• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 18

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 18


۱
اپنے مقصودکوہمیشہ اپنے سامنے رکھو
(فرمودہ یکم جنوری ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
مجھے پرسوں سے نزلہ اور کھانسی اور بخار کی شکایت ہے اس وجہ سے میں اونچی آواز سے بول نہیں سکتا اور دوسرے دوستوں کے ذریعہ سے اپنی آواز پہنچانے پر مجبور ہوں۔
آج کا جمعہ نئے سال کا پہلا جمعہ ہے اور پہلا دن بھی ہے۔ پس ہمیں اس جمعہ میں آئندہ کیلئے ایسے ارادے قائم کرنے چاہئیں جو اِس نئے سال میں ہمارے لئے چُستی اورمحنت کا سامان پیدا کرتے رہیں۔ بہت سے انسان اس لئے نیک کاموں سے محروم رہ جاتے ہیں کہ ان کے سامنے کوئی مقصود نہیں ہوتا اور وہ نہیں جانتے کہ اپنے فارغ اور زائد وقت کو کہاں صرف کریں اور اس وجہ سے جب کبھی ان کو فارغ وقت ملتا ہے وہ اسے سُستی میں ضائع کردیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے لئے نیک ارادوں کی ایک فہرست بنالے اور اسے اپنے ذہن میں رکھے تو اُسے فارغ اوقات میں اُن ارادوں کو پورا کرنے کی طرف تحریک ہوتی رہتی ہے اور وہ بہت سے ایسے کام کرلیتا ہے جن سے اس کا دوسرا بھائی جس نے پہلے سے اپنے لئے کوئی مقصود قرار دیا ہؤا نہیں ہوتا محروم رہ جاتا ہے۔
پس میں آج کے دن تمام دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دلوں میں یہ پختہ عہد کرلیں کہ احمدیت کی طرف سے جو اُن کے سامنے مطالبہ پیش کیا گیا ہے وہ اُسے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں گے اور اپنی زندگی کو اُس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ احمدیت کسی انجمن یا سوسائٹی کا نام نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کا دوسرا نام ہے اور اسلام ایک وسیع تعلیم کے مجموعہ کا نام ہے جو مذہب کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور اخلاق کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور تمدن کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور سیاست کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور معاملاتِ باہمی کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور اقتصادیات کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور نفسیات کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور انسانی دماغ کے رُجحانات کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور انسانی جذبات کے اُتار چڑھائو کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے ۔ غرض آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کوئی بات ایسی نہیں جس کے متعلق اسلام کوئی نہ کوئی ہدایت نہ دیتا ہو۔ پھر جو شخص احمدیت کو قبول کرکے اِس امر پر خوش ہوجاتا ہے کہ مَیں وفاتِ مسیحؑ کا قائل ہوگیا ہوں یا آنے والے مسیحؑ پر ایمان لے آیا ہوںیا میں نماز یں باقاعدہ پڑھنے لگا ہوں یا میں روزے باقاعدہ رکھتا ہوں یا میں زکوٰۃ دیتا ہوں یا میں حج اگر مجھے توفیق ہے تو بجالاچکا ہوں اور یہ خیال کرتاہے کہ گویا اُس نے احمدیت پر عمل کرلیا تو اُس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص سمندر میں سے پانی کا ایک گلاس نکال لے اور خیال کرے کہ سمندر میرے قبضہ میں آگیا ہے۔ اگر صرف یہی پانچ سات مسائل اسلام کہلاتے ہیں تو اتنے بڑے قرآن کے نازل کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی یہ باتیں تو دو تین رکوع میں آسکتی تھیں۔ پس جو شخص ان احکام پر قانع ہوجاتا ہے وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی نسبت قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم کچھ حصۂ قرآن پرایمان لائے اورکچھ حصہ کا انکارکرتے ہو۔ ۱؎ آخر وہ وسیع تعلیمیں جو اللہ تعالیٰ نے توحید کے باریک مسائل کے متعلق قرآن کریم میں بیان فرمائی ہیں یا محبت ِالٰہی اور توکّل کے متعلق بیان فرمائی ہیں یا وہ تفصیلات جو اُس نے اخلاق کے متعلق بیان فرمائی ہیں یا تمدن یا سیاست یا اقتصادیات یا معاملات کے متعلق بیان فرمائی ہیں، اُن پر کون عمل کرے گا۔ کیا قرآن کریم کے یہ حصے بیکار پڑے رہیں گے؟ کیا ان کی طرف توجہ کرنے والے مسلمانوں سے باہر کوئی اور لوگ ہوں گے؟ پس جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ قرآنِ کریم کے تمام مطالب اور اس کی تمام تعلیمات کو زندہ کرے خواہ وہ مذہب اور عقیدہ کے متعلق ہوں یا اخلاق کے متعلق ہوں یا اصولِ تمدن اور سیاسیات کے متعلق ہوں یا اقتصادیات کے اور معاملات کے متعلق ہوں۔ کیونکہ دُنیا اِن سارے اُمور کے لئے پیاسی ہے اور بغیر اس معرفت کے پانی کے وہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ خدا نے اِسی موت کو دیکھ کر اپنا مامور بھیجا ہے اور وہ امید رکھتا ہے کہ اس مامور کی جماعت زندگی کے ہر شعبہ میں اسلامی تعلیم کو قائم کرے گی اور جس حد تک اُسے عمل کرنے کا موقع ہے وہ خود عمل کرے گی اور جن امور پر اسے ابھی قبضہ اور تصرف حاصل نہیں ان کو اپنے اختیار میں لانے کی سعی اور کوشش کرے گی۔
یاد رکھو کہ سیاسیات اور اقتصادیات اور تمدنی اُمور حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پس جب تک ہم اپنے نظام کو مضبوط نہ کریں اور تبلیغ اور تعلیم کے ذریعہ سے حکومتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں، ہم اسلام کی ساری تعلیموں کوجاری نہیں کرسکتے۔ پس اِس پر خوش مت ہو کہ تلوار سے جہاد آجکل جائز نہیں یا یہ کہ دینی لڑائیاں بند کردی گئی ہیں۔ لڑائیاں بند نہیں کی گئیں، لڑائی کا طریقہ بدلا گیا ہے اور شاید موجودہ طریقہ پہلے طریق سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ تلوار سے ملک کا فتح کرنا آسان ہے لیکن دلیل سے دل کا فتح کرنا مشکل ہے۔
پس یہ مت خیال کرو کہ ہمارے لئے حکومتوں اور ملکوں کا فتح کرنا بند کردیا گیا ہے بلکہ ہمارے لئے بھی حکومتوں اور ملکوں کا فتح کرنا ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ کے لئے ضروری تھا صرف فرق ذریعے کا ہے۔ وہ لوہے کی تلوار سے یہ کام کرتے تھے اور ہمیں دلائل کی تلوار سے یہ کام کرنا ہوگا۔
پس آرام سے مت بیٹھو کہ تمہاری منزل بہت دُور ہے اور تمہارا کام بہت مشکل ہے اور تمہاری ذِمّہ واریاں بہت بھاری ہیں۔ تم ایک خطرناک صورتِ حالات میں سے گزررہے ہو کہ باوجود تمہاری کمزوری کے خداتعالیٰ نے تم پر وہ بوجھ لادا ہے کہ جس کے اُٹھانے سے زمین اور آسمان بھی کانپتے ہیں۔ دنیا کی حکومتیں صرف ایک ایک قوم سے لڑائی کے موقع پر خائف ہوجاتی ہیں اور انجام سے ڈرتی ہیں۔ لیکن آپ لوگوں کو خداتعالیٰ کا حکم ہے کہ قرآن کی تلوار لے کر دُنیا کی تمام حکومتوں پر ایک ہی وقت میں حملہ کردیں اور یا اِس میدان میں جان دے دیں یا اُن ملکوں کو خدا اور اس کے رسول کیلئے فتح کریں۔ پس چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف مت دیکھو اور اپنے مقصود کو اپنی نظروں کے سامنے رکھو۔ اور ہر احمدی خواہ کسی شعبۂ زندگی میں اپنے آپ کو مشغول پاتا ہو اُس کو اپنی کوششوں اور سعیوں کا مرجع صرف ایک ہی نقطہ رکھنا چاہئے کہ اُس نے دُنیا کو اسلام کیلئے فتح کرنا ہے۔ ہمارا ایک تاجر اپنی تجارت کے تمام کاموں میں اِسی امر کو مدنظر رکھے اور ایک صناع بھی اپنے تمام کاموں میں اِسی امرکو مدنظر رکھے اور ایک معلم بھی اپنی تعلیم میں اسی امر کو مدنظر رکھے اور ایک قاضی بھی اپنے فیصلوں میں اِسی امر کو مدنظر رکھے۔ غرض جس جس کام میں کوئی احمدی مشغول ہے وہ یہ یاد رکھے کہ اس کے کام کا آخری نتیجہ اِسی صورت میں ظاہر ہو کہ دُنیا، خدا اور اس کے رسو ل کیلئے فتح کرتا جائے۔ اگر ہمارے تمام دوست اس مقصود کو اپنے سامنے رکھیں تو اُن کو ذہنی طور پر اتنی بلندی حاصل ہو کہ جو دُنیا میں کسی قوم کو حاصل نہیں ہوئی۔ آج تو ان کی مثال ایک کنویں کے مینڈک کی سی ہے کہ ایک نہایت چھوٹی سی منزلِ مقصود ان کے سامنے ہے اور وُہ اتنا بھی تو نہیں جانتے کہ خداتعالیٰ نے کیا کام ان کے سپرد کیا ہے۔ حالانکہ کام کرنے سے پہلے خود کام کی مقدار کا جاننا ضروری ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں شروع میں کہہ چکا ہوں کہ ان میں سے بعض چندہ دیتے ہیں اور خوش ہوجاتے ہیں اوربعض نمازیں پڑھتے ہیں اور خوش ہوجاتے ہیں اور بعض روزے رکھتے ہیں اور خوش ہو جاتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ یہ تعلیمیں تو اسلامی تعلیم کے سمندر کا ایک قطرہ ہیں۔
پس چاہئے کہ ہمارے دوست سلسلہ کے قیام کی اہمیت کو سمجھیں اور اسلام کی وسیع تعلیم کو اپنے سامنے رکھیں اور دنیا میں جس قدر خرابیاں پیدا ہورہی ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں اور صرف ایک محدود خیال کے اندر اپنے آپ کو مقیّد نہ کریں۔ قرآن شریف میں بھی آتا ہے اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ مومن کاادنیٰ بدلہ آسمان اور زمین ہوں گے۔ اب سوچو توسہی کہ آسمان اور زمین مومن کو مل کیونکر سکتے ہیں جب تک اس کے اعمال آسمان اور زمین پر پورے طور پر حاوی نہ ہوں۔ درحقیقت قرآن کریم اور حدیث کا یہی منشاء ہے کہ مومن کے خیالات اور اُس کے اعمال آسمان اور زمین کی تمام باتوں پر حاوی ہوتے ہیں اور چونکہ وہ آسمان اور زمین کی تمام چیزوں کی اصلاح کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے انعام میں اس کو آسمان اور زمین بخش دیتا ہے۔ ورنہ جو شخص زمین کی ایک بالشت کی اصلاح میں لگا رہے اُس کو حق ہی کہاں حاصل ہوسکتا ہے کہ آسمان اور زمین اسے بخش دیئے جائیں۔ وہ تو اس بالشت بھر زمین کا ہی حقدار ہوسکتا ہے۔ پس اگر تم چاہتے ہو کہ کامل مومن تصور کئے جائو اور خداتعالیٰ کے وعدہ کے مطابق زمین اور آسمان تمہیں انعام کے طور پر بخش دیئے جائیں تو زمین اور آسمان کی اصلاح کی طرف توجہ کرو اور اِس کا کوئی گوشہ باقی نہ رہے جس کی اصلاح کا ارادہ یا جس کی اصلاح کیلئے کوشش تمہاری نیتوں اور کوششوں سے باہر ہو۔ ہاں میں یہ مانتاہوں کہ بعض انسانوں کیلئے باوجود کوشش کے بعض کاموں کا پورا کرنا ناممکن ہوتا ہے لیکن ارادہ کرنا تو ناممکن نہیں ہوتا۔ پس عمل بے شک کُلّی طور پر آپ کے اختیار میں نہیں لیکن ارادہ تو کُلّی طور پر خداتعالیٰ نے آپ کے اختیار میں رکھا ہے۔
پس پہلے اُس چیز کو کریں جو خداتعالیٰ نے آپ کے اختیار میں رکھی ہے پھر امید رکھیں کہ خداتعالیٰ اس چیز کابھی اختیار آپ کو دے دے گا جو اُس نے اپنے قبضہ میں رکھی ہوئی تھی۔ کیونکہ جب خادم ایک کام کرلیتا ہے تو آقا اُسے دوسرا کام سپرد کردیتا ہے۔ پس ارادہ جو آپ کے اختیار میں ہے آپ اُس کی اصلاح کریں پھر خداتعالیٰ عمل کو جو آپ کے اختیار میں نہیں ہے خود درست کردے گا اور اُس کو بجالانے کی آپ کو طاقت دے گا۔
میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتاہوں کہ وہ ہماری جماعت کے اذہان میں روشنی پیدا کرے اور وہ محدودیت اور مقیدیت جو اِس وقت بہت سے لوگوں کے ذہنوں پر طاری ہے اللہ تعالیٰ اِس کی اصلاح فرمائے اور اسلام کی تعلیم کی وُسعت کے سمجھنے کی انہیں توفیق بخشے اور جس طرح خدا کی قدرت نے انہیں اِس زمانہ کا روحانی بادشاہ بنایا ہے، وہ خود بھی اپنی بادشاہت کو محسوس کرتے ہوئے روحانی عالَم کے تمام محکموں کے سمجھنے اور ان کو درست رکھنے کی کوشش کریں۔ اے خدا تُو ایسا ہی کر۔
(الفضل ۸؍ جنوری ۱۹۳۷ئ)
؎۱ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ (البقرۃ: ۸۶)

۲
دُنیاایک بار پھر عظیم الشان جنگ کے ذریعہ قیامت کا نظارہ دیکھنے والی ہے
(فرمودہ ۸؍جنوری ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
انسانی عقل ایک ایسے مقام پرکھڑی رہتی ہے کہ جس سے ذرا اِدھر اُدھر ہوکر انسان تباہی و بربادی کے گڑھے میں گرجاتا ہے۔ گویا انسانی ارادہ ہر وقت پُل صراط پر رہتا ہے کہ جس کے اندر ذرا سا تغیر یا تبدیلی پیدا ہونے کی وجہ سے نہایت خطرناک نتائج نکل آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے اچھے سمجھدار اور معقول انسان ان غفلت کی گھڑیوںمیں جبکہ وہ عقل و فہم کو قابو میں نہیں رکھ سکتے، ایسی ایسی حرکات کے مرتکب ہوجاتے ہیں کہ دوسرے تو الگ رہے وہ خود بھی اپنی عقل کی گھڑیوں میں اپنے آپ کو ملامت کرتے ہیں اور اگر ان پر وہ ساعتیں ملامت کی نہ آئیں تو کم سے کم دنیا ان پر ہمیشہ کیلئے ملامت کرتی رہتی ہے۔ وہ جابر بادشاہ جنہوں نے اپنی طاقت کے اوقات میں کئی شہروں اور مُلکوں کیلئے قتل عام کے حکم دیئے تھے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتاہے کہ ان پر ندامت کے ساعات آئیں یا نہ آئیں، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ تاریخ میں ان واقعات کو پڑھ کر سینکڑوں ہزاروں سال بعد بھی لوگ ان پر لعنتیں بھیجتے ہیں اور ان کے افعال کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ہلاکو خان ؎۱ نے جب بغداد تباہ کیا یا نادر شاہ ؎۲ نے جب دلی کے قتل عام کا حکم دیا اُس وقت کے حالات کے مطابق وہ یہی سمجھتے ہوں کہ دیکھو ہم کتنے طاقتور ہیں۔ لیکن ان کے بعد آنے والی نسلیں جن کی تعریف یا مذمت کوئی قیمت رکھتی ہے وہ بغداد کی تباہی یا دِلّی کے قتل عام کے حالات پڑھ کر جس نفرت و حقارت سے ان افعال کو دیکھتی ہیں اِس کا اندازہ اگر اُس وقت ہلاکو یا نادر شاہ کو ہوجاتا تو میں سمجھتا ہوں باوجود بڑے بڑے طاقتور بادشاہ ہونے کے وہ اِن افعال سے باز رہتے۔ وہ بیوقوف لوگ نہیں تھے، سمجھدار اور عقلمند لوگ تھے۔ ایک بیوقوف آدمی کس طرح ہزاروں لاکھوں کی کمان کر سکتا ہے اور کس طرح اتنے وسیع رقبوں پر حکمرانی کرسکتا ہے۔ ان کی فتوحات اور حکمرانیاں بتاتی ہیں کہ وہ سمجھدار تھے مگر یہ افعال بتاتے ہیں کہ اتنے سمجھدار لوگوں پر بھی کسی وقت کمزوری اور ضُعف کا وقت آجاتا ہے۔ تویہ جابر بادشاہ جنہوں نے بڑے بڑے رقبوں اور علاقوں پر حکومتیں کیں اپنے دوسرے اعمال سے عقل اور سمجھ کا ثبوت دیتے ہیں مگر ان سے ایسے افعال بھی سرزد ہوئے جنہیں دیکھ کر یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید وہ پاگل تھے۔
انسانی جان کی قیمت کتنی بڑی ہے۔ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ جس نے ایک شخص کو ماردیا اُس نے گویا سارے جہان کو ماردیا۔ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ؎۳ یعنی ایک شخص کے قاتل کی مثال ایسی ہی ہے جیسے وہ سارے جہان کا قاتل ہے اور اگر ایک شخص کاقتل ایسا بھیانک فعل ہے تو جنہوں نے شہروں میں قتلِ عام کردیا اورحکم دے دیا کہ گلیوں میں چلتا، بازاروں میں پھرتا یا دروازوں میں کھڑا جو شخص بھی ملے اُسے قتل کردیاجائے، وہ کتنے خوفناک جُرم کے مرتکب تھے۔مگر اس کے ارتکاب کی اُن کی عقلوں نے اجازت دی۔ حالانکہ وہ لوگ بڑے بڑے سمجھدار تھے۔ اِس زمانہ کے لوگ اپنے بزرگوں پر حرف گیری کے بڑے عادی ہیں۔ ایک بچہ بھی جب تاریخ میں اِن واقعات کو پڑھتاہے تو کہہ اُٹھتا ہے کہ وہ لوگ بڑے وحشی تھے، بڑے غیرمہذب اور بڑے غیرمتمدن تھے کیونکہ انہوں نے ہزاروں اشخاص کو مروا دیا اور دل میں ایک فخر محسوس کرتاہے کہ اسے خدا نے ایسے زمانہ میں پیدا کیا ہے یا اگر وہ خدا کا قائل نہیں تو اتفاقی طور پر وہ ایسے زمانہ میں پیدا ہؤا ہے جب کہ لوگ بہت مہذب اور بہت متمدن ہیں اور جبکہ ایسی حرکات کو بالکل ناجائز سمجھا جاتا ہے۔
مگر غور کرنا چاہئے کہ کیا یہ خیالات درست ہیں؟ کیا واقعہ میں آج انسان ایسا مہذب و متمدن ہوگیا ہے کہ انسانی جان کی قیمت بڑھ گئی ہے؟ جب ہم دیکھتے ہیں کہ بیسیوں ڈاکٹر اپنے گھروں کو چھوڑ کر غیرممالک کو جاتے ہیں اور اس لئے تکالیف اُٹھاتے ہیں کہ بیماروں کا علاج کریں۔ کوئی انگلستان کو چھوڑ کر چین چلا جاتا ہے، کوئی افریقہ کے جنگلوں میں مارا مارا پھر رہا ہے، کوئی ہندوستان میں آکر کوڑھیوں کے علاج میں مصروف ہے تو دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ آجکل کے لوگ بہت متمدن ہیں اور دوسرے کی جان لینے کی بجائے اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر اس کے بالمقابل ہم یہ دیکھیں کہ ہزاروں لوگ ایسی ایجادیں کرنے میں لگے ہوئے ہیںکہ جن کے ذریعہ ایک حملہ سے سینکڑوں ہزاروں لوگ مرجاتے ہیں یا عمر بھر کیلئے بیکار ہوجاتے ہیں تو عقل یہ تسلیم کرنے سے عاجز آجاتی ہے کہ بچانے والے افعال انسانیت اور تمدن کانتیجہ تھے۔ اگر اُس زمانہ کا انسان ترقی کرچکا ہوتا، زیادہ متمدن ہوچکا ہوتا، پہلوں سے زیادہ مہذب ہوتا، انسانیت کے زیادہ قریب ہوچکا ہوتا تو یہ کیونکر ممکن تھا کہ ایک بھائی تو ایک جان کو بچانے کیلئے اپنا وطن چھوڑتا اور دوسرا بھائی جس سے پہلے کو بھی پوری ہمدردی ہے اس لئے گھر سے نکلتا کہ نہتے اور کمزور ہزاروں انسانوں کو ایک ہی بم سے اُڑادے ۔ اگر تہذیب نے ترقی کی ہوتی تو لوگوں کا اکثر حصہ ہمیں ایسا نظر آتا جو ایسے جان لینے کے ذرائع کو حقارت کی نظر سے دیکھتا لیکن ہمیں نظر یہ آتا ہے کہ انسان کی جان لینے کیلئے اور ایسی ایجادیں کرنے کیلئے کہ کس طرح مخالف کو آسانی سے اپاہج اور بیکار کیا جاسکتا ہے، اتنے آدمی مصروف ہیں کہ جان بچانے کی فکر کرنے والے اتنے نہیں۔ پھر جو جان بچانے کی فکر میں ہیں ان کے دل بھی ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو جان لینے والی ایجادات کرنے میں منہمک ہیں۔ جب جرمنی سے جنگ ہورہی تھی کیا انگلستان کے وہ ڈاکٹر جو اپنی رحم دلی کا ثبوت دینے کیلئے ہندوستان میں کوڑھیوں کے علاج میں مصروف تھے یا ملیریا کے ازالہ کیلئے کام کررہے تھے، اُن کے دلوں سے ہر وقت یہ آواز نہیں اُٹھ رہی تھی کہ خدا ہمارے بھائی کو طاقت دے تا وہ زیادہ سے زیادہ جرمنوں کے سر کاٹ سکے اور کیا وہ درخواستیں نہیں کررہے تھے کہ انہیں بھی جنگ میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے تا وہ اپنے جان بچانے والے کام کو چھوڑ کر جان لینے کا کام کرکے راحت حاصل کرسکیں اور پھر کیا یہی حال آسٹرین اور جرمنوں کا بھی نہیں تھا؟ ہزاروں ڈاکٹر جو ہمیشہ مریضوں کو تسلی دیتے تھے کہ ہم ہر قربانی کرکے تمہاری جان بچائیں گے کیا اُس وقت سارا زور نہیںلگا رہے تھے کہ جس طرح بھی ہوسکے اپنے مخالفوں کی جانیں زیادہ سے زیادہ نکال سکیں۔ پس اِس نظارہ کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ انسان نے تہذیب و تمدن میں ترقی کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان نے تہذیب و تمدن میں نہیں بلکہ فریب اور دھوکا دینے میں، ظاہر داری میں اورجھوٹ میں ترقی کی ہے۔
ہلاکو لوگوں کو مرواتا تھا اور کہتا تھا کہ میں مارنے کیلئے آیا ہوں مگر آج کے ہلاکو جب مارتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم خدمت کیلئے آئے ہیں۔ نادر نے یہ کہہ کر قتل عام کرایا تھا کہ میں اسے جائز سمجھتا ہوں مگر اِس زمانہ کے کتنے نادر ہیں جو شہروں کو اُجاڑتے ہیںمگر کہتے ہیں کہ ہم اس قوم کی آزادی اور برتری کیلئے آئے ہیں۔ ذرا غور کرو نادر نے دِلّی میں جو قتلِ عام کیا اس کی کیا حقیقت تھی اس خونریزی کے مقابلہ میں جو ایبیسینیا میں اٹلی نے کی ہے۔ اَبی سینیا میں معمولی آدمی تو الگ رہے خود باشاہ بھی زہریلے بموں کے اثر سے بچ نہیں سکا اور سر سے پیر تک زخمی ہوگیا۔ اچھے اچھے سمجھدار آدمی ، مدبرین اور جرنیل پاگلوں کی طرح چیخیں مارتے پھرتے تھے۔ جتنی تباہی حبشہ میں اٹلی کی بمباری نے کی اتنی تو دِلّی میں نہیں ہوئی ہوگی۔ مگر نادر نے یہ ہرگز نہیں کہا تھا کہ میں دلی کی اصلاح کیلئے آیا ہوں بلکہ اس نے یہی کہا تھا کہ میں قتل کیلئے آیا ہوں۔ وہ قاتل بیشک تھا مگر جھوٹا نہیں تھا مگر آجکل کے قاتل اپنے فائدہ کیلئے غریبوں کی کھالیں اُدھیڑتے ہیں مگر کہتے یہ ہیں کہ ہم رفاہِ عام کررہے ہیں، ملک کی ترقی کیلئے آئے ہیں یہ لوگ پہلوں سے زیادہ قاتل ہیں اور پھر ساتھ جھوٹے بھی ہیں۔ اِن حالات میں ہماری جماعت (جماعت سے مراد وہ لوگ ہیں جو خداتعالیٰ کے نزدیک جماعت میں شامل ہیں وہ کنویں کے مینڈک نہیں۔ جو سمجھتے ہیں چندہ دے دینا اور نمازیں پڑھ چھوڑنا کافی ہے) کے وہ دوست جو قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہاموں پر غور کرتے ہیں اور جو جانتے ہیںکہ خداتعالیٰ کی جماعتیں دنیا کوبدلنے کیلئے آتی ہیں۔ جن میں سے ایک معمولی زمیندار جب اپنے کھیت میں ہل چلا رہا ہوتا ہے تویہ نہیں سوچتا کہ مجھے غلّہ کتنا آئے گا، بلکہ یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ امریکہ اورجاپان کی اصلاح کس طرح ہوگی۔ ایک درزی جب پاجامہ سی رہا ہوتا ہے تو اُس کا خیال اس طرف نہیں ہوتا کہ مجھے اس کی کتنی اُجرت ملے گی بلکہ وہ یہ خیال کررہا ہوتا کہ فلپائن اور امریکہ میں کس طرح پاک انقلاب پیدا کیا جاسکتا ہے۔ ایک بڑھئی جب لکڑی صاف کررہا ہوتا ہے تو یہ نہیں سوچتا کہ اس سے تیار شدہ میز یا کرسی کتنے میں بکے گی بلکہ یہ سوچ رہا ہوتاہے کہ دنیا کی اقتصادیات اور تہذیب و تمدن کی اصلاح کیلئے کیا ذرائع اختیار کرنے چاہئیں۔ یہ وہ جماعت ہے جو حقیقتاً خدا کی جماعت ہے کنویں کے وہ مینڈک جماعت نہیں جومحض اس لئے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کو بادشاہت نہیں دی، سمجھتے ہیں کہ دنیا سے ہمیں کیا سروکار اور ہمیں ان باتوں پر غور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں اس دوسری قسم کے لوگوں کو مخاطب نہیں کرتا بلکہ اُن کو کرتا ہوں جو خدا کے نزدیک بھی جماعت میں شامل ہیں۔
بابر ؎۴ نے اپنے دشمنوں سے گیارہ مرتبہ شکست کھائی اور اس کے بعد وہ بیان کرتاہے کہ میں پاخانہ بیٹھاہؤا بھی ملکوں کی فتوحات کے متعلق سوچا کرتا تھا اور میری ترقی کا ذریعہ ہی یہ ہؤا کہ ایک مرتبہ پاخانہ بیٹھے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک چیونٹی ایک دانہ کو دیوار پر چڑھانا چاہتی ہے دانہ بڑا اور وہ چھوٹی تھی بار بار چڑھتی اور پھر گرجاتی تھی اور اسی طرح وہ بیس سے زیادہ بار گری لیکن آخرکار کامیاب ہوگئی۔ یہ دیکھ کر مجھے استنجے کی بھی ہوش نہ رہی اور میں نے خیال کیا کہ کیا میں اِس چیونٹی سے بھی گیا گزرا ہوں کہ گیارہ شکستوں سے ڈر جائوں۔ چنانچہ اُس نے پھر اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے کامیابی دی اور آج دُنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ پھر کیا ہماری جماعت کیلئے جسے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ فتوحات پر فتوحات دی ہیں اور جس نے شکست کانام بھی نہیں سنا، مناسب ہے کہ خیال کرے ہمیں دنیا سے کیا؟
ہمارے ایک غریب زمیندار کو جو دو یا چار کنال زمین پر گزر اوقات کرتا ہے، یہ ہرگز ہرگز خیال نہیں کرنا چاہئے کہ مجھے دُنیا کی سیاست سے کیا سروکار۔ ایک غریب تاجر جو چار یا چھ آنے یومیہ کماتا ہے اسے یہ خیال کرلینا مناسب نہیں کہ مجھے غیر ممالک میںپیدا ہونے والے انقلابات سے کیا واسطہ۔ اسی طرح ایک چھوٹے مدرّس کو جو الف۔ ب پڑھاتا ہے یہ ہرگز سمجھنا نہیں چاہئے کہ مجھے دُنیوی علوم سے کیا تعلق۔ اسی طرح ہمارے بڑھئی، درزی اور دھوبی کو یہ کبھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ میں جو کماتا ہوں اس میں سے حسبِ حیثیت چندہ دے دیتا ہوں مجھے اس سے کیا مطلب کہ دنیا کی اقتصادی حالت کیسی ہے۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اسے اسی لئے پیدا کیا گیا ہے کہ دُنیا کو الٹ دے۔
جو شخص بھی اس جماعت میں داخل ہوتا ہے وہ گویا اقرار کرتا ہے کہ اس جماعت کی ذمہ واریوں کو وہ قبول کرتا ہے۔ اور اگر ابھی وہ زمانہ نہیں آیا کہ وہ باہر نکلے تو کم سے کم اسے یہ خیال توکرنا چاہئے کہ وہ کس غرض کیلئے پیدا کیا گیاہے۔ کیا فوجی سپاہی ہرروز لڑائی کرتے ہیں؟ یاکیا پولیس والے ہر روز چوروں کو پکڑا کرتے ہیں؟ مگر کیا کبھی کسی سپاہی کے دل میں یہ خیال آسکتا ہے کہ میں لڑنے کیلئے نہیں ہوں؟ ایک پولیس مین خواہ دس سال تک کسی چور کو نہ پکڑ سکے اس کے مدنظر یہی ہوگا کہ جب بھی موقع ملے، اسے پکڑوں۔ اور اگر وہ بددیانت ہے تو یہ خیال آئے گاکہ روپیہ لے کر اسے چھوڑ دوں مگر روپیہ بھی تو اسی حالت میں لے گا جب اسے پکڑے گا۔ بہرحال چور کو پکڑنے کا خیال اس کے مدنظر ہوگا۔ ایک سپاہی کے سامنے بھی ہمیشہ لڑائی ہوگی۔ اگر وہ بہادر ہے تو وہ خیال کرے گا کہ اگر لڑائی ہوئی تو میں اپنے ملک کیلئے یوں جان قربان کردوں گا اور دشمن کو شکست دوں گا۔ اگر کم بہادر ہے تو وہ خیال کرے گا کہ خدا کرے لڑائی نہ ہو۔ کیونکہ اگر ہوئی تومجھے لڑنا پڑے گا۔ اور اگر وہ بُزدل ہے تو خیال کررہا ہوگا کہ اگرلڑائی ہوئی تو میں بھاگوں گا کس طرح۔ پس خواہ اپنی بہادری دکھانے کیلئے ہو خواہ لڑائی سے بچنے کیلئے اور خواہ بھاگنے کی تجاویز سوچنے کیلئے، بہرحال سپاہی کے مدنظر لڑائی ضروری ہوگی۔ اسی طرح تم میں سے خواہ کوئی بڑھئی ہے یا دھوبی یا جولاہا، معمولی زمیندار ہے یا ادنیٰ تاجر، اگر اپنا اپنا کام کرتے وقت اُس کے ذہن میں دُنیا کی اصلاح کی تجاویز نہیں آتیں تو گویا اُس نے اپنی پیدائش کی غرض نہیں سمجھی۔
میںتو حیران ہوتا ہوں کہ بعض دوست شکایت کرتے ہیں کہ الفضل میں سیاسی مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اگر وہ دنیا کی سیاسیات سے واقف نہیں ہوںگے تو اس کی اصلاح کیسے کریں گے۔ کیا سیاست قرآن کریم کا حصہ نہیں؟ ہاں اگر کوئی بات غلط شائع ہو تو اعتراض ہوسکتا ہے۔ ایک دوست کو شکایت ہے کہ جاپان کے حالات اخبار الفضل میںکیوں درج ہوتے ہیں۔ اور یہی لوگ ہیں جن کو میں کنویں کے مینڈک کہتا ہوں۔ فکر تو یہ ہونی چاہئے کہ جاپان کے حالات تو شائع ہوتے ہیں فلپائن کے کیوں نہیں ہوتے؟ روس کے کیوں نہیں ہوتے؟ یہ غم تمہیں کھائے جانا چاہئے کہ کیا یہی ہماری پہنچ ہے کہ ہمارے اخبارمیں صرف جاپان کے حالات ہی شائع ہوتے ہیں۔ ہمارے دوستوں کو اِس پر گلہ ہونا چاہئے کہ جو نہیں چھپا نہ کہ اُس پر جو چھپ رہا ہے۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ کیا جاپان کی اصلاح ہمارا فرض نہیں؟ اگر ہے تو اس کے حالات کا علم نہ ہوگا توہمارے دل میں اس کیلئے درد کس طرح پیدا ہوگا اور ہم اس کی اصلاح کس طرح کرسکتے ہیں۔
پس ہماری جماعت کو اپنے فرائض کو سمجھنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہے کہ خداتعالیٰ نے ہمیں دنیا کی اصلاح کیلئے پیدا کیا ہے۔ خاص کر ایسے وقت میں جبکہ دنیا میں اِس قدر خرابیاںپیدا ہوچکی ہیں۔ کیا ایک طبیب کہہ سکتا ہے کہ لوگ آکر مجھے تنگ کرتے ہیں جو اپنی بیماریاں مجھے بتاتے ہیں؟ اگر وہ ان بیماریوں سے آگاہ نہ ہو تو علاج کس طرح کرسکتا ہے۔ اسی طرح جب تک تم دنیا کے حالات سے واقف نہ ہو اُس کی اصلاح کیسے کرسکتے ہو۔ ہم نے اپنے زور سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے فضل سے بہت بڑا کام کیا ہے۔ حیاتِ مسیح کے عقیدہ کو بدل دیا ہے، قرآن کریم کے نسخ کے خیالات کو بدل دیا ہے۔ عیسائی ممالک میں بائبل کے متعلق عیسائیوں کے خیالات میں تبدیلی پیدا کردی ہے مگرابھی یہ کام ایسا ہی ہے جیسے سمندر کے مقابلہ میں کنواں۔ ہمارا تعلق ساری دنیا سے ہے اس لئے ہمیں سوچنا چاہئے کہ دنیا کو ان مختلف بلائوں سے کس طرح نجات دلائی جاسکتی ہے جو اس پرنازل ہورہی ہیں۔ اگر اس خیال سے کہ ہمارے پاس طاقت نہیں بیٹھ جائیں تو کبھی کامیاب نہیںہوسکتے۔
ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک میراثی بیکار رہنے کا عادی تھا۔ اُس کی بیوی ہمیشہ اُسے کہتی کہ کوئی کام کرو مگر وہ جواب دیتا کہ کام ملتا نہیں۔ آخرجنگ شروع ہوئی اور لوگ بھرتی ہونے لگے۔ اُس کی بیوی نے کہا کہ جائو تم بھی فوج میں بھرتی ہوجائو۔ وہ کہنے لگا کہ بیویاں تو اپنے خاوندوں کی خیرخواہ ہوتی ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ تم میری دشمن ہو اور چاہتی ہو کہ میں لڑائی میں شامل ہوں اور مارا جائوں۔ اُس کی بیوی نے کچھ چنے لئے اور انہیں چکی میں پیسنے لگی۔ بعض اوقات چکی میںکسی جگہ آٹا جمع ہوجائے تو سل اونچی ہوجاتی ہے اس لئے بعض دانے ثابت ہی نکل آتے ہیں۔ میراثن نے اپنے خاوند کو بلایا اورکہا کہ دیکھو جسے خدا بچانا چاہے وہ چکی کے پاٹ میں سے بھی سلامت نکل آتا ہے اس لئے تم کیوں یہ خیال کرتے ہو کہ ضرور مارے جائو گے؟ اِس پر میراثی نے جواب دیاکہ ’’تُو مینوں دلیاں ہویاں وچہ ای سمجھ لے‘‘ یعنی تُومیرا شمار انہی دانوں میں کر جو پیسے جاچکے ہیں۔تو اس قسم کے خیال وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنا شمار پہلے ہی پسے ہوئوں میںکرلیتے ہیں۔
جنگ عظیم میں بعض انگریزی فوجوں کے آدمی وسط جرمنی میں جاکر قید ہوئے اورپھر ساری فوجوں اور حفاظتوں سے بچتے ہوئے بھاگے اور اپنے ملک میں سلامت پہنچ گئے۔ ایمڈن جرمنی کا ایک چھوٹا ساجہاز تھا جس نے مدراس پر آکر گولہ باری کی۔ ہندوستانی چونکہ جنگی فنون سے بالکل ناواقف ہیں اس لئے جب ایمڈن نے مدراس پر گولہ باری کی تو باوجودیکہ مدراس یہاں سے بارہ سَو میل دُور ہے، پنجاب کی عورتوں کے دل دھڑکنے لگے تھے۔ اس جہاز کو آسٹریلیا کے قریب جاکر انگریزی علاقہ میں اور انگریزی جزیرہ میں انگریزی فوجوں نے تباہ کیا۔ وہ ملک انگریزوں کا تھا۔ اس کے ایک طرف جاپان تھا جو انگریزوں سے ہمدردی رکھتا تھا دوسری طرف روس تھا جو خود جنگ میںشامل تھا مگر پھر بھی ایمڈن والوں کا ایک حصہ وہاں سے بھاگ کرنکل گیا اور کم سے کم ایک شخص تو جاپانی، انگریزی اور روسی فوجوں سے بچتا ہؤا جرمنی جا پہنچا اور پھر جنگ میںشریک ہوگیا جو ابھی جاری تھی۔ جس وقت جہاز تباہ ہوا وہ اگر پیشاب خطا کر کے بیٹھ جاتے توپکڑے جاتے مگر انہوںنے جرأت کی اور بچ کر نکل گئے۔ انہوں نے اپنے حیرت انگیز حالات بیان کئے ہیں کہ وہ کس طرح بچ کر نکل گئے اور پھر لڑائی میں شامل ہوگئے۔ فرانس اوراٹلی وغیرہ سب ممالک کے لوگوں نے ایسے کارنامے دکھائے۔ بعض قید ہوگئے اور سات سات سال قید رہے۔ اب بھی کئی قیدی ہیں جو جیل خانوں میں ہی مرجاتے ہیں مگر کئی ہیں جو دو چار ماہ بعد ہی بھاگ نکلتے ہیں۔ پس اگر انسان حوصلہ نہ ہارے تو سَو راہیںنکل آتی ہیں اور ہمارے لئے تو ایک راستہ بنا بنایا ہے ہم دعا توکرسکتے ہیں۔
میں اِس وقت جماعت کو اِس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اِس زمانہ میں پھر دنیا میں شدید تغیرات پیدا ہورہے ہیں اور عنقریب شدید لڑائی لڑی جانے والی ہے جو انگریزوں و جرمنوں کی گزشتہ جنگ سے بھی سخت ہوگی۔ یہ اِس وقت تک اِس وجہ سے رُکی ہوئی ہے کہ انگریز ابھی تیار نہیں۔ اگر تیار ہوتے تواٹلی نے جس وقت حبشہ پر حملہ کیا تھا اُسی وقت جنگ چھڑ جاتی۔جنگ عظیم کے بعد انگریز بیچارے تو صلح صلح پکارتے رہے اور یورپ کی دوسری قومیں اپنی فوجی طاقت کو بڑھاتی رہیں اوراب نتیجہ یہ ہے کہ اٹلی جو چھوٹا سا ملک ہے خم ٹھونک کر چیلنج دے رہا ہے اور انگریز خاموش ہیں۔ اس کی یہ وجہ نہیں کہ انگریز لڑنا نہیں چاہتے۔ بیشک انگریزوں میںبعض ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر جرمنی انگلستان پر بھی قبضہ کرے تو کیا ۔ایک اورلیبر لیڈر نے تو اِس قسم کی ایک تقریر حال میں ہی کی ہے مگر بعض ایسے بھی تھے جو محسوس کررہے تھے کہ ہماری ذلّت ہورہی ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اگر لڑائی ہوئی تو اس سے بھی زیادہ ذلّت ہوگی۔ اُس وقت سے انگریز بھی برابر سامان جنگ بڑھارہے ہیں مگر جرمنی اور اٹلی بھی اب بہت سمجھدار ہورہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انگریز ۱۹۳۷ء کے آخر تک نہیں لڑسکتے اِس لئے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ گو یہ بھی ممکن ہے کہ اگر بہت زیادہ مجبور کیا جائے تو برطانوی حکومت ۱۹۳۷ء میں ہی لڑ پڑے لیکن یوں حکومت کا پروگرام ۱۹۳۸ء میں پورا ہوگا ۔ ابی سینیا کے بعد اٹلی نے سپین میں سوال اُٹھادیا ہے۔ انگریزی اخبارات کے بیان کے مطابق اٹلی والوں کا ڈھنگ عجیب ہے۔ وہ ایک کام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ صلح کی ہرمجلس میں بھی شریک ہوتے ہیں اورجب صلح کی تجاویز ان کے سامنے پیش کی جاتی ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہم سوچ کر جواب دیں گے۔ اس سوچنے کے دوران میںحملہ بھی جاری رکھتے ہیں اور جب وہ علاقہ فتح ہوجاتا ہے یا کام ختم ہوجاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو صلح پر تیار تھے مگر افسوس اب تووہ علاقہ فتح ہی ہوگیا اورپھر کسی اور جگہ پر اپنا رسوخ بڑھانے لگ جاتے ہیں۔ اور پھر جب انگریز اور فرانسیسی سوال اُٹھاتے ہیں توکہہ دیتے ہیں کہ یہ معاملہ ذرا پیچیدہ ہے سوچ سمجھ کر جواب دیں گے۔ ادھر برطانیہ اور فرانس بھی جانتے ہیں کہ اِس سوچنے کا کیا مطلب ہے مگر کر کچھ نہیں سکتے۔ مثلاً آجکل والنٹیئروں کا سوال ہے۔ اٹلی اورجرمنی سے برابر والنٹیئر سپین جارہے ہیں۔ انگریز اور فرانسیسی کہتے ہیں یہ ٹھیک نہیں۔ اٹلی او رجرمن والے کہتے ہیں کہ اچھا ہم غور کرکے جواب دیں گے۔ مگر ساتھ ہی ۲۲؍دسمبر ۱۹۳۶ء سے ۲؍جنوری ۱۹۳۷ء تک دس ہزار والنٹیئرز اٹلی سے اور دس ہزارجرمنی سے سپین پہنچ گئے ہیں۔ باغیوں نے ساٹھ ہزار کا مطالبہ کیا تھا۔ اگر یہ درست ہے تو غالباً جب ساٹھ ہزار آدمی پہنچ جائے گا پھریہ اقوام کہہ دیں گی کہ اچھا اب والنٹیئر روانہ نہ کئے جائیں۔
اگر غور کیا جائے تو اصل میں یہ قصور دونوں کا ہے۔ اٹلی والے دیکھتے ہیں کہ فرانس اور انگلستان کے پاس بہت سی نوآبادیات ہیں اور ہمارے پاس کوئی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کوئی وجہ نہیں کہ یہ دوسرے ملکوں سے فائدہ اُٹھائیں اورہم نہ اُٹھائیں ۔ چونکہ انگلستان کے بعض مقتدر مصنف اور سیاست دان غلطی سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم ہندوستان کو تہذیب اور شائستگی سکھانے جاتے ہیں جو غلط بات ہے اور میں بار بار اس کے متعلق انگریز کو توجہ دلاچکا ہوں کہ اِس دلیل کا خود ان کو نقصان پہنچے گا۔ ان کو صاف کہنا چاہئے کہ ہندوستان کو اُس وقت کے رائج الوقت قوانین ملک بازی کے مطابق ہم نے لیا تھا اور اب ہم عدل اورانصاف سے اِس پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ انگریز سیاستدانوں کی اِس غلط دلیل سے اٹلی اورجرمنی فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بھی دوسرے مُلکوں کو تہذیب اور شائستگی سکھائیں گے چنانچہ اٹلی والوں نے یہی دلیل ابی سینیا کی جنگ کی تائید میں دی تھی۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک مدرّس دوسرے کو کس طرح منع کرسکتاہے کہ وہ علم نہ پڑھائے۔ اس دلیل کے نئے استعمال کا نتیجہ یہ ہؤا ہے کہ اب بعض قومیں صاف کہہ رہیں کہ رفاہِ عام نہیں ہم اپنے فائدہ کیلئے سب کچھ کررہے ہیں اور ہم اپنا فائدہ چھوڑنے کیلئے کسی صورت میں تیار نہیں ہیں۔ اب تو بعض انگریز مدبرین نے بھی صاف کہہ دیا ہے کہ ہم نے ہندوستان پر اپنے فائدہ کیلئے قبضہ کررکھا ہے مگر اٹلی والوں نے ان باتوں سے کانوں میں روئی ٹھونسی ہوئی ہے۔ وہ برابر یہی کہے جارہے ہیں کہ ہم بھی رفاہِ عام کے کاموں میں حصہ لیں گے اور ثواب میں شریک ہوں گے۔
پس غلطیاںدونوں طرف ہیں اور حالت وہی ہورہی ہے کہ ’’جوگی جوگی لڑیں اور کھپروں کا نقصان‘‘۔ جوگی آپس میں لڑنے لگے تو چھپروں کی چھتوں کو توڑ کر لکڑیاں اور سلیں ایک دوسرے کو مارنے کیلئے اُتار لیں۔ ان لڑائیوں کے نتیجہ میں وہ قومیں جن کے پاس لڑائی یا حفاظت کیلئے سامان نہیں ہیں، تباہ ہورہی ہیں۔ پس یہ صحیح نہیں کہ ہم ان باتوں سے بے دخل ہوسکتے ہیں۔ انگلستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ جس چیز سے اُسے نقصان پہنچے اس سے ہندوستان کو بھی پہنچے گا خواہ ہندوستانی انگریزوں سے بے تعلقی ہی ظاہر کریں۔ مثلاً اگر اٹلی والے ابی سینیا میں فوجی مرکز قائم کرکے ہندوستان پر حملہ کریں تو اِس سے ہندوستانی ہی مریںگے۔
پس ہمارے لئے خاص کر ان قوموں کیلئے جو انگریزوں سے تعلقات رکھتی ہیں بہت خطرات ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ انگریز اِس جنگ سے باہر نہیں رہ سکتے۔ چین اور افغانستان وغیرہ ممالک ممکن ہے بچ جائیں مگر انگلستان کا اِن اثرات سے محفوظ رہنا محال ہے اِس لئے دوستوں کو خصوصیت سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ آئندہ جو سامان لڑائی یا فتنہ کے ہوں اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اور ہمارے ساتھ تعلق رکھنے والی اقوام کیلئے ان سے بچنے کے سامان بھی کردے۔ بیشک تم مسولینی ؎۵ کی طرح گھونسہ نہیں دکھاسکتے، ہٹلر ؎۶ کی طرح تلوار نہیں چمکاسکتے مگر دعائیں توکرسکتے ہو اورپھر اپنے آپ کو منظم کرسکتے ہو کیونکہ منظم قوم کو ہر ایک اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ انگریزوں کے بعض افراد سے ہمیں شکوہ ہے اور جب تک ازالہ نہ ہوجائے وہ دور نہیں ہوسکتا۔ مگر اس میں بھی شبہ نہیںکہ انگریز قوم کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے ہیں کہ اس کی تباہی کے بعد ہم نقصان سے نہیں بچ سکتے اس لئے یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انگریزوں کو ایسے رستہ پر چلائے جو انہیں تباہی کی طرف لے جانے والانہ ہو۔
پھر فرانس اور ترکی کا جھگڑا ہورہا ہے۔ شام کے بعض علاقے فرانس نے لے لئے تھے۔ پہلے اس نے وعدہ کیا تھا کہ بعدمیں ان کو چھوڑ دے گا مگر اب وہ انہیں چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ تُرک ان علاقوںکو مانگ رہے ہیں اوربظاہر جنگ پر آمادہ لیکن حالات بظاہر ترکوں کے سخت خلاف ہیں۔ کیونکہ چند ماہ پہلے ترکوں کے سچے دوست صرف روسی تھے۔ جرمن بھی پہلے ان کے ساتھ تھے مگر اب چونکہ جرمنی کا اٹلی سے دوستانہ ہے اور اٹلی ترکی کے ایک علاقہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور ترکی سے اسے مخالفت ہوگئی ہے اس وجہ سے جرمنی بھی ترکی سے دور چلا گیا ہے۔ روس کا فرانس سے معاہدہ ہوچکا ہے اس لئے روس بھی اب ترکی کی مدد نہیں کرسکتا۔ پس اِس وقت ترکی کی حکومت بالکل بے یارومددگار ہے ہم یہاں دور بیٹھے ہوئے حالا ت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوسکتے مگر جہاں تک علم ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ترکی حکومت یہ کام سال بھر بعد شروع کرتی یا سال بھر پہلے کرتی تو زیادہ اچھا ہوتا۔ اگروہ حبشہ کی جنگ کے موقع پر کرتی یا پھر ۱۹۳۸ء میں کرتی توزیادہ فائدہ میں رہتی۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ بہرحال ترکی حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر فرانس وہ علاقے واپس نہیں کرے گا یا لیگ کی معرفت کوئی مناسب سمجھوتا نہیں ہوگا تو ہم بزورِ شمشیر یہ علاقے لے لیں گے۔ تُرک ایک ایسی قوم ہے جس نے اسلام کے کئی پہلوئوں کو تَرک کردیا ہے مگر باوجود اس کے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی صدائیں اب بھی ان کی مسجدوں سے آتی ہیں، اب بھی ان کی نمازوں میں خدا تعالی کا کلام پڑھا جاتا ہے۔ اب بھی وہ سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، اِنْشَائَ اللّٰہُ اور لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہتے ہیں۔ اگر بعض باتوں میں وہ غلطی پر ہیں تو اسلام کی بعض باتوں پر وہ قائم بھی ہیں اِس لئے ان کے دُکھوں کو ہم نظرانداز نہیں کرسکتے۔ تمام اختلافات کے باوجود یہ ہو نہیں سکتا کہ تُرک دُکھ میں ہوں اور ایک مسلمان کہلانے والا تکلیف محسوس نہ کرے۔ اِس لئے ہمیںیہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اگر تُرک بہرحال لڑائی پر ہی آمادہ ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور انہیں طاقت دے ۔ ان کی مثال یورپین حکومتوں میں ایسی ہی ہے جیسے بتیس دانتوں میںزبان کی۔ اور ایک بالشتیئے کی جو پہلوان سے لڑائی پر آمادہ ہو۔ اس لئے ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اوّل تو انہیں لڑائے سے بچائے اور اگر وہ لڑائی پر ہی آمادہ ہوں تو ان کی مدد کرے۔ ایک فرانسیسی محمد رسول اللہ ﷺ کا منکر ہے اور ترک قائل ہے۔ بیشک تُرک کی حکومت سے محمد رسول اللہ ﷺ کی پوری حکومت قائم نہ ہو لیکن ادھوری حکومت بھی بالکل نہ ہونے سے بہتر ہے۔ پس ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اگر لڑائی سے انہیں نقصان پہنچناہو تو اللہ تعالیٰ اس سے ان کو بچائے اور اگر اسی طرح ان کے حقوق حاصل ہوسکتے ہوں تو انہیں ہمت دے اور نہیں تو ہم ان کی دعا سے تو مدد کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ضرورت کے موقع پر چندے وغیرہ بھی دے سکتے ہیں مگر میں نے دیکھا ہے ہماری جماعت کے بعض کنویں کے مینڈک زلزلہ کے مصیبت زدگان کیلئے چندہ پربھی اعتراض کرتے تھے۔ گویا وہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ کسی اور دنیا میں رہتے ہیں ایسے لوگ شاید اس خیال پر بھی نکتہ چین ہوں مگر مجھے ان کی پرواہ نہیں۔
پس یہ بالکل غلط ہے کہ دنیا سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہمارا ہی تو واسطہ دنیا سے ہے۔ جب خداتعالیٰ نے دنیا ہمیں دے دی ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ میں دنیا دوسروں سے چھین کر تمہارے حوالے کردوں گا تو پھر اگرچہ اِس وقت وہ ہمارے قبضہ میں نہیں ہم اس سے کس طرح غافل رہ سکتے ہیں۔ ہمیں حضرت سلیمانؑ کے زمانہ کے ایک واقعہ سے سبق لینا چاہئے۔ کہتے ہیں ایک شخص کی دو بیویاں تھیں۔ دونوں کے ہاں لڑکے تولّد ہوئے اور وہ زچگی کے معاً بعد دور دراز مقام پر اپنے رشتہ داروں کے ہاں چلی گئیں ۔ کئی مہینوں کے بعد جب واپس آرہی تھیں توایک کے بچہ کو بھیڑیئے نے کھالیا۔ دوسری نے خیال کیا کہ اس کا خاوند اب اسے محبت نہیں کرے گا کیونکہ اس کے بچہ نہیں اس لئے اس نے یہ کہنا شروع کردیا کہ دوسری کے پاس جو لڑکا ہے وہ دراصل میرا ہے۔ یہ جھگڑا حضرت سلیمانؑ کے پاس پہنچا۔ آپ نے بچہ کو ہاتھ میں لے لیا اور کہا کہ اس امر کا فیصلہ مشکل ہے کہ دراصل یہ کس کا بچہ ہے میں اسے آدھا آدھا کرکے بانٹ دیتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے حکم دیا کہ چھری لائو اور چھری منگوا کر بچہ کے پیٹ پر رکھ دی گویا کاٹنے لگے ہیں۔ یہ دیکھ کر جس کا بچہ مرچکا تھا اُس نے کہا کہ یہ بالکل انصاف ہے پس آپ آدھا آدھا بانٹ دیں۔ اس نے خیال کیا کہ اس طرح اس کا بچہ بھی مر جائے گا اور ہم دونوں برابر ہوجائیں گی۔ مگر ماں کی مامتا جوش میں آئی اور اُس نے کہا حضور! بچہ دراصل اسی کا ہے میر انہیں آپ اسے ہی دے دیں۔ کیونکہ اُس نے خیال کیا کہ بچہ خواہ اس کے پاس ہی رہے مگربچ جائے۔ اِس سے سبق ملتا ہے کہ جس کی چیز ہو وہ اُس کی تباہی کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ پس جبکہ ہمارا خدا ہمیں کہتا ہے کہ زمین وآسمان تمہارے لئے ہیں۔ پھر وہ لوگ کتنے پاگل ہیں جو کہتے ہیں کہ مصیبت زدگانِ زلزلہ کے لئے چندہ مت کرو اور ان باتوں پر کہنے لگ جاتے ہیں کہ خلیفہ سیاسی کاموں میں حصہ لیتا ہے۔ اگر تمہیں ان کاموں میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں تو تم دنیا کی ملکیت سے دستبردار ہوچکے ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کا بیان ہے کہ آپ ایک دفعہ بیت الدعا میں دعا کررہے تھے اوپر مولوی صاحب نے اپنے لئے دعا کا کمرہ بنوایا ہؤا تھا۔ مولوی صاحب کہتے ہیں مجھے ایسی آواز نیچے سے آئی جس طرح کوئی عورت دردِ زِہ میں مبتلا ہو اور آہ و زاری کررہی ہو۔ میں نے کان لگا کر سنا تو معلوم ہؤا حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کررہے ہیں اور یہ فقرہ بار بار آپ کی زبان پر آتا ہے کہ الٰہی! اگر مخلوق اسی طرح طاعون سے تباہ ہوتی گئی تو تیرے پیغاموں پر ایمان کون لائے گا؟ یہ ہے ہمارا امام مگر تم ہو کہ ہر نیکی کے کام پر بعض منافق شرارت سے اور بعض کمزور بیوقوفی سے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ یہ کام نہ کریں، ہماراکیا واسطہ ہے۔ حالانکہ دنیا سے واسطہ ہمارا ہی ہے۔ لوگ اگر ڈوبیں تو بچانا ہمارا فرض ہے، اگر قحط سے مریں تو کھلانا ہمارا فرض ہے، اگر لڑنے لگیں تو صلح کرانا ہمارا فرض ہے اور اگرلڑ پڑیں تو حقدار کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے اور اگر ابھی مادی طور پر ہم کچھ نہیں کرسکتے تو کم سے کم ہمیں دعا تو ضرور کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے۔ ہاں یہ یاد رکھوکہ جب تک امام نہ کہے کہ کیا دعا کرنی ہے اُس وقت تک یہی دعا کرتے رہو کہ الٰہی! جس میں تیرے دین اور اسلام کی خیر ہو وہی کردے۔
پس زمانہ سخت نازک ہے۔ پھر بھائی بھائی کا گلا کاٹنے کو تیار ہے۔ دنیا پھر ایک بار قیامت کا نظارہ دیکھنے کیلئے بیتاب ہے اور اگر ہمارے ہاتھوں میں نہیں تو ہمارے دل میں طاقت ضرور ہے اس لئے ہمیں اپنے قوی دل لے کر خداتعالیٰ کے پاس جانا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اِن لوگوں کو سمجھ دے اور وہ لڑائی سے بچ جائیں اور اگر لڑائی ہو تو غلبہ اُسے عطا کرے جس کا جیتنا اسلام کیلئے مفید ہو۔ اور اللہ تعالیٰ برطانوی حکومت کو بھی صحیح راستے پر چلنے کی توفیق دے اور اِسے ایسے نقصان سے بچائے جو سلسلہ اور اسلام کیلئے نقصان کا موجب ہو۔
پھر ہمیں تُرکوں کیلئے بھی دعا کرنی چاہئے آخر وہ اسلام کے نام لیوا ہیں۔ اگر لڑنا ان کیلئے مضر ہو تو اللہ تعالیٰ انہیں لڑائی سے بچالے۔ اور اگر مفید ہو تو ان کے ہاتھوں میں طاقت و قوت عطا کرے اور ان کے دشمنوں کے ہاتھوں کو شَل کردے تا یہ بہادر قوم جو سینکڑوں سال سے مسیحی دنیا کے تعصّب کا شکار ہورہی ہے ، اسلام کے نام کی وجہ سے مصیبت میںمبتلا نہ ہو۔
(الفضل ۲۳؍ جنوری ۱۹۳۷ئ)
؎۱ ہلاکو خان: اِس کا دور حکومت ۱۲۵۱ء تا ۱۲۶۴ء ہے۔ یہ ایران کے ایل خانی خاندان کا بانی اور چنگیز خان کا پوتا تھا۔ باپ کا نام تولی خان تھا۔ اس نے ایران کے مختلف حصوں کو یکجا کرکے ایران میں ایل خانی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اپنے بھائی منگوقآن کی ہدایت پر ۱۲۵۱ء میں اسمٰعیلیوں کے مشہور قلعہ الموت کو فتح کیا۔ ۱۲۵۸ء میں بغداد پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کیا اور لاکھوں افراد قتل کئے۔ موصل کے حکمران کو سفاکی سے قتل کیا۔
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد ۲، صفحہ ۱۸۵۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
؎۲ نادر شاہ (۱۶۸۸ء ۔ ۱۷۴۷ئ): ۱۷۳۶ء تا ۱۷۴۷ء شاہِ ایران رہا۔ یہ خاندان افشار کا بانی تھا۔ صفوی خاندان کی حکومت میں افغانوں اور ترکوں پر فتح حاصل کرکے طاقتور ہوگیا۔ صفوی خاندان کو ختم کرکے خود بادشاہ بن گیا۔ ۱۷۳۹ء کے کامیاب حملے میں ہندوستان سے بہت کچھ مال و متاعِ بالخصوص کوہِ نور ہیرا اور تخت طائوس اپنے ہمراہ لے گیا۔ اس کی فتوحات سے ایران کو بہت وسعت حاصل ہوگئی لیکن اس کے مرتے ہی شیرازہ بکھر گیا اور دولت لُٹ گئی یہاں تک کہ کوہِ نور بھی افغانستان پہنچ گیا۔ ہندوستان سے واپسی پر خیوا اوربخارا فتح کئے۔ کُردوں کی بغاوت فرو کرنے کے دوران افشار قبیلے کے ہاتھوں اپنے خیمے میں ہی مارا گیا۔
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۶۹۲ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
؎۳ المائدہ: ۳۳
؎۴ بابر: ظہیرالدین محمد بن عمر شیخ مرزا ۱۴؍ فروری ۱۴۸۳ء میں پیدا ہوئے۔ ۲۶ ؍ دسمبر ۱۵۳۰ء میں وفات پائی۔ باپ کی طرف سے تیموری اور ماں کی طرف سے چغتائی چنگیزی۔ ۸؍ جون ۱۴۹۴ء کو سوا گیارہ برس کی عمر میں بمقام فرغانہ تخت نشین ہوا۔ بابر کو دس برس تک فتح و شکست کے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد وطن چھوڑنا پڑا۔ ۱۵۰۴ء میں بابر کابل پہنچ کر بادشاہ بن گیا۔ ۱۵۲۶ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی و آگرہ پر قابض ہوا۔ ۱۵۲۷ء میں راجپوتوں کو شکست دی۔ دوسری طرف سلطنت کی مشرقی سرحد بنگال تک پہنچادی۔ ۴۹برس کی عمر میں بمقام آگرہ وفات پائی اور اسے ’’باغِ بابر‘‘ کابل میں دفن کیا گیا۔
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد اوّل صفحہ ۱۹۷، مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
؎۵ مسولینی (Mussolini Benito)۔ اطالوی آمر۔ ایک لوہار کا بیٹا تھا۔ (پیدائش ۱۸۸۳ئ۔ وفات ۱۹۴۵ئ) اس نے ابتدائی برسوں میں ایک اُستاد اور صحافی کی حیثیت سے کام کیا۔ سوشلسٹ تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا اور ۱۹۰۵ء میں فوج میں بھرتی ہوا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اطالیہ کی جنگ میں مداخلت کی وکالت کی پاداش میں ۱۹۱۴ء میں سوشلسٹ تحریک سے نکال دیا گیا۔ ۱۹۱۹ء میں اس نے اپنی جماعت بنائی۔ اس نے سوشلسٹوں کے خلاف دہشت کا بازار گرم کردیا۔ اکتوبر ۱۹۲۲ء میں اس کو شاہِ اٹلی اور فوج نے وزیر اعظم کے عہدے پر نامزد کیا۔ ۱۹۲۵ء میں اس نے آمرانہ اختیارات سنبھال لئے۔ ۱۹۲۶ء میں تمام مخالف جماعتوں کو خلافِ قانون قرار دیا۔ ۳۶۔۱۹۳۵ء میں ایتھوپیا پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔ ۱۹۳۹ء میں البانیہ پر قبضہ کرلیا۔ ۱۹۴۰ء میں جنگ عظیم میں شامل ہوا۔ اتحادیوں کے سسلی پر قبضہ سے اس کی ساکھ ختم ہوگئی۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا۔ جلد ۲ صفحہ ۱۵۶۵۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
؎۶ ہٹلر (Hitler Adolf) (۱۸۸۹ء ۔ ۱۹۴۵ئ) جرمنی کا آمر مطلق۔ نازی پارٹی کا بانی اور رہنمائے اعظم۔ ایک آسٹروی عہدہ دار محصولات کا بیٹا تھا۔ میونخ میں تعلیم پائی ۔ ۱۹۰۷ء میں وی آنا چلا گیا۔ اس نے انتہائی غریبی میںدن گزارے۔ ۱۹۱۳ء میں وہ میونخ چلا گیا۔ پہلی عالمی جنگ میں فوج میں بھرتی ہوا۔ کارپورل بنا، شجاعت کا تمغہ آہنی صلیب (Iron Cross) حاصل کیا۔ جنگ کے بعد اس نے نازی مزدور پارٹی کی بنیاد رکھی۔ مارچ ۱۹۳۳ء میں اسے آمریت کے اختیارات سونپے گئے جس کے نتیجہ میں جرمنی پرنازیوں کی مطلق العنانی قائم ہوگئی۔ ہٹلر جرمنوں کی زندگی کے تمام شعبوں کا مختار بن گیا۔ ۱۹۳۴ء میں مخالفین کو کچل دیا۔ اس نے جرمنی کو دوسری عالمی جنگ کی راہ پر ڈالا۔ ۱۹۴۱ء میں روس کے محاذ پر اس نے جنگ کی کمان خود سنبھالی جس کا نتیجہ تباہی خیز ہوا۔ ۳۰؍ اپریل ۱۹۴۵ء میں جبکہ اتحادی فوجیں چاروں طرف سے بڑھتی چلی آرہی تھیں، ہٹلر نے ایوابرائون کے ساتھ چند گھنٹے پہلے شادی کرلی۔ برلن میں خود کشی کرلی۔
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا ۔ جلد۲ صفحہ ۱۸۴۶ء مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)

۳
تحریک جدید اورجماعت احمدیہ
(فرمودہ ۱۵؍جنوری ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
سب سے پہلے تومَیں دوستوں کو اس امر کی نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جب ایسے کام پیش ہوں جن کیلئے جماعتی مدد کی ضرورت ہو تو اُس وقت دوستوں کو اپنے ذاتی کام اور ذاتی اغراض بالکل بُھلادینی چاہئیں۔ اِس وقت بھی ہمارے سامنے بعض ایسے کام ہیں جن کیلئے سینکڑوں آدمیوں کی ضرورت ہے اور آئندہ دو ہفتے نہایت ہی مشغول ہوتے نظر آتے ہیں۔ نظارتِ اعلیٰ کی طرف سے بورڈوں پر اعلان ہورہا ہے۔ لیکن اس اعلان کے علاوہ جو سائیکلسٹوں کے متعلق ہے ایسے افراد کی بھی ضرورت ہوگی جو سائیکل چلانا نہیں جانتے اور پیدل یا کسی اور سواری پر دوسری جگہ جاسکتے اور کام کرسکتے ہیں۔ ان کاموں کیلئے ایسے لوگوں کی فہرست مہیا کرنے کیلئے جو اس خدمت کیلئے اپنے آپ کو خوشی سے پیش کریں مَیں ہدایت کرتا ہوں کہ تمام مساجدمیں ایسے لوگوں کی لسٹیں تیار کرکے ناظر صاحب اعلیٰ کے پاس بھجوادی جائیں۔ پھر جس جس عرصہ اور جس جس مقام کیلئے نظارت اُنہیں کام پر لگانا چاہے اُس کی ہدایت کے مطابق اور اُن ذرائع کے ماتحت جو اِن کیلئے تجویز کئے جائیں، وہ چلے جائیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو ہمیشہ اپنے آپ کو یہ کہہ کر پیش کیا کرتے ہیں کہ ہماری جانیں اور ہمارے مال آ پ کی خدمت کیلئے حاضر ہیں وہ اس موقع کو جوخداتعالیٰ نے انہیں دیا ہے رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
اس کے بعد میں دوستوں کو تحریک جدید کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں۔ قادیان میں اس دفعہ بوجہ اس کے کہ تحریک کچھ پیچھے ہوئی اور بوجہ اس کے کہ جلسے کا زور عین تحریک جدید کے زور کے زمانہ میں آیا، مردوں میں پورے طور پر اس تحریک کو مکمل نہیں کیا گیا اور عورتوں میں بھی اس وجہ سے کہ میری وہ بیوی جو لجنہ کی سیکرٹری ہیں بیمار ہیں اور کام نہیں کرسکیں، گزشتہ سالوں کے مقابلہ میں بہت کم کام ہؤا ہے۔ اس لئے میں پھر دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ قادیان کی جماعت بیرونی جماعتوں کیلئے ایک نمونہ اور اُسوہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قادیان کی جماعت مالی تنگی کی وجہ سے اور تنخواہوں کے بروقت نہ ملنے کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ تکلیف اور ابتلاء میں ہے مگر وہ لوگ جو سلسلہ احمدیہ کے قیامت کی اہمیت کو سمجھتے اور قادیان کے وجود کی برکات جانتے ہیں، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ دینی خدمات کے لحاظ سے سب سے زیادہ ذمہ داری قادیان کے لوگوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔
خانۂ کعبہ کی حفاظت اور تطہیر ہر ایک مسلمان کے ذمہ ہے مگر قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُس نسل کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے جو مکہ میں رہنے والی تھی اور اُسے کہا گیا کہ تمہارے لئے خانۂ کعبہ کی تطہیر فرض مقرر کی جاتی ہے۔ چنانچہ فرمایا اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ ۱؎ گو طائف یعنی جو مکہ میں طواف کرنے والے تھے ان کے لئے بھی خانۂ کعبہ کی تطہیر ضروری تھی مگر خداتعالیٰ نے خصوصیت سے اُن لوگوں کومخاطب فرمایا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے مکہ میں رہتے تھے کیونکہ اُس وقت وہی نسل تھی دوسرے لوگ مکہ میں نہیں تھے ۔ اسی طرح جو لوگ قادیان میں رہتے ہیں یا کسی اور جگہ رہتے ہیں جس کو خداتعالیٰ نے مقدس قرار دیا یا جہاں کے لوگوں نے دوسروں سے زیادہ ذمہ داری اُٹھائی ہوئی ہوتی ہے وہاں کے رہنے والوں پر دوسروں سے زیادہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ اور ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ خواہ وہ بوجھ سے دوسروں سے زیادہ دبے ہوئے ہوں، پھر بھی وہ زیادہ قربانیاں کریں اور زیادہ ایثارکے نمونے دکھائیں۔ پس میں تمام مساجد کے ائمہ، پریذیڈنٹوںاور سیکرٹریوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جلد سے جلد چندہ تحریک جدید کے متعلق اپنے حلقوں کی فہرستیں مکمل کرکے دفتر میں بھجوادیں مگر اس کیلئے کسی پر جبر نہ کیا جائے بلکہ اُنہی لوگوں کانام لکھا جائے جو خوشی سے اپنے نام پیش کریں۔ میں باربار کہہ چکا ہوں کہ اس تحریک میں دوسرے پر جبرکرنا جائز نہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ کسی کے ذمہ کوئی رقم مقرر کردی جائے اور کہہ دیا جائے کہ اتنے روپوں کی ادائیگی اس پر فرض ہے۔ پس وہ بغیر لوگوں کومجبور کرنے کے اپنے اپنے حلقوں کی فہرستیں مکمل کرکے جلد سے جلد بھجوادیں۔ بعض محلوں نے غالباً فہرستیں مکمل کرلی ہوں گی مگر بعض محلے ابھی ایسے باقی ہیں جنہوں نے فہرستیں مکمل کرکے نہیں بھجوائیں۔ اِسی طرح میں لجنہ اماء اللہ کو پھر تحریک کرتا ہوں کہ جو کمیٹیاں صرف ایک آدمی پر مبنی ہوں اور وہ آدمی جب بیمار ہو تو کام رُک جائے وہ کمیٹیاں دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہؤا کرتیں۔ کامیاب ہونے والی وہی کمیٹیاں ہوتی ہیں جن کا انحصار آدمیوں پر نہیں ہوتا بلکہ ایک آدمی اگر مرجائے یا کام سے علیحدہ ہوجائے تو فوراً دوسرا آدمی اُس کی جگہ لینے کیلئے تیار ہوجائے۔ اور اگر دوسرا آدمی بھی مرجائے یا کام سے علیحدہ ہوجائے تو اُس کی جگہ لینے کیلئے ایک تیسرا آدمی تیار ہو۔ غرض زندہ قومیں اور محنت سے کام کرنے والے لوگ کسی ایک انسان سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں رکھتے۔
صحابہؓ کو دیکھو جب رسول کریم ﷺ فوت ہوئے تو بعض صحابہؓ کو خیال آیا کہ اسلام کی اشاعت کا کام اب کس طرح چلے گا؟ اور بعض تو یہاں تک کہنے لگے کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ فوت ہوگئے ہوں ،وہ زندہ ہیں اور نہیں فوت ہوسکتے جب تک اسلام کامل طور پر دنیا میں نہ پھیل جائے۔ اُس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو مخاطب کرکے یہی کہا کہ اے مسلمانو! اسلام کا کام خداتعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُاللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ۔ یاد رکھو جو اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط رکھتا ہے اُسے یہ سن کر خوش ہوجانا چاہئے کہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے۔ محمد ﷺ گو فوت ہوگئے ہیں لیکن ہمارا خدا زندہ ہے اور وہ کبھی فوت نہیں ہوسکتا۔ وَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًاقَدْ مَاتَ۲؎ لیکن جو اسلام سے اس لئے تعلق رکھتا تھا کہ گویا رسول کریم ﷺ کی وجہ سے ہی تمام زندگی ہے آپ فوت ہوئے تو یہ زندگی بھی جاتی رہے گی اُسے سن لینا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ فوت ہوگئے اور اُس کا اسلام بھی ختم ہوگیا۔ تو انسانوں کے ساتھ کام کو وابستہ رکھنا بیوقوفی اور حماقت کی بات ہوتی ہے۔ آدمی پیدا ہوتے اور مرتے ہی رہتے ہیں مگر خداتعالی کے کام برابر چلتے چلے جاتے ہیں۔ اور دراصل ہر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑے سیاستدان ہیں، ہر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑے جرنیل ہیں۔ ہر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑے ڈاکٹر یا حکیم ہیں یہ مسیح الزمان ہوگئے ہیں۔ مگر پھر وہ سیاستدان بھی مرتے چلے جاتے ہیں، وہ جرنیل بھی مرتے چلے جاتے ہیں، وہ ڈاکٹر اور حکیم بھی جو مسیح الزماں کہلاتے ہیں مرتے چلے جاتے ہیں مگر سیاستوں کے اُلجھے ہوئے مسائل پھر بھی حل ہوتے رہتے ہیں، فتوحات پھر بھی ہوتی رہتی ہیں، بیمار پھر بھی اچھے ہوتے رہتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہؤا کہ کسی بڑے سیاستدان کے مر جانے کے بعد سیاست کی پیچیدہ گُتھیاں سُلجھنے سے رہ جائیں یا کسی بڑے جرنیل کے مرجانے کے بعد لڑائی میں ہمیشہ شکست ہوتی چلی جائے یا کسی مسیح الزمان کے مرجانے کے بعد بیمار اچھے نہ ہوتے ہوں بلکہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک مسیح الزمان مرتا ہے تو دوسرا مسیح الزمان پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک بادشاہ مرتا ہے تو دوسرا بادشاہ پیدا ہوجاتا ہے ایک سیاستدان مرتا ہے تو دوسرا سیاستدان پیدا ہوجاتا ہے۔ صرف قوم میں بیداری اور اپنے فرض کو پورا کرنے کا احساس ہونا چاہئے۔ پس انسانوں پر اپنے کاموں کا انحصار نہیں رکھنا چاہئے۔ میں دیکھتا ہوں اسی نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے باہر کی جماعتوں کو بھی غلطی لگ رہی ہے۔ چنانچہ بعض جماعتوں کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری جو سُست ہوتے ہیں یا خود اُن کی مالی حالت ایسی اچھی نہیں ہوتی کہ اس تحریک میں حصہ لے سکیں وہ خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور ان کے خاموش بیٹھے رہنے کی وجہ سے ساری جماعت خاموش رہتی ہے اور نیک تحریکات میں حصہ لینے سے محروم رہتی ہے۔ لیکن جہاں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری چُست ہوں وہاں کی جماعت کے افراد کی لِسٹیں فوراً مکمل ہوکر پہنچ جاتی ہیں۔ چنانچہ اِسی چندہ تحریک جدید کے متعلق گزشتہ دنوں میں نے بعض جماعتوں کو نصیحت کی تھی کہ وہ جلد بازی میں نامکمل فہرستیں نہ بھیجیں۔ ان جماعتوں سے میری مراد وہی جماعتیں تھیں جو ہوشیاری اور تیزی میں ایک دوسرے سے بڑھنا چاہتی تھیں۔ چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ ان جماعتوں کے چندہ میں ۲۵ فیصدی کی زیادتی ہوئی ہے۔ لیکن اب وہ جماعتیں رہ گئی ہیں جن کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری سُست ہیں۔ دفتر والے کہتے ہیں کہ ہم نے انہیں تحریکیں بھیج دیں مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔
میں نے گزشتہ سال بھی بتایا تھا کہ جس جگہ کی جماعت کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سُست ہوں وہ مرکز سے جو تحریکات جائیں یا تو انہیں پڑھتے ہی نہیں اور اگر پڑھیں تو چُھپادیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اگر جماعت کے دوسرے افراد کو بھی اِن تحریکات کا علم ہوگیا تو ہمارے حصہ نہ لینے کی وجہ سے ہمیں شرمندگی ہوگی۔ حالانکہ تحریک جدید کوئی جبری تحریک نہیں کہ اِس میں شرمندگی کا سوال ہو۔ مگر پھر بھی بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جو اپنی کمزوری کو چھپا کر جماعت کو بدنام کرنا چاہتی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانہ میں بھی بعض دفعہ مَیں نے خود یکھا کہ پیکٹ کے پیکٹ قادیان سے باہر کی بعض جماعتوں کو بھیجے جاتے اور وہاں بند کے بند ہی پڑے رہتے۔ ایسی جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کو گو پہلی دفعہ مخاطب کرلینا چاہئے مگر جب معلوم ہوجائے کہ وہ اپنے کام میں سُست ہیں تو پھر پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کو چھوڑتے ہوئے جماعت کے جو دوسرے افراد ہوں ان کو مخاطب کیا جائے۔ چنانچہ اب بھی بعض مقامات سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اُن میں یہی لکھا ہے کہ ہمارے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں نے ہمیں کوئی تحریک نہیں کی ہمیں دوسرے ذرائع سے تحریک کا علم ہؤا اور اب ہم اس تحریک میں جو حصہ لے رہے ہیں یہ منفردانہ حصہ ہے۔ گویا ان پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کسی مکان کی بدررَوبند ہوجائے ۔ جب کسی مکان کی بدر رَو بند ہو جائے گی تو توپھر اس کے اندر جتنا پانی آئے گا اندر ہی رہے گا اور آہستہ آہستہ دیوار کو گِرادے گا۔
غرض پریذیڈنٹ اور سیکرٹری جو درمیانی واسطہ ہیں جب ان پر غفلت اور سُستی چھائی ہوئی ہوتی ہے تو جماعت کے دوسرے افراد پر بھی سُستی اور غفلت چھاجاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بسااوقات جو چُست لوگ ہوتے ہیں اُن کے دلوں پر بھی زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے اس لئے ایک طرف تو میں عہدیداروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جن پریذیڈنٹوں یا سیکرٹریوں نے انہیں جواب نہیں دیا اب دوبارہ وہ انہیں مخاطب نہ کریںبلکہ جماعت کے دوسرے افراد کو مخاطب کریں اور لکھیں کہ آپ کی جماعت کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری چونکہ خاموش ہیں اور انہوں نے اِس تحریک کا کوئی جواب نہیں دیا اس لئے ہم آپ کو مخاطب کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی اس امر کی تصریح کردیں کہ اس چندہ کیلئے ہرگز کسی کو مجبور نہ کیا جائے۔ ہاں تمہارا یہ فرض ہے کہ ہر مرد اور عورت تک یہ تحریک پہنچائو۔ اِس تحریک کے اغراض و مقاصد انہیں بتائو، اس کی اہمیت اور ضرورت ان کے ذہن نشین کرو اور پھر تمام حالات بتانے کے بعد ان سے پوچھو کہ آیا وہ اِس میں حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں اگر کوئی شخص حصہ نہیں لے سکتا یا نہیں لیتا تو اس پر اصرار نہ کرو کہ تم اس میں ضرور حصہ لو۔ اور جو لوگ خوشی سے اپنا نام لکھائیں ان کے ناموں کی فہرست جلد سے جلد مکمل کرکے دفتر کو بھجوادی جائے۔ اِس کے ساتھ ہی میں جماعتوں کے افراد کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سُست ہوں وہاں کی جماعت کے دوسرے افراد کو چاہئے کہ وہ اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ خداتعالیٰ کے کام پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں سے وابستہ نہیں ہوتے اور نہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کسی جماعت سے یہ پوچھے گا کہ تمہارا پریذیڈنٹ یا سیکرٹری کیسا تھا بلکہ وہ افراد سے پوچھے گا کہ تم کیسے تھے۔ اگر کسی جگہ کا پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سُست ہوگا اور اُن کی سُستی کی وجہ سے جماعت کے لوگ تحریک میںحصہ لینے سے محروم رہیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف نہیں کرے گا بلکہ کہے گا کہ تم میں سے ہر شخص پریذیڈنٹ اورسیکرٹری تھا اور تمہارا فرض تھا کہ جب کوئی پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سُستی میں مبتلا تھا تو تم خُود اس کی جگہ کام کرتے۔
پس جہاں جہاں میرا یہ خطبہ پہنچے اور جہاں جہاں جماعتوں کے پریذیڈنٹوں یا سیکرٹریوں نے تحریک جدید کو ہر مرد اور ہر عورت تک نہ پہنچایا ہو وہاں کی جماعت کے جس بندے کو بھی خداتعالیٰ توفیق دے وہی کام شروع کردے۔ خداتعالیٰ کے حضور وہی پریذیڈنٹ اور وہی سیکرٹری شمار کیا جائے گا۔ پھر جن جماعتوں پر سُستی چھائی ہوئی ہے وہاں کی قریب جماعتوں کو چاہئے کہ وہ ان کی سُستی کو دور کرنے کی کوشش کریں اور انہیں اس تحریک میں حصہ لینے پر آمادہ کریں۔ مثلاً اگر لاہور والے دیکھیں کہ قصور، امرتسر، شیخوپورہ یا فیروزپور کی جماعت چندوں کی ادائیگی میں سُستی دکھاتی ہے اور وہ اپنا کام کرکے وہاں جائیں تو وہ دُہرے بلکہ تہرے ثواب کے مستحق ہوں گے۔ یا شیخوپورہ، قصور، امرتسر اور فیروزپور کی جماعتوں کو معلوم ہو کہ لاہور اور گوجرانوالہ کی جماعتیں سُست ہیں اور وہ اپنی جماعت کے آدمی بھیج کر اُن کوچُست کریں تو یقینا وہ دُہرے بلکہ تہرے ثواب کے مستحق ہوں گے۔میرا اِس سے یہ مطلب نہیں کہ یہ جماعتیں سُستی کرتی ہیں میں نے صرف مثال کے طور پر چند نام لے دیئے ہیں۔ پس ہر جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنی جماعت سے قریب تر جماعت کو اگرسُستی اور غفلت میں مبتلا پائے تو اُس کی سُستی اور غفلت کو دور کرنے کی کوشش کرے۔
میں نے بارہا بتایا ہے کہ کوئی گھر اپنے ہمسایہ گھر کو آگ لگنے کے بعد محفوظ نہیں ہوتا۔ پھر جب رسول کریم ﷺ نے فرمادیا کہ تمام مومن آپس میں ایسے ہی ہیں جیسے ایک جسم کے مختلف اعضاء تو کیسے ممکن ہے کہ ایک عضو میں بیماری ہو اور باقی جسم اس بیماری کی وجہ سے تکلیف نہ اُٹھائے۔ اگر زید، بکر، عمر اور خالد ہاتھ،کان، ناک اور پائوں کی حیثیت رکھتے ہیں تو اسی طرح گوجرانوالہ ، شیخوپورہ، قصور، دہلی اور راولپنڈی کی جماعتیں بھی ہاتھ، پائوں، ناک، کان اور اُنگلیوں کی حیثیت رکھیں گی۔ پس یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ جسم کا پائوں یا ہاتھ یا کوئی اور عضو بیمار ہو اور سارا جسم اذیت نہ اُٹھائے۔ یقینا جو بیماری ایک جگہ ہے وہ اپنا اثردوسرے اعضاء پر بھی ڈالے گی۔ اسی لئے مومن کی صرف اِس بات پر تسلی نہیں ہوتی کہ فلاں کام میں نے کرلیا بلکہ وہ یہ بھی دیکھا کرتا ہے کہ آیا میرے دوسرے بھائی نے بھی وہ کام کیا ہے یا نہیں اور وہ تسلی سے نہیں بیٹھتا جب تک سارے لوگ وہی کام نہ کرلیں۔ اسی طرح کسی ایک جماعت کو اس بات پر مطمئن نہیں ہوجانا چاہئے کہ اُس نے تحریک جدید میں حصہ لے لیا۔ بلکہ اسے اُس وقت تک اطمینان کا سانس نہیں لینا چاہئے جب تک ساری جماعتیں اِس میں حصہ نہ لے لیں۔
پس میں تمام دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتاہوں کہ وہ جلد سے جلد وقتِ مقررہ کے اندر اپنی لسٹیں تیار کرکے بھجوادیں اور اگر انہوں نے اپنی لسٹیں مکمل کرلی ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنی ہمسایہ جماعتوں کی لسٹوں کومکمل کریں۔ اسی طرح جس شخص نے خود تو چندہ لکھوادیا ہے مگر اُس کے علم میں یہ بات ہو کہ جماعت میں بعض ایسے لوگ ابھی موجود ہیں جو اِس تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں مگر انہوں نے حصہ نہیں لیا خواہ اپنی غفلت کی وجہ سے یا پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کی سُستی کی وجہ سے تو وہ اخبار ’’الفضل ‘‘ کے وہ پرچے جن میں تحریک جدید کے متعلق خطبات چھپے ہیں لے لے اور خود ایسے دوستوں کے گھروں میں جاکر انہیں سنائے تاکہ اگر کسی نے اپنی بیماری کی وجہ سے نہ کہ معذوری کی وجہ سے چندہ تحریک جدید میں حصہ نہیں لیا تو وہ اب حصہ لے لے تا اس کی بیماری میں کمی آجائے اور اس کا بدن تندرست ہوجائے۔ کیونکہ جیساکہ میں بتاچکا ہوں تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں اور سب ایمانی جسم کا ایک حصہ ہیں۔
اِس کے بعد میں تحریک جدید کے ایک اور پہلو کے متعلق جس پر مولوی محمد علی صاحب نے گزشتہ ایام میں بعض اعتراضات کئے ہیں، کچھ کہنا چاہتا ہوں۔وہ پہلو تحریک جدید کے کارخانہ جات کا ہے جو بیکاروں اور یتیموں کو کام پر لگانے کے متعلق جاری کئے گئے ہیں۔ ان کارخانوں کے اجراء اور یتیموں اورغریبوں کو کام پر لگانے سے مولوی محمد علی صاحب کی رگِ حمیت اتنے جوش میں آئی ہے کہ ان کو یتیموں اور غریبوں کو کام سکھانا بے دینی نظر آنے لگ گئی ہے اور وہ کہتے ہیں اب قادیان میں دین کونسا باقی رہ گیا ہے۔ ان کے نزدیک جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم یتیموں اور بیکاروں کو کام سکھائیں گے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ عام دنیا داروں کی طرح لوہار، ترکھان اور موچی بن جائیں گے اس لئے وہ کہتے ہیں جب لوگ لوہار، ترکھان اور موچی بن جائیں گے تو دین کی اشاعت کون کرے گا اور محمد رسول اللہ ﷺ کا کلمہ پڑھانے اور لوگوں کو حلقہ بگوشِ اسلام بنانے والا کون رہے گا۔
میں سمجھتا ہوں اوّل تو یہ اعتراض اِس لحاظ سے غلط ہے کہ ان کے نزدیک ہم اپنی تبلیغ اور جدوجہد سے لوگوں کو محمد ﷺ سے دور کررہے اور اصل اسلام سے لوگوں کو منحرف کررہے ہیں۔ پس اگر وہ لوگ جو محمد ﷺ کے دین سے لوگوں کو پھیرنے والے ہوں، دُنیوی کاموں میں مشغول ہوجائیں تو اس میں انہی کا فائدہ ہے اور اس پر اُنہیں تکلیف محسوس ہونے کی بجائے خوشی منانی چاہئے تھی۔ کیونکہ اگر یہ صحیح ہے کہ ہماری تبلیغی کوششیں دینِ اسلام پر حملہ ہیں ختم نبوت کی تشریح جو ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہے اس میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے اور ہمارا لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا انہیں اصل اسلام سے منحرف کرنا ہے تو پھر تو انہیں خوش ہونا چاہئے کہ اب اسلام کی ترقی کا ان کیلئے راستہ کُھل گیا ہے اور ہمارے دنیا میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے اسلام پر جو پہلے حملے ہؤا کرتے تھے اور ختم نبوت کو مٹانے کی جو کوششیں پہلے کی جاتی تھیں وہ اب نہیں ہؤا کریں گی اور اب بجائے تبلیغ کے ہم ترکھانے اور لوہارے کے کام میں مشغول رہا کریں گے۔
پس ہمارے ان کارخانوں کے اجراء اور یتیموں اور بیکاروں کے کام پر لگ جانے سے اوّل تو انہیں خوش ہونا چاہئے تھا کہ اب ان کا راستہ صاف ہوگیا۔ لیکن تعجب یہ ہے کہ اس پُر انہیں تکلیف ہوئی۔ پس اوّل تو وہ ہمارے متعلق جو پُرانے زمانہ میں یہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے دین اسلام میں رخنہ ڈال دیا اور ان کی کوششوں نے لوگوں کو اسلام سے منحرف کردیا اس کے مدنظر اب ہمارے کارخانوں کے اجراء اور بقول ان کے دنیا میں مشغول ہوجانے پر ان کا اعتراض کرنا درست معلوم نہیں ہوتا بلکہ انہیں خوش ہونا چاہئے تھا کہ فکر دور ہوگیا اور اب اسلام پر ایک جماعت جو حملہ کررہی تھی اس میں کمی آنے کی امید ہوگئی۔ لیکن اگر حقیقت یہ نہیں بلکہ دل میں وہ یہی مانتے تھے کہ احمدی تبلیغِ اسلام کرتے ہیں صرف ظاہر میں وہ لوگوں کو دھوکا دینے اور ہماری طرف سے دنیا کو بدظن کرنے کیلئے کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ اسلام کے راستہ میں رُکاوٹیں ڈال رہے ہیں تو پھر بھی ان کا یہ اعتراض ان کے قلتِ تدبر اور دین اسلام سے ناواقفیت پر دلالت کرتا ہے۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ ان کارخانوں کے جاری کرنے کی وجہ سے قادیان کے لوگ بے دین ہوگئے ہیں اسلام سے غافل ہوگئے ہیں اور اشاعتِ اسلام کا کام انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔ اس اعتراض پر میں جب بھی غور کرتا ہوں حیران ہوتا ہوں کہ کسی معقول انسان کی زبان پر یہ فقرہ آ کس طرح سکتا ہے۔ کیا کبھی بھی کوئی ایسی جماعت ہوئی ہے جس کے تمام افراد ہرقسم کے دُنیوی کاموں سے الگ ہوکر صرف اشاعتِ اسلام میں لگے ہوئے ہوں۔ یا کوئی ایسا انتظام ہؤا ہے جو دنیا کی اصلاح کے تمام کاموں سے جُدا ہوکر صرف تبلیغ میں لگا ہؤا ہو۔ ہر واقف کار آدمی جانتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ بھی اپنی روٹی کمانے کیلئے کام کیا کرتے تھے اور خود رسول کریم ﷺ انہیں محنت سے روزی کمانے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ ان میں تاجر بھی تھے، صناع بھی تھے، پیشہ ور بھی تھے، اہل حرفہ بھی تھے، ہرقسم کے لوگ تھے جو محنت کرتے تھے، مزدوری کرتے تھے اور اپنے پیٹ پالتے تھے اور اپنی آمد سے دین کی خدمت کرتے تھے۔ اور خود رسول کریم ﷺ نہ صرف یہ کہ ان کے اس طرح دُنیوی کاموں میں مشغول ہونے کو برا نہ مناتے تھے بلکہ اس طرح رزقِ حلال کمانے کو پسند فرماتے اور اس کی طرف انہیں رغبت دلاتے رہتے تھے۔ پھر اسلامی نظام صرف لوگوں کو کلمہ ہی نہیں پڑھاتا تھا بلکہ دُنیوی کام بھی سکھاتا تھا۔ چنانچہ رسول کریم ﷺنے بدرکے کفار قیدیوں میں سے بعض کیلئے آزادی کا فدیہ ہی یہ مقرر کیا تھا کہ مدینہ کے لڑکوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں۔ یہ ظاہر بات ہے کہ مکہ کے کفار سے آنحضرت ﷺ نے یہ تو کہا نہیں ہوگا کہ اسلام کے معارف لوگوں کو پڑھائو۔ وہ کمبخت جو خود اسلام نہ جانتے تھے مدینہ کے لوگوں کو اسلام کیا سکھاتے۔ اُن سے آخر یہی مطالبہ ہوگا کہ دُنیوی علوم اور ظاہری لکھنا پڑھنا سکھادیں۔ پس نظامِ اسلامی بھی اس قسم کے کاموں سے بے رغبتی نہیں برت سکا۔ ہم لوگ جن کی بے رغبتی کا ماتم کرنے کیلئے مولوی محمد علی صاحب کھڑے ہوئے ہیں، اس سے پہلے ہماری جماعت بھی تو ساری کی ساری دن رات اشاعتِ دین میں مشغول نہ رہتی تھی۔ کیا ہم میں ایسے لوگ موجود نہیں تھے جو اپنی روٹی کمانے کیلئے کالجوں میں پروفیسر یا سکولوں میں اساتذہ تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جو اپنی روٹی کمانے کیلئے لوہارے کا کام کیا کرتے تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جو اپنی روٹی کمانے کیلئے درزی کا کام کرتے تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں جو اپنی روٹی کمانے کیلئے ڈاکٹری کا پیشہ کرتے تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں جو اپنی روٹی کمانے کیلئے انجینئرنگ کا کام کرتے تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جن میں سے کوئی اپنی روٹی کمانے کیلئے پٹوار کی ملازمت اختیار کئے ہوئے تھا، کوئی تحصیلدار تھا، کوئی ای۔اے ۔سی تھا، کوئی زمیندارہ پر گزارہ کرتا تھا؟ پھر کونسا معقول انسان ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہم میں لاکھوں آدمی اپنی روٹی کمانے کیلئے مختلف کام کرتے رہے لیکن ہماری دین سے بھی بے رغبتی ثابت نہ ہوئی۔ لیکن جونہی سلسلہ نے یہ فیصلہ کیا کہ جماعت کے یتیم اور مسکین بچوں کو بھی مختلف پیشے سکھائے جائیں تاکہ وہ آوارہ نہ پِھریں اور بیروزگار رہ کر تکلیف نہ اُٹھائیں ہماری جماعت فوراً بے دین بے رغبت ہوگئی اور ہمارے دین کا ذخیرہ ختم ہوگیا۔ گویا جب تک ہم میں سے بعض اپنے نفس کیلئے روٹی کماتے رہے اُس وقت تک تو مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک ہم دین دار تھے لیکن جب ہم نے یہ کوشش شروع کی کہ ہم اپنے ہنر یتیموں اور مسکینوں کو بھی سکھائیں تو فوراً بقول مولوی محمد علی صاحب ہمارے ایمان کا دیوالیہ نکل گیا اور ہم دنیا میں مشغول ہوگئے اور وہ شکایت کرنے لگ گئے کہ اب قادیان میں دین کہا ں رہ گیا، اب تو بے دینی آگئی ہے۔ گویا ان کے نزدیک دینِ اسلام نام ہے یتیموں کو بُھوکا مارنے اور بیکاروں کو ہمیشہ بیکار رکھنے کا۔ اور جب کسی قوم میں یتیموں کو کام پر لگانے کا جذبہ پیدا ہوجائے یا بیکاری کو دور کرنے اور غریبوں کو ہُنر سکھانے کا اسے خیال آئے، اُسی دن سے وہ بے دین بن جائے گی۔ ایک زمیندار اگر سارا دن اپنے زمیندارہ کے کام میں لگا رہے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ کسی غریب لڑکے کو زمیندارہ کا کام سکھادیتا ہے تو بے دین بن جاتا ہے۔ یہ دین کی ایک ایسی اصطلاح ہے کہ غالباً مولوی محمد علی صاحب ہی اِس کے موجد ہیں۔ نہ کسی عقلمند آدمی کو اس سے پہلے یہ اصطلاح سُوجھی ہے اور نہ شاید اب کسی عقلمند آدمی کی سمجھ میں یہ اصطلاح آئے۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب سے تعلق رکھنے والے لائل پور میں بعض کارخانہ دار ہیں جنہیں اپنی قسم کے کارخانہ والوں کا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے۔ مولوی محمد علی صاحب ان سے چندے بھی وصول کرتے ہیں ان کی بڑی بڑی رقموں پر انہیں شاباش بھی دیتے ہیں مگر ان کے کارخانوں میں بے دینی کی کوئی علامت انہیں نظر نہیں آتی غالباً اس لئے کہ لائل پور کے لوگ اپنی ذات کیلئے کماتے ہیں۔
پس مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک اپنی ذات کیلئے کمانے میں کوئی حرج نہیں لیکن جب ہم کسی یتیم، غریب اور بے کس کیلئے کمائیں تو دین میں فتور آجاتا ہے۔ ہمارے کارخانے چونکہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے نہیں بلکہ ان کے قائم کرنے کی غرض یہ ہے کہ یتیموں اور بیوائوں کی خبر گیری کی جائے اور انہیں کام مہیا کرکے دیا جائے جس سے وہ اپنی روزی کماسکیں اس لئے ان کے نزدیک قادیان کی جماعت احمدیہ دین اسلام سے بالکل بے رغبت ہوتی چلی جاتی ہے اور اشاعتِ اسلام کا کام اس نے بند کررکھا ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر لطیفہ یہ ہے کہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہور مربعے خریدتی اور انہیں اپنے استعمال میں لاتی ہے اور اس سے دین کی اشاعت میں فرق نہیں آتا۔ لیکن اگر غریب کو پیشہ سکھادیا جائے تو اس سے دین کی طرف سے پوری بے رغبتی ہوجاتی ہے اور اشاعتِ اسلام میں فوراً فرق آجاتا ہے۔ اگر مولوی محمد علی صاحب کتابیں لکھیں، انہیں بیچیں اور ان کی آمد اپنی ذات پر خرچ کریں تو یہ عین دین ہے۔ لیکن اگر میاں نذر محمد مستری غریبوں اور یتیموں کو کام سکھلائیں اور میری یا کسی اور کی نگرانی میں کام ہو تو یہ بے دینی ہے۔ گویا جب کارخانوں کی آمد یا کتابوں کی آمد یا بعض اور آمدنیاں مولوی محمد علی صاحب کے پاس جائیں تو یہ دین ہے لیکن جس دن وہ آمد کسی بیوہ کو ملنے لگے اُسی دن سے اشاعت اسلام کے کام میں رُکاوٹ پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے۔ میں اگر کتابیں لکھ کرسلسلہ کو دے دوں اور اس کی آمد بھی سلسلہ کے مفاد کیلئے ہی خرچ ہو تو یہ میری غفلت اور بے ایمانی لیکن اگر مولوی محمد علی صاحب کتابیں لکھ کر خود نفع کمائیں تو یہ دین کی خدمت اور اسلام کی اشاعت۔لائل پور والے اگر کارخانے جاری کریں اور بڑی بڑی رقمیں مولوی محمد علی صاحب کو بھجوائیں تو یہ جائز لیکن اگرقادیان میں غرباء کیلئے کارخانے جاری کردیئے جائیں تو دین میں فرق آجاتا ہے، حالانکہ اسلام نام ہی ہے ہرقسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا۔ جیسا کہ میں اوپر اشارہ کرآیا ہوں بدر کی جنگ کے بعد جب قیدی آئے تو رسول کریم ﷺ نے اُن قیدیوں سے فرمایا کہ ہم تم سے کوئی فدیہ نہیں لیتے تم مدینہ کے بچوں کو پڑھادیا کرو۔ وہ قیدی آخر انہیں قرآن نہیں پڑھاتے تھے، یہی لکھنا پڑھنا سکھاتے تھے اور لکھنا پڑھنا بھی ویسا ہی کام ہے جیسے لوہارا یا ترکھانا۔ پھر اگر اپنے سکول جاری کرنے سے دین کی خدمت کا جذبہ کم نہیں ہوتا تو ترکھانے یا لوہارے کا کام سکھانے سے دین کی خدمت کا جذبہ کیوں کم ہوجاتا ہے۔ اس کا تویہ مطلب ہے کہ ہم اگر کسی کو الف ب پڑھائیں تو یہ دین کی اشاعت ہے اور اس سے اسلام میں کوئی فرق نہیں آسکتا لیکن اگر ہم کسی یتیم کو پیشہ سکھادیں تو اِس سے دین میں فرق آجاتا ہے۔
چند دن سے غیراحمدی اخباروں میں شائع ہورہا ہے کہ جرمن کی غیرمبائعین کی مسجد میں بعض دفعہ ٹکٹ کے ذریعہ سے داخلہ ہوتا ہے اس بارہ میں غیراحمدی اخباروں میں بار بار چیلنج شائع ہوتے رہے ہیں لیکن غیرمبائعین نے اِس کی کوئی تردید نہیں کی۔ پھر سوال یہ ہے کہ اگر ایک مذہبی لیکچر کے بدلہ میں پیسے وصول کرنے سے اشاعتِ اسلام میں فرق نہیں آتا تو بُوٹ یا کُرسی بنا کر اگر پیسے لئے جائیں اور وہ غرباء پر خرچ کئے جائیں یا اشاعتِ اسلام پر خرچ کئے جائیں تو اس سے اشاعت اسلام میں فرق کیوں آجاتا ہے۔
پھر یاد رکھو کہ اسلام نام ہے زندگی کے تمام شعبوں کو درست رکھنے کا۔ رسول کریم ﷺ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ جو شخص سڑک پر چلتے ہوئے راستہ سے کنکر، پتھر اور کانٹے وغیرہ ہٹا کر ایک طرف کردیتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ثواب کا مستحق ہوتا ہے ۳ ؎۔ مگر اِس حدیث کو دیکھ کر کوئی نہیں کہتا کہ رسول کریم ﷺ نے لوگوں کو صفائیوں میں لگادیا اور اشاعتِ اسلام کی طرف سے ان کی توجہ کو پھرا لیا۔پھر رسول کریم ﷺ بعض دفعہ صحابہؓ کو حکم دیتے کہ کُتّے مارو۔ چونکہ آوارہ کُتّوں کی کثرت کی وجہ سے خدشہ ہوتا ہے کہ وہ دیوانے ہوجائیں اور لوگوں کو نقصان پہنچے اس لئے رسول کریم ﷺبعض دفعہ صحابہؓ کو کُتّے مارنے کا حکم دے دیتے مگر کبھی کسی نے نہیں کہا کہ اشاعتِ اسلام سے اس طرح لوگوں کی توجہ پھرالی گئی ہے۔ جو وقت کتوں کے مارنے پر صرف ہوگا وہی وقت تبلیغ میں کیوں نہ صَرف کریں۔ پھر حدیثوں میں اور صحیح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ صحابہ کو تیر اندازی اور نیزہ بازی کی مشق کراتے اور بعض دفعہ خود بھی اس میں شامل ہوتے۔ اگر یہی بات درست ہے کہ جماعت کے کسی فرد کو لوہارے یا ترکھانے کا کام سکھانے سے دین میں فرق آجاتا ہے تو کیوں یہ نہ سمجھا جائے کہ جتنی دیر رسول کریم ﷺ صحابہؓ کو نیزہ بازی یا تیر اندازی کراتے، اتنی دیر دین میں فرق آیا رہتا تھا۔ بلکہ بخاری میں تویہاں تک لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺنے ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا، عائشہؓ!آ تُو بھی نیزہ بازی کے کرتب دیکھ۴؎، یہ نہیں کہا کہ میں تو نیزہ بازی کے کرتب دیکھتا ہوں اور تم ذرا تبلیغ کرآئو۔ پھر کیا مولوی محمد علی صاحب کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی چائے کی پارٹی یا دعوت میں کبھی شامل نہیں ہوئے؟ یا کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی دوست سے کبھی ملنے نہیں گئے یا کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی بیمار کی عیادت کیلئے کبھی نہیں گئے یا کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کہیں سیر کیلئے کبھی نہیں گئے اگر نہیں کہہ سکتے تو انہوں نے اِن وقتوں کو تبلیغِ اسلام میں کیوں صرف نہیں کیا اگر کسی دعوت میں کیک اور پیسٹری اُڑانے اور پلائو اور زردہ کھانے کے باوجود ان کی اشاعتِ اسلام میں فرق نہیں آتا تو چند یتیموں اور نادار بچوں کو نجاری یا آہن گری کا کام سکھلانے پر ہمارے دین میں کس طرح فرق آجاتا ہے اور ہم ان کی نگاہ میں کیوں بے دین بن جاتے ہیں۔ یہ تو اصل میں تُھوکھٹے والی بات ہے۔
ہر کام جو میں نے آج تک کیا اُس پر انہوں نے اعتراض کیا مگر پانچ دس سال کے بعد جب دیکھتے ہیں کہ ہمارا اعتراض لوگوں کو بھول گیا ہوگا تو وہی کام خود شروع کردیتے ہیں اورکہتے ہیں یہ ہے ہماری قوم کی ترقی جو اِس نے تھوڑی سی مدت میں کرلی۔ بلکہ ایک مدت کے بعد تو الفاظ بھی وہی لکھنے لگ جاتے ہیں جن پر پہلے اعتراض کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ ہم لوگ خلافت کے قائل ہیں۔ مگر اب ایک دوست نے ان کا ایک خط بھجوایا ہے جو غیرعلاقہ کے کسی آدمی کو ان کی انجمن کے سیکرٹری نے لکھا اور جس میں مولوی محمد علی صاحب کے متعلق’’ حضرت خلیفۃ المسیح امیر ایدہ اللہ‘‘ کے الفاظ تحریر کئے ہیں۔ دیکھو! یا تو کبھی خلافت پر اعتراض کئے جاتے تھے یا اپنے خطوط پر چوری چُھپے مولوی محمد علی صاحب کے متعلق خلیفۃ المسیح لکھا جانے لگ گیا ہے۔ یہ خط جو غیرمبائعین کا پکڑا گیا ہے، اِس کے نیچے سیکرٹری کے طور پر غلام نبی مُسلم کا نام لکھا ہؤا ہے۔
غرض جو کام میں کرتا ہوں اس پر یہ لوگ پہلے اعتراض کرتے ہیں مگر پانچ دس سال کے بعد انہی کاموں کی نقل شروع کردیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب یہ کہتے تھے کہ وصیت میں کیا رکھا ہے، کیا اسی زمین میں داخل ہوکر انسان جنتی بن سکتا ہے، اس کے علاوہ جنتی نہیں بن سکتا۔ وہ زمانہ مَیں نہیں بُھول سکتا جب اِن لوگوں نے بہشتی مقبرہ کے پاس کچھ زمین خریدی تو کسی نے اِن سے پوچھا کہ آپ تو بہشتی مقبرہ پر اعتراض کیا کرتے تھے اور اب خود بہشتی مقبرہ کے طور پر ایک زمین خریدلی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ تو وہ کہنے لگے یہ اُلّوئوں کو تسلی دینے کیلئے خریدی گئی ہے یعنی بعض اُلّو ایسے بھی ہیں کہ جب تک بہشتی مقبرہ کے پاس قبروں کیلئے کوئی جگہ نہ ہو اُنہیں تسلی نہیں ہوتی۔ اس دوست نے وہ بات آگے بیان کی پھر اور لوگوں میں مشہور ہوئی یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ہماری جماعت میں پیغامیوں کے مقبرہ کا نام ہی اُلّوئوں کا مقبرہ ہوگیا۔ غرض انہوں نے وصیتوں پر تمسخر اُڑادیا، اپنی وصیتیں واپس لے لیں، حتیّٰ کہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنی وصیت منسوخ کرائی۔ مگر آج بیس بائیس سال کے بعد اپنے جلسہ سالانہ میں مولوی محمد علی صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا میں اپنے گناہ کا نہایت ندامت کے ساتھ اقرار کرتے ہوئے اشاعت اسلام کیلئے وصیت کرتا ہوں گویا اب وصیت کرنا نیک کام بن گیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرر کردہ بہشتی مقبرہ کیلئے وصیت کرنے والا ان الفاظ کا مستحق ہے جو انہوں نے کہے لیکن جو لاہور کی انجمن اشاعتِ اسلام کیلئے وصیت کرے وہ بڑی نیکی کا کام کرتا ہے۔
مجھے حیرت آتی ہے کہ ایک معقول انسان، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صُحبت میں رہنے والا انسان، اسلام پر کتابیں لکھنے والا انسان، ایک انجمن کا پریذیڈنٹ کہلانے والا انسان جس کے خطوں میں اب چوری چُھپے خلیفۃ المسیح کے الفاظ بھی لکھے جارہے ہیں، اُس نے یہ کیونکر کہہ دیا کہ چونکہ قادیان میں اب بعض ایسے کارخانے کُھل گئے ہیں جن میں یتیموں اور غریبوںکو کام کرنا سکھلایا جاتا ہے۔ اس لئے یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ قادیان کے لوگ بے دین ہوگئے۔ گویا جو بیوائوں کو بُھوکا رکھیں، جو یتیموں کو بُھوکا ماریں، جو غریبوں کو بُھوکا ماریں وہ تو دین دار مگر جو ان کی آسائش اور سہولت کیلئے کوئی کام نکالیں وہ بے ایمان اور اشاعتِ اسلام کے کام سے منحرف۔ مگر میں مولوی محمد علی صاحب سے یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ابھی زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ وہ خود اِسی قسم کے کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یہ ایا م خواہ ان کی زندگی میں آئیں یا اِن کی اولادوں کی زندگی میں بہرحال زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ وہ خود اسی قسم کے کام کریں گے جس قسم کے کاموں پر وہ آج ہم پر اعتراض کررہے ہیں۔ وہ بیشک میرا یہ خطبہ اپنے اخبارمیں چھاپ دیں تا آئندہ نسلوں کیلئے سند رہے کہ میں نے یہ دعویٰ کیاہے کہ ایک دن ان کی انجمن یہی کام کرنے پرمجبور ہوگی۔ اگر یہ بات درست ثابت ہوئی تو اِن کی نافہمی ان کی نسلوں پر ثابت ہوگی اور اگر درست نہ نکلی تو میرا جھوٹ ثابت ہوگا۔
ایک دوسری صورت بھی میں ان کے سامنے پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر وہ یہ اعتراض دیانت داری سے کررہے ہیں تو وہ اپنی طرف سے چوکھٹوں میں یہ الفاظ لکھ کر شائع کردیں کہ اگر کبھی ہماری جماعت نے صنعتی مدرسے جاری کئے یا بیوائوں اور یتیموں کی خبرگیری کی اور انہیں کوئی ہُنر اور پیشہ سکھانے کے لئے کوشش کی تو یہ سخت بے دینی ہوگی پھر وہ خودبخود دیکھ لیں گے کہ اگلی نسلیں ان پر لعنتیں کرتی ہیں یا نہیںکرتیں۔ اور اگر وہ کہیں کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر اور بھی بیسیوں کام ہیں وہ تم کیوں نہیں کرتے یا اس سے پہلے کیوں ایسے کام جاری نہیں کئے تھے؟ تو اِس کاجواب یہ ہے کہ ہر کام کا وقت ہوتا ہے جب تک ہمارے آدمی تھوڑے تھے اور اُن کو کام پر لگانے کیلئے ایسے اخراجات اِسراف میں داخل تھے ہم نے یہ کام شروع نہیں کئے اورجب ہماری تعداد زیادہ ہوگئی اور بیکاری بڑھ گئی اور سکھانے کا خرچ اِسراف نہ رہا، ہم نے یہ کام جاری کردیئے۔ اب اگر ہمارے پاس مزید طاقت ہو تو ہم یقینا اور پیشے بھی سکھانے کیلئے جماعت میں کارخانے جاری کردیں گے۔ بلکہ اگر ہمارے اندر طاقت ہو تو میں تو اپنی جماعت کے افراد سے یہی کہوں گاکہ ہوسکے تو ہوائی جہاز بنانے سیکھو، جہاز بنانے سیکھو، کشتیاں بنانی سیکھو اور ان کے ذریعہ اگر غریبوں اور یتیموں کی امداد کرسکتے ہو تو کرو اور بیکاروں کو کام پر لگائو۔ کام کرنا بے دینی نہیں دین چھوڑ کر کام کرنا بے دینی ہوتا ہے یا اپنی آمد کو عیاشی پر خرچ کرنا بے دینی ہوتا ہے ورنہ کام کرنا جبکہ اس کے ساتھ دین کی محبت اور دین کیلئے قربانی شامل ہو خود دین ہے۔ پس ایسے کارخانے جاری کرنے میں کوئی حرج نہیں جن کے ذریعہ غرباء کی امداد کی جاسکے۔ ہاں اگر ہم کارخانے اس لئے جاری کریں کہ امراء اپنی دولت میں بڑھ جائیں تو یہ بیشک ناجائز کام ہوگا لیکن ہمارا مقصد تو ان کارخانوں کے اجراء سے دولتمندوں کو دولت میں بڑھانا نہیں بلکہ یہ ہے کہ یتیم اور غریب لڑکے ہُنر سیکھ جائیں اور وہ اپنی روزی خود کماسکیں۔ یا مثلاً لجنہ اماء اللہ کو ہم نے روپیہ دیا کہ غریب عورتوں کو اِس سے سُوت وغیرہ لے دے تاکہ وہ کام کریں اور اس کام کے بدلے میں انہیں ضروریات کیلئے مناسب معاوضہ دیا جائے تو اِس قسم کے کام نہ صرف یہ کہ ناجائز نہیں بلکہ عین دین ہیں اور قومی ترقی کیلئے ضروری ہیں۔ پھر ان کارخانوں کے اجراء سے جن میں یتیم بچوں کو ترکھانے اور لوہارے کا کام سکھایاجاتا ہے یہ بھی غرض ہے کہ ان بچوں کو ساتھ کے ساتھ دین کی تعلیم بھی ملے۔ چنانچہ ان صنعتی سکولوں میںدینیات کی تعلیم بھی شامل کی گئی ہے۔ پس یہ تو عین خیرخواہی اور اسلام ہے اور اگر ہم نے اب تک اس کام کو شروع نہیں کیا تھا تو اس لئے نہیں کہ ہمیں یہ کام پسند نہیں تھا بلکہ اس لئے کہ ہم میں طاقت نہیں تھی ۔اور جن کاموں کو ہم اب نہیں کررہے وہ بھی اس لئے نہیں چھوڑے ہوئے کہ ہم انہیں پسند نہیں کرتے بلکہ اس لئے چھوڑے ہوئے ہیں کہ ہم میں ان کے کرنے کی طاقت نہیں۔ اور ان کے سکھانے پر جو خرچ ہوگا وہ فائدہ سے زیادہ ہوگا۔ ہاں جیسا کہ میں نے بتایا ہے اگر ہم ایسے کارخانے جاری کریں جن کی غرض یہ ہو کہ امراء کی دولت بڑھتی چلی جائے تو یہ ناجائز ہوگا۔ لیکن یہ کارخانے تو محض غرباء کی ہمدری اور ان کی آئندہ زندگی کو سنوارنے کیلئے جاری کئے گئے ہیں اور یہ بہت بڑے ثواب کا موجب اور عین دینِ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے۔ سارا قرآن کریم انہی باتوں سے بھرا پڑا ہے کہ غریبوں کی مدد کرو اور اُن کی ہمدردی اور خیرخواہی کرو۔ کیا دنیا میں ہزاروں دفعہ ہم ایسا نہیں کرتے کہ ہمارے سامنے کوئی غریب آتا ہے اور ہم اُسے پیسہ نکال کر دیتے ہیں۔ اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک غریب شخص کو پیسہ دے دینا تو دینداری اورنیکی ہو لیکن اگر ہم اسے کوئی پیشہ سکھادیں جس سے وہ ہمیشہ روٹی کھاسکے تو یہ ناجائز ہوجائے۔ ہمارے گھر میں اگر سال بھر کا غلہ پڑا ہؤا ہے اور غریب بُھوکا مررہا ہے تو یہ جائز لیکن اگر ہم غریب کو کوئی ایسا ہُنر سکھادیں جس سے وہ ہمیشہ کیلئے اپنی روزی آپ پیدا کرسکے تو یہ بے دینی بن جائے!!
اصل بات یہ ہے کہ یہ اعتراض محض حسد کا نتیجہ ہے اور اِس کی وجہ ان کی یہ جلن ہے کہ خود انہوں نے اس کام کو پہلے شروع کیوں نہیں کیا۔ اب چونکہ وہ ان کاموں کو خود ہم سے پہلے شروع نہیں کرسکے اس لئے حسد میں آکر ہمارے کاموں کوبے دینی پر محمول کرنے لگ گئے ہیں۔ لیکن پانچ دس سال نہیں گزریں گے کہ وہ خود یہی کام کرنے لگ جائیں گے اور اُس وقت اِس کا نام ایمانداری اور نہایت اعلیٰ درجہ کی اسلامی خدمت رکھیں گے اور اگر انہوںنے پانچ دس سال کے بعد کوئی ایسا کارخانہ جاری کردیا جو ہمارے ہاں نہ ہؤا تو پھر تو وہ ہمیشہ ہماری جماعت کے افراد پریہ طنز کرتے رہیں گے کہ دیکھا ہم کیسے منظم ہیں ہم نے وہ کارخانے جاری کررکھے ہیں جو تمہارے ہاں جاری ہی نہیں۔
پس یہ محض تھوکھٹّے والی بات ہے چونکہ انہوں نے آپ اس کام کو ابھی تک شروع نہیں کیا اس لئے یہ بات بُری ہوگئی۔ مگر مومن اعتراضات سے نہیں ڈرا کرتا۔ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ بیکار نہ رہے اور جماعت کا کام یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بیکاری اپنے اندر سے دور کرنے کی کوشش کرے۔ ہم اپنے اندر سے جتنی بیکاری اِس وقت معذوری کی وجہ سے دورنہیں کرسکتے اِس کے متعلق ہم خداتعالیٰ کے حضور بَری ہیں لیکن اگر ہم بیکاری کودور کرسکتے ہوں اور پھر اپنی غفلت کی وجہ سے بیکاری دورنہ کرسکیں تو یقینا ہم خداتعالیٰ کے حضور مجرم ہوں گے۔ کیونکہ مومن کا بیکار رہنا خداتعالیٰ کبھی پسند نہیں کرتا۔ لیکن چونکہ تمام لوگ صرف ایک ہی کام یعنی دین کی خدمت نہیں کرسکتے اس لئے ضروری ہے کہ ایک حصہ دنیا کے کاموں پر لگاہؤا ہو۔ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ تم سارے کے سارے دینِ کی خدمت کیلئے اپنے آپ کو وقف کرسکو اس لئے ہر جماعت میں سے کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو کُلّی طور پر دین کی خدمت کیلئے وقف ہوں اور جو باقی رہ جائیں وہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تبلیغ کرتے جائیں۔ اگر کوئی ترکھان ہو تو وہ ترکھانے کے کام کے ساتھ تبلیغ بھی کرتا جائے اگر لوہار ہو تولوہارے کے کام کے ساتھ تبلیغ بھی کرتا جائے، اگر درزی ہو تو درزی کے کام کے ساتھ ہی تبلیغ بھی کرتا رہے اور اگر موچی ہو تو موچی کے کام کے ساتھ ہی تبلیغ بھی کرتا رہے۔
پس ساری جماعت کبھی بھی تبلیغ میں نہیں لگ سکتی اور اسلامی تعلیم یہی ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو کُلّی طور پر دین کیلئے وقف ہوں اور جو باقی ہوں وہ روپیہ کمائیں اور زائد وقت تبلیغِ اسلام پر صَرف کریں۔ اگر خداتعالیٰ ہمیں اِس کام میں جو ہم نے شروع کیا ہے کامیاب کردے تو غریبوں اور یتیموں کی کتنی بڑی مدد ہوسکتی ہے۔ اگر اِس کے نتیجہ میں سَو پچاس یتیم اور غریب بھی فاقہ زدگی سے بچ جائیں اور اپنی بچی ہوئی کمائی چندوں کیلئے دے دیں تو کتنی بڑی دین کی خدمت ہوگی۔ اگر ایک یتیم کو روٹی دے دینا بڑی خوبی کی بات ہے، اگر ایک یتیم کو پیسے دے دینا بڑی خوبی کی بات ہے توایک یتیم اور بیکس کو ہُنر سکھادینا جس سے وہ ساری عمر روٹی کماسکے کیوں نیکی کی بات نہیں۔ اور اگر کام سیکھ کر وہ اس قابل بن جائے کہ نہ صرف خود اپنا پیٹ پالے بلکہ چندہ بھی دے تو یہ اور بھی زیادہ اچھی بات ہے اور میں نے تو سکیم ہی ایسی رکھی ہے کہ دین سیکھنے کے کام بھی اس میں شامل ہیں۔ چنانچہ ان سکولوں میں قرآن شریف پڑھایا جاتا ہے اور دین کی بعض اور کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں تاکہ جب یہاں سے ترکھان نکلیں تو صرف ترکھان نہ ہوں بلکہ مولوی ترکھان ہوں اور یہاں سے لوہار نکلیں تو صرف لوہار نہ ہوں بلکہ مولوی لوہار ہوں اورموچی نکلیں تو صرف موچی نہ ہوں بلکہ مولوی موچی ہوں۔
پس یہ تو نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ والی بات ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ ساری عمر کیلئے روٹی کماسکتے ہیں بلکہ وہ دینی معلومات بھی رکھتے ہوں گے اور مخالفین کو تبلیغ بھی کرسکیں گے۔ ایسے مُفت کے مولوی مل جانا اور ایسے مُفت کے مولوی تیار کرنا دین کی سب سے بڑی خدمت ہے ۔ بھلا کونسی ایسی جماعت ہے جو ہماری جماعت کی طرح غریب ہو اور پھر وہ ہزاروں مبلّغ رکھ سکے۔ زیادہ سے زیادہ پچاس سَو کو ملازم رکھا جاسکتا ہے مگر تبلیغ کیلئے تو ہزاروں مبلغ چاہئیں اور وہ ہزاروں اسی طرح میسر آسکتے ہیں کہ پیشے سکھانے کے ساتھ ساتھ انہیں دین کی بھی واقفیت کرائی جائے تا جب وہ مسجد میںجائیں توواعظ بن جائیں، جلسوں میں جائیں تو مبلغ بن جائیں اور دُکان میں جائیں تولوہار اور ترکھان بن جائیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی آج دین کو ضرورت ہے۔ اگر یہ بے دینی ہے تو خدا کرے یہ بے دینی اور بھی ہمیں میسر آئے اور مولوی محمد علی صاحب دعا کریں کہ یہ بے دینی اُن کی قوم کو کبھی میسر نہ آئے۔
پس مَیں دوستوں کو مولوی محمد علی صاحب کے اِس اعتراض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے پھر کہتا ہوں کہ اپنے اندر سے بیکاری دُور کرو۔ ہم نے یہاں جو کام شروع کیا ہے وہ محدود پیمانہ پر شروع کیا ہے لیکن اگر مختلف پیشہ ور قربانی کریں اور وہ اپنے اپنے گائوں کے غریبوں ،یتیموں اور ناداروں کو اپنے ساتھ شامل کرکے انہیں پیشہ سکھا دیں یا کسی نادار بیوہ یا بیکار بوڑھے کے بچے کو لے لیں اور اُسے ہُنر سکھائیں اور ثواب کی نیت سے کام کے ساتھ ساتھ انہیں دین کی باتیں بھی سکھلاتے رہیںتو اس ذریعہ سے بھی وہ سلسلہ سے بیکاری دور کرکے بہت بڑا ثواب حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جن کے بچے اِس وقت بیکار ہیں وہ کوشش کرکے اگر اِنہیں کسی نہ کسی کام پر لگادیں تو یقینا سلسلہ اور اسلام کی وہ بہت بڑی مدد کرنے والے ہوں گے۔ ان کے اِس فعل کو جو شخص بے دینی قرار دے وہ آ پ اپنے دین کا پردہ چاک کرتا ہے لیکن وہ یقینا دیندار اور دین کی خدمت کرنے والے ہوں گے۔ پس اگر تمہارے اپنے بچے بیکار نہیں لیکن تمہیںکوئی ہُنر اور پیشہ آتا ہے تو تمہارا اُس ہُنر اور پیشہ کو اپنے اِردگرد کے یتیموں اور بیکاروں کو سکھانا بھی دین کی خدمت ہے اور اگر اس کے ساتھ تم انہیں دینی تعلیم بھی دیتے ہو تو یہ زیادہ ثواب کا موجب ہے۔ کیونکہ اس طرح وہ مبلغ بھی بن جائیں گے۔اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو۔
(الفضل ۱۹؍ فروری ۱۹۳۷ئ)
۱؎ البقرۃ: ۱۲۶
۲؎ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ووفاتہ
۳؎ بخاری کتاب المظالم باب من اخذ الغصن (الخ)
۴؎ بخاری کتاب الجہاد باب الدرق

۴
محنت اور قربانی کی عادت ڈالو
(فرمودہ ۲۲؍ جنوری ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
مَیں نے تحریک جدید میں خاص طور پر کام کرنے اورمحنت کرنے اور سادہ زندگی بسر کرنے کی تحریک کی تھی۔ دنیا میں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا نسبتی پہلو غالب ہوتا ہے اس لئے ان کی حقیقت کا پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ اور بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں نسبت کا اصول اتنا زیادہ عمل نہیںکرتا اس لئے ان کا پتہ لگانا آسان ہوتا ہے۔ مثلاً روپیہ کی قربانی ہوتی ہے ایک شخص لکھ پتی اور ایک کنگال ہے۔ ان دونوں کی قربانیوں کا امتیاز اور فرق بہت مشکل ہے اور اسی طرح ان کے کھانے پینے اور پہننے کی ضرورتوں کے فرق کا پتہ لگانا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ تکلیف صرف غذا کی کمی یا زیادتی سے نہیں ہوتی بلکہ عادت کے پورا ہونے یا نہ ہونے سے بھی ہوتی ہے۔ افیون کتنی چھوٹی سی چیز ہے۔ حُقہ کا دُھواں کتنا ہلکا پھلکا ہوتا ہے۔ سال بھر حقہ پینے سے جو دُھواں حاصل ہوتا ہے اُس کا وزن اتنا بھی نہیں ہوتا جتنا ایک وقت کے کھانے کا۔ بعض لوگ بھنگ کے عادی ہوتے ہیں مگر ظاہر ہے بھنگ کو غذا سے کیا نسبت، مگر ان چیزوں کے چھوڑنے کی تکلیف غذا سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ تم بغیر کسی زیادہ تکلیف کے دو وقت کا فاقہ کرسکتے ہو مگر ایک افیونی اس ذرا سی گولی کا دو وقت ناغہ نہیں کرسکتا۔ جو شخص حُقّے کا عادی ہے اس سے دریافت کروکہ روٹی نہ ملنے سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے یا حُقّہ نہ ملنے سے۔ وہ یہی جواب دے گا کہ وہ بُھوکا رہ سکتا ہے مگر حُقّہ کے بغیر نہیں۔ حالانکہ مادی لحاظ سے حُقّہ کا دُھواں بالکل ہلکا ہوتاہے اور روٹی بھاری ہوتی ہے۔ پھر روٹی کے ساتھ زندگی وابستہ ہے اور حُقّہ کی عادت جو ڈالے اسے ہی ہوتی ہے۔ افیون جو نہیں کھاتا اسے کوئی تکلیف نہیں دے سکتی مگر روٹی ہر انسان کیلئے ضروری ہے۔ مگر باوجود اس کے روٹی چھوڑنے سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی افیون، گانجہ، چرس، بھنگ، شراب، حُقّہ اور نسوار وغیرہ کو چھوڑنے سے ہوتی ہے۔ دنیا میںلوگ بُھوکے رہ کر اپنے بچوں کو کھانا دیتے ہیں مگر ایک نشہ کا عادی اپنے نشہ کی عادت کو پورا کرنے کیلئے اپنے بیوی بچوں کی بھوک کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا۔ ایک شخص بہ نسبت اپنے بچوں کے ایک وقت بُھوکا رہنے کے خود تین وقت بُھوکا رہنا زیادہ پسند کرے گا۔ مگر ایک افیونی یہ پسند کرے گاکہ اس کے بچے تین وقت فاقہ سے رہیں بہ نسبت اس کے کہ اُسے ایک وقت کی گولی نہ ملے۔ پس عادتوںکی قربانی بھی بڑی قربانی ہے مگر بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا۔ امراء کو جن کو کھانوں کی یا جن کپڑوں کے پہننے کی عادت ہوتی ہے، ان کیلئے ان کی قربانی بڑی چیز ہے لیکن دوسرا اسے دیکھ نہیں سکتا۔
ایک امیر دس جوڑے کپڑے استعمال کرنے کا عادی تھا اور اب اُس نے پانچ کرلئے ہیں۔ اس کے متعلق ایک دوسرا شخص بے شک کہے گاکہ اس کے دس جوڑے ہوتے تھے۔ بیشک اس نے پانچ کرلئے ہیں لیکن میرے دو ہی تھے اور دو ہی ہیں پس میری نسبت اس کے اب بھی تین زیادہ ہیں۔ مگر سوال تو عادت کا ہے۔ امیر کو دس کے استعمال کی عادت تھی جس میں اُس نے کمی کردی ہے اور یہ اپنی پہلی عادت پرہی قائم ہے۔ اگرچہ اس کے تین جوڑے اس کی نسبت اب بھی کم ہیں لیکن دو کی عادت ہونے کی وجہ سے یہ تکلیف نہیں محسوس کرتا جبکہ دس جوڑوں والا پانچ جوڑے کرکے تکلیف محسوس کررہاہے۔ میں نے حُقّہ، افیون، بھنگ، چرس اور نسوار وغیرہ کی مثال اِس لئے دی ہے کہ پنجاب میں غرباء عام طور پر حُقّہ کے عادی ہوتے ہیں اور سرحدی صوبہ افغانستان وغیرہ میں نسوار کے استعمال کا رواج زیادہ ہے۔ کوئی ناک کے ذریعہ اسے استعمال کرتاہے اور کوئی منہ میں ڈال کر اور ان مثالوں سے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ عادت کا چھوڑنا بھی بڑی قربانی ہے۔
تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ امیر کے پاس پانچ جوڑے زائد تھے ، کیا ہؤا اگر ا س نے کم کردیئے۔ کیا حُقّہ زائد نہیں؟ جس طرح اس کے پاس کپڑے زائد تھے اسی طرح حُقّہ بھی زائد ہے۔ زمیندار کے حُقّہ کی قیمت اس کے کپڑوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ جتنی مالیت کا وہ تمباکو جلاتا ہے اتنی کے کپڑے استعمال نہیں کرتا۔ وہ سردی سے ٹھٹھرتا پھرے گا، نمونیہ کی تکالیف اُٹھائے گا، اپنی صحت کو برباد کرے گا مگر حُقّہ نہیں چھوڑے گا۔ حُقّہ کی عادت کی زیادتی کی وجہ سے اس نے کپڑے کی عادت کو کم کردیا ہے۔
ہماری جماعت میں کم سے کم بیس ہزار لوگ ایسے ہوں گے جن کے حُقّوں کا خرچ ان کے چندوں سے زیادہ ہے۔ کم سے کم بیس ہزار زمیندار ایسے ہوں گے جن کا سالانہ چندہ روپیہ ڈیڑھ روپیہ بلکہ بارہ آنہ ہی ہوگا اور اِس قدر خرچ میں وہ سال بھر حُقّہ نہیں پی سکتے۔ اگر وہ دھیلا روز کا بھی تمباکو پیتے ہوں تو تین روپیہ سالانہ خرچ ہوتے ہیں مگر وہ کہیں نہ کہیں سے اس خرچ کو پورا کرتے ہیں کیونکہ وہ اس عادت کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔
پس اگر ہم عادت کا اندازہ کرسکتے تو صحیح نتیجہ معلوم ہوسکتا کہ کون سچی قربانی کرتا ہے اورکون نہیں۔ مگر اس کا اندازہ اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے کہ ایک فرد کو ایک چیز کے چھوڑنے سے کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ ہم تو صرف ظاہر کو ہی دیکھ سکتے ہیں اور ظاہر کی بناء پر بڑی غلطی بھی کرسکتے ہیں ۔ لیکن میں نے بتایا ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا اندازہ انسان زیادہ صحیح طور پر کرسکتا ہے اور ان میں سے پہلی چیز محنت اور کام ہے۔ امراء پر غرباء مالی قربانی کے سلسلہ میں طنز کرسکتے ہیں یا کہہ سکتے ہیں کہ گو وہ ایک کھانا کھانے لگ گئے ہیں لیکن وہ بھی نہایت پرتکلف ہوتا ہے اور ہم تو پہلے بھی روکھی روٹی کھالیتے تھے یا اچار کے ساتھ کھالیتے تھے اور اب بھی ہماری یہی حالت ہے۔ یا وہ پانچ جوڑے کپڑوں کے استعمال کرتے ہیں اور ہم ایک ہی۔ اس لئے کہ وہ اس عادت کی قیمت نہیںلگاسکتے جسے امراء نے تبدیل کیا ہے۔ جسے دس جوڑوں کے استعمال کی عادت تھی اس کااسے چھوڑ دینا ایسا ہی ہے جیسا حُقّہ پینے والے کا حُقّہ کو چھوڑ دینا۔ مگر عادت کی قربانی کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے امراء و غرباء جھگڑتے ہی رہتے ہیں۔ مگر وقت کی قربانی ایسی نہیں جس میں فرق کیا جاسکے۔
میں نے بارہا کہا ہے کہ بیکار مت رہو اور کام کرو اور اس میں امیر وغریب سب مساوی ہیں۔ بلکہ غریب کو جس کا پیٹ خالی ہے کام اور محنت کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ مگر میں نے دیکھا ہے کہ ایسے لوگ بھی چھ چھ گھنٹے حُقّہ پینے میں ہی گزار دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ جو لوگ اپنے چھ گھنٹے ضائع کردیتے ہیں اگر ان کے چھ گھنٹے ان کے مخالف نے ضائع کردیئے تو انہیں شکوہ کا کیا حق ہے۔ وہ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہم نے مزدوری کی مگر چھ آنے ہی ملے حالانکہ ہمارا گزارہ بارہ آنے میں ہوتا ہے۔ مگریہ نہیں سوچتے کہ اگر اپنی آدھی عمر وہ رائیگاں گنواتے ہیں تو چوتھائی۔ اگر دوسرے نے گنوادی تو اس پر کیا الزام۔ جتنا وقت وہ حُقّہ پینے اور فضول بکواس میں گزارتے ہیں اتنا اگر کام کرنے اورمحنت کرنے میں گزارتے تو تنگدستی نہ ہو۔ سیر کو جاتے ہوئے میں نے دیکھا ہے کہ جہاں کوئی اچھا کھیت ہوتا ہے وہ سکھوں کا ہوتا ہے اور جس کھیت کی فصل ناقص ہو وہ مسلمان کی ہوتی ہے۔ اور اب لمبے تجربہ کے بعد میں تو اچھی فصل کو دیکھ کر کہہ دیا کرتا ہو کہ یہ کسی سکھ کی ہوگی اور خراب فصل کو دیکھ کر کہہ دیا کرتا ہوں کہ کسی مسلمان کی ہوگی اور بالعموم یہ قیاس درست نکلتا ہے۔ سکھوں کو ایک نمایاں برتری تو یہ حاصل ہے کہ وہ حُقّہ نہیں پیتے اس لئے ان کا وقت بچ جاتا ہے۔ مگر مسلمان زمیندار تھوڑی دیر کام کرتے ہیں اور پھر یہ کہہ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ آئو حُقّہ پی لیں۔ حُقّہ کی عادت زمینداروں میں اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک زمیندار یہاں مہمان آیا۔ جب واپس گیا تو دوستوں نے اس سے پوچھا سنائو کیا دیکھا۔ اس نے جواب دیا کہ قادیان سے خدا بچائے، کوئی بھلا مانس وہاں رہ سکتا ہے؟ وہ بھی کوئی آدمیوں کے رہنے کی جگہ ہے۔ ہمارے دوست ڈرگئے کہ شاید قادیان میں کسی نے اس سے بدسلوکی کی یا مہمان خانہ میں کسی سے اس کی لڑائی ہوگئی ہے۔ اس لئے پوچھا کہ بتائو تو سہی ہوا کیا وہ سنانے لگا کہ میں یکہ میں دس بجے کے قریب وہاں پہنچا (اس زمانے میں یہاں ریل گاڑی نہیں تھی)۔ سفر کی تھکان تھی، میں نے خیال کیا کہ آرام سے بیٹھ کر حُقّہ پئیں۔ مگر آگ لینے گیا تو کسی نے کہا کہ حدیث کا درس ہونے لگا ہے۔ میں نے کہا نیا نیا آیا ہوں چلو چل کر درس سن لو پھر حُقّہ پیئوں گا۔ بارہ بجے وہاں سے واپس آیا تو روٹی کھاکر آگ لینے گیا معلوم ہوا کہ حضرت صاحب نماز کیلئے باہر آنیو الے ہیں اور زیارت کا موقعہ ہے اس لئے چھوڑ کر مسجد کو چلا گیا۔ وہاں سے واپس آیا آگ وغیرہ سلگائی حُقّہ تیار کیا گیا مگر ابھی دو چار ہی کش لگائے تھے کہ عصر کی نماز کو لوگ لے گئے۔ میں نے سوچا واپس آکر آرام سے پیئوں گا۔ مگر آتے ہی معلوم ہوا کہ مولوی صاحب بڑی مسجد میں قرآن کریم کا درس دیں گے۔ اس لئے ادھر جانا پڑا۔ واپس آیا تو مغرب کا وقت تھا۔ مغرب کی نماز کے بعد حضرت صاحب بیٹھ گئے اور میں بھی بیٹھا رہا۔ وہاں سے آیا تو خیال کیا کہ اب آرام سے حُقّہ پیئوں گا مگر آگ ہی سلگا رہا تھا کہ لوگوں نے کہا عشاء کی اذان ہوگئی ہے ، چلو نماز پڑھو۔ غرض سارا دن آرام سے حُقّہ پینے کا موقعہ نہیں ملا۔ اس لئے میں تو سویرے اُٹھتے ہی وہاں سے بھاگا او رمجھے یقین ہوگیا کہ یہ جگہ آدمیوں کے رہنے کی نہیں۔ اس مثال سے معلوم ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں میںوقت کو ضائع کرنے کا مرض کس حد تک پہنچ گیا ہے اور اس میں غریب اور امیر میں فرق نہیں۔ خواہ ضائع کرنے کے طریقوں میں فرق ہو مگر ضائع سب کرتے ہیں۔ سب ہی محنت سے جی چراتے ہیں او راس امر میں ہم دونوں میں کوئی امتیاز نہیں کرسکتے۔ دونوں وقت کی کوئی قیمت نہیں سمجھتے۔
کل ہی ایک نوجوان کو میں نے دیکھا جو مبلغین کلاس میں پڑھتا ہے۔ وہ پرسوں رات باہر سے جہاں اسے کسی کام پر بھیجا گیا تھا واپس آیا اورکل شام کو اس نے رپورٹ کی۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ آپ نے یہ اطلاع کل ہی واپسی پر کیوں نہ دی۔ تواس نے جواب دیا کہ میں نو بجے کی گاڑی سے آیا تھا اور خیال کیا کہ اب نو بج چکے ہیں ۔ اس نے خیال کیا کہ جس طرح نو بجے جانا اس کیلئے بڑی بات ہے، سب کیلئے اسی طرح ہے۔ اس نے چونکہ پہلے میاں بشیر احمد صاحب کو رپورٹ دینی تھی۔ میں نے پوچھا کہ پھر صبح میاں صاحب کو کیوں نہ ملے؟ توجواب دیاکہ میں آیا تھا مگر منتظمین نے ان سے ملایانہیں۔ اس لئے واپس چلا گیا اور اس طرح چار مرتبہ آیا مگر ملنے کا موقعہ نہ ملا ۔ میں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے چار مرتبہ اپنے آپ کو ملزم بنایا۔ اگر تم پکے مومن ہوتے تو اس وقت تک دہلیز نہ چھوڑتے جب تک مل کر کام نہ کرلیتے۔
آپ لوگوں کو اچھی طرح اس امر کا احساس ہونا چاہئے کہ جو اہم کام ہوتے ہیں، ان میں چاہے جان بھی چلی جائے ہلنانہیں چاہئے۔ اس میں امیر اور غریب کا کوئی سوال نہیں ، دونوں کیلئے اس کی پابندی ضروری ہے۔ مگرمیں نے دیکھا ہے کہ نہ امیر اس کے پابندہیں نہ غریب ۔ حالانکہ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے۔ اچھی طرح یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کامیابیاں انہی لوگوں کو عطا کرتا ہے جو کام کے عادی ہوں۔ جیتنے والے محنتوں سے نہیں گھبرایا کرتے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا ۔ وَّالسّٰبِحَاتِ سَبْحًا۔۱؎ یعنی ہمیشہ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو گرہ کشائی میں لگے رہتے ہیں۔ وہ چھوڑتے نہیں جب تک گرہ کو کھول نہیں لیتے اور کام کو پورانہیں کرلیتے اور پھر وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ کئی لوگ اس پر بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے آٹھ گھنٹے کام کیا ہے۔ حالانکہ وہ تو تندرست ہوتے ہیں اور میرے جیسے بیمار کو سال میں بہت دفعہ ۲۲۔۲۲ گھنٹے روزانہ کام کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کئی دفعہ اپنے معترضین سے کہا ہے کہ میرے ساتھ دس دن اگر کام کرو تو تمہیں پتہ لگ جائے کہ کتنا کام کرنا پڑتا ہے۔ کام کا ہر ایک کو پتہ لگ جاتا ہے کیونکہ اس میں عادت کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ ایک امیر شخص یہ تو کہہ سکتا ہے کہ اَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّث ۲؎ میں مجھے اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ زیادہ کپڑے پہن لوں۔ مگر خدا نے یہ کہاں کہا ہے کہ وقت ضائع کرو۔ وقت ضائع کرنے کیلئے کوئی عذر نہیں پیش کیاجاسکتا۔ سوائے اس کے کہ کوئی شخص کہے مجھے اس کی عادت پڑ گئی ہے۔ مگر اس طرح تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ خدا اور رسول کے انکار کی مجھے عادت ہو گئی ہے۔
میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید تمہیں اس وقت تک کامیاب نہیں کرسکتی جب تک رات دن ایک کرکے کام نہ کرو۔ اپنی راتوں اور دنوں پر قبضہ نہ کرلو اور ایسی عادت ڈال لو کہ جس کام کو اختیار کرو ایسی طرح کرو جس طرح ہمارے ملک میں کہتے ہیں تخت یا تختہ۔ جب تک یہ روح پیدا نہ ہو، جب تک کوئی شخص اپنے آپ کو فنا کرنے کیلئے تیار نہ ہو، اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ تم لاکھ ایڑیاں رگڑو مگر اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ جب تک اس طریق پر کام نہ کرو جو اللہ تعالیٰ نے کامیاب ہونے کیلئے مقرر کیا ہے۔ اس وقت بورڈنگ تحریک جدید کے لڑکے میرے سامنے بیٹھے ہیں ۔ میں ان کو بھی اور ان کے استادوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اس بورڈنگ کے قیام سے میری غرض یہی ہے کہ نوجوانوں میں محنت کی عادت پیدا ہو۔ تم بارہ گھنٹے بھی سوسکتے ہو مگر پانچ، چھ گھنٹے سوکر بھی گزارہ کرسکتے ہو۔
سالہاسال تک جب میری صحت اچھی تھی باوجود یکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل مجھے سختی سے منع کیا کرتے تھے، میںپانچ ساڑھے پانچ گھنٹے سے زیادہ نہیں سویا کرتا تھا۔ کئی دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ طبی نقطہ نگاہ سے میرا مشورہ ہے کہ سات گھنٹے سے کم نیندکی صورت میں آپ کی صحت ٹھیک نہیں رہ سکتی۔ مگرمیں پانچ ساڑھے پانچ گھنٹہ سے زیادہ نہیں سویا کرتا تھا۔ اب تو صحت اس قدر برداشت نہیں کرسکتی۔ مگر اب بھی سوائے بیماری کے سات گھنٹے میں کبھی نہیں سویا۔ بیماری میں تو بعض وقت آدمی دس گھنٹے بھی لیٹا رہتا ہے مگر ایسی حالت تو سال میں دو چار دفعہ ہی ہوتی ہے۔ عام حالات میں مَیں اب بھی چھ پونے چھ گھنٹے سوتا ہوں۔ گو سخت کام کے وقت اب بھی بعض دفعہ تین چار گھنٹوں پر اکتفاء کرنی پڑتی ہے۔
تو دنیا میں کامیابی محنت اور کام کرنے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ محنت کے بغیر نیکی کی مشق بھی نہیں ہوسکتی۔ بورڈنگ تحریک جدید کے قیام سے میری غرض یہی ہے کہ چند نوجوان ایسے پیدا ہوں جو محنت کے عادی ہوں اور پھر وہ بیج کا کام دیں اور ان کے ذریعہ ساری قوم میں یہ عادت پیدا کی جاسکے۔ اس لئے میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ محنت کی عادت ڈالو بیکاری کی عادت کو ترک کردو۔ فضول مجلسیں بنا کر گپیں ہانکنا اوربکواس کرنا چھوڑ دو ۔ حُقّہ اور دیگر ایسی لغو عادتوں میں وقت ضائع نہ کرو اور کوشش کرو کہ زیادہ سے زیادہ کام کرسکو۔
یاد رکھوکہ ہمارے لئے بہت نازک وقت آرہا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں نیا آئین نافذ ہورہا ہے جس کے نتیجہ میں انگریزی اثرملک سے کم ہوجائے گا اورتم جانتے ہو کہ دیہات میں اب بھی تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ جن لوگوں پر احمدیوں کے احسان ہوتے ہیں اور جو احمدیوں پر احسان کرتے ہیں اور باہم بہت اچھا سلوک ایک دوسرے سے کرتے ہیں، وہاں ایک مولوی آکر تقریر کردیتا ہے اور وہی لوگ بھڑک اٹھتے ہیں۔
پس ان حالات کے آنے سے پہلے اپنی اصلاح کرلو۔ محنت اور قربانی کی عادت ڈالو۔ ورنہ تمہاری حالت اس بھیڑ کی سی ہوگی جو ہر وقت بھیڑیئے کے رحم پر ہے۔ جب تک ہمت کوشش اور استقلال سے اپنے آپ کو شیروں میں تبدیل نہیں کرلیتے، اس وقت تک تم بھیڑیں ہو جن کی جانیں ہر وقت غیرمحفوظ ہیں۔ خداتعالیٰ نے تمہیں اختیار دے دیا ہے کہ اگر چاہو تو شیر بن جائو جو جنگل میں اکیلابھی محفوظ ہوتا ہے لیکن بھیڑیں دس بیس بھی غیر محفوظ ہوتی ہیں۔ پس اس کیلئے کوشش کرو اور دعائوں میں لگے رہو۔ میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں لغو عادتوں کو دور کرنے کی توفیق دے اور توفیق دے کہ تم محنتی اوربہت کام کرنے والے بن جائو۔ اپنے اوقات کو خداتعالیٰ کے دین کیلئے خرچ کرنے والے ہوجائو تا تھوڑے ہوکر بہتوں پر غلبہ حاصل کرنے والے بن سکو۔
(الفضل ۳؍ فروری ۱۹۳۷ئ)
۱؎ النّٰزعٰت: ۳،۴
۲؎ الضُّحٰی: ۱۲

۵
فتح و نصرت جماعت احمدیہ کیلئے مقدر ہے
(فرمودہ ۲۹؍ جنوری ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو بڑھانا چاہتا ہے تو اس کے خیالات اور افکار کو بھی بڑھادیتا ہے اورجب کسی قوم کو گھٹانا چاہتا ہے تو اس کے خیالات اور افکار کو بھی گرادیتا ہے۔ چنانچہ تمام قوموں کی حالت کو دیکھتے ہوئے ہم قطعی طور پر اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ کسی قوم کیتنزّلسے پہلے اس کے خیالات میںتنزّل پیدا ہوجاتا ہے اور کسی قوم کی ترقی سے پہلے اس کے خیالات میں ترقی پیدا ہوجاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی قومیں اور ذلیل قومیں معمولی معمولی باتوں پر تسلی پاجاتی ہیں مگر بڑھنے والی قومیں ہمیشہ اپنے حوصلوں کو بلند رکھا کرتی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ یہاں ایک چوہڑا تھا جو اصطبل وغیرہ میں اور ہمارے گھر میں کام کرتا تھا۔ فرماتے تھے ایک دفعہ بچپن میں ہم نے کھیلتے ہوئے ہمجولیوں سے دریافت کرنا شروع کیا کہ تمہاری کیا خواہش ہے؟ پھر اسی بچپن کی عمر کے لحاظ سے اس سے بھی ہم نے دریافت کیا کہ تمہاری کیا خواہش ہے اور کس چیز کو سب سے زیادہ تمہارا دل چاہتا ہے اس نے جواب دیا کہ میرا دل اس بات کو چاہتا ہے کہ تھوڑا تھوڑا بخار چڑھا ہؤاہو، ہلکی ہلکی بارش ہورہی ہو، سردی کا موسم ہو، میں لحاف اوڑھے چارپائی پر لیٹاہؤاہوں اور دو تین سیر بھنے ہوئے چنے میرے سامنے رکھے ہوں اور میں انہیں ٹھونگتا جائوں یعنی ایک ایک کرکے کھاتا جائوں۔ یہ تھی اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش۔ کسی سننے والے نے کہا تم نے اس میں بخار کی شرط کیوں لگائی ہے؟ تو اس نے کہا اس لئے کہ پھر مجھے کوئی کام کیلئے نہیں بُلائے گا۔ کسی فارسی شاعر نے بھی کہا ہے کہ ؎
فکر ہر کس بقدرِ ہمت اوست
جتنی ہمت کسی فرد میں ہوتی ہے اتنے ہی بلند اس کے خیالات ہوتے ہیں۔
کچھ عرصہ کی بات ہے ایک دفعہ ایک ہندو دوست میرے ہم سفر تھے۔باتوں باتوں میں وہ مجھ سے کہنے لگے آپ تو قادیان کے بادشاہ ہوئے۔ میں نے کہا میں تو کوئی بادشاہ نہیں، بادشاہ تو انگریز ہیں۔ وہ کہنے لگا ہاں! مگر پھر بھی آپ کو وہاں ایک قسم کی بادشاہت حاصل ہے۔ میں نے کہا تو پھر اس میں قادیان کی کیا شرط ہے اس قسم کی بادشاہت تو مجھے ساری دنیا کی حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماچکا ہے کہ احمدی جماعت کو دنیا میں بلندی، طاقت اور شوکت عطا فرمائے۔ وہ جب بھی حاصل ہو، ہوکر رہے گی۔ اس کی ابتداء چھوٹی نظر آتی ہوگی اور سنت اللہ کے مطابق ایسا ہی ہونا چاہئے مگر وہ چھوٹی چیز بڑی چیز کا ایسا ہی پیش خیمہ ہے جیسے ایک بیج ڈالا ہؤا آئندہ بہت سے دانوں کے اُگنے کا موجب ہوتا ہے۔
انگریزی حکومت اِس زمانہ میں فوج کے لحاظ سے سب سے چھوٹی سمجھی جاتی ہے باقی یورپین حکومتیں جو ہیں ان میں جبری بھرتی کا دستور ہے اور ہر نوجوان کو سال دو سال کے لئے فوج میں ضرور کام کرنا پڑتا ہے لیکن انگریزوں میں جبری بھرتی کا دستور نہیں بلکہ یہ لوگوں کو نوکر رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جرمن، اٹلی اورفرانس کی جہاں اسّی اسّی اور نوے نوے لاکھ فوج ہے وہاں انگریزی فوج تین لاکھ کے قریب ہے۔ گویا یہ بڑی سلطنتوں میںسے سب سے چھوٹی فوج رکھنے والی حکومت ہے۔ پھر ان کا کیا کہناہے جن کی فوجیں اسّی اسّی لاکھ اور نوے نوے لاکھ اور کروڑ کروڑ کی ہیں۔ مگر اس کے مقابلہ میں ذرا ان لوگوں کا بھی اندازہ کرو جو بدر کے موقع پر اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے نکلے تھے۔ وہ کُل ۳۱۳ آدمی تھے یہ فوج تھی جو کفار سے لڑنے کیلئے نکلی تھی،یہ فوج تھی جو ملک نے اپنا سارا زور صرف کرنے کے بعد مہیا کی تھی۔ ہم اِسے اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ دنیا کی سب جنگوں سے اِس کو بڑا سمجھتے ہیں مگر سرحدی قبائل کی معمولی معمولی جنگوں کے برابر بھی اس میں فوج نہیں تھی۔ کوئی انگریزی فوج کا جرنیل اگر اس لڑائی کو دیکھتا یا روسی فوج کا جرنیل اِس لڑائی کو دیکھتا۔ یا جرمن فوج کا جرنیل اس لڑائی کو دیکھتا تو شاید نہایت حقارت سیمُسکرا کر کہہ دیتا یہ بھی ایک بچوں کا کھیل ہے، بھلا تین سَو آدمی کی فوج بھی کوئی فوج ہؤا کرتی ہے۔ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ تین سَو آدمی کی لڑائی دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی لڑائی تھی۔ وہی تین سَو بڑھ کرہزار ہوگئے اور ہزار بڑھ کر دو ہزار ہوگئے اور دو ہزار بڑھ کر دس ہزار ہو گئے اور دس ہزار بڑھ کر بیس ہزار ہوگئے اور بیس ہزار بڑھ کر ایک لاکھ ہوگئے اور ایک لاکھ پھر کروڑوں کروڑ بن کر ساری دنیا پر چھاگئے۔ اس کے دشمنوں کی مثال اُس پھیلے ہوئے بادل کی سی تھی جو سارے اُفق پر پھیلا ہؤاہو لیکن جس کا پانی نکل چکا ہو سب دنیا پر اس نے سایہ توکیا ہوا ہوتا ہے مگر برسنے کی قابلیت اس میں نہیں ہوتی۔ اور اس چھوٹے سے لشکر کی مثال اس چھوٹی سی کالی بدلی کی سی تھی جو شدید گرمی اور دیر تک بارش نہ ہونے کے بعد صبح ہی صبح اُفق پراُٹھتی ہے۔ بظاہر وہ چند گز کا ٹکڑا نظر آتا ہے لیکن پانچ دس منٹ کے اندر اندر اس طرح آسمان پرپھیل جاتا ہے کہ تمام دنیا پر سایہ کرنے کے بعد روئے زمین کو پانی سے بھر دیتا ہے۔ وہ پہلا بادل جو تمام دنیا پر چھایا ہؤا لیکن پانی سے خالی تھا ۔ ہوائیں آتیں اور اُسے اُڑا کر لے جاتی تھیں۔ لیکن دوسری چھوٹی سی بدلی جو ایک کونے سے اٹھتی ہوئی نظر آتی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ یہ کچھ نہیں کرسکتی، سارے عالَم کو ڈھانک لیتی ہے اور تھوڑے ہی عرصہ میں زمین کوجل تھل کردیتی ہے۔
یہی حالت ہماری ہے بعض نادان ہم پر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ’’ کیا پدی اورکیا پدی کا شوربہ‘‘۔ یہ دنیا میں کیسی ایک قوم اُٹھ کھڑی ہوئی ہے اور بعض اپنے بیوقو ف بھی حیران ہوتے ہیں کہ ہم کو بھلا دنیا کی فتوحات سے کیا تعلق۔ حالانکہ ہمارے اندر کوئی ذرہ بھی ایمان کا باقی ہو تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ فتوحات کا تعلق ہم سے ہی ہے۔جنہیں خداتعالیٰ نے یہ کہا ہو کہ ہم تمہیں فتوحات دیں گے ان کا اگر فتوحات سے تعلق نہ ہوگا تو اور کس کا ہوگا۔ جس قوم کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہو کہ اِذَا جَآئَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۱؎۔ جس کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہو کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے،۲؎ جس قوم کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہو کہ وہ دنیا پر چھا جائے گی اور باقی قومیںاُس کے مقابلہ میں بالکل چھوٹی چھوٹی رہ جائیں گی۔ اُس کے حوصلے اوراُس کی ہمتیں کتنی بلند ہونی چاہئیں، اُس کی قربانیاں کتنی بڑھی ہوئی ہونی چاہئیں اوراُس کا ایثار کتنا زیادہ ہونا چاہئے۔ دوسری قومیں جب قربانی کرتی ہیں تو وہ جانتی ہیں کہ ان کا مرنے والا سپاہی ان کی قوم کے کام نہیں آیا۔ مگر جس قوم کیلئے فتح و نصرت خداتعالیٰ کے حضور لکھی جاچکی ہو وہ جانتی ہے کہ مرنے والا سپاہی اس کے کام آگیا۔ گویا جیتنے والی قوم کی مثال اُس اینٹ کی سی ہے جو عمارت پر لگائی جاتی ہے اور ہارنے والی قوم کی مثال اُس اینٹ کی سی ہے جو سمندرمیں ڈبودی جاتی ہے۔ یہ سمندر میںڈوبتی اورگُھل جاتی ہے اور دنیا کی تعمیر کے کام میں نہیں آتی لیکن وہ دیوار پر لگتی اوراُسے پہلے سے بھی زیادہ اونچا کردیتی ہے۔ پس مومن کی قربانی ضائع نہیں ہوتی۔ وہ کم عقلوں کی نظرمیں شکست ہوتی ہے مگر حقیقت بین نگاہ میں وہ عظیم الشان فتح ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے ہر ایثار کے نتیجہ میں ایک نیا درخت پیدا کردیتا ہے۔ جیسے کھیت میں غلہ بونے والے زمیندار کو جب ایک بچہ دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے یہ زمیندار بیج ضائع کررہا ہے۔ مگر دنیا جانتی ہے کہ وہ بیج ضائع نہیں ہو رہا بلکہ وہ اُگے گا اور پہلے سے سینکڑوں گُنیزیادہ دانے پیدا کردے گا۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان پیشگوئیوں کے مطابق اپنے اعمال کوبنائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں پائی جاتی ہیں۔ میں نے دو تین سال سے متواتر توجہ دلائی ہے کہ دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پڑھتے رہنا چاہئے تا انہیں معلوم ہوتا رہے کہ ان کا کیا انجام مقدر ہے۔ بہت سے لوگ اپنے انجام سے ناواقف ہوتے ہیں اور ناواقف ہونے کی وجہ سے بہت سی سُستیاں اور غفلتیں کرجاتے ہیں۔ پس ان الہامات کو پڑھو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوئے ہیں۔ پھر دیکھو اور سوچو کہ خداتعالیٰ نے آپ لوگوں کیلئے کیا مقدر کیا ہؤا ہے اور پھر اپنے آپ کو اس درجہ پر لانے کی کوشش کرو جس درجہ کی خدا آپ سے امید کرتا ہے۔ کیا اس سے زیادہ بدقسمت شخص کوئی اور بھی ہوگا جو نور کے نیچے کھڑا ہو اور پھر بھی اُس کی آنکھوں کے سامنے تاریکی ہو۔ جس کے سامنے ہرقسم کی نعمتیںچُنی ہوئی ہوں اور اسے کھانے کی توفیق نہ ہو۔ یہی حال اُس شخص کا ہے، اُس بدقسمت شخص کا ہے جس کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئیاں اور الہامات موجود ہیں جو آج سے پچاس سال پہلے ایسی حالت میں بیان کئے گئے تھے جب اس جماعت کانام و نشان بھی نہ تھا۔ پھر وہ ان پیشگوئیوں کو بڑی حد تک پوراہوتے دیکھتا ہے۔ مگر جو پیشگوئیاں پوری ہوچکیں انہی پر کھڑا ہوکر رہ جاتا ہے اور وہ پیشگوئیاں جو بہت زیادہ شاندار نتائج کی حامل ہیں انہیں نظر انداز کردیتا ہے۔ بُھول جاتا ہے، غافل ہوجاتا ہے اور کنویں کے مینڈک کی طرح اس تھوڑی سی چیز پر ہی قانع ہوجاتا ہے اور کہتا ہے جومِلنا تھا وہ مل چکا۔ بدقسمت ہے وہ انسان۔ کاش! اُس کی ماں اُسے نہ جنتی تا وہ خداتعالیٰ کی باتوں کا انکار کرنے والا نہ بنتا۔ (الفضل ۱۲؍ فروری ۱۹۳۷ئ)
۱؎ النصر: ۲،۳ ۲؎ تذکرہ صفحہ۱۰۔ ایڈیشن چہارم

۶
اپنے آپ کو نڈر اور صادق القول بنائو
(فرمودہ ۵؍ فروری ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
اللہ تعالی نے انسان کو اس دنیا میں پیدا کر کے کچھ تو اس کو قوتیں اور طاقتیں دی ہیںجن سے وہ کام کر سکتا ہے اور کچھ سامان مہیا فرمائے ہیںجو وہ استعمال کر سکتا ہے اور کچھ طریقے مقرر فرمائے ہیںجن کے ذریعہ سے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔مثلا اگر انسان کواُس نے کام کرنے کی طاقت دی ہے، سوچنے کے لئے دماغ دیا ہے،کام میںتنوع پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کے ذوق بخشے ہیںاور رغبت پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کی اُمنگیںاس کے دل میں پیدا کی ہیں۔غیرت پیدا کی ہے،جوش اور غضب پیدا کیا ہے،محبت پیدا کی ہے۔
اس کے بعد پھر اُس نے عورت اور مرد کا فرق رکھا ہے تا اِن طاقتوںکے استعمال کرنے کیلئے اُس کیلئے میدان کُھل جائے۔ بچے پیدا کئے ہیں،بھائی بہن اور دوسرے رشتہ دار بنائے ہیں۔ پھر اُس نے اس سے بھی زیادہ تنوع پید ا کرنے کیلئے حیوانات پیدا کئے ہیں۔ پھر اس کے کام کو اور وسیع کرنے کیلئے قسم قسم کے غلے، میوے، ترکاریاں، سبزیاں اور پھل پُھول وغیرہ پیدا کئے ہیں۔ پھر اس کی بادشاہت کو اور زیادہ وسیع کرنے کیلئے لکڑی، لوہا ، آگ اور پانی وغیرہ اشیاء بنائی ہیں جن پر انسان کا عمل وارد ہوتا ہے اور ان کے ذریعہ انسان نئی اشیاء بنا کر اپنے لئے نئی دنیا بناتا ہے۔ پھر فطرتِانسانی میں مدنیت کا مادہ رکھا ہے اور حکومت و اقتصادیات کے رستے کھولے ہیں۔ پھر سونا، چاندی اور جواہرات وغیرہ پیدا کئے ہیں جو اقتصادی دنیا کو بسانے کے سامان ہیں۔
گویا اللہ تعالیٰ نے ایک دنیا انسان کے اندر بنائی ہے جو باہر نکلنا چاہتی ہے اور ایک باہر بنائی ہے جو انسان کے اندر آنا چاہتی ہے۔ ایک طرف دل میں محبت کا جذبہ اور شہوت پیدا کی ہے تو دوسری طرف بیوی اور خاوند، بچے ، بہن بھائی، ماں باپ بنائے ہیں کہ بعض محبت کا اور بعض شہؤات کا محل بنتے ہیں۔ اور بعض کی محبت اور شہؤات کا یہ محل بنتا ہے۔ باہر کی دنیا اس کے اندر آنا چاہتی ہے اور اس کے اندر کی دنیا باہر جانا چاہتی ہے۔ اس کے اندر کی محبت بیوی بچوں اورماں باپ پر چھا جاتی ہے اور بیوی بچے، ماں باپ، بہن بھائی کہلانے و الے انسان جو اس کیلئے بیرونی دنیا تھی اس کے دل میں آکر بس جاتی ہے اور اس کیلئے ایک نیا عالَم تیار ہوتا ہے اور اس کیلئے اس دنیا میں وابستگی کا سامان پیدا ہوجاتا ہے۔
پھر جہاں انسان کے اندر بھوک رکھی ہے زبان کو مزے اور چکھنے کی خواہش دی ہے، لذت اور ذائقہ کا ذوق پیدا کیا ہے وہاں باہر مختلف قسم کے جانور اور قسم قسم کے مزوں والے گوشت بھی پیدا کئے ہیں۔ زبان کا چسکا اور پیٹ کی بھوک ان جانوروں پر چھا جاتی ہے اور وہ جانور گوشت بن کر اس کے پیٹ میں داخل ہوجاتے ہیں اور اس طرح یہ بیرونی دنیا پر غالب آجاتا ہے اور بیرونی دنیا اس کے اندر داخل ہوجاتی ہے اور اس طرح ایک نیا عَالَم پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح بھوک اور چکھنے کی خواہش قسم قسم کی سبزیوں پر چھا جاتی ہے اور دوسری طرف وہ تڑپ رہی ہوتی ہیں کہ کسی طرح انسان کے جسم میں داخل ہوجائیں اور اندر جاکر ایک نیا عَالَم پید اکردیتی ہیں۔ یہی حال پھلوں اور میووں کے متعلق ہے۔ پھر جہاں اس کی آنکھ کو ذوق نظارہ بخشا ہے ، جہاں ناک میں خوشبو سونگھنے کی طاقت رکھی ہے وہاں باہر خوبصورت نظارے اور رنگا رنگ کے پھول پیدا کئے ہیں اور نہایت خوشبودار مادے بنائے ہیں۔ آنکھ اور ناک کی حس جستجو کرتی ہوئی باہر آتی ہے او رباہر کی خوشبوئیں اور خوبصورتیاں اس کی ناک اور آنکھ میں گھس جاتی ہیں اور اس طرح پھر یہ ایک نیا عالَم پیدا ہوتا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے ایک دنیا انسان کے اندر اور ایک اس کے باہر پیدا کی ہے مگر دونوں میں صحیح جوڑ پیدا کرنے کیلئے کچھ طریقے مقرر کئے ہیں۔ مثلاً یہ طریق مقرر کیا ہے کہ گوشت کھانے کیلئے جانورکو ذبح کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرلو تا جو خشونت اور سختی تمہارے دل میں دوسری جان کو مارنے سے پیدا ہوسکتی ہے وہ دور ہوجائے۔ تم ذبح کرنے سے پہلے خدا کا نام لے کر اقرار کرتے ہو کہ اس بکرے یا مرغ یا کبوتر کو ذبح کرنے کا تمہیں کوئی حق نہ تھا مگر جو اس جان کا مالک و خالق ہے اُس کے نام پر اور اُس کی اجازت سے تم ایسا کرتے ہو اور اُس کے دیئے ہوئے حق کو استعمال کرتے ہو اس لئے تم ظالم نہیں ہو۔ پھر کھانے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ شروع کرنے سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ پڑھ لیا کرو۔ کیونکہ کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان میں گندہ خون یا تو ہوتا ہی نہیں یا بہت کم ہوتا ہے۔ مثلاً مچھلی میں خون بہت ہی کم ہوتا ہے جس کے نکالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سبزیوں اور ترکاریوں میں خون بالکل ہوتا ہی نہیں اس لئے کھانے سے قبل بِسْمِ اللّٰہِ پڑھنے کا حکم دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ تم اقرار کرتے ہو کہ تمہیں ان کے استعمال کا حق نہیں تھا مگر مالک کا حکم ہے۔ اس طرح انسان کے اخلاق سدھارنے کا حکم دے دیا اور تمہارے نفس میں سے جبر اور ظلم و تعدی کے خیالات کو دور کردیا۔ پھر یہ بھی بتادیا ہے کہ فلاں فلاں چیز کھائو اور فلاں فلاں نہ کھائو۔ کیونکہ ان میں سے بعض کے اندر بداخلاقیاں ہیں، بعض کے اندر بے دینی اور بے غیرتی ہے اور بعض میں زہر ہیں۔ اب جو شخص اس طریق پر خوراک استعمال کرتا ہے وہ فائدہ اُٹھالیتا ہے اور جو نہیں کرتا وہ نقصان اُٹھاتا ہے۔ پھر حقوق اور ملکیت کے ذرائع بھی بتادیئے ہیں۔ ایک ملکیت ورثہ سے ملتی ہے ایک محنت اور مزدوری سے بطور بدلہ اور جزا کے اور ایک ایسی چیز کے حصول کے ساتھ جس کا اور کوئی مالک نہیں جسے لقطہ کہتے ہیں یعنی بے مالک پڑی چیز کو پڑا پانا۔ یہی تین صورتیں ملکیت کی ہیں۔ آگے ورثہ دو قسم کا ہوتا ہے ۔ ایک جو ماں باپ یا رشتہ داروں سے ملتا ہے اور ایک تحفہ۔ ورثہ تحفہ کے معنوں میں بھی قرآن کریم میں استعمال ہؤا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہم نے انسان کو اپنی نعمتوں کا وارث کیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اللہ تعالیٰ فوت ہوجاتا ہے اور انسان اس کے وارث ہوتے ہیں بلکہ اس کے معنی تحفہ کے ہیں۔ پس ملکیت دنیا میں تین طرح ہی قائم ہوتی ہے۔ اوّل ماں باپ یا بزرگوں سے ورثہ یا تحفہ کے طور پر یا محنت و مزدوری کے ذریعہ۔ اس کی ایک صورت وہ بھی ہے جو اَب تو نہیں مگر پہلے ہمارے ملک میں رواج تھا کہ ایک چیز کے بدلہ میں دوسری لے لی جاتی تھی۔ مثلاً ساگ پات کے بدلہ میں عورتیں دانے لے لیتی تھیں تو محنت مزدوری خواہ روپیہ کی صورت میں وصول کی جائے یا ادل بدل کی صورت میں، اس طرح بھی ملکیت قائم ہوجاتی ہے۔ تیسری صورت ملکیت کی لقطہ ہے یعنی کوئی ایسی چیز مل جائے جس کا انسانوں میں سے کوئی مالک نہ ملے ۔مثلاً کوئی قوم کسی ایسے جنگل میں جا پڑے جو کسی کی ملکیت نہ ہو تو وہ اس کی مالک ہوجائے گی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر جنگل میں کوئی بھیڑ اکیلی پھر رہی ہو جہاں بھیڑیئے بھی ہوں تو تم اُس کے مالک کو آواز دے کر اور تلاش کرنے کے بعد اُسے لے سکتے ہو آخر اسے بھیڑیئے نے ہی کھاجانا ہے۱؎۔ پس کیوں نہ تم ہی کھالو۔ تو دنیا میں یہ تینوں ذرائع جائز ملکیت کے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کو استعمال نہ کرے تو یا تو وہ مالک ہی نہ بن سکے گا یا پھر اُس کی ملکیت ناجائز ہوگی۔ جیسے کوئی چوری کرکے کسی کی چیز لے لے یا جبراً چھین لے۔
پس وراثت، محنت یا لقطہ کے سوایا تو انسان محروم رہے گا اور یا ناجائز طور پر مالک بنے گا۔ محروم کی مثال تو یہ ہے کہ کوئی انسان محنت نہ کرے اور ہاتھ پیر توڑ کر گھر میں پڑا رہے تو وہ ضرور فاقوں مرے گا۔ مگر جو خداتعالیٰ کے مقرر کردہ ذرائع استعمال کرے گا اُسے ملکیت حاصل ہوجائے گی۔ جائداد کا ورثہ میں ملنا انسان کے اپنے اختیارمیں نہیں۔ اسی طرح لقطہ بھی اس کے اختیار میں نہیںمگر محنت اس کے اختیار میں ہے اور محنت کرکے وہ ملکیت حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے سِوا اتفاقی طور پر ملے تو ملے ورنہ محروم ہی رہے گا اور اس کی مثال ایسی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے روٹی کھانے کیلئے منہ بنایا ہے اب اگر کوئی انسان عُمدہ پلائو پکا کر کان میں ڈالنے لگ جائے تو اُس کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ یا نہایت خوشبودار گلاب کا پھول لے کر اسے سونگھنے کی بجائے پائوں کے نیچے جراب کے اندر رکھ لے یا کسی عمدہ نظارہ کو دیکھنے کے بجائے اُس پر منہ مارنا شروع کردے یا کسی چیز کی ملائمت کو محسوس کرنے کیلئے اُس پر ناک رگڑنے لگے تو ایسا انسان احمق کہلانے کے علاوہ محروم بھی رہے گا۔
میں دیکھتا ہوں کہ تم میں سے بہت سے اِن باتوں کوسُنکر مُسکرائیں گے کہ ایسا بیوقوف کون ہوسکتا ہے۔ مگر تم میں سے بہت سے ہیں جو ایسے ہی بیوقوف ہیں۔ انسان کی عادت ہے کہ وہ دوسروں کی باتیں سُن کر اُن پر ہنستا ہے۔ مگر اُسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ معاملہ دراصل اُس کا اپنا ہی ہوتا ہے۔ مثال تو بُری ہے جنہوںنے یہ کام کیا اچھا نہ کیا لیکن مثال کے طور پر بیان کرتا ہوں۔ میں نے سنا ہے بعض لوگوں نے کسی اپنے دوست سے مذاق کیا اور چمگادڑ یا ایسا ہی کوئی جانور پکا کرکِھلادیا۔ اُسے معلوم تھا کہ ایسا گوشت پکایاگیا ہے مگر وہ سمجھتا تھا کہ یہ اُسے نہیں بلکہ دوسرے شخص کو دیا گیا ہے اس لئے وہ خود وہی گوشت کھاتا بھی جاتا تھا مگر یہ سمجھ کر کہ وہ ا ُس کے ساتھی کے آگے ہے، اُسے مذاق بھی کرتا جاتا تھا کہ کیسا اچھا اور لذیذ گوشت ہے، کیسا عمدہ پلائو ہے۔ حالانکہ جس چیز پر وہ اپنے ساتھی کو مذاق کرہا تھا وہ دراصل خود کھارہا تھا۔ تو دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دوسرے کی بات پر ہنستے ہیں مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ وہ خود اس کے زیادہ مرتکب ہورہے ہیں۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اگر تم کسی شخص کو تصویر کو دیکھنے کے بجائے سُونگھتا ہؤا دیکھو اور آواز کو سننے کی بجائے اسے سونگھنے کی کوشش کرتا ہؤا پائو اور خوشبو کو سونگھنے کی بجائے دیکھنے کی کوشش کرتے دیکھو اور ملائمت کو زبان سے چکھنے کی کوشش میں پائو اور مٹھاس یا کھٹاس کا پتہ لگانے کیلئے ہاتھ کا استعمال کرتے دیکھو تو فوراً قہقہہ لگا کر کہہ دو گے کہ یہ شخص پاگل ہوگیا ہے۔ مگر کیا ہی عجیب بات ہے کہ تم میں سے اکثر اس چیز کو جسے وہ کسی کھانے والی یا سونگھنے والی یا دیکھنے والی چیز سے بہت زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں اور جس کیلئے کئی ایک نے اپنی جائدادیں چھوڑدی ہیں۔ ماں باپ، بھائی بہن اور رشتہ داروں کو ترک کردیا ہے اور وہ ظاہری قربانیاں جو انسان پر گراں گزرتی ہیں وہ اس چیز کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے ان پر آسان ہوگئیں اور اس کے لئے ان کی قربانیوں نے ثابت کردیا ہے کہ اس کی قیمت ان کے دلوں میں بہت زیادہ ہے اوربظاہر وہ اس کے حصول کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں مگر پھر بھی وہ ان کو نہیں ملتی۔ لیکن وہ یہ معلوم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے کہ کیوں نہیں ملتی۔ خداتعالیٰ تو فرماتا ہے کہ مجھ سے مانگو تو میں دوں گا۔۲؎ مگر تم مانگتے بھی ہو، اس کیلئے قربانی کرتے بھی نظر آتے ہو مگر وہ ملتی نہیں اور اگر تم قرآن کریم، حدیث اور عقل و علم کے ماتحت غور کرو تو اس سوال کا ایک ہی جواب تمہیں ملے گا کہ تمہاری کوشش غلط طور پر ہورہی ہے۔
دنیا میں انسان کو ناکامی ہمیشہ یا تو اس لئے ہوتی ہے کہ اس کے اندر خواہش نہیں ہوتی یا اس لئے کہ وہ جدوجہد نہیں کرتا اور یا پھر اس لئے کہ وہ چیز ہی نہیں ہوتی۔ لیکن اگر یہ تینوں باتیں ہوں تو ناکامی کی صرف ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ جدوجہد غلط طور پر ہورہی ہے۔ جب پانی بھی موجود ہو، اُس پر قبضہ بھی ہو اور پیاس بھی لگی ہو تو پھر بھی اگر پیاس نہ بُجھے تو اس کے صاف معنے یہی ہوسکتے ہیں کہ جدوجہد غلط ہے۔ اور ممکن ہے پیاس بُجھانے کی کوشش کرنے والابجائے منہ میں پانی ڈالنے کے ناک یا کان میں ڈال رہا ہو۔ میں نے تم کو تحریک جدید کی شروع کی تحریکوں میں یہ بتایا تھا کہ صحیح مذہبی ترقی کیلئے سچائی ضروری چیز ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر کامل توکّل اور نڈر ہوجانا بھی بہت ہی ضروری ہے۔ اور میرے نقطہ نگاہ سے تو سچائی اور بے خوفی ایک ہی چیز ہے۔ جوبے خوف ہو وہ ضرور سچا ہوگا اور جو سچا ہو وہ ڈرنہیں سکتا۔ سچ کو چھوڑتا ہی انسان ڈر کی وجہ سے ہے خواہ وہ جان کا ڈر ہو یا مال کا یا عزت کا۔ جو انسان ڈرتا نہیں وہ جھوٹ کبھی نہیں بول سکتا اور جو جھوٹ نہیں بولتا وہ ضرور نڈر ہوگا۔ سچائی ہمیشہ امن کا موجب ہی نہیں ہؤا کرتی بلکہ بیسیوں مواقع ایسے آتے ہیں کہ سچائی مال و جان کیلئے ، وطن کیلئے، رشتہ داروں کیلئے اور عزت کیلئے خطرہ کا موجب ہوجاتی ہے اور جو اِن حالات میں سچائی پر قائم رہتا ہے، کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بُزدل ہے۔ سچائی اور بے خوفی اگرچہ دوعلیحدہ علیحدہ خلق ہیں مگر ان کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جہاں سچ ہوگا وہیں بے خوفی ہوگی اورجہاں بے خوفی ہوگی وہیں سچ ہوگا۔
بے شک تم ایسی مثالیں پیش کرسکتے ہو کہ جن میں بظاہر بے خوفی ہے مگر سچ نہیں۔ لیکن اگر ذرا گہر اغور کرو تو معلوم ہوجائے گا کہ وہاں حقیقی بے خوفی نہ تھی۔ تہوّر تھا مگر جرأت نہ تھی۔ ڈاکو اور چور ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں، قاتل قتل کرنے کے بعد جھوٹ بولتے ہیں۔ بظاہر وہ بہادر نظر آتے ہیںلیکن اگر تم غور کرو تو درحقیقت وہ بہادر نہیں ہوتے، بزدل ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس میں کیا شک ہے کہ جب ایک ڈاکو یا قاتل ڈاکہ یا قتل سے انکار کررہا ہوتا ہے، اُس وقت وہ یقینا ڈر رہا ہوتا ہے۔ جب ایک ڈاکو کہتا ہے میںنے ڈاکہ نہیں مارا یا چور کہتا ہے میں نے چوری نہیں کی، یا قاتل قتل سے انکار کرتا ہے تو اسی لئے تو کرتا ہے کہ وہ ڈرتا ہے کہ میں پکڑا نہ جائوں اوراس صورت میں تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ وہ نڈر تھا۔ کیونکہ جب ڈرنے کا موقع آیا وہ ڈر گیا۔ پس گو بظاہر بعض مواقع پر یہ دونوں چیزیں اکٹھی نظر آتی ہیں مگر حقیقتاً یہ ظاہر بین نگاہ کی غلطی ہوتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ بے خوفی اورجھوٹ کبھی جمع نہیں ہوسکتے اور سچ اور بے خوفی کبھی جُدانہیں ہوسکتے۔
میں نے جماعت کے دوستوں کو نصیحت کی ہے کہ سچائی کی طرف زیادہ توجہ کریں مگر مجھے افسوس ہے کہ جو لوگ میرے مخاطب تھے اُنہوں نے ابھی تک اپنی اصلاح نہیں کی۔ یاد رکھو کہ سچ کے معنے یہی نہیں ہوتے کہ ہر بات دوسروں کو کہتے پھرو ،ایسا کرنا تو بعض دفعہ بے حیائی ہوجاتی ہے۔ سچ کے معنے یہ ہیں کہ جو کہو درست اور صحیح کہو۔ اگر تم کسی بات کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے تو کہہ دو کہ میں یہ ظاہر نہیں کرسکتا لیکن جب کوئی بات بتادو تو پھر اس حقیقت کے مطابق بتائو جو خداتعالیٰ سکھاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص لڑنے کا عادی ہے اور جھوٹ بولنے کا بھی۔ وہ تم سے جھگڑتا ہے اورکہتا ہے کہ کیا میں جھوٹ بولتا ہوں۔ تو تم اگر اسے کہتے ہو کہ نہیں تم تو بڑے سچے آدمی ہو، تو تم جھوٹ بولتے ہو۔ اور اگر کہہ دو کہ ہاں واقعی تم جھوٹے ہو تو لڑائی ہوتی ہے اس لئے تم اسے کہہ سکتے ہو کہ سچ یا جھوٹ بولنا تمہارا اپنا فعل ہے اس لئے تم خود جان سکتے ہو کہ تم جھوٹ بولتے ہو یا سچ، میں اس کے متعلق کوئی رائے ظاہر نہیں کرسکتا اور اس طرح تم اس مرحلہ سے صاف نکل سکتے ہو بغیر جھوٹ بولنے اور بغیر فساد کرانے کے۔ پس سچ کے معنے یہ ہیں کہ جو کہو ٹھیک کہو اور جس چیز کے ظاہر کرنے کی تمہیں شریعت یا مصلحت اجازت نہیں دیتی اس کے متعلق تم صاف کہہ سکتے ہو کہ اس کے متعلق تمہیں پوچھنے کا کوئی حق نہیں۔ بعض جگہ انکاربھی انسان کو جھوٹ بُلوا دیتا ہے یا مصیبت میں پھنسادیتا ہے۔ بچے کھیلتے ہیں اور چُھپتے ہیں ۔ تلاش کرنے والا کسی سے پوچھتا ہے کہ کہاں چُھپے ہوئے ہیں؟ اس کے جواب کے دو ہی طریق ہیں کہ وہ کہہ دیتا ہے کہ میں نہیں بتاتا۔ پھر وہ پوچھتا ہے کہ فلاں جگہ ہیں۔ وہ کہتاہے کہ نہیں۔ پھر وہ پوچھتا ہے کہ اچھا فلاں جگہ ہیں؟ پھر بھی وہ کہہ دیتا ہے نہیں۔ پھر وہ تیسری جگہ کے متعلق پوچھتا ہے کہ وہاں ہیں؟وہ کہہ دیتا ہے نہیں۔ پھر وہ ایک جگہ کے متعلق پوچھتا ہے کہ کیا وہ وہاں ہیں ؟اور وہ خاموش ہوجاتا ہے تو پوچھنے والا سمجھ لیتا ہے کہ بس وہ اسی جگہ ہوں گے۔ پس نہ کہہ کر بھی تم ہاں کرسکتے ہو۔ ایک شخص کی تین جیبیں ہیں۔ ایک چیز کے متعلق وہ کہہ دیتا ہے کہ اس جیب میں نہیں۔ پھر دوسری کے متعلق کہتا ہے کہ اس میں بھی نہیں۔ اس پر بھی اگر دوسرا نہیں سمجھتا کہ وہ تیسری جیب میں ہے تو وہ بڑا ہی بیوقوف ہے۔
ایک قصہ مشہور ہے کہ دو بیوقوف کہیں جمع ہوگئے۔ ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر تم یہ بتادو کہ میری جھولی میں کیا ہے تو میں ایک انڈا تم کو دے دوں گا۔ اور اگر یہ بتادو کہ کتنے ہیں تو دس کے دس ہی تمہیں دے دوں گا۔ آگے سننے والا بھی ویسا ہی تھا۔ اُس نے کہا کہ کوئی اتا پتا بتائو تو میں کچھ سمجھ سکتاہوں۔ یوں میں کوئی عالم الغیب نہیں ہو ںکہ سمجھ سکوں۔ اس پر پہلے نے کہا کہ کچھ زرد زرد اور کچھ سفید سفید چیز ا س کے اند رہے۔ اس کا مطلب انڈے کی زردی اور سفیدی سے تھا مگر دوسرے نے جھٹ جواب دیا کہ کچھ گاجریں اور کچھ مولیاں ہوں گی۔ توبسا اوقات انسان انکار بھی نہیں کرتا مگر بتا بھی جاتا ہے۔ گویازیادہ ’’نہیں‘‘ مل کر ایک ہا ں بن جاتی ہے۔ پس تم موقع پر ’’نہیں ‘‘اور’’ہاں ‘‘دونوں کے کہنے سے انکار کرسکتے ہو ۔ کیونکہ جس کو خداتعالیٰ نے پوچھنے کا حق نہیں دیا تمہارا حق ہے کہ اس کے سوال کا جواب نہ دو لیکن اگر جواب دو تو پھر سچا ہی جواب دو۔
میں نے کئی باربتایا ہے کہ سچ کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ مگر تم اپنے نفسوں کو ٹٹولو کہ کیا تم نے سچ بولنے کی عادت پید اکرلی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کئی لوگ میرے پاس آکر کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص نے اس اس طرح کہا۔ تو ہم نے آگے اس سے اس اس طرح بات بناکر جواب دے دیا۔ گویا وہ بے تکلفی سے میرے ہی سامنے اپنے جھوٹ کا اقرار کرجاتے ہیں اور میں خاموشی سے ان کا منہ دیکھتا رہتا ہوں۔ کیونکہ گو اُنہیں اپنے جھوٹ کے اظہار سے شرم نہیں آتی مگر مجھے یہ کہنے سے شرم آجاتی ہے کہ پھر تو آپ اقراری جھوٹے ہوئے۔ ہاں اپنے دل میں کہتا ہوں کہ میں اس بے شرم کو کیا کہوں۔
پس یاد رکھو کہ سچائی اور بے خوفی قومی ترقی کیلئے ضروری چیزیں ہیں۔ جس قوم میں ڈر ہے وہ کبھی نہیں جیت سکتی کیونکہ اس میں سچائی اور توکل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے سچائی اور بے خوفی کی عادت ڈالو اور یاد رکھو کہ کوئی انسان دنیا میں ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔ خدا اور اس کے دین کیلئے کسی انسان کی جان جانے کا موقع ہو لیکن وہ اپنی جان بچانے کی فکر کرے تو اسے کیا معلوم کہ آگے جاتے ہی خودبخود اس کی جان نکل جائے۔ ایک انسان کو شہادت کا موقع تو اللہ تعالیٰ دے مگر وہ اس سے بھاگے تو کیا معلوم کہ وہاں سے ہٹتے ہی اس کا ہارٹ فیل ہوجائے اور وہ مرجائے۔ خدا تو اسے ایک قیمتی چیز بنانا چاہے مگر وہ اس سے تو اپنے آپ کو بچالے لیکن آگے جاکر مُردہ گدھے کی طرح گِر پڑے۔ اسی طرح مالی قربانی کے متعلق بھی ہے۔ ہر شخص اپنی زندگی میں دیکھ سکتا ہے اور ہر ایک نے دیکھا ہے کہ کون کہہ سکتا ہے کہ اس کا روپیہ کبھی ضائع نہیں ہؤا۔ بسا اوقات خرید و فروخت میں نقصان ہوجاتا ہے، بعض اوقات کوئی جائداد تباہ ہوجاتی ہے اور بعض اوقات فصلیں خراب ہوجاتی ہیں اس لئے اگر موقع ملے تو کیوں نہ اپنے اموال کو خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کردیا جائے تا اللہ تعالیٰ کی رضا تو حاصل ہوجائے۔ ہندوستان میں مسلمان بادشاہ رہے ہیں۔ آج تک کنگال سہی، غریب سہی، بے کس اور بے بس سہی مگر یہ خیال تو دماغوں سے نہیں مٹ سکتا کہ دو چار سو سال قبل تمہارے باپ دادا بحیثیت قوم بادشاہ تھے۔ بحیثیت افراد نہ سہی آخر قوم میں سے ایک ہی بادشاہ ہوتا ہے۔ آج انگریزوں میں سے بھی ایک ہی بادشاہ ہے پھر بھی ساری قوم شاہی قوم سمجھی جاتی ہے۔ مگر مسلمانوں کی بادشاہت آج کہاں ہے۔ جب وہ مٹنے پر آئی تو کوئی چیز اسے نہ سنبھال سکی اور وہ اسی طرح مٹی تھی کہ جن کے پاس تھی وہ اپنی جانوں اور مالوں کی بہت بڑی قیمت سمجھنے لگے تھے۔
غدر کے واقعات میں لکھا ہے کہ زینت محل۳؎ جوبہادر شاہ ۴؎کی چہیتی بیوی تھی، وہ انگریزوں سے ملی ہوئی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کا لڑکا جو چھوٹا تھا اور رواج کے مطابق باپ کے بعد بادشاہ نہ ہوسکتا تھا انگریزوں کی مدد سے اسے بادشاہ بنوائے۔ ایک موقع پر باغیوں نے ایک ایسی جگہ توپ نصب کی کہ انگریزی فوج بالکل قابو آگئی۔ اسے سخت نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ انگریزوں نے زینت محل کو کہلا بھیجا کہ آج مدد کا وقت ہے۔ اُس نے جھٹ شور مچانا شروع کردیا کہ میرا دل دھڑکتا ہے اور اگر یہاں سے توپ چلائی گئی تو میں مرجائوں گی۔ بادشاہ نے بہت منت سماجت کی اور اُسے سمجھایا مگر وہ نہ مانی۔ ادھر بادشاہ بھی انہی لوگوں میں سے تھا جن کے نزدیک عورت کی قیمت حکومت سے زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس نے توپ کو وہاں سے اٹھوادیا۔ زینت محل اس خوف کے اظہار میں جھوٹی تھی تو بھی اور اگرسچی تھی تو بھی، بہرحال باشاہ کے اس کی جان بچانے کا نتیجہ یہ ہؤا کہ اس کے اٹھارہ نوجوان شہزادوں کے سر خوان پوشوں میں رکھ کر اُس کے سامنے پیش کئے گئے اور پیش کرنے والے سروں کو سوٹیوں سے ہلا ہلا کر اُسے بتاتے تھے کہ یہ تمہارے فلاں شہزادے کا سر ہے اور یہ فلاں کا۔ اگر اس وقت بہادر شاہ نظام اور حکومت کے مقابلہ میں بیوی کی جان کی پرواہ نہ کرتا تو کون کہہ سکتا ہے کہ آج ہندوستان کا نقشہ کیا ہوتا۔
پس جو قومیں اپنی جان بچانا چاہتی ہیں وہی مرتی ہیں اور جو اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر لئے پھرتی ہیں وہی ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ اسی طرح جو قومیں اپنے مال چھپاتی ہیں وہی لوٹی جاتی ہیں اور جو اپنے مال ہتھیلی پر لئے پھرتی ہیں ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ہر ایک تم میں سے سمجھ سکتا ہے کہ کونسا زمیندار کماتا ہے۔ وہ جو اپنا غلہ اٹھا کر کھیت میں پھینک آتا ہے یا وہ جو گھڑوں اورمٹکوں میں اسے محفوظ رکھتا ہے۔ جو گھڑوں میںبند کرکے رکھا جاتا ہے اسے یا تو وہ خود کھالیتا ہے یا کیڑا کھاجاتا ہے۔ مگر جو کھیت میں ڈالا جاتا ہے باوجودیکہ لوگ اسے پائوں تلے روندتے ہیں، پرند اور چرند بھی اسے کھاتے ہیں مگر پھر بھی سینکڑوں گنا ہوکر گھر میں آتا ہے۔
پس اپنے آپ کو نڈر بنائو اگر تحریک جدید سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو، اور اپنے آپ کو صادق القول بنائو اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو۔ اگر تم نڈر ہوجائو تو دنیا تم سے ڈرے گی اور اگر تم صادق القول بن جائو تو منافق تم سے ڈریں گے۔ منافق اسی لئے دلیر ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے میرا دوست جھوٹ بول کر مجھے بچالے گا اور اگر تم یہ دونوں صفات اپنے اندر پیدا کرلو تو نہ بیرونی دشمن اور نہ اندرونی تم پر قابو پاسکتا ہے۔ لیکن اگر یہ باتیں تمہارے اندر پیدا نہیں ہوتیں تو تمہاری مثال اُس شخص کی ہوگی جو گلاب کی خوشبو کو دیکھنا چاہتا ہے،جو ترنم کی خوش آواز کو چُھونا چاہتا ہے۔ جو مخمل کی ملائمت کو چکھنا چاہتا ہے، تم ایسے شخص پر ہنستے ہو مگر یہ نہیں جانتے کہ تم خود ایسے ہی ہو۔ تم اسی دروازے سے داخل ہوکر ترقی کرسکتے ہو جو خدا نے کھولا ہے اور جسے خدا نے بند کیا ہے تم اسے نہیں کھول سکتے۔ اچھی طرح یاد رکھو کہ تم خدا کے کھولے ہوئے دروازے سے داخل ہوکر اوراُس کے بند کئے ہوئے دروازے سے مُڑکر ہی کامیاب ہوسکتے ہو۔ اگر تم اُس کے بندکئے ہوئے دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرو گے تو تمہارے لئے سوائے رونے اور دانت پیسنے کے کچھ نہ ہوگا اور اگراُس کے کھولے ہوئے دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرو گے تو بیشک اس میں تلواریں لٹک رہی ہیں، بھیانک نظارے اور خونخوار درندے ہیں مگر جونہی تم قدم رکھو گے وہ جادو کی طرح اُڑ جائیں گے۔ خداتعالیٰ نے اپنی جنت کو دوزخ کے نیچے چُھپایا ہے اور دوزخ کو دنیا کی جنت کے نیچے چھپایا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کی آیت وَ اِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا ۵؎کے یہی معنے کئے ہیں کہ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ جہنم سے نہ گزرے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس میں صرف کفار کا ذکر ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سے مراد سب انسان ہی لئے ہیں لیکن معنوں سے دوسرے مفسرین سے اختلاف کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ کافر اگلے جہاں کی جہنم سے گزر کر جنت میں داخل ہوتا ہے لیکن مومن اس دنیا کی جہنم سے گزر کر جنت میں داخل ہوتا ہے۔ اورکوئی مومن جنت میں نہیں جاسکتا جب تک وہ دوزخ میں سے نہ گزرے یعنی اس دوزخ سے جو اس دنیا میں ہے۔ پس یاد رکھو کہ ہر وہ شخص جو خدا کیلئے دوزخ میںکُودتا ہے وہ آنکھیں کھولے گا تو خداتعالیٰ کی گود میں ہوگا۔ وہ اپنے آپ کو مرنے کیلئے پیش کرے گا مگراُسے ابدی زندگی دی جائے گی۔ وہ اپنے آپ کومٹانے کیلئے آگے بڑھتا ہے مگر اسے بقاکا مقام حاصل ہوتا ہے۔یہی رستہ ہے جس پر چل کر تم کامیاب ہوسکتے ہو اور جو اس کے بغیر کسی اوررستہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہے وہ پہاڑ سے ٹکراتا ہے۔ وہ اپنا سر تو چکنا چور کرلے گا مگر کامیابی کارستہ ہرگز نہیں پاسکے گا۔
(الفضل ۲۷؍ فروری ۱۹۳۷ئ)
۱؎ بخاری کتاب فی اللقطۃ باب ضالۃ الغنیم
۲؎ وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن:۶۰)
۳؎ زینت محل بیگم: (۱۸۱۷ئ۔۱۸۸۶ئ) صمصام الدولہ نواب احمد قلی خان بہادر کی صاحبزادی جس سے مغلوں کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ثانی نے مسند نشینی کے بعد شادی کی اسی کا بیٹا جواں بخت تھا بیگم کی کوشش تھی کہ جواں بخت ولی عہد قرار پائے مگر انگریزوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ بیگم بہادر شاہ کی رنگون جلاوطنی کے ساتھ زینت محل بیگم بھی جلاوطن ہوئیں بادشاہ کی وفات سے ۲۴ سال بعد وہیں وفات ہوئی اور بادشاہ کے پہلو میں تدفین ہوئی۔
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۷۱۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ئ)
۴؎ بہادر شاہ ظفر: (۱۷۷۵ئ۔ نومبر ۱۸۶۲ئ) ابوظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ۔ تخلص ظفر تھا۔ دلی کے آخری مغل تاجدار سالِ جلوس ۱۸۳۷ئ۔ تحریک آزادی ۱۸۵۷ء میں ماخوذ ہوئے اور جلاوطن کر کے رنگون بھیج دیئے گئے۔ قید میں ان سے بہت نامناسب سلوک ہوا۔ رنگون میں ہی انتقال ہوا۔ زمانہ ولی عہدی سے شعر گوئی کا شوق تھا۔ پہلے ذوق سے اور اس کے بعد غالب سے تلمذ رہا۔ ان کی تصانیف چار دیوان، شرح گلستان سعدی اور رسالہ سراج المعرفت ہیں۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۹۴۵ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ئ)
۵؎ مریم: ۷۲

۷
ربّ العٰلمین کے مظہر بنو
(فرمودہ ۱۹؍ مارچ ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
جیسا کہ رسول کریم ﷺ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی پیدائش کی غرض جو قرآن کریم میں عبودیت کا مقام حاصل کرنا بیان کی گئی ہے، اس کی تشریح دوسرے لفظوں میں تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ۱؎ ہے یعنی انسان اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپنے اندر اختیار کرے اور اس کے ذریعہ سے خداتعالیٰ کی صفات ظاہر ہوں۔ اسی غرض کی طرف اشارہ کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ان چار جامع صفات کے ساتھ شروع کیا ہے جن کے ماتحت باقی سب صفات آجاتی ہیں اور وہ چار صفات یہ ہیں کہ:۔ اوّل خداتعالیٰ ہے۔
دوم وہ الرَّحْمٰن ہے۔
سوم وہ رَحِیْم ہے
اور چہارم وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہے۔
یہ چار صفات بندے کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں تب جاکر وہ اپنے مقصد کو پورا کرنے والا قرار دیاجاسکتا ہے جس کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ یعنی اس کیلئے ضروری ہے کہ جس حد تک انسان رَبّ العٰلمین کی صفت کامظہر ہوسکتا ہے وہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کا ظلّ ثابت کرے اور جس حد تک انسان رحمانیت کا مظہر ہوسکتا ہے وہ اپنے آپ کو رحمانیت کا نمائندہ ثابت کرے اور جس حد تک انسان اَلرّ حِیْم کے جلوہ کو ظاہر کرسکتا ہے وہ رحیمیت کی روشنی کو دنیا میںپھیلائے اور جس حد تک وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کا نمونہ قائم کرسکتا ہے وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی شکل دنیا کو دکھائے۔ اور اگر ہم غور کریں تو یہی ذریعہ توحیدِ کامل کے قائم کرنے کا ہے کیونکہ شرک تو درحقیقت دوئی سے پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے کہ انسان کے سِوا دنیا کا ذرہ ذرہ خداتعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرتا اور اس کی سبوحیت کو بیان کررہا ہے پس اگر کوئی شرک کی چیز باقی رہ گئی تو وہ صرف انسان کا وجود ہی ہے۔ یہی چیز ہے جو کبھی خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں دوسرے خدا قرار دیتی ہے، کبھی خداتعالیٰ کی عبادت کا حق دوسری چیزوں کو دے دیتی ہے،کبھی خداتعالیٰ کے وجود کا ہی انکار کر بیٹھتی ہے۔ کبھی اس کی صفات میں نقائص پیدا کرتی ہے، کبھی بری چیزیں اس کی طرف منسوب کرنے لگ جاتی ہے۔ کبھی ان چیزوں کو خدا بنادیتی ہے جن کو خدا نے اس کے تابع بنایا ہے اور کبھی اپنے میں سے کسی آدمی کو خداتعالیٰ کی صفات دے دیتی ہے۔ باوجود ایک کمزور مخلوق ہونے کے یہ عجوبہ چیز خداتعالیٰ سے بھی بڑھ کر کام کرکے دکھانا چاہتی ہے۔ یعنی صفات کا وہ کامل ظہور جو خداتعالیٰ نے اپنے لئے مخصوص کردیا ہے، یہ ان کا خلعت بھی دوسرے لوگوں کو بخش دیتی ہے۔ گویا انسان کہلاتے ہوئے خدا گر بننا چاہتی ہے۔
اس مخلوق میں اگر فی الحقیقت خدائی صفات جلوہ گر ہوجائیں، اگر تمام انسان اپنے اندر ربوبیتِ عالَمین اور رحمانیت اور رحیمیت اور مالکیتِ یَوْمِ الّدِیْن کی صفات کا پرتو پید اکرلیں تو پھر دنیا میں سوائے خدا کے اور کونسی چیز باقی رہ جاتی ہے۔ انسانوں کے سِوا تو باقی چیزیں پہلے ہی سے خداتعالیٰ کی تسبیح کررہی ہیں۔ انسان ہی ہے جو اس میں رخنہ ڈالتا ہے اگر وہ بھی ان صفات کا حامل ہوجائے اور بجائے ایک علیحدہ وجود رکھنے کے صرف خداتعالیٰ کیلئے ایک آئینہ بن جائے جس میں دنیا خداتعالیٰ کی صورت دیکھے تو بتائو شرک کیلئے کونسی چیز باقی رہ جاتی ہے۔ سب جگہ پر خدا ہی خدا کا جلوہ نظر آجاتا ہے۔ خداتعالیٰ کے سِوا کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ یہی مقامِ توحید ہے جس کے قائم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کھڑا کیا ہے اور انہیں حکم دیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ خود توحید کے مقام پر کھڑے ہوں بلکہ دوسروں کو بھی اس مقام کی دعوت دیتے چلے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ توحید دنیامیں قائم ہوتی چلی جائے اور شرک مٹتا چلا جائے، نہ صرف زبانوں کے ذریعہ سے بلکہ اعمال کے ذریعہ سے بھی اور نہ صرف دعویٰ کے ساتھ بلکہ حقیقت کے ساتھ بھی۔
پس مومن کوہمیشہ ان چار صفات کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ آیا وہ کس حد تک ان صفات کا مظہر بننے میں کامیاب ہوسکا ہے۔ میں صرف پہلی صفت کو ہی اس وقت لیتا ہوں اور اس کے بھی صرف چند پہلو بیان کرکے اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ کیا واقعہ میں ربوبیتِ عالَمین کی صفت ان میں پید اہوچکی ہے۔ ربوبیتِ عالَمین میں جن باتوں کا اظہار کیا گیا ہے ان میں سے ایک دوام ہے۔ رَبِّ العٰلمینبتاتا ہے کہ وہ ربّ تھا اور ربّ ہے اور وہ ربّ رہے گا۔ جو چیز کسی وقت بھی ربوبیت میں ناغہ کرتی ہے وہ رَبِّ العٰلمین نہیں کہلاسکتی کیونکہ ناغہ کا وقت اُس کی ربوبیت سے خارج ہوجاتا ہے اور رَبِّ العٰلمین ہونے کیلئے یہ ضروری ہے کہ کوئی چیز اور کوئی وقت بھی اس کی ربوبیت سے خالی نہ ہو۔ پس رَبِّ العٰلمینکی صفت ہم کو اپنے اعمال میں دوام کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ اپنی ایک بیوی سے فرمایا کہ اچھی عبادت وہ ہے جو اَدْوَمُھَا ۲؎ ہو یعنی نیکیوں میں سے اور عبادتوں میں سے پائیدار ہو، جس میں ناغہ نہ کیا جائے اورجسے چھوڑا نہ جائے اورجو ہمیشہ کیلئے انسان کے اعمال کاجُزو ہوجائے۔ یہ درحقیقت رسول کریم ﷺ نے رَبِّ العٰلمین کی صفت کی ایک تشریح فرمائی اور متوجہ کیا کہ عبادت اور نیکی تبھی نیکی ہوسکتی ہے جبکہ انسان اُس کو دائمی طور پر اختیار کرے اور گویا اس طرح آپ نے ربوبیتِ عالمین کی صفت پید اکرنے کی طرف توجہ دلائی اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جس چیز کو انسان کبھی لے لیتا ہے اور کبھی چھوڑ دیتا ہے ہم کبھی تسلیم نہیں کرسکتے کہ وہ اس کو اچھا سمجھتا ہے ۔ کیونکہ اگر وہ اسے فی الحقیقت اچھا سمجھتا تو اسے چھوڑتا کیوں۔ جس وقت کیلئے وہ اسے اختیار کرتا ہے اس کے متعلق ہم خیال کرسکتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نقل کررہا تھا یا ایک عارضی جذبہ کے نیچے اس کی روح دَب گئی تھی یا یہ کہ وہ نِفاق کے طور پر ایسا کام کررہا تھا ۔ لیکن جب کوئی شخص ایک چیز کو کلّی طور پر اختیار کرلیتا ہے اور اسے کبھی نہیں چھوڑتا تو اس چیز کے متعلق ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ یا تو اسے نیکی سمجھ کر اختیار کررہا ہے یا عادتوں کے ماتحت اس کے ظلم کاشکار ہورہا ہے اور اس کے مقابلہ کی اس میں طاقت نہیں ہے۔ غرض یا تو وہ اسے نیکی سمجھ کر اس سے محبت کرتا ہے یا اس چیز کا قیدی ہے کہ باوجود آزادی کی خواہش کے آزادنہیںہوسکتا اور یہ آخری بات ایسی نہیں کہ اس کا اس شخص یا دوسروں کو پتہ نہ لگ سکے۔
پس ربوبیتِ عالَمین انسان کی انہی صفات سے ظاہر ہوتی ہے جن کو وہ دائمی طور پر اختیار کرلیتا ہے اور جن میں وہ کبھی ناغہ نہیں ہونے دیتا۔ ایک شخص جو نماز کا پابند ہوتا ہے اگر وہ کبھی کبھی بیچ میں ناغہ کردے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ نماز کا پابند ہے اور اس نیکی کے ذریعہ ربوبیتِ عالمین کی صفت ظاہر کررہا ہے۔ یا مثلاً ایک شخص کسی کسی وقت غریبوں پر رحم کردیتا ہے اور کبھی اس بات کو چھوڑ بھی دیتا ہے، کبھی لوگوں کی مصیبتیں اُس کے دل میں درد پیدا کرتی ہیں اور کبھی وہ اس کے دل پر کوئی اثر نہیں ڈالتیں تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس نے ربوبیتِ عالَمین کی صفت ظاہر کی ہے۔ اس کے رحم کو ہم کمزوری سمجھیں گے اور نیکی قرار نہیں دیں گے۔ لیکن اگر ایک شخص ہمیشہ اپنے دل میں لوگوں کیلئے رحم محسوس کرتا ہے اور دوسروں کیلئے قربانی کی روح اس میں کبھی سرد نہیں ہوتی تو ہم سمجھیں گے کہ یہ شخص واقعہ میں نیک ہے اور رَبِّ العٰلمین کی صفت کا مظہر ہے۔ یا مثلاً ایک شخص ایک وقت میں دین کیلئے نکل کھڑا ہوتا ہے اور زمانہء جہاد میں جہاد کے ذریعہ اور زمانہء تبلیغ میں تبلیغ کے ذریعہ اپنی جان کو خداتعالیٰ کی راہ میں ہلکان کرنے کیلئے آمادہ رہتا ہے۔ کبھی تو اس کے اعمال میں ایک جوش اور فدائیت ظاہر ہوتی ہے اور کبھی وہ ان کاموں کو چھوڑ کر خاموشی سے اپنے گھر میں بیٹھ جاتا ہے۔ خداکی آواز بلند ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کے فرشتوں کی پکار اونچی ہوتی چلی جاتی ہے اوراُس کے بندوں کی ندائیں جَوّ کو بھر دیتی ہیں مگر اس کے دل میں کوئی حرکت ہی پیدا نہیں ہوتی۔ گویا اس کیلئے جہاد اور تبلیغ بے معنے الفاظ ہیں اور اس کو ان میں کوئی لذت ہی نہیں ملتی تو کس طرح ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے شخص نے جب جہاد کے وقت میں جہاد کیا تھا یا تبلیغِ عام کے وقت میں تبلیغ کی تھی اُس وقت اس نے یہ کام نیکی سمجھ کر کئے تھے۔ کیونکہ اگر واقعہ میں وہ انہیں نیکی سمجھتا تو اب کیوں خاموش رہتا اور کیوں اس کے دل میں آج وہی آوازیں سن کر پھر جوش نہ پیدا ہوجاتا۔ ہم تویہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ جس وقت اُس نے وہ کام کئے تھے کسی عارضی جوش یا خود غرضی یا کسی دھوکا کے ماتحت کئے تھے۔ لیکن اگر اس کے خلاف ایک دوسرا شخص ہر زمانہ اور ہر وقت اور ہر حالت میں جب خدا اور اس کے مقرر کردہ بندوں کی آواز سنتا ہے تو فوراً قربانی اور ایثار کیلئے کھڑا ہوجاتا ہے اور اگر جہاد کا وقت ہو تو امام کے آگے پیچھے ، دائیں بائیں لڑنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ اور اگرتبلیغ کاوقت ہو تو نکل کھڑا ہوتا ہے۔ تو ایسے شخص کے متعلق ہم مجبور ہوں گے کہ ایمان رکھیں اور یقین کریں کہ وہ خداتعالیٰ کی صفت ربوبیتِ عالَمین کا مظہر ہے اور ہر زمانہ میں ہادی ہونا اُس کی روح کی غذا بن گیا ہے اور اسی طرح اور نیکیوں کا حال ہے کہ ان کے متعلق اگر استقلال کے ساتھ کوئی شخص قائم ہوتا ہے تو ہم اُس کوواقعہ میں نیک کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اگر استقلال کے ساتھ ان پر قائم نہیں ہوتا یا لوگوں کودھوکا دیتا ہے تو ایسا شخص ہرگز صفات الٰہیہ کا مظہر نہیں۔
پس ہمارے دوستوں کو دیکھنا چاہئے کہ کیا واقعہ میں انہوں نے اپنے نیک اعمال میں دوام حاصل کرلیاہے۔ اگر ایسا نہیںتو ان کیلئے خوف کا مقام ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی بہت سے کاموں میں ہماری جماعت نے دوام کا مقام حاصل نہیں کیا۔ ان کی مثال اُس سوئے ہوئے بچے کی طرح ہے جسے صبح کے وقت ایک متقی ماں نمازکیلئے جگادیتی ہے۔ جب اُس کی ماں اُس کو بستر پر بٹھادیتی ہے تو ماں کے سہارے وہ بیٹھ جاتا ہے لیکن پھر بیٹھا بیٹھا ہی سوجاتا ہے۔ جب ماں اس کو اس غفلت میں دیکھتی ہے تو پکڑ کر وضو کرنے کی جگہ پر لے جاتی ہے پھر وہاں جاکر بیٹھ جاتا ہے اور وہیں سوجاتا ہے۔ پھر ماں اُسے جھنجھوڑتی ہے اور وضو کراتی ہے ۔ وضو کرنے کے بعد جب جسم کے سُوکھنے کا یہ کچھ دیر انتظار کرتا ہے تو پھر سو جاتا ہے اور ماں پھر آکراُسے اُٹھاتی اور سنتیں پڑھواتی ہے اور پھراُسے نماز کیلئے باہر بھیج دیتی ہے۔ وہ مسجد میں پہنچتا اور نماز شروع کردیتا ہے مگر کبھی سجدہ میں سوجاتا ہے اور کبھی تشہّد میں۔ کبھی ساتھ والے نمازیوں کی حرکت سے اُس کی آنکھ کھل جاتی ہے اور کبھی وہ خوابِ غفلت میں پڑا ہی رہ جاتا ہے۔ خدا کی عبادت کرنے والے عبادت کرکے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں اور وہ بیچارا وہیں نیند کا شکار ہؤاپڑا رہتا ہے۔
بہت سے دوستوں کی حالت مَیں دیکھتا ہوں ایسی ہی ہے۔ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ نمازیںپڑھو تو وہ نمازوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ پھر جب کہا جاتا ہے چندے دو تو وہ چندے دینے لگ جاتے ہیں مگرنمازوں میں ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔ پھر جب کہا جاتاہے کہ تبلیغ کرو تو وہ تبلیغ کرنے لگ جاتے ہیں مگر نمازوں اور چندوں میں سُست ہوجاتے ہیں۔ پھر جب کہا جاتا ہے روزے رکھو تو روزے رکھنے لگ جاتے ہیں مگر نمازوں اور چندوں اور تبلیغ میں سُستی آجاتی ہے۔ غرض جس طرح ایک چھوٹا بچہ ہر وقت سہارے کا محتاج ہوتا ہے اور اپنی توجہ صرف ایک ہی چیز کی طرف رکھ سکتا ہے ان کی توجہ محدود رہتی ہے اور پھر اس میں بھی سہارے کی محتاج۔
اگر تحریک جدید پر ہمارے دوست غو رکریں تو وہ اُنیس مسائل جو میں نے اس میں بیان کئے تھے ۔ اول تو وہ دیکھیں گے کہ ان کو سارے یاد بھی نہیں اور پھر وہ محسوس کریں گے کہ ان میں سے ایک ایک چیز کی طرف وہ ایک ایک وقت میں متوجہ رہے ہیں۔ جب چندے کا زورہؤا تو چندہ دینے لگے اور جب تبلیغ کا زور ہؤا تو تبلیغ میں مشغول ہوگئے اور جب دعا کی تحریک ہوئی تو دعائوں میں لگ گئے اور جب سادہ زندگی پر زور دیا گیا تو اُس کی طرف توجہ کرنی شروع کردی۔ جب ہاتھ سے کام کرنے پر زور دیا تو ہاتھ سے کام کرنے لگ گئے اور پھر آرام سے گھروں میں بیٹھ گئے۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس تحریک کی تکمیل تو اس کی چھ جہات کی تکمیل کے ساتھ ہی ہوسکتی تھی۔ اگر مکان کی ایک وقت میںایک ہی دیوار قائم رہے تو وہ مکان حفاظت کا کس طرح موجب ہوسکتا ہے۔ اگر انسان ایک طرف توجہ کرے اور دوسری کو چھوڑ دے تو اسکے یہی معنے ہوں گے کہ جب وہ اپنے مکان کی دوسری دیوار کو کھڑا کرے تو پہلی کو گرادے ۔ ایسا شخص کبھی بھی اپنے مکان کو مکمل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ وہ تو گراتا اور بناتا ہی رہے گا۔ نہ کبھی چھت پڑے گی اورنہ اس کامکان رہائش کے قابل ہوگا ۔ ایسا شخص تو بہت ہی قابلِ رحم ہے اور سب سے زیادہ رحم اسے اپنی جان پر آنا چاہئے۔ مگر کتنے ہیںجو اپنی جانوں پرر حم کرکے اپنے اندر یہ تبدیلی پیدا کرتے ہیں کہ نیکیوں میں دوام پید اکریں اور یہ نہ ہو کہ ایک کو اختیار کرتے وقت دوسری کو چھوڑ بیٹھیں۔
اسی طرح ربوبیتِ عالَمین میں ایک موٹی چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توجہ کافر ومومن کی طرف یکساں ہے یعنی وہ عالَمِ کفار کی بھی پرورش کررہا ہے اور عالَمِ مومنین کی بھی پرورش کررہا ہے۔ گو عالَمِ مومنین کی پرورش عالَمِ کفارکی پرورش سے مختلف ہے مگر دونوں جگہ پر پرورش کا کام جاری ہے۔ کسی جگہ پر تو تبلیغ کے ذریعہ سے اس کی ربوبیت ظاہر ہوتی ہے لیکن کسی جگہ پر تربیت کے ذریعہ سے۔ کہیں وہ اِنذار کو ذریعہء ہدایت بناتا ہے تو کہیںانعام کو باعثِ ترقی بنادیتا ہے۔ غرض کسی کو ڈرا کر، کسی کی ہمت بلند کرکے ، کسی کو خوف دلا کر، کسی کو انعام اور عطیہ کے ساتھ وہ کھینچے ہوئے لئے چلا جاتا ہے اور یہی سبق مومن کو بھی حاصل کرنا چاہئے۔ اس کی توجہ کافر و مومن کیلئے یکساں ہونی چاہئے،گمراہ اور ہدایت یافتہ کیلئے یکساں ہونی چاہئے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوستوں کو اس دِقت نظر سے ابھی وابستگی پیدا نہیں ہوئی۔ زیادہ تر اِن میں سے وہی ہیں جو غیروں میں تبلیغ تو کردیتے ہیں مگر اپنی جماعت کی تربیت کی طرف ان کی توجہ نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہؤا ہے کہ ہماری جماعت میں بعض نئے پیدا ہونے والے بچے سلسلہ کی تعلیموں اور سلسلہ کی اغراض سے بالکل ناواقف ہیں اور ان کا مذہب صرف ورثہ کا مذہب ہے اور وہ اسی طرح گمراہی کا شکار ہوسکتے ہیں جس طرح دوسرے فرقوں اور دوسری قوموں کے لوگ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ مومن اور کافر دونوں کی طرف یکساں اپنے فضل کو بڑھاتا ہے۔ گو جیسا کہ میں بتاچکا ہوں کہ فضل کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
پس میںجماعت کے دوستوں کو اس امرکی طرف بھی توجہ دلاتاہوں کہ وہ تعلیم اورتربیت کو مدنظر رکھیں اور ہمیشہ ایک بھائی دوسرے کیلئے مشعلِ راہ بنارہے اور ماں اور باپ اپنے بچوں کی دینی تربیت ایسے طور پر کریں کہ آئندہ نسلیں اخلاص میں پچھلوں سے کم نہ ہوں بلکہ زیادہ ہوں اور نہ صرف اپنے بچوں کی خبرگیری کریں بلکہ اپنے ہمسایوں اور محلہ کے بچوں کی بھی خبر گیری رکھیں۔ کیونکہ کئی ماں باپ کمزور ہوتے ہیں اور وہ تربیت کر ہی نہیں سکتے اور کئی ماں باپ دوسرے کاموں میں ایسے مشغول ہوتے ہیں کہ وہ تربیت کیلئے وقت بھی نہیں نکال سکتے۔ پھر جبکہ اللہ تعالیٰ نے ربّ العٰلمین کی صفت کا ہم کومظہربنایا ہے تو پھر ہمارا فرض بھی تو ہے کہ ہم صرف اپنی نگاہ کو ایک محدود دائرہ یں مقیّدنہ رکھیں بلکہ ہماری نگاہ وسیع ہو اورہمارے ہمسایوں اورمحلے والوں کو بھی ہماری ان خوبیوں سے حصہ ملے جو خداتعالیٰ کے فضل سے ہمیں عطا ہوئی ہوں۔
اگر ہمارے دوست اِن دو نکتوں کو یاد رکھیں اور اپنی نیکیوں کو بے استقلالی کا شکار نہ ہونے دیں اور اپنی نظروں کو مقیّد ہونے سے بچائیں بلکہ جس طرح خداتعالیٰ کی صفات وسیع ہیں ان کی نیکیاں بھی وسیع ہوں تو یقینا ہماری جماعت ایک ایسے مقام پر کھڑی ہوجائے کہ جس کے بعد کوئی تنزّل نہیں او ر انہیں ایک ایسی فتح حاصل ہو جس کے بعد کوئی شکست نہیں۔ لیکن اگر یہی جگانے اور سونے کا ہی سلسلہ چلتا گیا تو انہیںیاد رکھنا چاہئے کہ یہ دنیا فانی ہے اور کبھی اس دنیا سے جگانے والے بھی اُٹھ جاتے ہیں۔ پھر وہ ایسے سوئیں گے کہ جاگنا مشکل ہوگا اور ایسی غفلت کا شکار ہوں گے کہ جس کے آخرمیں ہوشیاری کا پتہ نہ چلے گا۔ پس انہیں خداتعالیٰ کی سنتوں کو بُھولنا نہیں چاہئے اور اپنے اندر مومن والا استقلال اور مومن والی وُسعتِ نظر پید اکرنی چاہئے تا وہ خداتعالیٰ کا مظہر اپنی ذات میں ہوجائیں اور خداتعالیٰ براہ راست خود ان پر اپنی نگاہ ڈالے۔
میںنے خطبہ کے شروع میں مومن کی مثال ایک آئینہ سے دی تھی۔ یہ مجھے خداتعالیٰ ہی کی طرف سے ایک دفعہ رئویا میں سمجھائی گئی تھی۔ ایک دفعہ میں نے رئویا میں دیکھا کہ میں ایک مکان میں کھڑاہوں اور میرے سامنے حکیم غلام محمد صاحب مرحوم کھڑے ہیں۔ نظر تو وہی اکیلے آتے ہیں مگر خیال یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہیں اور میں ان میں تقریر کررہا ہوں۔ میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے اور اس کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہوں کہ دیکھو !ایک حسین انسان اپنے حسن کو آئینہ میںدیکھتا ہے اور اس آئینہ کو بڑا قیمتی سمجھتا ہے اور سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے اس کا حُسن اُسے نظر آتا ہے۔ لیکن اگر آئینہ میلا ہوجائے اور اس میںحُسن پوری طرح نظر نہ آئے تو پہلے تو مالک اُسے صاف کرکے کام چلاتا ہے لیکن اگر وہ زیادہ میلا ہوتا چلا جائے تو ایک دن پھر ایسا آجاتا ہے کہ اس میںمالک کی شکل اچھی طرح نظر نہیں آتی اور وہ سمجھتا ہے کہ اب یہ میرے لئے بیکار ہے اور وہ اُٹھا کراُسے پھینک دیتا ہے اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔ یہ کہہ کر میںنے شیشہ اُٹھایا اور زور سے زمین پرپھینک دیا اور وہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور اس کے ٹُوٹنے سے آواز پید اہوئی۔ میں نے کہا دیکھو! خداتعالیٰ بھی بندوں سے ایسا ہی سلوک کرتا ہے۔ جس طرح اس خراب اور گندے شیشے کے ٹوٹنے سے ہمارے دلوں کو رنج نہیں ہوتا اُسی طرح خداتعالیٰ بھی ایسے شخص کی پروا ہ نہیں کرتا جواُس کے حُسن اور چہرے کو دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔
پس میں جماعت کے احباب کو نصیحت کرتاہوں کہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کیلئے آئینہ بنائو۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے آئینے بھی میلے ہوجاتے ہیں، تم اپنے آپ کو صاف بھی کرتے رہو۔ بعض دفعہ صفائی دوسرے ہاتھ کی محتاج ہوتی ہے، انسان خود صفائی نہیں کرسکتا۔ ایسی صورتوں میں اپنے بھائی کی امداد کرو۔ اس کے متعلق بھی مجھے ایک رئویا یاد آیا ہے جو بچپن کے زمانہ کا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان دنوں زندہ تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اُس وقت میں سکول میں پڑھا کرتا تھا اور میں نے سکول ۱۹۰۵ء میں چھوڑا ہے۔ اس لحاظ سے یہ رئویا ۱۹۰۳ء یا ۱۹۰۴ء کا ہے جبکہ میری عمر قریباً پندرہ سولہ سال کی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ان کمروں میں سے ایک میں کہ جن میں مدرسہ احمدیہ کے لڑکے آجکل پڑھتے ہیں یعنی وہ کمرے کہ جو کنویںکے سامنے ہیں۔ ان میں سے درمیانی کمرہ میں ہم کچھ لوگ بیٹھے ہیں گو وہ آدمی جو نظر آتے ہیں تھوڑے ہیں مگر خیال ہے کہ یہاں ساری دنیا کے لوگ جمع ہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل کے بھی۔ گویا وہ محشر کا دن ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی انتظارمیں ہیں کہ آئے حساب لے اور فیصلہ فرمائے۔ ایک میز لگی ہوئی ہے جس کے سامنے ایک کُرسی پڑی ہے اور چند فرشتے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ ایک نہایت حسین نوجوان اُس کُرسی پر آکر بیٹھ گیا اور رئویا میں مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ ہے اور ہم سب اس گھبراہٹ اور پریشانی میں حیران ہیں کہ کیا انجام ہوگا کہ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کے سامنے کئے جانے کا حکم دیا اوراُس پر نگاہ ڈال کر فرمایا کہ اس شخص کو لے جائو اور جنت میں داخل کردو۔ پھر ایک شخص کو خداتعالیٰ نے آگے لانے کا حکم دیا جو بظاہر نہایت حسین اور خوبصورت نوجوان تھا۔ جب وہ سامنے لایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اُس کی طرف دیکھا مگراُس سے کوئی سوال نہیں کیا۔ گویا اس کی نظروں میں ہی سارے سوال ہوگئے۔ میں نے دیکھا کہ اس کا گوشت ، اس کی ہڈیاں اور اس کے تمام عضلے کھال کے اندر یوں نرم ہونے شروع ہوئے جیسے کوئی موم وغیرہ پگھل کر سیال ہوجاتی ہے۔ ہم نے محسوس کیا کہ اُس کی کھال کے نیچے کی ہر چیز پیپ بن گئی ہے اور وہ سر سے پیر تک پیپ کا تھیلا بن کر رہ گیا ہے۔ تب خداتعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ اسے لے جائو اور جہنم میں داخل کردو۔ اُس وقت میں نے ایک نہایت عجیب رحمت کا نظارہ دیکھا۔ فرشتوں نے جس وقت جنتی کو جنت میں داخل کیا تو دروازے کھول کر کِیا اورجنت کی ہؤائیں باہر والوں کو لگیں لیکن جس وقت دوزخی کو دوزخ میں داخل کیا تو دروازے کو نہایت تھوڑا سا کھولا اور آگے خود کھڑے ہو گئے اور اسے دھکیل کر اندر کرکے دروازہ فوراً ہی بند کردیا تا وہاں کی مسموم ہؤائیں دوسروں کونہ چھوئیں۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ خداتعالیٰ کھڑا ہوگیا اور فرمایا کہ اس وقت بس اتنا ہی حساب لینا تھا۔ ابھی حشر کادن نہیں آیا مگر شاید تم میں سے بعض لوگ اپنا انجام دیکھنا چاہتے ہوں۔ وہ اپنی پیٹھ کی طرف دیکھیں جس کی پیٹھ کی طرف کی دیوار کی کچھ اینٹیں پکی ہوئی ہوں گی وہ جنتی ہے اور جس کی کچی ہوں گی وہ دوزخی ہے۔ یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ چلا گیا اور ہم لوگ جو وہاں بیٹھے تھے خاموشی سے بیٹھے رہے۔ کسی کو یہ جُرأت نہ تھی کہ مُڑ کر پیٹھ کی طرف دیکھے۔ ہم بیٹھے رہے اور بیٹھے رہے اور بیٹھے رہے اور وقت گزرتا گیا، گزرتا گیا اورگزرتا گیا۔ جب ایک کافی عرصہ گزرگیا تو میرے دل میں ایک خیال پیداہؤا۔ میں نے دیکھا کہ میرے دائیں طرف حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل بیٹھے ہیں۔ میں ان کی طرف جھکا اور کہا کہ مجھ سے تو پیچھے مُڑ کر دیکھا نہیں جاتا۔ انہوں نے فرمایامیری بھی یہی حالت ہے۔ میں نے کہا مجھے ایک خیال آیا ہے میں آپ کی پیٹھ کے پیچھے دیکھتاہوں اور آپ میری پیٹھ کے پیچھے دیکھیں۔ اس پر انہوں نے میری پیٹھ کے پیچھے دیکھا اور میں نے اُن کی پیٹھ کے پیچھے اور ایک ہی وقت میں ہم دونوںچِلّائے کہ پیچھے اینٹیں پکّی ہیں اورجیسا کہ شدید خوشی کی حالت میں جب وہ شدید مایوسی کے بعد پیداہو انسان کے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیںہمارے جسم ڈھیلے ہوکر زمین پر گرگئے اور میری آنکھ کُھل گئی۔
میں آج کہ اس پر قریباً ۳۳ سال گزرگئے ہیں اس نظارہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے اُسی طرح دیکھ رہا ہوں جس طرح کہ اُس وقت دیکھا تھا۔ یہ واقعات گہرے طور پر میرے دماغ میں منقش ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اُس وقت کے جذبات آج کے جذبات نہیں ہوسکتے اور اُس وقت کی گھبراہٹ کا اندازہ تو آج لگایا ہی نہیں جاسکتا لیکن پھر بھی ظاہری نظارے بہت حد تک میرے دماغ میں مرسوم ہیں اور یہ رئویا میں نے اس لئے سنایا ہے کہ کبھی کبھی انسان اپنی پیٹھ کے پیچھے نہیں دیکھ سکتا اور شک و شبہ کی حالت میں پڑا رہتا ہے۔ اُس وقت بہترین تجویز یہی ہوتی ہے کہ تم اپنے بھائی کی پیٹھ کی طرف دیکھو اور وہ تمہاری پیٹھ کی طرف دیکھے۔ تم اس کی صفائی کرو اور وہ تمہاری صفائی کرے۔ یہ ایک بہترین طریق ہے اور کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ ۳؎کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے ۔ دیکھو جھوٹا دوست جھوٹ بول کر تم کو تباہ اور انجام سے بے فکر کردیتا ہے لیکن جب سچا دوست سچی بات تمہارے سامنے رکھتا ہے تو گو وہ گراں گزرتی ہے مگر تمہارے انجام کو درست کرنے والی ہوتی ہے اور تمہاری عاقبت کو ٹھیک کردیتی ہے۔
پس کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَکے یہی معنی نہیں کہ بزرگوں اور ولیوں کی تلاش کرو۔ وہ معنی بھی ہیں اور میں انکار نہیں کرتا مگریہ معنی بھی ہیں کہ قومی اِصلاح کیلئے اس کے ساتھ تعاون کیا کرو جو تمہارے اور تمہارے متعلقین کے عیوب سے تمہیں واقف کرے او رایسے دوست نہ چُنا کرو جو جھوٹ بول کر تمہیں دھوکے میں رکھیںیہاں تک کہ وقت آجائے اور خداتعالیٰ کے فرشتے تمہیں دوزخ میں دھکیل دیں اور تمہارے لئے توبہ کا وقت بھی نہ رہے۔اَلْعیَاذُ بِاللّٰہِ
(الفضل ۲۴ ؍ مارچ ۱۹۳۷ئ)
۱؎
۲؎ بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومۃ علی العمل۔
۳؎ التوبۃ: ۱۱۹

۸
سلسلہ احمدیہ میں نظامِ خلافت خداتعالیٰ کا قائم کردہ ہے
تئیس سالہ واقعات کی شہادت
(فرمودہ ۲۶ ؍ مارچ ۱۹۳۷ء )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
آج سے ۲۳ سال قبل اس مقام پر اسی مسجد میں ہمارے سامنے ایک ایسا سوال پیش ہؤا تھا جو ہماری جماعت کیلئے زندگی اور موت کا سوال تھا۔ تاریخ آج کی نہ تھی لیکن مہینہ یہی تھا جبکہ جماعت کے مختلف نمائندوں اوراحباب کے سامنے یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ آیا ہماری جماعت کا نظام اسلامی طریق کے مطابق خلافت کے ماتحت ہوگا یا مغربی طریق پر ایک انجمن کے ماتحت۔
میری عمر اُس وقت پچیس سال دو ماہ تھی۔ دُنیوی تجربہ کے لحاظ سے میں کوئی کام ایسا پیش نہیں کرسکتا تھااور نہیں کرسکتا کہ جس کی بناء پر یہ کہا جاسکے کہ مجھے دنیا کے کاموں کا کوئی تجربہ حاصل تھا۔ سلسلہ کے تمام کام ایک ایسی جماعت کے سپرد تھے جو اُس وقت نظامِ خلافت کی شدید مخالف تھی اور اس کا دعویٰ تھا کہ نظامِ جماعت ایک انجمن کے ماتحت چاہئے جس کے پریذیڈنٹ کو کسی قدر اختیارات تو دے دیئے جائیں لیکن وہ کثرتِ رائے کاپابند ہو اور خلافت کا نظام چونکہ اس زمانہ کے طریق اور اس زمانہ کی رَو کے خلاف ہے اور اس نظام میں بہت سے نقائص ہیں اس لئے اسے اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت ایک پریشانی ، گھبراہٹ اور صدمہ کے ماتحت ہوئی تھی اور ضروری نہیں کہ جماعت پھر اسی غلطی کا اعادہ کرے۔اس کے برخلاف میں اور بعض میرے احباب اس بات پر قائم تھے کہ خلافت شریعتِ اسلامیہ کا ایک اہم مسئلہ ہے اور یہ کہ بغیر خلافت کے صحیح طریق کے اختیار کرنے کے جماعت اور سلسلہ کو کوئی ترقی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہمارے متعلق کہاجاتا تھا کہ ہم لوگ صرف خلافت کے حصول کیلئے اس مسئلہ کو پیش کررہے تھے اور اپنی حکومت اور طاقت کے بڑھانے کا ذریعہ اسے بنارہے تھے۔ جب میں نے دیکھاکہ اس تائید کو ایک غلط رنگ دیا جاتا ہے اور غلط پیرایہ میں اسے پیش کیا جاتا ہے تو میں نے سمجھا کہ خدا تعالی ٰکے فیصلہ کوکسی ایسے امر سے نقصان نہیں پہنچنا چاہئے جس کا ازالہ ہمارے امکان میں ہو اور اس لئے میں نے مولوی محمد علی صاحب کو جو اُس وقت اس تحریک کے لیڈر تھے اس غرض سے بُلوایا تا ان کے ساتھ کوئی مناسب گفتگوکی جاسکے۔ اس مسجد کے دائیں جانب نواب محمد علی خان صاحب کامکان ہے جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے وفات پائی تھی اس کے ایک کمرہ میں مَیں نے مولوی محمد علی صاحب کو بُلوا کر کہا کہ خلافت کے متعلق کوئی جھگڑا پیش نہ کریں اوراپنے خیالات کو صرف اس حد تک محدود رکھیں کہ ایسا خلیفہ منتخب ہو جس کے ہاتھ میں جماعت کے مفاد محفوظ ہوں اور جو اسلام کی ترقی کی کوشش کرسکے۔ چونکہ صلح ایسے ہی امور میں ممکن ہوتی ہے جن میں قربانی ممکن ہو میں نے مولوی صاحب سے کہا جہاں تک ذاتیات کا سوال ہے میں اپنے جذبات کو آ پ کی خاطر قربان کرسکتا ہوں لیکن اگر اصول کا سوال آیا تو مجبوری ہوگی کیونکہ اصول کا ترک کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان یہی فرق ہے کہ ہم خلافت کو ایک مذہبی مسئلہ سمجھتے ہیں اور خلافت کے وجود کو ضروری قرار دیتے ہیں مگر آپ خلافت کے وجود کو ناجائز قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ابھی ابھی ایک خلیفہ کی بیعت سے آپ کو آزادی ملی ہے اور چھ سال تک آپ نے بیعت کئے رکھی ہے اور جو چیز چھ سال تک جائز تھی وہ آئندہ بھی حرام نہیں ہوسکتی۔ آپ کی اور ہماری پوزیشن میں یہ ایک فرق ہے کہ آپ اگر اپنی بات کو چھوڑ دیں تو آپ کو وہی چیز اختیار کرنی پڑے گی جسے آپ نے آج تک اختیار کئے رکھا۔ لیکن ہم اگر اپنی بات چھوڑیں تو وہ چیز چھوڑنی پڑتی ہے جسے چھوڑنا ہمارے عقیدہ اور مذہب کے خلاف ہے اور جس کے خلاف ہم نے کبھی عمل نہیں کیا۔ پس انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ آپ وہ راہ اختیار کرلیں جو آپ نے آج تک اختیار کررکھی تھی اور ہمیں ہمارے مذہب اور اصول کے خلاف مجبور نہ کریں۔ باقی رہا یہ سوال کہ جماعت کی ترقی اور اسلام کے قیام کیلئے کون مفید ہوسکتا ہے،سو جس شخص پر آپ متفق ہوں گے اُسے ہی ہم خلیفہ مان لیں گے۔
کسی غیرجانبدار شخص کے سامنے اگر یہ باتیں پیش کردی جائیں تو وہ تسلیم کرے گا کہ میرا نقطہ نگاہ صحیح تھامگر مولوی صاحب یہی کہتے رہے کہ ہم کسی واجب الاطاعت خلیفہ کو ماننا ناجائز سمجھتے ہیں اور جب میں نے کہا کہ آپ لوگ حضرت خلیفہ اوّل کو چھ سال تک مانتے آئے ہیں تو کہا کہ ایک بزرگ سمجھ کر ہم نے ان کی بیعت کرلی تھی۔اس پر میں نے کہا کہ اب بھی کسی بزرگ کو خلیفہ مان لیں میں تیار ہوں کہ اُس کی بیعت کرلوں۔ مگر وہ کسی بات پر رضامند نہ ہوئے اور جب بحث لمبی ہوگئی تو طبائع میں سخت اشتعال پیدا ہوگیا کہ جماعت کسی فیصلہ پر کیوں نہیں پہنچتی۔ لوگوں نے کمرہ کا احاطہ کرلیا اور بعض نے دروازے کھٹکھٹانے شروع کردیئے اوراس میںاِتنی شدت پیدا ہوئی کہ بعض شیشے ٹوٹ گئے۔ جماعت کے افراد کہہ رہے تھے کہ باہر آکر فیصلہ کریں یا ہم خود فیصلہ کرلیں گے۔ اُس وقت میں نے پھر مولوی صاحب سے کہا کہ دیکھئے !یہ بہت نازک وقت ہے اور شدید تفرقہ کا خطرہ ہے میں آپ سے اسی چیز کا مطالبہ کرتا ہوں جو آپ آج تک خود کرتے آئے ہیں اور آپ اس چیز کا مطالبہ کرتے ہیںجو ہمارے نزدیک جائز ہی نہیں۔ آپ کے خدشات کا میں نے ازالہ کردیا ہے اس لئے آپ کے سامنے اب یہ سوال ہونا چاہئے کہ خلیفہ کون ہو؟یہ نہیں کہ خلیفہ ہونا نہیں چاہئے۔ لیکن اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کیوں اس قدر زور دے رہے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ لوگ کسے خلیفہ منتخب کریں گے۔ میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں کہ کسے منتخب کریں گے لیکن میں خود اُس کی بیعت کرلوں گا جسے آپ چُنیں گے۔ اگر آ پ کا یہ خیال ہے کہ لوگ ہم میں سے کسی کو منتخب کریں گے تو جب میں آپ کے تجویز کردہ کی بیعت کرلوں گا تو پھر چونکہ خلافت کے مؤیّد میری بات مانتے ہیں مخالفت کا خدشہ ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن انہوں نے پھر یہی کہا کہ میں جانتا ہوں کہ آپ کیوں زور دے رہے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ میں اپنا دل چِیر کر آپ کو کس طرح دکھائوں۔ میں توجو قربانی میرے امکان میں ہے کرنے کیلئے تیار ہوں لیکن پھر بھی اگر آپ نہیں مانتے تو اختلاف کی ذمہ واری آپ پر ہوگی نہ کہ مجھ پر۔ یہ کہہ کر ہم وہاں سے اُٹھے اوراسی مسجدنور میں آگئے جہاں لوگ جمع تھے۔ بعض لوگوں کی رائے تھی کہ مولوی محمداحسن صاحب امروہوی کانام تجویز کریں اوراس کیلئے وہ تیار تھے۔ مگر ابھی وہ لوگ اُٹھ ہی رہے تھے کہ مولوی محمد احسن صاحب نے خود کھڑے ہوکر میرا نام تجویز کردیا۔اُس وقت جیسا کہ بعدمیںمعلوم ہؤا کیونکہ بہت گھبراہٹ اور شور تھا اور سارامجمع مجھے نظر بھی نہ آتا تھا مولوی محمد علی صاحب نے کچھ کہنا چاہا مگر لوگوںنے اُن کو روک دیا۔ میں نے بعد میں سنا کہ انہوں نے یہی کہنے کی کوشش کی تھی کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی خلیفہ ہو مگر ان لوگوں نے جو اُن کے قریب بیٹھے تھے ان سے کہہ دیا کہ ہم آپ کی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اس پر مولوی صاحب مجمع سے اُٹھ کر اپنی کوٹھی میں جہاں اب جامعہ احمدیہ ہے چلے گئے اور ان کے جانے کے بعد تمام جماعت کا رُحجان میری طرف ہوگیا۔ حالانکہ جیسا مجھے بعض دوستوں نے بعد میں بتایااُس وقت تک وہ اس کیلئے تیار تھے کہ مولوی صاحب کی بیعت کرلیں۔ خدا کی قدرت ہے مجھے بیعت کے الفاظ بھی یاد نہ تھے اورجب لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں تو چونکہ میں چاہتا تھا کہ ابھی ٹھہر جائیں شاید صلح کی کوئی صورت نکل آئے۔میں نے کہا کہ مجھے تو بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں ہیں لیکن مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ وہ اُٹھ کر میرے قریب آگئے اور کہا کہ مجھے بیعت کے الفاظ یاد ہیں میں کہتا جاتا ہوں آپ دُہراتے جائیں۔ میں نے اس پر بھی کچھ ہچکچاہٹ ظاہر کی لیکن لوگوںنے شور مچادیاکہ فوراً بیعت لی جائے۔ چونکہ میرا عقیدہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے، میں نے سمجھ لیاکہ اب یہ خدائی فیصلہ ہے اورمیں نے بیعت لینی شروع کردی اوراُس وقت بیعت لی جبکہ جماعت پراگندگی کی حالت میں تھی،جبکہ تمام لیڈر مخالف تھے اور جب کہ وہ دھمکیاں دے رہے تھے کہ اگریہ طریق اختیار کیا گیا توہم اُسے کُچلنے کیلئے تمام ذرائع اختیار کریں گے۔
ماسٹر عبدالحق صاحب مرحوم جنہوں نے قرآن کریم کے پہلے پارہ کا ترجمہ انگریزی میں کیا تھا وہ پہلے ان لوگوں کے ساتھ تھے مگر بعدمیں بیعت میں شامل ہوگئے ۔ انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ یہاں سے جاکر مولوی صدردین صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جس پر چالیس مومن اتفاق کریں وہ بیعت لے سکتا ہے۔ (حالانکہ اس سے مراد جماعت میں شامل کرنے کی بیعت ہے (اطاعت کی نہیں) ہم یہ کیوں نہ کریں کہ چالیس لوگوں کو جمع کرکے سید عابد علی شاہ صاحب کو خلیفہ بنادیں تا لوگوں کی توجہ اِدھر سے ہٹ جائے۔ عابد علی شاہ صاحب کو الہامِ الٰہی کا دعویٰ تھا ۔اُن کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں کوئی عُہدہ ملنے والا ہے چنانچہ انہوں نے عابد علی شاہ صاحب کو منوابھی لیا لیکن لالٹین لے کر وہ ساری رات دربدرپِھرتے رہے مگر انہیں چالیس آدمی بھی میسر نہ آئے۔ حالانکہ آبادی بہت کافی تھی اور ہزاروں اشخاص باہر سے بھی آئے ہوئے تھے۔ خدا کی قدرت ہے اگر ان کو چالیس آدمی مل جاتے تو ممکن ہے اُسی وقت خلافت کا ڈھونگ رچاتے۔ لیکن اتنے آدمی بھی نہ ملے اور ادھر عابد علی شاہ صاحب کو دوسرے دن رئویا ہؤا اور انہوں نے آکر میری بیعت کرلی واللّٰہُ اَعْلَمُ۔ یہ ان کی کوئی خیالی بات تھی یا اللہ تعالیٰ کا انہیں ہدایت دینے کا منشاء تھا۔ انہوں نے دوسرے روز آکر بیعت کرلی۔ لیکن پہلے چونکہ انہوں نے خلیفہ بننے کیلئے رضامندی کا اظہار کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی انہیں بڑی سخت سزا دی۔ بیعت کے کچھ عرصہ بعد وہ کہنے لگے کہ دراصل اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ منتخب کیا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کا خدا بھی عجیب ہے کبھی تو آپ کو خلیفہ مقرر کرتا ہے اور کبھی بیعت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ مگر وہ آہستہ آہستہ اس دعویٰ میں بڑھتے گئے اور آخر جماعت سے الگ ہوکر بیعت لینے لگ گئے۔ چند سالوں کے بعد جب طاعون پھیلی تو انہوں نے کہا کہ مجھے خداتعالیٰ نے بتایا ہے کہ میرا گھر طاعون سے محفوظ رہے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی یہی الہام تھا۔ مگر دیکھو دونوں میں کتنا فرق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام کے شائع ہونے کے بعد پانچ سات سال تک قادیان میں طاعون پھیلتی رہی بلکہ اس محلہ میں جس میں آپ کا گھر تھا پھیلتی رہی اور ان گھروں میں پھیلتی رہی جو آپ کے مکان کے دائیں بائیں واقع تھے اور پھر معمولی حالت میں نہیںبلکہ ایسی شدید تھی کہ تین تین، چار چار اموات ان گھروں میںہوئیں مگر آپ کے مکان میں ایک چُوہا تک نہ مرا۔ لیکن سید عابدعلی صاحب کے الہام کے بعد نہ صرف یہ کہ ان کے گھر میں آنے والے بعض لوگ طاعون سے ہلاک ہوئے بلکہ وہ خود بھی اور اُن کی بیوی بھی اسی سال طاعون سے فوت ہوگئے۔ بیشک وہ ظاہری نماز روزہ کے پابند اور صوفی منش آدمی تھے مگر بعض لوگوں کے اندر ایک مخفی رنگ کا کِبر ہوتا ہے جو خداتعالیٰ کو پسند نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کو شیطان نیکی کی راہیں دکھا کر ہی قابو کرتا ہے اور بعد میں خداتعالیٰ کا سلوک یہ فیصلہ کردیتا ہے کہ الہام شیطانی تھا یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو اِن کا تو یہ حال ہؤا۔
ادھر وہ لوگ جو اپنے آپ کو جماعت کا لیڈر اور رئیس سمجھتے تھے اور جن میں سے ایک نے اس سکول کی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جاتے ہیں لیکن دس سال نہیں گزریں گے کہ اس پر آریوں اور عیسائیوں کا قبضہ ہوگامگر آج ہم دیکھ رہے ہی کہ دس سال گزرے پھر دس سال گزرے اور پھر تیسرے دس سالوں میں سے بھی تین سال گزرگئے۔ مگر خداتعالیٰ کے فضل سے اس عمارت پر کسی عیسائی یا آریہ کا قبضہ نہیں بلکہ عیسائیوں اور آریوں کا مقابلہ کرنے والے احمدیوں کا ہی قبضہ ہے۔ اور جن احمدیوں کا قبضہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھتے اور طاقتور ہوتے جارہے ہیں اور وہ شخص جس نے اسی مسجدمیں کھڑے ہوکر یہ اعلان کرنا چاہا تھا کہ کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہئے اس سال ان کے اخبار میں اعلان کیا جارہا ہے کہ ہم اُس وقت تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک کوئی واجبُ الْاطاعت خلیفہ مقرر نہ کریں اور ہمیں چاہئے کہ ہم مولوی محمد علی صاحب کو ایسا مان لیں۔ جس شخص کومیرے مقابلہ پر کھڑا کرنا چاہتے تھے وہ طاعون کا مارا ہؤا اپنے گائوں میں پڑا ہے اورجو لوگ میرے مقابل پر یہ کہہ رہے تھے کہ خلافت کی ضرورت ہی نہیں وہ آج ناکام ہوکر اس مسئلہ کی طرف آرہے ہیں اور ۲۳ سال بعد پھر اسی نکتہ کی طرف لَوٹتے ہیں۔ یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ صدرانجمن کا پریذیڈنٹ بھی ایسا ہونا چاہئے جو کم سے کم چالیس سال کی عمرکا ہو کیونکہ اس سے کم عمر میں عقل اور تجربہ پختہ نہیں ہوسکتا۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ۲۵ سال عمر والے کو تویہ نکتہ اسی وقت معلوم ہوگیا اور چالیس سال والے کو آج جبکہ وہ پینسٹھ سال کو پہنچ چکا ہے معلوم ہؤا۔ مگر کیا وہ سمجھتے ہیںکہ انسانوں کے بنائے ہوئے خلیفے بھی خلیفے ہوتے ہیں۔ ہمارا اور ان کا ایک اختلاف یہ بھی تھا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور اب شاید اللہ تعالیٰ انہیں یہ دکھانا چاہتا ہے کہ خلیفے وہی بناتا ہے۔ انسانوں کے بنانے سے کوئی واجب الاطاعت خلیفہ نہیں بن سکتا۔
دیکھو جماعت کتنے خطرات میں سے گزررہی ہے اور غورکرو ان کو دبانا کس انسان کی طاقت میں تھا۔ کم سے کم وہ انسان تو نہیں دباسکتا تھا جس کے متعلق دوست دشمن سب کی یہی رائے تھی کہ یہ ناتجربہ کار نوجوان ہے۔ پھر سوچو کہ اس قدر شدید خطرات کے باوجود کون جماعت کو ترقی پر لے گیا؟ کیا وہی خدا نہیں جس نے کہا ہؤا ہے کہ خلیفے ہم بناتے ہیں؟یہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا تقاضا ہے کہ وہ ہمیشہ کام ایسے ہی لوگوں سے لیتا ہے جنہیں دنیا نالائق سمجھتی ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کام کرنے والا کون ہوسکتا ہے ۔ نہ آپ سے پہلے کوئی ایسا تھا نہ اب تک ہؤا ہے اور نہ آئندہ ایسا ہوگا۔ مگر دنیا نے آپ کی جو قیمت سمجھی تھی وہ پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعہ بتادی تھی یعنی وہ پتھر جسے معمارو ں نے ردّ کردیا۔ بائبل میںیہ بتادیا گیا تھا کہ جو لوگ اپنے آپ کو کارخانۂ عالم کے انجینئر (ARCHITECT) سمجھتے ہیں اور دنیا کی عام اصلاح کے مدعی ہیں جب محمد رسول اللہ ﷺ کا جوہر اُن کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ یہی کہیں گے کہ یہ ہمارے مطلب کانہیں، مگر دنیا کے قیام اور زینت کا موجب وہی بنا۔ پھر اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کام لیا۔ آج دشمن کہتے ہیںکہ آپ پاگل تھے مگر خدا کی شان دیکھو کہ اُس نے آپ سے کتنا کام لیا۔ سب نبیوں کو اُن کے مخالف پاگل کہتے آئے ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ بہت اچھا پاگل ہی سہی مگر ہمیں تو اُس شخص کی ضرورت ہے جو ہمیں خدا سے ملادے اور اسلام کو دنیا میں قائم کردے۔ اگر پاگل سے یہ امور سرزدہوں تو ہم نے فلسفیوں کو کیا کرناہے؟ بلکہ میں کہوں گا کہ لاکھوں فلسفیوں کو اُس کی جُوتی کی نوک پر قربان کیا جاسکتاہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کے ابتدائی زمانہ میں لوگ کہتے تھے کہ مرزا صاحب تو نَعَوْذُ بِاللّٰہِ جاہل ہیں۔ ساراکام تو ’’نورالدین‘‘ کرتا ہے۔ زمانہ گزرتا گیا گزرتا گیا اور گزرتا گیا۔ پھر کہا گیا کہ نہیں ہماری غلطی تھی نورالدین صرف مضامین بتاتاہے لکھنا اور بولنا نہیں جانتا۔ مرزا صاحب کی تحریر اور تقریر میں بجلیاں ہیںجس دن آپ فوت ہوئے یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ تب اللہ تعالیٰ نے نورالدین کو خلیفہ مقرر کیا جن کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ لکھنا اوربولنا نہیں جانتے۔اُس وقت تو لوگوں نے بیعت کرلی مگرزیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ بعض نے کہا یہ ستّرا بہتّرا ہے،لائی لگ ہے، کمزور طبیعت ہے اور اگراس مسئلہ کا فیصلہ اس کے زمانہ میں نہ کرایا گیا تو پھر نہ ہوسکے گا کیونکہ یہ تو ڈر جاتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے حضرت خلیفہ اوّل نے مسجد مبارک کے اوپر ان کو بلایا۔مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب کے علاوہ جماعت کے دوسرے دوست بھی بکثرت تھے۔ آپ نے فرمایا کہا جاتاہے کہ تمہارا کام صرف نمازیں پڑھانا، درس دینا اورنکاح پڑھانا ہے مگر میں نے کسی کو نہیں کہا تھا کہ میری بیعت کرو تم خوداس کی ضرورت سمجھ کر میرے پاس آئے۔ مجھے خلافت کی ضرورت نہ تھی لیکن جب دیکھا کہ میرا خدا مجھے بُلارہا ہے تومیں نے انکار مناسب نہ سمجھا۔ اب تم کہتے ہو کہ میری اطاعت تمہیں منظور نہیں۔ لیکن یاد رکھو اب میں خدا کا بنایا ہؤا خلیفہ ہوںاب تمہاری یہ باتیں مجھ پرکوئی اثر نہیں کرسکتیں۔ یاد رکھو خلفاء کے دشمن کا نام قرآن کریم نے ابلیس رکھا ہے۔ اگر تم میرے مقابل پر آئو گے تو ابلیس بن جائو گے آگے تمہاری مرضی ہے چاہے ابلیس بنو اور چاہے مومن۔ اس پرمیری آنکھوں نے ان لوگوں کے چہرے زرد دیکھے ہیں۔ جماعت میں اس قدر جوش تھا کہ میں خیال کرتاہوں کہ اگر حضرت خلیفہ اوّل نہ ہوتے تو لوگ شایداُن کوجان سے مارڈالتے۔ پھر میری آنکھوں نے وہ نظارہ بھی دیکھاہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے حکم سے مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب آگے بڑھے اور دوبارہ بیعت کی۔ گویا جسے وہ کہتے تھے کہ کمزور دل ہے خداتعالیٰ نے طاقتوروں کو اُس کے مقابل پر کھڑ اکیا،پھراُس کمزور دل سے اُن کو شکست دلوائی اور دنیا پر ظاہر کردیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی اور حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں بھی وہ خود ہی کام کرنے والا تھا۔
پھر ان لوگوں نے کہا کہ بڈھا تجربہ کار اور خرانٹ تھا۔ تھا تو نرم دل مگر تجربہ کار اور عالم تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اُس شخص کو چُنا جو پرائمری میں بھی فیل ہوتا رہا تھا۔ جس نے کبھی کسی دینی مدرسہ میں بھی پڑھائی نہ کی تھی۔ صحت کمزور تھی اورعمر صرف ۲۵ سال تھی۔ جسے کبھی کوئی بڑا کام کرنے کا موقع نہ ملا تھا اور کوئی تجربہ کار نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تم کہتے تھے نور الدین بڈھا،تجربہ کار اور علم والا تھا آئو ہم اب اس سے کام لے کر دکھاتے ہیں جو نہ عمر رسیدہ ہے اور نہ عالم۔ میرے خلاف تو سب سے بڑا اعتراض ہی یہ تھا کہ بچہ ہے ، ناتجربہ کار ہے۔ پھراس بچہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو جس طرح شکستیں دی ہیں اور جس طرح ہر میدان میں ذلیل کیا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔ اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے اہم اسلامی مسائل کا فیصلہ میرے ذریعہ سے کرایا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ وہ کونسا مسئلہ ہے جو پوشیدہ تھا اور خدا نے میرے ذریعہ سے اسے صاف نہیں کرایا۔ کئی معارف چُھپے ہوئے موتیوں کی طرح پوشیدہ پڑے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ نکلوایا ہے۔ ایک طرف جماعت کی ترقی اور دوسری طرف اسلام کی ترقی کا کام اللہ تعالیٰ نے اس بچہ سے لیا اوراُن مطالب کا اظہار کیا جن سے دنیا فائدہ اُٹھارہی ہے اور اُٹھاتی رہے گی۔ مخالفوں نے کہا دراصل پیچھے اور لوگ کام کررہے ہیںاور بعض نے کہا کہ مولوی محمد احسن کا جماعت میں رسوخ تھا ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے یہ سب کارخانہ چل رہا ہے۔ اس کے بعد مولوی محمد احسن صاحب کو ایسا ابتلا آیا کہ وہ لاہور چلے گئے اور جاکر اعلان کیا کہ میں نے ہی اسے خلیفہ بنایا تھااور میں ہی اسے معزول کرتا ہوں۔ مگر خداتعالیٰ نے کہا کہ تم کون ہو خلیفہ بنانے والے؟ اورچونکہ تم نے ایسا دعویٰ کیا ہے اس لئے ہم تمہیں قوتِ عمل سے ہی محروم کرتے ہیں۔ چنانچہ اُن پر فالج گِراپھر وہ قادیان آئے اورمیرا ہاتھ پکڑ کر اور رو رو کر کہا کہ میرے بیوی بچوں نے مجھے گمراہ کیا ورنہ دل سے تو میں آپ پر ایمان رکھتا ہوں۔ سید حامد شاہ صاحب پُرانے آدمیوں میں سے تھے اور بہت کام کرنے والے، خداتعالیٰ کی حکمت ہے وہ جلد فوت ہوگئے اُن کو بھی پہلے ابتلا آیا تھا مگر جلد ہی اللہ تعالیٰ نے اُن کو ہدایت دے دی اور وہ بیعت میں شامل ہوگئے۔ ان کے علاوہ کچھ اور بھی ہیں جو ابتلا میں ہیں اوربجائے سلسلہ کی ترقی کا موجب ہونے کے وہ نِفاق کی بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ تا خداتعالیٰ کا جلال دنیا پر ظاہر ہو اور وہ بتادے کہ وہ خودکام کررہا ہے
میںنے پہلے بھی کئی بار کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں اور یہ ایک سچائی ہے جس کا اظہار کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری زبان یا قلم سے قرآن کریم کے جو معارف بیان کرائے ہیں یا جو اور کوئی کام مجھ سے لیا ہے مجھ سے زیادہ جھوٹا اور کوئی نہ ہوگا اگر میں کہوں کہ یہ میرا کام ہے۔ میں جب بھی بولنے کیلئے کھڑا ہؤا ہوں یا قلم پکڑا ہے میرا دماغ بالکل خالی ہوتا ہے۔ شایدسَومیں سے ایک آدھ دفعہ ہی ہو جب کوئی مضمون میرا سوچا ہؤا ہوتا ہے ورنہ میرا ذہن بالکل خالی ہوتا ہے او رمیں جانتا ہوں کہ سب کچھ اُسی کا ہے جس کا یہ سلسلہ ہے۔ اگرمیں اس پراِترائوں تو یہ جھوٹی بات ہوگی ہاں جو غلطی ہو وہ بے شک مجھ سے ہے۔ بھلا ایک انسان جو ظاہری علوم سے بالکل ناواقف اور بے بہر ہ ہو وہ ان باتوں کو کیسے نکال سکتاہے۔ جو شاید آئندہ صدیوں تک اسلام کی ترقی کیلئے بطور دلیل کام دیں گی جیسے تعزیراتِ ہند ہندوستان کے لئے کام دیتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ غیراحمدی بھی اُن دلائل کو استعمال کررہے ہیں جو میںنے پیش کئے ہیں۔تمدن کے متعلق اسلامی تعلیم یعنی ترکِ سُود، زکوٰۃ اور وراثت کا قیام یہ تین نکات والی سہ پہلو عمارت کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ پچھلی صدیوں میں کسی نے تیار کی ہو۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مجھے ہی توفیق دی ہے اور میں نے اِن مسائل کو بیان کیا ۔ پھر اور سینکڑوں مسائل ہیں جو خداتعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے سکھائے۔
پس یہ سلسلہ خدا کا ہے آدمیوں کا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اسے بڑھائے گا ۔ انسانوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ صرف ایک بات ہے جسے تمہیں یاد رکھنا چاہئے۔ جب تک تمہارے اندر اطاعت اور فرمانبرداری رہے گی وہ نور تم کو ملتا رہے گا۔ لیکن جب اطاعت سے منہ موڑو گے اللہ تعالیٰ کہے گا کہ جائو اب توجوان ہوگئے ہو، اپنی جائداد سنبھالو۔ تب تم محسوس کرو گے کہ تم سے زیادہ کمزور اور کوئی نہیں۔
حضرت علیؓ کے بعد بھی مسلمانوں نے فتوحات حاصل کیں۔ ملک فتح کئے، علمی تمدن اور سیاسی غلبے پائے۔ مگر جو برکت ، جورُعب، جو دبدبہ او رجو شوکت حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ رَضْوَانَ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ کے زمانہ میں تھی وہ تیرہ سُو سال میں پھر حاصل نہیں ہوئی۔اُس وقت تویوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ دنیا کے سر پر پائوں رکھ کر کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کوئی ہے جو ہمارے مقابل پر آئے۔ گویا خداتعالیٰ کے فرشتے اُن کے گِرد کھڑے پہرہ دے رہے تھے۔ حضرت علیؓ کے وقت میں بعض بدبختوں نے اختلاف کیا جس سے ایسا تفرقہ پیداہؤا کہ جو تیرہ سَو سال میں بھی نہیں مٹا۔ اب دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اتحاد کی بنیاد رکھی ہے اور آپ سے خداتعالیٰ نے دوبارہ وعدہ کیا ہے کہ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ۱؎ اور یہ رعب چلتا جائے گا۔ جب تک تم اس فیصلہ کا احترام کرو گے جو ۱۴؍مارچ ۱۹۱۴ء کو اس مسجد میں تم نے کیا تھا۔ لیکن جب اس میں تزلزل آیا اللہ تعالیٰ بھی اپنی نصرت کو کھینچ لے گا جو اُس نے اس مسجد میں تمہارے فیصلہ کے بعد نازل کی تھی۔ جب تک تم اس فیصلہ میں تبدیلی نہ کرو گے چونکہ اللہ تعالیٰ کا قانو ن ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْ ۲؎ وہ بھی نصرت کو واپس نہیں لے گا۔ اُس وقت تک تمام حکومتیں اور تمام طاقتیں تم سے ڈریں گی اور ہر ترقی پر تمہارا قدم ہوگا۔ دنیا کی تمام اقوام تمہارے پیچھے چلنے میں فخر محسوس کریں گی اور تمہارا سر سب سے اونچا ہوگا۔ ابھی تو یہ ایک بیج ہے، ایک کونپل پھوٹی ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک مضبوط درخت بنے گا جس پر دنیا کے بڑے بڑے حاکم آرام کیلئے گھونسلے بنائیں گے۔ لیکن جس دن تم اس فیصلہ کوبُھول جائو گے خدا نہ کرے اُس دن کے تصور سے بھی دل کانپ اُٹھتا ہے جب تم کہو گے کہ خدا نے خلیفہ کیا بنانا ہے ہم خود بنائیں گے۔ تب فرشتے تبر لے کر آئیں گے کہ لو ہم اس درخت کو کاٹتے ہیں جسے خداتعالیٰ نے تمہارے لئے لگایا تھا مگر تم نے اس کی قدر نہ کی۔ اب تم اپنے باغ لگائو اور مزے اُڑائو۔ پچھلوں نے اس غلطی کا تجربہ کیاخدا نہ کرے کہ تم بھی کرو۔ لیکن خدانخواستہ اگر کبھی ایسی غلطی کی گئی تو دنیا دیکھ لے گی کہ تم صدیوں میں ایک درخت بھی نہ لگاسکو گے یہاں تک کہ خداتعالیٰ پھر کوئی مأمور مبعوث کرے۔
(الفضل ۳؍ اپریل ۱۹۳۷ئ)
۱؎ تذکرہ صفحہ۶۶۹۔ ایڈیشن چہارم
۲؎ الرعد: ۱۲

۹
شکر الٰہی اور انسدادِفِتن کیلئے روزے رکھے جائیں
(فرمودہ ۲ ؍ اپریل ۱۹۳۷ء )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں پائوں کے درد کی و جہ سے آج جمعہ میں آتو نہیں سکتا تھا لیکن چونکہ اس دفعہ روزوں کے متعلق اور ششماہی جلسوں کے متعلق جن میں تحریک جدید کے بارہ میں احباب کو یاددہانیاں کرائی جاتی ہیں اور ان کو ان کے فرائض کی طرف جو انہوں نے خوشی سے اپنے نفس پر عائد کئے ہوئے ہیں توجہ دلائی جاتی ہے، ابھی تک میں تحریک نہیں کرسکا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ مختصر الفاظ میں ان امور کے متعلق اعلان کردوں تا کہ دیر ہوجانے کی وجہ سے بات اور زیادہ دُور نہ جا پڑے۔
روزوں کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے سالوں میں ہم پیر اور جمعرات کے روزے رکھ چکے ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بعض فتنے اپنے فضل سے دور کردیئے لیکن بعض فتنے ابھی باقی ہیں۔ اس لئے اس سال ہم پر دوہری ذمہ واری عائد ہوتی ہے اور ہمیں کچھ تو شکریہ کے روزے رکھنے چاہئیں اور کچھ بقیہ ابتلائوں کے دور ہونے کیلئے روزے رکھنے چاہئیں۔اس لئے اس سال میری تجویز یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ چالیس یابیالیس دنوں کے اندر ہم سات روزے پورے کریں ہم ایسا طریق اختیار کریں کہ جو رسول کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ وہ بھی ایک رنگ میں پورا ہوجائے اور ہمارے شکریہ کے بھی روزے ہوجائیں اور دعائوں کے بھی روزے ہوجائیں اس لئے اس سال میں نے یہ تجویز کی ہے کہ اپریل سے لے کر اکتوبر تک جو سات مہینے بنتے ہیںان میں ہم ہر مہینہ کے پہلے ہفتہ میں پیر کا اور ہر مہینہ کے آخری ہفتہ میں جمعرات کا روزہ رکھیں۔ اس طرح چودہ روزے ہوجائیں گے اور گو ہر ہفتہ کے پیر اور جمعرات کا روزہ نہیں ہوگا مگر ہر مہینہ میں ایک پیر اور ایک جمعرات کا روزہ ہوجائے گا اور ہماری دعائیں سات مہینوں میں پھیل جائیں گی۔ ان چودہ روزوں میں سے سات روزے تو شکریہ کے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بعض فتنے دور کردیئے اور سات روزے اُن ابتلائوں کیلئے ہوں گے جو ابھی قائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو دور کرے اور ان کے بداثرات سے ہماری جماعت کو محفوظ رکھے۔
وہ لوگ جن کی آنکھیں ہیں، جو واقعات کو دیکھ سکتے ہیں اور جن کی روحانی بینائی ماری ہوئی نہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمارے گزشتہ سالوں کے روزے دنیا میں عظیم الشان تغیرات پید اکرنے والے ہوئے ہیں۔ اگر دنیا کی ۱۹۳۳ء اور ۱۹۳۴ء کی تاریخ انسان اپنے سامنے رکھے اور پھر ۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۶ء کی تاریخ پر بھی نگاہ ڈالے تو وہ حیران ہوجائے گاکہ ان سالوں کی تاریخ میں کتنا عظیم الشان تغیر پیدا ہؤا ہے۔ ان دو سالوں میں اللہ تعالیٰ نے یکدم ایسے تغیرات پیدا کئے اور دشمنانِ احمدیت پر ایسی تباہی ڈالی اور احمدیت کی ترقی کے ایسے سامان کئے اور ہمارے مذہبی اور سیاسی دشمنوں کو مغلوب کرنے کیلئے ایسے فوق العادت نشانات دکھلائے جو بالکل غیرمعمولی اور حیرت ناک نظر آتے ہیں۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ابھی ہمارے لئے فتنوں کا سلسلہ ختم نہیں ہؤا۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائوں کے نتیجہ میں احرار کے فتنہ کا سر کچل دیا اور سیاسی لحاظ سے وہ مردہ ہوگئے مگر مذہبی لحاظ سے وہ ابھی ڈینگیں مار رہے ہیں اور ان کے وہ زہریلے دانت جو ان کے فاسد عقائد کے سر میں پائے جاتے ہیں گو کند تو ہوگئے ہیں مگر ٹوٹے نہیں ۔ اسی وجہ سے ان کے کسی ایجنٹ نے بعض اخبارات میں اب یہ اعلان کرایا ہے کہ آئندہ احرار سیاسی کاموں سے اجتناب کریں گے اور خالص مذہبی کاموں تک اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھیں گے۔ غالباً اس کی وجہ یہی ہے کہ سیاسیات کے متعلق اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایسی زک حاصل کرچکے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اب اس میدان میں ان کیلئے کامیابی کا میسر آنا بالکل محال ہے۔ پس انہوں نے اپنی عقلوں سے کام لیتے ہوئے سمجھا ہے کہ دو جنگیں انہیںایک وقت میں نہیں لڑنی چاہئیں۔ کیونکہ جب وہ سیاسی میدان میں کودتے ہیں اور ساتھ ہی مذہبی میدان میں بھی تو سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کے لوگ ان کے مخالف ہوجاتے ہیںاس لئے اب انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن سے مذہبی مخالفت ہو اُنہی کے خلاف شور بپا کیا جائے تاکہ سیاسی لوگوں کی امداد اور ان کی تائید میسر رہے اور ساتھ ہی مذہب سے دلچسپی رکھنے والوں کا ایک حصہ بھی ان کی تائید میں کھڑا رہے۔ بیشک دنیوی نقطہ نگاہ سے یہ بات ٹھیک ہے مگر روحانی نقطۂ نگاہ سے یہ تجویز اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی معرفت ان کی قوم کو کہلوایا تھا کہ جائو اور اپنے ساتھیوں کو جمع کرو۔ یہاں بھی وہ اپنے ساتھیوں کو ہمارے خلاف جمع کرنے لگے ہیں ۔ کیونکہ جب وہ سیاسی اختلافات کو ترک کردیں گے اور خالص مذہبی اختلاف کا سوال رہ جائے گا تو سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کے لوگ ان کی تائید میں کھڑے ہوجائیں گے۔ پس اگر وہ سیاسی نقطہ نگاہ سے یہ طریق اختیار کریں اور اس پروگرام پر عمل کریں جس کا اخبارات میں ذکر آیا ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیوی نقطہ نظر سے اُن کی پارٹی مضبوط ہوجائے گی ۔ کیونکہ پہلے وہ اپنی طاقت کا کچھ حصہ سیاست میں خرچ کرتے تھے اور کچھ مذہبی معاملات میں۔ لیکن اب ایک ہی طرف اپنی تمام طاقتوں کارُحجان رکھیں گے۔ گویا اَجْمِعُوْا اَمْرَکُمْ ۱؎ بھی ہوجائے گا۔ اب صرف ایک تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے جو میں اُنہیں یاد دلادیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے ذریعہ اُن کی قوم کو یہ بھی توجہ دلائی تھی کہ نہ صرف تم اپنے سارے شرکاء کو جمع کرو اورنہ صرف ایک خاص پالیسی اپنے لئے تجویز کرلو بلکہ تمہارے سامنے ایک تفصیلی پروگرام بھی ہونا چاہئے تا مقابلہ کا کوئی طریق باقی نہ رہ جائے۔ سو اگر یہ تیسری بات احرار کو یاد نہ ہو تو میں انہیں یاد دلاتا ہوں کہ قرآن کریم نے دُنیوی امور میں کامیابی حاصل کرنے کا تیسرا طریق یہ بتایا ہے کہ نہ صرف تمہارے سامنے ایک پالیسی ہو بلکہ ایک مفصّل پروگرام بھی ہونا چاہئے۔ جس پرکُلّی طور پر نظر ڈال کراور عواقب اور انجام سوچ کر دیکھ لو کہ اگر دشمن نے یُوں کیا تو ہم یُوں کریں گے۔ اور اگر ہماری تدابیر کواُس نے اس طرح باطل کیا توہم اس طرح کام کریں گے۔ گویا ضرر اور نقصان پہنچانے کے جس قدر طریق ممکن ہیں وہ سب سوچ رکھیں اور پھر چوتھی بات یہ بھی ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کے ذریعہ خداتعالیٰ نے کہلوائی کہ اچانک حملہ کردو اور ہمیں ذرہ بھر بھی ڈھیل نہ دوپھر دیکھو کہ کون کامیاب ہوتا ہے۔ میں بھی احرار سے وہی کہتا ہوں جو حضرت نوحؑ نے اپنی قوم سے کہا۔ مگر وہ یاد رکھیں وہ افراد کو نقصان پہنچاسکتے ہیں لیکن اس سلسلہ کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ ان کے تمام اتحاد ، ان کی تمام پالیسیاں اور ان کے تمام پروگرام ھَبَائً مَنْثُوْرًا ۲؎ ہوکر رہ جائیں گے اور انہیں اپنے مقصد میں ذرہ بھر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔
ممکن ہے وہ اس کے مقابلہ میں ایک دوسری پالیسی اختیار کریں جس کا گو ابھی ان کی پارٹی کی طرف سے اعلان نہیں ہؤا مگر مجھے اس کے آثار نظر آرہے ہیں۔ یعنی یہ کہ وہ فی الحال مذہبی جھگڑے چھوڑ دیں اور کانگرس کے ساتھ اتحاد کرلیں۔ ہماری کانگرس سے کوئی لڑائی نہیں۔ ملک کی آزادی کے متعلق اس کے جو مقاصد ہیں اس سے ہم پوری طرح متفق ہیں۔ گو اِن کے طریق کار اورہمارے طریق کار میں اختلاف ہے اور ہم کانگرس میں کام کرنے والوں کے ایثار اور ان کی قربانیوں کے بھی قائل ہیں۔ مگر وہ ہمیں معاف رکھیں، مذہبی معاملہ میں کسی کی رعایت نہیںکی جاسکتی۔ اگر احرار اس تدبیر کو بھی اختیار کریں اور وہ چاہیں کہ کانگرس سے مل کر جماعت احمدیہ کو کچل دیں تو گو یہ منظم پالیسی ہوگی لیکن جس طرح احرار کا حکومت سے اتحاد کامیاب نہیں ہؤا کانگرس سے ان کا اتحاد بھی کامیاب نہیں ہوگا اور یا تو یہ اتحاد ٹوٹ جائے گا اور کانگرس اِن کی خودغرضیوں پر آگاہ ہوکر اِن سے الگ ہوجائے گی یا پھر دونوں ہی تباہ ہوجائیں گے۔ اور میں سمجھتا ہوںاحرار جیسی بے اصول جماعت کسی جماعت سے اتحاد نہیں رکھ سکتی۔ میرا غالب گمان یہی ہے کہ جس طرح گورنمنٹ پر احرار کی حقیقت کھل گئی ہے اسی طرح کانگرس پر بھی یہ حقیقت کھل جائے گی کہ احرار ایک زرطلب جماعت ہے جس کا کوئی اصول نہیں، اس کے ارکان اپنی ذاتی ترقی اور جاہ کے بھوکے ہیںاس کے علاوہ ان کے سامنے کوئی مقصد نہیں ۔جس دن کانگرس پر یہ حقیقت ظاہر ہوگئی اُس دن وہ کانگرس کی امداد سے بھی محروم ہوجائیں گے جس طرح ان حکام کی امداد سے یہ محروم ہوچکے ہیں جو پہلے ان کی پیٹھ ٹھونکتے اور انہیں بڑی بڑی امیدیں دلاتے تھے۔ مگر یہ سب کچھ خدائی ہاتھوں سے ہوگا نہ کہ انسانی ہاتھوں سے۔ کیونکہ ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ایک کا دوسے مقابلہ ہوسکتا ہے، تین سے مقابلہ ہوسکتا ہے،د س بیس سے مقابلہ ہوسکتا ہے لیکن چند لاکھ کا کروڑوں سے کس طرح مقابلہ ہوسکتا ہے۔
پس ضروری ہے کہ جس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے ان عظیم الشان فضلوں کا شکر ادا کریں جو اس نے ہماری سابقہ دعائوں کو قبول کرکے نازل فرمائے وہاں ہم عاجزانہ اور منکسرانہ طور پر پھر اس سے دعا کریں کہ اے خدا! تیرے فضلوں نے ہمارے بہت سے مصائب کو ٹال دیا ہے لیکن بہت سے مصائب ابھی باقی ہیں،حکومت کی طرف سے بھی اور افراد کی طرف سے بھی، منظم پارٹیوں کی طرف سے بھی اور متفرق لوگوں کی طرف سے بھی۔ پس تُو آپ ہی ہم پر فضل فرما اورہماری عاجزانہ التجائوں کو سُن۔ ہمیں اپنے پاس سے وہ طاقت بخش جس سے ہم اسلام اور احمدیت کو تمام دنیا پر غالب کرسکیں اور ہمیں اس کی اشاعت کی توفیق دے۔ ہماری زبانوں میں اثر اور ہمارے دماغوں میں روشنی پیدا کر تا کہ ہم وہی باتیں کہیں اور سوچیں اور سمجھیں جن سے دنیا میں تیرا جلال ظاہر ہو۔ ہمارے دلوں میں جذب پیدا کر تاکہ ہم تیری محبت اور پیار کو بھی جذب کریں اور تیرے ان بندوں کو بھی تیرے دین کی طرف کھینچیں جو تجھ سے برگشتہ ہوکر دنیامیں بھٹک رہے ہیں۔ اے خدا جس طرح مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے، اسی طرح ہم تیری محبت اور تیرے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوں اور ہم وہ نقطہ مرکزی ہوجائیں جس پر خدا او ربندہ آپس میں مل جاتے ہیں اور ہمارا دل وہ گھر بن جائے جس میں خدا اور انسان کی محبت جاگزیں ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے جو ہم پر سابقہ سالوں میں فضل نازل ہوئے ان کا شکر ادا ہونا گو محال ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ انسان کے معمولی شکر کو بھی قبول فرماتا اور اس کے عوض اپنی اور زیادہ برکات نازل کرتا ہے، اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم سات روزے اس کے احسانات کے شکر میں رکھیں۔ گویا اپریل سے لے کر اکتوبر تک چودہ روزے ہماری جماعت کے احباب کو رکھنے چاہئیں۔
چونکہ میری یہ تحریک باہر دیر سے پہنچ سکے گی اس لئے اُن جماعتوں کیلئے جن تک یہ تحریر دیر سے پہنچے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جس جس ہفتہ میں بھی انہیں اطلاع پہنچے، اُس ہفتہ کے پہلے پیر کے دن وہ پیر کا روزہ رکھ لیں اور دوسرا روزہ مہینہ کے آخری ہفتہ کی جمعرات کے دن رکھیں اور اگر بعض ایسے علاقے ہوں جہاں تحریک اس سے بھی دیر میں پہنچے تو وہ ایک روزہ تو اپریل کے آخری ہفتہ کی جمعرات کو رکھیں اور پھر اگلے مہینہ میں دو پیروں کے روزے رکھ لیں۔ ایک پہلے ہفتہ کے پیر کے دن اور ایک درمیانی ہفتہ کے پیر کے دن اور پھر چوتھا روزہ حسبِ معمول مہینہ کے آخری ہفتہ کی جمعرات کو رکھیں۔ لیکن اگر بعض لوگ ایسے ہوں کہ اُن کے ہاتھ سے اپریل کے آخری ہفتہ کی جمعرات کا روزہ بھی نکل جائے اور بعد میں انہیں اطلاع ہو تو وہ مئی کے مہینہ کے پہلے دو ہفتوں میں ہر پیر کے دن اور آخری دو ہفتوں میں ہر جمعرات کے دن روزہ رکھ لیں ۔اور اگر کوئی جماعت ایسی ہوکہ جسے دوسرے مہینہ میں بھی اطلاع نہ پہنچے تو وہ ان روزوں کو تیسرے مہینہ میں ڈال لے۔ بہرحال اکتوبر ہمارے روزوں کا آخری مہینہ ہوگا اور اس مہینہ تک ہمیں اپنے چودہ روزے ختم کردینے چاہئیں۔ اس کوشش کے ساتھ کہ سات روزے ہم پیر کے دن رکھیں اور سات جمعرات کے دن۔ اس کے بعدمیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ مئی کے دوسرے ہفتہ میں جو اتوار ۹ تاریخ کو ہے ۔ اُس دن تمام جماعتیں اپنے اپنے مقام پر تحریک جدید کے متعلق جلسے منعقد کریں اور کوشش کریں کہ ان جلسوں سے پہلے پہلے تحریک جدید کے چندوں کا معتدبہ حصہ ہندوستان کی جماعتوں کی طرف سے ادا ہوجائے۔
مجھے افسوس ہے کہ اس سال تحریک جدید کا چندہ جمع کرنے میں بہت سُستی دکھائی گئی ہے۔ گو پچھلے سال سے اس سال اس وقت تک دو تین ہزار کی زیادتی ہے ۔ چنانچہ پچھلے سال اس وقت تک غالباً ۳۱ ہزار روپیہ آیا تھا اور اس سال ۳۴ہزار آچکا ہے۔ مگر دراصل حساب کی روسے چالیس ہزار سے اوپر آجانا چاہئے تھا۔ بلکہ اس لئے کہ میں نے خاص طور پر یہ تحریک کی تھی کہ اس سال تحریک جدید کے چندے کے مصرف ایسے ہیں کہ پہلی ششماہی پر اس کا زیادہ اثر پڑے گا اور اکثر جماعتوں اور افراد نے یہ اقرار بھی کیا تھا کہ وہ اپریل، مئی تک اپنے اپنے وعدوں کی رقوم ادا کردیں گے اس لئے دراصل موعودہ رقوم کے لحاظ سے اس وقت تک ساٹھ ہزار روپیہ آجانا چاہئے تھا۔
میں جیسا کہ پہلے بھی بیان کرچکا ہوں بیرونی تبلیغ اور وقتی تبلیغ کے اخراجات کے سلسلہ میں جو کمی صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ میں ہوتی ہے ، کیونکہ عملہ کے کثیر خرچ کی وجہ سے سائر کے لئے نسبتاً کم رقم بچتی ہے۔ اس کمی کو میں مستقل جائدادوں کے ذریعہ پورا کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ تحریک جدید کی بہت سی جائدادیں میں نے صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خرید کی ہیں۔ ان جائدادوں کی قیمتوں کے لئے بھی ہمیں بہت بڑی رقوم کی ضرورت ہوگی۔ پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جنہوں نے اس تحریک میں کسی رقم کی ادائیگی کا وعدہ کیا ہے وہ اپنے وعدوں کو خصوصیت سے جلد پورا کریں۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ صدر انجمن احمدیہ کے مستقل چندوں میں سُستی کرکے اس طرف توجہ کی جائے۔ وہ چندے واجب ہیں اور تحریک جدید کا چندہ نفلی ہے اور گو نفل کے پورا کرنے کے متعلق بھی انسان پر بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے اور خداتعالیٰ کہتا ہے کہ جو بوجھ تم نے اپنی مرضی اورخوشی سے اپنے نفس کیلئے برداشت کیا تھا اُس کو کیوں نہیں اُٹھایا۔ لیکن بہرحال اس چندے کی وجہ سے صدرانجمن احمدیہ کے چندوں میں سُستی نہیں ہونی چاہئے۔ ان جلسوں میں جو تحریک جدید کے متعلق منعقد کئے جائیں گے، تحریک جدید کے تمام شعبوں اور اس کے تمام مطالبات پر تقریریں کی جائیں اور دوستوں میں ہوشیاری اور بیداری پیدا کی جائے۔ انہیں سادہ زندگی کے متعلق بھی توجہ دلائی جائے۔شادی بیاہ کے اخراجات میں کفایت کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔ امانت فنڈ کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔ قادیان میں مکانات بنانے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔شادی بیاہ کے اخراجات میں کفایت کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔
بیکاری سے بچنے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔ ہر چھوٹا بڑا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔ وقف زندگی کی تحریک کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔ غیرممالک میں نکل جانے کی تحریک کی اہمیت بھی ان پر واضح کی جائے اور دعائوں سے کام لینے کی بھی تاکید کی جائے۔ غرض تحریک جدید کے جس قدر حصے ہیں اُن سب کی طرف جماعت کے احباب کو توجہ دلائی جائے اور چاہئے کہ وہ دوست جو اخلاص رکھتے ہیں آج ہی سے تحریک جدید کے متعلق میرے گزشتہ تمام خطبات نکال کر اپنے سامنے رکھ لیں اور ان کا خلاصہ اپنے الفاظ میں انفرادی اور اجتماعی طور پر دوستوں تک پہنچاناشروع کردیں اور ابھی سے تحریک جاری کردیں یہاں تک کہ جب جلسوں کا دن آئے تواُس دن تک جماعت کے خفتہ اصحاب بھی بیدار ہوچکے ہوں اور وہ تحریک جدید کے مطالبات میں عملی سرگرمی سے حصہ لینے کیلئے تیار ہوں۔
پھر اس سال چونکہ تحریک جدید کا تیسرا سال ختم ہورہا ہے اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ وہ ہماری ان تین سالہ قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اپنے فضل سے مزید قربانیوں کی توفیق دے۔
میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ عقائد کا اکثر حصہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے اپنے اشد معاندین سے بھی تسلیم کرالیا ہے اور دشمن بھی رفتہ رفتہ وہی عقائد اختیار کررہے ہیں جو ہمارے ہیں۔ لیکن عملی حصہ ہمارا کمزور ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی مانگنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اعمال کے لحاظ سے بھی دنیا کیلئے نمونہ ہوں اور ہم ساری دنیا پر ثابت کرسکیں کہ تمام مذاہب میں سے اسلام کی تعلیم ہی قابلِ عمل ہے۔ وہ ایک مضبوط چٹان ہے جسے کوئی ہلا نہیں سکتا۔ وہ ایک برسنے اور دنیا پر چھاجانے والا بادل ہے جس کی زد سے دنیا کی کوئی زمین نہیں بچ سکتی اور وہ سورج ہے جس کی شعاعیں ساری دنیا میں پھیل جاتی اور سوائے ان گھروں کے جن کے رہنے والوں نے اپنے ہاتھوں سے اُس کی کھڑکیاں اور دروازے بند کررکھے ہوں سب کو روشن کردیتی ہیں۔ حتیّٰ کہ باریک سوراخ بھی ہو تو وہاں اس کی روشنی پہنچ جاتی ہے۔ لیکن یہ تبھی ہوسکتا ہے جب ہم اپنے عملی نمونہ سے اسلامی تعلیم کی برتری ثابت کریں، خالی تقریریں کوئی اثر نہیں کرتیں۔
ایک انسان اگر تقریریں اسلامی تعلیم کی فضیلت پر کرتا ہے لیکن وہ یااُس کا ہمسایہ مغربی اثرات اور مغربی رَو میں بہا چلا جاتا ہے تو اس کی تقریروں کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا اور اُس کی کوششیں سب بیکار ہوجائیں گی۔ کوشش وہی کامیاب ہوتی ہے جو عملی رنگ میں کی جائے۔ کیونکہ اس کا دوسرے کے دل پر گہرا اثر ہوتا ہے اور دشمن بھی اسلامی تعلیم کی عظمت کا اظہار کرنے پر مجبورہوجاتا ہے۔ پس دعا ئوں میں اپنی توجہ اس طرف بھی مبذول کرو اور یاد رکھو کوئی دین کا قدم ایسا نہیں ہوسکتا جو تین سال کے بعد ہٹالیا جائے۔ یہ پہلا قدم ہے جو اُٹھایا گیا اور یہ پہلا زینہ ہے جس پر پائوں رکھا گیا اور اس کے بعد اور قدم اور زینے ہیں۔ پس کوئی دینی تحریک ایسی نہیںہوسکتی جو تین سال کے بعد ختم ہوجائے۔ ہاں اس کی شکلیں بدل جاتی ہیں۔ کبھی اُن حصوں پر زیادہ زور دیا جاتاہے جن پر پہلے کم دیاجاتا تھا اور کبھی ان حصوں پر کم زور دیا جاتا ہے جن پر پہلے زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ پھر کبھی اور انواع پر زور دیا جاتا ہے اور کبھی اور انواع پر۔ بہرحال دین کی ترقی کیلئے مومن کی کوشش اُس کی موت تک ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ دین کی ترقی کیلئے کوشش کسی قوم کی موت تک بھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ گو قوم مرجائے گی جس نے دین اور اصلاحِ عالم کیلئے جدوجہد چھوڑدی۔ لیکن اُس کی قبر پر خداتعالیٰ ایک اور قوم کا درخت اُگادے گا جو نئے سرے سے اور نئے جوش سے اس کام میں لگ جائے گی۔ یہی اُس کی قدیم سے سنت ہے اور یہی سنت دنیا کے آخر تک رہے گی۔
(الفضل ۹؍ اپریل ۱۹۳۷ئ)
۱؎ یونس : ۷۲ ۲؎ الفرقان: ۲۴

