• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 19

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 19


۱
آلہ نشر الصَّوت شرک کے عقیدہ پر کاری ضرب ہے
(فرمودہ ۷؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اُس خدا کا بے انتہا ء شکر ہے جس نے ہر زمانہ کے مطابق اپنے بندوں کیلئے سامان بہم پہنچائے ہیں۔ کبھی وہ زمانہ تھا کہ لوگوں کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک چل کر جانا بہت مشکل ہؤا کرتا تھا اور اس وجہ سے بہت بڑے اجتماع ہونے ناممکن تھے لیکن آج ریلوں، موٹروں، لاریوں، بسوں، ہوائی جہازوں اور عام بحری جہازوں کی ایجاد اور افراط کی وجہ سے ساری دُنیا کے لوگ بسہولت کثیر تعداد میں قلیل عرصہ میں ایک مقام پر جمع ہوسکتے ہیں اور اس وجہ سے موجودہ زمانہ میں کسی انسان کی یہ طاقت نہیں کہ وہ موجودہ زمانہ کے لحاظ سے عظیم الشان اجتماعات میں تقریر کرکے اپنی آواز تمام لوگوں تک پہنچاسکے۔
پس خدا نے جہاں اجتماع کے ذرائع بہم پہنچائے وہاں لوگوں تک آواز پہنچانے کا ذریعہ بھی اُس نے ایجاد کروادیا اور ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ شکر ہے اُس پروردگار کا جس نے اِس چھوٹی سی بستی میں جس کا چند سال پہلے کوئی نام بھی نہیں جانتا تھا اپنے مامور کو مبعوث فرما کر اپنے وعدوں کے مطابق اس کو ہر قسم کی سہولتوں سے متمتع فرمایا یہاں تک کہ ہم اب ہم اپنی اس مسجد میں بھی وہ آلات دیکھتے ہیں جو لاہور میں بھی لوگوں کو عام طور پر میسر نہیں ہیں۔ آج اِس آلہ کی وجہ سے اگر اس سے صحیح طور پر فائدہ اٹھایا جائے تو ایک ہی وقت میں لاکھوں آدمیوں تک بسہولت آواز پہنچائی جاسکتی ہے اور ابھی تو ابتداء ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اِس آلہ کی ترقی کہاں تک ہوگی۔ بالکل ممکن ہے اِس کو زیادہ وسعت دے کر ایسے ذرائع سے جو آج ہمارے علم میں بھی نہیں میلوں میل یا سینکڑوں میل تک آوازیں پہنچائی جاسکیں اور وائرلیس کے ذریعہ تو پہلے ہی ساری دنیا میں خبریں پہنچائی جاتی ہیں۔ پس اب وہ دن دور نہیںکہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہؤا ساری دنیا میں درس و تدریس پر قادر ہوسکے گا۔ ابھی ہمارے حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے ، ابھی ہمارے پاس کافی سرمایہ نہیں اور ابھی علمی دِقتیں بھی ہمارے راستہ میں حائل ہیں لیکن اگر یہ تمام دِقتیں دُور ہوجائیں اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیں ترقی دے رہا ہے اور جس سُرعت سے ترقی دے رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب زمانہ میں ہی تمام دِقتیں دُور ہوجائیں گی۔ تو بالکل ممکن ہے کہ قادیان میں قرآن اور حدیث کا درس دیا جارہا ہو اور جاوا کے لوگ اور امریکہ کے لوگ اور انگلستان کے لوگ اور فرانس کے لوگ اور جرمن کے لوگ اور آسٹریا کے لوگ اور ہنگری کے لوگ اور عرب کے لوگ اور مصر کے لوگ اور ایران کے لوگ اور اسی طرح اور تمام ممالک کے لوگ اپنی اپنی جگہ وائرلیس کے سیٹ لئے ہوئے وہ درس سن رہے ہوں۔ یہ نظارہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوگا اور کتنے ہی عالیشان انقلاب کی یہ تمہید ہوگی کہ جس کا تصور کرکے بھی آج ہمارے دل مسرت و انبساط سے لبریز ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد میں آج اس آلہ کے لگائے جانے کی تقریب کے موقع پر سب سے بہتر مضمون یہی سمجھتا ہوں کہ میں شرک کے متعلق کچھ بیان کروں کیونکہ یہ آلہ بھی شرک کے موجبات میں سے بعض کو توڑنے کا باعث ہے۔
جو لوگ خداتعالیٰ کی توحید کے قائل نہیں یا جو لوگ بعض اور ذرائع کو بیچ میں لانا چاہتے ہیں، ان کے اس عقیدہ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ ان کا دماغ یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھا کہ ایک ہستی ایسی بھی ہے جو سب دنیا کو دیکھ رہی اور سب لوگوں کی آوازوں کو سُن رہی ہے۔ پس وہ خیال کرتے تھے کہ بعض ایسے درمیانی واسطوں کی ضرورت ہے جن میں خدائی طاقتیں تقسیم ہوں اور جو اپنی اپنی جگہ اُس کی طاقتوں کو استعمال کررہے ہوں۔ اسلامی فلاسفروں نے بھی اِسی مقام پر آکر دھوکا کھایا ہے اور یورپین فلاسفر بھی اس دھوکا کا شکار ہوگئے اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ خداتعالیٰ کی طاقتوں کا اندازہ اپنی طاقتوں کے لحاظ سے کرتے تھے۔ اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۔۱؎ ان لوگوں نے خداتعالیٰ کی طاقتوں کا صحیح اندازہ نہیں لگایا بلکہ انسانی طاقتوں پر خداتعالیٰ کی طاقتوں کا قیاس کرلیا۔ جب انہوںنے دیکھا کہ انسان جب ایک طرف نگاہ کرتے ہیں تو دوسری طرف کی چیزیں انہیں نظر نہیں آتیں تو انہوں نے خیال کرلیا کہ خداتعالیٰ کی نظر بھی محدود ہے۔ پھر جب انسانوں نے دیکھا کہ ہم ہر جگہ کی آواز ایک وقت میں نہیں سُن سکتے تو خیال کرلیا کہ خداتعالیٰ بھی ہر جگہ کی آواز ایک وقت میں نہیں سُن سکتا۔
غرض انسانی طاقتوں پر خدائی طاقتوں کا جب انہوں نے قیاس کیا تو انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ خداتعالیٰ کے بعض شریک مقرر کریں۔ اسی خیال کے نتیجہ میں فلسفیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ کو کُلّی علم ہے جُزئی نہیں۔ یعنی اسے یہ تو پتہ ہے کہ انسان روٹی کھایا کرتا ہے مگر اسے یہ پتہ نہیں کہ زید اس وقت روٹی کھارہا ہے۔ اُسے یہ تو علم ہے کہ انسانوں کے گھر میں بچے پیدا ہؤا کرتے ہیں مگر اسے یہ علم نہیں کہ اِس وقت زید یا بکر کے گھر میں بچہ پیدا ہورہا ہے۔ مسلمانوں میں اس نہایت ہی گندے اور خبیث عقیدہ کو رائج کرنے والا ابن رشدہسپانوی ہؤا ہے۔ اس کی ذات عجیب قسم کے متضاد خیالات کا مجموعہ تھی۔ یہ بڑا فقیہہ بھی تھا اور اس نے فقہ کے متعلق بعض اچھی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔ پھر قاضی بھی تھا اور ایک وسیع علاقہ پر اس کو قضاء کا اختیار تھا۔ گویا ایک قسم کا چیف جج تھا۔ پھر نمازیں بھی ادا کرلیا کرتا تھا بلکہ جب اس کے خلافِ اسلام عقائد کی وجہ سے بادشاہ نے اسے عُہدئہ قضاء سے برطرف کردیا اور مسلمانوں میں اس کے خلاف جوش پیدا ہؤا تو اُس وقت اُسے جو تکالیف پہنچیں اِن تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اور تکالیف کا مجھے اتنا رنج نہیں جتنا مجھے اِس بات کا ہے کہ میں جمعہ کے دن مسجد میں نماز پڑھنے گیا تو لوگوں نے مجھے مسجد سے نکال دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو صرف رسمی نماز کی عادت نہیں تھی بلکہ وہ واقعی نماز کی اہمیت کو سمجھتا تھا۔ اب ایک طرف نماز کی اہمیت کو سمجھنا جس میں ہر شخص کو براہ راست خداتعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے اور جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ خداتعالیٰ ہر فرد کی آواز سنتا ہے اور دوسری طرف یہ کہنا کہ خداتعالیٰ کو کُلّی علم ہے جُزئی علم نہیں، اتنی متضاد باتیں ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت آتی ہے اور دونوں میں سے ایک بات ضرور بناوٹ معلوم ہوتی ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ یہ دونوںباتیں اس کی اپنی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ اگر اس کی اپنی کتابوں میں یہ باتیں موجود نہ ہوتیں تو ہم سمجھتے کہ ابن رشد کی طرف جو فلسفہ منسوب کیا جاتا ہے وہ غلط ہے۔ مگر ابن رشد کا فلسفہ بھی اس کی اپنی کتابوں میں پایا جاتا ہے اور دینداری کی باتیں بھی اس کی اپنی کتابوں میں موجود ہیں اور اس کی فقہ کی کتابیں آج تک مسلمانوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔
غرض وہ متضاد خیالات کا مجموعہ تھا اور اسی کا یہ فلسفہ تھا کہ خداتعالیٰ کو مخلوق کا کُلّی علم ہے جُزئی نہیں۔ یورپ کے موجودہ فلسفہ پر اس کے فلسفہ کا نہایت گہرا اثر ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا دادا یہودی سے مسلمان ہؤا تھا اور سپین اور فرانس کے یہودی علماء قومی تعلق کی وجہ سے اس کی کتابوں کا بہت درس دیا کرتے تھے اور چونکہ ابتداء میں علومِ جدیدہ کا رواج ہسپانیہ کے یہودیوں اور عیسائیوں کے ذریعہ سے ہؤا ہے، اس لئے سارے سپین میں اس کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں اور سَو سال قبل تک بھی یورپ کی یونیورسٹیوں میں اس کی کتابیں پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ اس لئے موجودہ فلسفہ بہت حد تک اس کے خیالات سے متأثر ہے۔
غرض یہ خیال کہ خداتعالیٰ ہر چیز کو نہیں جانتا اِس کی بنیاد اِسی امر پر ہے کہ انسان اپنی محدود طاقتوں سے خداتعالیٰ کی طاقتوں کا اندازہ لگاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ جب انسان ہر چیز کو نہیں دیکھ سکتا، جب انسان تمام دنیا کی آوازوں کو نہیں سن سکتا، تو خدا کس طرح تمام چیزوں کو دیکھ سکتا اور تمام آوازوں کو سُن سکتا ہے اور اس طرح وہ سمجھتا ہے کہ خداتعالیٰ کا علم اور خداتعالیٰ کا دیکھنا اور خداتعالیٰ کا سُننا سب انسانوں کی طرح ہے اور جس طرح انسان کو درمیانی واسطوں کی ضرورت ہے اسی طرح خداتعالیٰ کو بھی درمیانی واسطوں کی ضرورت ہے۔ مگر آج دیکھو! وہ کمزور انسان جو خداتعالیٰ کی طاقتوں کو گِرارہے تھے انہیں خدانے کہا تم تو ہماری طاقتوں کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ آئو میں تمہاری اپنی طاقتوں کو اُبھارتا اور تمہیں بتاتا ہوں کہ تم اپنی آواز کو کہاں کہاں تک پہنچاسکتے ہو اور تم کتنے دُور دُور مقام کی آواز بخوبی سن سکتے ہو۔ چنانچہ اُس نے وائرلیس ایجاد کرواکے بتادیا کہ جب تمہارے جیسی ذلیل، ناپاک اور حقیر ہستی ساری دنیا کی آوازیں وائرلیس کے ذریعہ سُن سکتی اور ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچاسکتی ہے تو کیا وہ خدا جو تم کو پیدا کرنے والا ہے وہ تمہاری آوازیں نہیں سن سکتا۔ پس اسی فلسفہ کی تعلیم کے نتیجہ میں جن علوم نے ترقی کی، آج ان علوم کے ذریعہ جب انگلستان کا ایک ڈوم یا میراثی یا ایک گانے والی کنچنی جب ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچارہی ہوتی ہے تو فضا کی ہر حرکت اور آواز کی ہر جُنبش یورپ کے فلسفیوں پر قہقہے لگارہی ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ کم بختو! اب بتائو کیا خدا ساری دنیا کی آوازیں نہیں سُن سکتا؟
اسی طرح اب دُوربینیں نکل چکی ہیں جن سے دُور دُور کی چیزیں دیکھی جاسکتی ہیں اور اب تو وائرلیس نے ترقی کرتے کرتے یہ صورت اختیار کرلی ہے کہ شکلیں بھی دُور دُور تک دکھادی جاتی ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ قریب زمانہ میں جرمن میں بیٹھا ہؤا شخص جب انگلستان کے ایک شخص سے گفتگو کررہا ہوگا تو نہ صرف اس کے الفاظ وہاں پہنچیں گے بلکہ ساتھ ہی اُس کی تصویر بھی آجائے گی اور یوں معلوم ہوگا گویا آمنے سامنے بیٹھ کر دونوں گفتگو کررہے ہیں۔ اِس وقت بھی یورپ کے بعض ممالک میں ریڈیو کی ایک دوسری قسم عمل کررہی ہے۔ جس میں آواز کے ساتھ وہاں کا نظارہ بھی آجاتا ہے مگر ابھی اس کا دائرہ عمل محدود ہے۔ سَو میل سے زیادہ ایسا نہیں کرسکتے۔
اس ایجاد کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ جب ترقی کرجائے گی تو دنیا بھر میں آواز کے ساتھ نظارے اور تصویریں بھی ایک ہی ساتھ پہنچائی جاسکیں گی۔ مثلاً انگلستان میں کوئی شاہی جلوس نکلا یا ولایت میں تاج پوشی کی تقریب ہوئی تو نہ صرف ہندوستان کے لوگ وہاں کے لوگوں کی آوازیں سُن سکیں گے بلکہ ساتھ کے ساتھ نظارہ بھی دیکھتے جائیں گے اور انہیں یوں معلوم ہوگا کہ گویا وہ لنڈن میں موجود ہیں۔ بادشاہ گزررہا ہے اور اس کے ساتھ فلاں فلاں تزک و احتشام کا سامان ہے۔ اس کے متعلق وہاں تجربے شروع ہوگئے ہیں اور پچاس سَو میل کے اندر اس قسم کے نظارے دکھائے جانے شروع ہوگئے ہیں۔ گویا آواز کے ساتھ نظارہ کا انتقال بھی شروع ہوگیا ہے اورآئندہ ہندوستان یا چین یا جاپان میں بیٹھا ہؤا شخص نہ صرف انگلستان کے لوگوں کی آوازیں سنے گا بلکہ وہاں کے نظارے بھی دیکھ سکے گا۔ وہ نہ صرف یہ سنے گا کہ فلاں شخص لیکچردے رہا ہے بلکہ اس شخص کو اور اس کے اردگرد بیٹھنے والوں کو بھی دیکھتا جائے گا اور دنیا تھوڑے ہی عرصہ میں اس قابل ہوجائے گی کہ نہ صرف لوگوں کی آوازیں سُنے بلکہ ان کی شکلیں بھی دیکھے اور ان کی حرکات کا بھی مشاہدہ کرے۔ پھر ٹیلیفون پر بھی اس قسم کے تجربے شروع ہوگئے ہیں کہ جب کوئی دو شخص ٹیلیفون پر آپس میں گفتگو کرنے لگیں تومعاً ان دونوںکی شکلیں بھی ایک دوسرے کے سامنے آجائیں۔ جب اس میں کامیابی ہوجائے گی تو اگر ایک شخص شملہ یا دہلی میں یا کلکتہ میں بیٹھا ہؤا قادیان کے ایک شخص سے گفتگو کرے گا تو ادھر وہ بات شروع کریں گے اور ادھر وہ ایک دوسرے کی شکل بھی دیکھنے لگ جائیں گے اور انہیں اس طرح معلوم ہوگا جس طرح وہ دونوں پاس پاس بیٹھے باتیں کررہے ہیں۔ تو وہ جو واہمہ پیدا ہوگیا تھا کہ خدا کس طرح ساری دنیا کو دیکھ سکتا ہے اور کس طرح ساری دنیا کی آوازیں سُن سکتا ہے، اِس ترقی نے اسے دُور کردیا اور بتادیا کہ جب معمولی انسان میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی قابلیت رکھی ہے کہ وہ اپنی آواز تمام دنیا کو سنا سکتا ہے اور دنیا کے دوسرے کنارے کے آدمی کی بات کو بآسانی سن سکتا ہے اور نہ صرف آواز سن سکتا ہے بلکہ اس کی شکل بھی دیکھ سکتا ہے، تو کیا خدائے ذُوالجلال وَالْقُدْرَۃ جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہ ہر چیز کو نہیں دیکھ سکتا اور ہر شخص کی آواز نہیں سن سکتا؟ اور جب وہ ہر چیز کو دیکھتا اور ہر شخص کی آواز سنتا ہے تو اس کیلئے کسی اور مددگار خدا کی کیا ضرورت رہی۔ وہ اکیلا ہی ساری دنیا پر حاوی ہے اور اکیلا ہی سب پر حکومت کررہا ہے۔ پس نشرالصوت کے آلہ نے شرک کے عقیدہ پر ایک کاری ضرب لگائی ہے۔ خصوصاً اس شرک کے عقیدہ پر جو فلسفیوں کا پیداکردہ ہے اور وہی درحقیقت علمی شرک ہے اور اس طرح وائرلیس اور لائوڈ سپیکر نے خداتعالیٰ کی طاقتوں کو محدود کرنے والے عقائد کو باطل کرکے رکھ دیا ہے۔
پس اس زمانہ میں جبکہ خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کردیئے ہیں جن سے خداتعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم ہورہی ہے، مومن پر جو اُن زمانوں میں بھی موحد کہلاتا تھا جبکہ انسان کی عقل ابھی پورے طور پر تیز نہیں تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو نہیں سمجھ سکتا تھا بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہم سے پہلوں نے اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان رکھا جبکہ ان کے سامنے اس کی توحید کو ثابت کرنے والے وہ سامان نہ تھے جو آج ہمارے سامنے ہیں جبکہ وہ انسان کی طاقتوں کو نہایت ہی محدود دیکھتے تھے مگر آج ایتھر نے اور وائرلیس نے اور خوردبینوں نے اور دور بینوں نے انسان پر یہ بات ثابت کردی ہے کہ انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے جس کی طاقتیں محدود ہیں جب ایک جگہ پر بیٹھا ہؤا ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچاسکتا ہے تو خداتعالیٰ کی طاقت اور قوت محدود کس طرح ہوگئی۔ پس اس زمانہ میں ہماری ذمہ داری بہت زیادہ ہے اور ہمارے فرائض نہایت نازک ہیں مگر افسوس ان پر جو دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے۔ خداتعالیٰ کا ایک نبی ہم میں آیا۔ اس کا ایک رسول ہم میں مبعوث ہوا اور اس کا ایک مامور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر ابھی کچھ اندھے ایسے موجود ہیں جو خداتعالیٰ پر توکل کرنے کی بجائے انسانوں پربھروسہ رکھتے ہیں اور اس طرح اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ حقیقتاً خداتعالیٰ کے وحدہٗ لاشریک ہونے پر ایمان نہیں رکھتے۔
مجھے افسوس ہے کہ ابھی ہماری جماعت میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جس کی نگاہیں انسانوں پر اُٹھتی ہیں، جس کی نگاہیں اسباب پر جاتی ہیں اور جو انسانی طاقتوں اور قوتوں پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں اور جب بھی انہیں کوئی کام کرنا پڑتا ہے وہ انسانی طاقتوں میں اُلجھ کر رہ جاتے اور خداتعالیٰ کی طاقتوں کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ا س طرح وہ باوجود ایمان لانے کے بے ایمان رہتے ہیں، باوجود توحید کا دعویٰ کرنے کے شرک کی غاروں میں گرے رہتے ہیں حالانکہ دنیا میں کوئی بھی نبی ایسا نہیں آیا جس نے تمام اصلاحوں کے ساتھ ساتھ شرک کو دور کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ حضرت آدمؑ آئے اور اپنے زمانہ کے لحاظ سے وہ کئی مقاصد لے کر آئے۔ انہوں نے دنیا کو متمدن بنایا اور نظام کی پابندی کی عادت ڈالی مگر توحید کو انہوں نے بھی قائم کیا۔ پھر حضرت نوحؑ آئے تو اُس وقت انسانی دماغ اور زیادہ ترقی کرچکا تھا اور اس نے صفاتِ الٰہیہ کا ادراک کرنا شروع کردیا تھا اور اس فکر میں ٹھوکر کھاکر اُس نے شرک کا عقیدہ اخذ کرلیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے بھی اپنی تعلیم میں توحید کی تعلیم کے علاوہ شرک کے خلاف بے انتہاء زور دیا اور روحانیت کی باریک راہیں بنی نوع انسان کو سکھائیں۔ پھر حضرت ابراہیمؑ آئے تو گو انہوں نے اور اصلاحات بھی کیں مگر شرک کے باریک حصوں کا انہوں نے بھی ردّ کیا کیونکہ آپ کے زمانہ میں شرک ایک فلسفی کا مضمون بن گیا تھا اور عقلوں پر فلسفہ کا غلبہ شروع ہوگیا تھا۔ پھر موسیٰؑ آئے تو وہ ایک ایسا تفصیلی ہدایت نامہ لائے جس کا تعلق سیاست، روحانیت اور تمدن تینوں سے تھا مگر توحید کی اہمیت انہوں نے بھی بتائی اور شرک سے بچنے کی لوگوں کو تعلیم دی۔ پھر حضرت عیسٰی ؑ آئے تو انہوں نے شریعت کی ظاہری پابندی کو قائم رکھتے ہوئے حقیقت کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی اورفرمایا کہ ظاہری پابندی تمہیں باطن کی اصلاح سے مستغنی نہیں کرسکتی۔ چنانچہ آپ نے ایک طرف جہاں موسوی احکام کو اپنی اصل شکل میں قائم کیا وہاں جو لوگ قشر کی اتباع کرنے والے تھے انہیں بتایا کہ اس ظاہر کا ایک باطن ہے اور اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو ظاہر *** بن جاتا ہے مگر اس کے ساتھ آپ نے شرک کو نہیں بھُلایا اور اس سے بچنے کی لوگوں کوہمیشہ نصیحت کی۔ پھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم آئے اور آپ نے دنیا جہان کے مسئلے بیان کئے۔ آپ نے انسانوں کے آپس کے تعلقات پر روشنی ڈالی، آپ نے انسانوں کے اس تعلق پر روشنی ڈالی جو اس کا خدا سے ہوتا ہے، آپ نے مَردوں کے حقوق بیان کئے، آپ نے عورتوں کے حقوق بیان کئے، آپ نے بادشاہوں کے حقوق بیان کئے، آپ نے رعایا کے حقوق بیان کئے، آپ نے آقا کے حقوق بیان کئے، آپ نے نوکر کے حقوق بیان کئے، اسی طرح آپ نے وراثت کے مسئلے بیان کئے۔ تمدن کے مسئلے بیان کئے۔ معاشرت کے مسئلے بیان کئے۔ معاش کے مسئلے بیان کئے۔ غرض تمام مسائل آپ نے بیان کئے، مگر سب سے بلند اور سب سے بالا آپ کی تعلیم میں بھی یہی بات تھی کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔
پس یہ مسئلہ ہمارے مسئلوںکی جان ہے۔ یہ مسئلہ سارے مسئلوں کی رُوح ہے۔ یہ مسئلہ سارے مسئلوں کا مغز ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ قشر ہے، وہ چھلکے ہیں، وہ لوازمات ہیں، وہ ضمنی چیزیں ہیں۔ اصل جان اور روح اور مغز اور حقیقت توحید کا ہی مسئلہ ہے کیونکہ توحید ہی ہے جو خدا اور انسان میں محبت پیدا کرتی ہے اور جب تک یہ نہ ہو انسان کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔ جب تک انسان کی نظر کسی اور طرف بھی اُٹھتی رہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے خداتعالیٰ کا کامل حُسن نہیں دیکھا کیونکہ حُسنِ کامل کی علامت یہ ہوتی ہے کہ انسان کی نظر اس کو دیکھ کر کسی اور طرف نہیں اُٹھتی۔ جب تک دنیا میں تمہیں اور بھی حسین نظر آئیں تم کبھی اِدھر دیکھو گے، کبھی اُدھر مگر جب تمہیں ایک ایسا حسین نظر آجائے گا جو اپنے حُسن میں کامل ہوگا تو پھر تمہاری نظریں وہیں جم جائیں گی اور کسی دوسرے کی طرف نہیں اُٹھیں گی۔ یہی معنے توحید کے ہیں۔ یعنی مومن کو اللہ تعالیٰ کا حُسن ایسے کامل رنگ میں نظر آجائے کہ اس کے بعد خواہ دنیا جہان کی خوبصورت چیزیں اس کے سامنے پیش کی جائیں وہ نفرت اور حقارت سے اُنہیں ٹھکرادے اور کہے کہ مجھے جو کچھ ملنا تھا مل گیا، مجھے کسی اور کی جستجو نہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے کھانے کا بھی محتاج بنایا ہے اور پینے کا بھی، سونے کا بھی اور جاگنے کا بھی، لیٹنے کا بھی اور چلنے پھرنے کا بھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں اور پائوں اور دوسرے تمام اعضاء میں لذت اور سرور کی ایک حِسّ رکھ دی ہے۔ چنانچہ اس کی زبان، اس کے کان، اس کے ہاتھ اور اس کے پائوںاور اس کے جسم کے ہر حصہ میں خداتعالیٰ نے لذت اور سرور کی حِسّ رکھی ہوئی ہے اور ان حِسّوں کے ذریعہ ہی وہ لاکھوں کروڑوں چیزوں سے لُطف اندوز ہوتا ہے اور آرام حاصل کرتا ہے۔ مگر توحید کا مقام یہ ہے کہ مومن ان ساری چیزوں کے باوجود خداتعالیٰ کی محبت میںسرشار رہتا ہے اور یہ مزے اور آرام اسے اللہ تعالیٰ کی محبت سے غافل نہیں کرسکتے۔ اور اگر ہم غور کریں تو حقیقتاً یہ تمام مزے اور لذتیں اور آرام اس لئے نہیں کہ یہ حقیقی لذتیں اور حقیقی آرام ہیں بلکہ اس لئے ہیں کہ یہ ہمارے لئے ایک امتحان اور آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ خدا ہمارے لئے دنیا میں مزے دار چیزیں پیدا کرتا ہے اور ہماری زبان میں اس مزے کے چکھنے کی طاقت رکھتا ہے اور پھر کہتا ہے اب میں دیکھوں گا تم اس مزے میں ہی محو ہوجاتے ہو یا میری محبت کا بھی کچھ خیال رکھتے ہو۔ وہ دنیا میں حسین ترین نظارے اور حسین ترین شکلیں پیدا کرتا ہے اور انسان کو آنکھیں دیتا ہے کہ وہ ان حُسنوں کو دیکھے اور ان سے لذت حاصل کرے۔ اور پھر کہتا ہے اب میں دیکھوں گا کہ ان حُسنوں کو دیکھ کر بھی تمہیں میری محبت یاد رہتی ہے یا نہیں۔ ایک نابینا اگر کہتا ہے کہ خداتعالیٰ کے سوا مجھے کوئی حسین نظر نہیںآتا تو اس کی یہ تعریف کوئی زیادہ قیمت نہیں رکھتی کیونکہ اُس نے کب دُنیا کے حسین دیکھے کہ ان کو دیکھنے کے بعد وہ خداتعالیٰ کی محبت کو نہ بھُولا۔ ایک بہرا اگر کہتا ہے کہ خداتعالیٰ کی آواز سے بڑھ کر مجھے اَور کوئی شیریں آواز معلوم نہیں ہوتی جو محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ بلند ہوئی، تو اُس کی یہ تعریف کوئی زیادہ قیمت نہیں رکھتی کیونکہ کب اُس نے دنیا کی دلکش آوازیں سنیں کہ ان کے سننے کے باوجود وہ خداتعالیٰ کی آواز کا عاشق رہا۔ اگر وہ شخص جس کی زبان مفلوج ہے اور جو میٹھے کھٹے اور چٹپٹے کا فرق محسوس نہیں کرتی یہ کہتا ہے کہ مجھے حلال کھانے سے زیادہ اور کسی میں مزا محسوس نہیں ہوتا تو اُس کی یہ تعریف کوئی زیادہ قیمت نہیں رکھتی۔ مگر وہ جس کی زبان ذائقہ کو خوب پہچانتی ہے وہ اگر یہ کہتا ہے کہ مجھے حلال کھانے سے زیادہ اور کسی میں مزہ نہیں آتا اور خداتعالیٰ کی باتوں سے زیادہ حلاوت مجھے اور کسی چیز میں معلوم نہیں ہوتی۔ تو وہی کامل مؤحِّد ہے اور اسی کی تعریف صحیح تعریف کہلانے کی مستحق ہے۔
اسی طرح اگر کسی کے کان درست ہیں اور وہ لوگوں کی سُریلی اور دلکش آوازیں سنتے ہیں مگر باوجود اس کے وہ کہتا ہے کہ خداتعالیٰ کی وہ آواز جو مجھے اس کے کلام سے آتی ہے وہی سُریلی اور وہی دلکش معلوم ہوتی ہے تو وہی ہے جس کی محبت کامل ہے۔ اسی طرح وہ شخص جس کی آنکھیں دنیا کے تمام حسین نظارے دیکھتی ہیں وہ اگر تمام خوبصورتی اور حُسن دیکھنے کے باوجود خداتعالیٰ کی باتوں اور اس کے کلام میں ہی حُسن پاتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے دل میں خداتعالیٰ کی حقیقی محبت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ساری چیزیں پیدا کیں تا وہ دیکھے کہ ان کے ہوتے ہوئے بندے اس کی خوبصورتی اور اس کے حُسن کی کیا قدر کرتے ہیں۔ پس اگر خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جائو اور دنیا کے کاموں میں مشغول ہوجائو، جائو اور شادیاںکرو اور بچے پیدا کرو، جائو اور پیشے کرو، جائو اور حلال اور طیب رزق کھائو، اسی طرح اگر اس نے سُریلی اور دلکش آوازیں سننے کی اجازت دی ہے، عمدہ سے عمدہ خوشبوئیں سُونگھنے سے نہیں روکا، اچھے نظاروں کے دیکھنے کی ممانعت نہیں کی تو اسی لئے کہ وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم ان چیزوں کے حُسن میں خداتعالیٰ کا حُسن کیونکر دیکھتے ہیں اور یہ چیزیں ہمیں خداتعالیٰ کے قریب کردیتی ہیں یا اس کے قُرب کے راستہ سے دور پھینک دیتی ہیں۔
پس اے عزیزو! اپنے ایمان کی بنیاد توحیدِ کامل پر رکھو۔ انسانوں سے اپنی نظریں ہٹالو اور خدا اور صرف خدا پر اپنی نظریں رکھو۔ یاد رکھو انبیاء کے ابتدائی زمانوں میں نبیوں کی جماعتوں سے بڑھ کر مقہور، ذلیل اور حقیر اور کوئی جماعت نہیںہوتی۔ عالموں کی نظر میں اور جاہلوں کی نظر میں، امیروں کی نظر میں اور غریبوں کی نظر میں، بادشاہوں کی نظرمیں اور رعایا کی نظر میں، فلاسفروں کی نظر میں اور کُند ذہن اور بلید لوگوں کی نظر میںوہی سب سے زیادہ ذلیل اور حقیر ہوتے ہیں اور صرف خدا ان کا دوست ہوتا ہے۔ پس ایسی حالت میں جبکہ وہ اپنا صرف ایک ہی دوست رکھتے ہوں اگر اُس سے بھی ان کی نگاہیں ہٹ جائیں اور اُس کی بجائے انسانوں پروہ بھروسہ کرنے لگیں تو اس سے زیادہ ان کی بدقسمتی اورکیا ہوسکتی ہے۔ پس آئو کہ ہم خداتعالیٰ پر توکل کریں اور آئو کہ ہم اپنے خدا کو اپنا مقصود قرار دیں تا جس طرح ہماری زبانوں پر اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے اسی طرح ہمارے دلوں اور دماغوں پر بھی یہی نقش ہو کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۔
اس کے بعد میں قادیان کی جماعت کو اور باہر کی جماعتوں کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب تحریک جدید کے وعدوں کی میعاد میں بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے۔ نومبر کے آخر میں مَیں نے یہ تحریک کی تھی اور اب جنوری ہے۔ گویا اس تحریک پر ڈیڑھ مہینہ کے قریب گزرچکا ہے اور ہماری طرف سے جو میعاد مقرر ہے اس میں بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ ہندوستان کے لوگوں کیلئے سوائے بنگال اور مدراس کے کہ وہاں غیرزبانیں بولی جاتی ہیں اور ان علاقوں میں اتنی جلد اس تحریک سے ہر شخص آگاہ نہیں ہوسکتا ۳۱؍ جنوری آخری تاریخ ہے لیکن چونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ بعض دوست ۳۱؍ جنوری کی شام کو اپنا وعدہ لکھوائیں اور وہ خط یکم فروری کو ڈالا جائے اس لئے جس خط پر یکم فروری کی مُہر ہوگی اُسے بھی لے لیا جائے گا لیکن اس کے بعد کوئی وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا اور چونکہ اس میعاد میں اب بہت قلیل دن رہ گئے ہیں اس لئے دوستوں کو بہت جلد وعدے لکھوادینے چاہئیں۔ آج جنوری کی سات تاریخ ہے اور اِس مہینہ کے ۲۴ دن رہتے ہیں اور ۳۸۔۳۹ دن پہلے گزرچکے ہیں۔ گویا ساٹھ فیصدی سے زیادہ وقت گزرچکا ہے اور صرف چالیس فیصدی وقت باقی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اب تک اکثر جماعتوں نے اپنے وعدے نہیں بھجوائے اور ان جماعتوں میں بعض بڑی بڑی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ چند دن ہوئے دفتر کی طرف سے جو رپورٹ مجھے ملی تھی اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ صرف تیس فیصدی جماعتوں کے وعدے آئے ہیں اور ستّر فیصدی جماعتیں ابھی تک خاموش ہیں۔ قادیان میں سے اکثر وعدے اگرچہ آچکے ہیں مگر پھر بھی مکمل وعدے نہیں آئے۔ ابھی بعض محلے ایسے باقی ہیں جنہوں نے پوری کوشش نہیں کی۔ اسی طرح لجنہ اماء اللہ نے بھی پوری کوشش کرکے عورتوں سے وعدے نہیں لکھوائے لیکن پھر بھی ایک معقول رقم قادیان والوں کی طرف سے پیش ہوچکی ہے۔
جنہوں نے سُستی کی ہے اور ابھی تک اپنے وعدے نہیں بھجوائے ان کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جو وعدے آچکے ہیں اور جنہوں نے اس تحریک میںحصہ لیا ہے انہو ں نے خداتعالیٰ کے فضل سے اخلاص کا نہایت ہی اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے۔ چنانچہ بہت سی جماعتوں نے اپنے تیسرے سال کے وعدہ سے بھی زیادہ چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے اور بہت سے افراد ایسے ہیں جنہوں نے اپنے پہلے سال کے چندہ سے دوگنا بلکہ تگنا اور تیسرے سال سے بھی کچھ زیادہ چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جو لوگ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں شامل نہیں ہوسکے اور پیچھے رہ گئے ہیں ، ان میں سے بعض کی حالت نمایاں طور پر قابلِ اعتراض ہے۔ چنانچہ بعض دوست اس دفعہ جلسہ پر آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ نے چونکہ خود چندہ نہیں دیا اس لئے جب اس تحریک کا ان سے ذکر ہو تو وہ کہہ دیتے ہیں میاں یہ طَوعی چندہ ہے جس کی مرضی ہو اس میں حصہ لے اور جس کی مرضی ہو نہ لے۔ ایسے سیکرٹریوں اور پریذیڈنٹوں کو دیکھتے ہوئے میں نے پہلے سے دوستوں کو ہوشیار کردیا تھا او ربتادیا تھا کہ جب وہ اپنے کسی سیکرٹری کو سُست دیکھیں تو اس کی جگہ کسی اور کو تحریک جدید کا سیکرٹری مقرر کرلیں اور اپنے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ کی غفلت اور سُستی کی وجہ سے ثواب کے اس موقع کو نہ کھوئیں۔ پس جس جس جگہ کی جماعتوں کے سیکرٹریوں نے اپنے فرائض کی طرف کماحقہٗ توجہ نہیں کی انہیں چاہئے کہ وہ اگر دیکھیں کہ ان کے سیکرٹری اپنے فرائض کی ادائیگی میں سستی کررہے ہیں تو اُن کی بجائے کسی اور کو سیکرٹری مقرر کردیں اور اگر ساری جماعت میں سے کوئی ایک ہی دوست ایسا ہے جو چُست ہے تو وہی آگے آجائے اور اپنے آپ کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری تصور کرکے کام شروع کردے کیونکہ خداتعالیٰ کی دین بعض دفعہ ایسے رنگ میں آتی ہے کہ انسان کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔ ممکن ہے پہلے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ کو اللہ تعالیٰ ثواب سے محروم رکھنا چاہتا ہو اور اب اس نئے شخص کو ثواب کا موقع دینا چاہتا ہو۔ پس وہ پیچھے نہ رہے بلکہ آگے آئے اور اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی مجلس کا سیکرٹری سمجھ لے۔
میں نے پچھلے سالوں میں بتایا تھا کہ قربانی وہی ہے جو انتہاء تک پہنچے۔ پس یہ مت خیال کرو کہ فلاں شخص جس نے پہلے اتنا چندہ دیا تھا اُس نے چونکہ اس دفعہ چندہ نہیں لکھایا اس لئے ہم بھی اس کی تقلید کریں۔ بہت لوگ بظاہر بڑے نیک ہوتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی نگاہ میں وہ گرجانے والے ہوتے ہیں اور بہت لوگ بظاہر کمزور اور بے حقیقت نظر آتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی نظر میں وہ بڑے طاقتور ہوتے ہیں۔ پس ایسا نہ ہو کہ تم کہو جب فلاں شخص نے اِس کام کو نہیں کیا جو عُہدہ دار ہے تو ہم کیوں کریں۔ شاید خدا اب اسے گِرانے کا ارادہ رکھتا ہو اور تمہارے متعلق وہ یہ ارادہ رکھتا ہو کہ تمہیں اُٹھائے اور بلند کرے۔
پھر یہ امر اچھی طرح یاد رکھو کہ قربانی وہی ہے جو موت تک جاتی ہے۔ پس جو آخر تک ثابت قدم رہتا ہے وہی ثواب بھی پاتا ہے۔ اگرکوئی کہے کہ پھر نئے دَور کو سات سال تک محدود کیوں رکھا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قربانیاں کئی رنگ میں کرنی پڑتی ہیں۔ موجودہ سکیم کو میں نے سات سال کیلئے مقرر کیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض پیشگوئیوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۴۲ء یا ۱۹۴۴ء تک کا زمانہ ایسا ہے جس تک سلسلہ احمدیہ کی بعض موجودہ مشکلات جاری رہیں گی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے حالات بھی پیدا کردے گا کہ بعض قسم کے ابتلاء دور ہوجائیں گے اور اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے نشانات ظاہر ہوجائیں گے کہ جن کے نتیجہ میں بعض مقامات کی تبلیغی روکیں دُور ہوجائیں گی اور سلسلہ احمدیہ نہایت تیزی سے ترقی کرنے لگ جائے گا۔ پس میں نے چاہا کہ اس پیشگوئی کی جو آخری حد ہے یعنی ۱۹۴۴ء اُس وقت تک تحریک جدید کو لئے جائوں اور جماعت سے قربانیوں کا مطالبہ کرتا چلا جائوں تا آئندہ آنے والی مشکلات میں اسے ثبات حاصل ہو۔
پس آج میں پھر خصوصیت کے ساتھ تمام جماعتوں کو خواہ وہ بڑی جماعتیں ہیں یا چھوٹی قریب کی جماعتیں ہیں یا دور کی توجہ دلاتا ہوںکہ جلد سے جلد وہ اپنی لِسٹوں کو مکمل کرکے بھیج دیں۔ کیونکہ ہندوستان کی جماعتوں کیلئے جو آخری تاریخ مقرر ہے اس میں اب بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں اور کوشش کریں کہ اگروہ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں شامل نہیں ہوسکے تو کم ازکم پھسڈّی ۲؎بھی نہ رہیں اور اپنے اخلاص سے کام لیتے ہوئے قربانیوں میںایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں۔ کیا یہ افسوس کی بات نہیں کہ ہندوستان سے باہر کی جماعتیں جن کو اپریل تک مُہلت حاصل ہے وہ تو اپنے وعدے بھجوارہی ہیں مگر ہندوستان کی کئی جماعتیں جو بغل میں بیٹھی ہوئی ہیں وہ بالکل خاموش ہیں اور انہوں نے وعدے بھجوانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر افریقہ کے لوگ اس قسم کی چُستی دکھاسکتے ہیں اور ایسی جگہوں سے اپنے وعدے اِس عرصہ میں بھیج سکتے ہیں جہاں سے خط بھی پندرہ دن میں پہنچتا ہے تو کیا یہ افسوس اور شکوہ کی بات نہ ہوگی کہ پنجاب اور ہندوستان کی جماعتوں کے عہدیدار سُستی دکھائیں اور وہ خاموشی سے بیٹھے رہیں۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۳۸ء تک انہیں مُہلت حاصل ہے مگر اس میعاد کے ابتدائی وقت میں شامل ہونے کی بجائے آخری وقت شامل ہونے کی کوشش کرنا بھی کوئی اچھی علامت نہیں۔ بے شک بہت جلدی بھی اچھی نہیں ہوتی اور ان لوگوں کو جو معمولی توجہ سے بیدا ر ہوسکتے ہیں ترک کردینا کوئی خوبی نہیں مگر اس کے یہ معنے بھی نہیں کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا رہے اور کہے کہ ابھی کافی وقت ہے۔ آخری تاریخ کو خط لکھ دیں گے۔ حیدر آباد کی جماعت کافی دور ہے مگر وہ بڑی جماعتوں میں سے ایک ہے۔ جنہوں نے بہت جلد اپنے وعدے بھجوادیئے ہیں۔ بیشک اس میں بھی بعض کمزور ہیں مگر ایسے بھی لوگ ہیں جو قربانی کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور وہاں سے جو چندہ آتا ہے وہ مقدار کے لحاظ سے بڑی بڑی جماعتوں کے چندوں کے برابر ہوتا ہے۔ وہاں سے یہاں پانچ دن میں خط آتا ہے۔ لیکن میری اس تحریک کے دسویں بارھویں دن حیدرآباد کی جماعت کے وعدوں کا بہت سا حصہ پہنچ چکا تھا۔
نومبر کے آخر میں مَیں نے یہ تحریک کی تھی اور ابھی اس تحریک پر دس بارہ روز نہیں گزرے تھے کہ اِس جماعت نے اپنے وعدہ کی لسٹ بھیج دی جو بہت حد تک مکمل تھی اور جو چند اَور دوست باقی رہتے تھے اُن کی لسٹ ۱۵۔۲۰ دسمبر تک پہنچ گئی۔ بلکہ پہلے انہوں نے بذریعہ تار اپنے وعدے بھجوائے اور پھر تفصیلی فہرستیں بعد میں بھیجیں۔ ان کی اِس سرگرمی اور اخلاص کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ پہلے سال انہوں نے چھتیس سَو روپیہ داخل کیا تھا مگر اس سال پہلے ۳۵ سَو کی لسٹ بھیجی اور اب تک چارہزار کی لسٹ بھجواچکے ہیں اور ابھی کہہ رہے ہیں کہ اَور وعدے بھی بجھوائیں گے۔ تواگر دُور کی جماعتیں اس عرصہ میں کام کرسکتی تھیں تو کیا وجہ ہے کہ قریب کی جماعتیں فہرست مکمل نہ کرسکیں اور اِس خیال میں بیٹھی رہیں کہ ابھی کافی وقت ہے۔ پس محض اس لئے سُستی کرنا کہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۳۸ء تک ابھی کافی وقت ہے ایک خطرناک علامت ہے۔ جس کا نتیجہ بعض دفعہ یہ نکلتا ہے کہ انسان آخری وقت میں بھی شامل نہیں ہوسکتا اور ثواب حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو تین صحابی ایک جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے وہ اس لئے پیچھے رہے تھے کہ پہلے وہ خیال کرتے رہے کہ ابھی کافی وقت ہے ہم تیاری کرلیں گے۔ مگر آخر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جہاد کیلئے چل پڑے اور چونکہ ان کی تیاری مکمل نہیں تھی اس لئے وہ محروم رہ گئے ۔۳؎ پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں وہ ہوشیار ہوجائیں اور اپنے اپنے وعدے جلد لکھ کر دفتر میں بھجوادیں اور جس جماعت کے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سیکرٹری سُست ہیں میں انہیں کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی طرف سے جو ثواب کے مواقع آتے ہیں وہ سیکرٹریوں اور پریذیڈنٹوں کیلئے نہیں ہوتے بلکہ ہر شخص کیلئے ہوتے ہیں۔ پس وہ اپنے آپ کو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ تصوّر کرلیں اور کام شروع کردیں۔ خداتعالیٰ کے نزدیک وہی سیکرٹری اور وہی پریذیڈنٹ ہوں گے۔پس تم دوسروں کے مونہوں کی طرف مت دیکھو ۔ تم اپنی زبان کو خدا کی زبان اور اپنے ہاتھوں کو خدا کا ہاتھ سمجھو تا اللہ تعالیٰ کی رحمت تم پر نازل ہو۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت سے شرک کو کُلّی طور پر دور کرکے توحیدِ کامل کا مقام ہمیں عطا کرے۔ ہمیں سچی قربانیوں کی توفیق دے اور ہم میں سے ہر شخص کا حوصلہ اتنا بڑھائے کہ وہ سمجھے کہ سلسلہ کی تمام ذمہ داریاں اُسی پر ہیں اور دوسروں کی سُستی ہماری چُستی کو دور کرنے والی نہ ہو بلکہ ہماری چستی دوسروں کی سُستی کو دور کرنے والی ہو۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ‘‘ (الفضل ۱۳؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الانعام: ۹۲
۲؎ پھسڈّی : پچھڑا ہؤا۔ شکست خوردہ۔ آخری۔ ناقص۔ کم درجہ
۳؎ بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک

۲
اسلامی شریعت کا قیام ہمارا اوّلین فرض ہے
(فرمودہ ۱۴؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’جلسہ سالانہ پر اور اس سے پہلے جو خطبات میں نے بیان کئے ہیں ان میں مَیں تحریک جدید کے بعض حصوں کے متعلق بیان کرتا رہا ہوں اور آج دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انسان جب تک خود اپنے سے دُشمنی نہ کرے اُس وقت تک کوئی اُس سے دشمنی نہیں کرسکتا۔ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو شخص اپنا دشمن نہیں ہوتا، دنیا میں اُس کا کوئی دشمن نہیں ہوتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص سچے طور پر اپنے نفس کا خیرخواہ ہوتا ہے وہ لازماً باقی دنیا کا بھی خیرخواہ ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک لازمی بات ہے کہ جو شخص دنیا کا خیرخواہ ہوتا ہے دنیا ضرور اس سے دشمنی کرتی ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص اپنے نفس کا خیرخواہ ہو اور دنیا کا بدخواہ ہو اور پھر یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی شخص دنیا کا خیر خواہ ہو اور دنیا اُس کی بدخواہ نہ ہو۔ جو شخص بھی دنیا کی خیرخواہی کرے لازماً دنیا اس کی دشمن ہوتی ہے۔ اور جب میں نے یہ کہا کہ کوئی اُس سے دشمنی کر نہیں سکتا تو میری مراد اس سے یہ ہے کہ اس کے ساتھ دنیا کی دشمنی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ جس قدر انبیاء دنیا میں آئے ہیں وہ سب سے پہلے اپنے نفس کے خیرخواہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ اوّل المؤمنین رہے ہیں۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز سننے کے بعد معاً اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے سامنے پھینک دیا اورکہا کہ ہم اپنے آپ کو تیرے رستہ میں فنا کرکے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جب انہوں نے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے رستہ میں فنا کرکے ہر قسم کے خطرات سے محفوظ کرلیا تو اپنی خیرخواہی کے بعد ان کے اندر یہ طاقت اور ہمت پیدا ہوگئی کہ وہ دنیا کی خیرخواہی کرسکیں۔ ایک شخص جو تیرنا سیکھتا ہے سب سے پہلے اپنی جان بچاتا ہے اور جو اپنی جان کو بچالیتا ہے وہی اس قابل ہوتا ہے کہ دوسروں کو بچاسکے۔ اگر وہ اپنی جان کو نہ بچاسکے تو کسی صورت میں بھی دوسروں کو بچانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ مگر وہی تیرنے والا جو اپنی جان بچانے کے سامان پیدا کرکے دوسروں کی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے جب ایک ڈوبنے والے شخص کو بچانے کی کوشش کرتا ہے تو ڈوبنے والے کا مقدم کام یہ ہوتا ہے کہ اُسے ڈبوتا ہے اور یہ دنیا میں ایک عام قاعدہ ہے۔ ڈوبنے والے کے حواس چونکہ قائم نہیں ہوتے اس لئے اپنے آپ کو بچانے کیلئے وہ عقل کے ساتھ ہاتھ پیر نہیں مارتا بلکہ ہمیشہ ایسے رنگ میں ہاتھ پیر مارتا ہے کہ اسے بچانے والا بھی ساتھ ہی ڈوبنے لگے۔
مجھے ایک واقعہ بچپن کا یاد ہے۔ ایک دفعہ یہاں ڈھاب میں ایک کشتی اُلٹ جانے کی وجہ سے کچھ آدمی ڈبکیاں کھانے لگے۔ اُنہیں بچانے کیلئے کچھ اور آدمی کُودے لیکن ان کو ڈوبنے والوں نے پکڑ کر اس طرح ساتھ گھسیٹا کہ ان کے ناک اور منہ میں پانی پڑ نے کی وجہ سے وہ بھی خطرے میں پڑ گئے۔ اس پر کچھ اور لوگ کُودے اور قریباً اٹھارہ آدمی اس طرح ڈبکیاں کھانے لگے۔ آخر ایک اچھے تیراک نے بعض دوسرے ہلکے تیراکوں کو سہارا دے کر سانس دلایا اور پھر ان کی مدد سے اس طرح پکڑ پکڑ کر ڈوبنے والوں کو نکالنا شروع کیا کہ وہ اُن کو ساتھ نہ ڈبوسکیں۔ تو یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص دوسرے کو بچانا چاہتا ہے، ڈوبنے والا اُسے ضرور ڈبونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے حواس چونکہ معطل ہوتے ہیں اس لئے وہ بچانے والے کو یا تو اپنا دشمن سمجھتا ہے یا اگر دوست بھی سمجھتا ہے تو ایسے رنگ میں اُس پر بوجھ ڈالتا ہے کہ وہ اُٹھا نہ سکے اور اس طرح اپنے ساتھ اسے بھی ڈبونے کی کوشش کرتا ہے۔ کثرت سے ایسی مثالیں ملتی ہیں او رہر مہینہ ہی اخبارات میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ شائع ہوتا ہے کہ ایک شخص ڈوبنے والے کو بچانے کے لئے گیا مگر خود ڈوب گیا اور ڈوبنے والا بچ گیا۔ پس یہ ایک عام قانون ہے جس سے دنیا آزاد نہیں ہوسکتی۔ یعنی جو اپنی ذات کا خیرخواہ نہیں وہ دنیا کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا اور جو دنیا کا خیرخواہ ہو ممکن نہیں کہ دنیا اس کی دشمن نہ ہو۔ ہاں الٰہی سلسلوں میں خداتعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ ایسی دشمنیاں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔
پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ جو شخص اپنا دشمن نہیں ہوتا دنیامیںکوئی اُس کا دشمن نہیں ہوتا تو میری مراد اس سے یہی ہے کہ اس کے دشمن اس کو نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ یہ مطلب نہیں کہ ان کے دشمن دنیا میں ہوتے نہیں۔ بیشک ان کے دشمنوںکو عارضی خوشیاں بھی کسی وقت نصیب ہوجاتی ہیں مگر حقیقی خوشی وہ کبھی حاصل نہیں کرسکتے اور کوئی واقعہ بھی جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسا پیش نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے دشمن ان کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہوں۔ عارضی طو رپر ان کو خوش ہونے کے موقعے مل سکتے ہیں۔ جب وہ خیال کرلیتے ہیں کہ اب ہم اس جماعت کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے مگر آخر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اپنی جماعت کی مدد کو بڑھتا اور اس کو بچالیتا ہے۔ پس اس قانون کے ماتحت حقیقی خیرخواہی انسان کی اپنے نفس سے یہی ہوگی کہ بنی نوع کی خدمت کرے اور خاص کر مذہبی میدان میں خدمت کرے اور جب وہ خدمت کرے گا تو لازماً لوگوں کی غلطیوں سے بھی ان کو آگاہ کرے گا اور وہ چونکہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں اس لئے ضرور اس کی مخالفت کریںگے اور اسے تباہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں آئے اور لوگوں کی اصلاح کیلئے کھڑے ہوئے لیکن جن کی اصلاح کیلئے وہ کھڑے ہوئے تھے اُنہوں نے ہی اُن کو تباہ کرنا چاہا۔ حضرت نوح علیہ السلام لوگوں کو بچانے کیلئے کھڑے ہوئے اور جن کو بچانے کیلئے وہ کھڑے ہوئے تھے انہوں نے ہی ان کو تباہ کرنا چاہا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جن لوگوں کو بچانے کیلئے کھڑے ہوئے اُنہی لوگوں نے ان کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے تو ان کو بھی ان لوگوں نے جن کو بچانے کیلئے وہ کھڑے ہوئے تھے تباہ کرنا چاہا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تا اپنی قوم کو ہلاکت سے بچائیں مگر اُن کی قوم نے ان کو ہلاک کرنا چاہا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا کو بچانے کیلئے کھڑے ہوئے مگر لوگ ان کے دشمن ہوگئے اور ہر ممکن طریق سے ان کو نقصان پہنچانا چاہا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ دشمن اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکے مگر اپنی طرف سے انہوں نے کوئی کوتاہی نہ کی مگر یہ سب باتیں تبھی ہوسکتی ہیں جب انسان پہلے اپنے نفس کا خیرخواہ ہو۔ اور جب تک وہ یہ نہ کرسکے کسی دوسرے کی اصلاح کے قابل ہی نہیں ہوسکتا۔ کسی نے کہا ہے
آنانکہ خود گم اند کُجا رہبری کنند
جو شخص خود گمراہ ہو وہ دوسروں کو کہاں ہدایت دے سکتا ہے۔ دوسرے کو راستہ وہی دکھاسکتا ہے جو پہلے خود تلاش کرے اور جو شخص دوسرے کو گمراہی سے بچانے کیلئے آگے بڑھے گا اُس کی مخالفت بھی ہوگی اور لوگ اُس کے دشمن بنیں گے۔ گو یہ الٰہی قانون ہے کہ ایسے لوگوں کو دشمنی نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ مخالفوں کو عارضی طور پر خوش ہونے کا موقع تو مل سکتا ہے مگر حقیقی خوشی وہ کبھی حاصل نہیں کرسکتے۔
ہماری جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کے بعد اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ یعنی یہ کہ سب سے پہلے ان کو اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے اور اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ ان کے اندر طاقت پیدا کردے تو پھر کوشش کریں کہ دوسروں کو بچائیں اور اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ اس کے نتیجہ میں ان کی مخالفت لازمی طور پر ہوگی اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ان کے مخالف کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ بظاہر ان کو ذلّت اور رُسوائی بھی ہوسکتی ہے مگر انجام کار وہی کامیاب ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب آتھم کے متعلق پیشگوئی فرمائی اور اس کے بعد اس نے اپنے دل میں رجوع کیا اور اس وجہ سے میعاد مقررہ کے اندر اس کی موت نہ ہوئی تو لوگوں نے بڑی خوشیاں منائیں اور شور مچادیا کہ مرزاصاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ اُس زمانہ میںریاست بہاولپور کے جو نواب تھے، اُن کے پیر چاچڑاں والے بزرگ تھے۔ ایک دن نواب صاحب کے دربار میں یہی ذکر ہورہا تھا کہ مرزاصاحب نے پیشگوئی کی تھی جو غلط نکلی اور اِس پر لوگوں نے ہنسی اُڑانی شروع کی اور آہستہ آہستہ اہل مجلس کی باتوں سے متأثر ہوکر نواب صاحب بھی اس ہنسی میں شامل ہوگئے۔ اُس وقت مجلس میں وہ بزرگ بھی بیٹھے تھے۔ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بہت عقیدت تھی اور انہوں نے حضور کو خط بھی لکھا تھا وہ پہلے تو خاموش رہے مگر جب دیکھا کہ نواب صاحب بھی ہنسی میں شریک ہوگئے ہیں تو اس لئے کہ وہ نواب صاحب کے پیر تھے اور سمجھتے تھے کہ مجھے ان کو اس طرح ڈانٹنے کا حق ہے، بڑے جوش سے فرمایا کہ آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ دنیا کے اندھوں کو یہ نظر آتا ہے کہ آتھم زندہ ہے مگر مجھے تو اس کی لاش سامنے پڑی ہوئی نظر آرہی ہے یعنی تم موت سے مراد ظاہری موت لیتے ہو اور یہ خیال نہیں کرتے کہ وہ موت کیا ہے یہ تو ہر انسان کو آتی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی سے خوف کھا کر جو آتھم نے توبہ کی اور رجوع کیا، وہ جذبات کی موت تھی اور ظاہری موت سے زیادہ سخت تھی۔ تو سلسلہ کی خدمت کرتے ہوئے بعض دفعہ ایسی بات پیدا ہوسکتی ہے جو بظاہر رُسوائی کا موجب ہو مگر عقلمند جانتے ہیں کہ دراصل وہ بھی دین کی نصرت کا موجب ہوتی ہے۔
پس سب سے مقدم بات تو یہ ہے کہ اپنے نفسوں کی اصلاح کرو اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور اِس طرح پھینک دو کہ اُس کی نصرت حاصل کرسکو اور اگر تم یہ کرلو تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیںنقصان نہیں پہنچاسکتی۔ مگر حالت یہ ہے کہ تم ہندو سے تو کہتے ہو کہ اسلام کی تعلیم افضل ہے مگر جب کوئی موقع پیدا ہوتا ہے تو تم جوش سے بھرجاتے ہو اور کہتے ہو کہ ایسے موقع پر اسلام کی تعلیم ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی اورجب یہ حالت ہو تو خداتعالیٰ کو تمہاری نصرت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ خداتعالیٰ اگر تمہاری مدد کرتا ہے تو اس لئے نہیں کہ اس جماعت میں جو لوگ ہیں وہ اسے بہت پسند ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ جماعت دنیا میں اُن اصولوں کو قائم کرنے کیلئے کھڑی ہوئی ہے جنہیں قائم کرنا اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے۔ اگر تم میں یہ خصوصیت نہ ہو تو پھر تمہارے متعلق بھی وہی عام قانون ہوگا کہ ایک پر دو بھاری ہوتے ہیں۔ دور پر چار، سَوپر دوسَو، ہزار پر دوہزار اور لاکھ پر دو لاکھ۔ لیکن اگر تم خداتعالیٰ کے اصولوں سے اپنے آپ کو اس طرح وابستہ کرلو کہ تم میں اور ان میں کوئی فرق نہ رہے۔ تمہارے اندر توحید ایسی نہ ہو جیسی دنیا دار لوگوں میںہوتی ہے بلکہ ایسے موحّد بن جائو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم مجسم توحید ہوجائو اور تمہیں اور توحید کو جُدا نہ کیا جاسکے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ ضرور تمہاری حفاظت کرے گا کیونکہ اس صورت میں تمہاری تباہی توحید کی تباہی کے مترادف ہوگی۔
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی چیز کے ساتھ برتن کو بھی بچایا جاتا ہے۔ کسی پیپے میں گھی یا شہد بھرا ہؤا ہو تو گو اُس کی قیمت دو چار آنے سے زیادہ نہیں ہوتی مگر اس گھی یا شہد کیلئے جو اس کے اندر ہے، انسان اس کی بھی حفاظت کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس میں سوراخ ہوگیا تو گھی یا شہد بہہ جائے گا۔ مٹی کی ایک پیالی جس کی قیمت دمڑی بھی نہیں ہوتی بلکہ کبھی تو چھوٹی پیالیاں پیسہ کی آٹھ آٹھ بِکا کرتی تھیں اس میں اگر ایک انسان اپنے کسی عزیز کیلئے دوائی لئے جارہا ہو اور اُس عزیزکی کمزور حالت کی وجہ سے دوا کے پہنچنے میں تأخیر کو مُہلک سمجھتا ہو، تو اس حالت میں اگر کوئی اس پیالی کو توڑنا چاہے تو وہ انسان اُسے بچانے کیلئے کتنی جدوجہد کرے گا۔ اگر وہ شخص کروڑ پتی بلکہ ارب پتی بھی ہے اور اس کے گھر میں چاندی کے برتنوں کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی تو بھی اس وقت وہ اس مٹی کی پیالی کو بچانے کیلئے جس کی قیمت کچھ بھی نہیں اپنی ساری جائیداد کو قربان کرنے کیلئے تیار ہوجائے گا۔ اس لئے نہیں کہ وہ مٹی کی پیالی اسے عزیز ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں ایک ایسی چیز پڑی ہے جس کے ساتھ اس کے عزیز کی جان وابستہ ہے۔ وہ اسے بچانے کیلئے اس لئے جدوجہد نہیںکرے گاکہ وہ مٹی کی بنی ہوئی پیالی قیمتی شَے ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں وہ دوا ہے جس کا فوراً اس کے عزیز کے پاس پہنچنا ضروری ہے۔ اسی طرح بے شک انسان خاک کا ایک پتلا ہے جو دنیا میں آتا اور چلا جاتا ہے اور اس لحاظ سے اس کی کوئی قیمت نہیں لیکن جب وہ اپنے اندر اُس تریاق کو بھرلیتا ہے جس سے دنیا نے زندہ رہنا ہے، اگر وہ اپنے اندر ایسی طاقت پیدا کرلیتا ہے جس سے دنیا میں نبوت قا ئم ہونی ہے اور جس سے دنیا میں صفاتِ الٰہیہ نے جاری ہونا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے اور وہ اس کی حفاظت کرتا اور دشمنوں کے ضرر سے اسے بچاتا ہے کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اب اگر یہ انسان ٹُوٹا تو اس کے ساتھ ہی نبوت کا روح افزا شربت بھی بہہ جاتا ہے،توحید کی زندگی بخش رُوح بھی ضائع ہوجاتی ہے، دنیا میں صفاتِ الٰہیہ کا ظہور بھی خطرہ میں پڑ جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ہر کوشش کرتا ہے اس کے بچانے کی تا وہ چیزیں محفوظ رہ سکیں جو اس کے اندر ہیں اور تاوہ دنیا میں قائم اور جاری ہوسکیں۔
جنگ بدر کے موقع پر جب لڑائی کی حالت ایسی خطرناک ہوگئی کہ یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ کفار مسلمانوں کو بالکل مٹادیں گے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک علیحدہ مقام پر جاکر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا کہ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تیری ہدایت اور عبادت کو قائم رکھنے والا دنیا میں اِن چند ایک لوگوں کے سوا کوئی نہیں اور اگر یہ تباہ ہوگئے تو اور کوئی نہیں جو اسے قائم کرسکے اس لئے ان کی حفاظت فرما۔۱؎ آپ نے یہ نہیں کہا کہ یہ میرے رشتہ دار ہیں یا میرے عزیز دوست ہیں یا کوئی معززین ہیں یا کسی عام صداقت کیلئے کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی غیرمعمولی سلوک کی کوئی وجہ نہ تھی اور ان کی قیمت اتنی نہ بن سکتی تھی کہ ان کے لئے دوسروں پر عذاب نازل کیا جائے۔ ان کی قیمت بڑھانے والی صرف یہی ایک چیز تھی کہ ان کا مٹنا خدا کی توحید کا مٹنا ہے اور اُس کی عبادت کا مٹنا ہے۔ پس آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ابوبکرؓ میر اپیارا ہے، عمرؓ اور عثمانؓ میرے پیارے ہیں اور دوسرے صحابہ میرے پیارے اور عزیز ہیں۔ ان سب امور کو نظر انداز کرکے آپ نے یہ فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل میں معرفت کی شراب بھری ہے اوراگر یہ لوگ مٹ گئے تو پھر دنیا میں تیری توحید اور تیری عبادت کو قائم کرنے والا اور کوئی نہ ہوگا۔
پس جب انسان کے دل میں خداتعالیٰ کی معرفت بھر جائے تو وہ اسے ایسا پیارا ہوجاتا ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی ذات کی خاطر نہیں بلکہ اس چیز کی خاطرجو اس کے دل میں بھری ہے۔ جس طرح انسان مٹی کی پیالی کی حفاظت کرتا ہے۔ اُس پیالی کیلئے نہیں بلکہ اس چیز کیلئے جو اس میں پڑی ہوئی ہے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ یہ سمجھتا ہے کہ اب یہ انسان محض خاک کا پتلا نہیں رہا بلکہ اب اس کے ساتھ میری توحید اور میری تعلیم وابستہ ہو گئی ہے اور اس کے اندر وہ چیز بھر گئی ہے جو دنیا کی نجات کیلئے ضروری ہے۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو سب سے پہلے تو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات کو پید اکریں اور اپنے آپ کو اس کی ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیتِ یومِ الدین کی صفات سے ایسا وابستہ کرلیں کہ وہ معمولی انسان نظر نہ آئیں بلکہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، اُس کی رحمانیت و رحیمیت اور مالکیت یوم الدین کی صفات نظر آئیں اور اگر کوئی ان کو تباہ کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ کہے کہ ان پر حملہ کرنے والا دراصل میری ان صفات پر حملہ کرتا ہے۔ اگر یہ لوگ مٹ گئے تو اور کون ہے جو دنیا میں میری ان صفات کو قائم رکھے گا اس لئے وہ ان کی حفاظت کرتا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے والوں کو ناکام کردیتا ہے۔
تحریک جدید کے دوسرے دَور کی تحریک سے میری غرض یہی ہے کہ ہم دنیا میں اسلامی تعلیم کو قائم کریں۔ اسلامی تعلیم اِس وقت مٹی ہوئی ہے اور ہم یہ کہہ کر اپنے دل کو خوش کرلیتے ہیں کہ اس کا قیام حکومت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ تعلق رکھنے والی باتیں بہت تھوڑی ہیں اور ان کا دائرہ بہت ہی محدود ہے۔ باقی زیادہ تر ایسی ہیں کہ ہم حکومت کے بغیر بھی ان کو رائج کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کی توحید اور عرفان کی خواہش دل میں رکھنا اور اس کیلئے جدوجہد کرنا، صفاتِ الٰہیہ کو اپنے اندر پیدا کرنا اور پھر ان کو دنیا میں رائج کرنا، قُربِ الٰہی کے حصول کی کوشش کرنا، امانت، دیانت، راستبازی وغیرہ وغیرہ سینکڑوں باتیں ہیں جن کا حکومت سے کوئی واسطہ نہیں۔ کیا اگر ہمارے پاس حکومت نہ ہو تو ہم نماز نہیں پڑھ سکتے، ذکر الٰہی نہیں کرسکتے اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کو پگھلا نہیں سکتے دیانت اور امانت کو قائم نہیں رکھ سکتے؟ سچ نہیںبول سکتے؟ یقینا یہ سب کچھ کرسکتے ہیں اور اس لئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اسلام کی تعلیم بغیر حکومت کے قائم نہیں ہوسکتی۔ ان باتوں میں سے بعض ایسی ہیں جو انسان کی ذات سے وابستہ ہیں اور بعض ایسی ہیں جو نظام سے وابستہ ہیں اور نظام بغیر حکومت کے بھی قائم ہوسکتا ہے۔ دنیا میں کوئی سخت سے سخت حکومت بھی افراد کے نظام کو باطل نہیںکرسکتی۔ افراد کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ دخل دینے والی حکومتیں جرمنی اوراٹلی کی ہی ہیں مگر ان میں بھی افراد کے نظام کو کلّی طور پر باطل نہیں کیا جارہا۔ لوگ اب بھی وہاں مجالس قائم کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ ملک کی اصلاح اور خدمتِ خلق بھی کرتے ہیں اور پھر ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی قوم کے ماتحت رکھا ہے کہ جس کی حکومت افراد کے نظام میں کم سے کم دخل دیتی ہے اس لئے نہیں کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں سے کوئی رعایت کرنا چاہتی ہے بلکہ اس لئے کہ ان کے ملک کا نظام ہی ایسا ہے اور انگریز قوم نے حکومت کیلئے اس بارہ میں اختیارات اور قوانین ہی ایسے رکھے ہیں۔ اگر ہم کسی اور ملک کے ماتحت ہوتے تو ہمیں نظام قائم کرنے کے متعلق اس قدر آزادی حاصل نہ ہوتی جتنی اب ہے اور اس صورت میں اسلامی تعلیم کو قائم کرنے کیلئے ہمارا دائرہ عمل بہت محدود ہوتا۔ لیکن اب ہمارا دائرہ کافی وسیع ہے۔ اٹلی اور جرمنی وغیرہ ممالک جہاں فسطائی اور ناٹسی اصول رائج ہیں وہاں حکومتیں افراد کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ دخل دیتی ہیں لیکن انگریز قوم نے اپنی حکومت کو ایسے اختیارات ہی نہیں دیئے اور اس لئے برطانوی حکومت ایسے معاملات میں کم سے کم دخل دیتی ہے۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتا کہ دونوں میں سے کون سا اصل بہتر ہے۔ چاہے میرے نزدیک فسطائی یا ناٹسی اصول ہی نسبتاً زیادہ صحیح ہوںمگر بہرحال اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی حکومت کے ماتحت رکھا ہے کہ ہمارے لئے یہ موقع ہے کہ حکومت سے ٹکرائو کے بغیر اسلامی تعلیم کو جاری کرسکیں اور پھر نظام کے ذریعہ اسے طاقت دے سکیں اور اس سہولت کی موجودگی مَیں سمجھتا ہوں الٰہی حکمت کے بغیر نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جب کسی نبی کو مبعوث کرنا ہوتا ہے تو ہزاروں سال پہلے اس کیلئے تغیرات کرتا ہے اور اس طرح داغ بیل ڈالتا ہے کہ اسے اپنے کاموں میں سہولت حاصل ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ برطانوی حکومت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رحمت ہے۔۲؎ اس کے یہ معنے نہیں کہ انگریز قوم کے افراد بہت نیک اور اسلام کی تعلیم کے قریب ہیں۔ ان میں بھی ظالم، غاصب، فاسق، فاجر اور ہرقسم کا خبث رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور دوسری قوموں میں بھی۔ ان میں بھی اچھے لوگ ہیں اور دوسری قوموں میں بھی۔ جو چیز رحمت ہے وہ یہ ہے کہ یہ حکومت افراد کی آزادی میں بہت کم دخل دیتی ہے اور وہ جن معاملات میں دخل نہیں دیتی ان میں اسلام کی تعلیم کو قائم کرنے کا ہمارے لئے موقع ہے۔ پس یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ایسی قوم کو ہم پر حاکم مقرر کیا کہ جو افراد کے معاملات میں بہت کم دخل دیتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اگر ناٹسی یا فیسسٹ لوگ ہم پر حکمران ہوتے تو وہ دوسرے معاملات میںانگریزوں سے بھی اچھے ہوتے۔ ممکن ہے وہ اللہ تعالیٰ کا خوف ان سے زیادہ رکھنے والے اور زیادہ عدل کرنے والے ہوتے مگر انفرادی آزادی وہ اتنی نہ دیتے جتنی انگریزوں نے دی ہے۔ وہ اشخاص کے لحاظ سے تو اچھے ہوتے مگر سلسلہ کے لحاظ سے ہمارے لئے مُضر ہوتے اور اس کے یہ معنی ہوتے کہ جب تک اسلامی حکومت قائم نہ ہوجاتی اسلامی تعلیم کو قائم کرنے کا دائرہ ہمارے لئے بہت ہی محدود ہوتا اور اسلامی احکام میں سے بہت ہی تھوڑے ہوتے جن کو ہم قائم کرسکتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہی معنوں کے لحاظ سے انگریزی حکومت کو رحمت قرار دیا ہے اور اس قوم کی تعریف کی ہے۔ آپ کا یہ مطلب نہیں کہ انگریز انصاف زیادہ کرتے ہیںبلکہ ہوسکتا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں کوئی دوسری حکومت اس سے اچھی ہو۔ قابلِ تعریف یہی ہے کہ اس قوم کے تمدن کا طریق یہ ہے کہ اس نے اپنی حکومت کو انفرادی معاملات میں دخل اندازی کے اختیارات نہیں دیئے۔
پس اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ جس ملک میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پیدا کرنا تھا وہاں ایسی قوم حاکم ہو جو لوگوں کے معاملات میں کم سے کم دخل دینے والی ہو۔ پس انگریزوں کی حکومت اس لئے قابلِ تعریف نہیں کہ اس کے افسر باقی سب حکومتوں سے انصاف زیادہ کرنے والے ہیں یا وہ اسلام کی تعلیم کے زیادہ قریب ہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ وہ افراد کے معاملات میں بہت ہی کم دخل دیتی ہے۔ ان کی خوبی مثبت قسم کی نہیں بلکہ منفی قسم کی ہے۔ پس جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی دوستوں کو توجہ دلائی تھی۔ انہیں چاہئے کہ ان حالات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ اسلامی تعلیم کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ خیال کرکے بیٹھ رہنا بالکل نامناسب ہے کہ اسلامی تعلیم کا قیام اسلامی حکومت کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایسی باتیں تو سَو میں سے دس ہوں گی جو اسلامی حکومت سے تعلق رکھتی ہیں باقی نوے ایسی ہیںجو بغیر حکومت کے بھی قائم کی جاسکتی ہیں۔ نوے پر عمل کو اُس وقت تک ترک کرنا کہ دس پر عمل کرنے کا وقت آجائے، بیوقوفی ہے۔ جو شخص دس کی خاطر نوے ضائع کردیتا ہے اس کی مثال اس لڑکے کی ہے جسے اس کی ماں نے ایک پیسہ دیا تھا کہ بازار سے تیل خرید لائو۔ وہ گیا، دکاندار نے اپنے پیمانہ کو بھر کر اس کے کٹورے میں تیل ڈالا چونکہ کٹورا چھوٹا اور تیل کچھ زیادہ تھااس لئے تیل بچ گیا اور دکاندار نے کہا کہ یہ پھر کسی وقت لے جانا مگر لڑکے نے کہا کہ پھر کون آئے گا میں ابھی لے جاتا ہوں اور اس نے اپنا برتن اُلٹادیا اور اس کے پیندے پر جو چھوٹا سا خلا تھا اس میں باقی تیل ڈالنے کو کہا۔ اُلٹا کرنے سے کٹورے کے اندر جو تیل تھا وہ تو گر گیا۔ جب گھر پہنچا تو اس کی ماں نے کہا کہ کیا اتنا تھوڑا تیل دکاندار نے دیا ہے لڑکے نے کہا کہ نہیں، دوسری طرف بھی ہے اور یہ کہہ کر برتن سیدھا کردیا جس سے پیندے والا تیل بھی گر گیا۔
پس ہم بھی اگر دس باتوں کیلئے نوے کو ضائع کردیں تو ہماری مثال بھی اسی احمق کی سی ہوگی۔ ہم اس لڑکے کی مثال کو سنتے اور ہنستے ہیں مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو خود نوے کو دس کی خاطر ضائع نہیں کررہے ۔ اللہ تعالیٰ نے نوے فیصدی امور ہمارے اختیار میں دے دیئے ہیں اور ایسے حاکم دیئے ہیں جن کے ملک کا دستور یہ ہے کہ وہ انفرادی آزادی میںکم سے کم دخل دیتے ہیں۔ دنیامیں بعض حکومتیں ایسی ہیں جو افراد کے معاملہ میں زیادہ سے زیادہ دخل دیتی ہیں تا اصلاح ہو۔ وہ کہتی ہیں کہ جب ایک بات میں ملک کا فائدہ ہے تو کیوں لوگوں کو طاقت سے اس پر کاربند نہ کیا جائے۔ مگر بعض دوسری حکومتوں کا اصول یہ ہے کہ جب تک انفرادی معاملات میں کم سے کم دخل نہ دیا جائے ، افراد کی قوت قائم نہیں رہ سکتی اور ان کی ذہنی ترقی رُک جاتی ہے اور لوگ محض ایک مشین بن کر رہ جاتے ہیں اور انگریزوں کی قوم اس آخری اصول کی کاربند ہے۔اس کے برخلاف جرمن حکومت کا اصول یہ ہے کہ جب ایک بات مفید ہے تو اس بات کا انتظار کیوں کیا جائے کہ لوگ اس کے ذریعہ خود اپنی اصلاح کرلیں گے اور اپنے اپنے طور پر کوشش کرکے اس پر کاربندہوجائیں گے۔ کیوں نہ حکومت خود اسے قائم کردے اور جتنا چاہے دخل دے دے۔ اور اسلامی ترقی کیلئے ہندوستان میں زیادہ مفید وہی حکومت ہوسکتی تھی جو کم سے کم دخل دے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں انگریزی حکومت کو قائم کردیا۔ ہندوستان میں اس کے بجائے اگر کوئی اور حکومت ہوتی تو یہ تو ممکن تھا کہ ہندوستان دیگر لحاظ سے بہت ترقی کرتا۔ یہاں کی اقتصادی حالت اچھی ہوتی یا تجارت ترقی کرتی۔ یا یہ کہ آج ہندوستان میں زیادہ کارخانے ہیں، اس سے کئی گُنا زیادہ کارخانے ملک میں کھل جاتے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزی حکومت نے دو سو سال میں ہندوستان میں اتنا کام نہیں کیا جتنا اٹلی نے دو سال کے عرصہ میں حبشہ میں کیا ہے۔ پس اگر کوئی اَور حکومت یہاں ہوتی تو ممکن ہے بعض اور لحاظ سے ہندوستان کو زیادہ ترقی حاصل ہوجاتی مگر قومی اور شخصی اصلاح کے کاموں میں وہ آزادی ہرگز نہ ملتی جو انگریزی حکومت کے ماتحت اُسے حاصل ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایسے سامان پیدا کردیئے ہیں کہ ہم اسلامی تعلیم کے قیام کے دائرہ کو بہت وسیع کرسکتے ہیں اور اگر ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھی ہم ان کو قائم نہ کریں تو یہ ایک بہت بڑی حماقت ہوگی۔
انگریزی حکومت میں پرائیویٹ مدرسے جاری کرنے کی اجازت ہے مگر جرمنی میں نہیں۔ وہاں سب کو سرکاری مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبورکیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے مُلک میں دینی تعلیم کا انتظام نہیں ہوسکتا۔ روس میں پادری شور مچارہے ہیں کہ ہمیں مذہبی تعلیم کی اجازت نہیں دی جاتی مگر حکومت کہتی ہے کہ بائبل کی تعلیم دینا کسی کیلئے روٹی کے سوال کو حل نہیں کرتا اس لئے ہم تم کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ ایک شخص کو ناکارہ بنادو۔ ایسی تعلیم جوان ہونے کے بعد دی جاسکتی ہے۔ ہمیں تو ایسے آدمی کی ضرورت ہے جو زیادہ سے زیادہ روپیہ تجارت اور صنعت و حرفت کے ذریعہ دوسرے ممالک سے کھینچ سکے۔ اب دیکھو اگر کوئی ایسی ہی حکومت یہاں ہوتی تو ہم نہ احمدیہ سکول جاری کرسکتے تھے اور نہ مبلغین کے لئے جامعہ احمدیہ کے ذریعہ تعلیم کا انتظام کرسکتے تھے۔ حکومت سب کو جبراً سرکاری سکولوں میں تعلیم دلاتی اور دینی تعلیم کیلئے کوئی موقع نہ رہتا۔ سوائے اس کے کہ گریجوایٹ بن جانے کے بعد پھر نوجوانوں کی دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جاتا لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان میں بھی یہ آزادی کب تک قائم رہے۔ اب یہاں مُلکی حکومت قائم ہورہی ہے اور بعض وزراء نے اپنی تقریروں میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے کہ پرائیویٹ مدرسے بند کردینے چاہئیں۔ پس پیشتر اس کے کہ وہ دن آئیں یا ان کے آنے میں ہم روک بننے کے اہل نہ رہ سکیں ہمیں اسلامی تعلیم کو اس طرح اپنے اندر قائم اور جاری کرلینا چاہئے کہ اگر دینی سکول توڑ بھی دیئے جائیں تو ہر احمدی اپنی جگہ پر پروفیسر اور فلاسفر ہو جو اپنے بچوں کو گھر میں وہی تعلیم دے جو ہم نے سکولوں میں دینی ہے۔ اس وقت جو بچے ہیں وہ اپنی مائوں سے اور باپوں سے اور بھائیوں بہنوں سے وہی باتیں سُنیں جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منہ سے نکلی ہیں۔ اس طرح وہ وقت جو بچوں کو گھرمیں والدین کے پاس رہنے کیلئے ملتا ہے، اسی میں ان کی دینی تعلیم و تربیت ہوسکے گی۔ ماں باپ سے ملنے کا وقت بچوں کو سخت سے سخت حکومتوں کے ماتحت بھی ملتا ہے۔ حتّٰی کہ روس میں بھی جہاں بہت پابندیاں ہیں، والدین سے بچوں کو ملنے کی اجازت ہے۔ پس اگر کوئی ایسا وقت آبھی جائے جب دینی تعلیم کا انتظام حکومت ہمیں کرنے نہ دے۔ اُس وقت وہ وقت جو بچے والدین کے پاس گزاریں ان کی دینی تعلیم کو مکمل کرنے کا ذریعہ بن جائے۔
اس کے علاوہ علمُ النفس کا بھی ایک نکتہ ہے جسے ہم کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ جب کسی قوم کے اندر کوئی اچھی تعلیم قائم ہوجائے تو وہ بجائے خود ایک خاموش تبلیغ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اگر ہماری جماعت غلط خیالات پر مُصِر نہ رہے، قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق یہ نہ کہے کہ وہ ہے تو بہت اچھی مگر اس سے ہر موقع پر گزارہ نہیں ہوسکتا بلکہ اسے ہر حال میں قائم کرے اور اس پر عمل کرے اور اس طرح دنیا کو اسے دیکھنے کا موقع دے۔ تو چونکہ وہ بہت اچھی تعلیم ہے دیکھنے والوں کے دل میں خودبخود یہ خیال پیدا ہوگا کہ ہمیں بھی اسے اختیار کرنا چاہئے۔
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں بعض چیزیں اخلاق کے لحاظ سے سخت مُضِر ہوتی ہیں، بعض صحت کے لحاظ سے مُضِر ہوتی ہیں مگر چونکہ وہ بظاہر اچھی نظر آتی ہیں اس لئے لوگ خودبخود انہیں اختیار کرتے جاتے ہیں۔ بھلا کوئی مبلغ کسی جگہ لوگوں کو یہ تلقین کرنے کیلئے گیا ہے کہ مانگ نکالا کرو مگر دیکھ لو ماں باپ بھی سمجھاتے ہیں، استاد بھی منع کرتے ہیں اورلوگ بھی کہتے رہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے تمہیں مرد بنایا ہے یہ عورتوں والی ہیئت کیوں بناتے ہو مگر آجکل کے لڑکے ہیں کہ اس سے کسی صورت نہیں رُکتے۔ جس کے پاس کوئی اعلیٰ قسم کا تیل نہ ہو وہ بازار سے ایک پیسے کا کڑوا تیل ہی لے آئے گا اور ٹوٹی ہوئی کنگھی کے ساتھ ٹیڑھی مانگ نکال کر اس طرح اکڑ اکڑ کر چلے گا کہ گویا بادشاہ نے اُسے وزیر اعظم مقرر کردیا ہے۔ پھر کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ لیکچرار لیکچر دیتے پِھرتے ہوں کہ داڑھیاں مُنڈوائو۔ مگر جب ایک ہندوستانی نوجوان ایک انگریز کو دیکھتا ہے کہ ڈاڑھی منڈائے ہوئے اور پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈال کر پھررہا ہے تو وہ خودبخود چاہتا ہے کہ میں محمد ابراہیم نہ رہوں بلکہ ٹامسن ہوجائوں۔ کیونکہ وہ عزت والا ہے اور اس کی نقل کرنے سے میں بھی شاید عزت والا سمجھا جانے لگوں۔ اور اسے اگر سیفٹی ریزر نصیب نہ ہو تو وہ دیسی کُند اُسترے سے اپنی ٹھوڑی پر خواہ دس زخم کیوں نہ کرے لیکن بال ضرور نوچ ڈالے گا۔ تاوہ بھی مسٹر ٹامسن معلوم ہو کیونکہ اسے اس میں ایک خوبصورتی نظر آتی تھی۔ چونکہ اسے اپنی مرعوب شدہ آنکھوں سے وہ دیکھتا ہے۔ مسٹر ٹامسن خوبصورت نظر آتا ہے اس لئے جھَٹ اُس کی نقل کرتا ہے۔ سو تم اگر اسلام کی تعلیم کو عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کرو، خداتعالیٰ کی صفات کو پیش کرو توکیا تم سمجھتے ہو کہ لوگ انہیں اختیارنہ کریں گے اور تمہاری نقل نہ کرنے لگیں گے!
مجھے اِنہی دنوں یورپ سے ایک مبلّغ کی چِٹھی آئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میری ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جو روسی نظامِ حکومت کا قائل تھا اور خیال رکھتا تھا کہ اس کو قائم کئے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا لیکن میں نے جب اُس کے سامنے آپ کی کتاب احمدیت سے اسلامی نظامِ حکومت والا حصہ رکھا اور اُسے کہا کہ اِن دونوں کا مقابلہ کرو اور دیکھو کہ سوویٹ سکیم میں جو نقص ہیں وہ اس میں دور کردیئے گئے ہیں یا نہیں اور اس کی خوبیاں اس میں موجود ہیں یا نہیں؟ تو وہ کہنے لگا کہ ہاں اگر ایسی حکومت دنیا میں قائم ہوسکے تو پھر کسی اور کی ضرورت نہیں۔ اس دوست نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور لکھا ہے کہ میرے لئے ایسے خیالات کے آدمی سے ملاقات کا پہلا موقع تھا اور اسلام کی تعلیم نے جس طرح اس پر اثر کیا اس سے مجھے خیال ہؤا کہ یہ کس طرح دلوں کوموہ لینے والی تعلیم ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہم اسے دنیا کے سامنے پیش ہی نہیں کرتے۔ منہ سے تو کہتے ہیں کہ یہ تعلیم بہت اچھی ہے مگر چھوٹی چھوٹی باتوں میں کہ جو سب کو نظر آنے والی ہوتی ہیں عملی طور پر انہیں پیش نہیں کرسکتے۔ ہم میں سے بہت سے ہیں جن کو یہ بھی علم نہیں کہ ماں باپ اور بیٹوں کے باہمی تعلقات کے متعلق اسلام نے کیا تعلیم دی ہے۔ ہمسائیوں کے متعلق کیا تعلیم دی ہے، کون سے اصول ہیں جن کی پابندی ضروری رکھی ہے۔ مگر ان کی پابندی کا کبھی خیال بھی ہمارے دل میں نہیں آتا۔ منہ سے لَااِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ کہتے ہیں اور خیال کرلیتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا۔ ہماری مثال اُس کمزور ہندو کی ہے جس کا مذہب اسے صبح ہی صبح دریا پر نہانے کا حکم دیتا ہے۔ مگر سردی کی وجہ سے اس کے لئے چونکہ یہ مشکل ہوتا ہے اس لئے وہ پانی کی گڑوی اپنے سر کے اوپر پھینکتا ہے اور خود کُود کر آگے ہوجاتا ہے اور اس طرح اس کا بدن خشک ہی رہتا ہے۔ بعینہٖ یہی حالت ہماری ہے۔ ہم اسلامی تعلیم کی گڑوی اس طرح اوپر پھینک کر خود آگے چھلانگ لگا جاتے ہیں کہ اس کا کوئی چھینٹا بھی ہمارے اوپر نہیں گرتا اور اس کے باوجود دل میں خوش ہوتے ہیں کہ اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہیں۔
پس مَیں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ جلسہ سالانہ پر جس بات کا وعدہ انہوں نے کیا تھا اسے عملی رنگ میں پورا کریں۔ میں علماء سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اسلامی تمدن کا پوری طرح مطالعہ کریں اور قرآن کریم اور احادیث سے اس کے احکام کو اچھی طرح مستنبط کریں اور پھر دیکھیں کہ اس کا کونسا حصہ ایسا ہے جس پر ہم آج بھی عمل کرسکتے ہیں اور پھر اسے جماعت کے سامنے بار بار پیش کریںاور لوگوں کے دماغوں میں اسے اس طرح ٹھونسنے کی کوشش کریں کہ پھر وہ نکل ہی نہ سکے۔ ہم میں سے ہر فرد کو جس طرح یہ معلوم ہے کہ میں احمدی ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام راستباز ہیں اسی طرح ہر زمیندار احمدی تک کو یہ علم ہونا چاہئے کہ اُس کے بیوی بچوں کے اُس پر کیا حقوق ہیں اور ان کے متعلق اُس پر کیا ذمہ داریاں ہیں، زراعت کے متعلق، امانت و دیانت کے متعلق، لین دین کے متعلق، دوسروں سے سلوک کے متعلق اسلام نے کیا تعلیم دی ہے اوریہ چیزیں اسے اس طرح یاد ہوں کہ آپ ہی آپ اس کے منہ سے نکلتی جائیں اور اس کے اعمال سے ظاہر ہوتی رہیں اور اس کے اندر اس طرح راسخ ہوجائیں کہ ان کا نکالنا مشکل ہو۔ جو بات اچھی طرح دل میں گڑ جائے پھر اس کا نکالنا بہت مشکل ہوجاتاہے۔ کہتے ہیں کوئی شخص ہندو سے مسلمان ہؤا تھا، کسی مجلس میں بیٹھا۔ جس طرح مسلمانوں میں اچنبھے کی کوئی بات سن کر اگر وہ بُری ہو تو اَسْتَغْفِرُاللّٰہ اور اچھی ہو تو سُبْحَانَ اللّٰہ کہتے ہیں، اسی طرح ہندوئوں میں رام رام کہتے ہیں۔ اس مجلس میں کسی نے کوئی اچنبھے کی بات کہی تو اس کے منہ سے بے اختیار رام رام نکل گیا۔ کسی نے کہا مسلمان ہوکر بھی رام رام ہی کہتے ہو! تو اُس نے جواب دیا کہ میری زبان پر اللہ تعالیٰ کا لفظ تو آہستہ آہستہ ہی جاری ہوگا اور رام رام ذرا مشکل سے ہی نکلے گا۔ تو انسان کو جس بات کی عادت پڑ جائے اُس کا نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لئے اگر ہماری جماعت باہمی تعاون کے ساتھ اس بات کے پیچھے پڑ جائے کہ اسلامی تعلیم کو رائج کرنا ہے اِس کے متعلق کتابیں لکھی جائیںاور سوال و جواب کے رنگ میں چھوٹے چھوٹے رسالے شائع کئے جائیں۔ جس طرح پکی روٹی یا اور اسی قسم کی پنجابی کتابیں موجود ہیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ ان میں کیا ہے لیکن بہرحال ایسی چھوٹی چھوٹی کتابیں جن میں سوال و جواب کی صورت میں اسلامی باتیں سکھائی گئی ہوں، تو ایسی کتب اس مقصد کے حصول کیلئے بہت مفید ہوسکتی ہیں اس لئے پنجابی میں، اردو میں، نظم میں، نثر میں ایسی باتیں لوگوں کے ذہن نشین کی جائیں کہ فلاں موقع پر کیا کرنا چاہئے، فلاں بات یوں کرنی چاہئے۔ غصہ کے وقت جو جذبات انسان کے ہوتے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا کرنا چاہئے۔ مثلاً رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر غصہ آجائے تو بیٹھ جائو، پھر بھی غصہ فرو نہ ہو تو ٹھنڈا پانی پیو، پھر بھی اگر غصہ دور نہ ہو تو وہاں سے ہٹ جائو۔۳؎ اب اگر یہ باتیں لوگوں کو اچھی طرح یاد کرادی جائیں تو روزمرہ کے وعظوں کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ سکتی۔ ناممکن ہے کہ ان سب باتوں پر انسان عمل کرے اور پھر بھی اس کا غصہ دور نہ ہو۔ ان سب باتوں کے کرنے کے دوران میں ضرور کسی نہ کسی نماز کا وقت آجائے گا اور اگر انسان نماز باترجمہ جانتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز کے وقت اس کا غصہ دور ہوجائے۔ پھر ایک صورت غصہ کی یہ ہوسکتی ہے کہ جس بات کے متعلق غصہ ہے وہ مستقل نقصان کا موجب ہوسکتی ہو اور ہو بھی میاں بیوی کے درمیان۔ اس حالت کے متعلق بتایا جائے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے مسلمان کو کیا کرنا چاہئے۔ مثلاً یہ کہ ایسے موقع پر اسلام کا حکم ہے کہ ۴؎ مقرر کرو۔ یہ ایک ایسا حکم ہے جس پر عمل کی ضرورت میرے خیال میں ہزاروں کو پیش آتی رہتی ہے مگر وہ اس پر عمل نہیں کرتے کیونکہ انہیں علم ہی نہیں ہوتا۔ لوگ کیا کرتے ۔ جب غصہ آیا جھٹ کہہ دیا طلاق۔ طلاق۔ طلاق۔ تین طلاق۔ دس طلاق۔ سَوطلاق۔ ہزار طلاق۔ تم میری ماںہو، بہن ہو۔ حالانکہ اس سے زیادہ بیہودہ بات کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔
ایک وقت میں تو تین طلاقیں جائز ہی نہیں ہیں۔ مگر لوگ اس طرح طلاق طلاق کہتے چلے جاتے ہیں کہ گویا اس عورت کو سوٹے لگ رہے ہیں اور انہیں وہ ذرائع معلوم ہی نہیں جو غصہ کو فرو کرنے کے ہیں۔ اور پھر انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ مستقل نقصان کی صورت میں اگر اس کا بیوی کے ساتھ ، بھائی بہن، ماں باپ یا ہمسایہ کے ساتھ جھگڑے سے تعلق ہو تو اس کے متعلق کیا کیا احکام ہیں حالانکہ اگر ان باتوں کا علم ہو تو انسان بہت سی پریشانیوں سے بچ سکتا ہے۔ پھر یہ پتہ نہیں کہ بیٹے کی جائیداد کے معاملہ میں ماں باپ کیلئے کیا حکم ہے۔ شریعت نے بیٹے کی جائیداد پر والدین کا اختیار نہیں رکھا۔ اولاد کو یہ اخلاقی تعلیم دی ہے کہ والدین کی خدمت کرے مگر یہ نہیں کہ جس طرح چاہیں اس کی جائیداد کو استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر ماں باپ کو ایسا حق ہوتا تو ان کیلئے شریعت زکوٰۃ کو جائز نہ رکھتی کیونکہ اپنے مال کی زکوٰۃ اپنے لئے جائز نہیں۔ پھر بیٹے کی جائیداد میں باپ کیلئے شریعت نے ورثہ رکھا ہے اور انسان اپنے ہی مال کا وارث نہیں ہؤا کرتا۔
پھر نکاح کے متعلق باپ کی مرضی کو شریعت نے ایک حد تک ضروری رکھا ہے اور اگر اس کی مرضی کے خلاف ہو تو باپ کہہ سکتا ہے کہ بیوی کو طلاق دے دے۔ مگر شادی ہوجانے کی صورت میں وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ بیوی سے تعلق نہ رکھو یا اس سے علیحدہ رہو۔ اگر لوگوں کو شریعت کے احکام کاعلم ہو تو اب اگر وہ نو سَو ننانوے نافرمانیاں ہزار میں سے کرتے ہیں تو پھر یقینا ایک رہ جائے اور وہ بھی کبھی جوش کی حالت میں۔ جوش کی حالت میں کسی بات کا نظر انداز ہوجانا اور بات ہے لیکن عدمِ علم کی وجہ سے تو کئی احکام کی تعمیل سے انسان رہ جاتا ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ان امور کی طرف ہماری جماعت کے دوستوں کی کوئی توجہ نہیں۔ نہ ذمہ دار افسر توجہ کرتے ہیں، نہ علمائ، نہ مدرّس اور نہ انجمن کے ناظر۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اصل غرض جو آپ کو الہام میں بتائی گئی یہی ہے کہ یُحْیِ الدِّیْنَ وَ یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ ۵؎کہ وہ دین کو زندہ اور شریعت کو قائم کرے گا۔ پس ہمار افرض ہے کہ شریعت جو مٹ چکی ہے ، جو ہزاروں پردوں کے نیچے چھُپ گئی ہے ، مسلمانوں کے نہ عوام اس پر عمل پیرا ہیں اور نہ علماء بلکہ ان کا علم بھی کسی کو نہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے تو کہا تھا کہ فریسی جو کہتے ہیں وہ کرو۔ جو کرتے ہیں وہ نہ کرو۔۶؎ مگر اب تو یہ حالت ہے کہ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے اس لئے جو کہا جاتا ہے وہ بھی اسلام کے خلاف ہے اور جو کیا جاتا ہے وہ بھی خلاف۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہزاروں توہمات اور رسومات کے نیچے دبے ہوئے اسلامی آثار کو پھر نکالیں۔ انگریز لاکھوں من مٹی کو کھدواتے ہیں اور جب نیچے سے قدیم زمانہ کا ایک مٹی کا پیالہ بھی مل جاتاہے تو بہت خوش ہوتے ہیں اور پھُولے نہیں سماتے مگر ہماری تو ساری جائیدادیں ہی مٹی کے نیچے دفن ہیں۔ کیا ہمیں ان کے نکالنے کی کوئی فکر نہ کرنی چاہئے؟ شریعت کے ایسے ایسے مخفی خزانے زمین کے نیچے دفن ہیں کہ جن کی قیمت کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہوسکتا۔ انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس کیلئے مفصّل ہدایات موجود نہ ہوں اور جو ایسی روشن نہ ہو کہ جنہیں دیکھ کر تیز سے تیز نظر والے انسان کی آنکھیں بھی چُندھیانہ جائیں۔ مگر یہ سب خزانے رسوم اور جہالتوں اور نسیان کی مٹی کے نیچے دفن ہیں اور ایک بے قیمت چیز کی طرح پڑے ہیں اور اُنہیں نکالنے کی طرف ہماری توجہ بالکل نہیں اور اس کام سے بالکل بے فکر ہیں۔
پس مَیں احباب جماعت کو ان کا عہد یاد دلاتا ہوں جو جلسہ سالانہ کے موقع پر انہوں نے کیاتھا اور یہ ہدایت کرتا ہوں کہ میرے اِس خطبہ کو ہر جگہ تمام دوستوں کو اکٹھا کرکے سنایا جائے اور ان سے پھر عہد لیا جائے کہ وہ اسلامی تمدن اور اس کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں گے۔ جلسہ سالانہ کی تقریر تو معلوم نہیں کب تک چھپے۔ گزشتہ سال کی تقریر بھی ابھی تک مجھے نہیں پہنچی اس لئے دوست کوشش کریں کہ یہ خطبہ ہر ایک احمدی تک پہنچ سکے۔ یوں بھی جلسہ سالانہ پر سب لوگ نہیں آسکتے۔ بہت سے احمدی ہیں جنہوں نے اِس تقریر کو نہیں سُنا۔ پھر قادیان کے بھی کئی احمدی ہیں جو انتظاماتِ جلسہ کی وجہ سے یہ تقریر نہیں سن سکے اس لئے قادیان کی سب مساجد میںبھی اس خطبہ کو بار بار پڑھ کر سنایا جائے اور جلسہ پر جو عہد لئے گئے تھے انہیں بھی دُہرایا جائے اور پھر جماعت سے وعدہ لیا جائے کہ وہ اس پر عمل کریں گے اور احیائے دین اور قیامِ شریعت کی بنیادوں کو مضبوط کریں گے۔ تا قلیل سے قلیل عرصہ میں وہ تمدن قائم ہوجائے جس کو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے اور جس کو قائم کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ پس ہر جگہ یہ خطبہ سب دوستوں کو جمع کرکے سنایا جائے۔ قادیان میں بھی کئی مساجد میں نماز ہوتی ہے اس لئے یہاں بھی ہر مسجد میں اسے سنایا جائے اور دوبارہ سب سے وعدے لئے جائیں کہ وہ اس کی ہدایتوں کے مطابق عمل کریں گے۔ بیرونی جماعتوں میں کثرت سے ایسے لوگ ہیں جو جلسہ کے موقع پر نہیں آئے تھے اس لئے اس امر کی ضرورت ہے کہ اس خطبہ کو لوگوں تک پہنچایا جائے اور اسے سنا کر لوگوں سے اقرار لئے جائیں کہ وہ آئندہ اسلامی تمدن اور تہذیب کے مطابق عمل کریں گے۔ اور جہاں تک حکومت کا قانون ان کو اجازت دیتا ہے تمدنی، معاشی، معاشرتی اور دوسرے معاملات میں اسلامی تعلیم کو رائج کریں گے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں۔ بعض چیزیں جو دل میں گڑ جاتی ہیں ان کا نکالنا مشکل ہوتا ہے اس لئے اس کام پر سخت جدوجہد کرنی ہوگی۔ مثلاً بددیانتی اور محنت نہ کرنے کا مرض ہے۔ یہ ایسا مرض ہے جو بہت ہی خطرناک اور بہت سے نقصانات کا موجب ہے اور یہ ہماری جماعت میں بھی پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ دوسروں سے بِلاوجہ روپیہ لے لیتے ہیں اور پھر ادا کرنے کے وقت ہنس کر کہہ دیتے ہیں کہ ضائع ہوگیا۔ بعض امانتیں رکھ لیں گے مگر پھر ادا نہیں کریں گے اور ان چیزوں کو دور کرنے کیلئے ہمارے دوستوں کو بہت سی لڑائی اپنے نفسوں سے اور دوسروں سے کرنی پڑے گی لیکن نتیجہ نہایت اچھا ہوگا کیونکہ اگر ہماری جماعت اپنی دیانت کا سکہ بٹھادے اور اس لحاظ سے اپنی شُہرت قائم کرلے تواقتصادی مشکلات کا خودبخود حل ہوسکتا ہے اس صورت میں لوگ خود آ آ کر ان کو روپیہ دیںگے۔
جب دہلی کا غدر ہؤا تو اس وقت دہلی میں حکیموں کا خاندان دیانت کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ اب میں نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے اپنا وہ معیار قائم رکھا ہؤا ہے یا نہیں۔ لیکن اُن دنوں میں اس لحاظ سے ان کی شُہرت بہت تھی اور ان کی بات بینک کی رسید سمجھی جاتی تھی۔ جب غدر ہؤا اُس زمانہ میں اس خاندان کے بڑے غالباً حکیم محمود خان صاحب تھے جو پٹیالہ کے شاہی خاندان کے طبیب تھے اور ریاست پٹیالہ کی فوجیں انگریزوں کی فوجوں سے مل کر باغیوں سے لڑ رہی تھیں۔ جب دلی فتح ہوئی تو ایسے موقعوں پر چونکہ لُوٹ مار ہوتی ہے اس لئے مہاراجہ پٹیالہ نے انگریز افسروں کو کہلا بھیجا کہ ہمارے حکیم صاحب کے مکان پر ایک گارد رہے گی تا ان کا مکان کوئی نہ لُوٹ سکے۔ چنانچہ پٹیالہ کی فوج کی گارد ان کے مکان پر پہرہ دینے لگی۔ لوگ اپنی جانیں بچانے کیلئے شہر سے بھاگ رہے تھے اور جاتے جاتے اپنے قیمتی اموال کی پوٹلیاں مَعَ اپنے پتہ وغیرہ کے ان کی ڈیوڑھی میں پھینک جاتے تھے۔ چونکہ گارد کی وجہ سے اندر جانا یا بات کرنا مشکل تھا اس لئے بھاگتے بھاگتے ڈیوڑھی میںپھینک جاتے تھے۔ میں نے اپنے ننھیال کے رشتہ داروں سے یہ باتیں سُنی ہیں کہ امن قائم ہونے پر جب لوگ واپس آئے تو ہر ایک کی امانت اُسے مل گئی۔ ملک میں بددیانتی عام ہونے کی وجہ سے یہ بات بہت ہی عجیب معلوم ہوتی ہے لیکن اگر دنیا میں اسلامی تعلیم قائم ہوتی اورمعیار اس کے مطابق ہوتا تو یہ کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی۔پس اگر ہماری جماعت کے اندر امانت کی روح قائم ہوجائے تو پھر یہ سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ روپیہ کہاں سے آئے ۔ میں مانتا ہوں کہ سب بددیانت نہیں ہیں لیکن جب سَو میں سے دس بددیانت ہوں تو باقیوں کی امانت بھی مشتبہ ہوجاتی ہے۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جو نظام کے ذریعہ سے ہی قائم کی جاسکتی ہیں، بغیر نظام کے نہیں۔ مثلاً اگر بددیانت کو سزا نہ دی جائے تو اس کا انسداد نہیں ہوسکتا۔ مگر اب کیا ہوتا ہے اگر کسی کے خلاف بددیانتی کی وجہ سے کارروائی کی جائے تو محلہ کے آدھے لوگ اس کی تائید میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور جب یہ حالت ہو تو کسی کو سبق کیسے مل سکتا ہے اور اس بدی کو کیسے مٹایاجاسکتا ہے۔
انگلستان کے تاجر اس بات میں مشہور ہیں کہ وہ دھوکا نہیں کرتے اور اس شُہرت کی وجہ سے وہ فائدہ بھی بہت اُٹھاتے ہیں۔ وہ امانت اور دیانت سے تجارت اس وجہ سے نہیں کرتے کہ وہ اس کو مذہباً اچھا سمجھتے ہیں بلکہ وہ جانتے ہیںکہ ان کو چھوڑنے سے ہماری تجارت کو نقصان پہنچے گا۔ مذہب کے وہ اتنے قائل نہیں ہوتے مگر تجارتی مفاد کے لئے اس حکم پر سختی سے عمل کرتے ہیں اس لئے تجارتی دنیا میں ان کی بات کو بہت پختہ سمجھا جاتا ہے۔ ان میں بھی بددیانت لوگ ہیں مگر بہت بڑی کثرت چونکہ دیانت سے کام کرنے والوں کی ہے اس لئے وہ اپنی قومی ساکھ کو قائم رکھ رہے ہیں۔ تو قومی دیانت سے ایسا اعتبارقائم ہوجاتا ہے کہ غیر قوموں کے لوگ بھی خود آآ کر روپیہ دیتے ہیں۔ مسلمانوں میں جب تک دیانت قائم تھی، تجارت کا یہی اصول تھا۔ جب تاجروں کا قافلہ روانہ ہونے لگتا تو لوگ خود آ آ کر روپیہ دے جاتے تھے۔ وہ لے آتے تھے اور پھر واپس جاکر منافع ان میں تقسیم کردیتے تھے۔ آج لوگ کہتے ہیں ہم تجارت کس طرح کریں حالانکہ اگر قومی دیانت قائم ہوجائے تو وہ لاکھوں روپیہ جو لوگوں کے گھروں میں پڑا ہے فوراً باہر آسکتا ہے۔ یہاں قادیان میںہی لوگوں کے پاس کافی روپیہ ہے۔ اگرچہ تنخواہیں اور آمدنیاں کم ہیں مگر ہم چونکہ کفایت سے گزارہ کرنا سکھاتے ہیں اور اسراف سے روکتے ہیں اس لئے لوگ کچھ نہ کچھ پس انداز کرلیتے ہیں۔ میںنے دیکھا ہے کہ جب کسی نفع مند سَودا کا موقع ہو تو لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ سفارش کریں یہ ہمیں حاصل ہوجائے اور کبھی ایسا نہیںہؤ اکہ کسی ایسے موقع پر باہر سے کسی کی طرف سے انتظار کرنا پڑے۔ اگر ایک ہزار کی جائیداد کے متعلق دس بھی ایسی درخواستیں آئیں تو اس سے یہ تو معلوم ہوسکتا ہے کہ ان دس لوگوں کے پاس دس ہزار روپیہ موجود ہے۔ پس اگر لوگوں کو یہ یقین ہوجائے کہ دوسروں کے ہاتھ میں جاکر ان کا روپیہ محفوظ رہے گا تو نہ صرف احمدی بلکہ دوسری قوموں کے لوگ بھی بخوشی اپنا روپیہ دے سکتے ہیں۔ مگر یہ بات انفرادی دیانت سے حاصل نہیں ہوسکتی، شُہرت ہمیشہ قومی دیانت ہی پکڑتی ہے اور اُسی وقت لوگ اپنا روپیہ دینے کیلئے تیار ہوسکتے ہیں جب یہ بات عام طور پر تسلیم کی جاچکی ہو کہ احمدی بددیانت نہیں ہوسکتا۔
میںبتاچکا ہوں کہ انگلستان کے تاجر اپنی اس دیانت کی وجہ سے تمام دنیا سے مال و دولت اکٹھی کرکے لے گئے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں دھوکا کا خطرہ نہیں۔ اس لئے وہ سَودا دو پیسے گراں لے لے گا مگر لے گا انگلستان سے ہی۔ تو بعض باتیں بظاہر چھوٹی ہوتی ہیں مگروہ اقوام کی حالت کو بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ جس طرح دیانت قوم کی مالی حالت کو بہتر بنادیتی ہے اسی طرح بددیانتی سے نقصان پہنچتا ہے۔ ایک شخص جو ایک روپیہ کسی کا کھاجاتا ہے، وہ تو خیال کرتا ہے کہ میں نے ایک روپیہ کھایا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک نہیں ایک کروڑ بلکہ ایک ارب کھاتا ہے کیونکہ اس کے ایک روپیہ کھانے کے یہ معنے ہیں کہ قومی دیانت پر حرف آئے گا اور قومی دیانت کی شُہرت کی صورت میں دوسروں سے جو کروڑ ہا روپیہ حاصل کیا جاسکتا تھا وہ نہ مل سکے گا۔ کیونکہ اس کی بددیانتی سے قومی دیانت کے متعلق شکوک پیدا ہوجائیں گے۔
پس یہ معمولی باتیں نہیں ہیں اور نہ معمولی کوشش سے حاصل ہوسکتی ہیں۔ اور اگر تم انہیں اپنے اندر پیدا کرلو تو پھر حکومتیںبھی اور بادشاہتیں بھی تمہارے سامنے جُھکیں گی اور سمجھیں گی کہ ان سے ملنے میں فائدہ ہے۔ اسی طرح اگر تم سچائی کا معیار بلند قائم کرلو تو اگر ایک شخص تم پر الزام لگانے والا ہو تو سَو اس کی تردید کیلئے کھڑا ہوجائے گا اور کہے گا کہ ہرگز نہیں، احمدی جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ اخلاقی لحاظ سے اصولی صداقتیں چار ہیں۔ دیانت، صداقت، محنت اور قربانی۔ اور اگر یہ چار تم اپنے اندر پیدا کرلو تو یقینا تم کامیاب ہوسکتے ہو۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی انسان سے تعلق رکھنے والی ابتدائی صفات چار ہی ہیں اسی طرح یہ چار اصولی صداقتیں ہیں جن کے ماتحت سارے اخلاق آجاتے ہیں۔ میں اس مضمون کو زیادہ وضاحت سے بیان کرنا چاہتا تھا مگر اب چونکہ دیر ہوگئی ہے اس لئے اِسی پر بس کرتا ہوں۔‘‘ (الفضل ۲۱؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوۃ بَدْرٍ
۲؎ تحفہ قیصریہ صفحہ ۳۱ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۲۸۳ (مفہوماً)
۳؎ ابو داؤد کتاب الادب باب مَایُقَالُ عِنْدَالْغَضَبِ
۴؎ النسائ: ۳۶
۵؎ تذکرہ صفحہ ۷۰ ایڈیشن چہارم
۶؎ متی باب ۲۳ آیت ۲،۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی ۱۸۸۷ء لندن (مفہوماً)

۳
متواتر اور مسلسل قربانیوں سے ہی خداتعالیٰ حاصل ہوتا ہے
(فرمودہ ۲۱؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’پچھلے جمعہ کے بعد سے مجھے گلے کی تکلیف ہے اور اس وجہ سے میں بلند آواز سے نہیں بول سکتا۔ پس اپنی آواز دوسرے دوستوں کی وساطت سے پہنچاتا ہوں (تین دوست بلند آواز سے خطبہ کے الفاظ دُہرانے کیلئے مقرر کئے گئے تا حاضرین تک آواز پہنچاسکیں)۔
تحریک جدید کے دوسرے دَور کے مالی وعدے کا زمانہ اب چند دنوں میں ختم ہونے والا ہے۔ اور جیسا کہ میں اعلان کرچکا ہوں ۳۱؍ جنوری کے بعد ہندوستان کے اُن علاقوں کے جن میں اُردو بولی جاتی یا سمجھی جاتی ہے مزید وعدے وصول نہیں کئے جائیں گے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس خطبہ کے ذریعہ سے جو اس دَوران میں چھپ کر جماعت تک پہنچنے والے خطبوں میں سے آخری خطبہ ہوگا جماعت کو پھر ایک دفعہ ان کی مالی خدمات کے سلسلہ میں ذمہ داریوں اور دوسری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلادوں۔
خداتعالیٰ کے کام ہوکر رہیں گے اوربندوں کی سُستی یا غفلت ان میں کوئی حرج پیدا نہیں کرسکتی۔ وہ جو سُستی کرتا ہے خود اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو خداتعالیٰ کے فضلوں سے محروم کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کا دین زید یا بکر کا محتاج نہیں۔ اگر زید یا بکر پہلی آواز دینے والوں میں سے بنیں تو خداتعالیٰ دوسرے ثواب کی پہلی آواز بھی انہی تک پہنچاتا ہے لیکن اگر وہ اس آواز کو نہ سُنیں اور اس کی طرف سے اپنے کان بہرے کرلیں تو پھر وہ اَور دوسرے شخصوں کو آگے لے آتا ہے تاکہ وہ اس کے دین کی خدمت کریں کہ خداتعالیٰ کی فوج میں تھک جانے والے اورملال پیدا کرنے والے اور ہتھیار پھینک دینے والے اور نتائج کے متعلق جلد بازی کرنے والے کبھی قبول نہیں ہوتے۔ تھوڑی سی قربانیوں کے بعد بڑی اُمنگوں کے ساتھ تو ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی بھی کھڑے ہوجاتے ہیں اور وقتی قربانی خواہ کتنی ہی عظیم الشان ہو، کمزور سے کمزور انسان بھی پیش کرنے کیلئے تیار ہوجاتا ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ تھوڑے سے وقت میں کسی اشتعال کے ماتحت یا جوش کے ماتحت بڑی سے بڑی قربانی کرنا کمزوروں ہی کا کام ہے اور طاقتور اور مضبوط ایمان والے وہی ہوتے ہیں جن کا قدم مضبوطی کے ساتھ ایسے مقام پر قائم ہوتا ہے کہ دن کے بعد دن اور ہفتے کے بعد ہفتہ اور مہینے کے بعد مہینہ اور سال کے بعد سال اوردسیوں سال کے بعد دسیوں سال مصائب اور قربانی کے گزرتے چلے جاتے ہیں لیکن ان کے دل میں اپنے آرام کی خاطر کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ منزلِ مقصود کب آنے والی ہے اور انہیں بیٹھنے کا موقع کب ملے گا۔ وہ اگر کبھی دعا کرتے ہیں اور مَتٰی نَصْرُاللّٰہِ ۱؎کہتے ہیں تو صرف اس لئے کہ خدا کا جلال ظاہر ہو ۔نہ اس لئے کہ ہماری قربانیوں کا زمانہ ختم ہو کیونکہ وہ جو خداتعالیٰ کے سچے شیدا ہوتے ہیں ان کی منزلِ مقصود کوئی دنیا کی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ وصالِ الٰہی ان کامنزلِ مقصود ہوتا ہے اور وہ ہردم اور ہر لحظہ انہیںحاصل ہوتا چلا جاتا ہے۔ پس وہ یہ کبھی نہیں دیکھتے کہ ان کی مادی قربانیوں نے کیا مادی نتائج پیدا کئے ہیں اور وہ اپنے بوئے ہوئے درختوں کو اس لالچ سے نہیں دیکھتے کہ وہ ان کے ثمرات کھائیں گے بلکہ وہ انہیں چھوڑ دیتے ہیں دوسروں کیلئے کہ وہ ان کے ثمرات کھائیں اور وہ اپنی کوششوں کا ثمرہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہی کی صورت میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ کس نے قربانیاں کی ہیں اور کون قربانیاں کرسکتا ہے لیکن آپ کو ہم دیکھتے ہیں کہ اِنہی قربانیوں میں آپ اِس جہان سے گزرگئے اور اِس دنیا کی ترقیات کا زمانہ آپ کی زندگی میں نہیں آیا۔ قیصر اور کسریٰ کے خزانے جو اُن قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہوئے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کی تھیں وہ جاکر حضرت عمر رضی اﷲعنہ کے زمانہ میںفتح ہوئے اور ان کا فائدہ زیادہ تر اُن لوگوں نے حاصل کیا جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر میں ابوجہل اور ابوسفیان کے لشکر میں شامل ہوکر مسلمانوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے۔ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی آخری عمرمیں ایمان لائے اور فتوحات کے زمانہ میں تھوڑے سے عرصہ کیلئے لڑائیوں میں بھی شامل ہوئے اور پھر فتوحات میں حصہ دار بن کر ہر قسم کی راحت و آرام حاصل کرنے والے ہوگئے۔ اور وہ جنہوں نے قربانیاں کی تھیں اور جو آسمان سے اس بہشت کو کھینچ کر لائے تھے وہ اپنے خد اکے پاس مدتوں پہلے جاچکے تھے یا ان چیزوں سے مستغنی ہوکر اپنے رب کی یاد میں بیٹھے تھے یا خدمتِ خلق میں مشغول تھے۔ کیا عجیب نظارہ ہمیں نظر آتا ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسجد میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد معاویہ ہزاروں مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوتے ہیں وہی معاویہ جو فتح مکہ تک برابر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف لڑتے رہے تھے اور کھڑے ہوکر مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اے مسلمانو! تم جانتے ہو ہمارا خاندان عرب کے رئوساء میں سے ہے اور ہم لوگ اشرافِ قریش میں سے ہیں۔ پس آج مجھ سے زیادہ حکومت کا کون مستحق ہوسکتا ہے اور میرے بعد میرے بیٹے سے کون زیادہ مستحق ہوسکتا ہے۔۲؎ اُس وقت حضرت عبداللہ بن عمرؓ مسجد کے ایک کونہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ عبداللہ بن عمرؓ جن کو حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کی موجودگی میں صحابہؓ نے خلافت کا حق دار قرار دیا تھا اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے خواہش کی تھی کہ آپ اپنے بعد ان کو خلافت پر مقرر فرمائیں کیونکہ مسلمان زیادہ سہولت سے ان کے ہاتھ پر جمع ہوجائیں گے اور کسی قسم کے فتنے پیدا نہیں ہوسکیں گے لیکن حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا میں اس کی نیکی کو جانتا ہوں اور اس کے مقام کو پہچانتا ہوں لیکن یہ رسم میں نہیں ڈالنا چاہتا کہ ایک خلیفہ اپنے بعد اپنے بیٹے کو خلیفہ مقرر کردے اور خصوصاً جبکہ اکابر صحابہؓ زندہ موجود ہیں اس لئے میں اس کو مشورہ میں تو شامل رکھوں گا لیکن خلافت کا امیدوار قرار نہیں دوںگا۔۳؎ یہ عبداللہؓ بن عمرؓ اُس وقت مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے معاویہؓ کو یہ بات کہتے سنا تو وہ چادر جو میں نے اپنے پائوں کے گِرد لپیٹ رکھی تھی اس کے بندکھولے اور ارادہ کیا کہ کھڑا ہوکر کہوں کہ اے معاویہؓ !اِس مقام کا تجھ سے زیادہ حقدار وہ ہے جس کا باپ تیرے باپ کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہوکر لڑتا رہا ہے اور جو خود اسلامی لشکر میں تیرے اور تیرے باپ کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے اعلاء کیلئے جنگ کرتا رہاہے مگر پھر مجھے خیال آیا یہ دنیا کی چیزیں ان کیلئے رہنے دو اور اسلام میں ان باتوں کی وجہ سے فتنہ مت پیدا کرو اور میں پھر بیٹھ گیا اور معاویہؓ کے خلاف میں نے کوئی آواز نہ اُٹھائی ۔۴؎
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کی خاطر قربانیاں کیں اور یا تو وہ ان کے دُنیوی ثمرات پیدا ہونے سے پہلے ہی فوت ہوگئے یا پھر ان کے زمانہ میں وہ ثمرات ظاہر ہوئے لیکن انہوں نے یا تو باوجود مقدرت کے ان ثمرات میں سے حصہ نہیں لیا اور یا پھر وہ ثمرات دوسروں کے ہاتھوں میں جاتے ہوئے دیکھے مگر اپنا حصہ خدا کی رضا میں سمجھ کر ان ثمرات کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں اور حقارت سے ان کو ٹھکرادیا۔ یہی لوگ ہیں جو ایمان کا سچا نمونہ دکھانے والے ہیں اور انہی کے نقشِ قدم پر چل کر انسان مؤمن کہلاسکتا ہے لیکن وہ شخص جو تھوڑی سی قربانی کرتا اور اس کے بعد تھک جاتا ہے اور اس امید میں لگ جاتا ہے کہ خدا کی طرف سے اس کیلئے کیا بدلہ آیا ہے اس کو خدا کی رحمتیں نہیں آتیں بلکہ اس کی بزعم خود قربانیاں خود اسی کے منہ پر ماری جاتی ہیں کیونکہ گو خدا قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے لیکن اس کا مطالبہ سائلوں کی طرح نہیں ہے۔ خدا کا مانگتے وقت ہاتھ نیچا نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہاتھ اوپر ہی ہوتا ہے۔ جس طرح حکومتیں لوگوں سے ٹیکس لیتی ہیں مگر وہ ذلّت کے ساتھ نہیں مانگتیں۔ خداتعالیٰ اس سے بھی زیادہ شان کے ساتھ مطالبہ کرتا ہے کیونکہ حکومتیں تو لوگوں کے روپیہ سے فائدہ اُٹھاتی ہیں مگر خداتعالیٰ بندوں کی قربانیوں سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اُٹھاتا بلکہ اس کا سارا فائدہ بندوں ہی کو پہنچتا ہے۔ جو عقلمندہوتے ہیں وہ تو کوشش کرتے ہیں کہ ہماری جسمانی قربانیوں کا روحانی فائدہ ہمیں مل جائے اور جو کم عقل ہوتے ہیں وہ جسمانی فائدے کی تلاش میں لگ جاتے ہیں اور قومی لحاظ سے وہ بھی ان کو مل ہی جاتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہؤا کہ خدا کا کوئی نبی آیا ہو اور جلد یا بدیر اس کی قوم میں حکومت نہ آگئی ہو۔ پس حکومتیں تو آتی ہیں اور دُنیوی فائدے تو پہنچتے ہی ہیں مگر دُنیوی فوائد سے زیادہ متمتع ہونے کی خواہش ان لوگوں کو ہوتی ہے جو روحانی فوائد کی قیمت نہیں جانتے لیکن دوسرے لوگ جن کو روحانی آنکھیں عطا ہوتی ہیں، وہ اپنے انعامات کو روحانی شکل میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پس وہ لوگ جو کہ قربانیوں میں تھک جاتے ہیں وہی لوگ ہیں جو کہ خداتعالیٰ سے سَودا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی غرض خداتعالیٰ کی محبت نہیں ہوتی بلکہ دُنیوی فوائد ہوتے ہیں۔ جب کچھ عرصہ کی قربانیوں کے بعد وہ خیال کرتے ہیں کہ اب ہمیں دُنیوی انعامات مل جانے چاہئیں لیکن وہ انعامات حاصل نہیں ہوتے تو وہ تھک کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے قربانیوں میں جو حصہ لینا تھا لے لیا، اب ہمیں مزید قربانیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ وہ لوگ جو کل کی غذا کو آج کی غذا کیلئے کافی نہیں سمجھتے اور آج کے دن کیلئے نئی غذا کے طالب ہوتے ہیں بلکہ دن میں کئی کئی دفعہ کھانے اور پینے کی طرف رغبت کرتے ہیں۔ وہ کبھی نہیں کہتے کہ ہمارا کل کا کھانا اور کل کا پینا ہمارے آج کیلئے کافی ہوگیا ہے بلکہ وہ آج کل سے بھی زیادہ اچھے کھانے اور زیادہ شیریں پانی کی جستجو کرتے ہیں لیکن خدا کے دین کی قربانیوں کے موقع پر جو کہ انسان کیلئے روحانی غذا ہیں، وہ یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ ہماری کل کی غذا آج کیلئے بھی کافی ہوگی اور آئندہ آنے والے دنوں میں بھی وہی ہماری طاقت کوبڑھاتی چلی جائے گی حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ جس طرح جسم کو بار بار غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کو بھی بار بار غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جب تک روح کو بار بار غذا نہ پہنچے جو بار بار کی قربانیوں اور متواتر قربانیوں کے ذریعہ سے پہنچ سکتی ہے، اُس وقت تک روحانی زندگی قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر تم آج ظہر کے وقت بارہ (۱۲) رکعتیں پڑھ لو۔ اسی طرح عصر کے وقت بارہ پڑھ لو اور پھر مغرب کے وقت نَو پڑھ لو اور پھر عشاء کے وقت بارہ پڑھ لو اور دوسرے دن صبح چھ پڑھ لو اور یہ امید رکھو کہ آئندہ دو دن یہ پانچوں نمازیں تم چھوڑ سکتے ہو کیونکہ تم نے خدا کا حق وقت سے بھی پہلے ادا کردیا تو یہ مت سمجھو کہ یہ بات تمہارے ایمان کے بڑھانے کا موجب ہوگی بلکہ وہ سب سے پہلی نماز جسے تم اس وہم کی وجہ سے چھوڑ دو گے، تمہارے ایمان کو باطل کرنے والی ہوجائے گی اور تم یہ نہیں کہہ سکو گے کہ ہم نے تو یہ نماز پہلے ہی دن ادا کردی تھی۔ تم اگر پہلے دن فرض رکعتوں کے علاوہ سَو سَو رکعت بھی اَور پڑھ جائو تو دوسرے دن اپنے وقت پر نئے فرض ادا کرنے پڑیں گے۔ وہ سَورکعتیں سَورکعتوں کے قائم مقام تو الگ رہیں وہ دوسرے دن چار رکعتوں کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتیں، وہ دو رکعتوں کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتیں، وہ ایک رکعت کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتیں، وہ ایک سجدے کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتیں، وہ سجدہ کی ایک تسبیح کے قائم قام بھی نہیں ہوسکتیں۔ جس طرح کل کی کھائی ہوئی دس روٹیاں آج صبح کے وقت ناشتہ کے ایک لُقمہ کی کفایت بھی نہیں کرسکتیں اسی طرح وہ روحانی عبادتیں یا جسمانی قربانیاں جو انسان ماضی میں کرتا ہے اور ان پر توکل کرکے چاہتا ہے کہ مستقبل کی قربانیوں سے آزاد ہوجائے وہ اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتیں۔ وہ اگر ایسی بیوقوفی کرے گا تو یقینا اپنے آپ کو ہلاک کرنے والا ہوگا۔ وہ جو خدا کی جماعتوں میں داخل ہوتے ہیں خداتعالیٰ ہر آن انہیں اپنا چہرہ دکھانا چاہتاہے اور خداتعالیٰ اپنا چہرہ ہمیشہ قربانیوں کے آئینہ میں ہی دکھاتا ہے۔
میں نے گزشتہ سالوں میں کہا تھا کہ وہ شخص جو یہ خیال کرتا ہے کہ میں موت سے پہلے کسی وقت بھی قربانیوں سے آزاد ہوسکتا ہوں وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان کمزور ہے اور وہ خداتعالیٰ کی فوج کا سپاہی بننے کے قابل نہیں ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ جہاں جماعت کے ایک حصہ نے میری اس بات کو انہی معنوں میں سمجھا ہے جن معنوں میں کہ مَیں نے اسے بیان کیا تھا وہاں ایک حصہ جماعت کا ایسا ہے جس نے یہ خیال کیا کہ شاید میں یہ باتیں صرف اس وقت کیلئے اور ان قربانیوں کیلئے جوش پید اکرنے کی خاطرکہہ رہا ہوں جن کا اس وقت مطالبہ کیا گیا تھا اور وہ اپنے دلوں میں یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید ہماری تین سال کی قربانیاں جو صرف چند حقیر رقموں پر مشتمل تھیں، وہ زمین و آسمان کانقشہ بدل ڈالیں گی اور ان چند روپوں میں وہ کام ہوجائے گا جو تئیس سال کی ہرقسم کی قربانیوں کے بعد رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی کمان میں صحابہؓ کرسکے تھے۔ گویا ان لوگوں نے اپنے چند روپوں کی قربانی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی رات اور دن کی جانکاہیوں اور قِسما قِسم کی مصیبتوں اور بے وطنیوں اور جائیدادوں کے چھینے جانے اور اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں اور اپنی بیویوں کے مارے جانے اور خود ان میں سے کئیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جانے اور قسم قسم کے عذابوں سے مارے جانے اور سردیوں اور شدید گرمیوں میں کھانے اور پینے کے سامانوں کے بغیر بے آب و گیاہ جنگلوں میں سے بعض دفعہ بغیر سواری کے اور بعض دفعہ ننگے پائوں سفر کرنے اور پھر اپنے سے کئی کئی گُنا زیادہ تعداد والے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی قیمت کے برابر خیال کر رکھا تھا۔ شاید وہ اپنے روپوں کی قیمت اُس بڑھیا سے بھی زیادہ لگاتے تھے جو اپنی روئی کے گالوں سے یوسف ؑ کی خریداری کیلئے گئی تھی۔ کیونکہ اس نے تو یوسف ؑکو جو ابھی تک نبی نہیں تھے اور ایک غلام کی حیثیت سے پیش ہوئے تھے، اپنی تھوڑی سی پونجی کے ساتھ خریدنا چاہا تھا۔ مگر یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم جو تمام نبیوں کے سردار ہیں اور خاتم النبیّٖن ہیں، ان کی قربانیوں کی قیمت اپنی دو چار سال کی حقیر مالی قربانیوں کے مطابق لگانا چاہتے تھے لیکن یاد رکھو! ایسے لوگ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ دین کی فتح ان لوگوں کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ انہی کے ہاتھوں سے ہوتی ہے جو نتائج اور انجام سے غافل ہوکر صرف ایک ہی بات کو اپنے سامنے رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنی موت تک ہم نے قربانیاں کرتے چلے جانا ہے اورہمارے آرام کا وقت وہی ہوگا جب کہ ہم اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے حقیقی مولا کی گود میں جا بیٹھیں گے۔
تم ایک چھوٹے سے بچے کو جس کو محاورے کے طور پر بھی نادان بچہ کہتے ہو، دنیا کی قیمتی سے قیمتی مٹھائیوں یا عُمدہ سے عُمدہ کھلونوں سے تھوڑی دیر کیلئے بہلاسکتے ہو لیکن اس بیوقوف اور نادان بچے کو بھی اپنی ماں کی یادسے ہمیشہ کیلئے غافل نہیں کرسکتے۔ بسااوقات وہ دُنیوی نعمتوں کے کھانے یا ان کے حُسن کے نظاروں کے دیکھنے سے ایک منٹ کیلئے یا چند منٹوں کیلئے اپنی ماں کی طرف سے خیال ہٹالے گا لیکن پھر اس کا خیال ادھر ہی چلا جائے گا اور اس کو حقیقی راحت تبھی نصیب ہوگی جب وہ اپنی ماں کی گود میں پہنچ جائے گا۔ پھر جبکہ ایک نادان بچے کا یہ حال ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ مؤمن جو دانائوں کا دانا ہوتا ہے اپنے خدا کے ملنے سے پہلے چَین پاجائے اور اسے آرام حاصل ہوجائے۔ اس کی راحت کی گھڑیاں اور اس کے آرام کی ساعتیں تو اُسی وقت سے شروع ہوتی ہیں جب وہ اپنے جسمِ خاکی کو اس دنیا میں چھوڑ کر اپنے رب کی طرف دیوانہ وار دَوڑتا ہؤا چلا جاتا ہے۔ جس طرح پرندہ شام کو لہلہاتے ہوئے کھیتوں اور للچانے والے دانوں کے ڈھیروں کو چھوڑ کر اڑتا ہؤا اپنے بسیرے کی طرف جاتا ہے، اسی طرح مؤمن کی روح موت کے وقت اپنے رب کی طرف بھاگتی ہے اور پیچھے مُڑکر بھی تو نہیں دیکھتی کہ میں نے اپنے پیچھے کیا چھوڑا ہے کیونکہ اس کی خوشیاں اس کے آگے ہوتی ہیں نہ کہ پیچھے۔
پس جو شخص چاہتا ہے کہ ایمان پیدا کرے، اُس کو اپنی لذت اور اپنی راحت خدا میں بنانی چاہئے اور یہ کبھی امید نہیں کرنی چاہئے کہ کوئی ایک قربانی یا دوسری قربانی اس کے حقوق کو ادا کردے گی کیونکہ حقوق قربانیوں سے ادا نہیں ہوتے بلکہ قربانیوں کے متواتر اور مستقل ارادوں سے ادا ہوتے ہیں۔ پس جو کچھ میں نے کہا تھا وہ کسی وقتی جوش دلانے کیلئے نہیں کہا تھا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایمان کی سلامتی کیلئے متواتر قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے اورموت سے پہلے کوشش کے چھوڑ دینے کا خیال اندرونی بے ایمانی کی علامت ہے اور ایسے شخص کیلئے خطرہ ہے کہ اگر آج اس کا ایمان سلامت ہے تو کل سلامت نہ رہے اور مرنے سے پہلے کسی وقت وہ ٹھوکر کھاجائے اور اپنے انعامات جو پہلی قربانیوں سے اس نے جمع کئے تھے، اس کی اس غفلت کی وجہ سے کسی اور مومن کو مل جائیں جو کہ پہلے ٹھوکر کھایا ہؤا تھا لیکن مرنے سے پہلے خدا کی طرف متوجہ ہوگیا کیونکہ نتائج انسان کی زندگی کے کاموں کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ انسان کے انجام کے مطابق ہوتے ہیں۔
یہ مت خیال کرو کہ یہ ظلم ہے کہ خدا انسان کی زندگی کے کاموں کو تو نظر انداز کردیتا ہے لیکن آخری گھڑیوں کے کاموں کو قبول کرلیتا ہے کیونکہ آخری گھڑی کی حالت درحقیقت پہلے کاموں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ جس کی پہلی زندگی اچھی نظر آتی ہے لیکن اس کا انجام خراب نظر آتا ہے اس کا انجام اسی لئے خراب ہوتا ہے کہ اس کی پہلی زندگی گو بظاہر خوشنما تھی لیکن خدا کی نگاہ میں وہ گندی تھی۔ تم کبھی بھی یہ امید نہیں کرسکتے کہ گوبر کی گولیوں پر کھانڈ چڑھا کر مریضوں کو شفا دے سکو یا بھوکوں کے پیٹ بھردو کیونکہ باہر کی کھانڈ اندر کے خُبث کا علاج نہیں ہوسکتی۔ پس وہ جس کا انجام خراب ہوتا ہے یا کمزور نظر آتا ہے وہ اسی لئے خراب ہوتا ہے اور اسی لئے کمزور ہوجاتا ہے کہ اس کی پہلی زندگی بناوٹی تھی اورمنافقانہ تھی اور خدائے علیم و خبیر جو دلوں کا بھید جاننے والا ہے اس نے نہ چاہا کہ یہ غیر مستحق حق والوں کا حق لے جائے۔ پس اس نے مرنے سے پہلے اگر یہ ایمان کے ضائع ہوجانے کا مستحق تھا تو اس کے ایمان کو ضائع کردیا اور اگر یہ ایمان کے کمزور ہونے کا مستحق تھا تو اس نے اس کے ایمان کو کمزور کردیا۔ یہی حال اس کا ہے جس کا نتیجہ اس کے برعکس ہوتا ہے ۔ یعنی اس کی پہلی زندگی تو خراب ہوتی ہے لیکن اس کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے انجام کو اس لئے اچھا نہیں کرتا کہ وہ بغیر کسی مقصد کے ایک شخص کے ساتھ رعایت کرنا چاہتا ہے بلکہ اس لئے اچھا کرتا ہے کہ اس دوسرے شخص کے اعمال یا اس کا ایمان گو بظاہر کمزور نظر آتا تھا لیکن اس کے دل کی گہرائیوںمیں کوئی ایسا جوہر ہی تھا، کوئی ایسی قابلیت چھپی ہوئی تھی، کوئی ایسی محبت کی ٹیس اُٹھ رہی تھی جس کو خداتعالیٰ نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ پس اس نے اس کی موت کو پیچھے کردیا اور اس وقت تک ملکُ الْموت کو نہ آنے دیا جب تک اس کا مخفی جوہر ظاہر نہ ہوگیا اور اس کی چھپی ہوئی محبت عیاں نہ ہوگئی۔
پس خدا نے بِلاوجہ اس کی حالت کو نہیں بدلا بلکہ جو قابلیتیں اس کے اندر مخفی تھیں اور جو دردِمحبت اس کے اندرنہاں تھا اسی کو ظاہر کرکے انصاف قائم کیا ہے نہ کہ رعایت۔ پس انجام کے مطابق ہی خدا کے بدلے ملتے ہیں اور اسی طرح ہونا چاہئے۔ یہی انصاف ہے اور اسی میں عدل ہے اور یہی رحمت کا تقاضا ہے ۔ پس جس کو خداتعالیٰ توفیق دیتا ہے کہ اس کا قدم قربانیوں میں آگے ہی بڑھتا چلا جائے، خداکا فیصلہ اس کے ایمان پر مُہر لگاتا چلا جاتا ہے اور ہم اس کی اس ترقی کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیںکہ یہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ کر رہے گا لیکن وہ جو چلتا ہے اور کھڑا ہوجاتا ہے اور قربانی کرتا ہے اور پھر آسمان کی طرف بدلہ کیلئے نگاہ اٹھاتا ہے اور اپنی موت سے پہلے ہی اپنے پھل حاصل کرنا چاہتا ہے یا تھک کر بیٹھ جاتا ہے یا پہلے سے اس کا قدم سُست ہوجاتا ہے (جیسا کہ اس سال بعض جماعتوں اور بعض افراد کی حالت سے نظر آرہا ہے) اس کا پھل اس کا خدا نہیں بلکہ اس کی دنیا ہے۔ دنیا تو شاید اس کو مل جائے مگر خدا اس کو نہیں ملے گا اور کبھی نہیں ملے گا۔‘‘ (الفضل ۲۵؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ البقرۃ: ۲۱۵
۲؎ طبقات ابن سعد جلد ۳ صفحہ ۱۸۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء
۳؎ تاریخ ابن اثیر جلد ۴ صفحہ ۶۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۴؎ طبقات ابن سعد جلد ۴ صفحہ ۱۸۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء

۴
قلوب کی فتح کیلئے اسلام کی عملی تعلیم کی پوری پابندی لازم ہے
(فرمودہ ۲۸؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’قوموں کی ترقی کیلئے قومی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی ایک یا دو آدمی مل کر یہ کام نہیں کرسکتے۔ کیونکہ افراد کے اخلاق کی حفاظت قومی اخلاق سے ہوتی ہے۔ اگر قومی طور پر اخلاق درست نہ ہوں تو صرف چند لوگ ہی جو علیحدگی اور خلوت میں زندگیاں بسر کریں اپنے اخلاق کو بچاسکتے ہیں دوسرے نہیں اسی لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب قومی طور پر اخلاق میں بگاڑ پیدا ہو تو شہروں اور بستیوں کو چھوڑ کر پہاڑوں اور جنگلوں میں چلے جائو اور وہیں زندگی بسر کرو۔۱؎ اس کے معنے یہی ہیں کہ جب قومی اخلاق بگڑ جائیں تو افراد کے اخلاق درست نہیں رہ سکتے۔ اول تو اِردگِرد کے حالات کے اثر کی وجہ سے انسان کی طبیعت میں کمزوری پیدا ہوجاتی ہے اور اگر انسان اپنے اخلاق کو بیرونی اثرات سے بچابھی لے تو اس کے بیوی بچوں کے اخلاق تو بوجہ کمیِ علم یا کم عمری کی وجہ سے ضرور ہی خراب ہوجاتے ہیں اور ایسے حالات میں چونکہ خطرہ ہوتا ہے کہ نیکی کا بیج ہی ختم نہ ہوجائے اس لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بستیوں اور شہروںکو چھوڑ کر کسی علیحدہ جگہ میں بیٹھ جائو ، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں حالانکہ عام حالات میں آپ نے لوگوں سے ملنے جُلنے اور باہم تعلقات رکھنے کی تاکید فرمائی ہے مگر قومی اخلاق میں بگاڑ پیدا ہونے کی صورت میں خلوت کی زندگی بسر کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور ایسے ہی موقع کیلئے یہ حکم ہے کہ۲؎ جب خرابی عام ہوجائے تو انسان کو اپنے ایمان کے بچانے کی فکر کرنی چاہئے۔ اُس وقت اپنے ایمان کا بچانا ہی مقدم ہوتا ہے کیونکہ عام خرابیوں کو اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور مامورین ہی دور کرسکتے ہیں۔ اگر عام خرابی کی اصلاح کی افراد کوشش کریں تو اس کانتیجہ سوائے اس کے کچھ نہ ہوگا کہ وہ خود بھی ڈوب جائیں اس لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کبھی ایسا وقت آئے تو تم علیحدہ رہ کر اپنا ایمان بچائو۔
پس قومی اخلاق کی درستی ایک ایسی چیز ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر قوم میں جھوٹ عام ہو تو انسان خود خواہ کتنا ہی سچا کیوں نہ ہو اور وہ اس عام خرابی سے اپنے آ پ کو کتنا ہی کیوں نہ بچائے، اس کی اولاد ضرور جھوٹ بولنے لگ جائے گی کیونکہ بچے اپنے ساتھ کھیلنے والوں سے اخلاق سیکھتے ہیں۔ انہیں عمر اور تربیت کے لحاظ سے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے سے تو روکا نہیں جاسکتا۔ اگر انہیں گھروں میں بند کرکے رکھا جائے تو وہ سِل کا شکار ہوجائیں گے اور اگر آزادی دی جائے تو اخلاق خراب ہوں گے۔ گویا دونوں صورتوں میں خاندان کی موت ہی موت ہے۔ پس اس کی یہی صورت ہوسکتی ہے کہ قومی اخلاق کی درستی کیلئے کوشش کرکے انہیں بچایا جائے اور یہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہر ماں اور ہر باپ اپنی ذمہ داری کو سمجھے لیکن اگر یہ خیال کرلیا جائے کہ ہماری اولاد کی ذمہ داری ناظر تعلیم و تربیت پر ہے تو ایسی قوم آج بھی ڈوبی اور کل بھی ڈوبی۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ۳؎ یعنی تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ اور اس کی تشریح آپ نے یوں فرمائی کہ گھر کا مالک راعی ہے اور اس کے بیوی بچوں کے متعلق اس سے سوال کیا جائے گا۔ پس قومی اخلاق کی درستی کیلئے ہر فرد کا اس حیثیت کو اچھی طرح سمجھ لینا کہ وہ راعی ہے اور اس کی رعیت کے متعلق اُس سے سوال کیا جائے گا بہت ضروری ہے اور تمام افراد کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے ایسی پود اور ایسی نسل پیش کریں جو سچائی اور دیانت کی پابند اور محنت سے کام کرنے والی ہو۔ اورجو شخص یہ احساس رکھتا ہے وہ ایسا سامان مہیا کرتا ہے کہ جس سے اخلاق درست ہوکر آئندہ نسلوں کی تربیت صحیح رنگ میں ہوسکے۔
تحریک جدید کے دوسرے دَور کے متعلق میں نے جو یہ کہا ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا میں اسلامی اخلاق قائم کرسکیں، یہ بات بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ میں نے پچھلے سال بعض خطبات بیان کئے تھے جن میں بتایا تھا کہ زبانی دعوئوں سے ہم دنیا کو مرعوب نہیں کرسکتے۔ یہ کام عمل سے ہی ہوسکتا ہے۔ عقائد کے لحاظ سے ہم نے دنیا میں غلبہ حاصل کرلیا ہے مگر عملی لحاظ سے ابھی ایسا نہیں کرسکے۔ پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ ابھی تک ہم ایسا کیوں نہیں کرسکے۔ اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ ایمان سے عادت کا گہرا تعلق نہیں ہوگا مگر عمل سے ہوتا ہے مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا مسئلہ ہے۔ اس سے عادت کا کوئی تعلق نہیں۔ جس دن کسی شخص کے دماغ میں یہ بات آجائے کہ آپ فوت ہوگئے ہیں، اس کے بعد اس پر عادت کے حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا کیونکہ خیالات کا تعلق عادت سے بہت ہی کم ہوتا ہے اور جب خیال کی اصلاح ہوجائے تو عادت خودبخود پیچھا چھوڑ دیتی ہے۔ مگر عمل کے ساتھ عادت کا بہت گہرا تعلق ہے اس لئے صرف عقائد کی اصلاح سے اعمال کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ ایک کمزور احمدی سے بھی جب کوئی غیراحمدی پوچھتا ہے کہ سنائو جی حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں یا زندہ ہیں؟ تو وہ یہی جواب دیتا ہے کہ فوت ہوگئے ہیں۔ جب کسی درمیانہ درجہ کے احمدی سے یہ سوال کرتا ہے تو وہ بھی یہی جواب دیتا ہے۔ کسی اعلیٰ درجہ کے احمدی سے سوال کرتا ہے تو وہ بھی یہی جواب دیتا ہے۔ کسی جاہل احمدی سے پوچھتا ہے تو وہ بھی یہی کہتا ہے اور کسی عالم سے پوچھتا ہے تو وہ بھی یہی بات قرآن کریم اور حدیث کی رو سے اسے سمجھاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں۔ مگر جب سچ کے بارہ میں وہ ایک احمدی سے ملتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیوں جی سچ بولنا چاہئے؟ تو وہ کہتا ہے ہاں ضرور چاہئے۔ خواہ کچھ ہو سچ بولنا ضروری ہے۔ پھر وہ کسی دوسرے احمدی سے ملتا اور پوچھتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ ہاں سچ بولنا تو چاہئے مگر ہمارے جیسے کمزوروں سے کہاں بولا جاتا ہے۔ پھر وہ کسی تیسرے احمدی سے ملتا اور یہی سوال کرتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ جی کہتے تو ہیںکہ سچ بولنا چاہئے مگر ہمیشہ سچ بولنے سے بھلا گزارہ ہوسکتا ہے۔ پھر وہ ایک اور سے ملتا ہے تو وہ بات شروع کرنے سے بھی پہلے کہتا ہے کہ تم میری خاطر یہ جھوٹ بول دو اور یہ کہو اور یہ گواہی دو۔ تو اس پر لازماً یہی اثر ہوگا کہ جس بات پر یہ خود عملی طور پر قائم نہیں ہیں اس کے صحیح ہونے کا میں کیسے یقین کرلوں اور وہ خیال کرتا ہے کہ جو کہتا ہے ہر حال میں سچ بولنا چاہئے اس کی بات کے صحیح ہونے کا کیا ثبوت ہے اور میں اس کی بات کو مان کر کیوںنقصان اٹھائوں جبکہ دوسرے لوگ اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں اس لئے اس کی بات کا بھی جس نے ہر حال میں اسے سچ بولنے کی نصیحت کی اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
دیکھ لو عقائد کے بارہ میں جن باتوں پر ہماری جماعت مضبوطی سے قائم ہے ان میں ہمارے مقابل پر دوسرے لوگ بالکل گر گئے ہیں لیکن جن باتوں میں ہمارے علماء نے اختلاف کیا ہے وہ غیروںمیں پھیل نہیں سکیں۔ انہوں نے تو یہ سمجھا کہ ہم نے جدت پید اکی، نئی بات نکالی ہے۔ مگر یہ نہیں سوچا کہ اس جدّت سے انہوں نے احمدیت کی شوکت کو نقصان پہنچایا ہے اور ان کی اس جدّت کی وجہ سے وہ بات غیروں میں پھیل نہیں سکی۔ لیکن جن باتوں میں وہ متفق رہے ہیں وہ خوب پھیلی ہیں اور ایسی پھیلی ہیںکہ دشمنوں نے بھی ان کی مضبوطی کو تسلیم کرلیا ہے۔ اور گو وہ مخالفین کے ڈر کی وجہ سے انہیں عَلَی الْاِعْلاننہ مانیں مگر اپنی پرائیویٹ مجالس میں وہ اکثر ان کو تسلیم کرلیتے ہیں۔ مجھے ایک دوست نے جو اَب مخلص احمدی ہیں، جب وہ ابھی غیراحمدی تھے سنایا تھا کہ ایک دفعہ وہ صاحبزادہ سر عبدالقیوم صاحب کے پاس جو صوبہ سرحد میں پہلے وزیراعظم تھے اور حال میں فوت ہوئے ہیں بیٹھے تھے ۔ تو سر موصوف نے کہا کہ مرزا صاحب اپنے آپ کو نبی کہتے ہیں اس لئے ان کی بات تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ اگر وہ اپنے آپ کو مجدد منوائیں تو ماننے کو تیار ہیں۔ اس دوست نے جو خود بھی ایک بڑے عُہدہ پر ہیں اور انجینئر ہیں سنایا کہ میں نے ان سے کہا کہ واہ صاحبزادہ صاحب آپ یہ بات کیا کرتے ہیں۔ مَیں تو مرزاصاحب کو اگر نہیں مانتا تو اس لئے کہ میں سمجھتا ہوں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص آ ہی نہیں سکتا۔ قرآن کریم کے بعد ہمیں کسی اور الہام کی ضرورت نہیں لیکن اگر یہ مان لیا جائے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی شخص آسکتا ہے تو پھر یہ اعتراض کیسا بے معنٰی ہے کہ وہ نبی ہے یا کیا ہے۔ خداتعالیٰ جس کو بھیجے گا اس کا عُہدہ وہ مقرر کرے گا یا ہم کریں گے؟ جب انہوں نے یہ واقعہ مجھے سنایا اُس وقت تک وہ غیراحمدی ہی تھے اور اپنے عقائد پر پختہ تھے لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے ان کا دل کھول دیا اور وہ احمدی ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخلص احمدی ہیں۔
اب دیکھو وہ جس نتیجہ پر پہنچے وہ وُہ نہیں تھا جس پر شروع میں غیراحمدی پہنچے تھے۔ یہ تغیر ان کے اندر درحقیقت اُس مخفی اثر سے پیدا ہؤا جو احمدیوں کے دلائل کی وجہ سے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں پیدا ہو رہا تھا اور روزبروز پیدا ہوتا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام طور پر نبوت کے مسئلہ میں ہی ہماری مخالفت زیادہ ہے۔ مگر اس میں بھی شک نہیں کہ تعلیم یافتہ طبقہ میں یہ خیال بھی پیدا ہورہا ہے بلکہ اس طبقہ کی مخالفت کی بنیاد ہی اب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی آہی نہیں سکتا کیونکہ اگر کوئی آسکتا ہے تو وہ نبی بھی ہوسکتا ہے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ کوئی آ ہی نہیں سکتا۔ مامور و مجدد یا نبی کا کوئی سوال ہی نہیں ہم کسی کی آمد کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ اور حقیقتاً عقلی طور پر یہی ایک پہلو ہے جو ان کے بچائو کا ہوسکتا ہے کیونکہ جب کوئی کہے کہ مرزا صاحب کا نبوت کا دعویٰ غلط ہے، وہ مجدد ہوسکتے ہیں تو ہماری طرف سے جھَٹ یہ جواب دیا جاتا ہے کہ کیا مجدد بھی جھوٹ بول سکتا ہے۔ اس پر ساری مجلس ہنس پڑتی ہے کہ اس نے کیسی پاگل پن کی بات کی کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ کوئی آسکتا ہے تو پھر یہ کہنا کہ جوآیا ہے اس کا نبوت کا دعویٰ غلط ہے، ایک بیہودہ بات ہے کیونکہ جو آئے گا وہ ضرور سچ بولے گا۔ اگر کوئی شخص یہ مان لے کہ حضرت مرزا صاحب خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں تو پھر آپ جو دعویٰ کریں وہ ماننا پڑے گا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’فتح اسلام‘‘ اور ’’توضیح مرام‘‘ کتابیں لکھیں تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا کوئی دوست ان میں سے کسی کتاب کا کوئی پروف لے گیا اور کہنے لگا کہ اب نورالدین مرزا صاحب کو چھوڑ دے گا کیونکہ اور تو خواہ کچھ ہو اسے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بہت محبت ہے اور مرزا صاحب نے اس میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ جب یہ کتاب میں نے سامنے رکھی وہ فوراً مرزا صاحب کو چھوڑدے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ وہ شخص ایک جتھا بنا کر میرے پاس آیا۔ سب لوگ بیٹھ گئے۔ میں نے بھی سمجھا کہ آج کوئی خاص بات ہے جو یہ سب لوگ اکٹھے ہوکر آئے ہیں۔ آخر اُس نے جیب سے کاغذ نکالا اور کہا کہ آپ جو مرزا صاحب کو مانتے ہیں تو اسی لئے نا کہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تابع ہیں لیکن اگر وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف کوئی بات کہیں مثلاً یہ کہیں کہ وہ نبی ہیں تو پھر تو آپ ان کو نہیں مانیں گے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے فرمایا کہ نہیں میں نے مرزا صاحب کو خداتعالیٰ کی طرف سے مانا ہے اگر وہ کوئی ایسی بات کہیں گے جو میرے پہلے عقیدہ کے خلاف ہے تو میں یہ سمجھوں گا کہ میراپہلا عقیدہ غلط تھا اور جو بات مرزاصاحب کہتے ہیں وہ درست ہے۔ جب میں نے یہ مان لیا کہ مرزا صاحب خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں تو پھر ان کا حق ہے کہ وہ اپنے عقائد مجھ سے منوائیں۔ میرا حق نہیں کہ میں ان کواپنے عقائد کے تابع کروں۔ اس پر وہ شخص مایوس ہوکر اُٹھ کھڑا ہؤا اور بولا کہ بس جی چلو مولوی صاحب بہت آگے نکل چکے ہیں اور ان کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
حق یہی ہے کہ جب یہ مان لیا جائے کہ کوئی شخص واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو پھر وہ جو بھی کہے اُسے ماننا پڑے گا۔ اور جسے خداتعالیٰ کی طرف سے کسی بات کے کہنے کا حق نہ ہو اُس کی چھوٹی سے چھوٹی بات کا بھی موازنہ کیا جائے گا۔ اصل سوال یہی ہے کہ جو شخص کھڑا ہے اُسے اللہ تعالیٰ نے کیا پوزیشن دی ہے۔ اگر تو یہ پوزیشن ہے کہ اس کی ہر بات مانی جائے تو پھر ہر بات ماننی پڑے گی۔ اگر یہ ہے کہ ایک خاص دائرہ میں اس کی بات ماننی چاہئے تو پھر اُس دائرہ میں اُس کی بات ماننی پڑے گی اور اگر یہ ہے کہ اُس کی کسی بات کا ماننا بھی ہمارے لئے ضروری نہیں تو پھر اس کی جس بات کو عقلِ سلیم تسلیم کرے گی وہ ہم مانیں گے باقی کو ردّ کردیں گے۔ غرض اب تعلیم یافتہ طبقہ غیراحمدیوں کا یہ سمجھتا جارہا ہے کہ نبوت کا مسئلہ اپنی ذات میں اہم مسئلہ نہیں اور وہ اس میں اپنی کمزوری کو تسلیم کرنے لگے ہیں اور ان کو یہ احساس ہورہا ہے کہ ہم جو عقائد پیش کرتے ہیں انہیں خاص اہمیت حاصل ہے اور اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے جواب کیلئے انہیں اب اپنے پہلے مقام کو بدلنا چاہئے۔ مگر عمل کے میدان میں ابھی یہ بات ہمیں حاصل نہیں ہوسکی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ عقائد میں ہمارا ہر شخص خواہ وہ مضبوط ہو یا کمزور، جاہل ہو یا عالم، چھوٹا ہو یابڑا، بوڑھا ہو یا جوان یا بچہ، مرد ہو یا عورت سب ایک ہی بات کہتے ہیں۔ مگر عملی باتوں میں آکر دوسرے لوگ دیکھتے ہیں کہ سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ لڑکیوں کو ورثہ میں حصہ دینے کا سوال آتا ہے تو ہم میں سے بعض کہہ دیتے ہیں کہ ہم لڑکیوں کو حصہ دے کر اپنی زمینیں خراب کرلیں تو دوسرے شخص پر بھی یہی اثر ہوتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم ایسی ہے جس سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ یا جب سچ بولنے کا موقع آتا ہے تو ایک احمدی کہہ دیتا ہے کہ ’’جی سارے اے ہی کہندے ہندے نے۔ پر کدی سچ نال ہر ویلے گذارہ ہندا اے‘‘ یعنی منہ سے تو سچ بولنے کی تاکید ہر کوئی کردیتا ہے مگر کیا ہمیشہ سچ بولنے سے دنیا میں گزارہ چل سکتا ہے اس لئے سننے والا خیال کرتا ہے کہ جو کہتا ہے ضرور سچ بولنا چاہئے، ممکن ہے وہی غلطی پر ہو۔ میں اس کے پیچھے لگ کر کیوں خواہ مخواہ اپنانقصان کروں۔ شبہ سے ایمان اور یقین دوسرے کے دل میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہ اُسی وقت ہوتا ہے جب اپنے دل میں بھی ایمان اور یقین ہو۔ اور جو شخص خود عمل نہیں کرتا اس کے معنے یہی ہیں کہ اس کے دل میں قرآن کریم پر ایمان نہیں۔
ایک دفعہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور سوال کیا کہ قرآن کریم سے مرزا صاحب کی صداقت کا کوئی ثبوت پیش کریں۔ ایسے لوگ اکثر آتے رہتے ہیں مگر یہ جس کا میں ذکر کررہا ہوں سال دو سال کی بات ہے کہ میرے پاس آیا اور کہا کہ قرآن سے کوئی ثبوت دیں۔ میں نے کہا کہ سارا قرآن ہی آپ کی صداقت کا ثبوت ہے۔ اس نے کہا کہ آپ کوئی آیت پیش کریں۔ میں نے کہا کہ آپ کوئی آیت لے لیں۔ وہ کہنے لگا ۴؎اس سے ثابت کریں۔ میں نے کہا اس سے بھی ثابت ہے اور میں نے اسے بتایا کہ اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اس رنگ میں ثابت ہوتی ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ تھے جو ایمان کا دعویٰ تو کرتے تھے مگر دراصل وہ مومن نہ تھے اور اگر محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسے لوگ تھے تو اب کیوں نہیں ہوسکتے۔ آپ لوگ یہی کہتے ہیں کہ جب قرآن کریم موجود ہے اور ہم سب ایمان لاچکے ہیں تو اب کسی اور کے آنے کی کیاضرورت ہے۔ مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ منہ سے کہنے کے باوجود مومن نہیں ہوتے۔ تو یا تو مسلمان قرآن کریم کی اس بات کا انکار کردیں یا پھر ماننا پڑے گاکہ محض منہ سے کہہ دینے کا کوئی اعتبار نہیں۔ اور اگر امت محمدیہ اسی طرح بگڑ جائے جس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض لوگ تھے تو کیا ایسے لوگوں کے علاج کیلئے کوئی انتظام ہونا چاہئے یا نہیں؟ اور قرآن کریم کہتا ہے کہ ایسے لوگ ہوتے رہیں گے۔ پس صاف بات ہے کہ ان کے لئے معالج بھی آتے رہیں گے۔ میں نے جب یہ بات اس سے کہی کہ قرآن کریم کی جو آیت چاہو لے لو اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہوتی ہے تو اس یقین کے ساتھ کہی تھی کہ جب قرآن کریم نبوت کی تائید کرتا ہے تو ضرور اس کی ہرآیت سے نبی کی صداقت ثابت کی جاسکتی ہے اس لئے وہ جو آیت پڑھتا میں اسی سے ثابت کردیتا۔ وہ اگر ورثہ کی آیت پڑھتا تو بھی میں اسی سے ثابت کردیتا کیونکہ جو کلام نبوت کی تائید کرے گا اس سے ہر نبی کی صداقت ثابت ہوگی اس لئے میں نے جب یہ بات اس کے سامنے بیان کی تو مجھے اس میں کوئی شُبہ نہیں تھا اور میرے دل میں اس بات کا پورا پورا یقین تھا لیکن جب اپنے دل میں یقین نہ ہو تو بڑی سے بڑی بات بھی غیرمفید ہوگی۔
ہماری جماعت میں ایک بڑے مولوی تھے جو عالم تھے مگر بولنے میںوہ کچے تھے۔ میں نے خود بھی ان کو کئی مرتبہ گفتگو کرتے سنا۔ کوئی اعتراض کرتا تو وہ ہنس کر کہہ دیا کرتے تھے کہ ’’لے ہن اے اعتراض کردتا‘‘۔ یعنی لو اب یہ اعتراض کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب وفاتِ مسیح کیلئے تیس آیات پیش فرمائیں تو وہ بہت خوش ہوئے۔ ایک شخص سے ان کی وفات مسیح کے مسئلہ پر گفتگو ہوئی۔ اس نے پوچھا کہ کیا قرآن کریم کی کسی آیت سے بھی وفات مسیح کا ثبوت ملتا ہے، وہ کہنے لگے کسی ایک آیت سے کیا تیس آیات سے یہ ثابت ہے۔ اس نے کہا اچھا کوئی ایک پیش کریں۔ انہوں نے ایک آیت پیش کی۔ اس نے اس پر کوئی اعتراض کیا تو کہنے لگے اچھا اسے چھوڑو اَور لو اور دوسری آیت پیش کردی۔ اس نے اس پر بھی ایک اعتراض کردیا۔ تو کہنے لگے اچھا لو اَور آیت سن لو۔ اس طرح سب کی سب آیات ختم ہوگئیں اور وہ منہ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ تو جب انسان خود یقین سے بات پیش نہ کرے دوسرے پر اس کا اثر نہیں ہوتا۔ یقین سے ہی سب کامیابی ہوتی ہے۔ دیکھو یقین تو کُتّے اور بِلّی کا بھی کام آجاتا ہے۔ کُتّا، بِلّی اور شیر وغیرہ وحشی جانور لڑتے بہت کم ہیں۔ صرف غوں غوں کر کے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ اور پھر ایک ڈر کر چلا جاتا ہے۔ وہ غوں غوں سے ایک دوسرے کے یقین کا پتہ لگا لیتے ہیں اور جو دوسرے کی غوں غوں کو زیادہ یقینی دیکھتا ہے وہ بھاگ جاتا ہے۔
تو طاقت ہمیشہ دل کے ایمان اور یقین سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے دلوں میں ایمان اور یقین پید اکریں۔ وہ پہلے یہ فیصلہ کرلیں کہ قرآن کریم نے جو تعلیم دی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے سچ بولو۔ وہ یہ فیصلہ کرلیں کہ قرآن کریم نے یہ حکم دیاہے یا نہیں؟ اور آیا وہ ٹھیک ہے یا نہیں؟ پھر اگر ٹھیک ہے تو اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائیں اور اپنی اولادوں کے اندر بھی اسے قائم کریں۔ اسی طرح دیانت کا حکم ہے۔ وہ دیکھ لیں کہ قرآن کریم کا یہ حکم ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو پھر خود بھی اس پر عمل کریں اور اپنی اولادوں کے اندر بھی اسے پیدا کریں۔ اور اگر وہ اپنی اولادوں کی اصلاح کی طرف ہی توجہ کریں تو یہ چیزیں اگر ان کے اپنے اندر نہ بھی پیدا ہوسکیں تو بھی وہ اپنی اولادوں میں تو ضرور پیدا کرسکتے ہیں۔ اگر ان سے خود بوجہ اس کے کہ وہ غیراحمدیوں میں سے آئے ہیں کمزوری بھی ہے تو بھی وہ اپنے بچوں کو یہ باتیں ضرور سکھاسکتے ہیں۔ اور اگر وہ ایسا کردیں تو ہماری آئندہ نسل ضرور دنیا پر غالب آجائے گی اور سب کے دلوں کو موہ لے گی۔ یہ مضمون پہلے بھی میں نے ایک خطبہ میں شروع کیا تھا اور آج بھی اسے بیان کرنے کا ارادہ تھامگرمعلوم نہیں کہ کیا وجہ ہے کہ صبح سے مجھے دورانِ سر کی تکلیف ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہؤا کرتی تھی۔ مجھے بھی صبح سے سر میں چکروں کی تکلیف ہے اور زیادہ کھڑا نہیں ہوسکتا اس لئے لمبا خطبہ نہیں بیان کرسکتا۔ صرف یہ کہتا ہوں کہ جب تک ہماری جماعت اس بات کیلئے کھڑی نہ ہو کہ اسلام کی اصولی اور ابتدائی باتیں جن میں سے دو مَیں نے آج بھی بیان کی ہیں، اپنی اولادوں کے دلوں میں داخل کردے، اُس وقت تک کبھی احمدیت دنیا میں عملی طور پر قائم نہیں ہوسکے گی اور جب یہ باتیں پیدا ہوجائیں تو عملی مخالفت بھی خودبخود گرجائے گی۔
دیکھو ایک جانور کے محض یقین کے ساتھ غرانے سے اس کے مقابل کے جانور بھاگ جاتے ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ تمہارے دلوں کا یقین تمہارے مخالفوں کے دلوں پر اثر نہ کرے۔ جب تم اس یقین اور ایمان کو لے کر کھڑے ہوگے کہ اسلام کی تعلیم صحیح ہے اور تم نے اسے دنیا میں قائم کرکے رہنا ہے تو تمہارے مخالف یقینا دُم دبا کر بھاگ جائیں گے اور کہیں گے کہ اچھا پھر تم اس تعلیم کو قائم کرلو۔ اور جس دن تمہارے اپنے دلوں میں یقین پیدا ہوجائے گا دوسروں کے دلوں میں خودبخود تمہارے لئے قبولیت کا مادہ پیدا ہوجائے گا اور وہ مخالفت چھوڑ کر جس طرح عقائد میں تمہارے پیچھے چل پڑے ہیں، اعمال میں بھی چل پڑیں گے۔‘‘
(الفضل ۵؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ بخاری کتاب الرقاق باب اَلْعُزْلَۃُ رَاحَۃٌ مِنْ خُلاطِ السُّوئِ (مفہوماً)
۲؎ المائدۃ: ۱۰۵
۳؎ بخاری کتاب النکاح باب اَلْمرْئَ ۃُ رَاعِیَۃٌ فِیْ بَیْتِ زَوْجِھَا
۴؎ البقرۃ : ۹

۵
تحریک جدید کا دَورِ ثانی اور دوسری مدات
(فرمودہ ۴؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’تحریک جدید کے متعلق بعض دوستوں کی طرف سے مجھے خطوط موصول ہورہے ہیں کہ اس کی جو دوسری مدات تھیں آیا وہ اب تک جاری ہیں یانہیں سو مَیں اس بارے میں آج بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں۔
سب سے اوّل تو یہ بات سوچنے والی ہے کہ اچھی بات آیا وقتی ہؤا کرتی ہے یا دائمی۔ کچھ باتیں صداقت کی ایسی ہوتی ہیں جو دائمی ہوتی ہیں۔ ان دائمی صداقتوں کو کبھی بھی ترک نہیں کیا جاسکتا اور اگر کسی وقت ان میں کسی قسم کی سہولت روا رکھی جائے تو وہ سہولت وقتی ہوگی اور جب کبھی تبدیلی ہوگی اس سہولت کے دور کرنے میں ہوگی نہ کہ اصل چیز کے دور کرنے میں۔ مثلاً رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے شروع کے زمانہ میں چونکہ عرب میں رواج تھا کہ لوگ گدھے کا گوشت بھی کھالیا کرتے تھے اس لئے آپ نے اس میں دخل نہ دیا لیکن بعد میں جاکر آپ نے اِس سے روک دیا۔۱؎ درحقیقت گدھا اپنی اخلاقی حالت کے لحاظ سے شروع سے ہی دوسرے ممنوع جانوروں سے مشابہت رکھتا تھا مگر وقتی ضرورتوں اور لوگوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ نے ابتداء میں اس میں دخل نہ دیایا متعہ کے بارے میں آپ نے شروع میں کوئی حکم نہ دیا لیکن دوسرے وقت جاکر آپ نے اس سے منع فرمادیا۔۲؎ تو جو چیزیں اپنے اندر کوئی برائی یا عیب رکھتی ہیں، ان میں اگر کسی وقت کوئی سہولت دی جاتی ہے تو وہ سہولت عارضی ہوتی ہے، اصل حکم عارضی نہیں ہوتا۔ مثلاً تحریک جدید ہے اِس میں ایک ہدایت یہ تھی کہ سادہ زندگی بسر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اب یہ غور کرنا چاہئے کہ آیا سادہ زندگی اسلام کا کوئی اصل ہے یا ضرورت کے مطابق اس کی ہدایت دی جاتی ہے۔ اگر اصل اسلامی تعلیم یہ ہو کہ انسان کو خوب عیاشانہ طور پر زندگی بسر کرنی چاہئے تو سادہ زندگی کا حکم عارضی سمجھا جائے گا اور یہ سوال ہر وقت کیا جاسکے گا کہ اب اس ہدایت پر عمل ترک کردیا جائے یا نہ کیا جائے۔ لیکن اگر اسلام کی اصل تعلیم سادہ زندگی کی ہو تو پھر اس حکم کے متعلق یہ سوال نہیں ہوگا کہ یہ عارضی ہے اِسے واپس لے لیا جائے بلکہ یہ سوال ہو گا کہ اس حکم کو کامل طور پر جاری کرنے میں اگر کوئی روک تھی تو اس روک کو کب دُور کیا جائے گا۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اسلام نے بطور شریعت سادہ زندگی کی کوئی تعریف نہیں کی۔ اسلام نے بطور اصول یہ تو بتایا ہے کہ سادہ زندگی اختیار کرو مگر یہ تعریف نہیں کی کہ سادہ زندگی کس کو کہتے ہیں۔ پس یہ بحث تو کی جاسکتی ہے اور ہر وقت کی جاسکتی ہے کہ سادہ زندگی کی تعریف کیا ہے اور آیا فلاں احکام جو سادہ زندگی اختیار کرنے کے ضمن میں دیئے گئے ہیں وہ سادہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے۔ یا بعض افراد یا بعض قومیں آپس میں مل کر فیصلہ کرلیں کہ فلاں بات بھی سادہ زندگی کے اصول میں شامل کرلینی چاہئے لیکن اصولی طور پر اس بات پر بحث نہیں ہوسکتی کہ آیا سادہ زندگی اختیار کرنی چاہئے یا نہیں۔ کیونکہ یہ خالص اسلام کا حکم ہے اور قرآن کریم کی بیسیوں آیات اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بیسیوں احکام اس معاملہ میں موجود ہیں جو ہمارے لئے خضرِراہ اور ہدایت نامہ ہیں اور پھر ہماری عقل بھی ہماری اسی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ اگر ہم نے دنیا میں اس اسلامی تہذیب کو قائم کرنا ہے جو اس دنیا میں بھی اسی طرح بنی نوع انسان کیلئے بہشت کھینچ کر لاتی ہے جس طرح اگلے جہان میں بہشت ہے تو لازماً اس معاملہ میں آہستہ آہستہ ہمیں بعض اور قیود بھی بڑھانی پڑیں گی یہاں تک کہ اسلام کے منشاء کے مطابق سادہ زندگی کی روح دنیا میں قائم ہوجائے۔ بیشک ایک کھانا کھانا چاہئے یا زیادہ کی بھی اجازت ہو۔ یہ خود اپنی ذات میں پورے طور پر سادہ زندگی کے مفہوم کو ادا کرنے والے نہیں لیکن رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کی سنت سے یہی ثابت ہے کہ آپ ایک کھانا کھانے پر اکتفا کیا کرتے تھے۔ اِلَّا مَاشَائَ اﷲُ خاص دعوتوں یا عیدین کے موقع پر آپ نے ایک سے زائد کھانے کھالئے تو یہ اَور بات ہے۔ چنانچہ ان قیود سے عیدوں کو میں نے پہلے ہی مستثنیٰ کردیا تھا کیونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے جب یہ سوال پیش ہؤا تو آپ نے عیدین کے متعلق فرمایا یہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے کھانے پینے کے دن رکھے ہیں۔۳؎ تومیں نے سادہ طعام کے متعلق جو ہدایت دی تھی اس میں یہ اصول مقرر کیاتھا کہ عیدوں پر ایک سے زائد کھانا کھانے کی اجازت ہے۔ ہاںلوگوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق پھر بھی سادگی کو مدنظر رکھیں کیونکہ جب سادہ زندگی اصل کے طور پر ہے تو اس میں وسعت پیدا کرتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
ہمارے پنجاب میں اچھی اچھی دعوتوں کے موقع پر صرف چار پانچ کھانوں پر لوگ کفایت کرتے ہیں لیکن انگریزوں میں جہازوں اور ہوٹلوں میںعام کھانے ہی سات آٹھ پکتے ہیں اور ان کے رات کے ڈنر میں تو پندرہ پندرہ سولہ سولہ کھانے ہوتے ہیں۔ گو وہ سارے پکے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ بعض کھانے چٹنیوں کی قسم کے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے کھانے پکتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ہمارے ہندوستان کے ہی بعض گوشوں میں مہمان نوازی کی تعریف یہ سمجھی جاتی ہے کہ تیس تیس، چالیس چالیس کھانے پکائے جائیں۔ مجھے اپنی عمر میں صرف ایک دفعہ ایسی دعوت میں شریک ہونے کا موقع ملا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے وقت کی بات ہے کہ ہم بعض دوست ایک وفد کی صورت میں ہندوستان کے مختلف مدارس دیکھنے کیلئے گئے۔ جب دورہ کرتے ہوئے ہم ایک شہرمیں پہنچے تو وہاں ایک پرانی وضع کے نہایت مخلص احمدی تھے۔ انہوں نے میرے آنے کی خوشی میں دعوت کی اور اس خیال سے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں میرے اعزاز میں انہوں نے بہت سے کھانے پکائے۔ میں نے وہ کھانے گِنے تو نہیں مگر یہ مجھے یاد ہے کہ جو کھانے میرے دائیں بائیں رکھے گئے تھے وہ اتنے تھے کہ اگر میں اپنے دونوں ہاتھ پھیلا بھی دیتا تو وہ دائیں بائیں کی طشتریوں کو نہیں ڈھانپ سکتے تھے اور جو میرے سامنے کھانے پڑے تھے وہ اتنے زیادہ تھے کہ اگر میں لیٹ بھی جاتا تب بھی بعض کھانے دور رہ جاتے۔ میں نے جب اس قدر کھانے پکے ہوئے دیکھے تو ایک دوست سے میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہے؟ اتنے کھانے انہوں نے کیوں تیار کئے ہیں؟ اس پر اس نے چپکے سے میرے کان میں کہا کہ آپ اس امر کا یہاں ذکر نہ کریں کیونکہ اس طرح ان کی دل شِکنی ہوگی۔ یہاں یہ رواج ہے کہ جب کسی کے اعزاز میں دعوت کی جاتی ہے تو خاص طور پر بہت زیادہ کھانے پکائے جاتے ہیں۔ پس جو کھانا آپ نے کھانا ہے کھالیں کچھ کہیں نہیں۔ اب یہ بھی دعوت کا ایک طریق ہے۔ تو زیادتی میںبھی سادگی کو مدنظر رکھا جاسکتا ہے کیونکہ ایک سے زائد کھانے کے معنے دو بھی ہوسکتے ہیں، تین بھی ہوسکتے ہیں، دس بھی ہوسکتے ہیں، بیس بھی۔ پس ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ سادگی اصل حکم ہے اور تَرَفُّہ ۴؎ایک عارضی اجازت، اور عارضی اجازت ہر حالت میں اصل حکم کے تابع رہنی چاہئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک امیر میرے پاس آیا اور کہنے لگا مولوی صاحب! ہاضمہ کی کوئی اچھی سی دوائی مجھے دیں تاکہ میں کھانا پیٹ بھر کر کھاسکوں۔ میری یہ حالت ہے کہ بس لقمہ دو لقمے کھاتا ہوں اور پیٹ بھر جاتا ہے۔ آپ فرماتے کہ ایک دن مجھے اس امیر کے دسترخوان پر جانے کا اتفاق ہؤا۔ میں نے دیکھا کہ کھانے کی چالیس پچاس طشتریاں اُس کے سامنے آئیں۔ اُس نے ہر تھالی میں سے ایک دو لقمے لئے اور چکھا کہ ان سب میں سے اچھا کھانا کون سا ہے۔ پھر دو چار کھانے جو اسے پسند آئے وہ اس نے الگ کرلئے اور ان میں سے تھوڑے تھوڑے لقمے لینے کے بعد کہنے لگا دیکھئے مولوی صاحب! اب بالکل کھایا نہیں جاتا۔ حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ میں نے اسے کہا یہ کوئی بیماری نہیں۔ کیونکہ جو چکھنے کے لقمے ہیں وہ بھی آپ کے معدہ میں ہی گئے ہیں اور اس سے زیادہ کوئی تندرست آدمی نہیں کھاسکتا۔
پس مَیں اس بارے میں جہاں پھر سادگی کی تاکید کرتا ہوں وہاں میں بعض دوستوں کی متواتر تحریک پردو اِستثناء بھی کردیتا ہوں ۔ ایک تو عیدوں کی طرح میںجمعہ کا استثناء بھی کرتا ہوں اور اُس دن ایک سے زائد کھانا کھانے کی لوگوں کو اجازت دیتا ہوں۔ مگر اِسی حدتک کہ اگر اس دن کوئی دوسرا کھانا کھالے تو جائز ہوگا۔ یہ نہیں کہ ضرور اُس دن ایک سے زائد کھانے پکائے جائیں اور اس استثناء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس دن کئی کئی کھانے پکنے لگ جائیں۔ پس جمعہ کا میںاستثناء کرتا ہوں اور اُس دن دو کھانوں کی اجازت دیتا ہوں۔ کیونکہ جمعہ کے متعلق بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ ہماری عید ہے۔۵؎ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چُھٹیوں کے دنوں میں چونکہ رشتہ دار وغیرہ جمع ہوتے ہیں اور ان کی خاص طور پر خاطرمدارت کرنی پڑتی ہے اس لئے چھُٹی کے دن بھی اس قید کر اُڑادیا جائے۔ میرے لئے یہ سوال مشکل پیدا کررہا ہے کہ میں اتوار کو چھٹی قرار دوں یا جمعہ کو۔ کیونکہ اصل سوال یہ ہے کہ چونکہ چھُٹی کے دن رشتہ دار ایک دوسرے کے ہاں ملاقات کیلئے آتے ہیں اس لئے اس خوشی کے موقع پر کسی قدر خاطر مدارات کیلئے یہ اجازت ہونی چاہئے کہ ایک سے زائد کھانے پکائے جائیں۔ اب ایک طرف چونکہ سرکاری دفاتر میں اتوار کو چھُٹی ہوتی ہے اس لئے اس اجازت کے ماتحت اتوار کو مستثنیٰ کرنا چاہئے لیکن دوسری طرف رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جمعہ کیلئے عید کا لفظ فرمایا ہے اس لئے اس رخصت کا حقدار وہ دن ہے۔ اگر شریعت اور موجودہ حالات کا لحاظ رکھا جائے تو ہفتہ میں دو دن مستثنیٰ کرنے پڑتے ہیں لیکن ہفتہ میں دو دن کا استثناء بہت زیادہ ہے اور اس طرح سہولت بہت وسیع ہوجاتی ہے اس لئے مَیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قول کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ ہم چھُٹی کا دن جمعہ کو ہی قرار دیں۔ گو عملاً ہمارے ملک میں جمعہ کے دن چھُٹی نہیں ہوتی۔ لیکن زمیندار، تاجر اور جو لوگ ایسی جگہوں میںملازم ہیں جہاں جمعہ کے دن چھُٹی ملتی ہے اب بھی جمعہ کو چھُٹی کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں۔ دوسرے لوگ جنہیں اتوار کو چھُٹی ملتی ہے وہ بھی اگر چاہیں تو اس بات کی عادت ڈال سکتے ہیں کہ اتوار کو اپنے آرام کا وقت رکھ لیں اورجمعہ کی شام کو اپنے کام کاج سے فارغ ہوکر اپنے رشتہ داروں سے مل لیں۔ گویا رشتہ داروں کی ملاقات کا وقت بجائے اتوار کے جمعہ کی شام کورکھا جائے۔ اس طرح جمعہ کے استثناء سے فائدہ اُٹھا کر وہ ان کی خاطر مدارات کیلئے ایک سے زائد کھانا تیار کرسکتے ہیں۔
غرض شرعی مسئلہ چونکہ جمعہ کی تائید میں ہے اس لئے میرا میلانِ طبع اسی طرف ہے کہ بجائے اتوار کے جمعہ کو مستثنیٰ کیا جائے۔ بعدمیں اگر دوست اس میں کوئی مشکلات دیکھیں تو وہ بتاسکتے ہیں اور اس پر ہر وقت غور کیا جاسکتا ہے۔ فی الْحال میں جمعہ کا استثناء کرتاہوں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر جمعہ کو ضرور ایک سے زائد کھانے پکائے جائیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی ایسی تقریب ہو جب رشتہ دار یا دوست احباب جمع ہوں یا کوئی مہمان آئے ہوئے ہوں تو ان کی خاطر اگر دو کھانے پکالئے جائیں تو جائز ہوگا۔
اس استثناء کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے دوستوں نے شکایت کی ہے کہ ہمارے پنجاب اورہندوستان میں چاول نیم غذا ہے جس کا کبھی کبھی کھانا صحت کے لحاظ سے اور ملک کی آب وہوا کے لحاظ سے ضروری ہوتا ہے۔ مگر اس حکم سے کہ ایک کھانا کھایا جائے ہم چاول کوبالکل ترک کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کیونکہ صرف چاول کھانے کی عادت نہیں ہوتی اور روٹی سالن کے علاوہ اگر چاول کھائیں تو وہ دو کھانے ہوجاتے ہیں۔ پس ایک کھاناکھانے کی وجہ سے یہ جو دقت پیدا ہوگئی تھی کہ لوگ روٹی ہی کھاتے تھے چاول نہیں کھاسکتے تھے حالانکہ چاولوں کا کبھی کبھی کھانا ہماری مُلکی آب و ہوا کے لحاظ سے ضروری ہے اس استثناء سے اس کا ازالہ ہوجائے گا۔ اور وہ لوگ جو شکایت کیا کرتے ہیں کہ ایک کھانا کھانے کا حکم دے کر چاول کی غذا بالکل بند کردی گئی ہے انہیں اطمینان ہوجائے گا اور وہ جمعہ کے دن حسبِ خواہش روٹی کے علاوہ چاول بھی کھاسکیں گے۔
دوسرا استثناء جو مَیں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ دعوتوں کے موقع پر میں نے پہلے یہ شرط رکھی تھی کہ اگر اپنا ہی کوئی احمدی دوست مہمان ہو تو دسترخوان پر میزبان صرف ایک ہی کھانا کھائے۔ لیکن اگر کوئی غیرمہمان ہو تو اس کے ساتھ ایک سے زائد کھانے کھاسکتا ہے۔ اس کے متعلق بعض دوستوں نے شکایت کی ہے کہ یہ پابندی بہت مشکلات پیدا کرتی ہے کیونکہ جب مہمان وہ کھانے کھارہا ہو اور ہم صرف ایک ہی کھانا کھائیں تو یہ امر مہمان پر بہت شاق گزرتا ہے۔پس آئندہ کیلئے میں اس پابندی کو بھی دور کرتا ہوں اور اس امر کی اجازت دیتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا مہمان ہو جس کیلئے ایک سے زائد کھانے پکائے گئے ہوں تو اس صورت میں خود بھی دوکھانے کھانے جائز ہوں گے مگر شرط یہ ہے کہ کوئی غیرمہمان ہو۔ یہ نہ ہو کہ اپنے ہی رشتے دار بغیر کسی خاص تقریب کے اکٹھے ہوں اور ان کیلئے (جمعہ کے استثناء کے علاوہ) ایک سے زائد کھانے تیار کرلئے جائیں اور خود بھی دو دو کھانے کھالئے جائیں۔
غرض میری یہ اجازت اس حالت کے لئے ہے جب غیرلوگ مہمان ہوں یا اپنے عزیزوں کی خاص دعوت ہو۔ میں سمجھتا ہوں اس سے زیادہ کوئی اور سہولت دینا سوائے تکلف کے اور کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا۔ مثلاً اگر مہمان کیلئے تین چار کھانے پکائے جائیں تو میزبان کو مہمان کے ساتھ سب کھانے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اسے زیادہ سے زیادہ دو کھانے کھانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ اور اگر یہ ان کھانوں میں سے دو کھانے کھالے گا تو مہمان کو یہ اصرار نہیں ہوگا کہ ضرور تین کھانے کھائو۔ مہمان کی طرف سے اُسی وقت اصرار ہوتا ہے جب یہ صرف ایک کھانا کھاتا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں یہ عام دستور ہے کہ روٹی سالن ایک کھانا سمجھا جاتا ہے اور چاول دوسرا کھانا۔ اب جب یہ صرف روٹی سالن پر اکتفا کرتا ہے اور چاول نہیں کھاتا تو مہمان کو یہ بات چبھتی ہے لیکن اگر یہ روٹی سالن بھی کھالے اور چاول بھی کھالے تو مہمان یہ اصرار نہیں کرے گا کہ اب ضرور فلاں چیز بھی کھائو۔ کیونکہ وہ خیال کرے گا کہ جو چیز اسے پسند تھی اس نے کھالی اگر فلاں چیز یہ نہیں کھانا چاہتا تو نہ کھائے۔ پس چونکہ صرف روٹی سالن کھانے سے ایک امتیاز معلوم ہوتا ہے اور مہمان کو یہ بات چبھتی ہے اس لئے دوسرا کھانا کھانے کی بھی اجازت ہے۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں مہمان پر اس کا طریق عمل گراں نہیں گزرے گا کیونکہ جب مثلاً دسترخوان پر دو سالن ہوں گے اور یہ صرف ایک سالن استعمال کرے گا تو وہ خیال کرے گا کہ اس نے ایک سالن تو استعمال کرلیا دوسرا نہیں کیا تو نہ کرے۔ کیونکہ ایک سالن دوسرے سالن کا قائمقام ہوجاتا ہے لیکن چونکہ ہمارے ملک میں روٹی چاول کا قائمقام نہیں سمجھی جاتی اس لئے مہمان کو یہ امر چبھتا ہے کہ میزبان نے مثلاً خالی چاول کھائے ہیں یا صرف روٹی کھائی ہے اور اسے بھی دوسری اشیاء استعمال کرنے میں حجاب ہوتا ہے۔ ہاں ایک اور استثناء مَیں گزشتہ سالوں میں کرچکا ہوں وہ قائم ہے اور وہ رسمی یا حکام کی دعوتوں کے متعلق ہے۔ ایسی دعوتوں میں ایک سے زیادہ کھانے کھانا یا کھلانا جو مُلک کے رواج کے مطابق ضروری ہوں جائز رکھا گیا تھا اور اب بھی جائز ہے۔ بعض ملکوں میں جیسے بنگال اور بہار کے علاقے ہیں چاولوں کے ساتھ ایک پتلی دال پکاتے ہیں جس کی غرض محض چاولوں کو گِیلا کرنا ہوتی ہے۔ اس کی اجازت مَیں پچھلے دَور میں دے چکا ہوں اور اس دَور میں پھر اس کو دُہرادیتا ہوں کہ جن علاقوں میں یہ رواج ہے کہ تھوڑا سا خشک سالن وہ چاولوں کے ساتھ استعمال کرنے کیلئے الگ پکاتے ہیں اور ایک پتلی دال جو بالکل پانی کی طرح ہوتی ہے، الگ پکاتے ہیں تاکہ چاول گِیلے ہوکر آسانی سے ہضم ہوسکیں، انہیں پتلی دال استعمال کرنے کی اجازت ہے کیونکہ پتلی دال وہاں غذا نہیں سمجھی جاتی بلکہ غذا صرف خشک سالن اور چاول ہوتی ہے۔ یہ دال صرف اس لئے ملائی جاتی ہے تاکہ چاول گِیلے ہوجائیں اور انہیں نگلنے میں آسانی ہو۔ یہ استثناء اگرچہ مَیں نے پچھلے دَور میں کردیا تھا مگر اِس دَورمیں مَیں پھر اس کو دُہرادیتا ہوں۔ مگر یہ شرط ہے کہ وہ دال پتلی دال تک ہی محدود ہو۔ اگر اُس دال کو خود ایسا گاڑھا اور مرغّن بنالیا جائے کہ وہ سالن کا کام دے سکے توپھر اِس کی اجازت نہیں۔
خطوں میں تو مجھے یاد ہے لیکن یہ یاد نہیں کہ کسی خطبہ میں بھی مَیں بیان کرچکا ہوں یا نہیں کہ اچار اور چٹنی اگر سادہ ہو اور بطور مصالحہ یا ہاضوم کے اسے استعمال کیا جائے تو کھانے کے ساتھ اس کا استعمال جائز ہے لیکن بعض ملکوں میں چٹنی بھی سالن کا قائمقام سمجھی جاتی ہے۔ پس جب چٹنی میں بھی تکلّف کی کوئی صورت ہو اور سالن کے قائمقام سمجھی جاسکے تو پھر اس کے استعمال میں بھی احتیاط کرنی چاہئے۔ ہر شخص کا معاملہ خداتعالیٰ کے ساتھ ہے اور فائدہ اسی صورت میں پہنچ سکتا ہے جب انسان حُجت اور حیلہ سازی سے کام نہ لے۔ اگر چٹنی اور اچار صرف چٹنی اور اچار کی حد تک ہی ہو اور اس کے استعمال کی غرض یہ ہو کہ ہاضمہ درست ہو اور کھانا ہضم ہوجائے تو اس کا استعمال جائز ہے لیکن اگر وہ سالن کے قائمقام ہو تو پھر کسی دوسرے سالن کے ساتھ اس کا استعمال جائز نہیں۔ اور یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں چٹنیاں ہی چٹنیاں بنا کر کھاتے ہیں، کوئی الگ سالن استعمال نہیں کرتے۔
ایک دفعہ جب مَیں شملہ میں تھا تو ایک رئیس میری ملاقات کیلئے آئے۔ اُن سے دورانِ گفتگو کہیں مَیں نے ذکر کردیا کہ سنا ہے آپ کے وطن میں کھانے اَور قسم کے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد مجھے اس بات کا کوئی خیال نہ رہا۔ اُنہوں نے میری دعوت کی۔ جب میں ان کے ہاں پہنچا تو مَیں نے دیکھا کہ چھوٹی چھوٹی پیالیاں آنی شروع ہوگئیں جن میں مختلف قسم کی چٹنیاں تھیں۔ میں نے ان چٹنیوں کو کچھ چکھا اور پھر چھوڑ دیا اور دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ اب میں یہ انتظار کرتا رہا کہ کھانا آئے تو میں کھائوں مگر کھانا کوئی نہ آیا۔ یہاں تک کہ گیارہ بج گئے اور ہم وہاں سے رُخصت ہوگئے۔ راستہ میں مَیں نے حافظ روشن علی صاحب مرحوم سے جو میرے ساتھ تھے پوچھا کہ کیا آج ہماری یہاں دعوت نہیں تھی؟ اور کیا ہمیں غلطی تو نہیں لگی کہ ہم دعوت کے خیال سے یہاں آگئے؟ وہ اتفاق سے اس علاقہ میں رہ چکے تھے۔ وہ کہنے لگے کھانا آیا جوتھا آپ نے نہیں کھایا؟ میں نے کہا کھانا کون سا آیا؟ کچھ چٹنیاں آئی تھیں وہ میں چکھ کر چھوڑتا گیا۔ کہنے لگے وہی تو کھانا تھا۔ میںنے کہا میں نے سمجھا کہ یہ صرف ہاضمہ کے تیز کرنے کیلئے چٹنیاں آرہی ہیں اور چونکہ مجھے کھانسی کی شکایت تھی میں چکھ کر چھوڑ دیتا تھا، کھاتا نہ تھا اور خیال کرتا تھا کہ اصل کھانا بعدمیں آئے گا۔ کہنے لگے یہی چٹنیاں جو انہوں نے بھجوائی تھیں کھانا تھیں۔ تو بعض علاقوں میں چٹنیاں بھی کھانا سمجھی جاتی ہیں جیسے میرے ساتھ واقعہ پیش آیا۔ یہاں تک کہ مجھے راستہ میں دریافت کرنا پڑا کہ آیا ہماری یہاں دعوت بھی تھی یا نہیں۔ اگر اِس قسم کی چٹنیاں ہوں تو پھر یہ بھی کھانے میںشمار ہوں گی اور ان میں بھی سادگی اور حد بندی کی ضرورت ہوگی۔
لباس کے متعلق بھی بعض دوستوں نے دریافت کیا ہے حالانکہ لباس کی سادگی نہایت ضروری چیز ہے۔ میں نے دیکھا ہے لباس میں سادگی نہ ہونے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ امیروں اور غریبوں میں ایک بیّن فرق ہے۔ امیر اپنے کپڑے سنبھالے بیٹھے رہتے ہیں اور ہر وقت انہیں یہ خیال رہتا ہے کہ کہیں کپڑے پر داغ نہ لگ جائے، کہیں میلا نہ ہوجائے اور اس طرح وہ غرباء سے پرے پرے رہتے ہیں۔ پس لباس میں سادگی نہایت ضروری ہے بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ اگر کسی شخص کے پاس صرف ایک جوڑا ہے اور وہ اسے ایسی احتیاط سے رکھتا ہے کہ ہر وقت اسے یہ خیال رہتا ہے کہ کہیں اُس پر دھبہ نہ پڑ جائے ، کہیں اُس پر داغ نہ لگ جائے اور اس طرح غریبوں سے اس کے دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے تو اس نے ہرگز تحریک جدید کے اس مطالبہ پر عمل نہیں کیا۔ اس کے مقابلہ میں اس شخص کو میں زیادہ سادہ کہوں گا جس کے پاس دو یا تین جوڑے کپڑوں کے ہیں اور وہ ان کے متعلق ایسی احتیاط نہیں کرتا جو امارت و غربت میں امتیاز پیدا کردیتی ہے۔ درحقیقت لباس میں ایسا تکلّف جو انسانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کا موجب ہو جائے، جوبنی نوع انسان میں کئی قسم کی جماعتیں پیدا کرنے کا محرک ہوجائے، سخت ناپسندیدہ اور فِتنے پیدا کرنے والا ہے۔ خواہ اس کے پاس ایک ہی جوڑا ہو یا دو ہوں۔ پس یہ ہدایت بھی کوئی وقتی ہدایت نہیں بلکہ مستقل ہدایت ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسانوں میں سے تفرقہ دور ہوتا ہے۔
عورتوں میں خصوصاً اعلیٰ لباس کی بہت پابندی ہوتی ہے اور اس میں ان کی طرف سے بڑے بڑے اسراف ہوجاتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض گھر عورتوں کے لباس اور زیور کی وجہ سے ہی برباد ہوگئے ہیں۔ انگریز اقتصادی لحاظ سے بہت بڑی محتاط قوم ہے مگر ان میں بھی عورتوں کے لباسوں کے اخراجات کی وجہ سے بڑے بڑے امراء تباہ ہوجاتے ہیں۔ عورت بازار میں جاتی اور مختلف فیشنوں کے جنون میں ماری جاتی ہے۔
میں نے ایک دفعہ ایک ولائتی اخبار میں لطیفہ پڑھا کہ فرانس میں جہاں فیشن کا سب سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے ایک عورت جو فیشن میں خاص طور پر مشہور تھی ایک دکان سے ایک ٹوپی خرید کر نکلی۔ اتفاق سے راستہ میں اُسے ایک فیشن کی ملکہ نظر آگئی۔ یورپ کے ہر مُلک میں چارپانچ ایسی عورتیں ہوتی ہیں جو فیشن کی ملکہ کہلاتی ہیں یعنی جولباس وہ پہنیں وہی فیشن سمجھا جاتا ہے۔ ان کے لباس کے خلاف اگر کوئی عورت لباس پہنے تو اس کا لباس فیشن کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ جب اس نے اس فیشن کی ملکہ کو دیکھا تو اسے معلوم ہؤا کہ اس نے اور قسم کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے وہ نئی ٹوپی جو اس نے ابھی خریدی تھی سر سے اُتار کر اپنی بغل کے نیچے دبالی تاکہ کوئی اُسے اس ٹوپی کے ساتھ نہ دیکھ لے۔ یہ فیشن پرستی جنون بھی ہے اور قومی اتحاد کو تباہ کرنے والی بھی۔
ہمارے مُلک میں بھی جو مغربی لباس پہننے والوں کی نقل کرتے ہیں انہیں دیکھ کر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ آدمی ہیں بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشینیں ہیں جن پر کپڑے لپٹے ہوئے ہیں۔ ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے انہیں یہی خیال رہتا ہے کہ کپڑے کو شکن نہ پڑ جائے، اس پر داغ نہ لگ جائے ، اس میں سلوٹ نہ پڑ جائے۔ بھلا ایسے دماغ کو خدا کے ذکر کیلئے کہاں فُرصت مل سکتی ہے۔ دماغ نے تو آخر ایک ہی کام کرنا ہے۔ جسے اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے یہی خیال رہتا ہو کہ پتلون کو شِکن نہ پڑ جائے اس نے بھلا اَور کیا کام کرنا ہے۔ اس کے دماغ کا بہت سا وقت تو اپنے لباس کی درستی میں ہی لگ جاتا ہے۔ درحقیقت اسلام یہ چاہتا ہے کہ ہمارا دماغ اور تمام باتوں سے فارغ ہو اور یا تو وہ خدا کی یاد میں مشغول ہو یا بنی نوع انسان کی بہتری کی تدابیر سوچ رہا ہو۔ اور حق بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان باتوں میں ہمہ تن مشغول ہو تو اسے یہ موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ لباس کی درستی کی طرف توجہ کرے۔ میں نے دیکھا ہے کام کی کثرت کی وجہ سے کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ادھر میں کھانا کھارہا ہوتا ہوں اور اُدھر اخبار پڑھ رہا ہوتا ہوں۔ بیویاں کہتی بھی ہیں کہ اِس وقت اخبار نہ پڑھیں کھانا کھائیں مگر میں کہتا ہوں میرے پاس اَور کوئی وقت نہیں۔ پھر کئی دفعہ لوگ میرے پاس آتے ہیںاور کہتے ہیں آپ کے لباس میں یہ نقص ہے، وہ نقص ہے۔ مگر میںکہتا ہوں کہ مجھے تو اس بات کا احساس بھی نہیں۔ آپ کو معلوم نہیں کہ اس کا کیوں خیال ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہم نے دیکھا ہے گو مخالف اس پر ہنسی اُڑاتے اور یہ کہتے ہیں کہ آپ نَعُوْذُ بِاﷲ پاگل تھے مگر واقعہ یہ ہے کہ آپ کئی دفعہ بوٹ ٹیڑھا پہن لیتے، دایاں بوٹ بائیں پائوں میں اور بایاں بوٹ دائیں پائوں میں۔ وہ نادان نہیں جانتے کہ جس کا دماغ اَور باتوں کی طرف شدت سے لگا ہؤا ہو اُسے ان معمولی باتوں کی طرف توجہ کی فُرصت ہی کب مل سکتی ہے۔
اسی طرح کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ آپ بٹن اُوپر نیچے لگالیتے یعنی اوپر کا بٹن نچلے بٹن کے کاج میں اور نیچے کا بٹن اوپر کے بٹن کے کاج میں لگادیتے ۔ میرا بھی یہی حال ہے کہ دوسرے تیسرے دن بٹن اوپر نیچے ہو جاتے ہیں اور کوئی دوسرا بتاتا ہے تو درستی ہوتی ہے۔ گو بوٹ کے متعلق اب تک میرے ساتھ ایسا کبھی واقعہ نہیں ہؤا کہ بایاں بوٹ میں نے دائیں پائوں میں پہن لیا ہو اور دایاں بوٹ بائیںپائوں میں اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ میرے پائوں پر بھنوری ہے اور ڈاکٹر نے مجھے بچپن سے ہی بوٹ پہننے کی ہدایت کی ہوئی ہے۔ اور چونکہ بچپن سے ہی مجھے بوٹ پہننے کی عادت ہے اس لئے ایسا کبھی اتفاق نہیں ہؤا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تو اکثر ایسا ہؤا کہ چلتے چلتے آپ کو ٹھوکر لگتی اور کوئی دوسرا دوست بتاتا کہ حضور نے گرگابی اُلٹی پہنی ہوئی ہے اور آخر آپ نے انگریزی جُوتی پہننی بالکل ترک کردی۔ تو انسانی دماغ جب ایک طرف سے فارغ ہو تبھی دوسرا کام کرسکتا ہے۔ اگر ہم اپنے دماغ کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف لگادیں تو اسلام کی ترقی کے کام ہم کب کرسکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کھانے اورلباس میں انسان کو سادگی کا حکم دیا تاکہ وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں اُلجھنے کی بجائے اہم امور کی طرف توجہ کرے۔پس لباس کے متعلق بھی میں سمجھتا ہوں کہ جو قیود میری طرف سے عائد کی گئی تھیں ان کا قائم رکھنا ضروری ہے۔
فیتوں کے متعلق بھی بعض دوستوں نے دریافت کیا ہے کہ آیا اس کے متعلق عورتوں پر جو پابندی عائد کی گئی تھی اُس کا وقت گزرگیا ہے یا ابھی جاری ہے؟ سو اِس کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ پابندی بہرحال قائم ہے کیونکہ کپڑے خواہ کتنے گراں ہوں ایک لمبے عرصہ تک کام دے سکتے ہیں۔ مگر فیتے چونکہ لباس پر صرف ٹانکے جاتے ہیں اور ہر روز بدلے جاسکتے ہیں اس لئے ہر نئے فیشن کو دیکھ کر عورتیں ریجھ جاتی ہیں اور نیا فیتہ خرید کر پہلے فیتے کی جگہ لگالیتی ہیں اور میرا تجربہ ہے کہ کپڑوں پر اتنی قیمت نہیں لگتی جتنی کہ ایک فیشن پرست عورت کے فیتوں پر، کیونکہ فیتے بدلتے چلے جاتے ہیں۔ پس مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ میں اس میں تغیر کروں۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ ہمیں آہستہ آہستہ ابھی بعض اور قیدیں اِس بارہ میں بڑھانی پڑیں گی لیکن چونکہ میں ابھی تک ان امور کے متعلق غور کررہا ہوں اس لئے ابھی ان کا ذکر نہیں کرتا۔
زیورات کے متعلق میں یہ اجازت دے چُکا ہوں کہ شادی بیاہ کے موقع پر نیا زیور بنوانا جائز ہے۔ اس کے علاوہ کسی موقع پر نہیں اور درحقیقت زیور اپنی ذات میں کوئی ایسی چیز بھی نہیں کہ شادی کے بعد خاص طور پر بنوایا جائے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں خاص طور پر زیور بنوانے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ ہاں ٹُوٹے پھُوٹے زیور کی مرمت کی اجازت میں پہلے بھی دے چکا ہوں اور اب بھی وہ اجازت قائم ہے لیکن ٹُوٹے پھُوٹے زیور کے بنوانے کے یہ معنے نہیں کہ ایک زیور تُڑواکر دوسرا زیور بنوالیا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ٹُوٹے ہوئے زیور کی محض مرمت کرائی جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ عورتیں زیورات کو توڑ پھوڑ کر بعض دفعہ زیور کی قیمت سے بھی زیادہ اس پر خرچ کردیتی ہیں۔ پس توڑنے پھوڑنے کی مرمت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ گلے کا زیور ہاتھ کا بنالیا جائے اور ہاتھ کا زیور گلے کا بلکہ اس سے مراد صرف ٹُوٹے ہوئے زیور کی معمولی مرمت ہے تاکہ وہ کام دے سکے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں گو زیور کیلئے سونا بھی کم ہوتا تھا مگر اس فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی زیور کا جس قدر رواج تھا کہا جاسکتا تھا کہ سونے کی نسبت سے بھی کم تھا۔ اُس وقت زیورات کی اتنی کمی تھی کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک بیوی کے متعلق آتا ہے کہ ان کا زیور محض یہ تھا کہ ان کے پاس ایک ہار تھا جو لونگوں اور بعض دوسرے خوشبودار بیجوں سے بنا ہؤا تھا اور وہ بھی کسی سے عاریتاً لیا ہؤا تھا۔ ہمارے ملک میں بھی زمیندار عورتیں کھوپرے کے ٹکڑوں اور خربوزوں کے بیجوں کے ہار بنالیتی ہیں۔ اسی طرح انہوں نے بھی خوشبو کے لئے مختلف قسم کے بیجوں اور رنگوں کو اکٹھا کرکے ایک ہار بنایا ہؤا تھا۔
درحقیقت زیور اقتصادی لحاظ سے ایک نہایت ہی مُضِر چیز ہے کیونکہ اس میں قوم کا روپیہ بغیر کسی فائدہ کے پھنس جاتا ہے اور دراصل یہی وہ سونا چاندی اکٹھا کرنا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو لوگ سونا چاندی اکٹھا کرتے ہیں قیامت کے دن اس سونا چاندی کو گرم کرکے ان کے جسم پر داغ لگایا جائے گا۔ یوں قرآن مجید روپیہ رکھنے کی ممانعت نہیں کرتا۔ اگر روپیہ جمع کرنا منع ہوتا تو اسلام میں زکوٰۃ کا مسئلہ بھی نہ ہوتا۔ پس روپیہ جمع کرنا منع نہیں بلکہ ایسا روپیہ جمع کرنا منع ہے جو دنیا کو کوئی فائدہ نہ پہنچاسکے۔ ایک شخص کے پاس اگر دس لاکھ روپیہ ہو اور وہ تجارت پر لگاہؤا ہو تو پانچ دس سَو لوگ ایسے ہوں گے جو اس کے روپیہ سے فائدہ اُٹھارہے ہوں گے۔ پس بڑے تاجر کا روپیہ یا بڑے زمیندار کا روپیہ بند نہیں کہلاسکتا۔ مثلاً ایک زمیندار کے پاس اگر دوچار سَو ایکڑ زمین ہے تو چونکہ وہ اکیلا اس زمین میں ہل نہیں چلاسکے گا اس لئے لازماً وہ اور لوگوں کو نوکر رکھے گا اور اس طرح بارہ تیرہ آدمی بلکہ بہ شمولیت بیوی بچوں کے ساٹھ ستّر آدمی کا اس کی زمین سے گزارہ چلے گا اور تمام قوم کو فائدہ پہنچے گا۔ لیکن اگر وہ سَو دو سَو ایکڑ زمین کی بجائے اتنے روپیہ کا سونا خرید کر گھر میں رکھ لیتا ہے تو کسی ایک شخص کو بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ تو اپنے روپیہ کو ایسے استعمال میں نہ لانا جس کا دنیا کو فائدہ پہنچے، اسلام سخت ناپسند کرتا ہے اور ایسے لوگوں کو ہی قیامت کے دن سزا دینے کا خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے۔ چونکہ زیورات کے ذریعہ بھی روپیہ بند ہوجاتا ہے اور قوم کے کام نہیں آتا اس لئے زیورات کی کثرت بھی ناپسندیدہ امر ہے۔ ہاں عورت کی اس کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ وہ زیور پسند کرتی ہے اور جس کا قرآن کریم نے بھی ۷؎ میں ذکر فرمایا ہے اسے تھوڑا سا زیور پہننے کی اجازت ہے۔ اسی طرح ریشم اللہ تعالیٰ نے مردوں کیلئے منع کیا ہے مگر عورتوں کیلئے اس کا پہننا جائز رکھا ہے۔ اس طرح اسلام نے عورت کا یہ حق تسلیم کیا ہے کہ وہ کچھ زیور پہن کر اور کچھ ریشمی لباس میں ملبوس ہوکر زیب و زینت کرسکتی ہے اس لئے میں نے یہ اجازت دی ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر کچھ زیور بنوالیا جائے لیکن اس کے بعد کسی نئے زیور کے بنوانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی سوائے خاص حالات اور اجازت کے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ٹُوٹے پھُوٹے زیور کی مرمت کرالی جائے کیونکہ زیورات مُلک کی تجارت اور زراعت اور صنعت و حرفت کی ترقی میںسخت روک ہیں اور اس طرح ملک کا کروڑوں روپیہ بغیر کسی فائدہ کے بند پڑا رہتا ہے اور کسی قومی یا مُلکی فائدہ کیلئے استعمال نہیں ہوسکتا۔ ایک عورت اگر اپنے پاس دس ہزار روپیہ کا زیور بھی رکھ لیتی ہے تو کسی کو اس سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن اگر وہ دس ہزار روپیہ تجارت میں لگادیتی ہے اور پندرہ بیس آدمی پرورش پاجاتے ہیں تو اس سے مُلک اور قوم کو بہت بڑا فائدہ پہنچے گا اور گو اس صورت میں اس کو بھی نفع ملے گا لیکن یہ نفع دوسروں کو نفع میں شامل کرکے ملے گا۔ اس لئے شریعت اس کی اجازت دے گی۔
تو اسلام روپیہ کے استعمال کی وہ صورت پسند کرتا ہے جسے لوگ استعمال کریں۔ وہ صورت پسند نہیں کرتا جس میں آنکھیں اسے دیکھ دیکھ کر لذت حاصل کریں مگر لوگ اس کے فائدہ سے محروم رہیں۔ پس زیورات کے بنوانے میں جس قدر احتیاط کی جاسکے وہ نہ صرف امارت و غربت کا امتیاز دور کرنے کیلئے، نہ صرف مذہبی احکام کی تعمیل کرنے کیلئے بلکہ اپنے ملک کو ترقی دینے کیلئے بھی نہایت ضروری ہے۔ پس یہ احکام ایسے نہیں جنہیں بدلنے کی ضرورت ہو۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ کسی وقت ان میں زیادہ سختی کی ضرورت پیش آجائے۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگرحکومت مسلمان ہو یا اسلامی احکام کے نفاذ کی اجازت اس کی طرف سے ہو تو ایسی کئی قیود لگانی پڑیں گی جن کے ماتحت افراد کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکے کیونکہ اسلام کا منشاء یہ ہے کہ دنیا کے ہر انسان کو کھانا ضرور مہیا ہو، پانی ضرور مہیا ہو، لباس ضرور مہیا ہو اور مکان ضرور مہیا ہو۔ اور جب بھی اسلام کا یہ مقصد پورا ہوگا لازماً امیروں کے ہاتھ سے دولت چھِنے گی کیونکہ اگردولت بعض لوگوں کے ہاتھ میں بے اندازہ طور پر چلی جائے تو حکوت سب کیلئے کھانا پینا، لباس اور مکان کس طرح مہیا کرسکتی ہے۔ پس جب بھی اسلامی حکومت قائم ہوئی اسے ضرور ایسے تغیرات کرنے پڑیں گے جن کے ماتحت ہر شخص کیلئے کھانا پینا کپڑا اور مکان مہیا ہوسکے گا۔ بلکہ اس زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے ایک اور چیز بھی اس میں شامل کرنی پڑے گی اور وہ علاج ہے۔ اس زمانہ میں بیماریوں کا علاج اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ میرے نزدیک علاج بھی حکوت کے ذمہ ہونا چاہئے اور پھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے یہ بتایا ہے کہ تعلیم بھی اسی میں شامل ہے۔ چنانچہ بدر کے موقع پر جب کفار کے بہت سے قیدی آئے تو ان میں سے بعض پڑھے لکھے تھے۔ انہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم مدینہ کے بچوں کو پڑھادو تو تمہاری طرف سے یہی فدیہ سمجھا جائے گا اور تمہیں اس کے بدلہ میں رہا کردیا جائے گا۔۸؎ تو تعلیم، علاج، کھانا، پینا، کپڑا اور مکان یہ دنیا کے تمام لوگوں کو میسر آنا چاہئے۔ اور اگر کوئی مُلک ایسا ہے جس میں ایک شخص تو اپنا علاج کراسکتا ہے مگر دوسرا بیماری سے ہر وقت کراہتا رہتا ہے، ایک شخص تو اپنے لئے کپڑے مہیا کرسکتا ہے مگر دوسرا سردیوں اور گرمیوں میں ننگے بدن پھرتا ہے، ایک شخص تو مکان میں رہتا ہے مگر دوسرے کو اپنا سر چھُپانے کیلئے ایک جھونپڑی بھی میسر نہیں تو وہ مُلک کبھی جنت نہیں کہلاسکتا بلکہ وہ دوزخ ہے۔ ہزاروں آدمی ہمارے مُلک میں ایسے ہیں جو بڈھے ہوجاتے ہیں، اُن کی بیوی پہلے فوت ہوچکی ہوتی ہے اور ان کا کوئی بچہ نہیں ہوتا جو ان کی خبرگیری کرے، وہ اکیلے اپنی کوٹھڑی میں دن رات پڑے رہتے ہیں، نہ اُنہیں روٹی دینے والا کوئی ہوتا ہے نہ اُنہیں پانی دینے والا کوئی ہوتا ہے، نہ اُن کی بلغم اٹھانے والا کوئی ہوتا ہے، نہ اُن کا علاج کرنے والا کوئی ہوتا ہے۔ یہ کتنے غضب اور کتنی *** کی بات ہے اُس قوم کیلئے جس قوم میں ایسے افراد موجود ہوں ۔ مگر یہ تمام باتیں اسلامی طریقِ عمل اختیار کرنے سے ہی دورہوسکتی ہیں، اس کے بغیر نہیں۔ اور اِس وقت لازمی طور پر اُن ٹیکسوں پر حکومت کا گزارہ نہیں ہوسکے گا جو ٹیکس حکومت کی طرف سے اب وصول کئے جاتے ہیں۔ پس اُس وقت اسلامی حکومت کو بعض نئے ٹیکس لگانے پڑیں گے اور امراء سے زیادہ روپیہ وصول کرنا پڑے گا جیسا کہ اسلامی اصول اس بارے میں موجود ہیں اور پھر اس روپیہ سے غرباء کی خبرگیری کرنی پڑے گی لیکن جب تک اسلامی حکومتیں قائم نہیں ہوتیں ہمیں اس مقصد کیلئے تیاری توکرنی چاہئے۔ ہمیں کیا پتہ کہ کب خداتعالیٰ حاکموں کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر دے اور وہ دَوڑتے ہوئے اسلامی احکام کو دنیا میں قائم کرنے لگ جائیں۔ فرض کرو ایک دن ایسا آتا ہے جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ بھی اور وزراء بھی اور امراء بھی اور بڑے بڑے جرنیل بھی سب اسلام قبول کرنے کیلئے تیار ہیں تو بتائو کیا ہم اُس وقت تیاری کریں گے یا ہمیں آج سے ہی تیاری شروع کردینی چاہئے۔ پس ہمیں اس عظیم الشان مقصد کیلئے جس کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو قائم کیا ہے تیار رہنا چاہئے اور تجربہ سے ان احکام کی باریکیوں کو پہلے سے دریافت کر چھوڑنا چاہئے اور اپنی قربانیوں سے اسلام کے احکام کو عملی رنگ دیتے چلے جانا چاہئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بادشاہوں اور حاکموں کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر دے اور پھر وہ اسلامی احکام کے اس حصہ کی تکمیل شروع کردے جس کی تکمیل کرنی اِس وقت ہمارے لئے ناممکن ہے۔
چندوں کی وصولی کا جو طریق موجودہ حالت میں ہم جماعتی طور پر اختیار کئے ہوئے ہیں وہ یقینا ایسا نہیں کہ اس سے وہ تمام ضرورتیں پوری ہوسکیں جن ضرورتوں کو پورا کرنا اسلامی حکومت کا فرض ہے۔ دوسرے موجودہ حالت میں ہمارا بہت سا روپیہ تبلیغ پر خرچ ہورہا ہے اور ہونا چاہئے۔ پس ان وجوہ سے ہم قادیان جیسی چھوٹی بستی میں بھی جہاں صرف چند ہزار نفوس ہیں، اس اسلامی طریق کو کہ ہر شخص کو کھانا، مکان اور لباس وغیرہ بہرحال میسر ہو جاری نہیں کرسکتے بلکہ ابھی تو ہماری یہ حالت ہے کہ ہم کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو جھٹ ایک منافق شور مچانے لگ جاتا ہے اور ہمارا کچھ روپیہ اس منافق کی آواز کو دبانے اور اس کے فتنے کو دور کرنے میں خرچ ہونے لگتا ہے۔ پس تحریک جدید کے یہ مطالبات ایسے نہیں جنہیں اب منسوخ کردیا جائے یا ایک عرصہ کے بعد منسوخ کردیا جائے۔ ہاں ان مطالبات میں تغیر ہوسکتا ہے کیونکہ تفصیلات کے متعلق اسلام نے ہر زمانہ کے اہلُ الرائے پر معاملہ کو چھوڑا ہے اوراجتہاد کی اجازت دی ہے۔ پس اجتہاد بدل بھی سکتا ہے لیکن اصول بہر حال یہی رہے گا جو تحریک جدید کے مطالبات میں ہے کہ سادہ زندگی اختیار کرو، سادہ کھانا کھائو، سادہ لباس پہنو اور آرائش و زیبائش کے سامانوں سے الگ ہوجائو۔ کیونکہ اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ ہمارا روپیہ زیورات وغیرہ کی صورت میں بند نہ ہو بلکہ قوم کے فائدہ کے کاموں پر لگا ہؤا ہو۔ اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ امیر اورغریب میں کوئی فرق نہ رہے، اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ ہم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں، اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ ہماری ایک دوسرے سے ایسی محبت و اُلفت ہو کہ ہم ایک دوسرے سے پرے پرے نہ رہیں اور یہ نہ سمجھیں کہ ہم کچھ اَور چیز ہیں اور وہ کچھ اَور چیز ہے۔
مَیں ایک دفعہ گورداسپور کا فارم دیکھنے گیا۔ اس فارم کا جو افسر ہوتا ہے اس کا عُہدہ ڈپٹی کلکٹر کے برابر ہوتا ہے۔ اس افسر نے مجھے تمام فارم دکھایا لیکن میں نے دیکھا کہ سڑک پر چلتے چلتے جب زمیندار سامنے آجاتے تو وہ اسے فرشی سلام کرکے کُود کر ایک طرف ہوجاتے۔ تھوڑی دیر کے بعدمیں نے انہیں ہنس کر کہا کہ آپ کے صیغے کا کوئی فائدہ نہیں۔کہنے لگے کیوں؟ میں نے کہا جن زمینداروں کے فائدہ کیلئے آپ کام کررہے ہیں ان کی حالت تو یہ ہے کہ وہ آپ کو دور سے دیکھتے ہی کُود کر الگ ہوجاتے ہیں۔ بھلا ایسے لوگ آپ سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور آپ ان کو کیا فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد میںنے سرایڈورڈ میکلیگنکو جو اُس وقت گورنر پنجاب تھے چِٹھی لکھی کہ میں نے آپ کے ایک محکمہ کا اتفاقاً ملاحظہ کیا ہے جس کے ماتحت مجھ پر یہ اثر ہے کہ اس محکمہ کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر آپ زمینداروں کو فائدہ پہنچانے کی حقیقی خواہش رکھتے ہیں تو اس کا طریق صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ آپ چھوٹی چھوٹی تنخواہوں والے افسر مقرر کریں جو گائوں میں جائیں اور زمینداروں سے مل جُل کر کام کریں۔ انہیں ہل چلا کر بتائیں اور نئے طریقِ زراعت کی طرف ان کی طبائع کو مائل کریں۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ ایک بڑی تنخواہ والا افسر آپ نے مقرر کردیا ہے جس کی شکل دیکھتے ہی زمیندار کُود کر پرے ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے میری اِس تجویز کو بہت پسند کیا اور لکھا کہ میں اس پر غور کروں گا۔ چنانچہ اب چھوٹے چھوٹے افسر مقرر ہیں جو کھیت میں ہل چلا کر اور بیج بوکر زمینداروں کو دکھادیتے ہیں۔ گو اب بھی اس سے پورا فائدہ نہیں پہنچ رہا مگر بہرحال اب چھوٹے افسر بھی مقرر ہوگئے ہیں اور زمیندار آسانی سے ان سے فائدہ اُٹھاسکتے ہیں مگر اُس وقت صرف ڈپٹی ہی ڈپٹی ہوتا تھا کوئی چھوٹا افسر نہیں ہوتا تھا۔
غرض اسلام یہ چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان میں امتیا زکم ہو اور محبت اورمیل جول زیادہ ہو۔ ایک دفعہ ایک نہایت ہی غریب شخص نے میری دعوت کی۔ میں گیا۔ اُس بے چارہ کے پاس کوئی سامان نہ تھا۔ اُس نے ایک چارپائی بچھادی اور اُس پر مجھے بٹھا کر شوربا روٹی جو اسے میسر تھا اُس نے میرے سامنے رکھ دیا۔ اتفاق سے ایک باہر کے دوست بھی اُس وقت میرے ساتھ چل پڑے۔ جب میں کھانا کھا کر باہر نکلا تو وہ مجھ سے کہنے لگے کہ کیا آپ ایسے غریب کی دعوت بھی قبول کرلیا کرتے ہیں؟ میںنے کہا اگر میں اس غریب شخص کی دعوت کو قبول نہ کرتا اور انکار کردیتا تو آپ ہی یہ اعتراض کرنے والے ہوتے کہ یہ امیروں کی دعوت قبول کرلیتے ہیں، غریبوں کی دعوت قبول نہیں کرتے۔ مگر اب جبکہ میں نے دعوت قبول کرلی ہے تو آپ کے خیال نے یہ صورت اختیار کرلی ہے کہ ایسے غریب کے ہاں کھانا کھانا تو ظلم ہے۔ میں نے کہا اس کے ہاں کھانا کھانا ظلم نہیں تھا بلکہ انکار کرنا ظلم تھا۔ کیونکہ میرے انکار پر یہ ضرور محسوس کرتا کہ میں چونکہ غریب ہوں اس لئے انکار کیا گیا ہے۔ پس جو اعتراض اُس دوست نے کیا اُس کے بالکل اُلٹ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ کوئی ایسی امارت نہ ہو جو غربت کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھے اور کوئی ایسی غربت نہ ہو جو غریب کیلئے وبالِ جان بن جائے۔ یہ خیال بہت دُور کا ہے۔ایسا ہی دور جیسے دنیا میں جنت کا خیال۔ مگر ایک دفعہ اسلام اس مقصد کو پورا کرچکا ہے اور اب دوسری دفعہ اس مقصد کو پورا ہونا ناممکن نہیں۔
پس ضرورت ہے کہ ہم اس عظیم الشان مقصد کیلئے داغ بیل ڈالیں اور اس عظیم الشان محل کی بنیادیں رکھ دیں جس کی تعمیر اسلام کا منشاء ہے۔ بیشک ہمارے لئے بہت بڑی دقتیں ہیں۔ ہم دوسروں کے محکوم ہیں اور ہمارے لئے ان کے قواعد کی پابندی لازمی ہے اور بعض دفعہ ہماری ایک نیک خواہش کا بھی وہ یہ مفہوم لے لیتے ہیں کہ گویا ہم بادشاہ بننا چاہتے ہیں حالانکہ ہم بادشاہ نہیں بلکہ خادم بننا چاہتے ہیں۔ لیکن بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے بھی لازمی ہے کہ کوئی قانون جاری کیا جائے۔ اس قانون کا نام بادشاہت کی خواہش رکھ لینا انتہائی نادانی اور ناواقفیت ہے۔ ہماری غرض صرف یہ ہے کہ ایسے اصول دنیا میں جاری کردیں جن کے ماتحت امارت و غربت کا امتیاز جاتا رہے اور بنی نوع انسان کو نہایت آرام سے خداتعالیٰ کے ذکر اور اپنی ترقی کیلئے جدوجہد کرنے کا موقع مل جائے۔ کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق میری خواہش ہے کہ انہیں اِس وقت دور کردینا چاہئے مگر وہ چونکہ حکومت سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے انہیں دورنہیں کیا جاسکتا۔ اگر اسلامی حکومت ہوتی تو میں کہتا کہ ان باتوں کو ابھی دور کردو مگر چونکہ حکومت غیر ہے اس لئے محبت، پیاراورآہستگی کے ساتھ قدم آگے بڑھانا ضروری ہے اور اُس دن کا انتظار کرنا چاہئے جب اللہ تعالیٰ ہمارے حاکموں کے دلوں کو کھول دے۔ ورنہ ان احکام کی ضرورت آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیرہ سَو سال پہلے قائم تھی۔
سادہ زندگی کے متعلق آجکل ہمیں ایک اور نقطہ نگاہ سے بھی غور کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ یہ ایام سلسلہ کیلئے سخت نازک ہیں اور جماعت نے کئی قسم کے چندوں کے وعدے کئے ہیں جن کا اثر ایک دو سال تک رہے گا۔ پس اس لحاظ سے بھی یہ نہایت ہی ضروری امر ہے کہ سادہ زندگی اختیار کی جائے۔ اگر ایک باپ کا اپنے بچوں کے اخراجات پر یا خاوند کا اپنی بیوی کے زیورات پر اُسی طرح روپیہ خرچ ہورہا ہے جس طرح پہلے خرچ ہؤا کرتا تھا تو اسے دین کی خدمت کا موقع کس طرح مل سکتا ہے۔ اگر وہ زیورات پر روپیہ خرچ کرے گا تو دین کی خدمت سے محروم رہے گا اور اگر دین کیلئے روپیہ دے گا تو لازماً اسے سادہ زندگی اختیار کرنی پڑے گی اور بعض قیود اپنے اوپر عائد کرنی ہوں گی۔ پس اِس زمانہ میں ان مطالبات پر عمل کرنا بہت زیادہ ضروری ہے اور پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ میں جہاں تک سمجھتا ہوں جماعت کا ایک بڑا حصہ دیانت داری سے ان احکام پر عمل کرنے کی کوشش کررہا ہے امراء میں سے بھی اور غرباء میںسے بھی اور بعض سُست بھی ہیں۔ مجھے بعض امراء ایسے معلوم ہیں جنہوں نے سختی سے ان مطالبات پر عمل کیا ہے اور سادہ زندگی کے متعلق اپنے اوپر قیود عائد کی ہیں اور مجھے بعض غرباء ایسے معلوم ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ایک کھانا کھانا یہ کون سی شریعت کا حکم ہے حالانکہ یہ محض ان کے فائدہ کی بات تھی اور پھر وہ تو پہلے ہی ایک کھانا کھایا کرتے تھے۔ انہیں تو چاہئے تھا اس مطالبہ کی تائید کرتے نہ کہ مخالفت۔ مگر انہوں نے مخالفت کی اور اس پر عمل نہ کیا۔ گویا ان لوگوں کی مثال جنہوں نے غرباء میں سے اِس مطالبہ پر عمل نہ کیا ویسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی شخص کے دوست کی کُتیا نے بچے دیئے۔ اسے معلوم ہؤا تو وہ اس کے پاس گیا اور کہنے لگا میں نے سنا ہے آپ کی کُتیا نے بچے دیئے ہیں۔ اگر آپ کو تکلیف نہ ہو تو ایک کُتیا کا بچہ مجھے دے دیں کیونکہ مجھے مکان کی نگرانی کیلئے اس کی ضرورت ہے۔ وہ کہنے لگا بھئی! بچے تو مَرگئے ہیں لیکن اگر زندہ بھی ہوتے تو میں تمہیں نہ دیتا۔ وہ کہنے لگا اب تو خدا نے بچے مار دیئے تھے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر زندہ ہوتے تب بھی نہ دیتا۔ اسی طرح وہ غرباء تو پہلے ہی ایک کھانا کھاتے ہیں اگر وہ ایک کھانا کھانے کی ہدایت پراعتراض کریںتو ان کا اعتراض محض بیوقوفی ہے۔ انہیں تو چاہئے تھا کہ وہ امراء کے خلاف شور مچاتے اور کہتے کہ فلاں فلاں امیر اس پر عمل نہیں کرتا اور وہ ایک سے زائد کھانے کھاتا ہے۔ نہ یہ کہ وہ اس بات پر اعتراض کرتے جس میں خود انہی کا فائدہ ہے۔ اس کے مقابلہ میں مَیں ایسے امراء کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے بعض ہدایات پر عمل نہیں کیا اور ایسے غرباء کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے خاص قربانی کرکے بعض ہدایات پر عمل کیا ہے اورجنہیں مہینوں ایک کھانا کھانے کے بعد جب کسی وقت اتفاقی طو رپر دو کھانے ملے تو انہوںنے ایک کھانا ہی کھایا اور دوسرا کھانا چھوڑ دیا۔ ان کی قربانی یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت شاندار قربانی ہے اور وہ اس کے اجر سے محروم نہیں رہیں گے۔
یاد رکھو! اِس وقت ہمارے اِردگِرد اتنے ابتلائوں کے سامان ہیں کہ ہمیں سپاہیانہ طور پر زندگی بسر کرنی چاہئے اور اپنی تمام زندگی کو مختلف قسم کی قیود کے ماتحت لانا چاہئے۔ دنیا چاہتی ہے کہ احمدیت کو مٹا دے لیکن خدا یہ چاہتا ہے کہ احمدیت کو قائم کرے اور یقینا ویسا ہی ہوگا جیسا کہ خدا کا منشاء ہے۔ مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ تم سچے مسلمان بن کر اپنے اندر ایسی سادگی پیدا کرو جو تمہارے اندر مساوات پیدا کردے، جو تمہارے اندر اخلاقِ فاضلہ پیدا کردے، جو تمہارے اندر اُلفت و محبت پیدا کردے اور جو تمہارے اندر برادرانہ اخوت و تعلق پیدا کرنے کا موجب ہوجائے تا اس کے بعد ایک طرف سے اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہو تو دوسری طرف سے خود تمہارے اندر ایسی طاقت اور قوت پیدا ہوجائے کہ جو بھی تمہارے سامنے آئے اسے اپنے آگے سے بھگادو۔
دیکھو! پہلوان جب اپنے شاگردوں کو کشتی لڑنا سکھاتے ہیں تو گو ان کے شاگرد دس دس بیس بیس ہوتے ہیں مگر وہ اکیلے سب کو گِرا لیتے ہیں۔ اسی طرح اگر تم بھی مجاہدات کرو گے تو تمہارے اندر ایسی طاقتیں پیدا ہوجائیں گی کہ تم دس دس، بیس بیس دشمنوں کا مقابلہ کرسکو گے۔ جس طرح دُنیوی ریاضات کے نتیجہ میں ایک ایک جسم دس دس جسموں کو گِرالیتا ہے اسی طرح جب روحانی ریاضات کی جاتی ہیں تو اپنی اپنی ریاضت اور اپنے اپنے مجاہدہ کے مطابق کوئی روح دس بدروحوں کو گرالیتی ہے، کوئی بیس کو گرالیتی ہے، کوئی پچاس کو گرالیتی ہے، کوئی سَو کو گرالیتی ہے، کوئی ہزار کو گرالیتی ہے اور جب کسی قوم میں زبردست روحانی طاقت و قوت پیدا ہوجائے اُس وقت تعداد کا سوال بالکل اہمیت کھو بیٹھتا ہے۔ اُس وقت یہ نہیں پوچھا جاتا کہ دشمن ایک کے مقابل پر دس ہیںیا بیس بلکہ ایسی روحانی طاقت حاصل کرنے والی قوم کے تھوڑے سے آدمی ساری دنیا پر غالب آجاتے ہیں۔
مثل مشہور ہے کہ ایک دفعہ چوہوں نے مشورہ کیا کہ بلی کو پکڑ کر قید کردیا جائے۔ دس بیس نے کہا کہ ہم اُس کا کان پکڑ لیں گے، دس بیس نے کہا کہ ہم اُس کی دُم پکڑ لیں گے، دس بیس نے کہا ہم اُس کی ٹانگوں سے چمٹ جائیں گے، اس طرح سینکڑوں چوہے تیار ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ آج بلی آئی تو ہم اسے جانے نہیں دیں گے۔ یہ باتیں ہو ہی رہیں تھیں کہ ایک بُڈھے چوہے نے کہا تم سب کچھ پکڑ لو گے مگر یہ تو بتائو کہ اس کی میائوں کو کون پکڑے گا؟ اتفاقاً اُسی وقت ایک کونے میںسے ایک بِلّی کی آواز آئی جو وہاں چھُپی بیٹھی تھی۔ اُس نے میائوں جو کی تو تمام چوہے بھاگ کر اپنے اپنے بِلوں میں گھس گئے۔
غرض انسان کے اندر جب غیرمعمولی یقین پیدا ہوجائے تو دنیا اُس سے دبنے لگتی ہے اور یہ ایک صوفیانہ نکتہ ہے جو تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کے اندر ایک مَیں ہوتی ہے جب وہ مَیں پاک ہوجائے تو باقی تمام دنیا کی مَیں اُس کے آگے دَب جاتی ہے۔ اُس وقت جسموں اور تعداد کا کوئی سوال نہیں رہتا بلکہ جس طرح ایک شیر کے مقابلہ میں ہزاروں خرگوش کوئی حقیقت نہیں رکھتے اِسی طرح ایسی روحانی طاقت رکھنے والے انسان کے سامنے ہزاروں کیا لاکھوں نفوس بھی محض بے حقیقت ہوتے ہیں کیونکہ وہ روحانیت سے خالی ہوتے ہیں اور انہی لوگوں کو پیدا کرنا ہمارا مقصود ہے۔ ہماری اصل غرض نہ ایک کھانا کھاناہے، نہ سادہ کپڑا پہننا ہے، نہ یہ ہے نہ وہ بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اندر ایسی روحانی طاقت پیدا ہوجائے جس کے نتیجہ میں ہم میں اخوتِ اسلامی پیدا ہوجائے، ہم میں جُرأتِ اسلامی پیدا ہوجائے۔ اور جب وہ پیدا ہوگئی تو ایک طرف ہمارے اندر کوئی فتنہ پیدا نہیں ہوسکے گا اور دوسری طرف دشمن ہمیں دبا نہیں سکے گا کیونکہ ہمارے اندر قوتِ روحانی کا ایک چشمہ پھُوٹ رہا ہوگا اور چشمہ کبھی خشک نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ایک چشمہ سے تم جس قدر پانی نکالو وہ خشک نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے نیچے سے اور پانی نکل آتا ہے اسی طرح جو لوگ روحانی اور اخلاقی ورزشوں سے اپنے اندر قوت پیدا کرلیتے ہیں وہ روحانیات کا چشمہ بن جاتے ہیں۔ جب دشمن اس میں سے کچھ پانی چُرا کر لے جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب پانی ختم ہوگیا، اُس چشمہ کے نیچے سے اور پانی نکل آتا ہے اور وہ ہمیشہ ہی بھرا رہتاہے۔
پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ سادہ زندگی کی طرف متوجہ ہوں اور بجائے اِس کے کہ وہ ان قیود کو کم کرنے کی کوشش کریں انہیں چاہئے کہ وہ زیادہ تعہّد کے ساتھ ان مطالبات پر عمل کریں۔ بلکہ جن لوگوں نے گزشتہ سالوں میںان مطالبات پر عمل کرنے میں کوئی کوتاہی کی ہے اُنہیں بھی اِس طرف لانے کی کوشش کریں۔ تا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی برکتیں نازل ہوں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے راستے میں جو مشکلات حائل ہیں وہ دُور ہوجائیں اور خدا اور اس کے رسول کا جلال دنیا میں ظاہر ہو۔‘‘ (الفضل ۱۱؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ ،۲؎ بخاری کتاب النکاح باب نھیالنَّبِیُّ صلی اﷲ علیہ وسلم عَن نکاح الْمُتْعَۃِ اَخِیْرًا
۳؎ مسلم کتاب القیام باب تحریم صوم ایام التشریق(الخ)
۴؎ تَرَفُّہ: آسودگی۔ دولتمندی
۵؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۳۰۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۶؎
(التوبۃ:۳۵)
۷؎ الزخرف: ۱۹
۸؎ زرقانی جلد ۲ صفحہ ۳۲۴۔ حاشیہ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء

