کو الگ کر لیا گیا ہو بَعْدَ اَنْ کَانَ فِیْہِ ایسی حالت میں جب کہ اُس کے اندر پہلے ملاوٹ موجود ہو- وَالصَّافِیْ قَدْ یُقَالُ لِمَا لَا شَوْبَ فِیْہُ اور صافی دونوں کے لئے بولا جاتا ہے اُس کے لئے بھی جس میں ملاوٹ کبھی ہوئی ہی نہیں پھر لکھتے ہیں کہ یہ قرآن مجید میں آتا ہے- وَنَحْنُ لَہٗ مُخلِصُوْنَ اس کا مطلب ہے اِخْلَاصُ الْمُسْلِمِیْنَ اَنَّھُمْ مِنَ التَّشْبِیْہِ وَ النَّصَارٰی مِنَ التَّثْلِیْثِ- ہم ہر شرک اور تشبیہ سے بچے ہوئے ہیں نہ شرک جلی کرتے ہیں اور نہ شرکِ خفی- اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن اس کے معنے بھی یہی ہیں نَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ کے ہیں- اور آیت اِنَّہٗ کَانَ مُخْلِصاً الخ میں اِخْلَاص کا مطلب ہے اَلتَّبَرِّیْ عَنْ مُخْلِصاً الخ میں اِخْلَا ص کے مطلب ہے اَلتَّبَرِّیْ عَنْ کُِلِّ مَا دُوْنِ اﷲِ تَعْالیٰ یعنی کامل توحید کے سوا ہر چیز
۱؎ ذٰلِکَ دِیْنَ القیمۃ کاجو حرف محذوف ہے یعنی الملۃ القیمہ یعنی قائم رہنے والی جماعت چونکہ مخدوف کو ظاہر کئے بغیر ترجمہ درست نہ ہوتا تھا اس نے مخدوف کو ظاہر کر دیا گیا-
جب انسان تبّری کر لے اور کہے کہ مَیں سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا تو وہ مخلص کہلاتا ہے-
اَلدِّیْنُ : وَانَ کا مصدر ہے اور دَانَ (یَدِیْنُ دِیْناً وَ دَ یَانَۃً ) الرُّجُلُ کے معنے ہیں عَزَّ- وہ عزت پا گیا- اور وَانَ الرُّجُلُ کے یہ بھی معنے ہیں کہ ذَلَّ وہ ذلیل ہو گیا ماتحت ہو گیا- اور دَانَ کے معنے اَطَاعَ کے بھی ہیں اور عَصَیٰ کے بھی ہیں گویا یہ حروفِ اضداد میں سے ہے یعنی اُلٹ معنے بھی اس میں پائے جاتے ہیں اس کے معنے اطاعت کے بھی ہیں اور اس کے معنے نا فرمانی کے بھی ہیں- اس طرف اس کے معنے عزت کے بھی ہیں اور ذلت کے بھی یا بڑے کے بھی ہیں اور چھوٹے کے بھی- اسی طرح اس کے معنے اطاعت کے بھی ہیں اور نا فرمانی کے بھی اور دَانَ کے یہ بھی معنے ہوتے ہیں کہ اِعْتَادَ وہ عادی ہو گیا- یہاں بھٰ اس کے معنے اپنے اندر اضداد کا رنگ رکھتے ہیں یعنی اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ اِعْتَادَ خَیْرًا وہ خیر کا عادی ہو گیا اور اس کے معنے ہیں کہ اِعْتَادَ شَرًّا وہ شر کا عادی ہو گا- اور دَانَ کے معنے بیمار ہوجانے کے بھی ہیں چنانچہ لُغت میں اس کے معنے یہ لکھے ہیں کہ اَصَا بَہُ الدَّائُ اُسے بیماری لگ گئی اور دَانَ فُلاَنُ فَلَانًا کیم معنے ہوتے ہیں خَدَمِہٗ اُس کی خدمت کی یعنی دوسرے کا خادم بن گیا اور دَانَ فُلانٌ کے معنے مَلِکُہٗ کے بھی ہیں یعنی اُس کا مالک ہو گیا اور دَانَ کے معنے حَمَلَہٗ عَلیٰ مَا یَکْرَ ہُ کے بھی ہوتے ہیں یعنی جس چیز کو وہ پسند نہیں کرتا اُس پر مجبور کیا اور دَانَ فُلانٌ کے معنے اِسْتَعْبُدَہٗ کے بھی ہوتے ہیں یعنی اس کو غلام بنا لیا اور یہ بھی معنے ہیں کہ حَکَمَ عَلَیْہِ اُس پر حکم چلایا- اور دَانَ فُلَانٌ کے معنے اَذَلَّہٗ کے بھی ہوتے ہیں یعنی اس کو اپنے ماتحت کر لیا چنانچہ حدیث میں آتاہے اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ - ہوشیار وہ ہے جس نے اپنے نفس کو تابع کرلیا اور موت کے بعد کے زمانہ کے لئے عمل کیا ( مفردات)
ان معنوں کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ دِیْنٌ جو مصدر ہے اس کے اُوپر کے مصدری معنوں کے علاوہ اور کیا معنے ہیں
۱ الدّین
لُغت میں دِیْنٌ کے کئی معنے لکھے جو نیچے لکھے ہیں درج کئے جاتے ہیں
(۱) اَلْجَزَائُ وَالْمُکَفَاۃُ- بدلہ (۲) الطَّاعَتُہ- اطاعت اور فرمانبرداری (۳) اَلْحِسَابُ - محاسبہ کرنا (۴) اَلْقُھْرْ وَالْغَلَبَۃُ وَ الاِسْتِعَلاَئُ - یہ تینوں الفاظ اعربی زبان میں غلبہ کا مفہوم ادا کرنیح کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور ان تینوں میں بہت تھوڑا تھوڑا فرق ہے- ( اَلسُّطَانُ وَ الْمُلْکَ وَ الْحُکَمْ- بادشاہت اور حکومت- اَ لسُِیْرۃُ طبیعت ( ۷) اَلتَّدَ بِیْرُ تدبیر کرنا- (۸) اِسْمٌ لِجَمِیْعِ مَا یُعْبَدُ بِہِ اﷲُ- دین نام ہے اُن تمام طریقوں کا جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے - مثلاً مسلمانوںمیںنمازپڑھنا- یا حج بیت اللہ کے لئے جانا اللہ تعالیٰ کی عبادت سمجھا جاتا ہے یہ طریق عبادت عربی زبان کے لحاظ سے دین کہلائے گا اسی طرح ہندوئوں کے طریق عبادت میں جو بھی شکل ہو وہ دین کہلائے گی عیسائیوں کے طریق عبادت میں جو بھی شکل ہو وہ دین کہلائے گی یہودیوں کے طریق عبادت میں جو بھی شکل ہو دہ دین کہلائے گی یہودیوں اور زرتشیوں وغرہ کے طریق عبادت میں جو بھی شکل ہو وہ دین کہلائے گی - گویا عبادت ِالہٰی خواہ کسی بھی طریق سے کی جائے اُس کا نام دین ہوتا ہے- (۹) اِلْمِلَّۃُ - طریقہ (۱۰)اَلْوَرَعُ بزرگانہ اعمال جن سے روحانیت کو ترقی حاصل ہوتی ہے- (۱۱)اَلْحَالُ - حال (۱۲)اَلْقَضَائُ- فیصلہ(۱۳)اَلْعَادَۃُ- عادت (۱۴)اَلشّانُ اس کے معنے بھی حالت کے ہی ہوتے ہیں مگر اچھی حالت کے- قرآن کریم میں بھی شانؔ کا لفظ استعمال ہوا ہے- جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کُلٌّ یُوْمٍ حُوَفِیْ شَاْنٍ (الرحمن ع ۲،۱۲) کہ ہر روز اللہ تعالیٰ ایک نئی شان میں ہوتا ہے-
حُنَفآ ئَ۲
حُنَفآ ئَ:حَنِیْفٌ کے جمع ہے جو حَنَفَ سے صفت مشبہ ہے اورحَنَفَ الشَّيْ ئُ حَنْفاً کے منعے ہوتے ہیں مَالَ کوئی چیز اپنی جگہ سے جُھک گئی اور حُنِیْفٌ کے معنے ہیں اَلصَّحِیْعُ الْمَیْلِ اِلیَ الْاِسْلَامِ الثَّابِتُ عَلَیْہِ - خدا تالیٰ کی اطاعت اورفرمانبرادری کے طرف سچا ذوق اور اُس پر ثابت قدمی گویا اس کے صرف اتنے معنے نہیں کہ انسان کے اندر نیکی کی طرف میلان پایا جائے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اُسے کی نیکی پر ثبات حاصل ہو- اور اُس کے اندر استقلال کامادہ پایا جاتا ہو- محاورہ میں کُلٌّ مَنْ کَانَ عَلیٰ دِیْنِ اِبْرَاھِیْمَ کے معنوں میں حنیف کا لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی ہر وہ شخص جو دینِ ابراہیم پر ہو محاورہ میں اُسے حنیف کہا جاتا ہے اور جماسی کا قول ہے کہ اَلْحَنِیْفُ اَلْمَائِلُ عَنْ دِیْنٍ اِلیٰ دِیْنِِ- یعنی ایک دین سے دوسرے دین کی طرف جو شخص مائل ہوا اُسے حنیف کہتے ہیں وَاَصْلُہٗ مِنَ الْحَنَفِ فِی الرِّجْلِ اور اصل میں وہ کجی جو کسی بیماری یا چوٹ کے نتیجہ میں بعض دفعہ انسانی پائوں میں واقع ہو جاتی ہے اُس پر یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے- مگر پھر اسی بناء پر جو شخص اپنے جدّی دین کو بدلنے کی طرف مائل ہو جائے اُسے بھی حنیف کہہ دیا جاتا ہے وَفِی الْکُلِّیَّاتِ فِیْ کُلِّ مَوْ ضِعٍ مِنَ الْقُرْاٰنِ اَلْحَنِیْفُ مَعَ الْمُسْلِمِ فَھُوَ الْحَآجُّ نَحْوَ وَلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمََا- کلیاتِ ابو البقاء میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں بھی حنیف کا لفظ مسلم کے لفظ کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے وہاں اس کے معنے حاجی کے ہوتے ہیں جیسے کَانَ حَنِیْفََا مُسْلِمََا کے یہ معنے ہوتے ہیں کَانَ حٓا جّاً مُسْلِمًا وہ حج کرنے والا مسلم تھا- وَ فِیْ کُلِّ مَوْ ضِعٍ ذُکِرَ وَحْدَہٗ فَھُوَا لْمُسْلِمُ نَحْوَ حَنِیْفاً لِلّٰہِ اور ہر موقع پر جہاں اکیلا یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے وہاں اس کے معنے مسلم کے ہوتے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے َ حَنِیْفاً لِلّٰہِ یعنی مُسْلِمًا لِلّٰہِ پھر لکھا ہے وَالْحَنِیْفُ اَیْضاً: اَلْمُسْتَقِیْمُ یعنی حنیف کے ایک معنے سیدھے راستہ پر چلنے والا کے بھی ہوتے ہیں ( اقرب)
کلیات نے جو یہ معنے کئے یہں جہاں حنیف کالفظ مسلم کے ساتھ استعمال ہووہاں اس کے معنے حاجی کے ہوتے ہیں یہ محض زبردستی ہے- جہاں تک میں نے آیات قرآنیہ پر غور کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ قرآنی محاورہ کے مطابق حنیف اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو سارے نبیوں کو ماننے والا ہو اور شرک کا کسی رنگ میں ارتکاب کرنے والا نہ ہو- قرآن کریم کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن دونوں میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی اُس شخص کو بھی حنیف کہا گیا ہے جو شرک سے کامل طورپر مجتنب ہو- گویا حُنَفَائَ وہ ہیں جو سارے نبیوں کو ماننے والے اورکسی سچائی کا انکار کرنیوالے نہ ہوں اور مشرک نہ ہوں ان میں ایک معنے مثبت کے لحاظ سے ہیں ار ایک معنے منفی کے لحاظ سے- سارے نبیوں کو ماننا مثبت پہلو ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات اور اُس کے صفات میں کسی کو شرک نہ ٹھہرانا یہ منفی پہلو ہے غرض میرے نزدیک قران کریم میں جہاں کَانَ حَنِیْفاً مُسْلِمًا کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہاں حنیف کالفظ حاجی کے معنوں میں نہیں بلکہ تمام انبیاء پر ایمان رکھنے والے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور مسلم کا لفظ اعمالِ صحیحہ کو بجا لانے والے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے درحقیقت قرآن کریم پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں اسلام کالفظ دو معنوں کے لحاظ سے استعمال ہوتا ہے کہ اُس میں اسلام بمعنے ظاہر بھی اور اسلام بمعنے اعمالِ صحیحہ بھی- پس قرآن کریم میں جہاں حنیف اور مسلم کے الفاظ اکٹھے استعمال ہوئے ہیں وہاں میرے نزدیک اس کے معنے یہ ہیں کہ عقیدہ میں بھی راسخ اور عمل میں بھی کامل- گویا ساری صداقتوں کو ماننے والا اور پھرتمانیک باتوںپر عمل کرنے والا-
تفسیر- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَآ اُمِرُٓوْا الاَّ لِیَیْبُدُوْاﷲَ- اور اُن کو کوئی حکم نہیں دیا گیا سوائے اس کے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ- دین کو اُسی کے لئے خالص کرتے ہوئے دین کے ایک معنے جیسا کہ اُوپر بتایا جا چکا ہے اطاعت کے ہوتے ہیں اور یہاں کے علاوہ دوسرے معنوں کے جن کے تفصیل آگے بیان کی جا ئے گی ایک یہ معنے بھی چسپاں ہوتے ہیں کہ وہ اپنی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خالص کردیں یعنی اُن کے پیر - اُن کے پنڈت اُن کے پادری- ان کے کاہن- اُن کے راہب اور اُن کے بڑے برے عالم اُن سے اپنی غلامی کرا رہے تھے اور اس طرح دنیا میں انسانیت کی انتہائی تذلیل ہو رہی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر یہ نہیں کیا کہ اُنہیں اپنی غلامی کی طرف بلوایا ہو یا کہا ہو کہ اپنے پنڈتوں اور پادریوں اور مولویوں کو چھوڑ کر تم میرے غلام بن جائو بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو صرف اتنا کہا کہ تم اِن غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر خالص اللہ کے غلام بن جائو- یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر اُن کو غصّہ آتا یا اُن کی طبائع میں اشتعال پیدا ہو جاتا- اُنہی کی بہبودی کے لئے محبت اور پیار کے ساتھ اُنکے سامنے ایک بات پیش کی گئی تھی مگر بجائے اس کے کہ وہ اس پر غور کرتے اور اپنے نیک تغّیر پیدا کرتے اُنہیں غصہ آ گیا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر قسم کی تدابیر سے کام لینے لگ گئے- دنیا میں جب کوئی شخص کے فائدہ کی بات کہتا ہے تو دوسرا ممنون احسان ہوتا ہے کہ میں غلطی میں مبتلا تھا مگر فلاں نے مجھے آگاہ کر کے ہلاکت سے بچالیا- مگر ان نادانوں کی یہ حالت ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے جب آ کر کہا کہ آئو میں تمہیں اُس غلامی سے نجات دُوں جس کا تم مدّتوں سے شکار ہوچکے ہو- وہ اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ اﷲِ جو تم نے بنائے ہوئے ہیں اُن سے تمہارے جسموں اور رُوحوں کو آزاد کرائوںَ تم اپنے پیروں کو سجدہ کرتے ہو، تم اُن کے پائوں کو ہاتھ لگاتے ہو، تم اُن کو اپنی حاجات کا پورا کرنے والا سمجھتے ہو اور اس طرح نہ صرف انسانیت کے شرف اور اُس کی عظمت کو بٹّہ لگاتے ہو- بلکہ اُس خدا کی بھی توہین کرتے ہو- جو تمہارا خالق اور مالک ہے - مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث فرمایا ہے کہ میں تمہیں خالص اللہ تعالیٰ کا غلام بنا دُوں تو بجائے اس کے کہ وہ نصیحت سے فائدہ اُٹھاتے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ڈنڈے لے کر کھڑے ہو گئے کہ تم دین کو خراب کرتے ہو-
وَمَا اُمِرُوْ کے معنے بعض نے یہ کئے ہیں کہ ان لوگوں کی کتب میں ہی حکم دیا گیا تھا مگر اس جگہ یہ معنے چسپاں نہیں ہوتے اِن الفاظ سے اِس جگہ یہ مراد ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیم پیش کی اُس میں سوائے اس کے کیا حکم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور خالص اُسی کی اطاعت کرو اور اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اﷲِ کی غلامی ترک کر دو- کیا یہ حکم ایسا تھا کہ وُہ بُرا مناتے یا ایسا تھا کہ وہ اس پر خوش ہوتے اور دوڑتے ہوئے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو جاتے؟ اس حکم کے ذریعہ عیسائیوں کو اپنے پادریوں سے آزادی حاصل ہو رہی تھی اور مشرکین کو اپنے کاہنوں سے آزادی حاصل ہو رہی تھی مگر بجائے اس کے کہ وہ خوش ہوتے اُلٹا ناراض ہو گئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو کچلنے کے لیے کھڑے ہو گئے-
درحقیقت اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبوت کی ضرورت
نبوت کی ضرورت ۲
بتائی ہے کہ جب تمہارے عقلی اور ذہنی قویٰ میں اس درجہ انحطاط رُونما ہو چکا ہے کہ تم یہ بھی سمجھ نہیں سکتے کہ تمہارا اپنا فائدہ کس بات میں ہے تو اگر ایسی گری ہوئی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری اصلاح کے لئے کوئی نبی نہیں آئے گا تو کب آئے گا-نبی آنے کا وہی وقت ہوتا ہے جب قومی تنزّل اِس قدر بڑھ چکا ہوتا ہے- کہ لوگوں کو بُرے بھلے کی بھی تمیز نہیں رہتی- ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبِرِّ وَ الْبَحَرِ ( الروم ع ۵،۸) کی کیفیت دنیا میں پورے طور پر رُونما ہو جاتی ہے اور رُوحانی اور اخلاقی قوتیں بالکل مردہ ہو جاتی ہیں- مگر باوجود اس قدر تنزل اور ادبار کے وہ سمجھتے یہ ہیں کہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت نہیں- پس فرماتا ہے جب تمہاری حالت یہ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اگر تمہارے فائدہ کی بھی کوئی بات کرتے ہیں تو تم اُن سے لڑنے لگ جاتے ہو- تو یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نبی کے آنے کی اشدضرورت ہے اگر اب بھی نبی نہ آتا تو تم لوگ بالکل تباہ ہو جاتے- پس وَمَآ اُمِرُوْ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْاﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے ایک معنی یہ ہیں کہ اُنہیں سوائے اس کے کیا حکم دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے دین کو خالص کر و- یعنی اس سے پہلے یہ اقوام رہبان اور کہان اور اساقف کی غلامی کر رہی تھیں، امراء کی فرمانبرداری میں جانیں گنوا رہی تھیں- اسلام نے آ کر انہیں نجات دی مگر بجائے شکر گزار ہونے کے اَور دُور چلے گئے اور اپنے محسن سے لڑنا شروع کر دیا-
اب میں تفصیل کے ساتھ ان معنوں کے لحاظ سے جن کو اُوپر بیان کیا گیا ہے اِس آیت کا الگ الگ مفہوم بیان کرتا ہوں-
مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کا مطلب مختلف معانی کے مطابق جو لُغت بتائے گئے ہیں یہ ہوا کہ اُنہیں صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ
اوّل ااطاعت اللہ تعالیٰ کی کریں ( کیونکہ دِیْن کے ایک معنے اطاعت کے بھی ہیں) دوسروں کی اطاعت کا اِس میں کوئی شائبہ نہ ہو- اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی اطاعت جائز نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ
(الف) خداتعالیٰ کی اطاعت بندوں کی خاطر نہ کریں بلکہ خداتعالیٰ کے لئے اپنی اطاعت کو خالص کر دیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت خدا ہی کی خاطر کریں بندوں کی خاطر نہ کریں- دُنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی اطاعتِ الہٰی محض لوگوں کے ڈر سے ہوتی ہے -
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے پہلے معنے خداتعالیٰ کی اطاعت خدا تعالیٰ کی خاطر کرنا-
وہ احکام الہٰی پر اس لئے عمل نہیں کرتے کہ خدا یوں فرماتا بلکہ اس لئے اُن پر عمل کرتے ہیں کہ اُن کی قوم یا رسم یا رسم و رواج اس کا مطالبہ کرتا ہے مثلاً عیسائی گرجے جاتا ہے اِس لئے نہیں کہ خدا نے حکم دیا ہے بلکہ اس لئے کہ اگروہ گرجے میں نہ جائے تو اُس کی قوم برا مناتی ہے یا اگر یہودی اپنی عبادت گاہ میں جاتا ہے یا ہندو مندر جاتا ہے یا مسلمان مسجد میں جاتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اُس کا عبادت گاہ میں جانا یامندر میں جانا یا مسجد میں جانا اس لئے جانا نہیں ہوتا ہے کہ خدا کا حکم ہے عبادت کرو بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ اُس کی قوم اُس سے یہ امید رکھتی ہے - اِسی طرح بہت سے احکام پر انسان رواجاً عمل کرتا ہے یا اپنی نسانی خواہش کے مطابق عمل کرتا ہے مثلاً خدا نے کہا ہے کہ کمزور پر رحم کرو اور اپنے ساتھ تعاون کرنے والے کو نیک بد لہ دو- یہ دونوں حکم ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں اور ان دونوں حکموں کے ماتحت بچوں سے نیک سلوک اور بیویوں سے حُسن معاملت یا دوستوں کے ساتھ نیک معاملہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے - مگر کتنے لوگ ہیں جو اس لئے اپنی دوست کے ساتھ نیک معاملہ کرتے ہیں یا بچوں کی تربیت کرتے ہیں- یا عورتوں سے حسنِ معاملہ کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے اکثر لوگ یا تو طبعی جذبات کے ماتحت ایسا کرتے ہیں یا دوسرے لوگوں کو نیک رائے حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں- اسی طرح غریبوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے - یا یتیموں اور بیوائوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم یا گیا ہے ہر مذہب میں ہے مگر کتنے عیسائی یا یہودی یا ہندو یا آج کل کے مسلمان ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ایسا کرتے ہیں اکثر ایسے ہی ہیں جو لوگوں میں نیک نامی حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں جب تک انسان اس مرض میں مبتلا ہوتا اور جتنا جتنا حصہ اس مرض میں مبتلا رہتا ہے اُس وقت تک اور اُسی حد تک اُس کا دین ناقص ہوتا ہے کیونکہ اُس کادل روز مرہ کے کاموں میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلکہ دوسرے لوگوں کی طرف جھکا رہتا ہے اور وہ حقیقی محبت جو انابت الی اللہ سے پیدا ہوتی ہے اُس کے دل میں پیدا نہیں ہوتی- اور پھر وہ سمجھے نہ سمجھے، مانے نہ مانے مشرک بھی ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کاحصّہ لوگوںکو دیتا ہے- اِسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے مُنہ میں بھی ایک لقمہ اِیْمَاناً وَ اِحْتِسَاباً ڈالتا ہے تو وہ ایک لقمہ ڈالنا خدا تعالیٰ کی کتاب میں اُس کے لئے صدقہ کے طور پر لکھا جاتا ہے بیوی الگ خوش ہوگئی، اُس کی محبت کا جذبہ الگ پورا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کے رجسٹر میں اُس کا نام نیک اعمال بجالانے والوں میں لکھا گیا- یہی اصل تمام دوسرے کاموں پر بھی چسپاں ہوتا ہے- اسلام دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کا حکم دیتا ہے خدا ہی کا ہو جانے کی تعلیم دیتا ہے لیکن اکثر لوگ دنیوی کام کرنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں پھر یہ حکم کس طرح پورا ہو سکتا ہے؟ اُسی طریق سے جس کی طرف رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے اُوپر کے حکم میں اشارہ فرمایا ہے- یعنی اپنے دینوی کاموں کو بھی خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اُس کی خوشنودی کے لئے کرے- اِس طرح اس کا ہر کام عبادت بن جائے اور جبکہ وہ ظاہر میں دنیا کا کام کرتا ہوا نظر آئے گا اس کا ہر کام عبادت ہو جائیگا یہی نکتہ تصوف کی جان ہے اور تصوف کی بنیاد کلی طور پر اسی نکتہ پر کھڑی ہے اس پر عمل کر کے انسان روحانیت کی اعلیٰ منازل کو آسانی سے طے کرسکتا ہے اور لحظہ بہ لحظہ خدا تعالیٰ کے قرب میں ترقی کر سکتا ہے-
(باء) دوسرا مفہوم اِن معنوں کے رُو سے اس کا یہ ہے کہ بندوں کی اطاعت خداتعالیٰ کے لئے کریں- پہلا مفہوم تو یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت بندوں کی خاطر نہ کریںاور دوسرا مفہوم یہ بنے گا کہ بندوں کی اطاعت خدا تعالیٰ کے لئے کریں پہلے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم یہ تھا کہ مُخْلِصِیْنَ لِلّٰہِ اِطَاعَۃَ اﷲِ-اور دوسرے پہلو کے لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ مُخْلِصِیْنَ لِلّٰہِ اِطَاعَۃَ الْعِبَادِ- یعنی اللہ تعالیٰ نے بندوں کی اطاعت ہر صورت میں نا جائز نہیں کی بلکہ بعض دفعہ خود حکم دیا ہے کہ اُن کی اطاعت کرو جیسا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- اَطِیْعُو اللّٰہَ وَ اَطِیْعُو االرَّسُوْلَ وَاُولیِ الْاَمْرِمِنْکُمْ ( النساء ع ۵،۸) اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اُس کے رسول کی اطاعت کرو اور اُولی کی اطاعت کرو پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اولی الا مر کی اطاعت بھی ضروری قرار دی گئی ہے لیکن شرط رکھ ہے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن جب تم بندوں کی اطاعت کرو تو خدا کی وجہ سے کرو یعنی مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ اُسی حد تک اور اُسی شخص یا اُسی قوم کی اطاعت کریں جس حد تک اور جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب لوگوں نے ٹیکس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ قیصر کی چیز قیصر کو دو اور خدا تعالیٰ کی چیز خدا تعالیٰ کی دو- اِس کا یہی مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ کی خالص اطاعت کے یہ معنے نہیں کہ دوسرے کسی کا اطاعت جائز نہیں بلکہ جس حد تک اور جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اُس حد تک اور اُس شخص کی اطاعت کرنا- اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایسا کیاجائے تو خدا تعالیٰ ہی کی اطاعت کہلاتا ہے- پس اللہ تعالیٰ کے لئے اطاعت کو خالص کرنے کے معنے یہ ہیں کہ انسان جب خدا تعالیٰ کی اطاعت کرے تو بندوں کی خاطر نہ کرے اور جب بندوں کی اطاعت کرے تو خدا تعالیٰ کی خاطر کرے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ انگریزوں
۱؎ بندوں کی اطاعت خدا تعالیٰ کی خاطر کرنا
کے مطیع تھے حالانکہ آپ جس حد تک بھی انگریزی حکومت کی اطاعت کرتے تھے اس لئے انگریز کی اطاعت میں آپ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرتے تھے- چونکہ اللہ تعالیٰ حاکمِ وقت کی اطاعت کا حکم دیا ہے یا اُس کے ملک سے نکل جانے کا - اس لئے اگر آپ ایسا نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکلنے والے قرار پاتے- مگر جو لوگ یہ سمجھتے ہوئے انگریز کی اطاعت جائز نہیں پھر انگریزوں کے ملک میں رہتے ہیں - اور اُن کے قانون کی پابندی کرتے ہیں اُن کا یک ایک منٹ گناہ میں گذر رہا ہے - کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہوئے کہ انگریز کی اطاعت جائز نہیں پھر انگریز کی اطاعت کرتے ہی حالانکہ اگر اُن کا عقیدہ صحیح ہے تو انہیں انگریزوں کی حکومت سے فوراً باہر نکل آنا جانا چاہیے تھا-
(۲) دوسرے معنے دِیْن کے جو اس جگہ لگتے ہیں قہر اور غلبہ اور استعلاء کے ہیں اِن
۲؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے دوسرے معنے کہ غلبہ اور استعلاء ملنے کے بعد اس کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کر دیں-
معنوں کے رُو سے سے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مخاطبین رسو ل کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے صرف اتنا مطالبہ کیا گیا تھا کہ غلبہ اور استعلاء تم کو ملے تو اس غلبہ اور استعلاء کو اللہ تعالیٰ ہی کے لئے وقف کر دیا کرو کیونکہ غلبہ اور استعلاء اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلِ اللّٰھُمَّ مَالِکِ تُؤ تِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآ ئُ وَ تَنْذِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآ ئُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ ( آل عمران ع ۳،۱۱)
یعنی جب غلبہ اور استعلاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے تو اُسے اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خرچ کرنا چاہیے نہ کہ اپنے نفس کی بڑائی اور تکبر اور ظلم اور دوسروں کو اپنی غلامی میں لانے کے لئے- اِسی حکم کے نہ سمجھنے اور نہ ماننے کی وجہ سے تمام سیاسی نظام تباہ ہوتے ہیں- لوگ غلبہ کے وقت خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں اور غلبہ دینے کی غرض کو بھول جاتے ہیں اور اُن پر ظلم کرنے لگ جاتے ہیں - جب کبھی کوئی قوم دنیا پر غالب ہوئی اُس نے خداتعالیٰ کو بھلا دیا اور اُس کے بندوں کے حقوق کو بھی جنہیں ادا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اُسے غلبہ دیا تھا بھلا دیا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ بادشاہت کے بعد بھی کبھی اپنے آپ کو بادشاہ نہیں سمجھا اور کسی بادشاہ کو نہیں کہنے دیا- جس طرح اللہ تعالیٰ کا بندہ اپنے آپ کو غلبہ سے پہلے سمجھتے تھے اسی طرح غلبہ کے ملنے کے بعد وہی نمازیں رہیں، وہی روزے رہے، وہی ذکر الہٰی رہا بلکہ ار کوئی فرق پڑا تو کہی کہ فِاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ جب دینوی جنگوں اور لڑائیوں میں کمی آئے تو خد تعالیٰ کی عبادت اور اور زیادہ بڑھ جائو- اِسی طرح غلبہ ملنے سے پہلے جس طرح آپ اپنے آپ کو بندوںکا خادم سمجھتے رہے اِسی طرح غلبہ ملنے کے بعد بھی آپ اپنے آپ کو خادم سمجھتے رہے اور جوانی کی عمر میں مکّہ میں جب آپ کے پاس کچھ نہ تھا تب بھی غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کی مدد اپنے ہاتھ سے کرتے تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت خدیجہؓ کی دولت عطا فرما دی- یعنی شادی کے بعد حضرت خدیجہؓ نے اپنا سارا مال آپ کے سپرد کر دیا تو آپ نے یہ نہیں کیا کہ اُس مال کو اپنی ذات پر استعمال کرلیں- آپ نے یہ نہیں سمجھا کہ میری بیوی نے یہ مال مجھے دیا ہے تو اب میں یہ مال اُسے کے آرام اور آسائش کے لئے خرچ کر دوں اور اس مال کو غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرناشروع کر دیا- جب آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے حکومت عطا فرمائی اور عرب اور اُس کی تمام اقوام کو آپ کے تابع کر دیا اور عرب کاتما ٹیکس اور جزیہ آپ کے ہاتھوں میں آنے لگا تببھی آپ نے اُس سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اُٹھایا اور وفات کے وقت جب کہ آپ نے آخری وصیت اپنی قوم کو یہی فرمائی کہ میں تمہیں عورتوں اور کمزوروں سے نیک سلوک کے بارہ میں آخری نصیحت کرتا ہوں اور وفات کے وقت سخت کرب اور تکلیف کی حالت میں آپ بار بار فرماتے تھے کہ خدا یہوونصاریٰ پر *** کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا- یہ سخت الفاظ اتنے یہودونصاریٰ کی نسبت نہیں تھے جتنا اِن میں اس طرف اشار ہ تھا کہ اگر میری قوم نے بھی میری قبر کو عبادت گاہ بنایا تو صرف خدا تعالیٰ کی *** اُن پر نہیں پڑے گی بلکہ میری *** بھی اُس کے ساتھ شامل ہو گی-
غرض غلبہ کے وقت بھی آپ نے نہ خدا تعالیٰ کے حق کو تلف کیا اور نہ بندوں کے حقوق کو تلف ہونے دیا- اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍّ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَدٍ وَّبَارکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ-
آپ کے صحابہؓ نے بھی اس تعلیم پر اعلیٰ سے اعلیٰ عمل کر کے دکھایا- خلفاء راجہ حقوق العباد کے ادا کرنے کی ایک بینقیر مثال گذرے ہیں- ایک طرف خدا تعالیٰ کو انہوں نے مضبوطی سے پکڑے رکھا اور دوسری طرف بندوں کے حقوق بھی خوب ادا کئے ایسے کہ اس کی مثال دنیا میںنہیں ملتی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ وہ بادشاہ نہ تھے پریذیڈنٹ تھے مگر پہلا سوال تو یہ ہے کہ اُنہیں پریذیڈنٹ بننے پر مجبور کس نے کیا؟ آخر یہ عہدہ اُن کو اسلام نے ہی دیا اور اس عہدہ کی حیثیت کو انہوں نے اسلامی احکام کے ماتحت ہی قائم رکھا مگر یہ بات بھی تو نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ خواہ اُنہیں پریذیڈنٹ ہی قرار دیا جائے مگر اُن کا انتخاب ساری عمر کے لئے ہوتا تھا نہ کہ تین یا چار سال کے لئے- جیسا کہ ڈیما کریسی کے پریذیڈنٹوں کا آج کل انتخاب ہوتا ہے یقیقناً اگر ان کو صرف صدر جمہوریت کا ہی عہدہ دیا جائے تو بھی یہ بات علم النفس کے ماتحت اور سیاسی اصول کے تحت ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ تین چار سال کے لئے چنے جانے والے صدر اور ساری عمر کے لیے چُنے جانے والے صدر میں بہت بڑا فرق ہوتا ہیہ - تین چار سال کے لئے چنے جانے والے صدر کے سامنے وہ دن ہوتے جب وہ اس عہدہ سے الگ کر دیا جائے گا اور پھر ایک معمولی حیثیت کا انسان بن جائے گا لیکن ساری عمر کے لئے چُناجانے والا صدر جانتا ہے کہ اب اس مقام سے اُترنے کا کوئی امکان نہیں اور اُس کے اہل ملک بھی جانتے ہیں کہ اس حیثیت کے سوا اور کسی حیثیت میں اب وہ اُن کے سامنے نہیں آئے گا- پس جس شان و شوکت کا وہ مستحق سمجھا جا سکتا مگر اس ڈیماکریسی اور جمہوریت کیزمانہ میں سہ سالہ اور چار سالہ میعاد کے لئے چُنے وانے والے صدروں کی زندگیوں کو دیکھ لو ملک کا کتنا روپیہ اُن پر صرف ہوتا ہے- صدر جمہوریت امریکہ پر ہر سال جو روپیہ خرچ ہوتا ہے انگلستان کے بادشاہ پر بھی اتنا خرچ نہیں ہوتا- مگر اس کے مقابل میں خلفاء رابعہ کس طرح پبلک کے روپیہ کی حفاظت کرتے تھے وہ ایک تاریخی امر ہے کہ اپنے اور بیگانے اُس سے واقف ہیں صرف نہایت ہی قلیل رقوم اُنہیں گذارے کے لئے ملتی تھیں اور خود اپنی جائیدادوں کو بھی وہ بنی نوع انسان کے لئے خرچ کرتے رہتے تھے- حضرت عثمانؓ اُن خلفاء میں سے ہیں جن پر اپنوں اور بیگانوں نے بہت سے اعتراضات کئے ہیں جب اُن کی عمر کے آخری حصہ میں کچھ لوگوں کے بغاوت کی اور اُن کے خلاف کئی قسم کے اعتراضات کئے تو اُن میں سے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ انہوں نے بہت سے روپے فلاں فلاں اشخاص کو دئے ہیں- حضرت عثمانؓ نے اس کا جواب دیا کہ اسلام کے خزانہ پر سب ہی مسلمانوں کا حق ہے اگر میں قومی خزانہ سے ان لوگوں کو دیتا تو بھی کوئی اعتراج کی بات نہ تھی مگر تم قومی رجسٹروں کو دیکھ لو میں اُن کو قومی خزانہ سے روپیہ نہیں دیا بلکہ اپنی ذاتی جائیداد میں سے دیا ہے گویا اُن کی ذاتی جائیداد قومی خزانہ کے لئے ایک منبعِ آمد تھی- پس ان لوگوں نے اپنے غلبہ استعلاء کو محض خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کیا نہ کہ اپنی شان بڑھانے کے لئے- اور یہی وہ چیز ہے جو قوموں کو دوام بخشتی ہے اگر مسلماں اس تعلیم پر عمل کرتے تو کبھی زوال کا مُنہ نہ دیکھتے-
(۳) تیسرے معنے دِیْن کے جو یہاں لگتے ہیں ملک و حکم کے ہیں- ان معنوں کے رُو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ ہم نے یہی حکم دیا تھا کہ حکم اللہ تعالیٰ کے لئے رہے- جو وہ کہتا ہے اُسے جاری کیا جائے جس سے وہ روکتا ہے اُس سے رُکا جائے اپنی نفسانی خواہشات اور ارادوں کو شریعت میں دخل انداز نہ ہونے دیا جائے- اسلام جس وقت نازل ہواہے- اس موٹی صداقت کا بڑی بُری طرح سے انکار کیاجاتا رہا تھا- ہر شخص جو اس بات کو مانتا ہے کہ خد اتعالیٰ کی طرف سے کوئی کلام اُس کی قوم کی ہدایت کے لئے آیا اُسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰا کی طرف سے آنے والے ایسے کلام کو کلی طور پر انسانی دستبرد سے محفوظ رکھنا چاہیے - لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام جس وقت نازل ہوا ہے ہر قوم نے اپنی شریعت کی چار کو پارہ پارہ کر دیا تھا اور خدا تعالیٰ کے دین کا یک تولہ اُن کے خیالات کے منوں میں باقی رہ گیا تھا اب تک جو برا حال ان شریعتوں کا ہو رہا ہے وہ عبرت کے لئے کافی ہے مسیح ؑجن کی ساری عمر کی کمائی صرف اتنا فقرہ ہے کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے اس تعلیم کی مسیحیوں نے کتنی مٹی پلید گی ہے- اگر مسیحی حکومتوں کے دشمنوں نے ڈائنامیٹ کے بمپ اُن کے علاقوں پر پھینکے ہیں تو انہوں نے صبر نہیں کیا جب تک اٹومک بمپ ایجاد نہیں کر لیا-
پھر یہ سب امور شریعت کے مطابق بتائے جاتے ہیں- حال ہی میں انگلستان کے گرجوں کے سب سے بڑے پادری نے اپنے ایک ماتحت پادری کے مُنہ پر یہ کہہ کر تھپّر مارا کہ اٹومک بمب بھی خدائی نشانوں میں سے ایک نشان ہے کیونکہ ایک ماتحت پادری نے کہا تھا کہ میری فطرت اس بمب کے استعمال سے حاصل کی ہوئی فتح پر گرجے میں خوشی منانے پر طیار نہیں- مگر مسیحیت نے موسوی شریعت کو سرتاپا *** بنا کر چھوڑا- یہی حال دوسری کتابوں کا ہے کہ اُن کے اندر بھی اس قدرتحریف اور تبدیلی کر دی گئی ہے اور اس قدر انسانی خیالات اُن میںملاوے گئے ہیں کہ اُن کی شکل مسخ ہو گئی ہے- آج ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر موسیٰؑ عیسیٰؑ - کرشن ؑ اور زرتشتؑ دنیا میں آئیںتو وہ قرآن کریم کی طرف دوڑیں گے یہ ہماری ہی تعلیم ہے جسے
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے تیسرے معنے
زیادہ جلا دیدیا گیا ہے- اور جو تعلیمات اُن کی طرف منسوب کی جاتی ہیں وہ اُن کے پاس ہے مُنہ موڑ کر گذر جائیں گے کہ یہ گندی تعلیمیں معلوم نہیں کس نے دنیا میں پھیلا دیں-
اسلام زیر تفسیر آیت کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کے سامنے پر زور احتجاج کرتا ہے کہ شریعت کے بارہ میں انسانی وسعت اندازی کے سلسلہ کو بند کیا جائے
۲؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کیپانچویںمعنے
وَمَآ اُمِرُوْ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْاﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن اور خدا تعالیٰ کے کلام میں دخل اندازی نہ کی جائے- اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان بھی بعد کے زمانہ میں بگڑے اور بہت بگڑے مگر انہوں نے اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کی اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی مدد اور اُس کے منشاء کے ماتحت آج بھی محفوظ ہے- بے شک فقہ میں مسلمانوں نے بھی خوب کتر بیونت کی مگر خدا کا کلام چونکہ محفوظ ہے اِس لئے اس کتر بیونت سے مستقل نقصان اسلام کو نہ پہنچا ہے اور نہ پہنچ سکتا ہے-
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے چوتھے معنے
(۴) چوتھے دین کے جویہاں لگ سکتے ہیں سیرۃ کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اُنہیں صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریںاپنی سیرۃ کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے یعنی اپنی سیرت کے بنانے میں کسی اورکو شریک نہ کرو بلکہ اپنے اخلاق کلی طور پر اللہ تعالیٰ کی صفات کے مطابق بنائو- گویا وہ حدیث جو رواہ کے لحاظ سے ایسی مضبوط نہیں سمجھی جاتی جیسی دوسری حدیثیں ہیں تَخَلَّقُوْ بِاَ خْلَاقِ اﷲِ کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرو، اِس آیت کے رو سے بالکل درست ثابت ہوتی اور مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے معنے یہ بنتے ہیں کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ السِّیْرَۃَ - اپنی سیرت خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کر دو یعنی جب تک الہٰی صفات کے اور کسی اور کا عکس اُس پر نہ پڑے جس طرح خدا تعالیٰ رب ہے تم بھی رب بنو جس طرح وہ رحمان ہے تم بھی رحمان بنو- جس طرح وہ رحمان ہے تم بھی رحمان بنو- جس طرح وہ رحیم ہے تم بھی رحیم بنو جس طرح وہ مالک یوم الدّین ہے تم بھی اندھے قاضی نہ بنو- بلکہ مالک یوم الدّین بنو- اصلاح اور درستی اصل غرض تمہارے سامنے ہے- خدا تعالیٰ کی طرح رازق بنو- غفار بنو ستار بنو- نیک باتوں اور قوموں اور مُردون کے لئے محی بنو اور بری باتوں اور برے افراد کے لیے ممیت بنو- اسی طرح حفیظ بنو سباسط بنو- قیوم بنو وغیرہ وغیرہ-
(۵) پانچویں معنے دِیْن کے جو یہاں چسپاں ہوتے ہیں تدبیر کے ہیں- ہر فرد دنیا میں کچھ نہ کچھ جدّو جہد کرتا ہے اور ہر فرد سے میری مراد ہر معقول فرد ہے- ورنہ دنیا میںایسے احمق بھی ہوتے ہیںجو سونے اور کھانے پینے میں ہی اپنی عمر میں گذار دیتے ہیںوہ درحقیقت انسانیت کے دائرہ میں ہی شمار نہیں کئے جا سکتے- ہر شریف انسان کچھ جدّوجہد کرتا ہے- اور ہر زندہ دل انسان کسی نہ کسی فن کی رغبت رکھتا ہے کسی کو سائنس سے دلچسپی ہوتی ہے کوئی حساب میں شغف رکھتا ہے کوئی سیاست کی طرف مائل ہوتاہے کوئی تجارت میں انہماک رکھتا ہے کوئی زراعت کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ان سب امور کا حصول کئی وجوہ سے ہوتا ہے بہر حال دنیا میں جو یہ نظارہ نظر آتا ہے-کہ کوئی سائنس کی طرف توجہ کر رہا ہے، کوئی حساب کی طرف توجہ کر رہاہے، کوئی تجارت کی طرف مائل ہے کوئی زرات میں دلچسپی رکھتا ہے، کوئی سیاسیات میںاپنی عمر بسر کر رہا ہے - اس پر جب غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عام طر پر لوگوں کی تدابیر یا اپنے نفس کے فائدہ کیلئے ان امور کی طرف توجہ کرتے ہیں سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے سائنس میں ترقی کرلی تو کئی قسم کی ایجادیں کریں گے- کارخانے جاری کریں گے اور مالی لحاظ سے بہت کچھ نفح اُٹھائیں گے - یاحساب میں شغف رکھتے ہیں تو اس لئے کہ ترقی کر کے ہم انجینئر بن جائیںگے اور دنیا میں اعزاز حاصل کریں گے یا تجارت کرتے ہیں تو اس لئے کہ اپنے لئے اور اپنے خاندان کے افراد کے لئے ہمارے پاس بہت سا روپیہ اکٹھا ہو جائے گا- یا زراعت کریں گے تو اس فن میں بھی اُن کے مدّ نظر محض اپنا فائدہ ہوگا- اِسی طرح سیاسیات میں اُن کی دلچسپی کسی قومی مفاد کے لیے نہیں ہوتی بلکہ ذاتی اعزاز کا حصول اس تمام جدوجہد کا بنیادی نقطہ ہوتا ہے- لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے یہں جو ذاتیات سے بہت بالا ہوتے ہیں اُن کے مدّ نظر اپنے ذاتی مفاد اُس قدر نہیں ہوتے جس قدر قومی مفاد اُن کے مدّنظر ہوتے ہیں- اُن میں سے اگر ایک سائنس دان سائنس میں شغف رکھتا ہے تو اُس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میری قوم کی اس ذریعہ سے طاقت حاسل ہو جائے اگر کوئی حساب کی طرف توجہ کرتا ہے تو اُس کی غرض بھی اِس علم سے اپنی قوم کو فائندہ پہنچانا ہوتا ہے- اگر کوئی تجارت سے میری قوم مضبوط ہوجائے غرض یہ لوگ اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر قربان کرنے والے ہوتے ہیں ان میں سے کچھ لوگ زراعت کی طرف توجہ کرتے ہیں تو اُن کے مدّنظر محض یہ غرج نہیں ہوتی کہ ہم ہل چلائیں گے کھیتی باڑی کریں گے اور نفح کمائیں گے بلکہ وہ فنِ زراعت اس لئے سیکھتے ہیں تا کہ اُن کی قوم ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکل جائے- اسی طرح جب اُن میں سے بعض لوگ سیاست میں حصہ لیتے ہیں تو اِس لئے نہیں کہ اُن کو ذاتی طور پر غلبہ اور نفوذ حاصل ہو جائے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ سیاسیات میں حصّہ لینے کے نتیجے میں اُن کی قوم کو غلبہ حاصل ہو - غرض دنیا میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جن کی تمام جدّوجہد کا مرکزی نقطہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کو ذاتی طور پرکوئی فائدہ حاصل ہو جائے اورکچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو محض قومی مفاد کے لئے ہر قسم کی جدوجہد کرتے ہیں اُن کا علوم کی طرف توجہ کرنا مختلف فنون میں مہارت حاصل کرنا اور مختلف قسم کے شعبوں میں کام کرنا اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ شہرت کے بھوکے ہوتے ہیں یا عزت کے متلاشی ہوتے ہیں یا مال و دولت کے شائق ہوتے ہیں بلکہ وہ اِس لئے اپنی عمر میں ان کاموں میں صرف کر دیتے ہیں کہ اُن کی قوم سر بلند ہو اور اُسے دنیا میں عزت کا مقام حاصل ہو - اللہ تعالیٰ اِس آیت میں یہ فرماتاہے کہ جب بھی دنیا مین ایسا طریق عمل جاری ہو گا غلط قسم کی رقابت پیدا ہو گی اور تباہی اور بربادی اس کے نتیجے میں آئے گی پس انسان کو چاہیے کہ اپنی سب جدوجہد اللہ تعالیٰ کے لئے کرد ے- اگر اُسے حساب کا شو ق ہے اور وہ اس علم میں ترقی کرنا چاہتا ہے تو بے شک کرے اور خوب کرے- اگر اُسے سائنس کا شوق ہے اور وہ نئی نئی ایجادات کرنا چاہتا ہے تو بے شک سائنس کی طرف توجہ کرے اور دنیا میں نئی نئی ایجادیں کرے- اگر اُسے تجارت کا شوق ہے تو بے شک خوب مال ودولت کمائے- اگر اُسے زراعت کا شوق ہے اور وہ اس علم پر غور کرتے ہوئے نئے نئے امور دریافت کرنا چاہتا ہے تو بے شک ایسا کرے کیونکہ خدا نے یہ فطرت پیدا کی ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان کام کرے بے کار نہ بیٹھے مگر چاہیے کہ اُس کی سب تدبیریں اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں یہ ظاہر ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے لئے جدوجہد کرے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندوں کو اپنی جدّوجہد میں ثمرات سے محروم نہیں کرے گا- جب وہ خدا کے لئے ایس اکرے گا تو اُس کی یہ غرض نہیں ہوگی کہ انگلستان کو کچل دے، نہ انگلستان کی یہ غرض ہو گی کہ فرانس کو کچل دے، نہ امریکہ کی یہ غرض ہو گی کہ رُوس کو کچل دے- جب ہر شخص اللہ تعالیٰ کے لئے کوشش کرے گا تو اُس کی کوششیں تمام بنی نوع انسان کے لئے مفید ہوں گی اور غلط قسم کی رقابت اور عداوت دنیا میں پیدا نہیں ہو گی- تمام تباہی اسی وجہ سے واقعہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے ذاتی یا قومی مفاد کے لئے دوسروںکے حقوق کو غصب کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس امر کو کلی طور پر نظر انداز کر دیتا ہے کہ اُسے اپنی جدوجہد کے ثمرات میں تمام بنی نوع انسان کو شریک کرنا چاہیے- یہ تو علمی زمانہ ہے مگر پھر بھی دیکھا جاتا ہے کہ باپ داداکی دولت سے ذرا بھی حصہ مل جائے تو لوگ غافل ہوجاتے ہیں ہر قسم کے کاموں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں اب ہمیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے باپ دادا سے ہمیں بہت بڑی جائیداد مل گئی ہے اور اب ہمارا کام یہی ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور سو رہیں یہ قطعاً خیال نہیں کیا جاتا کہ انسان پیدائش اِس لئے نہیں ہوئی کہ وہ کھائے پییَ اور سو رہے بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے جیسا کہ اِنّیْ جَاعِلٌّ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ( البقرہ ع۴) سے ظاہر ہے اور جب انسان اِس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے تو اُسے غور کرنا چاہیے کہ اُس کے لئے نکما پن کس طرح جائز ہو سکتا ہے - اگر اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ نکّما بیٹھا ہوا ہوتا تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کوئی کام نہیں کرتا اس لئے اگر انسان بھی کوئی کام نہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں- مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نکما نہیں بیٹھا بلکہ وہ اپنی تمام صفات سے کام لے رہا ہے، کہیں اُن کو مار رہا ہے کہیں اُن کی مغفرت کے سامان کر رہا ہے- کہیں اُن پر رحمت نازل کر رہا ہے، کہیں اُن پر عذاب بھیج رہا ہے،کہیں اُن کو ترقی دے رہا ہے- کہیں تنزّل کے سامان کر رہاہے- غرض دن رات وہ کام میں لگا ہوا ہے اور یہی وہ انسانوں سے چاہتا ہے کہ جس طرح میں کام میں لگا ہوا ہوں اسی طرح تم بھی کام میں لگ جائو اورکبھی غفلت اور سستی کو اپنے قریب بھی نہ آنے دو- مگر افسوس کہ لوگوں کی حالت یہ ے کہ انکو ذرا بھی سہولت کے سامان میّسر آ جائیں تو وہ سست ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہمیں کام کرنے کی ضرورت نہیں -ہمارے ملک میں عام محاورہ ہے کہ جب کسی آسورہ حال سے پوچھا جائے کہ سُنائو کیا حال ہے تو وہ کہتا ہے کہ اللہ کا بڑا فضل ہے کھانے پینے کا سامان خدا تعالیٰ نے بہت کچھ دے دیا ہے- اب ہمارا کام اتنا ہی ہے- کہ کھائیں پیَیں عیش و آرام میں اپنا وقت گزاریں اور سو جائیں-یہ ایک *** ہے جو ہندوستانیوں کے سروں پر مسلّط ہے اور جس نے اُن کوترقی کی دوڑ مین بہت پیچھے کر دیا ہے- وہ جدّ جہد اور عمل صرف اس بات کا نام سمجھتے ہیں کہ اپنی ذات کو فائدہ پہنچ جائے یا اپنے خاندان کو فائدہ پہنچ جائے یا اپنے خاندان کو فائدہ پہنچ بنی نوع انسان کو اپنی جدوجہد کے ثمرات میں شریک کرنے کے لیے وہ تیار نہیں ہوتے- اس کے مقابل میں یورپ کے لوگوں میں جہاں اور کئی قسم کے نقائص ہیں وہاں اِس نقص کو انہوں نے قومی طور پر بالکل دور کر دیا ہے- وہاں امیر اور غریب سب کام کرتے ہیں اور باوجود بڑے بڑے اُمراء کی موجودگی کے اُن میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آتا جو کام نہ کر رہا ہو اِلاّ ماشاء اللہ ہر قوم میں کچھ نہ کچھ گندے اور خراب افراد بھی ہوتے ہیں اُن کومستثنیٰ کرتے ہوئے اکثریت ایسے ہی لوگوں کی نظر آتی ہے جو اربوں ارب روپیہ کے مالک ہیں مگر خود بھی کام کرتے ہیں اُن کی بیویاں بھی کام کرتی ہیں اُن کے بچے بھی کام کرتے ہیں اسی طرح اُن کے خاندان کے دوسرے افراد بھی کام کرتے ہیں اور وہ کبھی کام کرنا اپنے لئے ننگ اور عار کا موجب نہیں سمجھتے مگر اس کے باوجود یا تو اپنے نفس کے لئے سب کچھ کرتے ہیں اپنے ملک کی ترقی اور اُس کی خوشحالی کے لئے کام کرتے ہیں یا قومی برتری کا احساس اُس کے مدّ نظر ہوتا ہے یا نفسانی خواہشات اُن کے پیش نظر ہوتی ہیں اسی لئے باوجود کام کرنے کے خرابیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں - پہلے زمانہ میں بھی باپ دادا کی جائیداد پر قبضہ کر لینے کی وجہ سے بعض لوگ کام نہیں کرتے تھے مگر خرابیاںکم ہوتی تھیں کیونکہ قومی برتری کا احساس اُن کے دلوں میں نہیں ہوتا تھا وہ صرف اپنے ذاتی مفاد کومدنظر رکھا کرتے تھے مگر چونکہ ذاتی مفاد کی بجائے قومی مفاد کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے اور دنیا کاایک بہت بڑا حصہ اپنے اعمال اس لئے بجا لاتا ہے کہ اُس کی قوم کو دوسروں پر تفوق حاصل ہو، اُس کی قوم کو دوسروں پر غیر معمولی اقتدار اور غلبہ میّسر ہو، اُس کی قوم کو بہت بڑی طاقت حاصل ہو- اس لئے کام کرنے کے باوجود اس زمانہ میں خرابیاں زیادہ پیدا ہو رہی ہیں- پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم تدبیریں کرو اور ضرور کرو کیونکہ ہم نے تم کو پیدا ہی اسی لئے کیا ہے کہ تم کام کرو مگر دیکھو ہماری نصیحت یہ ے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن اپنی ساری تدبیریں خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دو- ذاتی آرام یا قومی مفاد تمہارے مدنظر نہ ہو بلکہ تمہاری تمام جدوجہد محض اللہ تعالیٰ کی رضاء اور اُس کی خوشنودی کے حصول کے لئے ہو- غور کرو یہ کیسا سنہری اصل ہے اور کس طرح اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں دنیا میں امن قائم ہو جاتا ہے اس ذریعہ سے ایک طرف اللہ تعالیٰ نے نکما پن دُور فرما دیا اور نبی نوع انسان سے کہہ دیاکہ دیکھو ہم یہ پسند نہیں کرتے تم بیکار رہو اور دنیا میں آ کر کوئی کام نہ کرو اور دوسری طرف کہ دیا کہ ہم یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ تم جھوٹی رقابتیں پیدا کرنی شروع کر دو- تم کام کرو اور خوب کرو مگر جھوٹی رقابتیں پیدا نہ کرو- دوسرے ملکوں یاقومون کو تباہ کرنیکی کوشش نہ کرو بلکہ ہر کام اللہ تعالیٰ کی خاطر کرو- یہ امر ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے ہر کام کرے گا ذاتی یا قومی برتری کا احساس اس کے دل میں نہیں ہو گا وہ دوسروں کے حقوق کو کچلنے کے لئے بھی کوئی قدم نہیں اٹھا ئیے گا یہی وجہ ہے کہ اسلامی حکومت کے زمانہ میں ( یعنی جب جب اور جہاں اسلامی اصول پر حکومت کی گئی ) کبھی غیر قوموں کو کچلنے کی کوشش نہیں کی گئی- سات آٹھ سو سال تک مسلمانوں کو حکومت کرنے کا موقع ملا ہے اور یہ بہت بڑا عرصہ ہے اس قدر لمبے عہد حکومت کے باوجود کسی مسلمان حکومت نے ہمسایہ ممالک کو تباہ کرنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ اُن کے مقابلہ میں مسلمانوں کے پاس بہت کچھ طاقت تھی اور وہ اگر چاہتے تو آسانی سے اُن کی اقتصادی حالتوں کو تبہ کر سکتے تھے- مگر باوجود طاقتور ہونے کے، باوجود بادشاہ ہونے کے، باوجود ہمسایہ ممالک کی کمزوری کے کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کو کچلنے کے لئے مسلمانوں نے کوئی اقدام کیا ہو ایبے سینا کی واضح مثال ہے تیرہ سو سال وہ مسلمانوں کی ہمسائیگی میں رہا مگر اُس کی آزادی میں کوئی فرق نہ آیا- اس کے مقابلہ میں عیسائیوں میں صرف ایک صدی افریقہ میں غلبہ ہوا تو انہوں نے ایبے سینیا کو کچل دیا حالانکہ ایبے سینیا والے اُن کے کم مذہب تھے اور اس لحاظ سے وہ اس بات کا زیادہ حق رکھتے تھے کہ اُن کے ملک پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے- مگر عیسائیوں نے کسی بات کی پروا نہ کی- نہ انصاف کی مدنظر رکھا نہ دیانت اور رواداری کی پروا اور اپنے غلبہ کے گھمنڈ میں کمزور ممالک پرحملہ کر کے اُن کے اپنا ماتحت بنا لیا - یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ مسلمان قرآنی احکام کے مطابق اپنی تمام کوششیں محض اللہ تعالیٰ کی رضاء کو مدنظر رکھتے ہوئے عمل میں لاتے تھے- چونکہ ایبے سینیا- یوگنڈا- اور ایسٹ افریقہ وغیرہ نے مسلمانوں کو چھیڑا نہیں اس لئے باوجود زبردست مسلمان حکومتوں کے پہلو میں بیٹھے ہونے کے کسی نے اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا اور یہ حالت برابر چلتی گئی یہاں تک کہ انتہائی مُردود اور گری ہوئی حالت میں بھی اُن کے اندر یہ خوبی قائم رہی اور انہوں نے غیر اقوام کو کچلنے کی کبھی کوشش نہیں ی- لیکن یوروپین قوموں نے جہاں بھی سر نکالا انہوںنے غیر ممالک کو کچل ڈالا- میںہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ یوروپین قوموں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے بچوں کو کھیلتے ہوئے جب کوئی چیز مل جاتی تو وہ کہتے ہیں ’’ لبّھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پا دی ‘‘ یہ بھی غیر ملکوں پر قبضہ کرتے چلتے جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں یہ تو ایک بڑی چیزتھی جو ہمیں مل گئی- پھر اس کے ساتھ ہی وہ اس کے ساتھ ہی وہ اخلاق کے بھی دعویدار بنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے یہ قبضہ امن قائم کرنے اورلوگوں کو تہذیب و شائستگی کے اصول سکھانے کے لئے کیا ہے - اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ دعویٰ بالکل غلط ہے اگر واقعہ میں تمہارے اندر اخلاق پائے جاتے تھے اور تمہارے مدنظر ذاتی یا قومی مفاد نہیں تھا تو تمہارا فرض یہ تھا کہ تم بجائے غیرممالک پر قبضہ کرنے اور اُس کی دولت سے فائدہ اُٹھانے کے اُن ممالک میںجاتے، لوگوں کی تربیت کرتے ، انکو علم سکھاتے اور پھر واپس آ جاتے- گویا جو کچھ کرتے اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے کرتے نفسانیت کا اُس میں کوئی شائبہ نہ ہوتا- مگر تم نے تو جو کچھ کیا اپنے نفس کے لئے کیا اور یہ وہ چیز ہے جو دنیا اور امن قائم نہیں کرتی بلکہ بد امنی اور ظلم اور دَور دَورہ کا موجب بن جاتی ہے اگر انگریز افریقہ میں جاتے اور بجائے اُس پر قبضہ کرنے کے لوگوں سے کہتے ہم تمہاری ترقی کے لئے آئے ہیں- پھر انکو تعلیم دلاتے، اُن کو کاشت کے اصول سکھاتے - مدرسے اور کارخانے قائم کرتے ، مال و دولت کو ترقی بتاتے تہذیب اور شائستگی کے اُصول سکھاتے اور جب وہ یہ سب کچھ سیکھ جاتے تو کہتے لو اب ہم واپس جاتے ہیں- یہ ملک تمہارا ہے ہم تو محض تمہاری خدمت کرنے کے لئے آئے تھے تو یقینا وہ اپنے دعوتے میں سچے سمجھے جا سکتے تھے اور کہا جا سکتا تھا کہ اُن کی کوششیں اپنے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور نبی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے تھیں - مگر یہ کیا طریق ہے کہ افریقین لوگوںکو الگ بیٹھا دیا- اُن کی زمینوں اورجائیدادوں پر قبضہ کر لیا اور پھر راگ الا اپنا شروع کر دیا کہ ہم نے تو یہ قبضہ افریقین لوگوں کی ترقی اور اُن کے فائدہ کے لئے کیا ہے اور یہی ہمدردی کاجذبہ اِس کا محرک ہوا ہے-
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے چھے معنے
چھٹے معنے اس عبارت کے ہیں-یہ معنے بھی یہاں لگتے ہیں اور مراد یہ کہ شرک نہ کرو سب قسم کی عبادات اللہ تعالیٰ کے لئے کرو-
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے ساتویں معنے
(۷) ساتویں مناسب معنے اس کے وَرَع کے ہیں یعنی نیکی اور نیک اعمال اِن معنوں کے رُو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا ریاء اور سُمْعَۃ کو باکل ترک کر دو اور سب زہد وتعبد صرف اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے ہو- یہ نہ ہو کہ تمہارے جُبے اور دستاریں اور کہانت اور پادری کاعہدہ لوگوں میں عزت حاصل کرنے اور اُن سے اطاعت کرانے کے لئے ہو بلکہ تمہارا زہد و تعبد محض خدتعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے ہو- یہ بات ایسی ہے جس کی طرف غیر قومیں تو الگ رہیں خود مسلمانوں کو بھی بہت کم توجہ ہے-وہ نمازیں پڑھنے اورروزے رکھنے اور زکٰوۃ دینے اور حج کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رضاء مدّ نظر نہیں رکھتے بلکہ اُن کامقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ لوگوں میں ہماری عزت قائم ہو جائے اور ہمیں بڑا نمازییا بڑا عابد کہنے لگ جائیں- اِسی طرح حج بھی زُہد کیے علامت ہوتی ہے مگر ہمارے ملک میں عام طور پر حج کو بھی اپنی شرکت کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور ہر شخص جوحج کر آئے وہ اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھنا اپنا فرض سمجھتا ہے- میں جب حج کے لئے گیا تو ایک اور مسلمان نوجوان میرے ساتھ جہاز میں سوا ر تھا - وہ اپنے آپ کو دین کے متعلق اس قدر غیرت مند سمجھتا تھا کہ جب اُسے معلوم ہوا کہ میں احمدی ہوں تو وہ بار بار اپنا ہاتھ مار کر کہتاکہ وہ جہاز نہیں ڈوبتا جس میں ایساشخص سفر کر رہا ہے- حالانکہ اِسی جہاز میں وہ کود بھی سفر کر رہا تھا اور اگر جہاز ڈوبتا تو اُس کا ڈوبنا بھی یقینی تھا-بہرحال ایک طرف تودین کے متعلق وہ اس قدر غیرت کا اظہار کرتا تھا اور دوسری طرف اُس کی حالت یہ تھی کہ میں نے اُسے مکّہ سے منیٰ جاتے ہوئے جو عین حج کا وقت ہوتا ہے اُردو کے نہایت گندے عشقیہ اشعارپڑھتے ہوئے سُنا- ایک دن باوجود اس کے بعض اور کینہ کے میں اُس کے قریب چلا ہی گیا اور میں نے اُسے کہا کہ آپ کو دین کا بہت شوق معلوم ہوتا ہے مگر یہ کیابات ہے کہ منیٰ میں مَیں نے آپ کو بہت گندے اشعار پڑھتے سنا کہنے لگا بات اسل میں یہ ہے کہ ہم سورت کے تاجر ہیں اور ہمارے علاقہ میں حاجیوں کو بہت عزت کی نگارہ سے دیکھا جاتا ہے ہماری ہول سیل کی دوکان ہے اور ارد گرد کے علاقوں سے اکثر لوگ ہمارے دوکان سے ہی مال خرید کر لے جاتے ہیں مگر گذشتہ سال ہمارے پاس کی دوکان والاحج کر آیا اور اُس نے اپنے نام کے ساتھ حاجی کا ٹائٹل لگا کر دوکان پربورڈ آویزاں کر دیا- نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے گاہک بھی اُدھر جانے شروع ہو گئے کیونکہ لوگوں نے خیال کیاکہ حاجی صاحب سے سودا خریدنا چاہیے اس میں ثواب بھی ہو گا یہ دیکھ کر میرے باپ نے مجھے کہا کہ کم بخت تو بھی حج کر آ اور نہ اگر یہی حالت رہی تو ہماری دوکان بالکل تباہ ہو جائے گی- چنانچہ میں اسی لئے حج کے لئے آیا ہوں اب یہاں سے جانے کے بعد میں بھی اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھ کر بورڈ لٹکا دوں گا اور ہمیں تجارت میں جو گھاٹا ہوا ہے وہ جاتا رہے گا- اُس وقت اُسے تو میں نے کچھ نہ کہا مگر دل میں مجھے اُس کی حالت پر سخت افسوس آیا کہ کُجا اسکی غیرت کی یہ کیفیت تھی کہ وہ بار بار اپنے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہتا ہائے وہ جہاز بھی غرق نہیں ہو جاتا جس میں ایسا شخص سوار ہے اور کجا یہ حال ہے کہ وہ حج کرنے کے لئے آیا ہے مگر اُسے ذرا بھی یہ احساس نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضاء کی خاطر حج کرے بلکہ اُس کے مدنظر محض اتنی بات ہے کہ میں حاجی کہلائوں - لوگ میری عزت کریں اور وہ دوکان پر کثرت کے ساتھ سودا خریدنے کے لئے آنے لگیں - تو دنیا میں بہت لوگ ایسے ہیں جو زُہد و تعبّد میں لوگوں کی خوشنودی اور اُن کی واہ واہ حاصل کرنے کے لئے حصّہ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت سے اُن کا دل بالکل خالی ہوتا ہے مثلاً عیسائیوں میں پادریوں کی بہت بڑی عزت سمجھی جاتی ہے اور جتنے یوروپین اُمراء خاندان ہیں وہ ایک ایک لڑکا ضرور چرچ کی خدمت میں لگا دیتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ اُنکے دل میں عیسائیت کی کوئی عظمت ہے یا وہ سمجھتے ہیں کہ پادری بن کر ہمارا لڑکا اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل کرے گا بلکہ صرف اس لئے ایسا کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اس کے بغیر ہمارے خاندانوں کا سیاسی لحاظ سے کوئی اثر قائم نہیں ہو سکتا- یہ مسلمانوںکی بد قسمتی ہے کہ انہوں نے علماء کی عزمت نہیں کی جس کی وجہ سے امراء کی توجہ دین کی طرف سے بالکل ہٹ گئی مگر یورو پین قومیں اپنے پادریوں کی بڑی عزت کرتی ہیں اس وجہ سے امراء کو ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ ہمیں سیاسی رنگ میں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ورنہ عوام میں ہمارے خلاف جوش پیدا ہو جائے گا اور وہ رسوخ جو ہمیں حاصل ہے جاتا رہے گا پس چونکہ زُہد و تعبد کے اعمال بساا وقات لوگ اس لئے بجا لاتے ہیں کہ اُن کی قوم میں عزت اور رسوخ حاصل ہو- اس لئے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تم ریاء اور سمعت کے خیالات کو اپنے دل کے کسی گوشہ میں بھی داخل نہ ہونے دو اور جس قدر نیک اعمال بجا لائو ان کی تہ میں صرف یہی جذبہ کار فرما ہوکہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل ہو جائے مخلوق سے توجہ ہٹا کر صرف خالق پر اپنی نظر رکھو اور اپنے اعمال صالحہ کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کر دو کہ وہی اعمال اُس کی درگاہ میں مقبول ہوتے ہیں جو اس کی رضا کے لئے کئے جائیں- جن اعمال پر دیاء کا داغ لگ جاتا ہے وہ انسان کے مُنہ پر مارے جاتے ہیں اور ثواب کی بجائے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا موجب بن جاتے ہیں-