۱۰
رشتوں ناطوں کی مشکلات کا حل
(فرمودہ ۹ ؍ اپریل ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
مَیں پچھلے جمعہ کا خطبہ پڑھنے کی وجہ سے جاتے ہی پھر بیمار ہوگیا تھا جس کی وجہ سے آج تک باہر نہیں آسکا۔ آج بھی اِسی وجہ سے میں نے پائوں میں جونکیں لگوائی تھیں اور خطرہ ہے کہ اگر زیادہ کھڑا ہؤا تو ان کے زخموں سے پھر خون جاری ہوجائے گا۔ لیکن میں نے خیال کیا کہ اِن دنوں پانچوں نمازوں میں تو میں آ نہیں سکتا اس لئے کم سے کم جمعہ میں تو شریک ہونا چاہئے۔ پس اِس وقت میں کوئی لمبا خطبہ تو نہیں دے سکتا صرف اختصار کے ساتھ ایک تو یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے جلسوں کیلئے میں نے جو ۹؍مئی ۱۹۳۷ء کی تاریخ مقرر کی تھی اب اسے بدلنا چاہتا ہوںکیونکہ اِس تاریخ کی بیرونی جماعتوں کو وقت پر اطلاع نہیں ہوسکتی اور وہ اچھی طرح جلسہ کی تیاری نہیں کرسکتیں۔ نیز مَیں خود بھی چند دن سفر پر جانے والا ہوں اور شاید میں بھی اِس تاریخ تک واپس قادیان نہ پہنچ سکوں۔ اس لئے اب میں ۳۰؍مئی تحریک جدید کے جلسوں کی تاریخ مقرر کرتا ہوں۔ اس دن اتوار ہوگا اورچُھٹّی کی وجہ سے سب دوست جلسوں میں حصہ لے سکیں گے۔
میں اُمید کرتاہوں کہ اُس وقت تک تمام جماعتوں کو اطلاع ہوجائے گی اوراِتنا وقت بھی مل جائے گا کہ وہ جلسوں کی تیاری کرسکیں۔ دفتر تحریک جدید کو چاہئے کہ جس وقت میرا یہ خطبہ اخبار میں چھپے فوراً ایک ایک پرچہ تمام بیرونی جماعتوں کو بذریعہ ہؤائی ڈاک ارسال کردے تااُن کو بھی کافی وقت جلسہ کی تیاری کیلئے مل جائے۔
اس کے بعدمیں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت میں رشتوں ناطوں کے متعلق بہت سی دقتیں پیش آرہی ہیں۔ یہ مضمون بہت لمبا ہے اور میں سمجھتا ہوں اِس وقت میں اس کے متعلق کما حقّہٗ بول نہیں سکتا۔ لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ مشکلات اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ مجھے اس کے متعلق اجمالاً کچھ نہ کچھ باتیں ضرور کہہ دینی چاہئیں۔ تفصیلات اِنْشَائَ اللّٰہِ الْعَزِیْز اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو کسی آئندہ خطبہ میں بیان کردوں گا۔ اس مسئلہ پر جہاں تک میں نے غور کیا ہے ہمارے لئے اس میں چند ایک مشکلات ہیں۔ اوّل یہ کہ دوسرے مسلمانوں میں عام طور پر پرانے خاندانوں کی کثرت ہے۔ ان میں باہم بیسیوں رشتے ہوتے ہیں اور وہ ان کی وجہ سے ایک دوسرے کیلئے قربانی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ان حالات میں بعض اوقات رشتہ داریاں ایسے غریب لوگوں سے بھی ہوجاتی ہیں جن سے عام حالات میں نہیں ہوسکتیں۔ بعض جگہ بعض امراء اور نواب دیکھے گئے ہیں جنہوں نے بعض غریب لوگوں کو لڑکیاں دے رکھی ہیں محض اس لئے کہ ان کے ساتھ پرانی رشتہ داریاں تھیں اور اس وجہ سے وہ ان کو ممنون کرنا چاہتے تھے۔ یہ صورت بھی رشتہ داری کی مشکلات کو حل کرنے والی ہے اس لئے کہ امراء کو جب کوئی رشتہ اپنے سے بڑا یا اپنا ہم مرتبہ نہ ملے تو وہ غریب کو بھی لڑکی دے دیتے ہیں۔ مگر ہماری جماعت میں یہ دقت ہے کہ کسی خاندان کا ایک فرد احمدی ہوگیا، کسی کے دو اور کسی کے چار۔ نئے خاندان جن سے ان کا جوڑ ہوسکتا ہے یعنی احمدی ان کے ساتھ ایک دوسرے کا خونی تعلق کوئی نہیں ہوتا۔ پچھلے حالات میں اپنے خاندان کے اندر تو وہ کسی غریب کو بھی رشتہ دینے کیلئے تیار ہوسکتے تھے مگر یہاں آکر وہ ضرور اپنے سے بالا رشتہ ہی تلاش کرتے ہیں۔ وہ رشتہ داریوں کا تعلق یا آپس کا دبائو جن کی وجہ سے لڑکیوں کے حقوق محفوظ سمجھتے جاتے ہیں یہاں نہیں۔ اس لئے یہاں ایسی باتوں کا خیال کیا جاتا ہے جن کا عام طور پر خاندانی رشتوں کے وقت نہیں کیا جاتا۔
دوسری دقت یہ ہے کہ مختلف خاندانوں کے افراد جماعت میں داخل ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں ہزارہا قبائل اور بیسیوں اقوام ہیں اور اگر ساری دنیا کی اقوام کو لے لیا جائے تو وہ سینکڑوں ہزاروں ہوں گی۔ پس یہ جو ہزاروں قبائل اور سینکڑوں اقوام اس ملک میں آباد ہیں، ان سب میں سے تھوڑے تھوڑے لوگ جماعت میںداخل ہیں اور وہ بھی تمام ہندوستان میں پھیلے ہوئے ۔ اس وجہ سے ان میں باہم جوڑ ہونا مشکل ہوتا ہے اور ابھی تک ہماری جماعت اس مقام پر نہیں پہنچی کہ قومیت کی پابندیوں سے آزادی حاصل کرسکے۔ جب بھی رشتہ کا سوال پید اہوتا ہے یہی کہا جاتا ہے کہ ہم فیصلہ کرچکے ہیں کہ سیّدوں میں ہی رشتہ کریں گے یا ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم رشتہ جاٹوں میں کریں گے یا ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ ہم رشتہ راجپوتوں میں کریں گے یا قریشیوں میں کریں گے یا پٹھانوں میں کریں گے اور بہت ہی کم لوگ اس پابندی کو توڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ میں نے خود اپنی قوم کو چھوڑ دیاکیونکہ اول تو مغل جماعت احمدیہ میں بہت ہی کم داخل ہیں ۔ دوسرے ہمارا خاندان جو احمدیت میں قدرتاً ایک نمایاں حصہ رکھتا ہے۔ ہماری وہ لڑکیاں جو غیررشتہ داروں سے بیاہی گئی ہیں وہ سب غیرمغلوں سے ہی بیاہی گئی ہیں اس لئے ہم پر یہ اعتراض نہیں پڑتا۔ غرض اب تک ہماری جماعت کے اکثر افراد اسی مرض میں مبتلا ہیں کہ اپنی قوم میں ہی رشتہ ہو۔ اور یا پھر کسی ایسی قوم میں ہو جو ان کے خیال میں ان کی قوم کی ہم رُتبہ ہو۔ مگر چونکہ احمدیت میں قومیں ٹکڑے ٹکڑے ہوکر آئی ہیں، اس لئے مشکلات پیش آتی ہیں۔ فرض کرو لدھیانہ کا ایک پٹھان سلسلہ میں داخل ہؤا ہے، ایک پٹھان گجرات کا اور پانچ سات پشاور کے احمدی ہوگئے ہیں۔ اب فرض کرو پشاور کے دوست تو باہم رشتہ داریاں قائم کرلیتے ہیں۔ گجرات والا پٹھان کہتا ہے کہ چلو جب احمدی ہوگئے تو قومیت کی پابندی کیسی۔ اگر اپنی قوم میں رشتہ نہیں ملتا تو نہ سہی کسی اور قوم میں کرلیتے ہیں۔ اب لدھیانہ والا اکیلارہ گیا اگر وہ اپنی ضد پر قائم رہے گا تو یقینا مشکلات میں پھنسے گا۔
تیسری دقّت میں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ ہماری جماعت میںاُمنگ بڑھانے کی جو تحریک کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ تم دنیا کے راہنما ہو، مصلح ہو، ہادی ہو، معلم ہو، دنیا کی تمام بادشاہتیں تمہارے قبضہ میں آئیں گی ، اس سے جو تو دیندار ہوتے ہیں اور روحانیت بھی ان میں غالب ہوتی ہے وہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ ہمیں قربانیاں زیادہ کرنی چاہئیں۔ لیکن جن لوگوں کو روحانیت کا اعلیٰ مقام حاصل نہیں ہوتا وہ ان باتوں کو سن کر کبر کی روح لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جب ہم اتنے بڑے ہیں تو اور بڑے لوگوں کے ساتھ رشتہ داریاں کرکے ہمیں اپنے آپ کو اور بھی بڑا بنانا چاہئے۔ چنانچہ اگر اپنی سَوروپیہ تنخواہ ہو تو لڑکی کیلئے ایسے خاوند کی خواہش کرتے ہیں جو ۳،۴ سو لینے والا ہو اور اگر خود ۳،۴ سو لے رہے ہوں تو پھر کم سے کم ایک ہزار والے کی جستجو کرتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو تو مخلص ہے وہ جب کوئی بڑا رشتہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا تو اُس کی آنکھیںکُھلتی ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ چلو جو رشتہ بھی ملتا ہے اسے غنیمت سمجھنا چاہئے اور آخر اسے وہی کرنا پڑتا ہے جو ایک میراثی نے کیا تھا۔
کہتے ہیں کسی میراثی نے خواب میں دیکھا کہ اسے کسی نے گائے انعام کے طور پر دی ہے۔ اسے لے کر جب وہ گھر کو چلنے لگا تو راستہ میںاُسے ایک شخص ملا جس نے اُسے کہا کہ یہ گائے میرے پاس فروخت کردو۔ میراثی نے کہا اچھا لائو تیس روپے۔ اُس نے کہا تم نے تو مُفت ہی لی ہے۔ تیس روپے کیسے چار آنے لے لو۔ میراثی نے کہا نہیں چار آنے تو نہیں البتہ ۲۵ روپے لے لوں گا۔ ادھر وہ چھ آنے تک بڑھا۔ حتیّٰ کہ ہوتے ہوتے میراثی پانچ روپے پر پہنچا اور دوسرا دو روپے تک بڑھا۔ اتنے میں میراثی کی آنکھ کھل گئی تو وہاں نہ گائے تھی نہ کوئی خریدار اور نہ روپیہ۔ اس پر میراثی نے جھٹ آنکھیں بند کرلیں اور ہاتھ بڑھا کر کہنے لگا اچھا ججمان لائو دو روپے ہی دے دو۔ تو جو مخلص ہوتے ہیں وہ جب دیکھتے ہیں کہ ان کے اس رویہ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یا لڑکی بیٹھی رہے گی یا پھر ہمیں دین چھوڑناپڑے گا تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس طریق کو اختیار کرنے میں ہم نے غلطی کی اور وہ جھٹ جیسا رشتہ ملے اُس پر راضی ہوجاتے ہیں۔ لیکن جو دنیا دار ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں جماعت میں نہیں ملتا نہ سہی باہر کرلیں گے اور شیطان باہر سے رشتہ اُنہیں دلا بھی دیتا ہے۔
چوتھی دقّت یہ ہے کہ ہماری جماعت میں تعلیم پر چونکہ زیادہ زور دیا جاتا ہے اس لئے دوستوں کو لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی طرف بھی زیادہ توجہ ہے۔ خصوصاً قادیان میں تو لڑکیوں کی تعلیم پر بہت ہی زور دیا جارہا ہے اور ایک طبقہ تو اِس میں اِس قدر منہمک ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ وہ ایک وقت ایسا منہ کے بل گِرے گا کہ اس کے لئے چوٹوں کی برداشت مشکل ہوجائے گی۔ تعلیم لڑکیوں کو ایسے رنگ میں دلائی جاتی ہے کہ انہیں نوکری مل جائے۔ لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ جو لڑکی ملازم ہوگی وہ بیوی بھی بن سکتی ہے یا نہیں؟ جو لڑکی پشاور میں ملازم ہو اور لڑکا لکھنؤ میں اُن کے میاں بیوی والے تعلقات کیسے ہوں گے، ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ میرے نزدیک تو ایسی شادی محض ایک دکھاوا ہے۔ ایسی شادی کی ضرورت ہی کوئی نہیں۔ بہت ہی احمق ہوں گے جو اِن حالات میں شادی کریں گے۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری شریعت بغیر شادی کے رہنے کی اجازت ہی نہیں دیتی اور ایسی شادیاں صرف دکھاوے کی شادیاںہوتی ہیں اور شرعاً ایسے لوگ مجرم ہیں۔ پھر لڑکیوں کو جوں جوں تعلیم ملتی ہے ان کیلئے خاوندوں کا معیار بھی بڑھتا جاتا ہے۔ جب انٹرنس پاس ہو تو سَو ڈیڑھ سَو روپیہ تنخواہ کا گریجوایٹ تلاش کیا جاتا ہے۔ اگر ایف۔اے ہو تو اڑھائی تین سَو کا گریجوایٹ اور بی ۔اے پاس کرلینے کے بعد تو سات آٹھ سَو کا ای۔اے۔سی تلاش کیا جاتا ہے اور اگر لڑکی ایم۔اے ہو توولایت کا پاس شُدہ تلاش کیا جاتا ہے اور یہ نہیں خیال کیا جاتا کہ جماعت میں ایسے کتنے لوگ ہیں ۔
کئی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ آپ ہماری طرف توجہ نہیں کرتے۔ ایسے لوگ مجھے بتائیں کہ آخر ہمارے گھروں میں بھی تو لڑکیاں ہیں۔ کیا جماعت کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہم نے اپنے لئے چُن لیا ہے کہ انہیں شکایت پیدا ہوتی ہے۔ ہاں غیرمبائعین کے متعلق یہ شکایت ہو تو ہو۔ انہوں نے تو رشتوں کی خاطر بعض غیراحمدی اور بعض کمزور مبائع تک سمیٹ لئے ہیں۔ اس کے برخلاف ہم نے باوجود اس کے کہ چھوٹی بڑی لڑکیاں ملا کر ہمارے گھر میں چالیس کے قریب لڑکیاں ہیں،ان اعلیٰ تعلیم یافتوں میں سے یا اعلیٰ عہدیداروں میں سے کسی کو بھی اپنے لئے نہیں چُنا اور باقی جماعت کیلئے ان کو چھوڑ دیا ہے۔ اگر ایسے اعلیٰ تنخواہوں والے رشتے ہم نے سنبھال لئے ہوتے تو ہم پر اعتراض ہوسکتا تھا کہ اپنے رسوخ کی وجہ سے یہ رشتے خود سنبھال لئے ہیں اب ہم لوگ کیا کریں۔ لیکن جب معاملہ اس کے برخلاف ہے تو پھر مجھ پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے اور اگر جماعت میں دس بیس کی جگہ سَو دوسَو ولایت کے پاس شُدہ یا اعلیٰ تنخواہوں والے نوجوان نہیں تو اس میںمیرا کیا قصور ہے۔ یہ تو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اللہ تعالیٰ پر اعتراض پڑتاہے کہ اس نے آپ لوگوں کے مناسبِِ حال رشتے مہیا نہیں کئے۔ میرے بس میں نہ تو یہ ہے کہ ولایت بھجوا بھجوا کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان پید اکروں اورنہ میرے اختیارمیں یہ ہے کہ جب کسی کی جوان لڑکی اتنی تعلیم حاصل کرجائے کہ اُس کیلئے ولایت پاس رشتہ ہی موزوں ہو تو میں لاہور، امرتسر یا کسی اور بڑے شہرمیںجائوں اور وہاں کے ولایت پاس ُہندوئوں ، سکھوں یا غیراحمدی مسلمانوں پر ہاتھ پھیروں اور کہوں کہ ہوجائو احمدی اور وہ احمدی ہوجائیں۔ اگر میں ایسا کرسکتا تو پھر بھی میرا قصور ہوسکتا تھا لیکن جب ایسا نہیں توپھر مجھ سے کیا شکایت ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کئی وجوہ سے جماعت میں رشتوں ناطوں کی دقتّیںپیدا ہورہی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے متعلق تفصیلی ہدایات بلکہ راہنمائی کی ضرورت ہے۔ مگر اس وقت میں تفصیلات کے بیان کرنے کی طاقت اپنے آپ میں نہیں پاتا اِس لئے مختصراً جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان باتوں پر غور کرے اور سوچے کہ کیا دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی یہی راہ ہے کہ اگر تو کوئی بڑا اعلیٰ رشتہ مل جائے تو احمدیوں میں کرلیا جائے لیکن اگر نہ ملے تو غیراحمدیوں میں ہی سہی۔ ایسی تعلیم سے بہتر تھا کہ لڑکی کو تعلیم دلائی ہی نہ جاتی، یہ تو بالکل دنیاداری ہے۔ جو شخص ایسی تعلیم کو دین کہتا ہے وہ بالکل جھوٹا ہے۔ اگر وہ دین کو حقیقتاً مقدم کرنے والا ہوتا توخواہ لڑکی چھ سَو روپیہ تنخواہ کی حیثیت ہی رکھتی وہ کہتا کہ تعلیم تو ہم نے اللہ تعالیٰ کے لئے دلائی ہے اگر زیادہ تنخواہ کا رشتہ نہیں ملتا نہ سہی ، کسی تھوڑی تنخواہ والے سے ہی کردیتے ہیں۔ یا اگر سیّد نہیں ملتا تو مغل سے، راجپوت سے، پٹھان سے، جاٹ سے ہی سہی۔ یہ تو بے شک دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے لیکن جب رشتہ نہ ملے تو غیراحمدیوں میں کردینا خالصۃً دنیا داری ہے۔
بعض لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ فلاں عُہدہ دار سے ہمارا رشتہ کیوں نہیں کرادیا گیا۔ مگر یہ نہیں سوچتے کہ دو احمدیوں میں سے ایک کو ہم ترجیح کیوں دیں۔ ہم نوجوانوں کو یہ تو ضرور کہیں گے کہ احمدیوں میں شادی کرو اور مجبور کریں گے کہ غیراحمدیوں میں نہ کرو۔ مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں جگہ کرو اور فلاں جگہ نہ کرو۔ پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ آدمی کیلئے اگر دو رشتے ہوں ایک تعلیم یافتہ اور ایک غیرتعلیم یافتہ تو ہم اسے بھی یہ مشورہ دے سکتے ہیں کہ تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کرلو۔ کیونکہ اُس کیلئے اور جوڑ ملنا مشکل ہوگا اور قوم کی خاطر قربانی کرلو۔لیکن اگر دونوں تعلیم یافتہ ہوں تو پھر اِس خوف سے کہ ایک مُرتد ہوجائے گی ہم اسے اس کے ساتھ رشتہ کرنے پر مجبورنہیں کرسکتے۔ اگر ان میں سے ایک نے مُرتد ہونا ہی ہے تو ہم کیوں اُس کے ارتداد کی ذمہ واری اپنے اوپر لیں۔ یہ خداتعالیٰ کا کام ہے جسے وہ چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہ کردے۔ اگر ہم اسے کہیں کہ الف سے شادی کرے کیونکہ اس کے مُرتد ہونے کا خطرہ ہے اور دراصل اللہ تعالیٰ کے علم میں ب نے مُرتد ہونا ہو تو اس کی ذمہ واری ہم پر ہوگی۔ اس لئے ہم اسے چھوڑ دیں گے کہ الف اور ب میں سے جس کے ساتھ مناسب سمجھے شادی کرے۔ ہاں اگر وہ مشورہ مانگے تو دے دیں گے۔ پھر خدا کی مشیّت میں جس کیلئے ہدایت ہے وہ اس کا انتظام کرادے گا۔ اور اگر الف اور ب دونوں کیلئے ہدایت مقدر ہے تو ایک کو وہ شادی کے ذریعہ ہدایت دے دے گا اور دوسری کو قربانی کراکے۔
پس میں جماعت کو متوجہ کرتا ہوں کہ وہ ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ماحول کو ایسے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرے کہ ایک دن ’’دین کو دنیا پر مقدم کروں گا‘‘ کا عہد اسے توڑنا نہ پڑے۔ میں قادیان والوں کو خصوصیت سے تنبیہہ کرتا ہوں کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ پانچ سات سال کے عرصہ میں ان کیلئے سخت مشکلات پیدا ہوں گی۔ لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ تعلیم حاصل کررہی ہیں اور تعلیم بھی ایسے رنگ میں دلائی جارہی ہے کہ وہ نوکریاں حاصل کرسکیں۔ اس کے نتیجہ میں یا خاندانوں کی بربادی ہوگی اور یا پھر ایسی شادیاں ہوں گی جن کا باہم نباہ نہ ہوسکے گا۔
کل میرے سامنے ایک واقعہ آیا ہے۔ ایک غریب ماں ہے جو محنت کرکے پیٹ پالتی ہے۔ اس کی لڑکی نے میں نے سنا ہے اُس سے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ میرے معاملہ میں تم کوئی دخل نہ دو۔ سوچنا چاہئے کہ یہ باتیں کیوں پید اہورہی ہیں؟ صرف اس لئے کہ غلط تعلیم دی گئی۔ اگران کو قرآن شریف پڑھایا جاتا، حدیث پڑھائی جاتی توکیا یہ کم علم تھا؟ اگر اس علم کی طرف لگایا جائے تو اس میں بھی دس پندرہ سال لگ جاتے ہیں اور گویا وقت کے لحاظ سے ایم۔اے تک کی تعلیم ہوجاتی ہے۔ مگر کیا اس تعلیم کے نتیجہ میں ایسے خیالات پیدا ہوسکتے ہیں؟ پس یہ سب اس غلط تعلیم کانتیجہ ہے جسے یورپ نے پھیلایا ہے اوروہ لوگ اندھے ہیں جو اس کے پیچھے چل رہے ہیں اور پھر اعتراضات مجھ پر کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر تو ہم ان لڑکوں کو جو ولایت سے پاس کرکے آتے ہیں اپنے خاندان کی لڑکیوں کیلئے سنبھال لیتے تو البتہ یہ اعتراض کیا جاسکتا تھا کہ آپ سنبھال لیتے ہیں۔ ایسے لوگ جماعت میں پندرہ بیس سے زیادہ نہیں ہیں۔ اب ان پندرہ بیس میں سے اگر ایک بھی ہم لے لیتے تو پھر بھی کہا جاسکتا تھا۔ لیکن جب ایسا نہیں تومجھ پر الزام کیسا۔ میں پندرہ بیس کو چالیس پچاس تو بنا نہیں سکتا میں تو زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا تھا کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنے خاندان کی کسی لڑکی کیلئے نہ لیتا اور یہ میں نے کردیا۔ اب آگے جو بات خداتعالیٰ کے اختیار کی ہے وہ تومیں کرنے سے رہا۔ دراصل یہ اعتراض بھی مغربیت کے ماتحت ہے۔
مغربیت کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ شور مچاتے رہو کہ ہم مظلوم ہیں۔ یورپ میں امراء کے پاس کروڑوں روپیہ ہے پھر بھی وہ شور مچاتے رہتے ہیں اور حکومت سے لڑتے رہتے ہیں کہ ٹیکس بہت زیادہ ہیں،ہم مرے جارہے ہیں۔ ہندوستان کا زمیندار ایک وقت بھی پیٹ بھر کر روٹی نہیں کھاسکتا لیکن وہاں کامزدور تین سَو روپیہ ماہؤار کمالیتا ہے جو یہاں کے ای۔اے۔سی کی تنخواہ ہے۔ مگر پھر بھی شور مچاتا رہے گا کہ بھوکے مرگئے۔ تومغربیت کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ ہم مرگئے۔ آخر خداتعالیٰ ایک روز کہے گا کہ مرجائو۔ اب تم بھی اُن کی نقل کرتے ہو کہ ہم مرگئے مگر یہ نہیں سوچتے کہ کس کے فعل کی وجہ سے۔ اگر یہ مرنا اپنے ہی فعل سے ہے تو اس کا علاج کرو، توبہ کرو اور اِن باتوں کو دور کرو۔ اگر قومیت کی پابندی کی وجہ سے دقّت ہورہی ہے تو دیکھو جب دوسرے احمدی اسے ترک کرچکے ہیں تو تم بھی کردو۔ اگر تنخواہ کی کمی کی وجہ سے ہے تو دیکھو جب دوسرے احمدیوں نے اس کا خیال نہیں کیا تو تم بھی اسے چھوڑ دو۔ دیکھو میری ایک ہی لڑکی بیاہی گئی ہے اور اُس وقت لڑکا کوئی کام بھی نہ کرتا تھااور اب بھی وہ کام کرنے کی کوشش ہی کررہا ہے آمدن کی صورت نہیں پیدا ہوئی۔ بے شک تم کہہ سکتے ہو کہ وہ آپ کا عزیز ہے لیکن تم بھی اپنے غریب عزیزوں میں شادیاں کرلو اور اگر احمدی عزیز نہ ملیں تو پھر اس قربانی کو وسیع کرکے دوسرے احمدیوں سے جو بھی مل سکیں رشتے کرلو۔ میں نے اگر اپنے ایک ایسے عزیز کو جس کیلئے دُنیوی طور پر کوئی ترقی کا راستہ کُھلا نہ تھا چُنا ہے تو اِس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے ہی اگر دونوں فریق ہوں تو دوہری برکت ملے گی۔ دوسرے لوگ بھی اپنے احمدی عزیزوں میں شادی کریں تواِ س پر کوئی اعتراض نہیں ۔ سوال تو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگ رشتوں کی دقّتوں کو دیکھ کر غیراحمدی عزیزوں کی طرف جُھکتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے بہتر تھا کہ اگر ان کی خواہش کے مطابق رشتہ نہ ملتا تو اپنی خواہشوں کو قربان کرتے نہ کہ دین کو قربان کرتے۔
حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ مجھے تو اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حکم دیں تو چوہڑے سے بھی اپنی لڑکی کا رشتہ کرنے کو تیار ہوں۔ اِس کا مطلب یہی تھا کہ حضور کی تعلیم کے مطابق اگر ایسا کرناپڑے تو عُذر نہ ہوگا فرض کرو ایک وقت ایسا آئے کہ سیّدوں، مغلوں، پٹھانوں وغیرہ قوموں میں کوئی احمدی رشتہ نہ ملے تو اگر ایک چوہڑا احمدی ہی میسر ہو تو اس سے رشتہ کرنے میں کوئی عُذر نہ ہوگاکیونکہ بہرحال اسے دین حاصل ہے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے معنے ہی یہی ہیں کہ اگر کسی کو کوئی بی۔اے پاس رشتہ ملتا ہو تو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا یہ تقاضا نہیں کہ وہ اس کے ساتھ رشتہ نہ کرے۔ لیکن اگر نہ ملے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی آنکھیں نیچی کرے اور خداتعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھنے کو اتنی اہمیت تو دے جتنی میراثی نے دو روپے کو دی تھی۔
اگر خداتعالیٰ سارے ہندو، مسلمانوں ، سکھوں اور عیسائیوںکو احمدی بنادے تو ہماری تو خواہش ہے کہ ایک غریب سے غریب اور کنگال سے کنگال احمدی کی لڑکی بھی کسی گورنر یا وائسرائے کے بیٹے سے بیاہی جائے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ اگر ایسا رشتہ نہ ملے تو کیا یہ بہترہے کہ کسی گورنر کے لڑکے کے ملنے کی امید میں لڑکی کو بٹھا رکھو یا یہ کہ جو رشتہ ملے کردو۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ لڑکی نہیں مانتی تو سوال یہ ہے کہ لڑکی کو اِس نہ ماننے کے مقام پر کس نے کھڑ اکیا ہے؟اگر ہم نے کیا ہے تو بیشک اس کی سزا ہمیں ملنی چاہئے۔ لیکن اگر اس کی ذمہ واری تم پر ہے تو پھر اس سزا کے مستحق تم خود ہو۔
یہ مضمون تو بہت وسیع ہے اور کئی باتیں اس کے متعلق بیان کرنے والی ہیں لیکن اتنا ہی کھڑا ہونے سے مَیں محسوس کرتا ہوں کہ پائوں میں سے خون رِسنے لگا ہے اس لئے اسی پر خطبہ کو ختم کرکے جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ماحول کو بدلے ورنہ اس کیلئے ایک ایسی بَلا تیار ہورہی ہے جس سے بچنا بہت ہی مشکل ہوگا۔
(الفضل ۱۳؍ اپریل ۱۹۳۷ئ)

۱۱
عرشِ الٰہی کو ہِلادینے والی دعائیں
(فرمودہ ۱۶ ؍ اپریل ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں نے گزشتہ جمعہ اور اس سے پہلے جمعہ میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ تحریک جدید کے مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے علاوہ اکتوبر تک ہر مہینہ میں دو دو روزے بھی رکھیں یہاں تک کہ گزشتہ دو سالوں کے برابر ہمارے چودہ روزے ہوجائیں۔ ایک ہر مہینہ کے پہلے پیر کو اور دوسرا ہر مہینہ کی آخری جمعرات کو ۔اور یہ کہ اگر کسی شخص سے اس پیر کا جمعرات کا روزہ رہ جائے تو وہ اسی مہینہ کے کسی دوسرے پیر یا کسی دوسری جمعرات کو روزہ رکھ لے۔ اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کسی اور دن کے روزہ سے ان روزوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔
اس کے علاوہ میں نے یہ بات بھی کہی تھی کہ مئی کے آخری ہفتہ کے اتوار کو ہر جماعت اپنے اپنے مقام پر جلسے منعقد کرے اور ان جلسوں میں تحریک جدید کے مطالبات کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی جائے۔
بظاہر عقلمند کہلانے والے لوگوں کی نگاہ میں ان مطالبات میں سے میرا ایک مطالبہ شاید بالکل بے معنی اور توہّم پرستی کا اظہار سمجھاجائے۔ کیونکہ اِس مادیت کے زمانہ میں دُعا کرنا اور پھر دعاسے کسی نتیجہ کی امید رکھنا نہایت بیوقوفی اور حماقت خیال کیا جاتا ہے۔ اور بہت سے لوگ جو دعائوںکے قائل ہیں اور دعائیں کرتے ہیں وہ بھی درحقیقت دعا کو ایک تمسخر سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دیتے اور ان میں سے ننانوے فیصدی بلکہ ہزار میں سے ۹۹۹ ایسے ہی ہوتے ہیں کہ اُن کی دعائیں ایک توہم ، ایک تخیل، ایک تمسخر، ایک تک بندی اور اندھیرے میں تیر چلانے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ ہزارہا دعائیں کرنے والے یا دوسروں کو اپنے لئے دعائوں کی تحریک کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے ماں باپ یا دوسرے عزیز و اقارب سے دعا کا ذکر سنا ہؤا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے وہ دوسروں کو دعا کیلئے کہنا سوسائٹی کا ایک فیشن سمجھتے ہیں ۔ اور جونہی کسی دسرے سے ملتے ہیں بغیر دعا کی حقیقت کو سمجھنے کے کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے لئے بھی دعاکیجئے۔ ہزاروں آدمی احمدیوں، غیراحمدیوں بلکہ ہندوئوں اور سکھوں میں سے بھی جب مجھے ملتے ہیں تو جاتے ہوئے بے ساختہ کہہ دیتے ہیں ہمیں بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیئے مگر جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیئے تو میرا نفس محسوس کرتا ہے کہ ان کا دل دعائوں کی عظمت سے واقف نہیں۔ وہ زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیئے۔ مگر ان کا دل کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ محض ان کو خوش کرنے کیلئے ہم کہہ رہے ہیں ورنہ دعا کوئی چیز نہیں اورنہ اسے کسی قسم کی اہمیت حاصل ہے۔ ہزاروں ہیں جو رسماً اسلام کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے یا رسماً ہندو مذہب کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے یا رسماً سکھ مذہب کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے دعائیں کرتے ہیں۔ کبھی ہاتھ اُٹھا کر، کبھی سر جُھکا کر، کبھی کھڑے ہوکر، کبھی بیٹھ کر، کبھی آگ کے آگے ہاتھ پھیلا کر، کبھی سمندرکی طرف منہ کرکے اور کبھی سورج کی طرف آنکھیں اٹھاکر۔ مگر جب دعا کے الفاظ اُن کی زبان پر جاری ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک عبادت ہے جو ہم بجالارہے ہیں۔ ایک فرض ہے جو ہم ادا کررہے ہیں۔ اور یہ کہ اس کے نتیجہ میں ہمیں کچھ نہ کچھ مل جائے گا لیکن انہیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ دعا کی کیا حقیقت ہے اور دعا زمین و آسمان میں تغیر پیدا کرنے میں کس قدر عظیم الشان اثر رکھتی ہے۔ پس دنیا میں دعا کرنے والے بہت مل جائیں گے مگر دعائوں پریقین رکھنے والے اور دعائوں کی حقیقت سمجھنے والے بہت ہی کم لوگ ملیں گے۔
پھر وہ لوگ جودعا پریقین رکھتے ہیں ان میں بھی سنجیدہ طبقہ بہت کم نظر آتا ہے اور ان قلیل لوگوں میں سے کثیر حصہ ایسا ہوتا ہے جو دعا خداتعالیٰ سے ٹھیکہ کے طور پر کرتاہے۔ مجھے چونکہ سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، ان لوگوں سے بھی جو دعائیں کرتے ہیں اور ان لوگوں سے بھی جو دوسروں کو اپنے لئے دعا کی تحریک کرتے ہیں اس لئے میں اپنے تجربہ کی بناء پر جانتا ہوں کہ ان میں سے اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں جو دعا خداتعالیٰ کا امتحان لینے اور یہ دیکھنے کیلئے کرتے ہیں کہ آیا خدا ہماری بات سنتا ہے یا نہیں سنتا۔ پس گو وہ ظاہراً دعائوں پر یقین رکھتے ہیں مگر ان کا یقین کسی یقین کی بنیاد پر نہیں بلکہ شک پر ہوتا ہے۔ جائو اور اپنے ہمسایوں اور اپنے دوستوں اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے اِردگرد رہنے والے لوگوں سے پوچھ دیکھو کہ کیا آپ دعائیں کرتے ہیں ؟وہ یہی کہیں گے کہ بہت کیں بہت ہی کیں مگر آخر معلوم ہوا کہ خدا ہی کوئی نہیں جو دعائیں سنتا ہو یا کہیں گے کہ خدا بھی کوئی دعا نہیں سنتا۔ حالانکہ دعا کے معنے اس کامل تعلق، اس کامل محبت اور اُس کامل اخلاص کے ہیں جوبندہ کو خداتعالیٰ سے پید اہوجاتا ہے۔ پھر جب دعا اُس تعلق کا نام ہے جو بندہ کا اپنے رب سے ہوتا ہے تو کوئی شخص کس طرح کہہ سکتا ہے میں نے دعائیں کیںمگر ان کا کوئی فائدہ نہ دیکھا۔ کیا تم نے کبھی کسی آنکھوں والے انسان کو دیکھا ہے کہ وہ کہتا ہو میں نے سورج کو دیکھا ،بہت دیکھا اور بہت ہی دیکھا مگر آخر معلوم ہوا کہ سورج میں بھی روشنی نہیں۔ کیا تم نے کسی عورت سے ُسنا کہ وہ کہتی ہو میں نے آگیں جلائیں، بہت جلائیں اور بہت ہی جلائیں مگر آخر معلوم ہوا کہ آگ میں بھی گرمی نہیں۔ کیا تم نے کسی پیاسے کے منہ سے کبھی یہ کلمات سُنے ہیں کہ میں نے پانی پیا، بہت پیا اور بہت ہی پیا مگر آخر معلوم ہوا کہ پانی بھی پیاس نہیں بجھاتا۔ تم کیوں یہ فقرے لوگوں کی زبان سے نہیں سنتے۔ اِس لئے کہ جس شخص نے پانی کا تجربہ کیا وہ پانی کا انکار نہیں کرسکتا۔ جس نے سورج کو دیکھا وہ سورج کا انکار نہیں کرسکتا۔ اور جس نے آگ کو جلتے دیکھا وہ اُس کی گرمی کا انکار نہیں کرسکتا۔ پھر اگر دعا نام ہے اُس مقام کا جس مقام پر کھڑے ہوکر خداتعالیٰ سے انسان کا انتہائی تعلق پیدا ہوجاتا ہے تو کیا اِس سے زیادہ احمقانہ بات بھی کوئی ہوگی کہ کہا جائے میں نے دعائیں کیں، بہت کیں اور بہت ہی کیں مگر آخر معلوم ہوا کہ کوئی خدا نہیں جو دعائیں سُنے۔ کیا ان الفاظ کا مفہوم اگر سیدھی سادی عبارت میں بیان کیا جائے تو یہ نہیں ہوگا کہ ہم نے خدا سے دوستی کی،دوستی کی اور بہت ہی کی مگر آخر معلوم ہوا کہ خدا کوئی نہیں۔ اگر اُس نے دعا سے قبل خداتعالیٰ کو پالیا تھا جس کو دیکھتے ہوئے اُس نے اُس سے دوستی کی تھی اور اُس سے دعائیں کیں تو دعا کے قبول ہونے یا نہ ہونے سے اُسے اُس کے وجود میں شک کیونکر پیدا ہوگیا۔ اور اگراُس نے خداتعالیٰ کو پایا ہی نہیں تھا تو وہ کس طرح کہہ سکتا ہے میں نے خداتعالیٰ سے دوستی کی، دوستی کی اور بہت ہی دوستی کی۔
تو دعا کا اصل مقام وہی ہے جب بندہ اپنے خدا کو پالیتا ہے کیونکہ دعا اسی صورت میں کی جاسکتی ہے جب بندہ کا اپنے خدا کی ہستی اور اس کی قدرتوں پر کامل یقین ہو۔ جب تم دنیا میں ایک معّین اور مشخّص وجود کو آواز دیتے اور اسے اپنی طرف بُلاتے ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ تم اُسے جانتے اور پہچانتے ہو۔ لیکن اگر ایک شخص کو تم دیکھو کہ وہ کہہ رہا ہو اے زید !آئو مجھ سے مصافحہ کرو اور میرے پاس بیٹھو اور پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ یہ کہے کہ زید تو دنیا میں ہے ہی نہیں تو تم ایسے شخص کو پاگل کہو گے یا نہیں؟کیونکہ اگر زید دنیا میں تھا ہی نہیں تو اس نے کس طرح کہہ دیا تھا کہ آئو زید مجھ سے مصافحہ کرو۔ تو وہ مقامِ تردّد جو ارہاص کا مقام کہلاتا ہے، جب انسان دعا کرتا ہے اور اُس کی دعا قبول کی جاتی ہے وہ اصل مقام نہیں بلکہ غیریت کا مقام ہے۔ وہ ایسا ہی ہے جیسے اندھیرے میں سے گزرنے والا شخص کسی کو پکارتا اور کہتا ہے او بھائی! میری مدد کرو۔ اُسے اُس وقت یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں کوئی بھائی ہے بھی یا نہیں۔ بلکہ وہ صرف اس لئے بھائی بھائی کہہ رہا ہوتا ہے کہ شاید کوئی بھائی ہو اور وہ مدد کیلئے آجائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ کبھی تو کوئی شخص اُس کی آواز سُن رہا ہوتا ہے اور وہ آواز سُن کر اُس کے پاس پہنچ جاتا ہے اور کبھی وہ یونہی اندھیرے میں سے آواز دیتے گزرجاتا ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو دعا کے مقام پر کھڑانہیں وہ اگر کہتا ہے اے خدا میری مدد کر تو اُس کی اِس دعا کی وہی کیفیت ہے جو اندھیرے میں سے گزرنے والے شخص کی پکار کی ہؤا کرتی ہے۔ اس کی دعا کے جواب میں بھی اگر خداتعالیٰ کی مدد اُس کی مصلحت کے ماتحت آجاتی ہے تو کہہ دیتا ہے خداتعالیٰ نے میری مدد کی اور بعض دفعہ یہ بھی نہیں کہتا بلکہ اتنا کہنا ہی کافی سمجھتا ہے کہ اتفاقِ حسنہ ایسا ہؤا کہ میرا کام بن گیا۔ لیکن اگر کبھی ایسا ہو کہ خداتعالیٰ کی مصلحت کے ماتحت اُس کی مدد اس کو نہ پہنچے تو یہ کہنا شروع کردیتا ہے کہ ہم نے بہت دیکھ لیا، خدا کا وجود ہی کوئی نہیں۔ حالانکہ اس نے دیکھا ہی کیا تھا۔ اگر وہ دیکھ لیتا تو انکار کس طرح کرتا۔ دیکھنے والا تو کبھی انکار نہیں کیا کرتا۔ ہاں اندھیرے والا کہہ سکتا ہے کہ مجھے کچھ نظر نہیں آیا۔ لیکن اس صورت میں بھی وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ کوئی خدا نہیں بلکہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں اندھیرے میں رہا اور مجھے اس کی مدد نہ پہنچی۔ ایک باپ اگر اپنے بچے کی کسی ضرورت کو بعض دفعہ پورا نہیں کرتا تو کیا بچہ کہہ سکتا ہے کہ میرا باپ کوئی نہیں یا اگر تمہاری ماں تمہاری کسی ضرورت کو پورا نہ کرے تو تم کہہ سکتے ہو کہ ہماری ماں ہی کوئی نہیں۔ تم یہ تو کہہ سکتے ہو کہ ہمارے باپ نے بھی ہماری خواہش پوری نہ کی، ہماری ماں نے بھی ہماری ضروریات کی طرف توجہ نہ کی مگر تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا باپ اور ہماری ماں کوئی نہیں۔ اسی طرح اگر کسی شخص کی دعا قبول نہ ہو تو وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ آہ! میرے خدانے بھی میری دعا نہ سنی۔ گو یہ بھی بے ادبی ہوگی ، گو یہ بھی گستاخی ہوگی، گو یہ بھی بے دینی ہوگی، مگر یہ معقول بے دینی ہوگی۔ لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ میری دعا نہیں سُنی گئی اِس لئے کوئی خدا ہی نہیں۔ اگر ایک شخص کسی کو آواز دیتا اور بُلاتا ہے لیکن وہ کسی مصلحت کے ماتحت نہیں آتا تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ جس کو میں نے بُلایا تھا وہ ایک فرضی وجود تھا، حقیقت میں اِس کا کوئی وجود نہیں۔ اسی طرح اگر دعا کے بعد کسی کی مرضی کے مطابق نتیجہ نہیں نکلتا تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے بہت دیکھ لیا خدا کا بھی کوئی پتہ نہیں چلا۔ اگر اس نے خداتعالیٰ کو دیکھ لیا تھا تو اُس کا انکار کس طرح کرسکتا ہے۔ اور اگر نہیں دیکھا تھا تو اس سے زیادہ جھوٹ اور کیا ہوگا کہ کہا جائے میں نے خدا کو دیکھاحالانکہ اس نے اسے نہیں دیکھا۔
تو جو لوگ دعائیں کرنے والے ہیں ان میں سے بھی ایک حصہ ایسا نکلے گا بلکہ ایک حصہ یقینا ایسا ہے جو اندھرے والی دعا کرتا اور اس کے بعد رؤیت والی دعا کا دعویٰ کرنے لگ جاتا ہے۔ گویا وہ اپنی نابینائی کو خدا کی طرف منسوب کرتے اور اس کی ہستی کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں۔ ان کی مثال اس نابینا کی سی ہوتی ہے جس سے کسی شخص نے سورج کا ذکرکیا تو وہ کہنے لگا سورج کی کیا دلیل ہے؟ اس نے کہا سورج کی دلیل روشنی ہے جس سے ہر چیز کا اصلی رنگ نظر آجاتا ہے، سفید چیز سفید نظر آتی ہے اور سیاہ چیز سیاہ۔ وہ نابینا کہنے لگا رنگوں کا فرق بھی تو بے دلیل بات ہے، دنیا میں کوئی رنگ نہیں۔ یہ بھی اپنی نابینائی کی وجہ سے خداتعالیٰ کی ہستی کا انکار کرتے اور اندھیرے میں ہوکر روشنی میں دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
پھر وہ جو دعائوں پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اُن کو بھی اگر دیکھا جائے تو ان میں کمزوروں کا ایک گروہ نظر آتا ہے۔ یعنی خدا انہیں دے دے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں، نہ دے تو ناراض ہوجاتے ہیں۔ گویا پہلا گروہ تو وہ تھا جس نے دعا کی اور اتفاق سے جو پہلی دعا اُس نے کی وہی قبول نہ ہوئی اور وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا منکر ہوگیا۔ اور یہ وہ گروہ ہے جو دعائیں کرتا رہااور خدا قبول کرتا رہا لیکن جونہی کوئی ایسی دعا آئی جسے خدا تعالیٰ نے اپنی مصلحت سے قبول نہ کیا تو یہ بھی کہنے لگ گیا کہ ہم نے دیکھ لیاخدا سے دعائیں کرنے کاکوئی فائدہ نہیں۔ حالانکہ ایسے لوگ اگر اپنے اردگرد کے طبیبوں اور ڈاکٹروں کو دیکھیں تو انہیں نظر آجائے کہ بڑے بڑے ڈاکٹر اور طبیب مریضوں کا علاج کرتے ہیں اور پھر علاج میں بُری طرح ناکام ہوتے ہیں مگر باوجود اس ناکامی کے لوگ پھر بھی ان کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں۔ وہ انہیں روپیہ بھی دیتے ہیں، ان سے دوائیں بھی لیتے ہیں۔ ان کے نخرے بھی برداشت کرتے ہیں اور کبھی انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ ہمارے دائیں بائیں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ انہی ڈاکٹروں اور طبیبوں نے بعض مریضوں کا علاج کیا اور وہ یا تو مرگئے یا اُن کی بیماری طُول پکڑ گئی۔ غرض علاج میں انہیں کئی جگہ ناکام دیکھنے کے باوجود لوگ اُن سے علاج کرائیں گے۔ اُنہیں فیسیں دیں گے اور اُن کی طرف دوڑے چلے جائیں گے۔ لیکن دعا جس پر کچھ بھی مال خرچ نہیں ہوتا ۔ وہ اگر قبول ہوجائے تو کہہ دیں گے خدا نے فضل کردیا۔ لیکن اگر کوئی دعا قبول نہ ہوتو کہہ دیں گے بس جی دیکھ لیا، دعا کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ ایسے لوگ درحقیقت خداتعالیٰ سے سَودا کرنیوالے ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ کبھی سَودا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ بلکہ خدا تو الگ رہا خداتعالیٰ کے بندے بھی دوسروں سے سَودا نہیں کرتے۔
میرے پاس ہرسال بیسیوں درخواستیں اچھے اچھے تعلیم یافتہ ہندوئوں ، سکھوں اور مسلمانوں کی آتی رہتی ہیں جن میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ میں بی ۔اے ہوں، میں ایم۔اے ہوں، میں ای۔اے۔سی ہوں، میں فلاں معزز خاندان میں سے ہوں میرے دل پر اسلام کی حقیقت کُھل گئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ احمدیت میں داخل ہوجائوں لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی میں احمدیت کی سخت مخالفت ہے پس اگر میں احمدی ہوجائوں تو آپ میری کیا امداد کریں گے؟ میں ہمیشہ ایسے لوگوں کو یہ لکھوایا کرتا ہوںکہ مالی امداد دینے والے دنیا میں اور بہت سے ہیں۔ اگر تم پر اسلام کی سچائی کُھل گئی ہے تو اِس بارہ میں تمہیں مجھ سے مشورہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں تم اس سچائی کا اظہار کرو اور اس کے بدلہ میں کسی مادی فائدہ کی امید مت رکھو۔ کیا تم نے کبھی سُنا کہ کوئی شخص کہہ رہا ہو میںنے فلاں لڑکی سے شادی کی تجویز کی ہے۔ وہ بہت نیک اور اچھے خاندان کی ہے اگر میں وہاں شادی کرلوں تو اے لوگو! تم مجھے کیا دو گے؟کیا تم نے کبھی سنا کہ کوئی شخص سخت پیاس کی حالت میں میلوں میل چکر کاٹ کر ایک چشمہ کے پاس پہنچے اور وہاں یہ کہنا شروع کردے کہ اے دوستو! بتائو اگر میں اس چشمہ سے اپنی تین دن کی پیاس بُجھالوں تو تم مجھے کیا دو گے؟ اگر ان چھوٹے چھوٹے فوائد کے حاصل ہونے پر بھی دنیا میں کوئی دوسرے سے ایسے بیہودہ سوال نہیں کرتا بلکہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہوجانے کو ہی اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتا ہے تو خداتعالیٰ کی ملاقات اور اُس کے وصال کا راستہ میسر آجانے پر اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں اس راستہ پر چلا تو مجھے کیا دو گے؟تو وہ پاگل نہیں تو اور کون ہے۔
مذہب کے معنے تو اُس راستہ کے ہیں جو انسان کو خداتعالیٰ تک پہنچادے۔ پس اگر اس نے ایسا راستہ پالیا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس نے خدا کو پالیا۔ پھر جب اس نے خدا کو پالیا ہے تو اس کا یہ کہنا کہ مجھے کیا دو گے، بیوقوفی اور حماقت ہے۔ جوشخص کچھ پالیتا ہے اس سے لوگ لیا کرتے ہیں یا وہ لوگوں سے لیتا ہے۔ کیا تم نے کبھی سنا کہ کوئی طالب علم آئے اور کہے اے بھائیو! میں امتحان میں پاس ہوگیا ہوں اب بتائو تم مجھے کیا کھلائو گے؟ جو لڑکا امتحان میں کامیاب ہوتا ہے وہ دوسروں سے مانگا نہیں کرتا بلکہ اُستاد اور ہم سبق دونوں اُس کے پاس جاتے اور کہتے ہیںہمیں مٹھائی کِھلائو کیونکہ تم کامیاب ہوئے ہو۔
پس اگر یہ سچ ہے کہ انہوںنے سچا مذہب پالیا ہے تو پھر دنیا کا حق ہے کہ وہ ان سے قربانی کا مطالبہ کرے۔ ان کا حق نہیں کہ وہ لوگوں سے اپنے لئے مانگیں۔ دیکھو محمد ﷺ نے اپنے خدا کو پالیا۔ پھر انہوں نے لوگوں سے کچھ مانگا نہیں بلکہ دنیا کی بھلائی کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت نوح علیہم السلام نے خداتعالیٰ کو پالیا پھر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں کیا دو گے بلکہ انہوں نے کہا ہم نے پالیا ہے آئوہم تم کو بھی دیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب دور سے خداتعالیٰ کا نور آگ کی شکل میں دیکھا تو انہوں نے یہی کہا کہ ٹھہرو میں وہاں جاتا ہوں اور وہاں سے کوئی انگارا تمہارے لئے بھی لائوں گا۔ تو جو لوگ کچھ پالیتے ہیں وہ لوگوں سے یہ نہیں کہا کرتے کہ ہمیں کیا دو گے؟ بلکہ وہ کہتے ہیں ہم سے کیا قربانی لو گے۔ تومیں انہیں ہمیشہ یہ جواب دیا کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ پھر وہ سب کے سب خاموش ہوجاتے ہیںکیونکہ انہیں حقیقت میں خدا نہیں ملا ہوتا بلکہ وہ دنیا کے بُھوکے ہوتے ہیں اور چونکہ وہ چیز جس کی انہیں تلاش ہوتی ہے میرے پاس نہیں ہوتی اِس لئے وہ مایوس ہوکر کسی اور طرف کا رُخ کرلیتے ہیں۔
تو جب خداتعالیٰ کے بندے بھی سَودا کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ لوگوں سے سَودا کرتا پھرے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی طبیعت کے لوگ گرتے چلے جاتے ہیں اور آخر دعا کے مقا م پر وہی قائم رہتے ہیں جو اِس مقولہ پر عمل کرتے ہیں کہ ؎
جو منگے سو مر رہے مرے سو منگن جائے
یعنے مانگنا ایک قسم کی موت ہے لیکن اگر کوئی مانگنا ہی چاہے تو پھر وہ دروازہ سے ہِلے نہیں بلکہ بیٹھا رہے ،بیٹھا رہے اور بیٹھارہے یہاں تک کہ مرجائے۔ بیشک دُنیوی لحاظ سے اِس کے یہ معنے بھی ہیں کہ بندوں سے مانگنا موت ہوتاہے۔ لیکن روحانی لحاظ سے اس کے یہ معنی ہیں کہ دعا اُس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک انسان اپنے آپ پر ایک جسمانی موت وارد نہیں کرلیتا۔ وہ دعا کرتا ہے اور دعا میں اِس قدر محو ہوجاتا ہے اور اِتنے تضرع ، اِتنے درد ، اِتنے سوز ، اِتنے گریہ ، اِتنے قلق اور اِتنے اضطراب کے ساتھ دعا مانگتا ہے کہ وہ بُھول جاتا ہے اپنے ماحول کو ، وہ بُھول جاتا ہے اپنے گردوپیش رہنے والے لوگوں کو، وہ بُھول جاتا ہے اپنے عزیزوں ،دوستوں رشتہ داروںکو، وہ بُھول جاتا ہے اپنے بیوی بچوں کو اور وہ بُھول جاتا ہے اپنے آپ کو یہاں تک کہ سب کچھ بُھول کر وہ خدا کے پاس چلا جاتا اور اُس کے حضور اپنی حاجات پیش کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ ساری خیر خدا میں ہی ہے۔ تب جس طرح ایک پیاسا شدتِ پیاس سے دور سے چشمے کو دیکھ کر دَوڑ کر اُس کی طرف جاتا اور ضُعف و ناطاقتی کی وجہ سے چشمہ کے قریب جاکر گِرجاتا اور نہایت حریص اور للچائی ہوئی نگاہوں سے چشمہ کی طرف دیکھنا شروع کردیتا ہے کہ کاش! چشمہ حرکت میں آئے اور اس کے منہ میں خودبخود اُس کا پانی پہنچ جائے اسی طرح دعا کرنے والے کی کیفیت ہوتی ہے۔ وہ بھی بے حس ہوکر آستانہء الوہیت پر گرجاتا ہے اور اپنے رب کی طرف دیکھنا شروع کردیتا ہے۔ بے شک جسمانی چشمے ایسی حالتوں میں چل کر انسان کے پاس نہیں آتے مگر روحانی چشمے ایسی حالت میں خودبخود چل کر انسان کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۱؎۔ اے محمد ﷺ کوئی مانگنے والا ایسا بھی ہوگا جو دعائیں کرتا چلا جائے گا، کرتا چلا جائے گا اور کرتا چلا جائے گا یہاں تک کہ اُس کے پیر تھک جائیں گے، اُس کے ہاتھ شل ہوجائیں گے، اُس کا دماغ پریشان ہوجائے گا، اُس کے قویٰ مضمحل ہوجائیں گے اور وہ بے اختیار ہوکر کہے گا میرا خدا کہاں ہے؟ فرمایا اسے کہہ دو اِنِّیْ قَرِیْبٌمیں دوڑا ہی آرہا ہوں۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِجب بندہ ایسی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کو پکارتا چلا جاتا ہے جب وہ تھک جاتااور اُس کے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں تو فرمایا ایسی حالت میں پھر وہ نہیں پکارتا بلکہ میں اُسے پکارنا شروع کردیتا ہوں۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ اُسے چاہئے کہ اب میری آواز کا جواب دے اور اُسے سُنے۔ گویا پہلے فقرہ میں تو یہ مضمون تھا کہ بندہ اللہ تعالیٰ کو بلاتا ہے اور اِس میں یہ بیان کیا کہ پھر خدا اپنے بندے کوبلاتا ہے اور جونہی اُس کی قوتیں رہ جاتی ہیں خدا خود دوڑ کر اُس کی طرف آتا اور اُس وقت وہ طالب اور بندہ مطلوب، خدا مُحبّ اور بندہ محبوب بن جاتاہے۔ یہ دعا کا مقام ایسا بلند مقام ہے جو زمین اور آسمان کو ہِلادیتا ہے۔ جہاں قبولیت اور عدمِ قبولیت کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ قبولیت ہوتی اور بہت ہوتی ہے مگر اس شخص کو اس کی کچھ پروا ہ نہیں ہوتی وہ صرف ایک ہی بات جانتا ہے اور وہ یہ کہ میرا کام یہ ہے کہ میں اپنے رب سے مانگتا رہوں۔
تم اگر سچی محبت کے انسانی نظائر پر ہی غور کرو تو تمہیں یہ مثال وہاں بھی نظر آجائے گی۔ ہاں حقیقت کی آنکھیں کھول کر دیکھو پھر تمہیں چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی عظیم الشان سبق پنہاں نظر آئیں گے۔ تم نے بچہ کو اپنی ماں سے چمٹتے کئی دفعہ دیکھا ہوگا۔ تم دیکھتے ہو کہ بچہ کی باہیں اس کی ماں کے گلے میں ہوتی ہیں، اُس کا سینہ اپنی ماں کے سینہ سے لگا ہوتا ہے اور وہ اپنی ماں سے اتنا زیادہ قریب ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ قریب ہونا ناممکن ہوتاہے۔ مگر پھر بھی وہ کہتا جاتا ہے کہ اماں! اماں۔ وہ کیوں اماں !اماں! کہہ رہا ہوتاہے حالانکہ وہ ماں کے پاس ہی ہوتاہے۔ وہ اسی لئے باوجودقریب ہونے کے اماں! اماں! کہتا ہے کہ ماں کو پکارنا اب اُس کی غذا بن گیا ہے اور اسی پکار میں اُس کی تمام راحت ہوتی ہے۔ یہی حال ایک سچے سالک کا بھی ہوتا ہے۔
جس شخص کو خداتعالیٰ سے حقیقی محبت ہوتی ہے وہ ضرورت کیلئے خدا تعالیٰ سے نہیں مانگتا بلکہ مانگنے کیلئے مانگتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہروقت خداتعالیٰ کا سائل ہی بنا رہے۔ تم نے اپنے گھروں میں اور خود اپنی ذات میں اِس بات کا کئی دفعہ تجربہ کیا ہوگا کہ جب کوئی فقیر تمہارے دروازے پر آتا اور کہتا ہے مجھے کچھ خیرات دو توتم اُسے کچھ دے دیتے ہو ۔ اس کے بعد وہ چلا جاتا ہے اور تم اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہو۔ لیکن اگر وہ نہ جائے اور دروازہ پر کھڑا رہے تو تم اُسے کہتے ہو اَب جاتے کیوں نہیں میں نے تمہیں خیرات دے دی ہے۔ یہی روحانی خلش اور یہی روحانی خوف ایک خدا کے مُحبّ کے دل میں بھی ہر وقت رہتا ہے کہ اگرمیری ایک ضرورت پوری ہوگئی اور دوسری دفعہ میں نے خداتعالیٰ سے نہ مانگا تو خداتعالیٰ کی طرف سے مجھے کہا جائے گا کہ اب کیوں کھڑے ہو، ہمارے دربار سے چلے جائو اور چونکہ اس کی اصل غرض مانگنا نہیں بلکہ اپنے محبوب کے دربار میںکھڑا رہنا ہوتی ہے اِس لئے وہ مانگتا ہے اور مانگتا چلا جاتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ اسے ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس لئے کہ وہ خداتعالیٰ کا سائل بنا رہے اور اسے یہ نہ کہا جائے کہ اب چلے جائو، تمہاری ضرورت پوری ہوگئی۔ پس ہروقت ہی وہ کوئی نہ کوئی ضرورت پیش کرتا رہتا ہے تا ہر وقت اسے اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر کھڑے رہنے کا حق حاصل رہے۔ یہ حقیقی محبت کا ایک نظارہ ہوتا ہے مگر لوگ اِس کو فلسفیانہ رنگ میں حل کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ایک جنس کو دوسری جنس سے ناپا نہیں جاسکتا۔ تم ہوا اور پانی کو اگر ترازو میں تولنا چاہو تو یہ تُل نہیں سکیں گے۔ اسی طرح عشق اور محبت کے جذبات کو تم فلسفہ کے ترازو میں نہیں تول سکتے اوراگر تولو گے تو یہ اس ترازو سے نکل بھاگیں گے۔ لیکن ہؤا کو اگر ان آلات سے تولو جو سائنس نے گیسوں کے متعلق ایجاد کئے ہیں تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ان چیزوں کا بھی وزن ہے اور ان میں بھی طاقت اور قوت ہے حتیٰ کہ سائنس نے یہ دریافت کیاہے کہ جب کسی چیز میں بالکل خلاء کردیا جائے تو ہؤا کا بیرونی دبائو اُس چیز کو توڑ دیتا ہے۔ گویا جس چیز کو ہم خالی سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ خالی نہیں ہوتی بلکہ اُس میں جو ہوا ہوتی ہے وہ ہمارے سامانوں کی حفاظت کررہی ہوتی ہے لیکن ہماری ظاہری نظر اس کو خالی کہہ دیتی ہے۔
دُعا ایک ایسا حربہ ہے جس کا مقابلہ کوئی چیز نہیں کرسکتی۔ اور دعا اظہارِ عشق کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں۔ شاید تم میں سے وہ لوگ جو بڑی عمر کے ہیں وہ اپنے بچپن کی باتیں بُھول چکے ہوں لیکن مجھے تو ابھی تک بہت سی باتیں یاد ہیں۔ مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جب ہم چھوٹے چھوٹے بچے ہؤا کرتے تھے اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتے تھے’’ آئو اماں اماں کریے۔ آئو ابا ابا کریے‘‘(پنجابی)۔ اس کا مطلب کیا ہوتا تھا؟ شاید ایک فلسفی یہ نظارہ دیکھ کر کہے کہ بچے کیسے پاگل ہیں کہ ماں باپ کے پاس رہتے ہوئے اس قسم کے فقرے کہتے ہیں۔ مگر حقیقتاً وہ پاگل پن کا اظہار نہیں بلکہ اپنے بڑوں کو یہ نصیحت کرنا ہے کہ دیکھو ہمیں اپنی ماں سے محبت ہے اور ہم کہتے ہیں ’’آئو اماں اماں کریے‘‘۔ ہمیں اپنے باپ سے محبت ہے او رہم کہتے ہیں ’’آئو ابا ابا کریے‘‘۔ پھر جبکہ تمہیں دعویٰ ہے کہ تم اپنے باپ اور اپنی ماں سے بہت زیادہ خداتعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو کیا تمہارا فرض نہیں کہ تم اُس کو یاد کرو اور اُس کے اور زیادہ قریب ہونے کی کوشش کرو۔ جس وقت ایک فلسفی اپنے سامنے میز لگائے کُرسی پر بیٹھ کر نہایت ہی رعونت او رتکبر کے ساتھ یہ فقرے لکھتا ہے کہ کیسا ہی بیوقوفی کا وہ مذہب ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجائو اور کہو اے اللہ! اے اللہ!۔ بھلا ان الفاظ کے دہرانے سے اس کا کیا فائدہ اور خدا کا کیا فائدہ؟ اُسی وقت اُس کی میز کے نیچے اُس کابچہ اُسے بیوقوف بنا رہا اور اُس کی حماقت اُس پر ظاہر کررہا ہوتا ہے۔ جب وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کہتا ہے ابا ابا۔ اس طرح وہ جاہل اپنے علم کے گھمنڈ میں اسی فلسفہ کو ردّ کررہا ہوتا ہے جس فلسفہ کو اُس کا بچہ اپنے عمل سے ثابت کررہا ہوتا ہے۔ مگر چونکہ محبت کا فلسفہ عقل کے فلسفہ سے بالکل جُدا ہے اس لئے فلسفی اِس راز سے آگاہ نہیں ہوتا۔
غرض جب میں نے کہا کہ آئو ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں تو میں نے ایک رسمی چیز تمہارے سامنے پیش نہیں کی بلکہ جب میں نے کہا کہ دعائیں کرو تو یہ جانتے ہوئے کہا کہ تم میں سے بہت ہیں جو عرشِ الٰہی کو ہِلادینے والی دعائیں نہیں کرتے۔ اور یہ جانتے ہوئے کہا ہے کہ دعا کوئی معمولی چیز نہیں۔ پس میں نے رسماً نہیں کہا، میں نے عادتاً نہیں کہا مگر میں نے یہ بھی جانتے ہوئے کہا ہے کہ دعا کیلئے ہزار، دس ہزار یا ایک لاکھ آدمیوں کی ضرورت نہیں۔ اگر لاکھوں کی جماعت میں سے دس آدمی بھی ایسے نکل آئیں جن کے دل حقیقی دعا کرنے والے ہوں تو وہ زمین اور آسمان کو ہلانے کیلئے کافی ہیں۔
رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ یتیم کی دعا عرش کو ہلادیتی ہے۲؎ اور رسول کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جماعت کی متحدہ دعا قبول کی جاتی ہے۳؎۔ پس جب میں نے کہا کہ آئو ہم دعا کریں تو اس وقت یہ دونوں باتیں مجھے نظر آرہی تھیں اور میں سمجھتا ہوں کہ میری مثال اُس شخص کی سی تھی جس کا دایاں بھی برکت والا ہو اور جس کا بایاں بھی برکت والا ہو۔ میں سمجھتا تھا اگر مجھے ایک جماعت مل گئی تو رسول کریم ﷺکا یہ قول بھی پورا ہو جائے گا کہ جماعت کی متحدہ دعا قبول کی جاتی ہے اور اگر مجھے کوئی ساتھی نہ ملا اور میں اکیلا رہا تو رسول کریم ﷺ کے اس دوسرے قول کی سچائی ثابت ہوجائے گی کہ یتیم کی دعا عرش کو ہلادیتی ہے۔ پس اگرمجھے جماعت حاصل ہوگئی تب بھی میرا مقصد پور اہوگیا اور اگرمیں اکیلا رہا تب بھی میرا مقصد مجھے حاصل ہوگیا کیونکہ رسول کریم ﷺنے ان دونوں حالتوں میں قبولیت دعا کی بشارت دی ہوئی ہے۔ جماعت ہونے کی صورت میں بھی اور یتیم ہونے کی صورت میں بھی۔ اور یتیم سے صرف وہی مراد نہیں جس کے ماں باپ نہ ہوں بلکہ جو بھی خداتعالیٰ کی راہ میں اکیلا رہ جائے وہ یتیم ہے اور جو اپنے ساتھی پالے وہ جماعت ہے۔ ہمارے خدا نے بھی قرآن مجید میں اس بات کا اظہار فرمایا ہے چنانچہ ایک نبی کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ ’’امۃ‘‘ تھا۴؎۔ یعنی ایک جماعت اس کو حاصل تھی اور ایک دوسرے نبی کے متعلق فرمایا کہ وہ لوگوں کو خداتعالیٰ کی طرف بُلاتا تو سب منتشر ہوجاتے اوروہ نبی اکیلا رہ جاتا۔ گویا ایک نبی وہ تھا جس نے جماعت بن کر خداتعالیٰ کی مدد حاصل کی اور دوسرا وہ تھا جس نے یتیم بن کر خداتعالیٰ کی نصرت حاصل کی۔
یہ مت خیال کرو کہ تم اِس وقت امن کی حالت میں ہو اور تمہیں دشمن کی طرف سے کسی حملے کا خوف نہیں۔ اپنے آپ کو امن کی حالت میں کہنا اور دشمن کے حملہ سے بے خوف ہوجانا حماقت ہوتی ہے۔ کیونکہ بسا اوقات جب انسان یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ مصیبت ٹل گئی وہ پہلے سے بھی زیادہ مصیبت کا شکار ہوجاتا ہے۔ گزشتہ سال حبشہ اور اٹلی والوں کے درمیان جو جنگ ہوئی اور جس میں حبشہ نے شکست کھائی اس کے متعلق جن محققین نے اِس نقطہ نگاہ سے غورکیا ہے کہ حبشہ والے کیوں ہارے؟حالانکہ ابتداء میں انہوں نے اٹلی کو خطرناک شکست دی تھی تو وہ اِسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ حبشہ والے ہارگئے کیونکہ انہوں نے یہ خیال کیا کہ ہم جیت گئے ہیں۔ گویا جب انہوں نے شروع میں اٹلی کی فوجوں کو شکست دے دی تو وہ مطمئن ہوکر بیٹھ گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ اٹلی نے حبشہ کو غافل پاکر پھر حملہ کردیا اور اُسے شکست دے دی۔
میں دیکھتا ہوں یہی حال اِس وقت ہماری جماعت کے افراد کا ہے۔ جب دشمن کا حملہ تھوڑی دیر کیلئے ہٹ جاتاہے تو وہ کہتے ہیں اب ہم بچ گئے۔ میں پوچھتا ہوں تم کیونکر سمجھتے ہو کہ اب ہم بچ گئے۔ کیا احرار سے ہمارا فیصلہ ہوگیا ہے یا کیا گورنمنٹ سے ہمارا تصفیہ ہوگیا ہے؟ اگر دشمن اس وقت خاموش ہوگیا ہے تو اُس کی خاموشی کے یہ معنے کس طرح ہوگئے کہ ہماری لڑائی ختم ہوگئی ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ انتظار کررہا ہو کہ تم سوجائو اور مطمئن ہوجائو تو پھر وہ تم پر حملہ کرے۔ پس جب تک ہماری گورنمنٹ سے باقاعدہ صلح نہیں ہوجاتی یا جب تک احرار سے ہمارا ایسا تصفیہ نہیں ہوجاتا جس کے بعد احرار کے لئے ہمارے مقابلہ میں سر اُٹھانا ناممکن ہوجائے، اُس وقت تک اگر ہماری جماعت میں سے ایک آدمی بھی خاموش ہوکر بیٹھ رہتا ہے تو اِس کے معنی سوائے اِس کے کچھ نہیں کہ وہ احمق اور بیوقوف ہے۔ یاد رکھو مومن کے دل پر جو زخم لگتے ہیں وہ کبھی مُندمل نہیں ہوتے اور اُس وقت تک ہرے رہتے ہیں جب تک دوسرے زخموں کے لگنے کا احتمال باقی رہتا ہے۔ حضرت نوحؑ کی لائی ہوئی تعلیم دنیا سے کیوں مٹ گئی؟ اِس لئے کہ ان زخموں کی یاد تازہ رکھنے والے لوگ مٹ گئے۔ حضرت موسیٰؑ کی لائی ہوئی تعلیم دنیا سے کیوں مٹ گئی۔ اس لئے کہ موسیٰؑ کو جو زخم لگے ان کی یاد تازہ رکھنے والے لوگ دنیا میں نہ رہے۔ تم کیوں کہتے ہو کہ محمد ﷺ خاتم النبّیٖن ہیں اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم مٹ نہیں سکتی؟ اسی لئے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگ ہمیشہ آتے رہیں گے جو اِن زخموں کو کُریدتے رہیں گے۔ اگر اس اُمت میں بھی زخم کریدنے والے نہ آتے تو آپ کی لائی ہوئی تعلیم بھی مٹ جاتی کیونکہ تعلیم کبھی کتابوں کے ذریعہ قائم نہیں رہتی بلکہ ماننے والوں کے ذریعہ قائم رہتی ہے۔ پس جبکہ خدا نے اپنی مصلحتوں کے ماتحت ہمارے ہاتھوں اور ہمارے پائوں کو باندھ رکھا ہے اور ہماری زبانوں کو اُس نے بند کیا ہؤا ہے۔ جب ایک طرف وہ یہ کہتا ہے کہ جائو اور حکومتِ وقت کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو اور دوسری طرف یہ حکم دیتا ہے کہ گالیاں سنو اور چُپ رہو۔ سوائے ایسے خاص حالات کے جن میں وہ دفاع کی اجازت دیتا ہے مگر اس صورت میں بھی اعتداء سے بچنے کی نصیحت کرتا ہے تو ان حالات میں ہمارے لئے سوائے اس کے اور کیا صورت رہ جاتی ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے حضور دعا کریں اور اس سے کہیں اے ہمارے ہاتھوں کو روکنے والے اور اے ہماری زبانوں کو بند کرنے والے خدا! تُو آپ ہماری طرف سے اپنے ہاتھ اور اپنی زبان چلا۔ پھر کون کہہ سکتاہے کہ اُس کے ہاتھوں سے زیادہ طاقتور ہاتھ بھی دنیا میں کوئی ہے اور اُس کی زبان سے زیادہ مؤثر زبان بھی کوئی ہوسکتی ہے۔ تم نے خداتعالیٰ کی قدرت کے کئی نظارے پچھلے دو سالوں میں دیکھے۔ اب تیسرا سال جارہا ہے اگر تم اس سال پہلے دو سالوں سے بھی زیادہ خداتعالیٰ کی قدرت کے شاندار نظارے دیکھنا چاہتے ہو تو گزشتہ سالوں کے چالیس دنوں کے مقابلہ میں اِس سال سات ماہ تک مسلسل دعائیں کرو اور خصوصیت سے یہ دعا مانگتے رہو کہ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِم ۔ یعنی اے خدا! ہم دشمنوں کی گردنوں پر تیرے ہی ہتھیار چلانا چاہتے ہیں اور ان کے شرور اور فِتن سے تیری ہی حفاظت چاہتے ہیں۔ نحر اُس گڑھے کو کہتے ہیں جو اُس جگہ پر واقعہ ہو جہاں گردن اور سینہ باہم ملتے ہیں۔ یہیں سے بڑی رگیں سر کی طرف جاتیں اور دل سے دماغ کو خون پہنچاتی ہیں۔ سو نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ کے یہ معنے ہیں کہ اے خدا ان کا کُلّی طور پر استیصال کردے اور شرارت اس طرح نہ مٹاکہ وہ بار بار زندہ ہوتی رہے بلکہ اس طرح مٹا کہ وہ کبھی ظاہر نہ ہوسکے۔ پھر احرار کے علاوہ ہمارے اندر بعض منافق بھی پائے جاتے ہیں جن کا وجودہمارے لئے سخت مضر ہے۔ گزشتہ دنوں گورنمنٹ کے بعض حکام کی طرف سے ہم پر جو مظالم ہوئے ہیں ان کی وجہ سے منافقوں نے بھی گردنیں اُٹھالی ہیں۔ منافق ایک حد تک ہی چل سکتا ہے زیادہ نہیں چل سکتا۔ پھر وہ ڈرپوک اور بُزدل ہوتا ہے، اُس کے سارے کام مخفی ہوتے ہیں اور بسااوقات ایسی صورت ہوتی ہے کہ شریعت اجازت نہیں دیتی کہ اُسے ننگا کیا جائے۔ پس اس کے شر سے بچنے کا ذریعہ بھی دعائوں کے سِوا اور کوئی نہیں۔
پھر علاوہ ان واقعات کے جو ہمارے سامنے ہیں اُن عظیم الشان مقاصد کیلئے جن کو سرانجام دینے کیلئے سلسلہ احمدیہ قائم کیا گیا ہے اگر ہم خاص وقتوں میں دعائیں کریں تو یہ دعائیں ضرورت سے زیادہ نہیں بلکہ کم ہی رہیں گی۔ دنیا کا فتح کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ چاروں طرف لوگ ہمارے مخالف ہیں اور ہر جگہ ایسی روکیں پیدا کی جارہی ہیں جن کو دورکرنا انسانی طاقت سے بالا ہے اور جن مشکلات اور روکوں کو دور کرنے کیلئے خداتعالیٰ کی نصرت کے سِوا اور کوئی ہمارے کام نہیں آسکتا۔ پس آئو کہ ہم خداتعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان کاموں کے پورا کرنے میں ہماری امداد فرمائے جن کیلئے سلسلہ احمدیہ دنیا میں قائم ہؤا ہے۔ اور لوگوں کے قلوب کی اصلاح کرے بلکہ لوگوں کے قلوب کی اصلاح کا کیا ذکر ابھی ہمارے اپنے نفس ہی بہت بڑی اصلاح کے محتاج ہیں۔ پس خدا اپنے فضل سے ہمارے دلوں کی بھی اصلاح فرمائے، ہمیں اپنے نفس پر غالب آنے کی توفیق دے اور ہمیں وہ طاقتیں عطا فرمائے جن سے اس کے دین کا جلال ظاہر ہو اور اُس کا قُرب اور وصال ہمیں میسر ہو۔
غرض مت خیال کرو کہ یہ ایک رسمی بات ہے جو میں تمہارے سامنے پیش کررہا ہوں۔ یہ ایک نہایت ہی اہم مطالبہ ہے جس کو پورا کرنا جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے۔ چاہئے کہ جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اپنی اپنی جماعتوں کو یہ مطالبہ یاد دلاتے رہیں اور روزوں کے متعلق بھی یاد دہانی کراتے رہیں۔ کیونکہ جو چیز بار بار سامنے آتی رہے اُس کی طرف دل متوجہ ہوجاتے ہیں اور کئی کمزور بھی جو پہلے حصہ لینے کیلئے تیار نہیں ہوتے حصہ لینے لگ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کی اسی نکتہ کی طرف راہبری کرتے ہوئے فرماتا ہے فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی ۵؎ کہ تُولوگوں کو نصیحت کرتا چلا جا کیونکہ نصیحت بہت دفعہ فائدہ دے جایا کرتی ہے۔
پس میں کہتا ہوں کہ اِن دنوں کو خاموشی سے مت گزارو بلکہ روزے رکھو اور دعائیں کرو اور لوگوں سے کہو کہ وہ روزے رکھیں اور دعائیں کریں۔ جماعتوں کے پریذیڈنٹوں کو چاہئے کہ وہ مساجد میں بار بار لوگوں کو یاد دلاتے رہیں کہ ان ایام میں ان فِتنوں کے دور ہونے کیلئے دعائیں کی جائیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ ان مقاصد کیلئے دعائیں کی جائیں جو سلسلہ احمدیہ کے قیام سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور ان کمزوریوں کیلئے دعائیں کی جائیں جو خواہ ہم میں پائی جاتی ہیں یا دنیا کے اور افراد میں۔ تا اللہ تعالیٰ کے فضل ایسے رنگ میں نازل ہوں کہ وہ مصائب کے پہاڑ جو دشمنوں کی طرف سے ہمارے راستہ میں گِرائے گئے ہیں پاش پاش ہوجائیں اور ہمیں کامیابی ، ترقی، نیکی اور تقویٰ کے سامان زیادہ سے زیادہ عطا ہوں۔
پس دعا کے متعلق تمہاری کوشش اور ہمت دوسری کوششوں اور ہمتوں سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہونی چاہئے۔ کیونکہ یہ مطالبہ بھی دوسرے مطالبات سے کم نہیں بلکہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ پس روزوں کو یاد رکھو اور دوسروں کو یاد دلاتے رہو اور دعائوں کو یاد رکھو اور دوسروں کو دعائوں کیلئے کہتے رہو کیونکہ کام بہت بڑا ہے اور مشکلات بہت زیادہ۔ ہم کمزور اور بے بس ہیں۔ ہماری کمزوریاں ہم پر عیاں ہیں بلکہ ہم خود بھی اپنی کمزوریوں سے اتنے واقف نہیں جتنا ہمارا خدا ۔ پس ہم اُسی سے مدد طلب کرتے اور اُسی کی نصرت اور تائید اپنے ہر کام میں چاہتے ہیں۔
(الفضل ۲۴؍ اپریل ۱۹۳۷ئ)
۱؎ البقرۃ: ۱۸۷
۲؎
۳؎
۴؎ اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً… (النحل: ۱۲۱)
۵؎ الاعلٰی: ۱۰

۱۲
مومن خدا کیلئے کام کرتا ہے
(فرمودہ ۲۳؍اپریل ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
انسانی کمزوری ایسے موقع پر جاکر کھلتی ہے جبکہ وہ دیکھتے او رجانتے بوجھتے ہوئے ایک غلط اقدام کر بیٹھتا ہے اورخیال کرتا ہے کہ وہ نہایت ہی ہوشیار، چالاک اور دانا ہے حالانکہ وہ اپنے پائوں پر آپ کلہاڑی ماررہا ہوتا ہے۔ منافق کی حالت بالکل ایسی ہوتی ہے ۔ وہ خیال یہ کرتا ہے کہ میرے جیسا چالاک اور ہوشیار کوئی نہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کی بیوقوفی کو ظاہر کررہا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ منافقوں کے متعلق فرماتا ہے کہ جب اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ تم یہ کیا حرکتیں کرتے ہو؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ۱؎۔ ہم تو صرف اصلاح کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلاَ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰـکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ ۲؎۔ خوب کان کھول کر سُن لو کہ یہی منافق فتنہ فساد پیدا کرنے والے لوگ ہیںہاں وہ اپنے فتنہ و فساد والے کاموں کی حقیقت کو سمجھتے نہیں۔ بسا اوقات وہ ایک فتنہ انگیز حرکت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کیا زد لگائی ہے۔ بسا اوقات خیال کرتے ہیں کہ کیا دھوکا دیا۔ بسا اوقات یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم نے کیسی تدابیر اختیار کررکھی ہیں کہ ہماری حقیقت کو کوئی معلوم نہیں کرسکتا۔ حالانکہ ان کی مثال اس اندھے اور سوجاکھے کی ہوتی ہے جن کے متعلق یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک اندھا اور سوجاکھا اکٹھے کھانے بیٹھے۔ سوجاکھے نے تو جس طرح انسان کھاتے ہیں کھانا شروع کردیا لیکن اندھے کو خیال ہؤا کہ یہ ضرور جلدی جلدی کھارہا ہوگا، اِس لئے اُس نے بھی جلدی جلدی ہاتھ مارنا شرو ع کیا۔ پھر اس کے دل میں خیال آیا کہ اس نے مجھے جلدی جلدی کھاتے دیکھ لیا ہے اِس لئے اب یہ اور بھی جلدی جلدی کھانے لگا ہوگا لہٰذا مجھے اور جلدی کھانا چاہئے اور اُس نے لُقمے آدھے ہی چبا چبا کر نگلنے شروع کئے۔ پھر اُسے خیال آیا کہ میری اِس حرکت کو بھی اس نے دیکھ تو لیا ہی ہے اس لئے ضرور اس نے کوئی اور تدبیر زیادہ سے زیادہ کھانے کی کرلی ہوگی اس لئے مجھے بھی اور زیادہ کھانا چاہئے اور اس نے دونوں ہاتھوں سے کھاناشروع کردیا۔ پھر اسے خیال آیا کہ اب آنکھوں والے نے بھی کوئی اور تدبیر نکال لی ہوگی اور اس کے مقابلہ میں اس نے ایک ہاتھ سے منہ میں اور دوسرے سے جھولی میں ڈالنا شروع کردیا۔ پھر خیال کیا کہ ضرور ہے اس کے مقابلہ میں بھی اس نے کوئی اورتجویز نکالی ہو اور چونکہ اس کے ذہن میںکوئی اور صورت نہ آسکی، اس نے تھالی کو اُٹھاتے ہوئے کہا کہ بس جی !اب یہ میر اہی حصہ ہے۔ حالانکہ آنکھوں والے نے اُسی وقت سے کھانے سے ہاتھ اٹھالیا تھا جب سے اندھے نے جلدی جلدی کھانا شروع کیا تھا اور اس دوران میں وہ دیکھتا رہا تھا کہ اندھا کیا کررہا ہے۔یہی حال منافقوں کا ہوتا ہے۔ مومن دیکھتا ہے کہ وہ کیا بیوقوفی کررہا ہے مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں کرتا۔ مگر منافق خیال کرتاہے کہ اب یہ تدبیریں کرتے ہوں گے اور اس کے مقابلہ میں مجھے یوں کرنا چاہئے۔ یہاں تک کہ خداتعالیٰ اس کے چہرے سے نقاب اُٹھادیتا ہے اور وہ تھالی اُٹھاکر کہتا ہے کہ یہ میرا حصہ ہے اور دنیا کو پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ منافق ہے۔ مومن اُس سے رعایت کرتا ہے اور منافق سمجھتا ہے یہ میری چالاکی ہے۔ مومن عفو سے کام لیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے میں نے ڈرادیا۔ مومن چشم پوشی کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے میں نے خوب دھوکا دیا۔
تمہارے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جن کے متعلق میں دس دس او رپندرہ پندرہ سال سے جانتا ہوں کہ وہ منافق ہیں۔ اتنے سالوں سے وہ جو جو کارروائیاں اور جو جو بکواس اِس سلسلہ کے اورمیرے خلا ف کرتے رہے ہیں میں جانتا اور سنتا ہوں مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت چالاک ہیں اور ہماری ان باتوں کاکسی کو علم بھی نہیں ہوسکتا اور اگر کبھی پتہ لگ جائے کہ ان کی کسی بات کا مجھے علم ہوگیا ہے اور میں خاموش رہوں تو سمجھتے ہیں کہ یہ ڈر گیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں اِن سے ڈرتا نہیں ہوں اور ان کے پاس ہے ہی کیا جس سے میں ڈروں۔ کیا ان کے پاس پیغامیوں سے زیادہ طاقت ہے؟اورجب میں ان پیغامیوں سے نہ ڈرا تو ان کی ذرّیت سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ پھر میرا خاموش رہنا عدمِ علم کی وجہ سے بھی نہیں ہوتا۔ مجھے ایک ایک بات کی رپورٹ پہنچتی ہے اور جن کے سامنے وہ باتیں کرتے ہیں وہ کون سے چُھپاتے ہیں۔ مثلاً پیغامی ہی ہیں وہ ایسے لوگوں کی باتوں کو کب چُھپاتے ہیں۔
پرسوں ہی ایک عزیز کا خط مجھے آیا۔ وہ مجھے لکھتے ہیں کہ میں ریل میں سوار تھا اور فلاںپیغامی بھی وہیں بیٹھے تھے ۔ اس پیغامی کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں کون ہوںوہ کہنے لگا دیکھو قادیان کے فلاں فلاں آدمی کتنے مخلص سمجھے جاتے ہیں مگر ہم لوگ جب جاتے ہیں تو وہ ہم سے ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں ۔ اس عزیز کیلئے یہی بات اچنبھا تھی مگر میرے لئے نہیں۔ میں ان میں سے بعض کے متعلق دس دس سال سے جانتا ہوں ۔ بعض کے متعلق دو سال اور بعض کے متعلق ایک سال سے مجھے علم ہے۔ مگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی چالاکی سے گزارہ کررہے ہیں حالانکہ ان کا گزارہ صرف مومنانہ عفو اور درگزر سے ہے ورنہ خداتعالیٰ کے فضل سے مجھے آج سے دس سال ، چار سال ، دو سال ، ایک سال اور اگر وہ حدیث العہد ہیں تو چھ ماہ قبل بھی توفیق تھی کہ ان کوکان سے پکڑ کر باہر نکال دوں اور آج بھی اگر وہ پکڑے جائیں توقسمیں کھائیں گے کہ یہ سراسر اتہام ہے، بُہتان ہے۔ مگر اب وہ سمجھتے ہیں کہ بڑے بہادر ہیں اور میں ان سے ڈرتا ہوں یا وہ بڑے چالاک اور ہوشیارہیں اورمجھے ان کا علم نہیں۔ ان کی مثال اُس کبوتر کی سی ہے جس پر جب بلی حملہ کرتی ہے تو وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتا اور سمجھتا ہے کہ اب وہ مجھے دیکھ نہیں سکتی۔
یہاں ایک بیچارہ آدمی تھا جس کی عقل میں فتور آگیا تھا اور چونکہ ہم زمانۂ الہام کے بالکل قریب ہیں اس لئے احمدیوں میں سے اگر کسی کا دماغ خراب ہو تو وہ نبوت یا مأموریت کا دعویٰ کرتا ہے۔ جیسے رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بہت سے جھوٹے مدعیانِ نبوت کھڑے ہوئے تھے۔ آجکل غیراحمدی اعتراض کرتے ہیں کہ مدعیانِ نبوت و ماموریت احمدیوں میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ مگر نادانوں کو نظر نہیں آتا کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی مسلمانوں میں سے ہی ایسے لوگ پید اہوتے تھے۔ یہ تو ہماری صداقت کی علامت ہے۔
قرآن کریم بتاتا ہے کہ جب بارش کا پانی اترتا ہے تو اچھے اور بُرے دونوں قسم کے پودے اس سے نشوو نما پاتے ہیں۔ اسی طرح جب الہام کا پانی اترتا ہے تو آسمانی ترقی کے متعلق جو حرصیں اور آرزوئیں ہوتی ہیں وہ دعوئوں کی شکل میں نمودار ہوتی ہیں۔ ایک ہی پانی سے انگور میٹھا اور حنظل کڑوا ہوتا ہے۔ اسی سے کھمب تریاقی صفت ہوتی ہے اور پدبہیڑا زہریلا۔ الٰہی کلام بھی پانی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ جِس پر گرتاہے اُس کی مخفی استعدادوں کو ظاہر کردیتا ہے۔ جس طرح بارش کا پانی جب انگور پر پڑتا ہے تو اسے زیادہ میٹھا کردیتا ہے اور کھٹے پر پڑتا ہے تو اسے زیادہ کھٹا بنادیتا ہے۔ وہ گیہوں پر گرتا ہے تو اسے زیادہ موٹا کرتا ہے اور جَو پر گرتا ہے تو اسے بھی موٹا کرتا ہے۔ وہ صرف نشوونما دیتا اور خفیہ طاقتوں کو بیدار کرتا ہے۔ جہاں خفیہ طاقتیں بُری ہوں وہاں وہ اُن کواُبھارتا ہے اور جہاں اچھی ہوں وہاں اُن کو اُبھارتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ قرآن کریم کا نتیجہ تھے۔ مگر کیا اس میں بھی کوئی شبہ ہے کہ ابوجہل بھی قرآن کریم کا ہی نتیجہ تھا۔ اگر قرآن کریم نے ایک طرف محمد رسول اللہ ﷺ کی طاقتوں کو اُبھار کر آپ کو خاتم النبیّٖن بنادیا تو دوسری طرف بُری طاقتوں کو اُبھارکر ابوالحکم کو ابوجہل بنادیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم فرماتا ہے یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا۳؎۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کریم بری باتیں سکھاتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اِس کی مثال پانی کی ہے جو تھوہر کو بھی اور انگور کو بھی نشوو نما بخشتا ہے۔ پانی تو صاف ہوتا ہے مگر اس کا کام خفیہ طاقتوں کو بیدار کرنا ہوتا ہے جو اندر ہو وہ باہر آجاتا ہے ۔ اسی لئے قرآن کریم کا نام البیان بھی رکھا گیا ہے۴؎۔ کیونکہ وہ ظاہر کردیتا ہے ۔
تو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی ایسی مخفی طاقتوں والے لوگ مدعی بن کر کھڑے ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی جن کے دلوںمیں مخفی کبر یا ریاء تھا ان پر جب الہام کا پانی گرا تو وہ دعوے کرنے لگے۔ اسی قسم کا ایک مریض یہاںپچھلے دنوں آیا تھا۔ میں نے سنا ہے بعض لوگ اس کی طرف منسوب کرکے باتیں میرے متعلق کہتے تھے جو مجھ تک پہنچتی تھیں۔ میں نے سمجھ لیا کہ ضرور کوئی بات ہے اور شاید یہی لوگ اُس کویوں کہتے ہیں۔ آخر اُس کا ایک بھائی میرے پاس آیا اور اُس نے بتایا کہ میں نے اسے کہا تھا کہ تمہارے دماغ میں نقص ہے تمہیں چاہئے کہ سوچو اور غور کرو اور ایسی باتیں نہ کرو ۔ تو اُس نے جواب دیا کہ تم تومجھے یہ کہتے ہو مگر قادیان کے بعض بڑے بڑے آدمی مجھے یوں کہتے ہیں کہ تمہیں کوئی جنون وغیرہ نہیں تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ میں نے کہا اس نے ایک فلاں شخص کا نام لیا ہوگا اور اُس نے اقرار کیا کہ ہاں۔ دوسرا نام بھی میں لینا چاہتا تھا مگر اِخفاء سے کام لیا اور وہ اس نے خود ہی لے دیا۔ تب میں نے کہا کہ میں یہ نام لینا چاہتا تھا مگر مصلحتاً خاموش رہا تھاسو یہ نہیں کہ مجھے علم نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ تو اس لئے خاموش ہوجاتا ہوں کہ ثبوت اِس حد تک نہیں ہوتا کہ جس کی موجودگی میں شریعت گرفت کی اجازت دیتی ہے اور بعض دفعہ اِس لئے خاموش رہتا ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ منافق کو ہدایت بہت کم ملتی ہے مگر پھر بھی سَو میں سے دس ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جن کو ہدایت نصیب ہوگئی۔گو اب میری رائے یہی ہوتی جارہی ہے کہ منافقوں کو زیادہ ڈھیل دینا شاید اورمنافق پیدا کرنے کا موجب ہو۔ کیونکہ جب ایک منافق نکلتا ہے تو وہ کوئی نہ کوئی بیج چھوڑ جاتا ہے جو اپنے وقت پر پودا پیدا کرنا شروع کردیتا ہے۔ لیکن اس کا علاج میں اب تک نہیں سوچ سکا کہ شریعت جب تک سزا کی اجازت نہیں دیتی اُس وقت تک کیا کِیا جائے۔ کیونکہ ایسے ثبوت سے پہلے اگر سزا دی جائے تو ظلم کا راستہ کُھل جاتا ہے۔
بہرحال ایسے لوگ مجھ سے پوشیدہ نہیں ہوتے اور بعض اوقات اللہ تعالیٰ رئویا میں ان کی شکلیں بھی دکھادیتا ہے۔ ایک دفعہ میں اپنے بڑے گھرمیں تھا یعنی جہاں میری بڑی بیوی رہتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی صحن میںرہا کرتے تھے۔ مجھے نیچے گلی میں کچھ کھڑکا معلوم ہؤا اور ایسا القاء ہؤا کہ گویا نیچے منافقین ہیں۔ میں نے نالی کے سوراخ میں سے دیکھا تو معلوم ہؤا کہ کچھ لوگ دیواروں سے لگے کھڑے ہیں اور اندر جھانک کر کچھ دیکھنا چاہتے ہیں یا کان لگا کر سُننا چاہتے ہیں۔ جب اُنہیں معلوم ہؤاکہ میں دیکھ رہا ہوں تو وہ بھاگے ۔ وہ تعداد میں جہاں تک یاد ہے نو تھے۔بھاگتے ہوئے ان میں سے بعض کو میں نے پہچان بھی لیا اور ایک کا علم تو اب تک ہے۔ مگر بعض کے متعلق اللہ تعالیٰ نے عفو سے کام لیا اورمیں اُن کو دیکھ نہ سکا۔ بعضدفعہ اللہ تعالیٰ اس طرح بھی کرتا ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص میرے سامنے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر اُس کا اندرونہ کھول دیتا ہے اور مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ اِس پر اِن دنوں نِفاق کی حالت طاری ہے۔ مگر میں خاموش رہتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے دے۔ لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ منافقوں پر نصیحت کا اثر کم ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو ہوشیار اور ہم کو بیوقوف ، ہمیں مفسد اور اپنے آپ کو مصلح سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہماری نصیحت اُن پر کیا اثر کرسکتی ہے۔ پھر وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم ان سے ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر فِیْ الْواقعہ ہمارے متعلق علم ہے تو ہمیں نکالتے کیوں نہیں اور جب کسی منافق کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ چونکہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں وہ اپنے دل میں کہتے ہیں وہ کوئی اور بیوقوف ہوگا جس کا علم ہوگیا ہم ایسی ہوشیاری سے کام کرتے ہیں کہ ہمیں پکڑنا آسان نہیں۔
پس میں اُن سے نہیں بلکہ تم لوگوں سے جو مخلص ہو کہتا ہوں کہ غور کرو کیا منافق کوئی نئی قسم کا سر اور نئی قسم کا دل و دماغ لے کر آتا ہے؟ جسمانی لحاظ سے مومن اورمنافق میں کوئی فرق نہیں ہوتا بالکل باریک فرق ہے ُپلِ صراط کی طرح۔ جب انسان ایمان سے ذرا ادھر ہو تو منافق بن جاتا ہے۔ اچھی طرح یاد رکھو کہ جو شخص خداتعالیٰ کیلئے کام کرتا ہے وہ مومن ہے اور جس کے کام میں نفس کی ملونی ہے وہ منافق ہے۔ ایک شخص بہت عبادت گزار اور نیک کام کرنے والا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ خداتعالیٰ کی ڈیوڑھی پر پہنچ جاتا ہے مگر منافقت اُس کے دل کے پردوں میں چُھپی ہوئی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اُسے کوئی کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں نے بڑی خدمت کی مگرمیری کوئی قدر نہیں کی گئی اور اُس کی منافقت ظاہر ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی پہلی حالت میں بھی منافق تھا اور اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ وہ منافق ہے ۔ مگر پہلے اُس کا نفاق ایمان کے لباس میں چُھپا ہؤا تھا۔
رسول کریمﷺ کے زمانہ میں ایک جنگ میں ایک شخص بڑے جوش اور زورکے ساتھ اسلامی لشکر کی طرف سے لڑ رہا تھا۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس نے کسی جہنمی کو روئے زمین پر چلتے پھرتے دیکھنا ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔ صحابہ ؓ اِس بات کو سُن کرحیرت میں پڑ گئے اور بعض نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ اگر اتنی قربانی کرنے والابھی جہنمی ہے تو پھر ہمارا کیا حال ہوگا۔بعض نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کو غلط رپورٹیں پہنچائی گئی ہیں۔ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا افسوس ہے لوگ رسول کریمﷺ کی بات میں شک کرتے ہیںاور میں اس شخص کے ساتھ رہوں گا تا اس کاانجام دیکھ سکوں۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ رہے اور بیان کرتے ہیں کہ اس نے اِس قدر شدید لڑائی کی کہ دشمن کے چھّکے چُھڑادئیے۔ آخر وہ زخمی ہو کرگرا اور شدتِ درد سے کراہ رہا تھا۔ کئی صحابہ ؓ جو نہ جانتے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے اس کے متعلق کیا فرمایاہے یا جانتے تو تھے مگر سمجھتے تھے کہ رسول کریمﷺ کو غلط رپورٹیں پہنچائی گئی ہیں، وہ آتے اور اُسے کہتے اَبْشِرْ ِبالْجَنّۃِ تمہیں جنت کی بشارت ہو۔ مگر وہ جواب دیتا کہ اَبْشِرُوْنِیْ بِالنَّارِ مجھے دوزخ کی خبر دو۔ اِس پر وہ صحابہ حیران ہوتے اور کہتے کہ یہ کیا کہہ رہے ہو تم نے اسلام کیلئے اتنی قربانیاںکی ہیں۔ مگر وہ جواب دیتا کہ میں نے اسلام کیلئے کوئی قربانی نہیں کی۔ اِن لوگوں نے میرے بعض رشتہ داروں کو مارا ہؤا تھا اور میں نے ان سے محض ان کا انتقام لیا ہے۔ گویا اُس نے اقرار کر لیا کہ رسول کریمﷺ نے اس کے متعلق جو فرمایا تھا وہ صحیح تھا۔ وہ خدا کیلئے نہیں لڑ رہا تھا اور اس نے خود اقرار کر لیاکہ میں جہنمی ہوں۔ ۵؎
اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کیلئے لڑنے والے اور جنتی کی مثال یہ ہے کہ غزوئہ خیبر میں حضرت علیؓ نے ایک بڑے جنگجو اور زبردست دشمن کو جب زمین پرگرا لیا اور اُسے مارنے لگے تو اُس نے آپ کے منہ پر تُھوک دیا۔ اس پر آپ فوراً الگ ہو کر کھڑے ہو گئے۔ اُس نے کہا آپ نے مجھے اس قدر کوشش سے گرا یا اور جب مجھے مارنے کا وقت آیا تو اُٹھ کر علیحدہ کھڑے ہو گئے۔ آپ پر میری تلوار نے تو کوئی اثر نہ کیا، یہ کیابات ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ جب میں تم سے لڑ رہا تھا تو تمہیں اسلام کا دشمن سمجھ کر لڑتا تھا لیکن جب تم نے مجھ پر تھوکا تو چونکہ مجھے یہ حرکت بُری معلوم ہوئی اور میرے دل میں بغض پیدا ہوگیا۔ میں نے سمجھا کہ اگر اب میں نے تمہیں ماراتو میں خدا کے نزدیک قاتل ٹھہروں گاکیونکہ میرا تم کو قتل کرنا اپنے غصہ کی وجہ سے ہوگا۔۶؎
تو جن لوگوں کے اندر نفاق ہوتا ہے ان کے دل کے اندر ایک چھوٹی سی رگ ہوتی ہے جو دھڑکتی رہتی اور موٹی ہوتی رہتی ہے۔وہ اس کے کان میںکہتی رہتی ہے کہ تُو بڑا آدمی ہے تُو نے بہت قربانیاں کی ہیں مگر تیری قدر نہیں کی جاتی۔ مگر مومن کے اندر ایک رگ ہوتی ہے۔ جو اُسے کہتی رہتی ہے کہ دیکھ تُو کتنا ذلیل تھا، کمزور تھا، بے سروسامان تھا مگر اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ اُس نے تجھے بھی خدمت کا موقع دے دیا۔ اور جب لوگ اُسے آگے کرتے ہیں تو وہ شرمندہ ہو کر جُھک جاتا اور کہتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہی کیا جو کچھ کیا یہ میرا کام نہیں ہے۔ پھرلوگ مجھے کیوں آگے کرتے ہیں، میں نے تو کوئی کام نہیں کیا۔
پس مومن اور منافق میں نمایاں فرق یہی ہوتا ہے ورنہ منافق کے سر پر سینگ نہیں ہوتے۔ منافق اگر کوئی کام کرتا ہے تو اُسے خیال ہوتا ہے کہ میری قدر ہونی چاہیے مگر مومن کوئی کام کرے تو اس کی ندامت بڑھتی اور شرمندگی ترقی کرتی ہے۔ وہ جُوں جُوں اُونچا ہوتا ہے خدا کا جلال اسے زیادہ نظر آتا ہے مگر منافق اپنے آپ کو بڑا اورخدا کے جلال کو چھوٹا سمجھتا ہے ۔ منافق اورمومن کی مثال یوں سمجھ لو کہ دو شخص ہوائی جہاز میں بیٹھے ہیں۔ مومن اونچا ہوتا جاتا ہے اور اسے سورج بڑا اور زمین چھوٹی نظر آتی ہے مگر منافق نیچا ہوتا جاتااور اسے سورج چھوٹا اور زمین بڑی نظر آتی ہے۔ بس یہی فرق دونوں میں ہوتا ہے۔ ورنہ نمازیںمنافق بھی پڑھتا ہے اور مومن بھی۔ روزے دونوں رکھتے ہیں، حج دونوں کرتے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت دونوں کرتے ہیں ،صدقہ و خیرات بھی دونوں کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ منافق کے اندر بڑائی اور کبر ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے میں ہی بڑا ہوں، وہ اپنی عزت چاہتا ہے ۔ لیکن مومن خدا کی عزت چاہتا ہے۔ خداتعالیٰ بھی منافق کی نظروں میں ہی اس کے نفس کو بڑا اور مومن کی نگاہ میں اس کے نفس کو چھوٹا کرکے دکھاتا ہے۔ خداتعالیٰ پرکامل ایمان روشنی ہے اور نفس ایک سیاہی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ دل پر ایک سیاہ داغ ہوتا ہے جو شخص نیک کام کرے اُس کی سیاہی گھٹتی اور سفیدی بڑھتی جاتی ہے حتیٰ کہ سارا دل اُس کا سفید ہوجاتا ہے۔ لیکن جو ریاء سے کام لیتا ہے اور کبر پسند ہوتا ہے، اُس کے دل کی سفیدی کم ہوتی اور سیاہی بڑھتی جاتی ہے حتیٰ کہ اس کاتمام دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ ۷؎ تم جو منافق نہیں ہو یہ مت سمجھو کہ تم نِفاق کے خطرہ سے محفوظ ہو۔ مسلمانوں پرزوال اِسی وجہ سے آیا کہ ان میں کروڑوں منافق بن گئے۔ وہ اسلام کا دعویٰ تو بے شک کرتے تھے مگر حقیقی محبت اسلام باقی نہیں رہی تھی۔ وہ اپنے نفسوں کو مقدم کرنے لگے اور اُن کے دِلوں میں عُجب اور کبر آگیا۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو خواہ کتنا بڑا کیوں نہ سمجھیںاللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف ہے۔ آپ فرماتے ہیں مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ ایک بڑی لمبی نالی ہے جو کئی کوس تک چلی جاتی ہے اور اس نالی پر ہزارہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں۔ اس طرح پر کہ بھیڑوں کا سر نالی کے کنارہ پر ہے، اس غرض سے کہ تا ذبح کرتے وقت ان کا خون نالی میں پڑے اور باقی حصہ ان کے وجود کا نالی سے باہر ہے اور نالی شرقاً غرباً واقع ہے اور بھیڑوں کے سر نالی پر جنوب کی طرف رکھے گئے ہیں اور ہر ایک بھیڑ پر ایک قصاب بیٹھا ہے۔ اور ان تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چُھری ہے جو ہر ایک بھیڑ کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے گویا خداتعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں اور میں اس میدان میںشمال کی طرف پھر رہا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں، بھیڑوں کو ذبح کرنے کیلئے مستعد بیٹھے ہیں محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے اور تب مَیں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَا ئُ کُمْ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے۔ اگر تم اس کی پرستش نہ کرو اور اس کے حکموں کو نہ سنو اور میرا یہ کہنا ہی تھا کہ فرشتوں نے سمجھ لیا کہ ہمیں اجازت ہوگئی ۔ گویا میرے منہ کے لفظ خدا کے لفظ تھے۔ تب فرشتوں نے جو قصابوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے فِی الْفور اپنی بھیڑوں پر چُھریاں پھیر دیں اور چُھریوں کے لگنے سے بھیڑوں نے ایک دردناک طور پر تڑپنا شروع کیا۔ تب ان فرشتوں نے سختی سے ان بھیڑوں کی گردن کی تمام رگیں کاٹ دیں اور کہا کہ تم چیز کیا ہو گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔۸؎
جو شخص خود عجز اور انکساری دکھاتا ہے اور خدا کیلئے بڑی سے بڑی ذلت برداشت کرنے کیلئے تیار رہتا ہے، اُس کیلئے دنیا بھی موتی اور ہیرے بن جاتی ہے۔ مگر جو اپنے لئے دنیا کی طرف جھکتا اور بڑائی دکھاتا ہے وہ اس کیلئے گوہ بن جاتی ہے اس لئے کہ وہ خدا کا مال ہے اور جو خدا کا نہیں، خدا کے مال پر اس کاکوئی حق نہیں۔ دنیا اگر مومن کے پاس ہو تو وہ چونکہ خدا کا بندہ ہے وہ اس کیلئے حلال طیب بن جاتی ہے اور منافق کے پاس ہو تو چونکہ اس کیلئے حرام ہوتی ہے وہ اس کیلئے نجاست بن جاتی ہے کیونکہ وہ خدا کا مال ہے جس پر منافق کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ وہ ایک کو انسان بنادیتی ہے اور دوسرے کو گوہ کھانے والی بھیڑ۔ جب وہ سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں اُس وقت وہ گو ہ کھانے والی بھیڑ ہے اور جب اپنے نفس کو مٹادیتا ہے اُس وقت وہ خدا کا سپاہی بنتا ہے اور خداتعالیٰ اُس کے ہاتھ پائوں، آنکھ، کان، ناک ہوجاتا ہے۔ وہ خدا کا مظہرہے اِس لئے خدا کی چیزیں اُس کیلئے حلال اور طیب ہو جاتی ہیں لیکن جب وہ اپنا ایک الگ وجود بتاتا ہے تو وہ غیر ہوجاتا ہے اور غیر کو خداتعالیٰ کے مال پر کوئی حق نہیں۔
پس اپنے نفسوں کو ٹٹولو اور دیکھو کہ تمہاری قربانیاں اپنے نفس کیلئے تو نہیں۔ اگر تم کسی عزت کے طالب ہو، اگر معاوضہ کے خواہاں ہو تو تم گوہ کھانے والی بھیڑیں ہو۔ لیکن اگر تم نمازیں پڑھتے، چندے دیتے اور قومی کام کرتے ہو اور ہر کام کے بعد تم دیکھتے ہو کہ تمہارا نفس اور بھی چھوٹا ہوگیا ہے یہاں تک کہ ایک دن آتا ہے کہ تم اپنے آپ کو دیکھ ہی نہیں سکتے، تمہارا وجود مٹ جاتا ہے تو تم بیشک مومن ہو۔ بعض لوگ بڑے حیران ہوتے ہیں کہ فلاں شخص بڑا عالم ہے، نمازیں پڑھتا اور روزے رکھتا ہے وہ منافق کیسے ہوسکتا ہے۔ حالانکہ منافق اُسے نہیں کہتے جو نمازیں نہ پڑھے یا روزے نہ رکھے بلکہ منافق وہ ہے جو کام اپنے نفس کیلئے کرتا ہے اور پھر چیختا اور شور مچاتا ہے کہ میری قدر نہیں کی گئی ۔اگر کہو کہ کس طرح پتہ لگے کہ کوئی شخص ذاتی عزت کا خواہاں ہے تو اِس کا طریق آسان ہے۔ تم دیکھو کہ جب وہ ایک جماعت میں شامل ہے اور پھر اس پر اعتراض بھی کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ ذاتی عزت چاہتا ہے۔ دراصل جماعت میں خرابی نہیں۔ اگر فِی الْواقعہ جماعت میںخرابی ہوتی تو وہ اس میں شامل ہی کیوں رہتا۔ اگر جماعت کو ہی وہ بُرا سمجھتا ہے تو اس سے الگ کیوں نہیں ہوجاتا۔ شامل رہنے اور پھر اعتراض کرنے کامطلب یہی ہے کہ اگر میں لیڈر ہوتا تو پھر یہ جماعت اچھی تھی۔ اس کافعل ہی دلالت کرتاہے کہ وہ عزت کا بھوکا ہے اور اگر وہ کہتا ہے کہ مجھے عزت کی ضرورت نہیں تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔ کیونکہ اُس کا عمل اُس کے قول کو ردّ کررہا ہوتا ہے۔ وہ یقینا عزت کا خواہشمند ہے اور یہی خواہش اسے ذلیل کرتی جاتی ہے۔
پس میں نے ایک کُھلا معیار بتادیا ہے۔اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری قربانی کی پرواہ نہیں کی گئی تو یاد رکھو کہ جس دن تمہارے اندر یہ خیال پیدا ہؤا اُسی دن سے تمہارے اندر نِفاق کی رگ پیدا ہوگئی۔ ایسے شخص کو میں منافق تو نہیں کہتا لیکن نفاق کی رگ اس میں ضرور ہے۔ کئی ہیں جو کسی سے لڑتے ہیں تو شکایت کرتے ہیں کہ جماعت ہماری مدد نہیں کرتی۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے سلسلہ کی کوئی خدمت کی تھی۔ لیکن اگر تم اسے خدا کا کام سمجھتے ہو تو پھر تمہارا کیا حق ہے کہ اس کے معاوضہ کی اُمید رکھو۔ کئی لوگوں کو اِس بات پر ابتلاء آجاتا ہے کہ فلاں شخص کو پریذیڈنٹ یا سیکرٹری یا امام الصلوٰۃ کیوں بنادیا گیا۔
میں نے یہ ایک ایسا معیار بتادیا ہے کہ اگر تم اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے نفسوں کو ٹٹولتے رہو تو نِفاق سے بچ سکتے ہو۔ جب تمہارے دل میں عُجب، بڑائی اور کبرپیدا ہو، جب یہ خیال پیدا ہو کہ تمہارے ساتھ، تمہاری اولاد کے ساتھ، تمہارے بھائیوں کے ساتھ اور دوستوں کے ساتھ ایسا کیوں کیاگیا تو سمجھ لو کہ یہ نِفاق ہے۔ جب اِس سلسلہ کو خدائی سلسلہ سمجھتے ہو اور جماعت میں کوئی نقص دیکھتے ہو تو سمجھ لو کہ خدا خود ذمہ دار ہے تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جو فعل بادشاہ کے سامنے ہؤا ہو کیا اُس کی طرف بادشاہ کو توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے ؟وہ اگر ضرورت سمجھے تو خود ہی دخل دیتا ہے۔ پس تم بھی یہی سمجھو کہ اگر کوئی بات دخل دینے کے قابل ہے تو ہمارا خدا زندہ ہے اور وہ سب کچھ دیکھتا ہے وہ خود دخل دے گا۔ اگر نہیں دیتا تو سمجھ لوکہ دخل دینے کی ضرورت نہ تھی۔ پس ایمان کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ یہ زندگی ہے کتنے دن کی۔ اگرکوئی شخص یہ چند روز بھی صبر کے ساتھ نہیں گزار سکتا تو وہ کس طرح توقع کرسکتاہے کہ اسے ایک نہ ختم ہونیو الی زندگی دے دی جائے۔ وہ اَنْ گنت سالوں کی زندگی حاصل کرنا چاہتا ہے مگر دو یا چار سال صبر سے نہیں گزارسکتا۔
میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر انسانی زندگی پانچ ، سات سَو بلکہ ہزار سال کی بھی ہوتی اور یہ تکالیف میں بسر ہوتی تو وہ تکالیف بھی آخرت کے آرام کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہ رکھتیں۔لیکن یہ زندگی تو ہے ہی بہت محدود۔ اس کی تکالیف اور بے عزتی کی حقیقت ہی کیا ہے اصل عزت خداتعالیٰ کے سلسلہ کی ہے۔اگر اس کیلئے ہمیں اپنی عزت کی قربانی کرنی پڑے تو ہمیں اپنی عزت اِسی میں سمجھنی چاہئے اور سلسلہ کیلئے ہر قربانی پیش کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ خصوصیت سے اِس وقت یہ بات میں نے اس لئے کہی ہے کہ چند دنوں میں دو رئویا ایسے ہوئے ہیں جو جماعت کو اس طرف توجہ دلانے والے ہیں۔
ایک رئویا تو ہمارے خاندان سے باہر کے ایک دوست نے دیکھا ہے۔ اس نے رئویا میں رسول کریم ﷺ کو دیکھا ہے۔ آپ لوگوں سے کچھ فرماتے ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ دجالی فتنہ سے بچنے کی تم کو نصیحت کی گئی تھی۔ دوسرا رئویا میری ہمشیرہ نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک تخت پر کھڑے ہیں جو کانپ رہا ہے اور آپ لوگوں سے فرماتے ہیں کہ پندرہ بیس روز یہ دعا کرو رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا اور متفرق مقامات کے متفرق اشخاص کے یہ خواب بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے ایمانوں کو صدمہ سے بچانا چاہتا ہے اوربعض کے ایمانوں کو خطرہ سے محفوظ رکھنا چاہتاہے اور یہ تینوں مقام ایسے نہیں کہ ان کو غفلت سے گزاردیا جائے۔ اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ مومن اور منافق کا فرق دوستوں کو بتادوں۔ تا اگر وہ اپنے ایمانوں کو بچانا چاہیں تو بچالیں ورنہ ایمان اور نفاق میں بال سے بھی زیادہ باریک فرق ہے جسے انسان سمجھ بھی نہیں سکتا۔ خصوصاً اس زمانہ کیلئے تو پیشگوئیاں بھی بہت سی ہیں۔ مثلاً ایک پیشگوئی یہ ہے کہ یُمْسِیْ مُؤْمِنًا وَ یُصْبِحُ کَافِرًا۔۹؎ یعنی بعض انسان رات کو مومن ہونے کی حالت میں سوئے گا اور صبح اُٹھے گا تو کافر ہوگا۔ یہ زمانہ اِس قدر وساوس اور شُبہات کا ہے کہ ایمان کو بچانا بہت مشکل ہے۔ بیشک قرآن کریم نے اِس زمانہ کی نسبت فرمایا ہے کہ وَاِذَا اِِلْجَنَّۃُ اُزْلِفَت۱۰؎ جنت قریب کردی جائے گی۔ لیکن ساتھ ہی قرآن کریم سے اس زمانہ کا زمانۂ ابتلاء ہونا بھی ثابت ہے۔
پس یہ جو آزادی کا زمانہ ہے اِس میں ہر وقت تم نفاق کے دروازہ پر کھڑے ہو۔ تمہیں چاہئے کہ ہر وقت اپنے ایمان کی فکر کرتے رہو اور اس کا طریق بھی میں نے بتادیا ہے۔ اگر چاہو تو اس سے فائدہ اُٹھا کر اپنے ایمانوں کو بچاسکتے ہو ورنہ منافقت کا دروازہ بالکل قریب ہے اور ایک ہی دھکے میں تم اس کے اندر جاسکتے ہو۔
(الفضل ۲۸؍ اپریل ۱۹۳۷ئ)
۱؎ البقرۃ:۱۲ ۲؎ ا لبقرۃ: ۱۳ ۳؎ البقرۃ: ۲۷
۴؎ اٰلِ عمران: ۱۳۹ ۵؎ الرحمن: بخاری کتاب القدر باب العمل بالجواتیم (مفہوما)
۶؎
۷؎ ابن ماجہ کتاب الزھد۔ باب ذکر الذنوب
۸؎ تذکرہ صفحہ ۱۸،۱۹۔ ایڈیشن چہارم
۹؎ مسلم کتاب الایمان باب الحث علی المبادرۃ بالاعمال
۱۰؎ التکویر: ۱۴

۱۳
جھوٹ اور نِفاق کے تمام شعبوں سے پرہیز رکھنا چاہئے
(فرمودہ ۳۰؍اپریل ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
انسانی زندگی میں یہ عجیب بات نظر آتی ہے کہ ایک طرف تو انسان بڑے دعوے سے یہ بات پیش کرتا ہے کہ بھلا میں بیوقوف یا پاگل تھا کہ فلاں بات کرتا۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ جان بوجھ کر کوئی شخص غلط طریق اختیار نہیں کرتا۔ دوسری طرف وہی انسان بعض دفعہ غلط طریقہ اختیار کرتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ اُس کا طریق غلط ہے۔ کیونکہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ بے بس تھا اور اس کا بس نہ چلتا تھا اس واسطے اس نے ایسا کیا۔ وہی آدمی ہوتا ہے ، وہی اُس کی طاقتیں ہوتی ہیں، وہی اس کے حالات ہوتے ہیں لیکن اُس کی زبان پر ایک وقت یہ فقرہ ہوتا ہے کہ کیا میں پاگل تھا کہ ایسا کرتا۔ اور پھر اُس کی زبان پر یہ فقرہ ہوتا ہے کہ وہ بے بس تھا اِس واسطے ایسا ہوگیا۔ اب ان دونوں باتوں میں سے ایک ضرور غلط ہوتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں ہی غلط ہوں۔ جب وہ یہ کہتا تھا کہ اس کے بس میں نہ تھا حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اُس نے اپنے بس کو اور طاقت کو استعمال کرناپسند نہ کیا تھا۔ یا جب وہ یہ کہتا ہے کہ کیا میں پاگل تھا کہ ایسا کرتا، اُس وقت وہ اپنے علم کا غلط فائدہ اُٹھارہا ہوتا ہے۔ درحقیقت وہ جانتا ہے کہ میں نے ایسا کام کیا ہے لیکن اپنے سمجھدار ہونے کی چادر میں اپنے عیب کو چُھپانے لگ جاتا ہے۔ گویا وہ جب کہتا ہے کہ کیا میں پاگل تھااُس وقت بھی جھوٹ بولتا ہے اور جب کہتا ہے کہ میں بے بس تھااُس وقت بھی بے بس نہیں ہوتا ۔ جب ہم انسانی اعمال پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں باتیں غلط کہہ رہا ہوتا ہے۔ یا کم سے کم ایک آسان طریق اس کو مجرم بنانے کا یہ ہوتا ہے کہ اُس کے دعوے کو ہی اُس کے سامنے پیش کردیا جائے تو وہ شرمندہ ہوجاتا ہے۔
اب اسی سے پوچھنا چاہئے کہ فلاں موقع پر تو تم نے کہا تھا کہ کیا میں پاگل تھا یا بے بس تھا کہ ایسا کرتا اور اب کہتے ہو کہ بے بس تھا۔ ان دونوں میں سے کونسا دعویٰ صحیح تھا؟ اگر یہ فقرہ درست ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جب تک کہ اس کا علم اور عقل تسلی نہیں پائیں گے تو پھر یہ درست نہیں کہ وہ بعض افعال کے ارتکاب میں بے بس تھا۔ کیونکہ بے بس ہونے کے یہ معنے ہیں کہ یہ جانتا تو تھا لیکن رُک نہیں سکتا تھا۔ پس دونوں چیزیں ایک وقت میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ جو شخص ایمان اور عقل کے خلاف نہیں کرتا وہ بے بس نہیں ہوجاتا اور جو بے بس ہوجاتا ہے وہ اپنے ایمان اور عقل کے خلاف باتیں بھی کرلیتا ہے۔ جو کہتا ہے کہ میں بے بس تھا وہ اقرار کرتا ہے کہ میں کبھی علم، ایمان اور عقل کے خلاف بھی باتیں کرسکتا ہوں کیونکہ مجبور ہوجاتا ہوں۔ اور جو یہ کہتا ہے کہ وہ اپنی عقل اور ایمان کے خلاف بات نہیں کرسکتا اُس کا اپنے آپ کو بے بس کہنا جھوٹ ہوتا ہے۔ کیونکہ جب وہ اپنی مرضی کے خلاف کام نہ کرنے پر قادر ہے تو بے بس کس طرح ہوسکتا ہے۔ اصل میں یہ دو بہانے ہیں جن سے انسان اپنے جُرم کو چُھپاتا ہے۔ جب یہ خدا کے ، اپنے ملک کے اور اپنے نفس کے فرائض کو ادا نہیں کرتا لیکن ساتھ ہی سمجھتا ہے کہ کوئی میرا جُرم ثابت نہیں کرسکتا تو کہہ دیتا ہے کیا میں پاگل تھا کہ یہ کام کرتا اورجب وہ سمجھتا ہے کہ میرا جرم ناقابلِ انکار حد تک ثابت ہے اور میں بہانوں سے اسے چُھپا نہیں سکتا تو کہتا ہے کہ میں کیا کروں، میں بے بس تھا۔غرض دونوں عُذر مختلف جگہوں پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ جب جُرم ثابت ہو تو بے بس ہونے کا اور جب ثبوت مشکل ہو تو کہتا تھا کہ میںپاگل تھا کہ ایسا کرتا۔ ان دونوں عُذروں کی وجہ سے ہم سُستی اور غفلت میں روز بروز بڑھتے جاتے ہیں۔
رسول کریمﷺ کے پاس ایک شخص آیا جس میں کئی عیب تھے۔ اس نے آپ سے درخواست کی اور نجات کا طریق دریافت کیا۔اِس پر حضور ﷺ نے فرمایاکہ کچھ تم کوشش کرو کچھ میں دعا کرتا ہوں۔ تم یہ کرو کہ اپنے پانچ عیوب میں سے ایک کو چھوڑ دو۔اور میں دعا کروں گا جس کانتیجہ یہ ہو گا کہ خدا تمہیں باقیوں کے چھوڑنے کی بھی توفیق دے دے گا۔ اُس نے دریافت کیاکہ وہ کس کو چھوڑ دے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جھوٹ نہ بولو اور ساتھ ہی اسے فرمایا کہ وہ حضور ﷺ سے ملتا رہے۔ اُس شخص نے وعدہ کیا اور چلا گیا۔ کچھ عرصہ بعد جب اُس کے دل میں ایک عیب کے ارتکاب کی خواہش پیدا ہوئی تو جھٹ اسے خیال آیاکہ رسول کریمﷺ نے یا کسی دوست نے پوچھا تو کیا جواب دوں گا۔ لہٰذا اُس کا ارادہ ترک کر دیا۔کچھ وقفہ کے بعد دوسرے عیب کا خیال پیدا ہؤا۔ پھر جھٹ یہ امر سامنے آگیاکہ اگر رسول کریم ﷺ یا کسی دوست نے دریافت کیا تو کیا جواب دوں گا کیونکہ جھوٹ تو بولنا نہیں۔بِالآخر یہ فیصلہ کیا کہ اس عیب کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ حتیٰ کہ چاروں عیبوں کے کرنے کا باری باری خیال پیدا ہؤا اور اِسی خیال کے آنے سے کہ اگر رسول کریم ﷺ نے یا کسی دوست نے پوچھا تو کیا جواب دوں گا، سب کا ارادہ ترک کردیا اور اُسی دن وہ اِن عیبوں سے محفوظ رہا۔ اِسی طرح کئی دن گزرگئے اور ہر روز اُس کی اِن عیوب سے بچنے کی طاقت بڑھتی گئی اور جب رسول کریمﷺ نے اُس کو بلایا تو اس نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اس خیال سے کہ کسی کے دریافت کرنے پر اپنے عیب کا اقرار کرتے ہوئے سچ بولنے میں شرمندگی ہوگی میں نے اِس وقت تک یہ عیب نہیں کئے اوراب میں پانچوں عیبوں کے چھوڑنے پر قادر ہوں۔ ۱؎ غرض جھوٹ کے چھوڑنے سے یہ طاقت اس کے اندر پیدا ہوگئی۔
یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے جُرم کو چھپاتا ہے یا دوسرے کو مرعوب کرنا چاہتا ہے تو جیسے عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب ان سے کسی ایسے امرکے متعلق دریافت کیا جائے جس میں ان کا قصور ہو تو جھٹ شور مچادیتی ہیں ، رونے لگ جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ان پر یونہی بدظنی کی جاتی ہے۔ یہی حالت چالاک مردوں کی بھی ہوتی ہے۔ وہ اِس بات کی طرف آتے ہی نہیں۔ یہ طریق ایسے لوگوں سے ہی ظاہر ہوتا ہے جو دل میں سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بُرا ہے لیکن سچ بولنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔ وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے ہیں تا کہ ان سے اس بارہ میں دریافت نہ کیاجائے لیکن جب اُن کو اس بات کے بتلانے پر مجبور کیا جائے تو آخر وہ جھوٹ بول دیتے ہیں ۔ بچوں کابھی قاعدہ ہے کہ جب ان سے کوئی بات دریافت کی جائے تو جھٹ وہ اور سوال شروع کردیتے ہیں۔ مثلاً اگر یہ دریافت کیا جائے کہ وہ کیوں مٹی میں کھیلتے رہے؟ تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ بُھوک لگی ہے۔ گویا وہ چاہتے ہیں کہ بات کو دوسری طرف پلٹا کر جُرم پر پردہ ڈال دیں۔
جب کوئی انسان یہ ارادہ کرے کہ اُس نے ہمت سے کام کرنا ہے اور اپنے فرائض کو سمجھنا ہے تو ایسے انسان کو جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیونکہ جو کام کرتا ہے اُسے بہانوں کی ضرورت نہیں ہؤا کرتی۔ اِس قسم کے عذرات کی عادت جرائم کی محبت سے پید اہوتی ہے اور انسان چاہتا ہے کہ ان جرائم میں روک نہ پیدا ہو۔ ہاں کچھ ایمان کی چاشنی بھی ہوتی ہے ۔ کیونکہ اگر ایمان کی چاشنی نہ ہو تو دھڑلے سے جھوٹ بولے۔ ایمان اس سے یہ کہتا ہے کہ اگر سچ بولنے سے بچ سکو تو فَبِہَا اور کفر کہتا ہے کہ نہ بچ سکو تو پھر جھوٹ ہی بول دو۔ ہمارے بعض آدمی چائے میں میٹھا اورنمک ڈال لیتے ہیں اور اس کانام سنگترہ چائے رکھتے ہیں۔ میں تو اسے منافق چائے کہا کرتا ہوں۔ ایسے لوگوں کی حالت بھی اس ملی ہوئی مٹھاس اورنمک کی سی ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ مرض ایسا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ احمدیوں کو چھوڑ کر باقی لوگوں میں ننانوے فیصدی پایا جاتا ہے۔ احمدی جو غیرتعلیم یافتہ ہیں ان میں بھی کثیر تعدادمیں پایا جاتا ہے۔ وہ اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہی چیز قومی تباہی کا موجب ہؤا کرتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو کامل بنانے کی کوشش نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ بغیر کامل بننے کے بری ہوجائیں۔ لیکن جب کوئی شخص اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ سچ بولے تو وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ اسے کہیں جھوٹ نہ بولنا پڑے وہ اپنے کیریکٹر کو مضبوط کرتا ہے اور اعزازی کاموں کو بھی خوب تندہی اور کوشش سے کرتا ہے۔ اپنی ہر غلطی کو محسوس کرکے اس پر پچھتاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ آئندہ وہ غلطی اس سے سرزد نہ ہو۔
جھوٹے انسان میں اصلاح کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی جو شخص کامل مومن بننا چاہے اُسے چاہئے کہ جھوٹ اور نفاق سے پرہیز کرے۔ اِس طرح اُس کے تمام عیوب اُس شخص کی طرح آپ ہی آپ دور ہوجائیں گے جو نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تھا اور جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں۔
ایک آدمی کا ذکر ہے وہ بازار میں سے گزررہا تھا کہ کیچڑ میں اُس کا پائوں پھسلا تو اُس نے اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کیلئے بہانہ بنایا اور اونچی آواز سے پکارا کہ ہائے جوانی!۔ لیکن جب اُس نے اِردگِرد دیکھا کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا تو اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے کہا جوانی میں تُو کونسا بہادر ہوتا تھا۔ محض ظاہری اخلاق والا انسان ایک اجنبی کو تو دھوکا دے سکتا ہے لیکن واقف کار کو دھوکا نہیں دے سکتا۔
ایک دفعہ ایسا ہؤا کہ میں نانا جان کے ساتھ ریل میں انٹر کلاس میں سفر کررہا تھا ۔ اُن کا طریق تبلیغ کا یہ ہوتا تھا کہ دنیا کے اخلاق کے بِگڑجانے کے واقعات بیان کرکے نصیحت کرتے اور بِالآخر ضرورت مصلح کی طرف آجاتے اور گفتگو اِس طور پر کرتے کہ مجلس پر چھاجاتے اورکسی کو یہ جُرأت نہ ہوتی کہ اُن کی تردید کرسکے یا بات کاٹ سکے۔ اُس وقت بھی انہوں نے اِس طریق پر باتیں شروع کیں۔ اِس پر ایک بوڑھے نے جو ہمارے پاس ہی بیٹھا تھا جھٹ کہنا شروع کردیا کہ ہاں حالات واقعی خراب ہیں اور خود تقریر کرنی شروع کردی اور اس زور شور سے کی کہ ساری مجلس پر سناٹا چھاگیا اور ہر ایک نے اُس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا۔ اس اثناء میں اُس نے جیل کے قیدیوں کی بے شمار مثالیں پیش کیں کیونکہ وہ داروغۂ جیل تھا۔ اتنے میں ٹکٹ کلکٹر اِس کمرہ میں داخل ہؤا۔ جب اُس نے اِس سے ٹکٹ طلب کیا تو اُس نے فوراً اِدھر اُدھر جیبوں میں تلاش کرنا شروع کردیا اور آخر کہہ دیا کہ ٹکٹ تو تھا معلوم نہیں کدھر گیا۔ مگر ٹکٹ کلکٹر وہاں نہ ٹلا اور اسے ٹکٹ نکالنا ہی پڑا جو تھرڈ کلاس کا تھا اِس پر بھولی سی شکل بنا کر کہنے لگا لیجئے ٹکٹ۔ میں جھوٹ تو نہیں کہتا تھا ۔ ٹکٹ کلکٹرنے کہا یہ تو تیسرے درجے کا ٹکٹ ہے اور آپ ڈیوڑھے میں بیٹھے ہیں۔ کہنے لگا اچھا؟ ڈیوڑھا کیا ہوتا ہے؟ گویا وہ یہ جانتا ہی نہیں تھا۔ پھر کہنے لگا کہ وہ درجہ کہاں ہے؟ پھربھولابنتے ہوئے ٹکٹ کلکٹر سے کہنے لگا کہ اچھا پھر میرا ٹرنک اُٹھالو اورمجھے وہاں لے چلو۔ اِس پر ٹکٹ کلکٹر نے خیال کیا کہ بوڑھا بالکل ناواقف ہے اور ایک قلی سے کہا کہ اس بوڑھے کا ٹرنک اُٹھائو اور تیسرے درجے میں بٹھادو۔اس شخص نے ٹکٹ کلکٹر کو دھوکا دے دیا لیکن ہم کو تو دھوکا نہ دے سکتا تھا۔ اِس قسم کا شخص ترقی نہیں کرسکتا کیونکہ اس کے نزدیک لوگوں کودھوکا دینے کا نام کمال ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص لوگوں میں دیانتدار مشہور ہوجائے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ اچھی بات ہے، میری خواہش پوری ہوگئی اب وہ مزید کوئی جدوجہد نہیں کرتا۔ اگر کسی کولوگ پارسا سمجھ لیں تو وہ سمجھتا ہے کہ بس اتنا ہی کافی ہے کیونکہ اس کے نزدیک ذلت سے محفوظ رہنا ہی اصل مقصود ہوتا ہے اور وہ اپنے لئے نیکی کا راستہ بند کرلیتاہے۔ حالانکہ چاہئے یہ کہ وہ خواہ لوگوں میں نیک نام مشہور نہ ہو خداتعالیٰ کی نگاہ میں نیک ہو۔ کیونکہ نیک نامی بڑی نہیں ہوتی بلکہ نیکی بڑی ہوتی ہے۔ اگر پچاس باتوں میں ایک شخص نیک نام پیدا کرے تو یہ کوئی قابل فخر امر نہیں ہے۔ لیکن اگر اسے پانچ نیکیاں حاصل ہوگئیں تو یہ افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ ۲؎ اگر کوئی شخص دوسروں کو بُھول کر اور صرف ہمیں یاد رکھ کر نیکیاں کرتا ہے تو خدا اس کی امداد کرتا ہے۔ لیکن جو محض نیک نام بننا چاہے خدا اُس کی امداد نہیں کرتا۔
پس حقیقی نیکی کی خواہش رکھنی چاہئے کہ خدا کی نظر میں انسان نیک ہے اور اگر ایسی کوشش نہ کرے گا تو اگرچہ لوگوں میں نیک نام ہوگا لیکن اُس کی بدیاں روز بروز بڑھتی چلی جائیں گی۔
(الفضل ۲۰؍ مئی ۱۹۳۷ئ)
۱؎
۲؎ العنکبوت: ۷۰

۱۴
اپنی تمام حرکات خلیفۂ وقت کے احکام کے تابع رکھو
(فرمودہ ۷؍ مئی ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
جو کچھ میں آج جمعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوںشاید وہ اس اجتماع کے مناسبِ حال نہیں اور وہ وقت جو اِس وقت میرے پاس ہے وہ بھی اِس مضمون کیلئے کافی نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم میں سے بعضوں نے ریل کے ذریعہ واپس جانا ہے۔ مگر چونکہ سفرمیں میرے پاس اِتنا وقت نہیں ہے کہ مضمون کے ذریعہ قادیان کی جماعت اور بیرونی جماعتوں کو توجہ دلائوں اِس لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ خطبہ کے ذریعہ بیان کردوں اور زود نویس جہاں تک اِن سے ہوسکے خطبہ لکھ کر الفضل کو بھجوادیں تاکہ قادیان اور بیرونی جماعتوں کو اطلاع ہوجائے۔
جماعت کے دوستوں کو معلوم ہے کہ ایک عرصہ سے کچھ افراد قادیان میں ایسے آبسے ہیں جن کی غرض محض یہ ہے کہ جماعت میں فتنہ پیدا کریں اور انہوں نے قِسم قِسم کی تدابیر سے بعض مقامی ہندوئوں اور سکھوں کو بھی ملالیا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ قادیان کے سارے کے سارے ہندو اور سکھ اِس میں شامل ہیں۔ ان میں سے بعض اچھے بھی ہیںاور وہ ہم سے تعلقات بھی رکھتے ہیں اور ان کی ایسی حرکات پر اظہارِ ناپسندیدگی کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کو اس بات سے بھی تقویت پہنچ گئی کہ ضلع کے بعض حکام کے مذہبی تعصّب یا سیاسی اختلاف یا کسی ذاتی کمزوری کی وجہ سے جو بعض طبائع میں پائی جاتی ہے اِن کو ایسی فضا میسر آگئی ہے کہ ایسے حکام کو اپنے ساتھ شامل کرکے جماعت کے راستے میں مشکلات پیدا کریں۔دو اڑھائی سال کے اختلاف کے بعد کسی قدر کمی پید اہوئی تھی لیکن مہینہ دو مہینہ سے اِس میں پھر کسی قدر حرکت معلوم ہوتی ہے۔
میں نے بارہا اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُّقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ ۱؎ امام کے بنانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ڈھال کے طور پرہوتا ہے اور جماعت اس کے پیچھے لڑتی ہے۔ یہ جائز نہیں کہ جماعت کے لوگ خود لڑائی چھیڑ دیں۔ اعلانِ جنگ امام کا کام ہے اور وہ جس امر کے متعلق اعلان کرے جماعت اُس طرف متوجہ ہو۔ مگر کئی دوست نہیں سمجھتے اور جھٹ ہر امر پر اظہارِ خیال کرنے لگ جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات دشمن اس سے چڑ کر شدت سے گالیاں دینے لگ جاتا ہے اور چھوٹی سی بات بہت بڑی بن جاتی ہے اور پھر ساری جماعت اس میں ملوث ہوجاتی ہے۔
ایک عام آدمی جس کو خداتعالیٰ نے اختیار نہیں دیا ہوتا نہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ سلسلہ کی ضرورتیں کیا ہیں نہ اُس کو کسی سکیم کاپتہ ہوتا ہے، نہ دشمن کی چالوں کو سمجھتا ہے، نہ اسے یہ علم ہوتا ہے کہ طاقت کہاں کہاں خرچ کرنی ہے، نہ جماعت کی ضرورتیں اور ترقی کی سکیمیں اُس کے ذہن میں ہوتی ہیں، نہ اس کے علم میں ہوتا ہے کہ خلیفہ کی اس امر کے متعلق کیا تجویزیں ہیں کیونکہ اس کے پاس کوئی رپورٹیں نہیں پہنچتیں اور نہ حالات کا اُس کو علم ہوتا ہے۔ وہ اپنی حماقت سے ایک چِنگاری چھوڑدیتا یا دشمن کی لگائی ہوئی آگ کو اپنی پھونکوں سے روشن کردیتا ہے اور پھر ساری جماعت کو اسے بُجھانا پڑتا ہے۔ خلیفہ کو اپنی سکیمیں پیچھے ڈالنی پڑتی ہیں اور جماعت کی ساری طاقت اس شخص کی بھڑکائی ہوئی آگ کے بجھانے میں صرف ہوجاتی ہے۔
میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے امور میں قطعی طور پر امام کی اتباع کی جائے۔ اب کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو لوگ بیعت میں اقرار کریں کہ ہم آپ کی اطاعت کریں گے اور دوسری طرف اپنی جھوٹی عزت کا خیال کرتے ہوئے اور امام کے اعمال کی حکمت کو نہ سمجھتے ہوئے یہ خیال کریں کہ اگر امام گالی کا جواب نہیں دیتا تو اُس کی بے غیرتی ہے۔ حالانکہ امام خوب سمجھتا ہے کہ فلاں جگہ خاموش رہنا مناسب ہے یا جواب دینا اور وہی خوب سمجھتاہے کہ اس کا کیا جواب دیا جائے۔ ہر گالی جواب کے قابل نہیں ہوتی۔
بچپن میں لوگ ہمیں میاں صاحب اور قادیان کے محاورہ کے مطابق میاں جی بھی کہا کرتے تھے۔ پنجاب کے بعض دوسرے علاقوں میں میاں جی کو ملا بھی کہتے ہیں۔ پنجاب کی اردو ریڈروں میں لکھا ہؤا ہے کہ میاں جی گھوڑے پر سوار ہیں۔ اُستاد کو بھی میاں جی کہتے ہیں۔ بعض طالب علموں نے جو استادوں کے خلاف ہوتے ہیں انہوں نے ان کے متعلق بعض فقرے بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ جیسے ’’میاں جی سلام تہاڈی گھوڑی نوں لگام‘‘ اِسی طرح مجھے بھی بعض لڑکے چھیڑا کرتے۔عمر کے لحاظ سے بعض دفعہ مجھے اِس پر غصہ بھی آتا لیکن خاموش رہتا۔ ایک دفعہ میں گزررہا تھاکہ ایک لڑکے نے مجھے دیکھ کر یہ فقرہ کہا۔ اِس پر مجھے اشتعال آیا لیکن معاً خیال آیا کہ یہ بچے ہیں میرے اشتعال سے اِن کو کیا فائدہ۔ اگر میں نے اشتعال دکھایا تو یہی فقرہ دُہرایا جائے گا اور بچے یاد رکھیں گے اور ایسا کہہ کر بھاگ جایا کریں گے۔ پس میں نے اپنے نفس کو روکا حتیٰ کہ ایک دو دن کے بعد وہ بُھول گئے۔پس ہر گالی قابل جواب نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُوَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ ۲؎ کہ ان مشرکوں کی طرف سے گالیاں دی جائیں گی تُو ان کی طرف توجہ نہ کرنا اور تبلیغ کی طرف لگے رہنا تاایسا نہ ہو کہ اصل مقصود بُھول جائے اور ایسے کام کی طرف لگ جائو جس کا کچھ فائدہ نہیں۔ یہ ایک عظیم الشان اور اخلاقی فلسفہ ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا کہ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ۔
یاد رکھنا چاہئے کہ مخالف دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کوئی اہمیتِ ذاتی یا پوزیشن رکھتے ہیں ان کو صداقت کی جاذبیت دیکھ کر غصہ پیدا ہوتا ہے اور وہ سخت کلامی کرتے ہیں ۔اور ایک اوباش ہوتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں سخت الفاظ کہنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا ۔ کیونکہ اس کی تو عزت کوئی نہیں ، اس کی ایک گالی کے جواب میں اگر تم بھی گالی دو گے تو اِس کے جواب میں وہ پانچ دے گا اور تمہاری دس گالیوں کے مقابلہ میں پچاس دے گا پھر مقابلہ کیا رہا۔ وہ معزز شخص جس کے پیچھے ایک قوم ہوتی ہے اگر اُس کو اُس کی سخت کلامی کا جواب دیا جائے تو مفید ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اُس کے ساتھی اُس کو ملزم کریں گے اور اُس کو کہیں گے کہ غلطی تمہاری تھی، کیوں تم نے ابتداء کی اور وہ اپنی پردہ دری کے خوف سے چُپ ہوجائے گا۔ مگر اوباش کو کون بتلائے اور اسے کون سمجھائے۔ وہ بتلانے والے کو بھی دس بیس سُنادے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ استہزاء کرنے والوں کو جواب نہ دینا، ہم خود جواب دیں گے کیونکہ ہم تمہاری طرف سے ان لوگوں کے مقابلہ کیلئے کافی ہیں جو حقارت اور تذلیل کے ذریعہ مخالفت کرتے ہیں ایسے لوگوں کے مقابلہ میں تمہیں نہ ہمت ہے نہ طاقت نہ ہی دُنیوی ڈھنگ آتے ہیں۔ ان لوگوں کی اپنی کوئی عزت نہیں، وہ اس سے بڑھ کر گالیاں دیں گے اور بجائے اس کے کہ ان کے دل ٹھنڈے ہوں دشمن بدگوئی میں بڑھتا چلا جائے گا۔ ایسے انسان کی زبان کو لگام نہ عزت دے سکتی ہے نہ رُتبہ نہ شرافت۔ کیونکہ یہ باتیں اسے میسرنہیں ہوتیں۔ اگریہ چیزیں اسے حاصل ہوں تو جواب کی اہمیت اُس کی سمجھ میں آجاتی ہے کیونکہ وہ خیال کرتاہے کہ میری بھی عزت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام کے بعض دشمنوں میں سے ایسے ہی بعض لوگوں کو جواب دیا جو مثلاً پادری تھے اور اپنی قوم میں معزز تھے۔ جبکہ وہ اسلام کے متعلق بدگوئی میں انتہا درجہ پر پہنچ گئے تا ان کو احساس ہو اور ان کی پوزیشن ان پر ظاہر ہوجائے۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے پاس ایک جماعت متفرق لوگوں کی گئی جنہوں نے ان کو کہا کہ اگر تم ایسی سختی نہ کرتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق تم کو ایسی باتیں نہ سننی پڑتیں۔ جس سے ان کو شرم محسوس ہوئی اور وہ رُک گئے۔ حتیٰ کہ بعضوں نے عَلَی الْاِعْلَان کہنا شروع کیا کہ کسی مذہب کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہئے۔ اِس کانتیجہ یہ ہؤا کہ آئندہ کیلئے رسول کریم ﷺ کے خلاف دشمنوں کی بدگوئی بہت حد تک رُک گئی۔ لیکن اگر آپ بعض اوباش عیسائیوں کے خلاف لکھتے تو کسی شریف نے اُن کو روکنا نہیں تھا نہ خود اُن کو اپنی عزت کا پاس ہوتا اور اِس طرح وہ گالیوں میں بڑھ جاتے۔ ایسے لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کبھی مخاطب نہیں کیا بلکہ ان کی نسبت فرمایا کہ ان کی گالیاں سن کر ان کو دعا دو۔
خداتعالیٰ بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِنَّا کَفَیْنٰـکَ الْمُسْتَھْزِئِ ِیْنَ ۳؎ کہ جو تمسخر کرتے ہیں ان میں علم اور عقل نہیں ہوتی ان کے جواب کی تم میں ہمت نہیں ہم ان کو خود جواب دیں گے۔ پس ایسے لوگوں کو مخاطب کرنا بے فائدہ ہے۔
اب قادیان کے ہندو مسلمانوں کی پوزیشن کیا ہے۔ وہ قوم میں معزز نہیں ۔ وہ اگر گالیاں دیں تو وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ کے مطابق ایسے مشرکین سے اعراض کرنا چاہئے۔ ایسے شخصوں کا مقابلہ کرنے والا درحقیقت پاگل ہے اور وہ خود زیادہ گالیاں دلاتا ہے بلکہ سلسلہ کا دشمن ہے کیونکہ آپ گالیاں دلاتا اور قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے تم ان کے بڑوں کو گالیاںمت دو کہ پھر یہ بغیر علم کے تمہارے خداکو گالیاں دینے لگ جائیں گے۔ کیونکہ دشمنی کے ساتھ بعض دفعہ عقل بھی ماری جاتی ہے اورحملہ کرتے وقت صرف یہی احساس دل میں ہوتا ہے کہ دوسرے کے نقصان کی خاطر اگر اپنا نقصان بھی ہوجائے توکوئی پرواہ نہیں۔ بیسیوں لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ دوسرے کو نقصان پہنچانے کی خاطر اپنے مکان کو آگ لگادیتے ہیں تا کہ دوسرے کو مقدمہ میں پھنسادیں۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اپنے بیٹے کو ماردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں نے ماردیا۔ پس پاگلوں کو چھیڑنا خود پاگل پن ہے۔ ہماری جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو ایک امام کے تابع کیا ہے اور امام خوب سمجھتا ہے کہ کہاں جواب دینا مناسب ہے اور کہاں نہیں۔ ہر جگہ جواب دینے والے کی مثال کُتّے کی سی ہوتی ہے جو بغیر امتیاز کے بُھونکتا ہے۔ ایک شریف انسان کو بھی جواب دیتا ہے لیکن وہ یہ دیکھتا ہے کہ کس کو جواب دیا جائے اور کیا جواب دیا جائے۔
پس یہ امام کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون سے دشمنِ اسلام ایسے ہیں جن کو جواب دیاجائے او رکون سے دشمن ایسے ہیں جن کے اعتراضات سننے کے باوجود خاموشی اختیار کی جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ایسے گالیاں دینے والے لوگ موجود تھے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُن کو کبھی جواب نہیں دیا۔ آخر جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے جواب دیا اور ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ کتاب لکھی۔ تو دیکھو ان میں سے کون باقی رہا۔ سب طاعون سے فنا ہوگئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیا۔ اس سے تم لوگ سمجھ سکتے ہو کہ اگر تمہارا جواب خدا کے حکم سے ہو تو اس کے نتیجہ میں بھی وہ بات پیدا ہوجائے۔ لیکن جب پیدا نہیں ہوتی تو معلوم ہؤا کہ تمہارا جواب خدا کے حکم کے خلاف ہے ورنہ چاہئے تھا کہ خدا کے فرشتے تمہاری مدد کرتے اور اس کا جواب دیتے۔ آسمان و زمین میں ایسے سامان پیدا ہوجاتے کہ وہ باتیں پوری ہوجائیں۔ اگر تم ان کو ذلیل و بے شرم کہتے تو خدا کے فرشتے بھی ان الفاظ کو دُہراتے اور ان کے دوست بھی انہیں ایسا ہی کہتے۔ لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو معلوم ہؤا کہ تمہارے سخت الفاظ محض الفاظ ہی ہیں ان میں حقائق نہیں۔ اس کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ نے حقائق پیش کئے۔ دشمنوں نے آپ کو اَبْتَرُ کہا۔ رسول کریم ﷺ نے بھی اپنے دشمنوں کو ابتر کہا۔ ان کی اولادیں موجود تھیں لیکن خدا نے ایسے سامان پیدا کردیئے کہ بعضوں کی اولاد کو لڑائیوں میں ختم کردیا اور بعض رسول کریم ﷺ کی اولاد بن گئے اور ان لوگوں کی اولاد نہ رہے۔
پنجابی میں اَوتر بھی ابتر کو ہی کہتے ہیں۔ پنجابی عورتیں بھی یہ گالیاں دیتی ہیں کہ تم اَوتر ہوجائو۔ لیکن وہ محض گالی ہوتی ہے ۔ ان عورتوں کی اس گالی سے کسی کے بچے نہیں مرتے۔ لیکن رسول کریم ﷺ نے جن دشمنوں کو اَوتر کہا تو ان کی اولادیں واقعہ میں فنا ہوگئیں۔ پس معلوم ہؤا کہ رسول کریم ﷺ کا ابتر کہنا گالی نہ تھی بلکہ واقعہ تھا جو پورا ہؤا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض سخت اقوال سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے کیونکہ انہوں نے خدا کے حکم سے وہ الفاظ کہے اور زمین و آسمان ان کے ساتھ ہوگئے۔ میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت کے بعض لوگ جب جواب دینے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور دشمن اس کے جواب میں اس سے بڑھ کر گالیاں دیتا ہے تو بے غیرت بن کر اپنے گھر میں بیٹھ جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کو چاہئے تھا کہ یا تو دشمن کا منہ بند کرتے یا گالی کا جواب دینے میں ابتداء نہ کرتے۔ پس میں جماعت کو نصیحت کرتاہوں کہ ان کے اخلاق دوسروں سے اعلیٰ ہونے چاہئیں۔ پیغامِ حق پہنچانا اخلاقِ فاضلہ پیدا کرکے دین و دنیا کی بہتری کی تجاویز سوچنا نیکی اور علم کی وسعت دینا اور دنیا کی تکالیف دور کرنا ان کا مقصود ہو، تاکہ جو خدا کامقصد سلسلہ احمدیہ کے قیام سے ہے وہ پوراہو۔
یہ سنت ہے کہ جب خدا کاکام بندہ اپنے ذمہ لے لیتا ہے تو خدا اسے چھوڑ دیتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ ایک مجلس میں بیٹھے تھے۔ نبی کریم ﷺ بھی اس جگہ تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص آپ کو گالیاں دینے لگا۔ آپ خاموش رہے۔ جب اُس نے زیادہ سختی کی تو حضرت ابوبکرؓ نے بھی اُس کو جواب دیا۔ اس پر رسول کریم ﷺنے فرمایا جب تک آپ خاموش رہے، خدا کے فرشتے اسے جواب دیتے رہے ۔ لیکن جب آپ نے خود جواب دینا شروع کیا تو وہ چلے گئے۔۴؎ پس جس کام کو خدا نے اپنے ذمہ لیا ہؤاہوتاہے اگر بندہ اس میں دخل دے تو خدا اسے چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن اگر بندہ صبر کرے اور یقین رکھے کہ خداتعالیٰ جلد یا بدیر اس کا بدلہ لے لے گا تو خدا اس کا بدلہ لے لیتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کو مکہ میں ۱۳ سال تک اور پھر مدینہ میں جاکر بھی دشمن نے گالیاں دیں اور تنگ کیا۔ نہ صرف ایک دن نہ صرف ایک ماہ نہ صرف ایک سال بلکہ اِس وقت تک مخالفین آپ کو گالیاں دے رہے ہیں اور تورات کی پیشگوئی کے مطابق کہ حضرت اسماعیل جو رسول کریم ﷺ کے جدِّامجد تھے، ان کے خلاف ان کے بھائیوں کی تلوار ہمیشہ اُٹھی رہے گی۔ آپ کو لوگ ہمیشہ گالیاں دیتے رہتے ہیں لیکن خدا نے اس کا علاج اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور اس سے بہتر علاج اس کا کیا ہوسکتا ہے کہ خداتعالیٰ ان لوگوں کو اسلام میں داخل کردے لیکن اسلام میں داخل کرنا ہمارے اختیار میں نہیں۔
مجھے ایک دفعہ ایک یہودی نے چِٹّھی لکھی کہ میں وہ شخص تھا کہ شاید ہی کسی کے دل میں میرے دل سے بڑھ کر محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق دشمنی ہو بلکہ رسول کریم ﷺ کا نام سنتے ہی مجھے اشتعال پیدا ہوجاتا تھا۔ لیکن آپ کے مبلغوں سے اسلام کی خوبیاں سن کر اب میری یہ حالت ہوگئی ہے کہ میں رات کو نہیں سوتا جب تک رسول کریم ﷺ پر درود نہ بھیج لوں۔ بھلا ہماری گالیوں سے سلسلہ کی کیا خدمت ہوسکتی ہے۔ اگر ہم دعا کریں کہ اے خدا! تیرا وعدہ اِنَّا کَفَیْنٰـکَ الْمُسْتَھْزِئِ ِیْنَ سچا ہے تُو آپ اس کا علاج کر اور اس وعدہ پر اعتماد رکھ کر چُپ رہیں تو خدا خود ہی انتظام کرے گا۔ اور اگر تم نے خود اِس میں دخل دینا شروع کردیا تو تم بیعت میں رخنہ ڈالنے والے، دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے وعدہ کو پس پشت ڈالنے والے اور سلسلہ کو بدنام کرنے والے ہوگے۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ امام کی اطاعت کرو اور امام کے پیچھے ہوکر لڑو۔ پس لڑائی کا اعلان کرنا امام کا کام ہے تمہاری غرض محض اس کی اطاعت ہے۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اس تعلیم کو خود ہی ردّ کرنے والے ٹھہرو گے۔ دنیا میں بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے عظیم الشان لڑائیاں ہوجاتی ہیں۔ جیسے آسٹریا کے شہزادہ کے قتل سے عظیم الشان جنگ ہوئی جس میں دو کروڑسے زیادہ انسان قتل ہوئے۔ پس امام جب چاہے اعلانِ جنگ کرے جب چاہے چُپ رہے۔ لوگوں کو چاہئے کہ اس کے پیچھے رہیں اور خودبخود کوئی حرکت نہ کریں۔
پس میں پھر جماعت کو نصیحت کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کی طرف متوجہ ہوگی۔ میں مصلحت کو سمجھتا ہوں۔ ہر بات کی دلیل بیان کرنا امام کیلئے ضروری نہیں۔ جرنیل اور کمانڈر کے ہاتھ میں سارا راز ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کہاں اور کس طرح حملہ کیا جائے۔ اگر وہ راز کھول دے تو دشمن اس کا توڑ سوچ لے اور ساری سکیم باطل ہوجائے۔ اگر کوئی شخص سچے طور پر بیعت کرتا ہے اور اتباع کا اقرار کرتا ہے تو اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے اعتراض نہیں کرنا چاہئے ورنہ بیعت چھوڑ دے کیونکہ وہ منافق ہے۔ پس گالیوں کا جواب نہیں دینا چاہئے ورنہ آہستہ آہستہ بڑی لڑائی شروع ہوجائے گی اور پھر امام بھی مجبور ہوگا کہ اس میں شامل ہو اور اپنی طاقت ایسی جگہ خرچ کرے جہاں وہ مناسب نہیں سمجھتا۔ میں امید کرتا ہوں کہ دوست ان باتوں کی اہمیت کو سمجھیں گے۔
کوئی مومن اِس قدر بیو قوف نہیں ہوتا کہ اس کے غصے سے ساری جماعت کو نقصان پہنچے۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ اپنے نفس کوقابو میں رکھیں اور امام کے حکم کے منتظر رہیں۔ قرآن کریم میں جب لڑائی کا حکم آیا تو بعض لوگوں نے لڑنے سے انکار کردیا اورکہا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالاً لاَّاتَّبَعْنٰـکُمْ ۵؎ کہ اگر ہم جانتے کہ یہ لڑائی ہے تو ہم ضرور شامل ہوتے۔ مگر یہ تو خودکشی ہے اور یہ وہی لوگ تھے جو لڑائی کیلئے زیادہ شور مچاتے تھے۔ پس زیادہ شور مچانا بسا اوقات نِفاق کی علامت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ جماعت کو لڑائی میں ڈال کر آپ پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور بعض بالکل خاموش رہنے والے بعض دفعہ زیادہ مومن اوربہادر ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ خاموش طبیعت تھے لیکن لڑائی میں سب سے زیادہ خطرناک جگہ پر موجود رہتے تھے یعنی رسول کریم ﷺ کے ساتھ۔ کیونکہ لڑائی میں سب سے زیادہ خطرناک جگہ وہی ہوتی تھی جہا ں رسول کریم ﷺ ہوتے تھے۔ کیونکہ دشمن کا سارا زور وہیں ہوتا تھا اور لوگ کہتے تھے کہ یوں تو یہ بڈھا بہت نرم دل ہے لیکن لڑائی میں سب سے آگے رہتا ہے۔ پس خاموشی سے اخلاص میں فرق نہیں پڑتا بلکہ ممکن ہے جو زیادہ خاموش رہنے والا ہے خدا کے نزدیک زیادہ مخلص ہو اور وہ جو زیادہ شور مچانے والا ہے وہ منافق ہو۔ کیونکہ خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ مومن کون ہے اور منافق کون ہے۔
(الفضل ۱۳ ؍ مئی ۱۹۳۷ئ)
۱؎ بخاری کتاب الجہاد باب یقاتل من وراء الامام ویتقٰی بہٖ
۲؎ الحجر: ۹۵
۳؎ الحجر: ۹۶
۴؎ مسند احمد بن حنبل جلد۲ صفحہ۴۳۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۵؎ ال عمران: ۱۶۸

۱۵
انسان کو اپنے نفس کے محاسبہ میں لگے رہنا چاہئے
(فرمودہ ۲۱؍ مئی ۱۹۳۷ء بمقام کراچی) ۱؎
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
چونکہ میرے گلے میں تکلیف ہے اس لئے زیادہ بول نہیں سکتا مگر جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۲؎ کی دعا سکھائی ہے یہ دو باتوں پر دلالت کرتی ہے۔ اس کا ایک تعلق اعلیٰ مدارج کے لوگوں کے ساتھ ہے جسے یہاں اس طرح پر بیان کیا گیا ہے کہ جُوں جُوں کوئی انسان ترقی کرتا ہے اور کسی بڑے رُتبے پر پہنچنا چاہتا ہے وہ دعائیں کرتا جاتا ہے۔ مگر چونکہ تمام انسان ایک حالت پر نہیں ہوتے کوئی روحانیت کے اعلیٰ مقام پر ہوتا ہے تو کوئی اس جنگ میںمشغول ہوتا ہے جو شیطان کے ساتھ لڑی جارہی ہو۔ پس اگر قسمِ اوّل کو ملحوظ رکھتے ہوئے اِس آیت کے یہ معنے کئے جائیں کہ الٰہی! ہمیں اعلیٰ مقام تک پہنچادے تو یہ بے معنی فقرہ ہوتا کیونکہ ایسے شخص کے نزدیک اِس آیت کا مفہوم اُس وقت شروع ہوجاتا ہے جبکہ جملہ معلومہ مقامات ختم ہوجاتے ہیں۔ جب تک معلومہ مقامات موجود ہوتے ہیں اُس وقت تک مقصود اُس کے سامنے ہوتا ہے جس کیلئے وہ دعائیں کرتا ہے۔جب انسان اخلاق کو حاصل کرلیتا ہے جن کووہ جانتاہے اور ان علوم اور عرفان کی باتوں کو حاصل کرلیتا ہے جن کو لوگ علمی طور پرجانتے ہوتے ہیں تو وہ نام لے لے کر دعائیں کرتا ہے۔ لیکن جب وہ نہیں جانتا کہ اُس سے آگے کیا ہے تب وہ دعا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدا! جو کچھ مجھے نہیں معلوم وہ بھی دے۔
دوسرا مقام بعض انسانوں کا وہ ہوتا ہے جبکہ وہ شیطان سے لڑائی کررہا ہوتا ہے۔ اُس وقت اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ سے اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ خدایا! مجھے صراطِ مستقیم پر قائم رکھ۔ وہ ان خطرات کومحسوس کرتاہے جو اُسے روز پیش آتے ہیں۔ لہٰذا اِس دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ ہر وقت انسان کے ساتھ ایسی چیزیں لگی ہوئی ہیں جو اس کے ایمان ، تقویٰ، دین کی خدمت کی خواہش اور محبت الٰہی کو کم کررہی ہیں لہٰذا اسے ان سے محفوظ رہنے کیلئے دعا کی ضرورت ہے۔
بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اس بات میں مارے جاتے ہیں کہ وہ خیال کرلیتے ہیں کہ ان کو کوئی مستقل چیز مل گئی ہے۔ یا کم سے کم وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ان کو اطمینا ن کی حالت حاصل ہوگئی ہے اور وہ اپنی تمام جدوجہد چھوڑ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ جملہ خطرات سے محفوظ ہوگئے ہیں۔ حالانکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان بعض اوقات ایک بڑے مقام پر پہنچ کر بھی نیچے گرجاتا ہے۔ جیسے عبداللہ بن ابی کاتب وحی حضرت رسول کریم ﷺ کا ہی واقعہ ہے کہ آپ نے اسے اپنا سیکرٹری بنایا اور وحیِ الٰہی کے لکھنے کا کام سپرد کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اسے قابلِ اعتبار سمجھا تھا اور اسے متقی خیال فرماتے تھے۔ علاوہ ازیں اس کے ذاتی حالات بھی اس کی تائید کرتے تھے مگر دیکھ لو کہ کس حالت تک پہنچ گیا۔
اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کو ہی دیکھتے ہیں کہ آپ کے زمانے میں کئی ایمان لانے والے مقربین ایسے ہیں جو اَب آپ کے درجے کو کم کررہے ہیں۔ کئی ہیں جو دُنیوی عزت کی خاطر سلسلے کی عزت کا خیال نہیں کرتے۔ کئی ہیں جو غیراحمدی ہوگئے ہیں۔
تو اللہ تعالیٰ نے یہاں بتایا ہے کہ مومن کو ہمیشہ خدا کی طرف متوجہ رہنا چاہئے اور خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنے نفس کے محاسبہ میں لگے رہنا چاہئے کہ کہیں اس میں کوئی نقص تو نہیں پیدا ہوگیا۔ یہ بیشک درست ہے کہ اپنی غلطی کا اجمالی احساس تو ہر ایک کو ہوتا ہے لیکن تفصیلی احساس ہر ایک کو نہیں ہوتا۔ مگر صرف اجمالی احساس کوئی نفع نہیں پہنچاتا۔ اجمالی احساس یہ ہوتا ہے کہ جب انسان کسی درجہ پر پہنچ جاتا ہے تو سمجھتا ہے کہ وہ بہت کمزور ہے حالانکہ خود اس پر اس کے اس قول کاکوئی اثر نہیں ہوتا۔ عام طور پر یہ کہنا کہ کمزور ہوں ،گنہگار ہوں یہ فقرے تو متکبر اور کافر بھی کہتے ہیں۔ مثلاً جب کوئی ان کی تعریف کرے تو انکسار سے وہ بھی ایسے فقرے کہہ دیتے ہیں لیکن دل سے اسے محسوس نہیں کرتے۔ پس اجمالی نقص کا اظہار کوئی چیز نہیں کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس کا اظہار کرتے ہیں لیکن تفصیلی طور پر وہ اپنے آپ کو بے گناہ سمجھتے ہیں۔ جب وہ سچائی، فرمانبرداری ، امانت، دیانت میں سُستی کریں اور کوئی ان سے ہی سوال کرے تو جھٹ اپنے نفس کی حمایت کرتے ہیں او ربے عیب ہونے کے دلائل دے کر اپنے نفس کو بھی تسلی دے دیں گے۔ یوں چاہے سارا دن ان سے کہلوالو کہ وہ خطاکار ہیں، گنہگار ہیں لیکن دوسرے وقت میں وہی شخص عیب کرتاہے اور دریافت کرنے پر چڑتا ہے۔ اگر وہ بے عیب نہ تھا تو چڑا کیوں تھا۔ سوائے ایسے حالات کے کہ اس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے کہا ہو کہ تو بے عیب ہے۔ اُس وقت اس کا چڑنا اپنے لئے نہیں ہوتا بلکہ خداتعالیٰ کیلئے ہوتا ہے اور وہ خدا کے حکم کی وجہ سے مقابلہ کرتا ہے۔ اگر انبیاء پر اعتراض کیا جاوے تو وہ اپنی ذات کے بچائو کے لئے ایسا نہیں کرتے کیونکہ اپنی ذات میں تو وہ اپنے آپ کو کمزور سمجھتے ہیں لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہوتا ہے کہ وہ بے عیب ہیں لہٰذا خداکو الزام سے بچانے کیلئے کہ اللہ تعالیٰ کا قول صحیح ہو نہ کہ اپنی ذات کے واسطے وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔ جیسے حضرت رسول کریم ﷺ پر الزام لگانا حقیقتاً اُس ہستی پر الزام لگانا ہے جس نے کہا تھا کہ ہم نے تم کو چُن لیا اور اِسی لئے لوگ آپؐ کی حفاظت کرتے تھے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ آپ اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ خداکیلئے ایسا کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب تک خدا کی ذات کا سوال نہ تھا آپ نے ہر ایک حملہ برداشت کیا۔چنانچہ بادشاہ ہونے کی حیثیت میں مدینہ میں جب ایک یہودی نے آپ کو کہا یا محمد (حالانکہ ایک بڑے آدمی کااس طرح بلانا یقینا قابلِ اعتراض تھا) اِس پر صحابہ کو بہت طیش آیا اور قریب تھا کہ اُس کو سزا دیں۔ لیکن آپ نے تحمل سے فرمایا کہ اس نے ٹھیک کہا ہے ۔۳؎ کیا میرے ماں باپ نے میر انام محمد نہیں رکھا ہے؟ تم غصے کیوں ہوتے ہو؟ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں خداکے نام کا سوال نہ تھا بلکہ محض اپنی ذات کا سوال تھا وہاں آپ نے اپنی عزت کو پسند نہ فرمایا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ لاہور کی ایک گلی میں ایک شخص نے آپ کو دھکا دیا آپ گرگئے جس سے آپ کے ساتھی جوش میں آگئے اور قریب تھا کہ اُسے مارتے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ اس نے اپنے جوش میں سچائی کی حمایت میں ایسا کیا ہے اِسے کچھ نہ کہو۔ پس انبیاء اپنے نفس کے سوال کی وجہ سے نہیں بولتے بلکہ خدا کی عزت کے قیام کیلئے بولتے ہیں۔ تو یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ان میں اور عام لوگوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ وہ خدا کیلئے کرتے ہیں اور عام لوگ اپنے لئے کرتے ہیں۔ پس اگر کسی شخص کو یہ احساس پیدا ہوجائے کہ میں واقعہ میں کمزور ہوں تو ایسا انسان گمراہ ہو نہیں سکتا۔ انسان گمراہ اُس وقت ہوتا ہے جب وہ یقین رکھتا ہے کہ میں حق پر ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت معاویہ کی نماز کا واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان سے ایک مرتبہ فجر کی نماز قضا ہوگئی لیکن وہ اِس غلطی کے نتیجے میں نیچے نہیں گِرے بلکہ ترقی کی۔ پس جو گناہ کا احساس کرتا ہے وہ گناہ سے بچتا ہے۔ جب گناہ کا احساس نہیں رہتا تو انسان معصیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ پس مومن کو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ پر غور کرنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ وہ خطرات سے محفوظ نہیں ہؤا۔ صرف اُسی وقت محفوظ ہوسکتا ہے کہ جبکہ خدا کی آواز اُسے کہہ دے۔ پس انسان کو اپنے نفس کی کمزوری کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ ایسے شخص کیلئے روحانیت کے راستے کھل جاتے ہیں۔ جو ایسا نہیں کرتا اُس کیلئے روحانیت کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں اور ایسا انسان گمراہ ہوجاتا ہے۔
(ماخوذ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
۱؎ یہ غیر مطبوعہ خطبہ ہے۔
۲؎ الفاتحہ: ۶
۳؎

۱۶
امام اور ماموم کا مقام اور اس کے تقاضے
(فرمودہ ۲۸؍ مئی ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
غالباً دو جمعے گزرے ہیں کہ میں نے ایک خطبہ اپنے سفر کے دوران میں پڑھا تھا اور ہدایت کی تھی کہ اسے فوراً ’’الفضل‘‘ میں چھپنے کیلئے بھجوادیا جائے۔ کیونکہ وہ خطبہ موجودہ فِتنوں کے متعلق تھا اور گو وہ پڑھا سفر میں گیا تھا اور جو لوگ اُس وقت سامنے بیٹھے تھے ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی تھی جو قادیان میں نہیں رہتے تھے مگر اُس خطبہ کے پہلے مخاطب قادیان میں رہنے والے لوگ ہی تھے اور میں چاہتا تھا کہ جس قدر جلد ہوسکے اسے قادیان میں رہنے والے لوگوں تک پہنچادیا جائے تاکہ کم سے کم خداتعالیٰ کے سامنے مَیں بری الذمہ ہوسکوں اور اُسے کہہ سکوں کہ میں نے ان کے سامنے ہدایت اور راستی پیش کردی تھی۔ اگرباوجود میرے ہدایت پیش کردینے کے اُنہوں نے اِس پر عمل نہیں کیا تو اس کی ذمہ واری مجھ پر نہیں ان پر ہے۔
میں آج پھر اُسی مضمون کے متعلق آپ لوگوں سے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوںاور نہ صرف آپ لوگوں سے بلکہ باہر کی جماعتوں سے بھی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اِس بات سے بری الذمہ ہوتا ہوں کہ میں نے وہ صداقت آپ لوگوں تک پہنچادی ہے جو میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کا منشاء اور قرآنی تعلیم ہے۔ میں نے اُس خطبہ میں جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ جو جماعتیں منظم ہوتی ہیں اُن پر کچھ ذمہ واریاں عائد ہوتی ہیں اور کچھ شرائط کی پابندی کرنی ان کیلئے لازمی ہوتی ہے جن کے بغیر ان کے کام کبھی بھی صحیح طورپر نہیں چل سکتے۔اور سلسلہ کے متعلق میں نے کہا تھا کہ ان شرائط اور ذمہ واریوں میں سے ایک اہم شرط اور ذمہ واری یہ ہے کہ جب وہ ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کرچکے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرچکے تو پھر انہیں امام کے منہ کی طرف دیکھتے رہنا چاہئے کہ وہ کیا کہتا ہے اور اس کے قدم اُٹھانے کے بعد اپنا قدم اُٹھانا چاہئے۔ اور افراد کو کبھی بھی ایسے کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہئے جن کے نتائج ساری جماعت پر آکر پڑتے ہوں کیونکہ پھر امام کی ضرورت اور حاجت ہی نہیں رہتی۔ اگر ایک شخص اپنے طور پر دوسری قوموں سے لڑائی مول لے لیتا ہے اور ایسا فتنہ یا جوش پیدا کردیتا ہے جس کے نتیجہ میں ساری جماعت مجبور ہوجاتی ہے کہ اس لڑائی میں شامل ہو تو اس کے متعلق یہی سمجھاجاسکتا ہے کہ اس نے امام اور خلیفہ کے منصب کو چھین لیا اور خود امام اور خلیفہ بن بیٹھا اور وہ فیصلہ جس کا اجرا ء خلیفہ اور امام کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے تھا خود ہی صادر کردیا۔ اگر ہر شخص کو یہ اجازت ہو تو تم ہی بتائو پھر امن کہاں رہ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں جماعت کے نظام کی مثال اُس ٹین کی سی ہوگی جو کُتّے کی دُم سے باندھ دیا جاتا ہے اور جدھر جاتا ہے ساتھ ساتھ ٹین بھی حرکت کرتا جاتا ہے۔
امام کا مقام تو یہ ہے کہ وہ حکم دے اور ماموم کا مقام یہ ہے کہ وہ پابندی کرے۔ لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کے دوستوں نے باوجود بیعت کر لینے کے ابھی تک بیعت کا مفہوم نہیں سمجھا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بہت بڑی ذمہ واری جماعت کے علماء پر ہے۔ وہ خلافت اور اس کی اہمیت پر تقریریں کرنے سے ساکت رہتے ہیں اور ان کے لیکچر ہمیشہ اور اَور مضامین پر ہوتے ہیں۔ اس امر کے متعلق بہت ہی کم دلائل قرآن مجید یا احادیث یا عقل سے دیئے جائیں گے کہ خلافت سے وابستگی کتنی اہم چیزہے۔ وہ سمجھتے ہیں شاید لوگ ان مسائل کو جانتے ہی ہیں اس لئے ان مسائل پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے حالانکہ یہی وہ خیال تھا جس نے پہلے مسلمانوں کو تباہ کردیا۔ گزشتہ علماء نے خیال کرلیا کہ توحید پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے۔ بھلا کوئی مسلمان ایسا بھی ہوسکتا ہے جو توحید کو نہ مانے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ توحید اُن کے ہاتھ سے جاتی رہی۔ انہوں نے خیال کرلیا کہ رسالت پر ایمان لانے کی اہمیت واضح کرنے کی کیا حاجت ہے یہ تو ایک صاف اور واضح مسئلہ ہے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ رسالت پر ایمان بھی جاتا رہا۔ انہوں نے خیال کرلیا کہ نظام کی ضرورت پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے سب کو معلوم ہی ہے کہ نظام میں سب برکت ہے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ ان کا نظام بھی ٹوٹ گیا۔ انہوں نے خیال کرلیا کہ نماز اور روزہ کی تاکید کرنے کی بار بار کیا ضرورت ہے سب لوگ نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ نمازوں میں بھی سُستی آگئی اور روزے بھی ہاتھ سے جاتے رہے۔ اسی طرح انہوں نے خیال کرلیا کہ حج کا مسئلہ بھی کوئی ایسا مسئلہ ہے جس سے کوئی ناواقف ہو اور نتیجہ یہ ہؤا کہ حج کے مسائل بھی لوگوں کے ذہن سے اُتر گئے اور استطاعت کے باوجود انہوں نے حج کرنا چھوڑ دیا۔ تو جب کسی قوم کے علماء یہ خیال کرلیتے ہیں کہ فلاں فلاں مسائل لوگ جانتے ہی ہیں اس قوم میں آہستہ آہستہ ان مسائل سے ناواقفیت پید اہونی شروع ہوجاتی ہے اور آخر اس نیکی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پس میں سمجھتا ہوں ایک حد تک اس کی ذمہ واری جماعت کے علماء پر ہے لیکن ایک حد تک اس کی ذمہ واری جماعت کے افراد پر بھی ہے۔ کیونکہ ان کے سامنے یہ مسائل بالکل تازہ ہیں اور وہ خلافت کی اہمیت سے پورے طور پر آگاہ کئے جاچکے ہیں اور گو آج اس پر بحثیں نہیں ہوتیں مگر آج سے بیس سال پہلے اس پر خوب بحثیں ہوچکی ہیں اور خود جماعت کے افراد اس میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ پھر آج وہ ان مسائل کو کیوں بُھول گئے ۔ میں نے اس امر کی طرف توجہ ان واقعات کی وجہ سے دلائی تھی جوقادیان میں حال ہی میں ظاہر ہوئے ۔
میں نے دیکھا ہے بعض لوگ فتنہ و فسادکی نیت سے کوئی بات چھیڑ دیتے ہیں اور ہماری جماعت کے دوست فوراً اس کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں اور وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ دشمن کی تو غرض ہی یہ تھی کہ وہ کوئی فتنہ و فساد پید اکرے اور انہیں زیر الزام لائے۔ ان کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جس کا دشمن اس کیلئے گڑھا کھودتااور اُس پر گھاس پھونس ڈال دیتا ہے۔ اور وہ اپنی بیوقوفی سے گھاس پر پائوں رکھتا اور گڑھے میں جاپڑتا ہے۔ بلکہ میں کہتا ہوں خیالی مثال کی کیا ضرورت ہے۔ شیر کے شکاریوں کی مثال لے لو جو پہلے زمانہ میں شیر کا شِکار اِس طرح کرتے تھے کہ گھاس کے نیچے بانس کی کھپچیوں کے اوپر خاص طور پر سریش تیار کرکے چپکادیتے اور گھاس پر بکرا باندھ دیتے۔ شیر خیال کرتا کہ بکرا میرا شکار ہے اور وہ اُس پر حملہ کردیتا۔ لیکن جب بکرے کے پاس پہنچتا تو کھپچیوں میں لپٹ جاتا۔ اسی طرح دشمن بعض دفعہ ایسی حرکات کرتا ہے جن کے ذریعہ وہ اپنے مخالف کو بُلاتا ہے کہ آئو اور مجھ پر حملہ کرو۔ عقلمند آدمی موقع کو خوب سمجھتا ہے اور وہ جانتاہے کہ حملے کا کونسا موقع ہے۔ لیکن نادان آدمی ان باتوں کو نہیں سمجھتا وہ حملہ کردیتا ہے اور کھپچیوں میں پھنس جاتا ہے۔ پھر شور مچاتا ہے کہ آئو آئو اور مجھے اس مصیبت سے بچائو۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کی آواز سُن کر دوچار آدمی اور دشمن پر حملہ کردیتے ہیں اور وہ بھی انہی کھپچیوں میں پھنس جاتے ہیں اور اسی طرح یہ معاملہ بڑھتا جاتا ہے۔
انگریزوں میں ایک کہانی مشہور ہے جو اسی قسم کے فتنوں پر چسپاں ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کسی کے پاس کوئی بطخ تھی۔ جب وہ کسی شخص پر ناراض ہوتا تو کسی طرح اُس کا ہاتھ بطخ کولگوادیتا۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ اس بطخ سے اُس کا ہاتھ چمٹ جاتا اور وہ چُھوٹ نہ سکتا۔یہ دیکھ کر اُس کے دوست اور رشتہ دار اُسے چُھڑانے کیلئے آتے اور جو بھی بطخ پرہاتھ ڈالتا اُس کے ساتھ چمٹا جاتا ۔ یہی حال ایسی لڑائی کا ہوتا ہے۔جب ایک شخص لڑائی میں شامل ہوتا اور دشمن کی گرفت میں آجاتا ہے تو شکوہ کرتا اور شور مچانے لگ جاتا ہے کہ میںجماعت کا ممبر ہوں، میری مدد کیوں نہیں کی جاتی۔ میرے ساتھ ہمدردی اور محبت کا سلوک کیوں نہیں کیا جاتا۔ اس شخص کو جواب تو یہ ملنا چاہئے کہ تمہارے ساتھ ہمدردی کیا کی جائے تم نے نظام کو توڑا اور سلسلہ کی ہتک کی۔ لڑائی کرنا امام کا کام تھا، تمہارا کام نہیں تھا۔ لیکن اُس کی آواز سُن کر کئی رحم دل یا یوں کہو کہ کمزور دل کہنا شروع کردیتے ہیں کہ آئو اس کی مدد کریں۔ چنانچہ وہ اس کی مدد کیلئے اس کے پیچھے جاتے ہیں اور وہی لڑائی جو پہلے ایک شخص کی تھی اب بیس آدمیوں کی لڑائی بن جاتی ہے اور پھر ایک کی بجائے بیس آوازیں اُٹھنی شروع ہوجاتی ہیں کہ آناآنا، بچانا بچانا۔ اس پر وہ لوگ بھی جو پہلے اس خیال سے خاموش ہوتے ہیں کہ یہ انفرادی فعل ہے اِس میں ہمیں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے، جوش سے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں اب ایک کا سوال نہیں، بیس کا سوا ل ہے اور وہ بھی لڑائی میں شامل ہوجاتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اب لڑائی میں چالیس آدمی شامل ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ چالیس اپنے ساتھ اَوروں کو ملاتے اور ساٹھ بن جاتے ہیں۔ ساٹھ ایک سَو بیس کی کشش کا موجب بنتے ہیں اور ایک سَو بیس کے شو رمچانے پر دو سَو چالیس کی تعداد ہو جاتی ہے۔ یہ دو سَو چالیس پھر چار سَو اسّی ہوجاتے ہیں جو بڑھ کر نو سَو ساٹھ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ساری جماعت ایک معمولی وجہ سے ایسی لڑائی میں شامل ہوجاتی ہے جس کاکوئی بھی نتیجہ نہیں ہوتا اور دشمن دل میں ہنستا ہے کہ جو میری غرض تھی وہ پوری ہوگئی۔
ایک مشہور واقعہ پنجاب کے ایک رئیس کا ہے جو اِس مقام پر خوب چسپاں ہوتا ہے۔ پنجاب کے ایک مشہور راجہ گزرے ہیں جن کا نام لینے کی ضرورت نہیں ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ ان کے دربار میں دو پارٹیاں تھیں۔ ایک وزیر اعظم کی اور ایک اور وزیر کی اوریہ دونوں پارٹیاں روزانہ آپس میں لڑتیں او رراجہ کے پاس شکایتیں ہوتیں۔ ایک پارٹی دوسری پارٹی کے خلاف شکایت کرتی اور دوسری پہلی کے خلاف راجہ کے کان بھرتی اور ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی کہ راجہ صاحب ہمارے ساتھ مل جائیں اور دوسری پارٹی پر ناراض ہوجائیں۔ اِس لڑائی نے ترقی کرتے کرتے سخت بھیانک شکل اختیار کرلی۔ ایک دن ایک پارٹی نے تجویز کی کہ کوئی ایسا کام کرنا چاہئے جس سے مخالف پارٹی کو بالکل کُچل دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور یہ فیصلہ ہؤا کہ ایک رانی کو اپنے ساتھ ملایا جائے اور یہ مشہور کردیا جائے کہ اُس کے ہاں اولاد ہونے والی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایک رانی کواپنے ساتھ ملالیا اور اُسے کہہ دیا کہ عین وقت پر ہم تمہیں ایک بچہ لاکر دے دیں گے اِس سے راجہ کی نگاہ میں تمہاری عزت بھی قائم ہوجائے گی اور اس کے بعد گدی پر بیٹھنے کا بھی وہی حقدار ہوگا۔ جب یہ خبر عام لوگوں میں مشہور ہوگئی تو دوسرے فریق نے راجہ کے کان بھرنے شروع کردیئے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ مہارانی حاملہ نہیں بلکہ شرارت سے مخالف پارٹی نے اسے حاملہ مشہور کردیا ہے۔ اب مہاراجہ صاحب نے بیوی کی نگرانی شروع کردی اور کچھ عرصہ کے بعد انہیں پتہ لگا کہ یہ محض فریب کیا جارہا ہے، رانی حاملہ نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے گورنمنٹ کے پاس اس امر کے متعلق کوشش شروع کردی کہ جس بچہ کے متعلق مشہور کیا جارہا ہے کہ وہ پید اہونے والا ہے وہ میرا نہیں ہوگا اور نہ تخت کا وارث ہوگا۔ یہ بات دوسرے فریق پر بھی کُھل گئی اور انہوں نے مشورہ کیا کہ اب کوئی ایسی چال چلنی چاہئے جس کے نتیجہ میں ہماری سکیم فیل نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے مختلف لوگوں سے گورنمنٹ کے پاس چِٹھیاں لکھوانی شروع کردیں کہ مہاراجہ صاحب پاگل ہوگئے ہیں اور وہ گدی کا انتظام نہیں کرسکتے۔ ذرا ذرا سی بات پر لڑتے اور جوش میں آکر گالیاں دینے لگ جاتے ہیں اور ان کا غصہ حدِ اعتدال سے بالکل باہر نکل گیا ہے۔ مہاراجہ بیچارے کو پتہ بھی نہیں اور گورنمنٹ کے پاس شکایتیں ہورہی ہیں کہ مہاراجہ صاحب پاگل ہو گئے ہیں۔ پہلے چھوٹوں کی طرف سے گورنمنٹ کو لکھا گیا۔ پھر بڑے بڑے افسروں کی طرف سے اور پھر ان سے بھی بڑے عہدہ داروں کی طرف سے۔ جب شکایتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اور بڑے بڑے افسروں نے خود مل کر بھی گورنمنٹ کے پاس شکایت کرنی شروع کردی تو گورنمنٹ کو خیال پیدا ہؤا کہ تحقیقات کرنی چاہئے۔ چنانچہ اس نے مخفی طور پر کمشنر کو بھجوایا کہ وہ مہاراجہ سے باتیں کرکے رپورٹ کرے کہ یہ شکایتیں کس حد تک صحیح ہیں اور یہ بھی کہہ دیا کہ ڈاکٹر کو بھی ساتھ لیتے جائو اور باتوں باتوں میں اندازہ کرکے رپورٹ کرو کہ ان شکایتوں میں کس حد تک معقولیت ہے۔ فریقِ مخالف جس نے شکایت کی تھی وہ چونکہ ہر تدبیر سے اپنی بات کو منوانا چاہتا تھا اس لئے اس نے سرکاری دفاتر میں بھی بعض آدمی خریدے ہوئے تھے۔ جس وقت کمشنر صاحب تحقیقات کیلئے جانے لگے، ان سرکاری آدمیوں نے اطلاع کردی کہ کمشنر صاحب آرہے ہیں۔ چنانچہ جونہی انہوں نے سمجھا کہ اب کمشنر صاحب کے آنے کا وقت بالکل قریب آپہنچا ہے اور ایک آدھ منٹ میں ہی وہ دربار میں داخل ہوجائیں گے۔ انہوں نے ایک چَوری جھلنے والے کو اشارہ کردیا جسے انہوں نے پہلے سے اپنے ساتھ ملایا ہؤا تھا اور اُس نے جُھک کر مہاراجہ کے کان میں دو تین گالیاں ماں اور بہن کی دے دیں۔ اب تم سمجھ سکتے ہو کہ مہاراجہ تخت پر بیٹھا ہؤا ہو ،دربار لگا ہؤا ہو اور چَوری جھلنے والا مہاراجہ کو اُس کے کان میں ماں کی گالیاں دے دے تو اُس کی کیا کیفیت ہوسکتی ہے۔ مہاراجہ جوش سے اُٹھا اور اس نے بے تحاشہ اُسے مارنا شروع کردیا۔ اب غصہ سے اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی اور وہ اسے ٹُھڈے پر ٹُھڈے مارتا چلاجارہا تھا کہ اتنے میں کمشنر صاحب اندر داخل ہوگئے اور وہ پارٹی کی پارٹی کھڑی ہوکر کہنے لگی ’’حضور! روز ساڈے نال اسے طرح ہوندا ہے‘‘۔ یعنی حضور! ہمارے ساتھ روزانہ یہی سلوک ہوتا ہے۔کمشنر صاحب کی رپورٹ پر گورنمنٹ نے فیصلہ کیا کہ مہاراجہ واقعہ میں حواس باختہ ہے نتیجہ یہ ہؤا کہ مہاراجہ صاحب کے اختیارات محدود کردیئے گئے اور وہ لڑکا جسے رانی نے گود میں ڈال لیا تھا اور جو ایک ملازم سرکار کا لڑکا تھا جسے بعد میں جج بنادیا گیا، جوان ہوکر گدی پر بٹھایا گیا اور خوش قسمتی سے نہایت شریف اور کامیاب راجہ ثابت ہورہا ہے۔
تو بعض دفعہ دشمن اس قسم کی چالاکی بھی کرتا ہے۔ سمجھنے والے تو بچ جاتے ہیں لیکن جو اندھا دھند کام کرنے والے ہوں وہ پھنس جاتے اور مصیبتوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے حکم دیا کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُّقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ ۱؎ کہ امام کو ہم نے تمہارے لئے ڈھال کے طور پر بنایا ہے۔ اگر اس کے پیچھے ہوکر لڑو گے تو زخموں سے بچ جائو گے۔ لیکن اگر آگے ہوکر حملہ کرو گے تو مارے جائو گے کیونکہ وہ خوب سمجھتا ہے کہ کیا حالات ہیں۔ کس وقت اعلانِ جنگ ہونا چاہئے اورکس وقت دشمن کے فریب سے بچنا چاہئے۔ کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان تفصیل سے بیان نہیں کرسکتا۔
رسولِ کریم ﷺ کی مجلس میں بھی بعض دفعہ لوگ آتے اور گھنٹوں آپ سے مخفی باتیں کرتے۔ قرآن کریم میں اِسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے ھُوَ اُذُنٌ ۲؎ کہ منافق کہتے ہیں کہ محمد ﷺ تو کان ہی کان ہیں۔ ہر وقت لوگ آتے اور انہیں رپورٹیں پہنچاتے رہتے ہیں۔ تو رسول کریم ﷺ کو بھی کئی مخفی باتوں کا علم ہؤا کرتا تھا۔ بیسیوں دفعہ ایسا ہؤاکہ آپ فرماتے میرے پاس رپورٹ آئی ہے کہ آج فلاں جگہ یہ کام ہورہا ہے۔ تو امام کو وہ معلومات ہوتی ہیں جو اور لوگوں کونہیں ہوتیں۔ اس لئے وہ جانتا ہے کہ فلاں کام جو ہورہا ہے وہ کیوں ہورہا ہے اور کس طرح ہورہا ہے اور اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جماعت سے اُسی وقت لڑائی کرائی جائے جب لڑائی کا کوئی فائدہ ہو۔ ورنہ یہ تو نہیں کہ لڑائی کرنے میں تم مجھ سے زیادہ بہادر ہو۔
پچھلے دو سال میں مَیںنے ایک ہی وقت میں گورنمنٹ سے اور دوسرے مخالف اقوام سے لڑائی لڑی ہے یا نہیں۔ تم میں سے کئی لوگ تھے جو اُس وقت کہتے تھے کہ ہمیں کس مصیبت میں پھنسادیا۔ مگر میں جانتا تھا کہ وہ وقت لڑنے کا تھا۔ پس ہم لڑے اور خداتعالیٰ کے فضل سے ہم نے فتح پائی۔ لیکن اب جماعت کو ایک ایسے فتنہ میں مبتلا کیا جارہا ہے جس میں مَیں سمجھتا ہوں ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو دکھادیں کہ ہم مظلوم اور ہمارا دشمن ظالم ہے اور شرارت کی تمام تر ذمہ واری ہمارے دشمن پرہے ہم پر نہیں۔ پس جبکہ ہم کو معلوم ہے کہ اِس لڑائی کی وجہ لڑائی نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم نے پچھلے دنو ں جو حکومت پر یہ ثابت کردیا تھا کہ ہم ظالم نہیں بلکہ مظلوم ہیں اور ہمارا دشمن مظلوم نہیں بلکہ ظالم ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اس خیال کو مٹایا جائے اَوربعض اور ذرائع سے اپنی مظلومیت حکومت پر ظاہر کریں۔ اگر تم ذرا بھی سوچ سمجھ سے کام لو تو یہ موٹی بات تو تمہیں بھی نظر آسکتی ہے کہ قادیان میں بِلاوجہ فتنے مختلف شکلیں بدلتے رہتے ہیں۔ ایک وقت مسلمانوں کی طرف سے شور مچایا جاتا ہے اور پھر یک دم اس میں تغیر آجاتا ہے اور پولیس کی طرف سے شور اُٹھنا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر یکدم یہ حالت بھی بدل جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری لڑائی نہ مسلمانوں سے ہے نہ پولیس سے بلکہ سکھوں سے ہے۔ پھر سکھوں سے لڑتے لڑتے یکدم تغیر آجاتا ہے اور سکھ تو بالکل خاموش ہوجاتے ہیں اور ہندو شور مچانا شروع کردیتے ہیں اور ان لڑائیوں میں سے کسی لڑائی کے پیدا کرنے میں بھی ہمارا دخل نہیں ہوتا۔ جس وقت مسلمان شور مچارہے ہوتے ہیں اُس وقت کوئی ایسی حرکت ہم نے نہیں کی ہوتی جو پندرہ بیس سال پہلے ہم نے نہ کی ہو۔ گویا کوئی تازہ حرکت ایسی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ہم سمجھیں کہ ان کا شور مچانا حق بجانب ہے۔ اسی طرح جب پولیس کی طرف سے شور مچایا جاتا ہے تو ہماری کوئی ایسی حرکت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ اشتعال میں آئے۔ پھر جب سکھ اور ہندو شور مچاتے ہیں اُس وقت بھی کوئی ایسا نیا فعل ہم سے صادر نہیں ہوتا جس کی وجہ سے سمجھا جائے کہ ان کا شور اور فتنہ و فساد کسی بنیاد پر ہے۔ پس کیا اس محاذ کی تبدیلی سے تمہاری سمجھ میں اتنی موٹی بات بھی نہیں آتی کہ یہ کسی سازش اور چالاکی کا نتیجہ ہے۔ اگر تم بات کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ تمہیں وسیع علم ہے اور نہ وسیع معلومات کے ذرائع تمہیں حاصل ہیں تو کم سے کم اتنی بات تو تمہیں سمجھ لینی چاہئے تھی کہ کیوں بِلا وجہ ایک وقت مسلمانوں کو جوش آتا ہے تو دوسرے وقت پولیس والوں کو ۔ کبھی سکھوں کوجوش آجاتا ہے تو کبھی ہندوئوں کو۔ کم سے کم اتنی موٹی بات تمہیں سمجھ لینی چاہئے تھی کہ یہ تغیرات جو پیدا ہوئے ان کا کوئی نہ کوئی سبب ہوگا ورنہ بِلاسبب تو یہ نہیں ہوسکتے اورجب یہ بِلاسبب نہیں ہو سکتے اور تمہیں ان کاسبب معلوم نہیں تو تم کیوں اندھیرے میں چھلانگ لگاتے اور سلسلہ کی بدنامی اور ہتک کا موجب بنتے ہو۔ یہ معاملات اُن لوگوں کے ہاتھ میں چھوڑ دو جو اِن تغیرات کا سبب جانتے اور اس کی وجہ کو خوب پہچانتے ہیں۔ وہ جب دیکھیں گے کہ سلسلہ کی عظمت لڑائی کرنے میں ہے تو اُس وقت وہ بغیر کسی قسم کے خطرہ کے لڑائی کریں گے اور اُس وقت تم میں سے وہ لوگ جو اِس وقت بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے اور کہتے ہیں ہم صبر نہیں کرسکتے، ہم دشمن سے لڑیں گے اور مرجائیں گے وہ لڑائی کرنے سے انکار کردیں گے اور کہیں گے کہ ہم ہلاکت کے منہ میں اپنے آپ کو نہیں ڈال سکتے۔ گویا جس وقت ہم کہتے ہیں ہمیں صلح رکھنی چاہئے اور بِلاوجہ دشمن سے لڑائی نہیں لڑنی چاہئے اُس وقت وہ بُزدل اور منافق جو اگر لڑائی ہو تو سب سے پہلے میدانِ جنگ سے بھاگ نکلیںگے ۔ کہتے ہیں ہم بے غیرت نہیں، ہم دشمن سے ضرور لڑیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں اب کسی نے لڑنا نہیں اور جب لڑائی ضروری ہوجائے تو کہہ دیتے ہیں صلح رکھنی چاہئے، آپس کے تعلقات کو خراب کرلینے سے کیا فائدہ۔
آخر کیا تم خیال کرتے ہو کہ ایک شخص کے ہاتھ پر تم بیعت کرتے ہو اور پھر یہ سمجھتے ہو کہ اس کے دل میں سلسلہ کے متعلق اتنی بھی غیرت نہیں جتنی تمہارے دلوں میں ہے۔ حالانکہ اس نے اپنی غیرت کا عملی ثبوت بھی تمہارے سامنے پیش کیا ہؤا ہے۔ میں ہمیشہ اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ جماعت کا بیشتر حصہ سچے مخلصوں اور باتیں بنانے والوں میں فرق کیوں نہیں کرتا۔ گزشتہ دو سال میں تم نے دیکھ لیا کہ وہ لوگ جو بڑھ بڑھ کر باتیں کرنیوالے تھے جب اُن پر مقدمے ہوئے تو انہوں نے کیسی بُزدلی اور دوں ہمتی دکھائی ۔ جماعت کا ان مقدموں اور سیاسی شرارتوں کے مقابلہ کیلئے تیس چالیس ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ روپیہ خرچ ہوچکا ہے۔ حالانکہ ان لوگوں کو سوچنا چاہئے تھا کہ ہماری حرکات سے اگر سلسلہ کیلئے مشکلات پیش آئیں گی اور سلسلہ کا روپیہ خرچ ہوگا تو اس کا کون ذمہ وارہوگا ۔اورپھر جب بعض حالات میں مقدمات چلائے گئے تو کیوں یہ لوگ گھبراگھبرا کر اچھے سے اچھے وکیلوں اور اچھے سے اچھے سامانوں کے طالب ہوئے۔ جن لوگوں کے افعال کی وجہ سے یہ صورتِ حالات پیدا ہوئی تھی انہیں چاہئے تھا کہ یا وہ خود مقدمہ چلاتے یا کانگرس والوں کی طرح ڈیفنس پیش کرنے سے انکار کردیتے اور قید ہوجاتے۔ مگر انہیں شرم نہیں آتی کہ کہتے تو وہ یہ تھے کہ ہم سلسلہ کیلئے اپنی جانیں قربان کردیں گے مگر جماعت کا پندرہ بیس ہزار روپیہ انہوں نے مقدمات پر خرچ کرادیا اور پھر بھی وہ مخلص کے مخلص بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض کے کھانوں اور سفر خرچ کے بل جاکر دیکھو تو تم کو تعجب ہوگا کہ یہ کیا ہؤا ہے۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ دشمن جھوٹ بول رہا تھا اور سلسلہ کو بدنام کرنے کیلئے جھوٹے مقدمات کر رہا تھا۔ ہم اِن کی مدد کیلئے مجبور تھے گو ہم جانتے تھے کہ بعض جگہ دشمن کو موقع دینے والے خود ہمارے اپنے آدمی تھے۔ اگر ہمارے آدمی میری تلقین کے مطابق صبر سے کام لیتے اور گالی کا جواب نہ دیتے تو اتنا فتنہ نہ بڑھتا۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر انہوں نے لڑائی کرنادین کیلئے ضروری ہی سمجھا تھا تو ان کا فرض تھا کہ یا مقدمہ کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے اور کہتے کہ ہماری جماعت کی مالی حالت کمزور ہے، ہم اس پر اپنا بوجھ ڈالنا نہیں چاہتے اور یا جوابِ دعویٰ سے دستبردار ہو کر معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیتے۔ مگر یہ جماعت کاتیس چالیس ہزار روپیہ خرچ کرا دینے کے باوجود مخلص کے مخلص بنے پھرتے ہیں ( میں سب مقدمات کے بارہ میں نہیں کہتا۔ بعض مقدمات سلسلہ کی ضروریات کیلئے خود کئے گئے ہیں اور نہ سب آدمیوں کے متعلق کہتا ہوں جو ان میں مبتلا تھے ۔ مگر چونکہ اصل لوگوں کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا میں نے بات کو عام رکھا ہے تا کسی خاص شخص پر الزام نہ آ ئے اور اس نوٹ کے ذریعہ سے میں نے اس کا بھی ازالہ کر دیا ہے کہ نا کردہ گناہ لوگوں پر کوئی بد ظنی کرے )۔
میں پوچھتا ہوں بھلا گالیاں دینے یا بے فائدہ جوش دکھانے میں کونسی خوبی اور کمال ہے۔ کیا موچی دروازہ کے غنڈے گالیاں نہیں دیتے؟ اگر تم بھی دشمن کے جواب میں زبان سے گالیاں دیتے چلے جاتے ہو تو زیادہ سے زیادہ یہی کہا جائے گاکہ تم نے وہ کام کیا جو حق کے دشمن کر رہے ہیں مگر تمہاری اس حرکت کو قربانی قرار نہیں دیا جائے گا۔ قربانی وہ ہوتی ہے جسے عام آدمی پیش نہ کرسکے۔ مگر تقریر کیلئے کھڑے ہوجانا اوراس میں پندرہ بیس گالیاں دے دینا یہ تو ہر شخـص کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ پس صرف اس لئے کہ کوئی شخص بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا ہے،مخلص اور مومن نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ مخلص وہ ہے جو اس چیز کو پیش کرے جسے عام لوگ پیش کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ تم چلے جائو لاہور میں یا اور کسی شہر میں اور چلے جائو بد اخلاق نمائندگانِ مذاہب کی مجالس میں ،تمہیں یہی نظر آئے گا کہ جوشیلے اور فسادی لوگ ہمیشہ گالیاں دیتے،پتھر پھینکتے اور تالیاں پیٹتے ہیں۔ مگر مخلص وہ قربانی کرتے ہیں جو دوسرے نہیں کرتے۔ لاہور میں ہی جب کوئی فساد ہو، کمزور اخلاق کے لوگ ہمیشہ بڑھ بڑھ کر لاٹھی چلائیں گے۔ لیکن جب اسلام کیلئے مال کی قربانی کا سوال ہو تو پیچھے ہٹ جائیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ہمارا کام اتنا ہی ہے کہ ہم گالیاں دیں، لٹھ ماریں اورپھر پلائو زردہ کھائیں۔ پس گالیاں دینا تو کمزور طبع لوگوں کا کام ہے کامل مومنوں والا کام نہیں اور اگرواقعہ میں ان میں اخلاص ہوتا تو جن لوگوں پرمقدمہ چلایا گیا تھا وہ کہتے ہم جماعت کا ایک پیسہ بھی اِس پر خرچ نہیں ہونے دیں گے ہم نے اپنی ذمہ واری سے کام کیا ہے اور اب اِس بوجھ کو بھی یا خود برداشت کریں گے یا برداشت نہ کرسکنے کی صورت میں قید ہوجائیں گے۔جماعت کے پاس آگے ہی روپیہ کونسا زیادہ ہے ہم اس پرمزید اپنے مقدمات کا بوجھ کیوں ڈالیں۔ کیا یہ اتنی موٹی بات نہیں جو تمہاری سمجھ میں آسکے۔ تو تمہیں چاہئے کہ تم مخلص اور کمزور طبع انسانوں میں فرق کرو۔ میں انہیں منافق نہیں کہتا۔ بعض کمزور طبائع ہوتی ہیں ان کا دل ایسا کمزور ہوتا ہے کہ وہ نتائج کی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہوتے مومن ہی ہیں مگر دل کی کمزوری کی وجہ سے نتائج برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے انہوں نے بھی بڑھ بڑھ کر باتیں کیں اورجماعت کو مزید مشکلات میں مبتلا کرادیا اور جب کبھی ان کی مدافعت کی غلط تدبیروں سے فساد اور بڑھ گیا اور اس کے نتائج کو برداشت کرنے کا وقت آیا تو کمزوری دکھادی او رمقدمہ لڑ کر اِس امر کی کوشش شروع کردی کہ ان کی بریت ہوجائے۔ حالانکہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دے گا میں ضرور اسے سزا دوں گا۔ تواگر اس کا یہ مقولہ صحیح ہے تو سزا دینے کے بعد اسے دلیری سے اپنے جُرم کا اقرار کرنا چاہئے اور اسے کہنا چاہئے مجھے جہاں چاہتے ہو لے جائو۔ میں نے اس کے منہ سے گالی سُنی اورمیں اسے برداشت نہیں کرسکا۔ فرض کرو کوئی شخص کہتا ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دے گا میں اُسے جُوتی ماروں گا۔ اگر اسے ہماری تعلیم سے اتفاق نہیں تو جائے اور اُسے جوتی مارے اور پھر نتائج بُھگتنے کیلئے تیار ہے۔ مگر اِدھر تو وہ ہماری رائے سے اتفاق نہیں کرتا اُدھر جب دوسرے کو مار کر آتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے فعل کے جواب دہ تم ہو۔
یاد رکھو دنیا میں قیام امن دو ذرائع سے ہوتا ہے یا اُس وقت جب مار کھانے کی طاقت انسان میں پیدا ہوجائے یا جب دوسرے کو مارنے کی طاقت انسان میں پید اہوجائے، درمیانی دوغلہ کوئی چیز نہیں۔ اب جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم میں مار کھانے کی طاقت ہونی چاہئے۔بالکل ممکن ہے تم میں سے بعضوں کا یہ خیال ہو کہ ہم میں مارنے کی طاقت ہونی چاہئے۔ میں اِسے غیرمعقول نہیں کہتا ہاں غلط ضرور کہتاہوں۔ یہ ضرور کہتا ہوں کہ اُس نے قرآن کریم کو نہیں سمجھا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کو نہیں سمجھا کیونکہ خداتعالیٰ نے مارنے کیلئے جو شرائط رکھی ہیں وہ اِس وقت ہمیں میسر نہیں۔ پس کم سے کم میں اسے شرارتی یا پاگل نہیں کہوں گا میں زیادہ سے زیادہ یہی کہوں گا کہ اُس کی ایک رائے ہے جومیری رائے سے مختلف ہے۔ لیکن تمہاری یہ حالت ہے کہ تم میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے اورپھر جب وہ ہماری تعلیم کے صریح خلاف کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے تو بھاگ کر ہمارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے مجھے بچانا مجھے بچانا۔ آخر جماعت تمہیں کیوں بچائے؟ کیا تم نے جماعت کے نظام کی پابندی کی یا اپنے جذبات پر قابو رکھا ؟اور اگر تم اس خیال کے قائل نہیں تھے تو پھر تمہیں ہمارے پاس بھاگ کر آنے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہیں چاہئے کہ تم دلیری دکھائو اور اپنے جُرم کا اقرار کرو۔ اگر اِن دونوں عقیدوں کے چالیس چالیس آدمی بھی میسر آجائیں تو ہم دنیا کو ڈراسکتے ہیں۔ اگر چالیس آدمی ایسے مل جائیں جو مار کھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ دنیا کو ڈراسکتے ہیں اور اگر چالیس آدمی ایسے میسر آجائیں جو مارنے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ بھی دنیا کو ڈراسکتے ہیں۔ مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ جب تم میں سے بعض دشمن سے کوئی گالی سنتے ہیں تو ان کے منہ میں جھاگ بھر آتی ہے اور وہ کُود کراُس پر حملہ کردیتے ہیں۔ لیکن اُسی وقت ان کے پیر پیچھے کی طرف پڑرہے ہوتے ہیں۔ تم میں سے بعض تقریر کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مرجائیں گے مگر سلسلہ کی ہتک برداشت نہ کریں گے لیکن جب کوئی ان پر ہاتھ اُٹھاتا ہے تو پھر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھائیو! کچھ روپے ہیں جن سے مقدمہ لڑا جائے، کوئی وکیل ہے جو وکالت کرے؟ بھلا ایسے خنثوں نے بھی کسی قوم کو فائدہ پہنچایا ہے؟ بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مار کر پیچھے ہٹتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو دلیری سے سچ بولتا ہے۔ اور اگر مار کھانے کافیصلہ کرتا ہے تو پھر جوش میں نہیں آتا اور اپنے نفس کو شدید اشتعال کے وقتوں میں بھی قابو رکھتا ہے۔
پس اگر تم جیتنا چاہتے ہو تو دونوں میں سے ایک اصل اختیار کرو۔ جو کچھ میں سمجھتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ بہادر بنو مگر اس طرح کہ مار کھانے کی عادت ڈالو اور امام کے پیچھے ہوکر دشمن سے جنگ کرو۔ ہاںجب وہ کہے کہ اب لڑو اُس وقت بیشک لڑو۔ لیکن جب تک تمہیں امام لڑائی کا حکم نہیں دیتا اُس وقت تک دشمن کو سزا دینے کا تمہیں اختیار نہیں۔ لاٹھی اور سوٹے سے ہی نہیں بلکہ ایک ہلکا سا تھپڑ مارنا بھی تمہارے لئے جائز نہیں۔ بلکہ میں کہتا ہوں تھپڑ تو الگ رہا ایک گلاب کے پھول سے بھی تمہیں دشمن کو اُس وقت تک مارنے کی اجازت نہیں جب تک امام تمہیں لڑائی کی اجازت نہ دے۔لیکن اگر تمہارا یہ عقیدہ نہیں تب بھی میں شریف انسان تمہیں تب ہی سمجھوں گا کہ اگر تمہارا یہ دعویٰ ہو کہ گالی دینے والے دشمن کو ضرور سزا دینی چاہئے اور تم اُس گالی دینے والے کے جواب میں سخت کلامی کرتے ہو اور اُس سے جوش میں آکر وہ پھر اور بدکلامی کرتا ہے تو پھر تم مٹ جائو اور اپنے آپ کو فنا کردو لیکن اُس منہ کو توڑ دو جس منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کیلئے گالی نکلی تھی۔ اُس کو خاموش کرانا تمہاراہی فرض ہے کیونکہ تمہارے ہی فعل سے اُس نے مزید گالیاں دی ہیں۔ کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم ایک سخت بدلگام دشمن کا جواب دے کر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دِلواتے ہو اور پھر خاموشی سے گھروں میں بیٹھ رہتے ہو!! اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی حیا ہے اور تمہارا سچ مچ یہ عقیدہ ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے تو پھر یا تم دنیا سے مٹ جائو یا گالیاں دینے والوں کومٹاڈالو۔ مگر ایک طرف تم جوش اور بہادری کا دعویٰ کرتے ہو اور دوسری طرف بُزدلی اور دون ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہو۔ میں تو ایسے لوگوں کے متعلق بھی یہی کہتا ہوں کہ وہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دلواتے ہیں اور وہ آپ سلسلہ کے دشمن اور خطرناک ہیں۔
اگر کسی کو مارنا پیٹنا جائز ہوتا تو میں توکہتا کہ ایسے لوگوں کو بازار میں کھڑا کرکے انہیں خوب پیٹنا چاہئے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آپ گالیاں دلواتے ہیں اور پھر مخلص اور احمدی کہلاتے پھرتے ہیں۔میں اِس موقع پر ان لوگوں کو بھی جو انہیں اعلیٰ مخلص سمجھتے ہیں کہتا ہوں کہ مومن بیوقوف نہیں ہوتا۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ گالیاں دینا کوئی بہادری ہے؟تم کسی چوہڑے کو دو روپے دے کر دیکھ لو وہ تم سے زیادہ گالیاں دے دے گا۔ پس تم بھی اگر گالیاں دیتے ہو تو زیادہ سے زیادہ چوڑھوں والا کام کرتے ہو۔ یہ کوئی ایسا پیچیدہ مسئلہ نہیں جو تمہیں سمجھ میں نہ آسکے۔ مگر میں متواتر تین سال سے سمجھارہا ہوں اور تم ابھی تک سمجھنے میں نہیں آتے۔ میرے سامنے کوئی آٹھ دس برس کابچہ لے آئو، میں یہ باتیں اُس کے سامنے دُہرادیتا ہوں تمہیں خودبخود معلوم ہوجائے گا کہ وہ بچہ میری بات کوکتنی جلدی سمجھ لیتا ہے مگر کیامیرے تین سالہ خطبات بھی تمہیں میرے منشاء سے آگاہ نہیں کرسکے۔
پس میں پھر ایک دفعہ کھول کھول کر بتادیتا ہوں کہ شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں۔ یا انسان کو مرنا آتا ہو یا انسان کو مارنا آتا ہو۔ ہمارا طریقہ مرنے کا ہے مارنے کا نہیں۔ ہم کہتے ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے ابھی اِس مقام پر رکھا ہؤا ہے کہ مر جائو مگر اپنی زبان نہ کھولو۔ کیا تم نے جہاد پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظم نہیں پڑھی؟ اس میں کس وضاحت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتایا ہے کہ اگر جہاد کاموقع ہوتا توخداتعالیٰ تمہیں تلوار کیوں نہ دیتا۔ اُس کا تلوار نہ دینا بتاتا ہے کہ یہ تلوار سے جہاد کا موقع نہیں۔ اسی طرح اگر تمہارے لئے مارنے کامقام ہوتا تو تمہیں اس منہ کے توڑنے کی طاقت اور اس کے سامان بھی ملتے جس منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ مگرتمہیں اِس کی توفیق نہیں دی گئی اوروہ سامان نہیں دیئے گئے۔ پس معلوم ہؤا کہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے یہی مقام مقدر کیا ہے کہ تم گالیاں سنو اور صبر کرو۔ اوراگر کوئی انسان سمجھتاہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہے تو میں اسے کہوں گا اے بے شرم !تُو آگے کیوں نہیں جاتا اور اُس منہ کو کیوں توڑ نہیں دیتا جس منہ سے تُو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دلوائی ہیں۔ گندے سے گندے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق کہے جاتے ہیں۔ تم خود دشمن سے وہ الفاظ کہلواتے ہو اورپھر تمہاری تگ و دو یہیں تک آکر ختم ہوجاتی ہے کہ گورنمنٹ سے کہتے ہو کہ وہ تمہاری مدد کرے۔ گورنمنٹ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ تمہاری مدد کرے۔ کیا اُس کا اور تمہارا مذہب ایک ہے؟ یا اس کی اور تمہاری سیاست ایک ہے؟ یا اس کا نظام تمہارے نظام سے ملتا ہے؟ پھر گورنمنٹ تمہاری کیوں مدد کرے۔ گورنمنٹ اگر ہمدردی کرے گی تو اُن لوگوں سے جو تمہارے دشمن ہیں کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں اور تم اقلیت میں اور گورنمنٹوں کو اکثریت کی خوشنودی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس گورنمنٹ کو تم سے کس طرح ہمدردی ہوسکتی ہے۔ اُس کو تو اُسی وقت تک تمہارے ساتھ ہمدردی ہوسکتی ہے جب تک تم خاموش رہو اور دشمن کے مقابلہ میں صبر سے کام لو اور اِس صورت میں بھی صرف شریف حاکم تمہاری مدد کریں گے اور کہیں گے انہوں نے ہمیں فتنہ و فساد سے بچالیا۔ مگر یہ خیال کرنا کہ گورنمنٹ اُس وقت مدد کرے جب دشمن تم کو گالیاں دے رہا ہو اور تم جواب میں اُسے گالیاں دے رہے ہو نادانی ہے۔ اُس وقت اُس کی ہمدردی اکثریت کے ساتھ ہوگی کیونکہ وہ جانتی ہے اقلیت کچھ نہیں کرسکتی۔ پس گورنمنٹ سے اسی صورت میں تم امداد کی توقع کرسکتے ہو جب خود قربانی کرکے لڑائی اورجھگڑے سے بچو اور اُس وقت بھی صرف شریف افسر تم سے ہمدردی کریں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے ہماری بات مان لی اور خاموش رہ کر اور صبر کرکے فتنہ و فساد کو بڑھنے نہ دیا مگر رذیل حکام پھر بھی تمہارے ساتھ لڑیں گے اور کہیں گے کیا ہؤا اگر دشمن کا تھپڑ اُنہوں نے کھالیا ۔ وہ زیادہ تھے اور یہ تھوڑے۔ اگر اکثریت سے ڈر کر تھپڑ کھالیاہے تو یہ کوئی خوبی نہیں۔ پس وہ تمہارے صبر کو بُزدلی پر محمول کریں گے اور تمہاری خاموشی کو کمزوری کا نتیجہ قرر دیں گے۔ پس تمہارا گورنمنٹ کے پاس شکایت کرنا بالکل بے سُود ہے اورمجھے تمہاری مثال ویسی ہی نظر آتی ہے جیسے پہلے زمانہ میں جب یہ معلوم نہ تھا کہ کشمیری فوج میں بھرتی ہونے کے قابل نہیں۔
ایک دفعہ سرحد پر لڑائی ہوئی اور حکومت انگریزی نے مہاراجہ صاحب جموں سے کہا کہ اپنی فوج میں سے ایک دستہ ہماری فوج کے ساتھ روانہ کردیں۔ اُنہوں نے ایک کشمیری دستہ کو تیار ہوجانے کاحکم دے دیا جب وہ تیار ہوگئے تو کشمیری افسرایک وفدکی صورت میں مہاراجہ صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے اتنی مدت تک آپ کا نمک کھایا ہے ہمیں لڑائی سے ہرگز انکار نہیں،ہم ہروقت جانے کیلئے تیار ہیں صرف ایک ہماری عاجزانہ التماس ہے اوروہ یہ کہ سُنا ہے پٹھان سخت وحشی ہوتے ہیں آپ ہمارے ساتھ کچھ سپاہی کردیں جو ہماری جانوں کی حفاظت کریں۔ تم بھی خدا کے سپاہی کہلاتے ہو مگر انگریزی سپاہیوں کے پہرے میں کام کرنا چاہتے ہو۔ پھر تم سے زیادہ بے غیرت اور کون ہوسکتا ہے۔ اِس وقت تم سب اِس مثال کے سننے پر ہنس پڑے ہو مگر کیا تمہاری بھی یہی حالت نہیں۔ تم کہتے ہودشمن کامقابلہ کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں مگر انگریزی سپاہیوں کی حفاظت میں۔ اگر واقعہ میں تم خداتعالیٰ کے سپاہی ہو اور اُس کے دشمن کے مقابل پر کھڑے ہو تو پھر تمہیں کسی حفاظت کی ضرورت ہی کیا ہے۔ تم میرے بتائے ہوئے طریق کے ماتحت صبر اور شکر کرو پھر خداتعالیٰ کے سپاہی آپ تمہاری مدد کیلئے آسمان سے اُتریں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایک دفعہ ایک مقدمہ ہؤا ۔ جس مجسٹریٹ کے پاس وہ مقدمہ تھا اُس پر لاہور کے بعض آریوں نے سخت زور ڈالا کہ جس طرح بھی ہوسکے تم کسی نہ کسی طرح مرزا صاحب کو سزا دے دو اور اِس قدر اصرار کیا کہ آخر اس نے وعدہ کرلیا کہ میں کچھ نہ کچھ سزا انہیں ضرور دے دوں گا۔ ایک ہندو دوست جو اس مجلس میںموجود تھے انہوں نے یہ تمام حالات ایک احمدی وکیل کے پاس بیان کئے اور کہا کہ میں خود اس مجلس میں موجود تھا آریوں نے بہت اصرار کیا اور آخر مجسٹریٹ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ میں ضرور حضرت مرزا صاحب کوکچھ نہ کچھ سزا دے دوں گا۔ وہ احمدی وکیل گھبرائے ہوئے گورداسپور آئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُن دنوں گورداسپور میں ہی تھے میں وہاں موجود نہیں تھا لیکن جو دوست وہاں موجود تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب اُس دوست نے آکر ذکر کیا کہ حضور! ہمیں کوئی فکر کرنا چاہئے اس مجسٹریٹ نے فیصلہ کردیا ہے کہ آپ کو ضرور سزا دے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس کی طرف کوئی توجہ نہ فرمائی۔ آخر انہوں نے دوبارہ اور سہ بارہ یہی بات دُہرائی اور کچھ اور دوست بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے اور سب نے کہا کہ اب ضرور کوئی فکر کرنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُس وقت لیٹے ہوئے تھے۔ آپ نے جب متواتر یہ بات سُنی تو آپ نے چارپائی سے سر اُٹھایا اور لیٹے لیٹے کُہنی پر ٹیک دے کربڑے جلال سے فرمایا وہ مجسٹریٹ ہوتا کیا چیز ہے وہ خدا کے شیرپرہاتھ ڈال کر تو دیکھے۔
پس کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر خدا تمہارے ساتھ ہو تو یہ مجسٹریٹ اور افسر اور پولیس کے آدمی تمہیں کچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟کبھی نہیں۔ ہاں تمہیں اُس تعلیم پر عمل کرنا چاہئے جو خداتعالیٰ کے مامور نے تمہیں دی اور جو یہ ہے کہ ؎
گالیاں سن کردعا دو پا کے دُکھ آرام دو
کِبر کی عادت جو دیکھو تم دکھائو انکسار
اور جو تعلیم قرآن کریم میں خداتعالیٰ نے دی ہے کہ جب کسی مجلس میں خدا اور اُس کے رسول کو گالیاں دی جاتی ہوں تو وہاں سے اُٹھ کر چلے آئو اور بے غیرت مت بنو۔ مگر تمہاری غیرت کا یہ حال ہے کہ اِدھر ہم منع کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اُن کے جلسہ میں کوئی نہ جائے اور اُدھر تم میں سے کوئی کونوں میں چھپ کر ان کی تقریریں سنتا ہے، کوئی کسی ہمسایہ کے مکان پر چڑھ کر وہاں سے تقریریں سنتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے دل میں یہ گُدگُدی اُٹھ رہی ہوتی ہے کہ کسی طرح جائیں اور گالیاں سنیں۔ کیا تم نے کبھی مجھے بھی دیکھا کہ میں ان جلسوں میں گیا ہوں؟ پھر کیا تمہارے سینہ میں ہی دل ہے میرے سینہ میں نہیں۔ پھر تم کو کیوں شوق آتا ہے کہ جائو اور گالیاں سنو۔ اِسی وجہ سے کہ تمہارے دلوں میں غیرت نہیں اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ تمہارے دلوں میں غیرت نہیںتو اِس سے مراد وہی خاص لوگ ہیںجو بڑھ بڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور پھر قابلِ شرم بے غیرتی کا نمونہ دکھاتے ہیں ۔پس تمہارا گالیاں سننا بتاتا ہے کہ تمہارے دل مُردہ ہو چکے ہیں ۔تم بے ایمانی کے ساتھ ایمان کا جبہ پہن کر نکلے ہو اور تمہاری غرض محض تماش بینی ہے۔ ایسے لوگ اُس وقت بھی تماش بین ہوتے ہیں جب وہ ہماری مجلسوں میں شور مچارہے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت کی حفاظت ہونی چاہئے۔اور جب وہ اُس مجلس میں جاتے ہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دی جاتی ہیں تو وہاں بھی ان کی حیثیت ایک تماش بین کی سی ہوتی ہے اور یقینا ایسے لوگ اپنی قوم کیلئے عار اورننگ کا باعث ہوتے ہیں۔
پھر میں تمہیں کہتا ہوں تم اپنے آپ کو با غیرت کہتے ہو اور تم سمجھتے ہو کہ تم سلسلہ کیلئے قربانی دینے والے ہو مگر تمہارے پاس اِس الزام کا کیا جواب ہے کہ جب آریوں کا پروسیشن نکل رہا تھاتو تم میں سے ایک شخص نے مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگایا۔اس میں غیرت کا کونسا سوال تھا؟کیا دوسری قوموں کا حق نہیں کہ وہ بھی اپنے بزرگوں کے حق میں نعرے لگائیں ؟ تم کہتے ہو لوگ ہم پر جھوٹا الزام لگاتے ہیںکہ ہم میں سے کسی نے لیکھرام مُردہ بادکا نعرہ لگایا تھا۔ میں کہتا ہوںیہ درست ہے کہ تم میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا مگر تم انصافاًآپ ہی بتائو کہ جس وقت تمہارا پروسیشن نکل رہا ہو اور تم محمد زندہ باد کے نعرے لگارہے ہوتو اُس وقت اگر کوئی شخص ابوجہل زندہ باد کا نعرہ لگا دے تو تمہارے تن بدن میں آگ لگ جائے گی یا نہیں؟اگر لگ جائے گی تو تمہیں سمجھنا چاہئے کہ تمہارے دشمن کے سینہ میں بھی دل ہے۔ اور اُس کادل بھی اُس وقت دکھتا ہے جب تم اُس کے مظاہرہ کے وقت میں مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہو۔ پس تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے مُردہ باد نہیں کہا تھا،زندہ باد کہا تھا۔سوال یہ نہیں کہ تم نے کیا کہا بلکہ سوال یہ ہے کہ ایسے موقع پر زندہ باد کا نعرہ لگانا بھی دوسرے کو چڑانا اور اسے تکلیف دینا ہوتا ہے۔ جس وقت تم اپنا پروسیشن نکال رہے ہو اور سلسلہ کی تعریف میں نعرے لگا رہے ہو اُس وقت اگرکوئی شخص لیکھرام زندہ باد یا ثناء اللہ زندہ باد کا نعرہ لگا دے تو ایمان سے کہو کہ تمہیں غصہ آئے گا یا نہیں؟ آئے گااور ضرور آئے گا۔ پھر کیا تمہارے ہی سینہ میں دل ہیں اور تمہارے دشمن کے سینہ میں دل نہیں کہ تمہیں تو ایسے نعرے بُرے لگ سکتے ہیں مگر انہیں بُرے نہیں لگ سکتے ہیں۔میں تو حیران ہوتا ہوں جب میں یہ بحث سنتا ہوں کہ ہم نے مرزا غلام احمد زندہ باد کہا تھا۔ لیکھرام مُردہ باد تو نہیں کہا تھاحالانکہ سوال زندہ باد کہنے کانہیںبلکہ سوال یہ ہے کہ وہ زندہ باد کا نعرہ کس موقع پر لگایا تھا۔کیا وہ تمہارا جلسہ تھا؟اگر تم اپنے جلسہ میں اس قسم کانعرہ لگاتے تو یہ ایک معقول بات سمجھی جا سکتی تھی مگر غیر کے جلسہ یا جلوس میں نعرے لگاناصریح اشتعال دلانے والی حرکت تھی ۔پس یہ بحث ہی کیاہوئی کہ ہم نے لیکھرام مُردہ باد نہیں کہا، مرزا غلام احمد زندہ باد کہا۔اُس وقت مرزا غلام احمد زندہ باد کہنا بھی لیکھرام مُردہ باد کہنے کے مترادف تھا۔ یاد رکھو جب کوئی قوم اپنے کسی لیڈر کے اعزاز میںپروسیشن نکال رہی ہو تو اس وقت تمہارا کوئی حق نہیں کہ تم اُس میں دخل دو اور اگر تم اپنے لئے یہ بات جائز سمجھتے ہو تو پھر دشمن کا بھی حق ہوگا کہ وہ تمہارے پروسیشن میں لیکھرام زندہ باد کے نعرے لگائے۔ میں یہ مانتا ہوں کہ جن لوگوں نے یہ کہاکہ لیکھرام مُردہ بادکا نعرہ لگایا گیا تھا انہوں نے جھوٹ بولا۔ کیونکہ اِس وقت تک کوئی گواہی ایسی نہیںملی جس سے یہ الزام ثابت ہؤا ہو۔ علاوہ ازیں جب وہ شخص جس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے قسم کھاکر کہہ چکا ہے کہ میں نے اِس قسم کا نعرہ نہیں لگایا تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اُس کی قسم کو تسلیم کریں۔ پس یہ جو کہا گیا کہ احمدیوں کی طرف سے لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا گیا یہ جھوٹ کہا گیا اور اس میں کسی قسم کی سچائی نہیں۔ یہ کہنا کہ پولیس کی ڈائری میں یہ لکھاہؤا ہے یہ بھی کوئی معقول ثبوت نہیں۔ پولیس والے بیسیوں جھوٹ بول لیتے ہیں اور جب وہ انہی کے چٹے بٹے ہیں تو ان سے ہم سچائی کی توقع کس طرح رکھ سکتے ہیں۔ پھر جس شخص کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اُس نے لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا جب وہ قسم کھاکر کہتا ہے کہ میں نے ایسا نعرہ نہیں لگایا تو اب اِس کے بعد تصفیہ کی صورت یہی رہ جاتی ہے کہ پولیس والے قسم اُٹھالیں کہ واقعہ میں لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا گیا تھا پھر خدا خود فیصلہ کر دے گاکہ کس نے سچ بولا اور کس نے جھوٹ۔
پولیس کی ڈائریوں کا تو یہ حال ہے کہ گزشتہ سالوں میں جب یہ الزام لگایا گیا کہ احمدی لیکچراروں نے ڈپٹی کمشنر کو حرامزادہ کہا ہے تو پولیس کے جس آدمی نے یہ رپورٹ کی تھی اُسے جب کہا گیا کہ ڈپٹی کمشنر چھوڑ کسی کو بھی کسی احمدی لیکچرار نے حرامزادہ نہیں کہا پھر تم نے ایسا کیوں لکھا؟ تو وہ کہنے لگا یہ ایک راز کی بات ہے میں اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ پھر کم سے کم بیس فیصلے ہائی کورٹ کے مَیں ایسے پیش کرسکتاہوںجن میںیہ تسلیم کیا گیا ہے کہ پولیس والوں نے جھوٹ بولا۔ پس ہم کہتے ہیں یہ الزام بالکل جھوٹا ہے۔جس پر یہ الزام لگایا جاتاہے وہ قسم اور غلیظ قسم کھا کر اپنے کو بری ثابت کر چکا ہے ۔اور اگر یہ جھوٹی قسم ہے تواس کے مقابلے میں دوسرا شخص جسے یہ یقین ہے کہ واقعہ میں لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا گیاکیوں ایسی ہی قسم نہیں کھالیتا۔پھر یہ بھی تو غور کرنا چاہئے کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ کسی مخالف نے خود اِس قسم کا نعرہ لگا دیاہو تاکہ فتنہ پیداہو جائے۔
پس قسمیہ طورپر اس بات کو بیان کردینے کے بعد کہ لیکھرام مُردہ باد کانعرہ نہیں لگایا گیا ہم اس امر کو تسلیم نہیں کرسکتے کہ یہ الزام درست ہے۔ ہاں ہم یہ ضرور کہیں گے کہ اس موقع پر مرزا غلام احمد زندہ باد کہنا بھی فتنہ پیدا کرنے کاموجب تھا۔ ہماری جماعت بھی اپنے جلوسوں میں زندہ باد کے نعرے لگایا کرتی ہے۔ ایسے مواقع پر اگر مقابل کا فریق بھی نعرے لگانا شروع کردے توفساد ہو گا یا نہیں ۔ پس میں تو ہر گز نہیں سمجھتا کہ جس چیز کو ہم اپنے لئے جائز نہیں سمجھتے وہ دوسروںکیلئے جائز سمجھیں۔ بحیثیت انسان ہونے کے ہندو بھی وہی حق رکھتے ہیںجو ہم رکھتے ہیں بلکہ سکھوںاور ہندوئوں کو جانے دو چوڑھوں کا بھی انسان ہونے کے لحاظ سے وہ حق ہے جو ایک مسلمان یا سکھ یا ہندو کاہے۔اورہمیں کوئی اختیار نہیں کہ ہم یہ کہیں کہ ہمیں تو فلاں حق حاصل ہے مگر ہندوئوں یا سکھوںیا چوڑھوں کو حاصل نہیں۔جو حق ہمیں حاصل ہو گا وہ دوسروں کوبھی حاصل ہوگا اور جو بات ہمیں بُری معلوم ہوتی ہو ہم کو چاہئے کہ دوسرے کے حق میں بھی اِس طرح نہ کریں۔ آج ہی اگر میں ایک میٹنگ کر کے لوگوں کے سامنے یہ بات پیش کروںکہ جب آپ لوگ کہتے ہیں’’ محمدؐ زندہ باد‘‘ یا’’ غلام احمد کی جے‘‘ تو کیا آپ اُس وقت برداشت کریں گے کہ آپ کے جلوس میں ہی مخالف ابوجہل زندہ باد یا لیکھرام زندہ باد کے نعرے لگائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ سَو فیصدی لوگ اشتعال میںآ جائیں گے اوروہ کہیں گے کہ ہم اپنے جلسہ یا جلوس میں اس قسم کے نعرے ہر گز نہیں سُنیں گے۔ پس اگرتم اپنے جلسوں اور جلوسوں میں ان نعروں کو سننے کیلئے تیار نہیں تو کیا تمہارا فرض نہیں کہ دوسروں کے جلسوں اور جلوسوں میں بھی تم اپنی زبانوں کوروکواور اپنے جذبات پر قابو رکھو۔
پھر ایک اورموٹی بات ہے جس کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے اور وہ یہ کہ تم میں سے ایک شخص ایک مُجرمانہ فعل کرتا ہے تو تم سب کو کیوں فکرپڑ جاتی ہے حالانکہ تمہارا فرض صرف اتناہے کہ تم مجرم کو مجرم قرار دے دو اور اس کے فعل سے اپنی بے تعلقی اور براء ت کا اظہار کر دو۔ آج ہندوستان میں جس قدر فسادات ہیں ان کی بڑ ی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص جُرم کرتا ہے اور اُس کی ساری قوم سمجھ لیتی ہے کہ شاید ہم پر الزام لگا ہے اور زخم کردہ قوم واقعہ میں بھی اس ساری قوم کو مجرم سمجھنے لگتی ہے۔ اگر تم بھی ایسا ہی کرو تو تم میں اور ان میں کیافرق رہ جائے۔ اگر کسی نے مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگایا تو بیشک یہ فقرہ بالکل سچ تھا مگر سچے فقرے بھی بعض دفعہ فتنہ وفساد کا موجب ہو جاتے ہیں۔ قرآن کریم میںہی آتا ہے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ہمارے رسول !بعض منافق تیرے پاس آتے اور قسمیں کھاکھا کر کہتے ہیں کہ تُو اللہ تعالیٰ کا رسول ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیںکہ تُو اللہ کا رسول ہے مگر اے ہمارے رسول منافق اس وقت جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔پس بعض لوگوں کا رسول اللہ ﷺ کو رسول کہنا بھی جھوٹ تھا حالانکہ اس سے بڑھ کر سچی بات اور کیاہو سکتی ہے۔
اسی طرح حضرت علیؓ کے زمانہ میں کچھ لوگ تھے جنہوں نے ایک دفعہ کہا بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے،۳؎ مسلمانوں کے کام باہمی مشورہ سے ہونے چاہئیں۔ حضرت علیؓ سے کسی نے یہ بات کہی تو آپ نے فرمایا کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ اُرِیْدَ بِھَا الْبَاطِلُ۴؎ کہ یہ بات تو سچی ہے مگر اس سے فساد پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تو ہر سچی بات موقع و محل کو مدنظر رکھے بغیر بیان کرنی جائز نہیں ہوتی۔ میاں اوربیوی کے تعلقات سے زیادہ حلال اور کونسا تعلق ہو سکتا ہے مگر کیاجائز ہے کہ انسان مخصوص تعلقات کاذکر کرے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اُس عورت پر اللہ تعالیٰ کی *** ہے جو اپنے خاوند کے پاس جاتی اور پھر باہر جاکر اُس کے متعلق باتیں کرتی ہے مگر کیا وہ سچ نہیں ہوتا۔
غرض سچائی کے اظہار کیلئے بھی شرائط ہوتی ہیں اور ان شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ہر شخص جس بات کو سچائی سمجھتا ہے وہ اس سچائی کے اظہار کا حق تو رکھتا ہے لیکن دشمن کی مجلس میں جب طبائع میں جوش ہو اُسے اس کے بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ جب لوگ جلوس نکال رہے ہوتے ہیں اُس وقت ان کی ساری عقیدت جو اپنے پیشوائوں کے ساتھ وہ رکھتے ہیں پُھوٹ پُھوٹ کر نکل رہی ہوتی ہے۔ محرم میں جب شیعہ لوگ روتے پیٹتے ہیں، سُنی بھی شیعہ ہوجاتے اور ان میں سے اکثر ان میں شامل ہوجاتے ہیں۔ کسی عقلمند کا مقولہ ہے کہ مسلمان گیارہ مہینے سُنی رہتے ہیں اور بارہویں مہینہ سب شیعہ بن جاتے ہیں۔ درحقیقت یہ بات بالکل درست ہے۔ جس وقت شیعہ لوگ ’’یا حسین یا حسین‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں تو واقعاتِ کربلا کی یاد میں سُنیوں کی عقلوں پر بھی پردہ ڈال کر انہیں شیعہ بنادیتی ہے اور اپنی سُنیّت انہیں بھول جاتی اور شیعیت ان پر غالب آجاتی ہے۔ اسی طرح جس وقت ہندو یا سکھ جلوس نکال رہے ہوتے ہیں ان کی عقیدت کا جوش انتہاء تک پہنچا ہؤا ہوتا ہے۔ اُس وقت اگر کوئی مخالف اپنے عقیدہ کااظہار کرتا ہے تو گو وہ ایک سچائی ہی ہو مگر چونکہ اس سے دوسرے کی دل آزاری ہوتی ہے اس لئے وہ مجرم ہے اور اس کی جماعت کا کوئی حق نہیں کہ اس سے ہمدردی کرے۔
درحقیقت میں تو اب کچھ مدت سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ گورنمنٹ کو چاہئے کہ وہ تمام جلوسوں کو بند کردے۔ جلوسوں کی وجہ سے ہندوستان میں بڑے بڑے فساد ہوتے ہیں۔ جب جلوس نکلتا ہے تو یوںمعلوم ہوتا ہے کہ ایک آفت آگئی۔ اِدھر جلوس والوں میں جوش ہوتاہے اُدھر جلوس کو دیکھ کر مخالفوں کے دلوں میں غیظ و غضب بھڑک اُٹھتا ہے اور بسااوقات فساد اور کشت و خون تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ پس ہندوستان کے امن کی راہ میں جلوس ایک خطرناک روک ہیں اور گورنمنٹ کو چاہئے کہ وہ ان جلوسوں کو بند کردے۔ اگر گورنمنٹ جلوسوں کے متعلق کوئی ایسا عام فیصلہ صادر کردے کہ کسی کو بھی جلوس نکالنے کی اجازت نہ ہوگی تو میں اپنی جماعت کی طرف سے حکومت کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس کے خلاف نہ صرف کوئی پروٹسٹ نہیں کریں گے بلکہ حتّی الْاِمکان اس کی مدد کریں گے۔ کیونکہ اس زمانہ میں جلوس سخت فسادات کا موجب بنے ہوئے ہیں۔
پس تم میں سے جس شخص نے بھی یہ نعرہ لگایا اُس نے سخت غلطی کی اور ایک مجرمانہ فعل کا ارتکاب کیا۔ میں بتاچکا ہوں کہ یہ کوئی سوال نہیں کہ نعرہ کیا لگایا گیا اور میں تو یہاں کے لوگوں کے خطوں کو پڑھ پڑھ کر سفر میں حیران ہوتا رہا کہ یہ کیا لکھا ہوتا ہے کہ پولیس کا الزام غلط ہے۔ ایک شخص نے مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا، لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ اس نے نہیں لگایا، مجھے ان دونوں فقرات میں فرق تو نظر آتا ہے مگر مجھے ان میں سے کسی کے جواز کی بھی دلیل نظر نہیں آتی۔ میرے نزدیک تو یہ کہنا کہ لیکھرام مُردہ باد ہم نے نہیں کہا مرزا غلام احمد زندہ باد ہم نے کہا۔ ویسی ہی بات ہے جیسے میری ایک بھانجی کو ایک اُستاد پڑھایا کرتا تھا۔ بچی بہت چھوٹی تھی۔ اُسے آداب کا کوئی پتہ نہ تھا۔ ایک دن اس نے کسی لڑکی کے منہ سے گدھی کا لفظ سنا اسے یہ لفظ بہت پسند آیا اور جب اُستاد اُسے پڑھانے آیا اور کسی بات پر ناراض ہؤا تو وہ کہنے لگی ’’ددھی‘‘ یعنی تُو گدھی ہے بوجہ زبان کے صاف نہ ہونے کے گدھی کی جگہ اُس نے ’’ددھی‘‘ کہا۔ اُستاد نے اس کے والد کے پاس شکایت کی کہ آپ کی لڑکی نے آج مجھے گدھی کہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اِس نے کہیں سے گدھی کا لفظ سنا ہے اور اب یہ گالی اس کی زبان پر چڑھ گئی ہے۔ باپ نے لڑکی کو بُلایا۔ چونکہ واقعہ تازہ ہی تھا اس لئے وہ سمجھ گئی کہ ضرور اِسی بات کی وجہ سے مجھے بلایا گیا ہے۔ وہ ڈرتی ڈرتی اور کانپتی کانپتی آئی اور کہنے لگی ددھی نہیں ددھا یعنی میں نے گدھی کہنے میں غلطی کی اصل میں مجھے گدھا کہنا چاہئے تھا۔ اُس نے سمجھا شاید غلطی اِس میں ہوئی ہے کہ میں نے مرد کو گدھی کہہ دیا حالانکہ اسے گدھا کہنا چاہئے تھا اور اسے یہ خیال ہی نہ آیا کہ مجھے ان میں سے ایک لفظ بھی نہیں کہنا چاہئے تھا۔ یہی مثال اس شخص پر صادق آتی ہے جس نے یہ حرکت کی ہے ۔اس موقع کے لحاظ سے یہ دونوں فقرے جو زیربحث ہیں نامناسب تھے اور نہیں کہنے چاہئیں تھے۔ پس تم اپنے جذبات کو روکنے کی عادت ڈالو اور لوگوں کے احساسات کا خیال رکھو۔ اب یہ ہوتا ہے کہ ہم انتہائی کوشش کرکے دشمن کو جب اس مقام پر لے آتے ہیں جہاں وہ مجرم ثابت ہونے والا ہوتا ہے اور اس کی سَو گالیاں پکڑ لیتے ہیں تو جھٹ تم میں سے ایک شخص کوئی سخت لفظ کہہ دیتا ہے اور خواہ وہ گالی نہ ہو محض ایک سخت لفط ہو حکومت ان کی سَو گالیوں کو پرے پھینک کر کہہ دیتی ہے کہ آپ کے آدمی نے بھی یہ گالی دی ہے۔ پس تمہارے اس ایک آدمی کی غلطی کی وجہ سے حکام ایک عرصہ تک یہی دُہراتے چلے جاتے ہیں کہ آپ کے آدمی نے بھی یہی بات کہی تھی اور اس طرح ہماری ساری سکیم تم میں سے ایک شخص جوش میں آکر تباہ کردیتا ہے اور جب بھی کوئی ایسا موقع آتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں اب ضرب لگانے کاوقت ہے، ہماری جماعت کا کوئی شخص اپنی بیوقوفی سے اُس ضرب کو اپنے اوپر لے لیتا اور بنی بنائی سکیم کو بگاڑ دیتا ہے۔
پس میں پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میری یہ باتیں سمجھنی مشکل نہیں۔ تم میں سے جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ یہ باتیں مشکل ہیں اور جلدی سمجھ میں نہیں آسکتیں وہ کوئی آٹھ دس سال کا بچہ میرے سامنے لے آئے، میں اُسے یہ تمام باتیں سمجھا کر بتادیتا ہوں۔ پھر اتنی وضاحت کے بعد بھی اگرتم لوگ نہ سمجھو تو سوائے اس کے اور کیا معنے ہوں گے کہ تم چاہتے ہی نہیں کہ سمجھو اور میری باتوں پر عمل کرو۔ میں سوئے ہوئے کو تو جگا سکتاہوں مگر جوجاگ رہا ہو اور یونہی آنکھیں بند کرکے پڑا ہؤا ہو، اُسے کس طرح جگا سکتا ہوں۔ اس کے متعلق تو میرے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ میں خدا سے ہی کہوں کہ خدایا! مجھے اِس نادان دوست سے بچا کہ یہ میرے کام میں روک بنا ہؤا ہے۔
(الفضل ۵ ؍ جون ۱۹۳۷ئ)
۱؎ بخاری کتاب الجھاد باب یقاتل من وراء الامام ویتقٰی بہٖ
۲؎ التوبۃ: ۶۱
۳،۴؎ تاریخ ابن اثیر جلد۳ صفحہ۳۳۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء


۱۷
سب سے بڑا حربہ دُعاہے
(فرمودہ ۱۱؍ جون ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں تحریک جدید کے گزشتہ جلسہ کے موقع پر بوجہ بیماری کے شامل نہیںہوسکا تھا اور گو اب بھی اس بیماری کے اثر کے ماتحت میں اِس قابل نہیں ہوں کہ زیادہ بول سکوں بلکہ اس بیماری کے بعد اب تک یہ حالت ہے کہ اگر مجھے کھڑا ہونا پڑے تو سر میں ایسا شدید چکر آتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں شاید گرجائوں گا اس لئے صحت کے لحاظ سے زیادہ کھڑا ہونے کی طاقت اب بھی نہیں رکھتا مگر چونکہ اس وقت میں حصہ نہ لے سکا تھا اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس کی بجائے آج اختصار کے ساتھ کوئی بات کہہ دوں تا اس ثواب میں مَیں بھی شریک ہوسکو ں اور وہ بات جو میں کہنی چاہتا ہوں انہی روزوں اور دعائوں کے متعلق ہے جن کی تحریک کوئی دو ماہ ہوئے میں نے کی تھی۔
تحریک جدید کا اُنیسواں مطالبہ یہ ہے کہ دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں اور اِس کیلئے میں نے یہ طریق اختیار کررکھا ہے کہ ہر سال کچھ روزے رکھے جائیں اور دعائیں کی جائیں۔ اور یہ روزے جہاں تک ممکن ہو مقررہ دنوں میں ہی رکھے جائیں سوائے اِس کے کہ کوئی شخص بیمار ہو یا کوئی اوروجہ پیش آجائے۔ اِس دفعہ میری تجویزکے مطابق سات ماہ میں چودہ روزے مخلصینِ جماعت رکھیں گے اور رکھ رہے ہیں۔ میںنے نصیحت کی تھی اور اب پِھر اُسے دُہراتا ہوں کہ اِن دنوں میں دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان بعض فِتن کو جو خواہ احرار کی طرف سے ہوں یا بعض حکام کی طرف سے، اپنے فضل سے دور کردے۔
اس کے علاوہ ایک زائد بات جو میں کہنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو منافقین کا رنگ رکھتے ہیں یا تو ہدایت دے دے یا ان کو الگ کردے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری عاجزانہ دعائیں قبول ہورہی ہیں اور اب ایسے لوگ یا تو ظاہر ہوجائیں گے اور یا توبہ کرلیںگے۔ ہماری ذاتی خواہش تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی توفیق دے اور ہدایت نصیب کرے۔ لیکن اگر مشیتِ الٰہی یہی ہو کہ جہا ں بیرونی فِتنوں میں جماعت کی آزمائش ہوئی ہے اندرونی فِتنوں میں بھی ان کی آزمائش کرے اور منافقوں کو بھی زور لگانے کا موقع دے تو جو اس کی مرضی اور مشیت ہے ہم بھی اُسی پر رضامند ہیں۔ پس دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں اور جن کیلئے ممکن ہو روزے رکھیں اور کوشش کریں کہ سوائے بیماری کے یا کسی اور وجہ سے انہی ایام میں رکھیں تا دعائیں کثیر تعداد میں ہوں اور اکٹھی آسمان کو جائیں۔
یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کا سلسلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آخری جنگ ہے جو اسلام کو دنیامیں دوبارہ قائم کرنے کیلئے لڑی جاری ہے۔ افتراء کی جتنی صورتیں انسانی ذہن میں آسکتی ہیں، فریب اور دغا کے جتنے طریق انسانی دماغ ایجاد کرسکتاہے اور گمراہ کرنے ورغلانے کیلئے شیطان جتنی تدابیر اختیار کرسکتا ہے وہ سب احمدیت کے خلاف اختیار کی گئیں اور اختیار کی جارہی ہیں۔ مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس سلسلہ کی حفاظت کا وعدہ ہے جو پورا ہوکر رہے گا۔ نہ دشمنوں کی طاقت اس وعدہ کے پورا ہونے میں روک ہوسکتی ہے اور نہ ہمارے ضُعف یا کمزوری سے اس کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی ترقی کے وعدے کئے تو یہ جانتے ہوئے کئے تھے کہ جماعت کتنی کمزور ہے اور اس علم کے ساتھ کئے تھے کہ ہمارے دشمن کتنے طاقتور ہیں۔ وہ عالم الغیب خدا جانتا تھا کہ اِس جماعت پر کتنے حملے ہونے والے ہیں اور کہ وہ ان کے دفاع کی کس قدر طاقت رکھتی ہے۔ مگر اس نے باوجود یہ جاننے کے کہ جماعت میں کتنی طاقت ہے اور کہ دشمن اسے نقصان پہنچانے کیلئے ہر وہ طریق اختیار کرے گا جو پہلے انبیاء کے سلسلوں کے مقابل پر اختیار کئے گئے، اس کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے جو پورا ہوکر رہے گا اور خدا کی نصرت تمام تاریکیوں کو پھاڑ کر اور اس کا نور ہزارہا بادلوں کو چیرتا ہؤا ظاہر ہوگا۔ دشمن کی تخویف ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکے گی اور اس کے تمام مکرو فریب ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچاسکیں گے۔ یہ خداتعالیٰ کا کلام ہے جو پورا ہوکر رہے گا۔ یہ کلام اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل کیا۔ پھر ہزاروں احمدیوں اور غیراحمدیوں پر اِس کی تصدیق کیلئے اس کا کلام نازل ہؤا۔ ہم اگر دعا کرتے ہیں تو اِس لئے نہیں کہ ہمیں خدا کی نصرت پر شبہ ہے بلکہ اس لئے کہ خداتعالیٰ کی نصرت جلد آئے تا اس میں ہمارا بھی ہاتھ ہو اور اللہ تعالیٰ اس میں شامل ہونے کا موقع ہمیں بھی عطا کردے۔
ہماری یہ دعائیں اِس خوف سے نہیں کہ دشمن ہمیں نقصان پہنچائے گا اور اِس شبہ سے نہیں کہ سلسلے کی ترقی کس طرح ہوگی بلکہ اس یقین کے ساتھ ہیں کہ ترقی ضرور ہوگی۔ پس آئو ہم سب مل کر وہ سب سے بڑا حربہ اور سب سے زبردست ہتھیار جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے استعمال کریں اور اپنی کمزوریوں کو اُس کے حضور پیش کرکے اُس کے فضلوں کو ڈھونڈیں تا وہ ہمارے دشمنوں کو زیر کردے اور سلسلہ کا مؤید و ناصر ہو اور ہر اس کمزوری کو جو جماعت میں پائی جاتی ہے دور کرے اور منافقین کو یا تو ہدایت دے اور یا انہیں ظاہر کردے تا سلسلہ کی ترقی کے راستہ میں ہرقسم کی روکیں دور ہوں۔ اسی طرح بیرونی دشمنوں کیلئے بھی ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی ہدایت نصیب کرے اور اُن کی گالیوں کو دعائوں میں بدل دے اور اگر ان کے اعمال کو دیکھتے ہوئے وہ ان کی تباہی کا ہی فیصلہ کرچکا ہے تو پھر ہماری دعا یہ ہے کہ وہ ہمارے ہاتھوں سے تباہ ہوں اور ہماری زندگیوں میں ہوں تا ہم اس کے ثواب میں حصہ دار ہوسکیں۔
(الفضل ۱۹ ؍ جون ۱۹۳۷ئ)