۶
جمعہ کے اجتماع میں دو سبق
(فرمودہ ۱۱؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے عید کے خطبہ میں بیان کیا تھاکہ عید اگر جمعہ کے دن ہو تو اگرچہ نماز ظہر ادا کرنی بھی جائز ہے مگر میں جمعہ ہی پڑھوں گا۔ جمعہ کا اجتماع بھی دراصل ایک عید ہی ہے اور اس میں دو سبق دیئے گئے ہیں۔ ایک تو قومی اتحاد کی طرف اس میں توجہ دلائی گئی ہے اور دوسرے تبلیغ کی طرف۔ خطبہ کیلئے جمعہ کی نماز میں ظہر کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعت کی کمی کردی ہے اور اس طرح تبلیغ کی اہمیت بتادی ہے اور جمعہ کے اجتماع میں قومی اتحاد کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ دراصل حق کے مخالفین ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ صداقت کے ماننے والوں میں انتشار اور تفرقہ پیدا کردیں اور اس طرح انہیں بددل کرکے جماعت کی طاقت کو توڑ دیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے روز اجتماع کا حکم دے کر اتحاد کی اہمیت واضح کی ہے۔ جماعت احمدیہ کے مخالفین بھی ہمیشہ یہ کوشش کرتے آئے ہیں کہ جماعت میں تفرقہ پیدا کرکے اسے کمزور کریں اور اس کیلئے وہ کئی قسم کی افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں۔ جب مستریوں نے فتنہ اُٹھایا تو وہ یہی کہتے تھے کہ جماعت کے تمام بڑے بڑے لوگ ہمارے ساتھ ہیں اور بہت جلد ظاہر ہونے والے ہیں۔ مگر اِس پر قریباً دس سال کا عرصہ گزرچکا ہے اور کوئی بھی ظاہر نہیں ہؤا۔
ان سے بھی پہلے بہائیوں کا فتنہ تھا۔ ان کی طرف سے بھی یہی آواز بلند کی جاتی تھی کہ تمام بڑے بڑے لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ حتیٰ کہ ایک دوست حکیم ابوطاہر صاحب نے جو تھوڑا ہی عرصہ ہؤا فوت ہوگئے ہیں اور جماعت احمدیہ کلکتہ کے امیر تھے اور اُس زمانہ میں یہاں آئے ہوئے تھے، سخت گھبراہٹ میں مجھے ایک خط لکھا کہ خدا کے واسطے ان لوگوں کے اخراج ازجماعت کا اعلان نہ کریں۔ میں نے بہت ہی معتبر ذریعہ سے سُنا ہے ( یہ معتبر ذرائع وہ خود بہائی خیالات کے دو تین آدمی ہی تھے جنہوں نے ان سے مل کر کہا اور انہوں نے بوجہ ناواقفی کے انہیں معتبر سمجھا) کہ جماعت کے کئی بڑے بڑے لوگ ان کے ساتھ ہی جماعت سے اخراج کا اعلان کرنے کو تیار ہیں بلکہ مجھے معتبر ذریعہ سے معلوم ہؤا ہے کہ حافظ روشن علی صاحب بھی اُسی وقت کہیں گے کہ میں بھی بہائی ہوں اور ان ہی کے ساتھ جاتا ہوں۔ میں نے ان کو جواب میں لکھاکہ حق کے معاملہ میں کسی سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اگر ساری جماعت کے لوگ بھی کہہ دیں کہ ہم جاتے ہیں تو میں کہوں گا کہ بے شک جائو۔ میرا اور آپ کا تعلق محبت کا ہی تعلق تھا اور اگر وہ قائم نہیں رہا تو جائو مگر ان کی یہ سب باتیں بالکل غلط ثابت ہوئیں۔ مَیں نے حافظ صاحب مرحوم سے اِس بات کا ذکر بھی نہیں کیا تھا۔ مگر انہوں نے بڑے زور سے ان لوگوں کو خارج کرنے کی حمایت کی اور بعد میں بھی بڑی مضبوطی کے ساتھ اس فتنہ کا مقابلہ کرتے رہے۔ اس فتنہ سے پہلے پیغامی فتنہ شروع ہؤا تھا۔ اس میں بھی بعینہٖ یہی قصہ گزرا تھا۔ یہ لوگ بھی جب الگ ہوئے تو یہی کہتے تھے کہ سب جماعت ہمارے ساتھ ہے اور بیعت کرنے والے تو چند ایک تنخواہ دار ملازم ہی ہیں یا قادیان کے دست نگر لوگ اور ایسی باتوں سے ان کی غرض یہی تھی کہ جماعت میں تفرقہ ڈال دیں اور جب یہ لوگ اس قسم کا پروپیگنڈا کررہے تھے ان کی اصلی حالت یہ تھی کہ ماسٹر عبدالحق صاحب مرحوم نے جو پہلے ان کے ساتھ تھے مگر بعد میں بیعت کرلی تھی، سنایا کہ میں اور مولوی صدرالدین صاحب اور ایک تیسرا شخص لالٹین لے کر تمام رات پھرتے رہے کہ اگر چالیس آدمی ہمیںمیسر آجائیں تو ایک اور خلیفہ بنادیںتا جماعت میںتفرقہ تو پیدا ہوجائے۔ مگر ہم دس بارہ سے زیادہ آدمیوں کو اِس کیلئے آمادہ نہ کرسکے بلکہ ہمارے اپنے آدمیوں نے بھی یہی کہا کہ یہ کیا پاکھنڈ بنایاجارہا ہے۔
اب مصری صاحب کا فتنہ ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ جماعت کے بہت سے لوگ تو دہریہ ہوگئے ہیں اور جو دہریت سے بچ گئے ہیں ان میں سے کئی بڑے بڑے لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ گویا جماعت تین حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ کچھ حصہ تو دہریہ ہوگیا ہے باقیوں میں سے مخلص اور سمجھدار طبقہ مصری صاحب کے ساتھ ہے اور بچے کھچے کچھ بیوقوف یا کچھ اہل غرض عقلمند یا ناواقف لوگ میرے ساتھ ہیں اور ایسی باتوں سے ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ تا ہر شخص یہی سمجھے کہ جماعت اندر سے کھوکھلی ہوچکی ہے۔ اسی طرح احرار کا فتنہ اُٹھا تو روز اس قسم کی اطلاعات آتی تھیں کہ ہوشیار رہیے کہ آج اطلاع ملی ہے کہ احرار نے میاں بشیر احمد صاحب کو قابو کرلیا ہے، آج خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب نے مولوی عنایت اللہ کو خط لکھا ہے کہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں، آج چوہدری فتح محمد صاحب نے احرار کو پیغام بھیجا ہے کہ میں بھی خلیفہ سے بیزار اور تمہارے ساتھ ہوں۔ اسی طرح اب مصری صاحب کہہ رہے ہیں کہ فلاں شخص بھی ہمارے ساتھ ہے اور فلاں بھی اور اس سے ان کی غرض صرف یہ ہے کہ جماعت کے اندر فتنہ پیدا کیاجائے اور تفرقہ ڈالا جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان اور اس کے دوست مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ڈراتے ہیں کہ تمہاری طاقت ٹُوٹ رہی ہے اور تم کمزور ہورہے ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ سبق دیا ہے کہ اگر تم دشمن پر فتح پانا چاہتے ہو تو اکٹھے ہوجائو اور ڈرو نہیں۔ ۱؎دشمن اگر زبردست ہے تو کیا، ہم نے تو اس کا مقابلہ نہیں کرنا، مقابلہ کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے۔ جماعت احمدیہ کا سہارا بندے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے اور اگراس کے گرنے کا خطرہ ہے تو خداتعالیٰ کو ڈرنا چاہئے جس کی یہ جماعت ہے ہماری تو ہے نہیں کہ ہم ڈریں۔ بندے کا کیا ہے وہ تو کپڑے جھاڑ کر پھر کھڑا ہوجائے گا۔ انسان کا فرض صرف یہ ہے کہ وہ دیانت داری کے ساتھ کوشش کرے۔ اس کے بعد اگر دشمن زبردست ہے اور اس وجہ سے جماعت کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل پر بندوں کو کوئی کامیابی ہوسکے۔ انسان کی مثال اللہ تعالیٰ کے مقابل پر ایسی بھی نہیں جیسی بیل کے مقابلہ پر مچھر کی۔
کہتے ہیں کسی بیل کے سر پر مچھر آکر بیٹھ گیا بیل کو تو اس کا پتہ تک نہ لگا۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد مچھر کہنے لگا کہ بھائی !بیل تم بھی جانور ہو اور میں بھی جانور ہوں اس لئے تم سے ہمدردی رکھتا ہوں۔ اگر تم تھک گئے ہو تو مجھے بِلا تکلف بتادینا تا میں اُڑ جائوں۔ بیل نے جواب دیاکہ بھائی! مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ تم بیٹھے کب تھے۔ اس سے بھی بدتر حال اُس بندے کا ہے جو خداتعالیٰ کے مقابلے پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ وہ مچھر کی طرح بھنبھناتا اور اس کے بندوں کو ڈنگ مارتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے میدان مارلیا۔ اور شروع میں بعض کمزور لوگ کچھ گھبراتے بھی ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ خبر نہیں اب کیا ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا کچھ بھی نہیں۔ چند دن کا ایک شغل ہوتا ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ خود ہی اُس زہر کا تریاق پیدا کردیتا ہے اور لوگوں کی طبائع میں سکون پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جب شیخ مصری صاحب الگ ہوئے تو بعض بڑے بڑے سمجھدار لوگ کہتے تھے کہ اب کیا ہوگا اور معلوم نہیں کتنے لوگ ان کے ساتھ جاملیں گے۔ لیکن اب سوائے چند اشخاص کے جو پہلے سے ہی دل میں ان سے ہمدردی رکھتے چلے آئے ہیں، کوئی نئی جماعت ان کے ہاتھ پر نہیں بنی اور اب تو بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس فتنہ کی طرف اس قدر توجہ کی ضرورت نہ تھی۔ یہ تو کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا۔ پس صداقت کے مقابلہ میں جھوٹ ٹھہرا نہیں کرتا اور غلبہ ہمیشہ حق کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ ہم غیراحمدیوں، ہندئوں اور سکھوں میں سے کتنے آدمی جیت کر لائے ہیں۔ اگر پانچ سات ہم میںسے الگ ہوگئے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جو دوستوں کیلئے کسی افسردگی کا موجب ہو۔ فتح بہرحال احمدیت کی ہوگی۔
مَیںنے بچپن میں ایک خواب دیکھا تھا کہ مدرسہ احمدیہ والی گلی میں احمدیوں اور غیراحمدیوں میں کبڈی کا میچ ہورہا ہے۔ غیراحمدیوں کے سردار مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں۔ میری عمر اُس وقت گیارہ بارہ سال کی تھی اور میں نے مولوی محمد حسین صاحب کو دیکھا ہؤا نہیں تھا اور جب بعد میں دیکھا تو ان کی جسمانی وضع بالکل ویسی ہی پائی جیسی خواب میں دیکھی تھی۔ سفید انگرکھا ۲؎ پہنا ہؤا تھا اور پگڑی تھی۔ تو میں نے دیکھا کہ ایک طرف پانچ سات احمدی ہیں اور دوسری طرف سینکڑوں غیر احمدی ہیں۔ مگر ان کی طرف سے جوکبڈی کہتا ہؤا ادھر آتا ہے احمدی اسے پکڑ کر بٹھالیتے ہیں۔ کبڈی وہ ہے جسے پنجابی میں جپھل کہتے ہیں۔ پس جو غیراحمدی احمدیوں کی طرف آتا ہے احمدی اسے پکڑ لیتے ہیں اور جب اس کا دم ٹُوٹ جاتا ہے اسے ایک طرف بٹھادیتے ہیں۔ گویا انہوں نے اس شخص کو جیت لیا ہے۔ کبڈی کی کھیل کی اصطلاح میں اسے مرجانا کہتے ہیں۔ آہستہ آہستہ میں نے دیکھا مقابل کے سب آدمی ہی احمدیوںنے جیت لئے، صرف مولوی محمد حسین صاحب رہ گئے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ سب لوگ ادھر چلے گئے ہیں تو انہوں نے دیوارکی طرف منہ کر کے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا اور حدِ فاصل لکیر کے پاس آکر آہستہ سے قدم اس طرف رکھ دیا اور کہا کہ اچھا جب سارے آگئے ہیں تو میں بھی آجاتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مولوی محمد حسین صاحب کے رجوع کرنے کے متعلق جو لکھا ہے اس کے مطابق مولوی صاحب نے آخری عمر میں اپنے رویہ میں تبدیلی کرلی تھی۔ اپنے لڑکے بھی یہاں تعلیم کیلئے بھیج دیئے تھے۔ مجھے بھی بٹالہ میں ایک دفعہ ملنے آئے تھے اگرچہ ندامت کی وجہ سے اس کمرے میں سے صرف گزرگئے اور مجھ سے کلام نہیں کیا۔ لیکن آئے اسی غرض سے تھے کہ مجھے ملیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ تحریر فرمایا ہے اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخر میں مولوی صاحب جیسے کفرباز مولوی بھی توبہ کرلیں گے۔ کیونکہ اَئمہ سے مراد بعض دفعہ ان کے اتباع بھی ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ان کے مثیل لوگ بھی ہوتے ہیں۔ پس میری خواب کی تعبیر یہ ہوسکتی ہے کہ جس وقت غیراحمدی بکثرت جماعت میں داخل ہوجائیں گے اس وقت یہ مولوی لوگ بھی مونچھوں پر تائو دیتے ہوئے آئیں گے کہ ہم علماء تو پہلے ہی صداقت کو جانتے تھے۔ ہم تو اس لئے مخالفت کررہے تھے کہ تا لوگوں میں کچھ بیداری پیدا ہو۔
تو میں نے بتایا ہے کہ جمعہ کی غرض اتحاد کا قیام ہے۔ بعض نادان یہ خیال کرتے ہیں کہ سیاسی اتحاد صرف ان اقوام کیلئے ضروری ہوتا ہے جن کے ہاتھ میں حکومت ہو حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ بلکہ روحانی جماعتوں میں تو یہ زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ دوسری چیز جس میں جمعہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ تبلیغ ہے۔ اگر ہماری جماعت تبلیغ میں لگی رہے تو چند سالوں میں جماعت میں نمایاں ترقی ہوسکتی ہے۔ پھر اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ افرادِ جماعت کیلئے علمی ترقی کا موقع پیدا ہوتا رہتا ہے میں نے دیکھا ہے کہ قادیان کے لوگ چونکہ اکٹھے رہتے ہیں اور مخالفانہ اعتراضات سننے کا موقع ان کو نہیں ملتا اس لئے ان میں سے ایک طبقہ ایسا ہے کہ علمی لحاظ سے وہ بالکل کورے ہیں اور ان میں سے اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگوں کو وہ عام مسائل بھی معلوم نہیں جوباہر کے زمیندار جانتے ہیں۔ یہاں کے لوگ اپنی ملازمتوں یا تجارتوں میں ہی لگے رہتے ہیں اور چونکہ جمعہ کے روز خطبہ ہوجاتا ہے اور علماء موجود ہیں جو تبلیغ کیلئے باہر جاتے اور یہاں بھی لیکچر دیتے رہتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری طرف سے جب لڑنے والے موجود ہیں تو ہم کو کیا ضرورت ہے کہ مسائل سیکھیں۔ حالانکہ دین کی لڑائی میں کوئی کسی کی جگہ نہیں لڑ سکتا۔ دنیا کی لڑائی میں تو تنخواہ دار ملازم آقا کی جگہ لڑ سکتے ہیں مگر دین کے معاملہ میں نہیں۔ دین میں ہر ایک کیلئے ضروری ہے کہ تبلیغ کرے ورنہ وہ علم سے بھی کو را رہے گا اور۔۳؎ جو شخص اس دنیا میں اندھا ہے وہ اگلے جہاں میں بھی اندھا رہے گا۔ اگر کوئی شخص نورِ اسلام اور علمِ دین سے واقف نہیں تو وہ قیامت کے روز اندھا ہوگا۔
یاد رکھو کہ علم سے ہی نور پیدا ہوتا ہے اور خداتعالیٰ نے قرآن کریم کو نور فرمایا ہے۔۴؎ جس میں ۵؎اور فرقان ۶؎ ہے اور جسے نورِ ہدایت معلوم نہیں، اسلام کے غلبہ کے دلائل کا علم نہیں اسے خداتعالیٰ سے محبت کیسے پیدا ہوسکتی ہے اور جس کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت نہ ہو وہ اسے مل کیسے سکتا ہے۔ اور یہ قدرتی بات ہے کہ جو شخص تبلیغ کیلئے باہر نکلے گا اسے علمی مسائل کے متعلق کرید پیدا ہوگی اور علمِ دین کی طرف وہ زیادہ توجہ کرے گا۔ جو شخص جس پیشہ سے تعلق رکھتا ہے اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزوں کی طرف وہ زیادہ توجہ کرتا ہے۔ کوئی ترکھان اگر کسی جگہ سے گزررہا ہو اور کوئی گیلی پڑی ہوئی ہو تو اس کی نظر فوراً اس کی طرف جائے گی۔ کسی لوہار کو راستہ میں گھوڑے کا کوئی سم ہی گرا ہؤا ملے تو وہ اسے اٹھا کر رکھ لے گا۔ لیکن دوسرے لوگ گزریں تو ان کا خیال بھی اس طرف نہیں جائے گا۔ شہری لوگ کھیتوں میں سے گزرجائیں تو کچھ خیال نہ کریں گے لیکن ایک زمیندار گزرے تو وہ یہ سوچتا جائے گا کہ اس میں سے اتنے من گندم نکلے گی اور اس میں سے اتنے من کیونکہ یہ اس کا کام ہے اور اس کی طرف اس کی توجہ ہے۔ اسی طرح جب انسان تبلیغ کرنے لگے تو قدرتی طور پر اس کی توجہ تعلیم دین کی طرف ہوگی۔ کوئی اعتراض کرے یا نہ کرے وہ خودبخود سوچے گا اور اس طرح اس کا اپنا نورِ معرفت بڑھتا رہے گا اور پھر اس طرح خداتعالیٰ سے اس کی محبت ترقی کرے گی۔ پس جمعہ میں دوسرا سبق یہ سکھایا گیا ہے کہ تبلیغ کرو ۔ اس کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان کا اپنا علم بڑھتا ہے۔ بیسیوں مسائل ایسے ہیں کہ جو ہم مدرسہ میں پڑھتے تھے مگر باوجود یاد ہونے کے ان کو اچھی طرح نہیں سمجھتے تھے۔ مگر جب بعد میں پڑھانے کا موقع ملا اور بچوں نے یا دوسرے لوگوں نے ان کے متعلق سوالات کرنے شروع کئے تو ان کی سمجھ آئی۔ تو علم صرف پڑھنے سے نہیں بلکہ دوسروں کو پڑھانے اور سمجھانے سے آتا ہے۔
باہر کی جماعتوں کیلئے بھی یہ بات ضروری ہے مگر قادیان کے دوستوں کو بِالخصوص اس طرف توجہ کرنی چاہئے کیونکہ یہاں کے لوگوں میں علمی کمی بہت زیادہ ہے۔ جس طرح باہر کا کوئی احمدی زمیندار کُود کُود کر مولوی کے پاس جاتا اورکہتا ہے کہ آپ کہتے کیا ہیں؟ میرے ساتھ بات کریں۔ یہاں کے لوگ ایسا نہیں کرسکتے۔ یہاں کے کئی لوگ خلافت وغیرہ کے متعلق بعض مسائل دریافت کرتے رہتے ہیں لیکن باہر سے کبھی کسی نے ایسی باتیں نہیں پوچھیں کیونکہ یہاں نہ ان کو اعتراضات سننے کا موقع ملتا ہے اور نہ ان کے جواب معلوم کرنے کی طرف توجہ ہوتی ہے اس لئے ان کا علم نہیں بڑھتا۔ خدا کی قدرت ہے ہم قادیان والوں کے حصہ میں غیراحمدی مولوی بھی وہی آئے ہیں جو لٹھ مار ہیں اور دلائل وغیرہ کوئی نہیں دیتے۔ صرف یہی کہتے ہیںکہ احمدیوں کو مارو اور کُوٹو اور ہماری جماعت سے علمی بحث نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے علمی ترقی جماعت کی نہیں ہوتی۔پس میں قادیان کے دوستوں کو خصوصیت سے نصیحت کرتا ہوں کہ جمعہ سے سبق حاصل کریں اور تبلیغ کیلئے نکلیں اور ایسے لوگوں کو تبلیغ کریں کہ ان کا اپنا علم بھی بڑھے اور ان کے اندر سے عرفان اور پھر عرفان سے نور پیدا ہو۔ تبلیغ بجائے خود ایک تعلیمی مدرسہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات انسان کو خود توجہ نہیں ہوتی مگر جب کوئی اعتراض کرتا ہے تو پھر اسے توجہ پیدا ہوتی ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں جن کو عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ بلکہ ظاہری شریعت پر عمل کرنے میں وہ بعض کے نزدیک حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بھی بہت زیادہ متشدد تھے۔ ان سے پہلے بادشاہوں میں سے ایک ولید بن عبدالملک تھا۔ اس کی تعلیم بہت خراب تھی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز اس سے کہا کرتے تھے کہ آپ کچھ صَرف نحو پڑھ لیں کیونکہ آپ کی بات بعض اوقات غلط ہوجاتی ہے مگر وہ پرواہ نہیں کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس کے دربار میں ایک اعرابی آیا اور شکایت کی کہ مجھ پر بہت ظلم ہؤا ہے ۔ میرا ایک داماد میرا حق مارتا ہے میرا انصاف کریں۔ عربی زبان میں لفظ ختن داماد اور خسر اور سالے وغیرہ کیلئے بولا جاتا ہے۔ یعنی وہ رشتے جو بیوی یا لڑکی کی طرف سے ہوں۔ ولید نے اُس سے پوچھا کہ مَنْ خَتَنَکَ؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے نام معلوم نہیں۔ قبیلہ کے کسی آدمی نے ایسا کیا ہے جسے میں جانتا نہیں۔ ولید نے کہا کہ یہ عجیب آدمی ہے۔ کہتا ہے کہ میرا انصاف کریں اور جب میں پوچھتا ہوں کہ تمہارا داماد کون ہے؟ تو کہتا ہے کہ نام معلوم نہیں۔ ولید نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی طرف دیکھا۔ انہوں نے اس اعرابی سے کہا کہ امیرالمؤمنین کہتے ہیں کہ مَنْ خَتَنُکَ؟ تو اُس نے فوراً جواب دیاکہ وہ باہر دروازہ پر کھڑا ہے۔ اِس پر ولید نے کہا کہ یہ کیا بات ہے؟ میں نے بھی اِس سے یہی سوال کیا تھا مگر اِس نے کہا پتہ نہیں اورآپ نے بھی یہی کہا ہے مگر اِس نے کہا وہ باہر کھڑا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ یہ وہی بات ہے جو میں آپ سے روز کہتا ہوں۔ آپ نے کہا تھا مَنْ خَتَنَکَ اور زبر کے ساتھ یہ فعل بن جاتا ہے جس کے معنی یہ ہوجاتے ہیں کہ تمہارا ختنہ کس نے کیا تھا؟ اور اِس کا جواب اِس نے یہ دیا کہ قبیلہ کا کوئی آدمی ہوگا جس نے میرا ختنہ کیا تھا مجھے اُس کا نام معلوم نہیں اور میں نے خَتَنُکَ پیش سے کہا ہے جو اِسم ہے اور اِس کے معنے ہیں کہ تیرا داماد کون ہے؟ تواِس نے صحیح جواب دیا۔ اِسی واقعہ کی وجہ سے ولید کو توجہ ہوگئی اور اُس نے کہا میں جب تک علم نہ سیکھ لوں نماز کیلئے دوسرا امام مقرر کروں گا خود نہیں پڑھائوں گا۔ تو دوسرے کی طرف سے جب اعتراض پیدا ہو تو انسان کو اپنی غلطیوں کی اصلاح کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ حضرت عمر پہلے سے کہتے رہتے تھے مگر توجہ نہ ہوتی تھی۔ جب غیر سے بات ہوئی اوراپنی کمزوری معلوم ہوئی اور شرمندگی اُٹھانی پڑی تو اس کو توجہ ہوئی۔
بیسیوں علوم ایسے ہوتے ہیں جن کا بحث مباحثہ کے بعد پتہ لگتا ہے اِس لئے دوستوں کو چاہئے کہ وہ تبلیغ کیلئے باہر نکلیں تا اِن کا اپنا علم بھی ترقی کرے اور جماعت بھی بڑھے۔ اللہ تعالیٰ ہماری سُستیوں کو دور کرکے ہم میں فرض شناسی کا مادہ پیدا کرے۔‘‘
(الفضل ۱۹؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ (اٰل عمران: ۱۷۶)
۲؎ انگرکھا: مردوں کے پہننے کا ایک لباس۔ قبا
۳؎ بنی اسرائیل: ۷۳
۴؎ (النسائ: ۱۷۵)
۵؎ ، ۶؎ (البقرۃ: ۱۸۶)

۷
کامیابی اسلامی اصول پر چلنے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے
(فرمودہ ۱۸؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’ہر ایک کام کیلئے کوئی طریق مقرر ہوتا ہے جس طریق پر چلنے سے اس میں کامیابی حاصل کی جاتی ہے اور جب تک اس طریق کو استعمال نہ کیا جائے اپنی کامیابی کی امید رکھنا محض جہالت اور بیوقوفی ہوتا ہے کیونکہ جو شخص الٰہی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ اپنے آپ کو مجرم بنالیتا ہے اور مجرم کا یہ امید رکھنا کہ اس کے اس جُرم میںخدائی تائید حاصل ہوگی، نہ صرف کم عقلی اور حماقت کی بات ہے بلکہ گستاخی کی بات بھی ہے۔
دنیا میں جب قوموں کے اخلاق گرجاتے ہیں اور وہ دین اور روحانیت سے بالکل کوری ہوجاتی ہیں تب ان میں ایسے لوگ پیدا ہوجاتے ہیں جو خدا اور اس کی شریعت کو اپنے جرائم کی تائید میں استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔ مثلاً اب مسلمانوں میں ان کی تباہی اور تنزّل کے وقت ایسے لوگ ہیں جو مثلاً چوریوں کیلئے اپنے بزرگوں اور پیروں کے پاس تعویذ لینے جاتے ہیں اور ایسے پیر کہلانے والے موجود ہیں جو نہایت شوق سے چند آنے یا چند روپے لے کر ایسے تعویذ لکھ کر دے دیتے ہیں جن کی غرض یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی مدد سے چور پکڑا نہ جائے گا اور وہ اپنی چوری کے فعل میں کامیاب ہوجائے گا۔ گویا وہ اللہ تعالیٰ کو نَعَوْذُ بِاﷲ چوروں کا سردار قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے ناجائز تعلقات کیلئے عاملوں اور پِیروں کے پاس تعویذ لینے جاتے ہیں اور ایسے پِیر اور عامل کہلانے والے موجود ہیں جو باوجود اپنی بدعملی کے عامل کہلاتے اور کچھ روپے لے کر ایسے تعویذ لکھ کر دے دیتے ہین جن کے نتیجہ میں کہا جاتا ہے کہ کسی شریف کی بہو بیٹی اس بدمعاش کے قابو میں آجائے گی۔ گویا وہ دلّالی کا ذلیل ترین پیشہ نَعُوْذُبِاﷲ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔ یہ قومی تباہی کی ایک علامت ہے۔ لیکن کوئی ترقی یافتہ اور سمجھدار قوم جو ترقی کے راستہ پر قدم مارنے والی ہواِس قسم کی بیوقوفیاں اور حماقتیں نہیں کریگی۔
مسلمانوں کی طرح ہندوئوں میں بھی یہ باتیں پائی جاتی ہیں اورایک قلیل حد تک عیسائیوں میں بھی یہ باتیں پائی جاتی ہیں اور یو ں تو ہر قوم میں ایسے آدمی پائے جاتے ہیں جو دوسری قوموں کے بزرگوں اور عاملوں یعنی بزرگ اور عامل کہلانے والوں کے پاس جاتے اور ان سے ایسے تعویذ اور ایسی تحریریں لکھواتے ہیں جن سے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ناجائز مطالب پورے ہوجائیں گے۔ ان خیالات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ واقعہ میں ایسے تعویذوں میں کوئی اثر ہے بلکہ یہ خیالات اس طریق کی برائی کو اور بھی واضح کردیتے ہیں۔ اگر اس قسم کے جرائم دنیا میں نہ ہوتے تو شاید کسی کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا کہ کیونکر کوئی شخص غلط طریق پر چلتے ہوئے یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں کامیاب ہوجائوں گا۔ مگر ان مثالوں سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعض لوگ غلط طریق پر چلتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ وہ کامیاب ہوجائیں گے بلکہ ان مثالوں سے یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ بعض لوگ شرمناک جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے یہ امید رکھتے ہیں کہ نَعُوْذُبِاﷲِ خدا ان کی مدد کرے گا اور وہ ڈاکہ یا چوری یا کسی ناجائز تعلق میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن مومن ایسا کبھی خیال نہیں کرسکتا۔ ہمیں قرآن کریم سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر وہ انسان جو اپنے جرائم کی وجہ سے خداتعالیٰ کو ناراض نہیں کردیتا، اللہ تعالیٰ کاپیارا اور اس کی محبت کا نقطہ ہوتا ہے۔ مجرم بے شک اللہ تعالیٰ کو ناراض کردیتا ہے اور الٰہی تائید کو اپنے اوپر نازل ہونے سے ایک حد تک روک بھی دیتا ہے۔ مگر جو مجرم نہیں خواہ وہ سچے دین میں شامل ہو یا نہ ہو، وہ حقیقی مذہب کو ماننے والا ہو یا نہ ہو، محض شرافتِ نفس کی وجہ سے خدائی فضل کو ایک حد تک جذب کررہا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ سچے دین کو ماننے والا اللہ تعالیٰ کی زائد برکات اور اس کے زائد انعام حاصل کرلیتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ وہ شخص جو اخلاص سے اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے مگر سچائی ابھی اس تک نہیں پہنچی یا پہنچ تو گئی ہے مگر ابھی وہ اس کو پورے طور پر سمجھ نہیں سکا، ایسا انسان خداتعالیٰ کے فضلوں سے محروم نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنے رنگ میں خداتعالیٰ سے محبت کررہا ہوتا ہے اور اس سے تعلق جوڑنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے۔ بے شک وہ ان فوائد سے محروم رہ جائے گا جو خدائی قُرب سے ایک انسان کو حاصل ہوسکتے ہیں مگر یہ نہیں ہوگا کہ خداتعالیٰ اس پر اپنا غضب نازل کرے اور اس کی تباہی کے احکام نازل کرے۔
ایسے ہی واقعہ کی مثال میں نے کئی دفعہ سنائی ہے ۔ مثنوی رومی والوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ کسی جنگل میں سے گزررہے تھے کہ انہوں نے دیکھاایک گڈریا بیٹھا ہے اور عالَمِ بے خودی میں اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اے اللہ! اگر تُو مجھے مل جائے تو میں تیرے پیروں میں سے کانٹے نکالا کروں، تیری گدڑی میں پیوند لگائوں، تیری جُوئیں نکالوں، تجھے مَل مَل کر نہلائوں، تُو تھک کر سوجائے تو میں تیرے پیر دبائوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ باتیں سُنیں تو انہوں نے اپنا عصا اُٹھایا اور اُسے زور سے مار کر کہا بے حیا! تجھے شرم نہیں آتی تو خدا کی ہتک کررہا ہے۔ وہ ڈر کے مارے بھاگا۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو الہام ہؤا کہ اے موسیٰ! تُو نے اپنے اس فعل سے ہمیں تکلیف دی ہے۔ یہ بندہ جو کچھ کہہ رہا تھا یہ کسی بغض اور دشمنی کی وجہ سے تو نہیں کہہ رہا تھا۔ یہ ہمارا ایک نادان بندہ تھا جس تک وہ علم نہیں پہنچا جو تجھ تک پہنچا ہے مگر اس کے دل میں محبت تھی اور وہ اپنے رنگ میں ہم سے اپنی محبت اور عشق کا اظہار کررہا تھا، تمہارا کیا حق تھا کہ تم اسے سرزنش کرتے۔ تمہارا زیادہ سے زیادہ یہ کام تھا کہ تم اسے سمجھاتے مگر مارنا اور غصے ہونا یہ تمہارا کام نہیں تھا۔ اس کہانی میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے کہ وہ شخص جس کے تعلقات خداتعالیٰ سے محبت پر مبنی ہوں، چاہے وہ غلط رنگ میں ہی اس سے محبت کا اظہار کررہا ہو، وہ اس کی ناراضگی کا مورد نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اپنے رنگ میں ایک نیک کام کررہا ہوتا ہے اور اس کی وہی ادا خداتعالیٰ کو پیاری معلوم ہوتی ہے۔ پس ایسا شخص اگر کوئی اور جرائم نہیں کررہا تو یقینا وہ اللہ تعالیٰ کا فضل جذب کرے گا اور آخر ایک دن ہدایت پاجائے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ۱؎کہ وہ لوگ جو ہمیں پانے کی کوشش کرتے ہیں اور جن کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ہم تک پہنچ جائیں ہمیںاپنی ذات ہی کی قسم ہے کہ ہم اپنے قُرب کا راستہ ضرور دکھادیتے ہیں۔ یہ کتنی محبت اور شفقت کا کلام ہے اور کتنا یقینی ،قطعی اور حتمی وعدہ ہے۔۔ بندہ کا کام صرف کوشش کرنا ہے۔ ورنہ اپنے طور پر وہ کامل علم اسے کہاں حاصل ہوسکتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ ہمیں پالے۔ اس کا کام یہی ہے کہ کوشش کرے۔ پس جو لوگ کوشش کرتے ہیں وہ اپنی ذمہ داری کو ادا کردیتے ہیں۔ آگے یہ ہمارا کام ہوتا ہے کہ ہم انہیں صحیح علم دیں۔ چنانچہ فرماتا ہے جب بندے نے اپنا کام کرلیا تو کس طرح ممکن ہے کہ ہم جو قادر ہیں جو کامل ہیں اور جو ہر نقص اور عیب سے منزہ ہیں، اپنے فرض کو ادا نہ کریں۔ سو ہم اپنی ذات ہی کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ضرور ہم انہیں ان راستوں سے چلا کر لے آئیں گے جو ہم تک پہنچنے والے ہوں۔ کتنا شاندار وعدہ ہے اور انسانی قلب کی نیکی کا کتنا بڑا اعتراف ہے جو انسان کو پیدا کرنے والے رب نے کیا۔ تو انسان کی طرف سے اگر صحیح جدوجہد ہو تو بھی اگر نیک نیتی سے غلط رنگ میں جدوجہد ہو تو بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرلیتا ہے مگر جب صحیح جدوجہد نہ ہو اور انسان شرارت اور گستاخی کررہا ہو تو وہ کسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب نہیں کرسکتا۔ خواہ وہ سچے مذہب میں شامل ہو یا جھوٹے مذہب میں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سچے مذہب میں ہوتے ہوئے ان راستوں کو اختیار نہیں کرتا جو اللہ تعالیٰ کے قُرب تک پہنچانے والے ہوں تو وہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے غضب کو زیادہ بھڑکاتا ہے کیونکہ اس نے علم رکھتے ہوئے نافرمانی کی اور جو غلط راستے پر تھا اس نے بے علمی میں نافرمانی کی اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جو شخص بے علمی میں نافرمانی کرے وہ کم مجرم ہے بہ نسبت اس شخص کے جو علم کے باوجود نا فرمانی کرتا ہے۔
اسی نکتہ کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کو اس موقع پر توجہ دلائی ہے۔ جہاں حج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہؤا کرو اور جس کام کو کرنا چاہو کرو اس کیلئے وہ طریق استعمال کرو جو خداتعالیٰ نے اس کام کیلئے مقرر کئے ہیں۔۲؎ مثلاً گھر میں داخل ہونے کا سہل اور آسان طریق یہ ہے کہ دیواروں میں جو مَنَافِذْ یعنی دروازے بنائے جاتے ہیں ان کے ذریعہ انسان اندر داخل ہوجائے لیکن اگر کوئی شخص کسی کے گھر دروازہ میں سے داخل ہونے کی بجائے سیندھ لگانا شروع کردے اور کہے کہ میں سیندھ لگا کر اندر داخل ہوں گا تو گھر والے بھی شور مچائیں گے اور ہمسائے بھی شور مچائیں گے اور پولیس اسے گرفتار کرکے لے جائے گی۔ یا فرض کرو وہ اپنے گھر میں ہی دروازہ میں سے اندر داخل ہونے کی بجائے دیوار پھاند کر آجاتا ہے تو گو اس پر چوری کا الزام نہیں لگے گا اور نہ اسے دخلِ بے جا کا کوئی شخص مرتکب قرار دے گا مگر ہر دیکھنے والا اسے احمق اور بیوقوف کہے گا اور اسے عقل سے بالکل کورا قرار دے گا۔ تو جو چیز اپنی ہوتی ہے اور کسی اور کا اس میں دخل نہیں ہوتا اس میں بھی انسان اگر صحیح طریق کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے تو ہر شخص یا تو اسے احمق اور بیوقوف کہے گا یا بھانڈ اورمسخرہ قرار دے گا۔ مثلاً پانی پینے کا طریق یہ ہے کہ گلاس میں پانی بھرا جائے اور منہ لگا کر پی لیا جائے لیکن اگر کوئی شخص اس طرح پینے کی بجائے کُتّے کی طرح پانی کو زبان سے چاٹنے لگ جائے تو ہر شخص اسے ذلیل اور حقیر تصور کرے گا یا گلاس کے اوپر ہونٹ لگانے کی بجائے اگر وہ چاقو سے گلاس میں کسی اور جگہ سوراخ کرلے اور کہے کہ میں اس جگہ سے پانی پیوں گا یا پیندے میں سوراخ کرلے اور کہے کہ میں اوپر کی بجائے نیچے سے پانی پیوں گا تو کوئی اسے عقلمند قرار نہیں دے گا بلکہ ہر شخص اسے احمق اور بیوقوف کہے گا۔ انسان کا پاجامہ اور کُرتہ اس کی اپنی ملکیت ہوتا ہے لیکن اگر وہ پاجامے کو گردن میں ڈال لے اور کُرتے میں ٹانگیں ڈال دے تو کوئی نہیں کہے گا کہ چونکہ یہ اس کا اپنا کُرتہ اور اپنا پاجامہ ہے اس لئے اس کا حق ہے کہ جس طرح جی چاہے استعمال کرے ۔ ہر شخص کہے گا کہ گو کُرتہ اس کا ہے مگر لاتوں کیلئے نہیں اور گو پاجامہ بھی اسی کا ہے مگر گردن میں ڈالنے کیلئے نہیں اور اگر کوئی شخص کُرتہ اور پاجامہ کو اپنی ملکیت کے گھمنڈ میں اُلٹا پہن لے یعنی کُرتے کی جگہ پاجامہ اور پاجامے کی جگہ کُرتہ تو ہر شخص کہے گا کہ یا تو یہ پاگل ہے یا بھانڈ اور مسخرہ ہے کہ یہ صحیح طریقہ جو مقرر ہے وہ اختیار نہیں کرتا۔
تو محض کسی چیز کا مالک ہونا تمہیں اس کے استعمال میں بالکل آزاد نہیں کردیتا۔ تم اپنے گھر میں دروازہ سے داخل ہونے کی بجائے سیندھ لگانے لگ جائو یا دیوار پھاند کر اندر داخل ہوجائو یاتم اپنی روٹی بجائے منہ میں ڈالنے کے ناک میں ڈالنے لگ جائو یا پانی بجائے سیدھی طرح پینے کے اسے کُتّے کی طرح لق لق کرکے چاٹنے لگ جاؤ یا گلاس میں چاقو سے سوراخ کرکے یا اس کے پیندے کو توڑ کر وہاں منہ لگا کر پانی پینے لگ جائو۔ تو کیا تم سمجھتے ہو کہ چونکہ یہ چیزیں تمہاری ہیں اس لئے ان میں کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں۔ بے شک یہ چیزیں تمہاری ہی ہوں گی مگر باوجود اس کے کہ گھر تمہارا ہوگا، روٹی تمہاری ہوگی، پانی تمہارا ہوگا، گلاس تمہارا ہوگا، پھر بھی اگر غلط طریق اختیار کرتے ہو تو ہر شخص کا حق ہے کہ تمہیں پاگل اور بیوقوف سمجھے گا جس طرح اگر تم کسی کو دیکھو کہ وہ ایسا کررہا ہے تو تمہارا بھی حق ہے کہ اسے احمق قرار دو اور نہ صرف تمہارا یہ حق ہے بلکہ تم اس حق کو استعمال بھی کرو گے اور فوراً فیصلہ کردو گے کہ یا تو یہ احمق ہے یا بھانڈ اور شرارتی ہے۔ تو محض کسی چیز کو اپنا قرار دے کر اس کا غلط استعمال درست نہیں ہوتا اور جب چیز بھی اپنی نہ ہو تو اس کا غلط استعمال تو انسان کو اور زیادہ مجرم بنادیتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو دیکھے کہ وہ ننگے پائوں پھررہا ہے اور اسے ہمدردی کے طور پر اپنا بُوٹ یا جُوتی دے دے تو اگر وہ شخص بوٹ میں اپنا پیر بھی ڈالے اور ساتھ ہی چند لکڑی کے ٹکڑے اور پتھر کے ٹکڑے بھی ڈال لے تو ہر دیکھنے والا اسے بیوقوف اور احسان فراموش قرار دے گا اور کہے گا یہ کیسی بیہودگی ہے کہ اس نے تو اپنا بوٹ اسے پہننے کیلئے دیا اور اس نے اس میں لکڑی کے ٹکڑے بھی رکھ لئے تاکہ وہ جلدی پھٹے۔ پھر صرف دوسرے کی جوتی کو استعمال کرنے کا سوال نہیں۔ اگر یہ اپنی جُوتی بھی اسی طرح استعمال کرے گا تو بھی ہر دیکھنے والا اس پر ہنسے گا اور اسے احمق اور بیوقوف قرار دے گا۔اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے کرتہ اور پاجامہ کا غلط استعمال کرتا ہے یعنی کُرتے کی جگہ پاجامہ اور پاجامے کی جگہ کُرتہ ڈال لیتا ہے۔ تب بھی لوگ اسے بیوقوف کہیں گے اور اگر کسی دوسرے کے کُرتے اور پاجامے کے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے تو لوگ اسے احمق بھی کہیں گے اور ساتھ ہی شرارتی بھی کہیں گے کہ اس نے بجائے دوسرے کا احسان مند ہونے کے اس کا کُرتہ پھاڑا اور اس کے پاجامے کا نقصان کیا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جو چیزیں دی ہیں وہ گو بندوں کی نظر آتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی ہیں۔ یہ آنکھیں جو ہم کو ملی ہیں ، یہ کان جو ہم کو ملے ہیں، یہ ہاتھ جو ہم کو ملے ہیں، یہ پائوں جو ہم کو ملے ہیں۔ اسی طرح وہ روپیہ، وہ علم، وہ فہم، وہ فراست اور وہ ذہن جو ہم کو ملا ہے یہ سب چیزیں خداتعالیٰ کی ہیں اور گو بظاہر یہ ہمارے قبضہ میں ہیں مگر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ چیزیں ہم نے بنائی ہیں۔ ہمارے پیدا ہونے سے لاکھوں سال پہلے یہ تمام چیزیں موجود تھیں جو پہلوں سے ہماری طرف منتقل ہوئیں اور ان کو ان سے پہلوں سے ملیں اور ان کو ان سے بھی پہلوں سے ملیں اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا گیا۔ پس یہ تمام نعمتیں ہماری تمہاری نہیں بلکہ خدا نے ہمیں دی ہیں اور پھر ان نعمتوں کے استعمال کے متعلق اس نے کچھ قوانین مقرر کئے ہیں اور بعض حدبندیاں مقرر کی ہیں کہ اس حد تک ان چیزوں کو اپنی ذات پر استعمال کرسکتے ہیں اور اس حدتک خداتعالیٰ کے دین کی خدمت یا بنی نوع انسان کی بہبودی کیلئے تمہیں استعمال کرنی چاہئیں۔ دنیا میں کئی ایسے لوگ ہیں جو اس ذمہ داری کو قبول کرلیتے ہیں اور کئی ایسے بھی ہیں جو قبول نہیں کرتے۔ جب خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا میں کوئی مامور آتا ہے تو جو لوگ اسے نہیں مانتے وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ایک شخص نے کسی دوسرے کے پاس اپنی امانت رکھی مگر جب وہ امانت لینے کیلئے آیا تو اس نے کہہ دیا کہ میںامانت نہیں دیتا جائو اپنے گھر بیٹھو مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خداتعالیٰ کے مامور کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں ۔ وہ اقرار کرتے ہیں کہ انہیں جس قدر چیزیں ملی ہیں یہ ان کی نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی ہیں مگر پھر وہ عہد شکنی کرتے ہیں اور دھوکہ بازی سے کام لیتے ہیں۔ ان کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی کے پاس مثلاً ہزار روپے امانت رکھے اور جب وہ روپیہ لینے کیلئے آئے تو یہ بڑے اکرام اور اجلال کے ساتھ پیش آئے، اپنی مسند پر اسے بٹھائے اور کہے آئیے تشریف لائیے۔ میں تو آپ کا ہی شب و روز انتظار کررہا تھا، شکر ہے کہ آپ آگئے اور میں امانت کے فرض سے سبکدوش ہؤا اور یہ کہہ کر وہ اندر جائے اور تھیلی میں بجائے روپیہ کے مٹی کی ٹھیکریاں بھر کر اس کے سامنے رکھ دے اور کہہ دے لیجئے یہ آپ کا ہزار روپیہ ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کے صرف یہ کہہ دینے سے کہ میرے ذمہ آپ کی امانت ہے آئیے آپ اپنی امانت لے لیں، وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائے گا چاہے تھیلی میں روپیہ کی بجائے ٹھیکریاں ہی بھر کر پیش کردے۔ اور کیا تم خیال کرتے ہو کہ جس نے اس کے پاس امانت رکھی تھی وہ بڑا خوش ہوگا اور کہے گا کہ اس نے روپیہ دینے کا اقرار تو کیا اور کوئی نہ کوئی چیز بھی مجھے دے دی۔ یقینا وہ کبھی خوش نہیں ہوگا بلکہ جب دیکھے گا کہ اس نے روپیہ کی بجائے ٹھیکریاں دی ہیں تو اس کا غصہ بھڑک اٹھے گا اور وہ کہے گا کہ تم نہ صرف خائن ہو بلکہ میری ہتک بھی کرتے ہو۔ اسی طرح وہ انسان جو خداتعالیٰ کے انبیاء کا انکار کرتے ہیں وہ تو ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے کسی کے پاس کوئی امانت رکھے اور وہ بعدمیں کسی دوسرے وقت اپنی امانت لینے جائے تو کہہ دے کہ مَیں نے آپ کا کچھ نہیں دینا۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے خدا کاکچھ نہیں دینا۔ اسی طرح وہ بھی مجرم ہوتے ہیں جو یہ تو مان لیتے ہیں کہ ہم نے خداتعالیٰ کا دینا ہے مگر کہتے ہیں ہمیں اس بات پر اعتبار نہیں کہ تمہیں خداتعالیٰ نے بھیجا ہے۔ جب خداتعالیٰ خود ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے امانت دے دیں گے۔ حالانکہ جب اس نے بندوں کے پاس امانت رکھی تھی اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ میں خود یہ امانت لینے نہیں آئوں گا بلکہ میرے رسول آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ایسے لوگ بھی مجرم ہیں اور پھر ایسوں کے پاس اللہ تعالیٰ خود آتا ہے مگر اپنی امانت لینے کیلئے نہیں بلکہ انہیں تباہ کرنے کیلئے۔ چنانچہ فرمایا ۳؎کہ پھر اللہ تعالیٰ ان کے دروازوں پر اپنی امانت مانگنے نہیں آتا بلکہ ان کی بنیادوں اور جڑوں پر اپنے قہر کی بجلی گرانے آتا ہے۔ لیکن ان دو کے علاوہ ایک تیسری جماعت بھی ہوتی ہے جس وقت خداتعالیٰ کا کوئی پیغامبر آتا ہے وہ آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں سُبْحَانَ اللّٰہِ ہم پر امانت کا ایک زبردست بوجھ تھا او رہم تو اس بات کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ کوئی امانت لینے والا آئے تو اسے امانت سپرد کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔ سوخدا کا شکر ہے کہ آپ آگئے۔ یہ اقرار جو وہ کرتے ہیں اسی کا نام بیعت ہوتا ہے۔ چنانچہ بیعت کے یہی معنے ہیں کہ ہم نے تسلیم کرلیا کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ ہمارا نہیں بلکہ آپ کا ہے۔ جس طرح کسی کے نام پٹہ لکھ دیا جاتا ہے یا بعض لوگ کسی اور کو اپنا ایجنٹ بنادیتے ہیں اسی طرح بیعت ایک پٹہ اور ایک اقرار ہوتا ہے اس امر کا کہ ہماری ہر چیز کا مالک خدا ہے اور تم اس کے نمائندہ اور ایجنٹ ہو اور تم اس بات کا حق رکھتے ہو کہ جس وقت چاہو اپنی چیز کا ہم سے مطالبہ کرلو مگر جب انہی لوگوں سے امانت مانگی جاتی ہے تو وہ بجائے روپیہ اور قیمتی جواہر پیش کرنے کے ٹھیکریاں اور کوڑیاں اور اسی طرح کی اور ذلیل اور گندی چیزیں اسے چھپا کر دینا چاہتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ ہم لوگوں کے سامنے سُرخرو بھی ہوجائیں کہ ہم نے امانت ادا کردی اور چیز بھی ہمارے پاس رہے۔ مگر کون کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے امانت ادا کی، کون کہہ سکتا ہے کہ خدا ان کے اس فعل پر خوش ہوگا۔ یقینا خدا ان پر ناراض ہوگا بلکہ دوسروں سے زیادہ ناراض ہوگا اور کہے گا کہ تم سے جب میں نے امانت مانگی تو تم نے عملاً فریب کاری سے کام لیتے ہوئے چاہا کہ مجھے دھوکا دو۔ پس تم نے نہ صرف خیانت کی بلکہ ہمارے نمائندہ کی ہتک بھی کی ہے۔ تو یہ طریق کامیابی کا نہیں۔ یہ مکان میںاس کے دروازہ سے داخل ہونے کا طریق نہیں بلکہ سیندھ لگا کر اندر داخل ہونے کا طریق ہے۔ یہ ایسا ہی طریق ہے کہ جیسے کوئی کہے میں اندھیری رات میں ہزار مصیبتوں کے بعد بڑی محبت اور پیار سے فلاں کے مکان کے پاس آیا تھا اور چاہا تھا کہ سیندھ لگا کر اندر داخل ہوجائوں مگر اس نے چور چور کہہ کر مجھے پکڑوادیا۔ بھلا دنیا میں اس سے زیادہ اَور کیا اندھیر ہوگا کہ میں اتنی محبت سے آیا اور اس نے مجھے پولیس کے سپرد کردیا۔ ہر شخص اسے کہے گا کہ تُو دھوکا اور فریب سے کام لے رہا تھا اگرملنے کیلئے آیا تھا تو چاہئے تھا کہ دروازہ سے داخل ہوتا مگر جب تو دروازہ سے داخل نہیں ہؤا بلکہ تُونے سیندھ لگانی شروع کردی تو اس کا صاف یہ مطلب تھا کہ تو چاہتا تھا کہ اندھیری رات میں جو مال ملے اسے ہتھیالے۔ تو ایسا انسان مجرم ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکاتا ہے جو صحیح طریق اختیار نہیںکرتا۔
اب میں اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوست غور کریں کہ ان میںسے ہر شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یا اگر اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا تو اس نے آپ کے خلفاء کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس امر کا اقرار کیا ہے کہ جو کچھ میرا ہے وہ میرا نہیں بلکہ خدا کا ہے۔ میں اس کی ملکیت کو تسلیم کرتا اور اس کے ایجنٹ اور مختار کے ہاتھ پر اقرار کرتا ہوں کہ اس کے دین کی خدمت کے لئے جس قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہوگی ان تمام قربانیوں میں حصہ لوں گا، اس کے تمام احکام کو قبول کروں گا، اسلام کے احیاء کیلئے ہمیشہ کوشاں رہوں گا اور اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی تمام زندگی اسلام کی ترقی کیلئے لگادوںگا۔ اب آپ لوگ غور کریں کہ کیا واقعہ میں ہم میں سے ہر شخص اس امانت کو ادا کررہا ہے؟
ہم جب یہ کہتے ہیںکہ ہم احمدی ہیں تو ہماری مثال اُس امین کی سی ہوتی ہے جو کہتا ہے ہاں جی امانت میرے پاس ہے۔ آپ بخوشی لے لیں۔ مگر کیا کسی کا صرف منہ سے یہ الفاظ کہہ دینا اسے اپنے فرض سے سبکدوش کرسکتا ہے؟ جبکہ حقیقت یہ ہو کہ اس سے جب امانت طلب کی جائے تو وہ بجائے روپیہ دینے کے ٹھیکریاں اور ایسی ہی اور ردّی چیزیں جنہیںغلاظت لگی ہوئی ہو، پیش کرنے لگ جائے اور جبکہ واقعہ یہ ہو کہ بسا اوقات جس چیز کا نام وہ ایمان رکھتا ہے وہ منافقت ہوتی ہے، جس چیز کا نام وہ قربانی رکھتا ہے وہ ریاء ہوتی ہے اور جس چیز کا نام وہ حزم اور احتیاط رکھتا ہے وہ سُستی اور غفلت ہوتی ہے اور وہ ان ٹھیکریوں کو پیش کرکے چاہتا ہے کہ میری تعریف ہو۔ میرے متعلق یہ کہا جائے کہ یہ سلسلہ کا بڑا دیانتدار اور امین کارکن ہے اور اپنے فرائض کو خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کرنے والا سپاہی ہے حالانکہ ان باتوں سے کام نہیںچلتا۔ جب ایک معمولی عقل و فہم کا مالک انسان بھی ایسی باتوں سے دھوکا نہیںکھاسکتا تو خدائے عالم الْغیب ان باتوں سے کب دھوکا کھاسکتا ہے اور پھر انبیاء کی جماعتوں کا تو ایک مقررہ طریق ہوتا ہے۔ اس طریق سے اگر وہ بال بھر بھی اِدھر اُدھر ہوں تو کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ اور میں نے نہ ایک دفعہ بلکہ بارہا بتایا ہے کہ جب تک ہماری جماعت ان طریقوں پر نہیں چلے گی سلسلہ کی خدمت کبھی بھی وہ صحیح معنوں میں نہیں کرسکتی۔
ابھی تک ہمارا بہت سا نظام موجودہ زمانہ کے مغربی اثر سے متأثر اور اسی کے تابع ہے اور ہمارے زیادہ تر کام مغربی امور کی نقل ہیں۔ اسلامی اصول ابھی تک ہم اپنے نظام میں بھی جاری نہیں کرسکے۔ مثلاً تحریک جدید ہے۔ اس کے شروع ہی میں مَیں نے کہا تھا کہ اس میں ملازمتوں پر بنیاد نہیں رکھی جائے گی۔ چنانچہ اس اصل پر یہ کام ایک حد تک چلایا جارہا ہے اور اب تحریک جدید کے دوسرے دَور میں ان شرائط کو اور بھی مستحکم کردیا گیا ہے۔ مگر تحریک جدید سلسلہ کے شعبہ جات میں سے ایک بہت چھوٹا سا شعبہ ہے ۔ اس میں بے شک اور رنگ میں کام شروع ہے مگر سلسلہ کے باقی تمام کام ویسے ہی چل رہے ہیں جیسے یورپ میں انجمنیں چلا کرتی ہیں۔ تنخواہ دار ملازموں کا ایک لمباسلسلہ ہے۔ ان کے باقاعدہ گریڈ ہیں اور ان کو ہر سال ترقیاں ملتی ہیں حالانکہ انبیاء کی جماعتوں میں کوئی ایک مثال بھی اس قسم کی انجمنوں کی نہیں ملتی جن میں تنخواہ دار ملازم ہوں، ان کے باقاعدہ گریڈ ہوں اور ان میں تنخواہوں اور گریڈوں پر آپس میں بحثیں ہوتی ہوں۔ اگر ایک مثال بھی کسی زمانہ میں اس قسم کی مل سکے تو بے شک ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ طریق منہاجِ نبوت پر ہے لیکن اگر ایک مثال بھی ایسی نظر نہ آتی ہو تو سمجھنا پڑے گا کہ یہ ایک عارضی سہولت ہے جو کارکنوں کو دی گئی ۔ جیسے پچھلے سے پچھلے خطبہ جمعہ میں مَیں نے بیان کیا تھا کہ کچھ عارضی سہولتیں ہوتی ہیں جنہیں قانون نہیں کہا جاتا۔ وہ درمیانی زمانہ میں لوگوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے دی جاتی ہیں اور انہیں مناسب وقت آنے پر دور بھی کیا جاسکتا ہے تاکہ اصل قانون جاری ہو۔
پس صدر انجمن احمدیہ کے تمام کاموں کا ڈھانچہ لوگوں کی عادات اور ان کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا اور ایک عارضی سہولت کے لئے اسے اختیار کیا گیا تھا ورنہ وہ منہاج نبوت پر مبنی نہیں۔ منہاج نبوت والا طریق وہی ہے جن میں تنخواہوں اور گریڈوں کا کوئی سوال نہ ہو بلکہ لوگوں سے قربانی کا مطالبہ ضرورت کے مطابق ہو اور ان کا گزارہ قربانیوں کے نتائج پر مبنی ہو۔ جیسے حضرت خالدؓ بن ولید حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی کمانڈر رہے، حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں بھی کمانڈر رہے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی کمانڈر رہے۔ مگراپنے کاموں کے لحاظ سے انہیں ترقیات نہیں ملتی تھیں بلکہ ان کاموں کے نتیجہ میں جو ترقیات ہوتی تھیں ان پر ان کی ترقی منحصر تھی یعنی اگر کسی جنگ میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بہت سامالِ غنیمت میسر آگیا تو وہ سب میںتقسیم ہوگیا اور ہر ایک کو کافی مال مل گیا اور اگر کسی جنگ میں کچھ حاصل نہیں ہؤا تو جیب خالی رہے اور کسی کو بھی کچھ نہ ملا بلکہ انہیں جنگ میںشامل ہونے کے اخراجات بھی گھر سے مہیا کرنے پڑے۔
بعض لوگ نادانی سے خیال کرتے ہیں کہ نبیو ں کی جماعتوں کو بیتُ المال سے کچھ نہیں ملتا۔ اگر انہیں کچھ نہیں ملے گا تو وہ کھائیں گے کہاں سے۔ حقیقت یہ ہے کہ نبیوں کی جماعتوں کو مال ملنا تاریخ سے ثابت ہے مگر اس طرح نہیں کہ ایک معیّن رقم ان کیلئے مقرر ہو بلکہ وہ جنگوں میں شامل ہوتے اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ انہیں حکومت کی طرف سے ایک پیسہ بھی نہ ملتا مثلاً وہ لڑائی کیلئے گئے تھے مگر جاتے ہی صلح ہوگئی اور اس طرح نہ صرف انہیں کوئی مال نہ ملا بلکہ آنے جانے کا خرچ اور جنگ کیلئے سامان مہیا کرنے کے اخراجات بھی خود برداشت کرنے پڑے اوربجائے حکومت سے کوئی امداد ملنے کے انہیں اپنے پاس سے روپیہ خرچ کرنا پڑا۔ اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے مثلاً ہزار دو ہزار روپے خرچ ہوتے اور انہیں لاکھوں روپیہ مل جاتا۔ گویا اُجرت اور کام کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی تھی۔ کبھی وہ کام کرتے اور اس کام کا معاوضہ انہیں کچھ بھی نہ ملتا اور کبھی اتنا مل جاتا کہ وہ اسے دیکھ کر حیران ہوجاتے اور سوچتے کہ اب اسے رکھیںکہاں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں ہی بعض دفعہ اتنے اموال آئے ہیں کہ صحابہ کہتے ہیں ہمیں وہ اموال رکھنے کیلئے جگہ نہیں ملتی تھی اور بعض دفعہ بجائے کچھ ملنے کے انہیں اپنے گھر سے تمام خرچ پورا کرنا پڑتا۔ یہی منہاجِ نبوت ہے اور اسی طریق کو ہمیں اپنے صدر انجمن کے کارکنوں میں جلد یا بدیر جاری کرنا پڑے گا۔
میں نے یہ کبھی نہیں کہا اور نہ میں اس کا قائل ہوں جو بعض احمق لوگ کہا کرتے ہیں کہ نبیوں کی جماعتوں کوکچھ دیا جانا ثابت نہیں۔ اگر انہیں کچھ دیا جانا ثابت نہیں تو وہ کھاتے کہاں سے تھے۔ پس ملنے کا طریق تو تھا اور خود رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی جاری تھا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہی حکم ہے کہ جب غنیمتوںکے اموال آئیں تو انہیں تقسیم کردو۔۴؎ اور مختلف قسم کی تقسیمیں ہیں جو شریعت نے تجویز کی ہیں مگر وہ کام کے لحاظ سے نہیں ملتا تھا بلکہ یا تو اس میں گزارے کو مدنظر رکھا جاتا تھا یا نتائج کو مدنظر رکھا جاتا تھا یعنی اگر روپیہ میسر آگیا تو دے دیا اور اگر نہ آیا تو کچھ بھی نہ دیا۔ یہاں تک کہ تاریخوں میں آتا ہے کہ بعض دفعہ سونے کی تقسیم ترازوئوں سے ہوتی تھی۔ یعنی اتنی کثرت سے سونا اور دیگر اموال آگئے کہ انہیں گِن گِن کر دینے کی کوئی صورت ہی نہ رہی۔ پس اُس وقت تکڑ پر اشرفیاں تول تول کر سب میں برابر تقسیم کردی گئیں۔ مگر اس کے مقابلہ میں یہ بھی نظر آتا ہے کہ بعض دفعہ صحابہ کو اپنی سواریوں کا آپ انتظام کرنا پڑا، تلواریں اور نیزے خود خریدنے پڑے، آنے اور جانے کے اخراجات خود برداشت کرنے پڑے مگر جب جنگ سے واپس آئے تو انہیں ایک پیسہ کی امداد بھی نہیں دی گئی اور ان کا جو اندوختہ تھا وہ سب جنگ کے اخراجات میں صَرف ہوگیا۔ پھر نہ صرف یہ نظر آتا ہے کہ صحابہ نے بعض دفعہ اپنے گھر کا مال و اسباب بیچ کر جنگ کے اخراجات پورے کئے۔ بلکہ یہ بھی نظر آتا ہے کہ بعض دفعہ انہوں نے اپنی جائیدادیں بیچ کر دوسروں پر خرچ کردیں اور ان کیلئے تمام ضروریات مہیا کیں۔ چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ نے فرمایا کہ فلاں سفر پر ہماری فوج جانے والی ہے مگر مومنوں کے پاس کوئی چیز نہیں۔ کیا کوئی تم میں سے ہے جو ثواب حاصل کرے؟ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ یہ سنتے ہی اُٹھے اورآپ نے اپنا اندوختہ نکال کر وہ رقم مسلمانوں کے اخراجات کیلئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردی۔ رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو فرمایا عثمانؓ نے جنت خرید لی۔۵؎
اسی طرح ایک دفعہ ایک کنواں بِک رہا تھا۔ مسلمانوں کو چونکہ اُن دنوں پانی کی بہت تکلیف تھی اس لئے آپ نے اس موقع پر پھر فرمایا کوئی ہے جو ثواب حاصل کرے۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اﷲ! میں حاضر ہوں۔ چنانچہ آپ نے وہ کنواں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کردیا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ عثمان نے جنت خرید لی۔۶؎ اسی طرح ایک اور موقع پر بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے متعلق یہی الفاظ کہے۔ غرض تین موقعے ایسے آئے ہیں جہاں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے متعلق فرمایا کہ انہوں نے جنت خرید لی ہے۔ گو مسلمانوں کی بدقسمتی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جب وہ کسی شخص سے مخالفت کرتے ہیں تو اس کی مخالفت میں دوسرے بزرگوں پر بھی حملہ کردیتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص مجھ پر حملہ کرے گا اس کے حملہ کی زد تمام انبیاء پر پڑے گی۔ اسی طرح جو شخص ایک خلیفہ پر حملہ کرتا ہے وہ دراصل سارے خلفاء پر حملہ کرتا ہے۔ چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ قریب کے عرصہ میں مصری صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے جب فلاں فلاں غلطیاں کیں اور مسلمانوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ خلافت سے دست بردار ہوجائیں تو گو انہوں نے الگ ہونے سے انکار کردیا مگر مسلمانوں نے تو بہرحال ایک رنگ میں انہیں معزول کر ہی دیا۔ گویا حضرت عثمانؓ اِسی بات کے مستحق تھے کہ خلافت سے معزول کئے جاتے حالانکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے متعلق بارہا یہ فرمایا ہے کہ انہوں نے جنت خرید لی اور وہ جنتی ہیں اور ایک دفعہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے دوبارہ بیعت لی اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ اُس وقت موجود نہ تھے تو آپ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے میں اس کی طرف سے اپنے ہاتھ پر رکھتا ہوں۔ اس طرح آپ نے اپنے ہاتھ کو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ قرار دیا ۷؎ اور پھر ایک دفعہ آپ سے فرمایا اے عثمان! خداتعالیٰ تجھے ایک قمیص پہنائے گا۔ منافق چاہیں گے کہ وہ تیری اس قمیص کو اُتاردیں مگر تُو اُس قمیص کو اُتاریو نہیں۔۸؎ اب محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے یہ فرماتے ہیں کہ اُس قمیص کو نہ اُتارنا اور جو تم سے اس قمیص کے اُتارنے کا مطالبہ کریں گے وہ منافق ہوں گے۔ مگر مصری صاحب محض میری مخالفت میں آج یہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ سے عزل کا مطالبہ کرنے والے حق پر تھے اور غلطی پر حضرت عثمانؓ ہی تھے۔ یہ ویسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی پٹھان کنز پڑھ رہا تھا۔ اس میں اس نے یہ لکھا دیکھاکہ حرکت سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک دن جب وہ حدیث کا سبق لے رہا تھا تو اتفاقاً یہ حدیث آگئی کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نما زپڑھ رہے تھے کہ آپ نے اپنے ایک نواسہ کو اُٹھالیا ۹؎ تو وہ یہ حدیث پڑھتے ہی کہنے لگا کہ خوہ محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا۔ اسی طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تو یہ فرماتے ہیں کہ خدا تجھے خلافت کی قمیص پہنائے گا اور تُو اس کا قائم کردہ خلیفہ ہوگا اور جو لوگ تجھ سے عزل کا مطالبہ کریں گے وہ منافق ہوں گے مگر مصری صاحب کہتے ہیں کہ نہیں وہ خدا کے قائم کردہ خلیفہ نہیں تھے اور جنہوں نے آپ سے عزل کا مطالبہ کیا وہی حق پر تھے۔ گویا محمد صلی اﷲعلیہ وسلم اور خداتعالیٰ کی بتائی ہوئی بات تو نَعَوْذُ بِاﷲجھوٹ ہوئی لیکن منافق جو کچھ کہہ رہے تھے وہ سچ تھا اور اصل مومن وہی تھے کیونکہ ان کے نزدیک خدا اور رسول کا کیا ہے وہ تو دو ہوئے اور منافق بہت سے تھے اور دو کی رائے اکثریت کے مقابلہ میں کمیٹیوں میں کہاں مانی جاتی ہے۔
تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قربانیاں آتی ہیں اور ان قربانیوں کے نتیجے کبھی مل جاتے ہیں اور کبھی نہیں ملتے۔ یہی صحابہ میں نظر آتا ہے اور یہی طریقِ عمل ہمیںاختیار کرنا پڑے گا۔ یہ طریق بالکل غلط ہے کہ نتیجہ خواہ نکلے یا نہ نکلے لوگوں کا جو حق مقرر ہے وہ انہیں دے دیا جائے۔ صدرانجمن احمدیہ کی بنیاد اب تک اس امر پر ہے کہ ہر شخص کا ایک حق مقرر ہے۔ خواہ چندہ جمع ہو یا نہ ہو، خواہ تھوڑا آئے یا بہت آئے۔ انہیں اپنا حق ضرور ملنا چاہئے۔ مگر یہ منہاجِ نبوت نہیں بلکہ منہاجِ مغرب ہے۔ مغرب کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب کسی نے اپنا کام کردیا تو اس کا اب یہ حق ہوگیا کہ وہ ہم سے اُجرت کا مطالبہ کرے حالانکہ یہ اصل بندوں کے لحاظ سے تو درست تسلیم کیا جاتا ہے مگر خداتعالیٰ کے لحاظ سے درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے کہ خدا ہر نیک کام کی جزا دینے والا ہے اور اگر کسی کو اس جہان میں بدلہ نہ ملے تو اگلے جہان میں مل کر رہے گا لیکن جو شخص اس بات کو مانتا ہے وہ گویا اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ میرا معاملہ بندوں سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اگر بندوں کی طرف سے مجھے کچھ بھی نہ ملا تب بھی خدا میرے اجر کو ضائع نہیں کرے گا اور وہ اگلے جہان میں اپنی نعمتوں سے مجھے مالامال کردے گا۔ پس اس کیلئے کسی معیّن اُجرت کا ہونا بالکل بے معنی بات ہے۔ اگر ایک بادشاہ کا کوئی شخص ایک مہینہ تک کام کرے اور وہ دنیا میں اسے کام کی اُجرت نہ دے تو کیا وہ بادشاہ اس امر کی طاقت رکھتا ہے کہ اگلے جہان میں اسے اس کے کام کی جزاء دے۔ اگلے جہاں میں تو وہ خود مدد کیلئے دوڑتا پھرے گا، اسے کہاں دے گا۔پس اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملازم کو اسی جہان میں اس کی مزدوری دے۔ لیکن جو لوگ ایک نبی کی جماعت میں داخل ہوں اور منہاجِ نبوت پر کام کررہے ہوں وہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر اس جہان میںانہیںکام کا معاوضہ نہ دیا گیا تو اگلے جہاں میں انہیں نہیں مل سکے گا۔ کیونکہ ان کا مالک خدا ہے اوراگر اس جہان میں انہیںاپنے کاموں کا بدلہ نہ ملا تو اگلے جہان میں بہتر سے بہتر بدلہ مل کر رہے گا پس مقررہ بدلہ ان لوگوں کے ذمہ ہوتا ہے جو دوسرے وقت میں بدلہ نہیں دے سکتے لیکن جو دوسرے وقت میں بھی بدلہ دے سکتا ہو بلکہ اگر اس جہان میں بدلہ نہ ملے تو اگلے جہان میں بھی دے سکتا ہو۔ اس کے مقابلہ میں کسی قسم کی شرط جائز نہیں ہوسکتی۔
پس ابھی ہمارے بہت سے کام منہاجِ مغرب پر ہیں منہاجِ نبوت پر نہیںہیں اور جب تک ہم اپنے ان کاموں کو منہاجِ نبوت پرنہیں لائیں گے، کامیابی کا منہ ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ اسی طرح یہ شرط کہ آنہ فی روپیہ چندہ مقرر ہے یا پانچ پیسے فی روپیہ، بالکل غلط ہے۔ مقرر تو ایک پیسہ بھی نہیں خواہ اس فقرہ سے فائدہ اُٹھا کر بعض لوگ کہہ دیں گے کہ دیکھو جب اب انہوں نے اقرار کرلیا ہے کہ مقرر ایک پیسہ بھی نہیں تو ہم زیادہ چندہ کیوں دیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ خواہ ہم آنہ فی روپیہ چندہ کہیں یا پانچ پیسہ فی روپیہ مقرر کچھ بھی نہیں۔ مقرر سلسلہ کی ضروریات کے لحاظ سے ہے۔ اگر سلسلہ کی ضروریات یہ تقاضا کرتی ہوں کہ ہم آنہ یا پانچ پیسہ کی بجائے پورا روپیہ ہی سلسلہ کے حوالے کریں تو اُس وقت ہمارا یہی فرض ہے کہ ہم روپیہ دیں اور اگر پیسہ کی ضرورت ہو تو اس وقت پیسہ دینا پڑے گا۔ کوئی کہے کہ اس طرح روپیہ جمع کس طرح ہوسکتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دُنیوی گورنمنٹیں بے شک روپیہ جمع کرتی ہیں لیکن اسلامی گورنمنٹیں روپیہ جمع نہیں کیا کرتیں اور نہ ہمارا حق ہے کہ روپیہ جمع کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی زمانہ میں نقد روپیہ جمع کی صورت میں بہت کم نظر آتا تھا۔ گو کچھ جائیدادیں ضرور محفوظ کی گئی تھیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تو روپیہ رکھتے ہی نہیں تھے بلکہ جو کچھ آتا اسے تقسیم کردیتے تھے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم گھر میں روپیہ اس لئے جمع نہیں رکھتے تھے کہ آپ پر الزام نہ آئے مگر یہ غلط خیال ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقِ عمل سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نہ صرف اپنے گھر میں روپیہ جمع نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ نے کوئی خزانہ بھی نہ بنایا ہؤا تھا۔ جس قدر روپیہ آتا وہ آپ تقسیم فرمادیتے اور سمجھتے تھے کہ جب اور ضرورت ہوگی تو اللہ تعالیٰ اور بھیج دے گا۔ یہ آپ کے توکّل کا اعلیٰ مقام تھا۔ ہر شخص یہ طریق اختیار نہیں کرسکتا مگر بہرحال منہاجِ نبوت یہی ہے کہ روپیہ جمع نہ ہو بلکہ خرچ ہوتا رہے۔
ایک دفعہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نماز پڑھا کر لوگوں کے کندھوں سے پھاندتے ہوئے جلدی جلدی گھر تشریف لے گئے ۔ صحابہ کچھ حیران سے ہوئے کہ اتنی جلدی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم گھر میں کیوں تشریف لے گئے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ پھر کسی کام کیلئے واپس آئے تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کچھ مال بھیجا تھا جو میں نے تقسیم کردیا۔ صرف دو دینار باقی تھے۔ میں نماز پڑھا کر جلدی جلدی گھر گیا اور مجھے خیال آیا کہ وہ اب تک کیوں پڑے ہیں چنانچہ میں اب انہیں تقسیم کرکے آیا ہوں۔۱۰؎ پس یہی نہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم گھر میں روپیہ جمع نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہؤا تھا کہ میں خزانہ سرکاری میں بھی روپیہ جمع نہیں کیا کروں گا۔ چنانچہ جس قدر روپیہ آتا آپ اُسی وقت تقسیم کردیتے۔ البتہ بعض اوقات کچھ رکھ بھی لیتے مگر بِالعموم آپ کا طریق یہی تھا کہ اپنے پاس کچھ نہ رکھتے۔ ہاں اگر کوئی عارضی ضرورت سامنے ہوتی تو کچھ رکھ لیتے مگر وہ بھی زیادہ عرصہ کیلئے نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں بھی یہی طریق جاری رہا۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں البتہ کچھ جمع کیا جاتا رہا مگر وہ بھی زیادہ تر اِس لئے کہ بعض بدّو اور دوسرے غرباء آجاتے تھے اور ان کیلئے آٹے، دانے، گھی، شہد اور نقدی وغیرہ کی ضرورت ہوتی تھی۔ پس کسی حد تک حضرت عمر رضی اﷲ عنہ یہ چیزیں جمع رکھتے تھے۔ وگرنہ عام طور پر جو مال آتا اسے آپ بھی تقسیم ہی کردیا کرتے تھے۔
غرض خلفاء کے زمانہ میں روپیہ جمع کرنے کا رواج ہمیں کہیں نظر نہیں آتا سوائے اس کے کہ بعض زمینیں جو فتوحات میں حاصل ہوئیں آئندہ ضرورتوں کیلئے محفوظ رکھ لی جاتی تھیں۔ اور نہ معیّن معاوضے لوگوں کوملا کرتے تھے۔ اگر حکومت کے پاس روپیہ زیادہ آجاتا تو لوگوں کو زیادہ دے دیا جاتا اور اگر تھوڑا آتا تو تھوڑا دے دیا جاتا۔ یہ طریق تھا جس پر اُس زمانہ میں کام ہوتا تھا اور یہی منہاجِ نبوت ہے۔ مگر یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کام کرنے والے کہیں کہ ہم معیّن معاوضے نہیں لیں گے بلکہ سلسلہ کو جس قدر آمد ہوگی اُس نسبت سے ہمیں جو کچھ دیا جائے گا اسے ہم بخوشی قبول کریںگے۔
غرض ہمارے بہت سے کاموں میںابھی تبدیلی کی ضرورت ہے اور وہ منہاجِ نبوت پر نہیں بلکہ منہاجِ مغرب پر قائم ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان حالات کو بدل دیں۔ اگر کوئی کہے جب یہ معاملہ اس قدر ضروری ہے تو اِس وقت تک چُپ کیوں رہے ہو یا کیوں ابھی تبدیلی نہیں کردیتے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس وجہ سے میرے بڑے خاموش رہے اسی وجہ سے میںبھی خاموش ہوں اور اصل بات یہ ہے کہ اسلام نے کاموں میں تبدیلی آہستہ آہستہ پسند کی ہے، فوری طور پر تبدیلی پسند نہیں کی لیکن بہرحال یہ کام خواہ آج ہو یا آج سے چند سال بعد ، ہوکر رہے گا اور ہمیں اپنے تمام کاموں کو اسلامی بنیاد پر لانا پڑے گا اور بڑوں اور چھوٹوں کے معاوضوں کے اس طریق کو مٹانا پڑے گا جو اِس وقت جاری ہے اور وہی راہِ عمل اختیار کرنا پڑے گا جو خالص اسلامی ہے اور جس کا اصول یہ ہے کہ خزانہ میں جس نسبت سے روپیہ آئے اُسی نسبت سے کام کرنے والوں میں تقسیم ہوتا رہے، خواہ انہیں تھوڑا ملے یا بہت۔ بالکل ممکن ہے ہم اپنے نظام کے بعض حصوں میں اس طریق کوجاری نہ کرسکیں۔ مثلاً مدرسہ ہے وہاں حکومت کی بعض پابندیوں کی وجہ سے اس امر کا امکان ہے کہ ہم یہ طریق اختیار نہ کرسکیں مگر جہاں اور جس حد تک سرکاری قانون ہمارے راستہ میں حائل نہیں ہوگا وہاں ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ ایسے ہی لوگوں سے کام لیں جو اسلامی طریق پر چلنے کیلئے تیار ہوں اور اگر کوئی اس بات کیلئے تیار نہ ہؤا تو اسے کہہ دیا جائے گاکہ تم اپنے گزارہ کاکوئی اور انتظام کرلو۔
میں نے یہ جماعت کو اس لئے بتایا ہے تا جماعت کے دوست اس امر پر غور کریں اور کارکن بھی سوچیں کیونکہ جلد یا بدیر ہمیں یہ طریق اختیار کرنا پڑیگا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی تو میںاپنا پورا زور اس بات کیلئے لگائوں گا کہ ہمارا تمام نظام منہاجِ نبوت پر آجائے اور مغرب کے اصول کو جلد یا بدیر ہم بالکل ترک کردیں کیونکہ ہم کو اگر کامیابی ہوگی تو انہی اصول پر چل کر جو اسلام نے مقرر کئے ہیں نہ ان اصول پر چل کر جو مغرب نے تجویز کئے ہیں ۔ اور اگر ہم اپنے نظام اور اصول میں مغرب کے ہی شاگرد رہے اور عقیدہ میں ہم نے مغرب پر فتح حاصل کرلی تو ہم نے مغرب کو شکست بھی دی تو کیا شکست دی۔ حالانکہ ہماری جس قدر دشمنی ہے وہ مغربیت سے ہے نہ کہ مغرب کے آدمیوں سے۔ اور اگر مغربیت ہمارے اندر خود آگئی تو مغرب کو ہم نے کیا زک پہنچائی۔ آخر مغرب کے آدمی تو ہمارے دشمن نہیں وہ توہمارے بھائی ہیں۔ اگر آج مغرب کے لوگ مسلمان ہوجائیں توہم انہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھائیں۔ لیکن اگر ہم آدمیوں سے نفرت کرتے ہیں اور ان کے افعال سے محبت کرتے ہیں۔ مغربیت کو تو خود اختیار کرتے ہیں مگر مغرب کے باشندوں سے دور بھاگتے ہیں تو ہم نہ صرف مغربیت کا جبہ خود پہن لیتے ہیں بلکہ اسلام کی تعلیم کے خلاف بھی چلتے ہیں۔ کیونکہ اسلام آدمیوں سے عداوت جائز قرار نہیں دیتا بلکہ بُرے افعال سے عداوت پسند کرتا ہے۔ جب افغانستان میں ہمارے چند آدمی مارے گئے اور ہم نے حکومت کے اس فعل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو ہم نے اُسی وقت اس امر کی تصریح کردی تھی کہ ہماری امیر اور اس کے آدمیوں سے کوئی دشمنی نہیں ہمیں تو اس غلط عقیدہ سے دشمنی ہے جس کے مطابق انہوں نے ہمارے آدمیوں کو شہید کیا اور جسے اسلام کی تعلیم کے خلاف انہوں نے اختیار کررکھا ہے اور اگر کوئی سچے دل سے توبہ کرلے تو چاہے وہ کتنا بڑا دشمن ہو ہم اسے اپنا بھائی سمجھیں گے۔ آخر جو احمدی بنتے ہیں یہ کہاں سے آتے ہیں؟ یہ انہی لوگوں میں سے آتے ہیں جو احمدیت کے شدید مخالف ہوتے ہیں بلکہ ایسے ایسے شدید دشمن ہدایت پر آجاتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔
میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے ایک دفعہ بتایا کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک دن احمدیہ چوک میں تیس چالیس آدمی باہر بورڈنگ کی طرف آرہے تھے اور پانچ سات آدمی لنگرخانہ کی طرف سے۔ جب وہ ایک دوسرے کے بالکل قریب پہنچے تو ٹھٹھک کر کھڑے ہوگئے اور حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ پھر معاً وہ آگے بڑھے اور ایک دوسرے سے گلے مل کر چیخیںمار کر رونے لگے۔ فرماتے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو وہ جو زیادہ تعداد والے تھے انہوں نے بتایا کہ یہ پانچ سات آدمی ہمارے گائوں میں سب سے پہلے احمدی ہوئے جس پر ہم نے انہیں بڑی بڑی تکلیفیں پہنچائیں، یہاں تک کہ انہیں اپنے گائوں سے نکال دیا۔ پھر ہمیں کچھ معلوم نہیں ہؤا کہ یہ کہاں چلے گئے۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دی اور ہم بھی احمدی ہوگئے۔ آج یہ پہلا موقع ہے کہ ہم نے ان کی شکل دیکھی۔ بس انہیں دیکھتے ہی ہمیں وہ تمام تکلیفیں یاد آگئیں جو ہم نے انہیں پہنچائیں اور بے اختیار ہمیں یہ تصور کرکے رونا آگیا کہ آخر ہم بھی وہیں آپہنچے جس جگہ یہ تھے۔ تو ایسے ایسے دشمن اگر سلسلہ میں داخل ہوسکتے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں تو آدمیوں کی عداوت سے زیادہ اور کون سی بیوقوفی ہوگی۔
میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ مجھے مولوی ثناء اللہ صاحب کی ذات سے بھی کبھی دشمنی نہیں ہوئی بلکہ بچپن میں جب مجھے کامل عرفان حاصل نہیں تھا میں بعض دفعہ حیران ہوکر کہا کرتا تھا کہ خدایا! کیا میرے اندر غیرت کم ہے کہ لوگ تو کہتے ہیں ہمیں مولوی ثناء اللہ پر بڑا غصہ آتا ہے مگر مجھے نہیں آتا۔ تو اللہ تعالیٰ اس بات کا گواہ ہے کہ اپنی ذات میںمجھے کسی شخص سے عداوت نہیں، نہ اپنے دشمن سے اور نہ سلسلہ کے کسی دشمن سے۔ افعال بے شک مجھے بُرے لگتے ہیں اور انہیں مٹادینے کو میرا جی چاہتا ہے مگر کسی انسان سے مجھے دشمنی نہیں ہوئی۔ حتّٰی کہ سلسلہ کے شدید ترین دشمنوں کی ذات سے بھی مجھے آج تک کبھی عداوت نہیں ہوئی حالانکہ اگر عداوت جائز ہوتی تو ان لوگوں سے ہوتی جو خدا اور اس کے رسول کے دشمن ہیں کیونکہ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو کم درجہ دے مگر خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں کو زیادہ بُرا جانے۔ مگر جب خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں کی ذات سے بھی مجھے کبھی عداوت نہیں ہوئی تو اپنے دشمنوں کی ذات سے مجھے کس طرح عداوت ہوسکتی ہے۔ یہ دل بے شک چاہتا ہے کہ ہمارے سلسلہ کے دشمن اپنے منصوبوں میں ناکام رہیں اور اللہ تعالیٰ یا تو انہیں ہدایت دے یا ان کی طاقتوں کو توڑ دے مگر یہ کہ ان کو اپنی ذات میں نقصان پہنچے یہ خواہش نہ کبھی پہلے میرے دل میں پیدا ہوئی اور نہ اب ہے۔ تو آدمیوں کی عداوت کوئی چیزنہیں۔ جس چیز کو مٹانا ہمارا فرض ہے وہ خلافِ اسلام عقائد اور طریقے ہیں جو دنیامیںجاری ہیں۔ اگر ہم ان عقائد اور ان طریقوں کو مٹانے کی بجائے آدمیوں کومٹانے لگ جائیں اور وہ اصول اور طریق خود اختیار کرلیں تو اس کی ایسی ہی مثال ہوگی جیسے کوئی بادام کے چھلکے رکھتا جائے اور مغز پھینکتا جائے۔ آدمی تو مغزہیں اور ان کے افعال وہ چھلکے ہیں جن کو دور کرنا ہمارا کام ہے۔ پس جس چیز کو مٹانا ہے اگر اسی کو ہم لے لیں اور جس کو رکھنا ہے اس کو مٹادیں تو اس میں کونسی عقلمندی ہوگی۔
پس میں اپنی جماعت کے دوستوں کوتوجہ دلاتا ہوں کہ اپنی قربانیوں پر غور کرو اور یاد رکھو کہ جو قربانیاں اِس وقت کی جارہی ہیں وہ ہرگز کافی نہیں ہیں۔ اسلام اور احمدیت کی ترقی کیلئے بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح میں صدرانجمن احمدیہ اور اس کے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جس طریق پر وہ چل رہے ہیں وہ منہاجِ نبوت والا طریق نہیں اور اس پر چل کر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہاںاگر وہ منہاجِ نبوت پر اپنے کاموں کی بنیاد رکھ لیں گے تو پھر کامیابی انہیں حاصل ہوجائے گی اور جلد یا بدیر ایسا ہوکر رہے گا ۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی نبی آئے اور اس کی جماعت کے نظام کا کوئی حصہ منہاجِ نبوت سے باہر رہ جائے۔ پس کیوں نہ جوچیز بعد میں آنی ہے اس کو ابھی لے لیا جائے اور جس امر کو سالوں بعد اختیار کرنا ہے اسے ابھی سے اختیار کرلیاجائے۔ اگر صدرانجمن احمدیہ اس طریق کو اختیار کرلے تو یقینا بہت جلد احمدیت کو کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ ورنہ مشکلات بڑھتی جائیں گی اور سلسلہ کی ترقی کے راستہ میں روکیں پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔ پس میںدوستوں کو تحریک جدید کے اس حصہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری دشمنی ان تمام خیالات اور طریقوں سے ہے جو اسلام کے مخالف دنیا میں نظر آتے ہیں اور ان کو مٹانا اور دنیا سے ناپید کرنا ہمارا فرض ہے اس اصل اور طریق کے بعض حصے ہم مٹاچکے ہیں اور بعض مٹارہے ہیں اور بعض مٹانے والے ہیں۔ جو حصے ہم مٹاچکے ہیں ان کے متعلق ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیںکہ اس نے ہمیں اپنے فضل سے اس کی توفیق عطا فرمائی اور جو حصے ہم مٹارہے ہیں ان کے متعلق ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیںکہ وہ ہمیں اپنے مقصد میں کامیابی عطا فرمائے اور جو حصے ابھی باقی ہیں ان کے متعلق ہمیں سوچنا اور غور کرنا چاہئے تا جس قدر جلد ہوسکے انہیں مٹا کر اسلامی طریق پر ہم اپنے تمام نظام کو لے آئیں اور جس قدر انسانی سہارے نظر آتے ہیں انہیں دور کردیں تاہمارا سلسلہ کلّی طور پر منہاجِ نبوت کے رنگ میں رنگین ہوجائے اور جس قدر روکیں ہماری ترقی کے راستہ میں حائل ہیں وہ دور ہوجائیں۔ اے خداتُو ایسا ہی کر۔اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ‘‘ (الفضل ۲۶؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ العنکبوت: ۷۰
۲؎ (البقرۃ: ۱۹۰)
۳؎ النحل: ۲۷
۴؎ (الانفال: ۴۲)
۵؎ تا ۷؎ بخاری کتاب فضائل اَصْحَاب النَّبِیِّ صلی اﷲ علیہ وسلم باب مناقب
عثمان بن عفان (الخ)
۸؎ ابن ماجہ کتاب السنۃ باب فی فضائل اَصحاب رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم
۹؎ بخاری کتاب الصلوٰۃ باب اِذَاحَمَلَ جَارِیَۃً صَغِیْرَۃً …(مفہوماً)
۱۰؎ بخاری کتاب الزکوٰۃ باب مَنْ اَحَبَّ تَعْجِیْل الصدقَۃ مِنْ یَوْمِھَا

۸
صدرانجمن احمدیہ کے کارکنوں اور جماعت کے افراد سے خطاب
(فرمودہ ۲۵؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’آج نزلہ اور گلے میں خراش کی وجہ سے میں زیادہ بول نہیں سکتا علاوہ ازیں دائیں پائوں میں دردِ نقرس کا دَورہ ہوگیا ہے اس لئے زیادہ کھڑا بھی نہیں ہوسکتا۔ اس وجہ سے میں آج بہت ہی چھوٹا خطبہ کہنا چاہتا ہوں۔
میں نے پچھلے خطبہ میں دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ منہاجِ نبوت کے مطابق جو انتظام ہوتا ہے وہ اَور قسم کا ہوتا ہے اور مغربی اصول کے مطابق اَور قسم کا۔ منہاجِ نبوت کے مطابق جو انتظام ہوتا ہے اس میں نہ کام کرانے والے کوئی معاوضہ مقرر کرتے ہیں اورنہ کام میں مدد کرنے والے کوئی حد بندی لگاتے ہیں۔ منہاجِ نبوت کے مطابق نہ تو یہ شرط ہوتی ہے کہ کوئی شخص دین کی ضرورت کے و قت ایک پیسہ یا دھیلہ یا دمڑی فی روپیہ چندہ دے اور نہ یہ شرط ہوتی ہے کہ کوئی شخص چار پیسے یا چھ پیسے فی روپیہ چندہ دے بلکہ زکوٰۃ مقررہ اور مفروضہ اور صدقاتِ مقررہ کے بعد ہر انسان کا یہ فرض ہوتا ہے کہ اپنی طاقت اور اسلام اور سلسلہ کی ضرورت کے مطابق چندہ دے۔ اسی طرح جو لوگ کام کرتے ہیں ان کا معاوضہ مقررہ شرحوں پر نہیں ہوتا بلکہ حسبِ استطاعت سلسلہ بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے۔ کوئی شخص بھی اپنے گھر کا بجٹ بناتے ہوئے کبھی یہ فیصلہ نہیں کیا کرتا کہ میں اپنی بیوی بچوں کی بیماری پر اس قدر رقم خرچ کروں گا اس سے زیادہ خرچ کی اگر ضرورت پڑی تو انکار کردوں گا۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ اسلام کی خدمت کیلئے حدبندی کی جائے۔ اسی طرح کوئی زمیندار کبھی یہ نہیں کہتا کہ میں اپنی زمین پر محنت اس صورت میں ہی کرسکتا ہوں کہ جب دس روپیہ ماہوار مجھے معاوضہ ملے۔ بسا اوقات اس کی زمینداری نقصان پر جارہی ہوتی ہے اور وہ کہیں باہر جاکر زمین کی آمد سے زیادہ کماسکتا ہے مگر وہ اسے چھوڑتا نہیں ہر وقت جُتا رہتا ہے، بیل سے بھی زیادہ محنت کرتا ہے۔ صرف اسی وجہ سے کہ وہ سمجھتا ہے یہ میری زمین ہے۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے ساتھ یہ شرط کریں کہ اگر ہمارا اتنا گریڈ ہو یا اتنی رقم دی جائے تو ہم کام کریں گے ورنہ نہیں۔ اسی طرح چندہ کی حد بندی خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر غیریت پر دلالت کرتی ہے نہ کہ تعلق پر۔ اللہ تعالیٰ اور بندہ کا معاملہ آپس میں ایسا ہونا چاہئے کہ جو تمام تعلقات سے زیادہ مضبوط اور تمام قرابتوں سے زیادہ قُرب والا ہو۔ آقا او رملازم والا معاملہ نہیں ہونا چاہئے۔
مَیں نے گزشتہ خطبہ میںکارکنوں کے معاوضہ کے متعلق جو بات کہی مجھے خوشی ہے کہ اس پر کئی کارکنوں نے لبیک کہا ہے۔ بعض نے تو یہ لکھا ہے کہ ہم پہلے ہی صدر انجمن کے ساتھ اپنا تعلق ملازمت کا نہیں سمجھتے تھے اور بعض نے یہ کہ ہم نے اب فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ ہم انجمن کے ساتھ اپنا تعلق تنخواہوں یا گریڈوں والا نہیں رکھیں گے بلکہ جو کچھ بھی گزارہ کیلئے ہمیںدیا جائے گا اسے قبول کرلیں گے۔
اس کے مقابلہ میں مَیں جماعت سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی ذمہ داری بھی اسی رنگ کی ہے۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ چندہ ایک آنہ فی روپیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کب مقرر کیا تھا یا پانچ پیسے کب مقرر کئے ہیں۔ دوسرا کہتا ہے کہ جب میں نے پانچ پیسہ فی روپیہ کی شرح سے چندہ دے دیا تو جب تک دوسرا جو بالکل نہیں دیتا اتنا ہی ادانہ کرے میری ذمہ داری نہیں بڑھ سکتی حالانکہ یہ طریق تو ؎
’’دیکھ لو سرکار اِس میں شرط یہ لکھی نہیں‘‘
والا ہے اور آقا اور ملازم والا تعلق ہے، مُحِبّاورمحبوب کا نہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ سے ہمارے تعلقات آقا و ملازم والے ہوں تو ہمیں بھی اس سے آقا والے سلوک کی ہی امید رکھنی چاہئے اور یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ ؎۱ کے ماتحت ہم سے سلوک کرے گا۔ ہماری لاکھوں خطائیںاور گناہ ایک توبہ سے معاف کردے گا۔ کوئی آقا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم اس کا کروڑ روپیہ کانقصان کردو اور پھر یہ کہہ کر کہ اچھا جی معاف کردیں، اس سے معافی بھی لے لو لیکن کوئی انسان جو ساری عمر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتا رہتا ہے اگر مرنے سے کچھ دیر پہلے بھی سچی توبہ کرے اور اپنے اعمال پر ندامت کا اظہار کردے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا ہے۔ کوئی آقا اپنے ملازم کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کرتا۔ یہ مُحِبّ اور محبوب والا معاملہ ہے مُحِبّاور محبوب دونوں کو یہ لَو لگی ہوتی ہے کہ ایک دوسرے سے مل جائیں، خواہ کسی طرح ملیں اور چاہے ان میں سے کسی کو دبنا ہی کیوںنہ پڑے۔ اس لئے جب انسان کسی وقت بھی یہ خواہش کرتا ہے کہ میں اپنے خدا سے ملنا چاہتا ہوں توخداتعالیٰ جھٹ اسے اپنے سینہ سے چمٹالیتا ہے۔ کوئی جرنیل کسی بادشاہ کا کوئی علاقہ دشمن کے ہاتھ بیچ دے اور پھر آ کر کہے کہ مجھے معاف کردیا جائے تو بادشاہ اسے کبھی معاف نہیں کرے گا بلکہ فوراً اسے پھانسی پر لٹکادے گا لیکن خداتعالیٰ کا بندہ کتنا بھی نقصان کرنے کے بعد جب خداتعالیٰ کے دربار میں پہنچتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اچھا تم سے جو نقصان ہؤا اس کا انتظام میں خود کرلوںگا اور تمہیں معاف کرتاہوں۔
پس جماعت کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے اور کارکنوں کو بھی۔ کارکنوں کو اپنے کام کی بنیاد اس امر پر نہ رکھنی چاہئے کہ ہم اتنی تنخواہ اور اتنا گریڈ لیںگے اور جماعت کو اپنے تعلقات کی بنیاد بھی اس امر پر نہ رکھنی چاہئے کہ ہم اتنے آنے یا اتنے پیسے چندہ دیں گے کیونکہ سوال آنوں یا پیسوں کا نہیں بلکہ ضرورت کا ہے۔ جب ضرورت کم ہو کم دیں اور جب زیادہ ہو زیادہ دیں۔
اس کے بعد میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میںجماعت کی اصلاح کے متعلق بعض اَور باتوں پر بھی غور کررہا ہوں اورمیرا ارادہ ہے کہ انہیںمجلسِ شوریٰ میںپیش کروں اور احباب سے ان کے متعلق مشورہ لوں۔ ان باتوں میں سے بعض نتائج کے لحاظ سے اور بعض ضرورت کے لحاظ سے نہایت اہم ہیں۔ممکن ہے جماعت کے مشورہ کے ماتحت میںان میں کوئی تبدیلیاں بھی کروں لیکن بہرحال بعض نہایت اہم سوالات میرے سامنے ہیںجن کے متعلق میں مشورہ لینا چاہتا ہوں۔ اس کے متعلق دوستوںکو دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی توفیق دے اور جو نمائندے آئیں ان کو بھی۔ مجلس شوریٰ کے نمائندوں کے علاوہ میرے ساتھ تعلق کی بناء پر ہر شخص مجھے مشورہ دے سکتا ہے اور جب ایجنڈا شائع ہوجائے تو جو سمجھے کہ ان میںسے کسی امر کے متعلق وہ اپنے تجربہ یا علم کی بناء پر کوئی مشورہ دے سکتا ہے تو اسے چاہئے کہ دے دے۔ مجلس شوریٰ کے موقع پر تو میری حیثیت اس مجلس کے صدر کی بھی ہوتی ہے اور اُس وقت انہی سے مشورہ لے سکتا ہوں جو وہاں موجود ہوں، دوسروں سے نہیں لیکن وہاں سے باہر نکلتے ہی ہر احمدی کا تعلق مجھ سے ویسا ہی ہے جیسا کہ کسی نمائندہ کا اس لئے جو چاہے مجھے مشورہ دے سکتا ہے۔
میںسمجھتا ہوں ہمارے کاموں میں کئی قسم کی اصلاحوں کی ضرورت ہے۔ بعض مجبوریاں بھی درپیش ہیں جن کے ماتحت بعض کاموں کی شکلیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہماری مشکلات بڑھتی جائیں گی اور یا پھر ہماری کامیابی میں تأخیر ہوتی جائے گی۔ بعض باتیں اپنی ذات میں اچھی ہوتی ہیں مگر مجبوریاں انہیں چھُڑا دیتی ہیں اور بعض مفید ہوتی ہیں مگر ان پر عمل کا وقت نہیں آیا ہوتا۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ پر نگاہ رکھتے ہوئے اپنے کاموں میںآگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس سلسلہ میں اگر بعض کاموں کی صورت میں تبدیلی بھی کرنی پڑے تو کرنی چاہئے۔ نیکی ہمیشہ موقع کے مطابق ہوتی ہے۔ مثلاً روزہ بے شک ترقی کا موجب ہے لیکن جہاد کے موقع پر ایک دفعہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج بے روزہ روزہ داروں سے بڑھ گئے ؎۲ کیونکہ روزہ دار تو روزے کھول کر مُردوں کی طرح پڑ گئے اور جن کے روزے نہیں تھے انہوں نے خیمے وغیرہ لگائے، جانوروں کو باندھا، اُن کے لئے چارہ وغیرہ کا انتظام کیا اس پر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا آج بے روز روزہ داروں سے بڑھ گئے۔ پس ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے اور کوئی نیکی ایسی نہیں جو ہر وقت ضروری ہو سوائے محبت الٰہی کے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو کبھی بدل نہیں سکتی۔ باقی سب نیکیاں ایسی ہیں کہ ان میں تبدیلی کی صورتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ نما زکسی وقت تو نہایت ہی ضروری چیز ہے مگر کسی وقت یہی گمراہی کا موجب ہوجاتی ہے۔ اسی طرح روزہ ہے، حج بھی اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے۔ مگر کسی وقت یہ بے ادبی کا موجب ہوجاتا ہے۔ صدقہ و خیرات نیکی ہے مگر کسی وقت یہی تباہی و بربادی کا موجب ہوجاتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۳؎ یعنی جو لوگ اس خیال سے نمازیں پڑھتے ہیں کہ لوگ دیکھ کر کہیںگے کہ یہ بڑے نمازی ہیں، ان کی نما زلعنتی نماز ہے اور وہ *** بن کر نمازی پر گرتی ہے۔ پھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سورج نکلنے اور سورج ڈوبنے کے وقت جونماز پڑھتا ہے وہ شیطان ہے ۔۴؎ اسی طرح روزہ ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو عید کے روز روزہ رکھے وہ شیطان ہے۔ ۵؎گویا ایک دن ایسا آجاتا ہے جب کھانا پینا مقدم ہوجاتا ہے۔
اسی طرح حج کے متعلق ہے۔ اور عمرہ کے متعلق بھی کہ وہ زیارت مکہ مکرمہ ہے۔ مثلاً صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو مکہ والوں کے پاس بھیجا کہ انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ مسلمانوں کو عمرہ کرلینے دیں مگر مکہ والوں نے کہا کہ ہم محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) اور دوسرے مسلمانوں کو تو اجازت نہیں دے سکتے مگر آپ چونکہ آگئے ہیں اور ہمارے رشتہ دار اور مہمان ہیں اس لئے آپ کرسکتے ہیں لیکن حضرت عثمانؓ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں ہرگز اسے پسند نہیں کرتا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو تو ممانعت ہو اور میں عمرہ کرلوں ۔۶؎ اب دیکھو ان کیلئے عمرہ یعنی طواف بیت اللہ کا موقع تھا مگر آپ نے اس سے فائدہ اٹھانے سے انکار کردیا اور کہا کہ اگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نہیں کرسکتے تو میں بھی نہیںکرتا۔
پھر صدقہ و خیرات ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہوتے ہیں۔ یعنی وہ مُبذِّر جو مال و دولت لُٹاتے وقت یہ خیال ہی نہیں کرتے کہ وہ کس طرح اندھا دھند خرچ کررہے ہیں وہ صرف دینا ہی جانتے ہیں ان کو۷؎ فرمایا ہے۔ گویا یہ ثابت ہوگیا کہ نماز بھی شیطانی فعل بن سکتا ہے۔ روزہ بھی اور تبذیر بھی یعنی بے تحاشا خرچ کرنا، خواہ صدقہ کے طور پر ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔ تو تین نیکیوں کے متعلق تو شریعت اور شارع کے صریح الفاظ سے ثابت ہوگیا کہ اگر بعض وقت وہ فرض ہیں تو دوسرے اوقات میں گناہ کا موجب ۔ حج کے متعلق صریح الفاظ میں مثال نہیں ملتی مگر ایسے مواقع ہوسکتے ہیں کہ اس کا ادا کرنا بھی گناہ ہوجاتا ہو۔ اور ایک بات تو ظاہر ہی ہے کہ حج کیلئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کچھ شرائط مقرر کی ہیں۔ اگر ان شرطوں کے بغیر کوئی حج کرے تو یقینا وہ شریعت کا حکم پورا کرنے والا نہ ہوگا۔ مثلاً آجکل ہی بعض بزرگ لوگ حج کیلئے جاتے ہیں، اس لئے کہ لوگ انہیں حاجی کہیں ورنہ ان کے اندر حج کے نتیجہ میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ کہتے ہیں سردی کے موسم میں کوئی غریب اور اندھی بڑھیا گاڑی میں سفر کررہی تھی۔ اس کے پاس اوڑھنے کیلئے صرف ایک ہی چادر تھی۔ کسی نے اسے اُٹھالیا لیکن جب چادر کھِسکی تو وہ سمجھ گئی کہ کسی نے میری چادر اُٹھائی ہے اور کہنے لگی کہ بھائیا حاجیا۔ یعنی بھائی حاجی صاحب مجھ غریب اندھی کی چادر تو نہ اُٹھائیں۔ اٹھانے والے نے چادر تو آہستہ سے رکھ دی مگر کہا کہ مائی یہ بتائو تمہیں کیسے پتہ لگا کہ میں حاجی ہوں۔ اس بڑھیا نے کہا کہ اس قدر سخت سنگدلی کا کام سوائے حاجی کے کون کرسکتا ہے کہ مجھ ایسی غریب، اندھی بڑھیا کی اس قدر سخت سردی کے وقت چادر اٹھالے جائے۔ پھر میں نے اپنے کانوں سے سُنا اور آنکھوں سے دیکھا ہے کہ سورت ۸؎کا ایک حاجی منیٰ اور مکہ کے درمیان سفر کرتے وقت جو حج کا موقع ہوتا ہے اور جب سب حاجی لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَکَ لَبَّیْکَکہتے جارہے ہوتے ہیں، اردو کے نہایت گندے عشقیہ شعر پڑھ رہا تھا۔ واپسی کے وقت وہ اسی جہاز میں تھا جس میں مَیں سفر کررہا تھا۔ میں نے اسے پوچھا کہ آپ کو حج کی کیاضرورت پیش آئی تھی جبکہ آپ حج کے موقع پر عشقیہ شعر پڑھ رہے تھے۔ تو اس نے کہا کہ ہمارے پاس والی دکان کے بورڈ پر چونکہ حاجی کا لفظ لکھا ہے، وہاں خریدار بہت آتے ہیں۔میرے والد نے کہا کہ تم بھی حج کر آئو تا ہم بھی بورڈ پر لفظ حاجی لکھواسکیں اور ہمارا بھی سَودا زیادہ فروخت ہو۔ اس کی اپنی دینی حالت کا تو یہ حال تھا لیکن جب اسے علم ہؤا کہ میں احمدی ہوں تو میں نے خود اسے ایک دوسرے شخص سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں حیران ہوں ایسا شخص جہاز میں پھررہا ہے اور پھر بھی یہ جہاز غرق نہیں ہوتا۔ گویا اس کے نزدیک احمدیت ایسی بُغض والی چیز تھی کہ جس جہاز میں کوئی احمدی سوار ہو اللہ تعالیٰ کو چاہئے تھا کہ اسے غرق کردیتا۔ خواہ اس کے ساتھ ہزار اس کے ہم عقیدہ لوگ بھی غرق ہوجاتے۔ پس حج بھی بُری چیز ہوسکتی ہے اس لئے مومن کا کام ہے کہ مناسبِ موقع نیکیوں کی صورتوں میں تبدیلی کرتا رہے۔ ہاں جو چیز بدلنے والی نہیں وہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے۔ اس کے سوا نماز، روزہ ، حج، صدقہ خیرات، دیانت، امانت اورسچ سب کے استعمال کے مواقع میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ غیبت سچ ہی کا نام ہے مگر چونکہ یہ خداتعالیٰ کی محبت کیلئے نہیں ہوتی اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۹؎تم ایک شخص کو بعینہٖ وہی گالی جا کر سناتے ہو جو دوسرے نے تمہارے سامنے اسے دی تھی اور اس میں کوئی غلطی نہیں کرتے۔ تم کہتے ہو فلاں شخص نے کہا تھا کہ زید بڑا خبیث ہے۔ یہ چار الفاظ ہیں جن کے بیان کرنے میں کوئی بچہ بھی غلطی نہیں کرسکتا اور اس کا ایک ایک حرف یاد رکھ سکتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قسم کا سچ بولنے والے پر اس کی *** نازل ہوتی ہے۔ یہ کیوں؟ اس لئے کہ اس موقع پر خداتعالیٰ کا حکم تھا کہ کچھ بھی نہ بولو۔ اس نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ جھوٹ بولو بلکہ یہ کہ چُپ رہو۔ چُپ رہنا اور بات ہے اور جھوٹ بولنا اَور ۔ تو ہر سچائی خداتعالیٰ کے رحم کو جذب کرنے کا موجب نہیں ہؤا کرتی بلکہ کئی سچائیاں جو فتنہ و فساد پیدا کرنے والی ہوں ان کا بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب اور اس کی *** کا مورد بنادیتا ہے۔
پس ضروری ہے کہ ہم اپنے کاموں کے متعلق غور کرتے رہیں اور ان میں مناسب تبدیلیوں کا خیال رکھیں۔ اس لئے احباب دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی کرے تا ہم صحیح رستہ پر پہنچنے کی بجائے کسی اور غلطی میں مبتلا نہ ہوجائیں۔اللہ تعالیٰ کی نصرت دعائوں سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ بے شک اسے اپنا سلسلہ بہت پیارا ہے اور جن کو وہ سلسلہ کے کام کیلئے کھڑا کرتاہے، ان کی مدد بھی کرتا ہے لیکن جب وہ اور اس کے ساتھی دعائوں میں لگ جائیں تو وہ اللہ تعالیٰ کو اور بھی زیادہ محبوب ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات بھی بہت پیاری ہے کہ میرے بندے مجھ سے مانگیں۔ آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ اگر بچہ ماں سے کوئی چیز مانگے نہیں تو وہ اپنے دل میں کُڑھتی ہے کہ میرا بچہ مجھ سے کبھی کوئی خواہش نہیں کرتا۔ ساٹھ ستر فی صدی مائیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب ان کا بچہ پہلے پہل ان سے کوئی مٹھائی یا پیسہ مانگتا ہے تو وہ اس قدر خوش ہوتی ہیں کہ گویا ساری دنیا کی بادشاہت انہیں حاصل ہوگئی۔
پس اللہ تعالیٰ اس بات سے بھی خوش ہوتا ہے کہ میرے بندے مجھ سے مانگیں اور جب اُس سے مانگا جائے تو اُس کا فضل بڑھ جاتا ہے اس لئے ہمیں خاص طور پر دعائیں کرنی چاہئیں کہ جماعت کو ترقی حاصل ہو اور اس کے فضل ہم پر بڑھتے جائیں‘‘۔
(الفضل ۲؍ مارچ ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الاعراف: ۱۵۷
۲؎ مسلم کتاب الصیام باب اَجرالمُفْطر فِی السَّفَرِ(الخ)
۳؎ الماعون: ۵ تا ۷
۴؎ کنزالعمال جلد ۷ صفحہ ۴۱۷ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ء (مفہوماً)
۵؎
۶؎ سیرت ابن ھشام جلد ۳ صفحہ ۳۲۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۷؎ بنی اسرائیل: ۲۸
۸؎ سُوْرت: کسی زمانہ میں مغربی ہند کا مشہور تجارتی مرکز اور سفرِ حجاز کی سب سے بڑی بندرگاہ تھی اس وجہ سے اسے ’’باب المکہ‘‘ اور ’’بندرِ مبارک‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ ۱۷۹۷ء میں اس کی آبادی آٹھ لاکھ سے کم نہ تھی۔ یہ شہر ابتداء سے ہی پارسیوں کا خاص مرکز رہا ہے۔ مغلوں کے ماتحت بندر گاہ کے طور پر اِس شہر کو ترقی ہوئی۔ سترہویں، اٹھارہویں صدی میں بڑا تجارتی مرکز رہا۔ سترہویں صدی کے اواخر میں یہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کا صدر مقام بن گیا تھا۔ (اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۱ صفحہ ۷۹۳ لاہور۔ ۱۹۸۷ئ)
۹؎ الھمزۃ: ۲

۹
رحم میں وسعت اختیار کرو
(فرمودہ ۴؍ مارچ ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اللہ تعالیٰ کی جماعتیں یعنی حزبُ اللہ اور خدا کا گروہ جب کبھی دنیا میں قائم ہوتا ہے تو اس کو تمام دنیا سے ایک روحانی جنگ کرنی پڑتی ہے۔ لیکن روحانی جنگ سب سے پہلے انسان کو اپنے نفس سے کرنی ضروری ہوتی ہے کیونکہ ایسا شخص جس کا گھر دشمن کے قبضہ میں ہو وہ باہر جاکر نہیں لڑسکتا۔ جس کا کوئی مُلک ہی نہ ہو اس نے جنگ کیا کرنی ہے۔ اسی طرح جس شخص کے دل پر شیطانی قبضہ ہو اُس نے شیطانی مظاہر کا دنیا میں مقابلہ کیا کرنا ہے۔ آخر فوجوں کے رکھنے کیلئے یا ذخیروں کے رکھنے کیلئے یا گولہ وبارود رکھنے کیلئے یا اور سامانِ جنگ رکھنے کیلئے کوئی مُلک چاہئے بے مُلک تو کوئی فوج نہیں ہوتی۔ لازماً وہ فوج کہیں سے کھانا مہیا کرے گی، کہیں سے پانی مہیا کرے گی، کہیں سے سامانِ جنگ مہیا کرے گی، کہیں قلعے بنائے گی، کہیں سپاہیوں کیلئے بسیرے اور جگہیں بنائے گی، کہیں خندقیں کھودے گی اور کہیں گھوڑے کھڑے کرے گی اور اگرباقی ضرورتوں کو مدنظر نہ رکھا جائے تو بھی کم سے کم سپاہیوں کے ڈیروں کیلئے ہی ایک وسیع علاقہ کی ضرورت ہوگی مگر جس کا ملک ہی نہیں وہ یہ انتظام کس طرح کرسکتا ہے۔
اس اصل کے ماتحت روحانی فوج کیلئے بھی مُلک کی ضرورت ہؤا کرتی ہے مگر روحانی فوج کا مُلک انسان کا دل ہوتا ہے اور جس شخص کا دل اپنے قبضہ میں نہ ہو وہ روحانی معارف کی فوج کہاں رکھے گا اور اس کے قدم کس جگہ ٹِکیں گے۔ تم کہو گے زمین پر۔ مگر روحانی جنگ زمین پرنہیں لڑی جاتی بلکہ وہ جنگ دلوں میں کی جاتی ہے، وہ جنگ دماغوں میں کی جاتی ہے اور جو جنگ دلوں اور دماغوں میں کی جانی ہو وہاں روحانی ہتھیاروں کی ہی ضرورت ہوگی اور وہ روحانی ہتھیار تقویٰ و طہارت اور وہ معارف و علوم ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل پر نازل ہوتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا دل اور دماغ اپنا نہیں تو وہ ان چیزوں کو رکھے گا کہاں ؟پس روحانی جماعتوں کو اپنے دل اور اپنے دماغ کی صفائی کی طرف سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس شخص کا دماغ صاف نہیں اس کے افکار صاف نہیں ہوسکتے کیونکہ تدبر کا تعلق فکر کے ساتھ ہوتا ہے اور جس شخص کا دل صاف نہیں اس کا تقویٰ صاف نہیں ہوسکتا اور جس کا تقویٰ صاف نہیں اسے خداتعالیٰ کی نصرت اور تائید کبھی حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ جذبات کا اصل مقام دل ہے گو ان کا ظہور دماغ کے اعصاب کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔
سائنسدان اِس بات پر بحثیں کرتے چلے آئے ہیں کہ انسانی روح کا منبع درحقیقت دماغ ہے دل نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ روح کی حقیقت کو نہیں پاسکے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ انسانی روح کا جیسا کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیموں اور رئویا و کشوف سے پتہ چلتا ہے دل سے تعلق ہے۔ ہاں دماغ چونکہ منبتِ ۱؎اعصاب ہے اس لئے قلبی علوم کو محسوس کرنا اور دل کے علومِ مخفیہ سے مستفیض ہونا اس کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حیات کا مقام دل کو قرار دیا ہے دماغ کو نہیں۔ اور روح کا سب سے گہرا تعلق اُسی عضو سے ہوسکتا ہے جو انسانی جسم میں سب سے اہم حیثیت رکھتا ہو اور جس کا کام سب سے نمایاں ہو اور وہ اہم کام دل کا ہی ہے دماغ کا نہیں۔ دل کی ایک سیکنڈ کی حرکت بند ہونے سے کلّی طور پر انسان پر موت وارد ہوجاتی ہے لیکن دماغ میں اگر کوئی فتور پیدا ہوجائے تو گو اس وجہ سے کہ دماغ کا کام علومِ قلبیہ کو محسوس کرناہے، علوم پردہ میں آجاتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ انسان پر موت بھی وارد ہوجائے۔ تو دماغ خادم ہے اور دل وہ اصل مرکز ہے جہاں اللہ تعالیٰ اپنے انوار نازل فرماتا ہے۔ خیر یہ تو ایک لمبی بحث ہے جس میں مَیں اس وقت نہیں پڑنا چاہتا۔ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک مؤمن کیلئے اپنے دل اور دماغ کی صفائی نہایت ضروری ہوتی ہے۔ ایک شخص خواہ فلسفیوں کے تتبُّع میں تدبر اورتفکّر اور اخلاقِ فاضلہ کا تمام مدار دماغ پر ر کھے یا یہ کہے کہ انسانی عقل اور معرفت کا سرچشمہ دل ہے اور دماغ کو علوم اور معارف سے کچھ تعلق نہیں پھر خواہ وہ دل اور دماغ کی بجائے جذبات اور افکار کا لفظ استعمال کرے بہرحال کوئی بھی صورت ہو انسان کیلئے دو چیزوں کی صفائی نہایت ضروری ہے جن میں سے ایک فکر ہے اور دوسری جذبات ِلطیفہ۔ انسان کے گہرے جذبات یعنی جذبات کی حِسّ نہ کہ عارضی جذبے قلوب کی صفائی سے پیدا ہوتے ہیں اور افکار کی صفائی جسے عربی میں تنویر کہتے ہیں دماغ کی صفائی سے حاصل ہوتی ہے۔ تنویر اِس بات کو کہتے ہیں کہ انسان کے اندر ایسا نور پیدا ہوجائے کہ اسے ہمیشہ خیالِ صحیح پیدا ہو۔ فعلاً صحیح خیال کا پیدا ہونا تنویر نہیں بلکہ ایسے ملکہ کا پیدا ہوجانا کہ ہمیشہ صحیح خیالات ہی پیدا ہوتے رہیں تنویر ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے میں نے خود سُنا ہے۔ بعض دفعہ جب آپ سے کوئی فقہی مسئلہ پوچھا جاتا تو چونکہ یہ مسائل زیادہ تر انہی لوگوں کو یاد ہوتے ہیں جو ہر وقت اسی کام میں لگے رہتے ہیں۔ بسااوقات آپ فرمادیا کرتے کہ جائو مولوی نورالدین صاحب سے پوچھ لو یا مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کا نام لیتے کہ ان سے پوچھ لو یا مولوی سید محمد احسن صاحب کا نام لے کر فرماتے کہ ان سے پوچھ لو یا کسی اور مولوی کا نام لے لیتے اور بعض دفعہ جب آپ دیکھتے کہ اس مسئلہ کا کسی ایسے امر سے تعلق ہے جہاں بحیثیت مأمور آپ کیلئے دنیا کی راہنمائی کرنا ضروری ہے تو آپ خود مسئلہ بتادیتے۔ مگر جب کسی مسئلہ کا جدید اصلاح سے تعلق نہ ہوتا تو آپ فرمادیتے کہ فلاں مولوی صاحب سے پوچھ لیں اور اگر وہ مولوی صاحب مجلس میں ہی بیٹھے ہوئے ہوتے تو اُن سے فرماتے کہ مولوی صاحب یہ مسئلہ کس طرح ہے۔ مگر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ جب آپ کہتے کہ فلاں مولوی صاحب سے یہ مسئلہ دریافت کرلو تو ساتھ ہی آپ یہ بھی فرماتے کہ ہماری فطرت یہ کہتی ہے کہ یہ مسئلہ یوں ہونا چاہئے اور پھر فرماتے ہم نے تجربہ کیا ہے کہ باوجود اس کے کہ کوئی مسئلہ ہمیںمعلوم نہ ہو اُس کے متعلق جو آواز ہماری فطرت سے اُٹھے بعد میں وہ مسئلہ اسی رنگ میں حدیث اور سنت سے ثابت ہوتا ہے۔ یہ چیز ہے جو تنویر کہلاتی ہے۔ تو تنویر اس بات کو کہتے ہیں کہ انسانی دماغ میں جو خیالات بھی پیدا ہوں وہ درست ہوں۔ جس طرح ایک تندرستی تو یہ ہوتی ہے کہ انسان کہے میں اِس وقت تندرست ہوں۔ اور ایک تندرستی یہ ہوتی ہے کہ انسان آگے بھی تندرست رہے۔ تو تنویر وہ فکر کی درستی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ جو خیالات بھی پیدا ہوں درست ہی ہوں۔ تو روحانی ترقی کیلئے تنویرِ فکر ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح روحانی ترقی کیلئے تقویٰ اور طہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو تنویر کے معنے دماغ کی نسبت سے ہیں وہی تقویٰ کے معنی دل کی نسبت سے ہیں۔ ہمارے لوگ عام طور پر غلطی سے نیکی اور تقویٰ کو ایک چیزسمجھ لیتے ہیں حالانکہ نیکی وہ نیک کام ہوتا ہے جو ہم کرچکے ہیں یا آئندہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر تقویٰ یہ ہے کہ انسان ایسے مقام پر کھڑا ہوجائے کہ اس کے اندر آئندہ جو جذبات بھی پیدا ہوں وہ نیک ہوں۔ تو افکار کیلئے تنویر اور جذبات کیلئے تقویٰ کالفظ استعمال کیا جاتا ہے اور جب کسی انسان کو تنویرِ افکاراور تقویٔ قلب حاصل ہوجائے تو وہ بدی کے حملہ سے بالکل محفوظ ہوجاتا ہے اور ایسا انسان اللہ تعالیٰ کے فضل کے نیچے آجاتا ہے۔
پس یہ دو چیزیں ہیں جن کی جماعت کو ضرورت ہے۔ ایک تو یہ کہ ہمارے خیالات صحیح ہوں اور ہمارے جذبات پاکیزہ ہوں۔ اور دوسری یہ کہ نہ صرف ہمارے خیالات صحیح ہوں بلکہ ہمارے اندر ایسا ملکہ پیدا ہوجائے کہ آئندہ جب بھی ہمیں کوئی خیال پیدا ہو وہ صحیح ہو اور نہ صرف ہمارے جذبات پاکیزہ ہوں بلکہ ہمارے اندر ایسا ملکہ پیدا ہوجائے کہ آئندہ جب بھی ہمارے اندر جذبات پیدا ہوں وہ پاکیزہ ہوں۔ اول امر کو تنویر کہتے ہیں اور دوسرے امر کو تقویٰ۔ چنانچہ خداتعالیٰ کی طرف سے کسی دماغ کو تنویر عطا کی جاتی ہے اور کسی کے دل میں ایسا مادہ تقویٰ پیدا کردیا جاتا ہے کہ باوجود کسی بات کو نہ جاننے کے وہ سمجھ جاتا ہے کہ شیطان اس موقع پر مجھے دھوکا دے رہا ہے۔
چند بزرگوں کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ وہ اکٹھے مل کر سفر کررہے تھے کہ راستہ میںایک شخص نے مہمان نوازی کے طور پر ان کی دعوت کی اور کھانا ان کے سامنے رکھا۔ جب وہ کھانا کھانے کیلئے بیٹھے تو معاً سب نے اپنے ہاتھ کھینچ لئے۔ جب انہوں نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ آپ نے ہاتھ کیوں کھینچے ہیں؟ تو ہر ایک نے یہی کہا کہ یہ کھانا طیب معلوم نہیں ہوتا۔ آخر جس نے دعوت کی تھی اُسے بُلا کر انہوں نے پوچھا۔ تو مجھے اب اچھی طرح یاد نہیں اُس نے جانور کے متعلق یہ کہا کہ وہ مرگیا تھا اور میں نے اس کا گوشت حاصل کرلیا یا اَور کوئی ایسی ہی بات تھی اور اس طرح اس نے اقرار کیا کہ واقعہ میں یہ کھانا جائز نہیںتھا۔ آخر اس نے پوچھا کہ آپ لوگوں نے یہ کیونکر معلوم کرلیا کہ یہ کھانا ناجائز ہے؟ تو ان سب نے یہ جواب دیا کہ جب یہ کھانا ہمارے سامنے رکھا گیا تو ہمارے نفس میں اس کے کھانے کیلئے خاص طور پر رغبت پیدا ہوئی۔ جس سے ہم نے یہ سمجھا کہ یہ ضرور کوئی گناہ والی بات ہے تبھی ہمارا نفس اس قدر رغبت کا اظہار کررہا ہے۔ اب یہ ایک جذباتی امر ہے، افکار سے اس کا تعلق نہیں کیونکہ فکر ظاہری باتوں پر غور کرکے دلیل کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ تو جب انسان ایسے مقام پر کھڑا ہوجائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی خودبخود راہنمائی ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کو ایسی مخفی ہدایت ملتی ہے جسے الہام بھی نہیں کہہ سکتے اور جس کے متعلق ہم یہ بھی نہیںکہہ سکتے کہ وہ الہام سے جُدا امر ہے۔ الہام تو ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ وہ لفظی الہام نہیں ہوتا اور عدمِ الہام ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ وہ عملی الہام ہوتا ہے اور انسانی قلب پر اللہ تعالیٰ کا نور نازل ہوکر یہ بتادیتا ہے کہ معاملہ یوں ہے حالانکہ لفظوں میںیہ بات نہیں بتائی جاتی۔ بعض دفعہ جب اس سے بھی واضح رنگ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات بتائی جاتی ہے تو اسے کشف کہہ دیتے ہیں۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ بہت سے آدمی جب میرے سامنے آتے ہیں تو ان کے اندر سے مجھے ایسی شعاعیں نکلتی معلوم دیتی ہیں جن سے مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کے اندر یہ یہ عیب ہے یا یہ یہ خوبی ہے۔ مگر یہ اجازت نہیں ہوتی کہ انہیں اس عیب سے مطلع کیا جائے۔ میں نے اپنے طور پر بھی دیکھا ہے کہ بعض دفعہ جب کوئی شخص مجھ سے ملتا ہے تو اس شخص کے قلب میں سے ایسی شعاعیں نکلتی دکھائی دیتی ہیں جن سے صاف طور پر اس کا اندرونہ کھل جاتا ہے اور معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے اندر کوئی کپٹ ۲؎ہے یا غصہ ہے یا محبت ہے۔
ایک دفعہ ایک دوست مجھ سے ملنے آئے۔ وہ نہایت ہی مخلص تھے۔ مگر مجھ پر اُس وقت اثر ایسا پڑا جس سے میں نے محسوس کیا کہ ان کے دل میں کوئی خرابی پیدا ہوچکی ہے۔ میں نے بعض دوستوں سے اس کا ذکر کیا کہ مجھے ایسا نظارہ نظر آیا ہے مگر انہوں نے اس دوست کی بڑی تعریف کی حالانکہ میرے ساتھ ایسا کئی دفعہ ہؤا ہے کہ ایک شخص مجھ سے ملنے آیا اور وہ حقیقت میں مخلص ہے تو میں نے محسوس کیا کہ میری روح میں سے کوئی چیز نکل رہی ہے اور اس کی روح میں سے بھی کوئی چیز نکل رہی ہے اور وہ آپس میں مل گئی ہیں۔ مگر جب دوسرا شخص مخلص نہ ہو تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ میری روح اس کی روح کو دھکا دے رہی ہے۔ اس طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ اس شخص کے دل میں جذباتِ تنافر پائے جاتے ہیں۔ مگر جب ارواح کا اتّصال ہوجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جذبات محبت پائے جاتے ہیں۔ پس وہ دوست بھی جب مجھ سے ملنے آئے تو میری فطرت نے محسوس کیا کہ ان کے اندر خرابی پیدا ہوچکی ہے حالانکہ وہ اُس وقت نہایت مخلص تھے۔ آخر سالہا سال کے بعد اس دوست کو ٹھوکر لگی اور پھر ان کے خیالات میں بھی کئی تبدیلیاںپیدا ہوگئیں۔ گویہ بات ابتلاء تک ہی رہی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں گمراہ ہونے سے بچالیا مگر بہرحال بات ظاہر ہوگئی اور ان کے اندر جو تنافر اور سلسلہ کے کاموں سے بے رغبتی کا جذبہ کام کررہا تھا وہ ظاہر ہوگیا۔
پس ایسا معاملہ میرے ساتھ بھی کئی دفعہ ہؤا ہے۔ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا تھا اور میرے ساتھ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ جب تک انسان اپنی فطرت کو آپ ظاہر نہیں کردیتا وہ اسے مجرم قرار نہیں دیتا اس لئے اس سنت کے ماتحت انبیاء اور ان کے اظلال کا بھی یہی طریق ہے کہ وہ اُس وقت تک کسی شخص کے اندرونی عیب کا کسی سے ذکر نہیں کرتے جب تک وہ اپنے عیب کو آپ ظاہر نہ کردے۔ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا اس بات سے ہی علم ہوسکتا ہے کہ ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اُسی وقت یہ جانتا ہے کہ بڑا ہوکر یہ مثلاً ڈاکو بنے گا۔ مگر خداتعالیٰ باوجود علم کے اُسے سزا نہیں دیتا۔ یا ایک شخص کے دل میں گناہ کے خیالات پیدا ہورہے ہوتے ہیں مگر خداتعالیٰ دل کے خیالات پر اُس وقت تک گرفت نہیں کرتا جب تک عمل سے ان خیالات کو وہ پورا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ یہی حال اس کے مقربین کا بھی ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے کسی بندے کو دوسرے کا عیب بتاتا ہے تو ساتھ ہی یہ حکم بھی دے دیتا ہے کہ اس عیب کو ظاہر نہ کرو کیونکہ اُس وقت جب ایک شخص ظاہر میں نیک کہلاتا ہو اُس کی ظاہری نیک نامی کو برباد کرنا بھی گناہ ہوتا ہے۔
غرض ہماری جماعت کو دنیا کا روحانی ہتھیاروں سے مقابلہ کرنے کیلئے اپنے قلوب کی اصلاح کرنی چاہئے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ غصہ اور جوش میں آجاتے ہیں۔ کئی ہیںجو امانت میں خیانت کرتے ہیں، کئی ہیں جو اپنی ذمہ داری کو صحیح رنگ میں ادا نہیںکرتے۔ یہ مثالیں جہاں غیراز جماعت لوگوں پر بُرا اثر ڈالتی ہیں وہاں اپنی جماعت کے بعض لوگ بھی ایسے لوگوں کو دیکھ کر عمل میں سُست ہوجاتے ہیں حالانکہ تم نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک شخص خودکشی کرے تو اسے دیکھ کر سارے لوگ خود کشی کرنے لگ جائیں مگر دنیا میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو دوسروں کو جب نیک اعمال میں سُستی کرتے دیکھتے ہیں تو خود بھی سُستی کرنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو دوسروں کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اس گناہ کی نقل کریں بلکہ ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اس گناہ کو روکیں اور خود اس سے بچنے کی کوشش کریں۔ تم نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ جب ڈاکہ یا چوری کی وارداتیں لوگ سُنیں تو ڈاکہ اور چوری کو پسند کرنے لگ جائیں۔ پھر اگر ڈاکہ اور چوری جو تمدنی گناہ ہیں، اُنہیں دیکھ کر ڈاکہ اور چوری سے نفرت ہی پیدا ہوتی ہے، ان کی طرف رغبت پیدا نہیں ہوتی توجو اخلاقی اور مذہبی گناہ ہیں انہیں دیکھ کر بھی نفرت ہی پیدا ہونی چاہئے۔ اگر ایک ڈاکہ کی واردات سن کر سارے زمیندار یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ فلاں نے بہت بُرا کیا تو کسی کے متعلق یہ سن کر کہ وہ نمازیں نہیں پڑھتا ایک شخص کے دل پر یہ اثر ہونا کہ معلوم ہوتا ہے یہ معمولی بات ہے آئندہ میں بھی ایسا ہی کروں گا، محض حماقت اور نادانی ہے۔ پس بُری مثالوں سے اپنی قوتِ عمل کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہئے اور نہ بُری باتوں کی تشہیر کرنی چاہئے کیونکہ اس طرح بدی دنیا میں کثرت سے پھیل جاتی ہے۔ یہی امر خداتعالیٰ نے سورئہ نور میں ۳؎ میںبیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ بُری باتوں کا مجالس میں تذکرہ نہیں کرنا چاہئے ورنہ لوگ عام طور پر ان باتوں میں مبتلا ہوجائیں گے۔
میں نے ابھی کہا ہے کہ دنیا میں لوگ کثرت سے ڈاکہ اور چوری وغیرہ بُرے افعال سے نفرت کرتے ہیں لیکن باوجود اس کے میں کہتا ہوں کہ اگر یہ واقعات بجائے شاذونادر ہونے کے کثرت سے ہونے لگ جائیں یا ان کا ذکر لوگوں میں کثرت سے ہونے لگے تو تھوڑے ہی دنوں میںتم دیکھو گے کہ ڈاکہ کی وارداتیں زیادہ ہونے لگیں ہیں جیسے گجرات، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ وغیرہ اضلاع میں کئی بڑے بڑے شریف نمازی اور تہجد گزار کہلانے والے دوسرے کی بھینس کھول کر گھر لے آئیں گے اور اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں کریں گے کہ انہوں نے کوئی بُرا کام کیا ہے۔ میرے ایک دفعہ گھوڑے چوری ہوگئے۔ توایک احمدی نے جو پہلے چوروں کے ساتھ مل کر چوریاں کیا کرتے تھے مجھے کہلا بھیجا کہ آ پ ہمیں اجازت دیں تو ہم سارے علاقہ کو سیدھا کردیتے ہیں۔ میں نے پیغامبر کو جواب دیا کہہ دینا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں توبہ کی توفیق عطا فرمائی ہے، اب یہی بہتر ہے کہ آپ اپنی توبہ پر قائم رہیں اور اس کو توڑنے کی کوشش نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اَور گھوڑے دے دے گا۔
غرض بعض علاقوں میں جانوروں کی چوری کی اتنی کثرت ہے کہ اسے اعلیٰ درجہ کا بہادری کا فن سمجھاجاتا ہے۔ مثلاً گجرات کے علاقہ میں ہی بعض اقوام میں پہلے یہ رواج ہؤا کرتا تھا گو اب شاید نہیں کہ بیٹے کو پگڑی نہیں پہناتے تھے جب تک وہ ایک چوری کی بھینس اپنی بہن کو لاکر نہ دے۔ لڑکا جب جوان ہوجاتا اور پگڑی اُس کے سر پر نہ ہوتی تو اپنے رشتہ دار اسے طعنے دیتے اور کہتے بے حیا! اتنا بڑا ہوگیا ہے مگر اب تک اس سے اتنا بھی نہیں ہوسکا کہ ایک بھینس چُرا کر اپنی بہن کو لادے اور اپنے سر پر پگڑی بندھوائے۔ اس طرح پر ہر نوجوان کو چوری پر مجبور کیا جاتا اور وہ بڑا ہوکر جانوروں کا چور بنتا۔
ہماری جماعت کے ایک مخلص احمدی ہیں بلکہ اب تو وہ ہجرت کرکے قادیان آئے ہوئے ہیں۔ جب وہ شروع شروع میں آئے تو ان کا ایک لڑکا ان کے ساتھ تھا جس کے سر پر پگڑی نہیں تھی۔ ہماری والدہ صاحبہ حضرت اماں جان نے گھر میں ان کی اہلیہ سے دریافت کیا کہ اس بچے کے سر پر پگڑی کیوں نہیں تو اس نے بتایا کہ جب یہ کسی کی بھینس چُرا کر اپنی بہن کو لاکر دے گا تب اس کے سر پر پگڑی باندھی جائے گی۔ کیونکہ یہ ہمارے علاقہ کا دستور ہے۔ گو وہ دوست ہمیشہ یہ واقعہ سُن کر شرمندہ ہؤا کرتے ہیں اور کہتے ہیںکہ یہ بات نہیں تھی میرے گھر والوں نے صرف ہنسی سے ایسا ذکر کیا تھا مگر بہرحال ان کے علاقہ میں یہ رواج تو تھا تبھی ان کی اہلیہ نے ذکر کیا۔ یہی بات ایک دفعہ ہمارے ناناجان حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے سُنی تو اس کا ان پر اتنا اثر ہؤا کہ ایک دفعہ جبکہ مجلس میں بعض اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے، برسبیلِ تذکرہ وہ کہنے لگے کہ گجرات کا ہر شخص چور ہوتا ہے۔ میرے ذہن میں اُس وقت یہ حکایت نہیں تھی۔ میں نے کہا یہ صحیح نہیں۔ ہر علاقہ میں نیک لوگ بھی ہوتے ہیں۔ کہنے لگے نہیں گجرات کا ہر شخص چور ہوتا ہے۔ میں نے کہا میر صاحب! آپ کی یہ بات درست نہیں۔ ہماری جماعت میں بھی اس علاقہ کے لوگ شامل ہیں اور وہ بڑے نیک ہیں۔ وہ میری اس بات پر بھی کہنے لگے خواہ کچھ ہو چور ضرور ہوں گے۔ میرا ذہن اُس وقت تک بھی اس قصہ کی طرف نہیں گیا اور میں نے چند دوستوں کے نام لئے کہ دیکھیں فلاں دوست کیسے نیک ہیں، فلاں دوست کیسے نیک ہیں۔ وہ کہنے لگے اگر وہ گجرات کے ہیں تو چور ضرر ہوں گے۔ اِس دوران میں چونکہ ایک مذاق کی صورت پیدا ہوگئی تھی اس لئے میں نے نام لے کر کہا کہ حافظ روشن علی صاحب گجرات کے علاقہ کے ہیں، کیا وہ بھی چور ہیں؟ میرے اس جواب پر میر صاحب کہنے لگے حافظ روشن علی صاحب گجرات کے ہیں؟ میں نے کہا ہاں۔ اس پر وہ پہلے تو ذرا رُک گئے پھر بولے اگر وہ گجرات کے ہیں تو وہ بھی چور ہوں گے۔ آخر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنے وثوق سے یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں۔ تو انہوں نے کہاکہ وہاں تو دستور ہے کہ بچہ کے سر پر اُس وقت تک پگڑی نہیں باندھتے جب تک وہ ایک بھینس چُرا کر گھر میں نہ لے آئے۔ اس تشریح سے غالباً گجرات کے دوستوں کے دل کی تکلیف جاتی رہے گی۔ ورنہ پہلے تو انہیں ان کی بات بُری ہی لگی ہوگی۔ اب یہ جو رسم ان علاقوں میں ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ ان اضلاع میںچونکہ ہر وقت جانوروں کی چوری کا ذکر ہوتا رہتا ہے اس لئے سارے علاقہ میں چوری کا رواج ہوگیا ہے۔ یوں اگر وہ سُنیں کہ کسی نے دوسرے کا روپیہ اُٹھالیا ہے تو وہ بھی بُرا مناتے ہیں لیکن جانوروں کی چوری کے ذکر پر ان کے دلوں میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس کا ذکر ان میں عام ہے اور جس بدی کا ذکر عام ہوجائے وہ قوم کے افراد میں پھیل جاتی ہے۔ اسی طرح پٹھانوں میں قتل کا رواج ہے اور وہ اسے کوئی عیب نہیں سمجھتے کیونکہ ہر وقت ان میں قتل کا چرچا رہتا ہے۔
مثل مشہور ہے کہ کسی پٹھان کا لڑکا ایک ہندو سے پڑھتا تھا۔ ایک دن استاد کسی بات پر ناراض ہؤا تو لڑکے نے تلوار اُٹھالی اور چاہا کہ اسے قتل کردے۔ وہ ہندو آگے آگے بھاگا اور لڑکا پیچھے پیچھے۔ وہ بھاگتا جارہا تھاکہ رستہ میں اس لڑکے کا باپ مل گیا اس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ باپ اسے روک لے گا کہا خان صاحب دیکھئے آپ کا لڑکا مجھے قتل کرنا چاہتا ہے اسے روکئے۔ اب خان صاحب بجائے اس کے کہ اپنے لڑکے کو روکتے اُس ہندو کو گالی دے کر کہنے لگے اوبنئے! کیا کررہا ہے میرے بیٹے کا پہلا وار ہے، یہ خالی نہ جائے۔ غرض جب اشاعتِ فحش ہو اور بدی کا ذکر عام طور پر لوگوں کی زبان پر ہو تو وہ بدی قوم میں پھیل جاتی ہے اسی لئے ہماری شریعت نے عیوب کا عام تذکرہ ممنوع قرار دیا ہے اور فرمایا ہے جو ہیں ان تک بات پہنچادو اور خود خاموش رہو۔ اگر ایسا نہ کیا جائے اور ہر شخص کو یہ اجازت ہو کہ وہ دوسرے کا جو عیب بھی سُنے اسے بیان کرتا پھرے تو اس کے نتیجہ میں قلوب میں سے بدی کا احساس مٹ جاتا ہے اور بُرائی پر دلیری پیدا ہوجاتی ہے۔ پس اسلام نے بدی کی اس جڑ کو مٹایا اور حکم دیا کہ تمہیں جب کوئی بُرائی معلوم ہو تو۴؎ کے پاس معاملہ پہنچائو جو سزا دینے کا بھی اختیار رکھتے ہیں اور تربیتِ نفوس اور اصلاحِ قلوب کیلئے اَور تدابیر بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ اسی طرح بدی کی تشہیر نہیںہوگی، قوم کا کریکٹر محفوظ رہے گا اور لوگوں کی اصلاح بھی ہوجائے گی۔
پس یاد رکھو کہ نیکی کی تشہیر اور بدی کا اخفا یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ قومیں اس سے بنتی اور قومیں اس سے بِگڑتی ہیں۔ جتنا تم اس بات کا زیادہ ذکر کرو گے کہ فلاں اتنی قربانی کرتا ہے، فلاں اس طرح نمازیں پڑھتا ہے، فلاں اس اہتمام سے روزے رکھتا ہے، اتنا ہی لوگوں کے دلوں میںدین کیلئے قربانی کرنے اور نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے کی خواہش پیدا ہوگی۔ اور جتنی تم اس بات کو شُہرت دو گے کہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں، وہ خیانت کرتے ہیں، وہ چوری کرتے ہیں، وہ ظلم کرتے ہیں، اتنا ہی لوگوں کو ان بدیوں کی طرف رغبت پیدا ہوگی اسی لئے قرآن کریم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ جب تم کسی کی نیکی دیکھو تو اسے خوب پھیلائو اور جب کسی کی بدی دیکھو تو اس پر پردہ ڈالو۔ ایک بلی بھی جب پاخانہ کرتی ہے تو اُس پر مٹی ڈال دیتی ہے پھر انسان کیلئے کس قدر ضروری ہے کہ وہ بدی کی تشہیر نہ کرے بلکہ اُس پر پردہ ڈالے اور اس کے ذکر سے اپنے آپ کو روکے۔ اگر اس ذکر سے اپنے آپ کو نہیں روکا جائے گا تو متعدی امراض کی طرح وہ بدی قوم کے دوسرے افراد میں سرایت کرے گی اور خود اس کا خاندان تو لازماً اس میں مبتلا ہوگا۔
تو بدیوں میں لوگوں کی نقل نہیں کرنی چاہئے بلکہ نیکیوں میں لوگوں کی نقل کرنی چاہئے اور ضمنی طور پر میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ نیکیوں کی تشہیر ضروری ہوتی ہے اور بدیوں کا چھپانا ضروری ہوتا ہے۔ دیکھو باوجود اس بات کے کہ ریاء سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے پھر بھی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ۵؎ یعنی ریاء تو منع ہے لیکن اگر برسبیلِ تذکرہ بغیر اس کے کہ فخر ہو یا خیلاء اور تکبر ہو اگر کبھی تم اپنی نیکیوں کا ذکر کردیا کرو تو یہ اَور لوگوں کیلئے ہدایت کا موجب ہوسکتا ہے اور ایسا کرنا پسندیدہ امر ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق بھی آتا ہے کہ بعض دفعہ جب ضروریاتِ دینی کیلئے آپ صحابہ سے چندہ کا مطالبہ کرتے تو لوگوں کو تحریص دلانے کیلئے فرماتے کہ فلاں نے اتنا چندہ دیا ہے۔ اب کون ہے جو اُس سے سبقت لے جائے۔ اِس پر صحابہ نیکی میں مقابلہ کرتے اور ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے لیکن ایسا کبھی کبھار کرنا چاہئے جب ریاء اور نمائش نہ ہو یا تماشہ کی صورت نہ بن جائے۔ جیسے انجمنوں میں کیا جاتا ہے کہ ایک پنسل رکھ کر کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں یتیم کی پنسل ہے کتنے روپے کی لو گے؟ یہ تماشہ ہے اور اس قسم کا فعل کوئی پسندیدہ فعل نہیں سمجھا جاسکتا۔ لیکن اگر لوگوں کو نیکی کی تحریص و ترغیب دلانے کیلئے بعض دفعہ اپنی نیکی کا ذکر کردیا جائے تو نہ صرف یہ کہ یہ جائز ہے بلکہ بسا اوقات مفید ثابت ہوتا ہے۔
پس ہماری جماعت کو نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دشمن اگر گندے حملے کرتا ہے تو کرے۔ تمہیں اس کے مقابلہ میں گندے حملے کرنے کی کیا ضرورت ہے اور اگر تم بھی ویسا ہی گندہ حملہ کردو تویہ ویسی ہی مثال ہوگی جیسے کہتے ہیں کہ کسی بیوقوف کا کٹورہ کوئی نمبردار مانگ کر لے گیا پھر شاید وہ بھُول گیا یا اُس کا ارادہ ہی واپس کرنے کا نہ رہا۔ حتّٰی کہ کئی دن گزرگئے۔ ایک دن وہ بیوقوف اُس کے گھر چلا گیا اور دیکھا کہ وہ اس کے کٹورے میں ساگ کھارہا ہے۔ وہ کہنے لگا نمبردار! یہ کیسی بُری بات ہے کہ تم مجھ سے کٹورہ مانگ کر لائے اور چار پانچ مہینے ہوگئے مگر تم نے اب تک واپس نہیں کیا۔ پھر وہ اپنے آپ کو گالی دے کر کہنے لگا تم تو ساگ کھارہے ہو میں بھی اگر تمہارے کٹورے میں نجاست ڈال کرنہ کھائوں تو مجھے ایساایسا سمجھنا۔ اب کوئی اُس سے پوچھے کہ اگر تم نجاست ڈال کر کھائو گے تو تم ہی نقصان اُٹھائو گے، اس کا کیا ہوگا۔ تو بدی کے مقابلہ میں بدی کااستعمال کسی صورت میں جائز نہیں۔ دشمن ہر قسم کی شرارتیں کررہا ہے ا ور کرے گا۔ مگر تمہیں جہاں تک ہوسکے اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہئے اور نیکیوں میں بڑھتے چلے جانا چاہئے۔ آخر وہ گند جو ہمارا دشمن اُچھال رہا ہے ہم وہ گند اچھال کس طرح سکتے ہیں جب تک ہم بھی اس کی طرح سچ کو نہ چھوڑدیں۔ اور اگر ہم اس کا مقابلہ کرتے ہوئے سچ کو چھوڑ دیں اور جھوٹ کو اختیار کرلیں تو پھر تو وہی جیتا اور ہم ہارے۔یہی طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی دشمنوں کا تھا اور یہی طریق پہلے انبیاء کے زمانہ میں مخالفین نے اختیار کیا۔ یہ تو منہاجِ نبوت ہے اور ناممکن ہے کہ دشمن جھوٹ اور فریب سے کام نہ لے۔
ابھی پچھلے ایام میں لاہور کے کالج کے جو طالب علم آئے تھے ان کے سامنے میں نے ایک تقریر کرتے ہوئے انہیں بتایا تھا کہ میرے خلاف ایک درخواست شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی طرف سے عدالت میں اِس مضمون کی دی گئی تھی کہ میں نے اپنے ایک خطبہ میں جماعت کے دوستوں کو کہا ہے کہ اپنے دشمنوں کو قتل کرو۔ حالانکہ بات کیا تھی؟ بات صرف اتنی تھی کہ انہوں نے میرے اس خطبہ میں سے ایک فقرہ کہیں سے لے لیا اور دوسرا کہیں سے۔ مثلاً ایک فقرہ اگر میں نے ایک جگہ کہا ہے تو اُس کو لے لیا۔ پھر دو چار کالم چھوڑ کر ایک اور فقرہ لے لیا اور ان دونوں کو ملا کر ایک نتیجہ قائم کرلیا اور کہہ دیا کہ جماعت کو قتل کرنے کی تحریک کی گئی ہے۔ حالانکہ اصل مضمون اس کے بالکل اُلٹ تھا۔ مثلاً میں نے جو کچھ خطبۂ جمعہ میں کہا اور آپ لوگوں میں سے اکثر نے سنا وہ یہ تھا کہ دنیا میں لوگ دو طریق سے کامیاب ہؤا کرتے ہیں۔ یا تو وہ دوسروں کو مار کر ان پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے قومیں ایک دوسرے سے لڑائیاں کرتی اور مدمقابل کو زک پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور یا وہ ماریں کھاتے اور خاموش رہتے ہیں اور اس طرح ان کی مظلومیت ایک دن رنگ لاتی اور انہیں اپنے مقاصد میں کامیاب کرکے دکھادیتی ہے۔ پھر میں نے بتایا کہ گو دُنیوی طریق یہی ہے کہ دوسروں کو ما رکر ان پر غالب آنے کی کوشش کی جائے۔ اگر نبیوں کا طریق جو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور جو انبیاء کی جماعتوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ماریں کھائیں اور خاموش رہیں، گالیاں سُنیں اور دم نہ ماریں۔ اب یہ جو میں نے کہا تھا کہ نبیوں کی جماعتوں والا طریق یہ ہے کہ تم ماریں کھائو اور خاموش رہو۔ اس کو تو انہوں نے حذف کردیا اور میرے اِس فقرہ کو لے لیا کہ کامیابی دشمن کو مار کر حاصل ہوتی ہے۔ حالانکہ میں نے وہاں صاف طور پر بتادیا تھا کہ یہ دُنیوی طریق ہے، انبیاء کا طریق نہیں ہے۔ مگر چونکہ تمام فقرات اگر وہ نقل کردیتے تو ان کا دعویٰ خود ہی باطل ہوجاتا اس لئے انہوں نے کوئی فقرہ کہیں سے لے لیا اور کوئی کہیں سے اور اس کا ایک مفہوم نکال کر کہہ دیا کہ اس میں اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کی تحریک کی گئی ہے۔ یہ ویسی ہی بات ہے جیسے ہم دورانِ گفتگو میںاگر یہ کہیں کہ فلاں چور یہ کہتا ہے کہ چوری کرو تو دوسرا اس فقرہ کے ابتدائی حصہ کو جس میں چور کی طرف بات منسوب کی گئی ہے حذف کرکے کہنا شروع کردے کہ یہ لوگوں کو کہتے پھرتے ہیں کہ چوری کرو اور اُس امر کو چھُپاڈالے کہ چور کا قول نقل کیا گیا تھا نہ کہ اپنی طرف سے بات کہی تھی۔
اسی قسم کے ایک شخص کے متعلق مشہور ہے کہ وہ نماز یں نہیں پڑھا کرتا تھا۔ ایک دن لوگوں نے اس سے دریافت کیا کہ بھئی نماز کیوں نہیں پڑھتے وہ کہنے لگا میں نماز کیا پڑھوں۔ قرآن کریم خود کہتا ہے کہ نماز نہ پڑھو۔ اُنہوں نے کہا کس جگہ؟ وہ کہنے لگا دیکھو قرآن میں صاف لکھا ہے ۶؎ نمازکے قریب بھی مت جائو۔ حالانکہ اس سے اگلا فقرہ ہے ۷؎ یعنی ایسی حالت میں نماز نہ پڑھو جبکہ تم مدہوش ہو۔ جیسے سخت نیند آئی ہوئی ہو یا غصہ میں ہو کیونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں انسان کچھ کا کچھ بکواس کرنے لگتا ہے اور ممکن ہے وہ دعا کرنے کی بجائے بددعا کرنے لگ جائے۔ مگریہ فقرہ چونکہ اس کے مفیدِ مطلب نہیں تھا اس لئے اس نے اسے چھوڑ دیا اور پہلا حصہ لے کر کہہ دیا کہ میں کیا کروں مجبور ہوں۔ اگر قرآن کاحکم نہ مانوں تو گنہگار ٹھہروں۔ لوگوں نے کہا اِس آیت کا ذرا اگلا حصہ بھی پڑھو۔ وہ کہنے لگا سارے قرآن پر کس نے عمل کیا ہے۔ کوئی کسی حصے پر عمل کرلیتا ہے اور کوئی کسی پر۔ میں اس حصے پر عمل کرتا ہوں تم دوسرے پر عمل کرلو۔ اسی طرح اپنے خطبہ میں وہ جو میں نے کہا تھا کہ بعض شریر اور مُفسد لوگ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے خلاف جیسا کہ اسے میں سمجھتاہوں ، چاہتے ہیں کہ تشدد اور سختی سے دشمن کا مقابلہ کریں وہ خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والے ہیں۔ انبیاء کی جماعتیں اسی صورت میں کامیاب ہؤا کرتی ہیں جب وہ وہی طریق اختیار کریں جو خدا نے ان کیلئے مقرر کیا ہے اور جو یہ ہے کہ وہ ماریں کھائیں اور چُپ رہیں۔ اس قسم کے تمام فقرات انہوں نے کاٹ دیئے اور دوسرے نامکمل فقرے لے کر شور مچادیا کہ انہوں نے ہمارے متعلق اپنی جماعت کو کہا ہے کہ انہیں مارو۔ اسی طرح اس خطبہ میں بھی میرا ایک فقرہ ہے اور کئی دوسرے خطبات میں بھی وہ فقرہ آتا ہے کہ دیکھو تم میں سے کئی ہیں جو معمولی باتوں پر اظہارِ غضب کرتے ہیں۔ میں کس طرح مان لوں کہ وہ غیرتمند ہیں۔ اگر وہ سچے ہیں تو دوسروں کو کیوں جوش دلاتے ہیں ، خود انہیںکوئی غیرت نہیں آتی اور وہ اسلام پر اپنی آنکھوں سے دشمن کی طرف سے حملے ہوتے دیکھتے ہیں اور گھروں میں خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔ اب اس کابھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جائو اور دشمن سے لڑو بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم جماعت میں جوش پیدا کرتے ہو اور کہتے ہو کہ ہم اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ یہ جھوٹ ہے اگر ایسا ہوتا تودوسروں کو جوش نہ دلاتے خود اپنے عقیدہ کے مطابق لوگوں سے لڑتے۔ مگر انہوں نے اس فقرہ کا بھی یہ مفہوم لے لیا کہ گویا میں نے لوگوں سے یہ کہا ہے کہ تم لڑتے کیوں نہیں اور بے غیرت بن کر کیوں بیٹھے ہو۔ غرض کوئی فقرہ اس کالم سے اور کوئی اُس کالم سے ،کوئی اِس صفحہ سے اور کوئی دو چار صفحے چھوڑ کر اگلے صفحہ سے انہوں نے لے لیا اور اس طرحوالے فقرہ کی طرح انہوں نے بھی ایک مضمون تیار کرلیا۔ حالانکہ بعض جگہ میں نے اپنی بات نہیں بیان کی بلکہ دنیا کا عام طریق یا دشمن کا مقولہ بیان کیا ہے اور اگر اس طرح استدلال کرنا درست ہو تو قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ اے خدا! دشمنوں کے عمائد ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ تم ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو مت چھوڑو اور ان کی پرستش کئے چلے جائو ۔۸؎ اس کے ابتدائی الفاظ کو جن میں یہ بات کفار کے عمائد کی طرف منسوب کی گئی ہے حذف کرکے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حضرت نوحؑ نَعُوْذُ بِاﷲِ مشرک ہے۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں وُد اور سواع اور دوسرے معبودانِ باطلہ کی پرستش مت چھوڑو۔ مگر کیا کوئی بھی عقلمند اس استدلال کو درست قرار دے گا اسی طرح جن باتوں کی میں نے اس میں تردید کی ہے اور جنہیں اپنی تعلیم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف بتایا ہے اور کہا ہے کہ جو اِن کو نہیں چھوڑتا وہ قرآن کریم اور اسلام کی نافرمانی کرتا ہے۔ انہی باتوں کو انہوں نے میری طرف منسوب کردیا اور جن فقرات میں یہ باتیں دوسروں کی طرف بتائی گئی تھیں، اُنہیں اُڑادیا۔
اب اس کے مقابلہ میں اگر تم بھی کہو کہ ہم بھی یہی طریق اختیار کریںگے اور ہم بھی اسی طرح انہیں بدنام کریں گے تو بتائو اس کا فائدہ کیا ہؤا اور پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ تم جیتے، جبکہ واقعہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن جیت گیا ہوگا کیونکہ شیطان کی تو غرض ہی یہی ہے کہ وہ تمہیں سچائی سے منحرف کرکے جھوٹ کے راستہ پر ڈال دے۔ پس اگر تم اسی کا تتبع کرکے جھوٹ کو اختیار کرلو تو بہرحال فتح تمہاری نہ ہوئی بلکہ تمہارے دشمن کی ہوئی۔ تمہارا کام تو یہ ہے کہ تم اپنے مقام پر مضبوطی سے کھڑے رہو اور دشمن کے مقابلہ میں بھی جھوٹ اور فریب سے کام نہ لو۔ دشمن اگر ان ہتھیاروں کو استعمال کرتا ہے تو بے شک کرے کیونکہ جب کسی انسان کا دل تقویٰ سے خالی ہوجاتا ہے اور بُغض اس کی بصیرت کے آگے دیوار بن کر حائل ہوجاتا ہے تو وہ عداوت اور دشمنی میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔
آج ہی میرے پاس ایک شکایت پہنچی ہے کہ مصری صاحب کے بعض ساتھی ایک جگہ کھڑے تھے کہ انہوں نے میری تصویر لے کر اس کی ایک آنکھ چاقو سے چھید دی اور اس کے نیچے رنجیت سنگھ کانام لکھ دیا اور ایسی جگہ پھینک دیا جہاں سے احمدی اسے اُٹھالیں۔ یہ شکایت پہنچانے والے دوستوں نے لکھا ہے کہ ہمیں یہ دیکھ کر سخت غصہ اور جوش آیا حالانکہ اِس میں جوش کی کون سی بات تھی۔ دشمن جب عداوت میںاندھا ہوجاتا ہے تو وہ اسی قسم کے ہتھیاروں پر اُترا کرتا ہے۔ پھر ہمارے لئے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ ہمارے بزرگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کو ایک دفعہ ’’زمیندار‘‘ نے لوگوں میں جوش پیداکرکے جُوتیاں مروائی تھیں۔ کچھ دن پہلے اُنہوں نے اس قسم کے مضمون لکھے کہ لوگوں میں اشتعال پیدا ہو۔ پھر ’’زمیندار‘‘ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر اپنے اخبار میں شائع کردی اور اس پر کئی طرح عوام اور جُہلاء نے تصویر کی ہتک کی۔ چنانچہ انارکلی لاہور میں عین سڑک کے درمیان ایک شخص نے تصویر چسپاں کردی تاکہ لوگوں کے پائوں اُس پر پڑیں۔ مگر کیا تم سمجھتے ہو اس کے مقابلہ میں ہمیں بھی یہی چاہئے کہ ہم ان کے باپ دادا کی تصویر لے کر اسے خراب کریں اور اگر ہم بھی ایسا ہی کریں تو اس کا سوائے اس کے اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ بدی اور گند دنیا میں پھیلے۔
پس اِن باتوں کی کبھی پرواہ نہ کرو اور نہ ان باتوں سے جوش اور اشتعال میں آئو۔ یہ دشمن کے پُرانے ہتھیار ہیں اور ہمیشہ انبیاء کی جماعتوں کے مقابلہ میں اس قسم کے ہتھیار وہ استعمال کرتا چلا آیا ہے۔ میں جب خطبہ پڑھتا ہوں تو گلے کی خرابی کی وجہ سے بعض دفعہ منہ میں دوا کی گولی رکھ لیتا ہوں یا بعض دفعہ پان کی گلوری منہ میں رکھ لیتا ہوں۔ چنانچہ پچھلے جمعہ بھی ایسا ہی ہؤا۔ اس پر مصری صاحب کے ایک چیلے نے ناظر امور عامہ کو گمنام چِٹھی لکھ دی اور لکھا کہ اچھے خلیفۃ المسیح ہیں اِدھر خطبہ پڑھتے ہیں اور اُدھر جگالی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اب اس نے اس کا نام اگر جگالی رکھ دیا تو میرا کیا بِگڑا، اُسی کی زبان خراب ہوئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں ایک دفعہ ایک شخص آیا ۔ آپ نے اسے تبلیغ کرنی شروع کی تو باتوں باتوں میں آپ نے فرمایا قرآن میں یوں آتا ہے۔ پنجابی لہجہ میں چونکہ قؔ اچھی طرح ادا نہیں ہوسکتا اور عام طور پر لوگ قرآن کہتے ہوئے قاریوں کی طرح قؔ کی آواز گلے سے نہیں نکالتے بلکہ ایسی آواز ہوتی ہے جو قؔ اور کؔ کے درمیان درمیان ہوتی ہے ۔ آپ نے بھی قرآن کا لفظ اُس وقت معمولی طور پر ادا کردیا۔ اس پر وہ شخص کہنے لگا بڑے نبی بنے پھرتے ہیں، قرآن کا لفظ تو کہنا آتا نہیں اس کی تفسیر آپ نے کیا کرنی ہے۔ جونہی اس نے یہ فقرہ کہا حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید جو اُس مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اُنہوں نے اُسے تھپڑ مارنے کیلئے ہاتھ اُٹھایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معاً ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ دوسری طرف مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بیٹھے تھے ،دوسرا ہاتھ انہوں نے پکڑ لیا۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر اسے تبلیغ کرنی شروع کردی۔ پھر آپ نے صاحبزادہ صاحب سے فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس یہی ہتھیار ہیں۔ اگر ان ہتھیاروں سے بھی یہ کام نہ لیں تو بتلائیں اَور کیا کریں۔ اگر آپ یہی امید رکھتے ہیں کہ یہ بھی دلائل سے بات کریں اور صداقت کی باتیں ان کے منہ سے نکلیں تو پھر اللہ تعالیٰ کو مجھے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کا مجھے بھیجنا ہی بتارہا ہے کہ ان لوگوں کے پاس صداقت نہیں رہی۔ یہی اوچھے ہتھیار ان کے پاس ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ یہ ان ہتھیاروں کو بھی استعمال نہ کریں۔
پھر دشمنانِ احمدیت کے ایسے ایسے گندے خطوط میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام پڑھے ہیں کہ انہیں پڑھ کر جسم کا خون کھولنے لگتا تھا اور پھر یہ خطوط اتنی کثرت سے آپ کو پہنچتے کہ میں سمجھتا ہوں اتنی کثرت سے میرے نام بھی نہیں آتے ۔ میری طرف سال میں صرف چار پانچ خطوط ایسے آتے ہیں علاوہ ان کے جو بیرنگ آتے ہیں اور واپس کردیئے جاتے ہیں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف ہر ہفتہ میں دو تین خط ایسے ضرور پہنچ جاتے تھے اور وہ اتنے گندے اور گالیوں سے پُر ہؤا کرتے تھے کہ انسان دیکھ کر حیران ہوجاتا۔ میں نے اتفاقاً اُن خطوط کو ایک دفعہ پڑھنا شروع کیا تو ابھی ایک دو خط ہی پڑھے تھے کہ میرے جسم کا خون کھولنے لگ گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تو آپ فوراً تشریف لائے اور آپ نے خطوط کا وہ تھیلا میرے ہاتھ سے لے لیا اور فرمایا انہیں مت پڑھو۔ اِس قسم کے خطوط کے کئی تھیلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جمع ہوگئے تھے۔ لکڑی کا ایک بکس تھا جس میں آپ یہ تمام خطوط رکھتے چلے جاتے۔ کئی دفعہ آپ نے یہ خطوط جلائے بھی مگر پھر بہت سے جمع ہوجاتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہی تھیلوں کے متعلق اپنی کتب میں لکھا ہے کہ میرے پاس دشمنوں کی گالیوں کے کئی تھیلے جمع ہیں۔ پھر صرف ان میں گالیاں نہیں ہوتی تھیں بلکہ واقعات کے طور پر اتہامات اور ناجائز تعلقات کا ذکر ہوتا تھا۔ پس ایسی باتوں سے گھبرانا بہت نادانی کی بات ہے۔ یہ باتیں تو ہمارے تقویٰ کو مکمل کرنے کیلئے ظاہر ہوتی ہیں۔ ان میں ناراضگی اور جوش کی کون سی بات ہے۔ آخر برتن کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہی اس میں سے ٹپکتا ہے ۔ دشمن کے دل میں چونکہ گند ہے اس لئے گند ہی اس سے ظاہر ہوتا ہے لیکن ہمیں چاہئے کہ ہم نیکی و تقویٰ پر زیادہ سے زیادہ قائم ہوتے چلے جائیں اور اپنے اخلاق کو درست رکھیں۔ اگر دشمن کسی مجلس میں ہنسی اور تمسخر سے پیش آتا ہے تو تم اُس مجلس سے اُٹھ کر چلے آئو، یہی خدا کا حکم ہے جو اُس نے ہمیں دیا مگر بیہودہ غصہ اور ناواجب غضب کا اظہار بیوقوفی ہے۔ اگر اِس وقت جب کہ تم کمزور ہو اور تمہاری مثال دنیا کے مقابلہ میں بتیس دانتوں میں زبان کی سی ہے مخالفین کی حرکات پر تمہیں غصہ آتا ہے اور تم اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکتے تو یاد رکھو جب ہمیں بادشاہت حاصل ہوگی اُس وقت ہمارے آدمی دشمنوں پر سخت ظلم کرنے والے ہوں گے۔ پس آج ہی اپنے نفوس کو ایسا مارو ایسا مارو کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں یا تمہاری اولادوں کو بادشاہت دے تو تم ظلم کرنے والے نہ بنو اور تمہارے اخلاق اسلامی منہاج پر سُدھر چکے ہوں۔ اگر آج تم صبر سے بھی کام لیتے ہو تو دنیا کی نگاہ میں یہ کوئی خوبی نہیں کیونکہ کمزوری کے وقت ظلم کو برداشت کرلینا کوئی کمال نہیں ہوتا۔ دیکھو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا حضرت مسیح ناصری ؑسے مقابلہ کرتے ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی دلیل پیش کی ہے کہ مسیح ناصری کا حلم اپنے اندر کیا حقیقت رکھتا ہے جبکہ انہیں سختی کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اوران کی نیکی اپنے اندر کیا حقیقت رکھتی ہے جبکہ بدی کے مواقع ہی انہیں پیش نہیں آئے۔ ایک عنین اگر یہ کہے کہ میں بڑا عفیف ہوں، ایک اندھا اگر یہ کہے کہ میں نے کبھی بدنظری نہیں کی، ایک بہرا اگر یہ کہے کہ میں نے کبھی غیبت نہیں سُنی تویہ کوئی خوبی اور کمال نہیں۔ خوبی اور کمال یہ ہے کہ انسان مخالف حالات میں سے گزرے اور پھر اپنے زہد و اتقاء کا شاندار نمونہ دکھائے۔ پس ہمارا آجکل کے زمانہ میں جب کہ ہم کمزور ہیں اور ہمیں کوئی طاقت حاصل نہیں مظلوم ہونا اور تمام مظالم کو برداشت کرتے چلے جانا دنیا کی نگاہ میں کوئی خوبی نہیں۔ گو خدا کی نگاہ میں ہے کیونکہ جب ہم اسی کی رضاء کیلئے اپنے نفسوں کو مارتے اور جذبات کو دبادیتے ہیں تو یقینا اس کی نظر میں مقبول ہیں۔ مگر دنیا اس امر کو نہیں سمجھتی۔ وہ خیال کرتی ہے کہ چونکہ اِس وقت یہ کمزور ہیں اس لئے مظالم برداشت کرتے چلے جارہے ہیں جیسے ہر کمزور طاقتور کے مقابلہ میں جھُکا رہتا ہے۔ پس چونکہ دنیا ہمارے صبر کو کمزوری اور ہمارے عفو کو ضُعف پر محمول کرتی ہے اس لئے اس کا جواب یہی ہے کہ جب خدا ہماری جماعت کو طاقت دے تو اُس وقت بھی وہ عدل اور انصاف کے دامن کو نہ چھوڑے اور اپنے ہاتھ کو ظلم سے روکے اور اس طرح اپنے عمل سے بتادے کہ کمزوری اور طاقت ہر دو حالتوں میں محض خدا کیلئے اس نے ہر کام کیا۔
پس دشمنوں کے حملوں سے مت گھبرائو اور اس کی ناجائز تدابیر سے کبھی جوش میں نہ آئو۔ ایک چیونٹی کو بھی مارنے لگو تو وہ انسان کو کاٹتی ہے، پھر وہ تو انسان ہیں۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ تم ان کے عقائد کو باطل کررہے ، ان کی جمعیت کو ایک ایک کرکے اپنے ساتھ ملا رہے اور ان کو ان کے ہر حملہ میں ناکام و نامراد کررہے ہو اور وہ پھر بھی جوش میں نہ آئیں اور گالیوں کے رنگ میں اپنے دل کا بخار نہ نکالیں۔ انہیں صاف نظر آرہا ہے کہ خداتعالیٰ کی نصرت اور تائید ہماری جماعت کو حاصل ہے ،انہیں اپنی آنکھوں سے دکھائی دے رہا ہے کہ آسمان سے فرشتے ہماری تائید کیلئے اُتررہے ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ گھٹتے جارہے ہیں اور ہم بڑھتے جارہے ہیں، اگر یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود وہ جوش میں نہ آئیں تو کیا کریں۔ ان کے پاس صداقت تو ہے نہیں۔ پس وہ گالیاں دیتے اور تہذیب سے گرے ہوئے افعال کا ارتکاب کرتے ہیں اور یہی چیزیں ان کے پاس ہیں۔ مگر تم چاہتے ہو وہ شکست بھی کھاتے جائیں اور بولیں بھی نہ۔
پس تم ان کو اپنا غصہ نکالنے دو اور اپنے اندر نیکی پید اکرو اور تقویٰ کی بھٹی میں اپنی تمام اندرونی آلائشوں کو جلادو تا آئندہ آنے والی نسلوں اور نئے احمدیوں پر تمہاری نیکی کا اثر ہو۔ چاہئے کہ تمہاری زبانیں کلماتِ محبت سے تر ہوں اور دشمن کی خیرخواہی بھی تمہارے دلوں میں مرکوز ہو۔ ہاں اس حد تک جو کم سے کم حد ہو تمہیں احتیاط بھی رکھنی چاہئے۔ مثلاً وہ لوگ جو منافقت کا نقاب اپنے چہرے پر اوڑھے رہیں اور جماعت کے اندر رہ کر جماعت کی بربادی کی کوشش کریں ان کی سازش کے ظاہر ہونے پر ضروری ہے کہ ان سے بول چال ممنوع قرار دی جائے۔ اگرکوئی سازش نہ کرے اور جماعت میں شامل رہ کر جماعت کے نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش نہ کرے تو اس سے بول چال ممنوع نہیں کی جاتی۔ یہ صرف ایسے شخص کو ہی سزا دی جاتی ہے جو منافقانہ رنگ اختیار کرتا ہے۔
کئی نادان ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ساری عمر میں ایک دفعہ بعض لوگوں کو یہ سزا دی تھی مگر تم تو ہمیشہ یہ سزا دیتے ہو۔ ان نادانوں کویہ معلوم نہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بادشاہت دی ہوئی تھی اور آپ اس سزا کے علاوہ اورسزائیں دینے کی بھی طاقت رکھتے تھے مگر ہمارے پاس یہی ایک سزا ہے۔ اگر ہم یہ سزا بھی نہ دیں تو اور کیا دیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تو مجرموں کو کوڑے لگانے کا حکم بھی دے دیتے تھے، آپ کے حکم سے سنگساری بھی کی گئی ہے، آپ نے بعض لوگوں کو مُلک سے جلاوطن بھی کیا ہے اور پھر ایک وقت میں آپ نے یہ بھی حکم دے دیا کہ فلاں فلاں شخص سے کوئی بات نہ کرے۔ پس جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اَور سزائیں دینے کا حق حاصل تھا تو جہاں آپ نے اَور سزائیں دیں وہاں ایک دفعہ یہ سزا بھی دے دی۔ مگر کیا ہم میں یہ طاقت ہے کہ ہم مجرموں کو شرعی سزا دیں؟ جب نہیں تو ہمارے پاس صرف ایک سزا کا اختیار باقی رہا اوروہ یہ کہ ہم بولنا چالنا منع کردیں۔ اگر اس سزا کو بھی ہم ترک کردیں تو اور کونسی سزا دیں۔ پس یہ سزا دینے پر ہم مجبور ہیں اور یہ نہیںکہا جاسکتا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تو عمر بھر میں ایک دفعہ یہ سزا دی تھی اور ہماری طرف سے متعدد مرتبہ دی گئی ہے۔ پھر یہ سزا جو ہماری طرف سے دی جاتی ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دوسرے کا اندرونہ ظاہر ہوجائے۔ اگرتو اس کے دل میں سلسلہ کی محبت ہوتی ہے اور وہ جماعت سے جُدائی اپنی روح کیلئے ہلاکت کا باعث سمجھتا ہے تو جلد ہی اسے ہوش آجاتا ہے اور وہ توبہ کرلیتا ہے اور اگر اس کے دل میں بدی ہوتی ہے تو وہ بھی ظاہرہوجاتی ہے اورپھر اسے محسوس تک نہیں ہوتا کہ میں کن لوگوں سے کٹ کر کن لوگوں سے جاملا۔
میں نے دیکھا ہے بعض زمیندار جو اَن پڑھ ہوتے ہیںان میں سے اگر بعض کو کسی غلطی پرایسی سزا دی جاتی ہے تو سال بھر وہ روتے ہوئے گزار دیتے ہیںاور انہیں فوراً نظر آجاتا ہے کہ جماعت کے پاک لوگوں سے الگ ہو کر انہیں کس قسم کے لوگوں کی صُحبت میں بیٹھنا پڑگیا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب تین صحابہ کی ایک غلطی کی وجہ سے یہ حکم دیا کہ کوئی ان سے گفتگو نہ کرے تو ان میں سے ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ جب سزا کے آخری ایام تھے تو اُن دنوں ایک بادشاہ کی طرف سے مجھے خط ملا جس میں لکھا تھا کہ ہم نے سنا ہے تمہارے آقا نے تمہیںسخت سزا دی ہے۔ تم ہمارے پاس آجائو ہم ہر طرح تمہاری خاطر ومدارات کرنے کیلئے تیار ہیں۔ میں نے یہ خط دیکھتے ہی کہا کہ صُحبتِ صالح سے تو میں پہلے ہی محروم تھا، اب صحبتِ طالع میسر آنے لگی ہے اور یہ میرے لئے ایک امتحان کا وقت ہے۔ چنانچہ میں وہ خط لئے ایک بھٹی کے پاس گیا جس میں آگ جل رہی تھی اور جاتے ہی وہ خط اُس میں جھونک دیا اور چِٹھی دینے والے سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے کہہ دینا کہ تمہارے خط کا یہ جواب ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ فعل ایسا پسند آیا کہ چند دنوں کے بعد ہی اس نے انہیں معاف کردیا۔ ۷؎
تو نیک آدمی فوراً سمجھ جاتا ہے کہ میں کن لوگوں سے الگ ہؤا ہوںا وراب کون سے لوگ میرے اِردگِرد ہیں مگر جس کے اندر بدی ہوتی ہے اسے بُروں کی صُحبت میں ہی لذت آنی شروع ہوجاتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو مصری صاحب کے دل میں اگر واقعہ میں سلسلہ کی محبت ہوتی اور احمدیت سے اخلاص رکھتے تو تھوڑے دنوں میں ہی وہ سمجھ جاتے کہ ایک پاک جماعت سے الگ ہوکر میںکس قماش کے انسانوں میں آملا ہوں۔ وہ اپنے آپ کو مصلح کہتے ہیں مگر کیا مصلحین کا بَدوں سے تعلق ہوتا ہے یا نیکوں سے۔ پھر کیوں ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اگر وہ نیک تھے تو چاہئے تھا کہ نیکوں سے ان کا تعلق ہوتا نہ کہ بَدوں اور آوارہ منش لوگوں سے۔ مگر ان کی حالت یہ ہے کہ وہ بسااوقات سلسلہ کے دشمنوں اور آوارہ منش لوگوں کی مجلس میںبیٹھے ہوئے ایسے خوش ہوتے ہیں کہ گویا خدا کی خاص تائید اُنہیںحاصل ہے اور اِس بات پر فخر کرتے ہیںکہ انہیںایسے لوگوں کی صُحبت حاصل ہوئی۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ ان کے دل میں احمدیت سے محبت نہیں۔ ورنہ ایسے لوگوں کو اپنے اِردگِرد دیکھ کر چاہئے تھا کہ وہ روتے اور خداتعالیٰ کے حضور تضرع اور زاری کرتے اور کہتے خدایا! تُو نے کہاں سے نکال کر مجھے کہاں ڈال دیا۔ مگر وہ اس کا نام تائیدِ الٰہی اور نصرتِ ایزدی کہتے ہیں اور اس امر کو بھُول جاتے ہیں کہ اگر یہی تائیدِ ایزدی ہے تو یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی حاصل نہیں ہوئی۔ پس اگر وہ سوچتے تو یہی نشان ان کیلئے کافی تھا اور اس سے وہ اگر چاہتے تو فائدہ اُٹھاسکتے تھے۔
غرض یہ سزائیں جو بعض لوگوں کو دی جاتی ہیں یہ مجبوراً دی جاتی ہیں اور محدود طور پر دی جاتی ہیں۔ اور ہم سے اگر ہوسکے تو ہم تو چاہتے ہیں ان سزائوں کوبالکل ہی مٹادیں اور میں کئی دفعہ خود مصری صاحب کے بارہ میں ہی غور کرچکا ہوں کہ کیا کوئی ایسا طریق ہو سکتا ہے کہ خداتعالیٰ کی نظر میں ہی فتنہ و فساد کا مجرم بننے کے بغیر اس سزا کو ہی ان سے دور کردوں لیکن اب تک ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ مگر میں نے دیکھا ہے ہمارے دوست یہ امر سوچتے رہتے ہیں کہ کس طرح ان سزائوں کو بڑھادیں۔
یہ امر اچھی طرح یاد رکھو کہ جس طرح بے غیرتی ایک گناہ ہے اور اس کا مرتکب خداتعالیٰ کی ناراضگی کا مورِد بنتا ہے اسی طرح ظلم بھی ایک گناہ ہے اور اِس کا مرتکب بھی خداتعالیٰ کے حضوراپنے اعمال کا جواب دِہ ہے مگر تم میں سے بعض ایسے ہیں کہ غیرت کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے۔ بٹالہ جائیں او رمصری صاحب یا ان کے ساتھی اُنہیں مل جائیں تو بڑے تپاک سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْکہیں گے اور جب قادیان آئیں گے اور ان کے سامنے کوئی ان کا نام لے دے گا تو کہیں گے توبہ توبہ ایسے آدمی کا نام ہمارے پاس کیوں لیتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہمیں ایسی رپورٹیں نہیں پہنچتیں۔ رپورٹیں پہنچتی ہیں مگر ہم بغیر کسی کارروائی کے رکھ دیتے ہیں کیونکہ سمجھتے ہیں کہ یہ فعل بے ایمانی کی وجہ سے نہیں بلکہ حماقت یا بُزدلی کی وجہ سے ہے۔
پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم بے غیرت مت بنو۔ مگر اس کے ساتھ ہی مَیں یہ بھی کہتا ہوں کہ تم ظالم بھی مت بنو۔ ایسا نہ ہو کہ ایک گڑھے سے نکلو اور دوسرے گڑھے میں گر جائو۔ ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم فتنہ کو روکیں۔ کسی کی ذات کو نقصان پہنچانا اور اُسے بُرابھلا کہنا نہ پہلے ہمارے مدنظر رہا ہے نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہوگا کیونکہ دل دُکھانا اور دشمن کے متعلق سخت الفاظ کا استعمال کرنا مؤمن کا کام نہیں۔
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ مگر یاد رکھو اﷲ کے انبیاء مجسٹریٹ ہوتے ہیں اور مجسٹریٹ کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ چور کو چور اور سادھ کو سادھ کہے مگر تمہارا یہ حق نہیں کہ تم کسی کو چور یا ڈاکو کہو۔ پس تم اپنے مقا م کو سمجھو اور جو نبیوں کامقام ہے وہ انہی کے پاس رہنے دو۔ تم اگر دشمن کی طرف سے گالیاں سنتے اور جوش دلانے والے واقعات بھی دیکھتے ہو تو تمہارا کام یہ ہے کہ تم صبر کرو اور ساتھ ہی استغفار کرتے چلے جائو تا ایک طرف تمہارے دل پر بے غیرتی کا زنگ نہ لگے اور دوسری طرف ظالموں والا غصہ پیدا نہ ہو، یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ وہ تمہیںایسے مواقع پر استغفار کی تعلیم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جب تم دشمن کی دلآزار باتیں سنو تو استغفار کرو اور استغفار پڑھنے سے ایک طرف تم ظالم نہیں بنوگے اور دوسری طرف بے غیرت بھی نہیں بنو گے۔
پس دنیا کو اپنا نیک نمونہ دکھائو اور اپنی اولادوں کوبھی نیک بنانے کی کوشش کرو اور سزا کے معاملہ میں یہ امر یاد رکھو کہ اسے کم سے کم حد تک اور کم سے کم عرصہ کیلئے جاری کرو۔ ہاں اپنے رحم کو وسیع کرو اور اس حد تک کرتے چلے جائو جب تک رحم کرنا بے غیرتی کا موجب نہ ہوجائے مگر اس کے ساتھ ہی اس امر کو ملحوظ رکھو کہ نافرمانی کرنا بھی جُرم ہے۔ پس اگر کسی کے متعلق کسی سزا کا اعلان ہوتا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اس حکم کی تعمیل کرو کیونکہ جس کو خدا نے ایک کام کیلئے مقرر فرمایا ہے تمہارا کام نہیں کہ اُس کے احکام پر نکتہ چینی کرو۔ اور اگر تم اس کے احکام پر جرح کرو گے اور ان کی تعمیل میں کوتاہی سے کام لو گے تو تم نافرمان قرار پائو گے اور نافرمان بھی ظالم ہی ہوتا ہے۔ پس تم نہ تو نافرمانی کی حد تک جائو نہ بے غیرتی یا ظلم کی حد تک جائو بلکہ رحم کرو اور رحم میں وسعت اختیار کرو۔ کیونکہ خدا نے رحم کیلئے وسیع میدان بنایا ہے اور سزا کیلئے تنگ۔ وہ خود کہتا ہے ۹؎ پس بنی نوع انسان پر رحم زیادہ سے زیادہ ہو اور سزا کم سے کم۔ اس گُر کے ماتحت تم اپنے تمام کام لائو اور فرمانبرداری اور اطاعت اختیار کرو اور جب دشمن کی طرف سے کوئی بُری بات سنو تو دل میں استغفار کرو تا اللہ تعالیٰ تم کو بے غیرت ہونے سے بچائے اور اللہ تعالیٰ تم کو ظالم ہونے سے بھی محفوظ رکھے۔ ‘‘
(الفضل ۹؍ مارچ ۱۹۳۸ئ)
۱؎ منبت: جائے روئیدگی۔ بنیاد
۲؎ کپٹ: بُغض۔عداوت۔ دشمنی۔حسد
۳؎ النور: ۲۰ ۴؎ النسائ: ۸۴ ۵؎ الضُّحیٰ :۱۲
۶؎ ، ۷؎ النساء :۴۴
۸؎ (نوح:۲۴)
۹؎ الاعراف: ۱۵۷

۱۰
شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی کذب بیانیوں کا ایک نمونہ
(فرمودہ ۱۱؍ مارچ ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اللہ تعالیٰ مؤمنوں کے ایمان کی زیادتی کیلئے ہمیشہ ایسے سامان پیدا کرتا رہتا ہے جو اُن کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھتے اور اُن کے ایمانوں کو بڑھاتے رہتے ہیں۔ جو لوگ تو ظاہر او رباطن میں یکساں ہوتے ہیں اور ان کے دلوں کا ایمان ان کی زبانوں کے دعووں کے مطابق ہوتا ہے ایسے امور ان کے ایمان میں جِلا پیدا کرتے ہیں اور ان کی روحانیت کو ترقی دیتے ہیں لیکن جن کے دلوں میں ایمان ان کی زبانوں کے دعووں کے مطابق نہیں ہوتا اور ان کا ایمان زبان کی نوک تک ہی رہ جاتا ہے اور ان کے دل ویران ہوتے ہیں ان کیلئے وہی چیز ٹھوکر کا موجب ہوجاتی ہے۔
چونکہ یہ قدیم سے الٰہی سنت چلی آتی ہے کہ خدائی نشان، خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والی کتابیں، خداتعالیٰ کے مأمور اور مرسل اور خداتعالیٰ کے دین کی تائید اور مدد میں کھڑے ہونے والے انسان سب اپنے اندر یہ صفت رکھتے ہیں کہ۱؎ دنیا میں خداتعالیٰ کا کوئی ایسا مامور نہیں آیا جو بعض لوگوں کی ٹھوکر کا موجب نہ ہؤا ہو۔ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب ایسی نہیں آئی جو بعض کی گمراہی کا موجب نہ ہوئی ہو۔ خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے کوئی شخص کھڑا نہیں ہؤا خواہ وہ مامور ہو یا غیرمامور، جو بعض لوگوں کی گمراہی کا موجب نہ ہؤا ہو، اسی طرح دنیا میں خداتعالیٰ کا کوئی مامور یا مرسل ایسا نہیں آیا جولوگوں کی ہدایت کا موجب نہ ہؤا ہو۔ کوئی کتاب ایسی نہیں آئی جس سے لوگوں نے ہدایت نہ پائی ہو۔ کوئی شخص خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے ایسا کھڑا نہیں ہؤا جس کے دل میں سچی تڑپ ہو اور خداتعالیٰ نے اس کی کوششوں میں برکت نہ ڈالی ہو۔ یہ دونوں دریا یکساں اور بیک وقت چلتے ہیں۔ لیکن ۲؎بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ہی دریا ہے جو کسی زمانہ میں خالص اسلام کے نام سے بہتا ہے ، کسی زمانہ میں عیسوی تعلیم کے نام سے بہتا ہے اور کسی زمانہ میں ابراہیم ؑ کی تعلیم کے نام سے بہتا ہے اور کسی زمانہ میں احمدیہ اسلام کے نام سے بہتا ہے۔ گو ہر زمانہ میںیہ دریا ایک نظر آیا ہے مگر دراصل اس کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک میٹھا اور ایک کڑوا۔ جو حصہ میٹھے پانی پر مشتمل ہوتا ہے وہ مؤمنوں کی جماعت ہوتی ہے اور جو کڑوے پرمشتمل ہوتا ہے وہ منافقوں کی جماعت ہوتی ہے اور ان دونوںکے درمیان ایک بہت ہی باریک پردہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ فرمایایعنی گو دنیا کو وہ دریا ایک ہی نظر آتا ہے مگر دراصل اس میں دو قسم کے پانی ہیں ایمان کا بھی اور نِفاق کا بھی۔ مؤمن کوشش کرتے ہیں کہ منافقوں کو سیدھا کریںاور راہِ راست پر لے آئیں مگر ان کی باتیں ان کو اور بھی گمراہ کرنے کا موجب ہوجاتی ہیں اور منافق کوشش کرتے ہیں کہ مؤمنوں کو گمراہ کریں۔ مگر ان کی تدبیریں مؤمنوں کے ایمان کو اَور بھی بڑھانے کا باعث ہوجاتی ہیں۔ سورئہ بقرہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے ۳؎یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نشانوں سے منافقوں کے مرض کو بڑھاتا ہے۔ پھر سورئہ احزاب میںہے کہ منافقوں نے آکر مسلمانوں کو ڈرانا شروع کیا اور کہا کہ کُفر بہت ترقی کرگیا ہے اور کہ کافر چاروں طرف سے حملہ آور ہورہے ہیں اور اب ایسا وقت آگیا ہے کہ مسلمان بالکل تباہ ہوجائیں مگر یہ باتیں سُن کر اور کفار کا لشکر دیکھ کر بجائے اس کے کہ مؤمن ڈرتے ان کے ایمان اور بھی بڑھ گئے ۴؎ان امور نے مؤمنوں کے ایمان اور ان کی فرمانبرداری کو اور بھی بڑھادیا۔ غرض نشان ایک ہی ہوتا ہے مگر دو قسم کے لوگوں کیلئے وہ دو مختلف نتائج پیدا کرتا ہے۔ ایک فریق اس کی وجہ سے ایمان میںترقی کرتا ہے اور دوسرا نِفاق میں۔
غرض دنیا کی نگاہ میں گو الٰہی سلسلہ ایک دریا کی طرح بہتا ہؤا نظر آتا ہے اور سب دیکھنے والے اسے ایک ہی سمجھتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کی نظر میں وہ جدا جدا دریا ہوتے ہیں۔ کئی نادان کہتے ہیں کہ یہ دونوں فریق ایک ہی ہے اور ان میں کیا اختلاف ہے۔ مگر خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں ۔ وہ اصل میں بالکل الگ الگ ہیں اور ان کے درمیان خداتعالیٰ کی طرف سے ایک پردہ حائل ہے۔ منافق مؤمن کے حالات کونہیں پاسکتا اور مؤمن منافق کی ذلتوں سے حصہ نہیں لیتا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ ایسے نشان بھیجتا ہی رہتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اِس بات نے نشانات ظاہر کرنے سے نہیں روکا کہ دنیا میں جب بھی وہ ظاہر ہوئے ان کا انکار کیا گیا۔۵؎ یعنی ہمیں اس بات کے سوا نشان بھیجنے سے کس امر نے روکا ہے کہ جب پہلے زمانوں میں نشانات ظاہر ہوئے تولوگوںنے انہیں نہیں مانا۔ مطلب یہ کہ یہ روک کوئی روک نہ تھی اس لئے ہم پھر بھی نشانات بھیجتے ہی رہے کیونکہ نشانات تو ماننے والوں کے لئے ہوتے ہیں اور وہی لوگ خداتعالیٰ کی جماعت ہیں۔ سو جب نشانات ان کو فائدہ پہنچاتے ہیںتو دشمنوں کے انکار کی وجہ سے دوستوں کو فائدہ سے کیوں محروم کیا جائے۔ اِن نشانوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے نبیوں کی جماعتوں کی صداقت کے اظہار کیلئے مقرر کئے ہیں ایک یہ بھی ہے کہ جب بھی کوئی ان کا مقابلہ کرنے کیلئے کھڑ ا ہوتا ہے وہ جھوٹ کا ہتھیار ضرور استعمال کرتاہے اور بِالعموم ایسے لوگوں کے دعوئوں کی بنیاد جھوٹ اور فریب پر ہوتی ہے اور ان کے مقابلہ پر مؤمنوں کی بنیاد بِالعموم صداقت پر ہوتی ہے۔ بِالعموم میں نے اس لئے کہا کہ ان میں بھی بعض کمزور لوگ ہوتے ہیں جو مصائب کا مقابلہ نہیں کرسکتے اوربعض اوقات جھوٹ بول جاتے ہیں۔ مگر ان کاجھوٹ عارضی ہوتا ہے مستقل نہیں۔ مگر مقابلہ کرنے والوں کا جھوٹ مستقل ہوتا ہے اور وہ بھی عَلَی الْاِعلان اپنی قوم کی طرف سے ایسا جھوٹ بولتے ہیں کہ ہر شریف الطبع محسوس کرلیتا ہے کہ وہ ایسی خلاف بیانی کرتے ہیں جو مؤمن نہیں کرسکتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا تو دشمن نے کہا کہ آپ جھوٹے ہیں۔ حالانکہ اگر آپ نَعُوْذُ بِاﷲِ جھوٹے ہوتے تو سچ سے آپ کو مغلوب کرنا آسان تھا۔ اگر وہ دعوے جو آپ نے کئے قرآن کریم سے ثابت نہیںہوتے تھے تو آسان طریق یہ تھا کہ قرآن کریم یا احادیث صحیحہ سے ان کا غلط ہونا ثابت کردیا جاتا۔ پس دشمن کیلئے یہ راہ بالکل آسان تھی کہ وہ ان آیتوں اور حدیثوں کو پیش کرتا جو اِن دعوئوں کے خلاف تھیں مگر اس نے ایسا کرنے کے بجائے آپ کی طرف جھوٹے دعوے اور جھوٹے کام منسوب کئے۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میں ایسا نبی نہیں ہوں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حلقۂ اطاعت سے باہر جائوں بلکہ میں آپ کے دین اور قرآن کریم کی اشاعت کیلئے مبعوث کیا گیا ہوں۔ لیکن دشمنوں نے لوگوں کو یہ بتایا کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ کرکے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک کی ہے یا پھر یہ کہ آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح ناصری ؑ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ مگر خدائی صفات جو آپ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں وہ آپ میں نہیں تھیں۔ اور اس پر دشمنوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ آپ نے حضرت مسیحؑ کی ہتک کی ہے۔ حالانکہ اگر آپ کا یہ دعویٰ غلط تھا کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرف ایسے معجزات منسوب کرنا جن سے شرک پیدا ہوتا ہے غلطی ہے تو اس کا ردّ آسان تھا او روہ اس طرح کہ قرآن کریم سے یہ ثابت کردیا جاتا کہ بندے مُردوں کو زندہ کرسکتے ہیں یا یہ کہ انبیاء کو ایسا علمِ غیب حاصل ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو ہے۔ مگر یہ آسان راہ اختیار کرنے کی بجائے دشمنوں نے آپ کی طرف ایسے دعوے منسوب کئے جوآپ نے نہیں کئے تھے اور آپ کی کتابوں سے حوالے کانٹ چھانٹ کر آپ کی طرف ایسی باتیں منسوب کیں جو دراصل آپ نے نہیں کہی تھیں۔ چنانچہ مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے ایک رسالہ لکھا اور گورنمنٹ کو بھجوایا جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ آپ گویا گورنمنٹ کے مخالف ہیں۔ اور اس میںآپ کی کتابوں سے بعض حوالے کانٹ چھانٹ کراور کوئی ٹکڑا عبارت کا کہیں سے لے کر اور کوئی کہیں سے درج کردیئے مگر آج اس کے برخلاف دشمن یہ کہتے ہیں کہ آپ گورنمنٹ کے خوشامدی تھے اور آپ کی کتابوں کی ایسی تیس الماریاں بھری پڑی ہیں جن میں آپ نے گورنمنٹ کی وفاداری کی تعلیم دی ہے اورگورنمنٹ کی خوشامد سکھائی ہے۔ گویا پہلے بغاوت کا حربہ استعمال کیا لیکن اب یہ دیکھ کر کہ وہ حربہ اب کارآمد نہیں ہوسکتا، کیونکہ لوگوں میں بیداری پیدا ہوچکی ہے اور قومی خیالات ترقی کررہے ہیں، تو یہ پہلو اختیار کرلیا کہ آپ خوشامدی تھے۔
تو یہ دونوں قسم کے اعتراضات کئے گئے حالانکہ ان دونوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا زمین و آسمان میں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ کیونکہ زمین آسمان تو ایک وقت میںموجود ہیں لیکن یہ باتیں تو بالکل متناقض ہیں۔ اگر کوئی شخص دشمن ہو تو وہ خوشامد نہیں کرسکتا اور اگر خوشامدی ہو تو دشمن نہیں ہوسکتا لیکن ان لوگوں کو تو دیانت سے تعلق نہ تھا۔ جب دیکھاکہ ملک میں بیداری ہے اور پبلک کو جوش دلانے سے فائدہ ہے تو کہہ دیا کہ آپ خوشامدی تھے۔ مگر جب پبلک گورنمنٹ کے خلاف نہ تھی اور یہ سمجھا جاتھا تھا کہ گورنمنٹ کو جماعت احمدیہ کے خلاف کرنے میں فائدہ ہے تو اُس وقت یہ کہہ دیاکہ آپ گورنمنٹ کے مخالف ہیں۔ غرض جب گورنمنٹ مضبوط تھی اور لوگوں میں قومی خیالات نہ پائے جاتے تھے اُس وقت گورنمنٹ کو آپ کے خلاف کرنا چاہا اور جب گورنمنٹ میں کمزوری پید اہوئی اور پبلک میں قومی خیالات ترقی کرنے لگے تو خوشامدی کہنا شروع کردیا۔ اور یہ کہ آپ کو حکومت نے ہی کھڑا کیا ہے۔ لیکن عقلمند جانتے ہیںکہ یہ دونوں باتیں غلط اور جھوٹ ہیں۔
اس زمانہ میں میرے متعلق بھی یہی طریق استعمال کیا گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب میرے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ گورنمنٹ کا خوشامدی ہے اور اب یہ کہا جاتا ہے کہ گورنمنٹ کا دشمن ہے۔ یہ بعینہٖ وہی بات ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہلے مخالف اور بعد میں خوشامدی کہا گیا اور مجھے پہلے خوشامدی اور بعد میں مخالف کہا گیا۔ پہلے مجھے حکومت کا خوشامدی کہا جاتا تھا مگر بعد میں جب دیکھا کہ حکومت کے بعض افسر ہمارے دشمن ہیں تو مجھے حکومت کا دشمن کہنے لگے۔ اِس خیال سے کہ اس طرح بعض حکام بھی ان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔پھر ان فتنوں میں دیکھ لو جو مذہبی لحاظ سے اُٹھے ہیں کس طرح خلافِ واقعہ اور غلط حوالے پیش کئے جارہے ہیں۔ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ جب دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو اسلام پر عمل کریں گے حالانکہ جب وہ مستقل نبی ہیں تو وہ اپنے دین پر عمل کریں گے۔ یہ بنیاد قائم کرکے آپ لکھتے ہیں کہ اسلام کیلئے وہ کیسا مصیبت کا وقت ہوگا جب اس میں ایک ایسا نبی آئے گا کہ مسلمان تو مسجدوں کی طرف نماز پڑھنے جارہے ہوں اور وہ گرجا کی طرف جارہا ہو، مسلمان تو قرآن کی تلاوت کررہے ہوں اور وہ انجیل پڑھ رہا ہو۔ (مفہوم عبارت)۔پیغامی جب جماعت سے علیحدہ ہوئے تو انہوں نے اس حوالہ کو بگاڑ کر یوں شائع کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کیلئے وہ کیسا مصیبت کا وقت ہوگا جب ان میں ایک نبی آئے گا۔ انہوں نے ’’ایسا‘‘ کو کاٹ کر اس کی جگہ ’’ایک‘‘ لکھ دیا اور اس طرح اس کے یہ معنے کرلئے کہ اب کسی قسم کا بھی نبی نہیں آسکتا حالانکہ ’’ایسا‘‘ کا لفظ بتارہا ہے کہ ایک خاص قسم کے نبی کے متعلق آپ یہ فرمارہے ہیں۔ تو انہوں نے ’’ایسا‘‘کاٹ کر آرام سے اس کی جگہ ’’ایک ‘‘ کا لفظ لکھ دیا۔ ہر ایک شخص کے پاس کتاب نہیں ہوتی۔ پس انہوں نے سمجھا کہ اس طرح بہت سے لوگ دھوکا کھاتے چلے جائیں گے اَور حوالوں میں بھی ان کا یہی رویہ رہا ہے۔ ابتدائی کتب کے حوالے لوگوں کو دکھا دیتے ہیں اور آخری کتب کے حوالوں کو چھپالیتے ہیں۔
کل ہی ایک دوست ڈاکٹر عبدالغفور صاحب کی لاش یہاں لاکر دفن کی گئی ہے۔ جن دنوں وہ سلسلہ کے بارہ میں تحقیق کررہے تھے اُنہیں ڈلہوزی جانے کا اتفاق ہؤا۔ مولوی محمد علی صاحب بھی وہاں تھے۔ وہ ان سے ملنے گئے اور نبوت کے بارہ میں گفتگو شروع کی تاکہ اس مسئلہ کے بارہ میں بھی کوئی فیصلہ کرسکیں۔ انہوں نے بعض حوالے اپنے مطلب کے ڈاکٹر صاحب کو دکھائے۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب مرحوم بعض ہمارے دوستوں سے بھی حوالہ جات سُن چکے تھے۔ انہوں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ ’’حقیقۃ الوحی‘‘ منگوائیں اور اس کی فلاں فلاں عبارت کو حل کریں۔ اس کے جواب میں جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے بعد میں ذکر کیا، مولوی صاحب نے جواب دیاکہ وہ کتاب میرے پاس یہاں نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ دوسری کتب موجود ہیں مگر صرف وہ کتاب نہیں ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تعزیراتِ ہند قرار دیا ہے۔اور ان پر اس امر کا خاص اثر ہؤا کہ ان کتب کو بھی یہ لوگ نہیں رکھتے جن سے ان کے عقیدوں کے خلاف ثبوت ملتا ہے۔ آخر انہوں نے ۱۹۳۵ء یا ۱۹۳۶ء میں میری بیعت کرلی۔ تو انسان کے مدنظر جب صداقت ہو تو سب قسم کی باتیں سامنے لانی چاہئیں۔ کوئی بات چھُپانے کی ضرورت نہیں مگر بعض لوگ چونکہ خاص مقاصد ان کے مدنظر ہوتے ہیں، جان بوجھ کر غلط حوالہ جات پیش کردیتے ہیں اور یہی ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ ان کے پاس دلائل کوئی نہیں ہیں ورنہ انہیں جھوٹ کی کیا ضرورت تھی۔
اب میں دیکھتا ہوں کہ مصری صاحب کے فتنہ میں بھی وہی طریق اختیار کیا جارہا ہے۔ صریح طور پر وہی باتیں پیش کی جارہی ہیں جن کے متعلق ہر عقلمند جانتا ہے کہ غلط ہیں۔ اور ایسے حوالے پیش کئے جارہے ہیں کہ اگر ایک بچہ کے سامنے بھی رکھ دیئے جائیںتو وہ کہے گا یہ غلط ہیں۔ کسی غیراحمدی کے سامنے دونوں حوالے رکھ دو اور یہ نہ بتائو کہ میرا کون سا ہے اور ان کا کون سا، اور اس سے پوچھو کہ کیا میرے الفاظ کا وہی مفہوم ہے جو وہ پیش کرتے ہیں۔ تو وہ فوراً کہہ دے گا کہ ہرگز نہیں۔ بالکل جھوٹ ہے۔
یہی فخرالدین صاحب اور عزیز احمد صاحب کا واقعہ ہے۔ اس مقدمہ میں ہائیکورٹ نے ایک فیصلہ کیا اور اس کی بناء پر ان لوگوںنے شور مچانا شروع کردیا کہ ہائیکورٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مرزا محمود احمد کے خطبات کے نتیجہ میںیہ قتل ہؤا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جس رنگ میں وہ فیصلہ کیا گیا اور جس رنگ میں اس کا استعمال ہؤا اس سے ہم بھی متأثر ہوئے تھے اور میں نے بھی ایک مضمون لکھا تھا کہ فیصلہ میں بعض ایسے الفاظ ہیں جن کے معنے بعض لوگوں کیلئے صاف نہیں۔ غرض اُس وقت ان الفاظ سے غلط مفہوم لینے کا امکان تھا اور اس وجہ سے غلط معنے کرنے والوں پریقینی طور پر بددیانتی کا الزام نہیںلگایا جاسکتا تھا۔ مگر اب جبکہ ہائیکورٹ کے فاضل ججوں نے اِس غلط فہمی کو دُور کردیا ہے اگر ان الفاظ کو اسی رنگ میں استعمال کیا جائے تو ہر شخص تسلیم کرے گاکہ یہ صاف بددیانتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو آسمان پر زندہ ماننا شرک ہے ۔۶؎ اس پر مخالف کہتے ہیں کہ ان تمام بزرگانِ سلف کو جو اس عقیدہ کے تھے آپ نے مشرک کہا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جب تک ایک مامور نے آکر اس غلطی کو واضح نہیں کیا اُس وقت تک یہ ایک نہایت مخفی شرک تھا جو صرف اجتہاد کی غلطی کہلاسکتا تھا اور ایسا عقیدہ رکھنا لوگوں کو گنہگار نہیں بناتا تھا کیونکہ لوگوں کی توجہ پھیری نہیں گئی تھی کہ یہ شرک ہے۔ لیکن مامور کی طرف سے اس کی وضاحت کے بعد ایسا عقیدہ رکھنا کھلا شرک بن گیا پس اب اس کا معتقد گنہگار کہلائے گا۔ پس پہلے بزرگ گنہگار نہیں تھے اور اس زمانہ کے لوگ گنہگار ہیں۔ اسی طرح جب تک ہائیکورٹ نے اپنے الفاظ کی وضاحت نہیں کی تھی اس قسم کا مفہوم لینا بددیانتی نہیں کہلاسکتا تھامگر اب کہ ججوں نے اپنے الفاظ کی وضاحت کردی ہے، وہ مفہوم لینا بددیانتی ہے۔ مگر ان لوگوں کی دیانت کا یہ حال ہے کہ وہ اب بھی یہی مفہوم لے رہے ہیں۔ ان کے ہمدرد اخبارات فیصلہ کو چھاپتے نہیں صرف یہ لکھ رہے ہیں کہ ہائیکورٹ نے درخواست مسترد کردی مگر یہ نہیں بتاتے کہ کیوں درخواست مسترد کی گئی۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے زید بکر کے پاس ایک ہزار روپیہ امانت کے طور پر رکھے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس کے پاس جائے کہ میں نے جو ایک ہزار روپیہ آپ کے پاس امانت رکھا تھا وہ مجھے واپس دے دیں۔ اِس پر بکر جواب دے کہ مجھے آپ کاپیغام اس سے پہلے مل چکا ہے اور میں نے اسی وقت فلاں آدمی کے ہاتھ روپیہ آپ کے گھربھجوادیا ہے۔ اس پر زید بجائے گھر جاکر روپیہ وصول کرنے کے لوگوں میں شور مچادے کہ بکر میرا روپیہ دینے سے انکاری ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ الفاظ میں بکر یہی کہتا ہے کہ میں آپ کو روپیہ نہیں دیتا۔ مگر وہ یہ لفظ اس لئے نہیں کہتا کہ وہ امانت سے منکر ہے بلکہ اس لئے کہ وہ کہتا ہے کہ میں آپ کے آنے سے پہلے ہی روپیہ بھجواچکا ہوں۔ بعینہٖ اسی طرح ہائیکورٹ نے میری درخواست کو مسترد کیا ہے۔ یعنی انہوں نے میری اس درخواست کے جواب میں کہ آپ کے فلاں الفاظ کے لوگ یہ معنے کرتے ہیں کہ گویا میں نے اپنے خطبات میں جسمانی سزا کی طرف اشارہ کرکے قتل کی انگیخت کی ہے اور ایسا میں نے ہرگز نہیں کیا اس لئے ان الفاظ کی اصلاح کی جائے۔ یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم نے ایسا ہرگز نہیں کہا اور لوگ ہماری طرف غلط بات منسوب کرتے ہیں۔ پس جبکہ ہماری عبارت کا وہ مفہوم نہیں جو لوگ لیتے ہیں تو ہمیںکوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ ہم اپنے الفاظ کو بدلیں۔ پس درخواست مسترد ہے۔ ہر دیانتدار آدمی جانے گا کہ یہ ویسی ہی مثال ہے جو میں اوپر بیان کرچکا ہوں۔ یعنی بکر زید کو روپیہ دینے سے اس لئے انکار کرتا ہے کہ وہ پہلے ادا کرچکا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہائیکورٹ کے فاضل ججوں کیلئے میری درخواست کی منظوری کے متعلق دو ہی صورتیں ممکن تھیں۔ یا تو وہ کہتے کہ ہم خطبہ کا مطلب پہلے وہی سمجھتے تھے جو مصری اور ان کے ساتھیوں نے سمجھا لیکن اب ہم سمجھ گئے ہیں کہ ہم نے پہلے جوبات سمجھی تھی وہ غلط تھی اس لئے اپنے الفاظ کاٹ دیتے ہیں۔ اوردوسری صورت یہ تھی کہ وہ یہ کہتے کہ ہم نے وہ الزام آپ پر لگایا ہی نہیں جو آپ یا دوسرے خیال کرتے ہیں کہ ہم نے لگایا ہے۔پس چونکہ ہم نے ایسا کہا ہی نہیں اس لئے ہم اپنے الفاظ کو کاٹتے بھی نہیں۔ ظاہر ہے کہ مؤخرالذکر فیصلہ تو پہلی صورت سے بھی زیادہ ہمارے لئے مفید ہے کیونکہ اگر ججز پہلی صورت اختیار کرتے تو کوئی کہہ سکتا تھاکہ خطبہ کے الفاظ ایسے مشتبہہ تھے کہ ایک دفعہ تو ہائی کورٹ کے ججوں کو بھی غلطی لگ گئی مگر وہ تو کہتے ہیں کہ ہمیں تو پہلے بھی کوئی غلطی نہیں لگی۔ ہم پہلے بھی یہی سمجھتے تھے کہ ان الفاظ میں روحانی سزا کا ذکرہے اور اب بھی یہی سمجھتے ہیں۔ اور جب ہم نے پہلے بھی یہ نہیں سمجھا تو ہم کاٹیں کس بات کو۔ چنانچہ ان کا فیصلہ یہ ہے۔
’’یہ درخواست مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے اس غرض کیلئے دی گئی ہے کہ ہم نے فوجداری اپیل ۱۱۲ آف ۱۹۳۷ء کے فیصلہ میں جو ۳؍ جنوری ۱۹۳۸ء کو کیا گیاہے بعض ریمارکس ایسے کئے تھے جنہیں حذف کردیاجائے۔ مرافعہ گزار کے وکیل مسٹر سلیم نے ہماری توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی ہے کہ ہمارے فیصلہ کے آخری پیراگراف کے ایک فقرہ کا غلط مطلب لے کر اسے امام جماعت احمدیہ کے خلاف پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ وہ فقرہ یہ ہے ’’اگر ہم اپیل کنندہ کے وکیل کے اس استدلال کو قبول بھی کریںکہ خلیفہ صاحب کا سزا سے مقصد روحانی سزا تھا تو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مذہبی راہنمائوں کے بعض پُرجوش پیروئوں کیلئے روحانی اورجسمانی سزا میں امتیاز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بہرِنوع اِس مُلک میں ایسے مذہبی دیوانے موجود ہیں جو ایسی سزائوں کی تکمیل کیلئے اپنے آپ کو خدا کا آلۂ کار سمجھتے ہیں‘‘۔
کہا گیا ہے کہ خلیفہ صاحب کے مخالف اس فقرہ کا یہ مطلب لے رہے ہیں کہ خلیفہ صاحب کی اس تقریر میں جس کا ہم نے ذکر کیا تھا سزا سے روحانی سزا مراد نہیں بلکہ جسمانی سزا مراد تھی اور فی الحقیقت اس میں تشدد کی تلقین کی گئی تھی‘‘۔
اس کے بعد ججز کہتے ہیں کہ:
’’اس فقرہ کا یہ مفہوم درست نہیں۔ لیکن اس معاملہ کو اچھی طرح واضح کرنے کیلئے نیز خلیفہ صاحب کے متعلق انصاف کو ملحوظ رکھنے کیلئے (In Justice to کا یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ا س کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ صاحب کے متعلق انصاف کا تقاضا پور ا کرنے کیلئے) ہم یہ قرار دیتے ہیں کہ ہم نے وکیل کے اس بیان کو صحیح تسلیم کیا تھا کہ خلیفہ صاحب کی تقریر میں جسمانی طور پر نہیں بلکہ روحانی طور پر سزا کا ذکر تھا۔ ہم نے دراصل اِس مُلک میںاس قسم کی تقریروں کے متعلق اس خطرہ کا اظہار کیا تھا کہ کسی مذہبی راہنما کے پُرجوش پیرو ان دو قسم کی سزائوں میں مشکل سے تمیز کرسکتے ہیں‘‘۔
یعنی ہمارا واعظانہ رنگ تھا۔ اِس ملک میں لوگ عام طور پر جاہل ہیں اور عین ممکن ہے کہ کسی تقریر میں کسی مذہبی بزرگ کی مراد سزا سے روحانی ہو مگر اس کے جاہل مریدوں میںسے کوئی اس بات کو نہ سمجھ سکے اور وہ جسمانی سزا مراد لے لے۔پھر وہ لکھتے ہیں کہ:-
’’ہم اپنے فیصلہ کے کسی حصہ کو حذف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے (یعنی جب ہم نے وہ بات کہی ہی نہیں تو حذف کس کو کریں) لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اس فیصلہ کو جس رنگ میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے پیش نظریہ ضروری ہے کہ آخری حصہ کے مفہوم کی ایسی تشریح کردی جائے کہ اس کا مطلب غلط نہ لیا جاسکے۔ چنانچہ اس غرض کے لئے ہمارا یہ فیصلہ فوجداری اپیل ۱۱۲ آف ۱۹۳۷ء کے متعلق ہمارے فیصلہ کے حصہ کے طور پر پڑھا جانا چاہئے۔ درخواست خارج کی جاتی ہے‘‘۔
گویا وہ قرار دیتے ہیں کہ آئندہ پہلے فیصلہ کو علیحدہ کوئی شائع نہیں کرسکتا بلکہ اسے ساتھ لگانا ضروری ہے تا ہر پڑھنے والا سمجھ سکے کہ ہمارا کیا مطلب ہے۔ اور وہ قرار دیتے ہیں کہ ہماری اس تشریح کے بغیر جو شائع کرے گا وہ مجرم ہوگا۔ یہ الفاظ کہ درخواست خارج کی جاتی ہے تو ٹیکنیکل اور اصطلاحی الفاظ ہیں اور ان کا مطلب یہ ہے کہ ہم سے کہا گیا ہے کہ ہم ان الفاظ کو منسوخ کردیں مگر ہم نے وہ الفاظ چونکہ کہے ہی نہیں اس لئے منسوخ کسے کریں۔ یہ بالکل وہی بات ہے کہ بکر زید سے کہتا ہے کہ میں تمہارا ایک ہزار روپیہ اس لئے نہیں دیتا کہ وہ میں تمہارے مکان پر بھجواچکا ہوں اور اب تک وہ پہنچ بھی چکا ہوگا۔ لیکن زید کہے کہ بکر بددیانت ہے۔ اسی طرح ججز کہتے ہیں کہ ہم درخواست کو مسترد کرتے ہیں۔ کیونکہ اس میں وہ بات حذف کرنے کو کہا گیا ہے جو ہم نے کہی ہی نہیں۔ اور دشمن جو کہتے ہیں کہ ہم نے یہ کہا ہے وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اور آئندہ کیلئے ہم یہ قرار دیتے ہیں کہ ہمارے اس فیصلہ کو بھی سابقہ فیصلہ کا جُز سمجھا جائے اور اِسے اُس کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے۔ لیکن یہ لوگ عوام کو صرف یہ سناتے ہیں کہ مرزا صاحب کی درخواست مسترد ہوگئی۔ ان کے حامی اخبارات بھی یہ بات لکھ رہے ہیں اور یہاں قادیان میں مصری صاحب اور ان کے ساتھی بھی یہ کہتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ ِﷲِ درخواست مسترد ہوگئی۔ کیسی عجیب بات ہے۔ ہائیکورٹ کے جج تو یہ کہتے ہیں کہ مصری اور اس کے ساتھی جھوٹے ہیں۔ مگر یہ کہتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ ِﷲِ درخواست مسترد ہوگئی۔ ہم تو دعا کرتے ہیں کہ ایسی اَلْحَمْدُ ِﷲِکہنے کی توفیق ان کو روز ملتی رہے۔ حکومت اور غیرحکومت کے لوگوں کی طرف سے روز ان کو جھوٹا کہا جائے اور یہ روز اَلْحَمْدُ ِﷲِکہتے رہیں۔
مصری صاحب نے اس فیصلہ کے الفاظ سے مراد جسمانی سزا ہی لی تھی۔ چنانچہ اسی بناء پر انہوں نے مجھ پر اعانتِ قتل کا مقدمہ بھی دائر کردیا۔ ان کی طرف سے مجھ پر تین مقدمات اعانتِ قتل کے دائر کئے گئے ہیں۔ پہلے ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کیا جو خارج کردیا گیا۔ پھر اس کی اپیل عدالت سیشن میں کی جسے عدالت سیشن نے بھی خارج کردیا اور لکھا کہ مستغیث کو چونکہ مرزا صاحب سے دشمنی ہے، اتنے عرصہ میں وہ جھوٹے گواہ تیار کرسکتا ہے۔ پھر ایک استغاثہ مجسٹریٹ علاقہ کی عدالت میں دائر کیا گیا جسے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے منگواکر خارج کردیا۔ ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دشمن جھوٹ بولنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ باقی صرف ایک فقرہ ایسا رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ ججوں نے لکھا ہے کہ احتیاط کرنی چاہئے۔ مگر اس سے دشمن کوئی فائدہ نہیں اُٹھاسکتا۔ مُلکی قانون کے نگران مُلک میں امن کے قیام کو مدنظر رکھتے ہوئے الزام دیئے بغیر اگر عام نصیحت کریں تو یہ ان کا حق ہے۔ جب وہ تسلیم کرتے ہیں کہ میں نے جسمانی سزا کا ذکر نہیں کیا تو اگر وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انہیں عام پبلک کے فائدہ کیلئے مجھے نہیں بلکہ سب مذہبی لیڈروں کو نصیحت کردینی چاہئے کہ ان کیلئے احتیاط ضروری ہے تو اس میں دشمن کیلئے خوشی کا کوئی موقع نہیں۔ آخر ہائیکورٹ کے جج یا حکومت کے بعض دوسرے افسر کسی موقع کے لحاظ سے اگر اظہار رائے کرنا چاہیں تو انہیں کون روک سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کسی تحریرکو پڑھ کر ایک احمدی تو کہہ دے گا کہ یہ بالکل او رحرف بحرف صحیح ہے لیکن جو شخص غیراحمدی ہے اور غیرمتعصب بھی ہے وہ کسی حصہ کوصحیح اور کسی کو غلط کہے گا۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُس نے ہتک کی؟ ہرگز نہیں۔ اِسی طرح ججوں کے یہ کہنے سے میری بھی کوئی ہتک نہیں ہوسکتی۔ سوال تو میری نیت اور ارادہ کا ہے۔ اس کو انہوں نے صاف کردیا ہے۔ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی جاہل اِس سے یہ مطلب لے لے اس لئے صرف مجھے نہیں بلکہ ہندوستان میں عام طور پر مذہبی لیڈروں کو احتیاط کرنی چاہئے۔ دشمن تو اِن الفاظ کی وجہ سے مجھ پر اعتراض کرتا ہے مگرمیں بتاتا ہوں کہ اس سے تو میری حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک اور مشابہت پوری ہوگئی ہے۔ جس طرح مجھ پرمصری نے اعانتِ قتل کا مقدمہ دائر کیا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی ایسا مقدمہ کیا گیا تھا۔ میری نسبت کہا گیا ہے کہ میں نے ایسی تقریر کی جس کے نتیجہ میں قتل ہؤا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت کہا گیا تھا کہ آپ نے ایک آدمی بھیجا ہے کہ فلاں شخص کو قتل کرآئو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مقدمہ کا ذکر اپنی کتاب ’’کتاب البریہ‘‘ میں کیا ہے اور اس کے آخر میں اس مقدمہ کی روئیداد اور پھر فیصلہ درج کردیا ہے اور اسے اپنا معجزہ اور انگریزی انصاف کا نمونہ قرار دیا ہے اور آج تک جماعت احمدیہ بھی اسے معجزہ کے طور پر شائع کرتی آئی ہے۔ اور جس افسر نے یہ فیصلہ کیا تھا اسے آج تک عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ولایت میںہمیشہ پارٹیوں پر اُسے بلایا جاتا ہے۔ اس فیصلہ کے آخر میں اس جج نے جسے انگریزی زمانے کا پیلاطوس بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کہا جاتا ہے، یہ الفاظ لکھے ہیں:
’’ہم اس موقع پر مرزا غلام احمد کو بذریعہ تحریری نوٹس کے جس کو انہوں نے خود پڑھ لیا اور اس پر دستخط کردیئے ہیں، باضابطہ طور پر متنبہہ کرتے ہیںکہ ان مطبوعہ دستاویزات سے جو شہادت میں پیش ہوئی ہیں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اشتعال اور غصہ دلانے والے رسالے شائع کئے ہیں۔ جن سے ان لوگوں کی ایذا متصور ہے۔ جن کے مذہبی خیالات اس کے مذہبی خیالات سے مختلف ہیں جو اثر کہ اس کی باتوں سے اس کے بے علم مُریدوں پر ہوگا اس کی ذمہ داری انہی پر ہی ہوگی اور ہم انہیں متنبہہ کرتے ہیں کہ جب تک وہ زیادہ ترمیانہ روی اختیار نہ کریں گے وہ قانون کی رو سے بچ نہیں سکتے۔ بلکہ اس کی زد کے اندر آجاتے ہیں‘‘۔ ۷؎
اس فیصلہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام معجزانہ قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ اس میں اصل الزام کو غلط قرار دیا گیا ہے۔ مگر دیکھ لو کہ اس فیصلہ میں ویسے ہی لفظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں لکھے گئے ہیں کہ جیسے مقدمہ بنام عزیز احمد میںمیری نسبت لکھے گئے ہیں۔ بلکہ مسٹر ڈگلس کے لفظ زیادہ سخت ہیں۔ کیپٹن ڈگلس نے بھی یہ لکھا ہے کہ بے علم مرید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے دھوکا کھاسکتے ہیں اس لئے آپ کو احتیاط کرنی چاہئے۔ اور ہائیکورٹ میں بھی عام واعظانہ رنگ میں یہ بات کہی ہے کہ مذہبی لیڈروں کو احتیاط کرنی چاہئے۔ ہاں الفاظ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کیپٹن ڈگلس نے ہائیکورٹ کے ججوں سے زیادہ سخت لفظ استعمال کئے ہیں۔مگر پھر بھی مصری اور ان کے رفقاء خوش ہیں کہ مرزا محمود احمد کی ذلّت ہوگئی۔اس کی اپیل مسترد ہوگئی۔ اگریہ الفاظ سخت ہیں اور ان سے ہتک ہوتی ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں کیا اعتقاد رکھتے ہیں؟
پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’’دھی اے نی میں تینوں کواں۔ نوہیںنی تُو کَن رکھ‘‘۔ یعنی ماں اپنے بیٹے کے ڈر کی وجہ سے کہ وہ لڑائی کرے گا اور بیوی کی مدد کرے گا بہو کو تو کچھ نہیں کہتی بلکہ گالیاں دیتے وقت اپنی لڑکی کومخاطب کرلیتی ہے اور دراصل اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بہو کو سنائے۔ میں سمجھتا ہوں یہی حال ان لوگوں کا ہے۔ اصل میں یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بدظن ہوچکے ہیں۔ مگر آپ کو براہ راست گالیاںدیں تو جماعت ان سے بدظن ہوجائے اس لئے یہ لوگ ایسے امور کو سامنے رکھ کر جن میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت ہے، مجھے گالیاں دیتے ہیں اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دینے کیلئے راستہ صاف کرتے ہیں۔ اگر ان میں تقویٰ ہوتا تو وہ یہ غور کرتے کہ آخر اِس شخص کو ہر بات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیوں مشابہت حاصل ہورہی ہے اور سمجھتے ہیں کہ آخر کیا بات ہے کہ جو مجھ پر اعتراض کرتا ہے وہ مجبور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی اعتراض کرے۔
مصری صاحب نے اپنے اشتہار ’’بڑا بول‘‘ میں میرے ان الفاظ کو کہ ’’مجھے یہ یقین ہے کہ جو شخص مجھے چھوڑتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑتا ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑتا ہے وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو چھوڑتا ہے اور جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو چھوڑتا ہے وہ خداتعالیٰ کو چھوڑتا ہے‘‘، ’’بڑی تعلّی اور بڑا غلوّ‘‘ کہا ہے۔ مگر وہ دیکھ لیں کہ جو اعتراض وہ مجھ پر کرتے ہیں اس سے زیادہ سخت اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پڑتا ہے یا نہیں۔ اور یہ امر اس الٰہی قانون کے ماتحت ہے کہ جب تم ایک صداقت پر حملہ کرو تو وہ حملہ ضرور دوسری صداقت پر بھی پڑھتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اگر اس قسم کے فقروں سے ذلّت ہوسکتی ہے جو ہائیکورٹ کے فیصلہ میں تھے تو مصری صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ کیونکہ جو فقرے میرے متعلق لکھے گئے ہیں ان سے زیادہ سخت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لکھے گئے ہیں۔
پس اس واقعہ سے تو میری حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت ثابت ہوتی ہے نہ یہ کہ مجھ پر اعتراض پڑتا ہے۔ بلکہ عقلمند انسان کیلئے تو اس فیصلہ میں ایک سے زیادہ مشابہتیں ہیں۔
۱- وہ مشابہت ہے جو میں بتاچکا ہوں۔ یعنی ایک ہی قسم کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اور میرے متعلق عدالت نے استعمال کئے ہیں۔
۲- حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی سازش قتل کا الزام لگایا گیا اور میرے متعلق بھی، اور اسی سلسلہ میں یہ الفاظ لکھے گئے۔
۳- جن مجسٹریٹ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اس قسم کے الفاظ استعمال کئے تھے ان کا نام کیپٹن ڈگلس تھا۔ اور جس بنچ نے میرے متعلق اس قسم کے لفظ استعمال کئے ہیں ان کا نام بھی سرڈگلس ہے۔
اب تم غور کرو کہ یہ باریک سے باریک مشابہتیں کون پید اکرارہا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ موسیٰ کی پیشگوئیاں جو تیرے حق میں پوری ہوری ہیں کیا تو مدین میں موجود تھا یا تو طُور پر موجود تھا کہ موسیٰ سے یہ باتیں تُونے کہلالیں۔۸؎ اسی طرح میں بھی کہتا ہوںکہ میںتو اُس وقت بچہ تھا۔ کیا میں نے مارٹن کلارک اور دوسرے پادریوں کو کہہ دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایسا مقدمہ کریں، پھر کیا میں نے عبدالحمید کو اس قسم کا بیان دینے کیلئے تیار کرلیا تھا؟ اور پھر میں نے گورنمنٹ کو کہہ دیا کہ ڈگلس نام کے ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں اس کی سماعت کرائے؟ اور پھر کیا اب بھی میں نے یہ کوشش کی تھی کہ اس نام کے چیف جسٹس اس صوبہ میں آئیں اور وہ مقدمہ عزیز احمد کی سماعت خود کریں؟ پھر کیا میں نے ہی مصری صاحب سے کہا تھا کہ وہ مجھ پر قتل کا دعویٰ کردیں تاکہ میری مشابہت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ثابت ہوجائے؟ اگر یہ سب باتیں منصوبہ ہیں تو پھر مصری صاحب بھی اس میں شامل ہیں اور وہ مخالفت سے نہیں بلکہ جان بوجھ کر مجھ سے الگ ہوئے ہیں تاکہ وہ ایسی مشابہت کے سامان پیدا کریں۔
کہا جاسکتا ہے کہ جس مجسٹریت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا، ان کے نام کا آخری حصہ ڈگلس تھا۔ اور موجودہ چیف جسٹس کے نام کا یہ پہلا حصہ ہے اور یہ فرق ہے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ خداتعالیٰ نے اس کا علاج بھی کردیا ہے اور وہ یہ کہ جن صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا وہ مسٹر تھے اور چیف جسٹس صاحب نائٹ ۹؎ ہیں۔ اور انگریزی قوم کا دستور ہے کہ جو نائٹ نہ ہوں اُن کے نام کا آخری حصہ بولاجاتا ہے اور جو نائٹ ہوں اُن کے نام کا پہلا حصہ پکارا جاتا ہے۔ اس طر ح بولنے میں وہ صاحب کیپٹن ڈگلس کہلائیں گے اور چیف جسٹس صاحب سرڈگلس کہلائیں گے اور نام کی مشابہت بولنے کے ذریعے سے پوری طرح قائم رہے گی۔
غرض اس مقدمہ نے بھی میری حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت ثابت کی ہے اوریہ امر دشمن کیلئے یقینا ذلت کا موجب ہے مگر ان سب باتوں کے باوجود مصری صاحب اور ان کے ساتھی یہی کہتے پھرتے ہیں کہ اپیل مسترد ہوگئی، بڑی ذلّت ہوئی حالانکہ یہ اِسترداد بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم کسی سے کہیں کہ معافی مانگو تم نے گالی دی ہے۔ تو وہ کہے کہ میں نے تو گالی دی ہی نہیں معافی کیسی مانگوں۔ اگر تو ہائیکورٹ کے جج کہتے ہیں کہ اس خطبہ میں سزا سے مراد جسمانی سزا ہی ہے مگر ہم اپنے الفاظ واپس نہیں لے سکتے پھر تو مصریوں کا اعتراض صحیح ہوسکتا تھا۔ مگر جب وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو یہ الفاظ کہے ہی نہیں تو پھر صرف یہ کہتے چلے جانا کہ درخواست مسترد ہوگئی، کس قدر دھوکا ہے۔ان لوگوں کی دیانتداری اور تقویٰ کا حال اور بہت سی باتوں سے بھی معلوم ہوسکتا ہے۔ مثلاً یہ کہ یہ لوگ واقعات کو بالکل غلط رنگ میں پیش کرتے ہیں اور چھپے ہوئے حوالہ جات کو پیش کرتے ہوئے بھی بددیانتی سے نہیں رُکتے۔ مثلاً شیخ مصری صاحب نے مجھ پر جو استغاثہ دائر کیا تھا اُس میں مجھ پر یہ الزام لگایا ہے کہ گویا میں نے خطبات کے ذریعہ سے قتل کی تحریک کی ہے اور ثبوتوں میںسے ایک ثبوت کے طور پر ۲۳؍ مئی ۱۹۳۷ء کے ایک خطبہ کو پیش کیا تھا اور لکھا تھا کہ مرزامحمود احمد نے اپنے اس خطبہ میں کہا ہے کہ ’’یاد رکھو دنیا میں قیامِ امن دو ذرائع سے ہوتا ہے یا اُس وقت جب مارکھانے کی طاقت انسان میں پیدا ہوجائے یا جب دوسرے کو مارنے کی طاقت انسان میں پیدا ہوجائے۔ درمیانی دوغلہ کوئی چیز نہیں۔ اگر اِن دونوں عقیدوں کے چالیس چالیس آدمی بھی میسر آجائیں تو ہم دنیا کو ڈرا سکتے ہیں۔ اگر چالیس آدمی ایسے میسر آجائیں جو مارکھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ دنیا کو ڈراسکتے ہیں اور اگر چالیس آدمی ایسے میسر آجائیں جو مارنے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ بھی دنیا کو ڈراسکتے ہیں۔ بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مار کر پیچھے ہٹتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو دلیری سے سچ بولتا ہے اور اگر مارکھانے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر جوش میں نہیں آتا اور اپنے نفس کو شدید اشتعال کے وقتوں میں بھی قابو میں رکھتا ہے۔پس اگر تم جینا چاہتے ہو تو دونوں میں سے ایک اصل اختیار کرو۔
مَیں پھر ایک دفعہ کھول کھول کر بتادیتا ہوں کہ شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں۔ یا انسان کو مرناآتا ہو یا انسان کو مارنا آتا ہو۔ اگر کوئی انسان سمجھتا ہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہے تو میں اُس سے کہوں گا کہ اے بے شرم! تُو آگے کیوں نہیں جاتا اور اس منہ کو کیوں توڑنہیں دیتا جس منہ سے تُونے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دلوائی ہیں۔ گندے سے گندے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق کہے جاتے ہیں۔ تم خود دشمن سے وہ الفاظ کہلواتے ہو اور پھر تمہاری تگ و دَو یہیں تک آکر ختم ہوجاتی ہے کہ گورنمنٹ سے کہتے ہو وہ تمہاری مدد کرے۔ وہ تمہارے صبر کو بُزدلی پر محمول کریں گے۔ تمہارا گورنمنٹ کے پاس شکایت کرنا بالکل بے سود ہے‘‘۔
یہ الفاظ ہیں جو مصری صاحب نے میری طرف منسوب کئے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ میرا خطبہ ’’الفضل‘‘ ۵ ؍ جون ۱۹۳۷ء میں دس صفحات پر شائع ہؤا ہے اور انہوں نے اس دس صفحہ کے خطبہ میں سے یہ الفاظ کہیں کہیں سے کاٹ کرلکھ دیئے ہیں۔ میں اس خطبہ کا موضوع بتادیتا ہوں تا اس کے سمجھنے میں آسانی ہو۔ بات یہ ہے کہ یہاں آریوں کا ایک جلسہ ہؤا جس کے سلسلہ میں اُنہوں نے جلوس نکالا اور اُس میں’’ لیکھرام زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے۔ اس پرایک احمدی نے جو وہاں کھڑا تھا ’’مرزا غلام احمد زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے۔ اور بعض مقامی افسروں نے افسرانِ بالا کے پاس شکایت کی کہ احمدیوں نے اس موقع پر اشتعال انگیز رویہ اختیار کیا۔ میںاُس وقت سندھ میںتھا۔ میرے پاس ایک احمدی نے یہ شکایت لکھ کر بھیجی کہ مقامی پولیس والے ہمارے خلاف کیسی کیسی شرارتیں کررہے ہیں کہ ایک احمدی نے ’’مرزاغلام احمد زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا تھا مگر وہ یہ کہہ رہی ہے کہ اس نے ’’لیکھرام مُردہ باد‘‘ کہا تھا۔ اس پر میںنے سندھ سے واپس آکر یہ خطبہ پڑھا اور اس خطبہ کا مضمون یہ ہے کہ اس احمدی نے اگر’’ مرزاغلام احمد زندہ باد‘‘ کہا تو بھی غلطی کی اس لئے کہ اگر آریہ ہمارے کسی جلسہ میں آکر ’’لیکھرام زندہ باد‘‘ کہیں تو ہمیں اُس پر غصہ آئے گا یا نہیں؟ اِسی طرح ان کے جلوس کے موقع پر’’ مرزا غلام احمد زندہ باد‘‘ کہنا بھی ان کیلئے اشتعال کا موجب تھا۔ سو خطبہ کا مضمون تو یہ ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا ہے کہ جائو اور جاکر مخالفوں کو ماردو۔ غور کرو اِن دونوں باتوں میں کوئی بھی جوڑ ہے؟ مَیں توکہتا ہوں کہ اس احمدی کو ’’مرزا غلام احمد زندہ باد‘‘ بھی اس موقع پر نہیں کہنا چاہئے تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ میں نے تلقین کی ہے کہ جائو اور جاکر مخالفوں کو ماردو۔
اب دیکھو میرے الفاظ کس طرح کاٹے گئے ہیں۔ میری عبارت یوں ہے :
(مصری صاحب کے نقل کردہ حصہ کو خالی چھوڑ دیا گیا ہے اور جو حصہ انہوں نے جان بوجھ کر چھوڑ دیا ہے تاکہ لوگوں کو دھوکا لگے اُس کے نیچے لکیر کھینچ دی گئی ہے تا دوستوں کو معلوم ہوجائے کہ کس قدر خیانت سے کام لیا گیا ہے)۔
’’یاد رکھو دنیا میں قیامِ امن دو ذرائع سے ہوتا ہے یا اُس وقت جب مارکھانے کی طاقت انسان میں پیدا ہوجائے۔ یا جب دوسرے کو مارنے کی طاقت انسان میں پیدا ہو جائے۔ درمیانی دوغلہ کوئی چیزنہیں۔ اب جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم سے میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم میںمارکھانے کی طاقت ہونی چاہئے۔ بالکل ممکن ہے تم میں سے بعضوں کا خیال یہ ہو کہ ہم میں مارنے کی طاقت ہونی چاہئے۔ میںاسے غیرمعقول نہیں کہتا۔ ہاں غلط ضرور کہتا ہوں۔ یہ ضرور کہتا ہوں کہ اس نے قرآن کو نہیں سمجھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو نہیں سمجھا۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے مارنے کیلئے جو شرائط رکھی ہیں وہ اِس وقت ہمیں میسر نہیں۔ پس کم سے کم میں اسے شرارتی یا پاگل نہیں کہوں گا۔ میں زیادہ سے زیادہ یہی کہوں گا کہ اس کی ایک رائے ہے جو میری رائے سے مختلف ہے۔ لیکن تمہاری یہ حالت ہے کہ تم میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے اور پھر جب وہ ہماری تعلیم کے صریح خلاف کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے تو بھاگ کر ہمارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بچانا، مجھے بچانا۔ آخر جماعت تمہیں کیوں بچائے۔ کیا تم نے جماعت کے نظام کی پابندی کی یا اپنے جذبات پر قابو رکھا اور اگر تم اس خیال کے قائل نہیں تھے تو پھر تمہیں ہمارے پاس بھاگ کر آنے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہیں چاہئے کہ تم دلیری دکھائو اور اپنے جُرم کا اقرار کرو۔
(اوپر کی نشان کردہ عبارت کو مصری صاحب نے چھوڑ دیا ہے اور اگلی عبارت اس کے ساتھ جوڑ دی ہے۔)
اگر اِن دونوں عقیدوں کے چالیس چالیس آدمی بھی میسر آجائیں جو مارکھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ دنیا کو ڈراسکتے ہیں۔ اور اگر چالیس آدمی ایسے میسر آجائیں جو مارنے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ بھی دنیا کو ڈراسکتے ہیں۔
(اس کے آگے کی عبارت پھر انہوں نے چھوڑ دی ہے۔)
مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ جب تم میں سے بعض دشمن سے کوئی گالی سنتے ہیں تو ان کے منہ سے جھاگ بھرآتی ہے اور وہ کُود کر اس پر حملہ کردیتے ہیں۔ لیکن اُسی وقت ان کے پیر پیچھے پڑ رہے ہوتے ہیں۔ تم میں سے بعض تقریر کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ہم مرجائیں گے مگر سلسلہ کی ہتک برداشت نہیں کریںگے لیکن جب کوئی ان پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو پھر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں بھائیو کچھ روپے ہیں کہ جن سے مقدمہ لڑا جائے، کوئی وکیل ہے جو وکالت کرے۔ بھلا ایسے خنثوں ۱۰؎نے بھی کسی قوم کو فائدہ پہنچایا ہے۔
(اس کے بعد ذیل کی عبارت انہوں نے پہلی عبارت سے جوڑ دی ہے۔)
بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مار کر پیچھے ہٹتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو دلیری سے سچ بولتا ہے اور اگر مارکھانے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر جوش میں نہیں آتا اور اپنے نفس کو شدیداشتعال کے وقتوں میں بھی قابو میں رکھتا ہے۔پس اگر تم جینا چاہتے ہو تو دونوں میں سے ایک اصل اختیار کرو۔
(اس کے بعد ذیل کی عبارت ہے جو مصری صاحب نے حذف کردی ہے۔ اس کو ساتھ ملا کر پڑھو اور دیکھو کہ یہ مصلح ہونے کا دعویٰ کرنے والا کس تقویٰ کا مالک ہے۔)
جو کچھ میں سمجھتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ میں سچ سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ بہادر بنو۔ مگر اس طرح کہ مارکھانے کی عادت ڈالو اور امام کے پیچھے ہوکر دشمن سے جنگ کرو۔ ہاں جب وہ کہے کہ اب لڑو، اُس وقت بے شک لڑو۔ لیکن جب تک تمہیںامام لڑائی کا حکم نہیں دیتا اُس وقت تک دشمن کو سزا دینے کا تمہیں اختیار نہیں۔ لاٹھی اور سوٹے سے نہیں بلکہ ایک ہلکا سا تھپڑ مارنا بھی تمہارے لئے جائز نہیں۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں تھپڑ تو الگ رہا ایک گلاب کے پھول سے بھی تمہیں دشمن کو اُس وقت تک مارنے کی اجازت نہیں جب تک امام تمہیں لڑائی کی اجازت نہ دے۔ لیکن اگر تمہارا یہ عقیدہ نہیںتب بھی مَیں شریف انسان تمہیںتب سمجھوںگا کہ اگر تمہارا یہ دعویٰ ہو کہ گالی دینے والے دشمن کو ضرور سزا دینی چاہئے اور تم اُس گالی دینے والے کے جواب میں سخت کلامی کرتے ہو اور اس سے جوش میں آکر وہ پھر اَور بدکلامی کرتا ہے تو پھر تم مٹ جائو اور اپنے آپ کو فنا کردو لیکن اُس منہ کو توڑ دو جس منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے گالی نکلی تھی کیونکہ اُس کو خاموش کرانا تمہارا ہی فرض ہے کیونکہ تمہارے ہی فعل سے اُس نے مزید گالیاں دی ہیں۔ کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم ایک سخت بدلگام دشمن کا جواب دے کر اُس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دلواتے ہو اور پھر خاموشی سے گھروں میں بیٹھ رہتے ہو!! اگر تم میں رائی کے دانہ کے برابر بھی حیا ہے اور تمہارا سچ مچ یہ عقیدہ ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے تو پھر یا تو تم دنیا سے مٹ جائو یا گالیاں دینے والے کو مٹادو۔ مگر ایک طرف تم جوش اور بہادری کا دعویٰ کرتے ہو اور دوسری طرف بُزدلی اور دون ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہو۔ میں تو ایسے لوگوں کے متعلق یہی کہتا ہوں کہ وہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دلواتے ہیں اور وہ آپ سلسلہ کے دشمن اور خطرناک دشمن ہیں۔ اگر کسی کو مارنا پیٹنا جائز ہوتا تو میں کہتا کہ ایسے لوگوں کو بازار میں کھڑا کرکے خوب پیٹنا چاہئے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ گالیاں دِلواتے ہیں اور پھر مخلص اور احمدی کہلاتے پھرتے ہیں۔
(اس کے آگے کچھ عبارت اس مضمون کی تائید میں ہے جسے بخوفِ طوالت چھوڑا جاتا ہے۔ مصری صاحب نے اس سب عبارت کو اپنے مخصوص اغراض کی وجہ سے حذف کرکے ذیل کا فقرہ چُن کر پہلے بیان کردہ فقرہ سے جاملایا ہے)۔
پس میں پھر ایک دفعہ کھول کھول کر بتادیتا ہوں کہ شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں یا انسان کو مرنا آتا ہو یا انسان کو مارنا آتاہو۔
(اس کے بعد کے فقرات جو ان کے مضمون کے غلط ہونے کو روزِ روشن کی طرح ثابت کردیتے ہیں۔ انہوں نے پھر حذف کردیئے ہیں اور وہ یہ ہیں)
ہمارا طریقہ مرنے کا ہے، مارنے کانہیں۔ ہم کہتے ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے ابھی اس مقام پر رکھا ہؤا ہے کہ مرجائو مگر اپنی زبان نہ کھولو۔ کیا تم نے جہاد پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظم نہیں پڑھی۔ اس میں کس وضاحت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتادیا ہے کہ اگر جہاد کا موقع ہوتا تو خداتعالیٰ تمہیںتلوار کیوںنہ دیتا۔ اُس کا تلوار نہ دینا بتاتا ہے کہ یہ تلوار سے جہاد کا موقع نہیں۔ اسی طرح اگرتمہارے لئے مارنے کا مقام ہوتا تو تمہیںاس منہ کے توڑنے کی طاقت اور اس کے سامان بھی ملتے، جس منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ مگر تمہیں اس کی توفیق نہیں دی گئی اور سامان نہیں دیئے گئے۔ پس معلوم ہؤا کہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے یہی مقام مقدر کیا ہے کہ تم گالیاں سنو اور صبر کرو۔
(اوپر کی عبارت کو چھوڑ کر پھر مصری صاحب نے ذیل کا فقرہ چُن لیا ہے۔)
اور اگر کوئی انسان سمجھتا ہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہے تو میں اسے کہوںگا کہ اے بے شرم تُو آگے کیوں نہیں جاتا اور اُس منہ کو کیوں توڑ نہیں دیتا جس منہ سے تُونے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دلوائی ہیں۔ گندے سے گندے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق کہے جاتے ہیں۔ تم خود دشمن سے وہ الفاظ کہلواتے ہو پھر تمہاری تگ و دَو یہیں تک آکر ختم ہوجاتی ہے کہ گورنمنٹ سے کہتے ہو وہ تمہاری مدد کرے۔
(آگے ذیل کی عبارت پھر انہوں نے چھوڑ دی ہے۔)
گورنمنٹ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ تمہاری مدد کرے ۔ کیا اس کا اور تمہارا مذہب ایک ہے یا اس کی تمہاری سیاست ایک ہے؟ گورنمنٹ اگر ہمدردی کرے گی تو ان لوگوں کی جو تمہارے دشمن ہیں؟ کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں اور تم اقلیت میں۔ اور گورنمنٹوں کو اکثریت کی خوشنودی کی ضرورت ہوتی ہے پس گورنمنٹ کو تم سے کس طرح ہمدردی ہوسکتی ہے۔ اُس کو تو اُسی وقت تک ہمدردی تمہارے ساتھ ہوسکتی ہے جب تک تم خاموش رہو اوردشمن کے مقابلہ میں صبر سے کام لو اور اس صورت میںبھی صرف شریف حاکم تمہاری مدد کریں گے اور کہیں گے انہوں نے ہمیں فتنہ و فساد سے بچالیا۔ مگر یہ خیال کرنا کہ گورنمنٹ اُس وقت مدد کرے جب دشمن تم کو گالیاں دے رہا ہو اور تم جواب میں اُسے گالیاں دے رہے ہو، نادانی ہے۔ اُس وقت اُس کی ہمدردی اکثریت کے ساتھ ہوگی۔ کیونکہ وہ جانتی ہے اقلیت کچھ نہیں کرسکتی۔ پس گورنمنٹ سے اسی صورت میں تم امداد کی توقع کرسکتے ہو جب خود قربانی کرکے لڑائی اور جھگڑے سے بچو۔ اور اُس وقت بھی صرف شریف افسر تم سے ہمدردی کریں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے ہماری بات مان لی اور خاموش رہ کر اور صبر کر کے فتنہ و فساد کو بڑھنے نہ دیا۔ مگر رذیل حُکّام پھر بھی تمہارے ساتھ لڑیں گے اور کہیں گے کیا ہؤا اگر دشمن کا تھپڑ انہوں نے کھالیا۔ وہ زیادہ تھے اور یہ تھوڑے۔ اگر اکثریت سے ڈر کر تھپڑ کھالیا ہے تو یہ کوئی خوبی نہیں۔
(یہاں تک کی عبارت کو حذف کرکے مصری صاحب نے اگلا فقرہ نقل کردیا ہے۔)
پس وہ تمہارے صبر کو بُزدلی پر محمول کریں گے ۔
(اس کے بعد یہ فقرہ حذف کردیا ہے۔)
’’اور تمہاری خاموشی کو کمزوری کا نتیجہ قرار دیں گے پس‘‘
(اس کے بعد ذیل کا فقرہ نقل کردیا ہے۔)
’’تمہار اگورنمنٹ کے پاس شکایت کرنا فضول ہے‘‘۔
اب دیکھ لو میرے فقروں کو کس طرح توڑ مروڑ کر اور کانٹ چھانٹ کر کوئی ٹکڑا کہیں سے اور کوئی کہیں سے لے کر پیش کیا ہے اور پھر یہ شخص کہتا ہے کہ میں مصلح کی حیثیت سے کھڑا ہؤا ہوں۔
یاد رکھو دین کی اصلاح صرف وہی کرسکتا ہے جو سچائی کی مضبوط چٹان پر قائم ہو اور اس کی دیانت تو اِسی سے ظاہر ہے کہ میں تو کہتا ہوں کہ مارنا اور فساد کرنا قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے، احادیثِ صحیحہ کے خلاف ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف ہے، میری تعلیم کے خلاف ہے۔ لیکن جو اِس تعلیم کو غلط سمجھتا ہے وہ خود ذمہ دار ہے، وہ ہمارے ساتھ کیوں شامل ہے۔ یہ بالکل غیرشریفانہ بات ہے کہ وہ شامل تو ہم میں ہے مگر کام غیروں والے کرتا ہے اور کہ میری رائے تو یہی ہے لیکن اگر کوئی اس سے مخالف رائے رکھتا ہے تو اس کی ذمہ داری اسی پر ہونی چاہئے۔ جماعت اسے کیوں بچائے۔ کیا اس نے نظام کی پابندی کی ہے؟ پھر میں تو یہ کہتا ہوں کہ دنیا میں انسان کو شرافت اور سچائی اختیار کرنی چاہئے اور اگر وہ کسی کو مارنا چاہے تو ہمارے ساتھ شامل نہ رہے۔ ان لوگوں میں چلا جائے جو ایسا عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہ دوغلہ پن ٹھیک نہیں کہ ملاتو رہے ہم میں اور کام وہ کرے جو ہم جائز نہیں سمجھتے۔ مگر یہ صاحب بیچ میں سے کئی کالم کے مضمون چھوڑ کرایسے رنگ میں بات کوپیش کرتے ہیں کہ گویا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مخالفوں کو مارو اور ان کو فنا کردو۔ بے شک ایک جگہ میں نے کہا ہے کہ اگر ایسے چالیس آدمی میسر آجائیں تو ہم دنیا کو ڈراسکتے ہیں۔ لیکن یہ اردو کا محاورہ ہے کہ جب قانون بیان کرنا ہو تو اس موقع پر بھی ’’ہم‘‘ کا لفظ استعمال کردیتے ہیں۔انگریزی میں ایسے موقع پر ایک کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں۔ عربی میں یہ محاورہ ہے مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم‘‘ انصار یہ کہہ سکتے ہو کہ ہم نے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) کو اُس وقت پناہ دی جب اس کے وطن والوں نے اس کو نکال دیا مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے بعض منافق طبع یوں کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح ان الفاظ میں کہ اگر اِن دونوں عقیدوں کے چالیس چالیس آدمی بھی میسر آجائیں تو ہم دنیا کو ڈراسکتے ہیں ایک قانون بیان کیا گیا ہے۔ ایک قاتل یا ڈاکو اُٹھتا ہے تو تمام علاقے میں دہشت پیدا کردیتا ہے۔ اسی طرح میں نے یہ کہا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی ڈاکو بننا چاہتا ہے تو اُسے چاہئے کہ جاکر ڈاکوئوں میں شامل ہو۔ لیکن اگر ہمارے ساتھ رہنا ہے تو پھر مارکھائو۔ لیکن میرے ان الفاظ کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے اور اس سارے مضمون کو نظرانداز کرکے پھر ان الفاظ کو نقل کردیا ہے کہ ’’بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مارکر پیچھے ہٹتا ہے‘‘۔ حالانکہ ان الفاظ میں تو میں نے انسانی فطرت کا ذکر کیا ہے۔ کیا دنیا میں ایسے لوگ نہیں گزرے؟ سکندر اورنپولین وغیرہ ایسے ہی لوگ تھے۔ ایمان سے باہر بھی تو بہادری کے اظہار کے ذرائع ہیں۔ اسی کا مَیں نے ذکر کیا ہے۔ ان الفاظ میں مؤمنوں کا میں نے ذکر نہیں کیا ۔ کہتے ہیں سکھ بڑے بہادر ہوتے ہیں۔ تو کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ سچے مؤمن ہوتے ہیں؟ یہ تو عام دُنیوی اخلاق ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
پھر میں نے کہا تھا کہ ’’اِن دونوں میں سے ایک اصل اختیار کرو۔ جو کچھ میں سمجھتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ میں سچ سمجھتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ ’’بہادر بنو مگر اس طرح کہ مارکھانے کی عادت ڈالو‘‘۔ اگر ان الفاظ کو وہ ساتھ نقل کردیتے تو میرا مطلب واضح ہوجاتا۔ اس لئے ان الفاظ کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔ اسی طرح میں نے تو لکھا تھا کہ ’’اگر تم جیتنا چاہتے ہو‘‘۔ مگر انہوں نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے کہ اگر تم جینا چاہتے ہو جس سے ان کی غرض یہ ہے کہ ذہن خالص احمدی نقطۂ نگاہ کی طرف پھِرے، عام قانون کی طرف لوگوں کی توجہ نہ ہو۔یہ مصری صاحب کا حال ہے۔ وہ اس طرح بددیانتی کے ساتھ میرے فقروں کوپیش کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ دعویٰ کرتے جاتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ اور جماعت احمدیہ کا ایک حصہ گندہ ہوگیا ہے اور مصری صاحب اس کی اصلاح کیلئے کھڑے ہوئے ہیں۔
ایک اور میرا فقرہ یہ ہے کہ ’’شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں۔ یا انسان کو مرنا آتا ہو۔ یا انسان کو مارنا آتا ہو‘‘۔ ان الفاظ کو تو نقل کردیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ کا فقرہ کہ ’’ہمارا طریقہ مرنے کا ہے‘‘ چھوڑ دیا ہے۔ اس سے آگے جاکر میں نے کہا ہے کہ ’’تم گالیاں سنو اور صبر کرو‘‘۔ اسے چھوڑ کر اس کا یہ حصہ درج کردیا ہے ’’اے بے شرم تُو آگے کیوں نہیں جاتا اوراُس منہ کو کیوں توڑ نہیں دیتا جس منہ سے تُونے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دلوائی ہیں‘‘۔ پھر اس سے آگے یہ فقرہ نقل کرکے کہ گورنمنٹ تمہاری مدد نہیں کرے گی، یہ فقرہ نقل کردیا ہے کہ وہ تمہارے صبر کو بُزدلی پر محمول کریں گے۔ حالانکہ یہ فقرہ گورنمنٹ کے متعلق نہیں۔ بلکہ جیسا کہ میں نے درمیان میں نقل کیا ہے۔ یہ فقرہ رذیل حکام کے متعلق ہے اور میں نے صاف فرق کیا ہے کہ گورنمنٹ کا شریف حصہ تمہاری قدر کرے گا۔ مگر رذیل حکام تمہارے صبر کو بھی بُزدلی قرار دیں گے۔
غرضیکہ ۱۲؎ کہنے والے کی طرح صرف کہیںکہیں سے کوئی کوئی ٹکڑا جو میرا عقیدہ نہیں بلکہ دوسرے کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے لیکن میری طرف منسوب کردیا گیا۔ اور جو میرا عقیدہ وہاں بیان ہے اسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ دشمن جانتا ہے کہ وہ سچ سے میرے مقابلہ پر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ آخر مَیں بھی مصنّف ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے تصنیف کا کام کرتا آرہا ہوں۔ میں نے ۱۹۰۷ء میں مضمون لکھنے شروع کئے اور ایک دو مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی مجھ سے لکھوا کر اپنی طرف سے شائع کرائے۔ گویا آج اکتیس سال ہوئے کہ مَیں تصنیف کا کام کررہا ہوں۔ اس عرصہ میں مَیں نے سینکڑوں تقریریں کی ہیں اور درجنوں اشتہار اور رسالے بھی شائع کئے ہیں۔ کوئی ثابت تو کرے کہ میں نے بھی کبھی کوئی غلط حوالہ دیا ہے۔ میرے کسی حوالہ کو بڑے سے بڑے دشمن کے سامنے بھی رکھ دو پھر دیکھو کیا وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے کبھی کوئی حوالہ ارادتاً غلط پیش کیا ہے۔ مگر ان کو علیحدہ ہوئے ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہؤا کہ دیانت کا معیار اِس قدر گرگیا ہے اور پھر دعویٰ جماعت کی اصلاح کا ہے۔ تم کوئی ایک ہی مثال پیش کرو کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی اپنی جماعت کی اصلاح کیلئے کسی جھوٹے کو لیڈر بنا کر کھڑا کیا ہو۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ جب کوئی جماعت گندی ہوجائے اور خداتعالیٰ نے اُسے تباہ کرنے کا ارادہ کرلیا ہو تب وہ فاجروں سے بھی یہ کام لے لیتا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے کوئی چار سَو سال بعد جب بغداد پر تباہی آئی تو بغداد کے لوگ ایک بزرگ کے پاس گئے اور کہا کہ آپ دعاکریں اللہ تعالیٰ اِس تباہی سے ہمیں بچالے۔ تو انہوں نے کہا میں دعا کیا کروں۔ میں تو جب بھی دعا کیلئے ہاتھ اُٹھاتا ہوں مجھے یہی آواز آتی ہے کہ یَااَیُّھَاالْکُفَّارُ اُقْتُلُوا الْفُجَّارَ یعنی اے کافرو! ان فاجروں کو تباہ کردو۔ پس یا تو وہ یہ فیصلہ کریں کہ وہ بے شک جھوٹے اور فریبی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ احمدیت کو تباہ کرکے کوئی نیا دین قائم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اگر جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ احمدیت ایک صداقت ہے تو پھر اس کی اصلاح کیلئے کوئی جھوٹا کھڑا نہیں ہوسکتا۔
میری یہ تحریریں جن میں اس طرح کتربیونت ۱۳؎کی گئی ہے کوئی پوشیدہ باتیں نہیں ہیں بلکہ اخبار میں شائع شُدہ ہیں اور جو شخص اِن شائع شدہ تحریروں میں بھی بددیانتی سے کام لے سکتا ہے اس کی مثال اُس چور کی سی ہے جو لیمپ لے کر چوری کرنے جاتا ہے۔ یہ باتیں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری صداقت کا ایک نشان ہے۔ باریک علمی نکتے ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔ خلافت کا مسئلہ بالکل واضح ہے۔ مگر ممکن ہے کوئی شخص اس کو بھی اچھی طرح نہ سمجھ سکتا ہو۔ مگر کون ہے جو اِن باتوں کو بھی نہ سمجھ سکے اور یہ معلوم نہ کرسکے کہ میرے دشمن میرے مقابل پر کس طرح بددیانتی، جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں۔
پھر اس مقدمہ میں ایک اور نشان بھی ہے۔ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قتل کے مقدمہ کے متعلق رئویا ہوگئی تھی اسی طرح اس مقدمہ میں مجھے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رئویا ہوئی جو بالکل صحیح ثابت ہوئی۔ مجھے شیخ بشیر احمد صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ اس درخواست کے فیصلہ کیلئے جو تاریخ مقرر تھی وہ بدل گئی ہے۔ پھر اس کے بعد دوبارہ اطلاع دی کہ دوسری تاریخ جو مقرر تھی وہ بھی بدل گئی ہے ۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ تاریخوں کا بدلنا اچھا نہیں کیونکہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ اس عرصہ میں ججوں پر مخالف اثر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ میں بہت حیران تھا کہ ہائیکورٹ کے جج تو بڑے پایہ کے لوگ ہوتے ہیں ان پر بیرونی اثر ڈالنا تو ناممکن ہے۔ مگر اس کی کوشش کرنا بھی بظاہر ناممکن ہے۔ پھر یہ رئویا کس طرح پورا ہوگا۔ مگر خداتعالیٰ نے اس کے بھی سامان پیدا کردیئے اور وہ اس طرح کہ ان لوگوں نے فخرالدین صاحب ملتانی کے لڑکے کی طرف سے ایک ٹریکٹ انگریزی میں شائع کراکے ججوں کو بھجوادیا اور اسے مظلوم قرار دے کران کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس ٹریکٹ میںمیرے حوالوں کو غلط طور پر کانٹ چھانٹ کر پیش کیا گیا ہے اور ظاہر کیا گیا ہے کہ گویا وہ لوگ بہت مظلوم ہیں او ر میاں فخرالدین کو میں نے مروادیا ہے۔ یہ ٹریکٹ علاوہ دوسرے لوگوں کے بہت سے ججوں کو بھی بھجوایا گیا اور اس طرح ججوں کے خیالات پر اثر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اِس منصوبہ کو بھی ناکام کیا اورججوں کو سچ تک پہنچنے کی توفیق دی اور اُنہوں نے صاف کہہ دیا کہ خطبہ میں ہرگز جسمانی سزا کی طرف کسی کو ترغیب نہیں دلائی گئی بلکہ روحانی سزا کا ذکر ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہ خطبہ جس کو غلط رنگ میں اور بگاڑ کر اِس طرح پیش کیا گیا ہے وہ فخرالدین صاحب کے جماعت سے اخراج سے بھی پہلے کا ہے۔ یہ خطبہ ۲۷؍ مئی کا ہے اور فخرالدین صاحب کا اخراج ۷؍ جون کو ہؤا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ یہ بھی میری صداقت کے نشان دکھارہا ہے۔ ان سے ایسے جھوٹ بُلوا کر یہ بتارہا ہے کہ جو لوگ اخبار میں شائع شُدہ تحریروں میں اس طرح بددیانتی سے کام لے رہے ہیں اورجھوٹ بول رہے ہیں وہ میری پرائیویٹ زندگی پر جو الزام لگاتے ہیں وہ کس حد تک قابل اعتبار ہوسکتے ہیں۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ ایک یہودی آیا اورکہا کہ آپ نے میرا فلاں قرض دینا ہے ۔ اُس نے خیال کیا ہوگا کہ آپ کو یاد نہیں ہوگا اس لئے دوبارہ وصول کرلوں۔ یا ممکن ہے وہ واقعی بھُول گیا ہو۔ اس طرح کئی لوگ مجھ سے دوبارہ وصول کرلیتے ہیں۔ مگر جب آپ نے فرمایا کہ میں تو ادا کرچکا ہوں تو ایک صحابی نے کہا ہاں یَارَسُوْلَ اﷲ! میں گواہ ہوں کہ آپ نے ادا کردیا ہؤا ہے۔ اور جب اُس صحابی نے پورے وثوق سے گواہی دی تو اُس یہودی نے بھی کہا کہ ہاں مجھے یاد آگیا آپ ادا کرچکے ہیں۔ اُس کے جانے کے بعد رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس صحابی سے پوچھا کہ تم تو اُس وقت موجود نہیں تھے، تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ میں نے وہ قرض ادا کردیا ہؤا ہے؟ تو اُس صحابی نے کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! آپ کہتے ہیں آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے حالانکہ اسے نہ ہم دیکھتے ہیں اور نہ کوئی اَور۔ اور ہم ایمان لے آتے ہیں اور اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا کہہ دیتے ہیں۔ تو پھر اس معمولی سی بات کے صحیح ہونے کی گواہی میں ہمیں کیا تامل ہوسکتا ہے۔۱۴؎ سچائی کی طرح یہی اصل جھوٹ پر بھی چسپاں ہوتا ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص اخبار میں چھَپے ہوئے خطبہ کے متعلق اس طرح دلیری کے ساتھ جھوٹ بول سکتا ہے، پوشیدہ زندگی کے متعلق اس کی بات کس طرح قابلِ اعتبار سمجھی جاسکتی ہے۔ پس یہ الٰہی فعل ہے جس سے وہ مؤمنوں کی مدد کرتا اوردشمنوں کی ذلّت کے سامان پید ا کرتا ہے۔
مصری صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کی اصلاح کریں گے حالانکہ اِس جماعت کو اُس عظیم الشان نبی نے قائم کیا ہے جس کی خبر حضرت نوحؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی ہے اور ایسے عظیم الشان نبی کی جماعت میں جبکہ ابھی اِس کے صحابہ اِس میں زندہ موجود ہیں، اگر فتور آجائے تو اِس کی اصلاح کیلئے جو شخص کھڑا ہو وہ تقویٰ اور دیانت کے لحاظ سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے دوسرے درجہ پر تو ضرور ہونا چاہئے۔ لیکن جو شخص چھَپی ہوئی تحریروں کو اس طرح بددیانتی سے پیش کرتا ہے، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر کیس چلا تو اس کا جھوٹ ظاہر ہوجائے گا اور ان فقروں کو جو میں نے دشمن کے منہ میں ڈالے تھے دیدہ دلیری کے ساتھ میری طرف منسوب کرتا ہے، تم اُس کے ایمان اور تقویٰ کا اندازہ بآسانی کرسکتے ہو۔ اور یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی اصلاح کیلئے کھڑا ہؤا ہوں۔‘‘ (الفضل ۱۸؍ مارچ ۱۹۳۸ئ)
۱؎ البقرۃ: ۲۷ ۲؎ الرحمٰن: ۲۱ ۳؎ البقرۃ: ۱۱
۴؎ الاحزاب: ۲۳ ۵؎ بنی اسرائیل: ۶۰
۶؎ ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۴۵۰
۷؎ کتاب البریہ صفحہ۲۸۵، ۲۸۶۔ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۳۰۳، ۳۰۴
۸؎ (القصص:۴۶) (القصص: ۴۷)
۹؎ نائٹ: ( KNIGHT) ۔ وہ شخص جسے ذاتی طور پر سر کا خطاب دیا گیا ہو۔
‏ KNIGHT MARSHAL ، شاہی محل کا ایسا افسر جو امورِ قانونی سے تعلق
رکھتا تھا۔ (آکسفورڈ انگلش اُردو ڈکشنری)
۱۰؎ خنّثوں: خُنثٰی۔ ہیجڑہ
۱۱؎ بخاری کتاب مناقب الانصار باب مناقب الانصار رضی اﷲ عنھم (مفہوماً)
۱۲؎ النسائ: ۴۴
۱۳؎ کتربیونت: کانٹ چھانٹ۔ کمی بیشی
۱۴؎ ابو داؤد کتاب القضاء باب اِذَا علم الحاکم صدق شہادۃ الواحد
یجوزلہ ان یقضی بہٖ۔