(۸) آٹھویں مناسب معنے جو یہاں لگ سکتے ہیں عادت کے ہیں اِن معنوں کے رُو سے اس آیت کا مفہوم ہو گا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ایسے فرمانبردار بنو کہ تمہاری عادت بھی اللہ تعالیٰ کے تابع ہو جائیں- بظاہر ہر عادت کی عبادت بُری ہو تی ہے مثلاً اگر کوئی شخص صرف عادت کی نماز پڑھتا ہے یعنی اُسے نماز کی عادت ہو گئی یا
۱؎ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کےآٹھویں معنے
اُس کے ماں باپ نے اُسے روزے رکھنے پر مجبور کیا تھا جس کی وجہ سے اُسے روزوں کی عادت ہو گئی یا کسی اَور نیک کام پر اُس کے مان باپ نے اُسے مجبور کیا اور رفتہ رفتہ اُس نیک کام کی اُسے عادت ہو گئی تو یہ عادت بُری سمجھی جاتی ہے - لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ عادتیں دو قسم کی ہوتی ہیں وہ عادت کی عبادت بُری ہوتی ہے جس کی ابتداء بھی عادت سے ہو- یعنی جب کسی نے کوئی کام بغیر سمجھے بوجھے کی ہو اور فتہ رفتہ وہ کام اس کی طبیعت میں داخل ہو گیا ہو تو یہ عادت اچھی نہیں سمجھی جا سکتی- مثلاً کسی شخص سے زید کو کوئی بات کہی اور اُس نے بغیر سوچے سمجھے اُس کے مطابق کام کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ اُس بات کی اُسے عادت ہو گئی یا کسی اَور کے کہنے کی بجائے اُس نے خود ہی کسی کام کی آہستہ عادت اختیار کر لی تو یہ عادت قطعاً کوئی قیمت نہیں رکھتی- لیکن ایک شخص ایس اہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے لیے اور اس کی محبت اور اُس کے عشق سے عبادات ار نیک اعمال میں حصہ لینا شروع کرتا ہے اور عمل کرتے کرتے وُہ اُس کا جزو بدن ہو جاتے ہیں اور آپ ہی آپ بغیر کسی ارادہ کے وہ افعال اس سے ظاہر ہونے لگتے ہیں ایسے شخص کی عادت کی عبادت رسمی عبادت نہیں کہلا سکتی - کیونکہ اُس نے خلوص کے ساتھ، محبت کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایسا کیا اور متواتر کرتا چلا گیا یہاں تک کہ عبادت اُس کا جزوِ بدن بن گئی- اب جو فعل اس عادت کے نتیجہ میں ظاہر ہو گا وہ یقینا خوبی کہلائے گا کیونکہ اُس نے دیدہ و دانستہ اپنے نفس پر جبر کر کے خداتعالیٰ کی رضاء کے حصول کے لئے ایک فعل اتنی بار کیا وہ اُس کے رگ و ریشہ میں پیوست ہو گیا یہ جبری عادت نہیں ہوتی کہ اُسے بُرا قرار دیا جا سکے نہ بے دھیان کی عادت نہیں ہوتی کہ اُسے بُرا قرار دیا جا سکے نہ بے دھیان کی عادت ہوتی ہے کہ اُسے لغو کہا جا سکے- یہ ایک نیک عادت ہوتی ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے محض اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے اختیار کی جاتی ہے اور چونکہ خدائی قانون یہ ہے کہ جب ایک شخص لذّت اور شوق سے متواتر کئی فعل کرے تو وہ کام اُس سے آپ ہی آپ سرزد ہو تا جاتا ہے- اِس لئے ایسے شخص کی عادت کی عبادت رسمی نہیں کہلاتی بلکہ وہ اطاعت کا منتیٰ کہلاتی ہے-
(۲)دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ انسان کو کئی قسم کی عادات خاص خاندانوں یا قوموں میں رہنے کی وجہ سے پڑ جاتی ہیں- مثلاً چائے نوشوں میں چائے کی عادت ہوتی ہے، اچھے خوش خور لوگوں میں اچھا کھانا کھانے کی عادت ہوتی ہے خوش لباسوں میں رہنے کی وجہ سے انسان کو خوش لباسی کی عادت ہو جاتی ہے- اس لئے ایک معنے اِس آیت کے یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو اس طرح اللہ تعالیٰ کا بنائو کہ اگر تم کو کوئی عادت پڑے تو وہ اللہ کی ہو نہ کہ اپنے گرد وپیش کے لوگوں کے اثر سے تم نے وہ عادت اختیار کی ہو- گویا اس میں یہ اشارہ کیا گیاہے کہ تم لغو عادات سے مومن کو بچنا چاہیے- یوں تو عادتیں انسان کو ضرور پڑ جاتیہیں کوئی انسان دنیامیں ایسا نہیں ہوتاجسے کچھ نہ کچھ عادت نہ ہو- مگر کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے گردو پیش کے لوگوں سے صرف اتنا اثرلیتے ہیں کہ اُنہیں اچھا کھانا کھاتے دیکھتے ہیں تو خود بھی اچھا کھانا کھانے لگ جاتے ہیں- اُنہیں اچھا لباس پہنتے دیکھتے ہیںتو خود بھی اچھا لباس پہننے لگ جاتے ہیں- اُنہیں آرام کی زندگی بسر کرتے دیکھتے ہیں تو خود بھی آرام کی زندگی بسر کرنے لگ جاتے ہیں لیکن ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو لوگوں سے صرف نیکی اور تقویٰ اور عبادت کا اثر قبول کرتا ہے- اب جہاں تک دوسروں سے اثر قبول کرنے کا سوال ہے دونوں نے اثر قبول کیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنے نفس کے آرام کے لیے گروہ پیش کا اثر قبول کیا اور دوسرے نے خدا تعالیٰ کی رضاء کے لئے صرف وہ اثر قبول کیا جس کا نیکی اور تقویٰ کے ساتھ تعلق تھا- گو یا وہ شخص جس نے اچھا کھانے یا اچھا پینے یا اچھا پہننے کا اثر قبول کیا تھا اُس نے اپنے دل کے آئینے کو غیروں کے سامنے کیا اور وہ شخص جس نے اپنے اندر نماز اور روزہ اور صدقہ و خیرات کی عادتیں پیدا کیں اُس نے اپنا آئینہ خدا کے سامنے کر دیا- پس فرماتاہے تمہیں دنیا کی میں رہ کر عادتیں تو ضرور پڑنی ہیں مگرایسی کوشش کرو کہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے اعمال کا تواتر ہو-
نبی نوع انسان کے اعمال کا تو اثر نہ ہو جیسے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی نظریں نیچی رکھو اگر اتفاقیہ طور پر کسی غیر عورت پر تمہاری نگاہ پڑ جاتی ہے تو اس میں کوئی گناہ نہیں- لیکن اگر تم دوسری نگاہ اُس پر ڈالو گے تو گنہگار بن جائو گے- اِس ممانعت میں بھی یہی حکمت ہے کہ اگر انسان دوسری بار نگاہ ڈالے گا تو اُس کا یہ نگا ہ ڈالنا بالا ارادہ ہو گا- اور جب وہ ایک کام بالا ارادہ کر ے گا تویہ لازمی بات ہے کہ وہ کام آہستہ آہستہ عادت میں داخل ہونا شروع ہو جائے گا پس مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے ایک معنے یہ یہں کہ تو بُرے افعال کا تکرار ن کر بلکہ اُن اعمال کا تکرار کر جو تجھے خدا تعالیٰ تک پہنچانے والے ہوں یعنی جن کاموں کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اُن کا تکرار کرو اور جن کاموں سے خد ا تعالیٰ نے حکم دیا ہے - اُن کا تکرار کرو اور جن کاموں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اُن کے گردو پیش کے اثرات کی وجہ سے عادت پیدا نہ کرو- گویااس کے معنے یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو گردو پیش کے برے اثرات سے بالکل آزاد کر لو حتیٰ کہ تم کو دوسروں کے بد اثرات سے کوئی عادت نہ پڑے بلکہ صرف نیک اثرات کو قبول کرو-
عادت بھی ایک بہت بڑی ظلمت ہوتی ہیں بعض دفعہ یہ انسان کو دوسرے کا خوشامدی بنا دیتی ہیں- بعض دفعہ ڈرپوک بنا دیتی ہیں- بعض دفعہ سُست بنا دیتی ہیں اور انسان بڑے بڑے کاموں میں حصہ لینے سے محروم ہو جاتا ہے- مثلاً حُقّہ کی عادت ہے، افیون کی عادت ہے یا چائے کی عادت ہے ایسے لوگوں کو اگر جہاد کے لئے جانا پڑے تو اُن کے قدم ڈگمگا جائیں گے کیونکہ جہاد میں یہ چیزیں میّسر نہیں آ سکتیں - لڑائی میں بسا اوقات انسان کوئی کئی کئی وقت کا فاقہ کرنا پڑتا ہے-
بسا اوقات جنگلوں میں راتیں گذارنی پڑتی ہیں ، بسا اوقات نہایت معمولی اور ردّی غذا کھا کر گزارہ کرنا پڑتا ہے- ایسے مواقع پروہ شخص جسے شراب کی عادت ہو یا افیون کی عادت ہو حقہ اور نسوار کی عادت ہو کبھی دلیری سے آگے نہیں آ سکتا کیونکہ اُس کی عادات اِس قربانی میں دیوار بن کر حائل ہو جائیں گی اور وہ سمجھے گا کہ اگر میں اس جنگ میں شامل ہوَا تو مجھے سخت تکلیف اُٹھانی پڑے گی-
موجودہ جنگ میں سپاہیوں کی سب سے بڑی مشکلات یہی تھی کہ ہمیں شراب نہیں ملتی ہمیں سگریٹ نہیں ملتے اور یہ شکایت اس قدر بڑھ گئی کہ انگری افسروں کے لئے اس کا ازالہ کرنا بالکل نا ممکن ہو گیا- چنانچہ پارلیمنٹ کے موجودہ انتخابات میں مسٹر چرچل کے شکست کی وجہ بھی یہی ہوئی کہ ووٹ سب اُن کے خلاف تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ ایسی گورنمنٹ ہر گز قائم رہنے کی مستحق نہیں جس نے لڑائی میں ہمارے لئے شراب مہیا نہیں کی، جس نے کثرت سے ہمیں سگریٹ نہیں پہنچائے اور اس طرح وہ ہماری تکلیف کا موجب ہوئی ہے- حالانکہ انگریز افسر بھی سچے تھے وہ لڑائی کا سامان جمع کرتے یا شرابیں اور سگریٹ تیار کر کر کے فوفیوں کو بھجواتے؟ پس اس آیت میں مومنوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ سوائے ذکر الہٰی اور نیکی کے کاموں کے جو خدا تعالیٰ کی رضا کا موجب ہیں اور کسی چیز کی عادت نہ پڑنے دو تا کہ تم کو کبھی غیر کے آگے جھکنے یا قومی خدمات میں سستی کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے-
حُنَفَآئَ- مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن کے جو معنے اوپر بیان کئے گئے ہیں اُن میں چونکہ حَنِیْف کے وہ معانی بھی آ جاتے ہیں جو حل لغات میں بیان کئے جا چکے ہیں اِس لئے میں اِس جگہ حَنِیْف کے صرف اتنے ہی معنے لیتا ہوں کہ ’’ نیک میلانوں پر ثابت قدم رہنا‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اوپر کی تشریحات کے بعد صرف یہی ایک معنے باقی رہ جاتے ہیں جن کاایک بیان کرنا ضروری ہے-
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہیں اوپر کا حکم اس مزید ہدایت کے ساتھ دیتے ہیں کہ تم اپنے آپ میں نیک باتوں پر استقلال پیدا کرو یعنی ہم چاہتے ہیں کہ ایک تو مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن َ کے جو معنے ہیں وہ تمہارے اندر پیدا ہو جائیں اور دوسرے تم میں استقلال پیدا ہو جائے- یہ ہو کہ نیکیوں پر چند دن تو بڑے جوش و خروش سے عمل کرو اور تھک کر بیٹھ جائو- درحقیقت بڑی غلطی انسان کی یہ ہوتی ہے کہ ونیکیوں پر دوام اختیار نہیں کرتا صرف چند دن عمل کرتااور پھر اُن کو چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے- حالانکہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہی نیکی مقبول ہو سکتی ہے جس پر دوام اختیار کیا جائے اور دوام پیدا نہیں ہو سکتا جب تک انسان کے اندر استقلال کا مادہ نہ ہو- پس اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دینے کے بعد کہ تمہاری تدابیرؔ اور تمہارا حکمؔ تمہاری سیرۃؔ اور تمہاری تدابیرؔ اور تمہاری عباداتؔ اور تمہاری نیکی اور تمہاری عادات سب کی سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جانی چاہیں-…………
حُنَفَآئَ کہا کر یہ مزید حکم دے دیا کہ جب ایسے مقامات تمہارے اندر پیدا ہو جائیں تو پھر اُن پر ثابت قدم رہو ایس انہ ہو کہ سُستی کر کے اس مقام پر سے تمہارا قدم لڑ کھڑا جائے اَور تمہاری نیکیاں سب ضائع چلی جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہی عبادت نفع رکھتی ہے جس میں دوام پایا جائے-
۲۱۱؎ حُنَفَآئَ کے معنے نیک میلانوں پر ثابت قدم رہنا
رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ گھر میں داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کی ایک بیوی نے چھت سے ایک رسّہ لڑکا رکھا ہے- رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ کیسا رسّہ ہے؟ انہوں نے جواب کہ رسول اللہ یہ اس لئے ہے کہ جب عبادت کرتے کرتے اُونگھ آنے لگے تو اس سے سہارا لے لیا جائے- رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِسے کھول دو- اللہ تعالیٰ کو وہی عبادت پسند ہے جس میں دوام پایا جائے اگرچہ وہ کتنی ہی قلیل ہو- وہ عبادت پسند نہیں جس کے نتیجے میں انسان کی طبیعت میں ملاں پیدا ہو جائے اور چند دن کے بعد وہ اُس کو ترک کرنے پرمجبور ہو جائے-
بعض لوگ غلطی سے اس کے معنے یہ سمجھتے ہیں کہ کسی دن کم اور کسی دن زیادہ عبادت نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمیشہ ایک جیسی عبادت کرنی چاہیے مگر یہ معنے بالبداہت باطل ہیں- کیونکہ انسان بعض دفعہ بیماری کی وجہس ے یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے زیادہ عبادت نہیں کر سکتا اور بعض دفعہ اُس کے چھوڑنے پر بھی مجبور ہر جاتا ہے - خود رسول کریم صلے ا للہ علیہ وسلم کے متعلق بھی ثابت ہے کہ بعض دفعہ آپ رات کو پورے آٹھ نفل نہیں پڑھ سکے پس اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ تم نفلی عبادات کو کم و پیش نہ کرو بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب تم کوئی عبادت شروع کرو تو پھر اُسے کرتے چلے جائو-یہ نہ ہو کہ چند دن نفل پڑھو اور پھر چھوڑ دو- یا بعض دفعہ تو ساری ساری رات تہجد پڑھتے رہو ار پھر چھوڑ دو- یا بعض دفعہ تو ساری ساری رات تہجد پڑھتے رہو اور بعض دفعہ تو ساری ساری رات تہجدپڑھتے رہو اوربعض دفعہ دونفل بھی نہ پڑھو- یہ عدم استقلال کا مرض ہے جس سے ہر مومن کو کلّی طور پر محفوظ ہونا چاہیے اور اُسے سمجھ لینا چاہیئے کہ نیکی وہی ہے جس پر دوام اختیار کیا جائے-
وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْ تُو الذُّکٰوۃَ:-
لِیَعْبُدُ واﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے بعد وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کا ذکر کرنا صاف بتا رہا ہے کہ اس جگہ اقامتِ الصلوۃ کا ذکرکرنا صاف بتا رہا ہے کہ اس جگہ اقامتِ صلوٰۃ سے مراد محض عبادت نہیں- اگر محض عبادت اس جگہ مراد ہوتی تو اُس کے علیحدہ ذکر کرنے کے کوئی معنے ہی نہیں تھے لِیَعْبُدُ واﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں یہ مفہوم بڑی وضاحت سے آ چکا تھا اور بتایا جاچکاتھا کہ مومنوں کا فرض ہے کہ وہ خالص الل تعالیٰ کی عبادت کریں اور اُسی کی پرستش کریں یعنی نماز اور روزہ ار حج زکٰوۃ وغیرہ - میں اپنی عمر بسر کریں پس جب وہاں عبادت کا وضاحتہً ذکر آ چکا تھا تو اس کے بعد وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کہنا کہ مومن وہ ہیں جو اقامت صلٰوۃ کرتے یہں صاف بتاتا ہے کہ اس جگہ اقامتِ صلٰوۃ عبادت کے علاوہ کوئی ار مفہوم رکھتی ہے اور وہ وہی مفہوم ہے جو میں نے اپنے خطبات اور تقاریر میں بار ہا بتایا ہے کہ اقامت صلٰوۃ سے مراد با جماعت نماز ادا کرنا ہے یوں اقامتِ صلٰوۃ کے یہ بھی معنے ہوتے ہیں کہ عبادت کو کھڑا کرنا عینی نماز کو اُس کو تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنا- مگر اقامت کے معنوں کو اگر ہم کلّی طور پر دیکھیں تو پھر نماز کو کھڑا کرنے کے معنی یہ بن جائیں گے کہ وہ دنیا میں قائم ہو جائے - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام نے اقامت صلوٰۃ کے ایک یہ معنے بھی لئے ہیں کہ مومن اپنی نمازوں کو بار بار کھڑا کرتے ہیں- نماز گرتی ہے تو وہ اُسے کھڑا کرتے ہیں پھر گرتی ہے تو وہ پھر کھڑا کرتے ہیں پھر گرتی ہے تو وہ پھر کھڑا کرتے ہیں- مطلب یہ ہے کہ اُنہیں نماز میں خشوع و خضوع پیدا نہیں ہوتا یا اللہ تعالیٰ کی طرف کامل توجہ نہیں ہوتی تو وہ بار بار اپنی نمازوں کو سنوارنے اور اُن کے پورے طور پر درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس آیت میں یہ معنے مراد نہیں- اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقامتِ صلٰوۃ کے ایک یہ معنے بھی ہوتے ہیں اور ان معنوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے بڑا زور دیا ہے کہ نماز گرتی ہے تو مومن اُس کو کھڑا کرتا ہے پھر گرتی ہے تو پھر کھڑا کرتا ہے- مگر چونکجہ یہ مضمون وَمَٓااُمِرُوْا اِلاَّ لِیَعْبُدُ واﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں آ چکا ہے اس لئیوَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کے یہاں کوئی زائد معنے ہوں گے جو میرے نزدیک دو ہیں-
اوّل نماز کا کھڑا کرنا اپنے اندر یہ مفہوم رکھتا ہے کہ دنیا میں نماز کا رواج قائم کر دیا جائے جیسے ہماری زبان میں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے یہ رسم جاری کر دی ہے کہ اِسی طرح اللہ تعالیٰ مومنوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وہ لوگوں میں نماز قائم کریں یعنی صرف خود ہی نماز نہ پڑھیں بلکہ تمام لوگوں میں نماز کی خوبیاں بیان کریں- اُنہیں نماز پڑھنے کی تحریک کریں اگر انہیں نماز پڑھنی نہیں آتی تو انہیں نماز پڑھنا سکھائیں- اگر کوئی شخص نماز کا ترجمہ نہیں جانتا تو اُسے نماز کا ترجمہپڑھائیں اگر کوئی شخص نمازیں ادا کرنیکی لوگوں کو تحریک کر رہا ہو، کوئی شخص نماز پڑھنے والوں میں نماز کی مزید رغبت پیدا کر رہا ہو- اس طرح کوئی مومن ایسا نہ ہو جو وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کے حکم پر عمل نہ کر رہا ہو- پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارا صرف یہی کام نہیں کہ تم خود نمازیں پڑھو بلکہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم لوگو ں کو نماز کی تحریک کر کے ، اِنْ پڑھوں کو نماز کا ترجمہ سکھا کے ، نماز پڑھنے والوں کو نماز کی مزید رغبت دلا کے دنیا میں پوری مضبوطی کے ساتھ نمازوں کا رواج قائم کر دو- یہ سب امور ایسے ہیں جو اقامتِ صلوٰۃ میں شامل ہیں-
دوسرے معنے جو اقامت صلوٰۃ کے یہاں چسپاں ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ تمہارا صرف یہی فرض نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ تم جماعت کے ساتھ نماز پڑھو- مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں صرف عبادت کا حکم نہیں دیتے بلکہ باجماعت عبادت کا حکم دیتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام فروی مذہب نہیں بلکہ قومی مذہب ہے-باقی سارے مذاہب میں اگر افراد الگ الگ عبادت کرتے ہیں تو وہ بڑے زاہد، بڑے عابد، بڑے پرہیز گار اور بڑے عارف سمجھے جاتے ہیں- لوگ اُن کی نیکی اور تقدّس کے قائل ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں- جنہیں اﷲ تعالیٰ کا قرب اور اُن کا وصال حاصل ہے- مگر اسلام کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص با جماعت نماز ادا نہیں کرتا تو خواہ وہ علیحدگی میں کتنی عبادتیں کرتارہتا ہو وہ ہرگز نیک اور پارسا نہیں سمجھا جا سکتا اور اُسے ہرگز قوم میں عزت کا مقام نہیں دیا جا سکتا- یہ ایک بہت بڑا فرق ہے جو اسلام اور غیر مذاہب میں پایا جاتا ہے- باقی سب مذاہب پر غور کر کے دیکھ لو وہ انفرادی عبادات کو بہت بڑی اہمیت دیتے ہیں یہاں تک کہ بسا اوقات بڑی بڑی دُور سے پنڈت اور پادری اور راہب اور عوام الناس کے جوق در جوق یہ سُن کر فلاں سادھو چالیس سے غار میں عبادت کر رہا ہے اُس کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں، اُسے نذریں دیتے ہیں، اُس کے آگے سجدے کرتے ہیں، اُسے اپنا حاجت روا سمجھ کر اُس سے بڑی عاجزی سے التجائیں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سادھو سے بڑا اور کون ہو سکتا ہے- یہ وہ ہے جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چالیس سے پہاڑ کی ایک غار میں بیٹھا اﷲ اﷲ کر رہا ہے- مگر اسلام کہتا ہے- ایسا شخص ہرگز خدا تعالیٰ کا مقرب نہیں- وہ تو بہت بڑا بے دین ہے جس سے اقامتِ صلوٰۃ کے حکم کو نظر انداز کر دیا ہے جس نے یُقِیْمُوا الصّلوٰۃ کے حکم کو پس پشت پھینک دیا ہے- جو شخص قوم سے کٹ گیا ہے- جس نے قوم کی بہتری اور اس کی فلاں و بہبود کی کبھی فکر نہیں ، جو گوشۂ تنہائی میں بیٹھ رہا ہے وہ تو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سخت سزا کا مستحق ہے- کجا یہ کہ اُسے نیک اور خدارسیدہ سمجھا جائے-
پس وہ لوگ جن کو دوسری قومیں محض علیحدگی میں عبادت کرنے کی وجہ سے بزرگ قرار دیتی ہیں اسلام اُن کو مرتد اور مردود قرار دیتا ہے- دنیا اُن کو خدا رسیدہ سمجھتی ہے اور اسلام اُن کو اﷲ تعالیٰ کے قرب سے راندہ ہوا سمجھتا ہے- کیونکہ اسلام کہتا ہے- یُقِیْمُوا الصّلوٰۃ ہم نے تمہیں صرف اتنا حکم نہیں دیا کہ تم نمازیں پڑھو بلکہ ہمارا حکم یہ ہے کہ تم لوگوں کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھو- اور اپنی ہی حالت کو درست نہ کرو بلکہ ساری قوم کو سہارا دے کر اُس کی روحانیت کو بلند کرو اور قوم سے دُور نہ بھاگو بلکہ اس کے ساتھ رہو اور ہوشیار چوکیدار کی طرح اُس کے اخلاق اور اُس کی روحانیت کا پہرہ دو-
اس آیت میں دوسرا حکم زکوٰۃ کا دیا گیا ہے اور قرآن کریم میں جہاں بھی ایتائِ زکوٰۃ کا ذکر آتا ہے- ہمیشہ اقامتِ صلوٰۃ کے بعد آتا ہے- اس میں ایک نہایت ہی لطیف اشارہ اس امر کی طرف پایا جاتا ہے کہ جب تک کوئی شخص اپنی قوم کی شکستہ حالی سے واقف نہیں ہوتا اُس وقت تک وہ اُن کی کوئی خدمت بھی نہیں کر سکتا- وہ شخص جو کسی پہاڑ کی کھوہ میں جا کر بیٹھ رہا ہے اور دن رات سبحان اﷲ سبحان اﷲ کہتا رہتاہے اُسے کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں یا غُرباء ننگے پھر رہے ہیں یا مساکین پیسہ پیسہ کے لئے دربدر خاک چھان رہے ہیں یا روپہ کی کمی کی وجہ سے وہ علم سے محروم ہو رہے ہیں- اُسے اِن میں سے کسی بات کا بھی علم نہیں ہو سکتا اور جب علم نہیں ہو گا تو وہ اپنی قوم کے لئے کوشش کیا کرے گا- غرباء کے لئے جدوجہد یا مساکین کی ترقی کے لئے کوشش اُسی وقت ہو سکتی ہے جب انسان کو علم ہو کہ اُس کی قوم میں غرباء پائے جاتے ہیں، اُس کی جماعت میں مساکین موجود ہیں اور اُس کا فرض ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلائے، پیاسوں کو پانی پلائے، ننگوں کو کپڑے دے اور بیماروںکا علاج کرے اور یہ علم اُس وقت نہیں ہو سکتا جب تک انسان مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کا عادی نہ ہو- جب وہ مسجد میں آ ئے گا کہ تو دیکھے گا کہ اُس کے پاس ہی ایک طرف تو ایسا شخص کھڑا ہے جس نے اعلیٰ درجہ کا لباس پہنا ہوا ہے ، قیمتی عطر لگایا ہوا ہے، باصحت اور تنومند ہے اور دوسری طرف ایک ایسا شخص کھڑا ہے جس کے پھٹے پُرانے کپڑے ہیں، اُس کے لباس اور جسم کی بدبو سے دماغ پھٹا جاتا ہے اور اُس کے چہرہ پر جُھریاں پڑی ہوئی ہیں- وہ یہ نظاّرہ دیکھے گا تو اُس کا دل تڑپ اُٹھے گا اور کہنے میرا فرض ہے کہ میں قوم کے غرباء کے لئے اپنا روپیہ خرچ کروں اور اُن کی تکالیف کو دور کروں- یا وہ مسجد میں جائے گا تو دیکھے گا کہ وہاں ایک نوجوان بیٹھا ہے- بیس پچیس سال اُس کی عمر ہے، اُٹھتی جوانی کا زمانہ ہے- مگر اُس کی حالت یہ ہے کہ کلے پچکے ہوئے ہیں، آنکھیں اندر دھنسی ہوئی ہیں، کپڑوں کا بُرا حال ہے اور ضعف اُس کے جسم سے ظاہر ہے- وہ یہ حالت دیکھ کر لازماً پوچھے گا کہ میاں! تمہارا کیا حال ہے، تم اتنے خستہ حال کیوں نظر آ رہے ہو؟ اس کے جواب یا تو وہ کہے گا کہ میں بیمار ہوں علاج کے لئے میرے پاس کوئی پیسہ نہیں اور یا کہے گا کہ بیمار تو مگر کھانے پینے کا میرے پاس کوئی سامان نہیں- اس پر دوسرا شخص اُسے کہہ سکتا ہے کہ تم جوان آدمی ہو کماتے کیوں نہیں؟ وہ کہے گا میں کیا کروں بخاری کا کام مجھے آتا ہے مگر بخاری کے آلات وغیرہ خریدنے کی مجھ میں استطاعت نہیں یا معماری جانتا ہوں یا کپڑا بننا جانتا ہوں یا لوہارے کا کام جانتا ہوں مگر سامانوں سے تہیدست ہونے کی وجہ سے بے کار بیٹھاہوں- اس پر اُسے فکر پیدا ہو گا کہ میرا فرض ہے- مَیں اِس کی مدد کروں اور اِسی طرح قوم کے جو دوسرے غرباء ہیں اُن کی تکالیف دُور کرنے میں حصہ لوں تاکہ یہ بھی باعزت زندگی بسر کر سکیں- پس حقیقت یہ ہے کہ ایتائِ زکوٰۃ کی تحریک اقامتِ صلوٰۃ سے ہی ہوتی ہے اور اسلام نے پانچ وقت نماز جماعت کی ادائیگی کا حکم دے کر ایک ایسا اعلیٰ درجے کا راستہ کھول دیا ہے کہ اگر اس حکم پر عمل کیا جائے تو قوم کے حالات سے نہایت آسانی کے ساتھ واقفیت ہو سکتی ہے- بھلا ایک انگریز لارڈ کو اپنی قوم کے حالات کی کیا واقفیت ہو سکتی ہے- وہ گھر میں رہتا ہے تو وردیاں پہنے ہوئے نوکر اُس کی خدمت کے لئے موجود ہوتے ہیں جو اُس کے دسترخوان سے اپنا پیٹ ضرورت سے زیادہ بھر کر موٹے ہو رہے ہوتے ہیں- کلب میں جاتا ہے تو اُس کی سوسائٹی کے لوگ اُس کے دائیں بائیں ہوتے ہیں- اُسے کچھ علم نہیں ہو سکتا کہ غرباء پر کیا کچھ گذر رہی ہے- لیکن ایک مسلمان جو پانچ وقت مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتا ہے اور ہر روز پانچ دفعہ لوگوں کی شکلیں دیکھتا ہے اُسے بڑی آسانی سے پتہ لگتا رہتا ہے کہ اُس کی قوم کا کیا حال ہے اور اُسے قومی ترقی کے لئے کن امور کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے-
وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ- وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ- کے یہ معنے ہیں کہ ’’یہ ہے قائم رہنے والی قوم کا دین-‘‘ یہاں مضاف حذف کر دیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ- یعنی دنیا میں جو اُمّت قائم رہنا چاہے اُسے ایسا ہی طریق اختیار کرنا ضروری ہے- اس جگہ دین کے معنے طریق کے ہیں یا حال کے ہیں یا شان کے ہیں- اور اس طرح اوپر کے بیان کردہ سب معنے اس میں آ جاتے ہیں یعنی دنیا میں قائم رہنے والی اُمت کا یہی طریق اور یہی حال ہوتا ہے- اور چونکہ قیمۃ ٌ کے معنے مُتْوَلِّیْ کے بھی ہیں اس لئے ان معنوں کے رُو سے اِس آیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ جس قوم کو اﷲ تعالیٰ دنیا میں متولی بنائے اُسے ایسا ہی طریق اختیار کرنا چاہئیے ورنہ وہ اپنے فرض کو پورا کرنے والی نہ ہو گی- بہرحال اس آیت کے دو معنے ہوئے ایک یہ کہ قائم رہنے والی قوم کے یہ آثار ہوتے ہیں اور دوسرے یہ کہ جس قوم کو اﷲ تعالیٰ متولی بنائے اُسے ایسا ہی خصائل اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں- مطلب یہ ہے کہ جس قوم میں یہ علامات پیدا ہو جائیں اﷲ تعالیٰ اُسے دنیا کا متولّی بنا دیتا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ میں اﷲ تعالیٰ نے دو امور کی طرف اشارہ فرمایا تھا- اقامت صلوٰۃ میں اﷲ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ کی اتھا کہ مومن اﷲ تعالیٰ سے صلح رکھتے اور ان کے حقوق کو پوری دیانتداری کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور ایتاء زکوٰۃ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ مومن بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرتے، اُن کی خدمت میں پورے جوش سے حصہ لیتے اور اُن کے حقوق کو پوری تندہی سے ادا کرتے ہیں- اب فرماتاہے وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ- جو اُمت دنیا میں قائم رہنا چاہے اُسے ایسا ہی طریق اختیار کرنا چاہئیے یعنی اگر انسان اﷲ تعالیٰ سے بھی صلح رکھیں اور بنی نوع انسان سے بھی صلح رکھیں تو اُن پر کبھی تباہی نہیں آ سکتی- بگاڑ ہمیشہ اُسی وقت پید اہوتاہے جب لوگ یا تو خدا تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کر لیتے ہیں اور اُس کی طرف سے عذاب اور تباہیاں آنے لگتی ہیں یا پھر بنی نوع انسان کو اپنے خلافِ بھڑکا لیتے ہیں اور اِس کے نتیجہ میں بغاوت، ڈاکے، قتل اور خونریزیاں شروع ہو جاتی ہیں- دنیا میں عذاب آخر کیوں آتا ہے- طاعون دنیا میں کیوں آئی- زلازل کیوں آ رہے ہیں؟ اسی لئے کہ لوگوں نے خدا تعالیٰ سے اپنے تعلقات بگاڑ لئے- اس کے مقابل میں لوگ آپس میں کیوں لڑتے ہیں؟ اسی لئے کہ کچھ لوگ دوسروں پر ظلم کرتے اور اُن کے حقوق کی ادائیگی میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں جب یہ بات لوگوں کو قوتِ برداشت سے بڑھ جاتی ہے تو وُہ لڑائی شروع کر دیتے ہیں- یہی فساد کو دو وجوہ ہیں یا اللہ تعالیٰ سے بگاڑ- یا نبی نوع انسان سے بگاڑ - اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر کوئی قوم اقامت الصلوۃ اور ایتائِ زکوۃ پر عمل کر لے خدا تعالیٰ سے بھی صلح رکھے ار اُس کے بندوں سے بھی- تو اُس پر کبھی تباہی نہیں آ سکتی- تباہی کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ سے اپنے تعلقات بگاڑ لیتے ہیں اور اُن پر عذاب آنا شروع ہو جاتا ہے- اِسی طرح بندوں سے اپنے تعلقات بگاڑ لیتے ہیں اور لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں- محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم دنیا کے لئے کیاپیغام لائے تھے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ سے بھی صلح کر لو اور اُس کے بندوں سے بھی صلح کر لو تا کہ تم ہر قسم کے زوال سے محفوظ رہو- اس میں بھلا کونسی چیز تھی جس کی بناء پر لوگوں نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی مخالفت شروع کر دی؟ یہ بات تو سراسر اُن کے فائدہ کے لئے کہی گئی تھی مگر اُنہوں نے اُلٹا اپنے محسن کے خلاف جنگ شروع کر دی-
دوسرے معنوں کے لحاظ سے اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس قوم کو اللہ تعالیٰ دنیا میں متولی بنائے اُسے ایسا طریق اختیار کرنا چاہیے ورنہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں سخت کوتاہی سے کام لینے والی سمجھی جائے گی- ایک مضمون کے لحاظ سے قوم کی ذاتی خوبی بیان کی گئی ہے- یہ معنے کہ صحیح راستہ پر چلنے والی، دنیا میں قائم رہنے والی اور تباہی سے بچنے والی قوم کی یہ علامات ہوا کرتی ہیں اُس کی ذاتی خوبی پر دلالت کرتے ہیں - اور یہ معنے کہ جس اوم کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کا متولی اور حاکم بنائے اور اُسے اپنے اندر تمام بنان کردہ خوبیاں پیدا کرنی چاہیں ورنہ وہ حکومت کی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرنے والے نہیں سمجھی جا سکتی، اُس کی نسبتی کمالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں-
افسوس کہ مسلمانوں نے اُن اخلاق کو جو یہاں بیان ہوئے ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے تھوڑے عرصہ بعد ہی چھوڑ دیا اور جوں جوں وہ ان اخلاق کو چھوڑتے چلے گئے اللہ تعالیٰ بھی اُن کو چھوڑتا چلا گیا- اب احمدیت کے لئے موقعہ ہے کہ وہ اِن اخلاق کو دوبارہ قائم کرے- مگر یہ اخلاق کبھی مستقل طور پر قائم نہیں رہیں گے جب تک قرآن کریم لوگوں کے دماغوں میں بار بار اور زور سے داخل نہ کیا جائے گا اور اُسے ساری قوم میں زندہ نہ کیا جائے گا-
۲؎ ذَاِلکَ دِیْنُ الْقَیْمَۃِ پر ویری کا بودا اعتراض
ویری نے اس جگہ ایک عجیب اعتراض کیا ہے وُہ ذَاِلکَ دِیْنُ الْقَیْمَۃِ کا ترجمہ کرتا ہے - ’’ یہ سچا دین ہے‘‘ اورپھر اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محمد صاحبؑ یعنی انہوں نے ان تینوں مذاہب کی ایک ہی تعلیم بتائی اور کر دیا کہ یہودی - عیسائی اور مسلمان سب کایہی مذہب ہے - گویا دائمی مذہب کے معنے اُنہوں نے یہ لئے کہ آدم سے لے کر آج تک دنیا کا ایک ہی مذہب رہا ہے ( مسلمانوں میں سے بھی بعض بے وقوف
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْامِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَادِ جِھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ط
اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کفر پر قائم رہنے والے لوگ یقیناً جہنم کی آگ میں داخل ہوں گے
اُولٰٓئکَ ھُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ oطاِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُو الصّٰلِحٰتِ ط اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا وَ
(اور وہ)اُس میں رہتے چلے جائیں گے- وہی لوگ ( ہاں وہی لوگ) بد ترین خلائق ہیں-
عَمِلُو االصّٰلِحٰتِ ط اُولٰٓئکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ oط
( اس کے مقابل پر ) وہ لوگ جو اہل کتاب اور مشرکوں میں سے ایمان لے آئے اور انہوں نے (ایمان کے ) مناسب حال عمل بھی کئے وہ لوگ ہاں وہی لوگ بہترین خلائق ہیں ۷؎
یہی عقیدہ رکھتے ہیں ) اور چونکہ یہ بات غلط ہے اس لئے اُنہوں نے اپنے جھوٹا نبی ہونے کا آپ ہی ثبوت مہیا کر دیا ہے-
اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو پادری صاحب نے اس آیت کا ترجمہ غلط کیا ہے ( ترجمہ توسیل کا ہے مگر چونکہ انہوں نے اس ترجمہ کو قبول کر کے اعتراض کیا ہے اس لئے یہ ترجمہ الہٰی کی طرف منسوب ہو گا) اس کا ترجمہ ’’ سچا دین‘‘ نہیں بلکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ’’ یہ قائم رہنے والی قوم کا دین ہے ‘‘ یا قائم رہنے والی قوم کی حالت ہے ‘‘ کیونکہ قِیِّمِۃ دین کی صفت نیہں ہے اور عربی زبان میں قواعد کے مطابق ایسا ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ دین مذکر ہے اور قیمّہ مونث ہے اور مذکر کی صفت مؤنث نہیں بن سکتی- پس عربی زبان کے قواعد کا موصوف مخدوف سمجھنا ہو گا اور سیاق و سباق عبارت سے اَلْمِلَّۃ یا ایسا ہی کوئی لفظ ہو سکتا ہے اور اسی قاعدہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے اس آیت کی یہ تشریح کی ہے کہ ذَاِلکَ دِیْنُ الْقَیْمَۃِ
دوسرے اِس آیت سے ایک دین ماننا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس جگہ پر تو باقی تمام مقامات سے زیادہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ یہوو اور نصاریٰ کا دین مختلف ہے تبھی قرآن کریم کے متعلق صُحُفََا مُّطَھَرَۃً اور فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ کہا گیا ہے تعجب ہے کہ جس جگہ قرآن کریم نے اختلاف پر زوردیا ہے وہیں ویری صاحب کو یہ اعتراض سوجھا ہے کہ اسلام مسیحیت اور یہودیت سب کو ایک ہی مذہب قرار دیا گیا ہے-
۷؎ تفسیر
میں نے جہاں لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْمِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفِکِّیْنَ حَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیْنَۃُ میں مِنْ کو بیانیہ قرار دیا تھا وہاں میرے نزدیک اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْھَامیں منْ بعضیہ اور کَفَرُوْا سے نا واقفیت کا کفر مراد نہیں بلکہ وہ کفر مراد ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے اختیار کیا جاتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کی یہ سزا ہو گی کہ وہ جہنم کی آگ میں داخل کئے جائیں گے اور اُس میں ہمیشہ وہ جہنم کی آگ میں داخل کئے جائیں گے اور اُس میں ہمیشہ رہیں گے- یہ سزا بتلا رہی ہے کہ یہاں اہل کتاب اور مشرکین میں سے ایسے کفار کا ہی ذکر کیا جا رہا ہے جنہوں نے جان بوجھ کر کفر کیا- جن پر حُجت کا اتمام ہو گیا اور جن کا اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی عُذر قابلِ شُنوائی نہ رہا- ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں داخل کئے جائیں گے اور اُس میں رہتے چلے جائیں گے پھر فرماتا ہیاُولٰٓئکَ ھُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃ یہی وہ لوگ ہیں جو تمام مخلوق میں سے بد ترین ہیں- اس کے مقابل میں مومنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اُولٰٓئکَ ھُمْ خَیْرالْبَرِیَّۃُ وہ لوگ تمام مخلوق میں سے بہتر ہیں-
شر اور خیر کے الفاظ ایسے ہیں جو ہیں تو اِسم تفصیل مگر کثرتِ استعمال کی وجہ سے اُن کا ہمزہ اُڑگیا ہے اس لئے اشر اور اخیر کی شکل میں استعمال نہیں ہوئے-
شَرُّ الْبَرِیَّۃ کے معنے ہیں بنی نوع انسان میں سب سے بد ترین یہ لوگ صرف بُرے نہیں بلکہ تمام مخلوق میںسے بد ترین ہیں اور خَیْرالْبَرِیَّۃ کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے وہ تمام مخلوق میںسے بہترین ہیں - گویا کفار سب سے بُرے ہیں اور مومن سب سے اچھے ہیں یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین کے علاوہ غیر مسلم دنیا میں کوئی قوم ہی نہیں؟ میں بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم میں جب بھی اہل کتاب اور مشرکین کا ذکر کیا جائے تو اُس سے مراد تمام غیر مسلم دنیا ہوتی ہے کیونکہ غیر مسلم دو حلقوں میں ہی تقسیم کئے جا سکتے ہیں یا وہ اہل کتاب ہونگے یا وہ مشرک ہوں گے- پس جب کہ دنیا میں صرف دو ہی گرو پائے جاتے ہیں - اہل کتاب اور مشرک- تو سوال یہ ہے کہ اہل کتاب اور مشرک بُرے کن سے ہوئے-
اسی طرح جب مومنوں کے سوا دنیا میں کوئی اَور ایماندار جماعت ہی نہیں تو وہ اچھے کن سے ہوئے؟ بے شک ایک زمانہ ایسا گذرا ہے جب الگ الگ قوموں کی طرف الگ الگ انبیاء مبعوث ہوا کرتے تھے اور ہر قوم صرف اپنے نبی پر ایمان لانے کی پابند تھی اُسے یہ ضرورت نہیں تھی کہ وہ دوسری قوم کے نبی پر ایمان لائے اُس وقت اگر یہ کہا جاتا کہ مومن تمام مخلوق میں سے بہترین تو خیال کیا جا سکتا تھا کہ اس سے مراد یہ ے کہ وہ زرتشی مومنوں سے اچھے ہیں یا کرشنی مومنوں سے اچھے ہیں یا موسوی مومنوں سے اچھے ہیں مگر جب مومنوں کا ایک ہی گروہ ہے تو وہ اچھے کس طرح سے ہوئے- اسی طرح جب اہل کتاب اور مشرکین کے سوا اور کوئی کافر ہی نہیں تو بُرے کس سے ہوئے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جو اس مقام پر پیدا ہوتا ہے کہ جب کافروں کے سوا اور کوئی کافر ہی نہیں تو وہ بُرے کس سے ہوئے اور جب مومنوں کے سوا اور کوئی مومن ہی نہیں تو وہ اچھے کس سے ہوئے؟
درحقیقت اِن آیات میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی اُمت کا پہلے انبیاء کی اُمتوں سے مقابلہ کیا گیا ہے اسی طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا مقابلہ پہلے انبیاء کے دشمنوں سے کیا گیا ہے اور اسی بناء پر شر اور البریّہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے محمد صلے اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا ہے وہ پہلے تمام انبیاء کے دشمنوں سے بدتر ہیں اور وہ لوگ جنہیں محمد صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوتی ہے وہ پہلے تمام انبیاء کی اُمتوں سے اچھے ہیں- پس شر البریہ اور خیر البریہ کے الفاظ موجودہزمانہ کی مخلوق کے لحاظ سے نہیں کہ یہ سوال پیدا ہو کہ جب مومنوں کے سوا اور کوئی مومن ہی نہیں تو وہ اچھے کس سے ہوئے ؟ بلکہ یہ الفاظ پہلے زمانہ کے لوگوں کے مقابل میں ہیں- اور اُولئکَ ھُمُ شَرُّ الْبَرِیَّہ کے کے معنے یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلے علیہ وسلم کے منکر موسیٰؑ کے منکروں سے بھی بد تر ہیں- عیسٰیؑ کے منکروں سے بھی بدتر ہیں- کرشنؑ کے منکروں سے بھی بدتر ہیں- زرتشت کے منکروں سے بھی بد تر اور اُولٰٓئکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِکے معنے یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مومن موسیٰؑ کے مومنوں سے بھی ہیں- زرتشتؑ کے مومنوں سے بھی اچھے ہیں- غرض اُن کا مقابلہ پہلی اقوام کے ساتھ کیا گیا ہے اور اس مقابلہ کی بناء پر ہی کفار کو شر البّریہ اور مومنوں کو خیر البریّہ کہا گیا ہے- کیوں؟ اس لئے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ۔
وہ تعلیم لائے تھے جو فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃ کی مصداق تھی، جو صحفِ مطہّرہ پر مشتمل تھی اور جس میں تمام انبیاء سابقین کی اعلیٰ تعلیم شامل تھی - پس نوحؑ کی اُمّت نے صرف موسیٰ ؑ کی تعلیم پر عمل کیا- عیسیٰ کی اُمّت نے صرف عیسیٰؑ کی تعلیم پر عمل کیا- کرشنؑ کی اُمّت نے صرف کرشنؑ کی تعلیم پر عمل کیا- زرتشتؑ کی اُمّت نے صرف زرتشت۔
جَزَآؤُ ھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا ط رَ ضِیَ اللّٰہُ
اُن کا بدلہ اُن کے رب کی حضور میں قائم رہنے والی باغات ہوں گے جن کے تلے نہریں بہتی ہوں گی- وہ اُن میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے اللہ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ اُس ( اللہ) سے
عَنْہْمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ oع
راضی ہو گئے- یہی (جزا) اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے ۸؎

تفسیر کبیر
جلد نہم
سُوْرَۃُالشَّمْسِِ مَکِیَّۃ ٌ
سورۃ شمس ۔ یہ سورۃ مکّی ہے نمبر ۱
وَھِیَ خَمْسَ عَشْرَۃَ اٰیَۃً دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِیْہَا رُکُوْعٌ وَّاحِدٌ
اور بسم اللہ کے سوا اس میں پندرہ (۱۵) آیات ہیں اور ایک رکوع ہے ۔
نمبر ۱ ۔ یہ سورۃ مکی ہے ابن عباس ؓ کی روایت ہے نَزَلَتْبِمَکَّۃَ کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی تھی ایسی ہی روایت ابن الزبیر ؓسے بھی ہے ۔ عقبہ ابن عامر کی روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ظہر کی نماز میں سُوْرَۃُالشَّمْس اورسُوْرَۃُالضُّحٰی پڑھا کریں ۔ مطلب یہ کہ اس وقت زیادہ لمبی سورتیں نہ پڑھا کریں ۔ نیز ان دونوں سورتوں کو ظہر کے وقت سے مناسبت بھی ہے ۔ (فتح البیان )
پادری ویری کے نزدیک پہلانصف حصہ پہلے سال کا اور آخری نصف تیسرے چوتھے سال کا معلوم ہوتا ہوتا ہے کیونکہ آخری حصہ میںمخالفت ِ انبیاء کا ذکر ہے ۔ وہ کہتے ہیں چونکہ اس سورۃ کے آخری حصہ میں انبیاء کی مخالفت کا ذکر ہے اور انبیاء کی مخالفت کا ذکر اسی وقت اور اسی سلسلہ میں ہو سکتا ہے جب رسول کریم ﷺ کی ظاہری مخالفت مکہ میں شروع ہو گئی ہو اور منظم مخالفت تیسرے سال کے آخر یا چوتھے سال کے شروع میں ہوئی ہے اس لئے سورۃ کا یہ حصہ اُسی وقت کا ہے ۔
یہ تو درست ہے کہ یہ سورۃ ابتدائی زمانہ کی ہے اور بالکل ممکن ہے کہ پہلے سال کی ہو یا دوسرے سال کی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تیسرے سال کے ساتھ اس کا تعلق ہو لیکن ویری کا یہ قیاس کرنا بالکل لغو بات ہے کہ چونکہ اس میں مخالفتِ انبیاء کا اجمالاً ذکر ہے اس لئے آدھا حصہ پہلے نازل ہو چکا تھا اور آدھا حصہ بعد میںنازل ہوا ۔ پہلاحصہ پہلے سال میں نازل ہوا اور دوسرا حصہ تیسرے یا چوتھے سال میں نازل ہوا کیونکہ محض مخالفتِ انبیاء کاذکر مخالفت کے شروع ہو جانے سے تعلق نہیں رکھتا۔ ہم تو قرآن کریم کو اللہ تعالی کا کلام سمجھتے ہیں اور اس شک میں پڑنا بالکل خلاف عقل ہے کہ اللہ تعالی کو آئندہ مخالفت کا علم تھا یا نہیں لیکن پادری ویری اور ان کے ہم خیالوں کے نقطہ نگاہ کو مد نظر رکھ کر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسااجمالی ذکر مخالفت کا بھی اسی وقت آسکتا ہے ۔ جب کہ مخالفت کے آثار شروع ہو چکے ہوں ۔ اگر یہ لوگ قرآن کریم کو انسانی کلام سمجھتے ہیں تو بھی انہیں یہ خیال کرنا چاہیئے کہ ہر شخص جو ایک نئی بات دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے وہ قدرتی طور پر اُن کے انکار کی امید بھی کرتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ انکا ر کی شدت یا اس کی نوعیت کا اندازہ نہ لگا سکے مگر انکار و تردید کی امید ضرور رکھتا ہے آخر کون عقل مند یہ خیال بھی کر سکتا ہے کہ ایک شخص اپنی قوم کے عقائد کے خلاف اس کے مذہب کے خلاف اور اس کے رسم و رواج کے خلاف دعویٰ کرے اور پھر وہ یہ امید رکھے کہ لوگ مجھے فوراً ماننے لگ جائیں گے۔ پس ضروری ہے کہ لوگ اس کی بات کا انکار کریں۔ ہاں اگر وہ سچا ہو توآخر میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے قبولیت کے آثار دیکھ لے گا ۔
جیسا کہ مَیں اوپر کئی مواقع پر بیان کر چکا ہوں کہ یہ درست ہے کہ اگر مخالفت کی تفصیلات بیان کی جائیں تو ایک حکمت سے پر کتاب ضرور اس امر کو ملحوظ رکھ لیتی ہے کہ وہ تفصیلات یا تو اشارے کنائے میں بیان ہوں اور یا ایسے وقت کے قریب بیان ہوں جب وہ واقعات رونما ہونے والے ہوں تا مخالف یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں انگیخت کی گئی ہے ۔ مخالفت کی انگیخت کا الزام دور کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اگر پیشگوئی کے طور پر واقعات بیان کئے جائیں تو اس کے الفاظ چبنے والے نہ ہوں ۔ مگر یہ امر ہم صرف تفصیلات کے متعلق تسلیم کرتے ہیں۔ محض یہ بات بیان کرنا کہ سچائی کی مخالفت ہوا ہی کرتی ہے یہ کوئی ایسا مضمون نہیں جس سے لوگ چڑ جائیں۔ ہر روز ہر مجلس میں جب بھی صداقت کا ذکر ہو تو لوگ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہر نئی صداقت کی مخالفت ہوتی ہے مگر اس سے نہ انگیخت ہوتی ہے نہ کسی کے دل میں جوش پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی فتنہ و فسا درونما ہوتا ہے ۔
قرآن کریم کے متعلق پادری ویری کو قیاس کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ کئی صدیاں اس کے نزول کے بعد پیدا ہوئے ہیںاور عقل سے اس کے نزول کی تاریخیں معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ چونکہ اس میںمخالفت کا ذکر ہے اور وہ بھی آپ کی مخالفت کا نہیں بلکہ ایک گذشتہ نبی کی مخالفت کا ۔ اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ یہ آخری حصہ اس وقت کا ہے جب کہ آپ کی منظم مخالفت مکہ میں شروع ہو گئی تھی ۔ مگر ہم یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ان کا طریق استدلال بالکل غلط ہے ایک ایسی مثال پیش کرتے ہیں جو تاریخی واقعات پر مبنی ہیں اور جس سے کسی صورت میں بھی انکار نہیں کیاجاسکتا ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ جن کا سب زمانہ تاریخی ہے ا ٓپ کو براہین احمدیہ کی اشاعت سے بھی پہلے الہام ہوا کہ ـ’’ کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا ‘‘(تذکرہ صفحہ ۲۷۱) اس الہام میں مخالفت کا ذکر ہے اور مخالفت کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے زور آور حملوں کا بھی ذکرہے لیکن ایک تو دنیا کا لفظ استعمال کر کے مفہوم کو ایسا وسیع کر دیا کہ مسلمان سمجھیںشاید عیسائیوں کا ذکر ہے اور عیسائی سمجھیںشاید مسلمانوں کا ذکر ہے ۔ پھربجائے خصوصیت سے یہ ذکر کرنے کے کہ صوفیاء بھی مخالفت کریں گے اور اکابراور علماء بھی مخالفت کریں گے عام رنگ میں اللہ تعالیٰ نے اس مخالفت کی طرف ان الفاظ میںاشارہ کر دیا کہ ’’ دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا ‘‘ ۔ مگر یہ الہام آپؑ کو اس وقت ہواجب آپ براہین ِ احمدیہ لکھ رہے تھے اور لوگ آپ پر بڑ ا اعتقاد رکھتے تھے یہاں تک کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بعد میںشدید مخالف ہو گئے اور احمدیت کی دشمنی کو انہوں نے انتہا تک پہنچا دیا اور جو اپنے تکبر اور رعونت کی وجہ سے کسی کی با ت ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے انہوں نے بھی براہین احمدیہ کو پڑھ کر لکھا کہ:۔
’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں۔ لَعَلَّ اللہ َ یُحْدِ ثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْراً‘‘
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق لکھا کہ :۔
’’ اس کا مولف بھی اسلام کی مالی ، جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے ‘‘
پھر اس خیال سے کہ کہیں لوگ مبالغہ سمجھ کر اس رائے کو غلط نہ قرار دے دیں انہوں نے زور دیتے ہوئے لکھا کہ :۔
’’ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشائی مبالغہ سمجھے تو ہم کوکم از کم ایک ایسی کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ سماج و برہمو سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشان دہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت ِ مالی و جانی و قلمی و لسانی کے علاوہ نصرت ِ حالی کا بیڑااٹھا لیا ہو اور مخالفین ِ اسلام اور منکرین ِ الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آکر اس کاتجربہ و مشاہد ہ کرلے اور اس تجربہ و مشاہد ہ کا اقوام ِغیر کو مزا بھی چکھا دیا ہو‘‘۔ (اشاعۃ السنتہ جون ۔ جولائی اگست ۱۸۸۴ء )
اب دیکھو جس وقت دنیا تعریف کر رہی تھی ، جب بڑے بڑے رئوساء اور نواب آپ سے خط و کتابت رکھتے اور آپ کو دعا کے لئے لکھتے رہتے تھے ، جب علماء اور عوام آپ سے عقیدت رکھتے تھے اور جب مخالفت کے دنیا میں کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا:۔
ــ ’’ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیانے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘ ۔
وہ مخالفتیں جو اب ہو رہی ہیں یا گذشتہ عرصہ میں ہو چکی ہیں ان کا کیسا مختصر مگر مکمل نقشہ اوپر کے الفاظ میں کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے آخر یہ غور کرنے والی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ بات کس نے بتا دی تھی کہ آپ کی دنیا میں شدید مخالفت ہو گی ۔ ایسی مخالفت کہ اس کے مقابلہ میں خدا تعالی کو بھی سچائی کے اظہار کے لئے زور آور حملوں سے کام لینے کی ضرورت پیش آئے گی ۔ یہ امر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس امر کے مدعی تھے کہ میں رسول کریم ﷺ کا خادم ہوں ۔ پس جس ہستی نے ایک خادم اور غلام کو ایسے زمانہ میں جبکہ مخالفت کا نام و نشان تک نہیں تھا اس امر کی اطلاع دے دی کی تیری مخالفت ہونے والی ہے ۔ ویری جیسے عقلمند کو اس سے سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ ہستی آقا کو بھی قبل از وقت خبر دے سکتی تھی ۔ مگر بوجہ اُس تعصب کے جو مسیح پادریوں میں بالعموم پایا جاتا ہے اور بوجہ اس مخالفت کے جو لوگوں کو اسلام سے ہے پادری ویری کے لئے یہ سمجھنا بڑا مشکل ہے کہ ابتدائی زمانہ میں ہی جب مخالفت کا کہیں وجود نہیں تھا آپ کو اس کا کیونکر علم ہو گیا ۔ وہیری صاحب کو سمجھ لینا چاہیئے کہ اس میں محمد ﷺ کے علم کا سوال نہیں بلکہ خدا تعالی کے علم کا سوال ہے لیک فرض کرو یہ سورۃ محمد ﷺ کی اپنی بنائی ہوئی ہے تب بھی انہیں اتنا سمجھ لینا چاہیئے کہ تفصیلات کا بے شک علم نہ ہو لیکن قوم کے اعتقادات اور اُس کے رسوم و رواج کے بالکل خلاف ایک نئی بات پیش کرنے والا ہر شخص سمجھتا ہے کہ قوم میری مخالفت کرے گی ۔ رسول کریم ﷺ کو جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا پہلی وحی کے نزول کے بعد ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور اُس نے آپ سے کہا کہ تیری قوم سخت مخالفت کریگی یہاں تک کہ تجھے مکہ میں سے نکال دے گی ۔ توآپ نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ لوگ میری مخالفت کریں؟ اُس نے کہا آج تک کوئی ایسا رسول نہیں آیا جس کی اُس کی قوم نے مخالفت نہ کی ہو۔ پس اگر یہ سورۃ پہلے سال کی سمجھو تب بھی ورقہ بن نوفل نے آپ کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر دیا تھا اور بتا دیا تھا کہ دنیا آپ کی مخالفت کرے گی ۔ الغرض محض مخالفت کا ذکر اس امر کا ثبوت نہیںہو سکتا کہ یہ سورۃ مخالفت کے قریب زمانہ کی یا خود مخالفت کے زمانہ کی ہے ۔ ہاں بعض تفصیلاتِ معّینہ اس امر کی ایک غالب دلیل ہوتی ہیں کہ وہ اس زمانہ یا س کے قریب کی ہیں مگر قطعی ثبوت اور حجت وہ بھی نہیں ہو سکتیں ۔ بہر حال محض سورۃ کے آخری حصہ میں مخالفتِ انبیاء کا ذکر آجانے سے یہ خیال کر لینا کہ یہ حصہ تیسرے یا چوتھے سال کا ہے بالکل بعید از قیاس امر ہے ۔
ہم کُلّی طور پر انکارنہیںکرتے ممکن ہے یہ سورۃ تیسرے سال کی ہی ہو مگر اس وجہ سے اسے تیسرے یا چوتھے سال کے ابتدائی حصہ کی قرار دینا کہ اس میں مخالفتِ انبیاء کا ذکر آتاہے محض دشمنی اور عداوت کا نتیجہ ہے ۔
ترتیب: سر میور کہتے ہیں کہ یہ چند سورتیں یعنی شمس اور اس سے دو پہلی اور دو بعد کی سورتیں یعنی سورہ فجر سورہ بلد ، سورہ لیل اور سورہ ضحی اظہار خیالات کا رنگ رکھتی ہیں اور ایسی ہی ہیں جیسے کوئی شخص اپنے نفس سے باتیں کر رہا ہو۔ میور کے ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے غارِ حرا میں رہ کر اپنی قوم کے حالات پر جو کچھ غور کیا اور اُس کے نتیجہ میں آپ کو جو خرابیاں اپنی قوم میں نظر آئیں اور جو کچھ فیصلے آپ کے دل نے اُن دنوں میں کئے اب ان سورتوں میں آپ ان کا اظہار کر رہے ہیں ۔ یوروپین مصنفین اس قسم کا اظہار ِ خیالات کو سیلیلوکیز SOLILOQUIESکہتے ہیں یعنی دل کے خیالات سے متاثر ہو کر خود اپنے آپ سے باتیں کرنا ۔
گویا یوروپین مصنفین کے نزدیک یہ سورتیںکیا ہیں یہ وہ آہیں ہیں جو آپ کے تڑپتے ہوئے دل سے اُٹھیں، یہ وہ نالے ہیں جو قوم کی حالتِ زار پر آپ نے بلند کئے اور یہ وہ فغاں ہے جس نے حرا کی تاریکیوں میں ایک شور پیدا کیا ۔ دنیا اپنی عیاشیوںمیں مبتلا تھی، لوگ اللہ تعالی سے غافل ہ بیگانہ ہو چکے تھے مگر محمد رسول اللہ ﷺ اپنی قوم کی حالت پر تنہائی کی گھڑیوں میں آہیں بلند کر رہے تھے ، نالہ و فریاد سے ایک شور بپا کر رہے تھے ، درد و کرب اور انتہائی اضطراب کے عالم میں اپنے دن گذار رہے تھے اور آخر آپ کی آہیں ، آپ کے نالے اور آپ کی فریادیں ان سورتوں کی شکل میں دنیا پر ظاہر ہو گئیں۔
دشمن نے یہ بات خواہ کسی رنگ میں کہی ہو مگر ہے ایک لطیف بات ۔ دشمن کی غرض تو ان الفاظ سے یہ ہے کہ ان سورتوں میں جن جذبات کا اظہار ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے اپنے جذبات ہیں آپ اپنے دل میں جو کچھ سوچا کرتے اور جن جذبات و کیفیات سے آپ گذرا کرتے تھے اُنہی جذبات و کیفیات کا آپ نے ان سورتوں میں اظہار فرما دیا ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بھی اپنے کلام میں انسانی جذبات کو ظاہر کیا کرتا ہے ۔ اگر یہ محمد رسول اللہ ﷺ کے جذبات تھے توہم اس کے معنے یہ لیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لئے صحیح انتخاب کیا اور ایسے شخص کو اس عظیم الشان کام کی سر انجام دہی کے لئے چنا جس کے اپنے جذبات بھی خدا تعالیٰ کے ارادوں کے ساتھ مل گئے تھے پس ہم دشمن کی اس بات کو ردّنہیں کرتے بلکہ ایک نئے نقطئہ نگاہ کے ماتحت تسلیم کر لیتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں اگر یہ صحیح ہے کہ ان سورتوں میں محمد رسول اللہ ﷺ کے اس دکھ اور اس درد اور اس تالّم کا اظہار کیا گیا ہے جو آپ اپنی قوم کے متعلق محسوس کرتے تھے تو یہ امر بتاتا ہے کہ کس طرح محمد رسو ل اللہ ﷺ غلاموں اور یتیموں کی حالت کو دیکھ دیکھ کر زار ہو رہے تھے ۔ کیا کیا خیالات تھے جو آپ کے دل میںپیدا ہوتے تھے اور کیا کیا جذبات تھے جو آپ کے دل میں ہیجان بپا رکھتے تھے ۔ آپ سمجھتے تھے کہ میری قوم جب تک اپنے ان افعال میں تبدیلی پیدا نہیں کرے گی وہ کبھی ترقی نہیں کر سکے گی ۔ تم اِسے انسانی کلام سمجھ لو۔ تم اس کلام کو بناوٹی کلا م قرار دے دوبہر حال تمہیں تسلیم کرنا پڑے گاکہ جس انسان کے آگے آنے کی وجہ سے یہ ہو کہ ظلم اور استبداد کو میں برداشت نہیں کر سکتا ، یتیموں اور بیکسوں کی آہ و زاری کو میں دیکھ نہیں سکتا ، غریبوں اور ناداروں کے حقوق کا اتلاف کبھی جائز نہیں سمجھا جا سکتا ، غلاموں پر تشدّد کبھی روانہیں رکھا جاسکتا اُس کی بڑائی اور اس کی نیکی اور ا س کی عظمت کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ انہی حالات کو دیکھ دیکھ کر وہ حراء کی تاریکیوں کو پسند کرتا ہے ، وہ دنیا سے ایک عرصہ تک جدا رہنا پسند کرتا ہے اور پھر جب وہ دنیا کی طرف واپس آتا ہے تو اس لئے نہیں آتا کہ وہ اپنے لئے عزت چاہتا ہے ، اس لئے نہیں آتا کہ وہ اپنے لئے حکومت چاہتا ہے بلکہ اس لئے آتاہے کہ قوم کے گرے ہوئے طبقہ کو ابھارے ، اس کی برائیوں کو دور کرے اور اس کی اصلاح کر کے اسے دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لاکر کھڑا کر دے ۔ میور کہتا ہے یہ سولیلوکیز SOLILOQUIESہیں یہ وہ باتیں ہیں جوانسان اپنے نفس سے کیا کرتا ہے ، یہ وہ خیالات ہیں جو گہری خلوت میں انسان کے دل میں خود بخودپیدا ہو جایا کرتے ہیں لیکن اگر محمد رسول اللہ ﷺ کے یہی خیالات تھے اور اگر آپ کے قلب کی گہرائیوں میں بار بار یہی جذبات موجزن رہتے تھے کہ ان غلاموں کو کون پوچھے گا ، ان یتیموں کو کون پوچھے گا ، ان مساکین کو کون پوچھے گا مجھے خلوت کو چھوڑ دینا چاہیئے اور اس وقت تک مجھے دم نہیں لینا چاہیئے جب تک بڑے بڑے رئیس اور سردار اپنے ان مظالم سے توبہ نہیں کر لیتے ۔ تو میں سمجھتاہوںیہی خیالات اپنی ذات میں اتنے پاکیزہ ہیں کہ دنیا کا کوئی ہوشمند انسان آپ کی فضیلت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا
بہر حال دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو قرآن مجید کو خداتعالیٰ کا کلام قرار دیا جائے یا انسان کا ۔اگر خدا تعالیٰ کا کلام مان لیا جائے تب تو کوئی اعتراض نہیں رہتالیکن اگر یہ انسان کے خیالات ہیں تو ایسے پاک نفس انسانکے خیالات ہیں جس کی پاکیزگی اور تقدس سے کوئی شخص انکار کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
اس سورۃ کا تعلق دوسری سورتوںسے سمجھنے کے لئے اس امر کو مد نظر رکھنا چاہیئے کہ یہ پانچوں سورتیں جن کا ذکر سورتوں کی ترتیب کے سلسلہ میں پہلے کیا جا چکا ہے اپنے اندر یہ مضمون رکھتی ہیں کہ غرباء اور یتامیٰ و مساکین کی مدد کرنی چاہیئے چنانچہ سورۃ الفجر میں آتا ہے کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ ……… پھر سورۃ البلد میں آتا ہے وَمَا…………… پھر انہی اخلاق کا سورہ الشمس میںذکر ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاَلْھَمَھَا……………… پھر سورۃ الیل میں فرماتا ہے فَا َمَّا ……… اسی طرح آتا ہے وَ سَیُجَنَّبُھَا ……… پھر سورۃ الضحیٰ میں آتاہے فَا َمَّا ……… اس سے ظاہر ہے کہ یہ پانچوں سورتیں آپس میں ایک گہرا تعلق رکھتی ہیں اور ان میں زیادہ تر اخلاق فاضلہ پر زور دیا گیا ہے بالخصوص ایسے اخلاق پر جو قومی ترقی سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں غریب ، مظلوم ، بے کس اور گرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے اور ان کے لئے ترقی کے وسائل اختیار کرنے کی تحریک پائی جاتی ہے ۔ ان جذبات کو خواہ دشمن محمد رسول اللہ ﷺ کے اپنے جذبات قرار دے تب بھی ظاہر ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے جن جذبات سے متاثر ہو کر اصلاح کا بیڑا اٹھایا وہ جذبات غرباء اور یتامیٰ و مساکین کی خدمت کے تھے۔
بحر محیط کے مصنف لکھتے ہیںکہ پہلی سورۃ سے اس کا تعلق یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں اللہ تعالی نے مکہ کی قسم کھائی تھی اب کچھ بلندیوں اور پستیوں کی قسم کھاتا ہے ۔ میرے دل میں سب سے زیادہ قدر بحر محیط کے مصنف کی ہے کیونکہ تفسیر کا وہ حصہ جس سے مجھے لگائو ہے یعنی ترتیب سور کا مضمون ۔ اس سے ان کو بھی لگائو ہے مگر یہاں آکر وہ بڑی پھسپھسی بات کہہ گئے ہیں۔ ان پانچ سورتوں کا مضمون (جن سورتوں کا پہلے ذکر ہو چکا ہے ) آپس میںبڑا گہرا تعلق رکھتا ہے ۔ اگر ہم سورۃ البلد کو سورۃ الشمس کے مضمون سے ملا دیں تو یہ سورۃ اگلی سورۃ سے جا ملتی ہے ۔ پس اس سورۃ کی ترتیب کے متعلق تو کوئی مشکل پیش ہی نہیں آسکتی ۔ اس سے پہلی سورۃ میں بھی غرباء کے لئے اموال کو خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے پس کم سے کم ان مضامین کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سورۃ ما قبل اور ما بعد کی سورتوں سے نہایت گہرا تعلق رکھتی ہے ۔ اگر بحر محیط کے مصنف اتنی بات ہی بیان کر دیتے تو ایک معقول بات ہوتی مگر یہ کیا پھسپھسی بات ہے کہ پہلے چونکہ مکہ کی قسم کھائی تھی اس لئے اللہ تعالی نے کہا کہ آئو اب لگتے ہاتھوں ایک اونچی اور ایک نیچی چیز کی قسم بھی کھا لیں یہ محض مجبوری کی بات ہے چونکہ اُن کا ذہن اصل ترتیب کی طرف نہیں گیاانہوں نے یہ تاویل کر لی ۔ بیشک جہاں تک ایسوسی ایشن آف آئیڈیاز ’یعنی بات سے بات پیدا ہو جانے ‘ کا سوال ہے یہ بات صحیح ہے کہ جب انسان کو ایک خیال پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس قسم کا دوسرا خیال بھی پیدا ہو جاتا ہے جب انسان کہتا ہے کہ محض فلاں شخص نہیں ملا تو اُس کی بیوی اور بچوں کا خیال آجاتاہے ۔ پھر اُن کے وطن کا بھی خیال آ جاتا ہے اور پھر اسی طرح یہ خیالات بڑھتے بڑھتے اور کئی رنگ اختیار کر لیتے ہیں ۔ پس ایساہوتا رہتا ہے او ر ہمیشہ ایک سے دوسرا خیال پیدا ہو جاتا ہے لیکن یہ قاعدہ انسانوں کی نسبت ہے نہ کہ اللہ تعالی کی نسبت ۔ انسان تو چیزوں کو بھولا ہوا ہوتاہے۔ پس جب ایک چیز کا خیال کسی وجہ سے اسے آتا ہے تو اُس کے ساتھ تعلق رکھنے والی اشیاء بھی اسے یاد آنا شروع ہو جاتی ہیں مگر ہم اس جگہ کسی شاعر کے شعروں کے ربط پر غور نہیں کر رہے بلکہ اللہ تعالی کے کلام پر غور کر رہے ہیں جو عالم الغیب ہے اور جو ’ایسوسی ایشن آف آئیڈیاز ‘ یا بات سے با ت یاد آجانے کے قاعدہ سے بالا اور پاک ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں خانہ کعبہ کی بنیاد کی غرض بیان کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ ہم اس شہر کی قسم کھاتے ہیں اور پھر اس شہر کو بنانے والے ابراہیم ؑ کی بھی قسم کھاتے ہیں ابراہیم ؑنے یہ شہر اس لئے بنایا تھا کہ یہاں امن قائم رہے اور لوگ اللہ تعالی کے نام پر اپنی زندگیاں وقف کرتے رہیں مگر اب کیا ہے اب اُس کی یہ حالت ہے کہ اَنْتَ حِلّ’‘م بِھٰذَا الْبَلَدِ اے محمد رسول اللہ ! تجھے اس میں تنگ کرنا حلا ل سمجھا جاتا ہے ابراہیم ؑ نے جب مکہ بنایا تو اس وقت اس نے اللہ تعالی سے یہ دعا کی تھی کہ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًااٰمَنًاوَّ ارْزُقْ اَھْلَہُ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللہ ِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ( البقرۃ ۱: ۱۵)یعنی اے میرے رب! میں اس بستی کو امن کیلئے بساتا ہوں ۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ ابراہیم ؑ کے اپنے بچہ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کو مکہ میں ہرقسم کی تکالیف کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس شخص نے دعا یہ کی تھی کہ خدایا یہاں باہر سے آنے والوں کو بھی امن میسر آجائے کیا اس کا کلیجہ یہ دیکھ کر ٹھنڈا ہو سکتا ہے کہ اُس کیاپنے بچہ کو اس شہر میں ہر قسم کے مصائب کا تختہ ء مشق بنایا جا رہا ہے اگر کہو کہ ابراہیمؑ نے بیشک امن کی دعاکی تھی مگر اب ایک ایسا شخص پیدا ہو گیا ہے جس نے ہمارے عقائد کے خلاف باتیں پھیلانا شروع کر دی ہیں اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان باتوں کا ازالہ کریں خواہ اس کے نتیجہ میںمکہ کا امن برباد ہی کیوں نہ ہو جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک یہ تمہارے عقائد کے خلاف باتیں پھیلا رہا ہے اور تمہیں ان باتوں کو سن کر اشتعال پیدا ہوتا ہے مگر کیا ابراہیم ؑ کی دوسری دعا تمہیںیاد نہیں؟ اُس نے صرف یہی دعا نہیں کی تھی کہ مکہ میںامن قائم رہے بلکہ اُس نے یہ بھی دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًامّنْھُم یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ۔ (البقرہ ۔ : ۱۵) جب اُس نے یہ دعا کی تھی تو کیا اس کے مدنظر یہ بات تھی یا نہیں کہ ایک دن آئے گا جبکہ تم لوگ خراب ہو جائوگے ۔ اگر تم نے خراب نہیں ہونا تھا تو کسی رسول کے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ لیکن جب اس نے ایک رسول کے آنے کی پیشگوئی کر دی تو اس پیشگوئی کے ساتھ ہی اُس نے یہ بھی فیصلہ کر دیا کہ میرے بعد میری قوم خراب ہو جائے گی اور اُس وقت ایک ایسے رسول کی ضرورت ہو گی جو اُن کے عقائد کی اصلاح کرے اور ان کی خرابیوں کو دور کرے ۔ اس قسم کی خرابیاں پیدا ہونے کے بغیر وہ رسول نہیں آسکتا تھا جو یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ کا مصداق ہوتا ۔ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا جب مکہ والے آیات ِ الٰہیہ کو بھول جائیں گے یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا جبکہ مکہ والے کتاب الہٰی کو بھول جائیں گے ۔ پھر کتاب کے ساتھ حکمت کے لفظ کا اضافہ بتاتا ہے کہ ایک زمانہ آئیگا جبکہ مکہ والوں کی عقلیں ماری جائیں گی اوروہ نہایت ہی احمقانہ عقائد میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ اسی طرح یُزَکِّیْھِمْکا لفظ بتاتا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ مکہ والے تقویٰ سے دور جا پڑینگے اور ضرورت ہو گی کہ ایک رسول ان میں مبعوث ہو جو دوبارہ ان کو ہدایت پر قائم کرے ۔ پس فرمایا کہ مکہ کی بنیاد ایک وسیع نظام کے قیام کے لئے تھی جس میں روحانی ، اعتقادی ، سیاسی ، تمدنی ، عائلی ، اقتصادی ، علمی ، بین الاقوامی ، فکری اور اخلاقی تعلیمات اور ان کی حکمتوں اور ضرورتوں کا بیان ہو اور صرف خیال آرائی نہ ہو بلکہ عملی طور پر انسانی فکر اور عمل اور معاملہ کی اصلاح مد نظر ہو ۔روحانی اور اعتقادی تعلیمات کا ذکر یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَاب میںآتا ہے ان تما م تعلیمات کی حکمتوںاورضرورتوں کا بیان تعلیم الحکمۃمیں آجاتا ہے اور یہ امر کہ صرف خیال آرائی نہ ہو بلکہ عملی طور پر انسانی فکر اور عمل اور معاملہ کی اصلاح مد نظر ہو اور یہ کلام عملاً کیا جائے یہ یُزَکِّیْھِمْ میں آجاتا ہے ۔
غرض یہ ایک بہت بڑی پیشگوئی تھی اور بہت بڑا کام تھا جو دنیا میں ہونے والا تھا۔ اس بڑے کام کے لئے ابرہیم ؑ کی نسل میںایک کامل بیٹے کی ضرورت تھی ایسے بیٹے کے بغیریہ کام کبھی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ جب ابراہیم ؑ نے یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا تو یہ امر ظاہر ہے کہ فِیْھِمْ سے مراد ان کی اپنی قوم تھی اور ان کا مطلب یہ تھا کہ تو میری قوم میں ایک کامل رسول بھیجیو پس ابراہیم ؑ ایک کامل بیٹے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیںجس کے بغیر یہ کام تکمیل نہیں پا سکتا تھا اب اس سورۃ میں اس شخص ِ کامل کی استعدادوں کی تفصیلی ذکر فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ فلاں فلاں استعدادوں والے ہی یہ کام کر سکتے ہیں دوسری استعدادوں والے یہ کام نہیں کر سکتے۔
اصل میں بحر محیط کے مصنف کو سورج اور چاند کے لفظوں سے شبہ ہوا ہے یا آسمان اور زمین کے الفاظ سے یہ شبہ پیداہوا ہے کہ شایدان الفاظ کا تعلق پہلی سورۃ سے ہے کیونکہ اس سورۃ کے شروع میں ہی والشمس وضحھا ۔ والقمرا ذا تلہا ۔ والنھار اذا جلہا ۔ والیل اذا یغشہا ۔ والسماء وما بنہا ۔ والارض و ما طحہا ۔ کے الفاظ آگئے ہیں ۔ چونکہ ابتداء میں ہی یہ الفاظ آگئے ہیںانہوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ ان الفاظ کا پہلی سورۃ سے تعلق ہے اور چونکہ پہلی سورۃ میں مکہ کی قسم کھائی گئی تھی اور یہاں سورج اور چانداور آسمان اور زمین کا ذکر آتا تھا انہوں نے خیال کر لیا کہ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے تعلق یہ ہے کہ پہلے مکہ کی قسم کھائی گئی تھی اب کچھ بلندیوں اورپستیوں کی قسم کھائی گئی ہے ۔ حالانکہ یہ الفاظ اصل مقصود اس سورۃ میں نہیں بلکہ یہ مقصود کی تفاصیل بیان کر نے کے لئے بطور امثلہ کے آئے ہیں اصل مقصود تو وہ نفسِ کاملہ ہے جو تقویٰ اور فجورکی راہوں سے کامل طور پر واقف ہوتاہے اور پھر اسے ابھارتا چلا جاتا ہے یعنی صرف دین ِ فطرت پر نہیں رہتا بلکہ دین ِ شریعت کو بھی حاصل کرتا ہے اس نفس ِ کاملہ اور اس کی استعدادوں کو آسانی سے سمجھانے کے لئے اللہ تعالی نے یہاںبعض مثالیں بیان فرمائی ہیں ۔ مگر انہوں نے سمجھا کہ اصل مقصود سورج اور چاند ہے حالانکہ اصل مقصود سورج اور چاند نہیں بلکہ نفسِ کاملہ ہے ۔
پہلی سورۃ میں اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ووالد و ما ولد ہم والد کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے والد کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ اب یہ بتانا چاہیئے تھا کہ وہ ولد کیسا ہونا چاہیئے چنانچہ اس سورۃ میں اللہ تعالی اس کی وضاحت کرتا ہے اور بتاتاہے کہ جس ولد کے متعلق ہماری طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ اللہ تعالی کی آیات کی تلاوت کرے گا، کتاب اور حکمت کھائے گا اور لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کرے گا وہ کن استعدادوں کا مالک ہو گا چنانچہ ان استعدادوں کی یہاں تشریح کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ نفسِ کامل میں کون کون سی استعدادیں ہونی چاہئیں ۔ یہ بھی بتایا ہے کہ نفسِ کامل دو قسم کے ہوتے ہیں اور پھران دونوں کی مثالیں بیان کر کے اس امر کو واضح کیا ہے کہ ا س زمانہ میںکس قسم کے نفسِ کامل کی ضرورت ہے اور یہ کہ جب تک ایسا نفسِ کامل کی مثال میں سورج اور چاند کا ذکر کیا گیا ہے نہ کہ سورج اورچاند اصل مقصود ہیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ O
(مَیں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرمکرنے والا بار بار رحم کرنیوالا ہے (شروع کرتا ہوں)
وَالشَّمْسِ وَضُحٰھَا O ص لا
(مجھے) قسم ہے سورج کی اور اس کے طلوع ہو کر اونچا ہو جانے کی (ایت نمبر ۲)
نمبر ۲ حل لغات شَمْس’‘ کے معنی سورج کے ہوتے ہیں۔ مگر ش ۔ م۔ س کے مادہ ترکیبی کے لحاظ سے شمس کے معنی ایسے وجود کے بھی ہوسکتے ہیں جو کسی کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھنے کے لئے تیار نہ ہو۔ بلکہ اپنی ذات میں کامل ہو ۔ چنانچہ عربی زبان میں کہتے ہیں شمس الرجل ۔ امتنع و ابیٰ کہ اس نے دوسروں کو اپنے سے کم درجہ کا سمجھ کر ان کی اطاعت کرنے سے انکار کر دیا ۔ اور جب گھوڑے کے لئے شمس الفرس کہیں تو معنے یہ ہوتے ہیں کان لایمکن احدا من ظھرہ ولا من الاسراج والالجام ولایکاد یستقر ۔ کہ گھوڑا کسی طرح بھی قابو نہ آسکا ۔ اور اس نے کسی کو اپنی پیٹھ پر نہ بیٹھنے دیا نہ زین ڈالنے دی اور نہ لگام ڈالنے دی (اقرب) گویا شمس ایسے وجود کو کہتے ہیں جس کی روشنی ذاتی ہو اور اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو دوسروں کی اطاعت برداشت نہ کرے یہ مفہوم اس سے نکلتا ہے کہ شمس کے معنے ہیں ایسا وجود جو اطاعت برداشت نہیں کر سکتا ۔ اب جو شخص اطاعت برداشت نہیں کرتا بوجہ اس کے کہ اس میں تکبر پایا جاتا ہے وہ تو بڑا ہے لیکن جو شخص اس لئیاطاعت نہیںکرتاکہ خدا نے اسے پیدا ہی دوسروں کے آگے چلنے کے لئے کیا ہے وہ برانہیں۔ گویا دو قسم کے اباء ہوتے ہیں ایک اباء وہ ہوتا ہے جس میں تابع یہ کہتا ہے کہ میںدوسروں کی بات نہیں مانتا ۔
لیکن ایک اباء اس انسان کا ہوتا ہے جسے پیدا ہی بڑا بننے کے لئے کیا جاتا ہے ۔ جیسے ایک عالم کا یہ کا م ہے کہ وہ فتویٰ دے اب اگر کوئی جاہل شخص اسے کہے کہ اس طرح فتویٰ نہ دو بلکہ اسطرح دو تو وہ فوراً انکار کر دے گا اور کہے گا کہ تمہارا حق نہیںکہ میرے معاملات میں دخل دو مگر اس کا انکار متکبرانہ انکار نہیںہوگا۔ قرآن کریم میں بھی ان معنوں میںاباء کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ویابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکافرون ( توبہ ۵:۱۱) اللہ تعالی اپنے نور کے قائم ہو جانے کے سوا ہر دوسری تحریک سے انکار کرتا ہے یہ ظاہر ہے کہ خدا تعالی کا انکار تکبر والا انکار نہیں کہلا سکتا۔ اسی طرح عربی کا محاورہ ہے بادشاہ سے کہتے ہیں ۔ ابیت ا للعن ۔ آپ نے *** کا انکار کیامطلب یہ کہ آپ ایسے شریف ہیں کہ کسی قسم کی *** کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے۔ اسی طرح کہتے ہیں رجل ابی فلاںشخص ظلم اٹھانے سے انکاری ہے پس شمس کے معنی گو سورج کے ہیں مگر شمس کے مادہ کے اعتبار سے اس کے معنے اباء کے بھی ہیں اور ان معنوںکے لحاظ سے اس سے مراد وہ وجود ہو گا جو کسی کی ناواجب اطاعت سے انکار کرے اور مطلب یہ ہو گا کہ ایسا وجود جس کی قابلیتیں ہی ایسی ہیں کہ وہ کسی کی اطاعت کے لئے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ خدا نے اسے دنیاکا لیڈر بنایا ہے اس کا کام صرف یہی ہے کہ وہ دوسروں کی راہنمائی کرے اس کا یہ کام نہیں کہ کسی کی ماتحتی اختیار کرے ۔
الضحیٰ : ضَحَا( ضَحَا یَضْحُوْا ضحواً)کے معنی ہوتے ہیں کوئی چیز ظاہر ہوگئی چنانچہ کہتے ہیں ضحا الطریق : بدَا و ظَھَر َ۔ کہ راستہ ظاہر ہو گیا (اقرب) اور جب سورج کی روشنی زیادہ نکل آئے تو اس وقت کو ضحی کہتے ہیںلیکن اس سے پہلے وقت کو جو طلوع آفتاب کا ہوتاہے اور جس میں روشنی پوری طرح ظاہر نہیں ہوتی ضحوۃ کہتے ہیں ۔ بعض نے اور زیادہ فرق کیا ہے ان کے نزدیک سورج نکلتے وقت کو ضحوۃ کہتے ہیں ۔ جب سورج کچھ بلند ہوتا ہے تو اس وقت کو ضحی کہتے ہیں اور پھر نصف النہار سے زوال تک کے وقت کو ضحاء’‘ کہتے ہیں ۔ (اقرب)
تفسیر۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں شہادت کے طور پرپیش کرتا ہوں سورج کو اور اس کے ظہور اور روشنی کو ۔
دنیا میں ہر چیز دو حیثیتیں رکھتی ہے ایک اس کی ذاتی حقیقت حساب اور وزن کے لحاظ سے اور ایک اس کی حقیقت دوسری چیزوں کی نسبت کے لحاظ سے ۔ مثلاً فرض کرو ایک درخت دس فٹ اونچا ہے یہ دس فٹ قد اس کا اصلی قد ہوگا اور بغیر دوسری چیزوں کی نسبت کے اسے اس درخت کا اصلی قد قرار دیا جائے گا مگر ایک قد اس کا نسبتی ہو گا۔ مثلاً ایک شخص پندرہ بیس فٹ کے ٹیلے پر چڑھ جائے تو لازماً درخت کی ساری لمبائی اسے نظر نہیں آئے گی بلکہ بعض دفعہ اونچائی اور زاویہ نگاہ کے مطابق اسے وہ درخت دو فٹ کا نظر آئے گا۔ بعض دفعہ چار فٹ کا نظر آئے گا۔ یا ایک شخص گڑھے میں ہے تو اسے وہ درخت بہت لمبا نظر آئے گا اور دس کی بجائے تیرہ یا چودہ فٹ کا معلوم ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص دور سے درخت کو دیکھتا ہے تو وہ اسے بہت چھوٹا معلوم ہوتا ہے ۔ دور سے ہم پہاڑ دیکھتے ہیں تو باوجود اس کے کہ وہ بعض دفعہ دو ہزار بعض دفعہ چار ہزار اور بعض دفعہ بیس بیس ہزار فٹ اونچے ہوتے ہیںدور سے دیکھنے کی وجہ سے ایسے نظر آتے ہیں جیسے کوئی اونچا سا خیمہ لگا ہوا ہو ۔ اسی طرح اگر درخت کے نیچے لیٹ کر اوپر کی طرف دیکھا جائے تو درخت کا بالکل اور نظارہ نظر آئے گا۔ کسی مینار کے نیچے کھڑے ہو کر اوپرکی طرف دیکھو تو خواہ وہ ایک سو یا ڈیڑھ سو فٹ کا ہو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ پانچ سو یا ہزار فٹ کا ہے لیکن اگر ہوائی جہاز میں بیٹھ کر مینار کو دیکھا جائے تو وہی مینار بہت چھوٹا نظر آتا ہے ۔ غرض ہر چیز کی ایک حقیقت ذاتی حسابی ہوتی ہے جو طبعی حالات میں نظر آتی ہے اور ایک حقیقت اُس کی دوسری چیزوں کے لحاظ سے نظر آتی ہے ۔ ایک شخص ساری رات سوچتا ہے بڑے بڑے اہم مسائل پر تدبر کرتا ہے فلسفہ اور ہیت کی باریکیوں پر غور کرتا ہے ، سیاست اور اقتصادکے بڑے بڑے نکات حل کرتاہے ، قوموں کی ترقی اور ان کے تنزل کے وجوہ پر غور کرتا ہے اور اسی میں اپنی تمام رات بسر کردیتا ہے ۔ صبح اسے کوئی شخص ملتا ہے تو وہ ان مسائل میں سے کوئی ایک بات اس کے سامنے بیان کر تا ہے ۔ اب زید جس نے ساری رات سوچ کر سو اہم مسائل حل کئے تھے اس کی نسبت کے لحا ظ سے جو علم دوسرے شخص کو اس سے حاصل ہوا وہ صرف 1/100تھا ۔ پھر ایک اور شخص ملتا ہے اور اس سے بھی وہ بعض مسائل کا ذکر کر دیتا ہے فرض کرو وہ اس کے سامنے دو مسئلے بیان کرتا ہے تو اب دوسرے شخص کو جو روشنی حاصل ہوئی وہ دو فیصد ہے گویا ایک اس کی ذاتی روشنی ہے اور ایک اس کی وہ روشنی ہے جو دوسرے لوگوں کے لحاظ سے ہے اس کی ذاتی روشنی تو یہ ہے کہ اس نے سو(100) مسئلے حل کئے ہیں لیکن اس کی نسبتی روشنی یہ ہے کہ ایک شخص ملتا ہے تو وہ اس کے سامنے ایک مسئلہ بیان کرتاہے ، دوسرا شخص ملتا ہے تو اس کے سامنے دو مسئلے بیان کرتا ہے ، تیسرا شخص ملتا ہے تو اس کے سامنے تین مسئلے بیان کرتا ہے اور وہ اس کی ذاتی روشنی کا اسی قدر اندازہ لگاتے ہیں جس قدر علم ان کو اس شخص سے حاصل ہو چکا ہوتا ہے پھر ایک اور شخص اسے ملتا ہے اور وہ اس کے سامنے ان مسائل کے متعلق ایک لمبی تقریر کرتا اور سو میں سے پچاس مسئلے بیان کردیتا ہے اب اس کے لحاظ سے اس کی علمی روشنی کی بالکل اور کیفیت ہو گی اور وہ اس کا اندازہ ان پچاس مسائل سے لگائے گا جو اسے بتائے گئے تھے اس کے بعد اگر کوئی اور شخص اسے ملتا ہے اور وہ اس کے سامنے سو کے سو مسائل بیان کر دیتا ہے تو وہ اس کے سامنے بالکل گویا عرفانی طور پر ننگا ہو جاتا ہے ۔ اب وہ شخص جس کے سامنے صرف ایک مسئلہ بیان ہوا تھا وہ بھی کہتا ہے کہ فلاں نے بڑے لمبے غور کے بعد یہ بات نکالی ہے مگر وہ اس کے صرف 1/100حصہ کو جانتا ہے ، جس کے سامنے دو باتیںبیان ہوئی تھیں وہ اس کے 2/100حصہ کو جانتا ہے جس کے سامنے دس باتیں بیان ہوئی تھیں وہ اس کے 1/10حصہ کو جانتا ہے اور جس کے سامنے پچاس باتیں بیان ہوئیں تھیں وہ اس کی 1/2 حقیقت کو جانتا ہے اور جس کے سامنے سو باتیں بیان ہوئی تھیں وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اس کی ساری حقیقت کو جان لیا مگر واقعہ یہ ہوتا ہے کہ اس نے اس سے پہلی رات بھی غور کیا ہوتا ہے اور اس پہلی رات بھی غور کیا ہوتا ہے اوراس پہلی رات بھی غور کیا ہوتا ہے یہان تک کہ وہ خود بھی کئی باتیں بظاہر بھول گیا ہوتا ہے اور اسے اپنی حقیقت کا بھی پورا علم نہیں رہتا لیکن خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ ا س کے اندر کیا کیا حقیقتیں پیدا ہوچکی ہیں۔
درحقیقت ہر انسان میں ایک ملکہ ظہور ہوتاہے اور ایک اس کے اندر بالقوۃ طاقتیں ہوتی ہیں ۔ اگر تم سے کوئی پوچھے کہ تم اردو کے کتنے الفاظ جانتے ہواور تم گننے لگو تو تم پچاس ساٹھ یا سو سے زیادہ الفاظ شمارنہیں کر سکو گے لیکن اگر تمہارے سامنے کوئی کتاب رکھ دی جائے تو تم کہو گے کہ میں یہ الفاظ بھی جانتا ہوں اور وہ الفاظ بھی جانتا ہوں تو اپنی قابلیتوں کا انسان خود بھی اندازہ نہیں کر سکتا کجا یہ کہ دوسروں کی قابلیتوں کا اندازہ لگا سکے ۔ تم سورج کے سامنے مختلف درجہ کی صفائی کی چیزوں کو رکھ دو تو گو اس سب پر سورج کی پوری روشنی ہی پڑے گی مگر صفائیکے مختلف مدارج کی وجہ سے ہر چیز کے لحاظ سے اس کی روشنیاں بالکل الگ الگ ہوں گی حالانکہ سورج کی ذاتی روشنی تو ایک ہی ہے اسی طرح لیمپ کی ایک تو وہ روشنی ہے جو اس کے اندر جلنے والے تیل کی نسبت سے پیدا ہوتی ہے وہ ایک ہی درجہ کی ہے لیکن ایک وہ روشنی ہے جو مختلف چیزوںپر پڑ کر اپنے حجم اور اپنی وسعت کو بدلتی چلی جاتی ہے ۔ یہی مضمون اس جگہ بیان کیا گیا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے والشمس ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں سورج کو وضحہا اور اس کی روشنی کو جو اس کی ذاتی روشنی ہے ۔
وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰھَا
اور چاند کی جب وہ اس (یعنی سورج) کے پیچھے آتا ہے (ایت نمبر ۳)
حل لغات تلا فلا نا(تلواً) کے معنی ہیں تَبِعَہ‘ اس کا پورا تابع ہو گیا (اقرب) اس آیت کی مفسرین نے مختلف تشریحات کی ہیں بعض نے کہا ہے کہ اتباع کے یہ معنے ہیں کہ جس وقت سورج ڈوبے معاً اس کی جگہ چاند روشنی دینے لگے اور یہ مہینہ کی پہلی پندرہ تاریخوں میں ہوتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تابع کے معنے یہ ہیں کہ سورج کی سب روشنی اور نور اس نے لے لیا اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ چاند پورا ہو جائے یعنی چودھوین پندرھویں سولھویں تاریخوں کا چاند۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب سورج چڑھے اس وقت یہ ساتھ چڑھے تو یہ تَلٰھَا ہے ۔ یعنی جب چاند بالکل نظرنہیں آتا۔ یعنی مہینہ کی آخری دو راتیں۔ قتادہ کہتے ہیں اس سے مراد وہ دن ہیں جب چاند ہلال ہوتا ہے ۔ فراء کہتے ہیں کہ اس کے معنے ہیں کہ چاند سورج سے روشنی لیتا ہے ۔ جہاں تک ہلال کے معنوں کا سوال ہے وہ تو بالبداہت غلط ہیںکیونکہ یہاں قمر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور چاندکو قمر اس وقت کہتے ہیں جب وہ ہلال نہیں رہتا ۔ باقی معنوں میں سے اس کے پورا ہونے کے معنے زیادہ صحیح ہیں کیونکہ چودھویں رات کے چاندمیں دونوں مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ وہ جسمانی طور پر بھی سورج کے ڈوبنے کے ساتھ ہی چڑھتا ہے اور سورج کے ساتھ ہی چلا جاتا ہے اور روشنی کے لحاظ سے بھی وہی پورا تابع ہوتا ہے یعنی پوری سورج کی روشنی وہی لیتا ہے پس ان معنوں کودوسرے معنوں پر ترجیح حاصل ہے ۔
تفسیر ۔ فرماتا ہے ہم شہادت کے طور پر قمر کو بھی پیش کرتے ہیں یعنی ایک ایسے وجود کو جس میں روشنی اخذ کرنے اور اس کو اپنے اندر جذب کرنے کا مادہ پایا جاتاہے مثلاً شیشہ ہے اس میں بھی روشنی جذب کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے یا سفید پانی ہے اس میںبھی روشنی کو جذب کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے یا مثلاً ابرک کے ٹکڑے ہیں ان میں بھی روشنی جذب کرنے کا مادہ ہوتاہے ۔لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں روشنی جذب کرنے کا مادہ نہیں ہوتا۔ ہمارے سامنے ایک شخص بیٹھاہوا ہوتا ہے اور اس پر سورج کی روشنی پڑ رہی ہوتی ہے مگر ہم اسے یہ نہیں کہتے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جائو ایسا نہ ہو کہ ہم اندھے ہو جائیں ۔ لیکن اگر وہی روشنی کسی شیشہ کے ذریعہ آنکھوں پر پڑے تو خطرناک نقصان پہنچ جاتا ہے یہاں تک کہ بعض دفعہ جب شیشہ کی چمک آنکھوں پر پڑتی ہے تو بینائی ضائع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سارادن سورج چمکتا ہے گھاس پر اس کی روشنی پڑتی ہے تو انسان اسے دیکھ دیکھ کر لطف اٹھاتا ہے لیکن مصر میں بڑے بڑے ریت کے میدان ہیںچونکہ موٹی ریت میںچمکنے کا مادہ ہے اور ہر چمکدار چیز اپنی روشنی کو اپنے مقابل کی طرف بھی پھینکتی ہے ان میدانوں میںسے گذرتے ہوئے بعض لوگ ایک منٹ میں اندھے ہو جاتے ہیں ۔ مصر میں ایسے سینکڑوں اندھے پائے جاتے ہیں جن کی آنکھیں بالکل اچھی تھیںمگر وہ کسی ایسے ہی ریت کے میدان میں غلطی سے چلے گئے اور اندھے ہو گئے ۔ یہی حال موٹر کی روشنی کا ہوتا ہے جب رات کو موٹر آرہا ہو اور اس کے لیمپ میں سے تیز شعائیں نکل رہی ہوں تو کئی حادثے ہو جاتے ہیں ۔ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ حادثہ کس طرح ہو گیا جبکہ موٹر کے سامنے لیمپ روشن تھا اور اس کی دور دور تک روشنی پھیل رہی تھی ۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ دور سے اس کی روشنی اس طرح چمک کر پھیلتی ہے کہ انسان کو یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ موٹر یہاں ہے یا وہاں اور وہ اس کی لپیٹ میں آکر ماراجاتا ہے ۔ درحقیقت ایک تو لیمپ کی ذاتی روشنی ہوتی ہے اور ایک وہ ری فلیکٹر ہوتے ہیں جو اس روشنی کو دور پھینک دیتے ہیں ۔ اگر ری فلیکٹر نہ ہو تو روشنی بہت محدود جگہ میںرہتی ہے لیکن جب روشنی کے ساتھ ری فلیکٹر مل جاتاہے تو اس کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور وہ دور دور تک اندھیروں کو زائل کردیتا ہے ۔ قمر کے معنے در اصل ری فلیکٹرکے ہی ہیںیعنی ایسا وجود جس میں ذاتی طور پر یہ قابلیت ہوتی ہے کہ وہ سورج سے نور لے کر اسے دوسروں کی طرف پھینک دے ۔ یہ خیال نہیںکرن چاہیئے کہ اگر قمر کی جگہ کوئی سا بھی اور ستارہ رکھ دیا جائے تو وہ بھی سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کر کے دوسروں کی طرف پھینک سکتاہے ہر ستارہ یہ قابلیت نہیں رکھتا۔ اللہ تعالی نے ہمارے نظام ِ شمسی میں صرف قمر ہی میں یہ قابلیت پیدا کی ہے کہ وہ سورج سے اس کی روشنی اخذ کرے اور پھر اسے اپنے اندر جذب کر کے دوسروں کی طر ف پھینک کر ان کو منور کر دے ۔ اسی لئے چاند کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کسی قسم کی آبادی کے قابل نہیں ہے اگر وہ قابل آبادی ہوتا تو اس میں درخت ہوتے ، گھاس ہوتا بڑے بڑے جنگلات ہوتے ۔ مگر یہ چیزیں چاند میں نہیں ہیں ۔ کیونکہ اگر یہ چیزیں ہوتیں تو وہ روشنی کو اپنے اندر جذب کر کے دوسروں کی طرف پھینک نہیںسکتا تھا ۔ مگر چونکہ اللہ تعالی نے چاند کو ری فلیکٹر کے طور پر بنایا ہے اس لئے اُس نے چاندمیں ریت کے بڑے بڑے میدان پیدا کر دیئے ہیں جب سورج کی روشنی اُن پر پڑتی ہے تو وہ ریت کے میدان ری فلیکٹر کے طور پر اس کی دنیا پر پھینک دیتے ہیں ۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے وَالْقَمَرِ ہم تمہارے سامنے ایک ایسے وجود کو پیش کرتے ہیں جو قمری حیثیت رکھتا ہے مگر صرف قمر کے وجود کو نہیں بلکہ قمر کی اس حالت کو جب وہ پوری طرح سورج کے سامنے آکراس کی ساری روشنی کو اپنے سارے وجود میں لے لیتا ہے بے شک قمر میںیہ خوبی ہے کہ وہ روشنی لے کر دوسروں کی طرف پھینک دیتا ہے لیکن روشنی اس کے سامنے نہ ہو گی تو وہ پھینکے گا کیا؟ اس لئے صرف قمر کو شہادت کے طور پر پیش نہیں کیا گیا بلکہ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا اِذَا تَلٰہَا ہم قمر کو ایسی حالت میں شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جب وہ سورج کی روشنی کو لے سکتا ہے اور پھر دوسروںکی طرف پھینک سکتا ہے لیکن یہ اس کی ذاتی خوبی اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتی جب تک وہ سورج کے سامنے نہ آجائے اگر سورج کے سامنے آجائے تو اس کی یہ خوبی ظاہر ہو جاتی ہے اور اگر سورج اور چاند کے درمیان کوئی اور چیز حائل ہو جائے جیسے بعض دفعہ زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کو گرہن لگ جاتا ہے اور وہ سورج کی روشنی کو زمین کی طرف پھینکنے سے قاصر رہتا ہے یا مثلاً پہلی رات کا چاند ہے اس وقت بھی وہ سورج کے سامنے پورے طور پر نہیں ہوتا اسی لئے وہ اس وقت قمر یا بدر کی بجائے ہلال کی صورت میں نمودار ہوتا ہے مگر جب چودھویںرات آجائے تو چاند مکمل طور پر سورج کے سامنے آجاتا ہے اور اس کی روشنی اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا پر جلوہ گر ہوتی ہے پس اللہ تعالی فرماتا ہے وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا ہم چاند کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں مگر خالی چاند کو نہیں بلکہ چاند کی اس حالت میں شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جب وہ کامل طور پر سورج کے سامنے آجاتاہے اور اس کی روشنی کو جذب کر کے دوسری دنیا کو منور کر دیتا ہے گویا اس کا کمال ِ نور اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب سورج کے عین سامنے آجاتا ہے اور یہی اس کے حسن کے کمال کا موقع ہوتا ہے کہ اس میں ذاتی طور پر یہ قابلیت بھی ہوتی ہے کہ وہ سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کرے اورپھر اس کے اندر یہ قابلیت بھی ہوتی ہے کہ اس روشنی کو دوسروں کی طرف پھینک دے اور دنیا کی تاریکیوں کو دور کر دے ۔ اب مکمل طورپر دونوں آیات کا مفہوم یہ ہوگا کہ وَالْشَّمْسِ ہم سورج کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں ذاتی روشنی پائی جاتی ہے وَضُحَہَا اور اسکی ذاتی روشنی کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں وَا لْقَمَرَ اور ہم چاند کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں روشن چیز کی روشنی کو لینے اور پھر اسے دوسرے وجودوں پر پھینک کر انہیں روشن کر دینے کی قابلیت پائی جاتی ہے اور چاند کی شہادت ہم اس حالت میں پیش کرتے ہیں جبکہ وہ عملاً سورج سے پوری روشنی لیکر دنیا کو روشن کر رہا ہوتا ہے ۔
وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا
اور دن کی جب وہ اس (یعنی سورج ) کو ظاہر کر دیتا ہے ( ایت نمبر ۴)
نمبر ۴ تفسیر بظاہر تو دن کو سورج پیدا کرتا ہے نہ یہ کہ دن سورج کی روشنی کو ظاہر کرتاہے مگر یہاں چونکہ استعارہ والاکلام ہے اور ضحی سے مراد سورج کی ذاتی روشنی تھی اس نہار سے مراد زمین کا اس کے سامنے آکر سورج کو دکھا دینا ہے ۔ جب ہم د ن کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ سورج چمکنے لگ گیا ہے کیونکہ سورج تو ہر وقت چمکتا رہتا ہے ۔ دن سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ہماری زمین سورج کے سامنے آگئی ہے پس وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا کے یہ معنے ہوئے کہ جب زمین نے سورج کے سامنے آکر سورج کو دکھا دیا ۔ ضُحٰھَا کا مطلب اور تھا ضُحٰھَا سے سور ج کی ذاتی روشنی کی طرف اشارہ تھا خواہ وہ دنیا کے سامنے ہو یا نہ ہو سورج بہر حال چمک رہا ہوتا ہے اس کے سامنے بادل آجائیں یا زمین اس کی طرف سے رخ بدل لے اس کی ذاتی روشنی میں کوئی فرق نہیںپڑتا لیکن باوجود سورج کے ہر وقت چمکتے رہنے کے رات کے وقت کو نہار نہیں کہیںگے کیونکہ نہار یا دن اس وقت کو کہتے ہیں جب سورج ہمارے حصہ ملک کے سامنے ہوتا ہے خواہ اس کے سامنے بادل ہی کیوں نہ آگیاہو اور جب وہ ہمارے حصہ ملک کے سامنے نہ ہو تو خواہ اس کے آگے بادل نہ ہوں ہمارے ملک والے اس وقت کو دن نہیں کہیں گے اور یہ نہیں کہیں گے کہ سورج روشن ہے پس نَھَار اور مفہوم پیدا کرتا ہے اور ضُحٰھَا اور مفہوم پیدا کرتا ہے ۔ ضُحَی الشَّمْسِ ہر وقت قائم رہتی ہے خواہ سورج کسی حصہ دنیا کے سامنے ہو یا نہ ہو ۔ کیونکہ وہ سورج کی ذاتی روشنی پر دلالت کرتی ہے اور نہار دنیا کے مختلف حصوں کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے کبھی یہاں دن کبھی وہاں ۔ کیونکہ دن اس وقت کو کہتے ہیں جب زمین سورج کے سامنے ہو کر لوگوںکو اپنی ضُحیٰ دکھا تی ہے ۔
وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا
اور رات کی جب وہ اس کو ڈھانپ دے ۔ ایت نمبر ۵
نمبر۵ تفسیر وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَاسے مراد رات کے وقت زمین کا منہ پھیر کر سورج کو اوجھل کر دینا ہے ۔ رات کیا ہوتی ہے ؟ جب سورج کی طرف سے زمین اپنی پیٹھ پھیر لیتی ہے اور اندھیرا ہو جاتا ہے تو اسے رات کہتے ہیں پس چونکہ لَیْل ایک زمینی فعل کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اس لئے یہاں لَیْل کے متعلق یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ دن کی روشنی کو ڈھانپ لیتی ہے لیکن اصل مطلب یہ ہے کہ زمین سورج کی طرف چکر کاٹ کر لَیْل پیدا کر دیتی ہے گویا وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا میں تو زمین کی اس حالت کا ذکر کیا تھا جب وہ سورج کے سامنے آکر آبادی کو سورج دکھا دیتی ہے اور وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا میں زمین کی اس کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے جب وہ سورج سے اپنا منہ موڑ کر لَیْل پیدا کر دیتی اور دنیا کی نظروں سے سورج کو روپوش کر دیتی ہے ۔
یہ چار چیزیں ہیں جو الگ الگ معنے رکھتی ہیں وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَاسے سورج اور اس کی ذاتی روشنی مراد ہے والقمراذاتلہا سے چاند اور اس کی عکسی روشنی مراد ہے وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا میںزمین اور اس کی انعکاسی روشنی مرادہے وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا میںزمین اور اس کی نور سے محرومی مراد ہے ۔ سورج تو اپنے اندر ذاتی طور پر یہ وصف رکھتا ہے کہ وہ دنیا کو روشن کرے لیکن چاند میںبالقوۃ روشنی اخذ کرنے کی طاقت ہوتی ہے یعنی اس کے اندر یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ سورج سے روشنی لے اور اپنے اندر جذب کر کے اسے دوسروں تک پہنچا دے جیسے ری فلیکٹر ہوتے ہیںکہ وہ لیمپ کی روشنی کو بہت دور تک پھیلا دیتے ہیں ۔ اب خواہ چاند چمک نہ رہا ہو لیکن چمکنے کی قابلیت اس میں موجود ہوتی ہے جب وہ سورج کے سامنے آجاتا ہے تو اس کی یہ قابلیت ظاہر ہو جاتی ہے اور وہ اس کی روشنی کو دوسروں تک پھینکنے لگ جاتا ہے شمس اور قمر کے ذکر کے بعد اللہ تعالی نے وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا میںرات کو بطور مثال پیش کیا ہے جب زمین کے چکر کاٹ کر جانے کے وقت سورج اوجھل ہو جاتا ہے ۔
ان چار آیات میںچار الگ الگ زمانوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میںاللہ تعالی رسول کریم ﷺ کو پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہم سورج کو تمہارے سامنے بطورمثال پیش کرتے ہیں جب تک اپنی ذات میںچمکنے والا وجود دنیا میں نہ آئے بالخصوص ایسے زمانہ میں جب نور بالکل مٹ چکا ہو اس وقت دنیا کبھی ترقی کی طرف اپنا قدم اٹھا نہیں سکتی جیسے بجھی ہوئی آگ ہو تو اس سے دوسری آگ روشن نہیںہو سکتی یا بجھا ہوا دیا ہو تو اس سے دوسرا دیا روشن نہیں ہو سکتا ۔ ری فلیکٹر اسی وقت فائدہ دیتا ہے جب نور موجود ہو ۔ مثلاً اگر لیمپ جل رہا ہو اور اس پر ری فلیکٹرلگا دیا جائے تو بے شک اس کی روشنی دور تک پھیل جائے گی یا جیسے بیٹریوں کی روشنی بہت معمولی ہوتی ہے لیکن اوپر کا شیشہ جو ری فلیکٹر کے طور پر لگا ہوا ہوتا ہے اس کی معمولی روشنی کو بھی دور تک پھیلا دیتا ہے اگر اس شیشہ کو تم نکال دو تو بیٹری کا روشنی آدھی سے بھی کم رہ جائیگی ۔ بہر حال ری فلیکٹر اسی صورت میںکام آسکتا ہے جب نورموجود ہو ، روشنی اپنی کسی نہ کسی شکل میں قائم ہو لیکن اگر نور مٹ چکا ہو، تما م روشنیاں گُل ہو چکی ہوں تو اس وقت ایساہی وجود کام آسکتا ہے جو ذاتی طور پر اپنے اندر روشنی رکھتا ہو۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے ہم تمہارے سامنے سورج کو پیش کرتے ہیں جو اپنے اندر ذاتی روشنی رکھتا ہے اور جو ظلمتوں کو دور کرنے کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا ذریعہ ہوتا ہے ۔ اس کے بعد روشنی کا دوسرا ذریعہ چاند ہوتا ہے اور وہ بھی ایسی حالت میں جب وہ سورج کے سامنے آجاتا ہے اس وقت وہ بھی دنیا کو اپنی شعاعوں سے منور کر دیتا ہے ۔ یہ دو ذرائع ہیں جو دنیا میںانتشار ِ نور کے لئے کام آتے ہیں اللہ تعالی ان مثالوں کو کفارِ مکہ کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے تم اچھی طرح سوچ لو کیا تمہارے پاس ان دونوں ذرائع میں سے کوئی ایک بھی ذریعہ موجود ہے، کیا تمہارے پاس کوئی شمس ایسا ہے جو اپنے اندر ذاتی روشنی رکھتا ہو؟ شمس سے مرادوہ وقت ہوتا ہے جب شریعت لانے والا وجود براہ راست دنیا کو فائدہ پہنچا رہا ہو ۔ پھر فرماتا ہے اگر کسی شمس کو تم پیش نہ کر سکو تو تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ گو شمس ہم میںموجود نہیں مگر اس سے اکتسابِ نور کر کے ایک چاند ہم کو منور کر رہاہے ۔ بہر حال دو ہی چیزیں دنیا کو منور کر سکتی ہیں یا تو ذاتی روشنی رکھنے والا کوئی وجود ہو اور اگر اس کی روشنی دور چلی جائے تو پھر ا س کے بالمقابل آجانے والا کوئی ری فلیکٹر جو اس کی روشنی کو جذب کر کے دوسروں تک پہنچادے ۔ ان دو صورتوں کے علاوہ روشنی حاصل کرنے کی اور کوئی صورت نہیں ۔ اسی قاعدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے کہ اے مکہ والو! تمہیں تو ان دونوں حالتوں میں سے کوئی حالت بھی نصیب نہیں ۔ مثلاً پہلی چیز یہ ہوتی ہے کہ شریعت موجود ہو مگر تمہاری یہ حالت ہے کہ تمہارے پاس نہ نوح ؑ کاقانون ہے نہ ابراہیم ؑ کا قانون ہے نہ اور نبی کا قانون ہے اور جب تمہارے پاس کوئی قانون ہی نہیں تو تم اپنے متعلق کیاامید کر سکتے ہو اور کس طرح اس غلط خیال پر قائم ہو کہ تمہارے باپ دادا کی بجھی ہوئی روشنیاں تمہارے کام آجائیں گی ۔ تمہاری حالت تو ایسی ہے کہ تمہیں لازمی طورپر ایک شارع نبی کی ضرورت ہے کیونکہ ساری شریعتیں تم میںمفقود ہیں اور جب کہ سب کی سب شرائع مفقود ہو چکی ہیں تو اب ضروری ہے کہ کوئی شمس ِ ھدایت آئے جو ان تاریکیوں کو اجالے سے بدل دے ۔ جبتک ایسا وجو نہیں آتا جو اپنے اندر ذاتی طور پر روشنی رکھنے والاہو اس وقت تک پرانے لیمپ جو بجھ چکے ہیں تمہارے کسی کام نہیںآسکتے۔
روشنی کے حصول کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ قمر ظاہر ہو جائے ۔ مگر قمر بھی اسی وقت مفید ہو سکتا ہے جب شمس تو موجود ہو مگر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائے اس کے بغیروہ کسی کام نہیںآسکتا ۔ اگر تم یہ کہو کہ ہم قمر سے فائدہ اٹھا لینگے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ تم میںکوئی شریعت موجو د نہیںکہ غیر شریعت والا کوئی قمر ظاہر ہو جائے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے زمین کی اس حالت کو پیش کیا ہے جب وہ نہار پیدا کرتی ہے اور آخر میں اس حالت کو رکھا گیا ہے جب زمین سورج کے پیٹھ موڑ کر لوگوں کے لئے لیل پیدا کر دیتی ہے ۔
ان آیات میںاسلام کے دو اہم زمانوں کی طرف نہا یت ہی بلیغ انداز میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میں تو اسلام کی غرض کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ محمد ﷺ اپنی ذات میںچمکنے والے سورج ہیں جوں جوں یہ سورج طلوع کرتا جائے گا وہ نور جو ذاتی طور پر سورج کے اندر موجود ہے زمین میں پھیلتا چلا جائے گا۔ چنانچہ لو قرآن جو آج ہمارے ہاتھوںمیں ہے یہ محمد ﷺ کے نفسِ مطّہر سے ہی نکل کر آیا ہے ۔خدا نے اس عظیم الشان کلام کے نزول کے لئے آپ کو چنا اور پھر آپ کے ذریعہ یہ کلام ہمارے ہاتھوں تک پہنچا ۔ وہ تفصیلات جوقرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور وہ غیر متبدل تعلیمات جن کو اسلام نے پیش کیا ہے خواہ وہ تزکیہ نفوس سے تعلق رکھتی ہوں یا سیاسی اور تنظیمی تعلیمات ہوں یا اخلاقی اور اقتصادی تعلیمات ہوں بہر حال وہ سب کی سب محمد ﷺ کے سینہ سے نکل کر ہم تک پہنچتی ہیں ۔پس آپ وہ شمس تھے جن کی ضحی اپنی ذات میں آپ کی صدا قت کی ایک بڑی دلیل تھی دنیا خواہ آپ کو مانے یا نہ مانے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ دنیا قرآن کریم کو بند کر کے رکھ دے اور کہے کہ قرآن کریم کے مضامین بالکل خراب ہیں پھر بھی جب تک قرآن دنیا میں موجود ہے رسول کریم ﷺ کی ضحی دنیا میں موجود رہے گی ۔ جب دن کے وقت ایک شخص اپنے کمرہ کے دروازے بند کر کے اندر بیٹھ رہتا ہے یا جب زمین چکر کھا کر سورج کو لوگوں کی نگاہ سے اوجھل کر دیتی ہے اُس وقت سورج کاوجود تو غائب نہیں ہو جاتا۔ سورج بہر حال موجود ہوتا ہے ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ زمین اس سے اپنی پیٹھ موڑ لے یا کوئی شخص اپنے کمرہ کے دروازے بند کر کے اس کی روشنی کو اندر داخل نہ ہونے دے ۔ اسی طرح وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میں بتایا کہ رسول کریم ﷺ ضحی والے وجود ہیں چاہے تم اس نور سے فائدہ اٹھائو یا نہ اٹھائو ان کا تو نور بہر حال ظاہر ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ دنیا ایک دن تسلیم کرے گی کہ آپ حقیقت میں روحانی سورج تھے پس دنیا ان کے سامنے آئے یا نہ آئے اس کا کوئی سوال نہیں ۔ دنیا اس شمس کے سامنے آئے گی تو منور ہو جائے گی اور اگر نہ آئے گی تو یہ شمس بہر حال شمس ہے اس کی ضحی پر اس بات کا کوئی اثر نہیںہو سکتا کہ لوگوں نے اسکی طرف سے اپنی پیٹھ موڑلی ہے ۔
فرض کرو رسول کریم ﷺ پر ایک آدمی بھی ایمان نہ لاتا تو اس سے کیا ہو سکتا تھا جو روحانی اور اخلاقی تعلیمات آپ نے دی ہیں ، جو سیاسی تعلیمات آپ نے دی ہیں ، جو اقتصادی تعلیمات آپ نے دی ہیں، جو علمی تعلیمات آپ نے دی ہیں ان سے آپ کا بہر حال شمس ہونا ظاہر ہو جاتا۔ جب ایک وجود کو خدا تعالی نے شمس بنا کر بھیجا تو خواہ مکہ والے آپ پر ایمان نہ لاتے ۔ اہل عرب آپ کو سچا تسلیم نہ کرتے وہ یہ تو کہہ سکتے تھے کہ اس شمس سے نہار پیدا نہیں ہوا ، دنیا نے اس سورج سے روشنی اخذ نہیں کی مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ یہ شمس ، شمس نہیں تھا ۔ جب ایک شخص نئی شریعت لاتا ہے تو خواہ ہزار سال کے بعد لوگ اسے مانیں بہر حال اس کا شمس ہوناپہلے دن سے ہی ثابت ہوتا ہے ۔ یہ تو ہم کہیں گے کہ دنیا اس کے سامنے دو سو سال کے بعد آئی یا ہزار سال کے بعد آئی مگر یہ نہیں کہیں گے کہ وہ شمس اپنی ذات میں ایک روشن وجود نہیں تھا پس وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میں بتایا کہ محمدﷺ اپنی ذات میں ایسا نور رکھتے ہیں کہ تم چاہے مانو یا نہ مانوان کا کچھ بگڑ نہیں سکتا ۔
پھر فرمایا ہے وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا یعنی آپ کے بعد بعض اور وجودبھی آئیں گے جو قمر کی حیثیت رکھیں گے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ نہ صرف ایسے شمس ہیں جو اپنی ذات میں روشن اور پُر انوار ہیں بلکہ خدا تعالی نے آپ کے نور سے اکتساب کرنے کے لئے بعض قمر بھی پیدا کر دئیے ہیں جو ہر زمانہ میں اِن کے نور کو دنیا میں پھیلاتے رہیں گے گویا اول تو یہ اپنی ذات میںسورج ہے پھر یہ ایسا سورج ہے جس کے لئے خدا تعالی نے ری فلیکٹر بھی پیدا کر دئیے ہیں۔ اگر لوگ اس سورج کی طرف سے اپنا منہ موڑ لیں گے تو خدا تعالی پھر بھی انہیںبھاگنے نہ دے گااس کے مقابل پر ایک چاند آکھڑا ہو گا اور اس سے روشنی اخذ کر کے دنیا پر پھینکنے لگے گا۔ اور اس طرح پھر دنیا اس کے نور سے حصہ لینے لگے گی۔
اگر تم زمین سورج اور چاند کو آدمی سمجھ لو تو تمثیلی رنگ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ زمین جب روٹھ کر سورج سے اپنا منہ پھیر لیتی ہے تو چاند کہتا ہے تم اس سے بھاگ کر کہاں جاتی ہو میں اس سے نور حاصل کر کے تم پر ڈال دوں گا۔ غرض بتایا کہ دنیا خواہ پیٹھ پھیر لے ، خواہ وہ اس شمس روحانی سے منہ موڑ لے پھر بھی اس سورج سے اکتساب ِ نور کرتے ہوئے ایسے قمر دنیا میں بھیجے جائیں گے جو پھر ظلمت کدہ عالم کو بقعہ نور بنا دیں گے اگر کوئی قمر نہ ہوتا اور دنیا اپنی پیٹھ سورج کی طرف پھیر دیتی تو لازماً تاریکی ہی تاریکی ہو جاتی ۔ اجالا ہونے کی کوئی صورت نہ ہوتی یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی شارع نبی آیا دنیا نے کچھ عرصہ کے بعد اس سے اپنا منہ موڑ لیا اور تاریکی و ظلمت کے بادل اس پر چھا گئے ۔مگر فرمایا محمد ﷺ ایسے نبی نہیں یہ وہ شمس ہیں جس کے پیچھے قمر لگے ہوئے ہیں یہ وہ معشوق ہے جس کے عاشق اس کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔ دنیا اگر روٹھے گی تو قمر اس کو روشنی پہنچانے کے لئے ظاہر ہو جائیں گے ۔
وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَامیں بتایا کہ ہمارا یہ سورج صرف اپنی ذات میں ہی روشنی نہیں رکھتا بلکہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ دنیا بھی اس سے روشنی لے لیگی ۔ اس جگہ نہار سے مراد زمانہ نبوی ؐ نہیں بلکہ نہار سے مراد بعد کازمانہ ہے جب سورج تو نہ ہوگا مگر دن کا وقت سورج کو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لاتا رہے گا ٰیہاں تک کہ رات آجائے گی اور وہ اسے ڈھانپ لے گی اور ایک بار دنیا پھر معلوم کر لے گی کہ سورج کے بغیر گذارہ نہیں اور اس سے دوسری خسران و تباب کا موجب ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جسمانی اور روحانی سورج میں ایک فرق بتایا ہے ۔ جسمانی سورج تو جب تک موجود رہتاہے دن چڑھارہتا ہے اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے رات آجاتی ہے لیکن روحانی سورج کی روشنی اس کے غائب ہونے کے بعد بڑھنی شروع ہوتی ہے گویا دنیوی دن تو سورج کے ہوتے ہوئے چڑھتا ہے لیکن روحانی دن سورج کے غائب ہونے کے بعداپنے کمال کو پہنچتا ہے ۔ چنانچہ دیکھ لو قرآن اور حدیث نے ساری دنیا کو منور کیا مگر اس وقت جب رسول کریم ﷺ وفات پا چکے تھے، جب روحانی سورج لوگوں کی نظروں سے غائب ہو چکا تھا ۔ یہ روحانی اور جسمانی سورج میں ایک نمایاں فرق ہے ۔ جسمانی سورج کا دن اس وقت چڑھتاہے جب سورج نکلتا ہے مگر روحانی سورج کا دن اس وقت کمال کو پہنچتا ہے جب وہ غائب ہو جاتا ہے ۔
جسمانی سورج کے طلوع ہونے پر لوگ خوشیاں مناتے ہیں لیکن جب روحانی سورج طلوع کرتا ہے تو لوگ مخالفت کاایک طوفان بپا کرتے ہیں ۔ کوئی گالی نہیں ہوتی جو اسے نہ دی جائے، کوئی الزام نہیں ہوتا جو اس کے متعلق تراشانہ جائے ۔ ہر کوشش کا ماحصل یہی ہوتاہے کہ کہیںاس سورج کی ضیاء دنیا میں نہ پھیل جائے۔ مگر جب وہ سورج دنیا کی جسمانی نظروں سے غائب ہو جاتا ہے تو اسکی روشنی بڑھنے لگتی ہے اور لوگ یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ بڑا اچھا آدمی تھا ہم بھی اسے مانتے ہیں ، ہم بھی اس پر ایمان لاتے ہیں ۔ یہی اثر تھا جس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک دفعہ ایسا رلایا کہ میدہ کے نرم نرم پھلکے کا ایک لقمہ تک ان کے گلے سے نیچے اترنامشکل ہو گیا ۔ جب کسریٰ کو شکست ہوئی اور مال ِ غنیمت مسلمانو ںکے ہاتھ آیا تو ان میں سے کچھ ہوائی چکیاں بھی تھیں جن سے باریک آٹا پیسا جاتا تھا اس سے پہلے مکہ اور مدینہ کے رہنے والے سل بٹہ پر دانوں کوپیس لیا کرتے اور پھونکوں سے اس کے چھلکے اڑا کر روٹی پکا لیا کرتے تھے ۔ جب مدینہ میں ہوائی چکیاں آئیں اور ان سے باریک میدہ تیار کیا گیا تو حضرت عمر ؓ نے حکم دیا کہ پہلا آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیش کیا جائے تا کہ سب سے پہلے آپ ہی اس آٹے کی نرم نرم روٹی کھائیں ۔ چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق وہ آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں پیش ہوا ۔ آپ نے ایک عورت کو دیا کہ وہ اسے گوندھ کر روٹی تیار کرے ۔ جب میدے کے گرم گرم اور نرم نرم پُھلکے تیا ر کر کے آپ کے سامنے لائے گئے تو آپ نے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے ایک لقمہ توڑا اور اپنے منہ میں رکھ لیا مگر وہ لقمہ آپ نے اپنے منہ میں ڈالا ہی تھا کہ آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوگرنے لگے دیکھنے والی عورتیں حیران رہ گئیں کہ آپ کے آنسو کیوں گرنے لگے ہیں۔ چنانچہ کسی نے آپ سے پوچھا خیر تو ہے کیسی عمدہ اور نرم روٹی ہے اور آپ کے گلے میں پھنس رہی ہے ؟ انہوںنے جواب دیا میرے گلے میں یہ روٹی اپنی خشکی کی وجہ سے نہیں پھنسی بلکہ اپنی نرمی کے باعث پھنسی ہے ۔ رنج کے واقعات نے مجھے رنجیدہ نہیں کیا بلکہ خوشی کی گھڑیوں نے مجھے افسردہ بنا دیا ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب محمد ﷺ ہم میں موجود تھے انہی کی برکت سے آج یہ نعمتیںہمیں میسر ہیں مگر آپ کا یہ حال تھا کہ مدتوں گھر میں آگ نہیں جلتی تھی اور اگر روٹی پکتی بھی تو اس طرح کہ ہم سل بٹہ پر غلہ پیس لیا کرتے اور پھونکوں سے اس کے چھلکے اڑا کر روٹی پکا لیا کرتے ۔ مجھے خیال آتا ہے کہ یہ نعمتیں ہمیں جس کے طفیل میسر آئی ہیں وہ تو آج ہم میں نہیں کہ ہم یہ نعمت اس کے سامنے پیش کرتے اور دولتیں اس کے قدموں پر نثار کرتے لیکن ہم جن کا ان کامیابیوں کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ یہ خیال تھا جس نے مجھے تڑپا دیا اور جس کی وجہ سے میدے کا نرم نرم لقمہ بھی میرے گلے میں پھنس گیا ۔ تو روحانی عالم میں یہی قانون جاری ہے کہ نہار اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب سورج نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا کہ ہم دن کو پیش کرتے ہیںجب وہ سورج کو ظاہر کردے گا سورج سامنے نہیں ہو گا مگر دن اس بات کا ثبوت ہو گا کہ سورج ضرور چڑھا تھا ۔ چنانچہ دیکھ لو ابو بکر ؓ اور عمر ؓ کے زمانہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت جس طرح ظاہر ہوئی اور اسلام کی دھاک دنیا کے قلوب پر بیٹھی یہ ظہور رسول کریم ﷺ کے سامنے نہیں ہوا ۔ غرض روحانی اور جسمانی دن میں یہ فرق ہے کہ جسمانی دن کے وقت سورج موجود ہوتا ہے مگر روحانی نہا ر کا زمانہ وہ ہوتا ہے جب جسمانی طور پر سورج غائب ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے حضرت مسیح موعود ؑ نے ’’الوصیت ‘‘ میں اپنی وفات کی خبر دیتے ہوئے جماعت کو نصیحت فرمائی ہے کہ ’’ تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی ہے غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیا مت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت آنہیں سکتی جب تک میں نہ جائوں ۔ لیکن میں جب جائوں گا تو پھر خدا تعالی اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا تعالی کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا تعالی فرماتاہے کہ میںاس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے ‘‘
وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا پھر فرماتا ہے تیری امت پر ایک وہ زمانہ بھی آنے والا ہے جب سورج سے وہ اپنا منہ موڑ لے گی اور نہار کی بجائے لیل کا زمانہ اس پر آجائے گا ۔ بجائے اس کے کہ امت ِ محمدیہ ؐ کے یہ افرا د رسول کریم ﷺ کے احکام کو فراموش کر دیں گے اور عیاشیوں میں مبتلا ہو کر شیطانی راستوں کو اختیار کر لیں گے اس وقت اللہ تعالی ان سے فرمائے گاخواہ تم ہم کو بھول جائو ہم تمہیں نہیں بھول سکتے۔ خواہ تم ہم سے روٹھ جائو ہم تمہیں نہیں چھوڑ سکتے ۔ چنانچہ جب رات ان پر چھا جائے گی اور دنیا بزبان ِ حال ایک سورج کا مطالبہ کر رہی ہو گی اللہ تعالی پھر ایک چاند کو جو سورج کا قائم مقام ہوتا ہے چڑھا دے گا اور وہ محمد ﷺ سے روشنی لے کر اسے ساری دنیا میں پھیلا دے گا۔
غرض اللہ تعالی نے وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا ۔ وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا میں اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ بعض انفاس اپنے اندر ذاتی فضیلت رکھتے ہیںاور وہ دنیا کو چمکا دیتے ہیں ۔ اور دراصل ایسے ہی وجود دنیا کی اصلاح کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس کے بالمقابل بعض انفاس قمر کی حالت رکھتے ہیں اور اسی وقت دنیا کی ہدایت کا موجب ہوتے ہیں جب وہ سورج کے پیچھے آتے ہیں یعنی ان کا نور ذاتی نہیں بلکہ مکتسب ہوتا ہے ۔ ان دونوں حالتوں کو اللہ تعالی نے بطور شاہد پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ اصلاح عالم بغیران دو قسم کے وجودوں کے نہیں ہو سکتی یا نفسِ کامل یا متبع کامل ۔ نفس ِ کامل وہ ہے جس کا ذکروَالشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا میں آتا ہے ۔اور متبع کامل وہ ہے جس کا ذکر وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا میں آتا ہے ۔ جب تک ان دونوں صفات میں سے کوئی ایک صفت موجود نہ ہو کوئی شخص اصلاح کا فرض سر انجام نہیں دے سکتا ۔ یا تو اصلاح کاکام وہ شخص کر سکتا ہے جو شمس ہو اور اللہ تعالی نے اسے اس غرض کے لئے پیدا کیا ہو کہ وہ شریعت لائے اور یا پھر وہ ایسا متبع کامل ہو کہ اپنے متبوع کے نور کو لے کر اس غرض کو پورا کر دے جس کے لئے اسے دنیا میں بھیجا گیا تھا ۔ گویا اصل غرض شریعت سے ہوتی ہے ۔ جب شریعت ِلفظی موجود نہیں ہوتی اس وقت نفس ِکامل کے ذریعہ دنیا میں شریعت کو نازل کیا جاتا ہے اور جب شریعت ِ لفظی غائب نہیں ہوتی صرف عمل مفقود ہوتا ہے اس وقت ظلّی طورپر وہ شریعت دوبارہ متبع کامل پر نازل ہوتی ہے اور وہ دنیا میں قیامِ شریعت کا فرض سر انجام دیتا ہے ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جس کا جواب دینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ آیا یہ اتفاقی بات ہے کہ ایک کو خدا تعالی شریعت دے دیتا ہے اور ایک کو متبع بنا دیتا ہے اگر وہ یوں کرتا کہ متبع کو شریعت دے دیتا اور شریعت والے کو تابع کے مقام پر کھڑا کر دیتا تو کیا ایسا ہو جاتا؟ اس کے متعلق یہ امر سمجھ لینا چاہیئے کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ۔ صاحب ِ شریعت اور متبع محض اتفاق سے نہیں ہو جاتے بلکہ یہ دونوں الگ الگ استعدادیں ہیں اور شمس و قمر کی مثالوں میں یہ دونوں امر بیان کئے گئے ہیں ۔ چنانچہ یہ بتایا جا چکا ہے کہ استعداد ِ شمسی والا وجود پہلے آتا ہے اور استعدادِ قمری والے وجود پیچھے آتے ہیں جو اس کے کام کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس سے ایک اور استدلال بھی ہوتا ہے جس سے احمدیت کے ایک اہم مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے ایک شخص شمس ہو اپنے زمانہ کا اور دوسرے زمانہ کا قمر بننے کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بڑے زمانہ کا قمر ہو مگر چھوٹے زمانہ کا شمس ہونے کی قابلیت نہ رکھتا ہو ۔ یہ الگ الگ قابلیتیں ہیں اور اللہ تعالی نے ہر استعداد کو دیکھ کر فطری مناسبت کے لحاظ سے ان کو شمس و قمر کا مقام دیا ہے اس وجہ سے ایک زمانہ کا قمر خواہ کام کے لحاظ سے قمر ہو لیکن روحانیت کے لحاظ سے پہلے دور کے شمس سے زیادہ ہو سکتا ہے لیکن اپنے شمس سے زیادہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس نے روشنی اپنے شمس سے لی ہوتی ہے اور بوجہ اس کے نور مکتسب ہونے کے اپنے شمس سے بڑھنے کی طاقت کسی قمر میں نہیں ہوسکتی ۔ لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے زمانہ کے شمس سے بڑا ہو ۔ مثلاً آگ اپنی ذات میںایک شمس کا وجود رکھتی ہے کیونکہ خود جل رہی ہوتی ہے اس کا نور مکتسب نہیں ہوتا بلکہ اندر سے پیدا ہوتا ہے مگر قمر کی روشنی کے سامنے وہ بالکل ماند ہوتی ہے ۔ جب ہم آگ جلاتے ہیں تو صرف دو یا چار گز جگہ کو روشن کر تی ہے اس سے زیادہ نہیں اور اگر ہم اسے اونچا بھی لے جائیں تب بھی وہ زیادہ دور تک اپنی روشنی کو نہیںپھیلا سکتی بلکہ اگر ہم اسے کافی اونچا لے جائیں تو وہ شاید تاریکی ہی بن جائے اور اس کا اپنا وجود بھی دکھائی نہ دے ۔ آگ اور چاند کی روشنی میں یہ فرق اس لئے ہوتا ہے کہ گویا قمر تابع ہے مگر اس کا متبوع اس قدر روشن ہے اور دوسری روشنیوں سے اس قدر زیادہ چمک اس میں پائی جاتی ہے کہ اس کا قمر بالذات روشنیوں سے زیادہ روشن ہو جاتا او ر دوسرے شموس سے بھی اپنی روشنی میں بڑھ جاتا ہے ۔