۱۸
نماز باجماعت پڑھنے کی سخت تاکید
ولی کی رضامندی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوسکتا
چندوں کے متعلق ایک اعتراض کا جواب
(فرمودہ ۱۸؍ جون ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
دو تین سال ہوئے میں نے قادیان کی تنظیم مساجدکے مطابق کرنے کے متعلق بعض ہدایات دی تھیں اورمیری غرض اِس تنظیم سے یہ تھی کہ ایک تو نماز باجماعت جو اسلام کا نہایت ہی اہم اصل ہے اور جس کے بغیر انسان مومن ہی نہیں ہوسکتا اس کی طرف جماعت کو زیادہ توجہ ہوجائے۔ اور دوسرے لوگوں کا اجتماع خدا کے گھر میں پانچ اوقات میں ایسی طرز پر ہو کہ سلسلہ کے کارکن انہیں دین کے متعلق واقفیت بہم پہنچاتے ہوئے ضروری مسائل سے آگاہ رکھ سکیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں پہلے زمانہ کی نسبت تو اس انتظام کے بعد نماز باجماعت کی ادائیگی میں ترقی نظر آتی ہے لیکن جو دوسری غرض تھی کہ اس اجتماع کو دینی واقفیت اور تربیت کا ذریعہ بنایا جائے، مجھے اِس میں بہت سی کمی دکھائی دیتی ہے اور مساجد کے اجتماع سے محلے والے وہ فائدہ نہیں اُٹھاتے جو انہیں اُٹھانا چاہئے اور نہ وہ نفع حاصل کرتے ہیں جس نفع کا حاصل کرنا خداتعالیٰ کا منشاء ہے۔ بلکہ میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ گو پہلے زمانہ کی نسبت نمازباجماعت کی پابندی اب زیادہ ہے مگر جب میں نے ابتدا میں یہ ہدایت کی تھی تو جس زور و شور سے لوگ باجماعت نماز میں شامل ہؤا کرتے تھے وہ زورو شور مجھے اب نظر نہیں آتا۔ میں نے تاکید کی تھی کہ خصوصیت سے بچوں اور نوجوانوں کو مساجد میں لایا جائے۔ کیونکہ اِسی عمر میں انہیں باجماعت نماز کی عادت پڑ سکتی ہے۔ چنانچہ اس کے مطابق کثرت سے بچے اور نوجوان مساجد میں آتے اور چھوٹی مسجد کے متعلق تو مجھے معلوم ہے کہ وہ بالکُل پُر ہوجاتی تھی اور دوسرے حصہ مسجد میں بعض کو نماز پڑھنی پڑی تھی۔ مجھے یاد ہے اُس وقت نہایت کثرت سے بچے آتے مگر اب وہ شکلیں مجھے کم نظر آتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب لوگوں میں نماز باجماعت کی طرف سے غفلت ہوجاتی ہے اور نماز کے فوائد اُن کے کانوں تک نہیں پہنچتے تو آہستہ آہستہ لوگ ان مسائل سے غافل ہوجاتے ہیں اور دین میں بہت بڑا رخنہ واقعہ ہوجاتا ہے۔ حالانکہ نماز باجماعت کے کئی فائدے ہیں۔
اوّل تو نماز باجماعت کی پابندی سے اسلام اور ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ گویا یہ پہلا فائدہ ہے جونماز باجماعت سے حاصل ہوتا ہے۔
دوسرے نماز باجماعت کی ادائیگی کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے۔
تیسرے جماعت میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوتا ہے۔
چوتھے لوگوں کو ایک دوسرے کے حالات کا علم ہوتا رہتا ہے۔
پانچویں جب بغیر کسی خاص تحریک کے پانچ وقت اجتماع ہو تو اس اجتماع سے یہ فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے کہ ضروری مسائل سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے اور ان کی تعلیم و تربیت کیلئے ضروری تقاریر کرائی جائیں۔ ان فوائد میں سے آخری فائدہ ایسا ہے جو خود توجہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر توجہ نہ کی جائے تو یہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ مگر چونکہ ہماری جماعت نے پانچ وقتوں کے اجتماعات سے اِس لحاظ سے فائدہ اُٹھانے کی طرف توجہ نہیں کی اِس لئے میں دیکھتا ہوں کہ قادیان میں بعض دفعہ معمولی دینی مسائل سے بھی لوگ ناواقف رہتے ہیں۔
پس آج ایک تو مَیں تمام محلوں والوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے ہر ایک کو نماز باجماعت میں شامل ہونا چاہئے سوائے اس کے جو اتنی دور کام پر گیا ہؤا ہو کہ وہاں سے مسجد میں نماز باجماعت کیلئے نہ آسکتا ہو یا بیمار اور معذور ہو۔ اِس قسم کی مستثنیات ہمیشہ موجود ہوتی ہیں۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے بھی مستثنیات کا سلسلہ کیسا شروع کیا ہے۔ ہماری شریعت کا حکم ہے اگر انسان کھڑا ہوکر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ جائے۔ بیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے اور اگر لیٹ کر اشاروں سے بھی نہ پڑھ سکے تو دل میں ہی پڑھ لے۔ پھر وضو کیلئے کس طرح مستثنیٰ مقرر کردیا کہ پانی سے وضو کرو اور اگر پانی نہ ملے تو تیمم کرلو۔ غرض ہر حالت کیلئے ہماری شریعت نے مستثنیات رکھی ہیں۔پس ہم یہ نہیں کہتے کہ خواہ کیسی ہی حالت ہو نماز کیلئے مسجد میں آنا چاہئے۔ ایک شخص بیمار ہو تو وہ بیماری کی حالت میں مسجد میں نہیں آسکتا۔ ایک شخص اپنے کاروبار کے لئے دو تین میل دور جاتا ہے تو اس کیلئے سوائے اِس کے کہ کوئی صورت نہیں کہ یا اکیلے نماز پڑھے یا کسی اور کو اپنے ساتھ شامل کرکے جماعت کرالے۔ تو ان مستثنیات کو علیحدہ کرکے کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کے تمام دوست نماز باجماعت میں شامل ہوں۔
بعض افسر شکوہ کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کو توجہ دلاتے ہیں مگر وہ پھر بھی نماز باجماعت کیلئے نہیں آتے۔ میرے نزدیک اتنی مایوسی کی حالت نہیں ہوتی جتنی وہ ظاہر کرتے ہیں۔ آخر جو شخص خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہے اُس کے سامنے اگر کھول کر بیان کیا جائے کہ اسلام نے نمازباجماعت کی کتنی تاکید کی ہے اور اس کے کیا کیا فوائد ہیں تومیں نہیں سمجھ سکتا کوئی شخص باجماعت نمازمیںشامل ہونے میں تأمّل کرے سوائے ایسے شخص کے جس کے ایمان میں خلل واقع ہوچکا ہو۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو پورے طور پر سمجھایا نہیں جاتا۔ اس وجہ سے وہ چھوٹے چھوٹے حرج کے خوف سے نماز باجماعت میں شامل ہونے سے کوتاہی کرجاتے ہیں۔ لیکن اگر سلسلہ کے علماء اس طرف توجہ کریں اور وہ گھروں پر پہنچ کر لوگوں کو اِن مسائل سے آگاہ کریں تو میں سمجھتا ہوںبہت سے لوگوں کی اصلاح ہوجائے اور جو باوجود سمجھانے کے اپنی اصلاح نہیں کرے گا اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ مومن نہیں کیونکہ اس نے اپنے نِفاق پر خود مُہر لگادی۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جو نماز باجماعت کی پابندی نہیں کرتا وہ منافق ہے۱؎۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ جو لوگ عشاء اور فجر کی نمازوں میں نہیں آتے، میرا جی چاہتا ہے کہ ان کے گھروں کو آگ لگادوں۔۲؎ ظہر، عصر اور شام کی نمازوں میں زمیندار اپنے کھیتوں میں کام کررہے ہوتے ہیں یا کام ختم کرکے واپس آنے کی تیاری میں ہوتے ہیں اِس لئے اُس وقت سب مسلمانوں سے یہ امید کرنا کہ وہ مسجد میں آئیں ایک ناواجب مطالبہ ہے۔ اس لئے رسول کریم ﷺ نے ان نمازوں کا ذکر نہیں کیا ورنہ جماعت کے ساتھ تو سب نمازیں ہی ضروری ہیں۔پس اُس وقت ہمارا بھی ان سے یہی مطالبہ ہوگا کہ اگر وہ اکیلے ہیں تو اکیلے نماز پڑھ لیں اور اگر کوئی دوسرا مل سکے تو اُس سے مل کرجماعت کرالیں۔ لیکن عشاء اور فجر دو وقت ایسے ہیں جب لوگ بِالعموم اپنے گھروں پر ہوتے ہیں۔ زمینداروں میں سے ایک حصہ گو ایسا بھی ہوتا ہے جو فجر سے پہلے اپنے کھیتوں میں چلا جاتا ہے لیکن زیادہ تر گھروں پر ہی موجود ہوتے ہیں۔ پس چونکہ یہ ایسے وقت ہیں جن میں عُذر بہت کم اور شاذ ہوتا ہے اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ عشاء اور فجر کی نماز میں نہیں آتے، میراجی چاہتا ہے کہ اپنی جگہ کسی اور کو امام بنائوں جو لوگوں کونماز پڑھائے اور کچھ لوگ اپنے ساتھ لوں اور ان کے سروں پر لکڑیوں کے گٹھے رکھوادوں اور ان لوگوں کے مکانوں پر جاکر جو عشاء اور فجر کی نمازوں میں نہیں آتے آگ لگادوں اور انہیں گھروں سمیت جلا ڈالوں۔۳؎ دیکھو ہماری شریعت میں نماز باجماعت نہ پڑھنے کے متعلق کتنا شدید حکم ہے اور وہ بھی ایسے انسان کی طرف سے جو رحمِ مجسم تھا۔ جس نے شدید ترین دشمنوں سے عفو کا سلوک کیا۔ وہ سمجھتا ہے کہ جو لوگ نماز باجماعت میں شامل نہیں ہوتے وہ اس قابل ہیں کہ زندہ جلادیئے جائیں۔ کیونکہ ان میں انسانیت کا شائبہ تک باقی نہیں رہا۔ اگر شریعت کے یہ احکام لوگوں کو بتائے جائیں اور رسول کریم ﷺ کی احادیث سے انہیں مسائل سمجھا ئے جائیں تو میں سمجھتا ہوں جو مومن ہیں وہ اپنی اصلاح ضرور کرلیں گے۔
پس محلہ کے افسروں پر اس کی بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح سلسلہ کے علماء پر بھی بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے۔ اوّل تو ہر محلہ کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ ان لوگوں کو سمجھائیں جو نماز باجماعت میں شامل نہیں ہوتے اگر ان کے سمجھانے سے نہ سمجھیں تو سلسلہ کے علماء کو ان کے پاس لے جائیں اور سمجھانے کی کوشش کریں۔ اور اگر کوئی ایسا ہو جس کی پھر بھی اصلاح نہ ہو تو اُس کی شکایت میرے پاس کی جائے۔ لیکن میرے پاس شکایت کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اُس پر خود حجت تمام کرلو۔ یہ نہیں کہ مسجد میں وعظ کیا اور سمجھ لیا کہ ہمارا فرض ادا ہوگیا۔ بلکہ جو لوگ نہیں آتے ان کے گھروں پر پہنچ کر انہیں سمجھایا جائے ۔ اُن کی بیویوں اور بچوں کو بھی سمجھایا جائے تاکہ اگر ان میں سے کوئی غلطی کرے تو دوسرا اُسے ہوشیار کرسکے۔ اسی طرح چاہئے کہ علماء کو گھروں پرلے جایا جائے اوران کے ذریعہ سمجھایا جاوے اور اگر ان دو صورتوں کے بعد بھی کسی شخص کی اصلاح نہ ہو تو پھر مجھے لکھو۔ میں ایسے شخص کو سمجھانے کی کوشش کرو ںگا اور اگر وہ نہیں مانے گا تو میں سمجھوں گا ایسا شخص صرف نام کے طورپر احمدیت میں شامل ہے، دل اس کا احمدیت کی صداقت پر ایمان نہیں رکھتا۔ پھر ایسے لوگوں کا ہماری جماعت میں شامل رہنا زیادہ مُضِرّ ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ نکل جائیں۔
اِسی طرح نماز باجماعت کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے کا موقع مل جاتا ہے اورمیں سمجھتا ہوں ہر محلے والوں کو چاہئے کہ وہ ہفتہ میں ایک دفعہ علماء سلسلہ کو لے جایا کریں اور ان روزمرہ کام آنے والے مسائل کے متعلق جن کا جاننا ہر شخص کیلئے ضروری ہے، ان سے وعظ کرایا کریں۔ مثلاً جن محلوں میں تاجر زیادہ ہیں اُن میں تاجرانہ ایمانداری کے متعلق وعظ ہونے چاہئیں، جن میں زمیندار زیادہ ہیں ان میں انہی عیبوں کے متعلق لیکچر دلانے چاہئیں جن میں بِالعموم زمیندار مبتلا ہوتے ہیں۔ مثلاً لڑکیوں کو ورثہ نہ دینا، سودی قرض لینا اور اسی طرح کے اور معاملات جو عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اورمیں سمجھتا ہوں ہزاروں مسائل ایسے ہیں جن سے عوام الناس واقف نہیں ہوتے۔ بیشک جب وہ ان عیوب کا ارتکاب کریں گے ہم انہیں مجرم قرار دیں گے لیکن ان کا جُرم غفلت کی وجہ سے ہوگا شرارت کی وجہ سے نہیں۔ پس یہ ایک عظیم الشان فائدہ ہے جو نماز باجماعت سے حاصل ہوسکتاہے۔ لیکن نماز باجماعت کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے لوگ ان فوائد سے محروم رہتے ہیں اور وہ بعض دفعہ ایسی حرکات کے مرتکب ہوجاتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ میں قادیان میں دو تین سال سے ایسے حالات دیکھ رہا ہوں کہ اگر میری ہدایات کی پابندی کی جاتی اور محلوں میں علمائے سلسلہ کے وعظ ہوتے رہتے تو وہ واقعات یا تو بالکل نمودار نہ ہوتے یا اگر ہوتے تو بہت کم۔
ہمارے زمینداروں میں سکھوں کے ساتھ رہائش رکھنے کی وجہ سے مردو عورت کے تعلقات کے متعلق اسلامی تعلیم سے بہت حد تک غفلت پید اہوگئی ہے۔ سکھوں میں عام طور پر شادی کے طریق اسلامی طریق کے بالکل خلاف ہیں۔ مثلاً چادر ڈال دیتے ہیں یا اگر لڑکی راضی ہو تو ماں باپ کی مرضی کے بغیر اُس سے شادی کرلیتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی یہ رسوم مسلمانوں میں بھی پیدا ہوگئی ہیں۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم اس کے بالکل اُلٹ ہے۔ اسلام میں عورت سے برابر کا سلوک کیاجاتا ہے۔ جیسے حق مردوں کے رکھے گئے ہیں اسی طرح عورت کے بھی رکھے گئے ہیں اور نکاح کے متعلق تو خصوصیت سے اسلام نے بعض قوانین مقرر کئے ہیں۔ جب تک ان قوانین کی پابندی نہ کی جائے اُس وقت تک انسان گناہ سے بچ نہیں سکتا۔ لیکن متواتر میرے پاس ایسے کیس آئے ہیں اور گو عام طور پر وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں قادیان سے باہر رہنے والے لوگ مبتلا ہوتے ہیں یا بعض دفعہ قادیان کا کیس ہوتا ہے لیکن اس کی ابتدا باہر کی زندگی سے ہوئی ہوتی ہے لیکن بہرحال وہ قادیان کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ایسے واقعات سُننے میں آتے ہیں کہ بعض لوگ عورتوں سے بغیر ان کے ماں باپ یا بھائیوں یا چچائوں کی رضامندی کے محض عورت کی رضامندی دیکھ کر شادی کرلیتے ہیں اور اسے بالکل جائز سمجھتے ہیں۔ چونکہ عام طور پر زمینداروں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ جب لڑکی بالغ ہوجائے اور کسی جگہ وہ اپنی رضامندی کا اظہار کردے تو ماں باپ یا بھائیوں یا چچوں کی رضامندی کی ضرورت نہیں رہتی اس لئے وہ ایسی لڑکیوں سے شادی کرلیتے ہیں اور انہیں اپنے گھروں میں بسالیتے ہیں حالانکہ اسلام نے ایسے نکاحوں کی ہرگز اجازت نہیں دی۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ لَا نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلِیٍّ ۴؎ ولی کی رضامندی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوسکتا۔ اوّل ولی جو شریعت نے مقرر کیا باپ ہے، باپ نہ ہو تو پھر بھائی ولی ہیں اور اگر بھائی نہ ہوں تو چچے ولی ہیں۔ غرض قریب اور بعید کے جدی رشتے دار ایک دوسرے کے بعد ولی ہوتے چلے جاتے ہیں اور اگر کسی لڑکی کا باپ موجود ہو تو اُس کی اجازت کے بغیر سوائے مذہبی تبائن اور پھر قضا کی اجازت کے بغیر ہر گز نکاح جائز نہیں۔ اگر باپ نہ ہو تو بھائیوں کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں۔ اگر بھائی نہ ہوں تو چچوں کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں۔ ہاں اگر کوئی بھی جدی رشتہ دار موجود نہ ہو تو قاضی یا عدالت کی اجازت سے اُس لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے لیکن اس کے بغیر جو نکاح ہو اگر مسلمانوںنے کیا ہو تو اس کا نام اسلام نے نکاح نہیں بلکہ اُدھالا رکھا ہے۔
ابھی چند دن ہوئے میرے پاس ایک کیس آیا۔ چند غیراحمدی میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا ہماری لڑکی آپ کا ایک احمدی نکال کر لے آیا ہے۔ اوّل تو میرے لئے یہی سُننا سخت شرمندگی کا موجب تھا کہ ایک احمدی کسی کی لڑکی نکال لائے۔ لیکن جب ایسے واقعات ہوں تو سننے ہی پڑتے ہیں۔ میںنے بھی ان کے واقعات سُنے اور ناظر صاحب امور عامہ کو چِٹّھی لکھی کہ اس لڑکی اور لڑکے کا پتہ لگایا جائے کہ آیا وہ یہاں ہیں یا نہیں۔ تحقیق پر معلوم ہؤا کہ وہ لڑکی یہاںہے لیکن کسی گھر میں پوشیدہ ہے۔ پرسوں رات میں سوچکا تھا بارہ ایک بجے کا وقت تھا چونکہ ہم گیارہ بارہ بجے کے درمیان سوتے ہیں اس لئے گو بارہ بجے کے بعد کا وقت ہوگا کہ کسی نے آکر مجھے جگایا اور کہا کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب نے جو ناظر امور عامہ ہیں رُقعہ بھیجا ہے۔ میں نے وہ رُقعہ کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ لڑکی مل گئی ہے اور وہ فلاں گھر میں موجود ہے اور محلے والوں نے مکان پرپہرہ لگادیا ہے تا وہ کہیں نکل نہ جائے۔ اب آپ بتائیں کہ کیا کریں۔ میں نے انہیں لکھا کہ جن کے مکان میں وہ رہتی ہے ہمیں معلوم نہیں کہ انہیں سارے حالات کا علم ہے یا نہیں اس لئے آپ انہیں سمجھادیں کہ یہ شریعت کے خلاف بات ہے اور کسی غیر لڑکی کو اس طرح نکاح میں لے آنا ہرگز جائز نہیں چاہے وہ بالغ ہی کیوں نہ ہو۔پس آپ کو چاہئے کہ لڑکی رشتہ داروں کے سپرد کرادیں اور اگر وہ لڑ کی رشتہ داروں کے سپرد نہ کریںاور معاملہ پولیس کے سپرد ہو سکتا ہو تو پولیس کے پاس پہنچا دیا جائے اور انہیںہماری طرف سے اچھی طرح سے بتا دیا جائے کہ اسلامی شریعت کی رو سے یہ بات جائز نہیں۔
اس کے بعد مجھے رات کو کچھ معلوم نہیں ہؤا۔البتہ صبح کو ایک عورت میرے پاس آئی جو اُس لڑکے کی والدہ تھی جس پر یہ الزام لگا کہ اُس نے لڑکی نکالی۔مجھے کہنے لگی میرا خسر پُرانا احمدی تھااور اس نے احمدیت کی خاطر بڑ ی بڑ ی تکلیفیں اُٹھائیں۔اِس لڑ کی کے متعلق اس کے رشتہ داروں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ میرے لڑ کے سے بیاہ دیں گے لیکن بعد میں ان کی نیت بدل گئی اور انہوں نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔لڑکی کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو وہ بھاگ کر قادیان آ گئی۔اس کے رشتہ دار اس کے پاس پہنچ گئے۔ہم نے انہیں کہا کہ اپنی لڑ کی بے شک لے جائومگر وہ لڑ کی گئی نہیں۔محلہ کے جو افسر تھے انہیں جب یہ معلوم ہؤا تو انہوں نے کہا تم قادیان سے چلے جائو۔چنانچہ ہم باہر گئے اور ایک جگہ اس لڑ کی سے نکاح پڑھوا کے واپس آگئے۔میں نے اُس عورت کو سمجھایا کہ دیکھوسوال یہ نہیںکہ تمہارے لڑکے نے اب اس لڑکی سے نکاح کر لیا ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ آیا شریعت نے اِس نکاح کی اجازت دی ہے یا نہیں۔میں نے کہا تم کہتی ہوکہ ہم نے احمدیت کی خاطر بڑ ی بڑ ی تکلیفیں اُٹھائیں۔اگریہ بات درست ہے تو تم خود ہی بتائو کہ تم اپنی اس حرکت سے اسلام اور احمدیت کی بدنامی کا موجب بن جائوتو کتنے افسوس کی بات ہو گی۔تمہاری تمام تکلیفیں جو تم نے احمدیت کی خاطر برداشت کیں رائیگاں چلی جائیں گی اور تمہاری عاقبت خراب ہو جائے گی۔وہ کہنے لگی لڑکی کہتی تھی کہ میں مر جائوں گی لیکن کسی اور جگہ نہیں جائوں گی۔میں نے کہا کہ اگر وہ مرتی تو اُس کا گُناہ اُس پر ہوتا،تم پر نہ ہوتا یا گورنمنٹ پر اس کی زمہ داری عائد ہوتی تمہارا کام یہی تھا کہ تُم اُسے رُخصت کردیتے اور کہہ دیتے کہ جب تک تمہارا ولی راضی نہ ہو جائے اُس وقت تک تم ہمارے ہاں نہ آ ئو۔پھر میں نے کہا کہ تمہارے لئے اب بھی یہی مناسب ہے کہ لڑکی واپس کردواورپھر اُس کے رشتہ داروں کی منت سماجت کروکہ اب تمہاری بھی ذِلّت ہے اور ہماری بھی ذِلّت ،بہتر ہے یہی نکاح قائم رکھا جائے۔اس کے بعد مجھے معلوم نہیںہؤا کہ کیاہؤا۔لیکن آج مجھے پھر ایک چٹھی ملی اور وہ چٹھی ان لوگوں کی طرف سے ہے جن کا اصل مکان ہے۔وہ شکایت کرتے ہیںکہ محلے والے انہیں دِق کرتے ہیںاور کہتے ہیں کہ لڑکی یہاں کیوں رہتی ہے۔جس سے میں سمجھتا ہوںکہ اس کا معاملہ ابھی تک تصفیہ نہیں ہؤا مجھے دوسرے ذرائع سے معلوم ہؤا ہے کہ یہ معاملہ پولیس کے دخل دینے والا نہیں۔لڑکی جوان ہے اور وہ مجسٹریٹ کے سامنے بیان دے چکی ہے کہ میں اسی لڑکے کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔لیکن خواہ مجسٹریٹ کے سامنے وہ لڑ کی جواب دے چکی ہوکسی مجسٹریٹ ،کسی قاضی اور کسی حکومت کے کہنے سے یہ نکاح جائز نہیں ہوسکتا۔
جس بات کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ناجائز قرار دیا ہے اگر اس بات کو ساری دنیا کی حکومتیں مل کر بھی جائز قرار دیں تو وہ جائز نہیں ہو سکتی۔ایک غیر احمدی کیلئے، ایک ہندو کیلئے اور ایک عیسائی کیلئے حکومت کا قانون تسلی کا موجب ہو سکتاہے۔کیونکہ غیر احمدیوں کے پاس گو ایک سچا مذہب ہے لیکن وہ اس کے احکام پر عمل نہیں کرتے ۔ قرآن مجید ان کے پاس ہے لیکن وہ اسے بھول چکے ہیں۔ عیسائی شریعت کو *** قرار دیتے ہیںاور ان کے ہاں شریعت دستور اور رسم و رواج کانام ہے۔ہندو بھی مذہب سے بیگانہ ہوچکے ہیںلیکن ہمارے ہاں معزز وہ ہے جو شریعت پر عمل کرتاہے اور اِسی شریعتِ اسلامی کودنیا میں صحیح طور پر قائم کرنااحمدیت کی غرض ہے۔اگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو بھیجا ہے اور واقعہ میں آ پ اُسی کی طرف سے ہیںتو ہماری شریعت یہی کہتی ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر سوائے ان مستثنیات کے جن کا استثنا ء خود شریعت نے رکھا ہے، کوئی نکاح جائز نہیںاور اگر ہوگا تو ناجائز نکاح ہوگااور ادھالا ہوگااورہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو سمجھائیں اور اگر نہ سمجھیں تو ان سے قطع تعلق کر لیں۔
اِس قسم کے واقعات بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ہوئے ہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک لڑکی نے جو، جوان تھی ایک شخص سے شادی کی خواہش کی مگر اس کے باپ نے نہ مانا۔وہ دونوں ننگل چلے گئے اورجا کر کسی مُلّانے سے نکاح پـڑھوا لیااور کہنا شروع کردیا کہ ان کی شادی ہو گئی ہے۔پھر وہ قادیان آگئے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو معلوم ہؤا توآپ نے ان دونوں کو قادیان سے نکال دیااور فرمایا یہ شریعت کے خلاف فعل ہے کہ محض لڑ کی کی رضامندی دیکھ کر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا جائے۔وہاںبھی لڑکی راضی تھی اور کہتی تھی کہ میںاس مرد سے شادی کروں گی لیکن چونکہ ولی کی اجازت کے بغیر انہوں نے نکاح پڑھوایااس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں قادیان سے نکال دیا۔ اسیطرح یہ جو نکاح ہؤا یہ بھی ناجائز ہے اور یہی وہ بات ہے جومیں نے اس مائی سے کہی۔میں نے اسے کہا دیکھو اِس وقت تمہارے بیٹے کو رشتہ مل رہا ہے اس لئے تم کہتی ہو جب لڑکی راضی ہے تو کسی ولی کی رضامندی کی کیا ضرورت ہے لیکن تمہاری بھی لڑکیاں ہیں اور اگر وہ بیاہی جاچکی ہیںتو ان کی بھی لڑکیاں ہوں گی کیا تم پسند کرتی ہو کہ ان میں سے کوئی لڑکی اسی طرح نکل کر کسی غیر مرد کے ساتھ چلی جائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک مقام پرفرماتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ بدسلوکی نہ کرو۔۵؎ کیونکہ اگر آج کوئی یتیم ہے تو کل تمہارے گھر میں بھی یتیم بن سکتے ہیں۔ اسی طرح میں نے اسے کہا تم سوچواگر کل تمہاری بیٹی یا نواسی اُدھل کر چلی جائے تو کیا تم ٹھنڈے دل سے یہ کہنے کے لئے تیار ہوگی کہ ہم اس کے جانے پر خوش ہیں۔ کیا ہؤااگر ہم ناراض ہیں ۔وہ تو جس جگہ گئی اس جگہ جانے پر راضی تھی ۔اگر کوئی شریف گھرانہ اپنی لڑکیوں کے متعلق اس قسم کی بات برداشت نہیں کر سکتا تو دوسروں کی لڑکیوں کے متعلق بھی یہ بات برداشت نہیں کرنی چاہئے۔لیکن ہوتایہ ہے کہ اگر کسی اورکی لڑکی ولی کی رضامندی کے بغیر آجائے تو کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں،لڑکی کی مرضی یہی تھی۔اور جب ان کی اپنی لڑکی کسی ـغیر مرد کے ساتھ نکل جائے تو کہتے ہیں کہ اس بے حیا کا سر کاٹ دینا چاہئے۔جس سے معلوم ہؤا کہ نفس اندر سے انہیں بھی مجرم قرار دے رہاہوتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے ایک دفعہ ایک چور سے کہادیکھو تم لوگوں پر کتنا ظلم کرتے ہو۔ ان کی محنت تم جاکر چُرا لاتے ہو۔کیا تمہیں شرم نہیں آتی ؟ وہ کہنے لگاواہ مولوی صاحب !آپ نے بھی عجیب بات کہی بھلا ہمارے جیسی بھی کوئی شخص محنت کرتا ہے۔لوگ دن کو محنت کرتے ہیں اور ہم رات کو جب تمام لوگ آرام سے سوئے ہوئے ہوتے ہیں، روزی کمانے کیلئے نکلتے اوراپنی جان ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں کیا اس سے زیادہ بھی کوئی حلال کی روزی ہے؟آپ فرماتے ہیں میں نے سمجھا یہ اس طرح قابو نہیں آئے گاکسی اور طرح اسے سمجھانا چاہئے۔چنانچہ آپ نے اُس سے اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کردیںاور پوچھا تم چوری کس طرح کرتے ہو۔کہنے لگا چوری کیلئے پانچ آدمی ہونے ضروری ہیں۔ایک تو گھر کا راز دان ہوتا ہے وہ بتاتا ہے کہ فلاں فلاں جگہ سے راستہ ہے۔فلاں جگہ اِتنا مال پڑا ہے۔گھر والے باہر سوتے ہیں یا اندر ہوشیار رہتے ہیںیا غافل۔ پھر ایک سیندھ لگانے کا مشّاق ہوتا ہے۔ایک آدمی اندر جاتاہے ایک دُور کھڑا پہرہ دیتارہتا ہے اور ایک سنار ہوتا ہے۔ جب ہم زیور چُراکرلاتے ہیںتو اس کو سنار کے پاس لے جاتے ہیںوہ فوراً گلا دیتا ہے اور پھر کوئی پہچان بھی نہیں سکتا کہ کس کا زیور ہے۔آپ فرماتے تھے کہ میں نے اِس پر اُسے کہا۔ اگر وہ سنار کچھ سونا رکھ لے تو تم کیا کرو؟ تم کوئی نالش تو کر نہیںسکتے۔ وہ بڑے غصے سے کہنے لگا کیا وہ اتنا بے ایمان ہو جائے گاکہ ہم اُسے سونا دیں اور وہ رکھ لے؟ میں نے کہا تم ابھی تویہ کہ رہے تھے کہ اصل حلال روزی ہماری ہی ہے اور ابھی سنار کو سوناچُرانے پر تم بے ایمان بتا رہے ہو، یہ کیابات ہے۔تو اصل بات یہ ہے جب دوسروں کے مال کی چوری ہو تو انسان کہتا ہے یہ چوری نہیں کسب ہے اور جب اپنے مال کا سوال آجائے توکہنے لگ جاتا ہے کیا کوئی اتنا بھی بے ایمان ہو گیا ہے کہ ہمارا مال چرا لے۔تو شریعت نے اچھے بُرے فعل کے پہچاننے کا یہ ایک نہایت ہی آسان گُر بتا دیا ہے۔وہ کہتی ہے جب تم کسی سے کوئی معاملہ کرو تو یہ سوچ لیا کرو کہ اگر وہی معاملہ تم سے کیا جائے تو تم خوش ہو یاناراض ۔اسی طرح سوچ لو اگر تمہاری لڑکیاں کسی جگہ راضی ہوں اور تم ناراض اور پھر وہ تمہاری رضامندی کے خلاف گھر سے باہر جاکر کسی سے نکاح پڑ ھوالیںتو کیا تم ہنستے ہوئے لوگوں سے یہ ذکر کرو گے کہ آج ہماری لڑکی اپنی مرضی سے فلاں مرد کے ساتھ نکل گئی یا شرم محسوس کرو گے؟اگر تم اپنے متعلق اس قسم کے واقعات کو پسند کرواور کہو کہ خدا کرے کہ ہماری لڑ کیوں کے ساتھ بھی یہ واقعات پیش آئیں تب تو میں مان لوں گاکہ تمہاری فطرت اسے جائز قرار دیتی ہے لیکن اگر تم اس کیلئے تیار نہ ہو تو سمجھ لو کہ محمد ﷺ نے جو تعلیم دی ہے وہی پاک اور سچی تعلیم ہے اور اگر ہم اس بات کی اجازت دے دیںکہ جہاں لڑکی کا جی چاہے وہاں چلی جائے تو قوم کے اخلاق تباہ ہو جائیں۔حالانکہ ہمارا قیام لڑکیاں لینے کیلئے نہیں بلکہ روحانیت قائم کرنے کے لئے ہے۔اگر اس کے نتیجہ میں دس ہزار آدمی بھی ہم میں سے مرتد ہوتا ہو تو اس کا برداشت کرنا ہمارے لئے اس بات سے زیادہ آ سان ہے کہ ہم قومی اخلاق تباہ کرکے دس بیس ہزار لڑکیاں لے آئیں۔
پس میںپھر اس بات کو کھول کر خطبہ میں بیان کر دیتاہوں کہ ولی کی رضامندی کے بغیر لڑکی کی رضا مندی کوئی چیز نہیں۔ بے شک گورنمنٹ کا قانون اس بات کی اجازت دیتاہے کہ بالغ لڑکی جہاں چاہے شادی کرلے لیکن گورنمنٹ کا قانون سُود لینا بھی جائز سمجھتا ہے۔گورنمنٹ کا قانون سؤر کھانا بھی درست قرار دیتا ہے۔گورنمنٹ کا قانون شراب پینا بھی درست سمجھتا ہے۔مگر کیا اس وجہ سے گورنمنٹ کے قانون میں اس کی اجازت ہے ہمارے لئے سُود لینا یاسؤر کھانا یا شراب پینا جائز ہے؟پھر صرف اس وجہ سے کہ لڑ کی مجسٹریٹ کے سامنے بیان دے چکی ہے یہ نکاح کس طرح جائز سمجھا جاسکتا ہے۔ بیشک اِس فعل پرگورنمنٹ انہیں قید نہیں کرے گی۔ لیکن اگروہ اس فعل سے باز نہ آئے اور انہوں نے سچی توبہ نہ کی تو یاد رکھیں ان کے ہاں بھی بیٹیاں ہونے والی ہیںاور خدا کا قانون دنیا میں ایسا جاری ہے کہ اگر سچی توبہ نہ کی جائے تو کوئی گناہ بدلہ کے بغیر نہیں رہ سکتا اور اگراگلی نسل سے بدلہ نہ لیا جائے۔میں سمجھتا ہوں جن کی بیٹی بھاگی ہے دو چار پشت پہلے انہوں بھی کسی کی بیٹی کو بھگایا ہو گااور اب جو اس گناہ کے مرتکب ہوئے ہیںانہوں نے توبہ نہ کی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے انہیں بھی بدلہ مل جائے گا۔
پس بہتر ہے کہ وہ توبہ کریںاور اپنے اس فعل سے بازآ ئیں ۔ مگر توبہ یہ نہیںکہ تم کسی کا روپیہ اُٹھالو اور اُسے گھر میں رکھ لو،کسی کی بھینس چرا لواور اسے گھر میں رکھ کر صبح و شام اس کا دودھ پیئو۔کسی کے گھوڑے چُرا لو اور دن رات ان پر سواری کرواور منہ سے اَسْتَغْفِرُاللَّٰہَ اَسْتَغْفِرُاللَّٰہَ کہتے پھرویہ تمہارا اَسْتَغْفِرُاللَّٰہَ کہنا بالکل جھوٹا اور بناوٹی ہوگا۔اور خدا اُس وقت تک تمہاری توبہ قبول نہیں کرے گاجب تک تم وہ روپے،وہ بھینس اور وہ گھوڑے ان کے مالکوں کے حوالے نہ کرو ۔ہاں جب تم یہ چیزیں اصل مالکوں کو دے دیتے ہو اور پھر اَسْتَغْفِرُاللَّٰہَ کہتے ہو تو اس حالت میں تمہارا اَسْتَغْفِرُاللَّٰہَ کہنا قبول ہو سکتا ہے ورنہ اور کسی صورت میں توبہ قبول نہیںہو سکتی۔اسی طرح یہ لوگ جس عورت کو نکال کر لائے ہیں اسے واپس کر دیں اور سچی توبہ کریں تب تو اللہ تعالیٰ انہیں محفوظ رکھے گا۔ورنہ یاد رکھیںکسی نہ کسی رنگ میںبدلہ انہیں مل کر رہے گااور اللہ تعالیٰ انہیں ذِلّت پہنچا کر چھوڑے گا۔میں اس موقع پر دوسروں کونصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ جب وہ کسی سے معاملہ کیا کریںتو دیکھ لیا کریں کہ اگر ان کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہو تو وہ رنج محسوس کریں گے یا خوشی۔اگر تمہاری فطرت اپنے متعلق اس قسم کے واقعات کو نا پسند کرے تو دوسروں کے ساتھ بھی ویسا معاملہ نہ کرواوریہ یاد رکھو کہ تمہاری اپنی خواہشات پر خدا تعالیٰ کا قانون بہر حال مقدم ہے۔تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا استادمانا ہے۔اب یہ بھی کیاہؤا تم منہ سے تو کہتے ہو لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَللّٰہُ مَحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ مگر اعتقاد یہ رکھتے ہوکہ محمدﷺنے جوبات بھی کہی ہے وہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ غلط ہے۔نمازوں کے متعلق حکم دیتے ہیںتو تم نمازیں نہیں پڑھتے، نکاحوں کے متعلق حکم دیتے ہیں کہ بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں ہوتاتو تم یہ بات نہیں مانتے لیکن زبان سے دن رات کہتے جاتے ہو لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَللّٰہُ مَحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔جب انسان سچے دل سے کوئی بات کہتا ہے تو اس کے مطابق عمل بھی کرتاہے لیکن جب عمل کی نیت نہ ہو تو منہ سے کچھ اورکہتا ہے اور عمل سے کچھ اور ظاہرکرتاہے۔پس میں اِن تمام رُقعے لکھنے والو ں کو جو بار بارلکھتے ہیںکہ لڑکی کی مرضی اسی جگہ تھی ، عَلَی الْاِعْلَان سمجھا دیتاہوںکہ ولی کی مرضی کے بغیر ہماری شریعت کوئی نکاح تسلیم نہیںکرتی۔اور اگر ایسا کوئی نکاح ہو تو وہ نکاح نہیں ادھالا ہے۔میں امید کرتا ہوں کہ میرے یہ کہنے کے بعد اب وہ لوگ سمجھ گئے ہوں گے۔لیکن اگر اب بھی نہ سمجھیںتو میں ان کو بتادیتاہوں کہ ایسے لوگوں سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیں جو اِس قسم کی عورتوں سے شادیاں کرتے ہیںبلکہ ہماری ہمدردی ان غیر احمدیوں اور ان سکھوں سے ہوگی جن کی بیٹیوں کو وہ اپنے گھر میں لے آتے ہیںچاہے وہ لڑ کیاں راضی ہی کیوں نہ ہوں۔
میں نے دیکھا ہے اس قسم کے نقائص کی وجہ سے بعض دفعہ عورت کو یہ سکھا دیا جاتاہے کہ تم کہہ دومیں احمدی ہوںاور فلاں شخص سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ تین چار سال ہوئے امرتسر سے ایک لڑکی یہاں آئی اور کہنے لگی میںاحمدیؐ ہوناچاہتی ہوں۔میرا باپ سلسلہ کا شدید مخالف ہے اور میںبرداشت نہیں کرسکتی کہ وہ سلسلہ کو گالیاں دے۔اب میں وہاں سے آ گئی ہوں آپ فلاں شخص سے میری شادی کرادیںمیں نے کہا اگر تم سچ مچ احمدی ہوئی ہوتو پہلے تم یہ اقرار کرو کہ تم اس شخص سے شادی نہیں کرو گی بلکہ کسی اور شریف انسان سے شادی کرو گی۔ورنہ اگر کسی خاص شخص کو تم معیّن کرتی ہوتو اس سے شادی کرنے کے معانی یہ ہیںکہ تم خدا اور اس کے رسول کے لئے احمدی نہیں ہوئی بلکہ اس شخص کے لئے احمدی بنی ہو۔ وہ کہنے لگی کہ سچی بات تو یہی ہے کہ میں اسی کی خاطر احمدی ہوئی ہوں۔میں نے کہا تو پھر میں اس شخص سے تمہاری شادی نہیں کرسکتا۔ آخر وہ یہاں سے چلی گئی اور اسی شخص کے پاس جا پہنچی۔ پھر اس سے اس نے شادی بھی کرلی لیکن نتیجہ یہ ہؤا کہ اس مردکا ایمان بھی خراب ہؤا اور چوری کے الزام میں وہ بعد میں قید بھی ہو گیا۔گویا نقد بہ نقد سزااُسے مل گئی۔اس نے دوسرے کی لڑ کی چرائی تھی خدا نے اُسے روپیہ کی چوری کے الزام میں ماخوذ کرادیااور وہ قید ہو گیااور احمدیت بھی اس کے ہاتھ سے جاتی رہی۔تو میں یہ بات واضح کردینا چاہتاہوں تا آئندہ ہماری جماعت میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔
اِس امر کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ لڑکی کی رضامندی محض کوئی چیز نہیں۔جو لڑکی اپنے ولی کی رضامندی کے بغیر کسی خاص شخص پر نظر رکھ کر اُس سے شاد ی کرلیتی ہے، اسی کانام ادھالا ہے۔اور میں سمجھتاہوں اگر کوئی غیر احمدی لڑکی اس طرح احمدیوں کے پاس آجائے اور وہ کسی خاص آدمی کو مد نظر رکھ کر اس سے شادی کرنے کیلئے آئے تو ہماری جماعت کے دوستوں کوکوشش کرنی چاہئے کہ ایسی شادی ہرگز نہ ہو ،تا ہماری جماعت میں ادھالے کی رسم نہ جاری ہو ۔ میںنے یہ مسئلہ اس لئے بتایا ہے تاکہ وہ لوگ جواس فعل کے ذمہ وار ہیںاور زمیندار بھی اچھی طرح سمجھ لیںکہ جہاں جہاںایسے واقعات رونما ہوں وہاں ان لوگوں سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیںہوگی جو ولی کی رضامندی کے بغیر کسی لڑکی سے نکاح کر لیں۔ بلکہ ہماری ہمدردی ان لوگوں سے ہو گی جن کی لڑکیوں سے ایسا سلوک کیا گیا۔اگر ہماری جماعت نے اس طریق کار کو اختیار کیاتو وہ اخلاق قائم کرنے والے نہیں بلکہ اخلاق کو بگاڑنے والے ہوں گے۔ حالانکہ احمدیت اخلاق سنوارنے کیلئے آئی ہے اور میں جیسا کہ بتا چکا ہوںاس قسم کے واقعات کی ذمہ واری بہت حد تک محلوں کے عُہدے داروںپرعائد ہوتی ہے کہ وہ مساجد کے اجتماع سے صحیح فائدہ نہیں اُٹھاتے ۔اگر مساجد میںہمیشہ وعظ ہوتے رہیں لوگوں کو بتایا جائے کہ شادی بیاہ کے کیا مسائل ہیں۔ کونسی رسوم منع ہیں ۔ کون سے اخلاق احمدیت قائم کرنا چاہتی ہے اور کونسی بُری باتیں وہ دنیا سے دور کرنا چاہتی ہے۔تو محلے والے ان امورسے آگاہ ہوتے اور گھر والے کبھی یہ شور نہ مچاتے کہ جب لڑکی راضی ہے تو پھر اس نکاح میں کیا حرج ہے۔ان بیچاروں کو چونکہ یہ مسئلہ معلوم ہی نہ تھا۔اس لئے وہ اس کی تائید کرنے لگ گئے ۔اوریہ ایسی ہی بات ہے جیسے مسلمان کسی کے گھر سے سؤرکا گوشت چرا کر کھالے۔ تو وہ کہے میں نے سؤر کا گوشت چُرا کر نہیںکھایا مالک مکان کی اجازت لے کر کھایا ہے پھر مجھ پر کیوں ناراض ہوتے ہو۔حالانکہ مسلمانوں کا اعتراض اُس پر یہی نہیں ہوگا کہ تم نے سؤر کا گوشت چرا کر کھایا بلکہ ان کا اعتراض یہ بھی ہوگاکہ تم نے کھایا کیوں۔ اسی واقعہ کے متعلق میں نے دیکھا ہے کئی لوگ شور مچا رہے ہیںکہ جی اس کی مرضی تھی۔حالانکہ شریعت یہی کہتی ہے کہ اگر ولی کی اجاز ت نہ ہو تو لڑکی کی ایک مرضی نہیں ، ہزار مرضی نہیں،لاکھ مرضی ہوتب بھی کسی شخص کا اسے اپنے نکاح میں لانانکاح نہیں بلکہ ادھالاہے۔مگر دینی مسائل سے ناواقفیت کی حالت یہ ہے کہ وہ ادھالے کو بُرا سمجھتے ہیںمگر خیال کرتے ہیں جب ہم یہ کہہ دیں گے کہ لڑ کی کی مرضی یہی تھی تو بات صاف ہو جائے گی۔حالانکہ اس طرح بات صاف نہیں ہوتی بلکہ اور زیادہ پختہ ہو جاتی ہے۔
پس اگر ان مسائل سے لوگوں کو واقف رکھا جاتا تو نہ انہیں شرمندگی اُٹھانی پڑتی اور نہ ان جرائم کا ارتکاب وہ کرتے اور اگر باوجود علم کے وہ ایسے افعال کے مرتکب ہوتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ ہماری جماعت سے نکلومگر اب چونکہ لوگوں کو ان مسائل کا علم نہیںاس لئے یہی صورت ہے کہ ہم ان کو سمجھائیں اور انہیں ان مسائل سے واقف کریںپس میںپھر ہرمحلہ کے عہدے داروں کو توجہ دلاتاہوںکہ وہ اپنی اپنی مسجدوں کو آباد کریںاور محلہ میں کم سے کم ہفتہ میں ایک دفعہ سلسلہ کے کسی عالم سے شادی بیاہ ،معاملات اور اخلاق وغیرہ جیسے مسائل پر لیکچر دلائے جائیںتا جماعت کے لوگ اُس تعلیم سے فائدہ اُٹھا سکیںجو رسول کریم ﷺنے ایک اچھے شہری کے متعلق دی ہے۔
مثا ل کے طور پر ایک موٹی بات بیان کر دیتاہوں۔پرانے بازار کے آ گے جب نیا بازار بنا تو میں بہت خوش ہؤا کہ رسول کریمﷺ کی اُس تعلیم پرعمل ہونے لگا ہے کہ بازار چوڑے ہونے چاہئیں تا لوگوں اور سواریوں کو گزرنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔لیکن اب مجھے کبھی بازار سے گزرنے کا اتفاق ہو تو میں دیکھتا ہوں کسی نے دو فٹ آ گے بڑھا کر تھڑا بنایاہؤاہے اور کسی نے تین فٹ۔پھر چھ مہینے کے بعد گزریں تو وہی تھڑے چارچار فٹ کے بن چکے ہوتے ہیں۔ اس طرح تھڑے بازار میں بن بن کر گزرنے کا راستہ پھر ذراسا رہ گیاہے حالانکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ راستے میں ذرا سی روک ڈالنے والے پر بھی فرشتے *** بھیجتے ہیں۔۶؎ جب ذرا سی روک کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی رُکاوٹ برستی ہے تو راستے پر قبضہ کرنا کیسا *** کام ہے۔مگر لوگ یہ کام کرتے ہیںحالانکہ انہیں اگر رسول کریم ﷺ کے ارشادات کا علم ہوتاتو وہ کبھی اس طرح راستوں پر قبضہ نہ جماتے ۔اور اگر مساجدمیں ان امور کے متعلق باقاعدہ وعظ اور لیکچرہوتے رہتے تو بد عمل بھی اصلاح کر لیتے مگر اس معمولی سے حکم کی ناواقفیت کا نتیجہ یہ ہے کہ گلیوں میں چلے جائو تمہیں تھڑے بنے ہوئے نظر آئیں گے۔اور ہر شخص یہی چاہے گا کہ تھوڑا سا وہ آگے بڑھاہے تو تھوڑا سامیں بھی آگے بڑھ جائوں۔ان مسائل سے ناواقف رہنے کی وجہ سیمعلوم نہیں کتنی لعنتیں پڑتی رہتی ہوں گی۔پس جماعت کے ایمان کی مضبوطی کیلئے ضروری ہے کہ جماعت کو ان مسائل سے آگاہ کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ کونسے امور ایسے ہیں جو رسول کریم ﷺ نے پسند کئے اور کونسے امور ایسے ہیںجن پر آپ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔کِن باتوں کا آپ نے حکم دیا اور کِن باتوں سے آپ نے لوگوں کو منع فرمایا ۔
اس کے بعد ایک اور امر کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ کل مجھے ایک رُقعہ ملا ہے۔میں لکھنے والے کانام ظاہر نہیں کرتا ۔ اُس نے ایک شخص کی شکایت میرے پاس کی ہے لیکن ساتھ ہی لکھا ہے کہ مَیں ڈرتا ہوں اگر تحقیقات کی گئیں تو چونکہ یہ لوگ ہمارے افسر بنتے ہیں،اس لئے مجھے دق کریں گے اور اس طرح مجھے تکلیف ہو گی۔اس کے متعلق پہلے تو میں یہی نصیحت کرنی چاہتا ہوںکہ جو کام خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جارہاہواُس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ہمیں اس کے نتیجہ میں تکلیف ہوگی۔ کیا جب رسول کریمﷺ کے صحابہؓ احد کی جنگ میں شامل ہوئے تھے تو وہ اپنے ساتھ یہ چِٹّھی لکھواکر لے گئے تھے کہ انہیںکوئی زخم نہیںلگے گا اور نہ ان میں سے کسی شخص کو دشمن مار سکے گا یا اس نیت سے گئے تھے کہ ہم خدا کیلئے لڑنے جارہے ہیں چاہے مارے جائیں، چاہے زخمی ہوں۔ اگر بعض افسر لوگوں کو تکلیف دیتے ہیں تو اس لئے دیتے ہیںکہ وہ جانتے ہیں دوسروں میں بُزدلی پائی جاتی ہے۔لیکن اگر تمہارے اندر بُزدلی نہیں اور تمہارا اپنے خدا پر ایمان ہے تو دنیا کا ظلم حقیقت ہی کیا رکھتاہے کہ اس کی وجہ سے انسان سچی بات کو چھپائے۔میں اپنی زندگی کی مثال پیش کرتا ہوں۔حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کے چھ سالہ عہدِخلافت میںمولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب انجمن پر قابض تھے۔ یہ بسااوقات خلیفۃ المسیح الاوّل کے خلاف باتیں کرتے۔اور جب وہ آپ کے لئے یا سلسلہ کے لئے نقصان دِہ ہوتیں تو میں آپ کو بتا دیتا۔اس پر چہ مگوئیاں بھی ہوتیں۔میرے خلاف منصوبے بھی ہوتے۔پھرمیں اکیلا تھا اور ان کا ایک جتھا تھامگر اس چھ سال کے عرصہ میں کبھی ایک منٹ کیلئے بھی مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ میں ان باتوں کو چُھپائوں۔ پھر میں اگر وہ باتیں بتاتا تھا توا س لئے نہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل پر احسان جتائوں بلکہ اس لئے کہ میں اخلاق اور روحانیت کے قیام کیلئے ان باتوں کے انسداد کی ضرورت سمجھتا تھا۔ اس دوران میں بعض دفعہ ایسا بھی ہؤا کہ انہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کو میرے متعلق دھوکا اور فریب دیا اور آپ مجھ پر ناراض ہو گئے۔ لیکن میںپھر بھی اپنے فرض کی ادائیگی سے باز نہ آیا۔ ایک واقعہ مجھے اب تک یاد ہے۔حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل بیمار تھے جلسہ کے ایام تھے اور آپ کو جلسہ گاہ میں جانے کے لئے سواری کی ضرورت تھی ۔ آپ نے مجھے فرمایا تم نواب صاحب سے میرے لئے گاڑی منگوا دو میں ایک مصلحت سے خود گاڑی نہیںمنگوا سکتا ۔ خیر میں نے انہیںکہا اور فوراًگاڑی آگئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل اس میں بیٹھ کر جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے او ر آپ نے تقریر شروع کردی ۔ چونکہ عام طور پر آپ کی تقریر دو اڑھائی گھنٹہ کی ہؤاکرتی تھی اس لئے میں نے مولوی محمد علی صاحب سے پوچھا کہ گاڑی والا ٹھہرا رہے یا چلا جائے؟ وہ کہنے لگے تقریر لمبی ہوجائے گی اس لئے گاڑی والے کے ٹھہرنے کی ضرورت نہیںاسے بھجوا دیاجائے۔ جب تقریر ختم ہونے والی ہوئی تو گاڑی منگوا لی جائے گی۔ چنانچہ میں نے اسے کہہ دیاکہ چلے جاؤ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد آجانا وہ چلا گیا۔ اِدھر حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل نے ابھی چند منٹ ہی تقریر فرمائی تھی کہ آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور آپ نے فرمایا اب ہم چلتے ہیں گاڑی لائو ۔میں نے فوراًآ دمی دوڑایاکہ جلدی گاڑی لائی جائے مگر اسے آنے میں کچھ دیر لگی۔ اس پر حضرت خلیفہ اوّل کو ناراضگی پیدا ہوئی اور آپ پیدل ہی چل پڑے ۔مولوی محمد علی صاحب بھی ساتھ ساتھ تھے۔ راستہ میںآپ فرمانے لگے یہ کیسی سخت غلطی کی گئی ہے۔سب کو پتہ تھا میں بیمار ہوںمگر پھر بھی گاڑی کو نہیں ٹھہرایا گیا۔مولوی محمد علی صاحب بھی ہاں میں ہاںملاتے گئے اور کہنے لگے واقعہ میں ان سے سخت غلطی ہوئی ہے۔میں نے کہا حضور کی تقریر عام طور پر لمبی ہؤا کرتی ہے اس لئے میں نے سمجھاکہ ڈیڑھ دو گھنٹہ تقریر ہو گی اور گاڑی والے کو بھی میں نے اس عرصہ کے اندر آنے کو کہہ دیا تھا۔حضرت خلیفہ اوّل نے ناراضگی کے لہجہ میں فرمایا عذر تو ہر شخص کرلیتا ہے ہماری پنجابی میں مثل مشہور ہے، من ّ*** حُجتاںڈھیر، یعنی جب کسی کام کو انسان کا دل نہ چاہے تو وہ کئی عُذر بنا لیتا ہے۔میں یہ سُن کر خاموش رہااور میں نے یہ نہیںکہا کہ مولوی محمد علی صاحب جو اِس وقت ساری غلطی میرے سر ڈال رہے ہیں، انہوں نے ہی یہ مشورہ دیاتھااور انہی کے مشورہ پر گاڑی والے کو بھیجا گیا تھا۔
تو جب ہمارے کام محض خدا تعالیٰ کے لئے ہوں تو ان باتوں کی ہمیں پرواہ ہی کیا ہو سکتی ہے۔پس اس قسم کی باتوں سے ڈرنا اور کہناکہ جب تحقیقات ہوں گی تو افسر آئندہ ہمیں دِق کیا کریں گے، سخت کمزوری کی علامت ہے اور اِس بات کا ثبوت کہ ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کی کامل معرفت حاصل نہیں۔اب جو باتیں اس نے لکھیں ہیں ان کے متعلق تحقیق تو میںبعد میں کروں گالیکن ان میں سے ایک بات ایسی ہے جس کے متعلق میں آج ہی کچھ کہنا چاہتاہوں کیونکہ ممکن ہے وہ بات کسی اور کے کان میں بھی ڈالی گئی ہو۔وہ یہ کہ کسی کہنے والے نے کہاکہ خلیفۃالمسیح نے جو تحریک جدید جاری کی ہے یہ اپنے لئے روپیہ جمع کرنے کیلئے جاری کی ہے اور انہوں نے اس ذریعہ سے جماعت سے بہت سا روپیہ اکٹھا کرلیا ہے۔ مجھ پر خلافت سے پہلے بھی کئی قسم کے اعتراضات ہوتے چلے آئے ہیں اور اب بھی کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں اور بہت سے اعتراض ایسے ہوتے ہیں جو معترض پوشیدہ طور پر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید ان پرپردہ پڑا رہے مگر مالی معاملات میں شروع سے ہی مَیں نے ایسی احتیاط رکھی ہوئی ہے کہ شدید سے شدید دشمن کے سامنے بھی اعتراضات کو غلط ثابت کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً بعض لوگ مجھ کو ہدیہ کے طور پر رقم بھجواتے ہیں۔ ایسی رقوم کے متعلق بھی مَیں نے یہ اصل مقرر کیا ہؤا ہے کہ وہ پہلے محاسب کے دفتر میں درج ہوکر پھر میرے نام آتی ہیں تاکہ اگر کوئی اعتراض کرے تو دفتر کے رجسٹر کھول کر اس کے سامنے رکھ دئے جائیں کہ دیکھو کتنا روپیہ آیا ۔
اسی طرح تحریک جدید کے تمام اموال صدرانجمن احمدیہ کے رجسٹرات میں درج ہوتے اور خزانہ میں داخل ہوکر بلوں کے ذریعہ نکلتے ہیں۔ غرض تحریک جدید کے تمام روپیہ کے متعلق میرا انتظام یہی ہے کہ جو رقم بھی تحریک جدید کی خرچ ہو وہ پہلے صدر انجمن احمدیہ کی طرف منتقل ہو اور اس کی وساطت سے خرچ ہو اور اس سب کا تفصیلی حساب رکھا جاتا ہے۔ صرف ایک مد خاص ایسی ہے جس کے اخراجات مخفی ہوتے ہیں مگر میںاس کے متعلق بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ ان مخفی اخراجات کی مد میں سے جو بعض دفعہ خبررسانیوں اور ایسی ہی اور ضروریات پر جو ہر شخص کو بتائی نہیں جاسکتیں خرچ ہوتی ہیں۔ تین سال کے عرصہ میں صرف چار ہزار کے قریب روپیہ ایساہے جو میرے توسّط سے خرچ ہؤا ۔ اس کا باقی تمام روپیہ دفتر کی وساطت سے خرچ ہؤا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں تین سال کے عرصہ میں چھ ہزار ایک سَو ستانوے روپیہ چندہ تحریک جدید میں مَیں نے اورمیری بیویوں اور بچوں نے دیا ہے۔ اور اس تین سال کے عرصہ میں آٹھ ہزار روپیہ کے قریب وہ چندہ ہے جو صدر انجمن احمدیہ کو دیاگیا یا جس کاوعدہ ہے۔ اب تم اس اعتراض کی معقولیت کو خود سمجھ لوکہ میں نے تحریک جدید اس لئے جاری کی کہ چار ہزار روپیہ لوں اور چودہ ہزار روپیہ اپنے پاس سے دے دوں؟ بھلا چار ہزار روپیہ کمانے کیلئے مجھے اتنی بڑی تحریک کی کیا ضرورت تھی۔ تحریک جدید کے رجسٹرات کُھلے ہیں۔ وہاں سے ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ چار ہزار کے لگ بھگ رقم میرے توسط سے خرچ ہوئی ہے۔ یہ نہیں کہ اس چار ہزار کا حساب نہیں۔ حساب اس کا بھی ہے مگر وہ مخفی ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص ہو جسے آگے بات بیان کرنے کی عادت نہ ہو تو یہ حساب بھی اس شخص کو بتایا جاسکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ یہ چار ہزار روپیہ میںنے اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کیا تو جب یہ دیکھا جائے کہ اس عرصہ میں صرف تحریک جدید میں مَیں نے چونتیس سَو چورانوے روپے چندہ دیا ہے۔ پہلے سال سات سَو بیس دیا تھا۔ دوسرے سال ایک ہزار چونتیس روپیہ اور اس دفعہ سترہ سَو ساُٹھ روپیہ ۔ گویا چونتیس سَو چورانوے خالص میرا ذاتی چندہ ہے جو میں نے تحریک جدید میں دیا ۔ بیویوں بچوں کا چندہ ستائیس سَوروپیہ کے قریب اس سے الگ ہے۔ یہ کُل رقم چندہ کی میری اور میرے بیوی بچوں کی چھ ہزار ایک سَو ستاون بنتی ہے۔ اس کے مقابل پر چار ہزار کے قریب کی رقم میرے توسط سے خرچ ہوئی ہے اور گو حساب اس کاموجود ہے مگر عام حساب سے مخفی نہیں۔ لیکن کیا میرے چندہ کو دیکھ کر اور مجھ پر جو اعتراض کیا گیا ہے اُسے دیکھ کر کوئی بھی شخص کہہ سکتا ہے کہ تحریک جدید کے نام پر میںنے اپنے لئے روپیہ بٹورنے کی کوشش کی۔ اِس اعتراض کو درست تسلیم کرلینے کامطلب تو یہ ہؤا کہ میںنے چار ہزار کمانے کیلئے چھ ہزار ایک سَوستاون روپیہ خرچ کیا۔ پھر میں ان لوگوں کو جنہوں نے یہ اعتراض کیا کہتا ہوں کہ ہمارے سارے خاندان کا صرف تحریک جدید کا چندہ اس عرصہ کا بیس ہزار سات سَو پچانوے روپیہ بنتا ہے۔
اب اگر یہ درست ہے کہ ہم نے اس چندہ سے چارہزار روپیہ چُرالیا تو ایسی چوری یہ معترض خود کیوں نہیں کرتے۔ اس چوری میں مَیں ان کی مدد کرنے کیلئے تیار ہوں۔ وہ اکیس اکیس ہزار کی رقم دیتے جائیں اور چار چار ہزار کی تھیلیاں نکال کر ہم باہر رکھ دیں گے وہ انہیں چُرا کر لیتے جائیں اور خوب مزے اُڑائیں۔ پھر تین سال میں چار ہزار روپیہ لینے کے معنے یہ بنتے ہیں کہ میںنے قریباً سَوا سَو روپیہ ماہوار اس تحریک سے لیا مگر کیا تم سمجھتے ہو تم نے ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت کی ہے جو سَوا سَو روپیہ ماہوار کھانے کیلئے ساری جماعت میں ایک شور پیدا کردیتا ہے۔ پس ایسا اعتراض کرنا اس کی ذلت نہیں تمہاری اپنی ذلّت ہے کہ تم نے ایک ایسے شخص کو اپنا امام چُنا جس نے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) سَوا سَو روپیہ ماہوار کھانے کیلئے اتنا بڑا ہنگامہ برپا کردیا۔ پھر رجسٹرات موجود ہیں وہ جاکر دیکھو تمہیں معلوم ہوگا کہ سَوا سَو روپیہ ماہوار سے زیادہ تو میں نے چند ہ ہی دیا ہے۔اب اگر اسی کا نام لوٹ ہے تو یہ لوٹ تم بھی شروع کردو ہمیں منظور ہے ۔تم بھی چار چار ہزار روپیہ لوٹ کرلیتے جائو اور اکیس اکیس ہزار روپیہ دیتے جائو۔ اگر معترض اسی طرح کرنے لگیں تو ہمیں فی ایسی چوری میں جو سترہ سترہ ہزار کا نفع ہوگا اور اگر ایک ہزار آدمی کا ہمیں ایسا مل جائے تو کئی لاکھ روپے سالانہ کی بچت ہوجائے ۔
میں نے جیسا کہ بتایا ہے اس الزام کی تحقیقات تو بعد میں کروں گا ممکن ہے یوں ہی دوسرے پر اتہام لگادیا گیا ہے اور اس نے یہ بات نہ کہی ہو۔ لیکن چونکہ ممکن ہے کہ کسی شخص کے دل میں ایسا خیال موجود ہو اور اس نے کسی سے اس کا ذکرکیا ہو اس لئے ایسے لوگوں کے پراپیگنڈا کو ردّ کرنے کیلئے میں نے بتایا ہے کہ تحریک جدید کا تمام روپیہ صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ میں جاتا اور اسی کی معرفت خرچ ہوتا ہے اور وہ رقم جو خفیہ اخراجات کے لئے رکھی گئی ہے وہ البتہ میرے ذریعہ سے خرچ ہوتی ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہ ساری رقم تین سال میں چار ہزار کے لگ بھگ بنتی ہے۔ حالانکہ تین سالہ میراچندہ قریباً ساڑھے تین ہزار اور میرے بیوی بچوں کا ملا کر چھ ہزار ایک سَو ستاون کے قریب ہے اور اگر اپنے بھائیوں بہنوں اور دوسرے رشتہ داروں کا چندہ ملالیا جائے تو ہم نے ان تین سالوں میںاکیس ہزار کے قریب چندہ دیا ہے اور میرے ذمہ جو روپیہ آتا ہے وہ چار ہزار ہے۔ اب تم خود ہی اس اعتراض کی معقولیت سوچ لو کہ میں نے یہ تحریک جدید اس لئے جاری کی کہ میں نے چاہا کہ ہم اکیس ہزار دے کر سلسلہ کا چار ہزار روپیہ لوٹ لیں گے؟ اگر کہو کہ بیوی بچوں کا چندہ اس میں کیوں ملاتے ہو انہوں نے اپنے اخلاص سے الگ دیا تھا۔ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ بہرحال میں نے بھی تو ساڑھے تین ہزار چندہ دیا ہے۔ اب اگر میں نے چار ہزار روپیہ کھالیا ہے اور جو کچھ کام ہؤا ہے وہ سب معترضین کی توجہ سے ہوا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ چار ہزار میں نے کھایا اور ساڑھے تین ہزار دیا۔ یعنی تین سال میں مَیں نے پورے پانچ سَو روپے زائد وصول کئے جو سالانہ ایک سَو چھیاسٹھ روپے ہوتے ہیں اور ماہوا رکے حساب سے پونے چودہ روپے ماہوار بنتے ہیں۔ گویا تحریک جدید کے متعلق میں نے جس قدر خطبات پڑھے، جتنی تقریریں کیں، جتنی سکیمیں سوچیں، جتنا شور اور ہنگامہ برپا کیا وہ محض اس لئے تھا کہ کسی طرح میں پونے چودہ روپے ماہوار سلسلہ کے کھاجائوں۔ حالانکہ اگر میں خطبے اور تقریریں نہ کرتا اور صرف ایک کتاب لکھ دیتا تب بھی اس سے دُوگنی بلکہ چُوگنی رقم ماہوار کماسکتا تھا۔ مگر میں نے تو یہ بھی کبھی نہیں کیا اور کتابیں لکھ کر سلسلہ کو دے دیتا ہوں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں کماتا ہوں اور خدا نے مجھے عقل اور فہم دیا ہے۔ ابھی پچھلے سال میں نے تحریک جدید کا گیارہ ہزار روپیہ ایک نفع مند کام پر لگایا اور سات مہینوں میں دوہزار روپیہ نفع کا ان کو دلادیا۔ جو سال بھر میں تین ہزار بن جاتا ہے اور تیس فیصدی کے قریب نفع بنتا ہے۔ جب ایک شخص ان کو اس قدر کما کر دے سکتا ہے تو وہ خود بھی روپیہ کماسکتا ہے ۔اورمیں نے جیسا کہ بتایا ہے کہ کماتا ہوںمگر یہ اعتراض جو کیا گیا اس میں معقولیت کا شائبہ تک نہیں اور اس کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں بنتا کہ میں نے پونے چودہ روپے ماہانہ کیلئے یہ تمام پاکھنڈ مچایا ۔
غرض ان لوگوں کو جو اس قسم کے اخلاقی حملے کرتے ہیں میں بتادینا چاہتا ہوں کہ شاید وہ اس قسم کے اعتراضات سے کسی ناواقف کو دھوکا دے لیں مگر مالی معاملات کے متعلق میں جو بھی کام کرتا ہوں رجسٹروں کے ذریعہ کرتا ہوں۔ اِس لئے جب بھی کوئی شخص حملہ کرے اسے وہ رجسٹرات دکھائے جاسکتے ہیں۔ اور خداتعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ میرا ہی دینانکلے گا میرے ذمہ کسی کا کچھ نہیںنکلے گا۔ پس اس قسم کے حملہ کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب ان کے اعتراضات کی حقیقت لوگوں پرکھل گئی ان کیلئے سخت ذِلّت و رُسوائی ہوگی۔ باقی میں کبھی لوگوں کے پاس مانگنے نہیں گیا اور میں نے جب بھی کوئی تحریک کی ہے مرضی کی کی ہے۔ اگر کسی کا جی چاہتا ہے تو وہ میری تحریکات میںشامل ہو اور اگر نہیں چاہتا تو نہ ہو۔ لیکن اگر کوئی روپیہ دیتا اور پھر اعتراض کرتا ہے تو میں اُس شخص سے کہوں گا کہ تجھے کس نے کہا تھا کہ تُو روپیہ دے۔ میں تو اُس سے روپیہ مانگتا ہوں جو اگر مجھے دس کروڑ روپیہ بھی دے تو وہ یہ سمجھ کر دے کہ یہ روپیہ اس کے اپنے پاس اتنا محفوظ نہیں جتنا میرے پاس محفوظ ہے۔ میں تو کچھ عرصہ سے امانت بھی اپنے پاس نہیں رکھتا، صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ میں رکھواتا ہوں۔ اسی طرح جس قدر چندے آتے ہیں صدر انجمن احمدیہ کے پاس جاتے ہیں۔ تحریک جدید کا روپیہ بھی اسی کے خزانہ میں ہے اور اسی کے ذریعہ خرچ ہوتا ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہؤا ہے کہ تحریک جدید کا روپیہ صدرانجمن میں نہیں جاتا، کہیں الگ چُھپا کر رکھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ تحریک جدید کی تمام رقوم پہلے صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ میں جاتی اور پھر بِلوں کے ذریعہ دفتروں میںجاتی ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مدِّخاص کے اخراجات عام لوگوں سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔ لیکن اس مد میں جو میرے ذریعہ سے خرچ ہؤا وہ تین سال میں صرف چار ہزار رپیہ کی رقم ہے اور اس کے مقابل پراکیس ہزار کی رقم ہمارا خاندان دے چکا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان معترضوں کی وجہ سے مجھے ان حقائق کو ظاہر کرنا پڑا ورنہ مجھے تو دینی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔
میں آخر میں ان لوگوں کوجو یہ اعتراض کرتے ہیں بتادینا چاہتا ہوں کہ ان کا مجھ پر اِس قسم کے حملے کرنا کوئی معمولی بات نہیں وہ مجھ پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر حملے کررہے ہیں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اور اُسی نے اپنی تائید اور نصرت کو ہمیشہ میرے شاملِ حال رکھا ہے اور سوائے ایک نابینا اور مادرزاد اندھے کے اور کوئی نہیں جو اِس بات سے انکار کرسکے کہ خدا نے ہمیشہ آسمان سے میری مدد کیلئے اپنے فرشتے نازل کئے ۔ پس تم اب بھی اعتراض کرکے دیکھ لو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان اعتراضات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اس قسم کے اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی کئے گئے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جب کسی نے ایسا ہی اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا تم پر حرام ہے کہ آئندہ سلسلے کیلئے ایک حبہ بھی بھیجو۔ پھر دیکھو کہ خدا کے سلسلے کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میں بھی ان لوگوں کو اسی طریق پر کہتا ہوں کہ تم پر حرام ہے کہ آئندہ ایک پیسہ بھی سلسلہ کی مدد کیلئے دو۔ اور گو میری عادت نہیں کہ میں سخت لفظ استعمال کروں مگرمیں کہتا ہوں کہ اگر تم میں ذرہ بھی شرافت باقی ہو تو اس کے بعد ایک دمڑی تک سلسلہ کیلئے نہ دو اور پھر دیکھو سلسلہ کا کام چلتا ہے یا نہیں چلتا۔ اللہ تعالیٰ غیب سے میری نصرت کا سامان پیدا فرمائے گا اور غیب سے ایسے لوگوں کو الہام کرے گا جو مخلص ہوں گے اور جو سلسلہ کیلئے اپنے اموال قربان کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھیں گے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے اسی مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مقبرہ میں دفن ہونے کے بارہ میںمیرے اہل و عیال کی نسبت خداتعالیٰ نے استثناء رکھا ہے اور وہ وصیت کے بغیر بہشتی مقبرہ میں داخل ہوں گے اور جوشخص اس پر اعتراض کرے گا وہ منافق ہوگا۔ اگر ہم لوگوں کا روپیہ کھانے والے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ایک امتیازی نشان کیوں قائم فرماتا اور بغیر وصیت کے ہمیں مقبرہ بہشتی میں داخل ہونے کی کیوں اجازت دیتا۔
پس جو ہم پر حملہ کرتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے وہ خدا پر حملہ کرتا ہے۔ مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ باغ میں گئے اور فرمایا مجھے یہاں چاندی کی بنی ہوئی قبریں دِکھلائی گئی ہیں اور ایک فرشتہ مجھے کہتا ہے کہ یہ تیری اور تیرے اہل و عیال کی قبریں ہیں اور اسی وجہ سے وہ قطعہ آپ کے خاندان کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔ گو یہ خواب اِس طرح چھپی ہوئی نہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ آپ نے اسی طرح ذکر فرمایا۔ پس خدا نے ہماری قبریں بھی چاندی کی کرکے دکھادیں اور لوگوں کو بتادیا کہ تم تو کہتے ہو یہ اپنی زندگی میں لوگوں کا روپیہ کھاتے ہیں اور ہم تو ان کے مرنے کے بعد بھی لوگوں کو ان کے ذریعہ سے فیض پہنچائیں گے۔
پس اللہ تعالیٰ ہماری مٹی کو بھی چاندی بنارہا ہے اور تم اعتراضات سے اپنی چاندی کو بھی مٹی بنارہے ہو۔ چونکہ منافق عام طورپر پوشیدہ باتیں کرنے کا عادی ہوتا ہے اس لئے میں نے کُھلے طور پر ان باتوں پر روشنی ڈال دی ہے ورنہ مجھے اِس بات سے سخت شرم آتی ہے کہ میں خداتعالیٰ کیلئے کچھ چندہ دوں اور پھر کہتا پھروں کہ میں نے اتنا چندہ دیاہے۔ مگر چونکہ یہ ایک سوال اُٹھایا گیا تھا اس لئے مجھے مجبوراً بتانا پڑاکہ اگر اپنے تمام خاندان کا چندہ ملالیا جائے تو اس رقم سے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ میں نے کھالی، پانچ گُنا زیادہ رقم ہم چندہ میں دے چکے ہیں اور جو رقم صرف میرے اہل و عیال کی طرف سے خزانہ میں داخل ہوئی ہے، وہ بھی اس سے زیادہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی عقلمند یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ ہم نے پانچ گُنے زیادہ رقم اس لئے خرچ کی تا اس کا پانچواں حصہ کسی طرح کھاجائیں۔ پس ان لوگوں کو جو یہ اعتراض کرتے ہیں خداتعالیٰ کا خوف کرنا چاہئے اور اُس وقت سے پیشتر اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے جبکہ ان کا ایمان اُڑ جائے اور وہ دہریہ اور مرتد ہوکرمریں۔
(الفضل ۲ ؍ جولائی ۱۹۳۷ئ)
۱؎،۲،۳ ؎ بخاری کتاب الاذان باب فضل صلٰوۃ العشاء فی الجماعۃ
۴؎ دارقطنی کتاب النکاح جلد ۲صفحہ ۱۳۵مطبوعہ بیروت ۱۹۹۴ء
۵؎ فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَـلَا تَقْھَرْ (الْضُّحٰی: ۱۰)
۶؎ ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب المواضع التی نھی عن البول فیھا



۱۹
ہم ہی کامیاب ہوں گے اور ہمارا دشمن ذلیل و رُسوا ہوگا
(فرمودہ ۲۵؍ جون ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعدسورۃ بقرہ کے پہلے رکوع کی آیت وَاُولٰئِٓکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ تک کی تلاوت کرکے فرمایا:-
آخری زمانہ کے مصلح کی بعثت خداتعالیٰ کی نگاہوں میں ایسی اہم ہے کہ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر رسول کریم ﷺ کے زمانہ تک کے تمام انبیاء نے اس بعثت کی خبر دی ہے اور آسمانی صحیفوںکا اِس امر پر اتفاق ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں شیطان اور فرشتوں کی آخری جنگ ہوگی اور آخر اپنا سارا زور لگالینے کے بعد شیطان کا سر کُچلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم کردی جائے گی۔
ایک مومن کا خواب اپنے اندر بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے، ایک مجدد کا خواب اپنے اندر ایک بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے، ایک نبی کا خواب اپنے اندر اس سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور دو تین نبیوں کے خواب تو اِس سے بھی زیادہ شان اور اہمیت رکھتے ہیں۔ مگر جس خبر پر تمام انبیاء متفق ہوں اور حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر خاتم النَّبیّٖن محمد مصطفی ﷺ کے زمانہ تک تمام انبیاء اس کی خبر دیتے چلے آرہے ہوں، وہ کتنی بڑی اہم ہوگی۔
حضرت نوحؑ کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں حضرت نوح علیہ السلام کا مقابلہ کیا، اُس کا ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میںموجو د ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقابلہ کیا، اُس کا بھی ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میں موجود ہے۔ حضرت موسیٰؑ کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کیا اُس کا بھی ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میںموجو د ہے۔ حضرت دائودؑ اور حضرت سلیمانؑ کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمانؑ کا مقابلہ کیا اُس کا بھی ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میںموجو د ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کیا اُس کا بھی ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میںموجو د ہے اور پھر محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں محمد ﷺ کا مقابلہ کیا اُس کا بھی ایک اِجمالی نقشہ قرآن کریم میں موجود ہے۔ ان میں سے ہر جنگ جو اپنے اپنے زمانہ میں ہوئی وہ انسان کا دِل دہلادینے کیلئے کافی ہے۔ مخالفت میں ایسے ایسے ذرائع کو استعمال کیا گیا اور ایسے ایسے طریق اختیار کئے گئے کہ مومنوں کیلئے زلزلہ آگیا اور لوگوں نے سمجھا اب یہ جماعت بالکل تباہ ہوجائے گی۔ مگر پھر خداتعالیٰ کی نصرت ظاہر ہوئی اور وہ طوفان اور وہ آندھیاں جن کے متعلق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ انبیاء علیہم السلام کی بنائی ہوئی عمارتوںکو زمین سے پیوست کردیں گی اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گی ہوا کی طرح اس عمارت سے ٹکرا کر اس طرح اُڑ گئیں جس طرح پانی کا بُلبلہ پھٹ جاتا ہے اور کسی کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ پھر جب ایک ایک جنگ میں شیطان نے اس طرح زور لگایا ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ آخری جنگ میں وہ اپنے تمام ذرائع کو مجموعی طور پر استعمال نہ کرے۔ شیطان خود دنیامیں ظاہر نہیں ہوتا بلکہ انسانوں میں سے ہی بعض کو اپنا آلۂ کار بنا تا اور ان کے ذریعہ الٰہی جماعتوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔
پس ضروری ہے کہ اِس زمانہ میں جو مسیح موعود کا زمانہ ہے شیطان کی طرف سے وہ تمام ہتھیار استعمال کئے جائیں جو نوحؑ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے، جو موسیٰؑ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے، جو لوطؑ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے، جو اسحقؑ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے، جو یعقوبؑ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے، جو یوسفؑ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے، جو دائودؑ اور سلیمانؑ اور الیسعؑ اور زکریاؑ اور یحیٰی اور دوسرے انبیاء کے زمانہ میں استعمال کئے گئے۔ جو عیسٰیؑ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے اور جو سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے۔ کیونکہ شیطان جانتا ہے کہ یہ اس کی آخری جنگ ہے اور اسی جنگ پر اس کی زندگی یا موت کا انحصار ہے۔ پس میں ان لوگوں کوجو میرے نقطۂ نگاہ میں مومن ہیں ( چونکہ ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو اپنے اپنے نقطۂ نگاہ میں مومن ہوں لیکن میرے نقطۂ نگاہ میںمومن نہ ہوں اس لئے اُن لوگوں سے میرا خطاب نہیں۔ کیونکہ وہ مجھ میں سے نہیں اور میں ان میں سے نہیں ۔ میں ذمہ وار صرف ان لوگوں کا ہوں جومیرے نقطۂ نگاہ میں مومن ہیں اور میرے نقطۂ نگاہ میں حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر سچا ایمان لائے ہوئے ہیں) کہتا ہوں کہ انہیں محسوس کرنا چاہئے کہ وہ تمام ہتھیار جو شیطان نے پہلے زمانوں میں استعمال کئے اُنہیں اِس زمانہ میں بھی استعمال کیا جائے گا اور ان کی آرزوئیں اور خواہشیں اسے ان ہتھیاروں کے استعمال سے باز نہیں رکھ سکتیں۔یہ خدائی خبر ہے جو تمام انبیاء نے دی اور ضروری ہے کہ پوری ہو۔ اگر یہ خبر پوری نہ ہو تو نوحؑ بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں، موسیٰؑ بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں، دائودؑ بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں، سلیمانؑ بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں، عیسیٰؑ بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں۔ اور پھر راستبازوں کے راستباز اور سچوں کے سچے اور صادقوں کے سردار حضرت محمد ﷺ بھی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹے قرار پاتے ہیں اور کہنا پڑے گا کہ جو خبر انہوں نے دی وہ پوری نہ ہوئی۔ پس گو ہم میں سے ہر شخص کی خواہش یہی ہونی چاہئے اور ہے کہ شیطانی حملے کم ہوں مگر جو خداتعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی ہے وہ کبھی ٹل نہیں سکتی۔ یہی وجہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا حملے پر حملے ہوں گے اور ابتلا پر ابتلا آئیں گے اورآخر وہی راستباز ٹھہرے گا جو آخر تک اپنے ایمان پر قائم رہے گا اور اس کے اندر اِس قدر طاقت ہوگی کہ وہ شیطانی حملوں کامقابلہ کرسکے۔
پس اپنی جماعت کو یعنی ان مخلصین کو جو صرف منہ سے احمدی نہیں کہلاتے بلکہ واقعی سلسلہ سے انس رکھتے ہیں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انہیں فتنوں سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ کئی لوگ سچے مومن ہوتے ہیں لیکن جب بھی کوئی فتنہ اُٹھتا ہے وہ گھبراجاتے ہیں اور کہتے ہیں اب کیاہوگا اور ہر فتنہ کے موقع پر جب بھی گھبراکر انہوںنے یہ کہا کہ اب کیا ہوگا میں نے انہیں کہا کہ یہی ہوگا کہ تم جیتے اور فتح کے جھنڈے اڑاتے ہوئے نکلو گے۔ زمین بدل سکتی ہے، آسمان بدل سکتا ہے، سمندر خشک ہوسکتے ہیں، پہاڑ اڑ سکتے ہیں مگر جو بات نہیں ٹل سکتی اور کبھی نہیں ٹل سکتی وہ یہ ہے کہ ہم ہی کامیاب ہوں گے اور ہمارا دشمن ہمیشہ ذلیل اور رسوا ہوگا۔ بظاہر حالات حملے کتنے ہی سخت ہوں، بظاہر حالات شیطانی طاقتیں کتنی ہی زبردست کیوں نہ ہوں یہ خدا کی تقدیر ہے جو پوری ہوکر رہے گی ؎
قضائے آسمانست ایں بہر حالت شود پیدا
یہ خدائی تقدیر ہے جو ہر حالت میں ظاہر ہوگی اور کوئی انسانی تدبیر اسے غلط قرار نہیں دے سکتی۔ ہوسکتا ہے کہ تم یا میں یا کوئی اور اس لڑائی میں رُخصت ہوجائیں یا رخصت کردئیے جائیں۔ مگر جس تعلیم پرہم قائم ہیں اور جن باتوں کو ہم دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں انہیں کسی قسم کی زک پہنچ جائے یا ان میں ضُعف اور کمزوری پیدا ہوجائے، یہ ناممکن اور بالکل ناممکن ہے۔
نوحؑ کا ذکر تو ہم کیا کریں، وہ ایک بہت بڑا اور خدا کا برگزیدہ رسول تھا۔ ابراہیمؑ کا ذکر ہم کیا کریں کہ وہ خدا کا بہت پیارا اور اُس کا برگزیدہ رسول تھا۔ موسیٰؑ کا ذکر ہم کیا کریں کہ وہ خدا کا ایک اولوالعزم نبی اور اس کا برگزیدہ بندہ تھا۔ عیسٰیؑ کا ذکر ہم کیا کریں کہ وہ خدا کا ایک بہت بڑا رسول تھا اور رسول اللہ ﷺ تو تمام نبیوں کے سردار تھے ان کی باتوں کا کیا کہنا ۔ خود ہمارے اندر خداتعالیٰ نے ایسے نشانات قائم کردئیے ہیں جن کو دیکھتے ہوئے ایک لمحہ کیلئے بھی ہم خداتعالیٰ کی باتوں کا انکار نہیں کرسکتے۔
میں ابھی سترہ سال کا تھا جو کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے کہ اس سترہ سال کی عمر میں خداتعالیٰ نے الہاماً میری زبان پر یہ کلمات جاری کئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ہاتھوں سے ایک کاپی پر لکھا لئے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ کہ وہ لوگ جو تیرے متبع ہوں گے اللہ تعالیٰ اُنہیںقیامت تک اُن لوگوں پر فوقیت اور غلبہ دے گا جو تیرے منکر ہوں گے۔ اس سترہ سال کی عمر میں کس کو معلوم تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات تک زندہ رہوں گا۔ پھر کون کہہ سکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد سلسلہ کے متعلق کیا انتظام ہوگا۔ کیونکہ نبیوں کے زمانہ میں انبیاء کی محبت دلوں پر اِس قدر غالب ہوتی ہے کہ ان کی وفات کا خیال تک بھی دل میں نہیں لایا جاسکتا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو خلیفہ بنایا اور جماعت میں سلسلۂ خلافت قائم کیا تو کون اس مخالفت کو دیکھ کر جو سلسلہ کے لیڈروں کی طرف سے کی جاتی تھی، جبکہ عَلَی الْاِعْلَان یہ کہا جاتا تھا کہ اس بڈھے کو مرنے دو اس کے بعد خلافت کے انتظام کو ہم باطل کرکے رکھ دیں گے، کہہ سکتا تھا کہ خلافت کا سلسلہ چلے گا اور پھر کون کہہ سکتا تھا کہ آپ کے بعد خلیفہ مَیں ہی بنوں گا کیونکہ میںاس بات کیلئے بالکل تیار تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے بعد خود مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کرلوں تا جماعت میں تفرقہ پیدا نہ ہو۔
ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک پرانے صحابیؓ سے ملنے کیلئے گیا تو انہوں نے روتے ہوئے کہا مجھے خوب یاد ہے جب حضرت خلیفہ اوّل کے آخری ایام میں عظیم الشان فتنہ اُٹھا اور میں نے آپ سے گھبراہٹ کا اظہار کیا تو آپ نے مجھے کہا مولوی صاحب !گھبرائیں نہیں میں فتنہ پیدا ہونے نہ دوں گا۔ میں مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کی بیعت کرنے کیلئے تیارہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے ایسے سامان پیدا کردیئے کہ اُس نے مجھے جماعت کاخلیفہ بنادیا اور اُس دن اس اِلہام کی صداقت کی بنیاد پڑی۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ اور وہ لوگ جو تیرے متبع ہوں گے اُن لوگوں پر قیامت تک غالب رہیں گے جو تیرے منکر ہوں گے۔ پھر دیکھ لو دشمن کتنی بڑی طاقت لے کر اُٹھا اور اُس کا کیسا عبرتناک انجام ہؤا۔ اُس وقت کہا جاتا اور متواتر کہا جاتا تھا کہ یہ بچہ ہے اور ہم بڑی عمر کے ہیں۔ یہ جاہل ہے اور ہم عالمِ اور مفسرِ قرآن ہیں۔ یہ کمزور ہے اور ہمارے ہاتھوں میں سب طاقتیں ہیں۔ یہ نادار ہے اور ہمارے پاس روپیہ ہے۔ یہ بیوقوف ہے اور ہم عقلمند ہیں۔ یہ لوگوں کے قبضہ میں ہے اور ہم صاحبِ تدبیر ہیں ۔ غرض یہ تمام حملے ایک طرف تھے اور دوسری طرف ایک چھبیس سالہ نوجوان۔ بلکہ اُس وقت میری عمر چھبیس سال بھی پوری نہیں تھی، ۲۵ برس اور دو مہینہ کی عمر تھی۔ پس پچیس برس کا ایک نوجوان ایسی حالت میں کھڑا ہؤا جبکہ سلسلہ کے تمام بڑے بڑے لوگ دوسری طرف تھے۔ جب جماعت کا خزانہ بالکل خالی تھا صرف چند آنے کے پیسے اُس میں موجود تھے اور اُٹھارہ ہزار کا قرضہ صدرانجمن پر تھا۔ اُس وقت خداتعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا اور بتایا کہ کوئی نہیں جو خدا کے کاموں کو روک سکے اور فرمایا وَلَنُمَزِّقَنَّھُمْ ۔ اللہ تعالیٰ تیرے مخالفوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا اور ان کی جمعیت کو پراگندہ کردے گا۔ چنانچہ بعد میں رونما ہونے والے واقعات نے ظاہر کردیا کہ ایسا ہی ہؤا ۔
پس یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس خدا نے سترہ سال کی عمر میں مجھے خبریں بتائیں اور پھر مخالف حالات میں ان باتوں کو پورا کرکے دکھادیا اور میری نصرت اور تائید کیلئے آسمان سے فرشتے اُتارے اُس خدا کے فضل سے مَیں کسی وقت مایوس ہوجائوں۔ میں تو ایک اکفر انسان ہوں گا۔ ایک نہایت ہی اشقیٰ انسان ہوں گا اگر ایک منٹ کیلئے بھی میں خداتعالیٰ کی نصرت اور اُس کی تائید کے متعلق شبہ کروں۔ سترہ سال کی عمرمیں خداتعالیٰ نے مجھے وہ الہام کیا اور آج میری عمر سے اَڑتالیسواں سال گزررہا ہے۔ اس گزشتہ تیس اکتیس سال کے عرصہ میں دنیا نے اِس الہام کی صداقت میں جو کچھ دیکھا وہ اتنا واضح اور اتنا مبرہن ۱؎ ہے کہ اس کے بعد خداتعالیٰ کی نصرت کے متعلق مجھے ایک منٹ کیلئے بھی شبہ نہیں ہوسکتا اور میں واضح سے واضح الفاظ میں دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کرنے کیلئے تیار ہوں کہ اگر ان مقابلوں میں مجھے زک پہنچ جائے یا میری قائم کی ہوئی باتیں فیل ہوجائیں تویقینا میں جھوٹا ہوں گا۔
پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے فتنے آنے ضروری ہیں اور بڑے بڑے فِتنے ہیں جن کا آنا مقدر ہے مگر تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ہدایت نامہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں فرماتا ہے کہ جو لوگ کمزور دل ہوتے ہیں وہ فتنوں سے گھبراجاتے ہیں مگر یاد رکھنا چاہئے المّ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہِ۔ ۲؎ تمہارے لئے فیصلہ کی ایک راہ ہم نے رکھی ہوئی ہے اور وہ خدا کی کتاب ہے۔ اس میں کوئی جھوٹی بات نہیں۔ انسانی بتائے ہوئے اصول جھوٹے ہوسکتے ہیں۔ انسانی بتائی ہوئی تدابیر غلط ہوسکتی ہیں مگر خدا کی کتاب لَارَیْبَ فِیْہِ ہے۔ کوئی مشکوک یا جھوٹی بات اِس میں نہیں۔پھر فرماتا ہے ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ۳؎ اگر تم خداتعالیٰ پر توکل کرنے اور اس کی طرف توجہ رکھنے والے ہو تو یہ کتاب تمہارے لئے ہدایت کا موجب ہوگی اور تمہیں سچے راستہ پر قائم کردے گی ہاں تمہارے لئے بھی ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ۴؎ اللہ تعالیٰ کی ذات پر تمہیں کامل یقین ہونا چاہئے۔ اگر یہ یقین تمہیں حاصل نہیں تو ہدایت بھی میسر نہیں آسکتی۔ دنیا کے جس قدر علوم ہیں وہ ایمان کے بغیر بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ ایک بڑا ڈاکٹر بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے۔ ایک بڑا وکیل بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے۔ ایک بڑا انجینئر بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے، ایک بڑا سیاستدان بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے، ایک بڑا ہیئت دان بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے، ایک بڑا بادشاہ بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے، ایک بڑا علم النفس کا ماہر بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے، ایک بڑا تاریخ دان بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے مگر فرمایا قرآن کریم سے ہدایت انہی لوگوں کو حاصل ہوسکتی ہے جو متقی ہوں اور یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے مصداق ہوں۔ کوئی سیاستدان، کوئی ادیب، کوئی بیرسٹری، کوئی ڈاکٹراور کوئی انجینئر دُنیوی علوم کے ذریعہ خدائی ہدایت کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ پس متقیوں کیلئے ہی قرآنی ہدایت ہے دوسروں کیلئے نہیں۔ اور متقی وہ ہیں جو اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کا نمونہ ہوں۔ یعنی خداتعالیٰ پر کامل ایمان رکھیں اورمصائب و مشکلات سے نہ ڈریں بلکہ یقین رکھیں کہ جب ہم خداتعالیٰ کی رضا کیلئے ایک شخص پرایمان لے آئے ہیں تو خداتعالیٰ خود ہماری نصرت اور تائید کرے گا۔ وہ آپ مشکلات میں ہماری راہنمائی کرے گا اور قرآن ہماری تائید کیلئے اُٹھے گا۔
پھر فرمایا وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ ۵؎ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مغرور نہ ہو۔ یعنی یہ نہیں کہ چونکہ خداتعالیٰ نے ان سے اپنی نصرت اور مدد کا وعدہ کیا ہے اس لئے وہ اس وعدہ کی وجہ سے مغرور ہوجائیں بلکہ جیسے جیسے خداتعالیٰ کے وعدوں پر ان کا یقین بڑھتا جاتا ہے اُتنا ہی ان میں عجز، انکسار اور دعائوں کا مادہ بھی زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ ایک طرف ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو للکارتے ہیں اور کہتے ہیں کون ہے جو ہمارا بال بیکا کرسکے کیونکہ خدا نے اُن کو یہی کہا ہوتا ہے لیکن دوسری طرف جب وہ خداتعالیٰ کے حضور جُھکتے ہیں تو گریہ و زاری ان کا شیوہ ہوتا ہے اور کہتے ہیں اے خدا! تیری مدد کے بغیر ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ یہی وہ کیفیت ہے جو رسول کریم نے بدر کے موقع پر دکھائی۔ بدرکی جنگ کے شروع ہونے سے پہلے جب رسول کریم ﷺ مدینہ سے باہر نکلے تو آپ نے فرمایا مجھے خداتعالیٰ نے بتایا ہے کہ ہم کو فتح حاصل ہوگی اور دشمنوں کو شکست۔ بلکہ مدینہ سے نکلنے سے پہلے آپ کو بشارتیں ملنی شروع ہوگئیں اور آپ نے صحابہ سے کہنا شروع کردیا کہ گھبرائو نہیں خدا ہمارے ساتھ ہے۔ ہم اس کے فضل سے فتح پائیں گے اور ہمارا دشمن ناکام ہوگا۔ لیکن ادھر صحابہ کوآپ نے یہ خبریں دیں اور اُدھر جب جنگ شروع ہوئی تو آپ نے نہایت عجز اور انکسار کے ساتھ اس قدر گڑگڑا کر دعائیں مانگنی شروع کردیں کہ بعض صحابہؓ کو حیرت ہوئی اور انہوں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ ایک طرف خدا کہتا ہے کہ ہمیں فتح حاصل ہوگی اور دوسری طرف آپ اس قدر رو رو کر دعائیں کررہے ہیں کہ گویا اس کا فتح کے متعلق کوئی وعدہ نہیں یہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا یہی مومن کامقام ہے کہ وہ خدا کے وعدوں کے ہوتے ہوئے اس کے حضور عجز اور انکسار سے کام لیتا ہے۔ ۶؎ پس فرمایا ۔ اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ متقی ایک طرف خداتعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور دوسری طرف اس کے حضور عجز و انکسار اور دعائوں کی طرف مائل رہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک تیسری چیز کا ذکر کیا اور فرمایا وَمِمَّا رَزَقْـنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۷؎ دعائوں کے ساتھ ان کو وہ تمام تدابیر بھی اختیار کرنی چاہئیں جو خداتعالیٰ نے اس عالم اسباب میں پیدا کی ہیں۔
یہ بھی مومن کا کام ہے کہ وہ خیالی دعائوں سے کام نہیں لیتا بلکہ ظاہری تدابیر سے بھی کام لیتا ہے۔ کیونکہ اگر دعا کی جائے لیکن ظاہری تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو یہ خداتعالیٰ کا امتحان لینا ہوتاہے جو ایک مومن کی شان سے بعید ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بارہا اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ وہ انسان جو خالی دعاکرتا اورتدبیر سے کام نہیں لیتا وہ خداتعالیٰ کا امتحان لیتا ہے اوریہ سخت گستاخی ہے جس کی اُس کو سزا ملتی ہے۔ پس مِمَّا رَزَقْـنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ ان پر فرض ہوتا ہے کہ وہ تمام ذرائع کو خواہ وہ روحانی ہوں یا جسمانی استعمال کریں۔
پھر فرمایا وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُؤْقِنُوْنَ۔۸؎ اس سے پہلے وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میںیہ بتایا تھا کہ جو کچھ مومنوں کو حاصل ہو وہ سب اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے اور تمام تدابیر سے کام لیتے ہیں اور اس آیت میں ان کو تدبیر بتاتا ہے یعنی یہ کہ وہ کن اصول پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے متعلق فرمایا یہ ذرائع ان کو خداتعالیٰ کے الہاموں سے ملتے ہیں اور اس کیلئے سب سے پہلے وہ تیری وحی کو دیکھتے ہیں۔ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ اور پھر اس وحی پر غور کرتے ہیں جو تجھ سے پہلے نازل ہوچکی ہے اور اس کے بعد اگر خود ان پر کوئی وحی نازل ہوئی ہو یا کوئی خواب آیا ہو یا ان کے زمانہ کے کسی مُرسل پر وحی نازل ہوئی ہو جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اِس زمانہ میں وحی نازل ہوئی تو وہ اس وحی پر بھی غور کرتے ہیں اور اس طرح تینوں وحیوں میںیہ تلاش کرتے ہیں کہ ایسے مواقع پر ان کیلئے کیا ہدایات ہیں اور کن ذرائع کو انہیں اختیار کرنا چاہئے۔ اُوْلٰئِِٓکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ اُوْلٰـئِٓکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۹؎ فرماتا ہے جو لوگ اس قسم کے ہوں ان کیلئے قرآن کریم ہدایت کا موجب ہوجاتا ہے۔
اس رکوع کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ قرآن کریم متقیوں کیلئے ہدایت کا موجب ہے اور اس آیت میں یہ بتایا کہ جولوگ قرآن کریم کے اصول اور اس کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرتے ہیں ان کو یہ ہدایت مل جاتی ہے اور خالی انہیں ہدایت ہی نہیںملتی بلکہ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ ہدایت سے ان کا اس طرح تعلق ہوجاتا ہے جس طرح گھوڑے پر انسان سوار ہوتا ہے۔ گویا اس کے بعد ہدایت سے ان کا عارضی تعلق نہیں رہتا بلکہ وہ ہدایت پر سوار کی طرح بیٹھ جاتے ہیں اور خدا کا کلام انہیں کامیابیوں کی طرف لئے چلا جاتا ہے۔ وَ اُولٰئِٓکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ اور یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ جولوگ خداتعالیٰ کے کلام پرعمل کرتے اور اس کی ہدایات کے مطابق کام کرتے ہیں ان کو کون ناکام کرسکتا ہے۔ وہ بہرحال کامیاب ہوتے ہیں اور کوئی طاقت انہیں ناکام نہیں بناسکتی۔
غرض ہمار ے لئے ہر جھگڑے کو دور کرنے کیلئے ایک چیز موجود ہے اور وہ خدا کا کلام ہے۔ ہم میں آپس میں اختلاف ہوسکتا ہے، ہم میں آپس میں تفرقہ ہوسکتاہے لیکن خداتعالیٰ کے کلام میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔ پس جس کے ساتھ قرآن ہے وہ سچا ہے اور جس کے ساتھ قرآن نہیں وہ جھوٹا ہے۔ اگر تمہارا میرے ساتھ تعلق ہے تو تم قرآن کی وجہ سے اور اگر میرا تمہارے ساتھ تعلق ہے تو قرآن کی وجہ سے اور اگر کوئی احمدی کہلاکر مقابلہ کیلئے نکلتا ہے تو قرآن کے ذریعہ ہی اس جھگڑے کا بھی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا اُس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں امت محمدیہ کی اصلاح کیلئے تشریف لائیں گے۔ میں نے بارہا سنایا ہے کہ لدھیانہ کے ایک مولوی صاحب تھے انہوں نے حج بھی کیا ہؤا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی ان کا تعلق تھا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے بھی ملتے رہتے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ پر زیادہ شور اُٹھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی نے سخت مخالفت کرنی شروع کردی تو انہوں نے خیال کیا کہ مرزا صاحب صوفی مزاج آدمی ہیں اورمولوی محمد حسین بٹالوی تیز طبیعت کے انسان ہیں۔ مرزا صاحب نے صوفیانہ رنگ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق کوئی بات کہی ہوگی جسے مولوی محمد حسین بٹالوی نے نہ سمجھا اور اس نے مخالفت شروع کردی ورنہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ مرزا صاحب قرآن کریم کے خلاف بات کہہ دیں۔ وہ بڑے نیک آدمی ہیں، قرآن کے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتے مولوی محمد حسین کو ضرور کوئی غلطی لگی ہوگی۔ چنانچہ اس کے بعد وہ قادیان آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ آپ نے اعلان کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ درست ہے۔ انہوں نے کہا آپ تو بزرگ آدمی ہیں کیا آپ کو معلوم نہیں کہ قرآن کریم کے خلاف کوئی بات کہنا سخت ناجائز ہے۔ جب قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت ہے تو آپ قرآن کے خلاف ان کی وفات پر کیوں زور دیتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اگر قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت ہوجائے تو اور کیا چاہئے۔ میں فوراً اپنے اس دعویٰ کو واپس لینے کیلئے تیار ہوں اور میں کہہ دوں گا کہ میرا عقیدہ غلط ہے، دراصل قرآن کریم سے یہی ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ وہ کہنے لگا میں پہلے ہی کہتاتھا کہ حضرت مرزا صاحب بڑے نیک آدمی ہیں وہ کبھی غلط طریق اختیار نہیں کرتے۔ اب آپ یہ بتائیں کہ اگر میں آپ کے پاس قرآن کریم کی ایک سَو آیتیں ایسی لے آئوں جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت ہو تو کیا آپ ان کی حیات کے قائل ہوجائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا سَو آیتوں کا سوال نہیں قرآن کریم کی ایک آیت ہی حُجّت ہے۔ اگر آپ ایک آیت ہی ایسی لے آئیں جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت ہوتی ہو تو میں ان کی زندگی تسلیم کرلوں گا۔ اِس پر انہیں خیال آیاکہ شاید سَو آیتیں قرآن کریم سے ایسی نہ مل سکیں جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت ہو اس لئے پچاس آیتوں تک قائل کرلینا چاہئے اور کہنے لگے اگر سَو آیتیں نہ مل سکیں صرف پچاس آیتیں مل جائیں تو کیا پچاس آیتیں دیکھ کر آپ اپنے عقیدہ سے توبہ کرلیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا میں توپہلے کہہ چکا ہوں کہ سَو پچاس آیتوں کی قید کی کوئی ضرورت نہیں قرآن کریم کی ایک آیت بھی کافی ہے۔ خیر آہستہ آہستہ وہ دس آیتوں پر آگئے اور کہنے لگے کہ دس آیتیں تو میں ضرور لے آئوں گا۔ چنانچہ اِس گفتگو کے بعد وہ خوشی خوشی لاہور گئے۔ اُن دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل لاہور میں تھے مولوی محمد حسین بٹالوی بھی وہیں تھے اور آپس میں بڑی بحثیں ہورہی تھیں۔ مولوی محمد حسین بٹالوی یہ کہتے تھے کہ آؤ حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کا ہم حدیثوں کی رو سے فیصلہ کریں کیونکہ یہی قرآن کریم کی شارح ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے کہ قرآن اصل چیز ہے ہمیں قرآن کریم کی رو سے آپ کے دعویٰ کو دیکھنا چاہئے۔ آخر بہت بڑی ردّو کد اور بحث مباحثہ کے بعدجب لوگوں میں بددلی اور بے اطمینانی پیدا ہونے لگی تو حضرت خلیفہ اوّلؓ نے کہہ دیا کہ اچھا ہم بخاری مان لیتے ہیں اسے تم اپنے دعوے میں پیش کرسکتے ہو۔ مولوی محمد حسین بٹالوی اِس پر بہت خوش تھے کہ میں نے کچھ تو اپنی بات منوالی۔ چنانچہ ایک مجلس میں بیٹھ کر وہ ڈینگیں ماررہے تھے کہ اتنے میں لدھیانہ والے مولوی نظام الدین صاحب بھی جا پہنچے اور کہنے لگے بس اب سب جھگڑوں کا فیصلہ ہوگیا۔ آپ بحث مباحثہ ایک طرف رکھئے اور مجھے دس آیتیں ایسی لکھ دیجئے جن سے یہ ثابت ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں۔ میں وہ آیتیں لے کر حضرت مرزا صاحب کے پاس جائوں گا اور انہیں یہیں آپ کے پاس لے آئوں گا اور آپ کے سامنے انہیں اپنے عقیدہ سے توبہ کرائوں گا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے کہا بات کیا ہے کچھ تفصیل تو بتائو۔ انہوںنے کہا اصل بات یہ ہے کہ مجھے آپ سے بھی عقیدت ہے اور حضرت مرزا صاحب سے بھی عقیدت ہے۔ میں یہ پہلے ہی سمجھتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب نیک آدمی ہیں وہ قرآن کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ میں ان کے پاس گیا تھا اور میں نے انہیں کہا تھا کہ اگر قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت ہوجائے تو کیا آپ یہ دعویٰ چھوڑنے کیلئے تیار ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں؟ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ اگر قرآن کریم سے ایسا ثابت ہوجائے تو میں اپنے اس دعویٰ کو چھوڑنے کیلئے تیار ہوں اور وہ تو ایک آیت ہی کافی سمجھتے تھے مگر میں ان سے دس آیتوں کا وعدہ کر آیا ہوں پس آپ جلدی سے مجھے ایسی دس آیتیں لکھ دیں جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت ہوتی ہو، تاکہ میں انہیں جاکر دکھادوں۔ مولوی محمد حسین صاحب یہ گفتگو سُن کر بڑے جوش سے بول اُٹھے تجھ بیوقوف سے کس نے کہا تھا کہ تُو اِس بحث میں کُود پڑے۔ میں دو مہینے بحث کرکرکے انہیں حدیث کی طرف لایا تھا اور تو پھر قرآن کی طرف لے گیا۔ وہ آدمی نیک تھے یہ سُنتے ہی کہنے لگے مولوی صاحب !اچھا یہ بات ہے! اچھا! تو پھر جِدھر قرآن ہے اُدھر ہی میں ہوں۔ چنانچہ اس کے بعد وہ قادیان آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرلی۔
غرض قرآن ہمارے لئے حُجّت ہے اور جب قرآن کریم ہمارے لئے حجت ہو تو ہمیں کسی جھگڑے میں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر قرآن کریم ہمیں جھوٹا کہتا ہو توہمیں اس بات کا اقرار کرلینا چاہئے کہ ہم جھوٹے ہیں اور اگر قرآن کریم ہمیں سچا قرار دیتا ہو تو پھر کون ہے جو ہم پر فتح پاسکے۔ قرآن کریم کیلئے دنیا میںغلبہ مقدر ہے اور قرآن کریم کے پہلے رکوع میں ہی اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا انکشاف فرمایاہے کہ قرآن تو الگ رہا قرآن کریم پر عمل کرنے والے بھی مفلح ہیں۔ یعنی جس طرح قرآن کیلئے غلبہ مقدر ہے اسی طرح قرآن کریم پر عمل کرنے والوں کیلئے بھی غلبہ مقدر ہے۔ پس جو قرآنی ہتھیار چلاتا ہے وہی دشمن پر غالب رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُؤْقِنُوْنَ۔ یعنی صداقت کا راستہ تلاش کرنے کیلئے سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کیا کہتا ہے کیونکہ قرآنی الہام باقی تمام الہامات پر مقدم ہے۔ اس کے بعد اس کے سِوا دوسری وحیوں پرغور کرنا چاہئے کہ وہ کیا بتاتی ہیں۔ پس جس بات کی تائید قرآن کریم کی وحی اورپہلی اور پچھلی وحیاں کریں اس کے سچا ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ کسی انسان کی طاقت میں نہیں کہ وہ مثلاً حضرت موسیٰؑ کی زبان سے اپنی تائید میں ایک بات نکلوائے۔ حالانکہ وہ پیدا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دو ہزار سال بعد ہؤا ہو۔ یہی دلیل قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کی صداقت کے ثبوت میں بھی پیش کی گئی ہے اورکہا گیا ہے کہ اے محمد ! تیری بعثت کی خبر تو موسیٰ نے بھی اپنی کتاب میں دی ہے اگر تُو راستباز نہیں تو کیا تُو حضرت موسیٰ کے وقت میں بھی موجود تھا یا کیا حضرت موسیٰ تیرے زمانہ میں ہوئے ہیں کہ تُو نے ان سے مشورہ کرکے یہ پیشگوئی ان سے لکھوالی۔ جب یہ دونوں صورتیں نہیں تو صاف معلوم ہؤا کہ یہ خبر خداتعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی۔ تو قرآن کریم اور پہلی اور پچھلی وحیاں ایک مومن کیلئے مشعل راہ ہیں۔ جدھر یہ تینوں وحیاں لے جاتی ہوں گی وہی سچا راستہ ہوگا اور جس کے خلاف یہ تینوں وحیاں ہوں اُس کے جھوٹا ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوگا۔
پس اس اصل کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے کسی ذاتیت کا سوال درمیان میں حائل نہیں رہتا۔ اگر خدا کا کلام ہمارے خلاف پڑتا ہو تو اس میں کیا شبہ ہے کہ ہماری شکست یقینی ہے۔ لیکن اگر خدا کا کلام ہمارے ساتھ ہو تو چونکہ خدا کے کلام کے لئے فتح اور غلبہ مقدرہے اس لئے ہمارے لئے بھی فتح اور غلبہ مقدر ہے۔ پھر اسی صورت میں دشمن سے ڈرنے کے کوئی معنے ہی نہیں۔ ایک بچہ اگر کسی پہلوان پر حملہ کرے تو وہ پہلوان اس کے حملہ سے نہیں ڈرتا بلکہ سمجھتاہے کہ یہ میری ایک ٹھوکر کی مار ہے۔ اسی طرح جس کے ساتھ قرآن ہو، جس کے ساتھ اگلی پچھلی وحیاں ہوں اس کے ڈرنے اور خائف ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں۔
پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے ایمانوں کو دیکھیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول کو سمجھ کر مانا ہے تو پھر انہیں فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کا خدا ان کے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خدا ہو کون ہے جو اُس پر ہاتھ ڈال سکے۔ دنیا ٹل سکتی ہے لیکن خدا کی باتیں کبھی نہیں ٹلتیں۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے متعلق بھی خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اس وقت ایسے ایسے ابتلا آئے کہ مومنون کی بنیادیں ہل گئیں اور وہ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا ۱۰؎ کے مصداق بن گئے۔ ان کی ہستیوں پر ایک شدید زلزلہ آیا اور لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اے یثرب کے رہنے والو اب تمہاری شکست میں کوئی شبہ نہیں، اب تم یقینی طور پر مارے گئے۔مگر پھر وہی جو یہ کہتے تھے کہ تم مارے گئے بلوں میں چُھپتے پھرتے اور ایسے بھاگے کہ انہیں سرچھپانے کی جگہ نہ ملی۔
پس خداتعالیٰ کی باتوں پر یقین رکھو اور اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لوکہ ہمارا کوئی مقابلہ بھی نفسانیت کی وجہ سے نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارا مقابلہ اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہے اور اللہ تعالیٰ کیلئے جو مقابلہ ہو اس میں اگر ہماری شکست میں اللہ تعالیٰ کے دین کی فتح ہو تو ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ ہمیں شکست ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے کلام کو فتح۔ لیکن اگر ہماری فتح میں اس کی فتح ہے تو پھر دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی ہماری فتح کو شکست میں تبدیل نہیں کرسکتی۔ میں تمہارے ایمانوں کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن جو ایمان خداتعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے اور جو خبریں خدا تعالیٰ نے مجھے دیں اور اپنے وقت پر پوری ہوئیں ان کو دیکھتے ہوئے میں ایک لمحہ کیلئے بھی اس امر میں شک نہیں کرسکتاکہ کسی میدان میں خداتعالیٰ کے فضل سے مجھے شکست نہیں ہوسکتی ۔ میں نے خداتعالیٰ کی باتوں کا اتنا تجربہ کیا ہے کہ میں اس یقین پر پورے طور پر قائم ہوں اور یہ یقین مجھے آج حاصل نہیں ہؤا کہ لوگ کہیں چونکہ تمہارے ساتھ بہت لوگ ہیں اس لئے ان کو دیکھ کر یہ دعویٰ کیا جارہا ہے۔ میں نے اُس وقت بھی اپنے دشمنوں سے مقابلہ کیا جب میرے ساتھ بہت تھوڑے لوگ تھے اور اُس وقت بھی اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیا جب میں اکیلا تھا اور کوئی میرے ساتھ نہ تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانہ میں لوگ مجھے ستاتے، دکھ دیتے، مجھ پر الزامات اور بُہتانات لگاتے اورکہتے کہ یہ خلافت کا مؤید اس لئے نہیں کہ سمجھتا ہے کہ خلافت کوئی ضروری چیز ہے بلکہ خلافت کا اس لئے مؤید ہے کہ خود خلیفہ بننا چاہتا ہے۔ میں ان تمام باتوں کو سنتا اور برداشت کرتا تھا اور خدا شاہد ہے کہ بسااوقات میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا بھی کی کہ خدایا !اگر میر ا وجود سلسلہ کیلئے کسی لحاظ سے مُضِرّ ہے اور میں کوئی ایسا کام کررہا ہوں جس سے سلسلہ کو نقصان پہنچنے والا ہے تو میرا وجود درمیان سے ہٹادے۔مگر باوجود میری ان دعائوں کے میرے خدا نے مجھے ہر میدان میں فتح دی۔پس یہ مت خیال کرو کہ کسی قسم کا حملہ چاہے وہ کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو تمہیں نقصان پہنچاسکتاہے۔ اگر تم سچے مومن ہو تو کوئی حملہ تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتا اور دشمن خواہ کسی راہ سے آئے وہ دیکھے گاکہ خدا کے فرشتے ہماری راہ میں کھڑے ہیں اور ان کی تلواروں کا مقابلہ کرنے کی وہ اپنے اندر تاب نہیں رکھتا۔
آج ہی جب کہ میں تازہ فتنوں کے متعلق غور کررہا اور ان کے مقابلہ کی تجاویز سوچ رہا تھا تو خداتعالیٰ نے علوم کا ایک دریا مجھے عطا فرمایا اور ایسا وسیع علم دیا جو میرے وہم اور گمان میں بھی نہیں تھا اور میں سمجھتا ہوں اگر دشمن نے ہمارا مقابلہ کیا تو خداتعالیٰ کی کتاب اُس کے منہ پر ایسا تھپڑ مارے گی کہ اُس کے دانت توڑ کر رکھ دے گی اور وہی حملے جو وہ ہم پر کرنا چاہتا ہے، اُس کی اپنی ہلاکت اور بربادی کا موجب بن جائیں گے۔ لیکن مومن کبھی پہلے حملہ نہیں کرتا وہ انتظار کرتاہے کہ دشمن حملہ کرے ۔اور دشمن اپنے د ل میں یہ سمجھتا ہے کہ یہ بزدل ہے مگر وہ انتظار کرتا ہے اور انتظار کرتا چلاجاتا ہے تاکہ انتہائی کوشش جو اس کے ایمان کے بچائو کیلئے کی جاسکتی ہے وہ کرلی جائے اور اس کیلئے کسی قسم کے عُذر کا موقع باقی نہ رہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اپنی حرکات سے باز نہ آئے تو اس کی ذمہ داری خود اس پر عائد ہوتی ہے کسی اور پر عائد نہیں ہوتی۔
پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں مطمئن ہوں اور ہر شخص جو تم میں سے سچا ایمان رکھتا ہے وہ دیکھے گا بلکہ ابھی تم میں سے اکثر لوگ زندہ ہوں گے کہ تم ان تمام فتنوں کو خس و خاشاک کی طرح اُڑتے دیکھو گے اور اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کی مدد سے سلسلہ احمدیہ ایک مضبوط چٹان پر قائم ہوجائے گا۔
(الفضل ۹ ؍ جولائی ۱۹۳۷ئ)
۱؎ مبرھن: دلیل سے ثابت کیا ہوا۔ ثابت۔ مضبوط
۲،۳؎ البقرۃ: ۲:۳ ۴؎ البقرۃ: ۴
۵؎ البقرۃ: ۴
۶؎ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۲۷۹مطبوعہ مصر ۱۹۳۶؁ء
۷؎ البقرۃ :۴
۸؎ البقرۃ :۵
۹؎ البقرۃ :۶
۱۰؎ الاحزاب :۱۲

۲۰
فتنوں کا دروازہ بند کرنے کے اصول
(فرمودہ ۲؍ جولائی ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
اِس وقت جو فتنہ جماعت کے سامنے ہے قدرتی طور پر جماعت کے دوستوں کی طبائع میں اس کے متعلق ہیجان ہے۔ بعض طبائع اپنے اخلاص اور تقویٰ کی وجہ سے اس بات پر حیران ہیں کہ یہ لوگ جو بظاہر احمدیت کی خدمت کر رہے تھے کس طرح احمدیت کے فوائد کے مخالف کھڑے ہو گئے اور کیونکر وہ اس ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے جس کی امید جماعت کے دوست ان پر رکھتے تھے۔بعض طبائع ہیں جو اس بات پر خوش ہیںکہ انہیں ان میں سے بعض کے حالات پہلے معلوم تھے اور ان کی بناء پر وہ یہ امید رکھتے تھے کہ کسی نہ کسی دن یہ لوگ ٹھوکر کھا جائیں گے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس فکر اور خیال میں پڑے ہیں کہ ان لوگوں کو جماعت سے خارج کرنا دوسرے لوگوں کیلئے ٹھوکر کا موجب تو نہیں ہوگااور کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ان کے مقابلہ میں کچھ نرمی کی جاتی اور ان کو تو بہ کا موقع دیا جاتا۔
غرض مختلف قسم کے خیالات ہیں جو جماعت میں پائے جاتے ہیں لیکن زیادہ تر حصہ جماعت کا وہی ہے جو سمجھتا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کا اخراج بہر حال جماعت کیلئے مفید ہے اور یہ کہہ رہے ہیں کہ گو ان لوگوں نے جماعت کی امیدوں کے خلاف نمونہ دکھایا ہے مگر جب ان کا نمونہ ظاہر ہو گیا تو ان کے خلاف اس قسم کا سلو ک ضروری تھا اور اگر کوئی اور بھی ایسے لوگ ہوں تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے۔ جماعت کی طرف سے کثرت کے ساتھ اس قسم کے پیغام آئے ہیں کہ یہ وقت ہے کہ اگر اور کوئی ایسے لوگ ہوں تو ان کو بھی خارج کر دیا جائے اور اس پھوڑے کو لمبے عرصے تک نہ پکنے دیا جائے۔ جو لوگ ان لوگوں کی طرف سے بعض باتیں ایسی جانتے ہیںجو ان کی نگاہ میں انہیں سلسلہ کے مناسب حال قرار نہ دیتی تھیں، وہ اس نقطہ نگاہ سے مطمئن بھی ہیں کہ ہم پہلے ہی جانتے تھے یہ نکل جائیں گے۔تیسرا گروہ جو باوجود اخلاص کے بوجہ نرم طبیعت یا بوجہ اپنی منافقت کے ان سے ہمدردی رکھتا ہے یہ کہتا ہے کہ کیوں نہ ان کے ساتھ ایسا برتائو کیا گیا جس سے یہ نتیجہ نکلتا اور یہ لوگ رُک جاتے۔ ان میں سے ایک حصہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے، مخلص لوگوں کا ہے۔ وہ اپنی افتادِ طبیعت کی وجہ سے ایسے خیالات ظاہر کرنے پر مجبور ہے۔ بعض طبائع قدرتی طور پر ایسی نرم اور ڈرپوک ہوتی ہیں کہ وہ سمجھتی ہیں نہ معلوم کیا ہو جائے گا۔ بسااوقات ان کی یہ رائے بوجہ ناواقفیت کے ہوتی ہے۔وہ حالات کی اہمیت کو نہیں جانتے ہوتے۔ اور نہیں جانتے کہ سوائے اس رستہ کے جو اختیار کیا گیا کوئی اور باقی ہی نہ تھا۔ لیکن ایک حصہ ایسے لوگوں کا بھی ہوتا ہے جن کی طبیعت میں شبہ اور شک ہوتا ہے۔ وہ شک میں ہی پیدا ہوتے ہیں، شک میںہی جوان،اور پھر شک میںہی بوڑھے اور شک میں ہی مرجاتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر شادی کیلئے آپ سے مشورہ کرنا چاہیں اور جو حالات وہ بیان کریں ان سے پتہ لگے کہ سوائے شادی کرنے کے ان کے لئے کوئی چارہ کار ہی نہیں اور سوائے اس رشتہ کے جو اُن کے سامنے ہے اور کوئی رشتہ اُن کو مل ہی نہیں سکتا اور آپ کہہ دیں کہ بہت اچھا شادی کر لیں تو یہ فقرہ سنتے ہیں ان کی طبیعت بدل جائے گی اور وہ کہنا شروع کردیں گے کہ جی اس میں فلاں خطرہ بھی تو ہے، فلاں نقصان کا بھی تو احتمال ہے اور ان کی یہ باتیں سن کر اگر آپ خیال کریں کہ شاید میں نے ان کے حالات سمجھنے میں غلطی کی ہے اور وہ کہہ دیں کہ اچھا آپ وہاں شادی نہ کریںتو وہ معاً کہیں گے کہ جی!آپ نے میری یہ مجبوری تو سُنی ہی نہیں اور فلاں معذوری پر غور ہی نہیں کیا،ان کے ہوتے ہوئے میں رشتہ سے انکار کیونکر کر سکتا ہوں۔ گویا جب بھی آپ کوئی رائے ظاہر کریں وہ جھٹ اس کے اُلٹ ہو جائیں گے۔ خدا تعالیٰ نے ان کی طبیعت میں شک پیدا کیا ہوتاہے۔وہ شک میں ہی زندگی بسر کرتے اور شک میں ہی مر جاتے ہیںاور ایسی مشکوک طبائع کا کوئی علاج نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ ان کے لئے دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمزور طبیعت کی وجہ سے ان کو ایمان سے محروم نہ کر دے۔ منافق طبع ان ایمانداروں کے پردے کے پیچھے لڑتے ہیںاور جب بعض مومن بھی ایسی باتیں کر رہے ہوتے ہیں کسی کو جرأت نہیں ہوتی کہ منافق کو ایسی باتوں کیلئے منافق کہہ سکے۔ یہ کمزور طبع لوگ گویا منافقوں کے امام ہوتے ہیں۔ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وََّرَاِئہٖ۱؎ منافق کیلئے یہ ڈھال کا کام دیتے ہیںاور ان کی وجہ سے کوئی کسی منافق پر اعتراض نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ اپنی بدقسمتی کی وجہ سے منافق کیلئے ڈھال بن جاتے ہیں اور ہمیشہ یہی لوگ فتنوں کو لمبا کرنے کا موجب ہؤا کرتے ہیں۔ بظاہریہ نرم دل اور رحم دل مصلح سمجھے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی کمزوری ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے میں نے بار ہا سنا ہے اور سینکڑوںصحابہؓ ابھی ہم میں ایسے زندہ ہیںجنہوں نے سنا ہوگا کہ آپ فرمایا کرتے تھے بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ وہ اپنی طبیعت کی اُفتاد کی وجہ سے کوئی صحیح طریق اختیار نہیں کرسکتیں۔ باوجود اپنی نیک نیتی اور نیک ارادوں کے آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص تھا اُس نے کسی دوست سے کہا کہ میری لڑکی کیلئے کوئی رشتہ تلاش کرو۔ کچھ روز کے بعد اُس کا دوست آیا اور کہا میں نے موزوں رشتہ تلاش کر لیا ہے۔ اُس نے پوچھا لڑکے کی کیا تعریف ہے؟ وہ کہنے لگا لڑکا بڑا ہی شریف اور بھلا مانس ہے۔ اس نے کہا کوئی اور حالات اس کے بیان کرو ۔ اس نے جواب دیا بس جی اور حالات کیا ہیں، بے انتہا بھلا مانس ہے۔پھر اس نے کہا کہ کوئی اوربات اس کی بتائو۔ اس نے جواب دیا کہ اور کیا بتائوں بس کہہ جو دیا کہ وہ انتہا درجہ کا بھلا مانس ہے۔ اس پر لڑکی والے نے کہا میں اس سے رشتہ نہیں کر سکتا جس کی تعریف سوائے بھلا مانس ہونے کے اور ہے ہی نہیں۔ کل کو اگر کوئی میری لڑکی کو ہی لے جائے تو وہ اپنی بھلا مانسی میں ہی چُپکا بیٹھا رہے گا۔ تو بعض لوگ ایسے ہوتے ہیںکہ ان میں صرف بھلے مانسی ہی ہوتی ہے، غیرت اور دین کا جوش نہیں پایا جاتا۔وہ بوجہ نیک نیت ہونے کے مومن تو ضرور کہلاتے ہیںمگر ان کی بھلے مانسی خود ان کے لئے اور جماعت کیلئے بھی مُضِرّ پڑا کرتی ہے۔
ان مختلف الخیال لوگوں میں سے جن میں سے پہلے خیال کے لوگ جماعت میں بہت زیادہ ہیں اور جن کی طرف سے درخواستیں آرہی ہیں کہ ایسے لوگ اگر جماعت میںاور بھی ہوںتو ان کو بھی نکال دیا جائے، ان کو میں مطلع کرتا ہوں کہ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب میں ایسے سب لوگوں کو جن کا جُرم ثابت ہو نکالتا جاؤں گا اب ان پر رحم کرنا جماعت کے ساتھ دشمنی ہے مگر ایسے لوگوں کے خلاف ثبوت ضرور چاہئے۔ وہ دوست جو مجھے ایسے مشورے لکھ کربھیجتے ہیںانہیں چاہئے کہ ایسے امور مجھ تک پہنچائیں۔ ثبوت کے بغیر میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتاکیونکہ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ساری برکت خداتعالیٰ اور رسول کریمﷺ کی اطاعت میں ہے۔ ہاں اگر مجھے ثبوت مل جائے تو امید ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے گا کہ اس کے اور اس کے رسول کیلئے نڈر ہو کر میں ان کو قربان کردوں اور ذرا بھی پرواہ نہ کروں۔
اس فتنہ کے متعلق جو تفاصیل ظاہر ہو رہی ہیں ان پر سلسلہ کے علماء تقریریں کر رہے اور مضامین لکھ رہے ہیں۔ یہ کام بھی اپنی ذات میں نہایت اہم ہے اور جماعت کے علماء کا فرض ہونا چاہئے کہ اس قسم کے فتنوں کی ہوا پاتے ہی مقابلے کے لئے تیار ہو جائیں۔ کیونکہ یہ سلسلہ نہ میرا ہے اور نہ ان کا ، یہ سلسلہ خدا کا سلسلہ ہے اور خدا کا ہونے کے لحاظ سے ہم سب کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کریں۔ اس کے خدائی سلسلہ ہونے کا ثبوت اس کثرت اور تواتر سے ہمارے سامنے آچکا ہے کہ وہ جس نے احمدیت کو سوچ سمجھ کر مانا ہے اپنے رشتہ داروں کی خاطر نہیں، یا وہ احمدی والدین کا غافل بچہ نہیں، اس کے سامنے اس کے لاکھوں ثبو ت ہیں کہ یہ خدائی سلسلہ ہے اور اسی کے ہاتھوں سے چل رہا ہے۔ انسانوں نے لاکھوں کوششیں اسے مٹانے کی کیں مگر خدا نے اسے مٹانے سے انکار کردیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ یُرِیْدُوْنَ اَنْ لاَّ یَتِمَّ اَمْرُکَ وَاللّٰہُ یَأْبٰی اِلَّا اَنْ یُّتِمَّ اَمْرَکَ ۲؎ یعنی لوگ آئے اور چاہا کہ تیرے اس سلسلہ کو مٹادیں مگر خدا نے ان کی اس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور وہ اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ پس ہم نے اپنی جانوں میں، اپنے دوستوں میں، اپنے محلہ والوں ، گائوں والوں کی جانوں میں اور ساری دنیا کے نفوس میں اور زمین میں اور آسمان میں ایسے تواتر سے نشان دیکھے ہیں کہ شیطان ہی ان کا انکار کرسکتا ہے۔ یا پھر وہ ازلی نابینا جسے سچائی نظر ہی نہیں آسکتی۔ ہم نے صرف وہی نشان نہیں دیکھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر ہوئے بلکہ وہ بھی جو ہمارے لئے اور ہمارے دوستوں کیلئے ظاہر ہوئے ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے ہم کسی تردّد یا شک میں نہیں پڑ سکتے ہمیں جو فتح حاصل ہوئی ہے وہ اسی ایمان کی وجہ سے ہے جو ہمیں اپنے خدا پر حاصل ہے۔ دشمن اس چیز کیلئے لڑتا ہے جس پر اسے یقین نہیں لیکن ہم اُس چیز کیلئے لڑتے ہیں جو ہمیں سورج سے بھی زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دشمن ہمارے ساتھ لڑنے لگتا ہے تو اُس کا دل کانپتا ہے مگر جب ہم لڑنے لگتے ہیں تو ایک مضبوط چٹان کی طرح قائم ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ اگر ہم اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے گرنے لگے تو خداتعالیٰ خود کھڑا کردے گا اور اُس کی تائید ہمیں قوت اور طاقت عطا کردے گی۔ بچہ اپنی ماں کی گود میں دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی دھمکی دیتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک اس کی ماں ہی سب سے بڑی ہوتی ہے اور ہم تو ہیں ہی اُس کی گود میں جس سے بڑا فی الواقعہ کوئی نہیں۔ پس ہم کس طرح کسی سے ڈر سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے فضل اور رحم سے آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل زمین و آسمان ہماری خدمت کیلئے لگادیئے گئے ہیں اور کوئی دُنیوی چیز ہمیں نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ دنیا میں سب سے زیادہ تباہ کن چیز آگ ہی ہے مگر خداتعالیٰ کے کلام میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ’’آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے‘‘۳؎۔ اس سے ظاہر ہے کہ آگ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہی نہیں بلکہ حضورؑ کے غلاموں کی بھی غلام ہے۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ صرف تُو ہی ابراہیمی نہیں بلکہ ابراہیمی نور تیری جماعت کے اندر بھی داخل کیا گیا ہے اور وہ بھی ظلی طور پر ابراہیم ہوگئی ہے۔
پھر یہ نشانات کاسلسلہ بند نہیں ہوگیا بلکہ اب بھی اس کثرت اور تواتر سے جاری ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ یہ فتنہ آج ظاہر ہؤا ہے مگر قبل از وقت دُور دراز علاقوں میں احمدیوں کو ایسی خوابیں آنی شروع ہوگئی تھیں۔ میں سندھ میں تھا کہ ڈیرہ دون یا منصوری سے ایک دوست کی چٹھی آئی جس میں ایک خواب درج تھی اُس دوست نے لکھا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں تاکہ آپ کا لیکچر سُنیں۔ جس کے معنے یہ تھے کہ قریب کے زمانہ میں مجھے دینِ اسلام اور سلسلہ کی حفاظت کیلئے بولنا پڑے گا اور گویا اُس وقت اِن دونوں کی روحیں میری مدد کیلئے نازل ہوں گی۔
پھر ایک اور دوست کی سینکڑوں میل سے چِٹّھی آئی تھی ان کے رئویا کو میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا مگر تفصیلاً نہیں کیونکہ مصلحت نہ تھی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ میں نے دیکھا آنحضرت ﷺ ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ ہیں اور جماعت کے بعض دوست بھی ساتھ ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے سب کو کھڑا کیا اور فرمایا کیا میں نے جسّاسہ سے پناہ مانگنے کیلئے نہیں کہا تھا (جسّاسہ دجال ہی کا ایک نام ہے۴؎ جس کا احادیث میں ذکر ہے)۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ سب کہو ہاں آپ نے فرمایا تھا۔ جسّاسہ اسے کہتے ہیں جو تجسس کرکے عیب نکالتا ہے۔
پھر میں نے اپنے اپریل ۱۹۳۷ء کے خطبہ میںبھی بیان کیا تھا کہ میری ہمشیرہ عزیزہ مبارکہ بیگم صاحبہ نے ایک رئویا دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک تخت پر کھڑے ہیں جو کانپ رہا ہے اور آپ لوگوں سے فرمارہے ہیں کہ پندرہ بیس روز یہ دعا کرو رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔ کیا اس سے معلوم نہیں ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جماعت کے موجودہ طریق کو صحیح قرار دیتے ہیں اور بعض وہ لوگ جو جماعت کو دوسری طرف لے جانا چاہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ آپ نے فرمایا کہ دعا کرو اے اللہ! ہمیں اس ہدایت پر قائم رکھ اور بہکانے والوں سے بچا۔
۴؍ جنوری ۱۹۳۵ء کے خطبہ میں مَیں نے اپنا ایک رئویا بیان کیا تھا جو ’’الفضل‘‘ میں چھپ چکا ہے اور جو اس طرح ہے کہ میں نے دیکھا ایک پہاڑی کی چوٹی ہے جس پر جماعت کے کچھ لوگ ہیں ۔ میری ایک بیوی اور بعض بچے بھی ہیں۔ وہاں جماعت کے سرکردہ لوگوں کی ایک جماعت ہے جو آپس میں کبڈی کھیلنے لگے ہیں۔ جب وہ کھیلنے لگے تو کسی نے مجھے کہا یا یونہی علم ہؤا کہ انہوں نے یہ شرط باندھی ہے کہ جو جیت جائے گا خلافت کے متعلق اُس کا خیال قائم کیا جائے گا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس فقرہ کا مطلب یہ تھا کہ جیتنے والے جسے پیش کریں گے وہ خلیفہ ہوگا یا یہ کہ اگر وہ کہیں گے کہ کوئی خلیفہ نہ ہو تو کوئی بھی نہ ہوگا۔ بہرحال جب میں نے یہ بات سُنی تو میں ان لوگوں کی طرف گیا اور میں نے ان نشانوں کو جو کبڈی کھیلنے کیلئے بنائے جاتے ہیں مٹادیا اور کہا کہ میری اجازت کے بغیر کون یہ طریق اختیار کرسکتا ہے یہ بالکل ناجائز ہے اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس پر کچھ لوگ مجھ سے بحث کرنے لگے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ اکثریت پہلے صرف تلعّب کے طور پر یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کون جیتتا ہے اور خلیفہ کی تعیین کرتا ہے مگر میرے دخل دینے پر پہلے جو لوگ خلافت کے مؤید تھے وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ گویا میرے روکنے کو انہوں نے اپنی ہتک سمجھا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ میرے ساتھ صرف تین چار آدمی رہ گئے اور دوسری طرف ڈیڑھ دو سَو ۔ اُس وقت میں سمجھتا ہوں کہ گویا احمدیوں کی حکومت ہے اور میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے خونریزی کے ڈر سے بھی میں پیچھے قدم نہیں ہٹاسکتا اس لئے آئو ہم ان پر حملہ کرتے ہیں۔ وہ مخلصین میرے ساتھ شامل ہوئے۔ مجھے یاد نہیں کہ ہمارے پاس کچھ ہتھیار تھے یا نہیں۔ بہرحال ہم نے ان پر حملہ کیا اور فریقِ مخالف کے کئی آدمی زخمی ہوگئے اور باقی بھاگ کر تہہ خانوں میں چھپ گئے۔ اب مجھے خیال پیدا ہؤا کہ یہ لوگ تو تہہ خانوں میں چُھپ گئے ہیں۔ ہم ان کا تعاقب بھی نہیں کرسکتے اور اگر یہاں کھڑے رہتے ہیں تو یہ لوگ کسی وقت موقع پاکر ہم پر حملہ کردیں گے اور چونکہ ہم تعداد میں تھوڑے ہیں، ہمیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اگر ہم یہاں سے جائیں تو یہ لوگ پُشت سے آکر ہم پر حملہ کردیں گے۔پس میں حیران ہوں کہ اب ہم کیا کریں۔ میری ایک بیوی بھی ساتھ ہیں اگرچہ یہ یاد نہیں کہ کونسی ہیں اور ایک چھوٹا لڑکا انور احمد بھی یاد ہے کہ ساتھ ہے میرے ساتھی ایک زخمی کو پکڑ کر لائے ہیں جسے میں پہچانتا ہوں اور جو اَب وفات یافتہ ہے اور بااثر لوگوں میں سے تھا۔ میں نے اسے کہا کہ تم نے یہ کیا غلط طریق اختیار کیا اور اپنی عاقبت خراب کرلی۔ مگر وہ ایسا زخمی ہے کہ مررہا ہے ۔ مجھے یہ درد اور گھبراہٹ ہے کہ اس نے یہ طریق کیوں اختیار کیا۔ مگر جواب میں اُس کی زبان لڑکھڑائی اور وہ گِرگیا۔ اتنے میں پہاڑی کے نیچے سے ایک شور کی آواز پیدا ہوئی اور ایسا معلوم ہؤا کہ تکبیر کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں۔ میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا شور ہے؟ تو اس نے بتایا کہ یہ جماعت کے غرباء ہیں۔ ان کو جب خبر ہوئی کہ آپ سے لڑائی ہورہی ہے تو وہ آپ کی مدد کیلئے آئے ہیں۔ میں خیال کرتا ہوں کہ جماعت تو ہمیشہ غرباء سے ہی ترقی کیا کرتی ہے۔ یہ خداکا فضل ہے کہ غرباء میرے ساتھ ہیں مگر تھوڑی دیر کے بعد تکبیر کے نعرے خاموش ہوگئے اور مجھے بتایا گیا کہ آنے والوں کے ساتھ فریب کیا گیا ہے۔ انہیں کسی نے اشارہ کردیا ہے کہ اب خطرہ نہیں اور وہ چلے گئے ہیں۔ مجھے کوئی مشورہ دیتا ہے کہ ہمارے ساتھ بچے ہیں اس لئے ہم تیز نہیں چل سکیں گے آپ نیچے جائیں آپ کو دیکھ کر لوگ اکٹھے ہوجائیں گے اور آپ اِس قابل ہوں گے کہ ہماری مدد کرسکیں۔ چنانچہ میں نیچے اُترتا ہوں اور غرباء میں سے مخلصین کی ایک جماعت کو دیکھتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ میں یہاں اس لئے آیا ہوں کہ تا مخلصین اکٹھے ہوجائیں۔ تم اوپر جائو اور عورتوں اور بچوں کو بہ حفاظت لے آئو۔ اس پر وہ جاتے ہیں اور اتنے میں میں دیکھتا ہوں کہ پہلے مرد اُترتے ہیں پھر عورتیں لیکن میرا لڑکا انور احمد نہیں آیا۔ پھر ایک شخص آیا اور میں نے اُسے کہا کہ انور احمد کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ وہ بھی آگیا ہے۔ پھر جماعت میں ایک بیداری اور جوش پیدا ہوتا ہے۔ چاروں طرف سے لوگ آتے ہیں۔ ان جمع ہونے و الے لوگوں میں سے شہر سیالکوٹ کے کچھ لوگوں کو پہچانا ہے۔ ان کے ساتھ کچھ وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو باغی تھے اورمیں انہیں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتحاد کے ذریعہ طاقت دی تھی۔ اگر تم ایسے فتنوں میں پڑے تو کمزور ہوکر ذلیل ہوجائو گے۔ کچھ لوگ مجھ سے بحث کرتے ہیں میں انہیں دلائل کی طرف لاتا ہوں اور یہ بھی کہتا ہوں کہ اس سے جماعت کا تو کچھ نہیں بگڑے گا البتہ اس کے وقار کو جو صدمہ پہنچے گا اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور تم ذمہ وار ہو گے۔ اس پر بعض لوگ کچھ نرم ہوتے ہیں مگر دوسرے پھر ان کو ورغلادیتے ہیں اور اسی بحث مباحثہ میں میری آنکھ کُھل جاتی ہے۔
تو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اس فتنہ کی جو خلافت کے متعلق اٹھایا جانے والا تھا، اطلاع دے دی تھی۔ مگر یہ پُرانے خواب ہیں ۔ مَیں ایک تازہ خواب سناتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت ایک رنگ میں چل رہی ہے۔ مصری صاحب کے اعلان کے بعد پانچ دن کی بات ہے یعنی اتوار اور ہفتہ کی درمیانی شب کی کہ میںجاگ رہا تھا اور کُلّی طور پر بیدار تھا کہ یکدم ربودگی کی حالت طاری ہوئی اور الٰہی تصرف کے ماتحت کچھ فقرے میرے دماغ پر نازل ہونے شروع ہوئے۔ پہلے ایک دو تو جلدی گزرگئے مگر تیسرا یہ تھا کہ ’’آنحضرت ﷺ تشریف لائے‘‘ اور بے اختیار زبان سے نکلا ’’مبارک ہو، مبارک ہو‘‘ اور میرے دل پر یہ اثر ہے کہ یہ ’’مبارک ہو، مبارک ہو‘‘ میرے نفس کی طرف سے ہے اور پہلا حصہ الہامی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت کی رُوح اِس فتنہ کو دبانے کیلئے آرہی ہے۔ اس کے بعد میں سوگیا اور میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک دشمن نے مجھ پر حملہ کیا ہے اور میں نے اُس کا گلا گھونٹ دیا ہے اور وہ بیہوش ہوکر گر گیا ہے۔ یہ معلوم نہیں مرگیا ہے یا زندہ ہے ۔ پھر تیسرا نظارہ بدلا اور میں نے دیکھا کہ کوئی شخص ہمارے مکان میں گُھس آیا ہے اور میں اُسے پکڑنے کیلئے اُٹھا ہوں۔ مگر میری آنکھوں پرکنٹوپ پڑا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہ ہو وہ مجھ پر حملہ کردے کیونکہ میری آنکھوں پر توکنٹوپ ہے۔ اس پر میں نے کنٹوپ اُتارنا شروع کیا حتیٰ کہ میری آنکھیں بالکل ننگی ہوگئیں۔ مگر اتنے میں وہ بھاگ گیا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ابھی کچھ مخفی مخالف ہیں اور ۱۹۳۵ء والے رئویا میں یہ دکھایا گیا تھا کہ بعض مخالف بِلوں میں چُھپ جائیں گے اور بعض کے زخمی ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ ظاہرہوجائیں گے۔ بہرحال وہ چُھپ جائیں یا ظاہر ہوں ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت کا وعدہ ہے۔ ہمارا خدا دیکھنے والا ہے وہ اگر چُھپیں بھی تو کہاں چُھپ سکتے ہیں۔ انہیں ظاہر کراکے یا تو وہ انہیں ہمارے ہاتھوں سے سزا دے گا یا اندر ہی اندر طاعون کے چُوہوں کی طرح انہیں ماردے گا اور کسی کو پتہ تک نہیں ہوگا۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ وہ اگر چاہے تو ان کے ایمانوں کو سلب کرلے،ا ن پر روحانی موت وارد کردے اور وہ خود ہی بیعت توڑنے کا اعلان کردیں یا ان کو ذلّت دے کر ضرر پہنچانے کے قابل ہی نہ رہنے دے۔ غرضیکہ وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔
بہرحال یہ فتنہ ایک تو عارضی اور مقامی حیثیت رکھتا ہے جس کا مقابلہ ہمارے علماء کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کب تک ان کو کرنا پڑے گا۔ مگر ہر عارضی اور مقامی فساد کا ایک حصہ مستقل بھی ہوتا ہے۔ مثلاً کھانسی ہے جب بھی کسی کو کھانسی ہو یہ خیال نہیں کرلینا چاہئے کہ گلے کی سوزش سے ہے بلکہ بعض اوقات جسم کی بناوٹ میں ہی کوئی ایسا نقص ہوتا ہے جس سے کھانسی دورنہیں ہوتی۔ پس ہمیں غور کرنا چاہئے کہ اس فتنہ کا کوئی مستقل اور وسیع پہلو بھی ہے یا نہیں اور اگر کوئی ہو تو اس کا بھی علاج کرنا چاہئے۔ جس طرح کسی شخص کے مکان کی چھت ٹپکے تو اس کا عارضی علاج تو یہ ہے کہ نیچے بالٹیاں رکھ دی جائیں اور سامان وہاں سے ہٹالیا جائے یا پھر چھت پرمٹی ڈال دی جائے۔ مگر بعض اوقات بعض کڑیاں ہی گل چکی ہوتی ہیں اور چُوہوں نے چھت کے اندر ایسے سوراخ بنالئے ہوتے ہیں جو اوپر مٹی ڈالنے سے بند نہیں ہوسکتے اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ چھت کو درست کیا جائے۔ اسی طرح اس فتنہ کے متعلق بھی چاہئے کہ ہم وسیع نظر ڈالیں اور حقیقی مرض کو معلوم کرکے اس کا علاج کریں اور میں چاہتا ہوں کہ اس کاجو وسیع اور مستقل سبب ہوسکتا ہے اس پر بھی نظر ڈالوں تا جو مخلص دوست چاہتے ہیں کہ اس قسم کی خرابیاں پیدا نہ ہوں اس پر غور کرکے انہیں دور کرنے کیلئے تعاون کریں۔ شریعت کے کئی احکامات ایسے ہوتے ہیں جن کی تفاصیل سے لوگ ناواقف ہوتے ہیں اور ان پر جب عمل کرتے ہیں تو بعض دفعہ نقصان ہوتا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ شریعت کے احکام میں نقص ہے۔ ہمارا صرف یہی فرض نہیں کہ بتائیں شریعت کا یہ حکم ہے بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ تفاصیل میں جائیں اور بتائیں کہ اور کیا احتیاطیں شریعت نے بتائی ہیں۔ اگر ان سے واقف نہ کریں تو لوگ اس حکم کو غلط سمجھیں گے اور شریعت پر ان کو حسن ظن نہ رہے گی۔ پس چیزوں کی حکمت کے ساتھ ان کی پیچیدگیاں بھی بیان کرنی ضروری ہیں اور علماء کا سب سے بڑا کام یہی ہے۔ قرآن کریم نے علماء کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ کُوْنُوْا رَبَّانِیّٖنَ ۵؎ یعنی تم کو مبلّغ اور عالم ہی نہیں بلکہ ربانی بننا چاہئے۔ یعنی ہر چیز کی ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک پیچیدگیاں ، خطرات ، اس کی خوبیاں اور نقصانات سب بیان کرو تا لوگوں کو روزِ روشن کی طرح معلوم ہوسکے کہ شریعت کا یہ منشا ہے۔ مثلاً قرآن کریم نے لین دین کے متعلق کھول کھول کر احکام بیان کئے ہیں مگر ہماری جماعت کے نوے فیصدی لوگ ان تمام تفاصیل سے واقف نہیں ہیں اور یہ علماء کا فرض ہے کہ ان کو واقف کریں تا وہ دیکھ سکیں کہ قرآن کریم کے خلاف عمل کررہے ہیں یا اس کے مطابق۔
پس ایسے فتنوں کے مستقل اور حقیقی اسباب کے متعلق میں جو کچھ بیان کروں گا جماعت کے علماء کو چاہئے کہ اسے اچھی طرح سمجھ لیں اور پھر اسے جماعت کے افراد کے اچھی طرح ذہن نشین کریں۔ یہ مت خیال کرو کہ میرے سامنے اِس وقت ہزاروں لوگ بیٹھے ہیں اورمیں جو کہوں گا اسے خود ہی سن لیں گے۔ ان میں سے کچھ تو سورہے ہیں۔ پھر یہ خیال مت کرو کہ جو جاگتے ہیں وہ سب سنتے ہیں۔ کئی ایک سوچ رہے ہوں گے کہ میں اپنے بیمار بچے کو چھوڑ کر آیا ہوں، خطبہ جلدی ختم ہو تو میں اسے جاکر دوائی دوں، کئی سوچتے ہوں گے کہ آج فلاں فصل کو گوڈی کرنی ہے یا فلاں کھیت میں ہل چلانا ہے یہاں سے جائوں تو جاکر یہ کام کروں۔پس یہاں مختلف خیالات کے لوگ آبیٹھے ہیں۔ پھر کافی لوگ ایسے ہیں جو جاگتے تو ہیں مگر روحانی طور پر سوتے ہیں۔ پھر جو توجہ سے سن بھی رہے ہیں وہ سب کے سب اس قابل نہیں کہ بات کو سمجھ سکیں یا توجہ دے سکیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ عورتوں میں لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور وفاتِ مسیح، آمدِ مسیح اور نبوت وغیرہ مسائل پر بہت سے لیکچر دیئے۔ مجھے یہ اس وقت یاد نہیں کہ یہ لیکچر روزانہ ہوتے تھے یا ہفتہ میں تین دن یا ہفتہ وار۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ آپ نے بہت سے لیکچر دئیے۔ ایک دن ایک عورت سے آپ نے دریافت فرمایا کہ تم لیکچروں میں شامل ہوتی ہو یا نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں شامل ہوتی ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ میںنے کیا بیان کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ بس یہی نماز روزہ کی باتیں ہوتی ہیں اور کیا۔ اِس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ سلسلہ بند کردیا۔ توبعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ وہ بات کو سُن کر بھی نہیں سمجھ سکتیں۔ وہ بڑی مخلص عورت تھی مگر جب آپ تقریر کرتے وہ’’ سُبْحَانَ اللّٰہِ ، واری جاواں، صدقے جاواں‘‘ ہی کرتی رہتی۔ وہ اپنے اخلاص میں یہی دیکھتی رہتی کہ خدا کا مسیح باتیں کررہا ہے۔ آگے یہ کہ بات کیا ہے اس کے متعلق جاننے کی اس نے کبھی کوشش ہی نہیں کی اور سمجھ لیا کہ بس روزے نماز کی باتیں ہی ہوں گی کوئی چوری وغیرہ کی باتیں توہوں گی نہیں۔ اس طرح مردوں میں بھی ایک حصہ ایسے لوگوں کا ہے جو میری باتوں پر سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ ہی کہتا رہتا ہے اور بجائے سمجھنے کے یہی کہتا جاتا ہے کہ کیا اچھی بات کی ہے، خلیفۃ المسیح جو ہوئے۔ ایسے لوگ محتاج ہوتے ہیں کہ انفرادی طور پر اُنہیں سامنے بٹھا کر بات ان کے ذہن نشین کرائی جائے۔ پھر سننے والوں میں ایک حصہ ’’سترے بہترے‘‘ لوگوں کا ہے جو بات کو سمجھ سکتے ہی نہیں۔ کچھ حصہ بچوں کا ہے جو ابھی اس عمر کو ہی نہیں پہنچے کہ سمجھ سکیں۔ ایک حصہ ایسے لوگوں کا ہے جو ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ سننے کے بعد بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ ایک حصہ ایسے لوگوں کا ہے جو بوجہ حافظہ کمزور ہونے کے مسجد سے نکلتے ہی بات کوبُھول جاتے ہیں۔ اگر آجکل کے لیکچروں میں شامل ہوتے ہیں تو باہر جاکر کہتے ہیں کہ میر صاحب نے بہت اچھا لیکچر دیا۔ کوئی پوچھے کیا تھا؟ تو کہیں گے یاد تونہیں مگر تھا بہت اعلیٰ۔ کوئی کہے گا کہ آپ کو اطلاع ملی ہوگی آج مولوی ابوالعطاء صاحب کا لیکچر بہت اعلیٰ تھا۔ آگے پوچھا جائے کیا تھا! تو بس جواب ہوگا کہ یاد نہیں۔ وہ مسجدسے نکلتے ہی بُھول جاتے ہیں۔ صرف ان کے دماغ پر اتنا اثر رہتا ہے کہ بات بڑی اچھی تھی۔ ایسے طبقہ کے سامنے جب تک دس بیس دفعہ ایک بات کو دُہرایا نہ جائے اُن کے ذہن نشین ہو ہی نہیں سکتی۔ ہمارے ہاں ایک خادمہ تھی وہ بڑی عمرمیں آئی تھی۔ حضرت اماں جان نے اُسے فرمایا کہ قرآن شریف پڑھا کرو۔ کہنے لگی مجھے یاد نہیں رہتا۔ آپ نے فرمایا کوشش کرو آخر اس نے پڑھنا شروع کیا۔ ایک آدھ جملہ سبق لیتی اور پھر اُسے سارا دن رٹتی رہتی۔ اس طرح دس پندرہ سال میں اس نے سیپارہ ڈیڑھ سیپارہ پڑھا۔ ایک دن ہم نے دیکھا کہ وہ کام کرتی جاتی تھی اور کہتی جاتی تھی کہ ’’جابھانوں آبہناں۔ جا بھانوں آبہنا‘‘ ۔ اُس سے دریافت کیاگیا کہ یہ کیا کہتی ہو؟ تو کہنے لگی قرآن شریف کا سبق یاد کرتی ہوں۔ اسے کہا گیا یہ تو قرآن شریف میں نہیں ہے۔ کہنے لگی ہے کیوں نہیں، مجھے فلاں عورت بتاکر گئی ہے اور جب پڑھانے والے سے پوچھا گیا تو اُس نے بتایا کہ میں تو اسے یَعْلَمُ مَابَیْنَ بتاآئی تھی۔
تو کئی دماغ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ سنتے کچھ ہیں اور یاد ان کو کچھ ہوتا ہے۔ ان کے متعلق یہ خیال کرلینا کہ خطبہ سن چکے ہیں، اس لئے علماء کی ذمہ داری پوری ہوچکی ہے غلط ہے۔ جب تک علماء جو خلیفہ کے بازو اور کان ہوتے ہیں، اُس کے ساتھ پورا پورا تعاون نہ کریں ان کا فرض اد انہیں ہوتا۔ علماء سے میری مراد صرف مبلغ ہی نہیں بلکہ وہ طبقہ بھی علما ء میں شامل ہے جو بات کو سمجھ سکتا اور یاد رکھ سکتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰؤُا ۶؎ کہ خدا سے ڈرنے والے علماء ہیں۔
پس ہر مومن جو دین کا درد اور سلسلہ سے اخلاص رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے کہ خداتعالیٰ کا سلسلہ نیک نامی کے ساتھ دنیا میں قائم رہے اور اسلام کو وہی عزت پھر حاصل ہو جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہوئی تھی اور اس کام کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوششیں باطل اور رائیگاں نہ جائیں اس کا فرض ہے کہ خلیفہ کے ساتھ دن رات تعاون کرکے اس کام میں لگ جائے کہ ذہنی طور پر بھی جماعت کی اصلاح ہوجائے۔ ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ جس طرح شادی کے موقع پر لوگ اپنی جھولیاں پھیلادیتے ہیں کہ ان میں چھوہارے گریں اسی طرح جب خلیفہ جماعت کی اصلاح کیلئے کچھ کہے تو اسے لیں اور افراد جماعت کے سامنے اسے دُہرائیں اور دُہرائیں اور دُہرائیں حتیٰ کہ کُند ذہن سے کُند ذہن آدمی بھی سمجھ جائے اور دین پر صحیح طور پر چلنے کیلئے رستہ پالے۔ میں نے علماء کو پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی اور میں خوشی کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ ایک مثال ایسی ہے کہ جس نے اس طرف توجہ کی اور وہ مولوی ظہور حسین صاحب مولوی فاضل ہیں جو گرلز سکول میں پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے ان مسائل کو بار باراور عمدگی کے ساتھ طالبات کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
پس اس مضمون کے شروع کرنے سے قبل کہ اس قسم کے فتنوں کے وسیع اور مستقل اسباب کیا ہیں اور ان کا علاج کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ صرف مبلغ ہی نہیں بلکہ ہر سمجھدار اور دیانت دار اور مومن جو سمجھنے سمجھانے کی قابلیت رکھتا ہے، اپنے آ پ کو تیار کرے کہ اسے سن کر اور سمجھ کر دوسروں کو سمجھائے۔ بعض چھوٹے چھوٹے اصول دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو انسانی اعمال پر بہت لمبا اثر ڈالتے ہیں۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہر فرد کا ہر فعل منفردانہ حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص چوری کرتا ہے تو لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس نے مال دیکھا اور لالچ میں آگیا۔ حالانکہ بسا اوقات وہ چوری نتیجہ ہوتی ہے ان اثرات کاجو بچپن یا جوانی میں پڑے ہوتے ہیں۔ وہ منفرد فعل نہیں ہوتا بلکہ بیماری ہوتی ہے جو اندر ہی اندر ترقی کررہی ہوتی ہے اور آخر ایک دن گرفتار کرا دیتی ہے۔ بعض لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔لوگ کہتے ہیں اسے عادت ہے یا بیچارا ایسی مصیبت میں گرفتار ہوچکا ہے کہ اس کے سِوا چارہ نہیں تھا۔ حالانکہ وہ ایسے اثر کے ماتحت جھوٹ بول رہا ہوتا ہے جو بچپن یا جوانی میں اس پر پڑا تھا۔ پس جب تک ہر مربی اس نکتہ کو نہ سمجھ لے کہ بعض اصول انسانی افکار کو بدل دیتے ہیں لاکھ سمجھائو دوسرے کی سمجھ میں بات آ ہی نہیں سکتی۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ انفرادی طور پر سمجھانا کسی کام نہیں آتا جب تک اس کے مطابق ماحول میں بھی تبدیلی نہ کی جائے۔ اس کے بغیر عارضی طور پر تو اصلاح ہوجاتی ہے مگر اس عارضی نصیحت کا اثر دور ہوتے ہی پھر وہی حالت ہوجاتی ہے۔ میں اس بات کو ایک مثا ل سے واضح کرتا ہوں۔ بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے ایک ہؤائی بندوق لے دی اور میں چند اور بچوں کے ساتھ موضع ناتھ پور کی طرف شکار کرنے چلا گیا۔ کھیتوں میں ایک سکھ لڑکا ہمیں ملا اور کہنے لگا یہ کیا ہے؟ ہم نے بتایا کہ بندوق ہے۔ وہ پوچھنے لگا اس سے کیا کرتے ہو؟ ہم نے بتایا کہ شکار مارتے ہیں۔ اس نے کہا کچھ مارا بھی ہے۔ ہم نے کہا ہاں ایک فاختہ ماری ہے۔ وہ کہنے لگا ہمارے گائوں میں چلو وہاں بہت سی فاختائیں ملیں گی جوبیریوں وغیرہ پربیٹھی رہتی ہیں۔ ہم نے اسے کہا کہ گائوں کے لوگ ناراض تو نہ ہوں گے؟ وہ کہنے لگا کہ نہیں ناراض کیوں ہوں گے تم لوگوں نے فاختہ ہی مارنی ہے ان کو اس سے کیا۔ خیر وہ ہمیں ساتھ لے کر گائوں میں پہنچا اور ایک درخت پر کچھ فاختائیں بیٹھی ہوئی دیکھ کر کہنے لگا کہ وہ ہیں مارو۔ میں نے بندوق چلائی اور غالباً ایک کو مار لیا۔ پھر وہ ہمیں آگے ایک اور درخت کے پاس لے گیا اس پر بھی فاختہ بیٹھی تھیں ۔ وہ کہنے لگا کہ لو اب ان کو مارو۔ اتنے میں ایک بڑھیا نکلی اور کہنے لگی کہ تم لوگوں کو شرم نہیں آتی جیو ہتیا۷؎ کرتے ہو۔ اور اپنے گائوں کے لڑکوں کو مخاطب کرکے کہنے لگی کہ تم بڑے بے شرم ہو جو دیکھتے ہو اور منع نہیں کرتے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ وہی لڑکا جو ہمیں اپنے ساتھ لایا تھا فوراً بگڑ گیا اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور ہمیں کہنے لگا تم کیوں ہمارے گائوں میں شکار کرتے ہو؟ ہمیں ساتھ لانا اس کا ایک عارضی اثر کے ماتحت تھا مگر جیو ہتیا کی مخالفت ایک پرانا اثر تھا اور اس کے رونما ہوتے ہی وہ عارضی اثر بالکل زائل ہوگیا اور قطعاً بُھول گیا کہ خود ہمیں اپنے ساتھ لایا تھا۔ ہم آنے میں متأمل تھے کہ لوگ ناراض نہ ہوں مگر اس نے ہمیں یہ یقین دلایا تھا کہ نہیں کوئی نار اض نہیں ہوگا۔ تو بعض مسائل کا اثر دماغ پر بہت گہرا ہوتا ہے اور جب تک دماغ کی اصلاح اس کے مطابق نہ کی جائے یا پھر جب تک اس اصل کی غلطی اس پر پوری طرح واضح نہ کردی جائے منفرد اعمال میں انسان کی اصلاح ناممکن ہوتی ہے۔
فرض کرو ایک شخص چوری کرتاہے مگر کسی ایسے خیال کے ماتحت کہ وہ چوری کو جائز سمجھتا ہے۔ اب اس کے اس خیال کو ہم جب تک نہ توڑدیں وہ چوری نہیں چھوڑے گا۔ یا ایک شخص کے بیوی بچے بھوکے مررہے ہیں گائوں والے سنگدل ہیں اور اس کی کوئی مدد نہیں کرتے اس لئے وہ ان کی جان بچانے کیلئے چوری کرتا ہے اس کے چوری کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ وہ چوری کو جائز سمجھتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اگر وہ چوری نہ کرے تو اس کے بیوی بچے بھوکوں مرجائیں۔ اب اگر اسے کہا جائے کہ چوری بُری چیز ہے،خدا اور رسول نے اس سے منع کیا ہے تو ممکن ہے عارضی طور پر اس پر کوئی اثر ہو لیکن جب وہ اپنے بیوی بچوں کو فاقے مرتا دیکھے گا چوری کیلئے تیار ہوجائے گا اور ہماری نصیحت بالکل رائیگاں جائے گی۔ کیونکہ ہم نے وہ اسباب تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی کہ وہ چوری کیوں کرتا ہے۔ اسے ہم دو طرح ہی چوری سے روک سکتے ہیں۔ اوّل تو اس طرح کہ اس پر ثابت کردیں کہ فاقوں سے مرجانا بہتر ہے بجائے اس کے کہ چوری یا بددیانتی کی جائے۔ یا پھر اس طرح کہ اس کے گھر روٹی بھیجنا شروع کردیں۔ جب تک ہم یہ نہ کریں گے وہ چوری نہیں چھوڑ سکتا۔ تو بعض اصول ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک ان کی اصلاح نہ کی جائے اور نقطۂ نگاہ کو نہ بدل دیا جائے اثر نہیں ہوسکتا۔ اور اگر ہو بھی تو عارضی ہوتا ہے جو کچھ روز کے بعد زائل ہوجاتا ہے۔
اب میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ کس طرح بعض خیالی اصول انسانی اعمال پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہندو قوم میں بہت سے اختلاف ہیں۔ بعض فرقے ویدوں کو مانتے ہیں بعض نہیں۔ بعض گائے کا گوشت کھاتے ہیں بعض نہیں۔ بعض پرانوں۸؎ کومانتے ہیں اور بعض نہیں۔ بعض ذات پات کے قائل ہیں اور بعض نہیں۔ سادھوئوں کے بعض فرقے ذات پات کو نہیں مانتے۔ اسی طرح سادھوئوں کے بعض فرقے مُردہ کو جلاتے یا دریا میں پھینک دیتے ہیں اوربعض دفن کرتے ہیں۔ مگر ایک اصولی بات ان سب میں موجود ہے اور وہ یہ کہ خداتعالیٰ گناہ معاف نہیں کرسکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ گناہ خدا کا قرض ہیں جسے ادا کرکے ہی انسان نجات پاسکتا ہے اور چونکہ انسانی زندگی اتنی لمبی نہیں کہ سب قرض ادا ہوسکے اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ انسان جونیں بدلتا رہتا ہے اور جب تک خداتعالیٰ کا قرض اد انہیں ہوجاتا اسے نجات حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ خیال ان کے اندر بہت راسخ ہے اور اسے ہی تناسخ کہتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک فلسفہ ہے، ایک نظریہ ہے جسے عملی زندگی سے تعلق نہیں۔ لیکن اگر ہندو قوم کی عملی حالت دیکھی جائے تو وہ ساری کی ساری اسی نظریہ کے ماتحت ہے۔ ان میں سُود خوری اور پیچھے پڑ کر قرض وصول کرنا اسی کے نتیجہ میں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب خدا قرضہ معاف نہیں کرسکتا تو ہم کیونکر معاف کردیں اور جس طرح خداجونوں میں بھیجتا ہے اسی طرح باپ مرجائے تو بیٹے سے اور، بیٹے کے بعد پوتے سے وصول کرتے ہیں۔ تمام ہندو قوم کا ذہنی نظریہ اسی تناسخ کے عقیدہ کے ماتحت ہے۔ مسلمان چونکہ ہندوئوں سے کم میل جول رکھتے ہیں اس لئے بوجہ ناواقفیت سمجھتے ہیں کہ ہندو بخیل ہوتے ہیں، حالانکہ یہ بات نہیں۔ اخباروں کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ہندو صدقہ و خیرات کے کاموں میں مسلمانوں سے کم نہیں۔ کنویں بنواتے اور دوسرے رفاہِ عام کے کام وہ بہت کرتے ہیں اور لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں۔ مگر ایک مقروض آتا ہے اور کہتا ہے کہ لالہ جی! میرے بیوی بچے بھوکے مررہے ہیں، مجھ پر رحم کریں اور پانچ روپیہ مجھے چھوڑ دیں مَیں ادا نہیں کرسکتا تو وہ انکار کردیتا ہے۔ مگر اس کا یہ انکار بخل کی وجہ سے نہیں ۔ اس کے ذہن میں یہ نظریہ ہے کہ خداتعالیٰ بہت دینے والا ہے ۔ اس نے ہمارے لئے سورج چاند پیدا کئے ہیں اور مُفت دے دیئے ہیں۔ وہ دیالو کرپالو ہے مگر قرضہ معاف نہیں کرسکتا، یہ انسان کو بہرحال ادا کرنا پڑے گا۔ اور یہی چیز اس کے کریکٹر میں داخل ہوگئی ہے۔ وہ لاکھوں روپیہ خرچ کردے گا مگرقرض پانچ روپیہ کا بھی معاف نہیں کرے گا۔ اسی نظریہ کے ماتحت ہندو قوم میں تجارتی ترقی ہوئی ہے ۔ وہ سختی سے قرض وصول کرتی ہے اور چونکہ بہت سے لوگ دے نہیں سکتے اس کا قرض پھیلتا ہے اور اس طرح ساری دنیا اس کی مقروض ہوتی جاتی ہے اور اس وجہ سے تجارت پر اس کا قبضہ ہوتا جارہا ہے۔
اس کے برعکس مسلمان قوم کا عمل یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان سے کوئی پیسہ مانگے تو وہ کہے گا کہ جاجا کام کر، ہم خود کھائیں یا تم جیسوں کو دیں۔لیکن اگر کسی پر قرض ہوگا تو قرض خواہ سے کہے گا چھوڑ دو جانے دو۔ وہ پیسہ دینے میں بخل کرے گا مگر قرض کے معاملہ میں نہیں بلکہ کہہ دے گا چھوڑو جانے دو، غریب آدمی ہے۔ کیونکہ اس کے ذہن میں بخشش کا اصل ،گھر کرچکا ہے۔ اور وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے۔ کوئی کتنا بڑا قصور کرے مسلمان کہہ دے گا جانے دو۔ اللہ تعالیٰ غفار ستار ہے۔ قوم تباہ ہوجائے، ملک اور جماعت تباہ ہوجائے، وہ غفار تُو، ستار تُو کی رٹ لگاتا جائے گا اوریہی کہتا رہے گاکہ بس جانے دو، معمولی بات ہے۔ تو تناسخ کے عقیدہ نے ہندو قوم کی عملی زندگی بدل دی ہے۔ آج ہندو قوم تجارت پر ظاہراً اور زراعت پر باطناً قابض ہے۔ ساہوکار زیادہ تر جینی ہیں اوریہی قوم تناسخ کی زیادہ سختی سے قائل ہے۔ ایسے جینی عام ہندوئوں سے بھی زیادہ سخی ہوتے ہیں اور اعداد و شمار اس پر شاہد ہیں مگر وصولی میں وہ دوسروں سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں ۔آپ غور کریں اسی قسم کا عقیدہ کسی اور قوم میں بھی پایا جاتا ہے یا نہیں اور اگر پایا جاتا ہے تو اس کی حالت کیا ہے۔ دنیا میں ایسی صرف ایک اور قوم ہے اور وہ یہودی قوم ہے۔ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ تیری آنکھ مروت نہ کرے کہ جان کا بدلہ جان ، آنکھ کا بدلہ آنکھ، دانت کابدلہ دانت، ہاتھ کا بدلہ ہاتھ، پائوں کابدلہ پائوں ہوگا۔ ۹؎
یعنی تمہارے لئے بدلہ لینا ضروری ہے۔ دیکھنا کبھی رحم نہ کرنا۔ چنانچہ ان کا کریکٹر بھی وہی ہے جو ہندوئوں کا ہے۔ بلکہ یہودیوں کی اس معاملہ میں سختی کے متعلق تو شیکسپیئر نے ایک ڈرامہ بھی لکھا ہے کہ ایک یہودی نے اپنے کسی مقروض سے لکھوایا ہؤا تھا کہ اگر بروقت روپیہ ادا نہ کیا گیا تو آدھ سیر گوشت تمہارے جسم سے کاٹ لوں گا۔ چنانچہ جب روپیہ اد انہ ہوسکا تو اس نے گوشت کاٹنے پراصرار کیا۔ مقروض کے رشتہ دار بہت روئے ،پیٹے اور منت خوشامد کی کہ اتنا ظلم نہ کرو۔ مگر اس نے ایک نہ مانی اور اپنی بات پر مُصِر رہا۔ آخر ایک عقلمندبیچ میں آگیا اور اس نے کہا کہ اچھا گوشت کاٹ لو مگر خون کا ایک قطرہ نہ گرے۔کیونکہ یہ تحریر میں نہیں ہے کہ خون بھی گرایا جائے گااور گوشت بھی آدھا سیر سے بال بھر کم و بیش نہ ہوگا اور چونکہ یہ باتیںاس کے بس میں نہ تھیں اسے دبنا پڑا۔ اب آجکل جس طرح ہمارے ہاں قرضہ بِل اور ساہوکارہ بل بن رہے ہیں، اسی یورپ میں یہودیوں سے سختی ہورہی ہے جرمنی نے یہودیوں کو اپنے ملک سے بالکل ہی نکال دیا ہے۔ انگلینڈ میںبھی ایک ایسی پارٹی بن گئی ہے جو اِن کے سخت خلاف ہے۔ اٹلی میں بھی ان پر سختی کی جارہی ہے۔ ہنگری اور بعض اور ممالک میں بھی یہی حالت ہے۔ سپین میں بھی ان پر سختی ہوئی ہے۔ کیونکہ جس طرح ہندوستان میں ساہوکار معاف نہیں کرسکتا اسی طرح یورپ میں یہودیوں کا حال ہے۔ اور اسی نظریہ کے ماتحت یہودی قوم بھی تجار ت میں ترقی کرگئی ہے۔ کیونکہ وہ بھی لین دین میں سختی کرتی ہے اور تجارت ایسی سختی سے ہی چل سکتی ہے خواہ یہ سختی بُری ہو۔
یہ دونوں قومیں جن کا نظریہ، یہ ہے کہ قرضہ معاف نہیں ہوسکتا دونوں نے تجارت میں ترقی کی ہے۔ ایک نے مغرب میں اور دوسرے نے مشرق میں اور دونوں کی ترقی اور تنزّل اس نظریہ کی طرف منسوب ہوتا ہے ۔ ہندوئوں نے اسی کی بدولت تجارت پر قبضہ کیا ہے اور اگر ان کے خلاف زمینداروں میں جوش ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ اسی طرح یہود کا اگر یورپ کی سیاست پر قبضہ ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے اور اگر جرمن نے ان کوملک سے نکال دیا ہے تو اسی کے باعث۔ اب ان لوگوں سے لاکھ بحث کرو کہ سُود بُری چیز ہے،تجارت میں سختی نہیں کرنی چاہئے اور اس کیلئے لاکھ دلائل دو کبھی نہیں مانیں گے۔ لیکن جس دن ان کے یہ بات ذہن نشین کرادو کہ اللہ میاں بھی معاف کرتا ہے اور تم بھی معاف کرو تو فوراً ان کا نظریہ بدل جائے گا۔ یہی حال یہود کا ہے، جرمنی لاکھ مُکّے دکھائے جب تک وہ نظریہ نہ بدلے جو استثناء باب ۱۹ آیت۲۱ کے ذریعہ قائم کیا گیا ہے۔ اُس وقت تک ممکن نہی کہ یہودی سُود یا لین دین کے معاملہ میں سختی چھوڑدے۔ کیونکہ جو عقیدہ بچپن سے دل میں ڈالا جاتا ہے اس کا اثر لازمی طور پر چاہئے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ جن حالات میں سے جماعت گزر رہی ہے وہ بعض اصول کے ماتحت ہیں یا انفرادی ہیں اور پھر اس کے مطابق جب ہم اصلاح کی کوشش کریں گے اور ذہنیتوں کو بدل ڈالیں گے تو پھر ایسے فتنوں کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجائے گا۔ کیونکہ جب پانی پیچھے سے ہی نہیں آئے گا تو اگلے سوراخ خودبخود بند ہوجائیں گے۔ اس لئے ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کون سے ایسے حالات ہیں جن کے ماتحت بعض لوگوں میں ایسی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں اور ان کو معلوم کرکے یا ان کی غلطی کو دور کریں۔ اگر ان کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے تو اس کی اصلاح کریں اور اگر وہ بات محرف و مبدل ہوچکی ہو تو بھی اسے ٹھیک کریں۔ یہ تمہید چونکہ بہت لمبی ہوگئی ہے اس لئے اس مضمون کو کہ کیا چیزیں ہیں جو اس قسم کے حالات پیدا کرتی ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے خطبہ میں بیان کروں گا۔
میں چاہتا ہوں کہ یہ باتیں اچھی طرح آپ لوگوں کے ذہن نشین کرادوں کہ وہ کیا کیاباتیں ہیں جو مسلمانوں اور ان سے نکلے ہوئے احمدیوں میں پیدا ہوکر ایسے فتنوں کاموجب ہوتی ہیںاور جب تک اہل علم اور سمجھدار افراد ان باتوں کو ایک ایک شخص کے ذہن نشین کرنے کیلئے تعاون نہ کریں اورکوٹ کوٹ کر ان کے دماغوں میں یہ باتیں داخل نہ کریں جسے انگریزی میں Hammering کہتے ہیں، اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ پس ان باتوں کو سن کر بار بار لوگوں کے سامنے دہُراؤ۔ یہاں تک کہ ایک کُودن۱۰؎ سے کودن شخص کے دماغ میں بھی یہ بات بیٹھ جائے۔ پھر جب یہ کریکٹر بن جائے گا تو ہر شخص ان سے فائدہ اٹھاسکے گا اور آئندہ نسلوں میں خود بخود یہ باتیں آتی جائیں گی کیونکہ یہی اصول ہیں جن کو بدلے بغیر ہم کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ ان کے بغیرجو اصلاح ہوگی عارضی ہوگی۔ لوگوں کومجھ پر اعتماد ہے کہ جب میں نے سمجھادیا تو لوگ سمجھ جاتے ہیں۔ مگر یہ درست نہیں ۔ سمجھنا ایسا آسان کام نہیں۔ ذہنیت میں تبدیلی بہت بڑی محنت چاہتی ہے۔ ہاں جب ذہنیت تبدیل ہوجائے تب بیشک حقیقی تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے اور ایک نسل ہی نہیں کئی نسلوں کی اصلاح ہوجاتی ہے اوریہ نیکی کا سلسلہ جاری رہتا ہے حتیٰ کہ جماعت میں پھر بگاڑ پیدا ہوجائے جسے خداتعالیٰ کا دوسرا مامور آکر دور کرے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بچوں کے دلوں میں بھی ان باتوں کو بٹھایا جائے۔ اسی غرض سے میں نے بورڈنگ تحریک جدید قائم کیا تھا کہ اخلاقِ فاضلہ بچوں کے اندر قائم کئے جائیں جو ماں باپ قائم نہیں کرسکتے۔ مگر افسوس ہے کہ اس بورڈنگ کے افسروں نے ابھی تک تقسیمِ عمل کافیصلہ ہی نہیں کیا اور وہ ابھی انہی باتوں میں پڑے ہوئے ہیں کہ سپرنٹنڈنٹ کے فرائض کیا ہیں اور ٹیوٹروں کے کیا۔
اصل کام کی طرف ابھی پوری توجہ نہیں ہوئی۔ میری غرض اس بورڈنگ کے قیام سے یہ ہے کہ اسلامی اخلاق کی تفاصیل بچوں کو سمجھائی جائیں۔ سچ کی تعریف بیان کرو۔ سچ بولنے میں کیا کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں اور پھر شریعت نے ان کے کیا کیا علاج رکھے ہیں۔ یہ باتیں سکھائی جانی چاہئیں ورنہ صرف سچ بولنے کی تعلیم تو ہندو اور سِکھ بھی دیتے ہیں۔ اسی طرح سب کہتے ہیں کہ شرک نہ کرو۔ مگر اسلام بتاتا ہے کہ شرک ہوتا کیا ہے ، وہ کیونکر پیدا ہوتا ہے، کیونکر ترقی کرتا ہے اور کون کون سی مشکلات میں طبیعت اسے قبول کرنے کی طرف مائل ہوتی ہے اور پھر اس کے علاج کیا ہیں۔ جب اس طرح بچہ کے دل میں بات بٹھائی جائے تو وہ پھر نہیں نکل سکتی اور جب تک ہم اس طر ح نہ کریں کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ پس اگر ہم موجودہ لوگوں اور آئندہ اولادوں کی درستی کرلیں تو ہمیشہ کیلئے اس قسم کے فتنوں کارستہ بند ہو سکتا ہے۔ ورنہ شکی طبائع کا وساوس کا شکار ہو جانے کا احتمال باقی رہے گا۔ مثلاً میں نے سنا ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ مصری صاحب نے لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کی وعید کے ساتھ لکھا ہے کہ میں نے یہ بات نہیں لکھی اس لئے ان کا یہ قول صحیح ہو گا۔ لیکن جب میر صاحب نے مصری صاحب کے الفاظ نقل کر کے لکھا اب کہو لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ تو وہ چپ ہوگئے اور ایسے لوگوں نے کہہ دیا کہ یہ ٹھیک ہے۔ گویا وہ خدا کے ساتھ نہیں *** کے ساتھ ہیں۔ اگر ان کا معیار یہی رہے تو دنیا میںکوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ دیکھنا تو یہ ہوتا ہے کہ یہ *** پڑتی کس پر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنے دشمنوں پر لعنتیں ڈالیںاور مخالفوں نے بھی۔تو اس صورت میں انہیں چاہئے کہ دونوں کی طرف ہو جائیں۔دیکھنے والی بات تو یہ ہوتی ہے کہ *** پڑی کس پر ہے۔*** ڈالنے کا کیا ہے۔ کیاابو جہل نے بدر کے دن نہیں کہا تھاکہ اے خدا! اگر محمدﷺ سچا ہے تو ہم پر پتھر برسا۔۱۱؎ اور محمد ﷺ نے بھی کفار پر *** ڈالی۔۱۲؎ اب دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ وہ کس پر پڑی۔ تو بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی ہیں جو دوستوں کے ذہن نشین کرنی ضروری ہیں۔ہمارے اکثر دوست صرف چند مسائل سے واقف ہیںمگر ان کی تفاصیل نہیں جانتے۔ پس اس موقع پر اس فتنہ کے متعلق میں بعض اصول بیان کروں گا۔ اور علماء اور سمجھدار لوگوں کو چاہئے کہ انہیں سمجھیں اور جماعت کے افراد کے قلوب میں ان کو داخل کریںحتیٰ کہ ہر ایک ہم میں سے قرآن کریم کے مطابق اور رسول کریمﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی اطاعت میں زندگی بسر کرنے والا ہو جائے او ر ہمارا جیناو مرنا اس کی اطاعت میںہو۔
(الفضل ۱۷؍ جولائی ۱۹۳۷ئ)
۱؎ بخاری کتاب الجہاد باب یقاتل من وراء الامام… الخ
۲؎ تذکرہ صفحہ ۴۶۶۔ ایڈیشن چہارم
۳؎ تذکرہ صفحہ۳۹۶۔ ایڈیشن چہارم
۴؎ مسلم کتاب الفتن باب قصۃ الجساسۃ
۵؎ اٰل عمران: ۸۰
۶؎ فاطر: ۲۹
۷؎ جیوہتیا:
۸؎ پرانوں: پُران کی جمع۔ ہندوؤں کی مذہبی کتابیں
۹؎ استثناء باب۹ ۱۔آیت ۲۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء
۱۰؎ کُودن: کُند ذہن
۱۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۸۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۲؎

۲۱
شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کا خلافِ تقویٰ رویہ
اور جھوٹے الزامات
(فرمودہ ۹؍ جولائی ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں نے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں ایک مضمون بیان کرناشروع کیا تھا جس سے میری غرض یہ تھی کہ میںجماعت کو بتائوں کہ وہ موجبات کیا ہیںجو مختلف اوقات میں فتنے پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں تا جماعت ان کا ازالہ کر کے جس حد تک انسانی کوششیں ان فتنوں کو رونما ہونے سے روک سکتی ہیں روکے اور پھر دعاؤںکے ذریعہ ان بقیہ حصوں کو روکنے کی کوشش کرے جو خدا تعالیٰ کے اختیار میںہیں۔ لیکن اس دوران میں بعض ایسی باتیں پیداہو گئی ہیں کہ جن کی وجہ سے مجھے خوف ہے کہ عارضی ضرورتوں کیلئے مجھے کچھ عرصہ کیلئے اس سلسلۂ مضمون کو معطل کرناپڑے گا سو اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میں اس مضمون کو پھر کسی وقت بیان کروں گا۔
مجھے معلوم ہؤا ہے کہ مصری صاحب نے اس امر کا اظہار کیاہے کہ یہ جو اعلان کیا گیا ہے کہ ان کو جماعت سے خارج کیا جاتا ہے، یہ غلط ہے وہ تو خود ہی بیعت سے الگ ہوئے ہیں۔ اور یہ بھی میں نے سنا ہے کہ ایک صاحب نے کسی دوسرے دوست کے سامنے بیان کیا کہ مصری صاحب نے خط مجھے دکھایا تھا یا یہ کہا کہ مجھے اس کا مضمون بتایا تھا۔ اس خط میں تو انہوں نے آپ ہی بیعت توڑنے کا اظہار کیا تھاپھر یہ کہنا کہ انہیں جماعت سے الگ کیا جاتا ہے کیونکر درست ہو سکتا ہے۔
وہ شخص جن کے پاس انہوں نے اپنے خیالات کااظہار کیا انہوں نے مجھے تحریراً بھی اس امر کی اطلاع دے دی ہے۔ لیکن میں اس کے متعلق افسوس سے کہتا ہوں کہ اگر وہ بات جو مصری صاحب کی طرف منسوب کر کے مجھے پہنچائی گئی ہے کہ انہوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیاکہ میری نسبت کہا یہ جاتا ہے کہ میں جماعت سے نکالا گیا ہوں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مجھے نکالا نہیں گیابلکہ میں خود نکلا ہوں درست ہے،یا کسی اور دوست اور ہمدرد کا خیال ہے تو میرے لئے یہ بات سخت حیرت کا موجب ہے۔کیونکہ یہ تمام باتیں تحریروں میں آچکی ہیں، ز بانی نہیں۔پس اگر یہ باتیں درست ہیں تو بہت ہی قابلِ تعجب ہیں ۔ جو خط مصری صاحب نے مجھے لکھا وہ بھی میرے پاس موجود ہے اور جو میں نے اعلان کیا وہ بھی اخبار میں چھپ چکا ہے کوئی زبانی بات نہیں کہ جس میں ردّوبدل ہوسکے بلکہ دونوں چیزیں تحریری ہیں اور ان کی موجودگی میں کسی قسم کی غلط فہمی کا واقع ہوجانا بہت ہی بعید از عقل ہے۔ مصری صاحب نے مجھے تین خط میرے اعلان سے پہلے لکھے تھے۔ ان میں سے جو آخری خط انہوں نے لکھا اس میں یہ مضمون تھا کہ چوبیس گھنٹہ کے اندر اندر اگر فلاں امر نہ ہوجائے تومجھے اپنی بیعت سے خارج سمجھیں۔ یہ خط جسے اُن کا نوٹس سمجھنا چاہئے ایک لڑکا جو غالباً مدرسہ احمدیہ کا ہے میرے پاس لایا۔ مجھے اس کی شکل دیکھ کر شبہ ہؤا کہ وہ مصری صاحب کا لڑکا ہے مگر جب میں نے اس سے نام پوچھا تو معلوم ہؤا کہ وہ مصری صاحب کا لڑکا نہیں اس نے اپنا نام بشارت الرحمن یا بشارت احمد بتایاتھا، مجھے صحیح یاد نہیں۔ بہرحال اس کے نام میں بشارت کالفظ آتا یہ خط مجھے ظہر کی نماز کے بعد تین بجے کے قریب ملا۔اس کے اندر جو مضمون ہے وہ محفوظ ہے اور جب وقت آئے گا اس کے مضمون کو اِنْشَائَ اللّٰہ ظاہر کردیا جائے گا۔ ابھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا ظاہر کرنا ان کا کام ہے ہمارا نہیں۔ اس خط میں منجملہ اور باتوں کے ایک بات یہ لکھی تھی کہ اگر فلاں فلاں امور آپ چوبیس گھنٹے کے اندر نہ کردیں تو آپ مجھے اپنی جماعت سے علیحدہ سمجھیں۔ اب ہر اُردو دان جو معمولی عقل و سمجھ بھی رکھتا ہو جانتا ہے کہ جو شخص یہ لکھتا ہے کہ اگر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر فلاں امور نہ ہوئے تو مجھے اپنی جماعت سے علیحدہ سمجھیں وہ دوسرے الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ ۲۴ گھنٹوں کے ختم ہونے تک میں آپ کی جماعت میں ہی شامل ہوں۔ اگر ۲۴ گھنٹوں سے پہلے ہی وہ جماعت سے نکل چکا تھا تو پھر ۲۴ گھنٹوں کے بعد بیعت سے نکلنے کے کیا معنے تھے۔ جو شخص کسی معیّن وقت کا نوٹس دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہؤا تو فلاں وقت سے مجھے علیحدہ سمجھیں وہ دوسرے لفظوں میں یہ بھی اعلان کرتا ہے کہ اُس وقت تک میں آپ کی جماعت میں ہی شامل ہوں۔ اب یہ خط مجھے تین بجے ملا اور میرا جو اعلان شائع ہو اہے وہ دوسرے دن ساڑھے گیارہ بجے کے قریب لکھا گیا۔ گو اس قسم کا اعلان کرنے کے متعلق میں پہلے دن ہی جب مجھے وہ خط ملا فیصلہ کرچکا تھا لیکن پھر دل نے تسلیم نہ کیا کہ یونہی اعلان کردیا جائے بلکہ میں نے چاہا کہ اس بارہ میں استخارہ اور مشورہ کرلیا جائے۔ چنانچہ رات کو استخارہ کیا گیا اور پھر صبح دس بجے کے قریب مختلف دوستوں کو میں نے بُلایا اور ان سے مشورہ لیا۔ اس کے بعد ساڑھے گیارہ بجے کے قریب وہ اعلان لکھا گیا اور بارہ ساڑھے بارہ بجے بورڈ پر لکھ دیا گیا۔ غرض تین بجے جو خط مجھے ملا اُس کے مطابق دوسرے دن تین بجے تک مصری صاحب میری بیعت میں شامل تھے۔ جب ۲۴ گھنٹے ختم ہوجاتے تب وہ وقت شروع ہوتا جب اپنے نوٹس کے مطابق وہ جماعت سے الگ ہونے والے تھے۔ پس اگر اس نوٹس کے دوران میں مَیں مصری صاحب کو جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کرتا تو بھی ان کا یہ اعتراض درست نہ ہوتا کہ نکلے تو ہم خود ہیں، یہ کس طرح کہتے ہیں کہ ہم نے نکالا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے ایسا اعلان بھی کوئی نہیں کیا۔ پس سارا اعتراض بنائے فَاسِد عَلَی الْفَاسِدِ کی قسم کاہے اور جس کسی نے بھی یہ کہا ہے کہ میں نے انہیں جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کیاہے میں اسے انعام دینے کیلئے تیار ہوں اگر وہ میرے اعلان میں اس قسم کے الفاظ دکھادے۔ میری طرف سے اس بارہ میں جو اعلان ہؤا وہ یہ ہے:
’’مکرم شیخ صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَیْکَمْ وَرَحَمَۃُ اللّٰہِ
آپ کے تین خط ملے۔ پہلے خط کا مضمون اس قدر گند ہ اور گالیوں سے پُر تھا کہ اس کے بعد آپ کی نسبت یہ خیال کرنا کہ آپ بیعت میں شامل ہیں اور جماعت احمدیہ میں داخل ہیں بالکل خلافِ عقل تھا۔ پس میں اس فکر میں تھا کہ آپ کو توجہ دلائوں کہ آپ خداتعالیٰ سے استخارہ کریں کہ اس عرصہ میں آپ کا دوسرا خط ملا جس میں فخرالدین ملتانی صاحب کی طرف سے معافی نامہ بھجوانے کا ذکر تھا۔ میں اس معافی نامہ کی انتظار میں رہا مگر وہ ایک غلطی کی وجہ سے میری نظر سے نہیں گزرا اور کل دس گیارہ بجے اس کا علم ہؤا اور اُسی وقت اُن کو اس کی اطلاع کردی گئی۔ اس کے چند گھنٹہ بعد آپ کا تیسرا خط ملا کہ اگر چوبیس گھنٹہ تک آپ کی تسلی نہ کی گئی تو آپ جماعت سے علیحدہ ہوجائیں گے۔ سو میں اس کا جواب بعد استخارہ لکھ رہا ہوں کہ آپ کا جماعت سے علیحدہ ہونا بے معنی ہے‘‘۔
دیکھ لو اس جگہ میں نے یہ نہیں لکھا کہ میں آپ کو جماعت سے علیحدہ کرتا ہوں بلکہ میں نے یہ لکھا ہے کہ ’’آپ کا جماعت سے علیحدہ ہونا بے معنی ہے۔‘‘ اور یہ بات خود ان کے خط سے ظاہر ہے۔ کیونکہ انہوں نے لکھا تھا کہ اگر چوبیس گھنٹہ تک ان کی تسلی نہ کی گئی تو انہیں جماعت سے علیحدہ سمجھا جائے۔ اس کے بعدمیں نے لکھا:۔
’’جب سے آپ کے دل میں وہ گند پید ا ہوا ہے جو آپ نے اپنے خطوں میں لکھا ہے آپ خداتعالیٰ کی نگاہ میں جماعت سے خارج ہیں‘‘۔
یعنی کسی کے خارج کرنے کا سوال ہی نہیں بلکہ آپ اپنے عمل سے خود جماعت سے علیحدہ ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی مسلمان کہے میں محمد ﷺ کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹا سمجھتا ہوں لیکن میں اُس وقت مسلمان ہی رہوں گا جب تک مسلمان مجھے اسلام سے خارج نہیں کرتے۔ حالانکہ اس امر میں کسی کے خارج کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ میں محمد ﷺ کو ( نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) جھوٹا سمجھتا ہوں تو جس دن سے وہ آپ کو جھوٹا سمجھنے لگے اُسی دن سے وہ اسلام سے الگ ہوجائے گا۔ میں نے بھی انہیں یہی لکھا کہ جب سے آپ کے دل میں گندے خیالات پید اہوئے ہیں ’’آپ خداتعالیٰ کی نگاہ میں جماعت سے خارج ہیں‘‘۔ کیونکہ خداعالم الغیب ہے وہی سمجھ سکتا ہے کہ آپ کے دل میں ایسے خیالات کب سے پیدا ہوئے۔ لیکن بہرحال جب سے وہ خیالات آپ کے دل میں آئے اُسی وقت سے آپ خداتعالیٰ کے نزدیک جماعت سے علیحدہ ہیں۔
اس کے آگے میرے اعلان کی عبارت یہ ہے
’’خداتعالیٰ اب بھی آپ کو توبہ کی توفیق دے۔ پھر جب سے آپ نے میرے خط میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے اُسی وقت سے آپ جماعت سے میری نگاہ میں بھی الگ ہیں‘‘۔
یعنی میں چونکہ بندہ ہوں اور مجھے علمِ غیب نہیں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ کے دل میں کیا خیالات پیدا ہورہے ہیں لیکن جب سے مجھے ان خیالات کا علم ہؤا ہے ’’آپ جماعت سے میری نگاہ میں بھی الگ ہیں‘‘۔ یعنی آپ کو خارج کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ جب آپ کے خیالات ایسے ہوچکے ہیں کہ میری مریدی کا تعلق ان کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں تو آپ کو خارج کرنے کے کوئی معنے نہیں۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کہے میں آ پ کے عقائد کو تسلیم نہیں کرتا یا آپ کی بیعت میں رہنے کیلئے تیار نہیں اور ہم یہ کہیں کہ نہیں تم ایک دفعہ بیعت کرچکے ہو اب ہم تمہیں الگ نہیں ہونے دیں گے۔ ایمان کے معاملہ اور دُنیوی سَودوں میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ دُنیوی سَودوں میں تو ایک شخص جب اپنی چیز بیچ دیتا ہے تو پھر واپس نہیں لے سکتا۔ دوسرا کہتا ہے میں اتنی سائی ۱؎ دے چکا ہوں یا فلاں معاہدہ ہوچکا ہے اب تم اس معاہدہ سے نہیں پھرسکتے۔ لیکن دینی معاملات میں جب کوئی شخص کہے کہ میں نظامِ جماعت سے بیزار ہوں یا فلاں عقائد ترک کرتا ہوں تو وہ اُسی وقت الگ ہوجائے گا ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کہے میں اسلام کو جھوٹا سمجھتا ہوں اور ہم کہیں کہ تم ایک دفعہ اس کی سچائی کا اقرارکرچکے ہو اس لئے اب ہم تجھے جھوٹا نہیں سمجھنے دیں گے۔
پس میں نے انہیں جو کچھ لکھا اس کا مطلب یہی تھا کہ چونکہ یہ دینی معاملہ ہے اور اس میں کسی پر کوئی جبر نہیں ہوسکتا آپ کے دل میں جب سے وہ گند پید اہؤا ہے خداتعالیٰ کی نگاہ میں اور جب سے آپ نے اسے مجھ پر ظاہر کیا ہے ’’آپ جماعت سے میری نگاہ میں بھی الگ ہیں۔ لیکن اگر آپ کو میری تحریرکی ہی ضرورت ہے تو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ آپ خداتعالیٰ کے نزدیک تو ان خیالات کے پیدا ہونے کے دن سے ہی جماعت احمدیہ سے خارج ہیں‘‘۔ یعنی جب آپ نے مجھے پہلا خط لکھا تھا اُس وقت سے نہیں بلکہ جب سے آپ کے دل میں وہ خیالات پیدا ہونے شروع ہوئے، آپ جماعت احمدیہ سے خارج ہیں۔ اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا ایک مولوی اورایک عالم کہلانے والے کیلئے کوئی مشکل ہو۔ انہیں بہرحال پہلے ہی سمجھ لینا چاہئے تھا کہ ا ب میری بیعت کوئی بیعت نہیں۔ لیکن وہ پہلا خط لکھتے ہیں اور اس کے بعد دوسرا خط لکھتے ہیں اورمیرے سامنے شرطیں پیش کئے جاتے ہیں اور پھر دوسرے کے بعد تیسرا خط لکھتے ہیں اور اس میں بھی شرطیں پیش کردیتے ہیں۔ جس کے سوائے اس کے اور کوئی معنے نہیں تھے کہ وہ میرے منہ سے کہلوانا چاہتے تھے کہ میں انہیں جماعت سے علیحدہ سمجھتا ہوں۔ اسی لئے میں نے لکھا کہ اگر آپ کو میری تحریر کی ہی ضرورت ہے تو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ آپ خداتعالیٰ کے نزدیک تو اُسی وقت سے جماعت سے خارج ہیں جب سے آپ کے دل میں یہ خیالات پیدا ہوئے۔ ’’اور ان خطوط کے بعد جو حال میں آپ نے مجھے لکھے ہیں میں بھی آپ کو جماعت سے خارج سمجھتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں‘‘۔
اب میرے الفاظ کو غور سے پڑھو اور دیکھو کہ میں نے یہ نہیں لکھا کہ آپ کو میں جماعت سے خارج کرتا ہوں بلکہ یہ لکھا کہ آپ کو جماعت سے خارج سمجھتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں۔ پس میں نے ان کے خروج کا صرف اعلان کیا ہے ورنہ وہ اُس وقت سے جماعت سے خارج تھے جب سے ان کے دل میں وہ خیالات پیدا ہوئے جن کا انہوں نے اپنے خطوط میں اظہار کیاہے۔ اور جیسا کہ میں بتاچکا ہوں یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا کسی کیلئے مشکل ہو۔ ایک شخص ہمارے پاس آئے اور کہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جھوٹے تھے، ان پر وحی خداتعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوتی تھی بلکہ افترا کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا کرتے تھے اور پھر کہے خداکے فضل سے میں احمدی ہوں تو اُس کا یہ دعویٰ کس قدر جھوٹا ہوگا۔ اسی طرح ایک شخص جو جماعت کے امام اور خلیفہ کی نسبت ناپاک خیالات اپنے دل میں رکھتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میں جماعت میں شامل ہوں وہ اپنے دعویٰ میں یقینا جھوٹا ہے بلکہ وہ اُسی وقت سے جماعت سے علیحدہ ہے جب سے اس نے ایسے خیالات اپنے دل میں رکھنے شروع کئے۔ اب ایک طرف انہیں علم کا دعویٰ ہے اور دوسری طرف اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ جب وہ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہتے ہیں کہ میں آپ کی بجائے کوئی اور خلیفہ جماعت سے منتخب کرائوں گا تو اس کے بعد ایک منٹ کیلئے بھی انہیں یہ خیال کس طرح پیدا ہوا کہ میں ابھی جماعت میں شامل ہوں۔ پس اس میں میرے نکالنے یا نہ نکالنے کا کوئی سوال نہیں۔ جب میری نسبت انہوں نے اس قسم کے خیالات ظاہر کرنے شروع کردیئے تو میری نگاہ میں وہ اُسی وقت میری بیعت سے نکل گئے تھے۔ اگرمحمد ﷺ اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہیں اور یقینا سچے ہیں تو جس وقت کوئی شخص کہے گا آپ جھوٹے ہیں وہ اُسی وقت ان کی نگاہ میں اور ہر مومن کی نگاہ میں مسلمان نہیں رہے گا۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے آ پ کو سچا سمجھتے ہیں اور وہ یقینا سچے ہیں تو جس وقت کوئی شخص کہے گا کہ آپ جھوٹے ہیں وہ اُسی وقت آپ کی نگاہ میں اور ہر مومن کی نگاہ میں احمدیت سے نکل جائے گا۔ اسی طرح اگر ایک امام اور خلیفہ اپنے آپ کوسچا سمجھتا ہے تو جس وقت کوئی شخص اس امام اور خلیفہ کی نسبت کہے گا کہ وہ خلافت کا اہل نہیں تو وہ اُسی وقت اس کی بیعت سے الگ ہوجائے گا۔ پس اوّل تو اس میں اعلان کرنے یا نہ کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا مجھے خود اعلان کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن جو اعلان میں نے کیا ہے اس کا بھی ہرگز وہ مفہوم نہیں جو کہا جاتا ہے۔ اعلان میں خارج کرنے کے الفاظ کہیں درج نہیں ہیں۔ میںنے انہیں صرف یہ لکھاہے کہ آپ یہ کیا کہتے ہیں کہ میں ۲۴ گھنٹے کے بعد آپ کی بیعت سے نکلوں گا آپ تو اُسی وقت سے جماعت سے علیحدہ ہیں جب سے آپ کے دل میں وہ خیالات پیدا ہوئے۔ پس جھوٹ مَیں نے نہیں بولا بلکہ جھوٹ اُن معترضین نے بولا ہے جنہوں نے یہ کہا کہ میں نے مصری صاحب کو جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کیا ہے حالانکہ میں نے انہیں خارج نہیں کیا بلکہ ان کو جماعت سے خارج سمجھتے ہوئے ان کے خروج کا اعلان کیا ہے۔ اور اگر کوئی احمدی یہ کہے کہ مصری صاحب کو جماعت سے خارج کیا گیا ہے تو اس کے بھی یقینا یہی معنے ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔ یہ طریقہ صرف اختصار سے بات کرنے کا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
غرض میری طرف سے صرف اس امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ مصری صاحب جماعت سے دیر سے نکل چکے ہیں اور آپ کا اپنے گندے خیالات کے باوجود یہ کہنا کہ ابھی تک آپ جماعت سے نہیں نکلے درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ گزشتہ ایام میں منافقت کا پردہ اوڑھ کر ہمارے اندر شامل رہے ہیں اور یہ واقعہ میں بہت بڑی شرمناک بات ہے کہ ایک شخص درحقیقت جماعت سے نکلا ہوا ہو لیکن اس کے باوجود وہ سلسلہ کا تنخواہ دار کارکن ہو اور اپنی پوزیشن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے لوگوں میں پراگندگی پیدا کرنے کی کوشش کرے اور ان کے قلوب میں زہر بھرنا شروع کردے۔ اسی کا نام منافقت ہے اور یہی میں نے انہیں بتایا کہ خدا کے نزدیک تو آپ اُسی وقت سے جماعت سے خارج ہیں جب سے آپ کے دل میں یہ خیالات پیدا ہونے شروع ہوئے اور میرے نزدیک اسی وقت سے جب سے آپ نے ان خیالات کومجھ پر ظاہر کیا پس آپ یہ کیا کہتے ہیں کہ ۲۴ گھنٹے کے بعدمیں آپ کی بیعت سے نکلوں گا۔
دوسرے میں نے سُنا ہے کہ ان کے بعض ہم خیال یا ان سے ہمدردی رکھنے والے لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ مصری صاحب جماعت سے نکل گئے ہیں مصری صاحب جماعت سے نہیں نکلے انہوں نے صرف بیعت سے علیحدگی کا اظہار کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے خط میں بیعت سے علیحدگی کے ہی الفاظ ہیں جماعت سے الگ ہونے کے الفاظ نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ جماعت کسے کہتے ہیں۔ جماعت توکہتے ہی اسے ہیں کہ چند آدمی اکٹھے ہوں۔ اور وہ اکٹھے مذہبی اور روحانی لحاظ سے بیعت کے ذریعہ ہی ہوسکتے ہیں، کسی اور طرح نہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’پیغامِ صلح‘‘ میں غیراحمدیوں کے متعلق یہی تحریر فرمایا ہے کہ وہ پراگندہ طبع اور پراگندہ خیال ہیں۔ کسی ایسے لیڈر کے ماتحت وہ لوگ نہیںجو اِن کے نزدیک واجب الاطاعت ہو اور یہ کہ جماعت صرف میری ہی ہے جو ایک ہاتھ پرجمع ہے۔ توجماعت اور بیعت لازم و ملزوم ہیں اور دنیا میں وہ کون سا دستور ہے جس کے ماتحت جماعت تو ہو مگربیعت نہ ہو۔یہ الگ بات ہے کہ وہ بیعت روحانی ہو یا جسمانی۔ مگربہرحال کوئی جماعت بیعت کے بغیر قائم نہیں ہوسکتی۔ مثلاً حکومتیں بیعت نہیں لیتیں لیکن وہ اپنے افسروں سے اطاعت کیلئے قسمیں لیتی ہیں۔ اسی طرح بادشاہ اور پریذیڈنٹ لوگوں سے قسمیں لیتے ہیں کہ وہ ان کے فرمانبردار رہیں گے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہمارے نئے بادشاہ کی رسم تاجپوشی منائی گئی ہے اس موقع پر سب افسروں سے قسمیں لی گئی ہیں اور یہ قسمیں لینا بھی بیعت کی ایک قسم ہے ورنہ اگر بیعت نہ ہو یا قسم نہ ہو یا آپس میں کوئی عہدو پیمان نہ ہو تو وہ جماعت نہیں بلکہ افراد ہیں۔
جماعت کے معنے صرف یہ ہیں کہ وہ چند افراد جو ایک نظام کی پابندی کرنے والے ہوں اورکہتے ہوں کہ ہمیں جو بھی حکم ملے گا ہم اُس کی پابندی کریں گے۔ یہ اطاعت کا عہد ہمارے ہاں بیعت کے ذریعہ ہوتاہے۔ بعض قوموں میں اس کی ظاہری علامت قسم ہے اور بعض قوموں میں اور علامات ہیں۔ بہرحال جماعتیں کسی نہ کسی علامت کے ذریعہ اقرار کرتی ہیں کہ ہم حکومت یا نظام کی پابندی کریں گی۔ ان حالات میں جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں خلیفہ کی بیعت سے الگ ہوتا ہوں تو اس کے سوائے اس کے اور کوئی معنے نہیں کہ وہ جماعت احمدیہ کے اس نظام سے الگ ہوتاہے جس میں وہ پہلے شامل تھا اور یہی ہم کہتے ہیں۔ ہم جب کہتے ہیں کہ فلاں شخص جماعت سے نکل گیا تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ ہمارے نظام سے وہ الگ ہوگیا اور ہماری اطاعت کے عہد کو اس نے توڑ دیاہے۔ یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ پیغامیوں میں سے نکل گیا یا اگر مصری صاحب نے کوئی اپنا مخفی بیعت نامہ جاری کیا ہؤا ہے تو اس بیعت سے الگ ہوگیا ہے۔ ہم جب بھی یہ کہیں گے کہ فلاں شخص جماعت سے الگ ہوگیا تو اس کے نہ یہ معنے ہوں گے کہ وہ انگریزی حکومت سے نکل گیا نہ یہ معنے ہوں گے کہ وہ جرمنی حکومت سے نکل گیا۔ نہ یہ معنے ہوں گے کہ وہ پیغامیوں میں سے نکل گیا بلکہ اس کے صرف یہ معنے ہوں گے کہ وہ ہماری جماعت کے خلیفہ اور امام کی بیعت سے نکل گیا۔ یہی بات ہے جو میں اپنے خطبوں میں کئی دفعہ بیان کرچکا ہوں کہ جب کوئی شخص ہماری جماعت میں سے نکل جائے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ احمدیت سے نکل گیا۔ چنانچہ میں نے اپنے بعض خطبوں میں بھی یہ بیان کیا ہؤا ہے کہ احمدیت سے نکالنا میرا کام نہیں۔ ہاں جماعت سے نکالنا میرا اختیار ہے اور یہ کہ جب تک کوئی شخص اپنے آپ کو احمدی کہے گا ہم بہرحال اسے احمدی کہیں گے بشرطیکہ کوئی وجہ اس میں ایسی نہ پائی جائے جو مذہباً اسے احمدیت سے نکال دیتی ہو۔ پھر میں نے یہاں تک کہا ہو اہے کہ احمدیت سے نکالنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی کام نہیں بلکہ اپنے مذہب سے خارج کرنا کسی نبی کا بھی کام نہیں۔ مذہب سے خدا ہی نکال سکتا ہے، نبی بھی نہیں نکال سکتا۔ پس جماعت سے نکالا جانا ایک اصطلاح ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ شخص ہمارے نظام سے الگ ہوگیا۔ باقی یہ کہ اس کے بعد اس کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی ایمان رہا ہے یا نہیں، اس کے متعلق فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں حتیٰ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی کام نہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی احمدیت سے اُسے ہی خارج سمجھیں گے جو وہ امور کرے جن کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے انسان کے مذہب سے خارج ہوجانے کا فیصلہ فرمایا ہو۔ ہم بھی ایسے ہی شخص کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ وہ احمدیت سے نکل گیا ہے ۔اور جب ہم کسی شخص کو جماعت سے خارج کرتے ہیں تو اس کے معنے صرف یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ سلسلہ سے اس کے خروج کے متعلق ہم اعلان کرتے ہیں۔ اگر جماعت سے الگ ہونے کے بعد وہ احمدیت ترک نہ کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کامل ایمان رکھیں تو ہم کون ہیں جو انہیں احمدیت سے نکال سکیں۔
پس مصری صاحب کا یہ اعتراض کہ میں نے تو کہا تھا میں آپ کی بیعت سے الگ ہوتا ہوں اور میرے متعلق کہا یہ جارہا ہے کہ میں جماعت سے الگ ہوگیا ہوں ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے میں نے فلاں شخص کو اپنی چاردیواری سے نکلنے کو کہا تھا ، گھر سے نکلنے کیلئے تو نہیں کہا تھا۔ جب چاردیواری کانام ہی گھر ہے تو جب کوئی شخص چاردیواری میں سے نگل گیا وہ گھر میں سے بھی نکل گیا۔ اسی طرح جماعت جب نام ہے اُس نظام کا جو بیعت کے ذریعہ قائم ہے تو جب ایک شخص بیعت سے نکل گیا تو اُسی وقت وہ جماعت سے بھی علیحدہ ہوگیا۔ ہاں اگر وہ اپنی جماعت بنالیں جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نیا خلیفہ بنانا چاہتے ہیں تو انہیں خوارج کی جماعت میں شامل سمجھ لیاجائے گا۔ ہماری جماعت سے تو وہ یقینا نکل چکے ہیں۔ ہاں اگر خدانخواستہ جماعت احمدیہ کسی وقت سب کی سب ان کے ساتھ شامل ہوجائے تو پھر چونکہ اور کوئی جماعت نہیں رہے گی اس لئے انہی کی جماعت جماعت کہلاسکے گی۔ لیکن اگر خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت قائم رہے اورجیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے یہ جماعت بہرحال صداقت پرقائم رہے گی اور بڑھے گی اوربڑھتی چلی جائے گی اور اس کے تمام دشمن ناکام و نامراد رہیں گے تو ان کا یہ کہنا کہ میں بیعت سے نکلا ہوں جماعت سے نہیں نکلا، اس سے زیادہ بیوقوفی اور حماقت کی بات اور کم ہی ہوگی۔
خود رسول کریم ﷺ کی احادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے اسلام اورجماعت میں فرق کیا ہے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لانا اسلام پر ایمان لانا ہے اور جو شخص آپ پر ایمان نہیں لاتا وہ مومن نہیں کہلاسکتا۔ لیکن آپ فرماتے ہیں مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَلَیْسَ مِنَّا ۲؎کہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہوا وہ ہم میں سے نہیں۔ اب یہاں رسول کریم ﷺ نے دو چیزیں علیحدہ علیحدہ بیان فرمائی ہیں۔ ایک اسلام اور ایک جماعت۔ اگر فَلَیْسَ مِنَّا سے مراد صرف جماعت ہی لی جائے تویہ کہنا کہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہؤا وہ جماعت سے علیحدہ ہوگیا، بے معنی فقرہ ہوجاتا ہے۔ جو شخص جماعت سے بالشت بھر الگ ہوجائے وہ بہرحال الگ ہوجاتا ہے اس کیلئے فَلَیْسَ مِنَّا کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کہا جائے کہ جو مرگیا سو مرگیا۔ جو مرجاتا ہے وہ بہرحال مرجاتا ہے۔ اس کیلئے ’’سومرگیا‘‘ کہنا بے معنی ہے۔ یا کہاجائے جس نے روٹی کھالی سو کھالی۔ جو سوگیا سو سوگیا۔ جس طرح ان فقروں کا کوئی مفہوم نہیں۔ اسی طرح اگر فَلَیْسَ مِنَّا کے یہی معنے سمجھے جائیں کہ وہ جماعت سے الگ ہوگیا تو فقرہ یُوں بن جاتا ہے کہ جو جماعت سے الگ ہوگیا وہ جماعت سے الگ ہوگیا ۔ لیکن میں جیساکہ بتاچکا ہوں یہ بے معنی فقرہ ہوجاتا ہے۔
پس حقیقتاً اس کے معنے یہی ہیں کہ وہ شخص جو جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کاوجود ایمانیات میں شامل ہے سے علیحدہ ہوتا ہے۔ پس جماعت اور اسلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ بیان کیا ہے مگر ساتھ ہی فرمادیا کہ جماعت سے الگ ہونا کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ جو شخص جماعت سے الگ ہوتا ہے اس کے اسلام میں بھی رخنہ پڑ جاتا ہے اوروہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی جُدا ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ اسلام تمدنی مذہب ہے اور اس کے بہت سے احکام ایسے ہیں جو جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اگر کوئی شخص جماعت سے الگ ہوجائے تو وہ ان احکام کی پابندی نہیں کرسکتا۔ یہی دیکھ لو اس زمانہ میں ہمیں حکم ہے کہ ہم احمدیت کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچائیں۔ اب یہ تبلیغ ایک جماعت ہونے کی وجہ سے ہم کررہے ہیں مگر یہ تین آدمی جو ہم سے الگ ہوئے ہیں کونسی تبلیغ کررہے ہیں۔ پس یہ ان کاموں سے محروم ہوگئے ہیں جو بحیثیت جماعت کئے جاتے ہیں اورجن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے۔ اسی طرح اور بیسیوں کام ہیں جو جماعت سے الگ ہوکر نہیں کئے جاسکتے اور وہ ان تمام کاموں کے ثواب سے محروم رہیں گے۔ پس جب انسان جماعت سے الگ ہوتا ہے تو بیسیوں نیکی کے کاموں سے وہ محروم ہوجاتا ہے۔ بیشک جو انفرادی کام ہوں وہ الگ بھی کرسکتا ہے مگر جو جماعتی کام ہوں اور جن میں ایک جتھے اور نظام کی ضرورت ہووہ بغیر جماعت کے نہیں کئے جاسکتے۔ مثلاً نماز وہ الگ پڑھ سکتے ہیں، زکوٰۃ وہ الگ دے سکتے ہیں، گو زکوٰۃ کی تقسیم جس رنگ میں اسلام چاہتا ہے وہ انفرادی طور پر نہیں کرسکتے کیونکہ اس کیلئے بھی ایک جماعت اورنظام کی ضرورت ہے۔ اسی طرح وہ اکیلے اکیلے جہاد نہیں کرسکتے بلکہ جہاد فی سبیل اللہ کیلئے بھی ایک جماعت اور نظام کی ضرورت ہے ۔ تعلیم و تربیت بھی جماعت سے تعلق رکھتی ہے۔ ۔ تبلیغ بھی جماعت کے ذریعہ ہوسکتی ہے اوریہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ جب بھی کوئی شخص جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ ان کاموں میں حصہ لینے سے محروم ہوجاتا ہے اوراس طرح نہ صرف وہ جماعت سے الگ ہوتا ہے بلکہ اس کے اسلام میں بھی رخنہ پڑ جاتا ہے۔ اس کیلئے موقع تھا کہ وہ جماعت کے ساتھ شامل ہوکر خداتعالیٰ کے احکام کی بجاآوری میں حصہ لیتا مگر اس نے الگ ہوکر ثواب کے دروازہ کو اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر بند کرلیا۔ اب جب سے یہ تینوں آدمی الگ ہوئے ہیں اور ان کے دلوں کا گند ظاہر ہؤا ہے اُس وقت سے ہماری طرف سے جو تبلیغ بیرونِ ہند اور اندرونِ ہند میں ہورہی ہے اس کا ثواب ان لوگوں کو تو پہنچتا ہے جو ہماری جماعت میں شامل ہیں مگر ان کو نہیں پہنچ سکتا جو جماعت سے الگ ہوگئے ہیں۔ پس وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں لندن میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں بوڈا پسٹ ۳؎ میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں امریکہ میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں جاپان میںہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں چین میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں فلسطین میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں شام اورمصر میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں گولڈکوسٹ اور نائیجیریا میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میںمشرقی افریقہ ،ماریشس،سیلون اور سٹریٹ سیٹلمنٹس میں ہوئی،وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں جاوا اور سماٹرا میں ہوئی اور وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں روم اور یوگوسلاویہ میںہوئی ان تمام تبلیغوں کے ثواب میں ہر وہ شخص حصہ دار ہے جو ہماری جماعت میں شامل ہے مگر یہ تین شخص اس تبلیغ کے ثواب میں شریک نہیں۔ پس جو ثواب جماعت کے ساتھ تعلق رکھتاہے وہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب انسان جماعت کے ساتھ شامل ہو۔ لیکن جب کوئی جماعت سے الگ ہوجاتا ہے تو وہ ان نیکیوں اور ثواب کے ان تمام کاموں سے محروم ہوجاتا ہے۔ اور اس طرح اس کے اسلام میں بھی رخنہ واقع ہوجاتا ہے۔ اسی لئے رسول کریم ﷺنے فرمایا مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَلَیْسَ مِنَّا جو شخص بالشت بھر بھی جماعت سے الگ ہوا اُس کے اسلام میں رخنہ پیداہوجاتا ہے اور وہ ہمارا نہیں رہتا۔ اور جب رسول کریم ﷺ یہ فرماتے ہیں کہ وہ ہمارا نہیں رہتا تو ہمارے سے مراد آپ کی یقینا اسلام ہے یعنی اس کے نتیجہ میں اس کے اسلام میں بھی رخنہ پڑجاتا ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ مصری صاحب اور ان کے ساتھیوں نے جو قدم اٹھایا تھا وہ ایسا اہم تھا کہ اس کے بعد چاہئے تھا وہ خشیت اللہ سے لبریز ہوجاتے ، توبہ و استغفار میں لگ جاتے، دعائوں سے کام لیتے اور اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرکے اس کی مدد چاہتے۔ مگر مجھے تعجب اور افسوس ہے کہ بجائے اس کے کہ ان کے دلوں میں خشیت اللہ پیدا ہوتی وہ ایسے کاموں میں لگ گئے جو عام نیکی اور تقویٰ کے بھی خلاف ہیں اور اس قسم کے غلط واقعات شائع کررہے ہیں کہ جسے کوئی ایماندار شخص جائز نہیں سمجھ سکتا۔ چنانچہ جماعت اور اس کے نظام پر وہ بے بنیاد الزام لگارہے ہیں اور جب ان سے دریافت کیا جاتا ہے کہ اس کا کیا ثبوت ہے تو وہ کوئی ثبوت پیش نہیں کرتے۔ مثلاً شروع میں ہی انہوں نے کہہ دیا کہ جماعت کے اندر ایک بہت بڑ ابگاڑ پیدا ہوچکا ہے جو ’’بہت سے لوگوں کو دہریت کی طرف لے جاچکا ہے او ربُہتوں کو لے جانے والا ہے‘‘۔ اب یہ کتنا بڑا اتہام ہے جوجماعت احمدیہ پر لگایا گیا۔ دہریہ کے معنے یہ ہیں کہ ایسا شخص جو خداتعالیٰ کی ذات کا منکر ہے۔ اگر مصری صاحب کے منہ پر انہیںجاکر کوئی شخص بے ایمان کہہ دے تو وہ شور مچادیں گے یا نہیں؟ اگر مصری صاحب کو کوئی منافق کہہ دے تو وہ کہیں گے یا نہیں کہ مجھے گالیاں دی جارہی ہیں۔ اگر مصری صاحب کے متعلق کوئی شخص کہہ دے کہ وہ وفاتِ مسیح کے قائل نہیں رہے تو وہ اس شور سے آسمان سر پر اُٹھالیں گے کہ نہیں کہ دیکھو یہ جماعت تقویٰ سے کس قدر گرگئی ۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ میں وفاتِ مسیح کا قائل نہیں حالانکہ میں قائل ہوں۔ اسی طرح اگر کوئی کہہ دے کہ مصری صاحب نماز پڑھنے کے قائل نہیں تو وہ جھٹ شور مچادیں گے اور کہیں گے دیکھا یہ کیسے بُرے لوگ ہیں مجھ پر سراسر جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نمازوں کا قائل نہیں رہا حالانکہ میں قائل ہوں۔ غرض جو جو تفصیلاتِ عقائد یا جُزئیاتِ اعمالِ صالحہ ہیں ان میں سے کسی ایک کے متعلق ہی یہ کہنے پر کہ وہ اس کے قائل نہیں رہے وہ طیش میں آجائیں گے۔ مگر جماعت احمدیہ کے متعلق سراسر جھوٹے اور بے بنیاد الزام شائع کرنے اور اس کی طرف بالکل غلط باتیں منسوب کرنے کے باوجود بھی وہ یہ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو ان کی باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے اور طیش میں نہیں آنا چاہئے ۔ ان کو یہ جھوٹی خبر اور بے بنیاد خبر سن کر تو سخت تکلیف ہوئی کہ مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے لاہورمیں کہا ہے کہ مصری صاحب کو اس لئے ٹھوکرلگی کہ انہوں نے اپنی لڑکی خاندانِ نبوت میں رشتہ کیلئے پیش کی تھی، مگر رشتہ نہ لیا گیا۔ حالانکہ مولوی غلام رسول صاحب راجیکی اس بات سے انکار کرتے اور لکھتے ہیں کہ ’’میں نے یہ الفاظ ہرگز نہیں کہے شیخ صاحب نے بے احتیاطی سے کام لیتے ہوئے میری نسبت غلط طور پر راوی کی غلط بیانی کی بنا ء پر کہہ دیئے ہیں جو محض تہمت اور بُہتان ہے‘‘۔ لیکن میرا تقویٰ دیکھو میںنے مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کو لکھوایاکہ بعض دفعہ انسان بات کہہ کر بُھول بھی جاتا ہے آپ اچھی طرح سوچ لیں اورجماعت سے بھی دریافت کرلیں کہ ان میں سے کسی شخص کے سامنے آپ نے یہ بات تو نہیں کہی مگر انہوں نے پھر بھی یہی لکھا کہ میں نے کسی شخص کے سامنے یہ بات نہیں کہی۔
پس انہیں اپنے متعلق ایک چھوٹی سی بات سُن کر توطیش آگیا اور فوراً ایک اشتہار شائع کردیا۔ مگر جماعت احمدیہ جو خداتعالیٰ کی آخری جماعت ہے ، جو خداتعالیٰ کے آخری مامور کوماننے والی جماعت ہے، جو اصحاب الصفہ کی جماعت ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماً فرماتا ہے کہ تجھے کیا معلوم یہ پاکباز غریب جو تیری جماعت میں شامل ہیں ان کی خداتعالیٰ کے نزدیک کیا شان ہے وہ اس جماعت کے متعلق یہ نہیں کہتے وہ نماز کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ روزے کی منکر ہے ،یہ نہیں کہتے وہ حج کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ زکوٰۃ کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ دیانت و امانت کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ مسیح موعود کی منکر ہے یہ نہیں کہتے وہ محمد ﷺ کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْھِمَا السلام کی منکر ہے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ خداتعالیٰ ہی کی منکر ہے۔ کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِم۴؎ بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلی ۔ اب کیا یہ معمولی بات ہے جو انہوں نے کہی کہ بہت سے لوگ جماعت احمدیہ میں سے دہریہ ہوچکے ہیں اور بہت سے دہریہ ہونے کی تیاری کررہے ہیں۔ کیا یہ ایک معمولی سا الزام ہے کہ اس پر ہم خاموش ہوکر بیٹھ جائیں اور اس کے خلاف اظہارِ نفرت نہ کریں یا ان سے اس الزام کا ثبوت طلب نہ کریں۔ مگر باوجود اس کے کہ ان سے بار بار یہ مطالبہ کیا جاچکا ہے کہ وہ ان لوگو ں کو جو جماعت میں سے دہریہ ہوچکے ہیں ہمارے سامنے پیش کریں اور ان کے نام بتائیں وہ بالکل خاموش ہیں۔ ان کی بیٹی کی شادی کا معاملہ آجائے تو وہ اشتہار دینے لگ جاتے ہیں مگر دوسروں کے ایمان پر وہ تبر چلارہے ہیں۔انہیں نہ صرف تمام صداقتوں کے منکر بلکہ خدا تعالیٰ کامنکر قرار دے رہے ہیں اور پھر جب ان سے دریافت کیا جاتا ہے تو وہ خاموش ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا یہی تقویٰ اور دیانت ہے ؟اور کیا ان کی پوتی کا دودھ اس سے زیادہ قیمتی ہے جتنا جماعت کے ایمان کا معاملہ قیمتی ہے۔ کیا پہرے کا سوال زیادہ قابل ذکر ہے او رجماعت کے دہریہ ہونے کا سوال قابلِ ذکر نہیں؟ کیا ان کے گھر میں کسی کا دُوربین سے دیکھ لینا زیادہ قابلِ توجہ فعل ہے اور جماعت کے ایمان کا سوال قابلِ توجہ نہیں؟ مگر وہ کہتے ہیں چھوڑدو اس سوال کو کہ جماعت دہریہ ہوگئی ہے یانہیں، آئو ان باتوں کا فیصلہ کریں کہ ان کی پوتی کا دودھ کس نے بند کیا۔ کیونکہ ان کی خاموشی کے سوا اس کے اور کچھ معنے نہیں کہ وہ اپنے عمل سے بتارہے ہیں کہ اس سوال کوجانے دو او ران باتوں کی طرف توجہ کرو جو میں نے پیش کیں۔ آخر جب کوئی دوسرے پر اتنا بڑا الزام لگاتا ہے تو کیسی بے ایمانی ہے کہ اس الزام کو ثابت نہیں کیا جاتا اور معمولی معمولی باتوں کو پیش کیاجاتا ہے۔ وہ ان لوگوں پر جو خداتعالیٰ کو دیکھ کر ایمان لائے جو دنیا میںایمان قائم کرنے کیلئے کھڑے ہوئے یہ الزام لگاتے اور نہایت ہی جھوٹا اور ناپاک بُہتان باندھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر دہریہ ہوچکے ہیں اور بہت سے دہریہ ہونے کی تیاری کررہے ہیں۔ مگر جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اس ناپاک الزام کو ثابت کریں تو کہتے ہیں اس سوال کو رہنے دو اور آئو اس بات پر ٹھنڈے دل سے غور کرو کہ میری پوتی کا دودھ کس نے بند کیا۔ اس سے زیادہ بیوقوفی اور حماقت اور کیا ہوگی ۔وہ ایک گھر کو آگ لگاتے ہیں اور کہتے ہیں اس آگ کو نہ بجھاؤ آؤ اور یہ دیکھو کہ میرا سگریٹ کس نے جلایا۔ وہ ایک کو قتل کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس قتل کی کیا تحقیق کرنی ہے مجھے آج چھینکیں آئی ہیں ان چھینکوں کے آنے کی وجہ دریافت کرو۔ وہ ایسا خطرناک الزام جماعت پر لگاتے ہیں کہ جس الزام سے بڑھ کر اور کوئی الزام نہیں ہوسکتا، وہ جماعت کے سینہ میں ناسور ڈالتے اور پھر کہتے ہیں جماعت ٹھنڈے دل سے غور کرے اوربتائے کہ وہ چھوٹی چھوٹی تکلیفیں انہیں کیوںپہنچیں۔ یہ بھی جھوٹ ہے کہ انہیں وہ تکلیفیں پہنچیں۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ اتنا بڑا الزام لگانے کے بعد ان کا یہ خیال کرناکہ پہلے ان امور کی تو تحقیق ہو اور جماعت پر دہریت کا الزام لگا کر وہ خاموش ہوجائیں یا تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خود دہریہ ہیں اور اس الزام کی حقیقت کو نہیں سمجھتے او ریا یہ کہ ان کے دماغ میں نقص ہے۔ بہرحال ایک مومن جو اپنے ایمان کی قدرکوجانتا اورجو حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی قیمت کو پہچانتاہے وہ تو کبھی اس الزام کو سُن کر خاموش نہیں ہوسکتا اور وہ تو اس کے ثبوت کا ان سے مطالبہ کرتا رہے گا کیونکہ یہ الزام کسی فرد پر نہیںبلکہ خداتعالیٰ کی مقدس جماعت پر ہے اور سچ یہ ہے کہ اگر یہ الزام ان کا درست ہو تو حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت ہی مشکوک ہوجاتی ہے۔ پس ایک سچا احمدی اس الزام کے بعد تسلّی نہیں پاسکتا جب تک اسے دو رنہ کرلے اورمصری صاحب کو جھوٹا نہ ثابت کرے۔
بہرحال وہ خواہ خاموش رہیں مگر میں ان کے دوسرے الزامات کے متعلق بھی خاموش نہیں رہنا چاہتا۔ مصری صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے گھر کی ناکہ بندی کی گئی ہے، ضرویاتِ زندگی کے حصول میں روکیں پیدا کی جارہی ہیں، دُکانداروں کو سَودا دینے سے روکا جاتا ہے، بھنگن کو کام کرنے سے منع کیا گیا ہے، غیراحمدی مزدوروں کو کام کرنے سے روکا گیا ہے، اُن کی پوتی کا دودھ بند کیا گیا ہے، غیراحمدی ملازمہ کو گھر میں کام کرنے سے منع کیا جاتا ہے اور یہ کہ جب وہ باہر نکلتے ہیں تو ان پر چند لونڈے مسلّط ہوتے ہیں جو اِن کے ساتھ ساتھ پھرتے ہیں۔ پھر ۴ جولائی کو ۱۵،۱۶ نوجوان جو لاٹھیوں اور ہاکیوں سے مسلح تھے آئے اور ا ن کے گھر کی ناکہ بندی کرلی اور گھر کو دُور بین لگا کر اندر سے دیکھا۔ یہ وہ الزامات ہیں جو جماعت احمدیہ کے خلاف انہوںنے شائع کیے ۔ میں سمجھتا ہوں ان حالات میں جبکہ وہ ہماری جماعت پر یہ خطرناک الزام لگارہے ہیں کہ یہ جماعت دہریہ ہوگئی اور وہ ہمارے مطالبات کا جواب تک دینے کیلئے تیار نہیں ان کا کوئی حق نہیں کہ وہ ہم سے اپنی تکلیفوں کے متعلق تحقیقات کا مطالبہ کریں۔ ہماری جماعت لاکھوں کی جماعت ہے۔ لیکن اگر اس کو تسلیم نہ کیا جائے تو گورنمنٹ کی مردم شماری کے رُو سے ہی ۱۹۳۰ء میں صرف پنجاب میں ہماری جماعت چھپن ہزار تھی جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سارے ہندوستان میں کم از کم ہماری جماعت ایک لاکھ ہے۔ اب ایک لاکھ میں بہت سے لوگوں کے دہریہ ہوجانے کا مطلب تو یہ ہے کہ پچاس ساٹھ ہزار ایسے لوگ ہیں جو دہریہ ہوچکے ہیں۔ لیکن اگر پچاس ساٹھ ہزار نہ سہی تو کم از کم دو چار ہزار ایسے لوگ ضرور ہونے چاہئیں جو دہریہ ہوچکے ہوں۔ کیونکہ اگر خالی بہت کا لفظ استعمال کیاجائے تو اور بات ہوتی ہے اور ضروری نہیں ہوتا کہ اس سے ہزاروں لوگ مراد ہوں لیکن جب ایک ایسی جماعت کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا جائے گا جو کئی لاکھ افراد پر مشتمل ہے تو اس سے یقینا ہزاروں لوگ ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ ہمارے اندازہ میں ہماری جماعت کی تعداد دس لاکھ ہے۔ گولڈ کوسٹ میں ہی گورنمنٹ کی مردم شماری کے مطابق ہمارے چوبیس ہزار احمدی ہیں۔ پس اگر گولڈکوسٹ میں چوبیس ہزار احمدی ہوسکتے ہیں تو یقینا ساری دنیا کے احمدی دس لاکھ سے کسی صورت میں کم نہیں۔لیکن اگر دس لاکھ نہ مانو اور صرف ایک لاکھ لے لو تب بھی پچاس ساٹھ ہزار اور کم از کم دوچار ہزار ایسے لوگ ضرور ہونے چاہئیں جو ان کے نقطۂ نگاہ میں دہریہ ہوچکے ہیں۔ لیکن اتنا بڑا الزام لگانے کے بعد جب ان سے دریافت کیا جاتا ہے کہ ان تمام لوگوںکے نام بتائیں تو خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ جس سے ہر حق پسند انسان یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہے کہ انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے اور دیانت کو ترک کرتے ہوئے صرف جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب جبکہ ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے یونہی لوگوں کے نام لینے شروع کردیئے تو وہ ہم پر نالشیں کریں گے، مقدمے چلائیں گے اور کہیں گے انہوں نے ہماری عزت پر حملہ کردیا۔ ورنہ اگر سچ مچ جماعت میں سے اکثر لوگ دہریہ ہوچکے ہوتے تو کیا ان کے نام بتانے میں انہیں کوئی ڈر ہوسکتا تھا؟ اگر میاں فخرالدین اور عبدالعزیز کو جو باوجود ایک عرصہ سے شکوک و شبہات پیدا ہونے کے ظاہر ہونے کی جرأت نہیں کرسکے ڈر نہیں آیا تو جو لوگ دہریہ ہوچکے ہوں انہیں کس بات سے ڈرآسکتا ہے۔ مگر واقعہ یہی ہے کہ انہوںنے جماعت پر جھوٹا الزام لگایا اور اب اس ڈر کے مارے نام نہیں بتاتے کہ اگرکسی کا نام لیں گے تو پھنس جائیں گے۔ لیکن ایک طرف اس قدر خاموشی اور دوسری طرف یہ شور مچائے جارہے ہیں کہ ان کی پوتی کا دودھ بند کردیاگیا۔ حالانکہ قادیان میں جتنی گائیں ، بھینسیں احمدیوں کے پاس ہیں اس سے دُگنی، تگنی گائیں بھینسیں غیراحمدیوں، ہندوئوں اور سکھوں کے پاس ہیں۔ پس جو چیز نہایت آسانی سے انہیں قادیان سے میسر آسکتی ہے بلکہ اگر کئی من دودھ چاہیں تو بھی انہیں مل سکتا ہے وہ اس کی تحقیقات تو کرانا چاہتے ہیں مگر جماعت پر اتنا بڑا حملہ کرکے اس کی تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھتے۔
اب جو واقعات انہوں نے مظالم کے نام سے شائع کئے ہیں، میرے نزدیک ان کے متعلق تحقیق کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ ان کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ جماعت پر اتنا بڑا اتہام لگا کر جماعت سے ہی کہتے کہ وہ ان کی تکلیفوں کے متعلق تحقیق کرے۔ انہوں نے جماعت کے دلوں میں ایک آگ لگادی ہے، ان کے سینوں میں یہ کہہ کر ناسور ڈا ل دیئے ہیں کہ جماعت کا اکثر حصہ دہریہ ہوگیا ہے۔ مگر دوسروں کے گھروں کو آگ لگا کر انہیں بلاتے اور کہتے ہیں آئو اور میرے چولہے میں پانی ڈالو۔ پس اس الزام کے بعد ہرگز ان کا کوئی حق نہ تھا کہ میں تحقیقات کرتا اور دریافت کرتا کہ مصری صاحب جو کچھ کہہ رہے تھے وہ کہاں تک درست ہے۔ مگر جب میرے پاس رپورٹ پہنچی تو میں نے تَرَحُّمًا ناظر صاحب امور عامہ کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ تحقیقات کریں اور رپورٹ کریں کہ ان واقعات میں کس حد تک اصلیت ہے۔ اور اگر کسی کی غلطی معلوم ہو تو اُس کا معاملہ پیش کریں۔ اس پر انہوں نے مصری صاحب کو چِٹّھی لکھی کہ آپ اُن مزدوروں کے نام بتائیں جنہیں کام کرنے سے روکا گیا اور اُن دُکانداروں کے نام بتائیں جنہوں نے سَودا دینے سے انکار کیا تا اس کے متعلق تحقیقات کی جائے اور اگر کسی شخص کا قصور ثابت ہو تو اسے مناسب سزا دی جائے۔ اس کا جو جواب مصری صاحب نے دیا اس کے متعلق میں نے ہدایت کردی تھی کہ وہ تمام مساجد میں سنادیا جائے۔ اور میں بھی تفصیل سے ابھی اس کا ذکر کروں گا۔ فِی الْحال میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ مصری صاحب نے نام پیش کرنے سے انکار کردیا۔ آخر مجبوراً ناظر صاحب امور عامہ کو خود تحقیقات کرنی پڑی اور انہوں نے تحقیق کرکے جو رپورٹ کی وہ یہ ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ان کے گھر کی ناکہ بندی کی گئی یہ بالکل غلط ہے۔ ناکہ بندی کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ نہ گھر سے کسی شخص کو نکلنے دیا جائے اورنہ باہر سے کسی شخص کو گھرمیں داخل ہونے دیا جائے۔ مصری کہلا کر اگر اب وہ اردو بھول گئے ہوں اور ناکہ بندی کی جو اصطلاح ہے اس کے معنے اُن کے ذہن سے اُتر گئے ہوں تو یہ اور بات ہے لیکن یہ بات معمولی علم رکھنے والا انسان بھی جانتا ہے کہ ناکہ بندی کسے کہتے ہیں۔ یہاں پولیس کے سپاہی موجود ہیں ان سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ ناکہ بندی کسے کہتے ہیں۔ ہر شخص کہے گاکہ ناکہ بندی اسی کا نام ہے کہ نہ کسی کو گھر کے اندر جانے دیا جائے اور نہ کسی کو گھر سے باہر نکلنے دیا جائے۔ اب اگر یہ صحیح ہے کہ ان کی ناکہ بندی کی گئی تو ان کا یہ اگلا فقرہ کس طرح درست ہے کہ ’’میرے اوپر چند لونڈے مسلط کئے ہوئے ہیں کہ جدھر میں جائوں وہ سایہ کی طرح میرے پیچھے آئیں‘‘۔
جب ان کے مکان کی ناکہ بندی کی جاچکی ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ گھر سے باہر کس طرح آجاتے ہیں اور اگر واقعہ میں ناکہ بندی ہے تو میاں فخر الدین اور حکیم عبدالعزیز ان کے مکان پرکس طرح پہنچ جاتے ہیں۔ ناکہ بندی کی صورت میں تو کوئی شخص مکان کے اندر داخل نہیں ہوسکتا اورنہ باہر نکل سکتا ہے۔ ہاں اس سے ہمیں انکار نہیں کہ بعض پہرہ دار امور عامہ نے یہ دیکھنے کیلئے مقرر کئے ہوئے ہیں کہ وہ منافقین جن کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں، کون کون ہیں۔ یہی وہ بات ہے جس کا انہیں دراصل شکوہ ہے اور کہتے ہیں ہمارے دوستوں کو ہم سے ملنے کیوں نہیں دیتے۔ حالانکہ کوئی شخص ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میں ان سے ملنے جارہا تھا مگرمجھے ملنے سے روک دیا گیا۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ جانے والے جائیں تا ہمیں پتہ لگے کہ کون لوگ دل سے ان کے ساتھ ہیں اورہمیں دھوکا دے رہے ہیں تا انہیں بھی ہم جماعت سے نکال دیں۔ پس ہماری غرض یہ نہیں کہ کوئی شخص ان سے بات نہ کرے بلکہ ہماری غرض یہ ہے کہ اگر کوئی ان سے بات کرنے والا ہے تو اس کا ہمیں علم ہوجائے اور وہ ہمارے اندر سے نکل جائے۔
پس ہمارے آدمی پہرہ پر اس لئے مقررنہیں کہ کسی کو روکیں بلکہ اس لئے مقرر ہیں کہ جب کوئی وہاں جائے تو اس کی خدمت میں یہ عرض کردیں کہ اب آپ یہیں تشریف رکھیں ہمارے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح اگرمصری صاحب کی حرکات کی کوئی شخص نگرانی کرتا ہے تو یقینا اس لئے کہ اسے معلوم ہوجائے کہ مصری صاحب کس کس شخص کے ہاں جاتے ہیں تا جماعت ان لوگوں سے درخواست کرے کہ منافقت کی کیا ضرورت ہے تم دلیری سے ان کے ساتھ شامل ہوجائو۔ اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جو قانوناً، اخلاقاً یا مذہباً معیوب اور ناروا ہو۔ ہر مذہبی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جماعت کے لوگوں کی نگرانی کرے اور ہم بھی ان کی اسی لئے نگرانی کرتے ہیں تا ہمارے اندر وہی رہے جو ہمارا ہم خیال ہو اور جو ہمارا ہم خیال نہیں وہ ہم سے علیحدہ ہوجائے۔ یہ حق ہر مذہبی جماعت کو حاصل ہے اور اسی حق کا ہم استعمال کررہے ہیں۔ اس کا نام ناکہ بندی رکھنا بتاتا ہے کہ مصری صاحب گویا اس ملک کے باشندے ہی نہیں اور وہ عربی ہی جانتے ہیں، اُردو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ پس جو پہرہ ہے وہ مصری صاحب پر نہیں بلکہ اپنے لوگوں پر ہے، یہ دیکھنے کیلئے کہ ان سے کون ملتا ہے۔ پس پہرہ دار اس لئے کھڑے نہیں کئے گئے کہ مصری صاحب کسی سے نہ ملیں بلکہ اس لئے کھڑے کئے گئے ہیں کہ جو ہماری جماعت میں سے ان سے ملتا ہو اُس کا پتہ لگائیں ۔اور یہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اپنے مکانوں اور گھروں میں بیٹھ کر دوسروں کو دیکھے۔ کیا مصری صاحب اگر اپنے گھر بیٹھ کر کسی کو دیکھیں تو ہم انہیں روک سکتے ہیں؟ اگراسی قسم کے تمسخر کو ہم بھی کام میں لانے والے ہوتے تو ہم شور مچادیتے کہ مصری صاحب اور ان کے دوست برآمدہ میں بیٹھے رہتے اور ہمارے آدمیوں کی نقل و حرکت کا پتہ لگاتے رہتے ہیں۔ کیونکہ جس طرح ہمارے آدمی انہیں دیکھتے ہیں اسی طرح وہ ہمارے آدمیوں کو دیکھتے ہیں ان دونوں میں فرق کونسا ہے۔ اگر ہمارے آدمیوں کا دیکھنا منع ہے تو ان کے آدمیوں کا ہمارے آدمیوں کو دیکھنا بھی منع ہونا چاہئے اور کیا لوگ ہنسیں گے نہیں اگر ناظر صاحب امور عامہ ایک بڑا سا اشتہار شائع کردیں جس پر موٹے حروف میں لکھا ہؤا ہو کہ مصری صاحب کے تازہ مظالم اور نیچے یہ درج ہو کہ مصری صاحب اور فخرالدین اور عبدالعزیز اپنے مکان کے برآمدہ میں بیٹھ کر ہمارے آدمیوں کو دیکھتے اور ہر وقت ان کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں پھر اسی رنگ میں ان کا شور مچانا کیا حقیقت رکھتا ہے۔ جس طرح ہمارے آدمی انہیں دیکھتے ہیں اسی طرح ان کے آدمی ہمارے آدمیوں کو دیکھتے ہیں۔ اس میں حرج کی کونسی بات ہے۔
پھر یہ کہنا کہ ضروریاتِ زندگی کے حصول میں روکیں ڈالی جارہی ہیں یہ بھی بالکل غلط ہے۔ میرا حکم تھا کہ جو چیزیں ضروریاتِ زندگی میں سے ہیں ان کے حصول میں ہرگز روکیں نہ ڈالی جائیں اور یہی محکمہ کی رپورٹ ہے کہ ضروریاتِ زندگی کے حصول میں کوئی روک نہیں ڈالی گئی۔ علاوہ ازیں یہ امر قابلِ غور ہے کہ جس قدر احمدیوں کی یہاں دُکانیں ہیں قریباً اتنی ہی دکانیں سکھوں ، ہندوئوں اور غیراحمدیوں کی ہیں اور وہ ان سے ہر وقت اشیاء خرید سکتے ہیں۔ اگر کہیں کہ ہم سکھوں اور ہندوئوں سے نہیں خرید سکتے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان سے خریدنے کی ممانعت کا باعث جماعت کا ایک باہمی سمجھوتہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حکم اِس بارہ میں کوئی نہیں ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ حکم ہوتا تب تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم اس حکم کی خلاف ورزی کس طرح کرسکتے ہیں۔ مگر جب کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حکم ہی نہیں بلکہ میرا حکم ہے جو بعض فسادات کے رونما ہونے پرجماعت کے مشورہ سے صرف ان لوگوں کو جو خود اس کا عہد باندھنے کا اقرار کرتے تھے دیا گیا تو مصری صاحب کیلئے اس کی تعمیل ضروری نہیں۔ وہ تومیری بیعت میں سے نکل گئے اور تمام عہدوپیمان جو انہوںنے مجھ سے کئے تھے ان سے آزاد ہوگئے۔ اب وہ بالکل آزاد ہیں اور ہندوئوں اور سکھوں سے چیزیں خرید سکتے ہیں۔ پھران کا یہ شور مچانا کس طرح حق بجانب سمجھا جاسکتا ہے کہ قادیان میں انہیں ضروریاتِ زندگی تک حاصل نہیں ہوتیں۔ ہاں اگر وہ اسی پر اصرار کریںکہ ہم نے ضرور احمدی دُکانداروں سے سَودا خریدنا ہے تو یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی ہمارا شدید مخالف دھوپ کے وقت دوسرے مکانات کو چھوڑ کر ہماری ڈیوڑھی میں آبیٹھے اور اصرار کرے کہ میںنے اسی ڈیوڑھی میں بیٹھنا ہے۔ ہر شخص اس بھلے مانس سے کہے گا کہ کیا تجھے اس ڈیوڑھی کے سِوا کہیں سایہ نظر نہیں آتا۔ اگر او ربھی سائے کی جگہیں ہیں تو سب جگہوں کو چھوڑ کر اس ڈیوڑھی میں آنے کا مطلب سوائے فساد کے اور کیا ہے۔ اسی طرح جب آٹا غیروں سے مل جاتا ہے، گوشت غیروں سے مل جاتا ہے، کپڑا غیروں سے مل جاتا ہے، کھانے پینے کی تمام چیزیں غیروں سے مل جاتی ہیں تو آخر کچھ نہ کچھ بھید تو ہے جو تم ان سب کو چھوڑ کر ایک احمدی سے سودا خریدنا چاہتے ہو۔ پس ان کی کوئی ضرورت ایسی نہیں جو یہاں غیروں کے ذریعہ پوری نہ ہوسکتی ہو۔ غیراحمدی مزدور یہاں کثرت سے ملتے ہیں، لوہار اور ترکھان احمدیوں کے علاوہ سکھوں اور ہندوئوں میں بھی موجود ہیں، دودھ دینے والے کثرت سے مل سکتے ہیں بلکہ جتنی گائیں اور بھینسیں سکھوں، ہندوئوں اور غیر احمدیوں کے پاس ہیں اس سے آدھی بھی احمدیوں کے پاس نہیں پھر ان کا یہ شور مچانا کہ ضروریاتِ زندگی ان تک پہنچنے سے روک لی گئیں ہیں کس قدر جھوٹ اور دُوراز حقیقت بات ہے۔ ایک دوست نے یہاں چند دن ہوئے تقریر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ صرف احمدیہ لٹریچر ایسی چیز ہے جو غیراحمدیوں یا ہندوئوں اور سکھوں سے نہیں مل سکتا۔ مگر یہ لٹریچر خود میاں فخرالدین صاحب کے گھر میں بکثرت موجود ہے۔ میں کہتاہوں کہ ممکن ہے وہ کہیں کہ ہمیں کوئی یونانی طبیب چاہئے ہم ڈاکٹروں سے علاج نہیں کراتے۔ اور غالباً غیراحمدیوں یا سکھوں اور ہندوئوں میں یہاں کوئی یونانی طبیب نہیں۔ مگر اس ضرورت کیلئے بھی انہیں احمدی طبیبوں کی ضرورت نہیں یونانی طبیب خود ان کے پاس حکیم عبدالعزیز موجود ہے۔ اسی طرح شاید وہ یہ کہیں کہ ہم اپنے بچوں کو دینیات پڑھاناچاہتے ہیں مگر یہاں ہندوئوں، سکھوں اور غیراحمدیوں میں کوئی ایسا آدمی نہیں جو دینیات پڑھاسکے۔ سو اس ضرورت کیلئے بھی انہیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں خود مصری صاحب موجود ہیں وہ دینیات پڑھاسکتے ہیں۔ غرض احمدیہ لٹریچر غیراحمدیوں اور سکھوں اور ہندوئوں کے پاس نہیں مل سکتا وہ میاں فخرالدین صاحب کے پاس موجود ہے۔ دیسی طبیب یہاں غیراحمدیوں اور سکھوں اور ہندوئوں میں کوئی نہیں یا کم ازکم جہاں تک مجھے علم ہے کوئی نہیں لیکن وہ ان کے پاس حکیم عبدالعزیز کی صورت میں موجود ہے۔ اسی طرح ممکن ہے دینیات پڑھانے و الا انہیں اور کوئی نظر آئے لیکن ان کی یہ ضرورت بھی خود اپنے اندر سے پوری ہوسکتی ہے یعنی مصری صاحب یہ کام کرسکتے ہیں۔
پس صرف تین چیزیں ایسی تھیں جو یہاں انہیں غیروں سے نہیں مل سکتی تھیں مگر یہ تینوں چیزیں خود ان کے پاس موجود ہیں۔ طبیب ان کا اپنا ہے۔ احمدیہ لٹریچر ان کے پاس ہے اور دینیات کا مدرس ان میں موجود ہے گویا وہ Self-Contained ہیں پھر انہیں شکوہ کس بات کاہے۔ اگر باوجود اس کے وہ ہماری جماعت کے کسی فردکی دُکان سے سَودا خریدنا چاہتے اور اس پر اصرار کرتے ہیں تو یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے ہمارا کوئی دشمن کہے کہ میں دھوپ سے بچنا چاہتا ہوں اور اس کیلئے سب گھر چھوڑ کر تمہاری ہی ڈیوڑھی میں آکر بیٹھوں گا۔ ہر شخص اس خریدو فروخت کو دیکھ کر کہے گا کہ کسی خاص احمدی دکاندار سے سَودا خریدنے پر اصرار کرنا بھید سے خالی نہیں۔ اور وہ بھید سوائے اس کے کیا ہوسکتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں اپنے ہم خیال لوگوں کی خفیہ پارٹی بناتے جائیں۔ چنانچہ اشتہار میں بھی انہوں نے لکھا ہے کہ مجھ سے لوگوں کو ملنے نہیں دیا جاتا تا کہ کوئی شخص مجھ سے مل کر اصل حقیقت سے واقف نہ ہو جائے۔ حالانکہ اصل حقیقت سے وہ اشتہاروں سے واقف کرسکتے ہیں اور کررہے ہیں۔ پس ان کا اصل شکوہ یہ نہیں کہ دُکانداروں سے سَودا دینے سے کسی نے منع کیا ہے یا ضروریاتِ زندگی کے حصول سے وہ محروم ہوگئے ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اس طریق پر ان لوگوں سے جو ابھی خفیہ ہیں اپنی ملاقات کا راستہ کھولیں اور ایک خفیہ جماعت قائم کریں۔
پھر انہوں نے الزام لگایا ہے کہ بھنگن کو اُن کے گھر کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اس کے متعلق ناظر صاحب امور عامہ نے سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ کو بُلایا اور اس کے ذریعہ بھنگن کے خاوند کو بلایا گیا اور پھر بھنگن کو بُلا کر سب کی موجودگی میں پوچھا گیا کہ تجھے کس نے کام کرنے سے روکا تھا؟ تو اس نے ایک لڑکے کا نام لیا کہ اس نے مجھے روکا تھا۔ اب وہ لڑکا کوئی افسر نہ تھا کہ اس کے روکنے پر وہ رُک جاتی۔ وہ ناظر نہ تھا، وہ خلیفہ نہ تھا، وہ محض ایک لڑکا تھا۔ اس کے منع کرنے سے اُس کا رُک جانا اول تو خود غلطی ہے دوسرے اس لڑکے کو بُلا کر جب دریافت کیا گیا تو اُس نے بتایا کہ میں نے اسے روکا نہیں تھا میں نے اسے یہ کہا تھا کہ کیا تم اب تک ان کا کام کرتی ہو؟ بیشک یہ فقرہ ایسا تھا جس سے یہ استنباط ہوسکتا تھا کہ اسے یہاں کام نہیں کرنا چاہئے مگر یہ کسی ذمہ دار کا حکم نہیں تھا کہ وہ رُک جاتی بلکہ صرف ایک طالب علم کے جوش کا اظہار تھا۔ پس اگر وہ رُکی ہوگی تو اپنی مرضی سے یا مصری صاحب کے روک دینے کی وجہ سے۔ چنانچہ ہمیں معلوم ہؤا ہے کہ باوجود اس کے کہ بعض دکانداروں کو انہیں سَودا دینے کی اجازت ہے پھر بھی وہ انہیں سَودا نہیں دیتے کیونکہ ان کی ایمانی غیرت یہ برداشت نہیں کرتی کہ ایسے شخص کو سودا دیں جو خلافت سے غداری کا مرتکب ہؤا ہے۔ لیکن باوجود اس کے اگر کوئی دکاندار انہیںکوئی ایسا سَودا نہ دے جس کے متعلق مجھے یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ قادیان میں کسی اورجگہ سے نہیں مل سکتا تھا تو یقینا میں ایسے دکاندار کو سزا دوں گا۔ پس ان کا تمام غیراحمدیوں، سکھوں اور ہندوئوں کو چھوڑ کر صرف احمدی دُکانداروں سے سَودا کرنے کی کوشش کرنا سوائے اِس کے کوئی معنے نہیں رکھتا کہ وہ ان میں سے کسی منافق کے ذریعہ سے دوسرے ان لوگوں سے جن کے بارہ میں انہیں دعویٰ ہے کہ ہمارے ساتھ ہیں تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ پوشیدہ لوگ اگر کوئی ہیںتو ظاہر ہوجائیں۔
اسی طرح وہ کہتے ہیں مزدوروں کو کام کرنے سے روکا گیا۔ لیکن ناظر صاحب امور عامہ کی رپورٹ یہ ہے کہ انہیں تحقیق کے باوجود اس میں صداقت معلوم نہیں ہوئی۔ اسی طرح کہتے ہیں میری پوتی کا دودھ بند کردیا گیا۔ اس کے متعلق ناظر صاحب نے انہیں لکھا کہ آپ بتائیں آپ کے ہاں کون عورت دودھ لایا کرتی تھی تاہم اس سے دریافت کرسکیں کہ اسے دودھ دینے سے کس نے روکا۔ مگر انہوں نے اس عورت کا نام بتانے سے انکار کردیاہے۔ ہاں میر محمد اسحق صاحب نے بیان کیا ہے کہ جو عورت ان کے گھر دودھ دیتی ہے اس سے معلوم ہؤا ہے کہ وہی مصری صاحب کے ہاں دودھ دیتی رہی ہے اور وہ کہتی ہے کہ مجھے کسی نے دودھ دینے سے نہیں روکا بلکہ ایک دوست نے بتایا ہے کہ وہ اب تک انہیں دودھ دیتی ہے۔غیراحمدی ملازمہ کو کام سے روکنا بھی ہماری تحقیق میں بالکل غلط ہے۔ بایں ہمہ میں سمجھتا ہوںاگر یہ ثابت ہوجائے کہ کسی شخص نے غیراحمدی ملازمہ کو ان کے ہاں کام کرنے سے روکا تو میں یقینا اسے سزادوں گا کیونکہ غیراحمدیوں کو روکنے کا ہمیں کوئی حق نہیں مگر اس کیلئے ثبوت چاہئے جو ابھی تک میرے سامنے پیش نہیں ہؤا۔
یہ کہناکہ ’’میرے اوپر چند لونڈے مسلط کئے ہوئے ہیں کہ جدھر میں جائوں وہ سایہ کی طرح میرے پیچھے جائیں‘‘۔ اس کے متعلق دریافت طلب امر یہ ہے کہ ’’مسلط‘‘ کے کیا معنے ہیں۔ کیا وہ ڈنڈے مارتے ہیں یا گالیاں دیتے ہیں یا کہیں جانے نہیں دیتے؟ اگر کچھ بھی نہیں کرتے صرف انہیں دیکھتے ہیں تو دیکھنے پر انہیں کیا اعتراض ہے۔ کیا مصری صاحب انہیں نہیں دیکھتے؟ اگر تو وہ شیخ صاحب کو کہیں جانے سے روکیں تب تو وہ اعتراض کرسکتے ہیں کہ مجھے چلنے پھرنے بھی نہیں دیاجاتا لیکن جبکہ وہ آزاد ہیں، وہ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں تو محض دیکھنے سے انہیں کیوںتکلیف ہوتی ہے۔ مگر اس بارہ میں بھی میں نے امور عامہ کو نصیحت کی ہے کہ کوئی شخص ایسی حرکت نہ کرے جو فی الواقعہ تکلیف کا موجب ہو اور میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ اس بارہ میں زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے گا۔
غرض جو لوگ مقرر ہیںوہ اس لئے مقرر نہیں کہ شیخ صاحب کو کوئی تکلیف ہو بلکہ اس لئے مقرر ہیں کہ تا وہ لوگ جو بقول شیخ صاحب اور ان کے ساتھیوں کے ظاہر میں ہمارے ساتھ ہیں اور باطن میں ان کے ساتھ، منافقت کو ترک کرکے ظاہر ہوجائیں اور کُھلے بندوں شیخ صاحب کے ساتھ جاملیں اور ہمیں دھوکے میں نہ رکھیں کہ یہ تقویٰ کے خلاف ہے۔ ہم تو خود ان لوگوں کو ان کی طرف بھیج رہے ہیں پھر نہ معلوم شیخ صاحب اور وہ لوگ کیوں خواہ مخواہ ناراض ہیں۔ آخر فخر الدین ان سے ملتا ہے یا نہیں؟ پھر کیا کبھی ہم نے اس کے ملنے پر اعتراض کیا؟ یا عبدالعزیز ان سے ملتا ہے تو ہم نے کبھی اعتراض کیا؟ اسی طرح اگر کوئی اور ان سے ملنا چاہتا ہے تو وہ بھی آزاد ہے ہم صرف اسے کہہ دیں گے کہ اب ہمارے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں تم انہی کے پاس رہو۔
وہ کہتے ہیں کہ ۴ جولائی کو پندرہ سولہ نوجوان جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور ہاکیاں تھیں ان کے مکان کی ناکہ بندی کرنے کیلئے آموجود ہوئے۔ ان میں سے چند ایک اس مکان میں جو ان کے مکان کے قریب جانبِ شمال نیا بنا ہے، چلے گئے اور اس کے ایک حصہ پر چڑھ کر جہاں سے ان کے مکان کی بے پردگی ہوسکتی ہے دُوربین کے ساتھ مکان کے کمروں پر نظر ڈالنے لگ گئے۔ اس کے متعلق تحقیقات کرکے ناظر صاحب امور عامہ نے یہ رپورٹ کی ہے کہ اُس دن صرف چار طالب علم مقرر تھے اور ان کے نام یہ ہیں۔ عبدالرشید، عبدالشکور ، محمد حنیف، ناصر احمد ۔ میں نے نام اس لئے لے دیئے ہیں کہ اگر کسی دوست کو شبہ ہو تو وہ ان لڑکوں سے حالات دریافت کرکے حقیقت معلوم کرلے۔
پھر یہ کہنا کہ پندرہ سولہ نوجوان مسلح ہوکر وہاں گئے کیسا خلافِ واقعہ بیان ہے۔ باقی رہا یہ کہ ان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور ہاکیاںتھیں سو یہ کوئی قابلِ اعتراض امر نہیں۔ میں نے آج لاٹھیاں رکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ میں ۱۹۲۷ء سے لوگوں سے کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنے ہاتھوں میں لاٹھی رکھا کریں۔ پس لاٹھی رکھنا ہرگز مسلح ہونے کی کوئی علامت نہیں اور اگر لاٹھی رکھنا مسلح ہونا ہے تو بالکل ممکن ہے کل میں سوٹی لے کر اس طرف سیر کو نکلوں تو وہ کہہ دیں یہ مسلح ہوکر مجھ پر حملہ کرنے کیلئے آئے ہیں۔ اس طرح تو کل اگر ہم میں سے کوئی جُوتی پہنے پھر رہا ہوگا تو کہہ دیں گے یہ ہمیں جُوتیاں مارنے آئے ہیں۔ پھر اگر کسی دن ہمارے نوجوان وہاں سے پگڑیاں باندھے گزریں توکہہ دیں گے کہ یہ پگڑیوں کے کوڑے بنا کر ہمیں ماریں گے یا یہ کہہ دیں گے کہ یہ پگڑیوں کے رسّے بنا کر ہمارے گلوں کو گھونٹ دیں گے۔ بلکہ ممکن ہے اگر کوئی ہم میں سے کوٹ پہن کر اُدھر جانکلے تو وہ یہ شبہ کرنے لگیں کہ یہ کوٹ اس نے اس لئے پہنا ہے تا اسے مروڑ کر کوڑا بنائے اور ہمیں مارے۔ اس طرح تو اصل علاج ان کی تکلیف کا یہی ہوسکتا ہے کہ ہمارے آدمی اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں ۔ پس لاٹھی رکھنا ہرگز مسلح ہونا نہیں بلکہ ہماری جماعت میں بھی اور دوسرے لوگوں میں بھی اس کا عام رواج ہے اور میں نے یہ اعلان کیا ہؤا ہے کہ جماعت کے مخلص احباب کوشش کریں کہ وہ اپنے ہاتھ میں لاٹھی رکھا کریں۔ مسلح ہونے کے معنے تو یہ ہیں کہ ان کے ہاتھ میں تلواریں ہوتیں یا بندوقیں اُٹھائے ہوئے ہوتے تب ہم بیشک کہہ سکتے کہ وہ مسلح تھے لیکن ہاتھ میں سوٹی ہونا تو مسلح ہونے کی کوئی علامت نہیں۔ اور اگر وہ محض کسی کے ہاتھ میں سونٹا دیکھ کر اتنی جلدی بدظنی پر اُتر سکتے ہیں تو ممکن ہے کل اگر کوئی شخص کلہاڑی لے کر صبح مسواک کاٹنے کیلئے کسی سڑک پر سے نکلے تو وہ یہ شور مچانے لگ جائیں کہ یہ شخص مجھ پر حملہ کرنے کی نیت سے گھر سے نکلا ہے۔ اگر اسی طرح بدظنی کا سلسلہ دراز کیا جائے تو دنیا پاگل ہوجائے ۔ اور یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے تاریخوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دفعہ مدینہ میں بعض کفار آئے۔ انہوں نے دھوکا و فریب سے کام لیتے ہوئے آپ سے کہا کہ ہماری ساری قوم اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ آپ ہمارے ساتھ چند آدمی بھیج دیں جو ہمیں اسلام سکھائیں۔ آپ نے چند صحابہؓ ان کے ہمراہ بھیج دیئے۔ جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو ان کفار نے اور بہت سے کفار اپنے ساتھ شامل کرکے ان کا محاصرہ کرلیا اورلڑائی شروع کردی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ سوائے دو کے باقی تمام صحابہؓ شہید ہوگئے۔۵؎ پھر ان دونوں کو وہ مکہ میں لے گئے اور قریش نے گرفتار کرنے والوں کو انعام دے کر انہی کو قید کرلیا۔ اسلام میں چونکہ زیر ناف بالوں کی صفائی کاحکم ہے اس لئے ان میں سے ایک صحابی نے ایک دن کسی سے اُسترا مانگا۔ ابھی اُسترا ان کے ہاتھ میںہی تھا کہ گھر والوں کا بچہ کھیلتا ہؤا ان کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے پیار سے اسے اپنے زانو پر بٹھالیا۔ بچے کی ماں نے جب یہ دیکھا کہ اس صحابہ کے ایک ہاتھ میں اُسترا ہے اور زانو پر ہی بچہ بٹھایا ہؤا ہے تو وہ چیخیں مارکر کہنے لگی خدا کے واسطے میرے بچہ پر رحم کرو اور اسے قتل نہ کرو۔۶؎ حالانکہ انہوں نے استرا صفائی کیلئے لیا تھا۔ قتل کرنے کیلئے نہیں لیا تھا۔ تو اس قسم کی بدظنیاں اگر انسان کرے تو ان کی کوئی حد ہی نہیں ہوسکتی۔
باقی رہا یہ کہ ان کا گھر دُوربین سے دیکھا گیا اس بارہ میں امور عامہ کی رپورٹ یہ ہے کہ جس مکان اور جس جگہ سے دیکھنے کا الزام ہے وہ درست نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہرہ دار لڑکوں میں سے ایک اپنے گھر سے دُور بین لایاہؤا تھا مگر وہ بند تھی اُس نے کھولی نہیں اور ان کے گھر کے اندر جہاں سے نظر پڑسکتی ہے وہ اس مکان کی ایک دیوار ہے جس پرکسی لڑکے کا چڑھنا ثابت نہیں ہؤا۔ ہاں امور عامہ کی تحقیق یہ ہے کہ قاضی عبدالمجید صاحب امرتسری کے مکان سے بعض دفعہ دُوربین سے دیکھا گیا ہے لیکن اس مکان کے سامنے مصری صاحب کا زنانہ حصہ نہیں بلکہ مردانہ برآمدہ ہے اور اس جگہ کے لوگ ہر چلنے پھرنے والے کو نظر آتے ہیں۔ چونکہ قاضی صاحب کا مکان فاصلہ پر ہے اس لئے شکل پہچاننے کیلئے اس مردانہ حصہ کو بعض لوگوں نے دُوربین سے دیکھا ہے۔ اب جو دُور بین کو جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ جو چیز بغیر دُوربین کے دیکھنی جائز ہو ، دور بین سے اس کا دیکھنا اسے کوئی ناجائز شکل نہیں دے دیتا۔ پس یہ کہنا کہ بڑا غضب ہوگیا دُوربین سے مکان دیکھ لیا بیوقوفی ہے۔ ہاں اگر زنانہ میں نظر پڑے تو یہ یقینا بُرا فعل ہوگا اور اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کسی نے اس طرح کیا ہے تو میں اسے یقینا سزا دوں گا ۔ مگر جیسا کہ میں بتاچکا ہوں امور عامہ کی رپورٹ کے مطابق دُور بین سے گھر میں نہیں دیکھا گیابلکہ مردانہ حصہ جو برلبِ سڑک ہے دیکھا گیا۔
یاد رکھنا چاہئے کہ مصری صاحب سے سلوک کے متعلق اعلان میری اجازت بلکہ ہدایت کے ماتحت عمل میں لایا گیا ہے۔ اسی طرح ان کے گھر کے اِردگِرد جو آدمی مقرر کئے گئے ہیں وہ مجھ سے اجازت لے کر مقرر کئے گئے ہیں۔ پس ان دونوں امور کی ذمہ داری اِس حد تک مجھ پر ہے جس حد تک میں نے ان کا حکم دیا ہے یا ان کی اجازت دی ہے۔ ہاں عملی تفصیلات امور عامہ اپنے طور پر طے کرتاہے۔ سَودا سَلف کے معاملہ میں میری ہدایت یہ تھی کہ جو ضروریاتِ زندگی سکھوں، ہندوئوں اور غیراحمدی دکانداروں سے میسر آسکتی ہوں ، وہ احمدی دُکان داروں کی طرف سے نہ دی جائیں لیکن جو ان سے نہ مل سکتی ہوں وہ ضرور دی جائیں۔ اصل بات یہ ہے کہ گزشتہ احراری فسادات کے تجربہ سے یہ امر ظاہر ہے کہ احمدیوں سے سَودا خریدنے میں ہمارے مخالفین کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ وہ ان سے سَودا خریدیں بلکہ وہ کمزور طبع دُکانداروں کو اپنے ساتھ ملاتے اور ان کے ذریعہ اپنے تعلقات دوسرے منافق طبع لوگوں سے قائم کرتے ہیں اور اس لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ جن دکانداروں کے متعلق ہمیں شبہ ہو کہ وہ ان کے دلال بن سکتے ہیں ان دکانداروںکو نگرانی میں رکھیں۔ یوں ان پر کوئی جبر نہیں کرتا وہ دکاندار اگر چاہیں تو الگ ہوسکتے ہیں پھر وہ کسی قاعدہ کے پابند نہ ہوں گے۔ پس جماعت نے ایسا ہی انتظام کیا ہے اور حکم دے دیا ہے کہ اگر کوئی ایسی چیز جو ہندوئوں ، سکھوں اور غیراحمدیوں سے نہ مل سکتی ہو انہیں احمدی دکانداروں سے خریدنی پڑے تو احمدی دکاندار محکمہ کی اجازت سے انہیں سَودا دیں تا ایسے لوگوں سے وہ نہ مل سکیں جو ہمارے اندر رہ کر ہم سے دشمنی کرتے ہیں۔ اگر وہ ہمارے اندر سے نکل جائیں تو ہمیں ان کے متعلق کوئی شکوہ نہیں ہوگا لیکن جب وہ ہمارے اندر رہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی تدابیر کو ناکام کریں اور فتنہ کو جس حد تک روک سکتے ہیں روکیں۔ اور چونکہ احمدی دکانداروں سے سودا خریدنے میں ان کی یہی غرض مخفی تھی جو میں نے بیان کی ہے اور وہ ہمارے انتظام کے ماتحت پوری نہ ہوسکی اس لئے انہوں نے یہ شور مچادیا کہ احمدی دکانداروں کو سَودا دینے سے روکا جاتا ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ پھر یہ بھی تو سوچو کہ جو لوگ اتنی بدظنی کرسکتے ہیں کہ بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے یہ کہتے جاتے ہیں کہ فلاں نے یہ ظلم کیا اور فلاں نے یہ۔ ان سے یہ کوئی تعجب کی بات ہے کہ وہ کسی احمدی دکاندار سے دودھ لے جائیں اور اتفاقاً اس دن ان کے کسی بچہ کو ذرا سا قراقر ۷؎ ہوجائے تو وہ یہ شورمچادیں کہ دودھ میں زہر ملا کردیا گیا ہے۔ یا کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی احمدی دُکاندار سے مٹھائی لے جائیں اور اتفاقاً اُسی دن ان کے پیٹ میں بھی درد ہو تو وہ یہ شور مچانا شروع کردیں کہ ہمیں مٹھائی میں زہر ملا کر دیا گیا ہے۔ پس چونکہ وہ بدظنی میں حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں اس لئے جھگڑے سے بچنے کیلئے خود ان کیلئے یہ بہتر طریق تھا کہ وہ علیحدہ رہتے اور غیروں کی دُکانوں سے سَودامنگواتے تا انہیں کسی قسم کا شکوہ پیدا نہ ہوتا مگر جب ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اب بھی باوجود یکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہؤا یہ کہتے ہیں کہ میرے خلاف جماعت کو بھڑکادیا گیا ہے اور مجھے خطرہ ہے کہ میری جان و مال پر کسی وقت حملہ ہوجائے تو ان حالات میں ان کا احمدی دکانداروں سے ہی سَودا خریدنے پر اصرار کرنا جماعت کو بعض الزامات کے نیچے لاناہے۔ چنانچہ وہ اپنے اس خط میں جو ناظر صاحب امور عامہ کے جواب میں انہوں نے لکھا تحریر کرتے ہیں ’’پہرہ داروں پر مجھے کوئی رنج نہیں ان کو ملزم گرداننا غلطی ہے وہ تو ان کاموں کو کارِ ثواب سمجھ کر کررہے ہیں۔ عوام کو مذہب کی آڑ میں بھڑکانے والا ان تمام افعال کا ذمہ دار ہوتا ہے جو عوام اس کے بھڑکنے کے نتیجہ میں مشتعل ہوکر کرتے ہیں ان کے لیڈر جس فعل کو مذہبی فعل قرار دے دیں اس فعل کو وہ عین ثواب اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیتے ہیں۔ دوسرے لوگوں پر مخفی ہو تو ہو لیکن ایک ناظر پر تو یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی‘‘۔ ان الفاظ میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میرے خلاف مذہب کی آڑ میں جماعت کو بھڑکا دیا گیا ہے اور اگر اس سے مشتعل ہوکر کسی نے مجھ پر حملہ کردیا تو اس کی ذمہ داری اسی پر ہوگی جو عوام کے جذبات کو بھڑکارہا ہے۔
پس جب اس قدر وہ جماعت احمدیہ کے افراد سے بدظن ہوچکے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ افرادِ جماعت سے ان کی جان محفوظ نہیں تو اگر ہماری طرف سے یہ اجازت ہوجائے کہ احمدی دکاندار انہیں سودا دے دیا کریں تو کیا وہ الزامات نہیں لگاسکتے کہ مجھے دودھ میں زہر ملا کر دیا گیاہے، مٹھائی میں سنکھیا ڈال دیا گیا ہے اور آٹے میں زہر ملادیا گیا ہے تاکہ اس کے کھانے سے میں ہلاک ہوجائوں۔ یہ وہ نتیجہ نہیں جو فرضی ہو بلکہ ان کے خط سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’آخر میں یہ بات بھی مَیں کھول کر بتادینا چاہتا ہوں کہ جو کارروائیاں آپ میرے خلاف کررہے ہیں ان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شاید کسی دن میرے یا میرے اہل و عیال کی جان و مال پر حملہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہؤا تو اس کی ذمہ داری خود خلیفہ صاحب اور ان کے کارکنوں پر ہوگی کیونکہ عوام کے اندر جو نفرت اور اشتعال میرے خلاف میری طرف بے بنیاد اور غلط باتیں منسوب کرکے پید اکیا جارہا ہے، اس کے اصل محرک یا بانی یہی وجود ہیں۔ پس اگر خود خلیفہ صاحب کی طرف سے اس بارہ میں مجھے تسلی نہ دلائی گئی تو میں مجبور ہوں گا کہ گزشتہ تمام واقعات کو حکام کے سامنے رکھ کر ان سے اپنی جان و مال کی حفاظت کا مطالبہ کروں اور ان کے علم میں لے آئوں کہ اگر مجھے یا میرے اہل و عیال کو کوئی جانی یا مالی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری جناب خلیفہ صاحب اور ان کے کارکنوں پر ہوگی‘‘۔
اس خط سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے ذہن میں آئندہ ایسے الزام لگانے کی تیاری کررہے ہیں کیونکہ قادیان کے تمام لوگ جانتے ہیں کہ انہیں یہاں کوئی تکلیف نہیں اور وہ آزادی سے اکیلے گلیوں میں چلتے پھرتے ہیں بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے تک آزادی سے پھرتے ہیں۔ پس جب حالات یہ ہوں تو کیا یہ احتیاط کرنا ہمارے لئے ضروری نہیں کہ جب سَودا انہیں دوسرے دکانداروں سے مل سکتا ہے ہم احمدی دکانداروں کو اس مصیبت میں پڑنے سے بچائیں اور جماعت کو الزام سے بچانے کی کوش کریں۔ اور کیا ہم یہ شک نہ کریں کہ وہ احمدی دکانداروں سے سَودا خریدنے پر اس لئے اصرار کرتے ہیں تا کوئی الزام لگا کر فساد کھڑا کریں اور جماعت کو مشکلات میں ڈالیں۔
پھر خط میں صاف طو رپرلکھا ہے کہ خواہ جماعت کے کسی فرد کی طرف سے کوئی حرکت سرزد ہوئی اس کا ذمہ وار خلیفہ ہوگا۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ آٹا تو انہیں چوہدری حاکم دین دے لیکن اگر اس آٹے کے کھانے سے انہیں پیٹ درد ہوجائے یا اسہال آجائیں تو اس کی ذمہ واری خلیفہ پر ہو۔ کیا اس قسم کی دماغی حالت کو دیکھتے ہوئے میرا فرض نہیں تھا کہ میں اپنی عزت کی حفاظت اور بچائو کیلئے کہہ دوں کہ کوئی احمدی دکاندار انہیں سَودا نہ دے تا ایسا نہ ہو کہ کل وہ مجھ پر کوئی الزام لگادیں اور انہیں شور مچانے کا موقع مل جائے۔ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ حالات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’شاید کسی دن میرے یا میرے اہل و عیال کی جان و مال پر حملہ ہوجائے‘‘ اور پھر صاف طور پر لکھتے ہیں کہ جب ایسا حملہ ہؤا تو اس کا ذمہ وار وہ شخص نہیں ہوگا جس نے حملہ کیا بلکہ خلیفہ ہوگا۔ جس شخص کا دماغ اپنی جگہ سے اس قدر ہل چکا ہو کیا وہ کل کو نہیں کہہ سکتا کہ مجھے زہر دیا گیا ہے، مجھے آٹے میں اور مٹھائی میں اور گھی میں اور دودھ میں سنکھیا ملا کر دیا گیاہے۔ جب وہ کہتے ہیںکہ عوام میرے خلاف اتنے بھڑک چکے ہیں کہ اب میری جان اور میرا مال ان سے محفوظ نہیں تو کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ان حالات میں وہ انہی لوگوں سے سَودا خریدنے کی کوشش کریں گے جن سے انہیں خوف ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ ان سے سودا خریدنے کی کوشش کریںتو یا تو ان کی نیت فساد کی ہوگی یا ثابت ہو گا کہ وہ الزام افترا کے طور پر لگاتے ہیں اور جان بوجھ کر لگاتے ہیں۔پس اگر ان کا الزام درست ہے تو اس صورت میں تو انہیں احمدیوں سے دُور بھاگنا چاہئے۔
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں مصری صاحب وغیرہ سے قطع تعلق کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ جماعت کے لوگ جانتے ہیں کہ جب ہم کسی شخص کو جماعت سے خارج کرتے ہیںتو ہر ایک سے قطع تعلق نہیںکرتے بلکہ بعض باوجود اس کے کہ ہماری جماعت سے خارج ہو چکے ہوتے ہیں لوگ ان سے ملتے رہتے ہیں لیکن بعض سے ہم بالکل قطع تعلق کر لیتے ہیںاور بعض سے ایک حد تک قطع تعلق کرتے ہیں۔قادیان سے باہر جو لوگ جماعت سے خارج کئے جاتے ہیں ان سے بِالعموم ملنا جُلنا منع ہوتاہے۔ مگر قادیان میں ہی بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو جماعت سے خارج ہیں مگر لوگ ان سے ملتے ہیں۔ تو یہ جو مقاطعہ کیا جاتا ہے اور لوگوں کو ملنے سے روکا جاتا ہے یہ ایسے ہی مقامات پر کیا جاتا ہے جہاں یہ ثابت ہو جائے کہ اس شخص نے جماعت کے خلاف خفیہ کارروائیاں کیں۔پس جو لوگ خفیہ کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کے کاموں میں سازش کا دخل ہوتا ہے ان سے قطع تعلق کا حکم دیا جاتا ہے ۔ لیکن وہ شخص جس کا فعل انفرادی حیثیت رکھتا ہو اُس کے متعلق سلسلہ کبھی ایسا حکم نہیںدیتا۔ غرض قطع تعلق کا اعلان انہی لوگوں کے متعلق کیاجاتا ہے جن کے فعل میں سازش پائی جاتی ہواور یہ ثابت ہو کہ وہ خفیہ طور پر لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر جماعت میں فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے ۱۹۲۴ء میں بعض لوگوں کے بہائی ہونے پر ہم نے ان کے ساتھ تعلقات قطع کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ ان کے متعلق یہ ثابت ہو گیا تھا کہ وہ ظاہر میں ہمارے ہم خیال تھے مگر اندر اندر لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے تھے۔ چنانچہ دو تین آدمی انہوں نے اپنے ساتھ ملا بھی لئے تھے۔ اسی طرح ہماری اور سزائوں میں بھی فرق ہے۔ مثلاً بعض کو جماعت سے خارج نہیںکیا جاتا صرف اُن سے مقاطعہ کا حکم دیا جاتا ہے جیسے درد صاحب جب لندن گئے اور اُس موقع پر بعض لڑکوں نے خلافِ شریعت حرکات کیں تو اُن سے بولنا منع کر دیاگیا تھا مگر انہیں جماعت سے خارج نہیں کیاگیا اور اس قسم کا مقاطعہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے۔چنانچہ وہ لوگ جن کا وَ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا۸؎ میںذکر کیا گیاہے ان سے بولنا رسول کریم ﷺ نے منع کر دیا تھا۔ غرض نہ بولنے کی سزا اخراج ازجماعت سے لازم ملزوم نہیں۔ یہ اُسی وقت سزا دی جاتی ہے جب اختلاف کی تہہ میں خفیہ سازشیں کام کر رہی ہوں۔ اب مصری صاحب نے مجھے جو خطوط لکھے ہیں ان میں صاف طور پر اقرار کیا ہے کہ وہ لوگوں سے مل مل کر میرے خلاف مواد جمع کرتے رہے ہیں اور کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ کیس فخر دین کے متعلق چلایاجاتا ہے اور نوٹس مصر ی صاحب دے کر بیعت سے الگ ہو جاتے ہیں۔ ادھر مصری صاحب الگ ہوتے ہیں تو حکیم عبدالعزیز کہتا ہے میری بیعت بھی فسخ سمجھیں۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ اندر ہی اندر کوئی سازش تھی جس کی وجہ سے جب ایک شخص جماعت سے الگ ہؤا تو دوسروں نے بھی الگ ہونا ضروری سمجھا۔ پھر کیا وہ باتیں جن کی وجہ سے وہ ایک عرصہ سے میرے پیچھے نماز بھی نہیں پڑتے تھے انہیںاُسی وقت معلوم ہوئیں جب میاں فخر دین ملتانی جماعت سے الگ ہوئے۔ اگر نہیں بلکہ وہ باتیں پہلے بھی انہیںمعلوم تھیں تو سوال یہ ہے کہ وہ ان کے نکلنے تک خاموش کیوں رہے اور کیوں جب تک میاں فخر دین ملتانی جماعت سے خارج نہیں ہوئے انہوں نے ان خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ اس سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں میں اندر ہی اندر کوئی معاہدہ تھا اور جب ان میں سے ایک شخص جماعت سے نکل گیا تودوسروں نے سمجھا اب اگر ہم بھی بیعت سے الگ نہ ہونگے تو یہ غداری ہوگی۔ اگر انہیں کوئی ایسی ہی باتیں معلوم تھیں جن کی وجہ سے ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ بیعت کا عہد فسخ کردیتے تو اس سے بہت پہلے وہ اپنے عہد کو فسخ کر چکتے لیکن ان تینوں کا ایک ہی موقع پر ظاہر ہونا بتاتاہے کہ اندر ہی اندر ان تینوں میں کوئی کھچڑی پک رہی تھی۔ جب اس حد تک انہوں نے سازشیں کیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مرنے جینے کا اقرار کر لیا اور جماعت کو تفرقہ میں ڈال دینا چاہاتو ہمارا حق تھا کہ ان کے جماعت سے الگ ہونے کا اعلان کر کے جماعت کے لوگوں کو ان سے ملنے کی ممانعت کر دیتے تاوہ اپنا زہر نہ پھیلا سکیں اور تا اگر ان کا کوئی اور ہم خیال ابھی ہم میںموجود ہو تو وہ ظاہر ہو جائے اور اسے بھی ہم اپنے اندر سے نکال کر ان کے ساتھ شامل کر دیں۔
مجھے افسوس ہے کہ مصری صاحب کا طریق بالکل مستریوں کے طریق سے مِلتا جُلتا ہے۔ انہوں نے بھی مفروضہ مظالم کا شور مچا دیا تھا اور پھر ثبوت پیش کرنے سے انکار کر دیاتھا اور کہا تھا کہ اس کی ذمہ داری کسی اور پر نہیںصرف خلیفہ پر ہے۔ یہ بھی شور مچا رہے ہیں کہ ہم پر ظلم ہو رہا ہے مگر بتاتے نہیں کہ ان پر کون ظلم کر رہاہے۔ہاں اتنا ضرور کہے جاتے ہیں کہ یہ سب ظلم خلیفہ کرا رہا ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں آئو ہم ان امور کی جنہیں تم مظالم کہتے ہو تحقیق کریں مگر وہ اس کیلئے بھی تیار نہیں ہوتے۔ نہ یہ بتاتے ہیں کہ کس نے ان کے مزدوروں کو روکا ، نہ یہ بتاتے ہیں کہ کس نے سودا دینے سے انکار کیا۔ ہاں کہتے ہیں ہم اتنا بتائے دیتے ہیں کہ یہ سب ظلم خلیفہ کروا رہاہے جس سے ان کا منشاء یہ ہے کہ جماعت کے جو منافقین ہیںوہ یہ سن کر شور مچا دیں کہ ہاں واقعی بڑا ظلم ہورہا ہے۔ حالانکہ اگر ان کا منشاء یہ تھا کہ ان کی شکایات دور ہوں تو انہیںچاہئے تھا کہ ہمیںوہ لوگ بتاتے جن سے انہیںشکوہ پیدا ہؤا مگر جب وہ بتاتے ہی نہیں تو اصلاح کس طرح ہو۔
ابھی تھوڑے دن ہوئے میرے پاس ایک غیر احمدی دوست تشریف لائے اور کہنے لگے آپ ان کی شکایات کا ازالہ کیوں نہیں کرتے؟ میں نے کہا میں نے تو نظارت امور عامہ کو ہدایت کی تھی کہ ان سے دریافت کرے کہ کس نے انہیں تکالیف پہنچائیں اور اس نے انہیں چِٹّھی بھی لکھی مگر انہوں نے بتانے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ کہنے لگے پھر کیا ہؤا، آپ خود پتہ لگا لیں کہ کس کس نے انہیں سَودا دینے یا دودھ دینے سے انکار کیاہے۔ میں نے کہا آپ ذرا سوچیںمجھے کیامعلوم ہے کہ مصری صاحب کے ہاں کونسی عورت دودھ دینے جایا کرتی ہے۔ کیا مجھے روزانہ اطلاع ملا کرتی ہے کہ آج انہوں نے مائی عمراں سے سیر بھر دودھ لیا اور کل کسی مائی گھسیٹی سے ۔ ان باتوں کا ہمیںکیا پتہ لگ سکتا ہے جب تک وہ خود ہی نہ بتائیں کہ انہیں کونسی عورت دودھ دیاکرتی تھی تا کہ ہم اس سے دریافت کر سکیں کہ اسے کس نے روکا۔ اب قادیان میں دس ہزار آبادی ہے اور مجھے کوئی علم نہیں ہو سکتا کہ ہر شخص دودھ کس سے لیتا ہے، گوشت کہاں سے خریدتا ہے اور سبزی کس سے لیتا ہے۔ کیا آپ کا یہ مطلب ہے کہ جس دن مجھے رپورٹ ملے کہ مصری ـصاحب کے ہاں آج دودھ نہیںپہنچا اُس دن میں ڈھنڈورا پِٹوانا شروع کر دوں کہ مصری صاحب کے ہاں کونسی عورت دودھ دینے جایا کرتی تھی ۔ اور جب مجھے معلوم ہوکہ فلاں عورت تھی تو اس سے وجہ دریافت کروں کہ وہ آج کیوں نہیں گئی۔ یہ سن کر وہ کہنے لگے بیشک ان باتوں کے بتانے کی ذمہ داری تو خود مصری صاحب پر عائد ہوتی ہے۔ میں نے کہا یہی بات ہم پیش کر رہے ہیں کہ اگر شکایات کو انہوں نے نیک نیتی سے پیش کیا تھا تو ان کا فرض تھا کہ وہ بتاتے ہمارے ہاں فلاں فلاں عورت دودھ دے جایا کرتی تھی مگر اُسے اب فلاں نے روک دیاہے۔مگر وہ یہ باتیں تو بتاتے نہیں اور یونہی کہتے پھرتے ہیں کہ میری پوتی کا دودھ بند کر دیا گیا۔ ہمیںکیا معلوم کہ ان کی پوتی کو کون عورت دودھ دیا کرتی تھی۔ ہمسائیوں کو پھر بھی بعض باتیں معلوم ہوسکتی ہیں مگر وہ بھی ہر بات کا علم نہیں رکھ سکتے۔ مثلاً آج ہی جو چیزیں میں نے دکان سے منگوائی ہیں ان کی اگر لسٹ سنائوں تو دکاندار تو بتاسکتے ہیں کہ فلاں فلاں چیز ان کے ہاں سے آئی لیکن جو چیزیں عورتیں گھروں میں لاتی ہیں ان کا کسی کو کیا پتہ ہوسکتا ہے۔ اب اگر کوئی عورت ہمارے گھر میں کدّو دے گئی ہو اورمیں دریافت کروں بتاؤ ہمارے ہاں کون عورت کدو دے گئی ہے اور وہ ننگل کی تھی یا بھینی کی تو کیا آپ لوگ جو اِس وقت جمعہ کے لئے جمع ہیں اِس کا جواب دے سکیں گے؟ یہ تو میرے گھر کے لوگوں کا کام ہوگا کہ وہ بتائیں کہ فلاں عورت آج کدو دے گئی ہے۔ اسی طرح یہ مصری صاحب کا کام ہے کہ وہ بتائیں کہ کس سے دودھ لیا کرتے تھے تا اس سے دریافت کرکے ان کی شکایت کی حقیقت معلوم کی جاسکے۔ مگر جب وہ بتاتے ہی نہیں اور شور مچائے جاتے ہیں تو ہر شخص بآسانی اندازہ لگاسکتا ہے کہ اس شور مچانے سے ان کی کیا غرض ہے۔ خیر میری یہ باتیں اس دوست کی سمجھ میں آگئیں اور انہوں نے تسلیم کیا کہ واقعہ میں یہ محض لوگوں کو اشتعال دلانے کیلئے کارروائی کی جارہی ہے، نیک نیتی پر مبنی نہیں۔ بعینہٖ یہی طریق مستریوں کا تھا وہ بھی شور مچاتے کہ ہم پر ظلم کیا جارہا ہے مگر جب دریافت کیا جاتا کہ کون کررہا ہے تو کہتے یہ تونہیں بتاسکتے، ہاں اس کی ذمہ واری خلیفہ پر ہے۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ رات کے وقت میاں عبدالوہاب صاحب عمر میرے پاس آئے اور کہنے لگے محمد امین خان اور زاہد کی لڑائی ہوگئی ہے اور زاہد کو مارا ہے۔ میں نے اُسی وقت زاہد کی طرف آدمی دوڑایا اور کہا کہ اسے میرے پاس بُلا لاؤ تا میں اس سے لڑائی کا حال دریافت کروں۔ جب وہ آدمی اسے بلانے کیلئے گیا تو اس نے بتایا کہ فضل کریم، عبدالکریم اور زاہد تینوں گھر میں بیٹھے تھے۔ میں نے جب کہا کہ حضرت صاحب آپ کو بُلاتے ہیں تا تحقیق کی جائے اور جس کا قصور ثابت ہو اُسے سزا دی جائے تو وہ کہنے لگے جائو جائو ہم تحقیقات نہیں کراتے۔ ہمیں پتہ ہے کہ کس حرامزادے نے یہ کام کیا ہے۔ آپ ہی کام کراتے ہیں اور آپ ہی اس کی تحقیق کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہی جواب ہے جو مصری صاحب نے ہمیں دیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اِنہوں نے حرامزادے کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ چنانچہ لکھتے ہیں ’’آپ لوگوں پر اس تحریر کے ذریعہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کو گویا ان مظالم کا علم ہی نہیں جو مجھ پر آپ لوگوں کی طرف سے کئے جارہے ہیں اور گویا آپ تھرڈ پرسن (Third Person) ہیں۔ مظالم کرنے والا کوئی اور ہے۔ اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں مؤمنانہ صداقت سے کام لیتا ہؤا یہ عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ جو مظالم مجھ پر کئے جارہے ہیں یا آئندہ کئے جائیں گے، ان سب کی ذمہ داری خود خلیفہ صاحب اور ان کے رفقاء کار پر ہے‘‘۔
پھر لکھتے ہیں ۔
’’چونکہ میرے نزدیک میرے گھر کا دودھ بند کرانے والے، میرے مزدوروں کو رُکوانے والے، میرے گھر کی بے پردگی کرانے والے، میرے گھر کی بھنگن کو بند کرانے والے،دکانداروں کو مجھے اور میرے بچوں کو سَودا دینے سے منع کرنے والے، میرے مکان کی ناکہ بندی کرانے والے، مجھے ذلیل کرانے کی کوشش کرنے والے، میرے ساتھ میرے دوستوں، عزیزوں کو ملنے سے روکنے والے درحقیقت خود خلیفہ صاحب اور ان کے ناظر صاحبان ہیں اس لئے میں ان کی تحقیق سے مطمئن نہیں ہوسکتا اور نہ موجودہ حالات میں مجھے ان سے کسی انصاف کی توقع ہے اور نہ ملزم کو جج بنایا جاسکتا ہے۔ میں اپنے دلائل یا اُس آزاد کمیشن کے سامنے رکھوں گا جو جماعت کی طرف سے مقرر ہو یا اگر جماعت نے توجہ نہ کی تو حکام کے سامنے رکھوں گا‘‘۔
میں اس کے جواب میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتاجو ایسے ہی تلخ موقعوں پر کہا جاتا ہے کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ مصری صاحب بھی اگر ہمت رکھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ قسم کھاکر کہہ دیں کہ یہ تمام مظالم جن کے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ان پر ہوئے میری ہی انگیخت اور علم سے ہوئے ہیں اور یہ کہ اگر وہ اس بات میں جھوٹے ہوں تو لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کی وعید کے مورد بنیں پھر اللہ تعالیٰ خودبخود فیصلہ کردے گا کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ بول کر حق کو چھپارہا ہے۔
میں جیسا کہ بتاچکا ہوں ہم نے ان سے کہا کہ وہ ان لوگوں کے نام بتائیں جن کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مظالم کئے مگر وہ ان کے نام تک بتانے کیلئے تیار نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس پردہ داری سے ان کی غرض کیا ہے۔ اگر وہ سچے تھے تو ان لوگوں کے نام لے دیتے اس صورت میں بہت حد تک یہ معاملہ صاف ہوجاتا۔ مثلاً اگر وہ کہہ دیتے کہ میاں محمد یوسف صاحب شیر فروش نے دودھ دینے سے انکار کردیا تھا تو ہم ان سے دریافت کرتے اور اگر وہ انکار کردیتے اور کہتے کہ میں نے ہرگز دودھ دینے سے انکار نہیں کیا تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ڈر کر اس نے جھوٹ بول دیا ۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہوجاتا کہ اس کے بعد میاں محمد یوسف صاحب سے دوسرا آدمی ملتا، پھر تیسرا ملتا پھر چوتھا اورجب ہر ایک کے سامنے وہ یہی بیان دیتے کہ مجھے کسی نے نہیں روکا تو معلوم ہوجاتا کہ مصری صاحب جھوٹ بول رہے ہیں۔ اور اگر کسی کے پاس کہہ دیتے کہ اصل میں تو مجھے روکا گیا تھا لیکن میں نے ڈر کے مارے یہ بات نہیں کی تو لوگ سمجھ جاتے کہ ناظر صاحب امور عامہ نے اپنے اعلان میں جھوٹ سے کام لیا۔ پس یقینا اگر شیخ صاحب لوگوں کے نام بتادیتے تو انہیں فائدہ ہوتا اور لوگ ان لوگوں سے مل مل کر اور کرید کرید کر حالات دریافت کرکے حقیقت تک پہنچ جاتے ۔ اس صورت میں انہیں لوگوں کے پاس جاکر اپنی شکایات پہنچانے کی ضرورت نہ رہتی خود بخود لوگ شیر فروشوں اور آرد فروشوں ۹؎ سے مل کر دریافت کرلیتے کہ بات کیا ہوئی۔ مگر انہوں نے یہ طریق اختیار نہیں کیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد محض اشتعال دلانا اور احمدیوں سے سودا لے کر انہیں کسی نہ کسی الزام کے نیچے لانا ہے۔
ابھی چند دن ہوئے میرے علم میں یہ بات لائی گئی کہ میاں فخر دین نے فلاں احمدی قصاب سے گوشت لیا ہے۔ ناظر (امور عامہ) نے اس قصاب سے جواب طلبی کی اور اُسے جرمانہ کیا۔ مجھے جب معلوم ہؤا تو میں نے ناظر صاحب کو روکا اور میں نے کہا جرمانہ جانے دیں، آپ صرف نگرانی کریں۔ باقی اس ہدایت کی لفظی پابندی کا تعہد نہ کریں، حالانکہ یہ جُرمانہ بالکل جائز تھا کیونکہ جب غیر احمدی قصاب موجود ہیں اور وہ اس سے گوشت خریدسکتا ہے تو احمدی قصاب سے گوشت خریدنے کے کیا معنے ہیں۔ اگر غیراحمدی قصاب جھٹکا کرتے تب تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم جھٹکا نہیں کھاسکتے، ہمیں حلال گوشت چاہئے۔ لیکن جب وہ بھی اسی طرح حلال کرتے ہیں جس طرح احمدی، تو پھر کیوں وہ غیراحمدی قصاب سے گوشت نہیں لے سکتے۔ پس چونکہ مصری صاحب ہمیں ان لوگوں کے نام نہیں بتاتے اس لئے ہم یہ کہنے پرمجبور ہیں کہ وہ غلط بیانی کررہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر میں نے کسی کا نام لے دیا تو اس سے دریافت کرنے پر پتہ لگ جائے گا کہ میں نے غلط بیانی کی ہے۔ اس لئے وہ ان کے نام چھپاتے ہیں اور تحقیقات سے بھی اسی لئے گریز کرتے ہیں تا حقیقت نہ کھل جائے اور تا جو کمزور دل لوگ ہیں وہ اس شور سے یہ نتیجہ نکالیں کہ کچھ نہ کچھ ظلم تو ہؤا ہی ہوگا جس کی بناء پر یہ شور مچایا گیا ہے۔ دنیا میں بعض کمزور دل ہوتے ہیں اور ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب بھی کوئی شور مچائے خواہ اُس کا شور کس قدر بے بنیاد باتوں پر مبنی ہو وہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ بات تو ضرور ہوئی ہوگی۔ بغیر کسی بنیاد کے بات تونہیں اُٹھائی جاسکتی اور بعض کمزور ایمان ہوتے ہیں وہ بھی اسی رو میں بہہ جاتے اور یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی بات تو ضرور ہوئی ہوگی۔ چنانچہ ایک مولوی صاحب کے متعلق مجھے معلوم ہؤا ہے کہ انہوں نے بھی ایک دوست کے سامنے ذکر کیا کہ شیخ مصری صاحب نے جن مظالم کا ذکر کیا ہے، ان میں کوئی بات تو ضرور ہوگی۔ دراصل جب بھی کوئی شخص کمزور ہو خواہ اس کی کمزوری ایمانی ہو یا جسمانی ، اس کے دل میں ایسے خیالات پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ اور یہی طبائع ہوتی ہیں جو منافقین کا اثر قبول کرلیتی ہیں اور انہی لوگوں کی طبائع کو دیکھ کر وہ جھوٹ بولنے میں دلیر ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جماعت میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو ہمارے شور مچانے کو ضرور کسی نہ کسی حقیقت پر محمول کریں گے اور کسی حد تک ہمارے پروپیگنڈا سے متأثر ہوجائیں گے۔
جب لوطؑ کے متعلق لوگوں نے یہ کہا کہ انہوں نے اپنی بیٹیاں زنا کیلئے کفار کے سامنے پیش کردی تھیں، جب نوحؑ کے متعلق لوگوں نے کہاکہ انہوں نے اپنی لڑکیوں سے بدکاری کی، جب حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہماالسلام پر لوگوں نے بُہتان لگائے اور کہا کہ وہ لوگوں کامال کھاتے اور حرام کاری میں مبتلا رہتے ہیں تو انہوں نے ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے یہ باتیں کیں جو اپنی کمزوریٗ طبع کی وجہ سے یہ خیال کرتے تھے کہ دشمن جو بات کہہ رہا ہے اُن کی تہہ میں کچھ نہ کچھ بات ضرور ہوگی اورمیں جانتا ہوں کہ اسی قسم کی کمزور طبائع کو اُکسانے کا وہ ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن بہرحال اگر وہ حق پر تھے تو انہیں چاہئے تھا کہ نام بتاتے لیکن جب وہ نام بتانے کیلئے تیار نہیں تو ہم یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے اور غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ مگر باوجود اس کے کہ مظالم کے متعلق ان کے جس قدر الزامات ہیں وہ بالکل غلط ہیں اور امورعامہ کی تحقیقات کی رو سے بھی درست ثابت نہیں ہوئے لیکن پھر بھی میرا ارادہ ہے کہ جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچانے کیلئے باہر کی جماعتوں سے ایک کمیشن مقرر کروں جو یہ تحقیقات کرے کہ کیا امور عامہ نے جو میرے پاس رپورٹ کی ہے وہ غلط ہے اور کیا فی الواقعہ محکمہ والوں نے ضروریاتِ زندگی کے حصول سے جو دوسری جگہ سے بآسانی میسر نہیں آسکتی تھیں ان لوگوں کومحروم کرنے کی کوشش کی ہے؟ یا اور کسی طرح کوئی ناواجب دکھ دیا ہے یا واقعہ میں ان کے غیراحمدی مزدوروں کو کام کرنے سے منع کیاگیا اور کیا واقعہ میں دُوربین سے ان کے مکان کے زنانہ حصہ کو دیکھا گیا؟ مگر اس موقع پر میں جماعت کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سچائی کو اختیار کرے اور جھوٹ بول کر اپنے ایمان کو تباہ نہ کرے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت طبائع میں اشتعال ہے مگر یاد رکھو اشتعال کی حالت میں بھی کبھی کوئی ایسا کام نہ کرو جو تقویٰ کے خلاف ہو۔
میں ایسے شخص کو ہرگز احمدی نہیں سمجھ سکتا جو یہ کہتا ہو کہ یہ جماعت بِگڑ گئی اور اس کی اکثریت خراب اور گندی ہوگئی اور میں اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے والا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب ڈاکٹر عبدالحکیم نے لکھا کہ آپ کی جماعت میںسوائے حضر ت مولوی نورالدین صاحب کے اور کوئی نیک اور خدارسیدہ انسان نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے لکھا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ جماعت صحابہ کی جماعت ہے اور اس میں ہزاروں ایسے بندے موجود ہیں جن کی پیشانیوں پر وہی نور چمک رہا تھا جو صحابہؓ کی پیشانیوں پر تھا۔ پس باوجود اس بات کے جاننے کے کہ یہ جماعت صحابہؓ کی جماعت ہے میں سمجھتا ہوں کہ بوجہ عدمِ علم یا عدمِ تربیت دانستہ طور پر نہیں بلکہ نادانستہ طور پر ممکن ہے کسی سے کوئی کمزوری سرزد ہوجائے اور بعض دفعہ کچھ لوگ جو منافق ہوتے ہیں خود ہی کوئی شرارت کھڑی کردیتے ہیں۔ اور پھر کچھ لوگ حالات سے ناواقف ہوتے ہیں وہ اپنی ناواقفیت کی وجہ سے ٹھوکر کھاجاتے ہیں۔ لیکن بہرحال میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ یہ جماعت صداقت پر قائم ہے اور اس کی اکثریت نیک اور متقی لوگوں پرمشتمل ہے۔ پھر بھی چونکہ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ کمزور لوگ ہوتے ہیں اور وہ غلطی کرسکتے ہیں اس لئے میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے ہی اشتعال کے موقع پر انسان کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے۔ پس اپنے ایمانوں کو درست رکھو اور کبھی کوئی ایسی حرکت نہ کرو جو اسلام اور شریعت کے خلاف ہو۔ تم کو اِس بات کا احساس ہو یا نہ ہو لیکن میرے دل میں خلافت کی ایک بکری کی مینگن کے برابر بھی قیمت نہیں ہوسکتی اگر اس کی تائید کیلئے جھوٹ اور فریب سے کام لیا جائے۔ خلافت اُسی وقت تک قابلِ قدر ہے جب تک صداقت کی تلوار سے اس پر حملہ آوروں کامقابلہ کیا جائے اور انصاف کے تیروں سے اس کی حفاظت کی جائے۔
پس یاد رکھو کہ خواہ کیسی ہی حالت پیش آئے تم عدل و انصاف کو نہ چھوڑو اور جو سچائی ہو اسے اختیار کرو تا دشمن کو تمہارے متعلق کسی قسم کے اعتراض کا موقع نہ ملے۔ اور یاد رکھو کہ اگر کوئی شخص تمہیں جھوٹ بولنے کی ترغیب دیتا ہے تو خواہ وہ ناظر ہی کیوںنہ ہو تم فوراً اُس کی رپورٹ میرے پاس کرو کیونکہ ہمارے پاس ایمان کے سِوا اور کوئی چیز نہیں، ہم کنگال اور خالی ہاتھ ہیں۔ اگر ایمان کی دولت بھی ہمارے ہاتھ میں نہ رہی اور اگر ہم نے اسے بھی چھوڑ دیا تو پھر ہماری جماعت کی حالت وہی ہوگی جو کسی شاعر نے یوں کھینچی ہے کہ ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
پس صداقت اور انصاف سے کام لو اور غیرت، قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کرو۔ مگر یاد رکھو تم نے ظلم نہیں کرنا اور جھوٹ نہیں بولنا اور اگر کوئی شخص تمہیں ظلم کرنے یا جھوٹ بولنے کی تعلیم دیتا ہے تمہیں کہتا ہے جائو اور اپنے دشمن کو مار آؤ یا جاؤ اور اُسے پِیٹو، تو تم فوراً سمجھ جاؤ کہ تمہارے سامنے ایمان کا جُبّہ پہنے ایک شیطان کھڑا ہے اور تم فوراً سمجھ لو کہ وہ میری نافرمانی کرنے والا اور میری اطاعت سے منہ موڑنے والا انسان ہے۔ تم فوراً میرے پاس آئو اور ایسے شخص کی شکایت کرو اور اس گندے وجود کو کاٹنے کی جلد تر کوشش کرو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ باقی قوم کو بھی گندہ کردے۔
اس کے بعد میں مصری صاحب کے ایک تازہ خط کا ذکر کرتا ہوں جو انہوں نے حال ہی میں مجھے لکھا ہے اور جس سے ا ن کی دماغی اور علمی کیفیت بے نقاب ہورہی ہے۔ اس خط کا پہلا جملہ یہ ہے ’’آپ بڑے خوش ہوں گے کہ کس طرح آپ نے اپنی چالاکی اورہوشیاری کے ساتھ جماعت کی مخالفت کی رَو اپنے وجود سے ہٹا کر میری طرف پھیر دی ہے اور آپ مطمئن ہوگئے ہوں گے کہ ریزولیوشنز اور خطوط کی بھرمار نے آپ کی پوزیشن کو محفوظ کردیا ہے اور میں بھی خوش ہوں کہ آپ نے اپنی کامیابی کی بنیاد محض دنیاداروں کی طرح چالاکیوں وغیرہ پر رکھی ہے اللہ تعالیٰ کی خشیت اور تقویٰ کو قریب بھی نہیں آنے دیا‘‘۔
پھر لکھتے ہیں:-
’’کاش! آپ ملک غلام فرید صاحب کے خواب سے ہی فائدہ اٹھاتے ۔ وہ خواب کیسا واضح ہے کس طرح اس میں آپ کی موجودہ چالاکی کا نقشہ کھینچا گیا ہے جس سے کام لے کر آپ نے جماعت کو میرے خلاف بھڑکادیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اِس میں میری کامیابی کی بھی بشارت ہے جس پر آپ نے غور نہیں کیا۔ شروع ہی میں آپ کو بتادیا گیا ہے کہ جو آواز میں آپ کے خلاف اُٹھاؤں گا، اُس کو جماعت دیکھے گی مگر بُرا نہیں منائے گی اور پھر ساتھ ہی مجھے خواب میں دائیں طرف دِکھلایا گیا ہے اور آپ کو بائیں طرف۔ اب سورۃ الواقعہ میں اصحاب الشمال کا حال پڑھ لیں۔ وہاں صاف لکھا ہے اِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُتْرَفِیْنَ - وَ کَانُوْا یُصِرُّوْنَ عَلَی الْحِنْثِ الْعَظِیْمِ۱۰؎ اب دیکھیں کیا یہ دونوں حالتیں آپ میں نہیں پائی جاتیں؟ کیا آپ اپنے مال، اقتدار ،وسائل پر اِترا نہیں رہے؟ اور کیا اپنے عظیم الشان مَیْل عَنِ اَلْحَقِّ اِلَی الْبَاطِلِ پر اصرار نہیں کررہے‘‘۔
یہ وہ خط ہے جو شیخ مصری صاحب نے مجھے لکھا اور جس سے ظاہر ہے کہ ان کی علمیت کس حد تک ہے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ایک شخص علم کا دعویٰ کرتا ہے مگر اسے اتنی موٹی بات بھی معلوم نہیں کہ کن اصول پر خواب کی تعبیر کی جاتی ہے۔ اب جو خواب ملک غلام فرید صاحب نے دیکھا اور جس کے متعلق مصری صاحب یہ کہتے ہیں کہ کاش !آپ نے اس پر غور کیا ہوتا وہ یہ ہے ملک صاحب لکھتے ہیں:-
’’میں نے دیکھا کہ سالانہ جلسہ کا موقع ہے حضور سٹیج پر کھڑے تقریر فرمارہے ہیں۔ آپ کے دائیں طرف شیخ عبدالرحمن صاحب مصری بیٹھے ہوئے ہیں اور جُوں جُوں حضور تقریر فرماتے ہیں وہ آپ کا منہ چڑارہے ہیں۔ سٹیج پر جو دوسرے لوگ بیٹھے ہیں ان میں سے بعض مصری صاحب کی اِس حرکت کو دیکھ بھی رہے ہیں۔ اتنے میں حضور نے تقریر ختم کی اور مصری صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے اور حضور سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ خواب میں مجھے ایسا معلوم ہؤا کہ حضور کو معلوم ہے اور دوسرے دوستوں کو بھی معلوم ہے کہ مصری صاحب کیا کہیں گے۔ لیکن حضور نے پھر بھی ان کو اجازت دے دی کہ آپ کہہ لیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک اچھا خاصہ لمبا چوڑا کاغذ کا ٹکڑا ہے اُس کو انہوں نے پڑھنا شروع کردیا۔ اُس میں لکھا ہؤا تھا کہ ’’ان وجوہات کی وجہ سے میں جماعت سے علیحدہ ہورہا ہوں بعینہٖ یہ الفاظ انہو ں نے کہے اور اس کاغذ سے وہ وجوہات پڑھ رہے ہیں۔ اُس وقت کوئی بات جو انہوں نے پڑھی مجھے یاد نہیں۔ ابھی وہ کھڑے ہوئے اپنا کاغذ پڑھ ہی رہے تھے کہ حضور کُرسی سے اُٹھ کر روانہ ہوگئے اور دوسرے دوست بھی ساتھ ہی چلے گئے اور مصری صاحب کو چھوڑ گئے۔ پھر معلوم نہیں ہؤا کہ مصری صاحب کا کیا حشر ہؤا‘‘۔
اب وہ کہتے ہیں دیکھو! اس خواب سے میری کیسی زبردست تائید ہوتی ہے حالانکہ اس خواب میں صاف بتایا گیا ہے کہ مصری صاحب منہ چِڑا رہے ہیں اور منہ چِڑانا کوئی خوبی کی بات نہیں بلکہ غیرمومنانہ فعل ہے۔ مگر وہ اِس امر کو قطعاً نظر انداز کرتے ہوئے کہتے ہیں صاف لکھا ہے میں منہ چِڑارہا ہوں اور جماعت مجھے کچھ نہیں کہتی اور یہی میری کامیابی کی بشارت ہے۔ گویا منہ چِڑانا خاص مؤمنوں کی علامت ہے جو شیخ صاحب میں پائی جاتی ہے۔ حالانکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ تالیاں پیٹنے اور سیٹیاں بجانے والے بھی مؤمن نہیں۔ پھر جو شخص دوسرے کا منہ چِڑاتا ہے وہ کس طرح مومن سمجھا جاسکتا ہے۔ پھر خواب میں جو یہ دکھایا گیا کہ ’’سٹیج پر جو دوسرے لوگ بیٹھے ہیں ان میں سے بعض مصری صاحب کی اس حرکت کو دیکھ بھی رہے ہیں‘‘۔ یہ حصہ صاف طور پر بتاتا ہے کہ باوجود ان کی طرف سے ایسی حرکات صادر ہونے کے جن سے طبائع میں اشتعال پیدا ہو جماعت صبر سے کام لے گی اور انہیں کچھ نہیں کہے گی۔ وہ دیکھے گی کہ مصری صاحب کیا کررہے ہیں۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ گند ظاہر کرتے چلے جائیں گے جماعت ان پر کوئی ظلم نہیں کرے گی۔ یہ وہ امر ہے جو خواب میں پہلے سے بتایا گیا اور جس سے لازماً یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب جو اپنے مظالم کا وہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں یہ جھوٹا ہے۔ اگر یہ خواب ان کا تسلیم شدہ خواب نہ ہوتا تب تو اس خواب کے مضامین ان پر حُجت نہیں ہوسکتے تھے مگر جب وہ اس خواب کو سچا تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ خواب میرے حالات پر چسپاں ہورہی ہے تو خواب تو یہ بتاتی ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ گندی حرکات کے مرتکب ہوں گے، جماعت احمدیہ کے مومن اپنے نفوس پر قابو رکھیں گے اورانہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ مگر وہ جھوٹ بولتے ہوئے جماعت پر یہ الزام لگارہے ہیں کہ اس نے ان پر کئی مظالم ڈھائے حالانکہ خواب بتارہی ہے کہ ظلم جماعت کی طرف سے نہیں ہوگا بلکہ مصری صاحب کی طرف سے ہوگا۔
پھر وہ لکھتے ہیں اس میں میری کامیابی کی بھی بشارت ہے جس پر آپ نے غور نہیں کیا۔ حالانکہ خواب میں یہ دکھایا گیاہے کہ ساری جماعت میرے ساتھ آگئی اور مصری صاحب اکیلے پیچھے رہ گئے۔ پس جب ساری جماعت خواب میں میرے ساتھ آگئی تو معلوم ہؤا کہ جماعت ان کے ساتھ نہیں اور نہ اس میں ان کی کسی کامیابی کی بشارت ہے۔ بلکہ یہ ان کے تنزّل اور ادبار کی خبر ہے اور پہلے سے بتادیا گیا ہے کہ ان کا کیا انجام ہوگا۔ غرض جیسا کہ پہلے سے بتادیا گیا تھا انہوں نے منہ چِڑایا مگر اس کے ساتھ ہی ملک غلام فرید صاحب کے خواب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراض کو بھی دور کردیا اور بتادیا کہ باوجود اس کے کہ مصری صاحب منہ چِڑائیں گے جماعت ان کا سختی سے جواب نہیں دے گی۔ پس ان کا اس خواب کو سچا تسلیم کرتے ہوئے یہ شور مچانا کہ مجھ پر ظلم کیا گیا بالکل جھوٹ اور بُہتان ثابت ہوتا ہے۔ پھر یہ کہنا کہ چونکہ دائیں طرف مصری صاحب کو دیکھا گیا ہے اور بائیں طرف مجھ کو اس لئے ان کا اصحاب الیمن میں شمار ہوگیا اور میرا اصحاب الشمال میں۔ یہ اتنی احمقانہ بات ہے کہ اس سے زیادہ حماقت کی بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ خواب میں جب بھی کوئی شخص دو آدمیوں کو دیکھے گا۔ لازماً ان میں سے ایک دائیں طرف ہوگا اور دوسرا بائیں طرف۔ اگر خواب میں کوئی شخص دیکھے کہ اس کے ماں باپ اس سے ملنے آرہے ہیں تو یہ ضروری امر ہے کہ ان میں سے ایک دائیں طرف ہو گا اور دوسرا بائیں طرف۔ اب اگر باپ دائیں طرف ہو تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ باپ جنتی ہے اور ماں دوزخی ۔ اور اگر ماں دائیں طرف ہو تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ ماں جنتی ہے اور باپ دوزخی۔ پھر اگر کوئی شخص خواب میں ایک مجمع دیکھے تولازماً کچھ لوگ دائیں طرف ہوں گے اور کچھ بائیں طرف۔ پھر کیا یہ کہا جاسکے گا کہ ان میں سے آدھے جنتی ہیں اور آدھے دوزخی۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس سے زیادہ علمِ تعبیر سے ناواقفیت اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ انسان اتنی معمولی بات کو بھی نہ سمجھے کہ دایاں اور بایاں ایک نسبتی امر ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جب بھی دو شخص خواب میں دیکھے جائیں ان میں سے ایک دائیں طرف ہوگا اور دوسرا بائیں طرف اور جو چیز لازمی ہو اُس کی تعبیر نہیں کی جاتی۔ مثلاً یہ توہوسکتا ہے کہ انسان اگرکسی کا صرف ایک پیر دیکھے تو اُس کی تعبیر کرے سر دیکھے تو اُس کی تعبیر کرے لیکن اگر کوئی خواب میں ایک آدمی دیکھے تو اس وقت یہ نہیں کہیں گے کہ اُس کے سر کی بھی تعبیر کرو اور ہاتھ کی بھی تعبیر کرو اور پائوں کی بھی تعبیر کرو۔ ایسی حالت میں تو اگر کوئی خاص نظارہ ہو تو صرف اسی کی تعبیر کی جائے گی۔ عام چیزوں کی جن کا تعلق انسان کے ساتھ لازمی ہے ان کی تعبیر نہیں کی جائے گی۔ اگر اس امر کو مدنظر نہ رکھا جائے اور محض خواب میں دو شخصوں کو آتے دیکھ کر جن میں سے ضروری ہے کہ ایک دائیں طر ف ہو اور دوسرا بائیں طرف یہ نتیجہ نکالا جائے کہ ایک جنتی ہے اور دوسرا دوزخی تو اس صورت میں اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام آرہے ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام مثلاً دائیں طرف ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بائیں طرف تو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ کہنا پڑے گاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جنتی ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوزخی، کیونکہ یہ شیخ صاحب کی بیان کردہ تعبیر ہے۔ مگر کیا کوئی بھی عقلمند اس تعبیر کو ماننے کیلئے تیار ہوسکتا ہے ؟اور کیا اس سے زیادہ کوئی احمقانہ بات بھی اور کوئی ہوگی؟ اگر دائیں اوربائیں میں نمایاں فاصلہ ہو تب بیشک دائیں کی بھی الگ تعبیر ہوتی ہے اور بائیں کی بھی الگ ۔ مثلاً کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ ایک جماعت دائیں طرف بیٹھی اور دوسری جماعت کچھ فاصلہ پر بائیں طرف ، تو اس وقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ کچھ لوگ اصحاب الیمین ہیں اور کچھ لوگ اصحاب الشمال۔ لیکن جب سب لوگ اکٹھے بیٹھے ہوں اُس وقت یہ کہناکہ ایک حصہ اصحاب الشمال میں سے ہے اور دوسرا اصحاب الیمین میں سے اور اس لئے کچھ دوزخی ہیں اور کچھ جنتی، احمقانہ بات ہے۔پھر دائیں بائیں کا جو مفہوم مصری صاحب بتاتے ہیں وہ بھی درست نہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب امام کے ساتھ ایک مقتدی ہو تو وہ اُس کے دائیں طرف کھڑا ہو جس کے یہ معنے ہیں کہ مقتدی دائیں طرف ہو اور امام بائیں طرف۔ کیا اس کے یہ معنے ہوں گے کہ شریعت کے مطابق امام ہمیشہ ادنیٰ درجہ کا ہوتا ہے اور مقتدی اعلیٰ درجہ کا؟
اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس نے مصری صاحب کے اعتراض کا قلع قمع خود ملک غلام فرید صاحب کی ہی ایک اور خواب سے کر چھوڑا ہے جو مصری صاحب کی تسلیم کردہ خواب سے پہلے کی خواب ہے۔ انہوں نے ۷؍ مئی کو ڈیرہ دون سے جہاں وہ تبدیلی آب و ہؤا کیلئے گئے ہوئے تھے مجھے ایک خط لکھا جو ۸ ؍مئی کو قادیان پہنچا اور قادیان سے ہوتے ہوئے ۱۲؍ مئی کو مجھے سندھ میں ملا۔ اس خط میں ملک غلام فرید صاحب لکھتے ہیں :
سیّدی! حضرت امیرالمومنین اَیَّدَکُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ
پچھلے دنوں میں نے ایک عجیب خواب دیکھا جو حضور کی خدمت میں عرض ہے۔ میں نے دیکھا کہ حضرت (اماں جان) کے اُس کمرہ میں جس میں بیت الدعا واقع ہے، پانچ کرسیوں پر آنحضرت ﷺ ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت نواب صاحب، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اور حضرت مرزا بشیراحمد صاحب بیٹھے ہیں۔ مجھے اب ان کرسیوں کی ترتیب یاد نہیں رہی۔ صرف اتنا یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف بیٹھے ہیں۔ اس طرح پر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منہ بالکل قبلہ کی طرف ہے اور آنحضرت ﷺ کا کچھ منہ قبلہ کی طرف اور کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف۔ باہر صحن میں بہت سے لوگ جمع ہیں۔ میں اپنے متعلق کہہ نہیں سکتا کہ میں بھی اُس کمرہ سے باہر ہوں یا اندر ہوں لیکن غالباً باہر ہی ہوں لیکن اندر بیٹھنے والے بابرکت وجودوں کے بالکل ہی قریب کہ مجھے سب کچھ ان کا نظر آرہا ہے۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کُرسی کے پاس ہی (ایسا یاد ہے کہ بالکل ساتھ ملا ہؤا) دائیں بازو پر کھڑا ہوں۔لیکن حضرت صاحب کا چہرہ مجھے نظر نہیں آتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سارا لباس سفید ہے یہاں تک کہ کوٹ بھی لٹھے کا سفید پہنا ہؤا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی پگڑی ہرے رنگ کی ہے اور آنحضور ﷺ کی ڈاڑھی مبارک کا رنگ ایسا ہے جیسے حضور یعنی آپؑ کی ڈاڑھی کا۔ جبکہ اُس کو مہندی لگائے آٹھ دس دن گزرچکے ہوں اور آنحضرت ﷺ کی ڈاڑھی کا قد بھی آپؑ کی داڑھی کے قد کے برابر ہے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی بالکل حضور کی ڈاڑھی جیسی ہے۔ خواب میں ایسا معلوم ہؤا ہے کہ آپ کسی دوسرے کمرہ میں کسی تقریر کی تیاری میں مشغول ہیں اور کوئی بہت بڑی تقریب ہے جس پر آپ نے تقریر کرنی ہے اور آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس تقریر کے سننے کی خاطر تشریف لائے ہوئے ہیں اور صحن میں جو بہت سے لوگ ہیں وہ بھی اسی لئے آئے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضور کے روحانی مراتب میں بہت بہت ترقی دے اور مجھے حضور کا سچا اور پکا خادم بنائے اور ہمیشہ حضور کے دامن کے ساتھ وابستہ رکھے‘‘۔
اِس خواب میں ملک غلام فرید صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آنحضرت ﷺ کے بائیں طرف بیٹھے دیکھا ہے اور صاف طور پر لکھا ہے کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت ﷺ کے بائیں طرف بیٹھے ہیں‘‘۔ اب یہاں اگر وہی تعبیر لگائی جائے جو مصری صاحب نے کی تو نَعُوْذُبِاللّٰہِ کہنا پڑے گا کہ رسول کریم ﷺ کو ’’خواب میں دائیں طرف دکھلایا گیا ہے اور آپؑ کو بائیں طرف۔ اب سورۃ الواقعہ میں اصحاب الشمال کا حال پڑھ لیں وہاں صاف لکھا ہے وَاِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُتْرَفِیْنَ - وَ کَانُوْا یُصِرُّوْنَ عَلَی الْحِنْثِ الْعَظِیْمِ۔ کیا ایسی گندی اور ناپاک تعبیر جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جہنمی قرار دینا پڑے اِس قابل ہوسکتی ہے کہ اسے صحیح تصور کیا جائے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تعبیر کس قدر غلط ہے ۔ اس تعبیر کو اگر درست سمجھا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ جہنمی ماننا پڑتاہے۔ کیونکہ ملک غلام فرید صاحب نے انہیں آنحضرت ﷺ کے بائیں طرف دیکھا۔ مگر ہم میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں جو ایسی گندی اور ناپاک تعبیر اس خواب کی کرسکے۔ پس ان کی یہ تعبیر ان کے نفس کا اختراع ہے۔ حقیقت سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں۔
پھر وہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ خواب میں ان کے متعلق بیّن طور پر بتایا گیا ہے کہ وہ منہ چِڑارہے ہیں اب کیا منہ چِڑانا مؤمنانہ شیوہ ہے؟ جب نہیں تو انہیں خود اپنے ایمان کا فکر کرنا چاہئے اور بجائے اس کے کہ دوسروں کو سمجھائیں انہیں خود سوچنا چاہئے کہ ان کا انجام خواب سے کیا ظاہر ہورہا ہے۔ اگر ان میں کچھ بھی عقل و فہم ہوتی تو وہ اپنے آپ کو دائیں طرف اور مجھے بائیں طرف خواب میں معلوم کرکے اس نتیجہ پر پہنچتے کہ دائیں طرف ہونے سے یہ مراد ہے کہ وہ میرے احسانات کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم صدقہ کرو تو دائیں طرف سے شروع کرو۔۱۱؎ پس اس خواب کے یہ معنے تھے کہ میں نے اس شخص سے کئی دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ حُسنِ سلوک کیا اور متواتر اس سے احسانات کئے مگر یہ ایسا احسان فراموش نکلا کہ میرے حُسنِ سلوک کے باوجود میر امنہ چِڑاتا رہا۔ پس ان کے دائیں طرف ہونے میں ان کی کوئی فضیلت نہیں بلکہ انہیں میرے احسانات کا زیر بار دکھایا گیا ہے۔ چنانچہ اس کی مثال حدیثوں سے بھی ملتی ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں مجلس میں دودھ پیش کیا گیا۔ آپ نے اس میں سے کچھ تھوڑا سا دودھ پینے کے بعد اپنے دائیں بائیں دیکھا۔ حضرت ابوبکرؓ اُس وقت آپ کے بائیں طرف تھے اور آپ کے دائیں طرف ایک نوجوان لڑکا بیٹھا تھا۔ آپ نے اُس لڑکے کی طرف دیکھا اور فرمایا میرے اس تحفہ پر حق تمہارا ہی ہے کیونکہ تم دائیں طرف ہو مگر کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں یہ دودھ ابوبکرؓ کو دے دوں؟ وہ لڑکا کہنے لگا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ میں اپنا حق چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ ۱۲؎
اس مثال کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے خواب پر غور کرو تمہیں معلوم ہوگا کہ خواب میں جو کچھ بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ میں نے مصری صاحب سے ہمیشہ دائیں والا سلوک کیا مگر یہ میرا منہ چڑاتے رہے۔ مصری صاحب کا یہ کہنا کہ خواب میں بتایا گیا ہے کہ میری کارروائیوں کو جماعت دیکھے گی اور بُرا نہیں منائے گی، بتاتاہے کہ میں کامیاب ہوں گا ، صریح غلط بیانی ہے۔ خواب کے الفاظ یہ ہیں ’’سٹیج پر جو دوسرے لوگ بیٹھے ہیں ان میں سے بعض مصری صاحب کی اس حرکت کو بھی دیکھ رہے ہیں‘‘۔ اس بعض کے لفظ کو اُڑادینا مصری صاحب کی اس ذہنیت کو آشکارا کرتا ہے جو اِن میں اب جماعت سے علیحدہ ہوکر پید اہوگئی ہے۔ ہم تو خود تسلیم کرتے ہیں کہ بعض لوگ ان کے ہم خیال ہیں لیکن بعض کا لفظ اُڑا کر جماعت کا لفظ اختیار کرنا اور اس سے کامیابی کا نتیجہ نکالنا دھوکا نہیں تو اور کیا ہے۔ خواب میں صاف بتایا گیا ہے کہ جماعت کی اکثریت میرے ساتھ ہے تبھی تو جب میں اُٹھا تو وہ ساتھ اُٹھ کر چلے آئے ورنہ وہ مجھے چھوڑ کر مصری صاحب کے ساتھ رہتے اور سب کے سب مل کر گیدڑوں کی طرح منہ چِڑانے لگتے۔
درحقیقت انہوں نے اس خواب کی جو تعبیر کی ہے اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا علم محض سطحی ہے تعبیر کے علم سے انہیں کوئی مناسبت نہیں۔ کیونکہ تعبیر ایک روحانی علم ہے اور وہ روحانی کوچہ سے بالکل ناآشنا ہوچکے ہیں اور مجھ پر اعتراض کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کررہے ہیں۔ جو دوسری خواب میں نے ملک صاحب کی بتائی اس میں رسول کریم ﷺ کی ریش مبارک ملک صاحب کو بالکل میری ڈاڑھی کے مطابق اور ہم شکل دکھائی گئی ہے۔ جس میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ جو مجھ پر حملہ کرے گا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملہ کرے گا۔ کیا مصری صاحب یا ان کے ساتھی اس سے فائدہ اُٹھائیں گے؟
پھر یہی ملک غلام فرید صاحب اپنے اس خط میں لکھتے ہیں ’’ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مسجد مبارک کی وہ چھوٹی کھڑکی جو بیت الفکر میں کھلتی ہے اور جس میں سے ہوکر خدا کے مسیح پاک مسجدمیں تشریف لایا کرتے تھے، اُس کے پاس آپ کھڑے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھنا ہو وہ اِس کھڑکی میں سے گزرجائے۔ لوگ ایک ایک کرکے اندر جارہے ہیں۔ میں بھی اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آپ ہی اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں خواب میں حیران ہوتا ہوں کہ ان کو تو (یعنی حضور کو) میں باہر کھڑکی کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں اور اندر بھی خود ہی بیٹھے ہیں‘‘۔
اِس خواب نے بتادیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور میرا حال ایک ہی ہے اورجو اعتراض مجھ پر کیا جاتا ہے وہی اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی عائد ہوتاہے۔ پس چونکہ اللہ تعالیٰ یہ جانتا تھا کہ ایک اعتراض محمود پر یہ پڑنے والا ہے کہ خواب میں اسے بائیں طرف دکھایا گیا ہے جو اس کے اصحاب الشمال میں سے ہونے کا ثبوت ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بائیں طرف دکھادیا اور اس طرح اعتراض کرنے والوں پر ظاہر کردیا کہ اگر تم اپنے علمِ تعبیر کو صحیح قرار دو گے اور اگر ایسی ناپاک اور گندی تعبیر کرنے سے باز نہیں آئو گے تو یاد رکھو تمہیں محمود پر حملہ کرنے کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جہنمی قرار دینا پڑے گا۔ اب یہ تمہارے اختیار میں ہے کہ چاہو تو صحیح راستہ اختیار کرو اور چاہو توٹیڑھا راستہ اختیارکرکے اپنے آپ کو ابدی ہلاکت میں ڈال لو۔
(الفضل ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۳۷ئ)
۱؎ سائی: وہ تھوڑی سی رقم جو معاملہ طے ہو جانے کے بعد پیشگی دی جائے۔
۲؎ مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین … الخ
۳؎ بوڈاپسٹ(BUDAPEST): ہنگری کا دارالحکومت۔ یہاں پہلے دو رومی شہر آباد تھے جنہیں تاتاریوں نے تباہ کر دیا۔ پہلی عالمی جنگ تک یورپ میں غلّے کی اہم منڈی تھا۔ جنگ کے بعد بعض صنعتوں کے فروغ سے یورپ کا ایک نفیس شہر بن گیا۔ دوسری عالمی جنگ میں اس کا ۷۵ فیصد حصہ تباہ ہو گیا۔
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۲۶۷۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ئ)
۴؎ الہکف: ۶
۵؎،۶ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع (الخ)
۷؎ قراقر: پپٹ بولنا
۸؎ التوبۃ: ۱۱۸
۹؎ آرد فروش: آٹا بیچنے والا
۱۰؎ الواقعۃ: ۴۶،۴۷
۱۱؎ ،۱۲؎ بخاری کتاب المساقاۃ باب من رأی صدقۃ الماء (مفہوماً)