۱۱
قربانیوں کے میدان میں کبھی سُست نہیں ہونا چاہئے
(فرمودہ ۱۸؍ مارچ ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے کئی دفعہ جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک جلالی ہوتے ہیں اور ایک جمالی۔ اس مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں اتنا زور دیا ہے اور اتنی وضاحت سے اس کو بیان فرمایا ہے کہ کوئی شخص بھی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں کو پڑھا ہو، اِس سے غافل نہیں رہ سکتا کہ انبیا ہمیشہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ انبیاء ہوتے ہیں جو جلالی رنگ میں آتے ہیں اور ایک وہ انبیاء ہوتے ہیں جو جمالی رنگ میں آتے ہیں۔ جو انبیاء جلالی رنگ میں آتے ہیں اُن کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کردیتا ہے کہ ان کی قوم کو دشمن سے لڑائیاں کرنی پڑتی ہیں۔ ان لڑائیوں میں فتوحات ہوتی ہیں اور اس طرح قریب ترین زمانہ میں اللہ تعالیٰ انہیں حکومت دے دیتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ تمام شرعی احکام کا نِفاذ کرکے دنیا میں شریعت کو عملی رنگ میں قائم کردیتے ہیں۔ مگر دوسری قسم کے انبیاء جو جمالی رنگ میں آتے ہیں ان کی بعثت سے پہلے چونکہ کسی جلالی نبی کے ذریعہ شریعت دنیا میں قائم ہوچکی ہوتی ہے، گو مرورِ زمانہ کی وجہ سے لوگ اُسے بھُول چکے ہوتے ہیں اس لئے یہ ضرورت نہیں ہوتی کہ شریعت کا قیام فوری طور پر عمل میں لایا جائے۔
پس اللہ تعالیٰ انہیں تدریجی رنگ میں ترقیات دیتا اور تدریجی رنگ میں ہی وہ شریعت کے احکام کا دنیا میں قیام کرتے ہیں۔ اور چونکہ دنیا جلالی قسم کے انبیاء سے یہ دھوکا کھاجاتی ہے کہ شاید اُنہوں نے تلوار کے زور سے اپنا مذہب پھیلایا ہے، اس لئے خداتعالیٰ اس اعتراض کو مٹانے کیلئے بعد میں جمالی انبیاء بھیجتا ہے جو تبلیغ کے ذریعہ وہی مذہب دنیا میں قائم کرتے ہیں۔ اس طرح جہاں ایک طرف ان کے ذریعہ خداتعالیٰ کی جمالی صفات دنیا میں ظاہر ہوتی ہیں ، وہاں ان سے پہلے جلالی نبی پر جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس نے تلوار کے زور سے اپنا مذہب پھیلایا، اس کا بھی دفعیہ ہوجاتا ہے۔
اب وہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے تلوار کے زور سے اپنا مذہب دنیا میں قائم کیا اور لڑائی کے نتیجہ میں اپنی حکومت قائم کرکے یہود کو بامِ ترقی پر پہنچایا یا وہ جو حضرت کرشن ؑ پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مخالفوں سے لڑائی کی اور انہیں تلوار سے ہلاک کرکے اپنے ساتھیوں کی حکومت ہندوستان میں قائم کردی یا وہ جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے تلوار کے زور سے عرب فتح کیا اور اسلام کو غلبہ و اقتدار حاصل ہؤا، ان کے سامنے جب یہ سوال رکھا جاتا ہے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تلوار کے زور سے اپنا مذہب دنیا میں قائم کیا تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خادموں میں سے ایک خادم اور آپ کی اُمت کے ایک نبی حضرت مسیح علیہ السلام نے بغیر تلوار چلائے کس طرح دینِ عیسوی دنیا میں قائم کردیا جو درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہی لایا ہؤا مذہب تھا۔ بعد میں لوگوں نے بگاڑ کر اُس کی اَور شکل بنادی، تو وہ سوائے خاموش رہنے کے اور کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اس طرح ان کا اعتراض فوراً باطل ہوجاتا اور کوئی ہوش مند انسان یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ اعتراض محض قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے۔ ورنہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام بغیر تلوار چلائے لوگوں کو اپنا ہم خیال نہیںبناسکتے تھے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بغیر تلوار چلائے کس طرح لاکھوں کو اپنا ہم خیال بنالیا۔ اسی طرح اگر کرشن جی پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنا مذہب تلوار کے زور سے پھیلایا تو اِس کے جواب میں یہ بات پیش کی جاسکتی ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت رام چندر جی جو اُن کے بعد آئے اُنہوں نے صلح، محبت اور قربانی سے کام لیتے ہوئے اپنے مذہب کی اشاعت کی اور لوگوں نے انہیں قبول کیا۔ اگر حضرت رام چندر جی بغیر لڑائی اور تلوار اٹھائے اپنا مذہب دنیا میں پھیلاسکتے تھے تو کیا وجہ ہے کہ حضرت کرشن ؑ نہیں پھیلاسکتے تھے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم پر جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ نے اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا، اس اعتراض کا دفعیہ اب خداتعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ کرنا چاہتا ہے۔
دنیا کہتی ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے نَعُوْذُ بِاﷲِ مذہب پھیلانے کیلئے تلوار چلائی اورلوگوں نے تلوار کے ڈر سے آپ کو قبول کرلیا۔ مگر اب خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دنیا میں اس لئے بھیجا ہے تا آپ دلائل اور براہین کے ساتھ اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب پر غالب ثابت کریں اور اس طرح اللہ تعالیٰ ان معترضین کو یہ جواب دے کہ اگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک شاگرد، ایک خادم اور ایک غلام تبلیغ کے ذریعہ اسلام کو تمام دنیا میں پھیلاسکتا ہے تو کیا وہ آقا جس کی قوتِ قدسیہ نے ایسا عظیم الشان شاگرد پیدا کیا ہے، تبلیغ کے ذریعہ دین نہیں پھیلاسکتا تھا؟ یقینا وہ بھی تبلیغ کے ذریعہ اپنا دین پھیلاسکتا تھا مگر خداتعالیٰ کی حکمت نے اُس وقت جلال کا ظہور چاہا اور اُسی کی حکمت نے اب جمال کا ظہور دنیا میں فرمایا۔
پھر میں نے کئی دفعہ جماعت کے دوستوں کو خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر کے اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جلالی رنگ کے زمانہ میں وہ ہمیشہ جلد جلد ایسی قربانیاں طلب کرتا ہے جن کا نتیجہ تھوڑے ہی دنوں میں ظاہر ہوجاتا ہے جیسے جان کی قربانی ہے۔ مگر جمالی زمانہ میں خداتعالیٰ آہستہ آہستہ قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے اور جیسا کہ میں نے کئی دفعہ بتایا ہے یہ قربانیاں جن کا مطالبہ آہستہ آہستہ کیا جاتا ہے کوئی کم قسم کی یا ادنیٰ قسم کی قربانیاں نہیں ہوتیں بلکہ بعض حالات میں پہلی قسم کی قربانیوں سے یہ زیادہ سخت ہوتی ہیں اور درحقیقت انسانی ایمان کی آزمائش ایسی ہی قربانیوں سے ہوتی ہے۔ کیونکہ اوّل تھوڑی قربانی سے دل پر دہشت طاری نہیں ہوتی اور بِالعموم انسان اس کے کرتے وقت پوری ہمت سے کام نہیں لیتا۔ بے شک جو مؤمن ہوتا ہے وہ باوجود اس کے کہ خطرہ نمایاں صورت میں اس کے سامنے نہیں ہوتا، قربانی کیلئے کھڑا ہوجاتا ہے۔ مگر جس کا ایمان کمزور ہوتا ہے وہ اس تسلی میں رہتا ہے کہ ابھی کوئی گھبراہٹ کا موقع نہیں اور اس طرح باوجود اپنے دل میں کسی قدر ایمان رکھنے کے وہ قربانی کے صحیح مقام پر کھڑا نہیں ہوتا اور دھوکا میں مبتلا رہتا ہے۔ مگر جہاں لڑائی ہورہی ہو، جہاں تلواریں چل رہی ہوں، جہاں کفار اپنی پوری طاقت سے مسلمانوں کو مٹانے کیلئے حملہ آور ہوں وہاں نفس انسان کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ وہاں جب کبھی دھوکا دے گا اس رنگ میں دے گا کہ اسلام کو چھوڑ و، اس میں شامل رہ کر تو مصائب ہی مصائب برداشت کرنے پڑتے ہیں مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ خطرہ کوئی نہیں۔ مثلاً جب کفارِ مکّہ کا لشکر آگیا اور مسلمانوں نے دیکھ لیا کہ ابوجہل یا ابوسفیان اس کا کمانڈر ہے اور ہزاروں آدمی اس لشکر میں شامل ہوکر مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے تیار ہیں تو اُس وقت کونسا کمزور سے کمزور مسلمان بھی کہہ سکتا تھا کہ کوئی خطرہ نہیں، یہ محض وہم ہے۔ لیکن اگر دشمن کا حملہ مخفی ہے یا ظاہری سامانِ حرب کی بجائے دلائل سے وہ اسلام کے قلعہ پر حملہ آور ہے یا مختلف رنگ کی سازشوں سے وہ اسلام کو کُچلنا چاہتا ہے یا منافقت کے ساتھ مسلمانوں میں شامل رہ کر اسلام کو ضُعف پہنچانا چاہتا ہے تو ان تمام صورتوں میں جب کہا جائے گا کہ آئو اور قربانی کرو تو بہت سے کمزور طبع لوگ یہ کہنے لگ جائیں گے کہ یونہی ڈرارہے ہیں دشمن کی طرف سے تو کوئی حملہ نظر نہیں آتا۔ پس اس وجہ سے یہ ابتلاء زیادہ خطرناک ہوتے ہیں اور اگر پہلی قسم کے ابتلاء میں بعض کمزور ایمان والے بچ بھی جاتے ہیں اور وہ خطرہ کو اپنے سامنے دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ قربانی کا وقت آگیا ہے تو دوسری قسم کے ابتلاء میں باوجود ایمان رکھنے کے بعض لوگ تباہ ہوجاتے ہیں کیونکہ جو قربانی کا وقت ہوتا ہے اسے وہ محض اس وجہ سے کہ دشمن کا حملہ مخفی ہوتا ہے کھو بیٹھتے ہیں۔
پھر دوسرا خطرہ جمالی زمانہ کی قربانیوں میں یہ ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ لمبی قربانیوں سے گھبراجاتے ہیں۔ کئی دفعہ میں نے مثالوں سے بھی اِس بات کو ثابت کیا ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ملیں گے جنہیں اگر یہ کہا جائے کہ جائو اور دشمن سے لڑ کر مرجائو تو وہ فوراً اپنی جان دینے کیلئے تیار ہوجائیں گے لیکن اگر روزانہ اُن سے تھوڑی تھوڑی قربانی کا مطالبہ کیا جائے تو وہ رہ جائیں گے اور قربانی میں ہچکچاہٹ محسوس کرنے لگ جائیں گے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت یہ خبر دی ہوئی ہے کہ جماعت پر ابتلاء پر ابتلاء آئیں گے اور آزمائش پر آزمائش ہوگی، یہاں تک کہ بہت سے لوگ جھڑ جائیں گے اور صرف وہی باقی رہ جائیں گے جو سچے مؤمن ہوں گے اور اُنہی کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ احمدیت کو فتح دے گا۔
بہت سے نادان ایسے ہیں جو میری نسبت اعتراض کرتے رہتے ہیں اور دنیا کا طریق بھی کچھ ایسا ہے کہ جو حاضر شخص ہوتا ہے اس پر اعتراض لوگ آسانی سے قبول کرلیتے ہیں کیونکہ کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اسے لوگوں کے خلافِ منشاء کرنی پڑتی ہیں اور اس کا اُنہیں رنج ہوتا ہے۔ لیکن وہ شخص جو فوت ہو جاتا ہے لوگ اُس پر اعتراض بہت کم کیا کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اس نے دنیا میں جو کام کرنا تھا کرلیا۔ پس دنیا میں حاضر شخص پر الزام زیادہ قائم ہؤا کرتے ہیں اور وفات یافتہ لوگوں کی تعریف زیادہ کی جاتی ہے۔ چونکہ اس زمانہ میں ایک حصۂ جماعت کو منافقوں کے اثر کی وجہ سے مجھ پر اعتراض کرنے کی عادت ہوگئی ہے اِس لئے جب میری طرف سے قربانیوں کا مطالبہ ہوتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ اپنی طرف سے بات بنارہے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لٹریچر موجود ہے، اسے پڑھو۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صاف طور پر لکھا ہے کہ میرے بعد ابتلاء پر ابتلاء آئیں گے اور اس حد تک آئیں گے کہ جماعت کاکمزور حصہ الگ ہوجائے گا مگر وہ جو آخر دم تک ثابت قدم رہیںگے خداتعالیٰ انہی کے ذریعہ قدرت ثانیہ کے بعض مظاہر کی ماتحتی میں احمدیت کو فتح دے گا۔ اب یا تو یہ سمجھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اس سازش میں میرے ساتھ شریک ہیں۔ جیسے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب اپنا دعویٰ لوگوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ موسیٰ ؑ نے میرے متعلق یہ یہ پیشگوئیاں کی ہیں تو مکہ کے نادانوں نے سمجھا کہ موسیٰؑ کوئی زمانۂ حال کا آدمی ہے جس سے مشورہ کرکے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) نے اپنے متعلق پیشگوئیاں کرالی ہیں اور اُنہیں لوگوں کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کیا تُو مدین میں موجود تھا یا طُور پر موجود تھا کہ موسیٰ سے تُو نے یہ باتیں کہلالیں؟ ۱؎اسی طرح میں بھی کہتا ہوں کہ اگر جو کچھ میں نے کہا وہ غلط ہے تو کیا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہا تھا کہ آپ اپنی کتابوں میںیہ یہ باتیں لکھ جائیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف طور پر خداتعالیٰ سے خبر پاکر جماعت کو اطلاع دی تھی کہ ابتلاء آتے چلے جائیں گے، آتے چلے جائیںگے اور آتے چلے جائیں گے اور جماعت کے کمزور لوگ گرتے چلے جائیں گے، گرتے چلے جائیں گے اور گرتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ صرف صادقُ الْاِیمان لوگ باقی رہ جائیں گے اور انہی کے ہاتھ پر خداتعالیٰ احمدیت کو فتح دے گا۔
اب سوال صرف یہ ہے کہ صادقُ الْاِیمان کون ہو۔ اور میںسمجھتا ہوں ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے دل میں فیصلہ کرے کہ آیا وہ صادقُ الْاِیمان لوگوں میں شامل ہونا چاہتا ہے یا گرنے والوں میں۔ اگر ایک شخص یہی فیصلہ کرتا ہے کہ میں گرنے والے لوگوں میں شامل ہوں تو میں اُسے کہوں گا کہ تُو نے اب تک اس قدر قربانیاں کیوں کیں۔ تجھے تو چاہئے تھا کہ آج سے ایک عرصہ پہلے الگ ہوجاتا کیونکہ میں آج جماعت سے قربانیوں کا مطالبہ نہیں کررہا بلکہ ابتداء سے کرتا چلا آیا ہوں۔ اور اگر ہم میں سے ہر شخص یہ فیصلہ کرتا ہے کہ گرنے والا دوسرا ہو ، میں گرنے والا نہ بنوں تو اوّل تو کوشش ہماری یہی ہونی چاہئے کہ دوسروں کو بھی بچائیں اور کسی کو گرنے نہ دیں۔ لیکن چونکہ خدائی فیصلہ یہی ہے کہ کچھ لوگ گریں گے اِس لئے زید یا بکر کے گرنے کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیاں پوری ہوکر رہیں گی۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر اس کے وعدے نہیں ٹل سکتے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے خداتعالیٰ کے بہت سے نشانات کوپورا ہوتے دیکھا۔ نشان پرنشان اور معجزہ پر معجزہ ہمارے لئے ظاہر ہؤا ۔ ایسے ایسے حالات آئے جبکہ دُنیوی نقطۂ نگاہ سے یہی سمجھا جاتا تھا کہ سلسلہ تباہ ہوجائے گا مگر معاً خداتعالیٰ نے رنگ بدل دیا اور ایسے حالات پیدا کردیئے کہ وہ مصیبت اُڑ گئی اور سلسلہ کا وقار پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا اور منافق یہ کہنے لگ گئے کہ مصیبت تو کوئی تھی ہی نہیں، یہ محض بہانہ بنایا گیا تھا، یہی منافقوں کا طریق ہے۔ جب الٰہی سلسلوں پر کوئی مصیبت آتی ہے منافق کہتا ہے اب یہ تباہ ہوجائیں گے مگر جب ٹل جاتی ہے تو کہتا ہے مصیبت تو کوئی تھی ہی نہیں، یہ محض فریب کیا گیا تھا۔ گویا جب کوئی مصیبت موجود ہو تو وہ اُسے اِتنا بڑھاتا ہے، اتنا بڑھاتا ہے کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں رہتی۔ اور جب ٹل جاتی ہے تو شروع میں تو وہ یہی کہتا ہے کہ ٹلی نہیں مگر جب بالکل ٹل جاتی ہے تو کہتا ہے مصیبت کوئی تھی ہی نہیں یونہی ڈرانے کیلئے ایک بات بنائی گئی تھی۔ چنانچہ دیکھ لو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ تینوں صورتیں بیان کی ہیں۔ فرماتا ہے احزاب کے موقع پر جب کفار کا لشکر مسلمانوں کے خلاف جمع ہوگیا تومنافقوں نے کہا اے اہل یثرب! ۲؎اب تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ تم ان کاکہاں مقابلہ کرسکتے ہو۔ گویا انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ مسلمان اب مارے جائیں گے اور ہم تو پہلے ہی یہ کہتے تھے کہ خواہ مخواہ دوسروں سے بحثیں کرتے پھرنا فضول بات ہے۔ ہم کوئی دوسروں کی ہدایت کے ٹھیکہ دار تھوڑے ہیں مگر مسلمانوں نے ہماری بات نہ مانی اور نتیجہ یہ ہؤا کہ سارے لوگ مل کر حملہ آور ہوگئے۔ اب انہیں پتہ لگے گا کہ اسلام کی تبلیغ کس طرح کیا کرتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے جب احزاب کو شکست دی تو منافق کہنے لگے شکست کوئی نہیں ہوئی۔ وہ تو صرف تھوڑی دیر کیلئے پیچھے ہٹے ہیں تاکہ دوبارہ جمعیت کو مضبوط کرکے حملہ کریں۔ تیسری کیفیت منافقوں کے قلوب کی ایک اور جنگ کے موقع کے ذکر میں بیان فرماتا ہے۔ فرماتا ہے منافق کہتے ہیں ۳؎ اگر ہم جانتے کہ لڑائی ہوگی تو ہم بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہوتے۔ مگر ہمارا تویہ خیال تھا کہ لڑائی کوئی ہے ہی نہیں، صرف خیالی خطرہ ہے (اِس آیت کے اَور معنے بھی ہیں۔ میں ان کی تردید نہیں کرتا۔ قرآن کریم ذومعانی ہے)۔ اِسی حالت کانقشہ سورئہ بقرہ میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے ۴؎ یعنی جب منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ کفار سے ساز باز رکھ کر فساد پیدا نہ کرو۔ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کی کوشش کررہے ہیں۔ یعنی آپس کا اختلاف کوئی بڑا اختلاف نہیں صلح ناممکن نہیں ہے ہم کوشش کررہے ہیںکہ آپس میں صلح ہوجائے اورفساد دُور ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم غلط کہتے ہو۔ دنیا کا جھگڑا نہیں کہ صلح ہوجائے، یہ تو دینی اختلاف ہے جس میں سَودا نہیں ہوسکتا۔ پس اس ساز باز سے وہ فساد پیدا کررہے ہیں مگر ایمان نہیں، اس لئے محسوس نہیں کرتے۔ پھر فرماتا ہے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح باقی لوگ ایمان لارہے ہیں تم بھی ایمان لائو تو کہتے ہیںکہ یہ تو بیوقوف ہیں۔ خواہ مخواہ لڑائی کرکے فساد کررہے ہیں، ہم بیوقوف کیوں بنیں۔ ہم جانتے ہیں کہ لڑائی کا موقع نہیں ہے، صلح ممکن ہے۔ فرماتا ہے افسوس کہ یہ لوگ جانتے نہیں ورنہ خود ان کا یہ قول بیوقوفی کا ہے۔ تویہ تینوںقسم کی حالتیں منافقوں کی طرف سے ظاہر ہوتی ہیں اور منافق ہمیشہ ایسے وسوسے پیدا کرتا رہتا ہے جن کے نتیجہ میں قوم کا قدم قربانیوں کے میدان میں سُست ہوجائے لیکن مومن کاقدم ہمیشہ آگے کی طرف اُٹھتا ہے اور وہ ہمیشہ اس امر کی کوشش کرتا ہے کہ اپنے وعدہ کو اور اُس عہد کو جو اس نے خداتعالیٰ سے کیا ہے پورا کرے۔ اِس دوران خواہ اسے مشکلات پیش آئیں یا راحت میسر ہو، دونوں اس کیلئے برابر ہوتی ہیں کیونکہ اس کی اصل خواہش یہ ہوتی ہے کہ میرا خدا مجھ سے راضی ہوجائے۔ اگر راحت آئے تو اس کی وجہ سے قربانیوں میں سُست نہیں ہوجاتا اور اگر تکلیف آئے تو گھبراتا نہیں بلکہ اپنے ایمان میں بڑھ جاتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۵؎یعنی مؤمن وہ ہیں کہ جب ان سے لوگ کہتے ہیں کہ سب قومیں تمہارے خلاف جمع ہوگئی ہیں اس لئے تم اب لوگوں سے ڈر کر نرم پڑ جائو۔ تو بجائے اس کے کہ وہ ڈریں یہ بات ان کو ایمان میں اَور بھی بڑھادیتی ہے اور وہ کہتے ہیں اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ سب سے بہتر کارساز ہے۔
غرض مصیبت آئے تو تب بھی مؤمن اپنے ایمان میں بڑھ جاتا ہے اور اگر راحت ملے تب بھی وہ غافل نہیں ہوتا کیونکہ ہر بات میں اسے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جب تک کسی شخص کے اندر یہ ایمان پیدا نہ ہو، جب تک سچے طور پر وہ یہ نہ سمجھے کہ اس کا کام جہاں ایک طرف اپنے نفس کی اصلاح کرنا ہے وہاں دوسری طرف تمام دنیا سے روحانی جنگ کرنا ہے اس وقت تک وہ خطرہ کی حالت میں ہوتا ہے اور اِس بات کا امکان ہوتا ہے کہ وہ اس مقام کو کھو بیٹھے جو اسے خداتعالیٰ کی طرف سے ملا ہے۔ گویا اس کی وہی مثال ہوجائے جو کسی شاعر نے اس طرح بیان کی ہے کہ ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ایسے شخص کو نہ تو دنیا حاصل ہوتی ہے اور نہ دین حاصل ہوتا ہے۔ دنیا کو وہ ناراض کرلیتا ہے اِس ظاہری دین کی وجہ سے جو اس کے پاس ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کو ناراض کرلیتا ہے، اس باطنی گندگی کی وجہ سے جو اُس کے دل میں پائی جاتی ہے حالانکہ سنجیدگی اور ظاہر و باطن کی یکسانیت دنیا میں سب نیکیوں کی جڑ ہے۔ اگر کوئی کافر سنجیدہ نہیں تو وہ اس کافر سے بُرا ہے جو سنجیدہ ہے اور اگر کوئی مؤمن سنجیدہ نہیں تو نہ صرف وہ اس مؤمن سے بُرا ہے جو سنجیدہ ہے بلکہ سنجیدہ کافر سے بھی بُرا ہے۔ ایک شخص جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جھوٹا سمجھتا ہے وہ باوجود سچے طور پر آپ کو جھوٹا سمجھنے کے بُراہے۔ مگر بہرحال وہ اُس کافر سے اچھا ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جھوٹا بھی سمجھتا ہے اور مخفی طور پر مسلمانوں سے سمجھوتہ بھی کرنا چاہتا ہے۔ بظاہر وہ نرم مزاج نظر آتا ہے لیکن اصل میں وہ نرم نہیں۔ اسی طرح وہ مؤمن جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو سچا نبی سمجھتا ہے اور ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہتا ہے، وہ تو اعلیٰ درجہ کا انسان ہے لیکن وہ شخص جو مؤمن کہلاتا ہے مگر دشمنوں سے سا زباز بھی رکھتا ہے یا وعدہ کرتا اور پھر پورا نہیں کرتا یا کسی اَور رنگ میں اپنے ایمان کی کمزوری کا مظاہرہ کرتا ہے ، وہ اُس کافر سے بدتر ہے جو سنجیدگی سے اپنے کفرپر قائم ہے۔ کیونکہ گواسے غلطی لگی مگر وہ اپنے نقطۂ نگاہ سے سچائی پر تو قائم ہے۔ (سچائی سے مرادمیری اس جگہ حقیقی سچائی نہیں بلکہ وہ سچائی مراد ہے جس کو وہ سچا سمجھتا ہے) وہ تو خداتعالیٰ سے قیامت کے دن کہہ سکتا ہے کہ خدایا! مجھے دھوکا لگا میں سمجھتا رہا کہ میں سچے راستہ پر قائم ہوں حالانکہ یہ بات درست نہ تھی۔ مگر منافق کیا کہے گا۔ کیا وہ یہ کہے گا کہ میں نے تو سمجھا تھا کہ فلاں شخص خدا کا رسول ہے مگر میں نے اس کے احکام کی اطاعت نہ کی۔ یا وہ کافر کیا کہے گا جس نے کُفر کے باوجود اندرونی طور پر مسلمانوں سے فائدہ اُٹھانا چاہا۔ کیا وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے سچے دل سے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو جھوٹا سمجھا تھا خدا کہے گا اگر تُو سچے دل سے جھوٹا سمجھتا تھا تو اندرونی طور پر مسلمانوں سے ساز باز کیوں کرتا رہا؟
تو دنیا میں ساری نیکیوں کی جڑ سچائی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ سچے دل سے ایک بات پر قائم ہوں چاہے وہ غلط راستے پر ہی کیوں نہ ہوں اللہ تعالیٰ بِالآخر انہیں ضرور ہدایت دے دیتا ہے۔ وہ فرماتا ہے ۶؎وہ لوگ جو ہماری تلاش کرتے ہیں اور سچے دل سے ہماری جستجو میں لگ جاتے ہیں، ہم اپنی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم انہیں ضرور سیدھا راستہ دکھادیتے ہیں۔ اس میں کسی مذہب کی شرط نہیں،۔ چاہے کوئی ہندو ہو یا عیسائی ہو یا سکھ ہو۔ اگر کسی شخص کے دل میں سچے طور پر یہ تڑپ پائی جاتی ہے کہ اسے خدا مل جائے تو اسے خدا ضرور مل جاتا ہے اور عجیب عجیب رنگ میں وہ اس کی ہدایت کے سامان کردیتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے ہر سال کبھی کم اور کبھی زیادہ لیکن بہرحال اوسطاً آٹھ دس ایسے غیراحمدیوں کی چِٹھیاں مجھے آجاتی ہیں جو لکھتے ہیں کہ ہم پہلے احمدیت کے شدید مخالف تھے مگر اللہ تعالیٰ نے رئویاکے ذریعہ ہمیں بتایا کہ احمدیت سچی ہے اس لئے ہم توبہ کرتے ہوئے احمدیت میں داخل ہوتے ہیں۔ ابھی چند دن کی بات ہے ایک شخص کی چِٹھی مجھے آئی، وہ لکھتے ہیں کہ میں سلسلہ کا شدید مخالف تھا اور گندی سے گندی گالیاں احمدیوں کودیا کرتا تھا مگر اب مجھے رئویا میں بتایا گیا ہے کہ میں غلطی پر ہوں اس لئے میں سخت ڈرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ سلسلہ کے مزید حالات معلوم کروں۔
تو جو شخص سچے طور پر مخالفت بھی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی ہدایت کے سامان پیدا کردیتا ہے مگر شرط یہی ہے کہ سنجیدگی پائی جائے اور تمام کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے کئے جائیں۔ اگر کوئی سنجیدگی سے اللہ تعالیٰ کو پکارے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ظلمت میں رہے۔ خدا ایک نور ہے اور جب وہ مل جاتا ہے تو ظلمت کہیں نہیں رہتی۔
پس ہماری جماعت کو اپنے اندر سنجیدگی پیدا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کھول کھول کر بیان فرمایا ہے کہ ہر وہ قوم جویہ سمجھتی ہے کہ ہدایت اور نجات ہمارے ساتھ ہی وابستہ ہے، اس کی سچائی کی ایک ہی علامت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ۷؎وہ اگر اپنے دعویٰ میں سچی ہوتی ہیں تو اپنے اوپر موت وارد کرلیتی ہیں۔ جب دنیا میں ایسے نبی آتے ہیں جن کے ہاتھوں میں تلوار ہوتی ہے تو اس زمانہ میں موت کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اُٹھو اور اپنی جانیں لڑائیوں میں قربان کردو۔ مگر جب ایسے نبی آئیں جو تبلیغ کے ذریعہ اپنا مذہب پھیلاتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو اُس وقت موت سے مراد مختلف قسم کی قربانیاں ہوتی ہیں۔ جیسے مالی قربانیاں ہیں یا وقتی قربانیاں ہیں یا اوقات کی قربانیاں ہیںیا عزت و وجاہت کی قربانیاں ہیں۔ یا مثلاً یہ قربانی ہے کہ گالیاں سُنو اور خاموش رہو، ماریں کھائو اور ہاتھ نہ اُٹھائو۔ آخر گالیاں سُننا بھی موت سے کوئی کم قربانی نہیں۔ جن کے دلوں میں سچی محبت ہوتی ہے وہی جانتے ہیں کہ جب ان کے محبوب کو کوئی گالی دیتا ہے تو اُن کو کس قدر اذیت پہنچتی اور ان کیلئے یہ بات کتنے بڑے دکھ اور درد کا موجب ہوتی ہے۔ پس صرف دوسرے سے لڑ کر اپنی جان دے دینا موت نہیں بلکہ گالیاں سُن کر اپنے نفس کو قابو میں رکھنا بھی ایک موت ہے اور یہ پہلی موت سے ہرگز کم نہیں۔ جن لوگوں کے دلوں میں عشق ہوتا ہے وہی جانتے ہیں کہ ان کی کیا حالت ہوتی ہے۔ اُس وقت وہ اپنی جان دے دینے کو صبرکرنے کی نسبت بدرجہا آسان سمجھتے ہیں مگر بہرحال انہیں صبر کرنا ہی پڑتا ہے کیونکہ خداتعالیٰ کا حکم یہی ہوتا ہے کہ صبر کرو۔
مَیں نے مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا کا واقعہ کئی دفعہ سنایا ہے۔ ایک دفعہ فساد کرانے کی غرض سے کسی نے یہاں یہ خبر مشہور کردی کہ نیرؔ صاحب مارے گئے ہیںاور پیر یوسف جو بھٹے والے ہیں ان کا اور ایک دو اَور احمدیوں کا نام لیا کہ وہ زخمی تڑپ رہے ہیں۔ نیرؔ صاحب اُن دنوں غالباً بورڈنگ میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ لڑکوں نے جونہی اِس خبر کو سُناوہ سٹکیں لے کر اس طرف کو اُٹھ دوڑے۔ میں اُس وقت اتفاقاً (حضرت اماں جان) کے دالان میں ٹہل رہا تھا۔ دَوڑنے کی آواز جو آئی تو میں یہ دیکھنے کیلئے کہ کیا ہؤا گلی کی طرف گیا اور دیکھا کہ لڑکے بے تحاشا دَوڑے چلے جارہے ہیں اور ان کے آگے آگے مولوی رحمت علی صاحب ہیں۔ میں نے مولوی صاحب کو آواز دی کہ ٹھہرو مگر مولوی صاحب نہ رُکے۔ اِس پر میں نے پھر آواز دی تو وہ ٹھہر گئے۔ میں نے کہا کیا ہؤاـ؟ وہ کہنے لگے حضور خبر آئی ہے کہ نیرؔ صاحب کو ہندوئوں نے ماردیا ہے اور بعض اور احمدی زخمی تڑپ رہے ہیں۔ میں نے کہا جب یہ خبر تمہارے پاس پہنچی تھی تو تمہارا فرض تھا کہ مجھ تک بات پہنچاتے۔ یہ تمہارا کام نہیں تھا کہ اُس طرف اُٹھ بھاگتے۔ میں اِس واقعہ کی تحقیقات کرائوں گا تم آگے مت جائو۔ اتفاقاً اُسی وقت قاضی عبداللہ صاحب اس طرف سے گزررہے تھے۔ میں نے انہیں بھیجا کہ جاکر پتہ لگائیں اور اُنہیں اطمینان دلا کر میں پھر کمرہ میں ٹہلنے لگا۔ تو اتنے میں پھر مجھے شور کی آواز آئی اور میں نے دیکھا کہ مولوی رحمت علی صاحب اور دوسرے لڑکے بے اختیار پھر دَوڑے چلے جارہے ہیں۔ میں نے آواز دی کہ مولوی صاحب ٹھہرو مگر اُنہوں نے میری آواز کو نہیں سنا۔ میں نے پھر کہا کہ ٹھہرو مگر وہ پھر بھی نہیں رُکے یہاں تک کہ وہ اُس موڑ سے کئی گز آگے نکل گئے جو میاں بشیر احمد صاحب کے مکان کے جنوبی کونے پر مسجد اقصیٰ کی طرف مُڑتا ہے۔ میںنے اُس وقت سمجھا کہ اب اگر ایک لحظہ بھی اور دیر ہوئی اوریہ موڑ سے دوسری طرف ہوگئے تو پھر میرا ان پر کوئی اختیار نہیں رہے گا اور انہوں نے جاتے ہی جو ہندو سامنے آیا اُس سے لڑنا شروع کردینا ہے۔ پس اُس وقت مجھے ایک ہی علاج نظر آیا اور میںنے مولوی صاحب کو آواز دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ایک قدم بھی آگے بڑھے تو میں آپ کو جماعت سے خارج کردوں گا۔ ایک مخلص احمدی کیلئے یہ الفاظ ایسے نہ تھے کہ ان کے بعدبھی وہ آگے بڑھ سکتا۔ میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب رُک تو گئے مگر وہ تھر تھر کانپ رہے تھے، اُن کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور وہ کہہ رہے تھے حضور احمدی مارے گئے ہیں۔ میں نے کہا اس کے تم ذمہ دار نہیں ، میں ذمہ دار ہوں۔ میں یقینا سمجھتا ہوں کہ اگر میں مولوی رحمت علی صاحب کو اُس وقت یہ کہتا کہ جائیں اور گردن کٹوادیں تو وہ انشراحِ دل سے اس بات کیلئے تیار ہوجاتے لیکن میرا یہ حکم کہ اپنی جگہ پر کھڑے رہیںاور آگے مت بڑھیں، ان کیلئے موت سے بہت زیادہ سخت تھا لیکن جمالی زمانہ میں اِسی قسم کی قربانیاں کرنی ضروری ہوتی ہیں اور بغیر ان قربانیوں کے خداتعالیٰ کو خوش بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کوئی قربانی نہیں کہ خداتعالیٰ کہتا ہو کہ پیسہ دو اور ہم کہیں سر لے لو اور خدا کہے سر دو اور ہم کہیںپیسہ لے لو۔ اُس وقت اگر ہم اپنی ساری دولت بھی خداتعالیٰ کے راستہ میں لٹادیں گے تو وہ قبول نہیں ہوگی کیونکہ خداتعالیٰ جان کا مطالبہ کررہا ہوگا نہ کہ مال کا۔ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں خداتعالیٰ نے یہی کہا کہ تلواریں پکڑو اور دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان دے دو۔ چنانچہ وہ گئے اور قربان ہوگئے مگر یہ قربانی بھی ایک عرصہ کے بعد اُن سے مانگی گئی۔ پہلے انہیں بھی یہی کہا گیا تھا کہ صبر کرو اور دشمن کے مقابلہ میں ہاتھ مت اُٹھائو مگر دیکھو صبر کا امتحان کتنا شدید ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں ایک موقع بھی ایسا نظر نہیں آتا جبکہ صحابہؓ نے دشمنوں سے لڑائی کرنے سے انکار کردیا ہو مگر صبر کے مواقع میں سے ایک موقع ایسا ضرورنظر آتا ہے جبکہ وہ اپنے جذبات کونہ دباسکے۔
جنگ بدر کے موقع پر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بغیر مسلمانوں کو یہ بتانے کے کہ کوئی جنگ ہوگی، انہیں ساتھ لے کر مدینہ سے چل پڑے۔ بدر کے مقام کے قریب پہنچ کر آپ نے بتایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ ہم میں اور کفار میں ایک جنگ ہوگی۔ پس بتائو تمہاری کیا رائے ہے۔ اس پرمہاجرین کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اﷲ! رائے کیا ہوتی ہے۔ چلئے اور دشمن کا مقابلہ کیجئے ہم ہر وقت لڑنے کیلئے تیار ہیں مگر جب مہاجر خاموش ہوجاتے تو آپ پھر فرماتے اے لوگو مشورہ دو۔ اس پر پھر کوئی مہاجر کھڑا ہوتا اور وہ کہتا حضور ہم لڑنے کیلئے تیار ہیں۔ مگر جب وہ خاموش ہوجاتا تو آپ پھر فرماتے اے لوگو! مشورہ دو۔ آخرانصار سمجھ گئے کہ مشورہ دو سے مراد یہ ہے کہ ہم بولیں اور اپنی رائے پیش کریں۔ دراصل رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو انصار نے آپ سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ ہم مدینہ سے باہر آپ کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں، ہاں مدینہ کے اندر آپ کے ذمہ دار ہیں۔ پس چونکہ اس معاہدہ کے بعد انصار پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی اور وہ مدینہ سے باہر آپ کی مدد کرنے میں آزاد تھے اس لئے جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے باربار فرمایا کہ اے لوگو! مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اﷲ! کیا آپ ہم سے پوچھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس پر اس نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اﷲ! آپ کی مراد شاید اس معاہدہ سے ہے جو ہم نے اُس وقت کیا تھا جب آپ مدینہ تشریف لائے تھے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! وہ معاہدہ اُس وقت کا تھا جب ہمیں آپ کی رسالت کا مقام معلوم نہیں تھا، ہم نے اس وقت نادانی سے یہ معاہدہ کیا، مگر یَارَسُوْلَ اﷲ! اب توہم آپ کے مقام کو خوب پہچان چکے ہیں اور اب سوال یہ نہیں کہ ہم نے کیا معاہدہ کیا بلکہ سوال یہ ہے کہ حضور کیا حکم دیتے ہیں۔ یَارَسُوْلَ اﷲ! چلئے جدھر چلتے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو رَوندتا ہؤا نہ گزرے۔ پھر اس نے کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! سامنے سمندر ہے اگر اس میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم اس کیلئے بھی تیار ہیں۔ ۸؎ یعنی کفار سے لڑائی کے وقت تو یہ خیال ہوسکتا ہے کہ شاید ہم فتح پاجائیں اور زندہ واپس آجائیں مگر ہم تو ایسی قربانی کرنے کیلئے بھی تیار ہیں جس میںموت ہی موت دکھائی دیتی ہے۔
ایک اَور صحابی کہتے ہیں میں سو لہ لڑائیوں میں شامل ہؤا۔ گیارہ بارہ لڑائیوں میں خود رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہؤا مگر باوجود اِس کے کہ میں اتنا بڑا ثواب حاصل کرچکا ہوں ، میرا جی چاہتا ہے کہ کاش! میرے منہ سے صرف وہ فقرہ نکلتا جو اس صحابی کے منہ سے نکلا اور لڑائیوں میں مَیں بے شک شامل نہ ہوتا کیونکہ اس ایک فقرے کا ثواب سولہ لڑائیوں کے ثواب سے میرے نزدیک زیادہ ہے۔۹؎
اب دیکھو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت میں اپنی جانیں قربان کیں اور اس قربانی کے پیش کرتے وقت انہوں نے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی مگر اس کے مقابلہ میں صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم عمرہ کیلئے گئے اور کفار نے روک لیا اور آپس میں بعض شرائط ہوئیں تو ان صلح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص مکہ سے بھاگ کر اور مسلمان ہوکر مسلمانوں کے پاس آئے گا تو اسے واپس کردیا جائے گا لیکن اگر کوئی مسلمان مرتد ہوکر مکہ والوں کے پاس جائے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ ابھی لکھا ہی جارہا تھا کہ ایک مسلمان مکہ سے بھاگ کر آپ کے پاس آیا اُس کا جسم بوجہ ان مظالم کے جو اس کے رشتہ دار اسلام لانے کی وجہ سے اس پر کرتے تھے زخموں سے چور تھا اُس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور پائوں میںبیڑیاں، اُسے دیکھ کر اسلامی لشکر میں ہمدردی کا ایک زبردست جذبہ پیدا ہوگیا۔ دوسری طرف کفار نے مطالبہ کیا کہ اِسے واپس کیا جائے۔ یہ دیکھ کر مسلمان اس بات کیلئے کھڑے ہوگئے کہ خواہ کچھ ہوجائے ہم اِسے جانے نہیں دیں گے اور اپنے ہاتھوں اسے موت کے منہ میں نہیں دھکیلیں گے۔ مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اب معاہدہ ہوچکا ہے اور اسے واپس کیا جائے گا، خدا کے رسول جھوٹ نہیں بولا کرتے۔ چنانچہ آپ نے اسے واپس کئے جانے کا حکم دیا ۱۰؎ اور مسلمانوںکے جذبات کو قربان کردیا۔ یہ نظارہ دیکھ کر مسلمانوں کو اتنی کوفت ہوئی کہ وہ مجنون سے ہوگئے۔ چنانچہ جب معاہدہ ہوچکا تورسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا قربانیاں کردو مگر اُس وقت ایک صحابی بھی قربانی کرنے کیلئے نہیں اُٹھا۔ حالانکہ ان میں ابوبکرؓ بھی موجود تھے، ان میں عمرؓ بھی موجود تھے، ان میں عثمانؓ بھی موجود تھے، ا ن میں علیؓ بھی موجود تھے۔ غرض وہ سب صحابہ ان میں موجود تھے جن میں سے مسلمانوں کا کوئی فرقہ کسی کو اور کوئی کسی کو بڑا قرار دیتا ہے مگر ان میں سے ایک بھی تو کھڑا نہیں ہؤا اور سب خاموش بیٹھے رہے۔ رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کی زندگی میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ آپ نے حکم دیا مگر صحابہ نے نافرمانی کی وجہ سے نہیں بلکہ وفورِ جذبات سے مجبور ہوکر اس کی تھوڑی دیر کیلئے تعمیل نہ کی۔ چونکہ یہ خفیف سی دیر بھی پہلی مثال تھی آپؐ اپنے خیمہ میں گئے اور اپنی ایک بیوی سے جو ساتھ تھیں فرمایامیں نے آج ایک ایسی بات دیکھی ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ انہوں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اﷲ! کیا ہؤا؟ آپ نے فرمایا میںنے اپنے صحابہؓ میں کبھی اطاعت کے لحاظ سے کمی نہیں دیکھی مگر آج میں نے انہیں حکم دیا کہ قربانیاں کردو تو ان میں سے ایک بھی نہیں اٹھا۔ اُمّ الْمُوْمِنین فرمانے لگیں یَارَسُوْلَ اﷲ! آپ جانتے ہیں انہیں کیسا صدمہ ہؤا ہے۔ وہ اس صدمہ سے پاگل ہورہے ہیں آپ کسی سے بات نہ کریں اور خاموشی سے اپنی قربانی کر دیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب یہ نہایت ہی نیک مشورہ سنا تو آپ نے اسے پسند کیا اور خاموشی سے اپنی قربانی کے پاس گئے اور اُسے ذبح کردیا۔ اخلاص آخر اخلاص ہی ہوتا ہے۔ بے شک صبر کی آزمائش بڑی تلخ تھی اورایک لمحہ کیلئے صحابہؓ میں ہچکچاہٹ پیدا ہوئی مگر جب انہوں نے دیکھا کہ وہ شخص جس کے اشارہ پر وہ اپنی جانیں قربان کرتے رہے ہیں، جس کی تعلیم کے ماتحت انہوں نے نہ صرف اپنی زندگیوں کو بلکہ اپنے باپوں ، اپنی مائوں، اپنے بھائیوں اور اپنے بچوں کو قربان کردیا تھا، آج وہ اِس خاموشی سے بغیر اِس کے کہ ہم میں سے کسی کو اپنی مدد کیلئے بُلائے ، قربانی کرنے جارہا ہے تو یک دم اُن کے دل پگھل گئے اور بے اختیار دَوڑ دَوڑ کر انہوں نے اپنے جانور ذبح کرنے شروع کردیئے۔۱۱؎
اب دیکھ لو لڑائیوں کے موقع پر تو انہوں نے یہ کہا کہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور پھر اپنے عمل سے اس قول کو سچا ثابت کردکھایا مگر صبر کے مواقع میں سے ایک موقع ایسا آیا کہ ان کیلئے صبر کرنا مشکل ہوگیا اوررسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک حکم کی تعمیل کو انہوں نے ایک منٹ کیلئے پیچھے ڈال دیا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ صحابہؓ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نافرمانی کی کیونکہ انہوں نے اپنی قربانیوں سے ثابت کردیا ہے کہ وہ اطاعت میں درجۂ کمال رکھتے تھے۔ یہ صرف جذبہ اورجنون کی کیفیت تھی اور ایسی صورت تھی جیسے پیارا پیارے سے شاکی ہوتا ہے لیکن پھر بھی صحابہ کی اطاعت کے لحاظ سے یہ ایک غیرمعمولی بات تھی۔ تو دیکھو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں جان دینے کے موقع پر کبھی صحابہؓ نے ہچکچاہٹ ظاہر نہیں کی مگر صبر کے مواقع میں سے ایک موقع پر وہ بھی ایک منٹ کیلئے جذبات کی رَو میں بہہ گئے۔ تو صبر کوئی معمولی قربانی نہیں۔
ہماری جماعت میں کئی نادان ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہماری قربانیاں ویسی نہیں جیسی کہ صحابہؓ نے کیں۔ حالانکہ حق یہ ہے کہ اگر ہم دیانتداری اورخلوص سے قربانیاں کریں تو ہماری قربانیاں ان سے کسی صورت میں کم نہیں ہوں گی۔ ہم نے بہت لوگ دیکھے ہیں جب کوئی خاص اعلان کیا جاتا ہے تو وہ بعض دفعہ اپنی ساری جائیداد بیچ کر دین کے راستہ میں دے دیتے ہیں مگر پھر وہی لوگ آنہ فی روپیہ چندہ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اس لئے کہ متواتر لمبی قربانی انسان پر گراں گزرتی ہے مگر یکدم قربانی کرلینا آسان ہوتا ہے۔ پس یاد رکھوکا چیلنج خداتعالیٰ نے مسلمانوں کی طرف سے یہود کو دیا ہے اور فرمایا ہے کہ تمہارایہ دعویٰ کہ نجات تمہارے لئے ہی مخصوص ہے اگر درست ہے اور تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو جس طرح مسلمان ہر وقت موت کیلئے تیار رہتے ہیں اسی طرح تم بھی موت قبول کرکے دکھائو۔ یہ چیلنج آج بھی قائم ہے اور آج بھی خداتعالیٰ کی قائم کردہ جماعتیں اسی معیار کی رو سے اپنی صداقت دنیا کے سامنے پیش کرسکتی ہیں۔ آج ہماری جماعت کیلئے بھی جانی قربانیوں کازمانہ نہیں بلکہ مسلسل اور متواتر لمبی قربانیوں اور لمبی آزمائش کا زمانہ ہے جس میں دوسروں سے لڑنا نہیں پڑتا بلکہ دوسروں سے مار کھانی پڑتی ہے جس میں غنیمتیں نہیں ملتیںبلکہ اپنے اموال کی قربانی کرنی پڑتی ہے، جس میں انسان سے یکدم جائداد یا زمین چھوڑ دینے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا بلکہ یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ مثلاً اپنی زمین کے کام میں سے ہر روز ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے خدمتِ دین کیلئے وقف کرو۔یہ قربانی بھی کوئی کم قربانی نہیں مگر میں نے دیکھا ہے بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں صحابہؓ نے اپنی زمینیں اور جائدادیں خداتعالیٰ کیلئے چھوڑ دیں احمدیوں نے اس کے مقابلہ میں کیا کِیا؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یکدم زمین کا چھوڑ دینا آسان ہوتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ہر روز اپنے کام کے اوقات میں سے ایک گھنٹہ وقف کرو تو اِس پر عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ چیز کا اپنے پاس ہونا اور پھر آہستہ آہستہ اسے قربان کرتے جانا بڑا مشکل ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ چیز پاس ہی نہ رہے۔ ہزاروں واقعات دنیا میں ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی کسی کا بچہ اُٹھا کر لے جاتا ہے، ایسی صورت میں ہزاروں کے متعلق سننے میں آتا ہے اور پانچ دس واقعات تو میرے سامنے بھی آئے اور میں نے خود ان بچوں کے والدین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر ہمارا بچہ مر جاتا تو ہمیں اتنا صدمہ نہ ہوتا جتنا اس کے گُم ہوجانے کا ہؤا ہے۔ اب دیکھو گُم ہوجانے کے بھی یہی معنے ہیں کہ وہ والدین سے الگ ہوگیا اور مرجانے کے بھی یہی معنے ہیں کہ وہ جُدا ہوگیا مگر بچہ جو مرجاتا ہے اس کے متعلق انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ گو وہ جُدا ہوگیا مگر اب دنیا کی تکالیف میں سے کسی تکلیف میں مبتلا نہیں مگر جو بچہ گُم ہوجاتا ہے اس کے متعلق والدین کو ہرروز قربانی کرنی پڑتی ہے اور ہر روز انہیں یہ خیال آتا ہے کہ نہ معلوم ہمارے بچے کا کیا حال ہے۔ کبھی خیال آتا ہے ممکن ہے وہ آج فاقے کررہا ہو، ممکن ہے وہ آج زمین پر سویا پڑا ہو، ممکن ہے وہ بیمار ہو اور کوئی اُس کو پوچھنے والا نہ ہو۔ پھر کبھی یہ خیال آتا ہے کہ شاید کوئی اسے گالیاں دے رہا ہو، شاید آج کوئی اسے ماررہا ہو غرض ہزاروں وسوسے ماں باپ کے دل میں اٹھتے ہیں اور ہر روز انہیں اپنے جذبات کی قربانی کرنی پڑتی ہے حالانکہ وہ اتنا صدمہ نہیں ہوتا جتنا اپنے بچے کی موت کا صدمہ ہوتا ہے مگر لوگ اِس بات کو پسند کرلیں گے کہ ان کی ساری اولاد یکدم مَرجائے بہ نسبت اس کے کہ وہ گُم ہوجائے حالانکہ یہ صدمہ تھوڑا ہے اور وہ بڑا۔ تو دائمی قربانی ہی اصل قربانی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آج تک کبھی کسی نبی کو اس طرح کھڑا نہیں کیا کہ اُسے پہلے ہی دن لڑائی کا حکم دے دیا ہو بلکہ جلالی انبیاء کی زندگیوں کا ابتدائی حصہ اسی قسم کی قربانیوں میں سے گزرتا ہے جس قسم کی قربانیوں میں سے جمالی انبیاء گزرتے ہیں اور یہ جلالی اور جمالی انبیاء میں فرق ہے۔ یعنی جمالی نبی شروع سے آخر تک جمالی رہتے ہیں مگر جلالی نبی شروع میں جمالی ہوتے ہیں بعدمیں جلالی بن جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بیشک جلالی نبی تھے مگر کچھ مدت آپ بھی مصر میںتکلیفیں اُٹھاتے رہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب تک مکہ معظمہ میں رہے ویسی ہی تکلیفیں برداشت کرتے رہے جیسی ہمیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ پھر جب مدینہ میں گئے تو وہاں جاکر چند سال بعد آپ کی جلالی زندگی کا دَور شرع ہؤا۔ اس میں حکمت یہی ہے کہ جمالی رنگ کی مشکلات کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں جلالی نبی بھی کھڑا کیا ہے وہاں جمالی رنگ کی قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے کیونکہ ایمان کی آزمائش مسلسل اور لمبی قربانیوں سے ہوتی ہے۔ آخر سوچو کہ تیرہ سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں۔ اس عرصہ میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو مکہ میں چلتے پھرتے گالیاں سُننی پڑتیں، لوگ مارتے، دُکھ دیتے، آوازے کَستے، راستوں میں کانٹے بچھادیتے، غلاظتیں پھینکتے، پتھروں پر گھسیٹتے، وطن سے بے وطن کرتے، غرض کونسی تکلیف تھی جو اُنہیں کفار نہ پہنچاتے۔ صحابہؓ کو بعض دفعہ غصہ بھی آتا اور وہ جوش کی حالت میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ فرماتے خدا نے مجھے لڑائی کا اِذن نہیں دیا۔ یہ لمبی تکالیف ۱۳ سال تک مکہ معظمہ میں آپ کو پہنچیں۔ پھر دو سال مدینہ کی زندگی کے بھی انہی تکلیفوں میں گزرے۔ گویا پندرہ سال تک جمالی رنگ کی تکالیف ان پر گزریں اور انہی تکالیف نے ان کے ایمانوں کو کامل کردیا۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بدر کے موقع پر صحابہ نے بڑی قربانیاں کیں۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اُحد کے موقع پر صحابہؓ نے بڑی قربانیاں کیں مگرمیں کہتا ہوں اور صحیح کہتا ہوں کہ بدر کے موقع پر وہ قربانیاں نہیں کرسکتے تھے اگر مکہ کی ساری زندگی اور مدینہ کی کچھ زندگی ان قربانیوں میں سے نہ گزرتی جو جمالی رنگ کی قربانیاں تھیں۔ بے شک ابوبکرؓ اور عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ بڑے پایہ کے انسان تھے، بے شک کبار صحابہ اور اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مہاجر اور اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ انصار بڑی قربانیاں کرنے والے تھے، لیکن انہیں بدر اور احد اور دوسری جنگوں نے اس مقام تک نہیں پہنچایابلکہ انہیں مکہ اور مدینہ کی جمالی زندگی نے ان قربانیوں کی توفیق دی۔ اگر شروع میں ہی بدر اور احد کی جنگیں پیش آجاتیں اور صحابہ کو جمالی رنگ کی مشکلات میں سے نہ گزرنا پڑتا تو ابوبکرؓ ابوبکرؓ نہ بنتے، عمرؓ عمرؓ نہ بنتے، عثمانؓ عثمانؓ نہ بنتے اور علیؓ علیؓ نہ بنتے۔ پس بدر نتیجہ تھا اُس جمالی زندگی کا جو مکّہ و مدینہ میں گزری۔ اسی طرح اُحد اور دوسرے غزوات نتیجہ تھے اُس جمالی زندگی کا جو مکہ و مدینہ میں صحابہ پر آئی اور انہی تکلیفوں کے نتیجہ میں وہ بعد کی مشکلات میں بھی ثابت قدم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جلالی انبیاء کی زندگی کا ایک حصہ جمالی رنگ اپنے اندر رکھتا ہے۔ جلال آتا ہے بعض اَور حکمتوں کی وجہ سے اور جمال آتا ہے لوگوں کے ایمانوں کو مضبوط کرنے کیلئے۔ اور چونکہ ہر نبی کی بعثت کا اہم ترین مقصد لوگوں کے ایمانوں کو مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے ہر نبی جمال کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے۔ تم ایک نبی بھی ایسا نہیں دکھاسکتے جس کو خداتعالیٰ نے مقامِ نبوت پر کھڑا کرتے ہی حکم دے دیا ہو کہ جائو اور مخالفین سے جہاد کرو کیونکہ اگر اسی دن جہاد کا حکم دے دیا جاتا تو لوگوں کے ایمان مضبوط نہ ہوتے اور لمبی اور مسلسل تکالیف سے ان کے قلوب صیقل نہ ہوتے۔ مگر تم میں سے کتنے ہیں جو کہتے ہیں کہ کاش! ہم بدر یا اُحد یا احزاب کے موقع پر ہوتے اور اپنی جانیں خداتعالیٰ کے راستے میں قربان کردیتے اور اس امر کو بھُول جاتے ہیں کہ اصل قربانیوں کا میدان ان کیلئے بھی کھلا ہے اور آج بھی وہ اسی طرح قربانیاں کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرسکتے ہیںجس طرح صحابہ نے قربانیاں کیں۔ مگر تم میں سے کتنے ہیں جو قربانی کی اس خواہش کے باوجود قربانیوں میں اِستقلال دکھاتے ہیں۔ تم میں سے کتنے ہیں جو وعدے کرتے اور پھر اُنہیں جلد پورا کرنے کا فکر کرتے ہیں، تم میں سے کتنے ہیں جو میرے کسی خطبہ یا تقریر و تحریر کے محتاج نہیں حالانکہ اصل مؤمن وہی ہیں جو اِس بات کے محتاج نہیں کہ میں انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائوں بلکہ میرے کسی خطبہ یا تقریر یا یاددہانی کے بغیر وہ ہر وقت قربانیوں کیلئے تیار رہتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں سُستی یا غفلت سے کام نہیں لیتے۔ ہاں وہ جو میری یاددہانیوں کے محتاج ہیں وہ بھی مؤمن ہیں مگر اوّل درجہ کے نہیں بلکہ دوسرے درجہ کے ۔ لیکن وہ جو غافل ہیں جو خداتعالیٰ کے دین کی مدد سے کنارہ کشی کررہے ہیں، جو مصائب کو دیکھتے اور ان کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور کہتے ہیں مصیبتوں کا زمانہ لمبا ہوگیا، ہم کب تک قربانیاں کرتے چلے جائیں، وہ وہ ہیں جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مُہر کردی۔ وہ اس قابل نہیں کہ اس جماعت میں رہ سکیں اور یقینا اگر وہ اپنے افعال سے توبہ نہیں کریں گے تو کسی وقت کوئی ایسی ٹھوکر کھائیں گے کہ ان کا رہا سہا ایمان بھی جاتا رہے گا اور خداتعالیٰ کے فضلوں سے بالکل محروم ہوجائیں گے۔وہ بظاہر اِس وقت مؤمن نظر آتے ہیں مگر ان کا ایمان اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے، وہ حقیقتِ ایمان سے بے نصیب ہوچکے ہیں اور ایمان کی بشاشت ابھی انہیں حاصل نہیں ہوئی کیونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایمان کا ادنیٰ مقام یہ ہے کہ اگر انسان آگ میں بھی ڈالا جائے تو پرواہ نہ کرے۔۱۲؎ مگر وہ آگ تو کیا معمولی معمولی قربانیاں کرنے سے ہچکچاتے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم مؤمن ہیں، پھر کہتے ہیں کہ ہم خدائی سلسلہ میں شامل ہیں۔
یاد رکھو خدائی سلسلے بندوں کی تعداد پر نہیں چلتے بلکہ ایمان اور اخلاص سے ترقی کرتے ہیں۔ تم اگر لاکھوں بھی ہوجائو مگر تمہارے دل میں وہ ایمان نہ ہو جو غیرمتزلزل ہو تو تم دنیا میں کوئی سچائی قائم نہیں کرسکتے۔ لیکن اگر تم ایمان اور اخلاص پرقائم ہوجائو تو پھر خواہ تم تھوڑے ہی ہو تم دنیا پر غالب آکر رہو گے کیونکہ جو خدا کے ہوجاتے ہیں ان کو کوئی زک نہیں پہنچاسکتا۔ پس میں دوستوں کو ایک دفعہ پھر اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اندر وہ مضبوط ایمان پیدا کرو جس کے بعد دشمن کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ میں اس جماعت کے ایک حصہ کو اپنے ساتھ شامل کرسکتا ہوں مگر اب کیا ہوتا ہے؟ اب ابتلاء پر ابتلاء آتا ہے اور ہر دفعہ دشمن یہ خیال کرتا ہے کہ یہ اب گر جائیں گے، یہ اب گرجائیں گے۔ گویا دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتا ہے کہ یہ سب منافق ہیں کیونکہ ابتلائوں کے وقت منافق گرتا ہے مؤمن نہیں گرتا لیکن اگر تم مضبوطی سے ایمان پر قائم ہوجائو تو دشمن اس قسم کی امید بھی نہ کرسکے اور تم تمام دنیا کو فتح کرلو۔
میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے اگر مجھے چالیس مومن مل جائیں تو میں تمام دنیا کو فتح کرلوں ۱۳؎اور یہ بالکل سچ ہے مگر ان چالیس مومنوں سے وہی مومن مراد ہیں جو اپنے نفوس کو خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کردیتے ہیں، جو مصائب و مشکلات پر صبر کرتے اور لمبی اورمسلسل قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں، وہ دشمن کی انگیخت سے برانگیختہ نہیں ہوتے۔ وہ مشکلات اور حوادث سے خوف نہیں کھاتے، وہ صبر کرتے اور قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے وعدے سچے ہیں اور وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ ان کی کوششوں کو ضائع نہیں کرے گا۔ کیا تم سمجھتے ہواگرتم کمزور اور بے بس ہو کر خداتعالیٰ پر یہ توکل اور اعتماد کرو تو خداتعالیٰ قادر ہوتے ہوئے تمہارے اعتماد کو ضائع کردے گا۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو تو اس سے زیادہ بے بنیاد اور غلط خیال اور کوئی نہیں ۔ آدم سے لے کر آج تک ہزاروں سال میں یا سائنسدانوں کے قول کے مطابق لاکھوں اور کروڑوں سال میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی نے صدقِ دل سے خداتعالیٰ پر اعتماد کیا ہو اور خداتعالیٰ نے اس کے اعتماد کو ضائع کردیا ہو لیکن ایسی ہزاروں نہیں لاکھوں مثالیں ملتی ہیں کہ خدا نے بندوں پر اعتماد کیا مگر بندوں نے اس سے غداری اور بے وفائی کی۔ پس یہ ناممکن ہے کہ تم خداتعالیٰ پر اعتماد کرو اور وہ تمہیں چھوڑ دے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ خود تمہارے دل میں کوئی گند پیدا ہوجائے اور تم اسے چھوڑ دو کیونکہ خدا بے وفا نہیں لیکن بندے بے وفا ہوسکتے ہیں۔
پس اگر حقیقی طور پر تم اس مقام پر کھڑا ہونا چاہتے ہو تو قربانیاں کرو اور کرتے چلے جائو اور یہ مت کہو کہ قربانیوں کا زمانہ لمبا ہوگیا۔ آج خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جمالی رنگ میں مبعوث فرما کر چاہا ہے کہ مسلسل اور متواتر قربانیوں سے تمہارے ایمانوں کو مضبوط کرے۔ اگر تم تھوڑی سی قربانی کرتے یا ایک عرصہ تک قربانیاں کرنے کے بعد اپنا قدم پیچھے ہٹالیتے ہو تو تمہاری مثال بالکل اُس شخص کی سی ہے جو چشمہ کے پاس پہنچ کر اُس سے پیاسا واپس لَوٹتا ہے اور اپنے آپ کو ہلاک کرلیتا ہے۔ اگر تم بھی ایک نبی پر ایمان لاکر ایسے ہی ٹھہرے تو تم سے زیادہ بدقسمت اور کون ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو جہاں اورنصائح فرمائی ہیں وہاں ایک نصیحت یہ بھی کی ہے کہ تم اُس عورت کی طرح مت بنو جو سُوت کاتا کرتی اور پھر اسے کاٹ کاٹ کر ضائع کردیا کرتی تھی۔ تم کبھی قربانیاں کرتے ہو اور ایک عرصہ تک کرتے رہتے ہو مگر جب ایسے مقام پر پہنچنے لگتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہونے کا وقت آپہنچتا ہے تو تم اپنا قدم پیچھے ہٹالیتے ہو اور اس طرح الٰہی فضلوں سے محروم ہوجاتے ہو۔
قرآن کریم میں اس عورت کا جو ذکر کیا گیا ہے یہ ایک مثال ہے جو خداتعالیٰ نے دی۔ چنانچہ اہلِ عرب کا یہ محاورہ ہے کہ جب وہ کسی شخص کے متعلق یہ کہنا چاہیں کہ اس نے کام کرتے کرتے بگاڑ دیا تو یوں کہتے ہیں کہ اس کی مثال اس عورت کی طرح ہے جو سُوت کاتتی اور پھر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتی تھی۔ لوگوں نے اس محاورہ کو ایک حکایت کا رنگ بھی دے دیا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ایک امیر عورت تھی جو خود بھی سُوت کاتتی اور دوسروں سے بھی کتواتی۔ جب بہت سا سُوت اس کے پاس اکٹھا ہوجاتا تو غرباء میں برابر تقسیم کرنے کیلئے سُوت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتی اور اس طرح ساری محنت ضائع کردیتی۔ بظاہر اپنی طرف سے وہ انصاف کرتی تھی اور کہتی تھی کہ میں کسی کو زیادہ اور کسی کو کم کیوں دوں۔ مگر اپنی حماقت سے اٹی بیچ میں سے کاٹ دیتی اور بالشت بھر کسی کو دے دیتی اور بالشت بھر کسی کو اِس طرح نہ غرباء کو فائدہ ہوتا، نہ اسے ثواب ہوتا۔ تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تم اس عورت کی طرح مت بنو۱۴؎جو سُوت کات کات کر بعد میں اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی اور اپنی تمام محنت ضائع کردیتی۔
تم میں سے بھی بعض خدمتِ دین کرتے اور اپنی ہمت اور توفیق کے مطابق خداتعالیٰ کے سلسلہ کی مدد کرتے ہیں مگر پھر کسی گناہ کی وجہ سے یا سُستی اور غفلت اور بے ایمانی کی وجہ سے یا خداتعالیٰ پر بے اعتمادی کی وجہ سے ان قربانیوں کو ایسے وقت میں ضائع کردیتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات نازل ہونے کا وقت قریب ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو اور اس سے دعا کرو کہ وہ تمہیں کا مصداق نہ بنائے۔ تمہاری قربانیوں کو قبول فرمائے اور تمہیں توفیق عطا فرمائے کہ تم قربانیوں کے میدان میں آگے ہی آگے قدم اُٹھاتے چلے جائو۔ پھر قادیان والوں کو اور باہر کی جماعتوں کو بھی دعائیں کرنی چاہئیں کہ ہم اس طریق کو اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اسلام اور احمدیت کو مضبوط کرنے والا ہو اور ان راہوں پر چلنے سے محفوظ رکھے جو اسلام اور احمدیت کیلئے مُضِر ہوں۔ ہماری غفلتوں کو معاف کرے، ہماری کوتاہیوں سے درگزر کرے اور ہمیں اپنے فضل سے ہدایت دے کر اپنی خوشنودی اور رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے۔ اٰمین‘‘
(الفضل ۲۳؍ مارچ ۱۹۳۸ئ)
۱؎ (القصص: ۴۶،۴۷)
۲؎ الاحزاب:۱۴ ۳؎ اٰل عمران: ۱۶۸ ۴؎ البقرۃ: ۱۲ تا ۱۴
۵؎ اٰل عمران: ۱۷۴ ۶؎ العنکبوت: ۷۰ ۷؎ الجمعۃ: ۷
۸؎ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۳۹۲ ، ۳۹۳۔ مطبوعہ قاہرہ ۱۹۶۴ء
۹؎ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۳۹۴ ، ۳۹۵ ۔ مطبوعہ قاہرہ ۱۹۶۴ء
۱۰؎ بخاری کتاب الصلح باب الصلح مَعَ الْمُشْرِکِیْن
۱۱؎ بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد (الخ)
۱۲؎ بخاری کتاب الایمان باب حلاوۃ الایمان
۱۳؎ ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۳۴۲۔ جدید ایڈیشن
۱۴؎ النحل : ۹۳

۱۲
ہر جگہ مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ قائم کی جائے
(فرمودہ یکم اپریل ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’خطبہ شروع کرنے سے پہلے میں اپنے ایک سابق خطبہ کے متعلق ایک تشریح کرنی چاہتا ہوں۔ غالباً گزشتہ خطبہ سے پہلے خطبہ میں مَیں نے مثال کے طور پر جلالی اور جمالی نبیوں کا بھی ذکر کرتے ہوئے کرشن ؑ جی اور رام چندر ؑ جی کا بھی ذکر کیا تھا اور میں نے ان دونوں کی ترتیب زمانی اِس رنگ میں بیان کی تھی کہ پہلے کرشن جی گزرے ہیں بعد میں رام چندر جی ہوئے ہیں۔ اس پر ایک دوست نے قادیان سے اور ایک دوست نے باہر سے مجھے لکھا ہے کہ ہندو عقائد کے رو سے یہ ترتیب غلط ہے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ رام چندر جی پہلے ہوئے ہیں اور کرشن جی بعد میں۔ (بعدمیں مجھے معلوم ہؤا ہے کہ بعض ہندو جرائد نے بھی اِس پر اعتراض کیا ہے)۔ اس ترتیبِ زمانی سے تو یوں مجھے کوئی تعلق نہیں وہ پہلے ہوئے ہوں یا بعد میں۔ میں نے تو صرف جلالی اورجمالی نبیوں کے اوقات کے متعلق اور ان کی آمد کی غرض کے متعلق ایک مثال دی تھی۔ اگر یہ بات صحیح ہو یعنی عام طورپر ہندوئوں میں جو یہ خیال پایا جاتا ہے کہ رام چندر جی پہلے ہوئے ہیں اور کرشن جی بعد میں ۔ وہی درست ہو تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میری مثال کے افراد میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی اور میری مثال یوں تبدیل ہو جائے گی کہ ویدوں کے دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لڑائیوں کے متعلق بہت سے احکام پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ رگ وید تو ایسے احکام سے بھرا پڑا ہے۔
پس ویدوں کے زمانہ میںجو لڑائیوںکے احکام دیئے گئے ان سے جو یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی کہ ویدوں کو تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے اس کے ازالہ کیلئے رام چندر جی آئے اور کرشن جی سے ہم ایک نیا دَور فرض کرلیں گے۔ بہرحال جلالی اورجمالی نبیوں کی ترتیب جو میرا اصل مقصود تھا اُس میں ان دو بزرگوں کے زمانہ کے مقدم و مؤخر ہوجانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے بعد مَیں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جب میں نے یہ اعتراض سُنا تو میں نے محسوس کیا کہ میںنے جو بات کہی تھی وہ قیاساً نہ کہی تھی بلکہ کسی سابق مطالعہ کے اثر کے ماتحت کہی تھی اور یہ کہ ضرور اس خیال کی بنیاد کسی تاریخی تحقیق پر مبنی تھی اور اس خیال سے میں نے بعض کتب خود دیکھیں اور بعض اَور دوستوں سے بھی مدد لی اور آخر وہ خیال میرا درست نکلا کہ میرے بیان کا مأخذ تاریخی کتب میں موجود ہے اور اس تحقیق کے نتیجہ میں مجھے معلوم ہؤا کہ موجودہ محققین میں سے بعض نے زبان کی بنیاد پر اور جغرافیائی واقعات پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ کرشن جی پہلے آئے ہیں اور رام چندر جی بعد میں۔ یہ نتیجہ انہوں نے دو قسم کی تحقیقات کے نتیجہ میں نکالا ہے۔ ان کے دعویٰ کی ایک تو اس امر پر بنیاد ہے کہ رام چندر جی کے متعلق جو لٹریچر ہے وہ ویدوں کے علوم کے جس دَور سے تعلق رکھتا ہے وہ بعد میں ہؤا ہے۔ شاید صحیح تلفظ مَیں اد انہ کرسکوں کیونکہ وہ ہندی لفظ ہے لیکن بہرحال اس کا نا م وہ سوتر رکھتے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سوتر قسم کا لٹریچر جو ویدوں کے متعلق ہے اور جو اختصار نویسی پر مشتمل ہے بعد کا ہے اور والمیک جو رامائن کے مصنف ہیں ان کا تعلق اسی لٹریچر سے ہے لیکن بیاس جی جو مہابھارت کے مصنف سمجھے جاتے ہیں ان کا تعلق اس لٹریچر سے ہے جو رزمیہ کہلاتا ہے اور تفصیل اور اطناب کی طرف مائل ہے۔ پس وہ کہتے ہیں کہ گو ہندو تاریخ کرشن جی کو بعد کا قرار دیتی ہے لیکن علمِ ادب کی زمانی قِسموں کے لحاظ سے چونکہ مہابھارت پہلے زمانہ کے علمِ ادب میں لکھی ہوئی ہے اور رامائن بعد کے زمانہ کی اورچونکہ اس زمانہ میں کتب پہلے لکھی نہ جاتی تھیں بلکہ عام گیتوں کے طور پر پہلے زبانوں پر جاری ہوتی تھیں اور پھر لکھی جاتی تھیں اس لئے نتیجہ نکلتا ہے کہ مہابھارت کے واقعات لوگوں میں پہلے مشہور تھے اور رامائن کے واقعات کا چرچا بعدمیں ہؤا۔ پس مہابھارت کے افراد پہلے گزرے ہیں اور رامائن کے افراد بعدمیں گزرے ہیں۔
اس تحقیق میں حصہ لینے والے صرف مغربی عیسائی مصنف ہی نہیں بلکہ ہندوستانی اورہندو محقّقین بھی ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر آئنگر اور رامیشور دت جیسے فاضل مصنفوں نے بھی اسی قسم کے نتائج نکالے ہیں۔ اِن دونوں ہندوستانی مصنفوں کی تحقیق کے مطابق مہابھارت کے واقعات کا زمانہ بارہ سو قبل مسیح تھا اور رامائن کے واقعات کا زمانہ ساڑھے سات سَو سے ایک ہزار قبل مسیح تک۔ جس کے معنی یہ ہوئے کہ دونوں واقعات میں وہ دو سَو سے ساڑھے چار سَو سال کا فاصلہ بتلاتے ہیں اور رامائن کے واقعات کو بعد میں اور مہا بھارت کے واقعات کو پہلے بتاتے ہیں جس کے دوسرے معنٰی یہ ہوئے کہ وہ کرشن جی کو مقدم سمجھتے ہیں اور رام چندر جی کو بعد میں سمجھتے ہیں۔
دوسری بات انہوں نے یہ پیش کی ہے کہ سنسکرت کے قدیم مصنف پانی نی کی تصنیف سے معلوم ہوتا ہے کہ مہابھارت کے واقعات اُس وقت تک ہوچکے تھے اور رامائن کے واقعات کا اُس وقت تک کوئی نام نہ تھا کیونکہ اس کی تصنیف سے مہابھارت کے واقعات کی طرف اشارہ ملتا ہے لیکن رامائن کے واقعات کا سُراغ نہیں ملتا۔ دوسرااصل بعض محققین نے جغرافیائی تحقیق کا بیان کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مہابھارت میں بعض جغرافیائی کوائف ایسے بیان ہیں جو پہلے کے ہیں اور رامائن کے جغرافیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساتویں صدی قبل مسیح کے زمانہ کے قریب کے زمانہ کے حالات بیان کررہی ہے۔ ایک اَور قرینہ بھی بعض لوگ بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ مہابھارت میں جن پانڈوئوں کا ذکر آتا ہے ، ان پانڈوئوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ زردقوم تھی اور زرد نسل چینی قومیں ہیں۔ اور کوروں کی قوم جو ہے یہ آرین نسل ہے گو مکسچر ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ شمالی ہند میں غیر آرین قوموں کی حکومتیں ابتدائی زمانہ میںتھیں۔ بعد میں آریوں نے ان کو دبالیا یا وہ آریوں سے مل گئیں یا فنا ہوگئیں لیکن رامائن کے زمانہ میں شمالی ہند کی آریائی قوموں کا جنوبی ہند کی غیرآریائی قوموں سے ملاپ ظاہر ہوتا ہے جو بعد کے زمانہ میں ہؤا۔ کیونکہ آریہ لوگ جنوبی ہند کی طرف اُس وقت بڑھے ہیں جب شمالی ہند پر وہ فتح پاچکے تھے۔ پس اس فرق کی وجہ سے بعض لوگ نتیجہ نکالتے ہیں کہ مہابھارت کے واقعات پہلے کے ہیں اور رامائن کے بعدکے۔
ایک مزید استدلال اس بارہ میں یہ پیش کیاجاتا ہے کہ مہابھارت کے ابتدائی دَور کے نسخوں میں پانڈوئوں کی مذمت کی گئی ہے اور کوروں کی تعریف کی گئی ہے کیونکہ اُس زمانہ میں آریہ قوم ابھی نئی نئی آئی تھی اور غیرقوموں کو شمالی ہندوستان سے نکال رہی تھی۔ اس دشمنی کی وجہ سے وہ غیرآریائی قوموں کو بہت بُرا سمجھتی تھی لیکن بعد کے زمانہ کے اضافوں میں یہ نقشہ اُلٹ گیا اور پانڈوئوں کی تعریف اور کوروں کی مذمت نظر آتی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض غیرآرین نسلیں آرین نسلوں میں مل جُل گئیں اور اب ان کے فاتحین آرین نسل کے فاتحین کی طرح قابلِ تعریف ہوگئے اور ہارنے والے کورو قابلِ نفرت قرار پائے۔ میرا یہ منشاء نہیں کہ میںاِس کو ہندو قوم کے عام خیال پر ترجیح دوں۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اِس امر کے بارہ میں اختلاف ہے اور خود ہندومصنّفین نے اختلاف کیا ہے۔ مجھے اپنے مضمون کیلئے اِس اختلاف میں پڑنے یا اِس کا فیصلہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ کیونکہ کوئی بات بھی مان لی جائے میرے مضمون کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ میری غرض تاریخی ترتیب پیش کرنے کی نہیں تھی بلکہ جلالی اورجمالی انبیاء کے متعلق ایک مثال دینے کی تھی۔ اگر یہ صحیح ہے کہ رام چندر جی پہلے ہوئے ہیں تو پھر وہ مثال یوں بن جائے گی کہ ویدوں میں دشمنوں سے لڑائی کے متعلق جو تعلیم دی گئی ہے اس سے جب یہ غلط فہمی لوگوں کے دلوںمیں پیدا ہوگئی کہ وید تلوار کے زور سے پھیلائے گئے ہیں تو اس کے ازالہ کیلئے رام چندر جی آئے اور کرشن جی سے بعد میں ایک اَور سلسلہ شروع ہؤا اور اگر وہی ترتیب درست ہو جو میں نے بیان کی تھی تو مثال اپنی جگہ پر قائم رہے گی۔
اِس تحقیق کے دوران ایک اَور عجیب بات بھی معلوم ہوئی جسے تاریخی طور پر نہیں بلکہ ذوقی طور پر مَیںبیان کرتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی تھی کہ آپ حضرت کرشن ؑکے مثیل ہیں۔ اب اِس تحقیق کے دَوران میں معلوم ہؤا کہ پانڈو منگولین ریس یعنی مغل قوم میں سے تھے اور پُرانے ہندو لٹریچر میں ان کو زرد اقوام قرار دیا گیا تھا جو چینیوں کا نام ہے۔ اس لحاظ سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مشابہت ثابت ہے۔ کیونکہ آپ بھی منگولین ریس میں سے ہیں اور آپ کا خاندان مغلیہ خاندان ہے اور مغل سب چینی ہیں، گو اصل میں ہمارا سب کامنبع عرب ہے۔ صرف درمیانی عرصہ میں کسی قوم کے کسی دوسری جگہ زیادہ عرصہ رہنے سے اس کے خواص بدل جاتے ہیں۔ ورنہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ چونکہ عربی زبان اُمُّ الْاَلْسِنہ ہے، اس لئے انسانی نسل کا منبع بھی عرب ہی ہے۔
اس کے بعد مَیں آج کے خطبہ کے مضمون کی طرف آتا ہوں۔ میں نے متواتر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قوموںکی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیںہوسکتی۔ نئی نسلیںجب تک اُس دین اور اُن اصول کی حامل نہ ہوں جن کو خداتعالیٰ کی طرف سے اس کے نبی اور مامور دنیا میں قائم کرتے ہیں اُس وقت تک اس سلسلہ کا ترقی کی طرف کبھی بھی صحیح معنوںمیں قدم نہیں اُٹھ سکتا۔ بے شک ترقی ہوتی ہے مگر اس طرح کہ کبھی ترقی ہوئی اور کبھی رُک گئی، کبھی بڑھ گئے اور کبھی رخنہ واقع ہوگیا۔ اس طرح وہ الٰہی سلسلہ پہاڑوں کی طرح اونچانیچا ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن بہرحال رخنہ بُری چیز ہے کوئی اچھی چیز نہیں اور ہمیں اس کو جلدسے جلد دور کرنا چاہئے۔ مگر یہ رخنے آج ہم میں ہی پیدا نہیں ہوئے پہلی قوموں اور پہلے زمانوں میں بھی موجود تھے جن کو نظرانداز کرتے ہوئے بعض لوگ ہماری جماعت پر یہ اعتراض کردیا کرتے ہیں کہ اگر یہ الٰہی سلسلہ ہے تو اس میں فلاں نقص کیوں ہے حالانکہ یہ باتیں پہلے زمانوں میں بھی تھیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کے حقوق کی ہمیشہ حفاظت کیا کرتی تھیں اور بعض دفعہ جب کوئی عورت اپنے خاوند کی شکایت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لاتی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بڑے زور سے اس کی تائید کیا کرتیں اور بار بار فرماتیں کہ اس کے حقوق تلف ہورہے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ یہاں تک کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی بعض دفعہ فرماتے کہ عائشہؓ! تم تو عورتوں کی بڑے زور سے حمایت کرتی ہو۔
پھر دین کے کاموں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بڑا حصہ لیتی تھیں۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ اعتکاف بیٹھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہؤا تو انہوں نے اُسی وقت مسجد میں خیمہ جالگایا۔ باقی اُمہات المؤمنین نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے اپنے خیمے مسجد میں آکر لگادیئے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب مسجد میں تشریف لائے تو آپ کیا دیکھتے ہیں کہ جس طرح کہیں فوج اُتری ہوئی ہوتی ہے اُسی طرح مسجد میںخیمے لگے ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا یہ اُمہات المؤمنین کے خیمے ہیں جو اُنہوں نے معتکف ہونے کیلئے لگائے ہیں۔ آپ نے فرمایا اُٹھائو سب کو ۔ اگر یہ خیمے یہاں لگے رہے تو لوگوں کو نماز پڑھنے کی جگہ کہاں ملے گی۔۱؎ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوںکے حقوق کا ہمیشہ خاص خیال رکھا کرتی تھیں مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ہی آتا ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک موقع پر آپ نے فرمایا۔ اگر عورتوں کے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ویسے ہی حالات ظاہر ہوتے جیسے آج کل ظاہر ہیں تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیتے۔۲؎ اب یہ بالکل قریب زمانہ کی بات ہے۔ زیادہ سے زیادہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات پر تیس چالیس سال گزرے ہوں گے مگر آپ فرماتی ہیں کہ اگر آج سے چند سال پہلے یہ حالات ظاہر ہوتے تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم عورتوں کو مساجد میں آنے سے منع فرمادیتے اور آپ نے جو اجازت دے رکھی تھی اسے منسوخ فرمادیتے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض حدیثُ الْعہد عورتیں یا غیرقوموں کی عورتیں پردہ میں پوری احتیاط ملحوظ نہیں رکھتی ہوں گی اور لوگ اعتراض کرتے ہوں گے جس پر آپ نے یہ فرمایا۔ جیسے قادیان میں بھی بعض ایسی باتوں پر لوگ اعتراض کردیا کرتے ہیں مگر باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس اعتراض کے وہ زمانہ خیرُالْقرون ہی کہلاتا ہے کیونکہ انہوں نے اصلاحی پہلو سے یہ اعتراض کیا تھا۔ یہ نہیں کہا کہ قوم گندی ہوگئی۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اِن چیزوں کو قائم رکھا جائے بلکہ ہمیں ان امور کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے اور وہ اصلاح اسی رنگ میں ہوسکتی ہے کہ نوجوانوں کو اِس امر کی تلقین کی جائے کہ وہ اپنے اندر ایسی روح پیدا کریں کہ اسلام اور احمدیت کا حقیقی مغز انہیںمیسر آجائے۔ اگر ان کے اندر اپنے طور پر یہ بات پیدا ہوجائے تو پھر کسی حُکم کی ضرورت نہیں رہتی۔ حُکم دینا کوئی ایسا اچھا نہیں ہوتا۔
دنیا میں بہترین مصلح وہی سمجھا جاتا ہے جو تربیت کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں ایسی روح پیدا کردیتا ہے کہ اس کا حکم ماننا لوگوں کیلئے آسان ہوجاتا ہے اور وہ اپنے دل پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم باقی الہامی کتب پر فضیلت رکھتا ہے اور الہامی کتابیں تو یہ کہتی ہیں کہ یہ کرو اور وہ کرو مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ اِس لئے کرو، اِس لئے کرو ۔ گویا وہ خالی حکم نہیں دیتا بلکہ اس حکم پر عمل کرنے کی انسانی قلوب میںرغبت بھی پیدا کردیتا ہے۔ تو سمجھانا اور سمجھا کرقوم کے افراد کو ترقی کے میدان میں اپنے ساتھ لئے جانا یہ کامیابی کا ایک اہم گُر ہے اور قرآن کریم نے اس پر خاص زور دیا ہے۔ چنانچہ سورئہ لقمان ؑ میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کومخاطب کرکے جو نصیحتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ۳؎کہ تمہارے ساتھ چونکہ کمزور لوگ بھی ہوں گے اس لئے ایسی طرز پر چلنا کہ کمزور رہ نہ جائیں۔ بے شک تم آگے بڑھنے کی بھی کوشش کرو مگر اتنے تیز بھی نہ ہوجائو کہ کمزور طبائع بالکل رہ جائیں۔ دوسرے جب بھی تم کوئی حُکم دو محبت پیار اور سمجھا کر دو۔ اس طرح نہ کہو کہ ’’ہم یوں کہتے ہیں‘‘ بلکہ ایسے رنگ میں بات پیش کرو کہ لوگ اسے سمجھ سکیں اور وہ کہیں کہ اس کو تسلیم کرنے میں تو ہمارا اپنا فائدہ ہے۔کے یہی معنے ہیں۔ گویا میانہ روی اور پُرحکمت کلام یہ دو چیزیں مل کر قوم میں ترقی کی رُوح پیدا کیا کرتی ہیں۔ اور پُرحکمت کلام کا بہترین طریق یہ ہے کہ دوسروں میں ایسی روح پیدا کردی جائے کہ جب انہیں کوئی حکم دیا جائے تو سننے والے کہیں کہ یہی ہماری اپنی خواہش تھی۔ یہی وقت ہوتا ہے جب کسی قوم کا قدم ترقی کی طرف سُرعت کے ساتھ بڑھنا شروع ہوجاتا ہے مگر جب امام کچھ کہے اور ماموم کچھ سمجھے، امیر کوئی حکم دے اور مأمور اس سے کوئی مطلب لے اور سمجھنے اور سمجھانے کی کشمکش جاری رہے ۔ وہ حکم دے اور یہ کہے کہ مجھے پہلے اس کی غرض اور اس کا فائدہ سمجھادیجئے اور جب سمجھایا جائے تو کہے میری سمجھ میں نہیں آیا۔ تو ایسی صورت میں کبھی بھی قومی ترقی نہیں ہوتی۔ لیکن جب امیر اور مامور کے آپس میں ایسے تعلقات ہوں یا تربیتِ دماغی ایسے رنگ میں ہوچکی ہو کہ امیر جب کوئی حکم دے تو سب لوگ یہ سمجھیں کہ اس میں ہمارا فائدہ ہے اور یہی ہماری خواہش تھی، تو اُس وقت یقینا وہ ترقی کرجاتی ہے۔
ہمارے ملک میں مثل ہے کہ سَو سیانے اِکّو مت۔ یعنی اگر سو عقلمند ہوں تو وہ سب ایک ہی بات پر متفق ہوں گے۔ یہ نہیں ہوگا کہ کوئی کچھ کہے اور کوئی کچھ۔ اسی طرح اگر ہم ساری جماعت کو عقلمند بنادیں تو سب کی ایک ہی رائے ہو اور متحدہ عزم، متحدہ ارادے اور متحدہ کوششیں اپنے اندر جو اثر رکھتی ہیں وہ بہت وسیع ہوتے ہیں لیکن اگر امیر کی عقل تو تیز ہے لیکن مأمور کی نہیں، مأمور قدم قدم پر ٹھہر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے سمجھالیجئے ایسا نہ ہو کہ مجھے کوئی غلطی لگ جائے، تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس امیر کی کوششیں بارآور نہیں ہوتیں اور قوم کامیابی کا پھل کھانے سے محروم رہتی ہے۔ تو بہترین ذریعہ قومی ترقی کا یہ ہوتا ہے کہ ساروں کی عقل تیز کردی جائے۔ اِدھر اِنہیں حُکم ملے اور اُدھر طبائع اس پر عمل کرنے کیلئے پہلے ہی تیار ہوں اوروہ کہیں کہ ہم تو پہلے ہی اس کے منتظر تھے۔ حدیثوں میں ایسے بہت سے واقعات آتے ہیں کہ جب قرآنی احکام نازل ہوتے تو صحابہؓ کہتے ہم تو پہلے ہی ان احکام کے منتظر تھے۔ اِس کانتیجہ یہ ہوتا کہ وہ فوراً عمل کی طرف متوجہ ہوجاتے اور بحث اور غلط بحث سے بچ جاتے۔
پس ایسے ذرائع کو اختیار کرنا چاہئے جن سے قوم کے دماغ کی تربیت ہو اور خصوصاً نوجوانوں کے دماغ کی تربیت ہو کیونکہ زیادہ تر کاموںکی ذمہ داری آئندہ نوجوانوں پر ہی پڑنے والی ہوتی ہے۔ اگر نوجوانوں میں بُری باتیں پیدا ہو جائیں مثلاً نکمّے پن کی عادت پیدا ہوجائے یا سُستی کی عادت پیدا ہوجائے یا جھوٹ کی عادت پیدا ہوجائے تو یقینا آج نہیں تو کل وہ قوم تباہ ہوجائے گی ۔بِالخصوص جھوٹ تو ایسا خطرناک مرض ہے کہ یہ انسان کے ایمان کو جڑ سے اُکھیڑ دیتا ہے۔ بعض دفعہ پندرہ پندرہ سال تک ہم ایک شخص کے متعلق یہ سمجھتے رہتے ہیںکہ وہ بڑا بزرگ اور راستباز انسان ہے مگر پھر پتہ لگتا ہے کہ وہ بڑ اکذاب ہے۔ دیکھتا کچھ ہے اور بیان کچھ کرتا ہے۔ مگر یہ باتیں بچپن میں ہی پیدا ہوتی ہیں۔ پس نوجوانوں میں اگر اس قسم کی باتیں پیدا کردی جائیں اور ان کے اخلاق کو صحیح رنگ میں ڈھالا جائے تو یقینا قوم کی ترقی میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ مثلاً میں نے تحریک جدید جاری کی۔ اس میں اگر غور کرکے دیکھا جائے توکامیابی عورتوں اور بچوں کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اگر عورتیں اوربچے ہمارے ساتھ تعاون نہ کریں تو یقینا جماعت کا ایک حصہ اس پر عمل کرنے سے رہ جائے گا لیکن اگر عورتیں اور بچے اس میں شامل ہوں تو ہمارے کام میں بہت سہولت پیدا ہوسکتی ہے۔ مثلاً سادے کپڑے ہیں یا زیورات کی کمی ہے یا ایک خاص عرصہ تک زیور بالکل نہ بنوانا ہے اب جب تک عورتیں اس میں شریک نہ ہوں تو یہ سکیم کس طرح چل سکتی ہے ۔یا ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے اِس میں اگر بچے اور نوجوان شریک نہ ہوں تو یہ سکیم کس طرح چل سکتی ہے ۔ مثلاً نکمّا نہ رہنا ہے اب نکمّے پن کی عادت بچوں میں ہی ہوسکتی ہے، بڑے تو اپنی اپنی جگہ کام کررہے ہوتے ہیں اوران میں سے کئی آسودہ حال ہوتے ہیں لیکن ان کی نئی نسل یہ کہنا شروع کردیتی ہے کہ ہمارے ابا نواب، ہمارے ابّا فلانے، ہم فلاں کام کیوں کریں اِس میں ہماری ہتک ہے اور پھر تمام خرابیاں اسی سے پیدا ہوتی ہیں حالانکہ اگر ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی جائے اور ان کے قلوب پر اس کا نقش کردیا جائے کہ جو شخص کام کرتا ہے وہ عزت کا مستحق ہے اور جو کام نہیں کرتا بلکہ نکمّا رہتا ہے وہ اپنی قوم اور اپنے خاندان کیلئے عار اور ننگ کا موجب ہے اور یہ کہ معمولی دولتمند یا زمیندار تو الگ رہے اگر ایک بادشاہ یا شہنشاہ کا بیٹا بھی نکمّا رہتا ہے تو وہ بھی اپنی قوم اور اپنے خاندان کیلئے عار کا موجب ہے اور اس چمار کے بیٹے سے بدتر ہے جو کام کرتا ہے۔ تو یقینا اگلی نسل درست ہوسکتی ہے اور پھر وہ نسل اپنے سے اگلی نسل کو درست کرسکتی ہے اور وہ اپنے سے اگلی نسل کو۔ یہاں تک کہ یہ باتیں قومی کریکٹر میں شامل ہوجائیں اور ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجائیں کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جو باتیں قوم کی عادت بن جاتی ہیں وہ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجاتی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عادت ایک لحاظ سے بُری ہے مگر اس میں بھی شُبہ نہیں کہ ایک لحاظ سے وہ اچھی بھی ہوتی ہے۔ جب کوئی قوم بیدار ہو اور اُس وقت وہ اپنے اندر اچھی عادتیں پیدا کرے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ قوم سوجاتی ہے تو اُس کی عادت اُس کے ساتھ رہتی ہے اور اس طرح وہ نیکی ضائع نہیں جاتی بلکہ محفوظ رہتی ہے۔ چاہے وہ خود اس سے فائدہ نہ اُٹھائے بلکہ کوئی اور اس سے فائدہ اُٹھائے۔ اسی لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا میں تین قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ ایک کی مثال تو اُس کھیت کی سی ہوتی ہے جس میں پانی آتا ہے اور وہ اپنے اندر جذب کرلیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں سے خوب کھیتی نکلتی ہے۔ اور ایک کی مثال اس زمین کی سی ہوتی ہے جس میں پانی آکر جمع تو ہوجاتا ہے مگر کھیتی نہیں اُگتی دوسرے لوگ اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اور ایک کی مثال اُس کنکریلی زمین کی سی ہوتی ہے جہاں پانی آتا ہے تو نہ اُس زمین میں جذب ہوتا ہے اور نہ اُس میں محفوظ رہتا ہے۔۴؎ اسی طرح انسان بھی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ ہوتے ہیں جو الٰہی نور اپنے اندر جذب کرتے ، اُس سے فائدہ اُٹھاتے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اور ایک ایسے ہوتے ہیں جو خود تو فائدہ نہیں اُٹھاتے مگر جس طرح بعض زمینوں میں پانی جمع ہوجاتا ہے اسی طرح عادت کے طور پر بعض نیک کام ان میں پائے جاتے ہیں اور اس کا گو اُنہیں کوئی فائدہ نہ پہنچے مگر کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ نیکی محفوظ رہتی ہے۔ مثلاً اگر باپ التزام کے ساتھ سوچ سمجھ کر نماز پڑھنے کا عادی ہے اور اس کا بیٹا نماز کا تارک ہے تو پوتا بہرحال نماز کا تارک ہوگاکیونکہ اُس نے اپنے باپ کو نماز پڑھتے کبھی نہیں دیکھا ہوگا لیکن اگر بیٹا نماز تو پڑھتا ہے مگر عادتاً پڑھتا ہے، دلی ذوق و شوق کے ساتھ نماز نہیں پڑھتا تو گو وہ اس فائدہ سے محروم رہے جو حقیقی نماز پڑنے والوں کو حاصل ہوتا ہے مگر نماز اس کے بیٹوں تک ضرور پہنچ جائے گی اور ممکن ہوگا کہ وہ اگلی نسل نماز سے حقیقی فائدہ حاصل کرلے۔ تو عادتاً جو نیکیاں پیدا ہوجائیں وہ بھی قوم کو فائدہ پہنچاتی ہیں اور گو عادت کی وجہ سے وہ قوم اس سے خود فائدہ نہ اُٹھائے مگر وہ نیکی راستہ میں برباد نہیں ہوجاتی بلکہ اگلے لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اور ان میں سے جو فائدہ اٹھانے کے اہل ہوں وہ فائدہ اُٹھالیتے ہیں۔ اسی لئے جب کسی قوم میں تین چار نسلیں اچھی گزرجائیں اس کے معیاری اخلاق دنیا میں قائم رہتے ہیں مٹتے نہیں اوراگر ایک دو نسلوں میں ہی کمزوری آجائے تو وہ اخلاق راستہ میں ہی فنا ہوجاتے ہیں۔ پس اگر کئی اچھی نسلیں گزرجائیں اور ان میں نیکیاںعادت کے طور پر پیدا ہوجائیں تو گو کوئی زمانہ ایسا آجائے کہ وہ اصل نیکی کی روح سے محروم ہوجائے ۔ مگر چونکہ اس کا ظاہر باقی ہوگا اس لئے بعدمیںآنے والے اس سے پھر زندگی حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ نمونہ ان کے پاس موجود ہوگا۔
تو اولادوں کی درستی اور اصلاح اور نوجوانوں کی درستی اور اصلاح اور عورتوں کی درستی اور اصلاح یہ نہایت ہی ضروری چیز ہے۔ اگر دوست چاہتے ہیں کہ وہ تحریک جدید کو کامیاب بنائیںتو ان کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح ہر جگہ لجنات اماء اللہ قائم ہیں اسی طرح ہر جگہ نوجوانوں کی انجمنیں قائم کریں۔ قادیان میں بعض نوجوانوں کے دل میں اس قسم کا خیال پیدا ہؤا تو انہوںنے مجھ سے اجازت حاصل کرتے ہوئے ایک مجلس خدام الاحمدیہ کے نام سے قائم کردی ہے۔ چونکہ ایک حد تک کام میں ایک دوسرے کے ذوق کا ملنا بھی ضروری ہوتا ہے اس لئے شروع میں مَیں نے انہیں اجازت دی ہے کہ وہ ہم ذوق لوگوں کو اپنے اندر شامل کریں لیکن میں نے انہیںیہ ہدایت بھی کی ہے کہ جہاں تک ان کیلئے ممکن ہو باقی لوگوں کو بھی اپنے اندر شامل کریں مگر میں نے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ نوجوانوں میں کام کرنے کی روح پیدا ہو یہ ہدایت کی ہے کہ جو لوگ جماعت میں تقریر و تحریر میں خاص مہارت حاصل کرچکے ہوں اُن کو اپنے اندر شامل نہ کیا جائے۔ جس کی وجہ سے بعض دوستوں کو غلط فہمی بھی ہوئی ہے۔ چنانچہ ہماری جماعت کے ایک مبلغ مجھ سے ملنے کیلئے آئے اور کہنے لگے کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں میں نے کہا میں تو ناراض نہیں، آپ کو یہ کیونکر وہم ہؤا کہ میں ناراض ہوں۔ وہ کہنے لگے مجھے معلوم ہؤا ہے کہ آپ نے مجلس خدام الاحمدیہ میں میری شمولیت کی اجازت نہیں دی۔ میںنے کہا یہ صرف آپ کا سوال نہیں جس قدر لوگ خاص مہارت رکھتے ہیں اُن سب کی شمولیت کی میں نے ممانعت کی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر بڑے آدمیوں کو بھی ان میںشامل ہونے کی اجازت دے دی جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ پریذیڈنٹ بھی انہی کو بنائیں گے، سیکرٹری بھی انہی کو بنائیں گے، مشورے بھی انہی کے قبول کریں گے اور اس طرح اپنی عقل سے کام نہ لینے کی وجہ سے وہ خود بُدھو کے بُدھو رہیں گے۔ مثلاً میں اگر کسی انجمن یا جلسہ میںشامل ہوں تو یہ قدرتی بات ہے کہ چونکہ جماعت کے اعتقاد کے مطابق خلیفۃ المسیح سے بڑا مقام اور کوئی نہیں، اس لئے وہ کہیں گے کہ خلیفۃ المسیح کو ہی پریذیڈنٹ بنایا جائے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ جو تربیت پریذیڈنٹی سے حاصل ہوتی ہے وہ بیچ میں ہی رہ جائے گی اور جماعت اس قسم کے تجربے سے محروم رہ جائے گی۔
پس میں نے خاص طور پر انہیں یہ ہدایت دی ہے کہ جن لوگوں کی شخصیتیں نمایاں ہوچکی ہیں اُن کو اپنے اندر شامل نہ کیا جائے تا انہیں خود کام کرنے کا موقع ملے۔ ہاں دوسرے درجہ یا تیسرے درجہ کے لوگوں کو شامل کیا جاسکتا ہے تا اُنہیں خود کام کرنے کی مشق ہو اور وہ قومی کاموں کوسمجھ سکیں اور اُنہیں سنبھال سکیں۔ چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ اِس وقت تک انہوں نے جو کام کیا ہے اچھا کیا ہے اور محنت سے کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں انہیں یہ اجازت دے دیتا کہ وہ پُرانے مبلغین مثلاً مولوی ابوالعطاء اللہ دتّا صاحب یا مولوی جلال الدین صاحب شمس اور اسی قسم کے دوسرے مبلغوں کو بھی اپنے اندر شامل کرلیں تو جو اشتہارات اِس وقت تک انہوں نے لکھے ہیں سب وہی لکھتے، وہی اعتراضات کے جوابات دیتے اور دوسرے نوجوانوں کو کچھ بھی پتہ نہ ہوتا کہ اعتراضات کا جواب کس طرح دیا جاتا ہے۔ پس میں نے انہیں ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے سے روک دیا۔ میں نے کہا تم مشورہ بے شک لو مگر جو کچھ لکھو وہ تم ہی لکھو تا تم کو اپنی ذمہ داری محسوس ہو۔ گو اِس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ شروع میں وہ بہت گھبرائے۔ اُنہوں نے اِدھر اُدھر سے کتابیں لیں اور پڑھیں، لوگوں سے دریافت کیا کہ فلاںبات کا کیا جواب دیں۔ مضمون لکھے اور بار بار کاٹے مگر جب مضمون تیار ہوگئے اور اُنہوں نے شائع کئے تو وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے۔ اورمیں سمجھتا ہوں کہ وہ دوسرے مضمونوں سے دوسرے نمبر پر نہیں ہیں۔ گو ان کو ایک ایک مضمون لکھنے میں بعض دفعہ مہینہ مہینہ لگ گیا اورہمارے جیسا شخص جسے لکھنے کی مشق ہو شاید ویسا مضمون گھنٹے دو گھنٹے میں لکھ لیتا اور پھر کسی اور کی مدد کی ضرورت بھی نہ پڑتی مگر وہ دس بارہ آدمی ایک ایک مضمون کیلئے مہینہ مہینہ لگے رہے لیکن اِس کا فائدہ یہ ہؤا کہ جو اسلامی لٹریچر ان کی نظروں سے پوشیدہ تھا وہ ان کے سامنے آگیا اور دس بارہ نوجوانوں کو پڑھنا پڑا اور اس طرح ان کی معلومات میں بہت اضافہ ہؤا۔ تو اگر اس قسم کے علمی کام یہ انجمنیں کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلامی تاریخ کی کتب، اسلامی تفسیر کی کتابیں، حدیث کی کتابیں، فقہ کی کتابیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں اور اسی طرح اَور بہت سی کتابیں ان کے زیر نظر آجائیں گی اور انہیں اپنی ذات میںبہت بڑا علمی فائدہ ہوگا۔
دوسرا فائدہ جماعت کو اس قسم کی انجمنوں سے یہ پہنچے گا کہ اسے کئی نئے مصنف اور مؤلّف مل جائیں گے۔
تیسرا فائدہ یہ ہوگا یہ نوجوانوں میں اعتمادِ نفس پیدا ہوگا اور انہیں یہ خیال آئے گا کہ ہم بھی کسی کام کے اہل ہیں۔
اب اگر میں بڑے آدمیوں کو بھی انہیں اپنے اندر شامل کرنے کی اجازت دے دیتا تو یہ سارے فوائد جاتے رہتے۔ لیکن یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ تصنیف کا کام ہمیشہ نہیں ہوتا اور نہ ہر شخص کرسکتا ہے کیونکہ ہر شخص نہ عربی میں احادیث پڑھ سکتا ہے، نہ عربی میں تفسیریں دیکھ سکتا ہے، نہ عربی کتب کا مطالعہ کرسکتا ہے، پس اِن کیلئے اَور کاموں کی بھی ضرورت ہے۔ اورمیں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کے اصول پر کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ نوجوانوں کے اخلاق کی درستی کریں، ا نہیں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی ترغیب دیں، سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کریں۔ دینی علوم کے پڑھنے اور پڑھانے کی طرف توجہ کریں اور ان نوجوانوں کو اپنے ساتھ شامل کریں، جو واقع میں کام کرنے کا شوق رکھتے ہوں۔ بعض طبائع صرف چوہدری بننا چاہتی ہیں، کام کرنے کا شوق اُن میں نہیں ہوتا۔ ایسوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ لوگ صرف پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بننا چاہتے ہیں اور ان کا طریق یہ ہوتا ہے کہ جس دن پریذیڈنٹ یا سیکرٹری کے انتخاب کا سوال ہو فوراً آجائیں گے اور پھر کبھی شکل بھی نہیں دکھائیں گے لیکن جب دوبارہ انتخاب کا سوال ہو تو پھر اپنے پندرہ بیس چیلے لے کر آجائیں گے جنہیں پہلے سے یہ سکھادیں گے کہ ہمیں ووٹ دینا اور اس طرح پھر پریذیڈنٹ یا سیکرٹری بن جائیں گے اور خیال کریں گے کہ ان کی زندگی کا مقصد پورا ہوگیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک جگہ ایک مجلس قائم ہوئی تو اس میں بڑاتفرقہ پیدا ہوگیا۔ میں نے پوچھا کیا ہؤا؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپس میں خوب لڑائی ہوئی ہے۔ ایک کہتا ہے مَیں پریذیڈنٹ بنوں گا اور دوسرا کہتا ہے میں بنوں گا۔ آپ فرماتے تھے کہ میں نے کہا تم یُوں کیوں نہیں کرتے کہ ایک کو پریذیڈنٹ بنادو، دوسرے کا صدر نام رکھ دو، تیسرے کو مربی بنادو اور چوتھے کو چیئرمین قرار دے دو۔ وہ یہ سُن کر بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے اسی طرح کیا۔ ایک کے متعلق کہہ دیا کہ یہ مربی صاحب ہیں اور چپکے سے اس کے کان میں کہہ دیا کہ اجی مربی ہی سب سے بڑا ہوتا ہے صدر کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔ پھر دوسرے کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ آپ ہیں صدر اور دیکھئے صدر ہی سب سے بڑا ہوتا ہے کیونکہ سب سے نمایاںجگہ اِسی کو ملتی ہے مربی کا کیا ہے وہ تو گھر بیٹھا رہتا ہے۔ پھر تیسرے کے پاس گئے اور کہنے لگے آپ ہمارے پریذیڈنٹ ہیں صدر تو مُلّائوں قُلْ اَعُوْذیوں کا لفظ ہے آپ موجودہ زمانہ کے روشن دماغ انسانوں کی طرف دیکھئے وہ اپنے میں سے بہترین شخص کو پریذیڈنٹ بناتے ہیں چنانچہ ہم آپ کو اپنا پریذیڈنٹ بناتے ہیں۔ پھر چوتھے کے پاس گئے اور کہنے لگے آپ ہمارے چیئر مین ہیں۔ چنانچہ سب خوش ہوگئے کیونکہ انہیں کام سے کوئی غرض نہ تھی۔ اُنہیں صرف اتنا شوق تھا کہ جب مثلاً کسی ڈپٹی کمشنر کو کوئی چِٹھی لکھنی پڑے تو نیچے لکھ دیا مربی مُسلم ایسوسی ایشن، دوسرے نے لکھ دیا چیئر مین مُسلم ایسوسی ایشن، تیسرے نے لکھ دیا صدر مُسلم ایسوسی ایشن، چوتھے نے لکھ دیا پریذیڈنٹ مُسلم ایسوسی ایشن، محض یہ بتانے کیلئے کہ ہم مسلمانوں کے سردار ہیں ورنہ کام کچھ نہیں کرتے۔ تو بعض لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے عُہدے لینے کیلئے مجالس میں شامل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ *** ہوتے ہیں اپنی قوم کیلئے اور *** ہوتے ہیں اپنے نفس کیلئے۔ وہ وہی ہیں جن کے متعلق خداتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۵؎ریاء ہی ریاء ان میں ہوتی ہے کام کرنے کا شوق ان میں نہیں ہوتا۔ تو میں نے انہیں نصیحت کی ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے اندر مت شامل کریں جو کام کرنے کیلئے تیار نہ ہوں بلکہ انہی کو اپنے اندر شامل کریں جویہ اقرار کریںکہ وہ بے قاعدگی کے ساتھ نہیں بلکہ باقاعدگی کے ساتھ کام کیا کریں گے۔ بے قاعدگی کے ساتھ کا م میں کبھی برکت نہیں ہوتی۔ اگر تھوڑا کام کیا جائے لیکن مسلسل کیا جائے تو وہ اس کام سے زیادہ بہتر ہوتا ہے جو زیادہ کیا جائے لیکن تواتر اور تسلسل کے ساتھ نہ کیاجائے۔
میں چاہتا ہوں کہ باہر کی جماعتیں بھی اپنی اپنی جگہ خدام الاحمدیہ نام کی مجالس قائم کریں۔ یہ ایسا ہی نام ہے جیسے لجنہ امائِ اللہ۔ لجنہ امائِ اللہ کا مطلب ہے اللہ کی لونڈیاں اور خدام الاحمدیہ سے مراد بھی یہی ہے کہ احمدیت کے خادم۔ یہ نام انہیں یہ بات بھی ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا کہ وہ خادم ہیں مخدوم نہیں۔ یہ جو بعض لوگوں کے دلوں میں خیال پایا جاتا ہے کہ کاش ہم کسی طرح لیڈر بن جائیں، یہ بیہودہ خیال ہوتا ہے۔ لیڈر بنانا خدا کا کام ہے او رجس کو خدا لیڈر بنانا چاہتا ہے اُسے پکڑ کر بنادیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں تحریر فرمایا ہے کہ:
’’میں پوشیدگی کے حُجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے۔ اُس نے گوشۂ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا۔ میں نے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اُس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شُہرت دوں گا‘‘۔ ۶؎
پھر حضرت خلیفہ اوّل کو ہم نے دیکھا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں آپ ہمیشہ پیچھے ہٹ کر بیٹھا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آپ پر نظر پڑتی تو آپ فرماتے مولوی صاحب آگے آئیں اور آپ ذرا کھِسک کر آگے ہوجاتے۔ پھر دیکھتے تو فرماتے مولوی صاحب اَور آگے آئیں اور پھر آپ ذرا اَور آگے آجاتے۔ خود میرا بھی یہی حال تھا۔ جب حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کا وقت قریب آیا اُس وقت میں نے یہ دیکھ کر کہ خلافت کیلئے بعض لوگ میرا نام لیتے ہیں اور بعض اس کے خلاف ہیں، یہ ارادہ کرلیا تھا کہ قادیان چھوڑ کر چلا جائوں تا جو فیصلہ ہونا ہو میرے بعد ہو مگر حالات ایسے پیدا ہوگئے کہ میں نہ جاسکا۔ پھر جب حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوگئی تو اُس وقت میں نے اپنے دوستوں کو اِس بات پر تیارکرلیا کہ اگر اِس بات پر اختلاف ہو کہ خلیفہ کس جماعت میں سے ہو، تو ہم ان لوگوں میں سے (جو اَب غیرمبائع ہیں) کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلیں اور پھر میرے اصرار پر میرے تمام رشتہ داروں نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ اس امر کو تسلیم کرلیں تو اول تو عام رائے لی جائے اور اگر اس سے وہ اختلاف کریں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کرلیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو۔ اور اگر وہ یہ بھی قبول نہ کریں تو ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلی جائے اورمیں یہ فیصلہ کرکے خوش تھا کہ اب اختلاف سے جماعت محفوظ رہے گی۔ چنانچہ گزشتہ سال حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی نے بھی حلفیہ بیان شائع کرایا تھا کہ میں نے حافظ صاحب کو اُنہی دنوں کہا تھا کہ ’’اگر مولوی محمد علی صاحب کو اللہ تعالیٰ خلیفہ بنادے تو میں اپنے تمام متعلقین کے ساتھ ان کی بیعت کرلوں گا‘‘ ۷؎ لیکن اللہ تعالیٰ نے دھکّا دے کر مجھے آگے کردیا۔ تو اللہ تعالیٰ جس کو بڑا بنانا چاہے وہ دنیا کے کسی کونہ میں پوشیدہ ہو، خداتعالیٰ اُس کو نکال کر آگے لے آتا ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ اس کیلئے میں پھر حضرت لقمان ؑوالی مثال دیتا ہوں۔ حضرت لقمان ؑ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۸؎کہ اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی چیز ہو اور وہ کسی پتھر میں پوشیدہ ہو یا آسمانوں اور زمین میں ہو تو اللہ تعالیٰ اُس کو نکال کر لے آئے گا۔ اِس کے معنے یہی ہیں کہ اگر تمہارے دل میں ایمان ہو تو خداتعالیٰ تمہیںخود اس کام پر مقرر کرے جس کے تم اہل ہو ۔ تمہیں خود کسی عُہدہ کی خواہش نہیں کرنی چاہئے۔ تو وہ لوگ جو خدمتِ خلق کو اپنا مقصود قرار دیتے ہیں وہی ہرقسم کی عزت کے مستحق ہیں۔ پھر اگر خداتعالیٰ تمہیں خود مخدوم بنانا چاہے تو ساری دنیا مل کر بھی اِس میں روک نہیں بن سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو خداتعالیٰ کے مسیح اورمأمور تھے اور پھر ایسے مأمور تھے جن کی تمام انبیاء نے خبر دی۔ اُن کا ذکر تو بڑی بات ہے۔ میں اپنے متعلق ہی شروع سے دیکھتا ہوں کہ مخالفتیں ہوتی ہیںاور اتنی شدید ہوتی ہیںکہ ہر دفعہ لوگ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب کی دفعہ یہ مخالفانہ ہوائیں سب کچھ اُڑا کر لے جائیں گی مگر پھر وہ اِس طرح بیٹھ جاتی ہیں جس طرح جھاگ بیٹھ جاتی ہے۔ تو جس کو اللہ تعالیٰ قائم کرنا چاہے اُس کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔
پس تمہیں اپنے دلوں میں سے ہرقسم کی نمود کاخیال مٹا کر کام کرنا چاہئے۔ بڑبولا ہونا کوئی خوبی کی بات نہیں ہوتی۔ حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ تیز کلامی میں مشغول ہیں۔ صحابہؓ چونکہ سادہ کلام کرنے کے عادی تھے اس لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ معمولی فقرہ فرمادیا کہ میں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو باتیں کرتے دیکھا ہے۔ آپ اس طرح تیز تیز باتیں نہیں کیا کرتے تھے۔ اب ایک نیک شخص اورمؤمن انسان کو یہ فقرہ بالکل کاٹ دینے والا ہے اور وہ اسی سے سمجھ سکتا ہے کہ کس رنگ میں گفتگو کرنی چاہئے۔
تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ زبان کے رس میں ساری کامیابی ہے حالانکہ اصل چیز باتیں کرنا نہیں بلکہ کام کرنا ہے۔ مگر میں انہیں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں یعنی یہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ کو بھی اور اُن مجالس خدام الاحمدیہ کو بھی جو میرے اس خطبہ کے نتیجہ میں قائم ہوں کہ وہ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ اُن کا تعداد پر بھروسہ نہ ہو بلکہ کام کرنا ان کا مقصود ہو۔ یہ بات میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں لیکن آج مجھے اس طرف خاص توجہ اِس لئے ہوئی ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ کے ایک عُہدہ دار کی مجھے چِٹھی ملی ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے اس مجلس میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے اور بعض لوگ جو پہلے اِس میں شامل تھے وہ اب پیچھے ہٹ گئے ہیں حالانکہ اِس بات پر بجائے رنجیدہ ہونے کے انہیں خوش ہونا چاہئے تھا کیونکہ میری تعلیم یہی ہے کہ کام کرنے والے چاہئیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ محض تعداد بڑھانے کے شوق میں نااہلوں کو بھی شامل کرلیا جائے۔ ہم سے زیادہ تعداد شیعوں کی ہے اور ان سے بھی زیادہ حنفیوں کی ہے۔ پھر غیرمُسلموں کو جمع کیا جائے تو وہ مسلمان کہلانے والوں سے زیادہ ہیں۔ پس اگر تعداد کی زیادتی پر ہی مدار رکھا جائے تو پھر تو انسان کو باطل کی طرف جھکنا پڑتا ہے حالانکہ نیک کام ہمیشہ نیک بنیاد سے ہوتے ہیں۔ میں کہتا ہوںیہ سوال نہیں کہ تمہارے دس ممبر ہیں یا بیس یا پچاس یا سَو۔ اگر مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک سیکرٹری یا پریذیڈنٹ ہی کسّی ہاتھ میں لے لے اور گلیوں کی صفائی کرتا پھرے یا لوگوں کو نماز کے لئے بُلائییا کوئی غریب بیوہ جس کے گھر سَودا لاکر دینے والا کوئی نہیں اسے سودا لا کر دے دیا کرے تو بے شک پہلے لوگ اسے پاگل کہیں گے مگر چنددنوں کے بعد اس سے باتیں کرنی شروع کردیں گے۔ پھر انہی میں سے بعض لوگ ایسے نکلیں گے جو کہیں گے کہ ہمیںاجازت دیں کہ ہم بھی آپ کے کام میں شریک ہوجائیں۔ اس طرح وہ ایک سے دو ہوں گے، دو سے چار ہوں گے اور بڑھتے بڑھتے ہزارو ں نہیں لاکھوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ تو نیک کام کرتے وقت کبھی یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ کتنے آدمی اِس میں شریک ہیں۔ اگر وہ کام جسے تم کرنا چاہتے ہو واقع میں نیک اور پسندیدہ ہے تو تھوڑے ہی دنوں میں تم ایک سے دس ہوجائو گے، پھر دس سے سَو بنو گے اور سَو سے ہزار ہوجائو گے کیونکہ نیک کام اثر کئے بغیر نہیں رہتا۔
آجکل یورپ میں ایک بہت بڑی انجمن ہے جس کی نہ صرف یورپ میں بلکہ سارے ایشیا میں شاخیں ہیں۔ روٹری کلب اس کا نام ہے اور لاکھوں اس کے ممبر ہیں۔ یہ کلب امریکہ سے شروع ہوئی تھی۔ پہلے اس میں صرف تین آدمی شامل تھے۔ لوگ ا ن سے مخول کرتے، انہیں پاگل اور احمق قرار دیتے مگر وہ خاموشی سے اپنے کام میں مشغول رہے یہاں تک کہ سال دوسال کے بعد سات آٹھ ممبر ہوگئے اور پھر تین چار سال کے بعد تو سینکڑوں تک نَوبت پہنچ گئی۔ اب اسے قائم ہوئے غالباً بیس پچیس سال گزرچکے ہیں اور اس کے لاکھوں ممبر یورپ اور ایشیا میں موجود ہیں۔ تو یہ خیال پیدا ہوجانا کہ ہماری مجلس میں کم آدمی شامل ہیں، زیادہ شامل ہونے چاہئیں، یہ بھی بتاتا ہے کہ مخفی طور پر دل میں شُہرت کی خواہش ہے ورنہ مقصد ہو تو تعداد کا خیال بھی دل میں نہ آئے اور میں تو سمجھتا ہوں بجائے اس کے کہ وہ تعداد بڑھانے کے شوق میں کام نہ کرنے والوں کو اپنے اندر شامل کریں جنہیں بعدمیں نکالنا پڑے، یہ زیادہ بہتر ہے کہ صرف کام کرنے والوں کو اپنے اندر شامل کیا جائے اور جو کام کرنے کا شوق نہیں رکھتے انہیں شامل نہ کیا جائے کیونکہ اندر سے گند کا نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن باہر سے گند نہ آنے دینا بہت آسان ہوتا ہے۔ پس ان کو اپنے نمونہ سے ایک نیک مثال قائم کرنی چاہئے پھر خودبخود نوجوانوں کے دلوں میں تحریک پیدا ہوگی اور وہ بھی ان کے کام میں شریک ہونے کی خواہش کریں گے کیونکہ وہ دیکھیں گے کہ باوجود کام کرنے کے یہ زندہ اور ہشاش بشاش ہیں پھر ہمارا کیا بگڑتا ہے اگر ہم بھی کام کریں اورنیک نامی حاصل کریں۔دنیا میں کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے اتنا وقت فلاں کام کیلئے دے دیا تو دوستوں سے گپیں ہانکنے کیلئے ہمارے پاس کوئی وقت نہیں رہے گا اور اس طرح ہماری ساری بشاشت اور زندہ دلی ماری جائے گی مگر جب وہ دیکھتے ہیں کہ کام کرنے والوں کے چہرے بھی ویسے ہی ہشاش بشاش ہیں اور پھر زائد بات یہ ہے کہ انہیں لوگوں میں نیک نامی حاصل ہے تو پھر وہ بھی سمجھتے ہیں کہ دوستوں میں بیٹھ کر دو دو چار چار گھنٹے گپیں ہانکنے کی نسبت یہ بہتر ہے کہ خدمت خلق کا کوئی کام کیاجائے۔
پس افراد کا ان کو کوئی خیال نہیں کرنا چاہئے۔ جو شخص ان کی مجلس میں شامل نہیں ہوتا اس کے متعلق انہیں کوئی شکوہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنا عملی نمونہ بہتر سے بہتر دکھانا چاہئے۔ اگر تم نوجوانوں کے لئے کامل نمونہ بن جائو تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ تم سے نہ ملیں۔ وہ اگر نہ ملیں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ تمہارے نمونہ میں کوئی نقص ہے۔ یہا ں بھی اور باہر کی جماعتوں میں بھی کئی غرباء ہوتے ہیں، کئی بیمار ہوتے ہیں جنہیں کوئی دوائی لاکر دینے والا نہیں ہوتا، کئی بیوائیں ہوتی ہیں جنہیں سَودا سلف لاکر دینے والا کوئی نہیں ملتا۔ آخر یہ کتنی بے شرمی کی بات ہے کہ ایک شخص بازار میں کسی دکان پر یا اپنے کسی دوست کے مکان پر بیٹھ کر دو دو تین گھنٹے گپیں مارتا چلا جاتا ہے مگر جب اُسے کہا جاتا ہے کہ آئو اور خدمتِ خلق کیلئے تھوڑا سا وقت دو تو وہ کہنے لگ جاتا ہے کیا کروں، بڑا کام ہے، ذرا بھی فُرصت نہیں ملتی حالانکہ جس وقت وہ گپیں ماررہا ہوتا ہے، جب وہ اپنے نہایت قیمتی وقت کا خون کررہا ہوتا ہے اُس وقت اس کے محلہ میں ایک بیوہ عورت کے بچے بِلک بِلک کر رو رہے ہوتے ہیں اور اس کے پاس کوئی شخص نہیں ہوتا جو اسے آٹا لاکر دے یا دال لا کر دے۔ آخر یہ لوگ خدا کو کیا جواب دیں گے۔ کیا جس وقت وہ یہ کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی وقت نہیں تھا اُس وقت خدا یہ نہیں کہے گا کہ تیرے پاس دو گھنٹے گپیں ہانکنے کیلئے تو تھے مگر تجھے پندرہ منٹ کی فُرصت نہیں تھی کہ تو اس بیوہ کے بچوں کیلئے سَودا لاکر دے دیتا۔ تو تم اپنا عملی نمونہ جس وقت لوگوںکے سامنے پیش کرو گے یہ ناممکن ہے کہ لوگ تم میں شامل ہونے کی خواہش نہ کریں۔ یہ سلسلہ تو خدا کا ہے اور اس میں اس کے وہ بندے شامل ہیں جن کو خدا نے اپنی رضا کیلئے چُن لیا۔ میں کہتا ہوں ایک کافر سے کافر بھی نیک نمونہ دیکھ کر متأثر ہوئے بغیر نہیںرہ سکتا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے ایک استاد مولوی رحمت اللہ صاحب تھے جو بعد میں مدینہ چلے گئے۔ وہ بڑے نیک اور بزرگ تھے مگر عیسائی مذہب سے انہیں کوئی واقفیت نہ تھی۔ ایک دفعہ عیسائیوں کے ساتھ ان کا مباحثہ قرار پایا۔ ان کے مقابلہ میں جو پادری تھا وہ بڑا ہوشیار اور عالم تھا مگر یہ صرف قرآن اور حدیث جانتے تھے اور چونکہ دانا اور سمجھدار تھے اس لئے کہتے تھے کہ اگر میںنے قرآن اور حدیث کو اس کے سامنے پیش کیا تو وہ کہہ دے گا کہ میں ان کو نہیں مانتا ۔ دلیل ایسی چاہئے جسے یہ بھی تسلیم کرے اور وہ مجھے آتی نہیں ۔ آخر کہنے لگے لوگوںسے کیا کہنا ہے آئو خدا سے دعا کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے دعا کی رات کو گیارہ بجے کے قریب ان کے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو ایک شخص جُبہ پہنے ہوئے اندر داخل ہؤا اور کہنے لگا صبح آپ کا فلاںپادری سے مباحثہ ہے، میں بھی پادری ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ توحید کے معاملہ میں آپ حق پر ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ بعض حوالے نوٹ کرلیں کیونکہ ممکن ہے ان حوالوں کا آپ کو علم نہ ہو۔ چنانچہ اُس نے تمام حوالے لکھوادیئے اور صبح جب مناظرہ ہؤا تو وہ پادری یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ انہیں تو کسی حوالے کا علم نہ تھا اب یہ کیا ہؤا کہ یہ کہیں یونانی کتب کے حوالے دے رہے ہیں تو کہیں عبرانی کتب کے حوالے پڑھ رہے ہیں، کہیں انگریزی کتب سے اقتباس پیش کررہے ہیں تو کہیں بائبل سے توحید کی تعلیم سنارہے ہیں۔ غرض انہوں نے زبردست بحث کی اور اس پادری کو سخت شکست اُٹھانی پڑی۔ اسی طرح روزانہ وہ رات کو آتا اور حوالے لکھاجاتا اور صبح آپ خوب دھڑلے سے پیش کرتے۔ بعدمیں یہ مباحثہ انہوں نے کتابی صورت میں بھی شائع کردیا اور مظاہر الحق اس کا نام رکھا۔ ہندوستان میں لوگوں نے اِس کتاب سے بڑا فائدہ اُٹھایا ہے۔ اب دیکھو اس پادری کی طبیعت پر حق کا اثر تھا۔ اُس نے جب دیکھا کہ آج حق مظلوم ہے تو اُس کی حمایت کا اُسے جوش آگیا اور اس نے کہا آج توحید کہیں شکست نہ کھاجائے۔ چنانچہ وہ رات کو آتا اور حوالے لکھاجاتا اور گو وہ لوگوں سے چھُپ کر آیا مگر بہرحال آتو گیا۔ تو جب کوئی شخص نیک کام کرنے کیلئے کھڑا ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ خودبخود لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کردیتا ہے اور وہ اس کی تصدیق اور تائید کرنے لگ جاتے ہیں۔
پس قادیان کے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنا نیک نمونہ دکھائیں۔ خصوصیت سے میں مجلس خدام الاحمدیہ کے اس رکن کو مخاطب کرتا ہوں جس نے مجھے خط لکھا اور میں اسے کہتا ہوں کہ تم بھُول جائو اس امر کو کہ قادیان میں کوئی اَور شخص بھی ہے۔ تم سمجھو کہ صرف تم پر ہی اس کام کی ذمہ داری عائد ہے۔ کیونکہ وہ شخص ہرگز مؤمن نہیں ہوسکتا جو کہتا ہے کہ میری یہ ذمہ داری ہے اور فلاں کی یہ ذمہ داری ہے مؤمن وہ ہے جو سمجھتا ہے کہ صرف اور صرف میری ذمہ داری ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم تجھ سے پوچھیں گے کسی اور سے نہیں۔۹؎ مگر اس سے مراد بھی صرف رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نہیں بلکہ ہر مؤمن مراد ہے۔ اور خداتعالیٰ کہتا ہے کہ میں تم میں سے ہر شخص سے یہ سوال کروں گا کہ تم نے کیا کِیا۔
مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی ہے اپنے ایک فعل پر جو گو ایک بچگانہ فعل تھا مگر جس طرح بدر کے موقع پر ایک انصاری نے کہا تھاکہ یَا رَسُوْلَ اﷲ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے، دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہؤا نہ گزرے ۱۰؎اور اس صحابی کو اپنے اس فقرہ پر ناز تھا۔ اسی طرح مجھے بھی اپنے اس فعل پرناز ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے تو چونکہ آپ کی وفات ایسے وقت میں ہوئی جبکہ ابھی بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئی تھیں اور چونکہ میں نے عین آپ کی وفات کے وقت دو آدمیوں کے منہ سے یہ فقرہ سنا کہ اب کیا ہوگا۔ عبدالحکیم کی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعتراض کریں گے، محمدی بیگم والی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعترض کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ تو ان باتوں کو سنتے ہی پہلا کام جو میں نے کیا وہ یہ تھا کہ میں خاموشی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاش مبارک کے پاس گیا اور سرہانے کی طرف کھڑے ہوکر میں نے خداتعالیٰ سے مخاطب ہوکر کہا اے خدا! میں تیرے مسیح کے سرہانے کھڑے ہوکر تیرے حضور یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی پھر گئی تو میں اِس دین اور اِس سلسلہ کی اشاعت کیلئے کھڑا رہوں گا جس کو تُونے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم کیا ہے۔ میری عمر اُس وقت انیس سال کی تھی اور انیس سال کی عمر میں بعض اَور لوگوں نے بھی بڑے بڑے کام کئے ہیں مگر وہ جنہوں نے اس عمر میں شاندار کام کئے ہیں وہ نہایت ہی شاذ ہوئے ہیں۔ کروڑوں میں سے کوئی ایک ایسا ہؤا ہے جس نے اپنی اس عمر میں کوئی شاندار کام کیا ہو بلکہ اربوں میں سے کوئی ایک ایسا ہؤا ہے اور مجھے فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر مجھے یہ فقرہ کہنے کا موقع دیا۔ تو مؤمن کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ سمجھے اصل ذمہ دار میں ہوں۔ جب کسی شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہوجائے کہ میں اور فلاں ذمہ دار ہیں وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان ضائع ہوگیا اور اس کے اندر منافقت آگئی۔
ہم میں سے ہر شخص سمجھتا اور سچے دل سے اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ احمدیت سچی ہے اوراسلام سچا مذہب ہے مگر کیا اگر فرض کرلیا جائے کہ کسی وقت سب لوگ فوت ہوجائیں یا مقطوع النسل ہوجائیں یا نَعُوْذُ بِاﷲِ مرتد ہوجائیں اور صرف اکیلا کوئی شخص باقی رہ جائے تو وہ اس کام کو چھوڑ دے گا۔ یقینا وہ اس کام کو کبھی نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ سمجھے گا کہ اس کام کے کرنے کابہترین وقت یہی ہے کیونکہ جتنے تھوڑے لوگ ہوں گے اسی قدر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا سایہ زیادہ عمدگی سے ان پر پڑے گا۔ اگر ایک سیر بھر مصری سمندر میں ڈال دی جائے تو مٹھاس کا پتہ تک نہیں لگ سکتا لیکن اگر گلاس دو گلاس میں اتنی مصری ملادی جائے تو بہت زیادہ میٹھا ہوجائے گا۔ اسی طرح محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا سایہ جب ہزار دوہزار یا لاکھ دو لاکھ نفوس پر پڑے گا تو وہ پھیل جائے گا لیکن جب وہ ایک ہی شخص پر پڑے گا تو وہ مجسم محمد بن جائے گا۔ پس اگر ایک نیکی میں تمہیں اکیلے کام کرنے کا موقع ملتا ہے توتمہارا دل خوشی سے بلّیوں اُچھلنا چاہئے کیونکہ تم اس کام میں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ظلِّ کامل بنو گے اور دوسرا کوئی ایسا شخص نہیں ہوگا جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا سایہ لے رہا ہو۔
پس یہ وہم اپنے دلوں سے نکال دو کہ لوگ تمہارے ساتھ شامل نہیں ہوتے۔ تم اگر نیک کاموں میں سرگرمی سے مشغول ہوجائو تو میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ لوگوں پر اس کا اثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع کرسکتا ہے، سورج مغرب کی بجائے مشرق میں ڈوب سکتا ہے مگر یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی نیک کام کو جاری کیا جائے اور وہ ضائع ہوجائے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ تم نیک کام کرو اور خدا تمہیں قبولیت نہ دے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبل از وقت ہمیں بتادیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں جب کوئی شخص مقبول ہوجاتا ہے تو وہ اپنے فرشتوں کو پتہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں بندہ میری نگاہ میں مقبول ہے پھر وہ اگلے فرشتوں کو بتاتے ہیں اور وہ اپنے سے اگلے فرشتوں کو فَیُوْضَعُ لَہُ الْقَبُوْلُ فِی الْاَرْضِ۱۱؎یہاں تک کہ دنیا کے لوگوں کے دلوں میں اس کی قبولیت پیدا کردی جاتی ہے مگر اس مقبولیت کا پیمانہ تمہارے دل کا اخلاص ہے تمہارے دل کا اخلاص جتنا زیادہ ہوگا اتنی ہی زیادہ یہ مقبولیت ہوگی اور تمہارے دل کا اخلاص جتنا کم ہوگا اتنی ہی کم یہ مقبولیت ہوگی۔
پس میں یہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان کو بھی نصیحت کرتا ہوں اور اُن بیرونی جماعتوں کو بھی جن کے نوجوان اس مجلس کی نقل میں کام کرنے کو تیار ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے اس نیت سے کام کریں کہ صرف کام کرنے والے نوجوان اپنے اندر شامل کریں گے، تعداد بڑھانے کیلئے ہر شخص کو شامل نہیں کیا جائے گا ۔ اسی طرح جو تجربہ کار لیکچرار یا تجربہ کار لکھنے والے ہیں ان کو شروع میں اپنے اندر شامل نہ کیا جائے۔ بے شک نگرانی کیلئے کسی وقت ان سے مشورہ لے لیا جائے مگر انہیں اپنا ممبر نہ بنائیں تا وہ ان کے کام پر حاوی نہ ہوجائیں اور ان کی عقلیں ان کی عقلوں کے مقابلہ میں پَست نہ ہوجائیں۔
کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک بڑے درخت کے نیچے اگر ایک چھوٹا پودا لگادیا جائے تو چند ہی دنوں میں وہ سُوکھ جاتا ہے۔ اسی طرح جب بڑے لوگوں کو اپنے اندر شامل کیا جائے تو چھوٹوں کا ذہنی ارتقاء رُک جاتا ہے۔ مگر میں نے دیکھا ہے قادیان میں یہی مرض نہایت شدت سے پھیلا ہؤا ہے۔ کوئی جلسہ ہو، کوئی ٹی پارٹی ہو، کوئی دعوت ہو اس میں مجھے ضرور شامل کریں گے جس کا یقینا انہیں یہ نقصان پہنچتا ہے کہ انہیں خود اُٹھنے اور کام کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا طریق بہت کم نظر آتا ہے اور گو صحابہؓ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بُلاتے بھی تھے مگر موقع کی حیثیت سے لیکن یہاں تو یہ حال ہے کہ جنازہ بھی خلیفۃ المسیح پڑھائیں، نکاح بھی خلیفۃ المسیح پڑھائیں، کوئی دعوت ہو تو اس میں بھی وہ ضرور شامل ہوں، کوئی ولیمہ ہو تو اس میں بھی ضرور شامل ہوں۔ اسی طرح مبلغ کے جانے کی تقریب ہو، تب وہ شامل ہوں اور آنے کی ہو تو تب بھی وہ شامل ہوں۔ غرض خلیفہ سے اتنے کاموں کی امید کی جاتی ہے کہ جن میں شامل ہونے کے بعد دین کی ترقی اور اس کے کاموں میں حصہ لینے کا اس کیلئے کوئی وقت ہی نہیں رہتا اور اس کا کام صرف اتنا ہی رہ جاتا ہے کہ دعوتیں کھائیں، مُلّانوں کی طرح پیٹ پر ہاتھ پھیرا ، ڈکار لیا اور سورہے۔ یہ ایک مرض ہے جس کے نتیجہ میں افراد کا ذہنی ارتقاء مارا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیںاور بڑے درخت کے نیچے جو پودے لگے ہوئے ہوں وہ نشوونما نہیں پاتے۔ پھر اس کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ جب کوئی اور تحریک کرتا ہے تو لوگ اُس کی بات پر کان نہیں دھرتے اور وہ میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے آپ اِس امر کے متعلق تحریک کریں۔ میں اُس وقت دل میں ہنستا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ سزا ہے جو ان لوگوں کو اس لئے مل رہی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو یہ عادت ڈال دی ہے کہ جب تک کوئی بات خلیفہ نہ کہے اُس کا ماننا کوئی ایسا ضروری نہیں ہوتا۔ حالانکہ دینی مشاغل اور قرآن کا درس و تدریس اور دوسرے ایسے ہی بیسیوں کام میں خلیفہ کے کہنے کی کیا ضرورت ہے یا کسی ناظر کے کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہر شخص کو اپنی اپنی جگہ دلی شوق سے یہ کام کرنے چاہئیں اوراگر وہ آجائیں تو سارا کام انہی کا دماغ کررہا ہوگا اور باقی لوگ خاموش بیٹھے رہیں گے اور اس کا نتیجہ قوم کیلئے مُہلک ہوگا۔ اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے۱۲؎ یعنی اے مومنو! تم بہت باتوں کے متعلق سوالات نہ کیا کرو کیونکہ اگر خدا ان باتوں کو بیان کرے گا تو تمہیں دُکھ پہنچے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ دُکھ کیوں پہنچے گا؟ کیا خدا کے احکام دُکھ دینے والے ہوتے ہیں؟ خدا کا تو ہر حُکم انسان کیلئے باعثِ رحمت ہے۔ پھر اس کا کیا مطلب ہے کہ اگر خدا نے ان باتوں کو بیان کیا تو تمہیں دُکھ پہنچے گا۔ بعض لوگ نادانی سے یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس کامطلب یہ ہے کہ اگر تم نے بار بار سوال کیا تو خدا ناراض ہوکر تمہیں کوئی سخت حکم دے دے گا۔ یعنی جب مثلاً یہ پوچھا کہ دو نمازیں پڑھنی چاہئیں یا پانچ؟ توخدا کہے گا اچھا تم نے تو یہ پوچھا ہے مَیں بطور سزا تمہیں کہتا ہوں کہ تم چھ نمازیں پڑھا کرو۔ مگر یہ بیوقوفی کی بات ہے خدا کوئی تھکنے والا وجود نہیں کہ ایک دو سوالوں سے وہ نَعُوْذُبِاﷲِ گھبراجائے اور اُکتا کر سخت حکم دینے شروع کردے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر تم ہر بات مجھ سے دریافت کرو گے اور اپنی عقلوں پر زور نہیں ڈالو گے تو تمہارے قوائے دماغیہ کمزور اور بیکار ہوجائیں گے کیونکہ جس عضو سے ایک عرصہ تک کام نہ لیا جائے وہ بیکار ہوجاتا ہے۔ ہاتھ سے کام نہ لیا جائے تو ہاتھ خشک ہوجاتا ہے، دماغ سے کام نہ لیا جائے تو دماغ کمزور ہوجاتا ہے۔ پس فرماتا ہے اگر تم ہم سے پوچھو گے تو گو ہم تمہیں وہ بات بتادیں گے مگر پھر تم فقیہہ نہیں رہو گے بلکہ نقّال بن جائو گے حالانکہ قوم کی ترقی کیلئے فقیہوں کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ مگر وہ یہ بھی یاد رکھیں کہ کام تحریک جدیدکے اصول پر کریں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ اَ لْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ ۱۳؎ تمہار اکام بے شک یہ ہے کہ تم دشمن سے لڑو مگر تمہارا فرض ہے کہ امام کے پیچھے ہوکر لڑو۔
پس کوئی نیا پروگرام بنانا تمہارے لئے جائز نہیں۔ پروگرام تحریک جدید کا ہی ہوگا اور تم تحریک جدید کے والنٹیرز ہو گے۔ تمہارا فرض ہوگا کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو، تم سادہ زندگی بسرکرو، تم دین کی تعلیم دو، تم نمازوںکی پابندی کی نوجوانوں میں عادت پیدا کرو، تم تبلیغ کیلئے اوقات وقف کرو، اسی طرح باہر جو انجمنیں بنیں وہ بھی اسی رنگ میں کام کریں، مگر موجودہ حالات میں جس طرح قادیان کی لجنہ کو میں نے باہر کی لجنات پر ایک برتری اور فوقیت دی ہوئی ہے، اسی طرح میں اعلان کرتا ہوں کہ موجودہ حالات میں عارضی طور پر سال دو سال کیلئے قادیان کی مجلس خدام الاحمدیہ کی بیرونی جماعتوں کی مجالس خدام الاحمدیہ شاخیں ہوں گی۔ اور ان کا فرض ہوگا کہ اس انجمن کے ساتھ اپنی انجمنوں کا الحاق کریں اور اس انجمن کی اپنے آپ کو شاخ سمجھیں۔ اسی طرح ہر جگہ ان کا یہ کام ہوگا کہ وہ سلسلہ کا لٹریچر پڑھیں، نوجوانوں کو دینی اَسباق دیں مثلاً صبح کے وقت یا کسی اَور وقت ایک دوسرے کو پڑھایا جائے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنے کیلئے کہا جائے اور پھر ان کا امتحان لیا جائے، اسی طرح وہ خدمتِ خلق کے کام کریں اور خدمتِ خلق کے کام میں یہ ضروری نہیں کہ مسلمان غریبوں اور مسکینوں اور بیوائوں کی خبرگیری کی جائے بلکہ اگر ایک ہندو یا سکھ یا عیسائی یا کسی اور مذہب کاپیرو کسی دُکھ میں مبتلا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اس کے دکھ کو دور کرنے میں حصہ لو۔ کہیں جلسے ہوں تو اپنے آپ کوخدمت کیلئے پیش کردو۔ میں نے اِسی قسم کے کاموں اور مقاصد کیلئے احمدیہ نیشنل لیگ کور قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ اس کا بہت سا وقت لیفٹ اور رائٹ میں ہی خرچ ہوگیا۔ وہ اپنے دائیں اوربائیں دیکھتے رہے مگر انہوں نے اپنے سامنے کبھی نہ دیکھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے اس وقت تک کوئی مفید کام نہیں کیا۔ انہوں نے بھی بعض مفید کام کئے ہیں۔ خصوصاً جلسہ سالانہ کے موقع پر اور دوسرے اجتماعوں کے مواقع پر ان کا جو انتظام ہوتا ہے وہ بہت اچھا ہوتا ہے مگر قواعد کرنے۱۴؎ کے علاوہ یا بعض جسمانی خدمات کے علاوہ اور جن کاموں کی میں ان سے امید رکھتا تھا وہ پورا نہیں ہؤا (میرے پاس لیگ کور کی قواعد کرانے والے افسروں نے اپنے کام کی فہرست پیش کی ہے کہ وہ فلاں فلاں کام کرتے رہے ہیں۔ میں خطبہ میں ان کے کام کے اس حصہ کا خود ہی اعتراف کرچکا ہوں۔ میرا اظہارِ خیال قواعد سکھانے والوں کے مطابق نہیں۔ انہوں نے باقاعدگی سے کام کیا ہے اور اس کا مجھے اعتراف ہے۔ جو شکوہ میں نے کیا ہے وہ لیگ کا ہے کہ دوسری اغراض جو علاوہ قواعد کے تھیں وہ انہوں نے باوجود درجنوں دفعہ مجھ سے مشورہ لینے کے پوری نہیں کیں)۔ بہرحال میں امید کرتا ہوں کہ اگر نیشنل لیگ نے یہ مقصد پورا نہیں کیا تو اب مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان ہی اِس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنی زندگی کو کارآمد بنائیں گے اور سلسلہ کے درد کو اپنا درد سمجھیں گے لیکن جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں مجلس خدام الاحمدیہ میں جو بھی شامل ہو وہ یہ اقرار کرے کہ میں آئندہ یہی سمجھوں گا کہ احمدیت کا ستون مَیں ہوں اور اگر مَیں ذرا بھی ہِلا اور میرے قدم ڈگمگائے تو میں یہ سمجھوں گا کہ احمدیت پر زد آگئی۔
حضرت طلحہؓ ایک بہت بڑے صحابی گزرے ہیں ان کا ایک ہاتھ لڑائی کے موقع پر شل ہوگیا تھا۔ بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو جنگیں ہوئیں ان میں سے کسی موقع پر ایک شخص نے طنزاً حضرت طلحہؓ کو لنجا کہہ دیا۔ حضرت طلحہؓ نے کہا تمہیں پتہ بھی ہے میں کس طرح لنجا ہؤا۔ پھر انہوں نے بتایا کہ احد کے موقع پر جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر کفار نے حملہ کردیا اور اسلامی لشکر پیچھے ہٹ گیا تو اُس وقت کفار نے یہ سمجھتے ہوئے کہ صرف محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم )کی ذات ہی ایک ایسا مرکز ہے جس کی وجہ سے تمام مسلمان مجتمع ہیں، آپ پر پتھر اور تیر برسانے شروع کردیئے۔ میں نے اُس وقت دیکھا کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں کوئی تیر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے چہرئہ مبارک پر آکر نہ آلگے۔ چنانچہ میں نے اپنا بازو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کردیا۔ کئی تیر آتے او رمیرے بازو پر پڑتے مگر میں اسے ذرا بھی نہ ہِلاتا یہاں تک کہ تیر پڑتے پڑتے میرا بازو شل ہوگیا۔ کسی نے پوچھا جب تیر پڑرہے تھے تو اُس وقت آپ کے منہ سے کبھی اُف کی آواز بھی نکلتی تھی یا نہیں کیونکہ ایسے موقع پر انسان بے تاب ہوجاتا اور درد سے کانپ اُٹھتا ہے۔ انہوں نے کہا میں اُف کس طرح کرتا جب انسان کے منہ سے اُف نکلتی ہے تو وہ کانپ جاتا ہے۔ پس میں ڈرتا تھا کہ اگر میں نے اُف کی تو ممکن ہے میرا ہاتھ کانپ جائے اور کوئی تیر رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کو جاکر لگ جائے اس لئے میں نے اُف بھی نہیں کی۔ ۱۵؎
دیکھو کتنا عظیم الشان سبق اس واقعہ میں پنہاں ہے۔ طلحہؓ جانتے تھے کہ آج محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے چہرئہ مبارک کی حفاظت میرا ہاتھ کررہا ہے۔ اگر میرے اس ہاتھ میں ذرا بھی حرکت ہوئی تو تیر نکل کر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو جالگے گا۔ پس انہوں نے اپنے ہاتھ کو نہیں ہِلایا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس ہاتھ کے پیچھے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ ہے۔ اسی طرح اگر تم بھی اپنے اندر یہ احساس پیدا کرو، اگر تم بھی یہ سمجھنے لگو کہ ہمارے پیچھے اسلام کا چہرہ ہے اور اسلام اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم دو نہیں بلکہ ایک ہیں تو تم بھی ایک مضبوط چٹان کی طرح قائم ہوجائو اور تم بھی ہر وہ تیر جو اسلام کی طرف پھینکا جاتا ہے اپنے ہاتھوں اور سینوں پر لینے کیلئے تیار ہوجائو۔
پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارے ممبر کم ہیں یا تم کمزور ہو بلکہ تم یہ سمجھو کہ ہم جو خادمِ احمدیت ہیں ہمارے پیچھے اسلام کا چہرہ ہے۔ تب بیشک تم کو خداتعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی طاقت ملے گی جس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکے گا ۔ پس تم اپنے عمل سے اپنے آپ کو مفید وجود بنائو۔ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرو نہ صرف اپنے مذہب کے غریبوں اور مسکینوں کی بلکہ ہر قوم کے غریبوں اور بیکسوں کی۔ تا دنیا کو معلوم ہو کہ احمدی اخلاق کتنے بلند ہوتے ہیں۔ مشورہ دینے کے لحاظ سے میں ہر وقت تیار ہوں مگر میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نمایاں شخصیتوں کو اپنا ممبر مت بنائو کیونکہ بڑے درخت کے نیچے اگر آئو گے توتمہاری اپنی شاخیں سُوکھ جائیںگے۔
اسی طرح سچائی کو اپنا معیار قرار دو۔ قواعد کے تیار کرنے میں مَیںانشاء اللہ تمہاری ہر طرح مدد کروں گا۔ سرِدست یہ نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہر ممبر سے یہ اقرار لو کہ اگر وہ جھوٹ بولے گا اور اس کا جھوٹ ثابت ہوجائے گا تو وہ خوشی سے ہر سزا برداشت کرنے کیلئے تیار رہے گا۔ جب تم سچائی پر قائم ہوجائو گے، جب تم نمازوں میںباقاعدگی اختیار کرلو گے، جب تم دین کی خدمت کیلئے رات دن مشغول رہو گے، تب جان لینا کہ اب تمہارا قدم ایسے مقام پر ہے جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں۔
اسی طرح تمہیں چاہئے کہ تم تحریک جدید کے متعلق میرے گزشتہ خطبات سے تمام ممبران کو واقف کرو اور ان سے کہو کہ وہ اَوروں کو واقف کریں۔ اور پھر ہر شخص اپنی ماں اور اپنی بہن اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو ان سے واقف کرے۔ اسی طرح میں لجنات امائِ اللہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں کام کریں اور جہاں جہاں لجنہ ابھی تک قائم نہیں ہوئی وہاں کی عورتیں اپنے ہاں لجنہ امائِ اللہ قائم کریں اور وہ بھی اپنے آپ کو تحریک جدید کی والنٹیئرز سمجھیں اور اسلام کی ترقی کیلئے اپنی زندگی کو وقف قرار دیں۔
اگر تم یہ کام کرو تو گو دنیا میں تمہارا نام کوئی جانے یا نہ جانے (اور اِس دنیا کی زندگی کی حقیقت ہے ہی کیا ہے۔ چند سال کی زندگی ہے اور بس) مگر خدا تمہارا نام جانے گااور جس کا نام خدا جانتاہو اس سے زیادہ مبارک اور خوش قسمت اور کوئی نہیں ہوسکتا۔‘‘
(الفضل ۱۰؍ اپریل ۱۹۳۸ئ)
۱؎ بخاری کتاب الاعتکاف باب الاخبیۃ فی المسجد
۲؎ بخاری کتاب الاذان باب خروج النساء الی المساجد
۳؎ لقمان: ۲۰
۴؎ بخاری کتاب العلم باب فضل مَنْ تَعَلَّمَ وَعَلَّمَ
۵؎ الماعون: ۵ تا ۷
۶؎ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۳ ۔ جدید ایڈیشن ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲
۷؎ الفضل ۶؍اگست ۱۹۳۷ء
۸؎ لقمان: ۱۷
۹؎ (النسائ: ۸۵)
۱۰؎ بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوۃ بدرٍ
۱۱؎ بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکرالملائکۃ (الخ)
۱۲؎ المائدہ: ۱۰۲
۱۳؎ بخاری کتاب الجہاد باب یُقَاتَلُ مِنْ وَّ رائِ الامَام (الخ)
۱۴؎ قواعد کرنا: ورزش کرنا۔ جنگی کرتب کرنا۔
۱۵؎

۱۳
مجالس خدام الاحمدیہ کیلئے بعض ہدایات
(فرمودہ ۸؍ اپریل ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے گزشتہ جمعہ میں نوجوانوںکی تنظیم کے متعلق خطبہ پڑھا تھا آج اسی سلسہ میں بعض اَور باتیں کہنا چاہتا ہوں لیکن میرے ان خطبات کے یہ معنے نہیں کہ کسی خاص عمر کے آدمی خصوصیت کے ساتھ میرے مخاطب ہیں کیونکہ گو یہ صحیح ہے کہ نوجوان کی اصطلاح ایک خاص عمر کے آدمی کیلئے بولی جاتی ہے لیکن حقیقتاً انسان نوجوان عمر کے لحاظ سے نہیں بلکہ دل کے لحاظ سے ہوتا ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ شخص جس کی عمر اٹھارہ سے چالیس سال ہے ضرور نوجوان ہو۔ بالکل ممکن ہے کہ اِس عمر کا انسان بوڑھا ہو اور اپنی طاقتوں کو ضائع کرچکا ہو اور یہ ضروری نہیں کہ چالیس سال سے زیادہ عمر کا آدمی ضرور ادھیڑ یا بوڑھا ہو۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص بظاہر بوڑھا یا ادھیڑ عمر کانظر آتا ہو لیکن اس کا دل خداتعالیٰ کے سلسلہ کی خدمت کیلئے نوجوانوں سے بھی زیادہ نوجوان ہو۔ حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ۶۳ سال کی عمر میںفوت ہوئے مگر کون کہہ سکتا ہے کہ ایک دن بھی آپ ؐپر بھی ایسا آیا جب آپ بوڑھے تھے۔ چالیس سال کی عمر میں جب آپ پر وحی نازل ہوئی آپ کے اندر جو جوانی تھی ہم یقین رکھتے ہیںکہ اس سے بہت زیادہ جوان آپ وفات کے وقت تھے کیونکہ ایمان انسان کی جوانی کو بڑھاتا ہے اور حوصلوں کو بلند کرتا ہے۔
پس گو ظاہری الفاظ میں میرے مخاطب نوجوان ہیں مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ جو لوگ عمر کے لحاظ سے اس حد سے آگے گزرچکے ہیں جسے جوانی کی حد کہا جاتا ہے، وہ میرے مخاطب نہیں ہیں۔ جن لوگوں کے دل جوان ہیں اور اپنے اندر سلسلہ کی خدمت کیلئے ایک جوش پاتے ہیں، ان کی عمر خواہ کتنی بھی کیوں نہ ہو وہ میرے ویسے ہی مخاطب ہیں جیسے چالیس سال سے کم عمر کے لوگ۔
مولوی عبداللہ صاحب غزنوی ایک مشہو ربزرگ پنجاب میں گزرے ہیں۔ وہ دراصل رہنے والے تو افغانستان کے تھے مگر حکومتِ افغانستان نے بوجہ ان کے اہل حدیث خیالات کے اُن کو مُلک سے نکال دیا تھا ان کی اولاد انہی کی پیشگوئی کے مطابق ہمارے سلسلہ کی شدید مخالف ہے مگر ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق بہت سے رئویا اور کشوف ہوئے تھے۔ گو وہ آپ کے دعویٰ سے قبل ہی فوت ہوگئے اور سلسلہ میں داخل نہ ہوسکے۔ ان کے متعلق ایک عجیب واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی ضعیف ہوچکے تھے اورمرض الموت میں مبتلا تھے کہ کوئی شخص اُن کے پاس آیا، اُن کی بزرگی کی وجہ سے لوگ ان سے اپنے ذاتی معاملات میں بھی مشورہ لے لیا کرتے تھے، جیسے آج ہم سے بھی لے لیتے ہیں۔ کوئی مرید ان کے پاس آیا اور کہا کہ میری لڑکی جوان ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کی شادی کا کوئی انتظام ہوجائے۔ مولوی صاحب کے ساتھی جو اُس وقت وہاں موجود تھے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے چارپائی پر لیٹے لیٹے ہی فرمایا کہ میرے ساتھ ہی شادی کردو۔ بعض لوگ اس واقعہ کو ایک ہنسانے والاواقعہ خیال کرتے ہیں مگر یہ واقعہ ایسا نہیں ہر شخص اپنی نیت کے مطابق پھل پاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا دلی جوش ان کو یہ خیال بھی نہیںآنے دیتا تھا کہ وہ بوڑھے ہوچکے ہیں۔ باوجودیکہ ان کا جسم جواب دے چکا تھا مگر ایمان کی وجہ سے دین کی خدمت کیلئے جو روحانی قوت وہ اپنے اندر محسوس کرتے تھے اس کے ماتحت ان کو کبھی یہ خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ ایک صحابی کا واقعہ بھی اس سے مشابہہ ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ ہی ایک ایسے شخص ہیں جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خادم کہلاتے ہیں۔ ان کے سِوا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی خادم نہیں رکھا۔ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو حضرت انسؓ کی والدہ انہیں آپ کے پاس لائیں اور عرض کیا کہ یَارَسُوْ لَ اﷲ! مرد تو اور طرح خدمت کرکے ثواب حاصل کرتے ہیں مگر میں عورت ہوں اَور تو کچھ نہیں کرسکتی، یہ میرا لڑکا ہے جسے میں آپ کی خدمت کیلئے پیش کرتی ہوں، یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ ۱؎حضرت انسؓ کی عمر اُس وقت دس بارہ سال کی تھی اور وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات تک آپ کی خدمت کرتے رہے۔ ان کی وفات ایک سَو دس یا ایک سَو بیس سال کی عمر میں ہوئی۔ ۲؎یہ اختلاف اس وجہ سے ہے کہ اُس زمانہ میں پیدائش کی تاریخیں عام طور پر یاد نہیں رکھی جاتی تھیں۔ مسلمان چونکہ بہت بڑے مؤرخ تھے اس لئے وفات کی تاریخیں تو پوری طرح محفوظ ہوگئیں مگر پیدائش کی تاریخیں اسلام سے پہلے زمانہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے محفوظ نہیں ہوسکیں۔ حضرت انسؓ جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بعض لوگ ان کی عیادت کیلئے گئے اور کہا کہ آپ حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی اور خادم ہیں ہمیں کوئی خدمت بتائیے۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ لوگ میری کیا خدمت کرسکتے ہیں ہاں اگر ہو سکے تو میری شادی کرادیں۔ میں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص بغیرشادی کے فوت ہوتا ہے وہ بطّال ہے، بطّال اسے کہتے ہیں جس کی عمر ضائع گئی، حضرت انسؓ کی بیوی ان سے کچھ ہی عرصہ پہلے فوت ہوئی تھیں اس لئے انہوں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اگر میری شادی کرادو تو میں بطّال نہ کہلائوں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا مطلب تو یہ تھا کہ جو شخص اپنی زندگی بھر شادی نہیں کرتا اور اس کی اولاد نہیںہوتی وہ بطّال ہے کیونکہ اسلام نے رہبانیت کوناجائز رکھا ہے مگر حضرت انسؓ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی لفظی بات کو پورا کرنے کیلئے یہ بھی پسند نہ کیا کہ چند دن کی عمر بھی بطّال گزاریں حالانکہ اُس وقت وہ عمر کی اس حد سے گزرچکے تھے جس میں بچے پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی دراصل ان کے دلی جوش کا نتیجہ تھا۔ دین کی خدمت کا جو احساس ان کے دل میں تھا اس کے ماتحت اگرچہ جسم جواب دے چکا تھامگر کام کی اُمنگ روح میں موجود تھی اور اسی کے ماتحت وہ بعض اوقات یہ بھُول جاتے تھے کہ ہم بوڑھے ہوچکے ہیں یا ہمارے جسم اب جواب دے چکے ہیں۔
پس عمر کوئی چیز نہیں بلکہ درحقیقت انسان کی اُمنگ اور حوصلہ ہوتا ہے جو خداتعالیٰ کے حضور اسے مقرب بنادیتا ہے اور جو اس کی کوششوں کو ہر زمانہ میں جاکر نوجوانوں سے آگے بڑھا دیتا ہے۔ پس ان خطبات میں اگرچہ بظاہر میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کی عمر چالیس سال سے کم ہے مگرحقیقتاً وہ لوگ بھی میرے مخاطب ہیں جن کی عمر خواہ کتنی ہو مگر خدمتِ دین میں وہ دوسروں سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور یہ لوگ ظاہری نوجوانوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہوتے ہیں۔ کیونکہ نوجوانوں کے تو جسم بھی کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں مگر ان کے جسم جواب دے چکے ہوتے ہیں اور ان کی مثال اُن غرباء کی ہوتی ہے جن کے پاس دولت نہیں ہوتی مگر چندوں کے وقت وہ دوسروںسے پیچھے رہنا گوارا نہیں کرتے۔ قرآن کریم میں اشارۃً ایک ایسے واقعہ کا ذکر آتا ہے جس کی تفصیلات احادیث سے یوں معلوم ہوتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے چندہ کی تحریک کی۔ ایک صحابی مجلس سے اُٹھے اور جاکر ایک کنویں پر کچھ کام کیا اور وہاں سے کچھ جَو مزدوری کے طور پر حاصل کرکے لائے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیئے۔ مختلف لوگ چندے لارہے تھے، کوئی سینکڑوں اور کوئی ہزاروں روپے مگر انہی میںیہ صحابی بھی وہ جَو لے کر آئے جو دونوں ہاتھوں میںتھے اور لاکر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیئے ۔ اس پر منافق ہنسے اور کہا کہ ان جوئوں سے دنیا فتح کی جائے گی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ جَو خداتعالیٰ کے نزدیک ہزاروں روپوں سے زیادہ تھے کیونکہ اس کے پاس کچھ نہیں تھا مگر اس نے خیال کیا کہ میں دوسروں سے پیچھے کیوں رہوں۔ اپنے جسم سے کام لیا، مزدوری کی اور جو لا کر حاضر کردیا۔ یہی حال اُن بوڑھوں کا ہے جن کے جسم اگرچہ جواب دے چکے ہیں مگر دل جوان ہیں اوروہ یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ثواب میں پیچھے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ جوان ہی ہیں بلکہ جوانوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہیں۔ جس طرح غریب لوگ باوجود تھوڑی رقم دینے کے کئی زیادہ دینے والوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہوتے ہیں۔
اِس تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اور نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی حالت کو سُدھارنے اور دین کی خدمت کیلئے تقویٰ اور سعی سے کام لینے کی طرف توجہ کریں۔ آج اسلام غربت میں ہے اور اگر آج کوئی جماعت اسے قائم نہ کرے تو تھوڑے عرصہ میں کوئی اِس کا نام لیوا بھی باقی نہ رہے گا۔ ہندو اور عیسائی تو اسے مٹانے میں لگے ہی ہوئے ہیں مگر مسلمان کہلانے والے بھی اصلاحات کے نام سے اس کی تعلیم کومٹانے کیلئے طرح طرح کی کوششیں کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کو جو قرآن کریم میں ہے، بدل دیں ایسے کئی بڑے بڑے مسلمان کہلانے والے موجود ہیں اور دوسرے مسلمان ان پر فخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ اسلام کی ترقی کے سامان کررہے ہیں حالانکہ یہ ترقی نہیں بلکہ تنزّل ہے اور ذلّت ہے۔ ایسے وقت میں ضرورت ہے ایک ایسی جماعت کی جو اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھر قائم کرے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے۔ ظاہری حالات کے لحاظ سے آپ کو ایسے وقت میں بھیجا گیا ہے کہ دنیا میں کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ دعویٰ عقل کے مطابق ہے۔ اسلام جس صورت میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم لائے مٹ چکا ہے اور ہر دنیا دار یہ سمجھتا ہے کہ پھر اسی صورت میں قائم نہیں کیا جاسکتا۔ آج ایک مسلمان بھی ایسا نہیں ملے گا جو دیانت داری سے یہ سمجھتا ہو کہ اسلامی پردہ پھر دنیا میں قائم کیا جاسکتا ہے اور غیر تو ایک منٹ کیلئے بھی یہ خیال دل میں نہیں لاسکتے۔ خود مجھے ایک بڑے سرکاری افسر نے نہایت ہی حیرت سے پوچھا کہ کیا آپ بھی یہی خیال کرتے ہیں کہ اسلامی پردہ اب دنیا میں قائم ہوسکتا ہے۔ اُس کا مطلب یہ تھا کہ میں تو آپ کو عقلمند سمجھتا ہوں کیا آپ بھی ایسی جہالت کی بات کے قائل ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ پردے سے زیادہ اہم امور ہیں جن میں تبدیلی کو ناممکن سمجھا جاتا تھا مگر ان میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ میں نے اس افسر سے کہا کہ آپ تو تاریخ دان ہیں کیا آپ کو ایسے امور معلوم ہیں یا نہیں کہ جن کے متعلق یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان میں تبدیلی نہیں ہوسکتی مگر آخر کار ہوگئی۔ اُس نے کہا ہاں ایسے امور تو ہیں۔ میںنے کہا کہ جب مثالیں موجود ہیں تو باقی صرف یقین کی بات رہ جاتی ہے۔ مجھے یہ یقین ہے کہ ایسا ہوکر رہے گا اور آ پ سمجھتے ہیں نہیں ہوسکتا۔ آج سے ۲۵ سال قبل کون کہہ سکتا تھا کہ یورپ میں ڈیماکریسی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ آج سے ۲۵ سال قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ تمام بادشاہتیں مٹ کر ان کی جگہ جمہوری سلطنتیں قائم ہوجائیں گی مگر آج عَلَی الْاِعلانجرمنی، اٹلی اور سپین میں ڈیماکریسی کی ہنسی اُڑائی جارہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کیسے بیوقوف وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ڈیماکریسی کے ذریعہ کسی ملک کی ترقی ہوسکتی ہے۔ سارے افراد کہاں اتنے عقلمند ہوسکتے ہیں کہ ملکی ترقی کے وسائل کو سمجھ سکیں۔ صرف چند لوگ ہی ایسے ہوسکتے ہیں اور ان کے پیچھے چل کر ہی ترقی ہوسکتی ہے۔ انگلستان کے سیاستدانوں کی آج سے صرف ۲۵ سال قبل کی کتابیں پڑھو اُن میں اس خیال کا شائبہ بھی نہیں ملے گا جو آج دنیا میں قائم اور رائج ہے۔ ان کتابوں میں یہی ہے کہ ہم نے دنیا میں ڈیماکریسی کے اصول کو قائم کیا ہے اور آج ہم اس میں کامیاب ہوگئے ہیں اور دنیا میںیہی اصول غالب ہے۔ مگر آج ان میں سے کئی ایک کی تقریریں بھی شائع ہوچکی ہیں جن میں انہوں نے کہا ہے کہ آج سوائے انگلستان کے ڈیماکریسی کے اصول کہیں بھی قائم نہیں۔ کتنا بڑا فرق ہے، کتنا قلیل زمانہ اور کتنا وسیع تغیر ہے۔ پس اگر دنیا کے لوگوں کی کوششوں سے دنیا کے خیالات تبدیل ہوسکتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے کیوںنہیںہوسکتے۔ فرق صرف یقین اور ایمان کا ہے۔
لوگ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کے خیالات میںتبدیلی کا ذریعہ یونیورسٹیاں اور بڑے بڑے بارسوخ لیڈر ہیں اور وہی دنیا کے خیالات کو بدل سکتے ہیں مگر ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی مدد سے یہ تغیر ہوسکتے ہیں۔ تغیرات کے ہونے میں کسی کو شک نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اسلام کے مخالف کہتے ہیں کہ دنیا چونکہ ان باتوں کو ماننے کیلئے تیار نہیں اس لئے یہ تبدیلی نہیں ہوسکتی مگر ہم کہتے ہیں کہ چونکہ خدا تعالیٰ اس تبدیلی کا فیصلہ کرچکا ہے اس لئے یہ ہوکر رہے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جو ارشاد فرمایا وہ اِس زمانہ میں غیرممکن نظر آتا ہے۔ آج سارے کے سارے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اپنی اصلی صورت میں دوبارہ قائم نہیں ہوسکتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ہے کہ اسی صورت میں اسلام دوبارہ قائم کیا جائے گا۔ صرف اسلام کا نام قائم نہیں ہوگا بلکہ اس کی صورت بھی وہی ہوگی۔ آج ترکی اسلام کی تعلیم میں تمام تبدیلیوں کے بعد یہ کہتا ہے کہ مسلمان کامیاب ہوگئے، ایران تمام تغیرات کے باوجود مسلمانوں کی کامیابی کا دعویٰ کرتا ہے، ان ممالک میں سُود قائم کیا گیا ہے، پردہ اُڑادیا گیا ہے، قرآن کریم کو عربی میں پڑھنے سے روکا جاتا ہے ، عربی کریکٹر اور حروف کو مٹانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے، ایشیائی خصوصاً عربی لباس کو مٹانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے اور ان سب باتوں کے باوجود کہا یہ جاتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہماری فتح اسلام کی فتح ہے۔ حالانکہ ان ممالک کی فتح اسلام کی فتح نہیں کہی جاسکتی۔ انگریزوں کو اگر فتح ہو تو یہ کسی مذہب کی فتح نہیں بلکہ انگریز قوم کی فتح سمجھی جائے گی کیونکہ انگریز کسی مذہب کا نام نہیں مگر اسلام مذہب کا نام ہے۔ اگر وہ قائم نہیں ہوتا تو اسلام کی بہرحال شکست ہے اور فتح ان لوگوں کی ہوگی جو اپنے ملک میں ایک نیانظام قائم کریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کیلئے ایسی فتح کے مدعی نہیں۔ آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پھر اسلام کو فتح حاصل ہوگی اور ہم نے یہ فتح حاصل کرنی ہے مگر ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کام کی راہ میں کس قدر مشکلات حائل ہیں۔ ایک ایک قدم بڑھانا مشکل ہورہا ہے۔ بیرونی مخالفتوں کے علاوہ جماعت میں لوگوں کے اندر وسوسے پید اہورہے ہیں۔ کئی منافق ہیں جو فتنے پیدا کرتے رہتے ہیں۔ میں نے تحریک کی کہ لوگوں کو نبوت کے طریق پر لانا چاہئے اور اس پر میں یہ اعتراض سن رہا ہوں کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس طریق پر نہیں چلاتے تھے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ورثہ پر کوئی زور نہیں دیا اورجماعت میں اسے قائم نہیں کیا، تو کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ ہمیشہ کیلئے ورثہ کے حکم کو مٹادینا چاہئے۔ اسی طرح داڑھی رکھنے کا مسئلہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تو نصیحت کردیتے ہیں جسے ہمارے ساتھ محبت ہوگی وہ خود رکھے گا۔ ہماری داڑھی ہے اور جو ہمارے ساتھ محبت کرے گا وہ خود رکھ لے گا۔ تو کیا اِس کے یہ معنے ہیں کہ اب ہمیں داڑھی رکھنے پر کوئی زور نہیں دینا چاہئے۔ میرے پیش کردہ اصول پر اگر اعتراض کیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ سوائے ان چند عقائد کے جن کے پھیلانے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں زور دیا گیا اور کسی بات کو جاری کرنا جائز نہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اس پیشگوئی کے ماتحت کہ جماعت کی ترقی آہستہ آہستہ ہوگی، ان باتوں کو بعد میں آنے والوں کیلئے چھوڑ دیا کیونکہ اُس وقت جماعت اتنی پھیلی ہوئی نہیں تھی اور کسی نظام کے ذریعہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرانا مشکل تھا۔ پس اگر اس اصل کو مان لیا جائے کہ جس بات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جبر سے کام نہیں لیا ہمیں بھی زور نہیں دینا چاہئے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جماعت احمدیہ کیلئے قرآن کریم پر عمل کرنا ضروری نہیں لیکن اگر یہ بات درست نہیں تو ماننا پڑے گا کہ ہر مناسب موقع پر اس کیلئے کوشش کی جاسکتی ہے۔ میر انظریہ یہ ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ اسلام کی تعلیم کو قائم کرنے کیلئے پوری کوشش کریں خواہ ۵۰ سال کا عرصہ کیوں نہ گزرچکا ہو اور معترض کا مقام یہ ہے کہ لوگ آزاد ہیں جس طرح چاہیں کریں۔ گویا اس کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ اسلام کا قیام اصل غرض نہیں، اصل غرض صرف یہ ہے کہ احمدی کہلایا جائے اور میرا یہ کہ اصل چیز صحیح اسلامی تعلیم کا قیام ہے صرف منہ سے احمدی کہلانا کوئی چیز نہیں۔
اس میںشُبہ نہیں کہ دُنیوی نقطۂ نگاہ سے اس کا اصول صحیح سمجھا جاسکتاہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اسلامی تعلیم کا قیام ناممکن ہے مگر میں اسے بالکل ممکن سمجھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ یہ ہوکر رہے گا۔ وہ اپنے ایمان کے مطابق بات کرتا اور مایوسی کا اظہار کرتا ہے اور میں اپنے ایمان کے مطابق امید پر قائم ہوں اور دراصل مقابلہ اس کی مایوسی اور میرے ایمان کا ہے۔ ایک طرف اس کی مایوسی ہے جو کہتی ہے کہ چھوڑ دو اِس کوشش کو، اس میں کامیابی نہیں اور دوسری طرف میرا ایمان کہتا ہے کہ یہ ہوسکتا ہے اور ضرور ہوکر رہے گا اس لئے ہمیں جلدی اسے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا اس کا ثواب ہمیں ہی ملے، دوسروں کو کیوں ملے۔ بعد میں آنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ ثواب حاصل کرنے کے اور سامان پیدا کردے گا اور اِس جدوجہد میں جسے میں شروع کرنا چاہتا ہوں کامیابی کیلئے بہترین وجود نوجوان ہی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ورثہ کو ہی لے لو۔ والدین کی وفات کے بعد ورثہ انہی کے ہاتھ میں آنا ہے اور وہی اس کو تقسیم کرنے والے ہوں گے۔ وہ اگر چاہیں تو اپنی بہنوں اور مائوں کو حصہ دیں اور چاہیں تو نہ دیں۔ قانون ان پر کوئی جبر نہیں کرتا بلکہ قانون تھوڑا سا جبر اس رنگ میں کرتا ہے کہ وہ حصہ نہ دیں۔ اگر ہمارے نوجوان اس بات کیلئے تیار ہوجائیں اور کہیں کہ خواہ ہمارے لئے کچھ بچے یا نہ بچے اور خواہ ہم غریب ہوجائیں ہم ورثہ کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ہی تقسیم کریں گے تو ہر شخص یہ تسلیم کرے گا کہ یہ جماعت ہے جس نے اسلام کی تعلیم کو عملاً دنیا میں قائم کردیا ہے۔ پس اگر ہمارے نوجوان اصلاح کرلیں اور اقرار کرلیں کہ جس طرح بھی ہو اسلام کی تعلیم کو قائم کریں گے تو مایوس لوگ خودبخود اپنی شکست کا اقرار کرلیں گے کیونکہ جب کوئی واقعہ ہوجائے تو پھر اعتراض خودبخود مٹ جاتے ہیں۔
جو لوگ بھی خداتعالیٰ کے دین کی مدد کرنے والے ہوں گے خداتعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ وہی کامیاب ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک شعر کرامات الصادقین میں ہے جس کاپہلا مصرعہ آپ فرماتے ہیں کہ الہامی ہے اور وہ یہ شعر ہے ؎
وَ اِنِّیْ اَنَا الرَّحْمٰنُ نَاصِرُ حِزْبِہٖ
وَ مَنْ کَانَ مِنْ حِزْبِیْ فَیُعْلٰی وَ یُنْصَرٗ۴؎
اس کا مطلب یہ ہے کہ میں رحمن ہوںجس کی دین اور بخشش اور رحمت سب پر وسیع ہے اورکافر و مؤمن میں کوئی فرق نہیں کرتی اورمیرے دین کے جو مخالف ہیں میری رحمت ان کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔ دیکھو سانس لینے کیلئے ہوا اور پانی اور روشنی کا سامان میں نے ان کیلئے بھی جو میرے دین کی مخالفت کرتے ہیں، ویسا ہی کیا ہؤا ہے جیسا مؤمنوں کیلئے کیونکہ میں رحمان ہوں۔ پھر یہ کوئی کیونکر خیال کرسکتا ہے کہ جو میرا ہوجائے میں اسے چھوڑدوں گا اور اس کی مدد پر کمربستہ نہیںہوں گا۔ گویا پہلے مصرعہ کا نتیجہ آگے بیان کیاہے کہ جو لوگ خداتعالیٰ کے حزب ہوجاتے ہیں اُنہیں غلبہ دیا جاتا ہے اور مدد کی جاتی ہے۔ پس جو بھی اللہ تعالیٰ کی جماعت میں داخل ہوجائے اُسے مدد ملنا یقینی ہے کیونکہ جو رحمن اپنے دین کے مخالفوں کو بھی فیض سے محروم نہیں رکھتا یہ کیونکر ممکن ہے کہ جو اس کا ہوجائے وہ اس کی مدد نہ کرے۔ وہ ماں جو غیر کے بچہ سے محبت کرتی اور پالتی ہے اپنے بچے کے ساتھ اس کی محبت کا اندازہ کرنا بالکل آسان ہے۔ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں غیر سے بھی حُسنِ سلوک کرتا ہوں۔ میرا سورج ہے وہ تم کو ہی نہیں بلکہ ہندوئوں اور سکھوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے بلکہ یہ تو پھر بھی خدا کے کسی نہ کسی رنگ میں قائل ہیں، دہریوں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔ خداتعالیٰ کے بادل آتے ہیں مگر کیا کبھی تم نے دیکھا کہ وہ مؤمن کے کھیت کو تو سیراب کریں اور غیرمؤمنوں کے کھیتوں کو چھوڑ دیں۔ کیا کبھی یہ ہؤا ہے کہ اس کی ٹھنڈی ہوائیں تمہارے لئے تو ٹھنڈی اور آرام پہنچانے والی ہوں مگر کافروںکیلئے گرم لُو بن جائیں۔ وہ اسی طرح ان کو بھی لذت پہنچاتی ہیں جس طرح تمہیں۔ تو جو رحمن خدا ہے اور جس کے فضلوں کا سلسلہ اتنا وسیع ہے ، کیا تم خیال کرتے ہو کہ جو اُس کا ہوجائے وہ اُسے چھوڑ دے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور الہام ہے جو دراصل پنجابی کا ایک پُرانا شعر ہے مگر آپ پر بھی الہاماً نازل ہؤا ہے اور وہ یہ کہ
جے تُوں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو ۵؎
یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کا ہوجائے اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو اُسی کا بنادیتا ہے اور ذرّہ ذرّہ کو اُس کی تائید میں لگا دیتا ہے۔ شرارتیں بھی ہوتی ہیں، مخالفتیں بھی ہوتی ہیں، فتنے بھی اُٹھتے ہیں مگر اُسے مٹانے کیلئے نہیں بلکہ اس کی عزت اور عظمت کو ظاہر کرنے کیلئے۔ ایک شخص اپنے گھر میں بیٹھا رہتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تباہ نہیں ہؤا۔ تو لوگ کہتے ہیں کہ تم پر کوئی آفت تو آئی نہیں تم تباہ نہ ہوئے توکون سے تعجب کی بات ہے۔ مگر ایک کو لوگ سمندر میں پھینکتے ہیں، آگ میں ڈالتے ہیں مگر وہ نہیں مَرتا تو دوسرے اس سے لازماً مرعوب ہوتے اور سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کوئی غیرمعمولی آدمی ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو آگ میں نہیں جَلے۔ اور ہم سب کا یہاں موجود ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم آگ میں نہیں جَلائے گئے مگر کیا ہمارا نہ جلنا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نہ جلنا ایک ہی بات ہے۔ کیا اگر کوئی کہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا تھا تو تم بھی اس کے جواب میں کہہ سکتے ہو کہ ہمیں بھی نہیں جلایا۔ ظاہر ہے کہ اِن دونوں باتوں میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ تم کو آگ میں ڈالا ہی نہیں گیا مگر حضرت ابراہیم ؑکو آگ میں ڈالا گیا اور پھر وہ نہیں جلے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پرحملے ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کو تباہی سے بچاتا ہے تا وہ کہہ سکیں کہ ان کو تباہ کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر وہ تباہ ہوئے نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دعویٰ کہ وہ آگ میں نہیں جلے ان کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے مگر تمہارا یہ کہنا کہ تم آگ میں نہیں جلے ایک پاگل کی بڑ سمجھی جائے گی کیونکہ تمہیں جلانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کیلئے بادشاہ اور رعایا سب نے اکٹھے ہوکر کوشش کی اور آپ کو آگ میں ڈال کر جلانا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے بارش نازل کرکے آگ کو بُجھادیا اور ایک ایسا نشان ظاہر کیا جس سے سب مخالف مرعوب ہوگئے اور انہوں نے اپنا ارادہ ہی چھوڑ دیا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تباہ کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر خداتعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ محفوظ رکھا اور یہ آخری غلبہ ہی خداتعالیٰ کانشان ہوتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ خداتعالیٰ کے نیک بندوں کو وہ عظمت اور شان حاصل ہے جو دوسروں کو نہیں اور یہ مقام کسی سے مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آئے اور اسے حاصل کرے۔
پس یہ خیال مت کرو کہ یہ مقام محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے مخصوص ہے۔ نبوت اَور چیز ہے اوریہ مقام اَور چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید حاصل کرنے کیلئے نبوت شرط نہیں بلکہ یہ کامل مؤمن کو حاصل ہوسکتی ہے۔ دیکھو حضرت امام حسین ؓنبی نہ تھے اور بظاہر ان کو یزید کے مقابلہ میں شکست بھی اٹھانی پڑی۔ یزید اُس وقت تمام عالَمِ اسلامی کا بادشاہ تھا اور اُس وقت چونکہ تمام متمدن دنیا پر اسلامی حکومت تھی اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ تمام دنیا کا بادشاہ تھا اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک دنیا پر اُس کے رشتہ داروں کی حکومت رہی اور اُس وقت منبروں پر حضرت علیؓ اور آپ کے خاندان کو گالیاں دی جاتی تھیں، یزید کو اتنی بڑی حکومت حاصل تھی کہ آجکل کسی کو حاصل نہیں۔ آج انگریزوں کی سلطنت بہت بڑی سمجھی جاتی ہے مگر ذرا مقابلہ تو کریں بنو امیہ کی حکومت سے جن کے خاندان کا ایک فرد یزید بھی تھا۔ انگریزوں کی حکومت کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ فرانس سے شروع ہوکر سپین، مراکو، الجزائر، طرابلس اور مصر سے ہوتی ہوئی عرب، ہندوستان، چین، افغانستان، ایران، روس کے ایشیائی حصوں پر ایک طرف اور دوسری طرف ایشیائے کوچک سے ہوتے ہوئے یورپ کے کئی جزائر تک یہ حکومت پھیلی ہوئی تھی۔ اس قدر وسیع سلطنت آج تک کسی کوحاصل نہیں ہوئی۔ موجودہ زمانہ کی دس پندرہ سلطنتوں کو ملا کر اس کے برابر علاقہ بنتا ہے اور اتنی بڑی سلطنت کا ایک بادشاہ ہوتا تھا جن میں سے قریباً ہر ایک حضرت علیؓ اور آپ کے خاندان کو اپنا دشمن سمجھتا تھا اس لئے منبروں پر کھڑے ہوکر ان کو گالیاں دی جاتی تھیں۔ اُس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ ساری دنیا میں امام حسینؓ کی عزت پھر قائم ہوگی اور اُس وقت کوئی وہم بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یزید کو بھی لوگ گالیاں دیا کریں گے مگر آج نہ صرف تمام اس علاقہ میںجہاں امام حسینؓ کو گالیاں دی جاتی تھیں بلکہ دوسرے علاقوں میںبھی کیونکہ بعد میں اسلامی حکومت اور بھی وسیع ہوگئی تھی گو وہ ایک بادشاہ کے ماتحت نہ رہی سب جگہ یزید کو گالیاں دی جاتی ہیں اور حضرت امام حسینؓ کی عزت کی جاتی ہے۔ گو آپ نبی نہ تھے، صرف ایک برگزیدہ انسان تھے اور حق کی خاطر کھڑے ہوئے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی دی۔ بظاہر دشمن یہ سمجھتا ہوگا کہ اُس نے آپ کو شہید کردیا مگر آج اگریزید دنیا میں واپس آئے (اگرچہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت نہیں کہ مُردے دنیا میں واپس آئیں) تو کیا تم میںسے کوئی یہ خیال کرسکتا ہے کہ وہ یزید ہونے کو پسند کرے گا؟ جس دن حضرت امام حسینؓ شہید ہوئے وہ کس قدر غرور اور فخر کے ساتھ اپنے آپ کو دیکھتا ہوگا اور اپنی کامیابی پر کس قدر نازاں ہوگا لیکن آج اگر اُسے اختیار دیا جائے کہ وہ امام حسینؓ کی جگہ کھڑا ہونا چاہتا ہے یا یزید کی جگہ تو وہ بغیر ایک لمحہ کے توقّف کے کہہ اُٹھے گا کہ میں دس کروڑ دفعہ امام حسینؓ کی جگہ کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ اوراگر حضرت امام حسینؓ سے کہا جائے کہ وہ یزید کی جگہ ہونا پسند کریں گے یا اپنی جگہ؟ تو وہ بغیر کسی لمحہ کے توقّف کے کہہ اُٹھیں گے کہ دس کروڑ دفعہ اُسی جگہ پر جہاں وہ پہلے کھڑے ہوئے تھے۔ کسی اَور سے فیصلہ کرانے کی ضرورت نہیں اگر یزید خود آئے تو اُس کا اپنا فیصلہ بھی یہی ہوگا۔
فرعون اپنے زمانۂ حکومت میں حضرت موسیٰ کو کیا سمجھتا ہوگا۔ وہ ہنستا اور کہتا تھا کہ یہ شخص پاگل ہے، اس کا دماغ خراب ہے۔ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہا کہ یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے مجنون ہے۶؎ لیکن اگر آج فرعون کی روح دوبارہ دنیا میں لائی جائے تو بتائو کیا وہ اسی تخت پر بیٹھنا پسند کرے گایا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ادنیٰ خادموں میں کھڑا ہونا۔ وہ بغیر ایک لمحہ کے سوچنے کے کہہ اٹھے گا کہ میں موسیٰ کے ادنیٰ ترین خادموں میں کھڑا ہونا زیادہ پسند کرتا ہوں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جن لوگوں نے پھانسی دی وہ افسر اور وہ مجسٹریٹ جس نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ شخص حکومت کا مخالف اور لائقِ تعزیر ہے اور وہ علماء جنہوں نے یہ کہا کہ یہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے، اگر آج انہیں دوبارہ دنیا میں لایا جائے اور پوچھا جائے کہ بقول ان کے وہ ذلیل ماچھی جو اُس وقت حضرت عیسیٰ کے ساتھ تھے، ان کے ساتھ کھڑا ہونا وہ زیادہ پسند کریں گے یا اس بات کو کہ ان کو روم کا شہنشاہ بنادیا جائے۔ تو وہ ایک منٹ کیلئے بھی غور کئے بغیر کہہ اُٹھیں گے کہ وہ ان ماچھیوں کی رفاقت کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ آج پیٹر اور یعقوب کے نام پر کروڑوں عیسائی جان دینے کیلئے تیار ہیں مگر اُس زمانہ کے گورنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو کوئی جانتا بھی نہیں۔
پس تم میںسے بھی جو حزبُ اللہ میں اپنے آپ کو شامل کرلے گا اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کی ویسی ہی مدد کرے گی۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ گھبراجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت کے بعض مجسٹریٹ جماعت کے خلاف بہت بُرے ریمارکس کرتے ہیں مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے ہی ریمارکس حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ عَلَیْھِمَا السلام کے زمانہ میں ہوتے تھے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسی باتیں کہی جاتی تھیں لیکن انہی بادشاہوں اور گورنروں اور افسروں کو اگر سَودوسَو سال بعد دنیا میںلایا جائے تو یہی کہیں گے کہ وہ باتیںسب جھوٹ تھیں اور ہمیں اس سلسلہ کی ادنیٰ خدمت ہی زیادہ پسند ہے۔ جھوٹ خواہ کسی بادشاہ کی زبان سے نکلے یا وزیر کی زبان سے، خواہ کسی وائسرائے کی زبان سے نکلے یا گورنر کی زبان سے آخر جھوٹ ہے اور جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ ظلم کبھی کسی کو عزت نہیں دے سکتا اس لئے اگر تم اپنے اندر سے ظلم کو نکال دو اور حزبُ اللہ میں داخل ہوجائو تو تمہیں کوئی خفیہ تدبیریں اور منصوبے جیسے آج بعض حکام کی مدد سے کئے جارہے ہیں نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ یہ سب جھاگ ہے اور جھاگ ہمیشہ مٹ جاتی ہے اور پانی قائم رہتا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ تم حزبُ اللہ بن جائو۔ اسلام اور اللہ تعالیٰ کی محبت، نیکی، سچائی، ہمت اپنے دلوں میں پیدا کرلو، دنیا کی بہتری کی کوشش میں لگ جائو اور بنی نوع کی خدمت کا شوق اپنے دلوں میں پید اکرو، اسلام کا کامل نمونہ بن جائو پھر خواہ دنیا تمہیں سانپ اور بچھو بلکہ پاخانہ اور پیشا ب سے بھی بدتر سمجھے تم کامیاب ہوگے اور خواہ کتنی طاقتور حکومتیں تمہیں مٹانا چاہیں وہ کامیاب نہیں ہوسکیں گے اور تم جو آج اس قدر کمزور سمجھے جاتے ہو تم ہی دنیا کے روحانی بادشاہ ہوگے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم کو دنیا کی بادشاہت مل جائے گی بلکہ میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ تم تحصیلدار بن جائو گے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ میں یہ بھی نہیں کہتا تم ایک کانسٹیبل ہی بن جائو گے۔ ظاہری حیثیت خواہ تمہاری چپڑاسی سے بھی بدتر ہو مگر دنیا پر قیامت نہیں آئے گی جب تک کہ تم کو بادشاہوں سے بڑا اور تم پر ظلم کرنے والوں کو ادنیٰ نوکروں سے بھی بدتر نہیں بنادیا جائے گا۔ قرآن کریم یہی بتاتا ہے کہ تم پر ظلم کرنے والوں کو جب تک ذلیل ترین وجودوں کی شکل میں اور تم کو معزز ترین صورت میں پیش نہ کیا جائے، قیامت قائم نہیں ہوگی۔ بے شک تم مرچکے ہوگے بلکہ تم میں سے بعض کی نسلیں بھی باقی نہ ہوں گی مگر نیک نامی کے مقابلہ میں نسلیں چیز ہی کیا ہیں۔
آج یہ بحث ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اولاد تھی یا نہیں۔ لیکن کیا ان کی اولاد نہ ہونے سے یا اگر تھی تو معلوم نہ ہونے سے ان کی عزت کو کوئی نقصان پہنچا ہے؟ ان کی زندگی میں روم کے بادشاہ کو شاید ان کا علم بھی نہ ہو مگر آج روم کی ہی حکومت نہیں بلکہ ویسی ہی بیسیوں اور حکومتیں ان کی روحانی بادشاہت کے ماتحت ہیں۔ اٹلی، جرمنی، فرانس، سپین، آسٹریا، ہنگری، پولینڈ، رومانیہ،بلغاریہ اور چیکوسلواکیہ سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روحانی رعایا ہیں۔ اُس زمانہ میں رومی سلطنت کا ایک چپڑاسی بھی آکر کہتا کہ چلئے آپ کو بُلاتے ہیں تو آپ کی مجال نہ ہوسکتی تھی کہ انکار کریں۔ اُس وقت آپ کے مخالف آپ کو دکھ دینے کیلئے مشہور کیا کرتے تھے کہ آپ حکومت کے دشمن ہیں اور خود بادشاہ بننا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ آجکل ہمارے مخالف ہمارے خلاف شور کرتے ہیں۔ ایک دفعہ اس سلسلہ میں آپ سے سوال کیا گیا کہ کیا قیصر روم کو ٹیکس دینا جائز ہے؟ اس سوال سے غرض یہ تھی کہ اگر تو آپ کہیں گے کہ ٹیکس دینا جائز ہے تو یہودی کہہ سکیں گے کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ کس طرح ہوسکتا ہے جو روم کو ٹیکس دینا جائز قرار دیتا ہے اور اگر کہیں گے کہ ٹیکس مت دو تو حکومت کا باغی قرار پائیں گے۔ آپ نے اِس سوال کا جواب ایک اور سوال سے دیا کہ روم کے سپاہی آپ لوگوں سے کیا مانگتے ہیں؟ اس کے جواب میں سوال کرنے والوں نے کہا کہ روپیہ مانگتے ہیں۔ اس پر آپ نے کہا کہ روپیہ پر کس کی تصویر ہے ؟ سوال کرنے والوں نے کہا کہ روم کے بادشاہ کی۔ اِس پر آپ نے فرمایا کہ جو چیز قیصر کی ہے وہ اُسے دو اور جو خدا کی ہے وہ خدا کو۔۷؎ اِس کا مطلب یہ ہے کہ میں تم سے فقط دین مانگتا ہوں ٹیکس بادشاہ کا حق ہے وہ اسے دو۔ یہی ہم کہتے ہیںکہ جو چیز انگریز کی ہے وہ اسے دو۔ انگریز ٹیکس مانگتا ہے جو اسے دینا چاہئے مگر ہم دل مانگتے ہیں۔ انگریز دل نہیں مانگتا اور مانگ بھی نہیں سکتا۔ جو تلوار روپیہ لیتی ہے وہ اس کے پاس ہے اور جو دل لیتی ہے وہ ہمارے پاس ہے۔
پس میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ حزبُ اللہ بنو پھر دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہیں کامیاب کرتی ہے۔ اب بھی تمہیں اس کی نصرت حاصل ہے مگر پھر خصوصی اور فردی نصرت حاصل ہوگی۔ آجکل کی نصرت کی مثال تو ویسی ہی ہے جیسے کسی کے گھر کو آگ لگے تو لوگ اُس کا سامان اُٹھا اُٹھا کر باہر نکالتے ہیں، عزت تو اس کی ہوتی ہے مگر ساتھ ہی اس کے نوکر کا سامان بھی باہر اُٹھالاتے ہیں۔ محلہ کے لوگ بھی پہنچ جاتے ہیں، فائر بریگیڈ بھی، پولیس بھی۔ فرض کرو مکان کسی گورنر یا ڈپٹی کمشنر کا ہو تو جس جوش سے لوگ اُس کا سامان نکالتے ہیں اُس جوش سے اگر اُس کے نوکر کے گھر میں آگ لگے تو کبھی نہ نکالیں گے۔ لیکن اُسی نوکر کا سامان جب آقا کے سامان کے ساتھ ملا ہؤا ہوتا ہے تو اس کو بھی احتیاط سے نکال لیا جاتا ہے لیکن یہ نکالنا طفیلی ہوتا ہے۔ اسی طرح اب بھی اللہ تعالیٰ تمہاری مدد تو کرتا ہے مگر یہ مدد طفیلی ہے لیکن اگر تم حزبُ اللہ میںداخل ہوجائو تو پھر تمہیں ذاتی نصرت بھی حاصل ہوگی اور طفیلی بھی۔ اِس وقت تمہاری نصرت اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ سمجھتا ہے کہ اس کی ذلت سے سلسلہ کی ذلت ہوگی مگر حزبُ اللہ میں داخل ہونے کے بعد اس لئے بھی نصرت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کہے گا اِس کی ذلت سے میری ذلّت ہوگی۔ اگر یہ بدنام ہؤا تو چونکہ یہ میرا دوست ہے اس لئے مجھ پر الزام آئے گا کہ میں نے دوست سے وفاداری نہیں کی۔
دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات میں کتنا عظیم الشان نشان دکھایا ہے۔ گو تم نے اُس زمانہ کو نہیں پایا مگر ہم نے اسے پایا اور دیکھا ہے۔ پس اِس قدر قریب زمانہ کے نشانات کو اپنے خیال کی آنکھوں سے دیکھنا تمہارے لئے کوئی زیادہ مشکل نہیں اَور نشانات جانے دو مسجد مبارک کو ہی دیکھو۔ مسجد مبارک میں ایک ستون مغرب سے مشرق کی طرف کھڑا ہے۔ اس کے شمال میں جو حصہ مسجد کا ہے یہ اس زمانہ کی مسجد تھی اور اُس میں نماز کے وقت کبھی ایک اور کبھی دو سطریں ہوتی تھیں۔ اس ٹکڑہ میں تین دیواریں ہوتی تھیں۔ ایک تو دو کھڑکیوں والی جگہ میںجہاں آجکل پہریدار کھڑا ہوتا ہے اس حصہ میں امام کھڑا ہؤا کرتا تھا۔ پھر جہاں اب ستون ہے وہاں ایک اور دیوار تھی اور ایک دروازہ تھا۔ اس حصہ میں صرف دو قطاریں نمازیوں کی کھڑی ہوسکتی تھیں اور فی قطار غالباً پانچ سات آدمی کھڑے ہوسکتے تھے۔ اُس حصہ میں اس وقت کبھی ایک قطار نمازیوں کی ہوتی تھی اور کبھی دو ہوتی تھیں۔ مجھے یاد ہے اس حصۂ مسجد سے نمازی بڑھے اور آخری یعنی تیسرے حصہ میں نمازی کھڑے ہوئے تو ہماری حیرت کی کوئی حد نہ رہی تھی۔ گویا جب پندرھواں یا سولہواں نمازی آیا تو ہم حیران ہوکر کہنے لگے کہ اب توبہت لوگ نمازمیںآتے ہیں۔ تم نے غالباً غور کرکے وہ جگہ نہیں دیکھی ہوگی مگر وہ ابھی تک موجود ہے، جائو اور دیکھو۔ صحابہ کا طریق تھا کہ وہ پرانی باتوں کو کبھی کبھی عملی رنگ میں قائم کرکے بھی دیکھا کرتے تھے اس لئے تم بھی جاکر دیکھو۔ اُس حصہ کو الگ کردو جہاں امام کھڑا ہوتا تھا اور پھر وہاں فرضی دیواریں قائم کرو اور پھر جو باقی جگہ بچے اس میں جو سطریں ہوں گی اُن کا تصور کرواور اس میں تیسری سطر قائم ہونے پر ہمیں جو حیرت ہوئی کہ کتنی بڑی کامیابی ہے اُس کا قیاس کرو اور پھر سوچو کہ خداتعالیٰ کے فضل جب نازل ہوں تو کیا سے کیا کردیتے ہیں۔
مجھے یاد ہے ہمارا ایک کچا کوٹھا ہوتا تھا اور بچپن میں کبھی کھیلنے کیلئے ہم اُس پر چڑھ جایا کرتے تھے۔ اُس پر چڑھنے کیلئے جن سیڑھیوں پر ہمیں چڑھنا پڑتا تھا وہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کے پاس سے چڑھتی تھیں۔ اُس وقت ہماری تائی صاحبہ جو بعد میں آکر احمدی بھی ہوگئیں، مجھے دیکھ کر کہا کرتی تھیں کہ ’’جیہوجیا کاں اوہو جئی کوکو‘‘۔ میںبوجہ اس کے کہ میری والدہ ہندوستانی ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ بچپن میں زیادہ علم نہیں ہوتا، اس پنجابی فقرہ کے معنے نہیں سمجھ سکتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ میں نے اپنی والدہ صاحبہ سے اس کے متعلق پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جیسا کوّا ہوتا ہے ویسے ہی اس کے بچے ہوتے ہیں۔ کوّے سے مراد (نَعُوْذُبِاﷲِ) تمہارے ابّا ہیں اور کوکو سے مراد تم ہو۔ مگر پھر میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے کہ وہی تائی صاحبہ اگر میں کبھی ان کے ہاں جاتا تو بہت عزت سے پیش آتیں۔ میرے لئے گدّا بچھاتیں اور احترام سے بٹھاتیں اور ادب سے متوجہ ہوتیں۔ اور اگر میں کہتا کہ آپ کمزور ہیں،ضعیف ہیں ہِلیں نہیں یا کوئی تکلّف نہ کریں تو وہ کہتیں کہ آپ تومیرے پیر ہیں۔ گویا وہ زمانہ بھی دیکھا جب میں ’’کو کو‘‘ تھا اور وہ بھی جب میں پِیر بنا۔ اور اِن ساری چیزوں کو دیکھ کر تم سمجھ سکتے ہوکہ خدا تعالیٰ جب دنیا کو بدلنا چاہتا ہے تو کس طرح دل بدل دیتا ہے۔
پس ان انسانوں کو دیکھو اور اس سے فائدہ اٹھائو اور اپنے اندر وہ تبدیلی پیدا کرو کہ جو تمہیں خداتعالیٰ کا محبوب بنادے اور تم حزبُ اللہ میں داخل ہوجائو۔ مجھے افسوس ہے کہ تمہید میں ہی زیادہ وقت صَرف ہوگیا اور ابھی گھنٹی نے بتایا ہے کہ ساڑھے تین بج چکے ہیں۔ پس چونکہ تھوڑی دیر میں ہی عصر کا وقت ہوجائے گا اس لئے میں مضمون کو ختم نہیں کرسکتا۔ اگر خداتعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں اسے ختم کردوں گا لیکن اِس وقت پھر اختصار سے جماعت کے نوجوانوں کو خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر کے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دلوں میں ایک عزم اور ارادہ لے کر کھڑے ہوں کہ ہم نے خداتعالیٰ کو حاصل کرنا ہے اور اِس طرز پر اپنی زندگیاں گزاریں کہ ان کا وجود ہی خداتعالیٰ کا نشان بن جائے۔ یہ نہ ہو کہ صرف ان کی زبانیں نشانات بیان کریں بلکہ ایسا ہو کہ ان کے جسم بھی خداتعالیٰ کا نشان بن جائیں اور یہ کچھ بعید نہیں کیونکہ خداتعالیٰ نے ان کیلئے بھی اپنے فضلوں کے دروازے ویسے ہی کھلے رکھے ہیں جیسے ان سے پہلوںکیلئے کھولے گئے تھے۔‘‘ (الفضل ۱۳؍ اپریل ۱۹۳۸ئ)
۱؎ بخاری کتاب الدعوات باب قول اﷲ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی وَصَلِّ عَلَیْھِمْ
۲؎ اسد الغابۃ جلد ۱ صفحہ ۱۲۸، ۱۲۹۔ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۴ء
۳؎ بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ براء ۃ باب قوْلِہٖ اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ (الخ)
۴؎ کرامات الصادقین صفحہ ۴۴۔ روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۸۶
۵؎ تذکرہ صفحہ ۴۷۱ ۔ ایڈیشن چہارم
۶؎ (الشعرائ:۲۸)
۷؎ متی باب ۲۲ آیت ۲۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء

۱۴
نوجوانوں اور بچوں کی تربیت کا انتظام کیا جائے
(فرمودہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’خطبہ جمعہ شروع کرنے سے پہلے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ چونکہ آج جمعہ کی نماز کے بعد ہماری مجلس شوریٰ کا اجلاس ہونے والا ہے اور درمیان میں اس کو ملتوی کرنا کام کیلئے نقصان دِہ ہوتا ہے اِس لئے جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی عصر کی نماز بھی انشاء اللہ جمع کی جائے گی۔ اس کے بعد میں اپنے گزشتہ خطبات کے سلسلہ میں آج پھر کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں۔
گزشتہ خطبات میں مَیں نے مجالس خدام الاحمدیہ کے متعلق بعض باتیں کہی تھیں اور اِسی سلسلہ میں مَیں آج پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قومی نیکیوں کے تسلسل کے قیام کیلئے یہ ضروری ہے کہ اُس قوم کے بچوں کی تربیت ایسے ماحول اور ایسے رنگ میں ہو کہ وہ اُن اغراض اور مقاصد کو پورا کرنے کے اہل ثابت ہوں جن اغراض اور مقاصد کو لے کر وہ قوم کھڑی ہوئی ہو۔ جب تک کسی قوم کا کوئی خاص مقصداور مدعا نہیں ہوتا اُس وقت تک اس کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کو اس زمانہ کی ضرورت کے مطابق کوئی تعلیم دلادے یا عام علوم سے واقفیت بہم پہنچادے یا بعض پیشے انہیں سکھادے۔ جب کوئی قوم اتنا کام کرلیتی ہے تو وہ اپنے فرض سے سبکدوش سمجھی جاتی ہے۔ لیکن جب کوئی قوم ایک خاص مقصد اور مدعا لے کر کھڑی ہوئی ہو تو اُس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اُس مقصد اور مدعا کو نوجوانوں کے ذہنوں میں پورے طور پر داخل کرے اور ایسے رنگ میں ان کی عادات اور خصائل کو ڈھالے کہ وہ جب بھی کوئی کام کریں خواہ عادتاً کریں یا بغیر عادت کے کریں، وہ اُس جہت کی طرف جارہے ہوں جس جہت کی طرف اس قوم کے اغراض و مقاصد اسے لئے جارہے ہوں۔ جب تک کسی قوم کے نوجوان اس رنگ میں کام نہیں کرتے اُس وقت تک اسے ترقی حاصل نہیں ہوتی۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب تشریف لائے ہیں اُس وقت عرب کا کوئی مذہب نہیں تھا اِس وجہ سے جو بات بھی آپ بیان فرماتے وہ عربوں کیلئے نئی ہوتی اور اُن میں سے ہر شخص جو مسلمان ہوتا اِس بات کو ذہن میں رکھ کر مسلمان ہوتا تھا کہ پچھلی تمام باتیں اُس نے ترک کردینی ہیں۔ پس اُس زمانہ میں مسلمان ہونے کا مقصد اور مدعا آپ ہی آپ سامنے آجاتا تھا اورکوئی خاص زور دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی کیونکہ یکدفعہ ہر شخص یہ فیصلہ کرلیتا تھا کہ اسے اپنی گزشتہ تمام باتیں ترک کرنی پڑیں گی اور نئے مقاصد، نئی اغراض، نئی شریعت اور نئے احکام اس کے سامنے ہوں گے لیکن جب کوئی ایسا سلسلہ شروع ہوجس کی بنیاد پہلے مذہب پر ہو اور وہ خالص اصلاحی سلسلہ ہو تشریعی نہ ہو تو اس کیلئے اس مقام میں پہلی جماعتوں سے زیادہ دِقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض قسم کی دِقتیں پہلی جماعت کو زیادہ ہوتی ہیں مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ بعض قسم کی دِقتیں اصلاحی سلسلہ کو زیادہ ہوتی ہیں۔ چنانچہ انہی دِقتوں میں سے ایک دِقّت یہ ہے کہ ایسے سلسلہ کے افراد کو اس سلسلہ کے مقاصد اور اغراض سمجھانے کیلئے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ جب نوجوانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ تمہار ا دین کوئی نیا دین نہیں تو قدرتی طور پر ان کا ذہن یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ سوائے چند مستثنیات کے جن میں ہمارے آباء نے غلطی کی اور وہ اصل شریعت سے دُو رجاپڑے ہر پچھلی چیز کو ہم نے قائم کرنا ہے۔ اس وجہ سے ان کے ذہن میں کوئی امتیازی بات نہیں آتی اور وہ اس امر کے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ہم میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے۔ لیکن جب نیا دین ہو یا پہلے دین کی بعض باتوں میں تغیر و تبدّل ہو تو وہ ہر قدم کے اُٹھاتے وقت یہ پوچھ لیتے ہیں کہ کیوں جی! یہ کام ہم نے اِس طرح کرنا ہے یااس طرح؟ حضرت مسیح ناصری ؑ کے زمانہ میں جب آپ کے متبعین کے دلوں میں فقیہوں اور فریسیوں کے متعلق یہ سوال پیدا ہؤا کہ ہم ان کی باتوں کو مانیں یا نہ مانیں اور اُنہوں نے حضرت مسیح ناصری ؑسے یہی سوال کیا تو چونکہ معلوم ہوتا ہے اُس زمانہ میں شریعت موسویہ میں لوگوں نے زیاہ تغیر نہیں کیا تھا، چند نئی باتیں تھیں جو حضرت مسیح ؑنے اپنے پہاڑی وعظ میں بتادیں اِس لئے حضرت مسیح نے فرمایا:-
’’فقیہہ اور فریسی موسیٰ کی گدّی پر بیٹھے ہیں۔ پس جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو لیکن ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں‘‘۔ ۱؎
گویا بدعقیدگی ان میں کم تھی اور بداعمالی زیادہ تھی۔ اسی لئے آپ نے یہ ہدایت کردی کہ جو کچھ فقیہی اور فریسی کہتے ہیں اُس پر بے شک عمل کرو مگر ان کے اعمال کی نقل نہ کرو۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے زمانہ کی حالت اُس زمانہ سے بالکل مختلف ہے۔ اس زمانہ میں مثلاً تورات میں بہت سے تغیرات کئے جاچکے تھے مگر باوجود تغیرات کے او رباوجود تحریف و الحاق کے یہودی اِس بات پر اصرار کرتے تھے کہ ہماری کتاب محفوظ ہے مگر ہمیں ایک ایسی قوم سے واسطہ پڑا ہے جو اس کے بالکل اُلٹ چلتی ہے یعنی تورات میں تو تبدیلی ہوچکی تھی اور یہودی قوم یہ اصرار کرتی تھی کہ اس میں تبدیلی نہیں ہوئی مگر قرآن جو کہ بالکل محفوظ ہے اس کے متعلق مسلمان کہتے ہیں کہ اس کی کئی آیتیں منسوخ ہیں۔ اب یہ کتنا عظیم الشان اختلاف ہے اُس زمانہ کے یہودیوں اور اِس زمانہ کے مسلمانوں میں۔ وہ باوجود کتاب کے بِگڑ جانے کے کہتے تھے کہ ہماری کتاب بالکل محفوظ ہے اور مسلمان باوجود اِس کے کہ خدا کہتا ہے کہ اِس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں اور اس کے ایک حرف اور ایک شعشہ کی تبدیلی بھی ناممکن ہے، مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اس کی بہت سی آیتیں منسوخ ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ ان میں قرآنی احکام پر عمل کرنے کا جوش باقی نہیں رہا کیونکہ انہیں خداتعالیٰ کے کلام میں شک پیدا ہوگیا ۔اور جب کسی حکم کے متعلق شک پیدا ہوجاتا ہے تو جوشِ عمل باقی نہیں رہتا اور ہر آیت پر عمل کرتے وقت انسانی قلب میں یہ وسوسہ پیدا ہوجاتا ہے کہ ممکن ہے جس آیت پر مَیں عمل کر رہا ہوں یہ منسوخ ہی ہو۔ چنانچہ پانچ آیتوں سے لے کر چھ سَو آیتوں تک منسوخ قرار دی جاتی ہیں۔ یعنی بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ قرآن کریم کی پانچ آیتیں منسوخ ہیں اوربعض نے زیادہ۔ یہاں تک کہ بعض علماء نے منسوخ آیات کی تعداد چھ سَو تک پہنچادی ہے۔ اب چھ سَو آیتیں قرآن مجید کا ایک معتد بہ حصہ ہیں جن کو اگر الگ کرلیا جائے تو ایک خاصہ حصہ علیحدہ ہوجاتا ہے مگر مسلمانوں کو اس امر کی کوئی پرواہ نہیں۔ اِن کی کتابوں میں یہ باتیں لکھی ہوئی ہیں اور اب تک مسلمان ان کے قائل ہیں۔ شیعہ لوگوں نے گو اس رنگ میں قرآنی آیات کو منسوخ قرار نہیں دیا مگر انہوں نے ا تنا ضرور کہہ دیا ہے کہ قرآن کریم کے بعض حصے اُڑا لئے گئے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اور اس کی صفات کے متعلق مسلمانوں میں بیسیوں غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ نہیں کہ شروع سے مسلمانوں میں یہ غلطیاں پائی جاتی تھیں بلکہ قریب کے زمانہ میں آکر مسلمانوں میں یہ غلطیاں پیدا ہوئی ہیں۔ ورنہ قرونِ اُولیٰ کا لٹریچر انہی عقائد کی تائید کرتا ہے جو آج ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں۔ سوائے اُس حصۂ قرآن کی تشریح کے جو اُس زمانہ سے تعلق نہیں رکھتا تھا بلکہ موجودہ زمانہ سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن کریم کے بعض حصے ایسے ہیں جو پہلے زمانہ سے تعلق رکھتے تھے اور بعض حصے ایسے ہیں جو خصوصیت سے اِس زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پس جو حصہ قرآن کریم کا پہلے زمانہ سے تعلق رکھتا تھا اُس میںقرونِ اُولیٰ کے صحابہ، آئمہ اور مجددین ہماری ہی تائید میں نظر آتے ہیں اور یہ تمام باتیں ان کی کتابوں میں اب تک موجود ہیں گو بدقسمتی سے مسلمان انہیں بھُول چکے ہیں۔
غرض اِس وقت نہ صرف مسلمانوں کے اعمال میں نقص ہے بلکہ ان کے عقائد اور ان کے خیالات بھی قابلِ اصلاح ہیں۔ ایسی حالت میں جب تک نوجوانوں میں بیداری پیدا نہ کی جائے اور انہیں یہ ہدایت نہ کی جائے کہ وہ اپنا قدم پھُونک پھُونک کر رکھیں اُس وقت تک ہم میںبھی بعض غلطیاں پیدا ہونے کا امکان ہے۔ ہم ہمیشہ کہتے رہتے ہیں اور یہی صحیح امر ہے کہ قرآن کریم میں تبدیلی ناممکن ہے۔ ہم صرف اُن غلطیوں کو دور کرنے کیلئے کھڑے ہوئے ہیں جومسلمانوں میں پائی جاتی ہیں اور چونکہ اِس رنگ میں انسان بعض دفعہ سُست بھی ہوتا ہے اس لئے اپنے کام کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں بہت زیادہ بیداری اور ہوشیاری کی ضرورت ہے۔
میں نے بتایا تھا کہ قوم کے نوجوانوں کے اندر اِس قسم کی بیداری اور ہوشیاری پید اکرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر جگہ مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی جائے اور اِس میں ایسے نوجوان شامل کئے جائیں جو عملی رنگ میں اپنی ایسی اصلاح کرنے کیلئے تیار ہوں کہ اُن کا وجود دوسروں کیلئے نمونہ بن جائے۔ علاوہ ازیں بعض اور بھی نقائص ہیں جو مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں اور جو زمانہ کی مخفی رَو یا ورثہ کے اثرات کے ماتحت ہماری جماعت کے بعض افراد میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ایسی مجالس کے قیام کی ایک غرض ان نقائص کو دور کرنا بھی ہوگی۔ مثلاً ہندوستانی ایک عرصہ سے غلامی کی زندگی بسر کرتے چلے آرہے ہیں اور میں نے بارہا بتایا ہے کہ غلامی کی زندگی اپنے ساتھ بعض نہایت ہی تلخ اور ناخوشگوار نتائج لاتی ہے۔ مثلاً غلامی کی ذہنیت جن لوگوں کے اندر پیدا ہوجائے وہ کبھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے۔ فاتح اقوام ہمیشہ اِس کوشش میں رہتی ہیں کہ غیرحکومتوں کے مقابلہ میں ہماری تجارت اعلیٰ ہو، غیرحکومتوں کے مقابلہ میں ہماری دفاعی کوششیں مضبوط ہوں، غیرحکومتوں کے مقابلہ میں ہمارا تعلیمی معیار زیادہ بلند ہو، غیرحکومتوں کے مقابلہ میں ہماری صنعت و حرفت نہایت بلند پایہ ہو۔ اِسی طرح اور بیسیوں باتیں ہیں جو اُن کے دلوں میں جوش پیدا کرتی رہتی ہیںا ور ہر سال ان باتوں پر جھگڑے رونما ہوتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میںقوم میں بیداری اور بلند خیالی پیدا ہوجاتی ہے۔ مگر غلام قوم کے معنے یہ ہیں کہ اس کی تمام جدوجہد صرف اِس امر پر آکر ختم ہوجاتی ہے کہ مزدوری کی اور پیٹ پال لیا یامدرسے گئے اور تعلیم حاصل کرلی۔ بظاہر یہ ایک آرام کی زندگی نظر آتی ہے مگر دماغی لحاظ سے قتلِ عامہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ تمام قوم کا ذہن مُردہ کردیا جاتا ہے اور وہ قوم مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس کی مثال بالکل اس طوطے کی سی ہوجاتی ہے جسے کئی سال تک پنجرے میں بند رکھنے کے بعد جب آزاد کیا جاتا ہے تو وہ اِدھر اُدھر پھُدک کر پھر پنجرے میں ہی آبیٹھتا ہے کیونکہ اُڑنے کی ہمت اس میں باقی نہیں رہتی۔ اسی طرح غلام قوموں میں سُستی اور غفلت کو امن اور آرام سمجھا جاتا ہے اور اُمنگوں کا فُقدان اس قوم میں اطمینان قرار پاتا ہے۔ جب ان میں سے کوئی شخص یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں بڑے اطمینان کی زندگی بسر کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرا دل اُمنگوں سے بالکل خالی ہے ۔ اور جب وہ یہ کہتا ہے کہ دیکھو مجھے کیسا امن اور چین نصیب ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہرقسم کی جدوجہد اور ترقی کے راستے میرے لئے مسدود ہوچکے ہیں۔
غرض اِن عیوب اور نقائص کو دور کرنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے کیونکہ ہمیں جو تعلیم دی گئی ہے وہ انسانی اُمنگوں اورجذبات کو کُچلتی نہیں بلکہ انہیں بڑھاتی اور ترقی دیتی ہے۔ وہ تعلیم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا نے کسی انسان کو غلام نہیں بنایا اور کوئی انسان کسی دوسرے کو غلام بنا بھی نہیں سکتا جب تک وہ خود غلام نہ بن جائے۔ اس تعلیم کے ماتحت ہمیں یہ یقین رکھنا چاہئے کہ ترقی کا جب کوئی ایک راستہ ہمارے لئے مسدود ہوجائے تو اللہ تعالیٰ بعض اَور راستے ہمارے لئے کھول دیتا ہے اور اگر ہم ان راستوں کو اختیار کریں تو بالکل ممکن ہے کہ جو آج ہم پر افسر ہیں وہ کل ہمارے غلام ہوجائیں۔ مثلاً انہی ذرائع میں سے ایک ذریعہ تبلیغ ہے یا اپنی اخلاقی برتری کا ثبوت مہیا کرنا ہے۔ دنیا میں اخلاقی برتری کے ہوتے ہوئے کبھی کوئی قوم غلام نہیں ہوسکتی۔ غلام قوم وہی ہوگی جو اخلاق میں بھی پَست ہوگی۔ ہمارے مُلک میں عام طور پر انگریزوں کو بُرا سمجھا جاتا ہے لیکن اگر اُن بعض خیالات اور عقائد کو مستثنیٰ کرکے جن میں ہمارا اور ان کا اختلاف ہے اور جن میں ہم اُنہیں غلطی پر سمجھتے ہیں، عملی رنگ میں ان کو دیکھا جائے تو ایک ہندوستانی اور انگریز میں زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ ایک انگریز کی کوشش، اُس کی جدوجہد، اُس کی قربانی اور اُس کا ایثار اتنا نمایاں ہوتا ہے کہ ایک ہندوستانی کی جدوجہد کی اس سے کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی۔ وہ یورپ سے چلتے اور ہندوستان میںآکر سالہا سال تک تبلیغ کرتے ہیں۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ یہ پادری کیا ہیں انگریزوں نے انہیں اپنے سیاسی غلبہ کے حصول کا ایک ذریعہ بنایا ہؤا ہے۔ پھر اگر ان کی تبلیغ کا ذکر آئے تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اجی! یہ ان کی تبلیغ اپنے فائدہ کیلئے ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ اپنے فائدہ کیلئے جو قربانیاں کرتے ہیں کیا اس قسم کی قربانیاں ایک ہندوستانی نہیں کرسکتا؟ وہ چالیس چالیس، پچاس پچاس بلکہ ساٹھ ساٹھ سال تک ہندوستان میں رہتے ہیں، یہیں بوڑھے ہوتے اور یہیں مرجاتے ہیں اور واپس جانے کا نام تک نہیں لیتے مگر ایک ہندوستانی یا تو آوارہ ہوکر گھر سے نکلے گا یا اگر آوارہ نہ ہوگا تو غیر مُلک میں جانے کے چند سال کے بعد ہی شور مچانا شروع کردے گا کہ مجھے واپس بُلالو۔ غرض یا تو آوارہ ہوکر گھر سے نکلتا ہے اور اگر آوارہ ہوکر گھر سے نہیںنکلتا تو غیرممالک میںہمیشہ بے کل رہتا اور واپسی کیلئے کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں یورپین قومیں آوارہ ہوکر اپنے ممالک سے نہیں نکلتیں۔ وہ کام کیلئے نکلتی ہیں اور پھر جب کسی دوسرے مُلک میں اپنا کام شروع کردیتی ہیں تو گھبراتی نہیں او رجو تکلیف بھی انہیں برداشت کرنی پڑے اُسے خوشی سے برداشت کرتی ہیں۔ مگر یہ نتیجہ ہے اُن کی آزادی اور حُریت کا اور ہمارے آدمیوں کی سُستی اور غفلت نتیجہ ہے ان کی غلام ذہنیت کا ۔ اگر یہ ذہنیت مِٹ جاتی اور وہ سمجھ لیتے کہ ترقی کا صرف ایک ہی ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ اَور بھی بیسیوں ذرائع خداتعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں تو وہ سُستی اور غفلت میں مبتلا ہونے کی بجائے جدوجہد کرتے اور ایثار اور قربانی سے کام لیتے اور پھر دیکھتے کہ اس کے کیسے خوشگوار نتائج نکلتے ہیں۔ جیسے ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جو یہ آوا زسنتے ہی کہ آئو اور خدمتِ دین کیلئے اپنی زندگی وقف کردو نہایت خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی وقف کردیتا اور غیرممالک میں نکل جاتاہے۔ چنانچہ بعض تو بغیر کسی سرمایہ کے غیرممالک میں کام کررہے اور نہایت اچھا نمونہ دکھارہے ہیں۔
تو مجالس خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ نوجوانوں کے سامنے وہ مقاصد رکھے جائیں جن کے بغیر ان میں ارتقائی روح پیدا نہیں ہوسکتی اور جن کے بغیر جماعت کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اِس وقت ایک ذہنی آزادی عطا کی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ہم میں سے ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ تھوڑے عرصہ کے اندر ہی (خواہ ہم اُس وقت تک زندہ رہیں یا نہ رہیں لیکن بہرحال وہ عرصہ غیرمعمولی طور پر لمبا نہیں ہوسکتا)ہمیں تمام دنیا پر نہ صرف عملی برتری حاصل ہوگی بلکہ سیاسی اور مذہبی برتری بھی حاصل ہوجائے گی۔ اب یہ خیال ایک منٹ کیلئے بھی کسی سچے احمدی کے دل میں غلامی کی روح پیدا نہیں کرسکتا۔ جب ہمارے سامنے بعض حکام آتے ہیں تو ہم اِس یقین اور وثوق کے ساتھ اُن سے ملاقات کرتے ہیں کہ کل یہ نہایت ہی عجز اور انکسار کے ساتھ ہم سے استمداد کررہے ہوں گے۔ ہم انگریزی قوم کو عارضی طور پر مسلمانوں پر غالب دیکھتے ہیں مگر مستقل طور پر اسے اسلام کا غلام بھی دیکھ رہے ہیں۔ ہماری مثال اِس وقت ایسی ہی ہے جیسے کوئی بڑا آدمی جب کسی چھوٹے آدمی کے ہاں بطور مہمان جاتا ہے تو کچھ عرصہ کیلئے وہ اُس کے قوانین کا پابند ہوتا ہے۔ جیسے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ خواہ کوئی کتنا بڑا آدمی ہو جب کسی دوسری جگہ جائے تو وہاں کے امام کے تابع ہوکر رہے خواہ وہ امام چھوٹا ہی ہو۔ ۲؎ اسی طرح جب گورنر کسی دَورہ پر جاتا ہے تو گو وہ بڑا ہوتا ہے مگر ڈپٹی کمشنر کی مرضی اور اُس کے بنائے ہوئے پروگرام کے ماتحت اُسے کام کرنا پڑتا ہے۔ حضرت عمرؓ جب شام میں گئے تو حضرت ابوعبیدہؓ جو وہاں کے امیر تھے اُنہوں نے دریافت کیا کہ آپ کا پروگرام کیا ہوگا؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا یہاں میرا پروگرام نہیں بلکہ تمہارا پروگرام ہوگا اور جو کچھ تم کہو گے اُسی طرح مَیں کروں گا۔ اب حضرت عمرؓ کا اُس وقت ایک قسم کی ماتحتی قبول کرلینا یہ معنے نہیں رکھتا کہ حضرت عمرؓ نے دوسرے کی غلامی پسند کرلی۔ عمرؓ بہرحال عمرؓ تھے۔ وہ حاکم تھے، روحانی بادشاہ تھے اور خلیفۂ وقت تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ اُن کے تابع تھے مگر تھوڑی دیر کیلئے حضرت عمرؓ نے بھی ان کی ماتحتی اختیار کرلی۔ اِسی طرح ہم جو دُنیوی احکام کوملتے ہیںتو اس رنگ میں ملتے ہیں کہ انہیں اِس وقت عارضی طو رپر ہم پر برتری حاصل ہے مگر ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ کل وہ ہمارے شاگرد ہوں گے اور ہر قسم کی ترقی کے حصول کے سبق وہ ہم سے سیکھیں گے۔اگر اس خیال کو ہم اپنی جماعت کے افراد کے ذہنوں میں پورے طور پر زندہ رکھیں اور اسے مضبوط کرتے چلے جائیں تو ایک منٹ کیلئے بھی ہماری جماعت کے نوجوانوں کے دلوں میں غلامی کا خیال پیدا نہیں ہوسکتا۔ جیسے اُس بالا افسر کے دل میں غلامی کا خیال پیدا نہیں ہوسکتا جو تھوڑی دیر کیلئے کسی چھوٹے افسر کے ہاں جاتا اور اس کے پروگرام کا پابند ہوجاتا ہے۔
پس جماعت کے تمام دوستوں کو چاہئے کہ اپنے اپنے ہاں نوجوانوں کو منظم کریں اور ان کی ایک مجلس بنا کر خدام الاحمدیہ اُس کا نام رکھیں اور اُنہیں سلسلہ کے وقار کے تحفظ اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کیلئے کام کرنے کی ترغیب دیں۔
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے اس امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی گو اتفاقی طور پر وقت زیادہ ہوجانے کی وجہ سے میں بعض باتیں بیان نہیں کرسکا تھا اور میں نے کہا تھا کہ اگلے خطبہ میں مَیں ان باتوں کو بیان کروں گا۔ اُس وقت میرے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ اگلے جمعہ کو تمام جماعتوں کے نمائندے آنے والے ہیں شاید آج اس مضمون کا کچھ حصہ رہ جانے میں یہی حکمت ہو کہ مَیں جماعت کے تمام دوستوں کو براہ راست اِس امر کی طرف توجہ دلائوں کیونکہ اخبار میں خطبہ کا پڑھ لینا اَور بات ہے اور زبان سے کوئی بات سننا اَور اثر رکھتا ہے۔ پس اب چونکہ تمام جماعتوں کے نمائندے یہاں آئے ہوئے ہیں اِس لئے میںان سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں میں جاکر نوجوانوں میں یہ تحریک کریں کہ وہ خدام الاحمدیہ نام کی مجالس قائم کریں۔ اِس مجلس کے قواعد مَیں تجویز کررہا ہوں اور بعض موٹے موٹے قواعد جو میں نے بتائے تھے وہ تو غالباً مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان نے شائع بھی کردیئے ہیں لیکن بہرحال تفصیلی قواعد انہیں پہنچ جائیںگے۔
اِس وقت اِس کے ایک اور حصہ کی طرف میںجماعت کے دوستوں کو بِالخصوص مرکزی مجلس خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں اور وہ یہ کہ نوجوانی میں بے شک خدمتِ دین کا کام کرنا اچھا ہوتا ہے کیونکہ ادھیڑ عمر میں بعض دفعہ انسان ان کاموں کے کرنے کی ہمت کھو بیٹھتا ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر ایک اَور کام ہے اور وہ یہ کہ بچوں کے اندر بھی یہی جذبات اور یہی خیالات پیدا کئے جائیں کیونکہ بچپن میں ہی اخلاق کی داغ بیل پڑ جاتی ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض کاموں کی داغ بیل جوانی میں پڑتی ہے مگر اس میںبھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض کاموں کی داغ بیل بچپن میں پڑتی ہے۔ جوانی میں جن کاموں کی داغ بیل پڑتی ہے وہ بِالعموم عملی ہوتے ہیں جن کے ذریعہ انسان کا ذہن بُرے اور بھلے کی تمیز کرلیتا ہے۔ مگر قومیں صرف بُرے اور بھلے کی تمیزسے ہی ترقی نہیں کیا کرتیں بلکہ قوم کی ترقی کیلئے اچھی عادتوں کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ بے شک عادت بعض لحاظ سے نقصاں رساں بھی ہوتی ہے مگر عادت درحقیقت قومی ترقی کا ایک ضروری حربہ بھی ہوتی ہے۔ کسی قوم کو نیک اخلاق کی عادت ڈال دو وہ خود بخود باقی اقوام پرغالب آنے لگ جائے گی اِسی طرح جب کسی قوم میں بد عادات پیدا ہو جائیں تو وہ خودبخودگرتی چلی جاتی ہے اور اگر اسے کسی بات کی بھی عادت نہ ڈالو تو اس قوم میںایک تزلزل رہے گا۔ کبھی اخلاقی رَو غالب آگئی تو وہ ترقی کرجائے گی اور اگر اخلاقی رَو دب گئی تو وہ گر جائے گی۔ تو اصل حقیقی چیز یہ ہے کہ اچھی عادت بھی ہو اور علم بھی ہو مگر یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب عادت کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے اور علم کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے۔ عادت کا زمانہ بچپن کا زمانہ ہوتا ہے اور علم کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتا ہے۔ پس خدام الاحمدیہ کی ایک شاخ ایسی بھی کھولی جائے جس میں پانچ چھ سال عمر کے بچوں سے لے کر ۱۵،۱۶ سال کی عمر تک کے بچے شامل ہوسکیں۔ یا اگر کوئی اور حد بندی تجویز ہو تو اُس کے ماتحت بچوں کو شامل کیا جائے۔ بہرحال بچوں کی ایک الگ شاخ ہونی چاہئے اور ان کے الگ نگران مقرر ہونے چاہئیں مگر یہ امرمدنظر رکھنا چاہئے کہ ان بچوں کے نگران نوجوان نہ ہوں بلکہ بڑی عمر کے لوگ ہوں۔
پس خدام الاحمدیہ کو اس مقصد کے ماتحت اپنے اندر کچھ بوڑھے نوجوان بھی شامل کرنے چاہئیں یعنی ایسے لوگ جن کی عمریں گو زیادہ ہوں مگر ان کے دل جوان ہوں اور وہ خدمت دین کے لئے نہایت بشاشت اور خوشی سے کام کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ایسے لوگوں کے سپرد بچوں کی نگرانی کی جائے اور ان کے فرائض میں یہ امر داخل کیا جائے کہ وہ بچوں کو پنجوقتہ نمازوں میں باقاعدہ لائیں۔ سوال و جواب کے طور پر دینی اور مذہبی مسائل سمجھائیں، پریڈ کرائیں اور اسی طرح کے اَور کام ان سے لیں جن کے نتیجہ میں محنت کی عادت، سچ کی عادت اور نماز کی عادت ان میں پیدا ہو جائے۔ اگر یہ تین عادتیں ان میں پیدا کر دی جائیں تو یقینا جوانی میں ایسے بچے بہت کارآمد اور مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
پس بچوں میں محنت کی عادت پیدا کی جائے، سچ بولنے کی عادت پیدا کی جائے اور نمازوں کی باقاعدگی کی عادت پیدا کی جائے۔ نماز کے بغیر اسلام کوئی چیز نہیںاگر کوئی قوم چاہتی ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں میں اسلامی روح قائم رکھے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی قوم کے ہر بچہ کو نماز کی عادت ڈالے۔ اسی طرح سچ کے بغیر اخلاق درست نہیں ہو سکتے۔ جس قوم میں سچ نہیں اس قوم میں اخلاقِ فاضلہ بھی نہیں اور محنت کی عادت کے بغیر سیاست اور تمدن کوئی چیز نہیں۔ جس قوم میں محنت کی عادت نہیں اس قوم میں سیاست اور تمدن بھی نہیں۔ گویا یہ تین معیار ہیں جن کے بغیر قومی ترقی نہیں ہوتی۔
پس خدام الاحمدیہ کے ارکان کو چاہئے کہ اپنی ایک شاخ بچوں کی بھی قائم کریں مگر ان کے نگران ایسے لوگ مقرر کریں جو کم سے کم چالیس سال کے ہوں اور بہتر ہوگا اگر وہ اس سے بھی زیادہ عمر کے ہوں اور اپنے اندر ہمت اور استقلال رکھتے ہوں، ان کے سپرد یہ کام کیا جائے کہ وہ بچوں کو اپنی نگرانی میں کھِلائیں، اُنہیں وقت ضائع کرنے سے بچائیں، نمازوں کیلئے باقاعدہ لے جائیں اور اخلاقِ فاضلہ ان میں پید اکریں۔ اور گو تفصیلی طور پر تمام اخلاق کا پیدا کرنا ہی ضروری ہے مگر یہ تین باتیں خاص طور پر ان میں پیدا کی جائیں۔ یعنی نمازوں کی باقاعدگی کی عادت، سچ کی عادت اور محنت کی عادت۔ باقی ہمارے مُلک میں بعض اَور بھی اخلاقی خرابیاں ہیں جن کا دُور کرنا ضروری ہے۔ مثلاً ہمارے مُلک میں گالی دینے کا عام طور پر رواج ہے اور اِس میں شرم و حیا سے کام نہیں لیا جاتا۔
مجھے یاد ہے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو جب چوٹ لگی تو مرہم پٹی کرنے کیلئے ایک مخلص دوست مقرر تھے مگر اُن کی زبان پر بہن کی گالی بہت چڑھی ہوئی تھی۔ ایک دن جبکہ حضرت خلیفہ اول کے پاس ہم سب بیٹھے ہوئے تھے اور باہر سے بھی کچھ مہمان آئے ہوئے تھے ایک دوست نے برسبیلِ تذکرہ دریافت کیا کہ ابھی حضرت صاحب کا زخم اچھا نہیں ہؤا؟ اِس پر وہ بے اختیار زخم کو بہن کی گالی دے کر کہنے لگے یہ اچھا ہونے میں آتا ہی نہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل اُس وقت سامنے بیٹھے تھے اور باقی سب دوست بھی موجود تھے۔ اُن کے منہ سے جب اس مجلس میں یہ گالی نکلی تو ہم سب پر ایک سکتے کی حالت طاری ہوگئی مگر پھر ہم یہی سمجھ کر خاموش ہورہے کہ ان بیچاروں کو اِس گالی کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ تو گالی دینے کی عادت ہی جب کسی شخص میں پیدا ہوجاتی ہے اُس کا مٹانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اَور کئی قسم کی بُری عادتیں ہیں جو ہمارے ملک میںلوگوں کے اندر پائی جاتی ہیں۔ اِن عادتوں کومٹا کر ان کی جگہ اگر نیک عادتیں پیدا کردی جائیں تو لازماً قوم کی اصلاح ہوسکتی ہے۔
پس مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان کا صرف یہی فرض نہیں کہ وہ نوجوانوں کی اصلاح کریں بلکہ ان کا ایک فرض یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کی اصلاحی شاخ الگ قائم کریں اور اس کے ذریعہ جو چھوٹی عمر کے بچے ہیں اُن کی تربیت کریں۔ میں اِس کیلئے بھی اِنْشَائَ اﷲُ تَعَالیٰ انہیں قواعد تیار کردوں گا۔ سرِدست جو تین باتیں میںنے بتائی ہیں ان پر انہیں عمل کرنا چاہئے۔ یعنی بچوں میں نماز کی عادت ، سچ کی عادت اور محنت کی عادت پیدا کرنی چاہئے۔ محنت کی عادت میںآوارگی سے بچنا خود آجاتا ہے۔میں امید کرتا ہوں کہ یہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ بھی اوربیرونی جماعت کی مجالس بھی اِن اصول کے ماتحت اپنے کام کو محنت سے سرانجام دیں گی اور خدمتِ خلق کے کام کرنے میں کوئی عار نہیںسمجھیں گی۔
میں نے بارہا بتایا ہے کہ خدمتِ خلق کے کام میں جہاں تک ہوسکے وسعت اختیار کرنی چاہئے اور مذہب اور قوم کی حدبندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر مصیبت زدہ کی مصیبت کو دور کرنا چاہئے خواہ وہ ہندو ہویا عیسائی ہو یا سکھ ۔ ہمارا خدا ربُ العالمین ہے اور جس طرح اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اُسی طرح اُس نے ہندوئوں ،سکھوں اور عیسائیوں کو بھی پیدا کیا ہے۔ پس اگر خدا ہمیںتوفیق دے تو ہمیں سب کی خدمت کرنی چاہئے۔ یہاں قادیان میں بعض مجبوریوں کی وجہ سے ہم عارضی طور پر ہندوئوں سے سَودا نہیں خریدتے مگر بیسیوں ہندو اور سکھ ہمارے پاس امداد کیلئے آتے رہتے ہیں اور ہم ہمیشہ ان کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ ایک دفعہ کانگریس کی ایک مشہور لیڈر یہاں آئیں اور انہوں نے کہا کہ یہاں کے ہندوئوں کو بہت تکلیف ہے۔ میں نے کہا میں ایسی بیسیوں مثالیں دے سکتا ہوں جب یہ ہندو میرے پاس آئے اور میں نے ان کی امداد کی اور ان پر بڑے سے بڑے احسان کئے۔ چنانچہ بعض واقعات میں نے اُنہیں بتائے بھی۔ وہ میری باتیں سُن کر حیران ہوگئیں اور کہنے لگیں یہ بات ہے میں نے کہاآپ ان سے پوچھ لیجئے کہ آیا فلاں فلاں مواقع پر میں نے ان کی مدد کی ہے یا نہیں؟ اور اب بھی میںان کے ساتھ موقع ملنے پر حُسنِ سلوک ہی کرتا ہوں مگر انہوں نے پھر ہندوئوں سے پوچھا نہیں شاید میری بات پرہی اعتماد کرلیا یا انہیں پوچھنے کا موقع نہ ملا۔
تو حُسنِ سلوک میںکسی مذہب کی قید نہیں ہونی چاہئے اور جو شخص بھی اس قسم کے حُسنِ سلوک میں مذہب کی قید لگاتا اور اپنے ہم مذہبوں کی خدمت کے کام کرنا تو ضروری سمجھتا ہے مگرغیرمذہب والوں کی خدمت کرنا ضروری نہیں سمجھتا وہ اپنا نقصان آپ کرتا ہے اور دنیا میں لڑائی جھگڑے کی روح پید اکرتا ہے۔ پھر جو تبلیغی جماعتیں ہوتی ہیں اُن کیلئے تو یہ بہت ہی ضروری ہوتا ہے کہ وہ ساری قوموں سے حُسنِ سلوک کریں اور کسی کو بھی اپنے دائرہ احسان سے باہر نہ نکالیں۔ تا تمام قومیں اُن کی مداح بنیں۔ پس وہ خدمتِ خلق کے کاموں میں مذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر حصہ لیں اور جماعت کے جو اغراض اور مقاصد ہیں اُن کو ایسی وفاداری کے ساتھ لے کر کھڑے ہوجائیں کہ خداتعالیٰ کے راستہ میں ان کیلئے اپنی جان قربان کردینا کوئی دوبھر نہ ہو۔ جب کسی قوم کے نوجوانوں میں یہ روح پیدا ہوجائے کہ اپنے قومی اور مذہبی مقاصد کی تکمیل کیلئے جان دے دینا وہ بالکل آسان سمجھنے لگیں اُس وقت دنیا کی کوئی طاقت اُنہیں مار نہیں سکتی۔ جس چیز کومارا جاسکتا ہے وہ جسم ہے مگر جس شخص کی روح ایک خاص مقصد لے کر کھڑی ہوجائے اُس روح کو کوئی فنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ بلکہ ایسی قوم کا اگر ایک شخص مرے تو اُس کی جگہ دس پیدا ہوجاتے ہیں۔
میں ہمیشہ یہ سمجھا کرتا ہوں کہ قصے کہانیوں میںجو یہ ذکر آتا ہے کہ فلاں نے ایک دیو مارا تو اس کے خون کے قطروں سے دس دیو اَور پیدا ہوگئے، یہ ذہنی قتل کے ناممکن ہونے کو ایک تمثیل کے رنگ میں بیان کیا گیا ہے اور اِس میں یہی بتایا گیا ہے کہ جب کسی قوم کے ذہن میں راسخ طور پر کوئی نیک عقیدہ پیدا ہوجائے اُس وقت اسے کوئی قتل نہیں کرسکتا۔ اور اگر اس قوم کے کسی فرد پر کوئی شخص ہاتھ اٹھاتا اور اُسے قتل کرتا ہے تو اُس کی موت ایسی شاندار ہوتی ہے کہ ہزاروں اس کے قائمقام پیدا ہوجاتے ہیں۔ دنیا میںہمیشہ یہ نظارہ نظر آیا ہے اور اب بھی یہ نظارہ نظر آسکتا ہے بشرطیکہ ہمارے نوجوان یہی روح اپنے اندر پیدا کریں۔ پھر نہ اِنہیں وطن میں کوئی نقصان پہنچاسکتا ہے اور نہ غیرمُلک میں ان کو کوئی مٹاسکتا ہے۔ کیونکہ وہ اِس روح کے نتیجہ میں وہی لوگ بن جائیں گے جن کو اِسی دنیا میں خداتعالیٰ ایسی زندگی دے دیتا ہے جس پر موت نہیں آتی اور ایسی حیات دے دیتا ہے جس پر فنا طاری نہیں ہوتی۔
چونکہ اب نماز کے بعد مجلسِ شوریٰ کا اجلاس ہونے والا ہے اِس لئے میں خطبہ کو اِسی پر ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو فرض شناسی کی توفیق عطا فرمائے اور جماعت کے دوسرے افراد کے دلوں میں بھی ایسی روح پیدا کرے کہ وہ دوبارہ اُسی اسلام کو دنیا میں قائم کرکے دکھادیں جس اسلام کو آج سے تیرہ سَو سال پہلے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا۔‘‘ (الفضل ۲۲؍ اپریل ۱۹۳۸ئ)
۱؎ متی باب ۲۳ آیت ۲،۳۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن ۱۸۸۷ئ
۲؎ مسلم کتاب المساجد باب مَنْ اَحَقُّ بِالْاِمَامَۃِ

۱۵
۱۔ مجلس شوریٰ میں تنقید کے اصول
۲۔ جماعت احمدیہ اور حکام کے تعلقات
(فرمودہ ۲۲؍ اپریل ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’میرے سامنے ایک سوال اُٹھایا گیا ہے جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ مجھے جماعت کے سامنے اپنے خیالات کے اظہار کی ضرورت ہے تا جس جس حصہ میں کوئی نقص ہے اس کی اصلاح ہوسکے۔ مجھ سے کہا گیا ہے کہ مجلس شوریٰ کے موقع پر ناظروں کے کام پر جس رنگ میں تنقید کی جاتی ہے اس کے نتیجہ میں ناظروں کے کام میں رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور ان کا مقام جماعت کی نگاہ میں گِرجاتا ہے اور یہ کہ اِس تنقید کا موجب وہ تنقید ہوتی ہے جو کبھی میری طرف سے ناظروں کے کام پر کی جاتی ہے۔ میں اِس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ اگر وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں سلسلہ کے کام کی باگ ڈور ہو، اُن کی حیثیت اور مقام لوگوں کی نظروں سے گرادیا جائے اور لوگوں میں ان کی سُبکی کردی جائے تو کام میں دِقتیں ضرور پیدا ہوتی ہیں۔ اگر یہ امر واقعہ ہو کہ موجودہ حالات میں ناظروں کا مقام اور ان کی حیثیت اور ان کے عُہدے کا اعزاز اور اکرام کم ہوگیا ہو اور لوگوں کی نظروں میں ان کی عزت نہ رہی ہو تو اس میں شک نہیں کہ ان کو کام میں دِقتیں پیدا ہوسکتی ہیں اور ہونے کا خطرہ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اس سوال کے کئی حصے ہیں اور وہ الگ الگ توجہ کے محتاج ہیں ۔ پس میں انہیں علیحدہ علیحدہ لیتا ہوں۔
پہلا حصہ یہ ہے کہ خلیفۂ وقت کی تنقید خواہ وہ تربیت کیلئے ہو یا تأدیب کیلئے یا ہدایت کیلئے وہ شوریٰ کے دوسرے ممبروں کے دلوں میں تنقید کا ایسا مادہ پید اکردیتی ہے کہ جس کے نتیجہ میں تنقید حد سے زیادہ گزرجاتی ہے۔ جو لوگ دوسرے لوگوں سے مِلتے جُلتے رہتے ہیں اور قسم قسم کے لوگوں سے باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرے متعلق دونوں قسم کی شکایتیں سُنی جاتی ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ ہمیشہ ناظروں کی پیٹھ ٹھونکتے اور ان کی حفاظت کرتے ہیں جس کی وجہ سے جماعت کا نظام درست نہیں ہوسکتا۔ ذرا کسی نے کسی ناظر پر اعتراض کیا تو انہوں نے فوراً اسے گرفت شروع کردی۔ اور یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کی طرف سے ناظروں کا صحیح طور پر اعزاز قائم نہیں کیا جاتا اور ایسی تنقید ان کے کام پر کی جاتی ہے جس سے وہ لوگوں کی نظروں سے گرجائیں۔ اِن دونوں سوالوں کی موجودگی میں یہ ماننا پڑے گا کہ صداقت بہرحال تین میں سے ایک صورت میں ہے۔ یا تو پہلا اعتراض غلط ہوگا کہ یہ ناظروں کے مقابلہ میں جماعت کو زیادہ ڈانٹتے ہیں اور یا پھر یہ غلط ہوگا کہ جماعت کے مقابلہ میں ناظروں پر تنقید میں سختی کرتے ہیں۔ یا پھر یہ کہ دونوں ہی اعتراض غلط ہوں گے۔ یہ تین صورتیں ہی ممکن ہوسکتی ہیں ان کے سوا کوئی نہیں۔ لیکن ان تینوں صورتوں پر غور کرنے سے قبل یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خلیفہ کا مقام کیا ہے۔ مجلس شوریٰ ہو یا صدر انجمن احمدیہ، خلیفہ کامقام بہرحال دونوں کی سرداری کا ہے۔ انتظامی لحاظ سے وہ صدرانجمن کیلئے بھی رہنما ہے اور آئین سازی و بحث کی تعیین کے لحاظ سے وہ مجلس شوریٰ کے نمائندوں کیلئے بھی صدر اور رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ جماعت کی فوج کے اگر دو حصے تسلیم کرلئے جائیں تو وہ اِس کا بھی سردار ہے اور اُس کا بھی کمانڈر ہے اور دونوں کے نقائص کا وہ ذمہ دار ہے اور دونوں کی اصلاح اس کے ذمہ واجب ہے۔ اس لحاظ سے اس کیلئے یہ نہایت ضروری ہے کہ جب کبھی وہ اپنے خیال میں کسی حصہ میں کوئی نقص دیکھے تو اس کی اصلاح کرے۔ اپنے خیال میں مَیں نے اس لئے کہا ہے کہ انسان ہمیشہ غلطی کرسکتا ہے اور خلیفہ بھی غلطی کرسکتا ہے۔ میںنے کبھی اس عقیدہ کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی یہ اسلامی عقیدہ ہے کہ خلیفہ غلطی نہیں کرسکتا۔ اور بشری انتظام میں جب نبی بھی غلطی کرسکتا ہے تو خلیفہ کی کیا حیثیت ہے۔ پس یقینا خلیفہ بھی غلطی کرسکتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ امکان کیا ہے بلکہ یہ ہے کہ موقع کا تقاضا کیا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک باپ اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق فیصلہ کرنے میں غلطی کرجائے لیکن کیا اس غلطی کے امکان کی وجہ سے اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق انتظام کا اسے جو حق ہے وہ مارا جاتا ہے۔ ساری دنیا بِالْاتفاق اس بات کو مانتی ہے کہ باپ خواہ فیصلہ غلط کرے یا درست، اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق بہرحال اُس کو ہے۔ یہی صورت خلیفہ کے بارہ میں ہے۔ اس کی نسبت غلطی کا امکان منسوب کرکے اس کی ذمہ داری کو اُڑایا نہیں جاسکتا لیکن یہ ادنیٰ تمثیل ہے۔ باپ اور خلیفہ کے مقام میں کئی فرق ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری شریعت کہتی ہے کہ خداتعالیٰ جسے خلیفہ بناتا ہے اُس سے ایسی اہم غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کیلئے نقصان کا موجب ہو۔ گویاعصمتِ کبریٰ تو بطور حق کے انبیاء کو حاصل ہوتی ہے لیکن عصمتِ صغریٰ خلفاء کو بھی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں وعدہ فرماتا ہے کہ جو کام خلفاء کریں گے اُس کے نتیجہ میں اسلام کا غلبہ لازمی ہوگا۔ ان کے فیصلوں میں جُزئی اور معمولی غلطیاں ہوسکتی ہیں، ادنیٰ کوتاہیاں ہوسکتی ہیں مگر انجام کار نتیجہ یہی ہوگا کہ اسلام کو غلبہ اور اس کے مخالفوں کوشکست ہوگی یہ خلافت کیلئے ایک معیار قائم کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۱؎دین کے معنے مذہب کے بھی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے بھی دیکھ لو خلفائے اربعہ کا ہی مذہب دنیا میں قائم ہؤا ہے۔ بے شک بعض علیحدہ فرقے بھی ہیں مگر وہ بہت اقلیت میں ہیں۔ اکثریت اسی دین پر قائم ہے جسے خلفائے اربعہ نے پھیلایا مگر دین کے معنے سیاست و حکومت کے بھی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ جس سیاست او رپالیسی کو وہ چلائیں گے اللہ تعالیٰ اسے ہی دنیا میں قائم کرے گا اور بوجہ اس کے کہ ان کو عصمتِ صغریٰ حاصل ہے، خداتعالیٰ کی پالیسی بھی وہی ہوگی۔ بے شک بولنے والے وہ ہوں گے، زبانیں انہی کی حرکت کریں گی، ہاتھ انہی کے چلیں گے اور پیچھے دماغ انہی کا کام کرے گا مگر دراصل ان سب کے پیچھے خداتعالیٰ ہوگا۔ کبھی ان سے جُزئیات میں غلطیاں ہوں گی، کبھی ان کے مشیر غلط مشورہ دیں گے۔ بعض دفعہ وہ اور ان کے مشیر دونوں غلطی کریںگے لیکن ان درمیانی روکوں سے گزر کر کامیابی انہیں ہی حاصل ہوگی ۔ جب تمام کڑیاں مل کر زنجیر بنیں گی وہ صحیح ہوگی اور ایسی مضبوط کہ کوئی اسے توڑ نہ سکے گا۔
پس اِس لحاظ سے خلیفۂ وقت کا یہ فرض ہے کہ جس حصہ میں بھی اسے غلطی نظر آئے اس کی اصلاح کرے۔ جہاں اس کا یہ فرض ہے کہ منتظمین اورکارکنوں کی پوزیشن قائم رکھے، وہاں یہ بھی ہے کہ جماعت کی عظمت اور اس کے مشورہ کے احترام کو بھی قائم رکھے۔ اگر جماعت کسی وقت کارکنوں کے حقوق پر حملہ کرے تو اس کاکام ہے کہ اسے پیچھے ہٹائے۔ اگر کبھی کارکن جماعت کے حقوق کو دبانا چاہیں تو خلیفہ کا فرض ہے کہ انہیں روک دے۔ مجلس شوریٰ کی گزشتہ رپورٹوں سے جو چھَپی ہوئی ہیں یہ بات پوری طرح ظاہر ہوتی ہے کہ میں نے متوازی طور پر ان دونوں باتوں کا خیال رکھا ہے۔ اگر ناظروں پر جماعت نے ناواجب اعتراض کئے ہیں تو میں نے سختی کے ساتھ اور بے پرواہ ہوکر ان کے اس فعل کی قباحت کی وضاحت کی ہے اور اگر کبھی ناظروں نے جماعت کو اس کے حق سے محروم کرنا چاہا ہے تو اُن کو بھی ڈانٹا ہے۔ یہ متوازی سلسلہ جو خداتعالیٰ نے جاری رکھا ہے، میں نے ہمیشہ اِس کا خیال رکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اگر ایک طرف ناظروں کا احترام اور اعزاز جماعت کے دلوں میں پیدا کیا جائے تو دوسری طرف جماعت کی عظمت کو بھی قائم رکھا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اگر ایک حصہ کو چھوڑ دیا جائے تو دوسرے کی عظمت بھی قائم نہ رہ سکے گی۔ اور اگر دونوں کو چھوڑ دیا جائے تو باوجود نیک نیتی اور نیک ارادہ کے ایک حصہ دوسرے کو کھاجائے گا۔ اگر کارکنوں کے اعزاز اور احترام کا خیال نہ رکھا جائے تو نظام کا چلنا مشکل ہوجائے گا اور اگر جماعت کے حقوق کی حفاظت نہ کی جائے اور اس کی عظمت کو تباہ ہونے دیا جائے تو ایک ایسا آئین بن جائے گاجس میں خود رائی اور خودستائی غالب ہوگی اس لئے مَیں ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھتا ہوں کہ جس کی غلطی ہو اسے صفائی کے ساتھ کہہ دیا جائے۔ چنانچہ مجلس شوریٰ کی گزشتہ رپورٹوں سے یہ بات پوری طرح ظاہر ہوتی ہے کہ میںنے ناظروں کے اعزاز کو قائم کرنے کا پوری طرح خیال رکھا ہے۔ چنانچہ گزشتہ رپورٹوں سے ظاہر ہوگا کہ جب مجھے معلوم ہؤا کہ ناظر بعض جگہ گئے اور جماعت نے لاپروائی کا ثبوت دیا تو میں نے شوریٰ میں اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور بتایا کہ یہ طریق صحیح نہیں۔ جب بھی کوئی ناظر بحیثیت ناظر کسی جگہ جائے تو جماعت کا فرض ہے کہ اُس کا استقبال کرے اور اُس کا مناسب اعزاز کرے۔ چنانچہ اس کے بعد جماعت میں اس کا احساس پیدا ہؤا اور انہوں نے ناظروں کا مناسب اعزاز کیا۔ ابھی توہماری جماعت میںکوئی بڑے آدمی ہیں ہی نہیں لیکن بڑے سے بڑا آدمی بھی نظامِ سلسلہ کے لحاظ سے ناظروں کے ماتحت ہے اور جب بادشاہ ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں تو وہ بھی ناظروں کے ماتحت ہوں گے۔ خواہ کوئی ان ناظروں میں سے کسی بادشاہ کی رعایا کا فرد ہی کیوں نہ ہو اور نظام سلسلہ کے لحاظ سے وہ اس کے ماتحت ہوگا اور اس کو اس کا ادب و احترام اسی طرح کرنا ہوگا جیسے ایک ماتحت افسر کا کرتا ہے۔ اس حقیقت کی موجودگی میں عقلاً یہ ممکن ہی کس طرح ہوسکتا ہے کہ قانون پر چلتے ہوئے کوئی شخص ناظروں کی سُبکی یا ہتک کا خیال بھی کرسکے۔
مگر اس کے مقابلہ میں جماعت کے بھی حقوق ہیں۔ مثلاً جب ناظروں سے کوئی ملے تو خواہ وہ چھوٹے سے چھوٹا کیوں نہ ہو ناظر کافرض ہے کہ اُس کا ادب اور احترام کرے اور اگر میرے پاس یہ شکایت پہنچے کہ کوئی ناظر کسی چھوٹے آدمی کامناسب ادب نہیں کرتا تو اُس وقت میں افرادِ جماعت کے ساتھ ہوں گا۔ یوں میرے پاس بعض شکایات آتی ہیں میں ان کی تحقیقات نہیں کراتا کیونکہ میں نصیحت کو تحقیقات سے بہتر سمجھتا ہوں پس نصیحت کردیتا ہوں لیکن بہرحال ناظروں کا فرض ہے کہ جو لوگ ان سے ملنے آئیں ان سے عزت و احترام سے پیش آئیں۔ میں خود بھی کوئی کونے میں بیٹھنے والا شخص نہیں ہوں۔ ہر روز دس پانچ بلکہ بیس تیس اشخاص مجھ سے ملنے آتے ہیں جن میں غریب سے غریب بلکہ سائل بھی ہوتے ہیں بلکہ اکثر سائل ہوتے ہیں لیکن مَیں جیسا اعزاز بڑے سے بڑے آدمی کا کرتا ہوں ویسا ہی چھوٹے سے چھوٹے کا بھی کرتا ہوں۔ مثلاً حکومت کے عُہدہ کے لحاظ سے ہماری ہندوستان کی جماعت میں چوہدری سرظفراللہ خان صاحب سب سے بڑے عہدہ دار ہیں لیکن ان کے آنے پر بھی میں ان کا استقبال اسی طرح کرتا ہوں جس طرح ایک غریب کے آنے پر ۔ اور مَیں اس بارہ میں چوہدری صاحب اور ایک غریب کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا۔ اِسی طرح چوہدری صاحب کو کھڑا ہوکر ملتا ہوں جس طرح ایک غریب آدمی کو اور پہلے اُسے بٹھا کر پھر خود بیٹھتا ہوں۔ بعض غریب اپنے اندازہ سے زمین پر بیٹھنا چاہتے ہیں مگر میں نہیں بیٹھنے دیتا اور اُن سے کہہ دیتا ہوں کہ جب تک آپ نہ بیٹھیں گے میں بھی کھڑا رہوں گا۔ بعض دفاتر کے چپڑاسی آتے ہیں اور وہ زمین پر بیٹھنا چاہتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ نہیں آپ چپڑاسی کی حیثیت سے نہیں بلکہ مجھے خلیفہ سمجھ کر ملنے آئے ہیں۔ غرضیکہ جب تک آنے والے کو نہ بٹھالوں میں خود نہیں بیٹھتا۔ مجھے ملنے والوں کی تعداد ہزاروں تک ہے مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس میںکبھی تخلّف ہؤاہو سوائے اس کے کہ میں بیمار ہوں یا کسی کام میںمشغول ہونے کی وجہ سے کبھی غلطی ہوجائے۔ ہاں جلسہ سالانہ کے ایام مستثنیٰ ہیں۔ اُن دنوں میں ملنے والے اس کثرت سے آتے ہیں کہ ہر ایک کیلئے اٹھنا مشکل ہوتا ہے۔ ہاں اُن دنوں میںبھی جب کوئی غیراحمدی آئے تو چونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ میری مشکلات کو نہیں سمجھ سکتا اس کیلئے کھڑا ہوجاتا ہوں۔ یا پھر اُن ایام میں جب ملاقات کا زور نہ ہو تو کھڑا ہوتا ہوں۔ یہ میرا اصول ہے اور میں سمجھتا ہوں ناظروں کوبھی ایسا کرنا چاہئے اور اگر اس کے خلاف کبھی شکایت آئے تو میں چاہتا ہوں کہ جس کے خلاف شکایت ہو، اُسے تنبیہہ کی جائے۔ جب تک یہ بات قائم نہ ہو اسلام کی روح قائم نہیں ہوسکتی۔
ذرا غور کرو کہ خلیفہ چھوڑ نبی کا بھی کیا حق ہے کہ وہ بندوں پر حکومت کرے۔ اگر ہم مذہب اور اسلام کی روح کو سمجھتے ہیں تو اس خدمت کی روح کو بھی سمجھنا چاہئے جس کیلئے ہم کھڑے کئے گئے ہیں۔ کیا ہمارے لئے یہ بات کم ہے کہ خداتعالیٰ نے ہم کو ایک رُتبہ دے دیا ہے۔ وہ ہمیں ایک چھوٹا سا دنیوی کام کرنے کو دیتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اپنا مقرب بنالیتا ہے۔ گویا اُجرت اس نے ادا کردی پھر ہمارا کیا حق ہے کہ دونوں جگہ سے اُجرت وصول کریں۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا مزدور بھی ہوتا ہے جو دو جگہ سے اپنی اُجرت وصول کرے۔ پس جب خداتعالیٰ ہمیں اس خدمت کی اُجرت ادا کرتا ہے تو بندوں سے کیوں لیں قرآن کریم میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تُو کہہ دے کہ میں تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا۔ ۲؎ یہ نہیں فرمایا کہ میں اُجرت مانگتا ہی نہیں بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے نہیں مانگتا۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ مجھے اُجرت خداتعالیٰ سے مل رہی ہے۔ پس میرا فرض ہے کہ میں اس بات کا خیال رکھوں کہ یہ اصل ہماری جماعت میں قائم ہو۔ اور اگر اس میں غلطی ہو او رمیرے پاس شکایت آئے تو میں اس بات کا خیال رکھوںگا کہ غریب سے غریب آدمی کا حق بھی مارا نہ جائے اور اس بات کا خیال نہیں رکھوں گا کہ اس کا حق دلانے میں ناظر کی ہتک ہوتی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کاحق ہے جو بہرحال لیا جائے گا، خواہ اس میں کسی بڑے آدمی کی ہتک ہو یا چھوٹے کی۔لیکن اس کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کارکنوں کو جماعت میں ایک اعزاز حاصل ہے اور اگر کوئی فرد اسے نہیں سمجھتا یا ان کی طرف سے جو آواز اُٹھتی ہے اس پر کان نہیں دھرتا اور اپنی دُنیوی وجاہت کے باعث ناظر کو اپنے درجہ سے چھوٹا سمجھتا ہے تو یقینا وہ جماعت کا مخلص فرد نہیں۔ اُس کے اندر منافقت کی رگ ہے جو اگر آج نہیں تو کل ضرور پھُوٹے گی۔
پھر ناظروں کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ مجلس شوریٰ اپنے مقام کے لحاظ سے صدر انجمن پر غالب ہے۔ اس میں براہ راست اکثر جماعتوں کے نمائندے شریک ہوکر مشورہ دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ابھی بیرونی ممالک کی جماعتوںکے نمائندے شریک نہیں ہوسکتے لیکن جب ان میںبھی امراء داخل ہوجائیںگے یا جماعتیں زیادہ ہوجائیں گی اور وہ اپنے نمائندوں کے سفر خرچ برداشت کرسکیںگی اور سفر کی سہولتیں میسر ہوں گی۔ مثلاً ہوائی جہازوں کی آمدورفت شروع ہوجائے گی تو اُس وقت ان ممالک کے نمائندے بھی اس میں حصہ لے سکیں گے۔ پس مجلس شوریٰ جماعت کی عام رائے کو ظاہر کرنے والی مجلس ہے اور خلیفہ اس کا بھی صدر اور رہنما ہے۔ انبیاء کو بھی اللہ تعالیٰ نے مشورہ کا حکم دیا ہے اور خلافت کے متعلق تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَا خِلَافَۃَ اِلَّا بِالْمَشْوَرَۃِ ۳؎ خلیفہ کو یہ حق تو ہے کہ مشورہ لے کر ردّ کردے لیکن یہ نہیں کہ لے ہی نہیں۔ مشورہ لینا بہرحال ضروری ہے اور جب وہ مشورہ لیتا ہے تو قدرتی بات ہے کہ وہ اسے ردّ اسی صورت میں کرے گا کہ جب سمجھے گا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میری ذمہ داری کا یہی تقاضا ہے۔ اگر وہ شریف آدمی ہے اور جب اسے خداتعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ سمجھا جائے تو اس کی شرافت میں کیا شبہ ہوسکتا ہے تو وہ سوائے خاص حالات کے مشورہ کو ضرور مان لے گا۔ ہاں خاص صورتوں میں بوجہ اس کے کہ درحقیقت وہ خداتعالیٰ کا نمائندہ ہے اگر وہ سمجھے کہ اس بات کو ماننے سے دین کو یا اس کی شان و شوکت کو کوئی خاص نقصان پہنچتا ہے تو وہ اس مشورہ کو ردّ بھی کردے گا مگر اس اختیار کے باوجود اسلامی نظام مشورہ اور رائے عامہ کو بہت بڑی تقویت دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ اتنے لوگوں کی رائے کو جو پبلک میںظاہر ہوچکی ہو کبھی کوئی شخص خواہ وہ کتنی بڑی حیثیت کا ہو معمولی طور پر ردّ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ وہ کثرتِ رائے کو اُسی وقت ردّ کرسکتا ہے جب وہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی ذمہ داری کا یہی تقاضا ہے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ اکیلے شخص کو یہ جرأت نہیں ہوسکتی کہ وہ کثرتِ رائے کو ردّ کردے۔ کثرتِ رائے کو ردّ یا تو پاگل کرسکتا ہے اور یا پھر وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی طاقت ہے جو اس کی بات کو منوالے گی۔ پس خلفاء اُسی وقت ایسی رائے کو ردّ کردیں گے جبکہ وہ خداتعالیٰ کی مدد کایقین رکھیں گے اور سمجھیں گے کہ ہم صرف خداتعالیٰ کے منشاء کو پورا کررہے ہیں اور جب وہ خدائی طاقت سے جماعت کے مشورہ کو ردّ کریں گے تو ان کی کامیابی یقینی ہوگی۔
غرض اسلام نے شوریٰ کے نظام سے خودسری اور خودرائی۴؎ کیلئے ایک بڑی روک پیدا کر دی ہے۔ پھر تربیت کے لحاظ سے بھی مشورہ ضروری ہے کیونکہ اگر مشورہ نہیں لیا جائے گا تو جماعت کے اہم امور کی طرف افراد جماعت کو توجہ نہیں ہوگی اس لئے بعد میںآنے والا خلیفہ بوجہ ناتجربہ کاری اور حالاتِ سلسلہ سے ناواقفیت کے بالکل بُدّھو ہوگا۔ یہ کسی کو کیا علم ہے کہ کون پہلے مرے گا اور کون بعد میں اور کس کے بعد کس نے خلیفہ ہونا ہے اس لئے یہ حکم شریعت نے دے دیا ہے کہ مشورہ ضرور لو تا جماعت کی تربیت ہوتی رہے اور جو بھی خلیفہ ہو وہ سیکھا سکھایا ہو اور نئے سرے سے اُس کو نہ سیکھنا پڑے۔ اس میں اور بھی بیسیوں حکمتیں ہیں مگر میںاِس وقت انہیں نہیں بیان کررہا ۔ مختصر یہ ہے کہ شوریٰ خداتعالیٰ کی طرف سے خاص حکمت کے ماتحت ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ۵؎گویا مشورہ والی انجمن کو قرآنی تائید حاصل ہے اور اس کا ذکر قرآن کریم میں کرکے اسے اہم قرار دے دیا ہے۔ گو قرآن کریم میں کارکنوں کا بھی ذکر ہے مگر شوریٰ کو ایک فضیلت دی گئی ہے اور جب جماعت کے مختلف افراد مل کر ایک مشورہ دیں اور خلیفہ اسے قبول کرلے تو وہ جماعت میں سب سے بڑی آواز ہے اور ہر خلیفہ کا فرض ہے کہ وہ دیکھے جس مشورہ کو اس نے قبول کیا ہے اس پر کارکن عمل کرتے ہیں یا نہیں اورکہ اس کی خلاف ورزی نہ ہو۔ یہ دو مختلف پہلو ہیں جنہیں نظر انداز کرنے کی وجہ سے دونوں فریق اعتراض کرتے ہیں۔ جب میں جماعت کے دوستوں کو ان کی غلطی کی وجہ سے سمجھاتا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ ضمیر کی حریت کہاںگئی اورجب میں دیکھوں کہ ناظروں نے غلطی کی ہے اور اُن کو گرفت کروں تو بعض دفعہ اُن کو بھی شکوہ پیدا ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کام میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں مگر مجھ پر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا فرض ہے جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کرسکتا اور دراصل خلافت کے معنی ہی یہ ہیں۔
دوسرا حصہ اس سوال کا یہ ہے کہ ناظروں پر تنقید خلیفہ کی تنقید کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مجھے اس کے تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ اگر اسی مجلس شوریٰ کو لے لیا جائے تو جس حصہ پرمیں نے تنقید کی ہے اس پر میری تنقید سے پہلے بہت سی تنقید ہوچکی تھی اور میں نے جو تنقید کی وہ بعد میںتھی اور شوریٰ کے ممبر بہت سی تنقید پہلے کرچکے تھے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ ناظر تنقید سے گھبراتے کیوں ہیں؟ ان کا مقام وہ نہیں کہ تنقید سے بالا سمجھاجاتا ہو۔ ہر کارکن خلیفہ نہیں کہلاسکتا۔ میرے نزدیک اس بارہ میں جماعت اور ناظر دونوں پر ذمہ داری ہے ۔ جماعت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خیال رکھیں کہ ان میں سے جو لوگ سلسلہ کیلئے اپنی زندگیوں کو وقف کرکے بیٹھے ہوئے ہیں ان کا مناسب احترام کیا جائے اور ناظروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جماعت کی تنقید کو ایک مخلص بھائی کے مشورہ کے طور پر سُنیں کیونکہ ان کا مقام تنقید سے بالا نہیں ہے۔ پارلیمنٹوں میں تو وزراء کو جھاڑیں پڑتی ہیں جس کی حد نہیں مگر پھر بھی وزراء کے رُعب میں فرق نہیں آتا۔ یہاںتو میں روکنے والا ہوں، مگر وہاں کوئی روکنے والا نہیںہوتا۔ گالی گلوچ کوسپیکر روکتاہے ، سخت تنقید کو نہیں بلکہ اسے مُلک کی ترقی کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے پس اس تنقید سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ اگرتنقید کا کوئی پہلو غلط ہو تو ثابت کریں کہ وہ غلط ہے اور اگر وہ صحیح ہے تو بجائے گھبرانے کے اپنی اصلاح کریں۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا ثابت کرنا یا ردّ کرنا مشکل ہوتا ہے اور ان کی بنیاد ایسے باریک اصول پر ہوتی ہے کہ ان کی وجہ سے کوئی منطقی نتیجہ نکالنا قریباً ناممکن ہوتا ہے۔ مثلاً دو کمرے ایک سے ہوں اور یہ سوال ہو کہ ان میں سے کس میں بستر بچھانے چاہئیں اور کس کو بیٹھنے اُٹھنے کیلئے استعمال کرنا چاہئے تو یہ ایک ذَوقی سوال ہوگا لیکن دو شخص اگر اس پر بحث شروع کردیں کہ کیوں اس میں بستر بچھانا چاہئے اور دوسرے میں بیٹھنا اُٹھنا چاہئے تو یہ بحث خواہ مہینوں کرتے رہیںنتیجہ کچھ نہ ہوگا۔ تو اس قسم کی ذوقی باتوں کو چھوڑ کر باقی باتوں کو ثابت یا ردّ کیا جاسکتا ہے اوراگر اعتراض نامناسب رنگ میںہوگا تو یا تو وہ کسی معذور کی طرف سے ہوگا جو بوجہ بڑھاپے کے یا ناتجربہ کاری یا سادگی کے ایسا کرے گا اور اس صورت میں سب محسوس کرلیںگے کہ اس شخص کے الفاظ کی کوئی قیمت نہیں اور اس کو روکنا فضول ہوگا۔ ایسی بات پر صرف مسکرا کر یا استغفار کرکے گزرجانا ہی کافی ہوگا لیکن اگر ایسا نہ ہو تو مجلس شوریٰ کی رپورٹیں اِس پر گواہ ہیں کہ میں نے نامناسب رنگ میںاعتراض کرنے والوں کو ہمیشہ سختی سے روکا ہے اور جنہوں نے غلط تنقید کی ان کواس پر تنبیہہ کی ہے اور اگر آئندہ بھی ایسا ہوگا تو اِنْشَائَ اﷲُ روکوں گا۔ اگر ساری جماعت بھی غلط تنقید کرے گی تو اسے بھی روکوںگا اور خداتعالیٰ کے فضل سے ڈروں گا نہیں۔ اس قسم کا لحاظ میں نے کبھی نہیں کیا کہ غلط طریق اختیار کرنے پر کسی کو تنبیہہ نہ کروں۔ ہاںاِس وجہ سے چشم پوشی کرنا کہ کام کرنے والوںسے غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں، اَور بات ہے۔ ایسی چشم پوشی مَیں جماعت سے بھی کرتا ہوں اور کارکنوں سے بھی۔ ورنہ میں نہ جماعت سے ڈرتا ہوں اور نہ انجمن سے۔ اور جب بھی میں نے موقع دیکھا ہے جماعت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے اور انجمن کو بھی۔
اِس سوال کا تیسرا حصہ جو پہلے سے ملتا جلتا بھی ہے اور علیحدہ سوال بھی۔ وہ یہ ہے کہ تنقید ایسے رنگ میں کی جاتی ہے کہ جس سے ناظروں کی بے رُعبی ظاہر ہوتی ہے لیکن میںاس سے بھی متفق نہیں ہوں۔ جو لوگ خداتعالیٰ کے دین کے کام کیلئے کھڑے ہوں ان کی بے رُعبی نہیں ہو سکتی۔ جب تک جماعت میں اخلاص اور ایمان باقی ہے کوئی ان کی بے رُعبی نہیںکرسکتا۔ ان کے ہاتھ میں سلسلہ کا کام ہے۔ پس جو ان کی بے رُعبی کرے گا یہ سمجھ کر کرے گا کہ اس سے سلسلہ کی بے رُعبی ہوگی اور اس کیلئے کوئی مخلص مؤمن تیار نہیں ہوسکتا۔ ہاں بعض دفعہ بعض لوگ نادانی سے ایسا کرجاتے ہیں مثلاً اس دفعہ ہی سرگودھا کے ایک دوست نے نامناسب الفاظ استعمال کئے لیکن میں بھی اور دوسرے دوست بھی محسوس کررہے تھے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ یہ باتیں نہیں کررہے۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ ان کی باتوں پر دوست بِالعموم مسکرارہے تھے اور سب یہ سمجھتے تھے کہ یہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں غلط کہہ رہے ہیں اور جوش میں انہیں اپنی زبان پر قابو نہیں رہا اور ظاہر ہے کہ ایسی بات کی تردید کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے۔ چنانچہ میں نے اس کی تردید نہ کی اور میں سمجھتا ہوں تردید نہ کرنے سے لوگوں نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ باتیں وزنی ہیں بلکہ غالب حصہ کو یہی یقین تھا کہ یہ تردید کے قابل ہی نہ تھیں۔ کیونکہ دوست خود اُن کی باتوں پر ہنس رہے تھے اور بعض کے ہنسنے کی آواز میں نے خود سُنی اور ہنسی کی وجہ یہ خیال تھا کہ انہوں نے کیا بے معنی نتیجہ نکالا ہے۔ اور جب جماعت پر ان کی بات کا اثر ہی نہ تھا اور سب سمجھ رہے تھے کہ یہ اپنی سادگی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ باتیں کررہے ہیں تو ان کی تردید نہ کرنے سے نقصان کیا ہوسکتا تھا لیکن اس کے بِالمقابل اسی مجلس شوریٰ میں مَیں نے ایک مثال سنائی تھی کہ ایک انجمن نے جو کسی گائوں یا شہر کی انجمن نہ تھی بلکہ پراونشل انجمن تھی، مجھے لکھا کہ ہم نے صدر انجمن کو یہ بات لکھی ہے جو اگر اس نے نہ مانی تو اس کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے نہیں رہیں گے۔ میں نے انہیں لکھا کہ صدر انجمن جو کچھ کرتی ہے چونکہ وہ خلیفہ کے ماتحت ہے اس لئے خلیفہ بھی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے اور جب آپ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی بات نہ مانی گئی تو صدرانجمن کے ساتھ آپ کے تعلقات اچھے نہ رہ سکیںگے تو ساتھ ہی آپ نے یہ بھی سوچ لیا ہوگا کہ خلیفہ کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات اچھے نہ رہیں گے اور اس صورت میں آپ کو نئی جماعت ہی بنانی پڑے گی، اِس جماعت میں آپ نہیںرہ سکیں گے۔ تو کیا کوئی سمجھ سکتا ہے کہ اس بات کے سننے کے بعد بھی کسی احمدی کے دل میں ناظروں کا رُعب مٹ سکتا ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ شوریٰ کے ممبروں نے ناظروں کے کام پر تنقید کو تو سُن لیا مگر یہ بات انہوں نے نہ سُنی ہوگی اور یہ بات جو میںنے ایک دو آدمیوں کو نہیں بلکہ ایک صوبہ کی انجمن کو لکھی تھی اس کے سننے کے بعد کس طرح ممکن ہے کہ ناظروں کا رُعب مٹ جائے۔
اس میں شُبہ نہیں کہ اس شوریٰ میں جرح زیادہ ہوئی ہے ۔ مگر ناظروں کو بھی ٹھنڈے دل کے ساتھ یہ سوچنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہؤا۔ ایسا اس وجہ سے نہیں ہؤا کہ میں نے بھی ان پر تنقید کی تھی۔ جب وہ چھپے گی تو ہر شخص دیکھ سکے گا کہ شوریٰ کے ممبروں نے جو جرح کی وہ میری تنقید کے نتیجہ میںنہ تھی اور حق بات یہ ہے کہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور جس کا مجھے شدید احساس ہے کہ ناظر شوریٰ کے فیصلوں پر پوری طرح عمل نہیں کرتے اور واقعات اس بات کو پوری طرح ثابت کرتے ہیں کہ وہ ان پر خاموشی سے گزرجاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیا جاتا ہے کہ سال کے آخر پر ناظر اعلیٰ دوسری نظارتوں سے پوچھ لیتا ہے کہ ان فیصلوں کا کیا حال ہؤا۔ اور پھر یا تو یہ کہہ دیتا ہے کہ کوئی جواب نہیں ملا اور یا یہ کہ کوئی عمل نہیں ہؤا۔ میںیہ بھی مان لیتا ہوں کہ بعض فیصلے ناظروں کے نزدیک ناقابلِ عمل ہوتے ہیں مگر ایسے فیصلوں کو قانونی طور پر بدلوانا چاہئے۔ وہ ایسے فیصلوں کو میرے سامنے پیش کرکے مجھ سے بدلواسکتے ہیں۔ وہ میرے سامنے پیش کردیں میں اگر چاہوں تو دوسری شوریٰ بُلوالوں یا چاہوںتو خود ان فیصلوں کو ردّ کردوں۔ اور پھر اگر دوسری شوریٰ میںان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ان پر اعتراض ہو تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ فیصلہ ردّ ہوچکا ہے۔ لیکن اگر وہ فیصلہ جُوں کا تُوں قائم رہے اور پھر وہ اس پر عمل نہ کریں تو جماعت کے اندر بے انتظامی اور خودرائی کی ایسی روح پیدا ہوتی ہے جس کی موجودگی میں ہرگز کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اگر شوریٰ میں ایک فیصلہ ہوتا ہے تو ان کا فرض ہے کہ اس پر عمل کریں اور اگر وہ اس کوقابل عمل نہیں سمجھتے تو اس کو منسوخ کرائیں لیکن ایسے فیصلوں کی ایک کافی تعداد ہے جن پر کوئی عمل نہیں کیا جاتا۔ مثلاً اسی شوریٰ میںایک سوال پیدا ہؤا تھا جس سے جماعت میں جوش پیدا ہؤا۔ ۱۹۳۰ء کی شوریٰ میں فیصلہ ہؤا تھا کہ سلسلہ کے اموال پر وظائف کا جو بوجھ ہے اسے ہلکا کرنا چاہئے۔ یہ تو صحیح ہے کہ جس احمدی کے پاس روپیہ نہ ہو وہ مستحق ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے انجمن سے مدد مانگے اور اگر انجمن کے پاس ہو تو اس کا فرض ہے کہ مدد کرے مگر اس طرح مدد لینے والے کا یہ بھی فرض ہے کہ جب وہ مالدار ہوجائے تو پھر اسے ادا کرے۔ ۱۹۳۰ء کی شوریٰ میں یہ فیصلہ ہؤا تھا کہ آئندہ پانچ سال میں گزشتہ تعلیمی وظائف کی رقوم وصول کی جائیں اور پھر آئندہ اسی رقم میں سے وظائف دیئے جائیں، عام آمد سے امداد نہ کی جائے اور اس کیلئے ناظربیت المال کو ذمہ دار مقرر کیا گیا تھا۔ یہ پانچ سال ۱۹۳۵ء میں پورے ہوتے تھے اور ۱۹۳۵ء کے بعد وظائف اسی وصول شدہ رقم میں سے دیئے جانے چاہئیں تھے لیکن تین سال ہوچکے ہیں مگر وظائف برابر خزانہ سے ادا کئے جارہے ہیں۔ شوریٰ کے ممبروں میں سے ایک کو یہ بات یاد آئی اور اُس نے اعتراض کردیا کہ جب یہ فیصلہ ہؤا تھا تو اس پر کیا کارروائی کی گئی اور اب وظائف گزشتہ وظائف کی وصول شدہ رقم میں سے دیئے جاتے ہیں یا سلسلہ کے خزانہ پر ہی بوجھ ہے اور اگر ایسا ہے تو کیوں؟ اب ظاہر ہے کہ اگر اس تنقید کا دروازہ بند کردیا جائے تو سلسلہ کیوں تباہ نہ ہوگا اور اسے ناظروں کی بے رُعبیکے ڈر سے کیونکر روکا جاسکتا ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی ناظر نماز نہ پڑے اور ہم اسے کہیں تو کہا جائے کہ اس بات سے ناظروں کی بے رُعبیہوتی ہے لیکن میںکہوںگا کہ اس کے نہ کہنے سے سلسلہ کی بے رُعبی ہوتی ہے۔ پس یہ اعتراض روکا نہیں جاسکتا تھا اور اس کیلئے جواب دینا ضروری تھا۔
عام پارلیمنٹوں میں یہ قاعدہ ہے کہ وزراء بعض دفعہ کوئی ٹلاواں جواب دے دیتے ہیں تا اس پر مزید جرح نہ ہوسکے اور بات مخفی رہے لیکن یہاں یہ نہیںہوسکتا۔ بحیثیت خلیفہ میرا فرض ہے کہ صحیح جواب دلوائوں۔ پہلے اس سوال کے ایسے جواب دیئے گئے جو ٹالنے والے تھے مگر آخر اصل جواب دینا پڑا کہ اس فیصلہ پر عمل نہیں کیا گیا۔ اب اگر اس میں نظارتوں کی بے رُعبیہوئی تو اس کی ذمہ دار نظارت ہے۔ اگر اس قسم کی تنقید کو روک دیا جائے تو سلسلہ کا نظام ایسا گرجائے گا کہ اس کی کوئی قیمت نہ رہے گی۔
اس میں شک نہیں کہ بعض دفعہ شوریٰ بھی غلط فیصلے دیتی ہے۔ مثلاًاسی سال کی مجلس شوریٰ میں پہلے ایک مشورہ دیا گیا اور پھر اس کے خلاف دوسرا مشورہ دیا گیا جس کی طرف مجھے توجہ دلانی پڑی۔ تو ایسی غلطیاںمجلس شوریٰ بھی کرسکتی ہے، انجمن بھی کرسکتی ہے اور خلیفہ بھی کرسکتا ہے بلکہ بشریت سے تعلق رکھنے والے دائرہ کے اندر انبیاء بھی کرسکتے ہیں۔ جو بالکل غلطی نہیں کرسکتا وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر اس کے یہ معنی نہیںکہ شوریٰ کو تنقید کا جو حق ہے وہ ماردیا جائے۔ گو شوریٰ غلطی کرسکتی ہے مگر اس سے اس کا حق باطل نہیں کیا جاسکتا۔ اور ناظر بھی غلطی کرسکتے ہیں مگر ان کے دائرہ عمل میں ان کے ماتحتوں کا فرض ہے کہ ان کی اطاعت کریں۔ ہاں جو امور شریعت کے خلاف ہوں ان میں اطاعت نہیں ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایک صحابی کو ایک چھوٹے سے لشکر کا سردار بنا کر بھیجا۔ راستہ میں انہوں نے کوئی بات کہی جس پر بعض صحابہ نے عمل نہ کیا ، اس پر وہ ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ مجھے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تم لوگوں پر امیر مقرر کیا ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہؤا ہے کہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور جب میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا قائمقام ہوں تو تم نے میری نافرمانی کیوں کی؟ اس پر صحابہ نے کہا کہ ہم آپ کی اطاعت کریں گے۔ انہوں نے کہا اچھا میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ اطاعت کرتے ہو یا نہیں۔ چنانچہ انہوں نے آگ جلانے کا حکم دیا اور جب آگ جلنے لگی تو صحابہ سے کہا کہ اس میں کُود پڑو۔ بعض تو آمادہ ہوگئے مگر دوسروں نے اُن کو روکا اور کہا کہ اطاعت امورِ شرعی میں ہے ان کو تو شریعت کی واقفیت نہیں اس طرح آگ میں کُود کر جان دینا ناجائز ہے اور خداتعالیٰ کاحکم ہے کہ خودکشی نہیں کرنی چاہئے۔ جب یہ امر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہؤا تو آپ نے اس میں اُن لوگوں کی تائید کی جنہوں نے کہا تھا کہ آگ میں کُودنا جائز نہیں۔۶؎
پس میں جو کہتا ہوں کہ ناظر کے دائرہ عمل میں اس کی اطاعت کرنی چاہئے تو اس کا یہ مطلب نہیںکہ اگر کوئی ناظر کسی سے کہے کہ جھوٹ بولو تو اسے بولنا چاہئے۔ نظارت کے شعبہ میں جھوٹ بُلوانا شامل نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ناظر کہے کہ کسی کو قتل کردو تو اس میں اس کی اطاعت جائز نہیں۔ اطاعت صرف شریعت کے محدود دائرہ میںضروری ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ غلطی ہر شخص کرسکتا ہے ممکن ہے کسی فیصلہ میں ناظر بھی غلطی کرے لیکن اس دائرہ میں اس کی غلطی کو بھی ماننا پڑے گا۔
پس خلیفہ کا فیصلہ مجلسِ شوریٰ اور نظارت کیلئے ماننا ضروری ہے۔ اسی طرح شوریٰ کے مشورہ کو سوائے استثنائی صورتوں کے تسلیم کرنا خلیفۂ وقت کیلئے ضروری ہے اور جس مشورہ کو خلیفۂ وقت نے بھی قبول کیا اور جسے شرعی احکام کے ماتحت عام حالتوں میں خلیفہ کو بھی قبول کرنا چاہئے یقینا نظارت اس کی پابند ہے خواہ وہ غلط ہی ہو۔ ہاں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کسی فیصلہ کی موجودگی میں وہ کام کو نہیں چلاسکتے تو ان کو چاہئے کہ اسے پیش کرکے وقت پرمنسوخ کرالیں لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ ہر شوریٰ میں کچھ نہ کچھ شور ضرور اُٹھتا ہے کہ فلاں فیصلہ پرعمل نہیں ہؤا، فلاں قانون کو نظرانداز کردیا گیا ہے، پھر ایسی باتوں پر کس طرح پردہ پڑ سکتا ہے۔ اور جب ایک نقص ظاہر ہو تومیرا فرض ہے کہ میں نظارت کو اس نقص کے دور کرنے کی طرف توجہ دلائوں کیونکہ میں صدرانجمن احمدیہ کا رہنما ہونے کی حیثیت میں خود بھی اس خلاف ورزی کا گو قانونی طور پر نہیں مگر اخلاقی طور پر ذمہ دار ہوجاتا ہوں۔ پس میرا فرض ہے کہ غلطی پر اس کی اصلاح کی طرف توجہ دلائوں۔
غرض ناظروں کا یہ فرض ہے کہ شوریٰ کے فیصلوں کی پابندی کریں یا پھر ان کو بدلوالیں لیکن جب تک وہ فیصلہ قائم ہے ناظروں کا اس پر عمل کرنا ویسا ہی ضروری ہے جیسا ان کے ماتحت کلرکوں اور دوسرے کارکنوں کا ان کے احکام پر۔ اگر ناظر اس طرح کریں تو بہت سے جھگڑے مٹ جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدر انجمن احمدیہ کا فرض ہونا چاہئے کہ ہر شوریٰ کے معاً بعد ایک میٹنگ کرکے دیکھے کہ کونسا فیصلہ کس نظارت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور پھر اسے ناظر متعلقہ کے سپرد کرے کہ اِس پر عمل ہو اور وقت مقرر کردیا جائے کہ اس کے اندر اندر اس فیصلہ کی تعمیل پوری طرح ہوجائے اور پھر اس مقررہ وقت پر دوسری میٹنگ کرکے دیکھے کہ عمل ہؤا ہے یا نہیں۔ اس طرح تنقید کا سلسلہ خودبخود بند ہوجائے گا اور اگر کوئی نمائندہ غلط تنقید کرے تو میرا فرض ہے کہ اسے روکوں۔ پھر بعض اوقات ناظر صحیح جواب پیش نہیں کرتے۔ اب کے ایک اعتراض بجٹ کے بروقت تیار نہ ہونے پر تھا۔ اس کا جواب صاف تھا جو آخر خانصاحب فرزند علی صاحب نے اشارۃً دیا مگر جب اس کے غلط جواب دیئے جارہے تھے تو میں چوہدری سر ظفراللہ خانصاحب سے کہہ رہا تھا کہ یہ صحیح جواب کیوں نہیں دیتے اس تأخیر کیلئے ذمہ وار تو میں ہوں۔ میں نے جب بجٹ کا بہت سا کام ہوچکا تھا یہ ہدایت بھجوائی تھی کہ اِس اِس طرح تخفیف کرکے بجٹ پھر تیار کیا جائے اور اس لئے تأخیر کی ذمہ داری کو قبول کرنے کیلئے مَیں تیار تھا۔ خانصاحب نے اسے بیان تو کیا مگر اشارۃً ہی۔ آخر میں نے بِالوضاحت یہ کہا کہ اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور نظارت کیلئے تو یہ امر قابلِ تعریف ہے کہ جب میں نے بڑھتے ہوئے اخراجات کو دیکھ کر اسے نئے سرے سے بجٹ تیار کرنے کو کہا تو اس نے دوبارہ محنت کی۔ ایسے حالات میں صحیح جواب اگر دے دیا جائے تو بھی تنقید کا دروازہ بند ہوجاتا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ شوریٰ کے فیصلوں کی ناظر پوری طرح پابندی کریں۔ اگر کوئی رکاوٹ دیکھیں تو میرے سامنے پیش کریں۔ اگرمیں اسے منسوخ کردوںتو ان کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی اور اگر اس کیلئے دوسری شوریٰ بُلوائوں تو بھی ان کی ذمہ داری ختم سمجھی جائے گی لیکن اگر ان صورتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو ان کا فرض ہے کہ جس طرح بھی ہوسکے عمل کریں۔ میںنے وظائف کے متعلق فیصلہ کی جو مثال دی ہے اس میں کوئی ایسا کام نہیں تھا جو کیا نہ جاسکتا ہو۔ ۱۹۳۵ء میں ناظر بیتُ المال کا فرض تھا کہ صورتِ حالات مجلسِ شوریٰ کے پیش کردیتے اور جتنی رقم جمع ہوتی اُس کے متعلق کہہ دیتے کہ اتنی رقم ہے صرف اسی میں سے وظائف دیئے جائیں یا خزانہ میں سے مدد لی جائے؟ یہ اتنا معمولی کام تھا کہ جس میں کسی محنت کی ضرورت نہ تھی۔ نہ کلرکوں کی اور نہ نائب ناظر کی امداد درکار تھی۔ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ وظائف کے معاملہ میں شوریٰ کا رُحجان بند کرنے کی طرف نہیں ہوتا۔ جماعت کے دوست چونکہ عام طور پر غریب ہیں اس لئے کسی کا دوست ، کسی کا رشتہ دار ، کسی کا گائوں یا شہر اورکسی کا ضلع فائدہ اُٹھارہا ہوتا ہے اس لئے وہ ضرور یہی مشورہ دیتے کہ وظائف بند نہ کئے جائیں اور مزید روپیہ ان کیلئے منظور کردیا جاتا اور پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر جماعت کو علم ہوجاتا ہے کہ وصولی کم ہوئی ہے تو وہ ہوشیار ہوجاتی اور نادہندوں کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کرنے کامشورہ دیتی۔ بہرحال جو بھی ہوتا قانون کے مطابق ہوتا اور اس کیلئے کسی محنت کی ضرورت نہ تھی۔ صرف ایک دو منٹ میں معاملہ پیش ہی کردینا تھا کہ اتنا روپیہ وصول ہؤا ہے اور اتنے وظائف ہیں۔ اسی رقم سے وظائف دیئے جائیں یا مزید روپیہ خزانہ سے لیا جائے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے چونکہ ممبروں کا میلان وظائف جاری رکھنے کی طرف ہی ہوتا ہے اگر وہ اس طرح کرتے تو پھر بھی ہونا وہی تھا جو اَب ہؤا ہے مگر وہ جائز ہوتا اور یہ ناجائز ہے اور اس طرح مسلسل قانون ٹوٹتا رہا ہے۔ وظائف کو اُڑانے کا سوال جب بھی پیدا ہؤا ہے ننانوے فیصدی ممبروں نے یہی مشورہ دیا ہے کہ ہم مزید بوجھ اُٹھالیں گے مگر ان کو بند نہ کیا جائے۔ تو اس صورت میں بھی ہونا تو وہی تھا جو اَب ہؤا ۔ مگر اعتراض کی صورت نہ رہتی اور شوریٰ کے فیصلہ پر عمل ہوجاتا۔ اور جب شوریٰ انجمن کی حاکم ہے تو ناظروں کا فرض ہے کہ اس کی اطاعت کریں اور اس کے فیصلوں پر عمل کریں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ اس قسم کی تنقید سے جماعت کے کام میں رُوک پیدا ہوتی ہے مگر میں اس سے بھی متفق نہیں ہوں کیونکہ میں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتا ہوں کہ تنقید نامناسب رنگ میں نہ ہو اور اس قسم کی تنقید کرنے والوں کو میں سختی سے روکتا ہوں۔ مثلاً فیروزپور کے دو بھائی پہلے بہت تنقید کیا کرتے تھے مگر میں نے اُن کو سختی سے روکا اور اب میںنے دیکھا ہے کہ انہوں نے بہت اصلاح کرلی ہے اور بھی بعض لوگ سخت تنقید کیا کرتے تھے مگر میرے سختی سے روکنے کا یہ اثر ہے کہ اب اعتراضات بہت سلجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس سال کی شوریٰ میں ایک مثال ایسی ہے جو نامناسب تنقید کہلاسکتی ہے۔ مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے عام طور پر دوستوں نے اُسے ہنسی میں ٹال دیا اور تردید کے قابل نہیں سمجھا۔ یہ صاحب ایک لمبے عرصہ تک قادیان نہیں آئے جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ریل میں نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ شاید ایک دفعہ کوئی ٹکر ہوگئی تھی یا کیا ہؤا کہ انہوں نے ریل میں سوار ہونا ترک کردیا اور اِس وجہ سے کبھی قادیان بھی نہ آئے۔ اب دو تین سال سے وہ آنے لگے ہیں اوراب ان کے بڑھاپے کی عمر ہے پہلے چونکہ وہ آتے نہیں رہے اس لئے شوریٰ کی روایات سے انہیں پوری طرح واقفیت نہیں اس لئے وہ کسی وقت کوئی ایسی بات کردیتے ہیں جو شوریٰ کے قواعد کے خلاف ہوتی ہے۔ اِس امر کو سب دوست جانتے ہیں اس دفعہ نظارت کے متعلق بعض نامناسب الفاظ انہوں نے ہی کہے تھے اور میرا یہ اثر ہے کہ جماعت پر ان الفاظ کا کوئی اثر نہ تھا۔
۲۔ جماعت احمدیہ اور بعض حکام کے تعلقات
اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ سال جو واقعہ ہمارے ایک نوجوان کی نادانی سے سلسلہ کی تعلیمات کے صریح خلاف اور میرے متعدد خطبات اور تقریروں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ہوگیا تھا یعنی اس نے ایک شخص پر جو جماعت سے خارج ہوچکا تھا حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں وہ مرگیا۔ اس کے ازالہ کیلئے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ اس کا کفارہ ادا کیا جائے اور وہ یہ کہ اب اگر ہم پر سختی بھی ہو تو ہم اسے ایک عرصہ تک خاموشی کے ساتھ برداشت کرتے جائیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اُس زمانہ میں اُس ضلع کے جو ڈپٹی کمشنر تھے اُن کو ہماری وجہ سے بہت شرمندگی اُٹھانی پڑی۔ وہ گورنمنٹ کو ہمیشہ یہ یقین دلاتے تھے کہ اس جماعت کی طرف سے کوئی اندیشہ قانون کو ہاتھ میں لینے کا نہیں ہوسکتا اور کہ میںاس بات کا ذمہ دار ہوں۔اور جب ہمارے ایک نوجوان نے اِس طرح غلطی کی تو اُن کو جو دکھ ہوسکتا تھا وہ ظاہر ہے اور اس لئے میں نے سمجھا کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم قربانی کرکے اُن کے اِس دکھ کو دور کردیں۔ چنانچہ بعض دفعہ جماعت کے حقوق تلف کئے جاتے رہے اور میںہمیشہ جماعت سے یہی کہتا رہا کہ اپنا حق جانے دو اس لئے کہ ہم میں سے ایک شخص نے ایک ایسی غلطی کی ہے جس کا کفارہ ضروری ہے۔ غلطی خواہ جماعت کا ایک فرد ہی کرے اس میں شک نہیں کہ ہم اس کے بداثر سے باہر نہیں رہ سکتے۔ یہ صحیح ہے کہ شرعی اور اخلاقی طور پر ہم اس کے ذمہ دار نہیں لیکن اس کا بُرا اثر ہم پر ضرور پڑے گا۔ کسی کا بیٹا بدمعاش ہو تو خداتعالیٰ کے حضور یا قانون کے نزدیک اس پر ذمہ داری نہیں لیکن بدنامی سے حصہ اسے ضرور ملے گا گو اس کے تعلق سے وہ کتنا ہی بری الذمہ کیوں نہ ہو۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس حرکت کے خلاف ہم نے انتہائی نفرت کااظہار کیا اورکرتے ہیں مگر باوجود اس کے بدنامی سے نہیں بچ سکتے اور اگر خدانخواستہ ہم میںسے پھر کوئی ایسی حرکت کرے گا تو اس کی بدنامی سے بھی سلسلہ کی بدنامی ضرور ہوگی۔ چاہے ہم لوگوں کو کتنا ہی یقین کیوں نہ دلائیں کہ ہم نے یہ کہا تھا اور وہ کہا تھا یہ گویا ایک جماعتی ورثہ ہوتا ہے جو ضرور مل کر رہتا ہے۔ ایک خاندان اگر نیک نام ہو تو اس کے کسی بدمعاش فرد پر بھی لوگ اعتبار کرلیتے ہیں لیکن اگر کوئی خاندان بدمعاش ہو تو اُس کے نیک فرد کا بھی کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ جب بدنامی آتی ہے تو جماعت کو بھی اس سے حصہ ملتا ہے جس طرح نیک نامی سے ملتا ہے۔ اس خیال کے ماتحت میں نے یہ رویہ اختیار کیا اور جماعت کو یہی مشورہ دیا کہ گورنمنٹ کی طرف سے اِن دنوں ہمارے ساتھ جو ناانصافیاں کی جائیں ان کو برداشت کرو اور اس طرح وہ موقع آنے دو جب ہماری مظلومیت بالکل واضح ہوجائے۔ اگر حکومت میرے اس طریق کی قدروقیمت کو سمجھتی تو بہت زیادہ امن قائم ہوجاتا کیونکہ میں نے اپنا رستہ چھوڑ کر اُس کی بات کو ماننے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا اور یہ اس لئے کیا تھا کہ ہمیں اس غلطی کا خمیازہ بھُگتنا چاہئے جو ہمارے ایک فرد سے ہوئی ہے۔ کانگرسیوں کی غلطی کی وجہ سے گاندھی جی چودہ روز کا بَرت رکھتے ہیں مگر ہم نے نو ماہ سے زیادہ عرصہ تک یہ بَرت رکھا ہے اور اتنا لمبا عرصہ تک ان تمام الزامات کو سُنا اور برداشت کیاہے جو ہم پر لگائے جاتے تھے لیکن بجائے اس کے کہ گورنمنٹ اس کی قدروقیمت کو سمجھتی اوراس کے مقابلہ میں ہمارے ساتھ صحیح تعاون کیلئے تیار ہوتی مجلسِ شوریٰ کے ایام میں بعض ایسے واقعات ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ نے ہماری اِس خاموشی اور برداشت کو بُزدلی پر محمول کیا ہے حالانکہ مؤمن کبھی بُزدل نہیں ہوتا۔ معمولی افسروں کی تو بات ہی جانے دو مجھے گورنر ان کونسل نے ایک ایسی چِٹھی لکھی تھی جو سراسر ناجائز تھی اور میں نے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ یہ بالکل ناجائز ہے۔ میں اس کی اطاعت تو کروں گا مگر حکومت کو اس کا بدلہ ضرور بھُگتنا پڑے گا۔ پس نہ تو میں بُزدل ہوں اورنہ جماعت کو بُزدل بنانا چاہتا ہوں۔ بلکہ صاف الفاظ میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ بزدل کا یہاں کام نہیں وہ ہمیں چھوڑ کر چلا جائے۔ ہمارے ساتھ وہی رہ سکتا ہے جو ہر وقت جان و مال کی قربانی کیلئے تیار ہو۔ یہ دین کا معاملہ ہے اور اس میں تمہیں اپنی جان کی قیمت اتنی بھی نہیں سمجھنی چاہئے جتنی ایک امیر آدمی کے نزدیک اُس کے پھٹے ہوئے کوٹ کی ہوسکتی ہے۔ اگرکوٹ لینے والا کوئی غریب اسے نہیں ملتا تو بھی وہ اسے گھر سے نکال کر باہر پھینک دیتا ہے تا اس کے گھر میں تو گند نہ رہے۔ پس مؤمن کو اپنی جان کی قیمت اتنی بھی نہیں سمجھنی چاہئے اور اگر خداتعالیٰ کے دین کیلئے اسے قربان کرنا پڑے تو ذرّہ بھر پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ اب بھی میرا ارادہ نہیں کہ کوئی ایسا طریق اختیار کیا جائے جو حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا موجب ہو لیکن میں اس کیلئے بھی تیار نہیں ہوں کہ حکومت کو ایسے طریق اختیار کرنے دوں جن سے جماعت کی ہتک اور ذلّت ہوتی ہے۔
میںنے دیکھا ہے کہ حکومت کے بعض افسر متواتر ہمارے خلاف ایسی کارروائیاں کررہے ہیں جو سراسر ناجائز ہیں۔ ہم ان کے بالا افسروں کو اس طرف توجہ دلاتے ہیںتو وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں اور کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ پولیس کے بعض آدمی ہمارے خلاف مسلسل اور متواتر جھوٹی رپورٹیں کرتے رہتے ہیں اور انہیں کوئی سزا نہیں دی جاتی اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت نے باعزت زندگی بسر کرنی ہے اور احمدیت کے جھنڈے کو بے داغ رکھنا ہے تو وہ اس ذلّت کو برداشت نہیں کرے گی۔ بے شک میں نے اعلان کیا ہؤا ہے اور ہماری تعلیم یہی ہے کہ ہم حکومت کے وفادار رہیں گے اور قانون شکنی نہیں کریں گے لیکن ایسے ذرائع ہیں کہ جن سے قانون کے اندر رہتے ہوئے بھی ہم اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتے ہیں اور ایسی بیسیوں تدابیر ہیں کہ قانون کی پوری پوری پابندی کرتے ہوئے بھی ہم ظالم حاکموں کے ظلم کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ پس میں جماعت کے نوجوانوں او ربوڑھوں اور مردوں اور عورتوں سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ سلسلہ کی عزت اور احترام کیلئے انہیں ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ ان کا حق ہے کہ مجھ سے مطالبہ کریں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حق ہے، رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا حق ہے، خداتعالیٰ کا حق ہے کہ مجھ سے مطالبہ کرے بلکہ میں کہوں گا کہ انسانیت کا بھی حق ہے کہ مجھ سے مطالبہ کرے کہ تم کو تو حکومت کے قوانین کی پابندی اور اس کی فرمانبرداری کاحکم تھا پھرتم نے کیوں اِس پر عمل نہ کیا۔ جماعت کی عزت کی حفاظت کیلئے میں جو کچھ کروں وہ جائز ہے اور اس کیلئے جس قسم کی قربانی کا میں مطالبہ کروں سلسلہ کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ اسے پورا کرے اور جو اس سے دریغ کرے وہ ہرگز احمدی نہیں رہ سکتا۔
میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ تم میں سے بہت ایسے ہیںکہ جب انہیں کوئی شخص گالی دے تو وہ بھی جواب میں اسے گالی دیتے ہیں گویا ان کے نزدیک ان کے نفس کی عزت اتنی ہے کہ وہ معمولی ہتک کو بھی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب سلسلہ کی قربانی کا سوال پیش ہو تو وہ لوگ گھر میں بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ اپنے نفس کی خاطر تو ہر قسم کی جانی، مالی اور عزت و عظمت کی قربانی کیلئے تیار ہوجاتے ہیں لیکن سلسلہ کی عظمت کو قائم کرنے کا سوال اگر پیدا ہو تو کیوں اُن کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہونے لگتا ہے کہ یہ بڑی قربانی ہے۔ یاد رکھو خلافت قائم ہی ا س لئے ہوتی ہے کہ جماعت سے قربانیاں کرائی جائیں ورنہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ تو ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر بغیر خلافت کے بھی ادا کرسکتا ہے۔ خلافت کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ جب سلسلہ کیلئے مجموعی قربانی کا وقت آئے تو وہ کرائی جاسکے اور دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک یہ آواز بلندہوجائے اور ہر طرف سے یہ جواب آئے کہ ہم تیار ہیں۔اس کیلئے خواہ وطن چھوڑنے پڑیںاورخواہ جائیدادوں سے ہاتھ دھونا پڑے، مال قربان کرنا پڑے یا جان، کسی سے دریغ نہ کیا جائے۔
مَیںنے حکام کو ہمیشہ توجہ دلائی ہے کہ یہ یک طرفہ تعاون درست نہیں۔ اگر وہ ہم سے تعاون کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ہمارے احساسات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ بے شک ہم تھوڑے ہیں لیکن اگر تھوڑوں کی حفاظت نہ کی جائے تو حکومتوں کا فائدہ ہی کیا ہے اور ان کی ضرورت کیا ہے۔ حکومتیں تو قائم ہی اس لئے ہوتی ہیں کہ تھوڑوں کی حفاظت کریں۔ بعض نادان افسر کہہ دیتے ہیں کہ تمہیں قادیان میں اکثریت حاصل ہے اس لئے ہم یہاں اقلیت کی حفاظت کرتے ہیں حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ اکثریت یا اقلیت کیلئے کبھی ایک ہی گائوں کو نہیںلیا جاتا بلکہ علاقہ کو دیکھا جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر اِس تھانہ کو لیا جائے توہماری اکثریت ہے یا اقلیت؟ تھانہ کی آبادی دو لاکھ ہوگی جن میں احمدی صرف بارہ تیرہ ہزارہوںگے اور یہ نہایت کمزور اقلیت ہے چہ جائیکہ اسے اکثریت ظاہر کیا جائے۔ اکثریت یا اقلیت ہمیشہ علاقہ کے لحاظ سے ہوتی ہے گائوں کی کیا ہستی ہوتی ہے کہ اس سے اقلیت یا اکثریت کااندازہ کیا جائے۔ مگر افسوس ہے کہ بعض افسر ہمارے ساتھ یہ کہہ کر ناانصافی کرتے ہیں کہ تم اکثریت میں ہو لیکن اب ہم اس بات کوبرداشت نہیں کریں گے۔ میں وہ شخص ہوں جس نے کم سے کم تیس سال تک حکومت سے تعاون کیا ہے اور اس کیلئے ہرقسم کی ذاتی اور خاندانی اور جماعتی قربانیاں کی ہیں اور اس لئے مَیں کب یہ بات پسند کرسکتا ہوں کہ خواہ مخواہ حکومت سے لڑائی چِھڑ جائے لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ جس حکومت کی نظر اتنی کوتاہ اور کان اتنے بہرے ہوں کہ وہ کسی کی سالہا سال کی قربانیوں کو محض کسی اکثریت کو خوش کرنے کیلئے قربان کردے تو وہ بھی اِس بات کی حقدار نہیں کہ اس سے اس رنگ میںتعاون کیاجائے جس رنگ میں مَیں پہلے کرتا چلا آیا ہوں۔ تاہم چونکہ ہماری مذہبی تعلیم ہے کہ قانون شکنی نہ کرو اور قانونی حدود میں حکومت کے وفادار رہو، ہم اِس حد تک وفادار رہیں گے۔ لیکن میں جماعت کے دوستوںسے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے دلوں میں اس بات کا فیصلہ کرلیں کہ اگر سلسلہ کی تذلیل کا یہ سلسلہ جاری رہا اور حکام بالا نے بھی اسے روکنے کی طرف توجہ نہ کی تو وہ اسے بند کرانے کیلئے جس قسم کی قربانیوں کا ان سے مطالبہ ہوگا ان کیلئے تیار رہیں گے۔ ہم پہلے ضلع کے حکام کو متوجہ کریں گے اور اگر وہ نہ مانے تو پھر حکامِ بالا کو توجہ دلائیں گے اور اگر انہوں نے بھی توجہ نہ کی تو قانون کے اندر رہتے ہوئے ہمیں جو ذرائع بھی اختیار کرنے پڑیں گے، کریں گے اور جو قربانیاں بھی ضروری ہوں گی اُن سے منہ نہ موڑیں گے۔ میں ہر احمدی سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس سے دریغ نہ کرے گا لیکن اگر کوئی میرے ساتھ شامل نہ ہو تب بھی میں چونکہ خداتعالیٰ کے سامنے سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں اس لئے میں خداتعالیٰ سے کہہ دوں گا اے میرے رب! میری اپنی جان حاضر ہے اور اسے تُو جس جگہ اور جس طرح چاہے سلسلہ کی عزت کی حفاظت کیلئے قربان کرنے کو تیار ہوں۔
اس کے علاوہ میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی طبیعتوں میں سے غصہ کو دور کرو اور مظلوم بنو۔ کسی کے ساتھ خواہ وہ کتنا کمزور سے کمزور کیوں نہ ہو، ظلم نہ کرو۔ اور یاد رکھو کہ کمزور کا مقابلہ کرنا بہادری نہیں۔ ہمارا مطالبہ حکومت سے ہے ورنہ افراد کے لحاظ سے تم قادیان کو اتنا امن والا مقام بنادو کہ یہاں ذلیل سے ذلیل آدمی بھی اپنے آپ کو معزز ترین وجود سمجھے اور اپنے آپ کو ہر لحاظ سے محفوظ محسوس کرے۔ کسی کی گالیوں سے غصہ میں نہ آئو، کوئی خواہ تمہارا کتنا نقصان کردے، خواہ تمہیں مارے مگر اسے برداشت کرو لیکن حکومت طاقتور ہے اس سے اس قسم کا سلوک برداشت نہ کرو۔ شریف آدمی وہ ہے جو اپنے تابع کی بے انصافی کو تو برداشت کرلیتا ہے مگر جو غالب ہو اُس سے اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے۔ پس میں جہاں جماعت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اپنے نفسوں کو قربانیوںکیلئے تیار کرو وہاں یہ بھی کہتا ہوں کہ یہ مت سمجھو کہ تم تھوڑے ہو کیونکہ جو خداتعالیٰ کیلئے کھڑا ہووہ اکیلا بھی بہت ہوتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں یہ واقعہ صحیح ہے یانہیں مگر تاریخی لحاظ سے گو صحیح نہ ہو لیکن واقعات کے لحاظ سے ضرور صحیح ہے۔ کہتے ہیںکہ نمرود بڑابادشاہ تھا مگر اُس کی ناک میں مچھر گھس گیا اور اندرگھر بنالیا اور اس سے اُس کی موت واقع ہوگئی۔ اس کے سر میں کھجلی ہوتی اور جُوتیاں مارتے تھے تو آرام ہوتا تھا۔ یہ صحیح ہو یا نہ ہو مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ کتنے پہلوانوں کو مچھر کاٹتا ہے اور وہ ملیریا میں مبتلا ہوکر مر جاتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ تو مچھروں سے بھی بڑے بڑوں کو نیچے گِرادیتا ہے۔
جماعت کے دوستوں کو میں نصیحت کرتا ہوںکہ مخالف اقوام کی طرف سے ہر قسم کی باتیں سن لو اور برداشت کرو لیکن حکومت سے مطالبہ کرو کہ ہمارے ساتھ جو سلوک وہ کرتی ہے وہی ہمارے مخالفوں سے کرے اور اپنے افسروں کو ایسے احکام صادر کرنے سے روکے جو محض حکومت جتانے کیلئے کئے جاتے ہیں اور جو انصاف کے بالکل خلاف ہوتے ہیں۔ ورنہ ہم ایسی باتوں کا ازالہ ضرور کرا کر چھوڑیں گے، خواہ عدالتوں کے ذریعہ سے کرائیں اور خواہ ایسی ایجی ٹیشن کے ذریعہ جس کی قانون اجازت دیتا ہے۔
میں پھر جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ سلسلہ کی عزت کے تحفظ کیلئے ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار ہوجائے۔ ہمت کرنے والا ہمت کرتا ہے تو اس میںکامیابی بھی ہوجاتی ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جماعت قادیان نے صوفی عبدالقدیر صاحب کی ماتحتی میں جن کو ملک میںکوئی خاص سیاسی یا تمدنی پوزیشن حاصل نہ تھی اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ اس طرح ہم ظلم برداشت نہیں کرسکتے اور حکومت کواتنے دن کی مُہلت دیتے ہیں کہ وہ اس عرصہ کے اندر اس کا ازالہ کردے ورنہ ہم اپنی قربانیوں کے ذریعہ اس کا ازالہ کرائیں گے۔ تو حکومت کا ایک خاص پیغامبر گورداسپور آیا اور وہاں سے راتوں رات حکومت کا جواب یہاں پہنچایا گیا کہ آپ کی شکایات پہنچ چکی ہیں اور ان کی طرف توجہ کی جارہی ہے۔ تو جب قوم قربانی کیلئے تیار ہوجائے تو حکومت بھی اُس کی بات ماننے پر مجبور ہوجاتی ہے کیونکہ حکومتیں پبلک کے ساتھ بگاڑ پیدا نہیں کیا کرتیں اگر وہ ایسا کریں تو چل نہیں سکتیں۔ اور جب کسی قوم کو خود اپنے حقوق کی حفاظت کا خیال نہ ہوتو حکومت بھی خاموش رہتی ہے۔ بعض اوقات حکومت کی نیت تو اچھی ہوتی ہے مگر وہ اس خیال سے کہ اکثریت کو بگاڑ کر فساد کیوں پیدا کریں، اقلیت کو تھپکا کر سُلانے کی کوشش کرتی ہے لیکن ہم یہ نہیں ہونے دیں گے۔ اسے یا تو ہمارا حق دینا پڑے گا یا کہنا پڑے گا کہ تم ہماری رعایا نہیں ہو۔ اس صورت میں پھر مذہب اور قانون کے ماتحت جو کچھ ہم سے اپنی عزت کی حفاظت کیلئے ہوسکے گا کریں گے۔
حکومتوں کو ہمیشہ یا تو انصاف دینا پڑتا ہے اور یا پھر وہ بدنام ہوجایا کرتی ہیں اور بدنامی حکومت کیلئے ہی نقصان کاموجب ہؤا کرتی ہے افراد کیلئے نہیں۔ ہم گو عدِم تعاون وغیرہ اصول کے قائل نہیں مگر قانون کے اندر رہتے ہوئے ایسے ذرائع اختیار کرسکتے ہیں کہ جن سے حکومت ہماری عزت کی حفاظت پر مجبور ہوجائے اوراپنی عزت کی حفاظت کیلئے ہماری عزت پر ہاتھ ڈالنا چھوڑ دے۔ ہماری جماعتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کونہ کونہ میں ہیں اور وہ ہر جگہ انگریزوں کی تعریف کرتی ہیں اورکہتی ہیں کہ مرکز والے کہتے ہیں کہ انگریزوں کی حکومت اچھی ہے۔ امریکہ، جرمنی، چین، جاپان، سماٹرا، جاوا وغیرہ ممالک میں ہماری جماعتیں ہیں اور اِس رنگ میں ہر جگہ ہی انگریزی حکومت کو ان سے فائدہ پہنچا ہے کیونکہ ہم انگریزوں کے انصاف کی تعریف کرتے تھے تو وہ بھی قدرتاً ان باتوں کو دُہراتے تھے لیکن حکومت کا یہ رویہ نہ بدلا تو لازماً آئندہ احمدیوں کے منہ پر کم سے کم ہندوستانی حکومت کی بُرائی ہوگی تعریف نہ ہوگی اور اِس کا اثر دوسرے مُلکوں پر بھی پڑے گا کیونکہ ہماری جماعت اس وقت سب دنیا میں خداتعالیٰ کے فضل سے پھیل چکی ہے اور اگر ہم اور کچھ بھی نہ کریں تو بھی صرف یہ امر حکومت کی بدیوں سے دنیا کو واقف کرنے کیلئے کافی ہوگا اور وہ اس سزا کی عظمت کو محسوس کرے گی۔ علاوہ ازیں ایک اَور صورت بھی ہے ۔ ہم اگر گزشتہ واقعات کو لکھ کر مُلک میں پھیلادیں اور لوگوں کو یہ بتائیں کہ اس اس طرح ہمارے خلاف ہمارے دشمن کارروائیاں کرتے رہے یا بعض حکام یا ماتحت اظہارِعداوت کرتے رہے ہیں لیکن باوجود وقت پر مقامی حکام کو توجہ دلانے کے اور پھر بالاحکام کو توجہ دلانے کے کوئی تدارک نہیں ہؤا۔ اس کے مقابلہ میں ہمارے بعض افراد پر دشمنوں نے غلط الزامات لگائے تو ان پر فوراً کارروائی کی گئی اور جواب طلبیاں یا قانونی کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے اور ہمارے مخالفوں سے جنبہ داری کا برتائو کیا جاتا ہے تو یہی ترکیب حکومت کو ہوش میں لانے کیلئے کافی ہے بلکہ ساری دنیا تو کُجا اگر صرف ہندوستان بلکہ پنجاب میںہی ایسا کریں تو تمام انصاف پسند لوگ حکومت کوملامت کریں گے۔ دراصل انسانی فطرت کو اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جب اس پر صحیح الزام لگایا جائے تو وہ ضرور شرمندہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غریب کو بچانے کیلئے یہ مادہ انسان کی فطرت میں رکھ دیا ہے کہ بڑے سے بڑے بادشاہ پر بھی جب سچا اعتراض کیا جاتا ہے تو وہ کانپ اُٹھتا ہے اور اس طرح غریب کے حق کی داد رسی ہوجاتی ہے تو ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے علاج حکام کی ضمیروں میں پوشیدہ طور پر رکھ دیا ہؤا ہے۔ ہمیں نہ فتنہ و فساد کی ضرورت ہے نہ عدِم تعاون کی۔
پچھلے دنوں جب حکومت کے بعض افسروں نے ہمارے متعلق یہ کہنا شروع کیا کہ یہ حکومت کے غدار ہیں تو ہم نے اس کے متعلق ولایت میں اُن پُرانے افسروں کے پاس ذکر کیا جو ہمیں جانتے اور ہم سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اِس پر پارلیمنٹ کے بعض ممبروں نے وزراء سے سوال کئے اور انہوںنے یہاں دریافت کرایا تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ہم تو انہیں بڑا وفادار سمجھتے ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے انسانی دماغ میں ایسا مادہ رکھا ہے کہ وہ غریب اور کمزور کی حفاظت پرمجبور ہوتا ہے۔ ضرورت صرف عقل سے کام کرنے کی ہوتی ہے اور اس بات کی کہ انسان اپنے نفس پر قابو رکھے اور اپنی مظلومیت کو ثابت کرسکے۔ اگر کوئی شخص کسی کو دس جُوتیاں مارتا ہے اور وہ اسے برداشت کرلیتا ہے لیکن جب وہ گیارہویں مارنے لگے تو یہ بھی ایک اُسے ماردے۔ تو جنہوں نے پہلاحال نہ دیکھا ہو اور بعد میں پہنچے ہوں وہ یہی کہیں گے کہ دونوں لڑ رہے تھے۔ وہ اسے مارتا تھا اور یہ اسے ۔ لیکن جو گیارہویں ضرب بھی برداشت کرلے اُس کے ساتھ ہر کوئی ہمدردی کا اظہار کرے گا اور کہے گا کہ اس نے ہاتھ نہیں اُٹھایا۔ پس یاد رکھو کہ مظلومیت اپنی ذات میں بڑا حملہ ہے اور یہ خود ظالم کا ہاتھ کاٹنے کیلئے کافی ہے۔ اگر تم میرے ساتھ ان دو باتوں میں تعاون کرو یعنی میری ہدایات پر عمل کرتے ہوئے قربانیوں کیلئے تیار ہوجائو اور انتہائی مظلومیت اور قانون کی اطاعت کو برداشت کرلو تو تمہاری عزت دنیا میں اِس طرح قائم ہوجائے گی کہ جو لوگ تمہیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں وہ نامراد ہوں گے اور تم اپنی آنکھوں سے اُن کو شکست خوردہ اور میدان سے بھاگتے ہوئے دیکھ لو گے۔
پھر میری نصیحت تم کو یہی ہے کہ ایک طرف تو انتہائی قربانی کیلئے تیار ہوجائو اور دوسری طرف ظالم بننے کی بجائے مظلوم بنو۔ قادیان میں خواہ کسی قوم کا ایک ہی فرد رہتا ہو وہ یہی سمجھے کہ میں بہت بڑا ہوں اور یہ لوگ میرے سامنے حقیر ہیں۔ تم اپنے آپ کو بڑا مت سمجھو، تمہاری ابھی دُنیوی لحاظ سے ہستی ہی کیا ہے۔ سکھ صرف چالیس لاکھ ہیں لیکن حکومت ان سے ڈرتی ہے۔ احمدی اگر بیس لاکھ بھی ہوںتو ان کی عزت ظالم حکام سے بھی اور ظالم رعایا سے بھی محفوظ ہوجائے اور کسی کو جرأت نہ ہو کہ ان کو ترچھی نگاہ سے بھی دیکھ سکے لیکن ابھی جماعت بہت کم ہے جس کی وجہ سے جو حکام اخلاقی زور سے نہیں بلکہ پولیس کے زور سے حکومت کرنے کے عادی ہیں جماعت کے حقوق کو نظر انداز کردیتے ہیں لیکن اس قلیل جمعیت کے باوجود اگر جماعت میں سچی روح ہو تو یہ ممکن نہیں کہ حکومت کے افسر جماعت کو ڈرالیں۔ مؤمن کبھی کسی سے بھی نہیں ڈرتاہاں ایک صورت ہے جس سے حکومت اپنا مطلب پورا کرسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی وقت اس کے راستہ میں دِقتیں ہوں تو ہم کو حالات بتا کر ہم سے تعاون کی درخواست کرے۔ اس صورت میں بالکل ممکن ہے کہ ہم اپنے حقوق کو خود خوشی سے چھوڑ دیں۔ اگر توکوئی افسر ہمیں یوں کہے کہ ہم مانتے ہیں فلاں قوم نے یا فلاں شخص نے تم پر ظلم کیا ہے مگر چونکہ ہمارے لئے انتظام کرنا مشکل ہوگا اس لئے تم معاف کردو، تو ہم یقینا معاف کردیں گے لیکن اس کی بجائے وہ ظالم کے بچائو کیلئے دلائل دینے لگتے ہیںاور ہم پر اعتراض کرنے لگتے ہیں جسے برداشت کرنے کیلئے ہم تیار نہیں ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم مظلوم بھی ہوںاور حکام محض بُزدلی سے اور احرار یا دوسری قوموں سے ڈر کر ہمارے حقوق تلف کریںاور پھر اپنی اس کمزوری کو چھپانے کیلئے ہمیں ہی غلطی پرقرار دیں اور ہم اس کو برداشت کرلیں۔ ایسی صورت میں ہمارا فرض ہے کہ مُلکی قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے جو تدبیر بھی اِس سختی کو دور کرنے کیلئے اختیار کرسکیں کریں۔
غرض حکومت کو یا تو انصاف کرنا پڑے گا اور یا ہماری مظلومیت کو تسلیم کرکے ہم سے خواہش کرنی پڑے گی کہ ہم اُس کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اپنے حق کا مطالبہ نہ کریں لیکن اگر وہ ایسا نہ کریں تو میں جیسا کہ پہلے بھی کہہ آیا ہوں ہماری جماعت کو دو باتیں کرنی پڑیں گی۔ ایک تو یہ کہ وہ قربانی کیلئے تیار ہوجائے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے اخلاق کی اصلاح کرے اور قانون کی اطاعت پر پہلے سے بھی زیادہ کاربند ہو۔ انہیں چاہئے کہ وہ ہرقسم کے ظلم کو کُلّی طور پر چھوڑ دیں اور اپنے نفس کی عزت کا خیال دل سے نکال دیں۔ ان کی عزت محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت سے زیادہ نہیں۔ آپ پر مکہ میں جسے خداتعالیٰ نے امن والا شہر بنایا ہے اور جہاں تمام مشرک اور بُت پرست بھی آزادی کے ساتھ رہتے سہتے تھے، عین خانہ کعبہ میں جب آپ نماز پڑھ رہے تھے اور سجدہ میں تھے بعض شریر مخالفوں نے اونٹ کی گوبر سے بھری ہوئی اوجھڑی لاکر آپ کے سر پر رکھ دی۔۷؎ اِنہیں سوچنا چاہئے کہ کیا ہماری عزت محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی زیادہ ہے۔ اگر ہمارا آقا اور سردار ان باتوں کو برداشت کرلیتا تھا تو ہمیں اس سے کئی گُنا زیادہ مصائب برداشت کرنے چاہئیں۔ پس جب تمہاری ذلت ہو تو اسے برداشت کرو اورجب تم پر ظلم ہو تو خاموش رہو۔ ہاں صرف ایک بات کو مدنظر رکھو اور وہ یہ کہ جہاں سلسلہ کی عزت کا سوال ہو اُس وقت ہر جائز قربانی کرنے کیلئے تیار رہو۔ اور جب تم ان دو باتوں کے لئے تیار ہوجائوگے یعنی ظلم سہنے اور قربانی کرنے کیلئے تو یاد رکھو کہ یہ وہ موت ہوگی جس کے بعد پھر موت نہیں آیا کرتی۔‘‘ (الفضل ۲۷؍ اپریل ۱۹۳۸ئ)
۱؎ النور: ۵۶
۲؎ (الشوریٰ: ۲۴)
۳؎ کنز العمال جلد ۵ صفحہ ۶۴۸ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ء میں ’’لَا خِلَافَۃ اِلَّا عَنْ مَشْوَرَۃٍ ‘‘
کے الفاظ ہیں۔
۴؎ خودرائی: خودسری۔ سرکشی۔ اپنی مرضی کے مطابق کوئی کام کرنا۔
۵؎ الشوریٰ: ۳۹
۶؎ بخاری کتاب الاحکام باب السَّمْع وَالطَّاعَۃ لِلْأِ مَامِ (الخ)
۷؎ بخاری کتاب الصلٰوۃ باب الْمَرْأۃ تُطْرَح عنِ المصلیّٰ (الخ)

۱۶
منعم علیہ گروہ وہ ہے جو خداتعالیٰ کی صفات کو
دنیا میں جاری کرتاہے
(فرمودہ ۳؍ جون ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’سورئہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے مؤمن کو ایک ایسی دعا سکھلائی ہے جو کئی معنوں میںاپنی جلوہ گری کرتی اور قرآن کریم کے مطالب کی وسعت پر دلالت کرتی ہے۔ وہ دعا ہے ۱؎ کہ اے ہمارے ربّ! تُو ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ یعنی اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُونے انعام نازل کیا۔ ادھر تو یہ دعا سکھائی گئی ہے دوسری طرف قرآن کریم فرماتا ہے کہ مؤمن کی دعا ردّ نہیں کی جاتی۔ چنانچہ سورئہ بقرہ میںجہاں روزوں کے فرض کرنے کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے روزے فرض کئے ہیں تاکہ تم میں کامل تقویٰ پیدا ہو۔ یہ روزے خداتعالیٰ کے اس عہد کا نشان ہیں جو قرآن کریم کے نزول کے ذریعہ سے اس نے دنیا سے باندھا ہے۔(گویا حضرت ابراہیم ؑ کے عہد کا نشان ختنہ تھااور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد کا نشان رمضان کے روزے ہیں اور امت محمدیہ ان دونوں عہدوں کی وارث بنائی گئی ہے اور اس میں ختنہ ابراہیمی عہد کے اجراء کی علامت ہے اور رمضان کے روزے محمدی عہد کے اجراء کی علامت ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمانا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر عبادت کا ایک بدلہ ہے اور روزہ کا بدلہ میںخود ہوں۔ ۲؎ اس عہد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔) پس تم کو چاہئے کہ اس عہد کو پورا کرو اور ہمیشہ اس عہدِ ہدایت کی یاد میں اللہ تعالیٰ کی تکبیر بلند کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ کے حقیقی عبد ہونے کا ثبوت دو۔
پھر فرماتا ہے ۳؎ اور جب تجھ سے میرے بندے میری نسبت سوال کریں تو انہیں کہہ دے کہ میں جس نے تم سے یہ نیاعہد باندھا ہے تمہارے قریب ہی ہوں۔ اس عہد کے اندر آئے ہوئے ہر شخص کی جب وہ مجھے پکارے دعا کو مَیں سنتا ہوں۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میرے اس عہد میں کامل طور پر داخل ہوں اورمیری امداد پریقین رکھیں تاکہ انہیں رُشد و ہدایت کا راستہ مل جائے۔ اس عبارت سے ظاہرہے کہ جو بھی الٰہی عہد کے تابع ہوکر دعا کرتا ہے یا یوں کہو کہ قرآنی اصطلاح کے مطابق مؤمن کامل یا عبد ہوکر دعا کرتا ہے اس کی دعا ضرور سُنی جاتی ہے اور کبھی ضائع نہیںجاتی۔
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۴؎ یا (مجھے یہ تو بتائو کہ) وہ کون ہستی ہے جو سب طرف سے مایوس ہوکر دعا کرنے والے کی طرف جھکتی ہے اور اُس کی مصیبت کو ٹال دیتی ہے۔ یعنی ایسی ہستی اللہ ہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مضطر ہوتے ہیں اُن کی دعائیں سُنی جاتی ہیں۔ خواہ وہ ہندوہوں، خواہ عیسائی ہوں، خواہ سِکھ ہوں، خواہ پارسی ہوں اور خواہ دنیا کے کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ جب کبھی اضطرار کے ساتھ وہ خداتعالیٰ کی طرف توجہ کریں اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو سُن لیتا ہے۔ وجہ یہ کہ ان کی وہ حالت بھی درحقیقت ایمان کی حالت ہوتی ہے کیونکہ ایک مؤمن اور غیرمؤمن میںفرق یہی ہے کہ مؤمن خداتعالیٰ پر کامل ایمان رکھتا ہے اور غیرمؤمن خداتعالیٰ پر کامل ایمان نہیں رکھتا، ورنہ تھوڑا بہت ایمان ہر شخص میں پایا جاتا ہے حتّٰی کہ ایک دہریہ کے دل میں بھی ہوتا ہے ۔ چنانچہ دہریہ بھی کسی نہ کسی بالا طاقت کا ضرور اقرار کرتا ہے۔ پس اگر ایک مؤمن اور غیرمؤمن میں فرق ہے تو یہی کہ مؤمن خداتعالیٰ کو ایسی صورت میں دیکھتا ہے جس کے بعد اسے کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ اور غیرمؤمن اسے ایسی صورت میں دیکھتا ہے جس کے ساتھ بہت سے شکوک وابستہ ہوتے ہیں۔ ورنہ تھوڑا بہت ایمان ہر ایک میں پایا جاتا ہے لیکن جب کافر پر بھی حالتِ اضطرار آتی ہے تو اس کا وہ شک جو خداتعالیٰ کی ہستی کے متعلق اس کے دل میں پایا جاتا ہے وقتی طور پر دور ہوجاتا ہے کیونکہ اضطرار کی مثال آگ کی سی ہے جس طرح آگ میں اگر تنکے ڈالے جائیں تو وہ جل جاتے ہیں، لکڑی ڈالی جائے تو وہ بھَسم ہوجاتی ہے اسی طرح اضطرار کی آگ شکوک وشبہات کے خس و خاشاک کو بالکل جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ چنانچہ ایک غیرمؤمن کے دل میں اسی وقت اضطرار پیدا ہوتا ہے جب اس کے دیوی دیوتا اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں، جب اس کے اپنے گھڑے ہوئے خدا اسے بالکل ناکارہ اور بیکار نظر آتے ہیں، جب اس کے اپنے اختیار کئے ہوئے عقائد اسے غیرمکتفی دکھائی دیتے ہیں اور جبکہ ساری دنیا سے نگاہیں ہٹ کر صرف ایک خدا کی ذات اس کے سامنے ہوتی ہے اور وہ گڑگڑاتے اور روتے ہوئے خداتعالیٰ کے سامنے یہ کہہ کر گرجاتا ہے کہ اے خدا! میری مدد کر۔ جب یہ کیفیت کسی شخص کے اندر پیدا ہوجاتی ہے تو عارضی طور پر وہ اس وقت مؤمن ہوتا ہے اور خداتعالیٰ اس کی دعا کو قبول کرلیتا ہے۔ تو غیرمؤمن کیلئے مضطر کی شرط ہے۔ مگر مؤمن کیلئے محض ہونے کی شرط ہے۔ اور قطع نظر اس سے کہ اس پر اضطرار کی حالت وارد ہو یا نہ ہو اوروہ ہلاکت کے قریب پہنچے یا نہ پہنچے اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو سن لیتا ہے۔ تو میں مؤمن کی دعا کی طرف اشارہ ہے اور میںمؤمن اور کافر سب کی دعا کی طرف اشارہ ہے۔ اب جو خدا کافر اور مؤمن دونوں کی دعائیں سننے والا ہے، کافر کی اُس وقت جب وہ مضطر ہوکر بمنزلہ مؤمن ہوجاتا ہے اور مؤمن کی اُس وقت جب وہ شرعی قواعد کے مطابق خداتعالیٰ کے سامنے حاضر ہوتا ہے جیسا کہ کے لفظ میں ال کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے۔ تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ خود مؤمنوں کو ایک دعا سکھائے اور پھر اسے ردّ کردے۔ اب یہ جو فرمایا ہے کہخدایا! ہمیں سیدھا رستہ دکھا۔ ان لوگوں کا راہ جو منعم علیہم ہیں اور جن پر تیری نعمتیں نازل ہوئیں۔ اس سے دو باتیں نہایت واضح طور پر ثابت ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر مؤمن کو منعم علیہ بنانا چاہتا ہے۔ اپنے اپنے درجہ اور مقام کے مطابق کسی کو زیادہ اور کسی کو کم۔ جیسے سکولوں میںانعامات تقسیم ہوتے ہیں تو جماعت کے فرق کے لحاظ سے کسی کو تھوڑا انعام ملتا ہے اور کسی کو بہت۔ جو پرائمری میں اوّل رہتا ہے اسے بھی انعام ملتا ہے، جو مڈل میں اوّل رہتا ہے اسے بھی انعام ملتا ہے اور جو انٹرنس کے امتحان میں یونیورسٹی بھر میں اوّل نکلتا ہے اسے بھی انعام کے طور پر وظیفہ ملتا ہے۔ اور ایف اے اور بی اے میںاوّل رہنے والوںکو بھی وظائف ملتے ہیں۔ مگر سارے وظائف ایک مقدار کے نہیں ہوتے۔ پرائمری میں اوّل رہنے والے یا ضلع بھرمیں اوّل نکلنے والے کو جو وظیفہ ملتا ہے وہ پانچ سات روپے کا ہوتا ہے اور انعام میں اسے جو چیزیں ملتی ہیں وہ بھی دو چار روپے کی ہوتی ہیں۔ لیکن انٹرنس کے امتحان میں تمام یونیورسٹی میں اوّل رہنے والے کو بیس پچیس بلکہ تیس روپیہ تک کا وظیفہ مل جاتا ہے اور ایف اے اور بی اے میں جو اوّل نکلتے ہیں اُنہیں تو اس سے بھی زیادہ وظیفہ اور انعام ملتا ہے۔ تو گو منعم علیہ سارے ہی ہیں اس پر بھی انعام ہؤا جو پرائمری میں اوّل رہا اور اسے بھی انعام ملا جو بی اے میں اوّل رہا۔ مگر انعاموں میںفرق ہے۔ ایک کو اعلیٰ درجے کا انعام ملا اور ایک کو کم درجے کا۔ تو ایک بات اس دعا میں یہ بتائی گئی ہے کہ جو مؤمن ہوگا وہ ضرور منعم علیہ ہوگا ورنہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو یہ دعا کبھی نہ سکھائی جاتی۔
دوسری بات جس کا اس جگہ سے پتہ چلتا ہے یہ ہے کہ اس جگہ منعم علیہ کے لفظ سے دنیا کے عام انعام مراد نہیں۔ اوّل تو اس لئے کہ وہ ہر ایک کو نصیب ہیں۔ مثلاً آنکھیں اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہیں مگر کیا یہ انعام کافروں کو حاصل نہیں؟ کیا ہندوئوں کی آنکھیں نہیں؟ کیا سکھوں ، عیسائیوں اور دہریوں کی آنکھیں نہیں؟ یا کان اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں مگر کیا یہ کافروں کو نہیں ملے ہوئے؟ یا ہاتھ پائوں اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں مگر کیا کفار کے ہاتھ پائوں نہیں؟ یا دنیوی دولت ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے مگر کیا یہ نعمت ان کو میسر نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں اورمؤمنوں کی نسبت کافر ہزار درجے زیادہ امیر ہیں۔ یا اگر عمارتوں اور مکانوں کا ہونا اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے تو یہ نعمت بھی ان کو حاصل ہے بلکہ مؤمنوں سے زیادہ حاصل ہے۔ اسی طرح حکومت اور دبدبہ اور شوکت بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے بہت بڑی نعمتیں ہیں مگر بعض حالات میں جیسے آجکل کا زمانہ ہے یہ بھی مسلمانوں کی نسبت کفار کو زیادہ حاصل ہوتی ہیں۔ پس معلوم ہؤا کہ میں جن انعامات کا ذکر ہے وہ بعض مخصوص قسم کے انعامات ہیں جو صراطِ مستقیم کے ساتھ تخصیص رکھتے ہیں اور جب تک انسان صراطِ مستقیم پر قائم نہیں ہوتا وہ انعامات حاصل نہیں ہوتے۔ گویا دو قاعدے ہیں جو اس آیت سے ثابت ہوتے ہیں۔ اوّل یہ کہ ہر مؤمن کیلئے منعم علیہ ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ تسلیم کرنا کہ کوئی شخص مؤمن تو ہے مگر اسے صراطِ مستقیم نہیں مِلا بالکل غلط بات ہوگی۔ اور اس فقرہ کو اگر ہم سادہ اردو میں بیان کریں تو یوں بنے گاکہ فلاں شخص بڑا مؤمن ہے مگر اللہ تعالیٰ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اب کیا کوئی شخص مان سکتا ہے کہ کوئی شخص مؤمن بھی ہو اور خداتعالیٰ سے اس کا تعلق بھی نہ ہو۔ جب صراطِ مستقیم کے معنے اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ہی ہیں تو یہ کہنا کہ فلاں مؤمن ہے مگر اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق نہیں، بیہودہ بات ہوگی۔ جو بھی مؤمن ہوگا خداتعالیٰ کے ساتھ اس کا ضرور تعلق ہوگا۔
پس میں درحقیقت حصولِ ایمان کے متعلق یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے خدا! ہمارے ایمان کو کامل کر اور ہمیں منعم علیہ گروہ میں شامل فرما۔ گویا منعم علیہ گروہ میں شامل ہونا ایمان کے کمال کی ایک علامت ہے اور ایمان کے کمال کے دوسرے معنے منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے کے ہیں۔ پس ہر مؤمن اپنے اپنے درجہ کے مطابق منعم علیہ گروہ میں شامل ہے۔ دوسرے یہ کہ جو انعام اِس جگہ مذکور ہے وہ ایسا نہیں جیسے دُنیوی رُتبے یا جائدادیں ہوتی ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں مگر اس درجہ کی نہیں جس درجہ کی نعمتوں کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ دُنیوی نعمتیں اُن روحانی نعمتوں کی محض توابع ہیں۔ جیسے آقا کے ساتھ خادم ہوتے ہیں اسی طرح روحانی نعمتوں کے ساتھ یہ بطور خادم ہوتی ہیں۔ آخر جس انسان کو اللہ تعالیٰ جہاد کی توفیق دے گا اُسے دولت بھی بخشے گا، اُسے فتح بھی دے گا، اُسے مالِ غنیمت بھی عطا کرے گا۔ مگر یہ ادنیٰ چیزیں اُس کا مقصود نہیں ہوں گی، یہ ادنیٰ نعمتیں ہیں جو اُسے حاصل ہوں گی ورنہ اس کا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہوگی جو بہت بڑی چیز ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک دوست دوسرے دوست کے ہاں بعض دفعہ ملاقات کیلئے چلا جاتا ہے تو وہ اس کی خاطر تواضع کیلئے اس کیلئے کھانا پکواتا ہے اور اگر امیر ہو تو کئی کئی قسم کے کھانے تیار کراتا ہے اور اگر غریب ہو تب بھی وہ اچھی سے اچھی چیز اس کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر یہ کھانا اس کا مقصود نہیں ہوگا بلکہ اس کا اصل مقصد دوست سے ملاقات کرنا ہوگا اور وہ چاہے گا کہ میں اپنے دوست کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کروں چاہے کھانا مجھے ملے یا نہ ملے۔ اسی طرح اس دنیا کی نعمتیں مؤمن کو مل تو جاتی ہیں مگر وہ اس کا مقصود نہیں ہوتیں۔ مقصود والا انعام بالکل اَور ہے۔
اب وہ انعام جو اس دعا کے نتیجہ میں مؤمن کو ملتا ہے وہ کچھ بھی ہو قرآن کریم انعامِ الٰہی کے متعلق یہ ہدایت دیتا ہے کہ ۔۵؎ تُواپنے رب کی نعمت کو لوگوں کے سامنے پیش کر۔ اپنے عمل سے بھی اور اپنے قول سے بھی کیونکہ تحدیث بِالنعمت کے لفظی معنے گو صرف اتنے ہی ہیں کہ نعمت کو بیان کرنا مگر عربی زبان کے محاورہ کے لحاظ سے تحدیث بِالنعمت کے معنی یہ ہیں کہ شکرگزاری کے طور پر عملی رنگ میں دنیا پر یہ ظاہر کرنا کہ میں اس نعمت کی واقعہ میں قدر کرتا ہوں کیونکہ تحدیث باب تفعیل سے ہے اور یہ باب معنوں میں کثرت و وسعت پیدا کردیتا ہے۔ چنانچہ کسی کو کوئی خاص اعزاز حاصل ہو یا بڑا انعام ملے تو وہ اس خوشی میںلوگوں کی دعوت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تحدیث بِالنعمت کے طو رپر یہ دعوت کررہا ہوں حالانکہ وہ اس وقت کھانا کھِلارہا ہوتا ہے کوئی تقریر نہیں کررہا ہوتا اور اگر بِالفرض وہ کھانا نہ کھلائے اور محض لوگوں کو بُلا کر یہ خبر سنادے کہ مجھے فلاں اعزاز حاصل ہؤا ہے تب بھی لفظی طور پر وہ تحدیث بِالنعمت کا مفہوم پورا کرسکتا ہے۔ لیکن محاورہ کے لحاظ سے تحدیث بِالنعمت کے جو معنے ہیں ان کو وہ پورا کرنے والا نہیں ہوگا۔ اگر کسی کو خان بہادر کا خطاب ملے اور وہ لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک تقریر شروع کردے اور کہے لوگو مجھے خان بہادر کا خطاب ملا ہے اور میں آپ سب کو اس کی اطلاع دیتا ہوں تو لوگ اس کی بات سن کر ہنسیں گے اور کہیں گے میاں! اگر تم نے صرف اتنی بات بتانی تھی تو ہمیں اکٹھا کرنے کی کیا ضرورت تھی، ہم اخباروں میں ہی یہ خبر پڑھ سکتے تھے۔ لیکن اگر وہ اس خوشی میں اپنے دوستوں کی دعوت کرتا ہے اور انہیں کھانے یا چائے پر مدعو کرتا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس نے تحدیث بِالنعمت کی یا کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو تو لفظی طور پر تحدیث بِالنعمت کا مفہوم ادا کرنے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ لوگوں سے کہہ دے کہ میرے ہاں بیٹا پیدا ہؤا ہے لیکن محاورہ کے طور پر تحدیث بِالنعمت کا مفہوم اُس وقت تک ادا نہیں ہوگا جب تک وہ غریبوں کو کھانا نہ کھلائے یا انہیں کپڑے نہ پہنائے۔ ہاں جب وہ غریبوں کو کھانا کھلاتا یا ننگوں کو کپڑے پہناتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کا عملی رنگ میں شکریہ اد اکرتا ہے تب کہا جاسکتا ہے کہ اُس نے تحدیث بِالنعمت کی۔ تو کے صرف یہی معنے نہیں کہ تُو لوگوں سے یہ کہہ دے کہ مجھے فلاں انعام ملا اور گو لفظی طور پر یہ معنے بھی درست ہیں مگر محاورہ کے لحاظ سے درست نہیں کیونکہ محاورہ میں تحدیث بِالنعمت کے یہ معنے ہیں کہ منہ سے اقرار کرے اور عملاً کوئی ایسا فعل کرے جو اس بات پر دلالت کرے کہ اس نے واقع میں اس نعمت کی قدر کی ہے۔ پس کے یہ معنی ہیں کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نعمت نازل ہو اُس کا زبان سے اظہار کرو اور اُس کے شکریہ میں ایسے اعمال بجالائو جو دنیا کو فائدہ اور آرام پہنچانے والے ہوں۔ جب کوئی شخص اِن دونوں پہلوئوں کے لحاظ سے تحدیث بِالنعمت کرتا ہے تو اُس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ اُس نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر کی۔ اب ایک طرف اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مجھ سے انعام مانگو اور دوسری طرف اس کے سیاق و سباق سے اور قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ سے جو چیز مانگی جائے، بِالخصوص ایسی چیز جس کے مانگنے کا وہ خود حکم دے وہ انسان کو ضرور دیتا ہے۔پھر دوسری جگہ فرماتا ہے کہ تم اِس نعمت کا اظہار کرو جو تمہیں ملے اور شکر اور امتنان کا کوئی طریقہ اختیار کرو جس سے معلوم ہو کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر کرنے والے ہو۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مؤمن کو جو نعمت ملتی ہے اور جس کا اس آیت میں بھی ذکر کیا گیا ہے وہ کیا ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ سب سے اعلیٰ نعمت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے نبوت ہے اور اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو یہ سکھلایا ہے کہ تم ہمیشہ یہ دعا مانگتے رہو کہ اللہ تعالیٰ تم میں اپنی اِس نعمتِ نبوت کو قائم رکھے۔ اب نبی اپنی نعمت کی تحدیث کس طرح کرتے ہیں سو یہ ہر شخص جانتا ہے کہ نبی اپنی نعمت کی تحدیث اِس طرح کرتے ہیں کہ وہ دنیا کو الٰہی پیغام پہنچاتے چلے جاتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ لوگ اُنہیں دکھ دیں، اُن کا بائیکاٹ کریں، اُنہیں گالیاں دیں، اُنہیں ماریں یا اُنہیں پیٹیں وہ اپنی بات لوگوں کے کانوں میں ڈالتے چلے جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس نعمت کا عملی رنگ میں شکریہ یہی ہے کہ ہم تمام دنیا کے عذاب اپنے سر پر اٹھا لیں۔ پھر ان کی اُمتیں اُن کی تابع ہوکر ساری دنیا میں تبلیغِ دین کرتیں اورلوگوں کو صداقت کی طرف دعوت دیتی ہیں۔ وہ بھی بڑے بڑے دکھ اُٹھاتی ہیں اور ان پر بھی بڑے بڑے مصائب وارد ہوتے ہیں ۔ حتّٰی کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا پہلے انبیاء کی جماعتوں میں بعض لوگ ایسے گزرے ہیں جنہیں دشمنوں نے آروں سے چِیر ڈالا مگر انہوں نے اُف تک نہ کی۔۶؎
ہماری اپنی جماعت میں بھی اس رنگ کی تحدیث بِالنعمت کے بعض واقعات موجود ہیں۔ چنانچہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو جس وقت شہید کیا گیا ہے دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ اِدھر اُن پر پتھر پڑ رہے تھے اور اُدھر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتے جارہے تھے کہ یااللہ! میری قوم نادانی سے یہ فعل کررہی ہے تُو اسے معاف کردے۔ یہ سچی تحدیث بِالنعمت ہے جو اُن سے ظاہر ہوئی کہ آخری وقت میں بھی ان کے دل میں یہی خیال آیا کہ میں نے جس عظیم الشان نعمت کو حاصل کیا ہے مجھے عذاب دینے والے اس سے محروم نہ رہیں اور چاہے وہ مجھے دُکھ دے رہے ہیں میں ان کے متعلق یہی دعا کروں کہ خدا انہیں معاف کرے اور انہیں احمدیت کی شناخت کی توفیق عطا کرے۔
غرض نبوت پہلا اور سب سے بڑا انعام ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو دیتا ہے۔ پھر اس سے اُتر کرقرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیقیت کا مقام ہے۔ جب انسان نبیوں کے نقشِ قدم پر چلتے چلتے اس قدر بلند مرتبہ حاصل کرلیتا ہے کہ خداتعالیٰ اس سے نبیوں والا سلوک شروع کردیتا ہے۔ وہ نبی نہیں ہوتے مگر خداتعالیٰ کی غیرت ان کیلئے ایسی ہی بھڑکتی ہے جیسے نبیوں کیلئے، وہ نبی نہیں ہوتے مگر اللہ تعالیٰ ان کی زبان پر اسی طرح صداقت جاری کرتا ہے جس طرح نبیوں کی زبان پر وہ کامل مظہر ہوجاتے ہیں اس مقام کا کہ ۔۷؎ جس چیز کو وہ کہہ دیں کہ یہ دین ہے خداتعالیٰ اُسی کو قائم کرتا ہے اور جس چیز کو دنیا دین کہہ رہی ہو خداتعالیٰ اسے مٹا کر رکھ دیتا ہے۔ درحقیقت یہ نبوت کا مقام ہی ہے کیونکہ نبی ہی ہیں جو دین کے قیام کیلئے بھیجے جاتے ہیں اور گو وہ نبی نہیں ہوتے مگر نبوت کے مقام کے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ گویا وہی ہوجاتے ہیں۔ جس طرح لوہا جب آگ میں ڈالا جائے تو آگ کی شکل اور گرمی اور خواص سب اپنے اندر لے لیتا ہے اسی طرح وہ انبیاء کے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ ان کی تمام خصوصیات کے ایک حد تک حامل ہوجاتے ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ لوہا جب آگ میں ڈالا جائے تو گو وہ انگارہ نہیں بن جاتا مگر پھر بھی آگ کے تمام خواص ظاہر کرنے لگ جاتا ہے۔ وہ ویسے ہی جلاتا ہے جیسے آگ جلاتی ہے، وہ ویسا ہی گرمی پہنچاتا ہے جیسے آگ گرمی پہنچاتی ہے، وہ ویسی ہی شکل رکھتا ہے جیسی آگ کی شکل ہوتی ہے۔ غرض رنگ ، شکل اور خواص کے لحاظ سے اس میں اور آگ میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اسی طرح صدیق مقامِ نبوت کے اتنا قریب ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی باتوں کو نبیوں کی باتیں قرار دے دیتا ہے جس طرح نبیوں کی باتوں کو وہ اپنی باتیں قرار دیتا ہے۔
پھر تیسرا گروہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شُھَدَاء کا ہوتا ہے اور گو شُہَدَاء کیلئے خداتعالیٰ کی غیرت اتنی نہیں بھڑکتی جتنی صدیقوں کیلئے بھڑکتی ہے۔ پھر بھی وہ چلتے پھرتے خداتعالیٰ کے گواہ ہوتے ہیں اور دنیا میں اگر کسی نے چلتے پھرتے جنتی کو دیکھنا ہو تو ان کو دیکھ لے۔ اگر دنیا میں کسی نے خداتعالیٰ کے پیاروں کو دیکھنا ہو تو ان کو دیکھ لے۔ وہ خداتعالیٰ کی صفات کے ظہور کیلئے آئینہ کا رنگ رکھتے ہیں مگر ان میں اور صدیق میں ایک فرق ہوتا ہے۔ یعنی صدیق کی مثال تو ایک ایسے آئینہ کی ہے جس میں تصویر ثبت کردی گئی ہے جسے جب بھی دیکھو اس میں محبوب کے ہوبہو خدوخال نظر آئیں گے۔ آج دیکھو تو آج اور کل دیکھو تو کل۔ لیکن شہید کی مثال اُس آئینے کی طرح ہے جو گو بنایا اسی لئے گیا ہے کہ محبوب کا چہرہ اس میں نظر آئے مگر پھر بھی اس میں محبوب کی تصویر مستقل طور پر کندہ نہیں ہے۔ بایں ہمہ شیشہ اپنی ذات میں بھی ایک قیمتی اور مصفّٰی چیز ہوتا ہے۔ جب محبوب کا چہرہ اس میں نظر آرہا ہو تب بھی وہ قیمتی ہوتا ہے اور جب محبوب کا چہرہ اس میں نظر نہیں آرہا ہوتا تب بھی وہ قیمتی ہوتا ہے مگر بہرحال اس آئینہ میں محبوب کی تصویر دائمی طور پر ثبت نہیں کردی جاتی۔ ہاں اکثر اس میں محبوب کی شکل نظر آتی ہے کیونکہ شہید وہ آئینہ ہے جو ہروقت محبوب کے سامنے رکھا رہتا ہے۔ جیسے لوگ کام کی میز پر یا رہائش کے کمرہ میں آئینہ لگا دیتے ہیں۔ پس شہید کی مثال ایسے شیشے کی سی ہے جو قریباً ہر وقت سامنے رہتا ہے۔ یوں تو اس کے ہر دوسرے لحظہ کا عکس مختلف ہوتاہے لیکن بوجہ اس کے کہ وہ سامنے رکھنے کے لئے چُن لیا گیا ہے قریباً ہر وقت اس میں چہرے کا انعکاس پڑتا رہتا ہے۔
اس کے بعد چوتھا درجہ صالح کا ہے۔ صالح کے معنی ہیں قابلیت رکھنے والا انسان۔ یعنی بعض چیزیں اپنی ذات میںایک مقام تک نہیں پہنچی ہوتیں مگر ان میںاس مقام تک پہنچنے کی قابلیت ہوتی ہے۔ منطقیوں نے اسی بناء پر کہا ہے کہ بعض چیزیں کسی خاصہ کی بِالقُوّۃ مظہر ہوتی ہیں اور بعض بِالْفعل۔ یعنی بعض چیزیں تو وہ ہوتی ہیں جن میں کسی خاص قابلیت کے حصول کی قوت تو ہوتی ہے لیکن عملاً انہوں نے وہ قوت حاصل نہیں کی ہوئی ہوتی اور بعض وہ ہوتی ہیں جو عملاً بھی وہ قوت ظاہر کررہی ہوتی ہیں۔ شہید کا جو مقام ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے سامنے پڑا ہؤا شیشہ۔ کیونکہ شاہد کے معنے دیکھنے والے کے ہیں۔ گویا شہید ایک ایسا شیشہ ہے جو ہر وقت محبوب کے سامنے پڑا ہؤا ہے اور جب بھی کوئی شخص اس میں دیکھتا ہے اس میں محبوب کا چہرہ نظر آجاتا ہے۔ اور صالح کے معنے یہ ہیں کہ وہ ہر وقت سامنے پڑا ہؤا تو نہیں مگر اس میں ایسی قابلیت موجود ہے کہ جب بھی خداتعالیٰ اپنا چہرہ اس میں سے دکھانا چاہے وہ دوسروں کو دکھا سکتا ہے۔ گویا شہید اور صالح کے مقام میں وہی فرق ہے جو ان دو آئینوں میں ہے کہ ان میں سے ایک ہر وقت کمروں میں لٹکے رہتے ہیں اور دوسرے جیب یا ٹرنک میں رکھے رہتے ہیں۔ اب جو شیشہ کمرہ میں ہروقت سامنے ہوگا اس میں سے اکثر مکین کی صورت نظر آجائے گی کیونکہ مکین اکثر مکان میں ہی رہتا ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی وقت اگر مکین وہاں نہ ہو تو وہ اس کی صور ت نہ دکھاسکے۔ اسی طرح شہید گو ہر وقت خداتعالیٰ کا چہرہ اپنے آئینہ قلب میںسے نہیں دکھاسکتا مگر چونکہ وہ اس جگہ پر ہوتا ہے جہاں اکثر محبوبِ حقیقی نے جلوہ گر رہنا ہے اس لئے اکثر اس کا چہرہ اس کیلئے آئینہ میں ظاہر ہوتا رہتا ہے لیکن صالحیت کا مقام وہ ہے جس میں چہرہ دکھانے کی قابلیت تو پیدا ہوجاتی ہے مگر اِس رُتبہ کو نہیں پہنچتا کہ ہر وقت سامنے رہے۔ وہ جب کبھی سامنے آجاتا ہے محبوب کا چہرہ دکھادیتا ہے اور جب ایک طرف ہوجاتا ہے تو محبوب کا چہرہ نہیںدکھاسکتا لیکن بہرحال اس میں شکل دکھانے کی قابلیت موجود رہتی ہے۔ اسی طرح جو شیشہ سامنے پڑا ہؤا ہو اس کے سامنے سے بھی کبھی انسان ایک طرف ہوجاتا ہے مگر غائب ہونے کا وقت بہت کم ہوتا ہے اور سامنے رہنے کا وقت بہت زیادہ۔ غرض صدیق، شہید، صالح ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں جن میں سے بعض کا مقام زیادہ اہم ہے اور بعض کا کم۔ صدیق وہ ہے جو اصل کی تصویر بن جاتا ہے اور جس کی حالت ؎
من تُو شدم تُو من شدی من تن شدم تُو جان شدی
تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تُو دیگری
کا مصداق ہوتی ہے۔ اسے سامنے رکھو تب بھی وہ وہی صورت دکھائے گا جو اصل کی ہے اور اگر اسے الگ لے جائو تب بھی وہ وہی صورت دکھائے گا۔ اگر ایک میل دور لے جائو تب بھی اور اگر ہزاروں میل پر ے جائو تب بھی تمہیںاصل اور تصویر کے نقوش میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا۔ یہی حال صدیق کا ہوتا ہے اس میںمستقل طور پر رسول کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں اور اس کی ہوبہو وہی شکل ہوجاتی ہے جو نبی کی ہوتی ہے مگر اس کے برخلاف شہید اکثر اوقات میں نبوت کے نقوش کو پیش کرنے والا شیشہ ہے اور صالح وہ ہے جو نبوت کے نقوش تو دکھاتا ہے لیکن اس اظہار میں نمایاں وقفے پڑتے رہتے ہیں۔
یہ وہ چار انعامات ہیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے۔ اور اس میںکوئی شبہ نہیں کہ زیادہ تر مقصود اس آیت میں یہی چار انعام ہیں۔ باقی سب انعامات ان کے تابع ہیںاور چونکہ ان چاروں انعامات سے باہر اور کوئی روحانی انعام نہیں ہوسکتا اس لئے مؤمن یا نبی ہوگا یا مؤمن صدیق ہوگا یا مؤمن شہید ہوگا یا مؤمن صالح ہوگا۔ اور اگر ان چاروں مقامات میں سے کوئی بھی مقام اسے حاصل نہ ہو تو وہ مؤمن نہیں ہوسکتا۔ ان ساروں کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ یہ منعم علیہم ہیں۔ اب جبکہ منعم علیہ گروہ کی تعیین ہوگئی تو سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے اپنے رب کی نعمت کی تحدیث کرو اور عملی طور پر ایسے کام بجالائو جن سے معلوم ہو کہ تمہیںواقع میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر ہے۔ پس معلوم ہؤا کہ ہر مؤمن کیلئے تحدیث بِالنعمت لازمی ہے اور چونکہ مؤمن بغیر انعام کے نہیں ہوسکتا اور اور نعمت بغیر تحدیث کے نہیں ہوسکتی اس لئے ہر مؤمن کیلئے تحدیث بِالنعمت ضروری ہے۔ دراصل ایمان کا مقام احسان کا مقام ہے اور مؤمن اور محسن ایک ہی چیز ہیں۔ کوئی مؤمن ایسا نہیں ہوسکتا جو محسن نہ ہو اور کوئی ایسا حقیقی محسن نہیں ہوسکتا جو مؤمن نہ ہو۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ جیسے ایمان کے مختلف مدارج ہیں اسی طرح احسان کے بھی مختلف مدارج ہیں۔ مگر بہرحال وہ شخص جس میں کامل درجہ پر ایمان پایا جائے گا اس میں کامل درجہ پر احسان بھی پایا جائے گا اور جس میں کم درجہ کا ایمان ہوگا اس میں کم درجہ کا احسان پایا جائے گا۔ اسی لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ محسن وہ ہے جو اس یقین اور وثوق کے ساتھ خداتعالیٰ کی عبادت کرتا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ اور اگر یہ یقین اسے حاصل نہ ہو توا س سے اُتر کر اس میں اتنا یقین ضرور ہوتا ہے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔۸؎ گویامحسن کی دوحالتوں میں سے ایک حالت ضرور ہوتی ہے یا تو اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جس وقت وہ نماز میں کھڑا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی شکل اس کے سامنے آجاتی ہے۔ جب وہ کہتا ہے تو یہ کہنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی تمام صفاتِ کاملہ کا نقشہ اس کے سامنے کھچ جاتا ہے اور اس کے انعامات اسے یاد آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اور جب وہ کہتا ہے تو اس کیلئے اسے کہیںدُور جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی بلکہ اس کے دل میں بیٹھا ہؤا ہوتا ہے اور اس کی ربوبیت کے فیضان اس کے سامنے آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ کہتا ہے تو اس کی صفت رحمانیت کی جلوہ گری سامنے آجاتی ہے۔ جب کہتا ہے تو اس کی رحیمیت کا نقشہ اس کی آنکھوں کے سامنے کھِچ جاتا ہے اور جب کہتا ہے تو اس کی مالکیت کا تصور اس کے جسم کے ذرہ ذرہ کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھُکادیتا ہے۔ گویا وہ صرف اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کے اسماء نہیں نکالتا بلکہ اپنی ذات میں اس کی ربوبیت ، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیتِ کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس کی صفات کو جلوہ گر ہوتا ہؤا پاتا ہے۔ پس محسن کی یا تو یہ حالت ہوتی ہے اور یا پھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے اُتر کر اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ عبادت کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو گو وہ یہ نہیں سمجھتا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے مگر بہرحال وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔ یہ ادنیٰ درجہ ہے جو انسان کو نیکی کے راستہ پر قائم رکھتا ہے کیونکہ جب اُسے یہ یقین ہوکہ میرا خدا مجھے دیکھ رہا ہے تو لازماً وہ سنبھال سنبھال کر قدم رکھتا ہے اور گناہوں کا آسانی سے شکار نہیں ہوتا۔
غرض محسنِ کامل ہونا تو بہت بڑی نعمت ہے لیکن دنیا میںادنیٰ محسن بھی ہوتے ہیں جیسے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِسی جگہ فرمادیا کہ اعلیٰ محسن تو وہ ہے جو خداتعالیٰ کی اس رنگ میں عبادت کرے کہ گویا وہ خداتعالیٰ کودیکھ رہا ہے اور احسان کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان یہ یقین رکھتے ہوئے عبادت کرے کہ خدا اُس کو دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح مؤمنوں میں سے بھی بعض ادنیٰ درجہ کے ہوتے ہیں اور بعض اعلیٰ درجہ کے ہوتے ہیں مگر جو ادنیٰ ہیں وہ بھی خداتعالیٰ کی بارگاہ میں قبول کرلئے جاتے ہیں۔ کیونکہ مؤمن جس حالت میں بھی ہو خواہ ادنیٰ ہو یا اعلیٰ منعم علیہ گروہ سے باہر نہیں ہوتا۔ دنیا میں عام طور پر جنہیںہم تندرست کہا کرتے ہیں ان میںبھی کئی بیماریاںپائی جاتی ہیں مگر ہم انہیں بیمار نہیں کہتے اور نہ وہ خود یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کام کے قابل نہیں۔ بعض دفعہ ایک جرنیل ہوتا ہے مگر کسی ادنیٰ سی مرض میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایک پہلوان ہوتا ہے اور وہ بھی کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے مگر ان معمولی امراض سے پہلوان اپنی پہلوانی کے فن کو اور جرنیل اپنی فوج کی نگرانی کو ترک نہیں کردیا کرتا کیونکہ ان کی صحت کی زیادتی ان کی بیماری کی کمزوری پرغالب آئی ہوئی ہوتی ہے۔ اسی طرح مؤمنوں میں سے بھی کسی میں کوئی کمزوری ہوتی ہے اور کسی میں کوئی مگر ان کمزوریوں کی وجہ سے وہ منعم علیہ گروہ میں سے نہیں نکل جاتے کیونکہ اُن کی نیکیاں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ان کی کمزوریاں بالکل چھُپ جاتی ہیں۔ بہرحال جبکہ ہر مؤمن منعم علیہ گروہ میں شامل ہے تو ہر مؤمن کیلئے تحدیث بِالنعمت بھی ضروری ہے اور تحدیث بِالنعمت یہی ہے کہ عملی رنگ میں دنیا کو فائدہ پہنچایا جائے اور جو کچھ بھی خداتعالیٰ دے اس سے دوسروں کو متمع کیا جائے۔ اگر دین ملے تو دوسروں تک دین پہنچایا جائے، اگر عرفان ملے تو عرفان دیا جائے، اگر علم ملے تو علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچایا جائے، غرض مؤمن کا مقام اللہ تعالیٰ نے محسن کا مقام رکھا ہے اور جب خداتعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اور ادھر یہ فرماتا ہے کہ ہر مؤمن منعم علیہ گروہ میں شامل ہے تو معلوم ہؤا کہ کوئی مؤمن ایسا نہیں جو محسن نہ ہو اور کوئی مؤمن ایسا نہیں جس کا یہ فرض نہ ہو کہ وہ دنیا کو اپنی تمام طاقتوں سے فائدہ نہ پہنچائے۔ اِس نقطۂ نگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری جماعت کو یہ امر سوچنا چاہئے کہ اس کے تمام کام بنی نوع انسان کو فوائد پہنچانے کیلئے ہیں یا اپنی ذات کو نفع پہنچانے کیلئے؟
میں نے جو خدام الاحمدیہ نام کی ایک مجلس قائم کی ہے اس کے ذریعہ اسی روح کو میں نے جماعت میں قائم کرنا چاہا ہے اور اس کے ہر رُکن کا یہ فرض قرار دیا ہے کہ وہ اپنی قوتوںکو ایسے رنگ میں استعمال کرے کہ اپنے فوائد کو وہ بالکل بھُلادے اور دوسروں کو نفع پہنچانا اپنا منتہی قرار دے دے۔ چنانچہ جہاںجہاںبھی اِس کے ماتحت کام کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسرے لوگ بھی اس سے متأثر ہوئے ہیں اور خود انہوں نے بھی اپنی روحانیت میں بہت بڑا فرق محسوس کیا ہوگا کیونکہ جب کوئی شخص ایک منٹ کیلئے بھی اپنے فوائد کو نظر انداز کرکے دوسرے کو فائدہ پہنچانے کے خیال سے کوئی کام کرتا ہے اُس ایک منٹ کیلئے وہ خداتعالیٰ کا مظہر بن جاتا ہے۔ کیونکہ خدا ہی ہے جو اپنے فائدہ کیلئے کوئی کام نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے تمام کام کرتا ہے۔ وہ غنی ہے اور اِس بات سے بے نیاز ہے کہ اُسے کوئی فائدہ ہو۔ وہ جو بھی کام کرتاہے مخلوق کیلئے کرتا ہے۔ پس جس گھڑی بندہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جس کا فائدہ اُس کی ذات کو نہیں پہنچتا بلکہ دوسروں کو پہنچتا ہے تو اُس گھڑی میں وہ خدا نما آئینہ ہوتا ہے جس میں سے خداتعالیٰ کا چہرہ نظر آرہا ہوتا ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جو چیز ایک وقت انسان کے ساتھ وابستہ ہوگی وہ بعد میں بھی اپنا اثر دکھائے گی۔ دیکھو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم جمعہ کیلئے آئو تو اپنے کپڑوں کو خوشبو لگا کر آئو۔۹؎ اب خوشبو لگانا ایک منٹ کا کام ہے مگر وہ خوشبو بعد میںبھی گھنٹہ دو گھنٹے، ایک دن دو دن بلکہ ہفتہ ہفتہ تک جیسی جیسی قیمتی خوشبو ہوتی ہے قائم رہتی ہے۔ بارش برستی ہے اور وہ محدود وقت میں برستی ہے مگر اُس کی ٹھنڈک کا اثر دنوں چلا جاتا ہے۔ آگ جلتی ہے تو گو بعد میں بجھ بھی جاتی ہے مگر کمرے میں پھر بھی بہت دیر تک گرمی قائم رہتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی مؤمن خدانما ہوجاتا ہے اور وہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جس میں وہ اپنے فائدے کو بالکل نظرانداز کردیتا اور محض دوسروں کو فائدہ پہنچانا اپنا منتہی قرار دے لیتا ہے تو اُس وقت وہ خداتعالیٰ کا مظہر بن ہوجاتا ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ عطر کا ایک چھِینٹا جب کپڑوں پر پڑے تو وہ کئی کئی دن تک انسانی دماغ کو معطر رکھے سورج چڑھے اور اس کے غروب ہونے کے بعد بھی زمین سے گرمی کی لپٹیں آتی رہیں۔ بارش برسے اور اس کے کئی کئی دن بعد بھی ٹھنڈک محسوس ہوتی رہے مگر خدا کسی جسم میں آئے اور اس کا اثر کام کے ختم ہوتے ہی غائب ہوجائے۔ اگر تم ایک منٹ کیلئے بھی خداتعالیٰ کامظہر بن جاتے ہو تو یقینا اس کے گھنٹوں بعد کی تمہاری حالت بھی خدا نما ہوگی اور تم ایک منٹ میں جو کام کرو گے اس کے بدلے کئی گھنٹوں کیلئے خداتعالیٰ کے مظہر بن جائو گے۔ اور اگر تم اس ایک منٹ کو ترقی دیتے چلے جائو تو پھر تم چوبیس گھنٹے ہی خداتعالیٰ کے مظہر بن سکتے ہو۔ چاہے دنیا کے نزدیک تم نے خدمتِ خلق کیلئے ایک یا دو گھنٹے وقت دیا ہو۔ جس طرح آگ بجھ جاتی ہے مگر کمرہ پھر بھی گرم رہتا ہے، بارش برس جاتی ہے مگر خنکی پھر بھی قائم رہتی ہے اسی طرح ہوتے ہوتے تمہاری یہ حالت ہوجائے گی کہ تمہارا گھنٹے دو گھنٹے کا کام اپنے اثرات کے لحاظ سے چوبیس گھنٹوں پر پھیل جائے گا اور پھر کل کا کام اس اثر کو اَور بڑھائے گا اور پرسوں کا کام اس اثر کو اَور ترقی دے گا یہاں تک کہ بالکل ممکن ہے بلکہ غالب ترین بات یہ ہے کہ تمہاری روحانیت اس قدر ترقی کرجائے اور تمہاری نیتیں اتنی صاف ہوجائیں کہ وہ دو گھنٹے کا کام نہ صرف تمہیں باقی بائیس گھنٹوں کیلئے خداتعالیٰ کا مظہر بنادے بلکہ جب دوسرا دن چڑھے تو اُس دن جو کام تم خداتعالیٰ کے نمونہ پر کرو صرف اُسی کی وجہ سے خداتعالیٰ کے مظہر نہ بنو بلکہ پہلے دن کی مظہر یت ابھی باقی ہو اور وہ دونوں مل کر تمہارے نور کو اَور بھی بڑھادیں اور ہوتے ہوتے ایک غیرمحدود ذخیرہ انعکاساتِ الٰہیہ کا تمہارے جسم میں جمع ہوجائے۔
آخر یہی وہ طریق ہے جس کے ماتحت کسی انسان کی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کہلاتی ہے۔ ورنہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس قسم کا بنایا ہے اس کے لحاظ سے ۲۴ گھنٹے وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کا مظہر نہیں بن سکتا۔ آج تک کوئی نبی بھی ایسانہیں آیا جو سوتا نہ ہو، یا کھانا نہ کھا تا ہو، یاپانی نہ پیتا ہو، یا پاخانہ پیشاب نہ کرتا ہو، یا نہاتا دھوتا نہ ہو، یا بیوی بچوں کا فکر نہ کرتا ہو۔ یہ ساری ضروریات نبیوں کے ساتھ بھی لگی ہوئی تھیں پھر کیونکر خداتعالیٰ نے ان کی ہر حرکت اور ان کا ہر سکون اپنی راہ میں قرار دیااور کیونکر کہہ دیا کہ ان کا ہر کام میری رضا کیلئے ہے۔ اس کی تہہ میں دراصل وہی بات ہے جو میں نے بتائی ہے اور جس کی مثال میں مَیں نے بتایا ہے کہ عطرلگانے کے بعد تم گھنٹوں بلکہ دنوں تک اس کی خوشبو محسوس کرتے ہو۔ کمرہ میں آگ جلاتے ہو تو اس کے بجھنے کے بعد بھی اس کی گرمی محسوس کرتے ہو۔ اسی طرح انبیاء خداتعالیٰ کی محبت میں اس قدر محو ہوتے ہیںکہ جب وہ سوتے ہیں اُس وقت بھی ان پر یہی محویت طاری ہوتی ہے، جب اٹھتے ہیں اس وقت بھی یہی محویت ہوتی ہے، جب کھاتے ہیں اُس وقت بھی اور جب پیتے ہیں اُس وقت بھی، اِس طرح اُن کی نیند بھی خدا کیلئے ہوتی ہے اور اُن کی بیداری بھی ، اُن کا کھانا بھی خدا کے لئے ہوتا اور اُن کا پینا بھی۔ اسی طرح اُن کا اُٹھنا، اُن کا بیٹھنا ، اُن کا نہانا، اُن کا پیشاب پاخانہ کرنا سب خدا کیلئے ہوتاہے۔ وہ کام دنیا کو دنیا کے نظر آتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی نگاہ میں وہ اُس کیلئے ہوتے ہیں کیونکہ اُن کاموں میں وہی خوشبو سمائی ہوئی ہوتی ہے جو خوشبو اُن کی زندگی کا اصل مقصود ہوتی ہے۔ تو جب محض ِﷲ کوئی شخص کام کرتا ہے اُس وقت اُس کی باقی گھڑیوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ پس مؤمن کو اپنے کاموں میں لِلّٰہیت کو کبھی نہیں بھُولنا چاہئے۔ خداتعالیٰ نے ہم کو ایک ایسے ماحول میں پیدا کیا ہے کہ ہمیں سزائیں بھی دینی پڑتی ہیں، ہمیں گرفتیں بھی کرنی پڑتی ہیں، ہمیں سیاستِ اسلام کو بھی قائم کرنا پڑتا ہے مگر باوجود اس کے چونکہ بندہ خداتعالیٰ کا ظل ہے اور خداتعالیٰ اپنے متعلق یہ فرماتا ہے کہ ۱۰؎اس لئے ہمیں معافیاں بھی دینی پڑتی ہیں، درگزر بھی کرنا پڑتا ہے اور چشم پوشیاں بھی کرنی پڑتی ہیں۔
کئی نادان ہیں جو ان باتوں کی وجہ سے دھوکا کھاجاتے ہیں۔ چنانچہ بعض تو وہ ہیں جو یہ کہتے رہتے ہیں کہ کیوں زیادہ سختی نہیں کی جاتی اور بعض وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ کیوں نرمی نہیں کی جاتی وہ یہ نہیںجانتے کہ ہم اس خدا کے مظہر ہیں جو نرمی بھی کرتا ہے اور سختی بھی۔ وہ مجرم کو اس کے کئے کی سزا بھی دیتا ہے اور کئی مجرموں کو معاف بھی کردیتا ہے۔ مؤمن تو خداتعالیٰ کا ظِلّ ہے ورنہ اپنی ذات میں مؤمن کوئی چیز نہیں، اپنی ذات میں نبی بھی کوئی چیز نہیں۔ نبی کی قیمت اسی لئے ہے کہ وہ خداتعالیٰ کا ظِل ہے، صدیق کی قیمت بھی اسی لئے ہے کہ وہ خداتعالیٰ کا ظِلّ ہے، شہید کی قیمت بھی اسی لئے ہے کہ وہ خداتعالیٰ کا ظِل ہے اورصالح کی قیمت بھی اسی لئے ہے کہ وہ خداتعالیٰ کا ظِل ہے۔ کوئی بڑا سایہ ہے اور کوئی چھوٹا۔ اپنی ذات میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جوحی ّ اور قیّوم ہے۔ جو پہلے بھی تھا، اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ باقی چیزیں آئیں اور فنا ہوگئیں، آئیں او رمٹ گئیں۔ ان کو اگر زندگی ملتی ہے جیسے مَابَعْدَالْمَوْت حیات دی جاتی ہے تو وہ خداتعالیٰ کے طفیل ملتی ہے۔ اپنی ذات میں ان کے اندر کوئی ایسی خوبی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ ابدی زندگی کے مستحق ہوں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک چھوٹا بچہ جو چل بھی نہیں سکتاہو سکتا ہے اسے ایک مضبوط انسان اپنی گود میں اُٹھالے اور بھاگ پڑے۔ اب بچہ یقینا اس جگہ نہیں ہوسکتا جہاں وہ ایک منٹ پہلے تھا۔ وہ اگر پہلے اس جگہ تھا تو ایک منٹ کے بعد پندرہ بیس گز دور چلاجائے گا پھر اور دور چلا جائے گا اور پھر بالکل نظروں سے اوجھل ہوجائے گا مگر وہ بچہ نہیں چل رہا بلکہ آدمی چل رہا ہے۔ اسی طرح جو حیاتِ ابدی مرنے کے بعد انسان کو ملتی ہے وہ انسان کی حیاتِ ابدی نہیں ہوتی بلکہ خداتعالیٰ کی حیاتِ ابدی ہوتی ہے۔ وہ انسان نہیں بڑھ رہا ہوتا بلکہ خدا بڑھ رہا ہوتا ہے۔ دنیا میںکون ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑے سے بڑا انسان ہو جو یہ کہہ سکے کہ وہ خداتعالیٰ کی مدد کے بغیر ایک سیکنڈ بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ ایک سیکنڈ کیا سیکنڈ کا اربواں حصہ بھی کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
پس مَابَعْدَالْمَوْت اگر انسان کو ابدی زندگی ملتی ہے تو محض اس لئے کہ وہ خداتعالیٰ کی گودمیں آجاتا ہے اور چونکہ خدا ہمیشہ کیلئے زندہ ہے ا س لئے وہ بھی ہمیشہ کیلئے زندہ ہوجاتا ہے۔ تو بندے کے تمام کام دراصل ظلّی ہوتے ہیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ اپنی شان میں یہ فرماتا ہے کہ تو لازماً بندوں کے کاموں میں بھی رحمت کا پہلووسیع ہونا چاہئے۔ اسی وجہ سے بندہ کسی مجرم کو بخشے گا اور کسی کی سزا کوکم کرے گا لیکن کسی مجرم کو وہ سزا بھی دے گا کیونکہ وہ صرف کا مظہر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیتِ یوم الدین کا بھی مظہر ہے۔ پس جس جس مقام پر وہ خداتعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اس مقام کے مناسب حال وہ سلوک کرتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیوں ایسا کام کرتا ہے جو کا کام ہے، اس لئے کہ جو اس کی مالکیت کا ظِلّ ہے وہ اس صفت میں اس کا مظہر نہ بنے تو کیا کرے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ سزا کے مقام پر صفت کا مظہر بنے، چشم پوشی یا احسان کے موقع پر صفتِ رحمانیت کا مظہر بنے، پرورش کے موقع پر صفتِ ربوبیت کا مظہر بنے اور انعامات کے موقع پر صفتِ رحیمیت کا مظہر بنے۔ ہاں اگر وہ ان صفات کے خلاف چلتا ہے تب بے شک اعتراض کیا جاسکتا ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ جب کی صفت کا ظہور ضروری ہوتا ہے تو یہ رحمانیت کی صفت ظاہر کرنے لگ جاتا ہے اور جب رحیمیت کی صفت جلوہ گری ضروری ہوتی ہے تو ربوبیت کا اظہار کرنے لگ جاتا ہے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ رحمن کیوں ہے، یہ رحیم کیوں ہے، یہ کیوں ہے اور یہ کیوں ہے۔ جس طرح خداتعالیٰ کسی موقع پر ہوتا ہے اور کسی موقع پر رحمن، کسی موقع پر رحیم ہوتا ہے اور کسی موقع پر۔یہی حال بندے کا ہے اسے بھی مختلف موقعوں پر مختلف صفات کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ ہاں جو چیز اعتراض کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ خدا کسی کو معاف کررہا ہو اور یہ اسے سزا دینے کے درپے ہو۔ یا خدا سزا دینے کے درپے ہو اور یہ اسے معاف کررہا ہو۔ یہ قابلِ اعتراض بات ہے اور یہ نہیں ہونی چاہئے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کیوں کسی وقت سزا دی جاتی ہے اور کسی وقت معاف کردیاجاتا ہے۔
قرآن کریم میں دیکھ لو اللہ تعالیٰ ایک مقام پر فرماتا ہے کہ تم لوگوں کو معاف کیا کرو کیونکہ درگزر کرنا اور چشم پوشی سے کام لینا بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن دوسری جگہ فرماتا ہے کہ جب فلاںقسم کے مجرموںکو سزا دی جارہی ہو تو یاد رکھو اگر اُس وقت تمہارے دل میں ذرا بھی رحم پیدا ہؤا تو تم اللہ تعالیٰ کو ناراض کرلو گے۔ اب ایک طرف اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو معاف کرواور دوسری طرف یہ فرماتا ہے کہ دیکھنا تمہارے دل میں بھی رحم نہ آئے۔ رحم پیدا ہؤا اور تمہارا ایمان ضائع ہؤا۔ اب یہ تونہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ نَعُوْذُ بِاﷲِشقاوتِ قلبی کی تعلیم دیتا ہے۔ یا جب کہتا ہے کہ معاف کرو تو بُزدل بناتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا منشاء اس میں ہمیں یہ بتانا ہے کہ جب میں کہو ں کہ سزا دو تو تم سزا دو اور جب میں کہوں چھوڑ دو تو تم چھوڑ دو۔ جب میں رحمانیت کا جامہ پہن کر آئوں تو تم بھی رحمانیت کا جامہ پہن لو اور جب میں کا جامہ پہن کر آئوں تو تم بھی رحمانیت کا جامہ اتار کر مالکیتِ کا جامہ پہن لو۔ غرض جس جُبّہ میں بھی میںہوں وہی جُبّہ تمہارا ہو اور جو کچھ میں کروں وہی تم کرو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کئی دفعہ ایک مثال سنایا کرتے تھے جو بیسیوں دفعہ میں نے آپ کی زبان سے سُنی ہے۔ آپ فرماتے ہیں بندہ کا کام اسی رنگ میں رنگین ہوجانا ہے جو اسے خداتعالیٰ بخشتا ہے۔ پھر آپ مثال سناتے اور فرماتے کہتے ہیں کوئی راجہ تھا، ایک دفعہ اس کے سامنے بینگن کا سالن رکھا گیا جو بہت عمدگی سے تیار کیا گیا تھا اور اسے بہت پسند آیا۔ اس نے دربار میں اُس کی تعریف کی اور کہا کہ بینگن معلوم ہوتا ہے بہت اچھی ترکاری ہے۔ یہ سنتے ہی ایک درباری ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا حضور بینگن کے کیا کہنے ہیں اس میں یہ خوبیاں ہیں، اس میں وہ خوبیاں ہیں۔ چنانچہ جتنی تعریفیں طب میںبینگن کے متعلق لکھی تھیں وہ سب اس نے بیان کرڈالیں اور آخر میں کہنے لگا حضور! اس کی شکل بھی تو دیکھیں بالکل صوفی معلوم ہوتا ہے۔ جس طرح صوفیوں نے سبز عمامہ پہنا ہؤا ہوتاہے اور ان کا کالا جُبّہ ہوتا ہے اسی طرح اس کی شکل اور رنگ اور وضع سب صوفیوں کی سی ہے۔ خیر بادشاہ جو چند دن مسلسل بینگن کھاتا رہا تو اسے بواسیر ہوگئی۔ حکیموں نے کہا حضور! آپ نے بڑی بے احتیاطی کی، اتنے دن جو مسلسل آپ بینگن کھاتے رہے ہیں اسی وجہ سے آپ کو بواسیر ہوئی ہے۔ بادشاہ نے یہ سُن کر بینگن کھانے ترک کردیئے اور ایک دن دربارمیں باتوں باتوں میں کہنے لگا کہ بینگن بھی کچھ ایسی اچھی چیز نہیں ہوتے اس میں بھی کئی خرابیاں ہیں۔ یہ سُن کر وہی درباری کھڑ اہوگیا اور کہنے لگا حضور! بینگن بھی کوئی ترکاریوں میں سے ترکاری ہے۔ اس میںیہ مضرّت ہے، اس میںوہ مضرت ہے۔ چنانچہ طب میںبینگن کی جس قدر مضرتیں بیان کی گئی ہیں وہ سب اُس نے ذکر کردیں کیونکہ طب میں ہر چیز کے فوائد اور نقصانات دونوں بیان ہوتے ہیں پھر آخر میں کہنے لگا حضور! اس کی شکل بھی تو دیکھیں کیسی منحوس ہے۔ جس طرح چور کے ہاتھ منہ کالے کرکے پھانسی پر لٹکایا ہؤا ہوتا ہے اسی طرح یہ بیل سے لٹکا ہؤا ہوتا ہے۔ لوگوں نے اُسے کہا ارے! یہ کیا، اُس دن تو تُو بینگن کی اتنی تعریف کررہا تھا اور آج تو اس کی برائیاں بیان کررہا ہے۔ وہ کہنے لگا میں بینگن کا نوکر تھوڑا ہوں، میں تو راجہ کانوکر ہوں۔ آپ فرماتے جب لوگ ایسے آقائوں کی جو غلطیاں کرسکتے ہیں ایسی اطاعت کرتے ہیں تو ہم اُس آقا کی اتباع کیوں نہ کریں جو کبھی غلطی نہیں کرتا اور جس کا ہر رنگ باموقع اور ضروری ہوتا ہے۔ ہم تو وہی کریں گے جو خداتعالیٰ کہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جب تک کسی انسان کو ایسی ہی وابستگی حاصل نہ ہو وہ کبھی نجات نہیں پاسکتا کیونکہ انسان غلطی کرسکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ غلطی نہیں کرسکتا۔ جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اِس وقت دن ہے تو ہم بھی کہتے ہیں کہ اس وقت دن ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ رات ہے تو ہم بھی کہتے ہیں کہ رات ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ نرمی کرو تو ہم بھی کہتے ہیں نرمی کرو اور جب وہ کہتا ہے سختی کرو تو ہم بھی کہتے ہیں سختی کرو۔ جب وہ کہتا ہے آگے بڑھو تو ہم بھی کہتے ہیں آگے بڑھو اور جب وہ کہتا ہے کہ پیچھے ہٹو تو ہم بھی کہتے ہیں کہ پیچھے ہٹو۔ نادان کہتے ہیں کہ تم اپنی باتوں کو بدلتے ہو حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نہیں بدلتے بلکہ وہی کچھ کہتے ہیں جو اُدھر سے ہمارے دل اور دماغ میں ڈالا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے پاس سے کچھ کہیں تو ہم پر اعترض ہوسکتا ہے لیکن جب ہماری ہر حرکت اور ہمارا ہر سکون خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہو تو یقینا وہی بہتر ہو گا جو خدا کا منشاء ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ آپ نے پہلے حضرت مسیح ؑپر اپنی فضیلت صرف جُزئی قرار دی تھی مگر اب فرماتے ہیں کہ میں اپنی تمام شان میں اس سے بڑھ کر ہوں۔ تو آپ نے اس کے جواب میں یہی فرمایا کہ میں تو خدا تعالیٰ کی وحی کی پیروی کرنے والا ہوں۔ جب تک مجھے اُس سے علم نہ ہؤا مَیں وہی کہتا رہا جو اوائل میں مَیں نے کہا اور جب مجھے اُس کی طر ف سے علم ہؤا تو میں نے اُس کے مخالف کہا۔ میںانسان ہوں مجھے عالم الْغیب ہونے کا دعویٰ نہیں۔
تو نبی بھی جب تک خداتعالیٰ کی طرف سے آواز نہیں آتی ، قوم میں مروجہ خیالات کی پیروی کرتا ہے مگر جب خداتعالیٰ کی آواز آتی ہے تو وہ فوراً ان خیالات کو پھینک دیتا ہے۔ مثنوی رومی والے اسی امر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے بندوں کی مثال بانسری کی طرح ہوتی ہے۔ اب بانسری آپ تھوڑی بول رہی ہوتی ہے اس میں تو جو کچھ پھونکا جاتا ہے وہی وہ باہر نکال دیتی ہے۔ اسی طرح جو حقیقی مؤمن ہیں وہ بھی اپنے پاس سے کچھ نہیں کہتے بلکہ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہیں۔ خدا جہاں اُنہیں بٹھاتا ہے وہ وہاں بیٹھ جاتے ہیں، جہاں کھڑا کرتا ہے وہاں کھڑے ہوجاتے ہیں، جو کہتا ہے وہ کہتے چلے جاتے ہیں اور جس سے روکتا ہے اس سے رُک جاتے ہیں۔ جب یہ رنگ کوئی شخص اختیار کرلے تب وہ واقع میںمؤمن کہلاسکتا ہے۔ ورنہ نہ ہر جگہ نرمی اچھی ہوتی ہے نہ ہر جگہ سختی۔ مؤمن صرف یہ دیکھتا ہے کہ خداتعالیٰ کے دین کا فائدہ کس میں ہے۔ اگر اس کے دین کا فائدہ سختی میں ہو تو وہ سختی کرتا ہے اوراگر اس کے دین کا فائدہ نرمی میں ہو تو وہ نرمی کرتا ہے۔ جب خدا اسے کہتا ہے کہ میرے دین کا فائدہ اِس وقت نرمی میں ہے تو وہ اتنا نرم بن جاتا ہے کہ پانی بھی اتنا نرم نہیں ہوتا اور جب وہ کہتا ہے کہ میرے دین کا فائدہ سختی میں ہے تو وہ اتنا سخت بن جاتا ہے کہ لوہا بھی اتنا سخت نہیں ہوتا۔ اس کی نہ سختی اصلی ہوتی ہے نہ نرمی اصلی ہوتی ہے اصل چیز تو وہ عشق اور محبتِ الٰہی ہوتی ہے جو اس کے دل میں مخفی ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے وہ ہر وقت خداتعالیٰ کی آنکھ کی طرف دیکھتا رہتا ہے۔ جس سے اُس کی آنکھ پھرے اُس سے وہ بھی پھر جاتا ہے اورجس پر وہ رحمت کی نگاہ ڈالے اُس سے وہ بھی محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ جب خدا کسی کو غضب کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو بغیر ایک منٹ کے تردّد کے وہ بھی اس پر غضبناک ہوجاتا ہے اور جب خدا کسی کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو بغیر ایک لمحہ کے توقّف کے وہ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں جس کی اتباع کررہا ہوں وہ یہی کہتا ہے کہ فلاںغضب کا مستحق ہے اورفلاں رحمت کا۔ یہ وہ مقام ہے جس کے حصول کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے اور منعم علیہ گروہ وہ ہے جس کی دوسری جگہ یہ تشریح کی گئی ہے کہ اس میں نبی، صدیق، شہید اور صالح شامل ہیں۔ گویا منعم علیہ گروہ وہ ہے جو خداتعالیٰ کی صفات کو دنیا میں جاری کرتا ہے کیونکہ سب سے بڑی نعمت اس کی صفات کا آئینہ قلب میں منعکس ہونا ہی ہے۔ نبوت کیا ہے؟ وہ خداتعالیٰ کا ایک آئینہ ہے۔ صدیقیت کیا ہے؟ وہ بھی خداتعالیٰ کا ایک آئینہ ہے۔ شہادت کیا ہے؟ وہ بھی خداتعالیٰ کا ایک آئینہ ہے۔ اور صالحیت کیا ہے؟ وہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک آئینہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی مستقل آئینہ ہے، کوئی عارضی، کوئی چھوٹا اور کوئی بڑا۔ کوئی تھوڑی دیر کیلئے آئینہ اور کوئی زیادہ دیر کیلئے مگر بہرحال اپنی ذات میں وہ کچھ نہیں۔ وہ صرف خداتعالیٰ کا انعکاس ہیںاور اگر کا محبت کی زبان میں ہم ترجمہ کریں تو یوںہوگا کہ وہ لوگ جن کی طرف تُو نے منہ کرکے دیکھ لیا۔ اب جس آئینہ کی طرف محبوب منہ کرکے دیکھتا ہے اُس میںاُس کی شکل بھی آجاتی ہے۔ پس کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے خداتعالیٰ کا چہرہ دیکھ لیا اور اُنہوں نے لوگوں سے یہ کہنا شروع کردیا کہ اگر تم خداتعالیٰ کی شکل دیکھنا چاہتے ہو تو ہمارے دل کے آئینہ میں اس کی شکل دیکھ لو۔ پس ان کا لوگوں کے ساتھ جو بھی معاملہ ہو خداتعالیٰ کی طرز پر ہوتا ہے۔ جب وہ کہتا ہے نرمی کرو تو وہ نرمی کرتے ہیں۔ جب کہتا ہے دلیری دکھائو تودلیری دکھاتے ہیں۔ جب کہتا ہے خاموش رہو تو خاموش ہوجاتے ہیں۔ جب کہتا ہے بولو تو بولتے ہیں۔ جب اس مقام کو کوئی جماعت حاصل کرلیتی ہے تو اس کے بعد خداتعالیٰ کاظہور اس کے ذریعہ ہونے لگتا ہے لیکن جو قوم اپنے آپ کو اس کا آئینہ نہیں بناتی اس میں اس کی شکل نظر نہیں آسکتی۔ کیا مٹی کے ڈھیلے لے کر تم لوگوں کو تصویریں دکھاسکتے ہو؟ مٹی کے ڈھیلوں میں تصویر نظر نہیں آتی بلکہ تصویر اُس وقت نظر آئے گی جب تمہارے پاس آئینہ ہوگا اور آئینہ بھی وہ جس کا محبوب کی طرف منہ ہو۔
پس تم اپنے آپ کو خدا نما آئینہ بنائو اورکے حکم کے مطابق تمام دنیا کو محبوب ازلی کے خوبصورت چہرہ سے روشناس کرو کیونکہ آئینہ صرف اپنے اندر ہی تصویر نہیں لیا کرتا بلکہ دوسروں کو بھی دکھا دیتا ہے۔ پس تم بھی ایسے بنو کہ تمہارے اندر خدائی نور نظر آئے اور تمہارے ذریعہ سے خداتعالیٰ کا منشاء ظاہر ہو۔ جب تم سختی کیلئے کھڑے ہو تو اس لئے مت کھڑے ہو کہ تمہارا نفس تمہیں کہتا ہے کہ تم سختی کرو بلکہ تم اس لئے سختی کرو کہ تمہارا خدا کہتا ہے میں مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہوں اور تمہارا فرض ہے کہ تم اِس صفت کے مظہر بنو۔ اسی طرح جب نرمی کیلئے کھڑے ہو تو اس لئے مت نرمی کرو کہ تمہارا نفس تمہیں نرمی کا مشورہ دیتا ہے بلکہ اس لئے نرمی کرو کہ تمہارا خدا کہتا ہے اور تمہارے خدا کا یہ حکم ہے کہ تم اس کی صفات اپنے اندر پیدا کرو۔ اسی طرح جب بنی نوع انسان سے شفقت اور احسان کے ساتھ پیش آئو تو اس لئے شفقت اور مروت مت کرو کہ ذاتی طور پر تمہارے دل میں شفقت کا خیال پیدا ہؤا ہے بلکہ اس لئے شفقت کرو کہ تمہارا خدا کہتا ہے کہ میں رحمن اور رحیم ہوں اور تمہارا فرض ہے کہ صفتِ رحمانیت اور رحیمیت کے مظہر بنو۔ اسی طرح جب تم بیکسوں اور غریبوں کی خبرگیری کرو، جب تم یتیموں کی پرورش کرو ، جب تم بیوائوں پر ترس کھائو تو ان کی خبرگیری اورپرورش اس لئے نہ کرو کہ تمہارے دل میں اس کا خیال پیدا ہوا ہے بلکہ اس لئے کرو کہ ربُّ العٰلمین خدا تمہارے سامنے جلوہ گر ہے اور تمہارا فرض ہے کہ اس کی ربوبیت کا جامہ پہن لو۔ غرض تم اُس وردی کے پہننے والے ہو جو تمہارا افسر پہنتا ہے۔ جس طرح بادشاہ جس قسم کی وردی پہنتا ہے اُسی کی نقل سپاہیوں کو پہنائی جاتی ہے۔ اسی طرح تمہارا بھی فرض ہے کہ تم اپنے ازلی اور ابدی بادشاہ کی طرف دیکھو اور جو اُس کا لباس ہو وہ پہنو۔ اور یاد رکھو کہ جس طرح وہ سپاہی جو بادشاہ کا مقرر کردہ لباس نہیں پہنتا اُس کا نام فوج میں سے کاٹ دیا جاتا ہے اسی طرح وہ شخص جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے آئینہ قلب میں منعکس نہیں کرتا اور نہ ان صفات کے مطابق اپنے معاملات رکھتا ہے، اُس کا نام اللہ تعالیٰ کے حضور مؤمنوں کی فہرست میں سے کاٹ دیا جاتا ہے۔‘‘ (الفضل ۱۰؍ جون ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الفاتحۃ:۶،۷
۲؎ بخاری کتاب الصوم باب ھَلْ یَقُوْلُ اِنِّی صَائِمٌ اِذَا شُتِم
۳؎ البقرۃ: ۱۸۷ ۴؎ النمل: ۶۳ ۵؎ الضّحٰی: ۱۲
۶؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الْأِسْلام
۷؎ النور: ۵۶
۸؎ بخاری کتاب الایمان باب سُئَوالِ جِبْریْلَ النَّبیَّ صلی اﷲ علیہ وسلم عن الایمان (الخ)
۹؎ بخاری کتاب الجمعۃ باب الطِّیْبُ لِلْجُمُعۃِ
۱۰؎ الاعراف: ۱۵۷