حقیقت وہی ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتب میں بار ہا بتائی ہے کہ شموس ایسے لوگ بنائے جاتے ہیںجو اقدام اور جنگی قوت اور سیاسی اقتدار کا ملکہ اپنے اندر رکھتے ہیں کیونکہ شریعت کے نفاذ کے لئے ان قابلیتوں کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے کہ ان میں یہ سب قابلیتیںپائی جاتی تھیں۔ لیکن قمر ایسے وجود بنائے جاتے ہیں جو سوز و گداز اور نرمی اور نصیحت کا مادہ اپنے اند ر زیادہ رکھتے ہی اس جہ سے ہمیشہ ان کی زندگیاں مختلف ہوتی ہیں اور باوجود ایک کام کرنے کے دونوں دور اس طرح مختلف نظر آتے ہیںجس طرح دو الگ الگ وجود ہوتے ہیں۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام دونوں نے ایک کام کیا مگر موسیٰ اور عیسیٰ کی زندگیاں دیکھی جائیں تو وہ بالکل الگ قسم کی نظر آتی ہیں۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگیوں کو دیکھا جاے تو ان میں بھی ایک نمایا ںفرق نظر آتا ہے ۔ رسول کریم ﷺ میں شروع سے ہی اقدام اور جنگی قوت اور تحکیم نظام کا مادہ نمایا ں تھا لیکن حضرت مسیح موعود ؑ میں سوز و گدازاور نرمی کا مادہ پایا جاتاتھا اور اپنی جماعت کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے کہ سیاست سے کوئی تعلق نہ رکھو تمہاراکام یہی ہے کہ تم نرمی اور محبت سے اللہ تعالی کا پیغام لوگوں تک پہنچا ئو یہ ایسا ہی ہے جیسے سورج کی روشنی ہی قمر کے ذریعہ آتی ہے مگر ان دونوں روشنیوں میں کتنا عظیم الشان فرق ہوتا ہے سورج کی روشنی دیکھو تو وہ بالکل الگ نظر آتی ہے یہی چیز ہے جس کا نام حضرت مسیح موعود ؑ نے جلالی اور جمالی رکھا ہے شمس اپنے اندر جلالی رنگ رکھتا ہے اور قمر اپنے اندر جمالی رنگ رکھتا ہے ۔ یوں شمس میں بھی ایک حد تک جمال پایا جاتا ہے اور قمر میں بھی ایک حد تک جلال پایا جاتا ہے مگر باوجود اس کے شمس کی غالب قوت جلالی ہوتی ہے اور قمر کی غالب قوت جمالی ہوتی ہے پس چونکہ یہ دونوں الگ الگ فطرتیں ہیں اس لئے محض تابع ہونے کی وجہ سے ہر قمر کو ہر شمس سے ادنیٰ قرار نہیں دیاجا سکتا ۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پہلا شمس چونکہ شرعی نبی تھا اس لئے وہ سب قمروںسے بڑھ کر تھا سب قمروں سے بڑھ کر نہیںکہہ سکتے بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے قمروں سے بڑھ کر تھا کیونکہ ہر قمر صرف اپنے شمس سے ادنیٰ ہوگا مگر اپنے شمس سے ادنیٰ قمر تمام دوسرے شموس سے بڑے درجہ کا ہو سکتا ہے ۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آگ بالذات روشن ہے مگر قمر کے مقابلہ میںاس کی روشنی بہت ادنیٰ ہے یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
یعنی اے میرے شمس روحانی تو چونکہ بہت روشن تھا اس لئے تیرا قمر دوسرے تمام شموس سے اپنی روشنی میں بڑھ گیا ۔ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت ہمارا یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ رسول کریم ﷺ کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی تمام انبیاء سے اپنے درجہ اور مقام کے لحاظ سے افضل ہیں ۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ دوسرے شموس سے کس طرح بڑھ سکتے ہیں مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام صاحب ِ شریعت نبی تھے ان سے حضرت مسیح موعود ؑ کا مقام کس طرح بلند ہو گیا یا بعض اور قوموں میں صاحب ِ شریعت نبی گذرے ہیں ان سے آپ بڑے کس طرح قرار دیئے جا سکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک مہ انبیاء بڑے تھے مگر اُن شموس اور قمر میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ یہ بیشک قمر ہے مگر یہ قمر اس شمس کا ہے جو پہلے تمام شموس سے بہت زیادہ روشن تھا اس لئے یہ لازم تھا کہ اس شمس کا قمر اپنی روشنی میں پہلے شموس سے بھی بڑھ جا تا ۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی جگہ پر ایک ہزار لیمپ ہو اور ہر لیمپ کا ایک ایک ری فلیکٹرہو تو اگر اس ہزار لیمپ کے مقابلہ میںایک لیمپ ایسا ہو جس میں دو ہزار لیمپ کے برابر روشنی کی طاقت وہ تو اس کا ری فلیکٹر اپنی روشنی میں ایک ہزار لیمپ سے بڑھ جائے گا۔ فرض کرو اس ہزار لیمپ میں سے کوئی پچاس کینڈل پاور کا ہے اور اس طرح مجموعی طور پر ان کی طاقت دولاکھ کینڈل پاور کی بن جاتی ہے تو اگر ان کے مقابلہ میں تین لاکھ کینڈل پاور کا صرف ایک ہی لیمپ ہو تو اس کا ری فلیکٹر باقی تمام روشنیوں کو مات کر دے گا اور باوجود قمر ہونے کے دوسرے شموس پر غالب آجائے گا۔
اس جگہ شمس و قمر سے مراد عام وجود بھی ہو سکتے ہیں۔ اور شمس و قمر سے شمس ِ اسلام اور قمر ِاسلام بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ ان دونوں شہادتوں سے یہ بتایا ہے کہ یہ دونوں وجود ابراہیمی پیشگوئی کی صداقت کا ثبوت ہوں گے اور مکہ کو عظیم الشان مرکز بنانے کا موجب ہوںگے ۔
اوراگر عام معنے لئے جائیں تو آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ایسے ہی وجودوں سے اصلاح کی بنیاد پڑتی ہے جب تک ایسے وجود پیدا نہ ہوں اصلاح نہیں ہو سکتی اور اگر اب ایسا نہ ہو گا تو ابراہیم کی پیشگوئی غلط ہو جائے گی ۔
وَالسَّمَائِ وَمَا بَنٰھَا ص لا۔ وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰھَا ص لا۔
اور آسمان کی اور اس کے بنائے جانے کی ۔ اور زمین کی اور اس کے بچھائے جانے کی
آیت نمبر ۶
حل لغات ۔ طَحَا الَّشْی ئَ کے معنے ہیں بَسَطَہ ُ وَمَدَّہ‘ کسی چیز کو پھیلایا (اقرب)
تفسیر ۔ نحوی یہاں ’’ما‘‘ کے دو معنے کرتے ہیں بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ ’’ ما ‘‘ اَلَّذِیْ کے معنوں میں ہے اور مَنْ کا قائمقام ہے گویا یہاں ’’ما‘‘ مَنْ کی جگہ استعمال ہوا ہے اور آیت دراصل یوں ہے کہ وَالسَّمَائِ وَمَنْ بَنٰھَاہم شہادت کے طور پر آسمان کو پیش کرتے ہیں اور اسے بھی جس نے اسے بنایا ۔
ا س کے متعلق سورۃ البلد کے تفسیری نوٹوں میں یہ امر واضح کیا جا چکا ہے کہ قرآن کریم میں ’’ما ‘‘ مَنْ کے معنوں میں بھی استعمال کیا گیا ہے چنانچہ حضرت مریم علیہ السلام جب پیدا ہوئیں تو ان کی والدہ نے کہا یا اللہ میںنے تو بیٹی جنی ہے حالانکہ میں چاہتی تھی کہ لڑکا پیدا ہو اور اسے میں تبلیغ کے لئے وقف کروں ۔ اس موقع پر قرآن کریم میں یہ الفاظ آتے ہیںوَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ (آل ِ عمران ۴:۱۲) حالانکہ لڑکی کے لئے مَنْ کا لفظ استعمال ہونا چاہیئے تھا اسی طرح فرماتا ہے فَانْکِحُو ا مَا طَابَ لَکُمْ مِن َالنِّسَائِ مَثْنیٰ وَثُلٰثَ وَ رُبٰعَ (النساء ۱ : ۱۲) یعنی تمہیں عورتوںمیںسے جو پسند آئیںان کے ساتھ شادی کر لو ۔ دو کرو ۔ تین کرو یا چار کرو یہ تمہارا اختیار ہے ہماری طرف سے اس میںکوئی روک نہیں ۔ اب عورت ذوی العلم افراد میں سے ہے اور اس کے لئے مَا کی بجائے مَنْ کا لفظ استعمال کرنا چاہیئے تھا مگر بجائے یہ کہنے کے کہ فَانْکِحُو ا مَنْ طَابَ لَکُم اللہ تعالی نے فَانْکِحُو ا مَا طَابَ لَکُم فرمایا ہے ۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اللہ تعالی نے یہاں دونوں جگہ ما کا لفظ کیوں رکھا ہے جبکہ مَنْ کا لفظ اس غرض کے لئے لغت نے وضع کیا ہوا تھا اوروہ اس موقع پر استعمال بھی ہو سکتا تھا ۔ آخر وجہ کیا ہے کہ خدا تعالی نیایک وضعی لفظ چھوڑ کر اس کی جگہ ایک غیر وضعی لفظ رکھ دیا؟ اس کی صاحب ِ کشاف نے ایک نہایت لطیف توجیہ کی ہے جو میرے نزدیک درست ہے وہ کہتے ہیں مَنْ کی جگہ مَا کا لفظ اسی وقت استعمال ہوتا ہے جب وجود پر کوئی صفت غالب آگئی ہو یعنی کبھی کوئی وجود ایسا ہوتا ہے کہ اس کی کوئی صفت اس کے عام انسان ہونے پر غالب آجاتیہے اس وقت چونکہ کسی مخصوص صفت پر زور دینا مقصود ہوتا ہے ’’مَا‘‘ کو مَنْ کا قائمقام کر دیا جاتا ہے ۔ مثلاً وَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ یہ لڑکی جو تو نے جنی ہے اس میں وہ صفت جو تو لڑکے میں امید رکھتی تھی کس شان میں پائی جاتی ہے چونکہ صفت غیر ذوی العلم میںسے ہے اس لئے ’’ما‘‘ کا لفظ استعمال کر کے اس کی ایک مخصوص قابلیت کی طرف اشارہ کر دیا اگروَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَنْ وَضَعَت کہا جاتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ اللہ تعالی کو پتہ ہے کہ یہ لڑکی ہے حالانکہ اللہ تعالی کو تو پتہ ہی تھا کہ وہ لڑکی ہے یا لڑکا ۔ خدا تعالی کے وجود پر ایمان لانے والوں کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اللہ تعالی کو اس بات کا علم ہے کہ تو نے کیا جنا ہے وہ تو پہلے ہی معلوم تھا کہ اللہ تعالی ا س بات کو جانتا ہے ۔ پس اگر وَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَنْ وَضَعَتکہا جاتا تو اس میں کوئی خاص بات نہ ہوتی مگروَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَت کہہ کر اس طرف اشارہ کیا کہ مریم کی ماں کو کیا پتہ ہے کہ اس میں کیا کیا صفات پائی جاتی ہیں لیکن اللہ تعالی جانتا ہے کہ اس میں کیسی عظیم الشان صفات اور قابلیتیں پائی جاتی ہیں۔ پس ’’ما‘ کا لفظ مریم کی قابلیت اور اس کی صفات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے استعمال کیا ہے اگر مَنْ ہوتا تو اس کے اتنے ہی معنے ہوتے کہ اللہ تعالی کو پتہ ہے یہ لڑکی ہے مگر ’’ما‘‘ کا لفظ استعمال کر کے اس طرف اشارہ کر دیا ک آگے آگے دیکھیو ہوتا ہے کہ
جب یہ بڑی ہو گی تمہیں معلوم ہو گا کہ یہ کسی عظیم الشان لڑکی ہے گویا وَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَت کے لحاظ سے یہ ایک پیشگوئی بن گئی مگر وَاللہ ُ اَعْلَمُ بِمَنْ وَضَعَت کے لحا ظ سے محض ایک واقعہ کا اظہار ہوتا ۔
اسی طرح فَانْکِحُو ا مَا طَابَ لَکُمْ مِن َالنِّسَائِ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بسا اوقات شادی بیاہ کے تعلقات محض جذباتی ہوتے ہیں اور انسان عورت کو نہیںدیکھتا بلکہ اس کی کسی خاص صفت کو دیکھتا ہے ۔ بہت سے لوگ عورت کے جمال پر اتنے فریفتہ ہو جاتے ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ عورت کس خاندان میںسے ہے ، اس کا آنا ہمارے ماں باپ کے لئے یا ہمارے خاندان کے لئے کسی تکلیف کا باعث تو نہیں ہو جائے گا ۔وہ اس کی صورت پر اتنے عاشق ہوتے ہیں کہ اور تمام باتو ں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کئی لوگ صرف مال دیکھ کر شادی کر دیتے ہیں ، کئی لوگ صرف حسب و نسب اور اعلیٰ خاندان دیکھ کر شادی کرتے ہیں ، کئی لوگ صرف اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے عورت سے شادی کرتے ہیں اور کئی لوگ صرف اخلاق فاضلہ کی شہرت سن کر شادی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ غرض کوئی ایک صفت اتنی غالب آجاتی ہے کہ انسان اس صفت کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے کہ عورت سے شادی کرے پس فَانْکِحُو ا مَا طَابَ لَکُم میں اللہ تعالی نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہم جانتے ہیں تم عورتوں کے ساتھ شادی کرتے وقت تما م وجوہ کو نہیں دیکھتے بلکہ کوئی ایک چیز تمہیں پسند آجاتی ہے اور تم ان پر لٹو ہو جاتے ہو ۔ کبھی تمہیں حسن پسند آجاتا ہے اور تم شادی کر لیتے ہو ، کبھی تمہیں مال اچھا لگتا ہے اور تم شادی کر لیتے ہو ، کبھی تمہیںخاندان اچھا لگتا ہے اور تم شادی کر لیتے ہو ، کبھی تمہیںاخلاق اچھے لگتے ہیں اور تم شادی کر لیتے ہو ۔ گویا اس آیت میں انسانی فطرت کے اس جوہر کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ عورت سے شادی نہیں کرتا بلکہ اس کی کسی صفت سے شادی کرتا ہے ، کبھی مال کی وجہ سے شادی کرتا ہے ، کبھی حسن کی وجہ سے شادی کرتا ہے ، کبھی تعلیم کی وجہ سے شادی کرتا ہے ، کبھی حسب و نسب کی وجہ سے شادی کرتاہے ، کبھی دین کی وجہ سے شادی کرتا ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تُنْکَحُ الْمَرْاَۃُ لِاَرْبَعٍ لِمَا لِھَا وَ لِحَسَبِھَا وَ لِجَمَا لِھَا وَلِدِیْنِھَا فَا ظْفُرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِ بَتْ یَدَاکَ (بخاری کتاب النکاح) یہ حدیث بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ شادی کسی صفت ِ غالبہ کے لحاظ سے کی جاتی ہے مگر رسول کریم ﷺ نے بطور نصیحت فرمایا کہ جب تم نے صفت ِ غالبہ کے لحاظ سے ہی شادی کرنی ہے تو پھر تم وہ ’’ما‘‘نہ اختیار کرو جو حسن کا قائمقام ہو یا حسب و نسب کا قائمقام ہو ۔ یہ عربی زبان کا ایک بہت بڑا کمال ہے کہ الفاظ کے معمولی ہیر پھیر سے اس میں نئے سے نئے معنے پیدا ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنا آخری کلام اس زبان میںنازل فرمایا۔ واقعہ یہی ہے کہ بعض دفعہ کوئی صفت اس قدر غالب آجاتی ہے کہ وہ وجود کو ڈھانپ دیتی ہے ۔مریم ؑ کی ماںکو صرف ایک لڑکی نظر آتی تھی مگر اللہ کو صفتِ مریمیت نظر آتی تھی ۔ اسی طرح مرد بعض دفعہ عورت کو بھول جاتا ہے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی باقی سب امور کو نظر اندازکر دیتا ہے صرف ا س کا حسن یااس کا خاندان یا اس کی کوئی اور ادا اسے اپنی طرف مائل کر لیتی ہے اس وقت اس لحاظ سے وہ مَنْ نہیںبلکہ ما ہی ہو جاتی ہے ۔ بہرحال جہاں ذات کی بجائے کسی صفت کا غلبہ مدِ نظر ہو اور اس صفت پر خاص طور پر زور دینا مقصود ہو وہاں قرآن کریم مَنْ کی جگہ ’’ما‘‘ کا لفظ استعمال کرتاہے پس انہی معنوںسے اس جگہ وَ مَا بَنٰہَا کے الفاظ آئے ہیں یعنی یہ بتانے کے لئے کہ اللہ تعالی کی صفت صنعت کو اپنے سامنے رکھو۔
وہ لوگ جنہوں نے ان معنوں کو قبول نہیں کیا وہ ’’ما‘‘ کو مصدریہ قرار دیتے ہیں ۔ قتادہ ، مبرد اور زجاج یہی کہتے ہیںیہ قول درحقیقت ان لوگوں کا ہے جو ’’ما‘‘ کو افرادِ ذوی العقل کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں سمجھتے وہ ہر جگہ مصدر کے معنے کرتے ہیں اور کہتے ہیںکہ جس جگہ ’’ما‘‘ آجائے وہ جملہ کو مصدریہ بنا دیتاہے ۔ ا س صورت میں آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم آسمان اور اسے بنانے کی یعنی خدا تعالی کی صنعت کی شہادت تمہارے سامنے پیش کرتے ہیںاس صورت میں بھی شہادت تو خدا تعالی کے فعل کی ہی ہو گی مگر براہ راست آسمان کی بناوٹ کو پیش کرنا سمجھا جائے گا ۔ لیکن اگر ’’ما‘‘ کو مَنْ کے معنوں میں لیا جائے تو آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم تمہارے سامنے آسمان کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیںاور اس صانع عظیم کو کہ جب انسان اس کی صنعت کو دیکھتا ہے تو محو ہو جاتا ہے یعنی تم آسمان کو دیکھو اور جس نے اسے بنایا ہے اس کو بھی یعنی اس کی عظیم الشان صنعت کو دیکھو ۔ جب انسان اللہ تعالی کی اس صنعت کو دیکھے تو حیران رہ جاتا ہے اور اللہ تعالی کی قدرت اور اس کی جبروت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے پس چونکہ یہاں خدا تعالیٰ کی صفت پر زور دینا مقصود تھا اور کائنات ِ عالم میںسے آسمان کی بناوٹ ۔ اس کی بلندی اور اس کے فوائد کی طرف بنی نوع انسان کو متوجہ کرنا تھا اس لئے یہاں ’’ما‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ۔
اسی طرح وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰہَا میںاگر ’’ما‘‘ کو مصدریہ قرار دیا جائے تو آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم شہادت کے طور پر زمین کو پیش کرتے ہیںاور اس کے بچھے ہوئے ہونے کو بھی ۔ لیکن اگر مَا کو مَنْ کے معنو ں میں لیا جائے تو ایت کے معنے یہ ہوں گے کہ تم زمین کو دیکھو اور اس کے اس بچھانے والے کو دیکھو جس کی عظیم الشان صنعت کا یہ نمونہ ہے ۔
بہت سے سیارے ایسے ہیں جو رہائش کے قابل نہیںاسی طرح بعض زمینیںایسی ہیں جو انسانی رہائش کے قابل نہیں ہوتیں ۔ بعض تو ایسی ہوتی ہیںکہ انسان وہاں رہ ہی نہیںسکتا کیونکہ ہوا جس پر انسانی زندگی کا تما م دارومدار ہے وہاں اس قدر ہلکی ہوتی ہے کہ پھیپھڑوں میں جا ہی نہیں سکتی اور بعض زمینیںایسی ہوتی ہیںکہ وہاں ہوا تو موجود ہوتی ہے مگر وہ اپنے اندر ایسی کیمیائی ترکیب نہیںرکھتی کہ زندگی کا باعث بن سکے ۔ اسی طرح کئی زمینیں ایسی ہیں جہاں انسان جیسی مخلوق ٹِک ہی نہیں سکتی اگر اس قسم کی مخلوق وہاں ہو تو یا وہ زمین پر چل ہی نہیں سکے گی اور اگر چلے گی تو فوراً گر جائے گی اور یا پھر وہاں کی زہریلی ہوا اس کو فوراً ہلاک کردے گی ۔ غرض زمین کے ساتھ اللہ تعالی نے اس کے قابل رہائش ہونے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ بعض زمینیں ایسی ہیں جو انسانی رہائش کے قابل نہیں ہیں چنانچہ وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰہَا میں اللہ تعالی اسی صنعت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالی نے زمین کو تمہاری رہائش کے قابل بنایا ہے اور یہ اس کا ایک بہت بڑا احسان ہے جس سے اس نے تمہیں نوازا۔
میں نے دیکھا ہے بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہر زمین رہائش کے قابل ہوتی ہے چنانچہ جب وہ قرآن کریم میںاس قسم کے الفاظ دیکھتے ہیں جن میں اللہ تعالی کے اس احسان یا اس کی صنعت کا ذکر ہوتا ہے کہ اس نے زمین کو رہائش کے قابل بنایا ہے تو وہ حیران ہوتے ہیںکہ اس ذکر کا فائدہ ہی کیا تھا ہم نے بہرحال زمین میں ہی رہنا تھا اگر یہ زمین نہ ہوتی تو کوئی اور زمین ہوجاتی اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑسکتا تھا ۔ وہ لوگ جو اس قسم کے خیالات میں مبتلا ہوتے ہیں در حقیقت علم ہیئت سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں۔ موجودہ تحقیقات نے اس امر کو ثابت کر دیا ہے کہ ہر زمین رہائش کے قابل نہیں ہوتی ۔ بعض زمینیںایسی ہیں کہ اگر وہاں انسان جائے تو ایک منٹ کے اندر اندر ہلاک ہو جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے ہی سب سے پہلے اس نکتہ کو دنیا پر ظاہر کیا ہے کہ ہر زمین رہائش کے قابل نہیں ہے او ر یہ قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کا ایک زبر دست ثبوت ہے ۔ قرآن ایک اُمّی پر نازل ہوا اور اس زمانہ میں نازل ہوا جب کہ علم ہیئت کی ترقی بالکل محدود تھی اور اس قسم کے مسائل کی طر ف کوئی انسانی نظر نہیں جا سکتی تھی اس زمانہ میں اللہ تعالی نے وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰہَا میں یہ ایک نہایت ہی لطیف راز بیان فرمایا کہ ہر زمین رہائش کے قابل نہیں ہے اس لئے جب تم زمین کو دیکھو تو صانع عظیم کی اس صنعت پر غور کرو کہ کس طرح اس نے تمہارے لئے اس زمین کو قابل ِ رہائش بنایا اور زندگی کے ہر قسم کے سامان اس نے تمہارے لئے مہیا کئے۔ سپکٹروسکوپ SPECTROSCOPE کی ایجاد کو صرف ستّر سال ہوئے ہیں ۔ اس آلہ کی ایجاد سے پہلے دنیا اس حقیقت سے ناواقف تھی مگر جب سے یہ آلہ ایجاد ہوا ہے علم ِ ہیئت کے ماہرین نے اس راز کا انکشاف کیا ہے کہ ہر ستارہ رہنے کے قابل نہیں ہے وہ سیاروں کی روشنی کا سپکٹروسکوپ کے ذریعہ سے کیمیاوی تجزیہ کرتے ہیں اور اس کے اندازہ لگاتے ہیں کہ اس سیارہ میں کیا کیا دھاتیں ہیں اور وہاں کی فضا کیسی ہے ۔ اس ایجاد کے نتیجہ میں انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر زمین اس قابل نہیں کہ اس میں رہائش اختیا ر کی جاسکے مگر اللہ تعالی نے سپکٹروسکوپ کی ایجاد سے تیرہ سو برس پہلے یہ فرمادیا تھا کہ وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰہَا ہماری اس صنعت پر تم غور کرو کہ ہم نے اس زمین کو تمہاری رہائش کے قابل بنایا ہے ۔ تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بھی ایک ویسی ہی زمین ہے جیسے اور زمینیں ہیں بلکہ تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ وہ زمین ہے جسے خدا تعالی نے خاص طور پر نسل انسانی کی رہائش او ر اس کی آبادی کے قابل بنایا ۔ گویا خدا تعالی کی یہ صفت ہے کہ وہ جو بھی کام کرتا ہے اس کے مناسب حال ایک ماحول بھی تیار کرتا ہے یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ انسان پیدا کرتا اور زمین کو اس کے مناسب حال نہ بناتا ۔ یا انسان پیدا کرتا اور وہ زمین سے فائدہ نہ اٹھا سکتا ۔ اللہ تعالی کی شان سے یہ بالکل بعید ہے کہ وہ ایسا کرتا۔
ان معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالی کی اس عظیم الشان صنعت پر غور کرو جو آسمان اور زمین دونوں میں کام کر رہی ہے اور جس کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے فرماتا ہے ہم تمہارے سامنے آسمان کو اور جس نے اسے اس طرح بنایاہے بطور شہادت پیش کرتے ہیںاسی طرح ہم تمہارے سامنے زمین کو اور جس نے اسے اس طرح بچھایا ہے بطور شہادت پیش کرتے ہیں۔ تم آسمان کو اس کی بلندی اور رفعت کے لحاظ سے دیکھو اورزمین کو اس کی ان قابلیتوں کے لحاظ سے دیکھو جن کی وجہ سے انسان اس میں بسنے کے قابل ہوا ہے اور سمجھ لو کہ آسمانی اور زمینی شہادتیں جس کے حق میں ہوں وہ جھوٹا کس طرح ہو سکتا ہے یا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ادھر اللہ تعالی آسمان بناتا جو بڑا مضبوط او ر اعلی درجے کا ہے دوسری طرف وہ زمین کو اس قابل بناتا کہ اس میں بنی نو ع انسان رہائش اختیار کر سکیںاو ر پھر یہ تمام کارخانہ عالم محض عبث ہوتا اور انسانی پیدائش کا کوئی مقصد نہ ہوتا ۔ کیا تم نہیںدیکھتے کہ اس نے زمین کو بہت سے دوسرے سیاروں سے مختلف شکل دی ہے وہاں ذی روح زندہ نہیں رہ سکتے ، وہ سانس نہیںلے سکتے ، وہ چل پھر نہیں سکتے ۔ مگر یہ زمین خدا تعالی نے ایسی بنائی ہے کہ اس میںذی روح افراد سانس لے سکتے ہیں، ان کے دماغ پوری طرح کام کر سکتے ہیں اور وہ اپنی ہر ضرورت اس ماحول میں سے مہیا کر سکتے ہیں ۔ ورنہ ایسی زمین بھی ہو سکتی تھی کہ مختلف گیسوں کی وجہ سے حیوان تو اس میں بس سکتے مگر انسان نہ بس سکتا ۔ مگر چونکہ انسان کے لئے ایک ایسے ماحول کی ضرورت تھی جس میں اس کا دماغی نشوونما جاری رہتا ۔ اس لئے اللہ تعالی نے زمین کے اندر ایسی قابلیتیںپیدا کر دیں کہ انسان اس میں بلا دریغ رہائش اختیار کر کے اپنے دماغی ارتقاء کو جاری رکھ سکتاہے ۔
اللہ تعالی آسمان اور زمین کی اس مثال کو پیش کرتے ہوئے اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ جب اس نے اتنا بڑا کارخانہ بنایا ہے اور اس کارخانہ کا ہر پرزہ انسان کی خدمت کے لئے لگا ہوا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تمہاری پیدائش اپنے اندر کوئی حکمت نہ رکھتی ہو اور تمہیں اللہ تعالی نے بلا وجہ محض لغو طور پر دنیا میں پیدا کر دیا ہو ۔ ادھر آسمان کو نہایت مضبوط اور اعلی درجہ کا بنانا، ادھر زمین کو رہائش کے قابل بنانا اور اس طرح قانون ِ قدرت کا ایک وسیع اور طویل نظام کی شکل اختیا ر کرلینا بتاتا ہے کہ اللہ تعالی کا یہ کام عبث نہیں۔ جب تم اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تیاری کو عبث نہیں کہتے تو تم اتنے بڑے نظام کو عبث کس طرح قرار دے سکتے ہو تمہیں بہرحال ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالی کا کوئی بہت بڑا مقصد او ربڑا بھاری مدعا ہے جو اس کارخانہ عالم کے پیچھے کام کر رہا ہے اور ضرور ہے کہ اس کا وہ منشاء ایک دن ظاہر ہو اور وہ مقصد پورا ہو جس کے لئے اس نے آسمان اور زمین کا نظام قائم فرمایا تھا ۔ اگر مادیات میں اس نے ایک طرف آسمان میںبلندی اور فیوض کی طاقت رکھی ہے اور دوسری طرف زمین میں رہائش اور دماغ کو نشوونما دینے کی قابلیت رکھی ہے تو یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ وہ تمہارے جسمانی آرام کاتو خیال رکھے اور روحانی آرام کو نظر انداز کر دے ۔ وہ تمہارے چند روزہ فوائد کے لئے تو اتنا بڑا کارخانہ جاری کر دے اور تمہارے ابدی فوائد کے لئے کوئی نظام قائم نہ کرے۔ جس خدا نے جسمانیات کے لحا ظ سے تمہارا ساتھ نہیں چھوڑا وہ روحانیات کے لحاظ سے بھی تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑ سکتا ۔ تم زمین اور آسمان پر اگر مخلّی بالطبع ہو کر غور کر و تو تمہیںمعلوم ہو گا کہ جس خدا کی طرف سے تمہارے روحانی ارتقاء کے لئے بھی ایسے قوانین کا آنا ضروری ہے جو نہایت اعلی درجہ کی زندگی بسر کرنے کے قابل بنا دیں تا کہ جس طرح اس نے زمین کو جسمانیات کے لحاظ سے رہنے کے قابل بنایا ہے اسی طرح وہ روحانیت کے لحاظ سے رہنے کے قابل بنائے ورنہ خدا تعالی پر یہ الزام عائد ہو گا کہ اس نے جسم کا تو خیال رکھا مگر روح کا خیال نہ رکھا۔ اس نے مادی ترقی کے سامان تو مہیا کئے مگر روحانی ترقی کے سامان مہیا نہ کئے۔ اور یہ ایک ایسا الزام ہے جسے خدا تعالی کی صفات بالکل ردّ کرتی ہیں۔ اس نے جسمانی نظام کے بالمقابل ایک روحانی نظام بھی قائم کیا ہے اور جس طرح جسم کی ترقی کے اس نے سامان کئے ہیں اسی طرح روح کی ترقی کے بھی اس نے سامان کئے ہیں ۔نادان انسان جسمانیات کو دیکھتا اور روحانیت سے آنکھیں بند کر لیتا ہے حالانکہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالی زمین کو جسمانی لحاظ سے تو رہائش کے قابل بنائے مگر روحانی لحاظ سے وہ اس کو قابلِ رہائش بنانے کا کوئی انتظام نہ کرے ۔ یا تو یہ کہو کہ مادی لحاظ سے بھی زمین میں یہ قابلیت نہیں کہ اس میں انسان رہ سکیںاور اگر تم یہ نہیں کہہ سکتے تو تمہیں ماننا پڑے گا کہ روحانی لحاظ سے بھی اس میں یہ ضرور قابلیت پائی جاتی ہے اور وہی قابلیت ہے جس کے ماتحت وہ لوگ جو آج اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی کو قبول کرنے کے لئے دوڑتے چلے آئیں گے تم خواہ کس قدر زور لگا لو فطرتِ انسانی میں نیکی پائی جاتی ہے اور وہی نیکی ہے جو ایک دن محمد رسول اللہ ﷺ پر لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر دے گی ۔ جس طرح زمین اپنے آپ کو آسمانی فیوض سے الگ نہیں کر سکتی اسی طرح انسانی قلوب بھی آسمانی وحی سے الگ نہیں رہ سکتے ضرور ہے کہ وہ ایک دن متاثر ہوں اور اس طرح جسمانی اور روحانی نظام کی ایک دن مطابقت ثابت ہو۔
دوسری صورت میں اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تم آسمان اور اس کی بناوٹ کو دیکھو اور سمجھ لو کہ آسمان کی بناوٹ ہی فیض رسانی کے لئے ہے اور زمین کی بناوٹ ہی سائل اور مانگنے والے کی ہے پس بغیر اس آسمانی نورانی وجود کے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے تم لوگ کوئی بھی خوبی ظاہر نہیں کر سکتے آسمان کا کام آسمان ہی کر سکتا ہے اور زمین اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتی کہ وہ آسمان کی طرف منہ کر ے او ر اُس کے فیوض کو حاصل کر کے زندگی حاصل کرے ۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ قرآن کریم میں آسمان سے مراد صرف جَوّ نہیں ہوتا بلکہ تمام ستارے، سیارے اور روشنیاں وغیرہ اس سے مراد ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے جس طرح ان کے بغیر زمین کام نہیں دے سکتی اسی طرح محمد رسو ل اللہ ﷺ کے بغیر تم بھی کوئی خوبی ظاہر نہیںکر سکتے اور پھر جس طرح آسمانی فیوض سے زمین انکار نہیں کر سکتی اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کے روحانی فیوض سے بھی تم ہمیشہ کے لئے انکار نہیں کر سکتے اگر زمین کے سامنے سورج آئے تو کیازمین اس وقت کہہ سکتی ہے کہ میں روشنی نہیں لیتی ۔ وہ مجبور ہے کہ سورج سے روشنی حاصل کرے ۔ اسی طرح جب محمد رسول اللہ ﷺ ظاہر ہو گئے ہیں تو اب دنیا آپ کا زیادہ دیر تک انکار نہیں کر سکے گی وہ ضرور آپ پر ایمان لائے گی ۔ اس مضمون کی وضاحت اللہ تعالی نے اگلی آیت میںفرمائی ہے
وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا ص لا
اور انسانی نفس کی اور اس کے بے عیب بنا ئے جانے کی ۔ آیت نمبر ۷
نمبر ۷ حل لغات۔ سَوّٰی کے لئے دیکھو حل لغات نمبر ۳ سورۃ الاعلی جلد ہشتم
تفسیر۔ پہلی آیت کی طرح اس کے بھی دو معنے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ہم نفس کو بطور شہادت پیش کرتے ہیں اور اس کو بھی جس نے اسے معتد ل القویٰ بنایا ۔ سَوّٰی کے معنے معتدل القویٰ کے بنانے کے ہوتے ہیں اور سورۃ الاعلیٰ کے تفسیری نوٹوں میں اس کا مفصل ذکر آچکا ہے جس طرح پہلی آیت میںبتایا تھا کہ ہم نے زمین کو قابلِ رہائش بنایا اسی طرح یہاں یہ بھی بتایا ہے کہ ہم نے نفس کا تسویہ کیا اور اس میںایسی قوت پیدا کی ہے کہ وہ اعتدال سے ترقی کی طرف جاتاہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے اگر تمہارے نفس میں یہ شہادت موجود نہ ہوتی اور جس طرح ہم نے زمین کو طحیٰ کیا ہے اس طرح تمہارے نفوس کا تسویہ نہ کیاہوتا تو تم کہہ سکتے تھے کہ ہم پر یہ مثال چسپاں نہیں ہو سکتی لیکن جب نفوس ِ انسانی میںاعتدال کو اختیار کر کے ترقی کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے تو تم یہ نہیںکہہ سکتے نفسِ انسانی خود اس امر پر شاہد ہے کہ کوئی نور اسے آسمان سے ملنا چاہیئے جس طرح زمین آسمانی روشنی کی محتاج ہوتی ہے اسی طرح تم آسمانی نور کے محتاج ہو ۔ تم دیکھتے ہو کہ اگر آسمان سے پانی نہ برسے تو زمین کی تمام سر سبزی و شادابی مٹ جاتی ہے ۔ اس کے درخت مرجھا جاتے ہیں ، اس کے پانی خشک ہو جاتے ہیں ، اس کی روئید گیاںگل سڑ جاتی ہیں اور وہی زمین جو اپنی لطافت سے انسانی آنکھو ں میںنور پیدا کر رہی ہے ایک لمبے عرصہ تک بارش نہ ہونے کے نتیجہ میں ایسی بنجر اور ویران ہو جاتی ہے کہ اسے دیکھ کر انسان گھبرا جاتا ہے یہی حال عالم روحانی کا ہے آسمان سے جب تک وحی و الہام کا پانی نازل نہ ہو روحانیت کے تما م کھیت مر جھا جاتے ہیں تما م روئیدگیاں گل سڑ جاتی ہیں اور وحی و الہام کی بارش منقطع ہونے سے ارتقا ء دماغی بھی بند ہو جاتا ہے اس وقت یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ جس طرح آسمان کا زمین کے ساتھ تعلق ہے اسی طرح وحی و الہام کا قلوب ِ انسانی کے ساتھ تعلق ہے ۔ اگر آسمان زمین کی ہوا کو صاف نہ کرتا رہے تو انسانوں کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے کیونکہ وہ گندی ہوا جو سانس کے ذریعہ پھیپھڑوں میںسے خارج ہوتی ہے جمع ہوتی رہے او ر وہی انسان کو دوبارہ اندر لے جانی پڑے مگر اللہ تعالی نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے اور اس کی جگہ سرد ہوا آجاتی ہے جو ہر قسم کے مضر اثرات سے پاک ہوتی ہے ۔ اگر کسی کمرہ میںپانچ سو یا ہزار آدمی بیٹھے ہوں اور ان کی سانس کی ہوا اوپر کو نہ جائے اور نہ اس کی جگہ تازہ ہوا آئے تو چند منٹ میں ہی تمام لوگ مر جائیںمگر اب کسی کو احساس بھی نہیںہوتا کہ ہم اپنے تنفس سے ہوا کو کس قدر گندہ کر رہے ہیں کیونکہ آسمان ساتھ ہی ساتھ صفائی کا کام کر رہا ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ ضرورت سے بھی زیادہ آدمی ایک کمرہ میںاکٹھے ہو جاتے ہیں تو ان کو کوئی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ انسان جس ہوا کو گندہ کرتا ہے آسمان اسے اٹھا کر لے جاتا ہے اور اس کی جگہ پاکیزہ ہوا میسر آجاتی ہے ۔ اس سے ظاہر کہ زمین بغیر آسمانی اشتراک کے کوئی کام نہیںکر سکتی ۔ اب بتاتا ہے کہ جس طرح زمین میں مختلف قسم کی قابلیتیںپائی جاتی ہیں ۔ انسان کے اندر ایک تڑپ ہے ترقی کی، پیاس ہے صداقت کی ، ندامت ہے غلطی پر اور ہر شے کی حقیقت معلوم کرنے کی اس کے اندر جستجو ہے ۔ بچہ ابھی بولنا ہی سیکھتا ہے تو ماںباپ کا دماغ چاٹ لیتا ہے اور بات بات پر پوچھتاہے یہ کیا ہے وہ کیا ہے ۔ لیمپ نظر آتا ہے تو پوچھتا ہے یہ کیا ہے ، بلی نظر آتی ہے تو پوچھتا ہے یہ کیا ہے ، کتا نظر آتا ہے تو پوچھتا ہے یہ کیا ہے غرض ہر نئی چیز جو اس کے سامنے آتی ہے اس کے متعلق وہ اپنی ماں یا اپنے باپ سے یہ ضرور دریافت کرتا ہے کہ یہ کیا ہے ۔ یورپ میںکئی کئی جلدوںمیںاس قسم کی کتابیںلکھی گئی ہیںجب میں بچوں کے ان سوالات کے جوابات درج ہوتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں جب بچہ اس قسم کے سوالات کرتا ہے درحقیقت وہی وقت اس کے دماغی نشوونما کا ہوتا ہے مگر ماں باپ کو چونکہ خود ان سوالات کا صحیح جواب معلوم نہیں ہوتا وہ ادھر ادھر کی باتوں میں اس کے سوال کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ جب وہ بجلی کے متعلق پوچھتا ہے کہ یہ کیا ہے تو ہر شخص فوراً جواب نہیںدے سکتا کہ یہ کیا ہے اگر وہ کہیگا کہ بجلی ہے تو بچہ کہے گا بجلی کی ہوتی ہے؟اس پر کئی لوگوں کو خاموش ہونا پڑتا ہے اور کئی یہ کہہ کر بچے کو خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہیںاس کا پتہ نہیںیہ لیمپ ہے جو جل رہا ہے ۔ پس چونکہ اکثر ماں باپ بچوں کے سوالات کا صحیح جواب نہیںدے سکتے اس لئے یورپ میں اس قسم کی کئی کتابیںلکھی گئی ہیں جن میں بڑی بڑی علمی باتیں آسان الفاظ میں بیان ہوتی ہیں تا کہ جب بچہ تم سے پوچھے کہ یہ کیا ہے یا وہ کیا ہے تو تم ایسا جواب دے سکو جو صحیح ہو اور جسے بچہ سمجھ سکے ۔ پھر بچہ میں ایک یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ جب اس سے کوئی غلط بات کہہ دو تو وہ رونے لگ جاتا ہے اگر روٹی پڑی ہو اور کہہ دو کہ روٹی نہیںہے تو وہ چیخیںمار کر رونا شروع کر دے گا یا بچہ بیمار ہو اور تم اسے کہہ دو کہ تم بیمار نہیںہو تو وہ جھٹ رونا شروع کر دے گا کیونکہ اس میں یہ حس پائی جاتی ہے کہ میرے سامنے سچی بات بیان کی جائے۔ اسی طرح کوئی کھلونا بچے کو دے دو تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ اسے توڑ پھوڑدیتا ہے ا س کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پہلے وہ اس کی شکل سے اس کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب شکل سے اسے کچھ معلوم نہیں ہوتا تو وہ سمجھتا ہے شاید اس کے اندر کوئی حقیقت پائی جاتی ہے چنانچہ وہ اس حقیقت کی جستجو میںاسے توڑ دیتا ہے اور پھر توڑ کر خود ہی رونا لگ جاتا ہے لوگ حیران ہو تے ہیں کہ خود ہی اس نے کھلونا توڑا ہے اور خود ہی رونے لگ گیا ہے وہ یہ نہیںسمجھتے کہ بچہ روتااس لئے ہے کہ میں نے تو کھلونا اس لئے توڑا تھا کہ مجھے پتہ لگے اس کے اندر کیا ہے مگر مجھے پھر بھی کچھ معلوم نہیں ہوا۔ وہ اس لئے نہیں روتا کہ کھلونا کیوں ٹوٹا ہے کیونکہ وہ تو اس نے خود توڑا ہوتا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ کھلونے کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے اس کو توڑتا ہے مگر جب اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی تو رونے لگ جاتا ہے ، سمجھتا ہے کہ کھلونابھی گیا اور یہ بھی پتہ نہ لگا کہ اس کی کیا حقیقت تھی ۔ پھر جب بڑا ہوتاہے تو مختلف علوم کا اسے شغف ہو جاتا ہے ۔ دراصل یہ شغف بھی اپنی اپنی مناسبت کے لحاظ سے ہوتا ہے کبھی بچے باہر جاتے ہیں اور وہ کسی لوہار کو کام کرتا دیکھتے ہیں تو وہ وہیںکھڑے ہو جاتے ہیں کہ یہ کام کس طرح کرتا ہے ۔ کبھی کسی نجار کو دیکھتے ہیں تو اس کے کام کو دیکھنے میں محو ہو جاتے ہیں۔ اس طرح اپنی اپنی مناسبت کے لحاظ سے کسی کو لوہار ے کام کا شوق ہو جاتا ہے ، کسی کو نجاری کا کام پسند آ جاتا ہے ، کسی کو معماری کا کام پسند آجاتاہے ،کسی کو اور کام پسند آ جاتا ہے ہمارے ہاں ایک ملازمہ کا لڑکاہے اس کو یہی شوق ہے کہ میں بڑاہوکر کاتب بنوں گا معلوم ہوتا ہے اس نے کسی کاتب کونہایت خوشخط حروف لکھتے دیکھا تو اس کو بھی خیال آگیا کہ میںبھی بڑا ہو کر کاتب بنوں گا اور اسی طرح خوبصورت طریق پر لکھاکروںگا ۔
ہمارے ملک کی تباہی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے مذاق اور ان کی طبیعت کی مناسبت کا خیال نہیں رکھا جاتا اور بڑے ہو کر ان کو ایسے کاموں پر لگا دیا جاتا ہے جن کے ساتھ ان کی طبعیت کی کوئی مناسبت نہیں ہوتی نہ ان کاموں کی طرف ان کا کوئی ذاتی میلان ہوتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری عمر کام کرنے کے باوجود ترقی سے محروم رہتے ہیں ۔ حالانکہ طریق یہ ہونا چاہیئے کہ یا تو بچوں کے مذاق اور ان کی طبیعت کے مطابق ان کے لئے کام مہیا کیا جائے اور یاپھر بچپن میں ہی ان کے اندر وہ رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جو رنگ ماں باپ ان میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں نہ والدین بچہ میں اپنی مرضی کا صحیح مذاق پیدا کرتے ہیں نہ اس کے مذاق اور طبیعت کی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہیں اور اس طرح اس میں دوغلہ پن پیدا ہو جاتا ہے ۔ جب وہ بڑا ہوتا ہے تو چونکہ اس کا طبعی میلان اور ہوتاہے اور سپرد شدہ کام اور ہوتا ہے اس لئے اس کے نفس میںلڑائی شروع ہو جاتی ہے اور آخری نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اس کا ذہن کند ہو جاتا ہے ۔ آئندہ نسلوں کی درستی اور قوموں کی ترقی کی صرف دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو وعظ اور نصیحت سے بچوں کو صحیح مذاق کی طرف لایا جائے اور ان کے لئے بچپن سے ہی ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے کہ وہ وہی کچھ سوچنے لگیں جو ہم چاہتے ہیں اور وہی کچھ دیکھنے لگیں جو ہم چاہتے ہیں ۔ اور اگر ہم ان کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی مرضی کا صحیح مذاق ان میں پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو پھر دوسری صورت یہ ہے کہ بچوں کے مذاق کو ملحوظ رکھا جائے ۔ اگر کوئی انجنیئر بننا چاہتا ہے تو اسے انجنیئر بنا دیا جائے ، اگر کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو اسے ڈاکٹر بنا دیا جائے ، اگر کوئی مدرس بننا چاہتا ہے تو اسے مدرس بنا دیا جائے کیونکہ ہم نے اس کے اندر اپنا وجود پیدا نہیں کیا اور جب اپنا وجود ہم نے اس کے اندر پیدا نہیں کیا تو اب اگر اس کے ذاتی مذاق کو بھی ہم ٹھکرا دیں تو یہ بالکل بچوں والی بات ہو جائے گی جو کھلونے لے کر توڑ دیتے ہیں مگر پھر بھی ان کو حقیقت معلوم نہیں ہوتی ۔ ہم بھی اس ذریعہ سے قوم کے ایک مفید حصہ کو ضائع کرنے والے قرا ر پائیں گے ۔
پھر ہم دیکھتے ہیں مختلف علوم میں انسان کا شغف اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ بعض دفعہ غیب معلوم کرنے کے لئے اپنی عقل سے راستے تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے چنانچہ یورپ کو دیکھ لو وہ علوم میں کس قدر ترقی کر چکا ہے ۔ مگر ادھر تو یہ حال ہے کہ یورپ خدا تعالی کا انکار کر رہا ہے ، مذہب سے بالکل لا پروا ہے اور ادھر اس کی حماقت کا یہ حال ہے کہ ذرا کوئی کہہ دے میں ہتھیلی دیکھ کر آئندہ کے حالات بتا سکتاہوں تو بڑے بڑے لائق پروفیسر اور وکیل اور ڈاکٹر اور انجنئیر اپنے ہاتھ کھول کو اس کے سامنے بیٹھ جائیں گے اور کہیں گے کہ ہمیںآئندہ کے حالات بتائیے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر فطرتی طورپر یہ مادہ ہے کہ وہ حقیقت ِ عالم اور راز ِ کائنا ت کو معلوم کرنا چاہتا ہے ۔ انہوں نے اپنے جھوٹے علم پر غرور کرتے ہوئے خدا تعالی کا تو انکار کر دیا مگر فطرت میںجو جستجو تھی کہ اس دنیا کا ایک منبع ہے جس کو دریافت کرنا چاہیئے اس جستجو کو وہ نہ مٹا سکے چنانچہ غیب معلوم کرنے کے لئے ہاتھ دکھانا صاف بتا رہا ہے کہ انسان کی اس مادی دنیا سے تسلی نہیں ہو سکتی وہ علوم ماوراء الطبیعات کے حصول کے لئے ہر وقت پریشان رہتا ہے اور یہی پیاس ہے جو اسے کبھی کسی راستہ پر لے جاتی ہے اور کبھی کسی راستہ پر ۔ کوئی پامسٹری میںلگا ہوا ہے ، کوئی تاش کے پتوں سے غیب معلوم کرنا چاہتا ہے ، کوئی ستاروں کو دیکھ کر ان سے آئندہ کے حالا ت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے ، کوئی زمین پر لکیریں کھینچ کھینچ کر غیب معلوم کرتا ہے ، کوئی تسبیح کے منکے مار مار کر یہ کوشش کرتا ہے کہ اسے غیب کی کوئی خبر معلوم ہو جائے ۔ طاق منکا آجائے تو کہتے ہیں کامیابی ہو گی اور اگر جفت آجائیںتو کہتے ہیں ناکامی ہو گی۔ اسی طرح بعض لوگ قرعہ ڈالتے ہیں ۔ بعض تیروں سے آئندہ کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض یہ کوشش کہ راز ِ کائنات دریافت کئے جائیں ہر شخص میںپائی جاتی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اس کے لئے صحیح طریق اختیار کرتا ہے یا غلط۔ میںایک دفعہ کراچی گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ منڈی میں کپاس کی قیمت بڑھنے لگی ہے اس وقت بظاہر آثار ایسے تھے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ کپا س کی قیمت گر جائے گی مگر ہوا یہ کہ اس کی قیمت بڑھ گئی ۔میَں نے لوگوںسے پوچھا کہ بات کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ امرتسر سے ایک سادھو آیا ہے اس سے تاجروں نے آئندہ کے بعض حالات دریافت کئے تو اس نے کہا کہ کپاس کی قیمت بڑھ جائے گی ۔ یہ سنتے ہی تمام تاجروں نے کپاس خریدنی شروع کر دی اور اس کی قیمت بڑھ گئی ۔ مگر چونکہ کوئی حقیقی طاقت اس کے پیچھے نہیں تھی دو چار دن تو قیمت چڑھی مگر پھر کم ہونے لگی اور اس قدر کم ہو گئی کہ کئی تاجروں کے دیوالے نکل گئے۔ طبعی اصول تو یہ ہے کہ چیز کم ہو اور کارخانوں کی مانگ زیادہ ہو اس وقت قیمت بے شک بڑھتی ہے لیکن اگر چیز کافی ہو اور کسی عارضی وجہ سے گاہک زیادہ آگئے ہوں تو اس کی قیمت میں عارضی طور پر اضافہ ہو سکتا ہے چنانچہ اس کے بعد کراچی کے کئی تاجروںکے دیوالے نکل گئے کیونکہ بمبئی والوں نے اس قیمت پر روئی خریدنے سے انکار کر دیا ، نیو یارک والوں نے انکار کر دیا، لنکا شائر والوں نے انکار کر دیا ، اوراس طرح ہزاروں دیوالیہ ہو گئے ۔ اب یہ ایک حماقت کی بات تھی کہ کسی سادھو سے دریافت کیا جائے کہ آئندہ کے حالات بتائو اور پھر جو کچھ وہ اناپ شناپ بتادے اس کے مطابق عمل شروع کر دیا جائے مگراس حماقت کا ارتکاب ان سے اس لئے ہوا کہ انسان چاہتا ہے مجھے علم ِ غیب کا کسی طرح پتہ لگ جائے اور اس کے لئے بعض دفعہ ایسے ایسے احمقانہ طریق اختیار کرتا ہے کہ حیرت آتی ہے ۔ غرض انسانی فطرت میں راز ِ کائنات معلوم کرنے کی جستجو پائی جاتی ہے اور یہ علوم خواہ کتنے غلط ہوں اس امر پر ایک کھلی شہاد ت ہیں کہ انسانی علوم ماوراء الطبعیات کی پیاس رکھتا ہے اور ان کے بغیر اسے چین نہیں آتا ۔ پھر وہ علوم دنیاوی کی تحقیق میںلگتاہے ، کہیں آسمانی عالم کی کھال ادھیڑ نے لگتا ہے ، روشنیوںکو پھاڑتا ہے ، ستاروں کی چالیںدیکھ دیکھ کر آئندہ کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کرتاہے ، پھر زمین کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو کہیں کانیں دریافت کرتا ہے ، کہیںخزانوں کی دریافت کرتا ہے ، کوئی شخص پیتل کی ، کوئی لوہے کی، کوئی سونے اور کوئی چاندی کی کانیں دریافت کرنے میںمشغول ہو جاتا ہے ، کوئی جڑی بوٹیوں کے خواص معلوم کرتا اور ان کی تحقیق پر تحقیق کرتا چلا جاتا ہے ، کوئی دھاتوں کے کشتے بنا تا ہے ، کوئی ہوا ، کوئی پانی ، کوئی بجلی، کوئی آگ اور کوئی دخان کو قابو میںلانے کی کوشش کرتا ہے ، کوئی ذرا ذرا سی بات پر جنات کے خیال میںمشغول ہو جاتا ہے ۔ کسی نے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ میں نے فلاں عمل پڑھا تھا اس کی اس قدر تاثیر ہوئی کہ بس جنات قابو ہوتے ہوتے رہ گئے ۔ وہ سنتا ہے تو اس کے سر پر بھی جنون سوار ہو جاتا ہے ۔ اور وہ بھی جنات کو قابو میں لانے کے لئے سر گرم عمل ہو جاتا ہے ۔ جس طرح کیمیا گر دوسروں کو دھوکہ دینے کے لئے کہہ دیا کرتے ہیںکہ میں نے فلاں نسخہ بنایا اور سونا بنتے بنتے رہ گیا ۔ اسی طرح وہ کہتا ہے کہ میں نے فلاں عمل کیا تو جنات قابو ہوتے ہوتے رہ گئے ۔ دوسرا شخص سنتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ یہ تو قابو نہ کر سکا مگر میںان کو ضرور قابو کر لوں گا چنانچہ وہ کسی میدان میں اپنے ارد گرد لکیریں کھینچ کر بیٹھ جاتا اور منہ سے بڑبڑانے لگ جاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ ابھی جنات میرے قابو میں آجائیںگے ۔ اگر مادی تغیرات ہی کافی سمجھے جاتے تو عاقل اور جاہل دونوں اس قسم کی جدو جہد میںکیوں مشغول ہوتے ۔ آخر وجہ کیا ہے کہ یورپ کا عاقل بھی اسی میںمشغول ہے اور ہندوستان کا جاہل بھی اِسی میں مشغول ہے ۔ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ خالص مادی علوم سے انسانی قلب تسلی نہیں پاتا بلکہ وہ ما وراء الطبعیات علوم کی جستجو چاہتا ہے ۔
غرض ہر طرف سے مادی علام میں سرنگ لگانے کی یہ جدو جہد بتاتی ہے کہ اس کے اندر کسی بالائی طاقت کو پانے کی ایک تڑپ ہے جو کبھی کبھی مادی بوجھوں میںدب کر سب کانشس حالت میںچلی جاتی ہے۔ یعنی یہ حقیقت کہ خدا ہے اور اس نے دنیا بنائی ہے غائب ہو جاتی ہے مگر اس کی جدو جہد بتا رہی ہوتی ہے کہ اس کے پیچھے بے جانے وہی جذبہ کار فرما ہے ۔ بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ جاگتے ہوئے انسان اپنے نفس کو قابو میںرکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب وہ سو جاتا ہے تو اس کے قلب کے اندرونی خیالا ت بعض دفعہ اس کی حرکات سے ظاہر ہو جاتے ہیںکئی لوگ ایسے ہوتے ہیںجو کسی کی کوئی چیز چرا لیتے ہیں دن بھر تو وہ اپنے نفس کو قابو میںرکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی کو ان کی اس چوری کا علم نہ ہو مگر چونکہ سارا دن ان کے دماغ پر یہی خیال مسلط رہتاہے اس لئے جب وہ سوتے ہیںتھوڑی دیر کے بعد ہی بڑبڑانے لگتے ہیں اور ان کی چوری کا لوگوںکو علم ہو جاتا ہے ۔ بہت سے چور ایسے ہوتے ہیں جن کا لوگوں کو پتہ نہیں لگتا مگر چونکہ انہیں ہر وقت یہی خیال رہتا ہے کہ کہیںلوگوںکو ہماری چوری کا علم نہ ہو جائے اس لئے جب وہ سوتے ہیںخواب کی حالت میںبڑبڑانے لگتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں دیکھنا دیکھنا فلاں کونہ میںنہ جانا وہاں میرا مال پڑا ہے ۔ دیکھنا کہیںپولیس کو خبر نہ دے دینا ۔ کبھی بڑبڑاتے ہوئے کہیں گے میں نے فلاں کو خوب لوٹا ہے ۔ لوگ ان باتوں کو سنتے ہیںتو انہیںفوراً پتہ لگ جاتا ہے کہ یہی چور ہے چنانچہ تحقیق پر تمام مال برآمد ہو جاتاہے۔ اسی طرح بعض قاتل ایسے ہوتے ہیں جو جاگتے ہوئے تو اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب سو جاتے ہیں بڑبڑانے لگتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں ارے فلاں شخص کی روح آگئی ہے ، ارے مجھے کیوں مارتے ہو ، مجھے معاف کر دو میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا ۔ ہمسایہ ان آوازوں کو سنتا ہے تو اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہی شخص قاتل ہے ۔ تو انسان کے سب کانشس مائینڈ (غیر شعوری دماغ) میںبہت سے حقائق پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جب اس کا کانشس مائینڈ (شعوری دماغ ) غافل ہوتا ہے تو سب کانشس مائینڈ ان خیالات کو ظاہر کر دیتا ہے جیسے سوتے ہوئے یا رویا ء میںیا مسمریزم کے ماتحت دوسروں کی زبان سے کئی باتیںنکل آتی ہیں۔ اسی طرح دنیا میںبہت سے لوگ ایسے ہیں جو خدا تعالی کے وجود کا انکار کرتے ہیں مگر ان کی زندگی کے حالات ان کے سب کانشس مائینڈ کی کیفیات کو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کسی اور ہستی کی تلاش کی خواہش مٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں مگر ان کے حالات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس خواہش کو مٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکے وہ صرف ان خیالات کو دھکیل کر عارضی طورپر پیچھے ہٹانے میںکامیاب ہوتے ہیں مستقل طورپر نہیں۔ اور چونکہ یہ تڑپ اکثر سب کانشس حالت میںرہتی ہے انسان اس کا اقرار نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھی تھک کر جس طرح بچہ جب کھلونے کی ساخت کو سمجھ نہیں سکتا تو اسے بٹوں سے توڑنے لگتا ہے یہ بھی چڑ کر کسی پیدا کرنے والے کا انکار کر دیتا ہے اور آپ ہی آپ بنے ہوئے عالم کا وجود تسلیم کرنے لگتا ہے ۔ گھروں میں اکثر یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ جب بچہ کسی کھلونے کو توڑ پھوڑ دیتا ہے تو بعض دفعہ کھسیانا ہو کر کہہ دیتا ہے کہ مجھے کھلونے کی ضرورت نہیں۔ در حقیقت ان الفاظ کے ذریعہ وہ اس بات کا غصہ نکالتا ہے کہ میںنے کھلونا بھی توڑا اور مجھے اس کی حقیقت کا بھی علم نہ ہوا۔ دہریہ بھی ایسے ہی ہوتے ہیںوہ اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے خدا تعالی کی ہستی کا انکار کرتے ہیںورنہ ان کے سب کانشس مائینڈ میںخدا تعالی کی ہستی کی شہادت موجود ہوتی ہے اور وہ ادھر ادھر کو تلاش بھی کرتے ہیںمگر جب وہ ہستی ان کو ملتی نہیں تو اس کا انکار کر دیتے ہیں اور جس طرح بچہ کہتا ہے مجھے کھلونے کی ضرورت نہیںوہ بھی کہہ دیتے ہیںکہ ہمیںکسی خدا کی ضرورت نہیں۔ بعض دفعہ ماں اپنے بچہ سے دل لگی کے طور پر کہہ دیتی ہے کہ میںنے فلاں چیز تمہیں نہیں دینی ۔ بچہ سنتا ہے تو منہ بسورتے ہوئے کہہ دیتا ہے کہ میںنے یہ چیز لینی ہی نہیں مگر پھر للچائی ہوئے نگاہوں سے دیکھتا ہے کہ کسی طرح یہ چیز مجھے مل جائے ۔ اسی طرح انسان بعض دفعہ کھسیانہ ہو کر کہہ دیتا ہے کہ مجھے خدا کی ضرورت نہیںمگر اس سے بھی اس کی پیاس نہیں بجھتی کیونکہ خود اس کی کوشش بتارہی ہوتی ہے کہ اس کا یہ نتیجہ غلط ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق یہ کہنا کہ وہ آپ ہی آپ ہے اسکے معنے یہ ہوتے ہیںکہ ہم اس چیز کی انتہاء تک پہنچ چکے ہیں۔ اگر کسی دریا کے کنارے صرف دو میل تک چل کر کوئی شخص کہہ دے کہ اس دریا کا کوئی منبع نہیں تو یہ اس کی حماقت ہو گی اگر وہ چلتا چلا جائے تو بہر حال اس کا منبع مل جائے گا ۔ اسی طرح جب تک دنیا کے انتہائی سبب کو معلوم نہ کیا جائے یہ کہنا کہ دنیا کا کوئی خدا نہیںاحمقانہ بات ہے یہ نتیجہ تو منتہائے اسباب پر پہنچکر نکالا جا سکتاہے اس سے پہلے نہیں اور اگر اس کا یہ نتیجہ درست ہے تو اسے مزید تجسس اور تحقیق بند کر دینی چاہیئے مگر یہ پھر بھی مزید تجسس اور جستجو میں لگا رہتا ہے بلکہ اب بھی نئی سے نئی باتیںنکل رہی ہیںاور جستجو اور تلاش کا ایک دریا ہے جو دنیا میںجاری ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ لو گ ابھی منبع تک نہیں پہنچے اور جب وہ منبع تک پہنچے ہی نہیںتو منبع کا تعین کرنے کا انہیںکیا حق ہے ؟ اللہ تعالی ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا ہم نے تمہارے قویٰ میں اعلی درجہ کی طاقت پید اکی ہے اور ایسا مادہ ہم نے تمہارے اندرودیعت کیا ہے کہ تم پل صرا ط پر چلنے کی قابلیت رکھتے ہو ۔ پل صراط پروہی شخص چل سکتا ہے جو دائیںطرف گزرنے سے بھی بچتا ہے اور بائیں طرف گزرنے سے بھی بچتاہے اور پھر اپنے اندر یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ آگے کی طرف بڑھتا چلا جائے گویا انسان میںاللہ تعالی نے ادھر ترقی کا مادہ پیدا کیا ہے اُدھر اُسے اپنا دایا ں اور اپنا بایاں پہلو مضبوط بنانے کی طاقت عطا فرمائی ہے جب اس نے انسان کو اس طرح متعدل القویٰ بنایا ہے تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ اس کے لئے راستہ نہ بناتا اور منزل مقصود پر اسے نہ پہنچاتا۔ انسان کی منزل مقصود خدا تعالی ہے اور وہ اس منزل مقصود پر اسی وقت پہنچ سکتا ہے جب وہ دائیںطرف کا بھی خیال رکھے اور بائیں طرف کا بھی خیال رکھے ۔ متعدل القویٰ وہی شخص ہوتا ہے جو کسی ایک طرف کو جھکا ہوا نہ ہو ۔ اسی طرح جب خدا تعالی نے انسان کو متعدل القویٰ بنایا تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ وہ اپنے اندر ایسی قابلیت رکھتا ہے کہ دائیں طرف گرنے سے بھی محفو ظ رہ سکتا ہے اور بائیں طرف گرنے سے بھی محفوظ رہ سکتا ہے ۔ انسان کی تما م تر کامیابی اسی میں ہوتی ہے کہ وہ دائیں بائیں گڑھوں سے بچ کر سیدھا چلے اور منزل مقصود سے درے نہ ٹھہرے ۔ یہی دو چیزیں مذہب کی جان ہیں اور یہی وہ حقیقت ہے جسے حضرت مسیح موعود ؑ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ مذہب کی بڑی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان خدا تعالی سے بھی اعلی درجہ کا تعلق رکھے اور بنی نو ع انسان سے بھی اعلی درجہ کا تعلق رکھے ۔ نہ حقوق اللہ بجا لانے میں کوئی کوتاہی کرے اور نہ حقوق العباد کی بجا آوری میں کوئی کوتاہی کرے۔ غرض انسان کو ایک معتدل القویٰ نفس عطا کیا گیا ہے اس میں ترقی کا ماد ہ ہے جو اعلی درجہ کے مقصود تک پہنچنے کے لئے ہے ۔ پھر اس میںاپنے دائیں اور بائیںکو محفوظ رکھنے کا مادہ ہے جس سے اخلا ق کی تکمیل ہوتی ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ فلاں کام مجھے کرنا چاہیئے اور فلاں نہیں ۔ فلاں کام میرے لئے مفید ہے اور فلاں مضر۔ جب انسان کے اندر یہ تمام قابلیتیں پائی جاتی ہیںتو تم کسی راہنمااور معلم کا کیونکر انکار کر سکتے ہو ؟
(۲) مصدری معنوں کے لحاظ سے اس کا یہ مطلب ہو گا کہ انسان معتدل القویٰ ہے اس لئے اس کا معتدل القویٰ ہونا کسی راہنماکی طرف بلاتا ہے گویا دلیل ایک ہی ہے صرف نقطہ نگاہ کو بدلا ہے ۔ پہلے معنوں کے لحاظ سے یہ کہا گیا ہے کہ انسان کو معتدل القویٰ بنانے والا اس کی راہنمائی کی صورت کیوں پیدا نہ کرے گا اور دوسرے لحاظ سے یہ معنی ہوں گے کہ اس کا معتدل القویٰ ہونا اس امر کا متقاضی ہے کہ کوئی ا س اعتدال کو کام میں لانے والا رہنمابھی ہو ۔ گویا مَا کے معنے اگر خدا تعالی کی ذات کی طرف توجہ دلانے کے سمجھے جائیںتو آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جس ذات نے انسان میں یہ صفات پیدا کی ہیںوہ کوئی علاج نہ بتاتا اور رہنمائی کی صورت پیدا نہ کرتا ۔ لیکن اگر مصدری معنے لئے جائیں تو یہ مطلب ہو گا کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان میں یہ قوتیں تو موجود ہوں مگر ان قوتوں کے ظہور کا کوئی سامان نہ ہو ۔ مفہوم ایک ہی ہے مگر ایک استدلال نفس کی بناوٹ سے کیا گیا ہے اور دوسرا استدلال نفس کو بنانیوالے کے لحاظ سے کیا گیا ہے ۔
تیسرے معنیوَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا کے یہ ہیںکہ ہم اس نفس کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو عظیم الشان ہے اور جس کی طرف آپ ہی آپ انگلیاں اٹھتی ہیں یعنی ہر زمانہ کے نفس کامل اور اس خدا کو پیش کرتے ہیں جس نے ایسے کامل وجود کو بنایا ۔ یہاں نفس گو نکرہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے مگر حقیقتاً اس کی تنوین تفخیم اور تعظیم کے لئے ہے اور نَفْسٍ سے مراد ہر نفس نہیں بلکہ عظیم الشان نفس ہے ( تنوین کا تفخیم اور تعظیم کے لئے آنا عربی زبان کا ایک مروج قاعدہ ہے) اور مراد یہ ہے کہ ہم اس شخص کی طرف تم کو توجہ دلاتے ہیں جو اپنی عظمت ِ شا ن کی وجہ سے اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ گو اس کا نام نہ لو مگر ہر انگلی اس کی طرف خود بخود اٹھنے لگتی ہے ۔ اس امر کا قرآن کریم کے بعض او ر مقامات سے بھی ثبوت ملتاہے کہ ہر زمانہ میںاللہ تعالی کی طرف سے جو نبی آتا ہے اس کے دعوے سے پہلے ہی لوگوں کی اس کی طرف انگلیاں اٹھنی شروع ہو جاتی ہیں اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہی وہ شخص ہے جو ہماری قوم کا کامیاب کر سکتا ہے چنانچہ حضرت صالح علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالی قرآن کریم میںذکر فرماتا ہے کہ ان کی قوم کے افرادنے ان سے کہا یَا صَالِحُ قَدْ کُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوَّ ا قَبْلَ ھٰذَا ( ہود ایت ۶ ) یعنی ا ے صالح ہمیںتو تم پر بڑی بڑی امیدیں تھیں اور ہم سمجھتے تھے تو بڑے اعلی اخلاق کا مالک ہے تیرے اندر قوت عملیہ پائی جاتی ہے اور تو قوم کی ترقی کا بڑا فکر رکھتا ہے ہمیںتو امید تھی کہ تو قوم کو اٹھا کر کہیںکا کہیں لے جائے گا مگر تُو تو بڑ ا خراب نکلا اور تونے ہماری تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ تُو ہمیںیہ کہنے لگ گیا ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریق ِ عمل کو چھوڑ دیںاور تیری بات کو مان کر بتوں کی پرستش نہ کریں ۔ اب یہ امر ظاہر ہے کہ جن باتوں میں حضرت صالح علیہ السلام کی قوم اپنی ترقی سمجھتی تھی ان باتوں میںحضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم کی ترقی نہیں سمجھتے تھے۔ وہ جھوٹ اور فریب اور خدا تعالی سے بُعد میں اپنی ترقی سمجھتے تھے اور حضرت صالح علیہ السلام صداقت اور ہدایت اور خدا تعالی سے تعلق میں اپنی قوم کی ترقی سمجھتے تھے ۔ بہر حال انہیں یہ امید ضرور تھی کہ ہماری ترقی صالح ؑ کے ساتھ وابستہ ہے اور ان کی یہ رائے بالکل درست تھی گو اپنے تنزل کا علاج وہ جن باتوں کو قرار دیتے تھے وہ درست نہیں تھا ۔ یہی رنگ رسول کریم ﷺ کا نظر آتا ہے اور یہی رنگ حضرت مسیح موعود ؑ میں پایا جاتا تھا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالی کے خسر صوفی احمد جان صاحب ؓ لدھیانوی نے دعویٰ سے پہلے ہی حضرت مسیح موعود ؑ کو لکھ دیا تھا کہ
ہم مریضو ں کی ہے تمہیں پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
گویا دنیا کی نگاہیںاسی وقت سے آپ کی طرف بلند ہو رہی تھیںاور جو انگلی بھی اٹھتی وہ آپ کی طرف اشارہ کرتی ۔ مولوی برہان الدینؓ صاحب جو حضرت مسیح موعود ؑ کے نہایت مخلص صحابی تھے انہوں نے سنا کہ جب ابتدا میںمَیں نے حضرت مسیح موعود ؑ کا ذکر سنا اور مجھے معلوم ہوا کہ پنجاب کے ایک گائوں میں ایسا شخص ظاہر ہوا ہے جس سے اسلام کی آئندہ ترقی وابستہ معلوم ہوتی ہے اور وہی عیسائیوں اور ہندووں وغیرہ کے اعتراضات کا جواب دیتا ہے تو میں نے ارادہ کیا کہ آپ کو دیکھنا چاہیئے ۔ چنانچہ میںقادیان آیا مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کسی مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے گئے ہیں۔ میں گورداسپور پہنچا اور آپ کے جائے قیام کو دریافت کرتا ہوا ڈاک بنگلہ میںگیا جہاں حضرت مسیح موعود ؑ ان دنوں تشریف رکھتے تھے ۔ باہر حافظ حامد علی صاحب بیٹھے تھے مَیں نے ان سے کہا کہ میںحضرت میرزا صاحب کی زیارت کرنے کے لئے آیا ہوں کسی طرح مجھے آپ ؑ کی زیارت کرادیں ۔ انہوں نے کہا اس وقت زیارت نہیں ہو سکتی حضرت مسیح موعود ؑ ایک ضروری اشتہار لکھ رہے ہیں ۔ میں نے ان کی منتیںبھی کیں مگر انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی۔آخر میں ایک طرف مایوس ہو کر بیٹھ گیا اور میں نے ارادہ کر لیاحا فظ حامد علی صاحب ذرا اِدھر اُدھر ہوں تو میں بغیر پوچھے ہی کمرہ کی چِک اٹھا کر آپ کی زیارت کر لوں گا ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد ہی حافظ صاحب جو کسی کام کے لئے اٹھے تو میں چپکے سے دروازے کی طرف بڑھا اور چِک اٹھا کر اندرکی طرف جھانکا اُس وقت حضرت مسیح موعود ؑ کاغذ ہاتھ میںلئے جلدی جلدی کمرہ میںٹہل رہے تھے اور آپ کی پیٹھ دروازے کی طرف تھی ۔ میرا اندازہ یہ تھا کہ ابھی آپ کو واپس آنے میں کچھ دیر لگے گی اور میں اطمینان سے آپ کی زیارت کر سکوں گامگر حضرت مسیح موعو د ؑ جلدی واپس لوٹ آئے اُس وقت مجھ پر ایسا رعب طاری ہوا کہ میں ڈر کے مارے وہاں سے بھاگ اٹھا اور میں نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ آپ ضرور سچے ہیں جو شخص اتنا تیز تیز چلتا ہے اس نے ضرور دور تک جانا ہے ۔