۲۲
شیخ عبدالرحمن مصری کے ایک اشتہار کاجواب
(فرمودہ ۱۶؍ جولائی ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
کل مجھے ایک اشتہار ملا ہے جو شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی طرف سے شائع ہؤا ہے۔ اس میں جماعت احمدیہ کو خطاب کیا ہے اور اس اشتہار کی ابتدا قرآن کریم کی ایک آیت سے کرتے ہیں جو یہ ہے وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰ نُ قَوْمٍ عَلٰی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۱؎ یعنی کسی قوم کی دشمنی اور عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے اور نہ اُکسائے کہ تم عدل کو چھوڑ دو۔ چاہئے کہ عدل کرو یہ تقویٰ کے بہت قریب ہے۔
اس کے بعد جماعت احمدیہ سے گلہ کیا ہے کہ کیوں بغیر تحقیق کے شیخ صاحب کے خلاف اس نے ریزولیوشنز پاس کرنے شروع کردیئے ہیں۔ جماعت کے دوستوں کو چاہئے تھا پہلے تحقیقات کرتے اور پھر کوئی رائے قائم کرتے۔ اور پھر بتایا کہ جماعت کو دھوکا دیا گیا ہے کہ گویا مصری صاحب اپنے اثر و رسوخ کی بناء پر خلیفہ کو دھمکی دیتے ہیں اور اس طرح جماعت میں اشتعال پیدا کردیا گیا ہے اور ان کو مرتد، منافق، فاسق، فتنہ پرداز، بدباطن وغیرہ الفاظ سے یاد کیا جانے لگا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ میں نے بڑائی کا کوئی دعویٰ نہیں کیا میرے تینوں خطوط اس قسم کے دعویٰ سے خالی ہیں بلکہ میرے خطوط میں تو عجز و انکسار کا اظہار ہے۔ اور پھر اپنے وہ الفاظ نقل کئے ہیں جو الفضل میں درج ہوچکے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سے غلط نتیجہ نکالا گیا ہے۔ میں نے ان الفاظ میں اپنی کسی شان کا اظہارنہیں کیا بلکہ عاجزی کا اظہار کیا ہے۔ اور پھر وہی شکایت کرتے ہیں جس کا ازالہ میں پچھلے خطبہ میں کرچکا ہوں۔ یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ میں نے لکھا تھا کہ میں جماعت سے علیحدہ ہوجائوں گا۔ حالانکہ میں نے جماعت سے نہیں بلکہ بیعت سے الگ ہونے کا لکھا تھا۔ اور پھر اس امر پر بحث کرتے ہیں کہ بیعت سے خارج ہونا جماعت سے خارج ہونا نہیں اور اس کی مثال یہ دیتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے چھ ماہ تک حضرت ابوبکرؓ کی بیعت نہیں کی تھی۔ مگر کون کہہ سکتا ہے کہ اُس وقت وہ مسلمان نہیں رہے تھے۔ اسی طرح بعض اور صحابہ کی مثالیں دی ہیں۔ پھر جماعت سے اپیل کرتے ہیں کہ یہ پُرفریب طریقہ خلیفہ نے اس لئے اختیار کیا ہے کہ لوگوں کی توجہ مصری صاحب کی طرف نہ ہوسکے اور جماعت ان کے براہین پر غور نہ کرے۔ اور پھر لکھتے ہیں کہ صحیح طریق یہ تھا کہ جب میں نے الزام لگائے تھے تو خلیفہ کو لازم تھا کہ ایک آزاد کمیشن بٹھاتے مگر اس کی بجائے جماعت سے میرے اخراج کا اعلان کردیا گیا۔پھر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا طریق یہ تھا کہ جب انہیں کوئی شکایت ہوتی وہ خلیفہ کے پاس جاتے اور اپنی شکایات پیش کرتے اور خلیفہ عَلَی الْاِعْلَان اپنی غلطی کا اعتراف کرتا اور آئندہ کیلئے اس سے رجوع کرتا تھا۔ اور پھر آخر میں یہی لکھتے ہیں کہ ایک آزاد کمیشن مقرر ہونا چاہئے جو تحقیقات کرے اور اپیل کرتے ہیں کہ دوستو! اُٹھو اور مومنانہ جُرأت سے کام لو، اِس میں خلیفہ کی اجازت کی ضرورت نہیں۔
یہ خلاصہ ہے ان کے اشتہار کا اور جنہوں نے پڑھا ہے، پڑھا ہی ہوگا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس سارے اشتہار میں یا اس سے کسی پہلے اشتہار میں یہ نہیں بتایا کہ مَیں الزام کیا لگاتا ہوں۔ یہ تو ہے کہ اُٹھو، دوڑو، فکر کرو، سب ہی کچھ کرومگر الزام تم خود ہی دریافت کرو اور تحقیقات بھی خود ہی کرو۔ کیا کوئی عقلمند مصری صاحب کی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ وہ کہتے ہیں میں الزام تو ایسے لگاتا ہوں کہ جن کی موجودگی میں انسان بیعت میں نہیںرہ سکتا اور انہی کی وجہ سے میں جماعت سے نکل گیا ہوں مگر میں ان کا ذکر نہیں کرتا، تم لوگ خود ان الزامات کی تحقیق کرو۔ میں الزام خود نہیں بتائوں گا تمہیں چاہئے کہ خود تلاش کرو۔ بھلا کون ایسا پاگل ہوگا کہ الزام لگانے والا تو کوئی بیان نہیں دیتا، کوئی ثبوت نہیں دیتا اور یہ خود سب باتوں کی تحقیقات کرتا پھرے۔ تحقیقات کرنا تو انسانی فطرت میں داخل ہے۔ ہر انسان جج ہے۔ جب وہ کوئی بات سنتاہے تو اس کی تحقیقات میں لگ جاتا ہے، اس کی کوئی نہ کوئی بناء قائم کرتا ہے اور پھر اس کے متعلق کوئی نہ کوئی فیصلہ کرتا ہے اور یہ روز مرہ ہوتا ہے۔ ہر انسان کے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے ایک جج بٹھادیا ہے مگر مصری صاحب کا طریق بالکل نرالا ہے جو حضرت آدمؑ سے لے کر آج تک کسی نے اختیار نہ کیا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ الزام بھی خود ہی دریافت کرو اور تحقیقات بھی خود ہی کرو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ الزامات بیان کرتے وقت ان کو کوئی معیّن کہانی بیان کرنی پڑے گی۔ ممکن ہے اعتراضات کی بوچھاڑ ہو تو پھر اس کہانی میں کسی تبدیلی کی ضرورت پیش آئے۔ یا اس کو بالکل چھوڑ دینا مناسب ہو یا جو گواہ پیش کرنے ہوں و ہ میسر نہ ہوں یا ان میں تبدیلی کی ضرورت ہو یا ان پر کوئی اعتراض ہو یا حملہ قرآنی تعلیم کے خلاف ہو۔ تو انہوں نے آسان راہ یہ سوچی کہ میں صرف یہ شور مچاتا رہوں کہ کچھ الزام ہیں، کچھ الزام ہیں۔ جماعت تحقیق کرے تاکہ لوگ اپنے طور پر جو الزام معلوم کریں اگر وہ ان کو غلط ثابت کردیںتو میں کہہ دوں کہ میں نے تو یہ الزام نہیں لگائے، یہ تو آپ خود لگارہے ہیں۔ یا تفصیلات جرح میں غلط ثابت کردی جائیںتو میں کہہ دوں کہ میں نے تو یہ نہیں کہا تھا اور پھر اپنے مطلب کے مطابق تفصیلات گھڑلوں۔ حالانکہ جو لوگ ان کے ساتھ متفق ہیں وہ برابر لوگوں سے کہے جارہے ہیں کہ ہمیں الزامات معلوم ہیں اور خفیہ پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ دور دراز کے پیغامی بھی نہایت گندہ پروپیگنڈا کررہے ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے سامنے انہیں وہ باتیں بیان کرنے سے ہچکچاہٹ ہے جن باتوں کو وہ میاں ملتانی اورمیاں عبدالعزیز اور اَور پیغامیوں سے مزے لے لے کر بیان کررہے ہیں وہ مبائعین سے کیوں نہیں کہتے، وہاں خالی تحقیق کی تکرار کیوں کررہے ہیں۔ غرض مصری صاحب کی یہ حرکت ایک ایسی حرکت ہے کہ دنیا کا کوئی معقول آدمی اسے سمجھ نہیں سکتا۔ میں نے دنیا میں عجیب عجیب لوگ دیکھے ہیں مگر ایسا شخص کوئی نہیں دیکھا ۔
ایک دفعہ ایک عورت میرے پاس آئی اورکہنے لگی کہ آپ نے اتنے محکمے بنائے ہوئے ہیں قضا ہے، امور عامہ ہے، لوکل کمیٹی ہے مگر میرا مقدمہ اتنی مدت سے دائر ہے، اس کا کوئی فیصلہ نہیں کرتا۔ میں نے کہا تم تسلی رکھو میں اس کی تحقیقات کرائوں گا۔ چنانچہ میں نے دریافت کیا تو معلوم ہؤا کہ اس کے مقدمہ کا فیصلہ ہوچکا ہواہے،وہ جب پھر آئی تو میں نے کہا کہ تمہارا فیصلہ تو ہو چکا ہے شکایت کس بات کی ہے۔ تو کہنے لگی کہ وہ بھی کوئی فیصلہ ہے، وہ تو میرے خلاف ہے، فیصلہ کرنا ہے تو سیدھی طرح کیا جائے یہ کیا فیصلہ ہے کہ مجھے کہہ دیا تم غلطی پرہو۔ تو میں نے دنیا میں ایسے ایسے بیوقوف بھی دیکھے ہیں مگر ایسا بیوقوف کوئی نہیں دیکھا کہ جو کہے کہ الزامات میں لگاتا ہوں مگر انہیں میں بیان نہیں کرتا تم خود ہی معلوم کرو اور پھر خود ہی تحقیقات کرو۔ یہ عقل و خرد سے کُلّی طور پر آزاد نظریہ میں نے صرف مصری صاحب سے ہی سنا ہے۔آخر کوئی تو وجہ ہے جو وہ اپنے عائد کردہ الزامات کو بیان نہیں کرتے۔ یا تو وہ قانون کی گرفت سے ڈرتے ہیں یا اخلاق سے اور یا پھر شریعت سے۔ وہ لوگوں کو تو کہتے ہیں کہ بے خوف ہوجائو مگر خود ڈرتے ہیں۔ اور جب بے خوف ہوجانے کا وعظ کرنے والا خود بے خوف نہ ہو تو دوسرے کس طرح ہوسکتے ہیں۔
انگریزوں میں ایک قصہ مشہور ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی اور سالی کے ساتھ تماشہ دیکھنے گیا۔ مگر جاتے ہوئے گھر کا دروازہ بند کرنا بُھول گیا۔ واپسی پر دروازہ کُھلا دیکھا تو خیال کیا کہ کسی نے بعد میں کھولا ہے اور سمجھا کہ ضرور کوئی چور اندر چُھپا بیٹھا ہے۔ مغربی تمدن میں یہ بات داخل ہے کہ عورت کو اعزاز کا مقام دینے کیلئے دعوت وغیرہ کے موقع پر پہلے اسے اندر داخل کرتے ہیں اور پھر خود ہوتے ہیں۔ اب یہ تینوں ڈرتے تھے اس لئے باہر ہی کھڑے ہوگئے۔ مرد ڈرتا تھا کہ اگر میں پہلے داخل ہؤا تو ایسا نہ ہو کہ اندھیرے میں چور مجھ پر حملہ کردے اس لئے پیچھے ہٹ کر کہنے لگا Ladies First یعنی عورتیں پہلے داخل ہوں اور اس طرح اپنی طرف سے اخلاق کا اظہار کیا حالانکہ وہ بُزدلی کا اظہار کررہا تھا۔ جب اُس نے یہ کہا تو اُس کی سالی جھٹ بولی میں تو جاکر پولیس میں پہلے اطلاع دیتی ہوں اور دراصل اس کا مقصد یہ تھا کہ میں یہاں سے بھاگوں۔ اس کی بہن کہنے لگی کہ یہ تو کبھی نہیں ہوسکتا کہ میں اس وقت تمہیں اکیلی جانے دوں میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی اور وہ بھی اس کے ساتھ چل پڑی۔ مرد نے یہ دیکھا تو جھٹ بول اُٹھا کہ بیشک چور کا معاملہ بہت اہم ہے مگر تم دونوں کا اکیلے جانا اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور یہ کہہ کر وہ خود بھی ان کے ساتھ چل پڑا۔ یہی حال شیخ مصری صاحب کا ہے۔ عجیب بات ہے کہ یہ شخص عَلَی الْاِعْلَان الزام لگاتا ہے، اس وقت تک چھ اشتہار شائع کرچکا ہے اور دستی اشتہار ملائے جائیں تو سترہ اٹھارہ بن جاتے ہیں اور شور مچارہا ہے کہ لوگو! ظلم ہوگیا میں نے بیعت چھوڑ دی۔ مگر اس سوال کا جواب کہ کیوں؟ میں نہیں دیتا تم خود تحقیقات کرو۔ حالانکہ جو الزام لگاتا ہے اس کا فرض ہے کہ بتائے اور ثبوت پیش کرے۔ نہ یہ کہ جس پر الزام لگایا جاتا ہے وہ تلاش کرتا پھرے۔ ایک شخص کسی کے کان میں کہہ دے کہ تُو چور ہے اور پھر کہے کہ یہ بتاتا کیوں نہیں کہ میں نے اس پر کیا الزام لگایا ہے تو یہ الزام لگانے والے کا کام ہوتا ہے کہ بتائے کیا الزام ہے اور اس کے کیا ثبوت ہیں۔ مگر مصری صاحب ساری دنیا کو تحقیقات کیلئے بلاتے ہیں مگر کہتے یہ ہیں کہ میں بتاتا کچھ نہیں یہ بھی تم خود ہی معلوم کرو کہ الزام کیا ہیں۔
یہ کہنا بھی درست نہیں کہ کمیشن بٹھایا جائے تو ثبوت پیش کروں گا۔ کیونکہ اگر ان کو یہ امید ہے کہ جماعت خلیفہ پر کمیشن بٹھائے گی تو اس کیلئے بھی تو ان کو کوئی الزام معلوم ہوگا۔ کوئی ابتدائی ثبوت ملیں گے تو اسے ایسی تحریک ہوسکتی ہے بغیر اس کے کس طرح ہوسکتی ہے۔ آخر ایک جماعت کو بے ایمان بنانا کوئی ایسا آسان امر تو نہیں کہ مصری صاحب کہیں گے کہ چھوڑدو خلیفہ کو اور وہ چھوڑ دیں گے۔ اگر جماعت احمدیہ کے ایمان سے مصری صاحب کو اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے واقفیت نہیں تو انسانی فطرت سے تو کچھ آگاہی ہونی چاہئے۔ مومن تو الگ رہے کافر بھی محض یہ سن کر اپنے پیاروں کونہیں چھوڑ دیتے کہ ان پر کوئی الزام لگایا گیا ہے۔ پس اگر مصری صاحب دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کوئی کمیشن بٹھائے گی تو بھی انہیں الزام اور بعض ثبوت دے کر جماعت میں یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی کہ فی الواقع معاملہ اہم ہے۔ لیکن اگر وہ خود ان الزامات کو پیش کرنا بے حیائی خیال کرتے ہیں تو دوسرے ان کی جگہ پر کیوں بے حیابنیں۔یا اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت پر تو ان باتوں کا اثر نہ ہوگا۔ میں احرار اور پیغامیوں میں پروپیگنڈا کروں تو پھر انہیں یہ جھوٹ کا ڈھونگ نہیں رچانا چاہئے تھا اور کھلے طور پر اپنے نئے دوستوں میں شامل ہوجانا چاہئے تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں ان باتوں کی شُہرت نہ ہو اور جماعت کی بدنامی نہ ہو۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ یہ اشتہارات احرار اور پیغامیوں کے ذریعہ چھپتے اور تقسیم ہوتے ہیں۔
پھر میں نے اخبار ’’احسان‘‘ میں ایک نوٹ پڑھا جو اسی مضمون پر مشتمل ہے جو مصری صاحب کے خطوں سے ملتا جلتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ’’احسان‘‘ میں یہ نوٹ کیسے چھپا۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کے تعلقات ان لوگوں سے ہیں اور انہی کی شہ پر یہ کھڑے ہیں اور ساری دنیا میں ان کے اشتہار پہنچے ہیں مگر ابھی ان کو ڈر ہے کہ جماعت کی بدنامی نہ ہو۔
فخرالدین صاحب نے ایک اشتہار دیا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ اس کے اخراج کے متعلق جو تقریر میں نے کی تھی، اس موقع پر بہت سے ہندو او رسکھ بھی موجود تھے۔ اوریہ کہ جب میں نے اس کے متعلق کم بخت وغیرہ لفظ استعمال کئے تو وہ شرم سے پانی پانی ہؤا جاتا تھا اور خیال کررہا تھا کہ یہ لوگ احمدی نہیںیہ کیا خیال کرتے ہوں گے کہ احمدیوں کے خلیفہ کے اخلاق ایسے ہیں۔ انہیں میرے کسی موقع پر کم بخت کا لفظ چند ہندوئوں اور سکھوں کے سامنے کہہ دینے سے تو شرم آتی تھی کہ احمدیت بدنام ہوجائے گی لیکن وہ اس بات کو چھپوا کر سارے ہندوستان میں شائع کرتے ہیں اور اس میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ شرم کا اظہار صرف طعن کے طور پر ہے اور یہ بالکل جھوٹ ہے کہ انہیں احمدیت کے بدنام ہونے کا ڈر تھا۔ ورنہ جس امر کا چھ سات آدمیوں کے سامنے بیان ہونا قابلِ شرم تھا وہ اسے لاکھوں کے سامنے پیش کرنے پر کس طرح راضی ہوگئے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا تصرف دیکھو کہ اس نے اس اشتہار میں ان کو ملزم بنادیا ہے۔ میری نسبت تو یہ لکھتے ہیں کہ چند ہندوئوں او رسکھوں کے سامنے میں نے انہیں اور ان کے بعض ساتھیوں کو کم بخت کہا مگر لکھتے ہیں کہ مجھے شرم آتی تھی یہ ہندو اور سکھ کم بخت اپنے دل میں کیا کہتے ہوں گے۔ پھر کم بخت کا لفظ سیاہی سے مٹایا ہے مگر چھپا ہؤا کہاں مٹتا ہے۔ اب اگر ان صاحب کو واقعہ میں اس پر شرم محسوس ہورہی تھی تو اول اسے چھاپا کیوں ؟او رپھر خود اپنے ہی قلم سے ہندوئوں اور سکھوں کی نسبت جن کا کوئی قصور نہ تھا کم بخت کا لفظ ان کے قلم سے نکل گیا؟ کس قدر عجیب بات ہے کہ پانچ دس ہندوئوں سے تو انہیں شرم آرہی تھی مگر اشتہارشائع کرکے اس کو ساری دنیا میں پھیلادیتے ہیں اور شرم نہیں آتی اور سمجھتے ہیں کہ اب کوئی حرج نہیں۔ دنیا میں بیوقوفی کے قصے جو مشہور ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی بیوقوف نے یہ ڈھنڈورا پٹوایا تھا کہ ہم سے فلاں بیہودہ حرکت ہوگئی ہے مہربانی کرکے کوئی کسی کو بتائے نہیں۔ یہی حال میاں فخرالدین صاحب کا ہے۔ اگر پانچ چھ ہندوئوں تک اس لفظ کے پہنچ جانے سے انہیں شرم آرہی تھی تو اشتہار شائع کرکے سارے ملک میں اس کی اشاعت کرتے ہوئے شرم کیوں نہ آئی۔ پس یا تو شرم کا دعویٰ جھوٹا ہے یا پھر وہ ویسے ہی عقلمند ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا قصہ والا شخص عقلمند تھا۔
اس کے بعد میں مصری صاحب کے اشتہار میں درج شُدہ باتوں میں سے بعض کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ جماعت نے بِلا تحقیق میرے خلاف جذبۂ نفرت کا اظہار کردیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ بات درست ہے یا نہیں کہ مصری صاحب نے اپنے خطوں میں لکھا ہے کہ اگر مجھ سے فلاں بات نہ کی جائے تو میں جماعت سے نکل جائوں گا۔ اور جب وہ مانتے ہیں کہ یہ درست ہے تو ظاہر ہے کہ یہ کوئی دُنیوی معاملہ تو ہونہیں سکتا تھا۔ جیسے مثلاً کسی سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کئے جانے کا فیصلہ ہو۔ یہ بات تو ایسی ہی ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے وہ بیعت میں رہ ہی نہیں سکتے تھے۔ پس انہوں نے اپنے اقرار سے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ انہوں نے خلیفۂ وقت پر کوئی شدید ترین الزام لگائے ہیں۔ اور جب یہ امر ان کا مسلّمہ ہے تو وہ کس طرح یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ جو لوگ مجھے سچا سمجھتے ہیں وہ ان سے اظہارِ نفرت نہ کریں گے۔ انہوں نے اگرچہ تاحال وہ الزام بیان نہیں کئے بلکہ مجھے بھی تفصیلاً نہیں لکھے اشارات ہیں جن کے پیچھے خدا جانے کیا تفصیلات ہیں۔ مگر یہ تو وہ تسلیم کرچکے ہیں کہ وہ ایسے الزام ہیں کہ ان کے بعد وہ بیعت میں نہیں رہ سکتے۔ اس لئے یقینا وہ معمولی نہیں بلکہ خطرناک سے خطرناک ہوں گے۔ اس کے بعد وہ کس طرح توقع کرسکتے ہیں کہ وہ دوست جو مجھ سے مخلصانہ تعلق رکھتے ہیں، ان سے اظہارِ نفرت نہ کریں۔ جب وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ میں ایسے الزام لگاتا ہوں کہ جن کی موجودگی میں بیعت میں رہ ہی نہیں سکتا تو اس سے زیادہ تحقیق کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایک غیرآدمی جسے مجھ سے اخلاص نہ ہو ایسے الزامات کو اور رنگ میں لے گا مگر جو شخص مجھے سچا سمجھتا ہے جب تک وہ دلائل کے ساتھ اسے اپنا ہم خیال نہ بنالیں وہ اگر سُنے گا کہ جسے وہ سچا اور راستباز سمجھتا ہے، اس پر کوئی شخص ایسے ایسے الزام لگاتا ہے وہ فوراً الزام لگانے والے کو جھوٹا کہے گا اور اس کا یہ کہنا بِلا تحقیق نہیں ہوگا کیونکہ اُس نے جب مجھے مانا تھا تو تحقیق کرکے مانا تھا۔ پس جو شخص اس پہلی تحقیق کے خلاف کہے گا اور مجھ پر الزام لگائے گا وہ اسے جھوٹا کہنے پر مجبور ہوگا۔
رسول کریم ﷺ کے پاس ایک یہودی آیا اورکہا کہ آپ نے میرے اتنے روپے دینے ہیں وہ اب تک دیئے نہیں۔ آپ نے فرمایا میں تو دے چکا ہوں۔ اس نے کہا نہیں۔ اس پر آپ سوچنے لگے کہ اس پر واقعہ کو کس طرح ثابت کروں۔ ایک صحابی نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! آپ نے روپے دے دیئے تھے۔ اس صحابی نے چونکہ دلیری اور وثوق سے کہا کہ آپ نے روپے دے دیئے تھے اوریہودی چونکہ جھوٹا تھا ، گھبراگیا اور اس نے مان لیا کہ ہاں آپ نے روپے دے دیئے تھے، مجھے یاد آگیا پہلے میں بُھول گیا تھا اور اُٹھ کر چلا گیا۔ رسول کریم ﷺ نے اس صحابی سے پوچھا کہ تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ میں نے روپے دے دیئے تھے، تم تو وہاں نہیں تھے۔ اس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! آپ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے مجھ سے یہ کہا ہے او رہم مان لیتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہوچکا ہے کہ آپ راستباز ہیں، تو پھر اس معاملہ میں آپ کی بات کے صحیح ہونے میں شک کس طرح ہوسکتا تھا۔ آپ نے فرمایا آئندہ اس شخص کی ایک کے بجائے دو گواہیاں سمجھی جائیں۔ ۲؎
اب دیکھو اس صحابی نے بغیر موجود ہونے کے رسول کریم ﷺ کی بات کی شہادت دی اور رسول کریم ﷺ نے سرزنش کی جگہ اس کی تعریف کی۔ گو اس میں کوئی شک نہیں کہ اصولِ شہادت کے مطابق اگر یہودی مصر رہتا تو آپ اس کی شہادت کو تسلیم نہ فرماتے مگر وہ جھوٹا تھا گھبراگیا اور دعویٰ ترک کردیا۔ مگر اتنا تو ثابت ہؤا کہ جب ایک شخص نے پہلے اس امر کی تحقیق کرلی ہو تو اس کے خلاف جو بات وہ سُنے اُس کا پہلا حق یہی ہوتا ہے کہ اسے ردّ کردے۔ پس اصل سوال اس جگہ یہ ہے کہ مذہبی معاملہ میں کیا انسان بے دیکھے اور بغیر سوچے سمجھے ہی مان لیا کرتا ہے؟ اگرنہیں توجماعت کافعل قابلِ اعتراض کیونکر ہؤا۔ انہوں نے میری خلافت کو بلکہ خلافت موعودہ کو اگر دلائل اور براہین سے مانا ہے تو شیخ صاحب یا اور کسی شخص کے دعویٰ کو وہ قابلِ قبول کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ جماعت کے لوگوں کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ ہم نے سوچ سمجھ کر ایک شخص کو امام مانا ہے۔ جو اس کی نفی کرتا ہے ہم اپنی پہلی تحقیق کے مطابق اسے سچا نہیں سمجھتے۔ شیخ صاحب کانقطہ نگاہ یہ ہے کہ جو میں کہتا ہوں اُس کو وزن دو اور اس کی تحقیق کرو۔ آخر یہ دُنیوی دعویٰ تو ہے نہیں کہ اس کی لازماً تحقیق کی جائے دینی دعویٰ ہے جس کی تحقیق جماعت پہلے کرچکی ہے اور اس کی بناء پر وہ مجھے خلیفہ مان چکی ہے اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہاموں کا مورد مان چکی ہے۔ اس تحقیق کے خلاف جو شخص بات کرتا ہے جب تک وہ اپنا دعویٰ ثابت نہ کردے، جماعت مجبورہے کہ اسے جھوٹا سمجھے۔ آخر یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ جماعت اپنے ایمان کو مصری صاحب کے ہاتھ میں دے دے اور اپنی تحقیق کو مصری صاحب کی تحقیق کے تابع کردے۔
حضرت خلیفہ اوّل کو یہ لوگ بھی اور ہم بھی خلیفہ مانتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ہم عملاً مانتے تھے اور اب ایماناً مانتے ہیں۔ اب اگر کوئی آکر کہے کہ حضرت خلیفہ اوّل نے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹ بولا تھا تو کیا ہمارا فرض ہے کہ فوراً تحقیقات کرنے لگ جائیں؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ ہم نے جب آپ کو مانا تھا تو تحقیقات کرکے ہی مانا تھا اور اب الزام لگانے والے کو ہم جھوٹا کہیں گے۔ ہاں جب وہ دلائل کے ساتھ ہمیں اپنا ہم خیال بنالے تو اسے سچا کہہ سکتے ہیں ورنہ جھوٹا ہی کہیں گے اور اس کا یہ کہنا کہ مجھے بِلاتحقیق جھوٹا کہاجاتا ہے، غلط ہے۔ کیا جماعت بغیر تحقیق ہی میری بیعت میں شامل ہوگئی تھی اور ہر سال جوہزاروں لوگ شامل ہوتے ہیں بغیر تحقیق کے ہی ہوجاتے ہیں۔ جب انہوں نے تحقیق کرلی تو اب جو شخص مجھ پر کوئی الزام لگائے میرے ماننے والے اسے جھوٹا یا فاسق یا منافق کہہ دیںتو یہ بِلا تحقیق نہیں ہوگا۔ ہاں جب وہ اپنی بات کو ثابت کرکے کسی کو اپنا ہم خیال بنالے تو پھر اس کا معاملہ دوسرا ہوگا۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ ادھر تو مصری صاحب مانتے ہیں کہ انہوں نے مجھ پر ایسے الزام لگائے ہیں جن کی وجہ سے مَیں خلیفہ نہیں رہ سکتا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جماعت میں بہت لوگ دہریہ ہوگئے ہیں اور بہت ہورہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اپنے متعلق مرتد یا منافق یا فاسق کے الفاظ بھی انہیں گوارا نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دہریہ بڑی گالی ہے یا منافق اور فاسق وغیرہ؟ وہ اپنا حق تو سمجھتے ہیں کہ جماعت کے بہت سے حصہ کو دہریہ قرار دیں اور بہت سے حصہ کو دہریت کی طرف مائل بتائیں۔ مگر اس کے جواب میں اگر جماعت کہے کہ تمہاری اپنی بینائی میں فرق آگیا ہے اور تم خود مرتد، منافق اور فاسق ہوچکے ہو اور تمہیں اچھی چیز بھی بُری نظر آنے لگی ہے تو وہ اس کو برداشت نہیں کرسکتے۔
ڈاکٹر عبدالحکیم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کولکھا تھا کہ سوائے مولوی نورالدین صاحب کے باقی سب جماعت گندی ہے اور کوئی ان میں سے اعلیٰ نمونہ پر نہیں پہنچا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ آئو تحقیقات کریں بلکہ آ پ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ میری جماعت بالکل ٹھیک ہے اور اگر اس میں تمہیں کوئی عیب نظر آتا ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ تم خود عیب دار ہو اس لئے میں تمہیں جماعت سے خارج کرتا ہوں۔ بیشک میں خود بھی بعض اوقات جماعت کو توجہ دلاتاہوں کہ بعض دوستوں میں کمزوریاں ہیں اور انہیں چاہئے کہ ان کو دور کریں مگر بعض دوستوں میں کمزوریوں کا ہونا اور بات ہے اور بہت سے لوگوں کا دہریہ ہونا اور۔ دہریت کے بعد باقی کیا رہ جاتا ہے۔ پس بعض احباب میں ایسی عملی کمزوریوں کے باوجود جو ایمان کے ہوتے ہوئے بھی پائی جاسکتی ہیں یہ کہنا کہ دہریت جماعت کے اندر پیدا ہوچکی ہے، اتنی بڑی گالی اور اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس سے زیادہ ظلم اور بڑی گالی ہو ہی نہیں سکتی۔ معلوم ہوتا ہے شاید خود ان کے دل میں ایمان نہ تھا ورنہ وہ دہریت کو اتنی معمولی بات نہ سمجھتے۔ مگر عجیب بات ہے کہ وہ فاسق اورمنافق کے الفاظ کو تو بڑی گالی سمجھتے ہیں مگر دوسروں کیلئے دہریہ کا لفظ بِلا تکلف استعمال کرتے ہیں۔ اس کے معنی یہی ہیں کہ ان کے نزدیک دہریت بالکل معمولی چیز ہے۔ ایک مسلمان کو کہو کہ تم تناسخ کے قائل ہو تو وہ اسے بڑی گالی سمجھے گا۔ لیکن اگر کسی ہندو کو کہو تو وہ بُرا نہیں منائے گا کیونکہ وہ اس کا قائل ہے۔ اسی طرح ان کا دوسروں کو اِس بے تکلفی سے دہریہ کہنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں دہریت کوئی بُری چیز نہیں۔ تو شیخ صاحب خود تو جماعت کو دہریہ کہتے ہیں مگر یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہیں کوئی حق نہیں کہ مجھے منافق یا فاسق کہو۔ اگر وہ کہیں کہ میں نے ساری جماعت کو تو نہیں کہا مگر جب وہ کہتے ہیں بہت سارے دہریہ ہوچکے ہیں تو جو باقی رہ گئے وہ کیا ہوئے۔ جب جماعت کے اندر ایک گندی رَو پید اہوچکی ہو توپھر اچھا کون رہ سکتا ہے۔ عبدالحکیم نے بھی تو ساری جماعت کے متعلق یہ نہیں کہا تھا اس نے بھی یہی کہا تھا کہ مولوی صاحب کامل مومن ہیں اور مصری صاحب بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک کامل تو وہ خود، فخرالدین صاحب اور حکیم عبدالعزیز ہیں اور باقی جماعت ابھی ضلالت پر ہی قائم ہے۔ ایک شخص جماعت سے نکلتا اور جماعت پر اور خلیفہ پر اتہام لگاتا اورپھر کہتا ہے کہ مجھے جھوٹا نہ کہو بلکہ خلیفہ کو بُرا کہو، میں نہیں سمجھتا ایک عقلمند کی عقل اور مُحب کی محبت پر اس سے زیادہ حملہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے جماعت پر دہریت کا الزام لگایا۔ مولوی ابوالعطاء صاحب نے انہیں چیلنج دیا کہ سَو ایسے لوگوں کے نام جو دہریہ ہوگئے ہوں اور سَوان کے جو دہریت کی طرف جارہے ہوں بتادیں اور باوجود اس چیلنج کے کئی بار دُہرائے جانے کے وہ ایسے نام پیش نہیں کرتے۔ تو ہم انہیں جھوٹا نہیں تو اور کیا کہیں گے۔
اب میں بتاتا ہوں کہ شریعت کا حکم یہ ہے کہ الزام لگانے والا ثبوت دے۔ شریعت اُس کا جس پر الزام لگایا جائے، ساتھ دیتی ہے اور ثبوت کا بار الزام لگانے والے پر ڈالتی ہے۔ یہ نہیں کہتی کہ ثبوت لوگ تلاش کرتے پھریں۔ مثلاً کوئی شخص زید یا بکر کے پاس آئے اورکہے کہ فلاں شخص حرامزادہ ہے اورجب آگے سے کہا جائے کہ ثبوت لائو تو کہے کہ میں نے بتادیا، اب ثبوت تم خود تلاش کرتے پھرو۔ ایسے موقع پر مومنوں کو تو شریعت کا یہ حکم ہے کہ فوراً کہہ دیں سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَوْلَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْرًا وَ قَالُوْا ھٰذَا اِفْکٌ مُّبِیْنٌ۳؎۔ پھر فرمایا وَلَوْلَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَّایَکُوْنُُ لَنَا اَنْ نَتَکَلَّمَ بِھٰذَا سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ ۴؎ یعنی جب کوئی شخص دوسرے مومن کے متعلق کوئی عیب کی بات کہے تو وہ آگے سے فوراً جواب دے کہ سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ اے میرے ربّ! تُو پاک ہے اور یہ بہت بڑا بہتان ہے۔
پھر فرمایا کیوں نہ مومنوں نے اِفک کا الزام سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ بہت بڑا جھوٹ بنایا گیا ہے۔ اور جب یہ کہا جائے کہ یہ بڑا جھوٹ بنایا گیا ہے توکیا اس کے یہ معنے نہیں کہ اس الزام کا لگانے والا جھوٹا ہے۔ تو اب بتاؤ کہ جب قرآنی تعلیم کے مطابق کوئی شخص ایسے موقع پر کہے کہ یہ الزام لگانے والا جھوٹا ہے تو وہ آگے سے یہ کہہ سکتا ہے کہ کس قدر ظلم ہے۔ مجھے بِلا تحقیق ہی جھوٹا کہہ دیا گیا ہے۔ مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی شان یہی ہے کہ فوراً کہہ دے ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ اور یہ اگلے کا فرض ہے کہ دلیل لائے۔ مگر یہاں دلیل لانا تو الگ رہا الزام تک بیان نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ قرآن کریم نے صاف طور پر یہ اصول بتایا ہے کہ دلیل اور ثبوت الزام لگانے والے کے ذمہ ہے۔ اسے چاہئے کہ اپنے ثبوت پیش کرے اور پھر اگر وہ شریعت کے مطابق ہوں تو مومن مان لے۔ اور اگر کوئی دلائل بیان نہیں کرتا تو قرآن کریم صاف کہتا ہے کہ تم کہہ دو ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ یعنی یہ شخص جھوٹ بھی معمولی نہیں بول رہا بلکہ کَذّاب ہے۔ کاذب خالی بُہتان کا ترجمہ ہے اور بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ کا ترجمہ کذاب ہے۔
قرآن کریم کی یہ تعلیم ہی ہے جو دنیا میں امن قائم رکھ سکتی ہے ورنہ کسی شریف آدمی کی عزت محفوظ نہیں۔ فرض کرو کوئی شخص شیخ صاحب کی بیوی یا بیٹی پر کوئی الزام لگائے تو کیا وہ اُس کے ہاتھ چُومیں گے اور کہیں گے جَزَاکَ اللُّٰہُ آپ نے بہت اچھا کیا جو مجھے بتادیا میں اس کی تحقیقات کروں گا۔ کیا جن لوگوں نے حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا پر الزام لگایا رسول کریم ﷺ نے اُن کو بلا کر اپنے پاس بٹھایا اور کہا کہ تم لوگوں نے بڑا احسان کیا ہے؟ یا یہ کیا کہ آپ منبرپر تشریف لائے اور فرمایا کہ ایک شخص نے میرے اہل کے متعلق مجھے بہت دکھ پہنچایا ہے، کون ہے جو میری مدد کرے۔ اس پر قبیلہ اوس کے ایک شخص نے کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر وہ ہمارے قبیلہ میں سے ہے تو ہم اس کو سزا دیں گے اور اس کا مقابلہ کریں گے۔۵؎ آپ نے یہ تونہیں کیا تھا کہ الزام لگانے والے پر دستِ شفقت پھیرا اور کہا ہو کہ اچھا میں تحقیق کروں گا۔ تو قرآن کریم کا یہی فیصلہ ہے کہ ایسی بات سنتے ہی کہہ دوکہ ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ اور یہ حکم تو ایک معمولی مومن کے متعلق ہے اور خلیفہ سے تو بیعت کا بھی تعلق ہوتا ہے۔ اگر یہ لوگ کسی ادنیٰ مومن پر بھی کوئی الزام لگاتے تو شریعت کا یہی حکم ہے کہ مومن سنتے ہی کہہ دے کہ یہ شخص کَذّاب ہے۔
شیخ مصری صاحب کہتے ہیں کہ مجھے دو سال سے ان باتوں کا علم تھا اورپھر کہتے ہیں کہ مجھے منافق نہ کہو مگر سوال یہ ہے کہ منافق کسے کہتے ہیں؟وہی جو ظاہراً جماعت کے ساتھ شامل ہو مگر اندر سے مخالف ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں دو سال سے علم تھا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ میری بیعت کی جائے۔ مگر پھر بھی جماعت میں شامل تھے اور اِسی کو منافق کہتے ہیں۔ منافق صرف دینی امور میں ہی نہیں دُنیوی امور میں بھی کوئی شخص منافق ہوسکتا ہے۔جو شخص کسی کارخانہ میں ملازم ہے اور تنخواہ لیتا ہے اور پھر اس کارخانہ کے راز بھی دوسروں کو بتاتا ہے، اسے بھی ہم منافق ہی کہیں گے۔ منافق وہ نہیں ہوتا جو اسلام سے نکل جائے بلکہ منافق جماعت کے اندر شامل ہوتاہے اور شامل ہوتے ہوئے مخالفت کرتا ہے۔ تو مصری صاحب اپنی منافقت کا اقرار کرتے ہیں مگر پھر بھی چاہتے ہیں کہ جماعت منافق کو منافق نہ کہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ دو سال سے مجھے ان باتوں کا علم تھا۔ اور منافق کیلئے کسی معیاد کی شرط نہیں خواہ کسی کے خیالات بگڑ جائیں اور وہ دو روز ہی ان کو چُھپا کر اس جماعت سے فائدہ اُٹھاتا رہے وہ منافق ہے۔اور خیالاگ بگڑنے کی صورت میں اس کا فرض ہے کہ اُسی وقت فیصلہ کرے۔ یا توتسلی کرلے اور یا پھر جماعت سے الگ ہوجائے۔ مگر جو شخص یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کی حالت دو سال سے ایسی تھی اور ہماری تحقیقات یہ ہے کہ ان کی یہ حالت اس سے بھی بہت پُرانی تھی مگر چونکہ ہماری تحقیقات تابع ہے ان الزامات کے اس لئے جب وہ ان کو ظاہر کریں گے اُسی وقت ہم بھی کریں گے۔
پھر مصری صاحب لکھتے ہیں کہ ’’آپ اس بھائی کو جو محض آپ لوگوں کو ایک خطرناک ظلم سے جس سے آپ میں سے اکثر بے خبر ہیں کے پنجہ سے چُھڑانے کیلئے اپنی عزت، اپنا مال، اپنی سبیلِ معاش، اپنا آرام، اپنے اہل و عیال کا آرام، اپنے عزیز بچوں کی تعلیم سب کچھ قربان کرکے نکلا ہے‘‘۔ گویا تمہیں ایسا گندہ خلیفہ ملا ہؤا تھا جو جماعت کو تباہ کررہا اور دہریت کی طرف لے جارہا تھا۔ میں نے تمہاری خیرخواہی کی اور تمہاری خاطر اس قدر قربانی کی اور پھر تم میرے دشمن ہوگئے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے والوں نے قربانی نہ کی تھی۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُھَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا۔۶؎ حضرت عائشہؓ پر الزام لگانے کی وجہ سے تین اشخاص کوکوڑے لگے تھے جن میں سے ایک حسان بن ثابت تھے جو آنحضرت ﷺ کا شاعرِ اعظم تھا اور ایک مسطح تھا جو حضرت عائشہؓ کا چچا اور حضرت ابوبکرؓ کا خالہ زاد بھائی تھا۔ وہ اس قدر غریب آدمی تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے گھر میں ہی رہتا ، وہیں کھانا کھاتا اور آپ ہی اس کیلئے کپڑے بنواتے تھے اور ایک اَور عورت ان کے ساتھ تھی ان تینوں کو سزا ہوئی تھی۷؎۔ توکیاکوئی کہہ سکتا تھا کہ ان کونقصان کا کوئی احتمال نہ تھا کون نہیں جانتاکہ عداوتوں اور دشمنیوں کی وجہ سے لوگ خود نقصان اٹھا کر بھی دوسروں کو ذلیل کرتے ہیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان کو نقصان کا کوئی احتمال نہ تھا۔ کون نہیں جانتا کہ عداوتوں اور دشمنیوں کی وجہ سے لوگ خود نقصان اُٹھا کر بھی دوسروں کو ذلیل کرتے ہیں۔ کیا مصری صاحب کی قربانی حسان اور مسطح سے زیادہ ہے؟ خود قرآن کریم گواہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے قسم کھائی تھی کہ اب میں مسطح کی مدد نہیں کروں گا۔۸؎ مگر چونکہ یہ جرم حکم قرآنی کے نازل ہونے سے پہلے کا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔ وہ تومعذور تھے مگر تیرہ سَو سال تک یہ قرآنی حکم سننے کے بعد جو مجرم بنے وہ کس طرح اپنی بریت کرسکتا ہے۔ جو قربانی مصری صاحب نے کی ہے اس سے بڑھ کر مسطح نے کی تھی۔ اس کے کھانے اور کپڑے تک کا کوئی انتظام نہ تھا حتیٰ کہ اس کے پاس رہنے کیلئے کوئی مکان تک نہ تھا وہ بدری صحابی بھی تھا۔ پس ا س سے بڑھ کر مصری صاحب میں کون سی چیز ہے۔ اسی طرح حسان بھی صحابی تھے اور شاعر اسلام تھے۔ کیا یہ لوگ سمجھتے تھے کہ جب ہم حضرت عائشہؓ پر الزام لگائیں گے تو ہماری بڑی عزت ہوگی اور حضرت ابوبکرؓ بُلاکر ہمارا وظیفہ مقرر کردیں گے؟ نہیں بلکہ انہیں خوب علم تھا کہ کس قدر مشکلات کا سامنا ہوگا۔ مسطح اچھی طرح جانتا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ روٹی کپڑا بند کردیں گے اورمکان سے بھی نکال دیں گے اور حسّان پر تو ایک صحابی نے تلوار سے حملہ کردیا تھا او رایک دوسرے صحابی نے بچایا کہ سزا دینا رسول کریم ﷺ کا کام ہے تمہارا نہیں۔ جس طرح کہ آج میں شریعت کا واسطہ دے کر احباب جماعت کو روکتا رہتا ہوںکہ دیکھنا جماعت کو بدنام نہ کرنا۔ یہ لوگ ہمارے محلوں میں جاتے اور احمدیوں کے مکانوں کے اندر اشتہار پھینک کر آتے ہیں اور اس طرح اشتعال دلاتے ہیں۔ ان کی طرف سے فساد انگیزی میں کوئی کسر باقی نہیں۔ یہ میری اس تعلیم کی وجہ سے ہی ہے کہ اپنے جوشوں کو قابو میں رکھو اور کوئی ایسی حرکت نہ کرو جس سے احمدیت بدنام ہو۔ یہ لوگ یہاں اس قدر اشتعال انگیزی کے باوجود امن سے رہ رہے ہیں ان دنوں ان کی زندگیوں کی ایک ایک گھڑی میرے احسان کے نیچے ہے۔ میں ہی ہوں جو خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کی طبائع کو ٹھنڈا کرتا ہوں اورمیری ہی متواتر ہدایات کی وجہ سے لوگ اپنے جوشوں کو دبائے ہوئے ہیں۔ ورنہ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی کے متعلق بھی کوئی اس قسم کی باتیں کرسکتا ہے؟
مستریوں نے جب اس قسم کے الزام لگائے تو میں نے اُن کو بُلایا تھا اور دریافت کیا تھا کہ سنا ہے تم ایسی باتیں کرتے ہو۔ پہلے تو بیٹا کہنے لگا کہ نہیں میں نے تو آپ کے متعلق یہ خواب دیکھا تھا، بھلامیں ایسی باتیں کرسکتا ہوں؟ اور باپ نے کہا کہ یہ تو مجھے سمجھاتا رہتا ہے مگر آہستہ آہستہ انہوں نے اقرار کرلیا۔ اس پر میں نے انہیں کہا کہ جانے دو اِس بات کو کہ مَیں خلیفہ ہوں، جانے دو احمدیت کے جتھے کو۔ تم جانتے ہو فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا اور فلاں شخص شراب پیتا ہے اور ان کی حیثیت گائوں میں وہ نہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے حاصل ہے مگر تمہاری جرأت ہے کہ بازار میں جاکر کہو کہ فلاں شخص شراب پیتا ہے یا فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا؟ تم ہرگز یہ جرأت نہیں کرسکتے کیونکہ تمہیں معلوم ہے کہ اگر ایسا کہا تو اس قدر جُوتے پڑیں گے کہ سر پر ایک بال نہیں رہے گا۔ پھر قادیان میں مجھے جو مالکانہ حیثیت حاصل ہے اسے بھی جانے دو۔ تم کسی گائوں میں دو گھمائوں ملکیت رکھنے والے کسی شخص کے متعلق ہرگز ایسی باتیں کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے اور اس طرح گویا تم اپنے فعل سے شہادت دیتے ہو کہ مَیں شریف ہوں اور پُرامن ہوں۔ ورنہ جو باتیں تم میرے متعلق کہتے ہوان کا سوواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی کسی اور کے متعلق تم نہیں کہہ سکتے۔ اور اب یہی بات میں اِن لوگوں سے کہتا ہوں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جماعت کے ۸۰ فیصدی لوگ ہمارے ساتھ ہیں مگرمیں کہتا ہوں کہ اسّی فیصدی نہیں نوے پچانوے بلکہ ننانوے فیصدی سہی بلکہ ۴؍۳۔۹۹ فی صدی سہی۔ قادیان میں اِس وقت آٹھ ہزار احمدی ہیں۔ ان میں سے ۴؍۳۔۹۹ فی صدی بھی اگر ان کے ساتھ ہوں اور صرف ۲۴ ہی میرے ساتھ۔ مگر کیا جس کے واسطے ۲۴ آدمی بھی جان دینے کو تیار ہوں اُس کے متعلق کوئی ایسی باتیں کرسکتا ہے؟ بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ جس کے ساتھ ایک بھی آدمی نہ ہو اُس کے متعلق بھی کوئی نہیں کہہ سکتا۔ کیا دنیا میں لوگ اشتعال میں آکر خود بدلہ نہیں لے لیتے؟ آخر ہم لوگ ایسے خاندان سے تو تعلق نہیں رکھتے جس نے کبھی لڑائی میں ہاتھ نہ ڈالا ہو۔
ہمارے خاندان کی تاریخ جنگی تاریخ ہے اور اب بھی ہمارا فوج کے ساتھ تعلق ہے۔میں نے خود میرزا شریف احمد صاحب کو فوج میں داخل کرایا ہے اور اب ان کا ایک لڑکا فوج میں شامل ہو رہا ہے۔ہمارے تایا صاحب نے غدر کے موقع پر جنگ میں نمایاں حصہ لیا۔ہمارے دادا فوجی جرنیل تھے۔ دلی کے بادشاہوں کی چِٹّھیاں ہمارے پاس محفوظ ہیںجن میں اس امر کا اعتراف ہے کہ ہمارا خاندان ہی تھا جس نے سکھوںکے زمانہ میںاسلام کی حفاظت کے لئے قربانیاںکیں۔پس اِن کا مجھ پر حملہ اس لئے نہیں کہ میں بُزدل ہوں یا میرا خاندان جرأت نہیں رکھتابلکہ صرف اس لئے ہے کہ یہ جانتے ہیںکہ ان کی شرارتوں کا جواب میں شرارت سے نہیں دوں گا اور صبر سے اِن کے ظلموں اور شرارتوں کو برداشت کروں گا۔ ایسے لوگ اور کسی پر اعتراض نہیں کرتے، صرف مجھ پرہی کرتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ مجھ پر اعتراض کریں گے اورمیں اِن کی حفاظت کروں گا۔ وہ مجھے گالیاں دیں گے اور میں اِس امر کا خاص خیال رکھوں گا کہ انہیں کوئی تکلیف اوردُکھ نہ پہنچے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ دوسروں پر حملہ نہیں کرتے۔
مؤمن ربانی ہوتا ہے۔ پہلے وہ چھوٹی اصلاح شروع کرتا ہے۔ بیسیوں عیوب ان کے اِردگِرد موجود ہیں ان کے گھروں میں اور ان کے دوستوں میں پائے جاتے ہیں یہ لوگ کیوں ان کی اصلاح کیلئے کھڑے نہیں ہوتے؟ کیوں ان کے متعلق اشتہار شائع نہیں کرتے؟ مجھ پر ان کا حملہ بتاتا ہے کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ میں پُرامن ہوں ورنہ دنیا میں کسی ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی پر بھی کوئی شخص اس طرح حملہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوسکتا جس طرح مجھ پر حملہ کیا جاتا ہے۔ گویا میں اس وسیع دنیا میں ایک ہی یتیم اور بے کس ہوں جس کی عزت پر حملہ کرنا کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔ مگر دشمن نادان ہے، بیشک بظاہر مَیں ایک ہی یتیم ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ گو انسان مجھے چھوڑ دیں مگر خداتعالیٰ مجھے نہیں چھوڑے گا۔ میں نے اِس دنیا میں ان لوگوں سے جو میری محبت کا دم بھرتے تھے، ظلم پر ظلم دیکھے ہیں مگر ایک ہے جس نے مجھے کبھی نہیں چھوڑا اور اُسی کے منہ کیلئے میں یہ سب ظلم برداشت کررہا ہوں۔ یہ خلافت میرے لئے پھانسی سے کم ثابت نہیں ہوئی۔ لوگوں نے مجھے تختۂ دار پر کھینچا اور فخر کرنے لگے کہ انہوں نے مجھے تخت بخش دیا ہے مگر میرے خدا نے مجھے کہا کہ یہ تُو سب کچھ برداشت کر اور اُف نہ کر کیونکہ تیرے دکھ میرے لئے ہیں نہ کہ بندوں کیلئے۔ پس جن کیلئے تیرے دُکھ نہیں تیرا حق نہیں کہ ان سے صلہ کا امیدوار ہو۔ تیرا کام بندوں کیلئے بغیر اُجرت کے ہے مگر تُو بے اُجرت نہیں چھوڑا جائے گا۔ میں خود تیرے زخموں پرمرہم رکھوں گا اور تیری ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑدوں گا۔ انسانوں نے بیشک تیرے ساتھ ظلم کیا ہے مگر کیا میری محبت اس ظلم کا کافی سے زیادہ بدلہ نہیں؟ اور کیا میری محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کے سوا تجھے اور کسی چیز کی خواہش ہوسکتی ہے؟ میرے رب کی یہی آواز ہے جس نے تاریکی کے وقتوں میں میرا ساتھ دیا ہے اور جب میرا دل بیٹھنے کو ہوتا تھا تو اُس نے میرے دل کو سہارا دیا ہے ورنہ مجھ پر ہزاروں گھڑیاں آئی ہیں کہ موت مجھے حیات سے زیادہ عزیز تھی اور قبر کا کونہ گھر کے کمروں سے مجھے زیادہ پیارا تھا۔
میں باتوں باتوں میں دور نکل گیا ۔ میں ذکر یہ کررہا تھا کہ حسان او رمسطح بھی اپنا نقصان کرکے کھڑے ہوئے تھے۔ ان کی روٹیاں اور کپڑے، ان کے مکان ، ان کی عزتیں، غرضیکہ ہر چیز خطرہ میں تھی۔ تو کیا اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت عائشہؓ پر ان کا الزام صحیح تھا؟ اگر یہ دلیل کوئی قیمت رکھتی ہے کہ انہوں نے اپنا نقصان کرکے یہ فتنہ شروع کیا ہے اس لئے وہ جو کہتے ہیں صحیح ہے تو میں کہتا ہوں کہ پہلوں نے بھی نقصان اُٹھا کر ہی ایسا کیا تھا مگر ان کے متعلق قرآن کریم کا صاف حکم ہے کہ وہ کذاب تھے۔ پس ان لوگوں کو کونسی زائد پوزیشن حاصل ہے کہ ان کو کذاب نہ کہاجائے۔ پھر یہ بھی درست نہیں کہ مصری صاحب نے کوئی قربانی کی ہے۔ انہوں نے پہلا خط فخر دین صاحب کے اخراج کے بعد لکھا ہے۔ اگر وہ کسی قربانی کیلئے تیار تھے تو چاہئے تھا کہ پہلے لکھتے۔ لیکن جب دیکھا کہ پارٹی ٹوٹنے لگی ہے تو خط میں مجھے دھمکی دی کہ فخر دین صاحب کو معافی دے دو ورنہ پردے فاش ہوجائیں گے۔ وہ سمجھتے تھے کہ میں ڈرجائوں گا اورمعاف کردوں گا۔ تو اس خط سے ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ ڈرا کر فخر دین صاحب کیلئے معافی حاصل کی جائے۔ یہ بھی کوئی قربانی ہے کہ کوئی شخص کسی سے آکر کہے کہ یہ کام کردو ورنہ تمہارا گھر لُوٹا جائے گا۔ پہلے خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ فخردین صاحب کو معاف کردیں ورنہ بڑی بدنامی ہوگی۔ تو یہ خط کسی قربانی کیلئے نہیں بلکہ فائدہ اُٹھانے کیلئے لکھا گیا ہے۔ یہ اس غرض سے لکھا گیا تھا کہ ان کا جو دوست جماعت سے باہر کردیاگیا ہے اُسے پھر شامل کرلیا جائے۔ پس یہ خط فائدہ اٹھانے کیلئے لکھا گیا تھا نہ کہ کسی قربانی کیلئے۔ اگر یہ فخر دین صاحب کی خاطر نہیں لکھا گیا تھا تو جب وہ کہتے ہیں ان باتوں کا دوسال سے مجھے علم تھا تو فخردین صاحب کے اخراج کا انتظار کیوں کرتے رہے۔ اس مرحلہ پر خط لکھنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ ان کے مزعومہ اعتراضات کا اظہار خود الزامات کا باعث نہ تھا بلکہ میاں فخر دین صاحب کو بچانے کیلئے تھا۔ مصری صاحب بتائیں تو سہی کہ فخردین صاحب کے اخراج کے بعد کونسے ایسے نئے حالات پیدا ہوگئے تھے جن کی وجہ سے وہ مجبور ہوگئے کہ وہ ان الزامات کا اظہار کریں۔ اگر تو کوئی نئے حالات پیدا ہوگئے ہوتے تو ہم سمجھ لیتے کہ یہ خط ان حالات کی وجہ سے لکھا گیا لیکن ایسا نہیں ہے۔ پس واقعہ یہی ہے کہ اگر فخر دین صاحب جماعت میں رہتے تو باوجود مصری صاحب کو میرے مزعومہ عیوب کا علم ہونے کے وہ بھی جماعت میں رہتے اور میاں فخر دین صاحب بھی اور میاں عبدالعزیز بھی ۔ گویا میرے عیوب مستقل وجود نہیں رکھتے وہ صرف فخر دین صاحب کے اخراج کے ساتھ مل کر مکمل ہوتے ہیں۔ پس اس سے صاف ثابت ہے کہ ان خطوط کے لکھنے کا محرک پارٹی کے ٹوٹنے کا خدشہ یا غصہ تھا۔
تیسرے خط میں شیخ صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے معلوم ہوچکا ہے اب آپ سے نرمی کرنا سلسلہ کے ساتھ غداری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ دو سال تک یہ مسئلہ کیوں نہ سُوجھا۔۱۳ روز کے اندر اندر ہی یہ رموز اِن پر کُھلے، دو سال پہلے کیوں نہ کھلے۔ اِس الزاموں والے خط میں بعض جگہ تو الزام نمایاں ہیں گو مجمل اور تشنہء تفصیل اور بعض جگہ یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ کہتے کیا ہیں۔ ان دونوں طریقوں سے صاف پتہ لگتا ہے کہ پہلا خط اِس غرض سے تھا کہ دھمکیوں سے ڈر کر مَیں اِن کی بات مان لوں اور وہ جو چاہیں مجھ سے کراسکیں۔ جیسے دلی میں بادشاہ گر ہوتے تھے یہ خلیفہ گر بننا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ظاہر میں تومَیں لیکن باطن میں وہ خلیفہ ہوں۔ مگرا نہیں کیا معلوم کہ خدا او ر انسان کے بنائے ہوئے خلفاء میں کیا فرق ہوتا ہے۔ خدا کا بنایا ہؤا خلیفہ کبھی کسی سے نہیں ڈرتا۔ کیا میں اس بات سے ڈر جائوں گا کہ لوگ مرتد ہو جائیں گے؟ جس کے لئے ارتداد مقدر ہے وہ کل کی بجائے بیشک آج ہی مرتد ہو جائے، مجھے کیا فکر ہے۔میں جب جانتا ہوں کہ میں خدا کا بنایا ہؤا خلیفہ ہوں تو خواہ ایک آدمی بھی میرے ساتھ نہ ہو تو بھی مجھے کیا ڈر ہے۔جب خدا تعالیٰ خود مجھے تسلیاں دیتا ہے تو میں انسانوں سے کیوں ڈروں۔ادھر یہ لوگ مجھے ڈراتے اور اُدھر خدا تعالیٰ مجھے تسلیاں دیتا ہے ۔اِن چند روز میں اس کثرت سے مجھے الہام اور رؤیا ہوئے ہیں کہ گزشتہ دو سال میں اتنے نہ ہوئے ہوں گے۔ ابھی چند روز ہوئے کہ مجھے الہام ہؤا جو اپنے اندر دعا کا رنگ رکھتا ہے اوروہ یہ ہے کہ ـ’’ اے خدا! میں چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہوا ہوں تُو میری مدد فرما ‘‘ ۔اور پھر اس کے تین چار روز بعد الہام ہؤا جو گویا اس کا جواب ہے کہ ’’ میں تیری مشکلات کو دُور کروں گا اور تھوڑے ہی دنوں میں تیرے دشمنوں کو تباہ کر دوں گا‘‘۔ آخری الفاظ ’’تباہ کر دوں گا‘‘یا ’’برباد کروں گا‘‘یا ’’مٹا دوںگا ‘‘تھے، صحیح طور پر یاد نہیں رہے۔ تو جب خدا تعالیٰ خود مجھے تسلیاں دیتا ہے تو میں بندوں سے کیوں ڈروں۔ اور کیا ان واقعات کے بعد میں کسی بندے پر اعتماد کر سکتا ہوں ؟ شیخ عبدالرحمن مصری میرے بچپن کے دوست تھے مگر آج ان کے اقرار کے بموجب وہ دو سال سے میرے خلاف مواد جمع کر رہے تھے مگر ہماری تازہ تحقیق کے مطابق اس سے بھی بہت پہلے سے کینہ دل میں چھپائے بیٹھے تھے۔ پھر میں کسی انسان پر کس طرح بھروسہ کر سکتا ہوں ۔
فتح مکہ کے بعد رسول کریم ﷺ نے پانچ اشخاص کے متعلق حکم دیا تھاکہ جہاں بھی ملیں مار دیئے جائیں۔ ان میں سے ایک ہندہ بھی تھی مگر وہ چادر اوڑھ کر دوسری عورتوں کے ساتھ بیعت کرنے آگئی۔ رسول کریمﷺ نے جب بیعت لیتے لیتے کہاکہ کہو ہم شرک نہ کریں گی تو چونکہ وہ بڑی دلیر عورت تھی اس سے نہ رہا گیا۔ کہنے لگی کیاہم لوگ ایسے ہی بیوقوف ہیں کہ اب بھی شرک کریں گے ۔ آپ اکیلے تھے اور ہم سارے تھے، ہم نے مخالفت کی مگر آپ ہم میں سے ایک ایک کر کے سب کو چھین کر لے گئے آخر آپ جیتے اور ہم ہارے کیا اس کے بعد بھی ہم شرک کر سکتے ہیں ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کون ہے؟ ہندہ؟ ۔ مطلب یہ تھا کہ میں نے تو اس کے قتل کا حکم دیا تھا ۔ وہ کہنے لگی کہ اب تو میں مسلمان ہو چکی ہوں اب آپ مجھے نئے گناہ پر سزا دے سکتے ہیں پُرانے پر نہیں ، وہ معاف ہو گئے۔۹؎ یہی حال میرا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار انسانوں کی کمزوری پر آگاہ کر دیاہے پھر کیامیں اب بھی بندوں پر بھروسہ کر سکتا ہوں۔ میں نہ آدمیوں سے خوش ہوں او ر نہ ان کے ریزو لیوشنز سے ۔ میں تو صرف اس لئے خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مخالفوں کی طرح سارے سانپ لاکر رکھ دیں میرے خدا کاسانپ ان سب کو نگل جائے گا۔ اگر ایک شخص بھی تم میں سے میرے ساتھ نہ رہے تو بھی مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ کیونکہ میرا خدا مجھ سے کہتا ہے کہ میں تیرا ساتھ دوں گا پھر مجھے کسی اورکی کیا ضرورت ہے۔
اِنہی دنوں میں مَیں نے ایک رئویا دیکھا ہے وہ بھی مخالفوں کے تباہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک درختوں کا چھوٹا سا جنگل ہے جس میں کچھ درخت ہیں اور کچھ کُھلا میدان ہے اور تین چارپائیاں پڑی ہیں۔ دو شرقاً غرباً اور ایک شمالاً جنوباً۔ ان میں سے ایک پر میں بیٹھا ہوں اور ایک پر ایک بچہ اور ایک عورت بیٹھے ہیں۔ وہ عورت اگرچہ محرم معلوم ہوتی ہے مگر اُس وقت اُس کانام ذہن میںنہیں آتا ۔ میں نے یکدم دیکھا کہ بھورے رنگ کا ایک سانپ جو قریباً ڈیڑھ گز لمبا ہے چارپائی کے نیچے سے نکلا ہے۔میرے پاس چھوٹی سی سوٹی ہے میں نے دَوڑکر اُسے مارا، سوٹی اُس کی کمر میں لگی اور وہ دوٹکڑے ہو گیا۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دو مونہی ہے اور اُس کی دُم اور سر دونوں ہی میںزندگی کے آثارمعلوم ہوتے ہیں(جیسا کہ عوام میں مشہور ہے کہ دو مونہی سانپ میں دو زندگیاں ہوتی ہیں سر کی طرف بھی اور دُم کی طرف بھی) مگر اب اس میں بھاگنے اور حملہ کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ وہ کھسکتا ہے۔ عورت اس کے پاس آئی مگر بچہ وہیں بیٹھا رہا۔ وہ لکڑی کے ساتھ اُسے ہِلاتی ہے۔ میں بھی ایک سرا ہِلارہا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ وہ سانپ چھوٹا ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ڈیڑھ بالشت کے قریب رہ گیا اور ساتھ ہی پتلا بھی ہوتا گیا۔ پھر دائیں طرف ایک درخت کے نیچے آگ جلتی ہوئی نظر آئی۔ میں نے اس عورت سے کہا کہ اِس کا ایک ٹکڑا لکڑی سے تُم اٹھاؤ اور ایک میں اُٹھاتا ہوں اور اسے آگ میں ڈال دیں تا جل جائے۔ میں نے تو ایک ٹکڑا آگ میں ڈال کر اوپر بوجھ رکھ دیا اور وہ جل کر راکھ ہوگیا۔ دوسرا حصہ جو اس عورت کو میں سمجھتا ہوں ہماری رشتہ دار ہے مگر خیال نہیں کہ کون ہے، آگ میں ڈالنے کیلئے کہا تھا وہ اس نے پھینکا تو بجائے آگ کے وسط میں گرنے کے آگ کے آخری حصہ میں جاگرا۔ اس پر میں کہتا ہوں کہ یہ آگے نکل نہ جائے اس لئے میں نے ایک اینٹ اُٹھا کر اُس کے اوپر پھینک دی تا وہ اچھی طرح جل جائے پھر اُسے آگ لگ گئی اور وہ جل گیا۔ مگر اس کا سر ایک چھوٹی انگلی کی اوپر کی پور کے برابر آگ سے نکل کر جھاڑی کی جڑ کی طرف چلا گیا۔ میں اسے بھی مارنا چاہتا ہوں مگر وہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔ اب اس کی یہ تعبیر بھی ہوسکتی ہے کہ اس فِتنہ کا تھوڑا سا حصہ باقی رہ جائے گا اور یہ بھی کہ بالکل تباہ ہوجائے گا۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ سانپ جب زخمی ہوجائے تو پھر بچ نہیں سکتا۔پس اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ یہ اِس طرح ذلیل ہوں گے کہ کوئی اثر ان کا جماعت میں نہ رہے گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے کچھ لوگ ذلیل ہوکر مخفی مخفی جماعت میں شامل رہیں جس طرح رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بعض منافق رہ گئے تھے۔ جنہوں نے بعد میں بہت سی گندی روایات تاریخِ اسلامی میں داخل کردیں یہ بھی اندر رہ کر فتنہ پیدا کرتے رہیں۔ پس میں نہ بندوں پر اعتماد کرتا ہوں اور نہ ریزولیوشنز پر۔ میرا بھروسہ تو اپنے خدا پر ہے۔
میں بتارہا تھا کہ یہ بالکل غلط ہے کہ مصری صاحب نے کوئی قربانی کی ہے۔ پہلے انہوں نے مجھے ڈرا کر فائدہ حاصل کرنا چاہا اور اِسی کوشش میں جب اِن کا اندرونہ ظاہر ہوگیا تو وہ سمجھ گئے کہ اب تو مجھے نکال ہی دیں گے۔ اس لئے خود ہی لکھ دیا کہ اگر چوبیس گھنٹے تک میری تسلی نہ کی گئی تو میں جماعت سے علیحدہ ہوجائوں گا۔ حالانکہ پہلے خط میں صاف لکھا تھا کہ فخردین صاحب کو معاف کردو توبدنامی سے بچ جاؤ گے۔بیشک انہوں نے ایک جواری کی طرح ایک ہی دفعہ بازی لگادی تھی کہ اگر ڈر گئے تو ہم ساری عمر کیلئے سر پر سوار ہوجائیں گے اور اگر نہ ڈرے تو جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ڈر سے محفوظ رکھا اور وہ چونکہ اپنے اندرونہ کو ظاہر کرچکے تھے اور سمجھتے تھے کہ اب ہم جماعت میں نہیں رہ سکتے اس لئے آخری خط میں نوٹس دے دیا۔
اِسی قسم کا ایک خط مجھے ایک عورت نے ایک دفعہ لکھا تھا جو یہیں قادیان میں رہتی ہے۔ ان کے خاوند یہاں کارکن ہیں۔ بیوی کو شکایت پیدا ہوئی کہ یہاں کام زیادہ ہے اور دیر تک ان کا خاوند گھر پر نہیں آسکتا۔ اس غصہ میں مجھے لکھا کہ میں نے اپنے خاوند کو کہا ہے کہ یہاں کی نوکری چھوڑ کر باہر چلے چلو لیکن وہ نہیں مانتے اس لئے اب آپ کو لکھتی ہوں کہ انہیں مجبور کریں کہ یہاں سے استعفیٰ دے کر باہر چلیں۔ اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو پھر یاد رکھیں کہ میں اب زندگی سے تنگ آگئی ہوں میں آپ کا مقابلہ کروں گی اور مجھے آپ کے بہت سے راز معلوم ہوگئے ہیں۔ آپ مجھے مستریوں کی طرح نہ سمجھیں وہ کمزور تھے مگر میرے ساتھ بڑے بڑے آدمی ہیں۔ میں نے صرف اُس کے خاوند کو اس خط کا علم دے دیا اور کچھ نہ کیا۔ وہ تو عورت تھی اور میں نے اس کی ان باتوں کو پاگلانہ باتیں سمجھ کر کچھ بھی نہیں کہا۔ مگر مصری صاحب تو تعلیم یافتہ آدمی ہیں ہیڈ ماسٹر تھے، معزز عُہدوں پر رہ چکے تھے، مصری کہلاتے تھے ، کوئی نادان عورت تو نہ تھے۔ انہوں نے پھر کیسے خیال کرلیا کہ میں ان باتوں سے ڈر جائوں گا۔
ان کا تیسرا خط بعد میں آیا۔ اس سے پہلے میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب کو میں ان کے خط کا بتا چکا تھا ۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ کیا کوئی صورت نہیں کہ جس سے معافی ہوجائے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں یہی سو چ رہا ہوں۔ مگر انہوں نے کوئی رستہ بھی میرے لئے نہیں چھوڑا اورمیرے لئے کوئی اور چارہ کار رہنے ہی نہیں دیا سوائے اس کے کہ میں بے غیرت بنوں۔ بہرحال وہ سمجھدار آدمی تھے اور جانتے تھے کہ ان خطوط کے بعد معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا اور چونکہ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ اس حرکت کی وجہ سے ضرور نکالا جاؤں گا اس لئے انہوں نے سوچا کہ میں خود ہی کیوں نہ یہ بات لکھ دوں تا لہو لگا کر شہیدوں میں تو مل جائوں او ریہ تو کہہ سکوں کہ میں نے قربانی کی ہے۔ ان کی مثال تو ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی کے مکان پر جاکر قبضہ کرلے اور سامان وغیرہ اکٹھا کرلے کہ اتنے میں جب گھر والے دس بارہ آدمی آکر اسے پکڑیں تو کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑا ہو اور کہہ دے کہ اچھا میں قبضہ چھوڑتا ہوں۔ اور پھر دعویٰ کرے کہ میں نے بڑی قربانی کی ہے۔ وہ اپنے عمل کے خمیازہ میں جماعت سے نکلے ہیں، اس میں قربانی کونسی ہے۔ قربانی تو جب تھی کہ پہلے ہی خط میں یہ لکھتے مگر اُس میں تو صرف اس پر زور ہے کہ فخردین کو معاف کردیں او رمیری جو بدنامی آپ کرچکے ہیں اس کا ازالہ کریں۔ بلکہ ایک جگہ تو صرف یہی مطالبہ ہے کہ فخردین صاحب کو معاف کردیں۔ اس میں قربانی کی کونسی بات ہے۔ ہاں جب وہ اپنا اندرونہ ظاہر کرچکے اور انہیں اچھی طرح علم ہوگیا کہ اب جماعت میں مجھے نہیں رہنے دیا جائے گا تو تیسرے خط میں یہ فقرہ لکھ دیا کہ میں بیعت سے علیحدہ ہوجائوں گا۔
مجھے افسوس ہے کہ باقی مضامین کے متعلق میں آج کچھ بیان نہیں کرسکا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو پھر کبھی باقی باتوں کے متعلق بیان کردوں گا۔ بہرحال یہ بالکل غلط ہے کہ انہوں نے کوئی قربانی کی ۔ انہوں نے سَودا کرنا چاہا اور جواری کی طرح بازی لگادی مگر ہارگئے۔ وہ مجھے نہ ڈراسکے تو کہا اچھا میں جماعت سے نکلتا ہوں۔ ورنہ نہ ان پر کوئی ظلم ہؤا اور نہ انہوں نے کوئی قربانی کی۔ بلکہ انہوں نے خود ظلم کیا ہے کہ جماعت کے امام پر درندوں کی طرح حملہ کیا اور خدا کی مقدس جماعت کو دہریہ کہا ۔ اس کے مقابلہ میں جماعت نے ان کو جو کچھ کہا وہ اس سے بہت کم ہے۔
(الفضل ۳۰ ؍ جولائی ۱۹۳۷ئ)
۱؎ المائدۃ: ۹
۲؎ ابوداؤد کتاب القضاء باب اذا علم الحاکم صدق شہادۃ الواحد (الخ)
۳؎ النور :۱۳ ۴؎ النور :۱۷
۵؎ بخاری کتاب التفسیر باب لولا اذ سمعتموہٗ… الخ
۶؎ النور :۲۳
۷؎
۸؎


۲۳
جو شخص خلافت کی مخالفت کرتا ہے
وہ اسلام کی عملی زندگی پر تبر چلاتا ہے
(فرمودہ ۲۳؍ جولائی ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں آج بہت زیادہ دیر سے آسکا ہوں جس کی وجہ یہ ہے کہ کل مجھے شدید سردرد کا دورہ ہؤا اور اس کی وجہ سے میں رات بھر جاگتا رہا۔ صبح اُٹھ کر میں نے برومائیڈ پیا اور تھوڑی دیر کے لئے سوگیا۔ پھر میں دفترمیں آیا اور کچھ دوست جو مجھ سے ملنے آئے ہوئے تھے، اُن سے ملا۔ اس کے بعد چونکہ بعض حوالے تاریخی کتب سے میں نے نکالنے تھے اِس لئے وہ حوالہ جات تلاش کرتا رہا اور ان سے ایسے وقت میں فارغ ہؤا جبکہ غسل اور کھانے کے بعد نماز کو بہت دیر ہوجاتی تھی۔ چنانچہ میں نے جلدی جلدی ان دونوں کاموں سے فراغت پائی مگر پھر دیر ہوگئی۔
اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میںنے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں مصری صاحب کے بعض ان اعتراضات کے جوابات دیئے تھے جو انہوں نے اپنے ایک اشتہار میں شائع کئے ہیں اور وہ اعتراض دو تھے۔ ایک تو یہ کہ جماعت نے بغیر تحقیق کئے انہیں گالیاں دی ہیں اور دوسرا یہ کہ جماعت نے ایک ایسے آدمی کو گالیاں دی ہیں جس نے جماعت کے مفاد کیلئے قربانی کی ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ ان کی یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ جماعت نے ان کو کوئی گالیاں نہیں دیں بلکہ انہوں نے جماعت کو گالیاں دیں اور جماعت نے جو کچھ جواباً کہا وہ اس سے بہت کم ہے جو انہوں نے ہمارے متعلق کہا۔ اسی طرح ان کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ میں نے جماعت کیلئے قربانی کی۔ وہ حالات سے مجبورہوگئے تھے اس لئے وہ ہم سے علیحدہ ہوئے ورنہ انہوں نے پہلاخط جو مجھے لکھا اس سے ان کا مقصد ہرگز جماعت سے علیحدگی نہیں تھا بلکہ مجھے ڈرانا اور بعض باتیں مجھ سے منوانا تھا۔ لیکن جب ان کی وہ غرض پوری نہ ہوئی اور انہوں نے دیکھا کہ اب میرا اندرونہ بھی ظاہر ہوچکا ہے جس کے بعدمیرا اس جماعت میں رہنا ناممکن ہے تو انہوں نے خود ہی اپنے تیسرے خط میں جماعت سے علیحدہ ہونے کا وقت مقرر کردیا۔
اسی اشتہار میں انہوں نے ایک بات یہ بھی لکھی ہے کہ میرے متعلق کہا یہ جاتا ہے کہ میں جماعت سے الگ ہوگیا ہوں حالانکہ میں جماعت سے الگ نہیں ہؤا، صرف بیعت سے الگ ہؤا ہوں۔ میں نے اس سوال کے اصولی حصہ کا جواب پہلے دے دیا ہے بلکہ ان کے اشتہار کے شائع ہونے سے بھی پہلے میرے ایک خطبہ میں ان کے اس اعتراض کا جواب آچکا ہے اور وہ خطبہ آج کے الفضل میں چھپ بھی گیا ہے۔ آج میں ان کے بعض اُن دلائل کا جواب دینا چاہتا ہوں جو انہوں نے اس بارہ میں اپنے اشتہار میں دیئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’میں اس جگہ بعض دوستوں کے اس خیال کے متعلق بھی کہ خلیفہ سے علیحدگی جماعت سے علیحدگی کے ہی مترادف ہے کچھ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ بات بالکل غلط ہے کہ جو شخص خلیفہ کی بیعت نہیں کرتا یا بیعت سے علیحدگی اختیار کرتا ہے وہ اصل سلسلہ سے بھی الگ ہوجاتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے حضرت ابوبکرؓ کی چھ ماہ تک بیعت نہیں کی تھی تو کیا کوئی ان کے متعلق یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ وہ اُس وقت تک اسلام سے خارج تھے؟ حضرت علیؓ کی بیعت مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ نے نہیں کی تھی تو کیا وہ سب اسلام سے خارج تھے؟ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حضرت علیؓ کی بیعت نہیں کی تھی تو کیا انہیں اسلام سے خارج سمجھتے ہو؟ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ جیسے جلیل القدر صحابہ نے حضرت علیؓ کی بیعت کرلینے کے بعد بیعت کو فسخ کرلیا مگر کوئی ہے جو جرأت کرکے انہیں اسلام سے خارج قرار دے۔ دوستو! یہ خیال کسی مصلحت کے ماتحت آج پیدا کیاجارہا ہے ورنہ قرآن کریم ، احادیث نبوی، عمل صحابہ کرام میں اِس کا نام و نشان بھی نہیں ملتا‘‘۔
یہ گویا انہوں نے اِس بات کی تائید میں اپنی طرف سے دلائل دیئے ہیں کہ میں خلیفہ کی بیعت سے الگ ہؤا ہوں جماعت سے الگ نہیں ہؤا۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ مصری صاحب نے اس جگہ دیدہ دانستہ غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ مجھے ہرگز یہ امید نہیں تھی کہ باوجود اس تمام مخالفت کے جو انہوں نے اختیار کی ہے، باوجود اس تمام عِناد کے جو انہوں نے ظاہر کیاہے اور باوجود اس شدید دشمنی کے جس کے وہ مرتکب ہوئے ہیں، وہ احمدیت سے اتنے بے بہرہ ہوجائیں گے کہ چند دنوں کے اندر ہی اندر دیدہ دانستہ خلاف بیانی کے مرتکب ہونے لگ جائیں گے۔ چنانچہ میں ابھی ثابت کردوں گا اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایسا ثابت کر دوں گاکہ ایک جاہل سے جاہل اوراَنْ پڑھ سے اَنْ پڑھ انسان بھی یقینی طورپر سمجھ جائے گا کہ مصری صاحب نے قطعی طور پر جان بوجھ کر غلط بیانی سے کام لیا ہے۔
میرے اعلان کامضمون یہ تھا کہ مصری صاحب ہماری جماعت سے الگ ہیں میں انہیں اپنی جماعت سے خارج سمجھتا اور ان کے خروج کا اعلان کرتا ہوں۔ مصری صاحب اس پر اعتراض یہ کرتے ہیں کہ میں نے جماعت سے نہیں بلکہ بیعت سے الگ ہونے کو کہا تھا۔ پس یہ مجھ پر غلط الزام ہے کہ میں نے جماعت چھوڑ دی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ الگ ہوگئے تھے مگر کوئی ہے جو جرأت کرکے انہیں اسلام سے خارج قرار دے۔ اب اس امر کو دیکھو کہ ہم تویہ کہتے ہیں کہ وہ جماعت سے الگ ہوگئے اور وہ مثال میں حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کو پیش کرتے ہوئے دریافت یہ کرتے ہیں کہ کیا وہ اسلام سے نکل گئے تھے؟ یہ وہ دیدہ دانستہ دھوکا ہے جو انہوں نے لوگوں کو دیا ۔ کیا ہماری جماعت آج قائم ہوئی ہے کہ ابھی تک اہم اپنی اصطلاحات کے مفہوم کو واضح نہیں کرسکے یا کیا مصری صاحب نئے آدمی ہیں کہ انہیں آج تک یہ علم نہیں ہوسکا کہ خلیفئہ وقت کی بیعت سے جب کوئی شخص الگ ہوتا ہے تو وہ احمدیت یا اسلام سے خارج نہیں سمجھا جاتا بلکہ جماعت سے علیحدہ سمجھا جاتا ہے۔ جماعت احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت کے سلسلہ میں منسلک ہوئے قریباً تیس سال گزرچکے ہیں۔ مئی ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وفات پائی اور آج جولائی ۱۹۳۷ء ہے گویا ۲۹ سال اور کچھ مہینے سلسلۂ خلافت کو شروع ہوئے ہوچکے ہیں۔ اس تیس سال کے عرصہ میں ان اصطلاحات کے متعلق ہماری جماعت کے خیالات بار بارظاہر ہوچکے ہیں۔ اگر کوئی نئی بات ہو تو انسان کہہ سکتا ہے کہ مجھے معاف فرمایئے مجھے چونکہ علم نہیں تھا اس لئے دھوکا کھایا۔ مگر جس امر کے متعلق ۳۰ سال تک ہر ادنیٰ اعلیٰ، چھوٹا بڑا، عالم جاہل گفتگو کرتے چلے آئے ہوں اور بار بار اس کے متعلق جماعت کے خیالات ظاہر ہوچکے ہوں، اس کے متعلق ایک عالم کہلانے والا، ایک مولوی کہلانے والا، ایک تبلیغیں کرنے والا، ایک مناظرے کرنے والا، ایک بحثیں کرنے والا اور ایک مدرسہ دینیہ کا لمبے عرصہ تک ہیڈ ماسٹر رہنے والا اگر یہ کہے کہ مجھے اس بات کا علم نہیں تھا، دراصل مجھے دھوکا لگ گیا تھا، تو کیا کوئی بھی عقلمند اس کے اس عذر کو تسلیم کرے گا؟ اگرمصری صاحب جب میری بیعت سے الگ ہوئے تھے، ہم ان کی نسبت کہتے کہ مصری صاحب غیراحمدی ہوگئے ہیں تب بیشک وہ کہہ سکتے تھے کہ میں نے تو صرف خلیفۂ وقت کی بیعت چھوڑی ہے اور آپ لوگ مجھے احمدیت سے ہی خارج سمجھنے لگ گئے ہیں۔ یا اگر میں نے اپنی کسی تحریر یا تقریر میں ایک جگہ بھی یہ الفاظ استعمال کئے ہوں کہ مصری صاحب غیراحمدی ہوگئے ہیں تب تو بے شک وہ یہ مثال پیش کرسکتے اور کہہ سکتے تھے کہ جب حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے الگ ہوئے تھے تو کیا وہ اسلام سے خارج ہوگئے تھے؟ اگرنہیں تو پھر مجھے کیوں غیراحمدی کہا جاتا ہے۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کہا۔ اگر کوئی شخص میری کسی تحریر یا تقریر سے اشارۃً یا وضاحتاً ظاہراً یا باطناًیہ ثابت کردے کہ میں نے کہا ہو مصری صاحب احمدیت سے علیحدہ ہوگئے ہیں اور اب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر بھی ایمان نہیں رکھتے تب بیشک یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوںنے بیعت سے علیحدگی اختیار کی ہے، احمدیت سے علیحدگی تو اختیار نہیں کی اور تب بیشک وہ خود بھی سوال کرسکتے تھے کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے بھی حضرت علیؓ کی بیعت کو فسخ کرلیا تھا مگر کیا کوئی ہے جو جرأت کرکے انہیں اسلام سے خارج قرار دے ۔ لیکن جب میں نے ایک دفعہ بھی یہ الفاظ استعمال نہیں کئے اور نہ ہماری جماعت نے انہیں غیراحمدی کہا تو ان کا اپنے دعویٰ کے ثبوت میں حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کو پیش کرنا اور یہ دریافت کرناکہ کیا وہ بیعت سے علیحدہ ہوکر اسلام سے نکل گئے تھے صریح دھوکا اور فریب نہیں تو اور کیاہے۔ میں نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ جماعت سے الگ ہوچکے ہیں نہ یہ کہ وہ احمدیت یا اسلام سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔
اب دوسری صورت یہ ہوسکتی تھی کہ اگر ہماری جماعت کا یہ محاورہ ہوتا کہ جو شخص بھی ہماری جماعت میں نہیں وہ احمدی نہیں۔ تب بھی وہ کہہ سکتے تھے کہ گو تم نے یہ الفاظ نہ کہے ہوں کہ میں احمدیت سے خارج ہوں مگر چونکہ جماعت میں عام محاورہ یہی ہے کہ جو شخص جماعت سے علیحدہ ہوتا ہے اسے احمدی نہیں سمجھا جاتا، اس لئے میں نے دھوکا کھایا اور سمجھا کہ آپ مجھے احمدی نہیں سمجھتے۔ گو ہم پھر بھی مصری صاحب کو غلطی پر سمجھتے ۔ کیونکہ جب ہم نے انہیں غیراحمدی نہ کہا ہوتا تو انکا کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ خودبخود یہ قیاس کرلیتے کہ مجھے احمدی نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن بہرحال اس صورت میں کسی حد تک ہم سمجھ سکتے تھے کہ انہوں نے دھوکا کھایا۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ ہمار ی جماعت میں نہ صرف یہ کہ یہ محاورہ نہیں بلکہ اس کے بالکل اُلٹ محاورہ رائج ہے۔ آپ لوگوں میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ ۲۳ سال حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو وفات پائے گزرچکے ہیں ۔ اس ۲۳ سال کے عرصہ میں احمدیوں میں سے جن لوگوں نے میری بیعت نہیں کی وہ سینکڑوں کی تعدادمیں ہیں اور گو ہم ان کی نسبت یہ کہتے ہیں کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں مگر ہم یہ کبھی نہیں کہتے کہ وہ احمدی نہیں۔ ہم یہ تو کہا کرتے ہیں کہ مولوی محمد علی صاحب ہماری جماعت میں نہیں یا یہ تو ہم کہا کرتے ہیں کہ خواجہ کمال الدین صاحب ہماری جماعت میں نہیںمگر ہم یہ نہیں کہتے کہ مولوی محمد علی صاحب احمدی نہیں یا خواجہ کمال الدین صاحب احمدی نہیں۔ چنانچہ اگرکوئی شخص ہماری جماعت کے کسی آدمی سے کہے کہ مولوی محمد علی صاحب کے پاس میری سفارش کردیں تو وہ یہی کہے گا کہ مولوی محمد علی صاحب سے ہمارا کیا تعلق، وہ ہماری جماعت میں نہیں۔ لیکن کیا آج تک ہم میں سے کسی شخص نے یہ کہا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب غیراحمدی ہیں؟ یقینا ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ ہم میں سے کِسی عالمِ دین نے اُن کو غیراحمدی کہا ہو۔ پس ۲۳سال کے عرصہ میں سینکڑوں ہیں جو ہماری جماعت میں سے نکلے مگر کیا ہم ان کو بیعت نہ کرنے کی وجہ سے یا بعض کو بیعت توڑ دینے کی وجہ سے غیراحمدی کہتے ہیں؟ ہم انہیں احمدی ہی کہتے ہیں۔ گو ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ متفرق گروہ ہے۔ مگربہرحال کہتے ہیں ہم انہیں احمدی ہی ہیں اور آج تک کسی ایک شخص نے بھی میرے منہ سے یہ نہیں سنا ہوگا کہ میں نے کہا ہو مولوی محمد علی صاحب غیراحمدی ہیں، خواجہ کمال الدین صاحب غیراحمدی تھے یا شیخ رحمت اللہ صاحب غیراحمدی تھے۔ پس ہم ۲۳ سال سے برابر یہ اقرار کرتے چلے آئے ہیں کہ گو بعض لوگ ہماری جماعت میں نہیں مگر ہیں وہ احمدی ہی۔ پس یہ کوئی نیامسئلہ نہیں تھا جو آج پیداہؤا۔ اگر مصری صاحب پہلے احمدی ہوتے جس نے خلیفئہ وقت کی بیعت کو توڑا ہوتا تب توکہا جاسکتا تھا کہ انہیں دھوکا لگ گیا مگر وہ بیعت توڑنے والوں میں سے پہلے نہیں بیسیوں احمدی ان سے پہلے بیعت توڑ چکے ہیں مگر ان کو اگر وہ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہوں ہم نے کبھی نہیں کہا کہ وہ غیراحمدی ہوگئے تو آج مصری صاحب کو یہ شبہ کس طرح پڑ گیا کہ انہیں غیراحمدی کہا جاتا ہے۔ جب وہ ہم میں شامل تھے وہ بھی یہی کہا کرتے تھے کہ مولوی محمد علی صاحب ہماری جماعت میں نہیں، خواجہ کمال الدین صاحب ہماری جماعت میں نہیں مگرساتھ ہی وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ گو وہ ہماری جماعت میں نہیں مگر ہیں وہ احمدی ہی۔ اسی طرح شیخ رحمت اللہ صاحب اور سید محمد احسن صاحب امروہی کے متعلق بھی باوجود یہ کہنے کے کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں وہ یہ نہیں کہا کرتے تھے کہ وہ غیراحمدی ہیں۔ جو شخص ۲۳ سال خود یہ محاورہ استعمال کرتا رہا ہو اُس کا بیعت سے الگ ہوتے ہی یہ کہنا شروع کردینا کہ مجھے جماعت سے الگ قرار دے کر غیراحمدی سمجھا جاتا ہے، سراسر دنیا داری اور چالاکی ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا کسی کیلئے مشکل ہو۔ تم کسی احمدی بچے کے پاس چلے جائو۔ ایک سکول کے احمدی طالب علم سے ہی دریافت کرلو کہ کیا مولوی محمد علی صاحب ہمار ی جماعت میں ہیں؟ وہ کہے گا نہیں پھر اس سے پوچھو کیا مولوی محمد علی صاحب احمدی ہیں؟ وہ کہے گا ہاں ۔بلکہ وہی طالب علم جنہیں وہ پڑھایا کرتے تھے ان سے سوال کرکے دیکھ لو کہ کیا مولوی محمد علی صاحب ہماری جماعت میں ہیں وہ کہیں گے نہیں پھر ان سے سوال کرو کہ کیا وہ احمدی ہیں وہ کہیں گے ہاں۔
اب دوسری موٹی مثال اس کی میں یہ دیتا ہوں کہ اسی منبر پر کھڑے ہوکر میں نے مولوی سید محمداحسن صاحب امروہی کی وفات پر اُن کا جنازہ پڑھنے کا علان کیا اور ساری جماعت کے ساتھ ان کا جنازہ پڑھا۔ لیکن اس کے مقابلہ میں کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ ہم نے کسی غیراحمدی کا بھی کبھی جنازہ پڑھا۔ ہم غیراحمدیوں کا جنازہ کبھی نہیں پڑھتے صرف احمدیوں کا جنازہ پڑھتے ہیں۔ پس میرا مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کاجنازہ پڑھنا بتاتاہے کہ میں ایسے لوگوں کو جو خلیفۂ وقت کی بیعت سے الگ ہوجائیں یا احمدی کہلاکر بیعت نہ کریں احمدی ہی سمجھتا ہوں۔ اور مصری صاحب تومیرے متعلق یہ اعلان کررہے ہیں کہ میں انہیں معزول کرائوں گا۔ لیکن مولوی سید محمد احسن صاحب وہ تھے جنہوں نے میرے متعلق یہ اعلان کیا تھا کہ میں نے انہیں خلافت سے معزول کردیا۔ پس وہ ہماری جماعت سے الگ ہوچکے تھے۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ ہماری جماعت سے الگ تھے اورباوجود اس کے کہ انہوں نے میرے متعلق یہ اعلان کیا تھا کہ میں انہیں خلافت سے معزول کرتا ہوں، اُن کی وفات پر میں نے اُن کا جنازہ پڑھا اور یہ ہر شخص جانتا ہے کہ اگر ہم انہیں غیراحمدی سمجھتے تو کبھی ان کا جنازہ نہ پڑھتے۔ لیکن جب میں نے مولوی سید محمد احسن صاحب کا جنازہ پڑھا تو اِس کے معنے یہی تھے کہ میں ان کو احمدی سمجھتا ہوں۔ پھر شیخ رحمت اللہ صاحب فوت ہوئے تو میں نے اُن کا جنازہ پڑھا، وہ بھی مبائع نہیں تھے۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ ہماری جماعت میں شامل نہ تھے میں نے ان کا جنازہ پڑھا۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ کسی شخص کے جماعت میں نہ ہونے کا ہم یہ مفہوم نہیں لیتے کہ وہ احمدی نہیں۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ وہ مبائع احمدی نہیں۔ یعنی خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر بیعت کرنے والی جماعت کا وہ حصہ نہیں وہ بیشک پہلے ہمارے ساتھ تھا مگر اب وہ کٹ گیا اور ہماری جماعت سے الگ ہوگیا ہے۔ تو یہ کتنا بڑا دھوکا ہے کہ ایک شخص ۲۳ سال ہمارے اندررہتا ہے، جماعت کی اصطلاحات اورمحاورات سے واقف ہے خود بھی یہ محاورہ استعمال کرتا رہتاہے مگر جونہی وہ جماعت سے علیحدہ ہوتا ہے لوگوں کو دھوکا دینے کیلئے کہتا ہے مجھ پر اتہام لگایا جاتا ہے کہ میں احمدی نہیں رہا۔ سوال یہ ہے کہ کس نے تمہیں کہا کہ تم احمدی نہیں رہے۔ جب کسی نے بھی ایسا نہیں کہا تو تمہارا جماعت پر یہ الزام لگانا بتاتا ہے کہ خود تمہارے دل میں کوئی شکوک پیدا ہوئے ہیں جن کو تم دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہو ۔ ہمارا تو یہ طریق ہی نہیں کہ جب کوئی شخص ہماری جماعت میں سے الگ ہو تو اُس کے متعلق ہم یہ کہنا شروع کردیں کہ وہ احمدی نہیں رہا۔ خواجہ کمال الدین صاحب کے متعلق بھی ہم یہی کہتے تھے کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں۔ مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کے متعلق بھی یہی کہتے تھے کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں۔مولوی محمدعلی صاحب کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں۔ اسی طرح باقی تمام غیر مبائعین کے متعلق ہم یہی کہتے ہیں کہ وہ ہماری جماعت میں نہیں۔ ہاں ساتھ ہی ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ سب احمدی ہیں اور ہم انہیں احمدی ہی سمجھتے ہیں گو احمدیہ جماعت میں نہیں سمجھتے۔ چنانچہ جب کبھی پیغامیوں اور ہماری جماعت میں مباحثہ ہو تو ہم انہیں یہی کہتے ہیں کہ جماعت تو ہماری ہی ہے جو ایک خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کر چکی ہے تم لوگ پراگندہ اور متفرق ہو۔ تمہارا حق نہیں کہ تم اپنے آ پ کو جماعت کہو۔
پھر میرے متعدد فتوے موجود ہیں جن میں دوستوں نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ کیا غیرمبائعین کے پیچھے نماز جائز ہے؟ اور میں نے ہمیشہ انہیں یہی جواب دیا کہ جائز توہے مگر مکروہ ہے۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم امام اُس شخص کو بنائو جو تم میں سے اَتْقٰی اور معزز ہو۔ وہ لوگ چونکہ خلیفۂ وقت کا انکار کرکے وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ ۱؎ کے ماتحت آچکے ہیں اس لئے ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا پسندیدہ فعل نہیں سمجھا جاسکتا۔ ہاں اگر کسی موقع پر مجبور ہوجائو تونماز کے ادب کے لحاظ سے یہ جائز ہے کہ تم کسی غیرمبائع کے پیچھے نماز پڑھ لو ۔ لیکن کیا یہی فتویٰ ہم نے کبھی غیراحمدیوں کے متعلق بھی دیا ہے کہ اگر مجبور ہوجائو تو ان کے پیچھے نماز پڑھ لو۔ جب نہیں تو صاف معلوم ہؤا کہ ہمارے نزدیک بیعت سے الگ ہونا اور چیز ہے اور احمدیت سے الگ ہونا اور چیز ۔ اب باوجود یکہ پیغامیوں کو ہم اپنی جماعت میں نہیں سمجھتے، پھر بھی ہم انہیں احمدی ہی کہتے ہیں۔کیونکہ جماعت اور چیز ہے اور احمدیت اور چیز۔ جماعت متفرق ہوجاتی ہے مگر مذہب دنیامیں باقی رہتا ہے۔
خلافت راشدہ جب دنیا سے مٹی تو جماعت بھی ساتھ ہی مٹ گئی مگر اس کے ساتھ مذہب نہیں مٹا۔ بلکہ مسلمانوں کی کئی جماعتیں بن کر کوئی افغانستان میں قائم ہوگئی ، کوئی ایران میں، کوئی عرب میں قائم ہوگئی اور کوئی سپین میں۔ پس باوجود اس کے کہ مسلمان دنیا میں متفرق ہوگئے مذہب ان کے پاس رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خلافت موجود نہ ہو تو بیعت میں نہ شامل ہونے والے کا اور حال ہوتا ہے اور جب موجود ہو تو اَور ہوتا ہے۔ جس طرح پانی کی موجودگی میں تیمم کرنے والے اور عدم موجودگی میں تیمم کرنے والے میں فرق ہے۔ لیکن پھر بھی ہم یہ نہیں کہتے کہ جس نے بیعت توڑ دی وہ مسلمان نہیں رہا۔ ہاں اُس شخص کو گنہگار اور روحانیت سے دور ہوجانے والا ضرور قرار دیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر اس کے نفس میں شرارت ہے تو وہ ایمان سے کسی دن محروم ہوجائے گا۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء ہمارے ساتھ عقائد میں بھی اختلاف رکھتے ہیں۔ مثلاً وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کے قائل نہیں۔ وہ آپ کے منکروں کے متعلق یقین رکھتے ہیں کہ ان میں بھی بزرگ اور نیک ہوسکتے ہیں۔ لیکن اِس وقت تک شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے کوئی ایسا علان نہیں کیا جس سے ظاہر ہو کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کے قائل نہیں۔ پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم مولوی محمد علی صاحب کے متعلق تو یہ کہیں کہ وہ احمدی ہیں اور مصری صاحب کے متعلق یہ کہیں کہ وہ احمدی نہیں۔ جنہوں نے عقائد میں ہم سے بہت زیادہ اختلاف کیا جب ہم انہیں بھی آج تک احمدی کہتے رہے اور کہتے ہیں تو مصری صاحب کے متعلق یہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ چونکہ انہوں نے بیعت سے علیحدگی اختیارکرلی ہے اس لئے وہ احمدی نہیں رہے۔ پس یہ کیسی چالبازی ہے کہ کہا جاتا ہے ’’حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ جیسے جلیل القدر صحابہ نے حضرت علیؓ کی بیعت کرلینے کے بعد بیعت کو فسخ کرلیا۔ مگر کوئی ہے جو جرأت کرکے انہیں اسلام سے خارج قرار دے‘‘۔ یہ سوال تو تب ہوتا جب ہم کہتے کہ چونکہ مصری صاحب نے بیعت سے علیحدگی اختیار کرلی ہے اس لئے وہ غیراحمدی ہوگئے ہیں۔ لیکن جب ہم نے یہ کہا ہی نہیں تو ایک جھوٹی بنیاد پر لوگوں کو اشتعال دلانا صریح دھوکا دہی ہے جو انہوں نے اختیار کی۔ غرض یہ بات جو کہی گئی ہے اس میں دیدہ دانستہ اور جانتے بُوجھتے ہوئے انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ اگر غیرمبائعین کو ہم غیراحمدی کہا کرتے تب تو انہیں شبہ ہوسکتا تھا اور وہ کہہ سکتے تھے کہ مجھے بھی ان کی طرح غیراحمدی کہا جاتا ہے۔ مگر غیرمبائعین جو نہ صرف خلافت بلکہ نبوت میں بھی ہم سے اختلاف رکھتے ہیں، جب ہم نے انہیں بھی آج تک غیراحمدی نہیں کہا تو ان کو کس طرح احمدیت سے خارج قرار دے سکتے تھے اور جب ہم نے انہیں احمدیت سے خارج قرار نہیں دیا تو ان کا یہ کہنا کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے الگ ہوگئے تھے تو کیا وہ اسلام سے نکل گئے تھے، صریح غلط بیانی ہے جو انہوں نے لوگوں کو جوش دلانے کیلئے کی ہے۔
پس نہ کبھی ہم نے ان کو غیراحمدی کہا اور نہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کے متعلق ہم نے کہا کہ وہ اسلام سے نکل گئے تھے۔ بلکہ مصری صاحب سے زیادہ اختلاف رکھنے والوں یعنی غیرمبائعین کے متعلق بھی ہم نے کبھی نہیں کہا کہ وہ غیراحمدی ہوگئے ہیں۔ باوجود یکہ وہ ہم سے خلافت میں اختلاف رکھتے ہیں،امامت میں اختلاف رکھتے ہیں، نبوت میں اختلاف رکھتے ہیں،غیراحمدیوں کے جنازے پڑھنے اور ان سے رشتہ داری تعلقات قائم کرنے میں اختلاف رکھتے ہیں،کفر و اسلام میں اختلاف رکھتے ہیں پھر بھی ہم نے انہیں کبھی نہیں کہا کہ وہ غیراحمدی ہوگئے بلکہ ان کے پیچھے اشد ضرورت کے موقع پر نماز پڑھ لینے کے جواز کے متعلق میرے فتوے شائع شُدہ موجود ہیں۔ اور ان میں سے بعض کے جنازے پڑھنا میرے عمل اور طریق سے ثابت ہے۔ تو پھر کس طرح ممکن تھا کہ مصری صاحب کی موجودہ حالت میں ہم انہیں غیراحمدی کہتے۔
اب میں ان روایات کو لیتا ہوں جو انہوںنے بیان کی ہیں۔ پہلی روایت انہوں نے یہ پیش کی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت ابوبکرؓ کی چھ ماہ تک بیعت نہیں کی تھی۔۲؎ یہ روایت صحیح ہے۔ چنانچہ بعض روایتوں میں اس قسم کا ذکر آتا ہے مگر ساتھ ہی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مختلف فیہ روایت ہے یعنی یہ بھی روایت آتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت فوراً کرلی تھی ۳؎ اور یہ بھی روایت آتی ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی چھ ماہ تک بیعت نہیں کی تھی۔ پس ایک روایت کو قائم کرنے اور اسے درست قرار دینے کی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ پھر جن روایات میں یہ آتا ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی اُنہی میں سے بعض میں (میں نے حضرت خلیفۂ اوّل سے سنا ہے) یہ بھی آتا ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دستی بیعت مَیں نے ابتدائی چھ ماہ میں اس لئے نہ کی کہ حضرت فاطمہؓ اتنی شدید بیمار تھیں کہ میںا نہیں چھوڑ کر نہیں آسکتا تھا۔۴؎ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا یہی مذہب تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر کی بیعت فوراً ہی کرلی تھی۔
پس یہ دلیل کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی، اوّل تو یہ مکمل دلیل نہیں کیونکہ اس کے خلاف بھی روایات پائی جاتی ہیں۔ اور اگر بفرضِ محال دوسری روایت درست ہو تو پھر بھی یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت سے کبھی انکار نہیں کیا۔ صرف حضرت فاطمہؓ کی شدید بیماری کی وجہ سے تیمارداری میں مشغول رہنے کے باعث وہ فوراً دستی بیعت نہیں کرسکے۔ اور یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص باہر ہو اور وہ کسی اشد مجبوری کی وجہ سے نہ آسکے۔ ایسی حالت میں اگر وہ اپنے دل میں خلیفۂ وقت کی بیعت کا اقرار کرچکا ہے تو وہ بیعت میں ہی شامل سمجھا جائے گا۔
دوسری دلیل انہوں نے یہ دی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حضرت علیؓ کی بیعت نہیں کی تھی۔ مگر حضرت عائشہؓ کے متعلق یہ کہنا کہ انہوں نے حضرت علیؓ کی بیعت نہیں کی تھی، اوّل تو تاریخی طور پر ثابت نہیں اور میں نے یہ کہیں نہیں پڑھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی وفات تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی۔ لیکن اگر بفرضِ محال اس امر کوتسلیم بھی کرلیا جائے تو ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ وہ ثابت کریںکہ اُس زمانہ میں ہرفردِ واحد خلیفۂ وقت کی اصالتاًدوبارہ بیعت کیا کرتا تھا۔ ہمیں تو تاریخی کتب کے مطالعہ سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اُس زمانہ میں بڑے بڑے آدمی خلیفۂ وقت کی بیعت کرلیا کرتے تھے اور اُن کے بیعت کرلینے کی وجہ سے سارے علاقوں کی بیعت سمجھی جاتی تھی۔ صرف وہ لوگ خارج از بیعت سمجھے جاتے تھے جو خود بیعت کا انکار کریں ورنہ خاموشی اقرارِ بیعت قرار دی جاتی تھی۔ خصوصاً عورتوں کا خلفاء کی بیعت کرنا یہ تفصیلاً ثابت نہیں۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں چونکہ مذہب کے بدلنے کا سوال ہوتا تھا اس لئے ہر فردِ واحد آپ کی بیعت کرتا تھا۔ لیکن رسول کریم ﷺ کے بعد جہاں تک تو میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر مرد، ہر عورت اور ہر بچہ نے خلفاء کی دوبارہ بیعت کی ہو بلکہ جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ شہر کے معزز مرد بیعت کرلیا کرتے تھے اور انہی کی بیعت میں عورتوں او ربچوں کی بیعت بھی شامل سمجھی جاتی تھی۔ یا ممکن ہے بعض عورتیں شوقیہ طور پر یا بعض مصالح کے ماتحت بیعت میں شامل ہوجاتی ہوں لیکن ملک کے تمام مردوں، تمام عورتوں او رتمام بچوں کے بیعت کرنے کا ثبوت کم از کم میری نگاہ سے کوئی نہیں گزرا۔ پس حضرت عائشہؓ کا بیعت نہ کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ عورتوں سے بلکہ دُوردراز کے مردوں سے بھی بیعت کا خاص تعہّد نہ ہوتا تھا۔ جب عام بیعت ہوجاتی تو باقی توابع اور عورتوں کی بیعت بیچ میں ہی شامل سمجھی جاتی تھی۔ ان حالات میں جب تک کوئی یہ ثابت نہ کردے کہ اُس زمانہ میں تمام عورتیں خلفاء کی بیعت کیا کرتی تھیں اور حضرت عائشہؓ نے بیعت نہ کی تھی اُس وقت تک حضرت عائشہؓ عنہا کے بیعت کا ثبوت تاریخ میں نہ ملنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ پھر صریح طور پر تاریخوں میں آتا ہے کہ گو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ابتدا میں مقابلہ کرنا چاہا تھامگر جس وقت حضرت علیؓ کے لشکر اور حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کے لشکر میں لڑائی ہوئی ہے، اُس وقت وہ لڑائی کیلئے نہیں بلکہ صلح کیلئے نکلی تھیں۔ چنانچہ جتنے معتبر راوی ہیں وہ تواتر اور تسلسل سے یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ اِسی لئے نکلی تھیں کہ وہ دونوں لشکروں میں صلح کرائیں۔
اصل بات یہ ہے کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے حضرت علیؓ کی اِس شرط پر بیعت کی تھی کہ وہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے جلد سے جلد بدلہ لیں گے۔ یہ شرط ان کے خیال میں چونکہ حضرت علیؓ نے پوری نہ کی اِس لئے شرعاً وہ اپنے آپ کو بیعت سے آزاد خیال کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اِس سے قبل حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کیلئے جہاد کا اعلان کرچکی تھیں اور صحابہ کو اُنہوں نے اپنی مدد کیلئے طلب کیا تھا۔اِس پر لوگوں کا ایک حصہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کے ساتھ ہوگیا اور انہوں نے جنگ کیلئے ایک لشکر تیار کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اِس بات کا علم ہؤا تو آپ نے بھی ایک لشکر تیار کیا۔ لیکن جب دونوں لشکر اکٹھے ہوئے تو دوسرے صحابہ نے دونوں فریق کو سمجھانا شروع کیا اور آخر صلح کا فیصلہ ہوگیا۔ جب یہ خبر اس فتنہ کے بانیوں کوپہنچی تو اُنہیں سخت گھبراہٹ ہوئی اور انہوں نے مشورہ کیا کہ جس طرح بھی ہو صلح نہ ہونے دو کیونکہ اگرصلح ہوگئی تو ہمارے بھانڈے پُھوٹ جائیں گے۔ چنانچہ جب رات ہوئی تو انہوں نے صلح کو روکنے کیلئے یہ تدبیر کی کہ ان میں سے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے انہوں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت طلحہؓ و زبیرؓکے لشکرپر اور جو اُن کے لشکر میں تھے انہوں نے حضرت علیؓ کے لشکر پر شبخون ماردیا اور ہر فریق نے یہ خیال کیا کہ دوسرے فریق نے اس سے دھوکا کیا ہے۔ اس پر جنگ شروع ہوگئی اور دونوں فریق کے سرداروں کو میدان میں نکلنا پڑا۔ یہ دیکھ کر بعض صحابہ اور رئوسا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور اُن سے کہا کہ اے عائشہ!ؓ آپ کے سوا آج اسلامی لشکر میں کوئی صلح نہیں کراسکتا۔ آپ تشریف لائیں اور صلح کرائیں۔ چنانچہ وہ صلح کیلئے باہر نکلیں۔ یہ دیکھ کر اُن شریروں اور فتنہ پردازوں نے جو یہ چاہتے تھے کہ صلح نہ ہو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ اور ہودج پر تیر مارنے شروع کردیئے۔ اس پر وہ لوگ جو رسول کریم ﷺ کی محبت میں سرشار تھے، آپے سے باہر ہوگئے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے اِردگرد حلقہ باندھ لیا اور ان لوگوں کا مقابلہ کرنا شروع کردیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر تیر چلارہے تھے۔ یہ دیکھ کر ایک شخص ان لوگوں میں سے ایک شخص کے پاس گیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے اِردگِرد حلقہ باندھے ہوئے تھا اور کہا کہ کیا تُو مسلمانوں کے اوپر تیر چلائے گا؟ وہ کہنے لگا خدا گواہ ہے میں مسلمانوں کے اوپر تیر نہیں چلانا چاہتا مگر میں اپنے آقا کی بیوی کو بھی یونہی نہیں چھوڑ سکتا۔ پس شرارتیوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر تیر چلائے اور بعض صحابہ نے دفاع کے طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے دشمنوں کا مقابلہ کیا۔ ورنہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی کیلئے نہیں نکلی تھیں بلکہ آپس میں صلح کرانے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقابلہ کرنے والے لشکر کو سمجھانے کیلئے نکلی تھیں اور ان کا وہی فعل بیعت تھا۔
باقی رہا یہ کہنا کہ ’’حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہؓ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلینے کے بعد بیعت کو فسخ کرلیا۔ مگر کوئی ہے جو جرأت کرکے انہیں اسلام سے خارج قرار دے‘‘۔ میں اس کے متعلق بتاچکا ہوں کہ ہم نہ انہیں غیرمسلم کہتے ہیں اور نہ مصری صاحب کو غیراحمدی کہتے ہیں۔ ہاں اس سے یہ معلوم ضرور ہوتا ہے کہ انہیں غیراحمدی کہلانے کا شوق ہے اور شاید یہ پیش خیمہ ہے ان کے غیراحمدی بننے کا۔ چنانچہ کچھ تعجب نہیں کہ وہ تھوڑے دنوں کے بعد ہی یہ کہنے لگ جائیں کہ چلو جب جماعت مجھے غیراحمدی سمجھتی ہے تو میں غیراحمدی ہی ہوجاتا ہوں۔ ورنہ ہم نے تو آج تک ایک دفعہ بھی انہیں غیراحمدی نہیں کہا۔
یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے متعلق جو یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کو توڑا، یہ ایک غلط مثال اور تاریخ سے ان کی ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ تاریخیں اِس بات پر متفقہ طور پر شاہد ہیں کہ حضرت طلحہؓ اورحضرت زبیرؓ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جو بیعت کی تھی وہ بیعت طَوعی نہیں تھی بلکہ جبراً اُن سے بیعت لی گئی تھی۔ چنانچہ محمدؓ اور طلحہؓ دو راویوں سے طبری میں یہ روایت آتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب شہید ہوگئے تو لوگوں نے آپس میں مشورہ کرکے فیصلہ کیا کہ جلد کسی کو خلیفہ مقرر کیا جائے تا امن قائم ہو اور فساد مٹے۔ آخرلوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے عرض کیا کہ آپ ہماری بیعت لیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا اگر تم نے میری بیعت کرنی ہے تو تمہیں ہمیشہ میری فرمانبرداری کرنی پڑے گی اگر یہ بات تمہیں منظور ہے تومیں تمہاری بیعت لینے کیلئے تیار ہوں ورنہ کسی اور کو اپنا خلیفہ مقرر کرلو، میں اس کا ہمیشہ فرمانبردار رہوں گا اور تم سے زیادہ اُس کی اطاعت کروں گا۔ انہوں نے کہا ہمیں آپ کی اطاعت منظور ہے۔ آپ نے فرمایا پھر سوچ لو اور آپس میں مشورہ کرلو۔ چنانچہ انہوں نے مشورہ سے یہ طے کیا کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلیں تو سب لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلیں گے ورنہ جب تک وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کریں گے، اُس وقت تک پورے طور پر امن قائم نہیں ہوگا۔ اِس پر حکیم بن جبلہ کو چند آدمیوں کے ساتھ حضرت زبیر ؓکی طرف اور مالک اشتر کو چند آدمیوں کے ساتھ حضرت طلحہؓ کی طرف روانہ کیا گیا۔ جنہوں نے تلواروں کا نشانہ کرکے انہیں بیعت پر آمادہ کیا یعنی وہ تلواریں سونت کر ان کے سامنے کھڑے ہوگئے اورانہوں نے کہا کہ حضرت علی کی بیعت کرنی ہے تو کرو ورنہ ابھی ہم تم کو مارڈالیں گے۔ چنانچہ انہوں نے مجبورہوکر رضامندی کا اظہار کردیا اور یہ واپس آگئے۔۵؎ دوسرے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور فرمایا اے لوگو! تم نے کل مجھے ایک پیغام دیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ تم اس پر غور کرلو۔ کیا تم نے غور کرلیا ہے اور کیا تم میری کل والی بات پر قائم ہو؟ اگر قائم ہو تو یاد رکھو تمہیں میری کامل فرمانبرداری کرنی پڑے گی۔ اس پر وہ پھر حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کے پاس گئے اور اُن کو زبردستی کھینچ کر لائے ۔ روایت میں صاف لکھا ہے کہ جب وہ حضرت طلحہ کے پاس پہنچے اور ان سے بیعت کیلئے کہا تو انہوں نے جواب دیا اِنِّیْ اِنَّمَاُ ابَایِعُ کَرْھًا۔۶؎ دیکھومیں زبردستی بیعت کررہا ہوں خوشی سے بیعت نہیں کررہا۔ اسی طرح حضرت زبیر کے پاس جب وہ لوگ گئے اور بیعت کیلئے کہا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ اِنِّیْ اِنَّمَاُ ابَایِعُ کَرْھًا تم مجھ کو مجبور کرکے بیعت کروا رہے ہو دل سے میں یہ بیعت نہیں کررہا۔ اسی طرح عبدالرحمن بن جندب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد اشتر، طلحہ کے پاس گئے اور بیعت کے لئے کہا۔ انہوں نے کہا مجھے مُہلت دو میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ لوگ کیا فیصلہ کرتے ہیں مگر انہوں نے نہ چھوڑا اور جَائَ بِہٖ یَتُلُّہٗ تَلاًّ عَنِیْفًا۔۷؎ ان کو زمین پر نہایت سختی سے گھسیٹتے ہوئے لے آئے۔ جیسے بکرے کو گھسیٹا جاتا ہے۔
پھر حارث الوالی کی روایت ہے کہ حضرت زبیر کو جبراً حکیم بن جبلہ بیعت کیلئے لایا تھا اور حضرت زبیر یہ کہا کرتے تھے کہ جَائَ نِیْ لِصٌّ مِنْ لُصُوْصِ عَبْدِالْقَیْسِ فَبَایَعْتُ وَالُّلجُّ عَلٰی عُنُقِیْ۔۸؎ یعنی عبدالقیس قبیلہ کے چوروں میں سے ایک چور میرے پاس آیا اور اس کے مجبور کرنے پر اِس حالت میں مَیں نے بیعت کی کہ تلوار میری گردن پر تھی اور مجھے کہا جاتا تھا کہ بیعت کرو ورنہ تمہاری گردن اُڑادی جائے گی۔ اِس بیعت کو کون شخص ہے جو بیعت کہہ سکے۔
پھر تاریخوں سے صاف ثابت ہے کہ جب وہ حضرت علیؓ کی بیعت کرنے لگے تو انہوں نے کہا ہماری شرط یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے آپ بدلہ لیں۔ پس چونکہ اُنہوں نے شرط کرکے بیعت کی تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کی شرط پوری نہ کرسکے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ خیال تھا کہ پہلے تمام صوبوں کا انتظام ہوجائے اور پھر قاتلوں کو سزا دینے کی طرف توجہ کی جائے اور اس سے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے یہ سمجھاکہ حضرت علیؓ اپنے عہد سے پھرتے ہیں اور پھر چونکہ جبراً ان سے بیعت لی گئی تھی اس لئے وہ چوتھے دن ہی چلے گئے اور بیعت سے الگ ہوگئے۔
پس یہ کہنا کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے بیعت کرکے چھوڑ دی ایک مغالطہ ہے وہ بیعت نہیں تھی بلکہ جبری بیعت تھی ۔ اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی شخص کا ہاتھ زبردستی نیل کے مٹکے میں ڈال دیا جائے اور پھر کہنا شروع کردیا جائے کہ اس نے اپنے ہاتھ نیلے کرلئے ہیں۔ انہوں نے بھی جبراً بیعت کی تھی۔ وہ خود کہتے ہیں ہم نے ایسی حالت میں بیعت کی وَالُّلجُّ عَلٰی اَعْنَاقِنَا جبکہ تلواریں ہماری گردنوں پر رکھی تھیں۔ پھر انہوں نے بیعت پر زیادہ دیر بھی نہیں لگائی۔ تیسرے یا چوتھے دن وہ مکے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں چونکہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے بدلہ نہیں لیا جاتا اور اِسی شرط پر ہم نے بیعت کی تھی اِس لئے ہم اپنی بیعت پر قائم نہیں رہتے۔ اب بتائو اس میں اور مصری صاحب کی بیعت میں آیا کوئی بھی مناسبت ہے اور کیا مصری صاحب سے جب بیعت لی گئی تھی تو تلوار ان کی گردن پر رکھی گئی تھی؟ یا کیا انہوں نے کسی شرط پر میر ی بیعت کی تھی؟ اور کیا وہ ۲۳ سال تک میری اطاعت اور فرمانبرداری کا اقرار نہیں کرتے رہے؟ پھر ان کی اور حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کی نسبت ہی کیاہے کہ وہ ان کی مثال اپنے لئے پیش کرتے ہیں۔
چنانچہ اس بات کا ایک اور ثبوت کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ سے زبردستی بیعت لی گئی یہ ہے کہ جب جنگ جمل ہوئی انہوں نے حضرت علیؓ کا مقابلہ کیا۔ تو لکھا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ سے کہا اَمَا بَایَعْتَنِیْکیا تم نے میری بیعت نہیں کی تھی؟ حضرت طلحہؓ نے کہا بَایَعْتُکَ وَ عَلٰی عُنُقِی اللُّجُّ ۹؎ میں نے بیعت تو کی تھی مگر ایسی حالت میں جب تلوار میری گردن پر تھی۔ مگر باوجود اس جبرکے انہوں نے بیعت کے وقت اقامتِ حد کی شرط کرلی ۔ گویا حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے جو بیعت کی وہ انہوں نے اپنی خوشی سے نہیں کی بلکہ زبردستی ان سے بیعت کرائی گئی۔ اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے جبراً کسی شخص سے کلمہ پڑھایا جائے اور پھر کہہ دیا جائے کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے۔ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓکو بھی وہ تلواروں سے ڈرادھمکا کر بلکہ سختی سے گھسیٹ کرلائے اور انہوں نے کہہ بھی دیا کہ گو ہم بیعت کرتے ہیں مگر جبراً کرتے ہیں اور پھر اس شرط پر کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے۔ دراصل زبردستی بیعت لوگوں نے انہیں اس لئے کرائی کہ وہ سمجھتے تھے یہ دونوں صحابہ اثر و رسوخ رکھنے والے ہیں اور اگر ان دونوں نے بیعت کرلی تو باقی مسلمان بھی بیعت کرلیں گے اور عَالمِ اِسلامی میں امن قائم ہوجائے گا۔ مگر کیا مصری صاحب اور ان کے رفقاء نے بھی ایسی حالت میں بیعت کی تھی کہ ان کی گردنوں پر تلواریں تھیں؟ اور کیا انہوں نے بھی بیعت کے وقت کوئی شرط کی تھی؟
پھر حدیثوں میں محمد و طلحہ کی روایت سے یہاں تک آتا ہے کہ بیعت کرنے کے معاً بعد حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور بعض دوسرے صحابہ حضرت علیؓ کے گھر گئے اور انہوں نے کہا کہ ہماری بیعت میں شرط تھی کہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں پر حد قائم کی جائے گی پس آپ ان کو سزادیں اور حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے بدلہ لیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عُذر کیا اور کہا اِس وقت فساد کا خطرہ ہے اور سب سے مقدم اسلام کی حفاظت ہے قاتلوں کے معاملہ میں دیر ہوجانے سے کوئی حرج نہیں ۔ گویا انہوں نے ایک گھنٹہ بھی انتظار نہیں کیا بلکہ اِدھر بیعت کی اور اُدھر ان کے گھر چلے گئے کہ ہماری شرط پوری کی جائے ورنہ ہم آپ کی بیعت سے آزاد ہیں۔ اور یہ وہ ہیں کہ ۲۳ سال تک ان کا منہ میری تعریفیں کرکرکے سُوکھتا رہا مگر آج یہ کہہ رہے ہیں کہ میرا اور طلحہؓ و زبیرؓ کا معاملہ ایک ہی ہے۔
میں ضمناً اس جگہ یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ اُس زمانہ میں بیعت کا مفہوم کیا سمجھا جایا کرتا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں سے بیعت لی تو اُس کے الفاظ یہ تھے عَلَیْک عھداللّٰہ و میثاقہ بالوفاء لتکونن لسلمنا سلما و لحربنا حربا و لتکفن عنا لسانک ویدک۱۰؎کہ تم خدا کی قسم کھا کر مجھ سے یہ عہد کرتے ہو کہ تم ہمیشہ میرے مطیع و فرمانبردار رہو گے۔ جس سے میں صلح کروں اس سے تم بھی صلح کرو گے اور جس سے میں جنگ کروں گا اُس سے تم بھی جنگ کرو گے اور تم نہ اپنی زبان سے مجھ پر کوئی اعتراض کرو گے اور نہ اپنے اعمال سے میرے لئے کسی تکلیف کاباعث بنو گے۔ گویا بیعت کی یہ اہم شرط تھی کہ ولتکفن عنا لسانک ویدک ۔ اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھنا ہے اورمجھ پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کرنا۔ یہ عہد تھا جو صحابہ بیعت کا سمجھتے تھے مگر مصری صاحب کہتے ہیں کہ میں برابر دو سال تک آپ کے خلاف مصالحہ جمع کرتا رہا اور ابھی ان کے نزدیک وہ میری بیعت میں ہی شامل تھے۔ پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کیا قصور کیا، ہم نے صرف اعتراض ہی کیا تھااور اعتراض کرنے میں آزادی ہونی چاہئے۔ انہیں غور کرنا چاہئے کہ اگر خلفاء پر اعتراضات کرنے میں اسلام آزادی سکھاتا ہے تو ولتکفن عنا لسانک و یدک کا کیا مفہوم ہے۔ اس میں تو صاف طور پر حضرت علیؓ نے لوگوں سے کہہ دیاتھا کہ تم اپنی زبانوں کو روکے رکھنا اور کبھی مجھ پر اعتراض نہ کرنا۔ اسی طرح اپنے ہاتھوں کو ہمیشہ بند رکھنا اور کوئی ایسی حرکت نہ کرناجو میرے لئے دُکھ اور اذیت کا موجب ہو۔
پھر روایتوں سے یہ بھی ثابت ہے کم سے کم حضرت طلحہؓ کی نسبت کہ انہوں نے وفات سے پہلے دوبارہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی تھی اور حضرت زبیرؓ نے بھی رسول کریم ﷺ کی ایک پیشگوئی سُن کر حضرت علیؓ کا مقابلہ کرنے سے اِعراض کرلیا تھا۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضرت زبیرؓ جب جنگ کیلئے حضرت علیؓ کے سامنے نکلے تو اُس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر سے کہا زبیر !تم کو وہ دن بھی یاد ہے جب رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک دن مَیں اور تم اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں رسول کریم ﷺ تشریف لائے اور آپ نے مجھے اور تمہیں اکٹھے بیٹھے دیکھ کر میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا اے علیؓ! وہ بھی کیا دن ہوگا جب یہ تیرے چچا کا بیٹا زبیر تجھ سے ایسی حالت میں لڑائی کرے گا جبکہ یہ ظالم ہوگا اور تُو مظلوم ہوگا۔ یہ سُن کر حضرت زبیر اپنے لشکر کی طرف واپس لَوٹے اور انہوں نے قسم کھائی کہ وہ حضرت علیؓ سے ہرگز جنگ نہیں کریں گے اور اقرار کرلیا کہ انہوں نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی۔۱۱؎لیکن لطیفہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ حضرت زبیرؓ کو حضرت علیؓ کے مقابلہ میں ظالم قرار دیتے ہیں اور مصری صاحب کہتے ہیں اگر میں نے بیعت توڑ دی ہے تو کیا حرج ہؤا زبیرؓ نے بھی تو بیعت توڑی تھی اور حضرت علیؓ کا مقابلہ کیاتھا۔ گویا وہ اپنے منہ سے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ظالم ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو حضرت زبیرؓ سے نسبت دیتے ہیں اور حضرت زبیرؓ کو رسول کریم ﷺ نے ظالم قرار دیا تھا۔ اب کیا ظالم ہونا ان کے خیال میں کوئی گناہ نہیں صرف غیراحمدی ہونا ہی گناہ ہے۔ یہ مانا کہ حضرت زبیرؓ نے حضرت علیؓ کی بیعت عملاً توڑ دی تھی مگر ساتھ ہی یہ بھی تو حدیث ہے کہ اے زبیر! تُو علیؓ سے ایسی حالت میں مقابلہ کرے گا جبکہ تُو ظالم ہوگا۔ پس جب وہ حضرت زبیرؓ سے اپنی نسبت دیتے ہیں تو کیا وہ اس حدیث کے ماتحت ظالم قرار نہیں پاتے؟ اور کیا ظالم ہونا ان کے نزدیک کم گناہ ہے کہ وہ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں۔ پس حضرت زبیر تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی سُن کر جنگ سے الگ ہوگئے اور اچانک حملہ کے وقت چونکہ وہ زخمی ہوگئے تھے بعد میں فوت ہوگئے۔ باقی رہے حضرت طلحہؓ ان کی نسبت روایات میں آتا ہے کہ حضرت طلحہؓ بھی میدانِ جنگ کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ان کے پیچھے ایک شخص گیا اور ان پر غفلت میں حملہ کرکے انہیں زخمی کردیا۔ اس کے بعد ان کے پاس سے ایک شخص گزرا اور آپ نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ تیرا ہاتھ علیؓ کاہاتھ ہے اور میں تیرے ہاتھ پر علی ؓکی دوبارہ بیعت کرتا ہوں۔
اب کُجا حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کی حالت اور کُجا مصری صاحب کی حالت۔ کیاان دونوں میں کوئی بھی نسبت ہے ؟اور کیا ان کا حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کی مثال پیش کرنا کسی لحاظ سے بھی درست ہوسکتا ہے؟ مصری صاحب دریافت کرتے ہیں کہ حضرت طلحہؓاور حضرت زبیرؓ نے جب بیعت کو فسخ کرلیا تھا تو کوئی ہے جوجرأت کرکے انہیں اسلام سے خارج قرار دے۔ اور میں انہیں کہتا ہوں کہ ہم اگر انہیں اسلام سے خارج قرار نہیں دیتے تو آپ کو بھی بیعت سے الگ ہوجانے کی وجہ سے احمدیت سے کب خارج قرار دیتے ہیں۔ اگر آپ ایک بھی میری ایسی تحریر دکھادیں جس میں مَیں نے آپ کو غیراحمدی قرار دیا ہو تب تو سمجھ لیا جائے گاکہ آپ سچ بولتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی تحریر نہ دکھاسکیں تو کیا اس سے صاف طور پر یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ نے دیدہ دانستہ غلط بیانی کی ہے۔ میری جس قدر تحریریں ہیں وہ چھپ چکی ہیں، میری تقاریر بھی محفوظ ہیں اور شائع ہوچکی ہیں پس اگر ان میں شرافت کا ایک ذرّہ بھی باقی ہے اور اگر ایمان کی کوئی حس اِن میں موجود ہے تو وہ میرا کوئی ایک ہی ایسا حوالہ پیش کریں جس میں مَیں نے یہ کہا ہو کہ وہ میری بیعت سے الگ ہوکر غیراحمدی ہوگئے ہیں۔ اِس وقت ہزاروں وہ لوگ ہیں جنہوں نے میرے خطبات کو سُنا اور ہزاروں وہ لوگ ہیں جنہوں نے ’’الفضل‘‘ کے ذریعہ میرے خطبات کوپڑھا پھر کیاان ہزاروں لوگوں میں سے کوئی ایک بھی بتاسکتا ہے کہ میں نے شیخ صاحب کو غیراحمدی کہا۔ جب ایک بھی ایسی گواہی نہیں مل سکتی تو یقینا انہوں نے غلط بیانی کی۔ یقینا انہوں نے ایک جُرمِ عظیم کیا، یقینا انہوں نے لوگوں کو دھوکا و فریب دیا۔ اور پھر دیدہ دانستہ ان امور کا ارتکاب کیا کیونکہ ہم پہلے بھی کئی لوگوں کو اپنی جماعت سے خارج کرچکے ہیں اور ہم نے ان میں سے آج تک کسی کو محض جماعت سے الگ ہونے کی وجہ سے غیراحمدی نہیں کہا۔
اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ دیکھتے ہیں کہ وہ کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت علیؓ کی مخالفت کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے ’’سرالخلافہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں والحق ان الحق کان مع المرتضٰی ومن قاتلہ فی وقتہٖ فبغٰی و طغٰی یعنی سچی بات یہ ہے کہ سچ اور حق جو تھا وہ حضرت علیؓ کے ساتھ تھا۔ ومن قاتلہ فی وقتہٖ فبغٰی و طغٰی۱۲؎ اور حضرت علیؓ کی خلافت کے زمانہ میں جن لوگوں نے آپ کا مقابلہ کیا وہ باغی اور سرکش تھے۔ اب چاہے حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ ہی کیوں نہ ہوں جس کسی نے حضرت علیؓ کا مقابلہ ان کی خلافت میں کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس وقت تک وہ حضرت علیؓ کے مقابلہ میں کھڑا رہا اُس وقت تک وہ باغی اور طاغی تھا (مگرمیں جیساکہ بتاچکا ہوں کہ صحابہ مقابلہ سے پہلے ہی پیچھے ہٹ گئے تھے اور فِی الْحقیقت مقابلہ کرنے والوں میں سے نہ تھے)۔ اب اگر مصری صاحب اس لئے خوش ہیں کہ میں گو غیراحمدی نہیں مگر باغی اور طاغی ہوں تو وہ بے شک خوش ہولیں۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جو شخص مومن ہو وہ خداتعالیٰ کی ادنیٰ سے ادنیٰ ناراضگی سے بھی ڈرتا اور چھوٹے سے چھوٹے گناہ کے ارتکاب سے بھی خوف کھاتا ہے۔ ان کواگر اس بات کی پرواہ نہیں اور انہیں اس بات پر فخرہے کہ میں باغی اور طاغی ہوں غیراحمدی نہیں تو بیشک اس پر فخر کرلیں ہم بھی انہیں غیراحمدی نہیں کہتے بلکہ باغی اور طاغی ہی کہتے ہیں۔
پس یاد رکھو حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے گو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی مگر وہ جبری بیعت تھی، طَوعی بیعت نہیں تھی۔ اور پھر بیعت کے وقت انہوں نے شرط بھی کرلی تھی کہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے گا۔ مگر جب ان کی نگاہ میں یہ شرط پوری نہ ہوئی تو انہوں نے بیعت توڑ دی۔ لیکن تاریخی طور پر ثابت ہے کہ ان کے بیعت توڑنے کے فعل کو اُن کے ساتھیوں نے بھی ناپسند کیا۔ چنانچہ ایک شخص سے جب کسی دوسرے شخص نے کہاکہ تم تو حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کے مخالف تھے پھر آج حضرت علیؓ کے ساتھیوں میں کیوں شامل ہوگئے؟ تو اُس نے کہا میں اس لئے ان کے ساتھ شامل ہؤا ہوں کہ اِنَّھُمْ نَکَثُوا الْبَیْعَۃَ۔ ۱۳؎ طلحہؓ اور زبیرؓ نے بیعت کی اور پھر توڑ دی گویا باوجود یکہ ان کی بیعت جبری بیعت تھی، پھر بھی ان کے ساتھیوں نے ان کے فعل کو ناپسند کیا اور کہا کہ جب بیعت کرلی تھی تو خواہ جبری بیعت تھی پھر بھی اس بیعت کو توڑنا نہیں چاہئے تھا۔
غرض ان لوگوں کی مثالوں سے استنباط بالکل غلط ہے۔ انہوں نے بیعت یا تو عارضی طور نہ کی اور پھر کرلی یا پھر جنہوں نے بیعت کی کَرْھاً کی اور پھر فوراً الگ ہوگئے، استقرارِ بیعت کبھی نہیں ہؤا۔ یا پھر انہوں نے بیعت نہ کی مگر خلافت کا مقابلہ بھی نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہا کہ اگر فلاں امر ہوجائے مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے بدلہ لے لیا جائے تو ہم بیعت کرلیں گے۔ جیسے حضرت معاویہؓ ہیں کہ انہوں نے گو حضرت علیؓ کی اِسی وجہ سے بیعت نہیں کی مگر انہوں نے آپ کا مقابلہ بھی نہیں کیا۔ غرض تمکینِ خلافت کے بعد کسی کی مخالفت یا بیعتِ طَوعی کا توڑنا ہرگز ثابت نہیں اور اگر ہو تو اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فیصلہ یہی ہے کہ فَبَغٰی وَ طَغٰی۔
بعض نادان اس موقع پر کہا کرتے ہیں کہ جب بیعت سے الگ ہونے کی وجہ سے کوئی شخص غیراحمدی نہیں ہوجاتا تو پھر بیعت نہ کرنا یا بیعت کا توڑ دینا کوئی بڑا گناہ تو نہ ہؤا۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایک خطرناک غلطی ہے۔ ایمان کے معاملہ میں جب انسان جان بوجھ کر کہتا ہے کہ فلاں فعل کا ارتکاب اگرچہ گناہ ہے مگر میں نے اگر کرلیا تو کیا حرج ہؤا تو وہ ضرور اپنے ایمان کو تباہ کرلیتا ہے۔ اگر کوئی شخص مجبوراً یا عادتاً یا جہالتاً نادانی سے کوئی گناہ کرتا ہے تو یہ اَور بات ہے۔ لیکن اگر ایک شخص سمجھتا ہے کہ فلاں امر گناہ ہے اور پھر وہ اسے معمولی بات خیال کرکے اس گناہ کا ارتکاب کرلیتا ہے تو اس شخص کو خدا دولتِ ایمان سے محروم کرکے ہی چھوڑتا ہے کیونکہ وہ باغی ہے اور خداتعالیٰ کی ہتک کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی تباہی میں بھی بہت بڑا دخل اس امر کا بھی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چھوٹا گناہ ہے اور وہ بڑا۔ حالانکہ مومن کامل وہ ہے جو خداتعالیٰ کی ادنیٰ ناراضگی سے بھی ڈرے اور اس کے ارتکاب سے بچے۔ یہ نہ کہے کہ میرا احمدی نہ ہونا تو بہت بڑا گناہ ہے لیکن احمدی ہوکر نماز نہ پڑھنا یا روزے نہ رکھنا معمولی باتیں ہیں۔ جوشخص اس طرح اپنی رضامندی اور خوشی سے جانتے بوجھتے ہوئے کوئی گناہ کرتاہے اور اسے چھوڑتا نہیں وہ خداتعالیٰ کو چیلنج کرتاہے اور کہتا ہے کہ مجھے تیری رضا کی پرواہ نہیں۔ پس مومن تو خداتعالیٰ کی ادنیٰ ناراضگی سے بھی ڈرتا ہے کُجا یہ کہ اس قدر اہم ناراضگی سے نہ ڈرے جو گو کفر نہیں مگر کفر کے دروازہ تک انسان کو پہنچادیتی ہے۔ اور وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ کا اسے مورد بنا دیتی ہے۔ دراصل جو شخص نیکیوں کو یہ سمجھ کر چھوڑتا چلا جاتا ہے کہ وہ معمولی ہیں اور گناہوں کاا س لئے ارتکاب کرلیتا ہے کہ اس کے نزدیک ان گناہوں کا ارتکاب کوئی بڑی بات نہیں، اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کسی شخص کو بہادری کا دعویٰ تھا وہ ایک دن کسی گودنے والے کے پاس گیا اور کہا کہ میرے بازو پر شیر گود دو۔ اس نے شیر گودنے کیلئے جب سُوئی ماری تو اُسے درد ہؤا اور کہنے لگا بتاؤ کیاکرنے لگے ہو؟ اس نے کہا میں شیر کا کان گودنے لگا ہوں۔ کہنے لگاکون سا کان دایاں یابایاں؟ اس نے کہا دایاں۔وہ کہنے لگا اچھا اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو آیا شیر رہتا ہے یا نہیں؟ وہ کہنے لگا رہتا کیوں نہیں۔ اس نے کہا اچھا تو دایاں کان چھوڑدو اور آگے چلو۔ جب اس نے دوسرا کان بنانے کیلئے سوئی ماری تو پھر اسے درد ہؤا اور وہ کہنے لگا اب کیا کرنے لگے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ اب بایاں کان گودنے لگا ہوں۔ وہ کہنے لگا اگر بایاں کان نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں ؟اس نے کہا رہتا کیوں نہیں۔ وہ کہنے لگا اسے بھی چھوڑ دو اور آگے چلو۔ پھر جب اس نے ٹانگ گودنا شروع کی تو وہ پھر کہنے لگا اگر ٹانگ نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں؟ وہ کہنے لگا ٹانگ کے بغیر بھی شیر ہوسکتا ہے۔ کہنے لگا اسے بھی چھوڑو اور آگے چلو۔ اس کے بعد اس نے دوسری ٹانگ گودنی چاہی تو پھر اس نے روک دیا۔ یہ دیکھ کر اُس گودنے والے نے سُوئی ہاتھ سے رکھ دی اور کہنے لگا ایک کان کے بغیر بھی شیر رہ سکتا ہے اور دوسرے کان کے بغیر بھی مگر یہ سب چیزیں چھوڑ دی جائیں تو پھر شیر کاکچھ نہیں رہتا۔تو جب انسان دلیری سے یہ کہتا ہے کہ اگر فلاں نیکی چھوڑدوں تب بھی ایمان باقی رہتا ہے اور فلاں گناہ کرلوں تب بھی میرے ایمان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوسکتا۔ وہ آہستہ آہستہ تمام نیکیوں کو چھوڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کے ایمان میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔
پھر یہ بھی یاد رکھو کہ زمانوں کے بدلنے سے سزائیں بھی بدل جاتی ہیں۔ اور گو واقعہ ایک ہی قسم کا ہوتا ہے مگر حالات کے اختلاف کی وجہ سے سزا کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر دیکھ لو تم کسی شہرمیں رہتے ہو اور تمہارے پاس کوئی بھوکا شخص آتاہے اور کہتا ہے مجھے کچھ کھانے کیلئے دو تمہارے پاس کھانا موجود ہے مگر تم اسے نہیں دیتے اور وہ چلا جاتا ہے۔ اب تم ایک گناہ کے مرتکب ہوئے ہو کیونکہ وہ بھوکا تھا مگر تم نے اسے کھانا نہیں دیا۔ لیکن اگر تم ایک ایسے جنگل میں ہو جہاں بیس بیس تیس تیس میل تک آبادی کا نام و نشان نہیں اور کہیں سے کھانا ملنے کی امید نہیں ہوسکتی ،لیکن تمہارے پاس وافر کھانا موجود ہے مثلاً ایک گھوڑا روٹیوں اور کھانے پینے کے سامان سے لدا ہوا تمہارے پاس کھڑا ہے ایسی حالت میں اگر ایک بھوکا تمہارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے میر ابہت بُرا حال ہے مجھے ایک روٹی دے دو تا اسے کھا کر میرے بدن میں کچھ طاقت آجائے اورمیں آبادی کے قریب پہنچ جائوں تو ایسی حالت میں اگر تم اسے روٹی نہیں دیتے اور وہ بھوکا چلا جاتا ہے تو اس صورت میں بھی تم ایک گناہ کے مرتکب ہوگے کیونکہ کھانا تمہارے پاس موجود تھا مگر تم نے اسے نہیں دیا۔ لیکن ان دونوں جگہ ایک بین فرق بھی موجود ہے جو تمہارے جرم کو ایک جگہ معمولی اور دوسری جگہ سنگین بنادیتا ہے ۔ جب تم نے آبادی میں ایک بُھوکے اور غریب شخص کو روٹی نہ دی تو اُس وقت امکان تھا کہ اسے کوئی اور شخص روٹی دے دیتا مگرجنگل میں جب تم نے ایک بھوکے کو روٹی نہ دی اور ایسی حالت میں نہ دی جبکہ بیس بیس تیس تیس میل تک اسے کھانا ملنے کی امید نہ ہوسکتی تھی تو تم نے اسے بھوکا ہی نہیں رکھابلکہ اگر وہ مرجائے گا تو تم اس کے قاتل بھی ٹھہرو گے۔ تو صرف عمل کودیکھا نہیں جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اِردگِرد کے حالات اس عمل کو کیا شکل دے رہے ہیں۔ بالکل ممکن ہے ایک عمل ظاہری نگاہ میں بالکل چھوٹا ہو مگر حالات کی وجہ سے وہ بہت بڑی اہمیت رکھنے لگے۔ مثلاً دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو حافظ قرآن ہیں اگر کوئی شخص کسی حافظ قرآن کو قتل کرتا ہے تو ہم اسے قاتل کہیں گے۔ لیکن فرض کرو اگر کسی وقت دنیا میں صرف ایک ہی حافظ قرآن ہو تو اگر کوئی شخص اُس کو مارے گا تو نہیں کہا جاسکے گا کہ دونوں کا فعل ایک جیسا ہے کیونکہ گو دونوں جگہ حافظ قرآن ہی قتل ہوئے ہوں گے مگر ان دونوں قتلوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پہلا قاتل صرف ایک عام آدمی کا قاتل ہے مگر دوسرا قاتل صرف ایک آدمی کا قاتل نہیں بلکہ قرآن کا بھی قاتل ہے۔ کیونکہ اس کے قتل کے بعد دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں رہے گا جس کے سینہ میں قرآن محفوظ ہو۔ تو صرف کسی عمل کی ظاہری شکل نہیں دیکھی جاتی بلکہ اس کے باطنی حالات بھی دیکھے جاتے ہیں۔
اب دیکھ لو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بہت بڑا فرق ہے۔ اُس وقت حکوت ساتھ تھی، اسلام مضبوط ہوچکا تھا ، مُلکوں کے ملک اسلام میں داخل ہوچکے تھے اور اسلامی شریعت پر رات اور دن عمل کروایا جارہا تھا۔ پس اُس وقت تفرقہ صرف سیاسی کمزوری پید اکرتا تھا مگر یہ زمانہ اَور ہے، ترقی آہستہ ہے، حکومت غیر ہے، اسلامی تمدن قائم نہیں ہؤا۔ پس آج کا تفرقہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کو بالکل رائیگاں کرسکتا ہے۔ اسی لئے آج کا فساد اور اُس وقت کا فساد بالکل مختلف ہے۔ اُس وقت رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہی اسلامی حکومت قائم ہوچکی تھی اور اس وجہ سے وہ تمام مسائل جن کا تعلق حکومت کے ساتھ ہے قائم کردیئے گئے تھے۔ مثلاً زکوٰۃ اور عشر کی تقسیم، لین دین کے مسائل، اقتصادیات کے متعلق احکام، بادشاہوں کا رعایا سے تعلق اور رعایا کا بادشاہ سے تعلق۔ یہ تمام امور ایسے تھے کہ ان کے متعلق شریعتِ اسلامی جن تفاصیل کی حامل ہے، وہ مسلمانوں میں قائم کردی گئی تھی۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جو تفرقہ ہؤا گو اس سے مسلمانوں کو سیاسی لحاظ سے کمزوری ہوئی مگر بہرحال اس تفرقہ کے نتیجہ میں جو حکومتیں قائم ہوئیں وہ اسلامی حکومتیں ہی تھیں۔ کیونکہ اسلام عملی صورت میں دنیا میں قائم ہوچکا تھا۔ مگر اِس زمانہ میں اسلام کی ترقی آہستہ آہستہ مقدر ہے اورابھی احمدی حکومتیں دنیا میں قائم نہیں ہوئیں۔ زکوٰۃ اور خراج کے مسائل ، لین دین کے معاملات، حکومت اور رعایا یا امیر اور غریب کے متعلق احکام، آقا اور ملازمین کے تعلقات، رعایا کے فرائض، اسلامی حکومت کے حقوق اور فرائض، حکومتوں کے آپس کے تعلقات او رورثہ اور سُود وغیرہ سینکڑوں مسائل ایسے ہیں جن کے متعلق اسلامی تعلیم دنیا میں قائم نہیں ہوئی۔ پس یہ ساری عملی اسلامی زندگی ابھی پوشیدہ ہے اور اُس وقت کا انتظار کررہی ہے جب کہ اسلامی بادشاہتیں دنیا میں پھر قائم ہوں اور ان امور کے متعلق اسلامی تعلیم کا احیاء ہو۔
پس چونکہ ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم دنیا میں صحیح طور پرقائم نہیں ہوئی اور نہ تمدن کے متعلق اسلام کی وہ تعلیم دنیا میں رائج ہوئی ہے جس کو کامل طور پر رائج کرنا خداتعالیٰ کا منشاء ہے اس لئے آج اگر کوئی شخص تفرقہ کرتا اور جماعت کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتاہے تو وہ صرف معمولی مجرم نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاقاتل ہے ۔ کیونکہ ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم دنیا میں قائم نہیں ہوئی اور اس کے قائم ہونے میں ایک لمبا عرصہ درکار ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں صاف طور پر اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت کی نسبت فرماتا ہے کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ ۱۴؎ یعنی وہ جماعت اس سبزے کی طر ح ہوگی جو زمین میں سے نکلتا ہے اور نہایت ہی کمزور اور ناطاقت ہوتا ہے۔ جدھر سے بھی ہوا چلتی ہے وہ اس کے دبائو سے جھک جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ آندھیاں اور ہوائیں اُسے جڑ سے نہیںاُکھاڑ سکیں گی بلکہ وہ پودا بڑھے گا اور بڑھتا چلا جائے گا یہاں تک کہ مضبوط ہوجائے گا اور دنیا کے حوادث اور مخالفت کی آندھیاں اسے اپنی جگہ سے نہیں ہِلاسکیں گی۔
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی خلافت قائم ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد بھی خلافت قائم ہوئی مگر اِن دونوں خلافتوں میں ایک فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی اسلام کے تمام احکام عملی طور پر قائم ہوگئے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد ان احکام کے عملی صورت میں قائم ہونے کیلئے ایک لمبا عرصہ مقدر ہے۔ پس گو پہلے خلفاء کے زمانہ میں بھی اگر کوئی تفرقہ کرتا تو وہ شدید گناہ کا مرتکب ہوتا مگر عملی صورت میں یقینا اسلامی احکام کو نقصان نہ پہنچ سکتا کیونکہ اسلامی تعلیم قائم ہوچکی تھی۔ اسے جو بھی نقصان اور ضُعف پہنچتا وہ سیاسی ہوتا ۔ لیکن آج اگر کوئی شخص تفرقہ پیدا کرتا اور جماعت کے اتحاد کو تباہ کرنے کے درپے ہوتا ہے تو وہ صرف تفرقہ پیدا نہیں کرتا بلکہ اسلام کو ضُعف پہنچاتا اور اس کی ترقی میں زبردست روک بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ کی سزائوں میں بھی دونوں جگہ فرق ہے اور خداتعالیٰ کا یہ فعل بتارہا ہے کہ اس زمانہ کے خلفاء اور اِس زمانہ کے خلفاء کے انکار کی سزائوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ اُس وقت جو خلافت کے مخالفین تھے وہ مذہب سے دور نہیں ہوئے مگر آج جو شخص خلافت کی مخالفت کرتا ہے وہ آہستہ آہستہ مذہب کو بھی یا تو بالکل چھوڑ دیتاہے یا اس کے مذہب میں رخنہ پڑ جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سعد نے بیعت نہ کی۔ آپ نے حکم دیا کہ ان سے قطع تعلق کرلیا جائے۔ چنانچہ کوئی شخص اُن سے نہ بولتا اور نہ لین دین کے تعلقات رکھتا لیکن وہ مسجد میں آتے ، نماز پڑھتے اور چلے جاتے۔ پھر سعد جب فوت ہوئے تو تمام مسلمانوں نے اُن کا جنازہ پڑھا اور اس طرح انہوں نے اپنے عمل سے بتادیا کہ وہ انہیں مومن ہی سمجھتے تھے( سعد نے بھی کبھی کوئی اعتراض حضرت ابوبکرؓ پر یا نظامِ سلسلہ پر نہیں کیا نہ کبھی عملاً اس کی مخالفت کی)۔
حضرت طلحہؓ ، حضرت زبیرؓ اور حضرت معاویہؓ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی مگر ان کے ایمانوں میںکوئی فرق نہیں آیا۔ یہ ممکن ہے دنیا میں انہیں جسمانی طور پربعض سزائیں ملی ہوں مگر ان کے ایمان ضائع نہیں ہوئے۔ پھر بعض نے ان میں سے توبہ کرلی اور بعض کے متعلق ہمیں پورے حالات معلوم نہیں۔ بہرحال ان میں سے کسی کے ایمان ضائع ہونے کی خبر ہمیں نہیں ملتی مگر اِس زمانہ میں جس نے بھی خلفاء کی مخالفت کی آہستہ آہستہ اس کے مذہب میں بھی رخنہ پڑ گیا اور وہ اصل اسلام اور احمدیت سے بہت دور ہوگیا۔ چنانچہ سب سے پہلے مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی مخالفت کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد سب سے پہلا جو جلسہ سالانہ ہؤا اُس میں اپنی تقریروں کے دوران میں انہوں نے آپ پر حملے کرنے شروع کردیئے اور جماعت کے لوگوں کو اس امر کی طرف مائل کرنا شروع کردیا کہ خداتعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ جانشین اور خلیفہ صدرانجمن احمدیہ ہے، حضرت خلیفہ اوّل نہیں۔ مگر اس مخالفت کا کیا نتیجہ ہؤا؟ سعد کی طرح ان کا حال نہیں ہؤا، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت معاویہؓ کی طرح محض حدود کے قیام تک ان کی مخالفت محدود نہیں رہی بلکہ خلافت کا انکار کرنے کے بعد انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا بھی انکار کردیا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجہ اور مقام کا بھی انکار کردیا۔بعض ان امور کا بھی انکار کر دیا جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عقائد میں شامل فرمایا ہے اور اس طرح ان کے مذہب میں بہت بڑا رخنہ واقع ہوگیا۔
پھر مستریوں نے جب میری مخالفت کی تو انہوں نے سب سے پہلے جو اعلان کیا وہ مصری صاحب کی طرح ’’ایک دردمندانہ اپیل‘‘ ہی تھی اور اس میں لکھاکہ ہم احمدیت سے الگ نہیں ہوئے۔ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر کامل ایمان ہے ہمارا اختلاف صرف موجودہ خلیفہ سے ہے ورنہ یہ کب ہوسکتا ہے کہ ہم احمدیت چھوڑ دیں۔ مگر پھر وہی عبدالکریم وفاتِ مسیح کے مسئلہ پر احمدیوں سے مناظرے کرتا رہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وہ بالکل الگ ہوگئے۔ آخر یہ فرق جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے خلفاء کے منکروں اور موجودہ خلفاء کے منکروں کی سزا میں ہے ، کیوں ہے؟ خدا نے اُس وقت کے خلفاء کے منکرین کے ایمان کیوں ضائع نہ کئے اور آج جو خلفاء کا انکارکرتا ہے، اس کا ایمان کیوں ضائع ہوجاتا ہے؟ اسی لئے کہ آج جو شخص خلفاء کا انکار کرتا ہے اور جماعت میں تفرقہ و اِنشقاق پیدا کرتا ہے وہ نہ صرف خلفاء کا انکار کرتا ہے بلکہ اسلام کی اس عملی زندگی پر بھی تبر چلاتا ہے جس کو قائم کرنا خداتعالیٰ کا منشاء ہے۔ لیکن رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اسلام کی عملی زندگی قائم ہوچکی تھی اور خلفاء کا انکار سیاسی نقصان پہنچاتا تھا۔ پس چونکہ آج جو شخص خلفاء کی مخالفت کرتا ہے وہ اسلام کی عملی زندگی اور دنیا کے ایمان پر تبر چلاتا ہے، اس لئے خداتعالیٰ اس جُرم کی سزا میں اس کا ایمان بھی ضائع کردیتا ہے۔ لیکن پہلے زمانہ میں مخالفت، اسلام کو صرف سیاسی نقصان پہنچاتی تھی اس لئے مخالفت کرنے والوں کو دنیا میں بعض جسمانی سزائی مل جاتیں روحانی سزا اِس حد تک انہیں نہیں ملتی تھی۔
مصری صاحب بے شک کہہ رہے ہیں کہ گو مجھے خلیفۂ وقت سے اختلاف ہے مگر میں احمدیت پر قائم رہوں گا۔ پہلوں سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ انہوں نے اس اختلاف کو وسیع کرکے احمدیت کے خصائص بھی ترک کردیئے۔ اب میں بتائوں گا کہ مخالفت اور اختلاف کے باوجود کس طرح احمدیت پر انسان قائم رہتا ہے۔ مگر جس قسم کے گندے اعتراض وہ کررہے ہیں اور جس قسم کے ناپاک حملوں کے کرنے کی ان کی طرف سے اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے اطلاعیں آرہی ہیں، اگر وہ ان پر مُصِر رہے اور اگر انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے توبہ نہ کی تو میں کہتا ہوں احمدیت کیا اگر ان کے خاندانوں میں حیا بھی باقی رہی تو وہ مجھے کہیں۔ بلکہ میں اس سے بھی واضح الفاظ میں یہ کہتا ہوں کہ جس قسم کے خلافِ اخلاق اورخلافِ حیا حملے وہ کررہے ہیں اس کے نتیجہ میں اگر ان کے خاندان فحش کا مرکز بن جائیں تو اسے بعید از عقل نہ سمجھو۔
پس میں پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہوں نے اپنے اشتہار میں جس قدر مثالیں پیش کی ہیں وہ بالکل غلط ہیں اور ان میں سے ایک بھی ان کے طریقِ عمل پر چسپاں نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں خداتعالیٰ کے فعل نے پہلے زمانہ اور اِس زمانہ میں نمایاں امتیاز قائم کرکے دکھلادیا ہے۔ پس اب جو شخص خلافت کی مخالفت کرتا ہے وہ پہلوں سے بہت زیادہ سزا کا مستحق ہے او ریقینا اگر کوئی شخص خلافت کے مقابلہ پر اصرار کرے گا اور اپنے اس فعل سے تو بہ نہیں کرے گا تو اُس کا ایمان بالکل ضائع ہوجائے گا اور آج نہیں تو کل وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی حملہ کرنے لگے گا۔ اور پھر بالکل ممکن ہے وہ اس سزا کے نتیجہ میں اخلاقِ فاضلہ کو بھی اپنے ہاتھ سے چھوڑ دے اور حیا اور شرم سے اسے دور کی بھی نسبت نہ رہے۔ پس زمانہ کے حالات سزائوں کو بدل دیتے ہیں ۔ اُس زمانہ کے حالات بالکل اور تھے اور اب حالات اور ہیں۔ اب جو لوگ خلافت کا مقابلہ کریں گے اُنہیں یقینا ایسی سزائیں ملیں گی جو نہایت ہی عبرتناک ہوں گی اور یقینا اپنی اپنی مخالفت اور عِناد کے مطابق ان کے ایمان بھی ضائع ہوتے چلے جائیں گے۔
(الفضل یکم اگست ۱۹۳۷ئ)
۱؎ النور: ۵۶
۲؎ تاریخ ابن اثیر جلد ۲صفحہ ۳۳۱مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۳؎ تاریخ طبری جلد۴ صفحہ۲۶۔۲۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء
۴؎
۵؎ تاریخ طبری جلد۵ صفحہ۴۵۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء
۶تا۸؎ تاریخ طبری جلد۵ صفحہ ۴۵۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء
۹؎ تاریخ طبری جلد۵ صفحہ ۵۴۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء
۱۰؎
۱۱؎ تاریخ ابن اثیر جلد۳ صفحہ ۲۴۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۱۲؎ سرالخلافۃ صفحہ۳۸ روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۳۵۲ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ
۱۳؎
۱۴؎؎ الفتح: ۳۰

۲۴
شیخ عبدالرحمن مصری کی طرف سے انکسار کا جھوٹا دعویٰ
(فرمودہ ۳۰؍ جولائی ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
اب میں اس سوال کو لیتا ہوں جو مصری صاحب نے لکھا ہے کہ میرے متعلق جو یہ کہا گیا ہے کہ میں نے جماعت میں اپنے اثر و رسوخ کا دعویٰ کیا ہے یہ غلط ہے۔ اور اس کے ثبوت میں وہ دوسری عبارتیں پیش کرتے ہیں جو انکسار پر دلالت کرتی ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی تائید میںیہ عبارت پیش کرتے ہیں:
’’بیشک ان باتوں کی وجہ سے جو اقتدار آپ کو حاصل ہوچکا ہے، اس پر آپ کو ناز ہے اور آپ یقین رکھتے ہیں کہ میں (آپ) مدمقابل کا سر ایک آن میں کُچل سکتا ہوں اور اس میں بھی شک نہیں کہ میںجو آپ کے مقابلہ میں کھڑا ہونا چاہتا ہوں ایک نہایت ہی کمزور ، بے بس، بے کس ، بے مال، بے مددگار ہوں اور جہا ںآپ کو اپنی طاقت پر ناز ہے مجھے اپنی کمزوریوں کا اقرار ہے۔ ہاں میں اتنا ضرور جانتاہوں کہ حق کی قوت میرے ساتھ ہے او رغلبہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسی کو ہوتا ہے جو حق کی تلوار لے کر کھڑا ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ابتدا میں میری بات کی طرف توجہ نہ کی جائے اور میں اس مقابلہ میں کُچلاجائوں لیکن حق کی تائید کیلئے او رباطل کا سر کُچلنے کی غرض سے کھڑے ہونے والے علماء اس قسم کے انجاموں سے کبھی نہیں ڈرتے‘‘۔
تو وہ کہتے ہیں کہ میری اس تحریر میں انکسار کا دعویٰ موجود ہے۔ پھر یہ کہنا کہ میں نے کسی عزت اور اثر و رسوخ کا دعویٰ کیا ہے، غلط ہے۔ مجھے اس بات کا انکار نہیں ہے کہ مصری صاحب کے خطوط میںایسے فقرے بھی موجود ہیں جن میں اپنی بے بسی اور بے کسی کا اظہار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ فقرہ جسے ہماری طرف سے پیش کیاگیا ہے وہ بھی موجود ہے یا نہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ میرے خطوط میں مندرجہ ذیل فقرہ موجود ہے:-
’’کیونکہ آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس شخص کو جماعت میں عزت حاصل ہے۔ مستریوں کے متعلق تو اس قسم کے عُذر گھڑ لئے گئے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ کیا گیا تھا یا ان کی لڑکی پر سوت لانے کا مشورہ دیا تھا مگر یہاں اس قسم کا کوئی عذر بھی نہیں چل سکتا۔ اس کے اخلاص میں کوئی دھبہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس کی بات کو جماعت مستریوں کی طرح ردّ نہیں کرے گی بلکہ اس پر اسے کان دھرنا پڑے گا اور وہ ضرور دھرے گی‘‘۔
اس فقرہ کے موجود ہونے کا مصری صاحب کو بھی انکار نہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے مگر کہتے ہیں کہ اس سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے وہ غلط ہے۔ اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ نتیجہ وہ درست ہے جو مصری صاحب نے نکالا ہے یا وہ جو ہم نکالتے ہیں اور اس امر کے سمجھنے کیلئے کہ کونسی بات درست ہے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب ایک شخص کے دو قولوں میں بظاہر اختلاف نظر آئے، یعنی ایک قول سے بظاہر جو نتیجہ نکلتا ہو دوسرے قول سے اس کے مخالف نتیجہ نکلتا ہو تو ایسی صورت میں تین باتوں میں سے ایک ضرور ماننی پڑے گی چوتھی صورت نہیں ہوسکتی۔
(۱) یا کہنا پڑے گا کہ دونوں عبارتیں غلط ہیں۔
(۲) یا دونوں ٹھیک ہیں۔
(۳) یا ایک غلط اور ایک ٹھیک ہے۔
مثلاً ایک شخص پہلے کہتاہے میں لاہور گیا تھا۔ دوسرے موقع پر اسی سفر کے متعلق کہتا ہے میں دہلی گیا تھا۔ ان دو بظاہر مختلف اقوال کی نسبت یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں جھوٹے ہوں۔ نہ وہ لاہور گیا ہو نہ دہلی بلکہ کہیں بھی نہ گیا ہو۔ یا گیا تو ہو وہ مگر کسی او رشہر کی طرف گیا ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ دونوں باتوں میں سے ایک ضرور صحیح ہو۔ دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان میں سے ایک صحیح اور ایک غلط ہو۔ یعنی بالکل ممکن ہے وہ لاہور اور دہلی میں سے ایک جگہ گیا تو ہو اور دوسری جگہ کے متعلق اس نے جھوٹ بولا ہو۔ اسی طرح ایک تیسری صورت بھی ممکن ہے اور وہ یہ کہ اس کے دونوں قول صحیح ہوں چونکہ لاہور سے ہوتے ہوئے بھی دہلی کو راستہ جاتا ہے ممکن ہے وہ لاہور گیا ہو اور وہاں سے دہلی چلا گیا ہو۔ غرض جب کسی شخص کے دو قولوں میں بظاہر اختلاف پایا جاتا ہو تو صداقت تین صورتوں میں سے ایک صورت میں پائی جائے گی۔ کبھی دونوں قول غلط ہوں گے، کبھی ایک غلط ہوگا اور ایک صحیح ہوگا۔ اور کبھی دونوں صحیح ہوں گے۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مصری صاحب کے ان بظاہر مختلف فقروں میں ان تینوں حقیقتوں میں سے کون سی حقیقت پائی جاتی ہے آیا
(۱) دونوں فقرے ہی غلط ہیں۔ وہ نہ منکسر المزاج ہیں اور نہ متکبر ہیں۔
(۲) دونوں فقروں میں سے ایک صحیح ہے اوردوسرا غلط۔
(۳) دونوں فقرے ہی صحیح ہیں۔ او رایک فقرہ تشریح طلب ہے۔ دونوں باتوں میں تضاد نہیں ہے۔
پس یہی تین صورتیں ہیں جن کی روشنی میں مصری صاحب کے ان دو بظاہر مختلف دعووں کی تشریح کی جاسکتی ہے۔ ان میں سے یہ صورت کہ یہ دونوں دعوے غلط ہیں میرے نزدیک بھی اور مصری صاحب کے نزدیک بھی صحیح نہیں۔ نہ وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے دونوں جگہ غلطی کی ہے اور نہ ہم کہتے ہیں کہ انہوں نے دونوں جگہ غلطی کی ہے۔ دونوں فریق اس پر متفق ہیں کہ ان کے دونوں فقرے غلط نہیں ہیں۔ پس قابلِ غور دو ہی صورتیں رہ گئیں۔ ہم کہتے ہیں کہ انکساری کا دعویٰ غلط اور بناوٹی ہے اور تکبر والا ان کا اصل دعویٰ ہے۔ لیکن مصری صاحب کہتے ہیں کہ دونوں فقرے ان کے صحیح ہیں مگر ان سے ہم نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ غلط ہے۔ ان دونوں فقروں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ منکسر المزاج ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں تشریحوں میں سے کون سی صحیح ہے۔
مصری صاحب اپنے دعویٰ کے ثبوت میں دلیل یہ دیتے ہیں کہ چونکہ میرے خطوط کے بعض دوسرے فقروں میں انکسار پایا جاتا ہے اس لئے اس فقرہ کے یہ معنے کہ میںکوئی متکبرانہ دعویٰ کرتا ہوں غلط ہے۔ گویا ان کے دعویٰ کی بناء یہ ہے کہ میرے خطوط میں چونکہ ایسے فقرات موجود ہیں جن میں انکسار پایا جاتا ہے اس لئے جو بھی دوسرا فقرہ ہو اس کے معنے بہرحال انکسار کے ہی لینے پڑیں گے۔ مگر ان کی یہ دلیل قطعاً غلط ہے اس لئے کہ اخلاقیات میں قاعدہ یہی ہے جسے ہر شخص جانتا ہے کہ تکبر انکسار کو باطل کرتاہے انکسار تکبر کو باطل نہیں کرتا۔ ایک شخص دن میں پچاس دفعہ سچ بولے اور ایک دفعہ جھوٹ تو اسے سچا نہیں کہا جائے گا۔ اور یہی کہیں گے کہ پچاس دفعہ سچ بولنے میں اسے جھوٹ کی ضرورت پیش نہیں آئی اور جب اس کی ضرورت پیش آئی اس نے جھٹ جھوٹ بول دیا ۔ یا مثلاً ایک شخص چار نمازیں پڑھتا ہے مگر پانچویں چھوڑ دیتا ہے تو اسے نمازی نہیں کہا جاتا اور نہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نمازی ہوں۔ ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اس نے چار نمازیں پڑھ لی ہیں اس لئے سمجھو ساری پڑھ لیں بلکہ یہ کہیں گے کہ ایک چھوڑ دی تو گویا ساری چھوڑ دیں۔ ایک شخص سارا سال کسی کو نہیں مارتا مگر سال کے آخر پر ماردیتا ہے تو کیا قانون اسے اس وجہ سے کہ اُس نے سارا سال نہیں مارا، بے گناہ قرار دے دے گا اور کیا وہ سال بھر کسی کو نہ مارنا اپنی بے گناہی کے ثبوت میں پیش کرسکتا ہے اور کہہ سکتاہے کہ چونکہ میں نے سارا سال نہیں مارا اس لئے میرے ایک دفعہ مارنے کومارنا نہ کہو۔ کیونکہ اگر اس کا ایک دفعہ مارنا ثابت ہوجائے تو وہ مارکھنڈ ہوگا بشرطیکہ ایسی وجوہ موجود نہ ہوں جو اسے معذور قرار دیتی ہوں ۔ چور روز چوری نہیں کیا کرتے پھر کیا اس وجہ سے ایک چور یہ کہہ سکتا ہے کہ میں پچاس دن سادھ رہتا ہوں مگر مجھے کوئی سادھ نہیں کہتا لیکن ایک دن چوری کرتاہوں تو سب چور کہنے لگ جاتے ہیں۔ چونکہ جُرم انسانی فطرت کے خلاف ہے اس لئے جو شخص خلافِ فطرت فعل کرتا ہے، وہ اسی نام سے پکارا جائے گا اور جو بات اس سے فطرت کے مطابق ظاہر ہوتی ہے وہ عادتاً ہے نیکی نہیں۔ پس یہ کہنا کہ چونکہ مصری صاحب نے انکسار کا دعویٰ کیا ہے اس لئے تکبر کا دعویٰ ان کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا، غلط ہے۔ مذہبی دنیا میں انکسار خوبی ہے اور کبر عیب ۔ اور یہ بات انسانی فطرت میں داخل ہے کہ وہ عیب کو چُھپاتا اور نیکی کو ظاہر کرتا ہے۔ اپنی خوبی کو وہ تکلّف سے ظاہرکرتا اور بدی کو چُھپاتا ہے اور اس کوشش کے باوجود اگر کسی موقع پر وہ اپنی بدی کا اقرار کرتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ اس کی نیکی تکلّف اوربناوٹ سے تھی۔ کیا کوئی مومن کبھی نماز چھوڑ سکتا ہے؟ او رجو شخص ایک دفعہ بھی نماز چھوڑنے کا اقرار کرتا ہے اُس کی نسبت ماننا پڑے گا کہ وہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ نمازی نہیں اس کا نماز پڑھنا خاص اغراض کے ماتحت تھا۔ جو شخص سچا ہے وہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گا اور اگر ایک دفعہ جھوٹ بولنے کا اقرار اُس کے منہ سے نکل جائے تو اس کے سارے سچ پر پانی پھر جائے گا۔ پھر اگر نئے سِرے سے توبہ کرکے سچ بولنا شروع کردے تو ہم اسے سچا کہیں گے ورنہ نہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوگا کہ ہم کہیں اس نے دس سچ بولے تھے اگر ایک جھوٹ بول دیا توکیا ہؤا۔
غرض وہ کام جو دنیا میں نیکی سمجھے جاتے ہیں، انسان ان کو تکلّف سے بھی ظاہر کرتا ہے اوربدی کو چھپاتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ عیسائی تین خدائوں کے قائل ہیں۔ مگر کسی عیسائی سے پوچھو تو وہ یہی کہے گا کہ ہم ایک ہی خدا کو مانتے ہیں۔ توحید چونکہ انسانی فطرت میں داخل ہے اس لئے کسی عیسائی کو یہ جرأت نہیں ہوگی کہ کہے ہم تین خدا مانتے ہیں ۔ میں نے تو آج تک جتنے بڑے بڑے پادریوں سے گفتگو کی ہے ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ اقرار نہیں کیا کہ ہم تین خدائوں کے قائل ہیں۔ جب بھی تثلیث کا مسئلہ چھیڑا جائے وہ یہی کہیں گے کہ ہم مشرک نہیں موحد ہیں۔ تثلیث کا مسئلہ ایک باریک مسئلہ ہے ، آپ اسے آرام سے سُنیں تب آپ کی سمجھ میں آئے گا۔ بلکہ میں نے عیسائیوں کی کئی کتب میں پڑھا ہے کہ مسلمان ہمیں مشرک کہتے ہیں حالانکہ ہم ایک خداکو مانتے ہیں اور جب تین کہتے ہیں تو اس کی کچھ تشریح اور توضیح اور ہوتی ہے اور پھر و ہ اس تثلیثی عقیدہ کو کئی کئی پردوں میں چُھپاتے ہیں مگر منہ سے یہی کہتے ہیںکہ خدا ایک ہے۔ یہی حال اَور دعووں کا ہے۔ جو صداقت کے خلاف لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ یعنی جو بات فطرت کے خلاف ہو اُس کا اظہار پوری طرح نہیں کریں گے، اتفاقاً نکل جائے تو نکل جائے۔ آریہ نیوگ کو مانتے ہیں مگر اس کے متعلق کبھی کسی آریہ سے سوال کرو تو وہ لڑنے لگ جائے گا۔ تو کیا پھر اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ان پر غلط الزام لگایا جاتا ہے؟ ہرگزنہیں۔ کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ انسانی فطرت نیکی کو تکلّف سے ظاہر کرتی اور بدی کو چُھپاتی ہے اس لئے آریہ نیوگ سے انکار کرتا ہے اور اس قدر احتیاط کے باوجود جب کوئی بدی کا اقرار کرے تو اس کے یقینی طور پر یہی معنے ہوتے ہیںکہ وہ اس کے اندر موجود ہے۔
انبیاء کو دعوے کرنے پڑتے ہیں مگر کبھی کوئی شخص یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ کسی نبی نے کہا ہو میں ایساکرسکتا ہوں یا کردوں گا۔ نبی ہمیشہ یہی کہے گا کہ میرا خدا یوں کردے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری عمر میں کوئی ایسا فقرہ نہیں مل سکتاکہ میں ایسا کردوں گا۔ انبیاء کی تو بڑی شان ہوتی ہے۔ میرے متعلق مصری صاحب کہتے ہیں کہ مجھے خلافت پر گھمنڈ ہے۔ لیکن میری کسی تحریر میں سے ہی کوئی ایسا فقرہ دکھادیں کہ میں نے کہاہو میں ایسا کردوں گا۔ ہاں یہ میںنے سینکڑوں مرتبہ کہا ہے کہ خداتعالیٰ میری نصرت کرے گا اور کہ خداتعالیٰ نے مجھے ایسے مقام پر کھڑا کیا ہے کہ جو مجھ پر حملہ کرے گا وہ تباہ ہوجائے گا اور یہ میں اب بھی کہتا ہوں کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پیغام ہے جس کا پہنچانا میرا فرض ہے۔ اس کے سِوا کوئی ثابت کردے کہ کسی چھوٹے سے چھوٹے آدمی نے بھی مجھے دھمکی دی ہو اورمیں نے اسے کہا ہو کہ میں تمہیں سیدھا کردوں گا۔ میرا ہزاروں، لاکھوں انسانوں سے واسطہ ہے کوئی بتا دے اگر میں نے کبھی ایسا کہا ہو۔میں نے کبھی شدید غصہ کی حالت میں بھی ایسی بات نہیں کہی۔ مصری صاحب نے تو چند سطور لکھی ہیں۔ میری تحریرات کا سلسلہ بہت وسیع ہے کسی جگہ کوئی یہ لکھا ہؤا دکھادے کہ میں یوں کردوں گا،میں دنیا کو دکھادوں گا۔
پس انبیائ، خلفاء اور صلحاء کا یہی طریق ہے کہ وہ متکبرانہ الفاظ کبھی منہ سے نہیں نکالتے۔ انہوں نے جب بھی بڑائی کا اظہارکرنا ہو اُسے خداتعالیٰ کی طرف منسوب کریں گے اپنی طرف نہیں۔ اور اگرکبھی اپنی کسی طاقت کا اظہار کریں تو ایسے موقع پر جب یہ کہنا ہو کہ مجھے یہ سامان تو میسر ہے مگر میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے اس کو استعمال نہیں کرسکتا۔ یہ بھی انکسار کا رنگ ہوتا ہے کیونکہ خداتعالیٰ کی حکومت کا جؤا اپنی گردن پر ہونے کا اظہار اس میں کیاجاتاہے۔
غرض مصری صاحب کے خطوں میں منکسرانہ الفاظ کا استعمال کوئی عجیب بات نہیں۔ کوئی شخص خواہ کتنا بڑامتکبر کیوں نہ ہو وہ ایسے الفاظ بھی ضرور استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ اس طرح لوگوں کی ہمدردی حاصل کی جاسکتی ہے اور جذباتِ رحم کو اپیل کرکے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے ۔ کیا تم سمجھتے ہو شداد اور نمرود نے کبھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کئے تھے۔ بڑے سے بڑے جابر بادشاہ بھی منکسرانہ الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ان سے مستغنی نہیں ہوسکتے۔ مگرجب موقع آتا ہے اصل حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے۔ ہندوستان میں ایک مثل مشہور ہے۔ لکھنؤ اور دہلی والوں میں ہمیشہ کسرِ نفسی کا مقابلہ رہتا ہے ۔ دونوں اپنے آپ کو زیادہ مہذب اور صاحبِ اخلاق ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں دہلی کے ایک مرزا صاحب اور لکھنؤ کے میرصاحب ریل گاڑی پر سوار ہونے کیلئے اسٹیشن پر آئے۔ دونوںکو اپنی تہذیب اور اپنے شہر کی عزت کا خیال تھا۔ مرزا صاحب جُھکے اور میر صاحب سے کہا قبلہ! تشریف رکھئے۔ اِدھر میر صاحب ان سے بھی ایک بالشت زیادہ جھکے اور کہنے لگے کہ نہیں مرزا صاحب آپ پہلے تشریف رکھئے۔اس ہیچ میرزا کی کیا طاقت ہے کہ آپ کی موجودگی میں پہلے بیٹھ سکے۔ ادھر مرزا صاحب کچھ اور جُھکے اور کہنے لگے کہ نہیں جناب! اس فقیر حقیر کی کیا مجال ہے کہ اتنی بے ادبی اور گستاخی کرسکے۔ اتنے میں گاڑی نے سیٹی دی اور چلنے لگی اور یہ دونوں بھاگے۔ وہ اسے کہنی مارے کہ خبیث! پیچھے ہٹ میں رہ جائوں گا اور وہ اسے پرے ہٹائے کہ کمبخت! مجھے سوار ہونے دے۔ یہ مثال اسی امر کے اظہار کیلئے ہے کہ انکسار کامظاہرہ تکبر کی اصلیت کو چھپا نہیں سکتا۔ تمام اظہارِ انکسار کے باوجود تکبر باہر پھوٹ آتاہے۔
پس مصری صاحب اپنے منکسرانہ الفاظ سے کس طرح یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ متکبر نہیں ہیں۔ سوا ل تویہ ہے کہ اگر وہ منکسرالمزاج ہیں تو یہ کبر کے الفاظ ان کے منہ سے کس طرح نکل سکتے تھے۔ ان کے منکسرانہ الفاظ کو استعمال کرنے کی وجہ تویہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو نیک ثابت کرنا چاہتے تھے لیکن کبر کے الفاظ کو استعمال کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ کیا وہ اپنے آپ کو بدبھی ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ سچ بولنے کا دعویٰ کرنا تومفید ہوسکتا ہے لیکن جھوٹ بولنے کا دعویٰ کرنا نقصان کا موجب ہے۔ اور نقصان انسان کبھی جان بوجھ کر نہیں کیا کرتا۔ پس اپنے خطوط میں بعض انکسار کے الفاظ بتا کر یہ نتیجہ نکالنا کہ میں نے کبر کے الفاظ نہیں کہے غلط ہے۔ ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ ان کے زیر بحث الفاظ کبر کے الفاظ ہیں یا نہیں۔ اگر ہیں تو وہ انکسار کے الفاظ کی ایک کتاب بھی کیوں نہ پیش کردیں ان کا تکبر ثابت ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو فرعون ہر روز خدائی کا دعویٰ کیا کرتا تھا؟ وہ ہمیشہ بُتوں کے سامنے جُھکتا اورانکسار ظاہر کرتا تھا۔ صرف ایک دفعہ غصہ میں اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے کہہ دیا کہ میں خدا ہوں اور خداتعالیٰ نے اُس کے اِس کبر والے فقرے سے اسے مجرم قرار دیا۔ پس اگر مصری صاحب کے خطوط میں دس ہزار فقرے بھی انکسار کے ہوں اور صرف ایک فقرہ متکبرانہ ہو توہر ایک یہی کہے گا کہ وہ سب بناوٹ تھی۔ اور اس ایک ہی فقرہ نے ان کے اندرونہ کو ظاہر کردیا ہے۔
پس ہمارے لئے صرف ایک ہی سوال ہے کہ وہ زیر بحث فقرہ ان کے خطوط میں موجود ہے یا نہیں۔ میں یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ متکبرانہ فقرہ وہی ہے جو انسان خود اپنی طرف منسوب کرے۔ہاں اگر خداتعالیٰ یا قرآن کریم کی طرف منسوب کرکے کوئی شخص اپنی نسبت کوئی دعویٰ کرے تو ہم اس کے متعلق یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کا دعویٰ غلط ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ کہنے والا متکبر ہے۔ لیکن جب بغیر خدا کا نام لئے بڑائی اپنی طرف منسوب کرے تو وہ کبرکہلائے گا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا مصری صاحب کو الہام سے کھڑا ہونے کا دعویٰ ہے اس وقت تک تومجھے یہ علم نہیں کہ ان کو ایسا دعویٰ ہے کہ ان کو خداتعالیٰ نے کھڑا کیا ہے اور اس نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے مخالف سب شکست کھاجائیں گے اور کامیابی انہی کے لئے ہوگی ۔ اگر ان کا کوئی ایسا دعویٰ اس فقرہ کے ساتھ موجود ہے تو اپنے زیر بحث فقرہ کے متعلق انہیں اس قسم کی توجیہہ کا حق ہے، اس سے قبل ہرگز نہیں۔ اس سے پہلے اگر وہ اپنی بڑئی کا اظہار کریں تو وہ کبر ہوگا اور اس فقرہ میں کوئی ایسا اشارہ نہیں جس سے خیال ہوسکے کہ یہ بات انہوں نے خداتعالیٰ کی طرف منسوب کی ہے چنانچہ اس کے مندرجہ ذیل الفاظ قابلِ غورہیں۔
’’کیونکہ آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس شخص (مصری صاحب) کو جماعت میں عزت حاصل ہے۔ مستریوں کے متعلق تو اس قسم کے عُذر گھڑ لئے گئے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا یا ان کی لڑکی پر سوت لانے کامشورہ دیا تھا۔ مگر یہاں اس قسم کا کوئی عُذر بھی نہیں چل سکتا۔ اس (مصری صاحب) کے اخلاص میں کوئی دھبہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس (مصری صاحب) کی بات کو جماعت مستریوں کی طرح ردّ نہیں کرے گی بلکہ اسے اس پر کان دھرنا پڑے گا اور وہ ضرور دھرے گی‘‘۔
ممکن ہے کوئی شخص خیال کرے کہ وہ تو کہتے ہیں کہ میں نے یہ لکھا ہے کہ ’’آپ جانتے تھے‘‘ اور خود تو یہ دعویٰ نہیں کیا۔ لیکن میں اُردو اور پنجابی کی مثالوں سے ثابت کرتا ہوں کہ اس فقرہ کے کہ ’’آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس شخص کو جماعت میں عزت حاصل ہے‘‘ یہ معنی ہیں کہ کہنے والے کا دعویٰ ہے کہ وہ بڑا اور صاحبِ عزت آدمی ہے۔ پنجابی میں بھی اس محاورہ کے یہی معنی ہیں اور اُردومیں بھی۔ اور چونکہ اُردو دان پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے بآسانی سمجھ سکتے ہیں مَیں پہلے پنجابی کا محاورہ لیتا ہوں۔
کسی گائوں میں کوئی جاٹ کسی بنئے سے لڑے او رکہے کہ ’’تُوں جاننا ایں میں تینوں اِک مُکّا ماراں تے سارے دند کڈ سٹاں۔‘‘ یعنی تم جانتے ہو کہ اگرمیں ایک مُکّا ماروں تو تمہارے سارے دانت نکال دوں۔ تو کیا اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جاٹ بنئے سے یہ کہہ رہا ہے کہ میں تو بالکل کمزور آدمی ہوں مگر تیرا یہ خیال ہے کہ اگرمیں تجھے ایک مُکّا ماروں تو تیرے سارے دانت نکل جائیں یا اس کے یہ معنے ہیں کہ جاٹ خود یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اتنا طاقتور ہے کہ ایک گھونسہ مارے تو بنئے کے سارے دانت توڑ دے۔ اس کے معنی کوئی عقلمند یہ نہیں لے گا کہ جاٹ کا مطلب اس سے یہ ہے کہ یہ فقط بنئے کا خیال ہے بلکہ اس کے معنے یہی لئے جائیں گے کہ جاٹ کے خیال میں جاٹ کا یہ دعویٰ ایسا ظاہر اور ثابت ہے کہ بنیا بھی اس سے ناواقف نہیں۔ وہ اتنی ثابت شُدہ اور واضح حقیقت ہے کہ وہی نہیں بنیا بھی اس سے خوب واقف ہے۔ اس میں نفی نہیں بلکہ اقرار ہے کہ وہ ایسا ہے بلکہ اس کے ایسا طاقتور ہونے کی دوسروں کو بھی خبر ہے اور دشمن بھی اس سے واقف ہیں۔ غرض یہ الفاظ دعویٰ کو زیادہ مضبوط کرتے ہیں اور اس کے زور کو کم نہیں کرتے ۔ پنجابی میں تو ’’جاننا ایں‘‘ کی بجائے ’’تینوں پتہ اے‘‘ بھی کہتے ہیں اور اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تیرا خیال ہے بلکہ یہ کہ یہ امر واقعہ ہے۔
اُردو میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے،یعنی جب کہیں کہ ’’ تُو جانتا ہے‘‘ تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ تیرا وہم ہے بلکہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ میری اس طاقت کا تجھے بھی علم ہے۔اور جب یہ کہنا ہوکہ یہ محض تمہارا خیال ہے،واقعہ میں نہیں تو اردو میں تو کہتے ہیں کہ یہ تمہارا خیال ہے۔اور پنجابی میں کہتے ہیں۔’’تینوں ایویں وہم‘‘ ہے۔اس تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے مصری صاحب کا فقرہ پڑھو جو یہ ہے کہ ’’آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس شخص (مصری صاحب) کو جماعت میں عزت حاصل ہے‘‘۔اس کے صاف معنی یہی ہیںکہ میری عزت کوئی چھپی ہوئی بات نہیں۔یہ اتنی ظاہر بات ہے کہ تمہیں بھی اس کا پتہ ہے۔پنجابی میں اس کا ترجمہ یہ ہو گا ۔’’تہانوں چنگی طرح پتہ سی کہ مصری صاحب دی جماعت وچ بڑی عزت ہے‘‘۔صاف ظاہر ہے کہ اس کے معنی یہی ہیں کہ مجھے جماعت میں اتنی عزت حاصل ہے کہ خلیفہ کو بھی اس کا علم ہے۔’’جانتے تھے‘‘ کے الفاظ سے اگر کچھ نکلتا ہے تو یہ کہ مصری صاحب اپنی عزت کو اتنا بڑا سمجھتے ہیںکہ انہیں یقین ہے کہ خلیفہ بھی اس سے ناواقف نہیں ہو سکتا۔ اور اس نے خوب ٹھوک بجا کر دیکھ لیا ہے کہ مجھے عزت حاصل ہے۔ یہ دعویٰ کوئی معمولی دعویٰ نہیں۔ پس قواعدِ زبان اُردو اور پنجابی کے مطابق ان کے اس فقرہ کا یہی مطلب ہے کہ مصری صاحب کو جماعت میں اپنی عزت کا یقین ہے۔ لفظ ’’جاننے‘‘ کے بعد جو فقرہ ہو وہ دعویٰ ہوتا ہے جس پر کہنے والے کا اعتماد اور یقین ہوتا ہے۔زبان اردو کے قاعدہ کے مطابق بھی اور پنجابی کے محاورہ کے مطابق بھی اس کے یہی معنے ہیں کہ مجھے دعویٰ ہے کہ مجھے جماعت میں عزت حاصل ہے اور یہ کوئی مخفی بات نہیں۔ میرا دشمن بھی یہ جانتا ہے کہ مجھے عزت حاصل ہے اور اس تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے مصری صاحب کے اس فقرہ کا تفسیری ترجمہ یہ بنے گا کہ نہ صرف یہ کہ مجھے ہی اس بات کا پتہ ہے بلکہ آپ کوبھی معلوم ہے کہ مجھے جماعت میں عزت حاصل ہے۔ مستریوں کے متعلق تو یہ عُذر گھڑ لیاگیا تھا کہ ان کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا یا ان کی لڑکی پرسوت لانے کا مشورہ دیا تھا مگر میرے (مصری صاحب کے) کے متعلق کوئی ایسا عذر نہ چل سکتا۔ میری (مصری صاحب کی) بات پر اسے کان دھرنا پڑے گا اور وہ ضرور دھرے گی۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ فقرہ تکبر کا ہے یا انکسار کا۔
پھر وہ کہتے ہیں کہ میں نے جو یہ لکھا تھا کہ میری بات پر جماعت ضرور کان دھرے گی۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے جماعت میں عزت حاصل ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ پر کوئی الزام نہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اب احباب خود ہی غور فرمائیں کہ میری عبارت میں کیا کان دھرنے کی وجہ اثر و رسوخ بتائی گئی ہے یا اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ میری طرف نہ تو کوئی دُنیوی غرض منسوب کی جاسکتی ہے جیسی مستریوں کی طرف کی گئی اورنہ کوئی ایسی بات پیش کی جاسکتی ہے جیسی مستریوں کی طرف کی گئی تھی‘‘۔ گویا یہ عزت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہا تھا کہ مجھ پر کوئی الزام نہیں۔ اب میں پھر ان کا وہ فقرہ پڑھ دیتا ہوں تا احباب غور کرسکیں کہ کیا اردو کے قاعدہ کے لحاظ سے اس کے یہ معنے بن سکتے ہیں جو مصری صاحب ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا فقرہ یہ ہے ’’کیونکہ آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس شخص کو جماعت میں عزت حاصل ہے مستریوں کے متعلق تو اس قسم کے عُذر گھڑ لئے گئے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا۔ یا ان کی لڑکی پر سوت لانے کا مشورہ دیا تھا مگر یہاں اس قسم کا کوئی عذر نہیں چل سکتا۔ اس کے اخلاص میں کوئی دھبہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس کی بات کو جماعت مستریوں کی طرح ردّ نہیں کرے گی بلکہ اسے اس پر کان دھرنا پڑے گا‘‘۔
اس عبارت میں ’’کان دھرنے‘‘ کے دعویٰ سے پہلے دو باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ مصری صاحب کو جماعت میں عزت حاصل ہے دوسری یہ کہ ان پر مستریوں کی طرح کوئی اعتراض نہیں کیاجاسکتا۔ پھر عجیب بات ہے کہ مصری صاحب کہتے ہیں کہ ان میں سے دوسری تو کان دھرنے کا سبب ہے پہلی نہیں۔ جب دو باتیں جو دونوں سبب کان دھرنے کا ہوسکتی ہیں اکٹھی مذکور ہیں تو ایک کو وجہ قرار دینا اور دوسری کو مستثنیٰ قرار دینا کس طرح جائز ہے۔ اگر کوئی دلیل ہے تو مصری صاحب پیش کریں۔ ورنہ زبان کے قاعدہ کے مطابق یہ دونوں باتیں لازماً کان دھرنے کا سبب قرار پائیں گی اور کان دھرنا دونوں ہی کا نتیجہ سمجھا جائے گا۔ میں اس مضمون کو ایک اور مثال سے واضح کرتاہوں۔ اگر کوئی شخص کہے میں لمبے قد کا ہوں اور گھوڑے پر سوار ہوں، اس لئے میرا ہاتھ چھت تک جاسکتا ہے تو اس کے معنے یہی ہوں گے کہ اپناہاتھ چھت پر پہنچنے کی وجہ وہ شخص اپنے لمبے ہونے کونہیں بیان کرتا نہ گھوڑے پر سوار ہونے کو بلکہ لمبا ہونے اور گھوڑے پر سوار ہونے کے مجموعہ کو ہاتھ پہنچنے کا سبب قرار دیتا ہے۔ پس مصری صاحب کے زیر بحث فقرہ کے معنے اُردو زبان کے عام قاعدہ کے رُو سے یہی ہیں کہ وہ جماعت کے کان دھرنے کے دو سبب بیان کرتے ہیں۔ ایک عزت حاصل ہونا اور دوسرے کسی الزام کا نہ ہونا اور یہی ہم کہتے ہیں۔
ایک دلیل مصری صاحب یہ دیتے ہیں کہ عزت کا حاصل ہونا اور بات ہے اور خلیفہ کے مقابل پر عزت حاصل ہونا اور بات ہے۔ وہ کہتے ہیں میں نے یہ تو کہا ہے کہ عزت حاصل ہے مگر یہ تو نہیں کہا کہ خلیفہ کے مقابل پر مجھے عزت حاصل ہے او ر اس میں شبہ نہیں کہ ان کی یہ بات صحیح ہے کہ ان دونوں باتوں میں فرق ہے اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ انہوں نے صرف عزت کا حاصل ہونا کہا ہے، خلیفہ کے مقابلہ پر عزت کا دعویٰ نہیں کیا تو ہم مان لیں گے کہ ان کی اتنی بات صحیح ہے۔ مثلاً کسی گائوں کا کوئی نمبردار ہے، اس گائوں کے دس بارہ گھر ہیں اور وہ کہتا ہے کہ میں ایک معزز آدمی ہوں تو کسی کا اسے یہ کہنا کہ اگر تُو معزز ہے تو چل بادشاہ کامقابلہ کر، بالکل غلط مطالبہ ہوگا۔ کیونکہ اُس نے تو اپنے گائوں میں عزت کا دعویٰ کیا ہے نہ کہ بادشاہ کے مقابل پر۔ پس اگر یہ ثابت ہوجائے کہ مصری صاحب نے صرف عزت کا دعویٰ کیا ہے خلیفہ کے مقابلہ پر عزت کا دعویٰ نہیں کیا، تو ان کی یہ بات صحیح ماننی پڑے گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ فقرہ انہوں نے خلیفہ کے متعلق لکھا ہے یا کسی اور کے متعلق ۔جب انہوں نے یہ کہا تھا کہ ’’آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس شخص کو جماعت میں عزت حاصل ہے‘‘۔ تو اس ’’آپ‘‘ سے ان کی مراد خلیفہ تھی یا محلہ دارالرحمت کا پریذیڈنٹ ؟بالفاظ دیگر مصری صاحب کا یہ فقرہ یوں ہے۔
’’کیونکہ خلیفہ صاحب اچھی طرح جانتے تھے کہ مصری صاحب کو جماعت میں عزت حاصل ہے۔ مستریوں کے متعلق تو اس قسم کے عُذر گھڑ لئے گئے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا یا ان کی لڑکی پر سوت لانے کا مشورہ دیا تھا۔ مگر مصری صاحب کے متعلق اس قسم کا کوئی عُذر بھی نہیں چل سکتا۔ مصری صاحب کے اخلاص میںکوئی دھبہ نہیں لگایا جاسکتا۔ مصری صاحب کی بات کو جو وہ خلیفہ کی مخالفت میں کہیں گے جماعت مستریوں کی طرح ردّ نہیں کرے گی بلکہ مصری صاحب کی بات پر جو وہ خلیفہ کی مخالفت میں کہیں گے جماعت کو کان دھرنا پڑے گا اوروہ ضرور دھرے گی‘‘۔
اب مصری صاحب بتائیں کہ کیا ان کے فقرہ کی یہ تشریح ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو پھر اس فقرہ میں خلیفہ کے بِالمقابل عزت کا سوال ہے یا کسی اَور کے مقابل پر ۔ یہ اعتراض جو انہوں نے کرنے تھے ،مجھ پر کرنے تھے یا مولوی اللہ دتا صاحب پر؟ اور جماعت نے کان ان اعتراضوں پر دھرنا تھا جو مولوی اللہ دتا صاحب پر کئے جانے والے تھے یا ان پر جو خلیفۂ وقت پر کئے جانے تھے؟ اگر آخری بات درست ہے تو ان کی یہ تشریح کہ عزت سے مراد عام عزت تھی نہ کہ خلیفۂ وقت کے مقابل پر عزت ،کس قدر غلط ہے۔ بات بالکل واضح ہے کہ ان کا دعویٰ خلیفہ کے مقابل پر ہے۔ وہ بی اے مولوی فاضل اور ایک علمی مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر تھے کیا وہ اردو زبان کے ابتدائی قواعد سے بھی واقف نہیں ہیں کہ ایسی باتیں کرتے ہیں یا یہ کہ وہ واقف توہیں مگر لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ پس گو اس میں شبہ نہیں کہ خالی عزت کا دعویٰ اور خلیفہ کے مقابل پر عزت کا دعویٰ دو الگ الگ باتیں ہیں مگر ان کا دعویٰ جیسا کہ میں نے ثابت کیا ہے خلیفہ کے مقابل پر ہے وہ اس امر میں توازن کرتے ہیں کہ جماعت میں میری بات مانے گی یا خلیفہ کی۔ اور فیصلہ کرتے ہیں کہ میری مانے گی۔
ایک اور طرح بھی اس فقرہ کو حل کیا جاسکتا ہے یعنی ان کے بتائے ہوئے مطلب کو فقرہ میں شامل کرکے دیکھا جائے کہ کیا اس کے کوئی معقول معنے بھی بن سکتے ہیں۔ سو ان کے بیان کردہ مطلب کو اگر فقرہ میں داخل کیا جائے تو فقرہ یوں بنتا ہے مجھے آپ کے مقابلہ پرکوئی دعویٰ عزت کانہیں مجھے تو صرف مدرسہ احمدیہ میں عزت حاصل ہے اس لئے جب میں آپ کے بِالمقابل کھڑا ہو کر آپ پر اعتراض کروں گا جماعت میری بات ضرور سُنے گی اوراسے میری بات سننی پڑے گی۔ کیا اس قسم کافقرہ احمقانہ فقرہ کہلائے گایا نہیں؟کیونکہ سبب مسبب کا موجب نہیں ہے بلکہ اس کے مخالف ہے۔ اگر ایسا فقرہ کہنا جائز ہو تو پھر یہ کہنا بھی جائز ہوگا کہ دیکھو فلاں شخص کا سانس نہیںچلتا اس لئے وہ زندہ ہے اور فلاں شخص چونکہ دوڑ رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرچکا ہے۔ اگر مصری صاحب کا پہلا فقرہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مجھے آپ کے مقابلہ میں عزت حاصل نہیں تو اس کانتیجہ کیونکر نکلا کہ جماعت ان کی بات سُنے گی۔ اگر اس فقرہ کا وہ مطلب تھا تو نتیجہ یہ نکلنا چاہئے تھا کہ جماعت ان کی بات نہیں سُنے گی۔
پھر مصری صاحب کہتے ہیں کہ میں نے تو لکھا تھا کہ آپ جانتے تھے اس لئے میرا دعویٰ ماضی کے متعلق تھا موجودہ زمانہ کے متعلق تو نہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کاتکبر تکبر نہیںہوتا؟ اگر کوئی شخص کہے میں نے تو کل کہا تھا کہ میں خدا ہوں آج تو نہیںکہا ، آج لوگ مجھ پر کیوں اعتراض کرتے ہیں۔ تو کیااس کایہ کہنا درست ہو گا ؟ ہم اس شخص سے کہیں گے کہ تم نے توبہ کب کی کہ اعتراض سے بچ جائو۔ یہی ہم مصری صاحب سے کہتے ہیں کہ اگر یہ فقرہ ماضی کا تھا تو کیا آپ نے اپنے اس خیال سے توبہ کر لی ہے؟ اگر سوال یہ ہوتا کہ اب آپ کو عزت حاصل ہے یا نہیں تو آپ کا جواب کافی تھا۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ آپ نے ایک متکبرانہ دعویٰ کیا ہے ایسے دعویٰ کا اظہار جو ماضی میں کیا گیا ہو یا حال میں ایک ہی حیثیت رکھتا ہے ۔
غرض مصری صاحب کی اس دلیل کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ماضی کا تکبر بھی تکبر ہی ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس تکبر سے توبہ انہوں نے کبھی نہیںکی اور تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ غلط ہے کہ یہ دعویٰ ماضی کے زمانہ کے متعلق ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ چونکہ آپ کو پتہ تھا کہ میں جو اعتراض آپ پر کروں گا جماعت اس کو ضرور سُنے گی، اس لئے میرے خلاف اندر ہی اندر پروپیگنڈا شروع کردیا گیا۔ اور یہ بات معلوم کرنی بالکل آسان ہے کہ میں نے مصری صاحب کے خلاف کب پروپیگنڈا کیا۔ آیا اس خطبہ کے بعد یا پہلے؟ مصری صاحب کہتے ہیں کہ یہ بات کسی گزشتہ زمانہ سے تعلق رکھتی ہے یعنی دو سال قبل۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس خط سے قبل جو ۱۰ ؍جون کاہے میں نے ان کے خلاف کون سا پراپیگنڈا کیا تھا۔ آپ لوگ اپنے دلوں میں سوچ لیں کہ کبھی میں نے کسی سے کہا کہ شیخ صاحب کی عزت نہ کی جائے یا وہ بُرے آدمی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا یہ دعویٰ خط لکھنے کے وقت تھا کہ جماعت میں ان کو عزت حاصل ہے۔ پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس خط سے قبل جماعت کی کثرت شیخ صاحب سے متنفر ہو چکی تھی تو ان کی بات سچ ثابت ہو جائے گی۔ لیکن اگر اتنی بڑی جماعت میں سے کوئی آدمی بھی ایسا نہیں مل سکتا جو یہ کہے کہ میں نے اس سے شیخ صاحب کے خلاف باتیں کیں اور اُس نے اس کے اثر کے ماتحت شیخ صاحب سے نفرت کرنی شروع کر دی تو پھر ان کا یہ دعویٰ خود بخود غلط ثابت ہو جائے گا۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میاں فخرالدین صاحب کے اخراج سے چار پانچ ماہ قبل مجھے محکمہ خاص کی طرف سے تین چار رپورٹیں آئیں کہ فخرالدین صاحب ، مصری صاحب اور مصباح الدین صاحب اکٹھے مل مل کرباتیں کرتے ہیں اور اکثر دفعہ مغرب کی نماز بھی باتوں میں ضائع کردیتے ہیں۔ تو میں نے ایک رپورٹ پر لکھا کہ میں نے تم لوگوں کو منافقوں اور مخالفوں کی جانچ کیلئے مقرر کیاہؤا ہے، مصری صاحب کی جانچ کیلئے نہیں اور انہیں زجر کی کہ آئندہ ایسی رپورٹ نہ آئے۔ اسی طرح گزشتہ سال ایک دوست نے سندھ سے ان تینوں اور چند اور آدمیوں کے متعلق لکھا کہ یہ ایک ٹریکٹ آپ کے خلاف مخفی طور پر جلسہ کے موقع پر شائع کرنا چاہتے ہیں۔ تو میں نے انہیں لکھا کہ میں یہ بات بغیر ثبوت کے نہیں مانتا، آپ گواہ پیش کریں۔ گویا فخرالدین صاحب کے اخراج سے چار پانچ ماہ قبل تک اس بات کا تحریری ثبوت موجود ہے کہ میں مصری صاحب کو منافق نہیں سمجھتا تھا اور میں نے تحریری طور پر ان لوگوں کو ڈانٹا جو ان کے متعلق رپورٹیں دیتے تھے اور لکھا کہ وہ مخلص آدمی ہیں ان کے متعلق کیوں رپورٹیں کرتے ہو۔ میرا سب سے زیادہ رازدان محکمہ تحقیقات ہی ہوسکتا ہے۔ وہ اُس وقت کئی حرکات کرچکے تھے جن کو وہ محکمہ جانتا تھا مگر میں ان حرکات کو بالکل وقتی غلطیاں سمجھتا تھا ۔ پس جبکہ ان کے دعویٰ کی بنیاد یہ ہے کہ انہیں میرے پروپیگنڈا سے پہلے عزت حاصل تھی اور میرا پروپیگنڈا اگر کوئی ہے تو اس خط کے بعد ہے ۔ اس سے ثابت ہؤا کہ عزت کا مقام انہیں خط لکھنے تک حاصل تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے خطوط میں انکسار والے فقرات بناوٹی اور اپنے لئے جذباتِ رحم پیدا کرنے اور لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے ہیں ان کی اصل حالت کبر والی ہی ہے۔
ایک شکوہ مصری صاحب کو یہ ہے کہ مجھے گالیاں دی گئیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ خط و کتابت کی ابتداء میں نے کی یا شیخ صاحب نے؟ اگر تو میں نے کی تو مجھ پر اعتراض ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصری صاحب نے مجھے جو پہلا خط لکھا اُس کا پہلا ہی فقرہ یہ ہے کہ اَلْفِتْنَۃُ نَائِمَۃٌ لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ اَیقَظَھَا یعنی فتنہ سورہا ہے خداکی *** ہو اُس پر جو اِسے جگاتا ہے اور جیسا کہ خط کے مضمون سے ظاہر ہے وہ مجھے فتنہ کو جگانے والا قرار دیتے ہیں۔ پس جو شخص خط کو شروع ہی *** سے کرتاہے اس کا یہ شکوہ کہ مجھے گالیاں دی جاتی ہیں کس طرح درست ہوسکتا ہے۔
پھر اسی اشتہار میں جس میں انہوں نے یہ شکوہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ اے جماعت ’’اللہ تعالیٰ کے ارشاد فَتَبَیَّنُوْا کو جو آپ نے توڑا ہے اس لئے مجھ کو ڈر ہے کہ اس کی وجہ سے آپ کہیں گرفت کے نیچے نہ آجائیں‘‘۔ قرآن کریم میں فَتَبَیَّنُوْا کا لفظ تین بار آیا ہے۔ دو بار تو سورئہ نساء میں ایک ہی جگہ آیا ہے اور وہاں یہ حکم ہے کہ اگر کوئی نَومسلم کافروں میں سے آکر کہے کہ میں مسلمان ہوں تو بوجہ اس کے کہ وہ کافروں سے نکل کر آیا ہے، تمہیں چاہئے کہ اس کے متعلق تحقیقات کرلیا کرو۔۱؎ اور ظاہر ہے کہ یہاں یہ تو سوال ہی نہ تھا۔ دوسرا موقع اس کا سورئہ حجرات میں ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوْآ اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَافَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ ۲؎ یعنی اے مسلمانو! اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کو نہ مانو جب تک کہ تحقیقات نہ کرلو۔ تا ایسا نہ ہو کہ اس کی بات کو مان کر تم کسی غیر مجرم کو تکلیف پہنچا بیٹھو جس پر تمہیں بعد میں نادم ہوناپڑے۔ اس اشتہار کے مضمون کے مطابق اسی آیت کی طرف مصری صاحب کا اشارہ ہوسکتا ہے۔ گویا مصری صاحب اپنے اس اشتہار میں جماعت کو یہ کہہ رہے ہیں کہ اے احمدیو! خلیفہ نے لکھا ہے کہ میں نے عزت کا دعویٰ کیا ہے اس کی اس بات کو سُن کر تمہیں چاہئے تھا کہ خلیفہ سے کہہ دیتے کہ اے فاسق! ہم تیری بات کو نہیں مانتے۔ ہم پہلے تحقیق کریں گے اور پھر دیکھیں گے کہ تم سچ کہتے ہو یا جھوٹ ۔ مصری صاحب اس طرح نہ یہ کہ مجھے فاسق قرار دیتے ہیں بلکہ ساری جماعت کو تلقین کرتے ہیں کہ اسے بھی میری نسبت یہی عقیدہ رکھنا چاہئے لیکن ابھی ان کے نزدیک وہ گالی نہیں دیتے۔
پھر اسی اشتہار میں انہوں نے میرے متعلق لکھا ہے کہ ’’غلط بات منسوب کرنے والا‘‘ ، ’’جماعت کی عقل او ر اخلاص سے کھیلنے والا‘‘، ’’تقویٰ سے کوسوں دور‘‘، ’’صریح غلط بیانی کرنے والا‘‘، ’’پُرفریب رستہ اختیار کرنے والا‘‘۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود مصری صاحب نے کوئی گالی نہیں دی اور جماعت احمدیہ بِلاوجہ انہیں گالیاں دے رہی ہے۔
ان کے اس عجیب رویہ پر مجھے حضرت خلیفہ اوّل کا ایک لطیفہ یاد آگیا۔ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ فلاں شخص جو آپ کی مجلس میں بیٹھتا ہے وہ گالیاں بہت دیتا ہے اس کو سمجھائیں۔ جب وہ شخص آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا کہ آپ نیک آدمی ہیں، ہمارے ملنے والے ہیں مگر کسی نے شکایت کی ہے کہ آپ گالیاں بہت دیتے ہیںیہ ٹھیک نہیں۔ تو وہ ماں کی گالی دے کر کہنے لگا کون ایسا ویسا کہتا ہے کہ میں گالیاں دیتا ہوں۔ حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ میں اس کا اِس زور سے انکار سن کر حیران ہی ہوگیا اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ بیچارہ معذور ہے۔ اسے معلوم ہی نہیں کہ گالی کسے کہتے ہیں اور میں نے اسے کہا کہ میری غلطی تھی آپ کو ہرگز گالیاں دینے کی عادت نہیں ہے۔
اسی طرح حضرت خلیفہ اوّل کے ایک معالج تھے اُن کو بہن کی گالی دینے کی بہت عادت تھی۔ ایک دفعہ جب وہ حضرت خلیفہ اوّل کے زخم کی مرہم پٹی کرہی رہے تھے کہ میں وہاں پہنچا ۔ میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب! زخم کا کیا حال ہے؟ تو وہ زخم کو بہن کی گالی دے کر کہنے لگے کہ یہ اچھا ہی ہونے میں نہیں آتا۔ اس مجلس میں تو ہم نے ان سے کچھ نہ کہا مگر بعد میں سمجھایا کہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح کی مجلس میں یہ کہہ دیا تھا، ایسا تو نہیں چاہئے تھا۔ تو وہ اس گالی کو وہی گالی دے کر کہنے لگے کہ یہ منہ سے نکل ہی جاتی ہے یہی حال مصری صاحب کا ہے۔ چھ گالیاں ایک اشتہار میں دی ہیں اور پہلا خط ہی اس طرح شروع کیا ہے کہ فتنہ خوابیدہ تھا تم نے اسے بیدار کیا اور بیدار کرنے والے پر خدا کی *** ہو اور ابھی کہتے ہیں کہ میں گالیاں نہیں دیتا۔ اس کے جواب میں ہم بھی حضرت خلیفہ اوّل کی طرح یہی کہتے ہیں کہ ہاں آپ نے گالی نہیں دی ہماری ہی غلطی ہے۔
ان لوگوں کی طرف سے ایک دستی اشتہار آج ہی مجھے دفتر نے بھیجا ہے جس میں مصری صاحب کی امارت کا اعلان کردیا گیا ہے۔ ہمیں اس سے خوشی ہے کیونکہ جو شخص جماعت میں تفرقہ پیدا کرے اسے خداتعالیٰ خود سزا دیتا ہے۔ اور یہ اعلان کرکے انہوں نے اپنے آپ کو اس مقام پر کھڑا کردیا ہے کہ الٰہی سزا کے مستحق ہوگئے ہیں۔ اس اعلانِ امارت کے ساتھ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی سزا کو کھینچا ہے دورنہیں کیا۔
اسی اشتہار میں ان کی پارٹی کی طرف سے اعلان ہؤا ہے کہ دیکھو! ہمیں مرتد ، منافق، فاسق وغیرہ الفاظ سے پکارا جاتا ہے، ایسا نہ کیا جائے۔ سو اِس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے تو انہیں ان ناموں سے نہیں پکارا بلکہ ہمارے آدمیوں نے تو صرف اُن کی اپنی باتیں دُہرائی ہیں۔ پکارنے والا تو ابتدا کرنے والا ہوتا ہے۔ انہوں نے مجھے مرتد قرار دیا، معزول کرنے کے لائق کہا حالانکہ میں تو خلیفہ ہوں۔ رسول کریم ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جب تک تم اپنے دُنیوی بادشاہ میں کفر بواح نہ دیکھو اُس کی اطاعت کرو۔۳؎ اللہ تعالیٰ خود اسے سزا دے گا اور اس لحاظ سے مصری صاحب نے گویا یہ کہا ہے کہ مجھ میں کُفربواح یعنی کُھلا کُھلاپایا جاتا ہے۔ باقی رہا فتنہ پرداز کہنا، سو جیسا کہ میں نے بتایا ہے اپنے پہلے خط میں ہی انہوں نے مجھے فتنہ پرداز کہا ہے اور پھر فَتَبَیَّنُوْاوالی آیت مجھ پر چسپاں کرکے مجھے فاسق قرار دیا ہے۔ پھر مجھے منافق بھی کہا ہے یہ کہہ کر کہ میں جماعت کو دہریت کی طرف لے جارہا ہوں حالانکہ بظاہر اسلام سے تعلق ظاہر کرتاہوں۔ پس یہ ثابت ہے کہ پہل انہوں نے کی اور انہوں نے جو کچھ ہمارے متعلق کہا جماعت نے اُسے دُہرادیا ہے۔ وہ اپنے الفاظ واپس لے لیں تومیں جماعت کو بھی آئندہ ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دوں گا مگر پہلے وہ توبہ کریں پھر ان کا حق ہوگا کہ ہم سے ایسا مطالبہ کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے بیعت توڑی ہے اور ہر جماعت کی اصطلاح میں ایسے شخص کو مرتد کہتے ہیں۔ بیعت میں یہ اقرار ہوتا ہے کہ مبائع کامل فرمانبرداری اور کُلّی طور پر تعاون کرے گا اور جو شخص اس اقرار کو توڑ دے اُسے اگر مرتد نہیں تو اَور کیا کہا جائے گا۔ مرتد کے معنی ہیں واپس جانے والا۔ پس جو بیعت کو توڑ دے اُسے مرتد ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے غیراحمدی کہتے ہیں کہ ہمیں کافر کیوں کہا جاتا ہے۔ حالانکہ کافر کے معنی ہیں نہ ماننے والا۔ اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں مانتا اسے ہم مومن کس طرح کہہ دیں۔ اگر ہم ان سے پوچھیں کہ کیا آپ لوگ مرزا صاحب کے دعویٰ مأموریت کو مانتے ہیں؟ تو وہ یہی کہیں گے کہ نہیں۔ پس چونکہ نہ ماننے والے کو عربی میں کافر کہتے ہیں کسی مدعی ماموریت کو جب کوئی نہ مانے تو اُسے کافر کے سِوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اگر بیعت کرنے کے بعد کوئی واپس لُوٹے تو اُسے مرتد کے سِوا اور کیا کہا جائے گا۔
رسول کریم ﷺ کے بعد عرب میں اکثر لوگ نمازیں بھی پڑھتے تھے، روزے بھی رکھتے تھے صرف زکوٰۃ کے متعلق انہیں شبہ تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ صرف رسول کریم ﷺ کے زمانہ تک ہی کیلئے حکم تھا مگر پھر بھی ان کو مرتد ہی کہاجاتاتھا۔ پھر یہ لوگ اندر ہی اندر سازش کررہے تھے ۔ میاں عبدالعزیز کا فوراً الگ ہوجانا بتاتا ہے کہ وہ پہلے ہی ان کے ہم خیال ہوچکے تھے۔ اور فخرالدین صاحب کے اخراج پر مصری صاحب کا نوٹس دینا بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ پہلے ہی جتھے بنارہے تھے اور اندر ہی اندر فتنہ پیدا کررہے تھے۔ پھر ایسے لوگوں کو اگر فتنہ پرداز نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ پھر آیت استخلاف میں خلافت کی بیعت کے بعد انکار کرنے والوں کو فاسق کہا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر لطیفہ یہ ہے کہ کہتے ہیں ہمیں منافق نہ کہا جائے۔ لیکن اسی اشتہار میں جس میں امارت کا اعلان بھی کیا گیا ہے یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص خلیفہ کی بیعت میں رہتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ ملنا چاہے، اُس کا نام پوشیدہ رکھا جائے گا۔ گویا وہ صرف منافق ہی نہیں بلکہ منافق گر ہیں۔ وہ لوگوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ تم بظاہر خلیفہ کی بیعت میں رہو اور خداتعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر عہد کرلو کہ ہم ہر ایک نیک بات میں آپ کی فرمانبرداری کریں گے۔ سَمْعًا وَّ طَاعَۃً کے نعرے بھی لگائو، مگر درپردہ ہم سے ملے رہو اور پھر ساتھ ہی کہتے ہیں کہ ہمیں منافق نہ کہو۔ یہ تو صحیح ہے کہ جس جماعت کا کوئی نظام نہ ہو اُس کے افراد خُفیہ بیعت کرسکتے ہیں جیسے کہ سید محمد علی شاہ صاحب مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خفیہ بیعت کی اجازت دی تھی۔ مگر شاہ صاحب کسی اور پیر کے مرید تو نہ تھے وہ ایک آزاد آدمی تھے ان کی خفیہ بیعت کسی عہد کو باطل نہ کرتی تھی۔ ایسے شخص کو اگر کوئی مجبوری ہو تو اختیار ہے کہ چاہے اپنے عقیدہ کو ظاہر کرے اور چاہے چُھپائے۔ مگر ظاہر میں کسی اور کے ساتھ بیعت کا رشتہ قائم کرکے درپردہ کسی اور سے تعلق رکھنا ہرگز ہرگز جائز نہیں۔ اگر ایک شخص کا مکان کسی کے پاس رہن نہیں تو اسے اختیار ہے کہ چاہے اپنا مکان خفیہ طور پر اسے رہن کردے اور چاہے ظاہراً کردے لیکن جس کا مکان پہلے سے رہن ہے وہ اگر خفیہ طور پر کسی دوسرے کے پاس رہن کردیتا ہے تو ہر شخص کہے گا کہ یہ پکا بدمعاش ہے۔ پس ایک طرف بیعت کرنے والا دوسری طرف ملے تو یقیناوہ منافق ہے۔ ہاں جو کسی سلسلہ میں شامل نہیں وہ اگر خفیہ طور پر کسی سے ملتا ہے تو یہ اور بات ہے۔ صحابہ اس امر کا اس قدر لحاظ رکھتے تھے کہ ایک دفعہ قیصرروم کا ایلچی حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور چاہا کہ اسلام قبول کرے۔ انہوں نے اس سے صاف انکار کیا اور فرمایا اِس وقت تم قیصر کے ایلچی ہو ۔ اِس وقت تمہارا اسلام میں داخل ہونا بددیانتی ہوگا۔ واپس جاکر استعفیٰ دے کر آئو تو پھر تم کو اسلام میں داخل کروں گا۔
پھر مصری صاحب کہتے ہیں کہ جماعت ایک آزاد کمیشن مقرر کرے مگر یہ معلوم نہیں اس سے ان کا مطلب کیاہے۔ میں اِس وقت تک ان کے اس مطالبہ کو لغو سمجھتا ہوں مگر ممکن ہے ان کے ذہن میں کوئی ایسی صورت ہو جو ہمارے ذہن میں نہ ہو او روہ ہمارے نزدیک بھی معقول ہو اس لئے میں ان سے ان کے ان الفاظ کے معنے پوچھنا چاہتا ہوں اور اس ضمن میں پہلی بات میں ان سے یہ پوچھتا ہوں کہ:۔
پہلے خلفاء کے خلاف بھی بعض لوگوں نے شکایات کی ہیں اور بعض دفعہ ایسے مقدمات عدالتوں میں بھی سُنے گئے ہیں،مصری صاحب بتائیں کہ ان کے فیصلوں کے لئے کس قسم کے کمیشن مقرر ہوئے تھے؟ یا ان خلفاء کے اپنے مقرر کردہ قاضی ہی ان مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ آزاد کمیشن مانگنا مصری صاحب کا ہی حق ہے یا اور کسی کا بھی؟ کیا جب کوئی آکر کہے کہ خلیفہ کے متعلق آزاد کمیشن بٹھایا جائے یہ مطالبہ منظورہوجانا چاہئے یا صرف اُس وقت جب مصری صاحب اِس کامطالبہ کریں؟ جس طرح پنجابی میں مثل مشہور ہے کہ ’’جتھے میاں نور جمال اوتھے مُردہ کھوتا وی حلال‘‘۔ غرض وہ بتائیں کہ ہر معترض آزاد کمشن طلب کرسکتا ہے یا صرف وہی ایسا کرسکتے ہیں۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ وہ بتائیں کہ آزاد کمیشن سے ان کی مراد کیا ہے؟ کیا مادر پدرآزاد یعنی دہریوں کا کمیشن وہ مانگتے ہیں یا ان کے نزدیک آزاد کمیشن وہ ہے جسے وہ مقرر کریں خلیفہ نہ مقرر کرے۔ اگر یہ دونوں مراد نہیں تو وہ بتائیں کہ ان کا مطلب کیا ہے۔ آیا وہ چاہتے ہیں کہ ساری جماعت کو دعوت دی جائے اور پھر ووٹ لئے جائیں کہ کون کون جج مقرر ہو۔ اور ہمیشہ کیلئے یہی طریق ہو کہ جب کوئی الزام لگائے جماعت کو یہاں بُلالیاجائے اور ضمناً اس بات کا بھی وہ جواب دیں کہ ایسا کرنے پر پچاس ساٹھ ہزار بلکہ لاکھ روپیہ کا خرچ ہوگا وہ مصری صاحب دیں گے یا کون دے گا۔ پھر یہ ممکن ہے کہ کل کوئی اور اُٹھے اور کہے کہ مصری صاحب نے جو الزام لگائے تھے وہ غلط تھے اب میں یہ الزام لگاتا ہوں ان کی تحقیقات کی جائے اور اِدھر لوگ مصری صاحب کے کمیشن سے فارغ ہوکر گھر پہنچیں اور اُدھر پھر تاریں چلی جائیں کہ خلیفہ پر ایک اور مقدمہ ہوگیا ہے فوراً چلے آئو۔ اور پھر اس سے فارغ ہوکر جائیں تو کوئی اور کہہ دے کہ میں خلیفہ پر یہ الزام لگا تا ہوں اور لوگ ابھی بعض رستوں میں ہی ہوں اور بعض ابھی پہنچے ہی ہوں کہ پھر تاریں چلی جائیںکہ فوراً آجائو پھر آزاد کمیشن بیٹھنے لگا ہے۔ پھر یہ بھی سوال ہے کہ آیا ہر الزام پر آزاد کمیشن چاہئے۔ یا آزاد کمیشن والے الزامات کی کوئی خاص نوعیت والے الزام ہی آزاد کمیشن کے حقدار ہوں گے تو اس نوعیت کا فیصلہ قرآن و حدیث کی کس سند کے ذریعہ کیاجائے گا۔ وہ یہ بھی بتائیں کہ آزاد کمیشن کا مطالبہ کرنے کا حق ان کو اگر حاصل ہے تو صرف اس دفعہ ہی یا جب وہ چاہیں جماعت سے اس کا مطالبہ کرلیں۔ اوراگر دوسروں کو بھی اس کا حق حاصل ہے تو انہیں بھی ایک ایک دفعہ عمر بھر میں یا جب اورجس وقت کوئی شخص آزاد کمیشن کا مطالبہ کرے فوراً آزاد کمیشن بیٹھ جانی چاہئے۔ اور یہ آزاد کمیشن جماعت کے اندر رہنے والے لوگ مانگ سکتے ہیں یا جماعت سے باہر کے لوگ بھی اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ مثلاً پیغامی اور غیراحمدی اس بارہ میں مطالبہ کریں تو آیا ان کا یہ مطالبہ جائز سمجھا جائے گا یا ناجائز؟ اگر جماعت سے باہر کے لوگوں کا یہ مطالبہ درست تسلیم نہ کیا جائے تو پھر مصری صاحب جو جماعت سے نکل چکے ہیں ان کو ایسا مطالبہ کرنے کا حق کہاں سے حاصل ہؤا ہے اوراگر یہ قانون ہے کہ جو جماعت سے قریب زمانہ میں نکلا ہو ، وہ آزاد کمیشن کامطالبہ کرسکتا ہے دوسرا نہیں۔ تو پھر وہ یہ بھی بتائیں کہ کتنی دیر تک کا مرتد اِس قسم کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ پھر وہ یہ بھی بتائیں کہ آزاد کمیشن سے مراد غیراحمدیوں کا کمیشن ہے یا احمدیوں کایا مشترک؟ اگر مشترک مراد ہے تو کس کس نسبت سے احمدی اور غیراحمدی ممبر مقرر کئے جائیں گے اورا نہیں کون مقرر کرے گا۔ اگر خلیفہ مقرر کرے گا تو پھر وہ بقول مصری صاحب آزاد نہ رہے گا اور اگر احمدی مقرر کریں گے تو پھر بھی آزاد کمیشن نہ رہے گاکیونکہ وہ تو پہلے ہی خلیفہ کو حق پر سمجھ رہے ہیں ورنہ مصری صاحب کے ساتھ ہی بیعت توڑ کر الگ ہوجاتے اور اگر وہ کہیں کہ نہیں احمدی بہ حیثیت جج مقرر کرنے والے کے دیانتدار ہیں تو پھر غیراحمدی کمیشن کی کیا ضرورت رہی۔ پھر احمدی جج ہی کمیشن بن سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ یہ سوال بھی حل کریں کہ ان ممبرانِ کمیشن کواگر جماعت احمدیہ نے مقرر کرنا ہے تو کیا ساری جماعت کو اکٹھا ہوکر منتخب کرنا چاہئے یا الگ الگ جماعتیں ایسا انتخاب کریں۔ اور اگر غیراحمدیوں نے بھی کوئی حصہ منتخب کرنا ہے تو ان کے انتخاب کا کیا ذریعہ ہوگا۔ اور اگر آزاد کمیشن سے مراد یہ ہے کہ آدھے جج معترض تجویز کیا کریں اور آدھے خلیفۂ وقت کیا کرے تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر غیراحمدی ججوں پر خلیفہ کو اعتبار نہ ہوتو کیا وہ حصہ بھی معترض ہی مقرر کردیا کرے گا یا خلیفہ کو مجبور کیا جائے گا کہ ضرور کچھ غیراحمدیوں پر یا غیرمُسلموں پر اعتبار کرکے ان میں سے جج مقرر کرو اور جب احمدیت خداتعالیٰ کے فضل سے ترقی کرجائے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق دوسری اقوام اس کے ماتحت آجائیں گی تو اُس وقت غیراحمدی یا غیرمسلم بھی جانبدار نہ رہیں گے۔ اُس وقت آزادکمیشن کیلئے ممبر کہاں سے لائے جائیں گے ۔ آیا یہ کوشش کی جائے گی کہ کچھ حصہ دنیا کا بالکل آزاد رہے اور اسلامی حکومت میں داخل نہ ہو تا مصری صاحب کے ہم خیالوں کیلئے آزاد کمیشن کے ممبر ملتے رہیں۔ اور پھر یہ بھی سوال ہے کہ اگر آزاد کمیشن یہ کہے کہ مصری صاحب جھوٹے ہیں تو ان کو کیا سزا دی جائے گی۔ خلیفہ کیلئے تو یہ سزا ہوئی کہ وہ غیراحمدیوں کے کہنے پر خلافت سے معزول ہوجائے گا مگر اس کے مقابل پر مصری صاحب کیلئے کیا سزا ہوگی۔ آیا ان کیلئے صرف یہ کافی ہوگا کہ ہنس کر کہیں کہ چلو توبہ کرتے ہیں یا کوئی اَورسزا بھی ہوگی۔ پھر یہ بھی سوال ہے کہ اگر ان کے خلاف کمیشن فیصلہ کرے تو کیا وہ اس کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ کو جھوٹا کہیں گے؟ یا یہ کہیں گے کہ خلیفہ ہے تو بدکار ہی مگر کمیشن کی خاطر میں اسے مان لیتا ہوں۔ اگر اپنے آپ کو جھوٹا کہیں گے تو اس وقت وہ براہین کہاں جائیں گے جن کی وجہ سے خلافت سے روگردانی ان کیلئے جائز ہوگئی ہے۔ اگر پھر بھی وہ اپنے آپ کو حق پر ہی سمجھتے رہیں گے اور باوجود اس کے خلیفہ کی بیعت کرلیں گے، تو آج آپ کو بیعت توڑنے کی کیا مجبوری پیش آئی تھی۔ یا آپ کا ارادہ یہ ہے کہ اگر فیصلہ آپ کے حق میں ہؤا تو قابلِ قبول ہوگا ورنہ نہیں۔ یہ بہت سے سوال ہیں جن کا جواب دینا آزاد کمیشن کے مطالبہ سے پہلے ضروری ہے۔ اور امید ہے کہ مصری صاحب جلد اِن کا جواب دے کر اپنے نقطۂ نگاہ کو واضح کردیں گے۔ بہرحال ہمیں یہ علم ہونا چاہئے کہ وہ آزاد کمیشن کسے کہتے ہیں۔ اس کے فیصلہ کی پابندی ان کیلئے ضروری ہوگی یا نہیں۔ اسے کون مقرر کرے ، کس طرح کرے اور کس کس کو ایسا کمیشن مقرر کرانے کا حق ہے۔
ایک سوال اَور بھی ہے کہ اگر خلافت کے عزل کا سوال آزاد کمیشن سے طے کرایا جاسکتا ہے تو خلیفہ مقرر بھی کیوں غیراحمدیوں کی ایک کمیٹی سے نہ کروایا جائے۔ آخر میںمَیںایک اَور شبہ کا ازالہ کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اِس فتنہ کو اہمیت کیوں دی جاتی ہے؟ مصری صاحب یا ان کے ساتھیوں کی حیثیت ہی کیا ہے۔ ایسے لوگوں کی واقفیت کیلئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسے اہمیت مصری صاحب کی حیثیت کی وجہ سے نہیں دی جاتی بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ احراریوں، مستریوںاور پیغامیوں کے نمائندہ ہیں۔ بلکہ شبہ ہے کہ بعض حکام سے بھی ان کے تعلقات ہیں۔ یا کم سے کم ان کے بعض ساتھی ایسا کہتے ہیں او رچونکہ بعض حکام نیز احرار اور پیغامیوں کی امداد ان کی پُشت پر ہے اور وہ مل کر حملہ کررہے ہیں ، اس لئے ہمارا فرض ہے کہ جماعتی طور پر اِس فتنہ کا مقابلہ کریں اور اسے کُچل دیں۔ احرار کے فتنہ نے ہمارے ایمانوں کو بیشک خراب نہیں کیا مگر دُنیوی طور پر تو انہوں نے ضرور دِق کیا ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کے متعلق خیال ہے کہ یہ سلسلہ کیلئے مشکلات نہ پیدا کریں۔ پھر اس کے علاوہ ہمارا فرض صرف یہی نہیں کہ احمدیوں کی حفاظت کریں بلکہ جن لوگوں کو ہم نے احمدی بنایا ہے ان کی حفاظت کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ یہ لوگ باہر ہمارے خلاف بہت پروپیگنڈا کررہے ہیں اور غیراحمدیوں میں اپنا زہر پھیلا رہے ہیں۔ کئی جگہ سے ہمارے دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے ان کے اشتہار تقسیم کرنیو الوں سے مانگے تو انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ ہمیں ہدایت ہے کہ آپ لوگوں کو نہ دیئے جائیں۔
پس ہماری جماعت چونکہ ایک تبلیغی جماعت ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ پورے زور کے ساتھ اپنی آواز کو ان لوگوں تک پہنچائیں جن کے دلوں میں یہ زہر بھرا جارہا ہے۔ پھر اس کی وجہ بعض خواب بھی ہیں۔ جیسا کہ میں نے سُنایا تھا کہ میری ہمشیرہ کو خواب میں بتایا گیا کہ ان دنوں خاص طور پر رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَـنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ پڑھا جائے۔ پھر ایک میرا اپنا خواب ہے جو سالِ گزشتہ میں چھپ چکا ہے کہ بعض منافق بھاگ کر بِلوں میں گُھس گئے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ یہ تو خطرناک بات ہے۔ ایسا نہ ہو یہ لوگ موقع پاکر پھر کسی وقت ہم پر حملہ کردیں۔ پس منافق کا چونکہ پتہ نہیں ہوتا اس لئے اُس تک آواز پہنچانے کا بھی یہی طریق ہے کہ پورے زور کے ساتھ آواز بلند کریںتا وہ جہاں کہیں بھی چُھپا بیٹھا ہو، ہماری آواز کو سن سکے۔ ہماری جماعت میں بھی بعض کمزور لوگ ہیں اور ان کو بچانا بھی ہمارا فرض ہے۔ یہ کہنا کہ ایسے لوگوں کو چھوڑ دو صحیح نہیں ان کوبچانا ہمارا اوّلین فرض ہے۔اور اس کے علاوہ ان لوگوں کا قاعدہ ہے کہ جن کو سزا ملے ان کے پاس پہنچتے ہیں کہ آپ پر بڑا ظلم ہؤا ہے اور اس طر ح جماعتی اخلاق کو بگاڑتے ہیں او ربدنظمی پیداکرتے ہیں۔ اگر مجرموں کو ہم جماعت سے نہ نکالیں یا ان کو سزا نہ دیں تو پھر بھی اخلاق بگڑتے ہیں اور اگر سزا دیں تو وہ ان لوگوں کا شکار ہوسکتے ہیں اور چونکہ ایسے لوگوں کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس قدر زور اور وضاحت سے خلافت کی اہمیت اور ایسے معترضین کی حماقت کو لوگوں پر واضح کردیا جائے کہ ہرقسم کا آدمی خواہ کمزور ہو، خواہ مضبوط ان کے اندر شامل ہونے کو اپنی روحانی موت سمجھے۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان لوگوں نے تسلیم کرلیا ہے کہ یہ فری میسنوںکی طرح کی ایک خفیہ سوسائٹی ہے۔ ہماری جماعت میں آج تک کوئی خفیہ سوسائٹی قائم نہ ہوئی تھی ۔ یہ پہلے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ بیعت میں رہو، خدا کی قسمیں کھائو کہ ہم اپنی جانیں خلیفہ کیلئے قربان کردیں گے مگر جب موقع پائو فتنہ پیدا کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام ہے کہ فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے کہ اس کو ہلاک کریں۴؎ اور ہلاک کرنے سے آپ کی جماعت کا قتل ہے یا خلافت کا قتل ہے اور ظاہر ہے کہ جس جماعت کے افراد میں منافقت بھر دی جائے اُس نے کام کیا کرنا ہے اور جس جماعت کو خلافت سے جُدا کردیا جائے اس نے ترقی کیا کرنی ہے۔
تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ظاہر کرتا ہے کہ فری میسنوں جیسی سوسائٹی بنے گی جو تجھے قتل کرنا چاہے گی اور گو الہام میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اس پر قادرنہ ہوسکے گی۔ لیکن اِس قدر عرصہ پہلے اس الہام کی کوئی اہمیت ہونی چاہئے اور وہ اہمیت ہی ہے کہ اس وقت مسلمان سابق اختلاف اور تفرقہ کی وجہ سے ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اِس بارہ میں ادنیٰ ابتلاء انہیں اپنی جگہ سے ہِلادیتا ہے۔ پس خداتعالیٰ ہم کو ہوشیار کرتا ہے کہ ایسا قتل ممکن ہے گو ہم تم کوبچائیں گے لیکن تم کو ہوشیار ہوجانا چاہئے۔
پس ہمارا فرض ہے کہ اس فتنہ کا پوری طرح مقابلہ کریں اور جب تک اپنے اِردگِرد اِن لوگوں سے محفوظ رہنے کیلئے چاردیواری نہ کھینچ لیں، آرام سے نہ بیٹھیں۔ باہر کی جماعتیں ابھی اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتیں مگر میں بتادینا چاہتا ہوں کہ اگر جماعت نے اِس کے مقابلہ میں کوتاہی کی تو وہ خداتعالیٰ کے نزدیک مجرم ہوگی۔ دوستوں کا فرض ہے کہ اپنے ضروری کاموں سے بھی وقت نکال کر اور اپنی نیند کو بھی کم کرکے اور اپنے آرام کو بھی قربان کرنے اِس فتنہ کا مقابلہ کریں اور جہاں ان کے اشتہار پہنچیں وہاں تک ضرور اپنی آواز پہنچا کر اِن کے زہر کا ازالہ کریں۔ تا یہ لوگ جماعت احمدیہ کی ترقی میں روک نہ پیدا کرسکیں اور تا نظام سے بغاوت کی روح احمدیہ جماعت میں سے ہمیشہ کیلئے کُچلی جائے اور شیطان پھر اس سوراخ میں سے احمدیت کی جنت میں داخل نہ ہوسکے۔ مبارک ہیں وہ جو وقت کو پہچانتے ہیں اور سیلاب سے پہلے سیلاب کا راستہ روکتے ہیں اور حق کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خداتعالیٰ کی مقدس فوج میں شامل ہوتے ہیں۔ وہی ہیں جو اپنے پیدا کرنے والے کے دائیں طرف اُس کے عرش پر جگہ پائیں گے۔ کیونکہ وہ اسلام کے قلعہ کی فصیلوں کے محافظ ہیں اور آسمانی خزانہ کے پہرہ دار۔ جب تک وہ اور ان کے شاگرد دنیا میں زندہ رہیں گے احمدیت بھی زندہ رہے گی اور جب ان کی شاگردی کا دروازہ بند ہوگیا دنیا پھر تاریکی اور کفر کی طرف لَوٹ جائے گی۔ وَاللّٰہ الْمُعوّذ
(الفضل ۷؍ اگست ۱۹۳۷ئ)
۱؎ النسائ: ۹۵ ۲؎ الحجرات: ۷
۳؎ بخاری کتاب الفتن باب قول النّبی ﷺ سترون بعدی اموراً (انح)
۴؎ تذکرہ صفحہ۴۴۱۔ایڈیشن چہارم

۲۵
کیا خطبہ جمعہ پر بھی دفعہ ۱۴۴ عائد ہوتی ہے؟
(فرمودہ ۱۳؍ اگست ۱۹۳۷ء بمقام قادیان)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں خطبہ کیلئے تیاری کر کے آرہا تھا کہ خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب نے پیغام بھیجا کہ میں ایک ضروری امر کے متعلق کچھ بات کرنی چاہتا ہوں۔ میں جب باہر آیا تو خانصاحب نے بتایا کہ مجھے مجسٹریٹ علاقہ نے ابھی بُلوایا تھا اور جب میں گیا تو کہا کہ آج آپ کا جمعہ ہوگا؟ اس میں کس کس کی تقریریں ہوں گی؟ میرے جواب دینے پر کہ ہمارے ہاں توخطبہ ہی ہوتا ہے اور وہ حضرت صاحب پڑھاتے ہیں۔ فرمایا کہ میں یہاں دفعہ ۱۴۴ نافذ کرچکاہوں اور اس کے ماتحت جمعہ کا اجتماع بھی آتا ہے۔ مگر میں اِس کی اجازت دے دیتا ہوں بشرطیکہ خالص مذہبی مضمون ہو۔ میرے کہنے پر کہ ڈی۔سی صاحب نے حضرت صاحب سے خواہش کی تھی کہ لوگوں کو پُرامن رہنے کی تلقین کردیں اور حضرت صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ میں اس جمعہ پر ایسا کرنے کا پہلے ہی ارادہ رکھتا ہوں۔ کہا کہ اچھا میں اس کی اجازت دیتا ہوں۔ مگر اسکے سِوا مرتدین کے متعلق اور کچھ نہ کہیں۔ خانصاحب کہتے ہیں کہ میں نے مجسٹریٹ صاحب سے کہہ دیا کہ میں یہ پیغام پہنچادوں گا۔
اس پیغام سے ظاہر ہے کہ مجسٹریٹ صاحب کے نزدیک مسلمانوں کی عبادت بھی گورنمنٹ کے قانون کے ماتحت ہے۔ لیکن چونکہ ہمارا دین ایک خدا کا دین ہے گورنمنٹ کا نہیں اس لئے میں خطبہ گورنمنٹ کی اجازت کے ماتحت پڑھنے کیلئے تیار نہیں ہوں اس لئے آج میں صرف سورئہ فاتحہ کی تلاوت پر ہی کفایت کرتاہوں اور ۱۴۴ کے نفاذ تک قانون کا احترام کرتے ہوئے عربی خطبہ پر ہی کفایت کیاکروں گا یہاں تک کہ گورنمنٹ کے ساتھ کوئی فیصلہ ہوجائے۔
ہاں چونکہ مجھ سے ڈپٹی کمشنر صاحب نے خواہش کی تھی کہ میں امن کے قیام کے متعلق اپنے خیالات اچھی طرح جماعت پر واضح کردوں تا کہ لوگوں میں خلافِ آئین جوش پیدا نہ ہو۔ میں اس بارہ میں وعدہ پورا کرنے کیلئے اتنا کہہ دیتا ہوں کہ جیسا کہ میں اس سے پہلے اتوار کے دن اعلان کرچکا ہوں اگر کسی احمدی نے کوئی چھوٹا یا بڑا فساد کیا تو میں اُسے کُلّی طور پر اور فوراً جماعت سے خارج کردوں گا۔ بعدمیں کوئی یہ نہ کہے کہ مجھے اطلاع نہ ہوئی تھی۔ یا یہ کہ جو پہلا اعلان ہؤا تھا امور عامہ نے شاید اپنے پاس سے بنالیا ہو۔ اب میں نے اپنی زبان سے آپ لوگوں تک یہ بات پہنچادی ہے اور اب آپ کا اختیار ہے کہ عمل کرکے جماعت میں رہیں یا اس کو ردّ کرکے جماعت سے نکل جائیں۔ کیا آپ لوگوں نے یہ بات سن لی ہے؟ (سب نے بآوازِ بلند عرض کیا کہ سن لی ہے)۔
پس میں اس بات پر خطبہ کو ختم کرتا ہوں اور ۱۴۴ کے نفاذ تک خطبہ میں صرف عربی آیات پر کفایت کروں گا جب تک کہ گورنمنٹ کے ساتھ فیصلہ نہ ہوجائے۔
(الفضل ۱۵ ؍ اگست ۱۹۳۷ئ)