۱۷
یاجوج ماجوج کی حقیقت اور اسلامی تعلیم کا نِفاذ
(فرمودہ ۱۰؍ جون ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مسیح موعود ؑ کے زمانہ کے متعلق قرآن کریم میں یہ خبر دی گئی ہے اور احادیث میں بھی متواتر اور کثرت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ اُس وقت دو طاقتیں جو آپس میں ایک دوسرے کی مخالف ہوں گی ظاہر ہوں گی۔ ان میں سے ایک طاقت کا نام یاجوج رکھا گیا ہے اور دوسری طاقت کا نام ماجوج رکھا گیا ہے اور چونکہ بظاہر دو مخالف طاقتیں تیسری طاقت سے سمجھوتے کی کوشش کیا کرتی ہیں یعنی اگر تین طاقتیں دنیا میں ہوں تو دو مخالف طاقتیں ہمیشہ اُس سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور ہر ایک ان میں سے چاہتی ہے کہ اس کی ہمدردی ہمیں حاصل ہو اور اس کا تعاون ہمارے ساتھ ہو اور بظاہر انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اگر ایک علیحدہ گروہ ہیں تو مخالف طاقتوں میں سے کسی کی ہمدردی یا تعاون ہمیں حاصل ہوہی جائے گا اس لئے ہوسکتا تھا کہ مسیح موعود ؑکی جماعت بھی اِس وہم میں مبتلا ہوجاتی کہ شاید ان میں سے کسی ایک گروہ کا ہم سے تعاون ہوجائے گا۔ پس رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِس وہم کو دور کرنے اور اِس خیال کی تکذیب کرنے کیلئے پھر ان دونوں کا ایک مجموعی نام رکھ دیا اور وہ نام دجّال ہے اور اس طرح بتادیا کہ گو یاجوج اور ماجوج دونوں آپس میں مخالف ہوں گے لیکن اسلامی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ہی اس کے مخالف ہوں گے اور اسلامی تعلیم کی تائید کی اِن دونوں سے ہی امید نہ کی جاسکے گی سوائے اس کے کہ وہ بحیثیت جماعت یا انفرادی طور پر اپنے طریق کو چھوڑیں اور اسلام کے اصول کو کُلّیۃً اختیار کرلیں۔
اِس وقت تک گزشتہ زمانہ کو دیکھتے ہوئے عام طور پر ہماری جماعت میں بھی اور پہلی جوجماعتیں اس امر کی تحقیق میں لگی رہی ہیں ان میں بھی یہ خیال پایا جاتا تھا کہ یاجوج اور ماجوج درحقیقت دو مُلکوں کے نام ہیں لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے جو پیشگوئیاں ہوتی ہیں ان کی پوری حقیقت وقت پر کھلا کرتی ہے۔ اب جو واقعات ظاہر ہورہے ہیں انہوں نے بتادیا ہے کہ یہ دو ملکوں کے نام نہیں بلکہ دو اصول کے نام ہیں۔ بے شک ممکن ہے یہ دو اصول خاص دو مُلکوں کے ذریعہ زیادہ نمایاں طور پر نظر آتے ہوں مگر حقیقتاً یہ کسی ایک مُلک سے تعلق نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ۱؎یعنی یہ دونوں گروہ دنیا کے ہر مقام پر مسلط ہونے کی کوشش کریں گے اور ہر ایک روک جو اُن کے راستہ میں آئے گی اُس پر چڑھنے اور اس پر غالب آنے کیلئے جدوجہد اور سعی عمل میں لائیں گے اور یہ بات اب بالکل نمایاں اور واضح طور پر نظر آگئی ہے۔ چنانچہ واقعات نے ظاہر کردیا ہے کہ یاجوج اور ماجوج دو اصول ہیں جو اِس زمانہ میں دنیا پر غالب آنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک اصل تو وہ ہے جو جمہوریت کو اس کے تمام عیوب سمیت دنیا میں ترقی دینے کی کوشش کررہا ہے اور دوسرا اصل وہ ہے جو قابلیت اور لیاقت کو ترقی دینا چاہتا ہے اور جمہوریت کی روح کو دبانا چاہتا ہے۔ یہ دواصول اِس وقت دنیا میں ایک دوسرے کے مقابلہ میں غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک اصل تو اِس بات کی جدوجہد میں مشغول ہے کہ افراد کی طاقت کو بڑھا کر دنیا میں غلبہ حاصل کیا جائے اور ایک اصول اس غرض کیلئے کوشاں ہے کہ اعلیٰ قابلیت کو رہنمائی کی باگ ڈور دے کر دنیا پر غلبہ حاصل کیا جائے۔ ان دونوں گروہوں نے دنیا پر کامل طور پر غلبہ حاصل کیا ہؤا ہے اور ساری دنیا اِن دو گروہوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی ہے۔ اسلام اِن دونوں کے خلاف اوراِن دونوں سے بالکل الگ ایک درمیانی راہ پیش کرتا ہے۔ وہ انفرادیت کو بھی نظرانداز نہیں کرتا اور چِیدہ افراد کی طاقتوں سے کام لینے کو بھی ناپسند نہیں کرتا۔ وہ یہ اجازت بھی نہیں دیتا کہ افراد کی حریت کو کُچل دیا جائے اوروہ یہ بھی اجازت نہیں دیتا کہ چِیدہ افراد کی قابلیت سے دنیا محروم کردی جائے۔
غرض اسلامی تعلیم کا دائرہ اپنی وسعت کے ساتھ اِن دونوں گروہوں پر حاوی ہے اوروہ دونوں کے درمیان ایک راستہ بتاتا ہے۔ چنانچہ اسلامی حکومت کا دارومدار اِن دونوں اصول کے بین بین تھا۔ ایک طرف وہ تسلیم کرتا ہے کہ سب انسانوں میں ذہنی مساوات نہیں۔ بعض دماغ زیادہ قابلیت رکھتے ہیں اور بعض کم، بعض زیادہ قربانیاں کرسکتے ہیں اور بعض کم، بعض زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں اور بعض کم۔ پس قوم کو زیادہ سمجھدار، زیادہ عقلمند اور زیادہ فہم و تدبر رکھنے والوں کی قابلیت سے محروم نہیں کردینا چاہئے مگر وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ افراد کی مجموعی رائے بھی بڑی طاقت ہوتی ہے اور اس کو نظر اندا زکرنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا بعض لوگ خیال کرتے ہیں اور نہ اسے نظر انداز کرنا انسانی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب ہی ہے۔
پس اسلام کا مقابلہ اِن دونوں اصول کے ساتھ ہے۔ وہ ان کے بھی خلا ف ہے جو افراد کو اتنا غلبہ دینا چاہتے ہیںکہ چِیدہ افراد سے لیاقت اور قابلیت کو دنیا سے مٹادینا چاہتے ہیں۔ اور وہ اس کے بھی مخالف ہیں کہ چند لائق افراد کے ہاتھ میں دنیا اس طرح دے دی جائے کہ قوم کی اکثریت کی رائے مٹادی جائے۔ پس جہاں تک دنیا کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے آئندہ دنیا میں اسلام کا مقابلہ یاجوج اور ماجوج سے اس رنگ میںہوگا کہ ایک طرف افراد کی حریت قائم کی جائے گی اور دوسری طرف چِیدہ افراد کی قابلیتوں سے فائدہ اٹھانے کا راستہ کھولا جائے ۔ مگر یہ اتنابڑا کام ہے کہ جو اسلام کی حامل یعنی جماعت احمدیہ کی موجودہ قوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی نقطۂ نگاہ سے ناممکن نظر آتا ہے۔ اِن دونوں گروہوں کی پوری شوکت اگر کسی نے دیکھنی ہو تو وہ دنیا کی برتری حاصل کرنے کی کوشش کرنے والی مختلف جماعتوں کو دیکھ لے اور اسے معلوم ہوجائے گا کہ اِس وقت مذکورہ بالا دو اصول کُلّی طور پر دنیا کو تقسیم کئے ہوئے ہیں۔ آدھی دنیا ایک طرف ہے اور آدھی دوسری طرف۔ اور بیچ میں بے سامان و بیکس جماعت احمدیہ ہے جو اسلامی اصول کی حمایت میں کھڑی ہے۔پس اگر اسلامی اصول نے دنیا میں ترقی کرنی ہے تو ہمارے لئے ضروری ہوگا کہ ان دونوں طاقتوں کو ایک درمیانی نقطہ پر جمع کیا جائے اور پھراسلامی تعلیم کے ماتحت ان کو چلایا جائے مگر ایک ایسی جماعت جسے اپنے مرکز میں بھی امن حاصل نہیں، جسے چھوٹی چھوٹی اقلیتیں بھی دبانے اور ڈرانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں ، جس کی مثال اپنے مخالفین کے مقابلہ میں ایسی ہی ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان ہوتی ہے۔ وہ ان زبردست اور عظیم الشان طاقتوں کی اصلاح کرسکتی ہے یا نہیں۔ یہ ایک سوال ہے جو ہرشخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے اور بظاہر انسانی سامانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ امر بالکل ناممکن نظر آتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جب بھی کوئی کام لیا ہے ہمیشہ ایسے ہی وجودوںسے لیا ہے جو بظاہر دنیا میں بے کس نظر آتے تھے، بظاہر ذلیل اور حقیر نظر آتے تھے، بظاہر ناکارہ اور لغو دکھائی دیتے تھے مگر الٰہی تصرف سے ترقی کرکے وہ ایسی طاقت پکڑ گئے کہ دنیا ان کے کاموں سے حیران رہ گئی۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو جِدوجُہد شروع ہوئی کون کہہ سکتا تھا کہ وہ دنیا پر ایک دن غالب آکر رہے گی۔ فرانس کا ایک مشہور مصنف رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے ممکن ہے بعض امور محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) کی عظمت کے متعلق ہمیں شُبہ میں ڈال سکتے ہوں مگر ایک چیز ہے جو محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) اور آپ کے ساتھیوں میں مجھے نظر آتی ہے اور میں جب بھی اس پر غور کرتا ہوں محوِ حیرت ہوکر رہ جاتا ہوں اور وہ یہ کہ آج سے ساڑھے تیرہ سَو سال پہلے عرب کی سرزمین میںایک مسجد میںجس کی دیواریں گارے سے بنی ہوئی ہیں، جس کی چھت پر لکڑیاں نہیں بلکہ کھجور کی شاخیں پڑی ہوئی ہیں اور وہ اتنی کمزور ہے کہ ذرا بارش ہو تو پانی ٹپکنے لگ جاتا ہے۔ اُس میں چند آدمی جمع ہیں اور وہ ایسے ہیں کہ جن کے تن پر پورا لباس بھی نہیں۔ اگر بعض کے پاس پاجامے ہیں تو کُرتے نہیں، اگر کُرتے ہیں تو پاجامے نہیں اور اگر کسی کے پاس کُرتہ اور پاجامہ ہے تو اُس کے سر پر پگڑی نہیں۔ اور گر کسی کے پاس سر ڈھانکنے کیلئے پھٹی پُرانی پگڑی ہے تو اسے جُوتی میسر نہیں۔ پھر وہ اَن پڑھ ہیں، وہ جاہل ہیں، وہ دنیا کے کسی علم سے واقف نہیں۔ غرض میں اپنے خیال کی نگاہ میں جب اُن کو دیکھتا ہوں تو وہ مجھے چند غریب اور بے کس انسان نظر آتے ہیں۔ وہ ایک کچی مسجدمیں بیٹھے ہیں، وہ پورے لباس سے بھی عاری ہیں، وہ جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور سجدہ میں جھکتے ہیں تو بارش کی وجہ سے اُن کی پیشانی کیچڑ میں لَت پَت ہوجاتی ہے (یہ تمام باتیں احادیث میں لکھی ہوئی ہیں) مگر جب میںقریب ہوکر سنتا ہوں کہ آپس میں وہ کیا باتیں کررہے ہیں تو میرے کانوں میں یہ آواز آتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے یہ مشورہ کررہے ہیں کہ ہم کس طرح تمام دنیا کو فتح کرکے اسلام کو غالب کردیں۔ اور یہ ان کی باتیں جو پاگلوں کی بڑ معلوم ہوتی ہیں تھوڑے ہی عرصہ میں پوری بھی ہوجاتی ہیں۔ اور وہ واقع میں ساری دنیا پرغالب آ جاتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ جب میں یہ بات دیکھتا ہوںتو مجھے ماننا پڑتا ہے کہ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم ) جو کچھ کہتے تھے اپنی طرف سے نہیں کہتے تھے بلکہ کوئی اور زبردست طاقت تھی جو اُن سے یہ باتیں کہلواتی تھی۔
آج جو ہماری حالت ہے یہ بظاہر اُس زمانہ سے اچھی نظر آتی ہے۔ ہماری یہ مسجد پختہ ہے، اس کے ستون سیمنٹ کے ہیں، اس کی چھت پر گارڈر پڑے ہوئے ہیں اور نمازیوں کے آرام کیلئے بڑے بڑے سائبان لگے ہوئے ہیں، غر ض اُس زمانہ سے بظاہر ہماری حالت مختلف ہے مگر جو ہمارے دشمنوں کی حالت ہے وہ بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں کی حالت سے مختلف ہے۔ اور اگر نسبت کے لحاظ سے غور کیا جائے تو ہر شخص کو یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ جو حالت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اور آپ کے صحابہؓ کی دشمنوں کے مقابلہ میں تھی وہی ہماری جماعت کی موجودہ زمانہ کے دشمنوں کے مقابلہ میں ہے کیونکہ دنیا میں ہمیشہ نسبت دیکھی جاتی ہے، تعداد نہیں دیکھی جاتی۔ اگر ایک روپیہ سے ایک شخص ایک سَو روپیہ کا مقابلہ کرتا ہے اور اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا شخص ایک سَو روپیہ سے دس ہزار کا مقابلہ کرتا ہے تو اِن دونوں کا معاملہ بالکل یکساں سمجھا جائے گا کیونکہ جو نسبت ہے وہ قائم ہے۔ یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ فلاں کے پاس ایک روپیہ تھا اور فلاں کے پاس ایک سَو۔ بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ اِس نے ایک سے سَو کا مقابلہ کیا اور اُس نے سَو سے دس ہزار کا۔ کیونکہ جو ایک اور سَو میں نسبت ہے وہی نسبت سَو اور دس ہزار میں ہے اور جب نسبت ایک ہے تو دونوں کی ایک ہی حالت ہوئی۔ پس اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بظاہر ہماری حالت اچھی نظر آتی ہے مگر اِس کے مقابلہ میں یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ احمدیت نے جن طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہے اُن کی نسبت ہماری طاقت کے مقابلہ میں کیا ہے۔ بے شک ہماری مسجد کی چھت پختہ ہے، اس کا فرش بھی پختہ ہے اور اس میں لوگوں کے آرام کیلئے سائبان موجود ہیں مگر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے دشمنوں کے پاس بھی تو توپیں اور ہوائی جہاز نہیں تھے۔ پھر ان میں کوئی نظام نہیں تھا، اُس وقت سفر کی سہولتیں میسر نہیں تھی، تار، ٹیلیفون اور وائرلیس نہیں تھا۔ پھر اُن میں وہ فوجی نظام نہیں تھا جو آج ہے۔ اُن کا مالی نظام مضبوط نہیں تھا اور اِسی طرح کے اور بہت سے نقص اُن میں موجود تھے۔ پس بے شک رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمانوں کی حالت بہت کمزور تھی اور اِس زمانہ میںہماری حالت بظاہر اچھی نظر آتی ہے مگر اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دشمن کی جس قدر اُس وقت طاقت تھی اُس سے بہت زیادہ آج ہمارا دشمن طاقتور ہے۔ حقیقتاً اگر غور کیا جائے اور اس بے بسی کو بھی دیکھا جائے کہ جماعت احمدیہ جس کے سپرد یہ عظیم الشان کام کیا گیا ہے وہ محکوم ہے جبکہ محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہؓ آزاد تھے، تو ماننا پڑتا ہے کہ اِس زمانہ کا کام اُس زمانہ سے کوئی کم مشکل نہیں بلکہ نسبت وہی قائم ہے جو پہلے تھی۔ لیکن باوجود اِس کے کہ اِس زمانہ کا کام ویسا ہی ناممکن نظر آتا ہے جیسے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں نظر آتا تھا۔ جس خدا نے اُس وقت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ میں تیری تعلیم کو تمام دنیا میں پھیلادوں گا، اُسی خدا نے آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ میں تجھے کامل غلبہ بخشوں گا اور تیرے تمام دشمنوں کو تیرے مقابلہ میں شکست دوں گا۔ اگر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ جو کام ہؤا تھا وہ انسانی کام تھا تو کہا جاسکتا ہے کہ اُس زمانہ میں اگر یہ کام ہو بھی گیا تھا تو آج اِس کا کوئی امکان نہیں کیونکہ آج انسانی طاقت بہت بڑھی ہوئی ہے لیکن اگر خدا نے وہ کام کیا تھا اور واقع میں اُسی نے کیا تھا تو جس خدا میں یہ طاقت تھی کہ وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں کو زیر کرکے آپ کی تعلیم کو تمام دنیا میں پھیلادے، اُسی خدا میں آج بھی یہ طاقت ہے کہ وہ ہمارے دشمنوں کو زیر کرکے احمدیت کی تعلیم اکنافِ عالَم میں پھیلادے اور دنیا کے تمام ادیان پر اسلامی تعلیم کی برتری اور فوقیت عملی رنگ میں ثابت کردے۔ پس اِس غلبے کا امکان موجود ہے مگر موقع کی نزاکت اور اہمیت ایسی ہے کہ ہم میںسے ہر شخص کی توجہ اِس کام کی طرف مبذول ہونی چاہئے۔ اور جہاں تک میں سمجھتا ہوںہم میں سے کوئی شخص دیانتداری کے ساتھ احمدی نہیں کہلاسکتا جب تک وہ اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، سوتے اور جاگتے یہ مقصد اپنے سامنے نہیں رکھتا کہ اُس نے دنیا کے تمام تمدنوں کو مٹا کر اسلامی تمدن قائم کرنا ہے۔ اُس نے دنیا کے تمام اصول کو مٹا کر اسلامی اصول کا احیاء کرنا ہے اور اس نے اسلام کے بتائے ہوئے قوانین کے مطابق تمام دنیا کو ایک نئے رنگ میں ڈھالنا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف مَیں ایک عرصہ سے جماعت کو توجہ دلارہا ہوں مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے دوست جب ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں تو وہ یہ سمجھ کر داخل ہوتے ہیں کہ صرف چند مسائل کا نئے رنگ میں سمجھنا احمدیت میں داخل ہونے کی غرض ہے۔ حالانکہ چند مسائل کا سمجھانا حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کی غرض نہیں۔ مسیح موعودؑ کی بعثت کی غرض اسلام اور احمدیت کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرنا ہے۔ مسیح موعودؑ کے آنے کی یہ غرض نہیں کہ صرف تم اس پر ایمان لائو یا میں اُس پر ایمان لے آئوں، بلکہ میرا اور تمہارا ایمان کیا ساری دنیا کا ایمان لے آنا بھی مسیح موعودؑ کی بعثت کی غرض نہیں۔ پس میرے یا تمہارے ایمان لانے سے وہ غرض پوری نہیں ہوسکتی، وہ دس کروڑ افراد کے ایمان لانے سے بھی پوری نہیں ہوسکتی، وہ ایک ارب لوگوں کے ایمان لانے سے بھی پوری نہیں ہوسکتی، وہ ساری دنیا کے ایمان لانے سے بھی پوری نہیں ہوسکتی۔ اگر ساری دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لے آئے مگر وہ تبدیلی پیدا نہ ہو جس تبدیلی کو پیدا کرنا آپ کا حقیقی مقصد اور مدعا تھا تو یہ ہماری فتح کس طرح کہلاسکتی ہے۔ ہماری فتح تو اُسی وقت ہوگی جب وہ تبدیلی پیدا ہوگی جس تبدیلی کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ۔ پس جب بھی کوئی شخص احمدیت میں داخل ہوتا ہے، اسے یہ امر اپنے مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہماری غرض یہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیم کو دنیا میں قائم کریں اور باقی تمام تعلیموں کو مٹا کر رکھ دیں۔ ہم نے یہ غرض کبھی نہیں چھُپائی۔ ہم حکومت کے وفادار ہیں اور جس حکومت کے ماتحت بھی رہیں گے اُس سے وفاداری کرنا نہیں چھوڑیں گے مگر اسلام کے غلبہ کی خواہش جو ہمارے دلوں میں ہے وہ مٹائی نہیں جاسکتی اورنہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ ہمارے ضمیر کی حریت کو سلب کرے مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ کام اتنا اہم ہے کہ اس کیلئے ہمیں بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلی اور کم درجہ کی قربانی یہ ہے کہ جماعت کے خیالات میں ایک تبدیلی پیدا کی جائے تا ہماری جماعت کے ہر بچے ، ہر بوڑھے، ہر مرد اور عورت کے دل میں پوری مضبوطی سے یہ بات گڑ جائے کہ اس کے سپرد کیا کام ہے۔ ہمارا ایک زمیندار جس وقت ہل چلا رہا ہو جب اس کے تن پر پورا کپڑا بھی نہ ہو، جب ایک معمولی تہبند اُس نے باندھا ہؤا ہو اُس وقت گو وہ ہل چلا رہا ہو مگر اُس کے دل میں یہ خیال موجزن ہونا چاہئے کہ وہ کونسا ذریعہ ہے جس کے ماتحت اسلام کا جھنڈا مَیںدنیا کے تمام لوگوں کے دلوں پر گاڑ سکتا ہوں۔ ہمارا ایک درزی جس وقت سُوئی چلا رہا ہو جس وقت اسے یہ معلوم نہ ہو کہ آج کی مزدوری میرے بیوی بچوں کے کھانے کیلئے کافی بھی ہوگی یا نہیں یہی خیالات اس کے دل میں بار بار اٹھنے چاہئیں کہ وہ کونسا ذریعہ ہے جس سے کام لیتے ہوئے اسلام تمام دنیا پر غالب آسکتاہے اور ادیانِ باطلہ شکست کھاسکتے ہیں۔ ہمارا ایک سقہ جس وقت مشک اُٹھائے جارہا ہو جب اس کے بوجھ کے نیچے اس کی کمر خم ہورہی ہو، اس کے دماغ میں یہی خیالات پیدا ہونے چاہئیں کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جن سے کام لیتے ہوئے اسلام کو دنیا پر غالب کیا جاسکتا ہے۔ ہمارا ایک مزدور جس وقت من دو من بوجھ اُٹھائے جارہا ہو، جب گرمی کی شدت سے اس کا پسینہ بہہ رہا ہو، جب اس کا سر بوجھ کے مارے جھُکا جارہا ہو، اُس وقت بھی اس کے دماغ میں یہی خیالات اٹھنے چاہئیں کہ کن ذرائع سے کام لیتے ہوئے اسلامی تعلیم کا احیاء ہوسکتا ہے اور وہ کون سے طریق ہیںجن کے ماتحت اسلام کو تمام دنیا پر غالب کیاجاسکتا ہے۔ جب یہ کیفیت ہماری جماعت کے تمام دوست اپنے اندر پیدا کرلیں گے تو اس کے نتیجہ میں ان کے اندر ایسی روح پیدا ہوجائے گی کہ وہ آستانۂ الٰہی کی طرف تمام دنیا کو کھینچ کر لے آئیں گے اور جس قدر مخالف طاقتیں ہیں اُن کو کُچل کر رکھ دیں گے۔ مگر ہمارا کُچلنا تلواروں سے نہیں بلکہ تبلیغ کے ذریعہ ہوگا، ہمارا کچلنا تعلیم کے ذریعہ ہوگا، ہمارا کچلنا ترغیب کے ذریعہ ہوگا۔ ہم لوگوں کے خیالات میں تبدیلی پید اکریں گے اور اس کے بعد ان کے جسموں پر قبضہ کرلیںگے۔ یہ نہیں ہوگا کہ ان کے جسموں پر قبضہ کرکے ان کے خیالات میں تبدیلی پیدا کریں۔ اِسی کیلئے میں نے مختلف شکلوں میں بعض انجمنیں قائم کی ہیں مگر غرض صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ان خیالات کو دور کیا جائے جو اسلام کے خلاف دنیا میں پیدا ہوگئے ہیں۔ دنیا اِس وقت قسم قسم کے ظلموں کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ کوئی کسی فلسفہ کے ماتحت ظلم کررہا ہے اور کوئی کسی فلسفہ کے ماتحت مگر انسان کی حقیقی راحت کیلئے جو تعلیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھی اسے لوگوں نے بھُلارکھا ہے۔ پس یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اس تعلیم کو دنیا میں رائج کریں اور سب سے پہلے خود اس پر عمل کریں اور پھر دنیا کی بہتری کیلئے آہستہ آہستہ اُسے لوگوں میں رائج کریں۔
کئی باتیں بظاہر نہایت چھوٹی نظر آتی ہیں مگر دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کردیا کرتی ہیں ۔ پہلے لوگ انہیں سنتے ہیںتو ہنستے ہیں مگر بعد میں انہیں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ واقع میں یہ تعلیم نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے۔ اسی وجہ سے میں کچھ عرصہ سے جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلارہا ہوں کہ وہ اسلامی تمدن کے قوانین اپنے اندر جاری کریں تا دوسرے لوگ دیکھ کر اندازہ لگاسکیں کہ اسلامی تمدن کیسا بابرکت اور آرام دہ ہے۔ اس کے متعلق گزشتہ سال سے میں یہ کہتا چلا آرہا ہوں کہ ہمیں اپنی تجارتوں میں، اپنے لین دین کے معاملات میں اور اسی طرح اور تمدنی اور اقتصادی امورمیں اسلامی تعلیم کو ملحوظ رکھنا چاہئے کیونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بارہ میں ایسی ہدایات دی ہیں کہ جن پر اگر عمل کیا جائے تو دنیا میں حقیقی امن قائم ہوسکتا ہے۔ بعض باتیں بظاہر معمولی نظر آتی ہیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب دنیا کی حکومتیں بھی ان کی طرف توجہ کررہی ہیں۔
تھوڑے ہی دن ہوئے اخبارات میں ایک خبر پڑھ کر مجھے خوشی بھی ہوئی اورافسوس بھی۔ خوشی تو اس لئے کہ وہ ایک اسلامی تعلیم ہے جس کا احیاء ہؤا ہے اور افسوس اس لئے کہ مسلمانوں نے اس بات کو اسلامی تعلیم سے نہ سیکھا بلکہ صدیوں تک مصیبتیں اُٹھانے اور تکالیف برداشت کرنے کے بعد یورپ سے سیکھا حالانکہ وہ تعلیم اسلام میں موجود ہے اور اسی نے سب سے پہلے اسے دنیاکے سامنے پیش کیا۔ وہ بات یہ ہے کہ ایک دو مہینے ہوئے ترکوں نے یہ قانون پاس کیا ہے کہ تمام اشیاء کا ایک ریٹ مقرر ہونا چاہئے تاکہ کوئی دکاندار سَودا مہنگا یا سَستا فروخت نہ کرسکے بلکہ جب بھی کوئی گاہک کسی دکان پر جائے اُسے مقررہ قیمت پر چیز مل جائے۔ اِس ضمن میں ہر دکاندار کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی دکان پر تمام چیزوں کی ایک لسٹ بنا کر لٹکادے اور ہر چیز کے آگے اس کا بھائو درج کرے تا تمام بازار میں چیز ایک قیمت پر ملے۔ یہ نہ ہو کہ کسی سے زیادہ قیمت وصول کرلی جائے اور کسی سے کم۔ اس کی وجہ انہوں نے یہی بتائی ہے کہ بیرونی مُلکوں کے لوگ جب ہمارے مُلک میں آتے ہیں تو ایک ہی چیز کسی جگہ انہیں کسی قیمت پر ملتی ہے اور کسی جگہ کسی قیمت پر۔ اگر کوئی ہوشیار گاہک ہو تو اُس سے کم قیمت لے لیتے ہیں اور اگر کوئی بیوقوف ہو تو اُس سے زیادہ پیسے وصول کرلیتے ہیں۔ پھر جب وہ دونوں آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ یہ چیز کتنے کو خریدی ہے تو ایک کوئی قیمت بتاتاہے اور دوسرا کوئی۔ ایک کہتا ہے میںنے یہ چیز دو روپے کو خریدی ہے اور دوسرا اُسی چیز کے متعلق یہ کہتا ہے کہ میںنے بارہ آنے کو خریدی ہے۔ ایک کہتا ہے کہ میں نے فلاں چیز کے پندرہ روپے دیئے ہیں اور دوسرا کہتا ہے میں نے دس روپے دیئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کے اخلاق ان کی نگاہ میںگر جاتے ہیں اوروہ سمجھتے ہیں کہ تُرک جھوٹے ہوتے ہیں۔
یورپ میں ایک حد تک اس پر عمل کیاجاتا ہے مگر اس کے ہر مُلک میں نہیں بلکہ زیادہ تر انگلستان میں ہی اس پر عمل ہوتا ہے۔ ورنہ اور ممالک میں خواہ وہ یورپین ہی کیوں نہ ہوں قیمتوں کا گھٹنا اور بڑھنا ہمیشہ نظر آتا ہے۔ انگلستان میں بھی کسی حد تک ہی یہ بات پائی جاتی ہے مگر جو معزز دکاندار ہیں وہ ہمیشہ اپنی اشیاء کی ایک قیمت رکھتے ہیں اور بعض دکاندار تو اتنی سختی سے کام لیتے ہیں کہ اگر کوئی گاہک انہیں یہ کہے کہ قیمت ذرا گھٹادیں تو وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ ہماری دکان سے چلے جائیں۔ لیکن بہرحال ایشیا کی نسبت یورپ میںاس بات کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے کہ مقررہ قیمتوں پر چیزیں فروخت ہوں۔ مگر تعجب ہے کہ وہ مذہب جس نے اپنے ابتدائی زمانہ میں سے ہی لوگوں کو یہ تعلیم دی تھی اس کے ماننے والے اتنی بات بھی نہیںجانتے کہ یہ اصل میںاسلامی تعلیم ہے بلکہ وہ اسے یورپ کی خوبی خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ سے مدینۂ منورہ میںقیمتوں پر اسلامی حکومت تصرف رکھتی تھی۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ مدینہ کے بازار میں پھر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا ایک شخص حاطب بن ابی بلتعہالمصلّی نامی بازار میں دو بورے سُوکھے انگوروں کے رکھے بیٹھے تھے، حضرت عمرؓ نے ان سے بھائو دریافت کیا تو انہوں نے ایک درہم کے دو مُد بتائے۔ یہ بھائو بازار کے عام بھائو سے سستا تھا۔ اس پر آپ نے اُن کو حکم دیا کہ اپنے گھر جاکر فروخت کریں مگر بازار میں وہ اِس قدر سستے نرخ پر فروخت نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اِس سے بازار کا بھائو خراب ہوتا ہے اورلوگوں کو بازار والوں پربدظنی پیدا ہوتی ہے۔۲؎ فقہاء نے اس پر بڑی بحثیں کی ہیں۔ بعض نے ایسی روایات بھی نقل کی ہیں کہ بعد میں حضرت عمرؓ نے اپنے اس خیال سے رجوع کرلیا تھا مگر بِالعموم فقہاء نے حضرت عمرؓ کی رائے کو ایک قابلِ عمل اصل کے طور پر تسلیم کیا ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ریٹ مقرر کرے ورنہ قوم کے اخلاق اور دیانت میں فرق پڑ جائے گا۔ مگر یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ اُنہی اشیاء کا ذکر ہے جو منڈی میں لائی جائیں۔ جو اشیاء منڈی میں نہیں لائی جاتیں اور انفرادی حیثیت رکھتی ہیں ان کا یہاں ذکر نہیں۔ پس جو چیزیں منڈی میں لائی جاتی ہیں اور فروخت کی جاتی ہیں ان کے متعلق اسلام کا یہ واضح حکم ہے کہ ایک ریٹ مقرر ہونا چاہئے تا کوئی دکاندار قیمت میںکمی بیشی نہ کرسکے۔ چنانچہ بعض آثار اور احادیث بھی فقہاء نے لکھی ہیں جن سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
اب دیکھو وہ خوبی جو آج تُرک یورپ سے نقل کرکے اپنے اندر پیدا کررہے ہیں وہ اسلام کے ابتدائی زمانہ سے موجود چلی آتی ہے مگر اس کو مسلمانوں نے بھلادیا اور سمجھ یہ لیا کہ یہ اچھی باتیں یورپ کی ایجاد کردہ ہیں۔ اسی طرح اور ہزارہا باتیں ہیں جن میں اسلام نے ابتداء سے صحیح تعلیم دی ہوئی ہے جن سے ایک طرف افراد کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے تو دوسری طرف اجتماعی حقوق کی نگرانی ہوتی ہے۔ وہ ایک درمیانی راستہ بنی نوع انسان کے سامنے پیش کرتا ہے اور کہتا ہے انفرادیت کا یہ حق نہیں کہ وہ اجتماعیت کو کچلے اور اجتماعیت کا یہ حق نہیں کہ وہ انفرادیت کو کچلے۔ مثلاً قرآن شریف حکم دیتا ہے کہ لین دین کا معاملہ ہو تو اسے لکھ لو۔ اب کتنے مسلمان ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں۔ مگر یورپین لوگ سب اس پر عمل کرتے ہیں اور یورپ والوں نے یہ خوبی سپین والوں سے سیکھی ہے جہاں کئی سو سال تک اسلامی حکومت قائم رہی۔ سپین میں جس قدر سودے ہوتے تھے وہ لکھے جاتے تھے اور پرانی اسلامی تاریخ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت سودے لکھے جاتے تھے، یہی قرآن کا حکم ہے۔ اگر اس حکم کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو بسااوقات بعد میں بڑے بڑے جھگڑے پیدا ہوجاتے ہیں۔ تو چھوٹی باتیں ہوں یا بڑی باتیں سب کی سب قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں نے انہیں ترک کردیا ہے۔ پس اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان تمام باتوں کو دنیا میں رائج کریں کیونکہ کوئی بات ایسی نہیں جس کے متعلق اسلام میں کامل تعلیم موجود نہ ہو۔ ورثہ کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں، لین دین کے معاملات کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں، شادی بیاہ کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں، سیاسیات کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں، تعلیم و تربیت کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں، شاگرد کے استاد سے کیسے تعلقات ہوں، استاد کے شاگرد سے کیسے تعلقات ہوں، بادشاہ کا رعایا سے کیسا سلوک ہو اور رعایا کا بادشاہ سے کیسا سلوک ہو، ان تمام امور کے متعلق اسلام میں نہایت تفصیلی تعلیم موجود ہے اور کوئی شعبہ انسانی زندگی کا ایسا نہیں جس کے متعلق احکام موجود نہ ہوں۔ اگر ہم ان تمام احکام پر خود عمل کریں اور دوسروں میں انہیں رائج کریں تو دنیا پر اسلامی احکام کی خوبی خودبخود واضح ہوتی چلی جائے گی اور وہ ایک دن اس بات پر مجبور ہوجائے گی کہ اس طرف کُلّیۃً آجائے۔ ہمارے راستہ میں جو چیز روک ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس حکومت نہیں۔ یعنی اگر ہم اسلامی قواعد جاری کریںتو ایک ایسا طبقہ کھڑا ہو جاتا ہے جو یہ کہنا شروع کردیتا ہے کہ ہم پر ظلم کیا جارہا ہے اور چونکہ حکومت ہمارے پاس نہیں اس لئے حکومت کے بعض افراد کو بھی دشمن اُکسانے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ بنی نوع انسان کے حقوق میں مداخلت کررہے ہیں اور کوئی یہ خیال نہیں کرتا کہ ہم حکومت میں دخل نہیں دینا چاہتے بلکہ شیطان کی حکومت کی جگہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں آخر اسلام کی حکومت اگر دنیا میں قائم ہو تو اس میں میرا کیا فائدہ ہے؟ یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کیا فائدہ ہے؟ یا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا کیا فائدہ ہے؟ اس حکومت کے قیام میں تو خدا کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ خدا جس قدر احکام دیتا ہے وہ اپنے فائدہ کے لئے نہیں دیتا بلکہ لوگوں کے فائدہ کے لئے دیتا ہے۔ اگر ہم ان احکام پر عمل کریں تو آرام و راحت میں رہ سکتے ہیں اور اگر عمل نہ کریں تو اسی دنیا میں ایک عذاب میں رہیں گے۔ چنانچہ قرآن کریم میں بار بار اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم جو احکام بھی دیتے ہیں وہ لوگوں کو نفع پہنچانے کیلئے دیتے ہیں اور اس میں کیا شُبہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو وراء الوریٰ ہستی ہے جو غنی اور صمد ہے اسے ان باتوں سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے کہ میاں اور بیوی کے تعلقات کیسے ہوں، راعی اور رعایا کے تعلقات کیسے ہوں، مدعی اور مدعاعلیہ کے تعلقات کیسے ہوں، اس سے تو سراسر ہمیں ہی فائدہ پہنچتا ہے خدا کو فائدہ نہیں ہوتا۔ پس ضروری ہے کہ ہم نہ اپنے فائدہ کیلئے بلکہ بنی نوع انسان کی فلاح اور بہبود کیلئے اسلامی تعلیم دنیا میں قائم کریں اور ان تمام اصول کو دنیا میں رائج کریں جنہیں اسلام نے ضروری قرار دیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف میں ایک عرصہ سے جماعت کو لارہا ہوں اور بار بار بتارہا ہوں کہ ہماری جماعت کے قیام کی غرض اسلام کی تعلیم کو قائم کرنا ہے۔ جب ہم عملی طور پر اس تعلیم کوقائم کرلیںگے اور کوئی روک ہمارے راستہ میں حائل نہیں رہے گی اس وقت ہم کہہ سکیں گے کہ ہم نے اپنے قیام کی غرض کو پورا کردیا۔
میں نے بتایا ہے کہ اگرچہ اسلامی تعلیم کے بعض حصے ایسے ہیں جو حکومت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مگر وہ بہت ہی قلیل ہیں۔ ایک کثیر حصہ اسلامی احکام کا ایسا ہے جسے ہم ہر وقت جاری کرسکتے ہیں کیونکہ خدا نے ہمیں ایک ایسی حکومت عطا کی ہے جس کے بعض افراد کی خواہ ہم کس قدر مذمت کریں یہ ایک حقیقت ہے کہ اس نے افراد کو ان کے اپنے عقائد کے متعلق بہت کچھ آزادی دی ہوئی ہے اور وہ بہت تھوڑے معاملات میںدخل دیتی ہے۔ یہ انگریزی حکومت میں ایک ایسی خوبی ہے جس کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے۔ گو اسلام میںاس سے بہت زیادہ آزادی حاصل تھی۔ چنانچہ اسلامی حکومت کے زمانہ میں یہودیوں کو اپنے قاضی اور عیسائیوں کو اپنے قاضی مقرر کرنے کی اجازت تھی۔ جو ان کی اپنی شریعت کے مطابق ان کے جھگڑوں کا فیصلہ کرتے اور انہیں تنخواہیں سرکاری خزانہ سے دی جاتیں۔ یعنی تنخواہ انہیں مسلمان حکومت دیتی اور وہ اپنی قوم کے جھگڑوں کا تورات یا انجیل کے مطابق فیصلہ کرتے۔ اب انگریزی حکومت میں یہ بات تو نہیں کہ وہ ہمارے قاضیوں کو اپنے خزانہ سے تنخواہ دے مگر بہرحال خاص دائرہ کے اندر اگر ہم اپنے لئے خود قاضی مقرر کرلیں تو حکومت اس سے روکتی نہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے۔ پس ہم اگر چاہیںتو اس آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کی نوے یا پچانوے فی صدی تعلیمات جاری کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ہم لین دین اورسودوں کے معاملات میں شریعت کے احکام جاری کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہمارے گاہک اور تاجر اس بات پر راضی ہوں کیونکہ حکومت ان معاملات میں دخل نہیں دیتی۔
ابھی پچھلے دنوں ایک جج نے اپنے فیصلہ میںلکھا تھا کہ مصری صاحب کا مقاطعہ جو جماعت احمدیہ نے کیا ہے یہ درست نہیں اور کسی کا حق نہیں کہ وہ ایسے معاملات میںدخل دے اور دکانداروں کو ہدایت کرے کہ سودا وغیرہ نہ دیں مگر اس کے خلاف جب بالا جج کے پاس اپیل کی گئی تو اس نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ یہ بالکل غلط بات ہے۔ اگر کوئی قوم اپنے لئے ایک قانون بناتی ہے تو کسی کا کوئی حق نہیں کہ اس قانون میں دخل دے۔ یہ برطانوی روح جو اس جج سے ظاہر ہوئی وہی ہے جس کا میں پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں کہ برطانوی حکومت میں افراد کی آزادی کی روح پائی جاتی ہے۔ گویا یہ ایک ممتاز نیکی ہے جو اس قوم میں پائی جاتی ہے اور اسی نیکی کے اثر کے ماتحت مذکورہ بالا جج نے یہ فیصلہ کیا کہ جماعت احمدیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانون شکنی کئے بغیر جماعت کی بہتری کیلئے جو قانون چاہے بنائے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اگر اس بات کوسمجھیں کہ اصل فائدہ اسی تعلیم میں ہے جو اسلام نے پیش کی ہے تو وہ وسوسے جو بعض دفعہ انسانی قلب میں پیدا ہوجاتے ہیں اور انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ اس تعلیم پر عمل کرکے مجھے فلاں نقصان پہنچے گاوہ تھوڑی سی توجہ اور اصلاح سے دور ہوسکتے ہیں۔ مثلاً بددیانتی ہے۔ یہ ایک عیب ہے جو دنیا میں پایا جاتا ہے۔ اس کے ماتحت بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ زیدبکر سے دس روپے لُوٹتا ہے اور عمر، زید سے وہ روپے لُوٹ لیتا ہے۔ پھر خالد آتا ہے وہ عمر سے روپے لے جاتا ہے اور اس طرح عملی رنگ میں حساب وہیں آکر ٹھہرتا ہے جہاں بددیانتی سے پہلے تھا۔ اگر زید، بکر، عمر اور خالد سب دیانتداری اختیار کریںتو روپیہ بھی وہیں کا وہیں رہے گا اور مزید فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رہیں گے۔ تمہیں دنیا میں یہ کہیں نظر نہیں آئے گا کہ ٹھگ آخر تک کامیاب ہوتا چلا جائے۔ ٹھگی اور دھوکا بازی آخر ایک دن ظاہر ہوکر رہتی ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ یہ اس سے روپیہ چھینتا ہے اور وہ اس کا روپیہ غصب کرلیتا ہے۔ اگر سب اپنی اپنی جگہ روٹی کھائیں اور دوسرے کے مال کی طرف تحریص کی نگاہوں سے نہ دیکھیں تو انہیں ایک دوسرے کے خلاف کوئی شکایت پیدا نہ ہو۔ مگر اب یہ حال ہے کہ ایک دوسرے سے چھینتا ہے اس سے اگلا چھین لیتا ہے اور اس سے کوئی اور چھین لیتا ہے اور سارے ہی فریادی رہتے ہیں۔ ایک کہتا ہے دنیا کتنی خراب ہوگئی، فلاں شخص مجھ سے دھوکا بازی کرکے اتنا روپیہ لے گیا اور وہ یہ نہیں سوچتا کہ میںنے فلاں کے ساتھ دھوکہ بازی کی تھی اوراس کا اتنا مال میں نے بھی بے جا طور پر غصب کرلیا تھا۔ اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف اور دوسرا تیسرے کے خلاف شور مچائے پھرتا ہے حالانکہ ان میں سے ہر شخص خود بھی دھوکہ باز اور مجرم ہوتا ہے۔ اگر یہ سارے اپنی اپنی جگہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ ہم نے بددیانتی سے دوسرے کا مال نہیں لینا تو مالی حالت گو ان کی پھر بھی ویسی ہی رہتی جیسی پہلے تھی مگر زائد فائدہ یہ ہوتا کہ وہ خداتعالیٰ کے حضور مقبول ہوجاتے اور اس کی نصرت اور تائید ان کے شامل حال رہتی۔
تو اسلامی تعلیم کے رائج ہونے کے ساتھ ہی دنیا کی بہتری ہے اور ہمیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان عطا کیا ہے، جنہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جیسا بے نظیر ہادی اور قرآن کریم جیسا بے نظیر ہدایت نامہ ملا ہے، یہ امر ہمیشہ سوچتے رہنا چاہئے کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جن کے ماتحت اسلامی تعلیم کو دنیا میں قائم کیا جاسکتا ہے۔ ہم خود جب قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیںاور کہتے ہیں کہ اس میںجو کچھ لکھا ہے صحیح ہے تو ہمارے لئے اس امر کا سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہتا کہ ہمارا اولین فرض اسلامی تعلیم کا احیاء ہے کیونکہ ہم جس دن قرآن پر ایمان لائے اسی دن ہم نے اقرار کرلیا کہ ہم اس کا جؤا اپنی گردن پر اٹھاتے ہیں اور اس کی تعلیم کو تمام دنیا میں پھیلانے کا عہد کرتے ہیں لیکن اگر اس اقرار اور اس ایمان کے بعد بھی ہم عمل ترک کردیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف کوئی توجہ نہ کریںتو دوسروں پر کیا گلا ہوسکتا ہے۔ پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ نہایت سنجیدگی اور اہتمام سے اس کام کیلئے کھڑی ہوجائے۔ یہ مت خیال کرو کہ تم تھوڑے ہو، تم دنیامیں کیا کرسکو گے۔ دنیا میں کئی چھوٹی چیزیں ایسی ہیں جو ابتداء میں حقیر دکھائی دیتی ہیں مگر آخر سب دنیا میں پھیل جاتی ہیں۔ طریق یہی ہے کہ پہلے اسے ایک اختیار کرتا ہے پھر دوسرا اختیار کرتاہے پھر تیسرا اختیار کرتا ہے یہاں تک کہ رفتہ رفتہ تمام لوگ اسے اختیار کرلیتے ہیں۔
حدیثِ قدسی میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی پیارے بندے کی قبولیت کو دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے تو قریب کے فرشتوں کو بتاتا ہے کہ فلاںشخص میرا محبوب ہے تم بھی اس سے محبت رکھو۔ نچلے فرشتوں کو جب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اوپر کے ملائکہ سے کوئی بات کہی ہے تووہ ان سے پوچھتے ہیں کہ اللہ میاں نے تم سے کیا بات کہی ہے۔ اس پروہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت رکھتا ہے اوراب ہمارا بھی یہ فرض قرار دیا گیا ہے کہ ہم اس سے محبت کریں۔ ان کی آپس کی باتوں کی اطلاع پاکر جو اور نیچے فرشتے ہوتے ہیں وہ اپنے سے اوپر والے فرشتوں سے دریافت کرتے ہیں کہ تم کیا باتیں کررہے ہو۔ اس پر وہ انہیں بتاتے ہیں کہ فلاں شخص خداتعالیٰ کا محبوب ہے اور ہمیں اس سے محبت رکھنے کا حکم ملا ہے۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے زمین کے فرشتوں تک بات پہنچ جاتی ہے۔ فَیُوْضَعُ لَہُ الْقَبُوْلُ فِی الْاَرْضِ۳؎ اس شخص کی قبولیت تمام دنیا کے نیک بندوں کے دلوں میںڈال دی جاتی ہے۔ یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے اس امر کی ایک مثال دی ہے کہ نیکی کے متعلق کبھی یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ وہ تھوڑی ہے۔ اگر تم تھوڑی نیکی بھی کرو گے تو اللہ تعالیٰ اسے بڑھائے گا پھر اور بڑھائے گا۔ یہاں تک کہ تمام دنیا میں وہ پھیل جائے گی۔ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کی تھی اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ کسی وقت تمام دنیا اس تعلیم کے آگے اپنے سر کو جھکادے گی مگرکروڑوں کروڑ لوگ تو اب بھی اس تعلیم کو لفظاً مانتے ہیں اور ہزار سال ایسے گزرے ہیں جبکہ مسلسل کروڑوں نفوس اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دنیا کے سامنے تعلیم پیش کی تھی کون کہہ سکتاتھا کہ وہ ساری دنیا میں رائج ہوجائے گی، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی تعلیم پیش کی کی تھی کون کہہ سکتا تھا کہ وہ ساری دنیا میں رائج ہوجائے گی، جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی تعلیم پیش کی تھی اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ یہ تعلیم ساری دنیا میں پھیل جائے گی، مگر آخر یہ تمام تعلیمیں ساری دنیا میںپھیل کر رہیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تعلیم پیش فرمائی ہے اس کے متعلق لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ساری دنیا میںنہیں پھیل سکتی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم تھوڑے ہیں، ہم غریب ہیں، ہم دنیا کی نگاہوں میں حقیر اور ذلیل ہیں مگر یہ ہم جانتے ہیں کہ جو چیز ہمارے پاس ہے وہ اتنی اچھی ہے کہ لوگ زیادہ دیر تک اس کا مقابلہ نہیںکرسکتے۔ اگر ہم اس تعلیم کو اپنی زندگیوں کا دستورُ العمل بنالیںتو یقینا دوسرے لوگ بھی اس کو اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے اور تو اور ہماری جماعت کے سب سے زیادہ مخالف ’’پیغام صلح‘‘ سے تعلق رکھنے والے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے افراد ہیں انہیں اٹھتے بیٹھتے ہمیشہ ہماری مخالفت کا خیال رہتا ہے لیکن الفضل میں تم نے کئی بار ایسے مضامین پڑھے ہوں گے اور جو واقف ہیں وہ ذاتی طور پر اس سے بھی زیادہ جانتے ہیں کہ جو آوا زہمارے مرکز سے اٹھائی جائے سب سے پہلے وہ لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں مگر سال دو سال کے بعد اسی کی نقل کرنی شروع کردیتے ہیں۔ پہلے تو انہیں یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید ہم مخالفت کرکے انہیںناکام اور ذلیل کردیں مگر جب دیکھتے ہیںکہ وہ ناکام اورذلیل نہیں کرسکے تو آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے کہ یہ کام تو بڑا اچھا ہے۔ اگر ہم نے اسے اختیار نہ کیا تو اس کے فوائد سے ہم محروم رہیںگے اور یہ جماعت ہم سے بڑھ جائے گی۔ چنانچہ وہ پھر اسی کی نقل میں خود وہ کام کرنا شروع کردیتے ہیں۔ سچ تو الگ رہا دنیا میں جھوٹ کے طور پر بھی اگر کوئی اچھی بات بتائی جائے تو لوگ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ عربوں میں ایک مثل مشہور ہے جب انہوں نے یہ کہنا ہو کہ فلاں شخص بڑا حریص ہے تو کہتے ہیں وہ فلاں لڑکے کی طرح حریص ہے۔ کہتے ہیں کہ کوئی لڑکا تھا جو نہایت ہی سادہ مزاج تھا مگر اسے کھانے پینے کا بڑا شوق تھا۔ لڑکے اس سے ہمیشہ ہنسی مذاق کرتے اور اس قدر چھیڑتے کہ وہ تنگ آجاتا اور دق ہوکر اپنا پیچھا چھڑانے کیلئے ان سے کہہ دیتا کہ آج فلاں عرب رئیس کے ہاں بڑی بھاری دعوت ہے۔ وہ سمجھتا تھا دعوت کا میں نے ذکر کیا تو یہ تمام لڑکے ادھر بھاگ جائیں گے اور مجھے چھوڑ دیں گے۔ چنانچہ وہ سب اسے چھوڑ کر اس رئیس کے مکان کی طرف چلے جاتے۔ بعد میں اسے خیال آتا کہ میں نے انہیں کہا تو جھوٹ موٹ ہی ہے مگر کیا پتہ شاید واقع میں اس نے کسی دعوت کا انتظام کیا ہؤا ہو۔ اس صور ت میں یہ تمام لڑکے کھانا کھاکر آجائیں گے اور میں محروم رہ جائوں گا۔ چنانچہ اس خیال کے آتے ہی وہ خود بھی اس رئیس کے مکان کی طرف دَوڑ پڑتا۔ اتنے میں وہ لڑکے غصہ میں بھرے ہوئے واپس آرہے ہوتے تھے کیونکہ وہاں دعوت تو کوئی ہوتی نہ تھی۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ اسے پکڑ لیتے اور پھر تنگ کرنا اور پیٹنا شروع کردیتے۔ وہ کہتا اصل بات یہ ہے کہ میں نے تم سے ٹھٹھا کیا تھا اور سچی بات نہیں بتائی تھی۔ اگر سچ پوچھتے ہو تو اس رئیس کے ہاں نہیں بلکہ فلاں رئیس کے ہاں دعوت ہے یہ سن کر تمام لڑکے پھر اس رئیس کے مکان کی طرف بھاگ پڑتے مگر ان کے جانے کے بعدپھر اسے خیال آتا کہ میں نے بات تو یونہی کہی ہے لیکن اگر واقع میں اس رئیس کے ہاں اتفاقاً کوئی دعوت ہوئی تو پھر میں تو اس سے محروم رہوں گا اور اس کا کیا فائدہ کہ لڑکوں سے مار بھی کھائی اور دعوت سے بھی محروم رہا۔ چنانچہ اس خیال کے آتے ہی وہ خود بھی اس رئیس کے مکان کی طرف بھاگ پڑتا۔ اس حکایت سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ اچھی چیز سے ہر شخص حصہ لینے کی کوشش کرتا ہے خواہ وہ خیالی اور وہمی ہی کیوں نہ ہو۔ کجا یہ کہ ہم سچ مچ ایک نہایت ہی قیمتی چیز لوگوں کے سامنے رکھ دیں اور وہ اس کو لینے کیلئے تیار نہ ہوں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ تعلیم دی ہے جس سے بہتر اور کوئی تعلیم نہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ کتاب دی ہے جس سے بہتر اور کوئی کتاب نہیں۔ چنانچہ دیکھ لو دنیا اس تعلیم کی مخالفت بھی کرتی ہے مگر آخر چکر کھا کھا کر اسی جگہ پہنچتی ہے جس جگہ اسلام بنی نوع انسان کو لانا چاہتا ہے۔ آخر وہ کون سی اسلامی تعلیم ہے جس کی دنیا نے مخالفت کی مگر پھر دوسرے وقت اس نے اس کو اختیار نہیں کیا۔
مسئلہ طلاق کی یورپ نے اتنی شدید مخالفت کی تھی کہ مسلمانوں نے اس سے متاثر ہوکر ایسی کتابیں لکھنا شروع کردیں جن میں یہ ظاہر کیا کہ طلاق اسلام میں جائز نہیں۔ یہ پہلے زمانہ کے لوگوں کے حالات کی وجہ سے مجبوراً جاری کی گئی تھی ورنہ طلاق دینا حقیقتاً جائز نہیں لیکن آج یورپ کے رہنے والے خود طلاق کی ضرورت کو تسلیم کرچکے ہیں اور آئے دن عدالتوں میں طلاق کی درخواستیں پیش ہوتی رہتی ہیں اور عدالتیں اپنے حکم سے طلاق دلوادیتی ہیں۔ اسی طرح ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا مسئلہ ہے۔ یورپ نے اس پر ایک لمبے عرصہ تک اعتراضات کئے مگر آج یورپ میں ایک سے زیادہ شادیوں کی تائید میں مضامین لکھے جاتے ہیں اور مضامین لکھنے والے بڑے بڑے فلاسفر ہوتے ہیں۔ اسی طرح حرمت سود کی ایک عرصہ تک یورپ نے مخالفت کی اور کہا کہ سود کے بغیر تجارتیں نہیں چل سکتیں مگر آج اسی یورپ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو سود کو بَیْنَ الاقوامی مناقشات کی اصل جڑ قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح شراب سے اسلام نے روکا اور مغرب نے اس پر اعتراض کیا مگر آج امریکہ میں شراب کو سخت ناپسند کیا جاتا ہے بلکہ کچھ سال تو اس نے قانوناً شراب پینے اور فروخت کرنے کی ممانعت کردی تھی۔ آج ہندوستان میںبھی کانگرسی حکومت شراب نوشی کے خلاف زبردست جدوجہد کررہی ہے حالانکہ ہندوئوں کی مذہبی کتابوں میں شراب نوشی کی اجازت پائی جاتی ہے۔ پس بے شک وہ شراب نوشی کو روک رہے ہیں مگر وہ اپنے مذہب پر عمل نہیں کررہے بلکہ اسلام پر عمل کررہے ہیں۔ اگر دنیا مسئلہ طلاق کی ضرورت کو تسلیم کرنے کی طرف آرہی ہے تو یہ بھی اسلام کی تائید ہورہی ہے، اگر وہ تعدّد ازواج کی اجازت کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی طرف آرہی ہے تو یہ بھی اسلام کی تائیدہورہی ہے، اگر وہ سود کے خلاف ہورہی ہے تو یہ بھی اسلام کی تائید ہورہی ہے، اگر وہ شراب نوشی کو روک رہی ہے تو یہ بھی اسلام کی تائید ہورہی ہے، مگر تم میں اور ان میں فرق کیا ہے؟ فرق صرف یہ ہے کہ ان میں سے کسی فریق نے اسلامی تعلیم کا ایک ٹکڑہ لے لیا ہے اور کسی فریق نے اس تعلیم کا دوسرا ٹکڑا لے لیا ہے مگر تم وہ ہو جنہیں خداتعالیٰ نے تمام کی تمام تعلیم دے رکھی ہے۔ دنیا اس تعلیم کے ایک ایک ٹکڑے کیلئے لڑائیاں لڑ رہی ہے اور لاکھوں کروڑوں لوگ ایک طرف ہیں اور لاکھوں کروڑوں لوگ دوسری طرف، حالانکہ وہ اسلام کی عمارت کا ایک چھوٹا سا ذرّہ ہے مگر تمہارے پاس ہدایت اور رُشد کا عالیشان محل تیار ہے۔ پس تم پر خداتعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے اور تمہارا فرض ہے کہ تم اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے عملی رنگ میں اسے دنیا میں قائم کرو مگر اس کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علماء اسلامی تعلیم کو عمدگی کے ساتھ جماعت کے دوستوں پر واضح کریں اور انہیں اس پر عمل کرنے کی رغبت دلائیں۔ آخر ہمارے پاس طاقت تو ہے نہیں کہ جیسے ہٹلر اورمسولینی نے اپنے خیالات لوگوں سے منوالئے ہیں اسی طرح ہم بھی منواسکیں۔ ہم تو جب بھی اپنی باتیں لوگوں سے منوائیں گے تبلیغ کے ذریعہ منوائیں گے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جب ہماری جماعت کے اندر یہ روح پیدا ہوجائے گی اور اسے معلوم ہوجائے گاکہ فلاں فلاں معاملات میں اسلام نے یہ تعلیم دی ہوئی ہے تو اس میں سے ہر شخص نہایت ذوق شوق کے ساتھ اس پر عمل کرنے کیلئے کھڑا ہوجائے گا۔ مرد اپنی جگہ عمل کریں گے، عورتیں اپنی جگہ عمل کریں گی اور بچے اپنی جگہ عمل کریں گے۔ اور اس کے ایسے شاندار نتائج نکلیں گے کہ دنیا یہ تسلیم کرے گی کہ اس تعلیم سے بڑھ کر اور کوئی تعلیم نہیں۔
پس ایک طرف یہ علماء کا فرض ہے کہ اسلام نے دنیوی معاملات کے متعلق جو وسطی تعلیم پیش کی ہوئی ہے اسے جماعت کے دوستوں پر اچھی طرح واضح کریں۔ صرف وفاتِ مسیحؑ یا ختم نبوت یا صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسائل پر تقریریں کر دینا ان کیلئے کافی نہیں بلکہ ان کا یہ بھی کام ہے کہ وہ اسلام کے تمدنی اور اقتصادی احکام کا مطالعہ کریں، ان پر غور کریں اور جماعت کے دوستوں تک انہیں پہنچائیں اور جماعت کا یہ کام ہے کہ وہ ان مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ مثلاً مجلس خدام الاحمدیہ کے جو ممبر ہیں وہ اگر چاہیں تو اس سلسلہ میں بہت مفید کام کرسکتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ تحریک جدید کے مطالبات کو اور ان تمام مسائل کو جو اِن مطالبات کی بنیاد ہیں اچھی طرح سمجھ لیں اور پھر انہیںلوگوں کے سامنے پیش کرنا شروع کردیں۔ اسی طرح اسلام کے جو مسائل تفقّہہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کا مطالعہ کریں اور انہیں پھیلائیں۔ خالی یہ مسائل نہیں کہ وضو میں اتنی بار ہاتھ دھونا چاہئے یا اتنی بار کلی کرنی چاہئے۔ بلکہ وہ مسائل جن کا تعلق تفقّہہ سے ہے انہیں نکالیں اور لوگوں کے سامنے بیان کریں۔ اسی طرح اسلام کے جو اقتصادی احکام ہیں ان کا پہلے خود مطالعہ کریں پھر یہ سوچیں کہ دیگر مذاہب کے احکام پر اسلام کے ان حکموں کو کیا کیا فضیلتیں حاصل ہیں اور جب وہ اپنی معلومات کو مکمل کرلیں تو لوگوںکو ان مسائل سے آگاہ کریں اور مختلف جگہوں میں لیکچر دے کر ہر احمدی کو اس سے واقف کریں اور اسے بتائیں کہ اسلام میں کیسی اعلیٰ تعلیم موجود ہے۔ اگر وہ اس رنگ میں جدوجہد کرکے تمام جماعت کو اسلامی مسائل سے آگاہ کردیں تو یقینا جماعت کا ایک کثیرحصہ ان پر عمل کرنے کیلئے تیار ہوجائے گا کیونکہ میرا تجربہ جماعت کے متعلق یہ ہے کہ اس میں ایمان کی روح کی کمی نہیں جس چیز کی کمی ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ بہت سے لوگ عربی نہیں جانتے اور اسلامی تعلیم کا بیشتر حصہ عربی میں ہے اس لئے وہ اسلام کی تعلیم سے ناواقف رہتے ہیں۔ اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ اسلام کی ان امور کے متعلق کیا تعلیم ہے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ سَو میں سے پچانوے نقصان اٹھا کر بھی اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کیلئے کھڑے ہوجائیں گے کیونکہ ایمان اللہ تعالیٰ کے فضل سے موجود ہے۔ جس چیز کی کمی ہے وہ علم ہے اور میں سمجھتا ہوںیہ ہماری جماعت کی تمام انجمنوں کا فرض ہے کہ وہ انہیں اسلامی تعلیم سے آگاہ کریں۔ مثلاً انصاراللہ کی جو جماعتیں مختلف مقاما ت میں قائم ہیںان کا صرف یہی کام نہیں کہ وہ تبلیغ کریں بلکہ اپنی جماعت کو اسلام کی تعلیم سے واقف کرنا بھی ان کا کام ہے۔ بعض علوم بیشک ایسے ہیں جو انہیں بوجہ علم کی کمی کے نہیں آسکتے مگر کم سے کم جو باتیں میرے خطبات میں آچکی ہیںان کے متعلق یہ ان کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ انہیں تمام جماعت میں پھیلادیں۔ پھر صرف انصاراللہ ہی نہیں مدرسوں کے ہیڈ ماسٹر اور اساتذہ صاحبان کا بھی یہی فرض ہے کہ وہ اپنے لڑکوں میں وہ روح پیدا کریں جو میں جماعت کے تمام دوستوں کے دلوں میں پیدا کرنی چاہتا ہوں۔
ابھی چند دن ہوئے ہمارے زنانہ مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر صاحب مجھے ملنے کیلئے آئے اور کہنے لگے کہ میں کیا کام کروں۔ میں نے انہیں بعض ہدایتیں دیں مگر اب میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اگر وہ واقع میں کوئی ٹھوس کام کرنا چاہتے ہیں تو اسلامی تعلیم کے احیاء کے متعلق میرے جس قدر گزشتہ خطبات ہیں وہ نکالیں اور ان کے مضامین سے سکول کی طالبات کو آگاہ کریں۔ جب وہ واقف ہوجائیں تو پھر وہ اپنی مائوں کو، اپنی بہنوں کو اور اپنی دیگر رشتے دار عورتوں کو بتائیں کہ ہماری جماعت کے قیام کی اصل غرض کیا ہے۔ یہاں تک کہ تھوڑے دنوں میں ہی قادیان میں رہنے والا ہر شخص اسلامی تعلیم سے آگاہ ہوجائے اور وہ بشاشت کے ساتھ اس پر عمل کرنے کیلئے تیار ہوجائے مگر اب یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی حکم دیا جاتا ہے تو بعض لوگ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول کا خاص حکم نہیں بلکہ ان کا ذاتی استدلال ہے۔ جو سچا مؤمن ہوتا ہے وہ تو ان باتوں کی پروا نہیں کرتا اور نہ اس قسم کے وساوس سے اپنے ایمان کو متزلزل کرتا ہے، وہ صرف یہی جانتا ہے کہ جب ایک شخص ہمارا خلیفہ ہے اور وہ خداتعالیٰ کا قائم کردہ ہے تو پھر وہ جو حکم بھی دے گا اس پر عمل کرنا ہمارے لئے ضروری ہوگا۔ وہ خدا اور رسول کے خلاف حکم نہیں دے سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ سب لوگ ایمان میںبرابر نہیں ہوتے۔ کامل الایمان تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ جو بات ان سے کہی جاتی ہے وہ اچھی ہے۔ اگر ان کی سمجھ میںیہ بات آجائے کہ جو بات ان سے کہی جاتی ہے اچھی ہے تو وہ اسے فوراً قبول کرلیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ضرور خداتعالیٰ کا بھی یہی منشاء ہے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھی نہیں تو اس سے رک جاتے ہیں مگر کچھ لوگ ان سے کم ایمان والے ہوتے ہیں اور وہ اچھی بات کے ساتھ کسی اچھے آدمی کی تائیدکے بھی محتاج ہوتے ہیں۔ وہ ہر فتویٰ کسی بڑے آدمی کے منہ سے سننا چاہتے ہیں۔ اگر چھوٹاآدمی وہی فتویٰ سنائے تو وہ اس کی چنداں پرواہ نہیں کرتے لیکن اگر بڑا آدمی وہی فتویٰ سنائے تو اس پر عمل کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔
پس اس قسم کی طبائع رکھنے والے لوگوں کو اگر یہ بتایا جائے کہ فلاں مشہور عالم نے یہ کہا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں اچھا تب تو عمل کرنا ضروری ہؤا۔ مگر کچھ لوگ ان سے بھی کم ایمان کے ہوتے ہیں وہ کسی بہت بڑے آدمی کی گواہی چاہتے ہیں اور کہتے ہیں اگر خلیفۂ وقت کہے گا تو ہم مانیں گے، وہ نہیں کہے گا تو کسی دوسرے کی بات ہم نہیں مان سکتے۔ ایسے لوگوں کو اگر خلیفۂ وقت کا حکم سنادیا جائے تو ان کی تسلی ہوجاتی ہے لیکن بعض لوگ اور بھی ضدی ہوتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کا کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں ایسا حکم دیا ہے یا نہیں۔ ایسے لوگوں کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام بتائے جائیں۔ جب وہ یہ ارشادات سنتے ہیں تو ان کے دل مطمئن ہوجاتے ہیں اور وہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ جب بانی سلسلہ احمدیہ نے یہی تعلیم دی ہے تو لازماً ہمارا فائدہ بھی اس تعلیم پر عمل کرنے میں ہے مگر کچھ طبیعتیں اس سے بھی اوپر جانا چاہتی ہیں اور وہ کہتی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تابع تھے ہمیں یہ بتائو کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہیں ایسا حکم دیا ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ انہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکام احادیث سے نکال کر بتائے جائیں۔ جب ان کے سامنے یہ احکام رکھے جاتے ہیں تو کہتے ہیں بہت اچھا۔ اب تو عمل کرنا ضروری ہؤا مگر کچھ طبائع یہاں آکر بھی ضد کرتی ہیں اور کہتی ہیں محمدصلی اﷲ علیہ وسلم بھی ہماری طرح ایک انسان تھے تم یہ بتائو کہ قرآن میںکہیں خدا نے یہ حکم دیا ہے یا نہیں۔ پس ایسے لوگوں کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ قرآن سے احکام پیش کئے جائیں۔
غرض چونکہ دنیا میں مختلف طبائع ہیں ا س لئے ہمیں ہر طبیعت اور ہر مذاق کے انسان کا علاج سوچ لینا چاہئے۔ جو خالص نیک فطرت آدمی ہو اس کے لئے صرف اتنا کہنا ہی کافی ہوتا ہے کہ میاں یہ بات تمہارے فائدہ کیلئے ہے اور صداقت کے قیام کیلئے تمہارا اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ یہ بات کسی عالم نے کہی ہے یا خلیفۂ وقت نے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہی ہے یارسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے۔ بے شک وہ علمی تحقیق بھی کرتا ہے مگر اس کا نفس نیکی کو دیکھ کر ہی اس کی طرف راغب ہوجاتا ہے مگر دوسروں کیلئے مؤیّدات کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض دفعہ علماء کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بعض دفعہ خلفاء کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے، بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے، بعض دفعہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے، بعض دفعہ قرآن کریم کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے اور جو بالکل کورا ہوتا ہے وہ خداتعالیٰ کی بھی نہیں مانتا مگر وہ نہ ہمارا ہے نہ خدا کا بلکہ شیطان کا غلام ہے۔ جس نے اس کی روحانیت کو بالکل سلب کرلیا ہے۔ ایسے کئی آدمی ہوتے ہیں جنہیں احمدیت کی تبلیغ جس وقت کی جاتی ہے تو وہ یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ اگر خدا بھی آسمان سے اتر کر ہمیں کہہ دے کہ مرزا صاحب سچے ہیں تو ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ ایسے آدمیوں کا کوئی علاج نہیں ہوتا مگر جو دوسرے لوگ ہیں ان کو سمجھانے کی کوشش کرنا ہمارا فرض ہے۔ اگر کوئی شخض محض اس وجہ سے احکام مان لینے کا عادی ہے کہ ان سے دنیا میں صداقت کا قیام ہوتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اس پر یہ امر واضح کردیں کہ ان حکموں کے نتیجہ میں دنیامیں سچائی قائم ہوگی۔ اگر کوئی علماء کی تائید چاہتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اس کے سامنے علماء کے اقوال پیش کریں، اگر کوئی خلفاء کی تائید چاہتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اس کے سامنے خلفاء کے اقوال پیش کریں اور اگر کوئی اس سے بھی بڑھ کر حُجت چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تائیدی ارشادات کہاں ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام اس کے سامنے پیش کریںاور اگر کوئی اس سے بھی بڑھ کر حجت چاہتا ہے تو ہمار ے لئے ضروری ہے کہ ہم رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکام اس کے سامنے رکھیں اور اگر کوئی اس سے بھی بڑھ کر حجت چاہتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے سامنے خداتعالیٰ کے اوامر پیش کریں اور اس میں ہمارا کوئی حرج نہیں کیونکہ یقینا سچائی کی تائید ہر صادق کے قول سے مل جائے گی۔ پنجابی میں ایک مثل ہے کہ ’’سَوسیانے اِکّو مت‘‘۔ عقلمند خواہ سَو ہوں اُن کا مشورہ ایک ہی ہوگا۔ غرض جس رنگ میں بھی کوئی شخص مطمئن ہوسکتا ہے ہمارا کام ہے کہ اسی رنگ میں اسے مطمئن کریں۔ اور جس میں کوئی بھی قابلیت نہ ہوگی اور جو نہ علماء کے اقوال سے مطمئن ہوگا نہ خلفاء کی ہدایات سے مطمئن ہو گا نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے مطمئن ہوگا نہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکام سے مطمئن ہوگا اور بِالآخر خدا کے اوامر سے بھی مطمئن نہیں ہوگا وہ ہمارا آدمی ہی نہیں کیونکہ ہمارا دائرہ تو خدا تک چلتا ہے۔ پنجابی کی ایک مثل ہے ۔ کہتے ہیں ’’مُلّاں دی دَوڑ مسیت تک‘‘۔ ہماری بھی آخری دوڑ خدا تک ہے جو خداتعالیٰ کی بات بھی نہ سنے تو ہم اسے کہہ دیں گے کہ میاں تمہارا راستہ اور ہے اور ہمارا اور۔
میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوست بھی تھے اور مولوی محمد حسین بٹالوی سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اور چونکہ وہ وہابی تھے اس لئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی بڑی مدد کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مولوی صاحب لدھیانہ کے قریب ایک شہر میں گئے اور انہوں نے وہابیت کی تبلیغ شروع کردی پھر ایک جلسہ کیا جس میں ان کے خلاف زبردست تقریر کی۔ حنفیوں نے پولیس میں رپورٹ کردی کہ مولوی صاحب کی تقریر سے فساد کا سخت خطرہ ہے۔ یہ حنفیوں کو گالیاں نکال رہے ہیں اور اگر انہیں روکا نہ گیا تو آپس میں فساد ہوجائے گا اور کشت و خون تک نوبت پہنچ جائے گی۔ مولوی صاحب تو گھبراگئے مگر یہ صاحب باوجود ناخواندہ ہونے کے ذہین تھے، کہنے لگے مولوی صاحب آپ جائیں،ان لوگوں کومیں سنبھال لوں گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تقریر کا اعلان کیا اور کچھ دوستوں کو مقرر کردیا کہ تھانہ کا خیال رکھنا ۔ اگر لوگ شکایت کریں اور پولیس آئے تو مجھے اطلاع کردینا پھر میں دیکھوں گا وہ کس طرح میرے خلاف کوئی بات کرتی ہے۔ انہوں نے پہلے یہ پتہ لگالیا تھا کہ تھانیدار سکھ ہے۔ چنانچہ وہ حنفیوں کے خلاف زبردست تقریر کرتے رہے۔ اسی دَوران میں ایک آدمی دَوڑا ہؤا آیا اور کہنے لگا تھانیدار صاحب آرہے ہیں۔ وہ کہنے لگے کوئی پرواہ نہیں۔ وہ تقریر اسی موضوع پر کررہے تھے کہ اہلحدیث میں کیا کیا خوبیاں ہیں۔ مگر چونکہ لوگوں میں مخالفت کا سخت جوش تھا اسی لئے تھانے میں انہوں نے رپورٹ یہ درج کرادی کہ انہیں روکا جائے ورنہ خون ہوجائے گا کیونکہ یہ ہمیںگالیاں دے رہے ہیں۔ جیسے آجکل ہمارے خلاف لوگ حکوت کو مشتعل کرنے کیلئے کہہ دیا کرتے ہیں کہ احمدی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں، انبیاء کو گالیاں دیتے ہیں اور بزرگوں کی توہین کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی پولیس کے پاس اسی رنگ میں رپورٹ کی اور تھانیدار صاحب پولیس کی گارد لے کر پہنچ گئے۔ جس وقت انہیں پتہ لگا کہ تھانیدار صاحب لیکچر گاہ میں داخل ہوگئے ہیں تو اپنی تقریر کا رخ بدل کر کہنے لگے مسلمانو! تم میں کتنی خرابیاںپائی جاتی ہیں۔ تم کہلاتے تو مسلمان ہو مگر کام وہ کرتے ہو جو ہندو اور سکھ بھی نہیں کرتے۔ دیکھو سکھ مسلمان نہیں مگر ان میں یہ کتنی بڑی خوبی ہے کہ وہ ڈاڑھی رکھتے ہیں۔ تم لوگ سکھوں کو برا کہتے ہو، ان کے ہزار عیب نکالتے ہو مگر اتنا نہیں سوچتے کہ تمہاری ڈاڑھیاں تو منڈی ہوئی ہیں اور سکھوں نے اپنے منہ پر ڈاڑھیاں رکھی ہوئی ہیں۔ پھر خود ہی سوچو کہ سکھ اچھے ہوئے یا تم۔ ہر شخص کہے گا کہ تم مسلمانوں سے سکھ ہزار درجے اچھے ہیں۔ پھر دیکھو تم حقہ پیتے ہو اور اٹھتے بیٹھتے حقہ کی نڑی تمہارے منہ میں ہوتی ہے۔ جب کسی سے بات کرتے ہو تو تمہارے منہ سے حقہ کی بدبو آتی ہے۔ مگرسکھوں کو دیکھو وہ حقہ کے قریب بھی نہیں جاتے اور ایک سکھ بھی ایسا نہیں ہے جو حقہ پیتا ہو۔ مگر تم ڈاڑھیاں منڈواتے ہو، تم حقہ پیتے ہو اور پھر کہتے ہو کہ ہم اچھے ہیں۔ تم سے تو سکھ ہزار درجے اچھے ہیں۔ تھانیدار یہ سن کر کہنے لگا ہیں! مولوی صاحب تو بڑی اچھی تقریر کررہے ہیں۔ پھر وہ کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا سنو اگر مولوی صاحب کی تقریر میں کوئی شخص بولا تو میں فوراً اسے ہتھکڑی لگالوں گا۔ اس کے بعد سپاہیوں کو اس نے ہدایت کی کہ میں تو اب جاتا ہوں مگر دیکھنا مولوی صاحب کے خلاف اگر کوئی ذرا بھی بولے تو اسے ہتھکڑی لگالینا۔ یہ کہہ کر وہ تھانے کو چل دیا۔ ادھر وہ جلسہ گاہ سے باہر نکلا اور اُدھر مولوی صاحب نے پھر اپنا مضمون شرع کردیا۔ اس وقت مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی کے مقابلہ میں جو شخص کھڑا تھا وہ ارائیں قوم سے تعلق رکھتا تھا اس زمانہ میں عا م طور پر ارائیں قوم میں یہ رواج تھا کہ ان کی عورتیں شہروں میں جاکر ترکاریاں فروخت کرتی تھیں۔ گو اب خدا کے فضل سے اس میں بہت کچھ اصلاح ہے۔ مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں ارائیں قو م سے تمسخر کرنے شروع کردیئے اور کہا بڑے مولوی بنے پھرتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ان کی عورتیں مولیوں اور گاجروں کا ٹوکرا سر پر اٹھائے ہر وقت چکر لگاتی رہتی ہیں اور کہتی ہیں لے لو بھَیناں مُولیاں لے لو بھَیناں گاجراں ۔ وہ لوگ پھر دوڑے دوڑے تھانیدار کے پاس گئے اورکہنے لگے مولوی صاحب ہمیں گالیاں دے رہے ہیں۔ مگر تھانیدار کہنے لگا تم سب شرارت کررہے ہو۔ اگر پھر بھی تم نے مولوی صاحب کے خلاف شکایت کی تو میں تم سب کی خبر لوں گا۔
غرض وہ آدمی بڑے ذہین تھے۔ یوں پڑھے لکھے اور عالم نہیں تھے مگر تقریر بہت اچھی کرسکتے تھے اور ان کا ذہن بہت صاف تھا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٔ ماموریت کیا اور لوگوںنے شور مچادیا کہ مرزا صاحب کافر ہوگئے ہیں تو وہ کہنے لگے میں مرزا صاحب کو جانتا ہوں وہ قرآن سے باہر نہیں جاتے۔ انہیں کوئی دھوکا لگ گیا ہوگا ورنہ ان کے دل میں قرآن کریم کی جس قدر محبت ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے دیدہ دانستہ خلافِ قرآن باتیں کہہ دی ہوں، ضرور انہیں کوئی دھوکا لگا ہے۔ پھر کہنے لگے میں خود قادیان جاتا ہوں اور ان سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا بات ہے۔ چنانچہ وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آکر کہنے لگے میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں۔ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہاں میرا یہی دعویٰ ہے۔ وہ کہنے لگے میں تو سمجھتاتھا لوگ جھوٹ کہہ رہے ہیں اور مجھے بڑا یقین تھا کہ آپ قرآن کریم کے خلاف کوئی بات کہنے والے نہیں۔ مگر اب آکر معلوم ہؤا کہ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میاں صاحب جب قرآن یہی کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں تو میں قرآن کے خلاف کس طرح کوئی بات کہہ سکتا ہوں۔ وہ کہنے لگے اچھا توآپ قرآن کو مانتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میں تو قرآن کے ایک ایک حرف اور ایک ایک شُعشہ کو بھی قابلِ عمل سمجھتا ہوں۔ وہ کہنے لگے میں پہلے ہی کہتا تھا مرزا صاحب قرآن کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ ضرور انہیں کسی آیت سے دھوکا لگ گیا ہوگا۔ چنانچہ یہی بات صحیح نکلی۔ پھر کہنے لگے اچھا اگر میں قرآن کریم سے سو ایسی آیتیں نکال کر لے آئوں جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو کیا آپ وفاتِ مسیح کا عقیدہ ترک کردیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا سو کا کیا سوال ہے۔ آپ اگر ایک آیت بھی قرآن کریم سے ایسی نکال دیں جس سے حیات مسیح ثابت ہوتی ہو تو میں اپنے عقیدہ کو بالکل ترک کردوں گا۔ اس پر انہیں شُبہ پیدا ہؤا کہ شاید سو آیتیں قرآن کریم میں ایسی نہ ہوں۔ اس لئے وہ کہنے لگے اچھا سو نہ سہی اگر پچاس آیتیں لے آئوں تب بھی کیا آپ اپنے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میں نے تو کہہ دیا ہے کہ آپ ایک آیت ہی نکال لائیں میں مان لوں گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ آخر ہوتے ہوتے وہ دس آیتوں پر آگئے اور کہا کہ میں دس آیتیں تو ضرور لائوں گا جن سے حضرت عیسیٰ کی حیات ثابت ہوتی ہو۔ مگر آپ پکا وعدہ کریں کہ قرآن کریم کی آیتیں سننے کے بعد آپ اپنے عقیدہ کو ترک کردیں گے اور لاہور چل کر شاہی مسجد میں لوگوں کے سامنے توبہ کریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہاں میں پختہ وعدہ کرتا ہوں اگر آپ ایک آیت بھی لے آئے تو جس جگہ آپ کہیں گے وہاں پہنچ کر اس عقیدہ کو ترک کرنے کا اعلان کردوں گا۔ یہ سن کر وہ خوش خوش لاہور پہنچے۔ مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی ان دنوں لاہور تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل گو اس وقت جموں میں ملازم تھے مگر آپ بھی اتفاقاً کسی ضرورت پر لاہور تشریف لائے ہوئے تھے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو چونکہ اپنے علم پر بڑا گھمنڈ تھا اس لئے انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے مقابلہ میں اشتہار پر اشتہار دینے شروع کردیئے کہ میرا مقابلہ کرو اور مجھ سے جب چاہو بحث کرلو۔ حضرت خلیفہ اوّل بھی جواب میںاشتہار شائع فرماتے اور اس طرح آپس میں خوب اشتہار بازی ہورہی تھی اور ایک اکھاڑہ سا لگا ہؤا تھا۔ مگر شرائط کا تصفیہ نہیں ہوتا تھا۔ مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی یہ کہتے کہ حدیثوں کی رو سے وفات و حیات مسیح پر بحث ہونی چاہئے اور حضرت خلیفہ اوّل یہ فرماتے کہ قرآن کی رو سے بحث ہونی چاہئے۔ آخر جب بہت عرصہ گزر گیا اور کوئی فیصلہ نہ ہوا تو لوگوں نے حضرت خلیفہ اول پر زور دینا شروع کردیا کہ آپ اس شرط کو کچھ نرم کردیں تاکہ کسی نہ کسی طرح مباحثہ ہوجائے۔ حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا اچھا قرآن کے علاوہ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ بخاری بھی پیش کردی جائے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اس پر بڑے خوش تھے اور مجلس میں بیٹھے خوب فخر کررہے تھے کہ دیکھا میں نے مولوی نورالدین کو کیسا رگڑا۔ آخر وہ قرآن کے علاوہ حدیث کی طرف آ ہی گیا۔ ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ یہ صاحب وہاں جا پہنچے اور کہنے لگے آپ نے یہ کیا تماشہ بنایا ہؤا ہے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کہنے لگے تماشہ کیا ہے مولوی نورالدین سے میں نے بحث کی اور آخر اسے قابو کر ہی لیا۔ وہ کہنے لگے ان بحثوں کو چھوڑیئے میں تو سیدھا مرزا صاحب کے پاس گیا تھا اور انہیں اس بات پر تیار کر آیا ہوں کہ وہ یہیں لاہور میں آکر شاہی مسجد میں سب لوگوں کے سامنے توبہ کریں گے۔ آپ جلدی سے مجھے قرآن کی دس آیتیں ایسی لکھ دیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ بس میں جاتے ہی وہ آیتیں ان کے سامنے پیش کروں گا اور انہیں یہیں لاہور میں لے آئوں گا اور شاہی مسجد میں سب کے سامنے توبہ کرائوں گا۔مولوی محمد حسین بٹالوی جو اس وقت اس بات پر خوش ہورہے تھے کہ میں آخر بڑی جدوجہد کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب کو حدیثوں کی طرف لے آیا۔ انہوں نے جب یہ بات سنی تو چونکہ مغلوب الغضب آدمی تھے اس لئے غصہ سے لال سرخ ہوگئے اور کہنے لگے تو بڑا جاہل ہے تجھے کس نے کہا تھا کہ تو خودبخود شرائط طے کرتا پھرے۔ میں دو مہینے بحث کرکرکے مولوی نورالدین کو حدیثوں کی طرف لایا تھا تو پھر قرآن کی شرط مان آیا ہے۔ غصے کی حالت میں ان کے منہ سے جونہی یہ فقرہ نکلا ان صاحب پر سکتہ طاری ہوگیا اور چونکہ آدمی تھے نیک اس لئے مجلس سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے مولوی صاحب میں اب بات سمجھ گیا۔ میں تو قرآن کی طرف ہوں جدھر قرآن ہے ادھر ہی میں ہوں اور یہ کہہ کر وہاں سے چل دیئے اور قادیان آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرلی۔
تو حقیقت یہ ہے کہ مؤمن ادھر ہی جاتا ہے جدھر قرآن اسے لے جاتا ہو۔ اور میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت میں پچانوے فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ ایسے مؤمن خداتعالیٰ کے فضل سے موجود ہیں جن پر اگر ہم یہ ثابت کردیں کہ قرآن کریم کا وہی حکم ہے جو ہم بتارہے ہیں تو وہ اس اَن پڑھ مؤمن کی طرح یہی کہیں گے کہ جدھر قرآن ہے ادھر ہی ہم ہیں۔ غلطی ہماری اور ہمارے علماء کی ہے کہ وہ پوری طرح لوگوں کو ان مسائل اور تعلیمات سے آگاہ نہیں کرتے۔ تو جس قدر انجمنیں اور سکول ہیں اگر وہ اپنے فرائض میں یہ امر داخل کرلیں کہ انہوں نے لوگوں کو اسلامی تعلیم سے آگاہ کرنا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ شوق سے ان باتوں پرعمل نہ کریں۔ اگر سکول میں لڑکے اور لڑکیوں کو یہی باتیں بتائی جائیں اور بار بار بتائی جائیں تو گو پھر بھی ان میں بعض غلطیاں رہ سکتی ہیں مگر جو آئندہ نسل پیدا ہوگی وہ بہت زیادہ اصلاح یافتہ ہوگی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول ایک دنیوی سکول ہے مگر یہ دنیوی سکول قادیان میں قائم کرنے کی غرض یہ ہے کہ لڑکوں میں دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسی روح پیدا کی جائے جس کے نتیجہ میں وہ سلسلہ اور اسلام کیلئے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہوسکیں۔
پس مدرسہ تعلیم الاسلام کے ہیڈ ماسٹر صاحب اور دوسرے مدرسوں کے ہیڈ ماسٹر اور اساتذہ صاحبان کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلام کی ان تعلیموں کو متواتر اور کثرت کے ساتھ لڑکوں کے سامنے پیش کریں اور انہیں ان حکمتوں اور فوائد سے آگاہ کریں جو ان تعلیموں میں کام کررہے ہیں اور ایسے جلسے سکولوں میں کرتے رہیںجن میں انہی مضامین پر لڑکوں سے تقریریں کرائی جائیں۔ بیشک وہ لڑکوں کو دنیوی تعلیم بھی دیں اور ضروری ہے کہ دنیوی تعلیم دیں کیونکہ یہ امر بھی اَور طالبعلموں کو کھینچنے اور مرکز سلسلہ میں لانے کا موجب ہوتا ہے۔ چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ جب سے سکول کے اساتذہ نے اس طرف توجہ کی ہے ان کے نتائج پہلے سے بہت زیادہ شاندار نکلنے شروع ہوگئے ہیں۔ حالانکہ یہی مدرس اور اساتذہ پہلے بھی تھے مگر چونکہ اب انہوں نے توجہ اور محنت سے کام کرنا شروع کردیا ہے اس لئے انہیں کامیابی بھی زیادہ ہورہی ہے۔ اسی طرح اگر وہ دینی معاملات کی طرف توجہ کریں تو یقینا ہمارے طالب علم جب تعلیم سے فارغ ہوکر نکلیں گے تواسلام کے جھنڈے کے حامل ہوں گے۔ پس یہ دو محکمے تو ایسے ہیں کہ اگر ان میں دیانتداری اور اخلاص کے ساتھ کام کیا جائے تو صدیوں تک ثواب میسر آسکتا ہے۔ آخر انٹرنس کے امتحان میں اگر لڑکے اچھے نکلیں گے تو اس کا ثواب مدرسوں کو اسی سال حاصل ہوگا اور اس کی نیک نامی بھی انہیں اسی سال حاصل ہوگی لیکن اگر وہ اچھے احمدی اپنے سکول سے نکالیں تو اس کا ثواب ان کی وفات کے ہزاروں سال بعد بھی انہیں ملتا رہے گا۔
پس خداتعالیٰ نے ان کیلئے یہ ایک ایسا راستہ کھولا ہؤا ہے جس پر چل کر وہ قیامت تک خداتعالیٰ کے نیک بندوں کی دعائیں حاصل کرسکتے ہیں۔ پھر اس کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جماعت میں کوئی فتنہ پیدا نہیں ہوسکے گا۔ فتنہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب فتنہ پرداز یہ سمجھتے ہیں کہ بعض لوگ ہماری باتوں سے متاثر ہوجائیں گیلیکن اگر یہ دونوں مدرسے لڑکوں اور لڑکیوں میں اسلامی روح پیدا کردیں ، نظام سلسلہ کا احترام ان کے دلوں میں پیدا کردیں، اسلام کے احکام کی عظمت ان کے دلوں میں پید اکردیں اور انہیں ایک ایسی مضبوط چٹان کی طرح بنادیں کہ کوئی فتنہ ان کے ایمان کو متزلزل نہ کرسکے اور وہ سلسلہ اور اسلام کے کامل عاشق ہوں تو جس قدر فتنہ پرداز ہیںوہ یقینا مایوس ہوجائیں گے اور ۴؎ والی حالت نظر آنے لگ جائے گی۔ اس صورت میں وہ مدرس مدرس نہیں ہوگا جو اس رنگ میں اسلام کی تعلیم دے گا بلکہ دین کا ستون ہوگا اور آئندہ جب لوگ یہ دعا کریں گے کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍتو اٰلِ مُحَمَّد میں خداتعالیٰ کے فرشتے اس مدرّس کا نام بھی لکھ لیں گے اور کہیں گے یہ وہ شخص ہے جس کی بدولت آج تک دنیا میں تعلیمِ اسلام قائم ہے۔
پس مدرّس بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ درحقیقت وہ ایک خاموش نائب ہے نبی کا۔ وہ دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے مگر خداتعالیٰ کی نظر اس پر ہر وقت پڑ رہی ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کے ذریعہ دین کی ترقی ہورہی ہے۔ اسی طرح ہر جماعت اور بڑی جماعتوں میں ہر محلہ کے پریذیڈنٹ اگر کوشش کریں تو وہ اپنے اپنے دائرہ میں مفید کام کرسکتے ہیں۔ انجمن خدام الاحمدیہ کے ارکان کو بھی چاہئے خواہ وہ مرکزی انجمن سے تعلق رکھتے ہیں یا بیرونی انجمنوں سے کہ وہ اس سلسلہ میںعملی قدم اٹھائیں اور اپنے ممبروں کو اسلامی تعلیم سے آگاہ کرنے کیلئے ایک پروگرام تیار کریں اور ایسا کورس مقرر کریں جس کو پڑھ لینے کے بعد وہ اسلامی مسائل سے بہت حد تک آگاہ ہوجائیں۔ پھر ان سے جگہ بجگہ لیکچر دلائیں تاکہ یہ باتیں نہ صرف ان کے ذہن میں پختہ طور پر جم جائیں بلکہ دوسروں کو بھی ان کے مطالعہ سے فائدہ پہنچے۔ اور اگر وہ اس رنگ میں کام کریں تو سلسلہ کی بہت بڑی خدمت کرسکتے ہیںکیونکہ یہ کام کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ ساری جماعت کا ہے اور جب تک ساری جماعت مل کر کام نہ کرے انفرادی کوششوں سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اپنے اپنے دائرہ میں مختلف گروہ کام کررہے ہوں۔ ایک طرف بچوں کی تربیت ہورہی ہو، ایک طرف عورتوں کی تربیت ہورہی ہو، ایک طرف نوجوانوں کی تربیت ہورہی ہو اور ایک طرف بڑی عمر کے لوگوں کی تربیت ہورہی ہو۔ مثلاً اب خطبہ میں مَیں نے اس امر کی طرف توجہ دلادی ہے مگر خالی میرا خطبہ پڑھ دینا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ خطبہ شائع ہونے کے بعد مختلف انجمنیں اس خطبہ کی روح کو لے کر کھڑی ہوجائیں اور لوگوں کو اس کے مطابق تیار کرنا شروع کردیں، پھر ان سے جو چھوٹی انجمنیں ہیں وہ کام شروع کردیں، پھر مدرسوں کے اساتذہ زور دینا شروع کردیں۔ پھر گھروں میں ماں باپ سمجھانا شروع کردیں، غرض جس جس دائرہ میں کوئی شخص کام کرتا ہے اسی دائرہ میں وہ لوگوں کو سمجھانا اپنا فرض قرار دے لے۔ جب اس رنگ میں ہماری جماعت کے تمام افراد کام کریں گے تب وہ دن آئے گا جب اسلامی تعلیم عملی رنگ میں دنیا میں قائم ہوجائے گی۔ عربوں کو اس سلسلہ میں بہت آسانی تھی ان کی زبان بھی عربی تھی اور قرآن کریم بھی عربی زبان میں نازل ہؤا نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ بہت جلد اسلامی تعلیم سے آگاہ ہوگئے۔ مگر ہمارے لئے یہ مشکل ہے کہ ہماری جماعت کا ایک کثیر حصہ عربی زبان سے ناواقف ہے اس وجہ سے چند لوگ جو عربی جانتے ہیں وہ تو (بشرطیکہ ان میں تقویٰ ہو) اسلامی مسائل کی اہمیت کو سمجھ جاتے ہیں مگر باقی نہیں سمجھتے۔ پس یہ عربی جاننے والوں کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کو ان مسائل سے آگاہ کریں بلکہ ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہماری جماعت میں سے ہر شخص کو قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہو۔ اس کیلئے اگر مجلس خدام الاحمدیہ ہر جگہ نائٹ سکول کھول دے اور ان لوگوں کو جنہیں قرآن کریم کا ترجمہ نہیں آتا ترجمہ پڑھانا شروع کردے۔ تو یہی ایک ایسی خدمت ہوگی جو انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کا مستحق بنادے گی۔ اگر قادیان کا بچہ بچہ قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہو تو یقینا دنیا کا کوئی شہر اس خوبی میں قادیان کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ حتیٰ کہ عرب کے شہر بھی اس خوبی میں قادیان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے کیونکہ عرب بھی سارے کے سارے قرآن پڑھے ہوئے نہیں ہوتے۔ پس اگر مجلس خدام الاحمدیہ صرف اتنا کام کرے کہ وہ ان لوگوں کو جنہیں قرآن کریم کا ترجمہ نہیں آتا، نائٹ سکول قائم کرکے ( تا جو لوگ دن بھر اور کاموں میں مشغول رہتے ہیں وہ بھی اس میں شامل ہوسکیں) ترجمہ پڑھادے تومیں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے لئے بہت بڑی برکت کا ذخیرہ جمع کرسکتی ہے۔
پس میں جماعت کو توجہ دلاتاہوں کہ تمہارے سامنے جو کام ہے وہ کوئی معمولی کام نہیں دنیا کی تمام طاقتوں کو مٹاکر اسلامی تعلیم کا ازسرِنو احیاء تمہارا فرض ہے اور تمہارے کمزور کندھوں پر ایک عظیم الشان بوجھ لادا گیا ہے۔ اس کیلئے جب تک تمام افراد مل کر کوشش نہیں کریں گے اور احکام اسلامی کے اجراء میں ہمارے ساتھ تعاون نہیں کریں گے اس وقت تک یہ کام نہیں ہوسکے گا۔ دیکھو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ۵؎کہ تم میں سے ہر شخص بادشاہ ہے اور تم میں سے ہر شخص سے اپنی اپنی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ گھر کا ایک بڑا آدمی بھی اپنی جگہ بادشاہ ہے اور اس سے اپنے بیوی بچوں کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ اس نے انہیں کہاں تک اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا۔ گویا اسلام نے ہم میں سے ہر شخص کو آواز دی ہے اور جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایاکہ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلَّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ تو گویا دوسرے لفظوں میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں اور انہیں اپنے اپنے دائرہ میں مختلف قسم کی بادشاہتیں حاصل ہیں۔ میں ان سب کو پکارتا اور آواز دیتا ہوں کہ آئو اور اسلام کے قیام میں میری مدد کرو کیونکہ قیامت کے دن میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے اسلام اورایمان پھیلانے کیلئے کیا کِیا۔ ایک ہیڈ ماسٹر اپنے سکول کا بادشاہ ہے اور قیامت کے دن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے یہ سوا ل کریں گے کہ تم نے اپنی رعایامیں جو طالبعلم تھے اسلام پھیلانے کیلئے کیا جدوجہد کی۔ ایک جماعت کا پریذیڈنٹ اپنی جماعت کا حاکم ہے اورمحمدصلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ تم میں سے ہر شخص سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
پس جماعت کے پریذیڈنٹ سے بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم قیامت کے دن پوچھیں گے کہ اے فلاں جماعت کے پریذیڈنٹ تو نے اپنے شہر یا محلہ میں میری تعلیم جاری کرنے کیلئے کیا کوشش کی۔ اسی طرح ہر خاوند بادشاہ ہے اور اس کی بیوی اور اس کے بچے اس کی رعایا ہیں اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن میں اس سے یہ دریافت کروں گا کہ اے خاندان کے بادشاہ! تُو نے اسلامی تعلیم کے احیاء کیلئے کیا کِیا؟ اسی طرح ایک ماں بھی اپنے بچوں پر بادشاہ ہے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اُس سے یہ دریافت کریں گے کے اے ماں تُو بتا کہ میری تعلیم پھیلانے کیلئے تُو نے کیا کوشش کی؟ پس محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس آواز کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھو کیونکہ یہ سوال ہے جو تم سے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کرنا ہے اور تمہیں قیامت کے دن اس کا جواب دینا پڑے گا۔ پس پیشتر اس کے کہ اس سوال کا وقت آئے تم میں سے ہر شخص کو اس کے جواب کیلئے تیار رہنا چاہئے۔‘‘ (الفضل ۱۷؍ جون ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الانبیآئ: ۹۷
۲؎ مؤطا امام مالک کتاب البیوع باب الْحُکْرَۃ وَالتَّرَبُّصُ
۳؎ بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الْمَلَا ئِکَۃ (الخ)
۴؎ المائدہ: ۴
۵؎ بخاری کتاب النِّکاح باب الْمَرْئَ ۃُ رَاعِیَۃٌ فِیْ بَیْتِ زَوْجِھَا

۱۸
احبابِ جماعت کی تربیت کیلئے
تحریک جدید کے جلسے کئے جائیں
(فرمودہ ۱۷؍ جون ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’عقلمند اور پاگل، مؤمن اور منافق میں یہی فرق ہوتا ہے کہ عقلمند اور مؤمن کے اقوال اور افعال میں اختلاف اور تضاد نہیں ہوتا لیکن پاگل اور منافق کے کاموں اور قولوں میںتضاد پایا جاتا ہے۔ یہی ایک علامت ہے جس کے ذریعہ سے پاگل اور منافق و مؤمن اور عقلمند کو پہچانا جاسکتا ہے۔ اگر کسی شخص کو ہم دیکھیں کہ وہ کسی چیز کی تعریف کررہا ہے لیکن وہ چیز جب اسے میسر آرہی ہو تو اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور اسے حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا تو ہم سمجھیں گے کہ اس کا تعریف کرنا بناوٹ تھی۔ اگر واقع میں وہ اس کے نیک اثرات کا قائل ہوتا تو جب وہ اسے میسر آرہی تھی تو اسے کیوں نہ لیتا۔ پس اس کی تعریف یا تو پاگلانہ تھی یا منافقانہ، گو یہ جنون یا منافقت حالات کے ماتحت کم و بیش درجہ کی ہوگی۔ چنانچہ قرآن کریم نے عارضی حالت کا نام جہالت رکھا ہے۔ اور وہ جہالت جو عارضی طور پر بعد علم کے انسان پر غالب ہوتی ہے جنون کی ہی ایک قسم ہے۔ جیسا کہ آجکل کی طبی تحقیق میں ایسے جرائم کا موجب جو انسان کے عقیدہ اور مسلّمات کے خلاف اس سے سرزد ہوں۔ ایک قسم کے جنون کا دورہ ہی بتایا گیا ہے، تیسری کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کو کوئی چیز اچھی نظر آئے مگر وہ اسے ملتی نہ ہو ۔ اس صورت میں ہم اسے پاگل یا منافق نہیں کہیں گے کیونکہ اگر وہ اس کی تعریف کرتا ہے تو اپنے عقیدہ کا اظہار کرتا ہے اور چونکہ اسے عمل کا موقع نہیں ملا اس لئے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اسے عمل کا موقع ملے اور وہ غفلت برتے یا لاپرواہی سے کام لے تو بے شک ہم کہیں گے کہ یا تو اس کی تعریف منافقانہ اور پاگلانہ تھی اور یا پھر اب اس پر جنون کا دورہ ہو گیا ہے۔ جس کے ماتحت یہ اس چیز کی نیکی اور خوبی کو بھول گیا ہے۔
اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مسلمان متواتر بِلاناغہ اور دن میں کئی کئی بار ۱؎ کہتا ہے گویا وہ اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی تعریف والا ہے، کیوں اس لئے نہیں کہ مجھ پر احسان کرتا ہے، اس لئے نہیں کہ میری خبرگیری کرتا ہے، بلکہ وہ اس لئے تعریف کا مستحق ہے کہ رب العٰلمین ہے اور ساری دنیا کا خیال رکھتا ہے۔ رات دن، صبح وشام، دوپہر غرض کہ ہر لحظہ اور ہر روز اور ہر ہفتہ اور ہر مہینہ اور ہر سال وہ اس امر کا اقرار کرتا چلا جاتا ہے۔ بلوغت سے لے کر موت تک کبھی کھڑے اور کبھی بیٹھے، کبھی لیٹے ،کبھی ان معیّن الفاظ میں اور کبھی عام فقرہ کی صورت میں ہم اس مضمون کو بیان کرتے ہیں۔ کبھی تو ہی کہتے ہیں اور کبھی دوسری دعائیں کرتے ہیں جن کا مطلب بھی دراصل یہی ہے۔ جب سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمُ یا سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہتے ہیں یا اَشْھَدُ اَنْ لاَّاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہتے ہیں تو اس کا بھی یہی مفہوم ہوتا ہے کیونکہ یہ سب باتیں ربوبیت عالمین پر دلالت کرتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کی سب سے زیادہ تعریف کیوں ہے؟ اس لئے کہ وہ سب کا رب ہے اور اس کے سوا اَور کوئی ربوبیت کرنے والا نہیں۔ پس بعض حالتوں میں انہی الفاظ میں اور بعض حالتوں میں دوسرے الفاظ میں ہم اللہ تعالیٰ کی یہ صفت بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ واہ واہ ہمارا رب کیسا اچھا ہے ساری دنیا کی ربوبیت کرتا ہے لیکن غور کرنا چاہئے کہ ہمارے لئے بھی تو ربوبیت کے مواقع آتے ہیں۔ اگرربوبیت اچھی چیز ہے تو ہمیں بھی یہ صفت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔ اگر ہم اسے پیدا کرتے ہیں تو ہمارا کہنے کا دعویٰ سچا اور مؤمنانہ ہے۔ ورنہ یہ منافقانہ یا پاگلانہ ہے۔ مؤمن کیلئے یہ بات کتنی اہمیت رکھنے والی ہے کہ جس چیز کی تعریف وہ اس قدر تواتر کے ساتھ کرتا ہے، اسے خود بھی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے یا نہیں۔ انسان ایک دفعہ بھی جو بات زبان سے نکال دے اس پر اس کا قائم رہنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر جس بات کو دن میں تیس چالیس مرتبہ دُہرائے لیکن جب عمل کا وقت آئے تو اسے نظرانداز کردے۔ اس کے یہ معنے ہیں کہ صفت رب العٰلمین کی کوئی حقیقت اس کے نزدیک نہیں ہے اسی لئے وہ اسے اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتا ۔بعض حالتوں میں تو مَیں نے دیکھا ہے کہ بیوی بچے بھی انسان کی اس صفت سے محروم رہتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے بچوں کی روٹی اور لباس کی تو بڑی فکر رکھتے ہیں لیکن انہیں نما زکا پابند بنانے کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ پھر بعض لوگوں کے دلوں میں تعلیم کی قدر ہوتی ہے اس لئے وہ بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں۔ بعض کے نزدیک آدابِ مجلس کی قدر ہوتی ہے اس لئے ان کو یہ باتیں اچھی طرح سکھاتے ہیں۔ بعض ادیب ہوتے ہیں اور وہ اس بات کا بڑا خیال رکھتے ہیں کہ ان کے بچوں کی زبان درست ہو۔ جو اپنے پیشہ کو ہمیشہ عزیز رکھتے ہیں وہ اس سے اپنے بچوں کو پوری طرح واقف کرتے ہیں۔ زمیندار اپنے بچوں کو ہل چلانا اور دوسرے زمیندارہ کام کرنا سکھاتا ہے۔ ان کو موسموں کے حالات اور ان کے تغیرات کا فصلوں پر اثر بتاتا ہے۔ انہیں وہ امثال سکھاتا ہے جس میں بیان ہوتا ہے کہ کون سی فصل کیلئے کس موسم میں پانی اچھا ہوتا ہے۔ کب گوڈی اچھی ہوتی ہے۔ پھر اگر کوئی لوہار یا ترکھان ہے تو وہ اپنے بچوں کو اس کام کی باتیں بتاتا ہے لیکن جب خدا رسول کی باتیں یا نماز روزہ کے مسائل سکھانے کو کہا جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ جی اجے نیانا اے۔ یعنی ابھی یہ بہت چھوٹا بچہ ہے۔ حالانکہ تم اسے زبان سکھاتے ہو، آداب مجلس سکھاتے ہو، پیشہ کی باتیں سکھاتے ہو، زمیندارہ کی باتیں بتاتے ہو اور کبھی تمہیںیہ خیال نہیں آتا کہ یہ ’’نیانا‘‘ یعنی چھوٹا بچہ ہے لیکن جب دین کا سوال ہو تو جھَٹ کہہ دیتے ہو کہ یہ ’’نیانا‘‘ ہے۔ کیا دین ہی ایک ایسی چیز ہے جو سمجھی نہ جاسکے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ بچہ کے پید اہوتے ہی اس کے کان میں اذان دی جائے۔ ۲؎مگر افسوس ہے کہ خدا ورسول نے جن باتوں کو ابتداء میں سکھانے کی ہدایت کی ہے ان کو پیچھے ڈال دیا جاتا ہے اور یہ نہیں سمجھتے کہ سکھانے اور تعلیم دینے کا بہترین وقت بچپن ہی ہے۔ اس عمر میں جوبات سکھائی جائے وہ میخ کی طرح دل میں گڑ جاتی ہے۔ بچوں کو لوگ کہانیاں سناتے ہیں جن میں بھُوت پریت کا ذکر ہوتا ہے اور ان کا طبیعت پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے بچپن میں ایسی کہانیاں سنی ہیں وہ ان باتوں کے خلاف دلیلیں دیں گے، تقریریں کریں گے مگر ان کی اپنی زندگی کے مختلف شعبوں میں ان باتوں کا اثر ضرور ظاہر ہوگا۔ وہ لوگوں کو ان باتوں کا غلط ہونا بتائیں گے اور اس کیلئے تقاریر بھی کریں گے مگر بعض دفعہ وہ خود شک میں پڑ جائیں گے۔
۱۹۱۳ء میںحضرت خلیفہ اوّل کے عہدِ خلافت مَیں جب مَیں نے ’’الفضل‘‘ جاری کیا تو ڈیکلریشن کیلئے گورداسپور جانے لگا۔ ایک دوست نے دریافت کیا کہ آپ کہاں جاتے ہیں۔ میں نے بتایا تو کہنے لگے کہ آج تو منگل ہے، آج نہ جائیں۔ میں نے کہا کہ منگل ہے تو کیا حرج ہے۔ کہنے لگے کہ یہ بڑا منحوس دن ہے، آپ نہ جائیں۔ میں نے کہا کہ میں نے تو اس کی نحوست کوئی نہیں دیکھی اور اگر اللہ تعالیٰ کی برکت ہو تو منگل کی نحوست کیا کرسکتی ہے اور میں تو ضرور آج ہی جائوں گا۔ کہنے لگے کہ آپ چلے جائیں لیکن یاد رکھیں کہ اوّل تو ٹانگہ رستہ میں ہی ٹوٹے گا نہیں تو ڈپٹی کمشنر دورہ پر ہوگا۔ اور اگر وہ دورہ پر نہ ہؤا تو بھی اسے کوئی ایسا کام درپیش ہوگا کہ مل نہیں سکے گا اور اگر ملنے کا موقع بھی مل جائے تو مجھے ڈر ہے کہ وہ درخواست ردّ نہ کردے مگر میں نے کہا کہ چاہے کچھ ہو میں تو ضرور منگل کو ہی جائوں گا۔ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بھی میرے ساتھ تھے۔ چنانچہ ہم گئے تو ڈپٹی کمشنر وہیں تھا۔ ہم اس کے مکان پر گئے اور جاکر اطلاع کرائی کہ ڈیکلریشن داخل کرنا ہے۔ اس نے کہا کہ آپ کچہری چلیں میں ابھی آتا ہوں۔ چنانچہ وہ فوراً کچہری آگیا اور چند منٹ میں اس نے ڈیکلریشن منظور کرلیا اورہم جلدی ہی فارغ ہوگئے۔ یہاں سے کوئی سات آٹھ بجے چلے تھے اور کوئی تین چار بجے واپس آگئے۔ چونکہ اُن دنوں اِکّوں میں سفر ہوتا تھا اور اس کے یکطرفہ سفر پر ہی کئی گھنٹے لگ جاتے تھے، جب اس دوست نے ہمیں واپس آتے دیکھا تو یقین کرلیا کہ یہ اس قدر جلد جو واپس آئے ہیں تو ضرور ناکام آئے ہوں گے اس لئے دیکھتے ہی کہا کہ اچھا آپ واپس آگئے۔ ڈپٹی کمشنر غالباً وہاں نہیںہوگا۔ میں نے کہا کہ وہ وہیں تھا ، مل بھی گیا اور کام بھی ہوگیا۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ اس نے اتنی جلدی آپ کو فارغ کردیا ہو۔ میں نے کہا منگل جو تھا۔
تو اچھے اچھے پڑھے لکھے آدمی منگل کی نحوست کے قائل ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے اگر کوئی اور ایسی باتیں کرے تو کہیں گے کہ فضول ہیں، کیا کوئی عقلمند ان کو مان سکتا ہے۔ مگر منگل کی نحوست کا وہم چونکہ بچپن سے سنتے آئے ہیں اس لئے یہ دل سے نہیں نکلے گا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی منگل کے متعلق ایسا فرمایا ہے۔ میں کہتا ہوں ممکن ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بذریعہ الہام بتایا گیا ہو کہ آپ کیلئے منگل کے دن کوئی واقعہ ہونے والا ہے چنانچہ آپ کی وفات منگل ہی کے روز ہوئی۔ پس کسی خاص واقعہ کی وجہ سے اگر کسی دن کا طبیعت پر مخالفانہ اثر ہو تو حقیقتاً اس دن کی نحوست نہیں کہلائے گی بلکہ اس کا تعلق ایک تکلیف دہ واقعہ سے بتائے گی۔ یہی حال برکات کا ہے۔ جمعہ کو ہم بابرکت کہتے ہیں اور اس کی وجہ جمعہ کے دن کا سورج نہیں بلکہ جمعہ کی عبادات ہیں۔ یا رمضان کو مبارک کہتے ہیں اس کی وجہ بھی مہینہ کی برکت نہیں بلکہ ان ایام کی عبادات ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جمعرات اور ہفتہ کو سفر کیلئے مبارک کہا ہے۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ جمعرات یا ہفتہ کے دن سفرکرنے والا جمعہ کی نماز کو محفوظ کرلیتا ہے یا کم سے کم جمعہ کی نما زکی ہتک کرنے سے محفوظ ہوجاتاہے۔
تو حقیقت یہ ہے کہ بچپن کے اثرات بہت دور تک جاتے ہیں۔ عام طور پر ہر انسان سوائے اس کے کہ جسے عادت ہو اندھیرے میں گھر سے باہر جانے سے گھبراتا ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ اسے چور چکار کا ڈر ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ وہ کہانیاں ہوتی ہیں جو بچپن میں بچوں کو سنائی جاتی ہیں اور جن کا تعلق اندھیرے سے ہوتا ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ گھبراہٹ کی وجہ کیا ہے تو کوئی وجہ اس کیلئے پیش نہیں کی جاسکتی کیونکہ عقل تو مانتی نہیں کہ یہ باتیں صحیح ہیں۔ اس کی وجہ وہ مخفی اثر ہوتا ہے جو بچپن میں طبیعت پر پڑتا ہے اور پھر ساری عمر ساتھ جاتا ہے اور اس کا موجب صرف والدین، بھائی بہن، اردگرد کے لوگوں اور قصوں کہانیوں کا اثر ہوتا ہے اور اس کے بعد پھر عادت کا اثر ہوتا ہے۔ کئی ہندو مسلمان ہونے کے بعد بھی عرصہ تک گائے کے گوشت سے گھبراتے ہیں۔ سردار فضل حق صاحب جو حضرت مسیح موعو علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے اور اب فوت ہوئے ہیں ، یہاں مہمان خانہ میں بعض اوقات دوست کہتے تھے کہ لائو ان کو گائے کا گوشت کھلائیں تو وہ بالکل انکار کردیتے تھے اور ان کے آگے آگے بھاگے پھرتے تھے اور اگر کبھی دوست پکڑ کر زبردستی کرنا چاہتے تو چھڑا کر بھاگ جانے کی کوشش کرتے۔ بہت عرصہ بعد بعض دوستوں نے بغیر بتائے انہیں گائے کا گوشت کھلادیا لیکن جب انہیںبتایا گیا تو انہیں قَے ہوگئی۔ تو انسان کی طبیعت پر بچپن کی بات کا بہت اثر ہوتا ہے اسی لئے انسان کے بچپن کی عمر اللہ تعالیٰ نے لمبی کی ہے۔ کیونکہ یہی اس کے سیکھنے کی عمر ہے۔ جانور کے بچہ نے چونکہ ماں باپ سے تربیت حاصل نہیں کرنی ہوتی اس لئے اس کا بچپن انسان کے بچپن کی نسبت سے بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ اگر ایک جانور کی عمر تیس سال ہو تو اس کا بچہ چھ ماہ سے دو سال تک کی عمر میں جوان ہوجاتا ہے اور اس طرح اس کی تمام عمر اور بچپن کی عمر میں اوسطاً ایک اور تیس کی نسبت ہوتی ہے۔ لیکن انسان کے بچہ کے بالغ ہونے کی عمر اٹھارہ سال ہے اور اگر اوسط عمر پچاس سال سمجھی جائے تو گویا دونوں میںایک اور تین کی نسبت ہے۔ اگرانسان کیلئے بھی یہی نسبت ہوتی تو اس کیلئے کل عمر ۱۸×۳۰ یعنی پانچ سَو چالیس سال کی ہونی چاہئے تھی لیکن جانوروں کی نسبت انسانی بچپن کا زمانہ بہت زیادہ ہے۔ جانور چھ ماہ یا سال یا حد دو سال میں جوان ہوجاتا ہے لیکن انسان اٹھارہ سال کی عمر میں۔ غرض جانور کی بلوغت کی عمر اور اس سے پہلی عمر میں بہت فرق ہے لیکن انسان کی عمر میں یہ فرق بہت کم ہے۔ بعض ڈاکٹروں نے اس فرق کو دیکھ کر یہ خیال کیا ہے کہ شاید انسان کی عمر خوراک وغیرہ کی غلطی سے کم ہوگئی ہے لیکن بات یہ نہیں۔ لوگ مادی ہونے کی وجہ سے مادیات سے نگاہ اوپر نہیں اٹھاسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چونکہ علمی وجود بنانا تھا اس لئے اس نے یہ انتظام کردیا کہ وہ ماں باپ کے پاس زیادہ سے زیادہ عرصہ تک رہ سکے تا ان سے سیکھ سکے اور جانوروں میں چونکہ ماں باپ پر تعلیم کی ذمہ داری نہیں ہوتی اس لئے ان کے قبضہ میں بہت تھوڑا عرصہ بچہ کو رکھا ہے۔ لیکن انسان کی تعلیمی ذمہ داری اس کے ماں باپ پر رکھی ہے اس لئے اس کے بچپن کا زمانہ لمبا کیا ہے تا اگر ماں باپ اپنا فرض ادا کرنا چاہیں تو کرسکیں۔
پھر بچوں کے بعد خاوند اور بیوی کا تعلق ہے۔ عورتوں پر بھی تربیت کا حق ہے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ نے دونوں کو یکساں بنایا ہے لیکن یہ بھی فرمایا کہ مرد کو چونکہ ہم نے مربی بنایا ہے اس لئے اس کے اختیارات انتظام کے لحاظ سے زیادہ رکھے ہیں اور تربیت کے اختیارات میں مرد کو مقدم رکھا ہے اور مردوں پرعورتوں کی اصلاح کی ذمہ داری رکھی گئی ہے۔ یوں تو سارے بنی نوع انسان کی اصلاح کی ذمہ داری مؤمن پر ہوتی ہے لیکن اپنے بیوی بچوں کی اصلاح کی ذمہ داری خصوصیت کے ساتھ ہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ بالعموم اپنے بیوی بچوں کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ایک مخلص دوست تھے جو اَب فوت ہوچکے ہیں، ان کے لڑکے نے ایک دفعہ مجھے لکھا کہ مجھے میرے والد صاحب اخبار ’’الفضل‘‘ خرید کر نہیں دیتے۔ آپ ان کو لکھیں کہ میرے نام جاری کرادیں۔ وہ لڑکا سکول یا کالج میں پڑھتا تھا۔ اس نے لکھا کہ ہماری اور دینی تعلیم کا تو سامان نہیں کم سے کم اخبار سے سلسلہ سے لگائو رہے گا۔ اس کے والد اچھے آسودہ حال آدمی تھے۔ میں نے ان کو خط لکھوایا تو انہوں نے جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ بچوں کا ایمان ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ انہیں آزادی ہونی چاہئے کہ خود تحقیقات کریں اور جو نتیجہ چاہیں نکالیں۔ بہرحال مجھے اپنے بچہ کی شکایت پرخوشی ہے کہ اس کو احمدیت کی طرف توجہ ہوئی میں اخبار اس کے نام جاری کرادوں گا۔ اب بظاہر تو یہ بات بہت خوشنما ہے کہ گویا وہ حریتِ ضمیر کے قائل تھے لیکن کیا ہندو ، عیسائی او ریہودی وغیرہ دیگر مذاہب کے لوگ اپنے بچوں کو یونہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر ہم اس اصول پر کاربند ہوں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ باطل کے سرپرست اپنے بچوں کو باطل کی تعلیم دیں لیکن اسلام کے خدام اپنے بچوں کو چھوڑ دیں کہ جو چاہے ان کا شکار کرکے لے جائے۔ یقینا جو شخص بچوں کی اصلاح کے طریقوں کو بھی حریتِ ضمیر کے خلاف سمجھے گااس کے بچے گمراہی کا شکار ہونے کے خطرہ میں رہیں گے۔
پس بیوی بچوں کی اصلاح کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس لئے جو بھی تحریک ہو اسے اِس قدر عام کرنا چاہئے کہ وہ بچوں اور عورتوں تک بھی پہنچ جائے ورنہ اس کے وہ عظیم الشان نتائج نہیں نکل سکیں گے جو نکلنے چاہئیں اور جن کو دیکھ کر دنیا دنگ رہ جائے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ بچپن کی تربیت بہت اعلیٰ درجہ کے نتائج پیدا کرتی ہے۔ ایمانی لحاظ سے دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو خود تحقیق کرکے ایمان لایا جائے اور یا پھر بچپن کی تربیت ایسی ہو ۔ تحقیق کے ذریعہ سب کے سب لوگوں کا ایمان حاصل کرنا تو انبیاء کے زمانہ میں ہوتا ہے۔ بعد کے زمانوں میں یہ موقع بہت کمزور ہوجاتا ہے اور جو لوگ مؤمنوں کے گھروں میں پیدا ہوں ان کیلئے تربیت ہی سے ایمان کا کمال مقدر ہے۔ حضرت مسیح موعو علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں جماعت کے حالات اور عقائد کے دلائل سے بچہ بچہ واقف ہوتا تھا کیونکہ چاروں طرف مخالف ہی مخالف تھے اور ہر وقت ہمارے کانوں میں یہی آواز پڑتی تھی کہ فلاں مسئلہ پر یہ اعتراض ہؤا ہے اور اس کا جواب یہ ہے۔ یہی ہماری جِدّ ۳؎تھی اور یہی ہمارا کھیل تھا جو ہم کھیلا کرتے تھے۔ مگر اب دارالفضل یا دارالرحمت کے بچوں کے سامنے کوئی سوال رکھ دیا جائے تو وہ اس کا جواب نہیں دے سکیں گے اور انہیں اتنی واقفیت دس سال میں بھی نہیں ہوسکتی جتنی ہمیں ایک سال میں ہوجاتی تھی کیونکہ اب ہمارے بچوں کے کان اعتراضات سے آشنا نہیں ہیں۔ قادیان یا کسی اَور جگہ کے بچے جہاں جماعت زبردست ہو وہ احمدیت کے اہم مسائل سے بھی تفصیلاً بغیر تعلیم کے آگاہ نہیں ہوسکتے لیکن ہمیں بچپن میں ان کی خبر تھی۔ مجھے یاد ہے میں بہت ہی چھوٹا تھا ہمارے گھر میں داداصاحب کے زمانہ کی ایک کتاب تھی جس میں لکھا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد جبریل کا آنا بند ہوگیا ہے۔ ایک اوربچہ کہیںباہر سے آیا ہؤا تھا اس نے کہا یہ بات ٹھیک ہے مگر میں نے کہا کہ کیوں تم کس طرح اسے صحیح کہتے ہو اور بچپن میں جیسے دلائل ہوتے ہیں ان کے ساتھ میں نے اس خیال کا ردّ کیا اور کہا کہ ہمارے ابا کو الہام ہوتے ہیں۔ آخر میں نے اسے کہا کہ چلو حضرت صاحب سے پوچھیں اور ہم کتاب لے کر حضور کے پاس پہنچے۔ حضور نے ہم دونوں کی بات سن کر فرمایا کہ یہ لڑکا غلط کہتا ہے، ہم پر جبریل نازل ہوتا ہے۔ تو اس زمانہ میں ہم چونکہ چاروں طرف سے دشمنوں سے ہی گھرے ہوئے تھے یا پرانا لٹریچر ہمارے سامنے رہتا تھا اس لئے وہ باتیں ہر وقت کان میں پڑتی رہتی تھیں مگر اب یہاں ہر طرف احمدی ہی احمدی ہیںاور پرانا لٹریچر بھی احمدی بچوں کے سامنے نہیں آتا اس لئے دشمن کی بات تو پہنچ نہیں سکتی اور اپنے کچھ سناتے نہیں اس لئے تختی کوری کی کوری ہی رہتی ہے۔ دشمن کی بات اس لئے نہیں سن سکتے کہ دوستوں سے گھرے ہوئے ہیں اور دوست سستی کررہے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ بالکل کورے کے کورے رہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ جوش و خروش کہاں رہ سکتا ہے۔ پس سلسلہ کی تحریکات سے ہر فرد کو واقف کرنا اہم قومی فرائض میں سے ہے۔
میں نے تحریک جدید کے سلسلہ میں جلسوں کے انعقاد کا اعلان اس سال کیلئے نہیں کیا کیونکہ میں نے محسوس کیا تھا کہ یہ جلسے بھی رسمی ہوکر رہ گئے تھے۔ لوگ شوق سے شریک نہیں ہوتے تھے ۔ جہاں ساٹھ ستر احمدی ہوئے ان میں سے چند ایک آگئے۔ میں غور کررہا تھا کہ اس نقص کا ازالہ کس طرح کیا جائے۔ چنانچہ اس کی اصلاح کی تجاویز پر غور کرنے کے بعد میں نے مناسب سمجھا کہ تحریک جدید کے الگ سیکرٹری ہوں جن کے سامنے خاص یہی کام ہو۔ ایک سیکرٹری عام تحریکات کیلئے ہو اور دوسرا سیکرٹری چندوں کیلئے ہو اور ان کا فرض ہو کہ اس تحریک سے نہ صرف جماعت کے ہر مرد کو بلکہ عورتوں اور بچوں کو بھی واقف کریں۔ اگرچہ اب تک ساری جماعتوں نے سیکرٹری مقرر نہیں کئے مگر ایک معتد بہ حصہ نے سیکرٹری مقرر کردیئے ہیں اس لئے اب میں اعلان کرتا ہوں کہ جولائی کے آخری ہفتہ میں جو اتوار آئے (یہ ۳۱ ؍جولائی کا دن ہوگا) اس میں تحریک جدید کے جلسے کئے جائیں اور اس دوران میں متواتر جلسے ہوتے رہیں جن میں اس جلسہ میں لوگوں کو شامل ہونے کیلئے تیارکیا جائے۔ اس عرصہ میں کم سے کم تین جلسے تو ضروری کئے جائیں۔ ایک مردوں کیلئے، ایک عورتوں کیلئے اور ایک بچوں کیلئے۔ پس سیکرٹریان تحریک جدید کا یہ فرض ہے کہ جس میں اگر دوسرے سیکرٹری بھی مدد دیںتو وہ بھی ثواب میں شریک ہوجائیںگے کہ اس بڑے جلسہ تک کم سے کم تین جلسے ایسے کرادیں جن میں سے ایک خالص عورتوں کیلئے، ایک خالص مردوں کیلئے اور ایک خالص بچوں کیلئے ہو اور ان میں علیحدہ علیحدہ وہ حصے بیان کئے جائیں جو ان سے تعلق رکھتے ہوں۔ اگر زیادہ جلسے ہوسکیںتو اور بھی اچھا ہے۔ جب جماعت کے ان تینوں حصوں کو اچھی طرح تحریک جدید کی اغراض سے واقف کردیا جائے گا توپھر بڑا جلسہ کیا جائے اور اس صورت میں امید ہے کہ جماعت کے تمام افراد میں خاص جوش پیدا ہوچکا ہوگا اور وہ اس کی اہمیت سمجھ لینے کی وجہ سے خاص طور پر اس میں حصہ لینے کیلئے تیار ہوں گے اور اس آخری بڑے جلسہ کا جو خواہ مرد عورت کا بالالتزام پردہ مشترک ہو یا الگ الگ بہت فائدہ ہوگا۔ اب تو یہ حالت ہے کہ مثلاً جن باتوں کا تعلق عورتوں سے ہے ہم ان پر زور نہیں دے سکتے کیونکہ مردوں نے ان کو اطلاع بھی نہیں دی۔
سادہ زندگی اختیار کرنے اور اسراف سے بچنے میں عورتیں بہت بڑی روک ہوتی ہیں۔ اگر ہم نے دنیا میں اسلام کے صحیح نقش و نگار کو قائم کرناہے تو ہمارا فرض ہے کہ سب روکوں کو دور کریں۔ میں نے دیکھا ہے کہ چونکہ ہماری جماعت کی عورتوں اور بچوں کی تربیت صحیح رنگ میں نہیں ہوتی اس لئے مرد جب کوئی کام کرنے لگتے ہیں وہ ان کے رستہ میں روک ہوجاتی ہیں۔ اس میںشک نہیں کہ بعض عورتیںمردوں سے بھی بڑھی ہوئی ہیں بلکہ بعض میرے پاس شکایتیں کرتی رہتی ہیں کہ ہمارے مرد سست ہیں، فلاں مرد نماز نہیں پڑھتا، فلاں چندہ میں سست ہے اور ان میں مردوں سے بھی زیادہ اخلاص ہے۔ یہ عورتیں اللہ تعالیٰ کے دفتر میں یقینا اپنے مردوں سے افضل ہیں اور ان کے مرد خداتعالیٰ کے دفتر میں ان کی رعایا ہیںاور جبراً ان سے وصول کرکے دیتی ہیں۔
پس عورتوں اور بچوں کی تربیت اگر صحیح رنگ میں کی جائے تو بہت اچھے نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ آج سے لے کر جولائی کے آخری ہفتہ تک قادیان کی بھی اور بیرونجات کی بھی تمام جماعتیں جلسے کریں اور تحریک جدید کے مطالبات کی طرف مردوں ، عورتوں اور بچوں کو متوجہ کریں اور جنہوں نے چندے لکھوائے ہوئے ہیں ان کو تحریک کریں کہ فوراً ان کو ادا کریں بلکہ کوشش کریں کہ اس جلسہ تک تمام چندے ادا ہوجائیں۔ اور جنہوں نے گزشتہ وعدے پورے نہیں کئے ان کو تحریک کریں کہ وہ آئندہ ہی پورے کریں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔ اگر کسی نے پہلے سستی کی ہے تو وہ آئندہ اس کا ازالہ کرکے آگے بڑھ سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید کے متعلق لکھا ہے کہ آپ پیچھے آئے مگربہتوں سے آگے نکل گئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر بھی حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ پہلے ایمان لاچکے تھے اور حضرت عمرؓ بعد میں لائے مگر سب سے آگے بڑھ گئے۔
پس اگر کسی کے اندر سچی توبہ اور حقیقی تبدیلی پیدا ہوجائے تو وہ اپنی گزشتہ سُستیوں اور غفلتوں کا ازالہ کرسکتا ہے ہاں اس کیلئے بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہوتی ہے، اپنے دل کا خون کرنا ہوتا ہے اور اگر چند گھنٹوں کیلئے بھی کوئی دل کو خون کردے تو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ پس مت خیال کرو کہ جو گزشتہ سالوں میں اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکے ان کیلئے رحمت کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔ جو شخص نیکی کو شروع کرکے آخر تک لے جاتا ہے یا جو درمیان سے شامل ہوکر آخر تک ساتھ جاتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ ناکام وہی ہوتا ہے جو رستہ میں چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ بھی کہتا ہے کہ تم نے ہمیں چھوڑ دیا اس لئے ہم تمہیں چھوڑ تے ہیں۔ مگر جو دیر سے آتا ہے اور توبہ کرتا اور کوشش کرتا ہے کہ خداتعالیٰ سے مل سکے وہ ضائع نہیں کیا جاتا۔ حضرت مسیح ناصری نے اس کیلئے کیا اچھی مثال دی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:-
کسی ایک شخص کے دو بیٹے تھے۔ ان میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا کہ اے باپ مال کا حصہ جو مجھے پہنچتا ہے مجھے دے۔ اس نے مال انہیں بانٹ دیا اور بہت دن نہ گزرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کچھ جمع کرکے دور دراز ملک کو روانہ ہؤا اور وہاں اپنا مال بدچلنی میں اُڑا دیا۔ اور جب سب خرچ کرچکا تو اس ملک میں سخت کال پڑا اور وہ محتاج ہونے لگا۔ پھر اس ملک کے ایک باشندے کے ہاں جا پڑا۔ اس نے اس کو اپنے کھیتوں میں سؤر چرانے بھیجا اور اسے آرزو تھی کہ جو پھَلیاں سؤر کھاتے تھے انہی سے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی اسے نہ دیتا تھا۔ پھر اس نے ہوش میں آکر کہا کہ میرے باپ کے کتنے ہی مزدوروں کو روٹی افراط سے ملتی ہے اور میں یہاں بھوکا مررہا ہوں ۔ میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جائوں گا اور اس سے کہوں گا کہ اے باپ! میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہؤا۔ اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلائوں۔ مجھے اپنے مزدوروں جیسا کرلے۔ پس وہ اٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا ۔ وہ ابھی دور ہی تھا کہ اسے دیکھ کر اس کے باپ کو ترس آیا اور دوڑ کر اس کو گلے لگالیا اور بوسے لئے۔ اپنے نوکروں سے کہا کہ اچھے سے اچھا جامہ جلد نکال کر اسے پہنائو اور اس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پائوں میں جوتی پہنائو اور پلے ہوئے بچھڑے کو لاکر ذبح کروتاکہ ہم کھا کر خوشی منائیں۔ کیونکہ یہ میرا بیٹا مُردہ تھا اب زندہ ہؤا، کھویا ہؤا تھا اب ملا ہے۔ پس وہ خوشی منانے لگے۔ لیکن اس کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا۔ جب وہ آکر گھر کے نزدیک پہنچا تو گانے بجانے اور ناچنے کی آواز سنی اور ایک نوکر کو بلا کر دریافت کرنے لگا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ اس نے اس سے کہا کہ تیرا بھائی آگیا ہے اور تیرے باپ نے پلا ہؤا بچھڑا ذبح کرایا ہے اس لئے کہ اسے بھلا چنگا پایا۔ وہ غصے ہؤا اور اندر جانا نہ چاہا۔ مگر اس کا باپ باہر جاکر اسے منانے لگا۔ اس نے اپنے باپ سے جواب میں کہا کہ دیکھ اتنے برس سے میں تیری خدمت کرتا ہوں اور کبھی تیری حکم عدولی نہیں کی۔ مگر مجھے تونے کبھی ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیاکہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی مناتا لیکن جب تیرا یہ بیٹا آیا جس نے تیرا مال کسبیوں میں اڑادیا تو اس کیلئے تُونے پَلا ہؤا بچھڑا ذبح کیا۔ اس نے اس سے کہا کہ بیٹا تُو تو ہمیشہ میرے پاس ہے۔ اور جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے لیکن خوشی منانی اور شادماں ہونا مناسب تھا۔ کیونکہ تیرا یہ بھائی مُردہ تھا اب زندہ ہؤا، کھویا ہؤا تھا، اب ملا ہے۔ ۴؎
اس میں حضرت مسیح علیہ السلام بتاتے ہیں کہ اے لوگو! جو گنہگار توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کے پاس آجاتا ہے وہ اس کیلئے ویسی ہی خوشی دکھاتا ہے جیسی اس باپ نے دکھائی تھی اور یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت کی نہایت لطیف مثال ہے۔ لوگ آنے والے کو طعنہ دیتے ہیں کہ جھک مار کر واپس آگیا اور کہتے ہیں کہ کم بخت جب طاقت اور ہمت تھی اس وقت تو ساتھ نہ دیا اور اب آیا ہے لیکن جب کوئی گنہگار توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور آئے تو وہ اسے یاد بھی نہیں دلاتا کہ تم نے کیا کیا قصور کئے تھے بلکہ خوش ہوتا ہے کہ اس کا کھویا ہؤا بندہ واپس آیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اس کا نام غفار، ستار اور مُکَفِّرْ عَنِ السَّیِّئَاتِ آیا ہے۔ غفار کے معنے ہیں کہ وہ معاف کردیتا ہے اور سزا نہیں دیتا۔ ستار کے معنے ہیں کہ وہ بندے کے گناہوں کو بعد میںبھی یاد نہیں دلاتا۔ اور مکفرکے معنے ہیں کہ مستقبل میں گناہوں کے بدنتائج کو بھی مٹاڈالتا ہے۔ مثلاً ایک شخص نے ایسی روٹی کھائی کہ جس کے نتیجہ میں اس کے پیٹ میں درد ہونے والا ہے تو وہ اگر توبہ کرے تو خداتعالیٰ ان نتائج کو مٹادیتا ہے جو اس روٹی سے نکلنے والے تھے اور انسان کے گزشتہ گناہوں کو نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ خود یاد نہیں دلاتا بلکہ دوسرے جن انسانوں کو ان کا علم ہوتا ہے ان کے دلوں سے بھی ان کو مٹادیتا ہے۔ پس تم مت خیال کرو کہ تم سے پہلے کوتاہی ہوئی ہے ۔ اگر تم سچی توبہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ سب بھلادے گا بلکہ دوسرے جاننے والوں کے دلوں سے بھی مٹادے گا۔ پس دوست جولائی کے آخری اتوار تک جلسے کریں۔ عورتوں، بچوں اور مردوں کا کم سے کم ایک ایک جلسہ ضرور کیا جائے جن میں تحریک جدید کے چندہ نیز دوسرے مقاصد کے متعلق کھول کر بیان کیا جائے اور پھر کوشش کی جائے کہ اس جلسہ تک چندہ کا بہت سا حصہ جمع ہوجائے۔ احباب نے شروع شروع میں چندوں کی ادائیگی میں سُستی کی تھی مگر میرے اعلانوں کے نتیجہ میں بہت حد تک چندے ادا ہوگئے ہیں۔ سیکرٹریان تحریک جدید کو سمجھنا چاہئے کہ اب ان کی ذمہ داری کے امتحان کا وقت آگیا ہے۔ ثواب صرف نام سے نہیں بلکہ کام سے ہوتا ہے اس لئے کوشش سے کام کریں اور کم سے کم ایک ایک جلسہ عورتوں، مردوں اور بچوں کا کرادیں جس میں تحریک جدید کے تمام شعبے کھول کھول کر بیان کئے جائیں اور پھر جولائی کے آخر میںجو جلسہ ہو وہ رسمی نہ ہو بلکہ حقیقی ہو۔
مجھے افسوس ہے کہ پچھلے جلسے قادیان میںبھی رسمی ہوتے رہے ہیں اور بہت کم لوگ شامل ہوتے رہے ہیں حالانکہ چاہئے تھا کہ بیرون جات سے بھی لوگ شامل کئے جاتے اور قادیان کے بھی سب دوست شامل ہوتے۔ اب میں امید کرتا ہوں کہ اب باہر کے بھی اور قادیان کے دوست بھی اس کوتاہی کو دور کریں گے۔ مجلس خدام الاحمدیہ کیلئے خدمت کا یہ ایک موقع ہے۔ اس کے والنٹیر لوگوں کے گھروں میں جائیں اور مردوں اور بچوں کو شریک کریں اور لجنہ اماء اللہ عورتوں میں تحریک کرے اور سب کوشش کریں کہ یہ جلسے بہتر سے بہتر صورت میں ہوں اور ہر احمدی تک یہ پیغام پہنچ جائے تا کوئی نہ کہہ سکے کہ مجھے پتہ نہیں تھا۔ ابھی سفر سندھ کے دوران میں مجھے بعض خطوط ملے جن میں ذکر تھا کہ ہمیں تو چار سال میں تحریک جدید کا علم بھی نہیں ہؤا۔ اور جب ہم ایک چھوٹی سی جماعت تک بھی یہ پیغام نہیں پہنچاسکے تو ساری دنیا تک کس طرح پہنچائیں گے۔ پس ضروری ہے کہ ہر ایک کو پوری طرح واقف کردیا جائے تا عمل کرنے کی روح پیدا ہوسکے۔ اور آخری جلسہ میں لوگوں سے اس عہد کی تجدید کرائی جائے کہ وہ اسلامی تعلیم کے ماتحت اپنی زندگیاں بسر کریں گے اور اپنے وعدے پورے کریں گے۔
تجدیدِ عہد رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور صوفیاء سے ثابت ہے جسے بیعت ارشاد کہا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کئی دفعہ لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ دوبارہ بیعت کرلو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ستّر ستّر اور سَو سَو مرتبہ بیعت کی۔ یعنی جب بھی موقع ملتا وہ شامل ہوجاتے۔ تو تجدید عہد خوبی کی بات ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ دوست اس ڈیڑھ ماہ کے عرصہ میں جماعت کے اندر نئی بیداری اور نئی روح پیدا کرنے کی کوشش کریںگے۔ یہ عہدیداران کے بھی امتحان کا وقت ہے اور مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبروں کا بھی اور باقی جماعت کا بھی۔ آخر میں مَیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ میں سچائیوں کو کھول کھول کر بیان کرسکوں اورجماعت کو بھی توفیق دے کہ ان کو قبول کرسکے اور ان پر عمل کرسکے۔ آمین۔‘‘ (الفضل ۲۲؍ جون ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الفاتحۃ: ۲
۲؎ کنز العمال جلد ۱۶ صفحہ ۵۹۹ ۔ مطبوعہ حلب ۱۹۷۷ء
۳؎ جِدّ: کوشش ۔ سعی
۴؎ لوقا باب ۱۵ آیت ۱۱ تا ۳۳۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ئ(مفہوماً)

۱۹
میاں عزیز احمد صاحب مرحوم کے متعلق
اپنوں کے خیالات اور معاندین کے اعتراضات
(فرمودہ ۲۴؍ جون ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اس ہفتے مجھے پشاورکی جماعت کے ایک دوست کی طرف سے ایک خط ملا ہے جس میں انہوں نے ایک دوسرے دوست کی شکایت کی ہے کہ ایک مجلس میں بیٹھ کر انہوں نے بعض ایسی باتیں کہی ہیں جو قابلِ اعتراض ہیںاور مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان باتوں کا ازالہ کردوں۔چونکہ وہ باتیں اور ویسی ہی بعض اور باتیں ایسی ہیں جو کسی قدر توضیح چاہتی ہیں اور اس بات کی متقاضی ہیںکہ جماعت کو ان کے متعلق صحیح رائے سے آگاہ کیا جائے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ میںجمعہ کے خطبہ میں ان امور کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دوں:-
انہوں نے دوباتیں لکھی ہیں۔ایک تو یہ ہے ۔کہ اس دوست نے مجلس میں بیٹھ کر بہ اصراروبہ تکرار یہ بات بیان کی کہ قادیان کے لوگ بے غیرت ہیں کیونکہ وہ سلسلہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یا ان کے خاندان کے متعلق جو بد گوئی کی جاتی ہے اسے برداشت کر لیتے ہیں۔اور انہوں نے کہاکہ اہلِ قادیان جو یہ کہتے ہیں کہ صبر سے کام لیتے ہیں یہ درست نہیںاس لئے کہ جب انہیں یا ان کے رشتہ داروں کو کوئی شخص گالی دے تو وہ صبر نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیںہم نے اس دوست کو سمجھایاکہ یوں نہیں کہنا چاہئے۔ تو وہ کہنے لگے میرے ساتھ قادیان چلو۔میں اسی فیصدی ایسے لوگ ثابت کر سکتا ہوں کہ جب انہیں یا ان کے ماں باپ کو گالی دی جائے تووہ برداشت نہیں کریں گے اور یہ اس بات کا ثبوت ہوگاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام یا سلسلہ اور نظام کے متعلق جب دشمنوں کی طرف سے کوئی بات کہی جاتی ہے اور وہ اسے برداشت کر لیتے ہیں تو یہ صبر کا نہیں بلکہ بے غیرتی کا نتیجہ ہوتا ہے۔حالانکہ گالی دینے والے کا علاج سوائے سختی کے اور کیا ہے:
دوسری بات وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے یہ کہی کہ ان میں سے ایک ہی شخص نے غیرت کا مظاہرہ کیا۔یعنی میاں عزیز احمد صاحب نے اور انہوں نے اس کی کوئی امداد نہ کی بلکہ خاموش بیٹھے رہے۔یہاں تک کہ جب اس کی وجہ سے ہائی کورٹ نے خلیفۃ المسیح کے متعلق بعض ریمارکس کئے تو اس وقت جماعت میں جوش پیدا ہؤا۔اور دوڑ بھا گ کی گئی حالانکہ اگر شروع سے ہی جب یہ واقعہ ہؤا تھاکوشش کی جاتی تو شاید میاں عزیز احمد کو پھانسی نہ ملتی اور وہ بچ جاتے۔
یہ دوباتیں ہیں جو اس دوست نے پشاور سے لکھی ہیں۔اور تحریر کیا ہے کہ ہم اس دوست کو سمجھاتے رہے اور وہ اصرار کرتے رہے جس سے انہوںنے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ دوست اور ایسے ہی اگر کوئی اور دوست ہوں تو ان دلوں پر زنگ لگا ہؤا ہے کیونکہ وہ قادیان اور مرکز سلسلہ کا احترام نہیں کرتے اور چونکہ ایسے شخص نے قادیان کے لوگوں کی ہتک کی ہے اور فتنہ پیدا کیا ہے اس لئے اس کا ازالہ ہونا چاہئے۔یہ تو ایک احمدی اور اپنے دوست کی طرف سے مجھے بات پہنچی ہے۔نام انہوںنے نہیں لکھاصرف اتنا لکھا ہے کہ وہ دوست احمدی اور مبائع ہیں۔اس کے علاوہ مجھے دو اور باتیں بھی پہنچی ہیںاور میں سمجھتا ہوںکہ وہ بھی قابل توجہ ہیں۔اگرچہ وہ دوستوں کی طرف سے نہیں بلکہ مخالفوں کی طرف سے پہنچی ہیں۔ان میں سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے کہا تو یہ جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ میاں عزیز احمد کی مدد نہیں کرتی رہی حالانکہ اس کے مقدمات پر ہزارہا روپیہ خرچ کیا گیا ہے ورنہ ایک غریب آدمی ہائی کورٹ اور پریوی کونسل تک مقدمہ کیونکر لڑ سکتا تھا۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک احراری مولوی نے بھی اپنی ایک تقریر میں یہ مضمون بیان کیا ہے۔ایک اعتراض مخالفوں کی طرف سے یہ بھی میرے کان میں پڑا ہے کہ میاں عزیز احمد صاحب کے جنازہ میں ہزاروں احمدی شامل ہوئے یہ بغیر حکم کے کس طرح ہو سکتا تھا۔ضرور ہے کہ جماعت کے لوگوں کو یہ حکم دیا گیا ہوکہ جاؤ اور مظاہرہ کرو۔پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہم ایسے افعال سے ہمدردی نہیں رکھتے۔یہ صحیح نہیں۔کیا یہ ہمدردی نہیں کہ ہزاروں احمدی اس کے جنازہ میں شامل ہوئے اور کیا بغیر خاص حکم کے ایسا ہو سکتا تھا۔پھر یہ بھی کہ کیوں جماعت نے ان کا جنازہ پڑھا اگر وہ اس فعل کو برا کہتے تھے تو ایسے شخص کا جنازہ کیوں پڑھا گیا۔
دوسری طرف یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اگر جنازہ پڑھنا بُرا نہیں تھا توامام جماعت احمدیہ نے خود کیوں جنازہ نہیں پڑھایا گویا وہ اس اعتراض کی دوشقیں کرتے ہیں۔ایک تو یہ کہ اگر اس کا فعل بُرا تھا تو پھر جماعت کا اس کثرت کے ساتھ اس کے جنازہ میں شامل ہونا درست نہیں تھا۔پھر یہ کہ ان کا شامل ہونا آپ ہی آپ نہیں تھا بلکہ مرکز کی طرف سے حکم تھاکہ جنازہ میں ضرور شامل ہونا چاہئے۔اس طرح ان کے نزدیک گویا منافقت کی گئی ہے کہ دنیا کو یہ کہا گیا ہے کہ ہم اس کے فعل سے بیزار ہیںمگر عملاًاس بیزاری کا اظہار نہیں کیا گیا۔دوسری شق اس اعتراض کی یہ ہے کہ اگر جنازہ پڑھنا کوئی بُرا کام نہیں تھا تو خود میں نے کیوں جنازہ نہیں پڑھایا۔
یہ وہ چار اعتراضات ہیں جو میرے کانوںمیں پڑے ہیں۔اور میں سمجھتا ہوں ان کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دینا میرے لئے ضروری ہے تاکہ جس حد تک اعتراض ناواجب ہے اس کا ازالہ ہو جائے اور جس حد تک اعتراض حقیقت پر مبنی ہے اس کی تشریح ہو جائے۔
بیشتر اس کے کہ میں اصل سوالوں کا جواب دوں۔میں سمجھتا ہوں یہ مناسب ہوگا کہ دوستوں کو سمجھانے کے لئے اور مخالفوں کو سمجھانے کے لئے بھی(اگر وہ سمجھنے کی کوشش کریں) بعض اصول بیان کردوںکیونکہ ان اصول کو سمجھے بغیر ان باتوں کے جوابات پوری طرح سمجھ میں نہیں آسکتے اور جو پہلو میں اختیار کروں گا وہ پوری طرح ان پر واضح نہیں ہو سکے گا۔
پہلا امر جو ان تشریحات کے سمجھنے سے پہلے جنہیں آئندہ چل کر اگر اللہ نے مجھے توفیق دی تو بیان کروں گا یہ ہے کہ الفاظ کی ظاہری شکل کو دیکھ کر کسی فتویٰ کا لگا دینا درست نہیں ہوتابلکہ اس حقیقت کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ جو الفاظ کے پیچھے ہوتی ہے۔دنیا میں ظاہر ی صورتیں نہ کچھ حقیقت رکھتی ہیںاور نہ ظاہری فقرات کچھ حقیقت رکھتے ہیں۔بسا اوقات اچھے فقرے ہوتے ہیں جن کے بُرے معنے ہوتے ہیں اور بسا اوقات بُرے فقرے ہوتے ہیں جن کے اچھے معنی ہوتے ہیں ۔ہمارے ملک میںلوگ عام طور پر کہا کرتے ہیں کہ فلاں بڑا حضرت ہے۔اب ’’بڑاحضرت‘‘ کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ قابلِ عزت لوگوں میں سے وہ شخص بہت بڑا ہے۔اور اگر ہم الفاظ کو لیں تو یہ تعریفی الفاظ ہیں بُرے الفاظ نہیںکہ فلاں صاحب بڑے حضرت ہیںکیونکہ حضرت کالفظ ادب اور احترام کے لئے بولا جاتاہے۔حتّٰی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی جو لفظ کثرت سے ہمارے ملک میں استعمال کیا جاتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے۔مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق بھی جو لفظ ہم کثرت سے استعمال کرتے ہیںوہ حضرت صاحب یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہے۔پھر ان سے اُتر کر اور بزرگوں کے متعلق بھی ہم حضرت کالفظ استعمال کرتے ہیں چاہے وہ دینی بزرگ ہوں یا دنیوی۔عام طور پر ہمارے ملک میں مؤدب اولاد کہتی ہے۔حضرت والد صاحب کی طرف سے یہ بات ہے۔اس زمانہ میں عربی زبان میں بھی والد کی نسبت یا اور بزرگوں کی نسبت حضرت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔تو ہمارے ہاں جو تعریف کے الفاظ ہیں ان میں سے بہترین لفظ یہ ہے۔علماء کا جب ذکر جب عربی کے اخبارات میں کریں گے تو کہیں گے،الحضرت الفاضل فلاں فلاں،باپ کا ذکر آئے تو کہیں گے الحضرۃ الوالد،پیروں کا ذکر ہمارے ملک میں جب ان کے مرید کرتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارے حضرت صاحب ایسے تھے،بزرگوں کا ذکر کرنا ہو تو کہتے ہیں،حضرت فلاں بڑے بزرگ ہوئے ہیں لیکن باوجود اتنا متبرک لفظ ہونے کے اور باوجود اتنی وسیع عظمت کے معنی اپنے اندر مخفی رکھنے کے ہمارے ملک میں طنزًا بعض دفعہ کہہ دیا جاتا ہے فلانے بڑے حضرت ہیں۔یا فلاں بڑا حضرت ہے ۔اب کیا ان معانی کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ ’’بڑے حضرت‘‘کا لفظ اس نے ادب کے طور پر استعمال کیا ہے۔تو ہرجگہ خالی الفاظ کو نہیں دیکھا جائے گا بلکہ حقیقت کو دیکھا جائے گااور اس امر پر غور کیا جائے کہ ان الفاظ کو کس رنگ میں استعمال کیا گیاہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی عادت تھی کہ جب آپ بہت جوش اور محبت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کرتے تو’’مرزا‘‘کالفظ استعمال کیا کرتے اور فرماتے ’’ہمارے مرزا ‘‘کی یہ بات ہے ۔ابتدائی ایام سے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ابھی دعویٰ نہیں تھاچونکہ آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلقات تھے اس لئے اس وقت سے یہ الفاظ آپ کی زبان پر چڑھے ہوئے تھے ۔کئی نادان اس وقت اعتراض کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ادب نہیں۔(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کو لوگ عام طور پر مولوی صاحب،یا بڑے مولوی صاحب کہا کرتے تھے)میں نے خود کئی دفعہ یہ اعتراض لوگوں کے منہ سے سنا ہے اور حضرت مولوی صاحب کو اس کا جواب دیتے ہوئے بھی سنا ہے چنانچہ ایک دفعہ اسی مسجد میں حضرت خلیفہ اوّل جب کہ درس دے رہے تھے آپ نے فرمایا ۔بعض لوگ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادب نہیں کرتاحالانکہ میں محبت اور پیار کی شدت کے وقت یہ لفظ بولا کرتا ہوں۔تو ظاہری الفاظ کو نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ان الفاظ کے اندر جو حقیقت مخفی ہو اس کو دیکھنا چاہئے۔ جیسے میں نے بتایا ہے بعض الفاظ معمولی ہوتے ہیں مگر ان میں پیار کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہؤا ہوتا ہے اور بعض الفاظ اچھے ہوتے ہیں مگران کا مضمون نہایت بُرا ہوتا ہے۔ہمارے ملک میں عام طور پر جب کسی کو بیوقوف کہنا ہو تو اسے بادشاہ کہہ دیتے ہیںاور باتیں کرتے ہوئے اس سے کہتے ہیں’’بادشاہو اے کی کہندے ہو‘‘یعنی تمہاری باتیں احمقوں کی سی ہیں۔
پس جب کسی کو بادشاہ کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے۔کہ وہ احمق ہے اور اگر اگلا بادشاہ کہنے سے چِڑے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ میں نے اس کی اتنی تعریف کی اور یہ اُلٹا مجھ سے ناراض ہوتا ہے۔تو خالی الفاظ نہیں دیکھے جاتے بلکہ ان الفاظ کا جومفہوم ہوتا ہے وہ دیکھا جاتاہے:-
پس ہمیشہ کسی امر کے متعلق فتویٰ لگانے سے پہلے اس حقیقت کو معلوم کرنا چاہئے جو پس پردہ کام کر رہی ہوتی ہے۔ہر اعتراض اعتراض نہیں ہوتا اور ہر تعریف تعریف نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ دوزخ میں جب وہ کافر رؤسا ڈالے جائیں گے جو دنیا میں بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے تو انہیں کہا جائے گا۔ ۱؎ تُو عذاب کا مزہ چکھ۔ تُو تو بڑی شان والا اور معزز آدمی ہے۔ اب قرآن کریم میں جو یہ الفاظ آتے ہیں کہ اس کے معنے گو بڑی شان والے اور معزز کے ہیں مگر یہ حقیقت کے لحاظ سے استعمال نہیں کئے گئے بلکہ طعن کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں۔ یعنی تو دنیا میں سمجھا کرتا تھا کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں مجھے کوئی عذاب نہیں دے سکتا،میں ایسا معزز ہوں مجھے کوئی ذلّت نہیں پہنچ سکتی اب تُو دیکھ کہ تیری عزت اور شان کہاں گئی اور اگر تُو واقع میں شان والا اور معزز ہے تو آج تجھے یہ ذلت کیوں پہنچ رہی ہے گو الفاظ ایسے استعمال کئے گئے ہیں جن کے ظاہری معنے عزت اور شان کے ہیں۔
مثنوی رومی کا ایک واقعہ میں نے کئی دفعہ سنایا ہے۔اس میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ جنگل سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک گڈریا چٹان پر بیٹھا ہؤا ہے۔پاس اس کی بکریان چَر رہی ہیںاور وہ اپنی گڈری میں سے جُوئیں دیکھتا چلا جاتا ہے اور کہتا جاتا ہے کہ اے اللہ! اگر تو مجھے مل جائے تو میں تیری جُوئیں دیکھوں،تیرے پیروں سے کانٹے نکالوں،تجھے بکریوں کا تازہ تازہ دودھ پلاؤں،تُو تھک جائے تو تجھے دباؤں اور تیری دن رات خدمت کرتا رہوں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ سنا تو وہ بڑے ناراض ہوئے اور اسے جا کر ڈانٹا اور مارااور کہا نالائق تجھے شر م نہیں آتی تو اللہ تعالیٰ کی بے ادبی کرتا ہے۔وہ ڈر کے مارے وہاں سے بھاگا اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر الہام نازل ہؤاکہ اے موسیٰ !تُو نے ہمارے بندے کو بڑا دُکھ دیا۔اے موسیٰ !ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق بات کرتا ہے۔جو الہامات سے تجھ پر صفات الٰہیہ کا ظہور ہؤا ہے وہ اس گڈریا پر تو نہیں ہؤا۔ پس یہ جو کچھ کہہ رہا تھا محبت کے جوش میں کہہ رہا تھا۔اس سے زیادہ تعریفی الفاظ اس کے نزدیک اور کوئی نہیں ہو سکتے اور اس کا پیار انہی الفاط میں ظاہر ہو سکتا تھا کہ اے اللہ! میں تیری جُوئیں دیکھوں،میں تیرے کانٹے نکالوں،میں تجھے بکری کا تازہ تازہ دودھ پلاؤں،میں تیرے تلوے سہلاؤں،میں تیرے پاؤں دباؤں ۔یہی چیزیں اس کے نزدیک اہمیت رکھتی تھیں اور یہی وہ پیار کی ممتاز علامتیں سمجھتا تھا ،تو جو کچھ اس کے پاس اپنی محبت کے اظہار کا ذریعہ تھا اس سے اس نے کام لے لیا۔پس اس کو مار پیٹ کر تُو نے اسے نہیں بلکہ ہمیں دکھ دیا ہے جا اور اس کو راضی کر۔
اب دیکھو بظاہر یہ کتنے بُرے لفظ ہیں۔خدا تو الگ رہا ایک معمولی رئیس کے متعلق بھی اگر ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں اور کہا جائے کہ کاش میں تیری جُوئیں نکالا کروں۔تو وہ کہنے والے پر سخت ناراض ہوگا۔اور کہے گا کیا تُو چاہتا ہے میں عقل و ہوش بالکل کھو بیٹھوںاور اتنا گندہ ہو جاؤںکہ سر میں جوئیں پڑ جائیںاور پھر اس قدر عاجز اور لاچار ہو جاؤں کہ کسی دوسرے کو صفائی کرنی پڑے۔لیکن خدا تعالیٰ کے حضور وہ الفاظ چونکہ ایک ایسے شخص کے تھے جس کی نیت صاف تھی اور وہ اپنے مَافی الضمیر کو کسی اور رنگ میں ظاہرکرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اس لئے وہ قبول ہو گئے۔اس سے زیادہ سے زیادہ یہی مطالبہ کیاجا سکتا تھاکہ جن بہترین الفاظ میں وہ محبت کا اظہار کر سکتا ہے ان الفاظ میں وہ خدا تعالیٰ کے متعلق محبت کا اظہار کر دے۔سو اس نے اس مطالبہ کو پورا کر دیا۔اس کے پاس محبت ظاہر کرنے کایہی طریق تھا کہ پاؤں میں سے کانٹے نکالے، بکریوں کا دودھ پلائے۔سر میں سے جُوئیں نکالے،پس اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہوئے اس نے یہی طریق اختیار کیااور کہنا شروع کر دیااے اللہ! اگر تُو مجھے مل جائے تو میں تجھے نہلاؤں،تیری گدڑی صاف کروں،تیرے سر میں سے جوئیں نکالوں، تجھے تازہ تازہ دودھ پلاؤںاور تو سو جائے تو تیرے ہاتھ پاؤں دباؤں اور چونکہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کی مقدار کو نہیں دیکھتابلکہ قلب کی حالت کو دیکھتا ہے اس لئے اس نے ان الفاظ کو قبول کر لیا۔پھر بندوں کا کیا ذکر ہے ہم تو دیکھتے ہیں خدا تعالیٰ بھی ایسے الفاظ استعمال کر لیتا ہے اور قرآن کریم اس قسم کے الفاظ سے بھرا پڑا ہے۔کہیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کاذکر آجاتا ہے، کہیں اس کی آنکھوں کا ذکر آجاتا ہے،کہیں اس کی پنڈلیوں کا ذکر آجاتا ہے اور حدیثوں میں تو خدا تعالیٰ کے بہت سے اعضاء کا ذکر آتا ہے۔اب ان الفاظ کے یہ معنے نہیں کہ خدا تعالیٰ بھی نَعُوْذُ بِاﷲِ انسان کی طرح ہے یا اس کی بھی گردن ہے، چہرہ ہے، ناک ہے، منہ ہے، کان ہیں، دانت ہیں، زبان ہے، حلق ہے، سینہ ہے، دل ہے، پھیپھڑے ہیں، گردے ہیں، جگر، تلی معدہ انتڑیاں ہیں۔یہ مراد ہرگز نہیں بلکہ چونکہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھ نہیں سکتا اس لئے بندوں کو سمجھانے کے لئے خدا تعالیٰ نے وہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔
اگر اللہ تعالیٰ بھی بندے کی حالت دیکھ کر اس بات کو جائز سمجھتا ہے کہ اپنی صفات کو محدود شکل میں پیش کرے تو اگر اس کاکوئی نادان بندہ اپنی ناواقفیت کی وجہ سے ان الفاظ میں اپنی محبت کا اظہار کردے تو یہ قابلِ اعتراض بات نہیں ہوگی جب تک وہ عقیدے اور حقیقت کے طور پر بیان نہ کرے۔ہاں اگر وہ حقیقت کے طورپر بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ نَعُوْذُ بِاﷲِ ایک غلیظ ہستی ہے،اس کے بڑے بڑے بال ہیں اور چونکہ اسے پانی نہیں ملتا اس لئے بالوں میں جوئیں پڑ جاتی ہیں اور ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی گڈریا اس پر مہربان ہو جو اسے نہلائے اور اس کی جوئیں نکالے،تو یہ واقع میں بری بات ہوگی۔یا اگر عقیدے کے طور پر کوئی شخص بیان کر دے کہ اللہ تعالیٰ نَعُوْذُ بِاﷲِ کنگال ہے،وہ سارا دن سفر کرتا رہتاہے،اس کے پاؤں میں جوتی تک نہیں ہوتی اور کانٹے اس کے پیر میں چُبھ جاتے ہیں اور اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی گڈریا اس کے کانٹے نکالے تو یہ سخت معیوب بات ہوگی جیسے یہ معیوب بات ہے جو بعض مذاہب والوں کی طرف سے کہی جاتی ہے کہ خدا بندہ بن کر نازل ہوتا ہے چنانچہ بعضوں نے کہہ دیا کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل میں ظاہر ہؤا۔اور بعضوں نے کہہ دیا کہ وہ حضرت کرشن یا حضرت رام چندر جی کی شکل میں ظاہر ہؤا۔آخر کیا فرق ہے اس بات میں کہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے صوفی اس گڈریا کی براء ت تو کرتے ہیں مگر ان لوگوں کی تردید کرتے ہیں جن کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی شکل میں حلول اختیار کرتا ہے۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ گڈریا نے بھی یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہیں،اس کے پیر ہیں اس کا جسم ہے اور بعض مذاہب والے بھی یہی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض انسانوں کی شکل میں تجسّم اختیار کرتا ہے مگر تم ایک کے متعلق تو یہ کہتے ہو کہ وہ گمراہ ہیں اور ایک کے متعلق یہ کہتے ہو کہ اس نے محبت کے جوش میں ایسا کہا۔اس کا جواب یہی ہے کہ گڈریا خداتعالیٰ کو واقع میں ایسا نہیں سمجھتا تھا۔مگر وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے تجسم کے قائل ہیں،ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی جسم اختیار کرتا ہے۔پس چونکہ وہ واقع میں سمجھتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ دنیا میں عام انسانوں کی طرح پیدا ہوتا ہے،پھر بڑا ہوتا ہے،پھر شادی بیاہ کرتا ہے،پھر اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں،اس لئے وہ گنہگار ہوتے ہیں،مگر جو ناواقفیت کی وجہ سے اس رنگ میں اظہار محبت کرتا ہے وہ گنہگار نہیں ہوتا۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں بعض دفعہ مائیں اپنے بچوں سے ایسا سلوک کرتی ہیں جس کا ظاہر اور ہوتا ہے اور باطن اور۔اگر کسی کو اپنا ماحول غور سے دیکھنے کاموقع ملا ہو تو اسے کئی ایسی مثالیں نظر آئیں گی کہ بعض دفعہ وہ غریب عورتیں جو امیر گھرانوں میں نوکر ہوتی ہیں یا دہ غریب عورتیں جن کے ارد گرد امیر لوگ ہی بستے ہیںان کا کوئی بچہ بعض دفعہ مظلومیت کے طور پر کسی امیر آدمی کے بچہ سے پِٹ جاتا ہے،وہ بعض دفعہ تکبر کی وجہ سے، بعض دفعہ شرارت کی وجہ سے اور بعض دفعہ یونہی بِلاوجہ دوسرے غریب بچہ کو پیٹ ڈالتا ہے،ماں یہ تمام واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے۔وہ جانتی ہے کہ میرا بچہ مظلوم ہے،وہ جانتی ہے کہ میرے بچے کا کوئی قصور نہیں،مگر وہ یہ بھی جانتی ہے کہ میں بدلہ نہیں لے سکتی ۔پس وہ اپنے غصہ کا اظہار اس طرح کرتی ہے کہ اپنے ہی بچہ کو پیٹنے لگ جاتی ہے۔وہ اسے مارتی جاتی ہے اور اس کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیںاور کہتی جاتی ہے کہ تو وہاں گیا کیوں تھا۔تو وہاں گیا کیوں تھا۔اب گو بظاہر بچے کو مار پڑ رہی ہوتی ہے مگرکیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ مار نفرت یا غصے کے اظہار کی علامت نہیں بلکہ محبت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہوتی ہے۔اگر کوئی طاقتور ماں ہو تو وہ مارنے والے بچہ کی ماں سے جا کر لڑ سکتی ہے۔اگر کوئی برابر کا خاندان ہو تو اس کا مقابلہ کر سکتا ہے مگر وہ ماں جو سمجھتی ہے کہ میرے اندر مقابلہ کی طاقت نہیںاور ادھر اس کا دل چاہتا ہے کہ میں پیٹ کر اپنا غصہ نکالوں۔جب وہ اپنے غصہ کے اظہار کا اور کوئی ذریعہ نہیں دیکھتی تو اپنے ہی بچہ کو مارنے لگ جاتی ہے اور کہتی ہے تُو وہاں گیا کیوں تھاحالانکہ وہ بچہ کو حق پر سمجھتی ہے۔ تو عقل بتاتی ہے کہ اس کی مار اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ تُو وہاں کیوں گیا تھابلکہ اس کی مار اس وجہ سے ہوتی ہے کہ تُو نے ایسے مقام پر مجھے کیوں کھڑا کیاکہ میں تیری کوئی ہمدردی نہیں کر سکتی۔دنیا میں ماریں غصہ پیدا کرتی ہیں اور بہت سی ماریں دیکھ کر تمہارے دل میں طیش پیدا ہوگااور تم چاہو گے کہ اگر تمہارا بس چلے توتم مارنے والے کو مارو اور اسے سرزنش کرولیکن اگر تمہاری عقل کی آنکھیں کھلی ہیں اور اگرروحانیت کی کوئی حِس تم میں باقی ہے تو ایسی عورت کو مارتے دیکھ کر تمہاری آنکھوں میں آنسو آجائیں گے اور تم عورت پر غصّے نہیں ہوگے بلکہ اپنے خدا سے کہو گے کہ اے خدا! کیا دنیا میں تیری ایسی بے بس مخلوق بھی موجود ہے جوظلم کا جواب کسی رنگ میں بھی نہیں دے سکتی اور آخر اپنے آپ کو ہی پیٹ ڈالتی ہے اب وہ مارپیٹ درحقیقت مارپیٹ نہیں ہوگی بلکہ دُھواں ہوگا ماں کے دل کا وہ غبار ہوگا اس کی بے بسی کا۔ تم اس کی ظاہری شکل پر فتویٰ نہیں لگا دوگے بلکہ تم اس کے اندرونی احساسات اور جذبات کو دیکھو گے۔اسی طرح جہاں تک میں سمجھتا ہوں پشاور کے جس دوست کے متعلق یہ خیالات ظاہر کئے گئے ہیں ان کی حالت بھی ایسی ہی ہے۔ان کے دل میں بھی ایک جوش پیدا ہؤا اورانہوں نے دیکھا کہ اب یہ جوش کسی طرح نکل نہیں سکتا تو جس طرح ماں بعض دفعہ اپنے مظلوم بچے کو پیٹنے لگ جاتی ہے اسی طرح وہ بھی اپنے آدمیوں کو بُرا بھلا کہنے لگ گئے۔یہ چیز ظاہرمیںبُری ہوگی جیسے مار پیٹ ظاہر میں بُری چیز ہے۔جیسے یہ امثال بہر حال بُری ہیںکہ میں خدا کے پیر سے کانٹے نکالوں،اس کے ہاتھ اور پاؤں دباؤںلیکن کہنے والا بُرا نہیںکیونکہ اسے اپنی محبت کے جوش میں کوئی اور ذریعہ سوائے اس کے نہیں ملا۔بہر حال فعل کا صدور محبت کے نتیجہ میں ہؤا ہے کسی بُرائی کے نتیجہ میں نہیں ہؤا۔میرے نزدیک پشاور کے جس دوست کی باتوں پر اعتراض کیا گیا ہے،اُن کا اظہارِ خیال بھی اسی قسم کا ہے۔یعنی اپنے دل کی تکلیف کو انہوں نے غلط الفاظ میں ادا کر دیاہے۔ورنہ واقعہ بتاتا ہے کہ اعتراض ان کے مدنظر نہیںتھاصرف ان کے دل کے دکھ نے کوئی رستہ نکلنے کا نہ دیکھ کر بظاہر معترضانہ شکل اختیار کر لی ہے۔جیسے ماں بعض دفعہ اپنے بچے کو ہی پیٹنے لگ جاتی ہے۔خواہ وہ کسی سے مظلومانہ طور پر مار کھا کر آئے۔اسی طرح انہوں نے بھی محبت کے رنگ میں قادیان کے لوگوں کو دو چار صلواتیں سنا دیں۔
پھر میرے نزدیک جس دوست نے شکایت کی ہے اس دوست نے بھی کوئی بُرا کام نہیں کیا اس لئے کہ اس نے اپنے نقطہ نگاہ سے اس کو دیکھا۔جن جذبات سے معترض پُر تھا ان جذبات سے رپورٹ کرنے والا پُر نہیں تھا۔اُس کی کیفیت بالکل اور قسم کی تھی اور اِس کی کیفیت بالکل اور قسم کی۔ان میں سے ایک محبت کے مقام پر کھڑا تھا اور دوسرا ادب کے مقام پراور یہ دونوں مقام اپنی اپنی جگہ اچھے ہیںلیکن بعض دفعہ یہ دونوں مقام ایک دوسرے کے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔یوں اسلام نے یہ دونوں مقام جمع کئے ہیںاور فرمایا ہے کہ کامل ایمان اسی شخص کا ہے جس میں محبت اور ادب دونوں جمع ہوںلیکن دنیا میں عام طور پر کبھی محبت کا پہلو غالب آجاتا ہے اور کبھی ادب کا پہلو غالب آجاتا ہے۔جب محبت کا پہلو غالب ہو تو وہ ادب کے سمجھنے سے قاصر رہتا ہے اور جب ادب کا پہلو غالب ہوتو وہ محبت کے سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ہم روزانہ دیکھتے ہیںایک ہی قسم کے واقعات سے ایک کچھ نتیجہ نکالتا ہے اور دوسرا کچھ۔جلسہ سالانہ کے ایام میں میں نے دیکھا ہے بعض لوگ آنے والوں کے متعلق یہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ وہ کیسے ہیں۔یہاں آتے ہیں اور خلیفۃ المسیح سے مصافحہ کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے۔معلوم ہوتا ہے ان کے دل میںمحبت کا کوئی جذبہ نہیں اور دوسرا شخص یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ رات دن ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اور پھر بھی بعض لوگ حضرت خلیفۃ المسیح کو چلنے نہیں دیتے دھکے پہ دھکا مارتے ہیںاور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ غصے سے بھر ے ہوئے ہوتے ہیں۔وہ بھی سچا ہوتا ہے اور یہ بھی سچا ہوتا ہے مگر ان میں سے ایک ادب کے مقام پر کھڑا ہوتا ہے اوروہ محبت کے مقام کو نہیں سمجھ سکتا۔اور دوسرا محبت کے مقام پر کھڑا ہوتا ہے اور وہ ادب کے مقام کو نہیں سمجھ سکتا۔پس میں دونوں کو مخلص سمجھتا ہوں۔درحقیقت واقعات کی کڑی کسی کے اخلاص میں فرق لاتی ہے۔مثلاً اگر ہم ایک شخص کو دیکھیں کہ اس نے کوئی بُرائی بیان کی ہے تو ہم اسی وقت یہ فیصلہ نہیں کر سکیں گے کہ اس نے محبت کے جذبہ کی وجہ سے یہ برائی بیان کی ہے۔یا دل کے زنگ کی وجہ سے یہ برائی بیان کی ہے۔لیکن اگر ہم دیکھیں کہ ایک شخص ہمیشہ بُرائیاں بیان کرتا رہتا ہے یا ہمیشہ جماعتی کاموں سے الگ رہتا ہے۔تب ہم بے شک کہہ سکیں گے کہ اس کے دل پرزنگ لگ چکا ہے اور اس کے اخلاص میں کمی آگئی ہے۔پس اگر واقعات کا تسلسل اور ایک لمبی زنجیر بتا دے کہ فلاں شخص مجرم ہے تب ہم اسے مجرم سمجھیں گے ورنہ محض ایک بات سن کر ہم کسی کے اخلاص سے انکار نہیں کر سکتے
دوسری بات جو میں بتانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ واقعات سے موجبات کو دریافت کرنا کوئی محفوظ طریق نہیں ہوتا۔ہم ایک واقعہ دیکھتے ہیں اور بغیر اس کے کہ اصل سبب ہمیں معلوم ہو ہم اس کا ایک سبب فرض کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے لئے یہ جائز ہوگیا ہے کہ ہم وہ سبب ہر جگہ بیان کرتے پھریں حالانکہ ایک قسم کا نتیجہ ہمیشہ ایک ہی سبب کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہوتابلکہ ایک ہی قسم کے نتیجہ کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔پیٹ درد ایک مرض ہے جو بِالعموم لوگوں کو ہوتا رہتا ہے مگر ہر پیٹ درد ایک ہی کھانے سے نہیں ہوتا بلکہ بیسیوں کھانے ایسے ہیں جن کے کھانے سے پیٹ درد ہو جاتا ہے۔پھر بیسیوں دردیں ایسی بھی ہیں جو کھانے سے تعلق ہی نہیں رکھتیں۔کسی کو چوٹ لگ جائے تو اس سے بھی پیٹ درد ہو جائے گا۔معدہ کے اعصاب میں حدت اور تیزی پیدا ہوجائے تو اس سے بھی پیٹ درد ہو جائے گا۔تیزابی مادہ معدہ میں بڑھ جائے تو اس سے بھی پیٹ درد ہو جائے گا۔خلوّ معدہ سے بھی پیٹ درد ہو جاتا ہے اسی طرح اور بیسیوں اسباب ہیں جن کے نتیجہ میں پیٹ درد پیدا ہو جاتا ہے۔ اب اگر کوئی سمجھے کہ پیٹ درد محض ثقیل غذاء کھانے سے ہوتا ہے اور جب کسی کے متعلق یہ سنے کہ اسے پیٹ درد ہے تو یہ کہنا شروع کر دے کہ ضرور اس نے ثقیل غذاء کھائی ہوگی،تو یہ نادانی ہوگی۔اسی طرح ہیضہ زیادہ کھانا کھانے سے بھی ہو جاتا ہے اور ہیضہ خالی معدہ رہنے سے بھی ہو جاتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہیضہ پڑا۔ایک شخص ہیضہ میں مبتلا ہوکر مرگیا۔ جب اس کی نعش آئی اور جنازہ پڑھا جانے لگاتو ایک شخص بغیر اس بات کاخیال کئے کہ اس کے رشتہ داروں کو تکلیف ہوگی صفوں میں ادھر ادھر دوڑتا پھرے اور شور مچاتا پھرے کہ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ لوگوں کی عقل کو کیا ہوگیا۔بس وہ کھانے بیٹھتے ہیں تو غذا ٹھونستے چلے جاتے ہیں اور اس بات کا کوئی خیال نہیں کرتے کہ زیادہ کھالیا تو ہیضہ ہو جائے گا بس اُٹھتے بیٹھے سوتے جاگتے کھانے کا فکر رہتا ہے اور پھر اتنا کھائیں گے کہ حلق تک غذاء ٹھونس لیں گے کوئی یہ خیال نہیں کرتا کہ اپنی صحت کا بھی خیال رکھا جائے۔ہم تو ہمیشہ ایک پھُلکا کھاتے ہیں۔ہم تو ہمیشہ ایک پھُلکا کھاتے ہیں۔ہمیں ہیضہ کیوں نہیں ہوتا۔بس وہ اِدھر اُدھر دَوڑتا پھرے اور بار بار یہ الفاظ کہتا جائے۔دوسرے دن پھر ایک جنازہ آیا کسی نے پوچھا کہ کس کا جنازہ ہے؟ کوئی دل جَلا پاس کھڑا تھا وہ کہنے لگا یہ اُسی ایک پھُلکا کھانے والے کا جنازہ ہے۔ بات یہ ہوئی کہ دوسرے ہی دن اِس ایک پھُلکے کا شور مچانے والے کو بھی ہیضہ ہو گیا اور وہ فوت ہوگیا۔تو ہرچیزکا سبب ایک نہیں ہوتا بلکہ مختلف اسباب ہوتے ہیں کیونکہ ایک نتیجہ کئی موجبات سے نکل سکتاہے۔
تناسخ کے بارہ میں ہندوؤں نے یہی دھوکا کھایا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی امیر ہے کوئی غریب،کوئی کمزور ہے کوئی طاقتور،کوئی سفید ہے کوئی کالا،کوئی بیمار ہے کوئی تندرست، کوئی موٹا ہے کوئی دُبلا،کوئی اندھا ہے کوئی سُوجاکھا،اب یہ جو مختلف قسم کے تغیرات دنیا میں پائے جاتے ہیں ان کا کوئی سبب ہونا چاہئے۔پھر وہ خود ہی ایک سبب نکال لیتے ہیںاور کہتے ہیں چونکہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان میں اتنا عظیم الشان فرق نہیں کر سکتا تھااس لئے ضرور ہے کہ پہلے جنم کے اچھے یا بُرے اعمال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرق کیا ہو۔اس طرح انہوں نے خود بخود ایک سبب تجویز کر کے تناسخ کا عقیدہ گھڑ لیاحالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔انسانوں میں فرق ہونے کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔کسی ایک عقلی سبب کو اصل سبب قرار دینا صداقت سے محروم ہونا ہے۔کسی نتیجہ کا اصل سبب کیا ہے اس کا علم واقعہ سے ہی لگ سکتا ہے نہ کہ قیاس سے اگرکوئی قیاس کرے گا تو وہ ضرور ٹھوکر کھائے گا۔میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ ہندوؤں کے اس اصل کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رات کے وقت کوئی شخص بازار میں سے گزر رہا ہو۔اب یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا کوئی رشتہ دار بیمار ہو اور اس نے اسے کہلا بھیجا ہو کہ مجھے آکر مل جاؤ۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ ریل کا وقت ہو اور ریلوے سٹیشن کا راستہ وہیں سے گزرتا ہواور وہ گاڑی میں سوار ہونے کے لئے وہاں سے گزر رہا ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کوئی مسافر ہو جو کہیں دور سے آرہا ہومگر راستہ میں اسے دیر ہو گئی ہو اور وہ اب گھر پہنچنے کے لئے جلدی جلدی جا رہا ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کوئی چور ہو اور چوری کی نیت سے اس وقت پھر رہا ہو۔اب اگر ہم اس کو دیکھ کر ان تمام قیاسات میں سے ایک قیاس کر لیں کہ وہ ضرور چور ہے اور اس قیاس کی بنا ء پر بِلا تحقیق کے اسے چوری کی سزا دے دیں تو سخت ظلم ہوگا۔یہی حال ہندوؤں کا ہے۔انہوں نے بھی فیصلہ کر لیا کہ چونکہ خداتعالیٰ اپنے بندوں میں فرق نہیں کر سکتا اس لئے ضرور ہے کہ پہلے کسی جنم میں انسان اچھے یا برے اعمال کر چکا ہو اور ان کی سزا یا جزاء بھُگتنے کے لئے اِس عالَم میںآیا ہو۔یہ نہیں دیکھا کہ بنی نوع انسان میں جو تفاوت پایا جاتا ہے اس کے اور بھی کئی موجبات ہو سکتے ہیں۔صرف عقل سے ایک سبب معلوم کیا اور اسی کو اصل سبب قرار دے کر اس پر عقیدہ کی بنیاد رکھ دی۔یہی ٹھوکر عیسائیوں نے کھائی ہے۔انہوں نے بھی یہ خیال کر لیاکہ خدا تعالیٰ عادل ہے وہ کسی کو بغیر گناہ کے تکلیف نہیں دے سکتا اور مسیح بے گناہ تھے ان کو جو تکلیف پہنچی وہ ضرور کسی گناہ کے سبب سے ہونی چاہئے مگر چونکہ وہ گنہگار نہ تھے اس لئے معلوم ہؤا انہوں نے اپنے ماننے والوں کے گناہ اپنے سر پر اٹھا لئے اور ان پرا یمان لانے والوں کے گناہ اس طرح معاف ہو گئے۔انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ بے شک تکلیف گناہ کے نتیجہ میں بھی آتی ہے لیکن ہر تکلیف گناہ کے نتیجہ میں نہیں آتی۔ بعض تکالیف قوانینِ طبیعت کی خلاف ورزی سے آتی ہیں،بعض قوانین طبیعت کے مخالف اجتماع سے آتی ہیں،بعض تکالیف محض ایک تکلیف پانے والے کے قرب میں بیٹھے ہونے کے سبب آتی ہیں،بعض تکالیف انسان کے اعلیٰ اندرونی قویٰ کو ظاہر کرنے کے لئے اور اس شخص کی قیمت لوگوں پر ثابت کرنے کے لئے آتی ہیں،بعض تکالیف اس لئے آتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں دور کر کے اپنی قدرت کو ظاہر کرے۔غرض تکالیف کا فلسفہ ایک وسیع فلسفہ ہے اور سب تکالیف ایک ہی سبب کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتیں مگر مسیحیوں نے ان تمام اسباب کو نظر انداز کر کے ایک ہی سبب قیاس کر کے اس پر اپنے عقیدہ کی بنیاد رکھ دی اور حضرت مسیح ناصری کے صلیبی واقعہ کو اُمتیوںکے گناہوں کی سزا قرار دے دیا۔ تو دوست بھی ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں لیکن عام طور پر دشمن بوجہ دشمنی کے اور بوجہ اس کے کہ تعصب کی پٹی ان کی آنکھوں پر بندھی ہوتی ہے ایک سبب جو بُرا ہوتا ہے لے لیتے ہیںاور سمجھتے ہیںکہ فلاںفعل کا یہی سبب ہوگا۔یہ خیال نہیں کرتے کہ ممکن ہے کہ اس کا کوئی اور سبب ہو۔جس کی وجہ سے وہ فعل جس پر وہ معترض ہیں برا نہ رہے۔مجھے اس پر زیادہ زور دینے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ میں دیکھتا ہوں ہمارے دوستوں میں سے بھی کئی ایسے ہیں جو واقعات کو دیکھ کر قیاس کر لیتے ہیں اور کہنے لگ جاتے ہیںکہ اس کا سبب ضرور فلاں امر ہے حالانکہ ایسے موقع پر انسان کا قیاس سے نتیجہ نکالنا بسا اوقات اسے گناہ میں مبتلا کر دیتا ہے۔اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
اِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَاِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحَدِیْثِ۲؎ گمان سے اور خیالی باتوں سے بچ کیونکہ خیال تجھ کو اکثر جھوٹ میں مبتلا کر دیتا ہے۔تو واقعات کے بارہ میں اربعہ لگا کر نتیجہ نکالنا بڑا خطرناک راستہ ہے اور اکثر دفعہ گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔گو کبھی درست نتیجہ بھی نکل آتا ہومگر چونکہ طریقہ غلط ہے،نتیجہ درست بھی ہو تو بھی انسان بدظنی کے گناہ کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے اور خداتعالیٰ کی کتاب میں مجرم لکھا جاتا ہے۔ہمیں قیاس اُسی حد تک کرنا چاہئے جس حد تک بات ہے۔اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے۔اسلام کے جو محقق فقہاء گزرے ہیں،انہوں نے تو اس مسئلہ پر اتنا زور دیا ہے کہ اسے کمال تک پہنچا دیا ہے۔مثلاً ان میں اس بات پر بحثیں ہوئی ہیںکہ اگر شریعت نے کسی بات کے متعلق قسم رکھی ہواور دوسرا شخص قسم نہیں کھاتامگر جس کے مقابلہ میں وہ کھڑا ہے وہ قسم کھالیتا ہے تو اس کے متعلق کیا فیصلہ کیا جائیگا۔محققین فقہاء نے کہا ہے کہ دوسرے شخص کو اس وجہ سے کہ اس نے قسم نہیں کھائی ہم مجرم قرار نہیں دیں گے بلکہ اسے اس وقت تک بند رکھیں گے جب تک وہ قسم نہیں کھاتا یا اقرار نہیں کرتا۔اگر وہ نہ قسم کھائے اور نہ اقرار کرے تو اسے قید تو رکھیں گے مگر اس جرم کی شرعی سزا کا مستوجب اسے قرار نہیں دیں گے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اس کے قسم نہ کھانے سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں اصل واقعہ کا پتا نہیں لگا۔یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پتہ لگ گیا ہے۔مثلاً میاں بیوی میں ملاعنہ کی صورت ہے۔قرآن کریم میں آتا ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے یا بیوی خاوند پر الزام لگائے اور ان کے پاس سوائے اپنی عینی شہادت کے اور کوئی گواہ موجود نہ ہوں تو پھر میاںبیوی کے درمیان ملاعنہ ہوگااور چار چار گواہوں کی جگہ اُن سے چا رچار دفعہ قسمیں لی جائیں گی۔۳؎ اب اگر مرد قسم کھاجائے مگر عورت نہ کھائے تو فقہاء نے بحث کی ہے کہ اس صورت میں کیا کیا جائے۔بعضوں نے کہا ہے کہ جس نے قسم نہیں کھائی ہم اسے مجرم سمجھیں گے۔مگر بُہتوں نے کہا ہے کہ ہم اسے مجرم نہیں سمجھیں گے بلکہ اس وقت تک اسے قید رکھیں گے جب تک وہ قسم نہ کھائے یا اقرار نہ کرے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اس فعل سے شُبہ پیدا ہوتا ہے، جُرم ثابت نہیں ہوتا۔تو قیاس سے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتاکیونکہ ممکنات کئی ہوتے ہیں۔بعض دفعہ ضد میں آکر انسان کہہ دیتا ہے کہ میں قسم نہیں کھاؤں گا اور بعض دفعہ کسی اور وجہ سے قسم نہیں کھاتا۔پس وہ کہتے ہیں کہ ایسی حالت میں ہم اسے صرف قیدرکھیں گے۔کسی نے کہا کہ قید کیوں کرو گے۔تو انہوں نے جواب دیا کہ اس لئے کہ شریعت کہتی ہے قسم کھاؤ اور چونکہ اس نے قسم نہیں کھائی اس لئے ہم اسے شریعت کی نافرمانی کا مجرم تو قرار دے سکتے ہیںمگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ قسم نہ کھانے کی وجہ سے وہ جرم ثابت ہوگیا ہے جس کے فیصلہ کرنے کے لئے قسم رکھی گئی تھی۔
ہمارے دشمنوں نے بھی صرف یہ دیکھ کر کہ میاں عزیز احمد صاحب جو ایک غریب آدمی تھے ان کے مقدمہ کی ہائی کورٹ میں اپیل ہوئی اور شیخ بشیر احمد صاحب پیش ہوئے اور پھر پریوی کونسل میں اپیل ہوئی،یہ قیاس کر لیا کہ جماعت جھوٹ بولتی ہے اور ضرور اندرونی طور پر ہزاروں روپیہ انہوں نے خرچ کیا ہے بلکہ دشمن تو دشمن رہے ہمارے جماعت کے بعض منافقین نے بھی جن کے متعلق ہمارے پاس رپورٹیں پہنچ چکی ہیں مگر ابھی میں نے ان کے اخراج کا اعلان نہیں کیا اپنی مجلسوں میں یہ کہنا شروع کر دیاکہ ہزاروں روپیہ ان مقدمات پر جماعت نے خرچ کیا ہے حالانکہ جیسا کہ اعتراض کے جواب میں مَیں بتاؤں گاان کا یہ تخمینہ بالکل غلط ہے۔انہوں نے فرض کر لیاکہ جماعت کی مدد کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتاتھااور پھر خود بخود یہ نتیجہ نکال لیا کہ ضرور جماعت نے اس کی مدد کی ہے حالانکہ واقعہ بالکل اور ہے۔اس وقت میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوںکہ اس قسم کی غلطیوں کے نتائج نہایت ہیبت ناک ہوتے ہیں۔تم واقعات کو دیکھ کر اس امر کے مجاز نہیں کہ کہہ سکو اس واقعہ کا فلاں سبب ہے۔کیونکہ ایک واقعہ کے کئی موجبات ہو سکتے ہیں۔پھر جس واقعہ کے ثبوت کے لئے گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کسی واقعہ کا موجب بیان کرنا بھی اُس وقت تک ہمارے لئے جائز نہیں ہو سکتا جب تک اس موجب کا ثبوت ہمارے پاس مہیا نہ ہو۔
تیسرا اصل یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسانی افعال کا اثر جو دلوں پر پڑتا ہے وہ صرف ان کے اچھے یا بُرے ہونے کی نسبت سے نہیں پڑتا بلکہ قلوب کا انفعال بعض اور متعلقہ واقعات کو مدنظر رکھ کر پیدا ہوتا ہے یعنی کسی کی چوری دیکھ کر یا اس کا ذکر دوسرے کی زبان سے سُن کر یا قتل ہوتے دیکھ کر یا اس کا ذکر دوسرے کی زبان سے سُن کر یا کسی کو غیبت کرتے دیکھ کر یا اس کا ذکر دوسرے کی زبان سے سن کر ہمارے دل پر جو اثر پیدا ہوتا ہے وہ فعل کی برائی کی نسبت سے نہیں ہوتا بلکہ قلوب میں جو اثرات پیدا ہوتے ہیں وہ اور بہت سے امور متعلقہ کے مجموعی اثر کا نتیجہ ہوتے ہیں۔بسا اوقات ایک بڑی چوری ہوگی مگر جب تم اس کاذکر سنو گے تمہارے دل پر زیادہ برا اثر نہیں پڑے گا۔اوربسا اوقات ایک چھوٹی سی چوری ہوگی۔مگر جب تم اسے سنو گے تو تمہارا دل اس کی بُرائی کو بہت زیادہ محسوس کرے گاکیونکہ گو پہلی چوری بڑی تھی مگر متعلقہ امور نے اسے بڑا نہیں بنایا اور گو دوسری چوری بڑی نہیں مگر متعلقہ امور نے اسے بھیانک بنا دیا ہے۔تو تمام افعال خواہ اچھے ہوں یا برے، بدیاں ہوں یانیکیاں ،انسانی قلب پر جو اثر پیدا کرتے ہیں وہ ظاہری حالات کے مطابق نہیں کرتے بلکہ اور بہت سے متعلقہ امور ہوتے ہیں جن کی وجہ سے انسان ان سے زیادہ یا کم متاثر ہوتا ہے۔قدیم عربی زبان میں اسے انفعال یا تأثر کہتے ہیں۔گویا ہر فعل کے مقابلہ میں ایک حرکت ہماے دل اور دماغ میں پیدا ہوتی ہے۔نئی عربی میں اسے ردالعمل انگریزی میں ری ایکشن اور اُردو میں بھی جدید عربی کی نقل میں ردّ عمل کہتے ہیںاور یہ رد عمل ہر فعل کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔تم اگر کسی جگہ کھڑے ہواور تمہارا کوئی دوست تمہارے پیٹ کی طرف یک دم اپنی انگلی زور سے لے آئے تو باوجود یہ جاننے کہ وہ تمہارا دوست ہے اور باوجود یہ جاننے کے کہ اس کے ہاتھ میں چاقو نہیں، تمہارا پیٹ کچھ پیچھے کو کھنچ جائے گا اور یہ جواب ہوگا کہ جو طبعی طور پر تمہارا پیٹ دے گا۔اسی طرح جب تم کسی کے منہ سے کوئی بات سنو گے تو اس کے مقابلہ میں تمہارے دل میں ایک اثر پیدا ہوگا۔ بعض دفعہ وہ اثر اچھا ہوگا اور بعض دفعہ بُرا۔اگر بُرا اثر ہے تو یہ سوال پیدا ہوگاکہ تم اسے ہر صورت میں بُرا سمجھتے ہویا بعض صورتوں میں اور اگر اچھا اثر ہے تو پھر بھی یہ دیکھا جائے گا کہ تم اسے ہر صورت میں اچھا سمجھتے ہو یا بعض صورتوں میں اسی طرح اگر تم کسی فعل کو برا سمجھتے ہوتو یہ دیکھا جائے گا ۔کہ اس کے نتیجہ میں تمہارے دل میںغصہ پیدا ہوتا ہے یا نفرت پیدا ہوتی ہے یا رحم پیدا ہوتا ہے اور اگر تم کسی فعل کو اچھا سمجھتے ہو تو باوجود اچھا سمجھنے کے تمہارے دل میں محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں یا نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔یہ رد عمل کی مختلف حالتیں ہیں جو انسانی قلب میں پیدا ہوتی ہیں۔کبھی کوئی حالت ہوگی اور کبھی کوئی۔یہ نہیں ہوگاکہ ہمیشہ ایک اثر پیدا ہوبلکہ مختلف برے اعمال کے نتیجہ میں مختلف اثرات پیدا ہوں گے۔مثلاً ایک شخص بھوکا مر رہا تھااس نے کسی دوسرے شخص کی روٹی اٹھا کر کھا لی۔اب یہ چوری ہے جو اُس نے کی اور اُس کا یہ فعل بہر حال بُرا ہے مگر اس چوری کا ذکر سن کر تمہارے دل میں صرف غصہ نہیں بلکہ رحم بھی پیدا ہوگا کیونکہ اس کا محرک ایک مجبوری تھی۔یعنی چونکہ وہ بہت تنگ حال تھا اس لئے مجبور ہو کراس نے دوسرے کی روٹی کھا لی۔پس جو خارج میں افعال پیدا ہوتے ہیں۔ان کا جو جواب دل میں پیدا ہوتا ہے وہ مفرد نہیں بلکہ مرکّب ہوتا ہے اور بہت سی وجوہات سے مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ کبھی ایک اچھے کام کے مقابلہ میں بھی دل میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔مثلاً ایک شخص نے دوسرے سے دس روپے لینے ہیں یہ اس کا حق ہے اور وہ اس کا ہر وقت تقاضا کرسکتا ہے لیکن فرض کروجس شخص سے اس نے دس روپے لینے ہیں وہ سخت تنگدست ہے۔اس کے پاس صرف پانچ سات مرغیاں ہیں جن کے انڈے بیچ بیچ کر وہ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔اب اگر یہ جاکر اس کی مرغیاں اٹھا لیتا اس کے انڈوں پر قبضہ کرلیتا اور اس کے گھر کی ایک دو اور چیزیں بھی ان روپوں کے بدلہ میں لے لیتا ہے اور قانون کی مدد سے قرق کراکے لیتا ہے تو کوئی قانون اسے مجرم قرار نہیں دے گا اور تم بھی اس کے اس فعل کو بُرا نہیں کہو گے کیونکہ اس نے اپنا ایک حق حاصل کیامگر یہ فعل دیکھ کر تمہارے دل میں محبت نہیں نفرت پیدا ہوگی۔جب ایک بھوکے شخص نے دوسرے کی روٹی چرالی تھی تو گو تم اس فعل کو برا کہہ سکتے تھے مگر اس مجرم کے متعلق رحم بھی پیدا ہوتا تھا۔مگر اس فعل کو تم یوں تو جائز کہو گے مگر اس کے مرتکب کے بارہ میں ساتھ ہی نفرت بھی پیدا ہوگی حالانکہ اس نے اپنا حق حاصل کیا۔حکومت کے کہنے پر لیا اور سپاہی کو ساتھ لے کر لیامگر باوجود ان تمام باتوں کے تمہارے دل میں اس سے ہمدردی نہیں ہوگی۔ تمہارے دل کی ہمدردی اسی شخص کے ساتھ ہوگی جس نے دوسرے کا مال کھا لیا۔اس کے مقابلہ میں جس شخص نے چوری کی تھی اس کا فعل گو برا ہے مگر تمہارے دل میں اس سے نفرت پیدا نہیں ہوگی بلکہ اگر تمہارادل ٹھیک ہے اور تمہارا دماغ درست ہے تو تمہارے دل میں رحم پیدا ہوگا۔ پس خارجی اعمال کے مقابلہ میں قلوب کا انفعال ایک بسیط امر نہیں بلکہ مرکب امر ہے لیکن جہاں تک قضاء کا تعلق ہے ۔ہماری کوشش یہی ہونی چاہئے کہ نفس واقعہ سے ہم اِدھر اُدھر نہ ہوں۔ اگر ایک چور چوری کرکے آتا ہے اور ہم قاضی ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے سزا دیں۔اگر ایک قاتل قتل کرکے آتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اس کے فعل سے بیزاری کااظہار کریں۔اگر کوئی دوسرے سے کچھ روپیہ وصول کرنے کا حق رکھتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم وہ روپیہ وصول کرانے میں ا س کی مدد کریں ۔پس قضاء کے سلسلہ میں ہمارا فرض ہے کہ ہم نفسِ واقعہ سے کبھی اِدھر اُدھر نہ ہوں۔گو اس میں بھی بعض دفعہ مجبوری پیدا ہو جاتی ہے۔اور قضاء میں واقعات کی مجبوری کو تسلیم کرکے دوسرے واقعات کو مدنظر رکھ لینا پڑتا ہے۔جیسے قانونِ انگریزی میں یہ بات داخل ہے کہ اگر نہائت اشتعال کی حالت میں کوئی شخص قتل کردے تو اسے پھانسی کی سزا نہیں دیتے بلکہ قید کی سزا دیتے ہیںکیونکہ جج کہتے ہیں یہ ایک قسم کی دیوانگی ہے۔جس کے نتیجہ میں اس نے اس فعل کا ارتکاب کیا۔ہم اسے قاتل سمجھتے اور اس کے وجود کو سوسائٹی کے لئے مضر سمجھتے ہیںمگر ہم اسے پھانسی کی سزا نہیں دے سکتے کیونکہ اس نے انتہائی مجبوری کی حالت میں سخت مشتعل ہو کر اس فعل کا ارتکاب کیا ۔چنانچہ وہ اسے عمر قید کی سزا دے دیتے ہیں یا دس بارہ سال قید کی سزادے دیتے ہیںحالانکہ وہ قاتل ہوتا ہے مگر اس کی دماغی طور پر جو مجبوری کی حالت ہوتی ہے اسے قانون تسلیم کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس قسم کے فیصلے بہت محدود ہونے چاہئیں ورنہ انصاف کا خون ہو جائے گا۔اسی لئے قتل کے مقدمات میں بہت شاذ اس قانون کا استعمال کرتے ہیں۔عام طور پر قتل کی سزا میں پھانسی کی سزا ہی تجویز کرتے ہیں۔تو گو قضا کے لحاظ سے کوشش یہی ہونی چاہئے کہ نفسِ واقعہ سے انسان اِدھر اُدھر نہ ہو مگر اس میں بعض دفعہ مجبوری بھی پیدا ہو جاتی ہے۔جیسا کہ شدید اشتعال کی حالت میں قتل کی مثال مَیں نے بیان کی ہے یا جیسا کہ حال میں ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ ہؤا ہے۔جس میں اسی بات پر عمل کیاگیا ہے۔وہ واقعہ یہ ہے کہ بٹالہ کے ایک مجسٹریٹ نے ایک مقدمہ کے دوران میں یہ لفظ کہے۔کہ مسلمان جو حضرت باوا نانک رحمۃ اللہ علیہ کو مسلمان کہتے ہیں،یہ سکھوں کو بُرا لگتا ہے اور یہ ایسا ہی ہے۔جیسے نَعُوْذُ بِاﷲِ کوئی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کو کافر کہہ دے۔ ’’الفضل‘‘ نے اس پر بعض مضامین لکھے۔جن میں مجسٹریٹ کے اس رویہ کے خلاف احتجاج کیااور لکھا کہ یہ بہت ناشائستہ الفاظ ہیں اور مجسٹریٹ سے اس کے متعلق باز پُرس ہونی چاہئے۔اس پر گورنمنٹ نے ہائی کورٹ میں الفضل کے خلاف اس بناء پر مقدمہ چلادیاکہ اس کے ایڈیٹر اور پرنٹر وپبلشر نے عدالت کی ہتک کی ہے اور انہیں سزا ملنی چاہئے کیونکہ انہوں نے مجسڑیٹ کے متعلق یہ لکھ دیا ہے کہ اس نے نا شائستہ الفاظ کہے ہیں۔ہائی کورٹ والوں نے اس کے متعلق پہلے کچی پیشی رکھی۔دو جج سماعت کے لئے موجود تھے۔ایک مسٹر جسٹس ایڈیسن صاحب اور دوسرے مسٹرجسٹس دین محمد صاحب گورنمنٹ کی طرف سے اس کا سب سے بڑا وکیل ایڈووکیٹ جنرل پیش ہؤااور اس نے ہائی کورٹ کو توجہ دلائی۔کہ ایڈیٹر الفضل کو بلا کر باز پُرس کرنی چاہئے اور ہتکِ عدالت کے جُرم میں اسے سزا دینی چاہئے۔جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے ہائی کورٹ کے ججوں نے اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل کی تقریر سُننے کے بعد کہا کہ یہ جُرم اصطلاحی طور پر جُرم ہے۔ہم مانتے ہیں کہ مضامین میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں یہ استعمال نہیں کرنے چاہئیں تھے مگر جو الفاظ مجسٹریٹ نے استعمال کئے ہیں ان کو سن کر بھی ایک مسلمان کا بے قابوہوجانا کوئی بڑی بات نہیں۔پس اگر آپ زور دیتے ہیں تو ہم اسے بلا تو لیں گے۔مگر یہ جُرم صرف اصطلاحی جُرم ہوگااور ہم اسے صرف نام کی سزا دیں گے مگر اس کے ساتھ ہی نہائت سخت ریمارکس مجسٹریٹ کے متعلق اپنے فیصلہ میں لکھیںگے۔اس پر گورنمنٹ ایڈووکیٹ کچھ ڈھیلے ہوئے اور ججوں نے الفاظ میں فیصلہ کر دیاکہ ہم سمجھتے ہیںاگر ہم نے ایڈیٹر ’’الفضل‘‘کو بلایاتو ہم اسے سزا دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے اس لئے اس مقدمہ کو خارج کرتے ہیں۔گویا انہوں نے ایک طرف جُرم کو تسلیم کیامگر ساتھ ہی کہا کہ حالات ایسے ہیں کہ ہماری ہمدردی مجرم کی طرف جا رہی ہے اور صاف کہہ دیا کہ اگر ہم اسے بلائیں گے تو صرف NOMINALسزا دیں گے مگر دوسرے کے متعلق ہمارا رویہ سخت اظہارِ نفرت کا ہوگا اس لئے یہی بہتر ہوگا کہ اسی مرحلہ پر اس مقدمہ کو چھوڑ دیا جائے۔چنانچہ انہوں نے مقدمہ خارج کر دیا۔اس فیصلہ کے ساتھ ججوںنے یہ ثابت کر دیا کہ قانون، انصاف اور انسانیت کے اعلیٰ اخلاق بیک وقت ایک وجود میں جمع ہو سکتے ہیں۔اور ایسے ہی فیصلے ہوتے ہیںجو قضاء کے رُعب کو دنیا میں قائم رکھتے ہیں۔قضاء کا رعب صرف پھانسیاں دیتے جانے سے نہیں ہوتابلکہ ایسے فیصلوں سے ہوتا ہے جہاں انسانی فطرت کا مطالعہ کر کے صحیح راستہ اختیار کیا جائے،خواہ سختی کا ہو خواہ نرمی کا۔
تو فیصلوں کے لحاظ سے ہمارا پورا فرض ہے کہ جو جُرم ہے اسے جُرم کہیں اور جو نیکی ہے اسے نیکی کہیںلیکن جب ہم جذبات کی دنیا میں آتے ہیں تو معاملہ بہت زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے کیونکہ ہر شخص کے اندر اللہ تعالیٰ نے دو مجسٹریٹ پیدا کئے ہیں۔ایک دماغی مجسٹریٹ ہوتا ہے اور ایک جذباتی مجسٹریٹ ہوتا ہے۔دماغی مجسٹریٹ کا کام زیادہ آسان ہوتا ہے مگر جذباتی مجسٹریٹ کا فیصلہ بہت پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ جب انسان دماغی مجسٹریٹ کے بعد جذباتی مجسٹریٹ کے محکمہ میں آتا ہے تو چونکہ انسانیت قضاء کے ذریعہ سے اپنا حق ادا کر چکتی ہے اس لئے اب وہ چھِلکے کو چھوڑ کر مغز کی طرف توجہ کرتی ہے اور اب وہ بسیط مسئلہ ایک پیچیدہ سوال کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔اب صرف یہ سوال نہیں ہوتا کہ زید نے چوری کی ہے یا نہیں،بلکہ یہ سوال ہوتا ہے کہ اس نے کیوں چوری کی۔اب صرف یہ سوال نہیں ہوتا کہ زیدنے مارا پیٹا ہے یا نہیں۔ بلکہ یہ سوال ہوتا ہے کہ اگر اس نے مارا ہے تو کیوں؟ اسی طرح صرف یہ سوال نہیں ہوتا کہ زید نے کسی کو بُرا بھلا کہا ہے یا نہیں،بلکہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے اگر بُرا بھلا کہا ہے تو کیوں کہا ہے۔تو جذبات کی دنیا میں بہت سی باتیں سامنے آجاتی ہیں۔مثلاً یہی کہ فعل کے محرکات کیا ہیں،اس نے کن حالات میں اس فعل کا ارتکاب کیا ہے،اسے کسی نے انگیخت کی ہے یا نہیںاور اگر کسی نے انگیخت کی تھی تو وہ معمولی انگیخت تھی یا زبردست اور وہ اس انگیخت کا آسانی سے مقابلہ کر سکتاتھا یا نہیں، پھر یہ کہ فاعل کا ماحول کیسا تھا اور اگر اس نے بدی کی تو کن حالات میں کیونکہ ماحول سے بھی کسی کی مجبوری یا عدمِ مجبوی ظاہر ہوجاتی ہے۔ایک شخص نمازی ہوتا ہے مگر نمازیوں کے گھر میںاور دوسرا شخص نمازی ہوتا ہے مگر بے نمازیوں کے گھر میں۔اب یہ یقینی بات ہے کہ اس کی نماز زیادہ اعلیٰ درجہ کی ہے جو بے نمازوں میں رہ کر باقاعدہ نماز پڑھتا ہے بہ نسبت اس شخص کے جو ایسے ماحول میں ہے جہاں تمام لوگ التزام کے ساتھ نماز پڑھنے کے عادی ہیں۔اسی طرح اس کی مجبوریاں دیکھی جائیں گی،اس کا نقطۂ نگاہ دیکھا جائے گاکیونکہ نقطۂ نگاہ کے بدل جانے سے بھی بہت فرق پڑجاتا ہے۔اور پھر گو جُرم رہ جاتا ہے مگر اس کے متعلق نفرت کم ہو جاتی ہے۔جیسے پٹھانوں میں یہ دستور ہے کہ جب ان میں سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اٹھ کر اسے قتل کر دیتے ہیں اور اسے بالکل جائز سمجھتے ہیں۔اب ایک ہی فعل اگر ایک پٹھان کرے گا توگواس کے متعلق بھی ہمارے دل میں نفرت پیدا ہوگی مگر وہ اتنی نہیں ہوگی جتنی اس وقت پیدا ہوگی جب ایک پنجابی ایسی ہی حرکت کرے گاکیونکہ پنجابی کا نقطئہ نگاہ اَور تھا اور پٹھان کا اَور یا سکھ اور عیسائی سؤر کھاتے ہیں اور ہم سب اسے جانتے ہیں۔اب سؤر کھانایقینی طور پر بُری بات ہے۔مگر ایک سکھ یا عیسائی کو سؤر کھاتے دیکھ کر ہمارے دل میں وہ جذبات نفرت پیدا نہیں ہونگے جو ایک مسلمان کو سؤر کھاتے دیکھ کرپیدا ہوں گے حالانکہ فعل ایک ہی ہے وہ بھی سؤر کھا رہا ہے اور یہ بھی سؤر کھا رہا ہے۔ایک ہندو نماز نہیں پڑھتا اور ہم جانتے ہیں کہ یہ بُری بات ہے۔مگر ایک ہندو کو نماز نہ پڑھتے دیکھ کر ہمارے دل میں وہ نفرت پیدا نہیں ہوگی جو ایک مسلمان کو نماز نہ پڑھتے دیکھ کر پیدا ہوگی کیونکہ ان دونوں کے نقطہ نگاہ میں فرق ہے۔وہ نماز پڑھنا ضروری نہیں سمجھتا اور یہ نمازکو ضروری سمجھنے کے باوجود سُستی کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتا۔پھر اس کی تعلیم کو دیکھا جائے گا کہ وہ پڑھا لکھا ہے یا جاہل، اس کے پسماندگان کی حالت دیکھیں گے کہ کیسی ہے کیونکہ یہ بات بھی جذبات کو بالکل بدل دیتی ہے۔اگر ایک بڑے سے بڑا ڈاکو ہو اور فرض کرو اس کی بیوی مری ہوئی ہے اور اس کا صرف ایک ہی بچہ ہے اور وہ بھی چار پانچ سال کا اور پھر وہ بھی آنکھوں سے اندھا تو جس وقت اس ڈاکو کو پھانسی پر لٹکایا جا رہا ہواور اس کا بیکس یتیم اور اندھا بچہ رو رہا ہو اس وقت تم میں سے کون ہے جس کا دل رحم سے نہیں بھرجائے گا۔پس پسماندگان کی حالت بھی قلبی کیفیات کو بدل دیتی ہے۔اسی طرح اس کے دوسرے افعال کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ایک وہ ہوتا ہے جو عادی طور پر چوری کرتا ہے اور ایک وہ ہے جو یوں تو بڑا نیک تھا مگر کسی بات سے مجبور ہو کر انتہائی لاچاری کی حالت میں اس نے چوری کر لی۔یا ایک وہ ہے جو ہمیشہ دوسروں سے لڑتا رہتا ہے اور دوسرا وہ ہے جو ہے تو بڑا رحم دل مگر اتفاقی طور پر ایک دفعہ جوش میں آکر وہ دوسرے سے لڑپڑا ہے۔اب گو ان دونوں سے ایک ہی قسم کا جُرم سر زد ہؤا ہومگر ایک کے متعلق ہمارے جذبات بالکل اور قسم کے ہوں گے اور دوسرے کے متعلق ہمارے جذبات اور قسم کے ہوں گے۔پھر جس کے خلاف حملہ ہؤا ہے اس کے حالات اور اس کے پسماندگان کے حالات بھی دیکھے جائیں گے۔بظاہر جس طرح ایک آدمی قتل ہو جاتا ہے اسی طرح دوسرا آدمی بھی قتل ہوتا ہے مگر ایک آدمی ایسا ہوتا ے جس پر ملک کا انحصار ہوتا ہے اور دوسرا آدمی معمولی اور نکمّاہوتا ہے۔ایک کے قتل ہونے پر اتنا شور پڑتا ہے کہ تمام ملک ایک سِرے سے لے کر دوسرے سرے تک ہل جاتا ہے اور دوسرے آدمی کے قتل ہونے پر کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ دونوں فعل اپنے اثرات کے لحاظ سے یکساں ہیں۔پنڈورہ میں اک چوہڑ ہ دوسرے چوہڑے کو قتل کر دیتا ہے تو گاؤں سے باہر اس کے قتل ہونے کی خبر تک نہیں جاتی۔مگر ملک کا کوئی خادم مارا جاتا ہے تو تمام ملک اس آواز سے گونج اٹھتا ہے۔بے شک ایسے مواقع پر ایک چوہڑے کے قاتل کوبھی وہی سزا ملے گی جو ایک خادم ملک کے قاتل کو ملے گی مگر ہمارے قلب کا فیصلہ صرف جُرم کے لحاظ سے نہیں ہوگا بلکہ ان اثرات کے لحاظ سے ہوگا جو ان قتلوں کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں پس جہاں تک قضاء کا تعلق ہے وہاں دونوںکو یکساں سزا ملے گی مگر جہاں جذبات اور احساسات کا سوال آجائے گا وہاں ان دونوں قتلوں کے تاثرات میں زمین وآسمان کا فرق ہوگا۔
پھر یہ بھی دیکھا جائے گا کہ جس پر حملہ ہؤا ہے وہ حملہ ہونے کے وقت جواب دینے کے قابل تھا یا نہیں۔آیا اس پر ایسی حالت میں تو حملہ نہیں ہؤا جب کہ وہ سو رہا تھا یا اسے رسیوں سے باندھ کر آگ میںتو نہیں جلایا گیا۔اور اگر ہمیں معلوم ہؤا کہ اس پر سوتے ہوئے حملہ کیا گیا ہے یا رسیوں سے باندھ کر آگ میں جلایا گیا ہے اور اس طرح بے بسی کی حالت میں اسے قتل کیا گیا ہے تو اس قسم کے جرائم زیادہ خطرناک سمجھے جائیں گے۔ پھر یہ بھی دیکھا جائے گا کہ آگے سے اس نے یا اس کے ساتھیوں نے کوئی جواب دیا ہے یا نہیں۔غرض جذبات کی دنیامیں معاملہ زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے اور اب صرف فعل نہیں بلکہ فعل کے محرکات، فاعل کا ماحول،اس کی مجبوریاں ،اس کا نقطہ نگاہ، اس کی تعلیم،اس کے پسماندگان کی حالت،اس کے دوسرے افعال جس کے خلاف حملہ ہؤا ہے،اس کے حالات، اس کے پسماندگان کے حالات ۔اگر وہ ہلاک ہؤا ہے تو دنیا کو جو اس کی ہلاکت سے نقصان پہنچتا ہے،اس کا اندازہ، حملہ ہونے کے وقت وہ جواب کے قابل تھا یا نہیں،آگے سے اس نے یا اس کے ساتھیوں نے کوئی جواب دیا یا نہیں۔بیسیوں باتیں ہیں جو سامنے آ جاتی ہیں اور ان بیسیوں باتوں کو جو مشترک نتیجہ ہوگا وہ ہمارے دل کارد عمل ہوگا۔اسی وجہ سے بعض دفعہ ایک برے فعل کو ہم برا سمجھتے ہیں مگر دل میں اس فعل کا ارتکاب کرنے والے سے ہمدردی بھی پیدا ہوتی ہے۔اور بعض دفعہ ظاہری نگاہ سے اچھا نظر آنے والے ایک فعل کو ہم اچھا کہتے ہیں مگر دل میں اس فعل کا ارتکاب کرنے والے کے متعلق نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔پھر ان میں درجوں کا فرق ہوگا۔کسی وقت ہماری ہمدردی بہت زیادہ ہوگی اور کسی وقت کم ، کسی وقت زیادہ نفرت ہو گی اور کسی وقت تھوڑی۔ غرض جس وقت جذبات فیصلہ کرنے لگتے ہیں اور وہ چھلکے کو چھوڑ کر مغز کی طرف آتے ہیں،اس وقت اصل واقعہ ایک وسیع کُل کا چھوٹا سا جزوہو کر رہ جاتا ہے اور قلبی تأثرات سارے کُل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔خالی واقعہ کے ایک جُزو کا نتیجہ نہیں ہوتے۔جب ہم قضاء کی کرسی پر بیٹھیں گے تو قتل کا واقعہ ایک عمارت کی شکل میں ہمارے سامنے ہوگامگر جب ہم جذبات کی کرسی پر بیٹھیں گے تو وہی عمارت ایک کھڑکی یا کنڈا بن کر رہ جائے گی۔اور یہ تاثرات جو دل میں پیدا ہوتے ہیں اگر واقعات کے طبعی نتائج ہوں یعنی انصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے تمام باتوں کو سوچا ہو اور ان کے ماتحت ہمارے دل میں ایک تاثر پیدا ہؤا ہو تو ایسے تاثرات کبھی قابلِ اعتراض نہیں کہلا سکتے بشرطیکہ ان تاثرات کو قضاء میں دخل انداز نہ ہونے دیا جائے۔چنانچہ ایسے واقعات عدالتوں میں بھی کثرت سے ہوتے ہیں کچھ مدت کی بات ہے لاہور کے ایک انگریز جج نے ایک شخص کو سزا دی مگر فیصلہ میں لکھا کہ میں اسے قانونی سزا دیتا ہوں ورنہ میرے نزدیک یہ جُرم اس نوعیت کا نہیں کہ اسے سزا دی جائے مگر چونکہ قانون کہتا ہے کہ سزا دو اس لئے میں اسے اتنے روپے جرمانہ کی سزا دیتا ہوں۔جرمانہ کے بعد اس نے نوکر کو بلایا اور کہامیرا کوٹ جو فلاں کھونٹی پر لٹک رہا ہے وہ لے آؤ۔چنانچہ وہ کوٹ لایا اور اس جج نے جیب میں سے اتنا روپیہ نکال کر جتنا اس نے جُرمانہ کیا تھاملزم کی طرف سے خزانے میں داخل کرا دیا۔اب دیکھو ایک ہی وقت اس نے دونوں امور کو ملحوظ رکھا۔اس نے جرمانہ کیا قضاء کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے اور اس نے خود جُرمانہ ادا کیا اپنے جذبات کو تسلی دینے کے لئے ۔
وکٹر ہیوگو فرانس کا ایک مشہور مصنف گزرا ہے بلکہ موجودہ دورِتصنیف کا وہ بادشاہ سمجھا جاتاہے۔اس نے بہت سے تاریخی ناول لکھے ہیں جن میں واقعات تمام تاریخی ہوتے ہیں صرف ان کے بیان کرتے وقت وہ رنگ آمیزی کر لیتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے قلم میں بڑی تاثیر پیدا کی ہے چنانچہ اسے وفات پائے گو عرصہ گزر گیاہے مگر آج تک اس کی تحریریں علمی مذاق رکھنے والوں میں بڑی مقبول ہیں۔فلسفے کے بڑے بڑے نکتے ہیں جن کا اس نے اپنی کتابوں میں حکایات میں ذکر کیا ہے۔ان میں اس مضمون کے متعلق بھی ایک تاریخی قصہ آتا ہے۔فرانس میں اٹھارھویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے شروع میں بڑی بغاوتیں ہوئی تھیں اور بڑے قتل اور خونریزیاں ہوئی تھیں۔ایک موقع پر جو پرانا شاہی خاندان تھا اسے جب لوگوں نے فرانس سے نکال دیا تو اس خاندان کے کچھ افراد انگلستان چلے گئے اور کچھ بیلجیم میں مقیم ہو گئے اور وہاں بیٹھ کر انہوں نے سازشیں شروع کردیں۔اس موقع پر قصہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک نواب کے خورد سال بھتیجے کو جو اسی نواب کا وارث تھا،ایک استاد رکھ کر تعلیم دلائی گئی۔استاد دل میں جمہوریت کا قائل تھا۔اس نے اسے جس قدر تعلیم دی وہ جمہوریت کے اصول پر دی۔ملک کے حقوق اس کے ذہن نشین کئے اور اس عمدگی سے وہ اصول اس کے ذہن میں داخل کئے کہ وہ ان کااچھا خاصہ مبلغ ہو گیا۔چنانچہ جہاں بیٹھتا انہی اصول کی لوگوں کو تلقین کرتا۔جب بغاوت ہوئی تو قدرتی طور پر وہ عوام الناس کے ساتھ مل گیا اور اپنے بھائی بندوں کو اس نے چھوڑ دیا۔ایک موقع پر ایسا اتفاق ہؤاکہ اس کا وہ چچا جس نے اسے پالا تھا لڑائی میں اس کے مقابل میں آگیااور آخر شکست کھا کر وہ گرفتار کر لیا گیا۔ جب اس کا چچا پکڑا گیا تو چونکہ اس نے بچپن سے اسے پالا تھا،اس لئے بھتیجے کے دل میںمحبت کے جذبات نے جوش مارا اور اس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ ملک کی خیرخواہی کا جو فرض مجھ پرعائد ہوتاتھا وہ تو میں ادا کر چکا ہوںاور اب میں اپنا ذاتی فرض بھی ادا کر دوں۔قید خانہ میں جا کر اپنے چچا کو چھوڑ دیا۔اس پر تمام ملک میں شور پڑ گیا اور فرانس کی پارلیمنٹ میں مقدمہ پیش ہؤا۔انہوں نے ایک کمیشن تجویز کیااور اسی استاد کو جس نے اسے تعلیم دی تھی اس مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لئے جج مقرر کیا۔چونکہ اس نے ملک کے لئے بڑی قربانیاں کی تھیں اس لئے فوج کے بڑے بڑے افسر وفد بن کر اس کے پاس گئے اور کہا کہ اس کی گزشتہ خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے متعلق نرم فیصلہ کیا جائے مگر اس نے ان کی ایک نہ سنی اور فیصلہ کیا کہ اسے گولی سے اڑا دیا جائے اور کہا کہ اس کے فعل کے نتیجہ میں جو کشت وخون ہوگا اس کا کیا علا ج ہے۔چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق اسے ایک جگہ کھڑا کیا گیا اور بندوقوں کی باڑ مار کر اسے مار دینے کا حکم ملا۔طریق یہی ہے کہ جب باڑ مارتے ہیں تو درجن بھر یا کم و بیش تعداد سپاہیوں کی صف باندھ کر مجرم پر حکم ملتے ہی گولیاں چلاتی ہے اور اس سے غرض ایک تو رُعب قائم کرنا ہوتا ہے دوسرے یہ احتیاط ہوتی ہے کہ بیک وقت کئی سپاہی نشانہ لیں گے تو نشانہ خطا نہ ہو گا اور مجرم ضرور مرجائے گا۔جب اس نواب زادہ کو میدان میں کھڑا کیا گیا اور سپاہی بھی مختلف جگہوں پر متعین کر دئیے گئے تو پھر بڑے بڑے افسروں کا ایک وفد اس استاد کے پاس گیااور اس نے کہا ہماری ساری فتح اسی کے طفیل ہے۔اس نے بادشاہی تعلقات کی کبھی پرواہ نہیں کی اور ہمیشہ ہمارا ساتھ دیتا رہا اب اس کے ساتھ رعائت کی جائے اور اسے یہ سزا نہ دی جائے۔مگر اس نے ان کی کوئی بات نہ سُنی اور کہا گولی چلاؤ۔چنانچہ سپاہیوں نے باڑ مار دی اور وہ رئیس مر کر گر پڑا۔ادھر استاد کے منہ سے اس مفہوم کا ایک فقرہ نکلا۔کہ آہ میری امیدوں کی عمارت منہدم ہو گئی اور ایک پستول چلنے کی آواز آئی۔لوگوں نے مڑ کر دیکھا ۔تو اس رئیس کی لا ش کے ساتھ استاد کی لاش بھی تڑپ رہی تھی۔اور وہ بھی اس کے غم میں خود کُشی کر چکا تھا۔
یہ واقعہ گو ایک ناول میں بیان ہؤا ہے لیکن تاریخی مواد سے ماخوذ اس میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانی فیصلہ بعض دفعہ متضاد حالات میں ہوتاہے۔قضاء اَور طرف جاتی ہے اور جذبات اور طرف جاتے ہیں اور اس میں بتایا گیاہے کہ انسانی روح بعض فعلوں سے دوطرح متأثرہوتی ہے۔ایک قضائی طور پر اَور ایک جذباتی طور پر۔چنانچہ اسی بناء پر اس فرانسیسی بغاوت کے لیڈر نے بھی ایک طرف سزا کا حکم دیاکیونکہ قضاء کا یہی فیصلہ تھاکہ جو شخص اپنے مُلک سے ایسی غداری کرے،اُسے ایسی ہی سزا ملنی چاہئے۔دوسری طرف چونکہ اس نے اسے ایک بچے کی طرح پالا تھا اور اُس کے ساتھ اُس کی امیدیں وابستہ تھیںجب اس نے دیکھاکہ وہ ایک خطا کی وجہ سے مارا گیا ہے تو چونکہ ان کے مذہب میں خود کشی ناجائز نہیں اس لئے اس نے بھی خود کشی کر لی۔
غرض تاریخی واقعات اور روز مرہ کے واقعات سے یہ امر پوری طرح ظاہر ہو جاتا ہے۔ کہ انسانی روح بعض افعال سے دو طرح متأثر ہوتی ہے۔ایک قضائی طور پر اور ایک جذباتی طور پر۔بعض دفعہ قضائی فیصلہ بالکل اور ہوتا ہے اور جذباتی فیصلہ بالکل اور ہوتا ہے۔اور کبھی یہ دونوں فیصلے موافق بھی ہوتے ہیں مگر بہر حال دیانت دار انسان وہ ہوتا ہے جو قضائی حصہ کو جذباتی حصہ سے مغلوب نہ ہونے دے ۔بے شک جذباتی حصہ پیدا ہوگا اور ضرور ہوگا مگر انسان کا کام یہ ہے کہ اس سے مغلوب نہ ہو۔ایک جج کے سامنے اگر اس کا بیٹا ملزم کی حیثیت میں پیش ہوگا تو کون کہہ سکتا ہے کہ اس کے دل میں رحم پیدا نہیں ہوگا مگر بطور جج کے اس کا فرض ہے کہ اسے سزا دے ۔مگر کیا جب وہ سزا دے گا اسے غم نہیں ہو گا،ہوگا اور ضرور ہوگا مگر کیا غم بھی کوئی جُرم ہے۔ہر شخص تسلیم کرے گا کہ جب اس نے اپنے قضائی فرض کو ادا کر دیا تو اب اس کا اظہارِ غم کوئی ناجائز امر نہیں پس جب ایک جج قضائی طور پر اپنا فرض ادا کر لیتا ہے اور ناجائز طور پر دوسرے کے حقوق کو چھیننے کی کوشش نہیں کرتا۔مثلاً یہ نہیں کرتا کہ اسے قیدسے چھڑا لے (مقدمہ لڑنا ناجائز نہیں کیونکہ جُرم کا اثبات فیصلہ کے بعد ہوتا ہے پہلے نہیں)تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کرے۔بشرطیکہ وہ جذبات جا دۂ اعتدال اور صداقت پر ہوں ۔صداقت پر اس طرح کہ جن جذبات سے وہ نتیجہ نکالتا ہے وہ صحیح ہوں اور جادۂ اعتدال پراس طرح کہ جذبات حد سے آگے نہ نکل جائیں اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اُس کا یہ فعل انسانیت کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہوگا۔اگر ایک باپ قاضی ہے اور اس کا بیٹا مجرم کی حیثیت میں اُس کے سامنے پیش ہے اور وہ اسے قانون کے مقتضٰی کو پورا کرنے کے لئے سزا دیتا ہے مگر اُس کا دل زخمی ہے تو جب اُس نے قانون کو پورا کر دیا تو اُس کا رنج اس کی نیکی کے منافی نہیں بلکہ عین مطابق ہے کیونکہ اُس نے ثابت کر دیا کہ وہ جج بھی ہے اور انسان بھی۔اور اگر کوئی شخص جذباتی حصہ کو ظاہر کرنا بھی نیکی کے منافی سمجھتا ہے تو وہ احمق اور بے وقوف ہے اور اس بات کو ثابت کرنے والا ہے کہ وہ اپنے دماغ کو پڑھنے کے قابل نہیں۔اگر دُنیا کے سارے مجسٹریٹ بھی مل کر یہ کہیں کہ اگر ان ججوں کے بیٹوں میں سے کسی سے کوئی جُرم سر زد ہو اور فیصلہ کرتے وقت سزا بھی دیتے ہیں اور ان کے دل میں یہ احساس بھی پیدا نہیں ہوتا کہ کاش! ہمارا بیٹا بچ جاتا،کاش وہ اس جُرم کا ارتکاب نہ کرتا۔یایہ خیال پیدا نہیں ہوتاکہ کاش! اسے توبہ کی توفیق مل جائے تا اگر اس کی دنیا نہیں سنورسکی تو آخرت ہی سنور جائے۔یا اگر سزا مل جاتی ہے تو ان کے دلوں میں یہ حسرت پیدا نہیں ہوتی کہ آہ افسوس ہمارا بچہ گناہ سے نہ بچ سکاتو مَیں ان سے یہ کہوں گا کہ تم اپنے دماغٖ کو خود پڑھنے کی اہلیت نہیں رکھتے یا تم انسان نہیں بلکہ انسانیت سے بالا کوئی اَور ہستی ہو۔مگر میں نہیں سمجھ سکتادنیا میں دل اور دماغ رکھنے والے ایسے مجسٹریٹ بھی ہوسکتے ہوں جو قضاء سے اپنے جذبات کو کچل دیںاور ان کے دلوں میں کوئی رحم پیدا نہ ہو، میں اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔یہ ایک قانون ہے جس سے باہر کوئی نہیں جا سکتا۔ہزار ہا مثالیںروزانہ اس کی ملتی ہیں ۔صحابہؓ کا ہی واقعہ ہے۔مقداد ؓ ایک بہت بڑے صحابی تھے وہ ایک دفعہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص پا س سے گزرا اور کہنے لگا۔میں قربان جاؤں ان آنکھوں کے جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔میںقربان جاؤں ان ہاتھوں کے جنہوں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی۔کاش! ہم بھی اُس زمانہ کو دیکھتے ۔مقدادؓ یہ سن کر غصہ میں آگئے اور ان کا چہرہ کا رنگ سرخ ہو گیا۔راوی کہتے ہیں ۔ہم نے دل میں کہا آپ کا یہ غصہ اِس وقت کیسا ناواجب ہے مگر اتنے میں مقدادؓ بولے ۔تم کیا بات کرتے ہو۔تمہارے جیسے ہی انسان تھے جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ردّ کیا۔انہوں نے آپ کی باتیں سنیں مگر کہا تُو جھوٹا ہے،مکار ہے۔پس تم میںسے کون کہہ سکتا ہے کہ اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ہوتا تو ضرور آ پ پر ایمان لاتا اور ابو جہل یا ابو لہب کے چیلوں میں شامل نہ ہوتا۔پس تم کیوں کہتے ہو کہ کاش ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہوتے ۔تمہیں کیا معلوم ہے کہ اگر اُس وقت تم پیدا ہوتے تو تمہارا کیا حال ہوتا۔تم شکر کروکہ خدا تعالیٰ نے تمہیں ایسے وقت میں پیدا کیا ہے جب تمہارے ماں باپ ایماندار تھے اور اس طرح تمہیں اس امتحان میں سے گزرنا نہیںپڑا جس امتحان میں سے تمہارے ماں باپ کو گزرنا پڑا۔پھر وہ کہنے لگے کہ تم ہمارے زمانہ کا کیا پوچھتے ہو۔ ہمارے دل بھی تھے،ہمارے بھی پیارے سے پیارے وجود تھے۔ہمارے بھی دنیا میں وہ لوگ تھے جو ہمارے حبیب اور محبوب تھے مگر جب خدا نے ہمیں ایمان دے دیا اور وہ دولتِ ایمان سے محروم رہے اور جنگیں ہوئیں تو ہم ان سے لڑائی کرتے تھے مگر بخدا جب ہم تلوار چلاتے تو ہمارے دل یہ تصور کر کے خون ہوجاتے کہ قیامت کے دن ہمارے یہ حبیب دوزخ کی طرف لے جائے جارہے ہوں گے اور ہم جنت کی طرف جا رہے ہوں گے۔ یہ وہ نمونہ ہے جو صحابہؓ نے دکھایا اور یہی وہ نمونہ ہے جو قضاء کے وقت ایک شریف اور ہمدرد انسان دکھا سکتا ہے انہوں نے ایک طرف تلوارلے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو کاٹ ڈالا مگر دوسری طرف ان کی حالت یہ تھی کہ ان کے دل کڑھ رہے اور رو رہے تھے کہ ہمارا یہ پیارا جہنم کی طرف جا رہا ہے اور ہم جنت کی طرف ۔تو جذباتی قضاء کا معاملہ نہایت پیچدار ہوتا ہے جس کوصرف عالم اور فہیم آدمی ہی سمجھ سکتے ہیں۔صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سوچنے والا دماغ اور فکر کرنے والی روح عطا فرمائی ہے۔عام لوگ نہ ان باتوں کو سمجھتے ہیں اور نہ وہ ان کو سمجھنے کے اہل ہوتے ہیں۔غرض دیانت دار انسان وہ ہوتا ہے جو قضائی حصے کو جذباتی حصہ سے مغلوب نہ ہونے دے لیکن جب وہ یہ مطالبہ پورا کردے تو اور اس پر کوئی بوجھ نہیں بشرطیکہ اس کے جذبات جادۂ اعتدال اور صداقت پر ہوں۔ اگر وہ جذبات صداقت پر مبنی ہوںاور اگر وہ جادۂ اعتدال پر قائم ہوں تو نہ صرف یہ کہ وہ خلافِ انسانیت نہیں بلکہ وہ عین انسانیت ہیں۔یہ تین اصل ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے تب وہ جواب سمجھ آئے گا جو ان سوالات کا میں دینا چاہتا ہوں۔مگر چونکہ آج بہت دیر ہو گئی ہے اس لئے اسی پر اپنا خطبہ ختم کرتا ہوں دوسرا حصّہ جو جواب پر مشتمل ہے وہ انشا ء اللہ تعالیٰ اگلے خطبہ میں بیان کروں گا۔ ‘‘
(الفضل ۳۰؍جون۱۹۳۸ئ)
۱؎ الدخان: ۵۰
۲؎ بخاری کتاب الادب باب مَا یُنْھٰی عَنِ التَّحاسُدِ (الخ)
۳؎
(النور: ۷)