غرض الٰہی سنت یہ ہے کہ ہر زمانہ کا جو نفس کامل ہو اس کی طرف خود بخود لوگوں کی انگلیاں اٹھنی شروع ہو جاتی ہیں اور وہ اسے دیکھ کر اس حقیقت کا بر ملا اظہار شروع کر دیتے ہیں کہ یہ شخص دنیا میںضرور کوئی اہم تغیر پیدا کر کے رہے گا۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے ہم ہر زمانہ کے نفس کامل اور اس خدا کو پیش کریتے ہیں جو ایسے کامل وجود پیدا کیا کرتا ہے یا اس زمانہ کا نفسِ کامل( جس سے مراد رسول کریم ﷺہیں ) اور جس نے اسے بنایا ہے اس کو اور اسی طرح اس نفسِ کامل کے اظلال کو تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کو دیکھ لو آپ زندگی کے ہر شعبہ میں کامل الوجود ثابت ہوئے ہیں۔ لوگ اپنے اموال کو اپنی ذات پر خرچ کرتے تھے مگر محمد رسول اللہ ﷺ اپنے تمام اموال اپنی قوم کے لئے خرچ کرتے تھے ۔لوگ اپنے اوقات کو جوئے اور شراب نوشی وغیرہ میں صرف کرتے تھے مگر محمد رسول اللہ ﷺ اپنے تمام اوقات اپنی قوم کی بہبودی کے لئے خرچ کرتے تھے۔ لوگ اپنے اوقات جہالت کے لئے خرچ کرتے تھے اور آپ ؐ اپنے اوقات علم کے لئے خرچ کرتے تھے ۔ لوگ اپنے دماغ دنیوی باتوں میں مشغول رکھتے تھے اور آپ ؐ اپنے دماغ کو اگر ایک طرف خدا تعالی کے احکام کی اتباع میں مشغول رکھتے تھے تو دوسری طرف بنی نوع انسان کی تکالیف دور کرنے کے لئے اس سے کام لیتے تھے اور یہ تو آپ کی دعویٰ نبوت سے پہلے کی حالت تھی جب آپ نے اللہ تعالی کے حکم کے ماتحت نبوت کا اعلان فرمایا اور عملی رنگ میں آپ کا ہر کام لوگوں کی نظروں کے سامنے آگیا تو اس وقت آپ اگر فوج کے ساتھ گئے تو بہترین جرنیل ثابت ہوئے ، قضا کا کام اپنے ہاتھ میں لیا تو بہترین قاضی ثابت ہوئے ، اِفتاء کا وقت آیا تو بہترین مفتی ثابت ہوئے، تبلیغ کا وقت آیا تو بہترین مبلغ ثابت ہوئے ، گھر میں گئے تو بہترین خاون ثابت ہوئے ، بچوں سے تعلق رکھا تو بہترین باپ ثابت ہوئے ، دوستوں سے ملے تو بہترین دوست ثابت ہوئے ۔ غرض کوئی ایک بات بھی نہیں جس میں آپ دوسروںسے دوسرے درجہ پر رہیں ہوں بلکہ ہر خوبی میں آپ نے چوٹی کا مقام حاصل کیا اور اس طرح اپنے نفس کے کامل ہونے کا دنیا کے سامنے ایک ناقابل ِ تردید ثبوت مہیا کر دیا ۔ اللہ تعالی نفسِ کامل کی اس شہادت کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے تم غور کرو کہ کیا ایسا شخص جس میں یہ یہ صفات پائی جاتی ہوں کبھی ہار سکتا ہے! ایک فن کا ماہر ہار سکتا ہے ، دو فنون کا ماہر ہار سکتا ہے مگر یہ تو وہ ہے جو ہر فن میں کامل ہے ۔ دنیا اس کے متعلق یہ خیال بھی کس طرح کر سکتی ہے کہ یہ ہار جائے گا اور وہ جیت جائے گی اس میں اگر زیادہ قابلیتیںہوں تو پھر بے شک وہ جیت سکتی ہے لیکن جب کہ اس میں محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میںکوئی قابلیت ہی نہیں پائی جاتی تو وہ جیت کس طرح سکتی ہے ؟
فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَا ص لا ایت نمبر ۸
پھر اس (یعنی خد ا) نے اس (نفس) پر اس کی بدکاری (کی راہوں) اور اس کے تقویٰ (کے راستوں ) کو کھول دیا ۔
تفسیر ۔ پہلی آیت میں اگر ’’ما‘‘ کے معنے مَنْ کے ہونگے تو ضمیر ’’ما‘‘ کی طرف جائے گی او ر اگر مصدری معنے لئے جائیںگے تو ضمیر بالمعنیٰ سمجھی جائے گی ۔ وہ لوگ جنہوں نے ’’ما‘‘ کو مَنْ کے معنوں میں لیا ہے وہ اس موقعہ پر ’’ما‘‘ کو مصدریہ کہنے والوں پر اعتراض کرتے ہی کہ ان کے معنے درست نہیں اگر درست ہیں تو وہ بتائیں کہ اَلْھَمَھَا میںاَلْھَمَ کا فائل کون ہے مصدر تو فائل نہیں ہو سکتا کیونکہ تسویہ الہام نہیںکر سکتا الہا م تو ایک طاقتور ہستی کر سکتی ہے مگر مصدر کے معنے کرنے والے بھی علم ادب کے بہت بڑے ماہر ہیں انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ تمہارا استدلال بالکل غلط ہے ۔ عربی زبان میں معنوں کی طرف ضمیر پھیرنے کا کثرت سے رواج پایا جاتا ہے پس بناء ۔ طحیٰ اور تسویہ جس کی طرف منسوب ہوں گے اسی کی طرف بالمعنی ضمیر بھی تسلیم کی جائے گی یعنی بناء طحیٰ اور تسویہ کا جو بانی ہے یعنی اللہ تعالی کی ذات ، اس کی طرف بالمعنیٰ ضمیر تسلیم کی جائے گی ۔ بہر حال آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آسمانی اور زمینی نظام کے بنانے اور انسانی نفس میں اابلیت رکھنے کے بعد اسے چھوڑ ا نہیںبلکہ اس کے اندر فجور و تقویٰ کی حس رکھی ہے اور اس مادہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ گویا دونوں صورتوں میں خواہ مصدری معنے لئے جائیں یا ’’ما‘‘ کے معنے مَنْ کے سمجھے جائیںآیت کا یہ مطلب ہو گا کہ اللہ تعالی نے ہر انسان میں نفس ِ لوامہ پیدا کیا ہے اور ہر انسان میں یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ وہ بعض باتوں کو اچھا اور بعض باتوں کو بر اسمجھتا ہے ۔
یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے سمجھنے میں بہت سے لوگ غلطی کھا جاتے ہیں اور وہ بجائے مسئلہ کو اس رنگ میں پیش کرنے کے کہ ہر انسان کچھ باتوں کو اچھا سمجھتا اور کچھ باتوں کو بُرا سمجھتا ہے وہ اس رنگ میں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہر انسان سمجھتا ہے کہ قتل برا ہے ۔ یا ہر انسان سمجھتا ہے کہ جھوٹ بولنا بُرا ہے یا ہر انسان سمجھتا ہے کہ ڈاکہ ڈالنا بُرا ہے ۔ اس پر اس کے مخالف جواب دے دیتے ہیں کہ تم کہتے ہو ہر شخص جھوٹ کو بُرا سمجھتا ہے حالانکہ دنیا میںکئی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیںکہ جھوٹ کے بغیر گذارہ ہی نہیں ہو سکتا ۔ اگر تمہاری یہ بات درست ہے کہ فجور اور تقویٰ کا الہام اللہ تعالی نے نفس ِ انسانی میں کیا ہے تو چاہیئے تھا کہ ہر شخص جھوٹ کو برا سمجھتا یا ہر شخص قتل کو بُرا سمجھتا مگر واقعہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ دنیا میں جھوٹ بولتے ہیں اور چونکہ ان کے نفس میں ہدایت نہیں ہوتی اور متواتر جھوٹ بول بول کر انکی فطرت مسخ ہو چکی ہوتی ہے وہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر دنیا میںگزارہ ہی نہیںہو سکتا۔ یا مثلاً سختی کامادہ ہے یہ بہت سے لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ میں نے اپنی جماعت میں ہی دیکھا ہے بار بار لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ سختی سے کام نہ لیا کریںمحبت اور پیار سے دوسروں تک اپنی باتیں پہنچایا کریں مگر پھر بھی وہ اپنی عادت سے مجبور ہونے کی وجہ سے بسا اوقات سختی پر اُتر آتے ہیں اور بعض تو مجھے بھی کہہ دیتے ہیں کہ لوگ سختی کے بغیر کبھی نہیںمان سکتے ، نرمی کام خراب کر دیا کرتی ہے ۔ اب اگرہم یہ کہیں کہ ہر شخص سختی کو بُرا سمجھتا ہے تو یہ واقعات کے خلاف ہو گا کیونکہ دنیا میںکئی لوگ سختی سے کام لیتے ہیں اور باوجود سمجھانے کے بھی وہ اپنی عادت کو ترک کرنے کے لئے تیا ر نہیںہوتے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نرمی اچھی نہیں دنیا کا اصل علاج سختی ہے ۔ اسی طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو چوری کو برانہیں سمجھتے ، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جھوٹ کو برا نہیں سمجھتے ، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قتل کو برا نہیں سمجھتے ۔ پس اگر اس کے یہ معنے لئے جائیں کہ ہر انسان چوری کو یا جھوٹ کو یا قتل وغیرہ جرائم کے ارتکاب کو بُرا سمجھتاہے تو یہ بالکل غلط ہو گا ۔ دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جو ان افعال کو برا نہیں سمجھتے ۔ یا مثلاً گوشت خوری ہے اس کے متعلق مسلمانوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے دنیا میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اس میں کوئی بُرائی نہیںسمجھتے اور ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اس کوبہت بڑا گناہ سمجھتے ہیںاور گوشت خوری سے ان کو اتنی شدید نفرت ہوتی ہے کہ کھانا تو الگ رہا اگر گوشت کا کوئی شخص ان کے سامنے نام بھی لے لے تو انہیںقے آجاتی ہے ۔ ہماری جماعت میں سردار فضل حق صاحب ایک نو مسلم دوست تھے وہ سکھ مذہب کو ترک کر کے اسلام میں داخل ہوئے تھے وہ کئی سال تک مسلمان رہے اور دوسروں کو بھی اسلام کی تبلیغ کرتے رہے ان کی یہ حالت تھی کہ وہ سالہا سال تک گائے کے گوشت سے شدید متنفّر رہے (ممکن ہے قادیان سے جانے کے بعد انکا یہ حال نہ رہا ہو مگر جب تک وہ قادیان میں رہے انکا یہی حال تھا) مجھے خوب یاد ہے وہ ایک دفعہ مہمان خانہ میں آکر ٹھہرے چونکہ وہ گائے کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس لئے بعض دوستوں نے یہ طے کر لیا کہ جس طرح بھی ہو سکے ان کو گوشت ضرور کھلانا ہے ۔ ایک دن بھائی عبدالرحیم صاحب ۔شیخ عبد العزیز صاحب اور بعض اور دوست ان سے اصرار کرنے لگے کہ آج تو ہم نے آپ کو ضرور گائے کا گوشت کھلانا ہے ۔ وہ یہ سنتے ہی اٹھ کر بھاگے ۔ وہ آگے آگے تھے اور وہ دوست ان کے پیچھے پیچھے ۔ مجھے وہ نظارہ اب تک یاد ہے کہ وہ کبھی ایک چارپائی سے کود کر دوسری طرف چلے جاتے وہاں ان کا پیچھا ہوتا تو تیسری چارپائی سے کود کر بھاگتے اور جب لوگوں نے ان کو پھر بھی نہ چھوڑا تو وہ ایک کمرہ سے نکل کر دوسرے کمرہ میںبھاگ گئے مگر لوگ بھی ان کے پیچھے پیچھے تھے آخر اسی بھاگ دوڑ میں ان کو اتنے زور کی قے آئی کہ ان کے دوست دیکھ کر ڈر گئے اور انہوں نے ان کو چھوڑدیا اور سمجھ لیا کہ اگر اب بھی ہم ان کو گائے کا گوشت کھانے پر مجبور کریںگے تو یہ سخت ظلم ہوگا ۔تو دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جو گوشت خوری سے سخت نفرت رکھتے ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کو گوشت خوری کے بغیر چین ہی نہیںآتا ۔مگر اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ گوشت کھانا انسانی فطرت میں داخل ہے یا گوشت نہ کھانا انسانی فطرت میںداخل ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ کانشنس کے معنے صرف اتنے احساس کے ہیں کہ انسان بعض باتوں کو بُرا اور بعض باتوں کو اچھا سمجھتا ہے کانشنس میں یہ بات شامل نہیں کہ فلاں چیز اچھی ہے اور فلاںچیز بری ۔ یہ بات عادت سے تعلق رکھتی ہے جیسی کسی کو عادت ہو گی ویسے ہی اس کا اس چیز کے متعلق احساس ہو گا مگر بہر حال کوئی انسان دنیا میں ایسا نہیں ہو سکتا جو ہر چیز کو اچھا کہتا ہو یا ہر چیز کو برا سمجھتا ہو ۔ ہر انسان یہی کہے گا کہ بُرا کام نہیںکرنا چاہیئے اور ہر انسان یہی کہے گا کہ اچھا کام ضرورکرنا چاہیئے ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ برے کام کو اچھا سمجھتا ہو یا اچھے کام کو برا سمجھتا ہو مگر یہ احساس اس کے اندر ضرور پایا جاتا ہے کہ دنیا میں کچھ چیزیں اچھی ہیں اور کچھ چیزیں بُری ہیں ۔ مجھے اچھی چیزیں اختیار کرنی چاہئیں اور بُری چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیئے ۔ یہی معنے فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَاکے ہیں کہ ہر انسان یہ کہتا ہے کہ کچھ بُری چیزیں ہیں اور ہر انسان یہ کہتا ہے کہ کچھ اچھی چیزیں ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ ہر انسان میں اچھی اور بُری چیزوں کے امتیاز کا مادہ رکھا گیا ہے اور جب یہ بات ہے تو دلیل مکمل ہو جاتی ہے یعنی جب ہر انسان کے اندر یہ مادہ پایا جاتاہے کہ وہ کسی چیز کو اچھا اور کسی چیز کو برا کہتا ہے تو ضروری ہے کہ کوئی ایسی ہستی بھی ہو جو اسے بتائے کہ کون کون سی چیزیں اچھی ہیں اور کون کون سی چیزیں بُری ہیں ۔ یہ دلیل ہے جو اللہ تعالی نے اپنی ہستی کے ثبوت میں لوگوںکے سامنے پیش کی ہے اور یہ دلیل ہے جس کا کوئی رد کسی بڑے سے بڑے دہریہ کے پا س بھی نہیں ہے ۔ مگر میں نے دیکھا ہے لوگ بالعموم اس دلیل کو پورے طور پر سمجھتے نہیں اور وہ ایسے رنگ میں اسے مخالف کے سامنے پیش کر دیتے ہیں جو اپنے اندر کمزوری رکھتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی اس دلیل کا اپنی کتب میںبعض جگہ ذکر فرمایا ہے مگر لوگ پھر بھی جب نفس لوامہ کی شہادت پیش کریں گے اس رنگ میں پیش کریں گے کہ ہر شخص جھوٹ کو برُا سمجھتا ہے یا ہر شخص قتل اور چوری کو بُرا سمجھتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ جہاں تک سب کانشس مائنڈ کا سوال ہے اس کے لحا ظ سے یہ باتیں بُری ہیں اور ہر انسان سب کانشس مائنیڈ میں ان کو برا سمجھتاہے مگر کانشس مائینڈ میں وہ ان کو بُرا نہیں سمجھتا اور نہ وہ بحث کے وقت ان چیزوںکی بُرائی کا قائل ہو سکتا ہے اور اگر قائل بھی ہو تو لمبی بحث کے بعد ہوتا ہے جس میںسب کانشس مائینڈ سے ان چیزوں کی بُرائی اس کے کانشس مائینڈمیںلانی پڑتی ہے مگر ایسا ہر شخص نہیں کر سکتا یہ ماہرفن کا ہی کام ہوتا ہے کہ وہ سب کانشس مائنڈ سے کانشس مائینڈ میں کسی چیز کو منتقل کردے۔
حضرت خلیفہ اول ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میرے پاس ایک دفعہ ایک چور علاج کے لئے آیا ۔ میںنے اسے نصیحت کیکہ تم نے کیا لغو پیشہ اختیار کیا ہوا ہے تمہیں چاہیئے کہ محنت کرواور کمائو ۔ یہ کیسی بری بات ہے کہ تم چوری جیسا ذلیل کام کرتے ہو اور تمہیں ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ تم مضبو ط اور ہٹے کٹے ہو محنت کر واور کمائو چوری کیوںکرتے ہو؟ وہ کہنے لگا مولوی صاحب ہمارے جیسی محنت بھی دنیا میں کوئی شخص کرتا ہے؟ لوگ تو دن کو محنت کرتے ہیں لیکن ہم وہ ہیں جو رات کو محنت کرتے ہیں ۔ سخت سردی کے دن ہوتے ہیں ، جسم ٹھٹھررہے ہوتے ہیں ، تاریکی سے قدم قدم پر ٹھوکریں لگتی ہیں، جان کا خوف ہوتا ہے مگر پھر بھی ہم ان تما باتوں کو نظر اندا ز کرتے ہوئے اپنے کام کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ اب بتائیے ہم سے بڑ ھ کر بھی دنیا میں کوئی محنت کرتا ہے؟آپ فرماتے تھے جب اس نے یہ جواب دیا تو میں نے سمجھ لیا کہ اس شخص کی فطرت بالکل مسخ ہو چکی ہے اب اس کو چوری کی برائی کا قائل کرنے کے لئے کسی اور طریق سے کام لینا چاہیئے۔ چنانچہ مَیں نے اس سے گفتگو کا رخ بدل لیا اور بعض اور امور کے متعلق باتیں کرتا رہا ۔ جب کچھ دیر گذر گئی تو میں نے اس سے کہا اچھا یہ بتائو کہ تم چوری کرتے کس طرح ہو اور کتنے آدمی اس میںشریک ہوتے ہیں؟ کہنے لگا حکیم صاحب بات یہ ہے کہ چوری کے لئے کئی آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے سب سے پہلے تو ہم گھر کے کسی آدمی کو ساتھ ملاتے ہیں جو ہمیں بتاتا ہے کہ کتنے کمرے ہیں ، ان کمروںکاکیا نقشہ ہے ، اور کس کس رخ میں وہ واقعہ ہوئے ہیں تا کہ ہم پکڑے نہ جائیں۔پھر ہمیںوہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کس کس جگہ مال پڑا ہوا ہے ، کون سے ٹرنک میں زیورات ہیں ، اس ٹرنک کا رنگ کیسا ہے اور وہ کس کونے میں رکھا ہوا ہے ۔ یااگر روپیہ کہیں دبا کر رکھا ہوا ہے تو کس جگہ دبایا ہوا ہے ۔ یہ سب باتیں ہم اس ے دریافت کر لیتے ہیں ۔ اس کے بعد ہم ایک ایسے شخص کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں جو سیندھ لگانے میں ماہر ہوتا ہے تا کہ وہ اس طرح سیندھ لگائے کہ کسی کو پتہ تک نہ لگے اور باوجود دیوار توڑنے کے کوئی آواز پیدا نہ ہو ۔ وہ سیندھ لگا کر الگ ہو جاتا ہے کیونکہ سیندھ لگانے کا اس کی طبیعت پراتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ مزید کوئی کام کرنے کے ناقابل ہوتا ہے ۔ اس کے بعد تیسراشخص آگے آتا ہے جسے گھر کا نقشہ یاد کرایا ہوا ہوتا ہے وہ اندر داخل ہوتاہے اور جہاںجہاں اسباب ہوتا ہے وہاں سے اٹھا کر باہر پہنچا دیتا ہے اس وقت دیوار کے پاس ہی ہمارا ایک آدمی تیار کھڑا ہوتا ہے جوں جوں وہ اسباب پہنچاتاجاتا ہے ہمارا آدمی اس کو سمیٹتا چلا جاتا ہے اور ایک آدمی ایسا ہوتا ہے جو دور ایک کونے میں کھڑا رہتا ہے تا کہ اگر کوئی آدمی گذر رہا ہو تو وہ اطلاع دے سکے ۔ جب اس طرح چوری کے کام سے ہمیں فراغت ہو جاتی ہے تو گھر پہنچ کر ہم تما م زیورات ایک سنار کو دے دیتے ہیں جوان کو گلا کر سونے کی ڈلیاں بنا دیتا ہے کیونکہ زیورات اپنی اصل شکل میں ہم فروخت نہیں کر سکتے اگر کریںتو یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں پکڑے ہی نہ جائیں۔ اس لئے ہم نے سنار رکھا ہوا ہوتاہے تا کہ جونہی کوئی زیور آئے فوراً اسے گلا دیا جائے ۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ فرماتے تھے جب اس نے یہ داستان بیان کی تو میںنے کہا کہ تمہاری اتنی محنت اور عرقریزی کے بعد اگر وہ سُنار اُس سونے کو کھا جائے تو پھر؟ اس پر وہ بے اختیار ہو کر بولا اگر وہ چوری کرے تو ہم اس بے ایمان اور خبیث کا سر نہ اڑا دیں ۔ہم تو کبھی اس کو زندہ نہ رہنے دیں۔ میں نے کہا کہ ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ چوری کوئی عیب کی بات نہیںاور ابھی کہہ رہے ہو کہ وہ خبیث چوری کرے تو اس کا سر اڑا دیں ۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ خود تمہاری فطرت چوری کو ناپسند کرتی ہے اور وہ اسے خباثت اور بے ایمانی کاکام قرار دیتی ہے ۔ ورنہ وجہ کیا ہے کہ جو کام تم خود کرتے ہو اسی کام کی وجہ سے تمہیں سنار پر غصہ آجائے اس پر وہ شرمندہ ہو گیا ۔ تو فطرت جو مسخ ہو چکی ہو وہ بعض دفعہ ابھر بھی آتی ہے مگر اس طرح فطرت کو ابھارنا ہر شخص کا کام نہیںہوتا یہ ماہر فن ہی کام کر سکتا ہے اور پھر بعض جگہ باوجود کوشش کے بھی مسخ شدہ فطرت نہیںابھرتی جیسے وہ لوگ جو گوشت کھانے کے مخالف ہیں اور وہ اسے ’’جیو ہتیا‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ ان سے جب گفتگو ہو تو ہم کہتے ہیں کہ جب تمہارے زخموں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں تو تم دوائوں سے ان کیڑوں کومارتے ہو یا نہیں؟ اگر تم مارتے ہو اور تمہارے دماغ میں اس وقت جیو ہتیا کا خیال نہیں آتا بلکہ تم سمجھتے ہو کہ ادنیٰ چیز کو اعلیٰ کے لئے قربان ہی ہونا چاہیئے تو تمہیں گوشت خوری پر کیا اعتراض پیدا ہوتاہے ۔ اس رنگ میںجب ان کو سمجھایا جائے تو بعض دفعہ تو وہ سمجھ جاتے ہیں مگر بعض دفعہ نہیں بھی سمجھتے۔ بہر حال اصل دلیل جسے حضرت مسیح موعود ؑ نے بار بار استعمال کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسانی کانشس میں نیکی اور بدی کا احساس پایا جاتا ہے یعنی ہر شخص میں خواہ وہ کسی مذہب و ملت کا پیرو ہو یہ احساس پایا جاتا ہے کہ کچھ چیزیں اچھی ہیں اور کچھ چیزیںبُری ہیں۔ یہ نہیں کہ فلاںچیز اچھی ہے اور فلاں بری ۔ یہ علم الاخلاق ہے ۔ کانشنس کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیں کہ ہر انسان میں ایک مادہ پایا جاتا ہے جو بتاتا ہے کہ کوئی چیز اچھی ہے اور کوئی چیز بری ہے ۔ تم ساری دنیا میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیںدکھا سکتے جو یہ کہتا ہے کہ ہر چیز اچھی ہے یا ہر چیز بُری ہے ۔ وہ کسی کو اچھا سمجھتا ہو گا اور کسی کو برا سمجھتا ہوگا ۔ مثلاً چور چوری کو اچھا سمجھیگا مگر قتل کو برا سمجھیگا ۔ یا قاتل قتل کو اچھا سمجھے گا مگر وعدہ کی خلاف ورزی کر برا سمجھے گا ۔یا ظالم ظلم کو اچھا سمجھے گا مگر جھوٹ پر انہیں غصہ آجائے گا ۔یا جھوٹا جھوٹ کو اچھا سمجھے گا مگر قتل پر اسے غصہ آجائے گا۔ غرض اخلاق اور مذہب سے تعلق رکھنے والے جس قدر افراد دنیا میںپائے جاتے ہیں ہندو کیا اور عیسائی کیااور مسلمان کیا اور سکھ اور یہودی کیا اور چوڑے کیا اور عالم کیا اور جاہل کیا ہر انسان میںیہ مادہ پایا جاتا ہے کہ کچھ کام مجھے کرنے چاہئیںاور کچھ کام نہیں کرنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ اسی مادہ کے لحاظ سے جو ہر انسان میںپایا جاتا ہے ۔ فرماتا ہے فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَا ۔ ہم نے اس کو الہام کیا ہے اس کے فجور اوراس کے تقویٰ کے متعلق۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں مصدر استعمال کیا ہے یہ نہیں کہا کہ ہم نے اسے فجو ر والی باتوںکا الہام کیا ہے یا تقوی اور پاکیزگی کی تفصیلات اس پر الہام کے ذریعہ روشن کی ہیں ۔ اللہ تعالی نے صرف یہ فرمایا ہے کہ ہم نے اسے فجور اور تقوی کا الہام کیاہے یعنی ہر انسان میںفجور اور تقویٰ کی حس پائی جاتی ہے اور ہر انسان میں اللہ تعالی نے ایسا مادہ رکھا ہے کہ وہ اس بات کو خوب سمجھتا ہے کہ میرے نفس کے لئے کچھ باتیں اچھی ہیں اور کچھ بُری ہیں ۔ یہی دلیل ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ نے پیش کی ہے اور یہی دلیل ہے جو قرآن کریم پیش کرتا ہے اور یہی دلیل ہے جسے مَیں نے بھی اپنی کتب میں بعض مقامات پر بیان کیا ہے مگر لوگ غلطی سے تفصیلات میں چلے جاتے ہیں اور وہ معین نیکیوں اور معین بد یوں کوبطور مثال پیش کر دیتے ہیں حالانکہ اس دلیل کا یہ مطلب نہیںکہ جسے ہم فجور سمجھتے ہیںیا جسے ہم تقویٰ سمجھتے ہیںاس کا علم ہر انسان کو ہے یا ہر انسان ان کو واقعہ میں برا یا اچھا سمجھتا ہے بلکہ دلیل یہ ہے کہ ہر شخص میںیہ احساس پایا جاتا ہے کہ کچھ چیزیں اچھی ہیں اور کچھ چیزیںبر ی ہیں۔ اس کے بعد اختلاف ہو جاتا ہے کوئی کسی کو اچھا سمجھتا ہے اور کسی کو بُرا۔ کوئی کسی کو قابلِ تعریف قرار دے دیتا ہے اور کسی کو قابلِ مذمت۔ مگر ہمیںاس اختلاف کی تفصیلات سے سروکار نہیںہمارے لئے یہ کافی ہے کہ ادھر تو نیکی بدی کی حس ہر اک میں ہے ادھر انسان نیکی بدی کی تعیین میں شدید اختلاف رکھتا ہے ۔ پس ضروری ہے کہ اس فطرتی مادہ کی صحیح راہنمائی کرنے والی کوئی ایسی ہستی ہو جو انسانی ضرورتوں کی اچھی طرح سمجھتی ہو اور پھر وہ انسان کو بتائے کہ کون سی باتیںواقعہ میں اچھی ہیں اور کون سی باتیں واقعہ میں بری ہیں۔کن باتوں پر تمہیںعمل کرنا چاہیئے اور کن باتوں سے تمہیںاجتناب کرنا چاہیئے ۔ یہ تو ان عام معنوں کے لحاظ سے ا س آیت کا مطلب ہے جو نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا کے کئے گئے تھے لیکن اس کے علاوہ ایک خاص معنے بھی کئے گئے تھے یعنی اس میں ہر زمانہ کے نفس کامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایسے نفس کامل کو اللہ تعالی ہمیشہ الہام کے ذریعہ فجور و تقویٰ کی راہیں بتاتا چلا آیا ہے گویا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَا میں حذف مضاف سمجھا جائے گااور اس کے معنے یہ ہوں گے کہ فجور والی باتیں بتاتا ہے یا تقویٰ والی باتیں بتاتا ہے یعنی اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ وہ نفس کامل پر الہام نازل کرتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ فجور والی باتیںکونسی ہیںاور تقویٰ والی باتیںکون سی ہیں:
قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا ص لا
جس نے اس (نفس )کو پاک کیا ۔ وہ تو (سمجھو کہ ) اپنے مقصود کو پا گیا ۔ ایت نمبر ۹
نمبر ۹ حل لغات ۔ زَکّٰی ۔ زَکٰی سے باب تفعیل ہے اور زَکَی الشَّیْ ء ُ کے معنے ہیں نَمَا ۔ کوئی چیز بڑھ گئی (اقرب) اور جب زَکَّا ہُ اللّٰہُ کہیں تو معنے ہوتے ہیں۔ اَنْمَا ہُ ۔ اللہ نے اس کو بڑھایا اور اونچا کیا(تاج) نیز زَکّٰی کے معنے ہیں طَھَرَہُ ۔ اس کو پاک کیا (اقرب)
تفسیر ۔ فرماتا ہے اس الہام کے بعد جو شخص اس کی پیروی کر کے اپنے نفس کو ٹھیک راہ پر چلاتاہے وہ بامراد ہو جاتا ہے یعنی الہام فطرت جو مجمل الہام ہوتا ہے اس کی پیروی اور اطاعت کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ نبی کاالہام تفصیلی ہوتا ہے لیکن فطرت کا الہام مجمل ہوتا ہے ۔ یہاں تفصیلی الہام کا ذکر نہیں بلکہ مجمل الہام کا ذکر ہے اور اللہ تعالی فرماتاہے کہ فجور اور تقوی کا وہ مجمل علم جو انسان کو ملا تھا اور جس کے مطابق وہ سمجھتا تھا کہ دنیا میںکچھ بری چیزیںہیںاور کچھ اچھی چیزیںہیں ، مجھے بری چیزوں سے بچنا چاہیئے اور اچھی چیزوں کو اختیار کرنا چاہیئے ۔ جو شخص اس مجمل علم کو صحیح طور پر استعمال کرتا ہے اور فطرت کی اس راہنمائی کے ماتحت اپنے نفس کو اونچا کرتا ہے وہ فلاح پا لیتا ہے یعنی اپنے خد اسے واصل ہو کر صاحب الہام ہو جاتا ہے ۔ ان معنوں کے لحا ظ سے قَدْ اَفْلَحَ میں وحی حقیقی کے پانے کا ذکر ہے اور اَلْھَمَھَا میںوحی مجمل کے نازل ہونے کا بیان ہے جو ہر فطرت ِانسانی پر نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالی اس حقیقت کی طرف بنی نوع انسان کو توجہ دلاتا ہے کہ جو شخص اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ خدا تعالی نے میرے اندر اعتدال پید ا کیا ہے غور و فکر سے کام لیتے ہوئے اعتدال کی راہوں پر چلتا ہے اور فجورکی وہ حس جو اللہ تعالی نے اس کی فطرت میںرکھی ہے اس کے کام لے کر وہ بری باتوں سے بچتا ہے او ر تقوی کی حس جو اس کے اندر پیدا کی گئی ہے اس سے کام لے کر وہ اچھی باتوں کو اختیار کرتا ہے اور اپنے نفس کو اس پیہم جدو جہد اور کوشش کے نتیجہ میںاونچا کر دیتا اور اخلاقی زندگی بسر کرتا ہے ایک دن آتا ہے کہ اللہ تعالی کا الہام اس پر نازل ہو جاتا ہے اور خدا تعالی کا قرب اس کو حاصل ہو جاتاہے ۔ زَکّٰی کے معنے اونچاکرنے کے بھی ہوتے ہیں اور زَکّٰی کے معنے پاک کرنے کے بھی ہوتے ہیںاس جگہ نفس کو اونچا کرنے کے معنے چسپاں ہوتے ہیں کیونکہ ایسا شخص فجور اور تقویٰ کی حس سے کام لے کر فطرت کے مقام سے بلند ہو کر اخلاقی زندگی میںداخل ہو جاتاہے اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود صاحب ِ الہام ہو جاتا ہے ۔
دوسرے معنے نفسِ کامل کے لحاظ سے اس آیت کے یہ ہیںکہ جب ہم نفسِ کامل کو تفاصیل ِ فجو ر اور تفاصیل ِ تقوی بتاتے ہیںاور دنیا کو ان تفاصیل کا علم ہو جاتا ہے تو قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وہ انسان جو ان باتوںسے فائدہ اٹھاتا اور نفس کامل کی تعلیم پر چل کر تزکیہ نفس کرتاہے اسے فلاح حاصل ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالی کے مقربین میںشامل ہو جاتاہے گویا نبی کی اطاعت اور اس کے احکام کی پیروی کر کے وہ وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا کا قائمقام ہو جاتا ہے اور اس تفصیلی الہام کا تابع بنتے ہوئے اپنے اپنے درجہ کے لحاظ سے نبی کا قمر بن جاتا ہے ۔ درحقیقت ہر مومن اپنے اپنے درجہ کے مطابق نبی کا قمر ہوتاہے اور اپنے اپنے رنگ میں کامل تعلیم پر چلنے کے نتیجہ میںفلاح حاصل کر لیتا ہے گویا پہلے معنوں کی رو سے قَدْ اَفْلَحَ میں وحی جلی کا ذکر ہے اور اَلْھَمَھَا میں وحی خفی کا ۔ اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے پہلی آیت میںوحی جلی کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں وحی تابع کا ذکر ہے فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰ ھَا میں اس وحی جلی کا ذکر ہے جو نبی پر نازل ہوتی ہے اور قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا میں وحی تابع کا ذکر ہے گویا وہ نور جو پہلے باہر سے آیا تھا نبی کی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میںانسان کے اندر بھی پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔
وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا ط
اور جس نے اسے (مٹی میں ) گاڑ دیا (سمجھو کہ ) وہ نامراد ہو گیا ۔ ایت نمبر ۱۰
حل لغات ۔ خَابَ : اَفْلَحَ کے مقابل کا لفظ ہے اور اس کے معنے ہوتے ہیں ۔ ناکام ہوا ۔ نامراد ہوا۔ (اقرب) دَسّٰی : دَسٰی سے مزید ہے اور دَسٰی یَدْسُوْا (دَسْوًا وَ رَسٰی یَدْسُوْا دَسْیًا ) کے معنے ہیں ۔نَقِیْضُ نَمٰی وَ زَکٰی یعنی یہ نَمٰی اور زَکٰی کے مقابل کے الفاظ ہیں اور اس میں ان کے الٹ معنے پائے جاتے ہیںیعنی وہ نہ بڑھا ۔ اور اس میںبرکت نہ ہوئی اور دَسّٰی کے معنے ہیں اَغْوَاہُ وَ اَفْسَوَہُ ۔ اس کو گمراہ کیا اور خراب کیا (اقرب) بعض نے دَسّٰھَا کا اصل دَسَّسَھَا قرار دیا ہے اس لحاظ سے اس کا اصل دَسَّ ہو گا ۔ دَسَّ الشَّیْء’ (دَسًّا) تَحْتَ التُّرَابِ کے معنے ہوتے ہیں اَدْخَلَہُ فِیْہِ وَ اَخْفَاہُ کسی چیز کو زمین میں دبا دیا یا زمین کے نیچے دفن کر دیا اور دَسَّسَ کے معنے بھی یہی ہوتے ہیں ۔ مگر دَسَّسَ دَسَّ سے زیادہ قوی ہوتا ہے اور مبالغہ کے لئے استعمال ہوتا ہے (اقرب) پس جب یہ لفظ کسی کے متعلق استعمال کیا جائے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنی طاقتوں کو ابھارتا اس نے ان کو مٹا دیا ۔ اسی طرح اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ا س نے ان ک مٹی میں ملا دیا ۔
تفسیر۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ جس نے اس وحی کو نہ مانا وہ ناکام ہوا کیونکہ وحی الہی فطرت کی طاقتوں کو ابھار نے کے لئے آتی ہے جس نے اِسے رد کر دیا اُس نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اپنے آپ کو ہلاک کر لیا۔
حقیقت یہ ہے کہ صحیح تعلیم ہمیشہ فطرت کے مطابق ہوتی ہے ۔ جو تعلیم فطرت کے جذبات کو کچلنے والی ہو وہ سچی نہیںہو سکتی کیونکہ وحی اس لئے ناز ل ہوتی ہے کہ نفس کو اونچا کیاجائے اس لئے نازل نہیںہوتی کہ اسے مارا جائے اور اس کی طاقتوں کو کچل کر رکھ دیا جائے ۔ اسی حکمت کے ماتحت قرآن کریم نے رہبانیت سے منع کیا ہے اور اسی حکمت کے ماتحت اس نے طیب چیزوں کو اپنے نفس پر حرام قرار دے دینا جائز نہیں رکھا۔ دوسرے مذاہب فطر ت کی بعض طاقتوں کو کچلتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ نیکی ہے مگر اسلام اسے نیکی قرار نہیں دیتا ۔ اسلام یہ کہتا ہے اللہ تعالی نے تمہارے اندر جو قوتیں پیدا کی ہیں صرف ان کا تسویہ ہونا چاہیئے اور ان کے استعمال میں اعتدال کو ملحوظ رکھنا چاہیئے ۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ فطرت کو مار دو بلکہ وہ کہتا ہے تم فطرت سے اونچا مقام حاصل کرنے کی کوشش کرو کیونکہ فطرت کا علم ایک مجمل علم ہوتا ہے اور مجمل علم سے نجات نہیںہو سکتی محض کسی کا یہ کہہ دینا کہ فلاںشخص لاہور میں رہتا ہے ہمیںکچھ فائدہ نہیںپہنچا سکتا جب تک ہمیںیہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ فلاں محلہ اور فلاں گلی میں رہتا ہے یا فلاںموڑپرا س کا مکان ہے تا کہ ہمیں اس کی تلاش میں کوئی دقت نہ ہو اور آسانی سے ہم اس کے مکان پر پہنچ سکیں،۔ پس قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا O وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا کے یہ معنے ہوئے کہ اگر تم اپنی فطری طاقتوں کو ابھارتے ہو تو الہی مدد کو حاصل کر لیتے ہولیکن اگر تم ان طاقتوں کو دباتے ہو اور اس چیز کو ضائع کر دیتے ہو جو تمہیںہتھیار کے طور پر دی گئی تھی تو تم کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص سفر پر جانے لگے تو ہم اسے ہتھیار کے طور پر سونٹا بھی دے دیتے ہیں اور تلوار بھی دے دیتے ہیں۔ سونٹا ہم اس لئے دیتے ہیںکہ بعض جگہ تلوار کام نہیںآسکتی اور تلوار ہم اس لئے دیتے ہیں کہ بعض جگہ سونٹاکام نہیںآسکتا ۔ اگر راستہ میںکوئی سانپ آجائے تو اس وقت تلوار کام نہیںدے سکتی بلکہ سونٹا کام دے گا لیکن اگر دشمن سے مقابلہ ہو جائے تو اس وقت سونٹا اتنا کام نہیں دے سکتا جتنا کام تلوار دے سکتی ہے یا مثلاً کسی جگہ کثرت سے کانٹے ہوں اور رستہ صاف کرنے کے لئے ضرورت ہو تو وہاں سونٹا توکام دے سکتا ہے مگر تلوار کام نہیںدے سکے گی ۔ گویا سونٹا اور تلواردونوں اس کے لئے ضروری ہوں گے کوئی ہتھیار کسی وقت کام آجائے گا اور کوئی ہتھیار کسی وقت کام آجائے گا۔ اگر وہ ان دونوںمیںسے کسی ایک ہتھیار کو لغو سمجھ کر پھینک دے گا تو یہ یقینی بات ہے کہ جب اسے ضرورت پیش آئے گی تو سخت تکلیف اُٹھائے گا اور اسے اعتراف کرنا پڑے گا کہ میںنے اپنے ہتھیار کو پھینکنے میں سخت غلطی کی ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالی نے جس قدر قوتیں پیدا کی ہیں سب انسان کی ترقی اور اس کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیںاور یہ وہ ہتھیار ہیں جن سے مختلف مقامات پر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اگر ہم ان میںسے کسی ایک ہتھیار کو بھی پھینک دیتے اور اپنی کسی قوت کو لغو قرار دے کر کچل دیتے ہیں تو ہم اپنی کامیابی کی منزل کو اپنے ہاتھ سے دور کرنے والے بن جاتے ہیں۔ مثلاً خدا تعالی نے انسان میں عفو کی بھی قوت پیدا کی ہے اور انتقام کی قوت بھی پیدا کی ہے اور یہ دونوں قوتیں ایسی ہیں جن کا بر محل استعمال دنیا کی ترقی میں بہت ممد ثابت ہوتا ہے ۔ کئی مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں عفو سے کام لینا ضروری ہوتا ہے اور کئی مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں انتقام سے کام لینا ضروری ہوتا ہے۔ نہ ہر جگہ عفو قابل تعریف ہوتا ہے نہ ہر جگہ انتقام قابل تعریف ہوتا ہے بہر حال یہ دونوں قوتیں اپنی اپنی جگہ نہایت ضروری ہیں لیکن اگر ہم عفو کی قوت کو کچل دیتے ہیں یا انتقام کی قوت کو لغوقرار دے کر اس سے کام نہیںلیتے تو ہم اپنی ناکامی کے سامان آپ مہیا کرتے ہیں ۔ کامیابی اسی وقت ہو سکتی ہے جب فطرت کو کچلا نہ جائے بلکہ اللہ تعالی نے جس قدر قویٰ پیدا کئے ہیں ان کا بر محل استعمال کیا جائے ۔ جو شخص اپنی فطرت کو کچل کر یہ خیال کرتا ہے کہ وہ بڑا با اخلاق ہے یا اپنی فطری استعدادوں کو مٹا کر یہ سمجھتا ہے کہ اس نے نیکی کا بہت بڑا مقام حاصل کر لیا ہے وہ انتہا درجہ کی غلطی کا ارتکاب کر تا ہے ۔ نیکی اس بات کا نام نہیں کہ فطرت کو کچل دیا جائے یا اللہ تعالی کی پیدا کردہ طاقتوں کو ضائع کر دیا جائے بلکہ نیکی یہ ہے کہ فطرت کو بیدار کیا جائے اور ان قوتوں سے صحیح رنگ میں کام لیا جائے ۔ اللہ تعالی نے اسی مضمون کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ جو شخص فطرت کو کچل دیتا اور اس کی قوتوں کو ضائع کر دیتا ہے وہ کبھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا ۔ دوسرے معنوں کی رو سے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ جس شخص نے اپنی روح کو فطرتی نور سے ہدایت لے کر ابھارا وہ با مراد ہوا یعنی نور الہام کو پا لیا مگر جس نے ایسا نہ کیا وہ نامراد رہا یعنی نہ خود اسے نور براہ راست مل سکے گا اور نہ دوسرے کے طفیل مل سکے گا کیونکہ فطرت تو ایک آئینہ تھی اور فطرت نے ہی شمس سے ری فلیکٹر کے طور پر نور لینا تھا ۔ جس نے اس فطرت کو زمین میںدبا دیا اسے روشنی کہاں سے آسکتی ہے وہ تو ظلمت میں ہی گرفتار رہے گا اور ظلمت میںہی اس جہان سے گذر جائے گا۔
کَذَّ بَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰھَآ Oص لا
ثمود نے اپنی حد سے بڑھی ہوئی سر کشی کی وجہ سے (زمانے کے نبی کو) جھٹلایا۔ آیت نمبر ۱۱
حل لغات۔ طَغْوٰی : طَغٰی سے ہے اور یہ واوی بھی ہے اور یائی بھی ۔ یعنی طَغٰی یَطْغُوْ طَغْواً بھی استعمال ہوتا ہے اور طَغٰی یَطْغِیْ طَغًا وَ طُغْیَانًا بھی استعمال ہوتا ہے ۔ واوی اور یائی دونوں میںمعنوں کے لحاظ سے اختلاف ہے لیکن ایک معنے طَغٰی کے ایسے ہیں جو واوی اور یائی دونوں میں مشترک ہیںاور وہ معنے ہیںجَاوَ زَالْقَدْرَوَالْحَدَّ۔ فلاں شخص حد سے نکل گیا ۔ لیکن طَغٰی یَطْغٰی جو یائی ہے اس کے بعض اور معنے بھی ہوتے ہیں چنانچہ جب کہیں طَغَی الْکَافِرُتو اس کے معنے ہوتے ہیں عَلَا فِی الْکُفْرِ کہ کافر شخص کفر میںحد سے بڑھ گیا ۔ اور طَغٰی فُلَان’‘ کے معنے ہوتے ہیں اَشْرَفَ فِی الْمَعَاصِیْ وَالظُّلْمِ۔ وہ ظلم اور معاصی میںحد سے بڑھ گیا ۔ اور طَغَی الْمَآئُ کے معنے ہوتے ہیںاِرْتَفَعَ پانی بلند ہو گیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ طَغْوٰی کے معنے گناہوں میں حد سے بڑھ جانے کے ہیںلیکن دراصل یہ معنے یائی کے ہیں واوی کے نہیں اور یہاں چونکہ طَغْوٰی ہے جو واوی ہے اس لئے اس کے معنے تَجَاوُز’‘ عَنِ الْقَدْرِ وَالْحَدِّ کے ہی ہیں ۔ یعنی اپنے اندازہ اور حد سے آگے نکل گیا۔
تفسیر ۔ اس آیت میںاللہ تعالی نے کفار کے سامنے مثال پیش کی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ دیکھو ثمود کے پاس نور آیا پھر جیسا کہ تم خود مانتے ہو کیونکہ وہ عرب کے نبی تھے تمہارے آباء نے اس کو رد کر دیا اور بوجہ اندازہ و حدود سے آگے نکل جانے کے ردّ کیا یعنی وہ سَوّٰھَا کے مصداق نہ رہے اور اعتدال کو ترک کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معتدل تعلیم اُن کی برداشت سے باہرثابت ہوئی ۔ یہاں اللہ تعالی نے دَسَّ کا طریق بتایا ہے کہ وہ دو ہی طرح ہو سکتا ہے یا تو جتنی قوت انسان کے اندر موجود ہوتی ہے وہ اس سے آگے نکل جاتا ہے اور یا پھر جتنی قوت موجود ہوتی ہے اس سے پیچھے رہ جاتا ہے ۔ حد سے نکل جانا دونوں طرح ہی ہوتا ہے اس طرح بھی کہ انسان اگلی طرف کو چلا جائے اور اس طرح بھی کہ پچھلی طرف کو آجائے ۔ا یسے کاموں سے فطرت کانور مارا جاتا ہے اور اس کی قوتیں کچلی جاتی ہیں ۔ فرماتا ہے ثمود کی بھی یہی کیفیت تھی وہ لوگ اپنے کاموں میں حد سے آگے نکل گئے تھے خدا تعالی نے ایک وسطی تعلیم ان کے لئے نازل کی تھی مگر وہ اس درمیانی خط پر کھڑے ہونے کی بجائے کبھی ادھر چلے جاتے اور کبھی ادھر چلے جاتے ۔ درمیانی راستہ جو پل صراط ہوتا ہے اور جس پر ہر مومن کو اس دنیا میں چلنا پڑتا ہے اس راستہ پر وہ نہیں چلتے تھے بلکہ یا دائیںطرف کو نکل جاتے تھے یا بائیںطرف کو نکل جاتے ، اعتدال کو انہوں نے ترک کر دیا تھا۔
اِذِانْبَعَثَ اَشْقٰھَا O فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ نَاقَۃَ اللّٰہِ وَ سُقْیٰھَا O
جبکہ ان (کی قوم) میں سے سب سے بڑابد بخت (اس کی مخالفت کے لئے) کھڑا ہوا تب ان (یعنی ثمود کے آدمیوں) کو اللہ کے رسول نے کہا کہ اللہ ( کے دین ) کی (خدمت کے لئے وقف) اونٹنی کو (آزاد پھرنے سے ) اور اسے (گھاٹوں پر ) پانی پلانے سے مت روکو۔ آیت نمبر ۱۲۔ ۱۳
ایت ۱۲ تفسیر ۔ اس آیت میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے جس کی طرف سورۃ الغاشیہ کی آیت عَامِلَۃ’‘ نَاصِبَۃ’‘ میںاشارہ کیا گیا تھاکہ کفار ایک منّظم مخالفت شروع کرنے والے ہیںاب اس سورۃ میں اسی قسم کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کر کے بتایا ہے کہ جس طرح ثمود نے باقاعدہ لیڈر مقررکر کے مخالفت کی تھی اسی طرح کفار کرنے والے ہیںچنانچہ اس اشقی الناس نے جس طرح حضرت ثمود ؑ کو تبلیغ سے روکا تم بھی تھوڑے دنوں تک ایسے ہی منصوبے کرو گے اور اسلام کو اپنی مجموعی قوت سے مٹانے کی کوشش کرو گے مگر یاد رکھو جس طرح انہیںناکامی ہوئی اور وہ خدا تعالی کے عذاب کا نشانہ بن گئے اسی طرح تم بھی اس مقابلہ میںکبھی کامیاب نہیںہو سکتے۔
ایت ۱۳ تفسیر ۔یہ ایک نہایت لطیف مثال ہے مگر افسوس ہے کہ لوگوں نے اس کی حکمت کونہیں سمجھا اور انہوں نے خیال کر لیا ہے کہ وہ ناقہ اپنے اندر کوئی خاص عظمت اور شان رکھتی تھی جس کی کونچیں کاٹنے پر ثمود کی قوم اللہ تعالی کے عذاب کا نشانہ بن گئی ۔ اسی لئے بعض مفسرین نے اس ناقہ کے متعلق یہ عجیب بات لکھ دی ہے کہ وہ پہاڑ سے پیدا ہوئی تھی عام اونٹنیوں کی طرح نہیں تھی حالانکہ نبی کی موجودگی میں یہ ہو ہی کس طرح سکتا تھا کہ نبی کو دکھ دینے کی وجہ سے تو قوم پر عذاب نازل نہ ہو اور ناقہ کی کونچیں کاٹنے پر عذاب نازل ہو جائے!
اصل بات یہ ہے کہ حضرت صالح ؑ عرب میں مبعوث ہوئے تھے اور عرب میں اونٹوں پر سواری کی جاتی تھی ۔ حضرت صالح ؑ بھی اپنی اونٹنی پر سوار ہوتے اور ادھر ادھر تبلیغ کے لئے نکل جاتے ۔ لوگ کھلے طور پر حضرت صالح ؑ کا مقابلہ کرنے سے ڈرتے تھے کیونکہ ان کے رشتہ دار موجود تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے صالح ؑ کو کوئی تکلیف پہنچائی تو اس کے رشتہ دار ہم سے بدلہ لینے کے لئے کھڑے ہو جائیںگے مگر چونکہ وہ تبلیغ بھی پسند نہیں کرتے تھے اس لئے وہ بعض اور طریق آپ کو دکھ پہنچانے کے لئے اختیار کر لیتے تھے ۔ انہی میں سے ایک طریق یہ تھا کہ جب حضر ت صالح ؑ تبلیغ کے لئے ارد گر د کے علاقوں میں نکل جاتے تو کسی جگہ کے لوگ کہتے کہ ہم ان کی اونٹنی کو پانی نہیںپلائیں گے ، کسی جگہ کے لوگ کہتے کہ ہم کھانے کے لئے کچھ نہیںدیں گے ۔ ان کی غرض یہ تھی کہ جب انہیں اونٹنی کے لئے پانی اور چارہ وغیرہ نہ ملا تو یہ خود بخود اس قسم کے سفروں سے رک جائیںگے اور تبلیغ میں روک پیدا ہو جائے گی ۔ حضرت صالح ؑ نے ان کو سمجھایا کہ تم اس ناقہ کو آزاد پھرنے دو اور اس کے پانی پینے میں روک نہ بنو کیونکہ اس طرح میری تبلیغ میںرو ک واقعہ ہو جائیگی ۔ یہ مطلب نہیں تھا کہ تم مجھے تو اپنے پاس بے شک نہ آنے دو مگر یہ اونٹنی آئے تو اسے پانی پلا دینا ۔ اُنہیں اونٹنی سے کوئی دشمنی نہیںتھی انہیں اگر دشمنی تھی تو حضرت صالح ؑ سے ۔ اور وہ کہتے تھے کہ وہ اونٹنی پر سوار ہو کر ارد گرد کے علاقوں میں ایک شور پید اکر دیتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی طرف توجہ دلاتے ہیںایسا نہیں ہونا چاہیئے ۔ یہ چیز تھی جو ان کی طبائع پر سخت گراں گزرتی تھی او ر آخر اس کا علاج انہوں نے یہ سوچا کہ جب حضرت صالح ؑ باہر نکلتے تو ان کی اونٹنی کو وہ کہیں پانی نہ پینے دیتے اس پر حضرت صالح ؑ نے اظہارِ ناراضگی کرتے ہوئے کہا نَاقَۃَ اللّٰہِ وَ سُقْیٰھَا کہ یہ طریق درست نہیں کہ تم میری اس ناقہ کو آزاد پھرنے دو اور اس کے پانی میں روک نہ بنو یعنی تم مختلف ذرائع سے میری تبلیغ میں روک بن رہے ہو اپنے اس طریق کو چھوڑ و اور مجھے آزاد پھرنے دو تا کہ میں خدا تعالی کا پیغام سب لوگوں تک پہنچاتا رہوں ۔
میں نے بعض دفعہ گھوڑے کی سواری کرتے ہوئے خود تجربہ کیا ہے کہ جب کسی احمدی گائوں کے قریب سے گذروں تو وہاں کے لوگ بعض دفعہ میرے گھوڑے کی باگ پکڑ لیتے ہیں اُن کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ میں تو گھوڑے سے اتر پڑوں اور گھوڑا ان کے حوالے کر دوں تا کہ وہ اسے اپنے گائوں میں لے جائیںبلکہ ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میںخود تھوڑی دیر کے لئے ان کے گائو ں میںچلوں ۔ اسی طرح ثمود کی یہ غرض نہیںتھی کہ وہ ناقہ کو روکیںبلکہ ان کی غرض یہ تھی کہ وہ حضرت صالح ؑ کو تبلیغ سے روکیںاور جب حضرت صالح ؑ نے ان سے کہا کہ میری اس ناقہ کو چھوڑ دو تو ان کا یہ مطلب نہیں تھا کہ میرے ساتھ تو جیسا چاہو سلوک کرو مگر اس ناقہ کو کچھ نہ کہو بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ تم میری تبلیغ میںروک مت بنو اگر تم اسی طرح میری اونٹنی کو پانی پینے سے روکتے رہے تو میری تبلیغ رک جائے گی اور علاقوں کے علاقے ہدایت پانے سے محروم رہ جائیںگے ۔
فَکَذَّ بُوْہُ فَعَُرُوْھَا ص لا
اس پر انہوں نے اس (رسول) کو جھٹلایا ۔ پھر اس (اونٹنی ) کی کونچیںکاٹ دیں۔ ٰٓایت نمبر ۱۴
۱۴ حل لغات ۔ عَقَرُوْا : عَقَرَ سے جمع کا صیغہ ہے اور عَقَرَ الْاِبِلَ کے معنے ہوتے ہیں قَطَعَ قَوَا ئِ مَہَا بِالسَّیْفِ یعنی اس نے اونٹوںکی کونچیں کاٹ دیں(اقرب) پس عَقَرُوْھَا کے معنے ہونگے اس کی کونچیں کاٹ دیں۔
تفسیر ۔ حضرت صالح ؑ کے سمجھانے کے باوجود ثمود نے ان کی بات کی طرف کوئی توجہ نہ کی ۔ انہوں نے اسے جھٹلایا اور ناقہ کی کونچیں کاٹ دیں یعنی اپنے ارادوں کا انہوں نے علی الاعلان اظہار کر دیا اور کہہ دیا کہ تم خواہ کچھ کہو ہم تمہیںتبلیغ نہیں کرنے دیں گے ۔
فَدَمْدَمَ عَلَیْہَمْ رَبُّھُمْ بِذَنْبِھِمْ فَسَوّٰ ھَا O وَ لَا یَخَافُ عُقْبٰھَا O ع
جس پر ان کے رب نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاکت نازل کی اور اس (قوم) کو (مار کر زمین کے) برابر کر دیا ۔ اور وہ (اسی طرح ) ان (مکہ والوں ) کے انجام کی بھی پروانہیں کرے گا۔
۱۵ حل لغات دَمْدَمَ الشَّیْ ئَ کے معنے ہوتے ہیں اَلْزَقَہُ بِالْاَرْضِ اسے زمین کے ساتھ پیوست کر دیا ۔ دَمْدَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ کے معنے ہوتے ہیں اَھْلَکَھُمْ ۔ خدا تعالی نے ان کو ہلا ک کر دیا ۔ اور دَمْدَمَ فُلَان ٌ عَلیٰ فُلَانٍ کے معنے ہوتے ہیں کَلَّمَہُ مُغْضِبًا ۔ اُس سے غصہ کے ساتھ کلام کیا (اقرب)
تفسیر ۔ فرماتا ہے چونکہ انہوں نے ہمارے رسول کی بات نہ مانی اس لئے ہم نے ان پر عذاب نازل کیا اور عذاب بھی ایسا سخت کہ فَسَوّٰھَا خد ا نے انہیںزمین کے ساتھ ملا دیا اور ان کے چھوٹوں اور بڑوں کو اس طرح تباہ کیا کہ ان کا نشان تک دنیا میں نہ رہا۔
قرآن کریم اپنے کلام میں کیسی بلاغت کی شان رکھتا ہے کہ پہلے فرمایا تھا وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا ہم نے انسان کو معتدل القویٰ بنایا ہے اور خود انسانی نفس اس امر پر شاہد ہے کہ اسے کوئی نور آسمان سے ملنا چاہیئے اب فرماتا ہے چونکہ انہوں نے اس تسویہ کے قدر نہ کی اور ہمارے احکام کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اس لئے ہم نے ان کا دوسری طرح تسویہ کر دیا کہ ان کا نشان تک دنیا سے مٹا دیا ۔ یہ بلاغت کا کمال ہے کہ جس چیز کا انہوں نے انکار کیا تھا عذاب کے معنوں میںبھی وہی لفظ اس جگہ استعمال کر دیا اور فرمایا کہ چونکہ انہوں نے تسویہ سے انکار کیا تھا ہم نے ان کا اس رنگ میںتسویہ کر دیا کہ ان کا ملک تباہ کر دیا ، انکی عمارتیں گر گئیں، قوم ہلاگ ہو گئی اور اتنا بڑا زلزلہ آیا کہ ان کا نشان تک باقی نہ رہا ۔
۱۶ حل لغات ۔ عُقْبٰی کے معنے ہوتے ہیں جَزَآئُ الْاَمْرِ۔ کسی کام کی جزاء ۔اور عُقْبٰی کے معنے اٰخِرْ کُلِّ شَیْیئٍ کے بھی ہوتے ہیں یعنی چیز کا آخری حصہ ۔
تفسیر ۔ عُقْبٰھَا میں ھَا کی ضمیر دَمْدَمَۃ کی طرف جاتی ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب دَمْدَمَۃ نازل کرنے کا وقت آتا ہے اور کوئی قوم کلی ہلاکت کی مستحق ہو جاتی ہے تو پھر اللہ تعالی یہ نہیں دیکھتا کہ ان کے متعلقین کا کیا حال ہو گا یا یہ کہ اس سزا کا نتیجہ کیسا خطرناک نکلے گا۔ بعض دفعہ ساری قوم ہلاک نہیں ہوتی بلکہ اس کا کچھ حصہ بچ رہتا ہے جو دنیا میں انتہا ء طور پر ذلیل ہو جاتا ہے مگر فرماتا ہے جب ہماری طر ف سے کسی قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو پھر ہم اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ اس قوم کے بقیہ افراد کیا کیا تکالیف اٹھائیں گے ۔ جب قوم کی اکثریت خدا تعالی کے غضب کی مستحق ہو جاتی ہے اور خاموش رہنے والے گو مقابلہ نہیںکرتے مگر نبی کی تائید بھی نہیںکرتے تو وہ بھی اکثریت کے ساتھ ہی تباہ و برباد کر دیئے جاتے ہیں ۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالی ظلم کرتاہے یا اندھا دھند عذاب نازل کر دیتا ہے بلکہ جس قوم کے استیصال کا وہ فیصلہ کرتا ہے انصاف کے ماتحت کرتا ہے اور جب کہ وہ خود اپنے انجام کو نہیں دیکھتی تو اللہ تعالی اس کے انجام کو کیوں دیکھے۔ اس آیت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ کفار مکہ بھی ثمود کی طرح نبی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان کو یاد رکھنا چاہئیے کہ جس طرح ثمود کو تباہ کرتے وقت اللہ تعالی نے ایک عام عذاب نازل کیا تھا اسی طرح وہ اہل مکہ پر بھی ایک عذاب نازل کرے گا۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ ثمود کی قوم بہ حیثیت قوم تباہ ہو گئی تھی مگر مکہ والے رسول کریم ﷺ کے غلبہ کے بعد بھی باقی رہے ۔ لیکن اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں ۔ بعض دفعہ تباہی جسمانی نہیںروحانی ہوتی ہے ۔ ثمود جسمانی طور پر کلی ہلاکت میں مبتلا ہوئے اور مکہ والے مذہبی طور پر ۔ چنانچہ ان کے مذہب اور طور طریق کا نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔
سُوْرَۃُالَّیْل ِ مَکِیَّۃ ٌ
سورہ لیل ۔ یہ سورۃ مکّی ہے نمبر ۱
وَھِیَ اِحْدیٰ وَعِشْرُوْنَ اٰیَۃً دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِیْہَا رُکُوْعٌ وَّاحِدٌ
اور اس کی بسم اللہ کے سوا اکیس (۲۱) آیات ہیں اور ایک رکوع ہے ۔
نمبر ۱ یہ سورۃ بقول مفسرین جمہور کے نزدیک مکّی ہے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ جمہور کا لفظ جو عام طور استعمال کیا جاتا ہے اس کے کبھی کبھی تو یہ معنے ہوتے ہیں کہ اکثر کی رائے یہ ہے لیکن کبھی کبھی یہ لفظ صرف حسن کلام کے طور پر استعمال کر لیتے ہیں ۔ درحقیت سب تو الگ رہے اکثر بھی اس مسئلہ سے متفق نہیں ہوتے لیکن مصنف لکھ دیتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک وہ اس طرح ہے اور اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اور ہمارے ہم خیال یہ کہتے ہیں ۔ جمہور کے معنے اصطلاحی طورپر عظیم الشان کثرت کے ہیں اور جب یہ لفظ واقعہ میں عظیم الشان کثرت کے معنے رکھتا ہو اور صحیح طور پر انہی معنوں میں استعمال ہو تو بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ جب یہ معلوم ہوجائے کہ صحابہ کی بڑی اکثریت یا تابعین یا تبع تابعین کی غالب اکثریت فلاں معنوں پر قائم تھی تو ی امر واقعہ میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے لیکن جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں کبھی کبھی جمہور کے معنے ضرورتاً یہ بھی لے لئے جاتے ہیں کہ مصنف اور اس کے ہم خیالو ں کا کیا خیال ہے ۔ بعض دفعہ ایک معنوں کی رو چل جاتی ہے ۔ ایک شخص کسی آیت کے ایک معنے لکھتا ہے پھر اس سے دوسرا نقل کرتا ہے اس کے بعد اس سے تیسرا نقل کرتا ہے پھر چوتھا اور پھر پانچواں نقل کرتاہے ۔ اس صورت میںجمہور کے معنے صرف اتنے ہی ہوتے ہیں کہ پانچ دس کتابوں میںایک ہی معنے لکھے نظر آتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ جمہور کا لفظ لکھ کر صحابہ ؓ کی ایک لسٹ دے دی جاتی ہے کہ یہ یہ صحابی ان معنوں کے خلاف ہیں۔ گویا جمہور سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک شخص کے معنے لے کر چونکہ لوگوں نے ان کے پے در پے نقل کرنا شروع کر دیا اس لئے ہم کہہ رہے ہیںکہ جمہور کے نزدیک اس آیت کے یہی معنے ہیں یا دوسرے الفاظ میں جمہور سے ان کی مراد نقالوں کی اکثریت ہوتی ہے نہ ان لوگوںکی اکثریت جو صحابہ ؓ ہیں یا تابعین ہیں یا تبع تابعین ہیں۔ لیکن اس سورۃ کے متعلق جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ جمہور کے نزدیک مکی ہے یہ اصلی معنوں میں ہے کیونکہ کسی صحابی کا قول مقابل میں نہیںآتا۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اسے مدنی بھی کہا ہے مگر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت عبدا للہ بن زبیر ؓ دونوں اس کو مکی قرار دیتے ہیں اور چونکہ یہ دو جلیل القدر صحابہؓاس سورۃ کے مکی ہونے کی تائید میںہیں اور اس کے خلاف کسی صحابی کا قول ثابت نہیںاس لئے ہم جمہور کے معنے یہاں غالب اکثریت کے ہی قرار دینگے۔
بعض مفسرین کہتے ہیں یہ سورۃ مکی بھی ہے او ر مدنی بھی ۔ درحقیقت یہ ایسے ہی لوگوں کا خیال ہوتا ہے جو مضامین سے سورۃ کے مکی یا مدنی ہونے کا فیصلہ کیا کرتے ہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ مضامین کی بناء پر بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے بلکہ میں نے خود کئی مقاما ت پر مضامین سے استنباط کر کے بتایا ہے کہ ان معنوں کی بناء پر فلاں فلاں روایات کو ترجیح حاصل ہے مگر یہ درست نہیں ہوتا کہ کوئی شخص محض قیاس سے فیصلہ کر دے ۔ قیاس کسی واقعہ یا روایت کی تائید میں تو مفید ہو سکتا ہے مگر تاریخ کے مقابلہ میں صرف قیاس پر اعتماد درست نہیں ہوتا۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک شخص پوری کنہ تک نہ پہنچ سکے اور وہ عقلی طور پر کوئی قیاس کر لے ۔ مثلاً مضمون سے قیاس کر لیا اور ایک نتیجہ نکال لیا مگر یہ کہنا کہ ضروری ہے فلاں قسم کا مضمون مدنی سورتوں میںہی پایا جائے یا مکی سورتوں میں ہی پایا جائے یہ وہی غلطی ہے جس میں یوروپین مصنفین مبتلا ہوئے ہیں۔ مثلاً تاریخ کہتی ہے کہ فلاں سورۃ مکی ہے مگر وہ کہہ دیتے ہیں کہ نہیںیہ سورۃ تو مدنی ہے کیونکہ اس میںفلاں فلاں ذکر پایا جاتا ہے یا تاریخ کسی سورۃ کو مدنی کہتی ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ سورۃتو مکی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں فلاں فلاں مضمون آتا ہے حالانکہ یہ صرف ان کا قیاس ہوتاہے اور قیاس تاریخ کے مقابل پر نہیںلایا جا سکتا ۔ ہاں اگرتاریخ کسی سورۃ کو مکی کہتی ہو اور اس کی تائید میں ہم کوئی قیاس لے آئیں تو یہ درست ہو سکتا ہے یا تاریخ کسی سورۃ کو مدنی کہتی ہو اور ہم اس کی تائید میں کسی قیاس سے بھی کام لے لیںتو یہ جائز ہو گا۔ بہر حال مضمون سے قیاس کرنا دلیل مرجح تو بن سکتا ہے بالذات دلیل نہیںقرار پا سکتا۔ چنانچہ اس سورۃ کے متعلق برخلاف ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے مضمون کی وجہ سے بغیر کسی تاریخی شاہد کے اسے مدنی قرار دیا ہے میں یہ استنباط کرتا ہوں کہ یہ سورۃ مکی ہے اور وہ اس طرح کہ اس سورۃ سے پہلی دو سورتیں اور اس کے بعد کی دو سورتیںمکی ہیںاور ان دونوں سورتوںسے مضمون کے لحاظ سے یہ سورۃ بہت قریبی مشارکت رکھتی ہے اور چونکہ تاریخی شہادت بھی ا س امر کی ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے ۔ اس لئے میری یہ دلیل دلیل کہلانے کی مستحق ہے کیونکہ تاریخی شہادت کی تائید میں ہے ۔
میںپہلے بتا چکا ہوں کہ پہلی چند سورتوں میںمسلسل ایک خاص رنگ میںصدقہ و خیرات اور غریبوں کی خبر گیری کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک ذکر تو ایسا ہوتا ہے جو اپنے اندر کوئی خصوصیت نہیںرکھتا صرف عمومی طور پر ایک بات کہہ دی جاتی ہے مگر یہ وہ سورتیںہیں جن کے تمام مضامین اس رنگ میںچلتے ہیں کہ صدقہ دینے والے یا نہ دینے والے ، غربا ء کی ضروریات پر خرچ کرنیوالے یا نہ خرچ کرنے والے قومی لحاظ سے اپنی اپنی حالت کے مطابق ترقی پا جاتے ہیں یا تباہ ہو جاتے ہیں۔ یہی مضمون اس سورۃ میں بھی پایا جاتا ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اِنِّیْ لَاَقُوْلُ اِنَّ ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ نَزَلَتْ فِی السَّمَاحَۃِ وَالْبُخْلِ (فتح البیان تمہید تفسیر سورۃ الیل) یعنی میںیقینا کہہ سکتاہوں کہ یہ سورۃ سخاوت اور بخل کے مضمون کے بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے ۔ پس جب ایک روایت موجود ہے جو تاریخی لحاظ سے اس سورۃ کو مکی قرار دیتی ہے تو دلیل مرجح کے طورپر اس سورۃ کی اندرونی شہادت بھی ان لوگوں کے رد میں پیش کی جاسکتی ہے جو اس کو مدنی کہتے ہیں اور ہم یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ نہ صرف روایات اس کو مکی قرار دیتی ہیںبلکہ اس سورۃ کا مضمون بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ روایت کے خلا ف ہم کسی قیاس کو پیش کر دیں سوائے اس کے کہ وہ قیاس بعض دوسری روایتوں پر مبنی ہو مثلاً بعض دفعہ قرآن کریم میںایک مضمون آتا ہے جسے ہم لوگوں کے سامنے بیان کر تے ہیںاب اگر اس مضمون کے متعلق روایات میںاختلاف پایا جاتا ہو تو لازماً ان روایات کو ترجیح حاصل ہو گی جن کی تائید قرآنی مضمون سے بھی ہوتی ہو ۔ ورنہ واقعات کے بارہ میںمحض قیاس آرائی ثابت شدہ تاریخی روایات کے مقابلہ میںکوئی حیثیت نہیںرکھتی۔
سر میور کا خیال ہے کہ یہ سورۃ بالکل ابتدائی سورتوں میںسے ہے ۔پادری ویری لکھتے ہیں کہ یہ سورۃ ہے تو ابتدائی مگر تبلیغ عامہ کے زمانہ کی ہے یعنی تیسرے چوتھے یا پانچویںسال کی ہے کیونکہ اس میںمنکروں کے لئے عذاب کی خبر ہے پادری وھیری کا یہ خیال میرے نزدیک درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس جگہ انذار عام قسم کا نہیں بلکہ اس میںخاص او ر قریب میںآنے والے واقعات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے ۔
جابر بن سمرہؓ سے بیہقی نے روایت کی ہے کہ رسول کریم ﷺ ظہر اور عصر میں وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی اور اسی قسم کی سورتیںپڑھا کرتے تھے ۔
ترتیب ۔ اس سورۃ کا مضمون بھی وہی ہے جو پہلی سورتوں میں بیان ہوتا آرہا ہے یعنی اس میں بھی ترقی اسلام کا ذکر ہے پہلی سورتوں اور اس سورۃ کے مضمون میں فرق صرف یہ ہے کہ اس سے پہلی سورۃ میںیہ نقطہء نگاہ بیان کیا گیاتھا کہ ایک نظام کامل کے لانیوالے کے بغیر کعبہ کی تعمیر کی غرض پوری نہیںہوتی اور ایسی ہی وجود کے آنے سے قوم کو ترقی حاصل نہیںہو سکتی ۔ اس سورۃ میں بھی وہی مضمون ہے مگر اس میںزور معلّم کی زندگی پر اس قدر نہیں دیا گیا جس قدر کہ متعلّمین اور ان کے مخالفوں کی زندگیوں کے فرق پر دیا گیاہے ۔ پہلی سورۃ میںیہ مضمون تھا کہ اچھے معلم کو اگر اچھا متعلم مل جائے تو وہ دنیا کی کایا پلٹ دیتا ہے اور یہ کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو جو شاگرد ملے ہیںوہ ایسے اعلیٰ درجہ کے ہیںکہ ان کی زندگیوں کو دیکھ کر انسان کے دل میںیہ مایوسی پیدا ہی نہیںہو سکتی کہ عرب کی حالت کیوں کر پلٹا کھا ئے گی ۔ اللہ تعالی کفار مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ ﷺ کو مل رہے ہیںان کی زندگیاںتمہاری زندگیوں سے بالکل مختلف ہیں ۔ دنیا میں اچھا استاد بڑا کام کر جاتا ہے او ر لائق شاگرد بھی بڑا کام کر جاتا ہے لیکن جہاں لائق استاد اور لائق شاگرد مل جائیںتو وہاں نُوْرٌ عَلیٰ نُوْرٍ کا معاملہ ہو جاتا ہے ۔ اگر اچھے استاد کو برے شاگرد ملیںتو اس کاکام اس قدر نہیںچمکتا اور نہ نالائق استاد کے اچھے شاگرد زیادہ ترقی کر سکتے ہیں۔ مگر یہاںتو اچھے استاد کو اچھے شاگرد بھی مل گئے ہیں پس یہ دینِ محمدی ؐ کے غلبہ کی ایک بیّن علامت ہے (مزید تفصیل کے لئے دیکھو وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَ الْاُنْثٰی ص ۴۷)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ O