۲۶
خطباتِ جمعہ کے متعلق جماعت احمدیہ کی پالیسی
(فرمودہ ۲۰؍ اگست ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں نے پچھلے جمعہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب نے مجھے آکر مجسٹریٹ صاحب علاقہ کا یہ پیغام دیا تھا کہ جمعہ کا خطبہ بھی دفعہ ۱۴۴ کے ماتحت آتا ہے۔ لیکن یہ کہ وہ خطبہ پڑھنے کی اجازت دے دیتے ہیں بشرطیکہ کوئی بات اس میں اس قسم کی نہ آئے جو موجودہ واقعات کے متعلق ہو اور جس سے کسی قسم کی شورش پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔ میں نے اس پر یہ بیان کیا تھا کہ یہ کہنا کہ جمعہ کا خطبہ بھی دفعہ ۱۴۴ کے ماتحت آتا ہے، چاہے اس کے بعد مجسٹریٹ صاحب یہ کہہ دیں کہ میں خطبہ کے پڑھنے کی اجازت دیتا ہوں، مذہب میں دست اندازی ہے اور یہ کہ جب تک گورنمنٹ کے ساتھ کوئی فیصلہ نہ ہوجائے مَیں مجسٹریٹ صاحب کی اجازت کے ماتحت خطبہ پڑھنے کیلئے تیار نہیںہوں بلکہ دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ تک قانون کا احترام کرتے ہوئے صرف عربی کلمات پر ہی کفایت کروں گا۔ لیکن اُسی دن خان صاحب سے مجسٹریٹ صاحب علاقہ کی جب دوبارہ گفتگو ہوئی تو انہوں نے خانصاحب سے ذکر کیا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے اور یہ کہ میرا اس سے وہ منشاء نہ تھا جو آپ نے سمجھا۔ چنانچہ بعد میں ان کی طرف سے ایک تحریر بھی آئی جس میں انہوں نے لکھا کہ میرا وہ منشاء نہ تھا جو آپ لوگوں نے سمجھا بلکہ میرا منشاء صرف اتنا تھا کہ خطبہ میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو موجودہ شورش کو زندہ رکھنے والی ہو۔
پس چونکہ انہوں نے خود اس کی ایک ایسی تشریح کی ہے جو ان معنوں کو بالکل بدل دیتی ہے جن پر مجھے اعتراض تھا، اس لئے میں نے اس وجہ کو تسلیم کرتے ہوئے آج ارادہ کیا ہے کہ میں اپنا خطبہ حسبِ سابق بیان کروں۔
خطبات کے متعلق ہماری جماعت کی پالیسی ہمیشہ غیرمُبہم رہی ہے۔ جب کانگرس کا شور تھا یا ہجرت کا شور تھا یا بعض اور شور گورنمنٹ کے خلاف بپا تھے اُس وقت بعض لوگ مساجد کو اِس رنگ میں استعمال کیا کرتے تھے کہ وہ خطبات میں گورنمنٹ کے خلاف وہ کچھ کہہ جاتے جو دوسرے موقعوں پر کہنے سے ڈرتے تھے۔ اُس وقت میری طرف سے بھی اور ہماری جماعت کی طرف سے بھی گورنمنٹ کی حمایت کی جاتی اور کہا جاتا تھا کہ خطبات کو پولیٹکل تقریروں کا ذریعہ بنالینا درست نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مُسلم کی زندگی ساری کی ساری مذہبی ہوتی ہے اور اسلام سیاسیات کا بھی جامع ہے اور اقتصادیات کا بھی جامع ہے، معاملات کا بھی جامع ہے او رمدنیت ۱؎ کا بھی جامع ہے، اخلاقیات کا بھی جامع ہے اور فلسفہ کا بھی جامع ہے، عقلیات کا بھی جامع ہے اور مذہب کا بھی جامع ہے۔ غرض ہر چیز اس میں پائی جاتی ہے اور عام حالات میں خطبات میں سیاسی باتیں بیان کرنا مناسب نہیں ہیں۔ لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ ایک منظم حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے خطبات کو ذریعہ بنالینا فساد اور جھگڑے کا، یہ بھی درست نہیں۔ یہ وہ باتیں جو ہم پہلے کہا کرتے تھے اور یہ وہ باتیں ہیں جو آج بدل نہیں گئیں۔ پس جن حالات میں ہم لوگوں پر اعتراض کیا کرتے تھے اگر انہی حالات میں ہم بھی وہی حرکت کریں تو یقینا ہم مجرم قرار پائیں گے۔ پس اگر کسی مصلحت کے ماتحت کسی ایسے مسئلہ میں جو خالص مذہبی نہ ہو حکومت کا کوئی افسر قانون کے ماتحت اور اپنے جائز اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے خطیب کو یہ ہدایت دے دے کہ وہ فلاں مضمون کے متعلق کچھ بیان نہ کرے تو یقینا ہم اسے حق پر سمجھیں گے۔ لیکن خطبہ کو بحیثیت خطبہ اگر کوئی افسر قانون کے تابع کرنا چاہتاہے تو ہم اس کی بات کو ماننے کیلئے ہرگز تیار نہیں کیونکہ یہ مذہبی دست اندازی ہوگی۔ اسی طرح اگر خطبات کو بالکل آزاد کردیا جائے یا مذہبی عبادت گاہوں میں ہرقسم کی تقریروں کی آزادی دے دی جائے تو یقینا مذہبی عبادت گاہیں جھگڑے اور فساد کا مرکز بن جائیں گی حالانکہ وہ جھگڑے اور فساد کا نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی یاد کا مرکز ہوتی ہیں۔ یہ وہ اصل ہے جسے ہم ہمیشہ پیش کرتے رہے ہیں اور اب بھی ہم اسے بُھولے ہوئے نہیں۔ اور یہ نہیں ہوسکتا کہ جب دوسروں کا معاملہ ہو تو ہم اس پر اعتراض کریں لیکن جب اپنا معاملہ آجائے تو قابلِ اعتراض بات کو جائز قرار دے لیں۔ پس اگر حکومت بعض مصالح کے ماتحت کسی ایسے مسئلہ کو جو خالص مذہبی نہ ہو کسی وقت خطبات سے الگ کردے اور ہدایت کردے کہ خطبہ میں اس کا ذکر نہ آئے تو یہ اُس کا ایک جائز حق ہوگا۔ لیکن اگر وہ یہ کہے کہ خطبہ ہی قانون کی زد میں آتاہے تو ایسی حکومت نہایت ہی بیوقوف ہوگی جو جُرم کو اُس کی معیّن حد تک روکنے کی بجائے مذہب میں دست اندازی شروع کردے۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے مجسٹریٹ صاحب علاقہ نے اپنی بات کی تشریح کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے ان کامطلب صرف یہ تھا کہ خطبہ میں کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے طبائع میں اشتعال پید اہو۔ گو ہمارے نقطہ نگاہ سے ان کی یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ ہم خداتعالیٰ کے فضل سے کبھی اشتعال پیدا نہیں کرتے۔ یہ ہمارے دشمنوں کی پھیلائی ہوئی باتیں ہیں کہ ہم لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں لیکن بہرحال اگر ایک افسر ہمیں ایسی ہدایت دیتا ہے تو ہم اس ہدایت کو اس کے دائرہ اختیار کے اندر سمجھیں گے گو ہم یہ ضرورکہیں گے کہ اسے ہماری طبیعت کاعلم نہیں۔ اسے باوجود اِس علاقہ میں رہنے کے ہمارے حالات ، ہمارے اعمال او رہمارے عقائد سے کوئی واقفیت نہیں۔ اس نے ہمارے متعلق دشمنوں کی بعض باتوں کو سُنا اور ان پر یقین کرلیا مگر ہم اُس کی ہدایت کو غیرقانونی نہیں کہہ سکتے اور حکومت کا یہ حق ہے کہ اگر کوئی بات فساد اور شرانگیزی کا موجب ہوتو چاہے وہ بات خطبہ میں ہی بیان کی جانے والی ہو اس حصہ کے متعلق حکم دے دے کہ وہ بات خطبہ میں بیان نہ کی جائے۔
اس کے بعد میں آج کے خطبہ کا مضمون لیتا ہوں۔ چار پانچ دن کی بات ہے میںنے لاہور کا ایک اخبار جس کا نام ’’احسان ‘‘ ہے پڑھا اور اتفاقی طور پر اُس کے ایک نوٹ پر میری نظر جاپڑی یا شاید دفتر نے اُس نوٹ پر نشان لگا کر میرے پاس بھجوایا تھا اس معاملہ کے متعلق میرا ذہن پورے طور پر صاف نہیں بہرحال ’’احسان‘‘ کا جو نوٹ تھا اُس میں یہ لکھا تھا کہ لائل پور کے کسی احمدی نے کہا ہے کہ ہم خدا کے بعد مرزامحمود کو ہی سمجھتے ہیں۔ اس نے یہ فقرہ درج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم پہلے بھی مرزا محمود احمد کو اس طرف توجہ دلاچکے ہیں (گو میری نظر سے اس کا اس سے پہلے کوئی نوٹ نہیں گزرا)۔ مگر انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور غالباً ساتھ ہی اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اس بات کا کوئی جواب نہیں دیں گے کیونکہ ان کا عقیدہ یہی ہے اور باوجود اس عقیدہ کے یہ لوگ جھوٹے طور پر رسول کریم ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میں جیسا کہ بیان کرچکا ہوں ’’احسان‘‘ کا پہلا نوٹ میری نظر سے نہیں گزرا اور کسی اخبار کا خواہ وہ کتنی ہی وسیع اشاعت رکھتا ہو یہ سمجھ لیناکہ جس کے متعلق اس میں کوئی نوٹ لکھا گیا ہے اس نے اس نوٹ کو ضرور پڑھ لیا ہوگا سخت غلطی ہے۔ ہمارے ہندوستانی اخبارات کی توسیع اشاعت ہواہی نہیں کرتی مستقل خریدار سات آٹھ سَو یا ہزار ہوتے ہیں او رہنگامی طور پر بعض دفعہ دو اڑھائی ہزار تک ان کی اشاعت ہوجاتی ہے۔ شاذونادر کے طور پر بعض ہندوستانی اخبارات ایسے ہوئے ہیں جن کی خریداری پانچ سات ہزار تک پہنچی ہے۔ مگر یہ خریداری بھی عارضی ثابت ہوئی ہے اور پھر خریداری گھٹ کر ہزار دو ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ ایک اخبار کی اشاعت ہزار دو ہزار نہیں ، پانچ ہزار ہے یا دس ہزار ہے یا بیس ہزار ہے یا پچاس ہزار بلکہ لاکھ دو لاکھ حتیٰ کہ دس لاکھ بھی ہے پھر بھی اُس اخبار کا یہ فرض کرلینا کہ جس کے متعلق کوئی نوٹ لکھا گیا ہے وہ ضرور اُس تک پہنچ گیا ہوگا اور اُس نے پڑھ لیا ہوگا، عقل سے بعید بات ہے اور دیانتداری کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر متعلقہ شذرہ پر نشان لگا کر اُس شخص کو بھجوادیا جائے جس سے اس کے جواب کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ پس جب کوئی شخص کسی سے جواب کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ اس مضمون یا نوٹ پر نشان لگا کر بھیج دے اس کے بغیر یہ امید کرلینی کہ میرا پرچہ پہنچ گیا ہوگا اور پھر نوٹ بھی پڑھ لیا گیا ہوگا، بالکل خلافِ عقل بات ہے۔
میں اپنے اخبارات کو بھی اس موقع پر یہ ہدایت دیتاہوں کہ جب وہ اپنے مضمون میں کسی سے جواب کا مطالبہ کریں تو وہ اس اخبار پر نشان لگا کر اس شخص کو بھجوادیا کریں جس سے جواب کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اخبار رجسٹری کرکے بھجوایا کریں تاکُلّی طور پر یہ اطمینان ہوجائے کہ پرچہ اسے پہنچ گیاہوگا اور اگرہمارے اخبار بھی کسی کے متعلق نوٹ تو لکھیں لیکن پرچے پر نشان لگا کر اور رجسٹری کراکر اُسے نہ بھیجیں اور پھر کہیں کہ اس نے جواب نہیں دیا تو میں سمجھوں گا کہ وہ حق پر نہیں۔ کیونکہ یہ امید کرنی کہ ہر مخالف ’’الفضل‘‘ کا ایک ایک حرف پڑھتاہے بالکل خلافِ عقل بات ہے۔ اسی طرح مَیں دوسروں سے بھی کہتا ہوں کہ اگر وہ ہم میں سے کسی کے متعلق کوئی نوٹ لکھیں تو اُس اخبارکو رجسٹری کراکے اُس شخص کے پاس بھیج دیا کریں۔ وہ اگرمناسب سمجھے گا تو جواب دے دے گا اور اگر نہیں سمجھے گا تونہیں دے گا۔ بہرحال وہ یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے اپنا مضمون پہنچادیا تھا۔ گو جیسا کہ میں نے بتایا ہے جواب دینے والا اِس بات پر مجبور نہیں ہوتا کہ ہر بات کا جواب دے کیونکہ بعض باتوں کا جواب خاموشی ہی ہوتاہے۔ جیسے کہتے ہیں ’’جوابِ جاہلاں خموشی باشد‘‘ لیکن کم سے کم جب صحیح طریق پر سوال پہنچادیا جائے تو انسان اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتا ہے۔
’’احسان‘‘ کے اس نوٹ کامطلب یہ ہے کہ اوّل تو اس لائلپوری دوست کے نزدیک اور پھر تمام احمدیوں کے نزدیک میری حیثیت (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) رسول کریم ﷺ اور تمام انبیاء سے زیادہ ہے۔ اگر تو یہ نوٹ ’’احسان‘‘ نے ناواقفیت کی وجہ سے لکھا ہے تو میرا جواب یہ ہے کہ کسی ایک فقرہ کو سن کر بغیر اس کے کہ اس کے مَاسَبَق اور مَابَعْد کو دیکھا جائے یا اس ماحول کو دیکھا جائے جس میں وہ فقرہ کہا گیا ہے کوئی معنے کرلینا عقل کے بالکل خلاف ہوتا ہے۔ ’’احسان‘‘ کے نوٹ لکھنے والے کو چاہئے تھا کہ وہ یہ نوٹ لکھنے سے قبل ہماری تحریرات کو دیکھتا اور یہ معلوم کرتا کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا درجہ دیتے ہیں اور اگر اس نے جانتے اور بوجھتے ہوئے یہ نوٹ لکھا ہے تو میرا جواب سوائے اس کے کیا ہوسکتا ہے کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔
مذہبی امور میں اور خصوصاً ایک ایسے معاملہ میں جو تمام لوگوں کی جانوں او ران کی زندگیوں سے قیمتی اور بہت زیادہ قیمتی ہے ایسے بے تحقیق اور غیر ذمہ دارانہ نوٹ لکھنے کسی شریف اخبار کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔ میں نہیں جانتا کہ اس لائل پوری احمدی نے کیا کہا اورکیا نہیں کہا۔ کیونکہ ہمارے سامنے ان کا نام پیش نہیں کیا گیا۔ یا کم از کم اس شذرہ میں نہیں تھا جو میں نے پڑھا۔ اگر پہلے کے کسی نوٹ میں ان کا نام آیا ہو تو مجھے علم نہیں۔ پھر ساری تفصیلی گفتگو وہاں نہیں تھی جس سے ہم کوئی صحیح نتیجہ نکال سکیں مگر جس قدر باتوں کا وہاں ذکر تھا اس سے ایک نتیجہ ہم ضرور نکال سکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں آگے چل کر بتائوں گا اس پر بھی وہ اعتراض عائد نہیں ہوسکتا جو ’’احسان‘‘ نے کیا ہے۔ یہ بالکل صاف بات ہے کہ خلیفہ نائب اور ماتحت ہوتا ہے اپنے متبوع کا ۔اورہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلفاء براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلیفہ ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام روحانی خلیفہ ہیں آنحضرت ﷺ کے۔ اس لئے وہ بِالواسطہ رسول کریم ﷺکے بھی خلفاء ہیں تو جبکہ میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں خلیفۃ المسیح ہوں اور جس کا مَیں خلیفہ ہوں اُس کا یہ دعویٰ ہے کہ میں غلامِ محمد ہوں تو اِن دو دعووں کے بعد کوئی احمدی یہ کس طرح خیال کرسکتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا کوئی خلیفہ چاہے میں ہوں یا کوئی اور اتنا بلند درجہ رکھتا ہے کہ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) رسول کریم ﷺ سے بھی وہ بڑا ہے اور خدا کے بعد اگر کسی کا درجہ ہے تو اسی کا۔ اور کیا ان دو دعوؤں کی موجودگی میں کوئی بھی عقل مند اس خیال کو صحیح تسلیم کرسکتا ہے؟ کیا ایک ہی منہ سے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ میں فلاں کا نوکر ہوں اور یہ کہ میں اپنے آقا سے بڑا ہوں۔ جب ایک شخص یہ کہتا ہو کہ میں فلاں کا نوکر ہوں تو اس پر اگر کوئی دوسرا یہ الزام لگائے کہ یہ اپنے آقا سے بڑا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس الزام کو کون عقلمند تسلیم کرسکتا ہے۔ اور یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ ایک طرف وہ کہے میں فلاں کا نوکر ہوں اور دوسری طرف کہے میں اس سے بڑا ہوں۔ جب وہ نوکر ہے اور اس کا اقرار ہے کہ میں نوکرہوں تو پھر چونکہ نوکر آقا سے بڑا نہیں ہوسکتا اس کا دعویٰ یہی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اپنے آپ کو آقا سے ادنیٰ سمجھتا ہے۔ اسی طرح خلفاء کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آقا کا نام دنیا میں روشن کریں۔ پس ان کا رُتبہ ظلی رُتبہ اور ان کی بڑائی ظلی بڑائی ہوتی ہے۔
غرض ہماری تمام عزت یعنی خلفاء کی اور ہماری ہر ایک بڑائی اور ہماری ہر ایک خوبی اسی میں ہے کہ ہم اپنے آقا اور مطاع کا نام دنیا میں روشن کریں اورجتنی زیادہ ہم رسول کریم ﷺکی خدمت کریں ، جتنا زیادہ ہم رسول کریم ﷺکا نام دنیا میں روشن کریں اور جتنا زیادہ ہم رسول کریم ﷺ کا درجہ دنیا میںبلند کریں اُسی قدر زیادہ ہماری ذمہ داری پوری ہوتی ہے اور اسی میںہماری عزت ہے۔ پس جبکہ ہمارے رُتبہ کی بلندی کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ رسول کریم ﷺ کے تابع ہیں تو پھر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ہمیں (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ)رسول کریم ﷺ سے بھی بلند درجہ رکھنے کا دعویٰ ہے، اس سے زیادہ غیر معقول بات اور کیا ہو سکتی ہے ۔ ہاں ایک صورت ہے اور اگر کسی احمدی نے کوئی بات کہی ہو گی تو یقینا انہی معنوں میں کہی ہو گی۔ یعنی اُس نے یہ کہا ہوگا کہ خدا تعالیٰ کے بعد اس زمانہ کے لوگوں میں سے خلیفۃ المسیح ہمارے نزدیک سب سے بڑے ہیں۔ اور اگر کسی احمدی نے ان معنوں میں یہ فقرہ کہا ہے تو اس میں کیا شک ہے کہ اُس نے بالکل درست کہا ہے۔ کیونکہ اپنے زما نہ میں جماعت کا امام یقینا تمام دنیا سے بزرگ ہوتا ہے۔ اس صورت میں الفاظ کو اِن معانی کا رنگ دے دینا جوکہنے والے کے منشاء کے سخت خلاف ہوں سخت ظالمانہ بات اور تقویٰ کے بالکل خلاف فعل ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہمارا اورغیر احمدیوں کا کئی مسائل میں اختلاف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا اورعیسائیوں کا کئی مسائل میں اختلاف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا اوریہودیوں کا کئی مسائل میں اختلاف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا اورہندوئوں کا کئی مسائل میں اختلاف ہے ۔ مگر باوجود ان تمام اختلافات کے ایک چیز ہے جس کی سب سے اُمید کی جاتی ہے اور وہ یہ کہ ہم انصاف سے کام لیں، سچ بولیں اور شریفانہ طور پر کلام کریں۔ انصاف ، سچائی اور شرافت یہ ورثہ مسلمان کا نہیں ، یہ ورثہ ایک عیسائی کا نہیں ، یہ ورثہ ایک یہودی اور ایک ہندو کا بھی نہیں بلکہ انصاف ، صداقت اور شرافت کی امید ایک مسلمان سے بھی اُسی طرح کی جاتی ہے جس طرح ایک ہندو سے۔ اور انصاف ، صداقت اور شرافت کی امید ایک عیسائی سے بھی اسی طرح کی جاتی ہے جس طرح ایک یہودی سے ۔خدا کے متعلق ان میں اختلاف ہو تو بیشک ہو ۔ عبادت کے متعلق ان میں اختلاف ہو تو بیشک ہو ، بعث بَعْدَ اَلْمَوْتْ کے متعلق ان میں اختلاف ہو تو بیشک ہو ، فرشتوں کے متعلق ان میںاختلاف ہو تو بیشک ہو۔ غرض مذہب کی تمام جُزئیات میںاگر اختلاف ہو تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔کیونکہ مذہب کے اختلاف کے معنے یہی ہیں کہ عقائد میں بھی اختلاف ہے۔ لیکن انصاف ، شرافت اور سچائی کے متعلق ساری دنیا مُتحد الْخیال ہے۔ ایک ہندو کے نزدیک بھی انصاف، شرافت اور سچائی اتنی ہی قیمتی ہونی چاہئیں جتنی ایک مسلمان کے نزدیک ۔اور ایک عیسائی کے نزدیک بھی انصاف ، شرافت اور سچائی اتنی ہی قیمتی ہونی چاہئیں جتنی ایک یہودی کے نزدیک ۔ اسی طرح ایک سِکھ کینزدیک بھی انصاف ، شرافت اور سچائی اتنی ہی قیمتی ہونی چاہئیں جتنی ایک جینی کے نزدیک ۔اور ایک جینی کے نزدیک بھی انصاف ، شرافت اور سچائی اتنی ہی قیمتی ہونی چاہئیں جتنی ایک پارسی کے نزدیک۔ کیونکہ مذہبی اختلاف سے مذہب تو بدل جاتا ہے لیکن انسانیت نہیں بدلتی ۔
پس یہ ایک ایسا خزانہ ہے جو مشترک ہے اور ہم میں سے ہر شخص کو یہ پابندی کرنی چاہئے کہ وہ اس میں سے ا پنااپنا حصہ لے۔ایک بت پرست کہہ سکتا ہے کہ میں توحید کا قائل نہیں، توحیداگر خزانہ ہے تو مسلمانوں کا میرا نہیں۔ ایک قیامت کا منکر کہہ سکتا ہے کہ قیامت اگر خزانہ ہوگا تو ان کا جنہیںقیامت پر یقین ہے میرا اس میں حصہ نہیں کیونکہ میرے باپ دادا سے مجھے یہ خزانہ ورثہ میں نہیںملا ۔ ایک فرشتوں کامنکر کہہ سکتاہے کہ تمہیں فرشتوں کا وجود مبارک ہو میرے باپ دادا نے فرشتوں کاوجود کبھی تسلیم نہیں کیا پس یہ اگر خزانہ ہے تو تمہار ا ہے میرا نہیں۔مگر کیا کوئی ہندو کہہ سکتا ہے کہ شرافت اور انصاف اور صداقت میں میرا کوئی حصہ نہیںکیونکہ یہ چیزیں مجھے اپنے باپ دادا سے نہیں ملیں۔یا کیا ایک یہودی کہہ سکتا ہے کہ شرافت اور انصاف اور صداقت میں میرا کوئی حصہ نہیںکیونکہ یہ چیزیں مجھے اپنے باپ دادا سے نہیں ملیں۔یا کیا کوئی عیسائی کہہ سکتا ہے کہ شرافت اور انصاف اور صداقت میں میرا کوئی حصہ نہیںکیونکہ یہ چیزیں مجھے اپنے باپ دادا سے نہیں ملیں۔یاکیا ایک مسلمانکہہ سکتا ہے کہ شرافت اور انصاف اور صداقت میں میرا کوئی حصہ نہیںکیونکہ یہ چیزیں مجھے اپنے باپ دادا سے بطور ورثہ نہیںملیں۔ اگر ان میں سے کوئی شخص یہ بات نہیںکہہ سکتا تو انسان خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو اُس کا اولین فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ صداقت ، شرافت اور انصاف کو نہ چھوڑے ۔ وہ دشمنی کرے اور جتنی چاہے کرے مگر شرافت کے پہلو کو ترک نہ کرے۔ لڑائی کرے اور جتنی چاہے کرے مگر عداوت میں انصاف کے پہلو کو نہ بُھولے۔وہ کچھ بھی بن جائے وہ انسان کابچہ ہے، وہ کچھ بھی بن جائے وہ صادقوں کی اولاد میں سے ہے۔ پھر یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک اخبارکا ایڈیٹر جس کی ذمہ واری یہ سمجھی جاتی ہے کہ وہ دنیا میں اچھے اخلاق قائم کرے وہ شرافت ،انصاف اور صداقت کو ترک کر کے ایک ایسا حملہ کرے جس میں ایک ذرہ بھی سچائی نہ پائی جاتی ہو۔ اور ہمارا تو یہ دعویٰ ہو کہ ہم رسول کریمﷺ کے غلاموں کے بھی غلام ہیں اور وہ یہ کہیں کہ ہم اپنے آپ کو رسول کریم ﷺ سے بڑا سمجھتے ہیں، اس سے زیادہ جھوٹ اور اس سے زیادہ غلط بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ ہاں یہ ایک سچائی ہے اور اِس کا انکار نہیںکیا جاسکتا کہ ہمار ی جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ جماعت کا جوخلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ میں جماعت کے تمام لوگوں سے افضل ہوتا ہے اور چونکہ ہماری جماعت ہمارے عقیدہ کی روسے باقی تمام جماعتوں سے افضل ہے اس لئے ساری دنیا میں سے افضل جماعت میں سے ایک شخص جب سب سے افضل ہوگا تو موجودہ لوگوں کے لحاظ سے یقینا اسے ’’بعد از خدا بزرگ تُوئی ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ مگر اس کے یہ معنی نہیںہونگے کہ وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ رسول کریم ﷺ سے بھی بڑا ہے یا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ درجہ میں رسول کریم ﷺ کے برابر ہے۔کیونکہ ہماری تمام عزت، ہماری تمام بڑائی، ہماری تمام ترقی اور ہمارا تمام اعزاز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ؎
بعد از خدا بعشقِ محمدؐ مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم۲؎
یعنی اے مسلمانو ! میری زندگی کا مَاحَصَلْ کیا ہے یہی کہ میں خدا تعالیٰ کے بعد رسول کریم ﷺ کی عزت دنیا میں قائم کرناچاہتا ہوں مگر تم باوجود ان باتوں کو دیکھنے کے مجھے کافر کہتے ہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمہیںمیرے اندر کفر کی وجہ یہی نظر آئی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے بعد رسول کریم ﷺ کا درجہ لوگوں میںقائم کرنا چاہتاہوں۔ لیکن اگر میرا یہ فعل جُرم ہے تو پھر میں یقینا مجرم ہوں۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مجرم ہوں جتنا تم مجھے سمجھتے ہو۔ اور اگر کُفر اِسی کانام ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعد رسول کریم ﷺ کی محبت دل میں پائی جاتی ہو اور آپ کا عشق رگ و ریشہ میں سرایت کر چکا ہو تو پھر خدا کی قسم! میں اس سے بہت زیادہ کافر ہوں جتنا تم مجھے سمجھتے ہو۔ یہی عقیدہ ہمارا ہے بلکہ ہم میں سے ہر احمدی کا یہی عقیدہ ہے اور جو شخص اس عقیدہ سے ذرہ بھر بھی اِدھر اُدھر ہو جائے وہ احمدی نہیںرہ سکتا۔ کیونکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قُرب اور اُس کا وصال محمد ﷺ کی کامل اطاعت میںہے۔ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ۳؎ پر ہمارا کامل یقین و ایمان ہے ۔ یہ قرآن کی آیت ہے اور جو شخص قرآن کو مانتاہو وہ اس آیت کے ماتحت لازمی طورپر یہ عقیدہ رکھے گا کہ اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کرنے کا اب ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ انسان رسول کریم ﷺ کی متابعت میں فنا ہوجائے۔
لطیفہ یہ ہے کہ یہ لوگ خود رسول کریم ﷺ کی عملاً ہتک کرتے ہیںمگر الزام ہم پر لگاتے ہیںکہ گویا ہم ( نَعُوْذُ بِاللّٰہِ)رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں۔ گو عقیدۃً ہم ان کے متعلق بھی یہ نہیںسمجھتے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں۔ کیونکہ کوئی شخص مسلمان کہلاتے ہوئے دانستہ رسول کریم ﷺ کی ہتک نہیںکر سکتا ۔ مگر بعض دفعہ انسان غلطی سے نا دانستہ طور پر ہتک کا مرتکب ہو جاتا ہے۔یہی حال ان کا ہے۔ وہ بھی گو عقیدۃً رسول کریم ﷺ کی ہتک نہیںکرتے مگر عملاًآپ کی ہتک کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں اور رسول کریم ﷺ فوت ہو کر زمین میں دفن ہو چکے ہیں۔ اب یہ صاف بات ہے کہ جو نبی آسمان پر اپنے جسدِ عنصری کے ساتھ زندہ موجود ہو اور دنیا کے فسادات کو مٹانے اور دین کی کمزوری کودور کرنے کے لئے اُسی نے آخری زمانہ میں اُترنا ہو اور پھر نبی بھی وہ مستقل ہو یعنی رسول کریم ﷺ کی اطاعت اور پیروی سے اس نے مقامِ نبوت حاصل نہ کیا ہو اورنہ اُس کاکام رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب ہو سکتا ہو وہ بہر حال اُس نبی سے بڑا ہو گا جو زمین میں دفن ہے۔ تو یہ لوگ عملاً رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آپؐ سے افضل قرار دیتے ہیں مگر ہم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت یہ یقین اور ایمان رکھتے ہیں کہ وہ رسول کریم ﷺ کے غلام ہیںاور آپ نے جو درجہ بھی حاصل کیا وہ رسول کریم ﷺ کی اطاعت اور غلامی سے حاصل کیا پس آپ رسول کریم ﷺ کے شاگرد ہیں۔ اور یہ بات ہر شخص جانتاہے کہ شاگرد جو بھی کام کرتا ہے وہ اُس کے اُستاد اور آقا کی طرف منسوب ہوتاہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اسلام کو جو فتوحات حاصل ہوئیں اس سے بہت زیادہ فتوحات تھیں جو حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں اسلام کو حاصل ہوئیںاور پھر حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں اسلام کو جو فتوحات حاصل ہوئیں وہ اس سے بہت زیادہ تھیں جو حضرت ابو بکر ؓ کے زمانہ میں اسلام کو حاصل ہوئیں۔ مگر باوجود مُلک کے دائرہ کی وُسعت کے اور باوجود اُن افراد کی کثرت کے جن پر حضرت ابو بکر ؓ اورحضرت عمر ؓ نے حکومت کی کیا کوئی احمق کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابو بکرؓاور حضرت عمر ؓ رسول کریم ﷺ سے بڑے تھے پس باوجود اس کے کہ حضرت ابو بکر ؓ کی حکومت اس سے بہت زیادہ علاقہ پر تھی جتنے علاقہ پررسول کریم ﷺ کی حکومت تھی اور باوجو د اس کے کہ حضرت ابو بکر ؓکو ان سے بہت زیادہ افراد پر حکومت حاصل تھی جتنے افراد پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکومت حاصل تھی ۔ اسی طرح باوجود اس کے کہ حضرت عمر ؓ کو اس سے بہت زیادہ علاقہ اور بہت زیادہ افراد پر حکومت حاصل تھی جتنے علاقہ یا جس قدر افراد پر رسول کریم ﷺ یا حضرت ابو بکرؓ نے حکومت کی ۔پھر بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ رسول کریم ﷺ سے بڑے تھے ۔ اسی لئے کہ ابو بکر، ابوبکرؓ کہاں سے بنتا اگر وہ رسول کریم ﷺ کا غلام نہ ہوتا اور عمر عمرؓ کہاں سے بنتا اگر وہ رسول کریم ﷺ کا غلام نہ ہوتا۔ بیشک حضرت ابوبکرؓ نے اسلام کیلئے ایک وسیع علاقہ فتح کیا اور پہلے سے زیادہ تعداد میں لوگوں پر حکومت کی مگر جو لوگ آپ کے تابع ہوئے وہ کِن فوجوں سے فتح ہوئے تھے؟ انہی فوجوں سے جو رسول کریم ﷺ نے تیار کی تھیں ۔ اور بیشک حضرت عمر ؓ نے اس سے بھی زیادہ علاقہ پر حکومت کی اور اس سے بھی زیادہ افراد حلقہ بگوشِ اسلام بنائے مگر سوال یہ ہے کہ کیا عمرؓ نے کوئی اپنی فوجیں تیار کر لی تھیں ؟ حضرت عمرؓ نے وہی فوجیںلیں جو محمد ﷺنے تیار کی تھیں اور اُسی سامان اور اُسی ایمان سے کام لیا جو سامان اور ایمان رسول کریم ﷺ نے تیار کیا تھا۔ وہی قربانی، وہی ایثار، وہی اخلاص اور وہی محبت کاجذبہ جو رسول کریم ﷺ نے لوگوں کے قلوب میں پیدا کیا تھا، اُسی کو حضرت عمر ؓ نے لیا اور اُن چیزوں کو اکٹھا کرکے ان سے ایک عمارت تیار کی۔ پس وہ عمرؓ کی عمارت نہیں تھی، وہ رسول کریم ﷺ کی عمارت تھی اورجبکہ وہ سامان جن سے حضرت ابوبکر ؓ نے بڑائی حاصل کی، رسول کریم ﷺ کے پیدا کئے ہوئے تھے اور جب کہ وہ سامان جن سے حضرت عمرؓ نے بڑائی حاصل کی، رسول کریم ﷺ کے پیدا کئے ہوئے تھے۔ تو گو ظاہری طور پر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے زیادہ علاقہ پر حکومت کی مگروہ رسول کریم ﷺ سے بڑے نہیں تھے اور گو ظاہری طور پر ان کی رعایا کی تعداد بھی زیادہ تھی مگر پھر بھی وہ رسول کریم ﷺ کی حکومت سے باہر نہیں جاسکتے تھے اور نہ آپؐ کی غلامی سے وہ ایک لمحہ کیلئے بھی الگ ہوسکتے تھے۔ کیونکہ یہ کام ان کا نہیں، محمد ﷺ کا کام تھا۔
آج لڑائیوں میں لوگ کثرت سے توپیں چلاتے ہیں مگر کیا تم اُس انجینئر کو زیادہ قابلِ اعزاز سمجھتے ہو جس نے آج سے سَو سال پہلے توپ ایجاد کی یا آجکل کے توپیں بنانے والوں کو زیادہ معزز سمجھتے ہو۔ اُس زمانہ میں بڑے سے بڑے گولے چھ پونڈ یا دس پونڈ کے ہؤا کرتے تھے مگر آجکل کے کارخانے ان سے بہت بڑی بڑی توپیں بناتے ہیں۔ مگر باوجود اس تمام ترقی کے یہ کارخانے چلانے والے اُس انجینئر سے زیادہ معزز نہیں سمجھے جاسکتے جس نے توپ ایجاد کی کیونکہ اُس نے ایک نیا خیال پیدا کیا اور ایک نئی ایجاد کے راستہ پر لوگوں کو ڈال دیا جس پر دنیا آخر ترقی کرتی چلی گئی۔ اسی طرح ابتدائے اسلام میں وہ سپاہی جنہوں نے دنیا فتح کی وہ محمد ﷺ نے پید اکئے تھے۔ وہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے پیدا نہیں کئے تھے۔ ہاں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں چونکہ زیادہ علاقے فتح ہوچکے تھے اس لئے انہوں نے پہلے سپاہیوں کے رنگ میں اَور سپاہی بھی تیار کرلئے اور ان کی مدد سے کئی علاقے فتح کرلئے مگر بہرحال یہ تمام فتوحات عمرؓ کی نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کی تھیں۔ پس شاگرد دنیا میں جو کام بھی کرتے ہیں وہ ان کے آقا کی طرف منسوب ہوتا ہے اور وہ سخت احمق شاگرد ہوگا جو یہ کہے گا کہ اس کاکام اس کے آقا سے بڑا ہے یا اس کی بڑائی کے دعویٰ سے یہ مراد ہے کہ وہ اپنے آقا سے بھی درجہ میں بڑھ گیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بیرونِ ہند میں سوائے افغانستان کے اور کہیں تبلیغِ احمدیت نہیں تھی۔ عرب اور ایران میں اِکّے دُکّے احمدی تھے ۔ مگر میرے زمانہ میں قریباً ساری دنیا اور سارے بَرّاعظموں میں احمدیت کی تبلیغ ہوئی ہے ، یور پ کے مختلف علاقوں میں تبلیغ ہوئی ہے افریقہ کے مختلف علاقوں میں تبلیغ ہوئی ہے۔ اسی طرح چین، سماٹرا، جاوا اور امریکہ میں نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں اور پھر پہلے سے بہت زیادہ مصر، فلسطین اور شام کے حصوں میں احمدیت پھیل چکی ہے۔ مگر کیا اس کے یہ معنے لئے جائیں گے کہ ( نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) میرا درجہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑا ہے؟ آخر وہ کیا چیز تھی جس سے میں نے یورپ کے لوگوں کو مسلمان بنایا اور کیا وہ میری چیز تھی؟ پھر وہ کیا چیز تھی جس سے میں نے امریکہ کے لوگو ں کو مسلمان کیا اور کیا وہ چیز میری ایجاد کردہ تھی؟ پھر وہ کیا چیز تھی جس سے میں نے سماٹرا اور جاوا کے لوگوں کو مسلمان کیا اور انہیں رسول کریم ﷺ کی غلامی میں حقیقی معنوں میں داخل کیا اور کیا وہ چیز میری تھی؟ وہ صداقت کی تلوار جس سے میں نے ان علاقوں کو فتح کیا وہ میری نہیں تھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تھی۔ پس یہ میرا کام نہیں بلکہ انہی کاکام ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو تلوار چلائی وہ بھی آپؑ کی نہیں تھی بلکہ قرآن اور حدیث اور محمد ﷺ کی تھی۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی جو کچھ کیا وہ ان کا نہیں بلکہ محمد ﷺ کا کام تھا۔ ہمارا کام تو صرف یہ ہے کہ ہم آپ کا پیغام دنیا کے کونوں تک پہنچائیں۔ ورنہ اگر ہم دنیا کے ایک ایک آدمی کو مسلمان بنالیں اور دنیا کے ایک ایک آدمی کے گند کو نکال کر اُسے تقویٰ اور طہارت سے لبریز کردیں اور دنیا کی تمام حکومتوں کانقشہ بدل کر اسلامی حکومتیں قائم کردیں اور انصاف اور عدل قائم کرکے تمدنی معاملات میں اِس قدر تغیر پیدا کردیں کہ تمام دنیا کے لوگ ایک دوسرے کو بھائی بھائی سمجھنے لگیں۔ اسی طرح ہم تجارت، زراعت اور صنعت و حرفت میں ایسی اصلاح کردیں کہ تمام انسانوں میں مساوات قائم ہوجائے اور سب ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے لگیں۔
غرض ہم سب کچھ کردیں اور ہمارے علاقوں کی وُسعت ہزاروں گُنے زیادہ ہوجائے اورہمارے ماتحت افراد کی تعداد لاکھوں گُنے بڑھ جائے پھر بھی ہمارا کام رسول کریم ﷺ کے کام کے ایک ذرّہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔ پس ہمارا جس قدر کام ہے یہ ہمارا نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کا ہے اور ہماری تمام کوششیں اپنا نام پھیلانے کیلئے نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کا نام پھیلانے اور آپ کی عزت کو دنیا میں قائم کرنے کیلئے ہیں۔ آخرجب ہم امریکہ کے لوگوں سے یہ کہتے ہیں وہ اسلام میں داخل ہوجائیں تو ہم ان سے کیا کہلواتے ہیں؟ وہی کلمۂ شہادت یعنی لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ اسی طرح افریقہ کے لوگوں کو جب ہم مسلمان بناتے ہیں، جب ہم سماٹرا، جاوا، چین اور جاپان میں اسلام کی اشاعت کرتے ہیں تو ان لوگوں سے کیا کہلواتے ہیں؟ یہی کہ لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔پھر کیا یہ رسول کریم ﷺ کی عزت قائم ہوری ہے یا ہماری عزت قائم ہورہی ہے؟ ہماری اور محمد ﷺ کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے ہمالیہ پہاڑ اور سائبان۔ سائبان ایک لگتا ہے اور کچھ مدت کے بعد اُٹھ جاتا ہے۔ ایک پھٹتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا آجاتا ہے لیکن ہمالیہ پہاڑ برابر اپنی جگہ پر کھڑ اہے اور اسے کوئی شخص ہِلا نہیں سکتا۔ اسی طرح خلفاء آتے اور چلے جاتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا اوردوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا خلیفہ دنیا میں آتا اور اپنا اپنا فرض سر انجام دے کر چلا جاتاہے مگر رسول کریم ﷺ ہمالیہ کی طرح اپنے مقام پر کھڑے ہیں اور ایک لمحہ بھی آپؐ پر ایسا نہیں آتا جب آپ دنیا کو اپنے فیوض نہ پہنچارہے ہوں۔
پس جس احمدی نے بھی یہ بات کہی ہے اِنہی معنوں میں کہی ہوگی کہ اِس زمانہ میں جولوگ ہیں ان کے لحاظ سے ہم اپنے خلیفہ کوبعد از خدا سمجھتے ہیں اور میں نے جیسا کہ بتایا ہے کہ اگر اس نے اِن معنوں میں اِن الفاظ کو استعمال کیا ہے تو یقینا اُس نے سچ کہا ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے اور جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں، مَیں نے بھی بارہا بتایا ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی حیثیت دنیا کے تمام بادشاہوں اور شہنشاہوں سے زیادہ ہے۔ وہ دنیا میں خدا اور رسول کریم ﷺ کا نمائندہ ہے اور چونکہ دین، دنیا پر مقدم ہے اس لئے گو ہم دُنیوی معاملات میں حکام کی اطاعت کریں گے، لیکن اگر دین کا معاملہ آئے گا تو پھر ان بادشاہوں کو ہماری اطاعت اور فرمانبرداری کرنی پڑے گی۔ آج اگر دنیا کا ایک بڑے سے بڑا بادشاہ بھی مذہب کی تحقیق کرتا ہے اور تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اسلام ہی تمام مذاہب پر فضیلت رکھتا ہے تو جب وہ اس نکتہ پر پہنچے گا اُس کیلئے سوائے اس کے اور کیا چارہ ہوگا کہ وہ اسلام کے خلیفہ کے پاس آئے اور اُس کی بیعت کرے اور جب وہ خلیفۂ وقت کی بیعت کرے گا تو لازماً وہ خلیفہ کے ماتحت ہوگا اُس سے بڑا نہیں ہوگا۔
پس دنیا کے بادشاہوں کو جو بڑائی حاصل ہے وہ اُسی وقت تک ہے جب تک احمدیت اور اسلام کی صداقت اُن پر روشن نہیں ہوتی۔ جس دن اُن پر اسلام اور احمدیت کی صداقت روشن ہوگئی اُسی دن وہی فقرے جو آج غرباء کے منہ سے سُن کر وہ ہنستے ہیں وہ خود کہنے لگ جائیں گے اور کہیں گے کہ آپ ہی ہمارے حاکم اور آپ ہی ہمارے سرتاج ہیں۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ایک بادشاہ احمدی ہو اور وہ میرے ہاتھ پر بیعت کرے اور پھر وہ یہ کہے کہ میں تمہارا حاکم اور میں تمہارا بادشاہ ہوں۔ لازماً وہ یہی کہے گا کہ دینی میدان میں مَیں ہی غلام ہوں، میں ہی شاگرداور میں ہی ماتحت ہو۔
عیسائیوں میں اس کی مثال موجود ہے چاہے وہ کیسی ہی غلط مثال ہو اور کتنے ہی غلط طریق پر ہو اور وہ یہ ہے کہ جو بادشاہ پوپ کو مانتے ہیں وہ پوپ کو اپنا سردار اورحاکم سمجھتے ہیں او راُن کا عقیدہ یہ ہے کہ ہماری بادشاہتیں ہمیں پوپ سے ملی ہیں۔ زمانۂ وسطیٰ میں تو یہ قاعدہ تھا کہ جب بادشاہ تخت پر بیٹھتا تو وہ پوپ کے پاس اپنی بادشاہت کی منظوری کیلئے چِٹّھی بھیجتا اور جب وہ اسے بادشاہ تسلیم کرتا تب وہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا۔ عیسائی اپنا مذہبی پیشوا پوپ کو سمجھتے ہیں۔ لیکن جماعت احمدیہ کے نزدیک خلیفۂ وقت اُس کا مذہبی پیشوا ہے۔ پس جو بادشاہ بھی احمدی ہوگا وہ اپنے آپ کو خلیفۂ وقت کا ماتحت اور اُس کا نائب سمجھے گا اور گو دُنیوی معاملات میں اُس کے احکام نافذ ہوںگے مگر دینی معاملات میں حکومت احمدی خلیفہ کی ہی ہوگی۔ اِس لحاظ سے اگر اپنے موجودہ زمانہ کے لوگوں سے مقابلہ کرتے ہوئے کوئی شخص خلیفۂ وقت کو ’’بعد از خدا بزرگ تُوئی‘‘ کہہ دے تو کہہ سکتا ہے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ایک ایسا عقلی مسئلہ ہے کہ اِس کا کوئی شخص انکار ہی نہیں کرسکتا۔
میں پوچھتا ہوں کہ اگر احمدیوں کے سِوا کسی دوسرے مسلمان کے منہ سے کسی اپنے بزرگ کے متعلق یہ لفظ نکلیں کہ ہم تو خداتعالیٰ کے بعد آپ ہی کو سمجھتے ہیں تو کیا اس کے یہ معنے لئے جائیں گے کہ وہ اُس بزرگ کا درجہ رسول کریم ﷺ سے بھی بڑا سمجھتا ہے۔ ہر شخص جو معمولی عقل بھی رکھتا ہو سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کے فقرہ کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ اس بزرگ کا درجہ رسول کریم ﷺ سے بھی بڑا ہے بلکہ اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اپنے زمانہ میں وہ تمام دنیا پر فضیلت رکھتا ہے ۔ اور ’’احسان‘‘ بھی کبھی اس پر اعتراض نہ کرے گا۔ یہ اعترا ض اس کے صرف جماعت احمدیہ کیلئے وقف ہیں۔
پھر یہ لوگ تعلیمِ قرآن سے ایسے بے بہرہ ہوچکے ہیں کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں ایسی مثالیں موجود ہیں اور وہ انہیں پڑھتے ہیں پھر بھی اس اسلوبِ بیان کو نہیں سمجھ سکتے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق فرماتا ہے وَاصْطَفٰـکِ عَلٰی نِسَائِ الْعٰـلَمِیْنَ ۴؎ کہ ساری دنیا کی عورتوں سے حضرت مریم علیہا السلام افضل ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ’’احسان‘‘ کے ایڈیٹر کا اس بارہ میں کیا عقیدہ ہے مگر میں تو ایک منٹ کیلئے بھی اس امر کو تسلیم نہیں کرسکتا کہ حضرت مریم ہماری ماں عائشہ صدیقہؓ سے بڑی ہوں یا ہماری ماں خدیجہؓ سے درجہ میں بلند ہوں۔ پھر خود رسول کریم ﷺ نے ایک حدیث میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق فرمایا کہ فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَائِ الْجَنَّۃِ ۵؎ یعنی وہ جنت کی عورتوں کی سردار ہوں گی۔ اب بتائو اس جنت میں حضرت مریم علیہا السلام ہوں گی یا نہیں ہوں گی؟ اگر حضرت مریم علیہا السلام نے بھی جنت میں ہی جانا ہے اور وہ جہان کی تمام عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں تو حضرت فاطمہ سَیِّدَۃُ نِسَائِ الْجَنَّۃِ کس طر ح ہوسکتی ہیں۔ پس بہرحال اس آیت کے کوئی معنے کرنے پڑیں گے اور وہ معنے یہی ہیں کہ حضرت مریم علیہاالسلام صرف اپنے زمانہ کی تمام عورتوں سے درجہ میں بلند تھیں۔ پھر اگر وہاں یہ معنے کرنے جائز ہیں تو شرافت اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس احمدی کے فقرہ کے بھی یہی معنے کئے جائیں کہ اِس زمانہ میں جس قدر لوگ ہیں ان سب سے جماعت احمدیہ کا خلیفہ بڑا ہے اور اگر یہی معنے کئے جائیں تو اس سے ہمیں انکارنہیں بلکہ یقینا ہم اس کے دعویدار ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اَ نِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۶؎ کہ میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے۔ اب بتائو کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ بنی اسرائیل رسول کریم ﷺ کی اُمت سے بھی بڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو امت محمدیہ کے متعلق قرآن کریم میں یہ فرماتا ہے کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۷؎ کہ تم دنیا کی ساری قوموں میں سے زیادہ بلند درجہ رکھنے والی قوم ہو او رتم خالص دنیا کے فائدہ اور نفع رسانی کیلئے پیدا کی گئی ہو۔ اب ایک طرف اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ فرماتا ہے کہ تم دنیا کی تمام قوموں سے اعلیٰ ہو اور دوسری طرف بنی اسرائیل کے متعلق فرماتا ہے کہ میں نے انہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی۔ حالانکہ تمام جہان پر فضیلت ایک کو ہی حاصل ہوسکتی ہے دونوں کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ پھر ان آیتوں کے تطابق کی کیا صورت ہے اور اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ کے کیا معنے ہوں گے۔ کیا یہ ہوں گے کہ بنی اسرائیل کو مسلمانوں پر فضیلت حاصل ہے یا یہ کہ بنی اسرائیل کو اپنے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی۔ مگر مسلمانوں کو ساری جماعتوں اور سارے زمانوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اس کا مزید ثبوت رسول کریم ﷺ کا اپنا دعویٰ ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں اِنِّیْ مُفَاخِرٌ بِکُمْ وَمُکَاثِرٌ بِکُمْ ۸؎ کہ قیامت کے دن میں اپنی اُمت کو ساتھ لے کر باقی تمام انبیاء کی اُمتوں پر فخر کروں گا اور اس کی کثرت پر ان کے مقابلہ میں ناز کروں گا۔ اب قیامت کے دن جہاں ساری اُمتیں اکٹھی ہوں گی جس قوم کو فخر حاصل ہوگا یقینا وہی قوم دنیا کی ساری قوموں سے بڑی ہوگی تو خَیْرَ اُمَّۃٍ کی تشریح رسول کریم ﷺ نے خود کردی اور اللہ تعالیٰ نے بھی ایک دوسرے مقام پر اس کی تشریح کردی جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَائَ عَلَی النَّاسِ ۹؎ اور اسی طرح ہم نے تم کو سب قوموں سے اعلیٰ بنایا ہے تاکہ تم باقی سب لوگوں پر شہید کے طور پر ہو۔ شہید کے معنے داروغہ کے ہوتے ہیں۔ اب خود ہی سوچ لو کہ کیا داروغہ بڑا ہوتا ہے یا مزدور بڑا ہوتا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ مزدور نہیں بلکہ داروغہ بڑا ہوتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا کی ساری قوموں کے مقابلہ میں تم داروغہ کے طور پر ہو اور وہ تمہارے مقابلہ میں ایسی ہی ہیں جیسے مزدور ہوتا ہے۔ جب مسلمانوں کو باقی اقوام پر یہ فضیلت حاصل ہے اور جبکہ قیامت کے دن جہاں اگلی پچھلی تمام قومیں اکٹھی ہوں گی، مسلمان شہید کے طور پر ہوں گے اور باقی قومیںمزدوروں کی طرح۔ تو پہلی قوموں کی بڑائی کا جن آیات میں ذکر آتا ہے ان کے معنے یہی ہوں گے کہ ان قوموں کو صرف اپنے زمانہ میں تمام دنیا پر فضیلت حاصل تھی۔
پھر ایک مقام پر اللہ تعالیٰ بہت سے انبیاء کا اکٹھا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ وَمِنْ اٰبَائِ ھِمْ وَ ذُرِّیّٰتِھِمْ وَ اِخْوَانِھِمْ وَاجْتَبَیْنٰـھُمْ وَ ھَدَیْنٰـھُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمِ۱۰؎ کہ ان میں سے ہر ایک کو ہم نے تمام جہانوں پر فضیلت دی۔ اسی طرح ان کے باپ دادوں کو فضیلت دی، ان کی ذریت کو فضیلت دی اور ان کے بھائیوں کو فضیلت دی۔ اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک سارے جہاں پر فضیلت رکھتا تھا۔ اگر باپ فضیلت رکھتے تھے تو بھائیوں کو کس طرح فضیلت حاصل ہوگئی۔ اور اگر بھائی افضل تھے تو ذریت افضل کس طرح بن گئی۔ یہ توکہا جاسکتا ہے کہ تین دوسے بڑا ہے لیکن یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ دو تین سے بڑا ہے۔ اگر تین دو سے بڑا ہے تو دو تین سے بڑانہیں ہوسکتا۔ اور اگر دو تین سے بڑا ہے تو تین دو سے بڑا نہیں ہوسکتا۔ دراصل وہاں بھی اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ ہر نبی کی جماعت کو اپنے اپنے زمانہ میں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی۔ حضرت ابراہیمؑ کی قوم کو اپنے زمانہ میں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی اور اسحقؑ کی قوم کو اپنے زمانہ میں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی اور یعقوبؑ کی قوم کو اپنے زمانہ میں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی۔ اسی طرح دائودؑ اورسلیمانؑ اور ایوبؑ اور یوسفؑ اور موسیٰؑ اور ہارونؑ اور زکریاؑ اور یحییٰؑ اور عیسیٰؑ اور الیاسؑ اور اسماعیل ؑ اور الیسعؑ وغیرہ کی قوموں کو اپنے اپنے زمانہ میں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل تھی۔ اور پھر ان کی وجہ سے ان کے اُن باپ دادوں اور اولادوں کو بھی فضیلت حاصل ہوگئی جو انبیاء کو ماننے والی تھیں۔ تو قرآن کریم کی متعدد آیات سے یہ ثابت ہے کہ جب کسی کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہے تو اس کے معنے صرف یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت رکھتا ہے۔
اب یہ کتنی ظالمانہ یا کتنی جاہلانہ بات ہے جو ہماری طرف منسوب کی گئی ہے۔ اگر ’’احسان‘‘نے دیدہ دانستہ یہ عقیدہ ہماری طرف منسوب کیا ہے تو اس نے ایک ظالمانہ فعل کیا اورا گر ہمارے عقائد سے واقفیت حاصل کئے بغیر اس نے ایسا نوٹ لکھا تو اس نے ایک جاہلانہ فعل کا ارتکاب کیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُوأَدَ کُلُّ اُولٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً ۱۱؎ کہ جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس میں دخل نہ دیا کرو۔ جو شخص قرآن کریم کوجانتا ہی نہیں اور جس نے رسول کریم ﷺ کے کلام پر کبھی غور ہی نہیں کیا، وہ اگر بغیر سوچے سمجھے اعتراض کردیتا ہے تو اس کا اعتراض معاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ مگر جو قرآن کریم پرایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کی باتوں کو پس پشت ڈا ل دیتا ہے وہ معذور نہیں قرار دیا جاسکتا۔
پھر میں کہتا ہوں کہ اگر ان لوگوں نے قرآن پر کبھی غور نہیں کیا تھا یا اگر ان لوگوں نے رسول کریم ﷺ کے کلام پر کبھی غور نہیں کیا تھا تو کم از کم انہیں انسانوں کے کلام پر ہی غور کرنا چاہئے تھا اور دیکھنا چاہئے تھا کہ کیا روزمرہ کی گفتگو میں اس قسم کے الفاظ استعمال نہیں کئے جاسکتے۔ تم چلے جائو لاہور میں اور لوگوں سے دریافت کرو کہ سب سے بڑا پہلوان کون سا ہے۔ وہ کہیں گے سب سے بڑا پہلوان گاما ہے۔ اب کیا جب کوئی شخص یہ کہے کہ سب سے بڑا پہلوان گاما ہے تو اس سے یہ بحث شروع کردینی چاہئے کہ سب سے بڑا پہلوان تو رُستم تھا، تم گاما کو سب سے بڑا پہلوان کیوں قرار دیتے ہو۔ یا سب سے بڑا پہلوان تو غلام تھا ، تم گاما کو کیوں بڑا کہتے ہو۔ اگر کوئی شخص ایسی بحث کرے تو ساری دنیا اسے احمق قرار دے گی اور کہے گی کہ یہاں رُستم اور گاما کا مقابلہ کون سا ہورہا ہے یہاں تو یہ ذکر ہے کہ موجودہ زمانہ میں سب سے بڑا پہلوان کون سا ہے۔ غرض تم ساری دنیا کا چکر لگائو، ساری دنیا کا نہ سہی تم ہندوستان کا ہی چکر لگا کر دیکھ لو تمہیں گلیوں میں اور بازاروں میں، مدرسوں اور خانقاہوں میں،چھوٹوں اور بڑوں میں غرض ہر جگہ اور ہر شہر میں اس قسم کے فقرات بولتے ہوئے لوگ نظر آئیں گے۔ وہ کہیں گے فلاں شخص سب سے بڑا ہے اور سب سے بڑا ہونے سے مراد وہ کبھی یہ نہیں لیں گے کہ وہ پہلوںاور پچھلوں سب سے بڑا ہے بلکہ سب سے بڑا ہونے سے یہ مراد لیں گے کہ وہ موجودہ زمانہ میں سب سے بڑا ہے یا ایک خاص دائرہ میں سب سے بڑا ہے۔ تم چلے جائو عدالتوں میں تمہیں روزانہ اس قسم کے نظارے دکھائی دیں گے کہ مجسٹریٹ کے سامنے مقدمہ پیش ہورہا ہے اور ایک غریب شخص جس کا مقدمہ عدالت کے سامنے ہے وہ مجسٹریٹ کو مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہا ہے ’’خدا دے ہیٹاں ساڈے تُسیں ہی ہو‘‘ یعنی خدا کے نیچے اب آپ ہی ہمارا کام کرنے والے ہیں۔ روزانہ زمیندار اور پیشہ ور اس قسم کے فقرات استعمال کرتے ہیں مگر کبھی انہیں کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ تم دہریہ ہوگئے یا رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا تم نے انکار کردیا ۔
پس میں حیران ہوں کہ ادیب کہلانے والے ان محاوروں کو بھی کیوں نہیں سمجھتے جو جاہل سے جاہل زمیندار روزانہ بولتا ہے اور کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا۔ ’’زمیندار‘‘ جب یہ فقرہ استعمال کرتاہے کہ ’’خدا دے ہیٹاں ساڈے تسیں ہی ہو‘‘ تو ’’ہیٹاں‘‘ سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ اب خدا کے بعد اسی مجسٹریٹ کا درجہ ہے بلکہ اس سے مرادیہ ہوتی ہے کہ میرے اس مقدمہ کا یا خدا فیصلہ کرسکتا ہے یا آپ فیصلہ کرسکتے ہیں۔ وہاں نہ دین کا ذکر ہوتا ہے نہ رسول کریم ﷺ کے درجہ کا ذکر ہوتا ہے۔ صرف اتنی بات ہوتی ہے کہ میرے اس مقدمہ میں یا مجسٹریٹ نے فیصلہ کرنا ہے یا خدا نے۔ یا اگر گائوں میں بیٹھ کر کوئی زمیندار اِسی قسم کا فقرہ نمبردار سے کہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ میر افیصلہ اب خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس سے نیچے اُتر کر نمبر دار کے ہاتھ میں۔ لیکن اگر ان معنوں کو ملحوظ نہ رکھا جائے اور جب کوئی زمیندار کسی نمبردار کو کہے کہ ’’خدا دے تو ہیٹاں ساڈے تسیں ہی ہو‘‘ تو جھٹ پولیس کا کوئی آدمی اسے ہتھکڑی لگالے اور کہے کہ ہز میجسٹی شہنشاہِ معظم کی بادشاہت کا یہ انکار کررہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ خد اکے نیچے نہ کوئی بادشاہ ہے نہ حاکم، جو ہے یہ نمبردار ہی ہے ۔ پس یہ ہائی ٹریژن (HIGH TREASON) کا مجرم ہے، اسے جیل بھیجنا چاہئے۔ تو کیا ساری دنیا اس سپاہی کو پاگل قرار نہیں دے گی؟ وہ کہے گی اسے جیل خانہ بھیجنے کی بجائے تمہیں پاگل خانہ بھیجنا چاہئے ۔ کیونکہ تمہیں سوچنا چاہئے تھا کہ اِس فقرے کا محل کیا ہے اور اِس کا مطلب کیا ہے۔
پھر میں ان لوگوں کو کہتا ہوں کہ تم اپنے متعلق یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ہمیں رسول کریم ﷺ سے محبت ہے مگر اس لفاظی کا کیا فائدہ۔ تم نے کبھی غور بھی کیا ہے کہ تمہاری اس محبت میں جو تم رسول کریم ﷺ سے رکھتے ہو اور ہماری اس محبت میں جو ہم رسول کریم ﷺ سے رکھتے ہیں کتنا عظیم الشان فرق ہے؟ اور کتنا بّین امتیاز ان دونوں میں موجو دہے۔
میں ایک دفعہ قصور گیا وہاں ایک دوست کا ایک کارخانہ ہے۔ وہ مجھے اپنا کارخانہ دکھانے کیلئے لے گئے۔اُس وقت تک وہ غیرمبائعین سے تعلق رکھتے تھے مگر اب وہ ہماری جماعت میں شامل ہوچکے ہیں۔ اسی اثناء میں قصور کا ایک ہندو نوجوان جو نہایت ہوشیار اور چلتا پُرزہ تھا، وہاں آگیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ میرا ایک سوال ہے آپ اس کا جواب دیں۔میں نے کہا دریافت کیجئے۔ وہ کہنے لگا مجھے اس بات کا شوق ہے کہ مختلف مذاہب کے جو بانی ہیں ان کے حالاتِ زندگی معلوم کروں۔ اِس وجہ سے مختلف مذاہب کے واعظ جب ہمارے شہر میں آتے ہیں تو میں ان کے وعظوں اور تقریروں میں شامل ہوتا ہے۔ جب کوئی بڑا مولوی آجاتا ہے اور لیکچر دیتا ہے تو میں اس کے لیکچر میں بھی شامل ہوجاتا ہوں اور جب کوئی عیسائی پادری آجاتا ہے تو اس کا وعظ سننے کیلئے بھی چلا جاتا ہوں اور جب کوئی ہندو پنڈت آتا ہے تو اس کی تقریر میں بھی چلاجاتا ہوں۔ مسلمان واعظوں میں سے مجھے ان کی تقریر کا زیادہ شوق رہتاہے جو آنحضرت ﷺ کے حالاتِ زندگی سنائیں کیونکہ یہ ایک تاریخی مضمون ہے۔ اور ایک غیرمذہب والے کو مذہبی مضمون سے تاریخی مضمون سے زیادہ دلچسپی ہوسکتی ہے۔ لیکن ایک بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی اور وہ یہ کہ عیسائی پادری جب وعظ کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ یہ بیان کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے محبت کی تعلیم دی اور انہوں نے لوگوں کیلئے اپنی جان قربان کردی۔ ایک ہندو پنڈت کھڑا ہوتا ہے تو وہ بھی حضرت کرشن جی کے فضائل بیان کرتا اور کہتا ہے کہ انہوں نے دنیا سے جھگڑا اور فساد دور کیا۔ حضرت رام چندر کے متعلق کہتا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو یہ یہ سُکھ پہنچایا۔ایک سکھ گیانی آتا ہے تو وہ بھی اپنے گرو کی خوبیاں لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے مگر جب کوئی مسلمان مولوی آتا ہے اور محمد ﷺ کے فضائل بیان کرنے لگتا ہے تو یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ او کالی کملی والے او زلفاں والے! او کالی کملی والے او زلفاں والے!۔ میں اس کی یہ بات سن کر شرم اور ندامت سے پسینہ پسینہ ہوگیا اور میں نے اُسے کہا یہ مسلمان رسول کریم ﷺ کے فضائل سے ناواقف ہیں۔ اگر یہ لوگ قرآن کریم پڑھیں اور احادیث سے واقفیت رکھیں تو انہیں معلوم ہوکہ رسول کریم ﷺ کے اخلاق کو کس اعلیٰ رنگ میں بیان کیا گیا ہے۔ مگر چونکہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کے محاسن پر کبھی غور نہیں کیا اس لئے یہ بڑی سے بڑی خوبی اور بڑے سے بڑا کمال جو آپ کا بیان کریں گے وہ یہی ہوگا کہ ’’او کالی کملی والے او زلفاں والے‘‘۔ غرض یہ لوگ جو رسول کریم ﷺ کی تعریف کرتے ہیں اس میں ہر شخص شامل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کالی کملی رسول کریم ﷺ کی فضیلت کا معیار سمجھی، نتیجہ یہ ہؤا کہ مسلمان فقیروں نے کالی کملی اوڑھ لی اور سمجھ لیا کہ رسول کریم ﷺ کے تمام کمالات انہیں حاصل ہوگئے۔ پھر انہوں نے رسول کریم ﷺ میں ایک اور حُسن یہ دیکھا کہ آپ کی زُلفیں لمبی تھیں یہ دیکھ کر مسلمان فقیروں نے بھی اپنے بال بڑھالئے اور سمجھ لیا کہ رسول کریم ﷺ کی اتباع ہوگئی اور ہم آپ کے مثیل بن گئے۔ مگر ایک احمدی جب رسول کریم ﷺ کے اخلاق کو پیش کرے گا تو وہ آپ کے ان اخلاق کو پیش کرے گا جو ساری دنیا کی کملیوں والوں پر کیا، ساری دنیا کے نبیوں اور رسولوں پر آپ کی فضیلت ثابت کردیتے ہیں اور کوئی نہیں ہوتا جو ان تعریفوں میں رسول کریم ﷺ کا مقابلہ کرسکے۔
پھر جب یہ لوگ رسول کریم ﷺ کے معجزات بیان کرتے ہیں تو ایسے ایسے معجزات بیان کرتے ہیں جنہیں سن کر بجائے متأثر ہونے کے لوگ ہنستے ہیں اور پھر جب ہندوئوں کے سامنے ان قصوں کو رکھا جاتا ہے تو وہ ان سے بھی بڑے بڑے قصے اپنے بزرگان کے متعلق سنادیتے ہیں کیونکہ خالی قصوں پر اگر دین کا مدار ہو تو قصے بنانے کوئی مشکل کام نہیں۔
ہمارے ایک عزیز تھے جو احمدی نہیں تھے وہ ایک دفعہ قادیان آئے۔ میر محمداسحق صاحب اُس وقت چھوٹی عمر کے تھے۔ چھوٹی عمر میں انسان دعویٰ زیادہ کرلیتا ہے اور بعض دفعہ جب اسے کوئی نئی دلیل ملتی ہے تو وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی دشمن نہیں ٹھہر سکتا اور وہ اس بات سے ناواقف ہوتا ہے کہ نہ ماننے والے کئی راستے نکال لیتے ہیں۔ اُن دنوں ’’حقیقۃ الوحی‘‘ تازہ تازہ چھپی تھی اور چونکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بہت سے معجزات کا ذکر کیا ہے اس لئے میر محمد اسحق صاحب حقیقۃ الوحی لے کر ان کے پاس چلے گئے۔ اُس وقت میر صاحب کی عمر پندرہ سولہ سال کی تھی۔ انہوںنے خیال کیا کہ جونہی میںنے اس کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معجزات بیان کئے وہ احمدیت کی صداقت فوراً تسلیم کریں گے۔ خیر وہ گئے اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آگئے اور مجھے آکر کہنے لگے کہ میں نے ان کی خوب خبر لی ہے۔ وہ ہماری تمام باتیں مان گئے ہیں اور اب وہ بیعت کرنے کے بالکل قریب ہیں۔ میں نے کہا تھوڑی دیر کے بعد آپ پھر ان کے پاس جائیں گے تو پتہ لگ جائے گا۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد جب وہ دوبارہ ان سے ملے اور مل کر واپس آئے تو کہنے لگے وہ تو عجیب آدمی ہیں۔ میری باتیں سن کر تو کہتے رہے کہ ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہے مگر جب آخر میں مَیں نے کہا کہ جب تمام باتیں درست ہیں تو آپ احمدیت کوقبول کرلیجئے تو وہ کہنے لگے میاں! یہ معمولی ولایت کے کمال ہیں ان سے کسی کو مأمور تھوڑا ہی مانا جاسکتا ہے اور یہ تو ادنیٰ باتیں ہیں۔ جو کامل ولی ہوں وہ تو اس سے بھی بڑے بڑے معجزات دکھاسکتے ہیں۔ پھر انہوں نے خود ایک قصہ سنایا۔ کہنے لگے تم نے سنا ہوگا کہ مکہ میں تربوز بہت اچھے ہوتے ہیں۔ اب قرآن میں لکھا ہے کہ وہ وادی غَیْرِذِیْ زَرْعٍ ہے ۱۲؎ جب وہ ایسی وادی ہے جس میں کچھ بھی پیدا نہیں ہوسکتا تو پھر اعلیٰ قسم کے تربوز اتنی کثرت سے کہا ں سے آجاتے ہیں۔ سو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ گدھوں والے مکہ سے طائف جاتے ہیں اور طائف سے بڑے بڑے کھنگھر اپنے بوروں میں بھر لیتے ہیں جب وہ واپس آتے اور مکہ میں پہنچتے ہیں تو تمام کھنگھر تربوز بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ پھر کہنے لگے ہمارے ایک دادا تھے، وہ بڑے بزرگ اور اللہ تعالیٰ کے کامل ولی تھے۔ ایک دفعہ وہ بغداد سے جہا ز پر سوار ہوئے ۔راستہ میں جہاز کہیں گھنٹہ بھر ٹھہرا تو وہ کہنے لگے میں فلاں بزرگ سے مل آئوں۔ لوگوں نے انہیں کہا کہ جہاز نے یہاں صرف ایک گھنٹہ ٹھہرنا ہے اور آندھی بھی آئی ہوئی ہے، آپ نہ جائیں۔ مگر وہ کہنے لگے نہیں میں ضرور جائوں گا اور اگر میں ایک گھنٹہ تک نہ آئوں تو میرا انتظار نہ کیاجائے اور جہاز بے شک روانہ ہوجائے۔ چنانچہ ایک گھنٹہ تک جہاز کھڑا رہا مگر وہ نہ آئے اور جہاز چل پڑا۔ جس وقت جہاز بمبئی پہنچا تو لوگ کیا دیکھتے ہیں کہ وہی بزرگ ساحلِ بمبئی پر ٹہل رہے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا حضرت آپ کہاں؟ کہنے لگے مجھے جب معلوم ہؤا کہ جہاز چل پڑا ہے تو میں نے کھڑاواں پہنی اور بھاگ کر بمبئی آگیا۔ پھر کہنے لگے وہ بزرگ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میں جمعہ کے دن فوت ہوں گا اور میرا جنازہ کشمیر کی شاہی مسجد میں پڑھا جائے گا اور وہیں مَیں دفن ہوں گا۔ چنانچہ ایک دن جب وہ جمعہ کی نماز پڑھ چکے تو لوگوں سے کہنے لگے بھائیو ذرا ٹھہر جانا میں اب فوت ہونے لگا ہوں، مجھے نہلا دھلا کر جانا۔ وہ کہنے لگے کہ آپ تو کہا کرتے تھے کہ میرا کشمیر میں جنازہ ہوگا اور وہیں میں دفن ہوں گا مگرآپ فوت یہیں ہونے لگے ہیں۔ انہوں نے فرمایا تم فکر نہ کرو وہ بھی ہوجائے گا۔ چنانچہ انہوں نے کلمہ پڑھا اور فوت ہوگئے۔ لوگوں نے اُنہیں نہلایا دھلایا اور پھر کفن پہناکر چارپائی پر لِٹادیا۔ بس جونہی انہوں نے نعش چارپائی پر رکھی وہ کیا دیکھتے ہیں کہ نعش غائب ہے۔ ادھر سرینگر کی جامع مسجد میں جب جمعہ ہوچکا تو امام صاحب نے لوگوں سے کہا بھائیو! ذرا ٹھہرجانا یہاں ایک بہت بڑے بزرگ کا جنازہ آنے والا ہے۔ لوگوںنے کہا یہاں تو کوئی بزرگ فوت نہیں ہؤا۔ امام صاحب کہنے لگے ابھی جنازہ پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ وہ مصلّٰے پر بیٹھ گئے اور انہوں نے تھوڑی دیر ہی تسبیح پھیری تھی کہ یکدم ایٹہ سے جو علی گڑھ کے قریب ہے ، چارپائی پر جنازہ وہاں آ اُترا اور سب نے ان کا جنازہ پڑھ کر انہیں وہیں دفن کردیا۔ یہ قصہ سنا کر وہ میر محمد اسحق صاحب سے کہنے لگے میاں معجزے تو یہ ہوتے ہیں۔ وہ بھی کیا معجزے ہیں جو مرزا صاحب نے دکھائے۔ گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات اور ان صاحب کے مذکورہ معجزات کی آپس میں کوئی نسبت نہیںکیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات تاریخی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ صرف اوہامِ باطل تھے۔ مگر جب تاریخی معجزات سے لوگ یہ سلوک کریں تو ان معجزات کا کیا حال ہوگا جو رسول کریم ﷺ کے اصلی معجزات کو چھوڑ کر لوگوں نے خود بطور کہانی کے بنالئے ہیں۔
پھر اس قسم کے غیرتاریخی معجزات جب مسلمان مولوی ہندوئوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تو وہ اس سے بھی بڑھ کر معجزے بیان کردیتے ہیں۔ چنانچہ ہندو کہتے ہیں کہ ایک نیل کنٹھ۱۳؎ کا بچہ تھا اسے پیدا ہوئے ابھی ایک گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ وہ اپنی ماں سے کہنے گا اماں اماں! مجھے بھوک لگی ہے۔ ماں نے کہا کہ میرے پاس تو تمہارے لئے کچھ نہیں۔ وہ کہنے لگا اچھا تو اماں مجھے اجازت دے کہ میں باہر جاکر کچھ کھاپی آئوں۔ ماں کہنے لگی تمہیں باہر جانے کی تو میں اجازت دے دیتی ہو ں مگر دیکھنا کسی برہمن کو نہ کھاجانا۔ لطیفہ یہ ہے کہ اسے پید اہوئے ابھی صرف ایک گھنٹہ گزرا ہے اور ماں کی ہدایت اسے یہ ہے کہ کسی برہمن کو نہ کھاجانا۔ خیر وہ کھانے کی تلاش میں باہر نکلا۔ آگے اُس نے کیا دیکھا کہ ایک بارات آرہی ہے جس میں سینکڑوں ہاتھی، گھوڑے اور اونٹ ہیں اور ہزاروں آدمی اس بارات میں شامل ہیں۔ ان کے پاس کھانے کا بھی لاکھوں من سامان ہے۔ اس نے یہ دیکھتے ہی سڑک پر اپنی چونچ رکھ دی اور تمام اونٹ، گھوڑے،ہاتھی اور باراتی کھچے کھچے اُس کے پیٹ میں چلے گئے۔ غلطی سے ایک برہمن بھی وہ کھاگیا۔ مگر جب اسے معلوم ہؤا کہ ایک برہمن بھی پیٹ میں چلا گیا ہے تو ا س نے پیٹ مروڑ مراڑ کر برہمن کو اُگل دیا اور پھر وہ لاکھوں من کھانا بھی کھاگیا جو بارات کے ساتھ تھا۔ اس کے بعد اسے پیاس لگی تو وہ ایک دریا پر گیا اور اُس پر چونچ رکھ کر پانی پینا شروع کردیا اور اتنا پانی پیا کہ آخر وہ دریا سارے کا سارا خشک ہوگیا۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ راجپوتانہ میںیہ دریا ہؤا کرتا تھا مگر آجکل وہاں ریت ہی ریت ہے۔ اس کے بعد وہ آرام کرنے کیلئے ہمالیہ پہاڑ کی چوٹیوں پرچلا گیا اور سوگیا۔ چنانچہ آج تک وہ ہمالیہ پہاڑ کی چوٹی پر آرام کررہا ہے۔
غرض مسلمانوں کے مولوی اِس قسم کی مضحکہ خیز باتیں رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کرتے اور ایسے معجزات آپ کے بیان کرتے ہیں کہ جن کے مقابلہ میں دشمن اس سے بھی بڑے بڑے معجزات پیش کردیتا ہے اور وہ ان کا کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ مگر ہم رسول کریم ﷺ کے وہ معجزات بیان کرتے ہیں کہ جنہیں سن کر دشمن کے منہ پر مُہر لگ جاتی ہے اور وہ بات تک نہیں کرسکتا۔ جب ہم دشمن کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کامعجزہ یہ ہے کہ جو شخص ان کی غلامی اور اتباع کرتا ہے خداتعالیٰ کا تازہ کلام اُس پر اُترتا ہے اور زمین و آسمان کا خدا اُس سے ہمکلام ہوتا ہے۔ تو کیا ہے کوئی ہندو جو کہے کہ میں اس سے بڑھ کر اپنے پیشوا کا معجزہ پیش کرسکتا ہوں۔ یا ہے کوئی عیسائی جو کہے کہ ان کے مسیح کی اِتباع سے یہ نعمت انسان کو حاصل ہوسکتی ہے، سب دم بخود ہوجاتے ہیں کیونکہ محمد ﷺ کی غلامی کے سوا یہ نعمت کسی مذہب میں رہ کر انسان کو نصیب نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح جب ہم قرآن کریم کے معجزات دنیا کے سامنے پیش کرتے اور کہتے ہیں کہ دنیا کی تمام پارلیمنٹیں اور دنیا کے تمام فلاسفراور دنیا کے تمام مدبر اور عقلمند سب مل کر جو تعلیمیں تجویز کررہے اور سینکڑوں سال غور کرنے کے بعد انہیں لوگوں کی کامیابی کا ذریعہ بتارہے ہیں، وہ ہمارے اُمّی آقا اور سردار کی اس تعلیم کے مقابلہ میں جو اس نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے پیش کی اگر رکھی جائیں تو خاک ہوکر رہ جاتی ہیں۔ تو کس طرح وہ عیسائی جو دوسروں پر بڑھ بڑھ کر اعتراض کررہے ہوتے ہیں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں او رانہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ واقعہ میں قرآن کریم جس تعلیم کو پیش کرتا ہے وہی تعلیم اصلی اور اعلیٰ ہے۔
پھر کس طرح طلاق کے متعلق غیر تو الگ رہے مسلمان بھی بہانے بنانے لگ گئے تھے اور کہتے تھے کہ اس کی یہ تشریح ہے اور اس کی وہ تشریح ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ والسلام نے دنیا کو آکر بتایا کہ طلاق بھی ایک ضروری چیز ہے اور جس عورت کو طلاق دی جائے وہ حسبِ منشاء دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ نے یہ تعلیم دی اور آپ نے جو کچھ کہا وہ بالکل سچ ہے۔ لوگوں نے اس بات کو سُنا اور حقارت کی ہنسی ہنسے مگر کس طرح آج ایک زبردست بادشاہ نے جس کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوتا، اسی مسئلہ میں یورپ کے خیالات کی غلطی ثابت کرنے کیلئے اپنی بادشاہت چھوڑدی ۔ پادریوں نے بھی زور دیا کہ وہ بادشاہت نہ چھوڑے، مدبروں نے بھی زور لگایا کہ وہ اپنے ارادہ سے باز رہے ، وزراء نے بھی کوشش کی کہ وہ اس اقدام کو ترک کردے، پارلیمنٹ کے ممبروں نے بھی چاہا کہ وہ اپنے ارادہ کو عملی جامہ نہ پہنائے، ملک نے بھی خواہش کی کہ وہ تاج و تخت کو نہ ٹھکرائے مگر اس نے صاف کہہ دیا کہ جو ملک یہ کہتا ہے کہ طلاق والی عورت الزام کے نیچے ہے اور اس سے دوبارہ شادی کرنا پسندیدہ نہیں میں اس کی اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا۔ میں بادشاہت چھوڑنی آسان سمجھتا ہوںمگر اس خیال کو ترک کرنا میرے لئے مشکل ہے کہ مطلقہ عورت کسی الزام کے نیچے نہیں ہوتی اور اس سے شادی کی جاسکتی ہے۔
غرض قرآن کریم کے ایک ایک حرف اور ایک ایک حرکت اور ایک ایک نقطہ کے نیچے سے ہم نے معارف کے خزانے نکالے اور انہیں دنیا کے سامنے پیش کیا اور محمد ﷺ کی عزت عَالَم میں قائم کی۔یہاں تک کہ اسلام کا شدید سے شدید دشمن بھی آج یہ تسلیم کرنے لگ گیا ہے کہ روحانی میدان میں محمد ﷺ جیسا پہلوان اور کوئی نہیں ہؤا۔ پس وہ جنہوں نے رسول کریم ﷺ کی حقیقی شان دنیا میں قائم کی، وہ جنہوں نے اسلام کی سچی خدمت کی، وہ جنہوں نے اسلام کی تعلیم پر عمل کرکے دنیا کو دکھادیا اور ثابت کردیا کہ اسلام کی تمام تعلیمیں قابلِ عمل ہیں اور انہی پر عمل کرنے میں ہر برکت اور سعادت ہے ان کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اپنے خلیفہ کو رسول کریم ﷺ سے بڑا سمجھتے ہیں اس سے زیادہ جھوٹ اور اس سے زیادہ غلط بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ میں ایسے اخبار نویسوں کوکہتا ہوں کہ مذہبی اختلاف کو جانے دو تم کم از کم انسانیت اور شرافت کا پاس رکھو اور اسے اپنے ہاتھ سے نہ دو۔ ہمارے تمہارے اختلاف بھی ہیں، لڑائیاں بھی ہیں،جھگڑے بھی ہیں مگر ان لڑائیوں اور جھگڑوں میں جھوٹ بولنے سے کیا فائدہ اور کسی کی طرف وہ عقائد منسوب کرنے سے کیا حاصل جن کو وہ مانتا ہی نہیں۔
پھر میں کہتا ہوں کہ اگر وہ سچے دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے دلوں میں رسول کریم ﷺ کی ہم سے زیادہ عزت ہے تو میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنے علماء کو تیار کریں اور تراضیء فریقین سے ایک تاریخ مقرر کرکے وہ بھی رسول کریم ﷺ کی عظمت پر مضامین لکھیں اور ایک مضمون رسول کریم ﷺ کی عظمت پر میں بھی لکھوں گا پھر دنیا خودبخود دیکھ لے گی کہ ان کے دس بیس لکھے ہوئے مضامین میرے ایک مضمون کے مقابلہ میں حقیقت رکھتے ہیں اور رسول کریم ﷺ کے فضائل اورآپ کے محاسن مَیں بیان کرتا ہوں یا وہ مولوی بیان کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے رسول کریم ﷺ کی عظمت پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ ان کا بے شک رسول کریم ﷺ پر ایمان ہے مگر ان کا ایمان ایمان العجائز سے بڑھ کر نہیں۔ یعنی انہوں نے اپنے باپ دادوں سے جیسا سُناویسا مان لیا۔ یا چونکہ وہ مسلمانوں کے گھروں میں پید اہوئے تھے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ماننے لگ گئے ورنہ انہو ں نے نہ کبھی قرآن پر غور کیا ہے اور نہ رسول کریم ﷺ کے کلام پر کبھی غورکیا ہے۔ اگر ان لوگوں نے قرآن مجید کو غور سے پڑھا ہوتا تو حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق وَاصْطَفٰـکِ عَلٰی نِسَائِ الْعٰـلَمِیْنَ اور اسی طرح بنی اسرائیل کے متعلق اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ کے الفاظ پڑھ کر کیوں اس حقیقت کو نہ پہنچ جاتے کہ جب کسی کے متعلق یہ کہا جاتا کہ بعد از خدا اُس کا درجہ ہے تو اِس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے زمانہ کے لوگوں پر وہ فضیلت رکھتا ہے، نہ یہ کہ وہ رسول کریم ﷺ سے بھی درجہ میں بڑا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہم وہ ہیں جو رسول کریم ﷺ کے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ ارشاد پر اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اور یا تو آج سے تیرہ سَو سال پہلے صحابہؓ نے یہ کہا تھا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! آپ ہمیں حکم دیجئے، ہم سمندرمیں اپنے گھوڑے ڈالنے کیلئے تیار ہیں۱۴؎ اور ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہؤا نہ گزرے۱۵؎ اور یا یہی فقرے آج ہمارے ہیں۔ آج ہم ہی ہیںجو رسول کریم ﷺ کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے میں گاڑ رہے ہیں ، آج ہم ہی ہیں جو دین کی اشاعت کررہے ہیں، آج ہم ہی ہیں جو قرآن کریم کی خدمت کررہے ہیں اور آج ہم ہی ہیں جو اسلام کے فضائل اور محاسن دنیا پر ظاہر کررہے ہیں۔ مگر یہ غافل اورسوئے ہوئے افیونی کروٹ بدلتے ہیں اور آنکھیں کھولے بغیر کہنے لگ جاتے ہیں کہ احمدیوں نے رسول کریم ﷺ کی ہتک کردی۔ حالانکہ یہ قرآن کریم اور اس کی تعلیم سے غافل ہوکر لحافوں میں لپٹے ہوئے پڑے ہیں اور ہم پر ایسی حالت میں اعتراض کررہے ہیں جب کہ ہمارے سینے دشمنانِ اسلام کے مقابل پر تنے ہوئے ہیںاور جب کہ محمد ﷺ کی حفاظت کیلئے ہم ان کے اعداء کے نیزوں کو اپنے جسموں پر روک رہے ہیں۔
(الفضل ۲۷ ؍ اگست ۱۹۳۷ئ)
۱؎ مدنیت: شہریت۔ شہری پن
۲؎ درثمین فارسی صفحہ ۱۱۲ ۔شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ
۳؎ اٰل عمران :۳۲ ۴؎ اٰل عمران: ۴۳
۵؎ ترمذی کتاب المناقب باب ما جاء فی فضل فاطمۃ میں یہ الفاظ ہیں ’’اَخْبَرَ نِیْ اَنِّی سَیِّدَۃُ نِسَائِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ
۶؎ البقرۃ: ۴۸ ۷؎ اٰل عمران: ۱۱۱
۸؎ ابو داؤد کتاب النکاح باب النھی عن تزویج من لم یلد من النسائ(مفہومًا)
۹؎ البقرۃ:۱۴۴ ۱۰؎ الانعام : ۸۷۔۸۸ ۱۱؎ بنی اسرائیل :۳۷
۱۲؎ ابراہیم :۳۸
۱۳؎ نیل کنٹھ: ایک پرندہ جس کی گردن اور پَر نیلے ہوتے ہیں۔
۱۴؎ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۲۶۷مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۵؎ بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوۃ بدرِِ

۲۷
خلیفۂ وقت کی اطاعت میں یقینی فتح اور کامیابی ہے
(فرمودہ ۲۷ ؍ اگست ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
سب سے پہلے تو میں ایک رپورٹ کے متعلق بعض باتیں کہنا چاہتا ہوںجو ایک دوست نے ایک باہر کے گائوں سے لکھ کر بھیجی ہے۔وہ دوست بیان کرتے ہیںکہ میں اپنی بیماری کے متعلق مشورہ کرنے کے لئے اور بعض انتظامات کی خاطر قادیان آیا تھا۔ ایک مجلس میں مجھے باہر کے ایک مہمان کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہؤا جس کا نام تو میں نہیں جانتا مگر غالباً وہ ایم ۔ اے تھے۔ وہ دوست لکھتے ہیںکہ موجودہ فتنہ کے متعلق ہماری باہمی گفتگو شروع ہو گئی۔ اور میں نے بر سبیلِ تذکرہ یہ بات بیان کی کہ ہمارے گائوں میں بعض نوجوان اُن اتہامات اور الزامات کی وجہ سے جو آجکل بعض جماعت سے خارجین کی طرف سے لگائے جاتے ہیں، بہت اشتعال میں تھے لیکن میںنے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے خطبات اور نصائح کی طرف ان کو توجہ دلائی اور بتلایا کہ ہمارے جوش اسی راہ پر چلنے چاہئیں جس پرچلنے کی خلیفۂ وقت کی طرف سے ہدایت ہو اور ہماری قربانیاں اسی رنگ میںہونی چاہئیں جس رنگ میں امام کی طرف سے قربانی کے لئے ہمیں بُلایا جائے۔ اس پر وہ دوست جو بیرونی مہمان تھے اور جن کا رپورٹ کرنے والے دوست کو نام معلوم نہیںکہنے لگے کہ آپ کو کیا ضرورت پیش آئی تھی کہ خوامخواہ ان کے جوشوں کو ٹھنڈا کرتے۔چونکہ جس شخص سے ان کی بات ہوئی ہے اس کانام وہ نہیں جانتے اور جس کا نام معلوم نہیں اسے پرائیویٹ طور پر نصیحت کرنا ناممکن ہے۔ اور پھر چونکہ ناممکن ہے کہ ایسے اور لوگ بھی ہوں میں نے مناسب سمجھا کہ اس رپورٹ کے متعلق خطبہ میں بعض باتیں بیان کروں۔
میں نے متواتر جماعت کو بتلایا ہے کہ خلافت کی بنیاد محض اور محض اس بات پر ہے کہ اَ لْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہِ ۱؎ یعنی امام ایک ڈھال ہوتا ہے اور مومن اس ڈھال کے پیچھے سے لڑائی کرتا ہے۔ مومن کی ساری جنگیں امام کے پیچھے کھڑے ہو کر ہوتی ہیں۔اگر ہم اس مسئلہ کو ذرا بھی بُھلادیں، اِس کی قیود کو ڈھیلا کردیں اور اس کی ذمہ واریوں کو نظر انداز کردیں تو جس غرض کیلئے خلافت قائم ہے وہ مفقود ہوجائے گی۔ میں جانتا ہوںانسانی فطرت کی کمزوریاں کبھی کبھی اسے اپنے جوش اور غصہ میں اپنے فرائض سے غافل کردیتی ہیں۔ پھر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کبھی انسان ایسے اشتعال میں آجاتا ہے کہ وہ یہ نہیں جانتا کہ میں منہ سے کیا کہہ رہا ہوں مگر بہرحال یہ حالت اس کی کمزوری کی ہوتی ہے نیکی کی نہیں۔ اور مومن کا کام یہ ہے کہ کمزوری کی حالت کو مستقل نہ ہونے دے اور جہاں تک ہوسکے اسے عارضی بنائے بلکہ بالکل دُور کردے۔ اگر ایک امام اور خلیفہ کی موجودگی میں انسان یہ سمجھے کہ ہمارے لئے کسی آزاد تدبیر اور مظاہرہ کی ضرورت ہے تو پھر خلیفہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اُٹھاتا ہے اُس کے پیچھے اُٹھاتا ہے اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے، اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے، اپنے ارادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے، اپنی آرزوئوں کو اس کی آرزوئوں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتا ہے۔ اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہوجائیں تو ان کیلئے کامیابی اور فتح یقینی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اسی نکتہ کو واضح کرنے کیلئے فرماتا ہے کہ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔۲؎ یعنی جو خلفاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کئے جاتے ہیں ہمارا وعدہ یہ ہے کہ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ یعنی ان کے طریق کو جو ہم ان کیلئے خود چُنیں گے دنیا میں قائم کریں گے۔ دین کے معنی صرف مذہب کے ہی نہیں۔ گو مذہب بھی اس میں شامل ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مذہب تو انبیاء کے ذریعہ سے قائم ہوتا ہے۔ خلفاء کے ذریعہ سنن اور طریقے قائم کئے جاتے ہیں ورنہ احکام تو انبیاء پر نازل ہوچکے ہوتے ہیں۔ خلفائ، دین کی تشریح اور وضاحت کرتے ہیں اور مُغْلَقْ امور کو کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں اور ایسی راہیں بتاتے ہیں جن پر چل کر اسلام کی ترقی ہوتی ہے۔
یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ جو مسلمانوں کا دین ہوگا ہم اسے مضبوط کریں گے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جو خلیفہ کا دین ہوگا اسے مضبوط کریں گے۔ جس پالیسی کو خلفاء پیش کریں گے ہم اسے ہی کامیاب بنائیں گے اور جو پالیسی ان کے خلاف ہوگی اُسے ناکام کریں گے۔ پس اگر کوئی مبائع اور مومن کوئی اور طریق اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اسے ناکام کریں گے۔ اب اس پر غور کرو ایک شخص یا دس بیس یا ہزار دو ہزار یا دس بیس ہزار لوگ خلیفہ سے کوئی الگ پالیسی رکھتے ہیں یا اپنی اپنی الگ پالیسیاں رکھتے ہیں تو خداتعالیٰ نے تو جیسا کہ وہ فرماچکا ہے صرف خلیفہ کی پالیسی کو ہی کامیاب کرنا ہے۔ تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اگر جماعت ایک لاکھ کی ہے تو اس میں سے اتنے ہزار کی کوششیں رائیگاں جائیں گی۔اگر ایک ہزار کی کوششیں اللہ تعالیٰ ردّ کررہا ہے تو گویا ۹۹ ہزار یا اگر دس ہزار کی ردّ ہورہی ہیں تو نوے ہزار، اگر بیس ہزار کی ردّ ہورہی ہیں تو اسی ہزار ، اگر پچاس ہزار کی ردّ ہورہی ہیں تو صرف پچاس ہزار لوگوں کی کوششیں کامیابی کے راستہ پر ہورہی ہوں گی اور اس طرح جس نسبت کے ساتھ خداتعالیٰ کی طرف سے فتوحات آنی ہیں وہ اسی نسبت سے کم ہوتی جائیں گی۔ ایک لاکھ سپاہیوں کوجو کامیابی ہونی تھی اتنی نہیں ہوگی اور جتنی کوششیں ردّ ہورہی ہوں گی اتنی کامیاب کوششوں میں کمی ہوجائے گی۔ اور اس طرح ایسے لوگ دین کی مدد کرنے والے نہیں ہوں گے بلکہ اس میں رخنہ ڈالنے والے اور اسے ضعیف اورکمزور کرنے والے ہوں گے۔
یہ تمام نقائص پید اہی تب ہوتے ہیں جب خداتعالیٰ کے کلام پر یقین نہ ہو اور یہ خیال ہو کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مدد نہیں آئے گی بلکہ ہم نے خود کام کرنا ہے۔ یا خداتعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چلنے سے کامیابی نہیں ہوگی بلکہ کامیابی اس طریق پر چلنے سے ہوگی جو ہم نے سوچا ہے۔ جس شخص نے جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو اُس کیلئے ضروری ہے کہ سُستیوں کو دور کرکے لوگوں کے اندر اخلاص، تقویٰ اور اُمنگ پید اکرے۔ لیکن اگر کچھ آدمی ایسے ہوں کہ جتنی اُمنگیں اور امیدیں اور جوش خلیفہ پیدا کرے اس کاایک حصہ وہ ضائع کردیں، تو ایسے لوگ بجائے اسلام کی ترقی کا موجب ہونے کے اس کے تنزّل کا موجب ہوں گے۔
رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں دیکھ لو صلح حدیبیہ کی مثال بالکل واضح ہے۔ رسول کریم ﷺ نے رئویا میں دیکھا کہ کعبہ کا طواف کررہے ہیں۔ چونکہ وہ حج کا وقت نہیں تھا، آپ نے عمرہ کی نیت کی اور صحابہؓ کو بھی اطلاع دی۔ چلتے چلتے آپ کی اونٹنی حدیبیہ کے مقام پر بیٹھ گئی اور زور لگانے کے باوجود نہ اُٹھی۔ آپ نے فرمایا کہ اسے خداتعالیٰ نے بٹھادیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مشیت یہی ہے کہ ہم آگے نہ جائیں۳؎۔ مسلمانوں کی آمد دیکھ کر کفار نے بھی اپنا لشکر جمع کرنا شروع کیا۔ کیونکہ وہ یہ گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ مسلمان طواف کریں۔ رسول کریم ﷺ ان کے آدمیوں کی انتظارمیں تھے کہ آئیں تو شائد کوئی سمجھوتہ ہوجائے۔ ان کی طرف سے مختلف نمائندے آئے اور آخرکار صلح کا فیصلہ ہؤا۔ شرائط صلح میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ مسلمان اِس وقت واپس چلے جائیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر اب انہوں نے طواف کرلیا تو ہمارے پرسٹیج میں فرق آئے گا اس لئے انہوں نے یہی شرط پیش کی کہ اب کے واپس چلے جائیں اور اگلے سال آکر طواف کرلیں۔دوسری شرط یہ ہوئی کہ اگر کوئی کافر مسلمان ہوکر رسول کریم ﷺ کے پاس آجائے تو آپ اسے واپس کردیں گے لیکن اگر کوئی مسلمان مرتد ہوکر مکہ والوں کے پاس جانا چاہے تو اسے اس کی اجازت ہوگی۔ بظاہر یہ شرطیں بڑی کمزور شرطیں تھیں اور پھر جس وقت آپ نے اس شرط کو منظور کرلیا، اُسی وقت ایک مسلمان جس کے ہاتھوں اور پائوں میں کڑیاں اور بیڑیاں پڑی تھیں، جس کا تمام جسم لہولہان تھا نہایت تکلیف سے لڑھکتا اور گِرتا پڑتا وہاں پہنچا اور عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! میرا حال دیکھئے میں مسلمان ہوں اور میرے رشتہ داروں نے اس طرح مجھے بیڑیاں پہنائی ہوئی ہیں اور مجھے شدید تکالیف پہنچا رہے ہیں۔ آج کفار لڑائی کیلئے تیار ہوئے تو میرا پہرہ ذرا کمزور ہؤا اور میں موقع پاکر نکل بھاگا اور اس حالت میں یہاں پہنچا ہوں۔ صحابہؓ کو اس کی حالت دیکھ کر اتنا جوش تھا کہ وہ آپے سے باہر ہورہے تھے۔ لیکن اہل مکہ کی طرف سے جو شخص سفیر ہوکر آیا ہؤا تھا اُس نے رسول کریم ﷺ کا نام لے کر کہا کہ ہمیں آپ سے غداری کی امید نہیں۔ آپ نے وعدہ کیا ہے کہ ہم میں سے اگر کوئی شخص آپ کے پاس آئے تو اسے واپس کردیں گے اس لئے یہ شخص واپس کیا جائے۔ اُس وقت اُن ہزاروں آدمیوں کے سامنے جو اپنے گھروں سے جانیں دینے کیلئے نکلے تھے، ان کا ایک بھائی تھا جو مہینوں سے قید تھا، جس کے ہاتھوں اور پائوں سے خون کے فوارے پُھوٹ رہے تھے اور جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ خداتعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لایا تھا۔ اسے دیکھ کر صحابہؓ کی تلواریں میانوں سے باہر نکل رہی تھیں اور وہ دلوں میں کہہ رہے تھے کہ ہم سب یہیں ڈھیر ہوجائیں گے مگر اسے واپس نہیں جانے دیں گے۔ مگر رسول کریم ﷺ نے اُن کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ خدا کے رسول دھوکا نہیں کیا کرتے۔ ہم نے وعدہ کیا ہے اور اب خواہ ہمارے دلوں کو کتنی تکلیف ہو، اسے پورا کریں گے اور آپ نے کفار کے نمائندہ سے فرمایا کہ اسے لے جائو۔ جب اس شخص نے دیکھا کہ مجھے واپس کیا جارہا ہے تو اس نے پھر نہایت مترحمانہ نگاہوں کے ساتھ صحابہؓ کی طرف دیکھا او رکہا تم جانتے ہو مجھے کس طرف دھکیلتے ہو؟ تم مجھے ظالم لوگوں کے قبضہ میں دے رہے ہو؟ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی کو تاب نہ تھی کہ آنکھ اُٹھاسکے اس لئے خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔۴؎ لیکن صحابہ کو اس کا رنج اتنا تھا ، اتنا تھا کہ جب صلح نامہ پر دستخط ہوچکے تو رسول کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ اس سال ہمیں عمرہ کا موقع نصیب نہ ہو۔ جائو اور اپنی قربانیوں کو ذبح کردو۔ آپ نے یہ فرمایا اور وہ صحابہؓ جو آپ کے ایک اشارے پر اُٹھ کھڑے ہوتے اور نہایت بے تابی کے ساتھ فرمانبرداری کا اعلیٰ نمونہ دکھانے کی کوشش کرتے تھے، ان میں سے ایک بھی نہ اُٹھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ اُمّہات الْمُومنین میں سے ایک بی بی تھیں۔ آپ نے ان سے کہا کہ آج میں نے وہ نظارہ دیکھا ہے جو نبوت کے ایام میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے باہر جاکر صحابہؓ سے کہا کہ اپنی قربانیاں ذبح کردو مگر ان میں سے ایک بھی نہیں اُٹھا۔ انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ کسی سے بات ہی نہ کریں۔ آپ سیدھے جاکر اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کردیں۔ یہ زجر زبان کی زجر سے بہت سخت تھی اور یہ مشورہ نہایت ہی اچھا تھا۔ چنانچہ آپ باہر آئے ، نیزہ لیا اور بغیر کسی مدد کے اپنے جانور ذبح کرنے شروع کردیئے۔ جونہی صحابہؓ نے یہ دیکھا معاً انہیں اپنی غلطی کا احساس ہؤا اور وہ دَوڑے، بعض رسول کریم ﷺ کی مدد کیلئے اور بعض اپنی قربانیوں کی طرف۔ اور ان کی بے تابی اِس قدر بڑھ گئی کہ وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے تلواروں کی نوکوں سے ایک دوسرے کو ہٹاتے تھے۔۵؎ لیکن گو انہوں نے یہ فرمانبرداری دکھائی اور ان کا جوش بھی ٹھنڈا ہؤا مگر پوری طرح نہیں ہؤا۔ حضرت عمرؓ جیسا مخلص انسان بھی اپنے جوش کو نہ دباسکا۔ آپ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جاکر بیٹھ گئے اور عرض کیا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کیا آپ خدا کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم خدا کی سچی جماعت نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ کو ایک رئویا ہوئی تھی کہ ہم مکہ میں داخل ہوکر عمرہ کررہے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ صحیح ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ یہ ناکامی پھر کس بات کا نتیجہ ہے؟ ہم ایمان پر ہوتے ہوئے دب گئے اور کفار کاپہلو بھاری رہا اور ہم نے ایسی ایسی شرطیں منظور کرلیں کہ اپنے ایک بھائی کو سخت مصیبت کی حالت میں دیکھا مگر کچھ نہ کرسکے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ بے شک مجھے رئویا ہوئی تھی مگر کیا میں نے کہا تھا کہ اس سال ہم عمرہ کریں گے؟ میں نے صرف قیاس کیا تھا اور اسی قیاس کی بناء پر آیا اور تم کو معلوم ہے کہ یہ بات شرائط میں ہے کہ ہم اگلے سال عمرہ کریں گے اور خواب پورا ہوگا۔ پھر اس میں ذلّت کی کوئی بات نہیں کہ جو مسلمان ہو اُسے واپس کیا جائے اور جو کافر ہو اسے اپنے ہم مذہبوں کے پاس جانے دیا جائے۔ جس مسلمان کو کفار پکڑ کر رکھیں گے وہ تبلیغ ہی کرے گا اور جو مسلمان مرتد ہوجائے تم بتائو ہم نے اُسے رکھ کر کرنا ہی کیا ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ خاموش ہوگئے۔ ان کا جوش کم ہؤا مگر پوری طرح فرو نہیں ہؤا۔ اور پھر وہ اس شخص کے پاس پہنچے جسے اللہ تعالیٰ نے صدیق کہا ہے اور جس کی نبض محمد رسول اللہ ﷺ کی نبض کے تابع چلتی تھی اور کہا ابوبکرؓ ؟کیا محمد ﷺ خدا کے رسول ہیں؟ کیا ہمارا دین سچا ہے؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے خواب نہیں دیکھا تھا کہ ہم عمرہ کررہے ہیں، پھر ہؤا کیا؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا عمرؓ! کیا محمد مصطفی ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہم ضرور اسی سال عمرہ کریں گے؟ خواب صرف یہی ہے کہ ہم عمرہ کریں گے سو ضرور کریں گے۔ تب حضرت عمرؓ کادل صاف ہؤا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ صداقت جس طرح رسول کریم ﷺ کی زبان سے نکلی اُسی طرح ابوبکر کی زبان سے بھی نکلی۔۶؎ تو صلح حدیبیہ بڑا بھاری امتحان تھا، بڑی آزمائش تھی مگر صحابہؓ نے انتہائی اطاعت کا نمونہ دکھایا۔
مومن کو بعض دفعہ ایسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم انتہائی طور پر ذلیل کئے جارہے ہیں۔ پہلوں سے بھی ایسا ہؤا اور ضروری ہے کہ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہو۔ محمد ﷺ ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ غرضیکہ سب انبیاء کی جماعتوں سے ایسا ہؤا ۔ حضرت عیسیٰؑ کی صلیب کا واقعہ کچھ کم نہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمیشہ یہ وعظ کیا کرتے تھے کہ اپنے کپڑے بیچ کر بھی تلواریں خریدو۔ مگر جب حکومت نے آپ کو پکڑا تو پطرس جوش میں آیا اور اُس نے لڑنا چاہا مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا پطرس جوش میں مت آ اور خاموش رہ ۔چنانچہ انجیل میں آتا ہے ’’پطرس نے تلوار جو اس کے پاس تھی کھینچی اور سردار کاہن کے نوکر پر چلاکر اُس کا داہنا کان اُڑادیا۔ یسوع نے پطرس سے کہا تلوار کو میان میں رکھ۔ جو پیالہ باپ نے مجھ کو دیا کیامیں اسے نہ پیئوں‘‘۷؎۔ حضرت موسیٰؑ کے زمانہ میں بھی کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ ان کی قوم جوش میں لڑنا چاہتی مگر وہ حکم دیتے کہ ٹھہر جائو۔
قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کیلئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو کُلّی طور پر خداکی تدبیر کے ماتحت کردیں۔ مگر وہ مُردہ نہیں ہوتے ان کے اندر جوش اور اخلاص ہوتا ہے۔ وہ قربانی کیلئے تیار رہتے ہیں مگر قربانی کرنے کیلئے خداتعالیٰ کی طرف دیکھتے ہیں۔ جب خداتعالیٰ کی طرف سے اِذن ہو اور جس رنگ میں ہو وہ اُسی وقت اور اُسی رنگ میں قربانی کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی فوقیت اور عظمت کی بڑی علامت فرمانبرداری اور اطاعت کا ایسا نمونہ ہی ہوتا ہے جو دوسری قوموں میں نظر نہیں آتا۔ جو چیز دوسروں کی نگاہ میں ذِلّت ہو وہ ان کی نگاہ میں عزت ہوتی ہے۔ جو دوسروں کو عزت نظر آئے وہ اسے ذِلّت سمجھتے ہیں۔ لوگ عزت اس میں سمجھتے ہیں کہ اپنے نفس کا غصہ نکال لیں اور مومن اس میں کہ خداتعالیٰ کا حکم پورا ہو، نفس کا غصہ بے شک نہ نکلے۔ جب کوئی شخص ایسا ہوجائے تو اس کیلئے اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتے نازل کرتا ہے جو اُس کی مدد کرتے ہیں اور یہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ تم سوچو تو سہی کیا ہماری اتنی طاقت ہے کہ ساری دنیا کو فتح کرسکیں۔ ہمیں تو جو کامیابی ہوگی فرشتوں کے ذریعہ سے ہوگی اور یہ اُسی وقت ہوتا ہے جب مومن اپنے نفسوں پر قابو رکھیں اور دل میں اس کیلئے بالکل تیار رہیں کہ جب خداتعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی اپنے نفسوں کو قربان کردیں گے مگر اپنے ہاتھوں اور زبانوں کو قابو میں رکھیں گے اور کوئی بات ایسی نہ کریں گے جو خلافِ شریعت اور خلافِ آداب ہو۔ شریعت وہ ہے جو قرآن کریم میں بیان ہے اور آداب وہ ہیں جو خلفاء کی زبان سے نکلیں۔ پس ضروری ہے کہ آپ لوگ ایک طرف تو شریعت کا احترام قائم کریں اور دوسری طرف خلفاء کا ادب و احترام قائم کریں اور یہی چیز ہے جو مومنوں کو کامیاب کرتی ہے۔
تمہارے دل پتھر کے ہوں گے اگر وہ ان معجزات سے متأثر نہیں ہوتے جو خداتعالیٰ نے گزشتہ پچاس سال میں جماعت کیلئے ظاہر کئے ہیں۔ میںتو سمجھتا ہوں کہ اگر وہ نشانات جمادات پر ظاہر ہوں تو درختوں پر اور پتھروں پر اور لوہے پر او رلکڑی پربھی ان کا اثر ضرور ہو اور تم تو انسان ہو۔ غور تو کرو تم نے کتنے نشان دیکھے ہیں او رکتنی وحیوں، کشوف اور الہامات کو پورا ہوتے دیکھا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ، آپ کے خلفاء اور پھر اپنے نفسوں کے ذریعہ تم میں سے بہت ہی کم ہوں گے جنہیں خداتعالیٰ نے کبھی کوئی سچا خواب نہ دکھایا ہو اور پھر وہ پورا نہ ہؤا ہو۔ تم تو زمین پر اللہ تعالیٰ کا چلتا پھرتا نشان ہو۔ دنیا کو تم انسان نظر آتے ہو مگر خداتعالیٰ کی نظر میں تم خدا کا ہاتھ ہو جو دنیا کی طرف بڑھایا گیا ۔ تم خداتعالیٰ کا دنیا کی طرف ایک چیلنج ہو جس طرح پُرانے بادشاہ بکرے چھوڑ دیتے تھے اور وہ علامت ہوتے تھے اِس بات کی کہ جو اُن پر ہاتھ اُٹھائے گا وہ گویا بادشاہ کو چیلنج دے گا اور پھر اس بکرے کیلئے ہزاروں لاکھوں انسان تہہِ تیغ ہوجاتے تھے۔ اسی طرح تم خدا کے برّے ہو۔ خداتعالیٰ نے دنیا میں تم کو چھوڑا اور کہا ہے کہ یہ میری نشانیاں ہیں۔ جو اِن پر ہاتھ اُٹھائے گا وہ مجھ پر ہاتھ اُٹھانے والا سمجھا جائے گا۔ پس تم کو خداتعالیٰ نے اپنی طاقت کی آزمائش کیلئے بھیجا ہے نہ کہ تمہاری طاقت کے اظہار کیلئے۔ ذرا سوچو کہ بکرے کی کیا طاقت ہوتی ہے۔ اگر وہ خود سینگ مارنے لگے تو لوگ اُس پر ہنسی کریں گے۔ لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ اُس بکرے کے پیچھے بادشاہ کی طاقت ہے اور جس طرح بادشاہ کا بکرا اپنے سینگ مار کر اپنی ہلاکت خریدتا ہے اسی طرح تمہارا حال ہے۔ کیا تم کو خداتعالیٰ پر یقین نہیں کہ تم اپنی تدبیروں سے کامیابی کی کوشش کرو۔ جولوگ کامیابی اپنی تدبیروں سے سمجھتے ہیں وہ سوچیں تو سہی کہ ہماری طاقت کیا ہے۔ خداتعالیٰ نے ہمارے ذریعہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پس تم اُسی کی طاقت پر بھروسہ رکھو اور اپنی تدبیروں کو دماغ سے نکال دو۔ مومن وہ ہے جو ہر ابتلاء سے بچتا ہے اور جسے دنیا کی کوئی طاقت اپنی طرف نہیں پھیر سکتی۔
موجودہ فتنہ جو ہے اس گند کے دو ہی نتیجے ہوسکتے ہیں۔ جن لوگوں کے دلوں میں ایمان اور تقویٰ ہے اُن پر تو اس کا کچھ اثر ہو نہیں سکتا اور ایسے لوگوں کو کیا صدمہ ہوسکتا ہے اور جن پر اثر ہوتا ہے وہ ازلی راندے ہوئے لوگ ہیں جن کو خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ سلسلہ سے الگ کردے اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو کون بچاسکتا ہے۔ انہیں تو نہ میں بچاسکتا ہوں اور نہ تم نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچاسکتے تھے اور نہ آنحضرت ﷺ ۔ جس کے دل پر موت وارد کرنے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرلے اسے کون بچاسکتا ہے۔ ہدایت دینااور پھر ابتلائوں سے بچانا اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے ایمانوں کو مضبوط بنالیں اور ایسے مقام پر کھڑے ہوں کہ اس کے فضل سے ہمارے ایمان پر کوئی چھاپہ نہ مارسکے۔ جب کوئی شخص اپنے ایمان کو حملہ سے بچالیتا ہے تو پھر فرشتے خودبخود اُس کی حفاظت کرتے ہیں۔
میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ میں پندرہ سولہ سال کا تھا جب اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام کیا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ یعنی میں تیرے متبعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔ یہ الہام اُس وقت کا ہے جب مجھے نہ خلافت کا پتہ تھا اور نہ اس کاکوئی وہم و گمان ہوسکتا تھا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کا الہام ہے جسے حضور نے خود اپنے ہاتھ سے اپنی کاپی میں درج فرمایا۔ پندرہ سولہ سال کے بچہ کو ان باتوں کا علم ہی کیا ہوسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے وقت میری عمر اُنیس سال کی تھی اور یہ دو تین سال پہلے کا الہام ہے جبکہ میری عمر زیادہ سے زیادہ سترہ سال کی ہوگی۔ اُس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ کبھی میرے متبع ہوں گے اور پھر میرے منکر بھی ہوں گے۔ پھر اگر متبع ہوں تو منکروں کا ہونا تو ضروری نہیں ہوتا۔ حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت سب نے کرلی تھی صرف دو تین آدمی رہ گئے تھے مگر وہ بھی کبھی ظاہر نہیں ہوئے۔ حضور کی وفات کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم نے بیعت نہیں کی تھی مگر لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ بیعت میں شامل ہیں اور ایسا ہی پھر بھی ہوسکتا تھا یعنی اگر میرے متبع ہوتے تو منکر نہ ہوتے۔ پھر میری خلافت کے خلاف تو حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میں ہی ایجی ٹیشن شروع ہوگئی تھی۔ اُس وقت جو لوگ صاحبِ کار اور صاحبِ تدبیر تھے وہ ہمیشہ میرے خلاف جماعت کو اُکساتے رہتے تھے اور پھر دوسری طرف حضرت خلیفہ اوّل کو مجھ سے بدظن کرنے کی کوششیں کرتے رہتے تھے۔ وہ جماعت کو تو کہتے تھے کہ یہ غلو کرتا ہے، کُفر واسلام کا مسئلہ چھیڑ کر جماعت کوتباہ کرنا چاہتا ہے اور حضرت خلیفۂ اوّل کو عجیب تدبیروں سے مجھ سے ناراض کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ یہ دو ہی ذریعے میری خلافت کے ممکن تھے یعنی یا تو جماعت منتخب کرتی اور یا پھر حضرت خلیفہ اول نامزد کرتے۔ اور یہ لوگ دونوں رستے بند کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل جب پہلی باربیمار ہوئے تو آپ نے اپنی وصیت میں تحریر فرمادیا تھا کہ میرے بعد محمود خلیفہ ہو مگر بعدمیں مخالفتوں کو دیکھ کر آپ نے وہ وصیت پھاڑ دی۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ خیال کیا کہ اگر میں نے یہ لکھ دیا تومخالفت کرنیو الے اسے میرا بنایا ہؤا خلیفہ کہیں گے اور خلافت کا امر مشتبہہ ہوجائے گا، اللہ تعالیٰ جسے چاہے بنادے۔
حضرت خلیفہ اوّل کو مجھ سے جس رنگ میں بدظن کرنے کی کوشش کی جاتی تھی میں اس کی ایک مثال سناتا ہوں۔ حضرت خلیفہ اوّل اس کمرہ میں رہا کرتے تھے جہاں اب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ آکر ٹھہرتے ہیں یعنی مسجد مبارک کے ساتھ جو کمرہ ہے۔ ایک روز قریشی امیر احمد صاحب مجھے گھر پر بُلانے آئے اور کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح بلاتے ہیں۔ میں گیا تو اُس وقت وہاں شیخ رحمت اللہ صاحب، مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور غالباً مولوی صدرالدین صاحب بیٹھے تھے۔ جب میں دروازہ میں پہنچا تو دیکھا ان کے چہروں کے رنگ اُڑے ہوئے ہیں۔میں گھبرایا کہ خدا خیر کرے۔ میں نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا اور مجھے یاد نہیں حضرت خلیفہ اول نے جواب دیا یا نہیں اور فرمایا میاں! تم بھی اب ہمارے خلاف منصوبوں میں شامل ہوتے ہو؟ میں نے کہا کہ نہیں میں تو کسی ایسے منصوبہ میں شامل نہیں ہؤا؟ آپ نے فرمایا یہ لوگ بیٹھے ہیں۔ میں نے ایک مکان کے متعلق کہا تھا کہ وہ فلاں شخص کو دے دیا جائے اور ان لوگوں نے میرے خلاف فیصلہ کیاہے اور میرے پوچھنے پر کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے۔ میں نے کہا یہ بالکل خلافِ واقعہ امر ہے۔ اِن لوگوں نے یہ معاملہ پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ شخص کم قیمت دیتا ہے۔ میںنے کہا حضرت خلیفہ اوّل کامنشاء ہے کہ اسی کو دیا جائے۔ اس پر ڈاکٹر محمد حسین صاحب نے کہا کہ ہم لوگوں کو تقویٰ سے کام لینا چاہئے۔ ہم لوگ ٹرسٹی ہیں اور جماعت کے اموال کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعتمادی بنایا ہے دین کیلئے ہمیں جہاں سے زیادہ رقم ملے لے لینی چاہئے۔ میں نے کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح سے زیادہ تقویٰ کا خیال کون رکھ سکتا ہے۔ اگر ان کے نزدیک کم قیمت پر اس شخص کو دے دینا ضروری ہے تو میرے نزدیک یہی تقویٰ ہے۔ مگر یہ کہنے لگے کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے اجازت دے دی ہے۔ میںنے کہا کہ ان کی تحریر دکھائیں۔ اِس پر انہوں نے آپ کی ایک تحریر دکھائی جس میں لکھا تھا کہ میں نے وہ مشورہ دیا تھا جو میرے نزدیک صحیح تھا لیکن اب میں وہ مشورہ واپس لیتا ہوں جس طرح چاہو کرو۔یہ دیکھ کر میں نے کہا یہ اجازت تو نہیں ناراضگی کی تحریر ہے اس لئے اگر آپ لوگوں کا پہلے ارادہ بھی کسی اور کو دینے کا تھا تو اب رُک جانا چاہئے۔ لیکن اس کے جواب میںانہوں نے پھر کہا کہ تقویٰ سے کام لینا چاہئے اور میں یہ کہہ کر کہ میرے نزدیک تقویٰ وہی ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح پسند کرتے ہیں، خاموش ہوگیا۔ حضرت خلیفہ اوّل نے ان سے پوچھا کہ یہ بات ٹھیک ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ٹھیک تو ہے مگر انہوں نے منع بھی نہیں کیا۔ اس پر حضرت خلیفہ اوّل جوش میں آگئے اور فرمایا کہ تم لوگ مجھے اس پر ناراض کرنے کی کوشش کرتے ہو!۔ یہ بڑی عمر کا تھا یا تم! اس نے کہہ دیا کہ اطاعت کرو اور کیا کرتا تم لوگوں کے ہاتھ پکڑ لیتا!! غرض حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو مجھ سے بدظن کرنے کی جو تدابیر بھی ممکن تھیں یہ لوگ انہیں اختیار کرتے رہتے تھے مگر خدا کی مشیت نے پورا ہوکر رہنا تھا۔ انسانوں نے سارا زور لگایا اورخلافت کے جتنے دروازے ان کے نزدیک تھے وہ مجھ پربند کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ حالانکہ میرے تو ذہن میں بھی کبھی خلافت کا خیال نہ آیا تھا بلکہ اگر کوئی کبھی مجھ سے اس کے متعلق کوئی ذکر بھی کرتا تو میں اسے روک دیتا اور کہتا کہ یہ جائز نہیں۔ ابھی حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے ایک حلفی بیان شائع کرایا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’حضرت خلیفہ اوّل بیمار تھے اور مجھے گوجرانوالہ ایک مباحثہ پرجانے کا حکم ہؤا۔ مولوی محمد علی صاحب مجھے ملے تو کہنے لگے حافظ صاحب آپ سفر پر جاتے ہیں اور مولوی صاحب بیمار ہیں۔ خلیفہ بنانے میں جلدی نہ کرنا۔ میں نے یہ بات حضرت مرزا محمود احمد صاحب کے سامنے پیش کی کہ آپ کا کیا خیال ہے؟ تو آپ نے فرمایا حافظ صاحب! اگر مولوی محمد علی صاحب کو اللہ تعالیٰ خلیفہ بنادے تو میں اپنے تمام متعلقین کے ساتھ ان کی بیعت کرلوں گا‘‘۔
تو میں نے آگے آنا نہیں چاہا تھا، میں پیچھے ہٹتا تھا مگر خدا کے ہاتھ نے مجھے پکڑا اور کہا کہ جب ہم کام لینا چاہتے ہیں تو تُو پیچھے رہنے والاکون ہے اور خداتعالیٰ نے مجھے کھڑا کردیا۔ اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم خوش نہیں ہیں مگر میں کہتا ہوں تمہاری خوشی کا سوال ہی کیاہے۔ اگر تم خوش نہیں ہو تو جائو اُس سے لڑو جس نے مجھے خلیفہ بنایا ہے۔ اگر تم میں کچھ طاقت اور زور ہے تو اُس کے پاس جائو اور اس سے اُس تائید اور نصرت کو بند کرادو جو مجھے مل رہی ہے۔ مگر میں ہر ایسے شخص کوبتادیتا ہوں کہ اسے سوائے ناکامی و نامرادی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ سلسلہ خداکا سلسلہ ہے اور خدا کے سلسلوں پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ آج بے شک تم اتنے لوگ میرے ساتھ ہو مگر اُس وقت کون تھا جب خداتعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنایا۔ بے شک قادیان کے اکثر لوگوں نے بیعت کرلی تھی لیکن باہر کی بہت سی جماعتیں متردّد تھیں۔ بڑے بڑے کارکن سب مخالف تھے، خزانہ خالی تھا اور مخالفت کا دریا تھا جو اُمڈا ہؤا چلا آرہا تھا۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اُس وقت میں اس کی نصرت سے کامیاب ہؤا۔ اس وقت خدا ہی تھا جو میری تائید کیلئے آیا اور اسی نے دوسرے دن مجھ سے وہ ٹریکٹ نکلوایا کہ ’’کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے‘‘ اور جہاں جہاں یہ ٹریکٹ پہنچا جس طرح حنین کی لڑائی کے موقع پر جب رسول کریم ﷺ کی طرف سے یہ آواز بلند کرائی گئی کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے اور صحابہ بیتاب ہوکر اُس آواز کی طرف بھاگے بلکہ جن کے گھوڑے نہیں مُڑتے تھے انہوں نے اُن کی گردنیں کاٹ دیں او رپیدل دَوڑے۔۸؎ اسی طرح جب میری آواز باہر پہنچی متردّد جماعتوں کے دل صاف ہوگئے اور تاروں اور خطوں کے ذریعہ بیعت کرنے لگیں۔ وہی خدا جو اُس وقت فوجوں کے ساتھ تائید کرنے آیا آج میری مدد پر ہے اور اگر آج تم خلافت کی اطاعت کے نکتہ کو سمجھ لو تو تمہاری مدد کو بھی آئے گا۔ نصر ت ہمیشہ اطاعت سے ملتی ہے۔ جب تک خلافت قائم رہے نظامی اطاعت پر اور جب خلافت مٹ جائے انفرادی اطاعت پر ایمان کی بنیاد ہوتی ہے۔
پس میں تمہیں نصیحت کرتاہوں کہ خواہ تم کتنے عقلمند اور مدبر ہو، اپنی تدابیر اور عقلوں پر چل کر دین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتے۔ جب تک تمہاری عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت نہ ہوں اورتم امام کے پیچھے پیچھے نہ چلو ہرگز اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت تم حاصل نہیں کرسکتے۔ پس اگر تم خداتعالیٰ کی نصرت چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ اس کاکوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ تمہارا اٹھنا بیٹھنا کھڑا ہونا اور چلنا، تمہارا بولنا اور خاموش ہونا میرے ماتحت ہو۔ بیشک میںنبی نہیں ہوں لیکن میں نبوت کے قدموں پر اور اس جگہ پر کھڑا ہوں۔ ہر وہ شخص جو میری اطاعت سے باہر ہوتاہے وہ یقینا نبی کی اطاعت سے باہر جاتا ہے۔ جو میرا جوأ اپنی گردن سے اُتارتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جوأ اُتارتا ہے۔ اور جو اِن کا جوأ اُتارتا ہے وہ رسول کریم ﷺ کا جوأ اُتارتا ہے۔ اورجو آنحضرت ﷺ کا جوأ اُتارتا ہے وہ خداتعالیٰ کا جوأ اُتارتا ہے۔ میں بے شک انسان ہوں خدا نہیں ہوں مگرمیں یہ کہنے سے نہیں رہ سکتا کہ میری اطاعت اور فرمانبرداری میں خداتعالیٰ کی اطاعت اورفرمانبرداری ہے۔ مجھے جو بات کہنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے میں اسے چُھپا نہیں سکتا۔ مجھے اپنی بڑائی بیان کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اِس وقت تک اس شرم کی وجہ سے رُکا رہا ہوں لیکن آخر خداتعالیٰ کے حکم کو بیان کرناہی پڑتا ہے۔ میں انسانوں سے کام لینے کا عادی نہیں ہوں۔ تم بائیس سال سے مجھے دیکھ رہے ہو اور تم میں سے ہر ایک اس امر کی گواہی دے گا کہ ذاتی طور پر کسی سے کام لینے کا مَیں عادی نہیں ہوں۔ حالانکہ اگرمیں ذاتی طور پر بھی کام لیتا تو میرا حق تھا مگر میں ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہوں کہ خود دوسروںکو فائدہ پہنچائوں مگر خود کسی کا ممنونِ احسان نہ ہوں۔ خلفاء کا تعلق ماں باپ سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ تم میںسے کوئی ایسا نہیں جس سے اس کے ماں باپ نے خدمات نہ لی ہوں گی۔ مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کسی سے ذاتی فائدہ اٹھانے یا خدمات لینے کی میں نے کوشش کی ہو۔ میرے پاس بعض لوگ آتے ہیں کہ ہم تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں، آپ اپنی پسند کی چیز بتادیں مگر میں خاموش ہوجاتا ہوں۔ آج تک ہزاروں نے مجھ سے یہ سوال کیا ہوگا مگر ایک بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس کا جواب دیا ہو۔ میرا تعلق خداتعالیٰ سے ایسا ہے کہ وہ خود میری دستگیری کرتا ہے اور میرے تمام کام خود کرتا ہے۔
بندے کا کام خداتعالیٰ کا امتحان لینا نہیں مگر میں نے کئی دفعہ ابراہیم کی طرح جوشِ محبت میں خداتعالیٰ سے اُس کی قدرتوں کے دیکھنے کی خواہش کی ہے اور اس نے میری خواہش پوری کی ہے۔ ایک دفعہ میں ایک سفر پرتھا اور ایسے علاقہ سے گزررہا تھا جہاں کوئی احمدی نہ تھا۔ غالباً نشانات کا ذکر تھا میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے کہا کہ مجھے اپنے نشان کے طور پر ایک روپیہ دلوادیں۔ اب یہ بات تو بالکل عقل کے خلاف تھی کہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی مجھے ایک روپیہ دے دیتا۔ او راُس وقت یہ ذکر ہورہا تھا کہ اس علاقہ میں کوئی احمدی نہیں اور لوگ شدید مخالف ہیں۔ مگر ادھر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہؤا اور اُدھر سامنے ایک گائوں کے لوگ کھڑے نظر آئے اور ہمارے کسی ساتھی نے کہا کہ اس گائوں میں سے نہیں گزرنا چاہئے یہ لوگ سخت مخالف ہیں اور نمبردار کئی دفعہ کہہ چکا ہے کہ یہاں اگر کوئی احمدی آیا تو اسے جُوتے مروائوں گا اس لئے اس گائوں سے ہٹ کر چلنا چاہئے۔ مگر ہم اس قدر قریب پہنچ چکے تھے کہ اورکوئی رستہ ہی نہ تھا، اس لئے چلتے گئے۔ ہمیں دیکھ کر وہ نمبردار آگے بڑھا۔ میرے ساتھی میرے اِردگِرد ہوگئے کہ ایسا نہ ہو حملہ کردے۔ مگر اُس نے بڑھ کر سلام کیا اور ایک روپیہ اپنی ہتھیلی پر رکھ کر بطور نذرانہ پیش کیا۔ میں مُسکرا پڑا اور وہ دوست گائوں سے باہر نکل کر اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کرنے لگے۔ ایک نے کہا اس کا روپیہ لینانہیں چاہئے تھا۔ میں نے کہا اِسی کا تولینا چاہئے تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ وہ روپیہ خداتعالیٰ کا اپنے بندہ کے ناز کو پورا کرنے کی علامت تھا۔ تو اللہ تعالیٰ کا معاملہ مجھ سے ایسا ہے کہ اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ بیسیو ں مرتبہ میں نے اپنی آمد اور اخراجات کا حساب کیا ہے تو اخراجات آمد سے ہمیشہ دوگنا ہوئے ہیں اور پھر پتہ نہیں وہ کس طرح پورے ہوتے ہیں۔ پھر حساب کے معاملہ میں مَیں اس قدر محتاط ہوں کہ میں چیلنج کرتا رہتاہوں کہ جو چاہے میرے حساب کو دیکھ لے۔
پچھلے دنوں ایک شخص کے اعتراضات کے جواب میں مَیں نے جو خطبہ پڑھا تو ایک غیرمبائع کا خط آیا کہ میں نے آپ کا خطبہ پڑھا ہے میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ کے حسابات ہمارے حسابات سے زیادہ صاف ہیں۔ ہم پر اعتراض ہوسکتے ہیں مگر آپ پر نہیں۔ مگر آخر میں یہ بھی لکھ دیا کہ تین سال سے جو فلاں شخص پیدا ہؤا ہے، شاید اس سے ڈر کر یہ حساب رکھے گئے ہیں۔ میںنے اسے لکھا کہ تین سال سے نہیں بلکہ ۲۲ سال سے ہی ایسے ہیں جب سے میں خلیفہ ہؤا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کو اپنے ساتھ دیکھ کر میں کسی انسان پر کوئی امید نہیں رکھ سکتا۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ موٹر رکھا ہؤا ہے۔ نادان نہیں جانتے کہ موٹر تو جلدی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا ذریعہ ہے۔موٹر کی قیمت عرب کے گھوڑے کے برابر ہی ہوتی ہے۔ اور رسول کریم ﷺ کئی کئی گھوڑے رکھتے تھے۔ پھر گاڑی بھی تو سواری کا زریعہ ہے۔ اگر موٹر سادگی کے خلاف ہے تو پھر گاڑی میں بھی سفر نہیں کرنا چاہئے۔ کامل سادگی اسی میں ہے کہ پیدل چلاجائے۔ میرا موٹر تو بہت سارا دینی کاموں کے کام آتا ہے۔ سلسلہ کے جومہمان یہاںآتے ہیں ان کے سواری کے کام یہی آتا ہے۔ پھر سلسلہ کے کاموں کیلئے لاہور وغیرہ جانا پڑے تو اِسی پر چلے جاتے ہیں۔اگر سلسلہ موٹر خریدتا اور میں اسے استعمال کرتا تب بھی کوئی اعتراض کی بات نہ تھی۔ اگر وائسرائے گاڑی میں سفر کرے یا ہوائی جہاز پر کرے تو کیا حکومت اس کا انتظام کرتی ہے یا نہیں؟ اس کیلئے سواری کاانتظام حکومت کے ہی ذمہ ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ پِھرے گا نہیں تو کام کیسے کرے گا۔ اس لئے اگر سلسلہ کی طرف سے خرید کردہ موٹر کومَیں استعمال کرتاتو بھی کوئی اعتراض کی بات نہ تھی ۔ لیکن حقیقت تویہ ہے کہ یہ میرے روپے سے خریدا گیا اور سلسلہ کے کام آتا ہے یہ ایک قابلِ تعریف بات تھی لیکن نادان اس پر بھی اعتراض کرتے ہیں ۔
میںنے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ سید عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ ایک ایک ہزار دینار کا لباس پہنا کرتے تھے۔کسی نے اس پر اعتراض کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ نادان نہیںجانتا کہ میں اُس وقت تک کوئی کپڑا پہنتا ہی نہیں ہوںجب تک خدا تعالیٰ مجھے نہیںکہتا کہ اے عبدالقادر!تجھے میری ہی قسم کہ یہ کپڑا پہن۔ اور میں نہیں کھاتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے نہیںکہتا کہ عبدالقادر! تجھے میری ہی قسم کھا۔ اور تم کو یاد ہوگا کہ ۱۹۳۳ء کی عیدالفطر کے خطبہ کے موقع پر میں نے اپنا ایک رؤیاسنایا تھا۔ میںنے دیکھا کہ ایک بڑا ہجوم ہے میں اس میں بیٹھا ہوں اور ایک دو غیر احمدی بھی میرے پاس بیٹھے ہیں ۔ کچھ لوگ مجھے دبارہے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص جو سامنے کی طرف بیٹھا تھا ، اُس نے آہستہ آہستہ میرا اِزار بند پکڑ کر گِرہ کھولنی چاہی۔میں نے سمجھا اِس کا ہاتھ اتفاقاً لگا ہے اور میں اِزار بند پکڑ کر اُس کی جگہ پر اٹکا دیا ۔ پھر دوبارہ اس نے ایسی ہی حرکت کی اور میں نے پھر یہی سمجھا کہ اتفاقیہ اُس سے ایسا ہؤا ہے۔تیسری دفعہ پھر اس نے ایساہی کیا تب مجھے اس کی بدنیتی کے متعلق شبہ ہؤا اور میں نے اسے روکا نہیں جب تک کہ میں نے دیکھ نہ لیا کہ وہ بِالارادہ ایسا کر رہا ہے تا جب میں کھڑا ہوں تو ننگا ہو جائوں اور لوگوںمیں میری سُبکی ہو ۔تب میں نے اُسے ڈانٹا اور کہا تو جانتا نہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے عبدالقادر بنایا ہے (یہ خواب جیسا کہ ظاہر ہے موجودہ فتنہ پربوضاحت دلالت کرتا ہے)۔
پس میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بالکل سید عبدالقادر جیلانی والا ہے۔وہ میرے لئے اپنی قدرتیں دکھاتاہے مگر نادان نہیں سمجھتا ۔ یہ زمانہ چونکہ بہت شُبہات کاہے اِس لئے میںتو اِس قدر احتیاط کرتا ہوںکہ دوسروں سے زیادہ ہی قربانی کروں۔ پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کو دیکھتے ہوئے میں انسانوں پر انحصار نہیںکر سکتا اور تم بھی یہ نصرت اس طرح حاصل کرسکتے ہو کہ اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھائو ۔اور ایسا کرنے میں صرف خلیفہ کی اطاعت کا ثواب نہیں بلکہ موعود خلیفہ کی اطاعت کا ثواب تمہیںملے گا۔ اور اگر تم کامل طور پر اطاعت کرو تو مشکلات کے بادل اُڑ جائیں گے، تمہارے دشمن زیر ہو جائیں گے اور فرشتے آسمان سے تمہارے لئے ترقی والی نئی زمین اور تمہاری عظمت و سطوت والا نیا آسمان پیدا کریں گے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ کامل فرمانبرداری کرو۔ جب تم سے مشورہ مانگا جائے مشورہ دو ورنہ چُپ رہو ، ادب کا مقام یہی ہے۔ لیکن اگر تم مشورہ دینے کے لئے بیتاب ہو بغیر پوچھے بھی دے دو مگر عمل وہی کرو جس کی تمہیں ہدایت دی جائے۔ہاں صحیح اطلاعات دینا ہر مومن کا فرض ہے اور اس کیلئے پوچھنے کاانتظارنہیں کرنا چاہئے ۔ باقی رہا عمل اِس کے بارہ میں تمہارا فرض صرف یہی ہے کہ خلیفہ کے ہاتھ اور اُس کے ہتھیار بن جائو ، تب ہی برکت حاصل کر سکو گے اور تب ہی کامیابی نصیب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ تم کو اِس کی توفیق بخشے ۔ (الفضل ۴؍ستمبر ۱۹۳۷ئ)
۱؎ بخاری کتاب الجھاد باب یقاتل مِن وَّراء الامام (الخ)
۲؎ النور: ۵۶
۳؎ بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجھاد (الخ)
۴؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ ۳۳۲۔۳۳۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۵،۶؎ بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجھاد (الخ)
۷؎ یوحنا باب ۱۸ آیت۱۰۔۱۱ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۸؎ سیرت ابن ہشام جلد۴ صفحہ۸۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء

۲۸
فتنوں سے بچنے کیلئے سورئہ فاتحہ میں علاج بتایا گیا ہے
(فرمودہ ۳ ؍ ستمبر ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
سورئہ فاتحہ ایک ایسی کامل سورۃ ہے کہ جس میں ہر مرض کا علاج موجود ہے اور ہر زمانہ کے شرور اور فِتن کا ذکر اس میں پایا جاتا ہے اور ہر قسم کی روکیں جو انسانی ترقی کے راستہ میں حائل ہوتی ہیں یا وہ اسباب جو خداتعالیٰ کے قُرب سے اسے دور کردیتے ہیں ان کے ازالہ کے ذرائع اور ان سے بچنے کے سامانوں کا ذکر اس میں کیاگیا ہے۔ جس طرح قرآن کریم ایک انڈیکس اور فہرست ہے اللہ کے ان قوانین کی جو اِس تمام کائنات کو چلا رہے ہیں اسی طرح سورئہ فاتحہ فہرست ہے قرآن کریم کے مضامین کی۔ جس طرح ایک زکی انسان محض فہرست پڑھ کر اصل کتاب کے مضامین سے آگاہ ہوجاتا ہے اسی طرح قرآن کریم سے تعلق رکھنے والا انسان سورئہ فاتحہ پڑھ کر قرآن مجید کے تمام مضامین سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ اور پھر قرآن مجید پڑھ کر جو اللہ تعالیٰ کے اُن قوانین کی فہرست ہے جو تمام کائناتِ عَالَم کو چلارہے ہیں اس کے قوانین قدرت سے آگاہ ہوجاتا ہے۔
چونکہ موجودہ زمانہ کئی قسم کے فِتن کا زمانہ ہے اس لئے میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ فِتنوں کے زمانوں کے متعلق قرآن کریم میں بعض احکام بیان کئے گئے ہیں اور بعض ایسی تدابیر بتائی گئی ہیں جن کو اختیار کرکے انسان فِتن سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ بِالخصوص سورئہ فاتحہ میں اصولی طور پر اللہ تعالیٰ نے فتن کی تفصیلات بتائی ہیں اور ان سے بچنے کا علاج بھی بتایا ہے۔ مگر ہماری جماعت کے بعض دوست ان امور کی طرف توجہ نہ کرنے کی وجہ سے بسا اوقات اس بات پر حیران ہوجاتے ہیں کہ ہماری جماعت میں بھی بعض منافق پائے جاتے ہیں۔ اور ہماری جماعت میں سے بھی بعض لوگ مختلف مواقع پر ٹھوکر کھاتے اور مرتد ہوجاتے ہیں۔ اور میںدیکھتا ہوں کہ ان کیلئے یہ صورت حیرت انگیز ہوتی ہے۔ حالانکہ اگر وہ سورئہ فاتحہ پر غور کریں تو انہیں معلوم ہو کہ اس ابتدائی سورت میں ہی جو ہمیں دعا سکھائی گئی ہے اس میں بھی اس امر کو بیان کردیا گیا ہے کہ ایسے فتن ہمیشہ آتے رہیں گے اور مومنوں کی جماعت سے وہ لوگ نکلتے رہیں گے جو منافق طبع ہوں۔
جیسا کہ عربی زبان سے واقف لوگ جانتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ ۱؎ کی دعا جو ہمیں سکھائی گئی ہے یہ مستقل دعا نہیں۔ عام طور پر جو لوگ عربی زبان سے یا قرآن کریم کے مطالب سے ناواقف ہوتے ہیںوہ سورہ فاتحہ کی ان آخری آیتوں کے صرف یہ معنے سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں یہ سکھایا ہے کہ ہم اس سے انعامات کے حصول کی دعاکریں اور پھر یہ بھی دعا کریں کہ اُس کا غضب ہم پر نازل نہ ہو اور نہ ہم گمراہ ہوں۔ حالانکہ یہ مفہوم ان آیتوں کا نہیں بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس بات پر زور دیا ہے اور جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّ ل اِس بات پر زور دیا کرتے تھے اور جیسا کہ عربی زبان کے قواعد سے ہر واقف شخص جانتا ہے کہ اس میں جو دعا سکھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ الٰہی! ہم پر تُو اپنا انعام نازل کر مگر انعام کے بعد جو تیرا غضب نازل ہوتا ہے یا منعم علیہ گروہ میں شامل ہوکر انسان بعض دفعہ جو ضّال بن جاتا ہے اس سے ہمیں بچا اور ہمیں مغضوب اور ضالین میں شامل ہونے سے محفوظ رکھ۔ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ کی دعا اگر مستقل ہوتی تو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۲؎ کی دعا سے پہلے اسے لکھا جاتا۔ کیونکہ پہلے انسان اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچتا اور گمراہی سے محفوظ ہوتا ہے اور بعدمیں اسے انعام ملتا ہے۔ ایسا نہ کیا جاتا کہ پہلے تو اس سے ہدایت طلب کروائی جاتی اور پھر کہا جاتا کہ اب یہ بھی دعا مانگو کہ ہم پر غضب نازل نہ ہو ۔ مثلاً ایک طالب علم جب امتحان میں کامیابی کے متعلق دعا کرے گا تو یُوں دعا کرے گا کہ یااللہ! مجھے روزانہ سبق یاد ہوتے رہیں اور پھر امتحان میں بھی میں پاس ہوجائوں۔ کیونکہ امتحان سبقوں کے بعد آتا ہے پہلے نہیں آتا۔اور اگر کوئی طالب علم یہ دعا کرے کہ یا اللہ! میں امتحان میں پاس ہوجائوں اور پھر سبق بھی مجھے یاد ہوتے رہیں تو سب لوگ اُس کی اِس دعا پر ہنسیں گے اور کہیں گے کہ پہلے تمہیں سبق یاد ہونے چاہئیںاس کے بعد تم امتحان میں کامیاب ہوگے نہ یہ کہ امتحان میں کامیاب ہو جائواور پھر سبق یاد کرنے لگو۔پس تم پہلے یہ دعا مانگو کہ الٰہی! مجھے روزانہ سبق یاد ہوتے رہیںاور پھر یہ دعا مانگو کہ مجھے امتحان میں کامیاب بھی کر۔ امتحان میں کامیابی کی دعا اس لئے ضروری ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ سبق یاد ہونے پر انسان امتحان میں بھی ضرور کامیاب ہوجائے۔ بعض دفعہ سبق اچھی طرح یاد ہوتے ہیں مگر کمرئہ امتحان میں داخل ہوتے ہی طالب علم گھبراجاتے ہیں اور انہیں سب کچھ بُھول جاتا ہے اور وہ فیل ہوجاتے ہیں۔ پس سبقوں کے یاد رہنے کی دعا کے ساتھ ہی یہ دعامانگنی بھی ضروری ہوتی ہے کہ الٰہی! پھر میں امتحان میںبھی کامیاب ہوجائوں۔
مجھے یاد ہے جب میں سکول میں پڑھا کرتا تھا تو مولوی شیر علی صاحب جو ہمارے استادہؤا کرتے تھے وہ ایک طالب علم کو تمام لڑکوں کی کاپیاں دیکھنے کیلئے مقرر کیا کرتے تھے۔ وہ انگریزی میں نہایت اعلیٰ مہارت رکھتا تھا اور ہمارے اساتذہ اُسی کو ہماری کاپیاں دیکھنے کیلئے مقرر کیا کرتے تھے۔ مگر جب امتحان ہوتا تو وہ استاد طالب علم جو دوسروں کی کاپیاں دیکھا کرتا تھا فیل ہوجاتا اور اس کے شاگرد پاس ہوجاتے۔ جب اُس سے پوچھا جاتا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو وہ کہتا جب میں امتحان کے کمرہ میں داخل ہوتا ہوں تو گھبراجاتا ہوں اور سب پڑھا لکھا مجھے بُھول جاتا ہے۔ تو یہ تو ممکن ہے کہ کوئی انسان سبق یاد کرتا رہے مگر امتحان کے وقت گھبراجائے اور سوالات کے جواب نہ دے سکے۔ یا اسے امتحان کے دنوں میں بخار ہوجائے اور اس طرح وہ امتحان میں فیل ہوجائے۔ لیکن یہ کوئی صورت نہیں کہ کوئی طالب علم امتحان پہلے پاس کرے اور سبق بعد میں یاد کرے۔ اسی لئے جب کوئی ذہین اور سمجھدار طالب علم دعا کرے گا تو اسی رنگ میں کرے گا کہ یا اللہ! مجھے سبق یاد ہوتے رہیں اور پھر امتحان میں بھی مَیں کامیاب ہوجائوں۔ یہ نہیں کہے گا کہ یا اللہ! میں امتحان میں کامیاب ہوجائوں اور پھر سبق مجھے یاد ہوتے رہیں۔ کیونکہ یہ پہلی دعا ہے اوروہ پچھلی۔ اور پہلی دعا کو پیچھے کرنا اور پچھلی دعا کو پہلے رکھنا عقل کے بالکل خلاف ہے۔ تو ہدایت ملنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل نہ ہو۔ کیونکہ جس پر اللہ تعالیٰ کاغضب نازل ہوگیا اسے ہدایت کہاں مل سکتی ہے اور پھر ہدایت ملنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ انسان گمراہی سے بچا ہؤا ہو۔ کیونکہ جو گمراہ ہو اس کا ہدایت سے کیا تعلق ہے۔ تو اگر یہ مستقل دعائیں ہوتیں تو سورئہ فاتحہ میں یوں دعا مانگی جاتی کہ یا اللہ ہم گمراہ نہ ہوں۔ یا اللہ! ہم پر تیرا غضب نازل نہ ہو اور یا اللہ! ہم ہمیشہ صراطِ مستقیم پر چلنے والے ہوں۔یہ ترتیب بالکل طبعی تھی کیونکہ پہلے انسان کمزوریوں سے نجات حاصل کرنے کی خواہش کرتا ہے اور پھر یہ چاہتا ہے کہ میں کامل انسان بن جائوں۔ جب ایک بیمار دعا کرے گا تو یُوںکرے گا کہ یااللہ! مجھے بیماری سے شفا بخش اور مجھے طاقت عطا فرما۔ کیونکہ پہلے اس کی بیماری دورہوگی اور پھر اس میں طاقت آئے گی۔ اسی طرح خدا کا غضب اور ضلالت بیماریاںہیں اور اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَکی دعا قوت اور طاقت کی دعاہے۔ اور کوئی عقلمند یہ دعا کبھی نہیں کرے گا کہ پہلے میں پہلوانوں کی طرح مضبوط بن جائوں اور پھر میری بیماریاں دور ہوں۔ وہ یہی دعا کرے گا کہ پہلے میری بیماریاں دو رہوں اور پھر میرے اندر پہلوانوں کی سی طاقت آجائے۔ تو اگر یہ تینوں مستقل دعائیں ہوتیں تو غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَکو پہلے رکھا جاتا اور اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۳؎ کو بعد میں۔ مگر یہ مستقل دعائیں نہیں بلکہ ساری دعائیں مل کر ایک کامل دعا بنتی ہے۔ چنانچہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں سیدھا راستہ اللہ تعالیٰ سے طلب کیا گیا ہے اور اس دعا کے اندر ہی وہ ضلالت جو ایمان سے پہلے ہوتی ہے اس کے دور ہونے کی دعا شامل ہے۔ مثلاً اگر کوئی بیمار صرف یہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ! مجھے مضبوطی اور طاقت عطا کر تو بیماری کے دور ہونے کی دعا خودبخود اس میں آجائے گی۔ ہاں اگر اس کے ساتھ ہی وہ یہ الفاظ بھی بڑھادے کہ پھر کبھی میں بیمار نہ ہوں توبڑھاسکتا ہے کیونکہ یہ آئندہ کے متعلق ہوگی۔ اس کی موجودہ بیماری کے دور ہونے کی دعا اس کے پہلے فقرہ میں ہی آجائے گی۔ تو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں جس کے معنے یہ ہیں کہ یا اللہ! مجھے کامل صحت دے، یا اللہ! مجھے کامل قوت دے وہ ضلالت جو ایمان سے پہلے ہوتی ہے اور وہ غضب جو عدمِ ہدایت کی صورت میں نازل ہوتا ہے اس سے بچنے کی دعا خودبخود آگئی۔ مگر پھر ایمان کے بعد بھی کبھی انسان ضلالت اور گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور ایمان کے بعد بھی کبھی انسان اللہ تعالیٰ کے غضب کامورد ہوجاتا ہے۔ پس اس غضب اور اس ضلالت سے بچنے کی دعا ان آخری آیتوں میں سکھائی گئی ہے اور مومنوں کو تلقین کی گئی ہے کہ تم یہ دعا کرو کہ یا اللہ! ہماری بیماریوں کو دور کر اور ہمیں اپنے فضل سے کامل روحانی صحت دے۔ مگر پھر اس صحت کی وجہ سے جو بعض خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور انسان اللہ تعالیٰ کے غضب کا مستحق ہوجاتا ہے اور کبھی ضلالت اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ گمراہ ہوجاتا ہے، ان تمام خرابیوں سے تا عمر اور تا اختتامِ حیات ہمیں محفوظ رکھ اور صراطِ مستقیم پر ثبات عطا فرما۔ تو غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ سے مراد موجودہ بیماریوں کے دور ہونے کے لئے دعا نہیں بلکہ جب ایمان کامل ہوجائے تو اس کے بعد پیدا ہونے والی خرابیوں کے ازالہ کیلئے یہ دعا ہے کہ الٰہی! ہمیں ایمان تو حاصل ہوگیا مگر اب ایسا فضل کر کہ ہمارا ایمان کبھی زائل نہ ہو اور ہم مرتے دم تک اسی پر قائم رہیں۔ غرض غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ استثناء ہے ۔ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ سے کہ بعض منعم علیہ ہوکر مغضوب ہوجاتے ہیں اور بعض منعم علیہ ہوکر ضال ہوجاتے ہیں اور دعا یہ سکھائی گئی ہے کہ الٰہی! جب ہم منعم علیہ گروہ میں شامل ہوجائیں تو پھر ہم منعم علیہ ہی رہیں۔ ایسا نہ ہو کہ کسی ٹھوکر کی وجہ سے مغضوب اور ضالّین میں شامل ہوجائیں۔
یہ دعا ہے جو ہم ہمیشہ مانگتے رہتے ہیں اور جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ عام مومن تو کُجا منعم علیہ شخص بھی مغضوب او رضالّ ہونے کے خطرہ میں ہر وقت گھرا ہؤا ہے اور بعض دفعہ انسان روحانی لحاظ سے بہت بلند مقام پر پہنچ کر بھی ایسا گرتا ہے کہ اس کے اندر ایمان کا شائبہ تک نہیں رہ جاتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لدھیانہ کے ایک شخص کے متعلق جو آپ سے نہایت گہری ارادت ظاہر کرتا تھا ایک دفعہ ایک الہام ہؤا جس میں اس کی روحانی طاقتوں کی بہت بڑی تعریف کی گئی تھی۔ مگر بعدمیں وہ مرتد ہوگیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس کے متعلق تو الہامِ الٰہی میں تعریف آچکی تھی پھر یہ کیوں مرتد ہوگیا۔ تو آپ نے فرمایا بے شک الہام میں اس کی تعریف موجود تھی اور اللہ تعالیٰ کا کلام بتارہا تھا کہ وہ اعلیٰ روحانی طاقتیں رکھتا تھا۔ لیکن جب اس نے ان طاقتوں سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس میں کبر اور غرور پید اہوگیا تو اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہوگیا اور وہ مرتد ہوگیا۔ تو سورئہ فاتحہ کی دعا ہمیں بتاتی ہے کہ نِفاق اورکفریہ دو چیزیں انسان کے ساتھ ہر وقت لگی ہوئی ہیں اور یہ دونوں مرضیں منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے کے بعد انسان پر حملہ آور ہوتی رہتی ہیں۔ اور ان کے پیدا ہونے کے دو سبب ہوتے ہیں۔ ایک مرض تو اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں نازل ہوتی ہیں۔ اس کے فضل اسے نوازنا شروع کرتے ہیں اور وہ ایمان میں اعلیٰ درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ لیکن بجائے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر گزار ہونے کے وہ تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کسی وقت خداتعالیٰ کی یا اس کے پیاروں اور مقبول بندوں کی کوئی ایسی گستاخی کر بیٹھتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ تمام انعامات سے محروم کردیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے آجاتا ہے۔ گویا یہ اللہ تعالیٰ یا اس کے پیاروں سے لڑائی کانتیجہ ہوتا ہے کہ وہ تمام درجات سے محروم کردیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہوجاتا ہے ۔ یا پھر یہ مرض اس وقت پید اہوتا ہے جب وہ غلّو کرنے لگ جاتا ہے اور ایسی جگہ انکسار کرنے لگ جاتا ہے جہاں اس کیلئے انکسار جائز نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں اس کے اندر تکبر نہیںہوتا بلکہ انکسار ہوتا ہے اور انکسار بھی جب حد سے بڑھ جائے تو ایک مقام پر جُرم بن جاتا ہے۔ پس انکسار اس کو ایک ایسے مقام پر لے جاتا ہے جو ضلالت اور گمراہی کا مقام ہوتا ہے اور اس طرح خداتعالیٰ کی نگاہ سے وہ گرجاتا ہے۔ مثلاً خدا کے کسی برگزیدہ کے متعلق وہ یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں مَیں اتنا ذلیل ہوں، اتنا ذلیل ہوں کہ مجھے اب اس کی پوجا کرنی چاہئے اور میں تو بالکل ادنیٰ انسان ہوں، یہ شخص جس کی میں اطاعت کرتا ہوں خدا یا خدا کا بیٹا ہے۔ جب انکسار کو وہ اس حد تک پہنچادیتا ہے تو وہ ضال کہلانے لگ جاتا ہے۔اور ایسا انسان بھی انعام کے مقام پر پہنچ کر گر جاتا ہے۔ پہلی قوم کی مثال رسول کریم ﷺ نے یہود سے دی اور دوسری قوم کی مثال رسول کریم ﷺ نے نصاریٰ سے دی۔ یہود وہ تھے جنہوں نے خداتعالیٰ کے انبیاء کے مقابلہ میں تکبر سے کام لیا اور نصاریٰ وہ تھے جنہوں نے خداتعالیٰ کے ایک نبی کے مقابلہ میں اس قدر انکسار کیا کہ اسے خدا اورخدا کا بیٹا سمجھنے لگ گئے اور آپ اس کے بندے بن بیٹھے۔ پہلی قوم محبت توڑ کر خداتعالیٰ کی مجرم بنی تھی تو دوسری قوم محبت کی بے جا زیادتی کی وجہ سے خداتعالیٰ کے حضور مجرم قرار پاگئی۔ ۱۹۳۵ء میں مَیں نے اسی مسجد میں اسی ممبر پر کھڑے ہوکر ایک رئویا سنایا تھا جو انہیں دنوں ’’الفضل‘‘ میں بھی شائع ہوگیا اور جس کے ایک حصہ میں اسی طرف اشارہ ہے کہ ناجائز محبت انسان کو مجرم بنادیتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ کبڈی کھیلنے لگے ہیں اور انہوں نے شرط یہ باندھی ہے کہ جو جیت جائے گا، خلافت کے متعلق اس کا خیال قائم کیا جائے گا۔ جب مجھے ان کے اس خیال کا علم ہؤا تو میں نے ان پر ناراضگی کا اظہار کیا اورکہا کہ کیا تم دین کو ہنسی کا موجب بناتے ہو اورکیا ان امور کا فیصلہ کبڈیوں سے ہوسکتا ہے۔ اس پر جو لوگ پہلے خلافت کے مؤید تھے میں نے دیکھا کہ وہ بھی بپھر گئے اور انہوں نے میرے روکنے کو ہی اپنی ہتک سمجھا اور وہ بھی دوسرے فریق کے ساتھ شامل ہوگئے۔ اب یہ ایک ناجائز محبت کا مظاہرہ تھا جو انہوں نے کیا اور بوجہ اس کے کہ انہیں خدا کیلئے محبت نہ تھی ان کے ایمان ضائع ہوگئے۔
پس اگر محبت کے جذبہ کا غلط طریق پر استعمال کیا جائے تو اس کا نتیجہ بھی کبھی اچھا نہیں نکل سکتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاںکے دل میں بڑا ایمان تھا، اسے سلسلہ سے بڑی محبت تھی، پھر اسے کیوں ٹھوکر لگی؟ اس کا جواب یہی ہے کہ اس کی محبت اور اس کا اخلاص خدا کیلئے نہیں تھا بلکہ کسی کمزوری یا الٰہی تصرف کے ماتحت تھا۔ اس لئے ایسے انسان باوجود محبت میں ترقی کرجانے کے پھر بھی ٹھوکر کھاجاتے ہیں۔ تو انسان کے متعلق کسی مقام پر بھی یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اب ٹھوکر سے محفوظ ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ اُس اعلیٰ مقام پر پہنچ جائے جہاں خداکی طرف سے یہ کہہ دیا جائے کہ اب اسے ٹھوکر نہیں لگے گی۔ غرض اللہ تعالیٰ نے سورئہ فاتحہ میں ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے اور اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَمیں یہ دونوں مضمون بیان کردیئے ہیں۔ یعنی یہ کہ ایک طرف تمہارے لئے ہرقسم کی ترقیات مقدر ہیں اور تم اعلیٰ سے اعلیٰ انعامات حاصل کرسکتے ہو۔ مگر دوسری طرف یہ یاد رکھو کہ جُوںجُوں انعامات بڑھتے جائیں اتنا ہی انسان کے گرنے کا بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے ؎
گرتے ہیں شہسوار ہی میداں میں مثل برق
وہ طفل کیا کرے گا جو گُھٹنوں کے بل چلے
کہ جو شہسوار ہو وہی میدانِ جنگ میں گرتاہے۔ وہ بچہ جو گھٹنوں کے بل چل رہا ہو اس نے کیا گرنا ہے۔ اسی طرح انسان جتنا زیادہ اونچا چڑھتا اور روحانی کمالات حاصل کرتا چلا جاتا ہے، اُتنا ہی اس کے گرنے کا احتمال بھی زیادہ ہوتا جاتا ہے۔
یہودی کتب میں او رہماری روایات کی کتب میں ایک شخص بلعم باعور کا حال لکھاہے کہ اس نے بڑی عبادتیں کیں، بڑی عبادتیں کیں، بڑی عبادتیں کیں یہاں تک کہ وہ خداتعالیٰ کا مقرب ہوگیا اور اس کی دعائیں نہایت کثرت سے قبول ہونے لگیں۔ حتیٰ کہ لوگ جب اُس کے پاس جاتے اور دعا کرنے کیلئے کہتے تو اس یقین کے ساتھ واپس آتے کہ اب یہ دعا ضرور قبول ہوجائے گی۔ ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے ملک میں سے گزرے تو اس ملک کا جو بادشاہ تھا اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کیا اور آپ سے لڑائی شروع کردی۔ مگر جب اُس نے دیکھا کہ میرا پلہ کمزور ہے اور میں موسیٰ کے لشکر کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو اس نے اپنے مشیرکاروں سے مشورہ لیا۔ انہوں نے اسے یہ مشورہ دیا کہ بلعم کو بلائو اور اس سے دعا کرائو۔ اگر وہ موسیٰ کے خلاف بددعا کرے گا تو موسیٰ کے لشکر کو ضرور شکست ہوجائے گی۔ اس پر اس نے بلعم کی طرف اپنا آدمی بھیجا اور کہا کہ میرا موسیٰ سے مقابلہ ہے تم میرے لئے دعا کروکہ اس مقابلہ میں مَیں کامیاب ہوجائوں اور اگر میںجیت گیا تو میں تمہیں بہت کچھ انعام دوں گا۔ مگر پیشتر اس کے کہ بادشاہ کا آدمی اس کے پاس پہنچتا بلعم کو خدا نے خواب میں بتلادیا کہ دیکھنا موسیٰ میرا پیارا بندہ ہے، اس کے خلاف بددعانہ کیجیئو۔ جب بادشاہ کا پیغامبر اس کے پاس پہنچا تو چونکہ بلعم یہ خواب دیکھ چکا تھا اس لئے اس نے انکار کردیا اور کہا کہ موسیٰ کے خلاف میں بددعا نہیں کرسکتا۔ مگر اس کی بیوی نے جس کے دل میں انعام کا لالچ پیدا ہوگیا تھا اُسے کہا دیکھو! خوابوں کی مختلف تعبیریں ہوتی ہیں۔ تم انکار مت کرو اور اس کے ساتھ جائو اور موسیٰ کے خلاف بددعا کرو ممکن ہے ہمارے بھی دن پھر جائیں اور ہماری تنگدستی دور ہوجائے۔ چنانچہ وہ اپنی بیوی کی بات مان گیا اور گھر سے موسیٰ کے خلاف بددعا کرنے کیلئے نکلا۔ لیکن جب وہ اس شخص کے ساتھ چلا تو تین دفعہ خداتعالیٰ کے فرشتے نے سامنے کھڑے ہوکر اسے روکا اورکہا کہ موسیٰ کے خلاف بددعامت کر مگر وہ پھر بھی اپنی بیوی کے کہنے کے مطابق چلتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ایک الگ مقام میںاس نے بادشاہ کے حکم کے ماتحت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف بددعا کرنی شروع کردی۔ ابھی وہ دعا کرہی رہا تھا کہ معاً اُس پر کشفی حالت طاری ہوئی اور اس نے دیکھا کہ ایک کبوتری اُس کے منہ سے نکل کر اُڑی جارہی ہے۔ اس نے ایک فرشتے سے پوچھا یہ کیا ہے؟ خدا کے فرشتے نے جواب دیا یہ تیرا ایمان ہے جو اَب تیرے اندر سے نکل کر اُڑا جارہا ہے۔ اب تُو ساری عمر بیٹھا ریاضتیں کرتا رہ خدا نے تجھے جو انعام دیا تھا وہ اب اس نے واپس لے لیا ہے اور تیری تمام ولایت اس نے چھین لی ہے۔
اب دیکھو ایک شخص صاحبِ کشف ہے، صاحبِ وحی ہے، صاحبِ الہام ہے، خدا کا مقرب ہے اور اتنا مقرب ہے کہ اس کی کوئی دعا ردّ نہیں کی جاتی مگر جب وہ اس شخص کا مقابلہ کرتاہے جسے خداتعالیٰ نے نظام کے قائم کرنے کیلئے کھڑا کیا تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی ساری عبادتوں کو ضائع کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ تیری دعا چونکہ کسی فرد کے خلاف نہیں بلکہ میرے خلاف ہے اس لئے ساری عمر کی عبادتوں کے نتیجہ میں ہماری طرف سے جو تجھے انعام ملا تھا وہ ہم واپس لیتے ہیں۔ تو معمولی مقام تو ایک طرف رہے بڑے بڑے مقام پر پہنچ کر بھی انسان بعض دفعہ ٹھوکر کھاجاتا اور ایسی بُری طرح گرتا ہے کہ اس کا ایمان بالکل ضائع ہوجاتا ہے۔
اب تک ہماری جماعت میں سے جن لوگوں کو ٹھوکریں لگیں اور وہ مرتد ہوئے، ان میں سے کوئی ایسا شخص نہیں جو ایسا صاحبِ کشف اور صاحبِ الہام ہو کہ اس کے صاحبِ کشوف اور صاحبِِ الہام ہونے کا جماعت کے اکثر حصہ کو علم ہو اور انہیں اس کے کشوف اور اس کے الہامات کے سچا ہونے کا تجربہ ہو۔ ایسے توکئی ہیں جن کے دماغ میں خرابی پیدا ہوگئی اور وہ کئی قسم کے دعوے کرنے لگے مگر ان کا یہاں ذکر نہیں۔ ان کے بگاڑ کا باعث ان کے کشوف اور الہام ہی ہوئے ہیں بلکہ ان کے دماغ کا بگاڑ ان کے کشوف و الہام کا موجب ہؤا ہے۔ مگر وہ لوگ جن کے کشوف اور الہامات کی جماعت گواہ ہو اور ہزاروں آدمیوں کو اس بات کا تجربہ ہو کہ انہیں خداتعالیٰ سے خاص تعلق ہے، ایسا کوئی آدمی ہماری جماعت سے آج تک بھی مرتد نہیں ہؤا ۔ ظاہری علم بالکل اور چیز ہے اگر ظاہری علم پر ہی فضیلت اور بزرگی کی بنیاد رکھی جائے تو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ دنیا کے سارے انبیاء کو جھوٹا کہناپڑے گا۔ کیونکہ ان کا مقابلہ کرنے والے ’’علمائ‘‘ ہی ہوئے ہیں۔
رسول کریم ﷺ کے مقابلہ میں بھی عرب کے کاہن اور علماء اُٹھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی اس زمانہ کے فقیہیوں اور فریسیوں نے مقابلہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسے ہی لوگ آ پ کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی انہی لوگوں نے مقابلہ کیا جو اپنے آ پ کو ظاہری علوم کے لحاظ سے بہت بڑا عالم سمجھا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نہایت حقارت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ’’منشی غلام احمد‘‘ لکھا کرتے تھے۔ گویا آپ نَعُوْذُبِاللّٰہِ صرف منشی ہیں کہ دو چار سطریں لکھ لیتے ہیں، عالم نہیں ہیں اور وہ اس بات پر بہت خوش ہوتے کہ میں نے انہیں ’’منشی‘‘ لکھا ہے۔ مجھے یاد ہے میں اُس وقت چھوٹا بچہ تھا کہ مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی نے کسی مجلس میں بیان کیا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے میری نسبت تو یہ لکھا ہے کہ یہ مولوی ہے مگر حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق اس نے یہ لکھا ہے کہ وہ منشی ہیں۔ مجھے اس وقت بھی ان کی یہ بات بری معلوم ہوئی تھی اور آج بھی بُری محسوس ہوتی ہے۔ ان کے دل میں شاید مولویت کی کوئی قدر ہو تو ہو ہمیں توکوئی مولوی کہہ دے تو چِڑ آجاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ مولوی کا لفظ بُرا ہے۔ مولوی ایک عربی کا لفظ ہے اور یہ مولائی سے بنا ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا مولا، ہمارا سردار اور ہمارا اُستاد مگر اب مولوی کے لفظ کا استعمال جن لوگوں پر شروع ہوگیا ہے اُن کو دیکھتے ہوئے اس بات سے شرم آتی ہے کہ کوئی ہمیں مولوی کہہ دے ۔ تو ظاہری علوم بالکل اور چیز ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ظاہری علوم والے روحانیت میں بھی کوئی درجہ رکھتے ہوں۔ قرآن کریم نے بے شک بعض لوگوں کو علماء قرار دیا ہے مگر اس نے ان ہی کو علماء قرار دیا ہے جو اپنے اندر خوفِ خدا رکھتے ہوں۔ جیساکہ وہ فرماتا ہے اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ ۴؎ کہ اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھنے والے علماء ہیں اور جو اس کا خوف نہیں رکھتے وہ جاہل ہیں۔ گویا رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جس قدر علماء کہلانے والے تھے ان کو قرآن کریم نے جاہل قرار دیا اور جس قدر لوگوں کی نگاہ میں جاہل سمجھنے جانے والے تھے اور رسول کریم ﷺ پر وہ ایمان لے آئے تھے انہیں عالم قرار دیا اور فرمایا عالم ابوبکرؓ ہے، عالم عمرؓ ہے، عالم عثمانؓ ہے، عالم علیؓ ہے، عالم طلحہؓ ہے، عالم زبیرؓ ہے اور عالم اور صحابہؓ ہیں مثلاً بلالؓ وغیرہ۔ مگر یہ جو عرب کے بڑے بڑے کاہن ہیں یہ سب جاہل ہیں عالم نہیں۔ تو ظاہری علوم کوئی چیز نہیں اصل چیز باطنی علوم ہیں اور جب وہ کسی کو حاصل ہوجائیں تو اُسی کی عزت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں قائم کی جاتی ہے اور انہی علوم کی کوئی قیمت ہوتی ہے۔
مولوی عبداللہ صاحب غزنوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کے قریب زمانہ میں ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں ان کا ایک لطیفہ ہے جس سے اُن کی عزت دل میں پیداہوتی ہے۔ کہتے ہیںکہ امرتسر میں ایک دفعہ لوگوں نے مولوی عبداللہ صاحب غزنوی سے مقابلہ کرنے کیلئے ایک بڑا بھاری عالم تیار کیا جو علومِ مروّجہ میں خوب ماہر تھا۔ اس کے بعد وہ لوگ مولوی عبداللہ صاحب کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ آپ مجلس میں چلیے، آپ کی فلاں عالم سے بحث کرانی ہے۔ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی بے شک عالم تھے مگر ایسے نہیں کہ انہوں نے صَرف ونحو کی گردانیں رٹی ہوئی ہوں۔ وہ ایک صوفی منش بزرگ تھے مگرلوگ چاہتے تھے کہ عربی کی ترکیبوں میں لاکر اُنہیں گرائیں اور ذلیل کریں۔ خیر وہ مجلس میں آگئے۔ لوگوں نے کہا مولوی صاحب یہ فلاں عالم صاحب آئے ہیں کیا یہ آپ سے کوئی سوال کریں؟ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی یہ عادت تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھی عادت تھی کہ جب خاموش ہوتے تو سر نیچے ڈال کر یا سر کو ہاتھ کا سہارا دے کر بیٹھے رہتے اورذکرِ الٰہی کرنے والے بِالعموم ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ جب انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ آپ سے کوئی سوال کریں؟ تو مولوی عبداللہ صاحب غزنوی نے فرمایا ’’اگر نیت بخیر باشد‘‘ یعنی اگرنیت نیک ہو تو بیشک وہ سوا ل کریں۔ وہ آدمی بھی گو بظاہر دُنیوی علماء میں شامل تھا مگر اُس کے دل میں تقویٰ کی آگ جلتی تھی۔ جب انہوں نے کہا کہ اگر نیت بخیر باشد تو اُس نے سوال کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اس وقت تومیں بحث کی نیت سے ہی آیا تھا۔ اور درحقیقت یہ جو اُس شخص میں تقویٰ پیدا ہؤا مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی بات کے نتیجہ میں پیدا ہوا۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی ایک واقعہ ہے۔ شروع شروع میں مولوی محمد حسین صاحب جب مولوی ہوکر بٹالہ آئے تو ان کے خیالات بٹالہ کے رہنے والوں کو سخت گراں گزرے۔ آپؑ فرماتے کہ ایک دفعہ جب میں بٹالہ گیا تو چونکہ لوگوں کو میرے مذہبی جوش اور مذہبی تحقیق و تدقیق کاعلم تھا اور وہ جانتے تھے کہ عیسائیوں کے متعلق مَیں اکثر مضامین لکھتا رہتا ہوں اور صوفیاء کی میرے دل میں عزت ہے اس لئے بعض لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ سے ایک ضروری کام ہے، آپ ہمارے ساتھ فلاں مسجد میں چلیں۔ جب مَیں وہاں گیا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بیٹھے تھے اور لوگوں کا بہت بڑا مجمع تھا۔ لوگوں نے مجھے کہا کہ آپ حنفیوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے بحث کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم حنفیوں کی طرف ہیں کیونکہ حنفیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اول قرآن ہے اور پھر حدیث اورہمارا بھی یہی عقیدہ ہے۔ جب لوگوں نے آ پ کو مولوی محمد حسین صاحب سے بحث کرنے کیلئے آمادہ کرنا چاہا تو آپ نے فرمایا مجھے ان کے مذہب کا پتہ نہیں، پہلے یہ اپنا عقیدہ بیان کریںاس کے بعد میں ان پر کوئی اعتراض کرسکتا ہوں۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بیان کیا کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی طرف سے جو قول ثابت ہوجائے وہ ہمیں تسلیم کرلینا چاہئے۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی عقیدہ تھا اور ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے۔ کیونکہ اگر رسول کریم ﷺ کی بات نہیں ماننی تو اور کس کی ماننی ہے؟ بہرحال جب آپ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کی یہ بات سُنی تو فرمایا یہ بالکل ٹھیک ہے، مَیں اعتراض کس بات پر کروں۔ یہ سنتے ہی لوگ سخت غضب میں آگئے اور انہوں نے شور مچانا شروع کردیا کہ ہار گئے، ہار گئے۔ بس یونہی عالم بنے پھرتے تھے، ہمیں اب پتہ لگا کہ یہ عالم نہیں جاہل ہیں۔ آپ نے لوگوں کی ان تمام باتوں کو سُنا مگر کوئی پرواہ نہ کی اور وہاں سے چلے آئے۔ واپسی کے وقت خداتعالیٰ نے آپ پر الہام نازل کیا کہ چونکہ تُونے میری خاطر یہ ذلّت برداشت کی ہے اس لئے ’’تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہؤا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیںگے‘‘۔ ۵؎
توعلماء حقیقی وہی ہیں جن کا خداتعالیٰ سے تعلق ہو مگر ان علماء میں سے بھی وہ لوگ جو اِس مقام پر نہیں پہنچے ہوئے ہوتے جس مقام پر پہنچ کر خداتعالیٰ انہیں اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ ۶؎کے خطاب سے مخاطب کرتا ہے، بعض دفعہ ٹھوکر کھاجاتے اور پھر ایسے ذلیل ہو جاتے ہیں کہ ان کی ذلّت کی کوئی انتہاء نہیں رہتی جیسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تھے۔ شروع شرو ع میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتنی تعریف کی، اتنی تعریف کی کہ اسے دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے ایک پُرجوش مرید آپ کی تعریف کررہا ہے ۔ چنانچہ براہین احمدیہ پر انہوں نے جو ریویو کیا اس میں لکھا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد تیرہ سَو سال کے عرصہ میں کسی ایک شخص نے بھی اپنے قول اور عمل سے اسلام کی اتنی خدمت نہیں کی جتنی حضرت مرزا صاحب نے کی ہے۔ مگر پھر وہی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تھے جنہوں نے آپ پرکُفر کا فتویٰ لگایا اور تمام ہندوستان میں آپ کی مخالفت کی آگ بھڑکائی۔ محض اس لئے کہ میری ہتک ہوئی ہے، مجھ سے اپنے دعویٰ کے متعلق حضرت مرزا صاحب نے مشورہ کیوں نہیں کیا۔ اور دراصل پہلاغصہ انہیں آپ پر یہی تھا۔ چنانچہ جب کسی شخص نے انہیں بتایا کہ آپ ایک ایسی کتاب لکھ رہے ہیں جس میں وفاتِ مسیح کا ذکر آتا ہے ۔ تومولوی محمد حسین بٹالوی کہنے لگے کہ ہم سے تو انہوں نے کوئی ذکر نہیں کیا۔ پھر اسی غصہ میں وہ سارے ہندوستان میں پھرے اور آپ پر کُفر کا فتویٰ لگایا اور کہا کہ میں نے ہی اس شخص کو اونچا کیا تھا اور اب میں ہی اسے نیچے گرائوں گا۔۷؎ مگر نتیجہ کیا نکلا ؟انہوں نے اپنی تمام طاقتوں اور قوتوں کے ساتھ آپ کا مقابلہ کیا۔ تھوڑے دنوں کے لئے ہائو ہو کا شور بھی مچالیا، آپ کو گالیاں بھی دی گئیں، آپ کو بُرا بھلا بھی کہا گیا۔ آپ کے خلاف لوگوں کو مشتعل بھی کیا گیا مگر آخر فتح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہی حاصل ہوئی۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دفعہ ملتان کسی مقدمہ میں گواہی دینے کیلئے تشریف لے گئے۔ میں نے اُس وقت خواہش کی کہ میں بھی آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہوں۔ چنانچہ آپ مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ میری عمر اُس وقت اتنی چھوٹی تھی کہ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے ملتان میں کیا کیا دیکھا۔ جب ہم واپس آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور میں بھی ایک دو دن ٹھہرے۔ اُنہی دنوں کسی دوست نے شہر کے اندر آپ کی دعوت کی۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ وہ کھانے کی دعوت تھی یا اُس دوست نے کسی اور تقریب پر آپ کو بلایا تھا۔ جس وقت آپ وہاں سے واپس آرہے تھے تو وزیر خان کی مسجد یا سنہری مسجد کے قریب بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہوگیا۔ مفتی محمد صادق صاحب بھی اُن دنوں وہیں قریب رہتے تھے اور میاں تاج دین صاحب وہیں رہتے تھے۔ میں نہیں جانتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن میں سے کس دوست کے مکان پر تشریف لے گئے تھے۔ بہرحال جب واپس آئے تو مسجد کے قریب بہت بڑا ہجوم تھا اور جونہی لوگوں نے آ پ کی گاڑی دیکھی انہوںنے تالیاںپیٹنی شروع کردیں۔ بعض گالیاں دینے لگ گئے، بعض نے آپ کے خلاف نعرے لگائے اور شور سے آسمان سر پر اٹھالیا۔ شاید یہ نظارہ میرے ذہن سے اُترجاتا اور میں اِس واقعہ کو بالکل بُھول جاتا مگر بچپن کی عمر کے لحاط سے ایک بات میں نے ایسی دیکھی کہ جس نے اس نظارہ کے نقوش کو بہت گہرے طور پر میرے دماغ پر ثبت کردیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک بڈھا شخص جس کی داڑھی ناف تک پہنچ رہی تھی، ۷۵۔۸۰ سال اس کی عمر ہوگی ، اُس کا قد لمبا اور جسم دُبلا پتلا تھا۔ اس نے اپنے ایک ہاتھ پر زرد زرد پٹیاں باندھی ہوئی تھیں جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اُس کا ہاتھ زخمی ہے اور ہاتھ پہنچے کے آگے سے کٹا ہؤا تھا۔ اپنے اس ٹنڈ کو دوسرے صحیح ہاتھ پر ماررہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ ہائے ہائے مرزا ، ہائے ہائے مرزا۔ اپنے بچپن کے لحاظ سے یہ نظارہ میرے لئے ایک عجیب نظارہ تھا کہ ایک شخص کا ہاتھ کٹا ہؤا ہے اور اُس پر ہلدی وغیرہ اس نے باندھی ہوئی ہے مگر وہ اپنا ٹُنڈ دوسرے ہاتھ پر مارتا جاتا ہے اور کہتا جاتا ہے ہائے ہائے مرزا، ہائے ہائے مرزا۔ بے شک یہ چیزیں ہوئیں اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اِن باتوں کو دیکھ کر خوش ہوئے اور وہ اپنے دل میں کہتے ہوں گے کہ دیکھا! ہم نے احمدیوں کا کیسا ناطقہ بند کیا، ان کو کیسا ذلیل اور کیسا رُسوا کیا۔ مگر دنیا کی نگاہوں میں جو ذلّت ہو وہ خداتعالیٰ کے نزدیک عزت ہوتی ہے اور دنیا کی نگاہوں میں جو عزت ہو وہ خداتعالیٰ کے نزدیک ذلّت ہوتی ہے۔ جس وقت وہ تمام لوگ ہنسی کررہے تھے، جس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے ساری دنیا میں تبلیغِ احمدیت کے راستے بند کردیئے ہیں۔ اُس وقت ہر گالی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مل رہی تھی۔ وہ آپ کے انعامات اور خطابات اور القابات کی فہرست میں لکھی جارہی تھی۔ آخر یہ ان گالیوں کا ہی نتیجہ ہے جو ہم یہاں بیٹھے ہیں اور کس بات کا نتیجہ ہے۔ پس وہ جتنا جتنا کہتے ہائے ہائے مرزا ، ہائے ہائے مرزا یعنی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مرگئے ہیں اور وہ آپ کاسیاپا کررہے ہیں۔ اُتنا ہی فرشتے کہتے آپ کو اور زندگی ملے آپ کو اور درجہ ملے اور آخر وہی بات پوری ہوئی جو خدا اور اُس کے فرشتوں نے کہی۔ وہ بات تو پوری نہ ہوئی جو مولوی محمد حسین بٹالوی نے کہی تھی۔
تودنیا کی طرف سے جو عزتیں آتی ہیں وہ کوئی ہستی نہیں رکھتیں۔ ہاں جو عزت خداتعالیٰ کی طرف سے آئے وہی حقیقی عزت ہوتی ہے اور وہ اُنہی کو ملتی ہے جو خداتعالیٰ کی خشیت اپنے دل میں رکھتے ہوں۔ ظاہری نام کے رٹ لینے سے وہ عزت نہیں مل سکتی۔ تو انسان کیلئے دنیا میںہر مقام پر گرنے کاخطرہ ہے سوائے اس کے کہ وہ ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں خدا خود اسے محفوظ قرار دے دے اور کہہ دے کہ اب تیرے گرنے کا کوئی خطرہ نہیں۔
غرض سورئہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ تم اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَکی دعا ہمیشہ پڑھتے رہو۔ یہ نہ ہو کہ ترقی کرتے کرتے تم کسی مقام پر پہنچ کر خوش ہوجائو اور سمجھ لو کہ اب ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہمارا ایمان خراب نہیں ہوسکتا۔ فرمایا یہ ہمارا حق ہے کہ ہم کہیں جو چاہو کرو، تمہارا حق نہیں۔ کیونکہ خدا جب کسی بندے کو کہتا ہے کہ اب تُوجو جی میں آئے کر تو اس کے بعد اس کی نگرانی بھی کرتا ہے۔ لیکن بندہ جب اپنے متعلق خودبخود یہ مقام تجویز کرلیتا ہے تو چونکہ نگرانی کرنے والا کوئی نہیںہوتا اس لئے وہ ٹھوکر کھاتااور گرجاتا ہے۔ یہ وہ سورۃ ہے جو ہم پانچ وقت نمازوں میں روزانہ پڑھتے ہیں اور پھر پانچوں نمازوں کی ہر ایک رکعت میں پڑھتے ہیں اور خداتعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ الٰہی! منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے کے بعد ہم ارتداد کے گڑھے میں نہ گرجائیں۔ پھر وہ بات جس کا کسی نمازمیں چار دفعہ ، کسی نمازمیں پانچ دفعہ، کسی نماز میں دس دفعہ اور کسی نماز میں گیارہ دفعہ ہم اقرار کرتے اور کہتے ہیں کہ منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے کے بعد بھی انسان بعض دفعہ مغضوب اور ضالّ بن جاتا ہے۔ اس کے متعلق یہ کہنا کہ یہ کیا ہوگیا، اس سے زیادہ بیوقوفی کی بات اورکیا ہوسکتی ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی گورکن روزانہ قبریں کھودے اور لوگوںکو اپنے ہاتھ سے لحد میں اُتارے اور پھر لوگوں سے یہ کہے کہ کیا لوگ مر بھی جاتے ہیں ؟ جب وہ روزانہ لوگوں کو دفن کرتا اور ان کی قبریں کھودتا ہے تو اُس کا موت پر تعجب کرنا بیوقوفی نہیں تو اَور کیا کہلائے گا۔ اسی طرح ایک انسان جب روزانہ پانچ دفعہ خداتعالیٰ کے حضور جاتا اور کئی کئی رکعتوں میں تواتر اور تسلسل کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ یا اللہ! تُو مجھے بڑے بڑے انعامات دیجیو مگر ایسا نہ ہو کہ انعامات حاصل کرنے کے بعد میں پھر گمراہ ہوجائوں اور ارتداد کے گڑھے میں گِر جائوں۔ اس کا یہ کہنا کہ فلاں شخص ایمان لانے کے بعد مرتد کیوں ہوگیا، بیوقوفی اور حماقت ہے۔ اگر بڑے انعاموں کے حاصل کرنے کے بعد انسان مرتد نہیں ہوسکتا تو یہ دعا کیوں سکھائی گئی ہے جو تہجد اور اشراق اور ضحی اور دوسرے نوافل کو اگر نکال بھی دیا جائے تو کم از کم پانچ وقت فرض نمازوں میں انسان مانگتا اور ہر رکعت میں مانگتا ہے۔ پھر فرائض کے علاوہ سنن اور نوافل ہیں جن میںیہی دعا مانگی جاتی ہے اور یہ نوافل عصر کے ساتھ بھی ہیں اور صبح کے ساتھ بھی ہیں اور دوسری نمازوں کے ساتھ بھی ہیں ۔ ان سب میں انسان یہی دعا مانگتا ہے او رکم سے کم چار دفعہ ہر نمازمیں خداتعالیٰ سے کہتا ہے کہ یااللہ! میں اعلیٰ سے اعلیٰ مومن بن جائوں۔ مگر ایمان میں کمال حاصل کرنے کے بعد پھر منافق نہ بن جائوں۔ ایمان میں کمال حاصل کرنے کے بعد پھر مرتد نہ ہوجائوں۔ جب اتنی دفعہ ایک انسان یہ اقرار کرتا اور تسلیم کرتا ہے کہ منعم علیہ گروہ میں شامل ہوکر بھی انسان مغضوب اور ضال بن سکتا ہے تو اس کیلئے کسی انسان کا مرتد ہونا ہرگز کوئی عجیب بات نہیں ہوسکتی۔ اگریہ ابتلاء لوگوں کو شاذونادر کے طور پر آنا ہوتا تب بھی اتنی لمبی اور مسلسل دعا کی جو ہر نماز کی ہر رکعت میں مانگی جاتی ہے ضرورت نہیں تھی۔ مگر اس دعا کا مسلسل مانگا جانا بتاتا ہے کہ اس قسم کے ابتلاء ایسے شاذ نہیں ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ جب کسی قوم پر انعام نازل ہوتے ہیں تو وہی انعام اس قوم کو تباہ بھی کردیا کرتے ہیں اگر اس قوم میں خشیۃ اللّٰہ نہ ہو۔ ہاں اگر خشیۃ اللّٰہ ہو تو وہ اس تباہی سے محفوظ رہتی ہے۔ اسی لئے ساری دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جسے ترقی اور عروج کے بعد زوال نہ ہؤا ہو۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انعا م جہاں خوشی کا موجب ہوتے ہیں وہاں قوموں اور افراد کی تباہی کاموجب بھی ہوجاتے ہیں۔ جیسے اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کے بعد غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَلاکر خدا نے بتادیا کہ ہر انعام اپنے ساتھ ایک مخفی ابتلاء بھی رکھتا ہے اور مومنوں کو چاہئے کہ وہ ان ابتلائوں سے محفوظ رہنے کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہیں۔ یہ ابتلا عموماً دو وجہ سے آیا کرتے ہیں او راگر مومن ان وجوہ کو یاد رکھیں تو ابتلاء آنے کا دروازہ بالکل بند ہوجائے۔ ایک وجہ ابتلاء آنے کی یہ ہوتی ہے کہ انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ اب میرے لئے انعام کے دروازے بند ہیں۔ جب کسی انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوجائے کہ اب میرے لئے انعام کے حصول کے دروازے بند ہیں وہ تباہی کی طرف جانا شروع کردیتا ہے۔
دراصل یہ قانونِ قدرت ہے کہ جب بھی یہ خیال پیدا ہوجائے کہ انعام کے دروازے اب ہمارے لئے بندہیں خواہ کسی قوم کے دل میں یا بعض افراد کے دل میں آئے وہ تباہ ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر متبعینِ قرآن کو لے لو، قرآن ہمارے ہاتھ میں بھی وہی ہے جو غیراحمدیوںکے ہاتھ میں ہے۔ انہی کے شائع کردہ قرآن ہم پڑھتے ہیں۔ لغتیں بھی انہی کی لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ مگر باوجود اس کے جب قرآن غیراحمدیوں کے ہاتھ میں جاتا ہے تو وہ بولتا ہی نہیں خاموش رہتا ہے۔ مگر جب ہمارے ہاتھ میں آتا ہے تو اتنا بولتا ہے، اتنا بولتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے اس کے معارف ختم ہونے میں ہی نہیں آتے اور واقع میں اس کے معارف ختم ہونے ہی نہیںآتے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کی وجہ صر ف ایک ہے اور وہ بطاہر نہایت چھوٹی سی ہے اور وہ یہ کہ غیراحمدیوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر جو اِن کے بزرگ لکھ گئے اس کے بعد قرآن کریم کے معارف کے دروازے بند ہوچکے ہیں اور کسی پر کوئی ایسا نکتہ نہیں کُھل سکا جو پہلے بزرگ نہ لکھ گئے ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب وہ قرآن پڑھتے ہیں تو انہیں وہی تفسیریں ملتی ہیں جو ان کے بزرگ لکھ گئے ہیں۔ کوئی نئی بات ان پر منکشف نہیں ہوتی۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں آکر بتایا کہ قرآن مجید کے متعلق یہ کہنا کہ اس کے معارف کا دروازہ بند ہوچکا ہے کُفر کا کلمہ ہے۔ اس میں سے نئے سے نئے معارف نکل سکتے ہیں اور نئی سے نئی تفسیریں اس کی آیات کی ہوسکتی ہیں۔ جب ہم اِس نکتہ اور اِس خیال کے ماتحت قرآن مجید کو پڑھتے اور اس پر غور اور تدبر کرتے ہیں تو ہمیں نئی سے نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں اور ہم پر وہ وہ معارف کُھلتے ہیں جو پہلے مفسرین نے اپنی کسی تفسیر میں نہیں لکھے۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ ان مفسروںنے بڑی بڑی محنتیں کیں اور قرآن کریم کے اچھے اچھے معارف اور نکتے دنیا کے سامنے پیش کئے۔ مگر ہم یہ ایک منٹ کیلئے بھی تسلیم نہیں کرسکتے کہ قرآن کریم کے معارف محدود ہوں اورجو پہلوں پر معرفت کی باتیں کُھل چُکیں اُن سے زائد کوئی باتیں قرآن کریم میں نہ ہوں۔ جب اس مادی دنیا کی ایجادات کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا توہم یہ کس طرح مان لیں کہ عَالَمِ روحانی کی ایجادات کا سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ پس چونکہ ہم اس نیت سے قرآ ن کریم کے پاس جاتے ہیںکہ وہ ایک زندہ کتاب ہے جو اپنی معرفت کے تازہ بتازہ پھل ہمیں کھلائے گی اس لئے خدا ہمارے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو ایک سخی میزبان اپنے مہمانوں کے ساتھ کرتا ہے۔ جس طرح حاتم طائی کے متعلق لکھا ہے کہ جب وہ مہمانوں کو دیکھتا تو اپنے اونٹ اور اپنی بکریاں ذبح کرکرکے انہیں کِھلاتا اور ان کی خاطر تواضع حد سے زیادہ کرتا۔ اسی طرح جب ہم قرآن کریم کے باغ میں داخل ہوتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسے سخی کے پاس چلے گئے ہیں جسے اسی میں لذت آتی ہے کہ وہ تازہ بتازہ پھل ہمارے سامنے پیش کرکے اور کھلائے۔ چنانچہ اس باغ کا مالک یعنی اللہ تعالیٰ اپنے معارف کے پھل ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور کہتا ہے میرایہ پھل بھی کھائو، میرا وہ پھل بھی کھائو، میرے اس پھل کا بھی مزا چکھو اور میرے اس پھل سے بھی لطف اندوز ہو اوریوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا ایک باغ ہے جس میں کروڑوں قسم کے درخت لگے ہوئے ہیں او رہر درخت پھلوں سے لدا ہؤا ہے اور قسم قسم کے پھل بالکل پکے ہوئے تیار موجود ہیں اور باغ کا مالک ایک پھل اُتار کر کہتا ہے کہ اس باغ کا یہ پھل کھائو اور پھر دوسرا پھل پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بھی کھائو۔ اور پھر دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں حتیٰ کہ وہ پھل توڑ توڑ کر ہمارے سامنے رکھتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے یہ بھی لو اور وہ بھی لو۔ اسے بھی چکھو اور اسے بھی چکھو۔ مگر جب اسی باغ میں غیراحمدی جاتے ہیں تو انہیں کیکر کے درختوں کے سِوا اور کوئی درخت نظر نہیں آتا اور کیکر کے درخت بھی ایسے جو خشک ہوں اور جن پر کوئی سبزی نہ ہو۔نہ درختوں سے انہیں کچھ ملتاہے اور نہ مالک انہیں پوچھتا ہے اور وہ خالی ہاتھ واپس آجاتے ہیں۔ اس کی وجہ محض ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ وہ اس باغ کے مالک کے پاس بدظنی اوربدگمانی سے بھرا ہؤا دل لے کر جاتے ہیں۔ وہ پہلے ہی خیال کرلیتے ہیں کہ اس گھر کا مالک سخت بخیل اور کنجوس ہے، وہ ہمیں کچھ نہیں دے گا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انہیں کچھ نہیں دیتا۔ وہ کہتا ہے جب یہ مجھ پر بدظنی کرتے ہیں تو میں انہیں کیوں اپنی نعمتیں دوں ۔ مگر جب ہم اس باغ کے مالک کے پاس جاتے ہیں تو اِس یقین کے ساتھ جاتے ہیں کہ یہ بہت ہی سخی ہے، اور ہمارے دامن کو اپنی نعماء سے پُر کردے گا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیں ہمارے یقین سے بھی زیادہ مالا مال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مجھ پر حُسنِ ظن لے کر آئے ہیں۔ اب میں ان کے حُسنِ ظن سے بھی بڑھ کر ان سے سلوک کروں گا تا یہ میرے احسانات کے اور بھی گرویدہ ہوں۔ تو دیکھو کتنی چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں نے اس خزانہ کو کھودیا۔ جب انہوں نے یہ سمجھا کہ اب قرآن کریم کے معارف کا انعام انہیں حاصل نہیں ہوسکتا، جو انعام ملنا تھا وہ ان کے بزرگوں کو مل چکا ان پرالٰہی معرفت کے دروازے بند ہوگئے ۔ وہ قرآن کریم سے فائدہ اُٹھانے سے کُلّی طور پر محروم ہوگئے۔
اسی طرح کبھی ٹھوکر اس وجہ سے لگتی ہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ فلاں انعام کا مستحق میں تھا دوسرے کو کیوں مل گیا۔ جب انسان کے اندر اس قسم کا خیال پیدا ہوتا ہے تو وہ بھی ٹھوکر کھاجاتا ہے۔ حالانکہ اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ میرے لئے خداتعالیٰ نے کوئی اور انعام مقرر کیا ہوگا یا اس انعام کا نہ ملنا ہی میرے لئے مفید اور بابرکت تھا۔
مثنوی رومی میں ایک حکایت آتی ہے ۔ لکھا ہے ایک سپیرا تھا جسے ایک دفعہ کوئی نئی قسم کا سانپ ملا۔ وہ اسے پکڑ کر بہت ہی خوش ہؤا اور چونکہ سپیروں کی کمائی کا دارومدار سانپوں پر ہی ہوتا ہے اس لئے وہ خیال کرنے لگا کہ میں اب اس سانپ کے ذریعہ لوگوں سے بہت کچھ روپیہ کماسکوں گا۔ اتفاقاً رات کو جس گھڑے میں اُس نے سانپ رکھا تھا اُس پر ڈھکنا دینا وہ بھول گیا اور سانپ نکل گیا یا وہ سانپ زیادہ طاقتور تھا کہ ڈھکنے کے باوجود گھڑے میں سے نکل گیا۔ اتفاقاً اس کا ایک دوست اسے ملنے آیا اور اس نے خوشی سے ناچنا شروع کردیا کہ مجھے ایک نئی قسم کا سانپ ملا ہے، آئو میں تمہیں دکھائوں۔ جب وہ سانپ اسے دکھانے کیلئے گھڑے کی طرف گیا تو اس نے دیکھا کہ گھڑا خالی ہے اور سانپ اس میں موجود نہیں۔ یہ دیکھ کر اسے بہت ہی صدمہ ہؤا اور وہ ساری رات دعائیں مانگتا رہا کہ یا اللہ! میرا سانپ مجھے مل جائے۔ تھوڑی دیر دعا کرنے کے بعد وہ اُٹھتا اور مکان کے کونوں میں تلاش کرتا اور دیکھتا کہ سانپ آیا ہے یا نہیں۔ جب اسے معلوم ہوتا کہ سانپ نہیں آیا تو پھر خدا کے حضور جُھک جاتا اور کہتا یا اللہ! میرا سانپ مجھے مل جائے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر اُٹھتا اور کونوں میں تلاش کرنا شروع کردیتا اور جب نہ ملتا تو پھر دعائیں مانگنے لگ جاتا۔ آخر اسی طرح ساری رات اس نے دعا کرتے کرتے گزاردی۔ جب صبح ہوئی تو اس کے دل میں خیال آیا کہ میری تو ساری رات کی دعائیں ضائع گئیں اورمیرا سانپ مجھے نہ ملا۔ اس کے دل میں ابھی یہ خیال گزرا ہی تھا کہ اُس کا ایک ہمسایہ اُسے بلانے آیا ۔ جب وہ اس کے گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ تمام برادری اکٹھی ہے۔ اسے دیکھ کر وہ کہنے لگے رات کو اس گھر والے کو ایک نئی قسم کا سانپ ملا تھا۔ اس نے اسے پکڑ لیا لیکن اس نے اسے کاٹ لیا اور چونکہ اس زہر کا تریاق ہماری قوم کے پاس موجود نہیں باوجود ہرقسم کے علاج کے وہ مرگیا۔ اس لئے ساری برادری کو بلایا گیا کہ اس سانپ کو دیکھ لیں تا آئندہ اس سے ہوشیار رہیں۔ اس شخص نے جب سانپ کو دیکھا تو وہ وہی سانپ تھا جس کے ملنے کے متعلق وہ ساری رات دعائیں مانگتا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ پھر سجدہ میں گر گیا اور کہنے لگا خدایا! یہ میری بیوقوفی تھی جو میںنے کہا کہ تُونے میری دعا نہیں سُنی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب میں یہ کہہ رہا تھا کہ تونے میری دعا نہیں سُنی، اُس وقت تُو نے میری دعا سُن لی تھی۔ کیونکہ اس کانہ ملنا ہی میرے لئے مفید تھا اور اگر مل جاتا تو جو اس شخص کا انجام ہؤا وہ میرا ہوتا ۔ تو کبھی انعام کا نہ ملناہی انسانی بہتری کا موجب ہوتا ہے اور کبھی دُنیوی نعماء اور ترقیات ہی بے ایمانی کُفر اور ارتداد کا موجب ہوجاتی ہیں۔ تو یہ دو چیزں ہیں جن سے ارتداد پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں ان دونوں باتوں کا ذکر کیا ہے اور ان وساوس کا جواب بھی دیا ہے۔ لیکن پیشتر اس کے کہ میں وہ جواب بتائوں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ دعا مسلمانوں کو خاص طور پر سکھائی گئی ہے۔ کیا پہلی قوموں کو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی دعا کی ضرورت نہیں تھی؟ کیا وجہ ہے کہ نوح کی قوم کو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا نہیں سکھائی گئی اورکیا وجہ ہے کہ ابراہیم کے پیروئوں کو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا نہیں سکھائی گئی ۔ کیا وہ صراطِ مستقیم کے محتاج نہیں تھے یا صراطِ مستقیم کا ملنا کوئی ایسی اہم بات تھی جس کا تکمیلِ دین سے تعلق تھا یا کیا دماغ ان کا اس قابل نہ تھا کہ صراط مستقیم کو سمجھتا؟ اللہ تعالیٰ تو خود فرماتاہے ھَدَیْنٰھُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا۸؎ کہ ہم نے ان سب کو صراطِ مستقیم کی ہدایت دی۔ پس جب انہیں صراطِ مستقیم کا ملنا قرآن کریم سے ثابت ہے تو معلوم ہؤا کہ وہ صراطِ مستقیم کے اہل تھے اورجب اس کے اہل تھے تو یہ دعا انہیں کیوں نہ سکھائی گئی ۔ پھر موسیٰ کے تابعین کو یہ دعا کیوںنہ سکھائی گئی کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ۔اور پھر عیسیٰ کے حواریوں کو یہ دعا کیوں نہ سکھائی گئی۔ صرف محمد ﷺ کے متبعین کو یہ دعا کیوں سکھائی گئی اور انہیں کیوں کہا گیا کہ یہ دعا مانگو اور مانگو بھی اتنی کثرت سے کہ تمہاری پانچ نمازوں کی کوئی رکعت ایسی نہ ہو جس میں تمہارے منہ سے یہ دعا نہ نکلے۔ اس کی آخر کوئی حکمت ہونی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کام حکمت سے خالی نہیں ہوتے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ ہی ایسے وجود تھے جن کے متعلق خداتعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وہ خاتم النبّین ہیں یعنی ایسے کمالات ہم نے آ پؐ کو بخش دیئے ہیں کہ اب کوئی شخص براہِ راست مقامِ نبوت تک نہیں پہنچ سکتا بلکہ ہر شخص کو آپ کی غلامی اور اطاعت کرنی پڑے گی۔ اب ہر وہ شخص جس کے دل میں خداتعالیٰ کے قُرب کی خواہش ہو اُسے پہلی منزل پر ایک دھکا لگتا ہے اور اس کے دل کو ایک چوٹ لگتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ اچھا نبی آیا کہ جس نے آتے ہی ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب کے تمام دروازے بند کردیئے۔ تو ایک ٹھوکر انسان کو اس طرح لگتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے اب میرے لئے الٰہی قُرب کے وہ دروازے بند ہوگئے جو پہلے کُھلے تھے اور واقعہ میں جب کہا جائے کہ محمد ﷺ کے بعد نبوت کا وہ دروازہ بند ہوگیا جو پہلے کُھلا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد وہ دروازہ کُھلا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد وہ دروازہ کُھلا تھا اور ہر شخص براہِ راست اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل کرسکتا تھا۔ مگر محمد ﷺ کے بعد یہ دروازہ بند ہوگیا۔ تووہ انسان جو وصلِ الٰہی کا متمنی ہے اس پر ایک موت سی وارد ہوجاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ کیا ہؤا کہ آئندہ کیلئے اللہ تعالیٰ کے قرب کا وہ راستہ ہمارے لئے بند کردیاگیا جو اس سے پہلے کُھلا تھا۔ تو چونکہ پہلی منزل پر ہی دل کو ایک صدمہ پہنچتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس صدمہ سے بچانے کیلئے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی دعا سکھائی اور بتایا کہ بیشک محمد ﷺ کے بعد کوئی مستقل نیا یا پرانا نبی نہیں آسکتا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اب ترقیات کے دروازے بند ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کا قُرب کوئی انسان حاصل نہیں کرسکتا۔ بلکہ ہماری یہ سنت ہے کہ جب ہم ایک دروازہ بند کرتے ہیں تو اُسی وقت دوسرا دروازہ کھول دیتے ہیں اور یہ وہی دروازہ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں لکھا کہ امتی نبی ہونے میں مَیں ہی منفرد ہوں۔ اور یہ ایک ایسا لذیذ مقام ہے کہ جس کی لذت کو میں ہی سمجھ سکتا ہوں۔ پھر آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ
ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلامِ احمد ہے۹؎
اب یہ دروازہ بند تو نہ ہؤا ہاں ایک قسم کا دروازہ ضرور بند کردیا گیا ہے۔ لیکن اگرکسی گھر کے دو دروازے ہوں اور ایک کو بند کردیا جائے تو گھر میںداخل ہونا تو پھر بھی جاری رہا۔
پس اصل غرض تو انسان کی دنیا میں آنے سے یہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوجائے اور وہ اس کی محبت کے حصول میں کسی سے پیچھے نہ رہ جائے اور یہ وہ دروازہ ہے جو خداتعالیٰ نے بند نہیں کیا بلکہ اسی طرح کھلا ہے جس طرح پہلے کھلا تھا۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی دعا سکھا کر مومنوں کے دلوں کو ڈھارس دی اور انہیں بتایا کہ جب خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی دروازہ مومنوں کیلئے بند کیا جائے تو اسے بند نہ سمجھو۔ کیونکہ یہ اس کی سنت ہے کہ وہ ایک دروازہ بند کرتاہے تو دوسرا دروازہ فوراً کھول دیتا ہے۔ جب خداتعالیٰ نے اس نبوت کا دروازہ بند کیا جو پہلے جاری تھی تو ایک اور نبوت دنیا میں جاری کردی جسے اُمتی نبوت کہتے ہیں۔ اوراس میں وہ مقامِ قُرب رکھا کہ باوجود یکہ اُمتی نبی مستقل نبی نہیںہوتا یعنی ایسا نبی جس نے براہِ راست اللہ تعالیٰ سے نبوت حاصل کی ہو یا کوئی نئی شریعت لایا ہو، پھر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور وہ اتنا بلند درجہ رکھ سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی بڑھ سکتا ہے اور حضرت ابراہیمؑ اور حضرت نوحؑ سے بھی بڑھ سکتا ہے۔ تو قُرب کا مقام ویسا ہی کُھلا رہا جیسے پہلے کُھلا تھا۔ بلکہ خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نمونہ پیش کرکے بتادیا کہ ہم رسول کریم ﷺ کی پیروی میں تمہیں پہلے تمام نبیوں کے کمالات دے سکتے ہیں۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ
آنچہ داد است ہر نبی را جام
داد آں جام را مرا بتمام۱۰؎
کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے وہ جام جو پہلے انبیاء کو فرداً فرداً ملے تھے وہ تمام جام اللہ تعالیٰ نے اکٹھے کرکے مجھے پلادئیے ہیں۔ اسی بنا پر آپ نے دعویٰ کیا کہ میں آدم ہوں، میں شیث ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحق ہوں، میں اسمٰعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں دائود ہوں، میں عیسیٰ ہوںاور آنحضرت ﷺ کے نام کا مَیں مظہرِ اتم ہوں یعنی ظِلّی طور پر محمد اور احمد ہوں۔ گویا رسول کریم ﷺ کے خَاتم النبیّن ہونے سے قرب اور وصالِ الٰہی کا دروازہ بند نہیں ہؤا بلکہ ایک خاص قسم کی نبوت جس کی دنیا کو ضرورت نہیں تھی تکمیلِ شریعت کی وجہ سے بند کی گئی اور نبوت کی وہ دوسری قسم جو پہلی قسم سے کم نہیں بلکہ بڑھ کرہے کیونکہ اس میں اسی اُستاد کی شاگردی کا مقام حاصل ہوتا ہے جو سب نبیوں کی خوبیوں کا جامع ہے، جاری کی گئی۔ توبہت سے ابتلا لوگوں کو اس لئے آتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اب ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے قُرب کا دروازہ بند ہوگیا حالانکہ خدا اپنے قُرب کے دروازوں کو کبھی بند نہیں کیا کرتا۔
ہمارے زمانہ میں جو کئی لوگوں کو ابتلا آتا ہے یا بعض دفعہ بڑے بڑے لوگ یا اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے لوگ ٹھوکر کھاجاتے ہیں تو وہ بھی اسی وجہ سے ٹھوکر کھاتے ہیں کہ وہ خیال کرلیتے ہیں کہ فلاں نعمت کا دروازہ ہمارے لئے بند ہوگیا۔ مثلاً خلافت ہے، وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ ہوتی تو پندرہ بیس آدمی اس میں شریک ہوتے مگر اب ایک شخص خلیفہ ہوگیا ہے اور یہ اعزاز اُسی کو حاصل ہے دوسرا کوئی حاصل نہیں کرسکتا۔ کیونکہ خلافت ایک ایسا عُہدہ ہے جولازماً ایک شخص کو ہی ملے گا، زیادہ کو نہیں مل سکتا۔ پس وہ سمجھتے ہیں کہ اب اس عُہدہ پر تو ایک شخص قابض ہوگیا، ہم کیا کریں۔ اگر یہ خلیفہ بننے کا اہل تھا تو ہم بھی خلیفہ بننے کے اہل ہیں۔ نہ یہ اُترتا ہے کہ کوئی اور خلیفہ بنے اور نہ مرتا ہے کہ کسی اور کو خلافت کا مقام حاصل ہو۔ گویا ان کے نزدیک خلافت کے مقام کی حیثیت ویسی ہی ہونی چاہئے جیسے لڑکے جب آپس میں کھیلتے ہیں اور ایک دوسرے پر سوار ہوتا ہے تو نچلا لڑکا کہتا ہے ’’اتر کانٹو میں چڑھاں‘‘ اس پر اوپر والا لڑکا اُتر کر نیچے ہوجاتا ہے اور نیچے والا اوپر سوارہوجاتا ہے۔ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خلافت کا مزا تب تھا کبھی میںخلیفہ بنتا کبھی وہ ، کبھی زید بنتا کبھی بکر۔ مگر چونکہ ان کی یہ آرزوئیں پوری نہیں ہوئیں اس لئے اندر ہی اندر ایک جلن اور سوزش اور حسد کی آگ انہیں جلائے رکھتی ہے۔ وہ کہتے ہیں اتنی مدت گزرگئی، اب تک یہی خلیفہ بنا بیٹھا ہے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) مرتا بھی نہیں کہ ہمیں یہ عزت حاصل ہو۔ پھر ان کا نفس اندر ہی اندر تدبیریں سوچتا ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جب یہ مرتا نہیں تو اسے خلافت سے اُتارنے کی کوشش کریں۔ شاید اسی طرح ہم کو خلیفہ بننے کا موقع مل جائے۔یہ ایسے ہی وسوسے ہوتے ہیں جیسے عارضی طور پر رسول کریم ﷺ کے مقام کے ذریعہ لوگوں کو ایک دھکا لگتا ہے اور نادان انسانوں کے دلوں میں اس قسم کے خیالات اُٹھنے شروع ہوجاتے ہیں کہ اس رسول نے ہمارے لئے ترقیات کے دروازے بند کردیئے اور جو انعامات پہلے براہِ راست مل جایا کرتے تھے وہ اب براہِ راست نہیں مل سکتے۔
تو اللہ تعالیٰ نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں انہی وساوس او ر شبہات کا ازالہ کیاہے اور بتایا ہے کہ تم کو اگر میرے قُرب اور وصال کی ضرورت ہے تو یاد رکھو میرے قُرب اور وصال کے تمام دروازے کُھلے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں ہؤا۔ اور اگر تمہیں اپنی عزت کی خواہش ہے تو پھر جائو اور اپنی عزت کو آپ تلاش کرتے پھرو۔ غرض لوگوں کے ان تمام وساوس کا اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں جواب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بتادیا ہے کہ اگر تمہیں میرے انعامات کی خواہش ہو تو تم تقویٰ اللہ اختیار کرو ہم ہر روحانی کمال تمہیں دینے کیلئے تیار ہیں اور تمہارے لئے میرے قُرب اور وصال کے دروازے اسی طرح کُھلے ہیں جس طرح دوسروں کے لئے۔ لیکن اگر تم اپنے نفس کی عزت چاہتے ہو اور دُنیوی وجاہت کے شائق ہو تو پھر مجلسیں بنائو اور ان کے صدر بن جائو۔ ہماری طرف سے تو جو عزت ملے گی وہ اسی طرح ملے گی کہ تم اپنے آپ کو کلیۃً ہمارے آستانہ پر ڈال دو۔ اور اس امر کو جانے دو کہ تمہیں کیا انعام ملے۔ تم ہمارے قُرب اور ہمارے وصال کے طلبگار بن کر ہمارے پاس آئو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ بھی ہمارا بالکل ویسا ہی سلوک ہوتا ہے جیسے دوسروں کے ساتھ۔
پس اللہ تعالیٰ کی محبت کے راستہ میں نہ کوئی نبی روک بن سکتا ہے نہ کوئی خلیفہ۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کی بعض نمازیں خداتعالیٰ اس لئے قبول نہ کرے کہ اگر میں نے اس شخص کی یہ نمازیں قبول کیں تو یہ روحانیت میں خلیفہ سے ترقی کرجائے گا۔ تم جتنی عبادتیں چاہو کرو، تم جس قدر اللہ تعالیٰ کی محبت کو اپنی طرف کھینچ سکتے ہو کھینچو خدا کے قُرب کے دروازے تمہارے لئے کُھلے ہیں اور اس میں کوئی خلیفہ روک نہیں بن سکتا۔ غرض جو حقیقی عزت ہے اس کی راہ میں نہ خلیفہ روک ہے اور نہ نبی۔ بلکہ انبیاء اور خلفاء اللہ تعالیٰ کے قُرب کے حصول میں لوگوں کے مُمد ہوتے ہیں۔ جیسے کمزور آدمی پہاڑ کی چڑھائی پر نہیں چڑھ سکتا تو سونٹے یا کھڈ سٹک کا سہارا لے کر چڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح انبیاء اور خلفاء لوگوں کیلئے سہارے ہیں۔ وہ دیواریں نہیں جنہوں نے الٰہی قُرب کے راستوں کو روک رکھا ہو بلکہ وہ سونٹے اور سہارے ہیں جن کی مدد سے کمزور آدمی بھی اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل کرلیتا ہے۔ پس اگر کسی شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء اور خلفاء کے وجود سے قُرب الٰہی کی روکیں پیدا ہوگئی ہیں تو وہ بیوقوفی کا خیال ہے۔ حقیقی کمالات کے حصول کی راہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد بننے کے طریق ہمیشہ کُھلے رہتے ہیں اور انبیاء و خلفاء اس میں روک بننے کی بجائے لوگوں کیلئے مُمد ہوتے ہیں۔
پھر دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو بڑی بڑی امنگیں تونہیں رکھتے مگر انہیں اس بات پر ٹھوکر لگ جاتی ہے کہ فلاں درجہ فلاں کو کیوں مل گیا، ہمیں کیوں نہیں ملا۔ ان کیلئے بھی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں جواب ہے۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ خداتعالیٰ کے انعامات ایک قسم کے نہیں بلکہ مختلف قسم کے ہیں۔ دیکھو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوح کے ساتھ یہ معاملہ ہؤا کہ اُس نے ان کے تمام دشمنوں کو غرق کردیا۔ لیکن ابراہیمؑ کے ساتھ اس نے یہ سلوک نہیں کیا کہ ان کے دشمنوں کو اس نے اس طرح غرق کیا ہو۔ بلکہ ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم ہجرت کرکے چلے جائو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اصل وطن اُور￿ تھا جو عراق کا علاقہ ہے۔ وہاں لوگوں نے آپ کی شدید مخالفت کی اور آگ میں ڈال کر آپ کو جلانا چاہا تب اللہ تعالیٰ نے نوح کی طرح یہ نہیں کہا کہ ابراہیم میں تیرے تمام مخالفوں کو برباد کردوں گا بلکہ یہ کہا اے ابراہیمؑ! یہ گندہ علاقہ ہے اس علاقے کو چھوڑ دے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو عراق سے فلسطین میں لایا جو بہت بڑے فاصلہ پر واقع تھا۔ آجکل ریل کی وجہ سے لوگ اس امر کو نہیں سمجھ سکتے کہ فاصلہ کس قدر زیادہ ہے۔ مگر پُرانے زمانہ میں جبکہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ میل کے بعد یہ خیال کیا جاتا تھا کہ دنیا ختم ہوگئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عراق سے فلسطین ہجرت کرکے آنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ وہ عراق سے چلے گئے اور راستہ کے تمام بیابان طے کرتے ہوئے کنعان میں پہنچے۔ جہاں خداتعالیٰ نے آپ کو عزت بخشی۔ یہ انعام ان کو بیشک ملا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بادشاہت نہیں ملی۔ آپ تجارت کرتے تھے اور کچھ جانور رکھے ہوئے تھے جن پر آپ کا گزارہ تھا۔ کنعان آکر کچھ زمینیں آپ کو تحفہ کے طور پر آپ کے مریدوں کی طرف سے مل گئیں۔ جہاں آپ گلے چراتے اور تجارت کرتے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے تو ان سے معاملہ خداتعالیٰ نے بالکل اَور رنگ میں کیا۔ حضر ت موسیٰ علیہ السلام سے ہجرت بھی کرائی اورانہیں لاکھوں کی قوم دے کر اس کا انہیں بادشاہ بھی بنادیا لیکن ملک آپ کو عطا نہیں کیا۔ آپ جسموں پر بیشک حکومت کرتے تھے مگر کسی ملک پر آپ نے حکومت نہیں کی۔ گویا سیاسی بادشاہت آپ کو حاصل تھی مگر مُلکی نہیں۔ اور پیشتر اس کے کہ آپ کنعان کی سرزمین تک پہنچتے یہود کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے چالیس سال تک جنگلوں میں پھرنے کی سزادی او رحضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اسی عرصہ میں وفات پاگئے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مُلکوں پر حکومت نہیں ملی، ہاں انسانوں پر حکومت آپ کو بے شک مل گئی۔ پھر حضرت دائود علیہ السلام آئے تو انہیں اللہ تعالیٰ نے ملکوں پر بھی حکومت عطا کی اور جسموں پر بھی حکومت عطا کی۔ حالانکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تابع نبی تھے۔ لیکن باوجود تابع نبی ہونے کے بادشاہت اور نبوت دونوں ان میں جمع تھیں۔ او ربادشاہت بھی دونوں قسم کی یعنی ملکی بادشاہت بھی اور سیاسی بادشاہت بھی۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تو باوجود اس کے کہ جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور جیسا کہ ہمارا عقیدہ ہے ، آپ حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام سے درجہ میں بڑھ کر تھے، پھر بھی آپ ایسی غربت اور کمزوری کی حالت میں آئے کہ آپ کہتے ہیں درندوں کیلئے ماندیں ہیں اور پرندوں کیلئے گھونسلے مگر ابن آدم کیلئے سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں۔۱۱؎ گویا وہ اپنی بے بسی اوربیکسی کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ جنگل کے درندے تمام دن اِدھر اُدھر پھرنے کے بعد آرام کرنے کیلئے غاروں میں چلے جاتے ہیں۔ پرندے فضائے آسمانی میں اڑتے ہیں تو کچھ وقت کے بعد اپنے گھونسلوں میںآرام کرنے کیلئے چلے جاتے ہیں۔ مگر میرے لئے اس دنیا میں کہیں سر چھپانے کی جگہ نہیں۔ اب یہ الگ الگ قسم کی نعمتیں ہیں جو انبیاء کو ملیں اور الگ الگ سلوک ہیں جو خداتعالیٰ نے ان سے کئے۔ کیا ان مثالوں کو دیکھ کر کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر خداتعالیٰ نے نعمت نازل نہیں کی۔ مگر حضرت دائود علیہ السلام پر کی کہ انہیں نبی بھی بنادیا اور بادشاہ بھی۔ پھر رسول کریم ﷺ کو دیکھو ۔ آپ چونکہ تمام انبیاء کے کمالات کے جامع تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ سے نوح والا معاملہ بھی کیا اور ابراہیمؑ والا معاملہ بھی کیا۔ موسیٰؑ والا معاملہ بھی کیا اور دائودؑ اور عیسیٰؑ والا معاملہ بھی کیا۔ غرض سارے معاملے آپ سے ہوئے۔ نوح کا معاملہ آپ سے اس طرح ہؤا کہ یہود کے بعض قبائل آپ کے زمانہ میں بالکل تہہِ تیغ کردیئے گئے اور جس طرح نوحؑ کے دشمنوں میں سے ایک شخص بھی نہیں بچا تھا اسی طرح ان قبائل میں سے ایک شخص بھی نہ بچ سکا اور سب تہہِ تیغ ہوگئے اور تہہِ تیغ بھی اپنے فتویٰ کے مطابق ہوئے۔ کیونکہ انہوں نے جس شخص کو فیصلہ کرنے کیلئے مقرر کیا تھا اُس نے یہی فیصلہ دیا کہ جس قدر مرد ہیں وہ تہہِ تیغ کردیئے جائیں۔ لوگ اس پر اعتراض کرتے اور کہتے ہیں کہ محمد ﷺ نے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) ظلم کیا۔ حالانکہ وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ محمد ﷺ تمام نبیوں کے کمالات کے جامع تھے اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے آپ مظہر نہ ہوں۔ پس چونکہ آپ حضرت نوح علیہ السلام کے بھی مظہر تھے اس لئے ضروری تھا کہ جس طرح نوح کے دشمن سب کے سب ہلاک کئے گئے اسی طرح آپ کے بعض دشمن بھی تمام کے تمام ہلاک کئے جاتے۔ پھر حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کی طرح آپ کو ہجرت بھی کرنی پڑی اور اس ہجرت کے زمانہ میں کچھ وقت آپ پر ایسا آیا جب آپ سیاسی طور پر حکمران تو تھے مگر مُلکی طور پر نہیں۔ پھر کچھ وقت حضرت دائود کی طرح آپ پر ایسا بھی آیا جب آپ سیاسی اور ملکی دونوں طرح بادشاہ تھے۔ پھر آپ کو حضرت عیسیٰ والی غربت بھی دیکھنی پڑی اور آپ نے مکہ میں بڑی بڑی تکالیف اُٹھائیں۔ یہاں تک کہ جب مکہ فتح ہؤا اور آپ ایک فاتح اور بادشاہ کی حیثیت میں اس میں داخل ہوئے تو ایک صحابی نے عرض کیا کہ آپ کی رہائش کا انتظام کس گھرمیں کیا جائے؟ تب بعینہٖ وہی فقرہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے نکلا تھا رسول کریم ﷺ کی زبان سے بھی نکلا اور آپ نے فرمایا میرے رہنے کا کیا پوچھتے ہو، عقیل نے تو میرے لئے مکہ میں کوئی گھر نہیں چھوڑا جس میں میں رہ سکوں۔ دراصل رسول کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے تھے تو آپ کے رشتہ داروں نے مخالفت کی وجہ سے آپ کے اکثر مکانات بیچ ڈالے تھے اور بعض پر خود قبضہ کرلیا تھا۔ جس طرح انسان جب مرجاتا ہے تو اُس کے ورثاء اس کی جائداد پر قبضہ کرلیتے ہیں اسی طرح انہوں نے آپ کی جائداد سے معاملہ کیا اور جب آپ مکہ میں فاتحانہ حیثیت میں داخل ہوئے تو کوئی ایسا مکان نہ تھا جسے آپ اپنا مکان کہہ سکیں۔ اب یہ کتنا دردناک نظارہ ہے کہ ایک بادشاہ ہونے کی حیثیت میں رسول کریم ﷺ اپنے مُلک اور اپنے شہر میں داخل ہوتے ہیں مگر کوئی گھر ایسا نہیں ملتا جسے آپ اپنا گھر کہہ سکیں۔ آپ فرماتے ہیں مکہ میں تو ہمارے لئے کوئی گھر نہیں رہنے دیا گیا۔ میدان میں خیمے لگائو اور وہاں میری رہائش کا انتظام کرو۔ غرض یہ ساری چیزیں رسول کریم ﷺ کی ذات میں جمع تھیں اور پھر ساری عزتیں بھی آپ کی ذات میں جمع ہوئیں۔ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن ہمیشہ کیلئے مغضوب ہوگئے تھے، اِسی طرح رسول کریم ﷺ کے بعض دشمنوں کو بھی خدا نے مغضوب قرار دیا۔ جس طرح نوح کے دشمنوں کو خداتعالیٰ نے کُلّی طور پر ہلاک کردیا تھا اسی طرح آپ کے بعض دشمنوں کو بھی اس نے کُلّی طور پر ہلاک کیا۔ جس طرح موسیٰ کے دشمنوں کو اُس نے پانی میں غر ق کیا اسی طرح رسول کریم ﷺ کے دشمنوں کو بھی اس نے غرق کیا۔ دونوںطرح یعنی خشکی میں بھی اور تری میں بھی۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد مکہ کے بعض بڑے بڑے سردار مکہ سے بھاگ نکلے اوروہ جہازوں میں سوار ہوکر کسی او رملک کو جانے لگے تو سمندر میں ایسا طوفان آیا کہ وہ جہاز غرق ہوگیا اور سب پانی میں ڈوب گئے۔غرض وہ تمام انعامات جو پہلے انبیاء کو ملے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں جمع تھے۔ پھرموجودہ زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تو آپ کے ساتھ پھر وہی سلوک ہوا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہؤا تھا۔ حکومت غیرہے، دشمن زور میں ہے، جماعت کمزور ہے، لوگ گالیاں دیتے ہیں، ہنسی کرتے ہیں، مذاق اُڑاتے ہیں، اشتعال دلاتے ہیں مگر جماعت کو یہی تعلیم دی جاتی ہے کہ صبر کرو ، صبر کرو اور وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتی ہے۔ پھر جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عدالتوں میں کھڑا کیا گیا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی عدالتوں میں جانا پڑا۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ ایک ظالم مجسٹریٹ نے جب کہ آپ کا بڑھاپا تھا اور آ پ کو اسہال کی تکلیف تھی اور سخت پیا س لگی ہوئی تھی آپ کو اس بات کی بھی اجازت نہ دی کہ آ پ پانی پی سکیں۔ اب کیا کوئی اس حالت کو دیکھ کر کہ اِدھر تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ کہتے ہیں کہ مجھے سارے انبیاء کی خلعت ملی اور ادھر یہ حالت ہے کہ آپ بڑھاپے اورکمزوری اور اسہال کی حالت میں جب کہ آپ کو سخت پیاس لگتی ہے، مجسٹریٹ سے پانی پینے کی اجازت مانگتے ہیں اور وہ پانی پینے کی اجازت نہیں دیتا، کہہ سکتا ہے کہ آپ انعامات سے محروم رہے۔ اگر کوئی شخص ایسا کہتا ہے تو وہ نہایت ہی احمق ہے کیونکہ انعامات مختلف اقسام اور مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں۔اور یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جس رنگ میں ایک پر انعام ہؤا اسی رنگ کا انعام دوسرے پر بھی ہو۔ تو اللہ تعالیٰ نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں مسلمانوں کو یہ بتایا ہے کہ بعض دفعہ ایک قسم کا انعام اگر تمہیں نہ ملے اور دوسروں کو مل جائے تو تم حرص اور لالچ نہ کیا کرو۔ تمہیں کیا معلوم ہے کہ تمہارے لئے جو انعام مقدر ہے وہ کیسا ہے اور کس صورت میں ہے۔ اگر ظاہری انعاموں کو ہی انعام کہا جائے تو پھر ماننا پڑے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ان انعامات سے محروم رہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ان انعامات سے محروم رہے۔ اور پھر تم کو ماننا پڑے گا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ان انعاموں سے محروم رہے اور اسی طرح اور بہت سے انبیاء مثلاً حضرت یحییٰ اور زکریا وغیرہ بھی انعامات سے محروم رہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں انہی کا ذکر فرماتا ہے کہ تم یہ دعا مانگو کہ الٰہی! ہمیں اس راستہ پر چلا جس راستہ پر چل کر تیرے پیارے بندوں نے انعامات حاصل کئے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے کسی خاص شخص کا ذکر نہیں کیا بلکہ تمام منعم علیہ گروہ کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم یہ مانگو کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ مُوْسٰی۔ کیونکہ تمہیں کیا معلوم کہ تمہارے لئے موسوی انعام بہتر ہے یا عیسوی انعام بہتر ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ بھی نہیں کہا کہ تم یہ مانگو کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ عِیْسٰیکیونکہ ممکن ہے عیسوی انعام کے تم اہل نہ ہو تم ابراہیمی انعام کے مستحق ہو۔ اور پھر یہ بھی نہیں کہا کہ تم کہو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ اِبْرَاہِیْمَ کیونکہ تمہیں کیا معلوم کہ تمہارے لئے ابراہیم والا انعام موزوں ہے، ممکن ہے تمہارے لئے نوح کا انعام مقدر ہو۔ غرض اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کا اس میں ذکر نہیں کیا بلکہ اس دعا میں عام رنگ رکھا اور فرمایا کہ تم یہ دعا مانگو کہ الٰہی! ہمیں اس راستہ پر چلا جس راستہ پر چل کر موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور ابراہیمؑ اور دائودؑ اور سلیمانؑ اور نوحؑ اور تیرے ہزاروں کامل اور اکمل بندوں نے جو صدیق، شہید اور صلحاء تھے انعام حاصل کیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان میں سے جس نبی یا جس کامل بندے کا انعام تمہارے مناسب حال ہوگا وہ انعام اللہ تعالیٰ تمہیں عطا فرمادے گا اور اگر وہ یہ دیکھے گا کہ تم تمام نبیوں کے انعامات کے مستحق ہو تو تمہیں تمام نبیوں کے انعامات سے حصہ دے دے گا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے متعلق فرمایا کہ ؎
آنچہ داد است ہر نبی را جام
داد آں جام را مرا بتمام
کہ وہ جام جو اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کو پلایا تھا وہ اس نے بھر کر مجھے بھی پِلادیا۔ تو ممکن ہے خداتعالیٰ نے تمہارے لئے یہ مقدر کیا ہؤا ہو کہ تم سارے نبیوں کے کمالات حاصل کرو۔ پھر تم اس سے کسی ایک نبی کا کمال کیوں مانگتے ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض کے کمالات تمہارے کمالات سے مطابقت نہ رکھتے ہوں، اس صورت میں تمہارا ان نبیوں کے کمالات طلب کرنا بھی غلطی ہے۔ تم خداتعالیٰ سے صرف یہ مانگو کہ وہ تمہیں اپنے قُرب میں بڑھائے اور پہلے کامل بندوں میں سے جس کامل بندے کے ساتھ بھی تمہاری روحانی مناسبت ہے اس کے انعامات سے تمہیں بہرہ ور فرمائے۔ اگر خدا دیکھے گا کہ تم ابراہیمی جام کے مستحق ہو تو وہ تمہیں ابراہیمی جام پلادے گا اور اگر دیکھے گا کہ موسوی جام کے مستحق ہو تو موسوی جام پلادے گا۔ لیکن اگر تم دائودی جام کے مستحق ہو اور تم اس سے ابراہیمی جام مانگتے رہو یا سلیمانی جام کے مستحق ہو اور تم اس سے عیسوی جام مانگتے رہو تو گو اللہ تعالیٰ تمہارا انعام تمہیں دے دے گا مگر وہ انعام ناقص ہوگا۔ کیونکہ تمہاری دعاکسی اور طرف جارہی ہوگی اور خداتعالیٰ کا ارادہ کسی اور طرف ہوگا۔ لیکن اگر کوئی شخص خود کسی امر کی تعیین نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ سے صرف یہ کہتا ہے کہ تُو میرے اندر جن کمالات کو دیکھ رہا ہے ان کے مناسبِ حال جو انعام مجھے ملنا چاہئے وہ دے تو اس کے نتیجہ میں اسے جو جام بھی ملے گا وہ کامل ہوگا۔ کیونکہ ایک طرف اس کی دعا اس انعام کو طلب کررہی ہوگی تو دوسری طرف خداتعالیٰ کا ارادہ اس انعام کو قریب لارہا ہوگا۔ غرض اللہ تعالیٰ نے مومن کو یہ سکھایا ہے کہ تم یہ دعا مانگا کرو کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ یعنی تم جمع کے صیغے میں دعا مانگا کرو اور یہ کہا کرو کہ خدایا! جو بھی اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں سے ہمارے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور جس کی روحانی قابلیتیں ہماری قابلیتوں سے توارد رکھتی ہیں، اس کا جام ہمیں پلادے۔ وہ اگر موسوی جام ہے تو موسوی جام پلادے۔ دائودی صفات ہمارے اندر پائی جاتی ہیں تو دائودی جام پلادے۔ سلیمانی صفات پائی جاتی ہیں تو سلیمان کا جام پلادے اور اگر عیسیٰ کی پھانسی ہمارے لئے مقدر ہے تو وہی پھانسی ہمیں دلادے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی کی سزا کا ملنا گودُنیوی نقطہ نگاہ میں معیوب امر تھا مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا سے تعلق رکھنے والوں کیلئے اسی پھانسی میں عزت ہے اور ان کی نگاہ میں یہ سزا نہیں بلکہ عزت ہے۔ یا ممکن ہے خداتعالیٰ نے تمہارے لئے ابراہیمی ہجرت مقدر کی ہو اور تم اس سے سلیمانی انعام مانگتے رہو یا وہ تمہیں سلیمانی جام پلانا چاہتا ہؤاور تم ابراہیمی ہجرت کے طلبگار رہو۔
غرض اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ تم کسی کو انعام ملنے پر حسد اور لالچ مت کیا کرو۔ کیونکہ ممکن ہے تم اس انعام کے اہل ہی نہ ہو۔ یا ممکن ہے تمہارے لئے کوئی اور انعام مقدر ہو اور تمہارا رونا پیٹنا محض بے ایمانی اور نفاق کی علامت ہو۔اگرکوئی انسان اس نکتہ کو نہیں سمجھتا اور وہ خداتعالیٰ سے معیّن طور پر کوئی ایسا انعام مانگتا ہے جس کا وہ اہل نہیں تو اگر وہ کمزور ایمان والا ہوگا تو فرشتے اس کا کان پکڑ کر الٰہی دربار سے نکال دیں گے۔ اور کہیں گے گستاخ تُو خداتعالیٰ کے مقابلہ میں شوخی سے کام لیتا ہے ۔ اور اگر وہ ایسا کامل انسان ہے کہ ارتداد اس کیلئے مقدر نہیں تو کم از کم اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا انعام بہت کم ہوجائے گا۔ پس اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں خداتعالیٰ نے ہمیں ایک ایسی جامع دعا سکھائی ہے کہ جس کے مطلب کو سمجھ کر انسان کُفر اور نِفاق سے بچ سکتا ہے اور بنی نوع انسان کو یہ ہدایت کی ہے کہ تم کبھی یہ خیال نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ یا فلاں کو جو مقام حاصل ہؤا تو اس کا اہل وہ نہ تھا تم تھے۔ خداتعالیٰ کی نعمتوں کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اور اگر یہ نظر آتا ہو کہ بظاہر ایک دروازہ بند ہوگیا تو خداتعالیٰ معاً اس کے ساتھ ایک اور دروازہ کھول دیتا ہے۔ جیسے محمد ﷺ کو خداتعالیٰ نے خَاتم النبیّن بنایا اور آ پ پر تمام شرائع کو ختم کردیا اور براہِ راست نبوت حاصل کرنے کا دروازہ مسدود قرار دے دیا تو بظاہر یہ نظر آتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے ایک دروازہ کو بند کردیا مگر خدا نے فوراً ایک اور قسم کے انعام کا دروازہ کھول دیا جو پہلے سے کسی صورت میں کم نہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ خداتعالیٰ نے بتادیا کہ رسول کریم ﷺ کی اِتباع میں بھی انسان کو ایسا بلند مقام حاصل ہوسکتا ہے کہ انسان حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی درجہ میں بڑھ سکتا ہے۔ پھر خداتعالیٰ نے آپ کو سارے انبیاء کے نام دیئے اور اس طرح تمام انبیاء کے کمالات کا آپ کو جامع ٹھہرایا۔ اور ایسا انسان جسے تمام انبیاء کے نام دے دیئے جائیں اگر پہلے تمام انبیاء سے بڑا نہیں تو سب کے برابر تو ضرور ہوگا۔
غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دنیا کو یہ بتادیا کہ جو رستہ رسول کریم ﷺ کے ذریعہ روکا گیا تھا وہ آپ کی شاگردی میں ایک اور رنگ میں کھول دیا گیا ہے۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا قُرب اور اس کا وصال اسی طرح انسان کو حاصل ہوسکتا ہے جیسے پہلے حاصل ہؤا کرتا تھا۔ بلکہ رسول کریم ﷺ کی غلامی کی وجہ سے پہلوں سے بھی زیادہ کمالات انسان حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن وہ انسان جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتا وہ بجائے اللہ تعالیٰ کے قُرب کیلئے جدوجہد کرنے کے دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی ترقی میں اگرکوئی روک ہے تو وہی جسے اس وقت عزت حاصل ہے۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جب باغیوںنے حملہ کیا تو آپ نے انہیں یہی کہا کہ میرا قصور سوائے اس کے اَور کچھ نہیں کہ میرا دورِ خلافت ذرا لمبا ہوگیا ہے اور تمہارے دلوں میں یہ خیال پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے کہ یہ کہیں مرتا بھی نہیں کہ اس کی جگہ کوئی اَور لے اور ہم اس کی وجہ سے انعام سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے دروازے انسان کیلئے ہروقت کُھلے ہیں اور کوئی خلیفہ اس میں روک نہیں بن سکتا۔ یہی وہ امر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں بتایا اور مومنوں کو سمجھایا کہ ہمارے قُرب کا کوئی دروازہ بند نہیں۔ اگر بظاہر تمہیں یہ نظر آتا ہو کہ کوئی دروازہ بند ہوگیا تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ کوئی اور دروازہ خداتعالیٰ نے کھول بھی رکھا ہؤا ہوگا۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے کوئی دروازہ اس وقت تک بند نہیں کرنا جب تک ایک اور دروازہ لوگوں کیلئے کھول نہ دے۔
پھر دوسرا ابتلا لوگوں کو اس لئے آتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں فلاں نعمت فلاں کو کیوں ملی ہمیں کیوں نہیں ملی۔ حالانکہ دُنیوی رُتبے تو جس قدر ہیں وہ محدود ہی ہوں گے۔ یہ تونہیں ہوسکتا کہ ہر ایک کو کوئی نہ کوئی عُہدہ دے دیا جائے۔ اگر کوئی ملازمت ہو تو خواہ وہ صدر انجمن احمدیہ دے یا مَیں دوں بہرحال محدود افراد کیلئے ہی ہوگی۔ لیکن اگر بیس آدمی آئیں اور ان میں سے ایک کو میں رکھ لوں اور اُنیس کہیں کہ چونکہ ہمیں یہ جگہ نہیں دی گئی اس لئے ہمیں اعتراض پیدا ہوگیا ہے تو اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں۔ کیونکہ محدود ملازمتیں محدود افراد کو ہی دی جاسکتی ہیں ہر ایک کو کس طرح دی جاسکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سورئہ فاتحہ میں اِسی شبہ کا ازالہ کرتا اور فرماتا ہے جب تمہیں کوئی انعام نہیں ملتا تو تم کیوں یہ نہیں سمجھتے کہ تمہارے لئے یہ انعام مقدر نہیں تھا تمہارے لئے کوئی اورنعمت ہوگی جو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے وقت تمہیں دے دے گا۔ پس تم جب خداتعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو تو تم اس طرح دعا کرو کہ الٰہی! جو نعمت ہمارے لئے مقدر ہے وہ ہمیں دے۔ تب خدا تمہارا حق تمہیں دے گا اور اس میں تمہارے لئے برکت رکھ دے گا۔ لیکن اگر تم خداتعالیٰ کی دی ہوئی نعمت پر قانع نہیں ہوگے اور دوسرے کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائو گے تو خدا تم سے اپنی پہلی نعمت بھی چھین لے گا۔ کیونکہ جو شخص اُس کی دی ہوئی نعمت پر راضی نہیں ہوتا وہ مغضوب ہے۔ اس کی مثال قرآن کریم میں ایک اور مقام پر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ عیسائیوں اور یہودیوں کے متعلق فرماتا ہے کہ اگر یہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لے آئیں تو ان کیلئے یہ مقدر ہے کہ آسمان سے بھی ان پر نعمتیں اُتریں گی اور زمینی نعمتیں بھی انہیں عطا کی جائیں گی۔ یہود نے یہ سُنا تو انہوں نے کہا ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی نبی آئے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا یہ تو ہو نہیں سکتا لیکن اس گُستاخی کی سزا میں جو ہم نے تمہیں دینے کا وعدہ کیا تھا وہ بھی ہم اب واپس لیتے ہیں۔ تو ہر متقی انسان کیلئے خداتعالیٰ کی طرف سے انعام مقرر ہے۔ ورنہ یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ انسان دن رات میں پانچ نمازوں میں اس کے حضور کھڑا ہو اور اُس سے انعام طلب کرے مگر وہ کوئی انعام نہ دے۔
بچپن میں ہم پڑھا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک لڑکے نے روٹی کا ٹکڑہ اپنے ہاتھ میں لیا اور ایک کتّے کو پچکار کر اپنے پاس بلایا۔ کتّے نے یہ سمجھا کہ یہ مجھے روٹی کا ٹکڑا کھلانے لگا ہے وہ دُم ہلاتے ہوئے اس کے پاس چلا گیا مگر جونہی کتّا اس لڑکے کے قریب پہنچا اس نے ایک ڈنڈا نکال کر جو اس نے پیٹھ کے پیچھے چُھپایا ہؤا تھا زور سے اس کے منہ پر مارا اور وہ چُوں چُوں کرتا ہؤا بھاگ گیا۔ یہ نظارہ ایک شخص اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اسے یہ بات بہت ہی بُری معلوم ہوئی اور اس نے اس لڑکے کو سبق سکھانے کیلئے ایک روپیہ اپنی جیب سے نکالا اورکہا کہ میاں بچے یہ روپیہ لے لو۔ وہ دوڑا دوڑا اس کے پاس گیا۔ مگر جونہی اس نے روپیہ پر ہاتھ ڈالا اُس شخص نے زور سے ایک تھپڑ اُس کے منہ پر مارا۔ وہ لڑکا شور مچانے لگ گیا کہ میرے ساتھ دھوکا اور فریب کیا گیا ہے۔ مجھے روپیہ دینے کیلئے بُلایا گیا مگر جب میں پاس پہنچا تو مجھے تھپڑ کھینچ مارا۔ وہ شخص کہنے لگا تُو نے کتّے سے کیوں دھوکا کیا تھا اور کیا تجھے شرم نہ آئی تھی کہ تُو نے اسے روٹی کا ٹکڑا دکھا کر بُلایا مگر جب وہ تمہارے پاس آیا توتم نے اس کے منہ پر زور سے ڈنڈا مار دیا۔ اب دیکھو ایک بچہ اور نادان بچہ جس میں عقل و خرد نہیں وہ ایک کتّے کو روٹی کیلئے بلاتا ہے مگر جب اسے روٹی دینے کی بجائے ڈنڈا مارتا ہے تو انسانی فطرت اس بات کو بُرا مناتی ہے۔ پھر کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارا خدا تمہیں اپنے دربار میں بُلا کر تم سے یہی معاملہ کرے گا اور وہ تمہیں ہدایت تو یہ دیتا ہے کہ مجھ سے انعام مانگو مگر جب تم انعام لینے جائو گے تو تمہیں خالی ہاتھ پھیر دے گا۔ ایک بچہ کی ایک کتّے سے اس قسم کی بات ہوتی ہے تو انسانی فطرت اسے نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ پھر کیسا نالائق وہ انسان ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ خدا تو اُسے اِس لئے بلاتا ہے کہ وہ اسے انعام دے مگر جب وہ جائے گا اور انعام لینے جائے گا تو وہ اسے ٹھوکر مار کر اپنے دربار سے نکال دے گا۔ یہ خیال ہی خود بے ایمانی کی علامت ہے۔ یہ خیال ہی خود کُفر کی علامت ہے، یہ خیال ہی خود ارتداد کی علامت ہے اور جس شخص کے دل میں ایسا خیال پیدا ہوتا ہے وہ اپنے کفر اور اپنے ارتداد اور اپنے نِفاق پر آپ مُہر لگاتا ہے۔ اگر اس کے اندر ایمان ہوتا تو وہ سمجھتا کہ خدا جو مجھے بلارہا ہے اور اس نے مجھے اپنا ابراہیمی پرندہ بنایا ہے تو اس لئے بنایا ہے کہ مجھے اپنا مقامِ قُرب دے اور اگر ایک دروازہ میرے لئے بند ہے تو کوئی اور دروازہ میرے لئے ضرور کُھلا ہوگا۔ اگر یہ دو باتیں جو سورئہ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں انسان سمجھ لے تو ارتداد اور نِفاق کا پیدا ہونا بالکل بند ہوجائے۔ یہ دو وسوسے ہیں جو دلوں میں پیدا ہوتے اور انسان کے ایمان کو بالکل بہا کر لے جاتے ہیں۔ ایک تویہ کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اب میرے لئے انعامات کے دروازے بند ہوگئے۔ پس وہ خیال کرتا ہے کہ جب میرے لئے حصولِ عزت کی اب کوئی راہ باقی نہیں تو آئو میں نئی انجمنیں بنائوں اور ان کا صدر اور پریذیڈنٹ بن جائوں۔ پھر انجمنوں کی صدارت پر جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں اور قوم کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان پہنچنے لگ جاتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو مسلمانوں میں جب بھی کوئی فتنہ پیدا ہوتا ہے اسی بات پر ہوتا ہے کہ جب کوئی نئی انجمن بنتی ہے تو ایک کہتا ہے پریذیڈنٹ مَیں بنوں دوسرا کہتا ہے تُو کیوں بنے میں بنوں گا۔ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ عزت کے حصول کے طریق محدود ہیں اور اگر عزت حاصل کرنے کا کوئی طریق ہے تو صرف یہ کہ دوسرے کو گرایا جائے اور خود اس کا مقام حاصل کیا جائے۔
پھر کبھی وظیفوں پر جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں کہ فلاں کو کیوں ملا، ہمارے بیٹے کو کیوں نہیں ملا۔ غرض یا تو وہ یہ خیال کرلیتے ہیں کہ حصولِ مدارج کے راستے بند ہوگئے اور یا یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ انعامات کی تقسیم میں ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ اور یہ دونوں بے ایمانی کے طریق ہیں اور یہ دونوں کُفر کی چوکھٹ پر انسان کو لے جاتے ہیں اور میں نے جیسا کہ بتایا ہے ان دونوں وسوسوں کا علاج اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْمیں بتادیا گیا ہے اور مسلمانوں کو سمجھادیا گیا ہے کہ ان دو چیزوں میں سے کوئی بھی پیدا ہوئی تو تم مغضوب بن جائو گے۔ پھر اس کے مقابل کی جو حالت ہوتی ہے وہ ضالّ والی حالت ہوتی ہے یعنی جس کو انعام مل جاتا ہے وہ بعض دفعہ ایسی غلو والی محبت شروع کردیتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ضال بن جاتا ہے۔ گویا جس کو کچھ نہیں ملتا وہ ٹھوکرکھا کر مغضوب بن جاتا ہے اور جس کو کچھ ملتا ہے وہ بعض دفعہ ایسی ٹھوکر کھاتا ہے کہ ضال بن جاتا ہے۔ ہاں وہ جو اپنے ہوش و حواس کو قائم رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر سلسلہ کے کاموں میں سے فلاں کام میرے سپرد نہیں کیا گیا یا میرے ہاتھ فلاں عُہدہ کے حصول تک نہیں پہنچ سکے تو یہی میرے لئے مفید ہوگا ۔ اوراگر واقعہ میں مَیں کسی انعام کا مستحق ہؤا تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے غیب سے اور سامان پید اکردے گا اور اَور راستے میرے لئے کھول دے گا۔ وہ نہ مغضوب بنے گا نہ ضالّ بلکہ دائمی ترقی کرتا چلا جائے گا کیونکہ وہ ہمیشہ یہ دعا مانگتا رہے گا کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ اور ہمیشہ اسے انعامات ملتے رہیں گے۔ اور اگر کسی وقت اس دعا کے باوجود خداتعالیٰ اسے انعام نہ دے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خداتعالیٰ کے خزانے خالی ہیں حالانکہ وہ کبھی خالی نہیں ہوتے۔
غرض غیرمحدود ترقیات کیلئے یہ دو یقین اپنے اندر پیدا کرنے نہایت ضروری ہیں۔ اول یہ کہ خدا کبھی انسانی ترقیات کے دروازے بند نہیں کرتا اور اگر بظاہر یہ نظر آتا ہو کہ ترقی کا فلاں دروازہ ہمارے لئے بند ہوگیا تو اس کی جگہ ایک اور دروازہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور کُھلا ہؤا ہوگا۔ دوسرے یہ کہ جب ایک انعام کسی شخص کو نہیں ملتا تو وہ سمجھ لے کہ یہ انعام یقینا اس کیلئے مقدر نہیں تھا بلکہ کوئی اور انعام اس کیلئے مقدر ہوگا۔ اور اس کیلئے جیسا کہ سورئہ فاتحہ میں ہدایت کی گئی ہے بغیر کسی تعیین کے خداتعالیٰ سے دعا مانگے اور اس سے کہے الٰہی! ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ تُو ہمیں اپنے پاس سے وہ انعامات دے جو ہمارے مناسبِ حال ہوں اور جن کو تُونے ہمارے لئے مقدر کررکھا ہو۔ اگرہمارے لئے موسوی جام مقدر ہے تو وہ دے ، عیسوی جام مقدر ہے تو وہ دے، دائودی جام مقدر ہے تو وہ دے، سلیمانی جام مقدر ہے تو وہ دے، رامچندری جام مقدر ہے تو وہ دے، کرشنوی جام مقدر ہے تو وہ دے۔ ہمیں کچھ علم نہیں کہ ہمارے لئے کونسا جام مفید اور بابرکت ہے اور کونسا جام ہماری قابلیتوں اور طاقتوں کے لحاظ سے ہمارے لئے ضروری ہے۔ علمِ غیب محض تجھ کو ہے اور تجھے ہی ہماری قسمت کا علم ہے۔ پس جو جام تیری نگاہ اور تیرے علم میں ہمارے لئے مفید ہے وہی ہمیں دے اور اپنے فضل اور رحمت سے ہمیں ڈھانپ لے۔ جب تم اس طرح خداتعالیٰ سے دعا مانگو گے اور اس سے کہو گے کہ اے خدا! جو ہمارا حصہ ہے وہ ہمیں دے ۔ تو وہ تمہارا حصہ تمہیں ضرور دے گا۔ لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ سے دوسرے کا حصہ مانگو گے تو اس گستاخی کے بدلے نہ صرف یہ کہ دوسرے کا حصہ تمہیں نہیں ملے گا بلکہ تمہارا حصہ بھی جو تم کو مل چکا ہوگا تم سے واپس لے لیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ تم کو ہدایت پر رکھے اور غضب اور ضلالت سے بچائے۔ آمین
(الفضل ۱۱ ؍ ستمبر ۱۹۳۷ئ)
۱؎ الفاتحہ: ۷ ۲؎ الفاتحہ: ۶ ۳؎ الفاتحہ: ۷
۴؎ فاطر: ۲۹
۵؎ تذکرہ صفحہ۱۰ ۔ایڈیشن چہارم
۶؎ حٰمٓ السجدۃ:۴۱۔ بخاری کتاب التفسیر سورۃ الممتحنۃ
۷؎ اشاعۃ السنۃ جلد۱۳ نمبر۱صفحہ۳۔۴ مطبوعہ ۱۸۹۰؁ء
۸؎ النسائ: ۴۹
۹؎ درثمین اُردو صفحہ۵۸
۱۰؎ دُرثمین فارسی صفحہ۲۴۸شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ
۱۱؎ متی باب۸ آیت۲۰۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء (مفہوماً)


۲۹
نبی کے مقاصد پورے ہونے تک اُس کی جماعت کی اکثریت ضرور سچائی پر قائم رہتی ہے
(فرمودہ ۱۰ ؍ ستمبر ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
چونکہ نزلہ کی وجہ سے میرے گلے میں تکلیف ہے اس لئے آج میں بعض دوسرے راستوں کے ذریعہ سے اپنے خطبہ کی آواز دوستوں تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام ہے ’’موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا‘‘۔۱؎ اور اس الہام کے بعد دوسرا الہام ہؤا کہ ’’جو لوگ خداتعالیٰ کے مقرب ہیں وہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہوجایا کرتے ہیں‘‘۔۲؎ اور آپ نے اس کی تشریح یہ بیان فرمائی کہ ’’میری اس دوبارہ زندگی سے مراد بھی میرے مقاصد کی زندگی ہے‘‘۔۳؎ اس الہام میں ایک توخبر ہے اور ایک سنت اللہ بیان کی گئی ہے۔ خبر تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں فرمائے گا اور آپ کے کام کو آسمانی تائیدوں کے ساتھ دنیا میں زندہ رکھے گا۔ اور سنت اللہ یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ معاملہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے ساتھ یہی سلوک کرتا چلا آیا ہے اور یہی سلوک کرتا چلا جائے گا۔ اور یہ اس کا قدیم دستور ہے کہ جب کبھی بھی اس کی طرف سے مامور دنیا میں آتے ہیں ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ ان کی رُوح کو علیٰ قدرِ مراتب ان کی جماعتوں کے افراد کے جسموں میں بطور مظاہر کے حلول کردیتا ہے اور وہ رُوح جو پہلے ایک جسم سے ظاہر ہورہی تھی آئندہ وہ تمام افراد جماعت کے اندر تقسیم ہوکر اپنی حیات کا ثبوت دیتی رہتی ہے۔ یہ سنتِ الٰہیہ ایک ایسا معیارِ صداقت ہے کہ اس کا انکار الٰہی سلسلوں کی صداقت کو باطل کردیتا ہے اور یہ معیار اتنا اہم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اعلان فرمایا ہے کہ وہ تمام تعلیمات کہ جو دنیا میں رائج ہوگئیں اور ان کو مخالفتیں مٹا نہ سکیں وہ ایک یقینی ثبوت ہیں اس امر کا کہ ان کے لانے و الے خدا تعالیٰ کے مأمور اور مرسل تھے۔ گویا اس قاعدہ کلیہ کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان تمام سلسلوں کو الٰہی سلسلہ قرار دیا ہے جو دنیا میں خداتعالیٰ کے نام پر قائم کئے گئے اور مرورِ زمانہ اُن کو مٹا نہ سکا۔ خواہ ان کے لانے والوں کا نام بھی ہم کو معلوم نہیں اور خواہ ان کے حالات سے ہم کُلّی طور پر بے خبر ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی قانون کے ماتحت ویدوں کی صداقت کا اعلان فرمایا ہے۔ گو ہمارے پاس کوئی ایسا تاریخی ثبوت موجود نہیں کہ ویدوں کے لانے والے کون تھے اور ان کی زندگیاں کیسی تھیں اور ان کے ساتھ خداتعالیٰ کا معاملہ کس رنگ میں ہؤا تھا۔ صرف اس بنیاد پر کہ وید خدائی الہام کے قائل ہیں اور اپنے آپ کو اسی سرچشمہ سے قرار دیتے ہیںاور ان کے ماننے والے ہزاروں سالوں سے چلے آتے ہیں اور ان کی تعلیم دنیا میں قائم رہ گئی ہے، آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ الٰہی سنت کے ماتحت وہ خدا ہی کی طرف سے تھے اور ان کے لانے والے اللہ تعالیٰ کے مامور اور اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔ پس جو شخص بھی اِس قاعدہ کو ردّ کرتا ہے وہ الٰہی سنت کو ردّ کرتا ہے اور وہ ایک ایسا دروازہ کھولتا ہے کہ جس دروازہ کے کُھلنے کے ساتھ کُفر و اِلحاد کا دروازہ کُھل جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صداقت مشتبہہ ہوجاتی ہے اور اس کا نہ ٹلنے والا قانون بے اعتبار ہوجاتا ہے۔ اور ہمارے لئے کوئی ایسی راہ کھلی نہیں رہتی جو ہمیں یقینی طور سے خداتعالیٰ کا وصال اور قُرب حاصل کراسکے اور مشاہدہ کی بنیاد پر ہمارے ایمانوں کو قائم رکھ سکے۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَحْوِیْلاً۔ ۴؎ اس آیت میں دو قانون بیان کئے گئے ہیں۔ اوّل تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی سنت میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور یہ ایک ایسا قاعدہ ہے کہ جس میں کوئی استثناء نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس کے ذریعہ سے چیلنج دیا ہے کہ تم دنیا کی ساری تاریخ کو دیکھ جائو، تم اللہ تعالیٰ کے ان افعال کو دیکھ جائو جو زمانہ کے شروع سے آج تک جاری رہے ہیں تمہیں یہی نظر آئے گا کہ جس چیز کو خداتعالیٰ نے اپنی سنت قرار دیا ہے اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ مشروط وعدے بدل جاتے ہیں، غیر مشروط وعید بھی ٹل جاتے ہیں۔ خد اکی قدرت خود اپنی ہی تقدیرِ مبرم کو بدل دیتی ہے لیکن یہ کبھی نہیں ہوتا کہ سنت اللہ میں تبدیلی ہوجائے۔ سنت اللہ جو آدم کے وقت میں تھی وہی سنت اللہ نوح کے وقت میں تھی، وہی سنت اللہ ابراہیم کے وقت میں تھی، وہی موسیٰ کے وقت میں تھی، وہی کرشن کے وقت میں تھی، وہی رام چندر کے وقت میں تھی، وہی زرتشت کے وقت میں تھی، وہی عیسیٰ کے وقت میں تھی اور پھر وہی آنحضرت ﷺ کے وقت میں تھی اور وہی آکرپھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں ظاہر ہوئی۔ اس میں کبھی ایک رَتی بھر بھی تبدیلی نہیں ہوئی اور جس مامور اور مدعی کے متعلق ہم اس میں تبدیلی دیکھیں ہم اس الٰہی قانون کے ماتحت یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ مدعی جھوٹا ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مدعی تو سچا ہے مگر اس کے لئے خداتعالیٰ کی سنت کسی اور شکل میں ظاہر ہوئی ہے۔ کیونکہ وعدوں کی شکلیں بدلتی ہیں وعیدوں کی شکلیں بدلتی ہیں مگر سنت اللہ کی شکل کبھی نہیں بدلتی۔
پھر دوسرا قانون اس جگہ پر یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا یعنی تُو اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تعویق و تأخیر نہیں پائے گا یعنی نہ صرف یہ کہ وہ سنت تبدیل نہیں ہوگی بلکہ وہ اپنے وقت سے ٹلے گی بھی نہیں۔ تحویل کے معنے عربی زبان میں ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ پر رکھ دینے کے ہیں۔ پس وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا کے یہ معنے ہوئے کہ سنتِ الٰہیہ میں جس امر کے ظہور کا کوئی و قت مقرر کیا گیا ہے وہ اپنے وقت سے ٹل نہیں سکتا۔ ضروری اور لازمی ہے کہ سنت اللہ عین وقت پر ظاہر ہو اور اُس وقت تک ظاہر ہوتی چلی جائے جس وقت تک کہ اُس کا ظہور مقدر ہے۔ نہ وہ اپنے ظہور کے ابتدائی وقت سے پیچھے ہٹے اور نہ وہ اپنے ظہور کے انتہائی وقت سے پہلے ختم ہو۔ ان دونوں قاعدوں کے مطابق اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام کو دیکھتے ہیں تو آپ کا پہلا الہام یہ ہے کہ ’’موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا‘‘۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح پہلے انبیاء کے ساتھ ہؤا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالیٰ آپ کی جماعت کے ذریعہ آپ کو ایک نئی زندگی بخشے گا اور وہ زندگی پائیدار ہوگی اور اُس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ وہ مقاصد پورے نہ ہوجائیں جن کے پورا کرنے کیلئے آپ کو مبعوث فرمایا گیاتھا۔ چونکہ اس الہام کا مضمون بظاہر ایک وعدہ نظر آتا تھا اور وعدے بعض دفعہ شرطی بھی ہوتے ہیں اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ وہ بدل جاتے ہیں اور لوگ شبہ کرسکتے تھے کہ اگر اس کے خلاف جماعت میں حالات ظاہر ہوں تو ہم یہ سمجھ لیں گے کہ یہ وعدہ شرطی تھا۔ جب اس کی شرائط پوری نہ ہوئیں اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کو بدل دیا۔
پس اللہ تعالیٰ نے دوسرے الہام کے ذریعہ سے اس بات کو صاف کردیا اور بتادیاکہ یہ وعدہ نہیں بلکہ اس قدیم سنتِ الٰہیہ کے ظہور کا اس الہام میں ذکر ہے جو ہمیشہ ہمارے ماموروں کے حق میں پوری ہوتی چلی آئی ہے اور اب تیرے حق میں بھی پوری ہوگی۔ اورفرمایا کہ ہم ہمیشہ اپنے مقربوں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ اوریہ جو میں نے کہا ہے کہ حضرت مسیح موعوعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ فیصلہ تھا جس طرح پہلے انبیاء اور مامورین کے متعلق یہی فیصلہ ہوتا رہا ہے کہ وہ سنت اپنے وقت سے ٹلے گی نہیں اور نہ ان مقاصد کے پورا ہونے سے پہلے جن مقاصد کے پورا کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایاگیا تھا، اس کا زمانہ ختم ہوگا۔ یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے ایک اَور الہام سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ گو سنتِ الٰہیہ کو دیکھتے ہوئے کسی مزید ثبوت کی ضرورت بھی نہ تھی۔ وہ الہام یہ ہے مَااَنْتَ اَنْ تَتْرُکَ الشَّیْطٰنَ قَبْلَ اَنْ تَغْلِبَہٗ۔ اَلْفَوْقُ مَعَکَ وَالتَّحْتُ مَعَ اَعْدَائِ کَ۔۵؎ یعنی اے ہمارے مامور! تُو شیطان کا پیچھا اُس وقت تک نہیں چھوڑ ے گا جب تک تو اُس کو ہلاک نہ کرے اور اُسے تباہ نہ کردے کیونکہ غلبہ تیرے لئے مقدر ہے اور مغلوبیت تیرے دشمن کیلئے۔ اس الہام میں یہ خبر دی گئی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوتِ روحانیہ اُس وقت تک متواتر اور بغیر وقفہ کے جاری رہے گی جب تک کہ دنیا سے شیطان کی حکومت کو نکال نہ دیا جائے اور اسلام کو دوسرے ادیان پر جو اَب سچائیوں اور جھوٹوں کا مرکب ہیں غالب نہ کردیا جائے۔ اور اس عرصہ میں کوئی وقفہ نہیں پڑے گا کیونکہ مَااَنْتَ اَنْ تَتْرَکَ الشَّیْطٰنَ میں بھی ایک قاعدہ بیان کیا گیا ہے اور ایک فرض کو ظاہر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ بات تیری شان کے خلاف ہوگی اور الٰہی سنت کے خلاف ہوگی اگر شیطان پر غلبہ اور فتح پانے سے پہلے تُو اور تیری جماعت اس جنگ سے غافل ہوجائیں اور شیطان کو اُس کے حال پر چھوڑ دیں اور تیری جماعت گمراہ ہوجائے اور شیطان آزاد ہوجائے اور جھوٹے ادیان کو سانس لینے کاموقع مل جائے۔ پس الٰہی سنت کے ماتحت تیری جماعت کا قدم اُس وقت تک برابر راستی پررہے گا جب تک کہ شیطان مغلوب نہ ہوجائے اور اسلام کو دوسرے ادیان پر غلبہ نہ حاصل ہوجائے۔
اب دیکھو یہ ایک کیسی کُھلی بشارت ہے جو سنت الٰہیہ کے ساتھ وابستہ ہے اور جس کے متعلق خداتعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ کبھی نہیں بدلی جاتی اور اس کے اندر کبھی رخنہ نہیںپڑنے دیا جاتا۔ وہ نہ اپنے وقت سے پیچھے ہٹتی ہے او رنہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوتی ہے۔ اب ان پیشگوئیوں اور ان قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے غور کرو اور سوچو کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جماعت میںگمراہی پھیل گئی اور وہ اب اس کی اصلاح کریں گے، وہ کس طرح سنتِ الٰہیہ کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹا قرار دیتے ہیں کیونکہ خداتعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ جو خداتعالیٰ کے مقرب ہوتے ہیں وہ اپنی وفات کے بعد پھر زندہ ہوجاتے ہیں۔ یعنی ان کی روح ان کی جماعت میں حلول کرجاتی ہے اور ان کی جماعت کی نیکیوں کا پلہ اُن کی بدیوں پر بھاری رہتا ہے۔ اور وہ اسی حالت میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ شیطان مغلوب ہوجاتا ہے اور مذہب کو فوقیت اور غلبہ حاصل ہوجاتا ہے۔ تب خداتعالیٰ کے وعدے پورے ہوچُکتے ہیں اور وہ نصرت جو نبیوں کیلئے بِلا واسطہ یا بعدمیں جماعت کے ذریعہ بِالواسطہ مقدر ہوتی ہے اُس کو خداتعالیٰ کھینچ لیتا ہے او راُس وقت کے بعد انسانی اعمال خود اپنے پائوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور جب تک خداتعالیٰ کی طرف سے مقدر ہوتا ہے وہ دنیا میں دینی روح کو قائم رکھتے ہیں اور پھر ایک عرصہ کے بعد ان میں سنت اللہ کے ماتحت خرابیاں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور الٰہی نصرت ان کو چھوڑ دیتی ہے۔ مگر یہ حالت غلبہ کے بعد آتی ہے پہلے نہیں۔ اگر یہ حالت پہلے آجائے تو یہ ایک یقینی دلیل ہوگی اس امر کی کہ مدعی اپنے دعویٰ میں سچا نہیں تھابلکہ جھوٹا تھا کیونکہ اس کے مقاصد کے پورا ہونے سے پہلے ہی اُس کی جماعت میں رخنہ پید اہوگیا۔
اب دیکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کن مقاصد کو لے کر دنیا میں آئے تھے۔ آپ کی تحریرات اور آپ کے الہامات سے اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات اور قرآن کریم کی بینات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اس غرض سے تھی کہ اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کیا جائے۔ اور ابھی تو ہماری جماعت کی یہ حالت ہے کہ ہمیں خود دارالامان میں کامل امن حاصل نہیں اور دین کے دشمن خود ہمارے مرکزمیں آکر ہمارے پیاروں اور ہماری محبوب ترین ہستیوں کو گندی سے گندی گالیاں دیتے ہیں۔ مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملے کرتے ہیں اور سکھ و ہندو آنحضرت ﷺ پر اعتراض کرتے ہیں۔ اور ہمارے لئے سوائے خون کے گھونٹ پینے کے اور کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔ دنیا ساری کفر و ضلالت میں پڑی ہوئی ہے، عیسائیت ابھی تک خوشی کے ناچ ناچ رہی ہے اور دوسرے مذاہب باطلہ بھی اسلام کے مقابلہ میں بظاہر زیادہ شان و شوکت رکھتے ہیں اور اسلام ابھی غربت کی گھڑیاں گزاررہا ہے۔ ان وعدوں کا جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پورا ہونا مقدر تھا ایک اربواں حصہ بھی پورا نہیں ہؤا۔ پس پیشتر اس کے کہ وہ وعدے پورے ہوں اگر یہ جماعت خراب ہوجائے اور اس کی اکثریت باطل پر ہو تویہ یقینا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بُطلان ہوگا۔ کیونکہ سنتِ الٰہیہ یہی ہے کہ نبیوں کے بعد ان کی جماعتیں ان کی روح کو قائم رکھتی ہیں یہاں تک کہ ان کے مقاصد پورے ہوجائیں۔ کچھ لوگ مرتد ہوسکتے ہیں، کچھ لوگ منافق ہوسکتے ہیں، لیکن اکثریت کا قدم سچائی پر رہنا ضروری ہے۔ حضرت رسول کریم ﷺ سے بھی ایک شخص نے دریافت کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اگر اسلامی نظام مٹ جائے تو میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا جدھر اکثریت ہو تُوبھی اُدھر شامل ہوجانا۶؎ ۔ اگر اکثریت کیلئے فساد ممکن ہوتا تو رسول کریم ﷺ یہ ہدایت کیونکر دے سکتے تھے۔ آپ کو چاہئے تو یہ تھا کہ یہ فرماتے کہ تو قرآن کریم کے مطابق لوگوں کے دعووں کو پرکھیو اورجو قرآن کہے گا اُس پر عمل کیجیئو۔ مگر آپ یہ فرماتے ہیں کہ میرے مقاصد کے پورا ہونے سے پہلے اگر کسی وقت مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوجائے تو تُو کوئی اوردلیل نہ دیکھیو، کوئی اور برہان تلاش نہ کیجیئو، کوئی اور معیار نہ ڈھونڈیو، تجھے کسی گہرے غور کی ضرورت نہیں، تجھے کسی لمبی فکر کی ضرورت نہیں سیدھا دوڑ کر اکثریت کے ساتھ جا ملیو۔ کیونکہ جدھر اکثریت ہوگی سنت اللہ کے مطابق اُدھر ہی قرآن ہوگا اور خداتعالیٰ کی سچائیاں تجھے جماعت کی اکثریت میں ملیں گی۔
پس رسول کریم ﷺ کا یہ فرمان بھی اسی بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جب تک نبی کے مقاصد پورے نہ ہوجائیں جماعت کی اکثریت سچائی پر قائم رہتی ہے اور کسی عارضی اور وقتی خلل کے سِوا اس کا قدم صداقت کے رستہ سے نہیں پھرتا اور عارضی اور وقتی سے مرادمیری ایسا قلیل وقت ہے کہ جو نظام میں رخنہ پیدا نہیں کرسکتا۔ جیسے رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد چند گھنٹوں کیلئے مسلمانوں میں انتشار پیدا ہؤا۔ مگر معاً ابوبکرؓ کی آواز رسول کریم ﷺ کی قدوسی کو لے کر بلند ہوئی اور سارے مسلمان دَوڑ کر آپ کے گِرد جمع ہوگئے۔ یا جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد دو چار دن کیلئے جماعت میں ایک انتشار پیدا ہؤا مگر بغیر اس کے کہ جماعت یا اس کے نظام یا اس کے مرکزی وفاترمیں کوئی خلل پیدا ہوتا جماعت پھر اتحاد کے نقطہ پر جمع ہوگئی اور ہر قسم کا انتشار دور ہوگیا۔ پس ایسے عارضی اور وقتی خلل کے سوا کوئی ایسا تغیر نبیوں کی جماعتوں میں پیدا نہیں ہوتا کہ جس کو کسی عظیم الشان جہاد یا کوشش کے ساتھ دور کرنا پڑے۔ اس خلل اور اس خلل میں جو ناممکن ہوتا ہے ایسا ہی فرق ہے کہ جیسے کسی شخص کو نزول الماء کی بیماری ہوجائے اور کئی سال اندھا رہنے کے بعد آپریشن کے ذریعہ سے اُس کی نظر درست ہو اور ایک ایسا شخص ہو جو یکدم اندھیرے سے روشنی میں آئے یا روشنی سے نکل کر اندھیرے میں جائے تو اس کی بینائی میں بھی فرق پڑتا ہے۔ اندھیرے میں سے روشنی میں جاکر وہ اپنی آنکھوں کو چندھیائی ہوئی پاتا ہے اور روشنی سے اندھیرے میں جاکر اپنی پُتلیوں کو کُھلتا ہؤا محسوس کرتا ہے۔ یہ بیماری نہیں، یہ صدمہ ہوتا ہے جو فوراً ہی زائل ہو کر پھر بینائی اپنی اصل جگہ پر آجاتی ہے۔ اس حالت کو کبھی کوئی ڈاکٹر بیماری نہیں کہے گا لیکن نزول الماء کو ہر شخص بیماری قرار دے گا۔ پس اس قسم کے عارضی تعطل کو دلیل قرار دینا ویسی ہی حماقت ہوگی جیسا کوئی شخص نزول الماء کی حالت کو صحت قرار دینے کیلئے اس تندرست آنکھوں والے کو پیش کرے جو اندھیرے سے روشنی میں آکر ایک منٹ کیلئے گھبراگیا ہو۔ پس اس قسم کی دلیلیں اس سنت اللہ پر اعتراض کرنے والوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتیں۔ جو چیز نہیں ہوتی اور نہیں ہوسکتی وہ یہ ہے کہ جماعت میں کوئی ایسی بیماری پیدا ہو جائے جو اسے جادئہ اعتدال سے ہٹادے اور جس کو دور کرنے کیلئے ایک لمبی محنت اور ایک لمبی کوشش کی ضرورت ہو۔
پھر بعض لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم جومعترض ہیں، ہمارے ذریعہ سے ماموروں کی روح زندہ ہے اس لئے سنت اللہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ اعتراض بھی نہایت ہی باطل اور غلط ہے۔ کیونکہ کوئی کوئی نیک مرد تو فیج اعوج کے زمانہ میں بھی ہوتا رہا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد تین صدیوں تک ہدایت رہے گی اور اس کے بعد فیج اعوج کا زمانہ ہوگا۔ اب دیکھوکہ کیا فیج اعوج میں کوئی نیک نہیں ہوتا تھا؟ یہ سیّد عبدالقادرجیلانی، یہ شہاب الدین صاحب سہروردی، یہ شبلی اورجنید اور غزالی اور عبدالقادر جرجانی، یہ معین الدین صاحب چشتی، یہ محی الدین صاحب ابن عربی، نظام الدین صاحب اولیاء اور فرید الدین صاحب شکر گنج اور سید احمد صاحب سرہندی اور سیّد احمد صاحب بریلوی ا ور ہزاروںصوفیاء اور اولیاء اور علماء سب فیج اعوج کے زمانہ میں ہی گزرے ہیں۔ پھر وجہ کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے پہلی تین صدیوں کو تو اپنے نورکا زمانہ قرار دیا ہے اوربعد کی دس صدیوں کو دجال کی آزادی کا زمانہ۔ حالانکہ ان دس صدیوں میں بڑے بڑے روحانی عالم اور بڑے بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان دونوں زمانوں میں یہی فرق ہے کہ پہلی تین صدیوں میں اسلام کی حامل اکثریت تھی او رپچھلی دس صدیوں میں اسلام کی حامل اقلیت تھی۔ جس زمانہ میں اسلام کی حامل اقلیت تھی، اُس زمانہ کو رسول کریم ﷺنے دجال کا زمانہ قرار دیا ہے اور جس زمانہ میں اسلام کی حامل اکثریت تھی، اُس کو اپنا زمانہ قرار دیا ہے۔
پس وہ چند افراد جو کہ اخلاقی طور پر بھی کوئی اچھا معیار ظاہر نہیں کرسکتے اگر وہ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا حامل قرار دیں اور ہم ان کے اس دعویٰ کو قبول بھی کرلیں تب بھی رسول کریم ﷺ کے فیصلہ کے مطابق بوجہ اس کے کہ جماعت کی اکثریت ان کے ساتھ نہیں اور بقول اُن کے اس کا قدم ضلالت کی طرف چلا گیا ہے اور وہ ایک سلسلہ کے دشمن کی محبت میں غلو کررہی ہے، یہ زمانہ دجالی زمانہ کہلائے گاکیونکہ چند آدمیوں کے راستی پر قائم ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سلسلہ کا تسلسل اور تواتر قائم نہیںرہتا۔ وہ لوگ جو آج جماعت احمدیہ پر احمدی کہلاتے ہوئے اعتراض کرتے ہیں جماعت کے مقابلہ میں ان کی تعداد اتنی بھی نہیں ہے جتنی کہ فیج اعوج کے زمانہ میں مومنوں کی دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں تھی۔پھر جب کہ باوجود ان مومنوں کی موجودگی کے رسول کریم ﷺ نے اس زمانہ کو اپنی روحانی بادشاہت کے زمانہ سے خارج کر دیاہے تو ان سے بہت کم تعداد میں ہوتے ہوئے یہ لوگ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے۔ اس صورت میں تو ہم کو ماننا پڑے گا کہ دجال پیشتر اِس کے کہ مارا جاتاپھر غالب آگیاہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں آپ کی وفات سے نصف صدی سے بھی پہلے فیج اعوج کا زمانہ شروع ہو گیا ہے اور اکثریت باطل پر اور اقلیت حق پر قائم ہو گئی ہے۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان پر غالب آنا تو درکنار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روح شیطان سے پوری طرح نبرد آزما ہونے سے پہلے ہی میدان چھوڑ گئی ہے اور میدان شیطان کے ہاتھ رہا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام کیا تھا کہ مَااَنْتَ اَنْ تَتْرَکَ الشَّیْطٰنَ قَبْلَ اَنْ تَغْلِبَہٗ۔ یعنی شیطان کومغلوب اور زیر کرلینے سے پہلے اے ہمارے مسیح! تو کبھی مقابلہ نہیں چھوڑے گا اور تُو بس نہیں کرے گا جب تک شیطان کو قید نہ کردے۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو دیکھتے ہوئے ہم کس طرح تسلیم کرسکتے ہیں کہ وہ لوگ جو اکثریت کو چھوڑ کر اپنے لئے ایک نئی راہ تجویز کررہے ہیں، خواہ وہ اپنا نام احمدیہ اشاعتِ اسلام رکھیں یا مجلسِ احمدیہ رکھیں یا کوئی اور نام اپنے لئے تجویز کرلیں وہ خداتعالیٰ کی سچی جماعت نہیں۔ کیونکہ وہ تو اپنے عمل سے اور اپنے قول سے ان الہامون کو جھوٹا کررہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل فرمائے۔ بلکہ وہ یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ سنتِ قدیمہ جو ہر نبی کے زمانہ میں ظاہر ہوئی اور ایک نبی بھی ایسا نہیں گذرا جس کے زمانہ میں وہ ظاہر نہ ہوئی ہو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ظاہر نہیں ہوئی اور اگر ان کی یہ بات درست ہو تو فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا کے دو زبردست قاعدوں کے مطابق تو نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعویٰ میں راستباز نہ تھے۔ کیونکہ جو خداتعالیٰ کا قانون ہر راستباز کیلئے ظاہر ہونا ضروری ہے وہ آپ کیلئے ظاہر نہیں ہؤا۔
شاید بعض لوگ کہہ دیں کہ ان کی اقلیت عارضی وقفہ ہے پھر جماعت کی اکثریت ان کیساتھ مل جائے گی اور حق پر قائم ہوجائے گی۔ مگریاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کا جواب بھی دے دیا ہے جو یہ ہے کہ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا یعنی اس سنت کا ظہور اپنے وقت پر اور تسلسل اور تواتر کے ساتھ ضروری ہے وہ پیچھے بھی نہیں ہٹ سکتی اور اس میں رخنہ بھی نہیں پڑ سکتا۔ پس اگر یہی تسلیم کرلیاجائے کہ یہ کسی وقت جماعت پر غالب آجائیں گے اور جماعت کو اپنا ہم خیال بنالیں گے تب بھی تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایک خاصہ لمبا زمانہ اس سنت اللہ کے ظہور سے خالی رہا اور مقاصد عالیہ کے پورا ہونے سے پہلے جماعت کی اکثریت باطل اور ناراستی پر قائم ہوگئی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا۔یعنی اس سنت میں وقفہ بھی نہیں پڑتا۔ اگر وقفہ بھی پڑ جائے تب بھی وہ مدعی جس کے زمانہ میں وقفہ پڑے خداتعالیٰ کی طرف سے قرار نہیں دیا جائے گا اور یہ تسلیم کیا جائے گاکہ خداتعالیٰ کی سنت اس کے حق میں پوری نہیں ہوئی۔ اس سنت کو جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلی جماعتوں کے حق میں ظاہرکیا ہے وہ ایک ایسی کُھلی دلیل ہیں کہ سوائے ایک ازلی نابینا کے کوئی شخص اس دلیل کو دیکھنے سے محروم نہیں رہ سکتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا حال دیکھ لو، وہ ہمارے سامنے ہے۔ قرآن کریم میں ان کے متعلق آتا ہے کہ جب ایک عظیم الشان جنگ کیلئے اُن کو بلایا گیا تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جواب میں کہا کہ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ ۷؎ اے موسیٰ جا تُو اور تیرا رب دشمنوں سے لڑائی کرو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ جب فتح کر لو گے تو ہم بھی اس ملک میں داخل ہوجائیں گے۔
یہ وہ اظہارِ ایمان ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے حضرت موسیٰؑ کی زندگی میں ظاہر کیا۔ لیکن جب اس قوم کو اس زمانہ کے دیکھنے کا موقع ملا جس کے متعلق خداتعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ نبی کی روح اس کی قوم میں تقسیم کردی جاتی ہے تو وہی لڑائی سے انکار کرنے والی قوم جس نے موسیٰ جیسے جلیل القدر نبی کے پیچھے لڑنے سے انکار کردیا تھا، وہ اس کے شاگرد اور ایک ناتجربہ کار نوجوان یوشع کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور تلواریں لے کر اس نے ان دشمنوں کے پرے کے پرے۸؎ کاٹ دیئے جن سے ڈر کر اس نے موسیٰ کی زندگی میں لڑائی کیلئے نکلنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کی یہی وجہ تھی کہ موسیٰؑ کی وفات کے بعد خداتعالیٰ کی سنت کے ماتحت موسیٰ کی روح اب اس قوم میں حلول کرگئی تھی اور وہ ناقص الایمان اب موسوی ایمان کی قوت کے ساتھ دشمن کے مقابلہ پر کھڑے ہوگئے تھے۔ اب وہ پہلے سے بنی اسرائیل نہ تھے بلکہ ان میں سے ہر ایک چھوٹا موسیٰ تھا جس کا ایمان خدا کی قدرتوں پر قائم تھا اور جن میں سے ہر ایک کے دل میں بجائے پیچھے بیٹھ رہنے کی خواہش کے اب یہ اُمنگ پیدا ہورہی تھی کہ میں سب سے پہلے جان دے کر اپنے پیدا کرنے والے کے قدموں میں جاگِروں۔
دوسری مثال حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی موجود ہے ۔ ان کے شاگرد جبکہ حضرت مسیح ناصری کو یہودیوں نے پکڑا تو اکثر تو ان میں سے بھاگ گئے اور جو کھڑے رہے ان میںسے سب سے زیادہ جرأت دکھانے والا پطرس تھا۔ اس نے بھی آخر میں یہودیوں کے سامنے ان کے ڈر اور خوف سے حضرت مسیح کو ماننے سے انکار کردیااور آپ پر نَعُوْذُ بِاللّٰہِ *** کی اور تین دفعہ ایسا ہی کیا۔ اور جب اس نے تیسری دفعہ ایسا کیا تو ایک مرغ کی اذان کی آواز اس کے کان میں پڑی اور اسے حضرت مسیح کی یہ پیشگوئی یاد آگئی کہ ’’اے پطرس! میں تجھ سے کہتا ہوں کہ آج مرغ بانگ نہ دے گا جب تک تُو تین مرتبہ میرا انکار نہ کرے‘‘۔۹؎ یعنی آج ہی رات تُو تین دفعہ مجھ پر *** کرے گا۔ اس مرغ کی اذان کی آواز نے اس کی آنکھیں کھول دیں او روہ توبہ و استغفار میں لگ گیا۔ لیکن جونہی صلیب کازمانہ گزرگیا اورخداتعالیٰ کی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا کہ ’’میں اپنے باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمہیں دوسرا تسلی دینے والا بخشے گا کہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے یعنی روحِ حق جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی۔ کیونکہ اسے نہ دیکھتی ہے اور نہ اسے جانتی ہے لیکن تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتی ہے اور تم میں ہووے گی۔ میں تمہیں یتیم نہ چھوڑوں گا میں تمہارے پاس آئوں گا۔ اب تھوڑی دیر ہے کہ دنیا مجھے پھر نہ دیکھے گی۔ پر تم مجھے دیکھتے ہو اور اس لئے کہ میں جیتا ہوں تم بھی جیو گے ۔ اُس روز تم جانو گے کہ مَیں باپ میں اور تم مجھ میں اور میں تم مَیں ہوں‘‘۔ ۱۰؎
تو اس زمانہ کے آتے ہی ان حواریوں کی حالت بدل جاتی ہے۔ کمزوریاں دور ہو کر ایمان بڑھ جاتا ہے۔ اور وہ پطرس جو حکومت سے نہیں، حکومت کے حکام سے نہیں، حکومت کے معمولی سپاہیوں سے نہیں، بلکہ مغلوب اور محکوم اور مغضوب علیہم چند یہودی افراد سے ڈر گیا تھا اور جس نے اتنی بُزدلی دکھائی کہ اس شخص پر جس کو وہ خدا کا نبی مانتا تھا، اپنی جان کی حفاظت کیلئے اس پر *** کرنے سے بھی نہ ہچکچایا، ہم اسے اس موعود زمانہ میں دلیری اور جرأت کے ساتھ خود حکومت کے مرکز روم میں یہ کہتے ہوئے صلیب کی طرف بڑھتا ہؤا دیکھتے ہیں کہ میںاس لئے مرتا ہوں کہ تا تم کو زندہ کروں اور جرأت کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح وہ بھی صلیب پر لٹک گیا اور مرگیا۔ اور اس زمانہ میں اس نے تبلیغ دین کو ترک کرنے کی نسبت صلیب پر جان دینے کو زیادہ آسان سمجھا۔ رومی حکومت اپنی ساری طاقت کے باوجود اس کی جادو بھری زبان کو خاموش کرنے سے قاصر رہی۔ انہوں نے اس کو صلیب کی دھمکی دی اور سمجھا کہ یہ شاید وہی پطرس ہے جو کچھ عرصہ پہلے یہود سے ڈر کر مسیح پر لعنتیں کررہا تھا مگر انہیں نہیں معلوم تھا کہ حضرت مسیحؑ کے صلیبی واقعہ کے بعد مسیح کی رُوح اب اس کے حواریوں میں تقسیم کردی گئی تھی۔ اب پطرس، یوحنا اور یعقوب دنیا میں نہیں تھے بلکہ بہت سے چھوٹے مسیح پید اہوگئے تھے جن میں سے ہر ایک شخص مسیحی جھنڈے کو اُٹھارہا تھا۔ وہ پطرس، یعقوب اور تھوما کو ڈراسکتے تھے مگر مسیح کو ڈرانے کی ان میں طاقت نہ تھی۔ مسیح صلیب نہیں دیا گیا تھا بلکہ درحقیقت پطرس دیا گیا تھا یعقوب اور یوحنا اور تھوما صلیب پر دیئے گئے تھے کیونکہ جب مسیح صلیب پر چڑھا تو اُس کے ساتھ تمام وہ کمزوریاں جو اس سے پہلے حواریوں میں پائی جاتی تھیں صلیب پر چڑھ گئیں۔ اور اب دنیا میں پطرس نہیں بلکہ مسیح باقی رہ گیا تھا، یعقوب نہیں بلکہ مسیح باقی رہ گیا تھا۔ یوحنا نہیں بلکہ مسیح باقی رہ گیا تھا۔ یہ دو مثالیں کتنی واضح ہیں کہ دو جماعتیں اپنے نبیوں کی زندگی میں یا ایک کے متعلق یوں کہو کہ اس کی موجودگی میں کیونکہ مسیح صلیب پر مرا نہیں بلکہ اُس ملک کو چھوڑ کر چلا گیا تھا، نہایت کمزور تھیں۔ لیکن جب وہ انبیاء ان جماعتوں میں نہیں رہے اور خداتعالیٰ کی اس سنت کے پورا ہونے کا وقت آگیا کہ جب کوئی نبی مرتا ہے تو اس کی روح اس کی جماعت میں ڈال دی جاتی ہے ، وہ کمزور اور ناقص جماعتیں ، وہ بُزدل جماعتیں کروٹ لیتی ہیں اور ان کی کایا پلٹ جاتی ہے اور وہ ایمان کے ایسے زبردست مظاہرے کرتی ہیں کہ ان کی زندگیوں کے دونوں حصوں کو دیکھ کر انسان کیلئے یہ یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ ایک ہی جماعت کے دو کارنامے ہیں۔ پہلے اس کمزوری کا اظہار تھا اور اب اس طاقت کی نمائش۔ کیا عجیب بات ہے کہ وہ جماعتیں جن کی پہلی کمزوریوں پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ تو اپنے نبی کی جُدائی کے بعد اس قدیم سنت اللہ کے ماتحت ایسے زبردست ایمان کو ظاہر کرتی ہیں مگر ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جن کا یہ دعویٰ تھا کہ میری جماعت حضرت مسیح ناصریؑ کی جماعت سے بہت زیادہ قربانی کرنے والی اور بہادر ہے اور مجھے وہ ایسا جواب نہیں دیتی جیسا کہ حضرت موسیٰؑ کی قوم نے اُن کو دیا تھا۔ اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جبکہ صحابۂ مسیح موعود علیہ السلام ابھی ہم میں زندہ موجود ہیں وہ گمراہی اور ضلالت میں پڑ گئی ہے اور جرأت و بہادری اس سے کھوئی گئی ہے۔ کوئی نوکریوں کی خاطر، کوئی زمینوں کی خاطر، کوئی مکانوں کی خاطر، کوئی دُکانوں کی خاطر، کوئی چند سیر آٹے کی خاطر، کوئی تھوڑے سے تعلیمی وظیفہ کی خاطر، کوئی صرف نمائشی عُہدہ کی خاطر ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر جمع ہے جس کی نسبت اسّی فیصدی کو یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کام کو تباہ کررہا ہے اور سلسلہ کی برکات کو مٹارہا اور اس کے نظام کو برباد کررہا ہے، وہ خاموش ہے اور رسول کریم ﷺ کے الفاظ میں گونگے شیطان کی طرح خداتعالیٰ کی عمارت کو گراتے ہوئے دیکھتی ہے مگربُزدلوں اور خناثے۱۱؎ کی طرح نہ وہ منہ سے اظہارِ نفرت کرتی ہے او رنہ ہاتھ سے اسے روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ نہ کسی او رتدبیر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کو قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ گویا کہ وہ ایک مُردہ ہے جو گل سڑ گیا اور اب سوائے لوگوں کی ناکوں کو بُو سے تکلیف دینے کے اب اس میں کوئی فائدہ کی بات نہیں رہی۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو یقینا اَلْعَیَاذُ بِاللّٰہِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جھوٹے تھے کیونکہ خداتعالیٰ تو کہتا ہے کہ موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ مسیح موعود مرا اور پھر مرہی گیا۔ اس کی روح دنیا سے اُٹھالی گئی اور اس کی صداقتیں کُچل دی گئیں اور نیکی و تقویٰ جس کے قائم کرنے کیلئے یہ جماعت کھڑی ہوئی تھی اس کی چادر اس سے چھین لی گئی۔ ایک حصہ کی اپنی بدعملی کی وجہ سے اور دوسرے حصہ کی دوسروں کی بداعمالیوں پر راضی ہوجانے کی وجہ سے۔ غرض کوئی کسی طرح اور کوئی کسی طرح محروم ہوگیا۔
دیکھو حضرت مسیح ناصری کو جب خداتعالیٰ کی طرف سے اطلاع ملی کہ اب آ پ کے پکڑے جانے کا وقت آگیا ہے اور اب آپ کو یہ ملک چھوڑ کر کہیں اور جانا پڑے گا اور اس ملک کے لوگوں کے لحاظ سے گویا آپ مرجائیں گے، اُس وقت حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو جمع کیا اور کچھ انگور کا رس اور کچھ روٹیاں منگوائیں۔ ’’یسوع نے روٹی لی او ربرکت مانگ کے توڑی پھر شاگردوں کو دیکھ کر کہا لو کھائو یہ میر ابدن ہے۔ پھر پیالہ لے کر شکر کیا اور انہیں دے کر کہا تم سب اس میں سے پیئو کیونکہ یہ میرا لہو ہے‘‘۔۱۲؎ یعنی اب جب کہ میں تم سے جُدا ہونے والا ہوں خداتعالیٰ کی سنت کے ماتحت میرا گوشت اب تمہارا گوشت ہوجائے گا اور میرا خون تمہارا خون ہوجائے گا۔ گویا یہ ایک ظاہری علامت تھی کہ میری جُدائی کے باعث اب تم میں سے ہر ایک کو خداتعالیٰ مسیح بنادے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:-
’’تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی (یعنی اپنی وفات کی خبر دی) غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں۔ کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کابھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جائوں۔ لیکن میں جب جائوں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔‘‘۱۳؎
قیامت تک اس کا سلسلہ منقطع نہ ہونے کے یہ معنے تو نہیں لئے جاسکتے کہ جماعت احمدیہ قیامت تک بِگڑے گی ہی نہیں۔ کیونکہ یہ تو سنت اللہ کے خلاف ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے الہام کے بھی خلاف ہے ۔ پھر احادیث نبویہ اور آیات قرآنیہ کے بھی یہ بات خلاف ہے۔ یہ بات مسلّمہ طور پر تمام الہامی کتب میں بیان کی گئی ہے کہ قیامت اَشْرَارُ النَّاس پر قائم ہوگی یعنی قیامت کے آنے سے پہلے تمام دنیا گمراہی میں پڑ جائے گی۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو کچھ لکھا اس کے یہی معنے ہیں کہ جب تک میرے مقاصد کے پورا ہونے کا وقت نہیں آتا اُس وقت تک تمہاری اکثریت روح القدس سے مؤید رہے گی اور خداتعالیٰ کی تائید تمہار اساتھ کسی صورت میں نہیں چھوڑے گی۔ چیز ایک ہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا نام قدرتِ ثانیہ رکھا ہے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے اس کا نام روح القدس رکھا ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس کا نام زمانہء خیر رکھا ہے۔ بہرحال جو کچھ بھی وہ ہے وہ خداتعالیٰ کی قدرت ہے اور پاکیزگی کی روح ہے۔ وہ بہترین زمانہ ہے۔ اس کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی خبر ہے کہ جب تک کہ اس کے اٹھائے جانے کا وقت نہ آئے وہ متواتر جاری رہتی ہے اور جوشخص یہ کہتا ہے کہ وہ روح القدس، وہ قدرتِ ثانیہ، وہ زمانہ خیر جو ہر نبی کے بعد اس کی جماعت کے ساتھ وابستہ کردیا جاتا ہے اور بِلا وقفہ اور بِلا فتور اُس وقت تک اس کے ساتھ چلتا چلا جاتا ہے جب تک کہ وہ نبی کی جماعت دنیا کو خداتعالیٰ کیلئے فتح نہ کرے، وہ زمانہء خیر اس جماعت سے دور ہوگیا ہے، وہ قدرتِ ثانیہ اس جماعت سے چھین لی گئی ہے، وہ روحِ قدس اس سے ہٹالی گئی ہے وہ نابینا ہے، وہ خود روحانیت سے محروم ہے۔ کاش! وہ ان الفاظ کے کہنے سے پہلے خداتعالیٰ کے الفاظ پر غورکرتا اور سوچتاکہ میں کیا کہنے والا ہوں اور اس کے نتائج میری روح کیلئے کس قدر خطرناک نکلنے والے ہیں۔ دنیا کی عزتیں کوئی چیز نہیں، دنیا کی بادشاہتیں بھی کوئی چیز نہیں اور یہاں تو ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں۔ صرف جماعتِ حقہ کے مخالف لوگوں کی واہ واہ اور تعریف ہی ہے جس تعریف کی نہ کوئی قیمت ہے اور جس واہ واہ کو نہ کوئی اہمیت حاصل ہے۔
پس کاش کہ یہ لوگ سوچتے او راگر ان کے دلوں میں دینی روح قائم نہ رہی تھی تو یہ اپنے نفس پر بدظنی کرتے مگر خداتعالیٰ اور اس کے رسولوں اور اس کے خلفاء پر بدظنی نہ کرتے ۔ بہتر ہوتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعائیں کرتے اور اس سے توبہ و استغفار کرتے تا وہ ان کے ایمان کو بچالیتا۔ خداتعالیٰ کسی کے ایمان کا دشمن نہیں، وہ کسی کو ہدایت سے محروم نہیں کرنا چاہتا سوائے اس کے جو آپ ہی اس کی ہدایت کو پھینک دیتا ہے اور جو آپ ہی اس کی نعمت کو ردّ کردیتا ہے۔ کاش ایسا شخص ایسی جرأت نہ کرتا اور ایسی باتیں کہنے سے پہلے جو کہ جماعت کیلئے نہیں بلکہ خود اس کی جماعت کے بانی کیلئے موجبِ اعتراض ہیں، جنگلوں میںچلا جاتا اور خدا کے سامنے گڑگڑاتا او رزاری کرتا اور کہتا اے میرے خدا! شیطان مصلح کی صورت میں میرے سامنے آیا ہے اور نیکیوں کی شکل میں وہ مجھے بدی کی ترغیب دیتا ہے۔ میں کمزور ہوں، ایمان کا دامن میرے ہاتھوں سے چُھٹا جاتا ہے اور عرفان کی روح میرے جسم سے نکلی جاتی ہے۔ اے ابدی زندگی بخشنے والے! جس نے اپنے مسیح کو دوبارہ زندہ کرنے کی پیشگوئی فرمائی تھی تُو مجھ ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والے پر رحم کر اور اس حیات کے پانی میں سے تھوڑا سامجھ پر بھی چِھڑک تا میری بے ایمانی جاتی رہے اور روحانی موت زندگی سے بدل جائے اور تیرے احیا کی صفت کو اپنی ذات میں مشاہدہ کرلوں۔ مگر افسوس کہ ایسا نہ کیا گیا اور کچھ تو ۲۳ سال سے اپنی روحانی موت کی تیاریاں کررہے ہیں اور کچھ بعد میں ان میں شامل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمیں ان کی روحانی موت پر خوشی نہیں ۔ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ میں ہاتھ دینے والا ہر ایک روحانی زندگی پائے ۔ مگر ہم خداتعالیٰ کی مشیّت میں روک نہیں بن سکتے۔ ہاں اس سے ہماری ہمیشہ یہی التجا ہوتی ہے کہ خدایا! یہ کچھ پیاسے تڑپ رہے ہیں اپنی رحمت کا پانی ان کو بھی پِلادے۔ یہ کچھ روحانی بیمار تکلیف سے اور بیماری کی شدت سے سِسک رہے ہیں اور ان کی جانیں ان کے نتھنوں تک پہنچ چکی ہیں ۔ اے مُردوں کو زندہ کرنے والے! تو ان کو پھر زندگی بخش تا یہ تیری ہدایت سے محروم نہ رہ جائیں۔ اور قیامت کے دن تیرے مسیح کے سامنے، تیرے خَاتم النبّیٖن کے سامنے اور خود تیرے سامنے ان کو شرمندگی اور ذلت نہ اُٹھانی پڑے۔ کاش! قیامت کے دن جبکہ کچھ لوگ جو صحابہ کہلاتے تھے حوضِِ کوثر کے پاس سے دھکیل کر لے جائے جارہے ہوں گے اُس وقت ان کے متعلق ہمارے آقا سیّدنا محمد مصطفی ﷺ کو یہ نہ کہنا پڑے کہ اُصَیْحَابِیْ اُصَیْحَابِیْ یہ تو میرے صحابی ہیں، یہ تو میرے صحابی ہیں، انہیں تم کہاں لئے جارہے ہو؟ اور خدا کے فرشتوں کو یہ جواب نہ دینا پڑے یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! یہ آپ کے صحابی تھے مگر آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا، کیا کچھ غضب ڈھایا۔۱۴؎
خداتعالیٰ کی رحمتیں وسیع ہیں ۔ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ اس کا فضل نہ صرف ہم پر بلکہ پہلوں پر بھی اور پچھلوں پر بھی ہوں۔ اس کی ساری ہی مخلوق اس کے فضل کے نیچے آجائے۔ خدا کے خزانے محدود نہیں کہ ہمیں اپنے حصہ کی فکر ہو۔ ہمیں وہ جو کچھ دینا چاہتا ہے اس کے دینے کے بعد بھی اس کے خزانے معمور ہی رہیں گے، بھرپور ہی رہیں گے۔ پس اگر دوسرے ہمارے بھائی کہلانے والوں کو اس کی رحمت کا حصہ مل جائے تو ہمارے لئے یہ خوشی کا ہی امر ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے ہمیں اس لئے کھڑا کیا ہے کہ دنیا میں اسلام اور ہدایت کا جھنڈا گاڑدیں۔ پس ہر ایک شخص جو ارتداد سے بچایا جاتاہے وہ ہماری فتح کا نشان ہے اور غلبہ کی علامت ہے۔ ہر ایک شخص جو بخشا جاتا ہے وہ ہمار احصہ بٹاتا نہیں بلکہ بڑھاتا ہے۔
پس خداتعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اس صداقت و ہدایت پر قائم رکھے اور ہمارے دشمنوں کو بھی اس صداقت اور ہدایت پر قائم ہونے کی توفیق دے۔ یہاں تک کہ دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ سنت اللہ جس طرح پہلے نبیوں کے حق میں پوری ہوئی، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں بھی پوری ہوئی اور دنیا کے جس کونے اور جس گوشے میں ہم جائیں، جس ملک اور جس براعظم کی ہم سیر کریں اور جس شہر اور جس قصبہ کو ہم دیکھیں اور اپنے دائیں اوربائیں جِدھر نظر ڈالیں اسی طرف خداتعالیٰ کے کلام کی تصدیق نظر آئے اور مومنوں کے وجود میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں چلتے پھرتے نظر آئیں اور دشمن سے دشمن کو بھی یہ اقرار کرنا پڑے کہ وہ جو کہا گیا تھا کہ موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا، اس کلام کا لفظ لفظ پورا ہؤا۔ نہ صرف یہاں نہ صرف وہاں، نہ صرف ادھر نہ صرف ادھر بلکہ زمین کے چپہ چپہ پر دائیں بھی اور بائیں بھی، آگے بھی اور پیچھے بھی، سمندروں پر بھی اور خشکیوں پر بھی اوریہ نشان ان بقیہ لوگوں کی ہدایت کا بھی موجب بن جائے جو اس نشان کو دیکھنے کے وقت تک ابھی سلسلۂ حقہ میں داخل نہ ہوئے ہوں۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ (الفضل ۱۶ ؍ ستمبر ۱۹۳۷ئ)
۱،۲؎ تذکرہ صفحہ ۱۷۱۔ ایڈیشن چہارم
۳؎
۴؎ فاطر: ۴۴
۵؎ تذکرہ صفحہ ۳۹۰ ۔ایڈیشن چہارم
۶؎
۷؎ المائدہ: ۲۵
۸؎ پرے: صفیں۔ قطاریں
۹؎ لوقا باب ۲۲ آیت۳۴ نارتھ انڈ یا بائبل سوسائٹی مرزاپور۱۸۷۰ء
۱۰؎ یوحنا باب۱۴ آیت۱۶تا۲۰۔نارتھ انڈ یا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۱؎ خناثے: خناث۔ ہیجڑے۔ خنثی کی جمع
۱۲؎ متی باب ۲۶ آیت ۲۶ تا ۲۸۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۳؎ الوصیت صفحہ۷ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۵ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ
۱۴؎ مسند احمد بن حنبل جلد نمبر۱صفحہ۴۵۳مطبوعہ بیروت۱۹۷۸ء