۲۰
میاں عزیز احمد صاحب مرحوم سے متعلق
اپنوں کے خیالات اورمعاندین کے اعتراضات
(فرمودہ یکم جولائی ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے پچھلے جمعہ میںپشاور سے آئے ہوئے دو اعتراض بیان کئے تھے اور اسی طرح دو اعتراض بیان کئے تھے جو مجھے احرار کے خطبات یا ان کی گفتگوؤں سے اخذ کر کے دوستوں نے پہنچائے تھے۔ان کے جوابوں کے سمجھانے سے پہلے میں نے چند اصول بیان کئے تھے کہ ان اصول کا سمجھ لینا ان جوابوں کے سمجھنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔گزشتہ جمعہ میں وقت کی کمی کی وجہ سے میں نے صرف اصول بیان کرنے پر اکتفا کی تھی اصلی اور تفصیلی جواب بعد کے لئے چھوڑ دئیے تھے۔ آج میں ان اعتراضات کو ان کے تفصیلی جواب کے لئے لیتا ہوں۔
پہلا اعتراض یہ ہے کہ قادیان کے لوگ بے غیرت ہیں۔ جب ان کے ماں باپ کو کوئی گالی دے تو جوش میں آجاتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے خاندان کو اگر گالیاں دی جائیں تو صبر کی تلقین کرتے ہیں ۔اور یہ کہ ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ قادیان میں اسّی فیصدی لوگ ایسے ہیں حالانکہ گالی دینے والے کا علاج سوائے سختی کے کچھ نہیں۔
اس سوال کے دوحصے ہیں۔ پہلا حصہ یہ ہے کہ قادیان کے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے اہل کے متعلق گالیاں برداشت کر لیتے ہیںیہ بے غیرتی ہے اور جواب کے لئے پہلے میں اسی حصہ کو لیتا ہوں ۔
بے غیرتی اور اس کے مقابل کا لفظ غیرت جو ہے اس کا مأخذ عربی زبان ہے ۔ بے غیرتی کی ترکیب ہم نے فارسی طرز پر بنا لی ہے ۔مگر دراصل یہ عربی لفظ ہی ہے اور اس کے معنے وہی ہیں۔یعنی عدمِ غیرت یا فقدانِ غیرت۔یا قلتِ غیرت۔غیرت کا نہ پایا جانا یا جاتے رہنا یا کم ہونا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ غیرت عربی زبان کا لفظ ہے اورہماری زبان میں اس کا غلط استعمال ہونے لگا ہے۔عربی میں اس کے وہ معنی نہیں جن معنوں میں ہم اسے استعمال کرتے ہیں۔
عربی میں غیرت کے معنی یہ ہیںکہ کسی اپنی چیز کا جائز یا ناجائز طورپر دوسرے کے قبضہ یا استعمال میںآنا اور اس استعمال کی برداشت نہ کر سکنا،لیکن ہم لوگ جب بے غیرتی کا لفظ استعمال کرتے ہیںتو بعض ناجائز افعال کے لئے کرتے ہیں۔بے شک ان معنوں کی رو سے بھی کرتے ہیں جو عربی میں ہیں لیکن زیادہ تر یہی معنی لئے جاتے ہیں کہ کوئی ناجائز فعل ہو رہا ہواور اس پر اظہارِ نفرت یا غضب نہ کیا جائے اور جب ایسے فعل پر اظہارِ نفرت یا غضب کیا جائے تو اسے غیرت کہتے ہیں۔بعض دفعہ لفظوں کے غلط استعمال سے بھی حقیقت پوشیدہ ہو جاتی ہے۔ہم ایک غلط لفظ بولتے ہیں اور ہماری مراد اور مطلوب نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے لیکن اگر صحیح لفظ بولیں تو اصل مقصد سامنے رہتا ہے اور ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنے مقصد اور مطلب کو صحیح طور پر ادا کر رہے ہیںیا غلط۔ اور اسی لئے میں چاہتا ہوںکہ لفظ غیرت کی وضاحت کردوںاور بتا دوں کہ عربی میں غیرت سے کیا مراد ہوتی ہے اور جن معنوں میں ہم اس کا استعمال کرتے ہیں ،ان کے لئے صحیح لفظ کیا ہے۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوںعربی میں غیرت کے معنی یہ ہیں کہ اپنی کوئی محبوب چیز جائز یا ناجائز طور پر کسی دوسرے کے پاس چلی جائے اور اس کے خلاف دل میں غصہ،نفرت اور بے چینی پیدا ہو۔ عام استعمال اس کا یہ ہے کہ مثلاً کہیں گے مرد کو اپنی بیوی کے لئے غیرت پیدا ہوئی ۔یا بیوی کو اپنے خاوند کے لئے غیرت پیدا ہوئی۔اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مرد کو اپنی بیوی کے لئے غیرت پیدا ہوئی تو بیوی کے لفظ سے مراد اس کی موجودہ بیوی اور سابقہ بیوی دونوں ہو سکتی ہیںاور اس طرح یہ غیرت جائز بھی ہو سکتی ہے اور ناجائز بھی۔اگر تو اس کی بیوی ناجائز طور پر کسی غیر مرد کے پاس بیٹھی ہو تو یہ غیرت ایک ناجائز فعل کے لئے ہے لیکن اگر وہ بیوی مطلقہ ہواور اس نے دوسرے سے شادی کر لی ہو اور سابق خاوند کو اس پر طیش آیا ہو تو اس صورت میں یہ غیرت ایک جائز فعل کے خلاف ہوگی ۔اسی طرح کہا جاتا ہے کہ عورت کو خاوند پر غیرت پیدا ہوئی۔یہ بھی بعض دفعہ جائز فعل پر ہوتی ہے اور بعض دفعہ ناجائز پر۔اگر تو بدی کی سی نیت سے کسی غیر عورت کے پاس بیٹھا ہو تو یہ غیرت نا جائز فعل کے لئے ہوگی لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کی دو بیویاں ہیں اور جب وہ اپنی ایک بیوی کے پاس بیٹھا ہو،دوسری پر یہ گراں گزرے یہ بھی غیرت کہلاتی ہے مگر یہ غیرت جائز فعل کے خلاف ہوتی ہے۔قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔
لیکن حدیثوں میں استعمال ہؤ ا ہے۔ چنانچہ ناجائز محبت پر اظہارِ ناپسندیدگی کے معنوں میں اللہ تعالیٰ کے لئے بھی آتاہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے سب سے زیادہ غیرت والا ہے ۔اس امر میں کہ وہ اس کی محبت کو چھوڑ کر کسی اور سے لَو لگا لیں۔۱؎گویا وہ پسند نہیں کرتاکہ اس کے بندے کسی دوسری طرف جائیں۔ چاہے وہ جانا شرک کے رنگ میں ہو یا فسق وفجور کے رنگ میں۔ اور پھر ایک اور جگہ حدیث میں یہ جائز فعل کے لئے بھی استعمال ہؤ ا ہے۔حضرت اُمِّ سلمہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی خواہش کی تو انہوں نے جواب دیا کہ یَارَسُوْ لَ اﷲ! میرے کئی بچے ہیں جن کے پالنے کامجھے خیال ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ میں غیرت والی ہوں۔۲؎ اس کے یہ معنے نہیںکہ نَعُوْذُبِاﷲِرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی ناجائز فعل کا انہیں خیال تھا بلکہ ان کا مطلب یہ تھاکہ آپ ؐ کی اور بھی بیویاں ہیں اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ میرا خاوند کسی اور عورت کے پاس بیٹھے ۔اس حدیث میں یہ لفظ ایسے موقع پر استعمال ہؤ ا ہے کہ ناجائز فعل کا کوئی امکا ن ہوہی نہیں سکتامگر یہ لفظ اردو میںان معنوں سے بہت کم استعمال ہوتاہے۔ زیادہ تر انہیں معنوں میں استعمال ہو تا ہے کہ مثلًا کہتے ہیں تمہارے باپ کو گالیاں دی جا رہی تھیں تمہیں غیرت نہ آئی۔ لیکن عربی میں گالی پر غصہ ہونے کے معنوں میں غیرت کا لفظ استعمال نہیں ہوگابلکہ انہیں معنوں میں استعمال ہو تاہے کہ اپنی چیزکسی دوسرے کے پا س چلی جائے۔جائز ذریعہ سے یا ناجائز سے اور انسان اسے نا پسند کرے ۔پس جن معنوں میں غیرت کا لفظ ہم استعما ل کرتے ہیںکہ بُرے فعل کو دیکھ کر اسے ناپسندکرنا اور فیصلہ کر لینا چاہئے کہ کچھ بھی ہو میں اس کا مقابلہ کروں گا اور یہ برائی نہیں ہو نے دوں گا۔عربی میں اس کے لئے غیرت کا لفظ نہیں بولا جاتا۔ قرآن کریم نے اس کے لئے إِبَائٌ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔گویا جن معنوں میں ہم غیرت کا لفظ بولتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اَبیٰ کا لفظ استعمال کیا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ ۳؎ یعنی کفار ہمارے رسول کو مٹانا چاہتے ہیں مگر وہ کیا سمجھتے ہیں کہ ہم اس بات کو برداشت کر لیں گے ۔ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ ان کی اس بات کو کبھی برداشت نہیں کرے گا ۔اور ان کا یہ خواب کبھی بھی پورا نہیں ہونے دے گا۔خواہ کافر کتنا زور لگائیں ۔تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہاں غیرت کا لفظ استعمال نہیں ہؤا بلکہ إِبَائٌ کا ہؤا ہے ۔جس کے معنی یہ ہیںکہ ہم ہرگز اس بات کو برداشت نہیں کریں گے اور دشمن کی سازشوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔حدیثوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پرانکار یا کراہت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور جن امور پر غیرت آئے انہیں منکرات کہا جاتا ہے ۔قرآن کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہؤا ہے ۔خطبہ جمعہ کے دوسرے حصے میں جو آیت پڑھی جاتی ہے اس میں بھی یہ الفاظ آتے ہیں ۴؎کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام بری باتوں سے روکتا ہے کے معنی ہیں کہ ایسے امور سے خصوصاً جن کے متعلق طبیعت میں غیرت پیدا ہو (یہاں غیرت کا لفظ اردو کے محاورہ کے مطابق استعمال کیا گیا ہے)بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کے متعلق کوئی غیرت پیدا نہیں ہوتی مثلًا ایک شخص جھوٹ بول رہا ہے لیکن اس کے جھوٹ سے کسی کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔تو انسان اسے گناہ تو سمجھے گا لیکن طبیعت میں غیرت پیدا نہیں ہوگی۔مگر ایک شخص بازار میں کھڑا ہو کر گندی گالیاں بک رہا ہے تو جو بھی شریفُ الطبع آدمی سنے گا اس کے دل میں غیرت پیدا ہو گی کیونکہ وہ خیال کرے گاکہ ہمارے گھر نزدیک ہیں،بیوی بچوں تک اس کی آواز پہنچے گی تو ان کے اخلاق پر بُرا اثر پڑے گا۔ پس اسے مُنْکَرکہیں گے گویا وہ الفاظ یا اعمال جن کی نسبت طبیعت میں غیرت پیدا ہوتی ہے ،وہ منکر ہیںاور جن کو ہم صر ف بُر ا سمجھتے ہیں مگر ان سے غیرت کا سوال وابستہ نہیں ہوتا ان کو فحشاء کہتے ہیں ۔اور بغی وہ ہیں جن کو مٹانے کے لئے ہمیں اجاز ت ہے اور ہر صور ت میں ان کا مقابلہ کرنا ہمارے لئے جائز ہے۔
اس کے مقابلہ میں انکار یا کراہت کا لفظ بھی ہے۔ حدیث میں ہے ۔کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا مَنْ رَاٰی مِنْکُمْْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لََّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لََّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذَالِکَ اَضْعَفُ ا لْاِیْمَانِ۵؎ یعنی تم میں سے اعلیٰ درجہ کا مؤمن وہ ہے کہ جب وہ کسی بدی کو دیکھے تو فَلْیْغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ اسے اپنے ہاتھوں سے مٹا دے فَاِنْ لََّمْ یَسْتَطِعْ یعنی اگر وہ ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو فَبِلِسَانِہٖ اسے چاہئے کہ وہ زبان سے مٹا دے یعنی تبلیغ کرے اور لوگوں کو بتائے کہ یہ بری بات ہے، اس کو ترک کرنا چاہئے لیکن اگر وہ ایسا بھی نہ کر سکتا ہو۔کوئی وقت ایسا بھی آسکتا ہے کہ زبان سے بھی مٹا نہ سکتا ہو ۔ ظالم لوگوں کے قبضہ میں ہے یا مثلًا آجکل ہمارے ملک میں پریس ایکٹ ہے ۔بعض باتیں اگر لکھی جائیں تو ضمانت ضبط ہو جاتی ہے۔یا نئی ضمانت طلب کر لی جاتی ہے تو فرمایا، اگر یہ صورت ہو تو دل میں ہی برا سمجھ لیا جائے اور یہ قلیل ترین ایمان ہے جس کے بعد کوئی ایمان نہیں ۔مقدم بات تو یہ ہے کہ ہاتھ سے دور کردے، نہیں تو زبان سے مقابلہ کرے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل میں ہی بُرا منائے اورجو یہ بھی نہیں کر سکتا اس کا ایمان کوئی ایمان نہیں۔قرآن کریم میں یہ تینوں باتیں بیان ہیں ۔مگر چونکہ مختلف جگہوں سے لینی پڑتی تھیں ۔اس لئے میں نے اس حدیث کو لے لیا ہے جس میں یہ سب باتیں ایک ہی جگہ ہیں۔
قرآن کریم میں ایک چوتھا طریق اظہارِ غیرت کا بھی بیان کیا گیا ہے ۔جو زبان سے روکنے اور دل میں بُرا منانے کے درمیان ہے اور وہ یہ کہ جب تمہاری محبوب اور بزرگ ہستیوں کی ہتک کی جارہی ہو تو اس مجلس سے اٹھ جاؤ ۶؎اور یہ طریق دل میں برا منانے اور زبان سے مٹانے کے درمیان ہے ۔بعض دفعہ ایسی صورت ہوسکتی ہے کہ اٹھا نہ جا سکے۔مثلًا قیدی ہے اس وقت پھر یہی حکم ہے کہ دل میں بُر امنا چھوڑے،لیکن اگر وہاں سے اٹھ سکتا ہے تو پھر دل میں بُرامنانا کافی نہیں ہو سکتا۔اس وقت اسے یہی چاہئے کہ اٹھ جائے۔ وہ اگر نہیں اٹھے گا تو دل میںبُرا منانا اس کے لئے کافی نہیں ہوگا۔
پس جیسا کہ میں بتا چکا ہوں جس فعل پر انسان کو غیرت آئے وہ مُنْکَرہے اوراظہارِ غیرت کے لئے اِبائ، انکار،کراہت وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔انہی الفاظ میں قرآن کریم اور حدیث میں غیرت کے مفہوم کا اظہار کیا گیا ہے۔ اِباء کا لفظ غیرت کے لئے اور مواقعۂ غیرت کے لئے منکر کا لفظ قرآن کریم میں استعمال ہو ا ہے اور حدیث میں مُنْکَر انکاریا کراہت کے الفاظ استعمال ہو ئے ہیں اور یہ سب لفظ درحقیقت ہم معنی ہیں اور یہی اصل غرض کو واضح کرتے ہیں کیونکہ ہر درجہ کی غیرت کے وقت جو انسان کی ذمہ داری ہے اسے بھی ظاہر کرتے ہیں۔ مثلًا جب عمل کی طاقت ہو تو اس چیز کا ہٹا دینا ہی إباء و انکار کہلا سکتا ہے اور اگر عمل کی طاقت نہ ہو لیکن منہ سے تردید کرنے کی طاقت ہو تو پھر منہ سے یہ بتانا کہ یہ بات جھوٹ ہے،غلط ہے اور اس کے جھوٹ ہونے کے دلائل یہ یہ ہیں۔یہی مناسب صورت انکار کی ہے ۔تیسری انکار کی صورت یہ ہے کہ اگر ہاتھ یا زبان سے روکنے کی طاقت نہیں مگر انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ اس مجلس میں شریک نہ ہوتو و ہ اس مجلس سے جس میں بری بات ہو رہی ہواٹھ کر چلا جائے لیکن جب ان تینوں صورتوں میں سے کسی صورت سے انکا ر نہ ہو سکے ،پھر چوتھا انکار یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں کہے کہ بہت اچھا ہم نہ ہاتھ سے روک سکتے ہیں ،نہ زبان سے تردید کر سکتے ہیں، نہ اٹھ کر جا سکتے ہیں مگر ہمارا دل تو کسی کے قبضہ میں نہیں ہم اسے دل سے برا مناتے ہیں ۔اور یہ چاروں ذرائع انکا ر کے اس لفظ کے اندر ہی پائے جاتے ہیں ۔انکار علمی بھی ہوتا ہے لسانی بھی ۔انکار اجتنابی بھی اور انکار قلبی بھی۔ قرآن و حدیث میں جو الفاظ استعمال ہو ئے ہیں ان میں یہ خوبی بھی ہے کہ وہ نہ صرف نام ہیں بلکہ حقیقت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔زبان عربی کی یہ خوبی ہے کہ جو نام کسی چیز کا ہو وہ نہ صرف یہ کہ اس چیز کو بتا تا ہے بلکہ اس کے استعمال کے مواقع یا اس کی علّت یااس کے خواص پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔
اس حدیث کے مطابق ہمارے بزگوں نے ایک واقعہ بھی لکھا ہے جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ مومن کی غیرت کس رنگ میں ظاہر ہوتی ہے۔
ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے۔ وہ بازار میں سے گزر رہے تھے انہوں نے دیکھا بادشاہ کا ایک درباری اپنے دوستوں کی محفل میں بیٹھا ہؤ ا سارنگی بجا رہا ہے۔اس بزرگ نے اُسے منع کیا مگر وہ باز نہ آیا اور وہ آگے چلے گئے ۔اگلے روز یہ پھر گزرے تو پھروہیں بیٹھا سارنگی بجا رہا تھا۔انہوںنے اس کے ہاتھ سے سارنگی پکڑ لی اور توڑ پھوڑ کر پھینک دی۔اس بزرگ کا چونکہ اثر لوگوں پر تھا اور لوگ ان کی طرف بہت رغبت رکھتے تھے اس درباری نے ان سے مقابلہ مناسب نہ سمجھا مگر جا کر بادشاہ سے شکایت کی اور اسے کہا کہ اگر آپ کے درباریوں کی یوں ہتک ہونے لگی تو رُعب جاتا رہے گا۔بادشاہ نے اس بزرگ کو دربار میں بلوایا ۔دربار لگا ہؤا تھا، فوجی پہرہ موجود تھا،بادشاہ نے سارنگی اپنے ہاتھ میں لی اور تخت پر بیٹھ کر اُس کی تاروں سے کھیلنے لگا ۔وہ بزرگ بھی خاموش بیٹھے رہے اور کچھ نہ کہا۔ جب بادشاہ نے دیکھاکہ وہ بزرگ خاموش ہیں تو اُس نے پوچھا کہ کل کیا واقعہ ہؤ اتھا۔بزرگ نے دریافت کیا کہ کونسا واقعہ؟ تو بادشاہ نے کہا کہ فلاں شخص سارنگی بجا رہاتھا اور تم نے اُسے لے کر توڑ دیا ۔بزرگ نے کہا کہ ہاںحضور! میں نے توڑ دیا تھا۔بادشاہ نے پوچھا۔ کیوں؟ تو اس بزرگ نے جواب دیا اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر تم کسی بدی کو اُسے دیکھو توہاتھ سے مٹا دو۔ اِس پر بادشاہ نے کہا کہ اب میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ اس بزرگ نے جواب دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اگر ہاتھ سے نہ روک سکو تو زبان سے روک دو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتودل سے ہی بُرا منا لواس وقت مجھے اس تیسرے حکم پر ہی عمل کی طاقت ہے سو میںکر رہا ہوں۔
تو اسلام نے غیرت کے مفہوم کااظہار انکار،استکراہ،کراہت یا إباء کے الفاظ میں کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی مواقع بھی بتا دئیے ہیں۔میںسمجھتا ہوں کہ قرآن و حدیث میں غیرت کے مفہوم کے ادا کرنے کے لئے جو الفاظ رکھے گئے ہیں ان کو سننے کے بعد آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ جس مفہوم کو اردو میں لفظ غیرت ادا کرتا ہے اس کے متعلق یہ شرط ہے کہ وہ فعل جس کے لئے غیرت پیدا ہو برا ہونا چاہئے کیونکہ مومن کا دل اچھی چیز کا انکار نہیں کیا کرتا۔ نیز اس سے ثابت ہے کہ غیرت چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں ظاہر ہونی چاہئے۔اگر جائز ہو اور طاقت ہو تو ہاتھوں سے اس فعل کو مٹا دیا جائے لیکن اگر طاقت نہ ہو یا مقابلہ کی اجازت نہ ہوتو زبان سے ارد گرد کے لوگوں کو صداقت سے آگاہ کر دیا جائے اور اگر ایسا کرنے کی بھی طاقت نہ ہو تو اس مجلس سے اٹھ کر چلے جانا چاہئے جس میں شعائر اللہ کی ہتک ہو رہی ہواور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو کم سے کم نیکی یہ ہے کہ دل میں ہی نفرت کا اظہار کیا جائے۔یہ چار مواقع ہیں جو اسلام نے غیرت دکھانے کے لئے بیان کئے ہیں
اب اس تفصیل کے بعد صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ قادیان کے لوگوں پر اس وجہ سے جوپشاور کے دوست نے بیان کی ہے بے غیرتی کاالزام نہیں لگایا جا سکتا۔یعنی اس وجہ سے کہ انہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا ان کو بے غیرت نہیں کہا جا سکتاکیونکہ میں نے بے غیرتی کی جو تفصیل بیان کی ہے اس میںبتا چکا ہوں کہ اسلامی اصول کے ماتحت جس چیز کو مٹانے کی طاقت ہو یا اس کا مٹانا جائز ہو اسے بیشک مٹا دینا چاہئے لیکن اگر طاقت نہ ہو یا جائز نہ ہو تو اس کے لئے دوسرا حکم ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا قانو ن کو ہاتھ میں لینا جائز ہے اور کیا اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ قانون کو اگر اپنی مرضی کے خلاف پاؤ تواسے توڑ دو۔اگر تو یہی تعلیم ہے تو بے شک قادیان کے لوگوں پر بے غیرتی کا الزام لگایا جا سکتا ہے لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ قانون کو ہاتھ میں نہ لو۔تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کو بے غیرتی کہنا درست نہیںاور جس نے اس تعلیم کو درست سمجھتے ہوئے اس پر عمل کیا ۔اسے بے غیرت قرار دینا بڑا ظلم ہے۔میں مانتا ہوں کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو سمجھتے ہیں کہ ایسے موقع پر قانون کو توڑ دینا جائز ہے۔ ایسے لوگ شریعت اور احمدیت کی رو سے غلط عقیدہ رکھنے والے ہیںلیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے عقیدہ کی رو سے بے غیرت ہیں۔غرض چونکہ شریعت نے حکم دیا ہے کہ قانون کو ہاتھ میں مت لو اور ہاتھ مت اٹھاؤ۔جو اس پر عمل کرتا ہے وہ بے غیرت نہیں کہلا سکتالیکن جو ہاتھ اٹھانے کو جائز سمجھتا ہے اور نہیں اٹھاتا ،وہ اپنے عقیدہ کی رو سے بے شک بے غیرت ہے لیکن شریعت کی رو سے پھر بھی بے غیرت نہیں ۔کیونکہ شریعت نے اس موقع پر ہاتھ سے مقابلہ کرنے کا حکم ہی نہیں دیا۔ اگر شریعت پر عمل کرنے کا نام بے غیرتی رکھا جائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول نے بے غیرتی سکھائی ہے۔ پس اگر قانون کی پابندی کی وجہ سے قادیان کے احمدیوں کو بے غیرت کہا جائے تو یہ صرف قادیان کے احمدیوں پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول پر بھی الزام ہوگا کیونکہ بے غیرتی کی تعلیم دینے والا بھی بے غیرت ہی ہوتا ہے۔
پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اگرکسی کا عقیدہ یہ ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینا چاہئے وہ چاہے قادیان میں ہو یا پشاور میں اگر ہاتھ نہیں اٹھاتا تو وہ اپنے عقیدہ کی روسے بے غیرت ہے کیونکہ غیرت کا حکم صرف قادیان والوں کے لئے ہی تو نہیں، یہ تو سب کے لئے ہے۔خواہ کوئی پشاور کا ہو یا راولپنڈی کا،لاہور کا ہو یا کراچی کا،کلکتہ کا ہو یا بمبئی کا،خواہ کوئی انگلینڈ کا ہو یا امریکہ کا،چین کا ہو یا جاپان کا،سماٹرا کا ہو یا جاواکا۔پس جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ شریعت کا یہی حکم ہے کہ ایسے موقع پر قانون کو ہاتھ میں لواور بدی کرنے والے کو مٹا دو تو جس نے بدی کو نہیں مٹایا وہ بے غیرت ہے خواہ وہ کہیں رہتا ہولیکن اگر شریعت یہ کہتی ہے کہ مت مٹاؤاور قانون کو ہاتھ میں مت لو۔جیسا کہ میرا عقیدہ ہے اور جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے اور جیساکہ قرآن کریم اوراحادیث اور کلام مسیح موعود ؑ سے ثابت ہے تو جس نے اس پر عمل کیا وہ با غیرت ہے ۔کیونکہ اصل غیرت یہی ہے کہ انسان خدا تعالی اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرے۔خواہ اپنے نفس کے جوشوں کو کتنا ہی مارنا کیوں نہ پڑے۔
میں نہیں سمجھ سکتاپشاور کے اس دوست کو یہ کیونکر معلوم ہو گیا کہ قادیان میں ایسے دوستوں کی تعداد اسّی فیصدی ہے کہ جن کا خیال ہے کہ بدی کو ہاتھ سے مٹانا چاہئے اور جہاں تک میرا علم ہے اور میرا اس کے متعلق سب سے زیادہ علم ہے ایسے لوگ دس فیصدی بھی نہیں ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کو جانتے ہیں اور اُن کو بھی جانتے ہیں جو بظاہر ہم سے ملے ہوئے ہیں مگر اصل میں ہمارے دشمنوں سے ان کو ہمدردی ہے ۔جن دنوں ہائی کورٹ کے فیصلہ میںبعض ایسے ریمارک ہوئے جن کی بناء پر ان کا غلط مفہوم لے کر مخالفو ں کو اعترا ض کا موقع مل گیاتو ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میں فلاں شخص کے ساتھ مل کر امتحان کی تیاری کیاکر تا تھا۔وہ کہنے لگا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کو (نَعُوْذُ بِاﷲِ)ضرور سزا ہونی چاہئے۔ اس میں کیا شک ہے کہ وہ لوگوں کو جوش تو دلاتے رہتے ہیں ۔وہ شخص انجمن کا ملازم ہے،قادیان میں رہتا ہے اور بظاہر ہمارے ساتھ ہے مگر دل اس کا آتشِ کینہ سے پگھل رہا تھا اور چاہتا تھا کہ کسی طرح ان کو سزا ہو تو میرا دل ٹھنڈاہو۔یہ علیحدہ بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کی خواہش کو پورا نہ ہونے دیا ۔
پس ایسے لوگ بھی جماعت میں ہیں جن کوہماری ہر کامیابی تیر کی طرح لگتی ہے لیکن جب کوئی ابتلاء کا موقع آتا ہے تو وہ آنکھیں کھول کھول کر دیکھتے ہیں کہ کہیں سے روشنی نظر آتی ہے یانہیں،یعنی جماعت تباہ ہوتی ہے کہ نہیں،مگر یہ کہنا کہ ایسے لوگ اسّی فیصدی ہیں بالکل غلط ہے۔ میرے علم میں ایسے لوگ دو درجن سے زیادہ نہیں ہوں گے جو مخرجین سے چھُپ چھُپ کر ملتے ہیںاور گلیوں میں ان کو سلام کہتے ہیں بلکہ اپنا راستہ چھوڑ کر ان سے ملنے کے لئے دوسری گلیوں میں پہنچتے ہیں ۔ہمیں ان کا بھی علم ہے جو انہیں بٹالہ،امرتسر یا لاہور میں ملتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں۔ہم ان کو بھی جانتے ہیں جو ان کو غیرت دلاتے اور کہتے ہیںکہ تم نے تو کچھ بھی نہیں کیا ۔ہمیں تو تم لوگوں سے بہت امیدیں تھیںگو مجھے اس بے شرمی کی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ وہ کس منہ سے ان کو یہ کہتے ہیں کہ تم نے کچھ نہ کیا ۔جن لوگوں سے یہ ایسی باتیں کرتے ہیں وہ بھی کہتے ہوں گے کہ یہ شخص کیسا بے حیا ہے ۔خود تو ان کے ساتھ بیٹھ کر روٹیا ںتوڑ رہا ہے اور ہمیں کہتا ہے کہ کچھ بھی نہیںکیا۔گویا خود بڑا تیس مار خان ہے۔یاد رکھو کہ ہمارے حکم کے خلاف ان سے ملناہمارے ساتھ غداری ہے ۔بظاہر ہمارے ساتھ مگر دل سے ان کے ساتھ رہنا خدا تعالیٰ سے غداری ہے اوران لوگوں سے جو کم سے کم منہ سے تو ہمارا مقابلہ کرتے ہیں کہنا کہ تم نے تو کچھ بھی نہیں کیا ،ان لوگوں کے ساتھ بھی غداری ہے ۔گویا ایسے لوگ انسانوں کے بھی، خدا تعالیٰ کے بھی اور احمدیت کی مخالف طاقتوں کے بھی غدا ر ہیں۔یہ تینوں طرف سے *** کا مارا ہؤا جسے جنت تو الگ دوزخ بھی حقارت سے دیکھتی ہے، ہمارے مخالفوں سے مل کر کہتا ہے ۔کہ تم نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔گویا یہ خود ابھی رستم کو شکست د ے کر آیا ہے۔
یہاں میں ایک اور غلطی کا ازالہ بھی ضروری سمجھتا ہوں ۔بعض لوگوں نے میری طرف یہ بات منسوب کی ہے کہ میں نے کہا ہے کہ قادیان میں پانسو منافق ہیں حقیقت یہ ہے کہ میں نے کبھی ایسا نہیں کہا۔ جہاں تک میرا علم ہے میری طرف یہ بات منسوب کرنا جھوٹ ہے۔ یا پھر ممکن ہے کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو۔بعض اوقات ایسا فقرہ بولا جاتا ہے کہ اگر پانسو منافقین بھی قادیان میں ہوں تو کیا ڈر ہے اور ممکن ہے کسی کو کسی ایسے فقرہ سے غلط فہمی ہوگئی ہو۔پس اگر یہ غلط فہمی نہیں تو مجھ پر افتراء اور بُہتان ہے۔میرے علم میں ایسے لوگوں کی تعداد دو دَرجن سے زیادہ نہیںبلکہ اس سے کم ہی ہوگی۔
دوسرا حصہ اس سوال کایہ ہے کہ قادیان میں اسّی فیصدی احمدی ایسے ہیں کہ جو اپنے ماں باپ کے متعلق گالی نہ سن سکیں گے اور گالی دینے والے سے جھَٹ لڑ پڑیں گے پھر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے متعلق گالیاں سن کر خاموش کیوں رہتے ہیں ۔اس کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے علم سے یہ بات باہر ہے کہ اسّی فیصدی لوگ ایسے ہیں میں یہ جانتا ہوں کہ ایسے احمدی بے شک ہیں ۔جو منہ سے تو صبر صبر کی تلقین کرتے رہتے ہیں مگر جب ان کو یا ان کے ماں باپ کو یا ان کی بیوی یا ان کی بیٹی کو کوئی بات کہی جائے تو ان کو طیش آجاتا ہے۔ایسی روایتیں تو میرے علم میں سات آٹھ ہی ہیں مگر عام انسانی کمزوری اور پھر انسانی نفس کے جوش کو مد نظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ ایسے لوگ اور بھی ہونگے لیکن اس دوست کا پشاور میںبیٹھے ہوئے اسّی فیصدی پر الزام لگانا درست نہیں۔میں اس امر کی تو تصدیق کرتا ہوں کہ ایسے لوگ ہیں اور جتنے میرے علم میں ہیں ان سے بھی زیادہ ہونگے لیکن اس بات کو ماننے کے لئے میرا نفس تیار نہیںکہ اسّی فیصدی ایسے ہیں۔لیکن اگر زیادہ بھی ہوں تو چونکہ ہمیں علم نہیں اور قرآن کریم کا حکم ہے ۔۷؎یعنی جس بات کا علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔ ہمیں کوئی حق نہیں کہ ایسی بات کہیں۔
میں اس با ت سے بھی متفق نہیں ہوںکہ جو لوگ ایسے ہوں ان کے متعلق بھی یہ کہا جا سکتا ہو کہ وہ لوگ بے غیرت ہیں۔ ہم صرف اس قدر کہنے کے حقدار ہوں گے کہ ان میں ایک گناہ پایا جاتاہے لیکن اس کا یہ مفہوم نہیںکہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت نہیں۔اس حقیقت کے ہوتے ہوئے بھی کہ اگر ان کے ماں باپ کو گالی دی جائے توان کو غصہ آتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالی دی جائے تو نہیں آتا۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ماں باپ کو گالی ملنے پر غصہ کا آنامحبت کا مقام ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالی ملنے پر غصہ نہ آنا عدم محبت کا مقام ہے کیونکہ اگر کوئی شخص دوموقعوں میں سے ایک موقع پر کمزوری دکھاتا ہے تو ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم اس کمزوری والے موقع کو توا س کی اصل حالت سمجھیں اور دوسری کو بناوٹ کہیںکیونکہ ہو سکتا ہے کہ بات اس کے الٹ ہو ۔کوئی شخص کبھی جھوٹ بولتا ہے اور کبھی سچ۔تو ہمارا یہ حق نہیں کہ اس کے جھوٹ کواس کی اصلی حالت قرار دیں ۔اور سچ کو بناوٹ کہیں کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس کی اصلی حالت سچ بولنے کی ہی ہواور جھوٹ وہ کبھی گھبراہٹ میں بول دیتا ہواور جب یہ دونوں صورتیںممکن ہیں تو ہمارا حق کیا ہے کہ اس کی گناہ والی حالت کو اصل قرار دیں۔زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ پتہ نہیںاس کی اصل حالت کیا ہے۔ مزید دلائل ملیںتو پتہ لگے لیکن یہ حق ہمارا نہیں کہ اس کی کمزوری والی حالت کو درست سمجھیں اور اس سے مطالبہ کریں کہ فلا ں موقع پر جو کمزوری تم نے دکھائی تھی ۔وہی اب دکھاؤ۔
ایک موقع پر ایک شخص چوری کرتا ہے اور دوسرے موقع پر نہیں کرتا تو کیا ہمارا حق یہ ہے کہ اسے کہیں دوسرے موقع پر بھی چوری کرو۔یا یہ حق ہے کہ ہم اسے یہ کہیں کسی موقع پر بھی چوری نہ کرو۔ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر ایک شخص دو فعل کرتا ہے جن میں سے ایک شریعت کے خلاف ہے اور دوسرا مطابق ۔تو ہم پر یہی واجب ہے کہ ہم اس سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ ہر موقع پر ہی شریعت کے مطابق کام کیا کرے۔سو ہماری نصیحت ایسے لوگوں کے لئے یہ ہوگی کہ اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے متعلق گالیاں سن کر بھی صبر کرو جس طرح تم ان سے زیادہ محبوب حضرت مسیح موعود الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں سن کر کرتے ہو۔اور ہم ان سے یہ نہیں کہیں گے کہ جس طرح ماں باپ کو گالی سن کر تمہیں غصہ آجاتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سُن کر بھی اسی طرح کیا کرو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق گالی سن کر اس کا صبر کرنا نیکی ہے اور ماں باپ کے متعلق گالی سن کر لڑپڑنا گناہ ہے اور ہمارا اس سے یہ مطالبہ کسی طرح جائز نہیں کہ دونوں موقعوں پر گناہ کروبلکہ ہم یہی کہیں گے کہ دوسرے موقع پر صبر کرو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ماں باپ کے لئے تم کو غصہ آیا تھا۔تو حضر ت مسیح موعود علیہ والسلام کے لئے کیوں نہیں آتابلکہ اس کی غیرت کو اس طرح بھڑکا ئیں گے کہ جس طرح حضر ت مسیح موعود علیہ والسلام کے متعلق گا لی سن کر تم نے صبرکیا تھا اپنے ماں باپ کے متعلق گالی سن کر بھی ویسا ہی صبر کرو۔لیکن جو ہماری اس نصیحت کو نہ مانیں انہیں بھی ہم بے غیرت نہیں کہیں گے۔کیونکہ گو ممکن ہے حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق گالی سن کر بعض لوگ بے غیرتی کی وجہ سے ہی چُپ رہتے ہوں۔
مگربعض کے لئے اور وجوہ بھی ہو سکتی ہیںاور ہمیں ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔جب نیک اور بد دونوں وجوہ ہو سکتی ہیں تو ہم کیوں نہ نیک وجہ لیں۔یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں بہت سے کام عادتوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ایک شخص کے سامنے دونوں مواقع آتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی گالی دی جاتی ہے اور اس کے باپ کو بھی۔وہ حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق گالی سنتا اور صبر کرتاہے لیکن جب اس کے باپ کوگالی دی جاتی ہے تو وہ لڑپڑتا ہے اور صبر نہیں کرتا۔اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ یہی تعلیم دیتے رہے ہیں کہ گالیوں کو سن کر صبر کرواور چُپ رہو۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ایک شخص کے سامنے آپ کو گالی دی جاتی ہے تو اسے فورًا آپ کی یہ تعلیم یاد آجاتی ہے اور وہ خاموش ہو جاتا ہے لیکن اس کے باپ نے کبھی اسے ایسی نصیحت نہیں کی اس لئے جب باپ کو گالی ملتی ہے تو چونکہ صبر کے متعلق اس کی کوئی تعلیم بیٹے کو یاد نہیں آتی وہ لڑ پڑتاہے ۔پس ہم بجائے یہ نتیجہ نکالنے کے کہ اس نے بے غیرتی دکھائی یہ کیوں نہ نکالیں۔کہ یہ بے غیرتی سے نہیںبلکہ اس کے باپ کی طرف سے تربیت میں کمی کی وجہ سے ہے۔ تعلیم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا حق ادا کر دیاکہ گالیاں سنو اور صبر کرو،چُپ رہو اور جب ایسا موقع آیا،یہ تعلیم اسے یاد آگئی۔فوراً اس کے لئے روشنی پیدا ہو ئی اور اندھیرا جاتا رہا۔باپ نے اسے ایسی تعلیم نہ دی تھی۔اسی لئے اندھیرا ہی رہااور اندھیرے میں ہی وہ لڑپڑا۔
مَیں نے گزشتہ خطبہ میں اس امر پر زور دیا تھا کہ جذباتی فیصلے بسیط اور مرکّب ہوتے ہیں۔آج میں بتاتا ہوںکہ اسی طرح نیکیاں اور بدیاں بھی بسیط اور مرکب ہوتی ہیں۔محض کسی نام کو لے کر ہم فتوے نہیں لگا سکتے کہ ان کے ماتحت کیفیت بھی ایک ہی ہے کیونکہ ایک نام کے ماتحت بھی کیفیتیں بدلتی رہتی ہیںمثلًا چوری ہے ۔چوری کا لفظ ہر چوری کی نسبت بولا جائے گا مگر اس لفظ کا اطلاق اتنے کاموں کے لئے کیا جاتا ہے کہ بعض بعض سے بہت ہی مختلف ہوتے ہیں ۔چونکہ چوری کا ہمارے ملک میںعام رواج ہے۔میں اسی کی وضاحت کر دیتا ہوںکیونکہ دوستوں کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ہمارے زیادہ تر دوست زمیندار ہیں اور انہی ہی کے ذہن نشین کرانے کی زیادہ ضرورت ہے۔وہ اس مثال سے میرے مطلب کو اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔ بوجہ اس کے کہ ان کے ارد گرد کثرت سے یہ فعل کیا جاتا ہے۔چوری کے معنی یہ ہیں کہ کسی کی نظربچا کر اس کی چیز کو لے لینا مگر اس کی آگے کئی اقسام ہیں۔جانورں کی چوری،روپیہ کی چوری،کھیتی کی چوری،جوتیوں کی چوری،رومالوں وغیرہ کی چوری۔مگر رومالوں اور جُوتیوں وغیرہ کی چوری تو تعلیم یافتہ لوگوں کی چوری ہے۔زمیندا ر تو شاید اسے سمجھ بھی نہ سکیں۔لیکن پہلی تین قسموں کی چوریوں کو وہ خوب سمجھتے ہیں کوئی شخص روپیہ اور مال کا چور ہوتا ہے کوئی کھیتی کا، کوئی جانوروں کا،پھر آگے چوری کرنے کے کئی طریقے ہیں۔اُچک کر لے جانا،بھگا کر لے جانا،باہر سے کسی کا مال اٹھا کر لے جانا،سیندھ لگانا،اب میں چوری کی جنس کے لحاظ سے تقسیم بتاتا ہوں۔اور ہمارے دوست سمجھ جائیں گے ۔ایک ہی لفظ میں بیسیوں معنے ہوتے ہیں۔ایک شخص جو جانوروں کی چوری کرتا ہے۔وہ بِالعموم سیندھ لگا کر چوری نہیں کرے گا،خواہ کچھ بھی ہو جائے۔وہ اسے اپنے لئے ذلت قرار دے گااور کہے گاکہ چوہڑوں کے ساتھ مل کر سیندھ لگانا بڑی ذلت کا کام ہے۔اضلاع گوجرانوالہ ،شیخو پورہ اور گجرات میں جانوروں کی چوری بہت ہے۔حتّٰی کہ ان اضلاع میں اس چیز کو عیب نہیں سمجھا جاتابلکہ یہاں تک کہ کچھ عرصہ ہؤا گوجرانوالہ کے ایک ڈپٹی کمشنر نے اپنے ایک فیصلہ میں لکھا تھا۔چوری کے الزام میں مَیں ملزم کو سزا تو دیتا ہوں ۔کیونکہ قانون کا منشاء یہی ہے۔لیکن میں اسے چوری نہیں سمجھتا کیونکہ یہ چیز تو ان لوگوں کے لئے معمولی بات ہے اور ایک دوسرے سے انتقام لینے کا ذریعہ ہے۔حق یہ ہے کہ اس چوری کا بعض قبائل میں تو اس قدر رواج ہے کہ لڑکے کو پگڑی نہیں باندھی جاتی جب تک وہ گائے یا بھینس چُرا کر اپنی بہن کو نہ لادے۔یہ بات ہمارے نانا جان صاحب مرحو م و مغفور سے کسی نے کہہ دی او ر یہ ان کے دل میں میخ کی طرح گڑ گئی کہ ان اضلاع کے سب لوگ چور ہوتے ہیں۔چنانچہ وہ ایک دن مسجد میں فرمانے لگے کہ ضلع گجرات کے سب لوگ چور ہوتے ہیں۔ میرا طریق یہی ہے اور یہی درست ہے ۔نہ کوئی قوم ساری کی ساری بُری ہوتی ہے اور نہ اچھی۔ اس لئے میںنے ان کی تردید کی اور کہا کہ سارے تو چور نہیں ہوتے۔ہاں میں یہ مان لیتا ہوںکہ بعض قوموں میں چوری کی عادت بہت زیادہ ہوگی مگر ان کے دل میں یہ خیا ل اس طرح بیٹھا ہؤ ا تھاکہ کہنے لگے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کوئی شخص ضلع گجرات کا ہواو ر پھر چور نہ ہو۔میں نے خیال کیا کہ اس مجلس میں اس ضلع کے بھی کوئی دوست بیٹھے ہوں گے اور ان کو اس بات سے تکلیف ہو گی اس لئے زیادہ زور کے ساتھ ان کے اس خیال کی تردید کی مگر انہوں نے اور زیادہ وثوق کے ساتھ اپنی بات پر اصرارکیا۔آخر میں نے سمجھا کہ اس بات کے ازالہ کا طریق یہی ہے کہ میں جماعت کے کسی بڑے اور معزز آدمی کا نام لوںاس کا نام سن کر یہ خاموش ہو جائیں گے اور میں نے سوچ کر حافظ روشن علی صاحب مرحوم کا نام لیاکہ وہ بھی گجرات کے ہیں۔مجھے معلوم تھا کہ میر صاحب مرحوم حافظ صاحب کے علم اور تقوی کے قائل تھے ۔میر صاحب مرحوم نے جب ان کا نام سنا تو تھوڑی دیر خاموش رہے اور میں نے سمجھا کہ میری تدبیر کار گر ہوگئی مگر وہ ذرا سی دیرخاموش رہنے کے بعد پھر بولے اور کہا کہ حافظ صاحب گجرات کے ہیں؟میں نے کہا ہاں تو وہ فرمانے لگے تو پھر وہ بھی ضرور چور ہوں گے۔میں نے آخر کہا کہ آپ اس امر پر اس قدر زور کیوں دے رہے ہیںتوانہوں نے بتایا کہ اس ضلع میں یہ رسم ہے ۔کہ جب تک کوئی جانورچُرا کر اپنی بہن کو نہ دے اُس کے سر پر پگڑی نہیں رکھی جاتی۔ان کا جواب سن کر مجھے خیال ہؤا کہ حافظ صاحب کا نام سننے پر جو وہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش رہے تھے۔تو شاید یہ یاد کرنے کے لئے خاموش ہوئے تھے کہ حافظ صاحب پگڑی باندھتے ہیں۔یا نہیں۔اب یہ بات جس نے میرصاحب کو بتائی کہ ہرگجرات کے آدمی کو اک دفعہ ضرور گائے یا بھینس چرانی پڑتی ہے۔ہے تو غلط لیکن یہ مثال اس حقیقت کا ایک مبالغہ آمیز نقشہ ضرور ہے۔جو گجرات،گوجرانوالہ،شیخو پورہ کے اضلاع کے بعض قبائل میں بد قسمتی سے پائی جاتی ہے۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان اضلاع میں یہ مرض وسیع ہے کہ جانوروں کی چوری کو کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔بلکہ جو زیادہ نامی چور ہو اتنا ہی معزز سمجھا جاتا ہے۔ایک الیکشن کے موقع پر ان اضلاع میں سے ایک ضلع میں ایک رئیس کونسل کی امیدواری کے لئے کھڑے ہوئے۔ان کی طرف سے سب ووٹروں کو پیغام بھیج دیا گیا ۔یا تو ووٹ رکھ لواور یا بھینس دونوں میں سے ایک چیز تو ہمیں دینی پڑے گی۔مطلب یہ تھا کہ اگر مجھے ووٹ نہ دئیے گئے تو تمہاری سب بھینسیں چوری ہو جائیں گی۔زمینداروں کے نزدیک ووٹ کی کیا قیمت ہو سکتی ہے۔بھینس کی قیمت تو ان کے نزدیک بہت ہے۔خود دودھ گھی کھاتے اور بچوں کو کھلاتے ہیں۔نتیجہ یہ ہؤا ۔کہ وہ الیکشن میں جیت گئے۔مگر دوسرے فریق نے شکایت کر دی کہ یہ الیکشن تو پہلے ہی ہو چکا تھا۔آخر وہ الیکشن ناجائز قرار پایااور اس رئیس کو امیدوار کھڑا ہونے کے حق سے محروم کر دیا گیا۔دوبارہ الیکشن ہو ا تو اس کا دوسرا بھائی کھڑا ہو گیا اور پھر یہی پیغام ووٹروں کو بھیج دیا گیا او ر زمینداروں نے چُپ کر کے ووٹ دے دئیے اور پھر کسی نے شکایت بھی نہ کی کہ اگر اس کا انتخاب ناجائز ہو گیا تو تیسرا کھڑا ہو جائے گا۔مگر ان جانوروں کی چوری کروانے والوں کو اگر تم قتل بھی کر دو تو وہ سیندھ کبھی بھی نہیں لگائیں گے۔نہ ایسے فعل میں اور نہ کسی اور رنگ میں شرکت کریں گے۔اور صاف کہہ دیں گے۔ہم شریف لوگ ہیں ذلیل نہیں کہ ایسے کام کریں۔
پھرایک چوری کھیتی کی ہے ہمارے ضلع میں دریا کے کنارے یہ بہت ہے تم بسا اوقات دیکھو گے کہ ایک راہ گیر اپنے گھوڑے سے اتر کر اسے پاس کے کھیت میں چھوڑ دیتا ہے اور خود نماز میں مشغول ہو جاتا ہے ۔اس کے خیال میں اس سے اس کی عباد ت میں کوئی نقص نہیں آتا۔گویا حِسّ ہی باقی نہیں رہی کہ یہ بھی چوری ہے۔پھر تعلیم یافتہ لوگوں میںایک چوری ریل کے کرایہ کی ہوتی ہے۔ریل میں مفت سفر کریں گے۔یا تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لے کر انٹر یا سیکنڈ میں بیٹھ جائیں گے اور وہ اسے چوری نہیں۔ بلکہ اپنی زیرکی اور ہوشیاری سمجھتے ہیں۔
مجھے یا دہے میں چھوٹا ہی تھااور نانا جان مرحوم کے ساتھ سفر کر رہا تھانانا جان مرحوم بات کرنا خوب جانتے تھے۔مجھے تو اب تک یہ نہیں آتا۔میں خود بات نہیں کر سکتاکوئی کرے تو کر سکتا ہوں مگر ناناجان مرحوم کو اس کا خوب ملکہ تھا۔وہ بات کہیں سے شروع کر کے کہیں لے آتے اور پھر تبلیغ کر دیتے تھے۔تو اس سفر میں میر صاحب نے دنیا کی عام اخلاقی حالت کا تذکرہ شروع کر دیا۔کہ ایسی ایسی بدیاں دنیا میں پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں اور کہ ان کا تقاضا ہے کہ کوئی مأمور مبعوث ہو ۔اس مجلس میں ایک بڈھا شخص بیٹھا ہو اتھا۔میر صاحب کی بات سن کر وہ کہنے لگا۔کہ جی دنیا کی خرابی کے متعلق آپ کو کیا معلوم ہے۔میں جانتا ہوں کہ دنیا میں کیا کیا خرابیاں ہیں اور بدیاں پیدا ہو چکی ہیں۔آپ تقویٰ کو رو رہے ہیںحالانکہ دنیا میںانسانیت کا بھی نام باقی نہیںرہا۔میں جیل کا داروغہ ہوں،میرا ملزموں سے واسطہ رہتا ہے اور میں ان برائیوں سے خوب واقف ہوں ۔غرض کہ وہ مجلس پر ایسا چھا گیاکہ میرصاحب کو بات کا موقع تک نہ مل سکا۔اس کی گفتگو سن کر یہ عام اثرتھاکہ وہ بہت اچھا پڑھا لکھا آدمی ہے اور اخلاق کاماہر، اتنے میں ایک سٹیشن آیا جہاں ٹکٹ چیک ہو تے تھے چنانچہ ہمارے کمرہ میں بھی جو انٹر کلاس تھا ایک ٹکٹ چیک کرنے والا آگیا۔اس نے ٹکٹ دیکھنے شروع کئے تو معلوم ہؤا کہ ان صاحب کا ٹکٹ تھرڈ کلاس کا تھا۔بابو نے کہا کہ یہ ٹکٹ تو تھرڈ کا ہے اب یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص جلدی میں یا تھرڈ میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سمجھ کر بیٹھ جائے کہ آگے چل کر زائد کرایہ دے دوں گالیکن اس سے جب بابو نے سوا ل کیا تو بجائے اِس کے کہ وہ اس قسم کا جواب دیتا اس کے چہرہ کا نقشہ ہی بالکل بدل گیا اور ایک ہوشیار جہاں دیدہ کی جگہ چہر ہ پر سے حمق او ر سادگی کے آثار نظرآنے لگے اور وہ نہایت ہی سادگی سے کہنے لگا کہ کیوں صاحب! یہ انٹر کیا ہوتا ہے؟ اور سب وہ لوگ جو ابھی اس کی تقریر سن رہے تھے ۔اور یوں محسوس کر رہے تھے کہ وہ گویا دنیا کی انسائیکلو پیڈیا ہے حیران رہ گئے۔بابو نے اسے ایک بیوقوف بڈھا سمجھ کرکہا اچھا میں تم سے کوئی زائد کرایہ وصول نہیں کرتاتم اب اٹھ کر تھرڈ میں چلے جاؤ اور اس نے اسے تھرڈ کے کمرہ کا رنگ بتایا کہ اس رنگ کا کمرہ ہے ۔اس پر وہ کہنے لگا کہ میں تو بوڑھا آدمی ہوں کس طرح سامان اٹھاؤں آپ یہ دو پیسے لے لیں اور وہا ں میرا اسباب چھوڑ آئیں۔گویا وہ اتنا سادہ آدمی ہے کہ اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ ریلوے کا بابو ہے یا قلّی۔او ر گویا یہ پہلی دفعہ ہی سفر کرنے لگا ہے ۔تو ایسے لوگ بھی ہیںجو ریل کی چوری کو چوری نہیں سمجھتے۔جس طرح قادیان میں ایک ایسا طبقہ ہے جو لنگر کی روٹی کی چوری کو چوری نہیں سمجھتا۔یا جیسے میرے پاس اکثر شکائتیں پہنچا کرتی تھیں کہ مقبرہ بہشتی میں درختوں کے پھول یا پھل لوگ توڑ لیتے ہیںاور جن لوگوں نے باغ خریدا ہؤا ہوتا ہے ان سے لڑائی ہو جاتی ہے اور جب کسی کو منع کیا جائے تو وہ یہ کہہ دیتا ہے کہ صرف برکت کے لئے یہاں کی چیز لی ہے۔آخر میں نے انجمن والوں کو حکم دیا کہ یہاں کے پھول اور پھل آئندہ فروخت نہ کئے جائیں کیونکہ اس طرح مہمانوں کی ہتک بھی ہوتی ہے اور خواہ مخواہ لوگوں کو مصیبت میں ڈالا جاتا ہے کیونکہ لوگ برکت کی چیز خیال کر کے ہاتھ ڈال ہی دیتے ہیں۔
تو چوری بُری چیز ہے ۔مگر بعض لوگوں کے لئے بعض مواقع پر یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ فلاں کام بھی چوری ہے۔ہاں ایک دوسرے فعل کو وہ فوراًچوری قرارد دے دیں گے اور انہیں غصہ آجائے گا کہ یہ ایسا گندہ شخص ہے جو چوری کرتا ہے ۔اب آپ لوگ خیال کر لیں کہ چوری کی بھی کئی اقسام ہیںاور صرف چوری کے نام سے یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ سب چوریاں ایک ہی قسم کی ہوتی ہیں ۔ٹکٹ کی چوری کرنے والا بھی چور ہے مگر وہ کسی کی بھینس یا روپیہ نہیں چُرائے گا بلکہ اسے بہت بُرا سمجھے گا۔بعض بڑے بڑے معزز ای ۔اے ۔سی اور ڈپٹی کمشنر کے مرتبہ کے لوگ بِلاٹکٹ سفر کرتے ہیں۔کچھ عرصہ ہؤا ایک ڈپٹی کمشنر کو سزا ہوئی تھی کہ وہ ہمیشہ پلیٹ فارم کی ٹکٹ لے کر ریل میں سوار ہو جاتا تھا اور جہاں پہنچنا ہوتا وہاں کسی دوست کو لکھ دیتا کہ میرے لئے ایک پلیٹ فارم ٹکٹ لیتے آنا اور وہی دکھا کر باہر چلا جاتا۔وہ خود منہ میں جھاگ لا لا کر چوروں کو سزا دیتا ہوگا۔کہ خبیثو اور بے حیاؤ!تمہیں شرم نہیں آتی چوری کرتے ہومگر خود اسے احساس تک نہیں تھا۔
مختصر یہ کہ نیکیوں اور جرائم کی اقسام ہوتی ہیں۔یہ نہیں جو ایک قسم کی چوری کرتا ہے وہ دوسری قسم کی بھی کر سکتا ہے۔نہ صرف یہ کہ وہ اسے کر نہیں سکتابلکہ بہت بُرا سمجھتا ہے۔
پس جو شخص ایک جگہ جوش دکھاتا ہے ضروری نہیں کہ دوسری جگہ ایسا کرتا ہو اور دوسری جگہ عادت نہ ہونے کی وجہ سے دکھانا بے غیرتی کی وجہ سے ہو ۔عین ممکن ہے ایک جگہ وہ عادت کی وجہ سے اور پھر ایک جگہ غلطی دیکھ کر ہمارا یہ فرض نہیں کہ دوسری جگہ بھی غلطی کرائیں بلکہ چاہئے کہ اس جگہ بھی صحیح کرائیں۔یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اے بے غیرتو! اپنے ماں باپ کے لئے گالی سن کر تم جوش میں آجاتے ہولیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے سن کر کیوں جو ش میں نہیں آتے بلکہ ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ اے عزیزو! اپنے لئے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے جوش دکھا کر تم اپنی حالت کو کیوں مشتبہ کرتے ہو ۔ہمت کرو اور جس طرح حضرت مسیح موعود وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق گالی سن کر تم صبر دکھاتے ہو اسی طرح اپنے اور اپنے ماں باپ کے متعلق سن کر صبر دکھاؤ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِتَّقُوْا مَوَاقِعَ الْفِتَنِ ۸؎ لوگوں کو اپنے اوپر اعتراض کا موقع نہ دو ۔پس یہ صحیح نہیں کہ ایک جگہ اگر کوئی غلطی کرے تو دوسری جگہ بھی اسے غلطی کرنے کے لئے کہیں بلکہ کوشش یہ کرنی چاہئے کہ دونوں موقعوں پر غلطی سے بچنے کے لئے کہیں۔ قادیان کے ایک معزز دوست کا خیال تھا کہ ممکن ہے مصری اور اس کے ساتھی جو الزام خلیفۃ المسیح اور خاندان مسیح موعود ؑ پر لگاتے ہیں یہ غلط فہمی ہے اور وہ نیک نیتی سے ایسا سمجھتے ہیں اس لئے ان پر اظہارِ ناراضگی نہیں کرنا چاہئے۔انہیں ایام میں احتیاطًاریل پر بٹالہ آنے اور جانے والے آدمیوں کے نام لکھے جاتے تھے تا یہ معلوم ہو سکے کہ ان لوگوں سے ملنے کے لئے منافق لوگ کیاکیا تدبیریں کرتے ہیں لازمًا ان ایام میں ہر شخص کا نام لکھا جاتا تھا حتّٰی کہ خود ناظروں کا نام بھی لکھا جاتا تھا انہیں کسی طرح معلو م ہوا کہ ان کا نام بھی بعض دفعہ لکھ کر فہرست میں پیش ہؤا ہے انہیں اس پر بہت جوش آگیا اور اس پہرہ دار سے لڑ پڑے کہ میں تجھے سیدھا کر دوں گا۔جب ذمہ دار کارکنوں تک یہ رپورٹ پہنچی تو انہوں نے ان کی اس حرکت کو بہت بُر ا منایا اور بعض نے اسے منافقت کا نتیجہ قرار دیا۔جب میرے پاس یہ رپورٹ آئی تو میں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیںکہ ان صاحب نے اپنے آپ کو خود ایک الزام کے مقام پر کھڑا کردیا ہے اور کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ صاحب مصری پر اظہار ناراضگی ان تمام الزامات کے باوجود جو وہ خلیفہ پر لگاتا تھا آپ کے نزدیک قابل رنج نہ تھا مگر آپ کا محض نام لکھ دینا ایک ناقابلِ معافی گناہ بن گیا ہے لیکن پھر بھی ہمیں یہ غور کرنا چاہئے کہ یہ ان کا غصہ عادت کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے ۔ممکن ہے کہ ان کو اپنے متعلق غصہ آنے کی عادت پڑی ہو اور ہم چونکہ یہی کہتے رہتے ہیں کہ دشمنوں کی گالیوں پر صبر سے کام لو،اس موقع پر ان کے خیالات دیانتداری سے یہی ہوں لیکن اپنے متعلق شبہ کے وقت چونکہ کوئی ایسی تعلیم سامنے نہ تھی ان کو غصہ آگیا۔پس چونکہ ان کے فعل کی ایک دوسری توجیہہ ہو سکتی ہے اس لئے بد ظنی کرنے یا ان کو منافق سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ۔تو ایسے واقعات کثرت سے پیش آتے رہتے ہیںاور مومن کا یہی کام ہے کہ وہ نیکی والا پہلو لے۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ میاں عزیز احمد صاحب کی پہلے کوئی مدد نہیں کی گئی جب خلیفۃ المسیح پر اعتراض ہوئے تب خیال آیا۔سو یہ بھی غلط فہمی ہے ۔گوداسپور میں جو وکیل ان کی طرف سے پیش ہؤا وہ فوجداری میں اس علاقہ کا بہترین وکیل ہے مگر ہماری طرف سے جیسا کہ ایسے ہر موقع پرنصیحت ہوتی ہے میاں عزیزاحمد کو یہی نصیحت تھی کہ سچ بولیں۔اگر غلطی ہوئی ہے تو بہتر ہے کہ اس کی سزا اسی دنیا میں بھُگت لیں۔ قاضی محمد علی صاحب مرحوم کو بھی میں نے یہی نصیحت کی تھی اور ان کو بھی یہی پیغام پہنچایا تھا کہ اگر قصور ہے تو اس کا اقرار کرلو۔چنانچہ انہوں نے اقرار کر لیااور اقراری ملزم کو لائق سے لائق وکیل بھی نہیں چھُڑا سکتا ۔تاہم وکیل نے دیانتداری کے ساتھ دفاع کیا اور اس کی بحث کو سن کر عدالت میں موجود لوگوں میں سے اسّی فیصدی کا یہی خیال تھا کہ پھانسی کی سزا نہیں ہو سکتی بلکہ بعض سرکاری افسروں نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا کہ معاملہ اتناواضح ہے کہ پھانسی کی سزا نہیں ہو سکتی مگر مجسٹریٹ کا نقطہ نگاہ اور ہوتا ہے اور وکیل کا اور۔لائق سے لائق وکیل آتے ہیں مگر مجسڑیٹ ان کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا ۔
ہائی کورٹ میں ان کی طرف سے شیخ بشیر احمد صاحب پیش ہوئے۔وہ بھی نوجوانوں میں ترقی کرنے والے ہیںاو ر ایسے نوجوان طبقہ میں سے ایسے وکیل ہیںجن پر لوگوں کی نظریں ہیں کہ کبھی بہت ترقی کر جائیں گے۔وہ بھی جب بحث ختم کر کے آئے تو تمام وکلاء نے ان کو مبارک باد دی کہ تم کیس جیت گئے ہو مگر ججوں نے اور فیصلہ کر دیا اور اس فیصلہ میں کوشش یا عدمِ کوشش کا کوئی سوال نہیں ۔فیصلہ تو آخر جج نے کرناہوتا ہے وکیل نے نہیں۔پھر یہ بھی غلط ہے کہ جماعت میں جوش پیدا ہؤا تو خرچ بھی کیا گیا۔ جماعت میں جوش اس لئے پیدا ہؤا کہ فیصلہ میں بعض ریمارک نا مناسب تھے۔مجھے ذاتی طور پر پورا پورا علم تو نہیںمگر جہاں تک میرا خیال ہے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اپیل کے لئے جو وکیل ہماری طرف سے کیا گیا تھاان کے خرچ سے گورداسپور کے وکیل کا خرچ غالبًا کم نہ تھا۔
پھر جیسا کہ میں بتا آیا ہوں۔جذبات کا فیصلہ صرف فعل سے نہیں ہوتابلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جس پر حملہ ہؤ ا ہے اُس کی اہمیت کیا ہے۔ایک حملہ ایک عام احمدی پر ہواور ایک خلیفۂ وقت پر ہواور پھریہ خیال کیا جائے کہ دونوں کے متعلق ایک سے جذبات جماعت میں پیدا ہوں یہ حماقت کی بات ہے۔ماں باپ پر حملہ کے وقت انسان کے اندر اور قسم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور محلہ کے کسی آدمی پر حملہ کی صورت میں اَور قسم کے۔ پھر الزام کی حقیقت بھی دیکھی جاتی ہے۔ عزیز احمد صاحب پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے ایک شخص پر حملہ کیا اور وہ اس کو تسلیم کرتے تھے لیکن جو الزام مجھ پر سمجھا گیا تھا اسے نہ میں تسلیم کرتا ہوں اور نہ جماعت۔چنانچہ ہائی کورٹ کے پہلے فیصلہ کے وقت یہ خیال کیا گیا تھا کہ ہائی کورٹ نے یہ کہا ہے کہ میںنے قتل کی تحریک کی۔نہ میں اسے تسلیم کرتا تھا کہ میں نے ایسی تحریک کی تھی اور نہ جماعت اس کو صحیح سمجھتی تھی۔پس جہاں الزام غلط سمجھا جائے وہاں یقینًا زیادہ جوش پیدا ہوتا ہے۔میں نے کہا ہے کہ جو الزام مجھ پر سمجھا گیا تھا۔یہ الفاظ میں نے اس لئے استعمال کئے ہیں کہ ہائی کورٹ نے بعد میں فیصلہ کیا کہ جو معنے ججوں کے فیصلہ کے کئے گئے،وہ غلط تھے اور وہ ان کے خیال میں بھی کبھی نہ تھے۔
میرے کان میں مصری پارٹی کی یہ آواز بھی پہنچی ہے کہ ہم پر ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم ہائی کورٹ کی فیصلہ کے یہ معنی کیوں کرتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے اپنے خطبوں میں قتل کی تحریک کی یا انگیخت کی۔ حالانکہ خود ہی اس پر پہلے شور کیا تھا اور اشتہار شائع کیا تھا۔اس کا جواب یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ سے قبل لو گوں نے وہ معنے سمجھے تھے اور اس وجہ سے ہمیں تکلیف ہوئی اور ہم نے ان معنوں کو مد نظر رکھ کر اظہارِ رنج کیا اور اس وقت تک ہم کسی پر ان معنوں کی وجہ سے بددیانتی کا الزام نہیں لگاتے تھے لیکن ہائی کورٹ کے دوسرے فیصلہ کے بعدبھی جو وہ معنے لیتا ہے ہم مجبور ہیں کہ اسے بددیانت کہیں۔پہلے مصری پارٹی اور احراری دونوں غلط معنے کرتے تھے مگر ہم نے کسی کو بددیانت نہیں کہاحالانکہ حقیقتًا ججوں کے نزدیک وہ بات نہ تھی جو یہ لو گ پیش کرتے تھے حتّٰی کہ ایک جج نے دوسرے مقدمہ کی سماعت کے دوران میں کہا کہ جب ہمارا یہ مطلب ہی نہیں تو اگر کوئی بے وقوف یہ معنے لیتا ہے تو ہمیں کیا لیکن پھر انہوں نے فیصلہ بھی لکھ دیا کہ ان کا یہ مطلب نہیں تھا۔اور اگر اب کوئی پہلے فیصلے کے وہ معنے کرتا ہے جو دوسرے فیصلے سے قبل کئے جاتے تھے تو وہ یقینا بد دیانتی کرتا ہے اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھاہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ ماننا شرک ہے بھی لیکن پہلے براہین احمدیہ میں خود یہ عقیدہ بیان کر چکے ہیں ۔اب اگر کوئی شخص کہے کہ پھر آپ بھی شرک کے مرتکب ہوئے ہیں تو ہمارا یہی جواب ہو گا کہ ہرگز نہیں۔ آپ نے اُس وقت یہ خیال ظاہرکیا تھا جب قرآن کریم اور الہا مِ الٰہی سے وضاحت نہیں ہوئی تھی۔شرک کے مرتکب وہ ہیں جو اس وضاحت کے بعد ایسا کرتے ہیں۔
غرض جس طرح براہین احمدیہ میں حیاتِ مسیح کا عقیدہ لکھنے کی وجہ سے نہ غیر احمدی بَری ہوتے ہیں نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض پڑتا ہے۔
اسی طرح پہلے فیصلہ کے وقت میں ہمارا رنج کرنا دوسرے فیصلہ کے بعد بھی الزام لگانے والوں کو نہ بَری کرتا ہے اور نہ اس سے ہم پر کوئی الزام آتا ہے۔
بعض لوگ ہمارے مخالفوں میں سے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ لوگ یونہی جھوٹی خوشی کر رہے ہیں۔ ہائی کورٹ نے تو ان کی اپیل مسترد کر دی ہے اس لئے ہم جو کہتے ہیں وہی درست ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ درست ہے تو اس فیصلہ کو جو فخر الدین صاحب کے لڑکے نے شائع کیاحکومت نے ضبط کیوں کر لیا حالانکہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کوئی ضبط نہیں کر سکتا۔یہ حق حکومت کو اسی وجہ سے حاصل ہؤا کہ اسے غلط معنوں میں پیش کیا جاتا تھا پس ضبطی نے بتا دیاکہ جو معنے اس کے پہلے سمجھے گئے تھے وہ صحیح نہ تھے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو حکومت اسے ہرگز ضبط نہ کر سکتی تھی کیونکہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو اسی صوبہ کی حکومت ضبط نہیں کر سکتی لیکن اب تو باقی حکومتیں بھی اسے ضبط کر رہی ہیں۔ چنانچہ کشمیر گورنمنٹ نے بھی اسے ضبط کر لیا ہے۔اس پر ایک مسلمان اخبارنے لطیفہ کے رنگ میں لکھا ہے کہ حکومت کشمیر اتنی پاگل ہے کہ اسے اتنا بھی علم نہیں کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو ضبط نہیں کر سکتی۔اس اخبار کو علم نہیں کہ کشمیر گورنمنٹ پنجاب ہائی کورٹ کے ماتحت نہیں۔وہ تو اگر چاہے تو اپنے علاقہ میں اصل فیصلہ کو بھی ضبط کر سکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو کتاب ضبط کی گئی ہے وہ ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں۔بلکہ وہ کتاب ہے جس کا نام ہائی کورٹ کا فیصلہ رکھ کر اس کے اندر ہائی کورٹ کے فیصلہ کی غلط تشریح کر دی گئی ہے۔
غرض جب تک دوسرا فیصلہ نہیں ہؤا اُس وقت تک ہم خود غلط فہمی میں تھے مگر دوسرے فیصلے نے حقیقت کھول دی او ر اب جو بھی یہ کہتا ہے کہ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے میاں فخر الدین کے قتل کی انگیخت کی تھی وہ جھوٹ بولتا ہے اور اگر وہ دیانتدار ہے تو اسے چاہئے کہ لوگوں میں بیٹھ کر ایسے خیالات کا اظہار کرنے کی بجائے انہیں شائع کرے پھر اسے بھی اور دنیا کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔‘‘ (الفضل ۹؍ جولائی ۱۹۳۸ئ)
۱؎ مسلم کتاب التوبۃ باب غَیْرَۃُ اﷲ تعالیٰ (الخ)
۲؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۲۷، ۲۸ ۔ المکتب الاسلامی بیروت
۳؎ التوبۃ: ۳۲ ۴؎ النحل: ۹۱
۵؎ مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النّہی عن المنکر من الایمان (الخ)
۶؎
(النسآئ: ۱۴۱)
۷؎ بنی اسرائیل: ۳۷
۸؎ موضوعات مُلّا علی قاری صفحہ ۱۶ مطبوعہ دھلی ۱۳۴۶ ھ میں یہ الفاظ ہیں اِتَّقُوْا مَوَاقِعَ التُّھَمِ

۲۱
میاں عزیز احمد صاحب مرحوم سے متعلق اپنوں کے خیالات اور معاندین کے اعتراضات
( فرمودہ ۸ ؍ جولائی ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں گزشتہ خطبات کے سلسلہ میں اب وہ اعتراضا ت لیتا ہوں جو ہمارے اندر سے بعض نکل جانے والے آدمیوں کی طرف سے یا ان کے بھائی احرار کی طرف سے اپنے خطبوں یا پرائیویٹ مجالس میں بیان کئے گئے ہیں۔
ان دو اعتراضوں میں سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے میاںعزیزا حمد صاحب کی مدد نہیں کی حالانکہ ان کے مقدمات پر ہزاروں روپیہ خرچ کر دیا گیا ہے۔ورنہ وہ غریب آدمی ہائی کورٹ اور پھر پریوی کونسل تک مقدمہ کیونکر لڑ سکتا تھا،گویا یہ جو مرکز کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہم نے میاں عزیز احمد صاحب کی مدد نہیں کی یہ درست نہیں ورنہ ہائیکورٹ اور پریوی کونسل تک مقدمہ میاں عزیز احمد صاحب جیسا غریب آدمی کیونکر لڑسکتا تھا۔
پہلے تو میں اصولی طور پر اس امر کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کسی شخص کا جُرم انکشاف کے بعد ثابت ہوتا ہے نہ کہ پہلے۔خالی الزام کسی کے جُرم کو ثابت نہیں کیا کرتا۔(میں زیادہ تر اس مضمون میں اصول کے لحاظ سے ہی بحث کروں گا کیونکہ وہ ہمیشہ کے لئے کار آمد ہوتے ہیں ورنہ اعتراض تو لوگ کرتے رہتے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے)تورائج شدہ اصل دنیا میں یہی ہے اور یہ اسلام کا اور باقی تمام مذاہب کا بھی مسلّمہ اصل ہے اگر بعض مسلمان کہلانے والے یا یہودیت کو سچا سمجھنے والے یا عیسائیت کو اختیار کرنے والے غلطی کریں تو یہ اور بات ہے ورنہ قومی طور پر یہی مسلّمہ اصل ہے کہ محض الزام لگا دینا کسی جُرم کے ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہوتا۔ہاں جب ثبوت مہیا کیا جائے اور جب انسان ان شواہد کو دیکھ کر یہ قطعی نتیجہ نکالے کہ اب جُرم ثابت ہو گیا ہے تو پھر اس کا حق ہے کہ ملزم کو مجرم کہے اس سے پہلے وہ مجرم نہیں ہوتا ۔
تو جُرم انکشافِ حقیقت کے بعد ثابت ہوتا ہے چاہے یہ انکشاف عدالت میں مقدمہ کئے جانے کے بعد ہو۔یعنی کوئی باقاعدہ عدالت اس مقدمہ کو سُنے اور پھر فیصلہ کردے۔کہ اب جُرم ثابت ہو گیا ہے اور چاہے ذہنی اور عقلی طور پر کوئی شخص مختلف امور پر غور کر کے ایک نتیجہ قائم کردے کیونکہ ہر انسان کے اند ر خواہ وہ ادنیٰ ہو یا اعلیٰ پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ، خدا تعالیٰ نے ججی کی قابلیت رکھی ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ انسانی آنکھوں کے سامنے سے کوئی چیز گزرے یا کسی اور حِس کے ذریعہ سے ایک امر کا اسے علم ہواور اس کے متعلق انسان کوئی فیصلہ نہ کرے۔پس چونکہ ہر انسان جج ہے اس لئے اگر پورے طور پر سوچنے اور غور کرنے کے بعد کسی شخص پر انکشافِ حقیقت ہو جائے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ فلاں مجرم ہے لیکن بہر حال جُرم انکشاف کے بعد ثابت ہوگا نہ کہ پہلے۔اگر جُرم محض مقدمہ دائر کر دینے سے ثابت ہو جاتاہو تو پھر ہر وہ وکیل جو مدعا علیہ کی طرف سے پیش ہوتا ہے ،مجرم اور گنہگار ہے کیونکہ وہ مجرم کی امداد کرتاہے لیکن یہ اصل دنیامیں رائج ہو جائے تو پھر خود ہی سوچو کہاں امن باقی رہ سکتا ہے ۔اس قسم کا اعتراض کرنے والے چونکہ نہ صرف عام مسلمان ہیں بلکہ بعض احمدی کہلانے والے بھی ہیں اس لئے میں انہیں سمجھانے کے لئے کہتاہوں کہ فرض کرو کسی جگہ احمدی یا اسلامی حکومت قائم ہواو ر وہاں یہ قانون نافذ ہو کہ ملزم کی طرف سے پیش ہونے والا وکیل گنہگار ہوتا ہے تو کیا ایسی حکومت سے لوگ ایک دن بھی خوش رہ سکتے ہیں او ر کیا ایسی حکومت دنیا میں امن قائم کر سکتی ہے۔آخر عدالت میں مقدمہ تبھی آئے گا جب کسی پر الزام لگے گا کہ اس نے فلاں خلافِ قانون فعل کا ارتکاب کیا ہے۔اب اگر الزام کے لگنے کے ساتھ ہی وہ مجرم بھی بن جاتا ہے تو لازماً ہر وہ وکیل جو اس کی طرف سے عدالت میں پیش ہوگا گنہگار ہوگا۔اب تم ایسی گورنمنٹ فرض کر کے خود ہی سوچ لو کہ کیا اس سے امن قائم ہو جائے گا یا فساد ہی فساد بڑھتا چلا جائے گا۔فرض کرو تم ایک دن خاموشی کے ساتھ بازار سے گز ررہے ہو او ر کوئی بدمعاش دکاندار تمہیں سادہ لوح سمجھ کر شور مچا دیتا ہے اور کہنے لگتا ہے کہ تم نے اس کی دکان سے مال اٹھایا ہے اور اس کی غرض یہ ہے کہ ڈر کر تم اسے کچھ روپے دے دو مگر تم اسے روپیہ نہیں دیتے اور مقدمہ عدالت میں چلا جاتا ہے ۔تو اب بجائے اس کے کہ اس ظلم کاازالہ کیاجائے جو تم پر کیا گیا ہے اور تمہاری شرافت کی تائید کی جائے اگر اس اصل کے تحت کہ جُرم محض مقدمہ کر دینے سے ثابت ہو جاتاہے تمہاری مددسے ہاتھ کھینچ لیا جائے اور کہنا شروع کر دیا جائے کہ جو وکیل بھی تمہاری طرف سے پیش ہو گا وہ گنہگار ہوگا کیونکہ وہ ایک ملزم کی حمایت کرتا ہے تو کیا یہ درست طریقِ عمل ہو گااور کیا تمہارا جی چاہے گا کہ یہی اصل تمام دنیا میں رائج ہو جائے۔اور اگر کوئی شخص اپنی نادانی سے سمجھتا ہے کہ اسلام کا یہی منشاء ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ نَعُوْذُ بِاﷲِ اسلام ہر شریف آدمی کی پگڑی اُچھال لینے کی تائیدکرتا اور مظلوموں کی امداد کو گناہ قرار دیتا ہے ۔
توکسی ملزم کو مجرم قرار دینا حماقت کی بات ہوتی ہے۔ ملزم کے معنی صرف اتنے ہیں کہ اس پر کوئی الزام لگا یا گیا ہے ،آگے وہ الزام سچا ہے یا جھوٹا،یہ بعد میں ثابت ہوگا ۔اسی لئے قانونی طورپر مجرم اَور ہوتا ہے اور ملزم اَور،جب تک مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ اور جب اس کے خلاف فیصلہ ہو جاتا ہے تو وہ مجرم ہوتا ہے۔عربی میں بھی یہ دونوں اصطلاحیں رائج ہیں۔چنانچہ ملزم اسے کہتے ہیں جس پر الزام لگایا گیا ہو اور مجرم اسے کہتے ہیں جس کے متعلق کسی جُرم کااثبات ہوچکا ہو۔تو جب تک عدالت مقدمہ کا فیصلہ نہیں کرتی یا کسی اور ذریعہ سے انکشافِ حقیقت نہیں ہوتا اس وقت تک ملزم مجرم نہیں ہو سکتا ۔اور جس کی مدد سے اسلام روکتا ہے اور جس کی تائید سے ہر شریف آدمی بچتا ہے اور وہ ملزم نہیں بلکہ مجرم ہے۔اگر ملزموں کی مدد سے اسلام روکتا ہو تو اس کامطلب یہ ہوگا کہ وہ مظلوموں کی مدد کرنے سے روکتا ہے حالانکہ یہ درست نہیں۔
یہ تواصولی جواب ہے جو میں نے دیا ۔لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ معترض اپنے گھر کی بات بھی تو بیان کریں۔کیا ان کے آدمیوں پر جب مقدمات دائر ہوتے ہیں وہ ان کی مدد کرتے ہیں یا نہیں؟ مثلًا مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری پر اس وجہ سے مقدمہ ہؤ ا کہ انہوں نے بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ کو اپنی تقریر میں گالیاں دی تھیں۔
اب گالیاں دینا اپنی ذات میں ایک جُرم ہے۔اخلاقی طور پر بھی اور مذہبی طور پربھی اور قانونی طورپر بھی لیکن جب وہ مقدمہ ہؤا احرار نے ان کے لئے چندے بھی جمع کئے، وہ وکیل بھی لائے اور وہ جمع ہو کر اور پارٹیاں بن بن کر عدالتوںمیں بھی جاتے رہے ۔اب سوال یہ ہے کہ وہ ایساکیوں کرتے ہیں ۔اگر کسی ملزم کی مدد کرنا گناہ ہے تو یہ گناہ خود ان کے گھروں میں بھی ہوتا چلا آیا ہے اور جو مقدمات احرار پر ہوئے ہیں ان سب میں ان کی طرف سے ڈیفنس پیش کیا گیا ہے ۔انہوں نے چندے بھی اکٹھے کئے ہیں ۔انہوں نے مدد کے لئے بھی لوگوں سے اپیلیں کی ہیں اور سب نے قومی طور پر ان میں حصہ لیا ہے مگر ہماری طرف سے کبھی ان پر یہ اعتراض نہیں کیا گیا کہ وہ ملزم کی کیوں امداد کرتے ہیں؟کیونکہ وہ کہتے تھے کہ اس حصہ میں ہم ملزم کو مجرم نہیں سمجھتے۔تو پھر اگر کوئی دوسر ا بھی ملزم کی کسی ایسی بات میں مدد کرتا ہے جس میں وہ اسے مجرم نہیں سمجھتاتو اس پر انہیں اعتراض کرنے کا کیا حق ہے ۔بلکہ مشتبہ بات تو الگ رہی ایسے کیسز موجود ہیں جن میں جُرم نہایت واضح تھا اور شُبہ والی کوئی بات نہیں تھی مگر پھر بھی ان کی مدد کی گئی۔مثلًا میاں عبدالرشید دہلوی نے جب شردھا نند جی پر حملہ کیا۔یا میاں علم الدین لاہوری نے لاہور کے ایک ہندو مصنف پر حملہ کیا۔یا میاں عبدالکریم نے کراچی میں ایک ہندو یا سکھ پر(مجھے صحیح یا د نہیں)حملہ کیا۔تو تمام مسلمانوں نے ان کے لئے چند ے بھی کئے، ان کی طرف سے وکیل بھی مقرر کئے گئے اور ان کی ہر رنگ میں امداد بھی کی۔حالانکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان میں سے دو اقراری مُجرم تھے اور وہ کہتے تھے کہ ہم نے واقع میں قتل کیا ہے اور جب وہ اقراری مجرم تھے تو پھرکیا وجہ ہے کہ انہوں نے ان کی امدادکی۔
پس بفرضِ محال اگر یہ اعتراض سچا بھی ہو (ابھی میں اس اعتراض کو تسلیم نہیں کر رہا۔ میں صرف فرض کے طور پر امکانی رنگ میں یہ گفتگو کر رہا ہوں)اور فرض کرلو کہ جماعت نے میاں عزیز احمد صاحب کی مدد کی اور اس مدد کے معنے یہ تھے کہ ہم نے قتل پر انگیخت کی تو پھر ماننا پڑے گاکہ احرار اور مسلمانوں نے بھی میاں عبد الرشید دہلوی،میاں علم دین لاہوری اور میاں عبدالکریم کراچی والے کی مدد کر کے قتل پر انگیخت کی ہے۔آخر یہ ایسے ہی مقدمات تھے جیسے میاں عزیز احمد پر مقدمہ دائر ہؤا۔پھر جب ان مقدمات کے دوران میں انہوں نے ملزمین کی مدد کی ہے،ان کے لئے لوگوں سے چندے لئے ہیںاور ان کے مقدمات کی پیروی کے لئے اپنے میں سے وکیل مقرر کئے ہیںاوراس کے معنی قتل کی انگیخت کے ہوتے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ اس جُرم کا ارتکاب وہ بھی کرتے رہے ہیں ۔پس جو کام وہ خود بھی کرتے رہے ہیں اگر اسی قسم کاکام بفرضِ محال کوئی دوسرا بھی کر لے تو اس پر انہیں اعتراض کا کیا حق ہے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے محض الزام سے ملزم مجرم نہیں بن جاتا۔
اسی اصل کے ماتحت اب میں وہ حقیقت بیان کرنا چاہتا ہوں جس کے بعد ہر منصف مزاج شخص یہ سمجھ جائے گا کہ یہ اعتراض کس قدر غلط ہے۔جس وقت یہ واقعہ رونما ہؤا ہے اور اس کی ہمیں پہلے پہلے اطلاع ملی ہے تو وہ ایسی شکل میں تھی جس سے اندازہ یہ کیا گیا کہ یہ ایک باہمی لڑائی تھی جس میں غالبًا حملہ میاں فخر الدین صاحب کی پارٹی نے کیا تھا اور اس کی بناء بعض ایسے گواہوں کی شہادت پر تھی جنہوں نے بیان کیا کہ انہوں نے پہلے دو شخصوں کو میاں عزیز احمد صاحب پر حملہ کرتے دیکھا جس کے بعد انہوں نے اُٹھ کر ان میں سے ایک پر حملہ کیا۔(اس کی تشریح اخبار الفضل۲۰؍اگست ۱۹۳۷ء میں ہو چکی ہے)اس صورت میں ہم سمجھتے ہیں کہ میاں عزیز احمد صاحب پر قتل کا جو الزام لگایا جاتا ہے وہ غلط ہے اور لازمی طور پر ہمارا فرض تھا کہ ہم اپنے آدمی کی مدد کرتے جب بعض افراد ایک جماعت کی باگ اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی جماعت کو بچانے کے لئے ہر جائز کوشش کریں ۔پس بحیثیت خلیفہ ہونے کے میرا اور بحیثیت ناظر ہونے کے ناظروں کا اور بحیثیت پریذیڈنٹ ہونے کے پریذیڈنٹوں کا اور بحیثیت سیکرٹری یا کوئی اور عہدیدار ہونے کے سیکرٹریوں اور باقی تمام عہدیداروں اور بحیثیت احمدی ہونے کے ہر احمدی کا فرض ہے کہ اگر وہ دیکھے کہ کوئی احمدی کسی ایسے الزام میں مأخوذ ہے جو درست نہیں تو اس کی ہر جائز اور ممکن امداد کرے ۔
پس اس وقت بحیثیتِ جماعت ان کی امداد کا فیصلہ کیا گیا۔یعنی وکلاء کو ناظروں نے بلایا اور ان سے مشورہ لیا اور انہیں مناسب ہدایتیں دیں۔غالبًا مرزا عبدالحق صاحب اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل سے کہا گیا کہ وہ لوگوں سے گواہیاں لیں چنانچہ انہوں نے مقدمہ کی تیاری شروع کر دی لیکن دو تین دن کے بعد جبکہ مختلف بیانات اکٹھے ہوئے اور ان کا مجھ سے ذکر کیا گیا تو مختلف شہادتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ہمارا پہلا علم غلط فہمی پر مبنی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میاں عزیز احمد صاحب کی طرف سے پہلا حملہ ہؤ ا ہے ،دفاع نہیں ہؤا۔مجھے جب یہ معلوم ہؤاتو میری طرف سے اسی وقت ہدایت کر دی گئی کہ جماعت اس بارہ میں بحیثیت جماعت ان کی مدد نہ کرے۔چنانچہ مرکز سلسلہ نے اپنی مدد واپس لے لی۔
در حقیقت مرزا عبد الحق صاحب نے جب مختلف بیانات آکر مجھے سنائے تو اس وقت میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ پہلا حملہ میاں عزیز احمد صاحب پر نہیں بلکہ میاں فخر الدین صاحب پر تھا۔چنانچہ میں نے انہیں کہہ دیاکہ اس تحقیق کے بعد ہمار ا حق نہیںکہ ہم ملزم کی براء ت ثابت کریں۔مرزا صاحب میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہی تھے کہ چند منٹ بعد ناظر صاحب امورعامہ آئے۔انہوں نے بیان کیاکہ میاں بشیر احمد صاحب کا خیال ہے کہ اس وقت تک جس نتیجہ پر ہمارے دوست پہنچے ہیں وہ غلط ہے کیونکہ بعد میں بعض گواہیاں ایسی ملی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلا حملہ میاں عزیز احمد صاحب نے کیا ہے۔ اس پر میں نے انہیں بتایا کہ ابھی ابھی میں بھی اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہوں اور میں ہدایت دے چکا ہوں کہ ہماری طرف سے جماعتی طور پر ان کے لئے کوئی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔یہ غلط فہمی کیونکر ہوئی؟اس کے متعلق پہلے بھی شائع ہو چکا ہے۔
اصل بات یہ ہوئی کہ لڑائی دو جگہ پر ہوئی تھی ۔یعنی پہلے بازار کے اُس حصہ میں جہاں نسبتًا ہندو، سکھ اور غیر احمدی دکاندار زیادہ ہیں اور یہاں میاں عزیز احمد صاحب نے پہلا حملہ کیا پھر چند گزہَٹ کر اس جگہ پر جہاں احمدی دکاندار زیادہ ہیں۔یہاں میاں فخر الدین صاحب کے ساتھیوں نے ہاکی مار کر اسے گرایااور چوٹیں کھانے کے بعد میاں عزیز احمد صاحب نے مدافعانہ حملہ کیا۔
پس وہ گواہ جن کی گواہی سے یہ نتیجہ نکالا گیاکہ پہلا حملہ میاں عزیز احمد صاحب نے نہیں کیا بلکہ میاں فخر الدین صاحب کے ساتھیوں نے کیاہے۔اس وقوعہ کے گواہ تھے جو ان کی دکانوں کے سامنے پہلے حملہ کے بعد ہؤا تھا۔اس جگہ یہی نظر آتا تھا کہ میاں عزیزا حمد صاحب بھاگ رہے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے میاں فخر الدین صاحب کے ساتھی ہاکی اٹھائے دوڑ رہے ہیںاور اس جگہ کی گواہی واقعی یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کا حملہ صرف مدافعانہ تھا اور اس میں کوئی جھوٹ نہ تھا۔مگر دوسری طرف ہندو اور سکھ گواہوں میں سے بعض ایسے تھے جن کی گواہی کو کُلّی طور پر رَدّ نہیں کیا جا سکتا تھا اور ان کا یہ بیان تھاکہ بازار کے شروع میں پہلے میاں عزیز احمد صاحب نے حملہ کیا ہے۔پس جب یہ دونوں حصے مل گئے تب یہ بات ہماری سمجھ میں آئی کہ پہلا حملہ میاں فخر الدین صاحب پر تھااور اس کے بعد دوسراتتمہ وہ لڑائی تھی جو چند گز ہَٹ کرہوئی۔بہر حال جب ہماری غلط فہمی دور ہوگئی اور اصل حقیقت ہم پر واضح ہو گئی تو میں نے اسی وقت سلسلہ کے ذمہ دار ارکان سے کہہ دیا کہ اس صورت میں میاں عزیز احمد صاحب کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔دوسری طرف میں نے میاں عزیز احمد صاحب کو یہ پیغام بھجوا دیا کہ ہماری تحقیق یہی ہے کہ تمہاری طرف سے پہلا حملہ ہؤا اور اگر تمہارا علم بھی یہی کہتا ہے تو تمہیں کم سے کم اپنی عاقبت خراب نہیں کرنی چاہئے اور جو سچی بات ہے اس کا اقرار کر لینا چاہئے کیونکہ جسم کی حفاظت کی نسبت ایمان کی حفاظت زیادہ مقدم ہے۔اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس دن مسٹر انزڈپٹی کمشنر گورداسپور یہاں آئے ہوئے تھے۔انہوں نے دورانِ گفتگو میں خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب سے ذکر کیا کہ مخالفینِ احمدیت کہتے ہیں جماعت احمدیہ اب اسے قومی ہیرو بنا دے گی اور اس طرح دوسرے نوجوانوں میں قتل کے جذبات پیدا ہو جائیں گے اس لئے ہم یہ خواہش کرتے ہیں کہ قومی طور پر جماعت اس مقدمہ میں حصہ نہ لے ۔خان صاحب فرزند علی صاحب اس وقت ناظر امور عامہ نہیں تھے انہوں نے جب مجھ سے اس کا ذکر کیا تو میں نے انہیں بتایا کہ مجھے جس وقت سے اس بات کا علم ہؤا ہے کہ پہلا حملہ میاں عزیز احمد صاحب نے کیا ہے میں نے اسی وقت یہ ہدایت کر دی ہے کہ جماعت بحیثیت جماعت اس کی کوئی مدد نہ کرے اور اسے بھی نصیحت کردی ہے کہ جو کچھ سچی بات ہے وہ بِلا کم و کاست بیان کر دے۔آج اس کی پیشی ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ اگر وہ سچا احمدی ہے تو وہ ضرور اپنے جُرم کا اقرار کرے گا۔چنانچہ اتفاق کی بات یہ ہے کہ جس وقت ڈپٹی کمشنر صاحب کہہ رہے تھے کہ جماعت اب اسے قومی ہیرو بنادے گی۔عین اُسی وقت کمر ۂِ عدالت میں میاں عزیز احمد صاحب یہ بیان دے رہے تھے کہ میں نے خود میاں فخر الدین صاحب کے پوسٹر کی وجہ سے اشتعال میں آ کر ان پر حملہ کیا ہے۔جب اس قسم کی حرکت قاضی محمد علی صاحب سے ہوئی تھی اُس وقت میں نے بھی انہیں یہی نصیحت کی تھی کہ اگر آپ سے پہلے کوئی قصور ہؤا ہے تو اس کا اقرار کر لیں۔اس کے مقابلہ میں ذرا یہ معترض بھی بتائیںکہ ان کے آدمی کس طرح اقرار کیا کرتے ہیں۔ان کی طرف سے اکثر مقدمات میں واقعات کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے او ر پھر جھوٹے گواہ عدالت میں پیش کئے جاتے ہیں مگر احمدی کیسز میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جس میں واقعات کو چھپانے اور اصلیت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہو یہ واقعہ بھی ایک ایسے بازار میں ہوتا ہے جس میں کثرت سے احمدیوں کی دکانیں ہیںمگر ایک احمدی بھی جھوٹی گواہی نہیں دیتا ۔کیا یہ سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا ثبوت نہیں۔اگر دوسرے لوگ مقدمات میں جھوٹ بول سکتے ہیں تو کیا احمدی اگر ان میںایمان نہ ہوتا جھوٹ نہیں بول سکتے تھے۔وہ بھی بول سکتے تھے مگر اسی ایمان نے انہیں جھوٹ بولنے سے باز رکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے دلوں میں پیداکر دیا ہے۔
پس یہ واقعہ بذات خود جماعت احمدیہ کی راستبازی کا ایک ثبوت ہے۔اور اس واقعہ نے اور اسی قسم کے بعض اور واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر احمدی جھوٹ بولنے والے ہوتے تو مقدمات ضرور مشتبہ ہو جاتے۔مگر آج تک جتنے مقدمات میں ہماری جماعت کے افراد کو بظاہر نقصان پہنچا ہے،محض جُرم کا اقرار کرنے اور سچ بولنے کی وجہ سے پہنچا ہے۔مجھے خوب یا د ہے کہ قاضی محمد علی صاحب پر جن دنوں مقدمہ چل رہا تھا،ایک افسر سے ایک احمدی نے اس کا ذکر کیا اور اس نے دریافت کیا کہ کیا ان حالات میں وہ پھانسی کامستحق ہے۔اس افسر نے جواب دیا کہ اگر وہ انکار کرتے توان حالات میں پھانسی کیا وہ تو شاید کسی سزا کے بھی مستحق نہ ہوتے۔مگرجو شخص خود اقرار کر لے اور کہے کہ میں نے قتل کیا ہے،اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔تو احمدیہ جماعت کی سچائی ہی ہے جس نے دشمنوںکے لئے ایک فتح کی صورت پیدا کی اور وہ ہماری جماعت کے بعض افراد کو سزا دلوانے میں کامیاب ہوگئے ورنہ اور کسی صورت میں وہ سزا نہیں دلوا سکتے تھے۔غرض ایک طرف مرکز سلسلہ نے اپنی مدد واپس لے لی اور دوسری طرف انہیں نصیحت کر دی گئی کہ وہ سچائی کو نہ چھوڑیں اور اگر یہ قصور ان سے سرزد ہؤ ا ہے تو اس کا اقرار کرلیں۔بلکہ مزید غلط فہمی دور کرنے کے لئے چونکہ مرزا عبد الحق صاحب اکثر سلسلہ کے مقدمات لڑتے ہیںان کوبھی روک دیا گیا۔صرف یہ ہدایت دے دی گئی کہ وہ حالاتِ مقدمہ کی نگرانی رکھیںاور یہ دیکھتے رہیں کہ مقدمات میں کوئی ایسی بات تو نہیں کی جاتی جو سلسلہ کی بدنامی کا موجب ہو تاکہ دشمنوں کی شرارتوں کا علم رہے اس سے زیادہ اس مقدمہ میں جماعت نے کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ سلسلہ کی کوششیں محدود رہیں۔
اسی عرصہ میں جیسا کہ میں بتا چکا ہوں حکومت کی طرف سے شکایت ہوئی کہ احمدیت کے مخالفین یہ کہتے ہیںکہ جماعت احمدیہ اسے قومی ہیرو بنا دے گی اور یہ کہنے لگ جائے گی کہ وہ بڑا نیک، بڑا قربانی والا او ر سلسلہ کا بڑا خدمت گزار تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دوسرے نوجوانوں کے دلوںمیں بھی یہی خیال پیدا ہوگاکہ آؤ ہم بھی کسی کو قتل کریں اور شہادت کا درجہ پائیں۔
چنانچہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب سے ڈپٹی کمشنر صاحب نے خواہش کی کہ آپ اس مقدمہ میں قومی طور پر حصہ نہ لیں۔چونکہ ہمارا اپنا بھی یہی فیصلہ تھااس لئے خان صاحب نے ان سے اقرارکیاکہ ہماری جماعت بحیثیت جماعت اس میں حصہ نہیں لے گی او ر کہا کہ ہم آپ کی مشکلات کو سمجھتے ہیں۔ہم پر حقیقت چونکہ کھل چکی ہے اس لئے ہم آپ کو یقین دلاتے ہیںکہ جماعت قومی طور پر میاں عزیز احمد صاحب کی مدد نہیں کرے گی۔حکومت کا یہ مطالبہ جیساکہ ہمیں بعد میں معلوم ہؤا ناجائز تھا اور ہمارا اس سے یہ اقرار کر لینا بھی کہ ہم بحیثیت جماعت ملزم کی مدد نہیں کریں گے،جیسا کہ میں بعد میں ذکر کروں گا نقصان دہ تھا۔ مگر بہر حال ہم نے اقرار کیا اور بعد میں اس سے ہمیں نقصان پہنچا لیکن سلسلہ نے اسے قبول کرلیا۔یہ مطالبہ نقصان دہ اس لئے تھا کہ ایسے مقدمات میں قتل کے واقعات کو بِالعموم سازش کا رنگ دے دیاجاتا ہے اور فریقِ مخالف صرف یہ ثابت نہیںکرتاکہ فلاںنے اسے مارا ہے بلکہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس کے ذریعہ سے اسے مروایا گیا ہے او ر یہ طریق ہمارے ملک میں اتنی کثرت سے رائج ہے کہ انگریز مصنف جو قانون کے ماہر ہیں انہوں نے متعدد مقامات پر اپنی کتابوںمیں لکھاہے کہ ہندوستان میں قتل صرف منفرد فعل کی حد تک محدود نہیں رہتے بلکہ ان قتلوں کو کسی سازش کا نتیجہ قرار دے دیا جاتا ہے۔چنانچہ حال ہی میں ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کا فیصلہ ہؤا ہے جس میں یہ سوال در پیش تھا کہ مرنے والے نے بہت سے آدمیوں کا نام لے دیا تھا اور کہا تھا کہ مجھے قتل کرنے میںیہ یہ شریک ہیں۔پرانے زمانے میں یہ دستور تھا کہ وہ مرنے والے کے بیان کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور مقتول مرتے ہوئے جب بھی کسی کا نام لے دیتا اسے ضرور گرفتار کر لیا کرتے تھے او ر دلیل یہ دیتے تھے کہ مرنے والا جھوٹ نہیں بول سکتا۔وہ خدا تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے حاضر ہونے والا ہوتا ہے۔وہ مرتے وقت بھلا جھوٹ کس طرح بول سکتا ہے ۔نتیجہ یہ ہوتا کہ مقتول مرتے وقت جو بیان بھی دے دیتا ۔اُسے سچا سمجھ لیا جاتااور اس کے مطابق ملزموں کو سزا دے دی جاتی۔لیکن آہستہ آہستہ معلوم ہؤا کہ ایسے موقع پر بھی بڑے بڑے جھوٹ بولے جاتے ہیں اور اب عدالتوں کا رُجحان اس طرف ہو گیا ہے کہ ان گواہیوں کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے۔چنانچہ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے تین چار دن ہوئے ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ شائع ہؤا ہے جس میں بڑے بڑے ججوں اور وکلاء کی کتابوں کے حوالہ جات سے یہ بات لکھی گئی ہے کہ ہندوستان میں کثرت سے یہ رواج ہے کہ مرنے والا بہت سے آدمیوں کے نام لے دیتا ہے کیونکہ اس کے رشتہ دار اُسے کہتے ہیں کہ اب تو تُو مر چلا ہے کوئی بیان ایسا دے جا جس کے نتیجہ میں ہمارے فلاں فلاں دشمن پھنس جائیں چنانچہ وہ ان کے حسبِ منشاء بیان دے دیتا ہے۔
در حقیقت ہمارے ملک کے لوگوں کے دلوں میں یہ ایک غلط خیال بیٹھ چکا ہے کہ مرنے والا جھوٹ نہیں بول سکتا۔مرتے وقت وہی جھوٹ نہیں بولا کرتا جسے قیامت پر یقین ہوتا ہے مگر جو قیامت اور بعث بعد الموت پر یقین ہی نہ رکھتا ہو وہ اس موقع پر جھوٹ بولنے سے نہیں رہ سکتابلکہ زیادہ جھوٹ بولتا ہے اور عقلًا بھی یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کاسمجھنا مشکل ہو۔اگر اسے خدا کی ہستی پر یقین ہوتا اگر وہ سمجھتا کہ مرنے کے بعد بھی ایک زندگی ہے تو اس کی ساری عمر بدکاری میں کیوں گزرتی۔اس کا تمام عمر بدیاں کرتے چلے جانا بتاتا ہے کہ وہ عالَمِ آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتا تھا اور جب وہ دوسرے عالم پر یقین ہی نہیں رکھتا تھا تو اس کا موت کے وقت کا بیان کیونکر قابلِ تسلیم ہو سکتا ہے تو اس قسم کے واقعات ہمارے ملک میں ہوتے رہتے ہیں لوگ جھوٹ بولتے ہیںاور اس طرح فریقِ مخالف کو پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔یا مرنے والا بعض آدمیوں کے جھوٹ مُوٹ کے نام لے دیتا ہے اور اس طرح انہیں پکڑوانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یا پھر پولیس پر یہ زور دیا جاتا ہے کہ یہ منفردفعل نہیںبلکہ کسی گہری سازش کا نتیجہ ہے۔اس واقعہ میں بھی سنا گیا ہے ایسا ہی ہؤا اور بیان کیا جاتاہے کہ میاںفخر الدین صاحب نے مرتے وقت میرا نام بھی لیا۔سیدولی اللہ شاہ صاحب کا نام بھی لیا اور اسی طرح اورکئی آدمیوں کا نام لیا اور کہا کہ یہ مجھے مروانے والے ہیں۔اس طرح ان کی پارٹی نے بھی ان مقدمات میں یہ کوشش کی کہ یہ واقعۂ قتل سازش کا نتیجہ ثابت ہو۔
اب قانون انگریزی کی رو سے ایسے فوجداری مقدمات میں ایک طرف گورنمنٹ ہوتی ہے اور دوسری طرف مدعا علیہ اور اگر کسی دوسرے نے کوئی بات اپنی بریت کے لئے پیش کرنی ہو تو اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ یا گورنمنٹ کو قابو کرے یا مد علیہ کی امداد کرے او ر اس کے دفاع کے ساتھ اپنا دفاع ملا کر پیش کرے ۔اس کے علاوہ اَور کوئی صورت نہیں ہوتی۔پس اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ یا تو مدعا علیہ سے دوستانہ تعلقات پیدا کرے اور اس ذریعہ سے اپنا ڈیفنس پیش کرے یا حکومت سے دوستانہ تعلقات پیدا کرے۔
یہاں جب مقدمہ شروع ہؤا تو چونکہ گورنمنٹ کی طرف سے یہ مقدمہ چلایا گیا تھا اس لئے لازمی طور پر دوسری پارٹی جو اصل مدعی تھی اس نے حکومت کی مقامی مشینری سے وابستگی اختیار کی اور چونکہ بعض مقامی پولیس افسر ہمارے دشمن تھے اس لئے خود گورنمنٹ کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جانے لگاکہ اس میں سازش تھی اور ایسے کئی امور مسل پر آگئے جن کاسلسلہ پربُرا اثر پڑتا تھا اور کہا جانے لگا کہ صرف یہی قتل نہیں بلکہ اور لوگ بھی قتل کی اس سازش میں شریک ہیں ۔اب جبکہ حکومت کی طرف سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی تھی کہ یہ قتل سازش کا ایک نتیجہ ہے،ہماری جماعت کے لئے اپنی بریت کی صرف ایک ہی صورت تھی اور وہ یہ تھی کہ وہ میاںعزیز احمد صاحب کے ڈیفنس میں ایسی باتیں مسل پر لاتی جن سے ان امور کی تردید ہوتی لیکن چونکہ ہم عہد کر چکے تھے کہ ہم میاں عزیز احمد صاحب کی جماعتی طور پر کوئی مدد نہیں کریں گے اس لئے اس اقرار کے ذریعہ دفاع کا صرف ایک ہی دروازہ جو ہمارے لئے کھلا تھا وہ ہم نے اپنے اوپر بند کر لیا ۔جس کے نتیجہ میں مسل پر کئی ایسے امور آگئے جو سلسلہ پر ایک حملہ تھے اور ہمیں دفاع کا کوئی موقع نہ ملا۔غرض حکومت کا یہ مطالبہ کہ قومی طور پر جماعت احمدیہ اس مقدمہ میں حصہ نہ لے یقینًا ہمارے لئے نقصان دہ تھا کیونکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ایسے مقدمہ میں دو ہی فریق ہوتے ہیں یا حکومت یا ملزم۔دوسری کسی پارٹی کو خواہ اس کے حقوق پر کس قدر ہی اثر کیوںنہ پڑ رہا ہو براہ راست دخل دینے کی اجازت نہیں ہوتی۔فریقِ مخالف تو حکومت کے ذریعہ سے اپنا کام کرسکتا تھا کیونکہ وہ حکومت کی طرح مدعی تھااور اس نے ایسا کیا بھی۔چنانچہ پراسیکیوشن نے مقدمہ میں زو ر لگایاکہ یہ سازش کا نتیجہ ہے ۔سلسلہ اگر ایسے حملوں کا دفاع کر سکتا تھا تو محض اسی طور پر کہ وہ مدعا علیہ کی امداد کرتااور اس کے دفاع کے ساتھ ملا کر اپنا دفاع کرتالیکن مذکورہ بالا وعدہ کی وجہ سے یہ راستہ سلسلہ کے لئے بند ہو چکا تھا نتیجہ یہ ہؤا کہ ایسے کئی امور جن کا سلسلہ پر بُر ا اثر پڑتا تھا مسل پر آگئے لیکن ان کے دفاع کا سلسلہ کو کوئی موقع نہ ملا۔ جھوٹ پھیلتا گیا لیکن اس جھوٹ کا ازالہ نہ ہو سکا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب جھوٹ اور فریب سے کام لے کر ایک منفرد فعل کو سازش قرار دیا جائے تو قانوناً اور شرعاً ملزم کی مدد کرنے والے کبھی بھی مجرم نہیں کہلا سکتے کیونکہ گو ملزم مجرم ہو مگر جس پر سازش کا الزام لگایا گیا ہے اس کے پاس سوائے اس کے اَو ر کون سا ذریعہ ہے کہ وہ ملزم کی جائز حد تک امداد کرے او راس کے دفاع کے ساتھ اپنا دفاع ملا کر مسل پر وہ باتیں لے آئے جن کا لانا ضروری ہے۔ اس صورت میں وہ مجرم نہیں کہلا سکتے کیونکہ انہیں اس کام پر مجبور کرنے والے سازش کا الزام لگانے والے ہوتے ہیں۔اگر دوسرا فریق ایک بے گناہ جماعت کو موردِ الزام نہ بنائے تو کسی کو کیا ضرورت ہے کہ اس میں دخل دے اور اگر مدعی فریق ایک بے گناہ جماعت کوموردِ الزام بنا تا ہے تو اس فریق کے پاس قانونی طور پر سوائے اس کے اَور کونسا ذریعہ ہے کہ وہ ملزم کی مدد کرے اور اس کی مدد کرتے ہوئے اپنا دفاع پیش کر دے۔
پس یا تو ہندوستان میں قانون کی اصلاح کی جائے او ر ایسے لوگوں کے ذکر کو قطعی طور پر روک دیا جائے جو فریقِ مقدمہ نہیں ہوتے ۔یا پھر انہیں فریق مقدمہ کے طور پر پیش ہونے کی قانون اجازت دے دے۔یعنی یا تو یہ قانون کر دیا جائے کہ جو فریقِ مقدمہ نہیں اُس کا مقدمہ کی سماعت کے دوران میں مخالفانہ طور پر ذکر ہی نہ آئے اور یاپھر یہ قانون کر دیا جائے کہ اگر کسی فریق کا اس رنگ میں ذکر آجائے تو پھر اُس فریق کو حق ہوگاکہ وہ اپنے وکلاء کے ذریعہ مجسٹریٹ کے سامنے اپنا دفاع پیش کرے مگر موجودہ قانون نہ تو ان لوگوں کے مخالفانہ ذکر کو قطعی طور پر روکتا ہے جو فریقِ مقدمہ نہ ہوںاور نہ انہیں فریقِ مقدمہ کے طور پر پیش ہونے کی اجازت دیتاہے۔جیسے مولوی عطاء اللہ صاحب پر جب مقدمہ ہؤا تو ہماری جماعت پر اس مقدمہ کے دوران خطرناک حملے کئے گئے ۔ہم نے گورنمنٹ کو بہتیرا کہاکہ آخر یہ مقدمہ ہم پر تو نہیں چل رہا کہ ہمارے مخالفانہ ذکر کو گورنمنٹ مِسلوں پر لا رہی ہے اس ذکر کو روک لینا چاہئے۔ نہیں تو ہمیں اپنے دفاع کو پیش کرنے کا موقع ملنا چاہئے مگر وہ یہی کہتی کہ کوئی قانون نہیں ،کوئی قانون نہیں۔پس آئندہ یا تو قانون کی یہ اصلاح کی جائے کہ ایسے لوگ جو فریقِ مقدمہ نہیں ان کامخالفانہ ذکر قطعاً درمیان میں نہ آئے اور یا پھر دوسرے کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنا وکیل لائے او ر کہے کہ مجھ پر جب الزام لگاتے ہو تو میرا جواب بھی سن لو۔اگر یہ دونوں امر نہ ہوںتو جس قدر مذہبی قتل ہندوستان میں ہوں گے ان میں ملزم کی قوم اس بات پر مجبو ر ہوگی کہ ملزم کاساتھ دے اور اس کی مدد کرے کیونکہ اس کے ساتھ شامل ہوئے بغیر وہ اپنا دفاع پیش نہیںکرسکتی۔
آخر ایک قوم کی عزت پر جب حملے کئے جائیں اور بِلا وجہ اسے لوگوں کی نظروں میں گرانے کی کوشش کی جائے تو اپنی عزت اور وقار قائم رکھنے او ر عائد کردہ الزامات سے اپنی بریت ثابت کرنے کے لئے کیا طریقِ عمل اختیار کرے؟ اس کے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ ملزم کے ساتھ مل جائے کیونکہ وہ اس کے ساتھ شامل ہوئے بغیر دفاع نہیں کر سکتی۔وہ قانون جس کا فرض ہے کہ وہ مظلوم کی مدد کرے وہ ان حالات میںظالم کی طرف چلا جاتا ہے اور مقدمہ کی صورت اس طرح بدل جاتی ہے کہ منفرد فعل کو سازش قرار دے دیا جاتا ہے اور جو بالکل بری الذمہ قوم ہوتی ہے اس پر بِلا وجہ حملے شروع کر دئیے جاتے ہیں او ر اسے اپنی براء ت پیش کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا جاتا اور وہ اس طرح الگ بیٹھی رہتی ہے جیسے اس پر کوئی حملہ ہی نہیں ہؤا۔ اور اگر وہ بولتی ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تمہیں اس مقدمہ میں بولنے کا کوئی حق نہیں تم کوئی فریق مقدمہ نہیں کہ اس میں حصہ لے سکو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب وہ فریق مقدمہ نہیں تو مقدمہ میں اس کا ذکر کیوں کرتے ہو۔پس اگر کسی مجرم کی مدد کرنا جُرم ہے تو اس کا الزام قانون کے نقص پر آتا ہے نہ کہ اس قوم پر کیونکہ موجودہ قانون اس قوم کو اس بات پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ مجرم سے مل جائے کیونکہ بغیر اس کے وہ اپنا دفاع پیش کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتی۔مگر یہ میں نے عام قانون بتایا ہے کہ ہندوستان میں ایسا ہوتا ہے ورنہ ہماری طرف سے ایسا نہیں ہؤا۔ہم نے غلطی سے ابتداء میں جب یہ اقرار کیا ہے اُ س وقت ہمیں یہ علم نہیں تھاکہ بعد میں ہمارے ساتھ مخالف پارٹی کے لوگ ایسی شرارت کریںگے کیونکہ ابھی جماعت احمدیہ سے ان کا تعلق قریب ہی میں ٹوٹا تھا اور ہم یہ خیال نہیں کرسکتے تھے کہ وہ ایسا جھوٹ بولیں گے اور پراسیکیوشن کو ایسے راستہ پر چلائیں گے کہ وہ کہیں گے کہ یہ قتل کسی سازش کا نتیجہ ہے۔بعد میں جب ہمیں حالات کے اس طرح بدل جانے کا علم ہو گیا اور معلوم ہو گیا کہ اس مطالبہ کا پورا کرنا ہمارے لئے نقصان دہ ہے تب بھی ہم نے اپنے وعدہ کو کامل طور پر پورا کرنے کافیصلہ کیا۔پس اس موقع پر جوبددیانتی ہوئی ہماری طرف سے نہیں ہوئی بلکہ حکومت کے بعض لوکل نمائندوں نے فرض شناسی سے کام نہیں لیا۔
حکومت کی طرف سے کہا جاسکتا ہے کہ ایسی غیر متعلق باتوں کو قانون کوئی وقعت نہیں دیتالیکن یہ درست نہیں آخرمسٹر کھوسلہ نے اور کئی مجسٹریٹوں نے پچھلے چند ہی سالوں میں یہ غلطیاں کی ہیں یا نہیں۔جب ایسی غلطیاں ہوئی ہیں تو لازماً اس قوم کو غصہ آئے گا جس کے اخلاق کو زیرِ بحث تو لایا جاتا ہے مگر اسے دفاع کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔کیا یہ عجیب بات نہیں کہ حکومت ایک طرف تو ایک ایسی جماعت کاجو فریق مقدمہ نہیں اپنے مقدمات میں بار بارذکر کرتی ہے ،اس کے اخلاق کو زیر بحث لاتی ہے۔اور اس کے خلاف معاندانہ ریمارکس مِسلوں میں درج کرتی ہے اورپھرکہتی ہے کہ اس کی پرواہ نہ کرو۔آخر جو چیز ریکارڈ پر آجائے گی ،اس کی پرواہ کیوں نہ کی جائے گی ۔وہ شائع بھی ہو سکتی ہے، اس سے استدلال بھی کیا جا سکتا ہے، اسے مخالفانہ رنگ میں پیش بھی کیا جاسکتا ہے پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ بھی درست نہیں کہ یہ غیرمتعلق باتیں ہیں جنہیں قانون کوئی دقعت نہیں دیتا ۔
اگر حکومت کا یہ قول درست ہے تو وہ بتائے کہ اس نے مسٹر کھوسلہ کو کیا سزا دی تھی۔کیا مسٹرکھوسلہ نے ہماری جماعت کے خلاف ریمارکس نہیں کئے تھے؟ اگر کئے تھے تو اس قسم کے مجسٹریٹوں کو روکنے کا کوئی ذریعہ بھی تو ہونا چاہئے اور اگر کوئی ذریعہ نہیں ہوگا تو وہ ایسے ریمارک کرتے جائیں گے اور جماعت حقِ دفاع سے محروم رہے گی۔چنانچہ مسٹر کھوسلہ نے ہی ہماری جماعت کے خلاف سخت ریمارکس کئے اور جب اس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی تو ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ بعض جگہ مسڑ کھوسلہ مسل سے بالکل باہر چلے گئے ہیں اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ فاضل جج نے اس وقت کہا یاشاید فیصلہ میں لکھا کہ اسے پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ مقدمہ مولوی عطاء اللہ صاحب کے خلاف نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کے خلاف ہور ہا تھا۔مگر باوجود اس کے گورنمنٹ نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی قانون ایسا موجود نہیں جو مجسٹریٹوں کو ایسی غیر متعلق باتوں سے روکتا ہو اور یہ صرف مسٹرکھوسلہ پر ہی منحصر نہیں اور بھی کئی مجسٹریٹوں نے پچھلے چند سالوں میں یہ غلطیاں کی ہیںاور قادیان کے احمدیوں کے متعلق ناواجب ریمارکس کئے ہیں۔ان حالات میں لازماً اِس قوم کو غصہ آئے گا جس کے خلاف مِسلوں میں مصالحہ جمع کیا جاتاہے مگر اسے دفاع کا موقع نہیں دیا جاتا اور وہ یا تو کسی فریق سے مل کر اپنے حق کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گی یا پھر حکومت کے خلاف اس کے دل میں نفرت کا جذبہ پیدا ہوگا۔یعنی یا تو اس کا غصہ اس طرح فرو ہو سکتا ہے کہ اسے دفاع کرنے کا موقع مل جائے جس کا طریق سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ کسی ایک فریق سے مل جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر اس کے دل میں حکومت کے خلاف غصہ کے جذبات پیداہونگے کہ اس نے عدالتیں تو بنائیں مگر وہ ایک تیسرے فریق پر جس کا مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔نہ وہ مدعی ہوتا ہے نہ مدعاعلیہ ہوتاہے بِلا وجہ حملے شروع کر دیتی ہے اور وہ قانون کو نہیں بدلتی۔پس چاہئے کہ حکومت قانون کے ذریعہ سے جلد اس نقص کا ازالہ کرے۔تا مختلف مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذاہب کی حفاظت کے لئے خواہ مخواہ مجرم کے ساتھ تعاون نہ کرنا پڑے اور فردی جُرم قومی کشمکشوں کا ذریعہ نہ بن جایا کرے۔اگر وہ ایسا کردے تو بَیْنَ الْاَقوامی جھگڑوں کی بہت سی سختی دور ہو جائے گی۔
غرض یہ صورتِ حالات قانون کے نقص سے پیدا ہوتی ہے یا پھر بے تعلق فریق کو بِلاوجہ ملزم گرداننے کی کوشش سے پیدا ہوتی ہے۔پس یا تو گورنمنٹ پر الزام آتا ہے ۔یا مخالف فریق پر الزام آتا ہے جو بِلاوجہ ایک تیسرے فریق کو درمیان میں گھسیٹ لاتا ہے۔
پس ان حالات میں ہم سمجھتے ہیں کہ گورنمنٹ کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ ہم سے یہ مطالبہ کرتی اور اگر اس نے یہ مطالبہ ہم سے کیا تھاتو پھر اس کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ ایسے امور کو بیچ میں نہ آنے دیتی جس سے جماعت پر حرف آتا ہو اور صرف انہی باتوں کے بیان کرنے کی اجازت دیتی جن کا اثرصرف ملزم تک رہتالیکن اس نے اپنا یہ فرض ادا نہیں کیا بلکہ خود پراسیکیوشن کے بعض افسروں کی طرف سے فریق مخالف کے اثر کے ماتحت بعض ایسے امور زیر بحث لائے گئے جو اگر نہ آتے تو انصاف کے زیادہ مطابق ہوتا چنانچہ یہ سوال اٹھایا گیا کہ اس قتل کی تہہ میں سازش معلوم ہوتی ہے۔گو سیشن جج صاحب نے اسے رد کر دیا۔
پس اس موقع پر جو غلطی ہوئی وہ حکومت کی طرف سے ہوئی ہم سے نہیں ہوئی۔ہم نے اس کے مطالبہ کو امن میں مُمِد سمجھتے ہوئے مان لیامگر اس نے فرض شناسی سے کام نہیں لیااور اپنے ماتحت افسروں کو اس نے یہ ہدایت نہیں دی کہ ہم نے اس فریق سے چونکہ وعدہ لے لیا ہے کہ وہ بحیثیت جماعت ملزم کی مدد نہیں کرے گا اس لئے اب تمہیں خیال رکھنا چاہئے کہ ملزم کے علاوہ اس کی جماعت کا ذکر مخالفانہ طور پر درمیان میں نہ آئے ۔
پس ہم نے جو وعدہ کیا تھا اسے کامل طور پر پورا کر دیا۔ہاں ہمارا قصور یہ ضرور ہے کہ ہم نے حکومت کو وعدہ دیتے ہوئے خود اس سے بھی وعدہ نہ لے لیا کہ سازش کا سوال درمیان میںنہیں آئے گا ورنہ ہمیں ملزم کے ساتھ ملنے کی آزادی ہوگی۔یہ ہماری نا تجربہ کاری تھی کہ ہم نے اپنے وعدہ کے مقابلہ میں ایک وعدہ اس سے نہ لے لیا کیونکہ ایسا پہلے ہمارے ساتھ کبھی نہیں ہؤا تھا۔اگر ہمیں پہلے معلوم ہوتا کہ سازش کا سوال درمیان میں اٹھا دیا جائے گا تو اسی وقت ہم کہہ دیتے کہ اگر دوسرے فریق کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ یہ قتل سازش کے نتیجہ میں ہؤاہے تو پھرہمارا حق ہوگاکہ ہم ملزم کے ساتھ مل جائیں کیونکہ اپنی براء ت پیش کرنے کا سوائے اس کے کوئی اور طریق نہیں کہ مدعا علیہ سے ہم مل جائیںاور اس کے دفاع کے ساتھ اپنا دفاع بھی پیش کردیںاور مدعاعلیہ کا وکیل تب ہی ہماری بات سُنے گا جب اس کے مؤکّل کا ہمارے ساتھ تعلق ہوگا۔یونہی وہ ہماری بات کس طرح سن سکتا ہے۔مگر خیر یہ ایک تجربہ تھا جو اس دفعہ ہمیں حاصل ہؤا اور جس سے خدا ہمیں تو بچائے مگر دوسری قومیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور جب حکومت ان سے یہ مطالبہ کرے کہ فلاں معاملہ میں بحیثیت جماعت تم مددمت کروتو وہ کہہ سکتی ہیں کہ بہت اچھا ہم مدد تو نہیں کریں گی مگر ساتھ ہی آپ کا بھی یہ اخلاقی فرض ہوگا کہ بات صرف مجرم تک رہے اور ایسے لوگوں کا نام لینے کا افسر ہرگز مجاز نہ ہوں جو فریقِ مقدمہ نہیں اور اگر وہ لیں تو حکومت کی طرف سے انہیں سزا دی جائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھردفاع کے سامان کس طرح مہیا ہوئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب میاں عزیز احمد صاحب کے ہم وطنوں کوجو کافی تعداد میں قادیان میں ہیںیہ معلوم ہؤاکہ جماعت بحیثیت جماعت اب ان کی مدد نہیں کرے گی تو ان میں سے بعض مجھ سے ملے اور اس امر کے خلاف احتجاج کیا اور کہا کہ ملزم کو بغیر امداد کے چھوڑنا جائز نہیں۔جب میں نے انہیں کہا کہ ملزم نے حملہ خود تسلیم کیا ہے ۔اس صورت میں ہم اس کی کیامدد کر سکتے ہیں تو اس پر بعض نے کہا کہ بے شک ملزم نے حملہ تسلیم کیا ہے لیکن ہر حملہ کی سزا تو نہیں ہوتی ۔بعض حملوں کی سزا عبور دریائے شور ہوتی ہے،بعض حملوں کی سزا دس سال قید ہوتی ہے اوربعض حملوں کی سزا پھانسی ہوتی ہے اس صورت میں کیا اگر اس کا جُرم پھانسی کے قابل نہیں بلکہ قید کے قابل ہے تو ہمارا حق نہیں کہ اس کو دفاع میں مدد دیںتا وہ اپنا حق حاصل کرے اور اسے اپنے جُرم سے زیادہ سزا نہ ملے۔ آخر جُرم کے ثابت ہونے سے پہلے اس کے جُرم کی نوعیت کیونکر معلوم ہو گئی۔اور کیا اگر اس کا جُرم دس سال قید کی سزا والا ہے تو ہمارا فرض نہیں کہ اس کو دفاع میں مدد دیں تا غلطی سے مجسڑیٹ اسے پھانسی کی سزا نہ دے دے۔یہ تو مجرم کی نہیں بلکہ حق کی مدد ہوگی اگر اس قسم کی کوشش کی جائے۔
پس انہوں نے یہ سوال کیا کہ کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم دفاع میں اس کی جائز حد تک مدد کریںتا اسے جُرم سے زیادہ سزا نہ ملے۔آخر جُرم کے ثابت ہونے سے پہلے ہمیں جُرم کی نوعیت کیونکر معلوم ہوگئی اور ہمیں کیونکر پتہ لگ گیا کہ یہ جُرم اس قسم کا ہے جس کی سزا پھانسی ہے۔ یا اس قسم کا ہے جس کی سزا عبور دریائے شو ر ہے۔یا اس قسم کا ہے جس کی سزا دس سال قید ہے۔یہ جرح ان کی معقول تھی۔میں نے ان کوجواب دیا کہ ہم یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ بحیثیت جماعت ان کی مدد نہ کریں گے۔آپ لوگوں کو انفرادی طور پر امداد کی اجازت دینا میرے نزدیک اس وعدہ سے باہر ہے لیکن بہتر ہوگا کہ ہم حکومت کا خیال معلوم کرلیںکہ وہ ہمارے وعدہ کے کیا معنی لیتی ہے۔چنانچہ محکمہ امور عامہ کی طرف سے ڈپٹی کمشنر صاحب کو چِٹھی لکھی گئی کہ میاں عزیز احمد صاحب کے بعض ہم وطنوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ہمیں اس کی مدد سے کیوں روکا جاتا ہے ۔ابھی تو اس کا جُرم ثابت ہی نہیں ہؤااور نہ جُرم کی نوعیت کا علم ہؤا ہے تو جس حد تک اس کی مدد کرنے کا ہمیں اور قانون سے فائدہ اٹھانے کا انہیں حق حاصل ہے اس سے ہمیں اور انہیں کیوں محروم کیا جاتا ہے۔اس پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے ہمیں تحریری جواب دیا کہ کسی ملزم کو دفاع سے ہم محروم نہیں کرنا چاہتے۔
جماعت اگر بحیثیت جماعت مدد نہ کرے اور انفرادی طور پر ملزم کے ہم وطن یا دوست یا تعلق والے کوئی چندہ کرنا چاہیں تو ان کو روکنے کی کوئی وجہ نہیں۔چنانچہ اس چِٹھی کے مطابق جو اب تک ہمارے پاس موجود ہے انہیں اجازت دے دی گئی کہ وہ چندہ کریں اور جائز حد تک مدد کریں یعنی مدعی کو جھوٹ بولنے سے روکیںیہ نہ ہو کہ وہ کہہ دے کہ میں نے کوئی حملہ نہیں کیا جس پر ان لوگوں نے اس غرض سے لوگوں سے چند ہ کر کے وکیل کیا۔ان میں سے بعض لوگ مجھ سے بھی چندہ لینے کے لئے آئے تو میں نے کہا کہ میں اس میں چندہ نہیں دے سکتا بلکہ ناظروں کو بھی چندہ دینے کی اجازت نہیں دیتاکیونکہ ہمارا وجود سلسلہ سے ایسا وابستہ ہے کہ ایسے امور میں ہماری کوئی منفرد ذات نہیں ہوتی۔ایک عام احمدی کی حیثیت اور ہے اور ہماری اور۔ہم مرکز کو چلانے والے ہیں مگر ایک عام احمدی مرکز کو چلانے والا نہیں پس اس میں نہ میں نے چندہ دیا اور نہ ناظروں کو میں نے اس میں حصہ لینے یا کام کرنے کی اجازت دی۔
پس یہ جو کچھ ہؤا اسی حکومت کی اجازت سے ہؤا جس کے ساتھ ہم نے وعدہ کیا تھا۔ احراریا مصریوں سے تو ہمارا کوئی وعدہ تھا ہی نہیں پھر ہمارے قول میں اختلاف انہیں کہاں سے نظر آگیاہم نے جس سے وعدہ کیاتھا وہ سمجھتا تھا کہ ہم نے کیا وعدہ کیا ہے اور ہم بھی اپنے دلوں میں سمجھتے تھے کہ ہم نے کیا وعدہ کیا ہے چنانچہ حکومت کی چِٹھی موجود ہے جس میں صاف طور پر لکھا ہؤا ہے کہ ہماری یہ مراد نہیںکہ ملزم کو دفاع سے محروم کر دیا جائے ۔جماعت اگر بحیثیت جماعت مدد نہ دے اور انفرادی طور پر ملزم کے ہم وطن یا دوست وغیرہ کوئی چندہ دینا چاہیں تو ہم ان کو نہیں روک سکتے وہ بے شک چندہ کر لیں۔پس جن سے ہم نے کہا تھا کہ ہم جماعتی طور پر کوئی مدد نہیں کریں گے۔ان پر واضح کر کے اور ان سے پوچھ کر ہم نے میاں عزیز احمد صاحب کے دوستوں اور ہم وطنوں کو چندہ کرنے کی اجازت دی اور مزید احتیاط یہ کی کہ نہ خود چندہ دیا نہ ناظروں کو دینے دیا تو یہ تیسرا فریق اعتراض کرنے والا کون ہے۔نہ جس سے ہمار ا کوئی وعدہ تھا اور نہ اسے ہمارے وعدہ کی حقیقت معلوم ہے ۔پنجابی مثل ہے تُو کون؟ میں خواہ مخواہ۔ یہی مثال احراراور مصریوں پر چسپاں ہوتی ہے ۔ہم ان سے کب کہنے گئے تھے کہ ہم میاں عزیز احمد صاحب کی مدد نہیں کریں گے۔اگر اعتراض ہو سکتا ہے تو حکومت کو۔ اور اس حکومت کا اجازت نامہ ہمارے پاس اس بارے میںموجود ہے ۔ان احراریوں کو تو کوئی حق ہی نہیں کہ وہ ایسا اعتراض کریں یہ تو ہمیشہ ایسے مواقع پر قومی طور پر ملزموں بلکہ مجرموں تک کی امداد کیا کرتے ہیں۔پس اس معاملہ میں احرار کا کوئی حق نہیں کہ وہ دخل دیں۔یہ ہمارا اور گورنمنٹ کاایک باہمی معاملہ تھا گورنمنٹ نے ہم سے ایک خواہش کی اور ہم نے اسے تسلیم کر لیا اور گو ہم سے اس کے مطالبہ کو تسلیم کرنے میں غلطی ہوئی مگر خیر ہم بھول گئے اورہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ گورنمنٹ کے اس افسر نے جس نے ہم سے یہ مطالبہ کیا تھا ہم سے دھوکا کیا۔اس نے بھی نیک نیتی سے یہ مطالبہ کیا گو افسوس ہے کہ بعد میں حکومت کے بعض لوکل نمائندوں کی طرف سے فرض شناسی میں کوتاہی ہوئی۔
مگر بہر حال جس نے وعدہ کیا تھا اس نے اپنے وعدہ کو پورا کر دیا۔جس بات پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ اسی افسر سے پوچھ کر کی گئی جس نے وعدہ لیا تھا ۔اب یہ درمیان میں دخل دینے والا تیسرا فریق کون ہے ۔اس کو تو ہم منہ لگانے کے قابل ہی نہیں سمجھتے اگر اعتراض ہو سکتا تھا تو حکومت کو مگر اس نے نہ صرف یہ کہ اعتراض نہیں کیا بلکہ تحریری طور پر لکھا کہ ہمارا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ ملزم کو دفاع سے محروم کیاجائے۔اس صورت حالات میں احرار کا جو ہمیشہ ملزموں بلکہ مجرموں کی بھی قومی طور پر امداد کیا کرتے ہیں کوئی حق نہیں کہ وہ ہم پر اعتراض کریں۔
میں اس موقع پر جماعت کے اندرونی جھگڑوں کے بارہ میں بھی کچھ راہنمائی کر دینا چاہتا ہوں۔ہماری جماعت کی طرف سے بھی بعض دفعہ ایسے لوگوں پر اظہار ناراضگی ہوتا ہے جو ملزموں کا ساتھ دیتے ہیں او ر ایسے موقعوں پر چونکہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ جب آپ کے مسلّمہ اصل کے مطابق ملزم کی مدد کرنا جائز ہے تو ہم پر اظہار ناراضگی کی کیا وجہ ہے اور چونکہ یہ کسی قدر باریک سوال ہے اور چونکہ میری اصل غرض اس مضمون کو بیان کرنے سے یہ ہے کہ اصولی طور پر بعض مسائل حل کردوںاس لئے اس امر پر بھی میں کچھ روشنی ڈال دینا چاہتا ہوں کہ یہ امر اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ جب کبھی مرکز کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے اور مرکز سے مراد میں خود ہوں یا وہ لوگ ہیں جو میرے کہنے پر ناراض ہوتے ہیں۔(ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک ناظر کسی پر بذات خود ناراض ہواور غلط طور پر ناراض ہو یا ایک ماتحت افسر کسی پر ناراض ہو اور غلط طور پر ناراض ہو اور انہیں وہ مسئلہ معلوم نہ ہو جو میں بتانا چاہتا ہوں)تو یہ ملزم کے دفاع یا امداد کی وجہ سے اظہار ناراضگی نہیں ہوتا بلکہ غلط امداد یا غلط دفاع کی وجہ سے ہوتا ہے۔پس میں جب بھی ناراض ہوتا ہوں یا میرے کہنے کی وجہ سے ناظر ناراض ہوتے ہیں تو ملزم کے دفاع یا اس کی امداد کرنے کی وجہ سے ناراض نہیں ہوتے ہم کبھی اس وجہ سے ناراض نہیں ہوتے کہ ملزم کی طرف سے دفاع کیوں نہیں کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہم کبھی اس وجہ سے ناراض نہیں ہوتے کہ ملزم کی امداد کیوں کی گئی ہے بلکہ ہم جب بھی ناراض ہوں گے اس وجہ سے ہونگے کہ ہمارے خیال میں ملزم کی غلط امداد یا اس کی طرف سے غلط دفاع کیا گیا ہوگا لیکن جب غلط دفاع نہ ہو یا امداد نہ ہو تو ہم کبھی ناراض نہیں ہوتے ۔پس ہم کسی پر ناراض نہیں ہوتے بلکہ کسی پر اس امر کی وجہ سے ناراض ہو نہیں سکتے کہ کیوں کسی ملزم کو مجرم ثابت نہیں ہونے دیا جاتا اور یہ تو بڑے اندھیر کی بات ہے کہ ایک شخص پر الزام لگے اور اسے فوراً مجرم قرار دے دیا جائے بلکہ ناراضگی اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ کیوں کسی مجرم کو مجرم ثابت نہیں ہونے دیا جاتا یعنی یہ جانتے ہوئے کہ وہ مجرم ہے جولوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہوں کہ وہ مجرم نہیں۔ان پر ہم ناراض ہوتے ہیں کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم چاہتے ہو کہ دنیا میں جھوٹ پھیلے مثلاً میاںعزیز احمد صاحب کے مقدمہ میں اگر ہم کوئی وعدہ نہ کرتے اور ان کی مدد کرتے تو گو ہمارے لئے جائز ہوتا کہ ثابت کرتے کہ واقعہ ایسا نہیں کہ اس پر پھانسی کی سزا ملے لیکن یہ جائز نہ ہوتا کہ ہم ملزم سے یہ کہلواتے کہ اس نے کوئی حملہ ہی نہیں کیا۔یا یہ کہ اس دن وہ قادیان میں تھا ہی نہیں۔اگر ہم ایسا کہتے تو ہم دنیا کے بھی مجرم ہوتے او ر اپنے نفس کے بھی مجرم ہوتے اور خدا تعالیٰ کے بھی مجرم ہوتے۔جب ایک واقعہ ہؤا ہے تو دیانتداری سے سزا کی نوعیت میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر حملے میں اختلاف کرنا جھوٹ اور فریب ہوگا۔
پس جس چیز میں ہم اختلاف کر سکتے تھے وہ یہ تھا کہ حملہ کی نوعیت پھانسی والی تھی یا عبور دریائے شور والی یا دس سال قید والی۔ کیونکہ قتل کے بارہ میں یہ اختلاف ہؤا ہی کرتے ہیںاور قتلوں میں سے کسی قتل کی سزا پھانسی ہوتی ہے،کسی کی عبور دریائے شور ہوتی ہے اور کسی کی دس سال قیدہوتی ہے۔پس ہم جب کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو اسی وقت جبکہ اس کی نوعیت کی نسبت ثابت ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ کے ساتھ امدادکر رہا ہے یا جھوٹ بلوا رہا ہے۔یا سلسلہ کے وہ کارکن جو اس کے دوست یا رشتہ داروں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں انہیں بدنام کرتا ہے لیکن جو سچ سمجھ کر اور سچ کے ساتھ امداد کرے جب تک اس کے رشتہ دار یا دوست کے خلاف فیصلہ نہ ہوجائے ہم اسے حق بجانب سمجھتے ہیں ۔ایک شخص کے بیٹے کے خلاف اگر سلسلہ کے محکمہ قضاء میں مقدمہ چلتاہے اور اس کا باپ دیانتداری سے سمجھتا ہے کہ اس کا بیٹا مجر م نہیں تو میں اسے انتہائی سنگ دل اور شقی القلب سمجھوں گا اگر وہ اپنے بیٹے کی مدد نہ کرے لیکن فیصلہ ہونے کے بعد ہم اس کا فرض سمجھتے ہیں کہ فیصلے کے خلاف منہ سے کچھ نہ کہے اور قاضی پر الزام نہ لگائے کہ اس نے بددیانتی کی۔اگر وہ خود یا اس کا بیٹا دیانتدار ہے تو سلسلہ کے کارکنوں کے متعلق وہ کیوں یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ بھی دیانتداری سے کام کر رہے ہیں۔
پس اسے یہ تو حق حاصل ہے کہ جب تک اس کے خلاف فیصلہ نہیں ہو تا ملزم کی مدد کرے مگر اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ غلط امداد یا غلط دفاع کرے۔مثلاًا سے یہ تو حق حاصل ہے کہ وہ سچائی سے کام لے مگر اسے یہ حق حاصل نہیں کہ مقدمے میں جھوٹ بلوانے کی کوشش کرے جیسے گزشتہ سے پیوستہ سال جب ایک لڑکے نے چوری کی اور اس پر فتنہ اٹھا تو اُس وقت اس چورلڑکے کے رشتہ داروں کے خلاف ہمیں یہ غصہ نہیں تھا کہ وہ اس کی مدد کیوں کرتے ہیں بلکہ ہم ان پر اس لئے ناراض تھے کہ ان میں سے بعض اس سے جھوٹ بُلوانا چاہتے تھے حالانکہ ہمارے سامنے وہ چور ی کا اقرار کر چکا تھا۔تو جس چیز کوایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیںکیا جا سکتا وہ جھوٹ اور فریب ہے۔اگر یہ نہ ہو تو سچائی اور دیانت سے ہر شخص کو ملزم کی امداد کرنے کا حق حاصل ہے۔ہاں فیصلہ ہوجانے کے بعد ہم اس کا فرض سمجھتے ہیںکہ وہ فیصلہ کے خلاف منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکالے اور قاضی پر کوئی الزام نہ لگائے۔البتہ اسے یہ حق ہے کہ قضاء کے ذریعہ سے قاضی کے فیصلہ کو غلط ثابت کرے یا اگر قاضی کی بددیانتی ثابت ہو تو اس کے خلاف باقاعدہ دعویٰ کرے مگر یہ حق نہیں کہ پبلک میں اس کے خلاف شور مچاتا پھرے۔
مجھے یا دہے کہ ایک عورت سال بھر ہمارے گھر میں آتی رہی اور بار بار مجھ سے کہتی کہ میرے مقدمہ کا قضاء والے فیصلہ نہیں کرتے۔میں نے کئی دفعہ دفتر والوں کو توجہ دلائی او ر وہ ہمیشہ مجھے یہ لکھیںکہ ہم نے فیصلہ کر دیا ہے مگر جب اس عورت سے ذکر کیا جاتا کہ وہ کہتے ہیںکہ ہم نے مقدمہ کا فیصلہ کر دیا ہے تو وہ کہتی کہ بالکل جھوٹ ہے۔کوئی فیصلہ نہیں ہؤا ۔آخر جب متواتر اس نے یہی کہا کہ کوئی فیصلہ نہیں ہؤا او ر دفتر والے جھوٹ بولتے ہیں تو اس وقت میں نے سمجھا کہ اب یہ اختلاف اس قدر واضح ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ سورج نکلا ہؤا ہے اور کوئی کہے کہ ابھی رات ہے۔چنانچہ میں نے دفتر سے مِسل منگوائی۔جب مِسل آئی تو میں نے دیکھاکہ اس کے ہر جھگڑے کا فیصلہ اس میں موجود ہے۔میں اس وقت حیران رہ گیا کہ یہ عورت سال بھر مجھ سے اتنا جھوٹ بولتی رہی حالانکہ اس کی کوئی بات نہیں تھی جس کا دفتر والوں نے کوئی فیصلہ نہ کیا ہؤا ہو۔ پھر ایک دن وہ آئی تو میں نے اسے کہا۔میںنے مسل منگوا کر دیکھی ہے اور شروع سے لے کر آخر تک دیکھی ہے اس پر تمہارے مقدمہ کا فیصلہ ہر مرحلہ پر فیصلہ ہو چکا ہے اور تم کہتی ہو کہ دفتر والوںنے کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا۔وہ کہنے لگی کہ یہ بھی کوئی فیصلے ہیں یہ تو میرے خلاف ہیں۔مَیں نے کہا کہ ہاں یہ ٹھیک ہے چونکہ یہ فیصلے تمہارے خلاف ہیں اس لئے تمہارے نزدیک یہ کوئی فیصلے ہی نہیں ہیںاو ر جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس وقت بھی وہ اپنی ذہنیت کے لحاظ سے جھوٹ نہیں بول رہی تھی کیونکہ وہ خیال کرتی تھی کہ فیصلہ وہ ہوتا ہے جو منشاء کے مطابق ہو،جو منشاء کے مطابق نہ ہو وہ فیصلہ نہیںہوتا۔ غرض یہ طریق جائز نہیں کہ باہر دکانوں پر بیٹھ کر یا گلی کوچہ میں کھڑے ہوکر قاضیوں پر نکتہ چینی شروع کردی جائے۔ہاں جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ ہر فریقِ مقدمہ کو حق حاصل ہے کہ وہ قاضی کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرے اوراس پر ہم کبھی ناراض نہیں ہوتے۔البتہ اگر وہ یہ لکھے کہ قاضی جھوٹا اور فریبی ہے تو ہم وہ مِسل واپس کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک تم یہ الفاظ کاٹو گے نہیں ا ُس وقت تک ہم اس اپیل پر غور نہیں کریں گے کیونکہ ہم جماعت کے اندر یہ معیارِ اخلاق قائم کرنا چاہتے ہیںکہ جب کسی کے خلاف کوئی فیصلہ ہو تو وہ اسے بددیانتی پر محمول نہ کرے۔
پس ہم یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ کوئی شخص قاضیوں کے خلاف لوگوں میں شور مچاتا پھرے ہاں یہ جائز ہے کہ وہ اپیل کرے اور ہم نے کئی دفعہ اپیلوں میں قاضیوں کے خلاف سخت ریمارکس کئے ہیں مگر یہ میرا یا دوسری عدالت ہائے مرافعہ کا حق ہے کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں۔
پس آج میں یہ امر واضح کر دینا چاہتاہوں ۔کہ ایسے موقع پر بعض دفعہ جماعت کی طرف سے جو اظہارِ ناراضگی ہوتا ہے وہ ملزموں کا ساتھ دینے کی وجہ سے نہیں ہوتا ۔ہم کسی ملزم کی امداد کرنا ہرگز ناجائز نہیں سمجھتے بلکہ اگر کوئی شخص اس ڈر کے مارے کہ اگر میں نے ملزم کی مدد کی تو لوگ مجھ سے ناراض ہو جائیں گے اس کی جائز امداد بھی نہیں کرتا تو میں اسے شقی القلب او ر ناقص مؤمن کہوں گا۔
ہاں اگر ایک باپ اپنے بیٹے کو مجرم سمجھ کر اس کی مدد سے دستکش ہو جاتا ہے تو وہ واقع میں مؤمن ہے مگر جو جُرم کے ثابت ہوئے بغیر جائز دفاع اور جائز مدد سے بھی اسے محروم کر دیتا ہے وہ شقی القلب ہے اور ہرگز کامل مؤمن نہیں ۔غرض ہم جس بات پر ناراض ہوتے ہیںوہ یہ ہے کہ جھوٹ کے ساتھ ملزم کی مدد کی جائے۔یہ امر ہمارے لئے قطعاً قابلِ برداشت نہیں ہے۔میں نے اس امر کو تفصیل سے اس لئے بیان کیا ہے کہ ہمارے اندر بھی سلسلہ کی قضاء کے بارہ میں غلط فہمیاں ہوتی ہیں۔بعض لوگ ملزم کی امداد کو غداری قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ ذرا امورعامہ کسی کے خلاف نوٹس لے تو بعض حلقوں میں اس کی امداد کرنے والوں کو بِلا دریغ غدار قرار دے دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ صرف یہی ایسا نہیں بلکہ اس کا باپ اور اس کے بھائی بھی سلسلہ کے غدار ہیں کیونکہ وہ اس کی مدد کرتے ہیںحالانکہ امور عامہ بھی ابتداء میں الزام لگاتا ہے اور جب تک وہ الزام پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچ جاتا اُس وقت تک ملزم ہرگز مجرم نہیں بن سکتا اورنہ اس کی مدد کرنے والا غدار کہلا سکتا ہے۔ جب شریعت ملزم کی مدد کو غداری قرار نہیں دیتی تو کسی اور کا کیا حق ہے کہ اسے غداری قرار دے دے۔اس کے مقابلہ میں بعض لوگ اس پر چِڑتے ہیں کہ انہیںجائز وناجائز وسائل سے ملزم کی امداد کرنے سے کیوں روکا جاتا ہے ۔یہ دونوں غلطی پر ہیں ملزم کی جائز امدا د ہرگز غداری نہیں۔اگر امور عامہ کی ہر بات درست ہو تو پھر قضاء کا دروازہ شریعت نے کیوں کھولا ہے۔قضاء کے محکمہ کا قیام شریعت کی طر ف سے اسی لئے کیا گیا ہے کہ جب تک قاضی کوئی فیصلہ نہ کردے شریعت ملزم کو مجرم قرار نہیں دیتی اورجب شریعت اسے مجرم نہیں سمجھتی تو اس کی امداد کرنا غداری کس طرح ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ اسے جُر م کاذاتی علم ہو۔مثلاً اگر کسی کو ذاتی طور پر علم ہو کہ فلاں نے چوری کی ہے اور پھر وہ اس کی مدد کرتا ہے تو وہ مجرم ہے لیکن ملزم کی امداد جس کا جُرم قضاء یا علماً ثابت نہیں بہرصورت جائز ہے۔پھر جو لوگ اس بات پر چِڑتے ہیں کہ انہیں جائز وناجائز وسائل سے ملزم کی امداد کرنے سے کیوں روکا جاتا ہے وہ بھی غلطی پر ہیں کیونکہ ناجائز امداد ہرگز قابلِ برداشت نہیںجس طرح اوّل الذکر کو غدار کہنا غلط ہے اسی طرح ثانی الذکر کو محض ملزم کی امداد کرنے والا بھی کہنا دھوکاہے۔
اس سوال کا جواب میں نے تفصیل سے اس لئے بیان کیا ہے تا جماعت کی بعض اصول میں راہنمائی ہو جائے۔ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اصل اعتراض کا جواب بہت مختصر ہے۔
اصل اعتراض صرف یہ ہے کہ ایک غریب آدمی ہائی کورٹ اور پھر پریوی کونسل تک کس طرح پہنچ سکتا تھا۔ضرور ہے کہ جماعت نے اس کی مدد کی ہو۔اس کا اصولی جو اب تو وہی ہے کہ جو میں بیان کر چکا ہوںکہ یہ اعتراض محض ناواقفیت کا نتیجہ ہے کیونکہ قانون ملزم کی امدادکرنے سے نہیں روکتا۔دوسرا جواب واقعات کی بناء پر ہے کہ یہ اعتراض محض واقعات سے بے خبری کے سبب سے ہے ۔ہم نے نہ ہائی کورٹ میں نہ پریوی کونسل میں روپیہ خرچ کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ قانونِ انگریزی میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اگر کوئی ملزم نہایت غریب ہو اور وہ خود یا اس کے رشتہ داریہ طاقت نہ رکھتے ہوں کہ مقدمہ لڑ سکیں اور جُرم سنگین ہو تو ملزم کو سرکاری وکیل مہیا کیاجاتا ہے اور سرکار اپنے خرچ پر وہ مقدمہ لڑتی ہے۔
چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی ہؤا ۔ہائی کورٹ میں شیخ بشیر احمد صاحب کو حکومت نے خود فیس دے کر کھڑا کیا اور پریوی کونسل میں بھی گورنمنٹ کی طرف سے وکیل مقرر ہوا۔پس یہ کہنا کہ ایک غریب آدمی ہائی کورٹ اور پھر پریوی کونسل تک کس طرح پہنچ گیا۔یہ ہم پر اعتراض نہیں بلکہ اپنے علم پر اعتراض ہے اور اس امر کا اظہار ہے کہ اپنے ملکی قانون کو بھی وہ نہیں جانتے جس نے یہ دستور مقرر کر رکھا ہے کہ جب کسی ملزم کے متعلق یہ ثابت ہوجائے کہ وہ غریب ہے تو گورنمنٹ خود روپیہ دے کر اس کی طرف سے وکیل کھڑا کر دے اور ملزم کوپوری طرح اپنی بریت پیش کرنے کا موقع دے چنانچہ سرکاری طور پر ہمیشہ ایک لسٹ ایسے وکلاء کی تیار رہتی ہے اور ان کی فیسیں بھی اس کی طرف سے مقرر ہوتی ہیں ۔جب کوئی ایسا غریب شخص ملزم ہو جو مقدمہ چلانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس وقت ان وکلا ء میںسے کسی ایک کو کہہ دیا جاتا ہے کہ تم اس ملزم کی طرف سے مقدمہ کی پیروی کرو اور فیس ہم سے لو۔جب اس مقدمے کا پہلی دفعہ فیصلہ ہؤا ہے تو چونکہ افسروں کو علم تھا کہ لوگوں سے چندہ جمع کر کے اس مقدمہ کے اخراجات پورے کئے گئے ہیں اس لئے جیل خانے والوں نے میاں عزیز احمد صاحب سے پوچھا کہ تم اپیل کرنا چاہتے ہو یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ اب تک اس مقدمہ پر جتنا روپیہ خرچ ہوا ہے یہ بھی بعض دوستوں نے میرے ہم وطنوں اور تعلق رکھنے والوں سے چندہ کے طورپر جمع کیا تھا اور اب تو وہ روپیہ بھی خرچ ہو چکا ہے او ر میرے پاس ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کے لئے کوئی خرچ نہیں ۔انہوں نے کہا۔تم حکومت کو ایک درخواست دو جس میں لکھو کہ میں غریب آدمی ہوں اور میرے پاس مقدمہ چلانے کے لئے کوئی روپیہ نہیں میری مدد کی جائے اور میری اپیل کے لئے اخراجات کا انتظام فرمایا جاوے ہم اس پر تحقیقات کریں گے اور اگر کسی واقعہ میں ثابت ہو گیا کہ تم غریب آدمی ہو اور مقدمہ چلانے کے لئے تمہارے پاس روپیہ نہیں ہے تو حکومت اپنے پاس سے ان اخراجات کا انتظام کر دے گی ۔
چنانچہ انہوں نے درخواست دے دی ۔سرکا ر نے یہ معلوم کرکے کہ واقع میں یہ غریب آدمی ہے اور اپنے مقدمہ کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا سرکاری وکیل کی امداد کا فیصلہ کیا اور چونکہ ملزم کی طرف سے خواہش تھی کہ اس کی جماعت کا وکیل ہو اور بہتر ہو تو شیخ بشیر احمد صاحب ہوںجن پر میں زیادہ اعتبار کر سکتا ہوں ہائی کورٹ نے مقدمہ شیخ بشیر احمد صاحب کے سپرد کر دیا اور خود انہیں فیس ادا کی۔چنانچہ شیخ بشیر احمد صاحب ہائی کورٹ کے حکم سے سرکاری روپیہ پر اس کی طرف سے پیش ہوئے۔اسی طرح جب ہائی کورٹ میں بھی فیصلہ ہوگیا تو اب صرف پریوی کونسل کا مرحلہ باقی تھا۔حکومت کے افسروں نے ان سے دریافت کیا کہ کیاوہ اپنا کیس پریوی کونسل تک لے جانا چاہتے ہیں انہوں نے پہلے توکہا کہ نہیں مگر بعد میں کہہ دیا کہ ہاں میں لے جانا چاہتا ہوں۔ گورنمنٹ نے یہ قانون بنایا ہؤ ا ہے کہ اگر کسی کی (غالباً)چالیس پاؤنڈ سے کم جائداد ہو تو اس کی اپیل حکومت خود کرتی ہے اور چونکہ ملزم کی اس قدر جائداد نہ تھی حکومت نے خود ہی ان کی طرف سے پریوی کونسل میں اپیل کی۔آپ ہی وہاں کاغذات بھیجے اور آپ ہی وہاں مقدمہ لڑا۔ پس جو اصل اعتراض ہے ۔کہ میاں عزیز احمد صاحب جیسا غریب آدمی ہائی کورٹ اور پھر پریوی کونسل تک کس طرح پہنچا تو اس کا نہایت مختصر مگر حقیقت پر مبنی جواب یہ ہے کہ وہ غریب آدمی سرکار کے کندھوں پر چڑھ کر پہنچا۔ کہتے ہیںایک پاؤں کٹا شخص تھا۔اس پر ایک دفعہ یہ الزام لگا کہ اس نے باغ کے پھل چُرا لئے ہیں۔اب باغ کے اِرد گرد بڑی بھاری دیوار تھی او ر بظاہر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ ایک پاؤں کٹا شخص اس دیوار پر کیسے چڑھ گیا اور اس نے درختوں پر سے پھل کس طرح اُتار لئے مگر سوائے اس کے اور کوئی مجرم ملتا بھی نہیں تھا۔
آخرایک ہوشیار افسر آیا اور اس نے اس اپاہج کے ساتھ ایک اندھے شخص کو بھی دیکھا۔یہ دیکھتے ہی اس پر تمام معاملہ کھل گیااور وہ کہنے لگا اب میں بتاتا ہوں کہ اس نے باغ سے پھل کس طرح چُرایا ہے۔بات یہ ہے کہ یہ اپاہج شخص اس اندھے کی کمر پر چڑھا اور پھر وہاںسے دیوار پر چڑھ کر اس نے پھل توڑ لیا ۔اسی طرح بے شک میاں عزیز احمدصاحب پریوی کونسل تک پہنچے مگر حکومت کے پروں پر سوار ہوکر او ر اگر یہ ناجائز ہے اور اس طرح پریوی کونسل تک اپنے مقدمہ کو لے جانا قابلِ اعتراض عمل ہے تو احرار کو چاہئے کہ وہ کسی غریب مسلمان ملزم کی طرف سے گورنمنٹ کو اپنا وکیل مقرر کرنے نہ دیں اور اگر کرے تو اس کے خلاف سخت شورمچائیں ۔اس کے بعد ان کا حق ہوگا کہ وہ ہم پر اعتراض کریں مگر اس سے پہلے ان کا اعتراض کرنا محض حماقت اور نادانی ہے۔‘‘ (الفضل ۱۶؍جولائی ۱۹۳۸ئ)

۲۲
میاں عزیز احمدصاحب مرحوم سے متعلق
معاندین کے اعتراضات
(فرمودہ ۱۵؍ جولائی۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’گو انفلوئنزا کے حملہ کی وجہ سے جو اس ہفتہ میں مجھ پر ہؤا تھا مَیں خطبہ کے بوجھ کو اپنے جسم کی طاقت سے بہت زیادہ پاتا ہوںلیکن چونکہ ایک مضمون میں نے شروع کیا ہؤا ہے میں نے مناسب سمجھا کہ اس کا بقیہ حصہ آج ختم کردوںاور گو جسمانی طاقت کے لحاظ سے مجھے چاہئے تھامیں نہایت مختصر طور پر خطبہ دے کر بیٹھ جاتا لیکن مضمون کو ختم کرنے کی نیت سے میں کوشش کروں گاکہ جس طرح ہو یہ مضمون آج ختم ہو جائے۔
مَیں نے بیان کیا تھا کہ احرار کی طرف سے بھی دو اعتراض مجھے پہنچے ہیں۔جن میں سے پہلے اعتراض کا جواب میں نے گزشتہ خطبہ میں دے دیا تھااب ان اعتراضوں میں سے صرف ایک اعتراض باقی رہ گیا ہے اور میں آج اس کا جواب دینا چاہتا ہوں۔
وہ اعتراض یہ تھا کہ میاں عزیز احمدصاحب کے جنازہ میں ہزاروں آدمی شامل ہوئے۔کیا یہ ہمدردی نہیں اور کیا یہ بغیر حکم کے ہو سکتا تھا۔اگر ان کو بُرا کہتے ہیں تو ان کا جنازہ کیوں پڑھا گیا اور اگر جنازہ میں شمولیت بری نہیں تھی تو خود کیوں جنازہ میں شامل نہیںہوئے۔
پہلے میں اعتراض کے اس حصے کو لیتا ہوں جو میری ذات سے تعلق رکھتا ہے۔یعنی یہ کہ میں جنازہ میں شامل کیوں نہیں ہؤا سو یاد رکھنا چاہئے کہ میں اس لئے جنازہ میں شامل نہیں ہؤا کہ بوجہ امام جماعت ہونے کے اگر میں جنازے میں شامل ہوتا تو خطرہ تھا کہ بعض نوجوان یہ سمجھ لیتے کہ چلو خلیفہ جنازہ تو پڑھا دیتا ہے اور اگر ایسا فعل کر لیا تو ان کا جنازہ تو نصیب ہو ہی جائے گا۔پس آئندہ فتنہ کا سدباب کرنے کے لئے میں نے ایسا کیا اور ان لوگوں کی خیر خواہی کے لئے کیا جو کوئی ہفتہ نہیں جاتا کہ ناقابلِ برداشت گالیاں نہیں دیتے۔میں اس وقت ان لوگوں کاذکر نہیں کرتا جو ہمارے مخالف ہیںاور احمدیت میں شامل نہیں ہیں میں ان لوگوں کا بھی ذکر نہیں کرتا جو گو جماعت احمدیہ میں شامل ہیں لیکن شروع سے ہی خلافت کے متعلق ہم سے اختلاف رکھتے ہیں،میں ان لوگوں کا بھی ذکر نہیں کرتا جو جماعت سے قریب زمانہ میں علیحدہ ہوئے ہیںاور گو وہ خلافت کے قائل ہیں مگر اس رنگ میں نہیں جس رنگ میں ہم قائل ہیں،میں ان لوگوں کا بھی ذکر نہیں کرتا جن کے مونہوں پر خلافت کا عقیدہ ہے مگر ان کے دلوں میں نفاق بھرا ہؤا ہے۔اور گو ایسے لوگ تھوڑے ہی ہیں مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے لوگ موجود ہیںاوران کے دلوں میں احمدیت اور خلافت کے متعلق ویسا ہی بغض ہے جیسے مخرجین یا پیغامیوں کے دلوں میں ہے بلکہ یہ منافق لوگ ان سے بھی زیادہ بغض اور عداوت اپنے اندر رکھتے ہیںکیونکہ وہ تو گالیاں دے کر اپنے غصہ کو ٹھنڈا کر لیتے ہیں مگر ان کو چاپلوسیاں بھی کرنی پڑتی ہیں ان کو خوشامدیں بھی کرنی پڑتی ہیں۔ان کو منتیں بھی کرنی پڑتی ہیں اور ان کو اپنی زبان سے اپنی محبت کا اظہار بھی کرنا پڑتا ہے۔مگر جس وقت ان کی زبان تعریف کر رہی ہوتی ہے ان کا دل کڑھ رہا اور خون ہورہا ہوتا ہے اور ان کا نفس انہیں لعنتیں ڈال رہاہوتا ہے اور کہہ رہا ہوتا ہے کہ اے کمبخت اور لعین! تجھے شرم نہیں آتی کہ تُو اپنے عقیدہ کے خلاف کسی دنیوی مفاد یا چند پیسوں کے لئے ان کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہے، پس ان کا غصہ اور بھی بڑھ جاتا ہے اور ان کا بغض اور بھی ترقی کر جاتا ہے۔غرض میں ان لوگوں میں سے کسی کا بھی ذکر نہیں کر رہا بلکہ میں ان لوگوں کاذکر کر رہا ہوں جنہیں تم ایک آدمی کہہ لو،تم دو آدمی کہہ لو،تم سو آدمی کہہ لو،تم ہزار آدمی کہہ لو،تم دس ہزار آدمی کہہ لو،تم لاکھ آدمی کہہ لو مگر بہر حال تمہیں ماننا پڑے گا کہ ایک ایسی جماعت ضرور ہے جو یقین او روثوق سے خلافت کے ساتھ وابستہ ہے جس کے افراد خلیفہ کی حکومت تسلیم کرنا اپنے ایمان کا جُزو قرار دیتے ہیں،جو اس کے ہر قول اور فعل پر ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں،جو اس میں خداکے وجود کو دیکھتے اور خدا کے وجود میں اسے دیکھتے ہیں،جو اس بات پر یقین او ر ایمان رکھتے ہیں کہ اگر خلیفہ وقت کی دعا او راس کی برکت ہمیں حاصل ہو جائے تو یہ ہماری نجات کا ذریعہ ہو گا۔ان لوگوں کے خیالات کو یکسو رکھنے اور انہیں غلط راستہ پرپڑنے سے بچانے کے لئے یہ ضروری تھا کہ اس موقع پر کوئی ایسا طریقِ عمل اختیار کیا جاتا جس کے نتیجہ میں وہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جاتے کہ اگر ہم نے ناجائز طور پر کسی کو قتل بھی کر دیا تو خلیفۂ وقت کی برکت اور اس کی دعا ہمیں حاصل ہو جائے گی۔
پس آئندہ فتنہ کا سدباب کرنے اور اپنی جماعت کے نوجوانوں کے ایمانوں کو بچانے کے لئے میں نے میاں عزیز احمد صاحب کا جنازہ نہیں پڑھایا تا میرے جنازہ پڑھانے کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں غلط خیال پیدا نہ ہو جائے کہ چلو خلیفہ جنازہ تو پڑھا دیتا ہے اگر ہم نے کوئی ایسی حرکت کر لی تو ان کا جنازہ تو بہر حال ہمیں نصیب ہو جائے گا:۔
پس میرا جنازہ نہ پڑھنا آئندہ فتنہ کے سدباب کے لئے تھا اور درحقیقت میں نے ان معترضین کی خاطرایسا کیا۔مگر میں نے تو ان پر اتنا بڑا احسان کیااور وہ اُلٹا مجھ پر اعتراض کرتے ہیںکہ میں نے میاں عزیز احمد صاحب کا جنازہ کیوں نہ پڑھا۔حالانکہ میرا مقصداس سے یہ تھاکہ احرار اور مخرجین میںسے جو لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیںاور جو کوئی ہفتہ نہیں جاتا کہ ناقابلِ برداشت الفاظ ہمارے متعلق استعمال نہیں کرتے ،ان پر آئندہ ہماری جماعت کا کوئی جوشیلا شخص محض اِس خیال کے ماتحت حملہ نہ کردے کہ اگر میں نے کسی کو قتل بھی کر دیا تو کم از کم خلیفہ کی دعا اور اُس کا جنازہ مجھے نصیب ہو جائے گا۔پس میں نے میاں عزیز احمد صاحب کا جنازہ نہیںپڑھایا اور اس لئے نہیں پڑھایا کہ دوسرے لوگ یہ اچھی طرح سمجھ لیںکہ جو شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا اور انتہائی اشتعال کی حالت میں بھی کسی کو قتل کر دیتا ہے خلیفۂ وقت اُس کا جنازہ پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔
اگر کوئی کہے کہ پھر قاضی محمد علی صاحب سرحدی کا جنازہ کیوں پڑ ھایا حالانکہ وہ بھی ایسے ہی فعل کے مرتکب ہوئے تھے۔تو اِس کا جواب یہ ہے کہ وہ جماعت کے ایک فرد کا پہلا فعل تھااور قدرتی طور رپر جو پہلی دفعہ غلطی کرتا ہے اس کا زیادہ لحاظ رکھنا پڑتا ہے کیونکہ جس راستہ پر انسان کبھی نہ چلاہو اس میں انسا ن سے کئی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔پس لازماً جب کوئی شخص پہلی دفعہ غلطی کرے گا وہ زیادہ قابلِ معافی ہوگا جس طرح وہ شخص جو پہلی نیکی کرے گا وہ زیادہ قابلِ انعام ہوگا۔بہر حال پہلے اور پچھلے میںفرق ضرور ہوگا۔جو شخص پہلی نیکی کرتا ہے وہ زیادہ قابلِ انعام سمجھا جائے گا کیونکہ اس نے بغیر نمونہ کے نیکی کی لیکن دوسرا نیکی کرنے والا نقال بھی ہو سکتا ہے۔اسی طرح جو پہلی غلطی کرے اس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے علم نہیں تھا کہ یوں نہیں کرنا چاہئے اور چونکہ ایسا واقعہ پہلے کبھی نہیں ہؤا تھا اس لئے وہ غلطی کھا گیا۔اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے اس وقت تعلیم زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے مگر پہلے نہیں ہوتی۔پہلے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہماری جماعت میں کوئی ایسا آدمی نہیں جو اشتعال میں آکر کسی پر حملہ کر دے لیکن جب کوئی پر جوش شخص ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے تو پھر خیال آتا ہے کہ ایسے آدمی تو ہم میں موجود ہیں اور پھر زور دیا جاتا ہے کہ اس طرح نہیں کرنا چاہئے ۔پس جو پہلی غلطی کرتا ہے وہ کم مجرم ہوتا ہے لیکن جو بعد میں پہلی غلطی کے نتائج کو دیکھنے کے باوجود اسی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے وہ زیادہ مجرم ہوتا ہے جس طرح پہلی نیکی کرنے والابعد میںنیکی کرنے والے سے زیادہ قابل انعام ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ لے لو۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مجلس میں تشریف رکھتے تھے اور آپ کے ارد گر د صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے یہ ذکر کرنا شروع کر دیا کہ جنت میں یوں ہوگا یوں ہوگااور پھر ان انعامات کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مقدر فرمائے ہیں۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو فرمانے لگے۔یَارَسُوْلَ اﷲ! دعا کیجئے کہ جنت میں مَیں بھی آپ کے ساتھ ہوں(بعض روایتوں میں ایک اور صحابی کا نام آتا ہے اور بعض روایتوں میں حضرت ابو بکر ؓ کا نام آتا ہے) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ تم میرے ساتھ ہوگے ۱؎اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتا ہوںکہ ایسا ہی ہو۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تو قدرتی طو ر پر باقی صحابہ کے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہؤا کہ ہم بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریںکہ ہمارے لئے بھی یہی دعا کی جائے۔پہلے تو وہ اس خیال میں تھے کہ ہمارے یہ کہاں نصیب ہیںکہ ہم جنت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوںمگر جب حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے یا بعض روایتوں کے مطابق کسی اور صحابی نے یہ بات کہہ دی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا بھی فرمائی تھی تو اب انہیںنمونہ مل گیا اور انہیں پتہ لگ گیا کہ یہ عمل ناممکن نہیں بلکہ ممکن ہے۔چنانچہ ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا۔یَارَسُوْ لَ اللہ! میرے لئے بھی دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ جنت میں مجھے آپ کے ساتھ رکھے۔آپ نے فرمایاخدا تعالیٰ تم پر بھی فضل کرے مگر جس نے پہلے کہا تھا اب تو وہ دعا لے گیا۔۲؎اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے بھی دعا فرمادیتے تو پھر تیسرا شخص کھڑا ہوجاتا۔اس کے بعد چوتھا اور پھر پانچواں اور سب یہی کہتے۔نتیجہ یہ ہوتا کہ سارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ میں ہی آجاتے باقی جنت تو خالی ہی رہ جاتا کیونکہ بعد میں آنے والے بھی کہہ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں بعد میں پیدا کر دیاورنہ ہمارا بھی یہی جی چاہتا ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں اور اس خواہش میں ہم کسی سے پیچھے نہیںاور یقینا اس لحاظ سے انہیں بھی یہ حق حاصل ہو جاتا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں۔اس طرح امت محمدیہ میں صرف محمدی مقام ہی رہ جاتا اور کوئی مقام نہ رہتا۔ تو یہ قدرتی بات ہے کہ جو پہلی نیکی کرے گا وہ زیادہ ثواب کا مستحق ہو گاکیونکہ اس نے بغیر نمونہ کے نیکی کی اور دوسروں نے اس کی نقل میں نیکی کی۔
یہی حال گناہ کاہے۔جو شخص پہلا گناہ کرتا ہے لیکن ساتھ ہی اس گناہ کو ایجاد بھی کرتا ہے، شریعت کے مطابق اسے زیادہ سزا دی جائے گی کیونکہ اسے کہا جائے گا کہ تمہارا یہی قصور نہیں کہ تم نے پہلا گناہ کیا بلکہ تمہار ا قصور یہ بھی ہے کہ تم نے اس گناہ کو ایجاد کیا لیکن اگر اس نے غفلت یا ناواقفی سے یا شریعت اور سلسلہ کی تعلیم سے بے خبر ہو نے کی وجہ سے ایک گناہ کیاہو جس سے پہلے وہ قوم روشناس نہ ہو،یہ نہیں کہ اس گناہ کو اس نے ایجاد کیا ہو تو اس جُرم کی سزا اسے کم ملے گی لیکن جب اسے تنبیہہ ہو جائے اور سب لوگوں پر مسئلہ واضح ہو جائے تو اس کے بعد جو شخص دوبارہ گناہ کرے تو وہ زیادہ سزا کا مستحق ہوگا۔
پس قاضی محمد علی صاحب نے جس فعل کا ارتکاب کیا چونکہ وہ ہمارے سلسلہ میں پہلا فعل تھا اور اس سے پہلے زیادہ زور نہیں دیا گیا تھا،اس لئے ہم نے قاضی محمد علی صاحب سے اور سلوک کیا اور جب انہوں نے توبہ کرلی اور ساتھ ہی قانون کا منشاء بھی پورا ہو گیا اور انہیں پھانسی مل گئی تو ہم نے سمجھ لیاکہ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں معافی دے دی ہے اور جو زجر ہو گئی ہے وہ آئندہ کے لئے کافی ہے۔مگر جب دوسرا واقعہ ہؤ ا تو یہ سمجھتے ہوئے کہ پہلی تنبیہہ کافی نہیں ہوئی مزید سختی کی ضرورت سمجھی گئی اور میں نے فیصلہ کیا کہ جس سے یہ واقعہ ہؤا ہے اس کا جنازہ میں نہ پڑھوں اور ساتھ ہی اعلان کر دیا گیا کہ اگر آئندہ کسی شخص نے مشتعل ہو کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا تو اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ایسے شخص کا جنازہ خلیفہ وقت ہی نہیں باقی جماعت بھی نہیں پڑھے گی کیونکہ جسے ہم جماعت سے خارج کر دیتے ہیں وہ اگر مر جائے تو جماعت اس کا جنازہ نہیں پڑھتی۔اور در حقیقت یہ ایک رنگ میں مقاطعہ کا فیصلہ ہے ورنہ اگر کوئی واقع میں احمدی ہو تو اسے احمدیت سے کوئی خارج نہیں کر سکتا۔
میںنے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ ہم جب کسی کو خارج کرتے ہیںتو جماعت سے کرتے ہیں،احمدیت سے نہیں۔احمدیت سے خارج تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی نہیں کرسکتے اور چونکہ احمدیت اور اسلام ایک ہی چیز کا نام ہے اس لئے اسلام کے متعلق بھی یہی اصل ہے کہ اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کسی انسان کو خارج نہیں کر سکتے۔آپ اسے جماعتِ مُسلمین سے خارج کر سکتے ہیں مگر اسلام سے خارج نہیں کر سکتے کیونکہ یہ خدا کا کام ہے اور وہی جانتا ہے کہ واقع میں کوئی شخص دل سے اسلام سے نکل گیا ہے۔یا نہیں۔جن باتوں سے اسلام روکتا ہے اگر کوئی شخص ان کا مرتکب ہوتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیںلیکن بعض لوگ باوجود ظاہری طور پر اسلامی احکام پر عمل کرنے کے پھر بھی مسلمان نہیں ہوتے کیونکہ گو وہ بظاہرلَااِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدُٗ رَّسُوْلُ اﷲِ کے قائل ہوں،نمازیں پڑھتے ہوں،روزے رکھتے ہوں،حج کرتے ہوں،زکوٰۃ دیتے ہوں،پھر بھی ممکن ہے کہ ان کے دل میں اسلام نہ پایا جاتا ہو۔ایسے لوگوں کو گو ہم ظاہر میں مسلمان ہی کہیں گے مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ مسلمان نہیں ہوں گے۔جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک جنگ کے موقع پر ایک شخص نے اتنی جرأت اور دلیری سے جہاد میں حصہ لیا کہ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم اسے دیکھ کر بے اختیار کہتے تھے۔خدا اسے جزائے خیر دے کہ یہ آج ہم سب میں سے زیادہ کام کر رہا ہے یہ شخص یقینی جنتی ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا اگر صفحہ دنیا پر کسی نے چلتا پھرتا دوزخی دیکھنا ہو تو وہ ا س کو دیکھ لے۔اب وہ شخص بظاہر مسلمان تھا،نہیں تو صحابہ اسے جنتی قرار نہ دیتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوزخی قراردے دیا۔۳؎ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام کے ذریعے بتا دیا ہوگا کہ یہ دوزخی ہے لیکن کوئی دوسرا شخص ایسے آدمی کو کافر قرار نہیں دے سکتا۔تو درحقیقت اسلام سے نکالنے کا کام اللہ تعالیٰ کا ہے ،ہمار ا نہیں۔ہم بعض دفعہ ظاہر میںکسی کے متعلق فتویٰ دے دیتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے حالانکہ وہ کافر ہوتاہے اور بعض دفعہ کسی کو نظام کے توڑنے کے باعث جماعت سے خارج کر دیتے ہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ احمدی نہیںرہا۔بعض دفعہ وہ جماعت سے خارج ہونے پر بھی احمدی رہتا ہے اور بعض دفعہ نہیں رہتا۔ہر شخص کے ایمانی حالات کے مطابق اس کی احمدیت باقی رہتی ہے یا جاتی رہتی ہے۔
غرض ہم جس کو بھی خارج کرتے ہیں احمدیت یااسلام سے خارج نہیں کرتے،سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کے فتویٰ کے مطابق ایسا کریں۔اگر خدا تعالیٰ کا فتویٰ موجود ہو تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ احمدی نہیں۔ورنہ اس کے بغیر ہمارا تو یہ حق ہے کہ ہم کہیںاس کا ہماری جماعت سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ حق نہیں کہ اس کے متعلق یہ کہیں کہ وہ احمدی نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ گناہ توبہ سے معاف ہوجاتے ہیں بشرطیکہ اس نیت سے کوئی گناہ نہ کرے کہ بعد میں معافی لے لوں گا۔جو شخص ا س نیت سے گناہ کرتا ہے کہ میں بعد میں توبہ کرلوں گا اس کی توبہ چونکہ بناوٹی ہوتی ہے اس لئے وہ قبول نہیں ہو سکتی اِلَّا مَاشَا ئَ اﷲ اس لئے نہیں کہ توبہ سے گناہ معاف نہیں ہوسکتے بلکہ اس لئے کہ وہ توبہ حقیقی نہیں ہوتی۔ اگر حقیقی توبہ ہوتی تو وہ گناہ کے ارتکاب کے بعد کی ہوتی۔ جو شخص گناہ سے پہلے یہ خیال کرتا ہے کہ میں گناہ کر لیتا ہوں پھر توبہ کر لوں گا اس کی وہ توبہ پہلے کی ہے اور اس کا گناہ اس کی توبہ کو مٹا دیتا ہے۔
لیکن جو ایسی صورت میں گناہ نہ کرے بلکہ جذبات سے متاثر ہوکر بِجَھَالَۃٍ کرے تو تمام اہل السنت کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ امر ثابت ہے کہ ایسی توبہ قبول کر لی جاتی ہے اور تائب کا گناہ معاف ہو جاتا ہے چاہے کتنا بڑا گناہ کیوں نہ ہو۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ ایک شخص کو حد لگائی گئی تو آپ نے فرمایا۔حدود توبہ کے ساتھ انسانی گناہ معاف کرا دیتی ہیں۔اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ حد ہمیشہ بڑے گنا ہ میں لگائی جاتی ہے۔مثلاً قتل ہے یا زنا ہے یا قذف ہے۔اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ ہے۔کہ ان حدود کے ساتھ جب توبہ مل جائے تو گناہ معاف ہو جاتا ہے۔ پس جب کوئی شخص اصولِ دین پر ایمان رکھتا ہو اور کسی اعتقادی مسئلہ کا انکار نہ کرتا ہو اور نہ منصوص احکام کا انکار کرتا ہو۔مثلاً نماز، زکوٰۃ وغیرہ یعنی وہ یہ نہ کہتا ہو کہ نمازنہیں پڑھنی چاہئے یا روزہ نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ نماز کا حکم منصوص احکام میں سے ہے۔اس کے متعلق قرآن کریم میں بھی تاکید پائی جاتی ہے،سنت سے بھی یہ ثابت ہے اور حدیث سے بھی یہ ثابت ہے اور کسی عمل کو ثابت کرنے کے لئے انہی تین شاہدوں کی ضرورت ہؤا کرتی ہے۔اختلاف کا سوال وہاں پیدا ہوتا ہے جب کوئی شخص کہے کہ قرآن سے یہ ثابت نہیں یا سنت اس کے خلاف ہے یا حدیث اس کی تائید میں نہیں لیکن جب قرآن، سنت اور حدیث تینوں ایک بات پر متفق ہوں تو وہ تین طرح منصوص حکم ہے اور اگر کوئی شخص اس کا انکار کرتاہے تو وہ یقینا کافر ہے۔مثلاً اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا لیکن نماز کا قائل ہے تو یہ دوسری صورت ہوگی لیکن اگر کوئی کہے کہ نماز پڑھنی ہی نہیں چاہئے تو وہ کافر ہو جائے گا۔تو اگر وہ کسی اعتقادی مسئلہ کا انکار نہ کرتا ہواور نہ منصوص احکام کا انکار کرتا ہوبلکہ محض جوشِ نفسانی سے کوئی کام کر بیٹھے یعنی اس کے نفس کو اتنا جوش آجائے کہ اس کی دینی طاقت کمزور ہو جائے او روہ جذبات کی رو میں بہہ جائے تو وہ حقیقتاً مذہب سے باہر نہیں ہو جاتا بلکہ مسلمان ہی کہلائے گا مثلاً کوئی شخص چوری کرتا ہے۔اب اگر وہ یہ کہے کہ گو خدا نے یہ کہا ہے کہ چوری مت کرو مگر میں ضرور کروں گا تو وہ کافر ہو جائے گا۔لیکن اگر وہ یہ کہے کہ خدا نے تو یہ کہا ہے کہ چوری نہ کرو اور میں بھی مانتا ہوں کہ چوری بہت بُری چیز ہے مگر میرا نفس ایسا کمزور ہے کہ وقت پر یہ بات مجھے بھُول جاتی ہے اوربے اختیار چوری کر لیتا ہوں تو وہ کافر نہیں کہلائے گا۔ہم ایسے شخص کو بعض دفعہ سزا کے طور پر جماعت سے الگ کر سکتے ہیں مگر احمدیت یا اسلام سے الگ نہیں کر سکتے۔ اپنی جماعت کے نظا م کی درستی، اسے لوگوں کے اعتراضات سے محفوظ رکھنے اور خود اسے آئندہ کے لئے سبق دینے کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کا ہماری جماعت سے کوئی تعلق نہیں،مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ احمدیت سے خارج ہو گیا۔یا اسلام سے خارج ہوگیا۔ایسی صورت میں اگر وہ عقائد اور اعمال کو تسلیم کرنے میں ہمارے ساتھ متفق ہے یعنی وہ کہتا ہے کہ نماز پڑھنی چاہئے وہ کہتا ہے کہ زکوٰۃ دینی چاہئے، وہ کہتا ہے کہ حج کرنا چاہئے،وہ کہتا ہے کہ چوری نہیں کرنی چاہئے،مگر بعض دفعہ وہ نمازیں نہیں پڑھتا، بعض دفعہ وہ روزے نہیں رکھتا،بعض دفعہ وہ استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا یا بعض دفعہ چوری کرلیتا ہے تو ہم اسے ناقص مسلمان تو کہہ سکتے ہیں مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ غیر مسلم ہے یہی حالت قصہ زیرِ بحث کی ہے۔جس شخص نے اس فعل کا ارتکاب کیا اس کے عقائد وہی ہیں جو ہمارے ہیں۔اعمال کے متعلق وہ تسلیم کرتا ہے کہ قرآن نے جو کچھ کہا ہے اس کا حرف حرف قابلِ عمل ہے۔پھر وہ منافقت کی وجہ سے اس فعل کا مرتکب نہیں ہؤا بلکہ جوش کی حالت میں اس سے یہ فعل سر زد ہؤا ہے۔یعنی یہ نہیں ہؤا کہ اس نے یہ کہا ہو کہ میں خدا کے اس حکم کو ردّ کرتا ہوں اور اسے ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ جوش کی حالت میں جبکہ ممکن ہے وہ خدا کے اس حکم کو بھول گیا ہو یا اس کے نفس نے اس کی کوئی او ر تاویل کر لی ہو اس نے اس فعل کا ارتکاب کیا۔پس ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ مذہب سے باہر ہوگیا۔ہم آئندہ زیادہ سختی سے روکنے کی خاطر ایسے شخص کو (اگر خدانخواستہ کوئی ایسا فعل کرے)جماعت سے نکال تو دیں گے مگر جب کہ وہ سب عقائد کو مانتاہو،جماعت سے عملاً جدا نہ ہوتا ہو یا اس میں تفرقہ نہ ڈالتا ہو اور صرف کسی عمل کا باوجود اس کو ناجائز سمجھنے کے غلطی سے مرتکب ہو جاتا ہو۔یا حکم تو درست سمجھتا ہو لیکن اس کا اطلاق غلط کرلیتا ہو تو اسے ہم احمدیت سے الگ نہیں سمجھ سکتے۔ مثلاً قتل ہے یہ ایک ناجائز فعل ہے مگر مسلمان عام طور پر سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جوش میں کسی ایسے غیر مسلم کو قتل کردینا جائز ہے جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی ہو۔اب ایسے شخص کے متعلق ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ ناقص مسلمان ہے مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ صرف اس وجہ سے وہ اسلام سے نکل گیا۔
اسی طرح جب کوئی شخص ہماری جماعت میں سے خدانخواستہ کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرے جب کہ وہ سب عقائد کو مانتا ہو صرف کسی فعل کو ناجائز سمجھنے کے باوجود غلطی سے اس کا مرتکب ہوجاتا ہو۔یا حکم کو درست سمجھنے کے باوجود اس کا اطلاق غلط کر لیتا ہو تو اسے گو ہم جماعت سے نکال دیں گے مگر احمدیت سے الگ نہیں سمجھ سکتے،اور ہمارا یہ حکم محض تعزیری ہوگا اور ایسے افعال کو روکنے کی خاطر ہوگا اور ضروریات دینی کی غرض سے اس قسم کے تعزیری احکا م دینے کی خلفاء کو اجازت ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ پھر اَوروں کو مَیں نے کیوں نہ روکاجبکہ خود جنازہ نہ پڑھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ جبکہ ہم نے میاں عزیز احمد صاحب کو جماعت سے خارج نہیں کیا تھا تو ان کا جنازہ جائز تھا اور گو اس نے جو فعل کیا وہ جائز نہیں تھا لیکن اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ وہ احمدی نہیں رہا تھا۔اگر وہ یہ کہتا کہ میں قرآن کو نہیں مانتا۔ میں احمدیت کو سچا نہیں سمجھتا،میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آپ کے دعاوی میں صادق اور راستباز نہیں مانتا تو پھر وہ حملہ ہی کیوں کرتا۔میاں فخر الدین نے اس کے باپ کو تو نہیں مارا ہؤ ا تھا کہ اسے کوئی نفسانی جوش تھا جس کی وجہ سے اُس نے اُسے قتل کردیا۔اس نے غلطی سے یاصحت سے اپنے ذہن میں اس فعل کا ارتکاب محض خدا کے لئے کیا اور میں بتا چکا ہوں کہ جب کوئی شخص عقائد کا انکار نہ کرتا ہو اور صرف کسی عمل کا باوجود اس کو ناجائز سمجھنے کے غلطی سے اس کا مرتکب ہو جاتا ہو اُسے ہم احمدیت سے الگ نہیں سمجھتے زیادہ سے زیادہ اُسے جماعت سے خارج کر سکتے ہیں اور جبکہ ہم نے اُسے جماعت سے بھی خارج نہیں کیا تھا تو اُس کا جنازہ پڑھنے میں کیا حرج تھا اور جس شخص کا جنازہ جائز ہو اُس کا جنازہ فرضِ کفایہ ہوتا ہے۔یعنی اگر چند لوگ جنازہ پڑھ لیں تو ساری قوم الزام سے بری ہو جاتی ہے اور اگر کوئی بھی نہ پڑھے تو ساری قوم زیرِ الزام آجاتی ہے۔
ایک مسلمان اگر مر جائے اور دس بیس اس کا جنازہ پڑھ دیں تو باقی سب مسلمانوں پر جو فرض عائد ہوتا تھا وہ ادا ہو جائے گا لیکن اگر کوئی بھی جنازہ نہ پڑھے تو جو اس مقام کے لوگ ہونگے وہ سب گنہگار ہونگے۔تو جس شخص کا جنازہ جائز ہو اس کا جنازہ کچھ نہ کچھ افراد پر واجب ہوتاہے اگر وہ نہ پڑھیں تو ساری قوم مجرم ہوجاتی ہے اور اگر کچھ لوگ پڑھ لیں تو ساری قوم عُہدہ برا ہوجاتی ہے۔
پس ہم دوسروں کو جنازہ پڑھنے سے کسی صورت میں روک نہیں سکتے تھے اگر کہا جائے کہ تم نے پندرہ بیس آدمی جنازہ پر بھیج دینے تھے باقیوں کو کیوں جانے دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ صورت اختیار کی جاتی تو پھر اور زیادہ اعتراض ہوتا اور اس صورت میں معترض یہ نہ کہتے کہ عام لوگوں کو جنازہ پڑھنے سے روکا گیا ہے بلکہ وہ کہتے کہ بعض لوگوں کو خود حکم دے کر جنازہ پڑھوایا گیا ہے۔تو بہتر طریق یہی تھا کہ اس بارے میں کچھ نہ کہا جاتا اور جس کا جی چاہتا جنازہ پڑھ آتا اور جس کا جی چاہتا نہ پڑھتا اور یہی طریق ہم نے اختیا رکیا۔
پھر یہ اعتراض کہ اگر امام جنازہ نہ پڑھے تو دوسروں کو بھی روکے۔محض دینِ اسلام کی ناواقفیت سے پیداہؤا ہے۔خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ ثابت ہے کہ جن لوگوں کو حدود لگی ہوں اُن کا جنازہ امام تو نہ پڑھے لیکن دوسرے مسلمان پڑھ لیں۔ چنانچہ ابوداؤد میں روایت ہے کہ ماعز ایک شخص تھے۔انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بدکاری کا اقرار کیا، یہ واقعہ تفصیل سے احادیث میں آتا ہے، انہوں نے کئی دفعہ قسم کھائی اور بار بار کہا کہ میں نے بدکاری کی ہے۔آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فیصلہ کیا کہ انہیں حد لگائی جائے اور سنگسار کیا جائے۔ جب وہ سنگسار کر دیئے گئے تو ان کا جنازہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھا لیکن دوسروں کو آپ نے اس کا جنازہ پڑھنے سے منع بھی نہیں کیا۔ ۴؎
اسی طرح ایک قرضدار تھا۔جب وہ فوت ہؤاتو آپ نے فرمایا میں قرضدار کا جنازہ نہیں پڑھتا لیکن دوسروں کو آپ نے جنازہ پڑھنے سے نہیں روکا۔۵؎یہاں بھی یہی ہؤا۔ایک طرف میں نے جماعت کو ان کا جنازہ پڑھنے سے نہیں روکا اور دوسری طرف میں نے خودان کا جنازہ نہ پڑھا۔تا نوجوان آئندہ محتاط رہیں اور وہ یہ خیال کر کے کہ چلو خلیفہ وقت جنازہ تو پڑھا دیتا ہے آئندہ کسی ایسے فعل کے مرتکب نہ ہو جائیں:-
پس لوگوں کو جنازہ پڑھنے سے روکنا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عمل اور آپؐ کی سنت سے ثابت نہیں۔اور اگر لوگوں کو جنازہ پڑھنے دینا بُری بات ہے تو اس پٹھان کی طرح جس نے کہا تھا’’خوہ محمدؐ صاحب کا نماز ٹوٹ گیا‘‘ان معترضین کا اصل اعتراض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات پر پڑتا ہے۔
کہتے ہیں کوئی پٹھا ن تھا۔ایک دفعہ جب وہ حدیث کا سبق پڑھ رہا تھا۔تو وہاں یہ ذکر آگیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک بچہ کو اٹھا کر نماز پڑھنی شروع کردی۔جب آپ سجدہ میں جاتے تو اسے اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اُسے اُٹھا لیتے،وہ پڑھتے ہی کہنے لگا’’خوہ محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا‘‘۔اس نالائق نے یہ نہ سمجھاکہ نماز تو خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی ہے۔اگر نماز کے قواعد وہ نہیںجانتے تو اور کون جان سکتا ہے۔کسی نے اسے کہا یہ کیا بے ہودہ بات کرتے ہو۔تو اس نے جواب دیا کہ میں ٹھیک کہتا ہوں کنز میں لکھاہے کہ خارجی حرکت سے نماز ٹوٹ جاتا ہے ۔
اسی طرح یہ لوگ بھی مسئلہ اپنے پاس سے بناتے اور پھر اسے منسوب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر دیتے ہیں۔حالانکہ یہ بات احادیث سے،فقہاء کے اقوال سے اور اَئمہ اَربعہ کے فتاویٰ سے ثابت ہے۔آخر یہ جو اعتراض کرتے ہیں۔یہ یا تو اہلحدیث ہونگے یا حنفی ہونگے یا شافعی ہونگے یا مالکی ہونگے یا حنبلی ہونگے اور اگریہ اہلحدیث ہیں تو حدیثیں موجود ہیں،حنفی ہیں تو حنفیوں میں بحث پائی جاتی ہے،شافعی ہیں تو شافعیوں میں بھی یہ مسئلہ پایا جاتا ہے اور اگر مالکی یا حنبلی ہیں تو ان میں بھی یہ مسئلہ پایا جاتا ہے۔غرض کوئی ایک بھی محدث،یافقیہہ،یا امام ایسا نہیں جو کہتا ہو کہ اس قسم کے گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے مجرم کو جنازہ سے محروم کر دینا چاہئے۔چنانچہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں تمام ائمہ خواہ حنفی ہوں، خواہ شافعی،خواہ حنبلی،خواہ مالکی اس امرکا فتویٰ دیتے ہیں کہ اہلِ کبائر کا جنازہ جائز ہے۔صرف امام مالکؒ ان سے اختلاف کرتے ہیں مگر وہ بھی یہ نہیں کہتے کہ جنازہ جائز نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ امام کو ان اہلِ حدود کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے جن کو اس نے خود حدلگوائی ہو۔یعنی امام کسی کے متعلق یہ فتویٰ دے چکا ہو کہ فلاں شخص حد کے نیچے آگیا ہے۔اس فتویٰ کے بعد اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ خود ا س کا جنازہ پڑھے۔مثلاً کسی پر زنا کا الزام ثابت ہو چکا ہے یا قتل کا الزام ثابت ہو چکا ہے یا چوری کا الزام ثابت ہو چکا ہے اور وہ حکم دے چکا ہے کہ اس پر زنا،یاقتل،یا چوری کی حد قائم کر دی جائے تو جس کے متعلق امام نے خود حد لگوائی ہو اس کا جنازہ پڑھنا اس کے لئے جائز نہیں لیکن وہ کہتے ہیں امام کے علاوہ دوسروں کو پھر بھی جائز ہے کہ اس کا جنازہ پڑھیں۔
پس مَیں نے جوکیا وہ احوط سے احوط مذہب ہے ۶؎اور میں نے تو اس بات پر عمل کیا جو سب سے زیادہ سخت ہے۔امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہر صورت میں نماز جنازہ جائز ہے،خواہ امام نے حد لگوائی ہو یا نہ لگوائی ہو۔شوافع کا مذہب بھی یہی ہے۔اسی طرح حنبلیوں اور مالکیوں کا بھی یہی مذہب ہے کہ اہل کبائر کا جنازہ جائز ہے۔صرف امام مالک ؒ نے ان سے اختلاف کیا ہے اور امام مالکؒ نے اپنے اس اختلاف کی بنیاد اسی حدیث پر رکھی ہے۔جو ماعز کے متعلق میں بیان کر چکا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ ٖ وسلم آپ کے جنازہ میں شامل نہیں ہوئے البتہ آپ نے دوسروں کو روکا بھی نہیں۔پس وہ کہتے ہیںکہ جب امام خود حد لگوائے تو وہ جنازہ نہ پڑھے مگر دوسروں کو جنازہ پڑھنے سے وہ بھی نہیں روکتے۔اب بتاؤ جس امر کے متعلق تمام اہلحدیثوں، تمام حنفیوں، تمام شافیوں، تمام مالکیوں اور تمام حنبلیوں کا فتویٰ ہے کہ وہ جائز ہے اس پر یہ احرار کیا اعتراض کر سکتے ہیں اور یہ کونسے نئے صحابی پیدا ہوگئے ہیں کہ اسلام اور قرآن پر اپنی حکومت جتانے لگ گئے ہیں۔اس پٹھا ن کے متعلق تو کہہ سکتے تھے کہ کم از کم کوئی فقہ کی کتاب اس کی تائید میں تھی مگر ان کی تائید تو کسی حدیث اور کسی فقہ کی کتاب سے نہیں ہوتی بلکہ حق یہ ہے کہ میں نے امام مالک سے بھی زیادہ احتیاط اس بارے میں کی ہے اور وہ اس طرح کہ امام مالکؒ یہ کہتے ہیں کہ جس کو امام شریعت کے احکام کے مطابق حد لگوائے اس کا وہ جنازہ نہ پڑھے لیکن میں نے اس شخص کا جنازہ بھی نہیں پڑھا جسے میں نے حد نہیں بلکہ انگریزی حکومت نے جو کافر ہے حدلگائی تھی۔پس امام مالکؒ کے فتویٰ کے مطابق اگر میں میاں عزیز احمد صاحب کا جنازہ پڑھا دیتا تب بھی میرے لئے جائز تھاکیونکہ ان پر کسی اسلامی حکومت نے حد قائم نہیں کی۔بلکہ ان سے قصاص انگریزی حکومت نے لیا جو غیر اسلامی حکومت ہے مگر میں نے اتنا بھی نہ کیا۔
پس امام مالک ؒجنہوں نے اس بارہ میں سب سے زیادہ سخت پہلو لیا ہے میں نے ان سے بھی سخت تر پہلو لیا اور ایک کافر گورنمنٹ کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا جنازہ نہیں پڑھا۔ اگر احرار کو اس پر اعتراض ہے تو پہلے سب حدیثوں اور فقہ کی کتابوں کو رد کر دیں اور کہہ دیں کہ یہ سب جھوٹی ہیں،اب ہم نئے مولوی پیدا ہو گئے ہیں اور ہم بتائیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کرنا چاہئے تھا۔اس طرح پہلے وہ ایک نیا دین ایجاد کریںپھر جو لوگ اس دین کو مان کر اس پر عمل نہ کریں تو ان پر اعتراض کریں۔ہم تو ان کے اس دین پر ہیں ہی نہیں۔وہ ہم پر کیوں اعتراض کرتے ہیں۔ہم تو اہلِ سنت ہیں اور سب سے پہلے قرآن کو مانتے ہیںپھرسنت کو مانتے ہیں،پھر حدیثوں کو مانتے ہیں۔اس مسئلہ کے متعلق قرآن کریم میں بالبداہت کوئی آیت موجود نہیں ممکن ہے اگر غور کیا جائے تو کوئی اشارہ مل جائے مگر نص موجود نہیں لیکن سنت موجود ہے اورحدیثیں بھی موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کا جنازہ پڑھنا جائز ہے۔اس کے بعد جیسا کہ میں نے بتایا ہے۔چاروں امام جو اس وقت گویاروئے زمین کے تمام مسلمانوں کے اعتقادات پر چھائے ہوئے ہیں۔یعنی امام ابو حنیفہؒ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل سب ہمارے ساتھ متفق ہیں ان سب کا وہی مذہب ہے جس پر ہم نے عمل کیا بلکہ میں نے تو احوط سے احوط مذہب پر عمل کیا۔
اب رہا یہ سوال کہ اگر فعل کو بُرا سمجھا جاتا تھا تو اس قدر لوگ کیوں جنازہ میں شامل ہوئے۔کیا ہر جنازے میں اتنے ہی لوگ ہوتے ہیں اور اگر نہیں تو اس جنازہ میں اتنے آدمی کیوںشامل ہوئے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ حکم کے نتیجہ میں ہؤا ہے۔اس بارہ میں مَیں پہلے حکم کے متعلق جواب دیتا ہوں۔
(۱)میرا پہلا جواب یہ ہے کہ میں نے کسی کوجنازہ کے لئے نہیں کہا،نہ کسی کو یہ کہا کہ وہ دوسروں کو جنازہ کے لئے کہے بلکہ میرے لئے حیرت کی بات تھی۔جب میں نے سنا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جنازہ میں شامل ہوئے۔پس جب ایسا کوئی حکم دیا ہی نہیں گیا تو لوگوں کی کثرت کو دیکھ کر خود بخود یہ نتیجہ نکال لیناکہ ضرور حکم دیا گیا ہوگا یہ کہاں تک درست ہو سکتا ہے۔یہ تو قیاسی بات ہے اور قیاس غلط بھی ہؤ ا کرتے ہیں۔جیسے تمہید میں مَیں نے تمہیں بتایا تھا کہ جب ہندوؤں نے دیکھا کہ دنیا میں کوئی امیرہے، کوئی غریب ہے،کوئی تندرست ہے، کوئی بیمار،کوئی معزز ہے اور کوئی ذلیل،تو یہ قیاس کر لیا کہ یہ تناسخ کا نتیجہ ہے۔یا عیسائیوں نے قیاسی طور پر کفارے کا مسئلہ ایجاد کر لیا۔ حالانکہ ایسی باتیں قیاس سے نہیں بلکہ واقعات سے ثابت ہؤا کرتی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ میں نے کسی کو حکم نہیں دیا کہ وہ جنازہ میں شامل ہو اور کیا جب تک میں حکم نہ دوں لوگ جنازہ میں شامل نہیں ہؤا کرتے۔کیا میاں عبد الرشیدنے جب شردھا نند جی پر حملہ کیا،یا میاں علم الدین نے لاہو ر میں راجپا ل پر حملہ کیا،یامیاں عبدالقیوم نے کراچی میں ایک ہندو پر حملہ کیا اور پھر انہیں پھانسی دی گئی ہزارہا آدمی ان کے جنازوں میں شامل نہیں ہوئے بلکہ ایک جگہ تو ایک لاکھ آدمی جنازہ میں شامل ہؤا۔اب کیا میںانہیں یہ کہنے کے لئے گیا تھا کہ ضرور جنازہ میں شامل ہونا۔اگر نہیں تو پھر یہاں زیادہ آدمیوں کے اکٹھا ہونے سے یہ کس طرح نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ میں نے انہیں اکٹھا ہونے کا حکم دیا تھا۔
(۲)میرا دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر میں نے ایسا حکم دیا ہے تو احرار اور ان کے معاون مخرجین جن کو دعویٰ ہے کہ ہماری ہر بات انہیں پہنچتی رہتی ہے وہ گواہ پیش کریں،پھر خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ یہ بات کہاں تک صحیح ہے۔آخر وہ جو یہ دعویٰ کیا کرتے ہیںکہ ہمارے گھر کی ایک ایک بات کا انہیں پتہ ہے کیوں وہ ان لوگوں کے نام پیش نہیں کر دیتے جن کو میں نے یہ حکم دیا ہو۔وہ ایسے لوگوں کے نام بتائیں پھر لوگ ان سے خود بخود پوچھ لیں گے کہ آیا واقع میں تمہیں کوئی حکم دیا گیا تھا یا نہیں اور اگر وہ گواہ پیش نہ کریں۔تو یاد رکھیں کہ یہ میرا فتویٰ نہیں بلکہ اس کا فتویٰ ہے جس کو میں بھی مانتا ہوں اور وہ بھی کہ اِیَّاکَ وَالظَّنَّ فَاِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحَدِیْثِ۔۷؎ کہ اے انسان! تُو خیال اور تخمینے سے آپ ہی قیا سات نہ کر لیا کرکیونکہ اگر تُو ایسا کرے گا تو سب سے زیادہ جھوٹا اور کذّاب قرار پائے گا۔تمہارا فرض یہ ہے کہ تم واقعات کی شہادت کو دیکھو اور پھر کوئی نتیجہ اخذ کرو۔ایسا نہ کرو کہ تم قیاس کرو اور قیاس کے بعد ایک واقعہ فرض کرلو کہ یوں ہؤا ہوگا کیونکہ یاد رکھو کہ یہ گمان تمہیں جھوٹوں کی صف میں کھڑا کردے گا۔
گو اس جواب کے بعد مجھے اس بارہ میں کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں کہ لوگ کیوں زیادہ تعداد میں شا مل ہوئے کیونکہ یہ تو ان میں سے ہر ایک سے پوچھنا چاہئے کہ وہ جنازہ میں کیوں شامل ہؤا۔مجھ سے اس سوال کے پوچھنے کا کیا مطلب ہے۔وہ اگر دریافت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے کسی ایک احمدی کے پاس جائیں اور اس سے پوچھیں کہ تو جنازہ میں کیوں شامل ہؤا تھا، پھر دوسرے کے پاس جائیں اور اس سے پوچھیں کہ تو کیوں شامل ہؤا تھا، پھر تیسرے کے پاس جائیں پھر چوتھے کے پاس جائیں اور اس طرح ہر ایک سے دریافت کریں کہ تو جنازہ میں کیوں شامل ہؤا تھا جو جواب وہ دینگے ،وہی اصل جواب ہوگا۔مگر مَیں کہتا ہوں کہ جماعت کے لوگوں کا میاں عزیز احمد صاحب کے جنازہ میں بکثرت شامل ہونا احرار اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بھی دودھاری حملہ ہے۔وہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر جنازہ جائز تھا توکیوں تم نے نہ پڑھا اور اگر ناجائز تھا تو کیوں جماعت نے پڑھا گویا ایک دو دھاری تلوار انہوں نے چلائی ہے۔مَیں کہتا ہوں۔اس کا جواب تو مَیں دے چکا ہوں کہ یہ فتویٰ سنت سے ثابت ہے۔مگر تم بتاؤ کہ تم اور تمہارے ساتھی تو کہتے ہیں کہ قادیان کے اسی فیصدی لوگ اندر سے ہمارے ساتھ ہیں۔گو اوپر سے خلافت کی تائید کرتے ہیں۔چنانچہ اسی فیصدی یا اکثر جماعت کا لفظ بار بار میرے کانوں میں پڑا ہے۔جب پیغامی الگ ہوئے تھے وہ بھی یہی کہتے تھے کہ ۸۰ فیصدی جماعت ہمارے ساتھ ہے۔ جب مستری الگ ہوئے تھے وہ بھی یہی کہتے تھے کہ ۸۰ فیصدی جماعت ہمارے ساتھ ہے اور جب مصری الگ ہوئے ہیں تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ ۸۰ فیصدی جماعت ہمارے ساتھ ہے مگر میں یہ کہتا ہوں کہ اگر واقع میں ۸۰ فیصدی لوگ تمہارے ساتھ ہیں تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ میاں فخر الدین کے قاتل کے جنازہ میں کس طرح شامل ہوگئے۔ہزاروں کی تعداد اسی صورت میں بن سکتی ہے جب وہاں قادیان کے پچاس ساٹھ فیصدی لوگ جمع ہوئے ہوں اور گو میں نے وہ اجتماع نہیں دیکھا اور نہ میں نے تعداد کے متعلق تحقیقات کی لیکن بہر حال اتنی بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ تعداد بہت زیادہ تھی اور یہ تعداد اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب یہ تسلیم کیا جائے کہ پچاس ساٹھ فیصدی لوگ وہاں جمع تھے اب اگر یہ لوگ جنازہ میں اخلاص اور قلبی جوش سے شامل ہوئے تھے۔تو کیا تم جویہ شور مچاتے رہتے ہو کہ قادیان کے اسی فیصدی لوگ ہمارے ساتھ ہیں یہ جھوٹ ثابت ہؤا یا نہیں۔اور کیا تمہارے ساتھ کے لوگوں کو میاں فخر الدین کے قاتل کے خلاف نفرت ہونی چاہئے تھی۔یا اس سے ہمدردی ہونی چاہئے تھی۔پس جنازہ میں اتنی کثرت سے لوگوں کی شمولیت بتاتی ہے کہ تمہارا نہ صرف وہ دعویٰ غلط ہے کہ اسّی فیصدی لوگ ہمارے ساتھ ہیں بلکہ جماعت کے ایک کثیر حصہ کو تمہارے افعال سے اتنا بغض ہے کہ وہ تمہارے ایک ساتھی کے قاتل کے جنازہ میں ہجوم کرکے شامل ہو جاتے ہیں۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ اسّی فیصدی لوگ تو ان کے ساتھ ہوں اور ہزارہا آدمی میاں فخر الدین کے قاتل کا جنازہ پڑھ رہے ہوں۔اگر واقع میں اسّی فیصدی ان کے ساتھ تھے تو یہ ہزارہا آدمی کہاں سے آگئے۔
پس ہزار ہا لوگوں کا میاں عزیز احمد صاحب کے جنازہ میں شامل ہونا بتاتا ہے کہ یہ بات بالکل جھوٹ ہے کہ اسّی فیصدی آدمی ان کے ساتھ ہیں اور اگر وہ یہ کہیں کہ ہماری بات بالکل ٹھیک ہے واقعہ میں ۸۰ فیصدی ہمارے ساتھ ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ جو لوگ جنازہ میں شامل ہوئے ان میں ہمارے آدمی بہت تھوڑے تھے اور باقی جس قدر تھے وہ منافقین تھے جو انہوں نے خود بھجوائے تاکہ ہم بدنام ہوں اور اس صورت میں بھی ہم پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔غرض اس کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ جو جنازہ میں شامل ہوئے منافقانہ طور پر شامل ہوئے تھے اور وہ دل سے احرار اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ تھے۔تو پھر میرا جواب یہ ہے۔کہ یہ کام تو آپ لوگوں نے خود کرایا ہے۔کہ نَعُوْذُ بِاﷲ اسّی فیصدی لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں ان کو آپ نے جنازہ پڑھنے کے لئے بجھوادیا تا جماعت بدنام ہو۔
پس اگر جنازہ میں شامل ہونے والے مخلص تھے تو یہ جھوٹ ہے جو کہتے ہیں کہ جماعت کے ۸۰فیصدی آدمیوں کا خلیفہ سے کوئی تعلق نہیں،وہ دل میں بغض رکھتے ہیںمگر زبان سے اظہار محبت کرتے ہیںاور اگر وہ مخلص نہیں تھے بلکہ منافق تھے تو اس کامجھ پر کیا اعتراض ہے۔ہم کہتے ہیں وہ تمہارے آدمی تھے جو تم نے خود وہاں بھجوا دئے تا جماعت کو بدنام کرو اور اسے الزام کے نیچے لاؤ۔اس صوت میں بھی نہ صرف یہ کہ میں بری ہؤا بلکہ مجھ پر ظلم ہؤا کہ مجھے بِلاوجہ بدنام کیا گیا۔غرض اگر جماعت نَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ ذٰلِکَ منافق ہے اور ان کے ساتھ ہے تو پھر یہ کام شرارت سے ہؤا۔مجھ پر کیا اعتراض ہے اور اگر لوگوں نے اخلاص سے کیا ہے تو یہ جھوٹ ہؤا کہ جماعت احمدیہ اندر سے مخلص نہیں اور اسّی فیصدی لوگ ان کے ساتھ ہیں۔پھر تو معلوم ہؤا کہ جماعت چند منافقین کو چھوڑ کر کُلّی طور پر خلیفہ کے ساتھ ہے۔
اب میںاصل جواب کی طرف آتا ہوں۔میں تمہید میںکہہ آیا ہوں کہ جب قضاء اپنا منشاء پورا کرلے تو پھر جذبات اپنی قضاء کا کام شروع کرتے ہیں۔چنانچہ میں بتا آیا ہوں کہ انسانی روح افعال سے دو طرح سے متاثر ہوتی ہے۔ایک قضائی طور پر اور ایک جذباتی طور پر۔بعض دفعہ قضائی فیصلہ اَور ہوتا ہے اور جذباتی فیصلہ اَور،اور کبھی یہ دونوں فیصلے مطابق بھی ہوتے ہیں۔مگر بہر حال قضائی فیصلہ کے بعد جذباتی قضاء اپنا کام شروع کرتی ہے۔مثلاً ایک جج کا بیٹا اگر قاتل ہے تو جج اسے اسی طرح پھانسی کی سزا کا حکم سنائے گا جس طرح وہ ایک غیر کو پھانسی کی سزا سناتا ہے مگر غیر کو پھانسی کا حکم دیتے ہوئے اس کے دل کی کیفیت وہ کیفیت نہیں ہوگی،جو اپنے بیٹے کو پھانسی کا فیصلہ سناتے وقت ہوگی۔
بیشک قضائی فیصلہ میں اس کا معاملہ اپنے بیٹے سے اور ایک غیر شخص سے بالکل یکساں ہوگا مگر جب جذباتی قضاء کا فیصلہ آئے گا تو اپنے بیٹے کو پھانسی ملنے کا تصور کر کے اس کا دل خون ہو جائے گا او ر اس کی حالت بالکل غیر ہو جائے گی۔تو جذبات کی قضاء اَور اصول پر مبنی ہوتی ہے اور قانون کی قضاء اَور اصول پر مبنی ہوتی ہے۔اس تمہید کو میں پھر یاد دلاتے ہوئے کہتا ہوں کہ بے شک میاں عزیز احمد صاحب نے جو فعل کیا وہ خلاف شریعت تھا اور ہم اسے براہی قرار دیتے ہیں اور قانون نے جو ان کو سزا دی ہم اس پر معترض نہیںگو ہم میں سے بعض کہتے ہیں کہ انہیں پھانسی کی سزا نہیں ملنی چاہئے تھی مگر بہر حال ہم انہیں سزا دینے کو بُرا نہیں کہتے۔ہم کہتے ہیںجب ہائی کورٹ اور پریوی کونسل نے ایک فیصلہ کر دیا تو وہی ٹھیک ہے بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ خود ان کا اقرار تھا کہ میں نے قتل کیا ہے۔
پس قانون نے ان کو جو سز ا دی اس پر ہم معترض نہیں اور ہم نے ان کو سچ بولنے کا مشورہ دے کر قضاء کا حق ادا کر دیا چنانچہ ہم نے خود اپنے آدمی سے کہا کہ سچ بولو اور اگر اس کے بدلہ میں تمہیں پھانسی ملتی ہے تو بے شک پھانسی پر لٹک جاؤ۔پس دیکھو ہم نے قانون کا منشا پورا کردیااور قانون نے جب سزا دی تو ہم نے اس پر اعتراض نہیں کیا بلکہ ہم نے ان کے فعل کو عَلَی الْاِعْلَان بُرا کہا۔اخبارات میں لکھا کہ انہوں نے ناجائز کام کیا ہے اور بار بار کہا کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔پس ہم نے تینوں حق ادا کر دئیے جو شریعت کا حق تھا وہ بھی ادا کر دیا، جوقانون کا حق تھا وہ بھی ادا کر دیا اور جو اخلاقی لحاظ سے سچ بولنے کے متعلق حق تھا وہ بھی ہم نے ادا کردیا۔گویا شرعی، قانونی اور انسانی تینوں حقوق ہم نے ادا کر دئیے۔میاں عزیز احمد صاحب نے ایک جان لی۔قانون نے اس کے بدلے میں ان کی جان لے لی۔انہوں نے جان بھی دی اور اپنی غلطی کا اقرار بھی کیا چنانچہ انہوں نے مجھے متواتر خطوط لکھے کہ سلسلہ کی یہ تعلیم میرے ذہن میں اس وقت نہیں تھی اور مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ ایسی حالت میں بھی انسان کو صبر سے کام لینا چاہئے چونکہ وہ ناتعلیم یافتہ آدمی تھے اس لئے سمجھا جا سکتا ہے کہ واقع میں انہیں سلسلہ کی تعلیم کا اس حد تک علم نہیں ہوگا جس حد تک علم انسان کی صحیح راہنمائی کرتا ہے۔
پس انہوں نے مجھے بار بار لکھاکہ میرے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ ایسے شدید اشتعال کے موقع پر بھی انسان کو ضبط سے کام لینا چاہئے اور چونکہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے اس لئے میں توبہ کرتا ہوںاور آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے قصور کو معاف کرے اور انہوں نے مجھے ایک بار بلکہ بار بار ایسے خط لکھے۔پس جب قانونی قضاء کا فیصلہ ہو چکا اور جذباتی قضاء کا موقع آیا تو اس نے دوسرے ضروری امور کو بھی دیکھا۔قانونی قضاء کا منشا صرف اتنا تھا کہ وہ ہمارے آدمی کی جان لے لے ہم نے کہا بہت اچھا جان لے لو۔پس ہم نے قانون کے منشا کو پورا کر کے قانون کا حق اسے ادا کر دیا۔پھر شریعت نے کہا کہ میرا حق بھی مجھے ادا کر دو اور کہو کہ اس نے بہت بُرا فعل کیا ہے۔ہم نے کہا بہت اچھا آپ بھی اپنا حق لے لیں چنانچہ ہم نے عَلَی الْاِعْلَان کہا کہ میاں عزیز احمد صاحب نے خلاف شریعت فعل کیا ہے اور اخباروں میں اس پر مضامین لکھے۔پھر انسانیت ہمارے سامنے آئی اور کہا کہ اگر ایسے افعال چھپ کر کئے جائیں توخطرات بہت بڑھ جاتے ہیں پس تم اس سے اقرار کراؤ کہ واقع میں میں نے قتل کیا ہے اور اس طرح انسانی حق ادا کرو تا دوسروںکو عبرت ہو اور وہ ایسے افعال کا ارتکاب نہ کریں ہم نے کہا بہت اچھا چنانچہ ہم نے ان سے اقرار کروایا اور کہا کہ تم جو کچھ واقعہ ہؤا ہے،سچ سچ کہہ دو۔ چنانچہ انہوںنے ایسا ہی کیا۔پس ہم نے شریعت کی طرف سے بھی برأت حاصل کر لی،ہم نے قانون کی طرف سے بھی براء ت حاصل کرلی او ر ہم نے انسانیت کی طرف سے بھی براء ت حاصل کرلی۔اس کے بعد جذبات کا سوال آیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارا بھی کوئی حق ہے یا نہیں۔ چنانچہ جذباتی قضاء نے اُس وقت کئی ضروری امور کو دیکھا اس نے دیکھا کہ:
(۱)میاں فخر الدین اور ان کے ساتھیوں نے سخت اشتعال انگیزی سے کام لیا تھا اس حدتک کہ کمزور انسان کے لئے برداشت ناممکن تھی اور بعض دفعہ تو مضبوط کے لئے بھی ایسے حالات میں برداشت ناممکن ہوجاتی ہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اسلام میں بڑے بلند پایہ بزرگ ہوئے ہیں وہ سب صحابہ سے بڑھ کر شان رکھتے ہیں مگر دیکھو کہ ایک موقع ایسا آیا کہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی اشتعال میں آگئے۔ایک دفعہ ایک یہودی نے بازار میں چِڑانے کے لئے کہہ دیا کہ مجھے اُس خدا کی قسم ہے کہ جس نے موسیٰ کومحمد(صلی اللہ علیہ وسلم)پر فضیلت دی ہے،حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے غصہ میں آکر اس یہودی کو تھپڑ مار دیاحالانکہ اس نے کوئی گالی نہیں دی تھی۔وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لے کر آیا آپ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ پر ناراض ہوئے مگر انہیں کوئی سزا نہ دی کیونکہ سمجھا کہ ضرر زیادہ نہیں اور اشتعال ناقابلِ برداشت تھا۔اب حضرت ابو بکر ؓکمزور مومن نہیں تھے مگر چونکہ انہوں نے جو فقرہ سُنا گووہ گالیوں والا نہیں تھا مگر ان کے لئے ناقابلِ برداشت تھا اس لئے انہوں نے تھپڑ مار دیا۔ پس ان حالات کو کونسی جذباتی قضاء نظر انداز کر سکتی ہے۔
(۲) دوسرے ان کا جُرم مذہب کے خلاف نہ تھا بلکہ مذہبی محبت کی وجہ سے تھا۔ (مذہب کے خلاف نہ ہونے سے میری یہ مراد نہیں کہ وہ مذہبی تعلیم کے خلاف نہیں تھابلکہ یہ مراد ہے کہ وہ مذہب کو نقصان پہنچانے والا نہیں تھا۔یا خدا اور اس کے رسول پر حملہ نہیں تھا)اپنی بڑھیا اور معذور ماں کی محبت کو نظر انداز کرتے ہوئے، اپنی جوانی کو قربان کرتے ہوئے کسی دنیوی غرض سے نہیں صرف دینی جوش کے ماتحت جو اپنی جان قربان کرتا ہے اگر وہ مجرم ہے تو ہم اس کے فعل کو برا کہہ سکتے ہیں اور کہیں گے اسے جرم کی سزا پانے کے لئے تیار کریں گے ، ایسے افعال کے روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرینگے لیکن ہم اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ کرنے والے نے جو کچھ کیا غلط کیا یا صحیح کیا۔صرف دین کی محبت کے لئے کیا،اس کو ورغلا یا گیا،اس کی ماں کو ورغلایا گیا، چنانچہ اس کو ورغلایا جانا اس کے بیانات سے ثابت ہے اور اس کی ماں کو ورغلایا جانا اس طرح ثابت ہے کہ وہ منٹگمری اپنے بیٹے سے ملنے کے لئے گئی جب وہاں سے واپس آئی تو بعض عورتوں کے پاس اس نے اپنے بیٹے کی طرف یہ بات منسوب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہتا ہے۔میرا جرم یہی ہے کہ میں نے سچ بول دیا،اگر میں جھوٹ بول دیتا تو پھر تو میری امداد کے لئے بڑے بڑے وکیل پہنچ جاتے۔جب مجھے یہ خبر پہنچی تو میں نے وہاں کی جماعت کو لکھا کہ دریافت کیا جائے کہ کیا بات ہے۔انہوں نے میاں عزیز احمد صاحب کے متعلق لکھا ہے وہ تو ہرگز کوئی شکایت بیان نہیں کرتے۔آخر ان کی ماں نے بھی اقرار کیا کہ مَیں نے یہ بات اپنے بیٹے کی طرف غلطی سے منسوب کر دی تھی۔
اصل بات یہ تھی کہ جب میں وہاں اپنے بیٹے سے ملنے کے لئے گئی تو چوہدری محمد شریف صاحب وکیل میرے ساتھ تھے۔وہ ایک وقت میرے بیٹے سے باتیں کر رہے تھے تو بعض مسلمان ملزم جیل کے میرے پاس آئے اور انہو ں نے مجھے کہا کہ تم اس اس طرح جا کر باتیں کرو تو تمہارے بیٹے کی مدد کرنے پر یہ لوگ مجبور ہوں گے۔
غرض جبکہ ہم ان سے سچ بلوا رہے تھے احرار کے ہمدرد انہیں جھوٹ بولنے کی تلقین کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم اس اس طرح بیان دے دو کہ میں نے خود اسے نہیں مارا بلکہ مجھے کہا گیا تھا کہ تُو میاں فخرالدین کو مار دے لیکن اس نے ایک ہی بات رکھی کہ جو گناہ ہوگیا سو ہو گیا مَیں اور گناہ کرنے کو تیار نہیں۔میں پہلے گناہ سے بھی تائب ہوں۔چنانچہ جب ان کو اپنی ماںکی کمزوری کا علم ہؤا تو انہوں نے سختی سے اسے سمجھایااور کہا ماں میری عاقبت مت بگاڑ اور سنا ہے اس کی نصیحت اپنی ماںکو یہی تھی کہ میںنے گناہ کیا۔اور اس سے توبہ کی اور میں اپنے قصور کی سزا پالوں گا۔اب توبہ اور دعاؤںکے بعد میرے دل کو تسلی ہے کہ میرا گناہ معاف ہو جائیگا اور میں خوشی سے اس سزا کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں۔پھر جب پریوی کونسل میں اپیل دائر کرنے کا سوال آیا۔تو انہوں نے اپنی ماں سے کہا ہونا ہوانا کچھ نہیں۔مجھے پھانسی پر ضرور لٹکایا جائے گا اور میں اس سے گھبراتا نہیں۔ اے ماں تم بھی میرے بعد گبھرائیو نہیں۔ پھر سنا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی ماں سے کہا۔ماں میں نے جو کچھ کیا تھا اپنے ذہن میں خدا کے لئے کیا تھا اس لئے میری نیت کو خراب نہ کیجیؤ اور میری لاش پر روئیو نہیں بلکہ اس پر پھول ڈالیو تا دنیا سمجھ لے کہ میں اپنے گناہ پر تو افسوس کرتا ہوں مگر میں اپنی سزا سے ڈرتا نہیں۔چنانچہ اس کی ماں نے سنایا کہ میرا بیٹا مجھ سے منتیں کرتا تھا اور کہتا تھا ماں میری لاش پر روئیو نہیں۔میں نے جو گناہ کیا تھا اس کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں اب تم دشمن کو خوشی کا موقع نہ دینا۔ان واقعات کے ہوتے ہوئے جذباتی قضاء کب غیر متاثرہ رہ سکتی ہے فتح مکہ کے وقت ایک انصاری نے جو ایک دستہ فوج کے افسر تھے اور جن کا نام غالباً عبادہ بن صامت تھا ابو سفیان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب دیکھو مکّہ میں چل کر ہم تمہاری کیسی خبر لیتے ہیں اور جو جو تکلیفیں تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو پہنچائی ہیںان کا کس طرح انتقام لیتے ہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کا علم ہؤا تو آپ نے اسے فوج کی کمانڈ سے علیحدہ کر کے معمولی سپاہی بنا دیا اور اس کے بیٹے کو اس کی جگہ افسر مقرر کر دیا۔۸؎
لیکن کیا تم سمجھتے ہو یہ الفاظ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں حضرت عبادہ کے متعلق نفرت کا جذبہ پیدا ہؤا ہوگا۔آخر عبادہ کو ابوسفیان سے کیا عداوت تھی۔وہ کفر کے زمانہ میں شائد ابوسفیان کا نام بھی نہ جانتے ہوں گے مگر جب اسلا م لانے کے بعد انہیں معلوم ہؤا کہ مکہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو کیا کیا اذیتیں پہنچائی ہیں تو ان کا دل جوش سے بھر گیا اور فتح مکہ کے وقت غلطی سے ان کے منہ سے یہ الفاط نکل گئے کہ اب دیکھو گے ہم تم سے کس طرح انتقام لیتے ہیں۔پس گو انہوں نے یہ الفاظ کہے اور غلط طور پر کہے۔مگر کون شخص کہہ سکتاہے کہ انہوں نے یہ الفاظ اپنی ذات کے لئے کہے۔انہوں نے یہ الفاظ محض اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جوش میں کہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہیں سزا دی اور اتنی سخت سزا دی کہ انہیں افسری سے ہٹا کر سپاہی بنا دیا۔آج اگر کسی جرنیل کو سپاہی بنا دیا جائے تو وہ فوراً استعفیٰ دیکر بھاگ جائے مگر انہوں نے خوشی سے اس سزا کوقبول کیا لیکن تم کیا سمجھتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ان کے متعلق نفرت کے جذبات پیدا ہوئے ہونگے؟ یا کوئی بھی مسلمان ہے جو یہ واقعہ پڑھ کر عبادہ بن صامت سے نفرت کر سکے؟ وہ ان کے فعل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے گا۔وہ ان کے فعل کوروکنے کی کوشش کرے گا مگر وہ اس امر کو نظرانداز نہیں کر سکتا کہ انہوں نے اپنے لئے نہیں بلکہ گو نادانی سے کیا مگر پھر بھی خدا کے لئے یہ فعل کیا۔اسی طرح احمدی جب میاں عزیز احمد صاحب کا خیال کرتے ہونگے تو لازماً ان کے دل میں یہ خیال آتا ہوگا۔کہ اس نوجوان نے اپنی جان ضائع کی اور سلسلہ کو بدنام کیا لیکن جو کام کیا اپنے نفس کے لئے نہیںکیا بلکہ اس غلط خیال کے ماتحت کیا کہ میں سلسلہ کی خدمت کر رہا ہوں اس لئے خدا تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول ہی کر ے۔حق یہ ہے کہ اگر ہمارے نوجوانوں کے اندر یہ روح پیدا ہو جائے کہ جب کسی کو گالیاںدیتے سُنیں تو اُٹھ کر اُس پر حملہ کردیں تو اس کا دوسرے لوگوں کو اتنا نقصان نہیں ہوسکتا جتنا ہمیں نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ وہ تو کروڑوںہیں اگر ان میں سے دو چار مر جائیں تو انہیں زیادہ نقصان نہیں پہنچ سکتا لیکن ہمیں ایسے واقعات سے شدید نقصان پہنچنے کاخطرہ ہے کیونکہ ہماری بدنامی ہوگی، ہماری دینی روح کمزور ہوگی اور نوجوانوں کاایک حصہ ضائع ہوگا۔
پس ہمارا فرض ہے کہ ان باتوں کو روکیں اور اگر کوئی کسی کو قتل کی انگیخت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دوسرے کو مار دینے میں کوئی حرج نہیں تو ہم یقیناً اسے قومی دشمن کہیں گے۔چاہے اس نے دانستہ ایسا کہا ہو یا نادانستہ جو شخص بھی کہتا ہے کہ ہمارے بعض نوجوانوں نے یہ اچھافعل کیا وہ یقیناً ہمارے سلسلہ کا دشمن ہے کیونکہ اس سے دشمن کو اتنا نقصان نہیں پہنچ سکتا جتنا ہمیں پہنچ سکتاہے۔اگر ہمارے دلوں میں سلسلہ کی ایک ذرہ بھر بھی محبت ہو تو ہمارا فرض ہے کہ ہمارے بڑے بھی اور چھوٹے بھی،عالم بھی اور جاہل بھی،مرد بھی اور عورتیں بھی یہ پختہ عہد کر لیں کہ وہ ایسے افعال کو روکنے کی انتہائی کوشش کریں گے اور اس بات کی جدوجہد کریں گے کہ آئندہ کوئی ایسا واقعہ رونما نہ ہو۔لیکن باوجود اس ضرورت کو سمجھنے کے میاں عزیز احمد سے احمدی نفرت نہیں کر سکتے تھے ان کے دماغ کے پس پردہ یہ خیالات موجزن ہونگے کہ انہوں نے گو ایک ناجائز فعل کیا مگر خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا،کسی ذاتی غرض یا دنیوی فائدہ کے لئے نہیں کیا۔ان کی ماں کمزور اور بوڑھی تھی وہ اس کی تکلیف کو سمجھ سکتے تھے۔چنانچہ اب ان کی موت کے بعد جو اس غریب کی کیفیت ہے،اسے دیکھ کر ہر شخص کو رحم آتا ہے۔
بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب میاں عزیز احمد صاحب کا وہ ذکر کرتی ہے تو اپنی مٹھیاں بھینچ لیتی ہے منہ سے لفظ نکلنے بند ہوجاتے ہیں اور سرسے لے کر پیر تک تھر تھر کانپنے لگ جاتی ہے۔غرض اسے دیکھ کر دل رحم سے بھر جاتاہے مگر عزیز احمد کو یہ کوئی خیال نہیں آیا کہ اُس کے اِس فعل کے نتیجہ میں اُس کی ماں کا کیا حال ہوگا؟اُس کے بھائی کا کیا حال ہوگا؟ وہ جذبات کی رَو میں بہہ گیا اور وہ دنیا کا مجرم،قانون کا مجرم اور خدا کا مجرم بن گیا لیکن بہر حال اس نے یہ فعل کسی دنیوی غرض سے نہیں کیا بلکہ محض اس لئے کیا کہ اپنے مذہب کے خلاف گالیاں سننا میری برداشت سے باہر ہے۔پس ان خیالاات کا احمدیوں کی طبیعت پر اثر ہوگا جو ان کو جنازہ پر لے گیا۔
یہ کہ ہر شخص کے کیا خیالات تھے یہ تو اسی سے پوچھ کر معلوم ہوسکتے ہیں لیکن میں یہی سمجھتاہوں کہ اکثر احمدیوں کے دلوں پر مذکورہ بالا خیالات کا اثر ہوگا اور گو معین صورت میں یہ خیالات ان کے دماغ میں نہ آئے ہوں۔ مگر جب وہ جنازے پر گئے تو ان کے سبجیکٹومائنڈ ( SUBJECTIVE MIND)میں ضرور یہ خیالات پیدا ہورہے ہونگے کہ میاں عزیز احمد نے بُرا فعل کیا،ان کے فعل کی وجہ سے جماعت بدنام ہوئی مگر انہوں نے اپنے نفس کی وجہ سے یاجماعت کو بدنام کرنے کے خیال سے ایسا نہیں کیا بلکہ محبت کے غلط جوش میں ایسا کیا۔ہمارے مخالفوںنے اپنا حق لے لیا اور جان کے بدلے جان دے دی گئی،قانون نے اپنا حق لے لیا کہ مجرم کو پھانسی پر لٹکا دیا،اب ہمارے دلوں کی باری ہے کہ انہیں بھی ان کا حق دیا جائے اور انہوں نے زبانِ حال سے ان کی نعش کو کہا کہ اے بھائی! تُو نے قانون کا قصور کیا،تُونے شریعت کا قصور کیا،تُو نے نادانی سے جماعت کو بدنام کیا لیکن کسی ذلیل خواہش سے ایسا نہیں کیا بلکہ تُو نے نادانی سے یہ خیال کیا کہ میں اس طرح دین کی خدمت کر رہا ہوں۔ہم تیرے اس فعل کو بُرا کہہ چکے ہیں کہ تُو نے دین اور قانون کے خلاف فعل کیامگر اب جب کہ تُو اپنی سزا بھُگت چکا ہے ہم تیرے دین کی خاطر قربانی کرنے کے جذبہ پر عقیدت کے پھول چڑھانے آئے ہیں کیونکہ ہرایک کا حق اسے ملنا چاہئے۔ہمارا دماغ تیری پھانسی سے اپنا حق لے چکا۔اب ہمارا دل تیرے لئے مغفرت کی دعا کر کے اپنا حق لینا چاہتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں اسی قسم کے جذبات تھے جو لوگوں کو کھینچ کر لائے اور اگر وہ اپنے دلوں میں ایسے افعال کو بُرا سمجھتے تھے،اگر وہ ارادہ رکھتے تھے کہ ایسے افعال آئندہ کبھی نہیں ہونے دیں گے تو وہ ہرگز مجرم نہیں تھے بلکہ وہ کامل انصاف چاہتے تھے کیونکہ وہ قانونی قضاء کا حق دینے کے بعد اب جذباتی قضا کا حق ادا کر رہے تھے۔‘‘ (الفضل ۲۲؍جولائی۱۹۳۸ئ)
۱؎ بخاری کتاب الصوم باب الرَّیانُ لِلصَّائِمیْنَ
۲؎ بخاری کتاب الطب باب مَنِ اکْتَوٰی اَوْ کَوٰی غَیْرَہٗ
۳؎ بخاری کتاب القدر باب اَلْعَمَلُ بالْخَوَاتیم
۴؎ ابو داؤد کتاب الجنائز باب الصلوٰۃُ عَلٰی مَنْ قتلتہ الحدود،ابو داؤد
کتاب الحدود باب رجم ما عزبن مالک
۵؎ بخاری کتاب الکفالۃ باب الدَّیْن
۶؎ احوط : زیادہ موزوں۔ مناسب۔ زیادہ احتیاط کرنے والا
۷؎ بخاری کتاب الادب باب مَا یُنْھٰی عَنِ التَّحَاسد وَا لتَّدَابُر
۸؎ السیرۃالحلبیۃ جلد ۳ صفحہ ۹۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء کے مطابق یہ صحابی سعد بن عبادہ تھے۔