(مَیں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرمکرنے والا بار بار رحم کرنیوالا ہے (شروع کرتا ہوں)
وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی O لا
(مجھے ) قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانک لے ایت نمبر ۲
تفسیر ۔ اس سے پہلی سورۃ میںفرمایا تھا وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی یعنی رات کو ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ وہ سورج کو ڈھانپ لیتی ہے مگر ا س سورۃ میں یَغْشٰی کا کوئی مفعول بیان نہیںہوا جس سے پتہ لگے کہ غَشْیٌ کا عمل کس چیز پر ہوا ہے بلکہ اس کو بغیر کسی قید کے بیان کیا گیا ہے پس معلوم ہوا کہ یَغْشٰی کے معنے اس سورۃ میں زیادہ وسیع لئے گئے ہیں ۔ پہلی سورۃ میں تاریکی کا صرف وہ پہلو مراد تھا جو سورج کے ڈھانپنے سے ظاہر ہوتا ہے تاریکی کے دوسرے نتائج کی طرف اشارہ نہ کیا گیا تھا مگر اس جگہ اس کے علاوہ اور معانی بھی لئے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ الفاظ کے لحا ظ سے اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ رات کی تاریکی کی وجہ سے سورج ہی نہیں پوشیدہ ہوا بلکہ دوسری اشیا ء بھی اوجھل ہو گئی ہیں۔
قرآن کریم میںایک جگہ یہ مضمون آتا ہے کہ رات دن کو ڈھانپتی ہے یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ (الاعراف ۷: ۱۴)اسی طرح یہ بھی آتا ہے کہ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ (الفلق) یعنی ہم پناہ مانگتے ہیں تاریک رات سے جب وہ ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے اور یہ بھی آتا ہے کہ رات سورج کو ڈھانپ لیتی ہے جیسا کہ اس سے پہلی سورۃ میں ہی فرمایا تھا وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا چونکہ ان تینوں معنوں کی آیت زیر تفسیر متحمل ہو سکتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم غور کریں کہ یہ تینوں معنے ہی اس جگہ پائے جاتے ہیںیا کسی دوسری دلیل کی وجہ سے ان میںسے صرف ایک یا دو معنے مراد ہیں ان کے سوا معنے مراد نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سورۃ میں ایک ایسا قرینہ پایا جاتا ہے جو اس کے معنوں کو محدود کر دیتا ہے اور جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ صرف یہی معنے مراد ہیں کہ جب رات ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے ۔ وہ قرینہ یہ ہے کہ یہاں وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی کے بعد وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی بیان ہوا ہے اگر وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰیکی آیت وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰیسے پہلے ہوتی تو اس آیت کے معنے کرتے ہوئے دن کو ڈھانکنے یا سورج کو ڈھانکنے کا مفہوم زیادہ قرینِ قیاس ہوتا مگر چونکہ یہاں وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی کی آیت کے بعد وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی کی آیت بیان ہوئی ہے اس لئے یہ قرینہ اس بات کی طرف ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ یہاں دن یا سورج کی بجائے دوسری چیزوں کو ڈھانکنے کا مفہوم غالب طورپر پایا جاتا ہے پس بجائے اس کے کہ ہم تینوں معنے یہاں مراد لیںاس قرینہ کی وجہ سے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اس آیت کے صرف یہی معنے ہوں گے کہ ہم رات کو شہادت کے طور پر پیش کر تے ہیںجبکہ وہ ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے یعنی انسان ۔ جانور اور دوسری چیزیںسب اندھیرے تلے آجاتی ہیں۔
وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰیO لا
اور دن کی جب وہ خوب روشن ہو جائے آیت نمبر ۳
نمبر ۳ تفسیر ۔ اس آیت اور سورۃ الشمس کی آیت وَالنَّھَارِ اِذَا َجَلّٰہَا میںایک فرق ہے وہاں نَھَار کے بعد اِذَا جَلّٰہَا کے الفاظ آتے ہیںمگر یہاں فرماتا ہے وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی وہاں یہ ذکر تھا کہ زمین سورج کے سامنے آکراس کو ظاہر کر دیتی ہے او ر یہاں یہ ذکر ہے کہ سورج کی روشنی سے مستفیض ہو کر دن روشن ہو گیا ۔ وہاں تمام اشارے اس بات کیطرف تھے کہ استاد اپنے فن میںکامل ہے وہ دنیا کو اپنے فیوض سے مستفیض کر دے گا گویا وہاں استاد کے وجود پر زور دیا گیا ہے مگر یہاں شاگردوں کی قابلیت پر زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ خواہ یہ کہہ دو کہ استاد نے شاگرد کو پڑھایا یا یہ کہہ دو کہ شاگرد نے استاد سے پڑھا ۔ اس سے کلام میںکوئی خاص فرق نہیںپڑ سکتا سوائے اس کے کہ جب ہم کہتے ہیں استاد نے پڑھایا تو اس میںزیادہ زور اس بات پر ہوتا ہے کہ استاد نے محنت کی اور اس نے توجہ سے اپنے فرض کو ادا کیا ۔ اور جب ہم کہتے ہیںشاگرد نے استاد سے پڑھا تو اس میںزیادہ زور اس بات پر ہوتا ہے کہ شاگرد نے بھی محنت سے کام لیا ۔ اسی طرح وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی میں زیادہ زور اس بات پر ہے کہ دن روشن ہو گیا یعنی جو زمین کی نسبت رکھنے والا یا شاگردکی نسبت رکھنے والا وجود ہے اس کی قابلیتوں پر زور دیا گیا ہے مگروَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا میں سورج یعنی استاد کی قابلیتوں پر زور دیا گیا ہے ۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ اس سورۃ میں گو مثال رات اور دن کی دی گئی ہے جیسے پہلی سورۃ میں رات او ر دن کی مثال دی گئی تھی مگر مفہوم الگ الگ ہے ۔ پہلی سورۃ میں دن کی روشنی کا پہلے ذکر کیا تھا اور اس کے مقابل پر شمس کا بھی پہلے ذکر تھا ۔ چنانچہ پہلے نمبر پر وَالشَّمْسِ وَضُحٰہَا کہا گیا تھا اور اس کے مقابل میں وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰہَا کا ذکر تھا ۔ دوسرے نمبر پر قمر کا ذکر تھا جیسا کہ فرمایا وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا ۔ اور اس کے مقابل پر وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا کا ذکر تھا ۔ گویا شمس کے مقابلہ میں نہار کو رکھا گیا ہے اور قمر کے مقابلہ میں لیل کو ۔ پھر جس طرح شمس کو پہلے بیان کیا تھا اور قمر کو بعد میں، اسی طرح اللہ تعالی نے نہار کو پہلے رکھا تھا اور لیل کو بعد میں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں شمس ِ نبوت اور قمر رسالت کا ذکر تھا ۔ افاضہ اور استفاضہ کا مضمون بیان کیا گیا تھا اور اس امر کا ذکر کیا گیا تھا کہ فلاں نے نور کا افاضہ کیا اور فلاں نے اس سے فیض حاصل کیا۔ اس مناسبت کی بنا ء پر پہلے نور اور دن کا ذکر تھا اور بعد میںرات اور قمر کا ذکر تھا مگر یہاں رات کا ذکر پہلے ہے اور دن کا بعد میں۔ کیونکہ اس جگہ رسول کریم ﷺ کے کمالات کا ذکر اصل مطلوب نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کے اتباع اور کفار کا مقابلہ کیا گیا ہے ۔ پس بوجہ کفر کے مقدم اور کثیر ہونے کے رات کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور دن کابوجہ مسلمانوں کے موخرالزمان اور تھوڑے ہونے کے بعد میںکیا گیا ہے ۔پہلی سورۃ میں یہ ذکر تھا کہ دنیا کو منور کرنے کے لئے ہم نے ایک روحانی سورج افق ِ آسمان پر پید اکیا ہے دنیا اس سورج کی روشنی کو خواہ کس قدر چھپانا چاہے اب یہ قطعی طورپر ناممکن ہے کہ وہ اس روشنی کو روک سکے یا س نور کو پھیلنے نہ دے ۔ یہ روشنی اب بڑھے گی اور بڑھتی چلی جائے گی یہاں تک کہ ساری دنیا کو ڈھانپ لے گی ۔ مگر ایک لمبا عرصہ گذرنے کے بعد پھر ایک زمانہ ایسا آئے گاجس میں یہ سورج لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا زمین والے اپنی پیٹھ موڑ لیں گے تاریکی چھا جائے گی اور روشنی جاتی رہے گی اس وقت اللہ تعالی پھر ایک قمر پیدا کرے گا جو ا س شمس سے اکتسابِ نور کر کے دنیا کو منور کردے گا۔ پس چونکہ وہاں اسلام کے زمانہ سے بات شروع کی گئی تھی طبعی طور پر شمس اور نہار کا ذکر پہلے ہونا چاہئیے تھا مگر یہاں کفر و اسلام کا مقابلہ ہے اور کفر چونکہ پہلے تھا اور اسلام بعد میں آیا اس لئے لیل کا پہلے ذکر کیا گیا اور نہار کا بعد میں ۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ کفر چونکہ اس زمانہ میںکثیر تھا اور مسلمان اس زمانہ میں قلیل التعداد تھے اس مناسبت کی بنا ء پر بھی اللہ تعالی نے لَیْل کا ذکر پہلے کیا اور نَھَار کا بعد میں ۔ اور اس طرح یہ پیشگوئی کی کہ رات کی حالت جو تم پر طاری ہے وہ اب دورہونے والی ہے اس کے بعد دن کی حالت آئے گی یا اس رات کے نتیجہ میں جو جو گمراہیاں اور خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں ساکنینِ نہار اب ان کو دور کرنے والے ہیں (مزید تفصیل اس کی اگلی آیت کے نیچے آئے گی )
وَماَ خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی O لا
اور نر و مادہ کی پیدائش کی آیت نمبر ۴
نمبر ۴ تفسیر۔ اس آیت کے متعلق حضرت ابو الدرداء کو سخت غلُّو تھا ۔ ان کے خیال میںوَماَ خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی کی جگہ اس آیت میں وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثٰی کے الفا ظ ہیں۔ چنانچہ علقمہ سے ابن جریر نے روایت کی ہے کہ میں ایک دفعہ شام گیا تو ابو الدرداء قافلہ میں آئے اور پوچھا کیا تم میںکوئی ایسا ہے جو عبداللہ بن مسعود ؓ سے قرأت پڑھا ہوا ہو ؟ اس پر لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا ۔ اس پر میں نے بھی کہا کہ ہاں میںنے ان سے قرآن پڑھا ہے اس پر انہوں نے کہا کہ آپ نے عبداللہ بن مسعود کو یہ آیت کس طرح پڑھتے ہوئے سنا ہے میں نے بتایا کہ وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی O وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی O وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثٰیOاس پر ابوالدرداء نے کہا کہ میں نے بھی رسول کریم ﷺ کو اسی طرح پڑھتے سنا ہے ۔ اور یہاں کے لوگ چاہتے ہیںکہ میں وَماَ خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی پڑھوں مگر میں ایسا نہیںکروںگا میں ان کے پیچھے نہیںچلوں گا۔ یہ مضمون بتغیّر الفاظ و مطالب مختلف راویوں سے مختلف کتب ِ حدیث میں حضرت ابوالدرداء سے مروی ہے ۔
اس بارہ میں یاد رکھنا چاہیئے کہ قرأتوں کا فرق شروع زمانہ سے چلا آیا ہے ۔ پوری واقفیت نہ رکھنے والے مسلمان بعض دفعہ ایسی روایتوںسے گھبر ا جاتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر یہ روائتیں درست ہیں تو پھر ہمارا یہ کہنا درست نہیںہو سکتا کہ قرآن کریم کامل طور پر محفوظ ہے اور اس میں کسی قسم کی تغیر و تبدل نہیں ہوا ۔ مگر ایسا نتیجہ نکالنا درست نہ ہوگا۔ اس لئے کہ شروع زمانہ سے ہی نسخ کے منکر اور حفاظتِ قرآنیہ کے قائل قرأت کے اس فرق کو تسلیم کرتے چلے آئے ہیں مگر باوجود اس فرق کے ان کے نزدیک یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ ایک قرأت دوسری کو منسوخ نہیں کرتی اور دوسرے مضمون میںفرق نہیں ڈالتی ۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک قرأت ایسا مضمون بیان کرے جس کی دوسری قرأت حامل نہ ہو سکے ہاں بعض دفعہ وہ مضمون کو وسیع کر دیتی ہے اور اس کی مصدق ہوتی ہے ۔ در اصل بعض زبانوں کے فرق کی وجہ سے یا بعض مضامین کو نمایاں کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سبعۃ احرف پر نازل کیا ہے یعنی اس کی سا ت قرأتیںہیں ۔ ان قرأتوں کی وجہ سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے کہ قرآنِ کریم میںکوئی اختلاف ہے بلکہ اسے زبانوں کے فرق کا ایک طبعی نتیجہ سمجھنا چاہیئے ۔ بسا اوقات ایک ہی لفظ ہوتا ہے مگر ایک ہی ملک کے ایک حصہ کے لوگ اسے ایک طر ح بولتے ہیںاور اسی ملک کے دوسرے حصہ کے لوگ اسے اور طرح بولتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ لفظ بدل گیا ہے یا اس لفظ کا مفہوم تبدیل ہو گیا ہے ۔ لفظ بتغیر قلیل وہی رہے گا اس لفظ کے معنے بھی وہی رہیں گے صرف اس وجہ سے کہ کوئی قوم اس لفظ کو صحیح رنگ میں ادا نہیںکر سکتی وہ اپنی زبان میں ادا کرنے کے لئے اس کی کوئی اور شکل بنا لے گی ۔ رسوک کریم ﷺ کے زمانہ میں چونکہ عرب کی آبادی کم تھی قبائل ایک دوسرے سے دور دور رہتے تھے اس لئے ان کے لہجوں اور تلفظ میں بہت فرق ہوتا تھا ۔ زبان ایک ہی تھی مگر بعض الفاظ کا تلفظ مختلف ہوتا تھا اور بعض دفعہ ایک معنی کے لئے ایک قبیلہ میںایک لفظ بولا جاتا تھا دوسرے قبیلہ میںدوسرا لفظ بولا جاتا تھا ان حالات رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے اجازت دے دی کہ فلاں فلاںالفاظ جو مختلف قبائل کے لوگوں کی زبان پر نہیںچڑھتے ۔ ان کی جگہ فلاں فلاں الفاظ وہ استعمال کر لیا کریں۔ چنانچہ جب تک عرب ایک قوم کی صورت اختیار نہیںکر گی اس وقت تک یہی طریق ان میں رائج رہا۔ اگر اس کی اجازت نہ دی جاتی تو قرآن کریم کا یاد کرنا اور پڑھنا مکہ کے باشندوں کے سوا دوسرے لوگوں کے لئے مشکل ہوتا اور قرآن کریم ا س سرعت سے نہ پھیلتا جس طرح کہ وہ پھیلا ۔ قبائل کی زبان کا یہ فرق غیر تعلیم یافتہ لوگوں میںاب تک بھی ہے تعلیم یا فتہ لوگ تو کتابوں سے ایک ہی زبان سیکھتے ہیں لیکن غیر تعلیم یافتہ لوگ چونکہ آپس میںبول کر زبان سیکھتے ہیں ان میں بجائے ملکی زبان کے قبائلی زبان کا رواج زیادہ ہوتا ہے ۔
میں جب حج کے لئے گیا تو ایک یمنی لڑکا جو سولہ سترہ سال کا تھا اور جو سیٹھ ابو بکر صاحب کا ملازم تھا قافلہ کے ساتھ چلا جا رہا تھا ۔ میں راستہ میں عربی زبان میں اس سے گفتگو کرتا رہا اور میں نے دیکھا کہ وہ میری اکثر باتوں کو سمجھ جاتا اور ان کا جواب بھی دیتا مگر بعض دفعہ حیرت سے میرے منہ کو دیکھنے لگ جاتا اور کہتا کہ میںآپ کی بات کو سمجھا نہیں۔ میں حیران ہوا کہ یہ بات کیا ہے کہ یہ لڑکا عربی سمجھتا بھی ہے مگر کبھی کبھی رک بھی جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ کی بات کو نہیںسمجھا۔ جب میں مکہ پہنچا تو میں نے کسی سے ذکر کیا کہ یہ لڑکا عرب ہے اور عربی کوخوب سمجھتا ہے مگر باتیں کرتے کرتے بعض جگہ رک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میری سمجھ میں بات نہیں آئی معلوم نہیںاس کی کیا وجہ ہے ۔ تو ان صاحب نے بتایا کہ یہ لڑکا یمنی ہے اور یمنیوں اور حجازیوں کے بعض الفاظ میںبڑا بھاری فرق ہوتا ہے اس لئے یہ اسی اختلاف کے موقعہ پر ایک دوسرے کی بات نہیںسمجھتے چنانچہ انہوں نے اس فرق کے بارہ میں یہ لطیفہ سنایا کہ مکہ میںایک امیر عورت تھی اس کا ایک یمنی ملازم تھا وہ عورت حقہ پینے کی عادی تھی وہاں عام رواج یہ ہے کہ حقہ کے نیچے کا پانی کا برتن شیشے کا ہوتا ہے اس لئے اسے کہتے بھی شیشہ ہی ہیں ۔ ایک دن اس عورت نے اپنے ملازم کو بلایا اور اس سے کہا غَیِّرِالشِّیْشَۃَ شیشہ بدل دو۔ لفظ تواس نے یہ کہے کہ شیشہ بدل دو مگر محاورہ کے مطابق اس کے یہ معنے ہیںکہ ا سکا پانی گرا کر نیا پانی بدل کر ڈال دو۔ ملازم نے یہ فقرہ سنا تو اس کے جواب میں کہا سَتِّی ْ ھٰذَا طَیِّبٌ ۔ بیگم صاحبہ یہ تو بڑا اچھا معلوم ہوتا ہے ۔ عورت نے پھر کہا کہ قُلْتُ لَکَ غَیِّرِ الشِّیْشَۃَ ۔ میں نے جو تم کو کہا ہے کہ بدل دو تم انکار کیوں کرتے ہو ۔ نوکر نے پھر حیرت کا اظہار کیااور کہا کہ سَتِیْ ھٰذَا طَیِّبٌ ۔ میری آقا یہ تو اچھا بھلا ہے ۔ آخر آخر آقا نے ڈانٹ کر کہا تم میرے نوکر ہو یا حاکم ہو میں جو تم سے کہہ رہی ہوں کہ اسے بدل دو تم میری بات کیوں نہیں مانتے ۔ نوکر نے شیشہ اٹھایا اورباہر جا کر اس زور سے زمین پر مارا کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔ عور ت نے کہا ارے یہ تم نے کیا غضب کیا ۔ اتنا قیمتی برتن تم نے توڑ کر رکھ دیا ۔ نوکر نے کہا میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ برتن اچھا ہے مگر آپ مانتی نہیں تھیں ۔ اب جو میں نے توڑ دیا ہے تو آپ ناراض ہو رہی ہیں ۔ عورت نوکر پر سخت خفا ہوئی مگر ایک یمنی زبان کے واقف نے اسے سمجھایا کہ نوکر کا قصور نہیں کیونکہ حجاز میں غَیِّرْ کے معنے بدلنے کے ہیں اور محاورہ میںجب شیشہ کے ساتھ بولا جائے تو اس کے پانی بدلنے کے ہو جاتے ہیں۔ یمنی زبان میںتَغْیِیْر کے معنے توڑنے کے ہوتے ہیں پس جب تم نے غَیِّرِ الشِّیْشَۃَ کہا تو نوکر اپنی زبان کے مطابق یہ سمجھا کہ تم اسے برتن توڑنے کا حکم دے رہی ہو اسی لئے وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ بی بی یہ تو اچھا بھلا ہے اسے کیوں تڑوا رہی ہو ۔ مگر جب تم نہ مانیں اور بار بار زور دیا تو وہ غریب کیا کرتا ۔ اب دیکھو غَیِّرِ الشِّیْشَۃایک معمولی فقرہ ہے مگر زبان کے فرق کی وجہ سے یمنی نوکر نے اس کے کچھ کے کچھ معنے سمجھ لئے ۔ اس قسم کے الفاظ جو زبان کے اختلاف کی وجہ سے معانی میںبھی فرق پید اکر دیتے ہیں اگر قرآن کریم میں اپنی اصل صورت میں ہی پڑھے جاتے تو یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ان قبائل کو سخت مشکلات پیش آتیں اور ان کے لئے قرآن کریم کا سمجھنا مشکل ہو جاتا۔ اس نقص کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالی نے ایسے ہم معنی الفاظ پڑھنے کی اجازت دی جن سے قرآن کریم کے سمجھنے اور اس کے صحیح تلفظ کے ادا کرنے میں مختلف قبائل ِ عرب کو دقت پیش نہ آئے ۔ پس مضمون تو وہی رہا صرف بعض الفاظ یا بعض محاورات جو ایک قوم میں استعمال ہوتے ہیںاور دوسری قوم میں نہیں اللہ تعالی نے ان الفاظ یا ان محاورات کی جگہ ان کی زبان کے الفاظ یا اپنی زبان کے محاورات انہیں بتا دیئے تا کہ قرآن کریم کے مضامین کی حفاظت ہو سکے اور زبان کے فرق کی وجہ سے اس کی کسی بات کو سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل نہ ہوجائے۔ اسی طرح اس کا پڑھنا اور یاد کرنا بھی مشکل نہ رہے ورنہ اصل قرأت قرآن کریم کی وہی ہے جو حجازی زبان کے مطابق ہے اس تفصیل کو معلوم کر کے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک عارضی اجازت تھی اصل کلام وہی تھا جو ابتداً رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا۔ ان الفاظ کے قائمقام اسی وقت تک استعمال ہو سکتے تھے جب تک قبائل آپس میںمتحد نہ ہو جاتے ۔ چنانچہ حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں جب بجائے اس کے کہ مکہ والے مکہ میں رہتے ۔ مدینہ والے مدینہ میںرہتے ۔نجد والے نجد میں رہتے ۔ طائف والے طائف میں رہتے ۔ یمن والے یمن میںرہتے اور وہ ایک دوسرے کی زبان اور محاورات سے واقف ہوتے ۔ مدینہ دارالحکومت بن گیا تو تمام قومیں ایک ہو گئیں کیونکہ اس وقت مدینہ والے حاکم تھے جن میں ایک بڑا طبقہ مہاجرین مکہ کا تھا اور خود اہل مدینہ بھی اہل مکہ کی صحبت میںحجازی عربی سیکھ چکے تھے پس چونکہ قانون کا نفاذ ان کی طرف سے ہوتا ہے ، مال ان کے قبضہ میں ہوتا ہے اور دنیا کی نگاہیں انہیں کی طرف اٹھتیں ہیں ۔ اس وقت طائف کے بھی اور نجد کے بھی اور مکہ کے بھی اور یمن کے بھی اور دوسرے علاقوں کے بھی اکثر لوگ مدینہ میں آتے جاتے تھے اور مدینہ کے مہاجرو انصار سے ملتے اور دین سیکھتے تھے اور اسی طرح سب ملک کی علمی زبان ایک ہو تی جاتی تھی ۔ پھر کچھ ان لوگوں میںسے مدینہ میں ہی آکر بس گئے تھے ان کی زبان تو گویا بالکل ہی حجازی ہو گئی تھی ۔ یہ لوگ جب اپنے وطنوں کو جاتے ہوں گے تو چونکہ یہ علماء اور استادہوتے تھے یقینا ان کے علاقہ پر ان کے جانے کی وجہ سے بھی ضرور اثر پڑتا تھا ۔ علاوہ ازیں جنگوں کی وجہ سے عرب کے مختلف قبائل کو اکٹھا رہنے کا موقع ملتا تھا اور افسر چونکہ اکابر صحابہ ؓہوتے تھے ان کی صحبت اور ان کی نقل کی طبعی خواہش بھی زبان میںیک رنگی پید ا کرتی تھی ۔ پس گو ابتداء میں تو لوگوں کو قرآن کریم کی زبان سمجھنے میں دقتیں پیش آتی ہوں گی مگر مدینہ کے دارالحکومت بننے کے بعد جب تمام عرب کا مرکز مدینہ منورہ بن گیا اور قبائل اور اقوام نے بار بار وہاں آنا شروع کر دیا تو پھر اس اختلاف کا کوئی امکان نہ رہا ۔ کیونکہ اس وقت تمام علمی مذاق کے لوگ قرآنی زبان سے پوری طرح واقف ہو چکے تھے ۔ چنانچہ جب لوگ اچھی طرح واقف ہو گئے تو حضرت عثمان ؓ نے حکم دیا کہ آئندہ صرف حجازی قرأت پڑھی جائے اور کوئی قرأت پڑھنے کی اجازت نہیں۔ آپ کے اس حکم کا مطلب یہی تھا کہ اب لوگ حجازی زبان کو عام طور پر جاننے لگ گئے ہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ انہیں حجازی عربی کے الفاظ کا بدل استعمال کرنے کی اجازت دی جائے ۔ حضرت عثمان ؓ کے اس حکم کی وجہ سے ہی شیعہ لوگ جو سنّیوں کے مخالف ہیں کہا کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن بیاضِ عثمانی ہے حالانکہ یہ اعتراض بالکل غلط ہے حضرت عثمان ؓ کے زمانہ تک عربوں کے میل جول پر ایک لمبا عرصہ گذر چکا تھا اور وہ آپس کے میل جول کی وجہ سے ایک دوسرے کی زبانوں کے فرق سے پوری طرح آگاہ ہو چکے تھے ۔ اس وقت اس بات کی کوئی ضروت نہیںتھی کہ اور قرأتوں میںبھی لوگوں کو قرآن کریم پڑھنے کی اجازت دی جاتی۔ یہ اجازت محض وقتی طور پر تھی اور اس ضروت کے ماتحت تھی کہ ابتدائی زمانہ تھا قومیں متفرق تھیں اور زبان کے معمولی معمولی فرق کی وجہ سے الفاظ کے معنے بھی تبدیل ہو جاتے تھے اس نقص کی وجہ سے عارضی طور پر بعض الفاظ کو جو ان قبائل میں رائج تھے اصل وحی کے بدل کے طور پر خدا تعالیٰ کی وحی کے مطابق پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی تا کہ قرآن کریم کے احکام کے سمجھنے اور ا س کی تعلیم سے روشناس ہونے میں کسی قسم کی روک حائل نہ ہو اور ہر زبان والا اپنی زبان کے محاورات میں اس کے احکام کو سمجھ سکے اور اپنے لہجہ کے مطابق پڑھ سکے ۔ جب بیس سال کا عرصہ اس اجازت پر گذر گیا ، زمانہ ایک نئی شکل اختیار کر گیا ، قومیں ایک نیا رنگ اختیار کر گئیں ، وہ عرب جو متفر ق قبائل پر مشتمل تھا ایک زبردست قوم بلکہ ایک زبردست حکومت بن گیا ، آئین ِ ملک کا نفاذ اور نظام ِ تعلیم کا اجراء ان کے ہاتھ میں آگیا ، مناصب کی تقسیم ان کے اختیار میں آ گئی، حدوداور قصاص کے احکام کا اجراء انہوں نے شروع کر دیا تو اس کے بعد اصلی قرآنی زبان کے سمجھنے میں لوگوں کو کوئی دقت نہ رہی اور جب یہ حالت پیدا ہو گئی تو حضرت عثمان ؓ نے بھی اس عارضی اجازت کو جو محض وقتی حالات کے ماتحت دی گئی تھی منسوخ کر دیا اور یہی اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا مگر شیعہ لوگ حضرت عثمانؓ کے سب سے بڑا قصور اگر قرار دیتے ہیں تو یہی کہ انہوں نے مختلف قرأتوں کو مٹا کر ایک قرأت جاری کر دی۔ حالانکہ اگر وہ غور کرتے تو آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے مختلف قرأتوں میں قرآن کریم پڑھنے کی اجازت اسلام کے دوسرے دور میں دی ہے ابتدائی دور میں نہیں دی جس کے صاف معنے یہ ہیںکہ قرآن کریم کا نزول گو حجازی زبان میں ہوا ہے مگر قرأتوں میں فرق دوسرے قبائل کے اسلام لانے پر ہوا۔ چونکہ بعض دفعہ ایک قبیلہ اپنی زبان کے لحاظ سے دوسرے قبیلہ سے کچھ فرق رکھتا تھا اور یا تو وہ تلفظ صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتاتھا یا ان الفاظ کے معنوں کے لحاظ سے فرق ہو جاتا تھا اس لئے رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت بعض اختلافی الفاظ کے لہجہ کے بدلنے یا اس کی جگہ دوسرا لفظ رکھنے کی اجازت دے دی۔ مگر اس کا آیات کے معانی یا ان کے مفہوم پر کوئی اثر نہیںپڑتا تھا بلکہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی تو فرق پڑتا ۔چنانچہ اس کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک سورۃ عبداللہ بن مسعود ؓ کو اور طرح پڑھائی اور حضرت عمر ؓ کو اور طرح پڑھائی کیونکہ حضرت عمر ؓ خالص شہری تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ گڈریا تھے اور اس وجہ سے بدوی لوگوں سے ان کا تعلق زیادہ تھا ۔ پس دونو ں زبانوں میں بہت فرق تھا ۔ ایک دن عبداللہ بن مسعود ؓ قرآن کریم کی وہی سورۃ پڑھ رہے تھے کہ حضرت عمر ؓ پاس سے گذرے اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ کو کسی قدر فرق سے اس سورۃ کی تلاوت کرتے سنا۔ انہیں بڑا تعجب آیا کہ یہ کیا بات ہے کہ الفاظ کچھ اور ہیںاور یہ کچھ اور طرح پڑھ رہے ہیں ۔ چنانچہ انہوںنے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے گلے میں پٹکا ڈالا اور کہا چلو رسول کریم ﷺ کے پاس میںابھی تمہارا معاملہ پیش کرتا ہوں تم سورۃ کے بعض الفاظ اور طرح پڑھ رہے ہو اور اصل سورۃ اور طرح ہے ۔ غرض وہ انہیں رسول کریم ﷺ کے پاس لائے اور عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ﷺ آپ نے یہ سورۃ مجھے اور طرح پڑھائی تھی اور عبداللہ بن مسعود ؓ اور طرح پڑھ رہے تھے رسول کریم ﷺ نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے فرمایا تم یہ سورۃ کس طرح پڑھ رہے تھے؟ وہ ڈرے اور کانپنے لگ گئے کہ کہیں مجھ سے غلطی نہ ہو گئی ہو مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ڈرو نہیںپڑھو۔ انہوں نے پڑھ کر سنائی تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے ۔ حضرت عمر ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ نے تو مجھے اور طرح پڑھائی تھی ۔ آپ ؐ نے فرمایا وہ بھی ٹھیک ہے پھر آپؐ نے فرمایا قرآن کریم سات قرأتوں میں نازل کیا گیا ہے تم ان معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑا نہ کرو۔ اس فرق کی وجہ در اصل یہی تھی کہ رسول کریم ﷺ نے سمجھا عبداللہ بن مسعود ؓ گڈریا ہیں۔ اور ان کا لہجہ اور ہے اس لئے ان کے لہجے کے مطابق جو قرأت تھی وہ انہیں پڑھائی ۔ حضرت عمر ؓ کے متعلق آپ ؐ نے سوچا کہ یہ خالص شہری ہیں اس لئے انہیں اصل مکّی زبان کی نازل شدہ قرأت بتائی۔ چنانچہ آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو انکی اپنی زبان میں سورۃ پڑھنے کی اجازت دے دی اور حضرت عمر ؓ کو خالص شہری زبان میںوہ سورۃ پڑھا دی ۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فرق ہیں جو مختلف قرأتوں کی وجہ سے پیدا ہو گئے تھے مگر ان کا نفس ِ مضمون پر کوئی اثر نہیںپڑتاتھا ہر شخص سمجھتا تھا کہ یہ تمدن اور تعلیم اور زبان کے فرق کا ایک لازمی نتیجہ ہے ۔
میں ایک دفعہ کراچی میں تھا کہ وہاں ایک ایجنٹ ایک کروڑ پتی تاجر کو مجھ سے ملانے کے لئے لایا ۔ ایجنٹ شہری تھا اور تاجر گنواری علاقہ کا ۔ جب وہ تاجر مجھ سے بات کرنے لگا تو مجھ سے مخاطب کر کے کہتا کہ ’تم نوں‘ یہ بات معلوم ہو گی ۔ اب اول تو تم کا لفظ شہریوں میںمعزز آدمی کو خطاب کرتے ہوئے استعمال نہیںکرتے دوسرے تم کے ساتھ ’نوں‘ لگانا تو اور بھی معیوب ہے۔ اردو میںکہیں گے تم کو نہ کہ تم نوں۔ جب وہ تاجر مجھے تم نوں کہتا تو میںنے دیکھا اسے ساتھ لانے والا ایجنٹ بے حد اضطراب کے ساتھ اپنی کرسی پر پہلو بدلنے لگ جاتا اور میر ی طرف دیکھتا کہ ان پر اس گفتگو کا کیا اثر ہوا ہے اور مجھے تاجر کے تم نوں اور ایجنٹ کی گھبراہٹ پر لطف آرہا تھا ۔ اب معنوں کے لحاظ سے ’آپ کو‘ اور ’تم نوں ‘ میں کوئی بھی فرق نہیں لیکن ایک شہری کے لئے ’تم نوں‘ کہنا اور ایک انبالہ پٹیالہ کے گنوار کے لئے ’آ پ کو ‘ کہنا ایک مجاہد ہ سے کم نہیں ۔ پنجاب میںگجرات کی طرف کے لوگ پکرنے کو ’پھدنا‘ کہتے ہیں اور ہماری طرف کے لوگ ’پھڑنا‘ ۔ ہم لوگ پھدنا کہیں تو ماتھے پر پسینہ آجاتا ہے گجراتی پھڑنا کہتے ہیں توان کے گلے میں پھندے پڑتے ہیں۔ گورداسپور میں شریر آدمی کوشُہْدا کہتے ہیں ۔ ضلع سرگودہا میںشریف اور نیک طبیعت کو شُہْدا کہتے ہیں ۔ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول ؓ کی ایک عزیزہ آئی کسی ذکر پر اس نے آپ کی نسبت کہا ’اوساں شہدے نوں انہاں گلاں دا کہہ پتا ‘۔ یعنی مولوی صاحب شریف آدمی ہیں ان کو ایسی باتوں کا کیا علم ۔ اس طرف کی مستورات نے ایک دفعہ اس فقرہ کو سنا اور حیا ء کے ماتحت برداشت کر گئیں مگر اتفاق سے اس نے پھر دہرایا تو وہ اس سے دست و گریباں ہونے کو تیار ہو گئیں اور کہا کہ کچھ حیا ء کرو تم تو گالیاں دے رہی ہو ۔ اس غریب نے حیرت سے پوچھا کہ میں تعریف کر رہی ہوں کہ گالیاں دیتی ہوں۔ ’’ اوہ شُہْدا تے ہے ‘‘ ۔ آخر کسی عورت نے جو اس فرق کو سمجھتی تھی اس جوش کو ٹھنڈا کیا ۔ اب دیکھو کسی کتاب میںجو سارے پنجاب کے لئے لکھی گئی ہو کسی بزرگ کی نسبت شُہْدے کا لفظ آجائے تو اس کی توضیح یا دوسرے علاقہ کے لئے دوسرے لفظ کا استعمال مقرر کرنا ضروری ہو گا یا نہیں ؟ یہی ضرورت اس زمانہ میں مختلف قرأتوں کی اجازت کی تھی لیکن جب تمدن اور حکومت کے ذریعہ سے قبائلی حالت کی جگہ ایک قومیت اور ایک زبان نے لے لی اور سب لوگ حجازی زبان سے پوری طرح آشنا ہو گئے تو حضرت عثمان ؓ نے سمجھا اور صحیح سمجھا کہ اب ان قرأتوں کو قائم رکھنا اختلاف کو قائم رکھنے کا موجب ہو گا ا س لئے ان قرأتوں کا عام استعمال اب بند کرنا چاہئیے باقی کتب ِ قرأت میں تو وہ محفوظ رہیں گی۔ پس انہوں نے اس نیک خیال کے ماتحت عام استعمال میں حجازی اور اصل قرأت کے سوا باقی قرأتوں سے منع فرما دیا اور عربوں اور عجمیوں کو ایک ہی قرأت پر جمع کرنے کے لئے تلاوت کے لئے ایسے نسخوں کی اجازت دے دی جو حجازی اور ابتدائی قرأت کے مطابق تھے۔
ابن اُم عبد کا یہ واقعہ بھی اسی قسم کے قرأت کے اختلاف کے متعلق ہے ۔ عربی زبان میں مَا کا استعمال کئی معنوں میں ہوتا ہے ما نافیہ بھی ہے اور مصدریہ بھی اور مَا مَنْ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ جب مصدری معنے اور مَنْ کے معنے دونوں ہی مراد ہوں تو ایسے مقام پر مَنْ کا استعمال کرنا یا مصدر کا استعمال کرنا مفید نہیں ہو سکتا کیونکہ مصدر ایک معنے دے گا اور مَنْ دوسرے معنے دے گا دونوںمعنے کسی ایک طریق کے استعمال سے ظاہر نہ ہوں گے مگر چونکہ ایسے کئی مواقع قرآن کریم میں آتے ہیں جب کہ مصدری معنے اور مَنْ کے معنے دونوں ہی بتانے مقصود ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ایسے مواقع پر مَا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تا یہ دونوں مفہوم ظاہر ہوں ۔ مگر بعض عرب قبائل مَا کے مصدری معنے تو کرتے ہیںلیکن مَا کا استعمال مَنْ کی جگہ ناجائز سمجھتے ہیں اس لئے اس استعمال سے ان کے لئے مشکل پیش آجاتی تھی پس اس کو دور کرنے کے لئے وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثٰی کی قرأت کی بھی اجازت دے دی گئی ۔ جو جملہ ایک حد تک مَا کا مفہوم ادا کر دیتا ہے لیکن چونکہ ویسا مکمل مفہوم ادا نہیں کر تا جیسے مَا اس لئے اصل قرآنی عبارت کے طور پر اسے استعمال نہیں کیا گیا صرف عارضی قرأت کے طور پر اس کا استعمال جائز رکھا گیا۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابوالدرداء کو کوئی غلطی لگی ہو جب وہ خود کہتے ہیںکہ صحابہ ؓ مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی پڑھوں ۔ تو اس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اس بارہ میں ضرور کوئی بھول چوک واقعہ ہو گئی ہے ورنہ صحابہ ؓکی اکثریت ان پر یہ زور نہ ڈالتی کہ اصل قرأت وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ہی ہے وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثی نہیں ہے پس اول تو ضروری نہیں کہ ہم اس کو دوسری قرأت قرار دیں جب کثرت سے صحابہؓ کہتے ہیں کہ یہ قرأت نہیں تو ضروری ہے کہ ہم اسے قرأت قرار نہ دیں بلکہ ابوالدرداء کی رائے کو غلط سمجھیں ۔ لیکن اگر اس قرأت کو تسلیم کر لیا جائے تب بھی جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس سے آیت کے معنوں میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ اور قرأت کا اختلاف قرآن کریم کے کسی نقص پر نہیں بلکہ اس کے معنوں کی وسعت پر دلالت کرتا ہے ۔
قریب کے زمانہ میں ایک انگریز نے قرآن کریم کے تین پرانے نسخے نکالے ہیں وہ حلب میں ایک مسیحی مونسٹری MONESTRYمیں پروفیسر مقر رتھا ۔ اس نے اپنے زعم میںقرآن کریم کے تین پرانے نسخے حاصل کئے ہیں اور ان کے باہمی اختلافات کو اس نے LEAVES FROM THREE DIFFERENT QURANS یعنی ’’ قرآن کے پرانے تین نسخوں کے متفرق اوراق‘‘ کے نام سے شائع کر دیا ۔ جب وہ کتاب شائع ہوئی تو لوگوں میں بڑا شور اٹھا اور عیسائیوں میںیہ سمجھا جانے لگا کہ اب قرآن کریم کی حفاظت کا دعویٰ بالکل باطل ہو گیا ہے ۔ میں نے بھی وہ کتاب منگوائی تا کہ میں دیکھوں کہ قرآن کی حفاظت کے خلاف اس میں کون سے دلائل دئے گئے ہیں ۔ جب میں نے اسے پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ جو نسخے اس کے پیش کئے گئے ہیںان میں اسی قسم کا اختلاف ہے کی کسی جگہ مَا کی جگہ مَنْ ہے اور کسی جگہ مَنْ کی جگہ مَا ہے ۔ کسی جگہ قالُوْا کے آگے الف ہے اور کسی جگہ الف نہیں۔ کسی جگہ ہُ کی بجائے ھُمْکی ضمیر استعمال کی گئی ہے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ اس قرآنی نسخہ کا اختلاف یا تو بعض قرأتوں پر مبنی تھا یا کتابت کی غلطیاں تھیںاور بس ۔ میں نے اسے پڑھ کر نتیجہ نکالا کہ اگر ان مزعومہ قدیم نسخوںکو درست سمجھا جائے تب بھی اس سے قرآن کریم کے محفوظ ہونے کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ اس کی عبارت معنوں کے لحاظ سے کوئی فرق پیدا نہیں کرتیں۔ صرف کسی جگہ مَاکی جگہ مَنْ اور ہُ کی جگہ ھُمْ کی ضمیر بدلی ہوئی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مختلف قرأتوں کا فرق ہے اور کچھ بھی نہیں۔ غرض عیسائیوں کے کتب خانہ میں سے بھی کوئی کتاب ایسی نہ نکلی جو قرأت کے اس ف کے علاوہ قرآن کریم کے نسخوں میںکوئی اور فرق ثابت کر سکتی۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی اسی قرأت کے فرق کو بعض جگہ پیش کیا ہے ۔ مثلاً وَاِنْ مِّنْ اَھْلِالْکِتٰبِ اِلَّا لَیُوْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہٖ کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ مَوْتِہٖ کی بجائے ایک قرأت مَوْتِھِمْ بھی آتی ہے جو آپ کے بیان کردہ مضمون کی تائید کرتی ہے ۔ پس قرأتوں کا اختلاف یا تو قبائلی زبانو ں کے فرق کے ضرر سے بچانے کے لئے ہے یا قرآنی معنوں کی وسعت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ۔
اختلاف ِ قرأت کی حکمت بتانے کے بعد میں اب آیت کی تفسیر کی طرف توجہ کرتا ہوں ۔ اس سورۃ میںبتایا گیا ہے کہ رات کے وقت انسانی اعمال اور قسم کے ہوتے ہیںاور دن کے وقت اور قسم کے ۔ مثلاً رات کو لوگ سونے کی تیاری کرتے ہیںاور دن کو کام کرنے کی تیاری کرتے ہیں ۔ آدمی وہی ہوتا ہے لیکن پھر بھی اس کے اعمال الگ الگ اوقات میںالگ الگ اقسام کے ہوتے ہیں ۔ وہی آدمی جو دن کے وقت دوڑا بھاگا پھرتا ہے رات کے وقت بستر پر لیٹے ہوئے خراٹے مار رہا ہوتا ہے ۔ دن کو اس کی ہوشیاری اور چالاکی دیکھ کر حیرت آتی ہے اور رات کو اس کی نیند اور غفلت دیکھ کر حیرت آتی ہے ۔ اور اگر فطرتیں ہی الگ الگ ہوں تو پھر تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے ۔ بعض کہ یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ جاگتے ہوئے بھی سو رہے ہوتے ہیںاور بعض کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ سوتے ہوئے بھی جاگ رہے ہوتے ہیں۔ حماسہ میں تَابَّطَ شَرًّا کا واقعہ آتا ہے (یہ صفاتی نام ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی بغل میں شرارت دبائے پھرتاتھا ) اس لڑکے کا باپ مر گیا اور اپنے بیٹے کے لئے بہت بڑی جائیداد چھوڑ گیا ۔ اس کی والدہ نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔ سوتیلے باپ نے جائیداد دیکھ کر چاہا کہ میں اس لڑکے کا خاتمہ کر دوں تا کہ اکیلا اس جائیداد سے فائدہ اٹھائوں ۔ چنانچہ وہ اسے سیرکے بہانے کہیں باہر لے گیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ رات کو جب یہ سو جائے گا تو میں اسے قتل کر دوں گا ۔ جب لڑکا سو گیا تو باپ اٹھا تا کہ اسے مار ڈالے مگر اس کے پائوں زمین پر ابھی پڑے ہی تھے کہ لڑکا تلوار لے کر کھڑا ہو گیا اور پوچھا کیا بات ہے ۔ باپ نے کہا کچھ نہیں یونہی کسی کام کے لئے اٹھا تھا ۔ گھنٹہ دو گھنٹے گزرنے کے بعد وہ پھر اٹھا کہ اسے قتل کر دے مگر اس کے اٹھنے کے ساتھ ہی لڑکا پھر بیدار ہو گیا اور پوچھنے لگا کیا بات ہے ۔ باپ نے پھر کوئی بہانہ کر دیا ۔ اسی طرح ساری رات وہ اس کوشش میںرہا کہ کسی طرح لڑکا سو جائے تو مَیں اسے قتل کر دوں مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا ۔ جب بھی اٹھتالڑکا تلوار لے کر کھڑا ہوجاتا اور کہتا کیا بات ہے؟لڑکا مضبوط تھا اور یہ بڑی عمر کا تھا اس وجہ سے بھی اس پر ڈر غالب آگیا اور آخر دوسرے دن وہ اسے واپس لے آیا اور اس نے سمجھ لیا کہ میں اسے قتل نہیں کر سکتا ۔ الغرض بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ سوتے ہوئے بھی جاگ رہی ہوتی ہیں ذرا کوئی آہٹ ہو فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں ۔لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر دن کو بھی رات کی کیفیت طاری رہتی ہے وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگ جاتے ہیں اور بعض بڑے اطمینان کے ساتھ ایک طرف لیٹ کر سو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالی ا س سورۃ میںانہی کیفیات کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے ایک رات کی حالت ہوتی ہے اور ایک دن کی ۔ رات کا وقت ایسا ہوتا ہے کہ خواہ کوئی چست اور ہوشیار ہو اس پر بھی نیند طاری ہو جاتی ہے ۔ بعض تو ایسے سوتے ہیں کہ کتنا جھنجھوڑو ان کی آنکھ نہیں کھلتی ۔ بار بار جگانے پر بھی بیدار نہیں ہوتے ۔ سردیاں ہو تو لحاف میں سے نہیں نکلتے اور گرمیاں ہو ں تو پانی کے چھینٹے مارنے پر بھی پہلو بدل کر سو جاتے ہیں لیکن دن کا وقت کام کا ہوتا ہے اس میں چست آدمی تو اپنی ترقی کے لئے کئی قسم کے کاموں کو اختیار کر لیتا ہے لیکن سست آدمی کو دن کے وقت تو کچھ نہ کچھ کام کرنا ہی پڑتا ہے مگر رات ساری اس کے سوتے ہی گذرتی ہے ۔ رات اور دن کی طرح انسانوں کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ بعض قوموں پر رات کا زمانہ آیا ہوا ہوتا ہے اور بعض پر دن کا زمانہ ہوتاہے ۔ جو قومیں رات کے مشابہ ہوتی ہیں یا یوںکہو کہ جن پر رات آئی ہوئی ہوتی ہے وہ دن کو بھی سوتے ہیں اور رات کو بھی سوتے ہیں یعنی رات تو سوئے گذر جاتی ہے دن بھی کسی ایسے کام میں نہیں گذرتے کہ ان کے لئے یا ان کی قوم کے لئے کوئی اچھا نتیجہ نکلے ۔ اور اس کے برخلاف جن اقوام پر دن کا زمانہ ہوتا ہے ان کے دن تو کام میں گذرتے ہیں ان کی راتیں بھی بیکار نہیںجاتیں اور وہ تاریکیوں اور مصیبتوں کے اوقات میں بھی اتنا کام کر جاتے ہیںکہ رات والی قوموں کو دن کے وقت یعنی ہر قسم کے سامانوں کی موجودگی میں بھی اتنے کام کا موقعہ نہیں ملتا ۔ اسی کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے فرماتا ہے وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی ۔ ہم شہادت کے طورپر رات کو پیش کرتے ہیںجب وہ ڈھانپ لیتی ہے یعنی انسانی قویٰ پر چھا جاتی ہے جب سب لوگ سو جاتے ہیں اور حرکت کی جگہ سکون لے لیتا ہے گویا صرف تاریکی ہی نہیں ہوتی بلکہ عملاً ہر شے کو رات ڈھانک لیتی ہے ۔ رات کو اندھیرے میں سفر کرو تو راستہ بہت کم طے ہوتا ہے کیونکہ سنبھل سنبھل کر چلنا پڑتا ہے ۔ موٹر میں بھی سفر کیا جائے تو رات کو اس کی رفتار آدھی رہ جاتی ہے کیونکہ خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی نیچے نہ آجائے یا اندھیرے کی وجہ سے کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے ۔ اس وجہ سے ڈرائیور موٹر کی رفتار کم کر دیتا ہے ۔ پھر اگر وہ خود ہی سو جائے تو اور بھی خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ بہرحال رات کو صرف تاریکی ہی نہیں ہوتی بلکہ عملاً ہر شے کو وہ ڈھانپ لیتی ہے یعنی صرف جسم ہی نہیں بلکہ جب انسان سو جاتا ہے تو اس کی عقل اور فکر بھی رات کی حکومت میں آجاتا ہے پھر اسے اپنے برے بھلے کی کچھ تمیز نہیں رہتی ۔ یہ تو رات کی کیفیت تھی اس کے بعد فرمایا ہم اس کے بالمقابل تمہارے سامنے دن کو پیش کرتے ہیں جب وہ اس قدر روشن ہو جاتا ہے کہ سونا اور غافل رہنا بالکل نا ممکن ہوتا ہے ۔
یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ پہلی آیت میں خدا تعالی نے صرف رات کو پیش نہیں کیا کیونکہ رات کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جس میں سب لوگ جاگ رہے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ مسلمان تو لازماً سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں پھر کچھ دیر کے بعد عشاء کی نماز پڑھتے ہیں اور سنتوں اور وتر کی ادائیگی کے بعد ذکر الہی کرتے ہیں اس کے بعد وہ سونے کی تیاری کرتے ہیں یا جو لوگ مطالعہ کرنا چاہیں وہ پہلے مطالعہ کرتے ہیں اور پھر سوتے ہیں ۔ عیاش قومیں تھیئٹر و سینمائوں ، ناچ گھروں ، شراب خانوں میں اپنے وقت خرچ کرتی ہیں امراء کلبوں میں تاش و بِلْیرْڈ کھیلتے ہیں پس ساری رات سونے کے کام نہیں آتی بلکہ رات کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جس میں لوگ بیدار رہتے ہیں ۔ اس لئے اللہ تعالی نے صرف لیل کو بطور شہادت پیش نہیں کیا بلکہ وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی فرمایا ہے یعنی ہم رات کی اس حالت کو تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں جب وہ عملاً ہر چیز کو ڈھانک لیتی ہے اور صرف جسم ہی نہیںبلکہ انسانی عقل اور دماغ کا بھی وہ احاطہ کر لیتی ہے ۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے نَھار کا ذکر کیا ہے مگر نَھار کے ساتھ ہی تَجَلّٰی کا لفظ رکھ دیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ ہم دن کے اس حصہ کو شہادت کے طورپر پیش کررہے ہیں جب وہ اس قدر روشن ہو جاتا ہے کہ سونا اور غافل رہنا بالکل ناممکن ہو جاتاہے۔ ابتدائی حصہ کو پیش نہیں کر رہے کیونکہ صبح کے وقت کچھ لوگ سو جاتے ہیں مگر جب دن زیادہ چڑھ جائے تو پھر کوئی نہیں سوتا۔
صوفیا ء میں یہ عام رواج رہا ہے کہ وہ صبح کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لئے سو جایا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی بھی یہی عادت تھی کہ آپ صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لئے استراحت فرماتے ۔ پس اللہ تعالی یہاں نھار کے ابتدائی حصہ کی مثال پیش نہیں کرتا بلکہ اس حصہ کی مثال پیش کرتا ہے جب وہ روشن ہو جاتا ہے یعنی روشنی اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ انسان اگر سونا بھی چاہے تو وہ نہیں سو سکتا ۔ یہ دونوں حالتیں یعنی رات کی وہ حالت جب وہ ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے اور دن کی وہ حالت جب سونے والے بھی جاگ اٹھتے ہیں اللہ تعالی بطور مثال کفار کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے یہی فرق تمہاری حالت اور محمد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی حالت میں ہے ۔ تمہاری تمام قوتوں پر تھکان اور خوابیدگی کا اثر ہے ۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عرب نے گو کوئی خاص ترقی نہیںکی تھی مگر جتنی ترقی بھی کی تھی وہ ان کی تھکان کا موجب بن گئی تھی۔ مکہ کا مجاور ہونا سب سے بڑی عزت سمجھا جاتا تھا اور جیسے مندر کے پجاریوں کی حالت ہوتی ہے وہی حالت ان کی تھی ۔ قوت عملیہ فنا ہو چکی تھی اور ان کے اعمال نے ان میں کوفت پیداکر دی تھی ۔ غرض اللہ تعالی ان کو بتاتا ہے کہ تمہاری تمام قوتوں پر تھکان اور خوابیدگی کا اثر ہے تم لمبی جہالت اور لمبی عیش کے بعد زیادہ سے زیادہ سونا چاہتے ہو مگر محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی حالت میں بیداری اور ہوشیاری اور قوت عملیہ پائی جاتی ہے ۔ وہ جاگنا اور کام کرنا چاہتے ہیں اور تم سونا اور غافل رہنا چاہتے ہو پھر تمہارا اور ان کا کیا مقابلہ؟ سوتا جاگتے کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے ؟ تمہاری حالتوں پر رات کی خوابیدگی طاری ہے اور ان کی حالتوں پر دن کی بیداری غالب ہے ۔ ان کی راتیں بھی دن ہوتی ہیں اور تمہارے دن بھی رات ہوتے ہیں پھر تمہارا اور ان کا کیا مقابلہ ؟ جب تک تم بھی رات کے بعد دن کی حالت پیدا نہ کرو تم کبھی سکھ نہیں پا سکتے۔
اس کے بعد فرماتا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ہم اس خدا کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے نر اور مادہ پیدا کیا ہے اور جن سے دنیا میں آئندہ نسل ترقی کر تی ہے یعنی جس طرح دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حالتوں پر ہمیشہ دن کی بیداری طاری رہتی ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حالتوں پر ہمیشہ رات کی خوابیدگی غالب رہتی ہے اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں رجولیت کا مادہ ہوتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں نسوانیت کا مادہ ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی فیوض پہنچانے والے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ جو لوگ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ ذَکر ہوتے ہیں اور جو لوگ استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ انثٰی ہوتے ہیں اور جو لوگ نہ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں نہ استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ خنثٰی ہوتے ہیں ۔ ان سے دنیا میںکبھی بھی کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا۔ فرماتا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ۔ ہم نر و مادہ کی پیدائش کو بھی شہادت کے طورپر پیش کرتے ہیں یعنی نر میں افاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ دوسرے کو بچہ دیتا ہے اور مادہ میں استفاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ بچہ کو اس سے لیتی اور اس کی پرورش کرتی ہے ۔ یہی دو قوتیں ہیں جن کے ملنے سے دنیا میں اہم نتائج پیدا ہوتے ہیں اگر نر اور مادہ آپس نہ ملیں تو نسلِ انسانی کا سلسلہ بالکل منقطع ہو جائے۔
بعض نے اس موقع پر اعتراض کیا ہے کہ قرآن کریم نے یہ تو کہا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی یعنی خدا تعالی نے ذکر اور انثیٰ کو پیدا کیا ہے مگر اس نے خثنٰی کا ذکر نہیں کیا حالانکہ یہ بھی بتانا چاہئیے تھا کہ اسے کس نے پیدا کیا ہے ۔ مجھے علمی کتابوں میں اس قسم کا اعتراض پڑھ کر حیرت آئی ہے اور پھر اور زیادہ حیرت مجھے اس بات پر آئی ہے کہ مفسرین نے اس کا جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے اور جواب یہ دیا ہے کہ جو ہمارے نزدیک خثنٰی ہے خدا تعالی کے نزدیک وہ بہر حال یا ذکر ہے یا انثٰی ہے اس سے باہر نہیں۔ یہ بھی ایک مجبوری کا جواب ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کنثیٰ کوئی پیدائش نہیں بلکہ وہ پیدائش کا ایک بگاڑ ہے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے شربت بناتے وقت پاس سے کوئی خاکروب پیشاب کا پاٹ لے کر گزرے اور ٹھوکر سے اچھل کر پیشاب کا کوئی قطرہ شربت کے گلاس میں جا گرے یا اپنا ہی بچہ کھڑے ہو کر پیشاب کر دے اور شربت میں کوئی قطرہ جا گرے تو ایسے شربت کو ہم شربت کی ایک قسم نہیںکہیں گے بلکہ یہ سمجھیں گے کہ وہ ناپاک شربت ہے ۔ کیا کوئی عقلمند دنیا میںایسا ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ ایک شربت تو وہ ہوتا ہے جس میںایسنس ملا ہوا ہوتا ہے اور ایک شربت وہ ہوتا ہے جس میں پیشاب پڑا ہوا ہوتا ہے کیونکہ جس میںغلطی سے پیشاب کا کوئی قطرہ جا گرا ہے وہ شربت نہیںبلکہ ناپاک شدہ شربت ہے ۔ اسی طرح خدا تعالی نے ہر ایک کو یا ذکرپیدا کیا ہے یا انثٰی پیدا کیا ہے ۔ اگر ماں باپ اپنے اندر کوئی خرابی پیدا کر لیتے ہیں اور ان کی صحت میں اس قسم کا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے کہ بجائے ذکر یا انثٰی کے خثنٰی پیدا ہو جاتا ہے تو یہ نہیںکہا جائے گا کہ یہ بھی ایک پیدائش ہے بلکہ صرف یہ کہا جائے گا کہ یہ پیدائش کا ایک بگاڑ ہے جو اس رنگ میں ظاہر ہو گیا ۔ خنثٰی کو بھی پیدائش قرار دینا ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ خد اتعالی آنکھیںدیتا ہے تو دوسرا جواب میں کہے کہ دنیا میں اندھے بھی تو ہوتے ہیں۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات کیسی بیہودہ ہے اگر کوئی اندھا ہوا ہے تو اپنے ماں باپ کی کسی نادانی یا غفلت یا بیماری کے نتیجہ میںہوا ہے ۔ خدا تعالی نے بہرحال ہر انسان کو آنکھوں والا بنایا ہے کسی کا اندھا پیدا ہونا ایک بگاڑ اور خرابی ہے نئی پیدائش نہیں ہے ۔ مجھے تو حیرت آتی ہے ہمارے مفسرین نے اس بحث کو اٹھایا ہی کیوں کہ خدا تعالی نے ذکراور انثٰی کا ہی کیوں ذکر کیا ہے خنثٰی کا ذکر کیوں نہیںکیا خنثٰی ہونا تو ایسے ہی ہے جیسے کسی کا ناک کٹا ہوا ہو یا کسی کی آنکھ ماری ہوئی ہو یا کسی کی ٹانگ کٹی ہوئی ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ سب انسانی پیدائش کے مختلف بگاڑ ہیں ۔ کسی کی آنکھیں نہیں ہوتیں ، کسی کے ہاتھ نہیں ہوتے، کسی کی زبان نہیں ہوتی ، کسی کی انگلیاں کم و بیش ہوتی ہیں ۔ اگر ان میں سے ہر چیز کو پیدائش کی ایک نئی قسم قرار دے دیا جائے تو پھر تو ہزار ہا اس قسم کی پیدائشیں نکل آئیں گی ۔ دنیا میں ہر شخص کی خدا تعالی نے دو ٹانگیں پیدا کی ہیں لیکن بعض دفعہ ماں باپ کی بے احتیاطی یا کسی رحمی نقص کی وجہ سے ایسا بچہ پید ا ہو جاتا ہے جس کی تین ٹانگیں ہوتی ہیں ۔ اسی طرح خدا تعالی نے ہر ایک کو الگ الگ جسم عطا کیا ہے لیکن بعض دفعہ اس قسم کے جڑے ہوئے بچے پید اہو جاتے ہیں جن کو اپریشن کے ذریعہ ایک دوسرے سے الگ کرنا پڑتا ہے اور بعض دفعہ تو اپریشن کے ذریعہ بھی ان کو الگ نہیںکیا جاسکتا بظاہر دو دھڑ آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں لیکن دونوں کا جگر ایک ہوتا ہے یا دل ایک ہوتا ہے یا معدہ ایک ہوتا ہے یا تلی ایک ہوتی ہے اور وہ ساری عمر اسی طرح جڑے جڑے گزار دیتے ہیں۔ پس خالی خنثٰی کا ذکر ہی نہیں پھر تو انہیں اس قسم کے تمام بگاڑ پیش کرنے چاہیئے تھے اور کہنا چاہیئے تھا کہ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دو بچے آپس میں بالکل جڑے ہوئے ہوتے اور پھر ان کو الگ الگ کرنا پڑتا ہے ۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دونوں کا ایک ہی جگر ، ایک ہی قلب ، ایک ہی پھیپھڑا اور ایک ہی معدہ ہوتاہے اور انہیں جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں بچہ تو ہوتا ہے مگر اس کی آنکھیں نہیں ہوتی ۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دو کی بجائے تین ٹانگیں بن جاتی ہیں حالانکہ یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو پیدائش کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں ان کو پیش کر کے قرآن مجید پر یہ اعتراض کرنا کہ اس نے صرف ذکراور انثٰی کا نام لیا ہے خنثٰی کا نام نہیں لیا معترضین کی نادانی اور حماقت کا ثبوت ہے اور مفسرین کو چاہیئے تھا کہ بجائے اس کے کہ اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے کہتے کہ یہ اعتراض کسی احمق کی زبان سے نکلا ہے دنیا میں دو ہی پیدائشیں ہوتی ہیں ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں ذکرانیت ہوتی ہے اور ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں نسوانیت ہوتی ہے یہ دونوں وجود آپس میں ملتے ہیںتب ایک تیسرا وجود پیدا ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں ۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی سلسلہ پیدائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم دنیا میں غور کر کے دیکھ لو آئندہ نسلوں کی ترقی صرف ذکر اور انثٰی سے ہوتی ہے ایک کے اندر افاضہ کا فعل پایا جاتا ہے اور دوسرے کے اندر استفاضہ کا فعل پایا جاتا ہے یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تب کوئی نتیجہ پیدا ہوتا ہے اگر یہ دونوں آپس میں نہیںملیںگے تو کوئی نتیجہ پیدا نہیںہو گا۔ وہ شخص جس میں افاضہ کا مادہ نہیں اگر وہ کہے کہ مجھے کسی دوسرے سے فیض حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تو وہ نادان ہو گا ۔ اسی طرح جس میں استفاضہ کا مادہ نہیں وہ بھی بغیر کسی دوسرے وجود کے اپنی قوت افاضہ کا اظہار نہیں کر سکتا ۔ یہ افاضہ اور استفاضہ کی قوتیںآپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ اگر کسی قوم کے افراد یہ کہیں کہ ہم خود کام کر سکتے ہیں ہمیں کسی دوسرے کی راہنمائی یا مدد کی ضرورت نہیں ، کسی دوسرے کی قوت کے ہم محتاج نہیں ، ہمارے بازوئوں میںاتنی طاقت موجود ہے کہ ہم بغیر کسی کی مدد کے ترقی کی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں مگران میں افاضہ کی قوت نہ پائی جاتی ہو تو ان کے سب دعاوی باطل ہوںگے ۔ جب ان میںافاضہ کی قوت ہی نہیں تو وہ بغیر کسی راہنما کی مدد کے آگے بڑھ ہی کس طرح سکتے ہیں؟ وہ اگر ترقی کر سکتے ہیں تو اسی صورت میں کہ ان میں استفاضہ کی قوت ہو ۔ ان میں یہ مادہ ہو کہ وہ دوسرے سے فیوض حاصل کر سکیںکیونکہ ان کی حیثیت ری فلیکٹر کی سی ہے وہ اصل روشنی نہیں بلکہ ایک ائینہ انعکاس ہیں ۔ اگر اصل روشنی وہ اپنے آئینہ ظلّیت میں منعکس نہیں کریںگے تو سوائے تاریکی اور اندھیر ے کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔ بہر حال جس طرح نر اور مادہ کے باہمی اتصال سے نسل ترقی کرتی ہے اسی طرح قومیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب ایک راہنما ایسا موجو د ہو جو قوت افاضہ اپنے اندر رکھتا ہو اور قوم کے افراد ایسے ہوں جو قوت استفاضہ اپنے اندر رکھتے ہوں ۔ اللہ تعالی یہی مثال کفار کے سامنے پیش کرتا ہے اور انہیںبتاتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں تمہاری کوئی حیثیت ہی نہیں محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ ؓ کا باہمی جوڑ دنیا میں ایک زبردست نتیجہ پیدا کریگا کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ وہ ہیں جن میں قوتِ افاضہ کمال درجہ کی پائی جاتی ہے اور صحابہ کرام ٖؓ وہ ہیں جن میں قوتِ استفاضہ کامل طورپر پائی جاتی ہے ۔ وہ دونوں آپس میںمل بیٹھیں گے تو ایک نئی دنیا آباد کرنے کا باعث بنیں گے جس طرح مرد اور عورت آپس میں ملتے ہیں تو بچہ تولد ہوتا ہے اسی طرح رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کا روحانی تعلق ایک نئی آبادی کا پیش خیمہ ہے ۔ مگر اے مکہ والو! تم وہ ہو کہ نہ تم میںذکر کی قابلیت پائی جاتی ہے اور نہ اُنْثٰی کی قابلیت پائی جاتی ہے تم اسی طرح سوتے سوتے مر جائو گے تمہاری غفلتیں تم کو ڈبو دیںگی کیونکہ تم نر تو ہو نہیں اور نسوانی طاقتیں اپنے اندر پیدا نہیں کرتے گویا مخنث کی صورت بن رہے ہو ۔ تم آئندہ کس نیک انجام یا بھلائی کی امید کر سکتے ہو؟
لوگ کہتے ہیں کہ یہاں خنثٰی کا ذکر نہیں حالانکہ یہ اگر خنثٰی کا ذکر نہیں تو اور کیا ہے کہ محمد ﷺ میں افاضہ کی قوت ہے اور صحابہ میں استفاضہ کی قوت کامل طور پر پائی جاتی ہے ۔ مگر ا ے مکہ والو! تم میں نہ افاضہ کی قوت پائی جاتی ہے اور نہ استفاضہ کی ، اس لئے تم روحانی طور پر خنثٰی ہو ۔ نہ ذکر ہو نہ انثٰی ہو ۔ نہ تم میں نر کی قابلیت موجو د ہے کہ تم دوسروں کو نور پہنچا سکو اور نہ تم میں نسائیت پائی جاتی ہے کہ تم محمد ﷺ سے اکتساب ِ نور کر سکو ۔ پھر تم دنیا میں ترقی کس طرح کر سکتے ہو تم تو خنثٰی ہو اور خنثٰی کی نسل نہیں چلتی ۔ پس روحانی دنیا کے کامل آدم محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور روحانی دنیا کی کامل حوائیں صحابہ کرام ؓ ہیں اور خنثٰی مکہ کے منکرین ہیں ۔
اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی O ط
کہ تمہاری کوششیں یقینا مختلف ہیں ۔ ایت نمبر ۵
نمبر ۵ حل لغات ۔ شَتّٰی : ۔ اَشْیَاء ٌ شَتّٰی کے معنے ہوتے ہیں مُخْتَلِفَۃٌ ۔ مختلف اشیاء (اقرب)
تفسیر ۔ فرماتا ہے تمہاری اور مسلمانوں کی سعی آپس میں بڑا اختلاف رکھتی ہے ۔ تمہاری تمام سعی سونے کی تیاری میں ہے اور ان کی تمام سعی قومی بیداری اور ترقی کے لئے ہے ۔ تمہاری سعی تاریکی کے سردار شیطان کے حق میں ہے اور ان کی سعی خدا تعالی کے حق میں ہے جو خود نور اور نور کا پیدا کرنے والا ہے ۔ پھر تمہاری اور ان کی کوششوں کا نتیجہ ایک کس طرح ہو سکتا ہے ؟ تمہاری تمام سعی اس بات کے لئے وقف ہو رہی ہے کہ بستر بچھائو ۔ تکیہ لگائو اور لحاف رکھو تا کہ ہم سو جائیں اور صحابہ ؓ کی تمام سعی اب بات کے لئے وقف ہو رہی ہے کہ اٹھو ہل جو تو ، زمینوں میں بیج ڈالو، زمین کو پانی دو، اور کاشت کی اچھی طرح نگرانی کرو تا کہ اعلی درجہ کی فصل تیار ہو ۔ اب تم خود ہی سوچ لو کہ سونے والے کچھ کمایا کرتے ہیں یا جاگنے والے کمایاکرتے ہیں ؟ تم پر رات طاری ہے اور ان پر دن کی کیفیت طاری ہے جب تم دونوں کی کوششیں بالکل الگ الگ ہیں تو ان دونوںکا ایک نتیجہ کس طرح نکل سکتا ہے اور تم کس طرح خیال بھی کر سکتے ہو کہ رات کو سونے والوں اور دن کے وقت ہل جوتنے والوں کا ایک سا انجام ہو گا؟