۳۰
دُنیا انبیاء اور خلفاء کے ذریعہ ہی خداتعالیٰ کے
نور کا مشاہدہ کرتی ہے
(فرمودہ ۱۷ ؍ ستمبر ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
گزشتہ اتوار کی رات میں نے ایک عجیب رئویا دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک بڑا جلسہ گاہ ہے۔ مگر اس رنگ کا نہیں جیساکہ ہمارا جلسہ گاہ ہوا کرتا ہے۔ بلکہ جیساکہ تاریخوں میں ہم پڑھتے ہیں کہ روم میں بڑے بڑے قومی اجتماعوں کیلئے ایمفی تھیٹر (AMPHI THEATRE) بنائے جایا کرتے تھے۔ اسی رنگ کا وہ جلسہ گاہ ہے۔ یعنی جو خطیب ہے اُس کے سامنے مربع یا مستطیل شکل میں جلسہ گاہ نہیں بلکہ ہلالی شکل میں ہے۔ جس طرح گھوڑے کا نعل بیچ میں سے خالی ہوتا اور قریباً نصف دائرہ یا اس سے کچھ زیادہ بناتا ہے۔ اسی طرح ایک وسیع میدان میں جونصف میل یا میل کے قریب ہے اس طرح بینچ لگے ہوئے ہیںجس طرح پہلے دن کا چاند ہوتا ہے۔ ایک گول دائرہ ہے جو دور فاصلہ سے شروع ہوکر دونوں کناروں سے آگے بڑھنا شروع ہوتا ہے۔ اور جس طرح چاند کی ایک طرف خالی نظر آتی ہے اسی طرح ایک طرف اس دائرہ کی خالی ہے اور وہاں لیکچرار یا خطیب کی جگہ ہے۔ اس وسیع میدان میں کہ لوگوں کی شکلیں بھی اچھی طرح پہچانی نہیں جاسکتیں بہت سے لوگ لیکچر سننے کیلئے بیٹھے ہیں اور جو درمیانی جگہ خطیب کی ہے جہاں چاند کے دونوں کونے ایک دوسرے کے قریب ہوجاتے ہیں وہاں میں کھڑا ہوں اور اس وسیع مجمع کے سامنے ایک تقریر کررہا ہوں۔ وہ تقریر الوہیت، نبوت اور خلافت کے متعلق اور ان کے باہمی تعلقات کی نسبت ہے۔ گو یوں بھی میری آواز خدا تعالیٰ کے فضل سے جب صحت ہو تو بہت بلند ہوتی ہے اور دور دور سنائی دیتی ہے۔ لیکن وہ دائرہ اتنا وسیع ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھ سے دُگنی آواز والا شخص بھی اپنی آواز ان لوگوں تک نہیں پہنچاسکتا۔ مگر رئویا میں میری آواز اتنی بلند ہوجاتی ہے کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ اس وسیع دائرہ کے تمام سِروں تک میری آواز پہنچ رہی ہے۔ اسی ضمن میں مَیں مختلف آیاتِ قرآنیہ سے اپنے مضمون کو واضح کرتا ہوں اور بعض دفعہ تقریر کرتے کرتے میری آواز اتنی بلند ہوجاتی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے سِروں تک پہنچ رہی ہے۔ جب میں اپنی تقریر کے آخری حصہ تک پہنچتا ہوں تو اُس وقت میری حالت اِس قسم کی ہوجاتی ہے جس طرح کوئی شخص جذب کی حالت میں آجاتا ہے۔ میںنے اُس وقت الوہیت، نبوت اورخلافت کے متعلق ایک مثال بیان کرکے اپنے لیکچر کوختم کیا اور اُس وقت میری آواز میں ایسا جلال پیدا ہوگیا کہ اسی کے اثر سے میری آنکھ کھل گئی۔ مجھے صرف وہ مثال ہی یاد رہ گئی ہے باقی مضمون بھول گیا ہے۔ وہ مثال میں نے رئویامیں یہ دی تھی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء اور اس کے خلفاء کے تعلق کی مثال چوکٹھے میں لگے ہوئے آئینہ کی ہوتی ہے۔ آئینہ کا کام تو درحقیقت درمیانی شیشہ دیتا ہے مگر اس شیشہ کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی لگی ہوئی ہوتی ہیں۔ جیسے آئینہ کے پیچھے قلعی ہوتی ہے اور اس کے اِردگرد چوکٹھا ہوتا ہے ۔ لیکن دراصل جو چیز ہماری شکل ہمیںدکھاتی ہے اور جو چیز ہمارے عیب اور صواب کے متعلق ہماری راہ نمائی کرتی ہے، وہ آئینہ ہی ہے۔ نہ وہ قلعی جو اس کے پیچھے لگی ہوئی ہوتی ہے وہ اپنی ذات میں شکل دکھاسکتی ہے اور نہ وہ چوکٹھا جو اس کے اِردگرد لگا ہوتا ہے وہ ہمارے عیب اور صواب کے متعلق ہمیں کوئی ہدایت دے سکتاہے۔ لیکن آئینہ بھی عیب اور صواب ہمیں تبھی بتاتا ہے جب اُس کے پیچھے قلعی کھڑی ہو۔ اور وہ محفوظ بھی اسی وقت تک رہتا ہے جب تک وہ چوکٹھے میں لگا رہتا ہے۔ چنانچہ چوکٹھوں میں لگے ہوئے آئینے لوگ اپنے میزوں پر رکھ لیتے ہیں اور اس طرح وہ ٹوٹنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ مگر جب ہم اس کے چوکٹھے کو اُتار دیں اور اُس کی قلعی کو کھرچ دیں تو آئینہ بلحاظ روشنی کے تو آئینہ ہی رہتا ہے مگر پھر وہ ہماری شکل ہمیں نہیں دکھاتا۔ اور اگر دکھاتا ہے تو نہایت دُھندلی سی۔ جیسے مثلاً (یہ مثال میں نے رئویا میں نہیں دی۔ صرف سمجھانے کیلئے بیان کررہا ہوں) دروازوں میں وہی شیشے لگے ہوئے ہوتے ہیں کھڑکیوں میں بھی وہی شیشے لگے ہوئے ہوتے ہیں جو آئینوں میں ہوتے ہیں مگر ان میں سے شکل نظر نہیں آسکتی کیونکہ ان کے پیچھے قلعی نہیں لگی ہوتی۔ اسی طرح جن شیشوں کے چوکٹھے اُتر جاتے ہیں رئویا میں ہی میں کہتا ہوں کہ ان شیشوں کا محفوظ رکھنا مشکل ہوتا ہے اور وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ تو آئینہ اپنے اندرونی جوہر ظاہر کرنے کیلئے ایک ایسی چیز کے آگے کھڑا ہوتا ہے جو اپنی ذات میں تو چہرہ دکھانے والی نہیں مگر جب وہ آئینہ سے مل جاتی ہے تو آئینہ میں شکل نظر آنے لگ جاتی ہے اور وہ قلعی ہے۔ اسی طرح اس کا چوکٹھا اسے محفوظ رکھتا ہے۔
تومیں رئویا میں یہ مثال دے کر کہتا ہوں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کی مثال ایک آئینہ کی سی ہے اور انسان کی پیدائش کا اصل مقصد اسی کو حاصل کرنا ہے۔ وہی ہے جو ہمیں علم دیتا ہے، وہی ہے جو ہمیں عرفان دیتا ہے، وہی ہے جو ہمی عیب سے آگاہی بخشتا ہے، وہی ہے جو ہمیں ثواب کی باتوں کا علم دیتا ہے لیکن وہ اپنی قدیم سنت کے مطابق اُس وقت تک دنیا کوعیب اور صواب سے آگاہی نہیں بخشتا جب تک اُس کے پیچھے قلعی نہیں کھڑی ہوجاتی جو نبوت کی قلعی ہے۔ یعنی وہ ہمیشہ اپنے وجود کو نبیوں کے ہاتھ سے پیش کرواتا ہے۔ جب نبی اپنے ہاتھ میں لے کر خداتعالیٰ کے وجود کو پیش کرتا ہے تبھی دنیا اُس کو دیکھ سکتی ہے ورنہ نبوت اس کے بغیر خداتعالیٰ کی ہستی اتنی مخفی اور اتنی وراء الوراء ہوتی ہے کہ انسان صحیح اور یقینی طور پر اس کا اندازہ ہی نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ زمینوں میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ دریائوں میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ پہاڑوں میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ سمندروں میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ خشکیوں میں بھی ہے۔ غرض ہر ایک ذرّہ ذرّہ سے اس کا جلال ظاہر ہورہا ہے مگر باوجود اس کے کہ دنیا کے ذرّہ ذرّہ میں اس کا جلال پایا جاتا ہے بغیر انبیاء کے دنیا نے کب اس کو دیکھا۔ انبیاء ہی ہیں جو خداتعالیٰ کا وجود دنیا پر ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن انبیاء خداتعالیٰ کو بناتے تو نہیں، وہ تو ازل سے موجود ہے پھر وجہ کیا ہے کہ انبیاء کے آنے پر دنیا خداتعالیٰ کو دیکھنے لگ جاتی ہے اور پہلے نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جس طرح آئینہ کے پیچھے قلعی کاوجود ضروری ہوتا ہے اسی طرح انبیاء کو خداتعالیٰ نے اپنے ظہور کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ پھر چوکٹھا جو ہوتا ہے وہ آئینہ کی حفاظت کا ذریعہ ہوتا ہے اور وہ بھی نبوت اور خلافت کا مقام ہے یعنی انبیاء اور ان کے خلفاء اللہ تعالیٰ کے وجود کو دنیا میں قائم رکھتے ہیں۔ خود اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ حیی وقیوم ہے لیکن اُس نے اپنی سنت یہی رکھی ہے کہ وہ اپنے وجود کو بعض انسانوں کے ذریعہ قائم رکھے۔ ان وجودوں کو مٹادو ساتھ ہی خداتعالیٰ کا ذکر بھی دنیا سے مٹ جائے گا۔تم ساری دنیا کی تاریخیں پڑھ جائو (اب یہ جو اگلا حصہ ہے یہ خواب کا نہیں بلکہ بطور تشریح میں خود بیان کررہا ہوں) تمہیں کہیں یہ نظر نہیں آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کا وجود بغیر انبیاء کے دنیا میں قائم ہوا ہو۔ حالانکہ انبیاء بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں او رخداتعالیٰ کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہر وقت موجودہے اور اُس کا نور ہر چیز سے ظاہر ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ اُس کا نور دنیا کی ہر چیز سے ظاہر ہورہا ہے، پھر بھی انبیاء ہی ہیں جو اسے ایسی طرز پر ظاہر کرتے ہیں کہ لوگ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔
رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے کیا خدا نہیں تھا۔ خدا اُس وقت بھی اسی طرح آسمان سے ظاہر ہورہا تھا، اسی طرح زمین سے ظاہر ہورہا تھا، اسی طرح دریائوں سے ظاہر ہورہا تھا، اسی طرح فضا سے ظاہر ہورہاتھا، اسی طرح پاتال سے ظاہر ہورہا تھا جس طرح رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ظاہر ہوا۔ پھر پہلے زمانہ اور رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں فرق کیا تھا؟ فرق یہی تھا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے نور کے ظہور کیلئے کوئی ذریعہ موجود نہیں تھا۔ ایک آئینہ تھا مگر اس آئینہ کے ساتھ وہ قلعی نہیں تھی جو اسے روشن کرکے لوگوں کی نظروں کے قابل بنادیتی۔ جب رسول کریم ﷺ نے اس شیشے کو اپنے ہاتھ میں پکڑا تو جس طرح آئینہ کے پیچھے جب قلعی کھڑی کردی جاتی ہے تو آئینہ کو ایک خاص شکل مل جاتی ہے اور اس میں دوسروں کی بھی شکلیں نظر آنے لگ جاتی ہیں، اسی طرح ساری دنیا کو خدا نظر آنے لگ گیا اور اس کے وجود کا اسے احساس ہوگیا۔ ورنہ شیشہ جتنا زیادہ مصفّٰی ہو اُتنا ہی لوگوں کو کم نظر آیا کرتا ہے۔ کئی دفعہ جب اعلیٰ درجہ کے شیشے دروازوں سے لگائے جاتے ہیں تو بعض دفعہ لوگ ان دروازوں سے ٹھوکر کھاجاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ رستہ کھلا ہے حالانکہ وہ آئینہ ہوتاہے اور رستہ بندہوتا ہے۔ رات کے وقت جب کمرہ میں روشنی ہو تو اُس وقت انسان کیلئے یہ معلوم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ منافذ میں شیشہ موجود ہے یا نہیں۔ بعض دفعہ شیشہ لگا ہوا ہوتا ہے اور انسان اس کے بعد زیادہ مصفٰے ہونے کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ شیشہ میں کوئی نہیں۔ اور بعض دفعہ شیشہ نہیں ہوتا اور وہ خیال کرتا ہے کہ شیشہ ہے۔ پس شیشہ جتنا زیادہ مصفّٰی ہو اُتنا ہی لوگوں کو کم نظر آتا ہے۔ مگر انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ خداتعالیٰ کا وجود جو نہایت ہی مخفی اور وراء الوراء ہے اسی طرح لوگوں کو نظر آنے لگ جاتا ہے جس طرح شیشہ کے پیچھے جب قلعی کھڑی کردی جائے تو وہ شکلیں دکھانے کے قابل ہوجاتا ہے۔
یہ مضمون ہے جو رئویا میں مَیں نے بیان کیا اور اسی مثال پر میری تقریر ختم ہوگئی۔ میں نے رئویا میں اس مضمون کے متعلق کئی آیات بھی بیان کیں مگر جاگنے پر وہ ذہن سے اُتر گئی تھیں۔ اس پر میں نے غور کرنا شروع کیا کہ وہ آیتیں کون سی تھیں جو میں رئویا میں اس مضمون کو ثابت کرنے کیلئے پڑھ رہا تھا اور جن سے اس مضمون کا میں نے استدلال کیا۔ مگر باوجود اس کے کہ میں نے کافی غور کیا مجھے وہ آیتیں سمجھ میں نہ آئیں کیونکہ وہ بھول چکی تھیں۔ صرف اس تقریر کا آخری حصہ یاد رہا تھا جو یہ تھا کہ انبیاء اور خلفاء کی اللہ تعالیٰ سے وابستگی ایسی ہی ہے جیسے شیشے کے ساتھ چوکٹھا ہوتا ہے اور اس کے پیچھے قلعی لگی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کو دنیا میں قائم رکھتے ہیں۔ ان کے ذریعہ خدا ظاہر ہوتا ہے اور انہی کے ذریعہ اس کا وجود عالَم میں محفوظ رہتا ہے۔ غرض میں نے جن جن امورکو رئویا میں بیان کیا تھا اُن پر میں نے پھر غور کیا مگر مجھے وہ باتیں یاد نہ آئیں۔ گو ابھی جبکہ میں یہ خطبہ پڑھ رہا ہوں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام یاد آگیا جس میں اِسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے اور جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہی تشریح کی ہے۔ گو الفاظ اس کے اور ہیں مگر مفہوم یہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام ہے جس میں اللہ تعالیٰ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے یَاقَمَرُ یَا شَمْسُ اَنْتَ مِنِّی وَ اَنَا مِنْکَ ۔۱؎ یعنی اسے سورج اور اے چاند تُو مجھ سے ہے اورمیں تجھ سے ہوں۔ اب سورج اور چاند آپس میں ایک خاص نسبت رکھتے ہیں۔ سورج براہِ راست روشنی ڈالتا ہے لیکن چاند براہِ راست روشنی نہیں ڈالتا بلکہ سورج سے روشنی لے کر دنیا کی طرف پہنچاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لکھتے ہیں یَاقَمَرُ یَا شَمْسُ اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ میں ایک دفعہ خدانے مجھے سورج قرار دیا ہے اور ایک دفعہ مجھے چاند قرار دیا ہے اور فرماتے ہیں کہ جب خداتعالیٰ نے مجھے سورج قرار دیا تو اپنے آپ کو چاند قرار دیا ہے اور جب مجھے چاند قرار دیا ہے تو اپنے آپ کو سورج قرار دیا ہے۔ اب یہ جو بات ہے کہ خدا سورج ہے اور بندہ چاند، یہ بالکل واضح ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ بندہ اسی طرح خدا کے نور سے لیتا اور اسے دنیا میں پھیلاتا ہے جس طرح چاند سورج سے نور لیتا اور اسے دنیا میں پھیلاتا ہے۔ مگر یہ جو خدا نے فرمایا کہ تُو سورج ہے اور خدا کی ذات بمنزلہ چاند ہے۔ یہ بات بظاہر حقیقت سے دور معلوم ہوتی ہے۔ بھلا بندے کی کیا حقیقت ہے کہ وہ سورج کہلائے اور خدا اس کے مقابلہ میں چاند کہلائے۔ توچونکہ یہ بات بظاہر قابلِ اعتراض نظر آتی تھی اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود دنیا سے مخفی ہوتا ہے اور جب وہ ظاہر ہوتا ہے تو انبیاء کے ذریعہ ہی ظاہر ہوتا ہے۔ پس چونکہ خداتعالیٰ کے نور کا ظہور انبیاء کے ذریعہ ہوتا ہے اس لئے دنیا والوں کی نگاہ میں نبی سورج اور خدا چاند ہوتا ہے۔ کیونکہ جب نبی آتا ہے تب ہی خدا کا چہرہ انہیں نظر آنے لگتا ہے۔ اس سے پہلے وہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ پس گو حقیقتاً خدا ہی سورج ہے اور بندہ چاند ہے مگر دنیا والے جن کی نگاہیں کمزور ہوتی ہیں اور جو نبی کے ذریعہ خدا کے جلال اور اس کے جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں ان کے لحاظ سے نبی سورج اور خدا چاند ہوتا ہے۔ جیسے سورج کی روشنی جب چاند پر پڑے تب وہ چمکتا ہے نہ پڑے تو چاند تاریک رہتا ہے۔ اسی طرح جب تک نبی کا وجود خداتعالیٰ کو ظاہر نہ کرے وہ مخفی رہتا ہے۔ مگر جب نبوت کی روشنی الوہیت پر پڑتی ہے تو خدا کا وجود ہر ایک کو نظر آنے لگ جاتا ہے۔
پس دنیا کے حالات کے مطابق تمثیلی زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بندہ سورج ہے اور خدا چاند۔ یہ بھی ویسی ہی مثال ہے جیسی میں نے رئویا میں دی اور اس سے بھی یہی امر ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی روشنی اور اس کے جلال کو ظاہرکرنے کا ذریعہ انبیاء و خلفاء اور اولیاء و صلحاء ہوتے ہیں۔ زمین و آسمان سے خدا کا وجود حق الیقین کے طور پر ثابت نہیں ہوسکتا۔ جیسے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پر مفصّل بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش پر غور کرکے انسان جس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس زمین و آسمان کا کوئی خالق ہونا چاہئے۔ مگر یہ کہ وہ ہے اس کا پتہ زمین و آسمان سے نہیں لگتا۔ گویا یہ نتیجہ صرف سکنے سے تعلق رکھتا ہے، ہے سے نہیں۔ یعنی یہ تو ہوسکتا ہے کہ انسان اس عالَم کی صنعتوں پر نظر کرکے صانع کی ضرورت محسوس کرے مگر ضرورت کا محسوس کرنا اور شَے ہے اور اس درجہ عین الیقین تک پہنچنا کہ جس خدا کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے وہ درحقیقت موجود بھی ہے یہ اَور بات ہے۔ اسی لئے آپ نے بتایا کہ جتنے فلسفی عقلی ذریعہ سے خداتعالیٰ کو معلوم کرنا چاہتے ہیں وہ ٹھوکر کھاتے اور بِالآخر دہریہ بن جاتے ہیں اور زمین و آسمان کی مصنوعات پر غور کرنا انہیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاسکتا۔ کیونکہ اس غوروفکر کا نتیجہ صرف اس حد تک نکلتا ہے کہ خدا کا وجود ہونا چاہئے۔ یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ خدا کا وجود ہے۔ آپ فرماتے ہیںجب وہ زمین کو دیکھتے ہیں تو اسے دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کا کوئی پید اکرنے والا ہونا چاہئے۔ جب وہ آسمان کو دیکھتے ہیں تب بھی وہ یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کا کوئی پیدا کرنے والا ہونا چاہئے۔ مگر یہ وہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ پیدا کرنے والا یقینی طور پرموجود ہے اور اس طرح پھر بھی شبہ رہ جاتا ہے اور انسان خیال کرتا ہے کہ ممکن ہے کوئی مخفی قانون ایسا ہو جس کے ماتحت یہ کارخانۂ عالَم آپ ہی آپ چل رہاہو۔ جس طرح آجکل کے فلسفی کہتے ہیں کہ اس دنیا کی پیدائش میں خود ہی ایک ایسا قانون مخفی ہے جس کی وجہ سے یہ تمام دنیا چل رہی ہے، کسی خاص وجود کو تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں۔ غرض آپ نے اِس بات پر بحث کی اور یہ ثابت فرمایا ہے کہ فلسفہ اور عقلِ انسانی خداتعالیٰ کے متعلق انسان کو ’’ہونا چاہئے‘‘ کی حد تک ہی رکھتے ہیں مگر الہامِ الٰہی نبوت کے ذریعہ ’’ہے‘‘ ثابت کرتاہے۔ ہم جب زمین کو دیکھتے ہیں ، ہم جب آسمان کو دیکھتے ہیں تو انہیں دیکھ کر یہ کہتے ہیں کہ ان کو بنانے والا کوئی ہونا چاہئے او رہماری دلیل ختم ہوجاتی ہے۔ مگر جب خدا ہمیں مخاطب کرتا اور فرماتا ہے اِنِّیْ اَنَااللّٰہُ یقینا مَیں ہی خدا ہوں۔ تو یہ اب ’’ہے‘‘ بن گیا اور ’’ہونا چاہئے‘‘ کی حد سے اس نے ہمیں نکال دیا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی گھر میں آگ جل رہی ہو، چولہے پر ہنڈیا چڑھی ہوئی ہو، ہنڈیا کے اُبلنے کی آواز آرہی ہو تو ہم باہر سے اس آواز کو سُن کر یہ نتیجہ نکالیں کہ اس گھر کا کوئی مالک ہونا چاہئے کیونکہ ہم غور اور فکر کرنے کے بعد فوراً اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ کوئی شخص ہوگا جو یہ ہنڈیا پکارہا ہوگا، کوئی شخص ہوگا جس نے آگ جلائی ہوگی اور کوئی شخص ہوگا جو گوشت وغیرہ لایا ہوگا۔ مگر اِس قدر نتائج نکالنے کے بعد بھی ہم اِسی حد تک پہنچیں گے کہ گھر کا کوئی مالک اندر ہونا چاہئے۔ اس نتیجہ پر ہم نہیں پہنچ سکتے کہ وہ شخص اندر ہے بھی۔ ممکن ہے کوئی کہے اس سے زیادہ وضاحت اور کیا ہوسکتی ہے۔ جب آگ جل رہی ہے، ہنڈیا چولہے پر چڑھی ہے ، اس کے اُبلنے او رجوش کھانے کی آواز آرہی ہے تو اس سے ہم یہ نتیجہ کیوں نہیں نکال سکتے کہ اندر واقعہ میں کوئی شخص موجود ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان تمام قرائن کے باوجود ہم یقینی طور پر یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ اندر کوئی مالک موجود ہے۔ فرض کرو اندر واقعہ میں کوئی شخص ہو اور اس نے ہنڈیا چولہے پر چڑھائی ہو مگر ہنڈیا چولہے پر رکھتے ہی وہ مرگیا ہو اور ہم یہ سمجھتے ہوں کہ اندر وہ موجود ہے حالانکہ وہ مرچکا ہو۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی بیٹھے بیٹھے دل کی حرکت بندہوجاتی ہے اور وہ اُسی وقت مرجاتے ہیں۔ پس ممکن ہے وہ دل کی حرکت بند ہوجانے کی وجہ سے مرا پڑا ہو۔ یا ممکن ہے اسے کسی سانپ نے کاٹا ہو اور وہ مرچکا ہو۔ یا بعض دفعہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہنڈیا رکھنے کے بعد اسے کوئی ضروری کام یاد آگیا ہو اور وہ گھر چھوڑ کر اُس وقت باہر گیا ہوا ہو۔ مثلاً فرض کرو اُس نے ہنڈیا چڑھائی ہو اور اس کے معاً بعد ایک شخص اس کے پاس دَوڑتا ہوا آیا ہو اور اس نے کہا ہو کہ تمہارا بیٹا ڈوب گیا ہے اور وہ اسی وقت اس کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا ہو اَور ہنڈیا اس نے چولہے پر ہی رہنے دی ہو۔ تو چونکہ ایسی کئی صورتیں ممکن ہیں اس لئے باوجود ہنڈیا کی آواز سننے کے اور باوجود آگ کوجلتا دیکھنے کے ہم اگر یہ نتیجہ نکالیں کہ اندر کوئی شخص واقعہ میں موجود ہے تو ہم اس نتیجہ کے نکالنے میں غلطی پر ہوسکتے ہیں۔ مگر جب حالات یہ نہ ہوں بلکہ جونہی ہم کسی کے دروازہ پر پہنچیں گھر کا مالک اندر سے باہر نکل آئے اور ہمیں کہے کہ آپ مسافر ہیں، تھکے ماندے آئے ہیں، تھوڑی دیر میرے پاس آرا م کیجئے۔ تو اس شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہم ’’ہونا چاہئے‘‘ کی حد سے نکل کر ’’ہے‘‘کی حد میں داخل ہوجاتے ہیں۔ تو نبوت اور الہام سے خدا کا وجود ’’ہے‘‘ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے لیکن باقی دلیلوں سے ہم اس کے متعلق صرف ’’ہونا چاہئے‘‘ کی حد تک پہنچتے ہیں۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام بھی اسی مضمون کی تائید کرتا ہے۔ مگریہ خیال بھی مجھے اِسی وقت آیا ہے پہلے نہیں آیا۔
بہرحال رئویا سے بیداری کے بعد مَیں غور کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ اس مضمون پر میں نے اور کیا کیا باتیں بیان کی تھیں مگر مجھے کوئی بات یاد نہ آئی۔لیکن اس رئویا کا اثر میری طبیعت پر گہر ارہا اور کئی دفعہ مجھے یہ خیال آیا کہ وہ کون سی آیات تھیں جو رئویا میں مَیں نے پڑھیں اور جن میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے مگر قرآن کریم کی کوئی آیت میرے ذہن میں نہ آئی۔ اس کے دوسرے یا تیسرے دن یعنی پیر یا منگل کو مجھے اب یہ اچھی طرح یاد نہیں رہا کہ کونسا دن تھا بہرحال ان میں سے کسی دن نماز ظہر یا عصر (یہ بھی مجھے صحیح طور پر یاد نہیں) میں پڑھارہا تھا اور اُس وقت مجھے خواب کا خیال بھی نہیں تھا۔ گویا اُس وقت وہ میرے ذہن سے بالکل اتری ہوئی تھی کہ جب میں نے رکوع کے بعد قیام کیا اور پھر سجدہ میں جانے کیلئے اللّٰہ اکبر کہا تو جس وقت اوپر سے نیچے سجدہ کی طرف جانے لگا تو مَعًا القاء کے طور پر میرے دل پر ایک آیت نازل ہوئی اور مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ آیت ہے جو اس مضمون کی حامل ہے جو خواب میں بتایا گیا ہے۔ اور پھر بجلی کی طرح اس طرح وہ وسیع مضمون میرے سامنے آگیا کہ اس کی وجہ سے نہ صرف وہ آیت بلکہ سورۃ کی سورۃ ہی حل ہوگئی۔ اور اس کی ترتیب جو میں پہلے سمجھتا تھا اس کے علاوہ ایک ایسی ترتیب مجھ پر کھول دی گئی کہ مجھے یوں معلوم ہونے لگا کہ اس سورۃ میں ہر آیت اس طرح پروئی ہوئی ہے جس طرح ہار کے موتی پروئے ہوئے ہوتے ہیں اور کوئی آیت اس سورۃ میں ایسی نہ رہی جس کے متعلق یہ شبہ ہوسکے کہ اس کا پہلی آیتوں یا بعد کی آیتوں سے کیا تعلق ہے۔ وہ سورۃ جس کی طرف میرا ذہن منتقل کیا گیا سورئہ نور ہے اور وہ آیت جس کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ اس میں الوہیت ، نبوت اور خلافت کے تعلقات پر بحث کی گئی ہے اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ہے۔
قرآن کریم کی تفہیم کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ میرے ساتھ کئی دفعہ ہوا ہے کہ ایک سیکنڈ میں بعض دفعہ ایک وسیع مضمون القاء کیا جاتا ہے اور الہام کے طور پر وہ میرے دل پر ایک نکتہ کی شکل میں نازل کیا جاتا ہے۔ پھر وہ نکتہ نازل ہوکر یوں پھیل جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے بیسیوں مطالب میرے دل پر حاوی ہوجاتے ہیں اسی طرح اُس دن میرے ساتھ ہوا۔ پہلے بھی اپنی بعض تقریروں میںمَیں ایسے نکات بیان کرچکا ہوں مثلاً اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ۲؎ کی تفسیر اور اس کے مطالب ایک سیکنڈ کے اندر میرے دل پر نازل ہوئے تھے اور میں نے کسی جلسہ سالانہ کے موقع پر انہیں بیان کردیا تھا۔ اسی طرح اور کئی مواقع پر اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا۔ اُس دن بھی نماز میں معاً مجھے القاء کیا گیا کہ وہ آیت اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ہے اور اس کے ساتھ ایسے عظیم الشان مطالب کھولے گئے جو پہلے میرے وہم اور گمان میں بھی نہیں تھے۔ اگرچہ اس سارے مفہوم کوسمجھنے کیلئے اس ساری سورۃ کو ہی سمجھنا ضروری ہے۔ کیونکہ ساری سورۃ کے مطالب کو آپس میں اس طرح جوڑدیا گیا ہے کہ ایک بات کی تکمیل دوسری بات کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ مگر چونکہ خطبہ میں اتنی لمبی تشریح نہیں کی جاسکتی اس لئے میں صرف اس آیت کو لے لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ یہ مضمون کس عمدگی کے ساتھ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ یَکَادُ زَیْتُھَا یُضِیْ ئُ وَلَوْلَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَائُ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌO فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِO رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃَ وَ اِیْتَائِ الزَّکٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُO لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَ یَزِیْدَھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَائُ بِغَیْرِ حِسَابٍO۳؎ یہ آیتیں سورئہ نور کی ہیں اور مجھے بتایا گیا ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خلافت، نبوت اور اللہ تعالیٰ کا تعلق بیان کیا ہے اور یہ بات میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے قطعی اور یقینی دلائل سے ثابت کروں گا کہ وہ شخص جو قرآن کریم کو بے ترتیب،بے ربط اور بے جوڑ کتاب نہ کہتا ہو، وہ اس بات پرمجبور ہوگا کہ اس مضمون کو مانے جو میں بیان کررہا ہوں۔ کیونکہ اس مضمون سے ان تمام آیات بلکہ تمام سورۃ کا آپس میں ایسا ربط قائم ہوجاتا ہے کہ اس کے بغیر ان آیات کے کوئی معنے ہی نہیں بنتے۔ مگر جیساکہ میں بیان کرچکا ہوں کہ اس مضمون کو خطبہ کی وجہ سے اختصار کے ساتھ بیان کروں گا اور چونکہ اِن دنوں خلافت کا مسئلہ خصوصیت سے زیر بحث ہے، اس لئے ان آیات کی تشریح سے خلافت کا مسئلہ بھی آسانی سے سمجھ میں آجائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ بیان فرماتا ہے کہ اللہ آسمان اور زمین کا نور ہے ۔ مَثَلُ نُوْرِہٖ اور اس کے نورکی مثال کَمِشْکٰوۃٍ ایک طاقچے کی سی ہے۔ مشکوٰہ اُس طاقچے کو کہتے ہیں جو دیوار میں بنا ہوا ہو اور جس کے دوسری طرف سوراخ نہ ہو۔ دیوار میں دو طرح کے طاق بنائے جاتے ہیں۔ ایک کھڑکی کی طرح کا ہوتا ہے یعنی اُس کے آرپار سوراخ ہوتا ہے کیونکہ کھڑکی کی غرض باہر دیکھناہوتی ہے۔ یا مثلاً روشندان رکھنے کیلئے طاقچہ کی طرح خلاء رکھا جاتا ہے۔ اس کے بھی آرپار سوراخ ہوتا ہے کیونکہ روشندان سے یہ غرض ہوتی ہے کہ ہوااور روشنی کی آمدو رفت رہے۔ مگر پُرانی عمارتوں خصوصاً مساجد میں اس قسم کے طاقچے بنائے جایا کرتے تھے جن میں چراغ یا قرآن شریف رکھے جاتے تھے اور جن کے دوسری طرف سوراخ نہیں ہوتا تھا۔ اس مسجد میں بھی بعض طاقچے بنے ہوئے ہیں بعض تو بڑے بڑے ہیں جو قرآن شریف رکھنے کیلئے ہیں اور ایک دو چھوٹے طاقچے ہیں جو لیمپ رکھنے کیلئے بنائے گئے ہیں۔ میں نے شاہی عمارتوں میں بھی دیکھا ہے کہ ان میں چھوٹے چھوٹے طاقچے بنے ہوئے ہیں جو دراصل دیا رکھنے کے لئے بنائے جایا کرتے تھے۔ تو مشکوٰۃ اُس طاقچہ کو کہتے ہیں کہ جس کے دوسری طرف سوراخ نہیں ہوتا اور وہ لیمپ رکھنے کے کام آتا ہے۔ تو فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کے نور کی مثال کیاہے۔ کَمِشْکٰوۃٍ اُس کے نور کی مثال ایک طاقچے کی سی ہے۔ فِیْھَا مِصْبَاحٌ ۔ جس میں ایک بتی رکھی ہوئی ہو۔ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ۔ او روہ بتی ایک شیشہ یا چمنی میں ہو۔ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ اور وہ چمنی یا گلوب ایسے اعلیٰ درجہ کے شیشے کا بنا ہوا ہو اور ایسا روشن ہو کہ گویا وہ ایک ستارہ ہے جو چمک رہا ہے۔ اس کے یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ میں اس کی تفصیل بتائی ہے۔ مگر ابھی میں اس کی تفصیل کی طرف نہیں جاتااور جو مضمون کا اصل حصہ ہے وہ میں بیان کرتا ہوں۔
(اس موقع پر حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا کسی دوست کے پاس ٹارچ ہے مگر ٹارچ نہ ملی۔ اس کے بعد فرمایا)۔
ان آیات میں درحقیقت اللہ تعالیٰ کے نور کو تین چیزوں میں محصور قرار دیا گیا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کمالِ نور ہمیشہ تین ذرائع سے ہوتا ہے۔ ایک مشکوٰۃ سے ایک مصباح سے اور ایک زجاجہ سے۔ یہ مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے دی اور بتایا کہ ہمارا نور جو دنیا میں کامل طور پر ظاہر ہوا اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک طاقچہ میں ایک بتی ہو اور بتی پر گلوب یا چمنی ہو اور وہ گلوب اتنا روشن ہو کہ گویا وہ ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے۔ ہمارے ملک میں چونکہ عام طور پر اس قسم کے لیمپوں کا رواج نہیں اس لئے میں نے چاہا تھا کہ ٹارچ کے ذریعہ آپ لوگوں کو یہ مضمون سمجھائوں کیونکہ ٹارچ میں یہ تینوں چیزیں پائی جاتی ہیں۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ قرآن مجید باوجود یکہ ایسے زمانہ میں نازل ہوا جبکہ سائنس ابھی کمال کو نہیں پہنچی تھی اور ایسے ملک میں نازل ہوا جہاں کے لوگ بدو سمجھے جاتے تھے اور تہذیب و تمدن سے ناآشنا تھے اور ایسے انسان پرنازل ہوا جو اُمّی تھا۔ پھر بھی روشنی کے کمال کو جس عجیب طرز سے ان آیات میں بیان کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بیسویں صدی کا انجینئر روشنی کی حقیقت بیان کررہاہے۔ مشکوٰۃ جس طرح اُس طاقچے کو کہتے ہیں جو دیوار میں بنایا جاتا ہے اور جس کے دوسری طرف سوراخ نہیں ہوتا،اسی طرح مصباح اُس شعلہ کو کہتے ہیں جو بتی میں سے نکلتا ہے یا بلب کی وہ تاریں سمجھ لو جن سے بجلی کی روشنی پید اہوتی ہے بشرطیکہ وہ روشن ہوں۔ مصباح کے معنے دراصل ’’صبح کردینے کا آلہ‘‘ کے ہیں اور اس لحاظ سے وہ ہر چیز جس سے روشنی ہوتی ہو اُسے مصباح کہا جاتا ہے اور وہ چونکہ بتی کا گل ہی ہوتا ہے یا بجلی کی وہ تاریں ہوتی ہیں جو بلب کے اندر ہوتی ہیں اور چمکتی ہیں، اس لئے عربی زبان میں انہیں مصباح کہتے ہیں۔ گویا وہ شعلہ جو آگ لگنے کے بعد بتی میں سے نکلتا ہے یا بجلی کی وہ تار جہاں بجلی پہنچتی ہے تو وہ یکدم روشن ہوجاتا ہے وہ مصباح ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے نور کی مثال ایک طاقچہ کی سی ہے جس میں ایک بتی جل رہی ہو اور پھر وہ بتی ایک زجاجہ میں ہو۔ اب تو قادیان میں بجلی آگئی ہے اور لوگوں کا ایک حصہ بجلی جلاتا ہے۔ لیکن پھر بھی اکثر گھروں میں ابھی بجلی نہیں لگی اور وہ لیمپ جلاتے ہیں اور جن کے ہاں بجلی لگی ہوئی ہے ان کی بجلی کی رَو بھی جس دن فیل ہوجائے اُس دن اُنہیں لیمپ جلانے پڑتے ہیں۔ یا انہیں قادیان سے جب باہر جانا پڑے تو لیمپ دیکھنے اور جلانے کا انہیں اکثر موقع ملتا رہتا ہے۔ بہرحال یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہری کین (HURRICANE LAMP) روشن کرنے کیلئے جب کوئی شخص دیا سلائی جلاتا اوربتی کو لگاتا ہے تو اُس وقت بتی کی روشنی کی کیا حالت ہوتی ہے۔ ایک زرد سا شعلہ بتی میں سے نکل رہا ہوتا ہے اور اُس کا دُھواں اُٹھ اُٹھ کر کمرہ میں پھیل رہا ہوتا ہے۔ نازک مزاج اشخاص کے دماغ میں وہ دُھواں چڑھتا ہے تو انہیں چھینکیں آنے لگ جاتی ہیں، بعض کو نزلہ ہوجاتا ہے۔ لیکن جونہی بتی میں سے دُھواں نکلتا اور کمرے میں پھیلنے لگتا ہے انسان جلدی سے چمنی پر ہاتھ مارتا اور ہری کین کا ہینڈل دبا کر اُسے بتی پر چڑھا دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُسی وقت دُھواں جاتا رہتا ہے ار اس شعلہ کا رنگ ہی بدل جاتا ہے اور اس کی پہلی روشنی سے بعض دفعہ بیس گنے، بعض دفعہ تیس گنے، بعض دفعہ پچاس گنے، بعض دفعہ سو گنے اور بعض دفعہ دو سو گنے تیز روشنی پیدا ہوجاتی ہے اور تمام کمرہ روشن ہوجاتا ہے۔ پھر زائد بات اس چمنی یا گلوب سے یہ پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ بتی بجھتی نہیں۔ تیز بارشوں کے ایام میں رات کے وقت لوگ ہری کین لے کر باہر چلے جاتے ہیں۔ آندھی آرہی ہوتی ہے، طوفان اُٹھ رہا ہوتا ہے، چھتیں ہل رہی ہوتی ہیں، عمارتیں کانپ رہی ہوتی ہیں، پیر لڑکھڑارہے ہوتے ہیں مگر وہ روشنی جو انسان ہاتھ میں اُٹھائے ہوتا ہے نہیں سمجھتی کیونکہ اُس کی چمنی اس کے ماحول کو محفوظ کردیتی ہے۔ تو چمنی نہ صرف اس کی روشنی کو کئی گنا زیادہ کردیتی ہے بلکہ اسے بجھنے سے بھی محفوظ کردیتی ہے۔ مگر بعض لیمپ ہری کین سے بھی زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور جو بڑے بڑے لیمپ کمروں کو روشن کرنے کیلئے جلائے جاتے ہیں اُن کو دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ اُن کی روشنی تیز کرنے کیلئے ان کے پیچھے ایک اس قسم کی چیز لگادی جاتی ہے۔ جو روشنی کو آگے کی طرف پھینکتی ہے۔ پرانے زمانوں میں لوگ اس غرض کیلئے لیمپ کو طاقچہ میں رکھ دیا کرتے تھے اور اِس زمانہ میں اس کی ایک مثال ٹارچ ہے۔ ٹارچ پیچھے سے لمبی چلی آتی ہے اور اس کے آگے اس پر ایک نسبتاً بڑا خول چڑھادیتے ہیں جو بلب کے تین طرف دائرہ شکل میں پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ جس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ روشنی کو آگے کی طرف پھیلا دے ۔ اگر اس خول کو اُتار لیا جائے تو ٹارچ کی روشنی دس پندرہ گز تک رہ جاتی ہے۔ لیکن اس خول کے ساتھ وہی روشنی بعض دفعہ پانچ سَو گز، بعض دفعہ ہزار گز اور بعض دفعہ دو دو ہزار گز تک پھیل جاتی ہے۔یہ روشنی کو دور پھینکنے والا جو خول ہوتا ہے اِسے انگریزی میں رِی فلیکٹر (REFLECTOR) کہتے ہیں۔ اس رِی فلیکٹر کی وجہ سے ٹارچ کی روشنی بعض دفعہ ہزار گز اوربعض دفعہ دو ہزار گز تک چلی جاتی ہے اور بڑی طاقت کے لیمپ تو ری فلیکٹر کی وجہ سے بہت دور دور تک روشنی پہنچا دیتے ہیں۔
ہمارے مینارۃ المسیح پر جب روشنی کرنے کا سوال پیدا ہوا اور اس پر بحث ہوئی کہ لیمپ کیسے لگائے جائیں تو رِی فلیکٹر لگوانے کا سوال زیر بحث آیا اور ماہرین فن نے بتایا کہ پانچ سَوطاقت کی اگر بتی لگائی جائے اور اس پر اعلیٰ درجہ کا رِی فلیکٹر لگا دیا جائے تو اس سے کئی گنے طاقت تک کی روشنی پیدا ہو سکتی ہے۔ مگر چونکہ رِی فلیکٹر بہت گراں آتے تھے، غالباً اسی لئے پھر وہ منگوائے نہیں گئے۔ تو پوری روشنی چمنی کے ذریعہ ہوتی ہے اور پھر اس روشنی کو دور پھینکنے کے لئے اس کے پیچھے ایک ایسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے تین جہت سے روک کر سامنے کی طرف لے جائے۔ اس طرح روشنی مکمل ہو جاتی ہے اور لوگ اس سے پوری طرح فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔ تو اللہ تعالیٰ ان آیات میں یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ تین چیزیں ہیں جن سے نور مکمل ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک تو شُعلہ ہے جو اصل آگ ہے اور جس کے بغیر کوئی نور ہو ہی نہیں سکتا۔ روحانی دنیا میں وہ شعلہ اللہ تعالیٰ کانور ہے اور چمنی جس سے وہ نور روشن ہوتا ہے وہ خداتعالیٰ کے انبیاء ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے دنیا کے ہر ذرّہ سے خدا تعالیٰ کا نور ظاہر ہے مگر وہ نور لوگوں کو نظر نہیںآتا ۔ہاں جب خدا کا نبی آتا اور اسے اپنے ہاتھ میں لے کر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، تب ہر شخص کو وہ نور نظر آنے لگ جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح بتی جب جلائی جائے تو ہوا کا ذرا سا جھونکا بھی اُسے بجھادیتا ہے۔ اس میں سے دُھواں نکل رہا ہوتا ہے مگر جونہی اس پر شیشہ رکھا جاتا ہے اندھیرا سب دورہوجاتا ہے، تاریکی سب مٹ جاتی ہے اور وہی نور آنکھوں کے کام آنے لگ جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اصل چیز شیشہ ہے اصل چیز تو وہ نور ہی ہے جو بتی میں سے نکل رہا ہوتا ہے۔ مگر چونکہ وہ نور دھویں کی شکل میں ضائع ہورہا ہوتا ہے اس لئے لوگ اس سے اس وقت تک فائدہ نہیں اُٹھاسکتے جب تک اُس پر شیشہ نہیں چڑھایا جاتا۔ ہاں جب شیشہ چڑھ جاتا ہے تو وہی نور جو پہلے ضائع ہورہا ہوتا ہے ضائع ہونے سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ پھر چمنی سے مل کر پہلے نور سے بیس گنے ،سَوگنے، دو سَو گنے، ہزار گنے بلکہ دو ہزار گنے زیادہ تیز ہوجاتا ہے۔ یہ شیشے اور گلوب دراصل انبیاء کے وجود ہوتے ہیں جو خدا کے اس نور کو جوقدرت میں ہر جگہ پایا جاتا ہے لیتے ہیں اور اپنے گلوب اور چمنی کے نیچے رکھ کر اس کا ہر حصہ انسانوں کے استعمال کے قابل بنادیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا اس نور کو دیکھنے لگ جاتی ہے اُس کی آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور وہ اس سے فائدہ حاصل کرنے لگ جاتی ہے۔
اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ کے ذکر میں فرماتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے نور کو آگ کی شکل میں دیکھا۔ وہ فرماتے ہیں اِنِّیْ اٰنَسْتُ نَارًا۔۴؎ میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔ اس فقرہ سے صاف ظاہر ہے کہ دوسرے لوگ اس آگ کو نہیں دیکھ رہے تھے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی کے وجود میں ظاہر ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ظہور اس دنیا میں بطور نار کے ہوتا ہے۔ یعنی کوئی تیز نظر والا ہی اسے دیکھتا ہے۔ اس کی روشنی تیز نہیں ہوتی لیکن جب وہ نبی میں ظاہر ہوتا ہے تو پھر وہ نور ہوجاتا ہے یعنی لیمپ کی طرح اس کی روشنی تیز ہوجاتی ہے۔ نبوت میں آکر یہ نور مکمل تو ہوجاتا ہے لیکن اس کا زمانہ پھر بھی محدود رہتا ہے۔ کیونکہ نبی بھی موت کا شکار ہوتے ہیں۔ پس اس روشنی کو دُور تک پہنچانے کیلئے اور زیادہ دیر تک قائم رکھنے کیلئے ضروری تھا کہ کوئی اور تدبیر کی جاتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے ایک رِی فلیکٹر ایجاد کیا جس کا نام خلافت رکھا۔ نبی کی روشنی اس رِی فلیکٹر کے ذریعہ سے دور تک پہنچادی جاتی ہے۔ پُرانے زمانہ کے طریق کے مطابق اس کا نام طاق رکھا گیا۔ جو تین طرف سے روشنی کو روک کر صرف اُس جہت میں ڈالتا ہے جدھر اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح خلیفہ نبی کی قوتِ قدسیہ کو جو اس کی جماعت میں ظاہر ہورہی ہوتی ہے ضائع ہونے سے بچا کر ایک خاص پروگرام کے ماتحت استعمال کرتا ہے اور جماعت کی طاقتیں پراگندہ نہیں ہوتیں اور تھوڑی سی طاقت سے بہت سے کام نکل آتے ہیں کیونکہ طاقت کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوتا۔ اگر خلافت نہ ہوتی تو بعض کاموں پر زیادہ طاقت خرچ ہوجاتی اور بعض کام توجہ کے بغیر رہ جاتے اور تفرقہ اور شِقاق کی وجہ سے کسی نظام کے ماتحت جماعت کا روپیہ اور اس کا علم اوراس کا وقت خرچ نہ ہوتا۔
غرض خلافت کے ذریعہ سے الٰہی نور کو جو نبوت کے ذریعہ سے دنیا کے لحاظ سے مکمل ہوا تھا ممتد اور لمبا کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ محمدی نور رسول کریم ﷺ کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہوگیا۔ بلکہ ابوبکرؓ کی خلافت کے طاقچہ کے ذریعہ اس کی مدت کو تین سال اور بڑھادیا گیا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد وہی نور خلافت عمرؓ کے طاق کے اندر رکھ دیا گیا اور سات سال اس کی مدت کو اور بڑھا دیا گیا۔ پھر وہ نور عثمانی طاقچہ میں رکھ دیا گیا اور تیرہ سال اس کی مدت کو اور بڑھادیا گیا۔ پھر حضرت عثمانؓ کی وفات کے بعد وہی نور علوی طاقچہ میں رکھ دیا گیا اور وہ چھ سال اور اس نور کو لے گیا۔ گویا پچیس تیس سال محمدی نور خلافت کے ذریعہ لمبا ہوگیا۔ جیسے ٹارچوں کے اندر رِی فلیکٹر ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ بلب کی روشنی دور دو رتک پھیل جاتی ہے یا چھوٹے چھوٹے رِی فلیکٹر بعض دفعہ تھوڑا سا خم دے کربنائے جاتے ہیں۔ جیسے دیوارگیروں کے پیچھے ایک ٹین لگا ہو اہوتا ہے جو دیوار گیر ۵؎ کا رِی فلیکٹر کہلاتا ہے اور گو اس کے ذریعہ روشنی اتنی تیز نہیں ہوتی جتنی ٹارچ کے رِی فلیکٹر کے ذریعہ تیز ہوتی ہے مگر پھر بھی دیوار گیر کی روشنی اس رِی فلیکٹر کی وجہ سے پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہے۔ چھ چھ آنے کے جو دیوارگیر آتے ہیں ان کے ساتھ بھی یہ رِی فلیکٹر لگا ہوا ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ دیوار گیر کی روشنی زیادہ دور تک جاتی ہے۔ اسی طرح خلافت وہ رِی فلیکٹر ہے جو نبوت اور الوہیت کے نور کو لمبا کردیتا اور اسے دور دور تک پھیلا دیتا ہے۔ پس مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خلافت، نبوت اور الوہیت کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہمارے نور کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بتی کا شعلہ۔ وہ ایک نور ہے جو دنیا کے ہر ذرّہ سے ظاہر ہورہا ہے مگر جب تک وہ نبوت کے شیشہ میں نہ آئے لوگ اس سے فائدہ نہیں اُٹھاسکتے۔ جیسے نیچر پر غور کرکے اللہ تعالیٰ کی ہستی معلوم کرنے کا شوق رکھنے والے ہمیشہ ٹھوکر کھاتے اور نقصان اُٹھاتے ہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ۶؎ بالکل درست ہے۔ اور زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی آیات پائی جاتی ہیں مگر یہی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یورپ کے فلاسفروں کو دہریہ بنارہی ہے۔ گویا خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں اللہ تعالیٰ کا جو نور ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بتی کا شعلہ۔ یہ شعلہ جب نکلتا ہے تو اس کے ساتھ دُھواں بھی اُٹھتا ہے جو بعض دفعہ نزلہ پیدا کردیتا اور آنکھوں کو خراب کرتا ہے۔ وہ دُھواں تب ہی دور ہوتا ہے جب اس پر چمنی یا گلوب رکھ کر اسے روشنی کی صورت میں تبدیل کردیا جائے ۔ اگر اس کے بغیر کوئی اس شعلہ سے نور کا کام لینا چاہئے تو اسے ضرور کچھ نور ملے گا اور کچھ دُھواں، جو اس کی آنکھوں اور ناک کو تکلیف دے گا۔ چنانچہ اسی وجہ سے جو شخص نیچر پر غور کرکے خداتعالیٰ کو پانا چاہتا ہے تو وہ کوئی ٹھوکریں کھاتا ہے او ربعض دفعہ بجائے خداتعالیٰ کو پانے کے دہریہ ہی ہوجاتا ہے۔ مگر جو شخص خداتعالیٰ کے وجود کو نبوت کی چمنی کی مدد سے دیکھنا چاہتا ہے اس کی آنکھیں اور اس کا ناک دُھویں کے ضرر سے بالکل محفوظ رہتے ہیں اور وہ ایک نہایت لطیف اور خوش کن روشنی پاتا ہے جو سب کثافتوں سے پاک ہوتی ہے۔
غرض کائناتِ عالَم پر غور کرکے خداتعالیٰ کے وجود کو پانے والوں کیلئے خداتعالیٰ نے کچھ ابتلاء رکھے ہیں، کچھ شکوک رکھے ہیں، کچھ شُبہات رکھے ہیں تا وہ مجبور ہوکر نبوت کی چمنی اس نور پر رکھیں۔ چنانچہ جب بھی الٰہی نور پر نبوت کی چمنی رکھی جائے اس نور کی حالت یکدم بدل جاتی ہے او ریا تو وہ بُو دینے والا دُھواں نظر آرہا تھا اور یا یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نور ہی نور ہے اور اس میں دُھویں کا نشان تک نہیں۔ پھر جب اس روشنی کو اُٹھا کر ہم طاقچہ میں رکھ دیتے ہیں تو پہلے سے بہت دور دور اس کی روشنی پھیل جاتی ہے۔
غرض یہ آیت ہے جو مجھے بتائی گئی اور مجھے سمجھایا گیا کہ اس میں الوہیت، نبوت اور خلافت کا جوڑ بتایا گیا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ آخر خلافت بھی تو ختم ہوجاتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خلافت کا ختم ہونا یا نہ ہونا تو انسانوں کے اختیار میں ہے۔ اگر وہ پاک رہیں اور خلافت کی بے قدری نہ کریں تو یہ طاقچہ سینکڑوں ہزاروں سال تک قائم رہ کر ان کی طاقت کو بڑھانے کا موجب ہوسکتا ہے۔ اور اگر وہ خود ہی اس انعام کو ردّ کردیں تو اس کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے۔ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ والی آیت کا مضمون مختصراً بتانے کے بعد مَیں اب یہ بتاتا ہوں کہ کس طرح یہ تمام سورۃ اسی ایک مضمون کے ذکر سے بھری ہوئی ہے اور اس کی کوئی آیت ایسی نہیں جس میں اسی مضمون کے مختلف پہلوئوں کو بیان نہ کیا گیاہو۔
اس سورہ نور کو اللہ تعالیٰ نے بدکاری اور بدکاری کے الزامات لگانے والوں کے ذکر سے شروع کیا ہے اور اس کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام لگا تھا اُس کا ذکر کرتا ہے۔ پھر اور بہت سی باتیں اسی کے ساتھ تعلق رکھنے والی بیان کرتاہے اور مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ انہیں ایسے مواقع پر کن کن باتوں پر عمل کرنا چاہئے۔ پھر وہ ذرائع بیان کرتا ہے جن پر عمل کرنے سے بدکاری دنیا سے مٹ سکتی ہے۔ یہ تمام مضامین اللہ تعالیٰ نے پہلے دوسرے اور تیسرے رکوع میں بیان کئے ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو پہلا رکوع ان آیات سے شروع ہوتا ہے سُوْرَۃٌ اَنْزَلْنٰھَا وَ فَرَضْنٰھَا وَ اَنْزَلْنَا فِیْھَا اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔ اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃً ۷؎ یہ مضمون چلتا چلا جاتا ہے۔ پھر آگے فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوْا بِاَرْبَعَۃٍ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْالَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا وَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ۸؎ زنا کا الزام لگانے والوں کا ذکر اور ان کی سزا کا بیان کیا ہے۔ پھر فرماتا ہے۔ اِلاَّ لَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَ اَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ۹؎ اس کے بعد وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَھُمْ ۱۰؎ میں ان لوگوں کا ذکر کیا جو اپنی بیویوں پر مکاری کا الزام لگاتے ہیں۔ پھر اِنَّ الَّذِیْنَ جَآئُ وْا بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ۱۱؎ کہہ کر مخصوص طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے والوں کاذکر کرتا ہے۔ پھر الزام لگانے کے نقائص بیان اور فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ۔ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ وَاَنَّ اللّٰہَ رَئُ وْ فٌ رَّحِیْمٌ۔۱۲؎ یہاں دو رکوع سورئہ نور کے ختم ہوجاتے ہیں۔ پھر اسی مضمون کو اگلے رکوع میں بھی جاری رکھتا اور فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطٰنِ ۔۱۳؎ پھر اس شبہ کا ازالہ کرتا ہے کہ شاید صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانا کوئی اہمیت رکھتاہے ۔ عام الزام ایسے خطرناک نہیں ہوتے اور فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ ۱۴؎ اس کے بعد چوتھا رکوع شروع ہوتا ہے اور پھر اسی سلسلہ میں مختلف ہدایات دی گئی ہیں کہ ان الزامات کے مراکز کو کس طرح روکنا چاہئے۔ چنانچہ فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْ وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰی اَھْلِھَا۔ ۱۵؎
(اس موقع پر ایک دوست محمد احمد صاحب مالک محمود الیکٹرک سٹور قادیان نے ٹارچ لاکر حضور کی خدمت میں پیش کردی۔ اس پر حضور نے ہاتھ سے بتایاکہ اس ٹارچ کے اندر جو بلب ہے اس کی باریک تاریں مصباح ہیں اور وہ گول شیشہ جس میں بلب رکھا جاتا ہے وہ زجاجہ ہے اور اس کا بیرونی دائرہ طاقچہ یا رِی فلیکٹر ہے جو روشنی کو لمبا کرکے آگے کی طرف پھینکتا ہے۔ گویا تیرہ سَو سال ترقی کرنے کے باوجود سائنس روشنی کے متعلق اُسی مقام پر آکر ٹھہری ہے جو قرآن کریم نے بتایا تھا اُس سے آگے نہیں بڑھی)۔
پھر اسی رکوع میں اللہ تعالیٰ بدی سے محفوظ رہنے کے ذرائع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ۔ ۱۶؎ پھر شادیوں کا ذکر کرتا ہے اور اس پر چوتھا رکوع ختم ہوجاتا ہے۔ گویا پہلے رکوع سے لے کر چوتھے رکوع تک سب میں ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔ کسی جگہ الزام لگانے والوں کے متعلق سزا کا ذکر ہے، کسی جگہ الزامات کی تحقیق کے طریق کا ذکر ہے، کسی جگہ شرعی ثبوت لانے کا ذکر ہے، کسی جگہ ایسے الزامات لگنے کی وجوہ کا ذکر ہے، کسی جگہ اُن دروازوں کا ذکر ہے جن سے گناہ پیدا ہوتا ہے۔ غرض تمام آیتوں میں ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔ مگر اس کے معاً بعد فرماتا ہے اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۱۷؎ اللہ آسمانوں اور زمین کا نورہے۔ اب انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اس کا پہلے رکوعوں سے کیا تعلق ہے؟ ایک ایسا مفسر جو یہ خیال کرتا ہے کہ قرآن کریم میں کوئی ترتیب نہیں وہ بے ربط کلام ہے۔ اس کی آیتیں اسی طرح متفرق مضامین پر مشتمل ہیں جس طرح دانے زمین پر گرائے جائیں تو کوئی کسی جگہ جاپڑتا ہے اورکوئی کسی جگہ، وہ توکہہ دے گا اِس میں کیا حرج ہے۔ پہلے وہ مضمون بیان کیا گیا تھا اور اب یہ مضمون شروع کردیا گیا ہے۔ مگر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے واقف ہے جو جانتا ہے کہ قرآن کریم کاہر لفظ ایک ترتیب رکھتا ہے، وہ یہ دیکھ کر حیران ہوجاتا ہے کہ پہلے تو بدکاری کے الزامات اور ان کو دور کرنے کا ذکر تھا اور اس کے معاً بعد یہ ذکر شروع کردیا گیا ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ان دونوں کا آپس میں جوڑ کیا ہوا۔ پھر انسان اور زیادہ حیران ہوجاتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ پانچویں رکوع میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اور اس سے دو رکوع بعد یعنی ساتویں رکوع میں اللہ تعالیٰ یہ ذکر شروع کردیتا ہے کہ وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ۱۸؎ کہ اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ بجالائے یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ پہلے زنا کے الزامات کا ذکر ہے۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگنے کا بیان ہے۔ پھر ان الزامات کے ازالہ کے طریقوں کا ذکر ہے۔ پھر اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِکا ذکر آگیا۔ اور پھر کہہ دیا کہ میرا یہ وعدہ ہے کہ جو مومن ہوں گے انہیں مَیں اِس اُمت میں اسی طرح خلیفہ بنائوں گا جس طرح پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے دین کو دنیا میں قائم کروں گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دوں گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو شخص ان خلفاء کا منکر ہوگا وہ فاسق ہوگا۔ پس لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پہلے زنا کے الزامات کا ذکر کیا پھر اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کا ذکر کیا اور پھر خلافت کا ذکر کردیا۔ ان تینوں باتوں کا آپس میں جوڑ ہونا چاہئے ورنہ یہ ثابت ہوگا کہ قرآن کریم نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ بے جوڑ باتوں کا مجموعہ ہے اور اس کے مضامین میں ایک عالم اور حکیم والا ربط اور رشتہ نہیں ہے۔ (اس جگہ ضمنی طور پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں دوسروں پر الزام لگانے والوں کا ذکر ہے وہاں الزام لگانے والوں کے متعلق فرمایا ہے کہ وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْالَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَکہ وہ لوگ جو بے گناہ لوگوں پر الزام لگاتے ہیں اور پھر ایک موقع کے چار گواہ نہیں لاتے تو فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً تم ان کو ۸۰کوڑے مارو۔ وَلَا تَقْبَلُوْالَھُمْ شَھَادَۃً اور تم اُن کی موت تک ہمیشہ اُن کو جھوٹا سمجھو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو۔ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ اور یہی وہ لوگ ہیں جو خداتعالیٰ کے نزدیک فاسق ہیں۔ پھر اسی سورۃ میں جہاں خلفاء کا ذکر کیا وہاں بھی یہی الفاظ رکھے اور فرمایا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۱۹؎ کہ جو شخص خلیفہ کا انکار کرے وہ فاسق ہے۔ اب جو زنا کا الزام لگانے والوں کے متعلق خداتعالیٰ نے الفاظ رکھے تھے اور جو نام ان کا تجویز کیا تھا بعینہٖ وہی نام خداتعالیٰ نے خلافت کے منکرین کا رکھا اور قریباً اسی قسم کے الفاظ اس جگہ استعمال کئے۔ وہاں بھی یہ فرمایا تھا کہ جو لوگ بدکاری کا الزام لگاتے اور پھر چار گواہ ایک موقع کے نہیں لاتے انہیں ۸۰ کوڑے مارو، انہیں ساری عمر جھوٹا سمجھو اور سمجھ لو کہ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ یہی لوگ فاسق ہیں۔ اور یہاں بھی یہ فرمایا کہ جو شخص خلفاء کا انکار کرتا ہے، سمجھ لو کہ وہ فاسق ہے۔ تو نام دونوں جگہ ایک ہی رکھتا ہے)۔
اب میں پھر اصلی مضمون کی طرف لوٹتا ہوں جو یہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم کو ایک حکیم کی کتاب سمجھتا ہے اور اس کے اعلیٰ درجہ کے باربط اور ہم رشتہ مضمونوں کے کمالات کے دیکھنے کا جسے ذرا بھی موقع ملاہے، وہ اس موقع پر سخت حیران ہوتا ہے کہ کس طرح پہلے بدکاری اور بدکاری کے جھوٹے الزامات لگانے کا ذکر کیا گیا ہے پھر یکدم اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کہہ دیا گیا۔ اور پھر خلافت کا ذکر شروع کردیا گیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں مضمونوں میں ضرور کوئی اعلیٰ درجہ کا جوڑ اور تعلق ہے۔ اور یہ تینوں مضمون آپس میں مربوط اور ہم رشتہ ہیں۔ اس شکل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مضمون پر غور کرو جو میں نے اوپر بتایا ہے اور جو یہ ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کی آیت میں الوہیت اور نبوت اور خلافت کے تعلق کو بتایا گیا ہے۔ اس مضمون کو ذہن میں رکھ کر آخری دو مضمونوں کا تعلق بِالکل واضح ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ والی آیت میں خلافت کا اصولی ذکر تھا اور بتایا گیا تھا کہ خلافت کا وجود بھی نبوت کی طرح ضروری ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے جلالِ الٰہی کے ظہور کے زمانہ کو ممتد کیا جاتا ہے اور الٰہی نور کو ایک لمبے عرصہ تک دنیا کے فائدہ کیلئے محفوظ کردیا جاتا ہے۔ اس مضمون کے معلوم ہونے پر طبعاً قرآن کریم پڑھنے والوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہونا تھا کہ خدا کرے ایسی نعمت ہم کو بھی ملے۔ سو وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ کی آیات میں اِس خواہش کے پورا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمادیا اور بتایا کہ یہ نعمت تم کو بھی اسی طرح ملے گی جس طرح پہلے انبیاء کی جماعتوں کو ملی تھی۔
غرض میرے بیان کردہ معنوں کے رو سے اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کی آیت اور اس کی متعلقہ آیتوں کا وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْکی آیت اور اس کی متعلقہ آیتوں سے ایک ایسا لطیف اور طبعی جوڑ قائم ہوجاتا ہے جو دل کو لذت اور سرور سے بھر دیتا ہے اور ایمان کی زیادتی کا موجب ہوتا ہے اور قرآنی مطالب کی عظمت کا سکّہ دلوں میں بٹھادیتا ہے۔ لیکن یہ سوال پھر بھی قائم رہتا ہے کہ اس مضمون کا پہلی آیتوں سے کیا تعلق ہوا۔ یعنی سورئہ نور کے پانچویں رکوع کا اِس کے نویں رکوع تک تو خلافت سے جوڑ ہوا لیکن جو پہلے چار رکوع ہیں اور جن میں بدکاری اور بدکاری کے الزامات کا ذکر آتا ہے، اُن کا اِس سے کیا تعلق ہے۔ جب تک یہ جوڑ بھی حل نہ ہو اُس وقت تک قرآن کریم کی ترتیب ثابت نہیں ہوسکتی۔
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ پہلے چار رکوعوں کا باقی پانچ رکوعوں سے جن میں خلافت کا ذکر آتا ہے کیا تعلق ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ پہلے چار رکوعوں میں بدکاری کے الزامات کا ذکر اصل مقصود ہے اور ان میں خصوصاً اس الزام کا ردّ کرنا مقصود ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا تھا۔ اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام لگانے والوں نے الزام لگایا تو اس کی اصل غرض کیا تھی۔ اس کا سبب یہ تونہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی دشمنی تھی۔ ایک گھر میں بیٹھی ہوئی عورت سے جس کا نہ سیاسیات سے تعلق ہو ، نہ قضا سے، نہ عُہدوں اور اموال کی تقسیم سے ، نہ لڑائیوں سے ، نہ مخالف اقوا م پرچڑھائیوں سے ، نہ حکومت سے ،نہ اقتصادیات سے، اس سے کسی نے کیا بُغض رکھنا ہے۔ غرض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے براہِ راست بُغض کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی ۔ پس اس الزام کے بارہ میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ کہ الزام سچا ہو جس امر کو کوئی مومن ایک منٹ کیلئے بھی تسلیم نہیں کر سکتا اور اللہ تعالیٰ نے عرش سے اِس گندے خیال کو ردّ کیا ہے۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت عائشہؓ پر الزام بعض دوسرے وجودوں کو نقصان پہنچانے کے لئے لگایا گیا ہو۔
اب ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کون کون لوگ تھے جن کو بدنام کرنا منافقوں کے لئے یا ان کے سرداروں کے لئے فائدہ بخش ہو سکتا تھا اور کن کن لوگوں سے اس ذریعہ سے منافق اپنی دشمنی نکال سکتے تھے۔ایک ادنیٰ تدبر سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا کر دو شخصوں سے دشمنی نکالی جاسکتی تھی۔ ایک رسول کریم ﷺ سے اور ایک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کیونکہ ایک کی وہ بیوی تھی اور ایک کی بیٹی تھیں۔ یہ دونوں وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی یا اقتصادی لحاظ سے یا دشمنیوں کے لحاظ سے بعض لوگوں کے لئے فائدہ بخش ہو سکتی تھی۔ یا بعض لوگوں کی اغراض ان کو بدنام کرنے کے ساتھ وابستہ تھیں۔ ورنہ خودحضرت عائشہ ؓ کی بدنامی سے کسی شخص کو کوئی دلچسپی نہ ہو سکتی تھی ۔ زیادہ سے زیادہ آپ سے سوتوں کا تعلق ہو سکتا تھااور یہ خیال ہو سکتا تھا کہ شاید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے حضرت عائشہؓ کو رسول کریمﷺ کی نظروں سے گرانے اور اپنی نیک نامی چاہنے کیلئے اس معاملہ میں کوئی حصہ لیا ہو۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے اس معاملہ میں کوئی حصہ نہیں لیا ۔ بلکہ حضرت عائشہؓ کا اپنا بیان ہے کہ رسول کریم ﷺ کی بیویوں میں سے جس بیوی کو میں اپنا رقیب اور مد مقابل خیال کرتی تھی وہ حضرت زینبؓ تھیں ۔ ان کے علاوہ اور کسی بیوی کو میں اپنا رقیب خیال نہیںکرتی تھی۔ مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں زینب ؓ کے اِس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتی کہ جب مجھ پر الزام لگایا گیا تو سب سے زیادہ زور سے اگر کوئی اس الزام کا انکار کیا کرتی تھیں تو وہ حضرت زینبؓ ہی تھیں۔ پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اگر کسی کو دشمنی ہو سکتی تھی تو وہ ان کی سوتوں کوہی ہو سکتی تھی ۔ اور وہ اگر چاہتیں تو اِس میںحصہ لے سکتی تھیں تا حضرت عائشہؓ رسول کریم ﷺ کی نگاہ سے گر جائیں اور ان کی عزت بڑھ جائے ۔ مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس معاملہ میں دخل ہی نہیں دیا ۔اور اگر کسی سے پوچھا گیا تو اُس نے حضرت عائشہؓ کی تعریف ہی کی۔ چنانچہ ایک اور بیوی کے متعلق ذکر آتاہے کہ جب رسول کریمﷺ نے اُن سے اِس معاملہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے تو سوائے خیر کے عائشہ میں کوئی چیز نہیںدیکھی ۔ ۲۰؎
تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنی دشمنی نکالنے کا امکان اگر کسی کی طرف سے ہو سکتا تھا توان کی سوتوں کی طرف سے مگر ان کا اس معاملہ میں کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا۔ اسی طرح مردوں کی عورتوںسے دشمنی کی کوئی وجہ نہیںہوتی ۔ پس آپ پر الزام یا رسول کریمﷺ سے بغض کی وجہ سے لگایا گیا یا حضرت ابوبکرؓ سے بُغض کی وجہ سے ایسا کیا گیا۔ رسول کریمﷺ کو جو مقام حاصل تھا وہ تو الزام لگانے والے کسی طرح چھین نہیں سکتے تھے ۔ انہیں جس بات کا خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ رسول کریمﷺ کے بعد بھی وہ اپنی اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں اور وہ دیکھ رہے تھے کہ آپ کے بعد خلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابو بکر ہی ہے۔ پس اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے انہوں نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگادیا تا حضرت عائشہؓ رسول کریم ﷺ کی نگاہ سے گر جائیں اور ان کے گر جانے کی وجہ سے حضرت ابو بکرؓکو مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے اور مسلمان آپ سے بد ظن ہو کر اس عقیدت کو ترک کردیں جو انہیں آپ سے تھی۔ اور اس طرح رسول کریمﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے خلیفہ ہونے کا دروازہ بالکل بند ہو جائے۔ جس طرح حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میں پیغامیوں کا گروہ مجھ پر اعترض کرتا رہتاتھا اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا ۔ پس یہی وجہ تھی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگنے کے واقعہ کے بعد خلافت کا بھی ذکر کیا ۔
حدیثوں میں صریح طور پر آتا ہے کہ صحابہ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریمﷺ کے بعد اگر کسی کا مقام ہے تو وہ ابو بکرؓ کا ہی مقام ہے۔ ۲۱؎ پھر حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریمﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ آپ میری فلاں حاجت پوری کردیں۔ آپ نے فرمایا اِس وقت نہیں پھر آنا ۔ وہ بدوی تھا اور تہذیب اور شائستگی کے اصول سے ناواقف تھااُس نے کہا آخر آپ انسان ہیںاگر میں پھر آئوں اور آپ اُس وقت فوت ہو چکے ہوں تو میں کیا کروں؟ آپؐ نے فرمایا اگر میں دنیا میں نہ ہوا تو ابوبکر کے پاس چلے جانا وہ تمہاری حاجت پوری کر دے گا۔ ۲۲؎ اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اے عائشہؓ! میں چاہتا تھاکہ ابوبکرؓ کو اپنے بعد نامزد کر دوں مگر میں جانتا ہوں کہ اللہ اور مومن اس کے سِوا اور کسی پر راضی نہ ہونگے۲۳؎ اس لئے میں کچھ نہیں کہتا۔ غرض صحابہ یہ قدرتی طور پر سمجھتے ہیں کہ رسول کریم کے بعد ان میں سے اگر کسی کا درجہ ہے تو ابوبکر کا اور وہی آپ کا خلیفہ بننے کے اہل ہیں۔مکی زندگی تو ایسی تھی کہ اس میں حکومت اور اس کے انتظام کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا۔ لیکن مدینہ میں رسول کریم ﷺ کے تشریف لانے کے بعد حکومت قائم ہو گئی۔ اور طبعاً منافقوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہونے لگاکیونکہ آپ کی مدینہ میں تشریف لانے کی وجہ سے ان کی کئی امیدیں باطل ہو گئیں تھیں۔ چنانچہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ مدینہ میں عربوں کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج۔ اور یہ ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے اور قتل اور خونریزی کا بازار گرم رہتا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اس لڑائی کے نتیجہ میںہمارے قبائل کا رُعب مٹتا جارہاہے تو انہوں نے آپس میں صلح کی تجویز کی اور قرار پایا کہ ہم ایک دوسرے سے اتحاد کرلیںاور کسی ایک شخص کو اپنا بادشاہ بنا لیںچنانچہ اوس اور خزرج نے آپس میں صلح کر لی اورفیصلہ ہوا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کو مدینہ کا بادشاہ بنا دیا جائے۔ اس فیصلہ کے بعد انہوں نے تیاری بھی شروع کر دی اور عبداللہ بن ابی بن سلول کے لئے تاج بننے کا حکم بھی دے دیا گیا۔ اتنے میں مدینہ کے کچھ حاجی مکہ سے واپس آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ آخری زمانہ کا نبی مدینہ میں ظاہر ہو گیا ہے اور ہم اس کی بیعت کر آئے ہیں۔ اس پر رسول کریمﷺ کے دعویٰ کے متعلق چہ میگوئیاں شرو ع ہو گئیں۔ اور چند دنوں کے بعد بعض اور لوگوں نے بھی مکہ جا کر رسول کریم ﷺ کی بیعت کر لی۔ پھر انہوں نے رسول کریم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ہماری تربیت اور تبلیغ کے لئے کوئی معلّم ہمارے ساتھ بھیجیں۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ نے ایک صحابی کو مبلّغ بنا کر بھیجا اور مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے۔ انہی دنوں میں چونکہ مکہ میں رسول کریمﷺ اور آپ کے صحابہ کو بہت سی تکالیف پہنچائیں جا رہی تھیں اِس لئے اہل مدینہ نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مدینہ میں تشریف لے آئیں۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ بہت سے صحابہ سمیت مدینہ ہجرت کر کے آگئے۔ اور عبداللہ بن ابی بن سلول کے لئے جو تاج تیار کروایا جارہا تھا وہ دھرا کا دھرا رہ گیاکیونکہ جب انہیں دونوں جہانوں کا بادشاہ مل گیاتو انہیں کسی اور بادشاہ کی کیا ضرورت تھی۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ دیکھا کہ اُس کی بادشاہت کے تمام امکانات جاتے رہے ہیںتو اسے سخت غصہ آیا۔ اور گو وہ بظاہر مسلمانوں میں مل گیا مگر ہمیشہ اسلام رخنے ڈالتا رہتا تھا۔ اور چونکہ اب وہ اور کچھ نہیںکر سکتا تھا اس لئے اُس کے دل میں اگر کوئی خواہش پیداہو سکتی تھی تو یہی کہ محمد ﷺ فوت ہوں تو مَیں مدینہ کا بادشاہ بنوں لیکن مسلمانوںمیںجونہی بادشاہت قائم ہوئی اور ایک نیا نظام انہوں نے دیکھا تو انہوں نے رسول کریم ﷺ سے مختلف سوالات کرنے شروع کر دیئے کہ اسلامی حکومت کا کیا طریق ہے۔ آپ کے بعد اسلام کا کیا حال ہوگا اور اس بارہ میں مسلمانوں کوکیا کرنا چاہئے۔ عبداللہ بن ابی بن سلول نے جب یہ حالت دیکھی تو اسے خوف پیدا ہونے لگا کہ اب اسلام کی حکومت ایسے رنگ میں قائم ہوگی کہ اس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا وہ ان حالات کو روکنا چاہتا تھا اور اس کیلئے جب اس نے غور کیا تو اسے نظر آیا کہ اگر اسلامی حکومت کو اسلامی اصول پر کوئی شخص قائم کرسکتا ہے تو وہ ابوبکر ہے اور رسول کریم ﷺ کے بعد مسلمانوں کی نظر اسی کی طرف اُٹھتی ہے اور وہ اسے سب دوسروں سے معزز سمجھتے ہیں۔ پس اُس نے اپنی خیر اِسی میں دیکھی کہ ان کو بدنام کردیا جائے اور لوگوں کی نظروں سے گرادیا جائے بلکہ خود رسول کریم ﷺ کی نگاہ سے بھی گرادیاجائے۔ اور اس بدنیتی کے پورا کرنے کا موقع اسے حضرت عائشہؓ کے ایک جنگ میں پیچھے رہ جانے کے واقعہ سے مل گیا اور اس خبیث نے آپ پر گندہ الزام لگادیا جو قرآن کریم میں اشارۃً بیان کیا گیا ہے اور حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہے۔ عبداللہ بن ابی بن سلول کی اِس میں یہ غرض تھی کہ اس طرح حضرت ابوبکرؓ ان لوگوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہوجائیں گے اور آپ کے تعلقات رسول کریم ﷺ سے بھی خراب ہوجائیں گے اور اس نظام کے قائم ہونے میں رخنہ پڑ جائے گا جس کا قائم ہونا اسے لابدی نظر آتا تھا اور جس کے قائم ہونے سے اس کی امیدیں تباہ ہوجاتی تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکومت کے خواب صرف عبداللہ بن ابی بن سلول ہی نہیں دیکھ رہا تھا اَور بعض لوگ بھی اس مرض میں مبتلا تھے۔ چنانچہ مسیلمہ کذاب کی نسبت بھی حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کے پاس آیااور آپ سے عرض کی کہ میرے ساتھ ایک لاکھ سپاہی ہیں مَیں چاہتا ہوں کہ اپنی تمام جماعت کے ساتھ آپ کی بیعت کرلوں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اسلام میں چھوٹے اوربڑے کی کوئی تمیز نہیں اگر تم پر حق کھل گیا ہے تو تم بیعت کرلو۔ وہ کہنے لگا میں بیعت کرنے کیلئے تیار تو ہوں مگر میری ایک شرط ہے۔ آپ نے فرمایا وہ کیا؟ وہ کہنے لگا میری شرط یہ ہے کہ آپ تو خیر اَب عرب کے بادشاہ بن ہی گئے ہیں لیکن چونکہ میری قوم عرب کی سب سے زیادہ زبردست قوم ہے پس میں اِس شرط پر آپ کی بیعت کرتا ہوں کہ آپ کے بعد میں عرب کا بادشاہ ہوں گا۔ آپ نے فرمایا میں کوئی وعدہ نہیں کرتا۔ یہ خدا کا انعام ہے وہ جسے چاہے گا دے گا۔۲۴؎ اس پر وہ ناراض ہوکر چلا گیا اور اپنی تمام قوم سمیت مخالفت پر آمادہ ہوگیا۔
تو مسیلمہ کذاب نے رسول کریم ﷺ کے بعد بادشاہت ملنے کی آرزو کی تھی، زندگی میں نہیں۔ یہی حال عبداللہ بن ابی بن سلول کا تھا۔ چونکہ منافق اپنی موت کو ہمیشہ دور سمجھتا ہے اور وہ دوسروں کی موت کے متعلق اندازے لگاتا رہتا ہے اس لئے عبداللہ بن ابی بن سلول بھی اپنی موت کو دور سمجھتا تھا۔ اور وہ نہیں جانتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے گا۔ وہ یہ قیاس آرائیاں کرتا رہتا تھا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہوں تو مَیں عرب کا بادشاہ بنوں گا۔ لیکن اب اس نے دیکھا کہ ابوبکرؓ کی نیکی اور تقویٰ اور بڑائی مسلمانوں میں تسلیم کی جاتی ہے۔ جب رسول کریم ﷺ نماز پڑھانے تشریف نہیںلاتے تو ابوبکرؓ آپ کی جگہ نماز پڑھاتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ سے کوئی فتویٰ پوچھنے کا موقع نہیں ملتا تو مسلمان ابوبکرؓ سے فتویٰ پوچھتے ہیں۔ یہ دیکھ کر عبداللہ بن ابی بن سلول کو جو آئندہ کی بادشاہت ملنے کی امید لگائے بیٹھا تھا سخت فکر لگا اور اُس نے چاہا کہ اِس کا ازالہ کرے۔ چنانچہ اِسی امرکا ازالہ کرنے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شہرت اور آپ کی عظمت کو مسلمانوں کی نگاہوں سے گرانے کیلئے اس نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگادیا تا حضرت عائشہؓ پر الزام لگنے کی وجہ سے رسول کریم ﷺ کو حضرت عائشہؓ سے نفرت پیدا ہو اور حضرت عائشہؓ سے رسول کریم ﷺ کی نفرت کا یہ نتیجہ نکلے کہ ابوبکرؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی نگاہوں میں جو اعزاز حاصل ہے وہ کم ہوجائے اور ان کے آئندہ خلیفہ بننے کا کوئی امکان نہ رہے۔ چنانچہ اسی امر کا اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ذکر کرتا اور فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ جَآئُ وْا بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگایا وہ تم لوگوں میں سے ہی مسلمان کہلانے والا ایک جتھہ ہے مگر فرماتا ہے لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ۲۵؎ تم یہ خیال نہ کرو کہ یہ الزام کوئی بُرا نتیجہ پیدا کرے گا بلکہ یہ الزام بھی تمہاری بہتری اور ترقی کا موجب ہوجائے گا چنانچہ لو اب ہم خلافت کے متعلق اصول بھی بیان کردیتے ہیں اور تم کو یہ بھی بتادیتے ہیں کہ یہ منافق زور مار کر دیکھ لیں یہ ناکام رہیں گے اور ہم خلافت کو قائم کرکے چھوڑیں گے۔ کیونکہ خلافت، نبوت کا ایک جزو ہے اور الٰہی نور کے محفوظ رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ پھر فرماتا ہے لِکُلِّ امْرِی ئٍ مِّنْھُمْ مَّااکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ۔ ۲۶؎ ان الزام لگانے والوں میں سے جیسی جیسی کسی نے کمائی کی ہے ویسا ہی عذاب اسے مل جائے گا۔ چنانچہ جو لوگ الزام لگانے کی سازش میں شامل تھے انہیں اسّی اسّی کوڑے لگائے گئے۔ پھر فرمایا وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ مِنْھُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۲۷؎ مگر ان میں سے ایک شخص جو سب سے بڑا شرارتی ہے اور جو اِس تمام فتنہ کا بانی ہے اسے ہم کوڑے نہیں لگوائیں گے بلکہ اس کو عذاب ہم خود دیں گے۔ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ وہ شخص جس نے اصل میں بات بنائی ہے (یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول) وہ عام عذاب کا مستحق نہیں خاص اور بڑے عذاب کامستحق ہے، جو عذاب ہم ہی دے سکتے ہیں۔ چنانچہ اس حکم کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے عذاب مل گیا اور رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ہی وہ ہلاک ہوگیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے بعد خلیفہ ہوگئے۔ اس الزام کا ذکر کرنے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کی اِس شرارت کو بیان کرنے کے بعد کہ اس نے خلافت میں رخنہ اندازی کرنے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگایا، اللہ تعالیٰ معاً فرماتا ہے اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثـَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّکہ اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کا نور ہے مگر اُس کے نور کو مکمل کرنے کا ذریعہ نبوت اور اس کے بعد اس کے دنیا میں پھیلانے اور اسے زیادہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ خلافت ہی ہے۔ پس ان منافقوں کی تدبیروں کی وجہ سے ہم اس عظیم الشان ذریعہ کو تباہ نہیں ہونے دیں گے۔ بلکہ اپنے نور کے دنیا میں دیر تک قائم رکھنے کیلئے اس سامان کومہیا کریں گے۔
اس بات کا مزید ثبوت کہ اس آیت میں جس نور کا ذکر ہے وہ نورِ خلافت ہی ہے،اس سے اگلی آیتوں میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ اِس سوال کا جواب دیتا ہے کہ یہ نور کہاں ہے۔ فرماتا ہے فِیْ بُیُوْتٍ یہ نورِ خلافت چند گھروں میں پایاجاتا ہے۔ نورِ نبوت تو صرف ایک گھر میں ہے مگر نورِ خلافت ایک گھر میں نہیں بلکہ فِیْ بُیُوْتٍ چند گھروں میں ہے۔ پھر فرماتا ہے اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وہ گھر ابھی چھوٹے سمجھتے جاتے ہیں مگر خدا نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ وہ ان گھروں کو اونچا کرے۔ کیونکہ نبوت کے بعد خلافت اس خاندان کو بھی اونچا کردیتی ہے جس میں سے کوئی شخص منصبِ خلافت حاصل کرتا ہے۔
اس آیت نے یہ بتادیا کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کا مقصد نور خلافت کو بیان کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ نورِ خلافت، نورِ نبوت اور نورِ الوہیت کے ساتھ کُلّی طور پر وابستہ ہے اور اس کو مٹانا دوسرے دونوں نوروں کو مٹانا ہے۔ پس ہم اسے مٹنے نہ دیں گے اور اس نور کو ہم کئی گھروں کے ذریعہ ظاہر کریں گے تا نورِ نبوت کا زمانہ اور اس کے ذریعہ سے نورِ الٰہیہ کے ظہور کا زمانہ لمبا ہوجائے۔ چنانچہ خلافت پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئی۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئی اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئی۔ کیونکہ خدا نے یہ فیصلہ کردیا تھاکہ ان بیوت کو اونچا کرے۔ تُرْفَعَ کے لفظ نے یہ بھی بتادیا کہ الزام لگانے والوں کی اصل غرض یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو نیچا کریں اور انہیں لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کریں۔ مگر خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ان کو اونچا کرے اور جب خدا انہیں عزت دینا چاہتا ہے تو پھر کسی کے الزام لگانے سے کیا بنتا ہے۔
اب دیکھو سورئہ نور کے شروع سے لے کر اس کے آخر تک کس طرح ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے پہلے اس الزام کا ذکر کیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا تھا اور چونکہ حضرت عائشہؓ پر الزام لگانے کی اصل غرض یہ تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ذلیل کیا جائے اور رسول کریم ﷺ سے ان کے جو تعلقات ہیں وہ بگڑ جائیں اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی نگاہ میںبھی ان کی عزت کم ہوجائے اور رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد وہ خلیفہ نہ ہوسکیں۔ کیونکہ عبداللہ بن ابی بن سلول یہ بھانپ گیا تھا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد مسلمانوں کی نگاہ اگر کسی پر اُٹھنی ہے تو وہ ابوبکرؓ ہی ہے اور اگر ابوبکرؓ کے ذریعہ خلافت قائم ہوگئی تو عبداللہ بن ابی بن سلول کی بادشاہی کے خواب کبھی پورے نہ ہوں گے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس الزام کے ذکر کے معاً بعد خلافت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ خلافت بادشاہت نہیں ہے۔وہ تو نورِ الٰہی کے قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس لئے اس کا قیام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ اس کا ضائع ہونا تو نورِنبوت اور نورِ الوہیت کا ضائع ہونا ہے۔ پس وہ اس نور کو ضرور قائم کرے گا اور نبوت کے بعد بادشاہت ہرگز قائم نہیں ہونے دے گا اور جسے چاہے گا خلیفہ بنائے گا بلکہ وہ وعدہ کرتا ہے کہ مسلمانوں سے ایک نہیں متعدد لوگوں کو خلافت پر قائم کرکے نور کے زمانہ کو لمبا کردے گا۔یہ مضمون ایسا ہی ہے جیسے کہ حضرت خلیفہ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں کہ جس کا جی چاہے پی لے۔ اسی طرح فرمایا تم اگر الزام لگانا چاہتے ہو تو بے شک لگائو نہ تم خلافت کومٹاسکتے ہو نہ ابوبکرؓ کو خلافت سے محروم کرسکتے ہو۔ کیونکہ خلافت ایک نور ہے وہ نور اللہ کے ظہور کا ایک ذریعہ ہے اس کو انسان اپنی تدبیروں سے کہاں مٹاسکتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اسی طرح خلافت کا یہ نور چند اور گھروں میں بھی پایا جاتا ہے اور کوئی انسان اپنی کوششوں اور اپنے مکروں سے اس نور کے ظہور کو روک نہیں سکتا۔ اب دیکھو اس تشریح کے ساتھ سورئہ نور کی تمام آیتوں کا آپس میں کس طرح ربط قائم ہوجاتا ہے اور کس طرح پہلے چار رکوعوں کے مضمون کا اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اور اس کے مَابَعْد کی آیتوں کے ساتھ ربط قائم ہوجاتا ہے اور ساری سورۃ کے مطالب آئینہ کی طرح سامنے آجاتے ہیں۔
پس خلافت ایک الٰہی سنت ہے کوئی نہیں جو اِس میں روک بن سکے۔ وہ خداتعالیٰ کے نور کے قیام کا ذریعہ ہے جو اِس کو مٹانا چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو مٹانا چاہتا ہے۔ ہاں وہ ایک وعدہ ہے جو پورا تو ضرور کیا جاتا ہے لیکن اس کے زمانہ کی لمبائی مومنوں کے اخلاص سے وابستہ ہے۔ فرماتا ہے وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ۲۸؎
(الفضل ۲۴ ؍ ستمبر ۱۹۳۷ئ)
۱؎ تذکرہ صفحہ ۵۸۸۔ ایڈیشن چہارم
۲؎ الم نشرح: ۲ ۳؎ النور: ۳۶ تا ۳۹ ۴؎ طٰہٰ: ۱۱
۵؎ دیوار گیر: دیوار میں لگانے کا لیمپ
۶؎ آل عمران: ۱۹۱ ۷؎ النور: ۲،۳ ۸؎ النور: ۵
۹؎ النور: ۶ ۱۰؎ النور: ۷ ۱۱؎ النور: ۱۲
۱۲؎ النور: ۲۰،۲۱ ۱۳؎ النور: ۲۲ ۱۴؎ النور: ۲۴
۱۵؎ النور: ۲۸ ۱۶؎ النور: ۳۱ ۱۷؎ النور: ۳۶
۱۸،۱۹؎ النور: ۵۶
۲۰؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ النور باب لولا اذ سمعتموہ (الخ)
۲۱؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ ۔ باب فضل ابی بکر بعد النبیﷺ
۲۲؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قول النبیﷺ لوکنت متخذا خلیلا
۲۳؎ بخاری کتاب الاحکام باب الاستخلاف
۲۴؎ بخاری کتاب المغازی باب وفد بنی حنیفۃ (الخ)
۲۵تا۲۷؎ النور: ۱۲ ۲۸؎ النور: ۵۶

۳۱
قربانی پیش کرنے کیلئے مشق ضروری ہے
(فرمودہ ۲۴ ؍ ستمبر ۱۹۳۷ء )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
جب بڑا کام کسی قوم کے سپرد کیاجاتا ہے اسی کے مطابق اس کو کام کیلئے قربانیاں کرنی پڑتی ہیں۔ بعض کاموں کی مشق خاص قربانیوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ جب تک اس قسم کی قربانیاں نہ کی جائیں وہ مشق نہیں ہوتی اور جو لوگ یہ خیال کرلیتے ہیں کہ بغیر اس مشق کے جو اس کام کیلئے ضروری ہے وہ اس کام کے اہل ثابت ہوجائیں گے وہ قطعی طور پر ناواقف اور جاہل ہوتے ہیں۔ جب تک اس قسم کی قربانیوں میں سے نہ گزرا جائے اُس وقت تک ان کے کاموں کا بجالانا جن کیلئے ایک خاص قسم کی قربانیاں اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں ناممکن اور بالکل ناممکن ہے۔ ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے زمانے میں پیدا کیا ہے جبکہ زمانہ ظاہری طور پرپُرامن ہے۔ میں نے ظاہری طور پر پُر امن کے الفاظ اس لئے استعمال کئے ہیں کہ بِالعموم اس زمانہ میں عَلَی الْاِعْلَان لڑائیاں نہیں کی جاتیں۔ تلوار اور بندوق لے کر ایک ملک دوسرے ملک پر اور قومیں قوموں پر اور گھرانے گھرانوں پر حملہ نہیں کرتے، ورنہ ظلم اب بھی ہوتے ہیں، قتل اور خونریزیاں اب بھی ہوتی ہیں مگر ایک حد تک قانون ان کے رستہ میں روک بنا رہتا ہے۔ گو بعض جگہ قانون بھی ناکام رہتا ہے۔ کسی جگہ ایسا افسر آجاتا ہے جسے ظالموں سے ہمدردی ہوتی ہے اور وہ درگرز سے کام لیتا ہے۔ کبھی کسی جگہ پولیس مقدمات کو خراب کردیتی ہے گواہوں کو ڈرا دیتی ہے، بدلوادیتی ہے،بھگادیتی ہے، مگر یہ کوئی عام قانون نہیں۔ عام طور پر حکام لڑائیوں، خونریزیوں اور قتلوں کے واقعات میں بے تعلق ہی رہتے ہیں۔ اس لئے ہم اسے پُرامن زمانہ کہتے ہیں۔ اور فساد کا زمانہ وہ ہوتا ہے جب کوئی حکومت امن قائم کرنے والی نہ ہو، کوئی قانون نہ ہو،جس کی مرضی ہو تلوار اُٹھا کر دوسرے کو قتل کردے اور کوئی جھوٹے منہ بھی نہ پوچھے کہ تم نے ایساکیوں کیا جیسے مکہ میں تھا۔ یہاں جب پولیس کسی کی رعایت بھی کرتی ہے تو کم سے کم بے تعلقی کا مظاہرہ ضرور کرتی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ مقدمہ کو کامیاب نہ ہونے دے۔ جیسے آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی احمدی پر ظلم یا تعدی کرنے کا کوئی مقدمہ ہو تو اکثر مجرم بری ہوجاتے ہیں۔ کبھی مجسٹریٹ کہتا ہے کہ پولیس کی غلطی تھی اور کبھی پولیس کہتی ہے کہ مجسٹریٹ نے غلطی کی مگر انصاف کرنے کی ایک نمائش ضرور ہوتی ہے۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ اس سے بھی ظالم اور شریر کو ڈر اور خوف ضرور لگا رہتاہے۔ وہ سمجھتا ہے ممکن ہے مجسٹریٹ کے سامنے سچائی کُھل جائے۔ ممکن ہے اس دفعہ رعایت نہ کی جائے،ممکن ہے پولیس کے بالا افسر ہی توجہ کریں۔ اس لئے اسے ایک خوف ضرور لگا رہتا ہے۔ مگر جہاں یہ نمائش بھی نہ ہو وہاں کوئی خوف نہیں ہوتا لوگ عَلَی الْاِعْلَان اور دھڑلے سے ایسے کام کرتے ہیں اور کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ پھر جہاں نمائش ہو شریر کو یہ بھی خوف ہوتا ہے کہ زمانہ کے دَور بدلتے رہتے ہیں مثلاً ہمارے ہی متعلق دیکھ لو۔ بے شک اس وقت احرار اور دوسرے معاندوں کو حکومت کے بعض افسروں کی نگاہ میں وقار حاصل ہے اور وہ افسر تعصّب کی وجہ سے ہر احمدی کی روایت کو جھوٹا سمجھتے یا کم سے کم اسے جھوٹا قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، مگر کبھی اچھے افسروں کی کثرت آجاتی ہے جو انصاف کرتے ہیں۔ بِالعموم جہاں پولیس اور دوسرے افسروں کو کوئی خاص تعلق نہ ہو کوشش یہی کی جاتی ہے کہ انصاف ہو۔ اس لئے ایسے واقعات کثرت اور تواتر سے نہیں ہوتے اور اس وجہ سے ہم اس زمانہ کو پُرامن زمانہ کہتے ہیں۔ مگر جہاں نہ کوئی حکومت ہو، نہ قانون ہو، نہ پولیس ہو، کوئی قیامِ امن کی کوشش کرنے والا نہ ہو، اسے فساد کا علاقہ کہاجائے گا۔ اور ایسے علاقے جہاں کوئی حکومت نہ ہو یا جب کسی علاقہ کی حکومت کسی جماعت کو اپنی رعایا ہونے کے حقوق سے عملاً یا قانوناً محروم قرار دے دے وہاں قتل، خونریزیاں، فساد اور جنگیں بکثرت ہوتی ہیں اور لوگوں کو اِس قسم کی خونریزیوں کی برداشت کی عادت ہوجاتی ہے۔ لیکن جہاں ایسے واقعات بکثرت نہ ہوں وہاں ایسے واقعات پر لوگوں پر بڑی ہیبت طاری ہوجاتی ہے اور قربانی کرنے سے لوگ ڈرتے ہیں۔
وسطی صدیوں میں یورپ میں مذہب کی خاطر بڑے قتل ہوتے تھے اور حکومتیں اس میں لذت حاصل کیا کرتی تھیں۔ اگر کیتھولک خیالات کے لوگوں کی حکومت ہوتی تو پروٹسٹنٹوں کو قتل کردیاجاتا تھا اور پروٹسٹنٹوں کی حکومت ہوتی تو وہ کیتھولک فرقہ کے لوگ قتل کراتے تھے اور بعض جگہ ایک ایک دن میں چار چار پانچ پانچ سَو بلکہ ایک ایک ہزار تک لوگ قتل کردیئے جاتے تھے۔ آگ جلا کر مائوں، بہنوں، بیویوں اور بچوں کو زندہ اس میں ڈال دیاجاتا تھا اورلوگ سامنے کھڑے ہنستے رہتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ کوئی خاص بات ہی نہ تھی۔ اسی طرح مرنے والے بھی اس کی کوئی حقیقت نہ سمجھتے تھے۔ کیونکہ ان کے سامنے روزانہ یہی کام ہوتا تھا۔ جس فرقہ کو غلبہ حاصل ہوجاتا وہ دوسرے سے ایسا سلوک کرتا تھا۔ اور لوگوں کی ذہنیت ایسی ہوگئی تھی کہ جہاں قتل نہ ہوں لوگ شور مچادیتے تھے کہ آج حکومت نے کوئی تماشہ نہیں دکھایا۔
آجکل سپین میں یہی حالت ہے۔ دو مختلف خیالات کے لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ وہاں کے حالات کے متعلق مجھے ایک رپورٹ ملی تھی کہ ایک دن میڈرڈ میں صرف پچاس آدمی قتل ہوئے تو عورتوں نے شور مچادیا کہ حکومت نے پبلک کی خیرخواہی کا آج کوئی کام نہیں کیا۔ کیونکہ جہاں روزانہ دوتین سَو قتل ہوتے تھے آج صرف پچاس ہوئے ہیں اور ایسے قتل کے جوازکیلئے کسی تحقیقات کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی ۔ کسی مشتبہہ آدمی سے بات کرتا دیکھا گیا یا کوئی مشتبہہ خط اس سے پکڑا گیا، اسی بات پر نہایت ظالمانہ طریق پر لوگوں کو قتل کردیا جاتاہے۔ لِٹا کر آنکھیں نکال دی جاتی ہیں، مختلف اعضاء کاٹ دیئے جاتے ہیں اور پھر ایسا کرنے والے ایسے ظالمانہ افعال پر خوش ہوتے ہیں اور قتل ہونے والے بھی خوش ہی ہوتے ہیں کیونکہ قتلوں کی عام مصیبت اور فتنہ کی وجہ سے عادت ہوجاتی ہے۔ وہ لوگ زندگی کی قدر ہی نہیں جانتے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر آج بچ گئے تو کل مارے جائیں گے۔ ان کا نقطۂ نگاہ ہی بدل جاتا ہے اور یہ لوگ ایسے ایسے سخت کام کرلیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اور یہ عادت کی بات ہے۔
ایک دوست نے ایک اَور دوست کی نسبت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی تھے سنایا کہ ان کے والد نے جو مظفرگڑھ کے علاقہ کے راجہ تھے، دربارِ کشمیر کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ اُس زمانہ میں انگریز نئے نئے آئے تھے اور سکھوں کا عہدِ حکومت قریب زمانہ میں ختم ہوا تھا اورابھی حکومت کاپورا تصرف راجوں مہاراجوں پر نہ ہوا تھا، وہ خود بھی جنگیں کرلیتے تھے۔ اس جنگ میں اُن کو شکست ہوئی اور مہاراجہ کشمیر نے اُن کو اُن کے علاقے سے جلاوطن کرکے حکم دیا کہ ہمیشہ مہاراجہ کے دربارمیں رہا کریں۔ وہ بہت خوبصورت آدمی تھے۔ ایک دفعہ کسی حادثہ کی وجہ سے اُن کی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ کسی جراح نے اُسے جوڑا، وہ جڑ تو گئی مگر ذرا ٹیڑھی جڑی۔ ایک دن وہ دربارمیںبیٹھے تھے کہ مہاراجہ نے دریافت کیا کہ راجہ صاحب سنا ہے آپ کی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی؟ انہوں نے کہا ہاں مہاراج ٹوٹ گئی تھی مگر اب ٹھیک ہوگئی ہے۔ مہاراجہ نے کہا مجھے بھی دکھائو اور دیکھ کر کہا کہ یہ جوڑ ٹھیک نہیں بیٹھا آپ بہت خوبصورت آدمی ہیں لیکن اس ٹیڑھی ہڈی نے آپ کے ہاتھ کو بدصورت بنادیا ہے۔ انہوں نے کہا ہاں مہاراج بات توٹھیک ہے مگر اب کیا ہوسکتا ہے۔ مہاراج نے کہا کہ آپ نے ہمیں کیوں نہ اطلاع دی ، ہم سرکاری ڈاکٹر کو بھیج دیتے۔ وہ بہت ماہر ہے، ہڈی کو بالکل درست کرکے بٹھاتا اور یہ نقص نہ ہوتا۔ یہ سُن کر راجہ صاحب نے گھٹنا اوپر اُٹھایا اور کلائی کو اُس پر رکھ کر زور جو دیا تو ہڈی تڑاق سے ٹوٹ گئی۔ پھر بڑے اطمینان سے مہاراجہ کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا کہ لیجئے مہاراج! اب اپنے ڈاکٹر سے ہڈی جڑوادیجئے۔ یہ دیکھ کر راجہ کو تو غش آنے لگا اور تمام دربارمیں سناٹا چھا گیا۔ اب تم میں سے کون ہے جو اس قسم کا کام کرسکے۔ یقینا کوئی نہیں اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ کسی کو ایسے ماحول میں رہنے کا موقع نہیں ملا۔ تمہاری نگاہ میں امن کی اتنی قدر ہے کہ کسی چیز کو اس کے مقابل پر کچھ سمجھتے ہی نہیں ہو۔ لیکن ان لوگوں کے نزدیک جن میں قتل و خونریزی کے واقعات کثرت اور تواتر سے ہوں زندگی کی کوئی قدر ہوتی ہی نہیں۔ اُس زمانہ میں بھی سپاہیوں کے نزدیک زندگی کی کوئی زیادہ قیمت نہیں ہوتی۔
جنگ عظیم میں شامل ہونے والے کئی سپاہیوں سے میں نے بات چیت کی ہے اور کئی یورپینیوں کی کتابیں پڑھی ہیں،سب یہی بیان کرتے ہیںکہ پہلی گولی جب چلتی ہے تو اُس وقت بہادر سے بہادر آدمی بھی بُزدلی محسوس کرتاہے اور چھپنا چاہتا ہے۔ لیکن آدھ یا پون گھنٹہ کے بعد حس ماری جاتی ہے اور خطرہ کا احساس بالکل مٹ جاتا ہے اور بعض لوگ ایسے ایسے خطرناک مقامات پر اکیلے چلے جاتے ہیں کہ دنیا سن کرحیران ہوجاتی ہے کہ ایسے خطرناک مقامات سے گزرے کس طرح او ربچے کس طرح۔ گولیاںچاروں طرف سے چل رہی ہوتی ہیں مگر انہیں احساس تک نہیں ہوتا۔ لیکن یہ اقرار ہر سپاہی کرتاہے کہ جب شروع میں اُسے گولیوں کی بوچھاڑ کا سامنا ہوا تھا تو وہ ضرور خوفزدہ ہوگیا تھا۔ بڑے بڑے خطاب یافتہ اور انعام یافتہ بلکہ بہادری کا سب سے بڑا انعام یعنی وکٹوریا کراس حاصل کرنے والوں کے اس قسم کے اقرار میں نے پڑھے ہیں کہ جب وہ پہلے جنگ میں شامل ہوئے تو انہوں نے اپنے دل کی حالت کو دیکھ کر محسوس کیاکہ وہ بُزدل ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ پہلے انہیں ایسے حالات کی عادت نہ تھی لیکن کچھ عرصہ ان حالات میں سے گزرے تو طبیعت میں جرأت پیدا ہوگئی۔
تو یہ بہادری بھی ایک حد تک مشق کا نتیجہ ہوتی ہے۔ سپاہی جنگ میں جاتا ہے اور اس کا دل مضبوط ہوجاتا ہے۔ تم نہیں جاتے اس لئے تمہارا دل ویسا مضبوط نہیں۔ ہم میں سے بہت اگر کسی کیلئے چھ ماہ قید کی سزا کا حکم سن لیں تو ان کا دل دھڑکنے لگتا ہے او اس روز کھاناکھانے کو دل نہیں چاہتا۔ مگر مجسٹریٹ ہر روز سزائیںدیتا ہے بلکہ ایک دن میں مجموعی طور پر دس دس اور بیس بیس سال کی سزائیں دے دیتا ہے اور پھر گھر جاکر اطمینان سے کھانا کھاتا ہے اور ساتھ ساتھ لیکچر بھی دیتا جاتا ہے کہ یہ چیزاچھی پکی ہے اور یہ خراب ہے۔ اس سے بڑھ کر جلاّدوں کاحال ہے۔ بعض دفعہ تو جلاّد مرنے والے کو بعض خاص حالتوں میں دیکھ کر ہنس پڑتا ہے کہ اُس کا منہ یوںہوگیا اورٹانگیں یوں ہوگئیں حالانکہ دوسرے اُس وقت رو رہے ہوتے ہیں مگر جلاّد میں حس ہی نہیں ہوتی۔ پس عادات انسان کو کچھ کا کچھ بنادیتی ہیں۔
ہمیں چونکہ امن کی عادت ہے اس لئے ہماری جماعت میں وہ قربانیاں جو پہلے انبیاء کی جماعتیں کرتی تھیں بالکل عجیب معلوم ہوتی ہیں۔ گویا امن ہمارے لئے جہاں ترقی کا موجب ہے وہاں تنزّل کا باعث بھی ہے۔ امن ہونے کی وجہ سے تبلیغ میں بے شک زیادتی ہے جو پہلے زمانوں میں حاصل نہ تھی مگر قربانیوں میں کمی ہے جس سے پہلے لوگ بچے ہوئے تھے۔ جس شخص کو یہ یقین ہو کہ مال جو میرے پاس ہے دراصل میرا نہیںممکن ہے اسے کل ہی ڈاکو لے جائیں یا حکومت ہی چھین لے وہ اگر نیک ہوگا تو خیال کرے گا کہ کیوں نہ اسے خداتعالیٰ کے رستہ میں ہی دے دوں اور پہلے زمانوں میں لوگوں کی یہی کیفیت ہوتی تھی۔ مگر آج چونکہ یقین ہے کہ حکومت یونہی نہیں چھینے گی، حکومت اگر لے گی تو ٹیکسوں وغیرہ کے ذریعہ سے ہی لے گی۔ پھر ٹیکس ہر ایک پر نہیں لگے گا اور جس پر لگے گا ایک مقررہ شرح سے لگے گا اور ڈاکوئوں وغیرہ کے چھین کر لے جانے کا امکان بھی بہت کم ہے اس لئے ہر شخص سمجھتا ہے کہ یہ میر امال ہے اور اس وجہ سے اس کی محبت اسے زیادہ ہوتی ہے۔
غرض پہلے زمانوں میں مال کے غیرمحفوط ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے مال کو خدا کا سمجھتے تھے مگر آجکل محفوظ ہونے کی وجہ سے اسے اپنا سمجھتے ہیں۔ اس لئے اس کی قربانی بھی دوبھر معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح پہلے زمانو ں میں لوگ سمجھتے تھے کہ اگر آج نہ مرے تو کل مرجائیں گے معلوم نہیں کس وقت ڈاکوئوں کے ہاتھ سے ہی موت آجائے یا حکوت ہی مذہبی اختلاف کی وجہ سے پھانسی پر لٹکادے یا سنگسار کرادے یا کوئی دشمن ہی کسی وقت قتل کردے۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ ہماری زندگی آج بھی نہیں اورکل بھی نہیں اس لئے جو اُن میں سے نیک ہوتے تھے کہتے تھے کہ کیوں نہ اسے خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کردیا جائے۔ مگر اب چونکہ حکومت پُرامن ہے کسی کو پھانسی بھی دیاجائے تو قانون کے رُو سے دیا جاتا ہے او ریوں بھی قتل کے واقعات بہت کم ہوتے ہیں اس لئے خیال کیا جاتا ہے کہ جانیں ہماری ہیں اور ان کے دینے میںدریغ ہوتا ہے۔ پہلے زمانہ میں یہ خیال نہیں ہوسکتا تھا کہ ہماری جانیں ہماری اپنی ہیں۔ بلکہ یہی خیال ہوتا تھا کہ ہماری نہیں ہیں آج نہیں تو کل کوئی لے لے گا چلو خداتعالیٰ کی راہ میں ہی دے دیں اور اس خطرہ کی حالت کا دل پر ایسا نقش ہوتا تھاکہ انہیں خداتعالیٰ کی راہ میں جان دینا مشکل نہیں معلوم ہوتا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی راہ میں وطن چھوڑ دینے سے بھی دریغ نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ ذرا سی بات پر ناراض ہوکر بادشاہ لوگوں کو وطن سے نکال دیتے تھے۔ اس لئے لوگ کسی ملک کو اپنا وطن نہیں سمجھتے تھے۔
یہودیوں پر یورپین حکومتیں اس لئے ناراض رہتی ہیں کہ وہ ان کے ملک کواپناوطن سمجھتے ہی نہیں تھے۔ حالانکہ ان میں یہ ذہنیت پیدا کرنے والی یہی حکومتیں ہیں جو ان پر ناراض ہوتی ہیں۔ صدیوں سے ان کے ساتھ یہی معاملہ ہوتا چلا آرہا ہے کہ انہوں نے اگر روس میں جائدادیں خرید کیں، مکانا ت بنوائے اور وہاں آباد ہوئے تو کچھ عرصہ بعد بِلا کسی سبب کے حکومت نے حکم دے دیا کہ یہاں سے نکل جائو۔ وہ وہاں سے نکل کر جرمنی میں گئے اور کچھ عرصہ کے بعد وہاں بھی وہی حال ہوا۔ تیسرے ملک میں گئے تو وہاں بھی یہی سلوک ہوا۔ اس وجہ سے قدرتی طور پر انہوں نے کسی ملک کو اپنا وطن نہیں سمجھا۔ مغربی ممالک میں سے صرف امریکہ اور انگلستان ہی د وایسے ملک ہیں جہاں سے وہ نکالے نہیں گئے باقی قریباً ہر جگہ سے ان کونکال دیاجاتا رہاہے اور اس وجہ سے وہ کسی ملک کو اپنا وطن سمجھتے ہی نہیں۔ جسے وطن سے نکلنے کی عادت ہو وہ کسی ملک کو وطن کیسے محسوس کرے گا۔
ایک انگریز انگلستان کو اور روسی روس کو اپنا ملک سمجھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس نے بھی اور اس کی نسلوں نے بھی وہیں رہنا ہے۔ مگر جو جانتا ہے کہ میں نے یہاں رہنا نہیں، اگر میں نہیں تو میری اولاد کو یہاں سے نکال دیا جائے گا، اس کے نزدیک وطن کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی۔ اور یہودی چونکہ ہر وقت وطن کو چھوڑ دینے پر آمادہ رہتے ہیں اس لئے یورپین حکومتوں کو ان پر غصہ آتا ہے کہ یہ ہمارے وطن کو وطن نہیں سمجھتے۔ حالانکہ یہ ذہنیت ان حکومتوں نے ہی پیدا کی ہے۔ جو قوم ہمیشہ پابہ رکاب رہے اس سے یہ امید کس طرح کی جاسکتی ہے کہ اس کے اندر حبّ وطن پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کیلئے وطن کو ترک کردینا دوبھر نہیں ہوتا۔ جن قوموں کیلئے امن نہ ہو ان کیلئے وطن کی قربانی بھی آسان ہوتی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ قربانیاں ہمیشہ مشقوں کے ساتھ آسان ہوتی ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم امن کے زمانہ میں بھی تم سے قربانیاں کراتے ہیں تا مشق ہوتی رہے۔ دن میں دونمازیں ایسے وقت میںرکھی ہیں جبکہ ان کا ادا کرنا ایک تاجر کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ دوپہر کو اسے چند منٹ آرام کرنے اور حساب کتاب کیلئے ملتے ہیں، اُس وقت ظہر کی نماز رکھ دی۔ پھر عصر کے وقت گاہکوں کا زور ہوتا ہے اُس وقت بھی نماز حکم دے دیا۔ علاوہ ازیں شام کو کھاتہ بندکرنے اور حساب کتاب کرنے کا وقت ہوتا ہے ۔ عشاء کے وقت اُسے اپنا روپیہ محفوظ کرنے اور دُکان بند کرنے کا فکر ہوتا ہے۔ مگر ان سب وقتوں میں حکم ہے کہ چلو نماز پڑھو۔
یہی حال زمینداروں کا ہے اس کے کام میںبھی بظاہر بڑی روک ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ مشق کراتا ہے کیونکہ لڑائی کو ہمیشہ جاری رکھنا تو اپنے اختیار میں نہیں۔ پھر اسلام نے جارحانہ لڑائی کی سخت ممانعت کی ہے، ادھر مشق بھی ضروری ہے اس لئے اسلام نے پُرامن ذرائع مشق کیلئے رکھ دیئے۔ اگر تو اسلام میں جارحانہ لڑائی کی اجازت ہوتی تو یہ حکم دے دیا جاتا کہ جب بھی امن ہو کوئی چھوٹی موٹی لڑائی چھیڑ دیا کرو۔ مگر چونکہ یہ جائز نہیں اس لئے دوسرے ذرائع سے قربانی کی مشق کرائی اور حکم دیاکہ نمازیں پڑھو، حج کرو، زکوٰۃ دو، روزے رکھو۔ ان سے قربانی کی مشق ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً روزہ ہے اس سے گھر میں بیٹھے بیٹھے ہی سفر والی حالت پیداہوجاتی ہے۔ پھر جس طرح لڑائیوں میں جاگنا اور فاقے کرنا پڑتاہے اسی طرح اس میں ہوتا ہے اور لڑائی کی کیفیت ایک حد تک پید ا ہوجاتی ہے۔ پھر مالوں کے نقصان برداشت کرنے کی مشق کرانے کیلئے زکوٰۃ او رصدقات ہیں۔ صدقات تو خیر حوادث کے وقت کیلئے ہیں مگر زکوٰۃ مستقل چیز ہے۔ پھر وطن چھوڑنے کی مشق کرانے کیلئے حج ہے۔ جولوگ دس میل چلنے کے بھی عادی نہیں ہوتے۔ ان کے پاس روپیہ آیا تو ان پر حج فرض ہوجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ مکہ جائو، جہازوں میں اور خشکیوں پر سفر کی صعوبتیں برداشت کرو ،غیرملکی زبانیں بولنے والوں او رمختلف تمدن کے لوگوں سے ملو اور اس طرح وطن کی قربانی کی مشق کرو۔
پُرامن زمانہ میں پیدا ہونے والے نبیوں کو ادھر تو یہ حکم ہوتا ہے کہ جاکر لڑو اور دوسری طرف یہ کہ نہ لڑو۔ ایک طرف تو حکم ہوتا ہے کہ جائو اور دنیا میں تہلکہ مچادو، اور دوسری طرف یہ کہ امن نہ خراب کرنا۔ ایک طرف تویہ حکم ہوتا ہے کہ خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرو، اور دوسری طرف یہ کہ بادشاہ اور حکام سے نرمی کا برتائو کرنا۔ وہ دو کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں۔ ان کو یہ بھی حکم ہوتا ہے کہ دنیا کے ہر بڑے چھوٹے اور امیر غریب کے اخلاق کو درست کریں اور یہ بھی کہ بادشاہ اور حکام سے ملائمت اور نرمی سے بات کریں۔ ان سے لڑائی کی ساری کیفیات پیدا کرائی جاتی ہیں مگر پُرامن ذرائع سے ۔ ان کیلئے جہاں یہ حکم ہوتا ہے کہ لڑائی کیلئے گھر سے نہ نکلو وہاں یہ بھی ہوتا ہے کہ تبلیغ کیلئے گھروں کو چھوڑ دو اور بغیر تلوار کے سب قوموں سے جنگ کرو۔ ان سے اپنے دل کی قربانی کرائی جاتی ہے اور ان کو یہ حکم ہوتا ہے کہ دوسرے کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو مارو۔ جو انبیاء بغیر تلوار کے آتے ہیں ان کو یہی حکم ہوتا ہے کہ خود کو قتل کرو۔ جائو تبلیغ کرو، لوگ گالیاں دیں گے اُن کو سنو اور اپنے دلوں کا خون کرو۔ لوگ ماریں گے اور گھروں سے نکال دیں گے مگر تمہارے لئے یہی حکم ہے کہ تم ماریں کھائو اور گھروں سے نکل جائو۔ لیکن جو انبیاء پُر امن زمانہ میں پیدا نہیں ہوتے گو ان کو بھی پہلے ظلم برداشت کرنے کا ہی حکم ہوتا ہے مگر جب وہ ظلم ایک حد تک پہنچ جاتے ہیں تو ان کوخداتعالیٰ کی طرف سے اجازت ہو جاتی ہے کہ مقابلہ کرو۔ مگر جونہی پُرامن زمانہ میں ہوتے ہیں ان کیلئے جنگ کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ یہی حکم ہوتا ہے کہ ظلم برداشت کرتے چلے جائو۔ بیشک یہ ظلم کے زمانے دورے کے ساتھ آتے ہیں کبھی ظلم زیادہ ہوتے ہیں اور کبھی کم کیونکہ خداتعالیٰ کا قانون یہی ہے۔ عورت کو درد زِہ ہوتا ہے مگر ہر شخص کو معلوم ہے کہ یکساں نہیں ہوتا۔ اٹھتا ہے او ررُکتا ہے۔ پھر اُٹھتا ہے پھر رُکتا ہے حتیٰ کہ انتہاء کو پہنچ جاتا ہے تو بچہ پیدا ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں کے سر میں آنکھ کی خرابی کی وجہ سے درد اُٹھتا ہے اور ٹیسیں پڑتی ہیں جنہیں پنجابی زبان میں ہُلیں کہتے ہیں۔ مگر اسی طرح کہ ٹیس پڑی اور رُک گئی پھر پڑی اور پھر رک گئی حتیٰ کہ جب آنکھ ماری جاتی ہے تو درد بھی بند ہوجاتا ہے۔ ہیضہ میں بھی دست اور قے مسلسل نہیں ہوتے بلکہ ہوتے ہیں اور رُک جاتے ہیں ہوتے ہیں اور رُک جاتے ہیں۔ بخاربھی ہر وقت یکساں نہیں ہوتا ۔ چڑھتا ہے اور کم ہوتا ہے۔ پھر اُترتا ہے پھر چڑھتا ہے۔ بارش ہوتی ہے اور تھم جاتی ہے۔ پھر ہوتی ہے اور تھم جاتی ہے۔ سورج چڑھتا ہے اور غروب ہوجاتا ہے۔ غرضکہ دُکھ ہو یا سُکھ اللہ تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ ان میں دورے ہوتے ہیں۔ یہی حال ابتلائوں کا ہے اور یہی انعاموں کا۔ دشمن کبھی گالیاں بہت زیادہ دیتے ہیں اور کبھی خاموش ہوجاتے ہیں۔ پھر گالیاں دینے لگتے ہیں اور پھر چپ ہوجاتے ہیں۔ کبھی اتہامات لگاتے ہیں کبھی رُک جاتے ہیں۔ پھر اتہامات لگاتے ہیں پھر چپ ہوجاتے ہیں۔ رات اور دن کی طرح راحت اور تکلیف کے وقت آتے اور بڑھتے گھٹتے رہتے ہیں۔ جب تکلیف کا دَور آتا ہے وہ خود قربانیوں کو کھینچ لیتا ہے۔ مگر جب اس میں کمی ہو تو ہمارا فرض یہ ہونا چاہئے کہ ہم قربانیوں میںسُستی نہ کریں اور آئندہ حملہ کے مقابلہ کیلئے تیاری کرتے رہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے نیند کو سبات بنایا ہے۱؎ یعنی نئی تیاری کیلئے قویٰ کو آرام دیا جاتا ہے ۔ گرمی کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے تا انجمن پھر کام کرسکے۔ تو درمیانی وقفے اس لئے ہوتے ہیں کہ آئندہ حملے کیلئے تیاری کی جائے اور جو قومیں اس وقفہ میں سو جاتی ہیں وہ آئندہ حملہ کا مقابلہ کرنے کی طاقت پیدا نہیں کرسکتیں۔ عقلمند فوج رات کو اس فصیل کی مرمت میں لگ جاتی ہے جو دن کے وقت دشمن کے حملہ سے ٹوٹ چکی ہو اور کوشش کرتی ہے کہ اسے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کردے۔ لیکن اگر یہ نہ ہوسکے تو رخنہ کو پُر کردینے کی تو ضرور کوشش کرتی ہے۔ اگر ایسا نہ کرے تو دشمن اگلے روز حملہ کرکے اسے اور توڑ دے گا اور اسی طرح توڑتے توڑتے وہ قلعہ میں داخل ہوجائے گا۔ پس عقلمند فوج وہی ہے جو دن کو لڑائی اور رات کو مرمت کرتی ہے۔ اسی طرح ان درمیانی وقفوں میں جماعتوں سے یہی امید کی جاتی ہے کہ گزشتہ رخنوں کو بند کریں او رآئندہ کیلئے زیادہ سے زیادہ قربانی کریں۔ مجھے افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ زمانہ علمی زمانہ ہے او روزانہ دلائل سنائے جاتے ہیں، پھر بھی جب کبھی کوئی راحت اور آرام کی گھڑی آجائے لوگ سونا چاہتے ہیں۔
میرے ان خطبات کو نکال کر دیکھ لوجو تحریک جدید کی سکیم کو بیان کرتے ہوئے میں نے دیئے تھے۔میںنے ان میں بتایا تھا کہ یہ ابتلا چھوٹے اور معمولی ہیں، ان کے بعد بڑے ابتلا آئیں گے۔ دیکھو اُس وقت کسے اس مصری، پیغامی، احراری فتنہ کی خبر تھی۔ مگر اُسی طرح ہوا جس طرح میںنے کہا تھا۔ اب بھی پھرمیں یہی کہتا ہوں کہ یہ فتنے بھی معمولی ہیں۔ ان سے بھی بڑے ابھی آنے والے ہیں اور جب تک وہ نہ آئیں قوم بن ہی نہیں سکتی۔ جب تک ایسی دلیری ہمارے اندر پیدانہ ہوجائے کہ اپنی جان دینا اور اپنے مال اور وطن کو قربان کردینا ہمارے لئے آسان ہوجائے اُس وقت تک یہ دَور برابر آتے رہیں گے۔ اب تو یہ حالت ہے کہ معمولی چوٹ پر بھی ہم میں سے بعض رونے لگتے ہیں۔ یاد رکھو کہ جب تک زندگی اورموت ، غنا اور فقر، تنگی اور آسائش ہمارے لئے یکساں نہ ہوں جب تک ہمارے دن بھی راتیں اور راتیں بھی دن نہ ہوجائیں اُس وقت تک ہم اس آخری لڑائی کیلئے تیار نہیں ہوسکتے جو اسلام اور شیطان کے مَابَیْن مقدر ہے۔ اور ابھی تو ہم نفس کی لڑائی سے بھی فارغ نہیں ہوئے۔
تحریک جدید کے شروع میں ہی میں نے نصیحت کی تھی کہ ہمیں صداقت کا اعلیٰ ترین معیار قائم کرنا چاہئے۔ مگر تم اپنے دلوں میں سوچو کہ کیا تم سچ بولتے ہو اور ہمیشہ سچ بولتے ہو۔ جب تک جماعت کی اکثریت ایسی نہ ہو جو سچ بولے اور ہر حالت میں سچ بولے اُس وقت تک ہم اس جنگ میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے سچائی دے کر کھڑا کیا ہے۔ قرآن کریم کا نام بھی حق ہے اور اصل جہاد بھی وہی ہے جو قرآن کریم کو لے کرکیا جائے۔ جیسا کہ فرمایا وَجَاھِدْ ھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا۲؎ اور اصل جہاد اسی کا ہے جو قرآن کریم ہاتھ میں لے کر لڑتا ہے۔
بدر و حنین کی لڑائیاں معمولی تھیں۔ اصل لڑائی وہی تھی جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی تلوار سے کی اور قرآن کریم نام ہے سچائی کا۔ جب تک تم اپنے نفسوں میں، اپنے بیوی بچوں میں، اپنے بیٹوں اور بیٹیوں میں، اپنے بھائیوں اور بہنوں میں اپنے محلہ والوں میں اور اپنے ہمسایوں میں اپنے شاگردوں میں اور اپنے اپنے حلقہ کی جماعتوں میں سچائی کو قائم نہیں کرلیتے اُس وقت تک تم اس لڑائی کیلئے تیار نہیں ہوسکتے اور جب بھی مقابلہ ہوگا تم شکست کھائو گے۔ گو یہ علیحدہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اسے ظاہر نہ ہونے دیا۔ میں نے دیکھا ہے ذرا سی بات ہو تو بعض نادان کہنے لگ جاتے ہیں کہ آجکل سچ سے گزارہ نہیں ہوتا، جھوٹ بول دو اور اتنا بھی نہیں سوچتے کہ یہ تلقین کرتے ہوئے وہ نہ صرف اس شخص کو ہی بلکہ جماعت کو بھی ساتھ ہی قتل کررہے ہیں۔ وہ شکایت کرتے ہیں کہ احراری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیتے ہیں۔ مگر یہ نہیں سوچتے کہ وہ تو گالیاں دیتے ہیں مگر یہ لوگ آپ کی تعلیم میں رخنہ ڈال کر آپ کے قتل کے مرتکب ہورہے ہیں۔ جو شخص اس چیز کو مٹاتا ہے جسے قائم کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے وہ آپ کو قتل نہیں کرتا تو کیا کرتا ہے۔ حالانکہ وہ اپنے آپ کو سچائی پر قائم بتاتا ہے اور احمدیت کی فوج میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ غیر تو اس واسطے آپ پر حملہ کرتا ہے کہ وہ آپ کو جھوٹا سمجھتا ہے لیکن یہ دوستی کا دم بھرتا ہوا آپ کے کام کو تباہ کرتا ہے۔ اس نے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا کہ آپ کی لائی ہوئی صداقتوں کو دنیا میں قائم کرنے میں مدد دے گا۔ لیکن جب پہلاہی موقع ملا یہ اسی دیوار کو گرانے کیلئے کھڑا ہوگیا جو آپ نے تعمیر کی تھی۔
پس اچھی طرح یاد رکھو کہ احمدیت کی فتح سچائی سے ہوگی۔ جب تک تم سچائی پر اس طرح قائم نہ ہوجائو کہ کسی بات کے متعلق محض اس وجہ سے کہ وہ ایک احمدی نے کہی ہے قسم کھاسکو کہ سچ ہے اُس وقت تک تمہاری فتح نہیں ہوسکتی۔ یہ کافی نہیں کہ جب میں جگائوں تم ہوشیار ہوجائو اور کچھ عرصہ بعد پھر سوجائو۔ اس طرح تو ایک افیونی بھی کرلیتا ہے۔ وہ بھی کسی نہ کسی وقت ہوشیار ہوجاتا ہے۔ تمہیں چاہئے کہ سچائی پر اس طرح قائم ہوجائو کہ کسی کے جگانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ میںنے بتایا تھا کہ ہمیں عقائد کے میدان میں جس طرح فتح حاصل ہوچکی ہے اس طرح اعمال کے میدان میں نہیں ہوئی۔ ہمارے اعمال کو دیکھ کر لوگ اتنے متأثر نہیں ہوتے جتنا عقائد سے متأثر ہوتے ہیں۔ وفاتِ مسیح کے دلائل سن کر لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اس کا ہمارے پاس جواب نہیں۔ لیکن جب ہم اُن کو سچائی کی طرف بُلاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اس پر تم بھی پوری طرح قائم نہیں ہو۔ قرآن کریم کے کامل ہونے کے جب دلائل دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس کا جواب کوئی نہیں۔ لیکن جب امانت کا سبق دیتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اس پر ابھی تم بھی قائم نہیں ہو۔ عقائد کے میدان میں ہم نے دشمن کو ماردیا ہے مگر جہاں عمل کا سوال ہو ہم میں سے بعض کمزوریوں سے وہ فائدہ اُٹھاتا ہے۔ اگر جماعت کے دوست پختہ عہد کریں کریں جس طرح زبان دانتوں میں لے کر انسان تکلیف برداشت کرنے کیلئے آمادہ ہو جاتا ہے کہ آئندہ ہم استقلال پر قائم ہوں گے، سچائی پر قائم ہوں گے (دراصل سچائی پر قائم رہنے کا نام ہی استقلال ہے) تو عمل کے میدان میں بھی ہم اسی طرح غلبہ حاصل کرسکتے ہیں جس طرح عقائد کے میدان میں کیا ہے۔ صرف عہد کی ضرورت ہے۔ ہمیں صداقت پر اس طرح قائم ہونے کا عہد کرنا چاہئے کہ دشمن بھی محسوس کریںکہ ایک احمدی کے منہ سے نکلی ہوئی بات پر اعتماد کیاجاسکتاہے۔ اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں ایسے نمونے ہیں کہ باہم لڑائی کے موقع پر دشمن کہہ دیتا ہے کہ جو بات فلاں احمدی کہے گا ہم مان لیں گے مگر ایسے نمونے کم ہیں۔ بہتوں کا چال چلن لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہے اور بعض اپنے جھوٹ سے لوگوں کیلئے ابتلا کا موجب بن رہے ہیں یا ابتلا کا موجب بننے کیلئے وہ تیار رہتے ہیں۔ گو ابھی تک ان کا گند ظاہر نہ ہوا ہو۔
دین کیلئے قربانیوں میں مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت سُستی ہے۔ کچھ عرصہ ہوا میں نے جماعت کے ساتھ نمازوں کی پابندی کی ہدایت کی تھی۔ باہر کا تو مجھے علم نہیں لیکن قادیان میں اس خطبہ کا دو چار ماہ تک اچھا اثر رہا مگربعدمیں پھر زائل ہوگیا۔ حالانکہ نماز تو ایسی ضروری چیز ہے کہ اگر خلافت بھی باقی نہ رہے تب بھی اس کی پابندی لازمی ہے۔ آدمی جنگل میں ہو تب بھی اسے نہیں چھوڑا جاسکتا اور سمندر میں ہو تب بھی نہیں۔ یہ مستقل ہدایت ہے جسے کسی جگہ بھی چھوڑنے کی اجازت نہیں۔
پھر میں نے سچائی کی ہدایت کی تھی۔ اس کا بھی کچھ عرصہ خیال رہا۔ دوستوں نے ایک دوسرے کی نگرانی شرو ع کی ، ایک دوسرے کو سنبھالنے لگے مگر کچھ عرصہ کے بعد بھول گئے۔
اسی طرح تحریک جدید کے وعدے ہیں۔ گزشتہ دنوں ’’الفضل‘‘ کو ایک مستقل نوٹ لکھ کر دے دیا تھا کہ شائع ہوتا رہے۔ اس کے نتیجہ میں پندرہ روز تک تو آمد قریباً دُگنی ہوگئی لیکن پھر سُستی پیدا ہونے لگی۔ حالانکہ تحریک جدید کوئی پہلی دفعہ نہ ہوئی تھی یا اس میں چندوں کے وعدے جبراً نہ لئے گئے تھے۔ دوستوں نے اپنی مرضی سے وعدے کئے تھے۔ پھر کوئی وجہ نہ تھی کہ ادا کرنے کیلئے میری طرف سے یاددہانیوں کے منتظر رہیں۔
اسی طرح ناظر صاحب بیت المال نے مجھے کہا کہ چندہ جلسہ سالانہ کیلئے تحریک کردوں۔ مگر میں کہتا ہوں کہ اس تحریک کی ضرورت ہی کیوں سمجھی جاتی ہے۔ کیا جلسہ پہلی دفعہ آیا ہے؟ یہ جلسہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم کیا ہوا ہے۔ پھر کیا وجہ ے کہ ایک حصہ جماعت کا اس امر کا محتاج ہے کہ میں کہوں تو وہ اس کیلئے چندہ دیں۔کیا وہ خدا کے حضور پیش ہونے والے نہیں؟ پھر کیوں وہ وعدے کرکے پورے نہیں کرتے اور کیوں اس تحریک میں بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے سالہاسال سے قائم ہے میری تحریک کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ یہ عدمِ استقلال کا ثبوت ہے۔ اگر تم جیتنا چاہتے ہو تو اپنے اندر استقلال پیدا کرو۔ سچائی پیدا کرو اور امانت پید اکرو۔ پھر دیکھو دشمن تم سے کس طرح خوف کھاتا ہے۔
دشمن ہمیشہ دو چیزوں سے ڈرتا ہے۔ یا طاقت سے اور یا پھر اعلیٰ درجہ کی نیکی سے۔ جب کوئی قوم کسی بات پر ہٹ کرکے قائم ہوجاتی ہے تو لوگ اس سے ڈرنے لگتے ہیں۔ ابھی دیکھ لو لاہور میں مذبح کی تعمیر کا سوال تھا۔ گورنمنٹ نے پچاس لاکھ روپیہ کا نقصان اُٹھا کر اس کی تعمیر رُوک دی ہے۔ حالانکہ اگر ہندو، سکھ، مسلمان ، عیسائی سب مل کر ایک وفد حکومت کے پاس لے جائیں کہ ہماری کسی یونیورسٹی کو پچاس لاکھ کی امداد دی جائے تو حکومت کبھی اس بات کو تسلیم نہ کرے گی۔ پہلے اس مذبح کی تعمیر کو رُکوانے کیلئے جب ہندوئوں نے کوشش کی تو انگریزوں نے یہی جواب دیا کہ اس میں تمہارا فائدہ ہے نقصان نہیں۔ مگر انہوںنے کہا کہ ہمیں اس فائدہ کی ضرورت نہیں اور اس کے خلاف ایجی ٹیشن کیلئے زبردست تیاریاں شروع کردیں۔ حتیّٰ کہ ایسے ایسے ہندو جو حکومت کے وزراء رہ چکے ہیں انہوں نے بھی اپنے نام جتھوں میں جانے کیلئے پیش کردیئے۔ تو وائسرائے نے چپکے سے اعلان کردیا کہ چونکہ اِس سے ہندوئوں کی دل آزاری ہوتی ہے ہم اس سکیم کو واپس لیتے ہیں۔ یہ استقلال کا نتیجہ تھا اور اسی کی بدولت ہندوئوں کویہ فتح حاصل ہوئی۔ ایسا اعلان کیوں نہ وائسرائے نے پہلے ہی دن کردیا۔ کیا پہلے انہیں علم نہ تھا کہ اس سے ہندوئوں کی دلآزاری ہوگی۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ انہیں پہلے علم نہ تھا وہ غلط کہتا ہے ، یقینا انہیں اس کا علم تھا۔ ہاں یہ علم انہیں پہلے نہ تھا کہ ہندو اس مذبح کا مقابلہ کرنے کیلئے اس طرح لڑنے مرنے کو تیار ہوجائیں گے۔
پس جو قوم استقلال کے ساتھ کھڑی ہوجائے اُس سے سب ڈرتے ہیں اور جب کوئی قوم صداقت پر قائم ہوجائے تو لوگ اس کی طرف رغبت کرتے ہیں۔ مجھے تو غیرت آتی ہے کہ ہندو ایک جانور کیلئے اور ایسے جانور کیلئے جسے وہ مارتے کوٹتے بھی ہیں، اُس کادودھ بھی دوہتے ہیں، ان میں سے بعض اس کے چمڑے کی تجارت بھی کرتے ہیں، وہ قربانی کرتے ہیں جو ہم میں سے بعض خدا اور رسول کیلئے نہیں کرتے۔ ہندو گائے کیلئے کھڑے ہوئے اور استقلال کے ساتھ کھڑے ہوئے تو حکومت نے اپنا پچاس لاکھ کا نقصان کرکے ان کی بات کو مان لیا۔ پھر کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر تم خدا اور اس کے رسول کے لئے کھڑے ہوجائو تو لوگ تم کو فنا کردیں گے۔ یاد رکھو کہ جو مرنے کیلئے تیار ہوجائے اُسے کوئی نہیں مار سکتا۔ لوگ بھی اُسی پر زور ڈالتے ہیں جس کا اپنا دل ڈرتا ہو۔ اگر تم استقلال کے ساتھ اسلام کی اشاعت میں لگ جائو اور اس کام میں کوئی سُستی اور غفلت نہ کرو تو کوئی نہیں جو تمہارے مقابل پر کھڑا ہوسکے۔ بلکہ ہر دشمن خود تم سے مرعوب ہوگا اور تمہاری طرف نگاہ اٹھاکر دیکھنے والے کا دل خودبخود کانپنے لگے گا اور وہ خود محسوس کرنے لگے گا کہ ان کو مَیں موت سے کیا ڈرائوں یہ تو خدا کی راہ میں پہلے ہی مرچکے ہیں۔
(الفضل یکم اکتوبر ۱۹۳۷ئ)
۱؎ وجعلنا نومکم سباتا (النبأئ:۱۰)
۲؎ الفرقان: ۵۳


۳۲
احمدیوں کے اعمال اور اقوال دُنیا سے نرالے ہونے چاہئیں
(فرمودہ یکم اکتوبر ۱۹۳۷ء )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
آج میرا منشاء ایک خاص مضمون بیان کرنے کا تھا مگر چونکہ میں کچھ دنوں کیلئے باہر جارہا ہوں میں نے سمجھا کہ ایسے اہم معاملہ کو ایسے ہی وقت میں بیان کرنا چاہئے جبکہ بعد میں آنے والے خطبات میں اگر ضرورت ہو تو اس کی مزید تشریح کی جاسکے۔ اِس لئے میں اُس مضمون کو اس وقت تک کہ خدا تعالیٰ کی مشیّت اس کا وقت لے آئے، چھوڑتا ہوں ۔ اور آج جماعت کو مختصر الفاظ میں اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس نے ہمیں ایسے زمانہ میںپیدا کیا ہے جس کی خواہش اور امید کروڑوں کروڑ آدمی جو ہم سے کم محبتِ رسول نہیں رکھتے تھے یا ہم سے کم خشیت اللہ ان کے دلوں میں نہ تھی ، کرتے ہوئے گزر گئے۔ چھوٹی چھوٹی خواہشات بھی انسان کے قلب میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر دیتی ہیں تو بڑی بڑی خواہشات کے عدمِ حصول پر جذبات کی جو قر بانیاں کرنی پڑتی ہیں یا جیسے جیسے رنج اور دکھ انسا ن کو اُٹھانے پڑتے ہیں اُن کا اندازاہ لگانا کوئی آسان کام نہیں ۔ یہ وہ زمانہ ہے جس کے متعلق گزشتہ انبیاء لوگوں کے دلوں میں اُمیدیں پیدا کرتے چلے گئے ہیں۔ حضرت نوح ؑ آئے اور انہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو عظیم الشان نشانات دکھائے، انسانی ایمان کو تازہ کر دینے والے معجزات دکھائے، الٰہی فضلوں کا مشاہدہ کرایا، ان کے ایمانوں کو تازگی بخشی اور انہیں محبت الٰہی کا ایسا درس دیا کہ ان کے دل خوشی اور اطمینان سے لبریز ہو گئے۔اور اپنے ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن کی دنیا عام لوگوںکی دنیا سے علیحدہ ہو گئی اور لوگوں نے یوںمحسوس کیا جیسے انہیںآگ سے نکال کر ایک ٹھنڈے کمرے میں پہنچا دیاگیا ہے یا بے آب و گیاہ جنگل سے اُٹھاکر ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے باغ میں بٹھا دیا گیاہے۔ مگرجب وہ لوگ خوش ہوئے اور ان کے دلوں میں شکر کا جذبہ پیدا ہوا اور انہوں نے کہا ہم کتنی بڑی راحت میںہیں اور خدا نے ہم سے کیسا اچھا کام لیا تو نوح ؑ نے اُن سے کہا ابھی ایک اور زمانہ آنے والا ہے اور ایک ایسی جنگ ہونے والی ہے جو اِس جنگ سے بہت زیادہ خطرناک اور مہیب ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے انعامات بھی نازل ہونے والے ہیں جو تمہارے ان انعامات سے بہت بڑھ کر ہیں ۔ اس طرح حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کے دلوں میں اس آخری زمانہ کے دیکھنے کی خواہش پیدا کر دی ۔ جو بہادر تھے اُن کے دلوں میں اس لحاظ سے کہ کاش! اس جنگ میں انہیں بھی لڑنے کا موقع ملے اور جو نسبتاًکمزور تھے اُن کے دلوں میں اس لحاظ سے کہ کاش! ان نعمتوں اور فضلوں کے دیکھنے کا جو اس روحانی جنگ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے ہیں انہیں بھی موقع میسر آئے۔ اور وہ اس کی حمد اور ستائش کے گیت گائیں۔ یہی کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا ، یہی کچھ حضرت موسیٰؑ نے کہا ، یہی کچھ حضرت عیسیٰ ؑ نے کہااور پھر ان کے بعد جب آنحضرت ﷺ کازمانہ آیا ، وہ موعود زمانہ جس کیلئے دنیا کی پیدائش ہوئی تھی اور اس انسان کو مبعوث کیا گیا جس انسان کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ لَوْ لَاکَ لَمَاخَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ ۱؎ یعنی اے محمد ﷺ! اگر تُو نہ ہوتا تو میں دنیاکو ہی پیدا نہ کرتا ۔ تو اس وقت انسانی ترقیات کے کمال تک پہنچنے اور خدائی فضلوں کے انتہاتک پہنچنے کا زمانہ آگیا۔ لوگ خوش ہوئے اور انسان نے مسرت سے جھوم کر کہا میں کس بلند معیار تک پہنچ گیا ۔ مگر رسول کریم ﷺ نے فرما یا ابھی ایک آخری زمانہ آنے والا ہے۔ میں نہیںجانتا میری اُمت کی ابتدا اچھی ہے یا انتہاء ۔ غرض وہ اطمینان کاسانس جو انسان لے سکتا تھا اس اطمینان کا سانس لینے کے معاًبعد ان کے دلوں میں رسول کریمﷺنے ایک نئی امید پیدا کردی اور آپ نے فرما یا بے شک میرا زمانہ بہترین ہے مگر میری روحانی تربیت سے بعض اور لوگ بھی حصہ لینے والے ہیں اور ایک دفعہ پھر میں آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا ہوں ۔ پھر روحانی طور پر میری ایک اور بعثت ہونے والی ہے ۔ میں نہیں کہہ سکتا میری اُمت کی ابتدا اچھی ہے یا انتہاء ۔ جب آپ نے فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا میری اُمت کی ابتدا اچھی ہے یا انتہاء تو لوگوں کے دلوں میں خواہش پیدا ہوگئی اور انہوں نے چاہاکہ کاش! ہم بھی وہ زمانہ دیکھیں۔ غرض ہر نبی نے اس زمانہ کی خبر دی اور ہر امت نے اس کو دیکھنے کی خواہش کی۔ مگر اس زمانہ کو دیکھنے کا موقع کس کو ملا۔تمہارے اورمیرے جیسے کمزور لوگوں کو۔
خواجہ مظہر جان جاناں ایک دفعہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ایک شاگرد بھی جو انہیں بہت پیارے تھے اور وہ خود بھی بڑے عارف تھے، ان کے پاس موجود تھے کہ کوئی شخص بالائی کے لڈولایا اور اس نے وہ لڈو تحفہ کے طور پر آپ کے سامنے پیش کردیئے (دہلی کے بالائی کے لڈو خاص مشہور ہیں) انہوں نے ان لڈوئوں میں سے دو لڈو اُٹھا کر اس شاگرد اور خلیفہ کو دے دیئے۔ دو چار منٹ گزرے تو آپ نے نگاہ اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور فرمایا میاں! تمہارے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں۔ میں نے تو تمہیں لڈو دیئے تھے۔ وہ کہنے لگا حضور! وہ تو میں نے اسے کھالئے ۔کہنے لگا کیا دونوں کھالئے؟ وہ کہنے لگا حضور لڈو بھی کوئی چیز ہوتے ہیں وہ تو ایک دفعہ ہی مَیں نے منہ میں ڈال لئے۔ خواجہ مظہر جان جاناں صاحب ایک جذبہ کی حالت میں چلے گئے اور بار بار یہ فقرہ دُہرانے لگے میاں! تمہیں لڈو کھانے بھی نہیں آتے۔ یہ دیکھ کر شاگرد کے دل میں کچھ ندامت اور شرمندگی پیدا ہوئی اور اس نے کہا حضور! پھر آپ ہی بتائیے کہ لڈو کس طرح کھائے جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اچھا پھر کبھی لڈو آئے تو تمہیں بتائیں گے۔ چند دن گزرے تھے کہ پھر کوئی شخص تحفہ کے طور پر آپ کے پاس بالائی کے لڈو لایا۔ وہ شاگرد پاس ہی بیٹھا تھا کہنے لگا حضور! اب بتائیں کہ لڈو کس طرح کھائے جاتے ہیں۔ آپ نے جیب سے ایک رومال نکالا اور اُسے بچھا کر اُس پر ایک لڈو رکھ دیا اور اپنے اس شاگرد کو دیکھ کر فرمایا کیا تم سمجھتے ہو یہ ایک چھوٹی سی چیز ہے۔ یاد رکھو یہ چھوٹی چیز نہیں بلکہ بہت بڑی چیز ہے۔ ذرا غور تو کرو اس لڈو کے بنانے میں کیا کیا چیزیں خرچ آتی ہیں۔ کچھ گھی لگتا ہے، کچھ بالائی لگتی ہے، کچھ میٹھا لگتا ہے، کچھ میدہ خرچ ہوتا ہے۔ پھر فرمایا تو ان چیزوں کو ذرا آگے تو پھیلائو اور اگر سب کو نہیں تو خالی میدے کو ہی لے لو، کتنی محنتوں اور مشقتوں کے بعد وہ تیار ہوا ہے۔ تم جانتے ہو کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر زمیندار اپنے کھیتوں کو گئے۔ بیمار بچوں کو گھروں میں چھوڑ کر اور بعض دفعہ خطرناک امراض میں مبتلا بیویوں کو چھوڑ کر آدھی رات کے وقت انہوں نے اپنے اپنے ہل اٹھائے اور کھیتوں کو چل دیئے۔ ننگے پائوں پتھروں اور روڑوں پر سے گزرتے ہوئے ایسی حالت میں کہ انہیں سانپوں کے ڈسنے کا خطرہ تھا اور بچھو کی نیش زنی کا ڈر۔ مگر وہ والہانہ انداز میں گئے اور انہوں نے ہل چلانا شروع کردیا۔ پھر فرمانے لگے آخر انہوں نے یہ کیوں کیا اور کیوں یہ تمام صعوبتیں اور تکالیف برداشت کیں؟ صرف اس لئے کہ ایک دن مظہر جان جاناںلڈو کھا کر اپنا منہ میٹھا کرے۔ اتنا ہی کہا تھا کہ وہ سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتے ہوئے اپنے خیالات میں محو ہوگئے اور دیر تک اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرتے رہے۔ پھر فرمانے لگے چھ مہینہ تک اس زمیندار نے رات اور دن کی تکلیف اٹھا کر غلہ پیدا کیا۔ پھر اس کو تاجر نے خریدا۔ پھر اس کو چکیوں میں پیسا گیا۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں آدمی اس کام میں لگے اور انہوں نے میدہ تیار کیا۔ مگر کام یہاں سے بھی شروع نہیں ہوا۔ اس سے بھی پہلے ہل کیلئے لوہے کی ضرورت تھی۔ اس لوہے کو لوہار نے کس طرح تپتی ہوئی گرمیوں کے موسم میں بھٹی کے پاس بیٹھ کر تیار کیا۔ مگر اس لوہار نے بھی صرف لوہے کا آلہ بنایا لوہے کو کانوں سے نکالا نہیں بلکہ اس کیلئے دُوردراز مُلکوں میں ہزاروں لوگ تھے جو کانوں میں کام کررہے تھے۔ جنہوں نے اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر اور تہہ خانوں میں دن رات کام کرکے لوہا نکالا۔ پھر بیسیوں خچروں پر وہ لد لدا کر ہمارے ملک میں پہنچا۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ صرف اس لئے کہ مظہر جان جاناں ایک لڈو کھالے۔ غرض اس مضمون کو جو اگر وسیع کرکے الگ بیان کیا جائے توکئی دن لگ جائیں ، بیان کرتے چلے گئے اوردرمیان میں محبت الٰہی کا جذبہ ترقی کرجاتا تو سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنے لگ جاتے۔ اس کے بعد آپ نے لڈو میں سے ایک ذرا سا ٹکڑہ توڑ ا اور اسے اپنے منہ میں ڈالا کہ اتنے میں مؤذّن پہنچ گیا اور اُس نے عرض کیا کہ عصر کی نماز کو دیر ہورہی ہے۔ چنانچہ آپ اُسی وقت کھڑے ہوگئے اور وہ لڈو وہیں دھرے کا دھرا رہ گیا۔
تو ایک عارف اور حقیقی علم رکھنے والا لڈو کی بھی کیسی قدر کرتا ہے۔ اس لڈو کی جس کی دنیا کی نگاہ میں کوئی قدر نہیں۔ اچھے سے اچھا لڈو آنہ دو آنے کو آجائے گا۔ ایک چھوٹا بچہ جس کا وجود دنیا میں کسی فائدہ کا نہیں ہوتا، اُس کو خوش کرنے کیلئے بعض دفعہ تم دو دو تین تین آنے کے لڈو کھلادیتے ہو۔ ایک فاسق و فاجر انسان جس کی نہ دین میں عزت ہے نہ دنیا میں، اپنے منہ کے چسکے کیلئے دس دس لڈو کھاجاتا ہے۔ پس وہ لڈو کیا چیز ہے جسے اتنی حقیر چیزوں کیلئے قربان کردیا جاتا ہے۔ لیکن خواجہ مظہر جان جاناں نے اسے ایک اور نگاہ سے دیکھا۔ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ ایک لڈو ہے جو میرا منہ میٹھا کرے گا بلکہ انہوں نے یہ دیکھا کہ کتنے آدمیوں نے اپنی جان کو اِس لڈو کے تیار کرنے کیلئے ہلکان کیا اور اس لئے ہلکان کیا تا اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ لڈو کھائے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں ، لاکھوں نہیں کروڑوں، کروڑوں نہیں اربوں بلکہ اس سے بھی زیادہ سالوں سے خداتعالیٰ کے اَنْ گنت فرشتے دنیا کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ خداتعالیٰ کے وہ زبردست آئین جن میں سے ایک چھوٹے سے چھوٹے قانون کے مقابلہ میں بھی دنیا کی تمام پارلیمنٹوں کے آئین بالکل ذلیل اور ہیچ ہیں، انسان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔دنیا کی پارلیمنٹوں میں سے کسی ایک پارلیمنٹ کا بھی کوئی قانون ایسانہیں جو دو سَو سال تک یکساں چل سکے۔ مگر خداتعالیٰ کا ایک قانون بھی ایسا نہیں جو کروڑوں نہیں، اربوں سالوں میں ایک دفعہ بھی بدلا ہو۔ وہ خود فرماتا ہے لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا ۔۲؎ دنیوی گورنمنٹیں جنہیں اپنی طاقت پر ناز ہوتا ہے، جنہیں اپنی قوتوں پر فخر ہوتا ہے، وہ کہتی ہیں فلاں جگہ چھائونی قائم کی جائے۔ وہاں چھائونی بن جاتی ہے لیکن ابھی سَو سال نہیں گزرتے کہ وہاں سے چھائونی بدل کر کسی اور جگہ چلی جاتی ہے۔ لیکن خدا نے کہا ہماری گرمی کا مرکز سورج میں ہے۔ اس پر کروڑوں نہیں اربوں سال گزرگئے۔ ایک کروڑ کے بعد دوسرا کروڑ اوردوسرے کے بعد تیسرا کروڑ آیا۔ ایک لاکھ کے بعد دوسرا لاکھ اور دوسرے کے بعد تیسرا لاکھ آیا۔ ایک ہزار کے بعد دوسرا ہزار آیا اور دوسرے کے بعد تیسرا ہزار آیا۔ ایک دن کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا دن آیا۔ ایک گھنٹہ کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا گھنٹہ آیا۔ غرض زمانہ گزرا اور گزرتا چلا جاتا ہے مگر قانون وہی ہے۔ دن آتا ہے اور پھر رات آتی ہے۔ رات گزرتی ہے تو دن آجاتا ہے اور گرمی کا مرکز ہمیشہ سورج ہی رہتا ہے۔ یہ چھائونی نہیں بدلتی۔ پھر خدا نے کہا ہوائیں فلاں جگہ سے اُٹھیں اور ہندوستان پر اپنا پانی برسائیں۔ اِس قانون پر لاکھوں سال گزرگئے۔ ہمارے باپ دادوں کے زمانہ میں بھی یہی قانون تھا، ان کے باپ دادوں کے زمانہ میں بھی یہی قانون تھا۔ جن دنوں اسلامی حکومت تھی اُن دنوں میں بھی یہی قانون تھا۔ جب ہندوئوں کا غلبہ تھا اُس وقت بھی یہی قانون تھا اور ان سے پہلے جب ڈریوڈین (DRAVIDIAN) لوگوں کا زور ہندوستان میں تھا اُن دنوں بھی یہی قانون تھا اور اب تک بھی وہیں سے ہوائیں اُٹھتیں اور ہندوستان میں بارش برسادیتی ہیں۔خدا نے کہا آگ جلائے۔ اب ساری دنیا میں قانون بدلتے رہتے ہیں، حکومتیں بدلتی ہیں، فلسفے کے اصول بدلتے ہیں، تہذیب بدلتی ہے، تمدن بدلتا ہے مگر خدا کا قانون نہیں بدلتا آگ ہمیشہ جلاتی ہی ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ اس نے کسی کی پیاس بجھادی ہو۔ پھر خدا نے کہا پانی پیاس بجھائے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پانی پیاس ہی بجھاتا ہے، آگ نہیں جلاتا۔
تو خداتعالیٰ کا ایک چھوٹے سے چھوٹا قانون بھی دنیا کی تمام پارلیمنٹوں کے بڑے سے بڑے قوانین کے مقابلہ میں بڑا ہے۔ مگر خداتعالیٰ نے ایسے تمام قوانین خواہ وہ چھوٹے ہیں یا بڑے اربوں ارب سالوں سے ایک حقیر انسان کی خدمت کیلئے لگا رکھے ہیں۔ مگر انسانوں میں سے ہزاروں نہیں لاکھوں، لاکھوں نہیں کروڑوں بلکہ ہر لاکھ میں سے ننانوے ہزار نو صد ننانوے انسان ایسے ہیں کہ جب سورج ڈوبتا ہے اور شام آتی ہے تو کبھی وہ نظر اُٹھا کر بھی اوپرنہیں دیکھتے کہ اُن کے سروں پر کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ رمضان کے مہینہ میں یا عید کے موقع پر کسی نے چاند دیکھ لیا تو دیکھ لیا اور ستاروں کی طرف تو کسی کی توجہ ہی نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو قریب کے ستاروں کی طرف۔ مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ لاکھوں لاکھ اور کروڑوں کروڑ ستارے جو اس کے سر پر کھڑے آنکھیں جھپک رہے ہیں، دنیا کو قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ اسے یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ وہ خدائی پہرہ دار ہیں جو اس کی حفاظت کیلئے مقرر ہیں۔ ان اربوں ارب ستاروں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کی روشنی انسان کی زندگی کے کام نہ آرہی ہو۔ کوئی انسانی اخلاق کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، کوئی صحت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، کوئی غذا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، کوئی دنیا کے ذرات کو جوڑنے کا کام کررہا ہے، کوئی پانی برسارہا ہے، کوئی ہوا چلارہا ہے اور اسی طرح تمام ستارے اپنے اپنے کام میں خاموشی سے مصروف ہیں۔ مگر انسان کو کچھ پتہ ہی نہیں کہ اس کیلئے خدا نے کتنے عظیم الشان سیارے اور ستارے اور سورج اور چاند کام کیلئے لگا رکھے ہیں۔ یہ جب بازار میں سے گزرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ دو چار سَو آدمی اکٹھے شور مچارہے ہیں تو حیرت سے کھڑا ہوجاتا ہے اور حیرت سے پوچھتا ہے کہ کیا بات ہے؟ وہ سَو دو سَو آدمی تو اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں لیکن یہ کروڑوں کروڑ ستارے جو دنیا کی آبادی سے بھی زیادہ ہیں، رات دن کام کررہے ہیں اور ان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اس کی توجہ کو اپنی طرف نہیں پھراتے۔ پھر یہ ایک دو آدمی کو معمولی طور پر دوڑتے ہوئے دیکھتے ہیں تو فوراً تجسس کی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔ لیکن بعض سیارے اس کی خدمت میں ہزاروں لاکھوں میل کی رفتار سے دوڑ رہے ہیں مگر یہ آنکھ اُٹھاکر بھی نہیں دیکھتا کہ کیا ہورہا ہے۔ اسی لئے کہ خدا کا قانون خاموشی سے یہ سب کچھ کررہاہے اور ایسی طرز پر کام ہورہا ہے کہ انسان کو یہ احساس بھی پیدا نہیں ہوتا کہ اس کے فائدہ کیلئے اس قدر دَوڑ دھوپ ہورہی ہے اور اگر کبھی نگاہ اُٹھاتا بھی ہے تو کبھی یہ نہیں سوچتا کہ میرے جیسی حقیر چیز کیلئے خدا نے کیا کیا سامان پیدا کردیئے۔ غرض وہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ ان چیزوں پر جو محض اس کے فائدہ کیلئے معرضِ وجودمیں آئی ہیں نگاہ بھی نہیں ڈالتا۔ اور ان تغیرات کی قیمت کو سمجھتا ہی نہیں جو اس کیلئے پید اکئے جارہے ہیں۔ ہاں وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی قدرو قیمت کو خوب سمجھتا ہے۔ وہ ایک دھیلے کی قیمت سمجھتا ہے، وہ ایک پیسہ کی قیمت سمجھتا ہے، وہ ایک روپیہ کی قیمت بہت زیادہ سمجھتا ہے مگر وہ سورج اور چاند اور سیاروں اور ستاروں اور ان کروڑوں چمکنے والی ہستیوں کی جو اس پر نیک یا بد اثر ڈال رہی ہیں کوئی ہستی نہیں سمجھتا۔ مگر خواہ انسان ان چیزوں کی قیمت سمجھے یا نہ سمجھے اس امر سے کون انکار کرسکتا ہے کہ یہ سب کچھ انسانی زندگی کے قیام کیلئے ہے۔ پھر ایسے انسانوں کی زندگی کے قیام کیلئے بھی ہے جو خداتعالیٰ کو گالیاں دیتے ، اس کے نبیوں کاانکار کرتے اور اس کے کلام اور نشانات پر ہنسی اُڑاتے ہیں۔ پس اگر یہ سارے کا سارا عالَم ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کی خدمت میں لگا ہوا ہے تو پھر کیا کہنا ہے اس انسان کاجس کے متعلق خدا نے یہ کہا کہ لَوْلَاکَ لَمَاخَلَقْتُ الْاَفْـلَاکَ اور پھر کیا کہنا اس انسان کا جن کے متعلق وہ لَوْلَاکَ لَمَاخَلَقْتُ الْاَفْـلَاکَکا مصداق یہ الفاظ کہے کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ میری اُمت کی ابتداء اچھی ہے یا انتہائ۔
غرض یہ مبارک زمانہ ہم کو ملامگر ہم میں سے بہت لوگوں کو غور کرنا چاہئے کہ کیا انہوں نے خدا کے مسیحؑ کی اتنی بھی قدر کی جتنی مظہر جان جاناں نے ایک لڈو کی کی تھی۔ دلی کا بنا ہوا بالائی کا لڈو حضرت مظہر جان جاناں کے سامنے آیا۔ وہ خدا کاایک عارف بندہ تھااُس نے لڈو کو جونہی دیکھا لڈو نے اُس کی ساری توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیا اور دنیا وَمَافِیْہَا کو اس کے ذہن سے اُتار دیا کیونکہ اس لڈو میں اسے خدا کا جلوہ دکھائی دیا۔ اس نے سارا لڈو نہیں کھایا بلکہ لڈو کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا چکھا اور اس ٹکڑے میں پھر اسے خداتعالیٰ کا جلال نظر آیا حتیّٰ کہ اس کے چکھنے پر اسے باقی تمام لڈو بھی بھول گیا۔ دنیا کو خدا زمین میں نظر نہیں آتا، اسے خدا سورج چاند میں نظرنہیں آتا، اسے خدا سارے عالَم میں بھی نظر نہیں آتا۔ مگر مظہرجان جاناں کو ایک لڈومیں نظر آگیااور چونکہ خدا کا جلوہ جب نظر آئے تو وہ ترقی کرتا ہے آخر وہ جلوہ انہیں لڈو کے اس ٹکڑا میں نظر آگیا جو انہوں نے اپنے منہ میں ڈالا تھا اور خود لڈو بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ مگر کیا ہماری جماعت کے دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قدر اس لڈو کے ایک ذرّہ کے برابر بھی سمجھتے ہیں؟ کتنے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ایک عظیم الشان تغیر ہے جس کو پیدا کرنے کیلئے مسیح موعود دنیامیں آیا۔ کتنے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسیح موعود دنیا میں اس لئے نہیں آیا کہ لوگ آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتے، بیعت کرتے اور یہ سمجھتے کہ معاملہ ختم ہوگیا۔ یہ رسمی چیز ایسی نہیں تھی جس کیلئے خدا کو اتنا عظیم الشان انسان بھیجنے کی ضرورت محسوس ہوتی بلکہ خدا دنیا میں ایک تغیر پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اتنا عظیم الشان تغیر کہ جسے دیکھ کر دشمن بھی یہ اقرار کرے کہ اس تغیر کیلئے جتنی بھی قربانی کی جاتی کم تھی۔ لوگ کہتے ہیں کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے پر ساری دنیا کافر ہوگئی۔ مگر میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ یہ بات وہ اُس وقت تک کہتے ہیں جب تک ہم دنیا میں وہ تغیر پیدانہیں کردیتے جس کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا گیا تھا۔ اگر آج تم دنیا میں وہ تغیر پیدا کردو، اگر آج تم دنیا میں وہ جنت پید اکرو جس جنت کو پیدا کرنا خداکا منشاء اور مسیح موعود کی بعثت کا مقصد ہے تو میں تمہیں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہی شخص جو آج تم سے اس لئے لڑتا ہے کہ تم دنیا کو کافر قرار دیتے ہو، تم سے دو قدم آگے بڑھے گا اور کہے گا کہ ایسے عظیم الشان تغیر کے پیدا کرنے میں جس کے نتیجہ میں دنیا کو جنت حاصل ہوئی جو لوگ حائل ہوتے ہیں وہ یقینا کافر بلکہ اَکفر ہیں۔ پھر وہ لوگ جو تم پر اعتراض کرتے اور کہتے ہیں کہ تم ہمیں جہنمی کہتے ہو، اگر تم اِس جنت کو دنیامیں قائم کردو تو وہی لوگ جو آج تم سے اس لئے دست و گریبان ہورہے ہیں کہ تم انہیں جہنمی کہتے ہو خود کہیں گے کہ جو لوگ اس جنت کے قائم کرنے میں حائل تھے وہ جہنمی ہی نہیں بلکہ جہنم سے بھی اگر کوئی نچلا درجہ ہو تو وہ اس میں گرائے جانے کے قابل ہیں کیونکہ وہ اس جنت سے لوگوں کو محروم کرتے تھے۔
پس اگر لوگ انکار کرتے ہیں، لوگ اگر اعتراض کرتے ہیں، لوگ اگر جوش میں آتے ہیں، لوگ اگر بُرا مناتے ہیں تومحض اِس لئے کہ ان کے سامنے ابھی وہ جنت نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی جماعت نے دنیا میں پید اکرنی ہے۔ ان کے سامنے کچھ دعوے ہیں، کچھ باتیں ہیں، کچھ لاف زنیاں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان باتوں کیلئے کسی کو کافر کہنا جائز نہیں، ان باتوں کیلئے کسی کو جہنمی کہنا جائز نہیں۔ لیکن اگر تم یہ قیمتی چیز ان کے سامنے رکھ دو تو وہی لوگ جو اعتراض کررہے ہیں کہیں گے بالکل ٹھیک ہے۔ جو شخص مسیح موعودؑ کا انکار کرتا ہے وہ کافر بلکہ اَکفر ہے۔ اور جو ان کو نہیں مانتا وہ جنہمی ہی نہیں جہنم کے نچلے حصہ میں گرائے جانے کے قابل ہے۔
دنیا میں ایک شخص گزرا ہے جس کا نام لوگوں نے اُس کی دیوانگی کی وجہ سے مجنوں رکھ دیا ہے۔ حالانکہ مجنوں اس کا نام نہیں تھا بلکہ اس کا نام قیس تھا۔ لیکن بوجہ اس کے کہ وہ عشق میں دیوانہ ہوگیا تھا لوگوں نے اس کا نام ہی مجنوں رکھ دیا۔ حالانکہ مجنوں کے معنے عربی میں پاگل کے ہیں اور لوگ مجنوں اسی طرح کہتے تھے جس طرح کہ ہندوستانی دیوانوں کو پاگل کہتے ہیں۔ اب اگر ہمارے ملک میں کوئی شخص لوگوں سے یہ کہے کہ پاگل کی یہ بات ہے، پاگل کی وہ بات ہے تو لوگ اس کی بات سن کر حیران ہوں گے اور کہیں گے کہ کونسے پاگل کی؟ تم نام تو بتاتے نہیں۔ لیکن قیس کو ایک دنیا پاگل پاگل کہہ کر بلاتی ہے اور کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔ ہر ایک فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ قیس کا ہی ذکر ہے۔ کیونکہ اس کے متعلق یہ لفظ اتنی کثرت سے استعمال ہوا کہ اب وہ اس کا عَلم بن گیا ہے اور اس کا نام قرار پاگیا ہے۔غرض وہ ایک مجنون شخص تھا مگر دیکھو وہ مجنوں بھی اپنی بات میں کیسا ہوشیار تھا۔ کہتے ہیں مجنوں ایک جگہ بیٹھا ہوا ایک کتے کو گود میں لئے پیار کررہا تھا کہ پاس سے کوئی شخص گزرا اور اُس نے کہا قیس! یہ کیا دیوانگی کی حرکت کررہے ہو! (آجکل کے انگریزوں اور میموں کی سمجھ میں شاید یہ بات نہ آئے کہ کتے کو پیار کرنے پر اس سے حیرت سے کیوں سوال کیا کیونکہ وہ خود کتوں کو پیار کرنے کے عادی ہیں اور ہمیشہ انہیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ ان سے اگر کوئی کہے کہ کتے کو کیوں پیار کررہے ہو تو وہ شاید اُلٹا معترض کو پاگل سمجھیں گے او رکہیں گے کہ اس کا دماغ خراب ہوگیا۔ لیکن بہرحال ایشیائی ایشیائی ہے اور مغربی مغربی۔ ایک ایشیائی جب بھی کسی ایسے شخص کو دیکھے گا جو کتے سے پیار کررہا ہو وہ حیرت سے اسے دیکھے گااور وہ اسے اس کام سے روکے گا۔ اِس بناء پر اُس شخص نے جب مجنوں کو دیکھا کہ وہ ایک کتے کوپیار کررہا ہے تو اُس نے کہا قیس! یہ کیا پاگلانہ حرکت کررہے ہو) قیس یہ اعتراض سن کرحیرت سے بولا کیا کررہا ہوں؟ اُس نے کہا تم ایک کتے سے پیار کررہے ہو۔ کہنے لگا کتا؟ یہ تمہیں کتا نظر آتا ہوگا مگر مجھے تو یہ لیلیٰ کا کتا نظر آتا ہے۔ گویا قیس کو حیرت ہوئی کہ وہ شخص اِس قدر بیوقوف ہے کہ اُسے کتے اور لیلیٰ کے کتے میں کوئی فرق نظرنہیں آتا۔ کتا بے شک ایک گندی چیز ہے مگر قیس کے نزدیک لیلیٰ کا کتا بالکل اَور چیز تھا وہ کسی صورت میں گندہ نہیں ہوسکتا تھا۔ تو جب کسی شخص سے کسی کو حقیقی عشق ہوتا ہے اسے اپنے معشوق کی ہر چیز پیاری نظر آنے لگ جاتی ہے۔
اب محمد ﷺ بھی ایک انسان ہی تھے اور ویسے ہی انسان تھے جیسے مکہ کے اور بہت سے لوگ۔ مگر کیوں ہمارا ذرہ ذرہ آپ پر فدا ہے اور کیوں ہم آپ پر اپنی جانیں قربان کرنا انتہائی سعادت اور خوش بختی سمجھتے ہیں۔ اِ سی لئے کہ وہ لوگوں کو آدمی نظر آتے ہیں مگر ہمیں ’’اللہ کے آدمی‘‘ نظر آتے ہیں۔ آپؐ کے آدمی ہونے سے تو ہمیں بھی انکار نہیں۔ آپؐ خود فرماتے ہیں کہ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌمِّثْلُکُمْ ۳؎ میں تمہارے جیسا ہی ایک انسان ہوں۔ مگر اس پر مزید بات یہ ہے کہ آپ ہمیں ’’اللہ کے آدمی‘‘ دکھائی دیتے ہیں۔ لوگ ہم پر اعتراض کرتے اور کہتے ہیں کہ تم ایک آدمی کے پیچھے چل رہے ہو مگر یہ درست نہیں۔بھلا ہم کوئی ایسے پاگل ہیں کہ کسی آدمی کے پیچھے چلیں۔ ہم تو اللہ کے بندے کے پیچھے چل رہے ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ ہمارا محبوب ہے اس لئے اس محبوب میں جو بھی جذب ہوگیا وہ خالی بندہ نہ رہا بلکہ اللہ کا بندہ بن گیا اور اس لئے وہ ہمارا بھی محبوب اور معشوق قرار پاگیا۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے طواف کیلئے جاتے ہیں۔ راستہ میں کفار کا لشکر آپ کو اور صحابہؓ کو روک لیتا ہے۔ صنادیدِ عرب ایک وفد لے کر آپ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیںہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ آپ کعبہ کا طواف کریں۔ اس سے ہمارے پرسٹیج (PRESTIGE) میں فرق آتا ہے۔ اس پر صلح کی گفتگو شروع ہوگئی اور گفتگو ہوتے ہوتے نماز کا وقت آگیا۔ رسول کریم ﷺ اُٹھتے ہیں اور وضو کرتے ہیں مگر جب منہ میں پانی ڈال کر کلی پھینکتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے کچھ اور بندے جو اپنی خوبیوں اور طاقتوں کے ذریعہ یہ ثابت کرچکے تھے کہ وہ دنیا کے عمود اور اس کی حفاظت کا ذریعہ ہیں، دیوانہ وار آگے بڑھتے ہیں اور وضو کے پانی کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے۔ کوئی اس پانی کو ہاتھوں میں مل لیتا ہے ، کوئی منہ کو ملنے لگ جاتا ہے، کوئی سینہ پر مل لیتا ہے، کوئی پیٹھ پر ملنے لگ جاتا ہے۔ ۴؎ یہ دیکھ کر کفار کی نظر حیرت سے پھٹ جاتی ہے اور وہ کہتے ہیں دیکھو یہ کتنے پاگل ہیں۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم دنیا کی ہدایت کیلئے کھڑے کئے گئے ہیں، ہم دنیا کی اصلاح کیلئے قائم کئے گئے ہیں ایک انسان کی تھوک کیلئے مررہے ہیں کون ہے جو انہیں مہذب کہہ سکے۔ بے شک ان کی نگاہ میں وہ تھوک تھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ تھوک ہی تھا مگر فرق یہ تھا کہ وہ کفار محمد ﷺ کی نسبت یہ سمجھتے تھے کہ یہ محمد (ﷺ) کا تھوک ہے اور صحابہ یہ سمجھ کر اُس تھوک کو اپنے ہاتھوں اور اپنے مونہوں پر ملتے تھے کہ یہ خدا کے بندے کا تھوک ہے۔ کوئی کہے خدا کے بندے کا تھوک بھی تھوک ہی ہے۔ مگر یہ بالکل جھوٹ ہے۔ کیا مکھی کی قے اور شہد کی مکھی کی قے ایک ہی جیسی ہوتی ہے؟ کیا تم ایک مکھی کی قے اپنے کپڑوں سے دھوتے نہیں اور کیا دوسری مکھی کی قے مزے سے چاٹتے نہیں؟ اگر کوئی شخص تم پر اعتراض کرے اورکہے کہ تم شہد کی مکھی کی قے کیوں چاٹتے ہو تو تم اسے پاگل سمجھو گے اور اسے کہو گے بے شک یہ قے ہے مگر یہ شہد کی مکھی کی قے ہے عام مکھی کی نہیں۔ تم روزانہ دیکھتے ہو کہ ڈاکٹر تمہیں ہدایت دیتا ہے کہ تم اُس قصاب سے گوشت خریدو جس کی دکان کے دروازوں میں جالی لگی ہوئی ہو اور مکھیاں اُس کے گوشت پر نہ بیٹھتی ہوں۔ تم اُس حلوائی سے مٹھائی خریدا کرو جس کی دُکان پر مکھیاں نہ بیٹھتی ہوں کیونکہ مکھی کے بیٹھنے کی وجہ سے چیزیں گندی ہوجاتی ہیں اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔مگر دوسری طرف جب تم بیمار ہوتے ہو تو وہی ڈاکٹر آتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں دوائی شہد میں ملا کر کھائو۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کل تو یہ ڈاکٹر یہ کہہ رہا تھاکہ مکھیوں کی غلاظت سے ہیضہ پھیلتا ہے اور آج یہ کہہ رہا ہے کہ مکھی کے قے کھائو تو شفا ء ہوگی۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے تو اسے بیوقوف کہیں گے کیونکہ ہر شخص اُسے کہے گا کہ ہیضہ اور دوسری متعدی بیماریاں عام مکھیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں نہ کہ شہد کی مکھی کی وجہ سے۔ شہد جو شہد کی مکھی کا اُگال ہے اِس سے تو نہ صرف یہ کہ کوئی بیماری پیدانہیں ہوتی بلکہ وہ کئی بیماریوں کو دُور کرتا ہے۔ اگر ایک عام مکھی اور شہد کی مکھی میں فرق ہے، اگر ایک مکھی سے ہیضہ پیدا ہوتا ہے تو دوسری مکھی کی قے سے شفاء حاصل ہوتی ہے تو کیا بندے اور خدا کے بندے میں کوئی فرق نہیں۔ کیا شہد خدا سے بڑا ہے کہ اس کی طرف منسوب ہو تو مکھی بدل جائے لیکن خداتعالیٰ کی طرف منسوب ہو کر انسان عام انسانوں جیسا رہے۔ پس بے شک وہ تھوک تھوک ہی تھا مگر وہ خداکے بندے کا تھوک تھا اور ان دونوں تھوکوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ جس طرح شہد کی مکھی کے تھوک اور عام مکھی کے تھوک میں فرق ہے، اسی طرح ان تھوکوں میں فرق ہے۔ غرض محمد ﷺ کفار کی نگاہ میں ایک انسان تھے، ویسے ہی انسان جیسے دنیا میں اَور کروڑوں انسان ہیں مگر صحابہ کو آپ خدا کے بندے نظر آتے تھے۔
آج بھی دنیا کی نگاہ میں مسیح موعود صرف ایک انسان ہے او رلوگ ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ تم ایک آدمی کے پیچھے چل رہے ہو۔ ہم میں سے بھی کئی لوگ حضرت مسیح موعود کی نسبت سمجھتے ہیں کہ ایک نیک آدمی آیا اور گزرگیا اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایک خدا کا بندہ آیا اور گزرگیا۔ جس طرح ایک آگ میں پڑا ہوا لوہا لوہا نہیں رہتا بلکہ آگ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور گو جنس کے لحاظ سے وہ لوہا ہی رہتا ہے مگر خواص کے لحاظ سے آگ بن جاتا ہے۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے بندے اپنی جنس کے لحاظ سے انسان ہی رہتے ہیں مگر اپنے کام کے لحاظ سے وہ خدا کی قدرتیں دکھاتے ہیں۔جیسے تپتے ہوئے لوہے اور گرم گرم انگارہ میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ جو انگارہ کام کرتاہے وہی لوہا کام کرتا ہے۔ جس طرح انگارہ جلاتا ہے اسی طرح لوہابھی جلاتا ہے۔ جس طرح انگارہ داغ دیتا ہے اسی طرح لوہا بھی اگر بدن سے چھو جائے تو وہ بدن کو جھلس دیتا ہے۔ جس طرح انگارہ روشنی دیتا ہے اسی طرح لوہا بھی روشنی دیتا ہے۔ غرض انگارے اور لوہے میں کام کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں رہتا۔ صرف یہ فرق رہے گا کہ انگارا سارے کا سارا آگ بن جائے گا۔ مگر لوہا اس وقت تک آگ رہے گا جب تک وہ آگ میں پڑارہے گا۔ جب اسے آگ سے الگ کرلیا جائے گا تو وہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔ مگر وہ لوگ جن کے متعلق خدا یہ فیصلہ کردے کہ انہیں محبتِ الٰہی کی آگ سے کبھی نکالا نہیں جائے گا بلکہ وہ ہمیشہ اس آگ میں رہیں گے، وہ صفاتِ الٰہیہ سے ظلّی طور پر متصف ہوجاتے ہیں اور ان کی انسانیت اس کی تجلیات کے نیچے ہمیشہ کیلئے قرار پکڑ لیتی ہے۔
غرض خداتعالیٰ کی ہم پر یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ اُس نے اپنے مسیح کو ہم میں بھیجا اور اس کی شناخت کی ہمیں توفیق دی اور ہمیں چاہئے کہ ہم اس نعمت کی قدرکریں۔ میں بیرونی جماعتوں کو بھی مخاطب کرتا ہوں مگر خصوصیت سے میرے مخاطب قادیان کے لوگ ہیں۔ میں کہتا ہوں تمہیں چاہئے کہ تم اپنے اخلاق ،اپنے افعال ، اپنے اقوال، اپنی لڑائیوں، اپنے جھگڑوں ، اپنی صلحوں اور اپنی صفائیوں یہ ہمیشہ یہ امر مدنظر رکھوکہ تم نے خدا کے ایک بندے کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ہوا ہے۔ جس طرح آگ میں پڑا ہوا لوہا لوہا نہیں رہتا بلکہ آگ بن جاتا ہے۔ اسی طرح تم بھی اب خدا کے ایک بندے کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر کوئی اور چیز بن چکے ہو۔ تمہیں بھی اپنا وقار سمجھنا چاہئے اور تمہیں بھی اپنی قدروقیمت کا اندازہ لگانا چاہئے۔ تم باتیں کرتے وقت کیوں یہ سمجھتے ہو کہ عبداللہ یا عبدالرحیم یا عبدالرحمن بول رہا ہے۔ تم سمجھ لو کہ عبداللہ مرچکا، عبدالرحیم مرچکا، عبدالرحمن مرچکا اور اب خدا کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے والا ایک شخص بول رہا ہے۔ پس تمہارے اعمال اور تمہارے افعال اور تمہارے اقوال تمام دنیا سے نرالے ہونے چاہئیں۔ اور ہر قدم پر تمہیں یہ سوچنا چاہئے کہ خدا کے بندے کو اب کیا کرنا چاہیے۔ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ جب تم نے بیعت کرلی تو اس کامطلب یہ ہے کہ تم نے اپنے لئے موت قبول کرلی۔ سو جب تم مرگئے تو تمہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اب تم پہلے کے سے انسان نہیں رہے بلکہ مسیح موعود بن گئے ہو۔ تمہیں باتیں کرتے وقت سوچنا چاہئے کہ گفتگو کیلئے شریعت کے کون سے آداب ہیں۔ تمہیں لین دین کرتے وقت سوچنا چاہئے کہ لین دین کے متعلق شریعت کے کیا احکام ہیں۔ تمہیں شادی بیاہ کے وقت یہ سوچنا چاہئے کہ اسلام اس بارے میں کیا ہدایات دیتا ہے۔ غرض ہر حرکت اور ہر سکون کے وقت تمہیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا تم کوئی ایسا کام تو نہیں کررہے جو خلافِ تقویٰ ہے۔ کیونکہ تم اب وہ نہیں رہے جو پہلے تھے۔ تمہاری عزت حضرت مسیح موعود کی عزت ہے اور مسیح موعود کی عزت خدا کی عزت ہے۔ پس تمہارے اقوال میں، تمہارے افعال میں، تمہارے اخلاق میں، تمہارے اطوار میں، تمہارے سونے میں، تمہارے جاگنے میں، تمہارے کھانے میں ، تمہارے پینے میں غرض ہر حرکت اور ہر سکون میں تمہیں دوسروں سے ممتاز ہونا چاہئے۔ تب تم دیکھو گے کہ یہ دنیا تمہارے لئے جنت بن جائے گی۔ آخر یہ دنیا چند قوانین کے ماتحت ہی جنت بن سکتی ہے۔ اگر آپ ہی آپ جنت بن سکتی تو اللہ تعالیٰ کو شریعت بھیجنے اور انبیاء کا ایک لمبا سلسلہ قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پس جب تک ہم اپنے اقوال میں ، اپنے افعال میں، اپنے اطوار میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا نہیں کرتے اُس وقت تک ہم اس جنت کے پیدا کرنے میں ایک روک بنے ہوئے ہیں او ربالفاظ دیگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ جنت پید انہ ہو۔ حالانکہ خداتعالیٰ مسیح موعود کے زمانہ کی نسبت فرماتا ہے کہ وَاِذَ الْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ ۵؎ کہ خداتعالیٰ اُس زمانہ میں جنت انسانوں کے قریب کردے گا۔ مگر افسوس کہ ہم میں سے ہی بعض اسے دور کررہے ہیں۔ کیونکہ ان کے اقوال اور ان کے افعال اور ان کی حرکات اور ان کی سکنات اس تعلیم کے مطابق نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش کی۔ لیکن اگر ہم اپنے اقوال اور اعمال میں تغیرپیدا کریں تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جنت نزدیک کردی جائے گی۔ گویاہماری مثال ایسی ہی ہے جیسے کرسیوں پر دو دوست آپس میں بیٹھے باتیں کررہے ہوں اور نوکر چائے کی سینی لئے ان کے پاس کھڑا ہو مگر وہ اپنی باتوں میں ہی مشغول ہوں اور چائے کی سینی کی طرف آنکھ اُٹھاکر بھی نہ دیکھیں۔ ہماری حالت بھی یہی ہے کہ ہم دنیا کی طرف متوجہ ہیں اور خدا اپنے ہاتھ میں جنت لئے ہمارے کولہوں کے پاس کھڑا ہے اور منتظر ہے کہ شاید پہلے انہوں نے توجہ نہیں کی تو اب کرلیں، شاید پہلے انہوں نے جنت نہیں لی تو اب لے لیں۔ پس اس جنت کے حصول میں صرف اتنی ہی دیر ہے کہ ہم دنیا کی طرف سے اپنا منہ موڑیں اور خدا کی طرف اپنی توجہ کریں۔ ورنہ وہ تو فرماچکا ہے کہ وَاِذَ الْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ کہ جنت تمہارے قریب کردی گئی ہے۔ صرف تمہارے ہاتھ بڑھانے اور پکڑنے کی دیر ہے۔
سو میں بوڑھوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں اور جوانوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں اوربچوں کوبھی توجہ دلاتا ہوں اور خصوصاً بچوں کو ہی مخاطب کرتا ہوں کیونکہ بڑوں کو جو خراب عادتیں پڑ چکی ہوں اُن کا دور ہونا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن بچے اگر بچپن کی عمر سے ہی نیک باتیں سیکھیں اور ان کو اپنی عادت بنالیں تو ان کی تمام زندگی سنور سکتی اور سُکھ اور آرام میں گزرسکتی ہے۔ یہ بات یاد رکھو کہ ایمان کی طاقت کے بعد دنیا میں سب سے بڑی طاقت عادت کی ہے۔ بیشک بڑے بھی اگر چاہیں تو ایمان کی طاقت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی اصلاح کرسکتے ہیں۔ لیکن ان بڑوں میں جنہیں بعض خراب عادتیں پڑ چکی ہوں یہ نقص ہوتا کہ انہیں ایمان کی طاقت کسی اور طرف کھینچ رہی ہوتی ہے اور عادت کی طاقت کسی او رطرف کھینچ رہی ہوتی ہے۔ مگر تم اے سلسلہ کے بچو! اگر اپنی عادتوں کو آج درست کرلو گے تو تمہاری عادتیں بھی تمہیں نیک راہ پر چلارہی ہوں گے اور تمہارا ایمان بھی تمہیں سیدھے راستہ کی طرف لے جارہا ہوگا اور اس طرح جس سفر کو تمہارے بڑے ایک دن میں طے کرسکتے ہیں اسے تم ایک منٹ میں طے کرسکو گے۔ کیونکہ تمہارے بڑوں کی مثال ایسی ہے جیسے ریل کے ایک طرف ایک انجن لگادیا جائے اوراس کے دوسری طرف دوسرا انجن۔ بیشک ایمان کا انجن طاقتور ہے لیکن انہیں عادت کا انجن کسی اور طرف کھینچ رہا ہے اور ایمان کا انجن کسی اور طرف ۔ اس لئے ان کی رفتار لازماً سُست ہے۔ لیکن اگر تم اپنی عادتیں بچپن سے درست کرلو تو تمہارے دونوں انجن ایک ہی طرف لگے ہوئے ہوں گے۔ تمہیں ایمان کا انجن بھی اسی طرف کھینچے گا اور عادت کا انجن بھی اسی طرف کھینچے گا۔ اور تم خود ہی سمجھ سکتے ہو کہ جس ریل کے آگے دو انجن لگے ہوئے ہوں اس کی رفتار کس قدر تیز ہوگی۔ پس میں تمہیں بھی مخاطب کرتا ہوں اور پھر عورتوں سے بھی کہتا ہوں کہ اپنے اندر تغیر پیداکرو اور قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لو۔ دنیا کمانے سے اسلام نہیں روکتا۔ صحابہؓ نے بھی بڑی بڑی تجارتیں کیں۔ خود رسول کریم ﷺ بھی تجارت کرلیا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے بھی تجارتیں کی ہیں، پھر صحابہ زراعتیں بھی کرتے تھے اور رسول کریم ﷺ بھی بعض زمینوں میں کام کرواتے تھے اور ان کے غلہ سے سال بھر تک کی ضروریات اپنے اہل کی جمع کرادیتے تھے۔ پھر صحابہؓ نے تو بڑی بڑی زمینداریاں اور تجارتیں کی ہیں اور بہت کچھ کمایا ہے۔ پس تمہیں بھی دنیا کمانے سے کوئی شخص نہیں روکتا۔ ہاں یہ چیزیں تمہاری توجہ کھینچنے والی نہ ہوں بلکہ خدا کی آواز جب بھی تمہارے کانوں میں پڑے تم ان تمام زراعتوں اور تجارتوں اور ملازمتوں کو ترک کرکے اللہ تعالیٰ کی آواز پر حاضر ہوجائو اور اگر تم ایسا کرو تو پھر تم دنیا دار نہیں بلکہ دیندار کہلائو گے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ حضرت امام حسن نے پوچھا کہ کیا آپ کو مجھ سے محبت ہے؟ انہوںنے کہا ہاں۔ پھر انہوں نے سوال کیا کہ آپ کو خداتعالیٰ سے بھی محبت ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ حضرت امام حسنؓ کہنے لگے پھر تویہ شرک ہے۔ حضرت علیؓ نے ابھی اس کا کوئی جواب نہ دیا تھا کہ جھٹ حضرت امام حسن نے آپ ہی سوال کردیا کہ اگر خداتعالیٰ کی محبت آپ کو ایک طرف کھینچتی ہو اورمیری محبت دوسری طرف تو آپ کس راہ کو اختیار کریں گے؟ انہوں نے کہا میں خداتعالیٰ کی محبت کے راستہ کو ہی اختیار کروں گا۔ اس پر امام حسنؓ بولے تب آپ مشرک نہیں۔ تو وہ بندہ جو خداتعالیٰ کی آواز سن کر رُک جاتا ہے وہ اگر دنیا کے کاموں میں بھی مشغول ہو تو وہ دنیا دار نہیں بلکہ دیندار ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا دنیا میں کوئی شخص ایسا ہو جس کے اندر حقیقی ایمان کا شائبہ بھی پایا جاتا ہو اور وہ خداتعالیٰ کی آواز سن کر اپنی ہوا وہوس کے اتباع سے نہ رُک سکے۔ دنیا میں تو ہم دیکھتے ہیں اگر معمولی جذبات بھی اُبھر آئیں تو انسان کے ہاتھ کو رنگ دیتے ہیں۔ کجا یہ کہ ایمان کا دعویٰ ہو اور خداتعالیٰ کی آواز آئے اور انسان کا ہاتھ نہ رُکے۔
مجھے یاد ہے بچپن میں میری ایک کشتی تھی جو برسات کے دنوں میں لڑکے لے جاتے اور سارا دن اُس پر کودتے اور توڑتے رہتے۔ ایک دفعہ میں نے بعض لڑکوں کومقرر کیا کہ اب کی دفعہ کوئی کشتی لے جائے تو مجھے اطلاع دینا۔ چنانچہ انہوں نے ایک دن مجھے اطلاع دی کہ آپکی کشتی فلاں فلاں لڑکے لے گئے ہیں اور وہ پانی میں کھیل کود رہے ہیں۔ اس پرمیں وہاں گیا میں نے دیکھا کہ پندرہ بیس لڑکے اس پر بیٹھے ہیں۔ (حالانکہ اس کشتی پر صرف پانچ سات لڑکے بیٹھ سکتے تھے) اور خوب کھیل کود رہے اور شور مچارہے ہیں۔ کشتی کے اندر پانی بھرا ہوا ہے اور وہ پانی میں ڈوب رہی ہے ۔ میں نے قریب جاکر جو اُن کو آواز دی تو وہ لڑکے کچھ گھبرا سے گئے۔ کچھ اس لئے کہ کشتی کا مالک میں تھا اور کچھ اس لئے کہ قادیان ہماری ملکیت ہے اور وہ خوفزدہ ہوکر بھاگے اور پانی میں کود پڑے اور تیرتے ہوئے اِدھر اُدھر نکل گئے۔ میرے قابو اور تو کوئی نہ آیا صرف ایک لڑکا میرے قابو چڑھ گیا۔ کیونکہ اُسے نکلنے کیلئے اور کوئی رستہ نہ ملا اور جس جگہ سے وہ نکلا وہاں میں کھڑا تھا۔ بچپن کی عمر تھی اور غصہ مجھے بے انتہا آیا ہوا تھا۔ میں نے جوش سے اُسے مارنے کیلئے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور اُس نے میری ضرب کو روکنے کیلئے ہاتھ اُٹھایا جسے دیکھ کر مجھے اور غصہ آیا اور میں نے اور زیادہ زور سے ہاتھ پیچھے لے جاکر اُسے مُکّا مارنا چاہا۔ یہ دیکھ کر اُس نے یا تو یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کے مقابلہ میں میرا ہاتھ اٹھانا بے ادبی ہوگا اور یا یہ سمجھتے ہوئے کہ انہیں غصہ بہت چڑھا ہو اہے اگر میں نے ضرب روکی تو انہیں اور زیادہ غصہ آئے گا اُس نے اپنا ہاتھ ہٹالیا اور میری طرف منہ کرکے بولا لو جی مارلو۔ جس طرح پتھر گرپڑتا ہے اسی طرح میرا ہاتھ جو بڑے جوش سے اُٹھا ہوا تھا بیکار ہوکر نیچے گر گیا اور اُس کے سامنے سے ہٹتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا کہ گویا وہ حقدار ہے اور میں مجرم ہوں۔ تو اگر معمولی اخلاق انسان کے قلب پر اتنا عظیم الشان اثر کرسکتے ہیں پھر کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان کو خداتعالیٰ کی یہ آواز آرہی ہو کہ میرے بندے میری طرف آ اور وہ اس کی طرف دوڑ نہ پڑے۔ اگر اس میں ایک شمہ بھر بھی خداتعالیٰ کی محبت ہوگی تو ناممکن ہے کہ اس کا پائوں کسی اور طرف اُٹھے۔
حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ ایک شخص اپنے غلام کو مارنے لگا کہ اسے پیچھے کی طرف سے ایک آواز آئی کہ یہ کیا جاہلیت کی حرکت کررہے ہو۔ اُس نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول کریم ﷺ تھے۔ وہ صحابی کہتے ہیں مَیں اُس وقت نہایت جوش کی حالت میں تھا کیونکہ اُس غلام نے کوئی نہایت ہی بیہودہ حرکت کی تھی اور میں نے اُسے مارنے کیلئے اپنے ہاتھ میں کوڑا اُٹھایا ہوا تھا اور ایک کوڑا لگاچکا تھا کہ مجھے رسول کریم ﷺ کی یہ آواز آئی کہ یہ کیا جاہلیت کی بات ہے۔ وہ صحابی کہتے ہیں یہ آواز سن کر مجھے اِس قدر ندامت ہوئی کہ میںنے اپنے دل میں کہا کاش! میں اس سے پہلے مرچکا ہوتا اور رسول کریم ﷺ کی ہیبت کی وجہ سے کوڑا میرے ہاتھ سے گرگیا۔ میں نہایت شرمند ہوکرمجرم کی طرح آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا اور عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ میں اسے نہیں مارتا۔ آپ نے فرمایا اب کیا ہے اب تو تم اسے مار ہی چکے۔ میں نے کہا یَارَسُوْلَ للّٰہِ پھر میرے اس گناہ کا کیا کفارہ ہے۔ آپ نے فرمایا اس کا کفارہ اس کی آزادی ہے۔ چنانچہ اُس صحابی نے اُسی وقت اُس غلام سے کہہ دیا کہ آج سے میں نے تجھ کو آزاد کیا۔ ۶؎
تم جو غلام رکھنے کے عادی نہیں ہو تم نہیں سمجھ سکتے کہ اس زمانہ میں غلام کی کیا قیمت ہوتی تھی۔ اس زمانہ میں غلام کی جس قدر آمد ہوا کرتی تھی وہ اُس کی نہیں بلکہ اُس کے آقا کی ہوا کرتی تھی۔ گویا غلام اپنے آقا کیلئے روزی کمایا کرتا تھا۔ پس ’’میں نے تجھ کو آزاد کیا‘‘ یہ ایسے ہی الفاظ ہیں جیسے تمہارے کانوں میں یہ آواز آئے کہ کوئی شخص ای اے سی ہو اوروہ کہہ رہا ہوکہ میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوتا ہوں یا کوئی زمیندار یہ کہہ رہا ہو کہ میں اپنی زمین چھوڑتا ہوں۔ غرض اُس زمانہ میں غلام کو آزاد کرنے کے معنے یہ تھے کہ اس کے ذریعہ سے جس قدر آمد ہوتی تھی وہ سب جاتی رہے گی۔ مگر اُس صحابی نے جب دیکھا کہ مجھ سے ایک قصور ہوا ہے اور خداتعالیٰ کی آواز اس کے رسول کے ذریعہ سے مجھے کسی اور طرف بلاتی ہے تو اس نے اس غلام کو آزاد کردیا۔ تو خداتعالیٰ کی آواز جب کسی اخلاص رکھنے والے انسان کو سنائی دیتی ہے تو اس کا رنگ بالکل بدل دیتی ہے اور اسے بڑی سے بڑی قربانیوں پر آمادہ کردیتی ہے۔ پس تم خداتعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرو۔ سلسلہ کے کاموں کو اپنے کاموں پرمقدم سمجھو۔ سلسلہ کی تبلیغ کو اپنے بیوی بچوں سے باتیں کرنے پر مقدم سمجھو۔ سلسلہ کی مالی ضروریات کو اپنی مالی ضروریات پر مقدم سمجھو اور اپنے اندر وہ حالت پید اکرلو کہ جب بھی خدا کی آواز تمہارے کانوں میں پڑے تمہارا سر اُسی جگہ جھک جائے اور تمہارے اندر اس کے خلاف ایک ذرا سی بھی جنبش پیدا نہ ہو۔ یہ وہ ایمان ہے جو حقیقی ایمان کہلاتا ہے۔ اور یہ وہ ایمان ہے جو دل سے ہرقسم کا گند دور کرکے انسان کو قوم کا سپاہی بنادیتا ہے۔
قادیان والوں پر خصوصیت سے بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے ۔ انہیں سچائی پر دوسروں سے زیادہ جوش سے قائم ہونا چاہئے۔ انہیں نمازیں دوسروں سے زیادہ مداومت کے ساتھ پڑھنی چاہئیں۔ انہیں تبلیغ دوسروں سے زیادہ عمدگی سے کرنی چاہئے۔ انہیں مالی قربانی دوسروں سے بہت بڑھ کر کرنی چاہئے۔ کیونکہ یہی وہ نعمتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے لئے لائے۔ اگر یہ نعمتیں کسی کو حاصل نہیں اور وہ قادیان میں محض تجارت یا زراعت یا ملازمت اپنا پیشہ بنا کر رہائش اختیار کئے ہوئے ہے، تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کوئی چیزنہیں۔ اگر وہ باہر پچاس ساٹھ کماتا تھا اور یہاں اُس نے دو سَوماہوار بھی کمالئے تب بھی یہ بالکل حقیر اور ذلیل چیز ہے۔ تم سے زیادہ کمانے والے، تم سے زیادہ تجارتیں کرنے والے، تم سے زیادہ زراعتیں کرنے والے، تم سے زیادہ دُنیوی کاموں میں دسترس رکھنے والے دنیا میں موجود ہیں، پھر سوچو کہ انہوں نے کیا بنالیا۔ مگر جن لوگوں نے خداتعالیٰ کی خاطر قربانیاں کی ہیں، دنیا سینکڑوں سالوں سے ان کی اولادوں اور نسلوں کی بھی غلام بنی چلی آرہی ہے۔ یزید نے بے شک رسول کریم ﷺ کے نواسے کو اُس نواسے کو جسے رسول کریم ﷺ نے اپنی گود میں اُٹھایا شہید کردیا اور اُس نے یہ سمجھا کہ وہ کامیاب ہوگیا۔ مگر آج بھی وہ لوگ موجود ہیں جو سادات میں سے ہونے کی وجہ سے دوسروں سے بے دھڑک کہہ دیتے ہیں کہ ہم اُمتی کے برتن میں کھانانہیں کھائیں گے۔ پھر بعض بناوٹی سید ہوتے ہیں وہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم اُمتی کے برتن میں کھانا نہیں کھائیں گے اور لوگ خوشی سے ان باتوں کو برداشت کرلیتے ہیں۔ حالانکہ اس قسم کا فقرہ لوگ کسی بڑے سے بڑے آدمی کے منہ سے بھی نہیں سُن سکتے اور اسے اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ مگر جب کسی سید کے منہ سے وہ یہ فقرہ سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کوئی حرج نہیں، آخر یہ محمد ﷺ کی بیٹی کی اولاد میں سے ہے۔
اب دیکھو تیرہ سَو سال کا عرصہ کتنا لمبا عرصہ ہوتا ہے مگر آج بھی ایک شخص جب یہ کہتا ہے کہ میں سید ہوں تو معاً ہمارا لہجہ اور ہمارا طریق گفتگو بدل جاتا ہے۔ ہم اسی حیثیت کے ایک دوسرے آدمی کو تو تُو کرکے بُلارہے ہوتے ہیں مگر اس سیّد کو ہم شاہ صاحب شاہ صاحب کہنے لگ جاتے ہیں اور اس طرح وہ ہمارا شاہ بھی بن جاتا ہے اور صاحب بھی ہوجاتا ہے۔ حالانکہ بعض دفعہ اس کے اعمال کو رسول کریم ﷺ کی تعلیم سے اتنی نسبت بھی نہیں ہوتی جتنی خاک کو سورج سے ہے۔ پھر تم خداتعالیٰ کو دیکھو وہ بھی کس طرح ان لوگوں کی قدر کرتا ہے جو اُس کے کسی پیارے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب دشمنوں کی طرف سے بہت زیادہ تکالیف پہنچیں تو غالباً اس وجہ سے کہ آپ کے دل میں ان کے متعلق بددعا کا جوش پیدا ہوا اللہ تعالیٰ نے آپ پر الہام کیا اور فرمایا ؎
اے دل تُو نیز خاطر ایناں نگاہ دار
کآخر کنند دعوئے حب پیمبرم
یعنی اے مسیح موعودؑ کے دل! تُو نیز خاطر ایناں نگاہ دار۔ یہ کیسے ہی تیرے دشمن سہی ، کیسے ہی تیرے مخالف سہی پھر بھی ان کا کچھ لحاظ کیجیؤ۔ کیونکہ یہ ہمارے پیغمبر کی محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں۔ اب دیکھو غنی خدا ، محسن خدا، صمد خدااپنے ایک خادم سے تعلق رکھنے والے کی جب اتنی قدر کرتا ہے تو کس قدر ناپاک وہ بندہ ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ اگر وہ خود خدا سے تعلق پید اکرے گا تو خدا اُس کی قدر نہیں کرے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام یہ بھی ہے کہ اُخْرِجَ مِنْہُ الیَزِیْدِیُّوْنَ ۷؎ کہ قادیان میں بعض یزیدی صفت لوگ پیدا کئے گئے ہیں۔ یہ نام گویا خداتعالیٰ نے ان لوگوں کا رکھا جو سلسلہ کی مخالفت کرتے ہیں مگر خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ الہام نازل کرکے کہ ؎
اے دل تُو نیز خاطر ایناں نگاہ دار
کآخر کنند دعوئے حب پیمبرم
اِس امر کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ گو یزید ایک نہایت ہی ناپاک انسان تھا جس نے محمد ﷺ کے نواسے کو شہید کیا اور تیرے دشمن یزیدی صفت ہوگئے ہیں۔ مگرپھر بھی ان کا کچھ نہ کچھ لحاظ کرناکیونکہ یہ آخر یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ انہیں رسول کریم ﷺ سے محبت ہے۔
تو اخلاص اورعدمِ اخلاص بہت موٹی چیزیں ہیں اوریہ فوراً نظر آجاتی ہیں۔ جسے اخلاص ہوتا ہے اسے اپنے محبوب کی ہر چیز پیاری معلوم ہوتی ہے۔ مگر جس کے اندر اخلاص کا مادہ نہیںہوتا وہ محبت کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن اس کے آثار اس کے اندر نہیں پائے جاتے۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ تم اپنے اندر اخلاص اور محبت پیدا کرو اور دن اور رات سلسلہ کیلئے قربانیاں کرکے اپنے آپ کو ان لوگوں میں شامل کرو جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی۔
اس وقت تحریک جدید کا پہلا دَور ختم ہوکر اس کا دوسرا دور عنقریب شروع ہونے والا ہے۔ تمہیں چاہئے کہ تم میں سے ہر شخص سچی قربانی کا نمونہ بنے اور اس تحریک کے جس قدر مطالبات ہیں ان کو پورا کرے۔ تا اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس تحریک کے دوسرے دَور میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہو۔ یاد رکھو وہ لوگ جنہوں نے آج کوتاہی کی ہوگی، جنہوں نے آج اپنی قربانیوں کمزوری اور سُستی دکھائی ہوگی، جنہوں نے آج اپنے وعدوں کو پورا کرنے سے بے توجہی اور لاپرواہی اختیار کی ہوگی اُن کا کَل ان کو اس نیکی کے راستہ سے اور زیادہ دور لے جانے والا ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہی ان پر رحم کرے تو کرے ورنہ ظاہری حالات کے لحاظ سے ان کی ایمانی حالت خطرناک ہوگی۔
پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ گو سال کا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر اب بھی وقت ہے، اب بھی لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کا موقع ہے اور گو دن بہت تھوڑے رہ گئے اور سال اپنے اختتام کو پہنچ گیا مگر پھر بھی وہ دوست جو اپنی اصلاح کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔ ان کے سامنے تحریک جدید کے تمام مطالبات موجود ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ ان تمام مطالبات کو پورا کریں۔ خواہ وہ مطالبات سادہ زندگی کے متعلق ہیں، خواہ ایک کھانا کھانے کے متعلق ہیں، خواہ تبلیغ کے متعلق ہیں، خواہ وقف زندگی کے متعلق ہیں، خواہ اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کے متعلق ہیں، خواہ صلح اور آشتی سے رہنے کے متعلق ہیں اور خواہ مالی قربانی کے متعلق ہیں۔ان میں سے ہر ایک مطالبہ کو پورا کرو۔ چونکہ جیسا میں نے حال میں اعلان کیاہے اس سال مالی حصہ میں ابھی بہت کمی ہے اس لئے اس حصہ کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ ان باتوں کو بھی مدنظر رکھو جن کے متعلق میں نے اس سال کے چند ابتدائی خطبات میں جماعت کو توجہ دلاچکا ہوں۔ غرض ہر رنگ میں تحریک جدید کے مطالبات کو پورا کرو اور اپنے چھوٹوں اور اپنے بڑوں اور اپنے جوانوں اور اپنے بوڑھوں کے اندر نیکی اور تقویٰ کا وہ رنگ پیدا کرو کہ جس رنگ کودیکھ کر دنیا یہ کہہ سکے کہ اسے تم میں خدائی جلوہ نظر آرہا ہے۔
(الفضل ۸ ؍ اکتوبر ۱۹۳۷ئ)
۱؎ موضوعات کبیر۔ ملا علی قاری صفحہ۵۹ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ
۲؎ فاطر: ۴۴ ۳؎ الکہف: ۱۱۱
۴؎ بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد (الخ)
۵؎ التکویر: ۱۴
۶؎ مسلم کتاب الایمان باب صحبۃ الممالیک
۷؎ تذکرہ صفحہ۱۷۶۔ ایڈیشن چہارم

۳۳
اپنے مقصود کو کبھی بھولنا نہیں چاہئے
(فرمودہ ۵ ؍نومبر ۱۹۳۷ء )
تشہّد، تعوّذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
سب سے پہلے تو میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ عقلمند انسان کو کبھی بھی اپنے مقصود کو نہیں بھولنا چاہئے۔ جو انسان اپنے مقصد کو بھول جاتا ہے وہ کہیں کا بھی نہیں رہتا کیونکہ دوسرے مقاصد کیلئے تو وہ کوششیں کر نہیں رہا ہوتا۔ پس جو مقصد اس کا ہوتا ہے اسے بھی اگر بھول جائے تو اس کے تمام کاموں اور جدوجہد کا نتیجہ صفر رہ جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا ۱؎ یعنی ہر انسان کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور وہ اس مقصد کیلئے اپنی ساری جدوجہد کو وقف کردیتا ہے اور یہی چیز انسان کی تمام کامیابیوں کی جڑ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی ترقی کیلئے یہ اصل مقرر کردیا ہے کہ کوشش کچھ نہ کچھ نتیجہ پیدا کرہی دیتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کُلًّا نُّمِدُّ ھٰٓـؤُلائِ وَ ھٰٓـؤُلائِ ۲؎ یعنی ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں۔ کوئی نیک ہو یا بد ہم نے دنیا میں یہ قانون جاری کردیا ہوا ہے کہ جو شخص کسی مقصد کیلئے کوشش، محنت اور سعی کرے تو جس مقصد کیلئے وہ ایسا کرے اگر اس کی کوشش اس مقصد میں کامیابی کے ذرائع کے مطابق ہو تو اسے کامیاب کردیتے ہیں۔ ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں، ان کی یعنی نیکوں کی بھی اوران کی یعنی بدوں کی بھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس قانون کا اتنا احترام کیا ہے کہ کوئی انسان خواہ سچے دین کا پیرو نہ ہو تب بھی اس کی کوششیں اگر صحیح ہوں نتیجہ خیز ہوتی ہیں۔ بلکہ جو لوگ سچے دین کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اگر جدو جہد کرتے ہیں تو گو کامیاب نہیں ہوتے مگر سچائی کے راستہ میں مشکلات ضرور پیدا کردیتے ہیں۔ انجام تو بہرحال نیکیوں کا ہی اچھا ہوتا ہے۔ مگر بدوں کی کوششیں بظاہر ایسی فضا پیدا کردیتی ہیں کہ دیکھنے والے شروع میں سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید نبیوں کے دشمن کامیاب ہوجائیں گے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلَّا اِذَا تَمَنّٰی اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْ اُمْنِیَّتِہٖ ۳؎ یعنی جب بھی کوئی مقصد عالی لے کر کھڑا ہو شیطان ضرور اس کے راستہ میں روک ڈال دیتا ہے۔ یعنی یہ نہیں ہوتا کہ وہ روک ڈال ہی نہ سکے روک ضرور ڈال دیتا ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ خاص اُس روک کو دور کرکے نبیوں کو کامیاب کردیتی ہے۔ تو جدوجہد اگر بُرے مقصد کیلئے بھی ہو عارضی کامیابی پیدا کردیتی ہے اور اگر سچائی کے مقابل پر نہ ہو تو خواہ کافر کی صحیح جدو جہد ہو نتیجہ خیز ہوتی ہے۔
دیکھ لو مکہ والوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی۔ انہوں نے اپنا یہ مقصد قرار دے دیا کہ محمد (ﷺ) کوزِک پہنچانی ہے اور آپ کو مکہ سے نکال دیناہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ایک نبی اور پھر اس نبی کو جو تمام نبیوں کا سردار ہے وہ حقیقی زِک نہیں پہنچاسکتے تھے۔ لیکن اس میں کیا شک ہے کہ اس حد تک وہ اپنی کوششوں میں ضرور کامیاب ہوگئے کہ آنحضرت ﷺ کومکہ چھوڑنا پڑا۔ اور ان کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ہم کامیاب ہوگئے ہیں اور کہ ہم نے مکہ کو محمد (ﷺ) کے وجود سے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) پاک کردیا ہے۔ اگرچہ خداتعالیٰ نے اُن کو جھوٹا کیا اور بتادیا کہ جس کے مکہ سے جانے کو وہ مکہ کی پاکی کا موجب سمجھتے تھے اس کا جانا دراصل مکہ والوں کی ہلاکت کا موجب تھا۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَ اَنْتَ فِیْھِمْ وَمَاکَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۴؎ یعنی مکہ والے خوش ہیں کہ انہوں نے مکہ کو بزعمِ خود پاک کرلیا ہے۔ لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہنے کے لئے دو ہی طریق مقرر ہیں۔ یا تو یہ کہ وہ لوگ نیک ہوں اور استغفار میں لگے رہتے ہوں اور یا پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ کا رسول ان میں ہو اور انہیں رسول کی صحبت جسمانی حاصل ہو۔ رسول کا جسمانی قرب بھی انسان کو بہت سے عذابوں سے بچا لیتا ہے۔ غرض یہی قانون دنیا میں رائج ہے کہ یا تو وہ لوگ عذاب سے بچائے جاتے ہیںجو نیک ہوں اور یا پھر جو رسول کے اِس قدر قریب ہوں کہ ان پر عذاب کا اثر رسول اور اس کے ساتھیوں پر بھی پڑ سکتا ہو۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مکہ والے تو خوش ہیں کہ انہوں نے محمد (ﷺ )کو نکال لیا ہے اور مکہ کو بزعمِ خود پاک کر دیا ہے۔ حالانکہ ایسا کرکے انہوں نے ہمارے لئے ان پر عذاب نازل کرنے کا رستہ کھول دیا ہے۔ اب ہمارا رسول ان کے اندر نہیں اس لئے ان پر عذاب نازل کرنے کا رستہ ہمارے لئے کھل گیا ہے۔ اس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی ملتی ہے۔ جوانی کے ایام کا واقعہ ہے کہ آپ سیالکوٹ میں ایک مکان میں سو رہے تھے ۔ اُس وقت اُس کمرہ میں ایک ہندو صاحب بھی تھے جن کا نام لالہ بھیم سین تھا اوروہ وکالت کاپیشہ کرتے تھے۔ انہی صاحب کے لڑکے لالہ کنور سین کچھ عرصہ ہوا لاء کالج لاہور کے پرنسپل تھے اور بعد میں ریاست جموں و کشمیر کے چیف جسٹس بھی رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے تھے کہ جب سب سو گئے اور رات کا ایک حصہ گزر گیا تو چھت میں ٹک ٹک کی معمولی سی آواز پیداہوئی ( اور ایسی آواز عام طور پر کوئی کیڑا وغیرہ لگا ہو سنائی دیا کرتی ہے) اور میرے دل میںیہ خدشہ پیدا ہوا کہ چھت گرنے والی ہے۔ اس پر میں نے اپنے ساتھیوں کو جگایا اور کہا کہ یہاں سے نکل جانا چاہئے ۔ مگر انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں صرف آپ کو وہم ہو گیا ہے، ایسی آواز تو ہمیشہ آیا ہی کرتی ہے اور ایسے کیڑے لگے ہوئے شہتیر دس دس اور بیس بیس سال کھڑے رہتے ہیں۔ اس پر آپ خاموش ہو گئے مگر تھوڑی دیر بعد پھر بڑے زور سے یہ خیال پیدا ہوا کہ چھت گرنے والی ہے۔ اس پر آپ نے پھر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ چلو اس کمرے سے باہر نکلو۔ مگر انہوں نے پھر اسی قسم کا جواب دیا اور آپ پھر لیٹ گئے ۔مگر پھر آپ کے دل پر یہ خیال غالب ہوااور یقین ہو گیا کہ شہتیر ٹوٹنے ہی والا ہے ۔ اس پر آپ نے پھر ساتھیوں سے فرمایا کہ ُاٹھو اور میری خاطر ہی کمرہ سے نکل چلو ۔ اس پر وہ بڑبڑاتے ہوئے اُٹھے اور کہنے لگے کہ خوامخواہ آپ ہماری نیند خراب کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے تھے اُس وقت مجھے یقین تھا کہ یہ چھت صرف میرے باہر نکلنے کا انتظار کر رہی ہے۔ اس لئے میں دروازہ میںکھڑا ہو گیا اور ان سب کو ایک ایک کر کے گزرنے کو کہا ۔ جب سب نکل گئے تو میرا ایک پائوں ابھی سیڑھی پر تھا اور دوسرا اندر کہ چھت گر پڑی ۔
لالہ بھیم سین صاحب پر اس واقعہ کا اس قدر اثر تھا کہ جن دنوں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پرجہلم وا لا مقدمہ چل رہاتھا ، اُس وقت اُن کے لڑکے ولایت سے نئے نئے بیرسٹر ی پاس کر کے آئے تھے اور شہرت حاصل کر رہے تھے۔ لالہ بھیم سین صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو لکھا کہ میںنے اپنے لڑکے سے کہا ہے کہ یہ اس کیلئے بڑا چھا موقع ہے کہ وہ آپ کے مقدمہ کی پیروی کرکے برکت حاصل کرے۔ لالہ صاحب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایسی عقیدت اور تعلق ظاہر کیا کرتے تھے کہ حضور کو اگر کبھی ضرورت پیش آتی تو ان سے قرض منگوالیا کرتے تھے اور احمدیوں سے قرض مانگتے ہوئے حجاب کرتے تھے۔ یہ مثال ایک نمونہ ہے اور بھی ہزاروں مثالیں ہیں مگر یہ چھوٹا سا واقعہ ہے جو بہت نمایاں ہے۔
تویہ مکہ والوں کی بیوقوفی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو نکال کر انہوں نے مکہ کو پاک کرلیا ہے۔ دراصل انہوں نے پاک نہیں کیا تھا بلکہ مکہ کیلئے خطرہ پیدا کرلیا تھا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی پاکیزگی کومکہ سے نکال کر انہوں نے اپنے آپ کو خطرات میںڈال دیاتھا۔ لیکن بہرحال جس چیز کو وہ کامیابی سمجھتے تھے وہ انہوںنے بظاہر حاصل کرلی تھی۔ تویہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جو شخص محنت اور سعی کرے وہ ضروری کُلّی یا جزوی کامیابی حاصل کرلیتا ہے اورمومن تو اگر کوشش کرے تو بہت ہی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ مکہ والوں کا مقصد غلط تھا مگر وہ اس میں لگ گئے۔ اس لئے عارضی کامیابی کی خوشی انہیں بھی حاصل ہوگئی۔ اس کے مقابل دیکھ لو آخری زمانہ کے مسلمانوں کامقصد کتنا عظیم الشان تھا ۔ یعنی یہ کہ قرآن کریم کی صداقت ظاہر ہو اور محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت ثابت ہو۔ مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ ان کی بادشاہتیں مٹ گئیں، جتھے ٹوٹ گئے، وہ علم سے کورے ہوگئے اور انہیں ہر میدان میں شکست پر شکست ہوئی حالانکہ ان کا مقصد کیسا اعلیٰ تھا۔ ان کے مقابل پردیکھو عیسائیوں کا مقصد کتنا غلط تھا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ اس دعویٰ پر جو عیسائی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے آسمان پھٹ جائے۔ عیسائی ایسے خطرناک مقصد کیلئے کھڑے تھے اور مسلمان اس مقصد کیلئے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا پیدا ہی اس مقصد کیلئے کی گئی ہے۔ چنانچہ حدیث قدسی ہے لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْـلَاکَ۵؎ اگر محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود نہ ہوتا تو دنیا پیدا ہی نہ کی جاتی۔
اب دیکھو ایک طرف تو ایسا مقصد تھا جس کیلئے دُنیا پیدا کی گئی اور دوسری طرف ایسا جس سے دنیا تباہ ہوجائے۔ مگر باوجود اس کے مسلمان ہارتے گئے اور عیسائی جیتتے گئے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ گو مسلمانوں کا مقصدنیک تھا مگر وہ اس مقصد کیلئے جدوجہد چھوڑ بیٹھے تھے اور دوسری طرف عیسائیوں کامقصد بُرا تھا مگر وہ اس کیلئے سعی اور جدوجہد کررہے تھے۔ عیسائی شرک کی تائید میں کھڑے ہوئے اور اپنا سب کچھ اس کیلئے قربان کردیا اور مسلمان توحید کی تائید کیلئے کھڑے ہوئے مگر اسے فراموش کرکے اور کاموں میں لگ گئے اور آخر دنیا کے ہر گوشہ میں انہوں نے شکست کھائی۔ پس اپنے مقصود کو بھلادینا بڑی نادانی ہے۔ جس سے انسان کو ہمیشہ ناکامی کامنہ دیکھنا پڑتا ہے۔ جو شخص اپنے مقصد کو فراموش کردیتا ہے وہ گویا خود اپنے پائوں کاٹتا ہے۔
ہمارے سلسلہ کا مقصد دنیا میں نیکی اور تقویٰ قائم کرنا ہے اور دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت قائم کرنا ے جو نیکی او رتقویٰ سے ہی قائم ہوسکتی ہے۔ یہ تو نہیں کہ خداتعالیٰ پہلے دنیا کی بادشاہت سے محروم ہے اور ہم نے اس کیلئے لندن کا یا دہلی کاتخت حاصل کرکے کہنا ہے کہ لیجئے حضور یہ ہم نے آپ کے لئے حاصل کیا ہے۔ یہ بادشاہت تو اسے پہلے ہی حاصل ہے وہ جب چاہے اورجس طرح چاہے دنیا میں تغیر پیدا کرسکتا ہے۔ کوئٹہ اور بہار کے زلزلے صاف ثابت کررہے ہیں کہ دنیا پر اس رنگ میں حکومت اسے حاصل ہے۔ پس جس بادشاہت کیلئے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے وہ دلوں پرایمان اور تقویٰ کی بادشاہت ہے۔ یہی نذرانہ اوریہی ہدیہ ہے جو ہم پیش کرسکتے ہیں اورجس کا مطالبہ ہم سے کیا گیا ہے۔ اگر کسی وقت بھی ہم اس مقصود کو بھول جائیں تو ہماری تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ کیونکہ وہ غیر مقصود کیلئے ہوں گی۔ اس لئے ہم کبھی مقصود کو نہیں پاسکیں گے۔ ایک شخص لاہور جانا چاہتا ہے مگر چلتا ہے وہ بیاس کی طرف تووہ لاہور نہیں پہنچ سکے گا۔ دنیا کے گرد پچیس ہزار میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ممکن ہے لاہور آجائے مگر یہ اور بات ہے۔ دنیا میں لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، جھگڑے بھی ہوتے ہیں، جوش اور غصہ بھی دلایا جاتا ہے مگر کسی حالت میں بھی ہمیں اپنے مقصود کونظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
۱۹۱۳ء میں مَیں شملہ کے مقام پر تھا کہ میںنے رئویا دیکھا کہ میں ایک پہاڑی پرجانا چاہتا ہوں۔ کوئی کہتا ہے کہ رستہ میںشیطان اور ابلیس مختلف طریقوں سے تمہیں ڈرائیں گے۔ مگر تم کوئی خیال نہ کرنا اور ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ کہتے ہوئے چلتے جانا۔ چنانچہ جب میں چلا تومیں نے دیکھاکہ قسم قسم کے وجود ظاہر ہوکر مجھے ڈراتے ہیں۔ کوئی تو وجود انسان کا مگر سر ہاتھی کا ہے۔ کوئی شیر کا دھڑاور سر انسان کا ہے۔ کہیں خالی دھڑ ہی ہیں اور کہیں خالی سر ہی ہیں۔ کبھی وہ گالیاں دیتے ہیں اور کبھی اورمختلف ذرائع سے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ مگرمیں ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ ’’خد اکے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘کہتا ہوا چلا جاتا ہوں اور کسی کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا اور آخر منزلِ مقصود پر پہنچ گیا۔
یہ غالباً ستمبر ۱۹۱۳ء کا رئویا ہے جس پر آج ۲۴ سال اور دو ماہ گزرتے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ عارضی روکوں سے اصل مقصد کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔ دشمن کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہمیں اپنے مقصد سے پھیر دے۔ڈرا کر، لالچ دلاکر اور گالیاں دے کر وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے مقصد کو بھول جائیں اور بعض لوگ اس سے متأثر ہوجاتے ہیں اورجواب میں گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔ اس سے کئی طرح کے نقصان ہوتے ہیں۔میں جماعت کے تین چار افراد کو جانتا ہوں جن کو اسی وجہ سے ٹھوکر لگی کہ وہ دشمن کی گالیوں کے جواب میں گالیاں دیتے تھے۔ چنانچہ فخرالدین صاحب ملتانی نے جو بیان دیا، اس میں تسلیم کیا تھا کہ میں نے سید عزیزاللہ صاحب کی معرفت پتہ کرایا کہ حضرت صاحب مجھ پر کیوں ناراض ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ میرے ان مضامین کی وجہ سے جو ’’فاروق‘‘ میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ خوش ہوتے کہ میں ان کو نیکی کا رستہ بتاتا ہوں اس بات سے ان کے دل میں گرہ بیٹھ گئی۔ اگرمیں دنیادار لوگوں کی طرح ہوتا تو ان مضامین پر خوش ہوتا اور اُن کو شاباش دیتا کہ تم نے خوب پیغامی جماعت کو گالیاں دیں۔ مگر میں اپنی ایسی تائید کو بھی پسند نہیں کرتا جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہو اِسی بات سے ان کے دل میں بال آگیااور جس چیز میں بال آجائے وہ آخر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی ہے۔
میں نے بارہا دوستوں کو توجہ دلائی ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ اعلیٰ اخلاق دکھائیں۔ میں مانتا ہوں کہ بعض اوقات سختی کرنی پڑتی ہے مگر اس کا رنگ اور ہوتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی بعض اوقات سختی کی ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے اور جب خدا تعالیٰ سختی کا حکم دے تونتیجہ کا بھی وہ خود ذمہ دار ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے نبی سے کہتا ہے کہ سختی کرو تو ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ جو اس کا جواب دے گا، میں اس کامنہ توڑ دوں گا لیکن ہمارے لئے اس نے ایسا نہیں کہا۔ نبی کی نقل شرعی اُمور میں ضروری ہوتی ہے لیکن خاص امور میں اس کی نقل کرنا بے ادبی ہے۔ نماز ایک عام حکم ہے۔ روزہ ایک عام حکم ہے۔یہ شرعی احکام ہیں ان میں اگر ہم نبی کی نقل نہ کریں تو یہ گناہ ہے۔ معاف کرنا اور عفو سے کام لینا شرعی احکام ہیں، ان میں نبی کی اتباع جتنی ہوسکے کرنی چاہئے۔ لیکن اگر خداتعالیٰ نبی سے کہے کہ دنیا کو چیلنج کرو کہ میرا مقابلہ کرے تویہ چیلنج کوئی شرعی چیز نہیں ہوگی بلکہ خاص حکم ہوگااور اس میں اگر ہم نبی کی نقل کریں تو گویا اس کا منہ چڑانے والے ہوں گے۔ کئی لوگ مجھے بھی کہتے ہیں کہ آپ اس قسم کا چیلنج دیں اور کئی نادان خود تیار ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ تو نبی کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہوتی ہے۔ رسول کریم ﷺ نمازی تھے۔ ہم میںسے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ نمازی بنے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النّبیّٖن بھی تھے۔ اب کوئی کہے میں بھی خاتم النّبیّٖن بنتا ہوں تو ہر کوئی سے پاگل کہے گا۔ نماز میں، روزہ میں، عفو میں، دوسروں سے اچھا سلوک کرنے کے معاملہ میں، حسن سلوک میں، یتیموںاور بیوائوں کی خبر گیری کرنے میں ہمیں آنحضرت ﷺ کی نقل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ مگر خاتم النّبیّٖن بننے میں نقل کرنا جنون ہے، بے ایمانی ہے۔ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ انبیاء کو خاص حکم دیتا ہے کہ تم اس اس طرح کرو۔ ان میں ان کی نقل کرنا حماقت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ تم ہو کیا گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔ اب اگر ہم بھی یہ کہتے پھریں تو بدتہذیب کہلائیں گے یا نہیں؟ نبی تو ایک فیصلہ سناتاہے، جیسے ایک مجسٹریٹ سناتا ہے کہ تم چورہو اور میں تم کو چھ ماہ قید کی سزا دیتا ہوں۔ لیکن ہم ایسا نہیں کہہ سکتے خواہ کوئی چور ہی ہو ہم اسے چورنہیں کہہ سکتے۔ کوئی مجسٹریٹ یہ نہیں کہتا کہ تم بڑے نمازی ہو، پرہیز گار ہو اس لئے میں تم کو سزا دیتا ہوں۔ وہ چور کہہ کر ہی سزا دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی دوسرا کسی کوچور کہے تو اُسے عیب چین اور بدگو کہا جائے گا۔ لیکن مجسٹریٹ کہتا ہے تو سب کہتے ہیں کیا انصاف کیا۔ پس انبیاء کی کسی ایسی بات کو بطور دلیل پیش نہیں کیاجاسکتا۔
میں نے اخبار والوں کو بارہا توجہ دلائی ہے کہ سخت الفاظ کا استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کوئی مضمون نگار اس بارہ میں دشمنوں کی نقل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ چونکہ وہ سختی کرتے ہیں اس لئے ہم بھی سختی کریں تو وہ غلطی کرتاہے۔ اس صورت میں ہم میں اور دوسروں میں فرق کیا رہے گا۔ میں ہمیشہ کسی مخالف کا نام لیتے ہوئے ساتھ صاحب کا لفظ لگاتا ہوں اور عزت سے نام لیتاہوں۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ مجھ میں غیرت نہیں یا مجھے غصہ نہیں آتا۔ آتا ہے اور ضرور آتا ہے مگر یں کہتا ہوں ’’ایاز قدر خود بشناس‘‘ جو رُتبہ نبی کا ہے ، وہ اُسی کا ہے او رہمارا رُتبہ اس کے برابر نہیں ہوسکتا۔ میں نے دیکھا کہ بعض لوگ لکھتے وقت بے احتیاطی کرتے ہیں۔ مضمون لکھتے ہیں توجواب میں سخت لفظ استعمال کرتے ہیںاور کہتے یہ ہیں کہ دشمن کے بیسیوں الفاظ کے جواب میں یہ ایک لفظ ہم نے لکھا ہے حالانکہ وہ ایک لفظ بھی مناسب نہیں ہوتا۔ مظلومیت کا حربہ بہت بڑا حربہ ہے۔ دیکھو! یزید نے حضرت امام حسینؓ کو گالیاں دیں او ربہت ظلم کئے لیکن امام حسینؓ نے مظلومیت دکھائی اور نتیجہ دیکھ لو یزید کا کوئی نام بھی نہیں لیتا اور حضرت امام حسینؓ کا آج بھی ماتم کیا جاتا ہے۔ تو مظلومیت کا رُتبہ بڑا ہے جس کی ہمارے دوستوں کو قدر کرنی چاہئے اور اگر وہ ظالموں کی صف میں کھڑا ہونے کی بجائے مظلومیت دنیا کے سامنے پیش کریں تویہ زیادہ اچھا ہے۔ مومن تو دنیا میں آتاہی مظلوم بننے کیلئے ہے۔ اس کی مثال تو اس شخص کی ہوتی ہے جو دو لڑنے والوں کو چھڑاتا ہے اور جسے دونوں ہی مارتے ہیں اور اس طرح اس کا کام ہی مظلوم بننا ہوتا ہے۔
پس میں دوستوں کو خصوصاً اخبار والوں کو یہ نصیحت کرتاہوں کہ وہ سخت الفاظ استعمال نہ کیا کریں۔ اگر کسی مضمون میں کوئی سخت لفظ ہو بھی تو اسے کاٹ دیں۔ ایڈیٹر کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ جو لفظ نامناسب سمجھے اسے کاٹ دے اور اگر کسی کو اس پر اعتراض ہو تو وہ اپنا مضمون واپس لے لے۔ یہ کوئی عُذر نہیں کہ ہم نے دشمن کی بیسیوں گالیوں کے مقابلہ میں صرف ایک آدھ لفظ ہی سخت استعمال کیا ہے۔ ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ بیسیوں گالیاں سننے کے بعد ، چالیس،پچاس اور سَو بلکہ ہزار کا بھی انتظار کریں۔
رسول کریم ﷺکی مجلس میں ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ کسی شخص کا اختلاف ہوگیا۔ وہ شخص مَغْلُوْبُ الْغَضَبْ تھا۔ اُس نے سخت الفاظ استعمال کرنے شروع کردیئے۔ کچھ دیر حضرت ابوبکرؓ خاموش رہے مگر آخر آپ کو بھی غصہ آگیا اور آپ نے بھی کوئی سخت لفظ استعمال کیا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکرؓ! اِس وقت تک فرشتے تمہارے طرف سے جواب دے رہے تھے۔ مگر جب دیکھاکہ تم خود جواب دینے لگے ہو تو وہ لوٹ گئے کہ اب اس نے اپنا کام آپ سنبھال لیا ہے۔۶؎ پس اپنے مقصود کو سامنے رکھو میرایہ مطلب نہیں کہ جواب نہ دو۔ جواب میں حق نہ کہنے والے کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گونگا شیطان فرمایا ہے۔ پس جواب دو اور ضرور دو مگر گالی اور سخت کلامی سے نہیں بلکہ نرمی اور رِفق سے۔
جب کوئی شخص غصہ میں آجائے تو دلائل بھول جاتا ہے اور لفاظی پر خوش ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے کیسا منہ توڑ جواب دیا۔ حالانکہ دراصل وہ دشمن کا منہ توڑ نہیں رہا ہوتا بلکہ اپنا ہی قلم توڑ دیتا ہے۔ پس میںیہ نہیں کہتا کہ جواب مت دو ۔ جواب نہ دینے والے کو رسول کریم ﷺ نے گونگا شیطان قرار یا ہے۔ بلکہ مجھے یہ افسوس ہے کہ اس وقت ہمارے بعض دوست عملی طور پر گونگے شیطان کے مثیل بنے ہوئے ہیں۔ ان کو بھی چاہئے کہ سلسلہ کے لٹریچر میں مفید اضافہ کریں۔میں صرف یہ کہتا ہوں کہ سخت الفاظ استعمال نہ کریں بلکہ قرآن کریم اور احادیث کے رو سے جواب دیں۔دوسرا امر جس کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ تحریک جدید کے تین سال اب ختم ہورہے ہیں۔ جب میں نے یہ تحریک شروع کی تھی، اُس وقت جماعت کیلئے ایک نیا صدمہ تھا اوردوستوں کیلئے یہ حیرت انگیز بات تھی کہ گورنمنٹ کے بعض افسر بھی ہمارے خلاف ہوگئے تھے۔ اس نے ان کی آنکھیں کھول دی تھیں اور انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ ہمارا یہ خیال غلط ہے کہ ہمارے لئے یہی مقدر ہے کہ ہم امن سے اپنا کام کرتے جائیں گے۔ سرکاری حکام کا یہ سلوک اِس قدر آنکھیں کھولنے والا تھا کہ بہت سے سوئے ہوئے بیدار ہوگئے۔ اور لازمی طور پر ہماری بیداری کے ساتھ ہمارے دشمن بھی بیدار ہوئے خواہ وہ حُکّام میں سے تھے، خواہ احرار میں سے اور خواہ وہ دوسرے مولویوں میں سے۔ انہوں نے باہر سے بھی ہم پر حملے کرنے شروع کئے اور اندرونی طور پر بھی۔ہم میں سے بعض کواپنے ساتھ ملانا چاہا ’’Divide & Rule‘‘ ایک پُرانا اصولِ حکمرانی ہے۔ رومن حکومت کی بنیاد اِسی اصول پر تھی، یعنی محکوموںمیں باہم تفریق پیدا کرو اوران پر حکومت کرتے جائو۔ اور بعض انگریز سیاست دانوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کی حکومت کی بنیاد بھی اِسی اصل پر ہے۔ چنانچہ اِس اصل کے ماتحت ہم میں سے بعض لوگوں کے اندر بھی منافقت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ پنجاب کے جیلوں کے ایک بڑے افسر کے ذریعہ بِالواسطہ طور پر مجھے معلوم ہوا یعنی اُس نے ایک معزز احمدی افسر کو بتایا ہے کہ احرار کے ایک اہم اور ذمہ داری قیدی نے اُسے ۱۹۳۵ء میں کہا کہ یہ مت خیال کرو کہ قادیان کے خلاف ہماری تحریک ناکام ہوئی ہے بلکہ ہم نے ان میں سے بیس پچیس آدمی اپنے ساتھ ملالئے ہیں اور اس طرح جماعت کے اندر تفرقہ پید اکرچکے ہیں۔ یہ ۱۹۳۵ء کی بات ہے مگر یہ تدبیریں انہوںنے انسانوں کی طاقت کا اندازہ کرکے کی تھیں خدائی طاقتوں کا ان کو علم نہ تھا۔ انسانی طاقتوں کو نقصان پہنچانے کیلئے یہ اصول بیشک صحیح ہے مگر خدائی طاقتوں کیلئے نہیں۔ کیونکہ خدائی طاقتوں کی جڑ خود خداتعالیٰ ہوتاہے اور انسان محض فروع ہوتے ہیں اور جب درخت کی جڑ کٹ جائے تو اسے نقصان پہنچتا ہے۔ لیکن شاخیں کاٹنے سے اکثر درخت پھیلتا ہے بلکہ بعض درخت توترقی ہی اس طرح کرتے ہیں کہ ان کی شاخیں کاٹی جائیں۔ ہمارے مخالفوں نے سمجھا تھا کہ یہ انسانی کام ہے حالانکہ ایسا نہیں۔ وہ اگربیس پچیس تو کیا دس لاکھ کو بھی گمراہ کرلیتے بلکہ ساری جماعت کو بھی گمراہ کر لیتے بلکہ ساری جماعت کو بھی گمراہ کر لیتے تو بھی اس درخت کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے کیونکہ اس کی جڑ خداتعالیٰ ہے۔ پس پہلی شاخیں کٹتے ہی اس میں سے نئی شاخیں نکل آئیں۔ کئی درخت ایسے ہوتے ہیں کہ جڑ سے کاٹنے پر بھی دوبارہ پھوٹ آتے ہیں۔نیکی کا بیج جو انبیاء کے ذریعہ بویا جاتا ہے وہ بھی اسی قسم کا سخت ہوتا ہے۔ تم اسے کاٹ دیتے ہو مگر وہ پھر نکلتاہے۔ تم اسے زمین کے اندر گھس کر بھی کاٹ دیتے دو پھر بھی وہ قائم رہتا ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ درخت نہیں اُگ سکتا مگر خداتعالیٰ پھر بھی اس میں سے نیا شگوفہ نکال دیتا ہے۔ تو دشمنوں نے ہم پر حملے کئے اور ہمیں متواتر تین سال تک ان کا مقابلہ کرنا پڑا اور ان کے جواب کیلئے اور جماعت کو اِس نئے رستہ پر ڈالنے کیلئے میں نے یہ تحریک شروع کی جو اس لحاظ سے تحریک جدید ہے کہ اسے اب شروع کیا گیا ورنہ وہ قرآن کریم میں موجود ہے۔ اس تحریک کے ماتحت ہم نے کئی نئے تجربے کئے ہیں، کئی نئے مشن قائم کئے گئے ہیں اور یہ نیا تجربہ تھا۔ میں نے تحریک کی تھی کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں اور باہر نکل جائیں، یہ بھی نیا تجربہ تھا۔ دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں، یہ بھی نیا تجربہ تھا۔ تجارت شروع کی جائے، یہ بھی نیا تجربہ تھا۔ پھر صنعتی اداروں کا اجراء بھی نیا تجربہ تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ان سب میں کم و بیش کامیابی ہوئی۔ سینکڑوں نوجوانوں نے اپنی زندگیاںوقف کیں اور بیسیوں باہر نکل گئے۔ کوئی کہیں چلا گیا اور کوئی کہیں۔ بعض تین تین سال سے بمبئی اور کراچی میں بیٹھے ہیں۔ وہ کسی بیرونی ملک میں جانے کے ارادہ سے گھروں سے نکلے تھے لیکن چونکہ اب تک کوئی صورت نہیں بن سکی اس لئے ابھی تک اِسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے والدین چٹھیاں لکھتے ہیں، مجھ سے بھی سفارشیں کراتے ہیں مگر وہ یہی التجا کرتے ہیں کہ جو ارادہ ایک دفعہ کرلیا اب اسے پورا کرنے کی اجازت دی جائے۔ بعض ان میں سے اتنے چھوٹی عمر کے ہیں کہ ابھی داڑھی مونچھ تک نہیں نکلی مگر اس راہ میں وہ ٹوکری تک اُٹھاتے ہیں۔ پھر بعض نوجوان بیرونی ممالک میں پہنچ گئے ہیں اور وہاں بھی کئی نئے تجربے ہمیں حاصل ہوئے ہیں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ میں نے کہا تھا کہ ہم نے اپنے لئے مدنی طبع لوگوں لوگوں کی تلاش کرنی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں اب تک مختلف ممالک میں قریباً پندرہ مشن ہمارے قائم ہوچکے ہیں۔ امریکہ، اٹلی، ہنگری، پولینڈ، یوگوسلاویہ، یہ مشن البانیہ کیلئے ہے۔ لیکن چونکہ البانوی حکومت نے ہمارے مبلغ کو نکال دیا تھا وہ وہاں کام کررہا ہے۔ فلسطین، جاوا، سٹریٹ سیٹلمنٹ، جاپان، چین، افریقہ۔ ان میں سے کئی مبلغ ایسے ہیں جو ہمارے خرچ پر گئے ہیں، کئی اپنے خرچ پر گئے ہیں۔ بعض تجارتوں کے ذریعہ سے اچھے گزارے کررہے ہیں اور بہت خوش ہیں، بعض ابھی مشکلات میں ہیں۔ اَور مختلف ممالک کے متعلق بھی ہمیں نئے تجربے ہوئے ہیں۔ مشرقی ممالک میں سوائے جاوا، سماٹرا اور سٹریٹ سیٹلمنٹ کے ہمیں ابھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ چین اور جاپان میں ابھی تک بالکل کامیابی نہیں ہوئی۔ بلکہ تازہ اطلاع جو آج ہی بذریعہ تار مجھے ملی ہے یہ ہے کہ جاپانی گورنمنٹ نے صوفی عبدالقدیر صاحب کو قید کرلیا ہے اور ضمناً میں ان کیلئے دعا کی تحریک بھی کرتا ہوں۔ اس کے متعلق ہم اب تحقیقات کرئیں گے کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ لیکن بہرحال چوتھے سال کے ابتداء میں یہ واقعہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قسم کا اِنذار ہے کہ سب حالات پر غور کرکے ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس قسم کی مشکلات بھی تبلیغ کے رستہ میں حائل ہوں گی۔
صوفی عبدالقدیر صاحب تحریک جدید کے تجارتی صیغہ کے نمائندہ تھے۔ گویا وہ باقاعدہ مبلغ نہیں تھے اور ابھی زبان ہی سیکھ رہے تھے اور اب تو ان کی واپسی کا حکم بھی جاری ہوچکا تھا کیونکہ دوسرے مبلغ یعنی مولوی عبدالغفور صاحب برادر مولوی ابوالعطاء صاحب وہاں جاچکے ہیں۔ تو تجارتی اغراض کے ماتحت جانے والے ایک احمدی کیلئے جب اِس قدر مشکلات ہیں تو تبلیغ کیلئے جانے والوں کیلئے کس قدر ہوں گی۔ جہاں تک معلوم ہوسکا ہے ان پر الزام یہ لگایاگیا ہے کہ وہ جاپانی گورنمنٹ کے مخالف ہیں اور یہ بھی ہمارے لئے ایک نیا تجربہ ہے۔ انگریز ہمیں کہتے ہیں کہ تم ہمارے خلاف ہو اور دوسری حکومتیں یہ کہتی ہیں کہ تم انگریزوں کے خیر خواہ ہو۔ بہرحال یہ سب نئے تجربے ہیں جو ہمیں حاصل ہورہے ہیں اور ان سے پتہ لگ سکتا ہے کہ کس کس قسم کی رُکاوٹیں ہمارے رستہ میں پیدا ہونے والی ہیں۔ پھر ایک نیا تجربہ یہ ہوا ہے کہ امریکن گورنمنٹ نے ہمارے مبلغ محمد ابراہیم صاحب ناصر کو اِس بناء پر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی کہ وہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے قائل ہیں۔ تو ہمیں ان مبلغوں کے ذریعہ سے نئی نئی مشکلات کا علم ہوا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہیں جن سے جماعت کے اندر بیداری پیدا ہوئی ہے۔ سادہ زندگی ہے، سینما اور تھیٹروں وغیرہ کی ممانعت ہے۔ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کا حکم ہے۔ اس سے قوم میں نئی روح پیدا ہوتی ہے اور یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے بغیر کوئی قوم قوم نہیں بن سکتی۔
دنیا میں دو قسم کی رفتاریں ہیں ایک تویہ کہ جہاز کسی منزل کو سامنے رکھ کر چلے اور دوسری یہ کہ ایک شہتیر پانی میں بہا جارہا ہو۔ پانی جس طرف لے جائے وہ اُدھر ہی چل پڑے۔ہم نے جماعت میں صرف روانی نہیں پیداکرنی بلکہ جہاز والی روانی پیدا کرنی ہے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ جماعت کیلئے کوئی مقصود قرار دیں اور مراقبہ کرتے رہیں کہ ہماری روانی جہاز والی ہے یا شہتیر والی۔ اگر ہم الٰہی جماعت ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ایک مقصود کو سامنے رکھ کر جہاز کو اُس لائن پرچلائیں کہ خداتعالیٰ کے مقرر کردہ منزل پر پہنچ سکیں۔
اور تحریک جدید سے میری غرض یہی ہے کہ جن امورکی طرف جماعت کو توجہ کی ضرورت ہے اور ابھی اُس طرف دھیان نہیں، اُس طرف جماعت کو متوجہ کیا جائے اور ہوشیار کیا جائے تاہم اسلامی نظام کی روح کو قائم کریں۔ اس میں شک نہیں کہ نظام حکومت سے کامل ہوتا ہے مگر جب حکومتوں کومسلمان بنانے میں ہم کامیاب نہیں ہوسکتے اُس وقت تک جتنا بھی اسلامی نظام ہم قائم کرسکتے ہیں اُتنا ہی کام ہمیں کرتے رہنا چاہئے اور ایسا کرنے میں کسی شخصیت کی پرواہ نہ کرنی چاہئے۔ اگر ایک بادشاہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہے مگر ہمارے ساتھ نہیں چلتا تو اسے ایک گندہ عضو سمجھ کر الگ کردینا چاہئے اور اِس بات کو بالکل بھول جانا چاہئے کہ یہ جماعت بڑوں او رچھوٹوں اور عالموں اور جاہلوں کی جماعت ہے۔ اور صرف ایک ہی بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ خداتعالیٰ کی جماعت ہے۔ اگر کوئی آدمی بڑا ہے اور وہ نظام کی پرواہ نہیں کرتا تو اسے بھی الگ کردیں اور اگر کوئی چھوٹا ہے جو ایسا ہے تو اسے بھی الگ کردیں۔ اگر کوئی جاہل ہمارے ساتھ نہیں چلتا تو اسے بھی الگ کردیں اور اگر کوئی عالم نہیں چلتا تو اسے بھی۔ مجھ سے ایک دفعہ ایک شخص نے سوال کیا چونکہ اب وہ فوت ہوچکے ہیں میں اُن کا نام بھی لے دیتاہوں، وہ صاحب شیخ غلام احمد صاحب واعظ مرحوم تھے۔ اُنہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کے نزدیک کن لوگوں سے تعلق رکھنے میں جماعت کی مضبوطی ہوسکتی ہے، امیروں سے یا غریبوں سے؟ یہ حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ کے آخری ایام کی بات ہے۔ انہوں نے صوفیانہ رنگ میں یہ سوال کیا۔ میں نے انہیں جواب میں لکھا کہ جماعت کی مضبوطی اُن لوگوں کے ساتھ ہوسکتی ہے جو خداتعالیٰ کے ہوں، خواہ وہ امیر ہوں یا غریب۔ کئی دفعہ خداتعالیٰ کے سلسلہ کا کام کرنے والا ایک غریب ہوتا ہے اور کئی دفعہ امیر۔ کسی کو کیا پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ترقی کس کیلئے مقدر کی ہوئی ہے۔ پس جو خداتعالیٰ کا ہے وہی ہمارا ہے۔ اگر امیر خداتعالیٰ کا ہے تو ہمارے سر آنکھوں پر اور اگر غریب ہے تو وہ ہمارے سر آنکھوں پر۔ اور جو خدا کا نہیں اسے ہمارا سلام ہے۔ ہم نہ سوشلسٹ ہیں کہ غریبوں کو اُبھارنا ہمارا کام ہو اور نہ کیپٹیلسٹ ہیں کہ سرمایہ داروں کی مدد کریں۔ ہماری جماعت کوئی کسان موومنٹ نہیں کہ ہم کسانوں کیلئے اپنی سعی کو وقف کردیں اور نہ یہ کیپٹیلسٹوں کی سوسائٹی ہے کہ تاجروں اور طاقتوروں کی مدد کریں۔ جو لوگ اس قسم کی باتوں میں پڑتے ہیں وہ ہمیشہ نقصان اُٹھاتے ہیں۔ یہاں بھی بعض لوگ ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہاں غریبوں کی کوئی قدر نہیں اور کوئی کہتا ہے کہ یہاں کسی بڑے چھوٹے کی عزت ہی نہیں۔ حالانکہ ایسی باتیں کرنے والوں میں خود استقلال نہیں ہوتا ۔ جو کہتے ہیں کہ غریبوں کو کوئی نہیں پوچھتا، جب مصری صاحب کا فتنہ ُاٹھا تو یہی کہتے تھے کہ دیکھو جی اتنے بڑے آدمی کی پرواہ نہیں کی گئی۔ ایسے لوگوں کو صرف باتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے، حقیقت کو وہ نہیں سمجھتے۔ جو شخص خداتعالیٰ کے سلسلہ کیلئے مفید ہے ہم اُسے اونچا کرتے ہیں اور جو مضر ہے اُسے الگ کردیتے ہیں۔ صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ جُدا کرنا ظلم کے رنگ میں نہ ہو بلکہ خیر خواہی کے رنگ میں ہو۔ دانت آدمی ہمیشہ رنج سے ہی نکلواتا ہے وہ اُس کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے مگر وہ مجبور ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم بھی جسے نکالتے ہیں افسردہ دل کے ساتھ ہی نکالتے ہیں، خوشی سے نہیں۔ ہمارے دل غمگین ہوتے ہیں کہ جو چیز ہماری تھی وہ اب ہماری نہیں رہی۔ پس چاہئے کہ خداتعالیٰ کی محبت ہمارے دل میں ایسی ہوکہ ہم کہیں جس کی وجہ سے درد پہنچا ہے، وہ سب سے بڑا ہے۔صاحبزادہ مرزا مبارک احمدصاحب کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک نظم لکھی جس کا ایک مصرعہ یہ ہے ع
بُلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تُوجاں فدا کر
یعنی بیشک مبارک احمد کی وفات کا صدمہ بڑا ہے مگر اے دل! جس نے اسے اپنے پاس بلایا ہے وہ اس سے بھی زیادہ پیارا ہے۔ یہی وہ حقیقی معرفت کا مقام ہے جو مومن کو حاصل کرنا چاہئے۔ جو شخص سچائی کو چھوڑتا ہے، اسے دلیری کے ساتھ مگر افسردگی کے جذبات کے ساتھ الگ کردیا جائے۔
یہ تحریک ابتداء ً تین سال کے لئے تھے اور یہ تین سال تجربہ کے تھے۔ اور اس کے شروع میں ہی میں نے کہہ دیا تھا کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ ختم ہوجائے گی بلکہ تین سال کے بعد یہ اس سے بھی زیادہ تعہّد کے ساتھ جاری ہوگی اور زیادہ گراں اوربوجھل سکیم پیش کی جائے گی۔ آج میں اِس نئی تحریک کو بیان تو نہیں کرتا، صرف احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نفسوں پر غور کریں کہ ان تین سالوں میں انہوں نے اس پر عمل کیا ہے یا نہیں؟ اور اگر کیا ہے تو اس کا کیا نتیجہ ہوا۔ اور اگر نہیں کیا تووہ سوچیں کہ انہوں نے بیعت ہی کیوں کی ہوئی ہے۔ جو شخص بیعت میں شامل ہوتا ہے وہ اسی لئے ہوتا ہے کہ میں کچھ سیکھوں اور اس کے باوجود اگر وہ بے پروائی کرتاہے تو اس کے صاف معنے ہیں کہ وہ مجھے اپنا اُستاد بنا کر اور ہاتھ میں ہاتھ دے کر بھی دنیا کو دھوکا دے رہا ہے اور اپنے نفس کو بھی دھوکا دے رہا ہے۔ سکول میں جاکر وہی لڑکا کچھ سیکھ سکتا ہے جو سمجھتا ہے کہ اُستاد مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور اس کی عزت اور احترام کرتا ہے۔ اسی طرح خلافت ایک مدرسہ ہے اور خلیفہ اُستاد ہے اور جو یہ خیال کرتا ہے کہ یہ اُستاد مجھے کچھ نہیں سکھاسکتا اس کا اس مدرسہ میں داخل ہونا فضول ہے۔
پس میں نے جو تحریک کی تھی، ہر شخص کو چاہئے کہ دیکھے اس پر عمل کرنے سے مجھے فائدہ ہوا ہے یا نقصان۔ اگر اسے نقصان نظر آئے اور وہ سمجھے کہ اس پر عمل کرکے وہ خداتعالیٰ سے دُور ہوگیا ہے تو اسے چاہئے کہ الگ ہوجائے۔ مثلاً میں نے کہا تھا کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالو۔ ایک ہی کھانا کھائو، کپڑوں میں کمی کرو۔ یہ نہیں کہ امراء بھی کھدر پہنیں بلکہ یہ کہ جو چارکوٹ بنواتا تھا وہ اب تین ہی بنوائے اور جو تین بنواتا تھا وہ دو سے ہی گزارہ کرے اور جو پیسے بچیں وہ غریبوں پر خرچ کرے۔ یا مثلاً سینما میں کوئی نہ جائے۔ اب ہر شخص غور کرے کہ ان باتوں پر عمل کرنے سے اس کی روحانیت پر ضرب لگی ہے یا ترقی میں مدد ملی ہے۔ اگر وہ سمجھے کہ ضرب لگی ہے تو پھر وہ اس امر پر غور کرے کہ اس کا میرے ہاتھ میں ہاتھ دینا کس کام کا۔ اور اگرسمجھے کہ فائدہ ہوا ہے تو اسے چاہئے کہ پھر آئندہ پیش ہونے والی سکیم پر عمل کرنے کیلئے تیار ہوجائے۔ اور اگر وہ دیکھے کہ تحریک تو مفید تھی مگر اس نے عمل نہیں کیا۔ تو پھر اسے غور کرنا چاہئے کہ جو شخص چشمہ پر بیٹھنے کے باوجود پانی نہیں پیتا وہ کس قدر بیوقوف ہے۔ پس جن کو فائدہ ہوا ہے وہ پہلے سے زیادہ عمل کرنے کیلئے تیار ہوجائیں اور جس نے عمل ہی نہیں کیا وہ اپنی اصلاح کرے۔
اس کے علاوہ دوستوں کو چاہئے کہ اپنے وعدے جلد پورے کریں۔ اس سال قادیان کی جماعت پر بھی بقایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقتصادی تغیرات ہوئے ہیں۔ ان کی تنخواہیں پہلے ہی کم تھیں اور اس سال ان میں بھی تخفیف کردی گئی ہے۔ پھر غلہ بھی گراں رہا ہے مگر مومن کے وعدے ایسے نہیں ہوتے کہ ایسی باتیں ان کے پورا ہونے میں روک بن سکیں۔ لاہور کی جماعت بھی اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں اچھی ثابت نہیں ہوئی۔ پھر ہندوستان کے باہر کی جماعتوں کے ذمہ۔؍ ۲۵۰۰۰ کی رقم بقایا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ابھی ان کی مدت جون ۱۹۳۸ء تک ہے مگر رقم بھی ابھی بہت زیادہ ہے اور ان کے بقائے ان کو مجرم نہیں تو سسُت ضرور ثابت کرتے ہیں۔ پس انہیں چاہئے کہ وعدے پورے کرنے کی طرف جلد توجہ کریں۔ اسی طرح ہندوستان کی اکثر جماعتوں کے ذمہ ابھی بقائے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ بقائے جلد ادا کریں۔ جو شخص پہلا قدم صحیح اُٹھاتا ہے اُسے اگلا قدم بھی صحیح طور پر اٹھانے کی توفیق ملتی ہے۔ اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے بقائے صاف کریں تا اللہ تعالیٰ انہیں آئندہ اور نیکیوں کی توفیق دے۔
آخر میں مَیں پھر دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی زندگیوں کو عملی زندگیاں بنائو۔ اب خالی دعووں کا وقت گزرچکا ۔ ایسا نمونہ دکھائو کہ دشمن کے دل میں بھی یہ لالچ پیدا ہو کہ کاش ہم بھی ایسے ہی ہوں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رُبَمَا یَوَدُّالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ ۷؎ یعنی کئی دفعہ کافروں کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ یہ ایسے اچھے لوگ ہیں اور دنیا کے بہترین وجود ہیں، کاش ہم بھی ایسے ہوتے۔ یہی وہ مقام ہے جس پر پہنچ کر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ جس دن کفار کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو، جس دن اِردگرد کے لوگ ہندو، سکھ، غیراحمدی ہمارے اعمال، نظام ، تقویٰ اور صداقت کو دیکھ کر یہ خیال کریں کہ کاش ہم بھی ایسے ہوں، اُس دن اور صرف اُس دن خداتعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہوگی۔
(الفضل ۱۸ ؍ نومبر ۱۹۳۷ئ)
۱؎ البقرۃ: ۱۴۹ ۲؎ بنی اسرائیل: ۲۱ ۳؎ الحج: ۵۳
۴؎ الانفال: ۳۴
۵؎ موضوعاتِ کبیر۔ ملا علی قاری صفحہ۵۹ مطبوعہ دلی ۱۳۴۶ھ
۶؎ مسند احمد بن حنبل جلد۲ صفحہ۴۳۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۷؎ الحجر: ۳