۲۳
تحریک جدید کے تمام مطالبات کی طرف توجہ دیں
(فرمودہ ۲۲؍جولائی ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’ایسے بارش کے دنوں میں جبکہ دُور دُور کے لوگوں کے لئے آنا مشکل ہوتا ہے اور جبکہ مسجد بھی لوگوں کے لئے کافی نہیں ہو سکتی،شرعی طریق یہ ہے کہ منتظمین کی طرف سے اعلان ہو جانا چاہئے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تھا کہ صَلُّوْا فِیْ رِحَالِکُمْ ۱؎ یعنی اپنی اپنی جگہ نماز پڑھ لیں۔اِس زمانہ میں جو سہولتیں میسر ہیں ان کے لحاظ سے ایسی بارش کے موقع پر اگر ایسا اعلان ہو جائے کہ جو لوگ محلوں میں جمعہ کی نماز پڑھنا چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں تو اِس طرح بہت سے لوگوں کو جمعہ میسر آسکتا ہے،اس کے بغیروہ لوگ جو نہیں آسکیں گے جمعہ سے بالکل محروم رہ جائیں گے۔اگر قبل از وقت اعلان ہو جائے کہ جو لوگ چاہیں اپنی اپنی مساجد میں جمعہ کی نماز ادا کر سکتے ہیں تو جمعہ کے ثواب سے ساری جماعت متمتع ہو سکتی ہے۔
پس آئندہ کے لئے منتظمین کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ جب کبھی ایساد ن ہو،بارش زیادہ ہو،آنے والوں کے لئے جگہ تھوڑی ہو اور تکلیف کا احتمال ہو تو خلیفۂ وقت سے اجازت لے کر محلوں میں جمعہ کی اجازت کا قبل از وقت اعلان کرا دیا کریں کہ آج سوائے اُن لوگوں کے جو اِسی مسجد میں آنا چاہیں باقی لوگ اپنے اپنے محلوں کی مساجد میں نماز جمعہ پڑھ سکتے ہیں۔
اِس کے بعد مَیں جماعت قادیان کو بھی اور بیرونی جماعتوں کو بھی ’’الفضل‘‘ کے ذریعہ اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے جلسوں کا دن بہت قریب آرہا ہے۔میں نے اعلان کیا تھاکہ تحریک جدید کے سیکرٹریوں کو چاہئے کہ کوشش کریں کہ اُس دن سے پہلے سارا یا بہت سا حصہ موعودہ چندوں کا ادا ہو جائے۔اس اعلان کے بعد پہلے مہینہ میں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوشش کی گئی ہے کیونکہ اس مہینہ میں وصولی کی رفتار پہلے کی نسبت زیادہ رہی ہے مگر بعد میں جیسا کہ ہمارے ملک میں عام طور پر ہوتا ہے کہ رفتار پھر سُست ہو گئی ہے۔ہندوستان میں یہ مرض عام ہے کہ کچھ دنوں تک کام کرنے کے بعد اسے چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہی عادت در اصل ہندوستان کی تباہی کا موجب ہے۔یہاں انجمنیں بنتی ہیں سال دو سال کام کرتی اور پھر ختم ہوجاتی ہیں حالانکہ یورپ میں بعض انجمنیں سَوسَو اور دو دو سَو سال سے کام کر رہی ہیں اور ہمیشہ مضبوط تر ہوتی رہتی ہیں مگر ہندوستان میں ایسا نہیں ۔بعض لوگ کہتے ہیںکہ یہ ملیریا کا اثر ہے اس سے طاقتِ عمل میں کمی واقع ہو جاتی ہے، بعض اسے گرمی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ تنزّل کا اثر ہے۔جب قومیں گِرا کرتی ہیں تو پھر یہ سب خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔اسی ملیریا اور گرمی کے باوجود ہندوستان نے ترقی بھی کی ہے۔ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب انگلستان کی عورتوں کے پہننے کے کپڑے ہندوستان میں بنتے تھے اور اہلِ انگلستان کی بیٹھکوں کے لئے زیبائش کی چیزیں بھی یا تو ہندوستان سے جاتی تھیں یا شام سے۔ گویا اُس وقت ہندوستان نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرتا تھا بلکہ دوسرے ممالک کی بھی۔ اُس وقت بھی یہاں گرمی اِسی طرح پڑتی تھی اور ملیریا پیدا کرنے والے مچھر موجود تھے۔یہ سب کچھ تھا مگر اِس کے ساتھ ہمت بھی تھی۔اب بھی وہ چیزیں ہیں مگر ہمت نہیں۔ اس کے نہ ہونے سے اب ہندوستانی کچھ روز کام کرتے ہیں اور پھر سُست ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے کوئی بڑا مقصود نہیں ہوتا۔لیکن ہماری جماعت کو تو غور کرنا چاہئے کہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ نے کتنا بڑا مقصود پیدا کیا ہے۔زمین و آسمان میں تغیر پیدا کر دینا کوئی معمولی بات نہیں۔دنیا میں دس بیس یا سَوپچاس آدمیوں سے مل کر بھی کوئی شخص بڑا بنتا ہے تو اس کی بہت قدر کی جاتی ہے۔کسی کو حکومت کی طرف سے خانصاحب کا خطاب مل جائے تو وہ اس کے بغیر اپنا نام نہیں لکھتا۔میں نے دیکھا ہے کہ لوگ آپ اپنے دستخط کرتے ہیں تو نیچے خانصاحب لکھ دیتے ہیں اور اگر کسی کو خان بہادر کاخطاب مل جائے تو پھر وہ ہندوستان کی بزعم خود ناپاک زمین پر قدم رکھنا مناسب نہیں سمجھتا اور چاہتا ہے کہ اس کے بس میں ہو تو ہوا میں چلے اور کوئی سی۔آئی۔ای بن جائے تو پھر وہ ہندوستانیوں سے زیادہ ملاقات کو بھی اپنے لئے اچھا نہیں سمجھتا اور سمجھتا ہے کہ اب تو میں انگریز بن گیا ہوں۔ اور اگر کوئی سر ہو جائے تو وہ کبھی الیکشن کے موقع پر مدد لینے کے لئے جائے تو جائے ورنہ ہندوستانیوں کی شکل دیکھنا بھی ان کے لئے تکلیف دِہ ہوتا ہے حالانکہ ہندوستان میں ہزاروں خانصاحب موجود ہیں۔بعض چھوٹے چھوٹے گاؤں میں بھی جہاں لوگوں نے فوجی خدمات کیں،خانصاحب آپ کو ملیں گے ۔تو اِس قدر کثرت سے خانصاحب کا خطاب رکھنے والے لوگ ہیںکہ بعض شہروں میں تو ان کی کئی ٹیمیں بن سکتی ہیں۔اور یہی حال خان بہادروں کا ہے سال میں دودفعہ اِس خطاب والوں کی فہرستیں چھپتی ہیںجو اِتنی لمبی ہوتی ہیں کہ کوئی کام والا آدمی ساری کی ساری پڑھ بھی نہیں سکتا۔ہر سال سَو دو سَو آدمی خان صاحب اور خان بہادربن جاتے ہیں اور دس بیس سر بھی ہو جاتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں برٹش ایمپائر میں ہزاروں سر ہوں گے لیکن باوجود اِس کے کہ اِس کثرت کے ساتھ یہ خطاب لوگوں کو ملتے ہیں،پھر بھی جسے مل جائے اُس کا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔پھر سر سے اوپر لارڈ کا درجہ ہے یہ بھی ہزار بارہ سَو سے کیا کم ہوں گے۔پانچ چھ سَو تو پارلیمنٹ کے ممبر ہی ہیں۔پھر کئی لارڈوں کی اولادیں ہیں جن کو لارڈ کاخطاب مِلا ہے گووہ ہاؤس آف لارڈز کے ممبر نہیں۔ اور آئر لینڈ کے لارڈ استحقاق کے ساتھ ہاؤس آف لارڈز کے ممبر بھی نہیں ہوتے۔لارڈز میں سے پھر مار کوئس اور ڈیوک ہیں اورسب سے اوپر بادشاہ کا رُتبہ ہے۔بادشاہ بھی ایک وقت میں دنیا میں چالیس پچاس بلکہ سَو بھی موجودہوتے ہیں۔اِسی زمانہ میں جب کہ پارلیمنٹوں کا زمانہ ہے جاپان کا بادشاہ ہے۔ مانچوکو ۲؎ (MANCHUKUO) کا بادشاہ ہے،پھر ایران ،عراق ،نجد،افغانستان کے بادشاہ ہیں۔گویا یہ چھ تو اسی کے حصہ کے ہیں۔ان کے علاوہ مصر کا بادشاہ ہے،ٹرانس جارڈینیا ۳؎کا ہے،آٹھ ہوگئے۔ پھر یمن کا ہے۔ کُل نو ہوگئے۔ پھر یورپ میں بھی آٹھ دس ہیں،اٹلی کا ہے، یوگو سلاویہ کا،رومانیہ، بلغاریہ، یونان،انگلستان، ڈنمارک، ناروے، سویڈن کے بادشاہ ہیں۔ تو اِس گئے گزرے زمانہ میں بھی جب بادشاہتیں بالکل مٹائی جار ہی ہیں، بیس پچیس بادشاہ موجود ہیں۔ اور جب پارلیمنٹوں کا دستور نہیں تھا اُس وقت تو ایک ایک ملک میں کئی کئی سَو بادشاہ ہوتے تھے مگر پھر بھی جب کوئی بادشاہ بنتا ہے تو سمجھنے لگتا ہے کہ خبر نہیں کہ میں کیا بن گیا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ امیر عبدا لرحمان خان کا باپ افغانستان سے بھاگ گیا تھا اور امیر عبدالرحمان نے خود یہ بات واپس آکر سنائی کہ روس کو جاتے ہوئے جب وہ بخارا میں سے گزرے تو ایک گاؤں میں کسی بات پر گاؤں والوں نے بتایا کہ یہ بات تو بادشاہ کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔اُنہوں نے پوچھا کہ بادشاہ کہاں ہیں؟ تو گاؤں والوں نے بتایا کہ گھاس لینے گئے ہیں۔وہ اُسی گاؤں کا بادشاہ تھا۔تھوڑی دیر میں لوگوں نے بتایا کہ وہ بادشاہ سلامت آرہے ہیں ۔وہ ایک دبلے پتلے گھوڑے پر سوارتھا۔ادھر سے امیر عبدالرحمان خان کے والد اپنے گھوڑے پر سوار اُس کی طرف گئے تو باوجود موٹا تازہ ہونے کے امیر کا گھوڑا ڈر گیا۔ اُس نے آواز دی کہ عبدالرحمان ذرا اِدھر آنا۔مگر امیر عبدالرحمان نے کہاکہ میں دو بادشاہوں کی لڑائی میں دخل دینا نہیں چاہتا۔تو ایک صوبہ ،ایک ضلع اور ایک تحصیل کا چھوڑ کر ایک گاؤں کے بادشاہ بھی ہوتے ہیںمگر پھر بھی وہ اِس پرفخر کرتے ہیںکہ ہم بادشاہ ہیں۔بادشاہ سے اوپر شہنشاہ ہوتا ہے وہ بھی دنیا میں کئی کئی ہوتے ہیں۔
پچھلے زمانہ میں انگلستان،روس،جرمن اور ایبے سینیا کے بادشاہ شہنشاہ کہلاتے تھے اور اس طرح چار شہنشاہ بہ یک وقت دنیا میں موجود تھے ۔جنگ کے بعد دو مٹ گئے اور طاقتور شہنشاہ ایک رہا۔دوسرا ایبے سینیا کا شہنشاہ تھا جو بیچارہ کسی حساب میں نہ تھا۔خدا تعالیٰ کو یہ پسند نہ آیا کہ حقیقی شہنشاہ ایک ہی رہے اِس لئے اٹلی نے حبشہ کو فتح کر کے اپنے بادشاہ کا نام شہنشاہ رکھ دیا اور اس طرح اب پھر دو شہنشاہ ہو گئے ہیں ۔
تو دیکھو یہ کتنی چھوٹی چیزیں ہیں مگر دنیا ان پر کتنا فخر کرتی ہے۔مگر تم لوگوں نے بھی کبھی غور کیا ہے کہ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے وہ صرف ایک قوم کو تم سے پہلے جب سے کہ آدم پیدا ہؤا سپرد کیا گیا تھا۔حضرت نوح علیہ السلام آئے مگر اُن کی تبلیغ کا دائرہ بہت محدود تھا،پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے وہ بڑے عظیم الشان نبی تھے مگر صرف بنی اسرائیل کے لئے۔ہم داؤد اور سلیمان علیہما السلام کا ذکر کس عظمت کے ساتھ پڑھتے ہیںمگر وہ بھی محدود دائرہ کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہم کس قدر عزت کرتے ہیں مگر ان کا دائرہ بھی کتنا محدود تھا۔پھر ہم حضرت کرشن اور رام چندر کی کتنی عزت کرتے ہیں مگر وہ بھی صرف ہندوستان کے لئے ہادی بن کر آئے تھے۔
صرف ایک قوم ہے جسے ساری دنیا کی ہدایت سپرد ہوئی اور وہ صحابہ ہیں اور ان کے بعد تم ہو۔ اور اگر تم اس بات کو محسوس کرو اور اس عظمت کا خیال کرو کہ تم کو وہ فخر دیا گیا ہے کہ جو صرف ایک قوم کو پہلے ملا ہے تو تمہارے اندر ایسی آگ پیدا ہو جائے جو تمہیں رات دن بے چین رکھے اور کبھی سُستی نہ پیدا ہونے دے مگر مشکل یہ ہے کہ حقیقت کو سمجھنے والے بہت کم ہیں۔بہت لوگوںنے احمدیت کو مان تو لیا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ کی عظمت کا احساس اُن کے اندر پیدا نہیں ہؤا۔وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں جھگڑتے ہیں، لڑتے ہیں ذرا ذرا سی باتوں پر ٹھوکریں کھاتے ہیں۔خدا تعالیٰ نے اُن کو تخت پر بٹھایا مگر وہ اُس تختہ کے ساتھ چمٹے بیٹھے ہیں جس پر مُردہ کی لاش قبرستان کو لے جائی جاتی ہے۔
میں پھر ایک دفعہ جماعت کو متوجہ کرتا ہوں کہ وہ نہ صرف تحریک جدید کے مالی حصہ کی طرف توجہ کریں ،بے شک وہ بھی بہت ضروری ہے،مگر دوسرے مطالبات پر عمل کرنے کی بھی بہت ضرورت ہے۔جب تک سب دوست ذاتی اصلاح کے علاوہ نظام کو مضبوط کرنے میں نہ لگ جائیں اور تمام افراد اپنے آپ کو ایک عضو سمجھیںمستقل وجود نہ سمجھیں، شرعی احکام کی پوری طرح پابندی نہ کریں اور نہ کرنے والوں کے خلاف ایسا اقدام نہ کریں کہ آئندہ کسی کو جرأت نہ ہو اُس وقت تک جماعت وہ فرض ادا نہیں کر سکتی جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے قائم کیا ہے۔
پس میں مختصر الفاظ میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوںکہ وہ تحریک جدید کے مالی حصہ کی طرف بھی اور دوسرے حصوں کی طرف بھی توجہ کریں اور اپنے قلوب میں ایسی صفائی پیدا کریں کہ بار بار یاد دہانی کی ضرورت نہ رہے۔جو شخص یاد دہانی کا محتاج ہو اُس کا ایمان ہر وقت خطرہ میں ہے۔کیا خبر ہے کہ یاد کرانے والا کس وقت اُس سے جُدا ہو جائے اور اِس صورت میں جس وقت یاد کرانے والا گیا اُس کا ایمان بھی ساتھ ہی جائیگا۔وہی ایمان وقت پر کام آ سکتاہے جس کے لئے کسی بیرونی یاددہانی کی ضرورت نہ ہو اور جواپنے آپ کو بیدار کرنے والا ہو۔ جودوسرے کے سہارے کا محتاج ہے وہ ہر وقت خطرہ میں ہے۔اصل سہارا اللہ تعالیٰ کا ہی ہے جو کام آسکتا ہے۔پس ہر فردِ جماعت اپنے اندر یہ احساس پیدا کرے کہ سلسلہ کی ترقی مجھ پر منحصر ہے۔اورجب بچوں،جوانوں،بوڑھوں اور مردوںو عورتوں میں یہ احساس پیدا ہو جائے تو پھر تمہیں کوئی قوم ہلاک نہیں کر سکتی اور شیطان تم پر حملہ آور نہیں ہو سکتا۔جب انسان کے اندر غیرت پیدا ہوجائے تو وہ بڑے سے بڑے دشمن کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔اس کے دل سے ڈر مٹ جاتاہے یہی حال محبت کا ہے۔ان دونوں کے ہوتے ہوئے خوف کبھی انسان کے پاس نہیں آسکتا۔چھوٹے بچوں کو دیکھ لو،کوئی مضبوط جوان آدمی ان پر حملہ کرتا ہے تووہ ڈر کر بھاگتے ہیں مگر کبھی مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور مقابلہ کر لیتے ہیں۔اس لئے وہ ارادہ کر لیتے ہیں۔اور ارادہ کی مضبوطی سے قویٰ کی مضبوطی بھی حاصل ہو جاتی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں یا آپ کے قریب کے زمانہ میں ہی یہاں ایک استانی پاگل ہو گئی۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل درس دے رہے تھے اور ہمارے مکان کی جو مشرقی ڈیوڑھی ہے اُس کی طرف جو گلی مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کی طرف جاتی ہے اُس کی کھڑکی کھول کر اس میں کُودنا چاہتی تھی کہ حضرت خلیفہ اوّل کی نظر پڑ گئی اور آپ نے جھَٹ اسے پکڑ لیا۔حضرت خلیفہ اوّل کو اپنی طاقت اور زور کا دعویٰ ہؤا کرتا تھا۔بعض اوقات آپ اپنا ہاتھ آگے پھیلا دیتے تھے اور کسی بڑے مضبوط آدمی سے فرماتے کہ اسے ذرا ٹیڑھا تو کرو۔مگر اپنی اس طاقت اور زور کے دعویٰ کے باوجود جب آپ نے اس پا گل عورت کو پکڑا تو باوجود یکہ وہ دُبلی پتلی تھی اُس نے ایسا زور کیا کہ آپ کو خطرہ محسوس ہونے لگا کہ میں بھی ساتھ نہ گر جاؤں اور آپ نے درس والی عورتوں کو مدد کے لئے بلایا۔چنانچہ آٹھ دس عورتوں نے مل کر آدھ گھنٹے میں اُسے باندھا۔اس عورت کی تندرستی کی حالت میں حضرت خلیفہ اوّل اگر اُس عورت کو ہاتھ سے ذرا سا بھی جھٹکا دیتے تو کتنے ہی فاصلہ پر جاکر گرتیلیکن جنون کی حالت میں خوف چونکہ دَب گیا تھا اور وہ اپنی طاقت کو انتہائی طور پر استعمال کرنے پر آمادہ تھی اس لئے آٹھ دس عقلمندوں نے مل کر بمشکل اُس پر قابو پایا۔
ایمان بھی ایک قسم کا جنون ہوتا ہے۔کوئی نبی ایسا نہیں آیا جسے مجنون نہ کہا گیا ہو اور اِس کی وجہ یہی ہے کہ جس طرح مجنون ہلاکت کی پرواہ نہیں کرتااسی طرح ایمان والا بھی نہیں کرتا اور ہرخطرہ میں اپنے آپ کو ڈال دیتا ہے اس لئے لوگ اسے بھی پاگل سمجھتے ہیں۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی طاقتوں کو نڈر اور بے پرواہ ہو کر استعمال کرنے میں مجنون اور مؤمن میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔اور اس طرح ان کی طاقت میں بھی مشابہت پیدا ہو جاتی ہے۔جس طرح پاگل پر جب جنون کا دَورہ ہو تو اُسے آٹھ دس آدمی بمشکل قابو کرسکتے ہیں اسی طرح مؤمن کو بھی جب وہ جوش کی حالت میں ہو اُس کے مخالف دبا نہیں سکتے اور جتنا کسی کا ایمان مضبوط ہو اُتنی ہی زیادہ طاقت اس کے اندر ہوتی ہے ۔حتّٰی کہ جب وہ نبی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو ساری دنیا مل کر اسے پکڑنا چاہتی ہے مگر نہیں پکڑ سکتی۔پس اپنے اندریہ ایمان پیدا کرو پھر کوئی خطرہ باقی نہیں رہے گا۔
تحریک جدید کے لئے علیحدہ سیکرٹری مقرر کرنے کے لئے جومَیں نے کہا تھا اُس کی غرض یہ تھی کہ ایسے آدمی ہوں جو مستقل مزاج ہوں اور رات دن اپنے آپ کواس کام میں لگائے رکھیں لیکن افسوس ہے کہ بعض سیکرٹری صرف نام کے لئے بن گئے ہیں اور کام کچھ نہیں کرتے۔ان کومیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خالی نام خدا تعالیٰ کے حضور کوئی فائد ہ نہیں دے سکتا بلکہ نام حاصل کرنے سے پہلے ان پر کوئی الزام نہ تھا لیکن نام لینے کے بعد اگر وہ کام نہیں کرینگے تو اللہ تعالیٰ کی *** کے مستحق ہونگے اس لئے ہر سیکرٹری کو چاہئے کہ تن دہی سے کام کرے۔پہلے خود تحریک جدید اور اس کی ہدایتوں کا مطالعہ کرے اور پھر اس کے مطابق جماعت سے کا م لے۔
دیکھو یہ کتنا اہم کام ہے۔جلسہ سالانہ کے موقع پر دوستوں نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ ورثہ کی تقسیم شریعت کے مطابق کیا کریں گے اور عورتوں کو حصہ دیا کریں گے مگر منہ سے کہنا آسان ہے اور عمل کرنا مشکل ہے۔سیکرٹریوں کو دیکھنا چاہئے تھا کہ کیا اس کے مطابق کام ہؤا اور اس عرصہ میں جو لوگ فوت ہوئے اُن کا ورثہ مطابق شریعت تقسیم ہؤا ؟اگر نہیں تو انہوںنے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب اتنی وسیع ہے کہ اس عرصہ میں پچاس ساٹھ بلکہ سَو ایسے دوست ضرور فوت ہو چکے ہوں گے جن کے ورثہ کے متعلق سوال پیدا ہؤا ہوگا مگر میرے پاس ایک مثال بھی ایسی نہیں آئی کہ کوئی زمیندار فوت ہؤا ہو اور اُس کا ترکہ شرع کے مطابق تقسیم ہؤا ہو۔تو تحریک جدید کے کارکن جب تک اپنی ذمہ داری کو محسوس نہ کریں گے خالی نام ان کو کچھ فائدہ نہ دے سکے گا۔انہیں چاہئے کہ اپنے کام کاج کا حرج کرکے بھی اس طرف متوجہ ہوں۔ اپنے اندر ایک جنون پیداکریں۔مجنون کو بعض اوقات وہ چیزیں نظر آجاتی ہیں جو دوسروں کو نہیں آتیں۔ جس طرح نبی کو بھی وہ چیزیں دکھائی دیتی ہیں جو دوسری دنیا نہیں دیکھ سکتی۔یہی وجہ ہے کہ لوگ کئی مجنون لوگوں کو مجذوب قرار دے کر ولی اللہ بنا دیتے ہیں۔لیکن بات صرف یہ ہوتی ہے کہ اس کی مخفی دماغی قوتیں بعض اوقات نمایاں ہوجاتی ہیں اور وہ شاذونادر طورپر غیرمعمولی باتیں معلوم کر لیتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ آپ لاہور تشریف لے گئے۔بعض دوستوں نے تحریک کی کہ شاہدرہ میں ایک مجذوب رہتا ہے اُس کے پاس جانا چاہئے مگر بعض دوسرے دوستوں نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ وہ نہائت گندی گالیاں بکتا ہے اُس کے پاس نہیں جانا چاہئے مگر جو جانے کے حق میں تھے انہوں نے کہا کہ آپ کو الہام ہوتا ہے دیکھنا چاہئے وہ کیا کہتا ہے۔آپ خود بھی انکار کرتے رہے مگر دوست اصرارکر کے لے گئے۔آپ نے فرمایا کہ جب ہم وہاں پہنچے وہ گالیاں دیتے دیتے یکدم خاموش ہوگیا۔اس کے پاس ایک خربوزہ رکھا تھا اُسے اُٹھا کر میرے پیش کیا اور کہنے لگا کہ یہ آپ کی نذر ہے دیکھنے والے اُس کے اَور بھی معتقد ہو گئے مگر آپ نے فرمایا کہ وہ پاگل تھا۔تو بعض اوقات پاگل کو بھی ایسی باتیں نظر آجاتی ہیں جو عقلمند نہیں دیکھ سکتے۔وہ چونکہ دنیا سے منقطع ہو چکاہوتا ہے اس لحاظ سے اُسے بھی کسی وقت غیب کی باتیں نظر آجاتی ہیں۔
مؤمن کا تعلق بِاللہ شریعت کے مطابق ہوتا ہے اس لئے جب وہ کشف کی حالت میں ہوتا ہے نیکی کا نمونہ ہوتا ہے اور جب کشف سے باہر ہوتا ہے تب بھی نیکی اور عقل کا نمونہ ہوتا ہے لیکن پاگل جب اپنی حالت میں ہوتا ہے عقل سے بے بہرہ ہوتاہے اور جب اسے افاقہ ہو محض دنیا کا ایک کیڑا ہوتا ہے۔صرف دماغ کی خرابی کی وجہ سے بعض دفعہ اس کی مخفی طاقتیں بیدار ہوجاتی ہیں لیکن ولی اللہ کی طاقتیں اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے بیدار ہوتی ہیں۔نیز پاگل کو تو اتفاقی طور پر کبھی کوئی بات معلوم ہوتی ہے لیکن مؤمن پر اللہ تعالیٰ کا نور ہر وقت نازل ہورہا ہوتا ہے اور اس پر جب کبھی بھی کوئی مصیبت آنے لگتی ہے اللہ تعالیٰ اُسے قبل از وقت خبر دے دیتا ہے اوراُس کی تائید میں اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے رہتے ہیں۔پس ہمارے سیکرٹری اگر اخلاص اور مذہبی جنون سے کام کریں تو یہی عُہدے انکو ولی اللہ بنا سکتے ہیں اور ان پر رؤیا و کشوف کے دروازے کھل سکتے ہیں لیکن اگر وہ صرف دفتری طور پر کام کریں جوش اور جنون سے نہیں تو اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی ان کے ساتھ ویسا ہی ہوگا ۔اگر وہ سمجھیں کہ سلسلہ کی ذمہ داری ہم پر ہے اور محنت سے کام کریں تو یقینا یہی کام ان کے لئے بڑا مجاہدہ بن سکتا ہے اور اِسی کے نتیجہ میں وہ اللہ کا قُرب حاصل کر سکتے ہیں۔مجاہدات بھی ہر زمانہ کے لئے علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔اِس زمانہ میں تبلیغ اور نظامِ جماعت کی تکمیل کے مجاہدے زیادہ مقبول ہیں اور اگر ہمارے سیکرٹری تندہی سے کام کریں تو اسی میں وہ خدا تعالیٰ کے قُرب حاصل کر سکتے ہیں۔
اب کہ وقت بہت ہی کم رہ گیا ہے۔میں ایک بار پھر توجہ دلاتا ہوں کہ عہدیدار سُستیاں چھوڑ کر کام کریں اور نہ صرف مالی مطالبات پورے کرائیں بلکہ دوسرے بھی۔اس میں شک نہیں کہ ان تین سالوں کے اندر قربانیوں کا بوجھ جماعت پر بڑھا ہے مگر کون کہہ سکتا ہے کہ اِن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی زیادہ فضل نہیں آنے والا۔‘‘
(الفضل ۲۸؍جولائی۱۹۳۸ئ)
۱؎ بخاری کتاب الاذان باب الاذان لِلْمسافرین (الخ)
۲؎ مانچوکو: (MANCHUKUO) سابق مملکتجو دوسری جنگِ عظیم کے بعد چین کو
واپس دے دی گئی۔
۳؎ ٹرانس جارڈینیا: (TRANSJORDANIA) موجودہ اُردن کا قدیم نام
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۲۴
الٰہی جماعتوں میں منافقین کا پیدا ہونا سنتُ اللہ ہے
(فرمودہ۲۹ ؍جولائی ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’گزشتہ ایام میں یہاں ایک واقعہ ہؤا ہے جسے مد نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوںکہ پھر مجھے منافقین کے متعلق جماعت کو اچھی طرح واقفیت بہم پہنچا دینی چاہئے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم جیسی کتا ب بھی بعض لوگوں کے لئے ہدایت کا مگر بعض کے لئے گمراہی کا موجب بھی ہوجاتی ہے۔ ۱؎اس لئے مجھے اس سے غرض نہیںکہ جماعت اس سے فائدہ اٹھاتی ہے یا نہیں،میرے لئے یہی کافی ہے کہ میں ایک بات کو کھول کر پہنچا دوں آگے احباب جماعت اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں میرے لئے یہ سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ہر ایک کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے جولوگ میری بات کو سنیں گے اور اس پر عمل کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ اور ان کی اولادوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرے گالیکن جو ردّ کر دیں گے ان کے اور ان کی اولادوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی ویسا ہی ہوگا۔ ہر شخص کا انعام اس کی ذات سے وابستہ ہے مجھے اس سے واسطہ نہیں کہ لوگ کن کانوں سے سنتے ہیں۔میرا فرض صرف یہ ہے کہ جماعت کو آگاہ کردوں اور مخلصین کے طبقہ تک اسے پہنچا دوں۔ چند روز ہوئے ناظر صاحب امور عامہ میرے پاس آئے اور اپنی ڈائری میں نوٹ کردہ واقعہ مجھے سنایا کہ یہاں کے ایک دکاندار چوہدری حاکم دین صاحب اور ایک اور دکاندار کے نمائندے محمد سعید صاحب ان کے پاس آئے اور اجازت طلب کی کہ ہم نے مصری صاحب کے ساتھ حساب کرنا ہے ان سے ملنے کی اجازت دی جائے اور چونکہ ہم نے یہ قانون مقرر کیا ہؤا ہے کہ ایسی صورت میں تین آدمیوں کو اکٹھا ملنے کی اجازت دی جایا کرے کیونکہ حساب کتاب کا معاملہ ایسا ہے کہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس غرض سے اجازت حاصل کرنے والا بہانا کرتا ہے یا واقعہ اس نے کچھ لینا ہے۔ ناظرصاحب امور عامہ نے بتایا کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ مرزا مہتاب بیگ صاحب کو ساتھ لے جائیں دو آپ ہیں تیسرے وہ ہو جائیں گے اور تینوں اکٹھے جا کر مل آئیں لیکن انہوں نے واپس آ کر کہا کہ ہم مِل تو آئے ہیں مگر ایک غلطی ہو گئی مرزا مہتاب بیگ صاحب ملے نہیں تھے اس لئے ہم ان کے بغیر ہی چلے گئے تھے۔ان کا یہ ایسا نامعقول عذرتھا کہ کوئی معقول آدمی اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا اس لئے جس حساب پر پہلے سَوا سال گزر چکا ہے یہ حساب ان کے اخراج کے بعد کا تو ہو نہیں سکتا اس لئے لازماً یہ سوا سال سے پہلے کا ماننا پڑے گا۔ اس پر اگر چند گھنٹے اور انتظار کرنا پڑتا حتّٰی کہ وہ تیسرا آدمی مل جاتا اور وہ اسے ساتھ لے جاسکتے تو اس میں کیا حرج تھا۔کیااسی دن کوئی خاص مہورت تھا اور کسی جو تشی نے ان سے کہا تھا کہ اگر تم چند گھنٹوں کے اندر اندر نہ پہنچے تو تمہارا روپیہ مارا جائے گا۔یا گورنمنٹ کا کوئی حکم تھا کہ اس وقت تک کے بعد تمہارا روپیہ ضبط ہو جائے گا۔یا کیا قرآن کریم کا کوئی ایسا حکم ہے کہ اگر اتنے عرصہ کے اندر اندر قرضہ نہ مانگا جائے تو وہ تلف ہو جاتا ہے۔آخر کیا وجہ تھی؟ کہ وہ دوتین گھنٹے یا اگر تیسرا آدمی اس روز نہیںمل سکتا تھا تو دوسرے روز جا کر نہیں مل سکتے تھے اور ان کے لئے فوراً ہی وہاں پہنچنا ضروری تھا یا انہیں اس بات سے کس نے منع کیا تھا کہ اگر مرزامہتاب بیگ صاحب نہیں مل سکے تھے تو دوبارہ ناظرا مور عامہ کے پاس آکر انہیں کہتے کہ کوئی اور آدمی مقرر کردیا جائے۔خیر تو ناظر صاحب نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد مجھے بتایا کہ انہوں نے کل پھر جانا ہے اور میں نے ان کو تاکیداً کہہ دیا ہے کہ کل ضرور مرزا صاحب کو ساتھ لے جائیں۔ یہ سنتے ہی میرے مُنہ سے فوراً نکلا کہ وہ کل بھی نہیں لے جائیں گے اور اگلے دن وہ پھر میرے پاس آئے اور شرمندگی سے کہا کہ وہ آج پھر کسی کو ساتھ لے کر نہیں گئے۔گو ضروری نہیں کہ ایسے قیاسات جو ان حالات میں کئے جا سکتے ہیں صحیح ہوں بعض اوقات اَور وجوہ بھی ہو سکتے ہیں۔مگر جب پہلے روز میں نے سنتے ہی کہہ دیا تھاکہ وہ کل بھی کسی کو ساتھ نہیں لے جا ئیں گے تو قدرتاً دوسرے روز کی بات طبیعت پر زیادہ گراں گزری۔اس وجہ سے میرے مشورہ کے ساتھ ان کے متعلق ناظر صاحب نے یہ فیصلہ کیا تھاکہ کچھ عرصہ کے لئے جماعت ان کا مقاطعہ کرے یہ عرصہ پہلے پندرہ دن کا تھا مگر بعد میں سات دن کر دیا گیااس لئے کہ ان کا بعد کا جو رویہ تھا وہ اچھا تھا ۔میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوںکہ میعاد میں یہ کمی ان سفارشوں کی وجہ سے نہ تھی جو ان کے لئے کی گئیںکیونکہ ایسے موقع پر سفار ش کرنا ملزم کو کوئی فائدہ پہنچانے کے بجائے خود سفارش کرنے والے کی منافقت کی علامت ہوتی ہے۔مجھے افسوس ہے کہ سفارش کرنے والوں میں میرے رشتہ دار بھی تھے اور دوسرے لوگ بھی اور انہوں نے یہ خیال نہ کیاکہ ایسی سفارش اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔تم ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کر سکتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یا صحابہ کے وقت میں کسی کو سزا دی گئی ہو اور اس مسئلہ کے واضح ہو جانے کے بعد اس کی سفارش آئی ہو۔پھر میں نہیں سمجھتا کہ تم ان مسائل کو کیوں یاد نہیں رکھتے۔ کیا اس وجہ سے کہ کوئی شخص میرا رشتہ دار ہے یا پریذیڈنٹ ہے،وہ یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ اسے شریعت کو توڑنے کا حق ہے۔میں یہ امر بھی صاف طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا ان لوگوں کا فعل منافقانہ تھا ویسا ہی سفارش کرنے والوںکا ہے۔مجھے کسی کا مطلقاً ڈر نہیں۔خواہ کوئی میرا رشتہ دار ہو یا جماعت میںسے بڑا آدمی ہو۔جو بھی خلافِ شریعت فعل کا مرتکب ہوگا اسے یہ بات سننی پڑے گی۔مجھے افسوس ہے کہ میرے ایک رشتہ دار نے یہاں تک کہاکہ میں چوہدری حاکم دین کے متعلق مسجد اقصیٰ میں قسم کھانے کو تیار ہوںحالانکہ قرآن کریم نے منافقوں کی ایک یہ علامت بھی قرار دی ہے کہ وہ بِلا شرعی حق یا ضرورت کے قَسمیں کھانے لگ جاتے ہیں۲؎ اور جو شخص ایسی بات کے متعلق قسم کھانے کو تیار ہو جاتا ہے جس کی صداقت کا شرعی ثبوت اس کے پاس نہیں،اس کا فعل یقینا منافقانہ ہے۔جو شخص خدا تعالیٰ کی قسم کو اتنا کمزور سمجھتا ہے کہ ذاتی علم کے نہ ہونے کے باوجود اس کے لئے تیار ہو جاتا ہے اس کے اندر ضرور کمزور ی ہے۔میںنے ان میں سے کسی کو بھی منافق قرار نہیں دیا۔ان لوگوں کو بھی نہیں جو علیحدہ جا کر مِلے تھے اور سفارش کرنے والوں کو بھی نہیں اور جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے منافق ہونا اور منافقت کی رگ کا ہونا دونوں میں بڑا فرق ہے بعض اوقات مخلص مسلمانوں سے بھی شریعت کے کسی حصّہ کی خلاف ورزی ہو جاتی ہے مگر اس وجہ سے ہم انہیں کافر نہیں کہتے۔نماز کے متعلق میرا تو یہی عقیدہ ہے کہ جو شخص اسے چھوڑتا ہے وہ مسلمان نہیں مگر ایک گروہ ایسا ہے جو تارکِ نماز کو کافر نہیں کہتا۔اب دیکھو مسلمانوں میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو نمازوں میں سُست ہے،ہزاروں ہیں جو روزے باقاعدہ نہیں رکھتے اور شریعت کے دوسرے احکام بھی توڑتے رہتے ہیںمگر ہم ان کو مسلمان ہی کہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک بات کو پیشہ کے طور پر اختیار کرلینا اَور بات ہے اور غفلت یا غلطی ہو جانا اور ہے۔ابو الدرداء ایک بڑے صحابی گزرے ہیں وہ اتنے پایۂ کے صحابی تھے کہ ان کی موجودگی میں صحابہ کوئی کام ان کے مشورہ کے بغیر نہ کرتے تھے۔ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ تمہارے اندر جاہلیت کی رَگ ہے۔انہوںنے پوچھا کہ جاہلیت کفر والی یا اسلام والی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفر والی۔ توبعض دفعہ مخلص آدمی بھی منافقانہ فعل کر دیتا ہے۔وہ خود منافق نہیں ہوتا ہاں اس کا فعل منافقانہ ہوتا ہے۔جن کو سزا دی گئی تھی منافق سمجھ کر نہیں بلکہ منافقانہ فعل پر سزا دی گئی تھی اور جن لوگوں نے سفارشیں کیں انہوں نے اسلام کے احکام کی خلاف ورزی کی اس لئے ان کا فعل بھی منافقانہ ہے گو وہ خود منافق نہیں ہیں۔بعض امور میں شریعت نے سفارش کی اجازت دی ہے مگر وہ ایسے امور ہیں جوسیاسی اور حکومت کے متعلق نہ ہوں۔ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو جس نے چوری کی تھی سزا دی۔اس پر بعض لوگ سفارشیں کرنے آئے کیونکہ اس وقت تک اسلامی تعلیم پوری طرح قائم نہیں ہوئی تھی مگر سفارش سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور فرمایا خدا کی قسم اگر فاطمہ چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا۔۳؎ تو ایسی باتوں میں سفارش کرنا سخت نادانی کی بات ہے۔اس کے معنے نظام کو درہم برہم کرنے کے ہیں اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ کوئی شخص کسی ناظر کے پاس انتظامی کا م کے متعلق کوئی سفارش نہ کرے اور اگر اس اعلان کے بعد بھی کرے گا تو میں اسے منافق سمجھوں گا۔کسی قاضی یا ناظر کے پاس کسی ایسے معاملہ میں سفارش منافقانہ فعل ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اسے اپنے فرض کی ادائیگی سے روکا جائے۔نظامِ سلسلہ میںہر شخص یکساں حیثیت رکھتا ہے۔یہ لوگ جوسفارشیں کرنے جاتے ہیں آخر اسی برتے پر جاتے ہیں کہ ہم جماعت میں بڑے سمجھے جاتے ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کسی تعلق کی وجہ سے ہمیں رسوخ حاصل ہے۔اور یاد رکھو جب کسی جماعت میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ ہم بڑے آدمی ہیں ہماری بات سُنی جانی چاہئے تو یہ اس کی تباہی کا پہلا قدم ہوتا ہے۔نظامِ سلسلہ کا جہاںتک تعلق ہے،کوئی بڑا نہیں اور کوئی چھوٹا نہیں۔دارالصحت کے آدمی سفارشیں لے کر کیوں نہیں آتے۔وہ سمجھتے ہیںکہ ہم غریب ہیں ہماری بات کو ن سنے گا اور جو آئے وہ یہی سمجھ کر آئے کہ ہمیں ایک عزت اور رسوخ حاصل ہے اور ہم بڑے آدمی ہیں لیکن میں ان کو بتا دینا چاہتا ہوںکہ نظامِ سلسلہ میں ان کی بھی اتنی عزت ہے جتنی دارالصحت کے رہنے والوں کی اور جو اس سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے،وہ آج بھی گیا اور کل بھی۔اچھی طرح سن لوکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد اور پوتے یا داماد سب کی جہاں تک نظام کا تعلق ہے ان کی ویسی ہی حیثیت ہے جیسی ایک ادنیٰ خادم کی اور جو اس سے زیادہ سمجھتا ہے اسے ارتداد،کفر اور یا پھر خدا تعالیٰ کے عذاب کے لئے تیار ہونا چاہئے۔اور جو ناظروں میں سے سفارش سنتا ہے وہ بھی تیار ہو جائے کہ یا تو اسے ٹھوکر لگے گی اور یا پھر وہ عذاب میں مبتلا ہوگا۔ناظر یا جسے کوئی اور عہدہ ملے اس کے کان اس معاملہ میں بہرے ہونے چاہئیں اور کسی کی بات کی اسے کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ جب کوئی اس کے پاس ایسی سفارش لے کر آئے اسے کہنا چاہئے کہ نکل جاؤ یہاں سے۔گو مجھے اس بات کے کہنے سے شرم آتی ہے اور حجاب محسوس ہوتا ہے مگر کہنے سے رہ نہیں سکتا کہ شروع ایامِ خلافت میں ایک دو دفعہ ایسا ہؤا۔بعض عورتیں حضرت اماں جان کے پاس پہنچیں اور ان سے سفارش کرانے کی کوشش کی۔وہ میری والدہ ہیں۔اماں جان ہیں اور ان کا پایۂ سلسلہ میں بہت بلند ہے مگر میں نے ان کی سفارش کو بھی کبھی برداشت نہیں کیا اور صاف کہہ دیا ہے کہ میں اسے سننے کے لئے تیار نہیں ہوں اور ان سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے۔ جب سلسلہ کے نظام میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ سفارش کریں تو پھر کسی اور کی سفارش کو کس طرح برداشت کیا جا سکتا ہے۔سفارش کرنے والے امور اَور ہوتے ہیں۔مثلاً میں نے کسی سے روپیہ لینا ہے اور تقاضا کر رہا ہوں ۔کسی کو علم ہے کہ اس کی مالی حالت اچھی نہیں وہ سفارش کر سکتا ہے کہ اس کی مالی حالت کا مجھے علم ہے بہت خراب ہے،ابھی اسے مہلت دی جائے۔ایسی سفارش ثواب ہے مگر نظام کے بارہ میں سفارش جائز نہیں۔ہاں واقعات کا اگر کسی کو علم ہو تو بتا سکتا ہے۔مثلاً یہی معاملہ تھا اگر کوئی عینی شاہد ہوتا اور پھر وہ دیکھتا کہ تحقیقات غلط ہوئی ہے تو وہ بتا سکتا تھاکہ میں خودوہاں موجود تھا بات یوں نہیں یوں ہوئی تھی۔یہ سفارش نہیں بلکہ شہادت ہے جو واجب اور فرض ہے۔مگر اس کیس میں تو ایسی صورت نہ تھی۔انہوں نے خود اقرار کیا کہ وہ تیسرے آدمی کے بغیر گئے اور مصری صاحب نے ان سے الگ الگ باتیں کیں۔میں تو حیران ہوں کہ یہ حساب فہمی ہو رہی تھی یا رشتہ ناطہ کی بات چیت تھی جو کسی دوسرے کے سامنے نہ کی جا سکتی تھی۔جب ان کے سامنے علیحدہ علیحدہ ملنے کا سوال پیش کیا گیا۔تو ان کو اسی وقت سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اب ہمارے ایمان کے امتحان کا موقع ہے۔پھر یہ کیا ضروری ہے کہ قرض خواہ مقروض کے مکان پر ہی جا کر مطالبہ کرے ۔قانون نے اور ذرائع بھی رکھے ہیں،ان کو استعمال کیا جا سکتا تھا۔
آئندہ کے لئے میں ناظروں پر بھی یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوںکہ اگر کسی ایسے معاملہ میں کوئی شخص ان کے پاس سفارش لے کر آئے تو ان کافرض ہے کہ فوراً میرے پاس اس کی رپورٹ کریں۔صرف رَدّ کردینا ہی کافی نہیں۔اگر مجھے معلوم ہؤا کہ ان کے پاس کسی نے سفارش کی اور انہوں نے رَدّ کردی مگر مجھے رپورٹ نہیں کی تو میں سمجھوں گاکہ منافقت کی رَگ ان کے اندر بھی ہے۔متواتر شکایتیں آتی رہتی ہیںکہ سفارشیں کی جاتی ہیں۔میرے اِسی عزیز کے متعلق پہلے بھی ایک دفعہ شکایت آئی تھی کہ دو شخصوں کا آپس میں مقدمہ تھا اور ایک کے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ بڑا نیک آدمی ہے،اس کا خیال رکھیں۔دوسرے فریق کو اس کا علم ہو گیا اور انہوں نے میرے پاس شکایت کر دی۔میں نہیں سمجھتا کہ انہیں کس نے داروغہ بنایا ہے کہ اس طرح سفارشیں کرتے پھریں۔ہر شخص اپنے دوستوں کو نیک سمجھتا ہے تو کیا صرف اس وجہ سے کہ کوئی شخص اپنے دوست کے نزدیک نیک ہے،ضروری ہے کہ مقدمہ بھی اس کے حق میں ہو جائے۔اگر اس سلسلہ کو جاری رہنے دیا جائے تو ہرفریق کے متعلق اس کے دوست آآکر کہہ دیا کریں گے کہ وہ نیک آدمی ہے۔دس (۱۰)اِسے اچھا کہیں گے اور دس (۱۰)اُسے ۔تو کیا اس صورت میں قاضی کسی کے خلاف بھی فیصلہ نہ کرے اور اندھے راجہ کی طرح اپنے آپ کو پھانسی پر لٹکا لیا کرے؟یہ طریق نہایت غلط ہے اور منافقانہ ہے۔میں ان لوگوں کو تو منافق نہیں کہتا مگر ان کا یہ فعل ضرور منافقانہ ہے۔
اسی طرح میں قاضیوں اور ناظروں کو نصیحت کرتا ہوںکہ وہ بہت احتیاط سے کام لیا کریں۔اگر کوئی ان کے پاس کسی کی سفارش کرے تو ہرگز پروا ہ نہ کیا کریں خواہ وہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو۔میں جانتا ہوں کہ غلطیاں ہو جاتی ہیں بعض اوقات ہمارے گھروں میںبھی عورتیں آجاتی ہیں اور میری بیویوں سے کہتی ہیں۔بعض دفعہ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ میری بیویوں میں سے کسی نے کوئی سفارش اپنے کسی رشتہ دار ناظر یا افسر سے کردی لیکن جب مجھے معلوم ہؤا تو میں نے ہمیشہ گھر میں ڈانٹا کہ کیوں ایسا کیا گیا۔کیا ناظر بد دیانت ہے۔اگر بددیانت ہے تو اسے علیحدہ کر دینا چاہئے لیکن اگر نہیں تو پھر کہنے کا کیا فائدہ؟ دوسرے اداروں میں سفارشیں ہوتی رہتی ہیںاور چونکہ وہاں سارا نظام ہی اس طرح چل رہا ہے اس لئے بعض اوقات ہم بھی سفارش کر دیتے ہیں۔جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دنیا میں اس وقت چونکہ پیسہ کے بغیر کام نہیں چلتا اس لئے اپنا حق لینے کے لئے کسی کو کچھ دے دینا جائز ہے ہاں کسی کا حق لینے کے لئے ایسا کرنا ناجائز ہے یہی حال سفارش کا ہے۔جہاں یہ چل رہی ہے وہاں اپنا حق لینے کے لئے سفارش کر دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن دوسرے کا حق مارنے کے لئے سفارش جائز نہیں لیکن سلسلہ کے نظام میں اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ناظروں کو یہ بھی چاہئے کہ اپنی بیویوں پر دباؤ رکھیں اور ان کو سختی سے روک دیں کہ ایسی باتوں میںدخل نہ دیا کریں۔ میری خلافت کا پچیسواں سال اب ختم ہونے کو ہے مگر کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کبھی اپنی بیویوں سے ایسی باتیں کی ہوں۔بلکہ بعض اوقات لطیفہ ہو جاتا ہے۔میں ناظروں سے کوئی بات کرتا ہوں وہ اپنی بیویوں سے کر دیتے ہیں وہ میری بیویوں سے کرتی ہیں اور پھر وہ مجھ سے کرتی ہیں کہ سنا ہے یوں ہؤا۔تو یہ طریق بھی غلط ہے۔میں نے سلسلہ کی ایسی بات اپنی بیویوں سے کبھی کی ہی نہیں اور افسروں کا بھی فرض ہے کہ اس کا خیال رکھیں۔ہم نے انہیں مقرر کیا ہؤا ہے ان کی بیویوں کو نہیں۔ انہیں اگر اپنی بیویوں پر اعتماد ہے تو اپنے راز بے شک ظاہر کر دیں مگر سلسلہ کے نہیں۔
پس جس فعل پر ان دو آدمیوں کو سزا دی گئی وہ یقینا منافقانہ ہے۔ایک شخص کا مسجد اقصٰی میں قسم کھانا تو الگ رہا اگر تم سارے کے سارے بھی قسم کھاؤ تو میں کہوں گا تم غلط کہتے ہو۔یہ فعل واقعی منافقانہ ہے۔ان میں سے ایک نے عجیب لطیفہ مجھے لکھا کہ میں نے سلسلہ کا کیا قصور کیا ہے۔ستر روپے گئے تو میرے گئے۔سلسلہ کو کیا نقصان ہؤا۔یہ تو ایسی بات ہے کہ کوئی احرار کو چندہ دے کر کہے کہ روپیہ تو میرا گیا سلسلہ کو کیا نقصان پہنچا۔تم جو ستّر روپے ایک مخالف کو دے آئے کیا یہ سلسلہ کا نقصان نہیں۔ستّر چھوڑ اگر تم سات روپے بھی دے آتے،سات آنے بلکہ سات دمڑی بلکہ ایک دمڑی بھی دیتے تو بھی سلسلہ کا نقصان تھا۔اس طرح تو ایک کافر بھی کہہ سکتا ہے کہ ابو جہل کے ساتھ مل کر جان تو میں نے اپنی دی خدا تعالیٰ کا اس سے کیا نقصان ہؤا۔تو یہ جواب خود کمزوریٔ ایمان کی دلالت کرتاہے۔اگر اس کے اندر غیرت ہوتی تو اسے خود معلوم ہو جاتاکہ اس سے سلسلہ پر حرف آتا ہے۔کیا یہ سلسلہ کی ہتک نہیں کہ اس کے دو افراد نے اس کے نظام کو توڑا۔اگر وہ سمجھتا ہے کہ جماعت کے افراد کا روپیہ مخالف کے پاس جانا سلسلہ کا نقصان نہیں تو یہ دوسری رگ منافقت کی ہے مگر میں اسے بھی منافق نہیں کہتا۔ اگر وہ اپنے آئندہ طرزِ عمل سے ثابت کر دیں گے کہ وہ منافق نہیں ہیں تو ہمارے بھائی ہیں اور اگر ان کا آئندہ طرزِعمل ان کو منافق ثابت کرے گا تو خدا تعالیٰ کے سلسلہ کو اس سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا میںکوئی جماعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی پیدا نہیں ہوئی کہ جس میں منافق نہ پیدا ہوئے ہوں۔میں حیران ہوں کہ آپ لوگوں کے دماغ میں یہ بات کیوں نہیں گھستی۔ بعض دفعہ آپ لوگوں کو حیرت ہوتی ہے کہ منافق کہاں سے آجاتے ہیں۔مگر یاد رکھو کہ یہ سُنت اللہ ہے۔آج تک کوئی جماعت ایسی نہیں ہوئی جس میں منافق نہ ہوئے ہوں۔جب بھی کوئی جماعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہوتی ہے اس میں منافق بھی ضرور ہوتے ہیں۔
مشہور انبیاء جن کے حالات معلوم ہیں،تین ہیں۔سب سے زیادہ حالات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محفوظ ہیںاور ان سے اُتر کر حضرت موسیٰ اور عیسی علیہما السلام کے ہیںاور زمانہ کے لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام ان سے پہلے گزرے ہیں۔اِن کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ منافق تھے یا نہیں۔قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے زمانہ میں منافقوں نے تین مرتبہ بڑا زور پکڑا ہے۔ایک قصہ توسامری کا مشہور ہی ہے۔ یہ شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بڑا اخلاص رکھتا تھا اور آپ کے ساتھ ہجرت کر کے آیا تھا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو الہام ہؤا کہ طور پر آؤ ہم تم سے باتیں کریں گے۔آپ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے وہاں پہنچے اور وہاں عبادت کی اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کی بہت جدو جہد کی جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آئی اور اس نے آپ کو الہام کیا۔کہ اس مدت میں ہم دس دن اور بڑھاتے ہیں اور دس دن آپ کو اور الہا م ہوں گے۔پہلے تیس دن تھے۔پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ۴؎ مگر جب تیس دن گزر گئے اور لوگ حیران ہوئے کہ موسیٰ واپس کیوں نہیں آئے تو سامری جھَٹ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ موسیٰ تو گیا ہے مر۔اور جس سے وہ باتیں کیا کرتا تھا اس کا مجھے پتہ ہے۔لوگوں سے جھَٹ وہ سونا لیا جو بنی اسرائیل نے فرعونیوں سے قرض لیا ہؤا تھا اور ایک بچھڑے کی شکل بنادی۔اس کے اندر ایک خَلا رکھاجس سے آواز نکلتی تھی۔۵؎جیسے آجکل مکینک وغیرہ بنا لیتے ہیں۔یہ دیکھ کر بنی اسرائیل کو وہی عقیدت یاد آگئی جو مصر میں ان کو بچھڑے سے تھی اور جب اس میں سے آواز نکلی تو انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ واقعی خدا ہے۔فوراً ایک جماعت اس کے ساتھ شامل ہوگئی اور آناً فاناً اس کا اتنا رسوخ بڑھ گیا کہ حضرت ہارون علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تعلقِ اخلاص رکھنے والے دوسرے لوگ ان کو کچھ نہ کہہ سکے۔ان کو خیال تھا کہ ایسا نہ ہو کہ باہم تلوار چل جائے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام آکر ناراض ہوں۔انہیں یقین تھا کہ حضرت موسیٰ فوت نہیں ہوئے ۔اللہ تعالیٰ کے حکم سے گئے ہوئے ہیں اور ضرور واپس آئینگے کیونکہ ابھی وہ پیشگوئیاں بھی پوری نہیں ہوئیں جو آپ کی زندگی میں ہونی ہیں اس لئے اگر ہم نے کچھ کہا اور فساد پیدا ہوگیا تو ایسا نہ ہو کہ حضرت موسیٰ آکر ناراض ہوں۔اور کہیں کہ تمہیں سمجھانا نہیں آیا۔پس وہ اسی وہم میں کہ ایسا نہ ہو حضرت موسیٰ آکر کہیں کہ تم نے لوگوں کو مرتد کر دیا۔خاموش رہے نتیجہ یہ ہؤا کہ ان منافقوں کی حکومت ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو بھی الہاماً بتا دیا کہ پتہ بھی ہے پیچھے کیا ہؤا ہے۔چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام غصہ میں واپس آئے ۶؎اور بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ تین ہزار منافق قتل کئے گئے۔تمہیں تو بعض دفعہ یہ سن کر کہ دو چار آدمی منافق ہوگئے ہیں گھبراہٹ پیدا ہوجاتی ہے کہ اب کیا ہوگا لیکن وہاں تین ہزار کو ایک دن میں سزادی گئی۔میں نے کہا ہے کہ قتل کئے گئے۔بائیبل میں بھی یہی لفظ ہے۔۷؎قرآن کریم میں بھی قتل کا لفظ آیا ہے۔قتل بعض دفعہ اور طریق سے بھی ہوتا ہے۔ممکن ہے یہ قتل بائیکاٹ کی صورت میں ہی ہو جیسا کہ احادیث سے پتہ لگتا ہے۔یا ممکن ہے ان کی شریعت میں ہر منافق کی سزا قتل ہی ہو۔بہرحال تین ہزار منافق تھے۔ذرا اندازہ کرو کتنی بڑی تعداد ہے۔دوسرا واقعہ قارون کا ہے۔سامری کو تو صرف پڑھے لکھے لوگ ہی جانتے ہیں مگرقارون سے ہمارے زمیندار بھائی بھی واقف ہیں۔کہتے ہیں بڑا قارون کا خزانہ دے دیا ہے۔یا کسی سے مانگتے ہی جاؤ تو وہ کہتا کہ کہ کیا میرے پاس قارون کا خزانہ ہے۔تو یہ شخص بہت مالدار تھا۔یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے تھامگر اندر ہی اندر آپ کے خلاف کوششیں کرتا رہتا تھا۔آخر اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کر دیا۔گویا اسے آسمانی سزا ملی۔ تیسراواقعہ وہ ہے۔جس کی طرف قرآن کریم نے اٰذَوْا مُوْسٰی۸؎ والی آیت میں اشارہ کیا ہے۔حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم میں سے ایک جماعت یہ کہنے لگ گئی تھی کہ آپ کو کوڑھ ہو گیا ہے۔بعض کا خیال تھا کہ آپ کے خصیوں میں پانی بھر گیا ہے اور اسے بھی وہ لوگ عیب سمجھتے تھے۔بعض کا خیال تھا کہ خصیوں پر کوڑھ ہے۔بعض لوگوں کو بوجہ اس کے کہ ان کا چمڑا نرم ہوتا ہے بعض دفعہ کھجلی کی ضرورت پیش آتی ہے ممکن ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی یہ تکلیف ہو اور وہ اس سے سمجھتے ہوں کہ کوڑھ ہے۔حدیثوں میں ایک واقعہ آتا ہے جس کی مَیں تو اور تاویل کیا کرتاہوں مگر بہر حال آتا یوں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک مرتبہ نہانے لگے تو ایک پتھر پر کپڑے رکھے اور وہ پتھر کپڑے لے کر بھاگ گیا حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے بھاگے اور ان لوگوں نے دیکھ لیا کہ آپ کے اندامِ نہانی پر داغ نہیں تھے۔وہاں بِحَجَر کا لفظ ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ واقعہ اسی طرح ہے تو حجر کسی شخص کا نام ہوگا یہ نام ہوتا ہے۔۹؎ ابنِ حجر ایک بہت بلند پایہ امام گزرے ہیں۔گزشتہ تیرہ سو سال میں جو چند ایک ممتاز علماء پیدا ہوئے ہیںان میں سے ایک ہیں۔وہ پتھر کے بیٹے تو نہیں تھے یا توکسی وجہ سے یہ ان کی کنیت تھی اور یا پھر ان کے باپ کا نام حجر ہوگا۔
اس کے علاوہ ایک اَور واقعہ بھی ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن مریم اور خاندان کے بعض اَور افراد بھی شامل تھے۔یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر زنا کے الزام کا واقعہ ہے۔
قارون کے واقعہ اور اس واقعہ کو اگر اکٹھا ہی سمجھ لیا جائے تو یہ تین واقعات منافقوں کے ہیںاور اگر یہ علیحدہ ہے تو چار ہیںلیکن اگر اسے علیحدہ نہ بھی سمجھا جائے تو بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف کم سے کم تین مرتبہ منافقوں نے بغاوت کی ہے۔ان کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے ہیںاور ان کے بارہ حواریوں میں سے ایک جو سب سے زیادہ آپ کا مقر ّب تھا۔اور جس کا دعویٰ تھا کہ خواہ ساری دنیا چھوڑ دے میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا اور جو ان کے ساتھ ایک تھالی میں کھانا کھایا کرتا تھاآخر اسی نے آپ کو پکڑوا دیا۔واقعات اس قسم کے ہیں کہ اگر اس وقت آپ نہ پکڑے جاتے تو شاید بچ جاتے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ پتہ لگ گیا تھا وہ چھُپ گئے تھے اور بھیس بدل لیا تھاجس سے کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔یہودا اسکریوطی کو چونکہ علم تھا کہ کیا بھیس بدلا ہؤا ہے اس نے سرکاری افسروں سے ساز باز کی اور کہا کہ میں جا کرجسے پکڑ کر پیار کروں گا سمجھنا وہی عیسیٰ ہے۔چنانچہ وہ گیا اور جا کر آپ کو چوما۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی الہام سے علم ہو چکا تھا اور آپ نے فرمایا کہ میں نے جو بات کہی تھی وہ پوری ہوگئی۔میں نے کہا تھا کہ’’ جس نے طباق میں ہاتھ ڈالا ہے وہی مجھے پکڑوائے گا۔‘‘۱۰؎
اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آیا۔آپ کا حال بھی ظاہر ہے۔ایک دو نہیں بلکہ ایک زمانہ ایسا آیا کہ آپ کو ماننے والوں کا قریباً تیسرا حصہ منافق ثابت ہؤا۔اُحد کی جنگ کے موقع پر جتنے مسلمان تھے سب کے سب شامل ہوئے حتّٰی کہ بچے بھی شریک ہوگئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ پندرہ سال سے کم عمر کے بچے واپس چلے جائیں۔ ایک لڑکے نے کہا یَارَسُوْ لَ اللہ! میں تیر بہت اچھا چلانا جانتا ہوںدوسروں نے بھی کہا کہ واقعی اس کا نشانہ بہت اچھا ہے خطا نہیں جاتا۔آپ نے فرمایا اسے رہنے دو مگر اس کا مدمقابل ایک اور ساتھی تھا وہ بھی پندرہ سال سے کم عمر کا تھا۔وہ رونے لگ گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی سے شاید اس کا کوئی رشتہ تھا یا کوئی رضاعی رشتہ ہوگا اس نے ان سے جاکر کہاکہ اس طرح فلاں لڑکے کو شامل کر لیا گیا ہے حالانکہ میں تو اسے گرا لیتا ہوں۔انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ لڑکا اس طرح کہتا ہے۔ آپ کو اس بات کا لطف آیا چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اچھا آؤ دونوں کی کشتی کراتے ہیں۔یہ لڑکا طاقتور تھا یا نہ تھامگر چونکہ اس کے دل میں جوش تھاکہ کسی نہ کسی طرح شامل ہو جاؤں اس لئے ایسا زور لگایاکہ اسے گرا کر سینہ پر بیٹھ گیا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تمہارا حق ہو گیا۔۱۱؎اب چلو۔تو پندرہ پندرہ برس کے بچوں کو بھی ساتھ لے جانا بتاتا ہے کہ وہ وقت مسلمانوں کے لئے کس قدر خطرناک تھا مگر سب کو مِلا کر مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار تھی اور مقابل پر مکّہ کے کفار کا لشکر تین ہزار تھا اور کچھ لوگ دوسری قوموں کے بھی تھے لیکن جب یہ ایک ہزار کا لشکر مدینہ سے تین چار میل باہر آیا تو عبداللہ بن ابی کے ساتھ تین سو مسلمان واپس ہوگئے کہ ہم نہیں جا سکتے ذرا اس حالت کا اندازہ کرو کہ ایک ہزار میں سے تین سو لَوٹ پڑتے ہیں اور اس جگہ سے لوٹتے ہیں جہاں خداتعالیٰ کا رسول خود موجود ہے۔اس کی نظروں کے سامنے اٹھتے اور واپس ہو جاتے ہیں۔اور تین سو ہزار میں سے تیس فیصدی ہے ۔قادیان میں دس ہزار احمدی آباد ہیں۔اس نسبت سے تین ہزار بنتا ہے مگر وہاں تین سو آدمی ایسے نازک موقع پر چلے جاتے ہیں اور صحابہ ذرا بھر پرواہ نہیں کرتے۔مگر تم ہو کہ تین آدمیوں کے منافق ہونے کا علم ہونے سے گھبرا جاتے ہو حالانکہ خداتعالیٰ کے سلسلہ میں تین نہیں، تین سَو، تین ہزار بلکہ تین لاکھ بھی منافق ہوں اور کامل مؤمن ان کے مقابلہ میں ایک ہی ہو تو بھی وہ نہیں ڈرے گا۔اور کہے گا کہ تم شیطان کے ساتھی ہو اس لئے بے شک اس کی طرف چلے جاؤ لیکن میں خدا تعالیٰ کا ہوں اس لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا۔
حضرت انسؓ بن نضر ایک صحابی تھے جو جنگ بدر میں شامل نہ ہوئے تھے کیونکہ اس وقت کوئی عام احساس نہ تھا کہ لڑائی ہوگی اس لئے خصوصاً انصارمیں سے بہت سے لوگ رہ گئے تھے۔جب انہوں نے جنگ کی خبر سُنی تو دل میں غصہ آتا تھااور کہتے تھے کہ اگر پھر کبھی جنگ ہوئی تو میں اللہ تعالیٰ کو بتاؤں گا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیںاور اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ مؤمن کس طرح لڑتے ہیں۔یہ گو جہالت کی بات تھی مگر چونکہ وہ اخلاص سے کہتے تھے اور ایسی ہی بات تھی جیسے حضرت موسیٰ اور گڈرئیے کا واقعہ ہے اور گو یہ ایسی بات تھی جو معمولی ایمان والے شخص کو مرتد کرنے کے لئے کافی تھی مگر چونکہ وہ کمال اخلاص اور دین کی خدمت کی حسرت سے کہہ رہے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا اور کچھ عرصہ بعد اُحدکی جنگ پیش آگئی جس میں پہلے مسلمانوں کو فتح ہوگئی۔بعض مستغنی المزاج لوگوں نے کہا کہ فتح تو ہوگئی مال کیا کرنا ہے اس لئے ادھر ادھر پھیل گئے لیکن بعد میں فتح شکست سے بدل گئی۔ابو عامر ایک شخص کفار کے لشکر میں تھا اس کی یہودیوں کے ساتھ رشتہ داری تھی مگر وہ مکہ چلا گیا تھا ہوشیار آدمی تھا۔اسے معلوم تھا کہ مسلمان جیت جایا کرتے ہیںاس لئے اس نے گڑھے کھود کر اوپر تنکے وغیرہ ڈال دئیے تھے تامسلمان فتح پانے کے بعد جب آگے بڑھیں گے تو ان میں گر جائیں گے۔انہی گڑھوں میںسے ایک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گر گئے۔آپ کے اوپر کئی اور صحابہ شہید اور زخمی ہو کر گرے۔اور یہ خیال ہو گیا ۔کہ آپ شہید ہو گئے ہیں۔یہی حضرت انس بن نضر کھجوریں کھاتے پھرتے تھے کہ حضرت عمرؓ کو ایک پتھر پر سرجھُکائے نہایت دلگیر دیکھا تو پوچھا کہ پریشانی کی کیا وجہ ہے۔مسلمانوں کو فتح ہوئی یہ خوش ہونے کی بات ہے یا غمگین ہونے کی۔حضرت عمرؓ نے کہا نضرتمہیں پتا نہیںکیا ہوگیا؟دشمن نے پھر حملہ کر دیااور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے۔حضرت نضرؓ کھجوریں کھا رہے تھے صرف ایک کھجور باقی تھی وہ بھی پھینک دی اور کہا کہ میرے اور جنت کے درمیان کیا ہے صرف ایک کھجور ہے۔اور حضرت عمرؓسے کہا کہ جب محمدصلی اللہ علیہ وسلم نہیں رہے تو ہم نے دنیا میں رہ کر کیا کرنا ہے۔۱۲؎تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور آخر شہادت پائی۔ جب لاش دیکھی گئی تو اسّی زخم تھے۔آپ کی انگلی پر ایک نشان تھا اور اسی سے آپ کی بہن نے لاش کو شناخت کیا ورنہ پہچاننا مشکل تھا۔۱۳؎یہ وہ شخص تھا کہ جس نے جب سنا کہ لوگ بھاگ گئے ہیں تو اس نے کہا کہ انہوں نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اورمیں نے اپنے کا۔مجھے کیا اگر دوسرے بھاگ گئے ہیں،میں تو وہیں جاؤنگا جہاں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔تو دیکھو ایسے نازک موقع پر تین سَو آدمی ہزار میں سے لَوٹ جاتا ہے مگر صحابہ بھی کس دل گُردے کے آدمی تھے کہ پرواہ نہیں کرتے۔
اسی طرح ایک اور مخلص صحابی کا واقعہ ایسا رقّت انگیز ہے کہ کوئی شخص بغیر رقّت اسے پڑھ بھی نہیں سکتا چہ جائیکہ بیان کر سکے۔جب یہ تین سو آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر لَوٹ گئے تو عبد اللہ بن عمرو جو انصار میں سے تھے،مسلمان اور خصوصاً احمدی ان کو جانتے ہیں، جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا وہ یہ برداشت نہ کر سکے ۔اور انہیں سمجھانے کے لئے یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اس وقت تین سَو کے لَوٹنے سے ان کا مؤمنانہ استغناء بھی متزلزل ہو گیا تھا،خیر تو حضرت عبداللہ بن عمرو ان کے پاس گئے اور جو الفاظ انہوں نے کہے وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت ان کی وہی حالت تھی جوہمارے ملک میں ایک مصیبت زدہ کی ہوتی ہے جو شدتِ غم اور بے بسی کی حالت میں اپنے پر رحم دلانے کے لئے ہاتھ باندھ باندھ کر اپنے مخاطب سے التجا کرتا ہے کہ وہ الفاظ جن میں انہوں نے ان منافقوں کو مخاطب کیا وہ یہ ہیں۔اے میری قوم! میں تمہیں خداتعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں کہ اس طرح اپنے نبی کو چھوڑ کر نہ جاؤ۔۱۴؎ان کی یہ بات بتاتی ہے کہ اُس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لئے ایسا خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ عبد اللہ جیسے بہادر کے مؤمنانہ استغناء میں بھی تزلزل آگیا مگر ان ظالموں نے آگے سے یہ جواب دیا کہ اگر ہم جانتے کہ یہ لڑائی ہے تو ضرور لڑتے۔ یعنی یہ تو لڑائی نہیں خود کشی ہے۔ایک دوست نے کچھ عرصہ ہؤا میرے ایک خطبہ میں یہ معنی سن کر مجھے لکھا تھا کہ اس آیت کے تو یہ معنی ہیں کہ ہمیں لڑنا آتا تو ہم کبھی واپس نہ لَوٹتے لیکن اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ معنی وہی صحیح ہیںجو مَیں کرتا ہوں ۔عبد اللہ بن اُبی ایک جرنیل تھا اُسے کیا لڑنا نہیں آتا تھا؟یہاں نَعْلَمُ کے معنے نَعْرِفُہیں۔یعنی اگر ہم اسے قتال قرار دیتے، اگر اسے لڑائی سمجھتے تو یہ تو خود کشی ہے۔جب اُنہوں نے یہ جواب دیا تو حضرت عبداللہ نے کہا کہ اچھا اگر جاتے ہو تو جاؤ پرواہ نہیں ہم تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے ہیں۔ وہ (حضرت عبداﷲ بن عمرو) بھی شہید ہوئے اور ان کی لاش پر بھی بہت زخم تھے۔غریب آدمی تھے اور خاندان بڑا تھا اس لئے مقروض بھی رہتے تھے۔ان کے لڑکے حضرت جابر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ سر نیچے ڈالے بیٹھے ہیں تو دریافت فرمایا کہ جابر کیوں کیا بات ہے؟ اس نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ جانتے ہیں باپ مرگیا ہے۔عیالداری ہے،قرضہ بھی بہت ہے اور یہ سب بوجھ مجھ پر آپڑا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہیں علم ہو کہ تمہارے باپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا سلوک کیا تو تم ہرگز ملول نہ ہو۔دوسروں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ حجاب کے پیچھے سے بات کرتا ہے مگر تمہارے والد کو بِالمشافہ بلایا اور فرمایا عبد اللہ مانگ جو مانگنا ہے ،میں دوں گا۔اس پر عبد اللہ نے کہا کہ اے اللہ! میرا مطالبہ یہی ہے کہ مجھے پھر زندہ کر تا مَیں پھر تیری راہ میں مارا جاؤں۔اس پر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اگر میں نے اپنی ذات کی قسم نہ کھائی ہوتی کہ مُردے دنیا میں واپس نہیں لوٹائے جائیں گے۔۱۵؎تو میں ضرور تجھے واپس کر دیتا۔یہی وہ حدیث ہے جسے ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی مُردوں کے زندہ نہ کر سکنے کے متعلق ہمیشہ پیش کیا کرتے ہیںاور اس وجہ سے اکثر احمدی ان کے نام سے واقف ہیں۔ جب ان عبداللہ بن عمرو کی وفات کی خبرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ انصارپر فضل کرے ان میں سے عبداللہ نے ہماری بہت خدمت کی ہے۔تو یہ کتنا نازک موقع تھا مگر تیس فیصدی لوگ واپس ہوگئے اور اس سے صحابہ کو قطعاً کوئی ابتلاء نہیں آیا۔مگر تمہارے لئے کیا کبھی اس کا دسواں حصہ بھی ابتلاء آیا ہے؟تمہارے لئے تو اس کا سواں حصہ بھی نہیں آیا ۔
اس کے بعد اسلام کو شوکت حاصل ہوتی گئی اور جوں جوں مسلمان بڑھتے گئے منافقوںکی نسبت بھی کم ہوتی گئی۔جب مسلمان دو ہزار ہو گئے تو منافق جو تین سو تھے لازماً پندرہ فیصدی ہوگئے۔جب مؤمن پانچ ہزار ہوئے تو منافق چھ فیصدی رہ گئے،جب مؤمن دس ہزار ہوئے تو منافق تین فیصدی باقی رہ گئے۔چاہے تعداد ان کی اس وقت بھی تین سو ہی ہو مگر نسبت کم ہوگئی۔اس طرح ان کی تعداد کم ہوگئی اور یہ ابھرنے سے رہ گئے مگر جب اسلام دوسرے ملکوں میں پھیلا تو ان علاقوں میں جہاں تربیت مکمل نہ ہوئی تھی ان لوگوں نے پھر زور پکڑا خصوصاً جب غیر قوموں سے مقابلہ ہوتا تو ان میں بھی جوش پیدا ہوتا۔جیسا کہ پچھلے دنوں جب حکومت سے ہمیں بعض اختلافات ہوئے تھے تو منافق کہتے تھے کہ اب کام بن گیا۔اب انگریزوں سے لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ذرا کسی سپاہی نے سلام کر دیا۔کہ اس طرح واقفیت پیدا کرکے کچھ باتیں معلوم کرے تو ان کا دماغ عرش پر پہنچ گیا کہ سپاہی نے ہم سے بات کی۔منافقوں کے دماغ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ ایک چوہڑے کا تھا۔جب مہاراجہ رنجیب سنگھ فوت ہوئے تو چونکہ ان کی حکومت کے زمانہ میں ایک نظام قائم ہؤا تھا اور عدل بھی ہونے لگا تھا اس لئے لوگوں کو بہت صدمہ ہؤا۔وہ بہت رو رہے تھے کہ ایک چوہڑا ادھر سے گزرا۔پوچھنے لگا کہ کیا ہؤا لوگ اتنا رورہے ہیں؟کسی نے بتایا کہ مہاراجہ کاانتقال ہو گیا ہے۔سن کر کہنے لگا کہ میں نے سمجھا خبر نہیں کیا ہوگیا ہے کہ لوگ ایسے بے تاب ہیں۔جب باپو یعنی میرے باپ جیسے لوگ مر گئے تو مہاراجہ رنجیت سنگھ بے چارہ کس حساب میں تھا کہ وہ نہ مرتا۔اس طرح ان کے نزدیک بھی سپاہی یا تھانہ دار کا سلام بڑی چیز ہے۔گھر پہنچتے ہیں تو پیر زمین پر نہیں لگتے کہ سرکاری افسر نے ہمیں سلام کر دیا۔حالانکہ سمجھتے نہیں کہ اس نے تمہارے چہرہ پر نفاق دیکھا اور سلام کر دیا کہ اس سے کام لیں گے۔ اس طرح مسلمانوں کی جب روم والوں سے لڑائی شروع ہوئی تو منافقوں نے کہا کہ اب گئے۔چنانچہ منافقوں نے ابو عامر راہب کی مدد سے پھر آپس کی تنظیم کی اور ایک بستی الگ بسائی اور اس میں علیحدہ مسجد بنائی اور علیحدہ گاؤں بنالیا۔ ابو عامر راہب بھیس بدل کر آیا اور صوفی بن کر مسجد میں رہنے لگا۔ان لوگوں نے یہ تجویز یں کرناشروع کر دیں کہ کسی طرح روم کی حکومت سے مسلمانوں کی لڑائی کرائی جائے اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ادھر جائیں تو مدینہ میںبغاوت کر دی جائے اس لئے انہوں نے مشہور کرنا شروع کیا کہ رومیوں کا لشکر مدینہ پر حملہ کے لئے آرہا ہے۔اس خبر سے مسلمانوں میں شور پیدا ہؤا کیونکہ ان کے لئے یہ ایسی ہی خبر تھی جیسے کوئی کہے کہ ریاست کپورتھلہ یا مالیر کوٹلہ پر انگریزفوج کشی کر رہے ہیں۔کُجادہ سلطنت جو یورپ سے شروع ہو کر ایران تک آتی تھی اور مصر بھی اس کے ماتحت تھا اور کئی ممالک اس کے باجگذار تھے اور جو بیک وقت چار پانچ لاکھ کا لشکر میدان میںلا سکتی تھی بلکہ بعض جنگوں میں تو رومی آٹھ دس لاکھ آدمی بھی لائے ہیں اور کجادہ لوگ جن کا سارا لشکر ہی دس پندرہ ہزار تھا۔چنانچہ ان لوگوں نے مشہور کر دیاکہ رومی حملہ کر رہے ہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ بہتر ہوگا ہم باہر جا کر مقابلہ کریں۔چنانچہ آپ مسلمانوں کو ساتھ لے کر چل پڑے۔رستہ میں جب پوچھنا شروع کیاکہ یہ خبر کہاں سے نکلی ہے تو اس کی حقیقت کھلی۔کسی نے بھی یہ اقرار نہ کیا کہ ہم نے لشکر کو آتے دیکھا ہے۔آپ کو شُبہ ہؤاکہ یہ منافقوں کی شرارت ہے اور آپ تھوڑی دور سے ہی واپس آگئے۔ منافق بہانوں سے پہلے ہی ساتھ نہ گئے تھے ان کو خیال تھا کہ اس خبر کے زیر اثر مسلمان جاتے ہی رومی علاقہ پر حملہ کر دیں گے اور پھر رومی خود بخود ان کے مقابلہ پر آئیں گے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ طریق ہی نہ تھا دشمن اگر حملہ کرے تو آپ کرتے تھے ورنہ نہیں۔جب مسلمان واپس آگئے تو ان کی امیدیں ناکام ہو گئیں۔آخر آپ نے اس مسجد کو مسمار کرایا ۱۶؎ اور اس کی جگہ مَیلہ کا ڈھیر بنایا گیا بلکہ اس محلہ کو ہی آپ نے گروا دیا۔پھر آپ کی وفات کے بعد تویہ فتنہ اس طرح اٹھا کہ صرف اڑھائی شہر ایسے رہ گئے جہاں نماز باجماعت ہوتی تھی ورنہ سب جگہ آگ لگ گئی تھی۔حضرت عمرؓ کے زمانہ میں یہ اِکّادُکّار ہے مگر حضرت عثمانؓ اور حضرت علی ؓکے زمانہ میں پھرزور پکڑا ۔
تو منافقوں کا ہر زمانہ میں موجود رہنا ضروری ہے۔کیا تم سمجھتے ہو کہ شیطان سو جائے گا اگر رحمانی فوجیں کام کرتی رہتی ہیں تو شیطانی بھی غافل نہیں رہ سکتیں۔یہ شیطان کا دستور ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے آدمی کھڑا کرتا رہتا ہے جن سے اسلام کو نقصان پہنچے اس لئے ہماری جماعت اگر یہ خیال کرتی ہے کہ کسی وقت منافق باقی نہیں رہیں گے تو یہ اس کی غلطی ہے۔کوئی قوم ایسی نہیں ہوئی کہ جس کے سو فیصدی افراد مؤمن اور مخلص ہوں۔یہ خدا تعالیٰ کے نظام کو باطل کرنے والی بات ہے۔یہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔پس یہ امید ہرگز نہیں کرنی چاہئے کہ منافق ختم ہو جائیں گے۔
اب چونکہ سوا تین بج چکے ہیںاس لئے باقی باتیں آئندہ مَیں انشاء اللہ بیان کروں گا۔اس وقت صرف یہی کہہ کر ختم کرتا ہوںکہ منافق ہر جماعت میں ہوتے رہتے ہیں اس لئے ہمیں یہ خیال کبھی نہیں کرنا چاہئے کہ یہ ہم میں کس طرح پیدا ہوگئے۔تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر تو نہیں ہو سکتے۔اگرآپ کے ایک ہزار ساتھیوں میں سے تین سو آدمی منافق ہو سکتے ہیںتو تم میں سے اگر دو، چار، دس یا زیادہ منافق نکل کھڑے ہوں تو گھبرانے کی کونسی بات ہے۔‘‘
(الفضل ۵؍اگست۱۹۳۸ئ)
۱؎ (البقرۃ:۲۷)
۲؎ (المنافقون:۲)
۳؎ بخاری کتاب الحدود باب کَرَاھِیۃ الشَّفَاعَۃ فی الحَدِّ(الخ)
۴؎ الاعراف: ۱۴۳
۵؎
(الاعراف: ۱۴۹)
۶؎ (الاعراف: ۱۵۱)
۷؎ خروج باب ۳۲ آیت ۲۸۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۸؎ الاحزاب: ۷۰
۹؎ بخاری کتاب الغسل باب مَنِ اغْتَسَلَ عُرْیَانًا(الخ)
۱۰؎ متی باب ۲۶ آیت ۲۰ تا ۲۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن
۱۱؎ اسد الغابۃ جلد ۲ صفحہ ۳۵۴ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
۱۲؎ ، ۱۳؎ سیرت ابن ھشام جلد ۳ صفحہ ۸۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۴؎ ابن ماجہ کتاب الجہاد باب فضل الشہادۃ فی سبیلِ اﷲ۔
۱۵؎ اسد الغابۃ جلد ۳ صفحہ ۲۳۳ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۱۶؎ سیرت ابن ھشام جلد ۴ صفحہ ۱۷۳، ۱۷۴۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء

۲۵
منافقین کی قِسمیں اور اُن کی علامتیں
(فرمودہ ۵؍اگست ۱۹۳۸ء )
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں منافقین کے متعلق بعض باتیں بیان کی تھیں اور بتایا تھا کہ منافق ہر جماعت میں ہونے ضروری ہوتے ہیں۔کبھی کوئی جماعت آج تک دُنیا میں ایسی نہیں بنی جس کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہواور اُس میں منافق پیدا نہ ہوئے ہوں۔بعض لوگ نادانی سے یہ کہا کرتے ہیں کہ منافقت حکومت میں ہوتی ہے حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے اور روزانہ تجربہ کے بھی خلاف ہے۔مذہبی جماعتوں کو جانے دوتم افراد کی دوستیوں کو لے لو۔کیا کوئی بھی شخص ایسا ہے جو یہ کہہ سکے کہ اُس کے کسی دوست نے اس سے کبھی دھوکا بازی نہیں کی اور دوست کی دھوکا بازی کو ہی منافقت کہاکرتے ہیں۔یعنی یوں ظاہر میں دوست ہو مگر اندر سے دشمنی اور شرارت کرتا ہو۔میں سمجھتا ہوں سوائے ایسے بے وقوف کے جو انسان کی حقیقت سمجھنے سے عاری ہو اور جس میں قوتِ فیصلہ نہ ہوہر انسان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس نے بعض سے حُسنِ سلوک کیا،ان کی وقتاً فوقتاً امداد کی اور ان سے ہر رنگ میں اچھا معاملہ کیا مگر وہ اندرہی اندر سے اُس کے خلاف کوئی منصوبہ یا شرارت کرتے رہے۔بچوں میں یہی ہوتا ہے۔سکول کے لڑکے آپس میں دوستانہ تعلقات پیدا کرتے ہیں مگر ان میں بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض دفعہ ظاہر میں ایک دوست بنا ہؤا ہوتا ہے مگر باطن میں وہ مخالف ہوتا ہے۔وہاں کونسی حکومت ہوتی ہے؟ہاں نظام میں یہ بات زیادہ ہوتی ہے اور جہاں کہیں نظام ہوگا وہاں یہ بات نمایاں نظر آجائے گی اِس لئے کہ نظام ہر شخص کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے سپرد اِس نظام کی نگرانی ہوتی ہے اور چونکہ وہ نگرانی کرتے ہیںاِس لئے جب معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص منافق ہے تو اسے بلایا جاتا ہے، اُس پر جرح کی جاتی ہے،اس کے متعلق گواہیاں لی جاتی ہیں اور اِس طرح تمام باتیں ریکارڈ اور شہادتوں میں آجاتی ہیں۔پس چونکہ ایک نظام کے نتیجہ میں اس قسم کی باتیں ریکارڈ میں آجاتی ہیں اور منافقوںکو بُلابُلا کر ان سے سوالات کئے جاتے ہیں اس لئے یہ بات نمایاں طور پر نظر آجاتی ہے لیکن جب ایک دوست دوسرے دوست سے غداری کرتا ہے تو وہ صرف اِتنا ہی کرتا ہے کہ اُس سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔ اس کے اندر یہ طاقت نہیں ہوتی کہ اُسے بلائے،اُس کے متعلق شہادتیں لے اور جرح کر کے اُس کی منافقت کو ثابت کرے اور اگر وہ اسے بلائے بھی تو وہ آئے گا کیوں؟ کہے گا تم گھر بیٹھو میں تمہارا کوئی نوکر نہیں کہ تمہارے بلانے پر آجاؤں۔مگر جہاں نظام ہوتا ہے وہاں چونکہ ایک قسم کی طاقت ہوتی ہے اس لئے جن پر منافقت کا الزام ہو اُنہیںبلایا بھی جاتا ہے اُن کے متعلق گواہیاں بھی لی جاتی ہیں،اُن پر جرح بھی کی جاتی ہے اور اِس طرح یہ تمام چیزیں ریکارڈ میں آجاتی اور لوگوں کو نمایاں طور پر نظر آنے لگ جاتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ کہنا کہ حکومت کے ساتھ منافقت ہوتی ہے،یہ حکومت کے مفہوم کے سمجھنے میں غلطی کھانے کا نتیجہ ہے اور اگر یہ صحیح ہو کہ حکومت کے ساتھ ہی منافقت ہوتی ہے تو اس حکومت سے مرادوہی حکومت ہوگی جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہکُلُّکُمْ رَاعِِ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ۱؎ کہ تم میں سے ہر شخص بادشاہ ،چرواہا یا نگران ہے اور ہر شخص سے اپنی اپنی رعیت یا گلے کے متعلق سوال کیا جائے گا۔تو کوئی انسان دنیا میں ایسا نہیں جس کو کچھ نہ کچھ حکومت نہ ملی ہو۔اگر اس کی بیوی ہے تو۲؎ کے ماتحت وہ اپنی بیوی کی نگرانی کرتا ہے۔اگر اس کے بچے ہیں تو وہ اپنے بچوں کا نگران ہے۔پھر یہ دنیا سینکڑوں یا ہزاروں افراد پر مشتمل نہیں بلکہ اربوں کی دنیا ہے اس دنیا میںہزاروں ایسے آدمی ملیں گے جن کی بیویاں منافق ہوتی ہیں۔ وہ بظاہر اپنے خاوندوں کے ساتھ رہتی ہیں مگر در پردہ بدکاری اور فسق وفجور اُن میں پایا جاتا ہے اور وہ دوسروں سے تعلقات رکھتی ہیں،پھر ہزاروں ایسی ہیں جو بدکارتو نہیں لیکن انہیں اپنے خاوندوں سے دشمنی ہے اور اِس وجہ سے وہ اپنے خاوندوں کے خلاف بھی منصوبے کرتی رہتی ہیں،پھر ہزاروں ایسی ملیں گی جو خاوندوں کے حُسنِ سلوک میں کمی ہونے کی وجہ سے اُن کے خلاف فتنہ و فساد بپا رکھتی ہیں اور اسی کا نام منافقت ہے۔پھر جو دوست ہوتے ہیں ان میں بھی ایک رنگ کی حکومت ہوتی ہے۔تم کبھی دودوست مساوی نہیں دیکھو گے۔جب بھی دیکھو گے تمہیں معلوم ہوگا کہ ایک غالب دوست ہے اور ایک مغلوب دوست ہے۔یعنی ایک دوست دوسرے دوست کے پیچھے چلنے والا ہوگا اور دوسرا اُسے مشورہ دینے والا اور اُسے چلانے والا ہوگا ۔دو برابر کے دوست تمہیں کبھی نظر نہیں آئیں گے کیونکہ یہ فطرت کے ہی خلاف ہے کہ انسانوں میںکُلّی طور پر مساوات ہو۔وہ ضرور اپنے میں سے ایک کی قابلیت اور برتری کو تسلیم کرتے اور اُس کے پیچھے چلتے ہیں چاہے وہ مُنہ سے نہ کہتے ہوں کہ تُو ہمارا بادشاہ ہے۔جہاں بھی چار پانچ دوست ہوں گے تم دیکھو گے کہ ان میں سے ایک دو مشورہ دینے والے ہوں گے اور باقی مشورہ لینے والے،ایک دو حکم دینے والے ہوں گے اور باقی حکم سُننے والے تو دوستوں میں بھی حکومت کا ایک رنگ پایا جاتا ہے۔ اسی طرح مدرسے ہیں،مساجد کے اجتماع ہیں،تجارتیں ہیں،زراعتیں ہیں،اِن سب میں ایک رنگ حکومت کا پایا جاتا ہے۔بازار کا سوال ہو تو ایک چودھری ہوتا ہے جسے اپنے حلقہ میں ایک رنگ کی حکومت حاصل ہوتی ہے۔
غرض تھوڑی یا بہت حکومت ہر شخص کو حاصل ہے اور اس کے بغیر دنیا کا کام نہیں چلتا۔چوروں اور ڈاکوؤں تک کو لے لیں ان کے سردار ہوتے ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ چور چوریاں کریں اور وہ کسی کو اپنا افسر نہ بنائیں، ڈاکو ڈاکے ڈالیں اور کسی کو اپنا لیڈر تجویز نہ کریں،فقیر اور سادھو بھی اپنے میں سے ایک کو افسر بنا لیتے ہیں۔پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ کوئی دو مؤمن ایسے نہ ہوں جو اپنے میں سے ایک شخص کو امیر نہ بنا لیں۔۳؎تو اب ایک رنگ کی حکومت تمام دنیا میں ہوگئی ۔ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیاکہ کُلُّکُمْ رَاعِِ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ اور دوسری طرف یہ فرما دیا کہ جب بھی دو مؤمن اکٹھے ہوں اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لیں۔ادھر دنیا کا قاعدہ بتا رہا ہے کہ یہ صحیح اصل ہے ہم کسی کو اپنا حاکم یا افسر نہ بھی بنائیں جس کے ذہن میں جِدّت اور تیزی ہوگی وہ آپ ہی آپ ہمارا افسر بن جائے گا۔چاہے اُسے مُنہ سے نہ کہا جائے کہ آپ ہمارے افسر اور حاکم ہیں مگر عملاً یہی ہوگا کہ دوست اُسی سے مشورہ لیں گے اور اسی کے پیچھے اپنے آپ کو چلائیں گے چاہے یہ برتری اور فوقیت عقل کی وجہ سے ہو، چاہے مال کی وجہ سے۔اگر چار پانچ دوست ہوں اور ان میں سے ایک دولت مند ہو تو گو بظاہر وہ اُس دولت مند کو کسی میٹنگ میں اپنا بادشاہ یا افسر مقرر نہیں کریں گے مگر عملاً یہی ہو گا کہ وہ اُسی دوست کے گھر میں جمع ہوں گے جو اُنہیں کھانا کھلائے یا چائے پلائے یا مٹھائی کھلائے۔اب یہ برتری مال کی وجہ سے ہوگی کسی طاقت کی وجہ سے نہیں ہوگی۔اِسی طرح چار پانچ اَور دوست ہوتے ہیں اور اُن میں سے ایک پہلوان ہوتا ہے دوسرے جانتے ہیں کہ اگر اس نے کسی کو ایک تھپڑ بھی مارا تو وہ کئی گز تک لڑھکتا چلا جائے گا۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باقی کمزور لڑکے اُس کے اِردگِرد اکٹھے رہتے ہیں تا اگر دوسرے لڑکے ہمیں دِق کریں تو ہم اس کی پناہ میں محفوظ رہیں۔اب وہ بادشاہ نہیں ہوتا انہو ں نے کسی میٹنگ یا مجلس میں اُس کی افسری کو تسلیم کرنے کے متعلق کوئی ریزولیوشن پاس نہیں کیا ہوتا،کوئی کمیٹی نہیں کی ہوتی مگر فطرت خود بخودبہادر انسان کی فوقیت کو تسلیم کرا لیتی ہے۔اسی طرح منافقوں کو دیکھ لو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بھی لیڈر ہوتے ہیں، کفار کے بھی لیڈر ہوتے ہیں،حتّٰی کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب دوزخی دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو وہ کہیں گے یا اللہ! ہمارے کچھ سردار بھی تھے انہیں بھی سزادی جائے اور ہم سے زیادہ دی جائے کیونکہ انہوں نے ہی ہم کو گمراہ کیا۔۴؎ منافقوں کا بھی یہی حال ہے۔عام طور پر کہاجاتا ہے کہ منافقوں کا لیڈر عبداللہ بن اُبی بن سلول تھا۔اب اس کے یہ معنے نہیں کہ انہوں نے اس کی لیڈری کے متعلق کوئی ریزولیوشن پاس کیا تھا یا کوئی کمیٹی ہوئی تھی جس میں یہ پاس ہؤا تھا کہ عبداللہ بن اُبی بن سلول کو اپنا لیڈر منتخب کیا جائے بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ چونکہ منافقت میں دوسروں سے بڑھا ہؤا تھا اِس لئے خود بخود منافقوں کا لیڈر بن گیا۔چوروں کا لیڈر بڑا چور ہوتا ہے،ڈاکوؤں کا لیڈر بڑا ڈاکو ہوتاہے،بدکاروں کا لیڈر بڑا بدکار ہوتا ہے، سپاہیوں کا لیڈر بڑا لڑنے والا ہوتا ہے، حساب دانوں کی اگر ایک مجلس ہو تو وہ اُسی کو اپنا لیڈر منتخب کریں گے جو سب سے زیادہ حساب دان ہو اور اگر اسے منتخب نہ بھی کریں تو بھی اگر کوئی بات کریں گے تو اُس سے پوچھ کر اوراگر کوئی فیصلہ کریں گے تو اس کی رائے لے کر۔اسی طرح پانچ سات ڈاکٹر جمع ہوں،دو تین سب اسسٹنٹ سرجن ہوں دو اسسٹنٹ سرجن ہوں اورایک سِول سرجن ہو تو جب بھی کوئی بات ہوگی تو وہ سِول سرجن کی طرف منہ کرکے کہیں گے کیوں جی! یہ بات اسی طرح ہے نا۔یا سول سرجن کوئی نہ بھی ہو اگر ایک ڈاکٹر اپنے اندر غیر معمولی لیاقت رکھتا ہے تو ہر ڈاکٹر اُس کی بات پر مجبور ہو گا کہ اُس کی طرف منہ کر کے پوچھے کہ کیوں جی! یہ درست ہے؟کیونکہ فطرت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ قابلیت والے کی طرف جھکے اور اِسی کا نام حکومت ہے۔ایسی مجالس میں جب بھی کسی کو شکوہ پیدا ہو تا ہے اور وہ اندر ہی اندر منصوبے کرنے لگ جاتا ہے تو اِس کو منافقت کہا جاتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوستیاں دشمنیوں سے اور رفاقتیں اختلاف سے بدل جاتی ہیں۔میاں بیوی ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے ہیں مگر پھر کوئی ایسا اختلاف ان میں پیدا ہو جاتا ہے کہ کہتے ہیں اب طلاق کے سوا کوئی علاج ہی نہیں مگر پھرکچھ عرصہ کے بعد انہیں دیکھا جاتا ہے تو ان میں اس قدر محبت ہوتی ہے گویا عاشق و معشوق ہیں۔میرے سامنے چونکہ جماعت کے مقدمات آتے رہتے ہیں اس لئے مجھے ایسی بہت سی مثالیں معلوم ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان لڑائی ہوئی اور وہ لڑائی بڑھتی چلی گئی اور جب صلح کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کہا اب رہنے دیجئے ہمارے دل پھَٹ چکے ہیں اور پھَٹا ہؤا دل کسی صورت میں نہیں جُڑ سکتا۔پھر اس پر زور دینے کے لئے کوئی پنجابی کی مثالیں دے گا، کوئی اردو کی مثالیںدے گا،کوئی انگریزی کی مثالیں دے گا اورجیسی جیسی لیاقت ہوگی اس کے مطابق اس بات پر زور دیا جائے گا کہ اب صلح بالکل ناممکن ہے دل ٹوٹ چکے ہیں اور سارے بزرگ یہ تسلیم کر تے چلے آئے ہیں کہ ٹُوٹا ہؤا دل نہیں جُڑ سکتا مگر سال بھر کے بعد اُن کو دیکھا جائے تو یک جان ودو قالب ہوتے ہیں۔پھر اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہؤا؟تم تو کہا کرتے تھے کہ صلح بالکل ناممکن ہے اور ٹوٹا ہوا دل جُڑ نہیں سکتا!!تو وہ کہتے ہیں کہ جی! اللہ نے بڑا فضل کر دیا اب تو ہماری آپس میں بڑی محبت ہے۔پھر وہ تمام مثالیں بھول جاتے ہیں جو اختلاف کے موقع پر اُن کی زبانوں سے سُنی جاتی ہیں۔
ایک میاں بیوی کاجھگڑا ایک دفعہ میرے پاس آیا۔میں نے دونوں کے رشتہ داروں کو اکٹھا کیا اور چاہاکہ وہ آپس میں صلح کر لیںمگر اُس وقت صلح تو ایک طرف رہی اُنہوں نے میرے سامنے ایسی لڑائی کی،ایسی لڑائی کی کہ اس کی کوئی حد نہ رہی۔میں نے بہتیری کوشش کی اور کہا کہ جھگڑا جانے دو اور صلح کر لومگر وہ کہیں اب صلح کہاں ہو سکتی ہے، اب ایک کے رشتہ داروں کے دل دوسرے کے رشتہ داروں سے کٹ چکے ہیں اور میاں کا دل بیوی سے بھر چکا ہے اب صلح کی کوشش بالکل عبث ہے مگر اب اُنہی میاں بیوی کے درمیان اتنی محبت ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں۔میں اکثر اُن سے پوچھا کرتا ہوں بتاؤ صلح ہو سکتی تھی کہ نہیں؟ وہ کہتے ہیں جانے بھی دیجئیے وہ تو ہماری بے وقوفی کی بات تھی۔تو ایک وقت ایسا آیا جب کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے درمیان صلح بالکل ناممکن ہے مگر اب وہ دنیا کے اچھے خوش جوڑوں میں سے ہیں اور ان کے درمیان اچھی محبت اور پیار ہے اور ان کی دینی حالت بھی بہت کچھ سُدھر گئی ہے۔مگر وہ بھی اور ان کے رشتہ دار بھی اُس مجلس میں یہی کہتے تھے کہ اب دل پھٹ چکے ہیں صلح کی کوششیں سب عبث ہیں اور اب دوبارہ محبت کسی طرح پیدا نہیں ہو سکتی۔تو ایسے کیس میں نے بہت دیکھے ہیں جہاں دوستیاں دشمنیوں سے اور دشمنیاں دوستی سے بدل جاتی ہیں اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی سے محبت کرو تو حد کے اندر کرو کیا معلوم کل تم آپس میں دشمن بن جاؤ اور جب کسی سے دشمنی کرو تو حد کے اندر کرو کیا معلوم کل تم آپس میں دوست بن جاؤ۔۵؎
تو یہ جنہوں نے کہا ہے کہ منافقت حکومت کی وجہ سے ہوتی ہے، بالکل غلط ہے اور اگر اسے تسلیم بھی کر لیا جائے تو حکومت سے مراد فوجوں والی حکومت نہیں ہوگی بلکہ اِس سے مراد نظام ہوگا۔چاہے وہ ایک آئینی نظام ہو اور چاہے وہ ایک طبعی نظام ہو جیسے دوستوں میں ایک رنگ کی حکومت ہوتی ہے۔یا جیسے چور اور ڈاکو اپنے میں سے ایک کو سردار سمجھ کر اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔بے شک وہ بعض دفعہ باقاعدہ طور پر بھی اپنا لیڈر چُن لیتے ہیں لیکن بعض دفعہ آپ ہی آپ ایک کی برتری اور فوقیت کو تسلیم کر لیتے ہیں۔چاہے یہ برتری عقل کی وجہ سے ہو، چاہے علم کی وجہ سے ہو، چاہے مال کی وجہ سے ہواور باقی آپ ہی آپ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔
میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے کہ انسانی طبیعت ان امورسے قطع نظر کرتے ہوئے جو انسانوں سے ہی مخصوص ہیں اِس معاملہ میں بعض جانوروں سے مشابہت رکھتی ہے۔آجکل تو یہاں کُتّے بہت کم نظر آتے ہیں،حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بڑی کثرت سے کُتّے ہوتے تھے اور جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ یہ حکم دیا کرتے تھے کہ آوارہ کُتّے مار دئیے جائیں۔۶؎اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ہر چھٹے ماہ یہ حکم دیا کرتے تھے کہ آوارہ کُتّے مار دئیے جائیں مگر اب ہمارے گھروں میں بہت کم کُتّا دکھائی دیتا ہے۔میں نے بچپن میں کُتّوں کو کئی دفعہ آپس میں لڑتے دیکھا ہے،اسی طرح بلیوں کودیکھا ہے،جب یہ آپس میں لڑتے ہیں تو اپنی دُموں کو عجیب طرح حرکت دیتے اور اُنہیں اوپر اٹھا لیتے ہیں۔آنکھیں ان کی باہر نکلی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تھوڑی دیر بھُوں بھُوں یا غر غر کرتے رہتے ہیں اور کچھ وقت گزرنے کے بعد ایک کُتّا دُم دبا کر ایک طرف کو چل دیتا ہے۔یا بِلّی دوسری کے مقابلہ سے ہٹ کر ایک طرف کو چل دیتی ہے۔جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اُس نے اپنی ہار تسلیم کرلی۔اب نہ اُن میں لڑائی ہوتی ہے نہ فساد ہوتا ہے۔نہ ایک دوسرے کو زخمی کرتے ہیں،محض آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تھوڑی دیر بھُوں بھُوں کرنے کے بعد ایک ان میں سے مقابلہ سے ہٹ جاتا ہے۔اسی طرح بلیاں کرتی ہیں۔بلیاں حقیقی طور پر بہت کم لڑتی ہیں۔اکثروہ پیار سے ایک دوسری سے لڑتی ہیں۔دشمنی کی لڑائی بلیوں میں بہت کم ہوتی ہے اور کُتّوں میں بھی بہت کم ہوتی ہے۔جب وہ پیار سے لڑتے ہیں تو بظاہر ایک دوسرے کو گراتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کو پیار بھی کرتے جاتے ہیںاور چاٹتے جاتے ہیں مگرجب حقیقی طور پر کوئی لڑنے کا ارادہ کرے تو بہت کم لڑائی ہوتی ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک زبردست کُتّا اچانک کمزور کُتّے پر پیچھے سے حملہ کر کے اُسے زخمی کردے مگر مقابل میں ٹک کر ان میں لڑائی بہت شاذ ہوتی ہے اوہ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں تاڑ جاتے ہیںکہ کون کمزور ہے اور کون طاقت ور۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کمزور دُم دبا کر ایک طرف کو چل دیتا ہے۔یہی حالت انسان کی ہے مگر انسان کی عقلِ طبعی بہت کمزور ہو چکی ہے۔اِس کا علم ظاہری زیادہ ہے مگر حِسِ طبعی بہت کمزور ہو گئی ہے۔ اس لئے جن چیزوں کو جانور پہچان لیتا ہے انسان ان کو نہیں پہچان سکتا۔جانوروں میںچونکہ علم اندرونی ہے اس لئے ان کی اندرونی حِس بہت تیز ہوتی ہے ۔بیماریاں اور وبائیں آنے والی ہوتی ہیں توکُتّے کئی کئی دن پہلے رونے لگ جاتے ہیں نہ معلوم اُنہیں وبا کے کیڑے نظر آجاتے ہیں یا سُونگھنے سے اُنہیں پتہ لگ جاتا ہے کہ اب وبا پھُوٹنے والی ہے۔اللہ ہی جانے مگر بہر حال اِس مطالعہ میں ان کی عقل بڑی تیز ہوتی ہے اِسی طرح وہ قومیںجن کا ظاہری علم کم ہے،اُن کی بھی باطنی حِس بہت تیز ہوتی ہے۔امریکہ کے ریڈاِنڈینز کئی کئی میل سے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سن لیتے ہیں اور یہ بتا دیتے ہیںکہ کوئی سوار آرہا ہے حالانکہ اُن کے پاس کوئی دُوربین نہیں ہوتی۔وہ زمین کے ساتھ اپنا کان لگا دیتے اور دو دو تین میل سے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سُن لیتے ہیں اور بتا دیتے ہیں کہ کوئی لشکر آرہا ہے اور وہ اتنے فاصلہ پر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں زمین کے ساتھ کان لگا دینے سے کوئی ایسی حرکت محسوس ہوتی ہے جسے دوسرے لوگ محسوس نہیں کر سکتے۔تو ظاہری علم کی وجہ سے انسان کی باطنی حِسّ بہت کم ہوگئی ہے مگر پھر بھی ہے گو اتنی نمایاں نہیں جتنی جانوروں میں ہے یہی وجہ ہے کہ ایک کمزور انسان زبردست کی حکومت کو آپ ہی تسلیم کر لیتا ہے مگر اس حکومت میں کبھی کوئی ایسی بات بھی ہو جاتی ہے جو اُس کی طبیعت کے خلاف ہوتی ہے اور جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ شریف ہو تو الگ ہو جاتا ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حضرت خضرعلیہ السلام سے اختلاف ہؤا تو آپ نے کہہ دیا۔۷؎ حضرت موسیٰ ؑنے یہ نہیں کیاکہ انہوں نے اوپر سے دوستی رکھتے ہوئے حضرت خضر کے ٹبّر میں فتنہ وفساد پھیلانا شروع کر دیا ہوبلکہ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ جب ہماری آپس میں نہیں نبھ سکتی تو بہتر ہے ہم الگ الگ ہو جائیں۔پس جب تک وہ اکٹھے رہے وفادار رہے اور جب جُدا ہوئے تو جو شریف آدمی ہوتے ہیں وہ تو یہ طریق اختیارکرتے ہیں مگر جو کمینے ہوتے ہیں وہ اندر ہی اندر منصوبے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہیں یہ ویسے ہیں۔
تو منافقوں کا ہونا ہر قوم اور سوسائٹی میں ممکن ہے لیکن نبیوں کی جماعتوں میں منافقوں کا ہونا ضروری ہے کیونکہ منافقت شیطان کا حربہ ہے اور شیطان سے بڑھ کر بھلا نبیوں کی جماعت کا اور کون دشمن ہو سکتا ہے اور جب وہ نبیوں کی جماعت کا سب سے بڑا دشمن ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اَور حربے تو استعمال کرے مگر منافقت کے حربہ کو استعمال نہ کرے۔یہ حربہ تو ضرور استعمال کرے گا اور اگر دوسری جگہ وہ اس حربہ کو اتفاقی چلاتا ہے تو نبیوں کی جماعت میں منظم طور پر چلاتا ہے۔
اس تمہید کے بعد میں بتانا چاہتا ہوں کہ منافق کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ہماری جماعت کو منافقین کے متعلق جو دھوکا لگا ہؤا ہے اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ منافق کی تعریف نہیں سمجھتے۔بسا اوقات جو تعریف ان کے ذہن میں ہوتی ہے وہ اَور ہوتی ہے اور منافق کی تعریف اَور ہوتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دھوکا کھا جاتے ہیں اور منافق کو پہچان نہیں سکتے۔کئی لوگ خیال کرتے ہیں کہ منافق شائد نمازیں نہیں پڑھتے اور اِسی وجہ سے جب کسی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ منافق ہے تو کہتے ہیں وہ منافق کس طرح ہو سکتا ہے وہ تو بڑی نمازیں اور تہجد پڑھا کرتا ہے۔حالانکہ یہ تو کوئی بات نہیں ۔ایک نمازیں پڑھنے والا بھی منافق ہو سکتا ہے۔ایک تہجد پڑھنے والا بھی منافق ہو سکتا ہے،اور ایک ذکرِ الٰہی کرنے والا بھی منافق ہو سکتا ہے۔پھر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ منافق شاید چندے نہیں دیتے اور اِس وجہ سے جب انہیں کہا جائے کہ فلاں منافق ہے تو کہتے ہیں وہ منافق کس طرح ہو سکتا ہے معلوم ہوتا ہے تمہیں غلطی لگی ہے وہ تو بڑے چندے دیا کرتا ہے۔حالانکہ منافق کی علامت یہ بھی ہے کہ وہ نِفاق کے ساتھ ساتھ چندے بھی دیتا ہے تا اُس کے افعال پر پردہ پڑا رہے اور اگر کوئی اعتراض کرے تو دوسرا اُسے یہ کہہ کر خاموش کرا سکے کہ یہ تو چندے دیا کرتا ہے،یہ کس طرح منافق ہو سکتا ہے۔حالانکہ ایمان کسی ایک عمل کا نام نہیں بلکہ مجموعۂ اعمال کانام ایمان ہے۔مگر تم ایک بات دیکھتے ہو اور کہتے ہو چونکہ وہ نمازیں پڑھتا ہے یا چونکہ وہ سچ بولتا ہے اس لئے وہ منافق نہیں ہو سکتا حالانکہ اول تو تمہیں کیا پتہ وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔دوسرے بعض ہوشیار لوگ ہوتے ہیں جو کئی موقعوں پر سچ بول کر اپنی صداقت کا لوگوں پر اثر ڈالتے ہیں اور پھر در پردہ فتنہ وفساد بھی کرتے رہتے ہیں۔وہ سچ اِس لئے نہیں بولتے کہ اُنہیں سچ سے محبت ہوتی ہے بلکہ اس لئے سچ بولتے ہیں کہ ان کے اَورجھوٹوں پر پردہ پڑا رہے۔تو ایمان اس بات کا نام نہیں کہ نمازیں پڑھ لیں یا روزے رکھ لئے یا حج کر لیا یا زکوٰۃ دے دی یا سچ بول لیابلکہ چاروں جہت سے اپنے ایمان کے محل کو ہرقسم کے رخنوں سے محفوظ رکھنے کا نام ایمان ہے۔بے شک مؤمنوں میں بھی بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں مگر وہ ان کی نیکیوں کے مقابلہ میں نہایت قلیل ہوتی ہیں اور ان کے صدق کے اعمال بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن منافق اگر چندے بھی دے گا تو منافقانہ طور پر اور اگرنمازیں بھی پڑھے گا تو منافقانہ طور پر جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۸؎کہ ان نماز پڑھنے والوں پر اﷲ تعالیٰ کی *** ہے جو حقیقتِ نماز سے غافل رہتے ہیں اور صرف دکھاوے کی نماز پڑھتے ہیں۔اب اِس جگہ یہ مراد نہیں کہ وہ نماز چھوڑ دیتے ہیں بلکہ کہہ کر بتا دیا کہ ہماری یہ مراد ہے کہ وہ دِکھلاوے کی نمازیں پڑھتے ہیں۔یعنی اُن کا نمازوں سے یہ مقصد نہیں ہوتاکہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے بلکہ یہ مقصد ہوتا ہے کہ لوگ اُنہیں نمازی سمجھیں اور اُن کی شرارتوں پر پردہ پڑا رہے۔تم بیشک بعض دفعہ یہ سمجھ لیتے ہو کہ یہ تو بڑی لمبی نمازیں پڑھنے والے ہیں یہ منافق کس طرح ہو سکتے ہیں مگر ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ بے شک یہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر ان نمازوں کا اُن کے دلوں پر کوئی اثر نہیں۔یہ محض دکھاوے کی نمازیں ہیں اور غفلت سے مراد بھی نماز کو چھوڑ دینا نہیں بلکہ حقیقت نماز سے عاری ہوکر نماز پڑھنا ہے۔یہی حال چندے کا ہے۔بے شک چندہ دینا ایمان کی ایک علامت ہے۔مگر سورۃ بقرہ میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگ چندے دیتے ہیں مگر ریاء کے لئے اور وہ چندہ دینے کے باوجود منافق ہوتے ہیں۔اگر چندہ کا دینا ہی ایمان ہوتا،اگرنمازیں پڑھنا ہی انسانی ایمان کی علامت ہوتی تو قرآن کیوں کہتا کہ بعض نمازیوں پر اللہ تعالیٰ کی *** ہوتی ہے اور بعض چندہ دینے کے باوجود منافق ہوتے ہیں۔صاف معلوم ہؤا کہ بعض چندہ دینے والے بھی منافق ہوتے ہیں اور بعض نمازیں پڑھنے والے بھی منافق ہوتے ہیں۔چندے دینے والے بھی منافق ہوتے ہیں جو رِیاء کے لئے چندہ دیتے ہیں اور نمازیں پڑھنے والے وہ منافق ہوتے ہیں جو کسی دُنیوی مفاد یا عزت و مرتبت کے حصول کے لئے نمازیں پڑھتے ہیں۔میں نے کئی ایسے لوگ دیکھے ہیں جنہیں خفا ہو کر اگر ذرا ڈانٹا جائے تو وہ باقاعدگی سے نمازیں پڑھنے لگ جائیں گے،زیادہ چندے دینے شروع کر دیں گے اور یوں معلوم ہوگا کہ وہ بڑے مخلص ہیں مگر جب دیکھیں گے کہ اب ہماری طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹ گئی ہے تو پھر اپنی اصلی حالت پر آجائیں گے۔غرض منافقوں کی کئی اقسام ہیں مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے دوست ان اقسام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور اسی لئے بعض دفعہ دھوکا کھا جاتے اور منافق کو پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقوں کی ایک قسم وہ ہے جن کے دل میں کبھی ایمان نہیں آتا وہ کسی ڈر یا لالچ کے اثر کے ماتحت ایک مذہب میں داخل ہو جاتے ہیںورنہ ایمان ایک دن بھی ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوتا۔مثلاً فرض کرو کسی کے تمام رشتے دار احمدی ہو گئے ہیں اور صرف اکیلا وہی غیر احمدی رہ گیا ہے یا کوئی گاؤں ہے وہاں سب کے سب احمدی ہو گئے ہیں اور صرف ایک یا دو آدمی علیحدہ ہیں۔اب جس خاندان کے تمام افراد احمدی ہو چکے ہیں،صرف ایک ان سے علیحدہ ہے وہ دل میں خیال کرتاہے کہ اگر میں علیحدہ رہا تو کیا فائدہ میرے تمام رشتے دار مجھے بُرا بھلا کہیں گے اور ہر وقت لڑائی جھگڑا رہے گا، آؤ اوپر سے احمدی ہو جاتے ہیں۔چنانچہ وہ ڈر کر احمدی ہو جاتا ہے ورنہ ایمان اُس کے اندر نہیں ہوتا۔یا دیکھتا ہے بیوی بھی اِدھر چلی گئی، باپ بھی اِدھر چلا گیا، بچے بھی اِدھر چلے گئے،اب میں اکیلا ایک طرف کیا اچھا لگتا ہوں اور چونکہ منافق دل کا کمزور ہوتا ہے اور وہ مقابلہ کی قوت اپنے اندر نہیں رکھتا اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ بجائے مخالفت کے یہی بہتر ہے کہ میں بھی اوپر سے احمدیت میں شامل ہوجاؤں اور دل میں جو چاہے عقیدہ رکھوں۔یا بعض دفعہ مثلاً احمدیت کا ایسا غلبہ ہؤا کہ گاؤں کا گاؤں احمدی ہو گیا۔اب یہ سمجھتا ہے گاؤں میں مجھ اکیلے کی کیا حیثیت ہو گی اور مجھے ضرورت کیا ہے کہ میں خواہ مخواہ سب سے لڑائی کرتا پِھروں چنانچہ وہ اِس ڈر کے مارے احمدیت قبول کر لیتا ہے۔مگر اندر سے وہ ویسا ہی بے ایمان ہوتا ہے جیسے احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے تھا۔یا بعض دفعہ لالچ کے ماتحت بھی ایک انسان دوسرا مذہب اختیار کر لیتا ہے۔مثلاً کوئی امیر احمدی زیادہ پُر جوش ہؤااور اُس نے چاہا کہ وہ اپنے تمام نوکر احمدی ہی رکھے۔اس پر ایک مخالف کو جو بھُوکا مر رہا ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی احمدی کو نوکر رکھنا چاہتا ہے۔یہ دیکھ کر وہ جھٹ مرکز میں بیعت کی ایک چِٹھی لکھ دیتا ہے اور جب ہماری طرف سے اُسے جواب جاتا ہے تو وہ اُس خط کو سنبھال کر رکھ لیتا ہے اور ہمیں کہتا ہے احمدیت کی وجہ سے لوگوں نے مجھے سخت تنگ کرنا شروع کردیا ہے پہلے میرا اچھا گزارہ تھا مگر احمدی ہو جانے کی وجہ سے کاروبار کو سخت نقصان پہنچا ہے اورمیں بھوکا مر رہا ہوں حالانکہ اُس کا گزارہ پہلے بھی ویسا ہی ہوتا ہے اور پہلے بھی وہ بھُوکا ہی مررہا ہوتا ہے مگر ہمیں دھوکا دینے کے لئے کہہ دیتا ہے کہ پہلے میرا بڑا اچھا گزارہ تھا مگر اب قبولِ احمدیت کی وجہ سے بھُوکا مرنے لگا ہوں میرے لئے کسی نوکری کا انتظام کر دیں۔ ہم اُسے لکھتے ہیںکہ ہمارے ذہن میںتو اِس وقت کوئی جگہ نہیں اگر کوئی جگہ نکلی تو آپ کا خیال رکھا جائے گا ۔اس پر وہ لکھتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ فلاں احمدی اپنے ہاں ایک نوکر رکھنا چاہتا ہے آپ اُسے سفارشی چِٹھی لکھ دیں اور میں آپ کابڑا ممنون ہوں گا۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اس کے دھوکا میں آجاتے اور اس احمدی کے پاس اس کی سفارش کر دیتے ہیں اور وہ اسے ملازم رکھ لیتا ہے حالانکہ دل میں وہ پکا غیر احمدی ہوتا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایک طبقہ ایسا تھا جو قبیلے کے ڈر کی وجہ سے یا کسی لالچ کی وجہ سے اسلام قبول کر لیتا۔مثلاً یہی لالچ ہؤا کہ اسلام ترقی کر رہا ہے اگر ہم اس مذہب میںشامل ہو گئے تو ہمیں عزت مل جائے گی۔یا یہ دیکھا کہ اپنے خاندان کاکوئی امیرآدمی جو پہلے ان سے حُسنِ سلوک کیا کرتا تھا مسلمان ہو گیا ہے تو وہ بھی مسلمان ہوگئے تا وہ حُسنِ سلوک کو بند نہ کر دے۔ تو ڈر اور لالچ دونوں کی وجہ سے لوگ منافق بن جاتے ہیں لیکن یہ ایسا طبقہ ہے جس کے اندر ایمان ہوتا ہی نہیں۔ وہ داخل ہو تاہے خوف یا لالچ کی وجہ سے ورنہ اس کے دل میں کفر ہوتا ہے وہ کفر کی حالت میں پیدا ہوتا کفر کی حالت میں ہی اسلام میں داخل ہوتا اور کفر کی حالت میں ہی مر جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اسی طبقہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ۹؎کہ اے ہمارے رسول! کچھ لوگ تیرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم خدا اور یومِ آخرت پر ایمان لائے اور خدا کا شکر ہے کہ ہمیں ایمان نصیب ہوگیا اور سمجھ آگئی کہ سچا راستہ کونسا ہے۔فرماتا ہے وہ دعوے تو یہ کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہان کے دلوں میں ایمان نہیں ہے وہ صرف لالچ یا خوف کی وجہ سے آگئے ہیں اس کے علاوہ ان کے آنے کی اور کوئی غرض نہیں ۔تو یہ منافق طبقہ آتا ہی اسی وجہ سے ہے کہ یا اسے کسی چیز کی لالچ ہوتی ہے یا کسی چیز کا خوف ہوتا ہے۔اگر چندے دے گا تو ڈر سے یا لالچ سے، اگر نمازیں پڑھے گا تو بھی ڈر سے یا لالچ سے۔فرض کرو اسے کسی احمدی کے پاس بیس روپے کی ملازمت مل گئی ہے تو اب اگر یہ سَوا یا ڈیرھ روپیہ چندہ دے دیتا ہے تو دل میں یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ پھر بھی میرے پاس ساڑھے اٹھارہ یا پونے انیس روپے تو بچ گئے۔پس وہ چندہ اس لئے نہیں دیتا کہ خدا تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے بلکہ اس لئے دیتا ہے کہ اسے اٹھارہ یااُنیس روپے تو مل رہے ہیں۔گویا وہ احمدیت میں داخل ہو کر کوئی دین کی خدمت نہیں کرتا بلکہ اٹھارہ یا انیس روپے کماتا ہے۔جیسے زمیندار جب زمین میں بیج ڈالتا ہے تو اس سے کئی گُنا فصل کاٹتا ہے اسی طرح وہ روپیہ یا سوا روپیہ چندہ دیتا اور ۱۸ یا ۱۹ روپے خود وصول کرتا ہے۔پس وہ سمجھتا ہے کہ یہ چندہ دینا میرے لئے کوئی گراں نہیں کیونکہ اگر میں چندہ نہیں دوں گا تو مجھے ملازمت سے الگ کر دیا جائیگا۔اسی طرح منافق بعض دفعہ ڈر کی وجہ سے نماز پڑھتا۔ یا روزے رکھتایا حج کرتایا زکوٰۃ دیتاہے۔مثلافرض کرو وہ کسی کا نوکر نہیں بلکہ آزاد ہے لیکن اسکے تمام رشتے دار احمدی ہوچکے ہیں تو اب اگر وہ نمازیں نہیں پڑھتا یا روزے نہیں رکھتا تو سمجھتا ہے کہ یہ میری شکائت کریں گے،اور کہیں گے بے دین ہو گیا۔پس وہ ان کے ڈر کی وجہ سے نمازیں بھی پڑھ لیتا ہے اور روزے بھی رکھ لیتا ہے تا اس کی کمزور حالت پر پردہ پڑارہے۔اسی طرح وہ چندے دیتا ہے تا اس کے دوسرے بھائی بند جوش میں نہ آئیںاور وہ یہ نہ کہیں کہ یہ ایماندار نہیں مگر میں یہ اسی شخص کی نسبت کہتا ہوں جس کے اندر اخلاص نہیں ہوتا۔بعض لوگ یوں مخلص ہوتے ہیں۔مگر کسی سُستی کی وجہ سے چندہ نہیں دیتے۔ان لوگوں کا بیان نہیں ہے کیونکہ میں ان لوگوں کو منافق نہیں سمجھتا۔جیسے ایک گزشتہ خطبہ میں مَیںنے مثال دی تھی کہ ایک جگہ جہاں بعض لوگ چندے میں سُست تھے ہم نے تحریک کی کہ بجائے مردوں کو کہنے کے اُن کی عورتوں سے جا کر کہو کہ وہ اپنے مردوں کو چندہ دینے کے لئے آمادہ کریں۔چنانچہ ایک عورت کو جب ایسی تحریک کی گئی تو اُس کے بعد ایک دن جب اس کا خاوند گھر میں تنخواہ لایا تو وہ کہنے لگی میں یوں روپیہ نہیں لیتی یہ حرام کا روپیہ ہے۔ وہ کہنے لگا حرام کا روپیہ کس طرح ہو گیا میں صبح سے شام تک کام کرتا ہوں پھر کہیں مہینے کے بعد جا کر روپیہ ملتا ہے یہ حرام کیونکر ہؤا ؟وہ کہنے لگی جب تک خدا کا حق اس میں سے ادا نہیں کرو گے میں اسے استعمال نہیں کروں گی اگر چاہتے ہو کہ میں گھرکے اخراجات کے لئے اس روپیہ کو استعمال کروں تو پہلے چندہ دے کر آؤ مجھے رسید دکھاؤ۔ چنانچہ وہ گیا اور چندہ دے آیا۔ اُس کے بعد اس کی ایسی عادت ہو گئی کہ وہ تنخواہ گھر میں اُس وقت تک نہ لاتا جب تک کہ چندہ ادا نہ کرلیتا۔ تو یہ منافقت کی علامت نہیں کمزوری کی علامت ہے۔ ایسے آدمی کو کوئی دوسرا نصیحت کرے گا تو وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ثواب کے مستحق ہوں گے۔ میری مراد اِس جگہ منافق سے ایسے شخص سے ہے جو دل سے خدا تعالیٰ کی راہ میں روپیہ خرچ کرنا پسند نہیں کرتا وہ سست نہیں ہے بلکہ دل میں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کے لئے چندہ دینا بے فائدہ ہے۔ پس جو شخص یہ خیال کرتا ہے اُس کو میں منافق کہتا ہوں ورنہ کمزور ہونا اَور چیز ہے آخر سارے مؤمن ایک درجہ کے تو نہیں ہو سکتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کم سے کم حصہ وصیت کا 1/10قرار دیا ہے اب جو شخص 1/10حصہ کی وصیت کرتا ہے ہم اُسے منافق نہیں کہتے۔ ہم سمجھتے ہیں کسی کا کم ایمان ہے اور کسی کا زیادہ۔ جس کے اندر تھوڑا ایمان ہے اس نے دسویں حصہ کی وصیت کر دی اور جس کے اندر زیادہ ایمان ہے اُس نے زیادہ کی وصیت کر دی۔ تو جس کو میں منافق کہتا ہوں وہ تو وہی شخص ہے جو دل سے چندہ دینا ناپسند کرتا اور جس مذہب میں بھی وہ شامل ہے اُس کے لئے روپیہ خرچ کرنے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ میرا اِن الفاظ کے کہنے سے یہ مطلب ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ منافق صرف سچے مذہب میں پائے جائیں بلکہ ایک ہندو بھی منافق ہو سکتا ہے، ایک سکھ بھی منافق ہو سکتا ہے اور ایک عیسائی بھی منافق ہو سکتا ہے۔ ہندو منافق وہ ہوگا جو ہندوؤں سے غداری کرے، سکھ منافق وہ ہوگا جو سکھوں سے منافقت کرے اور عیسائی منافق وہ ہوگا جو عیسائیوں سے غداری کرے۔ ہاں جو سچے دین سے منافقت کرے گا اُس سے خدا بھی ناراض ہو گا اور جو دوسروں سے منافقت کرے گا اُسے اس منافقت کا صرف دُنیوی نقصان ہو گا اور یوں اُس کے اخلاق پر بھی بُرا اثر پڑے گا۔اللہ تعالیٰ کی ناراضگی صرف اس کے اتنے فعل سے اسے نہیں ہو سکتی کیونکہ اُس کا امتحان اصولی سچائیوں کی بناء پر ہوگا نہ کہ تفصیلی احکام کی بناء پر۔ دوسری قسم کے منافق قرآن کریم سے وہ معلوم ہوتے ہیں جو اسلام کو سچا سمجھ کر اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور انہیں ابتداء میں یہی یقین ہوتا ہے کہ یہ مذہب سچا ہے مگر بعد میں ان کے دلوں میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔پہلی قسم کے منافق جو میں نے بتائے ہیں ہماری جماعت کے بعض لوگ غلطی سے صرف انہی کو منافق سمجھتے ہیں کسی اَور کو نہیںاِسی لئے جب کسی کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ منافق ہے تو جھٹ کہہ دیتے ہیںاُس نے تو فلاں وقت اتنی قربانی کی تھی وہ منافق کس طرح ہو سکتا ہے مطلب ان کا یہ ہوتا ہے کہ چونکہ اُس نے فلاں وقت قربانی کی اس لئے وہ منافق نہیںحالانکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک قسم منافقوں کی ایسی بھی ہے جوایمان اور اخلاص سے سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں، سلسلہ کے لئے مختلف رنگوں میں قربانیاں بھی کرتے ہیں مگر پھر گِر جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان منافقوں کا ذکر سورۃ توبہ میں کرتا ہے۔فرماتا ہے۱۰؎فرماتا ہے۔تم ہمارے سامنے عُذر مت کرو۔ہم تصدیق کرتے ہیں کہ پہلے تم بھی مؤمن تھے مگر کچھ عرصہ کے بعد بعض رنجشوں، بدگمانیوں اور کمزوریٔ اعمال کی وجہ سے تمہارے دل پر زنگ لگتے لگتے آخر ایمان بالکل جاتا رہا اور حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ اب تمہارے دل میں کوئی ایمان نہیں۔یہاں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ ایمان تم یقینا لائے تھے اور جس وقت تم خدا تعالیٰ کے سلسلہ میں داخل ہوئے تھے اخلاص اور محبت سے داخل ہوئے تھے اور اسی ایمان کے باعث تم نے نمازیں بھی پڑھیں،روزے بھی رکھے،چندے بھی دئیے،زکوٰۃ بھی دی،حج بھی کیا،قربانیاں بھی کیں،یہ ٹھیک بات ہے۔ ایمان جو تم لائے تھے ایمان لانے کے بعد انسان ایسا ہی کیا کرتا ہے مگر کسی وجہ سے (یہاں وجہ نہیں بتائی وہ وجوہات اَور جگہ بیان ہیں)ایمان لانے کے کچھ عرصہ بعد تم میں کفر پیدا ہونا شروع ہؤا اور ہوتے ہوتے تم منافق ہو گئے۔ اگر تم اُسی وقت جب سے تمہارے دل میں کفر پیدا ہونا شروع ہؤا تھا کہہ دیتے کہ ہم تم میں شامل نہیں رہنا چاہتے ہمیں اب شبہات پیدا ہوگئے ہیں مگر چونکہ تم نے کفر کو ظاہر نہیں کیا تم نے اپنے دلوں میں کہا کہ اب جس فرقہ میں ہم مل گئے ہیں اسی میں ملے رہیںاگر ہم علیحدہ ہوئے تو ہماری سُبکی اور ذلّت ہوگی اور تم ایک طرف تو یہ کہتے رہے کہ ہم جماعت میں فتنہ نہیں ڈالنا چاہتے اور دوسری طرف جب کوئی ملتاتو اُسے کہتے کہ جماعت میں یہ یہ خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں، اس کے افراد نہایت گندے ہو گئے ہیں،ان کے اخلاق نہایت خراب ہو گئے ہیں،روحانیت اور ایمان ان سے بالکل جاتا رہا ہے اس لئے اب ہمارا حق ہو گیا ہے کہ ہم تمہیں منافق کہیں۔ تو یہ دوسری قسم منافقوں کی ہے یہ ایسے احمق ہوتے ہیں کہ ایک طرف اپنی مجالس میں جماعت اور نظام کی خرابیاں بیان کرتے ہیں اور دوسری طرف جب کوئی مؤمن ان سے ملے اور کہے کہ آپ خلیفۃ المسیح تک بات کیوں نہیں پہنچاتے تو وہ کہہ دیتے ہیں ہم خواہ مخواہ بات بڑھانا نہیں چاہتے۔
اِن کی مثال بالکل اُس بے وقوف کی سی ہوتی ہے جو ایک قتل کے مقدمہ کے سلسلہ میں ایک دفعہ کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہؤا تو مجسٹریٹ نے مقدمہ سُننے کے بعد اسے پھانسی کی سزا کا حکم دے دیا۔اس نے لوگوں سے پوچھاکہ میرے متعلق کیا فیصلہ ہؤا ہے؟انہوں نے بتایاکہ تجھے پھانسی کی سزا کا حکم ملا ہے۔یہ سن کر وہ بولاکہ اس سے تو موت کی سزا اچھی تھی۔اِسی طرح یہ لوگ کرتے ہیں ایک طرف تو فتنہ کرتے جاتے ہیں دوسری طرف فتنہ کے خلاف اظہارِ نفرت بھی کرتے جاتے ہیںحالانکہ جس رنگ میں وہ بُرائیاں بیان کرتے ہیں اسی کا نام تو فتنہ ہے۔مگر جب ان سے کہا جائے کہ خلیفۃ المسیح سے ان کاذکر کیوں نہیں کرتے تو بڑے مصلح بن جائیں گے اور کہیں گے ہم کوئی فتنہ پیدا کرنا نہیں چاہتے اگر شکایت کی تو وہ کیا کہیں گے۔ ہماری جماعت میں بھی ایسے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں حالانکہ ان کا مقصد اصلاح نہیں بلکہ فتنہ پیدا کرنا ہوتا ہے اور اندر ہی اندر وہ اس لئے شرارتیں کرتے رہتے ہیں کہ اگر عَلَی الْاِعْلَان غیروں سے مل گئے تو وہ کہیں گے کہ اب جھک مار کر واپس آیا ہے پہلے خیال نہ آیا تھا کہ ایسے لوگوں میں نہیں ملنا چاہئے۔پس وہ خدا کے لئے نہیں بلکہ اپنی عزت کے خیال سے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں یا اس وجہ سے شامل رہتے ہیں کہ انہیں ایک سوسائٹی ملی ہوئی ہوتی ہے اور ان کے دوستوں کا ایک حلقہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم علیحدہ ہوئے تو یہ سوسائٹی ہمارے ہاتھ سے جاتی رہے گی۔یہ قدرتی بات ہے کہ جب انسان پہلوں سے قطع تعلق کر کے آتاہے تو اسے نئی جماعت میں نئی سوسائٹی مل جاتی ہے،نئے محبت کرنے والے مل جاتے ہیں،نئے پیار کرنے والے مل جاتے ہیںاور چونکہ ان کا چھوڑنا مشکل ہوتا ہے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ ظاہری طور پر ملے رہیں اور اندرونی طور پر شرارتیں کرتے رہیں۔پہلوں سے اگر انہوں نے قطع تعلق کیا تھا تو اس لئے کہ اُس وقت ان میں ایمان کی کشش تھی اور اب اگر یہ قطع تعلق کرنے سے ڈرتے ہیں تو اس لئے کہ ان میں نِفاق ہوتا ہے اور نِفاق میں کوئی کشش نہیں ہوتی۔جس شخص کے اندر ایمان پیدا ہو جاتا ہے وہ اپنے بھائیوں کو چھوڑ دیتا ہے،اپنے عزیزوں کو چھوڑ دیتا ہے،اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ دیتا ہے، اپنے ماں باپ کو چھوڑ دیتا ہے اور اس امر کی کوئی پرواہ نہیں کرتاکہ اس قطع تعلق کا اس پر کیا اثر پڑے گا۔مگر جس کے اندر نِفاق پیدا ہو جاتا ہے وہ اپنے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کو نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ وہ گناہ کی حالت میں ہوتا ہے۔
میں نے یہ بات اس لئے بیان کی ہے تا کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ انہوں نے پہلے بھی تو اپنے قرابتیوں اور دوستوں کو چھوڑا تھا پھر اب یہ کیوں چھوڑ نہیں سکتے۔میں نے بتایا ہے کہ پہلے انہوں نے اس لئے چھوڑا تھا کہ ان کے اندر ایمان کی طاقت پائی جاتی تھی مگر اب جو ان کے اندر تغیر پیدا ہؤا ہے وہ نِفاق کا تغیر ہے۔
پس چونکہ اب ان کے اندر ایمان والی حالت نہیں ہوتی اس لئے نئے دوست، نئی برادری اور نئے رشتہ دار ان کو چھوڑنے بہت مشکل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں اِسی طرح رہنے دو۔اوپر سے ہم ملے رہتے ہیں اور اندر سے منصوبے کرتے رہیں گے۔تو فرماتا ہے۔ ۔ تم عذر مت کرو بے شک کسی وقت تم مؤمن تھے مگر اب تمہیں اسلام میں سَوسَو کیڑے نظر آتے ہیں اور پہلے جن باتوں کو خوبیاں سمجھتے تھے اُنہی کو اب عیب قرار دینے لگ گئے ہو۔میں اس تغیر کی جو ایمان لانے کے بعد بعض لوگوں میں پیدا ہوتا ہے ایک وجہ بھی بتا دیتا ہوں اور گو اَور بھی اِس کی وجوہ ہیں مگر جو سب سے اقرب وجہ ہے اور جو میرے اس مضمون کو بالکل واضح کر دیتی ہے میں وہ بیان کر دیتا ہوں۔اللہ تعالیٰ اسی سورۃ توبہ میں فرماتا ہے۔۱۱؎اس کے ایک ظاہری معنی یہ بھی ہیں کہ چونکہ سفر لمبا تھا اس لئے تم جہاد میں جانے سے رُک گئے مگر اس کے باطنی معنے بھی ہیں اور وہ یہ کہ جو لوگ ایمان لائے جب اس قسم کی پیشگوئیاں سنتے ہیں کہ عنقریب اسلام تمام دنیا کو فتح کرلے گا،سب بادشاہتیں مغلوب ہو جائیں گی اور بڑے بڑے بادشاہ حلقہ بگوشِ اسلام بن جائیں گے، ہر طرف اسلامی پھریرا لہرائے گا،کفر پر موت آ جائیگی اور فقر و فاقہ میں مبتلا رہنے والے مسلمان بڑی بڑی عزتوں کے مالک بن جائیں گے تو چونکہ طبیعت میں حرص ہوتی ہے اِس لئے ان پیشگوئیوں کو تسلیم کر کے اور یہ دیکھ کر کہ بعض پیشگوئیاں تو پوری بھی ہو چکی ہیں کیا تعجب کہ دوسری پیشگوئیاں بھی ابھی پوری ہو جائیں اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔مگر چونکہ یہ مذہب میں داخل کامل ایمان کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ لالچ کی وجہ سے ہوتے ہیں اور دل میں یہ خیال ہوتا ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد ہمیں بڑے بڑے عُہدے مل جائیں گے اور خبر نہیں ہم کیا سے کیا ہوجائیں گے اس لئے ان کے ایمان کے ساتھ مخفی طورپر دل کا لالچ اور کبر اور غرور بھی شامل ہوتا ہے۔پس ان کا ایمان مخلوط ہو تا ہے نفسانی حرص اور لالچ سے یہ پیشگوئیاں سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جب ہم نے اَور پیشگوئیاں اپنی آنکھوں کے سامنے پوری ہوتی دیکھی ہیں تو یہ پیشگوئیاں بھی بہرحال پوری ہوں گی۔پھر جب وہ انبیاء اور ان کے خلفاء کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ بس عنقریب ترقی ہو جائے گی،بڑی بڑی حکومتیں اسلام میں آملیں گی اور قرآن میں یہ لکھا ہؤا پاتے ہیں کہ وہ ساعت قریب آگئی،بس تم اسے آئی سمجھوتو یہ منافق بھی آملتے ہیں اور کہتے ہیں جب آئی سمجھو تو ہم بھی اپنا حصہ لینے کے لئے آگئے ہیں۔پھر چھ مہینے، سال،دوسال،چارسال، پانچ سال، دس سال،بیس سال گزرتے ہیںاور وہ دیکھتے ہیں کہ حکومت تو کوئی آئی نہیں بس آئے روزیہی مطالبہ ہوتا ہے کہ قربانی کرو قربانی کرو دین خطرے میں ہے اس کے لئے اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر دو۔تو ان کے قدم ڈگمگانے شروع ہو جاتے ہیں اورکہتے ہیں وہ وعدے کہاں گئے جو فتوحات اور ترقیات کے متعلق ہم سے کئے گئے تھے۔پہلے تو انہیں یہ خیال ہوتا ہے کہ ادھر اسلام قبول کیا اور ادھر ہمیں افغانستان یا ایران کی حکومت مل جائے گی۔یا اگر نہ ہؤا تو کسی مہاجن کا خزانہ ضرور مل جائے گا اور اگر یہ بھی نہ ہؤا تو کوئی عُہدہ تو ہاتھ سے جاتا ہی نہیں۔ان امیدوں اور خیالوں کی وجہ سے وہ قربانیاں بھی کرتے ہیں،وہ مال بھی دیتے ہیں،وہ وقت بھی خرچ کرتے ہیں،وہ جانی قربانیاں بھی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کیا ہؤا آج اگر ہم نے دس روپے دئیے تو کل دس ہزار مل بھی جائیں گے۔مگر جب دوسال،چار سال،دس سال، پندرہ سال، بیس سال گزر جاتے ہیں اور وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی حکومت نہیں ملی بلکہ جو کچھ پہلے ہمارے پاس تھا وہ بھی خرچ ہو گیا تو کہتے ہیں ہمارے ساتھ مکر اور فریب کیا گیا۔جو مؤمن ہوتا ہے وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ کل جو اسلام کی طاقت تھی آج اس سے کئی گُنابڑھ کر ہے۔پہلے اسلام کمزور تھا پھر طاقتور ہو گیا اور اب ہر روز اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔پس اس کا ایمان اسلام کی طاقت بڑھتے دیکھ کر تازہ ہو جاتا اور اس کا دل مسرت و انبساط سے بھر جاتا ہے اور وہ کہتا ہے خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ اسلام کو ہر روز غلبہ عطا فرما رہا ہے۔اسی طرح جو سچے دل سے احمدی ہوتا ہے وہ ہر سال کے خاتمہ پر دسمبر کے مہینہ میں یہی دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے کہ اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی ہزار آدمی اَور احمدی ہو گئے ہیں اور اس طرح اس کا ایمان لمحہ بہ لمحہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور چونکہ اس نے احمدیت کو احمدیت کی خاطر قبول کیا ہوتا ہے،کسی لالچ یا حرص کے ماتحت قبول نہیں کیا ہوتا اس لئے وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ پچھلے سال اتنے احمدی تھے اور اس سال اس سے بھی پانچ دس ہزار زیادہ ہو گئے ہیں تو وہ سمجھتا ہے کہ اسلام جیت گیا مگر جو منافق ہوتا ہے وہ یہ دیکھتا ہے کہ پہلے سال میں نے اتنا چندہ دیا۔دوسرے سال اس سے بڑھ کر دینا پڑا، تیسرے سال اس سے بھی زیادہ دینا پڑا،چوتھے سال اس سے زیادہ یہ حساب کر کے وہ کہتا ہے اوہو! میں تو نقصان اور گھاٹے کی طرف جا رہا ہوں۔میں نے سمجھا تھا تھیلیوں کے منہ میرے لئے کھل جائیں گے مگر یہاں تو اپنی جیب سے روپے خرچ کرنے پڑے اور پھر بھی کچھ نہ بنا۔پس منافق اپنی جیب کی طرف دیکھتا ہے اور چونکہ اس میں کمی ہو رہی ہوتی ہے اس لئے اس کا ایمان جاتا رہتا ہے لیکن مؤمن جماعت کی طرف دیکھتا ہے اور چونکہ اُس میں زیادتی ہو رہی ہوتی ہے اِس لئے اُس کا ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے اور وہ کہتا ہے فتح تو آرہی ہے مگر یہ کہتا ہے فتح نہیں آرہی اور دونوں اپنی اپنی جگہ سچے ہوتے ہیں۔یہ جب کہتا ہے فتح نہیں آرہی تو اِس وجہ سے کہتا ہے کہ یہ فتح مال کی زیادتی کو سمجھتا ہے اور چونکہ اس کا مال کم ہورہا ہوتا ہے اس لئے یہ مایوس ہو جاتا ہے اور کہتا ہے ہم سے جھوٹے وعدے کئے جاتے رہے ہیں لیکن مؤمن فتح اسلام کی ترقی کو سمجھتا ہے اور چونکہ اُس کی ترقی میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا ہوتا ہے اس لئے وہ خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے اَلْحَمْدُ ِﷲ خدا کی باتیں پوری ہو رہی ہیں۔تو یہ دو مختلف نقطہ ہائے نظر ہیں جن کے ماتحت مختلف نتائج پیدا ہوتے ہیں۔وہ جو خدا کی رضا اور اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے جماعت میں داخل ہوتا ہے وہ تو جماعت کی ترقی کو دیکھ کر یقین کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل آرہا ہے مگر وہ جو اپنے نفس کی کسی خواہش کو پورا کرنے کے لئے الٰہی سلسلہ میں داخل ہوتا ہے۔وہ پہلے قربانیوں میں شریک رہتا ہے اور دو، چار، پانچ، دس، پندرہ، بیس سال جتنا جتنا ایمان ہوتا ہے اتنا عرصہ چلتا چلا جاتا ہے مگر آخر حوصلہ ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے سب جھوٹ اور فریب ہے تو فرماتا ہے۔لَوْکَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا جس کام کے لئے تو کھڑا ہے اس میں کئی آدمی لالچ اور حرص کے خیالات کے ماتحت شامل ہو گئے تھے،اب اگر ان کا مقصود انہیں جلدی حاصل ہو جاتا(عَرَضًا کے معنی مطلب اور فائدہ کے ہیں)یعنی اگر ان کا وہ فائدہ اور مطلب جس کے لئے وہ اسلام میں داخل ہوئے تھے،سہلُ الْحصول اور بالکل قریب ہوتا وَسَفَراً قَاصِدًا اور سفر چھوٹا ہوتاکئی سالوں کے بعد اسلام کی ترقی نہ آنیوالی ہوتی لَاتَّبَعُوْکَ تو وہ آخر تک تیرے ساتھ چلتے اور اپنے عہد نبھادیتے وَلٰکِنْ بَعُدَتْ عَلَیْھِمُ الشُّقَّۃُ لیکن چونکہ سفر لمبا ہے اور ابھی ختم نہیں ہؤا اس وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ جھوٹ ہی ہے اور پھر مرتد ہو جاتے ہیں۔یعنی اگر وہ ظاہر میں بھی مرتد ہو جائیں تو کافر ہو جاتے ہیں اور اگر اندر ملے رہیں تو منافق بن جاتے ہیں۔
منافقوںکی تیسری قسم وہ ہے جن کے اندر ایمان تو ہوتا ہے مگر ساتھ ہی کفر بھی ہوتا ہے اور اس ایمان اور کفر کے اُن پر دَورے آتے رہتے ہیں۔کبھی ایمان کا دَورہ آجاتا ہے اور کبھی کفر کا دَورہ آجاتا ہے یہ عملی منافق ہوتے ہیں۔انہیں عقائد کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔وہ منافق ہوں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسیح موعود بھی مانیں گے۔گویااُن کا دماغ کہتا ہے کہ عقائدوہی درست ہیںجو اِس جماعت کے ہیں مگر چونکہ اُن کے دل کالگاؤ اور محبت کم ہوجاتی ہے،اِس وجہ سے اُن پر کفراور ایمان کا دَورہ آتا رہتا ہے۔کبھی کہتے ہیں یہ جماعت بہت بُری ہے اس میں شامل رہنے سے کیا فائدہ۔ اور کبھی کہتے ہیں اچھے لوگ ہیں، عقائد اِن کے خوب ہیں صرف فلاں فلاں باتیں اگر اِن میں نہ پائی جائیں تو پھر ٹھیک ہے۔ایسے منافقوں کا ذکر اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ میں ان الفاظ میں فرماتا ہے ۱۲؎چونکہ ان کے دل میںکفر اور ایمان ملا ہؤا ہوتا ہے اِس لئے گویہ خدا کو مانتے، اُس کے رسول کو مانتے اور باقی ارکانِ اسلام کو بھی درست تسلیم کرتے ہیں مگر ان کا ایمان سرحد پر ہوتا ہے کبھی اُنہیں ایسا دھکّا لگتا ہے کہ وہ کفر کی طرف جا پڑتے ہیںاور کبھی ایسا دھکّا لگتا ہے کہ ایمان کی طرف آجاتے ہیں۔چونکہ اُن کا ایمان صرف ذہنی ایمان رہ جاتا ہے محبت کا ایمان جاتا رہتا ہے اِس لئے اُن کی یہ حالت ہو جاتی ہے۔حالانکہ اصل خوبی محبت کے ایمان میںہی ہے ذہنی ایمان میں نہیں۔
محبت کی مثال میں ہی بیان کیا کرتے ہیں کہ کوئی بادشاہ تھا۔ایک دن وہ اپنے دربار میں ایک نہایت قیمتی ٹوپی لایا اور کہنے لگا آج ہم یہ ٹوپی اُس بچے کو دیں گے جو سب سے زیادہ خوبصورت ہوگا۔یہ کہہ کر وہ ٹوپی اُس نے اپنے ایک حبشی غلام کو دی اور کہا جو لڑکا سب سے زیادہ خوبصورت ہو اُس کے سر پر رکھ دو۔اب ان لڑکوں میں حبشی کا اپنا لڑکا بھی تھا اور امراء اور وزراء کے بھی لڑکے تھے۔ حبشیوں کی شکل یوں بھی خراب ہوتی ہے مگر اُس کا بچہ تو بہت ہی غلیظ اور گندہ تھا،ناک بہہ رہا تھا،آنکھوں میں گِد لگی ہوئی تھی اور مکھیاں اس پر بھنبھنا رہی تھیں وہ حبشی نہایت بے تکلفی کے ساتھ اس ٹوپی کو اٹھائے سیدھا اپنے لڑکے کی طرف گیا اور اُس کے سر پر ٹوپی رکھ دی۔یہ دیکھ کر سارے دربار میں قہقہہ لگا اور خوب اس سے ہنسی کی گئی اور کہا گیاکیا سب بچوں سے زیادہ خوبصورت تجھے اپنا بچہ ہی نظر آیا ہے؟وہ کہنے لگا۔ بادشاہ سلامت! آپ نے میرے ہاتھ میں ٹوپی دی تھی اور مجھے تو سب سے زیادہ یہی خوبصورت نظر آتا ہے۔تو جہاں محبت ہوتی ہے وہاں عیوب بھی خوبیاں دکھائی دیتے ہیں اور جہاں نفرت ہوتی ہے وہاں عیوب تو الگ رہے خوبیاں بھی عیب بن کر نظر آنے لگ جاتی ہیں۔
اب قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی انسان بے عیب نہیں حتی کہ بشریت کی کمزوریاں انبیاء میں بھی پائی جاتی ہیں۔پس جب کوئی بھی بے عیب نہیں تو کیا یہ جائز ہوگا کہ سوائے خدا کے ہر ایک کی عیب چینی اور نکتہ چینی کی جائے۔اگر نہیں تو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتوں پر نکتہ چینی کرنا بھی کسی صورت میں جائز نہیں ہو سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ جب کسی کے دل میں محبت والا ایمان نہیں ہوگا تو اسے خوبیاں بھی عیب نظر آئیں گے لیکن جب کسی کا ایمان کامل ہوگا تو معمولی عیوب کو دیکھ کر سمجھے گا کہ یہ لوگ قابلِ تحسین ہیں نہ کہ لائق ملامت کیونکہ یہ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان عیوب سے پاک ہو جائیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک استاد بچے کو پڑھاتا ہے تو بچہ کئی دفعہ غلطیاں بھی کرتا ہے مگر وہ اسے سمجھاتا ہے اور بار بار سمجھاتا ہے اور جب سبق کا زیادہ حصہ وہ یاد کر لیتا ہے اور ایک آدھ بات اُسے یاد نہیں رہتی تو اس پر خوش ہوتا ہے ناراض نہیں ہوتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے بچہ کوشش کر رہا ہے کہ مجھے سبق یاد ہوجائے اگر ایک آدھ اس سے غلطی ہو گئی ہے تو اس کی وجہ سے اس کی محنت کو باطل اور رائیگاں نہیں سمجھا جا سکتا۔یہی حال خدمتِ دین کا ہے اگر باوجود نیکی اور تقویٰ کے میدان میں آگے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرنے کے بعض سے غلطیاں ہو جاتی ہیں تو کامل مؤمن تو سمجھتا ہے کیا ہؤا جب یہ چوبیس گھنٹے خدمتِ دین میں لگے رہتے ہیں تو ایک آدھ غلطی اگر ان سے سر زد ہو جاتی ہے تو اِس سے کون سی قیامت آجاتی ہے خصوصًا اس صورت میں جب کہ ان کی یہ خواہش بھی ہے کہ اتنی غلطی بھی آئندہ ہم سے سر زد نہ ہو۔آخر ساری جماعت نمازیں پڑھتی ہے، روزے رکھتی ہے،زکوٰۃ دیتی ہے، چندے دیتی ہے،تبلیغ کرتی ہے،غریبوں کی مدد کرتی ہے،اتنی نیکیوں کے ہوتے ہوئے اگر کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو وہ سمجھتا ہے یہ ایسی ہی غلطی ہے جیسے بچہ سے تعلیم حاصل کرنے کے زمانہ میں ہو جاتی ہے۔ایسے مواقع پر عقلمند اُستاد ہمیشہ اُس کی حوصلہ افزائی کرتا اور کہتا ہے تُو خوب ہوشیار ہے اور اگر اس لڑکے کا باپ اُسے مل جائے تو اُسے بھی وہ یہی کہتا ہے کہ آپ کا لڑکا بڑا ہونہار ہے یہ نہیں کہتا کہ آپ کا لڑکا بڑا نالائق ہے۔میں نے اسے سوال دیئے تھے ان میں سے نو اِس نے حل کر لئے مگر ایک حل نہ کر سکا۔وہ سمجھتا ہے جب اس نے نو سوال حل کر لئے ہیں تو یہی اس کی بڑی ذہانت ہے بقیہ ایک سوال بھی آہستہ آہستہ حل کر لے گا۔اسی طرح جو مؤمن ہوتا ہے اُسے تو یہ نظر آتا ہے کہ جماعت نیکی اور تقویٰ اور قربانیوں اور دین کی خدمت میں لمحہ بہ لمحہ بڑھتی چلی جارہی ہے اور جو کمزور ہیں وہ بھی اپنی کمزوری کو ناپسند کرتے اور اس بات کے خواہشمند ہیں کہ کسی طرح یہ کمزوریاں ان سے دور ہوجائیں۔یہ اللہ تعالیٰ کے سپاہی ہیں جو اس کی راہ میں لڑرہے ہیں۔سپاہی کا کام یہ ہے کہ وہ لڑے اگر کوئی دشمن اُسے قتل کر دیتا ہے تو اس میں سپاہی کا کیا قصور ہے۔اس کا زیادہ سے زیادہ یہی کام تھا کہ مرتے دَم تک دشمن سے لڑائی کرتا۔سو جب اس نے مرتے دم تک دشمن سے لڑائی رکھی اور آخر اسی لڑائی میں اپنی جان دے دی تو اب وہ عزت کا مستحق ہوگیا۔یہ نہیں ہوگا کہ افسر اسے بُرا بھلا کہیں کہ یہ دشمن کے مقابلہ میں مرکیوں گیا؟ اسی طرح مؤمن جب دیکھتا ہے کہ جماعت کے لوگ نمازیں پڑھتے ہیں،روزے رکھتے ہیں،زکوٰۃ دیتے ہیں،حج کرتے ہیں،قربانیاں کرتے ہیں، استغفار پڑھتے ہیں،دعائیں کرتے ہیں اور باوجود اس کے کوئی خطا بھی ان سے سر زد ہو جاتی ہے اور وہ اس خطا کا ازالہ کرنے کے لئے تیار رہتا ہے تو وہ ان خطاؤں کو ایسا ہی سمجھتا ہے جیسے میدانِ جنگ میں لڑنے والا سپاہی بعض دفعہ دشمن کے مقابلہ میں مارا جاتا ہے۔اب یہ نہیں ہوتا کہ جو سپاہی دشمن سے لڑتا ہؤا مارا جائے اُسے فوج والے کوڑے لگانے شروع کر دیں اور کہیں کہ اس نے ہماری ہتک کی بلکہ وہ اس کی عزت کرتے ہیں کیونکہ وہ جو کچھ کر سکتا تھا اُس نے کر دیا۔اگر دشمن اُس پر وار کرنے میں ایک دفعہ کامیاب ہوگیا ہے تو اِس میں اُس کا کیا قصور ہے۔اُس کا کام صرف اتنا تھا کہ بچنے کی کوشش کرتا اور دشمن پر غالب آنے کی جدو جہد کرتا۔جب اُس نے یہ دونوں کام کر لئے تو نتیجہ کا وہ ذمہ دار نہیں۔ اسی طرح جب کوئی قوم رات دن دین کی خدمت میں مشغول رہتی ہے، رات دن بنی نوع انسان کی بہبودی کے کاموں میں مصروف رہتی ہے، رات دن اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے اور اُس کا جلال دنیا میں قائم کرنے کے لئے کوشاں رہتی ہے، تو اگر ان سب کوششوں کے ساتھ کوئی غلطی بھی کسی مؤمن سے ہو جاتی ہے تو وہ جماعت کی جدوجہد اور قربانیوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کمزوری کو وہ نظر انداز کر دیتا ہے۔جیسے اگر کوئی بیمار ہواور لڑائی کی خبر سن کر وہ بیماری کے باوجود چارپائی سے اُٹھ کر میدان میں چلا جائے اور لڑنا شروع کر دے تو چاہے وہ ایک گھنٹہ میں ایک ہی گولی چلائے تب بھی تم سب اُس کی تعریف کرو گے اور کہو گے یہ بیمار تھا مگر پھر بھی اس نے اس موقع سے پیچھے ہٹنا مناسب خیال نہ کیا ۔
تو مؤمن نگاہ تو یہ کہتی ہے کہ میرے بھائی میں اگر ایک عیب ہے تو سَو خوبیاں بھی تو ہیں۔ اس ایک کمزوری کے باوجود وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے شیطان سے جنگ کر رہا ہے اور اِس قابل ہے کہ اِسے سراہا جائے اور اِس کی خدمات کی تعریف کی جائے مگر جو منافق ہوتا ہے اُس کا قلبی لگاؤ چونکہ نہیں ہوتا اور محبت کا تعلق اُسے سلسلہ سے نہیں رہتا اِس لئے وہ اِس قسم کی بعض کمزوریوں کو دیکھ کر یہ کہنے لگ جاتا ہے اب پتہ لگا ان میں بھی فلاں فلاں عیب ہیں،ان میں بھی یہ یہ نقص پایا جاتا ہے اور چونکہ اب اس میں کچھ غیریت آنے لگ جاتی ہے اس لئے اب وہ اپنی جماعت کا ذکر’’ان ان‘‘کے الفاظ میں کرنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے ان میں یہ نقص ہے، ان میں وہ عیب ہے۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جماعت کو غلبہ حاصل ہونا شروع ہو جاتا ہے، ترقیات ملنی شروع ہو جاتی ہیں، طاقت حاصل ہو جاتی ہے اور جماعت کی کمزوریاں دب جاتی ہیں ایسی حالت میں منافق بھی ساتھ چل پڑتے ہیں۔اِس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے جلسوں میں بعض دفعہ جب نعرے لگائے جاتے ہیں تو چونکہ ایک رَو جاری ہوتی ہے اس لئے جب اللہ اکبر کا نعرہ لگے گا تو ایک منافق بھی زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگا دے گامگر جب اپنے گھر میں جائے گا تو چونکہ وہاں وہ رَو نہیں ہوگی اس لئے وہ اپنے دل کو جذباتِ محبت سے بالکل خالی پائے گا۔مجھے ان منافقین کی مجالس کی باتوں کا علم ہے۔مجھے معلوم ہے کئی دفعہ ان میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ بعض لوگ میری نسبت یہ کہتے ہیں یہ عجیب قسم کا آدمی ہے۔ہے تو بالکل بُرا مگر جب تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو ایسی تقریر کرتا ہے کہ ہمیں بھی اس کی باتیں سچی معلوم ہونے لگتی ہیں مگر جب ہم اپنے گھر میں آکر ان باتوں پرغور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل جھوٹی ہیں۔یہی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںفرماتا ہے کہ جب دین اُن پر زور سے حملہ کرتا ہے تو انہیں بھی کچھ روشنی نظر آنے لگ جاتی ہے اور وہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ یہ باتیں جو پیش کی جاتی ہیں سچی ہیں۔۔مگر جب وہ خدا کے نور اور اس کے خلیفہ سے دور ہو جاتے ہیں تو پھر منافقت اُن میں آجاتی ہے۔ یا اِس کے یہ معنے بھی ہیں کہ ترقی اور آرام کا زمانہ آئے تو ساتھ شامل رہتے ہیںمگر جب قربانیوں کا وقت آجائے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیںمگر اُن کے دلوں میں ایک حد تک ایمان ضرور ہوتا ہے۔ انہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۱۳؎۔ان کے دلوں میں ایمان بھی ہے مگر ساتھ ہی ایک مرض بھی ہے یعنی گو ان کے اندر ایمان پایا جاتا ہے مگر ان کے دل مریض ہیں۔عربی زبان کے لحاظ سے کے یہ معنے بنیں گے کہ یوں ایمان ان کے دلوں میں ہے مگر ایک مرض بھی ہے ۔ایمان کُلّیتہً اُن کے دلوں سے گیا نہیں۔
چوتھی قسم کا منافق وہ ہوتا ہے جو یوں توپکّا مؤمن ہوتا ہے مگر اس کے اندر یہ کمزوری ہوتی ہے کہ وہ ناواجب دوستی کرتا ہے۔یوں وہ مؤمن ہوتا ہے پکا مؤمن مگر ناواجب دوستی کے مرض میں وہ مبتلا ہوتا اور اپنے منافق دوست کو نہیں چھوڑ سکتا بلکہ اس محبت کے جوش میں اُسے اپنے دوست کا عیب بھی نظر نہیں آتا۔ممکن ہے اسے عیب نظر آجائے تو وہ اُسے چھوڑ دے مگر اُس کا دل ایسی غلط محبت کاشکار ہو چکا ہوتا ہے جیسے عشق کا جنون بعض لوگوں کو ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے منافق دوست کے عیب کو نہیں دیکھ سکتا بلکہ اُس سے بڑھ کر وہ یہ کرتا ہے کہ اُس کے عیب کو خوبیاں سمجھتا ہے۔جیسے سورۃ توبہ رکوع ۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱۴؎فرماتا ہے اگر یہ منافق لوگ تیرے ساتھ چلے بھی جاتے تو فساد پیدار کرنے کے سِوا اور کیا کرتے ان کا بڑا کارنامہ یہی ہوتا کہ کسی کے آگے کچھ کہہ دیتے اور کسی کے آگے کچھ اور اس طرح ان میں لڑائی اور پھُوٹ ڈال دیتے یا اگر لڑائی میں جاتے تو دشمن کو خبریں پہنچاتے رہتے۔تو فرمایا اگر منافق نہیں گئے تو اس سے نقصان کیا ہؤا۔یہ تواچھا ہؤا کہ نہیں گئے۔یہ جاتے بھی تو یہی کرتے کہ ایک کی چغلی دوسرے کے پاس اور دوسرے کی چغلی تیسرے کے پاس کرتے۔ایک کے پاس جاتے اور اُسے کہتے کہ تیری نسبت فلاں شخص یوں کہتا ہے اور اُس کے پاس جا کر کہتے کہ تیری نسبت فلاں یہ کہہ رہا تھا اور اس طرح آپس میں لڑائیاں کرا دیتے پس اچھا ہی ہؤا جو یہ نہیں گئے۔اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافق کوئی باہر کے نہیں بلکہ مدینہ کے رہنے والے ہی تھے۔چنانچہ آیتوں کا مضمون صاف بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لئے تشریف لے گئے تو مدینہ سے کچھ لوگ اس جنگ میں شریک نہ ہوئے انہی کا خدا تعالیٰ نے ان آیات میں ذکر کیا ہے ااور انہی کو منافق قرار دیا ہے، پس یہ منافق وہی تھے جو مدینہ میں رہتے تھے۔مسلمانوں کی کمیٹیوں کے ممبر تھے اور محلوں میں ان کے ساتھ رہتے تھے۔اس کے بعد فرماتا ہے یہ منافق تو ہیں ہی مگر ان کے علاوہ بھی ایک اَور جماعت ہےتم میں ایک جماعت ہے جو تمہاری باتیں اُن تک پہنچاتی ہے۔جب ذکر ہوتا ہے کہ فلاں شخص منافق ہے تو وہ جھٹ دَوڑ کر اس کے پاس پہنچتا ہے اور کہتا ہے کہ تم تو اتنے مخلص ہو مگر دیکھو فلاں مجلس میں تمہاری نسبت لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ تم منافق ہو۔ایسا شخص منافق نہیں ہوتا مگر منافق کی سواری ضرور ہوتا ہے۔ اورمنافق اس کے ذریعہ اپنے مقصود کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یا جیسا کہ سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے ان کا نام ۱۵؎رکھا ہے کہ منافق بات کرتا ہے اور یہ اس کی بات کو پھیلا دیتا ہے اور اگر مؤمن کوئی بات کریں تو ان کی بات منافقوں تک پہنچا دیتا ہے اور کہتا ہے تم تو بڑے اچھے ہو مگر ان لوگوں کو نہ معلوم کیا ہو گیا ہے کہ وہ خواہ مخواہ تمہیں بدنام کرتے پھرتے ہیں۔یہ آپ منافق نہیں ہوتا مگر منافق تک خبریں پہنچائے بغیر بھی نہیں رہتا۔دوسری بات اس میں یہ پائی جاتی ہے کہ منافقوں کے اعتراضات کو پھیلاتا رہتا ہے۔منافق کہتا ہے جماعت خراب ہوگئی، اور یہ طوطے کی طرح اس فقرہ کو رٹنا شروع کر دیتا ہے اور جہاں بیٹھتا ہے کہتا ہے جماعت خراب ہوگئی جماعت خراب ہوگئی۔پس یہ مؤمن تو ہے مگر بے وقوف اور جاہل مؤمن ہے۔ایسا مؤمن ہے جو منافقوں کا ہتھیار ہے جب اس قسم کی باتیں کرنے کے نتیجہ میں گرفت کی جاتی ہے تو پکڑا یہ بے وقوف مؤمن جاتا ہے جو منافق کی بات طوطے کی طرح رَٹ کرہر شخص کے آگے بیان کر رہا ہوتا ہے اور منافق دندناتا پھرتا ہے کیونکہ منافق کا یہی کام ہے کہ ۱۶؎ وہ سینہ میں وسوسہ ڈال دیتااورآپ پیچھے ہٹ جاتا ہے تو یہ چوتھی قسم کا منافق ہے اور گو یہ اصل میں مؤمن ہوتا ہے مگراس کے اندر نِفاق سے ہمدردی اور منافقوں کی دوستی پائی جاتی ہے۔اس وجہ سے یہ بالکل ایمان کے کنارے پر کھڑا ہوتا ہے۔بالکل ممکن ہے یہ مؤمن ہی رہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی کوئی ایسا دھکّا لگے کہ خود بھی نِفاق کے گڑھے میں گر جائے اور اگر خود منافق نہ بھی بنے تب بھی بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ منافقوں کی سزا پا لیتا ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے۱۷؎دیکھو ظالموں کی طرف مت جھکو ورنہ تمہیں بھی آگ چھُو جائے گی۔یہ آیت بتاتی ہے کہ وہ جو ظالم نہیں وہ بھی بعض دفعہ ظالم کی دوستی کی وجہ سے جہنم میں چلے جاتے ہیں۔پس یہ گروہ ایمان کے لحاظ سے منافق نہیں ہوتا مگر منافقوں کی دوستی اِس کا شعار ہوتا ہے اور اِس وجہ سے زمرۂ منافقین میں شمار کیا جاتا ہے۔
یہ وہ چار قسم کے منافق ہیں جن کا قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے۔اب اگر تم ان چاروں کو مدنظر رکھو تو تمہیں کبھی دھوکا نہیں لگ سکتا۔بسا اوقات صرف اتناسمجھا جاتا ہے کہ منافق وہ ہوتا ہے جوایمان کے بغیر داخل ہوتا ہے۔یا منافق وہ ہوتا ہے جو گو ایمان کے ساتھ ہی سلسلہ میں داخل ہؤا ہوتا ہے مگر بعد میں کُلّی طور پر اس کے دل سے ایمان نکل جاتا ہے حالانکہ یہ صرف منافقوں کی دوقسمیں ہیں ورنہ ان کے علاوہ بھی منافقوں کی اور قسمیں ہیں۔ مثلاً ایک تو وہ منافق ہے جو عقائد میں ہمارے ساتھ متحد ہوتا ہے مگر اس کے دل میں بشاشتِ ایمان باقی نہیں رہتی اب اس کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ اعتراض کرتا رہتا ہے۔جب اسے فائدہ پہنچے گا ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گا اور جب اسے کوئی نقصان پہنچے گا وہ اعتراض کرنے لگ جائے گا۔قرآن کریم میں ان کا بڑا لطیف نقشہ کھنچا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب لڑائی میں نقصان ہوتا ہے تو منافق کہتے ہیں ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ لڑائی نہیں کرنی چاہئے مگر ہماری بات تو کوئی سنتا ہی نہیں۔ہم بہتیرے چیخے چِلّائے کہ دیکھو لڑائی کے لئے مت جاؤمگر ہماری ایک بھی نہ سُنی گئی۔ اس پر کمزور دل مؤمن سمجھتا ہے انہوں نے کہا تو تھا؟ معلوم ہوتا ہے یہ سچ کہتے ہیں۔اور وہ یہ نہیں جانتا کہ انہوں نے محض مسلمانوں کو کمزور کرنے اوران کے ارادوں کو پَست کرنے کے لئے یہ الفاظ کہے تھے خیر خواہی اور محبت کے لئے نہیں کہے تھے۔ تو کمزور ایمان والے منافقوں کی ایسی باتوں میں آجاتے ہیں اور اُن کو مخلص سمجھ کر اُن سے تعلقات رکھنے شروع کر دیتے ہیںحالانکہ منافق عملی طور پر سخت کمزور ہوتے ہیں اور اپنی عملی کمزوری کی وجہ سے ہی جماعت کی ترقی میں ہمیشہ روکیں ڈالتے رہے ہیں۔جہاں قربانی کا سوال آتا ہے وہاں یہ کہنا شروع کر دیتے ہیںکہ قربانیوں سے جماعت کی طاقت کو برباد کیا جا رہا ہے اور کمزور لوگ سمجھتے ہیں ان کے دل میں سلسلہ کا کس قدر درد ہے اور اگر کبھی کوئی قربانی نتیجہ خیز نہ ہو بلکہ جماعت کو اس کی وجہ سے کچھ نقصان پہنچے تو پھر تو پھُولے نہیں سماتے اور کہتے ہیں ہم نے نہیں کہا تھا اِس قسم کی قربانیاں بے فائدہ ہیں حالانکہ جہاں جماعت کو دس بیس کامیابیاں ہوئی تھیں وہاں انہوں نے کونسا مشورہ دیا تھا۔مگر جب کامیابی ہو تو اُس وقت تو منافق بالکل خاموش رہتا ہے اور جب کوئی ناکامی ہو تو بڑھ بڑھ کر باتیں شروع کر دیتا ہے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس کی غرض محض جماعت کو بدنام کرنا ہے اور کوئی نہیں۔ اور اگر فرض بھی کرو کہ ایک کام کا نتیجہ اتنا اچھا نہیں نکلا جس قدر اچھے نتیجہ کی ہمیں توقع تھی تو اس سے حرج کونسا ہؤا۔کیا وہ یہ نہیں دیکھتا کہ رات دن جماعت ترقی کر رہی ہے اور ہر روز اس کا قدم عزت اور شرف کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہے۔اب جن باتوں میں ہمیں کامیابی ہو رہی ہے کیا وہ باتیں ہم نے منافقوں سے پوچھ کر کی تھیں کہ نقصان کے موقع پر وہ اپنی ہمدردی جتانے کے لئے آگے آجاتا ہے۔مگر اس کی فطرت میں یہ بات داخل ہوتی ہے کہ جب کوئی نقصان ہو تو پھر اپنی خیرخواہی جتانے لگ جاتا ہے اور جب کامیابیاں ہی کامیابیاں حاصل ہوں تو دل ہی دل میں جل بھن کر خاموش رہتا ہے ۔اسی طرح جن جن امور میں اس کی باتیں غلط ثابت ہوتیںاور جن قربانیوں کے متعلق اس کی رائے بالکل بیہودہ ثابت ہوتی ہے،انہیں تو کھا جاتا ہے مگر جب کوئی ایک آدھ بات درست نکلے تو اسے لے بیٹھتا ہے اور کہتا ہے میںنے نہیں کہا تھا کہ اس سے نقصان ہوگا۔
تو چوتھی قسم کا منافق وہ ہے جو پورا مؤمن ہوتاہے مگر منافق اُس کے دوست ہوتے ہیں اور ان کی غلط دوستی اختیار کر لینے کی وجہ سے سلسلہ کو اس کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے اور اُسے اپنے منافق دوست کی غلطی محسوس تک نہیں ہوتی اور وہ باوجود مؤمن ہونے کے مؤمنوں پر عیب لگاتا ہے۔مؤمن خدا کی بات کہتا ہے تو وہ جھٹ بول اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھو کسی پر بدظنی نہیں کرنی چاہئے۔اس کے مقابلہ میں منافق اعتراض کرتا ہے تو وہ بیٹھا ہؤا کہہ رہا ہو تا ہے سُبْحَانَ اﷲِکیسا مخلص ہے سلسلہ کا اِس کے اندر کتنا درد ہے۔تو دوستی کی وجہ سے منافق کی بُری بات بھی اُسے اچھی لگتی ہے اور مؤمن کی اچھی بات بھی اُسے بُری لگتی ہے۔وہ ہوتا مؤمن ہے مگر نام اس کا منافقوں میں ہوتا ہے اورکے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے کبھی کبھی وہ اس کی سزا بھی پا لیتا ہے۔اگر آپ لوگ میری اس تشریح کے بعد سمجھ لیں کہ منافقین کے چار گروہ ہوتے ہیں تو میں یقین رکھتا ہوںکہ بہت حد تک آپ غلط فہمیوں سے بچ جائیں ۔
اب کئی دوستوں کو محض اِس وجہ سے دھوکا لگ جاتا ہے کہ جب انہیں معلوم ہوتا ہے فلاں شخص منافق ہے تو وہ یہ دیکھتے ہیں کہ آیا وہ وفاتِ مسیح کا قائل ہے یا نہیں، یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی مانتا ہے یانہیں، یا خلافت کا قائل ہے یا نہیں اور جب وہ دیکھیں کہ وہ وفاتِ مسیح کا بھی قائل ہے، وہ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی تسلیم کرتا ہے، وہ خلافت کا بھی قائل ہے تو کہتے ہیںہمارے بھائیوں کو غلطی لگی ہے وہ منافق نہیں ہے وہ تو تمام عقائد کو تسلیم کرتا ہے حالانکہ قرآن کریم کہتا ہے یوں تو وہ مؤمن ہی ہیں مگر ان کے دلوں میں ایک مرض ہے۔ جب کبھی سہولت اور آرام کا زمانہ ہوتا ہے تو آگے آگے چل دیتے ہیں۔نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں۔مگر جہاں کوئی امتحان کا وقت آیا اور انہوں نے پیچھے ہٹنا شروع کردیا وہ اُس وقت کھڑے ہو جاتے ہیں وہ کہتے ہیں ہمارا دل نہیں مانتا کہ ان قربانیوں سے کوئی فائدہ ہو۔ایسے انسان کو اگر عقائد کے لحاظ سے تم دیکھو گے تو ضرور دھوکا کھاؤ گے اور دوسرں کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب بنو گے بلکہ میں کہتا ہوں ایمان ہی نہیں عمل کو بھی اگر دیکھو گے تو تم یہ اندازہ نہیں لگا سکو گے کہ یہ منافق ہے۔ وہ نمازیں بھی پڑھے گا، وہ روزے بھی رکھے گا، وہ زکوٰۃ بھی دے گا، وہ حج بھی کرے گا، وہ چندے بھی دے گا،وہ تبلیغ بھی کرے گا،وہ قربانیوں کے مطالبات میں بھی شامل ہوگا،وہ جلسوں میں تقریریں بھی کرے گا،اِسی طرح وہ عقائد میں ہمارے ساتھ متحدہوگا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا مأمور سمجھے گا،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النّبیّٖن یقین کرے گا،قرآن کریم کو سچا سمجھے گا،خدا کو واحد اور لاشریک تسلیم کرے گا۔غرض عقیدہ بھی اُس کا وہی ہوگا جو تمہارا ہے اُس کا عمل بھی وہی ہوگا جو تمہارا ہے مگر جو چیز اُس کے اندر منافقت ثابت کررہی ہوگی وہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے دشمنوں کا دوست ہوتا ہے،وہ منافقوں سے محبت اور پیار رکھتا ہے اور اُن کی عزت اُسے اِس قدر منظور ہوتی ہے کہ وہ مؤمنوں کے تریاق کو پاخانہ سمجھتا مگر منافقوں کے پاخانہ کو تریاق سمجھتا ہے۔ایسے منافق کو اگر تم عقائد سے پرکھنا چاہو تو کیا تم پرکھ سکتے ہو؟ یا ایسے منافق کو تم اعمال سے پرکھنا چاہو تو کیا تم اُس کی منافقت کو پرکھ سکتے ہو؟ سوائے اِس کے اور کسی چیز سے معلوم نہیں کر سکتے کہ وہ منافقوں کی حمایت کرتا ہے، وہ منافقوں کا دوست ہوتا ہے اور منافقوں کی بُری باتیں مؤمنوں میں پھیلاتا اور مؤمنوں کی آراء منافقوں تک پہنچاتا ہے ایسا شخص عقیدے کے لحاظ سے منافق نہیں مگروالا منافق ضرور ہے۔ وہ خود ظالم نہیں مگر ظالم کامُعین اور مدد گار ہے۔ اُن ظالموں کامُعین ومددگار جن کے متعلق خدا تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ انہیں دوزخ کے سب سے نچلے حصہ میں ڈالا جائے گا اور چونکہ اُس نے اِس جماعت کے لوگوں سے دوستی ترک کرد ی جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدتھی اور اِن کے ساتھ اُس کی دلی وابستگی نہ رہی اور بد قسمتی سے اُس کی دوستی اُن لوگوں کے ساتھ ہو گئی جو منافق تھے اور جن کے دلوں میں مرض پایا جاتا تھااِس لئے اب وہ اس دوستی کی وجہ سے ہمیشہ ان کا ساتھ دیتا ہے انہیں بڑا مخلص اور نیک قرار دیتا ہے اور اگر وہ کوئی اعتراض کریں تو کہتا ہے یہ تو اصلاح کی خاطر اعتراض کر رہے ہیں ان کی غرض کوئی فتنہ و فساد پیدا کرنا تھوڑا ہے۔ پس وہ اعتراض کانام اصلاح رکھتے، بد گوئی کا نام خیر خواہی رکھتے اور عیب چینی کا نام نصیحت رکھتے ہیں اور اسی کو قرآن کریم نے منافقت قرار دیا ہے۔چنانچہ وہ فرماتا ہے منافقوں کو جب پکڑا جاتا ہے تو کہتے ہیں۱۸؎ہم تو صرف اصلاح کی نیت سے یہ باتیں کر رہے تھے حالانکہ اگر ان کا مقصد محض اصلاح ہوتا تو اُنہیں چاہئے تھا کہ نظام سلسلہ کے ذمہ داروں کے نوٹس میں وہ امر لاتے نہ یہ کہ الگ تھلگ بیٹھ کر اپنی مجالس میں ان باتوں کو بیان کرتے اور اس طرح لوگوں کے قلوب میں مختلف قسم کے وساوس پیدا کرتے۔
اگر ہماری جماعت کے دوست ان چاروں قسم کے منافقین کو اچھی طرح سمجھ لیں تو بہت سے فتنوں کا سدِّ باب ہو سکتاہے۔مجھے ہمیشہ یہ حیرت ہوتی ہے کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے جب بعض کومعلوم ہوتا ہے فلاںمنافق ہے تو وہ اُس کے پاس جاتے اور اُس سے کسی مسئلہ کے متعلق گفتگو شروع کردیتے ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ مسائل میں اُسے کوئی اختلاف نہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بھائیوں کو غلطی لگی ہے یہ تو حضرت مسیح موعود کو نبی مانتا ہے۔ پھر وہ دیکھتے ہیں کہ وہ نماز پڑھتا ہے یا نہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ وہ نمازوں میں بھی باقاعدہ ہے تو کہتے ہیں کہ اب یقین ہوگیا کہ ہمارے بھائیوں کو اس کے متعلق ضرور غلط فہمی ہوئی ہے۔پھر وہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ چندے دیتا ہے یا نہیں اور جب اُنہیں معلوم ہو کہ چندے بھی دیتا ہے تو پھر اُنہیں حقُّ الْیقین ہو جاتا ہے کہ وہ منافق نہیں حالانکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ ایک منافق ایسا بھی ہوتا ہے جو اعمال کے لحاظ سے ویسے ہی عمل کرتا ہے جیسے مؤمن اور عقائد کے لحاظ سے ویسے ہی عقائد رکھتا ہے جیسے مؤمن مگر پھر بھی منافق ہوتا ہے۔ آخر جب خدا نے یہ کہا ہے کہ کہ تم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اُن تک خبریں پہنچاتے ہیں تو اِس کے یہ معنے تو نہیں ہیں کہ وہ مدینہ میں رہنے والے ہیں،کے یہ معنی بھی نہیں کہ وہ تمہارے ساتھ لڑائیوں میں شامل ہونے والے ہیں بلکہ کے یہ معنی ہیں کہ وہ بظاہر تمہاری طرح نہایت پکے مسلمان ہیں،وہ تمہاری طرح نمازیں پڑھتے، تمہاری طرح روزے رکھتے، تمہاری طرح زکوٰتیں دیتے، تمہاری طرح حج کرتے اور تمہاری طرح جہاد میں شامل ہوتے ہیں۔اگر اس ایک بات کو نکال دیا جائے جو اُن میں پائی جاتی ہے تو تم میں اور اُن میں کوئی فرق نہیں ہوگا مگرکے حکم کی خلاف ورزی نے باوجود تم میں سے ہونے کے اُنہیں منافقوں میں شامل کر دیا ہے ورنہ عمل اُن کا وہی ہے جو تمہارا ہے، عقیدہ اُن کا وہی ہے جو تمہارا ہے۔
بعض نے کہا ہے چونکہ یہ آیت رستہ میں نازل ہوئی تھی اِس لئے اِس سے مراد وہ لوگ ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور مسلمانوں کی باتیں سن کر منافقوں تک پہنچا دیتے تھے۔ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ان معنوں کو لیا جائے تب بھی وہی بات آجائے گی جومیں نے بیان کی ہے کہ وہ لڑائی میں شامل ہوئے،اُنہوں نے جہاد میں حصہ لیا، وہ مسلمانوں کے دوش بدوش لڑے اور سب جانتے تھے کہ وہ منافق نہیں بلکہ مخلص ہیں سوائے اُن چند لوگوں کے جن کے متعلق یہ آیت نہیں اور جو درمیان میں ایک جگہ شرارتًا بیٹھ گئے تھے باقی سب مخلص تھے قرآن کریم خود اِس امر کی وضاحت کرتا اور فرماتا ہے کہ اگرمنافق نکلتے تو تمہیں فائدہ تو کوئی نہیں پہنچتا البتہ نقصان ضرور ہو جاتا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر منافق لڑائی میں شامل نہ ہوئے تھے پس میں جن لوگوں کاذکر ہے وہ منافق نہیں بلکہ مومن ہیں اور اگر ان میں نِفاق ہے تو اتنا کہ وہ بدقسمتی سے منافقوں سے دوستی رکھتے ہیں۔اُن تک مسلمانوں کی خبریں پہنچاتے اور اُن کے اعتراضات طوطے کی طرح رٹ کر عام لوگوں میں پھیلاتے ہیںلیکن عام تعلقات منافقوں سے رکھنے کے باوجود وہ نمازیں پڑھتے، وہ روزے رکھتے، وہ زکوٰۃ دیتے، وہ حج کرتے اور باقی تمام احکامِ اسلام کو بجا لاتے ہیں لیکن باوجود ان احکام کی بجا آوری کے وہ ایسے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں کہ منافقوں کی تائیدکرتے اور اس طرح جماعت میں فتنہ و فساد پیداکرتے ہیں۔ یہ منافق نہیں ہوتے مگر اس وجہ سے کہ منافقوں سے تعلقات رکھتے ہیں قریب ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں منافقوں میں شامل کر دے یا وہی سزا ان پر بھی وارد کردے جو اُس کے حضور منافقوں کے لئے مقدر ہے۔
پس مَیں منافقوں کی ان چاروں اقسام کی طرف جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے کہتا ہوں کہ جب تم پہلی دو قسموں کے منافقوں کو پہچانتے ہو تو باقی دو کو بھی تلاش کرو۔پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کے فضل کس سُرعت سے تم پر نازل ہوتے اور تمہارے قدم کو کتنی جلدی میدانِ ترقی میں آگے سے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ایسے لوگ ہماری جماعت میں بھی ہیں اور وہ طرح طرح کے فتنے پیدا کرتے رہتے ہیں مگر وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔کامیاب ہمیشہ الٰہی سلسلہ ہوتا ہے اور اب بھی اللہ تعالیٰ کا سلسلہ ہی کامیاب ہوگا۔ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ منافقوں کی رُکاوٹوں کی وجہ سے وہ فتح جو احمدیت کو بیس سال میں ہوتی ہے وہ بجائے بیس سال کے تیس سالوں میں ہومگر یہ نہیں ہوسکتا کہ فتح نہ آئے لیکن کیا تم یہ پسند کرو گے کہ خدا تعالیٰ کا نور دس سال اَور پیچھے جا پڑے؟
مجھے افسوس ہے کہ کئی نادان ہماری جماعت میں ایسے بھی ہیں جو یہ کہا کرتے ہیں کہ ان منافقوں کی ریشہ دوانیوں سے حرج کیا ہے جبکہ ہماری فتح یقینی ہے حالانکہ وہ اِتنا نہیں سمجھتے کہ بے شک ہماری فتح یقینی ہے مگر ان کی کوششوں اور فتنوں کے نتیجہ میں یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ فتح جو دس سالوں میں ہونی ہے وہ بجائے دس سالوں کے بیس سالوں میں ہو اور اس طرح دس سال فتح میں دیر ہو جائے حالانکہ مؤمن تو ایک منٹ کی دیر بھی پسند نہیں کرتاکُجا یہ کہ وہ دس یا بیس سال کی دیر کو پسند کرے۔ کیا اگر کسی کا اکلوتا بیٹا بیمارہواور ڈاکٹر اُس سے یہ کہے کہ وہ بیس دنوں میں اچھا ہو جائے گا لیکن اسی دوران میں ایک اَور ڈاکٹر آجائے اور کہے تم میرے ساتھ ٹھیکہ کر لو۔ اتنی فیس مَیں لوں گا اور اِسے دس دن میں اچھا کر دوں گاتو کیا کوئی ایک باپ بھی ایسا ہو سکتا ہے جس کے پاس روپیہ ہو اور وہ پھر یہ پسند نہ کرے کہ اُس کا اکلوتا بیٹا بیس دنوں کی بجائے دس دنوں میں اچھا ہو جائے؟ میں تو سمجھتا ہوں اگر کسی شخص کے پاس روپیہ ہوگا تو وہ سینکڑوں روپے دے کر بھی یہ چاہے گا کہ اس کا بیٹا بیس دن کی بجائے دس دن میں اچھا ہو جائے۔مگر کیا تمہاری یہ تمام سخاوت دین کے معاملہ میں بھی آکر یہی ظاہر ہوتی ہے اور تم کہتے ہو کہ اگر دس سال کی بجائے بیس سال میں اسلام کو فتح ہو جائے تو کیا حرج ہے۔ گویا تمہارے نزدیک دس سال کی دیر کوئی دیر نہیں ۔کہتے ہیں ’’حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ‘‘۔ تم اپنے معاملہ میں تو یہ پسند نہیں کرتے کہ ایک یادو دن کی دیر بھی ہو مگر جب خدا تعالیٰ کے دین کا معاملہ آجائے توکہنے لگ جاتے ہو کیا حرج ہے دس سال نہ سہی بیس سال میں فتح ہو جائے گی۔تم اپنے معاملات میں تو ہمیشہ نتائج کو پہلے دیکھنے کی کوشش کیا کرتے ہو،پھر تمہیں کیا ہو گیاکہ تم یہ نہیں چاہتے کہ خدا تعالیٰ کا نور دنیا میں جلد سے جلد پھیلے اور درمیان میں جس قدر روکیں ہیںوہ دور ہو جائیں۔
ایک زمیندار کو اگر کوئی شخص کہے کہ تمہاری کھیتی چھ ماہ کی بجائے تین ماہ میں پک کر تیار ہو سکتی ہے اور میں اِس کا ذمہ لیتا ہوںتو تم دیکھو گے کہ وہ فوراً اِس کوشش میں لگ جائے گا کہ اُس کی کھیتی کسی طرح جلدی پک کر تیار ہو جائے۔پس ذاتی امور میں تو تم نتائج کو جلد سے جلد دیکھنے کے متمنی ہوتے ہومگر جب خدا تعالیٰ کا معاملہ آجائے تو اُسے آخر سے آخر وقت تک ڈالنے کے لئے تیار ہو جاتے ہو۔یہ کوئی خوبی کی بات نہیں بلکہ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بے دینی کی رگ ہے جوتمہارے اندر پائی جاتی ہے۔ورنہ جو شخص دین سے محبت کرتا ہے وہ تو کہے گا کہ میرا کام بے شک پیچھے پڑا رہے مگر خدا تعالیٰ کے دین کا کام نہ رُکے۔ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت اگر تم اپنے اِرد گرد نظر ڈالو تو تمہیں منافق بھی نظر آنے لگ جائیں گے۔اور پھر تم منافقین کے فتنہ کی اہمیت کو بھی سمجھ سکو گے۔تم ہمیشہ اس نقطہ نگاہ سے دیکھا کرتے ہو کہ یہ خدا کا دین ہے اور آخر یہ کامیاب ہو کر رہے گا۔بیشک یہ کامیاب ہوگامگر کیا تم یہ پسند کرو گے کہ اس کی ترقی دس یا بیس سال اور پیچھے جا پڑے؟ اوراگر تم کہو کہ ہاں ہم یہ پسند کرتے ہیں تو تم مجھے معاف کرومجھے تمہارے دین اور ایمان کے متعلق شُبہ پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی مَیں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ لوگ بھی غلطی پر ہیں جو منافقوں سے گھبرا جاتے ہیں۔گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔منافق ہر الٰہی سلسلہ میں پیدا ہوئے اور پیدا ہوتے رہیں گے اور منافقوں کو ظاہر کرنا اور منافقت کو کچلنا ہر مؤمن کا فرض ہے۔نِفاق کا مرض کوڑھ کی طرح ہوتا ہے۔جس طرح کوڑھ پہلے تھوڑا ہوتا ہے اور پھر پھیلتے پھیلتے تمام جسم کو ماؤف کر دیتا ہے اِسی طرح نِفاق بھی آہستہ آہستہ انسانی قلب کو بالکل سیاہ کر دیتا اور اُس کے نورِ ایمان کو سلب کر لیتا ہے۔
پس نفاق کامقابلہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کایہ اولین فرض ہے کہ وہ نہ صرف خود نِفاق سے بچے بلکہ دوسروں کو بھی نِفاق سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے اور منافقوں کو اُن کی تدابیر اور منصوبوں میںپوری طرح ناکام کر دے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کو منافقوں کے پہچاننے اور اُن کا مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسی طاقت اُنہیں بخشے کہ وہ منافقوں کا پوری طرح مقابلہ کریں تا دینِ اسلام کو جلد سے جلد فتح حاصل ہواور خود اُن کے اندر ایسی یک جہتی اور اتحاد پیدا ہو جائے کہ دشمن ہزار وسوسے ڈالے وہ ان کے اتحاد اور یک جہتی کو توڑ نہ سکے وہ بنیانِ مرصوص ہو کر دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہوں اور ہر کمزوری اور ہر رخنہ اُس کے فضل سے دور ہو جائے۔ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔‘‘ (الفضل ۱۲؍اگست ۱۹۳۸ئ)
۱؎ بخاری کتاب النکاح باب المَرْئَ ۃُ رَاعِیَۃٌ فی ببْتِ زَوْجِھَا
۲؎ النسآئ: ۳۵
۳؎ بخاری کتاب الاذان باب الاذان لِلْمُسَافِرِیْنَ… ۔(مفہوماً)
۴؎

(الاعراف:۳۹)
۵؎ ترمذی کتاب البروالصلۃ باب مَاجَائَ فی الْاِقْتِصَادِ فی الْحُبّ وَ الْبُغْضِ
۶؎ مسلم کتاب المساقاۃ باب الْاَمْرُ بِقَتْلِ الْکِلَابِ
۷؎ الکھف: ۷۹ ۸؎ الماعون: ۵ تا ۷ ۹؎ البقرۃ: ۹
۱۰؎ التوبۃ: ۶۶ ۱۱؎ التوبۃ: ۴۲ ۱۲؎ البقرۃ:۲۱
۱۳؎ البقرۃ:۱۱ ۱۴؎ التوبۃ: ۴۷ ۱۵؎ الاحزاب:۶۱
۱۶؎ الناس: ۶ ۱۷؎ ھود: ۱۱۴ ۱۸؎ البقرۃ:۱۲

۲۶
خالق و مخلوق دونوں کے کامل مظہر بنو
(فرمودہ ۱۲؍اگست ۱۹۳۸ء )
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’ہر انسان کے اندراللہ تعالیٰ نے دو قسم کے حواس رکھے ہیں۔ایک وہ حواس ہیں جو اس کے تعلقات کو بیرونی دنیا سے قائم کرتے ہیں اور ایک وہ حواس ہیں جو اس کے تعلقات کو خود اس کے جسم کے اندرونی حصوں سے قائم کرتے ہیں۔یہ دونوں قسم کے حواس اپنی اپنی جگہ پر نہایت ہی ضروری ہیں۔جو حواس انسان کے اپنے نفس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ قائم مقام ہیں مخلوق کے اور جو حو اس بیرونی دنیا کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ قائم مقام ہیں خالق کے۔گویا انسان ایک مرکزی نقطہ ہے جس پر خالق کی طرف سے ایک وتر آکر گرتا ہے اور ایک مخلوق کی طرف سے آکرگرتا ہے۔وہ اپنے اندر الٰہی صفات کو بھی پیداکرتا ہے اور عبودیت کرنے والے وجود جو اللہ تعالیٰ کی ذات پر دال ہیں ان کو بھی اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور جو تشبیہی یا تنزّلی صفات کہلاتی ہیں وہ وہی ہیں جن سے خدا تعالیٰ اور بنی نوع انسان کے درمیان واسطہ ہوتا ہے اور خدائی صفات ان کے اندر آکر اپنی قوتوں اور طاقتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔مثلاً اللہ تعالیٰ رحم کرتا ہے اور رحم کا وجود چاہتا ہے کہ کوئی اور ہستیاں ہوںجن پر رحم کرے اور جبکہ وہ رحم کرتا ہے تو ضروری ہے کہ رحم کے دو مقتضیات اس کے اندر پائے جائیں۔یعنی وہ سننے والا بھی ہو اور دیکھنے والا بھی۔تا اس کے رحم کی مستحق جو مخلوق فریاد کرسکتی ہے اسے سن کر رحم کرے اور جو فریاد نہیں کر سکتی ان کی کسی فریاد کے بغیر ہی ان کی حالت کو دیکھ کر ان پر رحم کرے۔پھر اس رحم کے تقاضا کے ساتھ رحم کا انتہائی حصہ ہدایت ہوتی ہے۔یعنی جبکہ ایک ہستی یہ چاہتی ہے کہ دوسری کو ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر اوپر لے جائے۔رحمت کا ادنیٰ مفہوم شفقت ہے یعنی تکلیف کو دور کرنا اور اس کے اعلیٰ حصہ میں ترقی دینے کی خواہش ہوتی ہے۔ایک تندرست بچہ جسے کوئی بیماری نہیں اس کا معدہ بھی اچھا ہے،اسے کھانے کو بھی مل جاتا ہے،دیکھنے کے لئے آنکھیں موجود ہیں اور نظارے بھی مہیا ہیں کان ہیں اور اس کے ایسے رشتہ دار بھی موجود ہیں جن کی باتیں وہ سن سکے اس کے لئے جسمانی طور پر کسی شفقت کا موقع نہیں کیونکہ اس کی ہر طبعی ضرورت پوری ہے لیکن اس کی طبعی ضرورتوں کا پورا ہو جانا اسے کسی بلند مقام پر کھڑا نہیں کرتا بلکہ اس کے لئے اور چیزوں کی ضرورت ہے جو اسے دوسری اشیاء سے ممتاز کردیں،اس کے طبعی مقام کو بلند کر کے اسے اوپر لے جائیں جسے دیکھ کر ہر شخص کہے کہ یہ اپنے طبعی مقام سے اوپر پہنچ گیا ہے اور اس طرح اس نے ایک امتیاز حاصل کر لیا ہے اور اس کے لئے تعلیم اورہدایت کی ضرورت ہوتی ہے۔
پس رحم کاآخری حصہ ہدایت ہے اور اس کا ادنیٰ مقام شفقت ہے۔دوسرے کی کمزوری کو محسوس کرنا اور اسے دور کرنا یہ تو شفقت ہے لیکن جب کوئی کمزوری اور تکلیف نہ ہو تو اسے بلند مقام پر لے جانے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ احسان ہے اور اسے مکمل کرنے کے لئے صفتِ ہدایت کی ضرورت ہوتی ہے۔جس طرح شفقت کے پورا ہونے کے لئے سمع و بصر کی صفاتِ ضروری ہیں،اسی طرح احسان کے مکمل ہونے کے لئے ہادی ہونا ضروری ہے اور خدا ہادی ہے،وہ ہادی بھیجتا بھی ہے اور خود بھی رہنما کی صورت اختیارکرتا ہے اور انسان کے آگے آگے چلتا ہے حتّٰی کہ اسے وہ مقام حاصل ہوجاتا ہے کہ جس کے پانے سے وہ دوسروں سے ممتاز نظر آنے لگ جاتا ہے اور ثابت ہو جاتا ہے کہ اُسے دوسری مخلوق سے کچھ امتیاز حاصل تھا اور وہ اپنے اندر کچھ الوہیت کی صفات بھی رکھتا ہے۔
ہدایت کا ظاہری نمونہ زبان ہے ۔زبان کی گفتگو سے انسان دوسرے کو ہدایت دیتا ہے اور اس کی تکمیل کے لئے حرکت کی ضرورت ہے۔عربی میں ہدایت کے تین معنے ہیں۔رستہ بتانا، رستہ دکھانا۔اور رستہ پر لیتے چلے جانا۔۱؎کبھی کوئی شخص تم سے رستہ پوچھتا ہے تم کسی کام میں مشغول ہوتے ہو یا طبیعت میں بخل کا مادہ ہوتا ہے یا احسان کامادہ نہیں ہوتا۔تم ہل چلا رہے ہوتے ہو یا لکڑیاں کاٹتے ہو تو وہیں سے منہ اٹھا کر کہہ دیتے ہو کہ اس طرف چلے جاؤ آگے دو رستے ہوں گے وہاں سے اس طرف ہو جانا۔تم اسے رستہ تو بتا دیتے ہو مگر اپنی جگہ سے ہلتے نہیں ہو۔اس سے ایک اجنبی آدمی جسے رستہ پانے کی مشکلات ہونگی اور جو اس علاقہ کا واقف نہ ہوگا اس کے دل کی گھبراہٹ دور نہ ہو سکے گی گو وہ تمہارا ممنون ہوگا اسے خدشہ ہوگا کہ شاید کہیں بھول جاؤںاور وہ تسلی کے لئے بعد میں اگر کوئی اور شخص اسے ملے تو وہ اس سے بھی پوچھتا ہے کہ فلاں مقام کو کونسا رستہ جاتا ہے۔لیکن اگر تمہارے اندر احسان کا مادہ زیادہ ہے یاتمہیں فرصت ہے اورنیکی کی طرف تمہاری طبیعت راغب ہے تو تم اسے کہتے ہو کہ بھائی جی آؤ میں رستہ دکھاؤں اور اس کے ساتھ جا کر عین اس جگہ اسے چھوڑ آتے ہو جہاں سے دھوکا لگ سکتا تھا اور پھر اسے بتا دیتے ہو کہ سیدھے چلے جاؤ لیکن اگر منزل دور اور رستہ پیچیدہ ہے تو کچھ دور تک جا کر اسے پھر مشکل پیدا ہوگی اور وہ پھر پوچھے گا۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ اگر تمہیں مقدرت اور توفیق ہے طبیعت میں نیکی اور احسان کا مادہ بہت زیادہ ہے تو تم اس کے ساتھ ہو جاتے ہو اور گھر پہنچا آتے ہو اور دکھا آتے ہو کہ یہ جگہ ہے۔مجھے یاد ہے جب ہم ولائت گئے تو ہم ایسی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے جہاں سے مسجد احمدیہ دس بارہ میل تھی۔منتظمین کو بھی اس کا خیال نہ آیا کہ ممکن ہے ان کو یہاں پہنچنے میں دقّت ہو۔چنانچہ پہلی دفعہ جب ہم مسجد کی طرف چلے تو اتفاق کی بات ہے کہ ٹیکسی والا بھی وہ ملا جو لنڈن کا نہیں بلکہ اَور علاقہ کا رہنے والا تھا اور بڑے بڑے رستوں کے سِوا چھوٹی گلیوں کا واقف نہ تھا۔لنڈن کے رہنے والے ڈرائیور تو عام طور پر واقف ہوتے ہیں لیکن وہ نہ تھا اس لئے بڑی بڑی گلیوں تک وہ آگیا لیکن جب مسجد دو تین میل کے فاصلہ پر رہ گئی تو وہ رستہ بھول گیا اب ادھر مسجد میں ہمارا انتظار ہو رہا تھا اور ادھر ہم اِدھر اُدھر چکر لگا رہے تھے۔کئی جگہ سے پوچھا مگر رستہ نہ ملا۔ایک جگہ ایک شخص موٹر میں بیٹھا تھا اور اس کے پاس ایک شخص موٹرسائیکل پر سوار کھڑا اس سے باتیں کر رہا تھا۔ٹیکسی کھڑی کر کے ڈرائیور نے اس موٹر والے سے رستہ دریافت کیا لیکن اسے معلوم نہ تھا موٹر سائیکل والا جانتا تھا اس لئے اس نے اسے تفصیل کے ساتھ رستہ بتایا۔مگر ڈرائیور چونکہ ناواقف تھا اس نے پھر جرح کی اور وہ سمجھ گیا کہ یہ لنڈن کا رہنے والا نہیں معلوم ہوتا ہے اسے موٹر والے سے کوئی ضروری کام تھا کیونکہ اس نے اس سے کہا کہ آپ میرا انتظار کریں میں رستہ بتا آؤں۔چنانچہ وہ دو تین میل تک ہمارے ساتھ آیا اور مسجد کے سامنے پہنچ کر اس نے بتایا کہ یہ ہے۔تو تیسری شق اس کی یہ ہے کہ منزلِ مقصود پر پہنچا دیا جائے۔پہلی شق میں تو صرف زبان ہی کام کرتی ہے مگر دوسری اور تیسری میں صرف زبان کام نہیں دے سکتی بلکہ اس کے ساتھ حرکت کی قابلیت بھی ضروری ہے۔اگر پاؤں نہ ہوں تو صرف پہلی قسم ہدایت کی ہی ہے جو ہم اختیار کر سکتے ہیں۔یہ نہیں کر سکتے کہ رستہ دکھاویں۔یا رستہ پر لیتے چلیں کیونکہ ان دونوں شقوں کے لئے حرکت کی قابلیت درکار ہے جو انسان کے اندر لاتوں کے ساتھ ہوتی ہے۔
یہ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بغیر فضل کی تکمیل نہیں ہو سکتی اور یہ اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔وہ سمیع ہے یعنی سنتا ہے مگر کانوں سے نہیں،وہ بصیر ہے یعنی دیکھتا ہے مگر آنکھوں سے نہیں، وہ متکلم ہے یعنی بولتا ہے مگر زبان سے نہیں،وہ حرکت کرتا ہے مگر پاؤں سے نہیں، وہ پکڑتا ہے اور دیتا ہے گرفت کی طاقت رکھتا ہے مگر ہاتھوں سے نہیں۔وہ اگر سننے والا نہ ہوتا تو فریاد کس طرح سنتا،وہ اگر دیکھنے والا نہ ہوتا تو جمادات اور حیوانات کی حالت سے کس طرح آگاہ ہوتا، اگر بولنے والانہ ہوتا تو ہدایت کس طرح دیتا،اگر چلنے والا نہ ہوتاتو ہدایت کے مقام پر کس طرح پہنچاتا،اگر اس کے ہاتھ نہ ہوتے تو وہ مشکل کے وقت مدد کس طرح کرتا۔جب ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ ہیں تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ تمام وہ کام کر دیتا ہے جس کے لئے انسان کو ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے یہی وہ صفات الوہیت کی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ مخلوق کے ساتھ تعلق پیدا کر دیتا ہے اور یہ سب کامل طور پر انسان میں ہی پائی جاتی ہیں۔باقی حیوانات میں سے بعض چلتے ہیں لیکن ان کے ہاتھ انسان کی طرح نہیں ہوتے۔ جیسے بعض بندر، پکڑتے ہیں اوراس طرح کہا جا سکتاہے کہ ان کے ہاتھ ہیں مگر ان کی زبان نہیں وہ چیز کو پکڑ تو لیں گے مگر اپنے خیالات تفصیلی طور پر بیان نہیں کر سکتے۔یہ سب باتیں انسان ہی میں پائی جاتی ہیں تا وہ الوہیت کا مرکز ہو جائے اور جس طرح خدا تعالیٰ اپنی قوتوں کو ظاہر کرتا ہے،یہ بھی کرے۔ورنہ تھوڑی تھوڑی یہ طاقتیں تو سب میںہیں۔قرآن کریم نے سب سے پہلے بتایاکہ نباتات میں حِسّ ہے اور اب سائنس نے بھی اس کو تسلیم کر لیا ہے۔قرآن کریم ہی سب سے پہلا کلام ہے جس نے یہ بتایا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے ہوتے ہیں ۲؎اور جوڑا ہونے کے یہ معنی ہیں کہ حِس موجود ہے۔ قرآن کریم نے ہر چیز کا جوڑا بتایا ہے گویا نہ صرف نباتات بلکہ جمادات میں بھی حِس ہے۔اور اب سائنس کے بعض ماہرین اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں اور بعض دھاتوں کے متعلق وہ مانتے ہیں کہ ان میں حِسّ ہوتی ہے۔مثلاً ٹین کے متعلق مجھے یاد ہے میں نے پڑھاہے کہ اس میں حِسّکا ہونا تسلیم کیا گیاہے۔امید ہے کہ دنیا آہستہ آہستہ ان علوم کو پالے گی۔ تو بیرونی حواس کامل طور پر انسان میں پائے جاتے ہیں اور اگر غور سے دیکھیں تو اندرونی حصے بھی بیرونی میں موجود ہیں۔جب ہم کہتے ہیں کہ تبلیغ کرو،چندہ دو یا بنی نوع انسان کی خدمت کرو تو سارا زور ہمارا ان صفات کے متعلق ہوتا ہے جو الوہیت کی ہیں یہ سارے کام اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ چندے دو تو گویا ہم یہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی صفتِ رزاق کے مظہر بنو اور جب کہتے ہیں تبلیغ کرو تو منشاء یہ ہوتا ہے کہ ہادی بن جاؤ،جب کہتے ہیںلوگوں کی خدمت کرو تو رحمٰن اور رحیم بناتے ہیں یہ سارے کام الوہیت کے ہیں اور یہ سب اچھے کام ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہے کہ ہمارے یہ سارے کام الوہیت کے ہوں اور اپنے مقام کو ہم بھول ہی جائیں ہمیں یہ کبھی یاد بھی نہ آئے کہ ہم مخلوق ہیں۔خدا تعالیٰ خالق اور إِلٰہ ہے اس لحاظ سے اس کی ذاتی صفات ازلی طور پر کامل ہیں اور ان کی تکمیل کا بار اس پر نہیں لیکن ہم تو مخلوق ہیں اس لئے اپنی تکمیل کی طرف بھی ہماری توجہ ہونی چاہئے۔خدا تعالیٰ تو آپ ہی آپ کامل ہے اسے تو یہ ضرورت نہیں کہ کہے میرے اندر کی فلاں چیز خراب ہے اسے درست کروں۔وہ ازلی طور پر کامل ہے۔لیکن ہمارے اندر تو مخلوق کی صفات بھی ہیں اور مخلوق کا انجن بگڑتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندرونی حصوں کے مقابلہ پر بعض بیرونی حصے ایسے رکھے ہیں کہ جن سے یہ علم ہوتا ہے کہ جسم کے اندرونی حصہ میں کیا خرابی ہے۔مثلاً ہماری زبان ہے یہ میٹھا بھی چکھتی ہے اور کڑوا بھی، تُرش بھی اور نمکین بھی لیکن بعض اوقات یہ آپ ہی آپ ہر چیز کو کڑوا چکھنے لگتی ہے۔یہ حالت بتا تی ہے کہ جسم کے اندر کوئی خرابی ہے اور یہ اندرونی حِسّ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ گویا ہماری زبان صرف باہر کی چیزوں کو ہی نہیں چکھتی بلکہ اندر کی حالت کو بھی محسوس کرتی ہے۔زبان کے یہ مزے اپنی ذات میں بعض قوتوں پر دلالت کرتے ہیں۔اگر یہ مزے قائم نہ رہیں تو ہم دوسرے لوگوں کو مشکلات میں ڈال دیں گے کیونکہ جہاں میٹھا دینے کی ضرورت ہے نمکین دے دیں گے اور جہاں کڑوے کی ضرورت ہو تُرش دے دینگے ۔تو یہ مزے خالی منہ کے مزے نہیں بلکہ انسان کے جسم کی اندرونی حِسّوں سے ان کا تعلق ہے۔ذیابیطس کے مریض کو ہم شکر نہیں دیتے تو کیا اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کے منہ کا ذائقہ خراب ہے۔یہ وجہ نہیں بلکہ اس کی وجہ اس کی اندرونی خرابی ہے یا خون کی خرابی کی صورت میں ہم نمک نہیں دیتے، یانزلہ میں تُرشی سے پرہیز ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ زبان خواہش نہیں کرتی بلکہ زبان تو ایسی حالت میں زیادہ خواہش کرتی ہے ہم اس لئے نہیں دیتے کہ جسم میں ان کی ضرورت نہیں ہوتی۔تو مزے دراصل انسان کی اندرونی قوتوں پر دلالت کرتے ہیں۔یہ بھی رنگوں کی طرح ہیں کبھی ہمیں سرخ رنگ پسند ہوتا ہے اور کبھی سبز۔
اسی طرح ان ذائقوں کا حال ہے۔ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھ کچھ تأثیریں رکھتا ہے۔میٹھا اپنے ساتھ کچھ تاثیریں رکھتا ہے۔جو کبھی اچھی اور کبھی بُری ہوتی ہیں۔اسی طرح کڑواہٹ کی بعض تاثیریں ہیں۔ زبان کے ذائقہ کا کڑوا ہونا بتاتا ہے کہ معدہ میں نقص ہے اور کہ اسے کڑوی چیزوں کی ضرورت ہے۔ڈاکٹری تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کڑوی اشیاء خون کی صفائی اور معدہ کی تقویت کا موجب ہوتی ہیں۔ اسی طرح میٹھا دل کی تقویت کا موجب ہے۔جب ہم کسی چیز کو چکھتے ہیں اور اسے میٹھی پا تے ہیں تو ہمیں خیال ہوتا ہے کہ یہ دل کے لئے مفید ہوگی۔تو اللہ تعالیٰ نے یہ ٹیسٹ (TASTE)بتا دئیے ہیں اور مختلف چیزوں میں مختلف ذائقے رکھ کر ہماری اس طرف راہنمائی کی ہے کہ ہم ان اشیاء کی تأثیروں سے فائدہ اٹھائیں۔ میٹھا کیا ہے یہ گویاایک ٹریکٹ ہے، اشتہار ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ فلاں چیز میں یہ فائدہ ہے۔ کرواہٹ ایک ٹریکٹ ہے جو بتاتا ہے کہ اس چیز میں یہ خاصیت ہے اور ہماری زبان ان ٹریکٹوں کو پڑھنے والی آنکھ ہے۔جس طرح حرفوں کو پڑھنے کے لئے آنکھ میں ڈیلا ہوتا ہے اسی طرح ہماری زبان مختلف اشیاء کی خاصیتوں کو پڑھنے کی آنکھ ہے۔تو یہ خاصیتوں کو بتانے کاذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔زبان کے ذائقوں میں تبدیلی سے ڈاکٹر اور اطباء اندرونی نقائص کا پتہ لگاتے ہیں۔طبیبوں نے اس کے ماتحت انسانی طبائع کو کئی اقسام میںتقسیم کر رکھا ہے۔دموی،بلغمی،سوداوی، صفراوی وغیرہ۔ڈاکٹروں نے ان کے اور نام رکھے ہیں مگر درحقیقت یہ انڈیکس ہیں جو مختصر طور پر انسان کی حالت کو بتاتے ہیں۔آنکھ بیرونی اشیاء کو دیکھتی ہے مگر ساتھ ہی وہ اندر کی حالت کو بھی ظاہر کر رہی ہوتی ہے۔کسی شخص کی آنکھیں سرخ ہوں توہم معلوم کر سکتے ہیں کہ اس کے سر کی طرف دورانِ خون زیادہ ہے۔بعض آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک ہوتی ہے جو بتاتی ہے کہ اس شخص میں سِل کا مادہ ہے۔حضرت خلیفہ اول کی شناخت اس بارے میں قریباً سو فیصد ی درست ہوتی تھی اور ہم جنہوں نے آپ سے طب پڑھی ہے اسے پہچانتے ہیں اور بہت حد تک اس بارہ میں ہماری تشخیص درست ہوتی ہے۔تو آنکھ گو بظاہر بھی دیکھتی ہے مگر اندرونی حالت کا بھی پتہ دیتی ہے۔جس طرح انسان کے ان حصو ں کے سپرد بیرونی طور پر کچھ کام ہیں،کوئی دیکھتا ہے،کوئی سنتا ہے،کوئی سونگھتا ہے،اسی طرح اندرونی طور پر بھی ان چیزوں کے سپرد مختلف کام ہیں اور وہ جسم کے بعض نقائص کو ظاہر کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان کو فہرست مضامین کے طور پر بنایاہے تا ان کو پڑھ کر پتہ لگایا جا سکے کہ اندر کیانقص ہے۔فرق صرف اس قدر ہے کہ کتابوں کی فہرست مضامین تو ہمیشہ یکساں حالت پر رہتی ہے اس میں لکھا ہوتا ہے کہ اس کتاب کے صفحہ۱۹ پر فلاں مضمون ہے۔اب خواہ اس صفحہ کو دیمک چاٹ لے،بیچ میں سے کوئی پھاڑ لے،وہ وہاں رہے یا نہ رہے فہرست میں یہ بات برابر درج رہے گی لیکن یہ ایسی فہرست ہے کہ جو حالات کی تبدیلی کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔انسان کی اندرونی کتاب کا ورق جونہی الٹتا ہے فہرست بھی اس تبدیلی کو بتا دیتی ہے اور پھر یہ پہلے سے انسان کو آگاہ کرتا رہتا ہے کہ یہ خرابی ہونے والی ہے۔انسان امراضِ سینہ کا شکار ہونے والا ہو تو بعض شخصوں پر مہینوں بلکہ سالوں پہلے نزلہ گرنا شروع ہو جاتا ہے جو اسے آئندہ آنے والے خطرہ سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔ایک قطرہ گرتا اور اسے بتاتا ہے کہ اندر کوئی خرابی ہو رہی ہے، دوسرا گرتا ہے اور بتاتا ہے۔اسی طرح اگر جنون ہونا ہو تو بعض لوگوں کے پہلے ہی سے کان بہرے ہونے لگتے ہیں۔اور گھوں گھوں ہوتی رہتی ہے۔انسان سمجھتا ہے کہ کانوں میں خرابی ہے حالانکہ یہ دماغ میں گھوں گھوں ہو رہی ہوتی ہے۔تو یہ سب اعضاء ایسی فہرست ہائے مضامین ہیں جو اندر کا حال بتاتی رہتی ہیں۔طب نے ابھی تک پوری ترقی نہیں کی ورنہ حواسِ خمسہ انسان کے اندر کی سب چیزوں کو دکھا دیتے۔بخار کیا ہے جس طرح باہر کی چیزوں کو چھوکر ہم معلوم کرتے ہیں کہ یہ نرم یا سخت ہے،اسی طرح بخار یہ بتاتا ہے کہ اندر فلاں قسم کی خرابی ہو گئی ہے۔کبھی ٹائیفائڈ اور کبھی ملیریا کبھی کچھ، کبھی کچھ تو مخلوق کے اندرونی حواس بہت اہمیت رکھتے ہیں اس لئے میں جماعت کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اندرونی حواس بھی کچھ کم ذمہ داری والے نہیں ہیں اور ان کی طرف توجہ بھی ضروری ہے۔ہم بیرونی حواس سے تعلق رکھنے والی باتوں پر بہت زور دیتے ہیں۔بیشک ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم دوسروں سے کہیں نماز پڑھو مگر اس کے ساتھ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ دیکھیں کہ ہمارا نفس بھی نماز پڑھتا ہے یا نہیں۔اور دراصل مخلوق کا حصہ تو یہی ہے۔ہم خالقیت کی جو چادر اوڑھتے ہیں وہ تو مانگی ہوئی ہے۔جب ہم دوسرے سے کہتے ہیں کہ نماز پڑھو تو خدا تعالیٰ کا کام کرتے ہیںاور ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ بندہ ہونے کے لحاظ سے جو کام ہمارے ذمہ ہے وہ بھی ہوتا ہے یانہیں۔جو یہ ہے کہ دیکھیں ہمارا نفس بھی نماز پڑھتا ہے یا نہیں۔ہم لوگوں سے کہتے ہیں چندہ دو یا خود دیتے ہیں تو یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔کہ وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌّ۔۳؎اس لئے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ہم اپنے نفس کو بھی چندہ دیتے ہیںیا نہیں۔ظاہر ہے کہ نفس کو ہم روپیہ تو نہیں دے سکتے بیرونی دنیا کا چندہ روپیہ ہے لیکن اندرونی دنیا کا یہ نہیں ہو سکتا۔ اس کا خزانہ دل و دماغ میں ہے اور اس لئے نفس کا چندہ صحیح علم اور صحیح فکر ہے۔جس طرح بیرونی دنیا کی تربیت کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔اندرونی دنیا کے لئے صحیح فکر کی ضرورت ہے۔منافقت بِالعموم صحیح فکر نہ ہونے کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کسی سے دوستی ہوئی اور اس کی نیکی کو دیکھ کر اس سے تعلق پیدا کر لیا اور اس طرح اپنے لئے ایک رستہ مقرر کر لیا جاتا ہے۔اس کے بعد حالات میں خواہ کتنی تبدیلی کیوں نہ پیدا ہو جائے یہ اس رستہ پر ہی چلیں گے۔اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم کسی شخص کو پکڑنے کے لئے دوڑتے ہیں۔وہ شمال کی طرف بھاگ رہا ہے اور اس لئے اس کے پیچھے ہم بھی شمال کی طرف بھاگیں گے لیکن جب وہ اپنا رخ بدل کر مشرق کی طرف بھاگنے لگے تو ہمیں بھی چاہئے کہ اپنا رُخ بدل لیں اور اگر نہ بدلیں گے تو تمام دَوڑدھوپ رائیگاں جائے گی۔تو انسانی حالات بھی بدلتے رہتے ہیں اور جب دوست کی حالت میں تبدیلی ہوگئی تو اسے چاہئے کہ اس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت میں تبدیلی کرے اور اگر یہ نہیں بدلتا تو یہ اس کی بیماری کی علامت ہے۔ منافقت میں ترقی اور منافقت کی ترقی بھی صحیح فکر نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔منافق اس سے فائدہ اٹھاتا اور دوسروں کو بھی اس مرض میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ شکار ایسے ہی لوگ بنتے ہیں جو کسی کو اس کی نیکی کی وجہ سے دوست بناتے ہیں اور پھر کبھی اِس بات پر غور نہیں کرتے کہ اس کی نیکی میں کوئی فرق آیا ہے یا نہیں حالانکہ کسی کے متعلق کبھی یہ اطمینان نہیں ہو سکتا کہ اُس کی حالت یکساں رہے گی۔جس چیز کے متعلق ہم مطمئن ہو سکتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جس کے لئے اس نے فرماد یاہے کہ یہ نہیں بدلتا اور اس کے بغیر اگر کسی کے متعلق کوئی شخص مطمئن ہے تو ہو سکتا ہے کہ ایک دن وہ خود بھی کسی مرض میں مبتلا ہو جائے۔پس نفسِ انسانی کا چندہ صحیح فکر ہے۔ہر چیز کو اس ذریعہ سے دیکھو جو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔تمام علوم کی ترقی صحیح فکر سے ہوتی ہے۔جو لوگ صحیح فکر کے عادی نہیں ہوتے وہ خود بھی گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔کل ہی ایک نوجوان مبلّغ میرے پاس آئے اور کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کریں۔میں نے کہا کہ میری نصیحت یہی ہے کہ صحیح فکر کی عادت ڈالو۔میری ذاتی کوشش یہی ہوتی ہے کہ دشمن کی بات کو یونہی غلط نہ قرار دے دوں بلکہ اگر وہ سچی ہو تو اسے سچی کہوں اور غلط ہو تو اسے غلط اور اس وجہ سے جب میں غور کرتا ہوں تواللہ تعالیٰ مجھے یہ توفیق دیتا ہے کہ اس کی تہہ کو پہنچوں اور بسا اوقات میں دیکھتا ہوں کہ وہ اتنی بُری نہیں ہوتی یا اتنی بے وقوفی کی نہیں ہوتی جتنی بظاہر نظر آتی ہو۔جب میں فلسفیانہ رنگ میں اس پر غور کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کرتا ہوں تو اس کی اہمیت مجھے نظر آجاتی ہے اس لئے میں اسے ٹالنے والا جواب نہیں دیتا بلکہ اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دیتا ہوںاور یہ بات میری علمی ترقی کا موجب ہوتی ہے۔جو شخص دشمن کی بات کو جھوٹا قرار دے کر اس کو ٹال دیتا ہے اس کے لئے قرآن کریم بھی نہیں کھل سکتا اس لئے کہ اس نے سوال کی صورت کو بگاڑ دیا اور بگڑے ہوئے سوالات کا جواب قرآن کریم نہیں دیتا لیکن جب وہ اس پر غور کرتا،سوچتا اور دیکھتا ہے کہ اس کے اندر کیا باریکیاں ہیں اور پھر اگر دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی حصہ ایسا ہے جس کا جواب کوئی نہیں اور وہ سچ ہے تو اسے مان لیتا ہے،تو اس سوال کا جواب اسے ضرور قرآن کریم سے مل جائے گا۔پس صحیح فکر نہایت ضروری چیز ہے۔ اسی سے صحیح ہدایت پیدا ہوتی ہے اور یہی نفس کا چندہ ہے اور جو اس کی عادت نہیں ڈالتا وہ اپنے نفس کو بھوکا مارتا ہے۔
اسی طرح روزہ انسان کے نفس کو ترقی دینے والی چیز ہے اور ہمارا صرف یہ فرض نہیں کہ دوسروں سے کہیں روزے رکھو بلکہ یہ ہے کہ خود بھی رکھیں مگر بہت کم لوگ ہوں گے جو روزے کی فرضیت کے قائل ہوں گے۔تم کہو گے کہ یہ بات صحیح نہیں۔اکثر لوگ اس کی فرضیت کے قائل ہیں لیکن میں پوچھتا ہوں کہ جن لوگوں کے روزے رمضان میں رہ جائیں،ان میں سے کتنے پھر سال کے دوران بقیہ روزے رکھتے ہیں۔یقینا ایک بڑی تعداد نہیں رکھتی۔خصوصاً عورتیں جو رمضان میں خاص ایام یا خاص حالات کی وجہ سے روزے نہیں رکھتیں وہ بہت کم بعد میں ان روزوں کو پورا کرتی ہیں۔بد قسمتی سے مسلمانوں میں یہ خیال ہے کہ روزہ کی فرضیت صرف رمضان میں ہے،حالانکہ یہ صحیح نہیںیہ سارے سال میں ہے۔اور جو لوگ کسی وجہ سے رمضان میں روزے نہ رکھ سکیں ان کو سال کے دوسرے دنوںمیں پورے کرنے چاہئیں لیکن بہت کم لوگ ایسا کرتے ہیںحالانکہ نفس کی اصلاح بہت ضروری ہے۔اور ایک اہم فرض بلکہ عبودیت کے لحاظ سے نہایت ہی اہم فرض ہے۔پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے تبلیغ بہت ضروری چیز ہے مگر یہ الوہیت کا فرض ہے، عبودیت کا فرض وہ ہے جو انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہو مگر لوگ الوہیت کے اس فرض یعنی تبلیغ کو تو ادا کریںگے لیکن عبودیت کا فرض نظر انداز کر دیں گے۔نمازوں میں سُستی کرتے ہیں،ذکرِ الٰہی کا رواج بھی لوگوں میں بہت کم ہے، جو دوست مسجد میں پہلے آجاتے ہیں وہ لغو باتوں میں مصروف رہتے ہیں اور اس طرح مل کر وقت ضائع کرتے ہیں اور اسی کے نہ ہونے سے طبائع میں شوخی ہوتی ہے۔میرا تجربہ ہے کہ ذکرِ الٰہی نفس کی شوخی کو دور کرتا ہے اور اس کی کثرت تمسخر اور استہزاء سے بچاتی ہے۔بعض لوگوں میں یہ عادتِ بد ہوتی ہے کہ وہ تمسخر کے رنگ میں قرآن کریم کی کوئی آیت پڑھ دیتے ہیں۔یا دین کے کسی معاملہ میں ہنسی کر دیتے ہیں،یا کسی بزرگِ دین کے ذکر پر استہزاء سے کام لیتے ہیں یہ سب باتیں ذکرِ الٰہی کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں اور منافقت کی بنیاد ہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۴؎ذکرِ الٰہی انسان کے اندر بری باتوں سے ڈر پیدا کرتا ہے ذکرِ الٰہی کرنے والا ہمیشہ بیہودہ اور لغو مذاق سے بچتا ہے۔
پس آج میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوںکہ ہمیں نہ صرف الوہیت کے بلکہ وہ فرائض بھی ادا کرنے کا پورا پورا احساس ہونا چاہئے جو مخلوق ہونے کی حیثیت میں ہم پر عائد ہوتے ہیں۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے مرکب بنایا ہے اس پر ربوبیت کی چادر بھی ڈالی گئی ہے اور یہ مخلوق بھی ہے ربوبیت کی چادر اسے اعلیٰ کمالات پر لے جانے کے لئے ہے لیکن جب تک نقائص دور نہ ہوں،ترقی ممکن نہیں۔اعلیٰ مقام پر پہنچنا کیسے ہو سکتا ہے۔تم مِیلوں لمبا غبارہ بنا دو اور اس میں گیس بھی بھر دو لیکن اس میںدو چھوٹے چھوٹے سوراخ بھی اگر کردو تو وہ اوپر نہیں جا سکے گا۔اسی طرح جس شخص کی ذات میں کمزوریاں اور نقائص ہیں،وہ تو چھاج ہے،غربال ۵؎ہے جس میں سے روحانیت نکل جائے گی۔روحانی چیزیں تو ایسی باریک اور لطیف ہوتی ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹے سوراخ سے بھی بہہ جاتی ہیں۔
پس جب تک ان سوراخوں کو بندنہ کیا جائے کوئی فائدہ نہیں۔مخلوق ہونے کے لحاظ سے جو باتیں ہم پر فرض ہیں تکمیل کے لئے ان کا پورا کرنا بھی اشد ضروری ہے۔بیہودہ ہنسی مخول اور نمازوں میں سستی کو ترک کر دو ،پابندی کے ساتھ نمازیں پڑھو،ذکر الٰہی کرو،روزے باقاعدہ رکھو،پھر طوعی روزے بھی رکھو،اپنے نفس کی اصلاح کے لئے جاگنے کی عادت ڈالو اور اس پر بوجھ ڈالو۔ان باتوں سے صحیح تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور پھر اس سے ترقی کر کے ربوبیت کا مقام آتا ہے اور یہی صحیح طریق ترقی کرنے کا ہے۔ورنہ جو شخص سوراخ بندکرنے کے بغیر غبارہ میں گیس بھرتا ہے وہ اسے بلندی پر پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا کیونکہ اس کی گیس باہر نکل جائے گی۔پس ان دونوں حصوں کو مکمل کرو تا تمہارا نفس مکمل ہو اور تا تمہیں روحانی گیس اوپر اٹھاسکے۔اسی کی طرف قرآن کریم نے اشارہ فرمایا ہے کہ ۶؎ عمل صالح یعنی بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے والی نیکیاں اسے اوپر اٹھاتی ہیں اور گیس کا کام دیتی ہیں جو عمل بیرونی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں وہ الوہیت کا چندہ ہیں اورجو اپنی ذات کے لئے ہیں وہ نفس کا چندہ ہیں اور جب تک یہ دونوں حواس مکمل نہ ہوں ترقی نہیں ہو سکتی۔بعض لوگوں کی آنکھیں بیمار ہوتی ہیں وہ دیکھ تو سکتی ہیں مگر رنگوں میں امتیاز نہیں کر سکتیں۔ریلوے کے امتحانات کے وقت یہ امر خاص طور پر دیکھا جاتا ہے کہ رنگ صحیح نظر آتا ہے یا نہیں۔پہلے تو اس بیماری کا علم ہی نہ تھا یا علم تو تھا مگر یہ علم نہ تھا کہ کثرت سے لوگ اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔جب سے ریلوے کے امتحانات شروع ہوئے ہیں اس کی اہمیت ظاہر ہو گئی ہے۔ریلوے میں اس کاخاص خیال رکھا جاتا ہے۔تا ایسا نہ ہو کہ سرخ جھنڈی دکھائی جائے اور وہ اسے سبز سمجھ لے اور اس طرح گاڑی کو ہی کہیںٹکرا دے۔چنانچہ ان امتحانوں کے بعد پتہ لگا ہے۔کہ ایک خاصی تعداد لوگوں کی ایسی ہے جو رنگوں کے پہچاننے میں غلطی کر جاتی ہے۔اس طرح بعض دفعہ کانوں میں نقص ہوجاتا ہے۔ کسی اندرونی نقص کی وجہ سے حِسّکمزور ہو جاتی ہے اور انسان کا جسم بیمار ہوتا ہے۔پس ان دونوں حِسّوں کی درستی جس طرح ظاہری جسم کے لئے ضروری ہے اسی طرح روحانی جسم کے لئے بھی ضروری ہے۔جیسا کہ میں نے بتایا ہے بیرونی حواس الوہیت والے افعال ہیں ان سے انسان کبھی رحمٰن بنتا ہے،کبھی رحیم، کبھی مالک۔ بعض صفات اللہ تعالیٰ کی ایسی ہیں جو اپنی ذات میں مکمل ہیں۔جیسے اللہ تعالیٰ محی ہے اس کے زندہ ہونے کا مخلوق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔اَور بھی ایسی صفات ہیں جن کی حقیقت انسان پر نہیں کھولی جاتی اس لئے کہ ان کاواسطہ انسان کے ساتھ نہیں ہوتا ۔ان کو قرآن کریم نے مجمل الفاظ میں یہ کہہ کر بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پر استویٰ کیا۔اس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ ایسی بالا طاقت ہے کہ اس حد تک ہی انسان کی نظر جاسکتی ہے اس سے اوپر نہیں۔عرش ایک واسطہ ہے جس طرح انسان مخلوق اور خداتعالیٰ کے درمیان واسطہ ہے اسی طرح عرش واسطہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات اور افادہ والی صفات کے درمیان۔ وہ جو صفات ہیں۔ان کا رحمانیت اور رحیمیت کے ساتھ کیا تعلق ہے۔اللہ تعالیٰ کس طرح ازلی ابدی ہے۔یہ ایسی باتیں ہیں جن کو انسان سمجھ نہیں سکتا۔اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات کا علم نہ انسان کو ہے نہ ہو سکتا ہے۔ہاں جو بندوں سے تعلق رکھتی ہیں ان کا مظہر انسان کو بنایا گیا ہے اور تکمیل کے لئے ہم سے دونوں باتوں کی امید رکھی گئی ہے۔ یعنی اپنی ذات کو بھی نقائص سے پاک کیا جائے اور دوسروں کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک کرنے والے ہوں۔چندہ دینا،تبلیغ کرنا،یہ ایسی نیکیاں ہیں جو الوہیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور نمازوں کو سنوار کر پڑھنا،ذکر الٰہی کرنا،ہنسی ٹھٹھے سے بچنا،روزہ رکھنا،حج کرنا یہ ایسی نیکیاں ہیں جو نفسِ انسانی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور ان کی تکمیل کئے بغیر انسان کبھی اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچ سکتا اور یہ ایسی عبادات ہیں جن میں دوسروں کا کوئی فائدہ نہیں۔
فکر کی صحت، خیالات کی پاکیزگی وغیرہ باتوں کی طرف بھی دوستوں کو ایسی ہی توجہ کرنی چاہئے جیسی چندہ کی طرف۔ جو شخص صرف ان باتوں کی طرف توجہ رکھتا ہے جو دوسروں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور اندرونی اصلاح کافکر نہیں کرتا۔اس کی مثال اس شخص کی ہے جو دوسرے کے گھر کی حفاظت کے لئے تو جائے مگر اپنے گھر کی فکر نہ کرے۔دوسرے کے گھر کی حفاظت بھی اچھی بات ہے لیکن اپنے گھر کو تباہ کر لینا بھی درست نہیں۔اگر انسان کا اپنا نفس خراب رہے اور بیرونی دنیا اچھی ہو جائے تو اسے کیا۔جب نفس کی حالت درست نہ ہو تو سب سے پہلے اسے درست کرنا چاہئے اور پھر دوسروں کی اصلاح سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر تمہارے اندرالوہیت کا جلوہ نہیں یعنے تم دوسروں کو نہیں بچا سکتے یا دوسروں کا خیال تو رکھتے ہو لیکن تمہارا اپنا نفس تباہی کی طرف جا رہا ہے تو تمہارا وجود ایک کافر کے وجود کی طرح ہے جو نہ اپنے کام آسکتا ہے اور نہ دوسروں کے۔مؤمن وہی ہے جو اپنی جان کو بھی بچا تا ہے اوردوسروں کو بھی۔وہ الوہیت کا بھی مظہر ہوتا ہے اور عبودیت کا بھی۔یہی اصل غرض ہے دنیا کے پیدا کرنے کی کہ ایسی مخلوق پیدا کی جائے جو ایک طرف خدا تعالیٰ کی مظہر ہو اور دوسری طرف عبودیت کی۔خدا تعالیٰ اپنی باریک مصلحتوں کے ماتحت چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق میں سے کچھ ایسے بھی ہوں جو الوہیت کی چادر اوڑھنے والے ہوں اور دوسری طرف مخلوق کا بھی کامل مظہر ہوں۔
پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس امر کی طرف خصوصیت سے توجہ کریں کہ خالی چندے دے دینا یا تبلیغ کر دینا کافی نہیں۔ہنسی اور ٹھٹھے کی عادت چھوڑ دو،نماز اور روزہ کو باقاعدگی کے ساتھ ادا کرو،جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے ان کے لئے حج بھی ضروری ہے۔بیسیوں ایسے ہیں جن کو حج کی توفیق ہے مگر وہ خیال نہیں کرتے۔ کئی ملازم ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پنشن لے کر حج کو جائیں گے لیکن یہ خیال نہیں کرتے کہ پنشن پانے کے بعد زندگی پائیں گے بھی یا نہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ پنشن کے بعد ایسے بیمار پڑتے ہیںکہ اس قابل ہی نہیں رہتے۔یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو سزا دے گا۔اپنی نیت کا بدلہ وہ ضرور پائیں گے مگر ترقیات سے محروم تو رہ ہی جائیں گے۔پنشن تو گورنمنٹ اسی وقت دیتی ہے جب اچھی طرح نچوڑ لیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اب ہمارے کام کا نہیں رہا۔پھر بعض لوگ کاروبار کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگلے سال جائیں گے، پھر اس سے اگلے سال کا ارادہ کر لیتے ہیںحالانکہ دنیا کے کام تو ختم ہوتے ہی نہیں۔اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہو تو کر ہی لینا چاہئے۔میں جب تعلیم کے لئے مصر گیا تو ارادہ تھا کہ حج بھی کرتا آؤں گامگر یہ پختہ ارادہ نہ تھاکہ اسی سال حج کروں گا۔یہ بھی خیال آتا تھاکہ واپسی پر حج کر لوں گا جب میں ممبئی پہنچا تو وہاں نانا جان صاحب مرحوم بھی آملے وہ براہِ راست حج کو جارہے تھے اس پر میرا بھی ارادہ پختہ ہوگیا کہ اسی سال ان کے ساتھ حج کرلوں۔جب پورٹ سعید پہنچے تو میں نے رؤیا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور وہ فرماتے ہیں کہ اگر حج کی نیت ہے تو کل ہی جہاز میں سوار ہو جاؤکیونکہ یہ آخری جہاز ہے۔ گو حج میں ابھی دس پندرہ روز کا وقفہ تھا مگر فاصلہ بھی وہاں سے قریب ہے اس لئے خیال کیا جاتا تھا کہ ابھی کئی جہاز حاجیوں کے مصرسے جدہ جائیں گے۔میرے ساتھ عبدالحئی صاحب عرب بھی تھے وہ اس بات پرزور دیتے تھے کہ اگلے جہاز پر چلے جائیں گے مگر مجھے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اگر نیت ہے تو اسی جہاز سے جاؤ ورنہ جہازوں میں روک پیدا ہوجائے گی اس لئے میںنے پختہ ارادہ کر لیا۔وہاں جوایک دو اصحاب واقف ہوئے تھے وہ بھی کہنے لگے کہ ابھی تو کئی جہازجائیں گے قاہرہ اور اسکندریہ وغیرہ دیکھتے جائیں اتنی دور آکر ان کو دیکھے بغیر چلے جانا مناسب نہیں مگر میں نے کہا کہ مجھے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ کل نہ جانے سے حج سے رہ جانے کا خطرہ ہے اس لئے میں تو ضرور جاؤں گا۔چنانچہ اس جہازران کمپنی سے گورنمنٹ کا کوئی جھگڑا تھا اور اس نے ایسی صورت اختیار کر لی کہ وہ جہاز آخری ثابت ہؤا اور کمپنی والے اس سال اور جہاز حاجیوں کے نہ لے گئے۔حج کے بعد جب میری نیت ہوئی کہ مصر چل کر عربی پڑھوںتو لوگوں نے مجھے بتایا کہ قانون کے مطابق اب تین ماہ تک آپ مصر میں داخل نہیں ہوسکتے۔اتنے میں مکہ میں ایسا ہیضہ پھیلاکہ ایسا نظارہ بہت کم لوگوں نے دیکھا ہوگا۔انتہاء درجہ کی تباہی ہوئی۔میں نے انفلوئنزا کی تباہی بھی دیکھی ہے۔ آپ بھی کئی بار بیمار ہؤا ہوں مگر ایسا تکلیف دہ نظارہ کبھی نہیں دیکھا۔ہاں تو مکّہ پہنچ کر اس خیال سے کہ یہ مواقع کہاں ملتے ہیںمیں نے وہاں تبلیغ شروع کر دی۔ مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی بھی وہاں تھے مجھے اطلاع ملی کہ وہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھ مباحثہ کیا جائے۔ہمارے ایک رشتہ دار تھے جو نانا جان مرحوم کی ہمشیرہ کے بیٹے تھے اور اس لحاظ سے ہمارے ماموں تھے وہ بھی اہلحدیث خیال کے تھے اور مولوی ابراہیم صاحب کے مداحوں میں سے تھے۔وہ بھی کوشش کرتے تھے کہ مناظرہ ہو جائے۔ان کا خیال تھا کہ یہاں باقاعدہ حکومت کوئی نہیں اگر مباحثہ ہؤا تو لوگ انہیں مارڈالیں گے اور اس طرح ایک کانٹا نکل جائے گا لیکن وہاں اہلحدیثوں کو لوگ سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔جب مولوی ابراہیم صاحب کی آمد کا چرچا ہؤا توانہیں خود وہاں سے جلد بھاگنا پڑا۔شریف کے بیٹوں کے ایک استاد تھے جن کا نام عبد الستار تھا بہت شریف آدمی تھے۔میں ان سے ملا تو انہوں نے بتایا کہ میں خود بھی اہلحدیث ہوں اور یہ تعلیم کا کام میں اس لئے کرتا ہوں کہ چھُپا رہوں اس پوزیشن میں ہونے کی وجہ سے میرے خلاف کوئی شخص شرارت کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔میری باتیں سن کر کہنے لگے کہ باتیں تو بہت معقول ہیں لیکن میرے سوا کسی اور سے یہ نہ کریں ورنہ آپ کی جان کی خیر نہیں۔میں نے ان سے کہا کہ آپ کسی کے ساتھ یہ باتیں کرنے میں ہمارے لئے زیادہ خطرہ سمجھتے ہیںاور اس لئے چاہتے ہیں کہ اس سے ہرگز یہ باتیں نہ کریں۔وہ کہنے لگے کہ فلاں شخص سے ہرگز نہ کرنا۔میں نے کہا کہ اسے مَیں تو پورا ایک گھنٹہ تبلیغ کر کے آیا ہوں۔پوچھنے لگے۔پھر کیا ہؤا میں نے کہا کہ میں تبلیغ کرتا رہا اور وہ غصہ کا اظہار کرتا رہا۔کبھی کبھی جوش میں آکر یہ بھی کہہ دیتا کہ افسوس نہ ہوئی تلوار ورنہ سر اُڑا دیتا۔اپنے جس رشتہ دار کا میں نے ذکر کیا وہ خوب شور مچاتے پھرتے تھے کہ یہ واجبُ القتل ہیں۔یہ بھوپال کے رہنے والے تھے۔ان کے ساتھ وہاں کے ایک او رشخص بھی جو بھوپال ہی کے رہنے والے اور نواب صدیق حسن خاں کے نواسے تھے شامل تھے۔لیکن اُدھر حج ختم ہؤا اور اِدھر ہیضہ پھُوٹ پڑا۔ہمارا بھی ارادہ ہوگیا کہ جدہ چلے جائیںاور آخری ملاقات کے لئے ان سے ملنے کے لئے گئے۔جب مکان پر پہنچے تو کیا دیکھا کہ مکان پر لوگ جمع ہیں،غسل وغیرہ کا سامان ہو رہا ہے،افسردگی طاری ہے،پتہ کیا کہ کیا بات ہے تو معلوم ہؤا کہ ان کو ہیضہ ہؤا اور فوت ہوگئے۔ اورانہی دنوں ایک اور دوست سے ملنے گئے تو میں نے دیکھا کہ ایک ہندوستانی کو بعض لوگ کوٹھے سے اٹھا کر نیچے گلی میں چھوڑ گئے۔وہ تڑپ رہا تھا اس نے بتایا کہ میرے پاس کچھ روپیہ تھا جو ان لوگوں نے نکال لیا اور مجھے یہاں پھینک گئے ہیں۔جہاں تک یاد ہے تھوڑی ہی دیر میں فوت ہو گیا۔میں نے خود لاشوں کو کُتّوں کو چاٹتے دیکھا ہے۔غرض کہ ایسی تباہی تھی جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔تو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے حج کرانا تھا اس لئے یہ موقع مل گیا۔اِدھر ہیضہ پھوٹااور اُدھر مصر جانے میں رُکاوٹ پیدا ہو گئی۔اس پر میں نے واپسی کا ارادہ کر لیا۔جدہ کے انگریزی قونصل خانہ میں بھی ہمارے ننھیال کے ایک رشتہ دار میر منشی تھے۔بھوپال کے جس رشتہ دار کا میں نے ذکر کیا ہے وہ تو نانا جان مرحوم کے رشتہ داروں میں تھے اور یہ نانی اماں صاحبہ مرحومہ کے رشتہ داروں میں تھے۔یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہمارے جتنے رشتہ دار نانا جان مرحوم کی طرف سے تھے۔ وہ بِالعموم مخالف تھے اور جتنے نانی اماں صاحبہ کی طرف سے تھے وہ بِالعموم محبت کرنے والے تھے یہ غالباً ان کی خالہ کے لڑکے تھے اور بہت محبت کرتے تھے۔جہاز چونکہ کم تھے اور لوگ جلدی واپس ہونا چاہتے تھے اس لئے ٹکٹ ملنے میں سخت دشواری تھی۔ہم جب جدہ پہنچے تو ان سے کہا کہ جلد ٹکٹوں کا انتظام کر دیں تا پہلے جہاز میں واپس ہو سکیں۔انہوں نے جہاز ران کمپنی کے دفتر میں بٹھا دیا یہ کمرہ بہت اونچا تھا۔اتنے میں ایک دبلا پتلا آدمی نیچے آیا۔میں کھڑکی میں بیٹھا تھا اور وہاں ہاتھ بمشکل اونچا کر کے پہنچ سکتا تھا ہجوم اور شور بہت تھا اور ہر طرف سے ٹکٹ ٹکٹ کا شور بلند ہو رہا تھا مگر وہ مجمع کو چِیرتا پھاندتا کھڑکی کے نیچے پہنچا اس نے خیال کیا کہ شاید میں کمپنی کا ملازم ہوں۔مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کمپنی میںکام کرتے ہیں ۔میں نے کہا میں تو مسافر ہوںتو پھر آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔میں نے کہا میرے ایک عزیز یہاں بٹھا گئے ہیں اور ٹکٹوں کی خرید کا انتظام کر رہے ہیں۔اس پر وہ کہنے لگے کہ ہمارا چالیس،پینتالیس عورت اور مردوں کا قافلہ ہے،بڑی مصیبت کا سامنا ہے مگر ہمیں سب سے زیادہ فکر عورتوں کی ہے۔اگر آپ دس بارہ ٹکٹ خرید دیں تو ہم عورتوں کو یہاں سے نکال دیں اور مردوں کے ساتھ جو گزرے گی کاٹیں گے۔میںنے کہا کہ عورتیں اکیلی کس طرح جائیں گی۔اس پر وہ کہنے لگا کہ اگر دوچار اور ٹکٹ لے دیں تو کچھ مرد بھی ان کے ساتھ جا سکیں گے اور آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ہمارے وہ جو رشتہ دار تھے ہم انہیں ماموں کہا کرتے تھے۔میں نے ان سے کہا کہ ماموں ان لوگوں کی حالت قابلِ رحم ہے آپ ان کو بھی ٹکٹ لا دیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بہت مشکل ہے مگر میں نے اصرار کیا کہ وہ ضرور لادیں اور میری خاطر لادیں وہ گئے اور سترہ ٹکٹ لا کر دیئے میں نے وہ ٹکٹ کھڑکی میں سے انہیں پکڑا دیئے اور انہوں نے کھڑکی میں سے روپیہ پکڑا دیا۔جب ہم جہاز پر سوار ہونے کے لئے گئے تو وہ دروازہ پر ملے بہت ممنونیت کا اظہار کیا اور بڑی تعریف کی اور جب میں نے ان کی تعریف پوچھی تو معلوم ہؤا کہ یہ وہ دوسرے شخص تھے جنہوں نے ہمیں مروانے کی کوشش کی تھی اور جو کہتے تھے کہ ان کا یہاں آنے کا کیا حق ہے اس پر وہ بھی بہت شرمندہ ہوئے۔
غرضیکہ ہم حج کر کے واپس ہندوستان آگئے۔مصر جانا محض ایک بہانا ہی ہؤا اور اگر اس وقت حج نہ ہو جاتا تو اب جس قسم کے انتظامات کی ضرورت ہے نہ اتنا روپیہ ہوتا کہ یہ انتظامات ہو سکتے اور نہ حج ہوتا اور اب تو ممکن ہے اس ملک کی حکومت ہی اجازت نہ دے۔تو کئی لوگ خواہش تو رکھتے ہیں مگر وقت پر اسے پورا نہیں کرتے اور اس طرح ان کا نفس لنگڑا ہی رہ جاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے کہ وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌّ َّ وہ اس کی تعمیل نہیں کر سکتے۔بہت لوگ گناہوں میں اس لئے مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ان کے نفس میں قوت پیدا نہیں ہوئی ہوتی وہ الوہیت کے کام کرتے ہیں مگر اپنے نفس کو بھُول جاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایسے گڑھے میں گرتے ہیں کہ نکلا نہیں جاتا۔میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں توفیق دے کہ ہم خالق کے بھی اور مخلوق کے بھی کامل مظہر بن سکیں۔آمین‘‘(الفضل۲۵؍اگست۱۹۳۸ئ)
۱؎ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ ۱۳۸۰ ۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ئ
۲؎ (الذّٰریٰت:۵۰)
۳؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۲۰۰ ۔ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۴؎ الزمر: ۲۴
۵؎ غربال: چھاج۔ پیٹ کا ہلکا۔ کم ظرف ۶؎ فاطر: ۱۱