دوسرے معنے اس آیت کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ تم خنثٰی ہو اور نر سے بھاگ رہے ہو مگر یہ انثٰی ہیں اور نر سے بھاگ نہیں رہے بلکہ اس سے تعلق پیدا کر رہے ہیں اب تم خود ہی سمجھ لو کہ تمہارے ہاں روحانی اولاد کس طرح پیدا ہو سکتی ہے؟ اولاد انہی دلہنوں کے ہاں پیدا ہوتی ہے جو دولہا کی طرف جاتی ہیں مگر جو دولہا سے بھاگ جائیں ان کے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی ۔ یہی حال محمد ﷺ اور آپ کے مخاطبین کا ہے ۔ محمد ﷺ کے صحابہؓ جانتے ہیں کہ ہم میں رجولیت والی طاقت نہیں بلکہ استفاضہ والی طاقت ہے اس لئے وہ اپنے روحانی دولہا کے پاس جاتے ہیں مگر تم میں وہ طاقت تو ہے نہیں کہ اپنے زور سے کوئی نتیجہ پیدا کر سکو ۔ صرف اللہ تعالی نے تم میں استفاضہ والی قوت رکھی ہے مگر تم میں اپنی شامتِ اعمال سے ایسی بیماری پیدا ہوچکی ہے کہ تم دولہا کو پہچانتی تک نہیں اور اس سے دور بھاگ رہی ہو ۔ تمہاری حالت لیل والی ہے اور ان کی نہار والی ۔ وہ انثٰی ہونے کے لحاظ سے وقت کے دولہا کی طرف جا رہے ہیں اور تم دولہا سے بھاگ رہے ہو اور جب تمہاری اور ان کی حالت میںاس قدر نمایا ں فرق ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا کہ تمہیںترقی حاصل ہو ، تمہارے ہاں بھی نورِ آسمانی کی پیدائش ہو اور تم بھی دنیا میں سر بلند ہو ؟روحانی ثمرات تو انہی سے پیدا ہوں گے تم سے نہیں ۔ اور آئندہ دنیا انہی دلہنوں سے آباد ہو گی جو دولہا کے ہاں جاتی ہیں ۔ ان سے آباد نہیں ہو سکتی جو دولہا کے قریب جانا پسند نہیں کرتیں ۔ تم مت خیال کرو کہ دنیا کی آئندہ ترقی میںتمہارا بھی کوئی حصہ ہو گا اب دنیا کی آبادی مسلمانوں کی وجہ سے ہو گی اور وہی قوم ترقی کرے گی جس پر دن چڑھا ہوا ہے اور جو قربانیوں سے کام لے رہی ہے ۔ تن آسانیوں کے لئے مرمٹنے والے وجود ان نعمتوں کو حاصل نہیں کر سکتے۔
اب اگلی آیت میں اللہ تعالی تاریکی اور روشنی کا فرق اور نسائیت کاملہ والی اور بانجھ کا فرق بتاتا ہے اور ایک مثال کے ذریعہ اس امر کو واضح کر تا ہے ۔
فَاَمَّا مَنْ عَعْٰی وَاتَّقٰی O لا وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی O لا فَسَنُیَسِّرُہ‘ لِلْیُسْرٰی O ط
پس جس نے (خد اکی راہ میں ) دیا اور تقویٰ (اختیار ) کیا ۔ اور نیک بات کی تصدیق کی اسے تو ہم ضرور آسانی (کے مواقع ) بہم پہنچا ئینگے ۔ ایت نمبر ۶
نمبر ۶ حل لغات ۔ یَسَّرَ الشَّیْ ئَ لِفُلَانٍ کے معنے ہوتے ہیںسَھَّلَہ‘ لَہ‘ ۔ اس کے لئے ا سامر کو آساں کر دیا (اقرب) پس نُیَسِّرُ کے معنے ہوں گے ۔ ہم آسان کر دیں گے ۔
تفسیر ۔ فرماتا ہے دن کی مثال اور نسائیت کاملہ والی قوم کی مثال اس شخص کی سی ہے جو (۱) اَعْطیٰ (۲) وَاتَّقٰی (۳) وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی کا مصداق ہو۔ یہاں ایک نہایت ہی لطیف مضمون بیان کیا گی ہے اَعْطٰی کے معنے ہوتے ہیں دوسرے کو دیا ۔ اور اِتَّقٰی کے معنے ہوتے ہیں پرہیز گاری اختیار کی ۔ پس اَعْطٰی میں عمل کی درستی کی طرف اشارہ ہے اور اِتَّقٰی میںجذبات کی درستی اور ان کی صحت کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی میںاچھی باتوں کی تصدیق کا ذکر ہے اور تصدیق کا تعلق انسانی فکر کے ساتھ ہوتا ہے پس عمل اور جذبات کی درستی کے ساتھ فکر کی درستی کا ذکر بھی شامل کر دیا اور اس طرح بتایا کہ ترقی کرنے والی قوم کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے عمل میں بھی صحت ہو، اس کے جذبات میں بھی صحت ہو اور اس کے افکار میںبھی صحت ہو ۔ اَعْطٰی میںعمل کی صحت کا ذکر ہے اِتَقٰی میںجذبات کی صحت کا ذکر ہے اور صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی میںافکار کی صحت کا ذکر ہے کیونکہ اَعْطٰی کے معنے ہوتے ہیں وہ دیتا ہے یعنی اس کا عمل صحیح ہے ۔ اِتَّقٰی کے معنے ہوتے ہیں وہ ہر بری بات سے ڈرتا ہے یعنی اس کے جذبات صحیح ہیں اور صَدَّقََ بِالْحُسْنٰی کے معنے ہیںوہ اچھی باتوں کی تصدیق کرتا ہے یعنی اس کے افکار صحیح ہیں ۔ یہاں تین اصلاحوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسانی تکمیل کے لئے یہ تینوںاصلاحیں ضروری ہیں۔ الفاظ مختصر ہیں مگر ان مختصر الفاظ میں علم النفس کا ایک نہایت اہم نکتہ بیان کیا گیا ہے اور بنی نوع انسان کے سامنے اس روشن حقیقت کو رکھا گیا ہے کہ عمل، جذبات اور فکر کی درستی سے ہی انسان پورے طور پر اچھا ہوتا ہے یعنی عمل صحیح ، احساس صحیح اور فکر صحیح۔ یہ تین کمالات جب تک کوئی قوم اپنے اندر پید انہیں کرلیتی وہ ترقی نہیںکر سکتی ۔ علم ِ کامل افکار کی درستی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، احساس ِ کامل جذبات کی درستی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور عمل ِ کامل اعمال کی درستی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ۔ یہ تین چیزیں ہیں جن سے کامیابی ہوتی ہے اگر علم ِ صحیح نہ ہو تو یہ لازمی بات ہے کہ اسکے جذبات بھی بگڑ جائیںگے اور ا س کا عمل بھی بگڑا ہوا ہو گا ۔ مثلاً پسا ہوا نمک اور میٹھا دونوں ہم شکل ہوتے ہیں اگر ہم کسی کو میٹھا دے دیں اور وہ اسے نمک سمجھ کر ہنڈیا میںڈال لے تو چونکہ اس کا علم صحیح نہیںہو گا نتیجہ بھی خراب ہی پیدا ہو گا ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ میٹھے کو نمک سمجھ کر ہنڈیا میں ڈال لے تو میٹھا نمک بن جائے ۔ غلط علم ہمیشہ غلط عمل اور غلط جذبات پیدا کیا کرتا ہے۔
بسا اوقات عورتیں آنکھ میں ڈالنے والی دوا یا مالش کرنے کی دوا بچوں کو غلطی سے پلا دیتی ہیں اور وہ ہلاک ہو جاتے ہیں یہ نہیں ہوتا کہ ان کے غلط علم کا کوئی غلط نتیجہ پیدا نہ ہو ۔ پس غلط علم غلط عمل اور غلط جذبات پیدا کرتا ہے ۔ فرض کرو کہ کسی شخص کا بچہ گم ہو جائے اور باوجود تلاش کے وہ اپنے ماں باپ کو نہ ملے لیکن ہو زندہ ، اور کسی نہ کسی طرح پل کر کسی اور شہر میںاپنا کاروبار شروع کر دے اور اتنا لمبا عرصہ اس علیحدگی پر گذر جائے کہ وہ اپنے باپ کی شکل تک بھول جائے اس کے بعد فرض کرو ایک دن اس کا باپ اسی شہر میں آجائے اور بوجہ غربت کے مزدوری شروع کر دے اور بیٹا مثلاً سفر پر جاتے ہوئے یا گھر بدلتے ہوئے یا سوداگھر پہنچانے کے لئے ایک مزدور کا محتاج ہو اور اس کی نظر اپنے باپ پر پڑے تو کیا اس کے دل میں محبت اور رقت کے جذبات پیدا ہو جائیں گے ؟ ہرگز نہیںبلکہ بوجہ غلط علم کے وہ اپنے باپ کو ایک مزدور کی شکل میں ہی دیکھے گا اور بے تکلفی سے کہہ دے گا او بڈھے ادھر آئو یہ سامان اٹھا کر فلاں جگہ تک لے چلو تم کو اتنے پیسے ملیںگے ۔ تو باوجود اس کے کہ حقیقت کے لحا ظ سے وہ جوان بیٹا ہو گا اور بڈھا اس کا باپ ہو گا لیکن چونکہ اسے علم نہیں ہو گا کہ یہ میرا باپ ہے بلکہ وہ اسے ایک مزدور سمجھ رہا ہو گا ۔ اس لئے اس کے دل میں کوئی جذبہ ہمدردی اپنے باپ کے متعلق پیدا نہیںہو گا وہ اس سے اسی طرح کام لے گا جس طرح ایک عام مزدورسے کام لیا جاتاہے پس غلط علم کے نتیجہ میں ہمیشہ غلط جذبات پیدا ہوتے ہیں اور غلط جذبات کے نتیجہ میںہمیشہ غلط عمل پیدا ہوتا ہے ۔ علم محرک ہے جذبات کا اور جذبات محرک ہیںعمل کے۔صحیح عمل تبھی پیدا ہو تا ہے جب جذبات اعلیٰ درجہ کے ہوں اور صحیح جذبات تبھی پیدا ہوتے ہیں جب علم اعلیٰ درجہ کا ہو ۔ صحیح جذبات کے بغیر اچھا عمل کبھی پیدا نہیں ہو سکتا ۔ ماں کی محبت کو دیکھ لو وہ کس طرح اپنے بچہ کے لئے مرتی چلی جاتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اگر کسی نوکر کو بیس گنا معاوضہ بھی دے دیا جائے تب بھی وہ کبھی اس طرح دن رات کام نہیں کر سکتا جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کے لئے تکلیف برداشت کرتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ نوکر جذبہ سے کام نہیں کرتا اس کاکام صرف فکر سے تعلق رکھتا ہے جذبات غائب ہوتے ہیں ۔ تو صحیح عمل کے لئے صحیح جذبات کی ضرورت ہوتی ہے اور صحیح جذبات کے لئے صحیح علم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مگر جب یہ تینوں چیزیںاکٹھی ہو جائیں تو پھر تو وہ قوم یا فرد جوان تینوں خوبیوں کو اپنے اندر پید ا کر لیتا ہے اپنی ذات میں کامل ہو جاتا ہے ۔ اَعْطٰی میں اللہ تعالی نے اعمال کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ روپیہ جمع نہیں کرتے ۔ اِتَّقٰی میں جذبات کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ بری باتوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے ۔ پہلی سورتوں میں یہ ذکر کیا تھا کہ کفار کی یہ عادت ہے کہ وہ روپیہ قومی ضروریات کے لئے خرچ نہیں کرتے بلکہ لغو باتوں میںاس کو ضائع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے ۔ یَقُوْلُ اَھْلَکْتُ مَا لًا لُّبَدًا (البلد ) وہ کہتا ہے میںنے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کی تردید کی تھی اور بتایا تھا کہ بے شک تم نے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا مگر قومی ضروریا ت کے لئے نہیں ، یتامیٰ اور مساکین کی خبر گیری کے لئے نہیں، غرباء کی ترقی کے لئے نہیں بلکہ اپنی عزت اور اپنے نام و نمود کے لئے۔ اس لئے تمہارا وہ مال خرچ کرنا مال کو برباد کرنا تھا ۔ گویا خرچ تو اس نے بھی کیا تھا مگر غلط طریق پر ۔ اسی طرح فرماتا تھا ۔ وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاکَ اَکْلًا لَّمًّا (الفجر ) تم اپنے باپ دادا کی جائیدادوں کو تباہ کر دیتے ہو ۔ غرض پہلی سورتوں میں بتایا ہے کہ کفار اپنا مال خرچ تو کرتے ہیں مگر صحیح مقامات پر خرچ نہیںکرتے اسراف میں اس کو ضائع کر دیتے ہیں اور جہاں خرچ کرنا ضروری ہوتا ہے وہاں بخل اور امساک سے کام لیتے ہیں۔ اب یہ بتا تا ہے کہ مومن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اَعْطٰی وہ دیتا ہے یعنی قومی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اور جب بھی کسی قربانی کی ضرورت ہو وہ فوراً اس کے لئے تیا ر ہو جاتا ہے ۔
یہاں یہ ایک نقطہ یاد رکھنے والا ہے کہ اللہ تعالی نے اَعْطَی الْمَالَ نہیں فرمایا بلکہ صرف اَعْطٰی کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ درحقیقت یہ عربی زبان کا کمال ہے جو کسی اور زبان کو حاصل نہیں کہ کسی جگہ مفعول حذف کر کے اور کسی جگہ الفاظ کو اضافتوں سے آزاد کر کے معانی میں وسعت پیدا کر دی جاتی ہے ۔ اگر اَعْطَی اَلْمَالَ فرماتا تو اس کے معنے صرف مال خرچ کرنے کے ہوتے مگر اب چونکہ صرف اَعْطٰی فرمایا ہے اس لئے اس کے معنے اَعْطَی اَلْمَالَ کے بھی ہو سکتے ہیںاَعْطَی اَلْعِلْمَ کے بھی ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح ہر ایسی چیز کے بھی ہو سکتے ہیں جو کسی کو دی جاسکتی ہے ۔ یہ ایسی ہے بات ہے جیسے قرآن کریم میںدوسرے مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے مِمَّا رَزَقْنَا ھُمْ یُنْفقُوْنَ ۔ (البقرہ ) ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے اس کا ایک حصہ وہ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرتے ہیں ۔ یہاں بھی اللہ تعالی نے عام رنگ میںانفاق کا ذکر کر کے اس کے معنوں کو وسیع کر دیا یعنی اس کے پاس مال ہو تو وہ مال تو خرچ کرتا ہے ، علم ہو تو علم خرچ کرتا ہے ، وقت ہو تو وقت خرچ کرتا ہے غرض جو کچھ اللہ تعالی نے اسے عطا کیا ہو وہ اسے لوگوں کی بھلائی کے لئے خرچ کرتا رہتا ہے ۔ اسی طرح اَعْطٰی میںاللہ تعالی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کیا دیتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ساری چیزیں جو ا س کو حاصل ہوں لوگوں کے لئے خرچ کرتا ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کو طاقت دی ہو تو وہ طاقت دیتا ہے ، وقت دیا ہو تو وقت دیتا ہے ۔ ہمارے ملک میں بھی وقت کے لئے دینے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، اسی طرح مال دیا ہو تو مال دیتا ہے ، اعلیٰ درجہ کے قویٰ عطا کئے ہوں تو ان سے ایسا کام لیتا ہے جو بنی نوع انسا ن کو فائدہ پہنچانے والا ہو ۔ غرض اَعْطٰی کہہ کر اللہ تعالی نے اس کے معنوں کو وسیع کر دیا ہے۔ پھر وَاتَّقٰی میںیہ بتایا کہ وہ جو کچھ کرتا ہے تقویٰ کے ماتحت کرتا ہے اور ڈرتا ہے کہ مَیںغلطی سے کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھوں جس سے لوگوں کو فائدہ کی بجائے نقصان پہنچ جائے ۔ اگر کوئی شخص کسی کو اتنا روپیہ دے دیتا ہے کہ وہ اسے عیاشی میںضائع کرنا شروع کر دیتاہے تو یہ اس روپیہ کا بالکل غلط استعمال ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ظالم کو طاقت پہنچادیتا ہے تویہ بھی اس قوت کا برمحل استعمال نہیںہو گا۔ اسی طرح اَعْطٰی کے ساتھ اللہ تعالی نے وَاتَّقٰی کے الفاظ کا اضافہ کیا اور بتایا کہ وہ دیتا تو ہے مگر ساتھ ہی ڈرتا ہے کہ میں کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھوں جس سے دنیا کی علمی یا عملی یا سیاسی یا عائلی حالت کو کوئی نقصان پہنچ جائے اور میں ثواب کی بجائے اللہ تعالی کی ناراضگی کا مورد بن جائوں۔
وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی میں یہ بتایا کہ وہ صرف اسی پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ وہ افکار کی درستی میں بھی لگا رہتا ہے ۔ صحیح عقائد اختیار کرنے کی جدوجہد کرتاہے اور کوشش کرتا ہے کہ بہتر سے بہتر عقیدہ کی تصدیق کرے ۔ گویا َصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیکہہ کر یہ بتایا کہ وہ علم کی زیادتی کی کوشش کرتا رہتا ہے حُسْنٰی کے معنے صرف اچھی چیز کے نہیں بلکہ نہایت اعلی درجہ کی چیز کے ہیں اور معنے یہ ہیں کہ وہ احسن سے احسن چیز کی تصدیق کرتا ہے یعنی اپنے علم کو کمال تک پہنچا دیتا ہے ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو ترتیب اوپر بتائی گئی ہے اس میں علم کو محرک جذبات بتایا گیا ہے اور جذبات کو محرک عمل قرا ردیا گیا ہے مگر یہاں عمل پہلے ہے جذبات کا ذکر بعد میں ہے اور فکر کا اس کے بعد میں ۔ گویا ترتیب بالکل الٹ ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ ترتیب اللہ تعالی نے درجہ کی بلندی کے اظہار کے لئے الٹ دی ہے چونکہ یہاں قومی مقابلے کا ذکر تھا جس میںعمل نمایا ں نظر آتا ہے اس لئے اسے پہلے ،اس کے محرک کو اس کے بعد اور اس کے محرک کو اس کے بعد رکھا گیا ہے ورنہ پیدائش کے لحاظ سے علم پہلے ہے جذبات دوسرے درجہ پر اور عمل تیسرے درجہ پر ۔ لیکن قومی مقابلہ میں جذبات اور علم دونوں چھپے ہوئے ہوتے ہیں ۔ صرف عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جو دوسروں کے سامنے آتی ہے ۔ یہاں چونکہ کفار اور مسلمانوں کا مقابلہ کیا گیا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں تمہارا اپنی کامیابی کے متعلق ادّعا بالکل لغو ہے ۔ جو خوبیاں مسلمانوں میںپائی جاتی ہیں وہ تم میں موجود ہی نہیں اس لئے یہ لازمی بات ہے کہ مسلمان کامیاب ہوں اور تم ان کے مقابلہ میںشکست کھائواس لئے یہاں عمل کا پہلے ذکر کیا گیا ہے ۔ اگر جذبات اور افکار کو پہلے پیش کیا جاتا تو وہ ان کی اہمیت کو تسلیم نہیں کر سکتے تھے مثلاً اگر یہ کہا جاتا کہ صحابہ ؓ کا علم تمہارے علم سے بہتر ہے تو وہ کہتے کہ یہ بالکل غلط ہے ہمارا علم ان سے ہزار درجہ بہتر ہے لیکن جب یہ کہا جاتا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو غریبوں کی خدمت کرتے ہیں اور تم وہ ہو جو غریبوں کے لئے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتے تو اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیںتھا پس چونکہ یہاں کفر کا مقابلہ تھا اس لئے اس مقابلہ کی اہمیت کے لحاظ سے عمل کا پہلے ذکر کیا گیا ہے ورنہ جہاں تک محرکات کا سوال ہے علم پہلے ہے جذبات بعدمیں اور عمل اس کے بعد ہے ۔ مگر جہاں تک برے اور بھلے کے مقابلہ کا سوال ہے سب سے پہلے لوگوں کے سامنے عمل آتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے وہ آسانی کے ساتھ اپنا اور مسلمانوں کا مقابلہ کر سکتے تھے اس غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالی نے یہاں ترتیب الٹ دی ہے ۔ عمل کا پہلے ذکر کیا ہے اور جذبات اور افکار کا بعد میں۔ کیونکہ کفار کو عمل کے ذکر سے ہی جھوٹا کیا جاسکتا تھا جذبات اور علم کے متعلق وہ سو سو حجتیں کر سکتے تھے۔
اس کے بعد فرماتا ہے جو شخص ان صفات کا حامل ہوفَسَنُیَسِّرُہ‘ لِلْیُسْرٰی ۔ ہم ایسے آدمی کو ضرور یُسْرٰی مہیا کر دیں گے ۔ اس جملہ کے دو معنے ہیں ایک تو یہ کہ اسے ایسے حالا ت میسر آجائیںگے جن سے وہ آسانی کے ساتھ غالب آسکے ۔ آسانی میسر آجانے کے یہی معنے ہواکرتے ہیں کہ افعال کے نتائج انسانی ارادوں کے مطابق نکلنے شروع ہو جائیںاور جب کسی کو اس کے ارادوں کے مطابق سامان میسر آجائیںتو اسے آسانی ہو جاتی ہے پس اس کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ ہم اس کے ہر کام میں آسانی پیدا کر دیں گے ۔ دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ہم رفتہ رفتہ اس پر نیک عمل کو آسا ن کر دیں گے یعنی عمل صالح پہلے بڑا گراں گزرتا تھا جب کسی سے کہا جاتا ہے کہ تم اپنے اعمال کو بھی درست کرو ، اپنے جذبات کو بھی درست کرو، اپنے افکارکو بھی درست کرو تو وہ گھبرا جاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ تو بڑا مشکل ہے مجھ سے یہ کام نہیں ہو سکے گا۔ مگر فرماتا ہے جب کوئی شخص اس راستہ پر چل پڑے اور ہمت کے ساتھ ان افعال کی بجا آوری میںمشغول ہو جائے تو ہمار ی سنت یہ ہے کہ ہم ان کاموں کی سرانجام دہی اس کے لئے آسان کر دیتے ہیں ۔ پھر ا س کی طبیعت پر کوئی بوجھ نہیں رہتا بلکہ وہ دلی خوشی اور بشاشت کے ساتھ ان کو بجا لاتا ہے ۔ پہلے دن جب کسی کو نماز پڑھنے کے لئے کہا جائے تو اسے بڑی مشکل نظر آتی ہے مگر رفتہ رفتہ اسے ایسی عادت ہو جاتی ہے کہ کسی ایک نماز کو چھوڑنا بھی اسے موت سے بدتر معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن ابتدائً انسان کے سامنے جب کوئی اہم عمل ِ صالح آتا ہے وہ گھبرا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا بجا لانا مشکل ہو گا مگر اللہ تعالی فرماتا ہے فَسَنُیَسِّرُہ‘ لِلْیُسْرٰی حقیقت یہ ہے کہ اصل میں آسان عمل ِ صالح ہے اور مشکل چیز برائی ہے ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُراٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر ۱ : ۸) ہم نے قرآن کو ہدایت کے لئے بالکل آسان بنا دیا ہے کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں جو اس نسخہ کو استعمال کرے اور اپنے رب کو راضی کر لے۔ اصل یُسْرٰی خدائی تعلیم ہے جس سے انسان کی روح کوترقی حاصل ہوتی ہے مگر پہلے عُسْرٰی نظر آتی ہے اور انسان اس پر عمل کرنے سے گھبراتا ہے اس لئے فرمایا کہ صحابہ کرام جو محمد رسول اللہﷺ کی قوت روحانیہ سے استفاضہ حاصل کریںگے ہم ان کے لئے بظاہر مشکل نظر آنے والے اعمال ِ صالحہ کو آسان کر دیں گے اور ان کی طبائع میں ان اعمال کی طرف خاص رغبت پیدا ہو جائے گی ۔ کیونکہ جو شخص علم صحیح اور جذبات صحیح اور عمل صحیح سے کام لیتا ہے اس کی نظر کی غلطی کو درست کر دیا جا تا ہے اس وجہ سے اسے ان کاموں میںلذت اور سرور محسوس ہونے لگتا ہے جو دوسروں کو مشکل نظر آتے ہیں۔
وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی O وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی O فَسَنُیَسِّرُہ‘ لِلْعُسْرٰی O
اور ایسا( شخص )جس نے بخل سے کام لیا اور بے پرواہی کا اظہار کیا اور نیک بات کو جھٹلایا اسے ہم تکلیف (کا سامان ) بہم پہنچائیں گے نمبر ۷
نمبر ۷ تفسیر ۔ پہلی آیات کے بالمقابل ان آیات میں بھی تین باتیں بیان کی گئی ہیں۔ بَخِلَ ، اَعْطیٰ کے مقابلہ میں رکھا گیا ہے اور اِسْتَغْنیٰ ، اِتَّقٰی کے مقابلہ میں ۔ کیونکہ اِتَّقٰی کے معنے ہیں خدا تعالی سے ڈرنا کہ وہ کسی غلطی کی وجہ سے مجھ سے خفا نہ ہو جائے اور اِسْتَغْنٰی کے معنے ہیں بے پرواہ ہو جانا یعنی انسان کا یہ کہنا کہ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ خدا مجھ سے خفا ہوتا ہے یا نہیں۔ چونکہ اس قسم کا استغناء تقویٰ کے خلاف ہوتا ہے اس لئے اِتَّقٰی کے مقابلہ میں اِسْتَغْنٰے کا لفظ رکھا گیا ہے ۔ تیسری بات مسلمانوں کے متعلق یہ بیان کی گئی تھی کہ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی ۔ اس کے مقابلہ میں کفار کی نسبت کَذَّبَ بِالْحُسْنٰی کا ذکر کر دیا کہ وہ اچھی باتوں کا انکار کرتے ہیں ۔ غرض یہ تینوں باتیں پہلی تین چیزوں کے مقابل میں رکھی گئی ہیں۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ وہ شخص جو بخل کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے مال دیا ہے ، عزت دی ہے ، طاقت دی ہے ، وقت دیا ہے مگر وہ ان میں سے کسی چیز کو بھی خدا تعالی کی راہ میں خرچ نہیں کرتا اور پھر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مجھے کسی کی پرواہ نہیں میرا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے ۔ یہ الفاظ عام طور پر گندی طبیعت کے لوگ استعمال کیا کرتے ہیں جب انہیںکسی برائی سے روکا جائے تو وہ کہتے ہیں ہمیں کسی کی پرواہ نہیں ،کوئی شخص ہمار اکیا بگاڑ لے گا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے جو شخص بخل کے ساتھ یہ گند بھی اپنی طبیعت میں رکھتا ہے وَکَذَّبَ بالْحُسْنٰی اور پھر اس کا فکر بھی غلط ہے وہ دنیا میںکیا ترقی کر سکتا ہے ۔ طبیعت میں استغناء کا ہونا بتاتا ہے کہ صحیح جذبات مفقود ہیں کیونکہ جذبات ِ صحیحہ محبت پیدا کیا کرتے ہیں استغناء پیدا نہیں کیا کرتے ۔ بچہ مرنے لگتا ہے تو ماں نہیں کہتی بے شک مرے مجھے اس کی پرواہ نہیںلیکن نوکر بعض دفعہ یہ الفاظ کہہ دیتا ہے کیونکہ اس کے جذبات اور رنگ کے ہوتے ہیں ۔ بہرحال صحیح جذبات کا نہ ہونا استغناء پیدا کرتا ہے ، صحیح عمل کا نہ ہونا بخل پیدا کرتا ہے اور صحیح فکر کا نہ ہونا تکذیب پیدا کرتا ہے ۔ جس طرح پہلی آیات میں یہ بتاتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں غلط علم ، غلط جذبات اور غلط فکر پایا جاتاہے اور چونکہ یہ دونوںمثالیںمسلمانوں اور کفار کی ہیں اس لئے اللہ تعالی ان امور کا ذکر کرتے ہوئے کفار کو بتاتا ہے کہ تم میںجب یہ یہ نقائص پائے جاتے ہیںاور مسلمانوں میں اس کے مقابلہ میں بہت بڑی خوبیاں پائی جاتی ہیںتو تم ان کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہو؟ ان کے کاموں کا نتیجہ تو یہ ہوگا کہ ہم ان کے لئے یُسْرٰی مہیا کر دیںگے مگر تمہارے کاموں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم تمہارے لئے عُسْرٰی مہیا کر دیںگے ۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے سارے کام بگڑتے چلے جائیںگے جس کام کو بھی ہاتھ لگائو گے خراب ہو جائے گا ۔ اور یا پھر یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ان اعمال کے نتیجہ میںتمہارے لئے نیکی کا حصول زیادہ سے زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ اصل کام اعمال ِ صالح ہی ہیں ان اعمال سے انسان جتنا دور ہوتا چلا جاتا ہے اتنا ہی نیکی کی طرف لوٹنا اس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے گویا دو باتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ نیکی کا حصول مشکل ہو جائے گادوسرے یہ کہ تم جو کام بھی کرو گے اسی کا نتیجہ الٹ ہو گا کیونکہ تمہارے عمل میں خرابی پیدا ہو چکی ہے ، تمہارے اندر بے پرواہی ہے جو جذبات کے فقدان اور ان کی خرابی کی دلیل ہے اور پھر تمہارے اندر تکذیب پائی جاتی ہے جو ذہن و فکر کی نادرستی اور غلط علم کا ثبوت ہے ۔ یہ ساری باتیں مل کر تمہاری ہلاکت اور بربادی کا موجب بن جائیں گی۔
وَمَا یُغْنِیْ عَنْہُ مَا لُہ‘ اِذَاتَرَدّٰیOط
اور جب وہ ہلاک ہو گا تو اس کا مال اسے کوئی فائدہ نہ پہنچائے گا۔ آیت نمبر ۸
نمبر ۸ حل لغات تَرَدّٰی فِی الْھُوَّۃ کے معنے ہیں سَقَطَ فِیْھَا ۔وہ گڑھے میں گر گیا(اقرب) مفردات میں ہے کہ اَلتَّرَدِّیْ کے معنے ہیں التَّعَرُّضُ لِلْھَلَا کِ اپنے آپ کو ہلاکت کے لئے پیش کرنا (مفردات) پس تَرَدّٰی کے معنے ہوں گے۔ گر گیا (۲) ہلاکت کے سامنے ہوا۔
تفسیر ۔ فرماتاہے جب مذکورہ بالا صفات والا گروہ ہلاک ہونے کے قریب پہنچے گا یا اپنے مقام سے گر جائے گا تو اسے اس کا مال کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا ۔ جب تک عزت حاصل ہے وہ بے شک فخر کر لے لیکن جب تنزل کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہلاکت قریب آگئی اس وقت کوئی چیز اس کے کام نہیں آئے گی ۔ اس وقت وہ اچھے کام بھی کریگا تو ان کا کوئی نتیجہ پید انہیں ہو گا کیونکہ عذاب کی ساعت سر پر کھڑی ہو گی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک خدا تعالی کی طرف سے ہلاکت کا فیصلہ نہ ہو اس وقت تک مال ، دولت اور عزت پر چیز انسان کے کام آجاتی ہے لیکن جب تباہی کا فیصلہ ہو جائے تو پھر کوئی چیز کام نہیںآتی ۔ انسان مال خرچ کرتاہے تو الٹا نتیجہ پیدا ہوتا ہے ، رحم کرتا ہے تو الٹا نتیجہ پیدا ہوتا ہے ۔ نہ دولت کام آتی ہے نہ عزت کام آتی ہے نہ نرمی اور محبت کام آتی ہے ۔ پہلے اگر وہ صدقہ کرتا ہے تو لوگ اس کی قدر کرتے ہیں مگر پھر وہ صدقہ کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں اب ہمیںرشوت دے رہا ہے ۔ پہلے نرمی کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں حسن ِ اخلاق سے کام لے رہا ہے پھر اس وقت نرمی کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ ہماری منتیں کر رہا ہے ۔ گویا سارے حالات ا س کے مخالف ہو جاتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں رہتی جو ا سکو فائدہ پہنچا سکے۔
غرض فرمایا وَمَا یُغْنِیْ عَنْہُ مَا لُہ‘ اِذَاتَرَدّٰی ۔ جب اس کی ہلاکت کا وقت آجائے گا تو اس وقت وہ وہی کام کرے گا جو ہم اب اسے کرنے کو کہتے ہیںمگر یہ نہیں کرتا ۔ لیکن اس وقت ان کاموں کا الٹا نتیجہ پیدا ہو گا مال دے گا تو لوگ کہیں گے ہمیں رشوت دیتا ہے ۔ نرمی سے بولے گا تو لوگ کہیںگے ہماری خوشامد کرتا ہے ۔
ایت نمبر ۹ ، ۱۰
اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی O وَ اِنَّ لَنَا لَلْاٰخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی O
ہدایت دینا یقینا ہمار ے ہی ذمہ ہے ۔ اور ہر بات کی انتہا اور ابتداء بھی یقینا ہمارے ہی اختیار میں ہے ۔ ۹ ، ۱۰
نمبر ۹ تفسیر ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دوسروںکو فائدہ پہنچانا ، تقوی اللہ اختیار کرنا اور اچھی باتوں کی تصدیق کرنا یہ ان اعمال میں سے ہیں جو قوموں کو ترقی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور بخل سے کام لینا ، استغنٰی ظاہر کرنا اور سچی باتوں کی تکذیب میں حصہ لینا یہ ان اعمال میںسے ہیںجو قوموں کو ہلاکت کے گڑھے میںگرا دیتے ہیںمگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریک رات کے مارے ہوئے لوگوں کو خدا تعالی ہی ہدایت دے سکتا ہے ۔ اِنَّ عَلَیْنَا کے معنے ہیں ۔ ہم پر واجب ہے یا ہمارا ہی یہ کام ہے یعنی بنی نوع انسان سے بوجہ حقیقی شفقت اور مہربانی رکھنے کے یہ ہمارا ہی کام ہے کہ ہم ان کو ہدایت دیں انسان کا کام نہیں کہ وہ اپنے لئے آپ ہدایت تجویز کر لے کیونکہ بسا اوقات انسان اپنے نفس کے متعلق ایک فیصلہ کر تا ہے اور وہ غلط ہوتا ہے۔ بخیل اپنے متعلق فیصلہ کرتا ہے اور وہ غلط ہوتا ہے ۔ ظالم اپنے متعلق فیصلہ کرتاہے اور وہ غلط ہوتا ہے ۔ جاہل اپنے متعلق ایک فیصلہ کرتا ہے اور وہ غلط ہوتا ہے ۔ پس خواہ وہ اپنے متعلق خود ہی کوئی فیصلہ کر لیتے پھر بھی وہ اپنے نفس کے اتنے خیر خواہ نہیں ہو سکتے جتنے ہم ان کے خیر خواہ ہیں ۔ اس لئے باوجود اس کے کہ وہ انکار کرتے ہیں ، مخالفتیں کرتے ہیں ، گالیاں دیتے ہیں ، مومنوں کو تکالیف پہنچاتے ہیںپھر بھی ہم ان کو ہدایت دیتے چلے جاتے ہیںکیونکہ ہم انسان کو پید اکرنے والے ہیں ، ہم مشفق اور مہربان ہیں ، ہم رحمن اور رحیم ہیں، ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہیںاور باوجود ان کے انکار کے انہیں ہدایت دیتے چلے جاتے ہیں۔
نمبر ۱۰ تفسیر ۔ اس آیت میں اللہ تعالی کفار کو بتاتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ تمہاری راہ میں وہ کونسی مشکلات ہیں جن کی بناء پر تم سچائی کو قبول نہیں کرتے۔ تمہارے لئے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ تم دنیا چھوڑنے کے لئے تیار نہیںہو۔ تم دیکھتے ہو کہ مسلمان اپنے مال کی پرواہ نہیں کرتے ۔ جب بھی کوئی قومی اور ملی ضرورت پیش آتی ہے وہ اپنے اموال کو بلا دریغ قربان کر دیتے ہیں مگر تم اپنے اموال کو سنبھال سنبھال کر رکھتے ہو اسی لئے تم مسلمانوں کے متعلق کہتے ہو کہ وہ پاگل ہیں تباہ اور برباد ہو جائیں گے کیونکہ وہ اپنے اموال کو ضائع کر رہے ہیں۔ لیکن ہم تباہ نہیں ہو سکتے کیونکہ ہم اپنے مال کو حفاظت سے رکھتے ہیں ۔ فرماتا ہے یہ خیال ہے جو تمہار ے دلوں میںپایا جاتا ہے مگر تمہیں اس حقیقت کا علم نہیں کہ ہمارے پاس ہی آخرت ہے اور ہمارے پاس ہی دنیا ہے ۔ تم دنیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہیںدنیا بھی نہیںملے گی اوردین بھی تمہارے ہاتھ سے چلا جائے گا کیونکہ دنیا بھی ہمارے پاس ہے اور آخرت بھی ہمارے پاس ہے اس کے مقابلہ میںیہ مسلمان دنیا کو چھوڑ رہے ہیں مگر ہم انہیں آخرت بھی دیں گے اور دنیا بھی دیں گے ۔ تم سمجھ رہے ہو کہ یہ اپنا نقصان کر رہے ہیں مگر یہ نقصان نہیںکر رہے جب یہ ہمارے پاس پہنچیںگے تو جس چیز کو چھوڑ کر یہ لوگ چلے تھے وہ وہیں کھڑی ہو گی اور یہ اس کو حاصل کر لیں گے ۔ تم جانتے ہو کہ یہ لوگ ہمارے پاس آرہے ہیں جب یہ ہمارے پا س آرہے ہیں تو گو اس نیت اور ارادہ سے آرہے ہیں کہ ہمیںآخرت ملے گی مگر چونکہ دنیا بھی ہمارے پا س ہو گی اس لئے وہ بھی ان کو مل جائے گی اور تم لوگ آخرت چھوڑ کر دنیا کے پاس جا رہے ہو اور چونکہ دنیا ہمارے پاس ہے اور تم ہماری طرف نہیں آرہے اس لئے تمہاری جد وجہد کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا بھی تمہارے ہاتھ سے جائے گی اور آخرت کی نعمتوں سے بھی تم محروم ہو جائو گے ۔ گویا کفار کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کسی شخص کے پاس بہت سا مال و اسباب تھا اور وہ اکیلا سفر کررہا تھا ایک چور نے اسے دیکھا تو اس نے ارادہ کیا کہ میں کسی طرح اس کا مال اڑائوں آخر سوچنے کے بعد اس نے یہ تجویز نکالی کہ ایک نیا اور اعلیٰ جوتا رستہ میں پھینک دیا اور خود ایک طرف چھپ گیا ۔ جب وہ شخص جوتے کے پاس پہنچا تو اسے بڑا پسند آیا اور اس نے اسے اٹھا لیا مگر پھر خیال آیا کہ میں نے ایک جوتا کیا کرنا ہے اگر دوسرا جوتا بھی ساتھ ہوتا تو کام بھی آتا صرف ایک جوتا کیا کام دے سکتا ہے چنانچہ وہ اسے وہیں چھوڑ کر آگے چل پڑا ۔ کچھ دور آگے جا کر چور نے دوسرا جوتا پھینکا ہوا تھا جب وہ وہاں پہنچا تو اسے اپنی بے وقوفی پر افسوس آیا او ر اس نے کہا کہ مجھ سے کیسی سخت غلطی ہوئی کہ میں وہ جوتا اسی جگہ چھوڑ آیا اگر میںچھوڑ کرنہ آتا تو مکمل جوتا بن جاتا ۔ اس خیال کے آنے پر اس نے اسباب وہیں رکھا اور جوتا لینے کے لئے واپس چل پڑا ۔ چور کو موقع مل گیا اور اس نے اسباب بھی اٹھا لیا اور جوتا بھی ۔ جب وہ واپس گیا تو دیکھا کہ وہاں جوتا نہیںکیونکہ وہ جوتا چور اٹھا کر لے آیا تھا ۔ اب یہ پھر خالی ہاتھ اپنے اسباب کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہاںاسباب بھی نہیں اور جوتا بھی غائب ہے۔
یہی کافر کی حالت ہوتی ہے وہ آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی طرف جاتا ہے لیکن آخرت تو اس کے ہاتھ سے نکل ہی چکی تھی دنیا بھی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے کیونکہ دنیا خدا تعالی کے پاس ہوتی ہے اور وہ اس راستہ پر چل رہا ہوتا ہے جو شیطان کی طرف جاتا ہے ۔ ادھر مومن کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو چھوڑ کرآخرت کی طرف جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے دنیا کی ضرورت نہیں مجھے صرف آخرت کی ضرورت ہے ۔ مگر جب خد اتعالی کے پاس پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ دنیا اس کے پیچھے پیچھے چلی آرہی تھی اور وہ آخرت کے ساتھ کھڑی ہے ۔ اب جب کافر دنیا کے پا س جاتا ہے تو وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا نہ آخرت ہوتی ہے نہ دنیا ہوتی ہے پس فرماتا ہے وہ ہمارے پاس آئے تو اخرت کی تلاش میں تھے مگر جب وہ ہمارے پاس پہنچے تو انہوں نے اولیٰ کو بھی وہیں کھڑے پایا۔
نمبر ۱۱ حل لغات ۔ تَلَظّٰی اصل میں تَتَلَظّٰی ہے مگر تاء گر گئی ہے اور تَلَظّٰتِ النّٰارُ کے معنی ہیںتَلَھَّبَتْ۔ آگ بھڑک اٹھی (اقرب)
تفسیر۔ کَذَّبَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ صحیح اعتقاد نہیں رکھتا اور تَوَلّٰی میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ صحیح جذبات اور صحیح عمل سے کام نہیںلیتا تھا۔ پس چونکہ فکری ، جذباتی اور عملی تینوں خرابیاں اس میں پائی جاتی تھیںاس لئے اس کا انجام اچھا نہ ہوا ۔ کَذَّبَ کا لفظ اعتقادی خرابیوں کے لئے آیا ہے اور تَوَلّٰی کا لفظ جذبات اور اعمال کی خرابی پر دلالت کرتا ہے ۔
نمبر ۱۲ تفسیر ۔ وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقٰی سے یہ مراد نہیںکہ صرف ایسا شخص ہی دوزخ کی آگ سے بچایا جائے گا جو بہت متقی ہو۔ معمولی درجہ کا مومن نہیں بچایا جائے گا ۔ کیونکہ یہاں تقویٰ کا تقویٰ سے مقابلہ نہیں بلکہ تقویٰ اور کفر کا مقابلہ ہے ۔ پس اس آیت کے یہ معنے نہیں کہ متقیوں میںسے زیادہ نیک بچایا جائے گا بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ تم بھی اپنے متعلق کہتے ہو کہ ہم میں تقویٰ پایا جاتا ہے اور مومن بھی اپنے متعلق کہتے ہیں کہ ہم میں تقویٰ پایا جاتا ہے اب ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ان کا تقویٰ صحیح ہے لیکن تمہارا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ تم میں تقویٰ پایا جاتا ہے گویا یہاں مومنوں کے تقویٰ کا کفار کے خیالی تقویٰ سے مقابلہ کیا گیا ہے ورنہ یہ معنے نہیں کہ سب سے اعلیٰ متقی تو بہشت میں جائے گا اور ادنیٰ درجہ کا مومن اور متقی بہشت سے محروم رہینگے ۔ ایسے معنے کرنے قرآن کریم کی ان آیات کے بالکل خلاف ہیں جن میں اللہ تعالی نے صاف طور پر یہ فرمایا ہے کہ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہ‘ (الزلزال) جو شخص ایک ذرہ

نمبر ۱۱ تفسیر ۔ اس آیت میں اللہ تعالی اَتْقٰی کی تشریح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ کون سے فرماتا ہے اَتْقٰی وہ ہے جو اپنا مال اس نیت اور ارادہ سے دیتا ہے کہ میں پاک ہو جائوں ۔ یُوْتِیْ …… ۔ کہ وہ اپنا مال دیتا ہے ایسی حالت میں کہ وہ پاک ہونا چاہتا ہے ۔ دوسری بات اس میںیہ ہوتی ہے کہ وَمَا …… کسی شخص کا اس پر کوئی احسان نہیں ہوتا کسی کی نعمت میں سے کوئی نعمت اس کے پاس نہیں ہوتی یعنی کسی کا سابق احسان اس پر نہیں ہوتا جس کا وہ بدلہ دے رہا ہو ۔ اس کے اعمال کی یہ غرض نہیں ہوتی کہ میں کسی کا احسان اتاروں بلکہ وہ ایسے اعمال کرتا ہے جن سے اس کا دوسروں پر احسان ہوجاتا ہے گویا وہ یہ تو چاہتا ہے کہ اس کا کسی نہ کسی رنگ میںدوسروں پر احسان ہو مگر وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس پر کسی کا احسان ہو ۔
نمبر ۱۲ حل لغات ۔ اَلْوَجْہُ کے معنے ہیں اَلْمَرْضَا ۃُ ۔ رضا مندی (اقرب)
تفسیر ۔ مومن کہ علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اموال اس رنگ میں خرچ کرتا ہے کہ اس پر کسی کا احسان نہیں ہوتا جس کا وہ بدلہ اتار رہا ہو بلکہ بغیر اس کے کہ اس پر کسی کا سابق احسان ہو وہ اپنے رب کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے صدقہ و خیرات کرتا یا بنی نوع انسان کی امداد کے لئے اپنا روپیہ صرف کرتا ہے ۔ یہاں رب کی صفت اعلیٰ بیان فرمائی ہے جو سب سے بڑا ہے اس سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بیشک انسانوں پر دوسرے انسانوں کے بھی احسان ہوتے ہیں لیکن چونکہ اصل محسن اللہ تعالی ہے اور سب سے زیادہ وہی مربیّ ہے اس لئے مومن اس کی رضا کو سب دوسرے محسنوں کی رضاء پر مقدم کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالی کی خوشنودی کے لئے کام کیا تو چونکہ سب احسانوں کا منبع وہ ہے اس لئے سارے ہی محسنوں کا بدلہ بھی اتر گیا ۔
نمبر ۱۳ تفسیر ۔ فرماتا ہے جب ایک شخص اپنے اموال خرچ کرتا ہے اور اس کے مدنظر محض خدا تعالی کی رضامندی ہوتی ہے یہ غرض نہیں ہوتی کہ وہ کسی سابق احسان کا بدلہ اتارے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ تو میری رضاء کے لئے اس قدر جدوجہد کرے اور میں اس سے راضی نہ ہوں ۔ جب وہ خد اکی رضاء کے لئے ایسا کر رہا ہے تو یقینا خدا بھی اس سے راضی ہو جائے گا۔ جب ایک کمزور اور ناتواں بندہ دنیا سے اپنی توجہات ہٹا کر محض خدا تعالی کی رضاء کے لئے اپنے اموال کو قربان کر رہا ہو تو خدا تعالی کی شان سے یہ بالکل بعید ہوتا ہے کہ وہ اسے اپنی رضاء کی خلعت ِ فاخرہ نہ پہنائے اور اسے اپنے پیاروں میںشامل نہ کر لے ایسا شخص یقینا اپنے مقصد کو حاصل کر لیتا اور خدا تعالی کی رضا ء کا ایک دن وارث ہو جاتا ہے کیونکہ وہ دنیا کے طریق اور اس کے معمول کے خلاف اپنی قربانی کا لوگوں سے کوئی معاوضہ طلب نہیںکرتا ۔ دنیا میں لوگ قربانیاں کرتے ہیں تو اس لئے کہ انہیں عہدے مل جائیں یا افسران بالا کی خوشنودی ان کو حاصل ہو جائے یا ان کی تنخواہ میںاضافہ ہو جائے یا پبلک میں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے مگر یہ وہ شخص ہوتاہے جو ہر قسم کی دنیوی غرض سے اپنے دل کو صاف کر دیتا ہے وہ یہ نہیں چاہتا کہ لوگ میری تعریف کریں یا میرے کاموں پر واہ واہ کے نعرے بلند کریں یا مجھے پبلک میں کوئی خاص عزت دی جائے وہ صرف اپنے رب کی رضا ء کا بھوکا ہوتا ہے اوراس کے مد نظر محض یہ بات ہوتی ہے کہ جس طرح میںدوسروں کا خیال رکھتا ہوں اسی طرح اللہ تعالی میرا خیال رکھے اور وہ میرے گناہوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے مجھ سے راضی ہو جائے ۔ اللہ تعالی فرماتاہے جب وہ دنیا کے تمام دروازوں کو چھوڑ کر میرے دروازہ پر آگرا ہے اور ہر قسم کی خوشنودیوں کو اس نے محض میری خوشنودی کے لئے ترک کر دیا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں اس کا خیال نہ رکھوں ، جس طرح اس نے اِبْتِغَائً لِوَجْہِ اللہ اپنے اموال کی قربانی کی ہے اسی طرح میں اس پر راضی ہو جائوں گا اور اسے اپنے قرب میںجگہ دونگا۔
وَلَسَوْفَ یَرْضٰی میںوہی بات بیان کی گئی ہے جو یَآاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِی اِلَی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً میں بیان کی گئی تھی ۔ صرف یہ فرق ہے کہ وہاں رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً کے الفا ظ تھے اور یہاں یہ الفاظ ہیں کہ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی ۔ ورنہ مفہوم اور معنی کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ بندے کی خواہش یہ تھی کہ میرا خدا مجھ سے راضی ہو جائے گویا بندے کا راضی ہونا اس پر منحصر تھا کہ اس کا خدا تعالی اس سے راضی ہو جائے وَلَسَوْفَ یَرْضٰی نے بتا دیا کہ وہ مَرْضِیَّۃ بن جائے گا یعنی خدا اس سے راضی ہو جائے گا اور چونکہ بندہ کی خواہش تھی اس لئے خدا تعالی کے راضی ہونے کے بعد یہ بھی راضی ہو جائے گا اور جب یہ مقام اسے حاصل ہو جائے گا تو پھر یہ بھی یقینی بات ہے کہ وہ فَادْخُلِیْ فِیْ ……… کابھی مستحق ہو جائے گا اور جس شخص کو جنت حاصل ہو جائے وہ ہر قسم کی مکروہات سے امن میں آجاتا ہے ۔
غرض اس سورۃ کا اختتام اللہ تعالی نے اس بات پر فرمایا ہے کہ مسلمان دنیا میں کامیاب ہونگے لیکن کفار باوجود اپنی شدید مخالفت کے کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکیںگے ۔ مسلمانوں کی محنت اور ان کی قربانیاں اور کفار کی سستی اور ان کا قربانیوں میں حصہ نہ لینا ، مسلمانوں کے اندر افاضہ استفاضہ دونوں قوتوں کا موجود ہونا اور کفار کے اندر افاضہ کی قوت کا نہ ہونا اور استفاضہ کی قوت سے کام نہ لینا ان دونوں کا ایک نتیجہ نہیں نکل سکتا کیونکہ کفار اور مسلمانوں کے کام بالکل الگ الگ ہیں ۔ مسلمانوں کے کاموں سے خدا راضی ہو جائیگا لیکن کفار کے کاموں سے نہیں ۔ یہاں گو الٹ نتیجہ اللہ تعالی نے بیان نہیں کیا مگر وہ نتیجہ خودبخود نکل آتا ہے کہ کفار کو ان کے کاموں کے نتیجہ میں خدا تعالی کی رضاء حاصل نہیں ہو گی اور وہ اس کے غضب کا نشانہ بن کر تباہ و برباد ہو جائیں گے ۔


سورۃ الضحیٰ
۱؎ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نَزَ لَتْ بِمَکَّۃَ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی تھی ۔ بعض کہتے ہیں فرّۃ الوحی کے بعد یہ سورۃ نازل ہوئی تھی اس لئے رسول کریم ﷺ جب یہ سورۃ پڑھتے یا اس کی تلاوت سنتے تو اس وقت تکبیر کہنے کا حکم دیتے ۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ آپ صرف اتنا کہتے کہ اللّٰہُ اَکْبَرْ کہو لیکن بعض دوسری روایات میںیہ آیا ہے کہ آپ اللّٰہُ اَکْبَر لَآاِ لٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اللّٰہُ اَکْبَر فرمایا کرتے تھے ۔
بخاری میںروایت ہے کہ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ بیمار ہوئے اور تہجد کے لئے نہ اٹھے دو تین راتیں اسی طرح گذر گئیں اس پر ایک ہمسایہ مخالف عورت آئی اور رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے کہنے لگی معلوم ہوتاہے تیرے شیطان نے (نعوذ باللہ ) تجھے چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ دو تین رات سے تیرے پاس نہیں آیا ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تہجد کے وقت آپ بلند آواز سے تلاوت کیا کرتے تھے اور وہ اپنے خیال میں یہ سمجھتی تھی کہ آپ جو قرآن پڑھ رہے ہیں یہ درحقیقت کوئی سکھانے والا آپ کو سکھا رہا ہے جب بیماری کی وجہ سے آپ نہ اٹھے اور دو تین راتیں اسی حالت میں گذر گئیں تو اس نے قیاس کیا کہ نعوذ باللہ آپ کو جو شخص سکھاتا تھا یا جو روح سکھاتی تھی اس نے آپ کو چھوڑ دیا ہے اس پر سورۃ الضحیٰ نازل ہوئی ۔
جندب ؓ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل کچھ عرصہ تک وحی لے کر نہ اترے اس پر کفار نے کہا قَدْ وُدِّعَ مُحَمَّدٌ (صلعم) محمد ﷺ پر جو بھی کلام اترتا تھا اس کا اترنا اب بند ہو گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے چھوڑ دیا گیا ہیفَنََزَ لَتْ مَا وَدَّ عَکَ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ وَالضُّحیٰ وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی O مَا وَدَّ عَکَ رَبُّکَ وَ ماَقَلیٰ ۔
جندبؓ سے ہی ایک دوسری روایت ہے کہ ایک دفعہ کچھ عرصہ تک وحی بند رہی تو آپ کی ایک چچیری بہن نے کہا مَا اَریٰ …… کہ میرا تو یہ خیال ہے کہ تمہارا صاحب تم سے خفا ہو گیا ہے اس نے صاحب کا لفظ اس لئے بولا کہ جو لوگ خدا کو اس کلام کا نازل کرنے والا قرار دیتے ہیں وہ اس سے خدا مراد لے لیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شیطان آپ پر یہ کلام نازل کرتا ہے وہ اس سے شیطان مراد لے لیں ۔ بہرحال اس نے کہا جو بھی کلام نازل کیا کرتاتھا خواہ وہ خدا تھا یا شیطان معلوم ہوتا ہے وہ اب تم سے خفا ہو گیا ہے اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی ۔
یہ مختلف روایات ہیں جو اس سورۃ کے نزول کے متعلق بیان کی جاتی ہیں ۔ ایک میں آتا ہے کہ ایک ہمسائی نے آکر کہا ۔ ایک میںآتا ہے کہ لوگوں میں یہ چرچا ہوا اور ایک میںآتا ہے کہ آپ کی چچیر ی بہن نے کہا ۔ اب دو ہی صورتیںہیں یا تو ہم یہ کہیںکہ یہ ساری روایتیں غلط ہیں اور فیصلہ کر دیں کہ ان روایات کا سورۃ کے نزول سے کوئی بھی تعلق نہیں ۔ اور یا پھر یہ طریق اختیار کریں جو میرے نزدیک صحیح ہے کہ ایک وقت میں ایک واقعہ پر مختلف لوگ چہ میگوئیاں کرتے ہیں اور ان چہ میگوئیوں کو اس واقعہ سے کسی ملتی جلتی عبارت کے ساتھ چسپاںکر لیا جاتا ہے مثلاً حضرت مسیح موعود ؑ کو ایک دفعہ الہام ہوا۔ A WORLD AND TWO GIRLSـ’’ اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز‘‘ (تذکرہ ص ۵۳۷) حافظ احمد اللہ صاحب ان دنوں قادیان آرہے تھے راستہ میںانہوں نے کسی دوست سے پوچھا کہ کوئی تازہ وحی سنائو جو حضرت مسیح موعود ؑ پر نازل ہوئی ہو اس نے کہا ابھی ایک الہام ہوا ہے کہ ’’اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز‘‘ ۔ حافظ احمد اللہ صاحب نے جھٹ کا غذ لیا اور حضرت مسیح موعو د ؑ کو لکھا مبارک ہو الہام پورا ہو گیا میںاکیلا نہیں آیا بلکہ میرے ساتھ دو لڑکیاں بھی آرہی تھیں اور یہ الہام اسی واقعہ پر چسپاں ہوتا ہے ۔ پھر میں نے بعض اور لوگوں کو دیکھا کہ ان میںسے جس کی دو بیٹیاں اور ایک لڑکا تھا اس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ الہام میرے متعلق ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ہماری جماعت میں دو درجن کے قریب ایسے لوگ تھے جنہوں نے مختلف پیرایوں میںیہ الہام اپنے اوپر چسپاں کیا۔ تو بعض دفعہ ایک ملتی جلتی چیز ہوتی ہے جسے انسان اپنے خیال میں کسی الہام پر چسپاں کر دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں نے اس الہام کی شان ِ نزول کا پتہ لگا لیا حالانکہ الہامات کے معانی ہمیشہ ان کی ترتیب سے سمجھے جاتے ہیں اگر اس ترتیب سے وہ علیحدہ کر لئے جائیں تو ہر ٹکڑہ کے کوئی نہ کوئی معنے ہو جائیں گے مثلاً کوئی شخص کہتا ہے ۔ ادھر آئو۔ اب یہ الفاظ ایسے ہیں جو ہر شخص استعمال کر سکتا ہے مگر موقع کے لحا ظ سے پتہ لگ جائے گا کہ اس کا مخاطب کون شخص ہے ۔ فرض کرو زید سامنے ہو اور اس وقت کوئی شخص آواز دے کہ ادھر آئو تو ہر شخص سمجھ جائے گا کہ اس سے مراد زید ہے کوئی اور شخص نہیں۔ لیکن اگر اس فقرہ کو موقع سے الگ کر لو تو دنیا کے ہر شخص پر یہ چسپاں ہو جائے گا ۔ اسی طرح جو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ آیت فلاں موقعہ پر نازل ہوئی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ قریب زمانہ میں اس سے کوئی ملتا جلتا واقعہ لوگوں کو نظر آتا ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ یہی واقعہ اس آیت کے نازل ہونے کا اصل سبب ہے چنانچہ وہ اس آیت کو اپنی سمجھ کے مطابق اس واقعہ پر چسپاں کر دیتے ہیں اور اگر ایک سے زیادہ ملتے جلتے واقعات ہوں تو مختلف لوگوں کی قیاس آرائیوں کی وجہ سے اس قسم کی روایات میں بہت کچھ اختلاف واقع ہو جاتا ہے جیسا کہ اسی سورۃ کے شان ِ نزول کے متعلق تین مختلف واقعات پیش کئے جاتے ہیں ۔ کوئی ہمسائی عورت کا واقعہ پیش کرتا ہے ۔ کوئی کفار کے عام خیالات کو اس سورۃ کے نزول کا اصل باعث قرار دیتا ہے اور کوئی آپ کی چچیری بہن کا واقعہ اس کا موجب قراردیتا ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ابتدائی سورۃ ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ابتدائی ایام میںکچھ دنوں کے لئے وحی رکی بھی ہو کیونکہ منشاء الہیٰ یہ تھا کہ آپ پر نزول وحی کی وجہ سے جو ہیبت طاری ہوئی ہے اس پر کچھ وقت گزر جائے اور وحی آپ میںسموئی جائے پہلے پہلے جب ایک واقعہ ہوتا ہے تو انسان اس کی اہمیت کو فوراً نہیں سمجھ جاتا بلکہ آہستہ آہستہ اس کے قلب پر حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے جیسے رسول کریم ﷺ کو ایک موقعہ پر مدینہ والوں نے کہا کہ یا رسول اللہ وہ وقت اور تھا جب ہم نے آپ سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ آور ہوا تو ہم آپ کی مدد کریں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑنا پڑا تو ہم مدد کے ذمہ دار نہیں ہوں گے ۔ یا رسول اللہ وہ وقت ایسا تھا جب ہمیں آپ کی حقیقت کا علم نہیںتھا اور اسی وجہ سے ایسا معاہدہ کیا گیا تھا مگر اب ہم پر آپ کی حقیقت کھل گئی ہے ، آپ کی شان اور عظمت کا ہمیں علم ہو چکا ہے اس لئے اب کسی معاہدے کا سوال نہیں ۔ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے ، آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیںگے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گذرے ۔ تو اہم واقعات کو فوراً سمجھنا بڑا مشکل ہوتا ہے ۔ آہستہ آہستہ ان کی حقیقت کھلتی ہے اور انسان کو پتہ لگتا ہے کہ الہٰی منشا ء کیا ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے پہلے وحی نازل کی پھر ایک وقفہ ڈال دیا ۔ اس عرصہ میں آپ نے وحی پر تدبر کیا ، اپنے کام کی اہمیت کو سمجھا اور اس طرح اپنے ایمان اور اپنے عزم اور اپنے استقلال میں پہلے سے بہت زیادہ اضافہ کر لیا۔ جب خد اتعالی نے دیکھا کہ اب فزع کا کوئی سوال نہیںرہا ، آپ کام کے لئے تیار ہو چکے ہیں اور وحی والہام کی اہمیت آپ کے دل میںداخل ہو چکی ہے تو اللہ تعالی نے آپ کو پیغام پر پیغام دینے شروع کر دیئے ۔ غرض پیغام اور پیغام کی تیاری میں کچھ وقفہ چاہیئے وہ وقفہ اس طرح ہوا کہ پہلے اقرا ء باسم ربک الذی خلق والی سورۃ نازل ہوئی ۔ پھر سورۃ المدثر وغیرہ نازل ہوئیں ۔ یہ سورتیں آپ کی طرف اللہ تعالی کا پیغام لائی تھیں ، آئندہ کے متعلق کئی قسم کی بشارات اپنے اندر رکھتی تھیںاور آپ کو یہ کہنے آئی تھیںکہ ایک بہت بڑا کام تمہارے سپرد کیا جا رہا ہے اس کے لئے تیار ہو جائو۔ یہ کام کس رنگ میںہونا تھا اور کیا کیا محنتیںآپ کو اس غرض کے لئے کرنی تھیں۔ اس کے لئے رسول کریم ﷺ کے دماغ کو تیار ہونا چاہیئے تھا ۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ ادھر الہام ہوتا اور ادھر کہہ دیا جاتا کہ جائو اور کام کرو ۔ درمیان میں بہرحال ایک وقفہ کی ضرورت تھی ۔ چنانچہ گذشتہ انبیاء کے ساتھ بھی اللہ تعالی کا یہی سلوک رہا ہے کہ پہلے ان کو الہام ہوا او ر پھر ایک وقفہ پیدا کیا گیا تا کہ اس عرصہ میںان کا دماغ آئندہ کے کام کے متعلق پوری طرح تیار ہو جائے ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ کو دیکھو فلسطین سے جاتے ہوئے آپ کو الہام ہو ا انی انا ربک فاخلع نعلیک انک بالواد المقدس طوی (طٰہٰ ) اے موسیٰ میں ہی تیرا رب ہوں پس اپنی جوتیاں اتار دے کیونکہ تو مقدس وادی طوی میںہے ۔ مگر اس کے باوجود ایک وقفہ ہوا اور مصر پہنچ کر دوبارہ وحی کا سلسلہ شروع ہوا ۔ فلسطین سے اس زمانہ میںمصر پہنچنا کوئی معمولی بات نہیں تھی کم سے کم دو مہینے صرف ہو جاتے تھے بلکہ بعض دفعہ چھ چھ ماہ بھی صرف ہو جاتے کیونکہ مخدوش راستوں کی وجہ سے قافلوں کے ساتھ سفر کیا جاتا تھا اور بعض دفعہ تو قافلہ جلد مل جاتا اور بعض دفعہ چھ چھ ماہ تک انتظار کرنا پڑتا کہ کب قافلہ تیار ہو اور اس سفر کو طے کیا جائے ۔ یہ تیاری کا وقت تھا جو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو ملا کہ چند ماہ پہلے ابتدائی وحی نازل ہوئی پھر ایک وقفہ پیدا کیاگیا تا کہ اس عرصہ میںآپ اپنے کام کی اہمیت کے مطابق تیاری کر لیں۔ اور جب اللہ تعالی نے دیکھا کہ تیاری ہو چکی ہے تو اس کے بعد تورات کا نزول ہوا ۔ ایسا ہی رسول کریم ﷺ کے ساتھ ہوا ۔ اقراء باسم ربک الذی خلق۔ کا حکم دیکر اللہ تعالی نے کچھ وقفہ پیدا کر دیا ۔ آپ اس وقفہ میں ان تمام باتوں کو سوچتے رہے اور غور کرتے رہے کہ الہٰی منشاء کیا ہے ۔ جب دنیا کے حالات پر آپ نے غور کیا اور سمجھ لیا کہ یہ یہ خرابیاں ہیں جن کو میں نے دور کرنا ہے ۔ ورقہ بن نوفل نے آپ کی توجہ کو حضرت موسیٰ ؑ کی وحی کی طرف پھیر دیا اور قوم کے حالات کو بھی آپ نے اچھی طرح دیکھ لیا اور اس کی اصلاح کے لئے کمر باندھ لی تب اللہ تعالی کی طرف سے آپ کی ہمت بندھانے کے لئے کچھ بشارتیںنازل ہوئیں ۔ اسی طرح دشمنوںکے متعلق کچھ انذار کی خبریں نازل ہونا شروع ہو گئیں ۔ اس دوران میں دشمنوں نے جو جو باتیں کیں لوگوں نے ان تمام باتوں کو اس سورۃ پر چسپاں کر دیا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ سورۃ ان واقعات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے حالانکہ اس سورۃ کا ان واقعات کے ساتھ کوئی جوڑہی نہیں۔ ایک عورت نے کوئی بات کہہ دی تواس کا والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلیٰ ۔ کے ساتھ کیا جوڑ ہوا ؟ اگر عورت یہ بات نہ کہتی تو کیا خدا تعالی آپ کو تسلی نہ دیتا؟ ہم مان لیتے ہیں کہ مکہ والوں نے یہ باتیں کہیں، یہ بھی مان لیتے ہیں کہ آپ کی کسی چچیری بہن نے کوئی بات کہی اور اس وقت کہی جب اس سورۃ کے کچھ حصوں سے ان باتوں کا توارد ہو گیا مگر پھر بھی یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سورۃ انہی واقعات کی وجہ سے نازل ہوئی ہے اگر یہ واقعات نہ ہوتے تو یہ سورۃ نازل نہ ہوتی ۔
درحقیقت اکثر محل قرآن کریم کی آیات کے نزول کے جو لوگوں کی طرف سے بتائے جاتے ہیں حقیقتاً ایسے نہیں ۔ اسی لئے ان میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے جیسے اس جگہ ہوا کہ کوئی کہتا ہے ایک ہمسائی عورت کی ایک بے معنی بات کی وجہ سے یہ سورۃ نازل ہوئی ۔ کوئی کہتا ہے کفار میں چونکہ چونکہ فترۃ الوحی پر عام چرچا ہو گیا تھا اس لئے یہ سورۃ نازل ہوئی ۔ کوئی کہتا ہے اس سور ۃ کے نزول کا محرک آپ کی چچیری بہن کا واقعہ ہے ۔ اسی طرح اور بھی کئی آیات ہیں جن کے متعلق بعض صحابہ کہتے ہیں کہ یہ میرے متعلق نازل ہوئی اور بعض کہتے ہیں کہ یہ میرے متعلق نازل ہوئی جیسے ’’ اے ورلڈ اینڈ ٹو گرلز ‘‘ کے الہام پر بہت سے احمدیوں کو غلط فہمی ہو گئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ الہام ہمارے متعلق ہے ۔
سر میورؔ کے نزدیک یہ سورۃ سورۃ البلد کے بعد کی نازل شدہ ہے لیکن نولڈ ؔ کے نزدیک سورۃ الانشراح کے بعد نازل ہوئی ہے ۔ میرے نزدیک یہ سورۃ اپنے مضمون سے ظاہر کرتی ہے کہ بہت ہی ابتدائی سورتوں میں سے ہے کیونکہ اس میںرسول کریم ﷺ کو کہا گیا ہے فاماالیتیم فلا تقھر ۔ واماالسائل فلا تنھر ۔ یعنی یتیم پر سختی نہ کر واور سائل کو رد نہ کرو ۔ لیکن پہلی سورتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ مسلمان ایسا ہی کرتے ہیں ۔ پس اگر روایات کی تائید میں یہ بات پیش کی جائے کہ اس میںچونکہ حکم دیا گیا ہے کہ ایسا کرو اور عمل ہمیشہ حکم کے بعد ہوتا ہے اس لئے یہ اندرونی شہادت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ یہ سورۃ پہلے نازل ہوئی ہے اور دوسری سورتیں جن میں مسلمانوں کے عمل کا ذکرہے وہ اس کے بعد نازل ہوئی ہیں تو یہ بات قرین قیاس سمجھی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے یہاں ابتدائی حکم نہیں دیابلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس سورۃ کے شروع میںجن انعامات کا وعدہ دیا گیا ہے یا جن انعامات کے ظہور کی خبر دی گئی ہے جب وہ انعامات نازل ہو جائیںتو ان کے شکریہ کے طورپر جو عمل کرنے کے لئے کہا جائے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس وقت نازل ہوا ہے جیسے حضرت زکریا ؑ کو کہا گیا کہ تو نے روزے رکھنے ہیں (مریم ) اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ روزے اسی وقت فرض ہوئے تھے اس سے پہلے نہیں ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ فرض تو پہلے سے تھے مگر اللہ تعالی نے کہا کہ اب بھی تم روزے رکھو۔ اس لئے ضروری نہیں کہ ہم قطعی طورپر ان احکام سے یہ نتیجہ نکال سکیں کہ چونکہ ان میںحکم ہے اور حکم پہلے ہونا چاہیئے اور عمل بعد میں ۔ اس لئے یہ سورۃ بہت پہلے نازل ہوئی ہے بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس سورۃ میںیہ حکم دیا گیا ہے کہ گو یہ کام پہلے بھی تم کرتے ہو مگر جب یہ الہامات نازل ہو جائیں تو ان کے شکریہ کے طورپر اور بھی ان کاموں کی طرف توجہ کرنا۔
ترتیب۔ پہلی سورتوں اور اس سورۃ کا مضمون اس لحاظ سے ایک ہی ہے کہ ان میں مکہ والوں کی اسی قسم کی بدیوں کا ذکر تھا یو یتامٰی اور مساکین کی نسبت ان سے سر زد ہوتی تھیں۔ اور اس میں بھی یتامٰی اور مساکینکا ہی ذکر ہے اور اموال کی حفاظت اور ان کو صحیح طورپر خرچ کرنے کی نصیحت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ سورۃ الضحیٰ میںصرف رسول کریم ﷺ اور آپ کے ذریعہ آپ کے اتباع کو ایسا کرنے کی نصیحت کی گئی ہے اور پہلی سورتوں میں یہ مقابلہ تھا کہ دوسرے ایسا نہیں کرتے لیکن مسلمان ایسا کرتے ہیں۔
اس سورۃ کا دوسرا تعلق پہلی سورتوں سے یہ ہے کہ پہلی سورتوں میںیہ ذکر تھا کہ بندہ خدا تعالی سے کیا سلوک کرتا ہے اور یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالی بندے سے کیا سلوک کرتا ہے مثلاً پہلی سورۃ میںزیادہ زور اس بات پر تھا کہ بندہ خدا تعالی کے لئے صدقہ و خیرات کرتا ہے ۔ جیسے فرمایا تھا وسیجنبھا الاتقی الذی یوتی مالہ یتزکی ۔ وما لا حد عندہ من نعمۃ تجزی ۔ الا ابتغاء وجہ ربہ الاعلی ۔ ولسوف یرضی ۔ گو وہا ں نیک اور متقی بندے کے عمل کا ذکر تھا کہ وہ یوں کرتا ہے لیکن یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالی اپنے نیک اور متقی بندے یعنی نفس کامل سے کیسا سلوک کرتا ہے ۔ گویا پہلی سورتوں کے مضامین بالخصوص سورۃ الیل کے مضمون کا یہ تتمہ ہے ۔