۳۴
قبولیت دُعا کے خاص دنوں میں خصوصیت سے دُعائیں کرو
شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی تسلی کیلئے قسموں کا اعلان
(فرمودہ ۱۲ ؍ نومبر ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں آج بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن سحری کے وقت چونکہ نماز مَیں نے بغیر کافی گرم کپڑوں کے پڑھی، سردی لگ کر گلے پر نزلہ گرنے لگ گیا۔ اس لئے شاید میں اپنی آواز دور تک نہ پہنچاسکوں اور ممکن ہے میں اِس قدرلمبا نہ بول سکوں جس قدر بولنا چاہتا تھا۔
(اس موقع پر حضور نے ایک تار ملاحظہ کرکے فرمایا۔ کوئی دوست سردار خان صاحب بنارس کے رہنے والے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کابچہ سخت بیمار ہے۔ دوست اس کی صحت کیلئے دعا کریں)۔
پھر فرمایا:-
سب سے پہلے تو میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اور اس مہینے کا یہ پہلا جمعہ ہے۔ جس دن کے متعلق ہمیشہ کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول کی معرفت یہ خبر دی گئی ہے کہ اس دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جس میں مومن اپنے رب کے حضور جو دُعا بھی کرے خداتعالیٰ اُس کو قبول کرتا ہے اور رمضان وہ مہینہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْلِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ۱؎ کہ رمضان کے ایام ایسے مبارک ہیں کہ ان دنوں کی عبادتوں کے بعد جب میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو تُو انہیں کہہ دے کہ میں بالکل قریب ہوں۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِجب مجھے کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔ گویا رمضان کی راتیں دعائوں کی قبولیت کیلئے خاص ہیں اور جمعہ کے دن دعائوں کی قبولیت کیلئے مخصوص ہیں۔ جس کے معنے یہ ہوئے کہ رمضان کے مہینہ میں جو جمعہ آتا ہے وہ ایسا بابرکت ہوتا ہے کہ نہ صرف اس دن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں بلکہ اس رات کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں۔ دوسرے جمعوں میں صرف دن کے وقت دعائوں کی قبولیت کی بشارت ہے اور رمضان میں سے صرف رمضان کی راتوں میں قبولیتِ دعا کا ارشاد ہے مگر جب جمعہ اور رمضان اکٹھے ہوجائیں تو ایک ارشاد کے ماتحت دن کو دعائیں سُنی جاتی ہیں اور دوسرے ارشاد کے ماتحت رات کو دعائیں سُنی جاتی ہیں۔ پس ان دنوں سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور جیسا کہ ہمارے ملک میں عام رواج ہے کہ جب لوگ کسی کو خط لکھتے ہیں تو اس میں اپنے متعلق خاکسار، نابکار، شرمسار، گنہگار یا حقیر ، ناچیز اور بندئہ ذلیل وغیرہ الفاظ لکھتے ہیں۔ یا بات بھی کرتے ہیں تو کہتے ہیں مَیں تو کیا ہوں خاکِ پا ہوں۔ سو ہماری ان منکسرانہ دعا میں اگر ذرہ بھر بھی حقیقت پائی جاتی ہو تو اس کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں پوری طرح اپنی کمزوریوں کا اقرار اور اپنی غلطیوں کا اعتراف ہے اور اگر ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف اور اپنی کمزوریوں کا اقرار کرتے ہوں تو اس میں کیا شبہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس عظیم الشان مقصد کیلئے جو ہمارے جیسے کمزور آدمیوں کے سپرد کیا گیا ہے ہمارے لئے دعائیں کرنا نہایت ضروری ہے اور کوئی راستباز اسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔
اگر ہم واقعہ میں کمزور اور ناتواں ہیں اور اگر واقعہ میں وہ کام جو ہمارے سپرد کیا گیا نہایت ہی اہم اور مشکل ہے تو سوال یہ ہے کہ ایسا کام ہم سے کس طرح سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ادھر یہ کام اپنے اتمام کیلئے ایک بہت بڑی طاقت چاہتا ہے اور اُدھر ہم سخت کمزور اور ناتواں ہیں۔ ان حالات میں دو باتوں میں سے ایک بات ضرور تسلیم کرنی پڑے گی۔
(۱) یا تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے ان دونوں دعووں میں سے ایک دعویٰ غلط ہے۔ یعنی یا تو ہمارا انکسار کا دعویٰ غلط ہے اور یا ہمارا یہ دعویٰ غلط ہے کہ یہ کام بہت مشکل ہے۔
(۲) اگر ہمارے یہ دونوں دعوے صحیح ہوں اور ایک بھی ان میں سے غلط نہ ہو تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یا تو اس کام نے ہونا ہی نہیں اوریا پھر یہ کہ اس کام کے سرانجام دینے کیلئے خداتعالیٰ نے ہماری کوششوں کے سِوا کوئی اور ذرائع بھی مقرر فرمائے ہیں۔ چونکہ یہ تو خداتعالیٰ کا کلام ہے کہ اس کام نے ضرور ہوکر رہنا ہے۔ اس لئے آخری نتیجہ پھر بھی یہی نکلتا ہے کہ اس کام کیلئے ہماری کوششوں کے علاوہ کوئی اور ذرائع اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں اور جب ہم یقینی طور پر اس نتیجہ پر پہنچ جائیں تو اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے جو ہمارے سامنے ہے، ہمارے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہیں کہ اے خدا! ہمارے ہاتھوں سے تو یہ مقصد پورا ہونے کا نہیں۔ تیرے حکم کے ماتحت ہم ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن تو بھی اپنے فضل سے ان مخفی ذرائع کو ظاہر کر اور ہماری تائید میں لگادے جو تُو نے اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے مقرر فرمائے ہیں تاکہ یہ ناممکن کام ممکن ہوجائے اور ہماری خواب ایک حقیقت کی شکل میں تبدیل ہوجائے۔
اصل حقیقت یہی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے صرف ظاہری آلہ بنایا ہے ورنہ اصل آلۂ کار جس سے اُس نے دنیا کو فتح کرنا ہے اَور ہے۔ ہماری مثال ویسی ہی ہے جیسے محمد ﷺ نے کنکر اُٹھا کر بدر کے دن پھینکے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس کے متعلق فرماتا ہے مَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ۲؎ کہ یہ تمہارا کنکر پھینکنا، تمہارا کنکر پھینکنا نہیں بلکہ خدا کا کنکر پھینکنا ہے۔ اگر یہ کنکر تم پھینکتے تو ان کنکروں کا کیا تھا، تھوڑی دور جاکر یہ زمین پر گر پڑتے۔ مگر یہ تم نے کنکر نہیں پھینکے بلکہ ہم نے پھینکے۔ اِدھر تمہارا ہاتھ ہِلا اُدھر ہم نے آندھی کو بھی ساتھ ہی چلادیا اور اُس نے کروڑوں کروڑ اور اربوں ارب اور کنکر اُٹھا کر کفار کی آنکھوں میں ڈال دیئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کفار بالکل حملہ نہ کرسکے۔ کیونکہ جو سوار سامنے کی طرف دیکھ ہی نہیں سکتا اس نے دشمن کا مقابلہ کیا کرنا ہے۔ غرض سب حالات کو دیکھ کر ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ہماری حیثیت بدر کے ان کنکروں کی سی ہے جنہیں محمد ﷺ نے اپنی مٹھی میں لیا او رکفار کی طرف پھینکا۔ اُن کنکروں نے کفار کو اندھا نہیں کیا تھاجو رسول کریم ﷺ نے پھینکے بلکہ اُن کنکروںنے کفار کو اندھاکیا جو خداتعالیٰ نے آندھی کے ذریعہ اُڑائے۔ پس ہمیں تسلیم کرنا پڑے گاکہ ہمارے سِوا کوئی اور آلہ ہے جس نے کام کرنا ہے اور کوئی اور سامان پیدا کئے گئے ہیں جنہوں نے اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کرنا ہے اور وہ آلہ اور وہ ہتھیار جن سے دنیا پر اسلام کو غالب کیا جاسکتا ہے بندے کی وہ دعائیں ہیں جو خداتعالیٰ کے فضل کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور خداتعالیٰ کا فضل ہی ہے جس سے ناممکن کام بھی ممکن ہوجاتے ہیں۔ صرف یہی چیز ہے جس پر ہماری فتح اور کامیابی مقدر ہے۔ اور چونکہ یہ دن خصوصیت سے دعائوں کے دن ہیں اس لئے ہمیں یہ بات بھولنی نہیں چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور بِالالتزام یہ دعا کریں کہ وہ اسلام اور احمدیت کی فتح کے سامان پیدا کرے۔ ہماری کمزوریوں کودور کرے، ہماری کوتاہیوں سے چشم پوشی کرے، ہماری خطائوں کو معاف کرے اور اپنے فضل سے ہمیں وہ سامان عطا فرمائے جن سامانوں سے ہمارا مقصود ہمیں حاصل ہو۔ کیونکہ گو ہم کمزور ہیں مگر کام اُسی کا ہے اور ہماری شکست اور ناکامی اُسی کے جلال کے ظہور میں حارج ہوگی۔پس ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور کثرت سے دعائیں کرنی چاہئیں تا ہماری غفلتوں کی وجہ سے خداتعالیٰ کا جلال پوشیدہ نہ ہوجائے اور ہماری کوتاہیاں نادانوں کی نگاہ میں اس کی شکست قرار نہ پائیں اور وہ اپنے فضل سے اپنے نام، اپنے جلال اور اپنی عزت کے ظہور کیلئے ہمارے کمزور ہاتھوں میں وہ طاقت پیدا کردے جو کام کو سرانجام دینے کیلئے ضروری ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی جماعت کے افراد کیلئے بھی دعائیں کرو اور اپنے اہل و عیال اور دوستوں اورعزیزوں کیلئے بھی دعائیں کرو تا اللہ تعالیٰ ہم سب میں حقیقی تقویٰ پیدا کرے۔
یہ امر اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جب تک نیکی اور تقویٰ دنیامیں قائم نہیں ہوجاتا، ہمیں وہ ثمرات میسر نہیں آسکتے جو ہمارے لئے مقدر ہیں۔ ایک انسان میں غلطیاں بھی ہوں، وہ گنہگار بھی ہو، وہ قصوروار بھی ہو مگر جب تک اُس کے دل میں تقویٰ رہتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے گناہوں کو ڈھانپتا چلا جاتا ہے اور بِالآخر اُسے توبہ کی توفیق دے دیتا ہے۔ پس سب سے پہلے جماعت کے افراد کیلئے دُعا کرو اور اپنے اہل و عیال اور رشتہ داروں اور دوستوں کیلئے بھی کہ ہم میں سے ہر شخص کوتقویٰ اللہ نصیب ہو۔ تقویٰ خداتعالیٰ کی خشیت اور خوف کو کہا جاتا ہے اورجب تک کسی شخص کے دل میں اُس کا خوف رہتا ہے اُس وقت تک وہ گناہ کی حالت میں بھی خدا کی حفاظت میں ہوتا ہے۔ کیونکہ گو گناہ ایک کمزوری کی علامت ہے مگر خشیت اللہ کے معنے ہیں خدا کی محبت۔ اور گو خشیت خوف کو کہا جاتا ہے مگر خداتعالیٰ کا ڈر ایسا نہیں ہوتا جیسے سانپ کے زہر سے انسان ڈرتا ہے۔ اس کے ڈر کے معنے اُس کی محبت کے ہی ہوتے ہیں اور درحقیقت محبتِ الٰہی کا ہی دوسرا نام خشیت اللہ اور تقویٰ اللہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی محبت ایسی چیز ہے کہ جس دل میں اس کا ایک شمہ بھی باقی ہو اُس کا تباہ ہونا بڑا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کی غیرت کبھی اِس بات کو برداشت نہیں کرسکتی کہ جس شخص کے دل میں اس کی سچی محبت ہووہ اسے ضائع کردے۔ اس لئے یا تو وہ ایسے شخص کو توبہ کی توفیق دے دیتا ہے یا انسان اگر کبھی غفلت سے تقویٰ کا بیج اپنے دل سے بالکل ضائع کردے تو اُس وقت اُسے سزا دیتا ہے۔ مگر جب تک کسی انسان کے دل میں تقویٰ قائم رہتا ہے اُسے سزا اِس رنگ میں کبھی نہیں ملتی جو اُسے تباہ کردے اور ایسے شخص کی نجات نہ صرف ممکن بلکہ سہل الحصول ہوتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی بچہ اپنی ماں کا اکلوتا بچہ ہو اور اس کی ماں بڑھیا ہو۔ یا بڑھیاتو نہ ہو مگر اس کا خاوند مرچکا ہو۔ ایسی ماں اور ایسے بچہ میں بھی کبھی کبھی لڑائی ہوجاتی ہے۔ اختلاف بے شک بُری شَے ہے لیکن کبھی نہ کبھی عزیز ترین وجودوں میں بھی اور ایسے ماں بچے میں بھی اختلاف ہوجاتا ہے جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اس وقت اس بچہ کی ماں اس پر ناراض ہوجاتی ہے۔ لیکن ماں کی ناراضگی ایسی ہی ہوتی ہے کہ اُدھر وہ خفا ہوکر منہ ایک طرف کرلیتی ہے اور ادھر کنکھیوں سے اُسے دیکھتی بھی جاتی ہے تا بچہ میں اگر ذرا سی بھی تبدیلی یا رغبت پیدا ہو تو وہ اسے دَوڑ کر گود میں اُٹھالے۔
رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جب تین صحابہ سے ایک غلطی ہوئی اور وہ باوجود جنگ میں شامل ہونے کی طاقت رکھنے کے شامل نہ ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ سزا دی کہ ان کے بیوی بچے ان سے الگ کرلئے۔ ان سے بولنا منع کردیا، ان سے لین دین کے تعلقات رکھنے ممنوع قرار دے دیئے اور ان سے تمام مسلمانوں کو ہرقسم کا معاملہ کرنے سے روک دیا۔ تو انہی تین شخصوں میں سے ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جاتا آپ کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا اور پھر دیکھا کہ جواب میں آپ کے ہونٹ ہلتے ہیں یا نہیں۔ وہ چونکہ یہ جانتا تھا کہ رسول کریم ﷺ نے جب ان سے بولنا منع کیا ہوا ہے تو آپ اونچی آواز سے جواب نہیں دیں گے۔ اس لئے وہ سلام کہہ کر آپ کے ہونٹوں کی طرف دیکھتا اور خیال کرتا کہ شاید آپ منہ میں میرے سلام کا جواب دے دیں۔ مگر جب دیکھتا کہ آپ کے ہونٹ نہیں ہلے تو گھبرا کر مسجد سے باہر آجاتا۔ اور پھر دوبارہ جاکر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا اور خیال کرتا کہ شاید پہلی دفعہ رسول کریم ﷺ نے میری آواز نہیں سنی اور سلام کہہ کر پھر غور سے دیکھتاکہ آپ کے ہونٹ جواب میں ہلے ہیں یا نہیں۔ مگر جب دیکھتا کہ نہیں ہلے تو پھر چلا جاتا اور خیال کرتا کہ دونوں دفعہ میری آنکھیں چوک گئی ہیں اور پھر تیسری دفعہ جاکر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا اور آپ کے ہونٹوں کو خوب غور سے دیکھتا رہتا کہ ان میں حرکت پیدا ہوئی ہے یا نہیں۔ وہ صحابی کہتے ہیں کہ بار بار اس طرح کرنے پر بھی رسول کریم ﷺ کے ہونٹوں میں مجھے کوئی حرکت نظر نہ آتی۔ یہ وہ شخص تھا جو خطاکار تھا، جو گنہگار تھا اور اسے اپنے ایک قصور کی وجہ سے سزا ملی تھی مگر اس کے دل سے محمد ﷺ کی محبت نہیں گئی تھی۔ وہ چاہتا تھاکہ خدا میرا قصور معاف کرے اور پھر مجھے اپنے دامنِ رحمت میں لے لے۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے سلام کا جواب نہیں دیتے تھے۔ کیونکہ جو حکم آپ نے تمام مسلمانوں کو دیا تھا آپ کے لئے بھی اس کی تعمیل ضروری تھی۔ مگر وہ روایت کرتے ہیں کہ مجلس میں جب میرا کسی دوسری طرف دھیان ہوتا اور یکدم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر پڑتی تو مجھے دکھائی دیتا کہ آ پ کنکھیوں سے میری طرف دیکھ رہے ہیں۔ اب دیکھو ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کی جو آپ نے تمام مسلمانوں کو دیا خود بھی تعمیل کرتے اور سلام کا جواب تک نہیں دیتے۔ مگر دوسری طرف اسے کنکھیوں سے دیکھتے بھی جاتے ہیں۔۳؎ یہ معلوم کرنے کیلئے کہ توبہ اور حقیقی ندامت کے آثار پوری طرح اس میں ظاہر ہوئے ہیں یا نہیں ہوئے۔
پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے جو محبت رکھتا ہے، اس کا بھی رسول کریم ﷺ نے ایک مثال میں ذکر فرمایا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم ﷺ کی محبت بھی ایک بڑی چیز تھی مگر خدا کی محبت تو بہت ہی بڑی چیز ہے۔ اور کسی انسان کی محبت خواہ وہ محمد ﷺ ہی کیوں نہ ہوں، اس حد تک کہاں پہنچ سکتی ہے جس حد تک خداتعالیٰ کی محبت ہوتی ہے۔ وہ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیٌٔ ۴؎ ہے اور اس سے کسی کو کوئی مشارکت نہیں، خواہ وہ نبی اور رسول ہی کیوں نہ ہو۔ پس رسول کریم ﷺ کی محبت کا جب یہ نمونہ ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت کا کیا کہنا۔ وہ جس محبت اور پیار سے بندے کی طرف دیکھتا ہے اُس کانقشہ ہم نہیں کھینچ سکتے۔ ہم جب اُس کی جنت کا نقشہ نہیں کھینچ سکتے تو اُس کی محبت کا نقشہ کس طرح کھینچ سکتے ہیں۔ بندوں کے متعلق ہمارا یہ حال ہے کہ ہم ان کے اعمال کی کیفیت بیان کرسکتے ہیں ، ان کے قلوب کی کیفیتِ بیان نہیں کرسکتے۔ پھر خداتعالیٰ جس کے افعال کو بھی ہم نہیں سمجھ سکتے، اُس کی کیفیت محبت کو ہم کہاں سمجھ سکتے ہیں۔ مگر پھر بھی مثالوں سے حقیقت قریب کی جاسکتی ہے اور رسول کریم ﷺ نے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کو مثالوں سے ہی سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے۔ بدر کی جنگ میں جب دشمن شکست کھاچکا۔ جب مسلمانوں کی تلواریں کفار کی گردنیں اُڑارہی تھیں۔ جب بڑے بڑے جری سپاہی اپنی سواریوں پربیٹھے پورے زور سے اُنہیں کوڑے ما ر کر بھگائے لے جارہے تھے تا جتنی جلد وہ مسلمانوں کی فوج سے دور پہنچ سکتے ہوں پہنچ جائیں۔ اُس وقت ایک عورت دیوانہ وار میدانِ جنگ میں پھرنے لگی اور بغیر اس خیال کے کہ کوئی مسلمان سپاہی اُسے گرفتار کرلے گا، وہ ایک جوش اور جنون کی حالت میں کبھی ایک بچہ کو اٹھاتی اور کبھی دوسرے کو۔ رسول کریم ﷺ نے اس عورت کو دیکھا تو صحابہؓ سے فرمایا تمہیں پتہ ہے یہ عورت کیوں اس میدان میں گھبرائی ہوئی پھر رہی ہے؟ پھر خود ہی فرمایا اس عورت کا بچہ کھوگیا ہے اور یہ اسے تلاش کررہی ہے۔ مگر دیکھو اپنے بچہ کی محبت میں اسے یہ ہوش ہی نہیں کہ یہاں کیا تباہی مچی ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ عورت اس میدان میں جونہی کسی بچہ کو دیکھتی دَوڑ کر اُس سے چمٹ جاتی اور اسے گلے لگا لیتی اور جب دیکھتی کہ وہ اس کا بچہ نہیں تو اسے پیار کرکے چھوڑ دیتی۔ پھر آگے بڑھتی اور جب کوئی اور بچہ اسے نظر آتا تو دَوڑ کر اُسے گلے لگالیتی اور جب دیکھتی کہ وہ بھی اس کا بچہ نہیں تو اسے بھی پیار کرکے چھوڑ دیتی اور پھر دیوانہ وار اِدھر اُدھر تلاش کرنے لگ جاتی۔ آخر اِسی طرح تلاش کرتے کرتے اُسے اپنا بچہ مل گیا۔ اُس نے اپنے بچہ کو گلے سے چمٹالیا اور چھاتی سے لگا کر اسے پیار کرنے لگی اور پھر نہایت اطمینان سے وہیں بیٹھ گئی اور دنیا جہان سے بالکل غافل ہوگئی۔ وہ اس بات کو بھول گئی کہ یہاں کوئی جنگ ہورہی ہے، وہ اس بات کو بھول گئی کہ یہاں لوگ قتل ہورہے ہیں، وہ اس بات کو بھول گئی کہ یہاں ہر لمحہ جان جانے کا خطرہ ہے۔ وہ دنیا وَمَافِیْہَا سے غافل ہوگئی اور جب اسے اپنا بچہ مل گیا تو اس نے سمجھا کہ اب میرے لئے امن ہی امن ہے۔ رسول کریم ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا تم نے اِس عورت کودیکھا جب اسے اپنا بچہ مل گیا تو یہ کس اطمینان سے بیٹھ گئی لیکن جب کھویا ہوا تھا تو کیسی مضطرب اور بے قرار تھی۔ پھر آپ نے فرمایا یہی مثال اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں سے محبت کی ہے بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے جو بندہ اپنے گناہوں اور اپنی خطائوں کی وجہ سے خداتعالیٰ کو کھودیتاہے اس کا خداتعالیٰ کو ایسا ہی قلق ہوتا ہے جیسے اس عورت کو اپنے بچہ کے کھوئے جانے پر ہوا۔ اور پھر جب بندہ توبہ کرکے اس کی طرف واپس آتاہے تو اسے ویسی ہی خوشی ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جیسی اس عورت کو اپنا بچہ ملنے پر ہوئی۔ ۵؎
تو ہمارا خدا ہمیں بخشنے کیلئے تیار ہے بشرطیکہ ہم اس کی بخشش کو ڈھونڈنے کیلئے تیارہوں۔ وہ دیکھ رہاہے کہ ہم کب اس کی طرف بڑھتے ہیں۔ وہ ہمارا انتظار کررہا ہے اور اگر خداتعالیٰ کی ذات کے متعلق یہ الفاظ استعمال کرنے جائز ہوتے تو میں کہتا کہ وہ مضطرب ہے ۔ وہ ایک گھبراہٹ اور قلق میں ہے کہ میرا بندہ میرے پاس کیوں نہیں آتا۔ دیر صرف ہماری ہی طرف سے ہے، کوتاہی صرف ہماری ہی ہے ورنہ جو شخص خداتعالیٰ کی طرف جھکتا ، اُس کے حضور توبہ کرتا اور اس سے درخواست معافی کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی بخشش اُس کوڈھانپ لیتی ہے اور نہ صرف اُس کے گناہوں کو بھول جاتی ہے بلکہ دوسروں کو بھی بھلوادیتی ہے۔ تبھی خداتعالیٰ کا نام ساتر نہیں بلکہ ستار ہے اور ستار وہ ہوتاہے جس میں صفت ستر کی تکرار اور شدت ائی جائے۔ دنیا صرف ساتر ہوسکتی ہے یعنی یہ ہوسکتا ہے کہ اگر کسی کو کسی کے گناہ کا علم ہو تو وہ اُسے بیان نہ کرے مگر وہ دوسروں کے ذہن سے کسی کے گناہ کا علم نہیں نکال سکتا۔ مگر خداتعالیٰ چونکہ قادر ہے اِس لئے اُس نے کہا کہ میں ساتر نہیں بلکہ ستّار ہوں۔ یعنی میں صرف یہی نہیں کرتا کہ بندوں کے گناہ معاف کردیتا ہوں بلکہ میں لوگوں کے ذہنوں سے بھی ان گناہوں کی یاد نکال دیتا ہوں اور انہیں یاد بھی نہیں رہتا کہ فلاں نے کبھی فلاں گناہ کیا تھا۔ اگر خداتعالیٰ ستار نہ ہوتا تو گنہگار کیلئے جنت میں بھی امن نہ ہوتا۔ وہ ہر شخص کی طرف دیکھتا اور کہتا اس کو میرے گناہ کا علم ہے۔ اسی لئے خداتعالیٰ کہ فرمایا کہ میں ستار ہوں اور میں نہ صرف لوگوں کے گناہ معاف کرتا ہوں بلکہ لوگوں کے حافظوں پر بھی تصرف کرتا ہوں۔ یہاں تک کہ دوسروں کو اس کا گناہ یاد ہی نہیں رہتا۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی ہمیشہ سے ہی نیک تھا۔ یہ ہمیشہ سے ہی پاکیزہ خصائل رکھنے والا تھا۔ تو ہمارا واسطہ ایک ستارالعیوب اور غفارالذنوب خدا سے ہے۔ جو نہ صرف ہمیں بخشنے کیلئے تیار ہے بلکہ وہ ہماری کھوئی ہوئی عزت ہمیں واپس دینے اور اسے دوبارہ دنیا میں قائم کردینے کیلئے آمادہ ہے۔ وہ نہ صرف مزید عزت دیتا بلکہ پہلی بدنامی کو بھی دور کردیتا ہے۔ ایسے خدا کی خاطر جو ہماری عزت کا اتنا خیال رکھتا ہے کونسی قربانی ہے جو بڑی ہوسکتی ہے۔ یقینا اس کی خاطر ہر قربانی حقیر اور ذلیل ہے اور اس کیلئے ایک عزت کیا اگر ہزار عزتیں بھی قربان کرنی پڑیں تو وہ گراں نہیں ہوسکتیں کیونکہ عزتیں اُسی کی طرف سے آتی ہیں اور ذلتوں کو بھی وہی دور کرتا ہے۔
پس دعائیں کرو اپنے لئے، سلسلہ کیلئے اور ان تمام روکوں کے دور ہونے کیلئے جو ترقی سلسلہ کی راہ میں حائل ہیں تا اللہ تعالیٰ ہمارے قصوروں او رہماری غلطیوں کو معاف کرے اور ہمارے اندر ایسی طاقت پیدا کردے کہ جس طاقت سے کام لیتے ہوئے ہم اس کے دین کو دنیا کے تمام اَدیان پر غالب کرسکیں اور اُس کے دین کے سچے خادم بن جائیں۔ ایسے خادم جن کے دلوں میں رات دن یہی خیالات موجزن رہیں کہ اس کے دین کو بلند کریں۔ اس کے نام کو اونچا کریں اور اُس کی عزت کو غالب کریں۔ اور ہمارے اعمال میں اپنے فضل سے ایسی طاقت اور قوت بھر دے کہ دشمنوں کی طاقت اور قوت ہمارے مقابلہ میں ہیچ اور ذلیل ہوجائے اور اللہ تعالیٰ ہماری خطائوں کو نہ صرف معاف کرے بلکہ ہمارے دلوں میں گناہوں سے ایسی نفرت پید اکردے کہ ہم اس کے احکام توڑنے کو اپنے لئے زہرسمجھیں جسے کوئی عقلمند پینے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور نیکیوں اور بھلائیوں اور خیرات کی ایسی محبت پیدا کردے کہ جس طرح جسم کا کوئی حصہ جُدا کرنے سے انسان کو تکلیف محسوس ہوتی ہے اسی طرح نیکیوں کو چھوڑنا ہمارے لئے تکلیف اور دُکھ کا موجب ہو اور تقویٰ ہمارے دل میں مضبوطی سے قائم ہو اور اُس کی محبت ہماری غذا اور اُس کا عشق ہماری دوا ہو۔ حتیّٰ کہ ہمارا اُٹھنا، ہمارا بیٹھنا، ہمارا سونا، ہمارا جاگنا، ہمارا کھانا، ہمارا پینا، ہمارا چلنا، ہمارا پھرنا، ہمارا جینا اور ہمارا مرنا سب خدا کیلئے ہو اور ہماری زندگی کی ہر گھڑی اُس کی محبت میں گزرے اور اُس سے جدائی کی کوئی ساعت ہم پر نہ آئے۔ یہاں تک کہ جب ہم اِس دنیا سے رُخصت ہوکر اگلے جہان میں جائیں تو اسی کے وصال کا ابدی جام ہمیں پلادیا جائے۔ ایسا جام جو پھر ہمارے ہونٹوں سے کبھی نہ ہٹایا جائے اور وہ ہماری ہی چیز بن جائے اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔
اس کے بعد میں اس امر کا ذکر کرنا چاہتاہوں جس کے متعلق سفر سے پہلے میں نے کہا تھا کہ میں ایک بات بیان کرنی چاہتا ہوں۔ مگر اس کیلئے قادیان میںمیرا موجود ہونا ضروری ہے تا اگر ضرورت محسوس ہو تو بعد کے خطبات میں اس پر مزید روشنی ڈالی جاسکے۔ وہ بات یہ ہے کہ میں شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے متعلق ایک امر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ جو میں ان کو براہِ راست بوجہ موجودہ تعلقات کی نوعیت کے کہنا پسند نہیں کرتا۔ اس لئے اس خطبہ کے ذریعہ سے کہتا ہوں تا دوسرے لوگ بھی سُن لیں اور شیخ صاحب تک بھی بات پہنچ جائے۔ آگے ان کی مرضی ہے وہ جس طرح چاہیں کریں، میری طرف سے ان پر حجت پوری ہوجائے گی۔ جیسا کہ میںنے قادیان سے جانے سے پہلے بیان کیا تھامیرا ارادہ تو پہلے ہی اِس بات کو کہنے کا تھا لیکن اس سفر کے دوران میں ایک رئویا ہوا جس سے میں نے یہ سمجھا کہ الٰہی منشاء بھی یہی ہے کہ میں اُن پر حجت تمام کردوں۔
جس وقت شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کا تیسرا خط مجھے آیا اور دوستوں کو بُلا کر میں نے ان کے متعلق مشورہ لیا ہے تو اُس وقت میں ایک تحریر لکھ کر اُس مجلس میں لے گیا تھا۔ اور میر امنشاء تھا کہ ان خطوں کے جواب میں وہ تحریر انہیں بھجوادوں۔ اس تحریر میں مَیں نے لکھا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ آ پ کو استخارہ اور دعا کی طرف توجہ دلائوں تا خداتعالیٰ کے حضور میں مجرم ٹھہریں۔ لیکن افسوس کہ آپ نے اس راستہ کو بند کردیا۔ اب میں مجبوراً آپ کے آخری خط کے جواب میں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ آپ کا خط افترائوں ، بہتانوں اور کذب سے پُر ہے (میرا یہ مطلب نہ تھا کہ شیخ صاحب نے خود افترا کیا بلکہ یہ کہ جس نے بھی ان تک یہ باتیں پہنچائی ہیں، اس نے افترائ، کذب اور جعلسازی سے کام لیا ہے اور شیخ صاحب کے بغض نے اس پر مزید رنگ آمیزی کردی )۔ اب اگر آپ اپنے دعویٰ میں مصر ہوں اور دوسروں کے بہتانوں پر قسم کھانے کی غیر متقیانہ جسارت رکھتے ہوں تو آپ بھی اپنے خط کے نیچے لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ لکھ کر بھجوادیں کہ آ پ نے بزعم خود جو واقعات اس خط میں لکھے ہیں یا جو باتیں بیان کی ہیں، وہ سچی ہیں اور ان کے کہنے کا خدا اور اس کے رسول نے آپ کو حق دیا ہے۔ اور یہ کہ اگر آپ کا عمل خدا اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہو تو آپ پر اور آپ کے خاندان پر اللہ تعالیٰ کی *** ہو۔ میرا منشاء یہ تھا کہ میں چونکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ کے ماتحت دیئے ہوئے حکم پر کہ ایسے امور پر مباہلہ نہیں ہوتا بلکہ گواہیاں ہوتی ہیں او رمباہلہ کے مطالبہ کا حق صرف اس شخص کو ہے جس پر الزام لگایا گیاہو نہ کہ الزام لگانے والے کو، تاکہ وہ دیکھ لے کہ جو شخص اس کے مقابل پر ہے مباہلہ کے قابل بھی ہے یا نہیں، نہایت یقین کے ساتھ ایمان رکھتا ہوں۔ اس لئے شیخ صاحب کی طرف سے کسی ایسے مطالبہ کے پیش ہونے سے پہلے ہی یہ قسم کھادوں تاکہ ان کے مطالبہ کے بعد یہ راستہ میرے عقیدہ کے مطابق میرے لئے بند نہ ہوجائے۔ جب میں نے دوستوں کو مضمون سنایا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ اس رنگ میں ان کے جواب کی ضرورت نہیں وہ ایسے گندے الزام لگا کر اور گستاخی کے مرتکب ہوکر خود ہی جماعت سے الگ ہوگئے ہیں۔ ان کی جماعت سے علیحدگی کا اعلان کردینا چاہئے۔ پھر جب وہ خود اپنے الزامات شائع کریں گے تو اس قسم کی تردید کا موقع بھی آجائے گا۔ چنانچہ ان کے مشورہ کے مطابق میں نے وہ مضمون لکھا جو پہلے شائع ہوچکا ہے۔ بعد کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ دوستوں کا مشورہ بھی نہایت بابرکت تھا۔ کیونکہ ممکن تھا کہ میرے جواب سے معاملہ دب جاتا اور پھوڑا اندر ہی اندر پکتا رہتا۔ لیکن جیسا کہ اب معاملہ ہے اس مرض کا ظاہر ہونا سلسلہ کے مفاد کیلئے ضروری تھا تا کئی لوگ جو اس قسم کی ناپاک سازشوں میں ملوث تھے ظاہر ہوجائیں اور یہ فتنہ بڑھنے سے رُک جائے۔ لیکن میں ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھتا ہوں کہ اِس قسم کی تحریر جو میں نے لکھی تھی وہ بھی یقینا بعض اور لحاظ سے مفید ہوسکتی تھی۔ بہرحال وہ وقت تو گیا اور اُس وقت کے دعا اور انابت کے موقع کو بھی شیخ صاحب نے ضائع کردیا اور میں بھی ان کو اس طرف توجہ نہ دلاسکا۔ کیونکہ میں یہ خیال کرتا رہا کہ ان کا جوش ٹھنڈا ہوجائے تو انہیں نصیحت کروں۔ اور بعد میں خود انہوںنے اس دروازہ کو بند کردیا اور جو ہونا تھا ہوگیا۔ مگر ہمارا خدا ایسا رحم کرنے والا ہے کہ آج بھی ان کیلئے توبہ کا دروازہ بند نہیں ۔ اور اسی کی طرف میں آج ان کی توجہ پھرانی چاہتا ہوں ۔ اب بھی اگر وہ خشیت اللہ سے کام لے کر اللہ تعالیٰ سے ہدایت چاہیں اور موذیانہ طرز کو چھوڑ دیں تو اللہ تعالیٰ سے بعید نہیں کہ ان کی ہدایت کا راستہ کھول دے۔ اللہ تعالیٰ رمضان میں دعائیں سنتا ہے۔ شاید سندھ جانے سے پہلے مجھے اسی لئے بولنے کا موقع نہ ملا ہوکہ میں رمضان میں یہ خطبہ کروں اور ان کو ان ایام سے فائدہ اُٹھانے کا موقع مل جائے۔
پس میں اس خطبہ کے ذریعہ ان کو توجہ دلاتا ہوں۔ ان تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو کبھی میرے اور ان کے درمیان تھے اور ان تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو ان کے سلسلہ سے تھے کہ وہ بجائے ان باتوں پر زور دینے کے جو اُن کی عقل کی پیداوار کردہ ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور کم سے کم چالیس دن استخارہ اور دُعا کریں اورکہیں کہ اے خدا! جس راستہ پر میں اس وقت چل رہا ہوں اگر یہ راستی اور ہدایت کا راستہ نہیں بلکہ گمراہی اور ضلالت کی راہ ہے اور جماعت میں تفرقہ پیدا کرنے کا موجب ہے او رتیری رضا اِس میں نہیں ہے تو تُو مجھے اِس راستہ پر چلنے سے بچالے اور مجھے ہدایت دے اور اگر میں راستی اور ہدایت پر ہوں اور تیری رضا کی راہ پر چل رہا ہوں تو تُو خود میرے لئے ایسی روشنی پیداکردے جس روشنی کی بناء پر میں اِس راستہ پر قائم رہوں۔
جیسا کہ بعض دوستوں کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے ، میں سمجھتا ہوں ان کو بھی یہ معلوم ہے کہ ان کی حالت جو آج ہوئی ہے اس کی خدا نے آج سے بائیس سال پہلے مجھے خبر دے دی تھی۔ جب شیخ صاحب مصر سے واپس آئے ہیں اُس وقت مجھے ایک رئویا ہوا جس میں مجھے بتایا گیا کہ شیخ صاحب کا خیال رکھنا یہ مرتد ہوجائیں گے شاید میرے اس رئویا کے اور بھی گواہ ہوں مگر دو گواہ تو مَیں یقینی طور پر پیش کردیتا ہوں۔ ان میں سے ایک گواہ کے متعلق شایدوہ یہ کہہ دیں کہ ان کی گواہی کی کوئی حقیقت نہیں۔ کیونکہ عام لوگ گواہ کے رُتبہ اور مقامِ اخلاص کو نہیں دیکھتے، وہ صرف یہ دیکھ کر کہ وہ ماتحتی میں کام کرتا ہے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول دے گا۔ لیکن اگر وہ اس گواہ کے رُتبہ او رمقام کو مدنظر رکھیں تو میں سمجھتا ہوں وہ اس گواہ کی گواہی کو بھی ردّ نہیں کریں گے۔ خصوصاً جبکہ ایک آزاد گواہی اس کے ساتھ شامل ہے۔ یہ گواہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ہیں۔ مولوی صاحب یہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کے ارتداد کے متعلق جو رئویا دیکھا اور جس کا میں نے انہی دنوں ذکر کردیا تھا یہ تھا کہ شیخ صاحب کا خیال رکھا جائے وہ عیسائی ہوجائیں گے۔ مجھے جس قدر اس خواب کی تعبیر یاد ہے وہ یہی ہے کہ ان کے دین کی خرابی کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ چنانچہ میں نے اس رئویا کی بناء پر صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلائی کہ ان کا خاص خیال رکھا جائے۔ مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ خواب میں یہ تھا کہ عیسائی ہونے کا خطرہ ہے۔ اگر یہ بھی ہو تب بھی عیسائی سے مراد ضرور عیسائی ہونا نہیں بلکہ عیسائیوں والی کوئی خاص صفت بھی ہوسکتی ہے۔ اور عیسائیوں کا یہ مشہور عیب ہے کہ وہ دوسرے بزرگوں پر عیب لگانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور ان کے مذہب کی بنیاد اِس پر ہے کہ سب انبیاء بدکار تھے سوائے حضرت مسیح ناصری کے۔ شیخ صاحب کو جو ابتلا آیا ہے وہ بھی اس قسم کا ہے۔ ایک طرف وہ اپنے آ پ کو عالَمِ ربانی کہتے ہیں اور دوسری طرف مجھ پر طرح طرح کے الزام لگاتے ہیں اور اکثر حصہ جماعت کو گمراہی کی طرف جانے والا اور بدظنی کرنے والا اور بہت سوں کو دہریہ قرار دیتے ہیں۔ پس یہ ٹھوکر جو اِن کو لگی ہے یہ عیسائیوں والی ٹھوکر ہے۔اگر صرف مولوی سید سرور شاہ صاحب کی گواہی ہوتی تو شاید شیخ صاحب اس سے اتنا فائدہ نہ اُٹھا سکتے لیکن خداتعالیٰ کی شان ہے کہ اس نے اس بارہ میں ایک اور آزاد گواہ بھی پیدا کردیا ہے اور اس کا علم اس طرح ہوا کہ شیخ صاحب کے جدا ہونے پر جو جماعتوں نے ریزولیوشن بھجوائے ان میں ایک ریزولیوشن اڑیسہ کی ایک جماعت کا بھی تھا۔ اس میں وہاں کے جلسہ کی کیفیت بھی درج تھی اور اس میں ایک مقرر کی تقریر اس طرح درج تھی کہ شیخ صاحب کا ابتلا بھی ہمارے ایمانوں کو بڑھانے والا ہے۔ کیونکہ خلیفۃ المسیح کی ایک خواب ان کے متعلق تھی کہ وہ مرتد ہوجائیں گے۔ جب میں نے یہ رپورٹ پڑھی تو فوراً اُس جماعت کو خط لکھوایا کہ ان صاحب نے یہ میری خواب کہاں سے سُنی ہے۔ اس کا جواب وہاں سے یہ آیا کہ یہ صاحب ۱۹۱۵ء میں قادیان میں طالب علم تھے اور انہوں نے خود میرے منہ سے یہ خواب سُنی تھی جبکہ میں نے بعض دوستوں کو یہ خواب سنائی تھی۔اس سینکڑوں میل پرے کے ایک شخص کی شہادت نے شہادت کی لڑی کومکمل کردیا ہے اور ہر دیانتدار کیلئے شیخ صاحب کی ٹھوکر بجائے شبہ کا موجب بننے کے زیادتی ایمان کا موجب بنتی ہے۔
الٰہی سلسلوں کا یہ مسلمہ مسئلہ ہے کہ رئویائے صادقہ خصوصاً ایسی رئویا جو قیاسات یا حالات حاضرہ سے تعلق نہ رکھتی ہو، خداتعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ بائیس سال پہلے اس قسم کا خیال بھی شیخ صاحب کی نسبت نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے مستقبل کے متعلق یہ خبر دی ۔ یہ خواب انسانی بناوٹ نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ آخر وہ کون سا بندہ ہے جو اتنے علم کا مالک ہو کہ بائیس سال بعد میںہونے والے واقعہ کا نقشہ کھینچ کر رکھ دے۔ یہ صرف خدا کا ہی کام ہے کہ وہ غیب کا انکشاف کرے اور وہ خدا ہی تھا جس نے مجھے آج سے بائیس سال پہلے ان کے ارتداد کی خبر دی۔ پس شیخ صاحب کو سوچنااور غور کرنا چاہئے کہ کیا خداتعالیٰ نے اسی کو رئویا کے ذریعہ بائیس سال پہلے یہ بات بتائی تھی جس کو ان کے ذریعہ ہو (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) تباہ کرنے کا ارادہ کرچکا تھا۔ پھر آٹھ نو سال ہوئے میں نے رئویا دیکھی کہ مصری صاحب پر کوئی ابتلا آیا ہے اور ان کے دل میں بہت سے شکوک پیدا ہوگئے ہیں اور بعض دفعہ انہیں یہ بھی خیال آتا ہے کہ وہ قادیان سے چلے جائیں۔ میں نے اس پر رئویا میں ان کی دعوت کی اور انہیں نصیحت کی کہ ان باتوں کا نتیجہ اچھا نہیں، اس سے ایمان بالکل جاتا رہے گا۔ چنانچہ رئویا میںانہوں نے اقرار کیا کہ ہاں واقعہ میں میرے دل میں وساوس پیدا ہوگئے تھے اور میں چاہتا تھا کہ قادیان سے چلا جائوں۔ یہ رئویا بھی جہاں تک میں سمجھتا ہوں انہیں پہنچی ہوئی ہے اور اس رئویا سے بھی یہی ظاہر ہوتا تھا کہ ان پر کوئی ابتلا آنے والا ہے اور ان کے دل میں ایسے شکوک و شبہات پیدا ہونے والے ہیں جن کے نتیجہ میں وہ چاہیں گے کہ قادیان سے باہر چلے جائیں۔ خدا کی قدرت ہے یہ خواب بھی عجیب طریق پر پورا ہوا۔ چنانچہ احباب نے ’’الفضل‘‘ میں ایک دوست کا بیان پڑھا ہوگا جو انہوں نے افریقہ سے لکھ کر بھجوایا کہ مصری صاحب نے ان کے سامنے یہ خواہش کی تھی کہ اگر میری لڑکی کی ملازمت کا وہاں کوئی انتظام ہوجائے تو میرا جی چاہتا ہے کہ میں بھی افریقہ چلا جائوں۔ اور گو انہوں نے کہا تھا کہ دو سال کی چھٹی لے کر مگر بہرحال قادیان کو چھوڑ کر محض دُنیوی اغراض کیلئے ایک لمبے عرصہ کیلئے انہوں نے جانے کا اظہار کیا۔ باقی رہا وساوس کا حصہ اس کو وہ خود بھی تسلیم کرچکے ہیں۔
پھر ان کے ارتداد کے متعلق صرف میری ہی خوابیںنہیں اَور بھی کئی دوستوں کی خوابیں ہیں جن میں سے بہت سی ’’الفضل‘‘ میں شائع ہوچکی ہیں اور کئی ہیں جو ابھی شائع نہیں ہوئیں۔ ان میں سے ایک رئویا چوہدری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری کا بھی ہے۔ پچھلے سال کی بات ہے غالباً جون یا جولائی کا مہینہ تھا، میں اُس وقت دھرم سالہ میں تھا کہ ان کی طرف سے ایک چٹھی مجھے ملی۔ جس میں مصری صاحب کے متعلق ایک مُنذر خواب تھا۔ اُس وقت ان کا دل مصری صاحب کی طرف سے اتنا صاف تھا کہ چٹھی کا مضمون ہی بتارہا تھا کہ وہ مصری صاحب پر نہ صرف یہ کہ بدظن نہیں بلکہ ان سے عقیدہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس خط میں لکھا تھا کہ میں نے ایک خطرناک ڈرائونا خواب دیکھا ہے جس سے مجھے اپنی ایمانی حالت کے متعلق شبہ پیدا ہوگیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک جگہ آپ بیٹھے ہیں، مجلس لگی ہوئی ہے اور آپ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری اور ایک اور شخص کے متعلق (اس شخص کا نام انہوں نے لکھا تھا لیکن میں ظاہر کرنا نہیں چاہتا) فرماتے ہیں کہ انہوں نے نفاق سے کام لیا ہے اور میں انہیں جماعت سے خارج کرتاہوں۔ یہ خواب بیان کرنے کے بعد انہوں نے سخت گھبراہٹ کا اظہار کیا ہوا تھا اور لکھا تھا کہ چونکہ شیخ صاحب اور دوسرے صاحب کے متعلق تو ایسا گمان بھی نہیں ہوسکتا وہ تو مخلص آدمی ہیں اس لئے مجھے سخت گھبراہٹ ہے کہ شاید اس خواب میں میری اپنی روحانیت کا نقشہ نہ کھینچا گیا ہو۔ کیونکہ بعض دفعہ رئویا میں ایک مومن کو دوسرے مومن کا آئینہ بنا کر پیش کردیا جاتا ہے۔ پس میں سخت گھبراگیا ہوں کہ شاید میرے ایمان میں کوئی نقص ہے جسے ظاہر کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ رئویا مجھے دکھائی ہے۔ گویا اُس وقت انہیں شیخ عبدالرحمن صاحب مصری سے اتنی عقیدت تھی کہ وہ یہ خیال بھی نہیں کرسکتے تھے کہ مصری صاحب نفاق سے کام لے سکتے ہیں۔ بلکہ سمجھتے تھے کہ مصری صاحب کے آئینہ میں مجھے اپنی شکل دکھلائی گئی ہے۔ مگر پھر کس طرح لفظ بلفظ اور ہوبہو یہ بات پوری ہوئی۔ اس کے علاوہ اور بھی بیسیوں خوابیں ہیں جو جماعت کے مختلف افراد کو ان کے ارتداد کے متعلق آئیں۔ پس مصری صاحب کو قرآن کریم کی اس آیت پر غور کرنا چاہئے جس میں اللہ تعالیٰ یہودو نصاریٰ کو تورات و انجیل کی ان پیشگوئیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے جو رسول کریم ﷺ کے متعلق ان کتب میں پائی جاتی ہیں۔ اور فرماتا ہے کہ کیا ہمارایہ بندہ موسیٰ کے پاس جانب طور میں موجود تھا۔ جب اس نے اپنے مثیل کی خبر دی تھی کہ اس نے سازش کرکے وہ پیشگوئی لکھوالی اور انہیں سوچنا چاہئے کہ یہی دلیل اس موقع پر بھی چسپاں ہوتی ہے۔ اگر ہم لوگوں نے ان کے خلاف کوئی منصوبہ کیا ہے تو کیا خداتعالیٰ بھی اس منصوبہ میں ہمارے ساتھ شریک ہوگیا اور اس نے ۲۲ سال پہلے سے اس سازش کی بنیاد رکھنی شروع کردی۔
انہیں غور کرنا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ جب ان کے ارتداد کا کسی کو وہم و گمان بھی نہ ہوسکتا تھا یعنی آج سے بائیس سال پہلے اُس وقت خداتعالیٰ نے مجھے ان کے ارتداد کی خبر دی۔ پھر ۸۔۹ سال پہلے اس خبر کا تکرار کیا اور دوبارہ ان کے خیالات کی خرابی کی اطلاع دی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے اور نیک بندوں پر بھی جن کو قطعی طور پر مصری صاحب پر شبہ نہیں تھا بلکہ وہ ان کے ایمان کو اتنا مضبوط سمجھتے تھے کہ خیال کرتے تھے کہ ان کے آئینہ میں انہیں اپنی شکل دکھلائی گئی، اسی خبر کا اظہار کیا گیا۔ اور اگر یہ واقعہ بعینہٖ ظہور میں نہ آجاتا تو وہ یہی سمجھتے رہتے کہ ان کے ایمان میں کوئی نقص ہے۔ اب وہ سوچیں اور غور کریں کہ کیا ہم سب نے اللہ تعالیٰ سے مل کر ایک سازش کرلی تھی اور اگر خدا بھی ہماری سازش میں شریک ہوگیاہے تو پھر مصری صاحب کیلئے تقویٰ کا طریق یہی ہے کہ وہ کہیں کہ اگر خدا بھی اسی بدی کو دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے تو مجھے اپنی عقل کے نقص کا اقرار کرتے ہوئے اعتراض سے رُک جانا چاہئے۔ پس میں ان کے اور ان کے ساتھیوں کے تمام اعتراضوں اور ان کے اور ان کے تمام ساتھیوں کی گالیوں اور تمام دشنام طرازیوں کو بھلاتے ہوئے نہایت ہی اخلاص اورمحبت اور خیر خواہی سے کہتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں اور اس کے حضور عاجزانہ طور پر عرض کریں کہ اگرمیں حق پر نہیں ہوں اور مجھے یہ طریق عمل اختیار کرنے میں غلطی لگی ہے تو اپنے فضل سے مجھے ہدایت دے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ عاجزانہ اور منکسرانہ رنگ میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کیلئے سامان پیدا کردے گا۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو وہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کا لحاظ نہیں کرتا، خواہ وہ ہندو سے مسلمان بنا ہویا عیسائی سے مسلمان ہوا ہو۔ خدا اپنے سلسلہ کی عظمت کو بڑھانا چاہتا ہے اور خواہ کس قدر روکیں درمیان میں حائل ہوں وہ اسے بڑھا کر رہے گا۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ اگر وہ الزامات جووہ مجھ پر لگاتے ہیں جھوٹے ہیں تو میں مؤکد بعذاب قسم کھائوں۔ حالانکہ مستریوں کے مقابلہ میں بھی مَیں نے کہا تھا اور اب بھی میں کہتا ہوں کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ اس قسم کے امور کیلئے جن کے متعلق حدود مقرر ہیں اور گواہی کے خاص طریق بتائے گئے ہیں، قسموں وغیرہ کا مطالبہ جائز نہیں بلکہ ایسے مطالبہ پر قسم کھانا بھی اس حکمت کو باطل کردیتا ہے جس کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے۔ ہاں جس پر الزام لگایا گیا ہو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اختیار ہے کہ جب وہ مناسب سمجھے الزام لگانے والے کو مباہلہ کا چیلنج دے۔لیکن چونکہ وساوس و شبہات میں مبتلا مبتلا رہنے والا انسان خیال کرسکتا ہے کہ شاید میں نے قسم سے بچنے کیلئے اس قسم کا عقیدہ تراش لیا ہے اس لئے کم سے کم اس شخص کی تسلی کیلئے جو جانتا ہے کہ جھوٹی قسم کھاکر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ میں کہتا ہوں کہ میں اُس خدائے قادر وتوانا کی قسم کھاکرکہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس کی جھوٹی قسم کھا کر شدید لعنتوں کا انسان مورد بن جاتا ہے کہ میرا یہ یقین ہے کہ قرآن کریم کی اس بارہ میں وہی تعلیم ہے جو میں نے بیان کی۔ اور اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر *** ہو۔
اب وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ میں اس لئے قسم نہیں کھاتا کہ میں جھوٹا ہوں او رخداتعالیٰ کی *** سے ڈرتا ہوں، انہیں سوچنا چاہئے کہ اگرمیں خود ان کے یقین کے مطابق خداتعالیٰ کی جھوٹی قسم سے ڈرنے والا ہوں تو میری یہ قسم سچی ہے اورجب یہ قسم سچی ہے تو انہیں ماننا پڑے گا کہ میرا ان معاملات میں مباہلہ نہ کرنا یا قسم نہ کھانا اپنے عقیدہ کی رو سے خداتعالیٰ کے حکم کے پورا کرنے کیلئے ہے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ جو شخص ایک جھوٹی قسم نہیں کھاسکتا وہ دوسری جھوٹی قسم بھی نہیں کھایا کرتا۔ لیکن اگر ان کا خیال ہو کہ میں اس بارہ میں جھوٹی قسم کھارہا ہوں تو انہیں سوچنا چاہئے کہ پھر دوسرے امر میں جھوٹی قسم اٹھالینے سے مجھے کیا عذر ہوسکتا ہے۔ پھر ایک اور سوال ہے جو شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی طرف سے کیا گیا تھا اور آج بھی کیا جارہاہے کہ خلیفہ معزول ہوسکتا ہے۔ اور وہ اِس بناء پر مجھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مجھے خلافت سے الگ ہوجانا چاہئے۔ یا یہ کہ جماعت کو چاہئے کہ مجھے اِس عہدہ سے الگ کردے۔ میں اس دعویٰ کے جواب میں بھی اسی قادر و توانا خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کاکام ہے کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ باوجود ایک سخت کمزور انسان ہونے کے مجھے خداتعالیٰ نے ہی خلیفہ بنایا ہے اور میں اسی کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اُس نے آج سے ۲۲،۲۳ سال پہلے مجھے رئویا کے ذریعہ بتادیا تھا کہ تیرے سامنے ایسی مشکلات پیش آئیں گی کہ بعض دفعہ تیرے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوگا کہ اگر یہ بوجھ علیحدہ ہوسکتا ہو تو اِسے علیحدہ کردیا جائے، مگر تو اِس بوجھ کو ہٹا نہیں سکے گا اور یہ کام تجھے بہرحال نباہنا پڑے گا۔ اگر میں اِس بیان میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر *** ہو۔
اب اس رنگ میں مَیں نے قسمیں کھالی ہیں۔ وہ بھی اگر اپنے آپ کو سچائی پر سمجھتے ہیں تو اس رنگ میں قسمیں کھالیں۔ لیکن اُن کو میری نصیحت یہی ہے کہ وہ قسمیں نہ کھائیں کیونکہ میں خداتعالیٰ کے دیئے ہوئے علم پر قائم ہوں اور ان کے عقائد کی بنیاد ظنیات پر ہے۔ پس میں انہیں سمجھانا چاہتا ہوں کہ وہ ایسی قسم مت کھائیں کیونکہ اس کا ان کیلئے اچھا نتیجہ پیدا نہیں ہوگا۔ میں نے بیشک قسمیں کھائی ہیں مگر میں نے ان رئویا ، کشوف اور الہامات کی بناء پر قسمیں کھائی ہیںجن میں خداتعالیٰ کی طرف سے غیب کی خبریں تھیں اور وہ اپنے وقت پر پوری ہوئیں۔ پھر میں نے یہ قسمیں اس علم کی بنا پر کھائی ہیں جو خدا سے مجھے ملا اور جو بندوں سے میں نے نہیں سیکھا۔ پس میں انہیں یہی کہوں گا کہ وہ میرے مقابلہ میں ایسی قسمیں نہ کھائیں بلکہ خداتعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ انہیں ہدایت دے اور اگر انہیں اپنی بات پر اصرار اور قسمیں کھانے کا شوق ہو تو ایک نہیں کئی قسم کی قسمیں ہیں جو اِن جھگڑوں کا فیصلہ کرسکتی ہیں۔ آخر جو الزامات وہ مجھ پر لگاتے ہیں ان کا یہی مطلب ہے کہ میں خلافت کا اہل نہیں۔ مگر میں ابھی خداتعالیٰ کی قسم کھاکر کہہ چکا ہوں کہ میں اُس کا قائم کردہ خلیفہ ہوں۔ وہ بھی ایسی ہی قسم لکھ کر شائع کردیں پھر خودبخود فیصلہ ہوجائے گا کہ کون حق پر ہے اور کون ناحق پر ۔
میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کرچکا ہوں اور اب پھر اللہ تعالیٰ کے وعید لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کے ماتحت کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے میں اُس کا قائم کردہ خلیفہ ہوں اور میرے لئے عزل ہرگز جائز نہیں۔ اگر حوادث میرے سامنے آئیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ میرے لئے بعض اندھیرے مقدر ہیں اور اگر وہ ساری کی ساری جماعت کو بھی مجھ سے برگشتہ کرلیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے موت نہیں دے گا جب تک وہ پھر ایک زبردست جماعت میرے ساتھ پید انہ کردے۔ دنیا میں فریب کاریاں بھی ہوتی ہیں، دنیا میں دھوکے بھی ہوتے ہیں، دنیا میں وسوسہ اندازیاں بھی ہوتی ہیں، دنیا میں ابتلاء بھی آتے ہیں اور ان تمام چیزوں کے ذریہ لوگ ٹھوکریں کھاتے اور حق سے منحرف ہوتے ہیں۔ مگر مجھے بندوں پر یقین نہیں، مجھے اپنے خدا پر یقین ہے۔ اُس خدا نے اُس وقت جب کہ مجھے خلافت کا خیال تک بھی نہ تھا مجھے خبر دی تھی کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفُرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقَیَامَۃِ کہ وہ لوگ جو تیرے متبع ہیں وہ تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رہیں گے۔ پس یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ جو شخص میری بیعت کا اقرار کرے گا وہ قیامت تک میرے منکرین پر غالب رہے گا۔ یہ خدا کی پیشگوئی ہے جو پوری ہوئی اور پوری ہوتی رہے گی۔ اگر اس الہام کے سنانے میں مَیں جھوٹ بولتا ہوں تو خدا کی مجھ پر ***۔ میری خلافت کے بارہ میں ایک بار نہیں، دو بار نہیں اتنی بار خداتعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ اب بھی جب یہ فتنہ اُٹھا تو میں نے جلدی نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں اور خدا نے مجھے خبر دی کہ ’’میں تیری مشکلات کو دور کروں گا اور تھوڑے ہی دنوں میں تیرے دشمنوں کو تباہ کردوں گا‘‘۔۶؎ پھر تم نے دیکھاکہ خدا تعالی کی اس پیشگوئی کے بعد کس طرح دشمنوں پر آسمان سے تباہی نازل ہوئی اور ان کی طاقت کو اس نے توڑ کر رکھ دیا۔ پس میں پھر انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ خداتعالیٰ کہ خداتعالیٰ کی بخشش نہایت وسیع ہے، اس کی بخشش کے دامن میں پناہ لیں۔ بیشک اس کے پاس عذاب بھی ہے اور تباہیاں بھی لیکن اس کے پاس برکتیں بھی ہیں اور عفو کے خزانے بھی ہیں بلکہ وہ فرماتا ہے رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ ۷؎ میری رحمت باقی ہر چیز پر غالب ہے۔ پس اُس سے وہ چیز کیوں نہ مانگی جائے جس کے متعلق وہ کہتا ہے کہ میرے پاس بہت ہے اور اس سے وہ چیز کیوں مانگی جائے جس کے متعلق وہ کہتا ہے کہ اس کا دینا میں پسند نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے عذا ب دینا مجھے پسند نہیں اور عذاب دینے میں مَیں ڈھیلا ہوں لیکن رحم کرنے میں بڑا تیز ہوں۔
پس وہ چیز خداتعالیٰ سے مانگو جس کے متعلق وہ کہہ رہا ہے کہ مجھ سے مانگو۔ وہ چیز اس سے کیوں مانگتے ہوں جس کے متعلق وہ یہ کہتا ہے کہ میں وہ دینا نہیں چاہتا۔ ممکن ہے کہ پھر وہ کہیں جب خداتعالیٰ کی قسم کھاکر عذاب نہیں مانگنا چاہئے تو پھر تم نے مؤکد بعذاب قسمیں کیوں کھائیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے خداتعالیٰ کے دیئے ہوئے علم کی بنا ء پر قسمیں کھائیں ہیں۔ میں نے ان رئویا، کشوف اور الہامات کی بنا پر قسمیں کھائی ہیں جو ایک رُبع صدی سے مجھ پر نازل ہورہے ہیں۔ پھر ان الہامات کے علاوہ بیسیوں نہیں سینکڑوں خوابیں ہیں جو پرائیویٹ مجالس میں مَیں نے بیان کیں اور پوری ہوئیں اور ان کے علاوہ بہت سی خوابیں ایسی ہیں جو گو میں نے بیان نہیں کیں لیکن وہ فلق الصبح کی طرح پوری ہوئیں۔ پس میں نے ان کشوف اور رئویا کی بناء پر جو خداتعالیٰ کی طرف سے مجھے دکھائے گئے اور جن میں غیب کی خبریں پائی جاتی تھیں جو اپنے وقت پر پوری ہوئیں یہ قسمیں کھائی ہیں اور میں نے ان الہامات کی بناء پر قسمیں کھائی ہیں جو میرے نفس کی طرف سے نہیں اور جن میں قیاس کا کوئی دخل نہیں بلکہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ چونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور پھر رمضان کا یہ مبارک مہینہ ہے، اس لئے میں پھر انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ڈریں اور خداتعالیٰ کا خوف کریں۔ بے شک وہ اپنے طریق عمل کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اصلاح کا طریق ہے مگر قرآن مجید کہتا ہے بعض لوگ کہتے ہیں ہم صلح جو ہیں حالانکہ وہ صلح پسند نہیں بلکہ فتنہ انداز ہوتے ہیں۔ پس وہ خداتعالیٰ کے اس ارشاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈریں اور سمجھیں کہ کہیں میں فتنہ تو پیدا نہیں کررہا۔ جماعت میں فتنہ پیدا کرنے میں تو وہ اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب نہیں ہوسکے ہاں غیروں کو ان کی حرکات سے تقویت ضرور پہنچی ہے اور سلسلہ کے خلاف وہ ایک دفعہ پھر پورے جوش کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ اگر وہ صرف اسی بات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا قدم راستی پر نہیں۔ ان کے بعض دوستوں نے مجھے چٹھیاں لکھی ہیں جن میں ایک نے مجھ سے یہ دریافت کیا ہے کہ جو سلوک آپ ہم سے کررہے ہیں کیا یہ نبیوں والا سلوک ہے یا غیرنبیوں والا؟ ان کی مراد اس سلوک سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ مقاطعہ ہے جو ان کا کیا گیا ہے۔ میں اُس سوال کے جواب میں پوری دیانتداری کے ساتھ اُس علم کی بناء پر جو خداتعالیٰ کی طرف سے مجھے حاصل ہے یہ کہتا ہوں کہ جو سلوک میں نے ان سے کیا ہے وہ نبیوں والا سلوک ہے غیرنبیوں والا نہیں۔ میں نے ان کا کوئی بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ ان کی ضرورتوں کے پورا کئے جانے کا حکم دے دیا تھا۔ چنانچہ میری ہدایت یہ تھی کہ جو ضروریاتِ زندگی سکھوں، ہندوئوں اور غیراحمدی دکانداروں سے میسر نہ آسکتی ہوں وہ احمدی دُکانداروں کی طرف سے دے دی جائیں۔ لیکن چونکہ بعد میں انہوں نے بغیر ثبوت کے جماعت احمدیہ کی طرف مظالم منسوب کرنے شروع کردیئے اور اس سے یہ خدشہ پیدا ہونے لگا کہ اگر کسی احمدی دکاندار سے وہ مثلاً دودھ لے جائیں اور اس سے اتفاقاً ان کے کسی بچہ کو قراقر ہوجائے یا مٹھائی سے پیٹ درد ہوجائے تو وہ یہ شور مچانا شروع کردیں کہ ہمیں زہر ملا کر دیا گیا ہے اور اس طرح جماعت کے افراد کو بعض الزامات کے نیچے لائیں۔ اس لئے میں نے امور عامہ کو حکم دیا کہ ایسے دکاندار مقرر کردیئے جائیں جن سے وہ سَودا لے سکیں۔ لیکن خود انہوں نے اس حکم سے فائدہ نہیں اُٹھایا اور میں آج بھی اس امر کیلئے تیار ہوں کہ ان کی ہر قسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے دکاندار مقرر کردوں۔
غرض میں نے ان کا کوئی بائیکاٹ ان معنوں میں نہیں کیا جن معنوں میں کہ نبیوں کے دشمن کیا کرتے ہیں۔ اصل بائیکاٹ وہ تھا جو مکہ والوں نے رسول کریم ﷺ اور صحابہ کا کیا کہ انہوں نے اعلان کردیا تھا کہ جو شخص بھی مسلمانوں کے پاس سَودا فروخت کرے گا ہم اُسے سزا دیں گے۔ اس کے برخلاف ہم نے تو یہ کہا تھا کہ ہم ان کے پاس اس دکاندار کو سَودا بیچنے کی اجازت دیں گے جس کے متعلق اس شبہ کی کوئی صورت نہ ہوگی کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے تعلقات دوسرے منافق طبع لوگوں سے قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ اور اگر ان کی غرض محض سَودا خریدنا ہوتی زید یا بکر سے ملنا نہ ہوتی تو وہ ہمارے اِس قائم کردہ نظام سے فائدہ اُٹھاسکتے تھے۔ پھر اس احتیاط کی اس لئے بھی ضرورت تھی کہ انہوں نے شروع سے ہی یہ طریقہ رکھا ہوا تھا کہ مخفی طور پر لوگوں پر یہ اثر ڈالنے کی کوشش کرتے تھے اور آخر میں تو انہوں نے اخبارات میں بھی یہ اعلان کردیا تھا کہ وہ مخفی طور پر لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں گے اور ان کے نام صیغۂ راز میں رکھے جائیں گے۔ پھر صرف اعلان پر بس نہیں وہ مخفی طور پر لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں اب تک کررہے ہیں اور اس کے یقینی ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں اور وہ ایسے واضح ثبوت ہیں کہ جب ان کو ظاہر کیا گیا تو ان کیلئے ان باتوں کا انکار کرنا بہت مشکل ہوگا۔ ایسی صورت میں ہمارا فرض تھا کہ ہم ان سے بول چال اور لین دین وغیرہ کے تعلقات رکھنے کے راستہ کو ایک قاعدہ کے ماتحت لاکر اس فتنہ کو دور کرتے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ احتیاطیں مخفی پروپیگنڈا کے متعلق تھیں۔ ورنہ ظاہر پروپیگنڈا سے اگر شرافت کی حد کے اندر ہو میں نے کبھی نہیں روکا۔ چنانچہ جو اشتہارات وہ بورڈوں پر چسپاں کرتے رہے ہیں ان کے متعلق کیا میں نے کبھی یہ اعلان کیا ہے کہ لوگ انہیں نہ پڑھیں۔ بلکہ ایک دفعہ انہوں نے بورڈ پر اشتہار لگایا تو غالباً مولوی ابوالعطاء صاحب کی چٹھی مجھے آئی کہ لوگ اسے پڑھنے کیلئے بہت جمع ہوگئے اور وہ اسے پڑھ کر غیظ و غضب سے بھر گئے جس سے فساد کا خطرہ ہے مناسب ہے کہ ایک اعلان کے ذریعہ لوگوں کو اس قسم کے اشتہارات پڑھنے سے وک دیا جائے۔ مگر میں نے اس کا یہی جواب دیا کہ اس قسم کی ممانعت مَیں پسند نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کے یہ معنے لئے جائیں گے کہ میں لوگوں کو تحقیق سے روکتا ہوں۔ میں دلائل اور صحیح طریق تبلیغ کا مخالفت نہیں ہوں۔ میں تو خود ہمیشہ ہی حق کا متلاشی رہا ہوں اور یہی میری روح کی غذا ہے۔ اگر وہ دلائل سے مجھ پر غالب آسکتے ہیں تو شوق سے آجائیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ میرا اعتراض یہ ہے کہ وہ ناجائز کارروائیاں کرتے ہیں جو کسی مذہب میں بھی جائز نہیں اور چونکہ وہ تہذیب اور شرافت اور اسلامی احکام سے تجاوز کرکے ایسی حرکات کے مرتکب ہیں اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی جماعت کے احباب کو ان سے ایسے تعلقات سے روکیں جو فساد کا موجب ہوسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک جس قدر احکام سلسلہ کی طرف سے اس قسم کے نافذ کئے گئے جن میں دوسروں سے بول چال کی ممانعت تھی تو وہ ایسے ہی لوگوں کے متعلق تھے جن کے افعال میں سازش کا رنگ پایا جاتا تھا۔ ورنہ اگر کسی کے افعال میں سازش نہ ہو اور وہ عَلَی الْاِعْلَان ہم سے الگ ہوکر کسی اور گروہ میں شامل ہوجائے تو ہم اس سے کبھی بولنا منع نہیں کرتے۔ غیرمبائعین میں ہی آجکل کئی ایسے لوگ ہیں جو پہلے ہماری جماعت میں تھے مگر بعدمیں ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ لیکن ہم نے ان کے متعلق یہ اعلان نہیں کیا کہ ان سے کوئی شخص گفتگو نہ کرے۔ ڈاکٹر سیّد محمد طفیل صاحب، میاں غلام مصطفی صاحب، مولوی محمد یعقوب صاحب ایڈیٹر لائٹ یہ پہلے میری بیعت میں شامل تھے مگر پھر غیرمبائعین کی طرف چلے گئے اور ہم نے ان کے مقاطعہ کا کوئی اعلان نہیں کیا بلکہ میں خود ان میں سے بعض سے ملتا رہا ہوں۔ اسی طرح اَور بھی کئی آدمی ہیں جو پہلے ہمارے ساتھ تھے پھر اُدھر شامل ہوگئے۔ مگر ہم نے کبھی لوگوں کو ان سے ملنے سے نہیں روکا۔ ہم صرف انہی سے تعلقات رکھنے ممنوع قرار دیتے ہیں جو سلسلہ کے خلاف خفیہ سازشیں کرتے ہیں۔ چنانچہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے اپنے خط میں تسلیم کیا ہے کہ وہ دو سال سے خفیہ تحقیق میرے خلاف کررہے تھے اور اس بارہ میں لوگوں سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ اگر جس دن انہیں میرے متعلق شبہ پید اہوا تھا اور میرے خلاف انہیں کوئی بات پہنچی تھی، اُسی دن وہ میرے پاس آتے اور کہتے کہ میرے دل میں آپ کے متعلق یہ شبہ پیدا ہوگیا ہے تو میں یقینا انہیں جواب دیتا اور اپنی طرف سے ان کو اطمینان دلانے اور ان کے شکوک کو دور کرنے کی پوری کوشش کرتا۔ چنانچہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ بعض لوگ میرے پاس آئے اور انہوں نے دیانت داری سے اپنے شکوک پیش کرکے ان کا ازالہ کرنا چاہا اور میں ان پر ناراض نہیں ہوا۔ بلکہ میں نے ٹھنڈے دل سے اُن کی بات کو سُنا اور آرام سے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ اورمیں سمجھتا ہوں اگر وہ جھوٹ نہ بولیں تو ایسے لوگ بھی میں پیش کرسکتا ہوں جو اَب احمدی نہیں اور وہ اِس بات کے شاہد ہیں کہ انہوں نے مخفی طور پر اپنے بعض شکوک کے متعلق مجھ سے تسلی چاہی اور میں نے نہایت خندہ پیشانی سے ان کی باتوں کا جواب دیا۔ لیکن جو شخص پہلے مجھے مجرم قرار دیتا ہے اور پھر مجھ سے تسلی چاہتا ہے اُس کی تسلی کرنے کے کوئی معنے نہیں۔ جس نے فیصلہ کرلیا کہ میں مجرم ہوں،جس نے فیصلہ کرلیا کہ مجھے میں فلاں فلاں عیوب پائے جاتے ہیں اُس کی تسلی کرنی بالکل بے معنی بات ہے۔
پس مجھے ان کے طریق پر اعتراض ہے۔ ورنہ وسوسے بعض کمزور انسانوں کے قلوب میں پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں۔ مجھے جس با ت پر اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے خفیہ کارروائی کی اور خفیہ طور پر لوگوں کو بہکایا۔ چنانچہ اِس کا ثبوت اِس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ اِدھر جماعت سے وہ نکلے اُدھر حکیم عبدالعزیز صاحب نے کہہ دیا کہ میں جماعت سے الگ ہوتا ہوں اور وہ جھٹ مصری صاحب کے ساتھ شامل ہوگئے۔ پھر مصری صاحب نے بھی اپنے خط میں یہی لکھا تھا کہ فخرالدین کو اگر آپ نے معاف نہ کیا تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ گویا میری وجہ سے وہ جماعت سے الگ نہیں ہوئے بلکہ اس لئے ہوئے کہ فخرالدین کو کیوں معاف نہیں کیا گیا۔ پس صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ ایک پارٹی تھی جو اندر ہی اندر خفیہ منصوبے کررہی تھی۔ چنانچہ ابتدائی رپورٹیں جو میرے پاس پہنچیں ان میں میاں فخرالدین صاحب، شیخ عبدالرحمن صاحب مصری، حکیم عبدالعزیز صاحب اور میاں مصباح الدین صاحب ان چاروں کے نام علاوہ بعض دوسرے ناموں کے آتے رہے ہیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کیوںنہ فرض کرلیا جائے کہ رپورٹ دینے والوں نے جھوٹ بولا۔ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ یہ شروع سے ایک پارٹی تھی۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رپورٹ دینے والوں کو کیا پتہ تھا کہ کسی وقت یہ چاروں علیحدہ بھی ہوجائیں گے۔ انہوں نے ایک رپورٹ کی اور وقوعہ نے ثابت کردیا کہ انہوں نے جھوٹ نہیں بولا بلکہ سچ کہا ورنہ وجہ کیا ہے کہ ادھر میاں فخرالدین صاحب ملتانی جماعت سے نکالے جاتے ہیں اورادھر شیخ عبدالرحمن صاحب مصری بھی نکل جاتے ہیں۔ وہ علیحدہ ہوتے ہیں تو میاں عبدالعزیز حکیم اور میاں عبدالرب بھی فسخ بیعت کا اعلان کردیتے ہیں اور میاں مصباح الدین صاحب سے بھی ایسی حرکات سرزد ہوتی ہیں کہ انہیں جماعت سے الگ کرنا پڑتا ہے۔ یہ باتیں ثبوت ہیں اس بات کا کہ ان میں خفیہ کارروائیاں ہوتی رہی تھیں او ریہی تقویٰ کے خلاف فعل ہے۔ اگر پہلے دن ہی جب انہوں نے میرے متعلق بات کوئی بات سُنی تھی، میرے پاس آتے اور مجھ سے کہتے کہ میں نے فلاں بات سُنی ہے مجھے اس کے متعلق سمجھایا جائے تو جس رنگ میں بھی ممکن ہوتا میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا اور گو تسلی دینا خدا کا کام ہے میرا نہیں مگر اپنی طرف سے میں انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا۔ لیکن انہوں نے تقویٰ کے خلاف طریق اختیار کیا اور پھر ہر قدم جو انہوں نے اُٹھایا وہ تقویٰ کے خلاف اُٹھایا۔ چنانچہ جب انہوں نے یہ شور مچانا شروع کردیا کہ مجھ پر جماعت کی طرف سے کئی قسم کے مظالم کئے جارہے ہیں تو میں نے اس کی تحقیق کیلئے ایک کمیشن مقرر کیا جس کے ممبر مرزا عبدالحق صاحب اور میاں عطاء اللہ صاحب پلیڈر تھے۔ مرزا عبدالحق صاحب، شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے گہرے دوست تھے۔ مگر انہوں نے مرزا عبدالحق صاحب کے متعلق کہہ دیا کہ یہ خلیفہ کے اپنے آدمی ہیں اور انہیں چونکہ جماعت کی طرف سے مقدمات ملتے ہیں اس لئے فیصلہ میں وہ خلیفہ کی طرفداری کریں گے اور میاں عطاء اللہ صاحب پلیڈر کہ وہ بھی ان کے گہرے دوستوں میں سے تھے ان کے متعلق انہوں نے یہ کہاکہ مجھے ان کے فیصلہ پر اس لئے تسلی نہیں کہ ان کی مرزا گل محمد صاحب نے جو خلیفہ کے چچا کے بیٹے ہیں ایک ضمانت دی ہوئی ہے۔ اب اگر احمدیوں کے ایمان اتنے کمزور ہیں کہ ان میں سے کوئی اس لئے صحیح فیصلہ نہ کرے کہ مجھے جماعت کی طرف سے مقدمات ملتے ہیں، اگر میں نے جماعت کے خلاف فیصلہ کیا تو مقدمات ملنے بند ہوجائیں گے۔ اور کوئی اس لئے صحیح فیصلہ نہ کرے کہ میرے چچا کے بیٹے نے ان کی ایک ضمانت دی ہوئی ہے تو ایسے لوگوں کے اندر شامل رہنے سے فائدہ کیا ہے۔ میں نے تو نہایت دیانتداری سے ان دونوں کو اس کا دوست سمجھ کر اس فیصلہ کیلئے مقرر کیا تھا مگر انہوں نے اس کمیشن کے سامنے اس لئے اپنے مطالبات پیش کرنے سے انکار کردیا کہ یہ دونوں ہمارے زیر اثر ہیں۔ اس کے مقابلہ میں مصری صاحب کے ایک اَور دوست مصباح الدین صاحب کے متعلق جب کمیشن مقرر کیا گیا تو میں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ لوگ ان لوگوں پر جو جماعت سے کوئی ملازمت وغیرہ کا تعلق رکھتے ہوں، اعتراض کرنے کے عادی ہیں ایسے آدمی مقرر کئے جنہیں جماعت سے کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ ان میں سے ایک میر محمد بخش صاحب امیر جماعت احمدیہ گوجرانوالہ تھے۔ انہوں نے کبھی بھی جماعت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا اور جماعت نے کسی مقدمہ میں انہیں کبھی فیس نہیں دی۔ دوسرے دوست چوہدری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری تھے انہیں بھی کبھی جماعت سے کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچا۔ مگر جب ان دونوں کو میں نے مقرر کیا اور انہوں نے مصباح الدین صاحب کو بیان کیلئے بُلایا تو انہوں نے کہا کہ اگر خلیفہ خود مجھ سے جواب طلب کرے تو میں جواب دے سکتا ہوں، کسی اَور کا ان امور سے کیا تعلق ہے۔ مجھے جب یہ بات پہنچی تو میں نے جواب دیا کہ جب وہ سلسلہ پر اعتراض کرنے لگے تھے تو کیا انہوں نے خلیفہ سے اجازت لے لی تھی؟ اگر ان میں اتنا ہی اخلاص تھا تو چاہئے تھا کہ وہ اپنے اعتراضات کا بھی خلیفۂ وقت کے سوا اور کسی کے سامنے ذکر نہ کرتے۔ جب اعتراض کرنے کا وقت تھا اُس وقت تو اَوروں کے سامنے ہی اعتراض ہوتے رہے مگر جب جواب دینے کا وقت آیا تو کہہ دیا کہ میں خلیفہ کے سِوا اور کسی کو جواب نہیں دے سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کسی انسان کے دل میں فتنہ پید اہوجاتا ہے تو وہ ’’نہ مانوں‘‘ ’’نہ مانوں‘‘ کی رٹ لگاتا رہتا ہے۔ جب کمیشن میں شیخ مصری صاحب کے دوست مقرر کئے گئے تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ پیڈ ایجنٹ (PAID AGENT) ہیں۔ ایک کو مقدمے مل جاتے ہیں اور دوسرے کو خلیفۂ وقت کے ایک رشتہ دارنے ضمانت دی ہوئی ہے۔ اور جب ایسے لوگ مقرر کئے گئے جن پر یہ اعتراض نہیں پڑ سکتا تھا تو یہ کہہ دیا گیا کہ خلیفۂ وقت کے سوا ہم کسی کے سامنے بات نہیں کرسکتے۔
پس میں نے تو چاہا تھا کہ اگر ہماری جماعت کے کسی فرد کی طرف سے ان پر سختی ہوئی ہو تو اس کا ازالہ کروں مگر انہوں نے خود اس کو قبول نہیں کیا۔ میں یہ ہرگز نہیں کرسکتا تھا کہ سلسلہ احمدیہ کے جھگڑوں میں غیراحمدیوں کو جج مقرر کروں۔ ہمیشہ اُمت محمدیہ میں امت محمدیہ کے افراد ہی باہمی جھگڑوں کا تصفیہ کرتے رہے ہیں۔ اس پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو یہ میرے بس کی بات نہیں۔
خلفائے اسلام بھی بعض دفعہ دیوانی مقدموں میں بُلائے گئے ہیں۔ مگر وہ اُنہی قاضیوں کے پاس گئے ہیں جنہیں انہوں نے خود مقرر کیا تھا۔ حضر ت عمرؓ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما پر اگر کوئی دیوانی مقدمہ ہوا ہے تو اُنہی قاضیوں کے پاس جنہیں حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے مقرر کیا تھا۔ اُس وقت کسی نے نہیں کہا کہ قاضی تو آپ کا اپنا مقرر کردہ ہے اس سے ہم فیصلہ کیونکر کراسکتے ہیں، وہ آپ کی طرفداری کرے گا۔ وہ جانتے تھے کہ یہمسلمان قاضی ہیں او رمسلمان قاضی دیانت داری سے ہی کام لیں گے۔ ان میں یہ بدظنی نہیں تھی کہ قاضی تو ان کا مقرر کردہ ہے وہ کس طرح صحیح فیصلہ کرسکتا ہے ۔ اور اگر کسی وقت قوم کی حالت ایسی گندی ہوجائے کہ اُس کا خلیفہ بگڑ جائے اور اُس کے افراد بددیانت ہوجائی تو پھر اس مرض کا علاج کوئی بندہ نہیں کرسکتا اس کا علاج پھر اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے۔ اُس وقت پھر اصلاح کا دعویٰ کرنا محض ایک لاف ہے۔ اُس کا علاج ایک ہی ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ سے فریاد کی جائے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ اگر تمہیں مجھ پر ایسی بدظنی ہے اور تم سمجھتے ہو کہ یہ جماعت کو تباہ کررہا ہے تو تم خدا سے کہو کہ وہ مجھے تباہ کردے۔ بندوں کے پاس چیخ و پکار بالکل بے معنی بات ہے۔
مصری صاحب کے اسی ساتھی نے جس کے خط کا میں اوپر ذکر کرآیا ہوں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ نے سازش کرکے مستریوں پر حملہ کروایا تھا۔ پھر آپ نے سازش کرکے محمد امین کو قتل کروایا اور اب فخرالدین کو مروادیا ہے۔ اور اس کے بعد آپ ہمیں مروانے کی فکر میں ہیں۔ مجھے اس قسم کے اعتراض کا جواب دینے کی ضرورت نہیں تھی کیو نکہ ہر غلط الزام کا جواب دینے کی نہ ضرورت ہوتی ہے اور نہ اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ خط لکھنے والے نے آئندہ کا شبہ بھی ظاہر کیا ہے اور میں کسی کو قلق اور اضطراب میں رکھنا نہیں چاہتا اس لئے میں ان کے وسوسہ کو دور کرنے اور ان کے خدشات کو مٹانے کیلئے وہ بات کہتا ہوں جس کی مجھے عام حالات میں ضرورت نہیں تھی اور میں اُس خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ میں نے کسی کو پٹوانا اور قتل کروانا تو الگ رہا آج تک سازش سے کسی کو چپیڑ بھی نہیں لگوائی۔ کسی پر اُنگلی بھی نہیں اُٹھوائی اور نہ میرے قلب کے کسی گوشہ میں یہ بات آئی ہے کہ میں خدانخواستہ آئندہ کسی کو قتل کروائوں یا قتل تو الگ رہا ناجائز طور پر پٹوا ہی دوں۔ اگر میں اس قسم میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی *** مجھ پر او رمیری اولاد پر ہو۔ ان لوگوں نے میری صحبت میں ایک لمبا عرصہ گزارا ہے۔ اگر یہ لوگ تعصب سے سے بالکل ہی عقل نہ کھوچکے ہوتے تو یہ ان باتوں سے شک میں پڑنے کی بجائے خود ہی ان باتوں کو ردّ کردیتے۔ خداتعالیٰ نے مجھے ظالم نہیں بنایا، اس نے مجھے ایک ہمدرد دل دیا ہے جو ساری عمر دنیا کے غموں میں گھلتا رہا اور گھل رہا ہے۔ ایک محبت کرنے والا دل جس میں سب دنیا کی خیر خواہی ہے، ایک ایسا دل جس کی بڑی خواہش ہی یہ ہے کہ وہ اور اس کی اولاد اللہ تعالیٰ کے عشق کے بعد اس کے بندوں کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کریں۔ ان امور میں مجبوریوں یا غلطیوں کی وجہ سے کوئی کمی آجائے تو آجائے مگر اس کے ارادہ میں اس بارہ میں کبھی کمی نہیں آئی۔
میں اصل مضمون سے دُور چلا گیا۔ میں ان لوگوں کی تسلی کیلئے اس سے بھی بڑھ کر ایک قدم اُٹھاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اگر جماعت میں کوئی ایسا شخص ہے جسے میں نے کبھی بھی کسی کے قتل یا مخفی طور پر پیٹنے کا حکم دیاہو (مخفی کی شرط میں نے اس لئے لگائی ہے کہ قضاء کی سزائوں میں ان لوگوں کو جنہیں سزا دینے کا ہم کو شرعی اور قانونی حق ہوتا ہے کبھی بدنی سزا بھی دِلوادیتے ہیں)۔ تو اسے میں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ وہ اس امر کو ظاہر کردے تا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو دنیا پر میرا جھوٹ کھل جائے۔ پھر میں اس سے بھی بڑھ کر ایک اَور قدم اُٹھاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ہمیشہ ایسے افعال کو ناپسندکیا ہے جن میں ظلم پایا جائے اور ظاہر اور مخفی ہر طرح ان افعال کو روکنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ ہاں اگر خدا کی بتائی ہوئی تقدیریں پوری ہوں تو ان میں میرا کوئی دخل نہیں۔ وہ خدا کا اپنا کام ہے جو وہ کرتا ہے او رمجھ پر اس کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ مجھ پر الزام تبھی آسکتا ہے کہ میرے منصوبہ یا اشارہ سے کوئی بات ہو۔ لیکن میں انہیں کہتا ہوں انہوں نے مجھ پر یہ اعتراض کرکر کے کہ میں پہلے اپنے دشمنوں کی تباہی کے متعلق ایک پیشگوئی کرتا ہوں اور پھر انسانوں کی منت سماجت کرکے اسے پورا کرواتا اور اپنے دشمنوں کو مرواڈالتا ہوں، غیر از جماعت لوگوں کے دلوں میں شبہات پیداکردیئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی یہی کہا کرتے تھے کہ مرزا صاحب نے لیکھرام کے قتل ہونے کی پیشگوئی کی اور پھر ایک آدمی بھیج کر اسے مروادیا۔ گویا انہوں نے مجھ پر یہ الزام لگاکر ایک ایسا خطرناک حربہ دشمن کے ہاتھ میں دے دیا ہے کہ گو وہ سلسلہ کو نقصا ن نہیں پہنچاسکتا مگر اس سے وہ ہنسی اور طعن و تشنیع کا نشانہ ضرور بن جاتا ے۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ میں خداتعالیٰ کی خبر کو کس طرح چھپائوں۔ میں اس بارہ میں بے بس ہوں۔ میں قسم کھاسکتا ہوں، ہر سخت سے سخت قسم کہ میں نے جو خبر دی وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی میں نے اپنے پاس سے نہیں بنائی اور میں ہر غلیظ سے غلیظ قسم کھاسکتا ہوں کہ اس خبر کے پورا کرنے کیلئے میں نے کوئی سازش نہیں کی۔ اس سے زیادہ میں اور کیا ذریعہ تسلی دلانے کیلئے اختیار کرسکتاہوں۔ جو اس پر بھی تسلی نہیں پاتا اس کا علاج خداتعالیٰ کے پاس ہی ہے میرے پاس نہیں۔ مگر بدقسمت ہے وہ جو خداتعالیٰ کے نشانات سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے اَور بھی گمراہ ہوجاتا ہے۔ بے شک خداتعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا ۸؎ کچھ لوگ اس سے ہدایت پاتے ہیں اور کچھ گمراہ ہوجاتے ہیں۔ مگر اس قاعدہ کے گمراہی والے حصہ میں شامل ہونا کوئی اچھا مقا م نہیں کہ انسان اس مقام پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔
پیشگوئیاں ہمارے لئے کوئی نئی چیز نہیں۔ ابھی قریب کے زمانہ میں ہم خداتعالیٰ کے ایک مامور کی آواز سُن چکے ہیں۔ پیشگوئی کے بعد پیشگوئی ہم نے سُنی اور پھر اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھی۔ پھر کیا ہوا کہ اتنے قلیل عرصہ میں لوگ اس آواز سے ناآشنا ہوگئے اور کیوں نہ ہوا کہ وہ خداتعالیٰ کی آواز سے فائدہ اُٹھاتے اور انکار کرکے اپنے گناہوں کے بار کو زیادہ نہ کرتے۔ اے زمین اور آسمان! تو گواہ رہ کہ میں ان الفاط کے بیان کرنے میں جو میں نے بیان کئے تھے جھوٹا نہ تھا۔ میں نے وہی کہا جو میرے دل اور کانوں پرنازل ہوا اور میں نے افتراء نہیں کیا اور میں خداتعالیٰ پر افتراء کرنے کو لعنتیوں کا کام سمجھتا ہوں۔ اور مجھے ایسا کہنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود کہہ چکا ہے کہ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ۹؎ میں نے صرف وہی کہا جو میرے روحانی کانوں نے سُنا اور میرے دل نے محسوس کیا اور اِسی دفعہ نہیں میں نے بہت دفعہ آسمانی آواز کو سنا ہے۔ اور یہ کوئی میرا ذاتی فخر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا محض احسان ہے ورنہ میں تو ایک ناکارہ وجود ہوں، گناہوں سے پُر، خطائوں سے بھرا ہوا مگرمَیں کیا کروں کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کرچکا ہے کہ وہ مجھ سے اِحیائے اسلام کا کام لے اور اسلام کی عظمت کو میرے ذریعہ سے قائم کرے اور یہ کام ہوکر رہے گا جلد یا بدیر۔ مبارک ہے وہ جو اِس کام میں میرا ہاتھ بٹاتا ہے اور افسوس اُس پر جو میرے راستہ میں کھڑا ہوتا ہے کیونکہ وہ میرا نہیں خداتعالیٰ کا مقابلہ کرتا ہے جس نے مجھ سے گنہگار کو اپنے جلال کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ کاش! وہ توبہ کرتا اور خداتعالیٰ کے اشارہ کو سمجھتا، کاش! وہ اپنے آپ کو اس خطرناک مقام پر کھڑا نہ کرتا کیونکہ اِس قسم کے اعتراضوں سے وہ جس مصیبت کو اپنے اوپر سے ٹلانا چاہتا ہے وہ اس کو ٹلاتا نہیں بلکہ ان کی وجہ سے اپنے آپ کو پہلے سے کہیں زیادہ خداتعالیٰ کے غضب کے نیچے لے آتا ہے۔ میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں اخلاص اور درد کے ساتھ اسے یہی کہتا ہوں کہ
اے آنکہ سُوئے من بد ویدی بصد تبر
از باغباں بترس کہ من شاخ مثمرم۱۰؎
میں آخر میں پھر شیخ صاحب سے اخلاص اور خیر خواہی سے کہتا ہوں کہ جس جس رنگ میں خداتعالیٰ کی قسم کھانا میرے لئے ممکن تھا میں نے قسمیں کھالی ہیں اور ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں۔ میںنے ان کی باتوں کو سُنا اور صبر کیا اور اس حد تک صبر کیا کہ دوسرے لوگ اس حد تک صبر نہیں کرسکتے۔ مگر وہ یقین رکھیں اور اگر وہ یقین نہیں کریں گے تو زمانہ اُن کو یقین دلادے گا اور اگر اس دنیا میں انہیں یقین نہ آیا تو مرنے کے بعد انہیں اس بات کا یقین آجائے گا کہ انہوں نے مجھ پر وہ بدترین ظلم کیا ہے جو زیادہ سے زیادہ انسان دنیا میں کسی پر کرسکتا ہے۔ انہوں نے ان حربوں کو استعمال کیا ہے جن حربوں کے استعمال کی اسلام اور قرآن اجازت نہیں دیتا۔ میں نے آج تک خداتعالیٰ کے فضل سے کبھی دیدہ دانستہ دوسرے پر ظلم نہیں کیا اور اگر کسی ایسے شخص کا مقدمہ میرے پاس آجائے جس سے مجھے کوئی ذاتی رنجش ہو تو میرا طریق یہ ہے کہ میں ہر وقت یہ دعا کرتا رہتا ہوں کہ الٰہی! یہ میرے امتحان کا وقت ہے تو اپنا فضل میرے شامل حال رکھ ایسا نہ ہو کہ میں فیل ہوجائوں۔ ایسا نہ ہو کہ میرے دل کی کوئی رنجش اس فیصلہ پر اثر انداز ہوجائے اور میں انصاف کے خلاف فیصلہ کردوں۔ پس میں ہمیشہ دعا کرتارہتا ہوں تا خداتعالیٰ مجھے انصاف کی توفیق دے اور میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے مجھے ہمیشہ انصاف کی توفیق دی ہے۔ میں نے شدید سے شدید دشمنوں کی بھی کبھی بدخواہی نہیں کی۔ میں نے کسی کے خلاف اُس وقت تک قدم نہیں اُٹھا جب تک شریعت مجھے اس قدم کے اُٹھانے کی اجازت ہی دیتی۔ پس وہ تمام الزامات جو وہ مجھ پر مارپیٹ اور قتل وغیرہ کے سلسلہ میں عائد کرتے ہیں سب غلط اور بے بنیاد ہیں۔ بلکہ بیسیوں دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جب بعض لوگوں نے مجھے کہا کہ لاتو ں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے تو میں نے اُن کو ڈانٹا اور کہا کہ یہ شریعت کے خلاف فعل ہے۔ ان باتوں کا کبھی دل میں خیال بھی نہیں لانا چاہئے۔ اگر اِس قدر یقین دلانے کے باوجود بھی وہ اپنی باتوں پر قائم رہتے ہیں تو میرے پاس ان کے اعتراضات کا کوئی جواب نہیں اور میں خداتعالیٰ سے ہی اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا! اگر تُو نے مجھ عہدئہ خلافت پر قائم کیا ہے اور تُو نے ہی میرے ہاتھوں اور میری زبان کو بند کیا ہوا ہے تو پھر تُو آپ ان مظالم کا جواب دینے کیلئے آسمان سے اُتر۔ نہ میرے لئے بلکہ اپنی ذات کیلئے، نہ میرے لئے بلکہ اپنے سلسلہ کیلئے۔
مذکورہ بالا خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی آزاد کمیشن بیٹھے تو اس کے سامنے میرے خلاف لڑکوں اور لڑکیوں اور عورتوں کی گواہیاں وہ دِلوادیں گے بلکہ خود میری بھی گواہی دِلوادیں گے۔ جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں، میری اپنی گواہی سے لکھنے والے کی مراد شاید یہ ہو کہ وہ کوئی میری تحریرپیش کرنا چاہتے ہیں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ اور کوئی معنے اس فقرہ کے میرے ذہن میں نہیں آئے۔ مگر ایسا ہو تو بھی خلفائے سابق سے میری ایک اور مماثلت ثابت ہوگی۔ پہلے خلفاء کے مقابلہ میں بھی لڑکیاں پیش کی گئیں۔ پہلے خلفاء کے مقابلہ میں بھی تحریریں پیش کی گئیں۔ چاہے ان لڑکیوں کی گواہیاں ہوئیں یا نہ ہوئیں اور چاہے وہ تحریریں کیسی ہی جعلی تھیں مگر بہرحال اِس قسم کے دلائل پہلے بھی پیش ہوتے چلے آئے ہیں۔ پس ان باتوں سے مَیں نہیں گھبراتا۔ میں نے بندوں پر کبھی توکّل نہیں کیا، میرا توکّل محض خدا کی ذات پر ہے۔ اگر میں جماعت سے بھی محبت کرتاہوں تو صرف اِس لئے کہ یہ خدا نے مجھے دی ہے اور اگر جماعت کے تمام لوگ مجھ سے الگ ہوجائیں تو میں سمجھ لوں گا کہ یہ خدا نے مجھے نہیں دیئے تھے۔ پس مجھے لوگوں کے ارتداد سے گھبراہٹ نہیں مجھے یقین ہے خدا کے وعدوں پر، مجھے یقین ہے خدا کی نصرتوں پر اور مجھے یقین ہے کہ ہر وہ شخص جو سچے دل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان رکھتا ہے وہ نہیں مرے گا جب تک میری بیعت میں داخل نہ ہولے۔ او رمجھے یہ بھی یقین ہے کہ جو شخص مجھے چھوڑتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو چھوڑتا ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو چھوڑتا ہے وہ رسول کریم ﷺ کو چھوڑتا ہے اور جو رسول کریم ﷺ کو چھوڑتا ہے وہ خدا کو چھوڑتاہے۔ میں اِس یقین پر قائم ہوں قرآن مجید کے ماتحت، میں اِس یقین پر قائم ہوں حدیث کے ماتحت، میں اس یقین پر قائم ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے ماتحت، میں اس یقین پر قائم ہوں ان رئویا و کشوف اور الہامات کے ماتحت جو مجھے خداتعالیٰ کی طرف سے ہوئے اور میں ا س یقین پر قائم ہوں خداتعالیٰ کی اُن کھلی کھلی تائیدات کے ماتحت جو ہروقت میرے شاملِ حال ہیں۔ اگر کسی کو خداتعالیٰ کا یہ عمل نظرنہیں آتا تو وہ اندھا ہے۔ ورنہ جو شخص ایک معمولی بصیرت بھی رکھتا ہو وہ دیکھ سکتا ہے کہ خدا نے ہمیشہ میری امداد فرمائی ہے اور غیب سے میری تائید کے سامان پیدا کئے ہیں اور ہمیشہ اپنے فضل سے وہ میری پشت پناہ بنا رہا ہے۔ اس نے ہر لمحہ میری تائید کی، اُس نے ہر گھڑی میری نصرت کی، اُس نے ہر حملہ سے مجھے بچایا، اُس نے ہر میدان میں مجھے کامیاب کیا۔ میں کمزور ہوں اِس کو میں مانتا ہوں، میں کم علم ہوں اِس سے میں ناواقف نہیں، میں نالائق ہوں اِس سے مجھے انکار نہیں مگر خداتعالیٰ نے مجھ سے پوچھ کر مجھے خلیفہ نہیں بنایا۔ اگر وہ پوچھتا تو میں اس سے ضرور کہتا کہ مجھ میں کوئی خوبی اور لیاقت نہیں۔ مگر کون ہے جو خداتعالیٰ سے پوچھے کہ تُونے یہ کام کیوں کیا اور کون ہے جو اس کے فیصلہ پر اعتراض کرے۔ جب اُس نے مجھے اس مقام پر کھڑ اکردیا تو اب میں کھڑا ہوں۔ اِس لئے نہیں کہ اپنی عزت قائم کروں بلکہ اِس لئے کہ خدا کی عزت دنیا میں قائم کروں۔ پس اُسی کے نام کو قائم کرنے، اُسی کی عزت کو بلند کرنے اور اُسی کے جلال کو ظاہر کرنے کیلئے میں کھڑا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آخر دم تک کھڑا رہوں گا اور اس کا عمل بتارہا ہے کہ وہ میرے ساتھ ہے۔
پس جو شخص مجھے چھوڑتا ہے وہ خدا کو چھوڑتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی کھلی کھلی تائیدات کو بھی نہیں دیکھ سکتا وہ روحانی اندھا ہے۔ اگر وہ راہِ راست پر نہیں آسکتا تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ میری تو ہر آن اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ اے خدا! مجھ پر بھی رحم کر اور ان پر بھی جن کو تُو نے میرے ساتھ تعلق پیدا کرنے کیلئے چنا اور اُن پر بھی جو اَب تک اس سے محروم ہیں۔ جس طرح تیرے فضل نے مجھ جیسے کمزور کو ڈھانپ لیا، میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ اِسی طرح وہ فضل ساری دنیا کو ڈھانپ لے۔ وَمَا ذٰلِکَ بِبَعِیْدٍ عَنْ رَحْمَتِکَ یَارَبِّ۔
(الفضل ۲۰ ؍ نومبر ۱۹۳۷ئ)
۱؎ البقرۃ: ۱۸۷ ۲؎ الانفال: ۱۸
۳؎ بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک
۴؎ الشوری: ۱۲
۵؎ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد وتقبیلہٖ … (الخ)
۶؎ الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۳۷ء
۷؎ الاعراف: ۱۵۷ ۸؎ البقرۃ: ۲۷ ۹؎ الانعام: ۲۲
۱۰؎ درثمین فارسی صفحہ ۱۰۶۔ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ

۳۵
صحابۂ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق ایک نہایت اہم کام
اشاعت دین کا کام ہمیشہ جاری رہے گا
(فرمودہ ۱۹ ؍ نومبر ۱۹۳۷ء )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے قریباً ۴۸سال ہوگئے ہیں اور اب دو سال میں پچاس سال کی مدت ختم ہوجائے گی۔ انسانی زندگیوں کے لحاظ سے پچاس سال کی عمر ایک نہایت ہی پختہ عمر ہوتی ہے اور پچاس سال کے آدمی بڑھاپے کی طرف جارہے ہوتے ہیں گورنمنٹ بھی اپنے ملازموں کو ۵۵ سال کی عمر میں پنشن دے دیتی ہے۔ پس جو دعویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا تھا اُس کے ابتدائی حالات دیکھنے اور سننے والوں میں سے نَو عمروں کی عمر اگر ۱۸،۲۰ سال یا پندرہ سال بھی سمجھ لی جائے ، کیونکہ یہ چھوٹی سے چھوٹی عمر ہے جس میں بچہ کچھ سمجھدار ہوجاتا ہے (یہ تو نہیں ہوسکتا کہ جو لوگ ایمان لائے وہ سب کے سب پندرہ برس کے ہی تھے۔ اُن میں تو پندرہ برس کا شاید ہی کوئی ہو ورنہ ایمان لانے والے بِالعموم ۲۵،۳۰ سال کی عمر کے لوگ تھے)۔ تو وہ پندرہ سال کا بچہ آج ۶۳ سال کا ہوگا اور جس کی بیس سال کی عمر تھی وہ آج ۶۸ برس کا ہوگا اور جس کی اُس وقت تیس سال عمر تھی وہ آج ۷۸ برس کا ہوگا۔ اور ۷۸سال کی عمر وہ ہے جس کو ہمارے ملک کے لوگ بہت کم پہنچتے ہیں اس لحاظ سے سمجھ لینا چاہئے کہ اس وقت ابتدائی بیعت دیکھنے والوں میں سے ایک دو ہی زندہ ہوں گے اور بظاہر حالات دو چار سال کے بعد کوئی بھی ایسا شخص باقی نہیں ہوگا جس نے ابتدائی حالات کو دیکھا ہو۔ پھر ابتدائی بیعت کے بعد ابتدائی مشکلات کا زمانہ تھا جو ۱۹۰۰ء تک سمجھنا چاہئے۔ اگر اُس زمانہ کو ۱۸۹۵ء تک بھی سمجھا جائے تو اس کے دیکھنے والوں کی عمر بھی اگر وہ اُس وقت بیس سال کے تھے آج ۶۲ سال کی ہوتی ہے۔ اور اُس زمانہ کے آخری سال یعنی ۱۹۰۰ء کو اگر لیا بھی جائے تو بیس سال کی عمر کا آدمی اب ۵۷ سال کا ہوا۔ اور اگر پندرہ برس کی عمر والے بھی شامل کرلئے جائیں تو گویا ایسے لوگ اب ۵۲ سال کی عمر کو پہنچ چکے ہوں گے۔ غرضیکہ اُس زمانہ کے لوگ یا تو فوت ہوچکے ہیں یا وفات کے قریب ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ۱۹۰۸ء کے ابتدا میں ہوئی اور اُس وقت جن لوگوں کی عمرپندرہ سال کی سمجھی جائے کیونکہ یہی کم سے کم عمر ہے جس میں بچہ سمجھ رکھتا ہے تو ایسے لوگوں کی عمر بھی اب ۴۴ سال ہوگی۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ ایسے لوگ بھی زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس سال اور جماعت میں رہ سکتے ہیں اور بظاہر آج سے ۲۰،۲۵ سال بعد شاید ہی کوئی صحابی جماعت کو مل سکے۔ ایسے صحابی جس نے حضور کی باتوں کو سُنا اور سمجھا ہو۔ یوں تو ایسے بچے بھی صحابی ہوسکتے ہیں جن سے جبکہ وہ دو چار سال کی عمر کے ہوں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے باتیں کی ہوں۔ یہ عمروں کا اندازہ میں نے وہ کیا ہے جو عام طور پر ہوتا ہے۔ بعض لوگ غیرمعمولی طور پر لمبی عمریں بھی پاتے ہیں ۔ جس دن میں نئے مہمان خانہ کی بنیاد رکھ کر آیا مجھے رستہ میں ایک بوڑھے آدمی ملے۔ ان کی شکل حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی سے اِس قدر ملتی جلتی تھی کہ میں نے انہیں دیکھتے ہی کہا کہ کیا آپ ان کے رشتہ دار ہیں؟ انہوں نے کہا میں ان کا چچا ہوں۔ ان کے چہرے سے جس قسم کی طاقت ظاہر ہوتی تھی اُس سے اندازہ کرکے میں نے قیاس کیا کہ یہ غالباً ان سے چھوٹے ہیں۔ بعض اوقات بھتیجے کی عمر چچا سے زیادہ بھی ہوتی ہے اس لئے میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ حافظ صاحب سے چھوٹے ہیں؟ تو انہوں نے اپنی مخصوص زبان میں جواب دیا کہ ’’جدوں اُس دی مائو دا ویاہ ہویا سی اودوں میں اٹھارہ وریاں دا ساں‘‘۔ یعنی جب ان کی والدہ کی شادی ہوئی اُس وقت میری عمر اٹھارہ برس کی تھی۔ حافظ صاحب کے قویٰ بھی مضبوط تھے۔ اب تو بیماری کی وجہ سے وہ کمزور ہوگئے ہیں لیکن بیماری سے پہلے ہم ان کو مضبوط قویٰ کے آدمیوں میں سے سمجھا کرتے تھے۔ لیکن پھر بھی اپنے چچا سے ان کا کوئی جوڑ ہی نہیں اور ان کے چچا نے کہا کہ آپ مجھے کمزور خیال نہ کریں ۔ا ب بھی میں دس بارہ میل پیدل سفر کرلیتا ہوں اور میری عمر اِس وقت ۹۸ سال کی ہے اور حافظ صاحب کی ۷۸،۷۹ سال ۔ تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔
ایک اور مثال بھی مجھے یاد آگئی۔ پندرہ سولہ سال ہوئے ایک دوست بیعت کرنے کی غرض سے میرے پاس آئے اور کہا کہ میں لاہور سے پیدل آیا ہوں ۔ میں نے ان کی شکل و صورت سے اندازہ کرکے کہا کہ آپ کی عمر تو ساٹھ ستر سال کی ہوگی۔ آپ نے بڑی ہمت کی جو اس قدر لمبا سفر پیدل کیا۔ مگر وہ کہنے لگے کہ میری عمر تو ایک سَو دس سال کی ہے۔ میں جس اُستاد کے پاس پڑھا کرتا تھا ان کے پاس ایک دفعہ مہاراجہ رنجیت سنگھ آئے تھے (مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کو فقراء سے بہت عقیدت تھی اور وہ مُسلم فقراء کے پاس بھی جایا کرتے تھے تاکہ ان سے دعا کرائیں) اور ان کو ایک بھینس دی تھی جسے میں نہلاتا تھا۔ تو انہوں نے اپنی عمر ایک سَو دس سال یا شاید اس سے بھی زیادہ بتائی تھی۔ بعد میں مَیں سمجھا کرتا تھا کہ وہ شاید فوت ہوچکے ہیں۔ مگر کوئی ایک سال کا عرصہ ہوا ایک دوست کا خط آیا جس میں ان کے متعلق بھی لکھا تھا کہ ان کی عمر اب ۱۳۰،۱۳۵ سال کے لگ بھگ ہے اور وہ آپ کو اَلَسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتے ہیں۔ تو ایسے استثنائی لوگ بھی ہوتے ہیں۔ صحابہ میں سے حضرت انسؓ نے سب سے بڑی عمر پائی اور وفات کے وقت وہ ۱۱۰ یا ۱۲۰ سال کے تھے۔ ۱؎ رسول کریم ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر ۱۷،۱۸ سال تھی اور آپ کی وفات کے بعد وہ قریباً سَو سال زندہ رہے۔ ایسے لوگ تو تبرکات ہوتے ہیں جن کو دیکھنے کیلئے اگر دنیا کے دوسرے کنارے سے بھی آنا پڑے تو یہ مشقت کم ہے اور ایسے لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ دوسروں کو تابعیت کا فضل دینے کیلئے زندہ رکھتا ہے تا لوگ ان کی وجہ سے تابعی کہلاسکیں۔ ورنہ عرب میں عمریں بِالعموم ساٹھ اور ستّر سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے بھی اپنے زمانہ کی اوسط عمر ساٹھ سال ہی فرمائی ہے اور ساٹھ سال کی اوسط عمر بہت بڑی عمر ہے۔ ہمارے ملک کی اوسط عمر گورنمنٹ کی مردم شماریوں کے رو سے تیس سال نکلتی ہے۔ انگلستان کی اوسط عمر ۴۸ سال ہے اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ وہاں کے لوگ لمبی عمریں پاتے ہیں۔
پس میں جس عمر کا ذکر کرتا ہوں وہ لمبی عمروں میں سے اوسط عمر ہے اور جس حدیث کا میں نے ذکر کیا ہے اس کا مفہوم غالباً عام عمروں میں سے اوسط عمر ہے۔ کیونکہ انفرادی طور پر تو اس زمانہ میں بھی سَوسال سے زیادہ عمریں بعض لوگوں نے پائی ہیں ۔ اب اوسط کے لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ جس قوم کی اوسط عمر ساٹھ سال ہو وہ اعلیٰ درجہ کی تندرست قوم تھی۔ ورنہ ہمارے ملک میں تو پچاس فیصدی لوگوں کا بھی اس عمر کو پہنچنا ناممکن ہے۔ انشورنش والے انسانوں کی عمروں کے اعداد و شمار نکالتے رہتے ہیں اور ان کا اندازہ ہے کہ صرف پندرہ فیصدی لوگ ساٹھ سال یا اس سے اوپر پہنچتے ہیں۔ ان حالات میں ۱۵۔۲۰ سال کے بعد ہماری جماعت میں صحابیوں کا ملنا مشکل ہوگا۔ مگر ہم نے ابھی تک وہ علوم دنیا میں قائم نہیں کئے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے ملے تھے۔ صحابہ کرام کو اِس کا اِس قدر جنون تھا کہ وہ جب بھی بیٹھتے کہتے آئو رسول کریم ﷺ کی باتیں کریں اور انہوں نے آپ کا کھانا پینا، بیٹھنا اُٹھنا، سونا جاگنا غرضکہ آپ کی ہر قسم کی حرکات و سکنات کو اس طرح محفوظ کردیا کہ آج بیسیوں کتابیں احادیث اور تاریخ کی بھری پڑی ہیں۔ تاریخ کی دس دس او رپندرہ پندرہ جلدوں کی باریک لکھی ہوئی بیسیوں کتابیں موجود ہیں اور احادیث کی کتابیں ان کے علاوہ ہیں۔ احادیث کی کئی کتابیں تلف بھی ہوچکی ہیں۔ اگرچہ ان میں درج شدہ حدیثیں احادیث کی دوسری کتابوں میںیا تفاسیر میں آگئی ہیں۔ میں سمجھتاہوں رسول کریم ﷺ کی زندگی اور سیرت کے حالات کی کتابیں اور احادیث اگر جمع کی جائیں تو تین چار سَو ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں۔ جن میں سے ہر ایک جلد پانسو صفحات کی ہو۔ اگر ایسی تین سَو جلدیں بھی ہوں تو یہ ڈیڑھ لاکھ صفحات ہوں گے اور جتنے بڑے صفحات عام طور پر عربی کی کتابوں کے ہوتے ہیں وہ انسان ایک گھنٹہ میں دس بارہ پڑھ سکتا ہے۔ روزانہ چھ گھنٹہ کی پڑھائی رکھی جائے تو دن میں ستّر صفحات کی اوسط بنتی ہے اور ایک مہینہ میں دو ہزار ایک سَو صفحات کی اور ایک سال میں پچیس ہزار صفحات کی۔ گویا سب کام چھوڑ کر بھی ایک آدمی کا چھ سال پڑھنے کے بعد ان کتب پر عبور ہوسکتا ہے۔ لیکن چونکہ انسان کو کتاب کے سمجھنے کیلئے کبھی غور کی ضرورت ہوتی ہے، کبھی دوسری کتب کے مطالعہ کی، کبھی لُغت کی اس لئے درحقیقت وقت اِس سے دوگنا بلکہ تگنا خرچ ہوتا ہے۔ یہ تو عام لیاقت کے آدمیوں کا حال ہے۔ لیکن جو لوگ تیز پڑھنے والے ہیں اور زیادہ محنت کرسکتے ہیں ان کے لحاظ سے بھی سرسری تلاوت پر تین سال اور غور کرکے اور سمجھ کر پڑھنے پر چھ سال سے نو سال خرچ ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ او رکوئی کام نہ کریں۔ غرض صحابہ کرام نے اتنا ذخیرہ چھوڑا ہے کہ آج ہمیں بہت ہی کم یہ خیال آسکتا ہے کہ کاش! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فلاں بات ہمیں معلوم ہوتی۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات، اقوال اور واردات کا بہت ہی کم حصہ محفوظ ہوا ہے۔
میںنے بارہا دوستوں کو توجہ دلائی ہے کہ جو بات کسی کو معلوم ہو وہ لکھا دے اور دوسروں کو سنادے۔ مگر افسوس کہ اس کی طرف بہت ہی کم توجہ کی گئی ہے۔ اور اگر کسی نے توجہ کی بھی ہے تو ایسی طرز پر کہ اس کا نتیجہ صفر کے برابر ہے۔ پس گو میرا آج کا مضمون تو اَور ہے مگر ضمنی طور پر میں دوستوں کو بِالخصوص نظارت تالیف و تصنیف اور تعلیم کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ اس قسم کا کام ہے کہ اس میں سے بہت سا ہم ضائع کرچکے ہیں اور اس کیلئے ہم خدا کے حضورکوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اب جو باقی ہے اسے ہی محفوظ کرنے کا انتظام کیا جائے۔ ہمارا سالانہ بجٹ تین لاکھ کا ہوتا ہے مگر اس میں ایک ایسا آدمی نہیں رکھا گیا جو ان لیکچروں اور تقریروں کو جو صحابہ کریں قلمبند کرتا جائے۔ اب بھی اگر ایسا انتظام کردیا جائے تو جو کچھ محفوظ ہوسکتا ہے اسے کیا جاسکتا ہے۔ اور اس میں سے سال دو سال کے بعد جو جمع ہو شائع ہوتا رہے اور باقی لائبریریوں میں اور لوگوں کے پاس بھی محفوظ رہے۔ میں سمجھتا ہوں اب بھی جو لوگ باقی ہیں وہ اتنے ہیں کہ ان سے چالیس پچاس فیصدی باتیں محفوظ ہوسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک بہت بڑے مصنف بھی تھے۔ اس لئے آپ کی کتابوں میں بھی بہت کچھ آچکا ہے۔ لیکن جو باتیں صحابہ کو معلوم ہیں اگر ان کو محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا گیا تو ہم ایک ایسی قیمتی چیز کھو بیٹھیں گے جو پھر کسی صورت میں بھی ہاتھ نہ آسکے گی۔ میں کئی سال سے اِس امر کی طرف توجہ دلارہا ہوں مگر افسوس ہے کہ ابھی تک اِس کی اہمیت کو نہیں سمجھا گیا۔
میں اپنے اِس درد کی وجہ سے جو اِس بارہ میں میرے دل میں ہے کہیںسے کہیں نکل گیا۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ ہمارے لئے ایک بہت نازک دَور آرہا ہے۔ ایک عظیم الشان کام ہمارے سپرد کیا گیا تھا لیکن ہم ابھی تک اس محل کی بنیادوں کے خاتمہ اور ڈیوڑھی تک بھی نہیں پہنچے جس کی تعمیر اور جس کی آبادی ہمارے ذمہ فرض تھی۔ اس کی تعمیر کے لحاظ سے تو کہنا چاہئے کہ ہم ابھی تک اس کی بنیادیں بھی نہیں بھر سکے اور آبادی کے لحاظ سے ابھی اس کی ڈیوڑھی تک بھی نہیں پہنچے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کبھی کبھی ہمیں جگاتے اور ہوشیار کرتے ہیں مگر ہم پھر غفلت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ایک فضل نے مجھ سے تحریک جدید کو جاری کرایا جس کی غرض بھی ہمیں ہوشیار کرنا تھا۔ تحریک کے اصل معنے حرکت دینے کے ہیں اور اس نام سے میری مراد یہی تھی کہ جماعت کو بیدار کیا جائے یہ نہیں کہ جماعت کو کوئی نئی چیز دی جائے۔ علم رسول کریم ﷺ پر ختم ہوچکا ہے۔ کسی ماں نے اب ایسا بچہ نہیں جننا جو رسول کریم ﷺ کے لائے ہوئے علم میں ایک شوشہ کا بھی اضافہ کرسکے یا اس میں کمی کرسکے۔ ہاں اس کے شارح ہوتے رہیں گے جو اسی کی تفاسیر کرنے والے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اِسی علم کی تفسیر ہی کی اور ہم بھی اب یہی کررہے ہیں۔ آج فضیلت کا معیار یہی ہے کہ علوم کے اس خزانہ میں سے کس پر کتنا ظاہر کیا جاتاہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فضیلت کی یہی وجہ ہے کہ اس علم کا خزانہ بعد رسول کریم ﷺ کے سب سے زیادہ آپؐ پر کھولا گیا۔ پس ہم میں سے ہر ایک کی بڑائی اسی میں ہے کہ اس پر وہ دروازہ کتنا کھولا جاتا ہے۔ قرآن کریم کو تصنیف تو نہیں کہا جاسکتا لیکن اگر ہم تمثیلی طور پر ایسا کہہ لیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تصنیف محمد رسول اللہ ﷺ پر ختم ہوگئی۔ اب جو بھی آئیں گے وہ اس کے شارح ہوں گے اور اسی کی تشریح کرتے جائیں گے۔ تحریک جدید بھی اسی کی ایک تشریح ہے، کوئی نہیں چیز نہیں۔ عربی میں حرک کے معنے ہیں ہلانا، بیدار کرنا اور اسی لحاظ سے اس کو تحریک جدید کہا گیا تھا کہ یہ جماعت کو بیدار کرنے اور جگانے کیلئے تھی۔
آج اس تحریک پر تین سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور میں نے پہلے اعلان میں کہا تھا کہ یہ ابتداء ً تین سال کیلئے ہے مگر وصالِ الٰہی، استحکامِ دین اور اشاعت اسلام کا کام تین سال سے نہیں بلکہ عمروں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اور کوئی شخص جس دن اس کام کو ختم سمجھے وہی اس کی تباہی کا دن ہے۔ جس دن کوئی یہ خیال دل میں لائے وہی دن اس کے تنزّل کا ہوتا ہے۔ جب مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ دین کا کام پورا ہوگیا ہے، اسی دن وہ تباہی، ذلّت، نکبت اور ادبار کے گڑھے میں گرنے لگے۔ جب تک مسلمان یہ سمجھتے رہے کہ یہ کام مکمل نہیں ہوا اور ہم نے اس کی تکمیل کرنی ہے، اُس وقت تک وہ برابر ترقیات کا کام کرتے رہے۔ ہم نے دنیا میں قرآن کریم کو قائم کرنا ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں لاتعداد خزانے ہیں تو ہم میں سے جو شخص یہ خیال کرتاہے کہ قرآن کریم کو قائم کرنے کا کام ختم ہوگیا اس سے زیادہ پاگل کون ہوسکتا ہے۔ بارش ہونے کے بعد جو شخص یہ کہے کہ اب ہمیشہ کیلئے بارش ہوچکی تو اسے پاگل کہاجائے گا۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِس وقت جو بادل آئے تھے وہ برس چکے ہیں اور جب خداتعالیٰ کے بادل ختم نہیں ہوتے ہرروز اور ہر مہینہ اور ہر سال آتے ہیں تو قرآن کریم کا بادل کس طرح ختم ہوسکتا ہے۔ جو شخص یہ سمجھے کہ گزشتہ سال بارش ہوئی تھی اورمیرے والد نے کھیت کو پانی دے لیا تھا، اب مجھے پانی دینے کی ضرورت نہیں فصل خودبخود ہوجائے گی وہ احمق ہے۔ اس کے باپ نے پانی دیا تو دانہ بھی لے لیا تھا۔ اب اگر اس نے دانہ لینا ہے تو پھر پانی بھی دینا ہوگا، ہل بھی چلانا ہوگا اور بیج بھی ڈالنا ہوگا۔ ہر سال نئے بادل آتے ہیں، نیا پانی برساتے ہیں اور نئی فصلیں اُگاتے ہیں۔ اسی طرح خداتعالیٰ کا کلام بھی ہمیشہ نئے مطالب لاتا ہے اور نئی نئی روحانی فصلیں دیتا ہے اور ان کے حصول کیلئے انسان کو ہر دفعہ نئی جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور جو شخص سمجھتا ہے کہ اس کام سے وہ تھک گیا ہے اس کی تباہی یقینی ہے۔ مگر تم کسی اکھڑ زمیندار سے کہو کہ تم اپنی زمین میں کاشت کرتے کرتے تھک گئے ہو اب یہ میرے حوالے کردو تو وہ لٹھ لے کر تمہیں مارنے کیلئے کھڑا ہوجائے گا کیونکہ یہ اس کے فائدہ کی بات نہیں بلکہ نقصان کی ہے۔ اسی طرح سمجھدار انسان دین کیلئے جدوجہد چھوڑنے کو کبھی منظور نہ کرے گا کیونکہ اس قربانی میں اس کا فائدہ ہے اس کا نقصان نہیں۔ جو شخص اس کام میں تھکتا ہے وہ کبھی نجات نہیں پاسکتا ۔ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں ایسی صورت بتاسکتا ہوں کہ روحانیت دو چار سال میں حاصل ہوجائے گی اور پھر کسی قربانی کی ضرورت نہ رہے، اس سے زیادہ جھوٹا، اس سے زیادہ مفتری اور کذاب دنیا میں پیدا نہیں ہوا۔ سچائی یہی ہے جو اسے سننے کی ہمت نہ رکھتا ہو وہ بے شک الگ ہوجائے کہ یہ کام نہ تم سے ختم ہوسکتا ہے نہ تمہاری نسلوں سے اور نہ ان کی نسلوں سے اور نہ یہ قیامت تک ختم ہوسکتا ہے۔ قیامت تک جو بھی پیدا ہوگا اس کی گردن پر یہ جوّا رہے گا۔ جس میں جوّا اُٹھانے کی ہمت نہیں وہ دین کے کام کا نہیں۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو منافق ہوجایا کرتے ہیں۔ جو چند روز کام کرنے کے بعد آرام کرنا چاہتے ہیں یا پنشن کے خواہاں ہوتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ دین کے کام میں پنشن تو اگلے جہان میں ملتی ہے۔ یہاں بھی جو پنشن گورنمنٹ سے لیتے ہیں وہ دنیا کے کاموں سے علیحدہ ہوکر نہیں بیٹھ جاتے۔ گھر میں جاتے ہیں تو بچے گرد ہوجاتے ہیں، اُن کی شادیاں بیاہ کرنے ہوتے ہیں۔ پھر پوتے ہوتے ہیں اور اگر زیادہ لمبی عمر ہو تو پڑپوتے ہوتے ہیں۔ ان کے متعلق اپنے فرائض کو اد اکرنا پڑتا ہے۔ گویا دنیا کے کام بھی کبھی ختم نہیں ہوتے۔ جب کوئی شخص گورنمنٹ سے پنشن لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اب اس دفتر میں کام کا اہل نہیں۔ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ گھر پر بھی وہ اپنا کوئی کام نہیں کرسکتا۔ اور ہم نے تو دیکھا ہے کہ پنشن لینے والے عام طور پر افسروں کی دہلیز پر ہی ناک رگڑتے رہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں صاحب! میرے لڑکے کو نوکری دلوائیے۔ کبھی پوتے کیلئے کوششیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں صاحب! میں نے بڑی خدمت کی ہے۔ کبھی بھتیجے کیلئے یا کسی اور رشتہ دار کیلئے مارے مارے پھرتے ہیں۔ کبھی خطاب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی آنریری مجسٹریٹی کیلئے۔ کبھی مربعوں کیلئے افسروں کے بنگلوں کا طواف کرتے ہیں۔ غرضیکہ وہ کسی نہ کسی غرض کے ماتحت انہی افسروںکے دربار میں حاضر ہی رہتے ہیں۔ لیکن یہ نہ بھی ہو تو بھی کیا گھر کے کام کبھی ختم ہوجاتے ہیں؟ ان فکروں سے وہ کبھی آزاد نہیں ہوسکتے۔ لیکن خداتعالیٰ کی جنت میں جو پنشن ملتی ہے اس میں کوئی فکر نہیں ہوتا۔ وہاں جو دل چاہے حاصل ہوجائے گا اور حقیقی پنشن یہی ہے۔ یا فرض کرو انسان کو خداتعالیٰ ایسا بنادے کہ اسے کام کرنے سے نہ کوئی تکلیف ہو نہ وہ تھکے تو وہ اگر ۴۸ گھنٹہ کام ہی کرتا چلا جائے تو اسے کیا بوجھ محسوس ہوسکتا ہے اور اگلے جہان میں جب نہ کوئی تکلیف ہوگی اور نہ تھکان تو کام بے شک ہوتا جائے اس کا کیا احساس ہوسکتا ہے۔ یا پھر جس کام کی طرف رغبت ہو اُس میں تھکان محسوس نہیں ہوتی۔
میںنے اخباروں میں پڑھا ہے کہ بعض لوگ مسلسل ۷۸ گھنٹے شطرنج کھیلتے رہے ہیں۔ کھیل میں ان کو ایسی رغبت اور شغل ہوتا ہے کہ تکلیف کا خیال تک بھی نہیں آتا اور وہ کچھ محسوس ہی نہیں کرتے۔ تو جس کام کی طرف رغبت ہو وہ بوجھ محسوس نہیں ہوتا۔ پس حقیقی پنشن وہی ہوگی جو اگلے جہان میں ملے گی۔ اس جہان میں جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ چند روز دین کا کام کرنے کے بعد پنشن مل جائے گی وہ اگر آج نہیں تو کل ضرور منافق ہوگا۔ بلکہ جو شخص اپنے لئے نہیں بلکہ اپنی اولاد کیلئے بلکہ اس کی بھی اولاد کیلئے دین کے کام میں پنشن کی توقع رکھتا ہے وہ دوسرے لفظوں میں اپنی اولاد کی بے دینی اور نظامِ دین کی تباہی کی خواہش کرتا ہے۔ دین کے کام میں پنشن ہو کیسے سکتی ہے۔ کیا نمازوں میں اللہ تعالیٰ نے آدمی کو پنشن دی ہے؟ ر وزہ میں دی ہے؟ طاقت کے مطابق کسی کام سے بھی پنشن نہیں دی۔ روزہ طاقت نہ ہونے کی حالت میں چھوڑا جاسکتا ہے۔ مگر یہ پنشن نہیں، یہ تو اُس وقت ہے جب آدمی روزہ رکھ ہی نہ سکے۔ پھر کوئی شخص یہ خیال کس طرح کرسکتا ہے کہ دینی نظام سے پنشن مل جائے۔ جس دن مسلمانوںنے خلافت سے پنشن لی اُسی دن سے اُن کو حقیقتاً پنشن مل گئی اور ان کی تمام ترقیات رُک گئیں۔
پہلے پچاس سالوں میں مسلمانوں نے جو حکومت حاصل کی تھی، اگلے تیرہ سَو سال میں اس سے آدھی بھی نہیں کرسکے اوریہ ایک ایسا نشان ہے جو اندھا بھی دیکھ سکتا ہے۔ پچاس سال میں ایک قوم نے اس قدر ترقیات حاصل کیں کہ بیسیوں اقوام مل کر تیرہ سَو سال میں اس سے آدھی بھی نہ کرسکیں۔ صحابہ کرامؓ کے زمانہ میں ایک طرف مسلمان ہندوستان و چین کے ساحلوں تک پہنچ چکے تھے اور دوسری طرف افریقہ کے جو حصے آباد تھے ان میں اپنی حکومت قائم کرچکے تھے اورتیسری طرف یورپ کے ساحلوں تک پہنچ چکے تھے۔ تبلیغی لحاظ سے وہ چین کے اندر تک داخل ہوچکے تھے۔ ہندوستان کے اندر بھی داخل ہوگئے تھے۔ بمبئی کے علاقہ میں تھانہ ایک بندرگاہ ہے جس کے پاس ایک گائوں میں صحابہؓ کی قبریں موجود ہیں۔ اس مجلس میں نوے فی صدی لوگ ہوں گے جنہوں نے بمبئی نہیں دیکھا۔ حالانکہ وہ ہمارے ملک کا ایک حصہ ہے۔ پھر ریل ایجاد ہوچکی ہے جو صرف ۳۶ گھنٹے میں وہاں پہنچادیتی ہے۔ لیکن اُس زمانہ کے لوگوں کیلئے یہ سفر کئی ماہ کا تھا مگر پھر بھی وہ یہاں پہنچے اور اپنی قبریں بھی یہیں بنادیں۔
پس دیکھو نظام کی کتنی برکت اور طاقت تھی۔ جب تک کوئی قوم کام کی ذمہ داری سمجھتی ہے وہ ترقی کرتی جاتی ہے اور جس دن اس ذمہ واری کا احساس نہیں رہتا، ترقیات کا دروازہ بھی بند ہوجاتا ہے۔ اب میں بتاتا ہوں کہ وہ کام کیا ہے جس کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہم کو پیدا کیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰـکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۔ فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ۔ ۲؎ یعنی اے انسانو! کچھ عقل سے کام لو۔ تم جو سمجھتے ہو ہماری زندگیاں دُنیوی ہیں دین کیلئے نہیں ہیں۔ کیا تمہیں خیال ہے کہ ہم نے دنیاکو بِلا وجہ پید اکیا ہے۔ کیا یہ ایک کھیل اور تماشہ ہے جس طرح بچے کھلونے بناتے اور پھر اسے توڑ ڈالتے ہیں۔ ہم نے بھی دنیا کو اسی طرح بنایا ہے کہ پیدا کیا اور ماردیا۔ کیا تم یہ خیال نہیں کرتے کہ بڑی عمر کا آدمی جب کوئی مکان بناتا ہے تو اسے توڑتا نہیں سوائے اس کے کہ اس میں کوئی نقص ہو اور خداتعالیٰ کے کام میں توکوئی نقص بھی نہیں ہوتا۔ تم ایک عمارت بناتے ہو اور پھر اسے اُس وقت توڑتے ہو جب اس سے بہتر بنانے کا خیال ہو ورنہ نہیں۔ ہاں بچے کھلونے بناتے ہیں۔ ہم جب بچے تھے ہم بھی بنایا کرتے تھے اور اب بھی بچے بناتے ہوں گے یا ممکن ہے کوئی نئے کھیل اب نکل آئے ہوں۔ بہرحال ہم اپنے بچپن کے زمانہ میں ریت کے میدانوں میں جاتے تھے اور اوپر کی خشک ریت ہٹا کر نیچے سے گیلی ریت نکال کر اُس میں پائوں یا ہاتھ رکھ کر اوپر سے تھپکتے جاتے تھے اور اس طرح ریت کے مکان بناتے تھے۔ پھر گھر کو آتے وقت لات ما ر کر اُنہیں توڑ دیا کرتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے بھی دنیا کو بچوں کے کھیل کی طرح پیدا کیا ہے۔ یعنی ہم انسان کو پیدا کرتے ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد اسے ماردیتے ہیں۔ گویا بچے کی کھیل کود گھنٹے دو گھنٹے کی ہوتی ہے اور خداتعالیٰ کی چند سال کی۔ کیا تم سمجھتے ہو ہم نے یہ سب چیزیں لغو اور بے فائدہ پیدا کی ہیں۔ یہ سب تماشا ہے وَ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَاتُرْجَعُوْنَ۔ اور یہ کہ تمہاری موجودہ زندگی کسی اور زندگی کا پیش خیمہ نہیں۔ اور تم سمجھتے ہو کہ پھر ہماری طرف لوٹائے نہیں جائو گے؟ فرمایایہ بالکل گندہ خیال ہے، اسے ہماری طرف منسوب کرنا بھی ہماری ہتک ہے۔ کیونکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو بچہ بنادیا۔ حالانکہ فَتَعٰلَی اللّٰہُ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بلند ہے۔ وہ کامل الصفات خدا کیا تم سمجھتے ہو کہ بچوں کی طرح کھیل رہا ہے۔ وہ پیدا کرتا اور تباہ کرتا ہے ، نہ اس کا کوئی مقصد ہے اورنہ کوئی غرض ہے۔ فرمایا فَتَعٰلَی اللّٰہُ تم تو ایک عقلمند انسان کی طرف بھی کھیل منسوب نہیں کرسکتے کیونکہ وہ اگر کھیلے بھی تو اس کے کھیلنے کا وقت کام کے وقت کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ پھر خداتعالیٰ کی طرف جو تمام عقلوں کا پیدا کرنے والا اور علو ّشان والا ہے کس طرح کہہ سکتے ہو کہ وہ محض کھیل ہی رہا ہے۔
ہندوستان میں ایسے مذہبی فلسفی موجود ہیں جن کا خیال ہے کہ خداتعالیٰ واقعی کھیل رہا ہے۔ وہ کہتے ہیںیہ دنیا کیا ہے؟ یہ محض خداتعالیٰ کی کھیل ہے۔ خداتعالیٰ تنہائی سے گھبرایا، اس لئے اس نے کہا لائو کوئی شغل پیدا کریں اور اس نے انسان کو پید اکردیا۔ کوئی انسان مرتا ہے تو وہ ہنستا ہے۔ جس طرح بچہ کھلونے کو توڑ کر ہنس دیتا ہے۔ اس کے ماں باپ ناراض ہورہے ہوتے ہیں مگر وہ ہنس رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی انسان مرتا ہے تو لوگ تو رورہے ہوتے ہیں مگر خدا ہنستا ہے کہ کیا خوب گلا گھونٹا گیا۔ اسی طرح جب بچہ پید اہوتا ہے تو ماں دردِ زِہ کی شدت سے کراہ رہی ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ ہنس رہا ہوتا ہے۔ واقعی ایسے لوگ ہیں جو صاف لفظوں میں یہی عقائد رکھتے ہیں اور کئی ایسی ہیں جو گو منہ سے یہ نہیں کہتے لیکن ان کے اعمال کے محرکات کے پشت یہ خیال ضرورعمل کررہا ہوتا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہم دنیا میں کیوں آئے۔ اور پھر خیال کرلیتے ہیں کہ یونہی آگئے۔ جو لوگ اپنی زندگی کو دین کیلئے نہیں سمجھتے ان پر اگرجرح کرکے دیکھو تو ان کا عقیدہ یہی نکلے گا کہ خداتعالیٰ کھیل رہا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَتَعٰلَی اللّٰہُ۔ اللہ تعالیٰ تو بڑی شان والا ہے ۔ اُس نے دنیا کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ خدا کی چار صفات نے دنیا کی پیدائش کا تقاضا کیا تھا۔ وہ صفات ظاہر ہونا چاہتی تھیں اور ان کے اظہار کیلئے ہی اس نے دنیا کو پیدا کیا۔ وہ چار صفات کیا ہیں۔ الْمَلِکُ - الْحَقُّ - لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ- رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ مَلِک ہے۔ اس کی ملکیت چاہتی تھی کہ ظاہر ہو۔ وہ اَلْحَقُّ ہے اس کا حق ہونا چاہتا تھا کہ ظاہر ہو۔ لَااِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ اس کی توحید یہ چاہتی تھی کہ ظاہر ہو۔ اور اس کا رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ہونا چاہتا تھا کہ ظاہر ہو۔ یہ چاروں صفات اپنا اظہار چاہتی تھیں اس لئے اس نے دنیا کو پیدا کیا۔ ان چاروں صفات پر غور کرو تو یہ وہی ہیں جو سورئہ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں۔ وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ ۳؎ یعنی اللہ تعالیٰ رَبِّ العٰلَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِہے الرَّحِیْمِاور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِہے۔ یہاں بھی وہی چاروں صفات بیان کی گئی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ترتیب بدل دی گئی ہے۔ سورئہ فاتحہ میں جو پہلے بیان کی تھی یہاں وہ آخر میں رکھ دی۔ پھر اسی ترتیب سے سب صفات کو اُلٹ کر رکھ دیا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں اَلْمَلِکُ جو آیا ہے یہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی طرف اشارہ ہے۔ علم القرأت سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی جگہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ پڑھا ہے۔ غرض اَلْمَلِکُ کا لفظ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سورئہ فاتحہ میں مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن سے پہلے الرَّحِیْمِ ہے۔یہاں اَلْمَلِکُ کے بعد اَلْحَقُّ رکھا گیا ہے۔ سورئہ فاتحہ میں الرَّحِیْمِ سے پہلے اَلرَّحْمٰنِ ہے۔ یہاں اَلْحَقُّ کے بعد اس کی طرف اشارہ کرنے کیلئے لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَرکھا گیا ہے۔ سورئہ فاتحہ میں اَلرَّحِمٰنِ سے پہلے رَبِّ العٰلَمِیْنَ ہے۔ یہاں اس کی جگہ سب سے آخر میں رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ رکھا گیا ہے۔ گویاسورئہ فاتحہ کی مذکورہ صفات اور اس آیت مذکورہ صفات میں صرف یہ فرق ہے کہ ایک تو ترتیب اُلٹ دی ہے دوسرے درمیانی دو صفات کو دوسرے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے۔ یعنی رحیمیت کی طرف اشارہ اَلْحَقُّ سے اور رحمانیت کی طرف اشارہ لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَسے کیا گیا ہے۔ غرض یہ صفات وہی سورئہ فاتحہ والی صفات ہیں۔ مزید تشریح کیلئے مَیں یہ بتادیتا ہوں کہ مَلِک بادشاہ کو کہتے ہیں اور ملکیت مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی ذات کے ظہور کا موجب اور منبع ہے کیونکہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے معنی ہیں جزا سزا کے دن کا مالک۔ اور جزا سزا مترتب نہیں ہوسکتی جب تک اس کے پہلے کوئی قانون نہ ہو۔ چنانچہ اگر ہماری شریعت میں نماز کا حکم نہ ہوتا تو کیا ہم مسلمانوں سے یہ پوچھ سکتے تھے کہ تم نمازیں کیوں نہیں پڑھتے؟ اگر ہم ایسا کرتے تو یقینا وہ جواب دیتے کہ ہمیں ایسا کوئی خاص حکم نہیں ہے۔ غرض جسے حکم نہ ہو اُس سے رپورٹ بھی نہیں لی جاتی اور ایسا شخص مجرم بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پس مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ نتیجہ ہے ملکیت کا۔ کیونکہ پہلے قانون کا نفاذ ہو پھر اس کے متعلق جواب طلبی ہوسکتی ہے۔ مَلِک کے بعد اس سورۃ میں اَلْحَقُّ کی صفت بیان کی گئی ہے اور ادنیٰ غور سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اَلْحَقُّ رحیمیت کا منبع ہے۔ کیونکہ جب مَلِک کی طرف سے قانون جاری کیا جائے تو اس کے ساتھ انعام اور صلے بھی جاری ہوتے ہیں اور ان کے وعدے کئے جاتے ہیں اور رحیم کے معنے یہی ہیں کہ اچھے کاموں کا اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ دیتا ہے۔ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور یہ اَلْحَقُّ کی صفت کا تقاضا ہے۔ کیونکہ اَلْحَقُّ چاہتا ہے کہ اس کا کوئی وعدہ غلط نہ جائے اور جو جو اس نے لوگوں سے انعامات کے وعدے کئے ہیں ان کو ضرور مل جائیں۔ پھر اَلْحَقُّ کے معنے قائم رہنے اور قائم رکھنے کے بھی ہوتے ہیں۔ اور رحیم کی صفت میں جو بار بار بدلہ دینے کے معنے پائے جاتے ہیں وہ اسی صفت سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیونکہ اَلْحَقُّ نہ صرف خود قائم رہتا ہے بلکہ وہ دوسروں کو بھی قائم رکھتا ہے۔ اور انعامات کو بھی قائم رکھتا ہے۔ حق درحقیقت مصدر ہے اور مصدر مبالغہ کے معنوں کے ساتھ اسم فاعل کے معنی بھی دے دیتا ہے۔ جیسے اَلْعَدْل نہایت انصاف کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص تو رحم ہی رحم ہے یعنی بہت رحم کرنیو الا ہے۔ پس اَلْحَقُّ کے معنی اس کے مختلف معنوں کے رو سے قائم رہنے والے، قائم کہنے والے اور سچے وعدے کرنے والے کے ہوں گے اور چونکہ رحیم کے معنے کسی کے نیک کام کو ضائع نہ کرنے کے اور متواتر انعامات دینے کے ہیں، اس صفت کا تعلق اَلْحَقُّ سے ہے۔ اَلْحَقُّ ہی ہے جو دیکھتا ہے کہ کوئی وعدہ غلط نہ ہو اور اس کے مورد صرف ایک دفعہ ہی انعام نہ پائیں بلکہ انعام پاتے جائیں اور دائمی زندگی ان کو عطا ہو۔ غرض مزدوری کا تعلق اَلْحَقُّ سے ہے کیونکہ وعدے آئندہ کیلئے ہی ہوتے ہیں اور کام کے بعد پورے کئے جاتے ہیں۔ مگر بخشش پہلے ہوتی ہے۔ کوئی فقیر آتا ہے تو انسان فوراً اسے روٹی دے دیتا ہے۔ کسی محتاج کو دیکھتا ہے تو پیسے دے دیتا ہے۔ مگر اولاد اور دوستوں کیلئے وعدے ہوتے ہیں۔ پہلے ان کے سپرد خدمات کی جاتی ہیں۔ پس اَلْحَقُّ کا تعلق رحیمیت سے ہے۔
پھر فرمایا لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَیہ رحمانیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ رحمانیت کا تقاضا ہے کہ ہر زمانہ میں ہر ایک کی ضرورتیں پوری ہوں خواہ کوئی کام کرے یا نہ کرے اور یہ توحیدِ الٰہی کی ایک دلیل ہے کیونکہ بغیر کسی شگاف یا وقفہ کے سب کی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی بچہ پید اہوا ہو اور اس کیلئے دودھ کی ضرورت پوری نہ ہو۔ نادان خیال کرتاہے کہ یہ دودھ آج پید اہوا ہے۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ جس وقت دنیا کی پیدائش ہوئی اُسی وقت زید یا بکر کا دودھ بھی پیدا ہوا تھا۔ یہ چھاتی کا دودھ ماں کے خون سے پید اہوا ہے اور خون ان جمادی حیوانی یا نباتی غذائوں سے جو انسان کھاتا ہے اور ان میں سے بعض چیزیں لاکھوں سال پہلے بنائی گئی تھیں اور بعض گو بظاہر اب پیدا ہوتی ہیں لیکن ان کی پیدائش کے ذرائع پہلے کے ہی ہیں۔ جیسے سبزیاں، ترکاریاں کہ ان کو بیج زمین اور پانی پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوتیں تو دودھ کہاں سے آسکتا تھا۔ پس اس کے سامان س وقت رکھے گئے تھے جب دنیا کا پہلا ذرہ پید اہوا تھا۔ پس رحمانیت لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ پر دلالت کرتی ہے اور اسے مانتے ہوئے دوسرا خدا انسان تسلیم ہی نہیں کرسکتا۔ کامل توحید انہی قوموں میں ہے جو خداتعالیٰ کی رحمانیت کی قائل ہیں۔ ہندو اور مسیحی مشرک قومیں ہیںاور یہ دونوں رحمانیت کی قائل نہیں۔ ایک نے رحمانیت کا انکار کرکے تناسخ کا مسئلہ نکالا ہے تو دوسری قوم نے کفارہ ایجاد کیا ہے۔ غرض شرک اور رحمانیت ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے، توحید کامل رحمانیت سے تعلق رکھتی ہے۔ رحمانیت کے معنے ہیں کہ انسان کی ہر ضرورت پوری ہو خواہ اس نے اس کیلئے کام کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اب یہ بات تب ہی ہوسکتی ہے جب ایک خدا ہو۔ کیونکہ جس نے خواہشات پید اکیں وہی ان کو پورا کرنے کے سامان پیدا کر سکتا ہے اور جب ایک وجود نے خواہشات بھی پیدا کیں اور انہیں پورا بھی کردیا تو اب کسی دوسرے وجود کی ضرورت کیا رہی۔
مجھے اس حقیقت کے متعلق ایک واقعہ یاد آگیا ہے اسے بیان کردیتا ہوں۔ میں ایک دفعہ ڈلہوزی گیا میری عمر بھی اچھوٹی ہی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی خلافت کے ابتدائی ایام تھے اُس وقت وہاں عیسائیوں کے ایک بڑے پادری پنگسن نامی جنہوں نے سیالکوٹ کا مشن قائم کیا تھا،آئے ہوئے تھے۔ اُن کی عمر کوئی ستّر سال کی تھی اور داڑھی انہوں نے خوب بڑھائی ہوئی تھی۔ وہ پادری صاحب عیسائیوں میں بہت معزز تھے۔ پنجاب سے ان کی تبدیلی آخر عمر میں پونا کو ہوگئی تھی اور وہیں سے خرابی صحت کی وجہ سے وہ ڈلہوزی آئے تھے۔ وہ بعض دفعہ اپنے مذہبی اشتہار بازاروں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ بعض دوستوں کی خواہش تھی کہ میں ان سے بات چیت کروں۔ چنانچہ میں اُن سے ملا دورانِ گفتگو میں بعض باتیں اس مضمون کے متعلق ہوئیں جس کو میں اب بیان کررہا ہوں۔ توحید کا مسئلہ زیر بحث تھا۔ میں نے اُن سے پوچھا بتائیے اللہ تعالیٰ مخلوقات کو خود پیدا کرنے پر قادر ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا ہاں ۔ میں نے کہا بیٹا؟ انہوں نے کہا ہاں۔ میں نے پھر روح القدس کے بارہ میں پوچھا انہوں نے کہا وہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ مگر خدا نے یہ کام بیٹے کے سپرد کیا۔ میں نے کہا پھر تو خدا تعالیٰ اور روح القدس سارا وقت فارغ رہتے ہوں گے۔ ان کے وجود یا عدمِ وجود کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔ کہنے لگے نہیں سب ہی کام کرتے ہیں۔ میں نے کہا یہ سامنے آپ کی پنسل پڑی ہے۔ اگر کوئی بات نوٹ کرنے کیلئے آپ اسے اُٹھانا چاہیں تو کیا آپ اپنے بیرے، خانسامہ اور اپنے دوست کو جو آپ کے ساتھ ہیں بلکہ مجھے بھی مدد کیلئے بلائیں گے اور اگر اتنے آدمی مل کر پنسل پر اُنگلیاں رکھیں اور سب اُٹھا کر اسے آپ کے قریب کریں تو دیکھنے والا ہم سب کو پاگل سمجھے گا یا نہیں؟ کہنے لگے ضرور سمجھے گا کیونکہ پنسل کو تو ایک آدمی بھی بآسانی اُٹھا سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ جب یہ بات ہے اور آپ مانتے ہیں کہ ایک خدا بھی سب کچھ کرسکتا ہے تو پھر باقیوں کی ضرورت کیا ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جب ایک انسان بِلا ضرورت کسی کام پر زائد آدمی لگائے تو اسے آپ پاگل کہیں مگر ان کو آپ ہم سے خدا منوانا چاہتے ہیں جو ہر ایک کامل قدرت رکھنے کے باوجود ایک چھوٹے کام کیلئے تین مل کر لگے ہوئے ہیں۔ تو رحمانیت کو مانتے ہوئے شرک کبھی قائم نہیں رہ سکتا۔ رحمانیت کے معنے یہ ہیں کہ اس کی رحمت سے کوئی باہر نہیں اور جو بغیر محنت کے دیتا ہے اس کی رحمت سے کون باہر رہ سکتا ہے اور جب وہ ہر ایک کی ضرورت کو ہر زمانہ میں پورا کرتا ہے تو پھر دوسرے خدا نے کیا کرنا ہے۔ جس قوم میں کامل توحید نہیں وہ خدا کی رحمانیت کی قائل نہیں ہوسکتی۔
پھر فرمایا رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ یعنی وہ تمام صفات حسنہ کا مرکز اور حکومت کا مالک ہے۔ اس کا عرش کریم اور کریم اسے کہتے ہیں جس میں اعزاز اور احسان پایا جاتا ہو اور ساری عزتیں اور سارے احسان اس میں جمع ہوں۔ وہ ربوبیت میں ادنیٰ حالت سے لے کر اعلیٰ تک ترقی دیتا ہے۔ وہ بے شک بادشاہ بھی ہے مگر انسانوں کی نظامی ضرورتوں کے علاوہ وہ ان کی تربیت کے متعلق ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے۔ بادشاہت تو صرف انتظامی ضرورتوں تک ہوتی ہے۔ انفرادی تعلقات کی درستی ربوبیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ بادشاہ کو میاں بیوی کے باہمی جھگڑے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا مگر ربوبیت کو اس کے ساتھ تعلق ہے۔ ماں باپ انہیں ضرور کہیں گے کہ لڑو نہیں۔ تو ربوبیت کا تعلق تمدنی اور معاشی چیزوں سے ہے۔ اس لئے فرمایا کہ اس کی بادشاہت خالی ملوک والی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ربوبیت بھی شامل ہے۔ یعنی تمدنی اورمعاشی امور سے بھی اسے وابستگی ہے اور کریمیت بھی اس کے ساتھ ہے۔ خداتعالیٰ کی یہ چاروں صفات وہ ہیں جن کی وجہ سے دنیا ظہور میں آئی۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ وہ اس لئے ہے کہ وہ مٰلِک ہے۔ رَحیم ا س لئے ہے کہ وہ اَلْحَقُّ ہے۔ رحمٰن اس لئے ہے کہ لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ہے۔ جہاں ایک سے زیادہ کام کرنے والے ہوں وہاں کسی سے پوچھو کہ فلاں کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ تو وہ جواب دے دیتا ہے کہ میں نے سمجھا فلاں کرلے گا۔ لیکن جب کام کرنے والا ایک ہی ہو تو وہ خود ساری فکر رکھتا ہے۔ اس طرح خداتعالیٰ جانتا ہے کہ اور تو کوئی ہے نہیں، میں نے ہی سب کی ضرورتوں اور سب ضرورتوں کو پورا کرنا ہے۔ پس اُس کا رحم ہر رنگ میں ظاہر ہوتا ہے۔ پھر وہ رَبِّ العٰلَمِیْنَ اور رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ہے۔ یہ چاروں چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ دنیا میں قائم کرنی ہیں۔ اور اسی غرض کیلئے ہم نے بندے کو پیدا کیا ہے ا ورمذہب دنیا میں اسی لئے آتا ہے کہ ان چیزوں کو قائم کرے۔ ملکیت نظامِ کامل پر دلالت کرتی ہے۔ بادشاہ یا خلیفہ کا کام ہے کہ دُنیوی یا دینی نظام کو قائم رکھے اور ایک کو دوسرے پر ظلم نہ کرنے دے اور خداتعالیٰ کی ملکیت تقاضا کرتی ہے کہ بنی نوع انسان میں نظام ہو اسی لئے انسان کو مدنی الطبع بنایا ہے اور اسے مل جل کر رہنے پر مجبور کیا ہے۔ بیوی بچے ساتھ لگادیئے ہیں۔ بیشک وہ جانوروں کے ساتھ بھی ہیں مگر اس طرح نہیں جس طرح انسان کے ساتھ ہیں۔ بعض جانوروں میں تو جوڑا ہے ہی نہیں۔ بعض میں ہے جیسے کبوتر مگر ان میں بھی تربیت اولاد کا طریق نہیں۔ بچہ جب دانے کھانے لگے نکال دیتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوگا کہ بچہ کو بوڑھا ہونے تک باپ ساتھ لئے پھرے۔ لیکن انسان میں یہ بات ہے۔ اِسی جلسہ پر دو بوڑھے آدمی مجھے ملنے آئے۔ ایک زیادہ ضعیف تھا اور دوسرا اسے سہارا دے کر لارہا تھا۔ میں نے خیال کیا یہ بھائی بھائی ہیں اور ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ دونوں بھائی ہیں؟ اِس پر اُس نے جو سہارا دے کر دوسرے کو لارہا تھا کہا کہ نہیں جی یہ میرا بیٹا ہے ۔ بوجہ امراض کے زیادہ بوڑھا معلوم ہوتا ہے اور چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا ہے اس لئے میں اسے اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ ایسی مثالیں جانوروں میں نہیں پائی جاتیں تو انسان کو مدنی الطبع بنایا گیا ہے۔ پھر جانوروں میں بھائیوں کا احساس نہیں۔ برادری کا سسٹم ان میں کوئی نہیں لیکن اگر بعض کے تعاون کو جیسا کہ چیونٹیوں میں ہوتا ہے برادری کا طریق سمجھ لیا جائے تو خاندان کی مثال ان میں نہیں مل سکے گی۔ حکومت تو ہوگی جیسے شہد کی مکھیوں میں اور چیونٹیوں میں ہوتی ہے مگر خاندان کا سسٹم نہیں ہوگا۔ او ر وارث ہونا قرابیت کی وجہ سے دوسرے کا ذمہ وار قرار پانا یہ باتیں مفقود ہوں گی۔ پس ملکیت کامل نظام پر دلالت کرتی ہے اور اسی لئے انسان کو اللہ تعالیٰ نے مدنی الطبع پید اکیا ہے۔
خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا میں نظام کامل پیدا کیا جائے۔ جس وقت تک حکومتیں مسلمان اور احمدی نہیں ہوجاتیں جو کامل طور پر نظام کے قیام کا ذریعہ ہیں اُس وقت تک جتنا اسلامی نظام بھی ممکن ہو ہمیں اسے قائم رکھنا چاہئے۔ پھر صفت اَلْحَقُّ جو ہے یہ اخلاقِ فاضلہ اور عمل کی درستی پر دلالت کرتی ہے۔ رحیمیت کے معنے ہیں اچھے کام کا بدلہ دینا اور یہ چیزیں اخلاق سے تعلق رکھتی ہیں۔ اچھے کام ہوں تو بدلہ دیا جاسکتا ہے ورنہ نہیں اور جس طرح ملکیت کے نظام کو قبول کرنے کیلئے انسان کے اندر قابلیت رکھی تھی اور اسے مدنی الطبع بنایا تھا، اسی طرح اَلْحَقُّ کے مقابلہ پر اخلاق فاضلہ انسان کو دیئے ہیں۔ مذاہب ہو یا نہ ہو، تعلیم ہو یا نہ ہو، تمدن ہو یا نہ ہو، اخلاق سے کورا کوئی انسان نہیں ہوسکتا۔ ذرا خلافِ اخلاق بات کرکے دیکھو فوراً چہرہ سُرخ ہوجائے گا اور پسینہ بہنے لگے گا۔ جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ فطرت بول رہی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایاہے کہ کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلٰی فِطْرَۃِ الْاِسْلَامِ ۴؎ یہاں اسلام سے مرا یہ اسلام نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قانونِ حقہ کی فرمانبرداری بچہ میں پائی جاتی ہے۔ اسی فطرت پر بچہ پید اہوتا ہے۔ بعد میں اس کے ماں باپ اپنے رنگ میں رنگین کرلیتے ہیں۔ جھوٹ بولنے کی عادت پڑ جائے تو بے شک انسان بے حیا ہوجاتا ہے لیکن پہلا جھوٹ بولتے ہوئے اُس کا رنگ ضرور فق ہوگا کیونکہ اُس کی فطرت میں سچائی ہے۔ بے شک کسی کو چوری کی اتنی عادت ہوجائے کہ وہ سب مال سمیٹ کر اپنے قبضہ میں کرلینے کی حرص رکھتا ہو مگر پہلی چوری کرتے ہوئے ضرور اُس کا ہاتھ کانپا ہوگا۔ کیونکہ اخلاقِ فاضلہ کو اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں داخل کیا ہے۔ جب خداتعالیٰ بدلہ دینا چاہتا تھا تو اس کیلئے جس چیز کی ضرورت تھی وہ بھی ہونی چاہئے تھی۔
لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کے ساتھ قربانی اور ایثار کا تعلق ہے۔ رحمانیت کا یہی مطلب ہے کہ بغیر مزدوری کے دیا جائے۔ یہ چیز بھی انسان کی فطرت میں رکھی گئی ہے۔ اس کی مثال ماں باپ میں ملتی ہے۔ وہ قطع نظر اس خیال سے کہ بچہ کبھی ان کے کام آئے گا یا نہیں، اسے پالتے پوستے ہیں، اسے تعلیم دلاتے ہیں اور یہ سب کچھ اس کی طرف سے کسی محنت کے بغیر یا بدلہ کی امید کے بغیر کرتے ہیں۔ ہاں جو لوگ پیدائش میں کامل نہ ہوں وہ اخلاق میں بھی کامل نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ہیجڑا بزرگ نہیں ہوا۔ وہ چونکہ کامل الخلق نہیں ہوتا اس لئے کامل الاخلاق بھی نہیں ہوسکتا۔ کامل الاخلاق ہونے کیلئے کامل الخلق ہونا ضروری ہے۔ اس نکتہ کو علمِ نفس والوں نے خوب سمجھا ہے اور ایک نے تو اسے ایسے لطیف رنگ میں بیان کیا ہے کہ اس کا ٰخیال الہام کی حد تک پہنچ گیا ہے۔
امریکہ کے ایک شخص نے علم النفس کے متعلق سات جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں Seanality کی تاریخ بیان کرتے ہوئے وہ کثرتِ ازدواج کی طرف بھی آیا ہے۔ اور پھر اِس ضمن میں رسول کریم ﷺ کا ذکر بھی اُس نے کیا ہے اور عیسائی ہونے کے باوجود وہ لکھتا ہے کہ میں اُن لوگوں کو احمق سمجھتا ہوں جو آپؐ کے ایک سے زیادہ بیویاں کرنے پر اعتراض کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر جذب کرنے والا شخص یقینا ایسا کامل الخلق ہوتا ہے اور اس کے اندر ایسی طاقتیں ہوتی ہیں کہ وہ یہ بوجھ اُٹھا سکتا ہے۔ کامل الخلق ہونے کے یہ معنے نہیں کہ ضرور بہت ہٹا کٹا ہی ہو بلکہ اس سے مراد صفات حسنہ اور دل دماغ کی طاقت ہے۔ پھر لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ میں تو کُل پایا جاتا ہے، یہ بھی لَآاِلٰہَ کا پرتو ہے۔ جانور میں بڑا توکّل ہوتا ہے مگر وہ انسان کے توکّل کو پھر بھی نہیں پہنچ سکتا۔ چند روز ہوئے میں گھر میں کھانا کھارہا تھا اور وہیں ایک بلی بھی پھر رہی تھی جس سے میری بیوی کے دل میں کچھ خفگی کے جذبات پیدا ہورہے تھے۔ مجھے خیال آیا کہ دیکھو خدا کی قدرت ہے کہ اس نے بہت سے جاندار پیدا کئے اور ان میں سے صرف ایک کو کہا کہ میں تجھے بے انتہاء دوں گا اور باقیوں کو نہیں کہا مگر عجیب بات ہے کہ جسے کہا تھا وہ تو خدا کو چھوڑ کر اپنی محنت کرنے لگ گئے اور جن سے نہیں کہا تھا وہ توکّل کرکے بیٹھے ہیں۔ پھر دوسرے نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو سب جانداروں میں سے صرف ایک ہی ہے جو کماتا ہے اور وہی بھوکا مرتا ہے۔ مگر یہ تو ایمان سے محروم انسانوں کی کمزوری ہے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ کامل توکّل کی طاقت انسان میں ہی پائی جاتی ہے۔ جانوروں میں کوئی نہیں ہوگا جو بیٹھ جائے کہ بس اب خدا ضرور بھیج دے گا۔ مگر انسانوں میں ایسے ضرور ملیں گے اور ہزاروں ہوں گے جن کیلئے اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے سامان کرتا ہے۔ تو توکّل کا مقامِ کامل بھی انسان کو ہی ملتا ہے۔ گو ہر ایک کا یہ کام نہیں کہ توکّل کے مقام والے کی نقل کرے۔ کہتے ہیں کوئی بزرگ تھے جو کام نہیں کرتے تھے۔ دوسرے بزرگ انہیں نصیحت کرنے کیلئے آئے کہ کوئی کام بھی کرنا چاہئے۔ توکّل کرنے والے توکّل کے مقام پر تھے مگر دوسرے بزرگ کا مقام دوسرا تھا اس لئے انہوں نے جب نصیحت کی تو اس بزرگ نے کہا کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور یہ میزبان کی ہتک ہے کہ اُس کا مہمان کوئی کام کرے۔ دوسرے بزرگ نے کہا کہ مانا آپ مہمان ہیں مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمانی تین دن کی ہے۔ ۵؎ اس کے بعد سوال ہوجاتا ہے۔ یہ سن کر وہ متوکل بزرگ کہنے لگے کہ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَرَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ۶؎ خداتعالیٰ کا دن قرآن کریم کے مطابق ایک ہزار سال کا ہوتا ہے۔ پس مہمان نوازی کی مدت تین ہزار سال کی ہے۔ اس کے بعد اگر زندہ رہے تو دیکھا جائے گا۔
اسی طرح ایک اور بزرگ جو اِس مقام پر تھے اُن کی نسبت لکھا ہے کہ ان کے ذمہ کچھ قرض ہوگیا۔ اُن کا قرض خواہ اُن کے پاس آیا اور انہیں تنگ کرنے لگا اور فوری ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا بیٹھو! ابھی خداتعالیٰ کی طرف سے رقم آرہی ہوگی۔ مگر وہ شخص مصر تھا کہ ابھی رقم دو میں انتظار نہیں کرسکتا۔ اِسی دوران میں ایک لڑکا گزرا جو حلوا فروخت کررہا تھا۔ اُس بزرگ نے اُسے بُلایا اور اس سے حلوا لے کر حاضرین کو کھلایا۔ حلوا کھاکر تھوڑی دیر کیلئے اس کا منہ تو بند ہوا مگر جب اس لڑکے نے کہا کہ لائیے آٹھ آنہ کے پیسے تا میں جائوں تو اُس بزرگ نے کہا کہ تم بھی بیٹھ جائو اللہ تعالیٰ ابھی بھیجتا ہے۔ اس پر وہ شخص کہنے لگا کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ میرا قرض تو دبایا ہی ہوا تھا اب اس لڑکے کا بھی دبالیا۔ اتنے میں ایک شخص آیا اس نے کاغذ میں لپٹی ہوئی نقدی دی اور کہا کہ یہ فلاں شخص نے آپ کو نذر بھیجی ہے۔ اسے کھولا تو جتنا قرض تھا اُتنی ہی رقم اُس میں موجود تھی مگر حلوے والے کے پیسے نہیں تھے۔ اِس پر اُس بزرگ نے کہا کہ تمہیں غلطی لگی ہے، کچھ اور بھی ہے۔ اِس پر اُس نے کہا کہ ہاں مجھ سے غلطی ہوئی مجھے بھول گیا تھا اس کے ساتھ ایک اٹھنی بھی ہے۔ تو توکّل کا یہ مقام انسانوں میں سے ہی بعض کو حاصل ہوتا ہے۔
رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ۔ تنظیمِ معاشی، تنظیمِ تعلیم اور تربیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔دیکھ لو ایک باپ کس طرح کھانے پینے کا بوجھ اُٹھانے کے ساتھ ساتھ بچہ کو تعلیم بھی دلواتا ہے اور اس کی اصلاح کا بھی خیال رکھتا ہے۔ یہ سب استعدادیں مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ نے انسان ہی کے اندر رکھی ہیں اور مذہب ان خفیہ استعدادوں کو جگانے کیلئے اور انہیں منظم صورت میں قائم کرنے کیلئے آتا ہے۔ یہی چیز ہے جس کیلئے احمدیت کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیاہے۔ یہ کام ہم نے کرنے ہیں اور اگر انہیں نہیں کرتے تو اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ ہم نے اپنے رستہ کو چھوڑ دیا ہے۔ لیکن اب چونکہ وقت زیادہ ہوگیا ہے اس لئے اس مضمون کی مزید تفاصیل آئندہ خطبہ میں اِنْشَائَ اللّٰہُ بیان کروں گا۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلاَّ بِاللّٰہِ
(الفضل ۲۶ ؍ نومبر ۱۹۳۷ئ)
۱؎ اسد الغابۃ جلد۱ صفحہ ۱۲۸۔مطبوعہ ریاض ۱۳۸۴ھ
۲؎ المؤمنون: ۱۱۶،۱۱۷ ۳؎ الفاتحہ: ۲ تا۴
۴؎ بخاری کتاب الجنائز باب ما قیل فی اولاد المشرکین
۵؎ بخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف … (الخ)
۶؎ الحج: ۴۸

۳۶
تحریک جدید کے تمام مطالبات پر عمل کرنے والے
صفاتِ الٰہیہ کے مظہر بن سکتے ہیں
(فرمودہ ۲۶ ؍نومبر ۱۹۳۷ء )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں نے گزشتہ جمعہ میں اس امر کے متعلق خطبہ بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو جو پیدا کیا ہے وہ یونہی نہیں پیدا کیا بلکہ اس کی صفات کا تقاضا تھا کہ دنیا پیدا کی جاتی اور خصوصاً انسان کی پیدائش معرضِ وجود میں آتی۔ چنانچہ انسان کی پیدائش قرآن کریم کے بیان کے مطابق اس لئے ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی چار صفات اپنے آپ کو ظاہر کرنا چاہتی تھیں۔ یہ صفات اپنے منبع کے لحاظ سے تو وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آیت اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰـکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَO فَتَعٰـلیَ اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ۱؎ میں بیان فرمایا ہے۔ اور بندوں کے تعلق کے لحاظ سے سورئہ فاتحہ میںآیات اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۲؎ آیات میں بیان فرمایا ہے۔ گویا پہلی آیت میں چار صفات بطو رمنبع کے بیان کی گئی ہیں۔ یعنی وہ صفات جنہوں نے دُنیا کی پیدائش کا تقاضا کیا لیکن ان کے نتیجہ میں جب انسان کو پیدا کیا گیا تو چار اور صفاتِ الٰہیہ نے انسانوں کی خبرگیری کی۔ گویا تخت شاہی کے مالک بلند شان والے مہربان رب کی طرف سے جب دنیا پیدا ہوئی تو وہ دنیا کے لحاظ سے ربّ العٰلمین بن گیا۔پھر توحیدِ کامل نے جب اپنا جلوہ دکھانا چاہا تو وہ انسانوں کیلئے رحمانیت کی صفت میں ظاہر ہوئی اور دنیا کی ہر ضرورت کو اُس نے پورا کرکے بتادیا کہ سوائے اس کے اور کوئی خدا نہیں۔ پھر اَلْحَقُّ کی صفت نے جب ظہور کرنا چاہاجو سچے وعدے کرنے والی اور دنیا کو قائم رکھنے والی ہے تو اس نے رحیمیت کی شکل میں اپنا جلوہ دکھایا۔ اور گو اَلْحَقُّ کے معنے قائم رکھنے والے کے بھی ہیں مگر چونکہ اس میں سچائی کے معنے بھی شامل ہیں، اس لئے اس نے فیصلہ کیا کہ میںصفت رحیمیت کے ماتحت ہر اُس چیز کو قائم رکھوں گا جو سچائی پر مبنی ہوگی اور پھر اس کی نیکی کا بار بار بدلہ دوں گا اور اسے ہمیشہ کی زندگی عطا کروں گا۔ پس اُس نے مخلوق میں سے سچ پر قائم ہونے والے وجودوں کو ہمیشہ کیلئے قائم رکھ کر اپنے اَلْحَقُّ ہونے کا ثبوت دیا۔ پھر ملکیت نے چاہا کہ وہ کوئی قانون جاری کرے اور جب اس نے قوانین جاری کئے تو اس نے کہا اب میں ہر ایک سے حساب لوں گا کہ اس نے قانون کی کس حد تک پیروی کی ہے اور وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صورت میں ظاہر ہوا۔
تو یہ چار صفات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں جو خطبہ کے شروع میں مَیں نے پڑھی تھی، یہ سورئہ فاتحہ کی چار صفات کیلئے بطور منبع ہیں۔ مٰلِکِ نے جب اپنی جلوہ گری کی تو لازمی طور پر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صفت انسانوں کیلئے ظاہر ہوئی۔ توحید نے جب اپنا ثبوت دینا چاہا تو لازمی طور پر اس کی رحمانیت کی صفت ظاہر ہوئی۔ اور خداتعالیٰ کی صفت اَلْحَقُّ نے جب اپنا ظہور چاہا تو اس نے رحیمیت کے ذریعہ سے سچائی کے دِلدادوں کو ہمیشگی کی زندگی بخشی۔ پھر رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ نے چاہا کہ کوئی ایسی مخلوق ہو جس کی وہ ربوبیت کرے۔ پس اُس نے دنیا پیدا کیا وراس کیلئے رَبِّ العٰلَمِیْنَ ہوکر ظاہر ہوا۔ غرض رَبِّ العٰـلَمِیْنَبھی خدا کی صفت ہے اور الرحمٰن بھی خدا کی صفت ہے اور مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ بھی خدا کی صفت ہے۔ لیکنمٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صفت تابع ہے رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ کی صفت کے۔ اگروہ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ نہ ہوتا تو رَبِّ العٰلَمِیْنَ بھی نہ ہوتا۔ اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنَ نتیجہ ہے اس کے مٰلِکِ ہونے کا۔ اگر وہ مٰلِکِ نہ ہوتا تو مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ بھی نہ ہوتا۔ جس نے کوئی قانون ہی نہ بنایا ہو وہ اس کے متعلق باز پُرس کرنے کا بھی کوئی حق نہیں رکھتا۔ اسی طرح اگر وہ اَلْحَقُّ نہ ہوتا اور تمام تر سچائیوں کا منبع نہ ہوتا اور پھر اس کے اندر دوسری چیزوں کو قائم رکھنے کی طاقت نہ ہوتی تو وہ رحیم بھی نہ ہوتا۔ کیونکہ رحیمیت کی صفت ہی ہے جو بنی نوع انسان کے سچائی پر قائم ہونے کی وجہ سے انہیں اچھے سے اچھا بدلہ دیتی ہے اور انہیں ہمیشہ کیلئے قائم رکھتی ہے۔ چنانچہ عربی زبان میں جس کے اندر یہ خوبی ہے کہ اس کے الفاظ اس حقیقت اور فلسفہ کو بھی بیان کردیتے ہیں جو مسمّٰی سے تعلق رکھتے ہیں یا جن کی مُسمّٰی سے امید کی جاتی ہے۔ ایک محاورہ ہے جو یہ ظاہرکرتا ہے کہ سچائی ہی دائمی زندگی کا موجب ہو جاتی ہے۔ صِدْقٍ عربی زبان میں سچائی کو کہتے ہیں ۔جس طرح حق سچائی کو کہا جاتا ہے عربی زبان کا محاورہ ہے کہ جب کسی چیز کے دوام پردلالت کرنا ہو تو اُسے صِدْقٍ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔مثلاً کہتے ہیں لَہٗ قَدَمُ صِدْقٍ جس کے لفظی معنے تو یہ ہیں کہ اسے سچائی کا قدم حاصل ہے۔ لیکن محاورہ میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اسے وہ مقام حاصل ہے جو کبھی جاتا نہ رہے گا۔ اس محاورہ سے ظاہر ہے کہ عربی زبان میں یہ حقیقت لغوی طور پر تسلیم کی گئی ہے کہ سچائی ہی دائمی زندگی بخشتی ہے اس لئے انہوں نے ہمیشہ رہنے کیلئے صِدْقٍ کا لفظ ہی استعمال کرنا شروع کردیا۔ پس اَلْحَقُّ کی صفت ہی ہے جس کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اَور صفت یعنی رحیمیت اس کے بندوں کیلئے ظاہر ہو۔ تاکہ ان کی سچائی کا بدلہ انہیں ابدی زندگی کی صورت میں ملے۔ غرض اگر اللہ تعالیٰ اَلْحَقُّ نہ ہوتا تو الرَّحِیْمُ بھی نہ ہوتا۔ اسی طرح الرَّحْمٰن کی صفت لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَیعنی توحید کامل کے تابع ہے یعنی توحیدِ کامل رحمانیت کے ظہور کا موجب ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے سِوا کوئی اور بھی معبود ہوتا تو وہ ہرگز الرَّحْمٰن نہ ہوتا۔ کیونکہ الرَّحْمٰن کے معنے ہیں کہ وہ ہر چیز کی جائز ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ خواہ اس نے کوئی کام کیا ہویا نہ کیا ہو۔ اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب ایک ہی خدا ہو۔ اگر کئی خدا ہوں تو کسی کی ضرورت کوئی پوری کرے گا اور کسی کی کوئی۔ یا کوئی ضرورت کوئی پوری کرے گا اور کوئی ضرورت کوئی اَور۔
میں اپنے پچھلے خطبہ میں بتاچکا ہوں کہ توحید کامل کا لازمی نتیجہ رحمانیت ہے۔ جب کبھی توحیدِ کامل اپنا ظہور کرنا چاہے گی وہ رحمانیت کی صفت میں ہی انسانوں کے سامنے آئے گی۔ اس لئے کہ اگر ہماری ضرورتیں دو وجود پوری کرنے والے ہوں تو توحید کس طرح ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر پانی کسی خدا نے دینا ہے اور روٹی کسی نے، تو توحید کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جب ہم اپنی ہر ضرورت خداتعالیٰ سے پوری ہوتے دیکھیں تو پھر ہماری عقل کہتی ہے کہ اس کے سوا کسی اور خدا کی ضرورت نہیں۔ تو رحمانیت جس کے معنی ہر انسانی ضرورت پورا کرنے کے سامان مہیا کرنے کے ہیں تو حیدِ کامل کا نتیجہ ہے۔ یعنی توحید جب مخلوق کیلئے ظاہر ہوگی رحمانیت کے ذریعہ سے ہوگی۔ غرض یہ چاروں صفات جو سورئہ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں ان صفات کی تابع ہیں جو خداتعالیٰ نے اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰـکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَO فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ میں بیان کی ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے دنیا کو کھیل کے طور پرنہیں بنایا بلکہ اس لئے بنایا ہے کہ ہم مٰلِکِ میں ، ہم الحق ہیں، ہم لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَہیں، ہم رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ہیں۔ گویا یہ چاروں صفات ہیں جنہوں نے تقاضا کیا کہ ہم اپنے آپ کو ظاہر کریں۔ پس ہم نے اپنے آپ کو ظاہر کیا مگر کس طرح رَبُّ العٰلمین کی صورت میں، الرحمٰن کی صورت میں، الرحیم کی صورت میں اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صورت میں اور یہ چاروں صفات جو سورئہ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں تنزّلی صفات ہیں۔ کیونکہ یہ بندوں سے تعلق پر دلالت کرتی ہیں۔ یعنی وہ رَبُّ العٰلمینتبھی ہوسکتا تھا جب عالَم موجود ہو اور اس کی وہ ربوبیت کرے۔ کسی ایسے شخص کے متعلق جس کا کوئی بیٹا نہ ہو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنی اولاد کی نہایت اچھی پرورش کرتا ہے۔ پرورش کا لفظ اُسی وقت استعمال کیا جائے گا جب اُس کے بچے اور دیگر عزیز ہوں گے۔ پس رَبُّ العٰلمین ایک تنزّلی صفت ہے یعنی صفاتِ الٰہیہ کی وہ جہت ہے جو مخلوق سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی طرح الرحمٰن ہونا بھی بندوں کے وجود کو ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ اگر ایسی مخلوق نہ ہو جس کو ضروریات لگی ہوئی ہوں تو اس کی ضرورت پورا کرنے کا سوا ل ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اور یہ صفت لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کی اس جہت کا ظہور ہے جو بندوں سے متعلق ہے۔ پس الرحمٰن بھی تنزّلی صفات میں سے ہے۔ پھر رحیم جس کے معنے اچھے کاموں کا بدلہ دینے اور بار بار بدلہ دیتے چلے جانے کے ہیں جس کانتیجہ انسان کیلئے ابدی زندگی ہے، یہ بھی تنزّل صفت ہے کیونکہ اس صفت کے ماتحت ضروری تھا کہ دنیا میں نیک کام کرنے والے لوگ ہوں۔ ورنہ خداتعالیٰ تو ابد سے ہے اور وہ اپنی ذات میں قائم ہے۔ اُس کا کسی کو قائم رکھنا اور اسے ہمیشہ کی زندگی دینا تبھی ظاہر ہوسکتا ہے جب ایسے لوگ ہوں جو فنا ہوجانے والے ہوں۔ لیکن باوجود ان کے فانی ہونے کے وہ ان کو قائم رکھے اور اس طرح الرحیم کہلائے۔ پس الرحیم کی صفت بھی الحق کے تابع ہے اور تنزّلی صفات میں سے ہے۔ یعنی وہ صفات جو مخلوق کے متعلق ہیں۔ اسی طرح مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہونا بھی بتاتا ہے کہ کوئی مخلوق ہو جس میں الٰہی قانون جاری کیا جائے اور پھر اس قانون کے مطابق اس سے حساب لیا جائے اور پھر نیک کاموں پر جزاء اور بُرے کاموںپر سزا دی جائے۔ یہ تونہیں کہا جاسکتاکہ وہ اپنی ذات کے اندر ہی فیصلے کرتا رہتا ہے۔ فیصلہ تو بہرحال دوسروں کے معاملات کا ہی ہوتا ہے۔ پس مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ بھی تنزّلی صفات میں سے ہے۔ یعنی جن کا ظہور مخلوق سے وابستہ ہے (یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ صفات میں سے وہ جو بِالبداہت کی ایک بِالفعل موجودات اور مخلوقات پر دلالت کرتی ہوں وہ تنزّلی صفات ہیں کیونکہ وہ اپنی ذات میں ایک مخلوق کے وجود کو اور پھر اس سے اللہ تعالیٰ کے سلوک کو ظاہر کرتی ہیں۔ گویا ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے عرش کریم سے اُترتا ہے تا اپنی مخصوص صفات کو بندوں کیلئے ظاہر کرے۔ اور تنزیہی صفات وہ ہیں جو بِالبداہت کسی مخلوق کے وجود پر دلالت نہیں کرتیں اور ان کا خیال مخلوق کے خیال کے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے۔ جیسے خداتعالیٰ کا سچائی محض ہونا ہے یعنی اَلْحَقُّ ہونا یا لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَہونا یا ایک لفظ سے یہ مفہوم ادا کیا جائے تو اس کا احد ہونا۔ اسی طرح کامل الصفات ہستی کا مٰلِکِ ہونا، رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ہونا یا حيہونا یا العظیم ہونا اور اسی طرح اور صفات ہیں جن کو ذہن میں لاتے ہوئے کسی مخلوق کی طرف ذہن کا انتقال ضروری نہیں ہوتا)۔غرض یہ چاروں صفات تشبیہی اور تنزّلی ہیں۔ جن میں اللہ تعالیٰ کا فعل بہت حد تک بندوں کے افعال سے ملتا جلتا ہے اور ان کا ظہور ان چار صفات کے تقاضا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جو آیت زیر تشریح میں بیان ہوئی ہیں اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مجملاً ذکر کیا ہے کہ ان چار صفات نے انسانی پیدائش کا تقاضا کیا جس پر ہم نے انسان کو پید اکیا نہ کہ بِلا وجہ اور فضول۔
اب ہمیں غور کرنا چاہئے کہ جبکہ ان چاروں صفات کے نتیجہ میں انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان کا پرتو ظلی طور پر انسان پر پڑے ورنہ ان صفات کا ظہور انسان کے ذریعہ سے ہو نہیں سکتا۔ چنانچہ میں جیسا کہ گزشتہ جمعہ میں بیان کرچکا ہوں کہ یہ چاروں صفات تنزّلی صورت میں انسان کے اندر پائی جاتی ہیں ۔ انسان کے اندر خداتعالیٰ نے مٰلِک والی صفت بھی رکھی ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کا مظہر بنتا ہے۔ اس کے اندر الحق والی صفت بھی رکھی ہے۔ وہ بھی سچ کو قبول کرتا اور سچائی کے مقابلہ میں دنیا کی ہر چیز کو بھول جاتا ہے۔ پھر رحیمیت والی صفت بھی انسان کے اندر رکھی گئی ہے۔ پھر خداتعالیٰ نے اپنے آپ کو لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کہا تھا۔ اس کی تنزّلی صورت یعنی رحیمیت بھی انسان میں پائی جاتی ہے۔ پھر رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ کی تنزّلی صورت یعنی رب العٰلمین ہونا اس کا پرتو بھی انسانی روح پر پڑاہے اور اس کا مظہر بننے کی قابلیت بھی اس میں موجود ہے۔ غرض یہ چاروں صفات ایسی ہیں کہ اگر انسان چاہے تو وہ ان کا مظہر بن سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی بنے یا نہ بنے۔ مگر خدا نے ہر شخص کو یہ قابلیت دے دی ہے اور وہ اگر چاہے تو رب العٰلمین ۔ الرحمٰن۔ الرحیم اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صفات کا مظہر ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص کہے یہ کس طرح ہوسکتا ہے۔ سو ایسے لوگوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ملکیت کی قابلیت کا ہر انسان میں پیدا کیا جانا تو ظاہر ہی ہے اور اس صفت کا اتنا غلبہ ہے کہ دنیا میں ناقابل سے ناقابل انسان کو بھی مجازی طور پر بادشاہ بننے کی خواہش ہوتی ہے۔ بلکہ جتنا کوئی ناقابل ہو اُتنا ہی اسے اپنا حکم چلانے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ مشورہ دینے کیلئے بے تاب رہتا ہے۔ پھر بادشاہت ایک نظام چاہتی ہے اور انسان بھی۔ ملک ہوکرقانون بناتا اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہوکر قاضی بنتا اور لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرتا ہے اور ہر انسان اس نظام کی پابندی کیلئے مدنی الطبع بنایا گیا ہے۔
پھر انسان میں الحق کی صفات بھی موجود ہیں۔ چنانچہ انسان ہی وہ وجود ہے جو سچائی کو اس کی انتہائی حد تک پہنچادیتا ہے اور سچائی کے قیام کیلئے اتنی عظیم الشان قربانی کرتا ہے جس کی مثال کسی اور مخلوق میں نہیں مل سکتی۔ اُمت محمدیہ میں ایسے کئی اولیاء ہوئے ہیں جنہوں نے سچائی کیلئے بڑی بڑی تکالیف اٹھائیں۔ خود ہماری جماعت میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا واقعہ موجود ہے۔ آپ کابل میں اس قدر رسوخ اور عزت رکھتے تھے کہ بادشاہ حبیب اللہ خان کو گدی پر بٹھانے کا کام انہی کے سپرد کیا گیا تھا۔ جب وہ احمدی ہوئے اور اس کا علم بادشاہ کو اور باقی عمائد کو ہوا اور مولویوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگادیا تو بادشاہ کو چونکہ ان کے رسمِ تاجپوشی ادا کرنے کی وجہ سے ان کا ادب منظور تھا، اس لئے اُن کو بُلایا اور کہا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں میں اس پر اعتراض نہیں کرتا، لیکن چونکہ مولوی بہت شور مچاتے ہیں اس لئے آپ خاموشی اختیار کرلیں تا ملک میں جو شور برپا ہے وہ بند ہوجائے میں اس کے بدلہ میں آپ سے بہت کچھ حسن سلوک کروں گا۔ مگر انہوں نے حبیب اللہ خان کو صاف جواب دے دیا کہ مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ میرے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ مجھے خدا نے پہلے سے ہی میرا انجام بتادیا ہے اور میں سچی بات کہنے سے کبھی رُک نہیں سکتا۔ اور جو بات مجھے حق دکھائی دیتی ہے وہ میں کسی کے کہنے سے نہیں چھپاسکتا۔ آخر علماء نے آپ کو سنگسار کرنے کا فیصلہ کردیا اور اس کی تعمیل میں آپ کو میدان میں لے جایا گیا۔ اُس وقت بادشاہ نے مولویوں سے کہا کہ پہلے تم پتھر مارو، اس کے بعد میں ماروں گا کیونکہ اس کی سنگساری کا فتویٰ تم نے دیا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ فعل سنگساری کے قابل ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بادشاہ آپ ہیں پہلا پتھر آپ پھینکیں اس کے بعد ہم پھینکیں گے۔ بادشاہ نے کہا یہ ٹھیک ہے مگر شریعت کا تمہیں ہی علم ہے اور تمہارا ہی حق ہے کہ ابتدا کرو۔ میں تمہارا تابع ہوں گا کیونکہ مجھے علم نہیں کہ یہ سزا جائز ہے یا ناجائز۔ اسی دوران میں بادشاہ پھر مولوی عبداللطیف صاحب شہید کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوںکہ آپ دل میں بے شک جو چاہیں بات رکھیں لیکن ظاہر میں کہہ دیں کہ میں توبہ کرتاہوں تا ملک میں جو شور ہے وہ دور ہوجائے۔ میں ان مولویوں سے کہہ دوں گاکہ انہوں نے توبہ کرلی ہے اور آپ سنگساری سے بچ جائیں گے۔ مگر انہوں نے فرمایا میں اِس قسم کی باتیں نہیں جانتا۔ خدا نے مجھے سچائی دی ہے اور میں اسے کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ تب بادشاہ نے مولویوں سے کہا کہ اب مجبوری ہے۔ یہ کسی طرح بھی ہماری بات نہیں مانتے، تم ان پر پتھر چلائو۔ چنانچہ انہوں نے چاروں طرف سے آپ پر پتھر برسانے شروع کردیئے یہاں تک کہ آپ شہید ہوگئے۔ بعض دیکھنے والے کہتے ہیں کہ جب آپ پر چاروں طرف سے پتھر برسائے جارہے تھے تو وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے جاتے تھے کہ خدایا! میری قوم پر اپنا عذاب نازل نہ کرنا کیونکہ یہ جہالت سے یہ کام کررہی ہے۔
یہ سچائی کا نمونہ ہے جو ہماری جماعت میں بھی موجود ہے اور اس سے پہلے اولیائے اُمت میں بھی اس کے بڑے بڑے نمونے موجود ہیں۔ بڑی عمر کے آدمیوں کو جانے دو سیّد عبدالقاد ر صاحب جیلانی کو ہی دیکھو۔ وہ ابھی بچے ہی تھے کہ ان کی والدہ نے انہیں اپنے ماموں کے پاس ایک قافلہ کے ساتھ بھیجا۔ چونکہ ان دنوں سفر میں بہت کچھ مشکلات حائل تھیں اور ڈاکے بڑی کثرت سے پڑتے تھے اس لئے انہوں نے چالیس اشرفیاں ان کی گدڑی میں سی دیں تا اس سرمایہ سے وہ کوئی کام کرسکیں۔ یہ قافلہ جب ایک جنگل سے گزررہا تھا تو اس پر بعض ڈاکوئوں نے حملہ کیا اور اس کا سب سامان لُوٹ لیا۔ اتفاقاً کوئی ڈاکو ان کے پاس سے بھی گزرا اور ان سے پوچھا میاں کچھ تمہارے پاس بھی ہے؟ انہوں نے کہاں ہاں چالیس اشرفیاں میرے پاس موجود ہیں۔ وہ یہ سن کر حیران سا رہ گیا اور اسے ان کی بات پر یقین نہ آیا کیونکہ انہوںنے گدڑی پہنی ہوئی تھی اور غربت کے آثار ظاہر تھے۔ چنانچہ وہ کہنے لگا مخول نہ کر تیرے پاس چالیس اشرفیاں کہاں سے آسکتی ہیں اور یہ کہہ کر وہ انہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ پھر کسی دوسرے ڈاکو نے ان سے یہی سوال کیا تو انہوں نے پھر یہی جواب دیا مگر اسے بھی ان کی بات پر یقین نہ آیا۔ آخر کسی نے اپنے افسر سے اس کا ذکر کیا۔ اس نے حکم دیا کہ اس لڑکے کو پکڑ کر لائو ۔ چنانچہ وہ انہیں اپنے افسر کے پاس لے گئے اور جب اس کے سامنے ان کی گدڑی پھاڑی گئی تو اس میں سے واقعہ میں چالیس اشرفیاں نکل آئیں۔ وہ ڈاکوئوں کا افسر سیّد عبدالقادر جیلانی صاحب سے کہنے لگا کہ تم نے یہ کیا بیوقوفی کی کہ اپنی اشرفیوں کا ہمیں پتہ دے دیا۔ اگر تم کہہ دیتے کہ میرے پاس کچھ نہیں تو ہمیں تمہاری بات کا یقین آجاتا اور ہم میں سے کسی کا ذہن بھی اس طرف منتقل نہ ہوتا کہ تمہاری گدڑی میں اشرفیاں ہیں۔ وہ اُس وقت بہت چھوٹی عمر کے تھے، بعض کہتے ہیں بارہ تیرہ سال کی عمر تھی۔ مگر جب ڈاکوئوں کے سردار نے یہ بات کہی تو وہ کہنے لگے جب میری گدڑی میں اشرفیاں موجود تھیں تو میں کس طرح کہہ دیتا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ ان کی اس بات کا ڈاکوئو ں پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اُسی وقت ڈاکہ سے توبہ کی۔ اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کسی پنجابی شاعر نے سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی کی تعریف میں کہا ہے کہ
ع چوروں قطب بنایا
غرض سچائی جب ایک بچہ کے دل میں بھی داخل ہوجاتی ہے تو اُسے ایسا دلیر بنادیتی ہے کہ وہ تمام دنیا کے مقابلہ میں نڈر ہوکر کھڑا ہوجاتا ہے۔ پھر جو ہمارے سردار اور آقا محمد مصطفی ﷺ ہیں انہیں دیکھ لو۔ مکی زندگی میں ابوطالب جو آپ کے چچا تھے آپ کی بہت حفاظت کرتے تھے اور چونکہ وہ اپنی قوم کے سردار تھے اس لئے قریش مکہ رسول کریم ﷺ کو اس طرح دِق نہیں کرسکتے تھے جس طرح وہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ کو دِق کیا کرتے تھے۔ آخر جب رسول کریم ﷺ کے وعظ و نصیحت کو سُن سُن کر انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام بڑھتا جاتا ہے اور اگر اسے جلدی روکا نہ گیا تو اس کا مٹانا مشکل ہوجائے گا تو وہ سخت غیظ وغضب سے بھر گئے۔ اور وہ ایک وفد کی صورت میں ابوطالب کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ آپ کے بھتیجے نے ہمیں سخت دِق کررکھا ہے۔ وہ ہمارے بتوں کو گالیاں دیتا اور ایک خدا کا وعظ کرتا رہتا ہے۔ آپ اسے سمجھائیں کہ وہ ایسا نہ کرے اور اگر وہ نہ رُکے تو آپ اس سے الگ ہوجائیں اور ہم پر اس کا معاملہ چھوڑ دیں ہم خود اسے روک لیں گے اور اگر آپ ان سے الگ ہونے کیلئے تیار نہ ہوں تو مجبوراً ہمیں آپ کی سرداری کو بھی جواب دینا پڑے گا اور پھر اس کانتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ ابوطالب اپنے قبیلہ کے سردار تھے اور جن قوموں کی قبائلی زندگی ہوتی ہے وہ اپنی سرداری کی بڑی قیمت سمجھتی ہیں۔ ابوطالب نے جب یہ بات سُنی تو وہ گھبراگئے اور انہوں نے رسول کریم ﷺ کو بُلا کر کہا اے میرے بھتیجے! اب قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھے ہلاک کردیں اور ساتھ ہی مجھے بھی۔ میں نے ہمیشہ تیری حفاظت کی کوشش کی مگر آج میری قوم کے افراد نے مجھے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ یا اپنے بھتیجے سے الگ ہوجا اور اگر الگ ہونے کیلئے تیار نہیں تو ہم آپ کی سرداری کو بھی جواب دے دیں گے، اب ہم میں برداشت کی زیادہ طاقت نہیں رہی۔ ابوطالب کیلئے یہ ایک ایسا امتحان کا وقت تھا کہ باتیں کرتے کرتے انہیں رقت آگئی اور ان کی تکلیف کو دیکھ کر رسول کریم ﷺ کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہوگئے۔ مگر آپ نے فرمایا اے چچا! میں آپ کے احسانات کو بھول نہیں سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ آ پ نے میری خاطر بڑی بڑی قربانیاں کیں۔ لیکن اے چچا ! مجھے خداتعالیٰ نے اس کام کیلئے مقرر کیاہے۔ اگر آپ کو اپنی تکلیف کا خیال ہے تو اپنی پناہ واپس لے لیں۔ خدا نے مجھے سچائی دی ہے جسے میں کبھی چھوڑ نہیں سکتا۔ اگر وہ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لاکر رکھ دیں تب بھی میں اُس تعلیم کو نہیں چھوڑ سکتا جو خداتعالیٰ کی طرف سے مجھے ملی ہے۔ یہ الفاظ کوئی معمولی الفاظ نہیں تھے۔ آج بھی یورپ کے معاند مؤرخین جب رسول کریم ﷺ کے واقعات لکھتے ہوئے اس مقام پر پہنچتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور وہ یہ لکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد صاحب جھوٹ بولنے والے نہ تھے اور انہیں اس تعلیم کی سچائی پر پورا یقین تھا جو وہ لائے تھے۔ پھر ابوطالب کا کیاحال ہوا ہوگا جس نے خود محمد ﷺ کی زبان سے یہ کلمات سُنے۔ ابوطالب مسلمان نہ تھے مگر جس وقت انہوں نے سچائی کے متعلق محمد ﷺ کا یہ یقین دیکھا تو وہ بے اختیار کہہ اُٹھے کہ اے بھتیجے! مجھے قوم کی کوئی پروا ہ نہیں میں تیرے ساتھ ہوں تُو شوق سے اپنا کام کرتا چلا جا۔ ۳؎
غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر سچائی کا وہ مادہ رکھا ہے کہ سچائی پر قائم ہوتے ہوئے انسان کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔ جانور بھی جھوٹ نہیں بولتا، جھوٹ صرف انسان کی ایجاد ہے۔ مگر جانور کا سچ بالکل اور قسم کاہوتا ہے۔ اس کا سچ طبعی ہوتا ہے مگر انسان کا سچ ایمانی ہوتا ہے۔ اس لئے جو انسان راستباز ہوتا ہے وہ ساری دنیا کے مقابلہ میں اکیلا کھڑا ہوجاتا ہے اور اس بات کی کوئی پروا ہ نہیں کرتاکہ اس کے مقابلہ میں ایک کروڑ آدمی ہیں یا دس کروڑ ۔ وہ نظارہ دنیا کیلئے ایک حیرت انگیز نظارہ ہوتا ہے کہ ایک انسان کھڑے ہوکر ساری دنیا کو چیلنج کررہا ہوتا ہے۔ مگر وہ کیا چیز ہے جو اس کے پیچھے ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے صرف حق ہوتا ہے جس کی طاقت پر وہ ساری دنیا کو للکارتا ہے۔ غرض یہ خاصیت اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندرپید اکی ہے کہ وہ سچائی کا کامل نمونہ ہوتا ہے۔
پھر الحق کے دوسرے معنی دنیا کو قائم رکھنے والے کے ہیں اور اس کا بہترین نمونہ بھی انبیاء علیہم السلام کا وجود ہوتا ہے۔ جب خداتعالیٰ کا غضب دنیا کے گناہوں کی وجہ سے بھڑکنے والا ہوتا ہے تو اُس وقت خداتعالیٰ کا الحق ہونا فوراً اپنے نبی کی طرف نگاہ دوڑاتا ہے اور کہتا ہے اس وجود کے ہوتے ہوئے میں اس دنیا کو کیونکر تباہ کردوں۔ پس ان کا وجود دنیا کیلئے ایک حرز اور تعویذ ہوتا ہے اور ان کی وجہ سے دنیا بہت سے مصائب اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بننے سے محفوظ رہتی ہے۔ اسی طرح لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَہے۔ یہ توحید کا مقام بھی ایسا ہے کہ جو شخص اس مقام کو دیکھ لیتا ہے خود توحید کے مقام پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ آپ کہیں گے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان اللہ تعالیٰ کی توحید کا مظہر ہوجائے۔ مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا آپ لوگوں کیلئے مشکل ہو۔ بالکل قریب زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ الہام نازل ہوچکا ہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ ۴؎ کہ اے مسیح موعود! تیرا میرے ساتھ وہی تعلق ہے جو توحید کا مجھ سے تعلق ہے۔ گویا تو لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَکا مظہر ہے اور مجھے لَآاِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ پیارا ہے۔ اسی طرح مجھے تُو پیارا ہے۔ تو توحید کے مقام کے یہ معنے ہیں کہ جس مقام پر پہنچ کر اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کردیتا ہے کہ اب دنیا میں میرا پیار ا صرف ایک ہی وجود ہے اس کے سوا میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ یہ وہی بات ہے جو بعض احادیث قدسیہ میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْـلَاکَ۵؎ کہ اے محمد ﷺ! ساری دنیا تیری مٹھی میں آگئی ہے۔ جدھر تیرا ہاتھ اُٹھے گا اُدھر ہی میرا ہاتھ اُٹھے گا۔ جدھر تیری نظر ہوگی اُدھر ہی میری نظر ہوگی۔ یہ توحید کا مقام ہے جو اصل مقام تو محمد ﷺ کا ہے لیکن ظلی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی یہ مقام حاصل ہوا ہے۔ پھر یوں بھی رسول کریم ﷺ توحید کے مظہر تھے کہ جیسی توحید محمد ﷺ نے قائم کی ایسی توحید قائم کرنا تو الگ رہا کسی دوسری قوموں نے اِس رنگ میں توحید کو سمجھا بھی نہیں۔ یہ اس تفصیل کا موقع نہیں ورنہ میں بتاتا ہے کہ دنیا نے توحید کو سمجھا ہی نہیں۔ توحید وہی ہے جو رسول کریم ﷺ نے بیان فرمائی ۔ پھر یہ بھی توحید کا مقام تھا کہ رسول کریم ﷺسیّد وُلْدِ آدم تھے یعنی دنیا کے تمام انسانوں میں سے افضل و اعلیٰ ہیں اور آئندہ بھی کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جننا جو آپ کے درجہ کی بلندی کو پہنچ سکے۔ پھر اس لحاظ سے بھی آپ توحید کے مقام پر تھے کہ خداتعالیٰ کے حضور اُس کی توحید سے آپ نے ایسا تعلق قائم کیا کہ دنیا وَمَافِیْھَا آپ کی نظروں سے غائب ہوگئے اور خدا ہی خدا آپ کو نظر آنے لگ گیا۔ گویا ایک آپ کا وجود تھا اور ایک خدا کا۔ انسانی وجودوں میں سے واحد وجود آپ کا تھا اور خدا تو ایک ہے ہی۔ اور پھر اس لحاظ سے بھی آپ توحید کے مقام پر تھے کہ توکّل کا اعلیٰ مقام آپ کو حاصل تھا اور آپ کی نظر خدا کے سوا اور کسی کی طرف نہ اُٹھتی تھی۔
پھر صفت ربّ العٰلمین کا مادہ بھی خداتعالیٰ نے انسان میں پیدا کیا اور اسے اتنا وسیع کیا، اتنا وسیع کیا کہ ہر ماں اور ہر باپ اپنے بچہ کی ربوبیت کررہا ہے۔ پھر محمد ﷺ کو دیکھو تو تمہیں نظر آئے گا کہ آپ اس صفت کے کامل مظہر تھے اور دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے احسان سے باہر رہ گئی ہو۔ مخلوق میں سے اہم جنس حیوان ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف انسانوں پر رحم کیا بلکہ آپ کے دائرہ شفقت میں دوسرے حیوانات بھی آگئے اور آپ نے ان کی بہتری کیلئے اپنی اُمت کو کئی احکام دیئے ہیں۔ مثلاً آپ نے فرمایا کہ آزاد جانور کو باندھ کر مت رکھو اور اگر باندھ کر رکھتے ہو تو ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرو۔ اس حکم کے ماتحت ہر شخص جو کسی جانور کو اپنے گھر میں باندھ کر رکھتا ہے وہ اس بات پر مجبور ہے کہ اسے کھانے پینے کیلئے دے اور اگر نہیں دے گا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ دوزخ میں جائے گا۔۶؎ پھر جانورں پر آپ نے اس قدر رحم کیا کہ فرمایا کسی جانور کو کسی دوسرے جانور کے سامنے ذبح مت کرو تا اسے تکلیف نہ ہو۔۷؎ کسی جانور کو کند چھری سے ذبح نہ کرو۔۸؎ اسی طرح جانور کو باندھ کر نشانہ بنانے سے منع کیا۔۹؎ جانور پر طاقت سے زیادہ بوجھ لادنے سے روکا۔۱۰؎ اسی طرح منہ پر داغ دینے کی ممانعت کی اور فرمایا اگر داغ لگانا ہی ہو تو پیٹھ پر لگائو۔ ۱۱؎ غرض جو فرائض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانوروں کیلئے مقرر ہیں ان کے سوا باقی ہرقسم کی تکلیف سے آپ نے انہیں محفوظ کردیا اور پھر جو زیادہ سے زیادہ رحم جانوروں پر کیا جاسکتا تھا وہ بھی آپ نے کیا اور فرمایا جو جانور پالتو نہیں دانے وغیرہ چگتے رہتے ہیں اُن کو دانے وغیرہ ڈال دینا بھی ثواب کا موجب ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ایک شخص تھا جو جانوروں کو دانے ڈالا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ نیکی ایسی پسند آئی کہ اس نے اسی نیکی کے عوض اسے اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔۱۲؎
غرض آپ کے احسانات سے حیوانات بھی باہر نہیں اور انسان باہر نہیں۔ انسانوں میں سے مرد اور عورت کو لے لو۔ پہلی قوموں نے مردوں کے متعلق بے شک قوانین تجویز کئے تھے مگر عورتوں کے حقوق کا انہوں نے کہیں ذکر نہیں کیا تھا۔ رسول کریم ﷺ وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے یہ تعلیم دی کہ جیسے مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمہ ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ہیں۔ وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۱۳؎ جس طرح عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں، اسی طرح عورتوں کے بھی بہت سے حقوق ہیں جو مردوں کو ادا کرنے چاہئیں۔ پھر ہر شعبہ زندگی میں عورت کی ترقی کے راستے آپ نے کھولے۔ اسے جائداد کا مالک قرا ردیا، اس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھا، اس کی تعلیم کی نگہداشت کی ، اس کی تربیت کا حکم دیا اور پھر فیصلہ کردیا کہ جس طرح جنت میں مرد کیلئے ترقیات کے غیرمتناہی مراتب ہیں اسی طرح جنت میں عورتوں کیلئے بھی غیرمتناہی ترقیات کے دروازے کھلے ہیں۔ پھر مردوں کی مختلف شاخیں ہیں۔ کبھی مرد بحیثیت باپ ہوتا ہے، کبھی مرد بحیثیت بھائی ہوتا ہے، کبھی مرد بحیثیت بیٹا ہوتا ہے اور کبھی مرد بحیثیت خاوند ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت کبھی بحیثیت ماں ہوتی ہے، کبھی بحیثیت بیٹی ہوتی ہے، کبھی بحیثیت بہن کے اور کبھی بحیثیت بیوی کے۔ پھر مرد کبھی معلم ہوتا ہے کبھی متعلم۔ عورت بھی کبھی معلمہ ہوتی ہے اور کبھی متعلّمہ۔ پھر عورت کبھی دودھ پلانے والی ہوتی ہے اور کبھی دودھ پینے والی۔ کبھی مرد دود ھ پِلوانے والا ہوتا ہے اور کبھی خود دودھ پینے والا یعنی چھوٹا بچہ ہوتا ہے۔ پھر مرد عورت خریدار بھی ہوتے ہیں اور بیچنے والے بھی ہوتے ہیں ۔ وہ محنت کرنے والے بھی ہوتے ہیں اور مزدوری دینے والے بھی ہوتے ہیں۔ معاہدہ کرنے والے بھی ہوتے ہیں اور معاہدہ لینے والے بھی ہوتے ہیں۔ حاکم بھی ہوتے ہیں اور محکوم بھی ہوتے ہیں۔ غرض ہر قسم کی زندگی مردوں سے بھی تعلق رکھتی ہے اور عورتوں سے بھی۔ ان تمام شعبوں میں خداتعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے ذریعہ مردوں کو بھی احکام دیئے اور عورتوں کو بھی۔
پھر انسانوں میں قوموں،مذہبوں اور حکومتوں کے تفاوت کے لحاظ سے اختلاف ہوتا ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے لڑائیاں ہوتی ہیں۔ مگر جہاں گھمسان کی لڑائی ہورہی ہوتی ہے ، جہاں کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا وہاں محمد ﷺ کے ذریعہ یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ بے شک میرے ماننے والے مسلمان ہیں اور نہ ماننے والے کافر مگر دیکھو میں رب العٰلمین کا مظہر ہوں۔ دیکھنا ان کفار میں سے کسی عورت کو نہ مارنا، دیکھنا ان میں سے کسی بچے کو نہ مارنا، دیکھنا ان کے کسی پنڈت، پادری یا راہب کو قتل نہیں کرنا، دیکھنا باغات نہ جلانا، معبد نہ گرانا، پھل دار درخت نہ کاٹنا۔ دیکھنا جھوٹ اور فریب سے کام نہ لینا، دیکھنا کسی ایسے شخص کو قتل نہیں کرنا جس نے تمہارے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیئے ہوں۔ دیکھنا زخمی کو نہ مارنا، دیکھنا کسی کو آگ سے عذاب نہ دینا، دیکھنا کفار کا مثلہ نہ کرنا اور ان کے ہاتھ پائوں نہ کاٹنا۔ یہ سب احکام جو رسول کریم ﷺ نے دیئے یہ مسلمانوں کیلئے تو نہیں تھے ، یہ کفار کیلئے تھے۔ آخر مسلمانوں نے مسلمانوں کے ناک، کان اور ہاتھ نہیں کاٹنے تھے انہوں نے مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر آگ میں نہیں جلانا تھا۔ وہ اگر مثلہ کرسکتے تھے یا آگ سے عذاب دے سکتے تھے تو کافروں کو ۔ پس یہ احکام مسلمانوں کی خیرخواہی کیلئے نہیں تھے بلکہ کفار کی خیرخواہی کیلئے تھے اور ان کے آرام اور بچائو کیلئے یہ سب سامان تھے۔ گویا تمثیلی زبان میں اگر ہم ان واقعات کو بیان کریں تو اس کا نقشہ یوں کھینچا جاسکتا ہے کہ مسلمان ایک لمبے عرصہ تک کفار کے مظالم برداشت کرنے کے بعد جب تلواریں سونت کر کفار پر حملہ آور ہوئے تو وہی محمد ﷺ جو مسلمانوں کو کفار سے لڑا رہے تھے، کیا دکھائی دیتا ہے کہ دشمنوں کے آگے بھی کھڑے ہیں اور مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ ان پر یہ سختی نہ کرو، وہ سختی نہ کرو۔گویا محمد ﷺ صرف مسلمانوں کے لشکر کی ہی کمان نہیں کررہے تھے بلکہ آپ کفار کے لشکر کی بھی کمان کررہے تھے اور اُسے بھی مسلمانوں کے حملہ سے بچارہے تھے۔ پس لڑائیوں میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صفت ربّ العٰلمین کا مظہر ہونے کا ثبوت نظر آرہا ہے۔
پھر غلاموں پر بھی آپ نے احسان کیا اور فرمایا جو شخص کسی غلام کو مارتا ہے وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کا فدیہ یہ ہے کہ وہ اسے آزاد کردے۔ آپ نے فرمایا اپنے غلام سے وہ کام نہ لو جو وہ کر نہیں سکتا اور اگر زیادہ کام ہو تو خود ساتھ لگ کر کام کرائو۔ اور اگر تم اس کیلئے تیار نہیں تو تمہارا حق نہیں کہ اس سے کام لو۔ اسی طرح اگر غلام کیلئے تمہارے منہ سے کوئی گالی نکل جاتی ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اسے فوراً آزاد کردو۔ غرض مزدور اور آقا کے لحاظ سے بھی آپ نے صفت رب العٰلمین کا مظہر بن کر دنیا کو دکھادیا۔ آپ نے ایک طرف مزدور کو کہا کہ اے مزدور تُو حلال کما اور محنت سے کام کر۔ اور دوسری طرف آقا سے کہا کہ اے محنت لینے والے! تُو حد سے زیادہ اس سے کام نہ لے اور اس کا پسینہ سُوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری اسے دے۔ اسی طرح تجارتوں کے متعلق اور لین دین کے معاملات کے متعلق بھی رسول کریم ﷺ نے احکام دیئے ہیں اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس پر رسول کریم ﷺ کا کوئی احسان نہ ہو۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ موجودہ لوگوں پر تو رسول کریم ﷺ نے یہ احسانات کئے ، آپ کے پہلوں پر کیا احسان ہیں؟ سو ایسے لوگوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے احسانات نہ صرف موجودہ نسل اور آئندہ آنے والی نسلوں پر ہیں بلکہ ان لوگوں پر بھی جو آپ سے پہلے گزر چکے ۔ آپ جس زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں تمام انبیاء پر مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے تھے۔ تم مجھے ایک ہی نبی ایسا بتادو جس پر کوئی الزام نہ لگایا گیا ہو۔ ہر نبی پر الزام لگا اور انہی قوموں نے ان پر الزام لگایا جو ان انبیاء کو ماننے والی تھیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی الزام لگا، حضرت دائود علیہ السلام پر بھی الزام لگا، حضرت سلیمان علیہ السلام پر بھی الزام لگا اور عیسائیوں نے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ سب نبی چور اوربٹ مار تھے۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نیکی بھی ان کی نگاہ میں کیا تھی۔ انہوں نے منہ سے تو کہہ دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بے گناہ تھے مگر تفصیلات میں وہ ان پر الزام لگانے سے بھی باز نہیں آئے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی کا گدھا بے پوچھے لے گئے اور اس پر سواری کرتے پھرے۔ لوگوں کو گالیاں دیتے تھے اور انہیں حرام کار اور بدکار کہتے تھے۔ وہ لوگوں کے گناہ اُٹھا کر صلیب پر لٹک گئے اور اس طرح نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ *** بنے اور تین دن دوزخ میں رہے۔ وہ لوگوں کے سوروں کے گلے بغیر ان کے مالکوں کو کوئی قیمت دینے کے تباہ کردیا کرتے تھے۔ یہ سب باتیں مسیحی کتب میں لکھی ہیں۔ پھر ہندوئوں کو لے لو۔ وہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندر کو اپنا اوتار مانتے ہیں ۔ مگر رام چندر جی کا سیتا سے جو سلوک بیان کرتے ہیں وہ اگر ایک طرف رکھ لیا جائے اور دوسری طرف ان کی بزرگی اور نیکی دیکھی جائے تویہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے اتنا بڑا ظلم کیا ہو۔ مگر وہ حضرت رام چندر کی طرف بے دریغ یہ ظلم منسوب کرتے جاتے ہیں۔ پھر حضرت کرشن ؑ کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مکھن چرا چرا کر لے جایا کرتے تھے حالانکہ وہ خداتعالیٰ کے نبی تھے۔ غرض تمام انبیاء پر بیسیوں الزامات لگائے جاتے تھے۔ یہ صرف محمد ﷺ کی ہی ذات ہے جس نے تمام انبیاء سے ان اعتراضات کو دُور کیا اور بتلایا کہ یہ لوگ نیک، پاک اور راستباز تھے۔ ان پر الزام نہیں لگانا چاہئے۔
پس رسول کریم ﷺ نے نہ صرف موجودہ اور آئندہ نسلوں پر احسان کیا بلکہ پہلے لوگوں پر بھی احسان کیا جو وفات پاچکے تھے اور ان کی قوموں پر بھی احسان کیا۔ جب ایک یہودی کو بتادیا جائے کہ تمہارے بزرگ تمام نقائص سے پاک تھے تو اس کی گزشتہ تاریخ کتنی صاف ہوجاتی ہے اور وہ کیسی خوشی کے ساتھ ان بزرگوں کے نمونہ پر چلنے کی کوشش کرے گا۔ یہی حال عیسائیوں کا ہے اور یہی حال دوسری قوموں کا ہے۔ پس رسول کریم ﷺ نے نہ صرف اپنی قوم کی ترقی کے راستے کھولے بلکہ دوسری قوموں کی روایات کو بھی صاف کیا اور ان کے سامنے بھی ان کے بزرگوں کے اعلیٰ نمونے پیش کئے جن کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے وہ عظیم الشان ترقی کرسکتے ہیں۔
پھر آپ نے ملائکہ پر بھی احسان کیا۔ طرح طرح کے الزام تھے جو ان پر لگائے جاتے تھے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ۱۴؎ کہ ملائکہ گنہگار نہیں ان کے اندر خداتعالیٰ نے انکار کا مادہ ہی نہیں رکھا۔ انہیں جو بھی حکم ہے اس کی وہ اطاعت کرتے ہیں۔ پس ان پر کسی قسم کا الزام لگانا اور یہ کہنا کہ انہوں نے بھی فلاں گناہ کیا سخت ظلم ہے۔
پھر رسول کریم ﷺ نے دنیا کے ہر گنہگار پر احسان کیا اور اس کے دل کو خوشی سے لبریز کردیا۔ رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے ساری دنیا یہ کہا کرتی تھی کہ گنہگار ہمیشہ کے دوزخ میں گرائے جائیں گے اور جو شخص ایک دفعہ جہنم میں چلا گیا پھر وہ وہاں سے نہیں نکل سکے گا۔ گویا دنیا گنہگاروں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کرتی تھی اور توبہ کا دروازہ اس پر بند بتلاتی تھی۔ مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا انسان کتنا ہی گنہگار ہوجائے، اللہ تعالیٰ اسے معاف کرنے کیلئے تیار ہے۔ بیشک گنہگاروں کے گناہ بہت بڑے ہیں مگر خداتعالیٰ کا رحم اس سے بھی بڑا ہے۔ پس تم اس بات سے مت گھبرائو کہ تم گناہوں میں ملوث ہو، تم توبہ کرو کہ خدا آج بھی تمہیں معاف کرنے کیلئے تیار ہے۔ کتنی امیدہے جو گنہگاروں کے دلوں میں رسول کریم ﷺ نے پیدا کردی۔ کتنی اُمنگ ہے جو آپ نے ان کے قلوب میں پید کردی۔غرض رب العٰلمین کی صفت اعلیٰ درجہ کے کمال کے ساتھ محمد ﷺ میں ظاہر ہوئی اور ان سے اُتر کر اُمت محمدیہ کے اور بہت سے اولیاء و صلحاء میں ظاہر ہوئی اور ظاہر ہوتی رہتی ہے۔
غرض یہ چاروں صفات جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں انہی کے ماتحت دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ اگر قانون نہ ہو اور پھر اس قانون کا نفاذ نہ ہو تو ہرگز امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر صحیح رنگ میں تربیت نہ ہو اور اہلی اور عائلی زندگی درست نہ ہو تب بھی امن مفقود ہوتا ہے اور کبھی سچی راحت انسان کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ دنیا میں محض حکومت کے قوانین کی پابندی سے امن قائم نہیں ہوتا بلکہ امن اُس وقت ہوتا ہے جب انسان کی اہلی او رعائلی زندگی ہر قسم کے جھگڑوں اور مناقشات سے پاک ہو۔ تم چوری نہیں کرتے، تم ڈاکہ نہیں ڈالتے، تم قتل اور خونریزی کے مرتکب نہیں ہوتے اور یہی چیز ہے جو حکومت تم سے چاہتی ہے۔ اسی طرح اگر تم لوگوں کا مال نہیں لُوٹتے تو حکومت کے قانون کی نظر میں تم پُرامن ہو لیکن اگر گھر میں تمہاری روزانہ لڑائی رہتی ہے تو حکومت کا کوئی قانون ایسا نہیں جو تمہیں اس لڑائی سے روکے۔ لیکن کیا اس لڑائی کو دور کئے بغیر امن ہوسکتا ہے؟ اگر میاں بیوی کے تعلقات اچھے نہیں اور اگر ان تعلقات کو اچھے رکھنے کے ذرائع موجود نہیں تو دنیا کی پُر امن سے پُر امن حکومت بھی افراد کیلئے پُر امن نہیں ہوسکتی۔ حکومت اپنے نظام سے یہ کردے گی کہ بازاروں میں قتل و خونریزی کو روک دے، وہ سرحدوں پر امن قائم کرسکتی ہے مگر وہ گھروں میں امن قائم نہیں کرسکتی۔ اگر دنیا میں مائیں اپنے بچوں کی اچھی تربیت نہ کریں اور بچے اپنی مائوں سے حسن سلوک نہ کریں۔ بھائی اپنی بہنوں سے محبت نہ کریں اور بہنیں اپنے بھائیوں سے عمدہ سلوک نہ کریں تو کیا کوئی حکومت ہے جو اس میں دخل دے سکے؟ کبھی کوئی حکومت اس میں دخل نہیں دے گی۔ مگر کیا کبھی اس کے بغیر امن قائم ہوسکتا ہے۔ تم بہتر سے بہتر قانون بنادو اور تعزیراتِ ہند تو کیا چیز ہے اس سے بھی اعلیٰ تعزیرات مقرر کردو، بہتر سے بہتر افسروں کا انتخاب کرو، اعلیٰ سے اعلیٰ فوجیں تیار کرو جو دشمنوں کو سرحدو ں پر ہی روک دیں اور اسے آگے بڑھنے نہ دیں۔ تم دیانتدار سے دیانتدار پولیس کے آدمی مقرر کرو لیکن اگر گھر میں بھائی بہن ناراض ہیں یا باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے ناراض ہے، خاوند بیوی سے اور بیوی خاوند سے خفا ہے تو کوئی قانون اس ناراضگی کو دور نہیں کراسکتا۔ اور جب تک یہ ناراضگی دور نہ ہو کوئی قانون گھروں میں امن اور دلوں میں اطمینان پیدا نہیں کرسکتا۔ نہ محبت قائم ہوسکتی ہے نہ صلح اور آشتی ہوسکتی ہے۔ نہ راحت میسر آسکتی ہے نہ آرام حاصل ہوسکتا ہے۔ اعلیٰ درجہ کے وزرا و امراء اور افسروں کی موجودگی کے باوجود عائلی اور اہلی زندگی کی خرابی اطمینان اور امن کو مٹادیتی ہے۔ ہاں جب تربیت صحیح ہو اور اہلی اور عائلی زندگی درست ہو تو پھر یہ دونوں چیزیں مل کر ایک حد تک امن قائم کرسکتی ہیں لیکن پھر بھی پورا امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک انسان کے اندر یہ اطمینان پیدا نہ ہو کہ میری زندگی عبث اور فضول نہیں۔ بے شک تم دنیا کا نظام اعلیٰ سے اعلیٰ بنادو، بے شک تم اپنی فوجوں کو مضبوط بنادو، بے شک اپنی طاقت کو اِس قدر بڑھالو کہ کوئی دشمن تم پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کرسکے، بے شک تمہاری پولیس نہایت ہوشیار اور فرض شناس ہو۔ پھر بے شک تمہاری اہلی زندگی بھی ہرقسم کی خلش سے پاک ہو ۔ بیوی خاوند کی عاشق ہو تو خاوند بیوی کا، بے شک ہمسایہ ہمسایہ کی خبرگیری کرنے والا ہو، بے شک اُستاد شاگر دسے محبت رکھتاہو اور شاگر استاد کی عظمت پہچانتا ہو، بیشک تاجر دیانتداری سے سَودا دیتے ہو اور بے شک ہرقسم کے آرام اور ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہوں لیکن اگر انسان کے دل میں یہ خلش موجود ہو کہ وہ کیوں پیدا کیاگیا اور اس کا کیا انجام ہے تو پھر بھی دنیا میں کبھی حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اس خلش کو دور کرنے کیلئے جب تک محمد ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم انسان کے سامنے پیش نہ کی جائے، جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نظارے اس کے سامنے نہ رکھ دیئے جائیں، جب تک ہم اُسے یہ بتا نہ دیں کہ یہی زندگی اس کا اصل مقصود نہیں۔ بلکہ اصل زندگی وہ ہے جب وہ مرنے کے بعد اپنے رب کے سامنے پیش کیا جائے گا اور خدا اُسے کہے گا کہ فَادْخُلِیْ فِی عِبَادِیْ وَادْ خُلِیْ جَنَّتِیْ۱۵؎ کہ اے میرے بندے میں نے تجھے بے انتہاء انعامات دینے ہیں۔ میں نے تیری روح ہمیشہ قائم رکھنی ہے۔ بے شک تیری دُنیوی زندگی ہزاروں مایوسیوں، ہزاروں ناکامیوں اور ہزاروں بیماریوں کی آماجگاہ تھی لیکن یاد رکھ کہ وہی تیری زندگی نہیں تھی بلکہ اصل زندگی وہ ہے جو اَب تجھے میں دیتا ہوں اور جو ہر قسم کی تکلیفوں اور ہر قسم کی ذلتوں اور ہر قسم کے تنزّل سے محفوظ ہے۔ آ اور اب میری جنت میں داخل ہوجا اُس وقت تک اس کا دل اطمینان حاصل نہیں کرسکتا۔ ہاں جب یہ خیال کسی کے دل میں پیدا ہوجاتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی عبث نہیں بلکہ یہ ایک اور عظیم الشان زندگی کا پیش خیمہ ہے اور اصل زندگی وہ ہے جو میری موت کے بعد شروع ہوگی۔ تب وہ اپنے دل میں حقیقی اطمینان اور حقیقی امن محسوس کرتاہے اور اُس وقت وہ صرف اپنی پیدائش پر ہی خوش نہیں ہوتا بلکہ اپنی موت پر بھی خوش ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ موت اس لئے نہیں کہ مجھے تباہ کرے بلکہ اس لئے کہ وہ مجھے چھوٹی جگہ سے اٹھا کر ایک بلندمقام پر پہنچادے۔ کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کوئی شخص تحصیلدار سے ای اے سی ہوگیا ہو یا ڈپٹی کمشنر سے کمشنر ہوگیا ہو یا کمشنر سے فنانشل کمشنر ہوگیا ہو یا فنانشل کمشنر نے گورنر ہوگیا ہو اور وہ بجائے خوش ہونے کے رونے لگ گیا ہو۔ اسی طرح مومن اپنی موت پر روتا نہیں بلکہ خوش ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھے انعامات ملنے کا وقت آگیا۔ لیکن جو شخص روتا ہے وہ اس لئے روتا ہے کہ اس نے زندگی محض دُنیوی حیات کو سمجھ رکھا تھا اور اس نے دیکھا کہ اس زندگی کا بیشتر حصہ ناکامی اور بدمزگی میں گزرگیا اور اسے کچھ بھی لُطف نہ آیا۔ مگر جو شخص جانتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی ایک امتحان کا کمرہ ہے۔ وہ اس کمرہ سے نکلتے وقت خوشی محسوس کرتا ہے۔ جس طرح وہ لڑکاجو اچھے پرچے کرکے آتا ہے خوش ہوتا ہے، اسی طرح مومن جب دنیا کے امتحان کے کمرہ سے اچھے پرچے کرکے نکلتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے ایک رحیم ہستی میرے سامنے ہے جس نے مجھ سے بے انتہا انعامات کا اقرار کیا ہوا ہے۔ اب میں اس کے پاس جائوں گا اور اس سے انعام لوں گا۔ جیسے یونیورسٹی کی ڈگریاںلینے کیلئے جب طالب علم جاتے ہیں تو وہ بھڑکیلے لباس اور گائون وغیرہ پہن کر جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ مومن جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اُس کے عظیم الشان فضلوں پر ایمان رکھتا ہے جب مرنے لگتا ہے تو اُس کا دل بلیوں اُچھل رہا ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں اپنے ربّ کے پاس ڈگری لینے چلا ہوں، میں اپنے رب سے انعام لینے چلا ہوں۔جب تک یہ امید انسان کے دل میں پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک دنیا میں کبھی بھی حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا۔
غرض انسان میں اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان قابلتیں رکھی ہیں اور اس کا یہ فرض مقرر کیا ہے کہ وہ ان چار صفات کا مظہر بنے۔ مگر یہ کام ہو نہیں سکتا جب تک ایک نظام نہ ہو۔ اسی نظام کو قائم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو بھیجتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان کے ذریعہ ایسی حکومت قائم کرے جن کے افراد انہی صفات کے مالک ہوں جو اُس نے بیان کی ہیں۔ پس جب تک کوئی شخص ان تمام ذمہ واریوں کو سمجھ کر مذہب قبول نہیں کرتا اُس وقت تک اس کا مذہب میں شامل ہونا یا نہ ہونا برابر ہوتاہے۔ اور اسے بعض دفعہ ایسی ٹھوکر لگتی ہے کہ اس کی زندگی محض ایک لطیفہ بن کر رہ جاتی ہے۔
تھوڑے ہی دن ہوئے میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا کہ اس میں ایک لطیفہ آگیا۔لکھا تھا کہ ایک شخص نے جو سخت بھوکا تھا یک دفعہ چند لوگوں کو جو اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہیں جاتے دیکھا۔ اس نے خیال کیا کہ یہ غالباً دعوت پر جارہے ہیں میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوجائوں۔ جب یہ کھانا کھانے لگیں گے تو میں بھی وہیں سے کھانا کھالوں گا۔ چنانچہ وہ ان کے ساتھ شامل ہوگیا۔ جاتے جاتے وہ بادشاہ کے دربار میں پہنچے اور انہوں نے اس کی تعریف میں قصائد پڑھنے شروع کردیئے۔ تب اُسے پتہ لگا کہ یہ تو شاعر ہیں اور اپنے اپنے قصائد سنانے آئے ہیں۔ چنانچہ ہر شاعر نے اپنی اپنی باری پر اُٹھ کر قصیدہ سنانا شروع کردیا۔ یہ اب سخت حیران ہوا کہ میں کیا کروں۔ شعر کہنے کی اس میں قابلیت نہیں تھی مگر طبیعت لطیفہ سنج تھی۔ جب سب شاعراپنے اپنے قصائد سنا چکے اور بادشاہ سے انعا م لے کر گھروں کو روانہ ہوگئے تو بادشاہ اُس سے مخاطب ہوا اور کہا کہ اب آپ قصیدہ شروع کریں۔ یہ کہنے لگا حضور! میں شاعر نہیں ہوں۔ بادشاہ نے پوچھا کہ پھر آپ یہاں کیوں آئے ہیں! وہ کہنے لگا حضور میں وہی ہوں جس کا قرآن کریم میں اس طرح ذکر آتا ہے کہ وَالشُّعَرَائُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاوٗنَ ۱۶؎ کہ شاعروں کے پیچھے غاوی آیا کرتے ہیں ۔ وہ شاعر تھے اور میں غاوی ہوں۔ قرآن کریم کی اس آیت کا تو یہ مطلب ہے کہ شاعروں کے پیچھے چلنے والے گمراہ لوگ ہوتے ہیں۔ کیونکہ شاعر کوئی حقیقت بیان نہیں کرتے۔ کبھی رنج کی بات پر شعر کہہ دیں گے، کبھی خوشی کی بات پر، کبھی کچھ کہہ دیتے ہیں کبھی کچھ۔ ان کا کوئی اصول نہیں ہوتا۔ تو ایسے لوگوں کے پیچھے چلنے والے غاوی ہی ہوتے ہیں۔ نیک آدمی جو حقیقت کا متلاشی ہوتا ہے شعراء کے پیچھے نہیں جاتا۔ لیکن اُس نے اپنی بات میں لطیفہ پیدا کرنے کیلئے کہا کہ شاعروں کے پیچھے غاوی آیا کرتے ہیں، آپ مجھے غاوی سمجھ لیجئے ۔ بادشاہ کو اُس کا یہ لطیفہ پسند آگیا اور اُس نے حکم دے دیا کہ اسے بھی کچھ انعام دے دیا جائے۔ یہ تو ایک لطیفہ ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسا آدمی جو مذہب کی حقیقت کو سمجھ کر مذہب میں شامل نہیں ہوتا، غاوی ہی ہوتا ہے۔ وہ چند مسائل سنتا ہے اور سمجھتا ہے کہ احمدیت انہی چند مسائل کو مان لینے کا نام ہے۔ وہ مسلمان ہوتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مسلمان ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھ لیا جائے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کی تفسیر سارا قرآن ہے۔ اس سارے قرآن پر عمل کئے بغیر وہ کس طرح مسلمان ہوسکتا ہے۔ جس طرح انسان کسی ایک عضو کا نام نہیں بلکہ انسان مجموعہ ہے ناک کا، کانوں کا، آنکھوں کا، منہ کا، گردن کا ، سر کا، سینہ کا، دھڑ کا، ہاتھوں کا اور پائوں وغیرہ کا اور ان میں سے کوئی چیز الگ نہیں ہوسکتی۔ نہ ہاتھ الگ ہوسکتے ہیں نہ پائوں الگ ہوسکتے ہیں۔ نہ سر الگ ہوسکتا ہے نہ دھڑ الگ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ نے سے بے شک انسان کو مسلمان کا نام حاصل ہوجاتا ہے مگر یہ ایسا ہی نام ہے جیسے اعضاء کے مجموعہ کا نام انسان ہے۔ جس طرح ان اعضاء کے بغیر انسان نہیں، اسی طرح ان تفاصیل کے بغیر اسلام نہیں۔ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ایک مفرد شَے نہیں بلکہ وہ چار اعضائے روحانی کا نا م ہے۔ الملک کے بروز کا اور الحق کے بروز کا اور توحید کے بروز کا اور ربوبیت کے بروز کا۔ یعنی انسان کو لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہنے والا تب کہا جاسکتا ہے جب وہ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۔الرَّحْمٰنِ۔ الرَّحِیْمِ اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کا مظہر ہو۔ اگر کوئی شخص ان صفات کو اپنے اندر پید انہیں کرتا اور محض زبان سے لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہے چلا جاتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی ایسی چیز کو آدمی آدمی کہتا رہے جس کانہ دل ہو نہ دماغ ہو نہ منہ ہو۔ یہ لوگ بھی گویا غاوی ہوتے ہیں جو احمدیت میں داخل تو ہوجاتے ہیں مگر نہیں سمجھتے کہ احمدیت میں داخل ہونے کے کیا اغراض و مقاصد ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان پر کس قدر ذمہ واریاں عائد ہونے والی ہیں۔ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ احمدیت میں داخل ہوکر ہمیں اِس دنیا میں کچھ انعام مل جائے گا اسی لئے جب انہیں کوئی کام بتایا جاتا ہے، جب ان پر کوئی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تویہ خیال نہیں تھا کہ احمدیت میں داخل ہوکر اِس قدر بوجھ پڑ جائیں گے۔ ہم نے تو سمجھا تھا کہ ہم جب احمدی ہوگئے تو ہمیں انعام مل جائے گا۔ حالانکہ جس دن وہ احمدیت میں داخل ہوئے تھے وہ اِس لئے نہیں ہوئے تھے کہ ان میں انعام تقسیم کیاجائے گا بلکہ اس لئے ہوئے تھے کہ وہ اپنی جانیں اور اموال سلسلہ کیلئے قربان کردیں گے۔ پس جب لوگوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ آئو اور مسلمان ہوجائو یا یہ کہا جاتا ہے کہ آئو اور احمدی ہوجائو تو اِس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ آئو اور روٹیاں کھائو۔ بلکہ اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ آئو اور سر کٹوائو۔ اور جب کوئی شخص سر کٹوانے آگیاتو اسے انعام کی ہوس کہاں رہی۔ کہتے ہیں ’’جب اوکھلی میں سر دیا تو موہلوں کا کیا ڈر۔‘‘ جب کوئی شخص اوکھلی میں اپنا سر دے دیتا ہے تو اسے اس بات کا کیا خوف ہوسکتا ہے کہ وہ پیسا جاتا ہے یا کچلا جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بار بار رسول کریم ﷺ سے فرماتا ہے کہ تُو لوگوں پر کوئی جبر کرنے والا نہیں۔ اگر کسی شخص پر جبر کیا جائے اور اُسے زبردستی مذہب میں داخل کیا جائے تو وہ بعد میں کہہ سکتا ہے کہ میں اپنی خوشی سے شامل نہیں ہوا، تم نے جبرکیا اور میں نے مان لیا۔ لیکن جب ہم دلائل دیتے ہیں اور دلائل پیش کرکے کہتے ہیں کہ جس کا جی چاہتا ہے ان دلائل کو سُن کر ہمارے اندر شامل ہوجائے اور جس کو شرح صدر نہیں وہ شامل نہ ہو تو اس کے بعد جو شخص ہمارے اندر شامل ہوتا ہے وہ یہ ارادہ لے کر آتا ہے کہ میں اپنا سر دے دوں گا مگر اس راستہ سے جس کو میں نے سچا تسلیم کرلیا ہے پیچھے قدم نہیں ہٹائوں گا۔ پھر جو شخص سر دے دیتا ہے اس کا یہ حق کہاں باقی رہ جاتا ہے کہ وہ کسی حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کرسکے۔ہاں یہ سر دینا جاہلانہ نہ ہو کہ خودکشی کی اور مرگئے۔ بلکہ سر دینے سے مراد اپنے جذبات کی قربانی ، اپنے احساسات کی قربانی، اپنے علم کی قربانی، اپنے اموال کی قربانی اور اپنی خواہشات کی قربانی ہے۔ البتہ اگر کسی وقت تلوار سے جہاد بھی شروع ہوجائے تو اُس وقت ظاہری طور پر اپنی جانیں قربان کرنا بھی ضروری ہوگا لیکن ایسا جہاد بہت کم ہوتا ہے۔ اور یہ جہاد انسانی زندگی کا کروڑواں حصہ بھی نہیں۔ اگر حساب لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی زندگی کا کروڑ منٹ اور کاموں میں خرچ ہوا ہے مگر ایک منٹ صرف جہاد پر خرچ ہوا ہے۔ پس سر کٹوانے سے وہ سرکٹوانا مراد نہیں بلکہ اپنے نفس کی کُل طاقتوں کو خداتعالیٰ کے احکام کے تابع کردینا ہے اور انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے نفس کو کلیۃً تابع کردے۔ ربّ العٰلمین کی صفت کے ماتحت وہ اپنے نفس کو کُلّیۃً تابع کر دے، رحمن کی صفت کے ماتحت وہ اپنے نفس کو کلیۃً تابع کردے، رحیم کی صفت کے ماتحت وہ اپنے نفس کو کلیۃًتابع کردے۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صفت کے ماتحت۔ جو جماعت اور جو قوم یہ کام کرلیتی ہے وہی کامیابیاں اور عروج دیکھنے کی مستحق ہوتی ہے اور یہی غرض میری تحریک جدیدسے ہے۔ چنانچہ تحریک جدید کے تمام مطالبات اسی لئے ہیں کہ تم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنائو۔ مثلاً جب میں نے کہا جائو اور باہر تبلیغ کیلئے نکل جائو تو میںنے یہ حکم ربّ العٰلمینکی صفت کے ماتحت دیا اور اس لئے دیا تا تم بھی صفت ربّ العٰلمین کے مظہر بن جائو۔ کیونکہ کچھ قومیں پیاسی ہیں انہیں پانی پلائو، وہ تاریکیوں میں بھٹکتی پھررہی ہیں تم انہیں وہ نور پہنچائو جو خداتعالیٰ نے تمہیں دیا ہے اور جس طرح ربّ العٰلمین تمام جہان کی ربوبیت کرتا ہے اسی طرح تم بھی نکلو اور تمام دنیا کو اپنی روحانی تربیت کی آغوش میں لے لو۔
پھر جب میں نے چندے کی تحریک کی تو وہ بھی ربّ العٰلمیناور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صفت کے ماتحت تھی۔ کیونکہ ملک کیلئے خزانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور کوئی قوم اُس وقت تک اپنا نظام درست نہیں کرسکتی جب تک اُس کے پاس خزانہ موجود نہ ہو۔ پھر جب میں نے امانت فنڈ کی تحریک کی تو وہ بھی صفت ربّ العٰلمین کے ماتحت کی کیونکہ ربّ العٰلمین کی صفت اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ سب زمانوں پر نظر رکھی جائے اور آج کی ضرورتوں کے پورا کرنے کا ہی خیال نہ کیا جائے بلکہ کل کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ربّ العٰلمینہے، اس نے یہ نہیں کیا کہ جن چیزوں کی انسان کو ضرورت ہے وہ اُس نے آج پیدا کی ہوں بلکہ کروڑوں کروڑ سال پہلے اُس نے یہ چیزیں تیار کرنی شروع کردی تھیں۔ اسی طرح ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم بھی کل کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کیلئے آج سے تیاری شروع کردیں اور اسی وجہ سے میں نے امانت کی تحریک جاری کی۔
پھر جب میں نے کہا کہ اپنے ہاتھوں سے کام کرو تو یہ بھی ربّ العٰلمین کی صفت کے ماتحت تھا۔ کیونکہ ربّ العٰلمین کے کی صفت کے ماتحت کوئی شخص اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرنے والا نہ ہو۔ ربوبیت کا تعلق ماں باپ والی خدمت سے ہے اور ماں باپ کی خدمت چندہ سے نہیں بلکہ ہاتھوں سے ہوتی ہے۔ بعض بیمار مائیں بے شک اپنے بچہ کو دودھ نہیں پلاتیں اور وہ اس بات پر مجبور ہوتی ہیں کہ نوکروں سے خدمت لیں۔ مگر تندرست مائیں ہمیشہ اپنے بچوں کی اپنے ہاتھ سے خدمت کرتی ہیں۔ خواہ ان کے ایک نہیں دس، پچاس اورسَو نوکر بھی ہوں۔ ملکیت کی زندگی کے ماتحت بے شک خدمتگاروں سے کام لیا جاسکتا ہے مگر صفت ربّ العٰلمین کے ماتحت ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے کام کرے۔ محمد ﷺ جن کے قدموں کے نیچے ہزاروں انسان اپنی آنکھیں بچھانے کیلئے تیار تھے اور جن کی خدمت کیلئے ہزاروں لوگ موجود تھے، انہیں جب ہم اہلی زندگی میں دیکھتے ہیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ رسو ل کریم ﷺ ایک موقع پر جھکتے ہیں اور فرماتے ہیں عائشہؓ! میری پیٹھ پر پیر رکھ کر فلاں نظارہ دیکھ لو۔ ۱۷؎ پھر آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تو حضرت حسنؓ جو ابھی چھوٹے بچے تھے آتے اور جب آپ سجدہ میں جاتے تو گردن پر چڑھ کر بیٹھ جاتے۔ جب آپ سجدہ کے بعد کھڑے ہونے لگتے تو انہیں اپنی گودی میں لے لیتے۔ پھر رکوع میں جاتے تو اُتار دیتے اور جب پھر سجدہ میں جاتے تو وہ پھر آپ کی پیٹھ پر بیٹھ جاتے۔ صحابہ ایک دفعہ یہ دیکھ کر حضرت حسنؓ پر ناراض ہوئے تو آپ نے فرمایا رہنے دو بچوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ان کے شفیق بنو۔۱۸؎
غرض گو دنیا جہان کیلئے محمد ﷺ قربانی کررہے تھے اور دنیا جہان بھی آپ کیلئے ہر چیز قربان کرنے کیلئے تیار تھی مگر حضرت حسن کے ساتھ سلوک ایک جداگانہ رنگ رکھتا تھا۔ جو سلوک آپ سے حسنؓ کرتے تھے کسی اور کا بچہ کرتا تو شاید وہ باپ اپنے بچہ کو مار مار کر اَدھ موا کردیتا۔ کیونکہ یہاں صرف ایمان کا سوال نہیں تھا بلکہ اہلی زندگی کا بھی سوال تھا۔ غرض ربوبیت کے مرکز میں آکر ہاتھوں سے کام کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہی تحریک جدید میں مَیں نے جماعت سے مطالبہ کیا کہ اپنے ہاتھوں سے کام کرو اور اسی طرح کرو کہ جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کا کام کرتے ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہی عورت جو اپنے ہاتھ سے اپنا ناک پونچھنے میں بھی ہتک محسوس کرتی ہے اور بغیر رومال کے اُسے صاف نہیں کرتی جب دیکھتی ہے کہ اُس کے بچے کاناک بہہ رہا ہے تو کس طرح فوراً اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کا نام اپنے ہاتھ سے صاف کردیتی ہے۔ وہ بادشاہ جو اُٹھ کر اپنے ہاتھ سے پانی لینا بھی برداشت نہیں کرسکتے بچوں کو اپنی گودی میں اُٹھائے پھرتے ہیں۔ تو اپنے ہاتھوں سے بنی نوع انسان کی خدمت کرنا یہ ربوبیت کا حصہ ہے اور ہر شخص جو صفت ربّ العٰلمین کا مظہر بننا چاہتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ یہ کام کرے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ پیسے لے لو مگر ہاتھ سے کام نہ لو وہ ملکیت کا مظہر تو بنتا ہے مگر ربّ العٰلمین کا مظہر نہیں بنتا۔ حالانکہ ربوبیت کا مادہ فطرتِ انسانی میں داخل ہے۔ ایک زمیندار بے شک ٹیکس ادا کرتا ہے مگر کوئی زمیندار اس امر کو برداشت نہیں کرسکتا کہ گورنمنٹ کچھ ٹیکس بڑھادے اور اس کے بچوں کی پرورش کا ذمہ خود لے لے۔ وہ کہے گا ٹیکس بے شک بڑھادو مگر بچہ کی خدمت مَیں ہی کروں گا اور کسی کو نہیں کرنے دوں گا۔
روس میں کئی دفعہ محض اس بات پر بغاوت ہوگئی ہے کہ حکومت کہتی ہے کہ قوم کے بچوں کو ہم پالیں گے اور ان کی پرورش حسب منشاء کریں گے اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی خود پرورش کریں گے تمہارے سپرد نہیں کرسکتے۔ حکومت کے افسر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے بچوں کو عمدہ سے عمدہ مکانوں میں رکھیں گے۔ اچھی سے اچھی غذا کھلائیں گے تم ان کی پرورش ہمارے ذمہ رہنے دو مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم خواہ بھوکے مریں یا فاقے برداشت کریں بچوں کو اپنی گودی سے نہیں اتاریں گے۔ غرض ملکیت کے ماتحت چندے دیئے جاتے ہیں لیکن ربوبیت کے ماتحت ہاتھوں سے خدمت کی جاتی ہے۔ تم اپنے بچے کو اس لئے گودمیں نہیں اُٹھاتے کہ اس کو اُٹھاے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔ اگر تمہارے ہزار خادم بھی ہوں تب بھی تم اپنے بچے کو خود اٹھائو گے کیونکہ ربوبیت تمہاری فطرت میں داخل ہے۔
مجھے ایک نظارہ کبھی نہیں بھولتا میں اُس وقت چھوٹا سا تھا، سولہ سترہ سال کی عمر تھی کہ اُس وقت ہماری ایک چھوٹی ہمشیرہ جو چند ماہ کی تھی فوت ہوگئی اور اُس کو دفن کرنے کیلئے اِسی مقبرہ میں لے گئے جس کے متعلق احرار کہتے ہیں کہ احمدی اس میں دفن نہیں ہوسکتے۔ جنازہ کے بعد نعش حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں پر اُٹھالی۔ اُس وقت مرزا اسماعیل بیگ صاحب مرحوم جو یہاں دودھ کی دکان کیا کرتے تھے آگے بڑھے اور کہنے لگے حضور! نعش مجھے دے دیجئے میں اُٹھالیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مڑ کر اُن کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’یہ میری بیٹی ہے‘‘۔ یعنی بیٹی ہونے کے لحاظ سے اِس کی ایک جسمانی خدمت جو اِس کی آخری خدمت ہے یہی ہوسکتی ہے کہ میں خود اِس کو اُٹھا کر لے جائوں۔ تو صفت ربّ العٰلمین کے مظہر بننا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ مخلوق کی جسمانی خدمات بجالائو ۔ اگر تم خدمت دین میں اپنی ساری جائداد دے دیتے ہو ، اپنی کُل آمد اسلام کی اشاعت پر خرچ کردیتے ہو تو تم ملکیت کے مظہر تو بن جائو گے مگر ربّ العٰلمین کے مظہر نہیں بنو گے۔ کیونکہ ربّ العٰلمین کا مظہر بننے کیلئے ضروری ہے کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو اور غرباء کی خدمت پر کمربستہ رہو۔ ہاں جب تم اپنے ہاتھوں سے بھی بنی نوع انسان کی خدمات بجا لائو گے تو تم ربّ العٰلمین کی صفت کے بھی مظہر بن جائو گے۔
پھر جب میں نے کہا کہ تحریک جدید کے بورڈنگ میں اپنے بچوں کو داخل کرائو تو یہ تمہیں صفت رحیمیت کا مظہر بنانے کیلئے مطالبہ کیا۔ کیونکہ رحیمیت کہتی ہے کہ تم ایسی اعلیٰ تربیت کرو اور ایسی عمدہ خوبیاں مخلوق میں پیدا کرو کہ جن سے وہ دوامی زندگی اختیار کرلے۔ پھر یہ تحریک ایک رنگ میں ربّ العٰلمین کی صفت کے ماتحت بھی ہے یعنی قوم کے ہر شعبہ کی اصلاح کی جائے۔ اسی طرح جب میں نے سادہ زندگی اختیار کرنے کیلئے کہا تو یہ مطالبہ صفت رحمانیت اور صفت مَلِکیت کے ماتحت آتا تھا۔ کیونکہ ہر وہ قوم جو اپنی زندگی عیش پسند بنالیتی ہے غرباء کی خدمت میں حصہ نہیں لے سکتی۔ حالانکہ رحمانیت کی صفت چاہتی ہے کہ مزدوروں سے ہی نہیں بلکہ غیروں سے بھی سلوک کیا جائے اور پھر اس کیلئے ضروری ہے کہ انسان کے پاس سامان ہوں اور سامان تبھی ہوسکتا ہے جب اس کی زندگی کو بعض قیود کے اندر رکھا جائے۔ جو شخص بعض قیود کے اندر اپنے آپ کو نہیں رکھتا وہ موقع پر ضرور فیل ہوجاتا ہے۔ پھر ایک ملِک ہونے کے لحاظ سے بھی سادہ زندگی ضروری ہے کیونکہ ملک کیلئے سپاہ ضروری ہے اور سپاہی کیلئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ جفاکش ہو۔ ورنہ فوج جس کے سپاہی ترفّہ۱۹؎ میں زندگی بسر کرتے ہوں لڑائی میں کام نہیں آسکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک لطیفہ بیان کیا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا جسے یہ وہم ہوگیا کہ سپاہیوں پر روپیہ فضول برباد کیا جاتا ہے ملک میں جو ہزاروں لاکھوں قصائی موجود ہیں یہی لڑائی کیلئے کافی ہیں۔ جب جنگ کا موقع ہوا انہیں بلایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اِس خیال کے آتے ہی اُس نے تمام سپاہی موقوف کردیئے۔ جب یہ خبر اِردگرد پھیلی تو اس کے قریب ہی ایک اور بادشاہ تھا جو اُس کا دشمن تھا۔ اُس نے دیکھا کہ یہ موقع عمدہ ہے۔ اب فوجیں اِس نے موقوف کردی ہیں اِس پر حملہ کردینا چاہئے۔ چنانچہ وہ اپنی فوج لے کر ملک پر حملہ آور ہوگیا۔ بادشاہ کو جب یہ خبر پہنچی تو اُس نے حکم دیا کہ فوراً تمام قصائیوں کو جمع کیا جائے اور ایک فوج بنا کر انہیں کہہ دیا جائے کہ دشمن پر حملہ کردیں۔ اِس پر اوّل تو اُن قصائیوں کو جمع کرنے میں بہت دیر لگی اور اتنے عرصہ میں دشمن کی فوجیں شہر کے قریب آگئیں۔ لیکن خیر جدوجہد کے بعد قصائیوں کو جمع کرکے میدانِ جنگ میں بھیج دیا گیا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بادشاہ نے کیا دیکھا کہ وہ تمام قصائی بھاگے چلے آرہے ہیں اور بادشاہ سے مخاطب ہوکر فریاد کررہے ہیں کہ انصاف! انصاف! بادشاہ نے پوچھا کیا ہوا؟ وہ کہنے لگے بھلا یہ بھی کوئی انصاف ہے ہم باقاعدہ دشمن کے ایک آدمی کو پکڑتے اور پوری احتیاط کے ساتھ اُسے ذبح کرتے ہیں۔ مگر وہ لوگ نہ رگ دیکھتے ہیں پٹھا، یونہی مارتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے۔ وہ قصائی تو اِدھر انصاف کی جستجو کرتے رہے اور اُدھر دشمن کی فوجیںبے انصافی کیلئے مُلک میں داخل ہوگئیں۔ تو دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوتا جب تک قوم کے افراد میں ایک نظام نہ ہو اور ان میں جفاکشی کی عادت نہ ہو اور جفاکشی بغیر سادہ زندگی اختیار کئے پیدا نہیں ہوتی۔ اسی طرح ربّ العٰلمین کی صفت کے ماتحت بھی سادہ زندگی کی تحریک اُس طرح آتی ہے کہ سادہ زندگی اُس فرق کو دور کرتی ہے جو امراء اور غرباء میں پایا جاتا ہے۔ جس طرح باپ چاہتا ہے کہ کسی وقت اُس کے تمام بیٹے خواہ وہ امیر ہوں یا غریب ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھائیں۔ اسی طرح ربّ العٰلمین یہ چاہتا ہے کہ امراء اور غرباء میں ایسا فرق نہ ہو جس کی وجہ سے ان کا ایک دستر خوان پرجمع ہونا مشکل ہو۔ فرق بے شک ہو مگر ایسا نہ ہو جو آپس کے تعلقات کو خراب کردے اور ان میں اس قدر انسانیت بھی باقی نہ رہنے دے کہ امیر غریب کو حقیر اور ذلیل جانے اور غریب امیر کے متعلق سمجھے کہ وہ عام انسانوں سے بالا ہوگیا ہے۔ مگر امارت و غربت کا امتیاز سادہ زندگی سے ہی دور ہوسکتا ہے اوریہ بھی صفت ربّ العٰلمین کے ماتحت ایک تحریک ہے جس پرعمل کرکے انسان پنے آپ کو ربّ العٰلمین کا مظہر بناسکتا ہے۔
غرض یہ چند مشقیں ہیں جو میں نے بتائیں اور میری غرض ان مشقوں سے یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا بھی مظہر بنائو اور اُس کی رحمانیت کا بھی مظہر بنائو اور اُس کی رحیمیت کا بھی مظہر بنائو اور اُس کی ملکیت کا بھی مظہر بنائو اور اس طرح اپنے اندر ایک عظیم الشان تغیر پیدا کرکے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضا کا مستحق بنائو۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ چونکہ ہماری جماعت میں جو لوگ نئے داخل ہوتے ہیں وہ وفاتِ مسیح اور ختم نبوت وغیرہ کے مسائل سُن کر داخل ہوتے ہیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چند مسائل ہی ہیں جو ہم نے ماننے ہیں اور انہیں مانا اور چھٹی ہوگئی۔ حالانکہ اسلام ایک وسیع نظام کا نام ہے۔ اور اس کے اندر بادشاہتوں کا نظام بھی شامل ہے، اہلی اور عائلی زندگی کا نظام بھی شامل ہے، تعلیمی نظام بھی شامل ہے، تربیتی نظام بھی شامل ہے اور یہ جس قدر نظام ہیں ان کو قائم کرنا ہمارے لئے ضروری ہے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم رحمانیت کو بھی قائم کریں اور رحیمیت کو بھی۔ ہم ربوبیت کو بھی قائم کریں اور مالکیت کو بھی۔ پھر ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم غرباء کی خبرگیری کریں اور انہیں اٹھانے کی کوشش کریں اور امراء کا بھی خیال رکھیں اور انہیں عیش پسند زندگی میں پڑنے سے محفوظ رکھیں۔ غرض ایک وسیع نظام کی ضرورت ہے جس کے ماتحت اسلام کے تمام احکام عملی رنگ میں دنیا کے سامنے آسکتے ہیں۔ بے شک اس نظام کا ایک حصہ وہ ہے جو حکومت سے تعلق رکھتا ہے لیکن ملکیت کا بھی ایک حصہ حکومت نے رعایا کے سپرد کررکھا ہے۔ اور پھر اسلام کا وہ نظام جو اہلی اور عائلی زندگی سے تعلق رکھتا ہے، اسے تو کّلی طور پر ہم قائم کرسکتے ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے اس میں کسی قسم کی روک نہیں۔ پس جب حکومت ایک بات میں دخل نہیں دیتی اور ہم اس میں اسلامی تعلیم جاری کرسکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس معاملہ میں اسلامی احکام کااِجراء نہ کریں۔ نادان کہتے ہیں کہ ہمارے ذاتی معاملات میں دخل دیا جاتاہے مگر میں کہتا ہوں اگر تم اِس بات کو برداشت نہیں کرسکتے تو تم ہمارے پاس آئے کیوں تھے۔ تم نے جب خدا کو رب العٰلمین تسلیم کیا ہے تو تم خداتعالیٰ کے دین کے جس نمائندہ کے پاس بھی جائو گے وہ تمہارے باپ کے طور پر ہوگا اور س کا حق ہوگا کہ وہ تمہارے ذاتی معاملات میں دخل دے۔ اور اگر وہ دخل نہ دے تو اسلام کی تعلیم لوگوں کے گھروں میں کس طرح قائم ہوسکتی ہے۔ پس جب تک خداتعالیٰ موجودہ حکومتوں اور پارلیمنٹوں کو احمدی نہیں بنادیتا اُس وقت تک اسلامی نظام کے وہ حصے جن پر عمل کیا جاسکتا ہے ضروری ہے کہ ان پر عمل کیا جائے اور جب حکومتیں احمدی ہوجائیں گی تو اُس وقت اسلامی نظام کا مکمل ڈھانچہ تیار ہوگا۔ اور اُس وقت دنیا کو معلوم ہوگا کہ اسلام کی تعلیم اور اسلام کا نظام کس قدر پُرامن ہے۔ آج گو حکومتیں احمدی نہیں مگر کئی امور ایسے ہیں جن میں حکومت روک نہیں بنتی۔ مثلاً زکوٰۃ ہے موجودہ گورنمنٹیں زکوٰۃ نہیں لیتیں اور اگر کوئی زکوٰۃ وصول کرے تو اُس کے راستہ میں روک نہیں ڈالتیں۔ پس جب حکومت خود ایک بات کی ہمیں اجازت دیتی ہے یا کم از کم اس میں روک نہیں بنتی تو ہم کیوں اس سے فائدہ نہ اُٹھائیں اور کیوں اس میں اسلامی نظام قائم نہ کریں۔ پس جتنے حصے اسلامی نظام کے ہیں ان میں سے جن حصوں کو موجودہ بادشاہت نے اپنے اندر شامل نہیں کیا ہمارا حق ہے کہ ان کو استعمال کریں اور ان کے ماتحت لوگوں کو چلنے پر مجبور کریں۔ زکوٰۃ کی میں نے صرف ایک مثال دی ہے ورنہ اور بھی کئے ایسے مسائل ہیں جو شریعت نے ملکیت سے متعلق رکھے ہیں۔ لیکن موجودہ حکومتوں نے ان کو اپنے حدود و اختیار سے باہر رکھا ہے۔ اور اگر ان کا انتظام کیا جائے تو حکومت کا کوئی قانون ان میںروک نہیں بنتا۔ بے شک بہت سے ایسے بھی حصے ہیں جو بادشاہت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان پر اُسی وقت عمل کیا جاسکتا ہے جب بادشاہت احمدیوں کو حاصل ہو۔ مگر جب تک وہ وقت نہیں آتا وہ امور جن میں حکومت دخل نہیں دیتی ہمارا فرض ہے کہ ان میں اسلامی احکام نافذ کریں۔ اگر ہم زندگی کے ان شعبوں میں بھی اسلامی احکام جاری نہیں کرتے جن میں ان احکام کا اجراء ہمارے لئے قانوناً جائز ہے تو یقینا ہم انسان نہیں طوطے ہیں۔ جس طرح طوطا ’’میاں مٹھو‘‘ ’’میاں مٹھو‘‘ کہتا رہتا ہے اور اگر ’’میاں مٹھو‘‘ کی بجائے اسے ’’لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ سکھادو تو وہ یہی کہتا رہے گا۔ اسی طرح گو تم احمدی ہو مگر تم طوطے کی طرح اپنے آپ کو احمدی کہتے ہو اور سمجھتے نہیں کہ اپنے آپ کو احمدی کہنے کے بعد تم پر کس قدر ذمہ واریاں عائد ہوچکی ہیں۔ پس جب تک اس اسلامی حکومت کو قائم کرنے کیلئے ہم اپنے نظام میں تبدیلی نہیں کرتے ا ُس وقت تک ہم صرف نام کے احمدی ہیں کام کے احمدی نہیں۔ مگر صرف نام لے لینے سے کیا بنتا ہے جب تک انسان کے اندر وہ حقیقت بھی نہ پائی جاتی ہو جو اس نام کے اندر ہو ۔
مجھے یاد ہے ہماری بہن امۃ الحفیظ دو اڑھائی سال کی تھی کہ ہمارے ہاں ایک مہمان آئے ان کی بھی ایک چھوٹی سی لڑکی تھی جو قریباً اسی عمر کی تھی۔ اُس کی آنکھیں چندھیائی ہوئی تھیں اور روشنی میں چونکہ نہیں کھلتی تھیں اس لئے وہ سمجھتی تھی کہ اور لوگوں کو بھی میری طرح دن میں نظر نہیں آتا۔ امۃ الحفیظ کبھی کبھی حضرت مسیح موعودؑ کے پاس جاکر کہا کرتی تھی کہ ابا مجھے چیجی دو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے کوئی چیز کھانے کی دے دیا کرتے تھے۔ اس لڑکی نے جو اسے اس طرح مانگتے دیکھا تو ایک دن خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے جاکر ہاتھ پھیلا کر کہنے لگی حضرت صاحب! میں پھیجی ہوں (امۃ الحفیظ) مجھے چیجی دیں۔ یہی مثال تم میں سے بہتوں کی ہے۔ تم بھی اِسی خیال میں مست ہو کہ تم خدا کے سامنے جاکر کہہ دو گے کہ ہم مسلمان یا احمدی ہیں ہمیں انعام دو اور اسے (مَعَاذَ اللّٰہِ) کوئی علم نہیں ہوگا کہ تم کیا کرتے رہے ہو اور آیا تم انعام کے مستحق بھی ہو یا نہیں۔
غرض اگر تم سچے دل سے لَااِلٰہَ اِلاَّللّٰہُ کہہ رہے ہو تو تمہارا فرض ہے کہ تم اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی حکومت قائم کرو۔ لیکن اب تو تمہاری یہ حالت ہے کہ جو شخص تم میں سے اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تم اس کے دشمن ہوجاتے ہو۔ کوئی تم میں سے اس پر اعتراض کرتا ہے، کوئی تم میں سے اسے گالیاں دیتا ہے، کوئی تم میں سے اس پر اتہام لگاتا ہے، کوئی تم میں سے اس کے خلاف شکوہ و شکایت کرتا ہے اور ان تمام اتہاموں، ان تمام الزاموں، ان تمام اعتراضوں اور ان تمام نکتہ چینیوں کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ تم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ آئو اور سچے مسلمان بن جائو، آئو اور سچے احمدی بن جائو۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں سختی کی جاتی ہے مگر میں کہتا ہوں کس بات پرـ؟ تم وہ باتیں نکالو جن کی بناء پر تم کہتے ہو کہ تم سے سختی کی جاتی ہے۔ پھر تمہیں معلوم ہوگا کہ کس بات پر سختی کی جاتی ہے۔ تم پر اِس وجہ سے سختی کی جاتی ہے کہ تم میں سے بعض اپنی لڑکیاں غیراحمدیوں کو دے دیتے ہیں مگر کیا ا س سے مجھے ذاتی طور پر کوئی فائدہ ہے؟ تم میرے پاس آتے ہو اور اپنے منہ سے کہتے ہو کہ ہم احمدیت کا جؤا اُٹھانے کیلئے تیار ہیں، میں تمہاری بیعت لیتا ہوں اور تم احمدیت میں شامل ہوجاتے ہو۔ اس کے بعد تمہارے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ تم احمدیت کی تعلیم پر عمل کرو۔ اگر تم اس کی تعلیم پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں تو میں تمہیں کہتا ہوں کہ منافق مت بنو۔ یا تم پورے احمدی بن جائو یا احمدیت سے الگ ہوجائو۔ مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم آپ میرے پاس آتے اور احمدیت کو قبول کرتے ہو، تم پر کوئی جبر نہیں ہوتا، تم سے کوئی زبردستی نہیں کی جاتی، تم اپنی رضا و رغبت اور خوشی سے احمدیت قبول کرتے ہو، تم اپنی رضا و رغبت سے مجھے اپنا اُستادتسلیم کرتے ہو مگر جب کوئی کام تمہارے سپرد کیا جاتا ہے تو تم بہانے بنانے لگ جاتے ہو۔ اس دھوکا اور فریب کا کیا فائدہ۔ کیا تم خدا کو دھوکا دینا چاہتے ہو اور سمجھتے ہو کہ اسے تمہارے اعمال کا علم نہیں؟ تمہاری فطرت اور تمہارا دماغ کہتا ہے کہ احمدیت کے بغیر تمہاری نجات نہیں مگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں نجات بھی مل جائے اور تم دل سے غیراحمدی کے غیراحمدی بھی بنے رہو۔ کوئی انسان کسی دوسرے عقلمند انسان کو بھی دھوکا نہیں دے سکتا۔ پھر تم کس طرح خیال کرلیتے ہو کہ تم خدا کو دھوکا دے لو گے۔ یہی وہ احساس ہے جس کے ماتحت میں نے تحریک جدید کا آغاز کیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب اس قسم کے کمزور لوگوں کو جو احمدیت میں رہ کر جماعت کو بدنام کرتے ہیں زیادہ مُہلت نہیں دی جاسکتی۔ میں جماعت کو اِسی امر کی طرف لارہا ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کو اِس پر ثبات حاصل ہوجائے گا۔ مگر اس احساس کے باوجود میں پھر بھی مُہلت دے دے کر تمہیں لارہا ہوں تاکہ تم پر بوجھ نہ پڑے او رتم یکدم گھبرا نہ جائو۔ میں جانتا ہوں کہ میرے اِس ارادہ کی لازماً مخالفت ہوگی او رنہ صرف میری مخالفت ہوگی بلکہ ہر شخص جو میرے ساتھ تعاون کرے گا ، ہر شخص جو قانون کے دائرہ کے اندر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہے گا، اُس کی بھی مخالفت ہوگی۔ لوگ بُرا منائیں گے، وہ گالیاں دیں گے، وہ بدنام کریں گے، وہ عیب چینی کریں گے اور بجائے اِس کے کہ اصل حقیقت بیان کریں، غلط واقعات بیان کرکے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا چاہیں گے۔ مثلاً وہ یہ نہیں کہیں گے کہ انہوں نے شریعت کا فلاں قانون توڑا تھا جس کی انہیں سزا ملی۔ یا غیراحمدیوں کو انہوں نے لڑکی دی تھی جس کی سزا ملی۔ وہ کہیں گے ناظر امور عامہ نے مجھ پر ظلم کیا اور پھر یہ بتائیں گے نہیں کہ کیوں ظلم کیا اورکیا ظلم کیا۔ پھر اگر کسی کو واقعہ کا کچھ علم ہوگا اور وہ اشارۃً کہہ دے گا کہ لڑکی کا کیا واقعہ تھا۔ تو کہہ دیں گے اصل بات یہ نہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ناظر امورعامہ کی میرے ساتھ لڑائی ہے اور وہ خواہ مخواہ مجھے دِق کرتا ہے۔ غرض وہ اس طرح لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے لگ جائیں گے اور لوگ یہ نہیں سمجھیں گے کہ یہ بہانے بناتا ہے اور اپنے جرم کو چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ کوئی چور کہے بھائیو آئو اور آنسو بہا ئو کہ میں چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہوں۔ وہ یہی کہتا ہے کہ لوگوں کی مجھ سے دشمنی تھی۔ فلاں جگہ میں بیٹھا تھا کہ انہوں نے گھاس کاٹ کر میری جھولی میں ڈال دیا اور مجھے چور چور کہہ کر پکڑوادیا۔ وہ کیوں ایسا کہے گا اور اصل حقیقت بیان نہیں کرے گا۔ اس لئے کہ سچ بولنے سے اسے لوگوں کو ہمدردی حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ مگر جھوٹ بول کر وہ سمجھتا ہے کہ اسے لوگوں کی ہمدردی حاصل ہوجائے گی۔ تو یہ دنیا کا عام دستور ہے اور ہر ملک اور ہر شہر، ہر قصبہ، ہر گائوں اور ہر محلہ میں اس کی نظیریں ملتی ہیں۔ مگر پھر جس طرح لوگ موت کو بھول جاتے ہیں، اِسی طرح اسے بھی بھول جاتے ہیں اور مجرموں کی حمایت کرنا شروع کردیتے ہیں۔
تو وہ لوگ جو قانون کا احترام کرتے ہوئے کوشش کریں گے کہ اسلامی حکومت قائم ہو اور میرے کام میں میرے ساتھ تعاون کرنا چاہیں گے انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ بدنامی ان کے حصہ میں بھی آئے گی مگر خداتعالیٰ کے حضور وہ ضرور نیک نام ہوںگے۔ دنیا کی نگاہ میں وہ بے شک ذلیل ترین وجود ، ظالم، فاسق، فاجر، بدکار، جھوٹی سفارشیں قبول کرنے والے، لوگوں پر جبر کرنے والے اور ایمان پر چھاپہ ڈالنے والے مشہور ہوں گے مگر خداتعالیٰ کے حضور وہ بڑی عزتوں کے مالک ہوں گے کیونکہ خدا کہے گا کہ یہ وہ شخص ہیں جنہوں نے اپنی عزت اس لئے برباد کی کہ میری عزت دنیا میں قائم کریں۔ پس اگر اسے اس کام کے عوض دنیا میں عزت نہ ملے تب بھی وہ ابدی زندگی کا وارث ہوگا۔ اور اس کا نام آسمان پر ہمیشہ کیلئے محفوظ کردیا جائے گا اور وہی جو اس پر اعتراض کرنے والے ہوں گے اگلے جہان میں اس کے سامنے خادموں کے طور پر پیش ہوں گے۔ پس یہ کام بہت مشکل ہے ، یہ منزل بہت کٹھن ہے۔ مگر اس میں کوئی شبہ ہیں کہ جو شخص آگے بڑھے گا اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا برکات حاصل ہوں گی اور وہ اس کے عظیم الشان فوائد اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔
غرض تحریک جدید کے دوسرے دَور میں جو سکیم نافذ کی جانے والی ہے وہ نہایت ہی اہم ہے اور اس کی تفصیلات بہت وقت چاہتی ہیں جو آئندہ کئی خطبات میں اِنْشَائَ اللّٰہ تَعَالٰی بیان کی جائیں گے۔ لیکن چونکہ تحریک جدید کا تیسرا مالی سال ختم ہورہا ہے اِس لئے میں اِس تحریک کے دوسرے دَو رکے مالی حصہ کو آج کے خطبہ میں ہی بیان کردیتا ہوں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ تحریک جدید کا تیسرا سال مالی لحاظ سے ختم ہورہا ہے اور اب آئندہ کے متعلق میں نے اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے۔ میں دوستوں اور اُن کارکن اصحاب کی واقفیت کیلئے جنہوں نے اس سلسلہ میں کام کرنا ہے بتادینا چاہتا ہوں کہ جہاں اس تحریک کے دوسرے حصوں میں زیادہ سختیاں کی جائیں گی اور دوستوں سے زیادہ زور اور زیادہ جوش کے ساتھ کام لیاجائے گا وہاں میرا اِس تحریک کے مالی حصہ کو ایک حد تک پیچھے ہٹانے کا ارادہ ہے۔ میں نے مالی حصہ کے تمام پہلوئوں پر کافی غور کیا ہے اور میں ایک لمبے غور کے بعد جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ تحریک جدید کے مالی پہلو کو ایسی مضبوطی حاصل ہونے میں جس کے بعد کسی سالانہ تحریک کی اِنْشَائَ اللّٰہ ضرورت نہ رہے بلکہ اخراجات خودبخود نکلتے آئیں سات سال کی مسلسل قربانی کی ضرورت ہے۔ پس آج سے کہ چوتھا سال شروع ہورہا ہے سات سال اور تحریک جدید کا مالی مطالبہ ہوتا چلا جائے گا۔ لیکن اس رنگ میں کہ موجودہ تین سالہ دَور میں سے پہلے سال جس قدر چندہ کسی نے دیا تھا کم از کم اُسی قدر چندہ اس سال دیا جائے، ہاں اگر کوئی زیادہ دینا چاہے تو وہ زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ پس اِس وقت میرا دوستوں سے مطالبہ یہ ہے کہ انہوںنے اِس تین سالہ دَورمیں سے پہلے سال جتنا چندہ دیا تھا کوشش کریں کہ اس سال اس چندہ کے برابر چندہ دیں۔ لیکن میں کسی کو مجبورنہیں کرتا کہ وہ ضرور اس قدر چندہ دے۔ کیونکہ یہ طوعی چندہ ہے اور اس کا دینا میں نے ہر شخص کی مرضی پر منحصر رکھا ہوا ہے۔ پس میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص اس سال چندہ دینے کی بالکل طاقت نہیں رکھتا وہ بھی ضرور چندہ دے۔ میں کسی کو مجبور نہیں کررہا اور نہیں کرنا چاہتا۔ یہ طوعی چندہ ہے اور مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باوجود اس کے کہ میں نے بار بار کہا ہے یہ طوعی چندہ ہے اور اگر کسی میں ہمت نہیں تو وہ وعدہ مت لکھائے پھر بھی بعض لوگ اپنی مرضی سے چندہ لکھا کر اد انہیں کرتے اور اس طرح وہ ایک خطرناک گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہزاروں احمدی ایسے ہیں جنہوں نے ا س تحریک میں حصہ نہیں لیا لیکن اُن پر میرا کوئی گلا نہیں۔ مجھے شکایت ان سے ہے جو اپنے نام لکھوا کر پھر پیچھے ہٹے اور انہوں نے وقت کے اندر چندہ ادا نہ کیا۔ میں نے ان کی سہولت کیلئے یہ اعلان بھی کردیا تھاکہ اگر کوئی شخص دیکھتا ہے کہ اس کے حالات ایسے ہیں کہ وہ چندہ ادا کرنے کی بالکل طاقت نہیں رکتھا مگر نام لکھاچکا ہے تو وہ اپنی میعاد میں اضافہ کرالے یا مجھ سے معافی لے لے۔ میں اُس کا چندہ معاف کرنے کیلئے تیار ہوں۔ اس طرح وہ خدا کے حضور مجرم نہیں بنے گا۔ کیونکہ خدا کہے گا کہ جب میرے نمائندہ نے تجھے معاف کردیا تو میںنے بھی تجھے معاف کردیا۔ خدا روپے کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ سچائی کو دیکھتا ہے۔ اگر تم ایک عیسائی سے کوئی وعدہ کرتے ہو تواُ س وقت عیسائی اس کا نمائندہ ہے اور تمہارا فرض ہے کہ اُس وعدے کو پورا کرو۔ اور گر تم ایک یہودی سے کوئی وعدہ کرتے ہو تو اُس وقت یہودی اُس کا نمائندہ ہے اور تمہارا فرض ہے کہ اس وعدے کو پورا کرو ۔ کیونکہ جس سے وعدہ ہوگیا ا س کے اور وعدہ کرنے والے کے درمیان خدا آجاتا ہے۔ پس وعدہ کو پورا کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اور جب میں نے ان لوگوں کیلئے جو سخت مالی مشکلات میں مبتلا ہوں یہ صورت پیدا کردی تھی تو انہیں چاہئے تھا کہ وہ اس سے فائدہ اُٹھاتے اور خداتعالیٰ کے گنہگار نہ بنتے۔ مگر کئی دوست ایسے ہیں جنہوں نے اس سے بھی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر وقت کے اندر بھی اد انہیں کرسکتے تو مُہلتیں لے لو۔ چنانچہ بعض نے مزید مُہلت لے لی مگر بعضوں نے مُہلت بھی نہیں لی، چندہ معاف بھی نہیں کرایا اور وقت کے اندر بھی ادا نہیں کیا۔گویا انہیں یہ شوق تھا کہ ہم ضرور گنہگار بنیں گے اور کسی رعایت سے فائدہ نہیں اُٹھائیں گے۔ اب بھی میںیہی کہتا ہوں کہ جو شخص یہ چندہ دے سکتا ہے دے اور جو نہیں دے سکتا وہ نہ دے اور اگر کوئی شخص ایسا ہے جو اپنے پہلے چندوں سے بھی زیادہ چندہ دینا چاہتا ہے تو میں اسے بھی نہیں روکتا۔ میرے مخاطب صرف وہ لوگ ہیں جو چندہ دے سکتے ہیں اور دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ گو ابھی تحریک نہیں کی گئی تھی مگر اِس وقت تک چار پانچ وعدے میرے پاس آچکے ہیں اور وہ ان کے پہلے وعدوں سے زیادہ ہیں۔ ان میں سے ایک چوہدری ظفراللہ خان صاحب کا وعدہ ہے اور دوسرا ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب افریقہ کا۔ خود میرا ارادہ بھی ہے پہلے تین سالوں سے زیادہ چندہ دینے کا ۔ اسی طرح اور بھی بعض دوستوں کے وعدے آچکے ہیں۔ پس جو لوگ زیادہ دے سکتے ہیں ان کو میں نہیں روکتا۔ جو شخص نیکی کے میدان میں جس قدر زیادہ قدم بڑھاتا ہے اُسی قدر زیادہ وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق ہوتا ہے۔ پس میں ان سے بھی جو زیادہ چندہ دے سکتے ہیں کہتا ہوں کہ نیکیوں کا میدان وسیع ہے آئو اور آگے بڑھو۔ اور جو شخص چندہ نہیں دینا چاہتا اسے میں یہ کہتا ہووں کہ اگر تم چندہ نہیں دینا چاہتے تو مت دو اور وعدہ بھی مت لکھو اؤ ایسا نہ ہو کہ تم گنہگار ٹھہرو۔ لیکن اگر کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ خواہ مجھے تنگی سے گزارہ کرنا پڑے میں چندہ ضرور ادا کروں گا۔ تو میں اسے کہتا ہوں کہ تم کم سے کم اس قدر قربانی کرو جس قدر تم نے پہلے سال کی تھی اور انہی اصول پر کرو جو پہلے سال میں نے بتائے تھے۔ یعنی دو دو چار چار روپے نہیں بلکہ کم از کم پانچ روپے اس تحریک میں دیئے جائیں۔ پھر دس پھر بیس پھر تیس پھر ساٹھ پھر سَو پھر دو سَو پھر تین سَو اور جو اس سے بھی زیادہ دے سکتا ہے وہ اس سے زیادہ دے۔ مگر جو شخص اتنا چندہ نہیں دے سکتا جتنا اس نے پہلے سال دیا تھا تو اگر جس قدر رقم اس نے دی تھی اس سے کم تر کسی اور رقم کی اجازت ہے تو وہ اپنے حالات کے مطابق اس سے کم چندہ دے دے۔ مثلاً اگر کسی نے پہلے سال تیس روپے دیئے اور اس سال وہ اتنے نہیں دے سکتا تو وہ بیس دے سکتا ہے۔ اور اگر کسی نے بیس دیئے تھے اور اس سال وہ اتنے روپے نہیں دے سکتا تو اس کیلئے بھی گنجائش ہے وہ دس دے سکتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص جس نے پہلے سال دس روپے دیئے تھے اس سال دس دینے کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو پانچ دے۔ لیکن چونکہ یہ آخری حد ہے اس لئے اگر کوئی شخص ایسا ہو جس نے پہلے سال پانچ روپے دیئے تھے اور اس سال وہ پانچ بھی نہیں دے سکتا تو پھر وہ اس تحریک میں حصہ نہ لے کیونکہ پانچ سے کم کوئی رقم اس تحریک میں قبول نہیں کی جاتی۔ پس جو شخص دے سکتا ہے وہ انہی اصول پر دے جو میں مقرر کرچکا ہوں۔ سوائے اس کے کہ وہ اس سے زیادہ دینا چاہتا ہو۔ مثلاً کوئی شخص تین سَو کی بجائے ہزار دو ہزار یا تین ہزار دینا چاہے تو شوق سے دے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل غیر محدود ہیں اور اس کے پاس جس طرح تین سَو روپیہ چندہ دینے والے کیلئے جزا ہے اسی طرح اس کے پاس تین ہزار روپیہ چندہ دینے والے کیلئے بھی جزا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص پانچ ہزار روپیہ چندہ دینا چاہے تو وہ پانچ ہزار دے اور سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ پانچ ہزار روپیہ چندہ کی بھی جزا دے سکتا ہے اور اس کی طرف سے قربانی کے مطابق ثواب ملتا ہے۔ جو شخص دو ہزار روپے دے سکتا ہے مگر وہ تین سَو دیتا ہے اسے وہ ثواب ہرگز نہیں مل سکتا جو اُس شخص کو ملے گا جو پانچ روپے دینے کی توفیق رکھتا تھا اور اُس نے پانچ روپے ہی دیئے۔ کیونکہ دو ہزار دینے کی توفیق رکھنے والا جب تین سَو روپیہ دیتا ہے تو وہ اپنی طاقت کا ساتواں حصہ قربانی کرتا ہے۔ لیکن پانچ روپے دینے کی طاقت رکھنے والا جب پانچ روپے ہی دے دیتا ہے تو وہ سَو فیصد قربانی کرتا ہے۔ پس خدا پانچ روپے دینے والے کو زیادہ ثواب دے گا اور تین سَو روپے دینے والے کو کم کیونکہ وہ ثواب روپیہ کی مقدار پر نہیں دیتا بلکہ قربانی کی طاقت پر دیتا ہے۔ پس یہ مت خیال کرو کہ چونکہ تم نے تین سَو روپے دے دیئے ہیں اس لئے ضرور تم پانچ روپے چندہ دینے والے سے ثواب میں بڑھ کر رہو گے۔ سینکڑوں پانچ روپے دینے والے ایسے ہوں گے جو تین سَو روپے چندہ دینے والوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہوں گے۔ کیونکہ انہیں پانچ سے زیادہ روپے دینے کی توفیق نہیں تھی اور تین سَو روپے دینے والوں کو یہ توفیق تھی کہ وہ چار سَو دیتے یا پانچ سَو دیتے یا ہزار بلکہ اس سے بڑھ کر دیتے۔ پس اس سال کیلئے میری تحریک یہی ہے کہ جتنا کسی شخص نے اِس تین سالہ دَور کے پہلے سال چندہ دیا تھا اتنا ہی چندہ اس سال دے۔ پھر میری سکیم یہ ہے کہ ہر سال اس چندہ میں سے دس فیصدی کم کرتے چلے جائیں گے۔ یعنی جس نے اِس سال سَو روپیہ چندہ دیا ہے اس سے اگلے سال نوے روپے لئے جائیں گے۔ پھر اس سے اگلے سال اسّی روپے پھر تیسرے سال ستر روپے پھر چوتھے سال ساٹھ روپے پھر پانچویں سال پچاس روپے اور پھر یہ پچاس فیصدی چندہ باقی دو سال مسلسل چلتا چلا جائے گا اور ساتویں سال کے بعد چندے کے اس طریق کو ختم کردیا جائے گا۔ یہ مطلب تو نہیں کہ پھر سات سال کے بعد چندہ کا سلسلہ بند کردیا جائے گا۔ چندے تو صدر انجمن احمدیہ کی ضروریات کیلئے بھی ہوتے ہیں۔ ممکن ہے خدا تعالیٰ اور کوئی کام پیدا کردے مگر تحریک جدید کی سکیم کے بارہ میں میری سکیم ایسی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس رنگ میں چندہ کی ضرورت نہ رہے گی اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔ اور ان سالوں میں اس کی اپنی ذاتی آمدایسی ہوجائے گی جو اس کام کو جاری رکھنے کیلئے کافی ہو۔ اس سکیم پر کسی شخص کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ جماعت پر بوجھ ڈال دیا گیا ہے کیونکہ میں اس چندہ کیلئے کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ میں ان کو مخاطب کر رہا ہوں جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے اور جو میری آواز پر لبیک کہنے میں سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب ہے۔
پس وہ جو مالی وُسعت رکھتے ہیں میں اُن سے کہتا ہوں کہ اپنی زندگی کے دن اچھے بنالو اور ثواب کا جو یہ موقع ہے اس سے فائدہ اُٹھا کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو اور جو لوگ پہلے سے بھی زیادہ بوجھ اُٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں میں اُن سے کہتا ہوں کہ تم نے پہلے بھی ثواب کمایا اور اب اور ثواب کمالو کہ خدا نے تمہارے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دیئے۔ مگر وہ جو طاقت رکھنے کے باوجود اس میں حصہ نہیں لیتا اُس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور جو اِس چندہ میں حصہ لینے سے بالکل معذور ہے اس پر ہرگز کوئی گناہ نہیں نہ میری طرف سے اور نہ خداتعالیٰ کی طرف سے۔ گویا اِس سال میری تحریک یہ ہے کہ اپنے پہلے سال کے چندہ کے برابر چندہ دو۔ اور جو اِس قدر نہ دے سکتا ہو وہ کم دے بشرطیکہ اس سے کم چندہ دیا جاسکتا ہو۔ مثلاً جس نے پہلے سال دس دیئے تھے اور اس سال وہ دس روپے نہیں دے سکتا تو وہ پانچ دے اور جس نے پانچ دینے تھے اور اس سال وہ پانچ نہیں دے سکتا وہ کچھ بھی نہ دے کیونکہ پانچ سے کم کوئی رقم اس تحریک میں نہیں لی جاتی۔ اسی طرح بیس روپے دینے والا دس روپے دے سکتا ہے۔ تیس روپے دینے والا بیس روپے دے سکتا ہے۔ ستائیس اٹھائیس نہیں کیونکہ ایسا کوئی درجہ مقرر ہیں۔ ہاں جس نے بیس دیئے تھے وہ چاہے تو ستائیس اٹھائیس دے سکتا ہے۔ کیونکہ وہ زیادتی ہے۔ اسی طرح جو شخص سَو روپے دے سکتا ہے وہ سَو روپے دے اور جو سَو نہیں دے سکتا وہ پانچ یا پانچ کے اعداد کے لحاظ سے رقم میں کمی کرسکتا ہے۔ پس چندہ کے جو درجات مقرر ہیں ان کے مطابق چندہ دو اور جو شخص مقررہ رقوم سے زیادہ رقم چندہ دے سکتا ہے اُس سے میں کہتا ہوں کہ وہ زیادہ دے اور خداتعالیٰ کے فضلوں کے نزول کی بھی زیادہ امید رکھے۔ پس ہر شخص جو ثواب حاصل کرنے کا آرزومند ہے، اس سے میں کہتا ہوں کہ ثواب کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں آگے بڑھو اور ان دروازوں میں داخل ہوکر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرلو۔ بے شک یہ چند نفلی ہے مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ نوافل کے ذریعہ ہی خداتعالیٰ کا قرب انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ ۲۰؎
پس جو شخص چاہتا ہے کہ خداتعالیٰ کا قرب حاصل کرے وہ اس نفل کے ذریعہ اس کا قرب حاصل کرسکتا ہے۔ اگلے سال اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی یہ چندہ نوے فیصدی پر آجائے گا اور اُس وقت آنوںاور پائیوں کی کمی بھی جائز ہوگی۔ مثلاً جس نے اِس سال پانچ روپے چندہ میں دیئے ہیں وہ اگلے سال ساڑھے چار روپیہ دے سکے گا اور جس نے دس روپے دیئے ہوں گے اس کیلئے نو روپے ہوجائیں گے۔ اسی طرح جس نے سو دیئے ہوں گے اگلے سال اسے ۹ دینے پڑیں گے اور جس نے تین سَو روپے دیئے ہوں گے اسے ۲۷۰ روپے دینے پڑیں گے۔ غرض اس سال نہیں بلکہ اس سے اگلے سال پانچ روپے دینے والے کیلئے جائز ہوگا کہ وہ ساڑھے چار دے اور دس دینے والے کیلئے یہ جائز ہوگا کہ وہ نو دے اور تیس والے کیلئے یہ جائز ہوگا کہ وہ ۲۷ روپے دے۔ مگر پھر بھی جو زیادہ چندہ دینا چاہے گا اُس کیلئے رستہ کھلا ہوگا۔ یہ کمی اسی طرح سال بہ سال ہوتی چلی جائے گی یہاں تک کہ پچاس فیصدی کمی پر آ کر یہ چندہ ٹھہر جائے گا۔ اور دو سال اور گزرنے کے بعد اِسے بند کردیا جائے گا۔ اِس انتظام کے ماتحت مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِتنے عرصہ میں تحریک جدید کے جو کارخانے قائم کئے گئے ہیں اور اس کی جو جائدادیں خریدی گئی ہیں وہ ایسے رنگ میں آزاد ہوجائیں گی کہ مرکزی دفتر کے اخراجات خودبخود چلتے چلے جائیں گے۔ پس اِس رنگ میں ہر سال اوّل تو چندے کا بوجھ کم ہوتا چلا جائے گا اور دوسرے یہ تحریک ایک مستقل صورت اختیار کرتی چلی جائے گی۔
یاد رکھو بہرحال قربانی خواہ کسی ہی ہو جب تک انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد نہ کردے اور اس کی قربانی میں خلوص اور محبت نہ پائی جائے، اُس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ پس نہ صرف قربانیوں کی ضرورت ہے بلکہ اس اخلاص کی بھی ضرورت ہے جو قربانیوں کو نتیجہ خیز بناتا ہے۔ یہ تحریک ہے جو اِس سال مَیں کررہا ہوں۔ بعض دوست جن کو یہ خیال تھا کہ میں اب کی دفعہ پہلے سالوں سے زیادہ مالی قربانی کا مطالبہ کروں گا اُن کی توقع کے خلاف مَیں نے قربانی کا مطالبہ کم کردیا ہے۔ لیکن اِس کی میعاد بجائے تین سال کے اب میں نے دس سال کردی ہے۔ یعنی تین سال وہ جو گزرچکے ہیں اور سات سال وہ جو آئندہ آنے والے ہیں اور یہ عجیب بات ہے کہ متعدد دوستوں کی طرف سے مجھے یہ چٹھیاں آچکی ہیں کہ میں اس تحریک کو تین سال میں ختم کرنے کی بجائے دس سال تک بڑھادوں۔ میرا اپنا بھی خیال اس نئے سال سے اِسی قسم کا اعلان کرنے کا تھا۔ پس ان تحریکوں کو جو بالکل میرے خیال سے توارد کھاگئیں مجھے یقین ہوا کہ یہ الٰہی القاء ہے۔ پس اس تحریک کی میعاد میں توسیع اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہے اور دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس میں اپنے اخلاص اور اپنی طاقت کے مطابق حصہ لیں۔ اسی طرح تحریک جدید کے امانت فنڈ کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ دوست جو امانت فنڈ میں روپے جمع کرارہے ہیں وہ اپنے سابقہ طریق کو جاری رکھنے کی کوشش کریں اور جنہوں نے ابھی تک اس میں کوئی حصہ نہیں لیا وہ اس سال سے ہی امانت فنڈ میں اپنے روپے جمع کروانے شروع کردیں۔ مگر جو دوست آئندہ کیلئے اس میں حصہ نہیں لے سکتے اور چاہتے ہیں کہ ان کا روپیہ انہیں واپس دیا جائے ان کیلئے دونوں صورتیں ہیں۔ جن کے متعلق مرکز کو یہ اختیار ہے کہ وہ ان میں سے جو صورت چاہے اختیار کرے۔ یعنی وہ چاہے تو انہیں ان کے روپیہ کے بدلہ میں کوئی جائداد دے دے اور اگر روپیہ دینے کی گنجائش ہو تو روپیہ واپس کردے۔ لیکن دوستوں کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جن کے پاس روپیہ موجود ہے اور وہ امانت فنڈ میں آئندہ بھی رقوم جمع کراسکتے ہیں، وہ اپنے اس طریق کو جاری رکھیں اور روپیہ برابر جمع کراتے رہیں۔ مگر وہ دوست جو یہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ مجبور ہیں اور آئندہ وہ امانت فنڈ کی تحریک میں شامل نہیں رہ سکتے وہ دفتر کو اطلاع دے دیں اور یہ بھی لکھ دیں کہ آیا وہ روپیہ کو ترجیح دیتے ہیں یا جائداد کو۔ اگر وہ اپنی امانت بصورت نقد لینا چاہیں گے تو جس حد تک ممکن ہوگا انہیں روپیہ واپس کردیا جائے گا اور اگر روپیہ نہ ہوا تو اس قیمت کی انہیں کوئی جائداد دی جائے گی۔ او رجیسا کہ میں نے شروع میں ہی اعلان کردیا تھا اصل قاعدہ یہی ہے کہ جائداد کی صورت میں امانت واپس کی جائے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں دوستوں کانفع بھی اسی میں ہے کیونکہ اس صورت میں انہیں کچھ فائدہ ہوجائے گا۔ جو لوگ امانت واپس لینا چاہیں اس کیلئے میں ایک کمیٹی بنادوں گا جس میں زیادہ تر اُن لوگوں کو شامل کروں گا جو امانت فنڈ کے حصہ دار ہیں۔ تاوہ دیکھ لیں کہ کسی سے بے انصافی تو نہیں ہورہی او رآیا سب کے حقوق اداہوگئے ہیں یا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جو دوست اسے جاری رکھنا اہتے ہیں وہ بھی اطلاع دے دیں اور بحیثیت مجموعی سب دوست کوشش کریں کہ اپنے اس طریق عمل کو جاری رکھیں اوربجائے حساب بند کرانے کے اور دوستوں کو بھی ترغیب دے کر نئے حساب کھلوائیں۔ کیونکہ اس کے فوائد نہایت اہم ہیں اور اس کو جاری رکھنا نہایت ضروری ہے۔
پس تحریک جدید کے دوسرے دَور میں مَیں جماعت کے احباب سے جو مالی مطالبہ کرنا چاہتا ہوں وہ میں نے بتادیا ہے کہ تحریک کے پہلے سال میں دوستوں نے جس قدر چندہ دیا تھا کوشش کریں کہ اس سال بھی اسی قدر چندہ دیں۔ اور جو زیادہ دے سکتے ہیں وہ ثواب کے اس موقع کو نہ کھوئیں اور پہلے سے بھی زیادہ چندہ دیں۔ اور جو مجبور ہیں اور اس تحریک میں بالکل حصہ نہیں لے سکتے ان کے متعلق میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو دور کرے اور انہیں آئندہ نیکیوں کے کاموں میں شامل ہونے کی توفیق عطا کرے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے باوجود وعدے لکھوانے کے اپنے چندے ادا نہیں کئے ان سے میں کہتا ہوں کہ خدا تم پر رحم کرے۔ میں نے ہر چند چاہا کہ تم گنہگار نہ بنو میںنے تمہارے لئے اس چندہ کو طَوعی رکھا۔ میں نے تمہیں کہا کہ اگر تم وقت کے اندر ادا نہیں کرسکتے تو مزید مُہلت لے لو، میںنے تمہیں کہا کہ اگر تم بالکل دینے کی طاقت نہیں رکھتے تو چندہ معاف کرالو۔ مگر افسوس تم نے میری کسی رعایت سے فائدہ نہ اُٹھایا اور گنہگار ہونا پسند کرلیا۔
یاد رکھو مجھے روپے کی ضرورت نہیں ، میں اپنے لئے تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ میں خدا کیلئے اور اس کے دین کی اشاعت کیلئے تم سے مانگ رہا ہوں اور اگر تم اِس چندہ میں حصہ نہیں لوگے تو خدا خود اپنے دین کی ترقی کا سامان کرے گا۔ مگر میں اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دین کی ترقی میں حصہ نہ لے کر گنہگار نہ بنو۔ پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اس موقع کو غنیمت سمجھو اور خدمت اسلام کیلئے اپنے مالوں کو قربان کرو۔ جو شخص تکلیف اُٹھا کر اِس خدمت میں حصہ لے گا میں اُس کو یہ بتادینا چاہتا ہوںکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ دعا کرچکے ہیں کہ اے خدا! وہ شخص جو تیرے دین کی خدمت میں حصہ لے تُو اُس پر اپنے خاص فضلوں کی بارش نازل فرما اور آفات اور مصائب سے اسے محفوظ رکھ۔ پس وہ شخص جو اس تحریک میں حصہ لے گا اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس دعا سے بھی حصہ ملے گا اور پھر میری دعائوں میں بھی وہ حصہ دار ہوجائے گا۔ پس جو شخص اس تحریک میں حصہ لے سکتا ہے وہ لے اور اگر کوئی شخص اس میں حصہ نہیں لے سکتا تو میں اسے کہتا ہوں کہ تم ہرگز حصہ نہ لو، تم خدا کے حضور بری ہو۔ اور جو لوگ زیادہ حصہ لے سکتے ہیں انہیں میں کہتا ہوں کہ میری حد بندیوں کو نہ دیکھو خداتعالیٰ کے پاس غیرمحدود ثواب ہیں اگر تم زیادہ قربانی کرو گے تو زیادہ ثواب کے مستحق بنو گے۔
غرض یہ تحریک جدید کا مالی حصہ ہے جس کا مطالبہ آج میں نے سب کے سامنے پیش کردیا ہے اور میں نے بتادیا ہے کہ یہ چندہ رفتہ رفتہ گھٹتے گھٹتے پچاس فیصدی تک آجائے گا اور سات سال گزرنے کے بعد بند کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اُس وقت تک اِس محکمہ کو ایسا مضبوط بنادے کہ یہ اپنے پائوں پر آپ کھڑا ہوجائے اور اپنی مستقل آمد سے تبلیغ کی ضرورتوں کو پورا کرتا چلا جائے۔ اسی طرح وہ دوست جنہوں نے امانت فنڈ میں روپیہ جمع کرانے کا کام گزشتہ سالوں میں جاری رکھا ہے، انہیں میں یہ کہتا ہوں کہ وہ بھی یہ بتادیں کہ آئندہ کیلئے وہ اِس سلسلہ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں یا بند کرنا چاہتے ہیں۔ اگر بند کرنا چاہتے ہیں تو وہ ساتھ ہی یہ بھی بتادیں کہ وہ کس چیز کو ترجیح دیتے ہیں، روپیہ کو یا جائداد کو۔ گو مرکز اس بات کا پابند نہیں کہ وہ امانت جمع کرانے والے کو ضرور روپیہ دے لیکن اس بات کی کوشش ضرور کی جائے گی کہ اگر روپیہ ہو تو اُنہیں روپیہ ہی واپس کیا جائے اور اگر روپیہ نہ ہوا تو انہیں قیمت خرید کے مطابق کوئی جائداد دے دی جائے گی۔ لیکن میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ امانت فنڈ میں روپیہ جمع کرانے کا کام جاری رکھیں اور جو دوست ابھی تک اس میں شامل نہیں ہوئے وہ اِس وقت ہی شامل ہوجائیں۔ لیکن بہرحال جو لوگ نئے شامل ہوں گے یا وہ دوست جو اپنے گزشتہ طریق عمل کو جاری رکھیں گے، انہیں مسلسل سات سال اور امانت فنڈ میں روپیہ جمع کرانا پڑے گا اور گو روپیہ پس انداز کرنا صرف سات سال یا دس سال تک ضروری نہیں ہوتا، ساری عمر ہی انسان کو اپنا روپیہ پس انداز کرتے رہنا چاہئے۔ لیکن اس تحریک میں شامل ہونے والے کو سات سال اَور اپنا روپیہ امانت فنڈ میں جمع کرانا پڑے گا۔ اور اگر کوئی شخص سات سال تک جمع نہیں کراسکتا تو کم سے کم اَور تین سال کیلئے ہی جمع کرادے۔ لیکن میری نصیحت یہی ہے کہ جن دوستوں نے امانت فنڈ کی تحریک میں شمولیت اختیار کی ہے اُنہیں چاہئے کہ اُن سے جہاں تک ہوسکے اسے جاری رکھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ اس فنڈ میں روپیہ کی آمد میں کمی ہوتی چلی جارہی ہے۔ پہلے سال ستر پچھتر ہزار روپیہ جمع ہوا۔ دوسرے سال ساٹھ ہزار اور اس سال چالیس بیالیس ہزار۔ یہ کوئی یقینی اعداد و شمار نہیں۔ مگر جو صحیح اعداد و شمار ہیں وہ اس کے قریب قریب ہیں۔ حالانکہ یہ نہایت ہی اہم فنڈ ہے اور ایک مجلس شوریٰ کے موقع پر ایک خفیہ میٹنگ میں مَیںنے دوستوں پر اس کی اہمیت کو پوری طرح واضح کردیا تھا۔ پس اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اسے کسی لمحہ بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ گزشتہ احرار کے فتن میں ہمارے دشمنوں کو جو ناکامی ہوئی اس میں امانت فنڈ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اور اب جونیا فتنہ اُٹھا تھا اس نے بھی اگر زور نہیں پکڑا تو درحقیقت اس میں بھی بہت سا حصہ تحریک جدید کے امانت فنڈ کا ہے۔ پس اِس امانت فنڈ میں جو دوست حصہ لے سکتے ہیں وہ ضرور لیں اور چاہے ایک روپیہ یا دو روپے ماہوار جمع کرائیں بِالالتزام اِس فنڈ میں روپیہ جمع کراتے جائیں۔ اور جو پہلے ہی اس میں حصہ لے رہے ہیں وہ اسے جاری رکھیں اور سات سال اَور روپیہ جمع کراتے جائیں۔ لیکن جو لوگ سات سال تک روپیہ جمع نہ کراسکتے ہوں وہ کم از کم تین سال اَور ہی اس میں حصہ لیں۔ اور جو لوگ آئندہ اس میں شامل نہیں رہنا چاہتے اور اپنی جمع شدہ امانت واپس لینا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ یہ اطلاع دیں کہ وہ روپیہ لینا چاہتے ہیں یا جائداد لینا چاہتے ہیں۔ اگر روپیہ کا مطالبہ کریں تو گو کوشش ہماری یہی ہوگی کہ انہیں روپیہ واپس دیا جائے لیکن اگر روپیہ نہ دیا جاسکا تو جیسا کہ میں نے پہلے بتادیا تھا انہیں اِس روپیہ کے بدلہ میں اِسی قیمت کی جائداد دے دی جائے گی اور جو آئندہ کیلئے اس میں شامل رہنا چاہتے ہوں لیکن گزشتہ امانت واپس لینا چاہتے ہوں وہ بھی اطلاع دے دیں۔ غرض تمام دوستوں کی طرف سے فرداً فرداً اطلاعات آجانی چاہئیں۔ اس کے بعد ایک کمیٹی بنادی جائے گی جس میں حصہ داران کو بھی شامل کیا جائے گا اور وہ روپیہ کی تقسیم کے کام میں مشورہ دیں گے تا کسی کو شکایت پیدا نہ ہو۔
پس مالی مطالبہ سے مَیں اس تحریک جدید کے دوسرے دَور کا آغاز کرتا ہوں اور اس کی باقی تفصیلات کو اگلے خطبات پر ملتوی کرتا ہوں۔ اُس وقت میں بتائوں گا کہ ہماری جماعت پر کتنی اہم ذمہ واریاں عائد ہیں اور اسے اپنے نظام میں کس رنگ میں تبدیلی کرنی چاہئے۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلاَّ بِاللّٰہِ۔
(الفضل ۴؍ دسمبر ۱۹۳۷ئ)
۱؎ المؤمنون: ۱۱۶،۱۱۷
۲؎ الفاتحہ: ۲ تا۴
۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۲۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۴؎ تذکرہ صفحہ ۶۶۔ ایڈیشن چہارم
۵؎ موضوعات کبیر۔ ملاعلی قاری صفحہ۵۹۔ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ
۶؎
۷؎
۸؎ مسلم کتاب العید والذبائح باب الامر باختان الذبح … (الخ)
۹؎ مسلم کتاب العید والذبائح باب النھي عن صبر البھائم
۱۰؎
۱۱؎ ابوداؤد کتاب الجہاد باب النھی عن الوسم فی الوجہ… (الخ)
۱۲؎
۱۳؎ البقرۃ: ۲۲۹ ۱۴؎ التحریم: ۷ ۱۵؎ الفجر: ۳۰،۳۱
۱۶؎ الشعرائ: ۲۲۵
۱۷؎ بخاری کتاب العیدین باب الحراب والدرق یوم العید
۱۸؎
۱۹؎ تَرَفُّہ: دولتمندی، خوشحالی، آسودگی
۲۰؎ بخاری کتاب الرقاق باب التواضع

۳۷
مسجد اقصیٰ کی توسیع کی ضرورت اور
آلۂ نشرالصوت لگانے کا ارشاد
تحریک جدید کے ماتحت مخلصین جماعت کی مالی قربانی مزید سات سال تک ممتد کرنے کا مقصد
(فرمودہ ۳ ؍دسمبر ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
سب سے پہلے تو میں صدر انجمن احمدیہ کے اس محکمہ کو توجہ دلاتا ہوں جو مساجد کا انتظام کرتا ہے کہ دو سال سے مساجد اور مہمان خانہ کی توسیع کیلئے چندہ جمع ہورہا ہے۔ مہمان خانہ تو خیر بن گیا ہے لیکن مساجد میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ حالانکہ برابر دو سال سے جماعت کیلئے جمعہ کی نماز پڑھنا نہایت ہی مشکل ہورہا ہے۔ اس تنگی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جن لوگوں کو جگہ نہیں ملتی یا ایسی جگہ ملتی ہے جہاں آواز یا تو پہنچ ہی نہیں سکتی یا پہنچتی ہے تو ٹھیک طرح نہیں پہنچتی، ان میں سے وہ کمزور طبع لوگ جو روحانیت میں پکے نہیں گھروں میں ہی رہ جایا کریں گے اور خیال کرلیا کریں گے کہ جگہ تو ملتی نہیں مسجد میں جاکر کیا کرنا ہے۔ ہر جمعہ کی نماز بیسیوں لوگ گلی میں پڑھتے ہیں او ریہ حالت استثنائی نہیں بلکہ یہ ایک قانون بن گیا ہے اور یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ مسجد میں مزید ایک بھی آدمی کی گنجائش نہیں ہوتی۔میں نہیں سمجھتا کہ وہ روپیہ جو توسیع مساجد کیلئے جمع ہوچکا ہے کیوں جمع رکھا ہوا ہے اور کیوں اسے معاً خرچ کرکے مساجد کو وسیع نہیں کیا جاتا۔ جہاں تک مجھے علم ہے اِس وقت تک تین چار ہزار روپیہ جمع ہے۔ اور گو مجھے عمارت وغیرہ کے متعلق واقفیت نہیں پھر بھی یہ کہہ سکتا ہوں کہ تین ہزار روپیہ لگا کر ایسی تبدیلی کی جاسکتی ہے کہ یہ ساری مسجد مردوں کیلئے ہی رہ جائے بلکہ اور بھی بڑھائی جاسکے اور عورتوں کیلئے علیحدہ جگہ بن سکے۔ اِردگرد کے مکانات سب خریدے جاچکے ہیں ۔ اگر صرف گلی کو ہی پاٹ لیا جاتا تو دوسرا مکان ساتھ ملا کر ہزار بارہ سَو آدمی کیلئے اور جگہ نکل سکتی ہے اور کچھ حصہ عورتوں کیلئے وقف کیاجاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ خطبہ جمعہ کے متعلق دیر سے یہ سوال پیدا ہوچکا ہے کہ اب لوگ اس کثرت سے ہوتے ہیںکہ ہر ایک تک آواز پہنچانا مشکل ہوتا ہے اور ادھر اللہ تعالیٰ نے لائوڈ سپیکر بھی ایجاد کرادیئے ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ اس سے فائدہ نہ اُٹھایا جائے۔ قریباً چھ ماہ کا عرصہ ہوا مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک دوست نے اپنے خرچ پر لائوڈ سپیکر لگوادینے کا وعدہ کیا ہے مگر معلوم نہیں ابھی تک لگا کیوں نہیں۔ جب یہ حقیقت ہے کہ اس کی ضرورت بھی ہے، ایک دوست نے وعدہ بھی کیا ہوا ہے تو پھر دیر کیوں ہے۔ منتظمین کو یاد رکھنا چاہئے کہ جتنے لوگ خطبہ سننے سے محروم رہتے ہیں اُتنا ہی وہ اِس غرض کو فوت کرتے ہیں جس کیلئے جمعہ رکھا گیا ہے۔ شریعت نے خطبہ کو اِس قدر اہمیت دی ہے کہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے حق میں سے بھی کچھ وقت بندہ کو چھوڑ دیا ہے۔ گویا اس طرح اللہ تعالیٰ تمثیلی زبان میں فرماتا ہے کہ لو اس اہم کام کے لئے ہم بھی بندہ کو یہ وقت بطور تحفہ دیتے ہیں۔ کیونکہ جو شخص جمعہ کی نماز میں شامل نہ ہوسکے اسے ظہر کی چار رکعتیں ہی پڑھنی پڑتی ہیں مگر جمعہ کی اللہ تعالیٰ نے دو رکھی ہیں اور دو خطبہ کیلئے چھوڑ دی ہیں۔ اِس سے خطبہ کی عظمت کا پتہ لگ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کیلئے اپنی نماز میں سے وقت چھوڑ دیا ہے۔ گویا اسے اتنی اہمیت دی ہے کہ اس میں دو رکعت کے وقت کا چندہ اپنی طرف سے دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جمعہ کے روز جو لیکچر ہو اُس میں سے دو رکعت نماز کا وقت ہماری طرف سے بھی چھوڑا جاتا ہے۔ اور جس کام کیلئے اللہ تعالیٰ اپنی ذاتی عبادت میں سے وقت دے اس کی اہمیت ظاہر ہے۔ پھر جمعہ کو اس قدر اہمیت ہے کہ ایک سورۃ قرآن شریف میں اسی نام سے ہے۔ پس اس عظیم الشان نیکی سے جماعت کے ایک حصہ کو بِلاوجہ ایک لمبے عرصہ کیلئے محروم رکھنا بہت ہی بُری بات ہے۔ جب ایک چیز ایجاد ہوچکی ہے، اس کی ضرورت بھی موجود ہے اور ایک دوست اخراجات ادا کرنے کا وعدہ بھی کرچکے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگوں کو ثواب سے محروم رکھا جائے۔ اسی طرح مساجد کی توسیع کا کام ہے۔ اس کیلئے بھی روپیہ جمع ہے، مکانات خریدے جاچکے ہیں۔ پھر اس میں تاخیر کے کیا معنی ہیں (مجھے بتایا گیا ہے کہ لائوڈسپیکر کیلئے امریکہ آرڈر دیا گیا ہے اور مسجد کی توسیع کی رقم ابھی اس قدر نہیں کہ اس کام کو شروع کیا جاسکے۔ لیکن میں نے تاکید کردی ہے کہ کام فوراً شروع کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ سامان پید اکردے گا)۔
اس کے بعد میں دوستوں کو اختصار کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید کے مالی حصہ کے نئے دور کا اعلان گزشتہ جمعہ میں کرچکا ہوں۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے میری یہ سکیم ہے کہ اس کی مالی تحریک کو سات سال کے عرصہ میں ختم کردیا جائے اور سے درجہ بدرجہ اس طرح کم کرتے جائیں کہ آخری تین سالوں میں یہ چندہ پچاس فیصدی رہ جائے گا اور پھر سات سال کے بعد بالکل چھوڑ دیا جائے گا۔ کیونکہ کوشش ہورہی ہے کہ ایسا مستقل سرمایہ مہیا ہوجائے کہ تحریک جدید کے کاموں کیلئے کسی علیحدہ چندہ کی ضرورت ہی نہ رہے۔ سوائے اس کے کہ کبھی کوئی خاص ضرورت پید اہوجائے۔ لیکن عام ضروریات کیلئے مستقل سرمایہ ہو۔ اس وقت تحریک جدید کے ماتحت ہم گیارہ بارہ مشن قائم کرچکے ہیں اور ان کا کام اس قدر کفایت سے چلایا جاتا ہے کہ ان پر اس رقم سے بھی کم خرچ ہوتا ہے جو ہمارے پُرانے دو تین مشنوں پر خرچ ہوتی ہے۔ ان مشنوں میں سے تین تو یورپ میں ہیں جس کے ممالک کی گرانی مشہور ہے اور ایک امریکہ میں جہاں یورپ سے بھی زیادہ گرانی ہے۔ مگر ان سب پر روپیہ اس سے بھی کم خرچ ہورہا ہے جو پُرانے دو تین مشنوں پر ہوتا ہے اور یہ ان نوجوانوں کے تعاون کی وجہ سے ہے جو باہر گئے ہوئے ہیں اور جنہوں نے یہ وعدہ کیا ہے کہ خود تکالیف اُٹھا کر بھی دین کا کام کریں گے۔ اس لئے ان چار مشنوں پر ہمارا اتنا بھی خرچ نہیں ہوتا جتنا صرف انگلستان کے مشن پر ہورہا ہے۔ انگلستان کے مشن پر قریباً سات آٹھ سَو روپیہ ماہوار خرچ ہوتا ہے اور یہ بھی اب کم ہوا ہے پہلے گیارہ بارہ سَو ہوتا تھا مگر ان چار مشنوں پر قریباً ۲۷۵ روپے ماہوار خرچ ہورہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ خرچ لٹریچر کے علاوہ ہے یعنی رسالے اور کتب وغیرہ ان مشنوں کو علیحدہ مہیا کی جاتی ہیں مگر یہ خرچ انگلستان کے مشن پر بھی الگ ہوتا ہے۔ اور یہ خرچ ایسا ہے کہ ہم جتنا چاہیں کرسکتے ہیں۔ جتنا لٹریچر چھپوائیں اسی کے لحاظ سے خرچ ہوگا۔ خواہ دس لاکھ کریں یا ایک سَو کریں۔ جہاں تک کام کرنے والوں کا دخل ہے چار مشنوں پر صرف پونے تین سَو روپے ماہوار کے قریب خرچ ہے۔ ان میں سے ایک مشن یعنی امریکہ کا مشن تو ایسا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی کامیابی ہورہی ہے۔ وہاں کا مشنری خود محنت کرکے اپنا گزارہ کرتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے ایک مخلص جماعت عربوں کی بھی ایسی دے دی ہے جو چندہ دیتی ہے اور ان کا چندہ اب یہاں بھی آنا شروع ہوگیا ہے اور امید ہے کہ وہاں جلد ترقی ہوتی جائے گی۔ کیونکہ وہاں ایک خاصی تعداد عربوں کی ہے جو سلسلہ کی طرف متوجہ ہیں۔ ان کے علاوہ چین میں، جاپان میں اور سٹریٹ سیٹلمنٹ میں بھی ہمارے مشن قائم ہوچکے ہیں اور دو دو مبلغ وہاں کام کرتے ہیں۔ اور پھر مصر اور افریقہ میں بھی مبلغین پہنچ چکے ہیں اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنے خرچ پر ہی کام کررہے ہیں یا برائے نام امداد لیتے ہیں اور بعض تو گئے بھی اپنے خرچ پر ہیں۔ جن مبلغوں کو خرچ جاتا ہے اُنہیں بھی ہماری ہدایت یہ ہے کہ خرچ بہت ہی کم کریں۔ ان کے علاوہ کچھ مشن ہندوستان میں بھی تحریک جدید کے ماتحت قائم ہیں۔ مثلاً دیرووال ضلع امرتسر میں یا مکیریاں ضلع ہوشیارپور میں، ایک مشن کراچی میں ہے۔ ان میں بعض لوگ برائے نام گزارہ پر کام کرتے ہیں اور باقی جماعت کے دوست مہینہ مہینہ یا بیس بیس یا دس دس دن جاکر کام کرتے ہیں۔ ان مشنوں کے علاوہ انگریزی لٹریچر کی ضرورت کو بھی پورا کیا جارہا ہے۔ انگریزی اخبار ایک سن رائز لاہور سے اور ایک مسلم ٹائمز لندن سے شائع ہوتے ہیں۔ ان میں سے بِالخصوص سن رائز کی ضرورت اور اہمیت کو بہت محسوس کیا جارہا ہے۔ اور یہ پرچہ اگرچہ ہمیں قریباً مفت ہی دینا پڑتاہے مگر فائدہ بہت ہے۔ امریکہ سے نَو مسلمین نے لکھا ہے کہ یہ اخبا ربہت ضروری ہے اور اسے پڑھ کر ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ بھی جماعت کا ایک حصہ ہیں۔ خصوصاً اس میں جو خطبۂ جمعہ کا ترجمہ ہوتا ہے وہ ہمارے لئے ایمانی ترقیات کا موجب ہے۔ پہلے ہم یوں سمجھتے تھے کہ جماعت سے کٹے ہوئے الگ تھلگ ہیں مگر اب خطبہ پہنچ جاتا ہے اور ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم بھی گویا جماعت کا ایک حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ کتابیں بھی شائع کی جاتی ہیں۔ پہلے احمدیت کو شائع کیا گیا اور دو تین اور کتابیں اس سال بھی شائع کی جارہی ہیں۔ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ جس کیلئے مولوی شیر علی صاحب ولایت گئے ہوئے ہیں، اس کیلئے بھی تحریک جدید سے ایک معقول رقم علیحدہ کردی گئی ہے۔
اس کے علاوہ غرباء کے لئے کارخانے بھی جاری کئے گئے ہیں تا یتامیٰ اور مساکین بچے تعلیم پاسکیں۔ اِس وقت بیس بائیس ایسے طالب علم ہیں جن میں سے بعض کا تو سارا خرچ ہمیں برداشت کرنا پڑتا ہے اور بعض کو امداد دینی پڑتی ہے اور ان کیلئے دینی تعلیم کا تمام خرچ ہمیں کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک مستقل کام ہے جسے تین سال کے بعد چھوڑا نہیں جاسکتا۔ پھر ابھی تک کئی ممالک ایسے ہیں جہاں مبلغین پہنچنے چاہئیں مگر نہیں پہنچے۔ مومن کسی نیک کام کو شروع کرکے اُسے بند نہیں کرتا بلکہ اسے بڑھاتا ہے اور یہی نیت میری ہے کہ اگر خداتعالیٰ توفیق دے تو ہر ملک میں مشن قائم کردیئے جائیں۔ اب تک توصرف یہ کوشش کی گئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچادیا جائے اور اس میں بعض ناتجربہ کار لوگوں سے کام لینا پڑا ہے۔ بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں تجربہ کاروں کا انتظار نہیں کیا جاسکتا۔ کسی شخص کے مکان پر ڈاکوئوں نے حملہ کیا ہوا ہو تو کیا وہ یہ انتظار کرتا ہے کہ سپاہی آئیں تو ان سے لڑائی کریں؟ نہیں بلکہ اس کے گھر کے لوگوں میں سے جس کے ہاتھ میں لٹھ آجائے وہ لٹھ لے کر، جس کے ہاتھ میں کدا ل ہو وہ کدال لے کر مقابلہ کیلئے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اُس وقت تجربہ کاروں کے انتظار میں وقت ضائع نہیں کیا جاتا۔ تو یہ جو مشن ہیں یہ ناتجربہ کار نوجوانوں کو بھیج کر قائم ہوئے ہیں اور اس وجہ سے ان سے غلطیاں بھی ہوتی رہتی ہیں اور کچھ انہیں خودبخود تجربہ ہوتا جاتا ہے ار کچھ اہم اصلاح کرتے ہیں۔ مگر اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام ان ممالک میں پھیل رہا ہے اور خدا کا یہ کلام پورا ہورہا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائوں گا۔ اور ہم اس کے پورا کرنے میں ممد ہورہے ہیں۔ مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسے عظیم الشان کام کیلئے تجربہ کار مبلغ ہی زیادہ مفید ہوسکتے ہیں مگر ایسے مبلغ ہمارے پاس ہیں نہیں۔ جو مبلغ جامعہ احمدیہ سے نکلتے ہیں وہ انگریزی نہیں جانتے۔ اسی دن کیلئے میں برابر دس سال سے اس بات پر زور دے رہا تھا کہ مبلغین کیلئے انگریزی لازمی رکھی جائے۔ گویہ دین کا حصہ نہیں مگر دین کا کام فی زمانہ اِس کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ مگر افسوس ہے کہ محکموں نے میرے ساتھ تعاون نہیں کیا اور جو مبلغ نکلتے ہیں وہ اس کا چوتھا حصہ بلکہ دسواں حصہ انگریزی بھی نہیں جانتے جتنی کہ بیرونی ممالک میں کام کرنے کیلئے جاننا ضروری ہے۔ اور اس لئے ہمیں ایسے نوجوانوں سے کام لینا پڑتا ہے جو انگریزی دان ہوتے ہیں، مگر وہ دینیا ت سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے۔ اس کیلئے ہم اُن کو چند کتابیں ہی پڑھاسکتے ہیں حالانکہ یہ کافی نہیں۔ باہر کئی پیچیدہ مسائل پیش آجاتے ہیں جنہیں ایسے لوگ حل نہیں کرسکتے۔ کیونکہ چند کتابیں دینیات کی پڑھنے سے دین کے لاکھوں مسائل کا علم نہیں ہوسکتا۔ اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو ان کو سُبکی ہوتی ہے اور یا پھر وہ غلط مسائل بتادیتے ہیں۔ یہ بات بِالخصوص یورپ میں بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اور پھر غلط مسائل کا نکالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لوگ یہی کہتے ہیں کہ سب سے پہلا فقیہہ جو آیا تھا اس نے ہمیں یہی بتایا تھا۔
پس ضروری ہے کہ ایسے مبلغ ہوں جو دین کے پورے ماہر ہوں (مجھے یاد آیا یورپ میں تین نہیں بلکہ چار مشن تحریک جدید کے ماتحت قائم ہیں۔ پولینڈ، البانیہ، ہنگری اور اٹلی۔ اور ان سب پر اس خرچ سے آدھے سے بھی کم خرچ ہوتا ہے جو انگلستان کے مشن پر ہوتا ہے)۔ توہمیں اس امر کی سخت ضرورت ہے کہ ایسے آدمی مہیا کریں جو دین کے بھی ماہر ہوں اور غیرملکی زبانیں بھی جانتے ہوں اور اس کیلئے ہمیں ایک خاص سکیم تیار کرنی پڑے گی۔ یا تو ایسے آدمیوں کوجو مولوی ہوں انگریزی پڑھانی پڑے گی اور یا پھر انگریزی دانوں کیلئے عربی اور دینیات کی تعلیم کا انتظام کرنا پڑے گا۔ پہلے تو جو بھیجے گئے ہیں وہ اِسی نقطۂ نگاہ کو مدنظر رکھ کر بھیجے گئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام جہاں جہاں بھی ممکن ہو جلد سے جلد پہنچایا جائے۔ اس لئے فوراً جو مل سکے وہ بھیج دیئے گئے تا وہ نام پہنچائیں اور تعلیم دینے والے بعدمیں آئیں گے۔ اِس وقت جو پانچ مشن مغربی ممالک میں ہیں ان میں سے دو میں تو مولوی فاضل مبلغ کام کررہے ہیں اور تین انگریزی دان ہیں جنہیں دینی تعلیم حاصل نہیں اور ہم نے اُن کو یونہی بھیج دیا ہے۔ ان کی جگہ ہمیں ایسے لوگ بھیجنے ہوں گے جو عالم ہوں اور ان کو بُلا کر یا تو فارغ کرنا پڑے گا اور یا ایسے رنگ میں ان کو تعلیم دینی پرے گی کہ وہ پھر واپس جاکر مشن کا چارج لے سکیں۔ نئے مشنوں کیلئے ہمیں ابھی سے انتظام کرنا چاہئے کہ یا تو مولوی انگریزی پڑھ سکیں اور یا پھر انگریزی دان عربی اور دینیات کی تعلیم حاصل کرسکیں اور یہ سالہا سال کا مسلسل کام ہے۔
اب ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اکثر ممالک میں تین چارسال کے عرصہ میں مفت مشن کھول سکیںگے۔ اب بھی کئی جگہ مبلغین یا تُوکُلّی طور پر اپنا خرچ خود برداشت کررہے ہیں یا کچھ ہم دیتے ہیں اور باقی وہ خود کماتے ہیں اورمجھے امید ہے کہ کچھ مزید تجربہ کے بعد کوئی نہ کوئی صورت ایسی پیدا ہوجائے گی کہ مبلغین اپنے گزارے آپ کرسکیں۔ صرف تبلیغی لٹریچر یا مبلغین کی ٹریننگ ہمارے ذمہ ہوگی۔ ان کے علاوہ ہندوستان کیلئے ہمیں پیشہ ور مشنری تیار کرنے ضروری ہیں اور یہ چمڑے کے کام، بوٹ سازی وغیرہ اور لوہار ترکھان کے کام سکھانے کیلئے جو کارخانہ جاری کیا گیا ہے اس کی غرض یہی ہے کہ ہم اچھے بوٹ ساز ، اچھے لوہار اور اچھے ترکھان پید اکریں جو دین کے بھی عالم ہوں۔ تا وہ جہاں جائیں، خواہ بسلسلۂ ملازمت یا اپنے طور پر کام کرنے کیلئے وہ اچھے عالم اور مبلغ بھی ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے کاموں پر مبلغوں سے زیادہ خرچ آتا ہے کیونکہ ان کو سکھانے کیلئے لکڑی، لوہا اور چمڑا ضائع کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ ضائع نہ کیا جائے تو وہ سیکھ نہیں سکتے۔ اس لئے یہ کام بہت اخراجات چاہتے ہیں اور اس کیلئے بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ مگر کچھ تو روپیہ کی کمی کی وجہ سے اور کچھ دوسرے کاموں کی طرف توجہ کی وجہ سے ہم اس کی طرف پوری توجہ نہیں دے سکے میرا اراد ہے کہ اس کام کو بھی مستقل بنیاد پر قائم کیا جائے۔ اور اگر یہ سکیم کامیاب ہوجائے تو سینکڑوں نوجوان کام پر لگ سکتے ہیں جو ساتھ ہی مبلغ بھی ہوں گے۔ میں نے سوچا ہے کہ ان سب باتوں کیلئے کم سے کم سات سال کی سہولت ہمیں ملنی چاہئے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقین ہے کہ ایسا فنڈ قائم ہوجائے کہ سب کام آسانی سے چل سکیں اور مزید چندوں کی بھی ضرورت نہ رہے۔ اور ہم بغیر چندوں کے ہی اِس قابل ہوسکیں کہ ایک طرف تو بیرونی ممالک میں ایسے مبلغ بھیج سکیں جو ماہر دین بھی ہوں اور دوسری طرف سینکڑوں ایسے لوہار، ترکھان اور چمڑے کا کام کرنے والے نوجوان پید اکردیں جو دین کے عالم بھی ہوں اورجو ہندوستان کی سب منڈیوں میں پھیل جائیں اور اپنا کام کرنے کے علاوہ وہاں قرآن کریم اور احادیث کا درس بھی دے سکیں اور تبلیغ بھی کریں۔ اسلام کی تبلیغ دراصل اِسی طرح ہوئی ہے۔ ان بزرگوں کے ناموں کو اگر دیکھا جائے جنہوں نے اسلام پھیلایا ہے تو ان کے ناموں کے ساتھ ایسے القاب ہیں کہ فلاں رسیاں بٹنے والا تھا، فلاں بوٹ بنانے والا تھا، فلاں گھی بیچنے والا تھا۔ دراصل صوفیاء نے تبلیغ اسلام کا یہ ذریعہ نکالا تھا کہ وہ اپنے شاگردوں کو ایسے پیشے سکھاتے کہ وہ اپنا پیٹ پالنے کے قابل ہوسکیں اور پھر اُنہیں باہر بھیج دیتے تھے کہ جاکر اپنا کام بھی کریں اور ساتھ تبلیغ اسلام بھی۔ یہی ایک ذریعہ ہے جس میںاگر ہم کامیاب ہوجائیں تو لاکھوں مبلغ مُفت ملک کے کونہ کونہ میں بھیج سکتے ہیں۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کی رُو سے جو اس سال شائع ہوئے ہیں، ہمارے ملک کی آبادی ساڑھے سینتیس کروڑ ہے۔ اس میں سے اگر نصف بھی مرد ہوں تو گویا پونے انیس کروڑ مرد ہیں۔ ان میں سے اگر آدھے جوان ہوں تو قریباً ۹ کروڑ جوان مردہیں اور اندازہ کیا گیا ہے کہ ہر سَو میں سے کم سے کم بیس پیشہ ور ہیں اور باقی جو ۸۰ فیصدی ہیں وہ زراعت یا تجارت یا ملازمت کرتے ہیں۔ گویا ہمارے ملک میں کم سے کم ایک کروڑ اسّی لاکھ انسان پیشہ ور ہیں یعنی دھوبی، نائی، درزی، موچی، لوہار، ترکھان وغیرہ۔ اور اگر ہم پوری کوشش کریں اور ان ایک کروڑ اسّی لاکھ میں سے سواں حصہ بھی لے لیں تو بھی گویا ہمارے لئے اس میدان میں ایک لاکھ اسّی ہزار اپنے آدمی داخل کردینے کی گنجائش ہے۔ اور اگر اتنے آدمی سارے ملک میں پھیل جائیں تو بیس پچیس سال میں سارا ملک احمدی ہوسکتا ہے اور یہ سکیم ایسی ہے کہ اسے جتنا بھی پھیلایا جائے اتنی ہی کامیابی ہوسکتی ہے۔
اس کے علاوہ یتیموں او ربیوائوں کی پرورش کا سوال بھی میرے سامنے ہے اور یہ بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔ اور اس طرح وہ طبقہ جو عام طور پر نظر انداز ہوتا ہے، وہ نمایاں طور پر آگے آسکتا ہے اور ایسے لوگ دین کے خادم بننے کے علاوہ اپنی روزی بھی کماسکتے ہیں۔ مگر یہ کام ایسے ہیں کہ جن پر مبلغین کی تیاری سے زیادہ خرچ آتا ہے۔ کیونکہ اوّل تو پیشہ ور اُستاد بہت مشکل سے ملتے ہیں اور پھر یہ کام سکھانے کیلئے بہت سا سامان ضائع کرنا پڑتاہے۔ اس لئے جب تک اس سکیم کو ایسا مکمل نہ کرلیا جائے کہ یہ اپنا بوجھ خود اُٹھالے اُس وقت تک کامیابی مشکل ہے۔ شروع میں اس سکول میں نو طالب علم لئے گئے تھے اورمیرا خیال تھا کہ ہر سہ ماہی پر ہم مزید نو لڑکے لیتے جائیں گے اور اگر مزید کامیابی ہوتی تو اِس وقت اسّی طالب علم ہوتے۔ مگر اِس وقت ہیں صرف بیس ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے جو مشورہ دیا گیا تھا وہ صحیح نہ تھا اور جتنے عرصہ میں مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ لڑکے اپنی روزی کمانے کے قابل ہوسکیں گے وہ غلط تھا۔ کیونکہ وہ لڑکے ابھی تک بھی اپنی روزی کمانے کے قابل نہیں ہوسکے۔ دراصل اس قابل ہونے کیلئے تین چار سال درکار ہیں۔ اور یہ طالب علم جوں جوں کام سیکھتے جائیں گے ، اپنی روزی کمانے کے قابل ہوتے جائیں گے اور اس طرح بیوائوں اور یتیموں کا سوال خودبخود حل ہوتا جائے گا او رمبلغ بھی تیار ہوتے جائیں گے۔
ان سب باتوں پر غور کرکے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سکیم کو کم سے کم سات سال تک ممتد کیا جائے۔ اور اس عرصہ میں ہم کوشش کریں کہ یہ کام اپنا بوجھ آپ اُٹھاسکیں اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ اگر ہم اس میں کامیاب ہوجائیں تو یہ ہمارا اتنا بڑا کارنامہ ہوگا کہ جس کی کوئی مثال موجودہ زمانہ میں نہیں مل سکے گی۔ اس میں شک نہیں کہ دیال باغ وغیرہ میں ایسی سکیمیں کامیاب ہوچکی ہیں مگر وہ کوششیں صرف ایک گائوں کے متعلق ہیں اور ان پر لاکھوں روپیہ خرچ ہورہا ہے۔ مگر ہم نے ساری دنیا میں مبلغ بھیجنے ہیں۔ ایک گائوں کی اصلاح کرنا اور بات ہے اور ساری دنیا میں مبلغین کا پھیلانا اور اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص کہے کہ دیکھوں فلاں عورت تو اپنے گھر میں بڑے اطمینان کے ساتھ روٹیاں پکالیتی ہے اور تم جلسہ سالانہ پر روٹیوں کے انتظامات کیلئے اِس قدر گھبراہٹ کا اظہار کرتے ہو۔ آگرہ کے پاس ایک گائوں خاص سکیم کے ماتحت نیا بنالینا اور ساری دنیا میں تبلیغ کیلئے آدمی تیار کرنا اور پھر ان کی علمی اور اخلاقی نگرانی کرنا ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔ اس وقت امریکہ میں کئی ایسے سکول ہیں جو دیال باغ کی طرح کام کررہے ہیں۔ مگر ہم نے تو دنیا میں مبلغین پھیلانے ہیں۔اور پھر ایک بہت بڑی دقت یہ ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو تجارتی اور صنعتی کاموں سے واقف نہیں۔ میں خود جو اس کام کو چلارہا ہوں زراعت پیشہ ہوں اور نہ معلوم سینکڑوں یا ہزاروں سال سے ہمارا خاندان تجارتی کاموں سے بے تعلق چلا آتا ہے۔ اس لئے اگر خداتعالیٰ ہمیں اس میں کامیاب کردے تو یہ ایک ایسا کام ہوگا جس کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکے گی۔ مگر یہ ساری کامیابی تو جہ، دیانت داری اور تعاون کو چاہتی ہے اور مجھے افسوس ہے کہ ابھی جماعت میں تعاون کی روح پید انہیں ہوئی۔
عورتوں کے متعلق میں نے ایک سکیم بنائی تھی اور اس کیلئے خود روپیہ دیا تھا اور لجنہ کے ذریعہ کوشش کی تھی کہ غریب عورتیں کام کریں۔ اور میں جانتا ہوں کہ یہاں بہت سی عورتیں ایسی ہیں کہ جن کو وہ کام کرنا چاہئے تھا مگر میں نے دیکھا ہے کہ وہ گزارہ کیلئے مانگتی تو تھیں مگر کام یہ کہہ کر کرنے سے انکار کردیتی تھی کہ مزدوری تھوڑی ہے۔ حالانکہ یہاں جو مزدوری ہم دیتے تھے وہ اُس سے ڈیوڑھی تھی جو امرتسر میں اسی کام کیلئے ملتی ہے۔ مگر وہ اس اُجرت پر کام نہیں کرتی تھی اور گھر بیٹھی درخواستیں لکھوا لکھوا کر بھیجتی رہتی تھیں کہ ہمیں فلاں ضرورت ہے، فلاں حاجت ہے، ہماری مدد کی جائے۔ حالانکہ میں نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اس کام سے جو آمدنی ہوگی وہ بھی غرباء پر ہی خرچ ہوگی۔ انہیں تو چاہئے تھا کہ اگر مزدوری کم بھی تھی تو کام کرتیں۔ امرتسر میں اگر ایک ازاربند بنانے کی اُجرت ایک پیسہ ہو اور یہاں صرف دھیلا بلکہ دمڑی ملتی پھر بھی ان کو چاہئے تھا کہ کام کرتیں کیونکہ وہ آمدنی پھر غرباء میں جانی تھی۔ مگر انہوں نے ڈیوڑھی دُگنی مزدوری لے کر بھی کام کرنا پسند نہ کیا۔ اور یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت تاجر نہیں۔ ہمارے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کام وہ کرنا چاہئے جس میں پورا گزارہ ہوسکے۔ حالانکہ بہتر یہ ہے کہ جو کام بھی ملے وہ کرلیا جائے اور پوری محنت کرنے کے بعد اور پورا وقت کام کرنے کے باوجود اگر گزارہ نہ ہو تو انسان کا حق ہے کہ امداد کی درخواست کرے۔ ایک شخص پورا وقت کام کرتا ہے مگر پھر بھی دو روپیہ ہی کماسکتا ہے تو اس کا حق ہوجاتا ہے کہ اس کی باقی ضرورتیں جماعت پوری کرے۔ کیونکہ جو شخص بتادیتا ہے کہ روزانہ چھ گھنٹے کام کرنے کے باوجود اسے دو روپے ہی مل سکے ہیں وہ سائل نہیں اور اس کا حق ہے کہ جماعت اس کی امداد کرے۔ لیکن جو اس خیال سے کام ہی نہیں کرتا کہ دو روپے میں اس کا گذارہ نہیں ہوسکتا اور پھر خواہش رکھتا ہے کہ اس کی ضرورتیں جماعت پوری کرے وہ سائل ہے اور سوال کو روکنے کی اسلا م نے حد درجہ کوشش کی ہے۔
پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعتیں اپنی ذمہ واری کو سمجھیں گی اور کوشش کریں گی کہ اس معیار کے مطابق جو چندہ کامیں نے مقرر کیا ہے چندہ دیں۔ میں جانتا ہوں کہ اگر میں یہ تحریک کرتا کہ گزشتہ سال جتنا چندہ دیا گیا ہے اُس سے زیادہ دیا جائے تو جماعتیں یقینا زیادہ دیتیں۔ مگر اب کے میں نے کم کیلئے کہا ہے۔ بعض لوگ سُستی کریں گے اور خیال کرلیں گے کہ شاید اب ایسی ضرورت نہیں رہی۔ اقوام جب کمی کی طرف آتی تو اُس وقت اُن کا قدم تنزّل کی طرف اُٹھا کرتا ہے۔ اس لئے یہ سال چندہ کے لحاظ سے نازک سال ہے۔ کیونکہ کئی لوگ کمی کا نام سن کر ہی خیال کرلیں گے کہ اب ضرورت نہیں اس لئے کمی کے وقت ہمیشہ یہ احتیاط کرنی چاہئے کہ بالکل بندہی نہ ہوجائے۔
تحریک جدید کے سب سے پہلے سال میں ایک لاکھ سات ہزار روپیہ کا وعدہ ہوا تھا اور اس سال بھی میں نے کہا ہے کہ اتنی ہی رقم جمع کی جائے۔ اگلے سال اِس سے دس فیصدی کم یعنی ۹۶۰۰۰ ، اس سے اگلے سال اس سے دس فیصدی کم اور اس طرح یہ رقم کم ہوتی جائے گی۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کمی کے لفظ کے ساتھ ہی سُستی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر میں اِس سال گزشتہ سال سے زیادہ کی تحریک کرتا تو میں سمجھتا ہوں مجھے اس کے متعلق دوسرے خطبہ کی ضرورت پیش نہ آتی اور لوگ خود بخود ہی خیال کرلیتے کہ ابھی تک نازک وقت موجود ہے۔ پہلے سال ایک لاکھ سات ہزار کے وعدے ہوئے تھے، دوسرے سال ایک لاکھ سترہ ہزار کے اور تیسرے سال ایک لاکھ ۴۵ ہزار کے اور اگرچہ یہ پورے وصول نہیں ہوئے مگر بہرحال وصولی میں بھی ہر سال پہلے سال سے زیادتی ہوتی چلی گئی ہے اور اگر اب بھی زیادہ کی تحریک ہوتی تو یقینا دوست زیادہ جمع کردیتے۔ مگر کمی کی طرف آنے کی وجہ سے خطرہ ہے کہ سُستی نہ کریں۔ پھر جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ہے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے بقائے صاف کردیں اور یا پھر معاف کرالیں۔ اگر وہ ادا کرسکتے ہوں تو اب بھی کردیں۔ اگرچہ اب ادائیگی کا ثواب اُتنا تو نہیں ہوسکتا مگر اب بھی اد اکرکے وہ گناہ سے بچ سکتے ہیں اور یقینا کچھ ثواب بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ اور جو ادا نہ کرسکتے ہوں کم سے کم معاف ضرور کرالیں۔ کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ اس طرح ایک تو وہ گناہ سے بچ جائیں اور دوسرے آئندہ کیلئے انہیں خیال ہو کہ غلط وعدہ نہیں کرنا چاہئے۔ معافی مانگنے سے انہیں بے احتیاطی سے وعدہ کرنے پر شرم آئے گی اور آئندہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ اور دوسرے معافی لے لینے سے خداتعالیٰ کی طرف سے انہیں وعدہ توڑنے کا گناہ نہیں ہوگا۔ اور تیسرے میری غرض یہ کہنے سے یہ بھی ہے کہ جو دے سکتا ہے وہ دے دے اور یہ دین کا فائدہ ہے اور جو واقعی نہیں دے سکتے وہ اگر معافی لے لیں تو اس میں ان کا اپنا فائدہ ہے۔
پس وہ تمام لوگ جو پہلے سال کا چندہ نہیں دے سکے، جو دوسرے سال کا نہیں دے سکے اور جو تیسرے سال کا نہیں دے سکے، وہ یا تو معافی لے لیں اور یاا دا کردیں۔ تیسرے سال کیلئے تو ابھی بعض کیلئے میعاد باقی ہے۔ بعض کی معیاد جنوری تک ہے اور بعض کی جون تک۔ لیکن جو سمجھتے ہیں کہ میعاد کے اندر نہیں دے سکیں گے وہ اب بھی مُہلت لے لیں اور جو سمجھتے ہیں کہ بالکل ہی نہیں دے سکیں گے وہ معاف کرالیں۔ اس سال کی تحریک کے متعلق میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ کمی کا وقت نازک ہوتا ہے اور یہ امتحان اور آزمائش کا وقت ہوتا ہے، اس لئے سُستی نہ کریں۔ گو اِس وقت تک جو وعدے آرہے ہیں ان میں سے ایک کافی تعداد ایسی ہے جنہوں نے اب بھی تیسرے سال کے وعدہ سے زیادہ لکھایا ہے اور یہ ایمان کا ایک ایسا مظاہرہ ہے کہ جس کی نظیر دوسری جگہ نہیں مل سکتی۔ جو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جماعت گررہی ہے اور دہریت کی طرف جارہی ہے، ان سے میں کہتا ہوں کہ وہ غور کریں کیا یہ دہریوں کی علامت ہے؟ اِس وقت جب ہر طرف مالی تنگی ہے، غلّوں کی قیمتیں گر رہی ہیں، پھر قادیان کے لوگوں پر جبری قرضہ لگا دیا گیا ہے اور ساتھ امانتیں جمع کرانے کی بھی تحریک ہے اور ایسے وقت میں جب انجمن کے کئی لاکھ کے چندے بھی ہیں پھر بھی دوست کہہ رہے ہیں کہ ہم پہلے سے زیادہ دیں گے۔ کیا یہ دہریوں یا بے دینوں کی علامت ہے؟ نہیں بلکہ یہ چیز بتاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس زمانہ میں جبکہ خداتعالیٰ پر بالکل مٹ چکا تھا اور دنیا کو دین پر مقدم کیا جاتا تھا ایک غریب ملک میں جو غیرملکی لوگوں کے قبضہ میں ہے اور غلام ملک ہے، ایک ایسی زندہ جماعت قائم کردی جو دین کیلئے ہرقسم کی قربانی کرنے کیلئے تیار ہے اور یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ پہلے سال میں نے صرف ۲۷۰۰۰ روپے کی تحریک تین سال کیلئے کی تھی اور کئی لوگوں نے کہا تھا کہ جماعت یہ روپیہ کہاں سے دے گی اور صدرانجمن کے چندوں کے بقایوں کی وجہ سے خیال کیا جاتا تھا کہ تین سال کے عرصہ میں بھی یہ رقم پوری نہیں ہوسکے گی۔ مگر تحریک پر ایک ہفتہ بھی نہ گزرا کہ جماعت نے ۲۷۰۰۰ روپیہ نقد جمع کردیا۔ یہ ایک ایسا زندہ نشان ہے کہ جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ کسی معترض کو یہ نظر آئے یا نہ آئے مگر یہ ایک ایسی بات ہے کہ اگر اسے کسی غیرشخص کے سامنے رکھا جائے تو وہ تسلیم کرے گا کہ ایسے مُردہ ملک میں ایک زندہ جماعت ہے۔ بے شک میں کہتا رہتا ہوں کہ جماعت سُستی کرتی ہے مگر یہ سُستی نسبتی ہے، دوسروں کے مقابلہ میں سُستی نہیں۔ میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس معیار کی نسبت سے سُستی ہے جس کا خداتعالیٰ مطالبہ کرتاہے، ورنہ دوسری اقوام کی طوعی قربانیوں سے یہ قربانی بہت بڑھ کر ہے۔ بے شک جماعت کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو فی الواقع سُستی کرتا ہے لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہے جو قرآن کریم کی اس آیت کا مصداق ہے کہ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّنْتَظِرُ ۱؎ بعض ایسے ہیں کہ خداتعالیٰ کے راستہ میں جان دے چکے ہیں یا یہ کہ اپنی نذریں اور وعدے پورے کرچکے ہیں۔ اور بعض خدا کی راہ میں مرنے کیلئے یا اپنے وعدوں کو وقت آنے پر پورا کرنے کیلئے منتظر ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت ایک صحابی کے متعلق ہے جو بدر کی لڑائی میں شامل نہ ہوئے تھے۔ رسول کریم ﷺ نے کسی مصلحت کی وجہ سے لوگوں کو بتایا نہیں تھا کہ اس موقع پر ایسی سخت جنگ ہونے والی ہے۔ اس لئے بعض صحابہ شامل نہ ہوسکے۔ جب صحابہ لڑائی سے واپس آئے اور لڑائی کے حالات سنائے تو ایک صحابی جو انصاری تھے اور بڑے مخلص تھے، وہ سنتے اور انہیں رہ رہ کر غصہ آتا اور بار بار کہتے کہ کاش! میں وہاں ہوتا اور تمہیں بتاتا کہ میں کیا کرتا۔ سننے والے خیال کرتے تھے کہ انہیں یونہی غصہ آرہا ہے۔ آخر اُحد کی لڑائی کا وقت آگیا اور پھر اس لڑائی کا وہ موقع آیا جب ایک غلطی کی وجہ سے فتح کے بعد اسلامی لشکر تتربتر ہوگیا اور رسول کریم ﷺ کے اردگرد صرف بارہ صحابی رہ گئے۔ اور پھر ایک ایسا ریلا آیا کہ وہ بارہ بھی پیچھے دھکیلے گئے اور رسول کریم ﷺ اکیلے رہ گئے۔ اور کفار نے پتھر مار مار کر آپ کو بیہوش کردیا۔ اُس وقت جو صحابہ آگے بڑھ سکے بڑھے اور شہید ہوہوکر آپ کے اوپر گرتے گئے اور اس طرح آپ لاشوں کے نیچے دب گئے اور یہ خیال ہوگیا کہ آپ شہید ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ صحابی فتح کے بعد پیچھے ہٹ کرکچھ کھانے میں مشغول ہوگئے تھے اور انہیں ان حالات کا علم نہ تھا۔ انہوں نے فتح کے وقت شاید یہ خیال کیا کہ اب تو صرف مال میں سے ہی حصہ لینا باقی ہے وہ نہ لیا تو کیا۔ وہ بھوکے تھے اس لئے ایک طرف جاکر کھجوریں کھانے لگے۔ انہیں یہ معلوم ہی نہ تھا کہ جنگ کا نقشہ پھر بدل گیا ہے۔ جب یہ خیال پیدا ہوا کہ آنحضرت ﷺ شہید ہوگئے ہیں تو حضرت عمرؓ جیسا بہادر شخص بھی صبر کھو بیٹھا اور ایک پتھر پر بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگا۔ وہ صحابی ادھر سے گزرے اور حضرت عمرؓ کو دیکھ کر کہا کہ عمر کیا بات ہے۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوچکی ہے اور تم بیٹھے رو رہے ہو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کیا تمہیں پتہ نہیں کہ جنگ کا نقشہ بدل چکا ہے اور حضرت رسول کریم ﷺ شہید ہوچکے ہیں۔ اس کے ہاتھ میں اُس وقت ایک دو کھجوریں باقی تھیں۔ حضرت عمرؓ سے یہ بات سُنی تو کھجوریں پھینک دیں اور کہا کہ عمر! پھر یہ رونے کا وقت نہیں۔ جب آنحضرت ﷺ شہید ہوگئے تو اب ہمارا بھی اِس دنیا میں کوئی کام نہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے تلوار نکال لی اور ہزاروں کے لشکر میں جاگھسے اور شہید ہوگئے۔ جب اُن کی لاش نکالی گئی تو اُس کے ۷۰ ٹکڑے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ آخر تک تلوار چلاتے رہے۔ اس لئے ان کافروں نے غصہ میں آکر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ ۲؎ بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت ان کے متعلق ہے۔ مگر یہ بات غلط ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت کسی خاص آدمی کیلئے ہو۔ جب تک خداتعالیٰ خود اس کا اظہار نہ کرے۔ مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایسے ہی لوگوں کیلئے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں اور بعض اس انتظار میں ہیں کہ کب موقع ملے او رقربان کریں۔ تو خداتعالیٰ کے فضل سے ایسے ہزاروں لوگ جماعت میں موجود ہیں۔ بے شک بعض کمزور بھی ہیں مگر ایسے بھی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ یعنی وہ جو اپنے وعدے پورے کرگئے۔ اور ایسے لوگوں کی موجودگی جماعت کی ترقی کا موجب اور فتح کی ضمانت ہے۔ وہ لوگ جو اپنے قول کے پکے ہیں، جو خداتعالیٰ کے دین کیلئے اس کے بعض بندوں کے ہاتھ پر وعدہ کرتے ہیں اور پھر اسے پورا کرکے ہی چھوڑتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو خداتعالیٰ کے فضل کو کھینچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے میرے لئے اپنے آپ کو قربان کردیا۔ اس لئے ان کی کوششیں ناکام نہیں جانی چاہئیں۔
پس میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ کمی کے لفظ سے جماعت سُستی نہ کرے اور دوسری طرف جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ کام بہت بڑا ہے اور اس میں تعاون کی ضرورت ہے، نہ صرف چندہ کے ذریعہ سے بلکہ کام کے ذریعہ سے بھی۔ قادیان کے لوگوں کو خصوصاً اِس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ غرباء کیلئے کام مہیا کرنے کی سکیم کا اس میں کیا شبہ ہے کہ پہلا فائدہ قادیان کے لوگوں کو پہنچے گا۔ اس لئے انہیں اس میں زیادہ قربانی کرنی چاہئے۔ مثلاً عورتوں کیلئے کام کی سکیم ہے اس کا بڑا فائدہ قادیان کے غریب خاندانوں کو پہنچے گا یا کم سے کم جب تک ہم اس سکیم کو باہر نہ پھیلاسکیں ، یہاں کی غریب عورتوں کو ہی اس وقت فائدہ پہنچ سکے گا۔ پس انہیں سمجھنا چاہئے کہ ان کے فائدہ کی جو سکیم ہے اس میں وہ شوق اور قربانی سے حصہ لیں۔ اگر تھوڑی مزدوری ہے تو بھی ان کو کوئی نقصان نہیں کیونکہ تھوڑی مزدوری سے یہی ہوگا کہ کام میں نفع زیادہ ہوگا اور یہ نفع سب کا سب ان پر ہی خرچ ہوگا۔ کیونکہ میں نے لجنہ اماء اللہ سے کہہ دیا تھا کہ اگر کوئی نفع ہو تو سلسلہ اس میں سے کوئی حصہ نہ لے گا بلکہ یہ نفع بھی غرباء میں تقسیم کیاجائے گا۔ بلکہ نفع کی صورت میں راس المال کو میں اِنْشَائَ اللّٰہُ بڑھاتا جائوں گا تا یہاں ایک بھی ایسی لاوارث یا بیوہ عورت نہ رہے جو بیکار ہو اور جو اپنا گزارہ اچھی طرح نہ چلاسکے۔ مگر چونکہ میرے ساتھ تعاون نہ کیا گیا اس لئے یہ کام اچھی طرح نہ چلا۔
پس اس کا کے چلانے کیلئے قادیان والوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اس طرح دوسرے کاموں میں بھی تعاون کی ضرورت ہے۔ کیا ہمارے پیشہ وروں میں ایسے لوگ نہیں ہیں جو کچھ وقت خرچ کرکے ہماری مدد کرسکیں؟ ہمیں تو یہ پتہ نہیں کہ یہ کام کس طرح جلدی سکھائے جاسکتے ہیں اور کس طرح ان میں بچتیں ہوسکتی ہیں۔ ہماری مثال تو ان کاموں میں ایسے ہے جیسے کوئی شخص اندھیرے میں ہاتھ مارے خواہ اُس کا ہاتھ سانپ پر پڑ جائے خواہ ہیرے پر۔ اس لئے ضروری ہے کہ پیشہ ور دوست تعاون کریں اور ان کاموں کو اپنا رقیب نہ سمجھیں۔ کیونکہ یہ ان کیلئے بھی نفع کا ہی موجب ہوں گے، نقصان کا نہیں۔ اگر یہ محکمے ترقی کریں گے تو اس میں ان کی اولادوں کی بھی بہتری ہوگی۔ کیونکہ پیشہ ور لوگوں کی اولادیں ہی زیادہ تر یہ کام سیکھتی ہیں، کسی کو کیا پتہ ہے کہ کل ہی اس کی موت ہوجائے اور اس کی اولاد کو اس کی ضرورت پیش آجائے۔ یہ محکمے تو اس امر کی ضمانت ہیں کہ کل اگر اس کی اولاد کو ضرورت ہو تو اس کے کام آئیں گے۔ پس پیشہ ور دوست اپنے اوقات خرچ کرکے مشورے دیں اور امداد کریں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ان کاموں کو ترقی حاصل ہوجائے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب کسی کا جتھا بن جائے تو اس پیشہ کو ترقی ہوتی ہے نقصان نہیں۔ دیکھو! ایک گھر کا ملازم اگر کام چھوڑ دے تو کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا۔ لیکن اگر کسی کارخانہ کے مزدور کام چھوڑ دیں اور سٹرائیک کردیں تو گورنر تک اُن کو منانے کیلئے آتے ہیں۔ پس یہ بیوقوفی کی بات ہے کہ اگر ترکھان بڑھ جائیں گے تو مجھے کام کہاں سے ملے گا۔ وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ آبادی بھی اُس وقت تک بڑھ جائے گی اور اس کیلئے کام بھی بڑھ جائے گا۔ مثلاً اگر کوئی یہ خیال کرے کہ ہم اِس وقت یہاں دس ترکھان ہیں اگر بیس ہوگئے تو ہمارے لئے کوئی کام نہیں رہے گا تو یہ بیوقوفی ہے۔ وہ یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ کہ اس وقت تک یہاں کی آٹھ ہزار کی آبادی بھی تو سولہ ہزار ہوجائے گی۔ یہ باتیں اللہ تعالیٰ پربدظنی ہیں۔
حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں صدر انجمن احمدیہ کے بعض ممبروں نے تحریک کی کہ جلسہ کے دن بجائے تین کے دو کردیئے جائیں۔ کسی نے حضرت خلیفہ اوّل سے بھی اس کا ذکر کردیا۔ آپ کا یہ طریق تھا کہ بعض اوقات جب آپ صدر انجمن احمدیہ پر قابض جماعت پر ناراض ہوتے اور اُن سے کوئی بات کہنا چاہتے تو اُن کی بجائے مجھے مخاطب کرکے کہہ دیتے اور مطلب یہ ہوتا تھا کہ میں اُن کو پہنچادوں۔ جب آپ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے مجھے لکھا کہ میاں! میں نے سنا ہے اب جلسہ کے دن تین کی بجائے دو کردینے کی تجویز ہے مگرمیں آپ کو توجہ دلاتاہوں کہ لَا تَخْشِ مِنْ ذِی تَخْشٰی اقْـلَالاً ۳؎ یعنی عرش والے خدا سے تم کمی کا خیال کیوں کرتے ہو۔ لوگ آئیں گے ، ان کے ایمان او راخلاص میں ترقی ہوگی اور اس طرح مال بھی زیادہ آئیں گے۔ چنانچہ میںنے یہ بات انجمن کو لکھ بھیجی اور جلسہ بجائے دو دن ہونے کے تین دن ہی کیلئے رہنے دیا گیا۔ پس پیشہ ور خداتعالیٰ پر کیوں بدظنی کرتے ہیں۔ ان کاموں کی ترقی جماعت کی ترقی ہوگی اور پیشہ وروں کو بھی تقویت ہوگی۔ یہاں ایک زمانہ میں صرف ایک دو راج ہی تھے مگر اب بیسیوں ہیں۔ اور خداتعالیٰ سب کو رزق دیتا ہے اور اس زمانہ کے لحاظ سے اب ان کی آمدنی دُگنی تین گنی ہے۔ اُس زمانہ میں یہاں مزدور تین چار آنہ روزانہ لیتا تھا اور راج اور ترکھان کی آمدنی آٹھ نو آنہ تھی مگر اب سَوا اور ڈیڑھ روپیہ راج اور ترکھان کی اُجرت ہے۔ اور آٹھ نو آنہ تو مزدورکو مل جاتے ہیں۔ پیشہ ور اپنی اولادوں کو جو کام سکھاسکتے ہیں ان محکموں میں اس سے بہت بہتر سکھانے کا انتظام ہوگا کیونکہ ہم باہر سے ماہرین بلائیں گے۔ اس لئے تمام افراد کو پورا پورا تعاون کرنا چاہئے کہ یہ محکمہ مضبوط ہو۔ تا ہم اِس قابل ہوسکیں کہ جلد سے جلد تمام ملک میں مبلغین پھیلاسکیں۔
اِس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب رمضان ختم ہونے کو ہے اور شاید دو دن ہی باقی ہوں گے اور رات تو شاید ایک ہی ہوگی اور یہ بات قریباً یقینی ہے کہ اتوار کو عید ہوجائے گی۔ کیونکہ بعض کے روزے ہفتہ کو تیس ہوجائیں گے۔ بعض جگہ چاند جمعرات کے روز نظر آگیا تھا اور اس طرح ان کا پہلا روزہ جمعہ کا تھا تو گویا ۲ دن باقی ہیں ۔ انسان کا قاعدہ ہے کہ جب اختتام کا وقت قریب ہو تو جلدی جلدی چیزوں کو سمیٹتا اور کام ختم کرتا ہے۔ اس لئے ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ ان دو دنوں میں خصوصیت سے دعائیں کریں۔ قادیان کے لوگوں کیلئے بِالخصوص بڑی ذمہ واری ہے۔ یہاں آبادی کے بڑھ جانے اور امن ہونے کی وجہ سے کئی لوگ سُست ہوگئے ہیں حالانکہ یہ مقام خشیت اللہ کیلئے مرکز بنایاگیا ہے۔ جب تک انسان خداتعالیٰ کا خوف پید انہ کرے، ایمان سلامت نہیں رہ سکتا۔ جس طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مدینہ ایک بھٹی ہے جہاں گندہ انسان نہیں رہ سکتا۴؎ اس طرح یہاں بھی وہ شخص جس کے ایمان میں نقص ہو چھپا نہیں رہ سکتا اور خداتعالیٰ اسے ضرور ظاہر کردیتا ہے۔ وہ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم ان کو نکالتے ہیں۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مخاطب کرکے فرماتا ہے اُخْرِجَ مِنْہُ الْیَزِیْدِیُّوْنَ۔ ۵؎ جس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ یہان یزید ی پیدا ہوتے رہیں گے اور ہم ان کو نکالتے رہیںگے۔ ہم کسی کو یزیدی نہیں بناتے ہیں وہ خود بنتے ہیں اور ہم وہی کرتے ہیں جو خدا کا حکم ہے یعنی یہ کہ ان کو نکالو۔ دین کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے میں نے دیکھا ہے کئی لوگ ہیں جن کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ابتلا آجاتے ہیں اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم اس وقت ایک بلند مینار پر ہیں اگر یہاں سے گرے تو چکنا چور ہوجائیں گے۔ جو شخص زمین پر کھڑا ہو اور گرے تو وہ تو بچ سکتا ہے مگر جو مینار کے اوپر چڑھتا ہوا گرے اُس کو تو کوئی معجزہ ہی بچاسکتا ہے۔
پس قادیان کے لوگوں پر بڑی بھاری ذمہ واری ہے۔ اس لئے انہیں چاہئے کہ بہت دعائیں کریں، اپنے لئے بھی اور باہر والوں کیلئے بھی۔ باہر کے دوستوں کا مرکز والوں پر حق ہوتا ہے کیونکہ یہاں کے اکثر کام ان کے چندے سے چلتے ہیں۔ پھر ان مبلغین کا بھی بہت حق ہے جو باہر کام کرتے ہیں ان کے لئے بھی بہت دعائیں کرنی چاہئیں۔ پس دعائیں کرو اور بہت استغفار کرو اور رمضان شریف کا اِس قدر ثمرہ ہی لے لو کہ آئندہ کیلئے یہ نیت کرلو کہ اپنے اوپر ابتلاء کبھی نہیں آنے دو گے۔ آخر ایسے لوگ ہوتے ہی ہیں جو ابتلاء نہیں آنے دیتے۔ پھر کیوں تم ویسے نہیں بن جاتے۔ اس کیلئے صرف نیت کی ضرورت ہے۔ اگر ایک دفعہ نیت کرلی جائے تو پھر آدمی ٹھوکر سے بچ سکتا ہے اور اسے ہدایت مل ہی جاتی ہے۔ ہزاروں لوگ ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شناخت ہوئی مگر وہ ایمان اس لئے نہ لاسکے کہ ٹھوکر سے نہ بچ سکے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ احمدیت سچی ہے مگر انتظار کرتے رہے۔ مثلاً احرار کی شورش ہوئی تو خیال کرلیا کہ ذرا ٹھہر جائیں، دیکھ لیں اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے اور پھر انہیں موقع نہ ملا۔ کئی ایسے لوگ جو خیال کرتے ہیں کہ ذرا ٹھہر جائو۔ بعض اوقات مرنے سے پہلے شدید ترین دشمن ہوجاتے ہیں۔ لاکھوں آدمی ایسے ہیں کہ جن پر صداقت کھل چکی اور اگر وہ یہ نہ کہتے کہ اب ٹھہر جائو تو کبھی ٹھوکر نہ کھاتے۔ مجھے کئی ایسے لوگ معلوم ہیں جو دس پندرہ سال پہلے سلسلہ کے بہت قریب تھے مگر اب شدید ترین دشمن ہیں۔ اور صرف چند روز کے توقف نے ان کو ہدایت سے محروم کردیا۔ انہوں نے چونکہ ہدایت کی قدرنہ کی، اس لئے اس سے محروم ہوگئے۔ اسی طرح مومنوں میں سے بھی بیسیوں ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جو ابتلاء میں آجاتے ہیں۔ صرف اِس لئے کہ وہ ارادہ نہیں کرتے کہ اپنے اوپر ابتلاء نہیں آنے دیں گے۔ جب کوئی شخص ایسا ارادہ کرلے تو خداتعالیٰ اسے ضرور بچالیتا ہے۔ کیونکہ جو یہ کہے کہ خدایا! میں تیرا دامن پکڑتا ہوں اسے خداتعالیٰ کبھی دھکانہیں دیتا۔ ایسا کرنا خداتعالیٰ کی شان کے خلاف ہے۔ جب سے آدم پیدا ہوئے اُس وقت سے لے کر اب تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص خداتعالیٰ کا دامن پکڑے ا ورکہے کہ میں ٹھوکر اور ابتلا میں نہیں پڑوں گا، اور خداتعالیٰ نے اسے ٹھوکر سے نہ بچایا ہو۔ پس یہ بہت نازک دن ہیں۔ رمضان کے باقی وقت سے فائدہ اُٹھائو اور دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ابتلائوں سے بچائے اور توبہ کرو تا ٹھوکر نہ کھائو۔ جن لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے وہ اگر یہ خیال کرتے کہ اگر وہ سب باتیں بھی صحیح ہیں جو وہ سمجھتے ہیں تب بھی ہم دوسروں کیلئے ٹھوکر کا موجب کیوں نہیں۔ یہ سلسلہ آخر میرا توہے نہیں۔ یہ تو خدائی سلسلہ ہے اور جو مجھ سے عداوت کی وجہ سے خداتعالیٰ کے سلسلہ سے دشمنی کرتا ہے وہ اپنے جرم کا خود اقرار کرتاہے او رثابت کرتاہے کہ خداتعالیٰ پر اُسے ایمان نہ تھا۔ پس اپنے ایمانوں کو خداتعالیٰ کیلئے بنائو۔ پھر جس کے متعلق تمہیں بدظنی ہے اگر وہ بُرا ہے تو خداتعالیٰ اسے بھی اچھا بنادے گا۔ اور اگر اس میں وہ عیب نہیں ہے تو تمہیں ٹھوکر سے بچالے گا۔
پس بہت دعائیں کرو اور استغفار کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں دین کیلئے ٹھوکر نہ بنائے۔ تم خداتعالیٰ کیلئے اپنے گھربار اور عزیزوں رشتہ داروں کو چھوڑ کر آئے ہو اور اگر یہاں آکر بھی کسی ٹھوکر کا شکار ہوجائو تو کس قدر بدنصیبی ہے۔ اِس لئے نیت کرلو کہ کسی ٹھوکر کا شکار نہ ہوگے اور بہت استغفار کرو۔ اگر تمہارے دل پر میل بھی لگ گئی ہوگی تو خداتعالیٰ کا ہاتھ اسے دور کرسکتا ہے۔ تمہارا ہاتھ تمہارے دل تک نہیں پہنچ سکتا مگر خداتعالیٰ کا پہنچ سکتا ہے۔ اس لئے اُسی کے آگے عجز و انکسار سے جھک جائو تا وہ تمہیں اچھانمونہ بنادے او رباہر سے آنے والے تم سے ٹھوکر نہ کھائیں بلکہ تمہیں دیکھ کر ان کے ایمان مضبوط ہوں۔
(الفضل ۱۱ ؍ دسمبر ۱۹۳۷ئ)
۱؎ الاحزاب: ۲۴
۲؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۸۸۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳؎ شمائل ترمذی باب ماجاء فی خُلُقِ رسول اللّٰہﷺ
۴؎ بخاری کتاب فضائل المدینۃ باب المدینۃ تنفی الخبث
۵؎ تذکرہ صفحہ ۱۷۶۔ ایڈیشن چہارم

۳۸
جلسہ سالانہ کی اہمیت اور برکات
(فرمودہ ۱۰ ؍دسمبر ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
سب سے پہلے تو میں جماعت کے احباب کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب دسمبر کا مہینہ شروع ہوچکا ہے اور آج اس کا دوسرا جمعہ ہے۔ اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اور اس کے الہام اور وحی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جماعت کا ایک اجتماع مقرر فرمایا ہے۔ یہ اجتماع ۲۶۔۲۷۔۲۸ دسمبر کو ہوا کرتا ہے اس اجتماع کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ خواہش ظاہر فرمائی ہے کہ جماعت کے وہ تمام دوست جن کا ان دنوں یہاں پہنچنا ممکن ہو اِس موقع پر جمع ہوا کریں۔ اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سننے یا سنانے میں شامل ہوا کریں جو اِن دنوں یہاں کیا جاتا ہے۔
ابھی تک ہمارے ملک میں وسائلِ سفر اتنے آسان نہیں جتنے کہ یورپ میں آسان ہیں۔ اور ہندوستان کے باہر تو کئی ممالک میں ان وسائل میں اور بھی کمی ہے جیسے افغانستان ہے یا ایران ہے یا ہندوستان سے باہر کے جزائر ہیں۔ پھر ابھی تک ہماری جماعت میں ایسے لوگ شامل نہیں جو مالدار ہوں۔ اور جو دُوردراز ممالک سے جبکہ ہوائی جہازوں کی آمد و رفت نے سفر کو بہت حد تک آسان کردیا ہے، جلسہ سالانہ کے ایام میں قادیان پہنچ سکیں۔ لیکن اگر ایسے لوگ ہماری جماعت میں شامل ہوں تو ان دوردراز ممالک کے لوگوں کیلئے بھی جہاں ہرقسم کے وسائلِ سفر آسانی سے میسر آسکتے ہیں،یہاں پہنچنا کوئی مشکل نہیں رہتا۔ اور زیادہ سے زیادہ ان کیلئے روپیہ کا سوال رہ جاتا ہے۔ مگر ایسے لوگ ابھی ہماری جماعت میں بہت کم ہیں یا حقیقتاًبالکل ہی نہیں۔ ہماری جماعت کابیشتر حصہ اِس وقت ہندوستان میں ہے اور اس میں سے بھی زیادہ تر مردوں کی ایک تعداد ہے جو جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان پہنچ سکتی ہے۔ پس جو پہنچ سکتے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ساری جماعت کی طرف سے اُن پر ایک خاص ذمہ واری ہے جسے اد اکرنے کی کوشش ان کا اوّلین فرض ہے۔ اور یہ کہ جبکہ ساری جماعت اس موقع پر نہیں پہنچ سکتی تو ہر علاقہ کے مردوں، عورتوں اور بچوں میں سلسلہ کی روح کو زندہ رکھنے کیلئے جو پہنچ سکتے ہیں انہیں سَو کام کا حرج کرکے بھی آنا چاہئے تا ان کا آنا دوسروں کے نہ آسکنے کے نقصان کا ازالہ کردے۔
دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ترقی کے شروع ہونے پر سُست ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں اب جماعت بہت ہوگئی۔ ایسے لوگوں کو میں بتادینا چاہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جس کیلئے جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان پہنچنا ممکن ہے اگر یہاں آنے میںکوتاہی کرتا ہے تو اس کا لازمی اثر اس کے ہمسایوں اور اس کی اولاد پر پڑے گا۔ میں نے دیکھا ہے جو دوست سال بھر میں ایک دفعہ بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان آجاتے ہیں اور اپنے اہل و عیال کو ہمراہ لاتے ہیں ان کی اولادوں میں احمدیت قائم رہتی ہے اور گو ان بچوں کو احمدیت کی تعلیم سے ابھی واقفیت نہیں ہوتی مگر وہ اپنے والدین سے یہ ضرور کہتے رہتے ہیں کہ ابا! ہمیں قادیان کی سیر کیلئے لے چلو۔ اس طرح بچپن میں ہی ان کے قلوب میں احمدیت گھر کرنا شروع کردیتی ہے اور آخر بڑے ہوکر وہ اپنی احمدیت کا شاندار نمونہ پیش کرنے پر قادر ہوجاتے ہیں۔ پھر بچوں کے ذہن کے لحاظ سے بھی جلسہ سالانہ کا اجتماع ان پر بڑا اثر کرتا ہے۔ بچہ ہمیشہ غیرمعمولی چیزوں اور ہجوم سے متأثر ہوتا ہے۔ پس جلسہ سالانہ پر آکر وہ نہ صرف ایک مذہبی مظاہرہ دیکھتا ہے بلکہ اپنی طبیعت کی جِدت پسندی کے لحاظ سے بھی تسلی پاتا ہے اور یہ اجتماع اس کیلئے ایک دلچسپ اور یاد رکھنے والا نظارہ بن جاتا ہے۔ غرض جو باپ جلسہ پر آتے ہیں وہ اپنی اولاد کے دل میں بھی یہاں آنے کی تحریک پیدا کردیتے ہیں۔ اور کبھی نہ کبھی ان کے بچے کا اصرار بچے کو جلسہ پر لانے کا محرک ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد دوسرا قدم وہ اُٹھتا ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیاہے۔پس ان ایام میں قادیان آنا کسی ایسے بہانے یا عذر کی وجہ سے ترک کردینا جسے توڑا جاسکتا ہو یا جس کا علاج کیا جاسکتا ہو، صرف ایک حکم کی نافرمانی ہی نہیں بلکہ اپنی اولاد پر بھی ظلم ہے۔
حقیقت تویہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہماری جماعت میں ابھی مالدار لوگ داخل نہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جلدی سے جانے کیلئے جو وسائلِ سفر ہیں وہ اتنا خرچ چاہتے ہیں کہ بیرونی ممالک کے احمدیوں کیلئے ان ایام میں قادیان پہنچنا مشکل ہے۔ لیکن اگر کسی زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے بڑے مالدار ہماری جماعت میں شامل ہوجائیں یا سفر کے جو اخراجات ہیں ان میں بہت کچھ کمی ہوجائے اور ہرقسم کی سہولت لوگوں کو میسر آجائے تو دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ اس موقع پر آئیں گے۔ اگر کسی وقت امریکہ میں ہماری جماعت کے مالدار لوگ ہوں اور وہ آمدو رفت کیلئے روپیہ خرچ کرسکیں تو حج کے علاوہ ان کیلئے یہ امر بھی ضروری ہوگا کہ وہ اپنی عمر میں ایک دو دفعہ قادیان بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر آئیں۔ کیونکہ یہاں علمی برکات میسر آتی ہیں اور مرکز کے فیوض سے لوگ بہرہ ور ہوتے ہیں اور میں تو یقین رکھتا ہوں کہ ایک دن آنے والا ہے جبکہ دور دراز ممالک کے لوگ یہاں آئیں گے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک رئویا ہے جس میں آپ نے دیکھا کہ آپ ہوا میں تیر رہے ہیں اور فرماتے ہیں ’’عیسیٰ تو پانی پر چلتے تھے اورمیں ہوا پر تیر رہا ہوں اور میرے خدا کا فضل ان سے بڑھ کر مجھ پر ہے‘‘ ۔۱؎ اس رئویا کے ماتحت میں سمجھتا ہوں وہ زمانہ آنے والا ہے کہ جس طرح قادیان کے جلسہ پر کبھی یکے سڑکوں کو گھسادیتے تھے اور پھر موٹریں چل چل کر سڑکوں میں گڑھے ڈال دیتی تھیں اور اب ریل سواریوں کو کھینچ کھینچ کر قادیان لاتی ہے، اِسی طرح کسی زمانہ میں جلسہ کے ایام میں تھوڑے تھوڑے وقفہ پر یہ خبریں بھی ملا کریں گی کہ ابھی ابھی فلاں مُلک سے اتنے ہوائی جہاز آئے ہیں۔ یہ باتیں دنیا کی نظروں میں عجیب ہیں مگر خداتعالیٰ کی نظرمیں عجیب نہیں ۔ خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اپنے دین کیلئے مکہ اورمدینہ کے بعد قادیان کو مرکز بنانا چاہتا ہے۔ مکہ اور مدینہ وہ دو مقامات ہیں جن سے رسول کریم ﷺ کی ذات کا تعلق ہے۔ آپ اسلام کے بانی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آقا اور استاد ہیں۔ اس لحاظ سے اِن دونوں مقامات کو قادیان پر فضیلت حاصل ہے۔ لیکن مکہ اور مدینہ کے بعد جس مقام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کا مرکز قرار دیا ہے وہ وہی ہے جو رسول کریم ﷺ کے ظل یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے اور جو اِس وقت تبلیغ دین کا واحد مرکز ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آجکل مکہ اور مدینہ جو کسی وقت بابرکت مقام ہونے کے علاوہ تبلیغی مرکز بھی تھے آج وہاں کے باشندے اس فرض کو بھلائے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ حالت ہمیشہ نہیں رہے گی۔ مجھے یقین ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان علاقوں میں احمدیت کو قائم کرے گا تو پھر یہ مقدس مقامات اپنی اصل شان و شوکت کی طرف لَوٹائے جائیں گے اور پھر یہ تعلیمِ اسلام اور تبلیغ کا مرکز بنائے جائیں گے۔ اور جب بھی احمدیوں کی طاقت کا وقت آئے گا اُن کا پہلا فرض ہے کہ ان پاک شہروں کو ان کا کھویا ہوا حق واپس دینے کی تدبیر کریں اور ان کی اصلی شان کو واپس لائیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے ان کو دی گئی ہے۔ لیکن جب تک وہ دن نہیں آتا اُس وقت تک محض قادیان ہی تبلیغ و اشاعت دین کا مرکز ہے۔ مکہ ہماری عبادت کا مرکز ہے۔ مکہ ہماری محبت اولیٰ کا مرکز ہے ا ورمدینہ بھی ہمارے بہت سے تبرکات اورمحبت اولیٰ کا مرکز ہے مگر افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں نے اِس زمانہ میں اس عظیم الشان فرض کو بُھلا دیا ہے جس کیلئے مکہ اور مدینہ کے مرکز خداتعالیٰ نے قائم کئے تھے اور وہ فرض اِس وقت قادیان سے ادا ہورہا ہے یعنی دنیا میں تبلیغِ اسلام اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی اشاعت کا فرض۔ لیکن وہ دن دور نہیں گو ہمارے خیالات اور واہمہ سے دور ہو مگر خداتعالیٰ کے فیصلہ کے لحاظ سے دور نہیں کہ پھر یہ دونوں مرکز نہ صرف عبادت یا محبت کامرکز ہوں بلکہ تبلیغ اور اشاعت دین کے بھی مرکز ہوں۔
غرض رسول کریم ﷺ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے جو عبادت کا مرکز قائم کیا وہ مکہ ہے اور مدینہ ہماری محبت اولیٰ کا مرکز ہے مگر تبلیغ اور اشاعت دین کے لحاظ سے اس وقت دنیا میں ایک ہی مرکز ہے جو قادیان ہے اور اِس سے وابستگی ہر مومن کیلئے ضروری ہے۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب دنیا کے گوشوں گوشوں سے ہوائی جہازوں کے ذریعہ یا بعض اور سواریوں کے ذریعہ سے جو ابھی ہمیں معلوم بھی نہ ہوں لوگ قادیان آئیں گے اور ساری دنیا کی احمدی جماعتیں اُس وقت قادیان میں اکٹھی ہوں گی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بعینہٖ وہ سارے الہامات ہوئے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مکہ کے قیام کے وقت ہوئے تھے۔ مثلا آپ کو الہام ہوا یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ ۲؎ پھر الہام ہوا یَأتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ ۳؎ یعنی خداتعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت ہر ایک دور کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ راستے لوگوں کے بہت چلنے کی وجہ سے گہرے ہوجائیں گے۔ اسی طرح اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو یہ خبر دی گئی تھی کہ یَأتُوْکَ رِجَالاً وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ ۴؎ یہ الہام بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوا اور آپ کو بتایا گیا کہ ہرقسم کی اونٹنی پر سوار ہوکر لوگ یہاں آئیں گے۔ مگر اس جگہ ہرقسم کی اونٹنی سے مراد اونٹنیاں نہیں بلکہ ہرقسم کی سواری مراد ہے۔ پس ہماری جماعت کو یہ مقصد اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور جلسہ سالانہ کے موقع پر نہ صرف خود آنا چاہئے بلکہ اپنے ہمسائیوں ، اپنے عزیزوں اور اپنے د وستوں کو بھی ساتھ لانا چاہئے۔ مگر اس کے ساتھ یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان ایام میں بے احتیاطیاں دل کو زیادہ سخت کر دیا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے مقدس مقامات کا احترام کرانا چاہتا ہے اور ہر شخص جو ان مقامات کا احترام نہیں کرتا اُس کی سرزنش کا مستحق ہوتا ہے۔ جس طرح قادیان میں جلسہ سالانہ کے موقع پر آنا برکات کا موجب ہوتا ہے اسی طرح یہاں آنا اور پھر اپنے اوقات کا حرج کرنا اور انہیں علمی باتوں کے سننے میں صرف کرنے یا مقدس مقامات کی زیارت کرنے کی بجائے رائیگاں کھودینا دل پر زنگ لگادیتا ہے۔
پس دوستوں کو چاہئے کہ جب وہ جلسے پر آئیں تو یہ اقرار کرکے آیا کریں کہ ہم محض رسم پوری کرنے نہیں چلے بلکہ ہم وہاں خدا کا ذکر کریں گے۔ جب جماعت میں بیٹھیں گے تب بھی اس کا ذکر کریں گے اورجب علیحدہ ہوں گے تب بھی اس کا ذکر کریں گے۔ جماعتی ذکر ہمیشہ مجلس میں ہوتا ہے۔ انسان باتیں سنتا ہے تو نصیحت حاصل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف اس کے قلب کا میلان ہوجاتا ہے۔ لیکن انفرادی ذکر الگ الگ ہوتا ہے۔ دنیا میں چونکہ بعض طبائع ایسی ہیں جو اُس وقت ذکر کی طرف توجہ قائم رکھ سکتی ہیں جب خود ذکر میں شامل ہوں اور بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جو دوسروں سے ذکر سُنیں تو ذکر میں مشغول ہوجاتی ہیں نہ سُنیں تو وہ بھی ذکر چھوڑ بیٹھتی ہیں۔ اس لئے جماعتی اور انفرادی دونوں ذکر انسانی اصلاح کیلئے ضروری ہیں اور ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے نمازوں میں جمع کردیا ہے۔ دیکھو ظہر اور عصر میں اِس طرح نماز پڑھی جاتی ہے کہ ہر شخص اپنا اپنا ذکر کررہا ہوتا ہے۔ امام خاموشی سے اپنے طور پر ذکرکررہا ہوتا ہے اور مقتدی اپنے طور پر۔ پھر جب خاموش طور پر دُعا کی جاتی ہے تو ہر ایک کی دعا الگ الگ ہوتی ہے لیکن مغرب، عشاء اور فجر کے وقت اللہ تعالیٰ نے یہ طریق مقرر کردیا کہ جب امام سورئہ فاتحہ پڑھے تو تم بھی سورئہ فاتحہ پڑھو۔ مگرجب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو۔ غرض قرآن کریم کے سننے میں ہم امام کے تابع ہوتے ہیں اور سورئہ فاتحہ میں بھی ہم اس رنگ میں اس لئے تابع ہوتے ہیں کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایاکہ جب ملائکہ اور نمازیوں کی آمین ایک ہو جائے تو اُس وقت دعا قبول ہوجاتی ہے۔۵؎ اب ہمیں کیا پتہ ہوسکتا ہے کہ ملائکہ اور نمازیوں کی آمین ایک ہوئی ہے یا نہیں اور اگر ہوئی ہے تو کس وقت؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ ملائکہ کی آمین تابع ہوتی ہے امام کی آمین کے اور اس حدیث میں رسول کریم ﷺ نے جس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ امام کے ساتھ چلتے ہیں اُنہی کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
پھر دعائیں ہیں۔ شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ امام نماز میں بلند آواز دعائیں مانگے اور مقتدی آمین کہیں۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ بعض دفعہ مہینوں اس رنگ میں دعائیں کرتے تھے تو نماز میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسا طریق رکھا ہے کہ بعض جگہ لوگوں کو کلیۃً امام کے تابع کردیا ہے۔ امام کہتا ہے اَللّٰہُ اَکْبَرُ اور مقتدی بھی کہتا ہے اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ امام رکوع میں جاتا ہے تو مقتدی بھی رکوع میں چلا جاتا ہے۔ امام سجدہ میں جاتا ہے تو مقتدی بھی سجدہ میں جھک جاتا ہے۔ لیکن جو خاموشی کا حصہ ہوتا ہے اس میں ہر شخص آزاد ہوتا ہے اور ہمیں نظر آتا ہوتا ہے کہ مقتدی کچھ کہہ رہا ہوتا ہے اور امام کچھ۔ تو دونوں قسم کی عبادتیں خدا تعالیٰ نے نمازمیں رکھ دی ہیں۔ ایسی بھی جن میں اسے حکم ہے کہ امام کے ساتھ ساتھ چلے اور ایسی بھی جو مستقل ہیں اور جن میں اپنے طور پر جو جی چاہے وہ اللہ تعالیٰ سے مانگ سکتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے دونوں طبائع کا علاج کردیا ہے۔ اُن کا بھی جو دوسروں کو ذکر میں مشغول دیکھ کر ذکر کرنے کی عادی ہوتی ہیں اور ان کا بھی جنہیں اُس وقت عبادت میں لذت آتی ہے جب وہ علیحدہ ہوں۔ چنانچہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں مجلس میں دعا کرتے وقت رقت آتی ہی نہیں مگر بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جونہی وہ کسی کی چیخ سنتے ہیں ان کی بھی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ پہلے انہیں جوش نہیں آتا لیکن دوسرے کا جوشِ گر یہ دیکھ کر بے اختیار خود بھی رو پڑتے ہیں۔ یہ کوئی بُری بات نہیں مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ ایک عادت ہے جو بعض لوگوں کو ہوتی ہے اور انہی لوگوں کے لئے خداتعالیٰ نے نماز کا ایک حصہ جہری بھی رکھا ہے تا دوسروں کی تاثیر کو دیکھ کر ان میں روحانیت کے حصول کا جوش اور ولولہ پید اہو۔ پس جلسہ سالانہ میں بھی دونوں قسم کی عبادتیں کرنی چاہئیں۔ یعنی دوستوں کو چاہئے کہ جب تک وہ جلسہ گاہ میں رہیں لیکچر سنیں۔ احمدیت کی تعلیم سے واقفیت پید اکریں۔ قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کے ارشادات سے آگاہی حاصل کریں اور جب جلسہ سے فارغ ہوں تو نمازیں پڑھیں، دعائیں کریں، مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کریں اور اُن آدمیوں سے ملیں جن سے مل کر ان کے ایمان کو تقویت حاصل ہو۔ مگر اپنے وقت کو ضائع نہ کریں اور نہ کھیل کود اور لغو کاموں میں اسے رائیگاں جانے دیں۔
اسی طرح جو غیراحمدی دوست باہر سے آتے ہیں ان کی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے۔ ہر شخص جو کسی کو اپنے ساتھ لاتا ہے وہ اس کی رعیت ہوتا ہے اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ۶؎ کہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر شخص نگران ہے۔ ہر شخص گڈریا ہے۔ ہر شخص محافظ ہے۔ ہر شخص بادشاہ ہے۔ وَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ اورتم میں سے ہر شخص اپنے رعیت کے متعلق جس کی نگرانی جس کی بادشاہت اور جس کی حفاظت اس کے سپرد کی گئی ہے، سوال کیا جائے گا۔ اور اس سے پوچھا جائے گا کہ اس نے کیا نگرانی کی۔ تو ہر شخص جو کسی غیراحمدی کو اپنے ساتھ لاتا ہے وہ اس کا نگران ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ یہ خیال رکھے کہ اُس کا وقت صحیح طور پر خرچ ہو اورمفید کاموں میں خرچ ہو۔ تا وہ یہاں سے جاتے وقت برکت اپنے ساتھ لے جائے۔ اگر کوئی شخص کسی غیراحمدی کو اپنے ساتھ لاتا ہے مگر پھر اسے چھوڑ دیتا ہے اور وہ ایسے مقامات پر جاتا یا ایسی صحبت میں بیٹھتا ہے جہاں سے وہ بُرے اثرات سے متأثر ہوجاتا ہے۔ تو یہ تو وہی مثال ہوگی کہ ع
یکے نقصان مایہ و دگر شماتت ہمسایہ
اُس نے روپیہ بھی اس پر ضائع کیا اور پھر اپنے لئے ایک خار اور کانٹا بھی پید اکرلیا۔
اسی طرح میں قادیان کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ گو یہ نصیحت ہر سال کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی مگر چونکہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے احکام لوگوں کی یاددہانی کیلئے دُہراتا رہتا ہے اور ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم اُس کی صفات کی نقل کریں، اِس لئے میں بھی اِس سنت میں اِس نصیحت کو دُہراتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جوں جوں جلسہ سالانہ پر لوگوں کی آمد بڑھتی چلی جاتی ہے اسی طرح قادیان والوں پر ان کی ذمہ واری بھی بڑھتی جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ ہر سال قادیان کی آبادی بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ ورنہ جتنا اجتماع جلسہ سالانہ پر اب ہوا کرتا ہے اگر اس کے مقابلہ میں قادیان کی آبادی اتنی ہی رہتی جتنی پُرانی آبادی تھی تو غالباً وہی طریق ہمارے ہاں بھی رائج ہوجاتا جو پُرانے عرسوں پر رائج ہے کہ ایک وقت کی اور وہ بھی مقررہ روٹی لوگوں کو دے دیتے ہیں۔ یعنی ایک دو روٹیاں ہوتی ہیں اور ان پر کچھ سالن رکھا ہوا ہوتا ہے اور پھر کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے بس اتنا ہی ہوسکتا ہے، باقی انتظام آپ خود کرلیں۔ اگر یہاں بھی اتنے ہی آدمی رہتے جتنے پُرانی آبادی کے وقت ہوا کرتے تھے تو غالباً جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کو ہمیں ایک وقت کی روٹی دینی بھی مشکل ہوجاتی۔ مگر خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسا توازن رکھا ہوا ہے کہ ادھر جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی تعداد بڑھاتا ہے تو ادھر قادیان کی آبادی کو بھی بڑھادیتا ہے۔ پس یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے گھر جوں جوں بڑھتے ہیں ان کی ترقی میں ایک حصہ ان مہمانوں کا بھی ہوتا ہے جو جلسہ سالانہ پر آتے ہیں اور ہمارے جس قدر اوقات ہیں ان میں بھی ایک حصہ جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کا ہوتا ہے۔ اس لئے قادیان کے دوستوں کو اپنے مکانات جلسہ سالانہ کے مہمانوں کیلئے پیش کرنے میں کسی قسم کا بخل نہیں کرنا چاہئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر کسی کا کوئی نیا مکان بنا ہوا ہو تو اُس کے دل کو یہ بُرا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مکان اور لوگوں کے استعمال کیلئے دے دے۔ لیکن اس میں بُرا محسوس ہونے کی کوئی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو چیز خداتعالیٰ کے رستے میں خرچ کرنے سے انسان ڈرے وہ چیز رکھنے کے قابل ہی نہیں ہوتی۔ دنیا میں تمام فتنے اسی نقص کی وجہ سے پید اہوتے ہیں۔ اسی نقص کی وجہ سے امراء غرباء کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے اور یہی چیز قوم میں تفرقہ پیدا کرتی اور امراء و غرباء میں ایک دیوار حائل کردیتی ہے۔ پھر وہ مکان جس کو انسان خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے پیش نہ کرسکے وہ اسے برکت کیا دے گا۔ اس نے تو اسے خداتعالیٰ کے دین کی خدمت سے محروم کردیا۔ اگر وہ مکان اس نے نہ بنایا ہوتا تو یہ اس کیلئے زیادہ بہتر ہوتا۔ کیونکہ جب تک اس نے مکان نہیں بنایا تھا اس کے دل میں کوئی وسوسہ نہیں تھا۔ اُسے خدمت دین سے کوئی اعراض نہیں تھا۔ مگر جونہی اُس نے مکان بنالیا اُس کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہونے لگ گیا کہ اگر میں نے مکان دیا تو یہ خراب ہوجائے گا۔
میںنے جب دارالانوار کا مکان بنایا تو پہلے سال مجھ سے کئی دوستوں نے کہا کہ یہ مکان جلسہ سالانہ کے مہمانوں کو نہ دیا جائے، خراب ہوجائے گا۔ گو میں نے انہیں کہا کہ میں تو اِس مکان کو آگ لگانے کیلئے تیار ہوں جس مکان کے متعلق میرے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اگر میں نے اسے خدمت دین کیلئے دیا تو وہ خراب ہوجائے گا۔ چنانچہ میں نے دوستوں سے کہا کہ سب سے پہلے اس مکان کو جلسہ سالانہ کے لئے استعمال کرو تاکہ ان کے ٹھہرنے کی وجہ سے اس میں برکت پیدا ہو جائے۔ چنانچہ پہلے وہ لوگ رہے اور پھر ہم کچھ عرصہ کیلئے وہاں گئے۔ گوبعد میںوہاں سے کُلّی طور پر واپس آگئے۔ تو میں نہیں سمجھ سکتا وہ مکانات اور وہ چیزیں ہمارے لئے کسی قسم کی برکت کا بھی موجب ہوسکتی ہیں جن کے متعلق ہمیں یہ خیال ہو کہ اگر ہم نے انہیں خداتعالیٰ کی راہ میں پیش کیا تو وہ خراب ہوجائیں گی۔ ایسے مکانات تو انسان کیلئے رحمت کا موجب نہیں بلکہ وبال اور عذاب کا موجب ہیں اور جس طرح عذاب لینے کیلئے کوئی شخص تیار نہیں ہوتا اسی طرح ایسے مکانات میں رہنے کیلئے بھی کوئی باغیرت مومن تیار نہیں ہوسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی چیز بُری نہیں ہوتی بلکہ اس چیز کو جونا واجب اہمیت دی جاتی ہے وہ اسے بُرا بنادیتی ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص اپنے بچے کو علم سکھائے۔ اب علم سکھانا بُرا کام نہیں لیکن اگر وہ اسے علم سکھاتا ہے اور پھر اسے سنبھال کر گھر میں رکھ لیتا ہے اور خداتعالیٰ کے دین یا اس کی مخلوق کی ہمدردی اور فائدہ کے لئے قربانی کرنے سے اس لئے روکتا ہے کہ اس قدر محنت کے بعد میرا بچہ ضائع نہ ہوجائے، تو وہ ایک بُرا کام کرتا ہے۔ لیکن اگر وہ اسے علم سکھا کر اس لئے لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے تا وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو علم سکھائے اور انہیں دین سے واقف کرے اور دین کیلئے ہرقسم کی قربانیوں میں حصہ لے تو یہی علم اُس کیلئے برکت کا موجب بن جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اس لئے یہاں مکان بناتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے وَسِّعْ مَکَانَکَ ۷؎ اپنے مکانات کو وسیع کرو۔ تو وہ ان برکات سے حصہ لیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قادیان سے مخصوص کی ہیں۔ لیکن اگرکوئی شخص اس نیت سے مکان نہیں بناتا بلکہ اپنی شان اور اپنی عظمت کے اظہار کیلئے ایک مکان بنادیتا ہے اور پھر خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے پیش کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ تو وہ مکان اس کیلئے برکت کا موجب ہرگز نہیں ہوسکتا۔
بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو یہ الہام ہوا ہے کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ مگر اس کا کیا سبب ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ کی خرابی کا وقت وہ ہوگا جب اس میں بڑے بڑے مکانات بن جائیں گے۔ سو اس کی وجہ یہی ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خداتعالیٰ نے مکانوں کی وسعت کا حکم دیا تو ان مکانوں سے وہ مکان اس نے مراد لئے جو خدمت دین کیلئے بنائے جائیں جن کو پیش کرتے وقت انسان یہ نہ کہے کہ دیکھنا! مکانوں پر میل نہ لگ جائے، دیکھنا! فرش پر گرد نہ پڑجائے، دیکھنا! دیواروں پر کوئی تھوکے نہیں۔ مگر جب رسول کریم ﷺ نے یہ خبر دی کہ مدینہ اس وقت خراب ہوگا جب اس میں بڑے بڑے مکانات بن جائیں گے تو ان مکانات سے وہ مکانات مراد تھے جن میں دین کاکوئی حصہ نہ تھا اور جنہیں ان کے مالکوں نے خدمت دین کیلئے پیش کرنے کی بجائے اپنے ذاتی آرام و آسائش کیلئے وقف کرلینا تھا۔ پس یہ دونوں باتیں الگ الگ مکانات کیلئے ہیں۔ جو مکانات خداتعالیٰ کے دین کی ضروریات کے لئے وقف کردیئے جائیں اور جن مکانات کا قومی ضروریات کے پیش آنے پر دے دینا کسی کو گراں نہ گزرے ، ایسے مکانات یقینا بابرکت ہیں اور وہ جتنے بھی بڑھتے جائیں اُتنا ہی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اوراس کی نعمتوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ہاں جو مکان ایسا ہو کہ اُس کا خدمت دین کیلئے پیش کرنا انسان کو دوبھر ہو یا غریبوں کو دینا انسان پر شاق گزرتا ہو تو وہ مکان رحمت کی بجائے انسان کے لئے *** بن جاتا ہے۔
پس دوستوں کو جہاں تک ہوسکے جلسہ سالانہ کیلئے اپنے مکانات دینے چاہئیں اور انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ جس وقت بھی خداتعالیٰ نے انہیں قادیان میں مکان بنانے کی توفیق دی تھی تو اسی لئے دی تھی کہ وہ اپنا مکان خدمت دین کیلئے پیش کرکے ہر سال زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرتے رہیں۔ پھر اس موقع پر اپنے نفوس کو بھی خدمت دین کیلئے پیش کرنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ انسان جب تک ہرقسم کی قربانی نہ کرے وہ ہرقسم کی برکات حاصل نہیں کرسکتا۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص فلاں عبادت میں زیادہ حصہ لے گا وہ جنت کے فلاں دروازہ سے گزارا جائے گا اور جو فلا ںعبادت میں زیادہ حصہ لے گا وہ فلاں دروازہ سے گزارا جائے گا۔ اسی طرح آپ نے مختلف عبادات کا نام لیا اور فرمایا جنت کے سات دروازوں سے مختلف اعمالِ حسنہ پر زیادہ زور دینے والے لوگ گزارے جائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی اس مجلس میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مختلف دروازوں سے تو وہ اس لئے گزارے جائیں گے کہ انہوں نے ایک ایک عبادت پر زور دیا ہوگا، لیکن یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر کوئی شخص ساری عبادتوں پر ہی زور دے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا وہ جنت کے ساتوں دروازوں سے گزارا جائے گا۔ اور اے ابوبکرؓ! میں امید کرتا ہوں کہ تم بھی انہی میں سے ہوں گے۔۸؎ اب ان دروازوں سے اینٹوں اور لکڑیوں والے دروازے مراد تو نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اگر یہی دروازے مراد ہوں تو پھر اس میں کون سی عزت ہوسکتی ہے کہ بجائے ایک دروازہ کے سات دروازوں سے کسی کو گزارہ جائے۔ اگر ہم کسی مکان میں داخل ہونا چاہیں اور مالک مکان بجائے ایک دروازہ سے اندر لے جانے کے پہلے ہمیں ایک دروازہ سے اندر لے جائے پھر دوسرے سے، پھر تیسرے سے، پھر چوتھے سے، پھر پانچویں سے، پھر چھٹے سے اور پھر ساتویں سے تو اس میں ہماری کون سی عزت ہوگی۔ اس سے تو سوائے اس کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا کہ ہماری لاتیں ٹوٹیں اور ہم تھک کر رہ جائیں۔ پس اگر جنت میں بھی ساتوں دروازوں سے گزارنے سے مراد ساتوں دروازوں سے اندر جانا ہو تو یہ کوئی عزت کی بات نہیں ہوسکتی۔ لیکن چونکہ رسول کریم ﷺ نے اس میں بعض جنتیوں کو خاص قسم کی عزت کی بشارت دی ہے اس لئے یقینا اس گزرنے سے ظاہری گزرنا مرادنہیں ہوسکتا بلکہ اس سے مراد مختلف قسم کے انعامات حاصل ہونا ہے اور مطلب یہ ہے کہ انہیں اس قسم کے انعامات دیئے جائیں گے۔ گویا ساتوں دروازوں سے گزرنے کے معنے ہرقسم کی نیکیوں کے بدلے ہرقسم کے انعامات ملنے کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جو شخص ہرقسم کی نیکیاں کرے وہی ہرقسم کے انعامات کا مستحق ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ چونکہ ہر قسم کی نیکیاں کرتے تھے اس لئے رسول کریم ﷺ یہ امید رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا سلوک ان سے امتیازی رنگ میں ہوگا۔ مگر یہ صفت صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہی مخصوص نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اُمت محمدیہ کے اور کئی بزرگ بھی ہرقسم کی نیکیوں کے حصول کیلئے بے چین رہتے تھے۔ بلکہ بعض بزرگ تو اتنا غلو کرلیتے تھے کہ ظاہر بین نگاہیں انہیں شاید پاگل ہی خیال کرتی ہوں لیکن وہ جو کچھ کرتے تھے محبت کے جوش میں کرتے تھے۔ ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ قرآن پڑھتے تو جہاں زبان سے الفاظ کہتے جاتے وہاں اپنی اُنگلی بھی آیتوں پر پھیرتے جاتے۔ کسی نے پوچھا آپ یہ کیا کرتے ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ قرآن کریم کی تلاوت میں زبان اور آنکھیں تو شریک ہوتی ہی ہیں اُنگلی کو بھی کیوں نہ اس کام میں شریک کیا جائے۔ چنانچہ میں آنکھوں سے قرآن کریم کی آیات دیکھتا جاتا ہوں، زبان سے پڑھتا جاتا ہوں اور اپنی انگلی ساتھ ساتھ ہر آیت کے نیچے پھراتا جاتا ہوں۔ تا میری آنکھیں، میری زبان اورمیرے ہاتھ سب تلاوتِ قرآن کے ثواب میں شریک ہوجائیں۔ اس عمل کو تم غلو کہہ لو لیکن اس ذہنیت کی تعریف کئے بغیر تم نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ درحقیقت حقیقی کمال روحانیت کا یہی ہے کہ ہرقسم کی نیکی حاصل کی جائے۔ جو شخص ایک قسم کی نیکی میں ہمیشہ حصہ لیتا ہے اس میں کچھ اس کی عادت کا بھی دخل ہوجاتا ہے اور جس نیکی میں عادت کا دخل ہو وہ انسان کو اتنے انعام کا مستحق نہیں بناتی جتنے انعام کا وہ نیکی مستحق بناتی ہے جو محبت کی وجہ سے کی جائے۔
صحابہؓ میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کوئی رنگ نیکی کا جانے نہیں دیتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عمرؓ کے لڑکے تھے لیکن بہت ہی باکمال صحابہؓ میں سے تھے۔ اور صحابہؓ میں بہت کم ایسے لوگ ہوئے ہیں جو باپ بیٹا دونوں عظیم الشان انسان ہوئے ہوںاور جن کو رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ہی بہت بڑی خدمت کا موقع ملا ہو۔ لیکن حضرت عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ دونوں نہایت جلیل القدر بزرگ گزرے ہیں۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمرؓ نہایت اعلیٰ تفقُّہ رکھتے تھے اور مشہور فقیہہ تھے۔ کئی جگہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایات میں یہ ذکر آتا ہے کہ جب وہ بعض مسائل بیان کرتے اور لوگ ان سے کہتے کہ آپ کے والد کی فلاں روایت اس کے خلاف ہے تو وہ بڑے جوش سے کہتے کہ میں رسول اللہ ﷺ پر ایمان لایا ہوں۔ میں نے رسول کریم ﷺ سے یہ بات یوں سُنی ہے۔ اگر میرے والد کو اس کے سننے کا موقع نہیں ملا تو میں تووہی بات بیان کروں گا جو میں نے رسول کریم ﷺ سے منہ سے سنی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایتیں حضرت عمرؓ سے بہت زیادہ ہیں۔ کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو رسول کریم ﷺ کی باتیں سننے کا حضرت عمرؓ سے بہت زیادہ موقع ملا کیونکہ وہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ قریباً ہر وقت رہتے تھے۔ اور حضرت ابوہریرہؓ کے بعد حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت عمروبن العاصؓ کی ہی روایات احادیث میں کثرت سے ملتی ہیں جو انہوں نے خود رسول کریم ﷺ سے سُنیں۔ (حضرت عبداللہ بن عباس کی روایات بہت ہیں لیکن ان میں سے اکثر وہ ہیں جو انہوں نے دوسرے صحابہ سے سنی ہیں)۔ یہ عبداللہ بن عمرؓ جو اتنے بڑے پایہ کے بزرگ اور نیک انسان تھے۔ ان کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ حج کیلئے گئے تو راستہ میں ایک مقام پر وہ پیشاب کرنے بیٹھ گئے۔ پھر چلتے چلتے ایک پتھر آیا تو اُس پر بیٹھ گئے۔ اسی طرح بعض اور پتھروں پر وہ تھوڑی تھوڑی دیر کیلئے بیٹھے اور پھر حج کیلئے مکہ پہنچ گئے۔ جب حج کرکے واپس آئے تو پھر انہی پتھروں پر تھوڑی تھوڑی دیر کیلئے بیٹھے اور جب اس جگہ پہنچے جہاں انہوں نے پیشاب کیا تھا تو پھر وہا ں پیشاب کرنے کیلئے بیٹھ گئے۔ اس پر ان کے ایک ساتھی نے ان سے کہا کہ پہلے تو میں نے سمجھا کہ اتفاق سے آپ پیشاب کرنے یہاں بیٹھ گئے تھے اور ذرا دم لینے کیلئے پتھروں پر بیٹھتے گئے۔ مگر جب واپسی پر آپ پھر انہی پتھروں پر بیٹھے ہیں اور اسی جگہ آپ نے آپ نے پھر پیشاب کیا ہے تو مجھے محسوس ہوا ہے کہ یہ اتفاق نہیں بلکہ اس میں کوئی بات ہے۔ ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جہاں آپ کو پہلے پیشاب آیا تھا آتی دفعہ بھی آپ کو اسی مقام پر پیشاب آتا اور جن پتھروں پر آپ پہلے بیٹھے تھے انہی پتھروں پر دوبارہ تھک کر بیٹھتے۔ حضرت عبداللہؓ نے جواب دیا یہ ہے تو میرے ذوق کی بات مگر چونکہ تم نے پوچھا ہے اس لئے بتادیتا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ جب عمرہ کیلئے تشریف لے گئے تھے تو آپ نے اسی جگہ پیشاب کیا تھا اور آپ انہی پتھروں پر تھوڑی تھوڑی دیر کیلئے آرام کرنے کی خاطر بیٹھے تھے۔۹؎ میں جب یہاں سے گزرتا ہوں تو خیال آتا ہے چلو یہاں سے بھی برکت لے لیں۔ چنانچہ جہاں رسول کریم ﷺ پیشاب کرنے بیٹھے تھے وہاں میں بھی بیٹھ جاتا ہوں اور جن پتھروں پر آپ نے نشست فرمائی تھی وہاں تھوڑی تھوڑی دیر کیلئے میں بھی بیٹھ جاتا ہوں۔ یہ عشقی رنگ ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرؓ میں پایا جاتا تھا کہ رسول کریم ﷺ نے ایک کام کیا ہے،میں بھی وہی کام کیوں نہ کروں۔ خبر ہے اس میں ہی برکت ہو اور یہی وہ رنگ ہے جو انسان کو اعلیٰ درجہ کے مقامات تک پہنچاتا ہے۔ پس ہرقسم کی نیکی کے حصول کیلئے جب تک انسان کامل اتباع نہیں کرتا اُس وقت تک وہ کمال حاصل نہیں کرسکتا۔
تم مت خیال کرو کہ اگر تم جلسہ کیلئے چندہ جمع کردیتے ہو تو تمہیں نیکی میں کمال حاصل ہوجاتا ہے یا تم جلسہ میں لیکچر دے دیتے ہو یا لیکچر سن لیتے ہو تو تم نیکیوں کو پورا کرلیتے ہو یا قادیان میں مکان بنالیتے ہو یا جلسہ والوں کو مکان دے دیتے ہو تو نیکیوں کو پورا کرلیتے ہو یا مہمانوں کی خدمت کرتے ہو تو نیکیوں کو پورا کرلیتے ہو۔ یہ الگ الگ اور انفرادی طور پر جس قدر خدمتیں ہیں ان کا بجالانا بھی ضروری ہے۔ لیکن ان کے علاوہ اور بھی جس قدر خدمتیں ہیں ان سب میں حصہ لینا تمہارے لئے ضروری ہے۔ کیونکہ جو شخص ساری خدمتیں کرتا ہے وہی جلسہ سالانہ کے سارے انعامات کا مستحق بنتا ہے۔ اور یہ صرف جلسہ کی ہی بات نہیں دین کی ہر بات میں یہی فرض انسان پر عائد ہوتا ہے۔ انسان کو حکم ہے کہ وہ نما زبھی پڑھے، وہ فرضی روزے بھی رکھے، وہ نفلی روزے بھی رکھی، وہ فرضی زکوٰۃ بھی دے، وہ نفلی صدقہ و خیرات بھی دے۔ وہ بنی نوع انسان کی خدمت بھی کرے، خواہ وہ خدمت لسانی ہو یا مالی ہو یا جسمانی ہو۔ غرض ہر رنگ میں جب وہ اپنے آپ کو خدمت دین کے راستہ پر ڈال دے تبھی اس کا دین کامل ہوسکتا ہے اور تبھی ہر رنگ میں وہ انعام کا مستحق ہوتا ہے۔ اور یہی جنت کے ہر دروازہ سے داخل ہونا ہے جو فخر کے قابل ہے اور جس سے ہر مومن اپنے اپنے ایمان اور اپنے اپنے عرفان کے مطابق حصہ لے سکتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے دروازہ سے ہر شخص داخل نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر کوئی حضرت ابوبکرؓ کے قدم پر قدم مارسکتا ہے تو خداتعالیٰ اس کو بھی وہ انعام دینے کیلئے تیار ہے جو اس نے حضرت ابوبکرؓ کیلئے تیار کیا۔ اور اگر کوئی حضرت عمرؓ کے قدم پر قدم مارسکتا ہے تو خداتعالیٰ اُس کو بھی وہ انعام دینے کیلئے تیار ہے جو اس نے حضرت عمرؓ کو دیا۔ لیکن جو ان کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا وہ ان سے اُتر کر اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلے۔ لیکن بہرحال کوشش کرے کہ اس میں ہرقسم کی نیکیاں پیدا ہو جائیں۔ یہی روحانیت کو محفوظ کردینے والی بات ہوتی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے جلسہ سالانہ کے ایام میں کئی قسم کی خدمات انسان کرسکتا ہے۔ یہی نہیں کہ کھانے کے وقت مہمانوں کو کھانا کھلایا اور پھر کام ختم ہوگیا بلکہ کھانا کھلانے کے علاوہ مہمانوں کے متعلق اور بھی ایسی کئی خدمات ہوسکتی ہیں جن سے انہیں فائدہ ہوسکتا ہے۔ مثلاً وہ بازاروں میں پھرتار ہے اور دیکھتا رہے کہ کوئی مسافر بھولا ہواتو نہیں پھر رہا اور اگر اسے معلوم ہو کہ کوئی مہمان اپنا مکان بھول گیا ہے یا اسے علم نہیں کہ میری جماعت کا کمرہ کون سا ہے تو ایک یہ بھی خدمت ہے کہ اسے صحیح جگہ پہنچادیا جائے۔ یا عورتیں گلیوں میں پھرتی رہتی ہیں اور مرد ان کا قطعاً لحاظ نہیں کرتے۔ وہ چاروں طرف پھیل جاتے ہیں اور عورتوں کے گزرنے کا کوئی رستہ نہیں رہتا۔ اگر یہی خدمت بعض لوگ اپنے ذمہ لے لیں کہ گلیوں اور راستوں میں سے مردوں کو ایک طرف سے گزاریں اور عورتوں کو دوسری طرف سے تو میں سمجھتا ہوں اس کا انہیں بہت بڑا ثواب ہو۔ مگر ہمارے ملک میں عورت پر رحم بہت کم ہوتا ہے حالانکہ اسلام نے عورتوں کا بڑا بھاری خیال رکھا ہے۔ رسول کریم ﷺ جب سفر پر جاتے اور صحابہ اونٹوں کو دَوڑاتے تو آپ فرماتے رِفْقًا بِالْقَوَارِیْر- رِفْقًا بِالْقَوَارِیْر ۱۰؎ ارے شیشوں کا بھی خیال رکھنا۔ ارے شیشوں کا بھی خیال رکھنا۔ اور آپ کا مطلب یہ ہوتا کہ اونٹوں پر عورتیں بھی سوار ہیں۔ وہ تمہاری طرح اونٹ تیز نہیں دَوڑاسکتیں، ان کا بھی خیال رکھو۔ لیکن اب ایک عجیب قسم کی ذہنیت پیدا ہوگئی ہے کہ لوگ کمزور پر طاقت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ طاقت مضبوط کے مقابلہ پر ظاہر کی جائے تبھی اس سے شان ظاہر ہوتی ہے۔ میری خلافت پر قریباً ۲۴ سال گزرچکے ہیں اور اس عرصہ میں مَیں نے بارہا جماعت کو سمجھایا ہے کہ کمزوروں پر رحم کرو اور عورتوں پر اپنی طاقت مت جتلائو۔ مگرمیری اس قدر مسلسل نصائح کے باوجود حالت یہ ہے کہ جو لوگ میرے ساتھ چلنے والے ہوتے ہیں، وہ نہ معلوم اپنے آپ کو کیا سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ جب راستہ میں کوئی عورت آجاتی ہے تو اسے انتہائی تحکمانہ لہجے میں کہتے ہیں ’’مائی ہٹ جائو‘‘ ’’مائی ہٹ جائو‘‘۔ گویا مائی کوئی رُستم پہلوان یا اسفند یار ہے جسے انہو ں نے راستہ سے ہٹانا ہوتا ہے۔ مجھے ۲۴ سال سمجھاتے سمجھاتے گزرگئے کہ اگر کوئی عورت آگے سے آرہی ہو تو بجائے اُسے ہٹانے کے خود راستہ کاٹ کر گزرجائو مگر اب تک اصلاح ہونے میں نہیں آتی۔ آج بھی جب میں خطبہ پڑھانے کیلئے نکلا تو میرے آگے آگے کوئی صاحب تھے جن کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی سوٹی تھی جسے وہ ہلاتے جاتے تھے اور عورتوں کو کہتے جاتے تھے کہ ہٹ جائو ہٹ جائو۔ آخر میں نے ساتھیوں سے کہا کہ خدا نے مجھے بھی آنکھیں دی ہوئی ہیں بجائے ان کو دھکیلنے کے ہم خود راستہ کاٹ کر ایک طرف سے کیوں نہیں گزرسکتے۔ تو کمزور پر زور جتانے کی *** ایسی ہمارے ملک میں ہے جو کسی طرح دور ہونے میں نہیں آتی۔ حالانکہ کمزور کے آگے کمزور بننا چاہئے اور طاقتور کے آگے طاقتور۔ اگر کوئی شخص جابر اور ظالم ہے تو اس کے مقابلہ میں ہمیں بیشک اپنی طاقت دکھانی چاہئے لیکن اگر کوئی کمزور ہے تو وہاں طاقت دکھانے کی بجائے ہمارے لئے یہ حکم ہے کہ ہم نرم بنیں۔ عورتیں جب بازار یا گلیوں میں پھرتی ہیں تو شریعت کا ان کے متعلق یہ حکم ہے کہ وہ پردہ کریں۔ لیکن ہم کھلے منہ پھررہے ہوتے ہیں۔ ان حالات میں یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ عورتوں پر سختی کی جائے اور انہیں راستہ سے ہٹایا جائے۔
پس جلسہ سالانہ کے ایام میں اگر دوست اس امر کی نگرانی کریں کہ بھولے بھٹکے مہمان ٹھوکریں نہ کھاتے پھریں تویہ بھی ایک خدمت ہوگی۔ اور اگر اس امر کا خیال رکھیں کہ راستوں میں مرد ایک طرف اور قطار بنا کر چلیں تا عورتوں کو چلنے میں تکلیف نہ ہو تو یہ بھی ایک ثواب والی خدمت ہوگی۔ بلکہ بہتر ہے کہ اس دفعہ یہ انتظام کیا جائے کہ گلیوں اور راستوں پر ایک طرف مردوں کے چلنے کیلئے مخصوص کردی جائے تو دوسری طرف عورتوں کیلئے۔ اور چلنے پھرنے والے مردوں کو سمجھاتے رہیں کہ وہ ایک طرف چلیں اور بجائے اس کے کہ وہ عورتوں سے یہ امید کریں کہ وہ ان کا راستہ نہ روکیں خود ایک طرف ہوجائیں۔ عورتوں کو بھی بیشک اُن کی جہت بتادی جائے مگر مردوں کیلئے بھی ایک جہت مخصوص کردی جائے۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں آمدورفت میں بہت کچھ آرام اور سہولت ہوجائے گی۔ انگریزوں نے یہ کیا ہوا ہے کہ وہ ایک رستہ سے جاتے اور دوسرے رستہ سے واپس آتے ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ پردے کا طریق رائج ہے اور عورتوں کو پردہ میں ہی لیکچروں کیلئے آنا جانا پڑتا ہے اس لئے میرے نزدیک جب تک ہماری سڑکیں کافی چوڑی اور فراخ نہیں ہوجاتیں اُس وقت تک اسی طریق پر عمل کرنا بہتر ہے جو میں نے بتایا ہے کہ ایک طرف مردوں کیلئے مخصوص کردی جائے اور دوسری طرف عورتوں کیلئے۔ ہاں جو انگریزوں کا طریق ہے کہ آنے جانے کیلئے بھی الگ الگ جہات ہوں اس میں یہ فائدہ ہے کہ اس طرح وقت بہت حد تک بچ جاتا ہے۔ لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا کہ سڑکیں اس قدر چوڑی ہوں کہ ان کے چار حصے کرکے مردوں اور عورتوں کے آنے اور جانے والے راستے الگ الگ کر دیئے جائیں اُس وقت تک مردوں اور عورتوں کیلئے الگ الگ اطراف مخصوص کردی جائیں اور مرد اس کی نگرانی کریں۔ تومیں سمجھتا ہوں وہ جلسہ سالانہ کے ایام میں بہت بڑی خدمت کرسکتے ہیں۔ اسی طرح جلسہ سالانہ کے ایام میں بعض عورتوں کے بچے گم ہوجاتے ہیں، بعض خبیث طبع لوگ عورتوں کو مخول کردیا کرتے ہیں۔ ایسے تمام امور کی نگہداشت کی جائے اور عورت کی عزت اور اس کے احترام میں کوئی خلل نہ آنے دیا جائے۔
پس کئی قسم کی خدمتیں ہیں جو تم نکال سکتے ہو اور بیسیوں قسم کی نیکیاں ہیں جو تم پیدا کرسکتے ہو۔ اور یاد رکھو کہ وہ شخص جس کے دل میں یہ تڑپ ہو کہ وہ نیکی کے نئے سے نئے راستے تلاش کرے اور ہرقسم کی نیکیاں اپنے اندر پید اکرے اُسی کو صوفی کہتے ہیں۔ تم نے سنا ہوگا کہ امت محمدیہ میں فلاں فلاں صوفی گزرے ہیں اور تم حیران ہوتے ہوگے کہ صوفی کسے کہتے ہیں۔ سو یاد رکھو کہ صوفی وہی ہوتا ہے جو اپنے دل کی صفائی کی مختلف راہیں تلاش کرتا رہتا ہے۔ اسی لئے کئی دفعہ ناسمجھ لوگ صوفیاء کوبیوقوف خیال کرنے لگ جاتے ہیں۔ جیسے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جب وہاں پیشاب کیا جہاں رسول کریم ﷺ نے پیشاب کیا تھا تو بعض ظاہر پرستوں نے اس پر اعتراض کیا۔ مگر جہاں عشق کا مظاہرہ ہو وہاں انسان یہی کوشش کرتا ہے کہ میں اپنے محبوب کی نقل کروں۔ میں خدا اور اُس کے رسول کی صفات کا نقال بن جائوں۔ اور میں دنیا کی ہر خوبی کا نقال بن جائوں، اِس کا نام تصوف ہے۔ وہ اگر دیکھتا ہے کہ اس سے پہلے خدا رسیدہ لوگوں نے نفلی نمازوں سے خدا کا قرب حاصل کیا تو وہ نماز پڑھنے لگ جاتا ہے۔ وہ اگر دیکھتا ہے کہ انہوں نے نفلی روزے رکھ کر وصالِ الٰہی حاصل کیا تو وہ روزے رکھنے لگ جاتا ہے۔ وہ اگر دیکھتا ہے کہ انہوں نے صدقہ و خیرات سے خداتعالیٰ کی رضا حاصل کی تو وہ صدقہ دینے لگ جاتا ہے۔ وہ اگر دیکھتا ہے کہ انہوں نے نفلی حج سے برکت حاصل کی تو وہ حج کرنے لگ جاتا ہے۔ وہ اگر دیکھتا ہے کہ انہوں نے علم پڑھایا تو وہ لوگوں کو علم پڑھانے لگ جاتا ہے۔ وہ اگر دیکھتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے محنت مزدوری کی تو وہ اپنے ہاتھ سے محنت مزدوری کرنے لگ جاتا ہے۔ غرض جس جس رنگ میں وہ کسی بزرگ کو نیکی میں رنگین پاتا ہے وہی رنگ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگ جاتا ہے۔ وہ کسی نیکی کو حقیر سمجھ کر نہیں چھوڑتا بلکہ کہتا ہے کہ میں یہ بھی لے لوں اور وہ بھی لے لوں وہ خدا اور اس کے رسول کا عاشق ہوتا ہے اور عشق و محبت کا ترانہ دنیا کے ترانوں سے جُداگانہ ہوتا ہے۔ دنیا کی نگاہوں میں وہ پاگل ہوتا ہے مگر خداتعالیٰ کی نگاہ میں وہ پاگل نہیں ہوتا بشرطیکہ وہ شریعت اور وقار کو چھوڑنے والا نہ ہو۔
مثنوی رومی والوں نے ایک قصہ لکھا ہے معلوم نہیں انہوں نے کہاں سے لیا کہ ایک گڈریا ایک دفعہ جنگل میں کسی درخت کے سایہ کے نیچے بیٹھا تھا کہ اُس کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت نے جوش مارا۔ چونکہ وہ جاہل تھا یا ممکن ہے وہ جاہل نہ ہو بلکہ عاشق ہو اور عشق میں عالم اور جاہل کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا۔ عشق انسانی عقل پر ایسا پردہ ڈال دیتا ہے کہ عالم ہوتے ہوئے بھی انسان ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جو دوسری صورت میں نہیں کہہ سکتا۔ اور اس کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت شعلہ زن ہو، دوسرے لوگ نہ ان باتوں کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ان باتوں کو بیان کیا جاسکتا ہے۔ یہی تصوف کے کے راز کہلاتے ہیں جب عشق انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ پس بالکل ممکن ہے وہ اسی حالت میں ہو اور عشق و محبت کی محویت میں اس کے منہ سے باتیں نکل رہی ہوں یا ممکن ہے اس کا سبب جہالت ہی ہو۔ بہرحال وہ لکھتے ہیں وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھا اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہہ رہا تھا کہ خدا یا! اگر تو مجھے مل جائے تو میں تیری گدڑی میں سے جوئیں نکالا کروں۔ تیرے پیروں میں سے کانٹے نکالا کروں۔ تجھے اپنی بکریوں کا تازہ تازہ دودھ پلایا کروں۔ تجھے دبایا کروں، تیری دل کھول کر خدمت کیا کروں۔ غرض وہ اکیلا بیٹھا اس طرح عشق کے راگ نثرمیں گارہا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اتفاقاً پاس سے گزرے اور انہوں نے یہ باتیں سن لیں۔ انہیں سخت غصہ آیا اور وہ کہنے لگے نالائق !تو خدا کی ہتک کرتا ہے۔ تیرے نزدیک اللہ میاں نے گدڑی پہنی ہوئی ہے؟ تیرے نزدیک اسے جوئیں پڑی ہوئی ہیں؟ اور یہ کہتے ہوئے اسے اپنا ڈنڈا زور سے مارا۔ وہ بے چارا اُٹھ کر بھاگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جوش میں اُس کا تعاقب کرنا چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن پر وحی نازل ہوئی کہ اے موسیٰؑ! تو نے ہمارے بندہ کو بڑا دُکھ دیا۔ موسیٰ اُس کی باتوں سے تیرا کیا بگڑتا تھا وہ تو اپنی زبان میں ہم سے اپنے عشق کا اظہار کررہا تھا۔ اُس کی تو بولی یہی تھی اور اُس کی سمجھ بھی اتنی ہی تھی۔ وہ آپ گدڑی میں رہتا ہے اُس لئے اس نے ہمارے متعلق بھی یہ فرض کرلیا کہ ہم گدڑی میں رہتے ہیں۔ اس کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی نعمت بکریوں کا تازہ دودھ ہے سو یہی نعمت اس نے ہمارے سامنے پیش کردی۔ وہ خود جب جنگل میں ننگے پائوں چلتا ہے تو اس کے پائوں میں کانٹے چبھ جاتے ہیں اور اس کے محبوب یعنی بیوی بچے بھی جب ننگے پائوں پھرتے ہیں تو اُن کے پائوں میں کانٹے چبھ جاتے ہیں اور وہ انہیں بیٹھ کر نکالا کرتا ہے۔ سو اس نے ہمارے متعلق بھی اسی خدمت کو سرانجام دینا اپنے لئے باعث فخر سمجھا۔ پس اے موسیٰؑ ! تو نے اس کو دکھ دے کر ہمیں بڑی تکلیف پہنچاتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جب یہ وحی نازل ہوئی تو آپ فوراً اُس کے پاس گئے اور اس سے معافی مانگی۔ بالکل ممکن ہے اُس کی یہی باتیں جہالت کی وجہ سے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی تہہ میں محبت و عشق کارفرما ہو اورجذبۂ عشق کی فراوانی کی وجہ سے اُس قسم کی باتیں اس کی زبان سے نکل رہی ہوں۔ لیکن تم اگر گڈریا کے واقعہ کو جانے بھی دو تو مجھے بتلائو کہ کونسا عاشق صادق ہے جس کے دل میں باوجود اس یقین کے کہ خداتعالیٰ تجسم سے پاک ہے یہ خیال نہ آتا ہو کہ وہ خداتعالیٰ کو جوشِ محبت میں پکڑلے۔ چاہے اس گڈریے کی طرح یہ سب کچھ عالَمِ تصور تک محدود ہو۔ لیکن چونکہ اس کی نظر اس بات کی عادی ہوچکی ہے کہ جس محبوب سے اُسے محبت ہو اُسے وہ چھوتا ہے، اس سے مصافحہ کرتا ہے اگر بزرگ ہو تو اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیتا ہے ، بچہ ہو تو اس کو چوم لیتا ہے۔ اس لئے یہی کیفیت خداتعالیٰ کے متعلق بھی اس کے دل میں غیرمعیّن اور غیرمحسوس طور پر پید اہوتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو شاعری میں خداتعالیٰ کی نسبت وہی الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جو دنیا میں عام معشوقوں کی نسبت لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اُس وقت یہ تو نہیں ہوتا کہ شاعر خداتعالیٰ کو مجسم سمجھتے ہیں۔ وہ عقیدتاً اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ خداتعالیٰ ہرقسم کے تجسم سے پاک ہے مگر چونکہ عشق و محبت کامادہ اس طریق اظہار کا عادی ہوچکا ہے، اس لئے خداتعالیٰ کی نسبت بھی اسی قسم کے الفاظ استعمال کرلئے جاتے ہیں۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں اے خدا! تو ہمیں مل جائے تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کرتا ہے کہ خدا (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) کہیں بھولا بھٹکا پھر رہا ہے اور ہم اسے کہتے ہیں کہ وہ آئے اور ہم سے آکر مل جائے۔ یہ صرف اپنے عشق کا اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ اور یا پھر خداتعالیٰ کا اپنے اِدراک میں آجانے کا نام ہم خداتعالیٰ سے ملنا رکھتے ہیں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اُس کا اِدراک حاصل ہوجائے۔ یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ وہ کہیں کھویا ہوا ہے بلکہ ہمارے کمزور نفوس میں اُس کا اِدراک اگر مفقود ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ ہمیں مل جائے۔ اور یا پھر اس کا یہ بھی مطلب ہوتا ہے کہ اس کے متعلق ہمارا ناقص اِدراک کامل ہوجائے۔ غرض عشق کے اظہار کے ہزاروں ذرائع ہیں۔ اور ان تمام ذرائع کو اختیار کرنے کانام ہی تصوف ہے اور اسی تصوف پر حقیقی قرب کی بنیاد ہوتی ہے۔ لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تصوف نام ہے درود وظیفہ کا۔ حالانکہ درود و وظیفہ کیا چیز ہیں؟ وہ صرف دوسروں کی دماغی نقل ہیں۔ اور تصوف عشقی نقل کا نام ہے اور عشقی نقل کے مقابلہ میں دماغی نقل کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ دماغی نقلیں صرف کاغذ کے پھول ہیں اور کاغذ کے پھولوں میں کبھی خوشبو نہیں ہوسکتی۔ ہاں جو عشق میں مخمور ہوکر عشقی نقل کرتا ہے وہی حقیقی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ بعض صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نماز میں بھی بعض دفعہ رسول کریم ﷺ کی طرف دیکھتے تھے کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں۔ یہ عشق کی نقل تھی دماغی اور عقلی نقل نہیں تھی اس عشق میں بعض دفعہ ع
عشق است و ہزار بدگمانی
والا معاملہ بھی ہوجاتا ہے۔
ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ نماز پڑھارہے تھے کہ جب آپ سجدہ میں گئے تو آپ نے بہت دیر کردی اور سجدہ بہت لمبا ہوگیا۔ یہ دیکھ کر میرے دل میں وہم اٹھنا شروع ہوگیا کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ نہ ہوگیا ہو۔ چنانچہ میں نے سر اُٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت حسنؓ رسول کریم ﷺ کی گردن پر اس طرح بیٹھے ہیں جس طرح کوئی گھوڑے پر سوار ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر میں پھر جلدی سے سجدہ میں چلا گیا۔ جب نما زہوچکی تو باقی صحابہؓ نے عرض کیا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کیا سجدہ میں حضور پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے کہ اِس قدر دیر حضور نے کردی؟ یا خدانخواستہ کوئی تکلیف ہوگئی تھی؟ ہمیں تو سخت گھبراہٹ ہونے لگ گئی تھی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ خدا کے فضل سے کوئی تکلیف ہوئی ہے۔ یہ ہمارا بیٹا ہماری گردن پر سواری کرنے بیٹھ گیا تھا اور ہم نے کہا کہ چلو تھوڑی دیر کیلئے یہ بھی سواری کرلے، اگر اسے ہٹایا تو اسے تکلیف ہوگی۔۱۱؎ اب وہ صحابی نماز میں تھا مگر اس عشق کی وجہ سے جو اُسے رسول کریم ﷺ کی ذات سے تھا بے تاب ہوگیا اور وہ سجدہ سے ہی سر اُٹھا کر دیکھنے لگ گیا۔ لوگ کہتے ہیں فلاں بزرگ کو نما زپڑھتے وقت اتنی محویت ہوتی ہے کہ انہیں بچھو نے ڈس لیا مگر انہیں ذرا احساس نہ ہوا۔ فلاں بزرگ کو نماز میں بھڑیں کاٹ گئیں اور انہوں نے پرواہ نہ کی۔ یہ وقت بھی بعض دفعہ عشاق پر آتا ہے مگر اس صحابی میں اس سے جداگانہ کیفیت پیدا ہوئی۔ اور گو وہ نماز پڑھ رہے تھے مگر سجدہ کے ذرالمبا ہوجانے کی وجہ سے ہی ان کے دل میں کئی قسم کے خیالات پیدا ہونے لگ گئے کہ کہیں رسول اللہ ﷺ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوگئی اورجب تک انہوں نے سر اُٹھا کر دیکھ نہ لیا ان کی تسلی نہ ہوئی۔
اسی موقع پر میں ضمناً ان لوگوں کا ذکر بھی کردینا چاہتا ہوں جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قادیان میں کچھ عرصہ سے نماز کے وقت پہرہ لگایا جاتا ہے جو شرعاً ناجائز ہے۔ حالانکہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نماز پڑھتے ہوئے بھی رسول کریم ﷺ کا پہرہ رکھتے تھے۔ اب شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ جو شخص امام سے پہلے اپنا سر سجدے سے اُٹھاتا ہے وہ سخت گناہ کرتا ہے اور قیامت کے روز اس کا سر گدھے کا سر بنایا جائے گا۔ ۱۲؎ مگر اس حکم کی اس صحابیؓ نے کوئی پروا نہ کی اور نہ خدا اور خدا کے رسول نے اس کے اس فعل پر اظہارِ ناراضگی کیا اور یہ یقینی امر ہے کہ اس نے جو نماز میں ہی سر اٹھا کر دیکھ لیا کہ کہیں خدانخواستہ رسول کریم ﷺ پر کسی نے حملہ تو نہیں کردیا یا آپ بیمار تو نہیں ہوگئے، یہ ایک بہت بڑی نیکی تھی۔ تو نیکی کے تمام راستوں کو اختیار کرنا اور عشق اور محبت کے ماتحت دین میں ترقی کرنا، اسی کا نام تصوف ہے۔ جو شخص یہ تصوف اختیار کرتا ہے اُس پر رئویا و کشوف اور الہامات کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ کلامِ الٰہی کے معارف و اسرار سے اسے آگاہ کیا جاتا ہے اور محبت الٰہی کے رموز اس پر وا ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ غرض تمام روحانی نعمتیں اسے میسر آجاتی ہیں مگر شرط یہی ہے کہ اس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق محبت کا ہو اور محبت میں کوئی شرطیں اور حد بندیاں نہیں ہوتیں۔ جو شخص شرطوں اور حد بندیوں کے اندر کام کرتاہے خداتعالیٰ کا اُس کے ساتھ وہی معاملہ ہوتا ہے جو ایک آقا کا نوکر کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگر جو شخص عشق میں سرشار ہوکر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے خداتعالیٰ اُس سے وہ سلوک کرتا ہے جو وہ اپنے پیاروں اور محبوبوں سے کیا کرتا ہے۔ پس جلسہ سالانہ کے ایام میں جو دوست باہر سے آتے ہیں اور جو یہاں کے رہنے والے ہیں ان سب کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان ایام کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں۔ ہمارے سلسلہ کی بنیاد ہی محبت و عشقِ الٰہی پر ہے۔ پس کوشش کرو کہ تمہارے اندر محبتِ الٰہی پید اہو۔ تمہارے ہاتھ بیشک کاموں میں مشغول ہوں مگر تمہارے دل روبہ خدا ہوں اور ان میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی محبت کی ٹیسیں اُٹھ رہی ہوں اور ہر رنگ میں اس کی خوشنودی کے حصول کیلئے بے قرار رہو۔
صحابہؓ نیکیوں کے حصول کے اتنے دلدادہ تھے کہ ایک دفعہ کوئی جنازہ گزرا تو ایک مجلس میں جہاں چند صحابہؓ بیٹھے ہوئے تھے ایک صحابیؓ کہنے لگے جنازے میں شامل ہونا بڑے ثواب کا کام ہے میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہوا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کے جنازے میں شامل ہوتا ہے اور پھر اس سے جدا نہیں ہوتا جب تک اسے دفن نہ کردیا جائے، اسے احد کے پہاڑ کے برابر ثواب ملتا ہے۔ باقی صحابہؓ یہ روایت سن کر کہنے لگے نیک بخت تو نے یہ بات ہمیں پہلے کیوں نہ بتائی۔ معلوم نہیں ہم اب تک کتنے احد کے پہاڑ جیسے ثواب ضائع کرچکے ہیں۔۱۳؎
تو نیکی کو ہر رنگ میں لینے کی کوشش کرنا اور نیکیوں کے حصول کی جستجو کرنا اسی کا نام تصوف، اسی کا نام بزرگی اور اسی کا نام روحانیت ہے۔ تم ہزاروں کتابیں تصوف پر پڑھ جائو، تم ہزاروں کتابیں روحانیت کا سبق سکھانے والی اپنے مطالعہ میں لے آئو تمہیں اس سے زیادہ ان میں اور کوئی چیز نظر نہیں آئے گی۔ یہ خلاصہ ہے تمام روحانیات کا( اور باقی جو کچھ ہے وہ اس کی تفصیلات ہیں) کہ انسان کے دل میں خداتعالیٰ کی ایسی محبت پید اہوجائے کہ اس کے دل میں ہر وقت یہ آگ سی لگی رہے کہ مجھے نئے سے نئے طریقے نیکیوں کے حصول کے ملتے جائیں جن کے ذریعہ میں اس سے اپنا تعلق وسیع سے وسیع تر کرتا چلا جائوں۔ یہی خواہش ہے جو انسان کے دل میں جس وقت پیدا ہوجاتی ہے اس میں روحانیت بھی ترقی کرنے لگ جاتی ہے۔ پس بچے بھی اور نوجوان بھی اور بوڑھے بھی اور اُدھیڑ عمر کے لوگ بھی، جو بھی کوشش کریں اپنے اپنے ظرف، اپنے اپنے مجاہدہ اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی برکات اور اس کے فضلوں سے حصہ لے سکتے ہیں اور جلسہ سالانہ کے ایام چونکہ خصوصیت کے ساتھ برکات اور انوار کے نزول کے دن ہیں اس لئے احباب کو چاہئے کہ وہ ان ایام کی برکات سے مستفید ہونے کی پوری کوشش کریں۔ میں بات تو ایک اور بھی کہنا چاہتا تھا مگر چونکہ یہی بات لمبی ہوگئی ہے اس لئے آج کا خطبہ اسی پر ختم کرتا ہوں۔
(الفضل ۱۸ ؍ دسمبر ۱۹۳۷ئ)
۱؎ تذکرہ صفحہ۴۴۵۔ ایڈیشن چہارم
۲؎ تذکرہ صفحہ ۲۰۱۔ ایڈیشن چہارم
۳؎ تذکرہ صفحہ۲۹۷۔ ایڈیشن چہارم
۴؎ الحج: ۲۸
۵؎ بخاری کتاب الاذان باب جھر الامام بالتامین
۶؎ بخاری کتاب النکاح باب المرأ ۃ راعیۃ …الخ
۷؎ تذکرہ صفحہ۵۳۔ ایڈیشن چہارم
۸؎ بخاری کتاب الصوم باب الریان للصائمین
۹؎
۱۰؎ مسند احمد بن حنبل جلد۳ صفحہ۱۷۲ مطبوعہ مصر ۱۹۷۸ء میں یہ الفاظ ہیں۔ ارفق بالقواریر
۱۱؎
۱۲ مسلم کتاب الصلوٰۃ باب تحریم سبق الامام … الخ
۱۳؎ بخاری کتاب الجنائز باب فضل اتباع الجنائز

۳۹
احمدی نوجوانوں سے خطاب
حصولِ مقصد کیلئے جماعت اپنی ذہنیت میں تبدیلی کرلے
(فرمودہ ۱۷ ؍ دسمبر ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں نے پچھلے خطبہ میں جلسہ سالانہ کے ذکر پر یہ کہا تھا کہ اسلامی تعلیم انسان کی نیکی اور پاکیزگی کے متعلق یہی ہے اور اِسی کو تصوف اور رُوحانیت کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی نیکیوں کوجمع کرنے کی کوشش کرے۔ جو شخص کسی ایک شِق کو لے لیتا ہے اور اسی پر زور دیتا چلا جاتا ہے اس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ وہ دین کی خاطر اورنیکی کیلئے کرتا ہے یا محض عادت کے ماتحت۔
بنی نوع انسان کے اخلاق کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اخلاق اور نیکیوں کے لحاظ سے بھی انسانوں کی فطرتیں خاص خاص میلان رکھتی ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ بات ان کے مذہب کی تعلیم ہو یا وہ اس فلسفہ کا حصہ ہو جس کی وہ اتباع کررہے ہوں۔ انسانی طبائع مختلف میلانات رکھتی ہیں اور یہی چیز دراصل تہذیب اور تمدن کی جڑ ہوتی ہے۔ اگر طبائع میں اختلاف نہ ہو اور مختلف میلان نہ ہوں تو دنیا میں تنوع اور قسم قسم کی چیزیں کبھی نظرنہ آئیں۔ سارے لوگ ایک ہی پیشہ کو اختیار کریں، سارے ایک ہی غذا کھانے لگیں، سارے ایک ہی قسم کا لباس پہنیں اور سب ایک ہی کام کرنے لگ جائیں تو دنیا کا قائم رہنا مشکل ہو جائے۔ یہ اختلاف دنیا میں اتنا جاری و ساری ہے کہ ایک گھر کے رہنے والوں میں اور ایک ہی ماں باپ کی اولادمیں بیٹوں بیٹوں اور لڑکیوں لڑکیوں میں اس قدر اختلاف ہوجاتا ہے کہ بعض اوقات صرف خوراک کے متعلق اختلاف ابتلاء کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ایک بچہ کہتا ہے کہ میں فلاں ترکاری کھائوں گا تو دوسرا بچہ کہتا ہے کہ میں یہ نہیں بلکہ وہ کھائوں گا۔ ایک ایک پھل کو پسند کرتا ہے تو دوسرا کہتا ہے کہ مجھے یہ پسند نہیں، میں تو فلاں لوں گا۔ ایک کہتا ہے میں ٹوپی پہنوں گا تو دوسرا پگڑی کو پسند کرتا ہے۔ غرض یہ اختلاف طبائع میں کھانے پینے پہننے میں اور اخلاق میں اس قدر عظیم الشان ہے کہ قریبی سے قریبی رشتوں میں بھی بالکل نمایاں اور ظاہر نظر آتا ہے۔ ایک ہی ماں باپ سے پید اہونے والے بچوں میں سے کوئی تو گھر میں بیٹھ کر کام کرنا پسند کرتا ہے اور دوسرا باہر چلنے پھرنے میں خوش رہتا ہے۔ ایک کو حساب سے دلچسپی ہوتی ہے ، دوسرے کو سائنس سے اور تیسرے کو ادب اور شاعری کا مذاق ہوتا ہے۔ پھر ایک قسم کے پیشوں میں بھی آگے اختلاف ہوتا ہے۔ اگر سب تجارت کرتے ہیں تو ایک کسی قسم کی تجارت کرتا ہے اور دوسرا دوسری قسم کی۔ کوئی کسی میں ترقی کرتا ہے اور کوئی کسی میں۔ پھر اگر ترقی کرنے والے نہ بھی ہوں اور صرف دن گزارنے والے ہوں تو بھی کوئی کسی کام سے روٹی کماتا ہے اور کوئی کسی سے۔ پس یہ اختلاف دنیا میں ہر جگہ اور ہر حالت میں پایا جاتا ہے اور انسانی میلان اتنا بیّن اور واضح ہوتا ہے کہ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور جس چیز میں انسان کا طبعی میلان ہو اُس کے مطابق اگر اسے کوئی کام پیش آئے اور وہ اس میں بشاشت بھی محسوس کرے تو وہ نیکی تو ہے مگر اس پایہ کی نہیں جس کا میلان اس کی فطرت میں نہ ہو۔
حاتم طائی سخاوت میں مشہور ہے مگر اس کا طبعی میلان سخاوت کی طرف تھا۔ بچپن سے ہی وہ سخاوت کو پسند کرتا تھا۔ بلکہ بچپن میں جب اسے کھانے کیلئے کوئی چیز ملتی تو وہ دوسرے بچوں کو ڈھونڈتا پھرتا تھا کہ ان میں تقسیم کردے اور اگر کوئی بچہ نہ ملتا تو وہ رو پڑتا کہ کسے دے۔ بسا اوقات بچپن میں وہ اپنے کپڑے دوسروں کو دے دیتا۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ اس کے باپ نے اس ڈرسے کہ وہ گھر کو اُجاڑ دے گا اسے جنگل میں اونٹوں کے گلوں پر بھیج دیا اور خیال کیا کہ وہاں تو اس طرح اُجاڑا نہیں کرسکے گا۔ وہاں سینکڑوں اونٹ پلتے تھے۔ اتفاق سے وہاں عرب کے تین مشہور شاعر آگئے جو اکٹھے کسی میلہ پر شعر کہہ کر واپس آرہے تھے ۔ وہ جب اس جگہ پہنچے تو حاتم نے اُن کیلئے تین اونٹ ذبح کرڈالے۔ انہوں نے کہا ہم تو صرف تین آدمی ہیں۔ ہمارے لئے ایک ہی اونٹ کافی تھا۔ اِس پر اُس نے جواب دیا کہ اگر میں ایک ہی اونٹ ذبح کرتا تو یہ صرف ایک کی مہمان نوازی ہوتی اور باقی دو طفیلی ہوتے اورمیں مہمانوں میں فرق کرنا پسند نہیںکرتا۔ اس بات کا اِن پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں کے اس کے خاندان کی تعریف میں کچھ شعر کہہ دیئے اور اسے سنائے۔ شعر سن کر حاتم نے کہا کہ تم تو بڑے ادیب اور شاعر معلوم ہوتے ہو اور تمہارے یہ شعر ہمارے خاندان کو ہمیشہ کیلئے مشہور کردیں گے۔ اس کے مقابلہ میںہمارے یہ اونٹ ہمیں کوئی شہرت نہیں دے سکتے۔ اس لئے تم قرعہ ڈال کر یہ سب اونٹ آپس میں تقسیم کرلو اور لے جائو چنانچہ وہ لے گئے۔ کسی نے حاتم کے باپ کو بھی اس کی خبر کر دی۔ چنانچہ وہ آیا اور اس نے پوچھا کہ تم نے یہ کیا کیا؟ حاتم نے جواب دیا کہ تمہارے یہ اونٹ تمہیں کتنا مشہور کرسکتے تھے۔ اگر یہ اونٹ ہوتے تو تمہیں کونسی خاص شہرت ہوجاتی۔ جبکہ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر کئی ایسے لوگ ہیں جو بہت بہت اونٹوں کے مالک اور امیر ہیں مگر دیکھو یہ شعر اَوروں کو کہاں نصیب ہوسکتے ہیں۔ یہ تومیں نے تمہارے لئے ایک ایسا شہرت کا ذخیرہ مہیا کردیا ہے جس کے مقابلہ میں اونٹوں کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔ آخر تنگ آکر اُس کے باپ نے اُسے عاق کردیا اور خود کسی اور طرف نکل گیا۔ پس ایسا شخص اگر اسلام میں داخل ہوجائے اور صدقہ و خیرات کرے تو یقینا یہ اس کا نیک کام ہوگا مگر یہ اُس کی کامل نیکی نہیں ہوگی کیونکہ اس میں اس کی فطرت کے میلان کا بھی دخل ہے۔ اسی طرح اگر دنیا کے مشہور جری اور بہادر جیسے ایشیائی پہلوانوں میں رُستم اور اسفند یار ہیں، اسلام میں داخل ہوکر اپنے اوقات لڑائیوں میں گزاریں تو بے شک ہم کہیں گے کہ وہ جہاد کرتے ہیں مگر اُن کا یہ جہاد اس پایہ کی نیکی نہیں ہوگی جتنی اُس شخص کی جو لڑائی میں جانا پسند نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنو ں کے متعلق سورئہ انفال میں فرمایا ہے کہ وہ لڑائی کیلئے ایسی حالت میں نکلتے ہیں کہ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکَارِھُوْنَ ۱؎ یعنی ان میں سے ایک بڑا گروہ اس سے نفرت کررہا ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ صحابہ کرام لڑائی سے جی چراتے تھے، مگر یہ درست نہیں ۔ صحابہؓ نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ وہ اپنی جانوں کو ہرگز اسلام کے مقابلہ میں عزیز نہیں جانتے تھے۔ پس کراہت کے معنے اِس جگہ یہ ہیں کہ وہ لڑائی سے نفرت کرتے تھے۔ اس لئے کہ اس میں دوسرے لوگ مارے جائیں گے اور ان دونوں قسم کی کراہتوں میں بڑا فرق ہے۔ ایک کراہت اس شخص کی ہے جو سمجھتا ہے کہ میں نہ مارا جائوں، وہ بُزدل ہے اور ایک اس لئے کراہت کرتا ہے کہ انسانی جانیں ضائع ہوں گی اور مرجانے والوں کیلئے ہدایت کا کوئی موقع باقی نہیں رہے گا۔ یہ اعلیٰ بہادری اور شرافت نفس کی دلیل ہے۔ پس جو شخص لڑائی اور دنگا فساد کو پسند کرتا ہے وہ اگر جہاد میں شامل ہو تو یہ اس کی نیکی تو ضرور ہوگی مگر اُس پایہ کی نہیں جتنی اس شخص کی جو دنگا فساد اور قتل و خونریزی کو ناپسند کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے صحابہ کیلئے وَھُمْ کٰرِھُوْنَ بمقام مدح میں بیان کیا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ کسی زمانہ میں ان پر یہ الزام لگایا جائے گا۔ جیسے آجکل یورپین مؤرخ کرتے ہیں کہ وہ لوگ لُوٹ مارکو پسند کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ صحیح نہیں بلکہ وہ تو لڑائی کو دل سے ناپسند کرتے تھے اور صرف اس صورت میں لڑتے تھے کہ جب دیکھتے کہ اب کافروں نے ان کیلئے اس سے بچنے کا کوئی رستہ نہیں چھوڑا۔ تو یہ ان کی نیکی بیان کی گئی ہے کہ وہ مجبور ہوکر لڑتے تھے ورنہ وہ کسی کو دکھ دینا پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ اس کی عملی مثال رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ہمیں ملتی ہے۔ باوجود اس کے کہ آپ نے درجن بھر سے زیادہ لڑائیوں میں حصہ لیا اور باوجود اس کے کہ آپ شدید معرکوں میں جو بلحاظ قتل و خونریزی کے شدید تھے، اگرچہ ان میں حصہ لینے والوں کی تعداد زیادہ نہ ہو، کمان کرتے رہے۔ مگر سوائے ایک کے کوئی شخص آپ کے ہاتھ سے مارا نہیں گیا اور وہ بھی اس لئے کہ اس نے خود آپ کے ہی ہاتھ سے مارے جانے پر زور دیا۔ آپ خود اسے بھی مارنا پسند نہ کرتے تھے۔ صحابہ اس کے مقابلہ پر آتے مگر وہ سب سے کہتا کہ تم ہٹ جائو میرا مقابلہ محمد سے ہے اورمیں تم میں سے کسی سے نہیں لڑوں گا۔ یہ دیکھ کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے آنے دو۔ ورنہ آپ پر نَعُوْذُ بِاللّٰہِ بُزدلی کا الزام لگتا اور غیرت کے خلاف فعل سمجھا جاتا۔ اور جب وہ آگے آیا تو آپ نے اُسے قتل کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ صرف اُس کے حملہ کو روکنے کیلئے نیزہ کی اَنی چبھوئی اور اسی سے اللہ تعالیٰ نے اسے اتنا شدید درد پید اکردیا کہ وہ میدانِ جنگ سے بھاگ گیا اور بعد میں مرگیا۔ ۲؎ گویا اسے بھی آپ نے قتل نہیں کیا بلکہ صرف زخمی کیا اور یہ اتنی عظیم الشان بات ہے کہ دنیا کی کسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں مل سکتی کہ کوئی جرنیل اور کمانڈر اِس قدر معرکوں میں شامل ہوا ہو اور اسکے ہاتھ سے صرف ایک ہی شخص مارا گیا ہو۔ تو صحابہ عام طور پر اور آنحضرت ﷺ خاص طور پر لڑائی کو ناپسند کرتے تھے مگر باوجود اس کے ان کو لڑائیاں کرنی پڑتی تھیں۔اس لئے کہ دشمن ان کو مجبور کردیتے تھے۔ اِلاَّمَاشَائَ اللّٰہُ بعض اس کے برعکس بھی ہوں گے جو لڑائی کو پسند کرتے ہوں گے اور تیز طبیعت بھی ہوں گے مگر مستثنیات ہمیشہ قانون کو ثابت کرتی ہیں ردّ نہیں کرتیں۔
تو وہ اخلاق جو طبیعت کے خلاف ظاہر ہوتے ہیں وہی نیکی کے کمال پردلالت کرتے ہیں۔ طبیعت کے میلان کے مطابق جو نیکی ہو وہ کامل نیکی نہیں کہلاسکتی۔ مثلاً حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کردو۔۲؎ اب اگر ان کا سارا کریکٹر اسی نقطہ کے گرد گھومتا ہے اور یہی بات ان کے ہر عمل میں نظر آتی ہے تو یہ کوئی اعلیٰ خوبی نہیں۔ اس کے یہ معنے ہیں کہ ان کی تمام نیکیوں میں ان کے طبعی میلان کا دخل ہے۔ نیکی دراصل اسی کی ہوتی ہے جس کی زندگی میں ہرقسم کی نیکیاں پائی جائیں۔ جیسے ہمارے رسول کریم ﷺکی ذات ہے۔ عفو میں آپ نے ایسانمونہ دکھایا کہ اس سے بہتر عفو نہیں ہوسکتا۔ لڑائی میں اِس قدر دلیر تھے کہ آپ سے بڑھ کر کوئی دلیر نظر نہیں آتا۔ پالیسی میں اس قدر ذہین تھے کہ آپ سے بہت تدبیر کرنے والا اور سپاہیوں کو لڑانے والا کوئی دوسرا نہیں ملتا۔ جب آپ تقریر کرتے تو ایسی کہ بڑے بڑے مقررین آپ کے سامنے ہیچ نظر آتے۔ ایک دفعہ آپ تقریر کرنے کیلئے صبح کھڑے ہوئے تو شام تک تقریر کرتے رہے صرف نماز کیلئے بند کرتے اور نماز پڑھ کر پھر شروع فرمادیتے۔ مگر جب مختصر بات فرماتے تو ایسی کہ اس کی تفسیر میں کئی کتابیں لکھی جاسکیں۔ گویا ایک طرف آپ کے لیکچرمیں اتنی وسعت نظر آتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور دوسری طرف اختصاراً کلام فرماتے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جب آپ سخاوت کرتے تو انتہاء درجہ کی حتیٰ کہ صحابہؓ کا بیان ہے کہ آپ بِالخصوص رمضان میں اس طرح سخاوت کرتے کہ جس طرح تیز آندھی چلتی ہے ۴؎ اور پھر اس کے ساتھ ہی لَاتُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا ۵؎ پر آپ کا عمل تھا۔ یعنی سخاوت کو فضول اور رائیگاں نہ گنواتے اور نہ بے محل استعمال کرتے۔ حاتم طائی کی سخاوت تو تھی مگر بے محل۔ کیونکہ وہ حلوائی کی دُکان پر دادا جی کی فاتحہ والی سخاوت تھی۔ باپ کے مال پر اُس کا کیا حق تھا کہ اُسے تقسیم کردیتا۔ اِس کے مقابل پر آنحضرت ﷺ ایک طرف تو آپ اِس قدر سخی تھے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے صحابہؓ کہتے ہیں کہ رمضان کے دنوں میں آپ اس طرح سخاوت کرتے کہ گویا تیز آندھی چل رہی ہے۔ مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک دفعہ آپ کی عزت کی اور کہا کہ آپ پانچ آدمیوں کو ساتھ لے آئیں۔ آپ نے پانچ آدمیوں کو ساتھ لیا اور اس کے گھر کی طرف چلے۔ رستہ میں ایک چھٹا آدمی ساتھ شامل ہوگیا۔ بعض طبائع بے تکلّف ہوتی ہیں اور ایسے لوگ خودبخود ساتھ ہوجایا کرتے ہیں۔ جب آپ اس شخص کے دروازے پر پہنچے تو فرمایا کہ اس نے صرف پانچ آدمیوں کی اجازت دی تھی، چھ کی نہیں۔ ۶؎ گویا جب دوسرے کے حق کا سوال پیدا ہوا تو آپ نے اس قدر احتیاط کی۔ یوں تو آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک آدمی کا کھانا دو آدمی کھاسکتے ہیں مگر اس وقت یہ نہیں فرمایا کہ پانچ کا کھانا چھ کھالیں گے۔ کیونکہ یہاں سخاوت کا نہیں بلکہ دوسرے کے حق کا سال تھا۔ جب آپ قضا فرماتے تو یہی نظر آتا تھا کہ آپ بہترین قاضی ہیں اور ساری توجہ آپ کی اسی کام کی طرف ہے۔ لیکن جب تدریس فرماتے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا سارا میلان اسی کی طرف ہے اور آپ بہترین مدرّس ہیں۔ پھر جب آپ تربیت فرماتے تو یہی معلوم ہوتا کہ آپ بالکل ایسے ہیں جیسے تربیت کرنے والے اور بورڈنگوں وغیرہ کے افسر ہوتے ہیں اور گویا آپ صرف مربی ہیں۔ پھر جب مجلس میں بیٹھتے تو صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص یہی خیال کرتا تھا کہ آپ میرے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور یہ نظر آتا تھا کہ آپکو ان لوگوں کے سوا اور کسی کا بلکہ اپنے گھر والوں کابھی کوئی خیال نہیں۔لیکن جونہی گھر میں قدم رکھتے آپ کی بیویاں خیال کرتیں کہ آپ سے زیادہ محبت کرنے والا خاوند دنیا بھر میں نہیں ہوگا۔ آپ جب بچوں سے ملتے تو معلوم ہوتا کہ آپ ایک خوش مذاق نوجوان ہیں اور بچوں سے کھیلنے میں ہی ساری لذت محسوس کرتے ہیں۔ کسی بچہ کو کندھے پر اُٹھاتے ، کسی کو چھیڑتے، کسی کو پیار فرماتے ہیں مگر جب بوڑھوں میں جاتے تو ایسا نظر آتا کہ بڑھاپا ہی بڑھاپا ہے۔ آپ کے منہ سے عقل اور تدبیر کے پھول جھڑتے ہیں۔ جب آپ دوستوں کی طرف توجہ کرتے تو معلوم ہوتا ہے ان کے سوا آپ کو کسی کا خیال تک نہیں۔ مگر جب دشمن کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ بھی اتنا ہی آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے جتنا دوست۔ مختصر یہ کہ دنیا کی کوئی نیکی ایسی نہیں جس میں آپ نمایاں نظر نہیں آتے اور نیکی اسی کا نام ہے۔ یہ نیکی نہیں کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کردو، یہ تو طبیعت کا میلان ہے۔ نیکی یہی ہے کہ ایک تھپڑ کھا کر دوسرا آگے کرنے کے موقع پر آگے کردیا جائے اور مقابلہ کرنے کے موقع پرمقابلہ کیا جائے۔ ہاتھ کھولنے کے موقع پر کھولا جائے اور بند رکھنے کے موقع پر بند رکھا جائے۔ دوستوں کے تحفظ کا سوال ہو تو اس کا ٰخیال رکھا جائے اور دشمنوں سے انصاف کا موقع ہو تو اس کا۔ قضاء کے موقع پر بہترین قاضی بناجائے اور لڑائی کے موقع پر بہترین جرنیل۔ تعلیم کا معاملہ ہو تو انسان معلّم بنے اور تربیت کا وقت ہو تو مربی۔ اور اخلاق بیان کرنے کا وقت ہو تو عظیم الشان فلسفی نظر آئے۔ غرضیکہ ساری نیکیوں کاخیال رکھا جائے۔ یہی حقیقی اور کامل نیکی ہے کیونکہ یہ ساری چیزیں طبیعت کا میلان نہیں ہوسکتیں۔ ایسی حالت میں ماننا پڑے گاکہ اگر کچھ چیزیں طبیعت کا میلان ہیں تو کچھ ایسی بھی ہیں جو محض نیکی کی خاطر اور خداتعالیٰ کی رضا کیلئے کی جارہی ہیں۔ یہ چیز ہے جو دنیا میں نیکی کو قائم کرنے کیلئے ضروری ہے۔
جو لوگ چندہ دے کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے بڑا کام کرلیا اب ہمیں نمازوں کی کیا ضرورت ہے۔ یاجو نمازیں پڑھ کر خیال کرلیتے ہیں کہ اب ہمیں زکوٰۃ کی ضرورت نہیں۔ حج کرلیا تو خیال کرلیا کہ اب عمرہ کی کیا حاجت ہے۔ روزہ رکھ کر سمجھ لیا کہ اب ہمیں اپنی یا ہمسائیوں کی تربیت اور لوگوں کے اخلاق کی نگرانی کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ صرف اپنے اپنے میلاناتِ طبائع کی اتباع کرتے ہیں خداتعالیٰ کے احکام کی نہیں اور ایسے لوگ کبھی صحیح قومی ترقی حاصل نہیں کیا کرتے۔ یہ مقصد ہے جسے تم نے حاصل کرنا ہے اور تم اس مقصد کے حصول کا ارادہ کرکے کھڑے ہوئے ہو۔ اس کا نام خواہ تحریک جدید رکھ لو یا تحریک قدیم۔ نام سے کوئی غرض نہیں، اصل مقصود کام ہے۔ اس کانام خواہ کچھ رکھ لیا جائے اور یہ تحریک جدید نہیں بلکہ اسے تم تحریک اَقْدم کہہ سکتے ہو کیونکہ یہ آدم کے وقت سے ہے، کوئی نہیں تحریک نہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کام ہم نے کرنا ہے یا نہیں اور میرا نقطۂ نگاہ تو یہ ہے کہ خواہ کوئی اس سے متفق ہو یا نہ ہو کہ اگر ہم نے اس بات کو پورا نہ کیا اور قومی زندگی کو اس طرح نہ بدلا تو ہم اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے اور ہمیشہ ناکام و نامراد رہیں گے۔ اگر واقعی ہمارا یہی مقصود ہے تو ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا کہ اس راہ میں کیا کیا روکیں ہیں اور کن کن قربانیوں کی ہمیں ضرورت ہے۔ اور جب تک اس کے متعلق اپنے قلوب میں قطعی فیصلہ نہ کرلیں اس جہت میں کوئی قدم نہیں اُٹھاسکتے۔
اصل بات یہ ہے کہ کوئی کام مشکل نہیں ہوتا، مشکل اس کا سمجھ لینا اور ارادہ کرلینا ہوتا ہے۔ جب یہ ہوجائے تو پھر کام آسان ہوتا ہے۔ جو شخص کام کو سمجھتا نہیں اور صرف رو میں بہتا ہے وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ مثلاً اگرجہاد کا وقت ہوا تو اس کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھے بغیر شامل ہوگیا۔ تو جب اسے مشکلات نظر آئیں گی بھاگ اُٹھے گا۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی جو بغیر سوچے سمجھے ساتھ ہولیتے تھے ان میں سے ہی بعض لڑائی میں سے بھاگ بھی آیا کرتے تھے۔ پس کام میں روکیں صرف اسی وجہ سے پید اہوتی ہیں کہ بعض لوگ حقیقی طور پر اسے سمجھتے نہیں۔ بعض لوگ تو بے سوچے ہی داخل ہوجاتے ہیں اور بعض لوگ خیال کرلیتے ہیں کہ ہم نے سمجھ لیا ہے مگر حقیقتاً سمجھا نہیں ہوتا اور محض رَو میں بہہ کر شامل ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب مشکلات دیکھتے ہیں تو پھر پیچھے ہٹتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کہتے ہیں کہ اپنے بہادری کی علامت کے طور پر شیر کی تصویر کندھے پر گدوانے گیا تھا۔ پُرانے زمانے میںیہ رواج تھا کہ لوگ اپنے جسموں پر مختلف تصویریں گدوالیتے تھے اور اس سے مراد یہ ہوتی تھی کہ ہمارے اخلاق اس تمثیل کے صاحب کی طرح ہیں۔ مثلاً کوئی عقاب کی تصویر گدوالیتا تھا اور اس کا مطلب یہ ہوتا کہ میں دشمن پر عقاب کی طرح جھپٹتا ہوں اور اُسے اُٹھا کر لے جاتا ہوں۔ یا سانپ کی تصویر گدوالی جس کے معنے یہ ہوتے کہ میں سانپ کی طرح دشمن کو ڈس لیتا ہوں اور پھر وہ بچ نہیں سکتا۔ یہ شخص جس کی کہاوت ہے اُس کو یہ وہم تھا کہ میں بڑا بہادر ہوں اور اُس نے سوچا کہ سب سے زیادہ بہادر تو شیر ہوتا ہے اس لئے مجھے اپنے جسم پر شیر کی تصویر گدوالینی چاہئے۔ چنانچہ وہ گدوانے والے کے پاس گیا اور اسے کہا کہ شیر کی تصویر گود دو۔ اُس نے جب سوئی ماری کہ نشان کرکے اس میں سرمہ بھرے تو اس نے پوچھا کہ کون سا حصہ گودنے لگے ہو؟ اس نے کہا کہ دایاں کان۔ وہ کہنے لگا پہلے یہ بتائو کہ اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو وہ شیر رہتا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا رہتا تو ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ بس پھر یہ چھوڑ دو۔ اس نے پھر سوئی ماری تو اس نے پوچھا اب کیا گودتے ہو؟ اس نے کہا بایاں کان۔ کہنے لگا اچھا یہ بتائو کہ اگر شیر کا بایاں کان نہ ہو تو وہ شیر رہتا ہے یا نہیں؟ وہ کہنے لگا رہتا تو ہے۔ کہنے لگا کہ بس پھر یہ بھی چھوڑ دو۔ اس کے بعد اُس نے پھر سوئی ماری تو اس نے پوچھا کہ اب کیا گودتے ہو؟اس نے کہا کہ دُم۔ کہنے لگا اگر دُم نہ ہو تو کیا شیر نہیں رہتا؟ اس نے کہا رہتا تو ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ بس پھر دُم بھی چھوڑ دو۔ اسی طرح بعض اور اعضاء کے گودنے کے متعلق بھی اس نے ایسا ہی کہا۔ اس پر گودنے والا سوئی رکھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے پوچھا کہ گودتے کیوں نہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ بس اب شیر کا کچھ نہیں رہ گیا۔ کیونکہ جب نہ کان ہوں نہ دُم نہ ٹانگیں تو شیر کا رہ کیا گیا۔ دراصل یہ مثال اخلاقی حالت بیان کرنے کیلئے ہے۔ جو شخص یہ سوچتا رہتا ہے کہ اگر یہ بات نہ ہو تو میں احمدی رہ سکتا ہوں یا نہیں اور وہ نہ ہو تو رہ سکتا ہوں یا نہیں، اس کی احمدیت باقی نہیں رہ سکتی۔ باقی اُسی کی رہتی ہے جو یہ خیال کرتا رہتا ہے کہ اگر یہ بات بھی شامل ہوجائے تو میری احمدیت اور اچھی ہوجائے گی اور اگر فلاں بھی کرسکوں تو اور بھی اچھی ہوجائے گی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں درس دے رہا تھا کہ ایک رئیس وہاں آکر بیٹھ گیا۔ میں پڑھارہا تھا اور میں نے بتایا کہ دوزخ دائمی نہیں بلکہ ایک وقت یہ سزا منقطع ہوجائے گی اورجنت حاصل ہوجائے گی اس پر وہ کہنے لگا کہ پھر یہ تو بڑا مزا ہے ۔ ہم اس دنیا میں بھی عیش کرتے ہیں اور اگلے جہان میں بھی تھوڑی سی سزا کے بعد جنت حاصل کرلیں گے۔ آپ فرماتے تھے کہ وہ بڑا آدمی تھا، میں نے خیال کیا کہ یہ ایسی ہی مثال سے سمجھے گا۔ میں نے کچھ روپے نکال کر رکھ دیئے اور کہا کہ گلی میں چل کر مجھے دو تین جوتے مارلینے دیں اور یہ روپے لے لیں۔ اس پر وہ بہت غصہ میں آیا اور کہنے لگا کہ تم مولوی لوگ ایسے ہی بدتہذیب ہوتے ہو، یونہی عالم بنے پھرتے ہو۔ میں نے کہا کہ اگر واقعی تم اس بات کو پسندیدہ سمجھتے ہو کہ اگلی پچھلی مخلوق کے سامنے دوزخ کی سزا برداشت کرکے جنت لے لو تو پھر گلی میں چل کر چند آدمیوں کے سامنے جوتے کھاکر انعام کیوں نہیں لیتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم نے جو بات کہی تھی وہ جھوٹ تھی۔ دراصل تم اس کیلئے تیار نہیں ہو۔ تو کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو یہی خیال کرتے رہتے ہیں کہ چلو یہ بات نہ کی تو کیا احمدی نہ رہیں گے۔
مجھے یاد ہے جب مولوی محمد احسن صاحب فوت ہوئے اور میں نے ان کا جنازہ پڑھا تو بعض لوگوں نے مجھے لکھا کہ جب آپ نے ان کا بھی جنازہ پڑھ لیا تو پھر بیعت کی کیا ضرور ت ہے؟ ایسے لوگوں کے خیال میں مدارج کا فرق کوئی فرق ہی نہیں ہوتا۔ حالانکہ بیعت اور عدمِ بیعت کا فرق تو الگ رہا رنگ میں اگر اُنیس بیس کا فرق ہو تو وہ بھی فرق ہی ہوتا ہے۔ گورنمنٹ بی۔ اے پاس لوگوں کو بھی نوکریاں دے دیتی ہے مگر کیا پھر لوگ ایم۔اے پاس کرنا چھوڑ دیتے ہیں؟ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر میں فرق تھوڑا ہی ہوتا ہے مگر کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ لوگ پھر کمشنری کا خیال ہی چھوڑ دیتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر کچھ فرق ہے تو کیا ہوا۔ اور جب دنیا میں کچھ فرق کا خیال نہیں چھوڑ ا جاسکتا اور بندوں کا کچھ بھی بڑا سمجھا جاتا ہے تو کیا خدا کا کچھ ہی ایسا بے حقیقت ہے کہ اس کا خیال نہ کیا جائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایک بھانجے تھے۔ آپ ایک دفعہ ان پر ناراض ہوئیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چونکہ کوئی اولاد نہ تھی اور ان کی جائیدادرشتہ داروں میں ہی تقسیم ہونی تھی۔ اس بھانجے نے کہیں کہہ دیا کہ یہ سخاوت بہت کرتی ہیں، انہیں روکنا چاہئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ سنا تو بہت ناراض ہوئیں اور قسم کھائی کہ میں آئندہ کبھی اس کی شکل نہ دیکھوں گی اور اگر دیکھوں تو کچھ صدقہ کروں گی۔ اس ناراضگی پر کچھ عرصہ گزر گیا تو اس بھانجے نے بعض صحابہؓ سے کہا کہ ناراضگی دور کرادو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اتنا کردیں گے کہ تمہیں اندر لے جائیں ۔ کیونکہ بغیر اِذن کے وہ اندر نہ جاسکتے تھے۔ آگے اندرجاکر تم اپنی خالہ سے لپٹ جانا اور معافی لے لینا۔ چناچہ چھ سات صحابہ مل کر گئے اور دروازہ پر جاکر اجازت مانگی۔ حضرت عائشہؓ نے دریافت فرمایا کہ کون ہیں؟ تو انہوں نے دوچار کا نام لے دیا اور کہا کہ یہ اور کچھ اور ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے پردہ کھینچ دیا اور اجازت دے دی۔ چنانچہ یہ اندر گئے اور ساتھ ہی وہ بھانجا چلا گیا اور پھر پردے کے اندر جاکر آپ سے لپٹ گیا اور معافی مانگنے لگا۔ حضرت عائشہؓ نے اسے معاف تو کردیا مگر اس کے بعد جو غلام بھی آپ کے پاس آتا اُسے آزاد کردیتیں اور فرماتیں کہ میں نے کہا تھا کہ کچھ صدقہ کروں گی۔ اب مجھے کیا علم ہے کہ خداتعالیٰ کے نزدیک کچھ کی حد بندی کیا ہے؟ ۷؎
تو یہ کتنی نادانی کی بات ہے کہ لوگ کچھ کے فرق کو بے حقیقت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ خداتعالیٰ کے کچھ کا فرق انسانی کچھ کے مقابلہ میں ذرہ اور سورج کا فرق ہے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ خاک کا ذرہ ہو اور سورج نہ ہو۔ ابوجہل بھی انسان تھا اور محمد رسول اللہ ﷺ بھی انسان تھے۔ مگر کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تم ابوجہل بن جائو۔ پھر رسول کریم ﷺ بھی انسان تھے اور وہ مسلمان بھی جو ہمیشہ غلطیاں کرتے اور جھاڑیں کھایا کرتے تھے۔ پھر کیا تم اس وجہ سے رسول کریم ﷺ کے مثیل بننے کی کوشش نہ کرو گے کہ دوسرے بھی انسان تھے۔ اگر جنازہ پڑھاجانا ہی معیار ہے تو رسول کریم ﷺ کا بھی جنازہ پڑھا گیا تھا اور ایک ادنیٰ مسلمان کا بھی پڑھا جاتا ہے پھر کیا دونوں ایک ہی ہیں؟ کیا یہی جنازہ ایک معیار ہے۔ تو بعض لوگوں کا نقطۂ نگاہ یہی ہوتا ہے۔ ہر بات کے متعلق وہ یہی کہہ دیتے ہیں کہ اگریہ نہ ہوئی تو کیا ہم احمدی نہ رہیں گے۔ جب دیکھتے ہیں کہ کسی بات پر وہ شدید گرفت کے نیچے نہیں آئیں گے تو اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔ مگر صحابہ کا نقطۂ نگاہ اس کے بالکل اُلٹ تھا۔ ایک صحابی ایک دفعہ کسی جنازہ کے پاس سے گزرے تو انہیں بتایا گیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایاہے کہ جو کسی کا جنازہ ادا کرنے اور پھر دفن تک ساتھ رہے تو اسے اُحد کے پہاڑ کے برابر ثواب حاصل ہوتاہے۔ یہ سن کر انہوں نے افسوس سے کہا کہ ہم نے تو کئی اُحد ضائع کردیئے۔۸؎ یہ اعلیٰ درجہ کی قربانیوں میں سے تو نہیں مگر یہ بات سن کر وہ برداشت نہ کرسکے ۔ اور یہ اُحد بھی تو صرف سمجھانے کیلئے کہا گیا ہے ورنہ خداتعالیٰ کا ثواب تو ساری دنیا کے پہاڑوں سے بھی بھاری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے کہ ہم ادنیٰ درجہ کے مومن کو بھی جو انعام دیں گے وہ زمین و آسمان کے برابر ہوگا۔
پس یہ خیال کہ بعض نیکیاں اگر چھوٹ جائیں تو کیا حرج ہے کافر اور منافق بنانے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ یوں کوئی چھوٹ جائے تو علیحدہ بات ہے مگر اس نیت سے نہ چھوڑے کہ یہ معمولی بات ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہر انسان اس میں کامیاب نہیں ہوسکتا کہ ساری نیکیاں کرے۔ مگر جو یہ خیال کرلیتا ہے کہ اگر کوئی چھوٹ جائے تو کیا حرج ہے ۔ اس کی سَو میں سے اگر ایک بھی چھوٹ جائے تو باقی نناوے بھی ساتھ ہی ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس لئے پیشتر اس کے کہ مَیں وہ باتیں بیان کروں جو میں تحریک جدید کے سلسلہ میں کہنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ جماعت اپنی ذہنیت میں تبدیلی کرلے اور جو تبدیلی نہیں کرے گا وہ یا تو منافق بنے گا اور یا پھرہمارے رستہ میں پتھر بن کر رُکاوٹ پیدا کرے گا۔ آئے دن ان کی طرف سے فتنے اُٹھتے رہیں گے۔ سفر میں جو شخص ساتھ چلنا چاہے مگر چل نہ سکے وہ ہمیشہ دوسروں کے لئے مصیبت ہی بنا کرتا ہے۔ کبھی کہتا ہے ذرا بیٹھ جائو، سانس لے لیں۔ کبھی کہتا ہے پانی پی لیں اور کبھی یہ کہ پیشاب کرلیں اور اس طرح دوسروں کا سفر بھی خراب کرتا ہے لیکن جب ذہنیت میں تبدیلی پیدا ہوجائے تو ہر شخص اپنی ذمہ واری کو سمجھتا ہے۔
چونکہ جلسہ کے ایام قریب ہیں اس لئے میں اس وقت اہم تفاصیل میں جانا نہیں چاہتا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اِنْشَائَ اللّٰہ جلسہ سالانہ کے بعد بیان کروں گا۔ مگر فی الحال دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذہنیت میں تبدیلی پید اکریں۔ اس کے متعلق میں نے پہلے بھی بعض خطبے پڑھے تھے اور توجہ دلائی تھی کہ جب تک ہماری ذہنیت میں تبدیلی نہ ہو کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ جب تک ہمارا دانا اور نادان، عالم اور اَن پڑھ، چھوٹا اور بڑا، بچہ اور بوڑھا یہ سمجھ نہیں لیتا کہ اسلام دراصل ایک خاص قسم کے قوانین کے مجموعہ کا نام ہے اور جب تک ہم ان کو جاری نہیں کرلیتے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اسلام نہ کسی کلمہ کا نام ہے اور نہ کسی اقرار کا۔ یہ کلمے اور اقرار تو صرف علامتیں ہیں اور تعلیمات کے خلاصے ہیں۔ ورنہ اسلام ایک وسیع تمدنی دائرہ کانام ہے جسے قائم اور مکمل کئے بغیر قومی زندگی حاصل نہیں ہوسکتی۔ جب ہم اس دائرہ کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوجائیں، جب اس کعبۃ اللہ کی تعمیر کرلیں، اُسی وقت ہم کامیاب ہوں گے۔ اُسی وقت حج شرو ع ہوگا لیکن جب تک وہ دائرہ ہم مکمل نہیں کرلیتے ، جب تک وہ گھر نہیں بنالیتے اُس وقت تک کامیابی کی تمام امیدیں محض وہم ہیں جن کے اندر کوئی حقیقت نہیں۔
جیسا کہ میں کہہ آیا ہوں تفاصیل تو اِنْشَائَ اللّٰہ جلسہ سالانہ کے بعد بیان کروں گا مگر بعض چھوٹی چھوٹی چیزوں کا ذکر اس اثنا میں بھی کرتا رہوں گا۔ چنانچہ ایک آج بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ نوجوان نکلیں اور باہر جائیں۔ تحریک جدید کے شروع میں بھی میں نے دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی اور بہت سے نوجوان نکلے بھی تھے مگر ان کے نکلنے کا طریق زیادہ مفید نہیں تھا۔ اور اس لئے جن ممالک میں ہم جانا چاہتے تھے اور جس رنگ میں کام کرنا چاہتے تھے نہیں کیا جاسکا۔ بے شک انہوں نے قربانیاں کیں مگر صحیح طریق پر ان کی قربانیوں کو استعمال نہیں کیا جاسکا۔ اس لئے میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں اپنے آپ کو وقف کریں کہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مبلغ بن سکیں۔ میں نے پچھلے سے پچھلے خطبہ میں بھی بیان کیا تھا کہ ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو یا تو انگریزی دان ہوں اور ہم انہیں دینی تعلیم دلاویں۔ یا ایسے عالم ہوں جن کو یورپین زبانیں سکھالیں۔ پہلا حملہ تو ہوچکا۔ اُس وقت ہمیں جو ملا اور اُسے جہاں بھیجنا پسند کیا بھیج دیا۔ اس سے ہم نے تجربہ حاصل کیا، نتیجہ نکالا، خطرات دیکھے، فوائد کا مشاہدہ کیا اور آئندہ کیلئے نقائص کو دور کرنے کیلئے اپنے ذہن میں بعض تدابیر کا اندازہ کیا۔ اب دوسرا قدم ہمیں ایسے رنگ میں اُٹھانا چاہئے کہ یا تو یورپین زبانوں کے ماہرین کو دین سکھائیں اور یا علماء کو زبانیں سکھا کر باہر بھیجیں تا وہ باہر جاکر مکمل تبلیغ کرسکیں۔
پس جماعت کے نوجوانوں کو میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ آگے آئیں۔ پہلا تجربہ ان کے سامنے موجود ہے اس لئے وہ اپنی ذمہ واریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو پیش کریں۔ جس وقت فوری ضرورت ہو اُس وقت کا معیار اور ہوتا ہے اور دوسرے وقت کا اور۔ اُس وقت ہم صرف تجربہ کرنا چاہتے تھے کہ کس طرح آواز کو غیرممالک میں پہنچاسکتے ہیں اور دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ ہم میں ایسے نوجوان موجود ہیں جو خطرات سے بے پرواہ ہوکر اسلام کی تبلیغ کیلئے باہر نکل جائیں۔ لیکن اب ہم مستقل صورت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہمارے پاس مستقل طریق پر کام کرنے والے ہوں۔ اور جو ایسے اخلاص اورجذبۂ اطاعت کے ماتحت اپنے آپ کو پیش کریں کہ جس میں کوئی کیا اور کیوں نہ ہو۔ جو شخص کیا اور کیوں کہتا ہے وہ کبھی سپاہی نہیں بن سکتا۔ سپاہی وہی ہوسکتا ہے جو ان الفاط کو بھول جائے اور جو شخص اطاعت اور فرمانبرداری کا مفہوم جانتاہے وہ سوال نہیں کیا کرتا۔ حکم کے مقابلہ میں کیوں اور کیا نہیں پوچھا کرتا۔
پس کامل اطاعت اور فرمانبرداری نہایت ضروری ہے۔ اور یہ صرف خلیفہ سے ہی مخصوص نہیں۔ بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ بس خلیفہ کی بات ماننا ہی ضروری ہے اور کسی کی ضروری نہیں۔ خلیفہ کی طرف سے مقرر کردہ لوگوں کا حکم بھی اسی طرح ماننا ضروری ہوتا ہے جس طرح خلیفہ کا۔ کیونکہ خلیفہ تو براہِ راست ہر ایک شخص تک اپنی آواز نہیں پہنچاسکتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَ مَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ۔۹؎ جس نے میرے مقرر کردہ افسر کی اطاعت کی اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ افسر کی نافرمانی کی، اس نے گویا میری نافرمانی کی۔ ایسا خلیفہ کون سا ہوسکتا ہے جو تمام افراد تک براہِ راست اپنی آواز پہنچاسکے۔ ایسا تونبی بھی نہیں کرسکتا۔ بلکہ خداتعالیٰ گو اِس پر قادر ہے مگر عملاً ہر ایک تک اپنی آواز نہیں پہنچاتا۔ اس قسم کی باتیں کرنے والوں کے اندر بھی وہی روح ہوتی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ظاہر کی تھی اورکہا تھا کہ اگرخدا ہم سے کہے تو ہم مانیں گے۔ خدا تو ایسا کرسکتا ہے مگر کرتا نہیں لیکن خلیفہ تو کر ہی نہیں سکتا۔ پس جب خدا جو کرسکتا ہے وہ ایسا نہیں کرتا اور جو کر ہی نہیں سکتا وہ کس طرح کرے۔ خداتعالیٰ کے نہ کرسکنے کا سوال نہیں بلکہ حکمت کا سوال ہے۔ مگر خلفاء تو نہ ایسا کرسکتے ہیں اور نہ ہی حکمت ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ سوائے اِس کے کہ ملاّنوں کی طرح پانچ سات طالب علم لے کربیٹھ جائے۔ اس لئے ضروری ہے کہ خلیفہ کے ماتحت افسر ہوں جن کی اطاعت اُسی کی طرح کی جائے۔ پس وہی نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں جو اس بات پر آمادہ ہوں کہ کامل اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ دکھائیں گے، عقل سے کام لیں گے، تیسرے محنت کرسکتے ہوں چوتھے اخلاص سے کام کرنے والے ہوں اور پانچویں قابلیت رکھتے ہوں۔ ان اوصاف کے ساتھ ہی یہ وقف مفید ہوسکتے ہیں۔ قابلیت اور اطاعت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اور اگر اخلاص نہ ہو تو بھی انسان ایسے ایسے اعتراض کرتا رہتا ہے کہ بجائے مفید ہونے کے نقصان کا موجب ہوجاتا ہے۔ پھر محنت بھی ضروری ہے۔ جو شخص محنت نہیں کرتا اس کے ہاتھ سے کئی چیزیں چھوٹ جاتی ہیں اور کئی سوراخ ایسے رہ جاتے ہیں جن سے خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ جیسے کوئی شخص کنویس کی چادر میں پانی ڈال لے تو اگر تو اس کے چاروں کونوں کو پکڑ کر رکھے تو وہ محفوظ رہے گا لیکن اگر ایک بھی چھوٹ جائے تو پانی گر جائے گا۔ پھر عقل بھی ضروری ہے۔ اگر عقل نہ ہو تو علم اور اخلاص بھی کام نہیں دے سکتا۔
بعض احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ زاہد بہترہے یا عاقل؟ آپ نے فرمایا عاقل کئی گنا زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ زاہد تو صرف اپنی ذات کو ہی فائدہ پہنچاتا ہے مگر عاقل دوسروں کو بھی۔ بعض لوگوں نے کتابیں تو رٹی ہوئی ہوتی ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ علم کو استعمال کہاں کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ قابلیت سے میری مراد دراصل علم ہے جس سے کام اور اس کے کرنے کا طریق معلوم ہوتا ہے اور عقل ا س علم کے استعمال کا محل بتاتی ہے اور اخلاص، استقلال او رمداومت سے عقل کو کام پر لگائے رکھتا ہے۔ جب یہ چیزیں جمع ہوجائیں اور پھر ساتھ محنت کی عادت اور اطاعت کا جذبہ ہو تو پھر کامیابی ہی کامیابی ہوتی ہے لیکن ان کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ میں نے دیکھا ہے کہ تحریک جدید کے تمام کاموں سے زیادہ دقتیں تحریک جدید کے بورڈنگ میں پیش آئی ہیں۔ اتفاق سے ہمیں وہاں کام کرنے کیلئے ایسے آدمی ملے جنہوں نے محنت سے کام نہ کیا یا عقل سے نہ کیا اور یہ نہ سمجھا کہ اس کا مقصد کیا ہے اورمیں کیا چاہتا ہوں۔ ان کی مثال ’’من چہ سرائم و طنبورئہ من چہ مے سرائید‘‘ کی تھی۔ اگر وہ ذمہ واری کا احساس کرتے اور خیال کرتے کہ لوگوں کے کام تو اس زمانہ میں نتائج پیدا کریں گے اور ہمارے آئندہ زمانہ میں جاکر تو یہ حالت نہ ہوتی۔ مگر انہوں نے نہ خود کام کو سمجھا اور نہ ہی طالب علموں کی ذہنیت میں مناسب تبدیلی پید اکی، حتیٰ کہ ان کو بتایا بھی نہیں گیا کہ اُن کو یہاں کیوں جمع کیا گیا ہے۔ پس محض وقف سے کام نہیں بنتا ایسے وقف سے کام بنتا ہے کہ انسان محنت، مشقت، قربانی اور اطاعت سے کام کرنے کیلئے تیارہو۔ تحریک جدید کے بورڈنگ کا کام ہی ایک ایسا کام ہے کہ میں سمجھتا ہوں اگر ہم اس میں کامیاب ہوجاتے تو ایک ایسا انقلاب پیدا کردیتے جس کی قیمت اور عظمت کا اندازہ الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر مجھے چالیس خالص مومن مل جائیں تو میں ساری دنیا کو فتح کرسکتا ہوں۔ ۱۰؎ اور اس قسم کے بورڈنگ میں موقع ہے کہ ایک زمانہ میں ایسے سَو سَو مومن پید اکرسکیں۔
پس آئندہ جو لوگ اپنے آ پ کو وقف کریں وہ یہ سمجھ کر کریں کہ اپنے آپ کو فنا سمجھیں گے اور جس کام پر ان کو لگایا جائے اُس پر محنت، اخلاص اور عقل و علم سے کام کریں گے۔ عقل اور علم کا اندازہ کرنا تو ہمارا کام ہے مگر محنت، اطاعت اور اخلاص سے کام کا ارادہ ان کو کرنا چاہئے اور دوسرے یہ بھی خیال کرلینا چاہئے کہ وقت کے یہ معنے نہیں کہ وہ خواہ کام کیلئے موزوں ثابت ہوں یا نہ ہوں ہم ان کو علیحدہ نہیں کریں گے یا سزا نہیں دیں گے۔ صرف وہی اپنے آپ کو پیش کرے جو سز اکو برداشت کرنے کیلئے تیار ہوں۔ جن قوموں کے افراد میں سزا برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی وہ ہمیشہ ہلاک ہی ہوا کرتی ہیں۔ صحابہ کو دیکھو وہ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ سزا برداشت کرتے تھے اور خودبخود کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک صحابی سے کوئی غلطی ہوگئی تو انہوں نے مسجد میں جاکر اپنے آپ کو ستون سے باندھ لیا او رکہا کہ جب تک اللہ تعالیٰ مجھے معاف نہ کردے میں یہاں سے نہ ہٹوں گا۔ مگر ایسا کرنے کیلئے بھی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کئی وہمی آدمی ہوتے ہیں جو ایسی بات سن کر فوراً اُچھل پڑتے ہیں کہ بہت اچھا گُر مل گیا ہے۔ آئندہ اگر ہم سے کبھی غلطی ہوئی تو ہم بھی اسی طرح کریں گے۔ مگر جو اپنے آپ کو باندھتا اور پھر اِدھر اُدھر دیکھتا ہے کہ کوئی آئے اور مجھے چھڑائے وہ خود بھی دھوکا خوردہ ہے۔ اس کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے کانگرسی قانون شکنی کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ گورنمنٹ ہمیں گرفتار کیوں کرتی ہے۔ اس صحابی نے تو اپنی نیت پوری کردی مگر رسول کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ جائز نہیں۔۱۱؎ لیکن بہرحال سزا کا برداشت کرنا قومی زندگی کیلئے بہت اہم چیز ہے۔ ایک شخص کو رسول کریم ﷺ نے سزا دی کہ یہ ہماری مجلس میں کبھی نہ آئے اور وہ ساری عمر نہ آسکا۔ ۱۲؎ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ نے ایک شخص کو یہ سزا دی کہ ہمارے زمانہ میں کبھی مدینہ میں نہ آئے۔ ۱۳؎ چنانچہ وہ نہیں آیا مگر کام اسی قربانی سے کرتا رہا۔ تو سزا کا برداشت کرنا ہر مومن کیلئے ضروری ہے۔ خاص کر وقفِ زندگی کی صورت میں تو بہت ہی ضروری ہے۔ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اسے سزا دی ہی نہ جائے خواہ کچھ ہو، وہ گویا چاہتا ہے کہ ہر حال میں اس کالحاظ کیا جائے اور اس کیلئے دوسروں کو تباہ کردیا جائے ۔ پس وقف کرنے والوں کیلئے ان پانچوں اوصاف کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سزا برداشت کرنے کیلئے تیار ہوں۔ اور بعدمیں یہ نہ کہیں کہ اس وقت ہمیں نوکری مل سکتی تھی۔ یونہی ہمارے دو سال ضائع کئے گئے۔
پس وہی آگے آئے جس کی نیت یہ ہو کہ میں پوری کوشش کروں گا۔ لیکن اگر نکمّا ثابت ہوں تو سزا بھی بخوشی برداشت کرلوں گا۔ میں پھر ایک بار دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ ثواب کا ایک نہایت اہم موقع ہے۔ انگریزی دان اور عربی دان دونوں قسم کے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں۔ انٹرنس پاس یا اس سے اوپر گریجوایٹ انگریزی دان اور مولوی فاضل یا بعض ایسے جو کہ اگرچہ مولوی فاضل کی ڈگری تو نہ رکھتے ہومگر عربی میں اچھی استعداد ہو، اپنے آپ کو پیش کرسکتے ہیں۔ انتخاب کرنے کا اختیار تو ہمارا ہے۔ مگر جو اپنے آپ کو پیش کریں وہ محنت اور قربانی کیلئے تیار ہوکر اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے سوااور ہر طرف سے آنکھیں بند کرکے اپنے آپ کو پیش کریں اور اپنے سامنے ایک ہی مقصود رکھیں یعنی اشاعتِ اسلام۔ اور اس بات کیلئے بھی تیار ہوں کہ اگر کبھی وہ نظام کے لئے موزوں ثابت نہ ہوں تو بے شک ان کو الگ کردیا جائے خواہ دُنیوی لحاظ سے ان کو کیسا بھی نقصان کیوں نہ پہنچ چکا ہو۔
مجھے امید ہے کہ ہمارے نوجوان ان شرائط کے ماتحت جلد از جلد اپنے نام پیش کریں گے تا اس سکیم پر کام کرسکیں جو میرے مدنظر ہے۔ ہم آدمی تو تھوڑے ہی لیں گے مگر جو چند آدمی سینکڑوں میں سے چنے جائیں گے وہ بہرحال ان سے بہتر ہوں گے جو پانچ سات میں سے چنے جائیں گے۔ پچھلی مرتبہ قریباً دو سَونوجوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا اورمجھے امید ہے کہ اب اس سے بھی زیادہ کریں گے۔ جنہوں نے پچھلی مرتبہ اپنے آپ کو پیش کیاتھا وہ اب بھی کرسکتے ہیں۔ بلکہ جو کام پر لگے ہوئے ہیں وہ بھی چاہیں تو اپنے نام پیش کرسکتے ہیں کیونکہ ان کی تین سال کی مدت ختم ہوگئی ہے۔ بعض ان میں سے ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تین سال تو ہم جانتے نہیں جب ایک دفعہ اپنے آپ کو پیش کردیا تو پھر پیچھے کیا ہٹنا ہے۔ ان کو بھی قانون کے ماتحت پھر اپنے نام پیش کرنے چاہئیں کیونکہ پہلے ہمارا مطالبہ صرف تین سال کیلئے تھا۔ اور جو بھی اپنے آپ کوپیش کریں پختہ عزم کے اور ارادہ کے ساتھ کریں۔ کیونکہ ڈھلمل آدمی اپنے لئے بھی اور دوسروں کیلئے بھی مصیبت کا موجب ہوتا ہے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم میں سے ہر ایک بچے بوڑھے، جوان، مرد، عورت، چھوٹے بڑے کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ عزمِ صمیم کے ساتھ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے کھڑا ہوجائے جس کا مطالبہ ہم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ کیا گیاہے اور وہ ہمارے کاموں میں برکت دے تا ہم اس میں کامیاب ہوسکیں۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ
(الفضل ۲۲ ؍ دسمبر ۱۹۳۷ئ)
۱؎ الانفال: ۶
۲؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۸۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳؎ متی باب۵ آیت۳۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء
۴؎ بخاری کتاب الصوم باب اجود ماکان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (الخ)
۵؎ بنی اسرائیل: ۲۷
۶؎ مسلم کتاب الاشربۃ باب مایفعل الضیف اذا تبعہٗ (الخ)
۷؎ بخاری کتاب المناقب باب مناقب قریش
۸؎ بخاری کتاب الجنائز باب فضل اتباع الجنائز
۹؎ بخاری کتاب الاحکام باب قول اللّٰہ تعالٰی اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول …الخ
۱۰؎ ملفوظات جلد سوم صفحہ۳۴۲۔ جدید ایڈیشن
۱۱؎
۱۲؎
۱۳؎

۴۰
اصلاحِ نفس اور تبلیغِ احمدیت میں کامیابی حاصل کرنے کا گُر
(فرمودہ ۲۴ ؍ دسمبر ۱۹۳۷ء )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
انسانی فطرت ہمیشہ ہی ہدایت کی جستجو میں رہتی ہے اور یہ ایک ایسا یقینی اور قطعی امر ہے کہ اس کے متعلق کبھی بھی ایک عقلمند اور غورو فکر کرنے والا انسان شبہ میں نہیں رہ سکتا۔ لیکن باوجود اس کے انسانی تعصبات اتنے بڑھ گئے ہیں اورعارضی پردے انسان کی عقل پر اتنے پڑ گئے ہیں کہ بِالعموم ایک انسان دوسرے انسان کے متعلق بدظنی کی طرف مائل رہتا ہے اور اگر اسے دوسرے کی کوئی نیکی معلوم ہوتی ہے تو وہ اُس کو منافقت کی طرف منسوب کردیتا ہے۔ یہ حالت دماغی ہمیشہ ہی فتنے اور فساد پیدا کرتی چلی جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت سے محروم بھی کردیتی ہے بلکہ مایوسی پید اہی اِسی وجہ سے ہوتی ہے۔ مایوسی اور بدظنی لازم و ملزوم ہیں۔ اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو خاص طور پر تاکید فرمائی ہے فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی ۱؎ کہ تُو لوگوں کو ہمیشہ سمجھاتا رہ کیونکہ دنیا کا مشاہدہ اس بات پر گواہ ہے اور تجربہ اس کا شاہد کہ ہمیشہ ہی انسان کو نصیحت کرنے اور سمجھانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اِسی مایوسی کو دور فرمایا ہے کہ گھروں میں بیٹھے بیٹھے بعض لوگ یہ خیال کرلیتے ہیں کہ لوگ ہماری باتیں نہیں سُنیں گے اور اگر سُنیں گے تو توجہ نہیں کریں گے۔ اور اگر توجہ کریں گے تو ان کو قبول نہیں کریں گے اور نہ وہ صحیح راستہ جو انہیں بتایا جائے گا اسے اختیار کریں گے اور اگر انہوںنے صحیح راستہ اختیار کرلیا اور ہماری بات کومان بھی لیا تو صداقت کو عَلَی الْاِعْلَان قبول کرنے کی جرأت نہیں کریں گے۔ یہ چار خیالات انسان آپ ہی اپنے ذہن میں پیدا کرلیتا اور پھر اپنے نفس کو یہ کہتے ہوئے خوش کرلیتا ہے کہ میںنے لوگوں کی ہدایت کیلئے پورا زور لگالیا۔ حالانکہ یہ انسانی فطرت پر بدگمانی ہے اور ایسا خیال کرنا واقعات کے بھی خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر جستجو کا مادہ رکھا ہوا ہے اور چونکہ یہ طبعی مادہ ہے اس لئے کوئی بھی اس سے محروم نہیں۔ انسان خواہ ہندو ہو خواہ عیسائی ، خواہ یہودی ہو خواہ مجوسی اندرونی طور پر اُس کا دل چاہتا ہے کہ مَیں صحیح راستہ اختیارکروں۔ لیکن بدظنیاں، شِقاق، لڑائیاں اور صحیح ذرائع کا بہم نہ پہنچنا اُس کو بُرائی کی طرف مائل کردیتے یا ہدایت سے کلیۃً محروم کردیتے ہیں۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ ۲؎ یا ایک حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃ الْاِسْلَامِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْیُنَصِّرَانِہٖ اَوْیُمَجِّسَانِہٖ۳؎ کہ جب بھی کوئی بچہ پید اہوتا ہے وہ فطرتِ صحیحہ یا فطرتِ اسلامی پر پید اہوتا ہے۔ فطرتِ اسلامی پر پیدا ہونے کے یہی معنی ہیں کہ فطرتی طور پر اُس کے اندر یہ خوبی رکھی جاتی ہے کہ سچائی کے آگے سر جھکادے۔ کیونکہ اسلام کے معنی اطاعت و اِنقیادکے ہیں۔ پس ہر بچہ کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات داخل کی ہے کہ وہ سچائی کے آگے سر جھکادے۔ مگر جب وہ بڑا ہوتا ہے تو فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْیُنَصِّرَانِہٖ اَوْیُمَجِّسَانِہٖ۔ اُس کے ماں باپ اس کو یہودی بنادیتے ہیں یا عیسائی بنادیتے ہیں یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ یعنی اس کی فطرت پر دوسرا غلاف چڑھادیا جاتا ہے۔ اور جب اس کے سامنے ایسے عقائد بیان کئے جاتے ہیں جو فطرتِ صحیحہ کے خلاف ہوتے ہیں تو وہ اسی رَو میں بہہ جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فطرتِ انسانی میں نیکی رکھی گئی ہے اور وہ کبھی نہیں بدلتی۔ ہاں عارضی پردہ اس پر پڑ جائے تو فطرت کی روشنی مدھم ہوجاتی ہے۔ مگر جب بھی وہ پردہ اس سے اُٹھادیا جائے فطرت اپنی اصل صورت میں جلوہ گر ہوجاتی ہے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ جب ایک شخص بعد میں یہودی یا عیسائی یا مجوسی بن جاتا ہے تو معلوم ہوا کہ فطرت بھی بدل جاتی ہے۔ مگر یہ غلط ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ فَاَبَوَاہُ یُغَیِّرَانِ فِطْرَتَہٗ کہ اُس کے ماں باپ اس کی فطرت کو بدل دیتے ہیں بلکہ آ پ نے جو کچھ فرمایا وہ یہ ہے کہ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْیُنَصِّرَانِہٖ اَوْیُمَجِّسَانِہٖکہ اس کے ماں باپ کے اثرات کی وجہ سے وہ یہودی ہوجاتا ہے یا عیسائی ہوجاتا ہے یا مجوسی ہوجاتا ہے۔ اب یہودی، عیسائی یا مجوسی ہوجانا اور چیز ہے اور فطرتِ انسانی کا بدلنا اور چیز ہے۔ فطرت کے متعلق رسول کریم ﷺ نے صاف طور پر فرمادیا ہے کہ پہاڑ کا ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا جانا آسان ہے مگر فطرت کا بدلنا مشکل ہے۔ گویا رسول کریم ﷺ نے بتادیا کہ جب میں کہتا ہوں کہ فطرتِ صحیحہ کے باوجود انسان میں تبدیلی ہوجاتی ہے تو اس تبدیلی سے سطحی تبدیلی مراد ہوتی ہے ورنہ فطرت وہیں قائم رہتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے عورتیں برقعہ پہن لیتی ہیں۔ اب اگر ایک عورت برقعہ پہنے اور کوئی شخص اس کے برقعہ کو دیکھ کر کہے کہ اس کی آنکھیں بھی ماری گئی ہیں او راس کا چہرہ بھی مسخ ہوگیا ہے تو ہر شخص اسے بیوقوف کہے گا۔ کیونکہ ان چیزوں پر برقعہ کے ذریعہ صرف پردہ پڑا ہوتا ہے ورنہ چیزیں اصل میں موجود ہوتی ہیں۔ اسی طرح بچہ ماں باپ کے اثرات کے نتیجہ میں یہودیت یانصرانیت یا مجوسیت کا برقعہ پہنتا ہے، فطرت نہیں بدلتی۔ کیونکہ پہاڑ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکتا ہے مگر فطرت میں تبدیلی نہیں ہو سکتی تو فطرتِ انسانی اسی جگہ قائم رہتی ہے البتہ ماں باپ اس کی عادات میں تبدیلی کردیتے ہیں، اس کے سطحی خیالات میں تبدیلی کردیتے ہیں اور وہ ایک دھوکے میں آجاتا ہے۔ جیسے خداتعالیٰ نے تو سردی اور گرمی کا الگ الگ موسم بنایا ہوا ہے مگر جب کسی کو ملیریا چڑھتا ہے تو اسے سخت گرمی میں بھی سخت سردی محسوس ہونے لگ جاتی ہے۔ مگر کوئی نہیں کہتا کہ اس کی فطرت بدل گئی۔ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ مرض ہے جس کی وجہ سے اس کے اعصاب میں کمزوری واقع ہوگئی ہے، ورنہ اس کی فطرت نہیں بدلی۔ چنانچہ جونہی اس کا بخار اترتا ہے فوراً اپنی اصلی حالت پر آجاتا ہے۔ اسی طرح بعض بخار ایسے ہوتے ہیں جن میں سخت گرمی محسوس ہوتی ہے۔ سردی کے ایام ہوتے ہیں لوگ آگ تاپ رہے ہوتے ہیں۔سردی کے مارے ٹھٹھرے جارے ہوتے ہیں مگرمریض کہہ رہا ہوتا ہے مجھے آگ لگ گئی، میرے کپڑے اُتار دو۔ بلکہ بعض امراض تو ایسے ہیں جو بہت لمبے چلے جاتے ہیں اور ان کے نتیجہ میں بیمار سردی کے ایام میں سوتے وقت لحاف سے اپنا پائوں باہر نکال لیتا ہے۔ ایسے ایسے مریض کو جب بھی دیکھو گے تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ اپنا سارا جسم لحاف سے ڈھک لے گا مگر پیر نہیں ڈھکے گا۔ حالانکہ دوسرے لوگوں کو اس وقت سخت سردی محسوس ہورہی ہوتی ہے اور سردی سے اُن کے پیر سُن ہورہے ہوتے ہیں۔ اب اس کے یہ معنے نہیں کہ دنیا سے سردی مٹ گئی یا گرمی جاتی رہی بلکہ درحقیقت اس شخص کی فطرت پر ایک پردہ پڑ جاتا ہے۔ جب وہ پردہ دور کردیا جاتا ہے تو وہ فوراً اپنی اصلی حالت پر آجاتا ہے۔
پس رسول کریم ﷺ نے ان دونوں مضمونوں کو بیان کردیا اور فرمایا کہ بچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے یا بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ فطرت ایسی چیز ہے جو کبھی نہیں بدلتی۔ اور جب ہر بچہ فطرتِ صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے تو کسی وقت انسانوں کی انسانیت سے مایوس ہوجانا محض حماقت اور نادانی ہے۔ یہی مایوسی جب اپنی ذات کے متعلق پیدا ہوتی ہے تو انسان گناہوں میں بڑھ جاتا ہے اور یہی مایوسی جب دوسرے لوگوں کے متعلق اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے تو وہ تبلیغ چھوڑ دیتا ہے۔ اور بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے آپ سے مایوس ہو کر اپنے نفس کی اصلاح ترک کردیتا ہے وہی وقت اُس کی اصلاح اور روحانی ترقی کاہوتا ہے۔ مگر وہ عین وقت پر اپنی کوششوں کو چھوڑ دیتا اور اس طرح عظیم الشان نیکیوں کے حصول سے کلیۃً محروم ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے کہ ؎
قسمت تو میری دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا
یہی اس شخص کی مثال ہوتی ہے ۔ وہ کوشش کرتا ہے اور کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے مگر جس وقت اُس پر فضل نازل ہونے والا ہوتا ہے اور تاریکی و ظلمت کا پردہ اُٹھنے والا ہوتا ہے وہ کہتا ہے مجھ سے اپنی اصلاح نہیں ہوسکتی اور مایوس ہوکر بیٹھ جاتا ہے اور پھر ہمیشہ کیلئے گناہوں کی دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان گناہوں میں کتنا ہی ملوث کیوں نہ ہو اگر وہ یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ میں گناہوں سے بچوں اور اسی کوشش میں اُس کی موت واقع ہوجائے تو جہاں تک مَیں نے اسلام اور قرآن کا مطالعہ کیا ہے میرا مذہب یہی ہے کہ وہ ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق ہوگا، سزا کا نہیں ہوگا۔ کیونکہ اگر وہ واقعہ میں گناہوں کی دلدل میں پھنس گیا تھا اور اس نے اس دلدل سے نکلنے کی پوری کوشش کی اور کوشش کرتا چلا گیا اور اسی حالت میں اُسے موت آگئی تو موت پر اُس کا کیا اختیار تھا کہ وہ اُسے روک سکتا۔ یہ موت خداتعالیٰ کی طرف سے اُس پر آئی اور اِس موت کے آجانے کی وجہ سے وہ گناہوں کی دلدل سے نکلنے سے محروم رہا۔ ورنہ اگر موت نہ آتی تو ممکن تھا وہ گناہوں سے پاک ہوجاتا۔ پس چونکہ موت خداتعالیٰ کی طرف سے آئی اور اس پر ایسی حالت میں آئی جبکہ گناہوں سے نکلنے کی وجہ پوری کوشش کررہا تھا۔ اس لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ خداتعالیٰ اسے یہ کہے کہ جا جہنم میں۔ کیونکہ اس صورت میں اس کے جہنم میں جانے کا باعث خداتعالیٰ کا فعل ہوگا (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) اس کا نہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس عقیدہ سے گناہوں پر دلیری پیدا ہوجاتی ہے مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ فیصلہ کرنا کہ وہ گناہوں کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا یا نہیں، خداتعالیٰ کا کام ہے۔ انسان کو کیا پتہ کہ میں واقعہ میں گناہوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہوںیا اگر چاہوں تو ان سے بچ سکتا ہوں۔ پس چونکہ یہ فیصلہ خداتعالیٰ نے کرنا ہے اس لئے گناہوں پر یہ دلیر نہیں ہوسکتا۔ غرض جو شخص گناہوں سے بچنے کی سچے طور پر کوشش کرتا ہے اور اسی کوشش میں مرجاتا ہے وہ یقینا نیک لکھا جاتا ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے وہ لوگ جو جرمن، انگلستان اور فرانس کی لڑائی میں مارے گئے۔ گو انہوں نے فتح نہیں دیکھی مگر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ فتح انہی لوگوں کے ہاتھ سے ہوئی ہے جو زندہ رہے ہیں۔ بلکہ فتح کا سہرا جس طرح زندوں کے سر رہتا ہے اسی طرح ان لوگوں کے سر بھی رہتا ہے جو جنگ کی حالت میں مارے گئے۔ چنانچہ قوموں نے اس کا عملی رنگ میں اعتراف کرتے ہوئے جنگ عظیم کے بعد قومی فتح کا نشان یہی قرار دیا کہ جنگ میں مرنے والے ایک مُردہ کو ایک خاص جگہ گاڑ دیا گیا ۔ جہاں سال میں ایک دفعہ وہ بھاری میلہ کرتے ہیں اور باشادہ تک وہاں جاتا ہے۔ اسی طرح ان قوموں نے تسلیم کیا ہے کہ ہماری فتح ان مرنے والوں کے ذریعہ ہوئی ہے جنہوں نے اپنی جانیں قوم اور ملک کیلئے قربان کردیں۔ اسی طرح جو شخص شیطان سے لڑتا ہوا مارا جاتا ہے، خداتعالیٰ کے نزدیک اس کی حیثیت شکست خوردہ انسان کی نہیں ہوتی بلکہ اُس کی حیثیت اُس شخص کی سی ہوتی ہے جو لڑائی میں مارا جاتا ہے۔ اس کا ثبوت احادیث سے بھی ملتا ہے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے بہت سے گناہ کئے مگر آخر اس کے دل میں توبہ کا خیال پیدا ہوا۔ اُس زمانہ میں رائج خیال یہی تھا کہ توبہ بغیرعلماء کی اجازت کے قبول نہیں ہوسکتی۔ یہ خیال یہودیوں اور عیسائیوں میں اب تک پایا جاتا ہے بلکہ عیسائیوں میں تو یہ خیال اتنا غالب ہے کہ ان کے نزدیک پادری کے سامنے اقرارِ جرم کئے بغیر انسان بخشا ہی نہیں جاتا۔ ہماری طرح ان میں یہ نہیں کہ خداتعالیٰ کے سامنے روئیں اور معافی طلب کریں۔ بلکہ ان میں یہ ضروری تسلیم کیا گیا ہے کہ انسان پادری کے سامنے توبہ کرے۔ اسی قومی رواج کے مطابق وہ مختلف علماء کے پاس گیا اورکہنے لگا کہ میں نے یہ یہ گناہ کئے ہیں، اب میں توبہ کرنا چاہتا ہوں کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ جب وہ کسی عالم کو اپنا واقعہ سناتا تو وہ کہتا کہ تیری توبہ قبول نہیں ہوسکتی۔ اگر تیرے جیسے انسان کی توبہ قبول کرلی جائے تو دنیا میں گناہ کی انتہا نہ رہے۔ وہ چونکہ علاوہ اور گناہوں کے قتل کا بھی مرتکب رہ چکا تھا اور بڑا بھاری قاتل تھا اس لئے وہ کہتا کہ اگر میری توبہ قبول نہیں ہوسکتی تو میں تم کو بھی زندہ نہیں رہنے دیتا۔ چنانچہ وہ اسے قتل کردیتا۔ پھر وہ دوسرے کے پاس گیا، پھر تیسرے کے پاس گیا، پھر چوتھے کے پاس گیا مگر سب اُس کی توبہ قبول کرنے سے انکار کرتے رہے اور وہ ہر ایک کو قتل کرتا گیا۔ آخر لوگوں نے اسے کہا کہ تُو توبہ کیلئے گھر سے نکلا ہے مگر قتل کرکے اور بھی گنہگار ہوتا جاتا ہے۔ وہ کہنے لگا میں تو توبہ کرتا ہوں مگر لوگ کہتے ہیں تیرے لئے توبہ کا دروازہ بند ہے۔ اس لئے میں غصہ میں آکر اُنہیں بھی قتل کردیتا ہوں۔ آخر لوگوں نے اُسے کہاکہ فلاں علاقہ میں ایک شخص ہے تُو اُس کے پاس جا امید ہے کہ وہ تیری توبہ قبول کرلے گا۔ جب وہ چلا تو ابھی وہ راستہ میں ہی تھاکہ اُس کی جان نکل گئی۔ اِس پر ملائکہ رحمت اور ملائکہ عذاب کے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا۔ ملائکہ عذاب نے کہا کہ ہم اس کی روح دوزخ میں لے جائیں گے کیونکہ یہ گنہگار تھا۔ مگر ملائکہ رحمت کہتے کہ یہ توبہ کرنے کیلئے جارہا تھا پس ہم اسے جنت میں لے جائیں گے۔ آخر اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا کہ کس کی بات صحیح ہے اور اس شخص کے متعلق کیا فیصلہ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم یہ دیکھو کہ وہ اس مقام کے زیادہ قریب ہے جہاں توبہ کرنے جارہا تھا یا اس مقام کے زیادہ قریب ہے جہاں سے وہ گناہ کرکے نکلاتھا۔ جب ملائکہ ان جگہوں کو ماپنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اُس راستہ کو جو توبہ کا تھا چھوٹا کردیا مگر اُس راستہ کو جو گناہ والا تھا لمبا کردیا اور فرمایا کہ چونکہ یہ توبہ کے مقام کے زیادہ قریب ہے اِس لئے اِس کی توبہ قبول کی جاتی ہے، اسے جنت میں لے جایا جائے۔ ۴؎ اس حدیث کے یہ معنے نہیں کہ خداتعالیٰ اور اس کے ملائکہ کے درمیان ضرور اس قسم کی باتیں ہوئی ہوں۔ یہ اصطلاحی الفاظ ہوتے ہیں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے مرجاتا ہے تو ملائکہ تردّد میں پڑ جاتے ہیں۔ ملائکہ تو احکامِ الٰہی کی اطاعت کیا کرتے ہیں تردّد کا مفہوم صرف یہ ہے کہ جس وقت کوئی جان توبہ کی کوشش کرتے ہوئے نکلتی ہے اور بظاہر حقیقی توبہ اُسے نصیب نہیں ہوتی تو ملائکہ میں ایک اضطراب سا پیدا ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ تو جنت کا مستحق ہے دوزخ کا نہیں اور پھر خداتعالیٰ بھی انہی کی تائید کرتا ہے۔
غرض انسان جب اپنی فطرت سے مایوس ہوجاتا ہے تو گناہ میں بڑھ جاتا ہے۔ اور جب دوسروں سے مایوس ہوجاتا ہے تو تبلیغ میں سُست ہوجاتا ہے۔ کئی لوگ ہیں جومیرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں حق تو یہی ہے مگر لوگ مانتے نہیں۔ میں ہمیشہ ان سے کہتا ہوں کہ اگر لوگ واقعہ میں نہیں مانتے تو ہماری جماعت میں جو لوگ نئے داخل ہوتے ہیںیہ کہاں سے آتے ہیں۔ اگر لوگ اتنے ہی سنگدل اور حقیقت سے بے بہرہ ہوگئے ہیں کہ وہ سچائی کی باتیں سنتے ہیں مگر مانتے نہیں ۔ تو سوال یہ ہے کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کوئی آدمی نہ تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب آپ کے ساتھ ہزاروں آدمی تھے اور اب تو لاکھوں تک پہنچ گئے ہیں۔ پھر کسی زمانہ میں پنجاب میں بھی کوئی شخص آپ کا معتقد نہ تھا۔ اور اب نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے تمام براعظموں میں احمدی پھیل گئے ہیں۔ اگر یہ سچ بات ہے کہ دنیا نہیں مانتی تو پھر اتنے لوگ کہاں سے آگئے۔ یہیں دیکھ لو اچھے لوگ اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں، ان میں سے کتنے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ میں آپ پر ایمان لائے۔ میں سمجھتا ہوں اِس مجمع میں بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شکل دیکھی۔ زیادہ تر وہی لوگ ہیں جنہوں نے آپ کی تصویر دیکھی۔ پھر کچھ ایسے بھی ہیں جنہوںنے شکل تو دیکھی مگر آپ کی صحبت میں بیٹھنے کا انہیںموقع نہ ملا۔ اور بہت قلیل ایسے لوگ ہیں جو غالباً درجنوں سے بڑھ نہیں سکتے جنہوں نے آپ کی باتیں سُنیں اور آپ کی صحبت سے فائدہ اُٹھانے کا انہیں موقع ملا۔ مگر آخر یہ لوگ کہاں سے آئے۔ میری پیدائش اور بیعت قریباً ایک ہی وقت سے چلتی ہے اور جب میں نے کچھ ہوش سنبھالا اُس وقت کئی سال تبلیغ پر گزرچکے تھے لیکن مجھے اپنے ہوش کے زمانہ میں یہ بات یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب سیر کیلئے نکلتے تو صرف حافظ حامد علی صاحب ساتھ ہوتے۔ ایک دفعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اسی طرف سیر کیلئے آنا یاد ہے۔ میں اُس وقت چونکہ چھوٹا بچہ تھا اس لئے میں نے اصرار کیا کہ میں بھی سیر کیلئے چلوں گا۔ اُس زمانہ میں یہاں جھائو کے پودے ہوا کرتے تھے اور یہ تمام علاقہ جہاں اب تعلیم الاسلام ہائی سکول، بورڈنگ اور مسجد وغیرہ ایک جنگل تھا اور اس میں جھائو کے سِوا اور کوئی چیز نہ ہوا کرتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اِسی طرف سیر کیلئے تشریف لائے اورمیرے اصرار پر مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ مگر تھوڑی دور چلنے کے بعد میں نے شور مچانا شروع کردیا کہ میں تھک گیا ہوں۔ اِس پر کبھی مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُٹھاتے اور کبھی حافظ حامد علی صاحب اور یہ نظارہ مجھے آج تک یاد ہے۔ تو وہ ایسا زمانہ تھا کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ تھا مگر آپ کو ماننے والے بہت قلیل لوگ تھے اور قادیان میں آنے والا تو کوئی کوئی تھا لیکن آج یہ زمانہ ہے کہ ہمیں بار بار یہ اعلان کرنا پڑتاہے کہ قادیان میں ہجرت کرکے آنے سے پیشتر لوگوں کو چاہئے کہ وہ اجازت لے لیں اور اگر کوئی بغیر اجازت کے یہاں ہجرت کرکے آئے تو اسے واپس جانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اب آبادی خداتعالیٰ کے فضل سے اتنی بڑھ گئی ہے کہ منافق بھی یہاں کھپ جاتے ہیں۔ پھر جن کو ذرا بھی باہر دشمنوں کی طرف سے تکالیف پہنچتی ہوں ارو وہ ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے تو کہتے ہیں چلو قادیان میں ہجرت کرکے چلیں۔ اس طرح کمزور ایمان والے بھی قادیان میں اکٹھے ہوسکتے ہیں۔
غرض اُس وقت یہ اعلان کیاجاتا تھا کہ جس کے دل میں ایمان کا ایک ذرّہ بھی ہو اسے چاہئے کہ ہجرت کرکے قادیان آئے اور اب ہمیں شرطیں لگانی پڑتی ہیں اور کہنا پڑتا ہے کہ جس کے دل میں بڑا پختہ ایمان ہو صرف وہ آئے، دوسروں کے آنے کی ضرورت نہیں۔ پھر کجا وہ وقت تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بائیکاٹ کردیا جاتا۔ برتن بنانے والوں کو آپ کے برتن بنانے سے، سقوں کو آپ کا پانی بھرنے سے اور چوہڑوں کو آپ کے مکانات کی صفائی کرنے سے روک دیا جاتا۔ اور کجا آج یہ حالت ہے کہ قادیان میں ہر پیشے والے کثرت سے احمدی پائے جاتے ہیں۔ بلکہ بعض پیشوں میں ۸۰۔۹۰ فیصدی اور بعض پیشوں میں سَو فیصدی احمدی ہی احمدی نظر آتے ہیں۔ شاید آج سے چند سال پہلے میں یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ ہرپیشہ کے احمدی قادیان میں بکثرت موجود ہیں۔ کیونکہ خاکروب جن کا کوئی مذہب نہیں ہوتا احمدی نہیں تھے مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے خاکروب بھی احمدی ہیں اور کہا جاسکتا کہ ہر پیشہ کے احمدی قادیان میں موجود ہیں۔ پھر ان علاقوں میں جہاں پھرنے سے وحشت ہوتی تھی اور جھائو ہی جھائو نظر آتا تھا، وہاں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمارتیں ہی عمارتیں بنی ہوئی ہیں اور یا ان رستوں پر چلنے سے انسان گھبراتا تھا یا اب یہاں تقریریںہوتی ہیں اور جلسے ہوتے ہیں۔ تو اگر یہ درست ہے کہ انسانی فطرت اتنی گری ہوئی ہے کہ وہ حق بات مانتی نہیں تو یہ لوگ کہاں سے آگئے۔ مگر میں نے دیکھا ہے کہ انسان کبھی صحیح راستہ اختیار نہیں کرتا۔ وہ یا افراط کی طرف چلا جاتا ہے یا تفریط کی طرف۔ یا تو وہ کہتا ہے کہ میری اصلاح ہو ہی نہیں سکتی اور یا وہ یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ میں ہی اصلاح کے قابل تھا باقی دنیا اصلاح کے قابل نہیں۔ اِسی طرح اگر اس کے اندر خرابی پیدا ہوجاتی ہے تو وہ ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میری یہ کہاں قسمت ہے کہ مجھے ہدایت حاصل ہو۔ اورجب اسے ہدایت مل جاتی ہے تو وہ یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ میں ہی دنیا میں ایک خوش قسمت انسان ہوں۔میں ہی جنتی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہوں۔ باقی سب دوزخی اورجہنمی ہیں۔ حالانکہ اگر یہ آپ ڈوبتا ہے تب بھی نقصان ہے اور اگر یہ تو بچ جاتا ہے مگر لوگ ڈوب جاتے ہیں تب بھی نقصان ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ یہ بھی نہ ڈوبے اور دوسرے لوگ بھی نہ ڈوبیں۔ اور یہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ انسان اپنے نفس پر بھی بدظنی نہ کرے اور دوسرے لوگوں پر بھی بدظنی نہ کرے۔ اگر وہ اپنے آپ پر بدظنی نہ کرے اور اپنے رب پر بھی بدظنی نہ کرے اور وہ یہ سمجھے کہ وہ سخت گیر اور سنگدل نہیں بلکہ رحم کرنے والا اور گنہگار کی توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔ مجھے چاہئے کہ میں گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا چلا جائوں۔ تو اول تو وہ دنیا میں ہی کامیاب ہوجائے گا اور شیطان کے پنجہ سے رہائی پاجائے گا اور اگر دنیا میں کامیاب نہ ہوا اور اسی جدوجہد میں اسے موت آجائے، تب بھی خدا تعالیٰ کا فضل اسے ڈھانپ لے گا۔
غرض انسان اگر اپنے نفس پر بدظنی ترک کر دے تو اس سے اس کے گناہ بھی کچھ کم ہوجائیں اور اس کے دل میں کام کرنے کی امنگ اور جوش پیدا ہوجائے۔ اسی طرح اگر وہ دنیا پر حسن ظنی کرے اور کہے کہ اگر مجھے ہدایت مل سکتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ دوسروں کو نہیں مل سکتی۔ یقینا جس طرح مجھے ہدایت ملی اسی طرح دوسروں کو بھی ہدایت مل سکتی ہے تو اس کے نتیجہ میں وہ ان کو تبلیغ کرنے سے غافل نہیں ہوگا اور اپنی کوشش میں مشغول رہے گا یہاں تک کہ انہیں ہدایت حاصل ہوجائے گی۔ چنانچہ اس امر کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ وہ لوگ جو ایک وقت صداقت کے شدید ترین دشمن ہوتے ہیں دوسرے وقت میں اسی صداقت کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنے والے بن جاتے ہیں۔
حضرت عمرو بن العاصؓ ایک مشہور صحابی گزرے ہیں۔ گومسلمانوں کا ایک طبقہ انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بہت ذہین اور ہوشیار تھے۔ وہ جب مرض الموت سے بیمار ہوئے تو ایک دوست ان کی عیادت کے لئے گئے اور پوچھا کہ کیا حال ہے؟ وہ یہ سن کر رو پڑے اور کہنے لگے اگر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں مَیں فوت ہوجاتا تو مجھے یقین ہوتا کہ میں بخشا جائوں گا۔ کیونکہ اُس وقت ہم ہرقسم کے عیبوں سے بچے ہوئے تھے مگر آپ کی وفات کے بعد کئی واقعات ایسے پیش آئے ہیں کہ اب اپنے اعمال کے متعلق مجھے شبہ پیدا ہوگیا ہے (حضرت عمروؓ بن العاص دراصل حضرت معاویہؓ کی طرف سے حضرت علیؓ سے جنگ کرتے رہے تھے اور شاید اِسی کا اُن کی طبیعت پر اثر تھا)۔ پھر کہنے لگے میر اعجیب حال ہے۔ ایک زمانہ مجھ پر ایسا گزرا ہے کہ رسول کریم ﷺ سے زیادہ قابلِ نفرت وجود مجھے اور کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ میں نے جونہی آپ کا دعویٰ سنا، دل میں آپ سے بغض پیداہوگیا اور اِسی بغض کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل کبھی نہیں دیکھی بلکہ اتنی نفرت پیدا ہوگئی اتنی نفرت پیدا ہوگئی کہ میں کبھی یہ پسند نہ کرتا کہ میں اور رسول کریم ﷺ ایک جگہ جمع ہوں۔ پھر اللہ تعالی نے مجھے ہدایت دی اور میں مسلمان ہوگیا تو رسول کریم ﷺ سے مجھے اتنی محبت پید اہوگئی اور آپ کی اس قدر عظمت میرے دل میں بیٹھ گئی کہ میں آپ کے جلال اور آپ کے رُعب کی وجہ سے آپ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اور آج یہ حالت ہے کہ اگر کوئی مجھ سے رسول کریم ﷺ کا حلیہ پوچھے تو میں نہیں بتاسکتا۔ کیونکہ بغض کے وقت مجھے آپ سے اتنا بغض تھا کہ اس بغض کی شدت کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل کبھی نہ دیکھی اور محبت کے وقت مجھے آپ سے اتنی محبت پیدا ہوگئی اور آ پ کی اِس قدر عظمت میرے دل پر مستولی ہوگئی کہ آپ کے رُعب اور جلال کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل کبھی نہ دیکھی۔ ۵؎ یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو ان میں پیدا ہوا۔ اگر اس قسم کے لوگ پہلے زمانہ میں ہوسکتے تھے تو یقینا آج بھی ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔
پس مومن کو کبھی بھی فطرتِ انسانیہ پر بدظنی نہیں کرنی چاہئے خواہ وہ بدظنی اپنی ذات کے متعلق ہو اور خواہ دوسرے لوگوں کے متعلق۔ جب تک ہماری جماعت کے دوست اس نقص کو دور نہ کرلیں اُس وقت تک نہ ان کے گناہ دورہوسکتے ہیں اور نہ وہ تبلیغ میں پورے جوش سے حصہ لے سکتے ہیں۔ گناہوں سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان نہ اپنی ذات پر بدظنی کرے اور نہ خداتعالیٰ پر بدظنی کرے۔ دنیا میں مختلف کام مختلف میعاد کے اندر ہوتے ہیں۔ کوئی دس سال کے اندر ہوتا ہے، کوئی بیس سال کے اندر ہوتا ہے،کوئی تیس سال کے اندر ہوتا ہے، کوئی چالیس سال کے اندر ہوتا ہے، کوئی پچاس سال کے اندر ہوتا ہے۔ اسی طرح گناہوں سے بھی کوئی جلدی بچ جاتا ہے کوئی دیر میں بچتا ہے اور کوئی بہت ہی دیر میں بچتا ہے۔ اس کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ کوشش کرتا چلا جائے۔ اس سلسلہ میں اس کا اپنی کامیابی دیکھنا ضروری نہیں۔ ہاں باطنی کامیابی اسے فوراً حاصل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے ظاہر کو نہیں دیکھتا۔ جب کوئی شخص اپنی اندرونی صفائی کیلئے کوشش شروع کردیتا ہے تو خداتعالیٰ کے نزدیک وہ اُسی وقت کامیاب سمجھا جانے لگتا ہے گو دنیا کے نزدیک اس کی کامیابی میں ابھی کچھ دیر ہو۔ پس مومن کو بدظنی کے مرض سے بہت بچنا چاہئے۔ میں نے قریباً ہر قوم کے لوگوں سے مل کر دیکھا ہے کہ ان میں نیک اور شریف النفس لوگ پائے جاتے ہیں۔ ہندوئوں سے مجھے جب بھی ملنے کاموقع ہوا ہے میں نے ان کی اکثریت کو شرافت اور نیکی کی خواہش اپنے دل میں رکھنے والی پایا ہے اور ان میں سے اکثر کو سچائی کی جستجو ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر ان کے سامنے سچائی پیش کی جائے تو وہ اس کو قبول کرنے کی جرأت نہ کرسکتے ہوں۔ کیونکہ دل میں سچائی کے حصول کی تڑپ ہونا اور بات ہے اور سچائی کو کسی روک کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے قبول کرلینا اور بات ہے۔ لیکن بہرحال ملاقاتوں اور خطوط سے پتہ چلتاہے کہ ہندوئوں میں کثرت ایسے لوگوں کی ہے جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کی ایک تڑپ ہے اور یہی وہ چیز ہے جسے روحانیت کہتے ہیں۔ روحانیت خداتعالیٰ کو خوش کرنے کی تڑپ کانام ہے۔ جس کے اندر یہ تڑپ تھوڑی ہو اُس میں تھوڑی روحانیت ہوتی ہے اورجس میں یہ تڑپ زیادہ ہو اُس میں زیادہ روحانیت ہوتی ہے اور عدمِ روحانیت اس بات کا نام ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کو خوش کرنے کا خیال انسان کے دل میں نہ ہو۔ جو شخص خداتعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کے ماتحت کام نہیں کرتا وہ چاہے جتنی بھی نیکی کرے دنیا دار کہلاتا ہے۔ مگر وہ شخص جو خداتعالیٰ کی رضا کیلئے کوئی کام کرتا ہے وہ چاہے کتنی ہی حقیر نیکی کرے دیندار کہلائے گا۔ چنانچہ اگر کوئی شخص اس لئے چندہ دیتا ہے کہ اسے نام و نمود اور شہرت حاصل ہو، اُس کا جتھا مضبوط ہو، تو وہ دنیا دار کہلائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص صرف ایک پیسہ یا دو پیسے چندہ دیتا ہے مگر اس لئے دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو تو وہ روحانی آدمی کہلائے گا۔ یورپ میں آجکل لاکھوں نہیں کروڑوں روپے صدقہ و خیرات دینے والے موجود ہیں مگر کوئی شخص انہیں روحانی آدمی نہیں کہتا۔ کیونکہ ان کی غرض محض یہ ہوتی ہے کہ ہماری قوم مضبوط ہوجائے۔ ہمارا جتھا بڑا ہوجائے اور ہمیں دنیا میںعزت اور شہرت حاصل ہوجائے۔ اسی لئے وہ باوجود بڑی بڑی رقوم چندہ دینے کے دنیا دار کہلاتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کی رضاء اور خوشنودی کیلئے اگر کوئی چھوٹی سے چھوٹی رقم بھی چندہ میں دیتا ہے تو وہ روحانی آدمی کہلاتا ہے۔
تو میرا تجربہ یہ ہے کہ دنیا کے اکثر لوگوں میں روحانیت پائی جاتی ہے سوائے آوارہ گردوں اور اوباشوں کے بلکہ ان میں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہے جس کے اندر خشیت اللہ ہوتی ہے۔ لیکن اس طبقہ کو مستثنیٰ کرتے ہوئے میرا تجربہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو حقیقی آوارگی میں مبتلا ہوتے ہیں اُن کے سِوا دنیا کے ہر شخص میں کچھ نہ کچھ روحانیت ہوتی ہے مگر آوارگی کی تعریف جو میں کرتاہوں وہ دوسرے لوگوں سے مختلف ہے۔ میں چور کو آوارہ نہیں کہتا، میں ایک بدکار کو بھی آوارہ نہیں کہتا۔ آوارہ میرے نزدیک وہ ہے جو اپنے وقت کو رائیگاں کھوتا اور اسے ہنسی اور مخول میں ضائع کردیتا ہے۔ ایسے لوگوں میں ہرگز روحانیت نہیں پائی جاسکتی۔ میں نے چوروں میں بھی روحانیت دیکھی ہے ، میں نے بدکاروں میںبھی روحانیت دیکھی ہے مگرمیں نے ان لوگوں میں روحانیت نہیں دیکھی جو بیکار بیٹھے رہتے ہیں اور ہا ہا ہُوہُو کررہے اور لوگوں پر ہنسی اور تمسخر اُڑارہے ہوتے ہیں۔ بلکہ جرم کرنے والوں میں احساسِ گناہ اور احساسِ ندامت زیادہ ہوتا ہے جیسے بعض عبادت کرنے والوں میں کبر پیدا ہوجاتا ہے۔ مگر یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں۔ دنیا میں ہر گنہگار میں احساسِ ندامت نہیں ہوتا جیسے ہر عابد میں کبر نہیں ہوتا۔ یہ صرف بعض لوگوں کی قسمیں ہیں۔ بہرحال روحانیت ایک وسیع چیز ہے اورمیرے نزدیک نناوے فیصدی لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ صرف ایک فیصدی وہ لوگ ہیں جن پر دنیاداری کامل طور پر چھائی ہوئی ہوتی ہے اور روحانیت کے حصول کی کوئی خواہش ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔ مگر ایسے آدمی جیساکہ میں بتاچکا ہوں بہت کم ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ دہریہ بھی ایسے نہیں ہوتے۔ دہریہ انسان ایک خاص عمرمیں ہوتا ہے۔ مگر پھر جوں جوں اس کی عمر بڑھتی جاتی ہے اس کی دہریت بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ جن دہریوں سے مجھے ملنے کا اتفاق ہوا ہے ان میں ایک بھی ایسا نظر نہیں آیا جو چند سال گزرنے کے بعد اپنی دہریت پر قائم رہاہو۔ ایک نوجوان شخص جو ہندوستانی تھا ولایت میں مجھے ملا۔ وہ اُس وقت دہریت پر اتنا یقین اور وثوق رکھتا تھا کہ ہر وقت خداتعالیٰ کے وجود پر ہنسی اور تمسخر اُڑاتا رہتا تھا اور اُس کی دین سے بے بہرگی کی یہ کیفیت تھی کہ وہ ایک دفعہ کہنے لگا ہندوستانی اتنے بیوقوف ہوتے ہیں ، اتنے بیوقوف ہوتے ہیں کہ اب مجھے اپنے آپ کو ہندوستانی کہتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ اس پر ہندوستانیوں کی حماقت کی جو مثال اس نے مجھے سنائی وہ میں آپ لوگوں کو بھی بتاتا ہوں۔ اس سے آپ سمجھ سکیں گے کہ اس کی دینی حالت کیا تھی۔ وہ کہنے لگا ہم چند ہندوستانی دوست جب پہلے پہل تعلیم کیلئے ولایت آئے اور مارسیلز میں اُترے تو ایک دوست نے کہایہاں ایک میوزیم ہے، چلو دیکھ لیں۔ چنانچہ ہم سب میوزیم دیکھنے کیلئے چلے گئے۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی ہم وہاں سے ہاہا ہی ہی کرتے اور اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بھاگے۔ میں نے کہا کیا ہوا؟ کہنے لگا وہاںننگی تصویریں تھی جنہیں ہم دیکھتے ہی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر بھاگے۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ ننگی عورتیں دیکھ کر بھی ہمارے دل میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا۔ گویا اس نے بتایا کہ جب ہم ہندوستان سے آئے تھے تو اتنے جاہل تھے، اتنے جاہل تھے کہ ننگی تصویریں بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ حالانکہ تہذیب کا کمال یہ ہے کہ انسان ننگی عورتوں کو دیکھے تو اس کی آنکھ تک نہ جھپکے۔ یہ اس کے نزدیک تہذیب اور شرافت کا معیار تھا۔ مگر دس بارہ سال کے بعد وہ ایک دفعہ مجھے ہندوستان میں ملا، اُس وقت وہ ایک کالج کا پروفیسر تھا۔ میں نے اُس سے پوچھا بتائو اب تمہاری کیا حالت ہے؟ وہ کہنے لگا مذہبی آدمی تو میں ہوں نہیں لیکن میری اب وہ پہلی حالت نہیں رہی۔ چنانچہ طالب علموں سے پوچھ لیجئے جب خداتعالیٰ کے متعلق یہ کوئی اعتراض کرتے ہیں تو میں انہیں کہتا کہ میں بھی ان راستوں سے گزرچکا ہوں۔ مگر میرا تجربہ یہی ہے کہ مذہب کو تسلیم کئے بغیر اطمینانِ قلب حاصل نہیں ہوتا۔ اب دیکھو اُس کی یا تو وہ حالت تھی اور یا یہ حالت ہوگئی ۔ مگر اس کے اندر یہ تغیر کیوں ہوا؟ اسی لئے کہ کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلٰی فِطْرَۃِ الْاَسْلَامِ کے مطابق ایک فطرتی نیکی اس کے اندر موجود تھی جو بعد میں ظاہر ہوگئی۔ گویا فطرت پر پہلے ایک پالش چڑھا ہوا تھا مگر جب وہ پالش اُترگیا تو فطرت اپنی اصل حالت رونما ہوگئی ۔ تو گناہ اور بدی اور افتراء اور جھوٹ یہ ساری چیزیں ملمّع ہیں ورنہ اندرونی طور پر تمام انسان نیک ہوتے ہیں۔ جب تک ہم یہ نکتہ نہ سمجھ لیں کُلّی طور پر ہم اصلاحِ عالَم نہیں کرسکتے۔ یہ تو ممکن ہے کہ خداتعالیٰ کسی کی بداعمالی کی وجہ سے اُس کے متعلق یہ فیصلہ کردے کہ وہ جہنمی ہے مگر ایسی سزا بھی عارضی ہوگی، مستقل نہیں ہوگی۔ اگر یہ سزا مستقل ہوتی تو جہنم بھی مستقل ہوتا۔ مگر خداتعالیٰ نے جہنم کو مستقل نہیں رکھا بلکہ جنت کو مستقل رکھا ہے اور اس طرح ہمیں بتایا ہے کہ نیکی مستقل چیز ہے اور بدی عارضی چیز۔
جب ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعلیم ایسی اعلیٰ ملی ہے تویہ کتنے بڑے تعجب کی بات ہوگی۔ اگر وہی قوم جس کے سپرد اصلاحِ عالَم کا کام ہو تھک جائے اورکہے کہ لوگ اس کی بات نہیں مانتے۔ یا اس لئے ہمت ہار کر بیٹھ جائے کہ وہ نیکی حاصل نہیں کرسکتی۔ یا اگر اس نے خود نیکی حاصل کرلی ہے تو وہ دوسروں کے متعلق یہ خیال کرلے کہ وہ نیک نہیں بن سکتے۔ وہ کیوں یہ خیال نہیں کرتی کہ اور لوگ خداتعالیٰ کے سوتیلے بیٹے نہیں۔ وہ بھی اس کی مخلوق ہیں اور ان سے بھی خداتعالیٰ محبت اور پیار رکھتا ہے۔ اگر وہ ان کی اصلاح کی کوشش کرتے رہیں تو یقیناایک وقت ایسا آجائے گا جبکہ وہ ہدایت پاجائیں گے۔ تو مومن کو اپنی فطرت کی نیکی پر پورا بھروسہ اور یقین رکھنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نے کہا مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ ۶؎ بعض لوگ اسے حدیث قرار دیتے ہیں۔ بعض اسے آثار میں سے قرار دیتے ہیں لیکن جو بھی ہو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس میں ایک نکتۂ معرفت بیان کیا گیا ہے۔ بعض لوگ اس سے وحدت وجود کا استدلال کرتے ہیں مگر یہ بالکل غلط ہے۔ اس میں جو کچھ بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر انسان اپنی فطرت کو سمجھ لے تو اسے خدا ضرور مل جاتا ہے۔ جب ایک انسان اس یقین پر قائم ہوجائے کہ میری فطرت خداتعالیٰ نے نیک بنائی ہے اور مجھے اس نے اس لئے بنایا ہے کہ اس کا وصال مجھے حاصل ہو تو فطرت کو خداتعالیٰ نے ایسا طاقتور بنایا ہے کہ اس یقین کے بعد وہ شیطان سے شکست نہیں کھا سکتا۔ اور جو شخص شیطان سے نہیں ہارتا جنت اس کا ورثہ ہوتا اور جنت کا وہ ٹھیکیدار ہوجاتا ہے۔ پھر جب اسے اس بات پر یقین ہوجاتا ہے کہ دو سرے لوگوں کی بھی اصلاح ہوسکتی ہے تو وہ اس یقین کے بعد دوسروں کیلئے اپنی جان قربان کرنے کیلئے بھی تیار ہوجاتا ہے اور ہر رنگ میں انہیں فائدہ پہنچانے کی کوشش اور سعی کرتا ہے۔ کیونکہ وہ یقین رکھتاہے کہ یہ لوگ بچ جائیں گے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی گھر کو آگ لگی ہوئی ہو اور چاروں طرف سے اس کے شعلے نکل رہے ہوں۔ اور انسان یہ سمجھ لے کہ اب اس گھر کے آدمیوں میں سے ہم کسی کو نکال نہیں سکتے۔ تو وہ واقعہ میں کسی آدمی کونہیں نکال سکتا۔ لیکن جب کوئی شخص ایک عزم اور ارادہ کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے اور کہتا ہے میں کوشش تو کروں ممکن ہے بعض لوگوں کو مَیں نکال لائوں تو وہ آگ کے اندر داخل ہوکر بعض لوگوں کو واقعہ میں بچالیتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کو یقین ہو کہ لوگوں کی اصلاح ہوسکتی ہے اور پھر وہ اپنی کوششیں جاری رکھتا ہے تو اس کی تبلیغ بہت زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص یقین سے خالی دل لے کر جاتا ہے اور لوگوں کو سمجھاتا ہے تو اس کی تبلیغ میں کیا اثر ہوسکتا ہے۔ چنانچہ بعض لوگ گو تبلیغ کیلئے جاتے ہیں مگر اُن کا دل یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ لوگوں نے تو ماننا ہی نہیں۔ اس طرح جب وہ لوگوں پر بدظنی کرتے ہیں اور اپنے خدا پر بھی بدظنی کرتے ہیں تو ان کی تبلیغ میں کوئی برکت نہیں رہتی اور وہ خالی ہاتھ گھر واپس آجاتے ہیں۔ آخر کیا فرق ہے انبیاء کی تبلیغ اوردوسرے لوگوں کی تبلیغ میں۔ کیا فرق ہے اولیاء کی تبلیغ اور دوسرے لوگوں کی تبلیغ میں۔ کیا فرق ہے مومنوں کی تبلیغ اور دوسرے لوگوں کی تبلیغ میں۔ فرق یہی ہے کہ مومن جب بولتا ہے تو اس یقین اور وثوق سے بولتا ہے کہ میں دنیا کو ہِلادوں گا۔ میرے سامنے اگر پہاڑ بھی آئے تومیں اسے اُڑادوں گا۔ اور جو مخالف میرے سامنے ہے اس کی مجال نہیں کہ میرے ہاتھ سے جاسکے۔ وہ میرا شکار ہے جو کہیں اور نہیں جاسکتا۔ میں اس کی بدی کا چولہ پھاڑ دوں گا اور اس کی حقیقی نیکی جو اس کی فطرت میں مرکوز ہے نکال کر باہر رکھ دوں گا۔ لیکن دوسرا جب تبلیغ کرتا ہے تو دل میں یہ بھی کہتا جاتا ہے کہ میں یونہی تبلیغ کررہا ہوں ورنہ اس نے ماننا تو ہے نہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے قلب کا اثر دوسرے شخص کے قلب پر بھی جاپڑتا ہے اوروہ بھی کہتا ہے کہ یہ بے شک تبلیغ کرلے میں نے اس کی بات نہیں ماننی۔ لیکن دل کے اندر سے نکلی ہوئی بات دوسرے کے دل پر اثر کئے بغیر نہیں رہتی اور انسان خواہ کس قدر مخالف ہو اس سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور اس میں انبیاء اور اولیاء کی کوئی تخصیص نہیں۔ عام مومن پر بھی جب اس قسم کا وقت آتا ہے تو اس کے ذریعہ قلوب میں ایسا تغیر پیدا ہوجاتا ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت آتی ہے۔
رسول کریم ﷺ کے زمانہ کی ایک مثال ہے جو اس امر کو خوب واضح کردیتی ہے ۔ حضرت عمرؓ اسلام کے سخت دشمن تھے۔ اتنے دشمن کہ وہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کو قتل کرنے کی نیت سے گھر سے چل پڑے۔ مگر ابھی رستہ میں ہی تھے کہ کسی نے ان سے پوچھا عمرؓ کہا جارہے ہو ؟وہ کہنے لگے محمد (ﷺ) کا کام تمام کرنے چلا ہوں۔ اس نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ وہ کہنے لگا اعتبار نہیں تو گھر جاکر دیکھ لو۔ چنانچہ وہ اپنے بہنوئی کے گھر گئے، دیکھا تو دروازہ بند تھا اور اندر انہوں نے ایک صحابی کو بُلایا ہوا تھا جس سے وہ قرآن مجید سن رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے دستک دی، انہوں نے دروازہ کھولا تو حضرت عمرؓ اندر داخل ہوگئے اور پوچھا کہ بتائو کیا ہورہا تھا؟ انہوںنے کہا کچھ نہیں۔ وہ کہنے لگے کہ کچھ کیوں نہیں کوئی بات ضرورت ہے اور میںنے سنا ہے تم مسلمان ہوچکے ہو۔ یہ کہتے ہوئے وہ غصہ میں آگے بڑھے تاکہ اپنے بہنوئی کوماریں۔ جب وہ مارنے لگے تو ان کی بہن اپنے خاوندکی محبت کے جوش میں ان کو بچانے کیلئے بیچ میں آگئیں۔ اہلِ عرب کی یہ فطرت نہیں تھی کہ وہ عورت پر ہاتھ اٹھائیں۔ مگر حضرت عمرؓ چونکہ اپنے بہنوئی پر ہاتھ اُٹھاچکے تھے اس لئے روک نہ سکے اور ضرب ماردی جو بجائے اپنے بہنوئی کے ان کی بہن کو جالگی اور ان کے جسم سے خون ٹپکنے لگا۔ یہ دیکھ کر ان کی بہن جوش میں آگئیں اور انہوں نے کہا عمرؓ! پھر ہم مسلمان ہوچکے ہیں تم سے جو کچھ ہوسکتا ہے کرلو۔معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے ڈرکی وجہ سے مسلمان عام طور پر ان سے کھل کر گفتگو نہیں کرتے تھے۔ مگر اُس دن جب انہوں نے یقین اور وثوق سے بھرے ہوئے یہ الفاظ سُنے کہ تم نے جو کرنا ہے کرلو ہم مسلما ن ہوچکے ہیں اور اب اسلام کو ہم ہرگز چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ تو گو یہ الفاظ ایک کمزور فطرت عورت کے منہ سے نکلے تھے جو عام طور پر دوسرے کی حفاظت چاہتی ہے مگر جب اس عورت نے یہ کہہ دیا کہ میں عورت ہو کر یہ کہتی ہوں کہ اب ہم اسلام پر قائم ہوچکے ہیں تم نے جو کرنا ہے کر لو تو یہ یقین اور وثوق ان کے دل کو کھا گیا اور انہوں نے کہا اچھا مجھے بھی بتائو کہ تم کیا سُن رہے تھے۔ انہوںنے کہا تم قسم کھائو کہ اس کی بے ادبی نہیں کرو گے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ میں بے ادبی نہیں کروں گا۔ آخر انہوں نے اُس صحابی کو جسے انہوںنے مکان میں پوشیدہ کردیاتھا اندر سے بُلایا اور قرآن شریف سنانے کیلئے کہا۔ انہوں نے قرآن کریم کی چند آیات پڑھ کر سنائیں۔ چونکہ وہ اس سے پہلے اسلام کی صداقت کے متعلق ایک یقین اور وثوق کا نظارہ دیکھ چکے تھے اور وہ یہ یقین بھری تبلیغ سن چکے تھے کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے مگر اسلام کونہیں چھوڑیں گے اور اس قسم کی تبلیغ انہیں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی، اس لئے قرآن کریم سنتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہاں سے اُٹھ کر سیدھے رسول کریم ﷺ کی مجلس میں پہنچے۔ بعض صحابہ اور رسول کریم ﷺ ایک مکان میں بیٹھے ہوئے تھے اور دروازہ بند تھا کہ حضرت عمرؓ نے دستک دی۔ آپ نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا عمر۔ صحابہ نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! یہ شخص بڑا خطرناک اور لڑاکا ہے دروازہ نہیں کھولنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کی کوئی بے ادبی کرے۔ مگر حضرت امیر حمزہؓ نے جو رسول کریم ﷺ کے چچا تھے اور بڑے بہادر انسان تھے کہا دروازہ کھولو، ڈر کی کونسی بات ہے۔ اور رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا کہ کھول دو۔ جب صحابہ نے دروازہ کھولا تو رسول کریم ﷺ ان کا استقبال کرنے کیلئے دروازہ تک تشریف لے گئے اور جب حضرت عمرؓ اندر داخل ہوئے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا اے عمرؓ! کیا اب تک تمہاری ہدایت کا وقت نہیں آیا؟ وہ اُدھر اپنی بہن کے ایمان کانظارہ دیکھ کر آئے تھے ، اِدھر رسول کریم ﷺ کا جب یہ فقرہ انہوں نے سنا تو ان کا جسم سر سے لے کر پیر تک ہِل گیا۔ کیونکہ اس فقرہ میں گو بظاہر دو چار لفظ ہیں مگر کیسا یقین اور وثوق ہے جو ان الفاظ سے ٹپک ٹپک کر ظاہر ہورہاہے کہ جس سچائی اور صداقت کو میں لے کر دنیا میں آیاہوں اسے جلد یا بدیر دنیا مان کر رہے گی اور ہر ایک کاایک وقت ہے جس میں اسے ہدایت ملے گی۔ مگر اے عمر! کیا تیرا وقت ابھی نہیں آیا؟ اس فقرہ کا سننا تھا کہ حضرت عمرؓ کے دل سے رہی سہی میل بھی دور ہوگئی ۔ عمر جیسے سخت گیر انسان پر بے انتہا رقت طاری ہوگئی۔ بے اختیار ان کی چیخیں نکل گئیں اور وہ کہنے لگے یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! میں تو خام ہونے کیلئے آیا ہوں۔۷؎
دیکھو یہ یقین کا اثر ہے جو حضرت عمر ؓ پر ظاہر ہوا اور جس نے ان کے اندر ایک عظیم الشان تغیر پیدا کردیا۔ وہ پہلے بھی وہی قرآن سنتے تھے جو انہوں نے بعدمیں سنا مگر جب ان کے کانوں میں ایک عورت کی یہ آواز پہنچی کہ میں ہر قربانی کرنے کیلئے تیار ہوں مگر اسلام کو ترک کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ادھر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقرہ سنا کہ جس سچائی کو میں لے کر آیا ہوں ایک دن دنیا اسے ماننے پرمجبور ہوگی وہ اسے قبول کئے بغیر رہ نہیں سکتی۔ گویا واقعات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے رنگ میں پیش کیا کہ جس میں شک اور شبہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ تو اس یقین اور وثوق نے حضرت عمرؓ کی حالت بالکل بدل ڈالی۔
اسی طرح تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک شریر اور مفسد شخص تھا جو گو مسلمان کہلاتا تھا مگر اسلامی احکام پر ہمیشہ ہنسی اور تمسخر اُڑاتا رہتا۔ لوگ اسے بہت سمجھاتے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ کئی سال کے بعد ایک دفعہ لوگوںنے اسے دیکھا کہ وہ حج کررہا ہے ۔ یہ دیکھ کر لوگ اس کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ تُو توحج پر ہنسی کرتا اورمخول اُڑایا کرتا تھا مگر آج تُو خود حج کرنے کیلئے آگیا یہ تغیر تیرے اندر کس طرح پیدا ہوگیا؟ وہ کہنے لگابے شک آپ لوگ مجھے سمجھایا کرتے تھے مگر ہدایت کا کوئی خاص وقت ہوتا ہے۔ ایک دن کا ذکر ہے میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ گلی میں سے ایک شخص گذرا جونہایت ہی دردناک لہجہ میں یہ آیت پڑھتا جارہا تھا کہ اَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذکْرِاللّٰہِ ۸؎ کہ کیا مومنوں کیلئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ڈر سے بھر جائیں۔ معلوم نہیں اُس کے دل کی اس وقت کیا کیفیت تھی اور اس کے اندر کس قدر سوز اور درد بھرا ہوا تھا کہ میں یہ آیت سنتے ہی تڑپ اُٹھا اور میں اپنے گناہوں سے توبہ کرکے حج کیلئے چل پڑا۔ تو صداقت اور یقین سے جو تبلیغ کی جاتی ہے اس میں اور دوسری باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتاہے اور یہی وہ باتیں ہوتی ہیں جو دوسرے کے قلب کو بالکل صاف کردیتی ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک جنگ سے واپس تشریف لائے تو ایک دشمن جس کے دو رشتے دارمسلمانوں کے ہاتھوں لڑائی میں مارے گئے تھے اس نے اپنی تلوار لی اور رسول کریم ﷺ کے تعاقب میں چل پڑا۔ ایک جنگل میں جب اسلامی لشکر پہنچا تو تمام لوگ آرام کرنے کیلئے اِدھر اُدھر منتشر ہوگئے۔ صحابہؓ گو رسول کریم ﷺ کا ہمیشہ پہرہ رکھتے تھے مگر اُس وقت انہوں نے خیال کیا کہ یہاں جنگل میں کون دشمن آنے لگا ہے اور سب اِدھر اُدھر درختوں کے نیچے سوگئے۔ رسول کریم ﷺ نے بھی اپنی تلوار ایک درخت کی شاخ میں لٹکادی اور آرام کرنے کیلئے اُس درخت کے نیچے سوگئے۔ وہ شخص جو تعاقب میں تھا اسی موقع کا منتظر تھا ۔ وہ جھٹ ایک جھاڑی کے پیچھے سے نکلا اور رسول کریم ﷺ کی تلوار اُس نے اُٹھالی۔ آہٹ پاکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی۔ اُس نے جب آپ کوجاگتے دیکھا تو تلوار سونت کرکہنے لگا بتا اب تجھے کون بچاسکتا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے لیٹے لیٹے ایک اطمینان اور یقین سے فرمایا کہ اللہ۔ اللہ کا لفظ لوگ ہزاروں دفعہ استعمال کرتے ہیں مگر کون ہے جس کے الفاظ میں وہ اثر ہو جو رسول کریم ﷺ کے الفاظ میں تھا۔ آپ نے جس یقین اور وثوق سے یہ لفظ استعمال کیا، وہ تلوار سے زیادہ تیزی کے ساتھ اس کے دل میں اتر گیا۔ اور اس کا ایسا اثر اس پر پڑا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ رسول کریم ﷺ نے فوراً وہ تلوار اُٹھ کر پکڑ لی اور پھر اُس کے سر پر تلوار کھینچ کر فرمایابتا اب تجھے کون بچاسکتا ہے؟ اس نے جواب دیا آپ ہی رحم کریں تو کریں۔ آپ نے فرمایا اے نادان! تُو نے پھر بھی سبق حاصل نہ کیا۔ کم از کم مجھ سے سن کر ہی تُو یہ کہہ دیتا ہے اللہ مجھے بچائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یا تو وہ رسول کریم ﷺ کو قتل کرنے کیلئے آیا تھااور یا وہیں مسلمان ہوگیا۔۹؎
تو دل سے نکلی ہوئی جو بات ہو اس کا رنگ بالکل اور قسم کا ہوا کرتا ہے لیکن اگر کسی کو اپنی بات پر ہی یقین نہ ہو تو اس نے اثر کیا کرناہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک قوم میں سے صرف ایک بہادر آدمی اُٹھتا اور ساری قوم کو زندہ کردیتا ہے۔ لیکن کئی آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے مگر جب گھر سے نکلتے ہیں تو ایک قدم ان کا آگے اُٹھتا ہے اور ایک پیچھے۔ ایسے آدمیوں کا اپنی قوم میں کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ لوگ انہیں ذلیل اور حقیر سمجھتے ہیں۔ پس کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے فطرتِ انسانی پر انسان کو کبھی بدگمانی نہیں کرنی چاہئے۔ یہ امر اچھی طرح یاد رکھو کہ ہر قوم میں نیکی پائی جاتی ہے۔ نیکی پر تمہارا کوئی ٹھیکہ نہیں۔ ہاں کامل ہدایت بیشک تمہارے سِواء اِس وقت کسی اور کے پاس نہیں مگر فطرتی نیکی سے نہ ایک ہندو محروم ہے، نہ سکھ محروم ہے، نہ عیسائی محروم ہے، نہ یہودی محروم ہے۔ یہی چیز ہے جو انسان کو ہدایت کی طرف لاتی ہے۔ اور فطرتی نیکی کا انسان کے ساتھ ایسا ہی تعلق ہے جیسے انسان کے ساتھ اس کے پیروں کا۔ پیر جب چلتے ہیں تب تم اپنے کسی رشتہ دار یا دوست سے مل سکتے ہو۔ نہ چلیں تو نہیں مل سکتے۔ اسی طرح فطرتی نیکی ہی ہے جو کامل ہدایت تک پہنچاتی ہے یہ نہ ہو تو کامل ہدایت کسی انسان کو نہ مل سکے۔
پس بے شک خداتعالیٰ کی کامل اور حقیقی محبت تمہارے دلوں میں ہی ہے مگر اس کی محبت کی جو جستجو اور تڑپ ہے۔ وہ ہر ایک شخص کے دل میں پائی جاتی ہے۔پس اپنے آپ پر بھی بدظنی نہ کرو اور دوسروں پر بھی بدظنی نہ کرو۔ اور یا درکھو کہ اگر تم اس نکتہ کو سمجھ جائو تو تم اپنی بھی اصلاح کر لو گے اور دوسروں کی بھی کیونکہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ جس نے اپنی ذات کو نہیں پہچانا اس نے خدا کو بھی نہیں پہچانا۔ اور جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا اس نے خدا کو بھی پہچان لیا۔ جس نے یہ سمجھا کہ میں گندہ ہوں اور خداتعالیٰ کو نہیں مل سکتا وہ چونکہ اپنے آپ پر اور اپنے خدا پر بدظنی کرتا ہے اس لئے واقعہ میں ا س کی محبت سے محروم رہتا ہے۔ مگر وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ ہر شخص کو خداتعالیٰ نے اسی لئے بنایا ہے کہ اس کی رضا کا وارث ہو اور اس کی محبت کا حامل، اسے خداتعالیٰ بہرحال مل جاتا ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ اپنے متعلق اور دوسرے لوگوں کے متعلق بدظنی کے مرض کو دور کرے اور اپنے اندر ایک یقین اور وثوق پیدا کرے۔ تب ہی اس کے اندر اُمنگیں پیدا ہوں گی اور تب ہی یہ لوگوں کی اصلاح کے کام میں کامیاب ہوگا اور اگر یہ نہ ہو تو انسان کی تمام کوششیں رائیگاں اور فضول چلی جاتی ہیں۔
(الفضل ۲؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الاعلٰی: ۱۰
۲،۳؎ بخاری کتاب الجنائز باب ماقیل فی اولاد المشرکین میں یہ الفاظ ہیں۔ کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ اوینصرانہ اویمجسانہٖ
۴؎ مسلم کتاب التوبۃ باب قبول التوبۃ …الخ
۵؎ مسلم کتاب الایمان باب کون الاسلام یھدم ماقبلہ … الخ
۶؎ موضوعات ملاعلی قاری صفحہ۷۲ مطبوعہ دھلی ۱۳۴۶ھ
۷؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۳۶۶ تا ۳۷۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۸؎ الحدید: ۱۷
۹؎ شرح مواہب اللدنیہ جلد۲ صفحہ۵۳۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء
 
Top