۲ ؎ حل لغات ۔ ضحی : تھوڑا سا دن نکل چکے تو اس وقت سے ضحی شروع ہو تی ہے اور زوال تک جاتی ہے لیکن بعض کے نزدیک زوال کے قریب جا کر ضحی کا وقت نہیں رہتا بلکہ وہ ضحاء ٌ کہلاتا ہے ۔ (اقرب)
سجیٰ کے معنے ہیں جب اندھیرا ترقی کرتے کرتے اپنے کمال کو پہنچ جائے۔ چنانچہ مفردات میں لکھا ہے والیل اذا سجیٰ ای سکن ۔ جب رات ٹھہر جاتی ہے اور اس کا اندھیرا اور نہیں بڑھتا جتنا اس نے بڑھنا ہوتا ہے بڑھ جاتا ہے ۔ ودعک : دوع الرجل کے معنے ہوتے ہیں ھجرہ کسی کوچھوڑ دیا ۔ (اقرب) قلی :۔ قلا فلان (قلی و قلاء ) کے معنے ہوتے ہیں ابغضہ و کرھہ غایۃ الکراھۃ فترکہ ۔ کسی پر ناراضگی کا اظہار کیا اور اس کو انتہائی طور پر ناپسند کیا ۔ اور ناپسندیدگی کی بناء پر چھوڑدیا ۔ جب قلا الابل کہیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں طردھا و ساقھا ۔ اس نے اونٹ کو چلایا اور دھتکارا یعنی اسے مار کے آگے ہنکایا ۔ (قلا الابل میںقلا واوی ہے یعنی آخر میں اصل واو ہے اور قلی فلان میں آخر میںیاء ہے (اقرب)
تفسیر ۔ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ایک ضحی اور ایک لیل خصوصیت رکھتی ہیں ۔ ضحی وہ دوپہر ہے جبکہ آپ مکہ کو فتح کر کے اس میںداخل ہوئے تھے اور والیل اذا سجی سے مرا د وہ رات ہے جب کہ آپ نے مکہ کو چھوڑا تھا گویا والضحیٰ کے معنے ہوئے ایک خصوصیت رکھنے والا دن ۔ اور والیل اذا سجیٰ کے معنے ہوئے ایک خصوصیت رکھنے والی رات ۔ اور درحقیقت رسول کریم ﷺ کی زندگی کے بڑے واقعات اگر کوئی خلاصۃ ً پوچھے تو یہی دو ہیں۔ دشمنوں نے آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا پھر خدا تعالی نے اپنے خاص نشانات سے دشمنوں کو تباہ کر کے آپ کو ایک فاتح کی حیثیت میں مکہ میںداخل فرمایا۔ انہی دو واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے ہم تیری سچائی کی شہادت کے طورپر یا اگلے مضمون کی سچائی کو واضح کرنے کے لئے ایک ضحی کو پیش کرتے ہیں اور ایک ایسی رات کو پیش کرتے ہیں جو تاریکی سے اپنے اردگرد کی تمام چیزوں کو ڈھانپ لے گی ۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ یہاں ضحی پہلے ہے اور رات پیچھے حالانکہ فتح مکہ بعد میں ہوئی ہے اور ہجرت پہلی ہوئی ہے ۔ اس کے متعلق یہ امر یاد رکھناچاہیئے کہ دوسری جگہ قرآن مجید میںآتا ہے رب ادخلنی مد خل صدق و اخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا (بنی اسرائیل ) ان آیتوںمیں صاف پیشگوئی فتح مکہ کی ہے کیونکہ فتح مکہ کے موقعہ پر ہی آپ بت توڑتے اور فرماتے جاتے تھے کہ جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا (جو اوپر کی آیات کے بعد آتا ہے ) آپ نے اپنے عمل سے واضح فرما دیا کہ وہ جو پیشگوئی کی گئی تھی کہ رب ادخلنی مد خل صدق و اخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا آج پوری ہو گئی ہے ۔ اس آیت میںبھی ادخلنی مدخل صدق کو پہلے رکھا گیا ہے جس میںمکہ میں داخل ہونے کی خبر دی گئی تھی او ر اخرجنی مخرج صدق کو بعد میں بیان کیا گیا ہے جس میں ہجرت کی پیشگوئی تھی حالانکہ ہجرت پہلے ہوئی تھی اور فتح مکہ بعد میں۔ اس کی وجہ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں یہ ہے کہ الہٰی سنت یہ ہے کہ وہ اپنے پیاروں سے بات کرتے ہوئے خوشی کی خبر پہلے سناتا ہے اور تکلیف کا ذکر بعد میں کرتا ہے تا کہ خوشی کا خبر رنج کی کلفت کو کم کرنے کا موجب بن جائے۔ اس طرح دونوں مطلب پورے ہو جاتے ہیں غم کی خبر بھی سنا دی جاتی ہے مگر چونکہ پہلے خوشی کی خبر آجاتی ہے اس لئے تکلیف کا احساس نسبتاً کم ہو جاتا ہے ۔ دنیا میں بھی ہوشیار پیغامبر کا یہی طریق ہوتا ہے جب کسی کا رشتہ دار بیمار ہو ار دوسرا شخص پوچھے کہ سنائو میرے فلاں رشتہ دار کا کیا حال ہے تو وہ کہتا ہے الحمد للہ وہ اب اچھے ہیں پچھلے دنوں شدید بیمار ہو گئے تھے اس طرح وہ خوشی کی خبر بھی سنا دیتا ہے اور یہ بھی بتا دیتا ہے کہ درمیان میںبعض ایسے اوقات بھی آگئے تھے جبکہ ڈاکٹر ان کی زندگی سے مایوس ہو گئے تھے ۔ مگر بجائے یہ کہنے کے کہ ان کی حالت نہایت نازک ہو گئی تھی وہ پہلے یہ فقرہ کہتا ہے کہ الحمد للہ وہ اب اچھے ہیں اس کے بعد وہ غم کی خبر سناتا ہے یہی طریق ہر اچھے پیغامبر کا ہوتا ہے کہ وہ بعد کے اچھے انجام کو پہلے بتا دیتا ہے اور تکلیف کا بعد میںذکر کرتا ہے ۔ لیکن س کے بالکل الٹ بعض لوگوں کو ایسا بھی دیکھا جاتاہے کہ وہ اپنی حماقت کی وجہ سے خطرہ کی بات کو پہلے بیان کریںگے اور خوشی کی خبر کو دبا کر بیٹھ جائیں گے اور ان سے پوچھا جائے کہ بتائو خیریت ہے تو وہ یہ نہیںکہیں گے کہ خیریت ہے بلکہ پہلے جب تک گھنٹہ بھر اپنا دکھڑا نہیںرو لیںگے انہیں چین نہیں آئے گا ۔ اسی طرح جب کسی کے سپرد کوئی ضروری کام کیا جائے اور وہ کام کر کے واپس آئے تو آتے ہی ایک لمبی کہانی شروع کر دے گا اور بعد میں کہے گا کہ الحمد للہ کام ہو گیا ۔ اس سے یہ نہیں ہو سکتا کہ آتے ہی کہہ دے الحمدللہ کام ہو گیا بلکہ پہلے اپنی مشکلات کا رونا رونے لگتا ہے اور گھنٹہ بھر کے بعد کہتا ہے الحمدللہ میںکامیاب ہو گیا ۔ تو بعض طبائع ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں بات کرنے کا اس وقت تک مزا نہیںآتا جب تک وہ دوسروں کو اچھی طرح ڈر ا نہ لیںمگر الہٰی طریق یہ ہے کہ وہ پہلے خوشی کی خبر سناتا ہے اور کہتا ہے ہم تمہیںبتا دیتے ہیں کہ نتیجہ اچھا ہو گا اس کے بعد بتا تا ہے کہ درمیان میںکچھ تکلیفیں بھی آئیں گی کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ جب انجام بخیر ہے تو بات کو شروع کرتے ہی بندے کے دل کو دکھ دینا شروع کر دے ۔ یہی طریق رب ادخلنی مد خل صدق و اخرجنی مخرج صدق میںاختیار کیا گیا ہے کہ فتح مکہ کی خبر کو پہلے رکھا ہے اور ہجرت کا ذکر بعد میں کیا ہے ۔ جب مسلمانوں کو پتہ لگ گیا کہ آخر ہم نے مکہ فتح کر کے اسی جگہ آنا ہے تو ان کو تسلی ہو گئی کہ درمیان میںاگر ہجرت بھی کرنی پڑی تو کیا ہوا۔ اسی بناء پر یہاں بھی والضحٰے کو پہلے اور والیل اذا سجیٰ کو بعد میںرکھا گیا ہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ دو (۲) محل اس بات کو ثابت کر دیں گے کہ ماودعک ربک وما قلیٰ ۔ تیرے رب نے تجھے نہیں چھوڑا اور وہ تجھ سے ناراض نہیں ہوا ۔ اور چونکہ وہ غرض جو والضحیٰ کے پہلے رکھنے کی تھی پوری ہو گئی تھی ینعی غرض یہ تھی کہ رسول کریم ﷺ کو ا س بات کا صدمہ نہ پہنچے کہ تجھے ہجرت کرنی پڑے گی ۔ اسی بناء پر خدا تعالی نے رات کا ذکر پیچھے کر دیا اور دن کا ذکر پہلے رکھا مگر چونکہ اس آیت سے غرض پوری ہو گی اس لئے اگلی آیت میں اللہ تعالی نے ترتیب اصلی کو قائم کر دیا ۔ چنانچہ ما ودعک ربک جواب ہے والیل اذا سجیٰ کا اور ما قلی جواب ہے والضحیٰ کا ۔ چونکہ غرض پوری ہو چکی تھی اور اب اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ واقعاتی ترتیب کو بدلا جاتا اس لئے اللہ تعالی نے پہلی آیات کی ترتیب کو الٹ دیا اور فرمایا اے محمد ﷺ ! جب والیل اذا سجیٰ میں بیان کردہ واقعہ ہو گا اور مکہ تجھے چھوڑنا پڑے گا تو اللہ تعالی تجھے اس وقت چھوڑے گا نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ غار ثور میںجب حضرت ابو بکر گھبرائے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ دشمن اتنا قریب پہنچ گیا ہے کہ اگر وہ ذرا اپنے سر کو جھکائے تو ہمیںاس غار میں سے دیکھ سکتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لاتحزن ان اللہ معنا ۔ غم مت کر خدا ہمارے ساتھ ہے ۔ اس جگہ یہ سوال ہوتا ہے کہ خدا تعالی نے کب فرمایا تھا کہ میں ہجرت کے گھڑیوں میں تیرے ساتھ ہوں گا تو اس کا جواب یہ ہے وہ الہی وعدہ اسی سورۃ میں تھا ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے جب والیل اذا سجی میں بیان شدہ واقعہ کا ظہور ہوگا تو تیرا رب تجھے نہیںچھوڑے گا ۔ چنانچہ اسی وعدہ کی بناء پر آپ نے نہایت دلیری سے فرمایا لا تحزن ان اللہ معنا۔ ابو بکر ! کیوں گھبرا رہے ہو خدا ہمارے ساتھ ہے وہ پہلے سے یہ وعدہ سورۃ الضحی میں کر چکا ہے پس ڈرنے کی بات نہیں ۔ آخر یہ خدا تعالی کی معیت ہی تھی کہ دونوں طرف قطار باندھے دشمن کھڑا ہے آپ کے مکان کا سنگین پہرہ دے رہا ہے اور آپ نہایت اطمینان کے ساتھ اس سے درمیان سے گزر جاتے ہیں اور وہ یہ خیال کر لیتا ہے کہ یہ محمد ﷺ نہیں بلکہ کوئی اور جا رہا ہے ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ تاریخ میںیہ ذکر آتا ہے (گو حوالہ یاد نہیں رہا) کہ بعد میںایک پہرے دار نے کہا کہ میں نے خود آپ کو مکان میںسے نکلتے اور وہاںسے گزرتے دیکھا مگر میں نے یہ نہیں سمجھا کہ آپ جا رہے ہیں بلکہ خیال کیا کہ کوئی اور جا رہا ہے ۔ بہرحال یہ خد اتعالی کی معیت ہی تھی کہ آپ دشمنوں کی نظروں کے سامنے نکل گئے اور وہ آپ کو پکڑ نہ سکا ۔ پھر یہ خدا تعالی ہی کی معیت تھی کہ جب آپ غار ثور میںپہنچے تو باوجود اس کے کہ کفار کے کھوجی نے یہ کہہ دیا تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ یا تو یہاںہیںاور یا پھر آسمان پر چلے گئے ہیں ان کو یہ جرأت تک نہ ہوئی کہ وہ آگے بڑھ کر اس غار کے اندر جھانک سکیںوہ اپنے کھوجی پر مضحکہ اڑانے لگے کہ آج یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے کیا اس غار میں بھی کوئی چھپ سکتا ہے یا کوئی شخص آسمان پر بھی جا سکتا ہے کہ کہتا ہے کہ اگر وہ یہاں نہیںتو آسمان پر چلے گئے ہیں یہ خدا تعالی کی معیت کا ایسا کھلا اور واضح ثبوت ہے کہ دشمن سے دشمن انسان بھی اس کو سن کر انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔
دوسری چیز فتح مکہ ہے اس کے لئے ماقلی کا لفظ خد اتعالی نے استعمال کیا ہے ۔ مکہ والوں کا یہ خیال تھا کہ جو شخص مکہ پر حملہ کرے گا خد اکا غضب اس پر نازل ہو گا ۔ وہ ابرہہؔ کے حملہ کو دیکھ چکے تھے کہ کس طرح وہ اپنے لائو لشکر سمیت حملہ آور ہوا اور پھر کس طرح خدا تعالی نے اسے اپنے غضب کا نشانہ بنادیا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ مکہ پر حملہ کرنے والا چونکہ خدا تعالی کی نارضا مندی کا مورد بنتا ہے اس لئے وہ تباہ ہو جاتا ہے مگر اللہ تعالی فرماتا ہے تیرے معاملہ میںایسا نہیں ہو گا بلکہ ضحی کا وقت اس بات کی شہادت دے گا کہ تیرا خدا تجھ سے ناراض نہیں اگر وہ ناراض ہوتا تو تجھ پر عذاب کیوں نازل نہ کرتا۔تجھ پر اس کا عذاب نازل نہ کرنا بلکہ تیری تائید اور نصرت کرنا اور تیرے راستہ سے ہر قسم کی روکوںکو دور کرنا اور تجھے اپنے لشکر سمیت فتح و کامرانی کا جھنڈا اڑاتے ہوئے مکہ میںداخل ہونے کا موقع دینا بتا رہا ہے کہ الہی منشاء یہی تھا کہ تو آئے اور اس بلد الحرام کو فتح کر کے اس میںداخل ہو جائے ۔پس والیل اذا سجی میں بیان شدہ واقعہ کے ظہور نے بتا دیا کہ خدا تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ کو نہیںچھوڑا اور والضحیٰ میںبیان شدہ واقعہ نے بتا دیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے کسی فعل سے خدا تعالی ناراض نہیں خواہ وہ صدیوں کے فیصلہ کے خلاف ہی کیوںنہ ہو ۔ ابراہیم کے وقت سے خدا تعالی کی یہ سنت چلی آرہی تھی کہ مکہ پر حملہ کرنا جائز نہیں جو شخص مکہ پر حملہ کرے گا وہ تباہ ہو جائے گا مگر محمد رسول اللہ ﷺ مکہ کو فتح کرنے کے لئے جا تے ہیں رات کو نہیں بلکہ دن دہاڑے مکہ میں داخل ہوتے ہیں ۔ دنیا بھی دیکھ رہی ہے خدا بھی دیکھ رہا ہے خدا تعالی کے فرشتے بھی دیکھ رہے ہیں مگر آپ پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوتا ۔ آپ کے لشکر پر کوئی تباہی نہیںآتی بلکہ اگر کچھ ہوتا ہے تو یہ کہ مکہ والوں کی گردنیں پکڑ کر خدا تعالی محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے کہ ان سے جو چاہو سلوک کرو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مکہ میںداخلہ عین خدا تعالی کے منشاء کے مطابق تھا ورنہ ۲۵ سو سال سے جو سلوک اللہ تعالی مکہ پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ کرتا چلا آیا تھا وہ آپ کے ساتھ کیوں نہ کرتا ۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے تیری مکہ سے رات کے وقت ہجرت اس بات کا ثبوت ہو گی کہ خدا تعالی نے تجھے نہیں چھوڑا اور تیرا دن دہاڑے مکہ میں فاتحانہ شان کے ساتھ داخل ہونا اس بات کا ثبوت ہو گا کہ خد ا تجھ سے خفا نہیںہے ۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیںکہ ضحی روشنی اور سجیٰ اندھیرے پر دلالت کرتا ہے اور یہ دونوں حالتیں انسان پر آتی رہتی ہیں ۔ یعنی کبھی اس پرتکالیف آتی ہیں اور کبھی اس کے لئے خوشی کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں ، کبھی کامیابیاں اور ترقیات حاصل ہوتی ہیںاور کبھی ناکامیاں اور تکالیف پیش آتی ہیں یہ اتار چڑھائو دنیا میںہمیشہ ہوتا رہتا ہے کبھی ترقی کا وقت آتا ہے تو کبھی تنزل کا ، کبھی خوشی پہنچ جاتی ہے تو کبھی غم ، کبھی اولاد پیدا ہو تی ہے کبھی مر جاتی ہے ، کبھی بیمار ہو جاتا ہے کبھی تندرست ہو جاتا ہے ، کبھی دشمن کو مغلوب کر لیتا ہے اور کبھی دشمن کے عارضی طور پر جیتنے کا موقعہ آجاتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا بھی ایک الہام ہے کہ ع
’’ دشمن کا بھی ایک وار نکلا‘‘ (تذکرہ ص ۵۵۳)
تو دشمن کے وار بھی نکل آتے ہیں ۔ لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب انہیںکوئی تکلیف پہنچتی ہے یا ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو جیسے قرآن مجید میںہی کئی جگہ نقشہ کھینچا گیا ہے وہ شور مچانے لگ جاتے ہیں کہ ہائے مارے گئے ، ہائے مارے گئے ۔ اس کے مقابل میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کو ترقیات ملتی ہیں تو وہ تکبر میںمبتلا ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں انما او تیتہ علی علم عندی (القصص ۸ : ۱۱) ہمیںجو کچھ ملا ہے اپنے زور بازو سے ملا ہے ، ہمارے اندر قابلیتیں ہی ایسی تھیں کہ ہمیں یہ ترقیات حاصل ہوتیں ، ہم نے یوں کیا ہم نے ووں کیا اور پھر ہمیںیہ اعزاز حاصل ہوا ۔گویا جب ان کو اللہ تعالی کی طرف سے برکات حاصل ہوتی ہیں یا ترقیات سے ان کو حصہ ملتا ہے ان میںتکبر پیدا ہو جاتا ہے اور جب مشکلات آتی ہیں تو اس وقت بالکل مایوس ہو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے جہاں دشمن ایسا ہے کہ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کہتا ہے ربی اھانن (الفجر ) میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا اور خوشی پہنچتی ہے تو کہتا ہے ربی اکرمن ۔ ہاں جی ہم توہیں ہی ایسے کہ خدا ہماری عزت کرتا۔ ایسے لوگوں کے بالمقابل اے محمد رسول اللہ تیری یہ حالت نہیںبلکہ والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلیٰ ۔ ہم تیری یہ دونوں حالتیں دشمنوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ تیرا نفس کامل اتنا اعلی درجے کا ہے کہ تیرا سلوک اپنے رب سے ہمیشہ اس قسم کا ہو گا کہ ہر مایوسی اور تکلیف کے وقت خدا تجھے بھولے گا نہیں بلکہ یاد رہے گا ۔ مایوسی کبھی تیرے قریب بھی نہیںآئے گی اور خوشی کے وقت کبھی تکبر تیرے پاس بھی نہیںپھٹکے گا ۔ جب تجھ پر انعامات نازل ہوں گے تُو یہ نہیں کہے گا میںنے یہ انعام بزورِ بازو حاصل کیا ہے اور اس طرح خدا تعالی کو ناراض کر لے گا بلکہ تو کہے گا کہ خدا تعالی نے یہ انعام بخشا ہے اور اس طرح خدا تعالی کی خفگی کو پاس بھی نہیںآنے دے گا ۔ اسی طرح جب تجھے تکلیفیں آئیں گی اس وقت بھی تو خد اپر کوئی الزام نہیںلائے گا ۔ بلکہ اسی کی کنار عاطفت کی طرف تو ہر وقت جھکا رہیگا اور اس وجہ سے خد اتعالی تیرے پاس آکھڑا ہو گا۔ اب دیکھو یہ دونوں چیزیں رسول کریم ﷺ کی زندگی میںکتنی نمایا ں نظر آتی ہیں ۔
وہ بھی ایک لیلؔ تھی جب آپ کو مکہ سے ہجرت کے لئے نکلنا پڑا اور غارِ ثور میںآپ پناہ گزیں ہوئے اور وہ بھی ایک لیلؔ تھی جو آپ پر اس وقت آئی جب ابو طالب آپ کے چچا نے ایک دن آپ کو بلایا اور کہا اے میرے بھتیجے ! اب تیری قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے ۔ آج بڑے بڑے رئوسا ء اکٹھے ہو کر میرے پاس آئے تھے اور وہ مجھے کہتے تھے کہ ابو طالب صرف تیری حفاظت کی وجہ سے ہم نے تیرے بھتیجے کو اب تک چھوڑا ہوا ہے ۔ ہم نے تیرا بڑا لحاظ کیا کیونکہ تو شہر کا رئیس ہے مگر آخر یہ ظلم کب تک برداشت کیا جاسکتا ہے ۔ ہم یہ نہیںکہتے کہ وہ ہمارے بتوں کی پرستش کرے بلکہ ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے بتوں کو برا نہ کہا کرے۔ اگر وہ اتنی معمولی سی بات بھی ماننے کے لئے تیار نہ ہوا اور اس نے ہمارے معبودوں کو برا کہنا ترک نہ کیا تو ہم تجھے بھی سرداری سے جواب دے دیں گے اور آئندہ تیری کوئی عزت نہیںکریںگے ۔ نمبردار کے لئے اپنی نمبرداری چھوڑنی بڑی مشکل ہوتی ہے اور دنیا میںسب سے بڑی مصیبت اگر اسے نظر آتی ہے تو یہی کہ کہیں مجھے اپنی چودھراہٹ نہ چھوڑنی پڑے ۔ وہ اس بات کو برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ آج تو وہ اس شان کے ساتھ بیٹھا ہو کہ لوگ آتے ہوں اور کہتے ہوں چودھری صاحب آپ جو کچھ فرمائیںوہ ہمارے سر آنکھوںپر ۔ ہم آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار ہیں اور دوسرے دن اس کی یہ حالت ہو کہ لوگوں نے ڈھنڈے اٹھائے ہوئے ہوں اور اسے کہتے ہوں کہ ہمارے گائوں میں سے نکل جائو۔ ابو طالب چونکہ مسلمان نہیںتھے اس لئے ان کے لئے یہ بڑی مصیبت تھی ۔ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو بلایا ان کی آنکھوں میںآنسو بھر آئے اور انہوں نے کہا اے میرے بھتیجے مجھ سے جس قدر ہو سکا میںنے تیری مدد کی ہے آج تیری قوم کے بڑے بڑے سردار مجھے بھی آخری نوٹس دے گئے ہیں کہ یا اپنے بھتیجے کے ساتھ رہو یا ہمارے ساتھ مل جائو۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ تو ان کے بتوں کی پرستش کرے وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ تو ان کو برا کہنا چھوڑ دے میںتجھ سے پوچھتا ہوں کہ کیا ایسا نہیںہو سکتا کہ تو کچھ نرمی اختیار کر لے؟ورنہ وہ تجھے بھی نوٹس دے گئے ہیں اور مجھے بھی کہہ گئے ہیں کہ اگر آئندہ تو نے اپنے بھتیجے کی مدد کی تو تیری سرداری بند۔ رسول کریم ﷺ نے یہ سنا تو بغیر کسی توقف کے آپ نے جواب دیا کہ اے چچا ! آپ نے میری بڑی مدد کی ہے مگر یہ معاملہ تو دین کا ہے اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑ ا کر دیں اور پھر کہیں کہ میں کوئی تبدیلی کروں تب بھی میںکوئی تبدیلی نہیںکر سکتا ۔ اے چچا ! اب اس کا ایک ہی علاج ہے اگر آپ کو آپ کی قوم میری خاطر چھوڑتی ہے تو پھر آپ مجھے چھوڑ دیںاور اپنی قوم سے مل جائیں۔ دیکھو یہ والیل اذا سجیٰ کا ایک وقت تھا جو محمد رسول اللہ ﷺ پر آیا ۔ طاقت آپ کے پاس نہیںتھی بلکہ ابو طالب کے پاس تھی مگر جس کے پاس طاقت تھی وہ گھبرا جاتاہے اور جس کے پاس طاقت نہیںتھی وہ کہتا ہے کہ جب باقیوں نے مجھے چھوڑا ہے تو آپ بھی مجھے چھوڑ دیںمیںاپنے عقائد میںکوئی تبدیلی نہیںکر سکتا ۔ یہ ایک رات تھی تاریک اور بھیانک رات ۔ جس میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں (سوائے ان کے جو اللہ تعالی سے مویّد ہوں ) جو مقاومت کی روح اپنے ندر قائم رکھ سکیں لیکن اس تاریک رات میںبھی آپ نے ثابت کر دیا کہ ما ودعک ربک و ما قلی ۔ آپ نے کوئی فعل ایسا نہ کیا جس پر خدا تعالی بندہ کو چھوڑ دیا کرتا ہے آپ نے کوئی ایسا فعل نہ کیا جس پر خدتعالی خفا ہو جایا کرتا ہے بلکہ آپ نے وہ کچھ کیا جس پر خدا تعالی اور بھی قریب ہو جایا کرتا ہے ، جس پر وہ اور بھی خوش ہو جایا کرتا ہے ۔
کیاتم سمجھ نہیں سکتے کہ جب عرش پر خدا تعالی نے محمد رسول اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہو گا کہ اے چچا آپ بھی چھوڑ دیں میں خدا تعالی کو نہیں چھوڑ سکتا تو خدا تعالی ایک عاشق کی طرح آپ کی طرف یہ کہتے ہوئے نہ جھکا ہو گا کہ دنیا تجھے چھوڑ دے پر میں تجھے نہ چھوڑوں گا۔ اللہ تعالی غیر مادی چیز ہے اور اس کا تعلق اپنے بندوں سے روحانی ہوتا ہے جسمانی نہیں ۔ لیکن تمثیلی طور پر اپنے ذہن میں نقشہ جمانے کے لئے اگر تم فرض کر لو کہ اللہ تعالی کی محبت مادی محبت ہوتی یا اس کی نفرت مادی نفرت ہوتی تو جب رسول کریم ﷺ نے ابو طالب کو یہ جواب دیا تھا کہ چچا اگر یہی بات ہے تو پھر آپ مجھے بے شک چھوڑ دیں اس وقت اگر خدا تعالی دو گز پر کھڑا ہوگا تو یقینا اس فقرہ کے بعد وہ آپ کے پاس آکھڑا ہوا ہو گا اور اگر خدا تعالی کی خوشنودی پہلے آپ کو دس نمبر کی حاصل تھی تو اس واقعہ کے بعد وہ بیس نمبر تک پہنچ گئی ہو گی۔ پس اللہ تعالی فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی اے محمد رسول اللہ ! ہر رات جو تیری زندگی میںآئے گی ، ہر رات جو تجھ پر گزرے گی وہ اس بات کو ثابت کرنے والی ہو گی کہ ماودعک ربک وما قلی ۔ کہ نہ تو تیرے خدانے تجھے چھوڑا ہے اور نہ تجھ سے ناراض ہوا ہے بلکہ وہ تجھ سے ہر گھڑی زیادہ قریب ہوتا جائیگا۔
غارثور میںابو بکر جیسا بہادر آدمی گھبراجاتا ہے ۔ اپنے لئے نہیں بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے ۔ مگر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ جس کے لئے کوئی آفت نہیں تھی جو اگر پکڑا بھی جاتا تو لوگ اسے ڈانٹ ڈپٹ کر چھوڑ دیتے اور زیادہ سے زیادہ اسے یہی کہتے کہ تو اس کے ساتھ کیوں آگیا تھا کیونکہ ابو بکر ؓ کی مکہ والے بہت عزت کیا کرتے تھے وہ تو گھبرا جاتا ہے مگر جس پر آفت آئی ہوئی ہے ، جس کے ساتھ اس مصیبت کابراہ رات تعلق ہے ، وہ نہایت اطمینان کے ساتھ کہتا ہے لا تحزن ان اللہ معنا تو جتنا آپ کے ساتھ خدا تعالی کا پہلے تعلق ہو گا وہ اور بھی بڑھ گیا ہو گا، وہ اور بھی سمٹ کر آپ کے قریب آگیا ہو گا اور جتنا خدا تعالی آپ سے پہلے خوش تھا وہ اس سے بھی زیادہ خوش ہو گیا ہو گا۔ پھر ایک تاریک گھڑی وہ تھی جبکہ احد ؔ میں آپ زخمی ہوئے اور اس قسم کے واقعات جمع ہو گئے کہ اسلامی لشکر کی فتح شکست کی صورت میں تبدیل ہو گئی۔ ا س جنگ میں ایک درہ ایسا تھا جہاں رسول کریم ﷺ نے اپنے بعض آدمی چن کر کھڑے کئے تھے اور انہیں حکم دیا تھا کہ جنگ کی خواہ کوئی حالت ہو تم نے اس درہ کو نہیں چھوڑنا ۔ جب کفار کا لشکر منتشر ہو گیا تو انہوں نے غلطی سے اجتہاد کیا کہ اب یہاں ٹھہرنے کا کیا فائدہ ہے ہم بھی چلیں اور لڑائی میں کچھ حصہ لیں ۔ ان کے سردار نے انہیں کہا بھی کہ رسول کریم ﷺ کا حکم ہے کہ ہم یہ درہ چھوڑ کر نہ جائیں مگر انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کا یہ مطلب تو نہ تھا کہ فتح ہو جائے تب بھی یہیں کھڑے رہو۔ آپ کے ارشاد کا تو یہ مطلب تھا کہ جب تک جنگ ہوتی رہے اس درہ کو نہ چھوڑنا ۔ اب چونکہ فتح ہو چکی ہے دشمن بھاگ رہا ہے ہمیں بھی تو کچھ ثواب جہاد کا حاصل کرنا چاہیئے ۔ چنانچہ وہ درہ خالی ہو گیا ۔ حضرت خالد بن ولید جو اس وقت تک ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے جوجوان تھے اور ان کی نگاہ بہت تیز تھی وہ جب اپنے لشکر سمیت بھاگے جارہے تھے انہوں نے اتفاقاً پیچھے کی طرف نظر ڈالی تو درہ کو خالی پایا یہ دیکھتے ہی وہ واپس لوٹے اور مسلمانوں کی پشت پر حملہ کر دیا ۔ مسلمانوں کے لئے یہ حملہ چونکہ بالکل غیر متوقع تھا اس لئے ان پر سخت گھبراہٹ طاری ہو گئی اور بوجہ بکھرے ہوئے ہونے کے دشمن کا مقابلہ نہ کر سکے ۔ میدان میںکفار نے قبضہ کر لیا اور اکثر صحابہ سراسیمگی اور اضطراب کی حالت میں مدینہ کی طرف بھاگ پڑے یہاں تک کہ رسول کریمﷺ کے گرد صرف بارہ صحابہ ؓ رہ گئے اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ بارہ بھی نہیں صرف تین آدمی رسول کریم ﷺ کے ارد گرد رہ گئے اور کفار نے خاص طورپر رسول کریم ﷺ پر تیر اندازی شروع کر دی لیکن باوجود ان نازک حالات کے آپ برابر دشمن کا مقابلہ میںکھڑے رہے اور اپنے مقام سے نہیں ہلے ۔ آخر دشمن نے یک دم ریلہ کر دیا اور وہ چند آدمی بھی دھکیلے گئے اور رسول کریم ﷺ زخمی ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے ۔ آپ پر بعض اور صحابہ ؓ جو آپ کی حفاظت کر رہے تھے شہید ہو کر گر گئے اور اس طرح رسول کریم ﷺ تھوڑی دیر کے لئے صحابہ ؓ کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور لشکر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول کریمﷺ شہید ہو گئے ہیں ۔ یہ خبر صحابہ ؓ کے لئے اور بھی پریشان کن ثابت ہوئی اور ان کی رہی سہی ہمت بھی جاتی رہی ۔ جو صحابہ ؓ اس وقت آپ کے ارد گرد موجود تھے اور زندہ تھے انہوں نے لاشوں کو ہٹا کر رسول کریم ﷺ کو گڑھے میں سے نکالا اور حفاظت کے لئے آپ ؐ کے ارد گرد کھڑے ہو گئے ۔ اس وقت جب دشمن اپنی فتح کے نشے میں مخمور تھا ، جب اسلامی لشکر سخت ضعف اور انتشار کی حالت میںتھا ، جب رسول کریم ﷺ کے ارد گرد صرف چند صحابہ ؓ تھے، باقی سب کے سب میدان سے بھاگ چکے تھے ۔ ابو سفیان نے پکار کر کہا کہ بتائو تم میں محمد (ﷺ) ہے؟ صحابہ ؓ نے جواب دینا چاہا مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا خاموش رہو اور کوئی جواب نہ دو۔ پھر اس نے پوچھا کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہے ؟ مراد اس کی یہ تھی کی کیا حضرت ابو بکر زندہ ہیں ۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مت جواب دو۔ پھر اس نے پوچھا کیا تم میں عمر موجو د ہے ؟ اس کا جواب دینے سے آپ نے منع فرمایا ۔ تب اس نے خوش ہو کر کہا اُعْلُ ھُبُلْ اُعْلُ ھُبُلْ ۔ ہبل کی شان بلند ہو ، ہبل کی شان بلند ہو ، یعنی ہبل دیوتا نے ان سب کو مار دیا اور اس کی شان بلند ہوئی جب اس نے یہ الفاظ کہے تو باوجود اس کے کہ ابھی ابھی دشمن صحابہ ؓکو نقصان پہنچا کر ہٹا تھا ۔ ابھی صحابہ ؓ میدان سے بھاگ رہے تھے بلکہ بعض تو ایسے بھاگے تھے کہ انہوں نے مدینہ جا کر دم لیاتھا ۔ غرض باوجو د اس کے کہ ایک حصہ بھاگا جا رہا تھا اور ایک حصہ پراگندہ اور منتشر تھا اور صرف چند صحابہ ؓ جو انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے رسول کریم ﷺ کے اردگرد تھے جب اس نے یہ الفاظ کہے تو آپؐ برداشت نہ کرسکے اور آپ ؐ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا جواب کیوں نہیں دیتے ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ہم کیا جواب دیں ۔ آپ نے فرمایا کہو ۔اللہ اعلی و اجل ۔ اللہ اعلی و اجل ۔ تمہارا ہبل کی چیز ہے اللہ ہی سب سے بلند رتبہ اور شان رکھنے والا ہے ۔ کہتے ہیں ’’آبیل مجھے مار‘‘ کئی ہزار کا لشکر سامنے پڑا ہے وہ فتح کے نشے میں مخمور ہے ۔ مسلمانوں کا کثیر حصہ میدانِ جنگ سے واپس جا چکاہے اور دشمن دعوے کرتا ہے کہ اس نے محمد رسول اللہ ﷺ اور اکابر صحابہ کو بھی ہلاک کر دیا ہے ۔ یہ کتنی تاریک رات تھی جو محمد رسول اللہ ﷺ پر آئی مگر اس تاریک رات میںبھی جب کہ چند صحابہ ؓ آپ کے ارد گرد تھے اور خطرہ تھا کہ دشمن آپ پر حملہ نہ کر دے ۔ جب اس نے ہبل کی تعریف کی تو رسول اللہ ﷺ جو صحابہ ؓ کو مصلحتاً اب تک جواب دینے سے روکتے چلے آئے تھے بڑے جوش سے فرمانے لگے اس کو کیوں جواب نہیںدیتے کہ اللہ اعلی و اجل ۔ اللہ اعلی و اجل ۔ صحابہ ؓ نے یہ جواب دیا اور اس طرح آپ ؐ نے اپنے عمل سے دشمن کو چیلنج کیا کہ میں یہاں موجود ہوں اگر تم میں ہمت ہے تو آجائو۔ وہ دشمن جس نے ایک ہزار سپاہی کو بھگا دیا تھا اس کی زبان سے اس وقت شرک کا کلمہ سننا آپ ؐ کی طاقت برداشت سے باہر ہو گیا جبکہ آپ ؐ صرف چند صحابہ ؓ سمیت اس کی زد میںتھے اور زخموں کی وجہ سے کمزور ہو رہے تھے اور انتہائی نازک حالات کی پروانہ کرتے ہوئے آپ نے خدا کا نام اس وقت بھی بلند کر دیا۔ یہ ایک رات تھی جو آپؐ پر آئی مگر اس رات سے کیا نتیجہ نکلا؟ یہی کہ ماودعک ربک وما قلی ۔ آپؐ کا خدا تعالی سے تعلق اور بھی بڑھ گیا اور آپ نے کوئی ایسا فعل نہ کیا جس سے وہ ناراض ہوتا۔
پھر ایک رات وہ تھی جبکہ غزوہ خندق کے موقع پر دشمن آیا۔ اس نے اپنی طرف سے ساری تیاریاں کر لیں کہ وہ مسلمانوںکو زیر کرے گا اور ان کو شکست دے گا ۔ لیکن اس تاریکی کے وقت میںاتفاق کی بات ہے رات ہی تھی جب دشمن کو شکست ہوئی ۔ رات کا وقت تھا مسلمان بظاہر مایوس ہو چکے تھے ، دشمن پندرہ دن سے ان کا محاصرہ کئے ہوئے تھا ، خوراک وغیرہ کے سامانوں میں سخت کمی آچکی تھی ، مدد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اور مسلمان سخت گھبرا رہے تھے کہ نہ معلوم اب کیا بنے گا۔ سامان اتنے کم تھے کہ مسلمان خود کہتے تھے ہمارے ہاتھ پائو ں سردی سے سن ہو رہے تھے مگر ہمارے پاس کپڑے نہیں تھے کہ ہم ان کو اوڑھ کر اپنی سردی کو دور کر سکیں ۔ غرض یہی کیفیت تھی کہ ایک دفعہ آدھی رات کے وقت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی ہے ! ایک صحابی ؓ بولے اور کہا یا رسول اللہ ؐ میںحاضر ہوں ۔ آپ ؐ نے فرمایا تم نہیں۔ کوئی اور ۔ جب تھوڑی دیر تک کوئی اور شخص نہ بولا تو آپ ؐ نے پھر فرمایا ۔ کوئی ہے! اس پر پھر وہی صحابی بولا کہ یارسول اللہ میںحاضر ہوں آپؐ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور ۔ جب دوسری دفعہ بھی کوئی اور شخص نہ بولا تو رسول کریم ﷺ نے پھر فرمایا کوئی ہے ! اس پر پھر وہی صحابی بولا اور کہنے لگا یا رسول اللہ میںحاضر ہوں ۔ آپ ؐ ہنس پڑے اور فرمایا جائو اور باہر جا کر دیکھو مجھے اللہ تعالی نے اطلاع دی ہے کہ دشمن بھاگ گیا ہے ۔ اب دیکھو رات کو مسلمان سوتے ہیں تو انتہائی مایوسی کی حالت میںمگر ابھی صبح نہیں ہوتی، آدھی رات کا وقت ہوتا ہے ، تاریکی چاروں طرف مسلط ہوتی ہے کہ اس رات کی تاریکی میںاللہ تعالی رسول کریم ﷺ کو خبر دیتا ہے کہ دشمن بھاگ گیا ہے ۔ گویا تاریکی میں جہاں اور لوگ گھبرا رہے تھے آپ ؐ خدا تعالی کی طرف جھکے ہوئے تھے اور اس سے دعائیںکر رہے تھے ۔ وہ صحابی کہتے ہیں میں باہر گیا تو دیکھا کہ تمام جنگل خالی پڑا ہے اور دشمنوں کے خیمے سب غائب ہیں ۔ ایک اور صحابی کہتے ہیں جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی ہے ! تو میں اس وقت جاگ رہا تھا مگر شدت ِ سردی کی وجہ سے میرے ہاتھ پائوں تو الگ میری زبان بھی سن ہو چکی تھی اور اس وجہ سے میں جواب نہیں دے سکتا تھا ، سنتا تھا مگر بولنے کی طاقت اپنے اندر نہیں پاتا تھا کیونکہ کپڑے کافی نہ تھے اور برف پڑی ہوئی تھی ۔ یہ تکالیف آئیں مصائب وآلام کی گھڑیاں آپ ؐ پر گزریں مگر ان تمام لیالی میں ہر لیل کے وقت اللہ تعالی نے ثابت کر دیا کہ وہ آپ ؐ کے ساتھ ہے ۔ پھر ضحی کے اوقات بھی آپؐ پر آئے چنانچہ فتح مکہ کے بعد سارے عرب کی فتح آئی اور کامیابی و کامرانی آپؐ کے قدموں کو چومنے لگی مگر کامیابیوں کے اوقات نے بھی کیا ثابت کیا ؟ یہی کہ ماودعک ربک وما قلی لوگوں کہ یہ حالت ہوتی ہے کہ ترقیات کے وقت ان میں کبر پیدا ہو جاتا ہے فتح کے وقت نشہ غرور ان میںسما جاتا ہے مگر رسول کریم ﷺ کی قلبی کیفیات کا تم اس سے اندازہ لگائو کہ فتح مکہ کے وقت جب لشکر ِ اسلامی مکہ کی طرف بڑھتا چلا آرہا تھا صحابہ ؓ کے دلوں میںسخت جوش پایا جاتا تھا خصوصاً انصار کے دل میںمکہ والوں کے خلاف بہت زیادہ جوش تھا ۔ بے شک مہاجرین بھی اس جوش سے خالی نہیں تھے مگر مہاجرین پر ان کے مظالم کا اتنا اثر نہیں تھا جتنا انصار کو یہ سن سن کر جوش آتا تھا کہ مکہ والے رسول کریم ﷺ اور آپ ؐ کے ساتھیوں کے ساتھ یہ یہ سلوک کرتے رہے ہیں ۔ اسی جوش کی حالت میں ایک انصاری جرنیل نے ابو سفیان کو دیکھا تو اس کی زبان سے یہ فقرہ نکل گیا آج ہم نے تم سے بدلے لینے ہیں ، آج ان مظالم کا ہم نے انتقام لینا ہے جو مکہ والوں نے محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ؐ کے ساتھیوں پر کئے ۔ کوئی اور ہوتا تو جرنیل کو بلا کر اسے تمغہ لگا دیتا اور کہتا شاباش! وفادار ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ مگر رسول کریم ﷺ نے اس کو بلایا اور فرمایا مکہ تو خدا تعالی کا متبرک مقام ہے ہمیںاپنی خوشیوں اور کامیابیوں میں اس کی اس برکت کو نہیں بھول جانا چاہیئے جو خدا تعالی نے اسے عطا کی ہے ۔ تم نے بڑی غلطی کی جو ایسا فقرہ اپنی زبان سے نکالا ۔ میںتمہیں جرنیل کے عہدے سے معزول کرتاہوں ۔ دیکھو ایک ہی موقع آپؐ کی زندگی میں ایسا آیا جبکہ دشمن جو ایک لمبے عرصہ تک خطرناک سے خطرناک مظالم توڑتا رہا تھا اس کی گردنیں آپ ؐکے ہاتھ میںتھیں ۔ ہو سکتا تھا کہ خود آپ ؐ کے دل میںہی یہ خیال آجاتا کہ میںان لوگوں سے آج خوب بدلہ لوں گا اور خود بھی ایسا فقرہ کہہ دیتے یا اگر خود نہ کہتے تواور کہنے والوں کی باتیں پسند کرتے یا اگر ظاہر میںپسند نہ کرتے تو دل میںہی پسند کرتے اور کہتے یہ لوگ میرے بڑے وفادار ہیں، مجھ پر جو مظالم ہوئے ان کا کس قدر ان میں احساس پایا جاتا ہے ، کتنا جوش ہے جو ان کی حرکات سے پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہو رہا ہے ۔ مگر رسول کریم ﷺ نے اسے جرنیل کے عہدہ سے ہی معزول کر دیا اور فرمایا ہمارے لئے یہ تکبر کے اظہار کا موقع نہیں۔
پھر دیکھو وہ ضحی کا ہی وقت تھا جب آپؐمکہ میںداخل ہوئے اور آپؐ نے فرمایا اے عتبہؔ شیبہؔ اور ولید ؔ کی اولادو! اور اے عتبہ شیبہ اور ولید کے چچو ، بھائیواور بھانجو! تم نے مجھے انتہائی بے کسی اور بے بسی کی حالت میںمکہ سے نکال دیا تھا اب تم میرے قابو میں ہو بتائو میں تم سے کیا سلوک کروں؟ انہوں نے کہا ہم آپؐ سے اسی سلوک کی امید رکھتے ہیں جو آپ ؐ کی شان کے شایان ہو اور وہی سلوک چاہتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا ۔ آپ ؐ نے فرمایا ٹھیک ہے لا تثریب علیکم الیوم اذھبو افانتم الطلقاء ۔ جائو میں تمہیںکچھ نہیںکہتا ۔ تم آزاد ہو ۔ یہ دوسری ضحی تھی جو آپ ؐ پر آئی مگر اس ضحی نے بھی بتا دیا کہ کبر اور خود پسندی کبھی آپ ؐکے قریب بھی نہیں آئی تھی ۔ قومیںآئیں۔ وفود آئے اور ہر طرف سے آکر انہوں نے آپکی اطاعت کو قبول کیا مگر کبھی بھی یہ بات ظاہر نہیںہوتی کہ آپ ؐ نے ان لوگوں میںکبھی اپنی شان کا کوئی خاص اظہار کیا ہو۔
تیسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے والضحی والیل اذا سجیٰ ۔ کچھ لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیںجن پر دن چڑھتے ہیں تو وہ اپنے دنوں کو کھیل میں، تماشا میں ، جوئے میں، شراب میںاور اسی قسم کی اور لغویات میںختم کر دیتے ہیں اور جب رات آتی ہے تو اس کو ناچ گانے اور سونے میںختم کر دیتے ہیں اللہ تعالی فرماتا ہے مگر اے محمد ﷺ ایسے لوگوں کے مقابل پر تیر ادن بھی اس قسم کا ہو گا اور تیری راتیں بھی اس قسم کی ہوں گی کہ ہر دیکھنے والے کے سامنے تیرے ساتھی ان دنوں اور ان راتوں کو پیش کر سکیں گے اور اسے کہہ سکیںگے کہ بتائو کیا تمہارے دن محمد ﷺ کے دنوں کی طرح ہیں اور کیا اس حالت میںدن گزارنے والے کو کبھی خدا تعالی چھوڑ سکتا ہے یا س سے ناراض ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح تیری راتیںایسی گذریںگی کہ تم ہر شخص کے سامنے اپنی ان راتوں کو پیش کر کے کہہ سکو گے کہ میری راتوں کو دیکھو اور بتائو کہ کیا ایسی راتوں والے کو خدا تعالی چھوڑ سکتا ہے؟ غرض فرمایا ۔ والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی اے محمد ﷺ ہم تیرے دنوں کو ایسا کر دیں گے اور تیری راتوں کو بھی ایسا کر دیں گے کہ تیر ادن بھی اس بات کی شہادت دے گا کہ تجھے خد انے نہیںچھوڑا ۔ اور تیری رات بھی اس بات کی شہادت دے گی کہ تیرا خدا تجھ سے ناراض نہیںہے ۔ یہ وہی دعویٰ ہے جو فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون (یونس۲:۷)میںکیا گیا ہے کہ میںتم میںایک لمبی عمر گزار چکا ہوں کیا تم ثابت کر سکتے ہو کہ میں نے اس عرصہ میںکسی ایک بدی کا بھی ارتکاب کیا ہو ۔ اگر تم سب کے سب مل جائو تب بھی میری چالیس سالہ ابتدائی زندگی پر کوئی داغ ثابت نہیںکر سکتے ۔ مگر یہ دعویٰ تو گزری ہوئی عمر کے متعلق ہے اور والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی میں آئندہ زندگی کے متعلق دعوی کر دیا اور فرمایاکہ میرے دن تمہارے سامنے ہیں ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں دن تمہارے سامنے گذرے گا ۔ اسی طرح میری راتیںبھی تمہارے سامنے ہوں گی اورایک کے بعد دوسری رات گزرتی چلی جائے گی لیکن یاد رکھو میری زندگی کا ہر دن جو گزرے گا وہ ثبوت ہو گا اس بات کا کہ ما ودعنی ربی وما قلانی ۔ اسی طرح ہر رات جو مجھ پر گزرے گی وہ ثبوت ہو گی اس بات کا کہ ما ودعنی ربی وما قلانی ۔
غرض خدا تعالی اس آیت میںمحمد رسول اللہﷺ کو آپ کی صداقت کی ایک نئی دلیل سکھاتا ہے اور فرماتا ہے میںیہ پیشگوئی کرتا ہوں کہ تیرا ہر دن میری رضامندی میںگزرے گا اور تیری ہر رات میری رضامندی میں گذرے گی۔ تیری پہلی زندگی کے متعلق میں چیلنج کر چکا ہوں اب یہ دوسرا چیلنج آئندہ زندگی ک متعلق ہے ۔ پچھلی زندگی کے متعلق تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نے اس وقت سوچا نہیںتھا اگر غور کرتے تو ممکن تھا کہ کوئی نقص نظر آجاتا ۔ فرماتا ہے اگرمحمد رسول اللہ ﷺ کی اس زندگی کے متعلق تمہارا یہ عذر ہے تو اب دوسری زندگی پر کوئی اعتراض کر لینا اور دیکھنا کہ اس کی زندگی کی ایک ایک ساعت، ایک ایک رات اور ایک ایک دن اپنے فائدہ اور اپنے آرام کے لئے خرچ ہوتا ہے یا بنی نوع انسا ن کے فائدہ اور آرام کے لئے خرچ ہوتا ہے ۔
چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ قبض و بسط کی دونوں حالتیں رسول کریم ﷺ کی اچھی ہوں گی ۔ اللہ تعالی قابض بھی ہے اور باسط بھی ، اور اس کے اپنے بندوں سے یہ دونوں سلوک ہوتے ہیں ۔ جس طرح دنیوی معاملات میں کوئی آرام کی ساعت ہوتی ہے اور کوئی تکلیف کی ۔ اسی طرح روحانی عالم میں کبھی کوئی ساعت ایسی آتی ہے جس میں انسان بہت زیادہ خدا تعالی کے سامنے جھکا ہوا ہوتا ہے اور کبھی اس پر قبض کی ساعت آجاتی ہے ۔ حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ ایک صحابی رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور آکر رو پڑے ۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! میںتو منافق ہوں رسول کریم ﷺ نے فرمایا میںتو تم کو مومن سمجھتا ہوں وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ! مومن نہیں میںتو منافق ہوں جب میں آپ کی مجلس میں بیٹھا ہوا ہوتا ہوں تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف جنت ہے اور ایک طرف دوزخ ۔ جو بھی خیال میرے دل میںگزرتا ہے یا جو بھی عمل میں کرتا ہوں جنت اور دوزخ کو دیکھ کر کرتا ہوں ۔ مگر جب گھر جاتا ہوں تو یہ حالت نہیں رہتی ۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ تو عین ایمان ہے اگر خدا تعالی ہر وقت ایک جیسی حالت رکھے تو تم مر نہ جائو۔ تو قبض اور بسط کی حالت ہر انسان پر آتی ہے چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مدارج کے اختلاف کی وجہ سے ایک انسان کی قبض کی حالت دوسرے انسان کی قبض کی حالت سے جدا گانہ ہو یا ایک انسان کی بسط کی حالت دوسرے انسان کی بسط کی حالت سے مختلف ہو لیکن بہرحال قبض اور بسط کی گھڑیاں ہر انسان پر آتی ہیں۔ ایک وقت وہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے دوسرے وقت وہ اپنے بیوی بچوں سے کھیل رہا ہوتا ہے تیسرے وقت وہ پاخانہ میںبیٹھا ہوا ہوتا ہے ۔ یہ علیحدہ علیحدہ حالتیں ہیں جن میں سے ہر انسان گزرتا ہے ۔ ان میں سے نماز اور روزہ بسط کی حالتیں ہیں اور بیوی بچوں سے کھیلنا یا پاخانہ میںجانا یا دنیا کے کسی اور کام میں مشغول ہو جانا یہ قبض کی حالتیں ہیں ۔ بہت لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں کہ وہ عبادت گزار بھی ہوتے ہیں ، روزہ دار بھی ہوتے ہیں ، حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہوتے ہیں ،ذکر الہی بھی کرتے ہیں ، زکواۃ بھی دیتے ہیںمگر جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو نماز ہی پڑھتے ہیں ، جب حج کر تے ہیں تو حج ہی کرتے ہیں ، جب زکواۃ دیتے ہیں تو زکواۃ ہی دیتے ہیں مگر جب وہ روٹی کھاتے ہیں اس وقت وہ صرف روٹی ہی کھا رہے ہوتے ہیں ، جب وہ کپڑے پہنتے ہیں اس وقت وہ صرف کپڑے ہی پہن رہے ہوتے ہیں ، جب وہ بیوی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں اس وقت وہ صرف بیوی سے ہی باتیں کر رہے ہوتے ہیں ، جب وہ بچوں سے تلعب کر تے ہیں اس وقت بچوں سے ہی تلعب کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان کی دنیا دنیا ہوتی ہے اور ان کا دین دین ہوتا ہے ۔ مگر اللہ تعالی فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی اے محمد ﷺ تیری تو دنیا ہی نرالی ہے ۔ تیری قبض کی حالت بھی خدا کے لئے ہوتی ہے اور تیری بسط کی حالت بھی خداکے لئے ہوتی ہے ۔ جب تو بیوی سے ہنس رہا ہوتا ہے اس وقت تو بیوی سے نہیں ہنستا بلکہ ہمارے حکم کی تعمیل کرتا ہے کیونکہ تو کہتا ہے میںاپنی بیوی سے اس لئے ہنس رہا ہوں کہ میرا خدا کہتا ہے میںاپنی بیوی سے اس رنگ میںپیش آئوں ۔ جب تو کھانا کھا رہا ہوتا ہے اس وقت تو صرف کھانا نہیں کھاتا بلکہ بسم اللہ سے شروع کرتا ہے اور الحمد للہ پر ختم کرتا ہے اور درمیان میں سبحان اللہ سبحان اللہ کہتارہتا ہے ۔ جب تو پانی پیتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ تو دنیا دار لوگوں کی طرح صرف پانی پئے بلکہ تو کہتا ہے میںیہ پانی اس لئے پی رہا ہوں کہ میرے رب نے یہ چیز میری طرف بھیجی ہے ۔ بارش آتی ہے تو لوگ اس سے کیسا لطف اٹھاتے ہیں مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی کیا کیفیت تھی ایک دفعہ بادل آیا آسمان سے ہلکی ہلکی بوندیں برسیں رسول کریم ﷺ اپنے کمرہ سے باہر تشریف لائے زبان نکالی اس پر بارش کا ایک قطرہ لیا اور فرمایا میرے رب کی طرف سے یہ تازہ نعمت آئی ہے ۔ آپ ؐ نے بھی لوگوں کو یہی نصیحت کی کہ میںتمہیںیہ نہیں کہتا تم اپنی بیویوں سے حظ نہ اٹھائو ، میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ کھائو نہیں، میںتمہیںیہ نہیں کہتا کہ پہنونہیں ۔ میںتمہیںیہ کہتا ہوں کہ تم جو کچھ کرو احتساباً کرو ۔ اس نیت اور ارادہ کے ماتحت کرو کہ اللہ تعالی کی رضا تمہیںحاصل ہو جائے ۔ اگر تم اپنے تمام کاموں میں اس نیت کو ہمیشہ مد نظر رکھو گے اور اللہ تعالی کی رضا کا حصول تمہارا اصل مقصد ہو گا تو میں تمہیں کہتا ہوں اس کے بعد اگر تم اپنی بیوی کے منہ میں احتساباً ایک لقمہ بھی ڈالتے ہو تو فھم صدقۃ وہ بھی ایک صدقہ ہو گا۔ اب دیکھو وہ شخص لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے مگر رسول کریم ﷺ اسے صدقہ قرار دیتے ہیں حالانکہ جس سے انسان کو محبت ہوتی ہے اسے بہر حال وہ کھلاتا ہے وہ یہ تو پسند کر سکتا ہے کہ میںخود بھوکا رہوں مگر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ جس سے مجھے محبت ہے اسے بھوک کی تکلیف ہو ۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ اپنی بیوی کو کھلائے گا خد اتعالی کے حضور یہ نہیں لکھا جائے گا کہ اس نے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالا بلکہ خدا تعالی کے حضور یہ لکھا جائے گا کہ اس نے ہماری رضا کی خاطر صدقہ کیا ۔ اسی طرح ملازموں سے معاملہ ہے ، ہمسایوں سے معاملہ ہے ، دوستوں سے معاملہ ہے۔ جب انسان ان تمام معاملات میںخدا تعالی کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے اور اسکی خوشنودی کے حصول کے لئے وہ یہ سب کام کرتا ہے تو بظاہر یہ دنیوی نظر آنے والے کام بھی اس کے لئے دین بن جاتے ہیںاور اللہ تعالی کے حضور اس کے یہ کام ایسے ہی سمجھے جاتے ہیںجیسے وہ عبادت میں اپنا وقت گزار رہا ہو۔ پس فرمایا والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ اے محمد رسول اللہ ﷺ تیری بسط اور قبض کی حالتیں دونوں ہمارے لئے ہیں تو بظاہر اپنی بیوی سے ہنس رہا ہوگا مگر دل میں ہمارے ساتھ پیار کر رہا ہو گا ۔ تو بظاہر اپنے بچوں سے پیار کر رہا ہو گا مگر دل میں ہمارے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کر رہا ہو گا ۔ تو بظاہر ہمسایوں کے ساتھ دلجوئی کی باتیں کر رہا ہو گا مگر اصل میں تیری باتیں ہمارے ساتھ ہو رہی ہوں گی ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ توان کے پاس بیٹھا ہے حالانکہ تو ان کے پاس نہیں بلکہ ہمارے پاس بیٹھا ہوتا ہے ۔ جب تیر اہر فعل ہمارے لئے ہے ، جب تیری ہر حرکت اورہر سکون ہمارے لئے ہے اور جب تو دین اور دنیا دونوں راہوں سے خدا تعالی کا قرب حاصل کر رہا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم لیل اور نھار میںتجھے چھوڑ دیں ؟ جب ہم نہ تیرے کھانے پر ناراض ہیں ، نہ پینے پر ناراض ہیں ، نہ معاشرت پر ناراض ہیں، نہ ہمسایوں سے تعلقات پر ناراض ہیں، نہ کسی اور کام پر ناراض ہیں، تو ہم تجھے چھوڑ کس طرح سکتے ہیں؟ یہ تو عبادتیں ہیں جو تو ہماری خاطر بجا لا رہا ہے ان عبادتوں پر ہم نے خفا کیا ہونا ہے ہم تو خوش ہی ہوں گے کہ تو نے ہماری خاطر دنیا کو بھی دین بنا لیا ۔ غرض چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ قبض اور بسط کی حالتیں رسول کریم ﷺ کی اچھی ہوں گی یعنی جب آپ ؐ عبادت میں مشغول ہوں گے تو ہونگے ہی ۔ جب آپ دنیوی کام کریں گے جو بمنزلہ لیلؔ ہوتے ہیںتب بھی آپ خدا تعالی کی خوشنودی ہی مد نظر رکھیں گے اور دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالی آپ سے رات دن جدا نہیں ہوتا اور نہ آپ کے کسی فعل سے ناراض ہوتا ہے ۔
پانچویں معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ دن کام کا وقت ہوتا ہے اور رات انسان کے آرام کا وقت ہوتا ہے فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ہم تیرے دنوں کو پیش کر تے ہیں جب تو تبلیغ میں مصروف ہوتا ہے اور تیری راتوں کو پیش کرتے ہیں جب تو مکالمہ الہی میں مشغول ہوتا ہے ۔ تیر ادن خدا کے اس فعل کا ثبوت ہے کہ ما ودعک ربک ۔ تیرے رب نے تجھے نہیں چھوڑا ۔ دوسرے الفاظ میں یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ واللہ یعصمک من الناس (المائدہ ۱۰: ۱۴) چنانچہ دیکھ لو دن کے وقت آپ ؐ کی تبلیغ اور نشست و برخاست کن لوگوں میں تھی ، کفار مکہ میںجو ہر وقت آپ ؐ کو مارنے کی فکر میں رہتے تھے مگر اللہ تعالی فرماتا ہے تیرا دن اس بات کی شہادت دے گا کہ ہم تیرے ساتھ ہیں ورنہ دشمن جو ہر وقت تیرے پاس رہتاہے اسے کونسی چیز تجھے ہلا ک کرنے سے روک سکتی ہے اس کی سب سے بڑی خواہش تو یہی ہے کہ تجھے ہلا ک کر دے مگر باوجود اس خواہش اور ارادہ کے اور باوجود اس بات کے کہ دن کو تم انہیں لوگوں کے ساتھ رہتے ہو وہ تمہیںقتل نہیں کر سکتے ۔ پس تیر ا دن اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تیرے ساتھ ہے اور تیری رات ثبوت ہوتی ہے اس بات کا کہ وما قلی۔ خدا تجھ سے ناراض نہیں ۔ دن کو لوگ تجھ پر اپنے غیظ و غضب اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک آتا ہے تجھے فریبی کہتا ہے ، دوسرا آتا ہے تو تجھے دھوکہ باز کہہ دیتا ہے ، تیسرا آتا ہے تو تجھے عزت کا خواہش مند کہہ کر چلا جاتا ہے ۔ غرض ہزاروں قسم کی گالیاں اور ہزاروںقسم کے الزامات ہیں جو تجھے دشمنوں سے سننے پڑتے ہیں مگر اللہ تعالی فرماتا ہے دن اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں۔ دن کو لوگ تجھے اپنی دشمنی کی وجہ سے ہلاک کر سکتے ہیںمگر چونکہ ہم تمہارے ساتھ ہوتے ہیں وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ وہ گالیاںدیتے ہیں ،وہ تجھے برا بھلا کہتے ہیں، وہ تیرے ہلاک کرنے کے لئے کئی قسم کے منصوبے کرتے ہیں مگر اپنی تمام کوششوں میں ناکامی اور نامرادی کا منہ دیکھتے ہیںاور اس طرح دن کی ایک ایک گھڑی تیری صداقت اور راستبازی کا دنیا میںاعلان کررہی ہوتی ہے ۔ اس کے بعد جب سارے دن کی گالیاں سن کر رات آتی ہے اور تم سمجھتے ہو کہ میں کیا کروں مجھ سے تو ساری دنیا ناراض ہے اس وقت ہم تجھے تسلی دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو تجھ سے ناراض نہیں ۔ دنیا اگر ناراض ہے تو بے شک ہو ۔
میں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک نوٹ بک دیکھی ۔ آپ ؑ کا معمول تھا کہ جب کوئی پاک جذبہ آپؑ کے دل میں اٹھتا آپ ؑ اسے لکھ لیتے ۔ اس نوٹ بک میں آپ نے ایک جگہ خدا تعالی کو مخاطب کر کے لکھا تھا :۔
’’ او میرے مولا۔ میرے پیارے مالک ، میرے محبوب ۔ میرے معشوق خدا ! دنیا کہتی ہے تو کافر ہے مگر کیا تجھ سے پیارا مجھے کوئی اور مل سکتا ہے؟ اگر ہو تو اس کی خاطر تجھے چھوڑ دوں ۔ لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ جب لوگ دنیا سے غافل ہو جاتے ہیںجب میرے دوستوں اور دشمنوں کو علم تک نہیںہوتا کہ میں کس حال میںہوںاس وقت تو مجھے جگاتا ہے اور محبت سے پیار سے فرماتا ہے کہ غم نہ کھا میںتیرے ساتھ ہوں تو پھر اے میرے مولا یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس احسان کے ہوتے ہوئے پھر میںتجھے چھوڑدوں ۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔‘‘ (بدر مورخہ ۱۱ جنوری ۱۲ء ص ۶)
یہی مضمون اللہ تعالی نے ما ودعک ربک وما قلی میںبیان فرمایا ہے کہ دن ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ میںتیرے ساتھ ہوں دشمن تیری طرف اپنا ہاتھ نہیں بڑھا سکتا ۔ اور رات ثبوت ہوتی ہے اس بات کا کہ میںتجھ سے ناراض نہیں ۔ تو دن کے وقت دشمن کے منہ سے کئی قسم کی ناراضگی کی باتیں سنتا ہے اور تیرا دل سخت غمزدہ ہوتا ہے مگر جب رات آتی ہے تو ہم تجھ سے کہتے ہیںتو دشمن کی ان گالیوں سے مت گھبرا ہم تجھ سے خوش ہیں ۔ پس دن کی حفاظت اور رات کا مکالمہ الہی دونوں ا س بات کا ثبوت ہیں کہ ما ودعک ربک وما قلی ۔
چھٹے معنے یہ ہیں کہ ایک روحانی قبض و بسط کا وقت بھی ہر انسان پر آیا کرتا ہے جس کا اس آیت میںذکر کیا گیا ہے ۔ جہاں میں نے خالص دینی اور جسمانی کاموں کے متعلق قبض و بسط کی کیفیات کا ذکر کیا تھا وہاں ایک وقت انسان کی حالت پر ایسا بھی آتا ہے جب اس کی روحانی حالت پر قبض کی حالت طاری ہو جاتی ہے اس میں بھی چھوٹے اوربڑے سب یکساں ہیں اور سارے انسانوں پر ہی یہ قبض و بسط کا دور آتا ہے اس دور کا آنا بھی انسانی ترقیات کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے ۔ اللہ تعالی رسول کریم ﷺ سے فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ما ودعک ربک وما قلی جیسے بعض روحانی دور رسول کریم ﷺ پر اس رنگ میں آئے کہ وحی کانزول کچھ دنوں کے لئے بند ہو گیا جو روحانی طور پر ایک وقفہ تھا جو اللہ تعالی نے پیدا کر دیا ۔ اسی طرح فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ ہم ان وقتوںکو بھی پیش کرتے ہیں جو تیرے لئے ضحی کا رنگ رکھتے ہیں اور ہم ان وقتوں کو بھی پیش کرتے ہیںجو تیرے لئے لیل کا رنگ رکھتے ہیں ۔ یعنی تیری روحانی حالت پر ہمیشہ ضحی کی کیفیت نہیںرہے گی بلکہ کبھی کبھی رات کی تاریکی کی سی حالت بھی آئے گی ۔ مثلاً کبھی نزول وحی میں روک پیدا ہو جائیگی یا قلب میںوہ بلندی نہیں ہو گی جو دوسرے وقتوں میں تجھے نظر آئے گی ۔ مگر تیرے قلب کی یہ کیفیت دوسرے لوگوں سے بالکل مختلف ہو گی ۔ اور لوگوں کے دلوں میںجب قبض آتی ہے تو وہ خدا تعالی سے دور جا پڑتے ہیں مگر فرمایا ما ودعک ربک و ما قلی ۔ تیری ضحی کی حالت بھی خدا کو پیاری ہو گی اور تیری لیل ؔ کی حالت بھی خدا کو پیاری ہو گی ۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میںجس قدر چیزیں پائی جاتی ہیں وہ سب لہروں میںچلتی ہیں ۔پہاڑ ہیں تو وہ لہروں میںچلتے ہیں ۔ دریا ہیںتو وہ لہروں میںچلتے ہیں ۔ ہوائیں ہیں تووہ لہروں میںچلتی ہیں۔ بجلیاں ہیں تو وہ لہروں میںچلتی ہیں ، غرض ہر چیز اپنے اندر لہریں رکھتی ہے ۔ جس طرح مادیات میں لہروں کا قانون جاری ہے اسی طرح روحانیت میںبھی مختلف لہریںچلتی رہتی ہیںلیکن بعض لہریںایسی ہوتی ہیںکہ ان لہروں کی جو ادنیٰ حالت ہوتی ہے وہ بھی کفر کی ہوتی ہے ۔ اگر ان لہروں میںکبھی انسان پر خشیت بھی طاری ہوتی ہے تو وہ ایسی نہیںہوتی جو ایمان کی علامت ہو ۔ اس کے مقابل پر بعض لہریںایسی ہوتی ہیں کہ ان کی ادنیٰ حالت کفر کی ہوتی ہے اور اعلیٰ حالت ایمان کی ہوتی ہے اور بعض ایسی روحانی حالتیں ہوتی ہیں کہ ادنیٰ حالت گو کفر کی نہیںہوتی مگر خدا تعالی کی معیت کی بھی نہیں ہوتی ۔ یعنی وہ گو ادنیٰ حالت خدا تعالی کی ناراضگی والی نہ ہو مگر ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ایسے شخص کو خدا تعالی کی معیت حاصل ہے ۔ ایک حالت عدم معیت کی ہوتی ہے اور ایک حالت حصول معیت کی ہوتی ہے یہ الگ الگ مقام ہیں جو روحانی درجات کے حصول کے وقت پیش آتے ہیں ۔ ایسے شخص کی ادنیٰ حالت کو دیکھ کر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اسے خدا تعالی کی مقبولیت حاصل ہے گو ہم یہ بھی نہیںکہیں گے کہ خدا تعالی نے اسے چھوڑ ا ہوا ہے ہاں اس کی اعلی حالت بیشک خدا تعالی کی معیت کا ثبوت ہوتی ہے ۔ لیکن ایک مقام وہ ہے کہ جب انسان نیچے آئے تب بھی اس خدا تعالی کی معیت حاصل ہوتی ہے پس فرماتا ہے والضحیٰ ۔ والیل اذا سجیٰ ۔ اے محمد ﷺ روحانی لہروں میںتیرے لئے وہ وقت بھی آتا ہے جو ضحی کا ہوتا ہے اور جب تو کلی طور پر خدا کے سامنے ہوتا ہے اور تیرے لئے وہ وقت بھی آتا ہے جب تجھ پر قبض طاری ہوتی ہے مگر ما ودعک ربک وماقلی ۔ تیری قبض کی حالت بھی خدا کی معیت کے ماتحت ہو گی اور تیری بسط کی حالت بھی خدا کی معیت کے ماتحت ہو گی ۔ صرف معیت کے مدارج میں فرق ہو گا یہ نہیں ہو گا کہ خداتعالی کی معیت کا مقام جو تجھے حاصل ہے وہ کسی حالت میں جاتا رہے ۔ تیری دونوں حالتیں خواہ وہ قبض کی ہوں یا بسط کی خدا کی معیت اور اس کی خوشنودی کا ثبوت ہوں گی صرف کمی بیشی کا فرق ہو گا مگر یہ نہیں ہو گا کہ معیت جاتی رہے ۔ یہ وہی مقام ہے جسے صوفیاء نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ حسنات الابرار سیئات المقربین در اصل اس مقام کو کھول کر بیان کر نا سخت مشکل ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نے بجائے کھلے طورپر ا س کا ذکر کرنے کے اشاروں اشاروں میںہی بیان کر دیا کہ حسنات الابرار سیئات المقربین یعنی وہ مقام جو ابرار کے لئے بسط کا ہوتا ہے اور جسے وہ حصول عرفان کے بلند ترین درجہ سمجھتے ہیںوہ مقربین کے لئے قبض کا مقام ہوتا ہے ۔ انہوں نے بھی اشاروں میںیہ بات بیان کی ہے اور میں بھی اس بات پر مجبور ہوں کہ اشاروں تک اس بات کو محدود رکھوں ۔ حقیقت میںیہ روحانی لہریں ہوتی ہیں جو کبھی اونچی چلی جاتی ہیں اور کبھی نیچے کی طرف آجاتی ہیں۔ ان کے لئے اس بات کو بیان کرنا مشکل تھا اور میرے لئے نسبتا ً آسانی ہے کیوں کہ لہروں کے علم نے اس مسئلہ کو سمجھنے میں بہت کچھ سہولت پیدا کر دی ہے ۔ بہرحال اللہ تعالی اس آیت میں یہ مضمون بیان فرماتا ہے کہ محمدی مقام کی نچلی لہریں بھی ما ودعک ربک وما قلی کا ثبوت ہیںاور محمدی مقام کی اونچی لہریں بھی ما ودعک ربک وما قلی کے ماتحت ہیں ۔ دونوں حالتوں میں خدا تعالی کی معیت آپ ؐ کے شامل حال رہے گی اور کبھی کوئی مقام خدا تعالی کی ناراضگی یا اس کی باپسندیدگی کا نہیںآئے گا ۔ جس طرح پرندہ اڑتا ہے تو ایک جھٹکا کھاتا ہے اور بظاہر نظر آتا ہے کہ وہ نیچے ہوا ہے حالانکہ وہ اڑان کا ایک حصہ ہے اسی طرح رسول کریم ﷺ کے لئے اللہ تعالی کی صفت قبض اس طرح ظاہر ہو گی کہ ہر قبض کی حالت بسط کا موجب بنے گی اور اوپر اٹھانے کا ذریعہ ہو گی۔
ساتویں معنے والضحی والیل اذا سجی کے یہ ہیں کہ ہر نبی کی دو زندگیاں ہوتی ہیں ایک اس کی فردی زندگی ہوتی ہے اور ایک اس کی سلسلہ کی زندگی ہوتی ہے ۔ فردی زندگی کے لحاظ سے اگر اس آیت کے مضمون کو لیا جائے تو ضحی اور لیل دونوں زمانے رسول کریم ﷺ کی جسمانی حیات کے ساتھ تعلق رکھیں گے لیکن جب اس آیت کو آپؐ کی قومی زندگی پر چسپاں کیا جائے گا تو ضحی اور لیل سے رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد کے وہ دور مراد ہوں گے جو امت محمدیہ پر آنے والے تھے ۔ اللہ تعالی اس آیت میںاسی جماعتی زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے والضحی والیل اذا سجیٰ ۔ ہم اس وقت کو بھی پیش کرتے ہیں جو تیری قومی اور جماعتی زندگی کے لئے ضحی کی حیثیت رکھتا ہو گا اور ہم اس وقت کو بھی پیش کرتے ہیں جو تیری قومی اور جماعتی زندگی کے لئے لیل کا مصداق ہو گا ۔ دنیا میں ہر قوم پر ترقی اور تنزل کے مختلف دور آتے ہیں کبھی اقبال اور فتح مندی اس کے شامل حال ہوتی ہے اور کبھی ادبار اور ناکامی کی گھٹائیںاس پر چھائی ہوتی ہیں بالعموم قومیں ترقی کر کے جب تنزل کی طرف جاتی ہیںتو ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد ہو جاتی ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ محمد ﷺ کا جو زمانہ نبوت ہے یعنی آپ ؐ کے دعویٰ سے لے کر قیامت تک کا زمانہ یہ دور تنزل سے بالکل محفوظ رہے گا ۔ ضحی کی روشنی یکساں جلوہ گر رہے گی ، کبھی لوگ خدا سے دور نہیں ہو ں گے اور ادباریا گمراہی کا زمانہ امت محمدیہ پر نہیںآئے گا بلکہ ہم مانتے ہیں کہ ضحی کی حالتیں بھی امت محمد یہ پر آئیں گے اور والیل اذا سجی کی حالت بھی رونما ہو گی لیکن اس کے ساتھ ہی محمد ﷺ کی قومی حیات کے متعلق ہم ایک وعدہ کرتے ہیں جو دنیا کی اور کسی قوم کے ساتھ ہم نے نہیںکیا کہ اس کی ضحٰی بھی ما ودعک ربک وما قلی کے ماتحت ہو گی اور اس کی لیل بھی ما ودعک ربک وما قلی کا ثبوت ہو گی ۔
 
Top