۲۷
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک واضح پیشگوئی
اور اس کا ظہور
(فرمودہ ۱۹؍اگست ۱۹۳۸ئ) ٭
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب کوئی شخص ایک صداقت پر اعتراض کرتا ہے تو وہ لازماً آہستہ آہستہ دوسری صداقتوں پر بھی اعتراض کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جس قدر اعتراضا ت لوگوں نے کئے وہ سارے ایسے ہی تھے جو دوسرے انبیاء پر بھی پڑتے تھے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مثال دیتے اور فرماتے کہ دیکھو یہ اعتراض تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پڑتا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی پڑتا ہے یا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر پڑتا ہے۔تو وہ لوگ گالیوں پر اترآتے اور کہتے کہ آپ انبیاء کی ہتک کرتے ہیں حالانکہ جب ایک شخص ایک صداقت کا مدعی ہے اور وہ اپنے آپ کو اس کی کڑی کے طور پر پیش کرتا ہے تو لازماً اسے دوسروں کی مثالوں کو پیش کرنا پڑتا ہے کیونکہ اگر اس کا فعل قابلِ اعتراض ہوگا تو دوسروں کے افعال کو بھی قابلِ اعتراض قرار دینا پڑے گا اور اگر دوسروں کے افعال کو درست سمجھا جائے گا تو اس کے کسی ویسے ہی فعل پر اعتراض کرنا بھی ناجائز ہوگا۔بہر حال جن اصول کو وہاں تسلیم کیا جائے گا ان اصول کو یہاں بھی تسلیم کیا جائے گا مگر ان کا جواب یہ ہوتا کہ عوام الناس کو بھڑکادیتے اور کہتے مرزا صاحب انبیاء کی ہتک کرتے ہیں۔آتھم کا جن دنوں مباحثہ تھا عیسائی ایک دن شرارت کر کے مسلمانوں اور عیسائیوں کو جوش دلانے اور ہنسی مذاق کی ایک صورت پیدا کرنے کے لئے کچھ اندھے، لُولے اور لنگڑے جمع کر کے لے آئے اور انہیں ایک گوشہ میں چھُپا کر بٹھا دیا اور تجویز یہ کی کہ ہم مرزا صاحب سے کہیں گے کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں اور حضرت مسیح ؑ اندھوں کو بینا کیا کرتے تھے،لنگڑوں اور لُولوں پر ہاتھ پھیرتے اوروہ اچھے ہو جاتے تھے۔اب ہم نے آپ کو تکلیف سے بچا لیا ہے اور یہ کچھ لُولے،لنگڑے اور اندھے جمع کر کے لے آئے ہیں آپ بھی ان پر ہاتھ پھیریں اور انہیں اچھا کر کے دکھائیں،اگر آپ کے معجزہ سے یہ اچھے ہو جائیں گے تو ہم آپ کو اپنے دعویٰ میں سچا مان لیں گے۔میں تو اس وقت بچہ تھا شاید پانچ یا چھ سال میری عمر ہوگی مگر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سے اور بعض دوسروں سے بھی جو اس واقعہ کے عینی شاہد تھے میں نے تمام باتیں سنی ہیں۔آپ فرماتے جب ہم نے یہ بات سنی تو ہم سخت گھبرائے اور ہم نے کہابس اب بڑی ہنسی ہوگی،جو اب تو خیر دیا ہی جائے گا مگر عوام الناس میں اس کی وجہ سے بڑا جوش پیدا ہو جائے گا لیکن جس وقت انہوں نے اس امر کو پیش کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا جواب لکھوانا شروع کیا تو دیکھنے والے جو اس وقت موجود تھے سناتے ہیں کہ عیسائیوں کے لئے سخت مشکل پیش آگئی اور انہوں نے چوری چھُپے ان اندھوں، لُولوں اور لنگڑوں کو ایک ایک کر کے غائب کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ ایک بھی ان میں سے باقی نہ رہا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے جواب میں لکھوایا کہ یہ دعویٰ کہ حضرت مسیح ؑ اندھوں کو آنکھیں دیا کرتے تھے،لُولوں اور لنگڑوں پر ہاتھ پھیرتے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے ان معنوں میں کہ وہ ظاہری اندھوں کو بینا کیا کرتے تھے یا ظاہری لُولوں اور لنگڑوں کو تندرست کر دیا کرتے تھے عیسائی دنیا کا ہے اور حضرت مسیحؑ انجیل میں یہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا تو وہ تمام وہ معجزے دکھا سکے گا جو میں دکھاتا ہوں۔۱؎پس آپ نے فرمایا تم لوگ جو اِس وقت مسیح ؑ کی طرف سے نمائندہ بن کر آئے ہو تم میں کم از کم ایک رائی کے دانہ کے برابر تو ضرور ایمان ہونا چاہئے ورنہ تم نمائندے کیسے ہو سکتے ہوبلکہ حق یہ ہے کہ تم میں ایک رائی کے دانہ سے بہت زیادہ ایمان ہوگا کیونکہ تم معمولی عیسائی نہیں بلکہ عیسائیوں کے پادری ہو اور اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان نہیںتو تم مسیحؑ کے نمائندے نہیں ہو سکتے،اس صورت میں تو تم بے ایمان ہوگے اور اگر تم میں کم از کم ایک رائی کے دانہ کے برابر ایمان موجود ہے تو ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ لوگوں نے ہمیں اس تکلیف سے بچا لیاکہ ہم خود ان اندھوں،لُولوں اور لنگڑوں کو اکٹھا کر کے لاتے اور آپ سے کہتے ہیں کہ انہیں اچھا کر دیں،اب یہ آپ کی کوشش سے خود ہی حاضر ہیں آپ ان پر ہاتھ پھیریں،یا پھونک ماریں اور انہیں اچھا کر کے دکھادیں۔دنیا کو خودبخود معلوم ہو جائے گا کہ واقع میں آپ مسیحؑ کے سچے پیرو ہیں اور انجیل میں ایمان اور صداقت کا جو معیار بتایا گیا تھا اس پر آپ پورے اُترتے ہیں کہتے ہیں۔
جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ جواب لکھوانا شروع کیا تو عیسائیوں نے ان اندھوں، لُولوں اور لنگڑوں کو کھسکانا شروع کر دیایہاں تک کہ اس پرچہ کے سناتے وقت وہ سب اندھے، لُولے اور لنگڑے غائب ہوگئے حالانکہ یہ صاف بات ہے اور انجیل میں بھی موجود ہے کہ حضرت مسیحؑ سے یہود ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں کوئی معجزہ دکھاؤ۔اگر واقع میں وہ اندھوں کو آنکھیں دیا کرتے تھے،لُولوں اور لنگڑوں پر ہاتھ پھیرتے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے تو دشمنوں کے یہ کہنے کا کیا مطلب تھا کہ ہمیںکوئی معجزہ دکھاؤ۔خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مطالبہ حضرت مسیحؑ سے انہوں نے آخری زمانہ میں کیا ہے۔اگر واقع میں وہ ایسے ہی معجزے دکھایا کرتے تھے تو وہ کہہ سکتے تھے کہ تم مجھ سے یہ معجزات کا بار بار کیوںمطالبہ کرتے ہو میں نے اتنے اندھوں کو آنکھیں دیں،اتنے لنگڑوں کو تندرست کیا،اتنے لُولوں کو اچھا کیا اس سے بڑھ کر تمہیں اور کیا معجزہ چاہئے مگر وہ یہ جواب نہیں دیتے بلکہ جواب یہ دیتے ہیں کہ اس زمانہ کے بُرے اور حرامکار لوگ مجھے سے نشان طلب کرتے ہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ انہیں یونس نبی کے نشان کے سِوا اور کوئی نشان نہیں دیا جائے گا۔۲؎یعنی اب تمہارے لئے یہی معجزہ ہوگا کہ تم میرے قتل کی تدبیریں کرو گے، مجھے صلیب پر لٹکاکر مجھے ملعون ثابت کرنا چاہو گے، مگر میرا خدا مجھے صلیب سے بچا لے گا اور جس طرح یونس مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلا اِسی طرح میں بھی صلیب پر سے زندہ اُتروں گا اور یہی تمہارے لئے معجزہ ہوگا اس کے سوا اور کوئی نشان تمہیں نہیں دکھایا جائے گا۔اگر واقع میں وہ اندھوں کو ظاہری آنکھیں دے دیا کرتے تھے،کوڑھیوں کو اچھا کر دیتے تھے،لُولوں اور لنگڑوں پر ہاتھ پھیرتے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے تو وہ ہزاروں آدمیوں کو اپنے معجزات کے ثبوت میں پیش کر سکتے تھے اور کہہ سکتے تھے کہ اتنے ہزار اندھوں کو میں نے بینا بنایا،اتنے ہزار لُولوں کو میں نے تندرست کیا،اتنے ہزار لنگڑوں کو میں نے اچھا کر کے کام کے قابل بنایا۔مگر اناجیل میں باوجود ایسی عبارتوں کے موجود ہونے کے جن میں یہ لکھا ہؤا ہے کہ حضرت مسیح نے اندھوںکو بینا کیا،لُولوں اور لنگڑوں کو اچھا کیا،پھر وہ یہودی پوچھتے اور کہتے ہیں کہ کوئی معجزہ دکھاؤ۔جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں ظاہری اندھوں کو بینا کرنے یاظاہری مُردوں کو زندہ کرنے یا ظاہری لُولوں اور لنگڑوں کو اچھا کرنے کا ذکر نہیں بلکہ روحانی مُردوں کے احیاء اور روحانی بیماروں کے اچھا ہونے کا بیان ہے اور روحانی مُردہ کے زندہ ہونے یا روحانی اندھے کے بینا ہونے کو کو ن تسلیم کرتا ہے۔صرف وہی لوگ جن کے اندر ایمان ہوتا ہے سمجھتے ہیں کہ ایک شخص پہلے روحانی لحاظ سے مُردہ تھامگر پھر زندہ ہو گیا،پہلے روحانی لحاظ سے اندھا تھا مگر پھر بینا ہو گیا،مگر دشمن تو اس امر کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ دشمن تو یہ کہتا ہے کہ پہلے یہ زندہ تھے اب مر گئے ہیں،پہلے یہ بینا تھے اور اب اندھے ہو گئے ہیں۔پہلے یہ تندرست تھے مگراب لُولے اور لنگڑے ہو گئے ہیں۔ہمارے نزدیک جب ایک غیر احمدی احمدی بنتا ہے تو پہلے وہ نابینا ہوتا ہے مگر پھر بینا ہو جاتا ہے مگر غیر احمدیوں کے نزدیک پہلے وہ بینا ہوتا ہے اور احمدی بن کر نابینا ہو جاتا ہے۔اسی وجہ سے ہم تو کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ سے لاکھوں روحانی مُردے زندہ ہوگئے مگر ایک غیر احمدی جب ہماری اس بات کو سنے گا تو وہ ہنس کر کہہ دے گا مرزا صاحب نے لاکھوں کو کافر مرتد اور دجال بنا دیا۔پس ایسے معجزات سے ایک مؤمن تو فائدہ اٹھالیتا ہے مگر غیر مؤمن فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔اِسی لئے حضرت مسیح علیہ السلام سے یہود کہا کرتے تھے کہ تم نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا۔آپ ان کی اس بات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں تمہیں ہمیشہ یہی نظر آئے گا کہ میں نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا اور تم میری مخالفت میں بڑھتے چلے جاؤ گے یہاں تک کہ ایک دن تم مجھے مارنا چاہو گے تب خدا مجھے بچائے گا اور یہی تمہارے لئے میری صداقت کا ایک نشان ہوگا۔تو ہر نبی پر یا راست باز پریا ہر راستبازی پر جو بھی اعتراضات ہوں لازماً اُسی قسم کے اعتراضات دوسرے نبیوں ،دوسرے راستبازوں اور دوسری راستبازیوں پر بھی پڑتے ہیں مگر لوگ ہیں کہ اس صداقت کو تسلیم نہیں کرتے حالانکہ الٰہی سنت یہ ہے اوراللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس قسم کا بنایا ہے کہ اس کا ہر دن پہلے دن کے مشابہہ ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام پہلے نبی تھے جو آئے، پھر حضرت نوح ؑ آئے،پھر حضرت ابراہیم ؑآئے، پھر حضرت موسیٰ ؑاور پھرحضرت عیسیٰ ؑآئے اور اسی طرح اور بہت سے انبیاء درمیانی زمانوں میں آتے رہے،یہ صرف چندمعروف نام ہیں جو میں نے لئے،اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور دوسرے مُلکوں میں حضرت کرشن ؑ آئے،حضرت رام چندر ؑ آئے،حضرت زر تشتؑ آئے لیکن ان سب کے حالات یکساں ملتے چلے جاتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ ان کے دشمنوں کے حالات بھی آپس میں بالکل یکساں ہیں۔چنانچہ قرآن کریم میں جہاں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ انبیاء ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں،وہاں یہ بھی فرماتا ہے کہ کفار بھی ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں۔چنانچہ فرماتا ہے۔۳؎کیایہ کفار وصیت نامہ لکھتے چلے گئے تھے کہ جب اگلا نبی آئے تو اس پر بھی تم ایساہی اعتراض کرنا۔پھر اگر کفار ایک سے چلے جاتے ہیں تو منافق بھی ایک سے چلے جاتے ہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم اس طرح نفاق نہ کروجس طرح موسیٰ کے زمانہ میں بعض لوگوں نے نفاق کیا اور آپ کو ان کے افعال سے اذیت پہنچی۔۴؎مگر کرنے والوں نے اسی طرح نِفاق کیا۔پھر اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ آیا تو وہی کچھ جو پہلے انبیاء کے زمانہ میں ہوتا رہا اب ہورہا ہے اورجس طرح پہلے منافق اعتراض کیا کرتے تھے اسی طرح موجودہ زمانہ کے منافق اعتراضات کرتے نظر آتے ہیں۔
میںنے ایک پچھلے خطبہ جمعہ میں منافقوں کی بعض علامات بتائی تھیں اور جماعت کے دوستوں کو سمجھایا تھا کہ منافق کون ہوتا ہے اور اس کی کیاکیا علامتیں ہوتی ہیں۔ اس پر مجھے ایک منافق کا ایک گمنام خط آیا۔یہ شخص پہلے بھی کئی دفعہ ایسے خط لکھ چکا ہے اور ہمارا خیال ہے کہ یہ مصری پارٹی کا کوئی فرد ہے مگر خطوں میں ہمیشہ مصری صاحب کو ’’کمبخت مصری‘‘لکھا کرتا ہے لیکن بات وہی کرتا ہے جو مصری پارٹی کرتی ہے۔پھر نہ معلوم اس کا ’’کم بخت‘‘کہنا کیا معنے رکھتاہے اگر تو وہ انہی میں سے ہے تو یہ اول درجہ کی بے حیائی ہے کہ ان میں سے ہوتے ہوئے ’’کمبخت مصری‘‘لکھتا ہے۔اور اگر ان میں سے نہیں تو یہ اوّل درجہ کا پاگل ہے کہ بات تو وہی کہتا ہے جو مصری پارٹی کہہ رہی ہے مگر پھر انہیں’’کم بخت‘‘کہتا ہے۔تو کئی خطوط اس گمنام خط بھیجنے والے کے میرے نام آئے ہیں۔میں ’’کئی خطوط‘‘اس لئے کہتا ہوں کہ یہ خود بھی اپنے اس خط میں تسلیم کرتا ہے کہ پہلے جو خط آپ کو ملے ہیں وہ بھی میرے ہی ہیں۔دوسرے ان تمام خطوط کا طرز تحریر آپس میں ملتا ہے۔وہ اس خط میں اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے۔دیکھو تم نے منافقوں کے متعلق ایک خطبہ پڑھا مگر تم نے یہ نہ سمجھا کہ منافقت کا دائرہ تم نے اتنا وسیع کر دیا ہے کہ اب کوئی مومن رہ ہی نہیں سکتا بلکہ ہر شخص پر نِفاق کا شُبہ ہو سکتا ہے۔حالانکہ میرا مضمون کیا تھا؟ میرا مضمون یہ تھا کہ منافق چار قسم کے ہوتے ہیں۔ایک وہ ہوتے ہیں جو کسی ڈر یا لالچ کے ماتحت ایک مذہب میں داخل ہوجاتے ہیں ورنہ ایمان ایک دن بھی اُن کے دلوں میں داخل نہیں ہوتا وہ کفر کی حالت میں پیدا ہوتے، کفر کی حالت میں اسلام میں داخل ہوتے اور کفر کی حالت میں ہی مر جاتے ہیں۔اب بتایا جائے وہ کون سے مؤمن اور مخلص ہیں جو اِس تعریف کے اندر آجاتے ہیں۔آیا بعض مؤمن اور مخلص بھی ذاتی فوائد کے لئے الٰہی سلسلہ میں داخل ہؤا کرتے ہیں اور آیا ان کے دلوں میں ایک دن بھی ایمان کبھی داخل نہیں ہوتا۔پھردوسری قسم منافقوں کی میں نے یہ بیان کی تھی کہ بعض لوگ ایمان کی حالت میں ایک مذہب قبول کرتے ہیں مگر بعد میں ان کے دلوں میںبگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ مرتد ہو جاتے ہیں۔اس تعریف کے ماتحت بھی بھلاکونسا مخلص ہے جو آسکے اور کونسے مخلصوں کو میں نے یہ تعریف کر کے منافق بنادیا ہے۔کیا مخلص بھی کبھی مرتد ہؤا کرتے ہیں یا وہ جو ایمان سے داخل ہوتے اور بعد میں مرتد ہو جاتے ہیں۔انہیں منافقین کی بجائے سابقون الاولون اور انصاراور مہاجر کہنا چاہئے۔پھر میں نے کہا تھا کہ منافقوں کی ایک قسم وہ ہے جن کے اندر ایمان تو ہوتا ہے مگر ساتھ کفر بھی ہوتا ہے اور اس ایمان اور کفر کے ان پر دَورے آتے رہتے ہیں۔کبھی قربانیاں کرنے لگ جائیں گے اور کبھی ہمت ہار کر بیٹھ جائیں گے اور سلسلہ اور نظام پر اعتراض کرنے لگ جائیں گے۔اس تعریف کے ماتحت بھی کوئی مخلص نہیں آسکتا کیونکہ مخلص اور مؤمن کبھی ہمت نہیں ہارا کرتے اور ان پر انکار اور بُزدلی کا دَورہ کبھی نہیں آیا کرتا۔
پھر منافقوں کا چوتھا گروہ میں نے اُسے قرار دیا تھا جو مؤمن کی بات کوبُرا سمجھتا اور منافق کی دوستانہ تعلقات کی وجہ سے تائید کرتا رہتا ہے۔اب بتاؤ اس دائرہ میں بھی کونسے مخلص آسکتے ہیں یا کونسے ایسے مؤمن ہیں جو اِس تعریف کی زد میں آسکتے ہیں۔اگر واقع میں کوئی مخلص ہے تو وہ مخلصوں کی تائید کرے گا منافقوں کی تائیدکس طرح کرے گا۔اور اگر وہ منافقوں کی تائیدکرے گا تو اُسے مخلص اور مؤمن سمجھنا غلطی ہوگا۔
غرض منافقین کی جو علامتیں میں نے بتائی تھیں ان میں سے کوئی بھی ایسی علامت نہیں جس سے مخلصین کے اخلاص اور مؤمنین کے ایمان کو اشتباہ کی نگاہوں سے دیکھا جا سکے۔پھر جو کچھ میں نے بیان کیا تھا قرآن کریم سے بیان کیا تھا اگر اسے یہ باتیں بُری معلوم ہوتی ہیں تو وہ قرآن کریم سے یہ آیتیں نکال کر پھینک دے اور کوئی ایسا قرآن چھاپے جس میں یہ آیتیں موجود نہ ہوں۔ جس دن وہ ایسا قرآن چھاپ دے گا ہم سمجھ لیں گے کہ اب ہمیں منافقوں کی یہ تعریف نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر یہ آیتیں قرآن کریم میں رہیں گی اور ہمیشہ رہیں گی اور قیامت تک کوئی کافر اور منافق ان کو قرآن کریم سے نکال نہیں سکتاتو جب تک یہ آیتیں موجود ہیں، ایسے لوگ منافق ہی رہیں گے اور کسی صورت میں منافقت کا داغ ان کے چہروں سے مٹ نہیںسکتا۔آخر۵؎قرآن کریم میں مَیں نے نہیں لکھ دیا۔منافق قرآن کریم کے تمام نسخوں کو دیکھ لیں ان نسخوں کو بھی دیکھ لیں جو میری اس بیان کردہ تعریف سے پہلے کے چھَپے ہوئے ہیں اور پھر دیکھیں کہ آیا ان نسخوں میں یہ آیت ہے یا نہیں اور جب ہے تو وہ خود ہی سوچیں کہ اس میں میراکیا دخل ہؤا۔انہیں اگر اعتراض کا شوق ہے تو وہ خدا پر کریں کہ اس نے کیوں نَعُوْذُ بِاﷲِ ایسی جھوٹی بات قرآن کریم میں لکھ دی جو ان کی سمجھ میں نہیں آتی اور جسے موجودہ منافق غلط قرار دے رہے ہیں۔اس نے آپ ہی آپ ایک بات قرآن کریم میں لکھ دی حالانکہ اسے چاہئے تھا کہ وہ پہلے ان منافقوں سے مشورہ لیتا اور پوچھتا کہ منافق کون ہوتا ہے پھر جو تعریف یہ بتاتے اسے قرآن کریم میں نازل کرتا۔لیکن اس قدر اعتراضات کرنے کے باوجود ہر خط میں بڑا اخلاص بھی ظاہر کیا ہؤا ہوتا ہے اور لکھا ہوتا ہے کہ ہم سلسلہ کے خادم ہیں مگر اس کی سلسلہ سے محبت کا اندازہ اسی سے ہوسکتاہے کہ ایک خط میں جس کے متعلق اس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ اسی کا لکھا ہؤا ہے اس پر یہ تحریر کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود ولی اللہ تھے اور ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے ہیں،اگر انہوں نے کبھی کبھار زنا کر لیا تو اس میں حرج کیا ہؤا۔پھر لکھا ہے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض نہیں کیونکہ وہ کبھی کبھی زنا کیا کرتے تھے ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے جو ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے ۔اس اعتراض سے پتا لگتا ہے کہ یہ شخص پیغامی طبع ہے اس لئے کہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ اعتقاد ہے کہ آپ نبی اللہ تھے مگر پیغامی اس بات کو نہیں مانتے اور وہ آپ کو صرف ولی اللہ سمجھتے ہیں۔
تو جب کوئی شخص ایک سچائی پر اعتراض کرتا ہے اسے لازماً دوسری سچائیوں پر بھی اعتراض کرنا پڑتا ہے۔مثلًا مصری صاحب کو سب سے پہلے میری خلافت میں نقائص نظر آئے۔اب اس کا یہ لازمی نتیجہ ہے حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل پر بھی ان کا حملہ ہو کیونکہ جس طرح میں خلیفہ ہوں اسی طرح وہ بھی خلیفہ تھے،جس طر ح میں یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنایا ہے کسی انسان نے نہیں بنایا اسی طرح آپ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے ۔اور کسی انسان کی یہ طاقت نہیں کہ مجھے خلافت سے معزول کرے۔پھر آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص میری خلافت پر اعتراض کرے گا وہ ابلیس بن جائے گا اور جب میں مر جاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہوگا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اُس کو آپ کھڑا کرے گا۔
پس جب انہوں نے بھی یہی باتیں کہی ہیں تومعترض اپنے دل میں سوچتا اور کہتا ہے اگر حضرت خلیفہ اوّل کی باتیں صحیح تھیں تو موجودہ خلافت پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور اگر موجودہ خلافت قابلِ اعتراض ہے تو حضرت خلیفہ اوّل کی خلافت بھی باطل ہے اور چونکہ اس کے دل میں بُغض ہوتا ہے اس لئے وہی اعتراض جو وہ مجھ پر کرتا ہے حضرت خلیفہ اوّل پر بھی کر دیتا ہے اور اس طرح ان کی خلات کا بھی منکر ہو جاتا ہے۔پھر اس سے اوپر جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان پیشگوئیوں کو دیکھتا ہے جو آپ نے میرے متعلق فرمائیں،آپ کی ان دعاؤں کو پڑھتا ہے جو آپ نے میرے لئے اور اپنی باقی اولاد کے لئے کیں،تو اسے کہنا پڑتا ہے کہ یہ بھی غلط ہی ہیں۔ وہ پیشگوئیاں سنتا اور کہتا ہے کہ یہ پوری نہیں ہوئیں اورد عاؤں کا ذکر سنتا ہے تو کہتا ہے ہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعائیں بیشک کی تھیں مگر وہ قبول نہیں ہوئیں۔ان کم بختوں کی دعائیں تو قبول ہو جائیں لیکن اگر دعائیں قبول نہ ہوں تو خدا کے مسیحؑ اور اس کے نبی کی! اپنے متعلق تو ان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بار بار کہتے ہیں ہم دعا کریں گے اللہ تعالیٰ ہمیں غلبہ دے گا اللہ سچوں کی سنتا ہے۔مگر کیا مسیح موعودؑہی نَعُوْذُ بِاﷲِ احرار کے اقوال کے مطابق کذّاب اور دجال تھا کہ خدا نے اس کی دعاؤں کو نہ سنا۔وہ سنتا ہے تو انہی منافقوں اور بد باطنوں کی۔پھر لکھنے والا مجھے لکھتا ہے تم نے جماعت سے نذرانے وصول کر کے اسے غریب کر دیا۔تم اس وقت یہاں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو،کیا تم میں سے کوئی ایک شخص بھی قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ میں نے کبھی ایک پیسے کا بھی اس سے فائدہ اٹھایا ہو۔میرا طریق ہمیشہ یہ ہے کہ بعض دوست میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم فلاں چیزآپ کے لئے لاناچاہتے ہیں وہ کس سائز کی ہو۔مثلاً بوٹ کا کیا سائز ہو،یا جرابیں کس سائز کی ہوں مگر میں کبھی انہیں جواب نہیں دیتا سوائے اس کے کہ بعض دفعہ کوئی پیچھے پڑ کر پاؤں کا ناپ لے لے تو یہ دوسری بات ہے۔ورنہ میںنے کبھی کسی کو بھی ایسی باتوں کا جواب نہیں دیا بلکہ بعض تو کئی کئی خط لکھتے ہیں اور جب میں جواب نہیں دیتا تو وہ شکایت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں شاید میں ان کے خطوں کا اس لئے جواب نہیںدیتا کہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہوں حالانکہ میں جواب اس لئے نہیں دیتا کہ یہ بات میری طبیعت کے خلاف ہے اور میں اسے بھی سوال کا ایک رنگ سمجھتا ہوں۔ہاں اگر کوئی دوست خود بخود کوئی تحفہ دے جائے تو میں اسے رد بھی نہیں کرتا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ امر ثابت ہے کہ آپ ایسے تحائف قبول فرما لیا کرتے تھے۔آپ نے فرمایا بھی ہے کہ بِغَیْرِ اَشْرَافِ نَفْسٍِ بغیر نفس کی خواہش کے اگر کوئی شخص تحفہ دے تو اُسے قبول کر لو۔۶؎ بَارَکَ اﷲُ لَکَ فِیْہِ اللہ تعالیٰ تجھے اس میں برکت دے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ایسے تحائف قبول کر لیا کرتے ۔آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تجارت نہیں کیا کرتے تھے آپ کی کوئی جائداد نہیں تھی۔پھر آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں کوئی اجر نہیں مانگتا۔ایسی صورت میں صحابہ میں سے اگر کوئی اپنی مرضی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیتہً کچھ پیش کرتا تو آپ اسے قبول فرما لیتے ۷؎اور اگر کوئی آپ ہی اپنی مرضی سے خدمت کرتا اور پھر اس کا احسان جتاتا ہے تو اس سے زیادہ گندہ اور کمینہ شخص اور کون ہو سکتا ہے اور کب اسے کہا گیا تھا کہ کچھ دو۔اسی طرح میں ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ مجھے کچھ مت دو اور اگر کوئی مجھ سے کچھ لانے کے لئے پوچھتا بھی ہے تو میں اس کا جواب نہیں دیتا۔ایسی حالت میںبغیر میری خواہش کے اگر کوئی شخص مجھے نذرانہ دیتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے دیتا ہے میں نے کبھی کسی سے نذارنہ نہیں مانگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے ایام میں سیالکوٹ کے ایک زمیندار دوست نے میرے ہاتھ پر چونی رکھ دی مجھے یا دہے کہ اس وقت شرم کے مارے میرا جسم پسینہ پسینہ ہو گیا اور میں اس مجلس سے بھاگا اور سیدھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کی خدمت میںپہنچا اور وہ چونی آپؑ کے سامنے پیش کر دی اور شکوہ کیا کہ ایک شخص نے آج میرے ہاتھ پر یہ چونی رکھ دی ہے۔اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ مجھے اس کا فعل اچھا نہیں لگا۔فرمایا تمہیں اس کے جذبے کی قدر کرنی چاہئے اس نے جو کچھ کیا ہے محبت کے ماتحت کیا ہے،تمہاری ہتک کرنے کے خیال سے نہیں کیا۔حدیث میں بھی آیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے کچھ دے تو وہ لے لو۔ چنانچہ اب اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے مجھے کچھ دے دے تو میں لے لیتا ہوں ورنہ مانگنے کے لحاظ سے کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کبھی کسی سے کچھ مانگا ہو۔باقی رہے چندے سو اگر میں نے اپنے لئے جماعت سے نذرانے لینے ہوتے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ میں چندے کم لگاتاتا جماعت کے پاس روپیہ رہے اور وہ نذرانوں میں مجھے دیتی رہے۔کیونکہ میں خیال کرتا اگر تمام روپیہ سلسلہ کے خزانہ میں چلا گیا تو جماعت غریب ہو جائے گی اور وہ مجھے نذرانے نہیں دے سکے گی۔پس اس نقطہ نگاہ کے ماتحت مجھے چندے کم لگانے چاہئیں تھے مگر میرا زیادہ چندے مانگنا ہی بتاتا ہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں سلسلہ کی خیر خواہی کے لئے کر رہا ہوں۔
پھر میں کہتا ہوں کہ یہ اعتراض صرف مجھ پر ہی نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام پر بھی اعتراض پڑتا ہے۔دشمنوں کی تمام کتابیں اس قسم کے اعتراضات سے بھری پڑی ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے زمانہ میں بعض منافق بھی اس قسم کے اعتراض کر دیا کرتے تھے۔
لدھیانہ کا ایک شخص تھا جس نے ایک دفعہ مسجد میں مولوی محمد علی صاحب،خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب کے سامنے کہا کہ جماعت مقروض ہو کر اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندہ میں روپیہ بھیجتی ہے مگر یہاں بیوی صاحبہ کے زیورات اور کپڑے بن جاتے ہیں اور ہوتا ہی کیا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کو جب اس کا علم ہؤا تو آپ نے فرمایا اس پر حرام ہے کہ وہ ایک حبہ بھی کبھی سلسلہ کے لئے بھیجے اور پھر دیکھے کہ خدا کے سلسلہ کا کیا بگاڑ سکتا ہے اور آپ نے فرمایا کہ آئندہ اس سے کبھی چندہ نہ لیا جائے حالانکہ وہ پرانا احمدی تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے دعویٰ سے پہلے بھی آپ سے تعلق رکھتا تھا۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے زمانہ میں تو ایک بے دین اور بے ایمان شخص کے لئے اشتباہ کا موقع کسی حد تک پیدا ہو سکتا تھا کیونکہ نذرانہ کا روپیہ اور لنگر خانہ کا روپیہ اکٹھا آتا تھا مگر ہمارے زمانہ میں یہ بات بھی نہیں۔
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانہ میں مَیں لنگر کا افسر تھا اور یہ بات میں بھی جانتا ہوں اورد وسرے سب دوست بھی جانتے ہیںکہ حضرت خلیفہ اوّل کے گھر ہمیشہ لنگر سے کھانا جایا کرتا تھا مگر ہمارے گھر میں تو کبھی لنگر کا کھانا نہیں آیا۔میری خلافت پر ابھی دوچار دن ہی گزرے تھے کہ میںنے اپنے گھر والوں کو نہایت سختی سے روک دیا اور کہا کہ لنگر سے کھانا کبھی نہیں منگوانا لنگر تمہارا ذمہ دار نہیں۔تم چاہو تو پہرے لگا کر دیکھ سکتے ہوکہ آیا یہ بات درست ہے یا نہیں اور آیا کبھی بھی ہمارے گھر لنگر خانہ سے کھانا آیا حالانکہ حضرت خلیفہ اوّل کے گھر ہمیشہ لنگر کا کھانا جایا کرتا تھا۔
صدر انجمن احمدیہ کے جو کارکن ہیں ان میں بھی بعض منافق ہیں وہ اور دوسرے منافق ہمت کر کے ایک لسٹ کیوں شائع نہیں کرتے جس سے ہر شخص کو یہ معلوم ہو سکے کہ میں جماعت کا کتنا روپیہ کھاگیا ہوں۔اگر ان میں ہمت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا دعویٰ درست ہے تو وہ ایسی لسٹ شائع کردیںپھر لوگوں کو خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ کون درست بات کہہ رہا ہے اور کون غلط۔میری تو یہ حالت ہے کہ میں سوائے اس رقم میں سے جس کے متعلق مجلس شوریٰ نے میری عدم موجودگی میں فیصلہ کیا تھا قرض کے طور پر اخراجات لینے کے بطور امداد انجمن سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتا،بلکہ کئی دفعہ میرے چندے ان رقموں سے بڑھ جاتے ہیں جو جماعت کے دوستوں کی طرف سے بطورنذرانہ وغیرہ ملتی ہیں۔
اسی طرح اُس نے لکھا ہے کہ آپ کوروپیہ دیتے دیتے جماعت غریب ہو گئی۔چنانچہ وہ اس کی مثال دیتے ہوئے لکھتا ہے حکیم نظام الدین صاحب کا لڑکا صلاح الدین رشید تو تعلیم سے محروم رہے مگر تمہارے لڑکے ولایت تک تعلیم حاصل کر آئیں یہ کونسا انصاف ہے حالانکہ ہمارے لڑکے اگر ولایت تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے ہیں تو اس کے خرچ کا بار جماعت پر نہیں پڑا بلکہ ہم نے اپنی زمینیں فروخت کر کے انہیں ولایت تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔
پس میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہمارے لڑکوں کے پڑھنے سے جماعت کیونکر غریب ہوگئی۔کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہمارے لڑکے پڑھیں اپنے خرچ پر اور غریب جماعت ہو جائے۔ولایت تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہمارے تین لڑکے گئے ہیں اور تینوں کے لئے ہم نے اپنی زمینیں فروخت کیں۔ مرزا عزیز احمد صاحب کا لڑکا تعلیم حاصل کرنے کے لئے گیا تھا جوبے چارہ فوت بھی ہوگیااس کے لئے انہوں نے اپنے حصہ کی زمین فروخت کی تھی۔ میاںشریف احمد صاحب نے اپنے لڑکے کو بھیجا تو انہوں نے اپنے حصہ کی زمین فروخت کی اور میاں بشیر احمد صاحب نے اپنا لڑکا بھیجا تو انہوں نے اپنے حصہ کی زمین فروخت کی صرف میں نے اپنے لڑکے کے لئے کوئی زمین نہیں بیچی مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس پر جماعت کا خرچ ہؤا۔ اس پر بھی جماعت کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہؤابلکہ بات یہ ہوئی کہ جب میرے بھائیوں نے اپنے لڑکوں کو ولایت بھیجنے کے خیال کا اظہار کیا تو ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست نے مجھے میرے لڑکے کے متعلق لکھا کہ چونکہ بڑے ہو کر اس نے دین کی خدمت کرنی ہے اس لئے میرا ارادہ ہے کہ اسے اپنے خرچ پر ولایت بھجوا دوں تا کہ اسے تجربہ حاصل ہو جائے۔چونکہ پہلے لڑکوں کے لئے تو ہم نے زمینیں فروخت کرنی تھیں اگر اس کے لئے بھی کوئی زمین فروخت کی جاتی تو یہ بار مشکل سے سہارا جا سکتا اس لئے میں نے اپنے بچہ کو سمجھادیا تھا کہ تم دل میں کوئی اور خیال نہ لانا کہ اَوروں کو تو ولایت بھیجا جا رہا ہے مگر مجھے نہیں بھیجا جاتا کیونکہ تمہارے بھائیوں کے جانے کی صورت میں ایک وقت اس قدر روپیہ جمع نہیں کیا جا سکتا اور وہ بالکل اِس پر خوش تھا۔
لیکن اس دوست نے لکھا کہ میری نیت یہ ہے کہ میں اپنا روپیہ خرچ کر کے آپ کے بچہ کو ولایت تعلیم دلاؤں اور اسے ولایت بھیجوں۔تب میں نے انہیں لکھا کہ میری غیرت اسے برداشت نہیں کر سکتی کہ میرے بچہ کے اخراجات آپ برداشت کریں۔انہوں نے اصرار کیا اور بہت اصرار کیا جس پرآخر میں نے انہیں لکھا کہ اس شرط پر میںآپ کی تجویز مان سکتا ہوںکہ آپ کا جس قدر روپیہ خرچ ہو وہ آپ میرے ذمہ اپنا قرض سمجھیں جب خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے گا تو میں اسے اتار دوں گا۔انہوں نے کہا بہت اچھا مجھے یہ بات منظور ہے۔چنانچہ وہ ان کے خرچ پر ولایت گیا اور انہی کے خرچ پر تعلیم پاتا رہا۔مجھے اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس پر ان کا کیا خرچ ہؤا اور کس قدر وہ رقم اسے دیتے رہے پس میرے بچہ کے اخراجات وہی دوست برداشت کر رہے ہیں۔انجمن کا توایک پیسہ بھی ہم پر حرام ہے۔باقی اخراجات کے متعلق رجسٹرات موجود ہیں۔وہ زمینیں دیکھی جا سکتی ہیں جن کو ہم نے فروخت کیا ہے اپنے بچہ کے متعلق اس دوست کا نام مَیں ابھی ظاہر نہیں کرتا جنہوں نے اس کے تمام اخراجات برداشت کئے ہوئے ہیں۔اگر کوئی شخص قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ میں نے جو بات بیان کی ہے وہ غلط ہے اور اس پر صدر انجمن کا روپیہ خرچ ہؤا ہے تو میں اُس دوست سے کہوں گا کہ اب اگر آپ کانام ظاہر کر دیا جائے تو اس میں آپ کوکوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ان بینکوں کے نام جن کی معرفت اسے روپیہ جاتا رہا۔روپیہ بھیجنے والے دوست کا نام اور اسی طرح کی اور تمام باتیں ہمارے علم میں ہیں اورہم بوقت ضرورت ان کا اظہار کرنے کے لئے تیار ہیں۔ پس میں نہیں سمجھتا کہ جماعت اس وجہ سے غریب کس طرح ہوگئی اور اگر سلسلہ کے لئے چندہ لینے کی وجہ سے جماعت غریب ہوگئی ہے تو جیسے دوسروں سے میں نے چندہ لیا ہے اسی طرح خود بھی چندہ دیا ہے پس وہ غریب ہو گئے اور میں بھی غریب ہوگیا مگر دنیا کی نظر میں ہم غریب ہوئے خدا کی نگاہ میں غریب نہیں ہوئے بلکہ ہم میں سے ہر شخص جو مؤمن ہے سمجھتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کر کے مالدار بن گیا ہوں کیونکہ جب ہمیں اس کے رستہ میں اپنے اموال قربان کرنے کی توفیق مل گئی تو یہی بڑی سعادت اور بڑی عزت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان باتوں کے کہتے ہوئے شرم آتی ہے اور محض منافقوں کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے کہنی پڑتی ہیں۔ورنہ ہم نے جو کچھ دیا ہے اپنے خدا کے لئے دیا ہے،کسی بندہ کے لئے تھوڑا دیا ہے۔میں نے اگر اس کی راہ میں کچھ روپیہ دیا ہے تو وہ میرے رب کی ایک چیز تھی اس نے مطالبہ کیا اور میں نے اس کا ایک حصہ دے دیا میں شرمندہ ہوں کہ میں نے سارا نہیں دیا اور جو حصہ دیا ہے اُس کا ذکر بھی میں کبھی نہ کرتا اگر منافق مجھ پر اعتراض نہ کرتے۔ تو وہ کہتے ہیں اور بار بار اپنے خطوں میں لکھتے ہیں کہ میں جماعت کا روپیہ کھا گیا۔میں ان سے کہتا ہوں انجمن کے رجسٹر موجود ہیں کیا کوئی شخص ثابت کر سکتا ہے کہ میں نے ایک پیسہ بھی کھایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تم سینکڑوں روپیہ ماہوار اپنی بیویوں کے لئے اور ہزاروں روپیہ ماہوار اپنے بچوں کے لئے لیتے ہو جماعت یہ روپیہ دیتی دیتی کنگال ہوگئی حالانکہ میںنہ سینکڑوں روپیہ بیویوں کے لئے لیتا ہوںنہ ہزاروں روپیہ بچوں کے لئے اور یہ جو کچھ کہا گیا ہے بالکل جھوٹ اور افتراء ہے۔ہمارے چار بچے بیشک ولایت تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے تین کے لئے ہم نے اپنی زمینیں فروخت کیں اور ایک کو ایک دوست نے اپنے خرچ پر بھیجا۔
پھر بعض لوگ ہم پر اعتراض کرتے اور کہتے ہیں کہ تم نے اپنے نفع کے لئے قادیان میں زمینوں کی قیمتیں بہت بڑھا رکھیں ہیں حالانکہ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم نے زمین کی قیمتیں گرائی ہوئی ہیں،بڑھائی ہوئی نہیں۔۱۹۱۴ء میںجب پہلی دفعہ محلہ دارالفضل کے لئے ہم نے اپنی زمین فروخت کی تو وہ قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کے لئے کی تھی اور تین ہزار روپیہ اس طرح جمع کیا تھا۔چنانچہ وہ زمین فروخت کرکے ہم نے پہلے پارے کا ترجمہ چھپوایا اور صدر انجمن احمدیہ کو دے دیا۔اس وقت بعضوں نے کہا بھی کہ آپ ابھی یہ زمین نہ بیچیں کچھ عرصہ کے بعد زمین کی قیمت بہت بڑھ جائے گی اس وقت فروخت کر دیں لیکن میں نے کہا کہ اوّل اس وقت قرآن کریم کی اشاعت کی ضرورت ہے اس کے لئے ہر قربانی کرنا ہمارا فرض ہے اور دوسرے قیمت کے زیادہ ہونے کا انتظار کرتے رہیں گے تو قادیان کی ترقی کس طرح ہوگی۔چنانچہ اس وقت نہایت سَستے داموں پر ہم نے یہ زمین فروخت کر دی۔
پھر لوگ کہتے ہیں زمینوں کے بارہ میں غیروں سے سختی کی جاتی ہے حالانکہ قادیان میں جس قدر آبادی ہے اتنی آبادی اور کسی شہر میں ہو تو وہاں کبھی اِس قیمت پر زمینیں نہ ملیں جس قیمت پر ہم یہاں دیتے ہیں۔اور شہروں میں پھر کر دیکھ لیا جائے جتنی بستی قادیان کی ہے اتنی بستی اگر کوئی اور ہوگی تو وہاں یہاں کی نسبت بہت زیادہ زمین کی قیمت ہوگی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ہندو چلے جاتے ہیں اور منڈیوں اور تجارت کی وجہ سے زمینوں کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے۔ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہندوؤں کو قادیان میں زمینیں نہیں لینے دیتے حالانکہ اگر ہم اس پابندی کو اڑا دیں اور ہندوؤں کے لئے بھی زمین خریدنے کا رستہ کھول دیں تو دو سال کے اندر اندر موجودہ قیمتوں سے چار پانچ گُنا قیمت بڑھ جائے۔قادیان ایک بڑھتا ہؤا شہر ہے اگر ہم اجازت دے دیں تو سینکڑوں ہندو یہاں آکر آباد ہو جائیں۔چنانچہ بیسیوں دفعہ سری گو بند پور اور بٹالہ وغیرہ کے سیٹھ اِس امر کی کوشش کر چکے ہیں کہ اُنہیں یہاں زمین مل جائے۔ہندوؤں کے پاس روپیہ ہوتا ہے اِس لئے وہ جہاں جائیں گے زمین کی قیمت بڑھ جائے گی۔منٹگمری میں بعض چھوٹی چھوٹی جگہیں ہیں جیسے عارف والا مگر ان کی قیمتیں قادیان سے بہت زیادہ ہیں اور اگر ہم سلسلہ کے نظام اور احمدیت کے قیام کی خاطر یہ شرط نہ رکھیں کہ یہاں صرف احمدی ہی زمین خرید سکتے ہیں غیروں کو زمین نہیں دی جا سکتی تو جس ایکڑ کا آج ہمیں ہزار دو ہزار روپیہ ملتا ہے اسی ایکڑ سے ہمیں دس بیس ہزار روپیہ مل جائے ۔یہ ایک ایسی سیدھی سادی بات ہے کہ جسے ذرا بھی تجربہ ہو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ صحیح ہے۔یہاں منڈی کے لئے ہم نے تجویز کی تو پانچ سات ہندو ہم سے کہتے تھے کہ ہمیں یہاں کی زمین کا حق ملکیت دے دیا جائے ہم یہاں آنے کے لئے تیار ہیں مگر ہم نے دیکھا کہ اس میں سلسلہ کا نقصان ہے اس لئے انہیں کہا تم اگر چاہو تو کرایہ دار کی حیثیت سے رہو۔حقوق مالکانہ ہم تمہیں نہیں دیں گے مگر وہ حق ملکیت لینے پر اصرار کرتے تھے اور اس طرح بات رہ گئی۔حالانکہ اگر ہم سلسلہ کے مفاداور اس کی ترقی کا خیال نہ رکھیں تو ہمیں بہت زیادہ قیمتیں ہندوؤں اور سکھوں سے مل سکتی ہیںتو ہمارے اس فعل کی وجہ سے ہماری زمینوں کی قیمتیں بہت گری ہوئی ہیں۔ورنہ اگر دوسال کے لئے ہی ہم اس شرط کو اُڑا دیں اور ہندوؤں اور سکھوں کو زمینیں دینی شروع کر دیں تو قادیان کی زمینوں کی چار یا پانچ گُنا قیمت بڑھ جائے۔قادیان تو بہت بڑھتی ہوئی جگہ ہے۔تم وڈالہ گرنتھیاں کوہی دیکھ لو پہلے وہ بھاں بھاں کرتا ہؤا ایک گاؤں تھا مگر اب وہاں کارخانے کھل گئے ہیں اور کئی ہندو اور سکھ وہاں آکر آباد ہوگئے ہیں۔اب تو ریل یہاں آکر ختم ہو گئی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کی تجارت کی مار بیس بیس میل پر پڑتی ہے۔مشرق اور شمال کی طرف اور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں منڈی بن سکے۔پس یہاں کی تجارت کا بیس بیس میل پر اثر پڑسکتا ہے اور کروڑوں کی تجارت یہاں ہو سکتی ہے۔بٹالہ کے کئی ہندوؤں نے ہم سے خواہش کی کہ ہمیں قادیان میں زمین دی جائے ہم وہاں اپنے کارخانے کھولنا چاہتے ہیں مگر ہم نے سوچا کہ اس میں گو ہمارا ذاتی فائدہ ہے مگراحمدیت کا نقصان ہے اور ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ احمدیت کو نقصان ہو اس لئے انکار کر دیا۔اگر ہم انہیں آنے کی اجازت دے دیتے تو جس زمین کی قیمت آج سَو روپے ہے اس کی ہزار روپیہ ہوتی اور دس دس میل تک جس قدر ہندو ساہو کارتاجر اور کارخانہ دار ہیں وہ یہاں جمع ہوجاتے۔میرا خیال ہے کہ اگر اس کی اجازت دی جاتی تو چار پانچ سَو ہندوتاجر اِس وقت تک قادیان میں جمع ہو چکا ہوتا اور ان کی وجہ سے ہماری زمینیں نہایت گراں قیمت پر فروخت ہوتیں۔پس گو ہمیں اس کا فائدہ رہتا مگر یہ ضرور ہوتا کہ احمدیت کو جو یہاں غلبہ حاصل ہے وہ جاتا رہتا اور کئی احمدی ان مالدارہندوؤں کے دستِ نگر ہو جاتے۔پھر احمدی قانون جس رنگ میں ہم اپنی جماعت پر اس وقت جاری کر رہے ہیں وہ دوسری صورت میں نہ کر سکتے اس لئے کہ احمدیوں میں سے بہت سے لوگ ان کے دستِ نگر ہوجاتے مگر ذاتی فائدہ یقینا ہمیں بہت زیادہ ہوتا۔
غرض اپنی زمینوں کو فروخت کر کے ہم نے اپنے بچوں کو تعلیم دلائی ہے اور جب زمینیں ہم نے اپنی فروخت کی ہیں تو یہ سمجھ میں نہیں آسکتا کہ جماعت کیونکر غریب ہوگئی۔ دنیا میں ہر شخص اپنی جائدادیں فروخت کرنے کا حق رکھتا ہے اور کئی لوگ ہیں جو جائدادیں فروخت کر کے اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں۔پس اگر ہم نے بھی اپنے بچوں کو جائداد کا ایک حصہ فروخت کر کے تعلیم دلادی تواس سے ان کا نقصان کیا ہؤا۔مگر ان کا اعتراض کرنا بتاتا ہے کہ در پردہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد سے بُغض ہے اور وہ اتنا بھی پسند نہیں کر سکتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کوئی پوتا تعلیم حاصل کرے خواہ اپنے خرچ پر ہی کرے حالانکہ صحابہؓ کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں جب گزارے مقرر ہوئے اور یہ سوال پیدا ہؤا کہ گزاروں کی تعیین کس رنگ میں ہونی چاہئے تو انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ اَلْاَقْرَبُ فَالْاَقْرَبُ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو شخص جتنا زیادہ قریب ہے اُتنا ہی اُسے زیادہ دیا جائے۔چنانچہ بارہ ہزار دینار سالانہ حضرت عباسؓ کا مقرر ہؤا،دس دس ہزار وظیفہ اُمہاتُ المؤمنین کا مقرر ہؤا پھر سات سات ہزار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے قریبی رشتہ داروں کا، پھر پانچ پانچ ہزار بدری صحابہؓ کا،پھر چار چار ہزار دینار فی کس ان صحابہؓ کا مقرر ہؤا جو فتح مکہ تک مسلمان ہو چکے تھے،پھر تین تین ہزار وظیفہ ان کامقرر ہؤا جو جنگ یرموک تک مسلمان ہوئے تھے،اس طرح کم ہوتے ہوتے آخری فتوحات میں جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے ان کا سَوسَو اور دودو سَو سالانہ وظیفہ مقرر کیا گیا۔۸؎
حضرت عمرؓ کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ تحائف کے طور پر باہر سے بہت سے کپڑے آئے آپ نے وہ تقسیم کئے۔مگر فرمایا حسنؔ اور حسینؔ کے لئے ان میں سے کوئی ایسا کپڑا اچھانہیں جو انہیں دے کر میرا دل خوش ہو چنانچہ آپ نے گورنر یمن کوخاص طور پر لکھا کہ نہایت خوبصورت چادریں حضرت حسن اورحسین کے لئے بنواکر بھیجی جائیں۔چنانچہ گورنر یمن نے جب چادریں بھیجیں تو حضرت عمرؓ نے وہ حضرت حسن اور حسین کو پہنائیں اور فرمایا آج میرادل ٹھنڈا ہؤا ہے۔۹؎مدینہ سے یمن سات سَو میل پرہے اور اُن دنوں گھوڑوں کی سواری ہؤا کرتی تھی مگرمیں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پوتوں کے لئے تم سے سات میل سے بھی کبھی کوئی چیز نہیں منگوائی۔
پھر اس شخص نے اپنی گندی فطرت کا اظہار ایک اَور رنگ میں بھی کیا ہے۔(معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ شخص ہمارے خاندان کی دوسری شاخ کے بعض لوگوں کے پاس جا کر بیٹھتا ہے، (لکھتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب جیسازانی جس مقبرہ میں داخل ہو جائے اُس مقبرہ کو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بہشتی مقبرہ ہے۔ہم کہتے ہیںتم کچھ کہو جسے خدا نے توبہ کی توفیق عطا فرمادی ہو اُس کے خواہ کتنے بڑے گُناہ ہوں خدا اُن سب کو معاف کر دیتا ہے۔ایک صحابی کہتے ہیں ہم اسلام لانے سے پہلے رات دن زنا کرتے اور شراب نوشی میں مشغول رہتے تھے تو جب تک وہ سلسلہ سے باہرتھے ہم ان کے افعال کے ذمہ دار نہیں تھے مگر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات سے کچھ عرصہ قبل سلسلہ میں داخل ہونے اور توبہ کرنے کی توفیق عطا فرما دی تو ہم کون ہیں جو اللہ تعالیٰ کی بخشش کو محدود قرار دیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں بندہ کی توبہ اللہ تعالیٰ اُس وقت تک قبول کرتا ہے مَالَمْ یُغَرْ غِرْ۱۰؎ جب تک اسے غر غرہ شروع نہ ہو۔ اگر غرغرہ موت سے ایک منٹ پہلے بھی وہ توبہ کر لیتا ہے تو جنتی ہو جاتا ہے۔مرزا سلطان احمد صاحب کو تو غرغرہ موت سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ نے توبہ نصیب کر دی تھی۔پھر میں کہتا ہوں زنا کیا اگر ساری دنیا کے گناہ بھی کوئی شخص کرے اور پھر سچے دل سے توبہ کرے تب بھی اُس کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی کوئی حد بست نہیں۔پس ہمیں کسی کے اعمال میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہمیں تو یہ دیکھنا چاہئے کہ جب کوئی شخص توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دیتا ہے۔
پھر وہ لکھتا ہے وہ تو پنجتن میں نہیں۔میں کہتا ہوں کہ جو پنجتن ہیں تم نے اُن کی کون سی عزت کی ہے۔تم ہی ایک خط میں پہلے لکھ چکے ہو کہ ہم تمہاری قبریں بہشتی مقبرہ سے اُکھیڑ کر نعشوں کو باہر پھینک دیں گے۔
پس تم نے پنجتن کا کونسا ادب کیا ہے جو کہتے ہو کہ مرزا سلطان احمد صاحب چونکہ پنجتن میں نہیں اس لئے ان کی نسبت اس قسم کی بات کہنے میں کوئی حرج نہیں۔اس کا بُغض میری ذات کی نسبت اس طرح ظاہر ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے کہیں خلافت جوبلی فنڈ کی تحریک کر دی اب اس دن سے وہ بے چارے بھی تختہ مشق بنے ہوئے ہیں اور ہر خط میں مجھ پر جو اعتراضات ہوتے ہیں ان میں چوہدری صاحب بھی شامل ہوتے ہیں اور کئی خطوں میںیہ لکھا ہوا ہے کہ مرزا سلطان احمد اور چوہدری ظفر اللہ خاں جیسے گندے آدمی جس مقبرہ میں دفن ہو سکیں وہ مقبرہ بہشتی مقبرہ کہاں کہلا سکتا ہے۔اسی طرح اور بھی کئی قسم کے اعتراض چوہدری صاحب پر کئے جاتے ہیں۔خلافت جوبلی فنڈ کی تحریک سے پہلے تو اسے چوہدری صاحب میں کوئی عیب نظر نہ آیا مگر ادھر انہوں نے تحریک کی اور ادھر سے ان میں سَوسَو کیڑے نظر آنے لگ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص ایک صداقت پر اعتراض کرتا ہے تو پھر اس کا قدم ٹھہرتا نہیں بلکہ اور دوسری صداقت پر بھی اس کے اعتراض کی زد پڑنی شروع ہو جاتی ہے۔میں نے بتایا ہے کہ روپے کے بارے میں اگر مجھ پر اعتراض کیا جاتا ہے تو یہ مجھ پر ہی نہیں بلکہ پہلوںپر بھی پڑتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی ہؤا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ہؤا۔حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت تقسیم کرنے لگے ایک شخص آپ کے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا اور آپ کو غنائم کے اموال تقسیم کرتے دیکھتا رہا۔جب آپ تمام اموال تقسیم فرما چکے تو کہنے لگا۔یہ ایک ایسی تقسیم ہے جس میں خدا تعالیٰ کی رضا مندی مد نظر نہیں رکھی گئی۔ھٰذِہٖ قِسْمَۃٌ مَا اُرِیْدَ بِھَا وَجْہُ اﷲِ۱۱؎ یہ تقسیم ایسی ہوئی ہے جس میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو آپ نے اسے فرمایا۔افسوس تیری حالت پر اگر میں انصاف کو مدنظر نہیں رکھوں گا تو پھراور کون انصاف کرے گا۔پھر آپ نے فرمایا ۔اس شخص کی نسل اور ہم خیالوں میں سے کچھ لوگ ایسے پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا،وہ نمازیں پڑھیں گے مگر ان کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا،وہ دین سے اِسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار میں سے نکل جاتاہے۔۱۲؎ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی یہ اعتراض ہؤا اور تاریخوں میں تو صرف ایک واقعہ کا ذکر آتا ہے۔ قرآن کریم کی شہادت یہ ہے کہ منافق ہمیشہ اس قسم کے اعتراضات کیا کرتے تھے چنانچہ فرماتا ہے۱۳؎کہ منافق ہمیشہ صدقات کے بارے میں اعتراضات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی تقسیم درست نہیں ہوتی۔تو اگر محض اعتراض کرنے سے بات بن سکتی ہے اور کسی ثبوت کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تو میں کہتا ہوں کہ مجھ پرہی یہ اعتراض نہیںپڑتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پڑتاہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں لاہور گیا۔اس وقت تک ابھی نمازیں علیحدہ نہیں ہوئی تھیں آپ فرماتے ہیں ایک مسجد میں بیٹھا وضو کر رہا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آگئے اور بڑے غصہ سے کہنے لگے تم لوگ دینِ اسلام سے مرتد ہو،تم کہتے ہو قرآن کریم میں کوئی آیت منسوخ نہیں اور اس کی ہر آیت قابلِ عمل ہے یہ کیسا بیہودہ اور خلافِ قرآن عقیدہ ہے ۔آپ فرماتے مَیں چپکے سے سنتا جاؤں مگر وہ برابر گالیاں دیتا چلا گیا اور کہنے لگا تم بڑے بے دین، کافر اور مرتد ہو۔پھر کہنے لگا۔دیکھو سر سید جو نیچری خیالات کا تھا اس کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ قرآن میں کوئی آیت منسوخ نہیں۔فرماتے تھے اس پر میں نے ہنس کر کہا چلو ہم دو ہوگئے۔پھر کچھ دیر وہ گالیاں دیتا رہا اور آخر میں کہنے لگا ابو مسلم خراسانی کو جانتے ہو وہ بھی یہی عقیدہ رکھتا تھا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں۔میں نے کہا بہت اچھا مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس کا بھی یہی عقیدہ تھا خیر تو پہلے ہم دو تھے اب تین ہو گئے ہیں۔میں بھی کہتا ہوں کہ ہم بھی تین ہوگئے پہلے مجھ پر اعتراض ہؤا،پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض ہؤا ،پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض ہوگیا لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر شرافت کا ایک شمّہ بھی ان میں باقی ہے اور کوئی بھی تخمِ دیانت ان میں پایا جاتاہے تو وہ ثبوت پیش کریں۔وہ ایک ایک سو روپیہ جو میں نے کھایا ہے ثابت کرتے چلے جائیں اور میں چار چار، پانچ پانچ سَو کی جائداد ان کو اس جرمانہ میں دیتا چلا جاؤں گا۔
بعض کہتے ہیں تمہارے پاس روپیہ تو ہے مگر وہ تم نے بنکوں میں رکھوا دیا ہؤا ہے۔احرار نے بھی ایک دفعہ اعتراض کیا تھا کہ ولایت کے بنکوں میں تین لاکھ روپیہ ان کا جمع ہے۔ میں نے اُس وقت انہیں جواب دیا تھا کہ تم جو اپنے گزارہ کے لئے لوگوں سے چندے جمع کرتے رہتے ہو،اب اس اعتراض کے بعد تمہیں وہ چندے جمع کرنے کی ضرورت نہیں تم ثابت کردو کہ فلاں بنک میں میرا تین لاکھ روپیہ جمع ہے میں فوراً چیک تمہارے نام بھجوا دوں گا تم وہاں سے روپیہ نکلوا لینا۔
باقی ہماری زمینیں ہیں اور میں لوگوں سے قرضہ بھی لیا کرتا ہوں،بعض زمینیں میں نے خریدی بھی ہیں مگر اسی طرح کہ بعض مکان گرو رکھ کر یا بعض دوستوں سے قرض لے کر۔اگر اللہ تعالیٰ میری ان زمینوں میں برکت ڈال دے تو یہ اس کافضل ہوگا مگر اس میں کسی کا کیا دخل ہے۔دنیا کا یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے حساب مانگے اور یقینا جماعت کا حق ہے کہ وہ ایک ایک پیسے کا مجھ سے حساب لے۔ وہ مجھ سے پوچھ سکتی ہے کہ یہ مکان تم نے کہاں سے روپیہ لے کر بنوایا،یہ کپڑا تم نے کہاں سے خریدا، یہ جائداد تم نے کس طرح بنائی۔یقینا یہ سلسلہ کا حق ہے اور میں ہر وقت حساب دینے کے لئے تیار ہوں۔وہ دوست موجود ہیں جن سے میں نے قرض لئے،وہ تحریریں موجود ہیں جو اس ضمن میں لکھی گئی ہیں سندھ میں جو زمین حکومت سے خریدی گئی۔اس میں بھی پہلا حق میں نے جماعت کو ہی دیا تھا۔چنانچہ’’الفضل‘‘کے فائل اور ہماری چِٹھیاں گواہ ہیں کہ جب سندھ میں زمینیں ملنے لگیں تو ہم نے دوستوں کو توجہ دلائی کہ وہ انہیں خرید لیں مگر انہوں نے سمجھا جس طرح سٹور میں ہمارا روپیہ برباد ہؤا تھا اس طرح یہاں بھی برباد ہو جائے گا۔اور جب انہوں نے کوئی توجہ نہ کی تو چونکہ ہم سودا کر چکے تھے اس لئے یہ زمین زیادہ تر انجمن نے لے لی اور باقی مختلف دوستوں کے ذمہ لگائی گئی۔مگر جب فائدے کی امیدنظر نہیں آتی تھی اس وقت تو ہمیں کہا گیا کہ ہمیں دھوکا دیا جاتااور ہمارے روپیہ کو برباد کیا جاتا ہے اور جب یہ نظر آ یا کہ اس زمین میں شاید نفع آنے لگ جائے تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ سلسلہ کا روپیہ کھا گئے ہیں۔ہم کہتے ہیں ان زمینوں پر سلسلہ کا جس قدر روپیہ خرچ ہؤا ہے وہ ہم سے لے لو۔اس سے دُگنے داموں کی زمین ہم سے لے لو ،چارگُنے کی زمین لے لو، پانچ گُنے کی زمین لے لو، (کیونکہ نقد ہمارے پاس بالکل نہیں ہے)یقینا جو شخص سلسلہ کا روپیہ کھاتا ہے وہ اس بات کا سزا وار نہیں کہ اس سے وہ روپیہ واپس لیا جائے بلکہ اس بات کا بھی مستحق ہے کہ اس پر بڑا بھاری جرمانہ کیا جائے۔ بیشک میں صدرانجمن احمدیہ سے گزارے کے لئے روپیہ قرض لے لیتا ہوں مگر اسی طرح قرض کے طور پر حضرت عمرؓ بھی لے لیتے تھے۔جب حضرت عمرؓ فوت ہوئے ہیں تو بیت المال کا پچھتر ہزار روپیہ ان کے ذمہ قرض تھا۔۱۴؎حالانکہ اس زمانہ میں غنائم کے اموال بھی آیا کرتے تھے۔اور حضرت علی ؓ اور حضرت عمرؓ کا حصہ ایک سا ہوتا تھا کیونکہ دونوں ہی بدری صحابہ میں سے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ قالین کا ایک حصہ ملا جس کی بیس ہزار روپیہ قیمت تھی پس یقینا بیس ہزار کا حصہ حضرت عمرؓ کو بھی ملا ہوگاحضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ ایک طرف بیت المال سے اپنا گزارہ لیتے تھے اور دوسری طرف غنائم کے اموال میں سے بھی باقی مسلمانوں کی طرح حصہ لیتے تھے۔مگر میںتو گزارہ بھی نہیں لیتا اور جو کچھ میںلیتا ہوں قرض کے طور پر لیتا ہوں۔میری کوشش یہی ہوگی کہ میں اپنی زندگی میںاس قرض کو ادا کروںورنہ میری جائداد اس قرض کو ادا کرے گی۔
شروع شروع میں تو مَیں نے صدرانجمن احمدیہ کے خزانہ سے کچھ بھی نہیں لیا۔نہ قرض کے طور پر اور نہ گزارہ کے طور پر اور اس طرح آٹھ دس سال گزر گئے مگر اس کے بعد جب بچے زیادہ ہوگئے اور کام بھی وسیع ہو گیا تو میں نے صدر انجمن سے قرضہ لینا شروع کر دیا۔اس سلسلہ میں صدر انجمن احمدیہ کو بعض بڑی بڑی رقمیں میں نے ادا بھی کی ہیں۔ چنانچہ ۱۹۲۹ء میں ایک غیر احمدی نے مجھ سے ایک دعا کرائی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اس پر اس نے مجھے بیس ہزار روپیہ نذرانہ کے طور پر بھیجا۔جس میں سے گیارہ ہزار میںنے اپنے قرض کے سلسلہ میں صدر انجمن احمدیہ کو دے دیا اور باقی اور قرضوں کی ادائیگی اور دیگر ضروریات پر خرچ کیا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اموال جو غیر احمدیوں سے مجھے نذرانہ کے طور پر ملے ہیں وہ احمدیوں کے نذرانہ سے بہت زیادہ ہیں۔اس غیر احمدی کا ایک کام تھا اور اس نے مجھے لکھا کہ اگر مجھے اس میں کامیابی ہوگئی تو جو کچھ مجھے نفع ملے گا اس کا دس فیصد آپ کو دوں گا ۔چنانچہ اسے دولاکھ کا نفع ہؤا جس میں سے بیس ہزار اس نے مجھے بھیج دیا۔میں نے گیارہ ہزار صدر انجمن احمدیہ کو قرضہ میں دے دیا،باقی کچھ رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا،کچھ دیگر قرضوں میں ادا کیااور کچھ اور اخراجات میں لگا دیا۔تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس حدتک مَیں بوجھ اٹھا سکتا ہوں اٹھاتا ہوں اور اب بھی قرض کے طور پر صدر انجمن احمدیہ سے جو کچھ لیتا ہوں اس کے متعلق اللہ تعالیٰ سے یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ چاہے گا تو وہ میری زندگی میں ہی ادا ہو جائے گا۔ورنہ میں ہمیشہ حساب رکھتاہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ میرا قرض جائداد سے نہ بڑھے تا اگر جائداد سے قرض ادا کرنا پڑے تو تمام قرض ادا ہو جائے اور کسی کوکوئی دقت پیش نہ آئے۔سو جس قدر اعتراض دشمن نے مجھ پر کئے ہیں سب پہلے موجود ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ مجھ پر وہی اعتراض دشمن کی طرف سے ہوتے ہیں جو پہلوں پر ہو چکے ہیں بلکہ کل اللہ تعالیٰ نے میرے لئے ایک بہت بڑی خوشی کا سامان کیا اور مجھ پر اس امر کا انکشاف کیا کہ آج کل دشمن جو مجھ پرحملہ کر رہا ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک واضح پیشگوئی موجود ہے۔خواب میںکپڑوں کو آگ لگنے کے معنی بِالعموم اعتراض ہونے اور دشمن کے حملہ کرنے کے ہوتے ہیں۔اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ اس کے کپڑوں کو آگ لگ گئی ہے تو اس کی تعبیر یہ ہوگی کہ اس کے خلاف سخت فساد ہوگا اور دشمن اس پر کئی قسم کے اعتراض کرے گا۔کل اتفاقاً میں بعض شہادتوں کے متعلق پرانے کاغذات دیکھ رہا تھا کہ کاغذات کی پڑتال کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کی ایک کاپی آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی مجھے مل گئی اس میں ۱۸۹۴ء کے الہامات درج ہیں، گویا آج سے ۴۴ سال پہلے کی یہ کاپی مکمل ہوئی ہے۔ جبکہ میری عمر چھ سال کی تھی۔
(جہاں تک میںسمجھتا ہوں یہ الہامات چھَپے ہوئے نہیں اور چونکہ یہ تمام کاپی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اس لئے یہ سوال پیدا نہیں ہوسکتا کہ یہ بعد میں بنا لی گئی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خط کو پہچاننے والے سینکڑوں دوست اب بھی موجود ہیں اور وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ یہ تمام کاپی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔)اس میں۱۷؍ اگست ۱۸۹۴ء سے لے کر ۲۱؍دسمبر ۱۸۹۴ء تک کے الہامات درج ہیں۔اس کاپی میں ۵؍دسمبر۱۸۹۴ء کی تاریخ کے نیچے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں:
’’میں نے خواب میں دیکھا کہ اول گویا محمودکے کپڑوں کو آگ لگ گئی ہے اور میں نے بُجھا دی ہے‘‘
یہ پیشگوئی بتاتی تھی کہ ایک زمانہ میں میرے اوپر دشمن کی طرف سے اعتراضات ہونے والے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔میں نے اس آگ کو جو محمود کے کپڑوں کو لگی ہے بجھا دیا ہے۔یعنی میری پیشگوئیوں اور میری دعاؤں کی وجہ سے خدا تعالیٰ دشمن کو ناکام کرے گا اور اسے اپنے منصوبوں میں ناکام و نامراد رکھے گا۔دشمن بے شک آگ لگائے گا مگر انجام کار وہ آگ بجھا دی جائے گی۔اگر خالی بجھ گئی کے الفاظ ہوتے تب بھی دشمن کہہ سکتا تھا کہ انہوں نے اپنی تدبیروں اور عقلوں سے کامیابی حاصل کر لی۔ یہاں’’بُجھ گئی‘‘کے الفاظ نہیں بلکہ یہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بجھا دی ہے۔اس سے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ آگ کسی تدبیر یا کسی عقل کی وجہ سے نہیں بجھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں اور آپ کی پیشگوئیوں نے اس آگ کو بجھایا ہے۔
پس یقینا جو شخص آگ لگانے والا ہے وہ سلسلہ کا دشمن ہے۔اگر یہ آگ سلسلہ کے مفاد اور اس کی ترقی کے لئے ہوتی تو کس طرح ممکن تھا کہ خواب میںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آگ کو بجھا دیتے۔ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اپنے سلسلہ کی خیر خواہی مد نظر نہیں تھی؟ مگر آپ کا اس آگ کا بجھانا بتاتا ہے کہ آگ لگانے والے سلسلہ کے دشمن ہیں۔
پس اگر جو لوگ اعتراض کرتے ہیں وہ حق پر ہوتے اور جنہوں نے میرے خلاف فتنہ و فساد کی آگ بھڑکا رکھی ہے وہ صداقت پر ہوتے تو بجائے یہ الفاظ ہونے کے کہ’’میں نے بُجھا دی ہے‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرماتے کہ میں نے اٹھ کر محمود کے کپڑوں کو آگ لگا دی ہے۔مگر آپ یہ نہیں فرماتے بلکہ یہ فرماتے ہیں کہ آگ لگانے والے اور ہیں اور بجھانے والا میں ہوں۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے فعل کو مٹانے والے ہیںاور جس فعل کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مٹانے والے ہوں وہ یقینا سلسلہ کے خلاف ہوگا۔مگر جو مضمون میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ جو شخص ایک صداقت پر اعتراض کرتا ہے اسے لازماً دوسری صداقتوں پربھی اعتراض کرنا پڑتا ہے اور جو ایک راستباز پر اعتراض کرتاہے اسے لازماً دوسرے راستبازوں پر بھی اعتراض کرنا پڑتا ہے وہ بھی اس رؤیا میں نہائت عمدگی کے ساتھ بیان کردیا گیاہے۔میں نے بتایا تھا کہ جب ان اعتراض کرنے والوں کو اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی اور وہ جماعت کو خلافت سے الگ نہ کر سکے تو انہوں نے کہا۔اوہو! بات ہماری سمجھ میں اب آئی۔اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کو اس بات پر یقین ہے کہ یہ خلیفہ ہیں اور چونکہ یہ خیال ان کے دلوںمیں بیٹھ چکا ہے اس لئے وہ اس کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے پس آؤ ہم خلافت کا ہی انکار کر دیں۔چنانچہ پھر وہ خلافت کو اڑانے لگ گئے جس کے معنے یہ تھے کہ اب ان کاحملہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل پر بھی جا پڑا کیونکہ جس طرح میں خلیفہ ہوںاسی طرح آ پ بھی خلیفہ تھے۔اگر میں خلیفہ نہیں تو وہ بھی خلیفہ نہیںتھے وہ بھی یہی کہا کرتے تھے کہ میں خدا تعالیٰ کا قائم کردہ خلیفہ ہوں اور میرا دشمن ابلیس ہے اور میرے بعد بھی اللہ تعالیٰ خلفاء کھڑے کرے گا جنہیں وہ آپ کھڑا کرے گا،تم نے نہ مجھے خلیفہ بنایا ہے اور نہ ان کو بناؤ گے ہم سب کو خدا نے خلیفہ بنایا ہے۔ پس وہ سمجھتے ہیںکہ چونکہ یہ خلیفہ کہلاتاہے اس لئے لوگ اس کی باتیں سنتے ہیں اور ہماری طرف توجہ نہیں کرتے۔چنانچہ پھر وہ کہتے ہیں آؤ ہم خلافت کا ہی انکار کردیں اور لوگوں سے یہ کہنا شروع کر دیں کہ خلافت اسلام کا کوئی مسئلہ نہیں سب کو مل کر اسلام کی خدمت کرنی چاہئے۔تب وہ دوسرا حملہ کرتے اور ایک بار پھر آگ لگانا چاہتے ہیں مگر وہ حملہ حضرت خلیفہ اوّل پر جاپڑتا ہے کیونکہ آپ یہی فرمایا کرتے تھے کہ خلافت کوئی کیسری کی دکان کا سوڈاواٹر نہیں کہ جس کا جی چاہے جا کر پی لے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے جو بعض مخصوص لوگوں کو ملا کرتا ہے پس مجھ پر حملہ کرنے کے بعد ان کا دوسرا حملہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل پر ہوتاہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس رؤیا میں اس کا بھی ذکر ہے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’پھر ایک اور شخص کے آگ لگی ہے اور اس کو بھی مَیں نے بُجھا دیا ہے‘‘
یہاں حضرت خلیفہ اوّل کا نام آپ نے نہیں لیا۔چاہے جان کر نام نہیں لیا اور چاہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا نہیں۔بہر حال اس خواب سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ یہ آگ میرے وقت میںلگے گی اوراس کی ابتداء مجھ سے ہوگی اور جب یہ آگ بجھ جائے گی اور مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گی تو وہ کہیں گے کہ اوہو! ہم جماعت کو اس لئے بگاڑ نہیں سکے کہ وہ خلافت کی وجہ سے متحد ہے۔اگر ہم خلافت کاانکار کر دیں تو اس کا منتشر ہونا بالکل آسان بات ہے۔پس وہ خلافت مٹانے کے درپے ہو جاتے ہیں اور اس طرح سے حضرت خلیفہ اوّل کی خلافت پر بھی حملہ کرتے ہیں اور اس طرح میرے کپڑوں کو آگ لگنے کے بعد آپ کے کپڑوں کو بھی آگ لگ جاتی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں میں نے اس آگ کو بھی بجھا دیا۔یعنی آپ کی خلافت سے بھی وہ لوگوں کو منحرف نہیں کر سکیں گے۔تب وہ ایک اور قدم آگے بڑھیں گے اور کہیں گے اصل میں محض خلیفہ ہونے کی وجہ سے لوگ ان کے ساتھ نہیں بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ ان کے دلوںمیں یہ غلط خیال بیٹھ چکا ہے کہ یہ مصلح موعود ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان کے متعلق کئی پیشگوئیاں ہیں۔پس آؤ ہم ان تمام پیشگوئیوں کاہی انکار کردیں اور کہہ دیںکہ ان کا مصداق ابھی پیدا ہی نہیں ہؤا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض پیشگوئیاں ایسی ہیں جن کے متعلق میں نہ ہاں کرتا ہوں نہ نہ کرتا ہوںمگر جو پیشگوئیاں مجھ پر چسپاں ہوتی ہیں اُن کا انکار کرنابھی دیانت اور انصاف کے قطعاً خلاف ہے مگر وہ سرے سے تمام پیشگوئیوں کا انکار کر دیتے ہیںاور کہتے ہیں کوئی پیشگوئی ہے ہی نہیں۔ اس طرح ان کے حملہ کی زد حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی جا پڑتی ہے اور انہیں کہنا پڑتا ہے کہ آ پ نے جس قدر میرے متعلق پیشگوئیاں کیں وہ نعوذباللہ جھوٹی نکلیں، اس طرح جو دعائیں کیں وہ پوری نہ ہوئیں اور آپ نے غلط لکھ دیا کہ میری دعائیں اللہ تعالیٰ نے سن لی ہیں۔پس وہ مجھ پر حملہ کرتے مگر اس کے ساتھ ہی حضرت خلیفہ اوّل اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر بھی حملہ کر دیتے ہیںاور اس طرح میری ہتک کرتے کرتے ان کی بھی ہتک کر دیتے ہیں جن کویہ اپنا پیشوا مانا کرتے ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے پیغامیوں نے جب مجھ پر اعتراض کرنے شروع کئے تو رفتہ رفتہ ان کے اعتراضات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر بھی ہونے لگے۔چنانچہ ایک دفعہ ایک پیغامی نے کہا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے آپ کو جو ظلّی نبی کہا ہے اس کے معنے کوئی اصلی نبی کے تھوڑے ہی ہیںظل کا کیا ہوتا ہے ظل پرتو (نَعُوْذُ بِاﷲِ)جُوتے مارنے بھی جائز ہوتے ہیں۔ پھر یہاں تک کہہ دیا کہ جوحضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت بن باپ کو تسلیم کرتا ہے وہ مشرک اور بے وقوف ہے۔ جب میری خلافت کے شروع ایام تھے تو ایک شخص نے حضرت مسیح موعود السلام کے متعلق ایسے ہی الفاظ استعمال کئے۔میں نے اسے کہا اب تم دہریہ ہوئے بغیر نہیں رہو گے۔چنانچہ ابھی ایک مہینہ نہیں گزرا تھا کہ اس کے دل میں احمدیت کے متعلق شکوک پیدا ہونے شروع ہو گئے اور اس پر بھی ایک مہینہ اور نہیں گزرا تھا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق اس کے دل میں شکوک پیدا ہوگئے۔تو لازماً جو شخص ایک سچائی پراعتراض کرتا ہے اسے دوسری سچائیوںپر بھی اعتراض کرنا پڑتا ہے اور جو شخص ایک صداقت کو چھوڑتا ہے اسے دوسری صداقتوںکو بھی ترک کرنا پڑتا ہے۔چنانچہ یہی خبر اس رؤیا میں بھی دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان کا پہلا حملہ مجھ پر ہوگا،دوسرا حملہ حضرت خلیفہ اوّل پر ہوگا اور جب وہ ان دونوں حملوں میں ناکام ہوں گے تو تیسرا حملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کر دیںگے اور آپ کی پیشگوئیوں اور الہامات کے بھی منکر ہو جائیں گے۔چنانچہ آخری حصہ رؤیا کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ تحریر فرماتے ہیں:
’’پھر میرے کپڑوں کو آگ لگا دی ہے اور میں نے اپنے اوپر پانی ڈال لیا ہے اور آگ بجھ گئی ہے۔‘‘
اس میں اسی سلسلہ اعتراض کی خبر دی گئی ہے جس کو میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ پہلے وہ مجھ پر اعتراض کریں گے اور جب اس میں خدا تعالیٰ ان کو ناکام کرے گا تو وہ کہیں گے اوہوہم نے ہاتھ ذرا نیچے ڈالا ہے آؤ ذرا اوپر ہاتھ ڈالیں۔چنانچہ پھر وہ حضرت خلیفہ اوّل کی خلافت پر اعتراض کرنا شروع کر دیں گے اور جب وہاں سے بھی کام نہیں بنے گا تو کہیں گے یہ سلسلہ ہی ایساہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس قدر دعائیں کی تھیں سب جھوٹی نکلیں اور جس قدر پیشگوئیاں آپ نے کی تھیں وہ باطل ثابت ہوئیں۔پس ان کا آخری حملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہوگا جیسا کہ اس شخص نے لکھ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ولی اللہ تھے اور ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کر لیتے ہیں۔اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ گو آگیں سب بجھ گئیں ہیں’’مگر کچھ سیاہ داغ سا بازو پر نمودار ہے اور خیر ہے‘‘۔
بازو پر داغ رہنے کے معنی یہ تھے کہ یہ حملہ جماعت کے منافقین کی طرف سے ہوگا غیروں کی طرف سے نہیں ہوگا۔پھر فرماتے ہیں اور خیر ہے وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اﷲِ۔ گویا اُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اﷲکے الفاظ میں یہ بھی بتا دیا کہ جس وقت یہ اعتراض ہوں گے اُس وقت میں دنیا میں نہیں ہوں گا مگر چونکہ میرا خدا زندہ خدا ہے اس لئے میں اپنا معاملہ اُس کے سپرد کرتا ہوں۔ میں نہ ہؤا تو کیا ہؤا وہ تو ہوگا۔٭
یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کاپی ہے جو کل پہلی دفعہ مجھے دیکھنے کا موقع ملا۔اب تک میں سمجھتا تھا کہ میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کا حافظ ہوں اور آپ کا کوئی بھی ایسا الہام یا ایسا رؤیا نہیں جو میری نظر سے نہ گزرا ہو مگر کل اتفاقاً بعض کاغذات کی تلاش کرتے ہوئے مجھے پہلی دفعہ یہ کاپی ملی اور مجھ پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اس نئی پیشگوئی کا انکشاف ہؤا۔پھر ایک اور لطیفہ ہے جو ابھی خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں ڈالا ہے اور یہ کہ وہ یہ کاپی اسی سبز کاغذ کی بنی ہوئی ہے جس سبز کاغذ پر حضرت مسیح موعود السلام نے ’’سبزاشتہار ‘‘شائع فرمایا تھا معلوم ہوتا ہے اس زمانہ کے بعض بچے ہوئے کاغذ آپ کے پاس موجود تھے اور انہی سبز کاغذوں کی آپ نے یہ کاپی بنا کر اس پر اپنے الہامات اور رؤیا و کشوف درج کر دیئے۔
پس دشمن جو چاہے اعتراض کرے ہمیں اس کا اعتراض کرنا بُرا نہیں لگتا۔ ہمیں افسوس آتا ہے تو اِس بات پر کہ وہ ظاہر کچھ کرتے ہیں اور ان کا باطن کچھ اور ہے۔ وہ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام ہیں مگر کام وہ کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں کو آگ لگانے والا ہے مگر وہ یاد رکھیں نہ پہلے کوئی دشمن اپنے منصوبوں میں کامیاب ہؤا اور نہ وہ کامیاب ہوں گے۔ آگیں بجھائی جائیں گی اور صرف داغ باقی رہ جائیں گے مگروہ داغ انہی منافقین کا وجود ہو گا۔‘‘ (الفضل۳۱؍اگست ۱۹۳۸ئ)
۱؎ متی باب ۱۷ آیت ۲۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۲؎ متی باب ۱۶ آیت ۴ (مفہوماً)
۳؎ الذّٰریٰت: ۵۴
۴؎ (الاحزاب: ۷۰)
۵؎ التوبۃ: ۴۷
۶؎ ، ۷؎ بخاری کتاب الھبۃ۔ باب فَضْل الْھِبَۃ
۸؎
۹؎
۱۰؎ ترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء فی فضل التوبۃ
۱۱؎ بخاری کتاب فرض الخمس باب مَا کانَ النَّبِیُّ صلی اﷲ علیہ وسلم
یُعطی الْمُؤَ لَّفَۃَ قُلُوْ بِھِمْ … (مفہوماً)
۱۲؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النُبُوَّۃ فی الاسلام
۱۳؎ التوبۃ: ۵۸
۱۴؎ الطبقات الکُبٰری ۔ لِا بْنِ سعد جلد ۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء میں ۸۰ہزار درہم قرض
کا ذکر ہے۔

۲۸
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصوص صریحہ سے ثابت شُدہ مسئلہ کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے
(فرمودہ ۲۶؍ اگست ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۂ حجرات کی آیت ۱؎کی تلاوت کی۔ اس کے بعد فرمایا:-
’’انبیاء کی بعثت کی غرض دُنیا سے اختلافات کو مٹانا اور صحیح عقائد لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہے۔ دُنیا کبھی افراط کی طرف چلی جاتی ہے اور کبھی تفریط کی طرف، کبھی بُغض ان کی گمراہی کا موجب ہو جاتا ہے اور کبھی حد سے زیادہ محبت خواہ وہ خدا تعالیٰ کے نبیوں سے ہی ہو۔ ان کی گمراہی کا موجب ہو جاتی ہے۔ مثلاً چکڑالوی فرقہ کے لوگ ہیں یہ بظاہر خدا تعالیٰ سے حد سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور کہتے ہیں خدا تعالیٰ کے بعد کسی نبی کا کیا حق ہے کہ وہ ہم سے اپنی باتیں منوائے۔ وہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ہمارے جیسے ہی ایک آدمی تھے۔ ان کی باتیں اگر ہم نہ مانیں تو اس میں کیا حرج ہے۔ اس طرح وہ ساری حدیثوں کو ردّ کر دیتے اور کہتے ہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اگر اس طرح نماز پڑھی ہے تو غلط پڑھی۔ قرآن کریم میں اس طرح نماز پڑھنے کا حُکم ہے۔
اب بظاہر اس عقیدہ کی تہہ میں اﷲ تعالیٰ کی محبت کام کرتی نظر آتی ہے لیکن دراصل یہ اﷲ تعالیٰ کی حقیقی محبت نہیں بلکہ غلط محبت ہے اور اس کی وجہ سے کئی انسان ٹھوکر کھا گئے ہیں۔
اسی طرح بعض لوگوں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلط محبت اختیار کی اور انہوں نے کہا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کسی نبی کی کیا ضرورت ہے اَب بظاہر اس عقیدہ کا منبع اور مبدأ محبت رسول ہے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے ہی انہوں نے یہ قرار دے دیا کہ اب کسی اور نبی کے آنے کی ضرورت نہیں۔ مگر اس کا کیسا خطرناک نتیجہ نکلا کہ تیرہ سَو سال گزرنے کے بعد جب اﷲ تعالیٰ کی مشیت نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دُنیا کی ہدایت کے لئے اپنا ایک نبی بھیجے اور اس نے بنی نوع انسان کی حالت پر رحم فرماتے ہوئے اپنا نبی بھیج دیا تو لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ محض اس عقیدہ کی وجہ سے اسے قبول کرنے سے محروم رہ گئے۔ حالانکہ بظاہر یہ عقیدہ محبتِ رسول کی وجہ سے اختیار کیا گیا تھا لیکن اگر وہ غلط محبت اختیار نہ کرتے تو انہیں وقت پر ٹھوکر نہ لگتی۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مریدوں نے ان سے غلط محبت کی اور وہ ٹھوکر کھا کر کہیں کے کہیں چلے گئے۔ انہوں نے بھی یہ کہہ دیا کہ اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ دوسری طرف انہوں نے یہ غلط رویہ اختیار کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو ساری عمر یہ کہتے رہے کہ مجھے نیک مت کہو نیک ایک ہی ہے جو آسمان پر ہے۔ مَیں آدم کا بیٹا ہوں اور مَیں ویسا ہی بشر ہوں جیسے تم مگر باوجود ان کے یہ بار بار کہنے کے ان کی جماعت نے کہہ دیا کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں غلط کہتے ہیں۔ اصل میں یہ آدم کے بیٹے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ تو صحیح رویہ یہ ہؤا کرتا ہے کہ جو بات جس رنگ میں ہو انسان اسے اس رنگ میں ہی رکھے اور حدسے آگے نہ بڑھائے۔
غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کبھی غلط محبت پیدا ہو گی اس کے متعلق غلط اصول قرار دے دیئے جائیں گے اور وہ غلط اصول دُنیا کو کوئی فائدہ تو نہیں پہنچائیں گے البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ کسی وقت خطرناک نقصان پہنچا دیں مثلاً رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد جب تک خداتعالیٰ کا کوئی سچا نبی نہیں آیا تھا اس عقیدہ نے کہ آپ کے بعد کسی قسم کا بھی کوئی نبی نہیں آسکتا دُنیا کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچایا۔ جو جھوٹے نبی آئے ان کے ردّ کرنے کے تو اَور سامان قرآن و حدیث میں موجود ہی تھے مگر باوجود حضرت عائشہ ؓ اور دوسرے مجتہد صحابہ کے روکنے کے جب لوگ اس بارہ میں غلط عقیدہ پر مُصر رہے تو نتیجہ یہ نِکلا کہ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب جو شخص بھی دعویٔ نبوت کرے گا وہ دجّال اور کذّاب ہو گا اور اس کا یہ نقصان ہؤا کہ جب خدا تعالیٰ کا ایک نبی آیا تو ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ اس غلط عقیدہ کی وجہ سے اس کو قبول کرنے سے محروم رہ گئے۔ اگر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے غلط محبت اختیار نہ کی جاتی، اگر غلط اصول لوگوں کے دلوں میں قائم نہ کر دیئے جاتے تو یقینا وہ ہدایت پا جاتے مگر چونکہ ان کے کانوں میں کَذَّابُوْنَ، دَجَّالُوْنَ،کَذَّابُوْنَ، دَجَّالُوْنَکے الفاظ گونج رہے تھے۔ اس لئے جب خدا تعالیٰ کا ایک نبی آیا تو انہوں نے اسے ردّ کر دیا اور اس طرح وہ خود کذّاب اور دجّال بن گئے اور بجائے اس کے کہ کذّابون دجّالون کے الفاظ انہیں کسی کاذب مدعیٔ نبوت پر ایمان لانے سے بچاتے یہی الفاظ ان کے لئے ایک سچے مُدعی کو کذّاب اور دجّال قرار دینے کے محرک ہو گئے اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ یہ الفاظ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہی فرمائے تھے مگر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے اور بھی تو الفاظ ہیں ان سب کو اکٹھا اپنے سامنے رکھ کر موازنہ کرنا چاہئے تھا اور دیکھنا چاہئے تھا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تمام احادیث سے بحیثیت مجموعی کیا نتیجہ نکلتا ہے مگر اُنہوں نے ایک حدیث کو لے لیا اور اس پر اتنا زور دینا شروع کر دیا کہ وہ لاکھوں کی گمراہی کا مؤجب ہو گئے۔
حدیثوں میں آتا ہے ایک صحابی کہتے ہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہر چیز کو تم اس کے مقام پر رکھو۔۲؎ پس مؤمن کا فرض یہ ہے کہ وہ غلو نہ کرے کیونکہ جب کبھی کسی بات میں غلو کیا جائے گا اس کا آخری نتیجہ خرابی اور گمراہی ہو گا۔ اصل سچائی وہی ہوتی ہے جو خدا اور اس کا رسول بتاتا ہے اور کسی کا یہ ہرگز کوئی حق نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک رسول کے فیصلہ کے خلاف کوئی بات کہے یا ایک بات کو جس حد تک اس نے محدود قرار دیا ہے اس کو اس حد سے آگے نکال دے۔ مثلاً رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے صرف یہ فرمایا تھا کہ میرے بعد چھبیس یا تیس دجّال ہوں گے۔ آپ نے یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ میرے بعد قیامت تک جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ دجّال ہو گا۔ آپ نے جو کچھ فرمایا وہ یہ ہے کہ میرے بعد جھوٹے نبی بھی ہوں گے۔ بعض حدیثوں میں آپ نے چھبیس کی تعداد بتائی اور بعض میں تیس کی اور فرمایا کہ یہ دجّال اور کذّاب ہوں گے۔ پس ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص بھی جھوٹا دعویٰ نبوت کرے گا وہ کذّاب اور دجّال ہو گا مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب کوئی سچا نبی ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے کسی سچے نبی کے آنے کی نفی نہیں فرمائی بلکہ بعض جھوٹے مُدعیان نبوت کے پیدا ہونے کی اس میں خبر دی ہے۔ پس رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک حد مقرر کر دی اور فرمایا کہ میرے بعد بعض جھوٹے نبی بھی پیدا ہوں گے۔ بعض احادیث میں چھبیس جھوٹے مُدعیان نبوت کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی ہے اور بعض میں آتا ہے کہ تیس جھوٹے مُدعی پیدا ہوں گے ۳؎مگر بہرحال آپ نے فرمایا کہ وہ جھوٹے مُدعی ہوں گے اور کذّاب اور دجّال ہوں گے اور اس میں کیا شُبہ ہے کہ جو شخص جھوٹا دعویٰ ٔ نبوت کرے گا وہ ضرور کذّاب اور دجّال ہو گا۔ تو ہم اس کا انکار تو نہیں کرتے۔ ہم تو تسلیم کرتے ہیں کہ جھوٹا دعویٰ ٔ نبوت کرنے والا کذاب ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک ایسا دعویٰ کرتا ہے جس کی خدا تعالیٰ نے اسے اجازت نہیں دی۔ پس وہ جھوٹ بولتا ہے اور جو شخص جھوٹ بولتا ہو وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت میں سے نہیں ہو سکتا اور جو اُمتِ محمدیہ میں سے ہی نہیں اور پھر وہ خدا تعالیٰ پر افترا بھی کرتا ہے وہ اگر کذّاب اوردجّال نہیں تو کذّاب اور دجّال اور کون ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ ۴؎کہ اس شخص سے زیادہ ظالم اور کوئی نہیں جو خداتعالیٰ پر افتراء کرے۔ پس جو شخص دعویٰ کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے الہام ہوتا ہے۔ حالانکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے کوئی الہام نہیں ہوتا اور دعویٰ کرتا ہے کہ میں نبی ہوں۔ حالانکہ خدا نے اُسے نہیں کہا کہ تُو نبی ہے وہ مسلمان کیا وہ تو ایک ہندو سے بھی بدتر ہے، ایک عیسائی سے بھی بدتر ہے، ایک یہودی سے بھی بدتر ہے بلکہ ایک دہریہ سے بھی بدتر ہے۔وہ اُمت محمدیہ میں کہاں ہو سکتا ہے؟ تو اُمت محمدیہ سے خارج ہو کر دعویٰ ٔ نبوت کرنے والے ضرور کذّابون دجّالون ہوں گے مگر اس سے یہ کہاں سے نِکلا کہ کوئی سچا مُدعی بھی نہیں ہو سکتا اور اگر تمہیں کوئی سچا مُدعی ملے تو اسے بھی کذّاب اور دجّال قرار دے دو لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہ نقص اسی لئے پیدا ہؤا کہ مسلمانوں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ بات اُس حد کے اندر نہ رکھی جس حد کے اندر رکھنی چاہئے تھی۔ اگر مسلمان اس کو اس کی حد کے اندر رکھتے اور سمجھتے کہ اس میں محض جھوٹے مدعیانِ نبوت کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ کسی ایسے مُدعی کے آنے کے راستہ کو مسدود قرار نہیں دیا گیا جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنادے تو کبھی وہ فتنہ پیدا نہ ہوتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت پر پیدا ہؤا اور جس کی وجہ سے لاکھوں مسلمان خدا تعالیٰ کے ایک نبی کو قبول کرنے سے محروم رہ گئے۔
یہی غلطی ہمیشہ ٹھوکر کا موجب ہؤا کرتی ہے اور اسی وجہ سے خلفائِ اربعہ کے زمانہ میں یہ دستور تھا کہ مسائل کے متعلق جب آپس میں گفتگو ہوتی تو وہ صحابہ ؓکی رائے معلوم کیا کرتے اور اُن سے دریافت کیا کرتے کہ انہوں نے اس بارہ میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے کیا سُنا ہؤا ہے تا خالی رائے اور عقلی قیاسات پر لوگ نہ جائیں بلکہ اس لمبے تجربہ پر جائیں جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ پھر جب بہت سے صحابہ ؓ کی رائیں مل جاتیں اور وہ متفقہ طور پر یا ان کی اکثریت یہ بتاتی کہ انہوں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے فلاں مسئلہ اس طرح سُنا ہؤا ہے تو اس پر متحد ہو جاتے اور اُن کے آپس کے اختلافات سب دُور ہو جاتے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اس میں بھی بعض دفعہ غلط فہمی ہو جاتی ہے مگر جب مختلف روایات جمع ہو جائیں تو فیصلہ کرنا آسان ہو جاتاہے اور انسان دیکھ سکتا ہے کہ اکثر روایات کا اتحاد کِس بات پر ہے۔ ورنہ ایک آدمی بعض دفعہ سمجھنے میں غلطی بھی کر جاتا ہے۔ بیسیوں مثالیں تاریخ میں ایسی ملتی ہیں کہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اﷲ عنہم کے زمانہ میں صحابہ ؓ جمع ہوتے۔ زیر بحث مسائل پر تبادلۂ خیالات کرتے اور بتاتے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس بارہ میں کیا سُنا ہؤا ہے۔ ان روایات پر جو مختلف ہوتیں وہ تنقید کرتے اوراس تبادلۂ خیالات کے نتیجہ میں آخر صحابہ ؓکی اکثریت تسلیم کر لیتی کہ فلاں بات صحیح ہے اور دوسرے کو غلطی لگی ہے یا بعض دفعہ وہ مختلف روایات سُن کر یہ کہتے کہ روائتیں تو دونوں درست ہیں مگر پہلے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے یوں کہا اور بعد میں آپ نے یوں فرمایا۔ تو صحابہ ؓکی موجودگی میں اگر صحابہ ؓ کی گواہیوں پر مسائلِ مختلفہ کے تصفیہ کی بنیاد نہ اُٹھائی جائے تو انبیاء کی صحبت میں اُن کے ایک لمبا عرصہ رہنے کی کوئی غرض ہی نہیں رہتی۔ پھر تو چاہئے تھا ایک لکھی لکھائی کتاب آسمان سے لوگوں کے لئے نازل ہو جاتی۔ نہ کوئی نبی آتا، نہ اس کا کوئی صحابی بنتا مگر جب ایک نبی آتا ہے اُس کے زمانہ میں لوگ اس پر ایمان لاتے، اس کی صحبت میں اپنی عمروں کا ایک لمبا عرصہ گزارتے، اس کی باتیں سُنتے اور اس کے فیوض سے مستفیض ہوتے ہیں تو اسی لئے کہ وہ آئندہ زمانہ میں لوگوں کی صحیح راہنمائی کر سکیں اور بتا سکیں کہ وہ نبی جس کی صحبت میں وہ رہے اس کا فلاں مسئلہ کے متعلق کیا فیصلہ تھا اس طریق پر جب کوئی نتیجہ نکالا جائے گا تو وہ بہت زیادہ سلجھا ہؤا ہو گا۔ اگر تو کسی مسئلہ کے متعلق صحابہ ؓکا اتفاق ہو گا تو وہ تو بہرحال صحیح ہو گا کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے اجماع امت کبھی غلط نہیں ہو سکتا اور اگر ان کا کسی بات پر اتفاق نہیں ہو گا تو بھی ان کی روایات سُن کر لوگوں کے لئے اصل بات کا سمجھنا بہت آسان ہو جائے گا کیونکہ ان کے صرف الفاظ نہیں ہوں گے بلکہ اپنا ایک تأثر بھی ہو گا اور تاثر بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم بعض الفاظ سُنتے ہیں اور ان سے ہمیں غلطی لگ جاتی ہے مگر ہماری طبیعت پر جو مجموعی اثر نبی کی صحبت کا ہوتا ہے وہ غلط نہیں ہو سکتا کیونکہ تاثر سُنت کا رنگ رکھتا ہے اور سُنت حدیث پر غالب ہے۔
مجھے اس مضمون کے بیان کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ آج کے الفضل میں ایک ایسا مضمون شائع ہؤا ہے جو قطعی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منشاء کے خلاف اور آپ کی تحریرات کے یقینا مخالف ہے اور ہم لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ ہیں ہم جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتیں اپنے کانوں سے سُنی ہیں اور ہم جو ایک لمبا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں رہے ہمارے علم بلکہ متواتر علم کے خلاف ہے اور اسی قسم کی باتیں ہیں جو آئندہ زمانہ میں خطرناک فتن پیدا کرنے کا مؤجب بن جاتی ہیں مثلاً دیکھ لو ہم مسئلہ اجرائے نبوت کے قائل ہیں۔ اب بالکل ممکن ہے اﷲ تعالیٰ کی مشیت آئندہ بھی دُنیا میں کوئی ایسا نبی بھیجے جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا امتی ہو۔ جب ایسا ممکن ہے تو جو معیارِ نبوت پہلے انبیاء کے لئے اﷲ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے وہی اس کے لئے بھی ہو گا کیونکہ معیار کے لحاظ سے تمام انبیاء برابر ہوتے ہیں بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام امتی نبی تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام امتی نبی نہیں تھے مگر معیارِ نبوت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تھا وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی تھا اور جن دلائل سے حضرت موسیٰ علیہ السلام سچے ثابت ہو سکتے تھے اُنہی دلائل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سچے ثابت ہو سکتے ہیں اور اگر کسی معیار پر حضرت موسیٰ علیہ السلام پورے نہیں اُتریں گے تو اس معیار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی پورے نہیں اُتر سکیں گے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار لوگوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا مجھے منہاجِ نبوت پر پرکھو۔ اگر مَیں اس منہاج پر سچا ہوں تو مجھے سچا قرار دو اور اگر مَیں اس منہاج پر پورا نہیں اُترتا تو بے شک مجھے جھوٹا قرار دے دو۔۵؎ آپ نے یہ نہیں کیا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوئی بات کرتا تو آپ فرماتے کہ موسیٰ ؑ تو پہلے نبی تھے مَیں امتی نبی ہوں یا حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی کوئی مثال دیتا تو آپ فرماتے کہ وہ تو پہلے نبی ہوئے ہیں ان کا کیا ذکر کرتے ہو بلکہ آپ نے تسلیم کیا کہ چونکہ وہ نبی تھے اس لئے جو معیارِ نبوت ان پر چسپاں ہوتا ہے وہی مجھ پر بھی چسپاں کر کے دیکھ لو۔ بے شک آپ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تابع، آپ کی شریعت کی تشریح کرنے والے ، آپ کے شاگرد اور آپ کے کامل غلام ہیں اور ایک قدم بھی آپ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بتائے ہوئے طریق سے ادھر اُدھر نہیں ہو سکتے اور نبوت بھی آپ کو براہ راست نہیں ملی بلکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی کی وجہ سے ملی مگر نبوت کے منہاج کے لحاظ سے آپ میں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام میں یا آپ میں اور حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام میں یا آپ میں اور دوسرے انبیاء میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ایک بات پہلے کسی نبی کو جھوٹا قرار دیتی ہے تو وہی بات آپ کو بھی جھوٹا قرار دے گی اور اگر ایک بات پہلے کسی نبی کی سچائی کی دلیل قرارپاتی ہے تو وہی بات آپ کی سچائی کی بھی دلیل قرار پائے گی چنانچہ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمام وہ دلائل جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صداقت کے طور پر پیش کئے تھے اپنے اوپر چسپاں کئے ہیں۔ اب اگر آئندہ زمانہ میں بھی کوئی نبی آئے اور ہم اس کے آنے سے پہلے ایک غلط معیار قائم کر کے لوگوں کے قلوب میں راسخ کر دیں تو یقینا ہم ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کی ٹھوکر کا موجب بن جائیں گے مثلاً کوئی شخص آج بیان کر دے کہ آئندہ ہندوستان میں کوئی نبی نہیں ہو سکتا اور کل ہندوستان میں کوئی نبی آجائے تو یقینا اس نبی کے جتنے مُنکر ہوں گے ان تمام کا بارِ گناہ اس شخص پر ہو گا جس نے یہ کہا تھا کہ آئندہ ہندوستان میں کوئی نبی نہیں آسکتا۔ کیونکہ اس نے ایک ایسی علامت بیان کر دی تھی جو صحیح نہیں تھی اور جس سے لوگوں کو غلطی لگ گئی۔ پس اس وجہ سے آئندہ جو بھی ٹھوکر کھائے گا اس کی ذمہ داری اس پر عائد ہو گی جس نے ایک غلط بات لوگوں کے سامنے بیان کی ہو گی۔
وہ مضمون جس کے متعلق مَیں نے اشارہ کیا ہے وہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق ہے کہ وہ قتل نہیں کئے گئے۔ یہ مولوی ابوالعطاء صاحب کا مضمون ہے اور چونکہ وہ صحابی نہیں ہیں اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتیں سُننے کا موقع نہیں مِلا اس لئے ان کی طبیعت پر وہ اثر نہیں ہو سکتا جو اُن لوگوں کی طبائع پر اثر ہے جنہوں نے اپنے کانوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتیں سُنیں۔ یقینا بعد میں آنے والوں کا فرض ہے کہ خواہ وہ سلسلہ کے علماء میں سے ہی کیوں نہ ہوں ایسے مسائل کے متعلق سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات کو دیکھیں پھر آپ کے صحابہ سے ملیں اور ان سے دریافت کریں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے اس مسئلہ کے متعلق اپنی طبائع پر کیا اثر رکھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ وہ کہیں فلاں مسئلہ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے کیونکہ رائے کے لحاظ سے ان کی بھی ایک الگ رائے ہو سکتی ہے۔
پس ان کا یہ فرض نہیں کہ وہ صحابہ کی رائے دریافت کریں بلکہ ان کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ پوچھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں اُنہوں نے فلاں مسئلہ کے متعلق کیا بات سُنی ہے اور ان مجالس کے ماتحت اُنہوں نے کیا اثر قبول کیا ہے۔ اگر بعد میں پیدا ہونے والے لوگ صحابہ سے فائدہ نہیں اُٹھائیں گے تو ایک ایسی غلط بنیاد قائم ہو جائے گی جو سلسلہ کے لئے آئندہ زمانہ میں نہایت خطرناک اور تباہ کُن نتائج کی حامل ہو گی۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ ؓ کے زمانہ مین ایسا ہی ہؤا کرتا تھا اور میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کا بھی یہ فرض ہے کہ جب وہ کوئی ایسی بات دیکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منشاء کے خلاف ہو تو وہ اس کی تردید کریں اور اس بات پر زور دیں کہ اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فلاں بات اس طرح سُنی ہوئی ہے اور اب جو بات اس کے خلاف پیش کی جارہی ہے وہ غلط ہے۔ بے شک بعض دفعہ کسی ایک صحابی کی رائے ردّ بھی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً ایک دفعہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کوئی بات کہی تو ایک صحابی کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا یہ بات اس طرح نہیں اس طرح ہے کیونکہ مَیں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایسا سُنا ہے۔ آپ نے فرمایا اگر تم نے یہ بات آئندہ کسی کے سامنے بیان کی تو میں تجھے کوڑے ماروں گا۔ اگر تو نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے واقع میں یہ بات سُنی ہے تو کوئی گواہ لا۔ وہ اُس وقت تو خاموش رہے مگر دوسرے موقع پر وہ ایک اور صحابی کو بطور گواہ لائے اور اُنہوں نے بھی یہی بیان کیا کہ مَیں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایسا فرماتے سُنا ہے۔ تب آپ نے فرمایا اچھا اب مَیں تمہاری بات مان لیتا ہوں۶؎ مگر جب تک وہ کوئی گواہ نہیں لا سکا تھا آپ نے اس کے متعلق فرمایا کہ ہم تمہاری بات ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ تمہاری اس بیان کردہ روایت کا کوئی اور گواہ نہیں مگر مَیں کہتا ہوں کیا اس وجہ سے صحابہ کو ڈر جانا چاہئے اور انہیں وہ بات بیان نہیں کرنی چاہئے جو اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان مبارک سے خود سُنی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے یقینا صحابہ ؓ کا فرض ہے کہ جب وہ کوئی ایسی بات سُنیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منشاء اور آپ کی تعلیم کے خلاف ہو تو وہ کھڑے ہو جائیں اور اپنی روایات بیان کرنا شروع کر دیں مگر وہ یاد رکھیں کہ اس کے بعد ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو جائے گی اور ان کا یہ حق ہر گز نہیں ہو گا کہ وہ اپنا خیال پیش کریں بلکہ ان کا فرض ہو گا کہ وہ وہی بات بیان کریں جو اُنہوں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سُنی ہو اور جس پر انہیں کامل یقین ہو۔
میرے پاس ایک دفعہ ایک دوست آئے اور اُنہوں نے علیحدہ مجلس میں قرآن کریم کی بعض آیات کی تفسیر بیان کرنی شروع کر دی اور کہا کہ ان آیات کی یہ تفسیر مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سُنی ہے۔ وہ آدھ گھنٹہ تک بیان کرتے رہے۔ کسی موقع پر مَیں نے ان سے کہا کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ بات آپ نے اسی طرح سُنی ہے میرا یہ کہنا تھا کہ وہ رونے لگ گئے اور روتے چلے گئے یہاں تک کہ پانچ سات منٹ گزر گئے اس کے بعد بڑی مُشکل سے وہ کہنے لگے میرا حافظہ خراب ہے اور مَیں عالم نہیں ہوں۔ شائد مجھ سے ان باتوں کے سمجھنے یا بیان کرنے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو۔ اس لئے اب مَیں آگے آپ کو کوئی بات نہیں سُناتا۔ مبادا مَیں کوئی غلط بات حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب کردوں۔ بات ان کی معقول تھی اور پھر ان کا جو تقویٰ تھا وہ بھی مجھے پسندآیا کہ محض اتنی بات کاکہ کیا فلاں بات آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اسی طرح سُنی ہے اُن پر اس قدراثر ہؤا کہ روتے روتے ان کی گھِگی بندھ گئی اور انہوں نے مزید تفسیر بیان کرنی بند کر دی اور کہا کہ میرا حافظہ خراب ہے اور علم زیادہ نہیں۔ کہیں میں کوئی غلط بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب نہ کر دوں۔ اُنہوں نے جو باتیں بیان کیں وہ بڑی معقول تھیں اور چونکہ بات لمبی تھی اس لئے ممکن ہے بعض باتیں انہیں بھول بھی گئی ہوں کیونکہ پون گھنٹہ یا گھنٹہ کی تقریر زبانی یاد نہیں رہ سکتی لیکن میری ایک ذرا سی جرح پر وہ اتنے ڈرگئے کہ اُن کی گھِگی بندھ گئی اور انہوں نے کہا کہ میرے لئے خدا تعالیٰ سے معافی طلب کریں۔ خبر ے۷؎ مَیں کوئی غلط بات آپ کی طرف منسوب کر گیا ہوں۔ پھر مَیں نے بہتیرا زور لگایا اور کہا کہ آپ کوئی اوربات بھی سُنائیں مگر اُنہوں نے کہا بات لمبی ہے کیا پتہ ہے مَیں صحیح طور پر اُسے یاد نہ رکھ سکاہوں۔
غرض اُنہوں نے پھر مجھے کوئی بات نہ سُنائی اور اُٹھ کر چلے گئے۔ یہ ان کی احتیاط تھی جو اُنہوں نے اختیار کی ورنہ اصولی طور پر جس قدر باتیں تھیں وہ بیان کر چکے تھے اور اس میں بعض باتیں واقع میں نہایت پُر معارف تھیں اور قرآن کریم کے نئے نکات ان میں بیان کئے گئے تھے۔ تو احتیاط ضرور چاہیئے مگر احتیاط کے یہ معنے نہیں کہ یقینی طور پر انسان کو ایک بات معلوم ہو اور پھر وہ چپ کر جائے۔ محض اس لئے کہ وہ پڑھا ہؤا نہیں آخر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے جنہوں نے روایتیں بیان کی ہیں وہ کوئی بی۔اے یا ایم۔اے تو نہیں تھے۔ یقینا ابو ہریرہ ؓکو اتنا علم نہیں تھا جتنا میر مہدی حسین صاحب کو ہے مگر احادیث کی کتابیں پڑھ کر دیکھ لو۔ ابوہریرہ ؓ کی اتنی روایتیں آتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ تو ہماری جماعت میں صحابہ کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم پڑھے ہوئے نہیں۔ بے شک ہم انہیں قرآن کریم کا درس دینے کے لئے نہیں کہتے کیونکہ ہم جانتے ہیں اگر وہ درس دیں گے تو کئی جگہ غلطی کر جائیں گے۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جتنی بات اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سُنی ہو اُسے دھڑلّے سے بیان کر دیں اور کسی شخص سے نہ ڈریں۔ اگر کوئی دوسرا صحابی اس کے مقابلہ میں کوئی اَور بات بیان کر دے تو اس میں ان کا کیا حرج ہے۔ وہ خدا تعالیٰ کے حضور بری الذمّہ ہو جائیں گے اور دوسرے لوگ موازنہ کر کے ایک صحیح رائے پر پہنچ سکیں گے۔ حدیثوں میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں ایک صحابی کہتے ہیں مَیں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے فلاں بات اس طرح سُنی ہے دوسرا کہتا ہے اس طرح نہیں بلکہ اس طرح ہے۔ اب خود ہی سوچو اس میں کسی کی کیا ہتک ہو گئی۔ دونوں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ اُس نے بھی اور اِس نے بھی بلکہ عقلمند کے نزدیک ان کی عزت بڑھ جائے گی کیونکہ وہ کہے گا انہوں نے دین پر اپنی عزت کو مقدم نہیں سمجھا بلکہ اسے صحیح بنیادوں پر قائم رکھنے کے لئے اپنی ایک رنگ کی ہتک کو بھی گوارا کر لیا۔ جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کے صحابہ کا بھی یہی طریقِ عمل ہونا چاہئے۔ اگر کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک واضح تعلیم کے خلاف کوئی قدم اُٹھاتا ہے تو ان کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ بتا دیں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا سُنا ہؤا ہے تا جماعت کسی غلطی کا شکار نہ ہو جائے۔ اگر وہ ایک متفقہ بات جماعت کے سامنے پیش کریں گے یا ایک ایسی بات پیش کریں گے جس پر ان کی اکثریت متفق ہو گی تو خدا تعالیٰ کے حضور بہت بڑا اجر پائیں گے اور اگر اُن میں سے کوئی شخص حافظہ کی کمزوری یا علم کی کمی یا کسی اور نقص کی وجہ سے کوئی بات صحیح طورپر بیان نہیں کرے گا اور صحابہ کی اکثریت اس کی بات کو ردّ کر دے گی تب بھی وہ خداتعالیٰ سے کہہ سکے گا کہ اے خدا مَیں نے تیرے مسیح سے جس رنگ میں بات سُنی اور جس رنگ میں میرے حافظہ میں محفوظ تھی وہ مَیں نے لوگوں تک پہنچا دی تھی اور یقینا ایسی حالت میں اگر وہ غلط بات بھی کہے گا تب بھی اسے ثواب ملے گا۔ کیونکہ خدا کہے گا تم نے میرے دین کے جھنڈا کو اونچا رکھنے کی کوشش کی ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ اﷲ تعالیٰ اپنے نبی کی ایک امت کو اس کے قریب ترین عہد میں غلط راستہ پر جانے دے۔ یقینا اگر کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کرے گا جو صحیح نہیں ہو گی تو خدا تعالیٰ دو اَور صحابیوں کو کھڑا کر دے گا جو صحیح بات بیان کر کے اس کی غلطی کو واضح کر دیں گے۔
پھر مجھے ’’الفضل ‘‘پر بھی تعجب آتا ہے ’’الفضل‘‘سلسلہ کا آرگن ہے اور ’’الفضل‘‘ کے ایڈیٹر گو عالم نہ ہوں مگر خدا تعالیٰ نے ان کو دماغ دیا ہؤا ہے ۔ کیا اُن کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ اس مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نصوص صریحہ پیش ہو جانے کے بعد کسی شخص کا مضمون نہ لیں۔ چاہے وہ کتنا بڑا عالم کیوں نہ ہو ’’الفضل‘‘ کے ۲۶؍جون کے پرچہ میں نصوصِ صریحہ کے ساتھ یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قتلِ یحییٰ کے قائل تھے مگر اُن نصوص کے شائع ہونے کے دو ماہ بعد ایڈیٹر اُٹھتا ہے اور ایک اور مضمون شائع کر دیتا ہے جو صراحتاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے خلاف ہے۔ محض اس لئے کہ وہ مولوی ابو العطاء صاحب کا ہے جو سلسلہ کے نوجوان علماء میں سے سابقون میں نظرآرہے ہیں۔ حالانکہ مولوی ابو العطاء کیا اگر اُس مضمون پر مولوی سیّد سرور شاہ صاحب یا میرمحمداسحاق صاحب یا مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کا نام بھی لکھا ہؤا ہوتا تو ’’الفضل‘‘ والوں کا فرض تھا کہ وہ کہتے تم سب شاگرد اور تابع ہو اپنے آقا کے۔ جب تمہارا آقا اور مطاع یہ کہتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے تو تمہارا کیا حق ہے کہ اس کے خلاف لب کشائی کرو۔
’’الفضل‘‘ سلسلہ کا اخبار ہے۔ وہ اس لئے جاری نہیں کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کی تردید کی جائے بلکہ اس لئے جاری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اس کے ذریعہ دُنیا میں پھیلائی جائے اور گو یہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو دُنیا میں پھیلائے مگر جو شخص اسی بات کی تنخواہ لیتا ہو اس کی تو یہ انتہائی بد دیانتی ہو گی اگر وہ دیدہ و دانستہ ایسا کرے اور سلسلہ کا کارکن ہوتا ہؤا کام وہ کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو ردّ کرنے والا ہو۔ ان کو تو مقرر اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ ان باتوں کو شائع کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی اشاعت کرنے والی ہوں مگر وہ اپنے اخبار میں ان باتوں کو بھی لے آتے ہیں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقائد کی تردید ہوتی ہے۔ مولوی ابوالعطاء الگ رہے اگر مَیں بھی کوئی مضمون بھیجوں اور الفضل والوں کو معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی نصّ صریح اس کے خلاف ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں سے وہ حوالہ نکال کر مجھے بھیج دیں اور کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد ہے اور آپ کا مضمون یہ ہے۔ اب کیا کِیا جائے؟ اس حوالہ کو دیکھنے کے بعد بھی اگر مَیں یہ کہوں کہ مضمون بیشک شائع کر دیا جائے اس حوالہ کا وہ مطلب نہیں جو تم نے سمجھا تو بیشک وہ مضمون شائع کر دیں۔ اس صورت میں وہ خداتعالیٰ کے سامنے بری ہو جائیں گے اور اسے کہہ سکیں گے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں مین سے ایک حوالہ نکال کر انہیں بتا دیا تھا۔ پس اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں ان پر ہے۔ ایسی حالت میں اگر اس حوالہ کے معنے کرنے میں مَیں غلطی کرتا ہوں تو مَیں ذمہ دار ہوں گا وہ نہیں ہوں گے لیکن اگر انہیں میرے مضمون کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی نصِّ صریح معلوم ہو اور وہ چپ کر کے بیٹھے رہیں اور مضمون شائع کر دیں تو مَیں بھی مجرم ہوں گا اور وہ بھی مجرم ہوں گے کیونکہ انہوں نے میری غفلت کو دورنہ کیا اور میرے علم میں وہ بات نہ لائے جو ان کے علم میں تھی۔ آخر یہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اسی اخبار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصوص چھپتی ہیں ۔ ایسی نصوص جو بالکل واضح ہیں اور جن سے علیٰ وجہ البصیرت یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے لیکن دو مہینہ کا وقفہ دے کر اخبار والے ایک اور مضمون چھاپ دیتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات کے صریح خلاف ہے۔ اگر یہ طریق ہمارے سلسلہ میں جاری ہو جائے تو وہ فتنے جنہوں نے صدیوں کے بعد پیدا ہونا ہے آج ہی اُٹھنے شروع ہو جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام کتابیں پارہ پارہ ہو کر رہ جائیں اور جیسے یہود کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ۸؎کہ تم نے خدا تعالیٰ کی کتاب کو ورق ورق کر دیا۔ ویسے ہی آدمی ہم میں بھی پیدا ہو جائیں۔ ہم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صُحبت میں ایک لمباعرصہ رہے اور ہم آپ کے پاس بیٹھنے والے ہیں۔ مَیں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان مبارک سے باتیں سُنیں اور بار ہا سُنیں۔ پس میرے لئے کسی کی زبان سے یہ سُننا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات کے قائل تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے ایسا ہی قابلِ تعجب ہے جیسے کوئی کہہ دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات کے قائل تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور بجسد عنصری آسمان پر بیٹھے ہیں۔ ایک دفعہ نہیں بلکہ متواتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے ہم نے یہ سُنا اور ایک رنگ میں نہیں بلکہ مختلف رنگوں اور مختلف پیرایوں میں سُنا اور اب ہمارے لئے یہ بات ماننی بالکل ناممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قتلِ یحییٰ کے قائل نہیں تھے۔ پھر صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے سُننے کا سوال نہیں بلکہ ہم میں اس بات پر بحثیں ہؤا کرتی تھیں اور ہم ہمیشہ اُس وقت کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہی عقیدہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے مثلاً حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اس بات کے قائل تھے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی نبی قتل نہیں ہو سکتا اور ہم ہمیشہ آپ سے اس معاملہ میں بحث کیا کرتے اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں سے حوالہ جات نکال نکال کر دکھایا کرتے۔ آخر ۱۹۱۰ء کے قریب انہوں نے اقرار کیا کہ اب آئندہ کے لئے مَیں اس مسئلہ کو بیان نہیں کروں گا ورنہ پہلے آپ ہمیشہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ خطا بیات ہیں جیسے علی گڑھ کے سیّد احمد خان صاحب کہا کرتے تھے کہ قرآن کریم میں بہت جگہ خطابیات کے طور پر باتیں بیان کی گئی ہیں مگر جب ہم نے متواتر حوالہ جات کو نکال نکال کر آپ کے سامنے رکھا اور کئی شہادتیں آپ کے سامنے اس امر کے متعلق پیش کیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی بات کے قائل تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں تو آپ نے اُس وقت فرمایا مَیں سمجھتا ہوں اب مجھے آئندہ کے لئے اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہئے مگر حضرت خلیفہ اوّل نے بھی اپنے دلائل کے ضمن میں یہ کبھی نہیں فرمایا تھا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایسا سُنا ہے۔ آپ فرماتے میرا علم یوں کہتا ہے مگر جب ہم نے ان پر یہ بات ثابت کر دی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اِس بات کے قائل تھے کہ بعض انبیاء شہید ہوئے ہیں تو پھر حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا اب مَیں خاموش ہو جاتا ہوں اور آئندہ اِس کے متعلق کبھی کوئی بات نہیں کروں گا۔٭
لیکن اگر بفرض محال یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ہمیشہ اس بات کے قائل رہے ہیں کہ انبیاء قتل نہیں ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں ان کا یا کسی اور عالم کا پیش کرنا ایسا ہی ہے جیسے ایک پٹھان نے کہہ دیا تھا خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا۔ پہلے اس نے کہیں کنزمیں پڑھ لیا تھا کہ حرکت کرنے سے نماز ٹو ٹ جاتی ہے اس کے بعد ایک دن جب وہ حدیث پڑھ رہا تھا تو اس میں ایک حدیث ایسی آگئی جس میں یہ لکھا تھا کہ نماز پڑھتے پڑھتے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے حرکت کی۔ اپنا ایک نواسہ آپ نے اُٹھا لیا۔ جب سجدہ میں جاتے تو اُسے اُتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اُسے پھر اُٹھا لیتے۔ یہ پڑھتے ہی وہ کہنے لگا خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا۔ کنز میں لکھا ہے کہ حرکت سے نماز ٹوٹ جاتا ہے۔ اب نمازیں لانے والے محمد صاحب (صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم) تھے مگر آپ کی نمازیں توڑنے والا وہ پٹھان بن گیا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابلہ میں کسی کے قول کی کیا حیثیت ہے۔ قول وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنا ہو اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجالس میں متواتر یہ ذکر آتا رہا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے۔
آج ہی میں نے میر محمد اسحق صاحب کو بُلایا اور ان سے کہا کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک روایت یاد ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بار ہا یہ ذکر ہوتا تھا کہ آپ سے پہلے ارہاص کے طور پر اﷲ تعالیٰ نے حضرت سید احمد صاحب بریلوی کو بھیجا اور یہ کہ مسیح اوّل اور مسیح موعود میں یہ بھی باہمی مشابہت ہے کہ جیسے حضرت مسیح کی خبر دینے والے حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خبر دینے والے حضرت سید احمد صاحب بریلوی بھی شہید ہوئے اب یہ روایت مجھے اچھی طرح یاد ہے اور یہ صرف میری روایت ہی نہیں بلکہ بعض اور صحابہ کی بھی ہے ۔ چنانچہ ابھی جبکہ میں جمعہ پڑھانے کے لئے آرہا تھا ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندہری نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں مجھے ایک رُقعہ دیا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مَیں اﷲ جَلَّ شَأْنُہٗ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو مرتبہ مسجد مبارک میں فرمایا (گویا کہ مَیں اب بھی آپ کو بولتے سُنتا ہوں) کہ اﷲ تعالیٰ نے سلسلہ محمدیہ کو سلسلہ موسویہ کے تقابل کے طور پر قائم کیا ہے۔ سلسلہ موسویہ کے اوّل نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں اور ان کے آخری خلیفہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ اسی طرح سلسلہ محمدیہ کے بانی حضرت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں اور آپ کا آخری خلیفہ (حضرت) مسیح موعود ؑ ہے۔ پس ایسے سلسلہ کا اوّل نبی اور اس کا آخری خلیفہ قتل نہیں ہو سکتا ورنہ حق مُشتبہ ہو جائے۔ ہاں درمیان میں اگر کوئی نبی قتل ہو بھی جائے تو اس سے ۹؎ کے اصل پر کہ سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا زد نہیں پڑتی۔
اور فرمایا کہ ایک امر تشبیہہ کا یہ بھی ہے کہ جس طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام سلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ حضرت عیسیٰ ؑ سے پیشتر قتل ہوئے اسی طرح میری بعثت یا آمد سے پیشتر حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی شہید ہوئے۔
پھر فرمایا کہ حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی اور اسمٰعیل شہید میرے لئے بطور ارہاص تھے۔ جیسے حضرت یحییٰ ؑحضرت عیسیٰ ؑ کے لئے بطور ارہاص تھے۔
یہ بعینہٖ وہی روایت ہے جو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے سُنی اور یہ بھی میرے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے طور پر اُنہوں نے لکھ کر مجھے بھیجی ہے۔ جب صبح میں نے میر محمد اسحق صاحب سے اس کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے مجھے روایت تو کوئی یاد نہیں لیکن یہ میں کہہ سکتا ہوں کہ شروع سے یہی عقیدہ سمجھتے آئے ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل کا بیشک پہلے یہ خیال تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے اور آپ اپنی مجالس میں بھی یہ بات بیان کیا کرتے تھے مگر بعد میں آپ نے اس سے رجوع کر لیا تھا۔ یہ عجیب بات ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل وہی دلائل دیا کرتے تھے جو مولوی ابو العطاء صاحب نے اپنے پہلے مضمون میں پیش کئے ہیں۔ آپ بھی فرمایا کرتے تھے دیکھو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ۱۰؎کہ اس پر سلامتی ہے جس دن وہ پیدا ہوا اور سلامتی ہے جس دن فوت ہوا اور سلامتی ہے جس دن دوبارہ اُٹھایا جائے گا۔ اس آیت کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ آپ شہید ہوئے ہیں۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ جب حضرت خلیفہ اوّل نے یہی دلیل پیش فرمائی تو مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی جب موقع لگے یہ آیت پوچھنا۔ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے یہ آیت جاکر پیش کر دی اور عرض کیا کہ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے۔ مجھے اس وقت یہ یاد نہیں کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ کہا کہ اس بارہ میں مجھے حضرت مولوی صاحب نے فرمایا ہے یا یہ نہیں کہا مگر ایک دوسری روایت جو اصحاب الکہف کے متعلق میں بیان کیا کرتا ہوں اس کے متعلق تو مجھے یہ اچھی طرح یاد ہے کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کر دیا تھا کہ حضرت مولوی صاحب نے مجھے کہا ہے کہ مَیں آپ سے اس کے متعلق پوچھوں مگر آپ نے سُن کر فرمایا مولوی صاحب کی غلطی ہے۔ اصحاب الکہف تو میری جماعت کا نام بھی رکھا گیا ہے۔ اس لئے اس سے مراد کوئی مشرک جماعت نہیں ہو سکتی۔ (بعد میں اﷲ تعالیٰ نے مجھے ایسے معنے سمجھا دیئے جن سے دونوں معنے باہم مطابق ہو جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی اور حضرت خلیفہ اوّل کے بھی) غرض مجھے یقینی طور پر یہ یاد نہیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس اس دوسرے حوالہ کے بارہ میں یہ ذکر کیا یا نہیں کہ حضرت مولوی صاحب نے مجھے اس کے دریافت کرنے کے لئے کہا تھا۔ بہرحال میں گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے میں نے یہ آیت پیش کی اور عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں یا مَیں نے یہ کہا کہ حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے اس پر آپ نے قرآن کریم منگوایا۔ یا قرآن کریم اس وقت مَیں ہی ساتھ لے کر گیا تھا اور اسے آپ نے کھولا اور سورۂ مریم میں سے یہ آیت نکال کر اس کے دوسرے حصے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا۔ اگراس کے یہی معنے ہیں تو اس دوسرے حصہ کے کیا معنے ہوں گے۔ وہ حصہ کونسا تھا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ہاتھ رکھا، یہ مجھے یاد نہیں رہا۔ مَیں قیاساً کہہ سکتا ہوں کہ غالباً وہ آیت کا وہ آخری حصّہ ہو گا جس میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یحییٰ ؑ پر اس دن بھی سلامتی ہو گی جس دن وہ دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ مطلب یہ کہ اگر آپ پر سلامتی ہونے کا یہی مطلب ہے کہ آپ قتل سے محفوظ رہے تو قیامت کے دن آپ پر سلامتی ہونے کے کیا معنے ہیں۔ کیا قیامت کے دن بھی آپ کے قتل کی کوئی دُشمن تدبیر کرے گا کہ اس دن اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی آپ کے لاحق حال ہو گی۔ آخر اگر سلامتی کا اس جگہ یہی مفہوم لیا جائے کہ دُشمن کی تدابیرِ قتل کا اس میں ردّ ہے تو اس کے معنے یہ بنیں گے کہ جس دن حضرت یحییٰ پیدا ہوئے اس دن بھی وہ قتل سے محفوظ رہیں گے۔ جس دن وہ فوت ہوں گے اس دن بھی وہ قتل نہیں ہوں گے اور جب قیامت کے دن جی اُٹھیں گے تو اس دن بھی قتل نہیں ہوں گے۔ اب کیا قیامت کے دن بھی وہ قتل ہو سکتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ کو ان کے متعلق پر بھی سلامتی کا وعدہ کرنا پڑا۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان معنوں کو ردّ کیا اور فرمایا کہ اس کے یہ معنے غلط ہیں۔ پس گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس وقت جو دلیل بیان فرمائی وہ مجھے یاد نہیں مگر میں قیاساً کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا اشارہ کے آخری حصہ کی طرف تھا۔ کے متعلق تو پھر بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس میں اﷲ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوتے ہی نہیں مر جائیں گے بلکہ کچھ عرصہ دنیا میں زندہ رہیں گے۔ مگر کے کیا معنے بنیں گے۔ کیا اس دن اور لوگ مارے جائیں گے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ خاص طور پر بچائے گا۔ جب اور لوگ بھی اس دن زندہ ہوں گے تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی زندگی اور آپ پر اﷲ تعالیٰ کی سلامتی خاص ندرت اپنے اندر کیا رکھتی ہے۔
در حقیقت اﷲ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ مین تین مختلف زمانوں کو بیان کیا ہے مگر لوگوں نے غلطی سے اس کا مفہوم کچھ کا کچھ سمجھ لیا۔ دراصل انسانی زندگیاں تین ہوتی ہیں۔ ایک زندگی شروع ہوتی ہے انسانی پیدائش سے اور ختم ہوتی ہے انسانی موت پر۔ اس زندگی کو حیاۃ الدنیا کہاجاتا ہے۔ دوسری زندگی موت سے شروع ہوتی اور قیامت تک قائم رہتی ہے۔ اس زندگی کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور اسی کے متعلق حدیثوں میں خبر دی گئی ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو اگر وہ جنتی ہوتا ہے تو جنت کی طرف سے اس کے لئے ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور اگر دوزخی ہوتا ہے تو دوزخ کی طرف سے اس کے لئے ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ گویا مرتے ہی انسان کو آرام یا عذاب ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی مختلف قسم کی رحمتیں اور فضل اس پر نازل ہونے لگ جاتے ہیں اور اگر دوزخی ہوتا ہے تو مختلف قسم کے عذاب اس پر نازل ہونے لگ جاتے ہیں۔ مگر اس کے بعد ایک تیسرا زمانہ ہے جسے قرآن کریم نے یوم البعث قرار دیا ہے اور جس دن کامل طور پر جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل کر دیئے جائیں گے یہ تین ابتدائی نقطے ہیں انسانی زندگی کے۔ پیدائش ابتدائی نقطہ ہے حیاۃ الدنیا کا۔ موت ابتدائی نقطہ ہے حیاۃِ برزخی کا اور یوم البعث ابتدائی نقطہ ہے اُخروی حیاۃ کا۔ یہ تین ابتدائی نقطے ہیں اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یحییٰ کے تینوں نقطہ ہائے حیات میں سلامتی ہی سلامتی ہے۔ اس کی پیدائش پر بھی ہماری طرف سے سلامتی نازل ہو گی اور وہ زندگی بھر اس سے متمتع ہوتا رہے گا۔ پھر جب اس نے وفات پائی تو پھر بھی اس پر سلامتی نازل ہو گی اور وہ عالمِ برزخ میں بھی سلامتی سے حصّہ پائے گا اور اس کے بعد جب یوم البعث آئے گا تو اس دن پھر اس پر سلامتی نازل ہو گی اور وہ اخروی حیاۃ میں بھی اﷲ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت رہے گا۔ یہ تین ابتدائی مرتبے انسانی زندگی کے ہیں جو اس آیت میں بیان کئے گئے ہیں۔ قتل کا یہاں ذکر ہی کہاں ہے۔ اگر کہیں قتل کی نفی ہو سکتی ہے تو وہ وہ مقام ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اسی قسم کے الفاظ اپنے متعلق استعمال کئے ہیں اور فرمایا ہے ۱۱؎ مگر وہاں بھی یہ معنے ہم اسی لئے لیتے ہیں کہ یہود ان کے متعلق یہ کہا کرتے تھے کہ وہ *** موت مرے ہیں اور اس کی دلیل یہ دیا کرتے تھے کہ تورات میں لکھا ہے جو صلیب پر لٹک کر وفات پاتا ہے وہ *** ہوتا ہے۔ پس چونکہ یہود ان کے متعلق یہ کہا کرتے تھے کہ وہ *** کی موت مرے ہیں اور عالَمِ برزخ میں عذاب دیئے جارہے ہیں اس لئے ہم کہتے ہیں اس آیت کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے ان یہود کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مَرے۔ پس اگر ہم وہاں یہ معنے کرتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مَرے تو اس کی ہمارے پاس دلیل ہوتی ہے اور ہم کہتے ہیں چونکہ یہود کا یہ اعتقاد تھا کہ صلیب پر مَرنے والا *** ہوتا ہے اور دوسری طرف ان کا یہ دعویٰ تھا کہ ہم نے مسیح ؑ کو مصلوب کر دیا۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ نے ان کی تردید کی مگر یہاں تو اس قسم کا کوئی اعتراض نظر نہیں آتا۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ اس آیت کے ایسے معنے کئے جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہیں۔
مَیں جیسا کہ بیان کر چُکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہم نے ہمیشہ یہ بات سُنی ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے۔ ممکن ہے حضرت خلیفۂ اوّل کی شاگردی کے لحاظ سے ابتدائی ایّام میں مَیں نے بھی کبھی کہہ دیا ہو کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے کیونکہ قرآن کریم مَیں نے حضرت خلیفہ اوّل سے ہی پڑھا ہے۔ گو مجھے یاد نہیں کہ مَیں نے کبھی ایسا کہا ہو لیکن یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے یہ آیت رکھی تو آپ نے ان معنوں کو غلط قرار دیا جو عام طور پر کئے جاتے ہیں اور فرمایا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے۔ آپ نے اس کے متعلق مجھے یہ دلیل بتائی تھی۔ وہ جیسا کہ مَیں بتا چُکا ہوں مجھے یاد نہیں مگر مَیں اس وقت اس آیت کی تشریح کر کے بتا چُکا ہوں کہ اس میں قتل کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اس میں تین زندگیوں کا ذکر کیا گیا ہے ایک وہ زندگی ہے جس کی پیدائش سے ابتداء ہوتی ہے، دوسری وہ زندگی ہے جس کی موت سے ابتداء ہوتی ہے اور تیسری وہ زندگی ہے جس کی یوم البعث سے ابتداء ہوتی ہے۔ پیدائش سے ابتداء دُنیوی زندگی کی ہوتی ہے۔ موت سے ابتداء برزخی زندگی کی ہوتی ہے اور یوم البعث سے ابتداء اخروی زندگی کی ہوتی ہے اور قرآن کریم سے یہ تینوں زندگیوں کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے بیان کر دیا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام ان سب زندگیوں میں خدا تعالیٰ کی سلامتی کے نیچے ہیں۔ وہ دُنیوی زندگی میں بھی اس کی سلامتی کے مورِد رہے، وہ برزخی زندگی میں بھی اس کی سلامتی کے مورد ہیں اور وہ اُخروی زندگی میں بھی اس کی سلامتی کے مورد ہوں گے اور یہ سلام صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ ؑ کے لئے نہیں آیا بلکہ سب مومنوں کے لئے آیا ہے۔ چنانچہ سورۂ انعام میں آتا ہے ۱۲؎ یعنی جب تیرے پاس ہماری آیتوں پر ایمان لانے والے لوگ آئیں تو ان کو ہمارا یہ پیغام دے دینا کہ تم پر سلام ہو اور تمہارے رب نے تمہارے لئے اپنے آپ پر رحمت واجب کر لی ہے۔ یہ سلام بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے حالانکہ ان میں سے کئی شہید ہوئے۔ پھر سب مومنوں کی نسبت آتا ہے کہ ۱۳؎ یعنی جن لوگوں کی روح فرشتے اس حالت میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں۔ فرشتے انہیں اس وقت یہ کہتے چلے جاتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو۔ جاؤ اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ فرشتے مومنوں کی جان کئی طرح نکالتے ہیں۔ بعض کی شہادت کے ذریعہ سے نکالتے ہیں تو کیا اگر سلامتی کے معنے دُشمنوں کے ہاتھوں سے نہ مارے جانے کے ہیں تو یہ عجیب بات نہ ہو گی کہ دُشمن ان کو قتل بھی کر رہا ہو گا اور فرشتے ساتھ سلام سلام بھی کرتے جارہے ہوں گے۔ گویا جو بات ہو رہی ہو گی اسی کی تردید کر رہے ہوں گے۔ اسی طرح سورۂ طٰہٰ میں آتا ہے ۱۴؎ جو بھی ہدایت کے تابع چلے اس پر سلامتی ہے۔ اگر سلام کے معنے دُشمنوں کے قتل سے محفوظ رہنے کے لئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ کبھی کوئی مومن قتل نہیں ہوتا پھر سورۂ مائدہ میں مومنوں کی نسبت فرماتا ہے ۱۵؎ یعنی قرآن کریم کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ ان کو جو خدا تعالیٰ کی رضا کے تابع ہوتے ہیں سلام کے راستے دکھاتا ہے۔ اب اگر سلام کے معنے دُشمنوں کے ہاتھوں قتل نہ ہونے کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اﷲ تعالیٰ مؤمنوں کو ایسی زندگی بخشتا ہے کہ وہ کبھی دُشمن کے ہاتھ سے قتل نہیں ہوتے۔ جو بِالبداہت غلط ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ سلام ایک وسیع معنوں کا لفظ ہے۔ بعض موقعوں پر یقینا اس کے یہ معنی بھی ہوں گے کہ دُشمن کے کسی حملے سے بچالے، بعض جگہ بیماری سے بچانے کے، بعض جگہ ناکامی سے بچانے کے معنے ہوں گے لیکن بغیر کسی زبردست قرینے کے ایک خاص معنے ایک عام لفظ کے کرنے اور اسے نص قرار دے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کو اس کے ماتحت کرنے کی کوشش کرنا یہ درست نہیں ہے۔ غرض میری مراد یہ نہیں کہ سلامتی کے معنے قتل سے بچنے کے نہیں ہو سکتے۔ یقینا ہو سکتے ہیں لیکن اس کے اور بھی بہت سے معنے ہو سکتے ہیں اس کے وہی معنے لئے جائیں گے جو خدا تعالیٰ کے نبی کے قول کے خلاف نہ ہوں گے۔ اس آیت میں نص سلامتی ہے نہ کہ قتل سے بچنا۔ اگر سلامتی کے معنے نصِ قتل سے بچنے کے ہوں تو پھر لازماً اوپر کی آیات کے مخاطبین کو بھی قتل سے بچنا چاہئے اور لازماً قیامت کے دن بھی قتل کی کوئی صورتیں ممکن ہونی چاہئیں بلکہ جنت میں بھی کیونکہ اس کے لئے بھی سلامتی کا لفظ آتا ہے لیکن اگر جیسا کہ مَیں کہتا ہوں سلام کے کئی معنی ہو سکتے ہیں اور ہر موقع کے مناسب معنے اس کے کئے جانے ضروری ہیں۔ تب کسی آیت پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ہر جگہ کے مناسبِ حال سلام کے معنے کئے جائیں اور جب کسی لفظ کے کئی معنے ہوں تو ایک معنی کو لے کر اسے نص قرار دینا جائز نہیں اور جب کئی معنے ہوتے ہوں تو نبی کے ادنیٰ سے اشارہ کے بعد بھی ایسے معنے کرنے درست نہ ہوں گے جو نبی کے معنوں کو ردّ کر دیتے ہوں۔ ہاں وہ معنے درست ہوں گے جن کی موجودگی میں نبی کے معنے بھی قائم رہتے ہوں کیونکہ قرآن غیر محدود معارف رکھتا ہے اور نبیوں اور ان کی اُمتوں پر ہمیشہ اس کے وسیع معنے کھلتے رہیں گے۔ وَذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ۔
پھر یہ بات بھی ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے متواتر سُنی ہے کہ دو قسم کے نبی کبھی قتل نہیں ہؤا کرتے۔ ایک وہ جو سلسلہ کے اوّل پر آتے ہیں جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام یا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں اور ایک وہ جو سلسلہ کے آخر میں آتے ہیں جیسے سلسلۂ موسویہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ باقیوں کے متعلق یہ کوئی شرط نہیں کہ وہ قتل نہیں ہو سکتے۔ یہ نہیں کہ وہ ضرور مارے جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر ان میں سے کوئی مارا جائے تو اِس سے اُسے جھوٹا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مَیں نے بھی متواتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ بات سُنی ہے اور ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری بھی یہی شہادت دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے سلسلۂ محمدیہ کو سلسلۂ موسویہ کے تقابل کے طور پر قائم کیا ہے۔ سلسلۂ موسویہ کا اوّل نبی حضرت موسیٰ ؑ ہوئے ہیں اور ان کے آخری خلیفہ حضرت عیسیٰ ؑ ہیں۔ اسی طرح سلسلۂ محمدیہ کے بانی حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں اور آپ کا آخری خلیفہ (حضرت) مسیح موعود ؑ ہے۔ پس ایسے سلسلہ کا اوّل نبی اور اس کا آخری خلیفہ قتل نہیں ہو سکتاورنہ حق مشتبہ ہو جائے۔ ہاں درمیان میں اگر کوئی نبی قتل ہو جائے تو اس سے لَوتَقَوَّل کے اصل پر کہ سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا زد نہیں پڑتی۔
یہی مضمون مَیں نے بار ہا سُنا ہے ایک دفعہ نہیں بلکہ متواتر۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں جب اپنی تقاریر یا بحث مباحثہ میں ہم نے لَوْتَقَوَّلَوالی آیت پیش کرنی ہوتی تو ہمیں متواتر یہ سبق دیا جاتا کہ یہ مت کہنا کہ جو نبی قتل ہو جائیں وہ جھوٹے ہوتے ہیں بلکہ یہ کہنا کہ جس مدعی کو دعویٔ نبوت کے بعد اُتنی مہلت ملے جتنی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ملی تھی وہ ضرور سچا ہوتا ہے۔ یہ معنے ہیں جو ہمیں متواتر بتائے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ لَوْتَقَوَّلَکے یہ معنے نہ کرنا کہ جو مارا جائے وہ جھوٹا ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا کہ جو اتنی عمر پائے جتنی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کے بعد پائی یا اس سے بھی زیادہ لمبی عمر پائے وہ کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ گویا لمبی عمر پانا سچے ہونے کی دلیل ہے۔ کسی نبی کا قتل ہو جانا جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں جس طرح انگریزی میں ہیمر (HAMMER) کرنا یعنی ہتھوڑے سے کُوٹ کُوٹ کر کسی چیز کو اندر داخل کرنا بولا جاتا ہے۔ اسی طرح بار بار ہمارے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جاتی تھی اور ہمیں کہا جاتا تھا کہ اس سے یہ استدلال نہ کرنا کہ کوئی سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ کرنا کہ دعویٔ نبوت کے بعد محمد صلی اﷲ علیہ وسلم جتنی عمر اگر کوئی مدعی نبوت پا لے تو وہ کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ گویا کسی مدعی کا لمبی عمر پانا اس کے سچے ہونے کی دلیل ہے۔ کسی کا مارا جانا اس کے جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں۔ میر مہدی حسین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی ہیں وہ بھی لکھتے ہیں:
مَیں یہ بیان مؤکدّبہ قسم حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کی نسبت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کی مجلس میں سُنا ہے لکھ کر دیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا:
یحییٰ علیہ السلام کے قتل کی بابت یہ سمجھنا چاہئے کہ سلسلہ کا اوّل اور آخر نبی قتل نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہو تو کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور مصیبت حد سے بڑھ جاتی ہے۔ درمیانی انبیاء اور خلفاء اگر قتل ہوں تو اس قدر نقصان نہیں ہوتا۔
ابھی بعض اَور گواہیاں بھی میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے لے رہا ہوں مگر یہ بات بہرحال یقینی ہے کہ ہم نے اس بات کو اتنے تواتر کے ساتھ سُنا ہے کہ اس میں شُبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہو سکتی۔
مولوی ابو العطاء صاحب نے مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کی ایک شہادت بھی اپنے مضمون میں درج کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
بِالآخر مَیں جناب مولوی علام رسول صاحب راجیکی کے ایک تازہ خط کے مندرجہ ذیل اقتباس پر مضمون کو ختم کرتا ہوں جو یہ ہے:
’’حضرت خلیفۂ اوّل …کا یہی عقیدہ تھا کہ کوئی نبی قتل نہیں کیا گیا۔ بلکہ مَیں شہادۃً بِاﷲ لکھتا ہوں کہ مَیں نے اپنے کانوں سے ان کی زبانِ مبارک سے سُنا ہے کہ مَیں چونکہ نبیوں سے بہت محبت رکھتا ہوں اس لئے مَیں بھی قتل سے محفوظ رہوں گا۔ شاید یہ بات انہوں نے کسی الہامی بشارت کی بنا پر کہی ہو یا حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی مماثلتِ حفاظت پر قیاس فرماتے ہوئے‘‘۔۱۶؎
مَیں خود بتا چُکا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا یہی خیال تھا مگر جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے حوالہ جات نکال نکال کر آپ کو بتائے تو آپ نے فرمایا اب میں آئندہ کے لئے اس بات کو بیان نہیں کروں گا۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ مَیں نے حضرت خلیفہ اوّل کو وہ روایت سُنائی تھی یا نہیں جو ابھی مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق بیان کی ہے اور جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ اگر اس آیت کا یہی مطلب ہے تو اس کے آخری حصّہ کا کیا مطلب ہؤا؟ ممکن ہے شرم کے مارے مَیں نے آپ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بات کا ذکر نہ کیا ہو مگر یہ مجھے یقینی طور پر یاد ہے کہ مَیں اور حافظ صاحب مرحوم متواتر آپ کو اس بارہ میں توجہ دلاتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالہ جات دکھاتے اور روایات سُناتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنے سابقہ عقیدہ سے رجوع کیا اور فرمایا آئندہ مَیں یہ بات بیان نہیں کیا کروں گا۔٭ پس یہ شہادت کسی پر حُجت نہیں ہو سکتی۔ ایک شخص کو اگر علم ہی نہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فلاں مسئلہ کے متعلق کیا ارشاد فرمایا ہے یا آپ کی اس بارہ میں کیا رائے ہے تو وہ اگر لا علمی میں کوئی بات کہہ دے تو اس سے اَور لوگ استدلال نہیں کر سکتے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ نبوت اور کفرواسلام وغیرہ مسائل کے متعلق بھی بعض جُزئیات کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو پوری واقفیت نہیں تھی۔ پیغامیوں کا جب فتنہ اُٹھا اور اُنہوں نے ان مسائل کو غلط رنگ میں بیان کرنا شروع کیا تو بعض اجزاء کے متعلق بعض دفعہ آپ فرما دیتے ممکن ہے یہ بات یوں ہی ہو۔ مگر جب حوالہ جات نکال کر دکھائے جاتے تو آپ فرماتے ہاں اب بات میری سمجھ میں آگئی ہے لیکن اس مسئلہ کے متعلق جیسا کہ مَیں بتا چُکا ہوں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے صاف طور پر فرمایا تھا کہ اب مَیں آئندہ ایسی بات نہیں کہوں گا لیکن اگر بفرض محال ان کا یہ عقیدہ ہمیشہ رہا ہو تو بھی ان کی بات کو پیش کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کسی بات کو ردّ کرنا ایسی ہی بات ہے جیسے اس پٹھان نے کہا تھا خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا۔ حضرت خلیفۂ اوّل چاہے کتنی بڑی حیثیت رکھتے ہوں۔ ایک نبی کے مقابلہ میں ان کی بات کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر مؤمنوں کو ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْاأَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّکہ اے ایمانداروں تم اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔ پس اس آیت کے ماتحت تو ہم سمجھتے ہیں اگر حضرت خلیفۂ اوّل بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کسی بات کا انکار کر دیتے تو وہ ویسے ہی مجرم ہوتے جیسے دوسرے لوگ ہوتے مگر ہم جانتے ہیں انہوں نے انکار نہیں کیا اور اوّل المؤمنین ہوئے لیکن نَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ ذَالِکَ اگر وہ منکر ہوتے تو پھر کیا ان کی کوئی حیثیت ہماری جماعت میں ہوتی۔ آخر خلیفہ کی نبی کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہوتی ہے۔ خلیفہ تابع ہوتا ہے اور نبی متبوع۔ ہم حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کا اسلام میں بہت بلند مقام تسلیم کرتے ہیں مگر اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ اکر کل کو کوئی کہے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی فلاں بات غلط ہے کیونکہ حضرت ابو بکر ؓ نے یوں کہا تھا تو یہ بات حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کی شان کو بلند کرنے والی نہیں بلکہ آپ کی شان کو گرانے والی ہو گی۔ خلفاء کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے نبی متوبع کے تابع ہو کر چلیں۔ اگر وہ ان کی تعلیم سے باہر ہو کر کوئی بات کرتے ہیں تو ان کی کوئی ہستی ہی نہیں سمجھی جا سکتی۔ پس اﷲ تعالیٰ کے نبی کے مقابلہ میں کسی کی بات تسلیم نہیں کی جاسکتی خواہ وہ کتنا بڑا عالم کیوں نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام کتنا بلند ہے مگر آپ فرماتے ہیں اگر میرا الہام رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کے خلاف ہوتا تو مَیں اسے تھُوک کی طرح اُٹھا کر پھینک دیتا اور اس کی ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی قدر نہ کرتا۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے اور یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ آپ پر کوئی خلافِ قرآن الہام نازل ہوتا۔ پیغامی اس سے غلطی سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے الہامات کو کوئی وقعت نہیں دی اور آپ کے الہامات پر ایک ضعیف سے ضعیف حدیث بھی فوقیت رکھتی ہے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس جگہ اپنے الہامات کا غلط ہونا بیان نہیں کر رہے بلکہ قرآنی الہامات کی عظمت اور برتری کا ذکر فرما رہے ہیں اور لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وہ عظمت اور شان ہے کہ اگر میرے الہام خلافِ قرآن ہوتے تو مَیں انہیں تھُوک کی طرح پھینک دیتا یعنی کبھی ان کی بناء پر دعویٰ نہ کرتا اور اسے بلغم جتنی حیثیت بھی نہ دیتا۔ مولوی ابوالعطاء صاحب نے مولوی سیّد سرور شاہ صاحب کی ایک روایت کا بھی اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے۔ مولوی صاحب لکھتے ہیں:
’’مَیں نے مندرجہ بالا مضمون بمبئی سے لکھا تھا۔ میرے ذہن میں فولادی میخ کی طرح یہ بات قائم تھی کہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قتل انبیاء کے متعلق سوال کیا گیا تو حضور نے فرمایا کہ سلسلہ کا پہلا اور پچھلا نبی تو بہرحال قتل نہیں ہو سکتا۔ درمیانی انبیاء میرے راستہ میں نہیں آئے اس لئے ان کا حال مجھ پر نہیں کھولا گیا۔ (ملخصاً) اس روایت کا صاف مطلب یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قتلِ یحییٰ علیہ السلام وغیرہ کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ نہیں فرمایا لہٰذا اس سلسلہ میں تحقیق سے اگر یہ ثابت ہو کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے تو اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قطعی فیصلہ کے خلاف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ روایت مَیں نے بار ہا سُنی مگر یاد نہ رہا تھا کہ اس کے راوی کون بزرگ تھے۔ قادیان آنے پر معلوم ہؤا کہ استاذی المکرم حضرت مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ سے مَیں نے یہ روایت سُنی تھی۔ انہوں نے دریافت کرنے پر فرمایا کہ ہاں میری موجودگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مرتبہ یہی جواب دیا ہے۔ یہ قطعی اور یقینی بات ہے اور مَیں نے خود اسے بار ہا بیان کیا ہے‘‘۔
مَیں نہیں جانتا یہ روایت کیا ہے مگر کم سے کم چالیس پچاس لوگ ایسے گواہ ضرور ہوں گے جو یہ جانتے ہیں کہ جب پہلی دفعہ مولوی ابو العطاء صاحب کا یہ مضمون چھپا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں کئے گئے تو مَیں نے ایک دن عصر کے بعد مولوی سیّد سرور شاہ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا ’’الفضل‘‘ میں مولوی ابو العطاء صاحب کا ایک مضمون شائع ہؤا ہے جس میں اُنہوں نے لکھا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں کئے گئے۔ حالانکہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بار ہا سُنا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے تھے۔ اس پر مولوی سیّد سرور شاہ صاحب نے فرمایا مَیں نے بھی متعدد بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے یہی بات سُنی ہے۔ یہ بات کہیں علیحدہ نہیں ہوئی مجلس میں ہوئی۔ اُس وقت چالیس پچاس آدمی موجود تھے۔٭
اس کے بعد جب مولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے مولوی ابو العطاء صاحب کے مضمون کی تردید میں بعض مضامین لکھے تو ایک دن عصر کے بعد مسجد میں ہی مَیں نے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے اپنے مضامین کی آخری قسط میں جو یہ لکھا ہے کہ بعض لوگ اس قسم کے بے ہودہ خیالات رکھنے والے بھی دیکھے گئے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات پر اپنے اوہام کو مقدم رکھتے ہیں اور عذریہ کرتے ہیںکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوئی شارع نبی نہیں تھے اور اس میں کچھ شک بھی نہیں کہ آپ شارع نبی نہیں تھے مگر جو لوگ اپنے اجتہادات کو حضور کے ارشادات پر ترجیح دیتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے وہ خود کیا شارع نبی ہوتے ہیں۔ یہ آپ نے کیوں لکھا اور آپ کو کیونکر پتہ لگ گیا کہ مولوی ابوالعطاء صاحب کو اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم وضاحت سے بتائی جائے تو پھر بھی وہ آپ کا حُکم ماننے کے لئے تیار نہیں۔ ممکن ہے انہوں نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے عدمِ قتل کے متعلق جو کچھ لکھا ہو عدمِ علم کی وجہ سے لکھا ہو۔ پس آپ کو محض اصولی طور پر جواب لکھنا چاہئے تھا۔ یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام کو نہیں مانتا وہ ایسا ہوتا ہے پھر مَیں نے اس مجلس میں بھی ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہم نے بار ہا سُنا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے۔ اس پر مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب نے پھر کہا کہ واقع میں یہی بات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے ہیں۔ باقی رہی مولوی صاحب کی روایت۔ سو اس کا اصل مضمون سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ اوّل تو ممکن ہے مولوی صاحب کو خلط ہو گیا ہو کیونکہ یہ بات حضرت خلیفۂ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ ممکن ہے یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پُرانی تحقیق کی بنا پر فرمائی ہو۔ اس کی وضاحت آپ پر نہ ہوئی ہو مگر یہ اس سے پہلے کا واقعہ ہے کہ جب ہم نے حوالہ جات نکال کر دکھائے تھے پھر سوال یہ ہے کہ جن اُمور کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انکشاف ہؤا ہے وہ تو پھر وفاتِ مسیح وغیرہ چند ہی ہیں۔ اس لئے ہم میں سے ہر ایک کو حق ہونا چاہئے کہ جس مضمون میں چاہیں آپ سے اختلاف کریں۔ حکماً عدلاً اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کی معرفت آپ کا نام رکھا ہے۔ ہمارا تو نام نہیں رکھا۔ حق یہ ہے کہ ہر دینی مسئلہ کے متعلق جس کا ذکر قرآن و حدیث میں آیا ہو۔ آپ کا ہر قول حجت ہے اور اس قول کو تو آپ خود حجت قرار دے رہے ہیں۔ چنانچہ جو حوالے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے دیئے گئے ہیں ان میں تو بالوضاحت یہ بات پائی جاتی ہے اور وہاں شک کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ روایات میں تو پھر بھی کسی حد تک شُبہ کا امکان ہو سکتا ہے مگر تحریرات میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بِالوضاحت اس مسئلہ کو بیان فرمایا ہے اور ان کے ہوتے ہوئے کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے۔
خدا کرے غلط ہی ہو مگر مجھ پر مولوی صاحب کا مضمون پڑھ کر یہ اثر ہؤا ہے کہ گویا انہیں اس بات کا غصّہ ہے کہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے ان کے مضمون کی تردید کیوں کی ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے بعض جگہ پر حوالہ جات پر بھی غور نہیں کیا۔ چنانچہ انہوں نے ایک حوالہ میری طرف اور علمائِ سلسلہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے درج کیا ہے جو اگر وہ غور کرتے تو ہر گز اس قابل نہ تھا کہ اس موقع پر اور اس طرح اسے درج کیا جاتا۔ مولوی ابو العطاء صاحب مولوی محمداسماعیل صاحب کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جناب مولوی صاحب کے نزدیک کامیابی سے پہلے تو کوئی نبی قتل نہیں ہو سکتا۔ ہاں یہ کہنا کہ کوئی سچا نبی مطلق طور پر قتل ہو ہی نہیں سکتا یہ کُلّیۃً درست نہیں۔ کیونکہ قرآن مجید نے ۱۷؎میں یہ بتایا ہے کہ نبی قتل ہو سکتے ہیں اور فیِ الواقع قتل ہوئے ہیں۔ مَیں نہایت ادب سے اپنے محسن اُستاد کی خدمت میں عرض پرداز ہوں کہ شاید جناب کی نظر سے کے وہ معنے اوجھل ہو گئے جو اس آیت کے احمدی علماء کی طرف سے سیدنا حضرت …خلیفۃ المسیح الثانی اَیَّدَہُ اﷲُ بِنَصْرِہٖ کی زیرنگرانی شائع ہو چکے ہیں۔ لکھا ہے:اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ بنی اسرائیل نبیوں کو قتل کرتے تھے …پس سے یہ مراد نہیں کہ وہ فیِ الواقع نبیوں کو قتل کرتے تھے … کبھی قتل کا لفظ صرف کوششِ قتل یا اردۂ قتل پر بھی بولا جاتا ہے‘‘۔ ۱۸؎
مولوی ابوالعطاء صاحب نے اس حوالہ کو نقل کر کے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ مولوی صاحب کا سے یہ استدلال کہ نبی قتل نہیں ہو سکتے درست نہیں۔ کیونکہ علمائے سلسلہ احمدیہ نے خلیفۂ ثانی کی نگرانی میں جو ترجمہ کیا ہے۔ اس میں ان معنوں کو ردّ کیا ہے اور یہ درست ہے کہ سلسلہ کے علماء نے ان معنوں کو اس آیت میں ردّ کیا ہے لیکن جب احقاقِ حق کی کوشش کی جائے تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس یا اس حوالہ سے کیا نکلتا ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اصل مضمون کیا ہے اور اسی حوالہ سے جو مولوی صاحب نے درج کیا ہے اصل مضمون پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ بنی اسرائیل نبیوں کو قتل کرتے تھے کیونکہ حضرت موسیٰ کے زمانہ تک کسی نبی کا قتل بنی اسرائیل سے ثابت نہیں‘‘۔۱۹؎
اس دوسرے حصّہ سے ثابت ہے کہ علماء کے نزدیک صرف تاریخی بنیاد پر اس آیت کے یہ معنے کئے گئے ہیں کہ اس میں نبیوں کو قتل کرنا مراد نہیں بلکہ ان کے قتل کی کوشش مراد ہے کیونکہ اس آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے جو قتل نہیں کئے گئے اور اس سے اگلی عبارت میں گو نص نہیں لیکن اس طرف اشارہ ضرور موجود ہے کہ ترجمہ کرنے والوں کے نزدیک انبیاء کا مجرّد قتل ناممکن نہیں ہے۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑکے زمانہ تک کسی نبی کا قتل ثابت نہیں۔ پس مولوی صاحب کا فرض تھا کہ اس حصّہ کو بھی آپ بیان کرتے کیونکہ یہ میدان مباحثہ نہ تھا جہاں کبھی دُشمن کو خاموش کرانا مقصود ہوتا ہے بلکہ اپنے اخبار میں احقاقِ حق کی کوشش ہو رہی تھی۔ اگر مولوی صاحب کو کسی اور نے اس طرح قطع و برید کر کے یہ حوالہ نہیں دیا تو یقینا اس رنگ میں حوالہ نقل کرنا جائز نہ تھا۔ اگر علماء کا قول کوئی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کو خاموش کرایا جاسکتا ہے تو پھر ان کا وہ خیال بھی تو سامنے آنا چاہئے تھا جو زیر بحث مسئلہ کے بارہ میں تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے بغیر قرآن نکال کہ دیکھے عام تفسیری معنوں پر انحصار کر لیا اور یہ آیت بیان کر دی لیکن جیسا کہ ہم نے لکھا ہے اس جگہ قتل کے معنے قتل کے نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ مُشَارٌ عَلَیہِمْ حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ یا ان سے پہلے کے نبی ہیں اور وہ بِالاتفاق قتل نہیں ہوئے۔
مفسرین نے اس امر پر غور نہیں کیا اور عام عقیدہ کے مطابق یہاں بھی لکھ دیا ہے کہ وہ نبیوں کو قتل کرتے تھے۔ ہم نے اس فرق کو ظاہر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس آیت میں یہ معنے نہیں ہو سکتے کیونکہ اس وقت تک کسی نبی کا قتل ثابت نہیں مگر اس آیت کے علاوہ اور آیات ہیں جن پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا مثلاً آل عمران میں لکھا ہے ۲۰؎ اسی طرح اور مقامات میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ نبیوں کا قتل ایک اہم امر ہے اور عام طور پر ہم ایسے معنے کرنے کی طرف راغب رہتے ہیں جن سے اس مضمون کی وسعت کو محدود کیا جائے مگر جہاں خدا تعالیٰ کی گواہی ہو اُسے کیونکر ردّ کیا جاسکتا ہے۔
غرضیکہ ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک کسی نبی کا قتل بنی اسرائیل سے ثابت نہیں‘‘ کا صاف مطلب یہ تھا کہ بعد میں ایسے قتل ہوتے رہے ہیں مگر انہوں نے صرف وہ حصّہ نقل کر دیا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ اس آیت میں قتل سے مراد حقیقی قتل نہیں۔ حالانکہ عبارت میں اشارہ موجود ہے کہ اس کے بعد کے زمانہ میں قتل انبیاء ثابت ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہم کہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کبھی کوئی اُمتی نبی نہیں ہؤا تو کوئی شخص ہمارے ان الفاظ کو لے اُڑے اور کہنا شروع کر دے کہ صاف اقرار کر لیا گیا ہے کہ کبھی کوئی اُمتی نبی نہیں ہو سکتا۔ ہر شخص اسے کہے گا کہ یہاں تو یہ ذکر ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کبھی کوئی اُمتی نبی نہیں ہؤا۔ یہ تم نے کہاں سے نکال لیا کہ بعد میں بھی کوئی امتی نبی نہیں ہو گا۔ اسی طرح یہاں یہ لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک کسی نبی کا قتل بنی اسرائیل سے ثابت نہیں اور سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام ہی ہو سکتے ہیں اور ان دونوں نبیوں کو بنی اسرائیل نے قتل نہیں کیا مگر اسے ایسے رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ طبیعت پر یہ اثر ہو کہ بنی اسرائیل نے کبھی کسی نبی کو قتل نہیں کیا۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ ہم نے یہ لکھا ہے کہ ’’کبھی قتل کا لفظ صرف کوششِ قتل یا ارادۂ قتل پر بھی بولا جاتا ہے‘‘ مگر سوال یہ ہے کہ کیا قتل کا لفظ واقعی قتل پر نہیں بولا جاتا۔ یقینا قتل پر بھی یہی لفظ بولا جائے گا۔ مگر یہاں جو ہم نے اس کے معنے کوششِ قتل یا ارادۂ قتل کے کئے ہیں تو اس لئے کہ یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہی ذکر تھا اور تاریخوں سے یہ امر ثابت ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کر سکے۔
پس چونکہ یہود اس وقت اپنے ارادۂ قتل میں ناکام رہے تھے اور اس آیت میں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کے متعلق ہے۔ کے الفاظ آتے تھے اس لئے ہم نے اس کے معنے کوششِ قتل یا ارادۂ قتل کے کئے لیکن یہ بات تو اُس وقت کے علم کی بنا پر لکھی گئی تھی۔ (حقیقت یہ ہے کہ ترجمہ قرآن کا یہ نوٹ اور یہ استدلال میرا ہی لکھا ہؤا ہے) اب جو میرا علم ہے اس کی بناء پر مَیں کہہ سکتا ہوں کہ ممکن ہے اس وقت بھی یہود نے بعض انبیاء کو قتل کیا ہو کیونکہ تاریخ سے بعض شہادتیں اس امر کے متعلق ملتی ہیں کہ حضرت ہارون علیہ السلام بھی شہید کئے گئے تھے اور یہود نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ہارون کی ترقی سے جل کر اسے قتل کر ڈالا ہے۔ پس اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس وقت کے لحاظ سے بھی کے یہی معنے ہوں کے کہ بنی اسرائیل نبیوں کو قتل کیا کرتے تھے۔ یہ معنے نہیں ہوں گے کہ وہ کوششِ قتل یا ارادۂ قتل کرتے تھے۔
ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری اور میر مہدی حسین صاحب کے علاوہ حافظ محمد ابراہیم صاحب امام مسجد محلہ دارالفضل کی بھی یہ شہادت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح ؑ سے اپنی مماثلت کے ذکر میں ایک دفعہ فرمایا کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے اسی طرح مجھ سے پہلے سیّد احمد صاحب بریلوی شہید ہوئے۔
(اس موقع پر حضور کے ارشاد پر بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے حافظ محمد ابراہیم صاحب کی حسب ذیل شہادت بیان کی:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی مشابہتیں پہلے مسیح کے ساتھ بیان فرما رہے تھے جس میں آپ نے فرمایا کہ گورنمنٹ برطانیہ بھی اسی طرح ہے جس طرح روما کی سلطنت حضرت مسیح کے زمانہ میں تھی۔اسی ضمن میں آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح ؑ سے پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح ؑ کی گواہی کے لئے بھیجا۔ وہ بھی شہید کئے گئے۔ مجھ سے پہلے حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی جو حضرت یحییٰ علیہ السلام نبی کے ہم شکل تھے ان کو خدا نے میری گواہی کے لئے بھیجا اور وہ بھی شہید کئے گئے۔ یہ بھی ایک مماثلت میری مسیح کے ساتھ ہے‘‘۔
پھر اسی ضمن میں یہ بھی فرمایا کہ سلسلہ کا پہلا نبی اور آخری نبی لوگوں کے ہاتھ سے بچایا جاتا ہے۔ درمیان میں اگر کوئی شہید بھی ہو جائے تو سلسلہ کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔)
مَیں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بار ہا سُنا ہے کہ سلسلۂ موسویہ میں حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلے بطور ارہاص حضرت یحییٰ علیہ السلام آئے اور وہ شہید کئے گئے۔ اسی طرح سلسلہ محمدیہ میں مجھ سے پہلے حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی بطور ارہاص آئے اور وہ بھی شہید کئے گئے۔ یہ بھی میری حضرت مسیح ناصری سے ایک مماثلت ہے۔٭
اِس وقت تو مَیں صرف انہی روایتوں پر اکتفا کرتا ہوں۔ ایک مَیں نے اپنی روایت کا ذکر کیا ہے ایک ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری کی روایت کا، ایک میر مہدی حسین صاحب کی روایت کا اور ایک حافظ محمد ابراہیم صاحب کی روایت کا۔ میرا مقصد ان روایات کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ نوجوان علماء کا خواہ وہ علم میں کتنے ہی بڑھ جائیں ہر گز حق نہیں کہ وہ ایسے وسائل کے بارہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچتے ہوں انہیں بغیر ان لوگوں سے رائے لئے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں ایک لمبا عرصہ ہے کوئی رائے قائم کریں اور اس پر لوگوں کو لانے کی کوشش کریں۔ ابھی ہمارا زمانہ ہے اور ہم وہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے تمام باتیں سُنیں۔ پس یہ ہمارا حق ہے کہ ہم جماعت احمدیہ کو یہ بتائیں کہ وہ کون سے امور ہیں جن پر انہیں اپنے عقائد کی بنیاد رکھنی چاہئے۔ دوسروں کا یہ فرض ہے کہ وہ ہمارے تابع ہو کر چلیں اور اگر کسی بات میں انہیں اختلاف ہو تو اس کو اسی رنگ میں دور کرنے کی کوشش کریں کہ صحابۂ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جمع کیا جائے اور ان سے دریافت کیا جائے کہ انہوں نے فلاں مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا سُنا ہے تاکہ اگر آیت کے معنوں میں اختلاف ہو تو صحابہ کی روایتوں سے فیصلہ کیا جائے اور جہاں کتابوں میں کوئی مسئلہ نہ ملے تو پھر صرف صحابہ کی روایات اور ان کے تأثرات کو دیکھا جائے اور تحقیق کی جائے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس بارہ میں کیا سُنا ہؤا ہے۔ مولوی ابوالعطاء صاحب نے اپنے مضمون میں ایسے حوالہ جات پر بنیاد رکھی ہے جن میں صرف اصولی طور پر ان باتوں کو بیان کیا گیا ہے اور انہوں نے ان اصولی امور کو لے کر یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے حالانکہ اصولی باتوں سے نتیجہ اخذ کرنا کبھی درست نہیں ہوتا اور اگر یہ درست طریق ہو تو پھر حدیث میں جو یہ آتا ہے کہ لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ۲۱؎ کہ کوئی نماز سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نہیں ہوتی اس کے مطابق ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص رکوع میں آکر جماعت میں شامل ہو جائے تو اس کی وہ رکعت نہ ہوکیونکہ اس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی ہو گی۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فتویٰ موجود ہے کہ باجماعت نماز میں رکوع میں شامل ہو نے والے کی رکعت ہو جاتی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں لکھا ہے ۲۲؎کہ قیامت کے روز نہ کوئی بیع ہو گی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ شفاعت ہو گی۔ حالانکہ قرآن کریم کے بعض اور مقامات میں اور احادیث میں بھی شفاعت کا ذکر آتا ہے تو بعض دفعہ ایک بات عام قاعدہ کے رنگ میں بیان کی جاتی ہے حالانکہ اس میں مستثنیات بھی ہوتے ہیں اور جب عام قاعدہ کے علاوہ کسی استثنیٰ کا بھی صراحتاً ذکر موجود ہو تو پھرقیاس کے کیا معنے ہو سکتے ہیں۔ اس طرح تو پیغامی بھی استدلال کر لیا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں قرآن کریم کی سورۂ حجرات میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ۔۲۳؎ اے لوگو! ہم نے تم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے۔ اس آیت کے ہوتے ہوئے یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی شخص بن باپ پیدا ہو سکے۔ ہم جب کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو وہ کہتے ہیں دیکھو قرآن کریم میں صراحتاً یہ آیت موجود ہے کہ ہم مَرد اور عورت سے انسان کو پیدا کیا کرتے ہیں۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی بغیر باپ کے پیدا ہو جائے۔ ہم اس کے جواب میں یہی کہا کرتے ہیں کہ عام اصول تو یہی ہے مگر جب خداتعالیٰ نے حضرت مسیح ؑکا استثناء بھی کر دیا اور اسی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کو بن باپ تسلیم کیا تو وہ استثناء اس عام کُلّیہ میں شامل کس طرح ہو سکتا ہے۔ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہر انسان کی دو آنکھیں اور دو ہاتھ ہوتے ہیں۔ اب کوئی شخص کسی اندھے کو پکڑ کر ہمارے سامنے لا کر کھڑا کر دے اور کہے تم جھوٹ بولتے ہو اس کی تو دو آنکھیں نہیں یا کسی لنجے کو پکڑ کر ہمارے سامنے لے آئے اور کہے تم کس طرح کہتے ہو ہر انسان کے دو ہاتھ ہوتے ہیں۔ اس کے تو کوئی ہاتھ نہیں۔ تو ہم اسے یہی کہیں گے کہ جب ہم نے یہ کہا تھا کہ ہر انسان کی دو آنکھیں ہوتی ہیں یا ہر انسان کے دو ہاتھ ہوتے ہیں تو یہ فقرہ ہم نے اس استثناء کو تسلیم کر کے کہا تھا۔ تو اگر بعض مستثنیات ثابت ہوں تو کلیہ ہمیشہ مستثنیٰ کے تابع ہو گا نہ کہ مستثنیٰ کُلیہ کے تابع ہو گا۔
یہی غلطی کھا کر پیغامیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بن باپ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ کہتے ہیں قرآن کریم میں صاف لکھا ہے ہم نے تم سب کو مَرد اور عورت سے پیدا کیا ہے۔ جب ہر ایک کو مرد اور عورت سے پیدا کیا گیا ہے تو حضرت مسیح علیہ السلام بغیر باپ کے کس طرح پیدا ہو گئے۔ ہم ان کو یہی جواب دیتے ہیں کہ اگر کوئی استثناء ثابت ہو جائے تو پھر کلیہ اس مستثنیٰ کے تابع ہو گا اور وہ کُلّیہ اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھے گا بلکہ وہ کُلّیہ مستثنیات کے ساتھ ثابت ہو گا اور اگر کوئی استثناء نہ ہو تو پھر بیشک کُلّیہ اپنی اصلی حالت پر قائم رہے گا۔ جیسے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔۲۴؎ اب یہ بالکل درست ہے اور ہم بھی اسے تسلیم کرتے ہیں مگر ہم غیر احمدیوں سے کہتے ہیں تم یہ بھی تو دیکھو کہ آیا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی استثناء بھی کیا ہے یا نہیں۔ جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسے نبی کی آمد کا استثناء کیا ہؤا ہے جو آپ کی شریعت کا تابع ہو تو لَا نَبِیَّ بَعْدِیْسے مطلقاً ہر قسم کی نبوت کے بند ہونے کا استدلال کرنا کیونکر درست ہو سکتا ہے۔ تو خالی کُلّیے کوئی چیز نہیں ہؤا کرتے بلکہ ان کے ساتھ مستثنیات کو بھی دیکھا جاتا ہے اور اگر مستثنیات ثابت ہوں تو پھر مستثنیات مقدم ہوں گے اور کُلّیے مؤخر ہوں گے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ کُلّیات دو قسم کے ہؤا کرتے ہیں۔ ایک کُلّیہ سُنت اﷲ کا ہوتا ہے اس میں اگر کوئی استثناء سمجھا جائے تو وہ کُلّیہ کے تابع کیا جائے گا کیونکہ اﷲ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ۔۲۵؎ سنت اﷲ میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ پس اگر سنتُ اﷲ کا کسی اور بات سے اختلاف ہو جائے تو ہم کہیں گے استثناء کے اور معنے کرو اور سنتُ اﷲ کو اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے دو کیونکہ سنتُ اﷲ کبھی نہیں بدلتی لیکن جہاں سنت اﷲ نہ ہو وہاں استثناء مقدم ہو گا اور کُلّیہ مؤخر۔ اب اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ سارے انسان دو ہاتھ رکھتے ہیں اور پھر کہتا ہے کہ بعض اندھے بھی ہوتے ہیں، بعض لنجے بھی ہوتے ہیں تو پہلے کُلّیہ کو استثناء کے ساتھ مِلا کر ہمیں پڑھنا پڑے گا اور اگر ہم اس اصل کو مدّ نظر نہ رکھیں تو لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِکے ماتحت یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رکوع میں آکر شامل ہو جائے اور سورۂ فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی رکعت ہو جاتی ہے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صریح فتویٰ موجود ہے کہ اس شخص کی جو رکوع میں شامل ہو رکعت ہو جاتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا پہلے یہی عقیدہ تھا کہ سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر رکعت نہیں ہوتی مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ نے یہ سُنا کہ رکعت ہو جاتی ہے تو آپ نے فرمایا اب مَیں نے اپنی رائے بدل لی ہے۔ پھر فرمایا کہ اب مَیں اس حدیث کے یہ معنے لے لوں گا کہ اگر کوئی شخص عمداً سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا یا نماز میں شامل نہیں ہوتا اور اس انتظار میں بیٹھا رہتا ہے کہ امام رکوع میں گیا تو مَیں شامل ہو جاؤں گا اس کی وہ رکعت نہیں ہو گی مگر جو شخص اتفاق سے ایسے وقت پہنچتا ہے جب کہ امام رکوع میں ہے تو چونکہ اس کی نیت یہی تھی کہ مَیں سورۂ فاتحہ پڑھوں اس لئے جب وہ رکوع میں شامل ہو گیا تو اس کی نیت اور مجبوری کو دیکھتے ہوئے اﷲ تعالیٰ وہ رکعت اس کے نام لکھ دے گا اور وہ ایسا ہی سمجھا جائے گا جیسے دوسرے جنہوں نے سورۂ فاتحہ پڑھی۔
تو اگر کوئی کُلیہ بیان ہو اور دوسری جگہ بعض مستثنیات کا ذکر ہو تو مستثنیات کو شامل کر کے اس کُلیہ کو بیان کرنا پڑے گا جیسے مَیں نے بتایا ہے کہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے لَا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ کہ قیامت کے دن نہ بیع ہو گی نہ دوستی ہو گی نہ شفاعت ہو گی۔ حالانکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ شفاعت کا مسئلہ درست ہے اور جاہل سے جاہل مسلمان بھی اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ قیامت کے دن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے شفیع ہوں گے۔ حتّٰی کہ قرآن کریم بھی دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ وہاں شفاعت تو ہو گی مگر بِاذْنِ اﷲ ہو گی۲۶؎ اور حدیثوں میں تو نہایت تفصیل سے واقعۂ شفاعت کو بیان کیا گیا ہے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن مَیں اپنی اُمت کی شفاعت کروں گا۲۷؎ اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ باقی انبیاء بھی اور ملائکہ بھی بلکہ مؤمن بھی شفاعت کریں گے اور جب سب شفاعت کر کے فارغ ہو جائیں گے تو اﷲ تعالیٰ فرمائے گا میرے نبیوں نے بھی شفاعت کر کے اپنا حق لے لیا، میرے صدیقوں نے بھی شفاعت کر کے اپنا حق لے لیا، میرے شہیدوں نے بھی شفاعت کر کے اپنا حق لے لیا اور میرے نیک اور پاک بندوں نے بھی شفاعت کر کے اپنا حق لے لیا۔ اب صرف مَیں رہ گیا ہوں۔ آؤ مَیں بھی اپنے علم اور رحمت سے کام لوں اور وہ اپنا ہاتھ ڈال کر دوزخ سے نکال لے گا اور اس کے نکالے ہوئے باقی سب کی شفاعت والے لوگوں سے کئی گُنے زیادہ ہوں گے۔ یہ بھی آتا ہے کہ اس کا ذکر کر کے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا دیکھو اﷲ تعالیٰ کی مُٹھی کے بعد اور کیا رہ جائے گا۔۲۸؎ تو شفاعت جو اتنا یقینی اور قطعی مسئلہ ہے اس کے متعلق بھی قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ لَا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ کہ اس دن نہ کوئی بیع ہو گی نہ دوستی ہو گی نہ شفاعت۔اس کا یہی مطلب ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس شفاعت کو ردّ کر دے گا جو بغیر اذن کے کی جائے گی مگر جو شفاعت باذن اﷲ ہو گی اس کو وہ قبول کرے گا کیونکہ اور مقامات پر اس کا ذکر آتا ہے۔ اسی طرح جہاں انبیاء کا قتل ممکن ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اسے ردّ نہیں کرتیں مگر جہاں وہ قتل نا ممکن ہے جیسے سلسلہ کے اوّل یا آخر نبی کا قتل وہاں وہ تحریرات اسے ردّ کر دیں گی۔ بظاہر ہم دو ہی سلسلے سمجھتے ہیں ایک سلسلہ موسویہ اور ایک سلسلۂ محمدیہ لیکن جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار انبیاء آچکے ہیں تو ممکن ہے پچاس ساٹھ سَو یا دو سَو مختلف سلسلے چل کر ختم ہو چکے ہوں اور چونکہ الٰہی سلسلہ کا پہلا اور پچھلا نبی قتل نہیں ہوتا اس لئے دو سَو یا چار سَو انبیاء ایسے نکل آئیں گے جو کسی صورت میں قتل نہیں ہو سکتے تھے۔ رہ گئے درمیانی انبیاء سو ان کے متعلق بھی یہ کوئی ضروری نہیں کہ جو درمیان میں نبی آئے وہ ضرور قتل ہو۔ مطلب صرف یہ ہے کہ اگر درمیانی انبیاء میں سے کوئی قتل ہو جائے تو وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا مثلاً حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق یہ ثابت ہے کہ وہ شہید ہوئے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کے متعلق بھی ثابت ہے کہ وہ شہید ہوئے اسی طرح دوسری قوموں میں جو انبیاء آئے ہیں ان میں سے بھی بعض کے متعلق ان کی قومیں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ قتل ہوئے ہیں۔ ہندوؤں میں حضرت کرشن اور حضرت رام چندر جی یہ دو نبی ہوئے ہیں۔ مجھے اب صحیح طور پر یاد نہیں مگر ان میں سے بھی ایک کے متعلق بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ وہ قتل ہوئے۔ حضرت زرتشت علیہ السلام کے متعلق بہت سے زرتشتی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ قتل ہوئے اور یہ امر تاریخ سے بھی ثابت ہے۔ پھر اگر سقراط کو اپنے وقت کا نبی سمجھا جائے جیسا کہ اس کے دعوؤں میں الہامی رنگ نظر آتا ہے تو وہ بھی قتل ہؤا ہے۔ سقراط نے اپنے زمانہ میں شرک کے خلاف آواز اُٹھائی تھی اور اس نے ایسے ہی دعوے کئے تھے جیسے نبی دعوے کیا کرتے ہیں۔ جب اُسے کہا گیا کہ ان دعوؤں کو چھوڑ دو تو اُس نے جواب دیا اگر یہ عقلی بات ہوتی تو مَیں اسے ردّ کر دیتا مجھے تو آسمان سے خدا تعالیٰ کی یہ آواز سُنائی دیتی ہے کہ بتوں میں کوئی طاقت نہیں اور تُو اس کے خلاف آواز اُٹھا اور تو ایک خدا کی پرستش کی لوگوں کو تعلیم دے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی کوئی نبی تھے۔ بہرحال ایسے لوگ گزرے ہیں جنہیں ان کی قوموں نے نبی یقین کیا مگر تاریخیں کہتی ہیں کہ وہ قتل ہوئے۔ حضرت زرتشت علیہ السلام کے متعلق تو یہ یقینی طور پر ثابت ہے کہ وہ شہید ہوئے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں جب ایران کا ملک فتح ہؤا اور بہت سے ایرانی قید ہو کر آئے تو اس وقت یہ سوال پیدا ہؤا کہ ایرانیوں سے کیسا سلوک کرنا چاہئے؟ کیا ان سے مشرکوں جیسا معاملہ کرنا چاہئے یا اہلِ کتاب جیسا۔ اس پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایرانیوں سے اہلِ کتاب جیسا سلوک کرنا چاہئے کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجر کے مقام پر جنگِ تبوک پر جاتے ہوئے بعض ایرانیوں سے ویسا ہی سلوک کیا تھا جیسے اہلِ کتاب سے کیا جاتا ہے اور جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے اہلِ کتاب جیسا سلوک کیا تو اس کا صاف یہ مطلب تھا کہ آپ نے حضرت زرتشت علیہ السلام کو نبی تسلیم کیا اور حضرت زرتشت علیہ السلام کے متعلق یہ ثابت ہے کہ ان کی وفات قتل سے ہوئی ہے۔
درحقیقت ہم حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق اگر یہ زور دیتے ہیں کہ وہ قتل نہیں ہوئے تو دو وجہ سے۔ اوّل یہ کہ وہ سلسلۂ موسویہ کے آخری نبی تھے اور اس وجہ سے قتل ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ دوسرے یہود یہ چاہتے تھے کہ صلیب پر مار کر انہیں *** ثابت کریں اور یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی نبی *** ثابت ہو۔ پس اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے ورنہ درمیانی انبیاء میں سے بعض قتل ہوئے ہیں اور کسی نبی کا قتل ہونا ہر گز اس کے جھوٹے ہونے کی علامت نہیں ہو سکتی۔
مولوی ابو العطاء صاحب کے تمام حوالے قریباً ایسے ہی ہیں جن میں اصولی رنگ میں بات بیان کی گئی ہے۔ صرف ایک حوالہ ایسا ہے جس میں ’’اَور‘‘ کا لفظ آتا ہے اور اس سے شُبہ پڑ سکتا ہے کہ شاید حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے مگر جب قطعی اور یقینی حوالے ایسے موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں تو ہمیں اس حوالہ کو ان کے تابع کرنا پڑے گا اور سمجھنا پڑے گا کہ ممکن ہے اور کتابت کی غلطی سے لکھا گیا ہو یا یہ کہ اس کا کوئی ایسا مطلب ہو جو ہم نہیں سمجھے (میں نے ابھی اصل کتاب نکال کر حوالہ نہیں دیکھا ممکن ہے اس کے دیکھنے سے مطلب حل ہوجائے) آخر کتابوں اور اخباروں میں کتابت کی بیسیوں غلطیاں ہوتی ہیں۔ اگر چند غلطیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں بھی ہو گئی ہوں تو ان سے قطعی اور یقینی حوالوں کو کس طرح ردّ کیا جاسکتا ہے۔ مَیں نے تو دیکھا ہے خطبہ جمعہ مَیں آپ درست کرتا ہوں مگر جب اخبار میں چھپ کر آتا ہے تو کتابت کی بیسیوں غلطیاں اس میں ہوتی ہیں۔ ایک دو غلطیاں تو ہمیشہ ہوتی ہیں اور بعض دفعہ بیس بیس غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ شاید اخبار والے خطبہ پڑھتے نہیں کہ باوجود میری اصلاح کے ان کے کاتب اس قدر غلطیاں کر جاتے ہیں یا پڑھتے تو ہیں مگر غلطیاں درست نہیں کی جاتیں۔بہرحال کتابت کی کئی غلطیاں میرے خطبات میں بھی ہوتی ہیں۔ حالانکہ وہ میری نظر سے گزر چُکا ہوتا ہے اسی طرح ممکن ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر میں بھی کتاب کی غلطی ہو گئی ہو کیونکہ جب دوسرے یقینی اور قطعی حوالے ہمارے پاس موجود ہیں تو ہم اس ایک کی وجہ سے ان تمام حوالوں کو ردّ نہیں کر سکتے۔ بہرصورت جو حوالہ نہ سمجھ میں آئے اسے اکثریت کے تابع کرنا ہو گا۔
پھر صرف حوالوں کا سوال نہیں بلکہ ہم نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے سُنا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے نہ ایک دفعہ بلکہ بار بار اور اب یہ بات ہمارے اس قدر ذہن نشین ہو چکی ہے کہ کسی صورت میں نہیں نکل سکتی۔ اگر ہم اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واضح ارشادات کے خلاف چلنے لگیں تو اور مسائل میں بھی تفسیر بِالرائے کا غلبہ ہوجائے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا کام مخفی ہو جائے گا۔
کوئی ایک دفعہ کی بات ہو تو شُبہ کی گنجائش ہو سکتی ہے مگر یہ بات تو ہم مسلسل اور متواتر سُنتے رہے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں اگر اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واضح ارشادات کوہم اپنی قوتِ استدلال سے ردّ کرنے لگ گئے تو پھر احمدیت کا کیا باقی رہے گا۔
پس مَیں نے مناسب سمجھا کہ اس امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلا دوں۔ اصل مضمون کے متعلق بھی میں انشاء اﷲ روشنی ڈالوں گا۔ فی الحال میں نے ایک تو اپنی گواہی پیش کر دی ہے دوسری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض صحابہ کی گواہیاں پیش کی ہیں۔ ان تحریروں اور شہادتوں کے بعد کسی کا اپنے قیاس سے باتیں کرنا ہر گز درست نہیں ہو سکتا اور میرے نزدیک ’’الفضل‘‘ والوں نے قطعاً فرض شناسی سے کام نہیں لیا۔ ان کو چاہئے تھا کہ وہ اس مضمون کو ردّ کر دیتے یا کم سے کم نظارتِ دعوۃ و تبلیغ کے پیش کرتے یا میرے پاس بھجوا دیتے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قطعی اور یقینی حوالے انہی کے اخبار میں شائع ہو چکے تھے تو اس کے بعد کسی مخالف مضمون کے درج کرنے کے معنے ہی کیا تھے۔ بیشک مولوی ابو العطاء صاحب کے مضمون میں بھی بعض حوالے ہیں مگر وہ سب قیاسات اور استدلالات ہیں لیکن مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کے مضمون میں اس کے متعلق نصوص درج ہیں اور نصوصِ بیّنہ کے شائع ہو جانے کے بعدہر گز الفضل کا حق نہ تھا کہ بغیر مشورہ کے اس مضمون کو شائع کرتا اور ادارۂ الفضل کو چاہئے تھا کہ ایسا مضمون میرے سامنے پیش کرتا اور اگر میرے سامنے انہوں نے پیش نہیں کیا تھا تو خود ہی ردّ کر دیتے مگر انہوں نے قطعاً فرض شناسی سے کام نہیں لیا۔
پس مَیں اس موقع پر یہ امر واضح کر دیتا ہوں کہ صحابہ کی موجودگی میں نئے علماء کو یہ ہر گز کوئی حق نہیں کہ وہ اپنی طرف سے استنباط اور اجتہاد کریں۔ اگر دُنیا نے اپنے استنباط اور اجتہاد سے یہ کام لینا تھا تو کسی نبی کے آنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ ہمارا حق ہے کہ اگر کوئی اختلاف ہو تو ہم اس کو نپٹائیں اور صحیح طریق جماعت کے سامنے پیش کریں اور نئے علماء کا بھی یہ فرض ہے کہ جب کوئی اختلافی مسئلہ سامنے آجائے تو وہ اسے مجلس صحابہ کے سامنے پیش کریں۔ بیشک وہ خود اس امر کا اختیار نہیں رکھتے کہ صحابہ کی ایک مجلس قائم کریں مگر وہ سلسلہ کی وساطت سے ایسا کر سکتے ہیںاِن کا فرض ہے کہ وہ اختلافی مسئلہ میرے سامنے رکھیں۔ اگر مَیں اس کے متعلق ضرورت سمجھوں گا تو خود بخود صحابہ کو جمع کر لوں گا اور اس طرح جو بات طے ہو گی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشا کے عین مطابق ہو گی۔ اگر ہم یہ طریق اختیار کریں تو آئندہ کے لئے بالکل امن ہو جائے گا اور کوئی ایسا اختلاف پیدا نہیں ہو گا جو جماعت کی گمراہی کا مؤجب ہو لیکن اگر ہر شخص اپنے طور پر ایسے مسائل پر رائے زنی کرنا شروع کر دے جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھلے حوالے موجود ہوں اور ایسا استدلال پیش کرے جو ان کو ردّ کرتا ہو تو آئندہ نسلوں کے لئے بڑی مشکل پیش آئے گی اور وہ حیران ہوں گی کہ ہم کون سا مسلک اختیار کریں لیکن اگر نئے مسائل یا اختلافی مسائل ہمارے سامنے پیش کئے جائیں اور ہم اس بارہ میں اپنا فیصلہ نافذ کریں تو اگلے لوگ بہت سی گمراہیوں سے بچ جائیں گے کیونکہ ان کے سامنے وہ فیصلے ہوں گے جو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متفقہ ہوں گے یا ایسے فیصلے ہوں گے جن پر صحابۂ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثریت کا اتفاق ہو گا اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے کوئی مسئلہ صاف ہو جائے تو پھر صحابہ ؓ کے فیصلوں کی ضرورت نہیں لیکن اگر کتابوں میں کوئی بات وضاحت سے نہ ملے یا اختلاف ہو جائے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی روایات اور ان کے ان تاثرات کو دیکھنا پڑے گا جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے رکھتے چلے آرہے ہیں اور جو سُنت کے قائمقام ہیں۔ روایات میں ایسا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ الفاظ یاد نہیں رہتے مثلاً مجھے یہ تو یاد ہے کہ مَیں نے قرآن کریم کی یہ آیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے رکھی کہ اور میں نے کہا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے مگر آپ نے ان معنوں کو غلط قرار دیا اور فرمایا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے مگر مجھے دلیل جو آپ نے بتائی یاد نہیں رہی۔
دوسری روایت مجھے یہ یاد ہے کہ آپ نے فرمایا سلسلہ کا صرف پہلا اور پچھلا نبی قتل نہیں ہو سکتا درمیانی انبیاء میں سے اگر کوئی قتل ہو جائے تو اس سے اس سلسلہ کی صداقت مشتبہ نہیں ہوسکتی اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ سلسلۂ موسویہ کی سلسلۂ محمدیہ سے ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ جس طرح سلسلۂ موسویہ کے آخر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے اور ان سے پہلے بطور ارہاص حضرت یحییٰ آئے اس طرح سلسلۂ محمدیہ کے آخر میں مَیں آیا اور مجھ سے پہلے بطور ارہاص حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی آئے اور یہ کہ جس طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام جو حضرت مسیح ؑ سے پہلے آئے شہید ہوئے تھے اسی طرح سیّد احمد صاحب بریلوی جو مجھ سے پہلے آئے تھے شہید ہوئے۔ یہ دو روائتیں مجھے یقینی طور پر یاد ہیں۔ اس کے علاوہ جیسا کہ میں نے بتلایا ہے میری طبیعت پر اس زمانہ سے یہ اثر چلا آتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے اور یہ اثر اتنا پُختہ ہے کہ اب کسی کی زبان سے یہ سُننا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے ایسا ہی قابل تعجب ہے جیسے کوئی کہہ دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ موجود تھا۔ یہ میرا اثر کوئی معمولی نہیں بلکہ نہایت ہی زبردست ہے کیونکہ مَیں نے قرآن اُس استاد سے پڑھا ہے جس کا یہ عقیدہ تھا کہ انبیاء قتل نہیں ہو سکتے۔
پس اگر یہ اثر مجھ پر نہ ہوتا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں تو لازماً میں بھی اسی بات کا قائل ہوتا کہ کوئی نبی قتل نہیں ہؤا کیونکہ مجھے حضرت خلیفہ اوّل جیسا استاد ملا تھا اَور یہ قدرتی بات ہے کہ ایسے ماہرِ قرآن کی طرف سے جو سبق ملے وہ طبیعت سے نہیں اُتر سکتا مگر باوجود اس کے وہ کون سی چیز تھی جس نے مجھے اس عقیدہ کا قائل نہ ہونے دیا۔ وہ یہی چیز تھی کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اس امر کے قائل ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تو اگر ہمیں ایک اشارہ بھی نظر آجاتا تو حضرت خلیفۂ اوّل کی سَو دلیلیں بھی ہمارے لئے بیکار ہو جاتی تھیں بلکہ سَو کیا ہم کہا کرتے تھے حضرت خلیفۂ اوّل اگر دس ہزار دلیلیں بھی کیوں نہ دیتے چلے جائیں ہمیں پرواہ نہیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جب ہمیں ایک ارشاد مِل گیا تو اب ہمارا عقیدہ تو وہی ہو گا اس کے خلاف نہیں ہو سکتا۔
حضرت خلیفۂ اوّل نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کم پڑھی تھیں اور مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے پاس بعض کتب کے پروف پڑھنے کے لئے بھجوادیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے کہا حضور! مولوی صاحب تو یہ کام اچھی طرح نہیں کر سکتے۔ میر مہدی حسین صاحب یہ کام خوب کرتے ہیں ان کا دیکھنا کافی ہے۔ تو آپ نے فرمایا ہم تو اس لئے بھجواتے ہیں کہ مولوی صاحب کو فرصت کم ہوتی ہے۔ کتاب پڑھنی مشکل ہوتی ہے۔ آپ اسی طرح ہماری تحریرات سے واقف ہوتے جائیں گے۔ اور اس وجہ سے بعض دفعہ پرانی تحقیق کو آپ پیش کر دیا کرتے تھے اور بعض دفعہ آپ اجتہاد سے کام لے کر ایک فلسفیانہ رنگ اختیار کرلیتے تھے۔ مثلاً آپ نے ایک دفعہ ایک شخص کو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دے دی تھی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صریح فتویٰ موجود ہے کہ کسی مکفّر، مکذّب یا متردّد کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کی یہ بھی عادت تھی کہ آپ اپنی اجازت کی تشریح بھی کر دیا کرتے۔ چنانچہ اس اجازت کے بعد اس شخص کا بھائی بھی آیا کہ مجھے بھی غیراحمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ اُس وقت مَیں آپ کی مجلس میں بیٹھا تھا۔ آپ نے میری طرف دیکھ کر اُسے فرمایا تمہارے بھائی کو تو ہم نے اس لئے اجازت دی تھی کہ وہ نماز پڑھتا ہی نہیں تھا۔ پس مَیں نے کہا جب وہ نماز پڑھتا ہی نہیں تو چلو اس اجازت کے ماتحت کم از کم اسے نماز پڑھنے کی عادت تو ہو جائے گی مگر ہم تمہیں اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اگر اجازت لینا چاہتے ہو تو تم پہلے اپنے بھائی کی طرح بن جاؤ پھر ہم تمہیں بھی اجازت دے دیں گے تو یہ ایک حکیمانہ رنگ تھا اسے فتویٰ نہیں کہا جاسکتا۔
مَیں نے ابھی مولوی ابو العطاء صاحب کے پیش کردہ تمام حوالوں کو نہیں دیکھا مگر انہوں نے جو میرا حوالہ پیش کیا ہے اس میں چونکہ غلطی رہ گئی ہے ممکن ہے ان کے دیکھنے سے مضمون زیادہ کھل جاتا۔ مَیں نے آج اس بارہ میں کئی اَور صحابہ سے بھی پوچھا ہے کہ انہیں اس مسئلہ کے متعلق کیا یاد ہے۔ میاں بشیر احمد صاحب نے یہ جواب دیا کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی روایت تو یاد نہیں مگر اتنا یقینی طور پر یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہمارا یہی عقیدہ ہؤا کرتا تھا کہ بعض انبیاء قتل بھی ہوئے ہیں مگر یہ مجھے یاد نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے میں نے ایسا سُنا ہو۔ میر محمد اسحاق صاحب نے بھی یہی جواب دیا کہ مجھے کوئی حوالہ تو یاد نہیں مگر یہ یاد ہے کہ ہمارا عقیدہ یہی ہؤا کرتا تھا کہ بعض انبیاء قتل بھی ہوئے ہیں۔ پھر مَیں نے اپنی شہادت پیش کی ہے اور ماسٹر عبدالرحمن صاحب، میر مہدی حسین صاحب اور حافظ محمد ابراہیم صاحب کی گواہیوں سے بھی یہی ثابت ہے۔بعض اور صحابہ کو بھی مَیں نے خطوط لکھوائے ہوئے ہیں اور میرا منشاء ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق صحابہ کی روایتوں اور ان کے تاثرات کو جمع کردوں٭ کیونکہ صحابہ مَرتے چلے جاتے ہیں اور اگر ہم نے جلدی توجہ نہ کی تو بعد میں کسی قیمت پربھی ان باتوں کو حاصل نہیں کر سکیں گے۔۲۹؎ مگر بہرحال جب تک ہم لوگ زندہ ہیں یہ ہمارا حق ہے کہ ہم ان مضامین کے متعلق اُس علم کو پیش کریں جو ہم نے براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سُنا اور نئے علماء کا خواہ وہ علم میں ہم سے ہزاروں گنے زیادہ ہوں، یہ حق نہیں کہ وہ اس حصہ میں اپنے علم کو پیش کریں۔ ان تمام باتوں میں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی بات ثابت ہو ہمارا حق او رہمارا کام ہے کہ ہم جماعت کی راہبری کریں اور دُنیا کا کوئی شخص ہمارے اس مقام کو ہم سے چھین نہیں سکتا اور اگر کوئی شخص یہ حق صحابۂ مسیح موعود علیہ السلام سے چھینے گا تو وہ خود بھی گمراہ ہو گا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا۔ صداقت ہمارے پاس ہے اور ہمارے کانوں میں ابھی تک وہ آوازیں گونج رہی ہیں جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست سُنیں۔ مَیں چھوٹا تھا مگر میرا مشغلہ یہی تھا کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں بیٹھا رہتا اور آپ کی باتیں سُنتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام کتابیں اب بھی مَیں نہیں کہہ سکتا کہ مَیں نے پڑھی ہوں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست ہم نے اس قدر مسائل سُنے ہوئے ہیں کہ جب آپ کی کتابوں کو پڑھا جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام باتیں ہم نے پہلے سُنی ہوئی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عادت تھی کہ آپ دن کو جو کچھ لکھتے دن اور شام کی مجلس میں آکر بیان کر دیتے اس لئے آپ کی تمام کتابیں ہم کو حفظ ہیں اور ہم ان مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء اور آپ کی تعلیم کے مطابق ہوں۔ بیشک بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو صرف اشارہ کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ تفصیلات کا ان میں ذکر نہیں اور اُن باتوں کے متعلق ہمیں ان دوسرے لوگوں سے پوچھنا پڑتا ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت اُٹھائی ہے اور اگر ان سے بھی کسی بات کا علم حاصل نہیں ہوتا تو پھر ہم قیاس کرتے اور اس علم سے کام لیتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے ہمیں بخشا ہے مگر باوجود اس کے میرا اپنا طریق یہی ہے کہ اگرمجھے کسی بات کے متعلق یہ معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی تحریر اس کے خلاف ہے تو مَیں فوراً اپنی بات کو ردّ کر دیتا ہوں۔ اِسی مسجد میں ۱۹۲۲ء یا ۱۹۲۸ء کے درس القرآن کے موقع پر مَیں نے عرش کے متعلق ایک نوٹ دوستوں کو لکھوایا جو اچھا خاصہ لمبا تھا مگر جب مَیں وہ تمام نوٹ لکھوا چُکا تو شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی یا حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک حوالہ نکال کر میرے سامنے پیش کیا اور کہا کہ آپ نے تو یوں لکھوایا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے مَیں نے اس حوالہ کو دیکھ کر اُسی وقت دوستوں سے کہہ دیا کہ مَیں نے عرش کے متعلق آپ لوگوں کو جو کچھ لکھوایا ہے وہ غلط ہے اور اسے اپنی کاپیوں میں سے کاٹ ڈالیں۔ چنانچہ جو لوگ اُس وقت میرے درس میں شامل تھے وہ گواہی دے سکتے ہیں اور اگر ان کے پاس اُس وقت کی کاپیاں موجود ہوں تو وہ دیکھ سکتے ہیں کہ مَیں نے عرش کے متعلق نوٹ لکھوا کر بعد میں جب مجھے معلوم ہؤا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ اس کے خلاف ہے اسے کاپیوں سے کٹوا دیا اور کہا کہ ان اوراق کو پھاڑ ڈالو کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے خلاف لکھا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کے مقابلہ میں بھی ہم اپنی رائے پر اڑے رہیں اور کہیں کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہی صحیح ہے اور اپنے نفس کی عزت کا خیال رکھیں تو اس طرح تو دین اور ایمان کا کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا۔
پس یاد رکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حَکم عدل ہیں اور آپ کے فیصلوں کے خلاف ایک لفظ کہنا بھی کسی صورت میں جائز نہیں۔ ہم آپ کے بتائے ہوئے معارف کو قائم رکھتے ہوئے قرآن کریم کی آیات کے دوسرے معانی کر سکتے ہیں مگر اسی صورت میں کہ ان میں اور ہمارے معافی میں تنا قض نہ ہو۔ میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ ہمارے لئے نئے معانی کرنے ناجائز ہیں بے شک تم قرآن کریم کے معارف بیان کرو اور ایک ایک آیت کے ہزاروں نہیں لاکھوں معارف بیان کرو۔ یہ سب تمہارے لئے جائز ہو گا اور ہمارے لئے خوشی کا مؤجب بلکہ اگر تم قرآن کریم کی ایک ایک آیت کو سَو سَو جزو کی تفسیر بھی بنا ڈالو تو اگر وہ قابلِ قدر ہو گی ہمارے دل اس پر فخر محسوس کریں گے کیونکہ ہر باپ چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا اس سے بڑھ کر عالم ہو مگر یہ اسی صورت میں ہو گا کہ تمہارا کوئی استدلال اور تمہارا کوئی نکتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تعلیم کے خلاف نہ ہو اور اگر تم کسی آیت کے کوئی ایسے معنے کرتے ہو جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ردّ کیا ہے تو وہ معنے ردّ کئے جائیں گے لیکن آپ کی تعلیم کو برقرار رکھتے ہوئے اگر تم بعض زائد مطالب قرآنی آیات کے بیان کر دیتے ہو تو وہ مسیح موعود کا طفیل ہو گا اور آپ کی خوشہ چینی اور آپ کی متابعت کی برکت ہو گی جیسا کہ ہم جو کچھ بیان کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اور آپ کی برکت سے ہے۔ آخر اﷲ تعالیٰ کے انبیاء جو آتے ہیں وہ کتاب اﷲ کی ساری تفسیر خود تو نہیں کر جاتے وہ اپنے ماننے والوں کے اندر ایسا ملکہ پیدا کر دیتے ہیں کہ جس سے فائدہ اُٹھاتے اور اسے ترقی دیتے ہوئے وہ نئی سے نئی تفسیریں کر سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں بھی بہت کم قرآنی آیات ہیں جن کی آپ نے تفسیر کی ہے اور جن آیات کی آپ نے تفسیر فرمائی بھی ہے ان میں سے بھی چند آیات ہی ایسی ہیں جن کے ایک سے زیادہ معارف آپ نے بیان کئے ہیں۔ ورنہ عام طور پر ایک آیت کے ایک معنے ہی آپ نے کئے ہیں۔ اب اگر ہم کسی آیت کے پانچ یا سات یادس معنے بھی کر دیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نَعُوْذُ بِاﷲِ بڑھ گئے یا آپ کے معانی کو ہم نے ردّ کر دیا کیونکہ ہم جو کچھ بیان کریں گے آپ سے فیض حاصل کر کے کریں گے اور ہم جس قدر معارف لوگوں پر ظاہر کریں گے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی متابعت کے طفیل کریں گے۔ پس چونکہ ہمارے معانی آپ کی شان کو بُلند کرنے والے ہوں گے اور وہ اس صداقت کا ایک زندہ نشان ہوں گے جو آپ نے ہمارے سامنے رکھی کہ قرآنِ کریم غیر محدود معارف کا خزانہ ہے اس لئے ان کے بیان کرنے میں نہ صرف کوئی حرج نہیں بلکہ ان کے بیان کرنے سے اسلام اور احمدیت کی عظمت ظاہر ہوتی ہے لیکن اگر کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیان کردہ معنوں کے خلاف قرآنِ کریم کی کسی آیت کے کوئی اور معنے کرے تو ہم وہ معنے اسے نہیں کرنے دیں گے۔ بے شک بعض دفعہ انسان بجائے اپنا عقیدہ یا اپنا مذہب بیان کرنے کے دوسروں کے عقیدہ کو بھی اپنے الفاظ میں بیان کر دیتا ہے مگر اس وقت وہ اس سے اپنی صداقت کا استدلال نہیں کرتا مگر یہاں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام زور دیتے اور فرماتے ہیں کہ میری حضرت مسیح ؑ سے ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ ان سے پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام بطور ارہاص آئے جو شہید ہوئے اور مجھ سے پہلے حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی بطور ارہاص آئے جو شہید ہوئے۔ اس روایت کا ایک تو مَیں گواہ ہوں، ایک ماسٹر عبدالرحمن صاحب گواہ ہیں اور ایک حافظ محمد ابراہیم صاحب گواہ ہیں اور ہم تینوں کی یہ گواہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فرمایا کہ سلسلۂ محمدیہ کی سلسلۂ موسویہ سے ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ جس طرح وہاں حضرت یحییٰ شہید ہوئے اسی طرح یہاں سیّد احمد صاحب بریلوی شہید ہوئے۔ اب اس دلیل کو خطابیات میں کس طرح شمار کیا جاسکتا ہے۔ خطابیات کے لئے تو زبردست قرائن اور وجوہ چاہئیں اور اگر وہ قرائن اور وجوہ نہ پائے جائیں تو اسے خطابیات بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ شاید عام لوگ خطابیات کے معنے نہ سمجھتے ہوں اس لئے مَیں انہیں سمجھانے کے لئے بتا دیتا ہوں کہ خطابیات اسے کہا جاتا ہے کہ کسی دوسری قوم کے عقیدہ کو نقل کر لیا جائے اور کہا جائے کہ چونکہ تم فلاں بات اس طرح مانتے ہو اس لئے تم پر یہ حجت ہے اب اس تعریف کے ماتحت خود ہی غور کرو کہ یہ بات خطابیات میں کس طرح شمار کی جاسکتی ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جس طرح حضرت یحییٰ شہید ہوئے جو حضرت مسیح سے پہلے ان کی خبر دینے کے لئے آئے اسی طرح حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی شہید کئے گئے جو مجھ سے پہلے آپ کی بعثت کی خبر دینے کے لئے آئے۔ اب اگر یہ بات خطابیات میں سے ہے تو یہ کس پر حُجت ہو سکتی ہے ؟ کیا غیر احمدی حضرت سیّد احمد بریلوی کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کا مثیل مانتے ہیں یا عیسائی ان کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کا مثیل مانتے ہیں؟ جو بات خطابیات میں سے ہو وہ تو وہ دلیل ہؤا کرتی ہے جو غیر قوموں کے لئے حجت ہو۔ مثلاً اگر ہم کہیں کہ انجیل میں یوں لکھا ہے تو یہ امر عیسائیوں پر تو حُجت ہو سکتا ہے مگر ایک مسلمان پر کس طرح حُجت ہو سکتا ہے جبکہ وہ انجیل کو الہامی کتاب مانتا ہی نہیں۔ مثال کے طور پر دیکھ لو انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ناصری نے شراب پی۔ اب اس بناء پر ہم عیسائیوں کو تو ملزم کر سکتے ہیں مگر کیا ہم مسلمانوں کو بھی کہہ سکتے ہیں کہ اے مسلمانو! حضرت مسیح ؑ نے شراب پی تھی اور جب ہم پر اعتراض ہو تو ہم کہہ دیں یہ خطابیات میں سے تھا۔ جب ہم مسلمانوں کے سامنے مسیح ؑ کے ایسے واقعات پیش کریں گے جن کو وہ نہیں مانتے تو وہ خطابیات نہیں کہلائیں گے بلکہ ایسے حقائق کہلائیں گے جن کو ہم تسلیم کرتے ہیں۔ غرض خطابیات وہی باتیں ہوتی ہیں جہاں ایسے لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہو جن پر ان باتوں کی وجہ سے اتمام حُجت ہو سکتاہو مگر جب اپنی جماعت کے سامنے کسی بات کا ذکر ہو رہا ہو اور دوسری کسی قوم پر وہ بات حُجت بھی نہ ہو تو اُسے خطابیات میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔
خطابیہ کے معنے اپنے مخاطب کے عقیدہ کے بیان کو اس پر حجت کرنے کی غرض سے بیان کرنے کے ہیں مگر اپنی جماعت کو چُپ کرانا تو مدِّنظر نہیں ہوتا۔ اپنی جماعت کو تو ہدایت دینا مدِّنظر ہوتا ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہم کوئی دلیل دے کر ایک عیسائی کو چُپ کرا دیں یا ایک یہودی کو چُپ کرا دیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ انجیل کا حوالہ دے کر اپنی جماعت سے کوئی بات منوانے اور اسے چپ کرانے کی کوشش کریں۔ غرض اگر ہم غیروں کی کتب سے کوئی ایسا استدلال کریں گے جس سے ہم ان پر حجت نہیں کرتے بلکہ اپنی قوم یا اس قوم کے سوا دوسری کسی اَور قوم کو کوئی علم دیتے ہیں تو ہمارا ایسا استدلال خطابیات میں شمار نہیں ہو گا۔ ہاں اگر وہ استدلال جس کتاب سے کیا گیا ہے دلیل بھی اسی کے ماننے والوں کے خلاف ہے تو پھر قرائن اگر موجود ہوں تو وہ
خطابیات میں سے کہلا سکتا ہے۔‘‘ (الفضل ۳؍ستمبر ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الحجرات: ۳
۲؎ کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۱۷۰، ۱۷۱ مطبوعہ حیدر آباد ۱۳۱۴ ھ
۳؎ ابو داؤد کتاب الملاحم باب خبر ابن الصائد
۴؎ الانعام: ۲۲
۵؎ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۳ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۹
۶؎
۷؎ خبرے: شاید۔ کیا پتہ
۸؎ الانعام: ۹۲ ۹؎ الحاقۃ: ۴۵ ۱۰؎ مریم: ۱۶
۱۱؎ مریم : ۳۴ ۱۲؎ الانعام: ۵۵ ۱۳؎ النحل: ۳۳
۱۴؎ طٰہٰ : ۴۸ ۱۵؎ المائدۃ: ۱۷
۱۶؎ الفضل ۲۷؍اگست
۱۷؎ البقرۃ: ۶۲
۱۸؎ ، ۱۹؎ تفسیر کبیر جلد ۱ صفحہ ۴۸۰ ، ۴۸۱ (مفہوماً)
۲۰؎ اٰل عمران: ۱۱۳
۲۱؎ بخاری کتاب الاذان باب وجوب القراء ۃ للامام (الخ) میں یہ الفاظ ہیں’’ لَا صَلٰوۃَ
لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ‘‘
۲۲؎ البقرۃ: ۲۵۵ ۲۳؎ الحجرات: ۱۴
۲۴؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل
۲۵؎ الاحزاب : ۶۳
۲۶؎ (البقرۃ:۲۵۶)
۲۷؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اﷲ عزّوجلّ و لقد ارسلنا نوحاً الٰی قومہٖ
۲۸؎ مسلم کتاب الایمان باب معرفۃ طریق الرؤیۃ
۲۹؎ یہ شہادات الفضل ۳؍ستمبر اور ۱۱؍نومبر ۱۹۳۸ء میں شائع ہوئیں۔

۲۹
استثنائی طور پر انبیاء قتل ہو سکتے ہیں
(فرمودہ ۲؍ستمبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’میں نے پچھلے خطبہ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے متعلق بعض باتیں کہی تھیں اور میں نے اس بارہ میں الفضل کے عملے پر بھی اظہارِ نا پسندیدگی کیا تھا کہ انہوں نے کیوں ایک ایسی بات بغیر پوچھے اور بغیر مشورہ لینے کے شائع کر دی جس کے متعلق خود ان کے اخبار میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام کے حوالہ جات بِالتفصیل چھپ چکے تھے ۔ایڈیٹر صاحب ’’الفضل‘‘ نے اس کی ایک معذرت کی ہے وہ تو میرے نزدیک درست نہیں ہے مگر اس نے مضمون میں سے ایک اَور شاخسانہ پیدا کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو یہ دوسرا مضمون شائع کیا ہے اس سے پہلے مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کا مضمون آیا تھا جو ہم نے شائع نہیں کیا۔ اسے تو میں سمجھ نہیںسکا کہ اگر ایک کی بجائے دو مضمون آجائیں تو انسان مجبور ہو جاتا ہے مگر بہرحال ایڈیٹر صاحب نے وہ مضمون مجھے بھیج دیا ہے اور اسے پڑھنے کے بعد میں اِس امر کی ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ اس کے متعلق بھی بعض باتیں کہہ دوں ۔گو وہ مضمون شائع نہیں ہؤا مگر چونکہ شائع ہونے کے لئے آیا تھا اِس لئے اسے شائع شدہ سمجھنا چاہئے ۔انبیاء کی جماعتوں کے لئے روحانیت کا معیار بلند رکھنا نہائت ضروری ہوتا ہے ساری ہی دنیا انبیاء کی جماعتوں پر پھٹکار ڈالتی ہے۔ اگر ان کے مخالفوں کی زبان میں تأثیر ہو اور اگر ان کی لعنتیں کچھ اثر کر سکتی ہوں تو شاید ان کا نام و نشان بھی مٹ جائے ۔ہر طرف سے ان پر *** و پھٹکار پڑتی ہے اور ایک ہی چیز ان کے لئے موجبِ تسکین و تسلّی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں ۔
باپ بیٹے پر *** کرتا ہے ، بھائی بھائی پر، بیوی خاوند پر اور خاوند بیوی پر،دوست دوست پر، غرض اِس قدر گالیاں ان کو دی جاتی ہیں، اِس قدر بد دعائیں ان کے لئے کی جاتی ہیں، اس قدر بُرا کہا جاتا ہے اور ان کو اس قدر حقیر سمجھا جا تا ہے کہ اگر انسانوں کی زبانوں میں تأثیر ہو تی تو وہ جل کر راکھ ہو جاتے مگر ا ن کا اللہ تعالی پر توکل ہوتاہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر بھائی گیا ہے تو جائے،بیوی گئی ہے تو جائے، اگر ماں باپ گئے ہیں تو جائیں، دوست جاتے ہیں تو جائیں، ایک ہی چیز ان کے پاس ہوتی ہے اور وہ ان کا خدا ہوتا ہے۔
پس اگر ہم روحانیت کو پورے طور پر اور ایسے طور پر نہ پکڑیں جیسے انسان ڈوبتے وقت کسی سہارے کو پکڑتا ہے اور کسی صورت میں اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تو پھر ہماری بدبختی کی کوئی حد نہیں ہوگی اور ہماری مثال و ہی ہو گی:
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ہم چونکہ اللہ تعالی کے مامور کی جماعت ہیں اور یہ سب باتیں ہم نے دیکھی اور دیکھ رہے ہیں سنی اور سن رہے ہیں، محسوس کی ہیں اور محسوس کر رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پر ہمارا توکل نہ ہوتا تو جس قسم کا گند ہمارے خلاف اچھالا جا رہا ہے اس کا سواں حصہ بھی اگر ایسے شخص کے متعلق اچھالا جائے جس کا توکل اللہ تعالیٰ پر نہ ہو تو وہ مر جائے ۔اگر نہ مرے تو جنگلوں اور غاروں میں چلا جائے تاکہ کسی کو منہ نہ دکھا سکے اور محض اللہ تعالی پر توکل ہی ہے جو ہمیں دنیا کو منہ دکھانے کی طاقت دیتا ہے اور اس کی آواز ہمارے کانوںمیں آتی اور کہتی ہے کہ تم یہ گالیاں میری خاطر سنتے ہو پس سنو اور برداشت کرو اور صبر کرو ۔ورنہ جو کچھ ہمیں کہا جاتا ہے اسے کوئی چوہڑا اور سانسی بھی بر داشت نہیں کر سکتا ۔
یہ تو نہیں کہ ہمارے دل نہیں ۔ہمارے بھی دل ہیں، ہمارے بھی جذبات ہیں، ہم بھی غیرتیں رکھتے ہیں اور ہمارے اندر بھی شرم و حیا کا مادہ ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ؓمیں بھی یہ باتیں تھیں اور آپ سے پہلے انبیاء اور ان کی جماعتوں میں بھی مگروہ سنتے تھے اور چُپ رہتے تھے کیونکہ سمجھتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے رستے میں ہے اور یہی چیز ہے جو ان کو خداتعالیٰ کے حضور پیارا اور محبوب بنا دیتی ہے اور جو مرنے کے بعد ا ن کے کام آئے گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی محبت دیکھیں گے کہ جسے دیکھ کر ان کو گالیاں دینے والے اگلے جہان میں کٹ کٹ کر مریں گے جب خدا تعالیٰ ان کو پیار کرے گا،جب وہ محبت کے تمام ظہور ان کے لئے ظاہر کرے گا تو ان کو گالیاں دینے والے کہیں گے کہ کاش! دنیا کی بیسیوں سالوں کی خوشیاں نہ ہوتیں اور اِس جہان کی ایک منٹ کی خوشی حاصل ہو جاتی۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کے لئے مؤمن یہ ساری باتیں بر داشت کرتے ہیں ورنہ اور کیا چیز ان کی ڈھارس بندھاتی ہے پس اِس ایک ہی چیز کو سنبھالنا نہایت ہی ضروری ہے۔ ہمارے سب کاموں کی بنیاد تقوی اللہ پر ہونی چاہئے اور ہمارے تعلقات بھی خدا تعالیٰ کے لئے ہونے چاہئیں کسی سے دوستی یا دشمنی کے لئے نہیں۔
مجھے یہ مضمون دیکھ کر نہایت تعجب ہؤا اور میں نے چاہا کہ دوستوں کو پھر ایک دفعہ نصیحت کروں کہ اپنے معاملات اور تعلقات کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے رکھا کرو اور ان کی بنیاد کسی قسم کی نفرت یا محبت پر نہ رکھو۔ میں نے بعض اپنے گزشتہ خطبات میں ہی بیان کیا ہے کہ بعض لوگ کسی سے محبت یا نفرت کی وجہ سے ٹھوکر کھا جاتے ہیں وہ کسی سچی بات کو نفر ت کی وجہ سے قبول نہیں کرتے ۔اوردوست کی جھوٹی بات کو بھی سچ سمجھ لیتے ہیں۔ مولوی غلام رسول صاحب نے یہ مضمون اخبار میں اشاعت کے لئے بھیجا ہے اور گو وہ شائع نہیں ہؤا مگر وہ اس کی اشاعت کی اجازت دے چکے ہیں بلکہ وہ خوش ہوتے اگر یہ شائع ہو جاتا ۔اس لئے اس کو شائع شدہ سمجھ کر اس کے متعلق بعض باتیں کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
مولوی صاحب لکھتے ہیں ’’وہ ـــــــ پاک نیت کے ساتھ اپنے اپنے معلومات کے دائرہ کے اندر صداقت کی تائید میں قلم کو جُنبش دینا خواہ حقیقت نفس الامری کے لحاظ سے مضمون کی نوعیت صداقت سے مختلف نظر آئے ،پھر بھی موجبِ ثواب ہے۔ہاں بعد انکشافِ حقیقت و اتمامِ حُجت ضد کے ساتھ قبولِ حق سے اعراض اختیار کرنا سخت عیب اور غیر مناسب ہے ۔ہمیں تعلیمِ احمدیت کی بناء پر با وجود دونوں فاضلوں کے اختلافِ مضمون کے دونوں کے متعلق حُسنِ ظن ہے ۔مولوی ابو العطاء صاحب کا مضمون اَور طرح کے نظریہ کے لحاظ سے لکھا گیا ہے اور مولانامولوی محمداسماعیل صاحب کا مضمون اَور طرح کے نظریہ کے لحاظ سے۔ مولانا محمد اسمٰعیل صاحب کا مضمون اِس لحاظ سے کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیش کردہ حوالہ جات سے مولوی ابولعطا ء صاحب کا مضمون مخالف جہت پر محسوس ہوتا ہے تردید میں لکھنا جماعت احمدیہ کے لئے ایک قابلِ قدر امر ہے بشرطیکہ علمِ تنقید صحیح حاصل ہو۔ اور اگر مولانا محمد اسمٰعیل صاحب کا یہ قابلِ قدر طرزِ عمل ہر مخالف مضمون کے مقابل جو سیدنا حضرت اقدس کے حوالہ جات سے مخالف جہت پر بصورت تعارض وتخالف پایا جاتا ہو بغرض تنبیہہ مضمون نگار کو متنبہ اور جماعت کے افراد کو علمی مفاد کے لحاظ سے مستفید فرماتے رہا کریں تو یہ بھی ایک فائدہ بخش خدمت ہے گو اِس کے متعلق یہ بھی خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ افرادِجماعت کی خداداد علمی طاقتیںبجائے اِس کے کہ مخالفین کے محاذمیں صَرف کی جائیں خانہ جنگی کے طور پر اپنے ہی نقصان کا موجب نہ بن جائیں چنانچہ کئی احباب نے مجھ سے ذکر کیا اور تعجب کرتے ہوئے ذکر کیا کہ حضرت ڈاکٹر میر محمداسماعیل صاحب کا مضمون جو یکم جون کے’’ الفضل‘‘ میں شائع ہؤا ہے ـاس میں حضرت یونس علیہ اسلام کے متعلق جو کچھ مچھلی کا واقعہ لکھا ہے حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں داخل نہیں کئے گئے تھے اور نہ وہ مچھلی کے پیٹ کے اندر رہے یہ نہ صرف قرآن کریم کی نصِّ صریح لَلَبِث فِیْ بَطَنِہٖ ۱؎کے ہی خلاف ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو اسلام کی تحریروں میں بھی جس قدر حوالے پائے جاتے ہیں سب کے خلاف ہے اور کسی ایک حوالے سے بھی حضرت ڈاکٹر صاحب کی پیش کردہ بات کی تصدیق نہیں ہوتی اور مولانا محمد اسماعیل صاحب جنہوں نے مولوی ابو العطا ء صاحب کے مضمون کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ اسلام کے پیش کردہ حوالہ جات کے خلاف پا کر فوراََ تردید میں مضمون لکھ دیا۔ کیوں انہوںنے حضرت ڈاکٹر صاحب کے مضمون کی تردید میں حضرت اقدس کے حوالہ جات پیش نہیں کئے اور کیوں خاموشی اختیار کر لی ۔میںنے یہی عرض کیا کہ ممکن ہے مولانا صاحب حضرت ڈاکٹر صاحب کے خلاف حضرت اقدس کی تحریروں سے حوالہ جات نکالنے کے لئے کوشش کر رہے ہوںاور پھر حسبِ دستور ان حوالہ جات کو بھی ’’الفضل‘‘کی کسی اشاعت میں شائع کرا دیں ۔ہاں بعض حوالہ جات جو یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ کے اندر داخل ہونے کے متعلق پائے جاتے ہیں کتاب ’’مسیح ہندستان میں‘‘ اور کتاب ’’راز حقیقت‘‘۔ ’’کشف الغطائ‘‘ اور نور القرآن حصہ دوئم سے مل سکتے ہیں اور ’’حقیقۃ الوحی ‘‘ کے تتمہ کے صفہ ۳۱پرحضور اقدس فرماتے ہیں:
’’قوم کی تضرع اور زاری سے یونس نبی کی پیشگوئی ٹل گئی جس سے یونس نبی کو بڑا ابتلا پیش آیا اور وہ پیشگوئی کے ٹل جانے سے رنجیدہ ہؤا اِس لئے خدا نے اُس کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا ‘‘
ایسا بہت سی کتب مسیح موعود علیہ السلام میں اس طرح کا حوالہ مل سکتا ہے کہ یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں داخل کئے گئے تھے اور پھر مسیح علیہ السلام کا زندہ قبر میں داخل ہونا اور زندہ تین دن تک رہنا اور زندہ نکلنا یونس علیہ السلام کے واقعہ حوت کی مماثلت میں پیش کیا گیا اور جنین کا رحمِ مادہ میں زندہ رکھنا اور ہزار ہا جراثیم کا دوسری ہستیوں میں زندگی کے ساتھ قائم رکھنا جس خدا کا قانون ہے اُس کا کسی مناسب مچھلی کے پیٹ میں یونس ؑکا زندہ رکھنا خواہ وہ غشی کی حالت میں ہوتصرفاتِ قدرت سے مستبعد نہیں ۔‘‘
گو مولوی غلام رسول راجیکی صاحب نے آگے چل کر مولوی محمد اسماعیل صاحب کے مضمون کی تردید میں بعض حوالے درج کئے ہیں اور اپنے درجہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے الفاظ بھی بہت احتیاط سے استعمال کئے ہیں مگر جیسا کہ ہر پڑھنے والا سمجھ سکتا ہے ان کے مضمون میں اس قسم کا اشارہ ضرور ہے کہ مولوی محمد اسماعیل صاحب نے ڈاکٹر محمدا سمٰعیل صاحب کے مضمون کی تردید کیو ں نہیں کی ۔جو مضمون میر صاحب کی طرف منسوب کیا گیا ہے و ہ اگر اِسی طرز پر ہے تو یقینا غلط ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متواتر احکام اور ارشادات کے خلاف ہے اور اس وجہ سے اِس کی غلطی واضح ہے ۔مگر مولوی صاحب کے اس مضمون میں سے جس چیز نے مجھ پر اثر کیا ہے وہ یہ ہے کہ کسی شخص کے متعلق یہ اعتراض کرنا کہ اس نے فلاں مضمون کا جواب دیا ہے اور فلاں کا نہیں دیاچاہے اِسی رنگ میں کہہ دیا ہو کہ حوالے نکال رہے ہوں گے یہ طریق صحیح نہیں ۔کیا یہ فرض ہے کہ ہر ایسے مضمون کا جواب مولوی محمد اسمٰعیل صاحب ہی دیا کریں ؟ کیا یہ بھی کوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے؟ مولوی راجیکی صاحب کے مضمون میں اِس بات کا واضح اشارہ ہے کہ میر صاحب کے مضمون کا جواب کسی اور وجہ سے نہیں دیا گیا حالانکہ یہ بات تقویٰ اللہ اور عقل دونوں کے خلاف ہے ۔جو اعتراض مولوی راجیکی صاحب نے اپنے مضمون میں مولوی محمداسمٰعیل صاحب پر کیا ہے وہ خود ان پر بھی پڑتا ہے۔ انہوں نے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب پر اعتراض کیا ہے کہ کل انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی تردید کرنے والے ایک مضمون کا جواب دیا ہے ،دوسرے کا کیوں نہیں دیا لیکن یہی اعتراض مولوی راجیکی صاحب پر پڑتا ہے بلکہ زیادہ سخت صورت میں پڑتا ہے کہ انہوںنے اس مضمون کا جواب تو دیا جو مولوی ابواعطا ء صاحب کے مضمون کی تردید میں لکھا گیا تھا مگر اُس کا کیوں نہ دیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کو ردّ کرنے والا تھا۔ جب میر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی تردید کی تو وہ منتظر رہے کہ کوئی اور ان کا ردّ کرے لیکن جب مولوی ابوالعطاء کی تردید ہوئی توانہوں نے فوراََ اس کے ردّ میں مضمون لکھنا ضروری سمجھا ۔پھر میں نے تو میر صاحب کا یہ مضمون نہیں پڑھا اگر پڑھتا تو یقینا اس کا ردّ کرادیتا اور اس طرح یہ بھی ممکن ہے کہ مولوی محمداسمٰعیل صاحب نے بھی وہ نہ پڑھا ہو مگر مولوی راجیکی صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ انہوںنے دونوں مضمون پڑھے ہیں لیکن چونکہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے کہیں بیان نہیں کیا کہ انہوں نے ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب کا مضمون پڑھا ہے اس لئے یہ خیال ہوسکتا ہے کہ شاید مولوی محمداسمٰعیل صاحب نے میر صاحب کا مضمون نہ پڑھا ہو ۔یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ آدمی ’’الفضل‘‘میں جو کچھ چھپا ہو سارے کا سارا پڑھے ۔میں نے میر صاحب کے کئی مضمون پڑھے ہیں مگر یہ میری نظر سے نہیں گزرا۔اسی طرح مولوی غلام رسول راجیکی صاحب کے مضامین چھپتے رہتے ہیں ان میں سے بعض میں نے پڑھے ہیں بعض نہیں پڑھے۔ جس دن زیادہ فُرصت ہو سارا اخبار پڑھ لیتا ہوں،جس دن کم ہو اُس دن ضروری ضروری حصے پڑھ لیتا ہوںاور باقی عنوان دیکھ لیتا ہوں ۔اِسی طرح دوسرے لوگ بھی کرتے ہو ں گے؛پس یہ کہاںسے ثابت ہوگیا کہ میرصاحب کا مضمون جو مولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے بھی ضرور پڑھا ہوگا۔ لیکن وہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب پر تو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کا جواب کیوں نہیں دیا مگر خود تسلیم کرتے ہیں کہ پڑھا اورپھر اس کا ردّ نہیں کیا ۔اس کا جواب دینا جیسا مولوی محمداسمٰعیل صاحب کا فرض تھاویسا ہی مولوی راجیکی صاحب کا بھی تھا لیکن انہوںنے مولوی ابوالعطاء صاحب کے ردّ کا جواب تو جھٹ دیا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رد کا نہیں دیا۔
پس ان پر یہ شدید اعتراض پڑتا ہے کہ انہوںنے مولوی ابوالعطاء صاحب کے لئے تو غیرت دکھائی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے اس کی ضرورت نہیں سمجھی ۔یہ دیکھ کر میرے دل میں شبہ پیدا ہؤا کہ کہیں ہمارے علماء میں پارٹی بازی کا رنگ تو نہیں پیدا ہو رہا۔خدا نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن اگر سلسلہ میں کسی قسم کی بھی کوئی پارٹی بازی کی روح پیداہوئی تو اِنْشَائَ اﷲُ اللہ تعالیٰ کی ہی توفیق سے میں اس کو اپنی زندگی میں کبھی برداشت نہیں کرو ں گا۔ مولوی محمد اسماعیل صاحب اور مولوی راجیکی صاحب صحابہ میں سے اور مولوی ابوالعطاء صاحب تابعین میں سے چوٹی کے علماء میں سے ہیں اور انہوںنے سلسلہ کی مشکلات کے وقت میں میری اعانت بھی کی ہے اور اخلاص کے ساتھ سلسلہ کے کام کرتے رہے ہیں جن کے لئے میں جَزَاکُمُ اﷲ کہتا ہوں اور میرے دل سے ان کے لئے دعا نکلتی ہے مگر ان باتوں کے باوجود اگر خدا نخواستہ کوئی ایسی صورت ہوتو میں قطعاََ اس طرف راغب نہیں ہوں کہ ان کی اس قسم کی غلطیوں کو نظرانداز کر دیا جائے ۔صاف بات یہ ہے کہ ایک مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی تردید کی گئی مولوی راجیکی صاحب نے اُس مضمون کو پڑھا انکا فرض تھا کہ اُس کا جواب دیتے مگر انہوںنے نہ دیا ۔مجھے ان کے اس قول پر تعجب ہے کہ لوگ ان کے پاس گئے اور کہا کہ میر صاحب کے مضمون کا جواب مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کیوں نہیں دیتے ۔ان لوگوں نے مولوی صاحب سے یہ کیوں نہ کہا کہ مولانا آپ اس مضمون کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ انہیں یہ کیونکر خیال پیدا ہؤاکہ وہ مولوی راجیکی صاحب کے پاس جا کر یہ شکائت کریںکہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب جواب کیوں نہیں دیتے جبکہ ایک عالم ان کے سامنے تھا جسے اس مضمون کا بھی علم تھا پھر بھی اس نے جواب نہیں دیا ۔
مولوی محمد اسمٰعیل صاحب تو ممکن ہے مولوی ابوالعطاء صاحب کے مضمون کا بھی جواب نہ دیتے۔ اس کا محرک تو یہ امر ہے کہ جب یہ مضمون نکلا ہے تو میں نے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کو لکھا یا زبانی کہا کہ زبانی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس کے خلاف سُنا ہؤا ہے اورکتابوں میں بھی اس کے خلاف پڑھا ہؤا ہے لیکن حوالے مجھے یاد نہیں آپ کو مشق ہے آپ قتلِ یحییٰ کے بارے میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے بھجوا دیں ۔چنانچہ انہوں نے حوالے نکال کرمجھے بھیج دیئے ۔معلوم ہوتا ہے جب مولوی صاحب نے حوالے نکالے تو ساتھ ہی اُنہیں یہ خیال بھی آگیا کہ لوگوں کے فائدہ کے لئے اِن کو شائع بھی کرا دوں تومولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے مولوی ابوالعطاء صاحب کے مضمون کی اصلاح کے لئے جو مضمون لکھا کسی مخالفت کی وجہ سے نہیں لکھابلکہ میرا حوالے طلب کرنا اِس کا موجب ہو گیا اور نہ انہوں نے یہ مضمون اس لئے لکھا کہ ان کا خیا ل تھایا جماعت کاخیال تھا کہ سب مضمونوں کا ردّ کرنا اِنہی کاہی کام تھا لیکن مولوی راجیکی صاحب کے مضمون میں اس قسم کا مخفی اشارہ پایا جاتا ہے کہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کو چونکہ مولوی ابوالعطاء صاحب سے کینہ تھا اِس لئے ان کا ردّ کیا اور میرصاحب سے چونکہ ان کی دوستی تھی اس لئے ان کی تردید نہ کی اور اگرمولوی صاحب سے غلطی سے ایسا نہیں لکھا گیا تو یہ صریح ظلم ہے ۔٭میرا تو خیال ہے کہ میں اگر ان کو حوالے نکالنے کو نہ کہتا توممکن ہے اس مضمون کا بھی ان کو پتہ نہ لگتا اور وہ جواب نہ دیتے یا شاید سمجھ لیتے کہ کوئی اَور اس کا جواب دیدے گا۔دراصل نیکی کے مختلف مواقع ہوتے ہیں جو مختلف لوگوں کو مل جاتے ہیں۔
ہر نیکی حضرت ابوبکر ؓ نے ہی نہیں کی بلکہ بعض حضرت عمر ؓ نے بھی کیں، پھر بعض کا موقع حضرت عمرؓ کو نہیں ملا اور وہ حضرت عثمان ؓنے کیں،پھر بعض کا حضرت عثمان ؓ کو نہیں ملا اور حضر ت علیؓ کو موقع ملا،بعض حضرت طلحہؓ نے کیں ،بعض حضرت زبیرؓ نے کیں تو نیکی کے مواقع ہوتے ہیں اور اس موقع پر اللہ تعالی کی طرف سے کسی کو تحریک ہو جاتی ہے ۔اسی طرح کوئی مضمون کسی کو سوجھ جاتا ہے اور کسی کی تحریک کسی اَور کو ہو جاتی ہے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ہر نیکی کی تحریک کسی ایک ہی انسان کو ہو اور ہر مضمون لکھنے کا خیال ایک ہی شخص کو آئے یہ انسانی فطرت ہے کہ کبھی کسی کو خیال آجاتا ہے اور کبھی کسی کو ۔ہم روز دیکھتے ہیں کے مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک کام کہتے ہیں اور زید خیال کرتا ہے کہ بکر کر ے گا اور وہ سمجھتا ہے کہ عمر کرے گا اور کبھی کوئی کردیتا ہے اور کبھی کوئی اور اس بات کو کسی کی نیت سے وابستہ کر دینا نہایت خطرناک امر ہے۔
اگر ہر نیکی کے موقع پر حضرت ابوبکر ؓکو ہی خیال آتا تو باقی سب صحابہ ؓ خالی ہاتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جاتے ۔بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓکو نیکیوں کے بہت سے مواقع عطاء کئے مگر بعض دفعہ حضرت عمرؓ کو بھی دیئے اور بعض مواقع پر حضرت عمرؓ کو ایسی سُوجھی جو حضرت ابو بکر ؓ یا کسی اور صحابی کو نہیں سُوجھی ۔پس اگر ہر نیکی کا خیال حضرت ابوبکرؓ کو ہی آجاتا تو حضرت عمر ؓ کہاں جاتے اوراگر اُنہیں ہی خیال آتا تو حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ اور دوسرے صحابہؓ کہاں جاتے۔
پس یہ بات انسانی فطرت میں ہے کہ مختلف مواقع پر مختلف تحریکات دل میں پیدا ہوتی ہیںاِسی طرح مضامین کا حال ہے ۔کوئی مضمون کسی کے خیال میں آتا ہے اور کوئی کسی کے خیال میں۔ ’’الفضل ‘‘کو پڑھو۔بعض دفعہ بچے ایسے مضمون لکھتے ہیں جو نہ علماء کے خیال میں آتے ہیں اور نہ میرے دل میں ۔اللہ تعالی ہمیں اُس کی تحریک نہیں کرتا اور کسی بچے کو کر دیتا ہے کیونکہ اُسے ثواب دینا ہوتاہے ۔پس یہ خیال کرنا کہ ایک ہی شخض کا فرض ہے کہ جواب دے بالکل عقل کے خلاف ہے۔یہ اللہ تعالی کی دین ہے کبھی وہ کسی کو تحریک کر کے موقع عطا کر دیتا ہے اور کبھی کسی کو۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ سے نکل کر مدینہ آئے تو حضرت ابوبکر ؓکو موقع ملااور وہ ساتھ رہے اور ہر رنگ میں خدمت کا ثواب حاصل کیا لیکن احد کی جنگ میں جب چاروں طرف سے تیروںکی بارش ہو رہی تھی تو طلحہؓ کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ اپنا سینہ آگے کر دیا۔ جب چاروں طرف سے شور کی آواز سن کر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دیکھنا چاہتے کہ کیا ہے تو حضرت طلحہ ؓ عرض کرتے کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ اِدھر اُدھر نہ دیکھیں ایسا نہ ہو کوئی تیر لگ جائے ۔میں سامنے کھڑا ہوں ۔اب کوئی کہے کہ احد کے دن حضرت ابوبکرؓ کیوں آگے کھڑے نہ ہوئے، دراصل مکّہ سے ساتھ آنے میںبھی ان کی بد نیتی تھی تو یہ درست نہ ہوگا۔بیشک احد کے دن حضرت ابوبکرؓکو اللہ تعالیٰ نے موقع نہیںدیامگر اس میں حضرت ابوبکر ؓ کاکوئی نقص نہیں ۔حضرت طلحہؓ بھی تو اللہ تعالیٰ کا پیارا بندہ تھا اور اسے بھی اللہ تعالی نے کوئی فخرکی بات عطاء کرنی تھی ۔پس یہ موقع بھی اگر حضرت ابوبکرؓ کو ہی مل جاتا توحضرت طلحہ ؓ کیا کہتے۔ پھرخیبر کے دن حضرت علی ؓکو موقع ملا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا آج میں اسے موقع دوں گا جو خدا سے محبت کرتا ہے اور جس سے خدا تعالیٰ محبت کرتا ہے اور تلوار اس کے سپرد کروں گا جسے خدا تعالیٰ نے فضیلت دی ہے۔حضر ت عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں اس مجلس میں موجود تھا اور اپنا سر اونچا کرتا تھاکہ شاید رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مجھے دیکھ لیں اور مجھے دیدیں۔مگر آپ دیکھتے اور چُپ رہتے میں پھر سر اونچا کرتا اور آپ پھر دیکھتے اور چُپ رہتے حتّٰی کہ علی ؓ آئے اُن کی آنکھیں سخت دُکھتی تھیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ۔علی!آگے آئو۔وہ آپ کے پاس پہنچے تو آپ نے لعابِ دہن اُن کی آنکھوں پر لگایااور فرمایااللہ تعالیٰ تمہاری آنکھوں کو شفا ء دے،یہ تلوار لوجو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہے۔۲؎
اب اگر کوئی کہے کہ یہ موقع نہ تو حضرت ابوبکرؓ کو ملا اور نہ حضرت عمرؓ کواس لئے اللہ تعالیٰ ان سے محبت نہیں کرتا تو یہ درست نہیں ۔حضرت علی ؓکو یہ موقع نہ ملتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جا کر کیا کہتے۔ حضرت ابوبکرؓ ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓاور حضرت طلحہؓ تو اپنی خدمات پیش کردیتے مگر حضرت علیؓکیا کرتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی موقع دیا۔اسی طرح حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمر ؓ کو بھی کئی مواقع ملے بلکہ حضرت عمر ؓ کو پہلے دن ہی موقع ملا جب وہ مسلمان ہوئے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ایک مکان کے اندر تشریف فرما تھے ۔صحابہ ؓ بھی پاس تھے۔ دروازہ بند تھا ۔آپ نے آکر کہا دروازہ کھولو ۔صحابہؓ نے کہا کہ عمر کی آوازہے مت کھولو مگر حضرت حمزہ ؓ پہرے پر تھے انہوں نے کہا ،عمر کی ایسی تیسی آئے تو سہی میں اس کا سر نہ پھوڑ دوں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ دروازہ کھول دو۔دروازہ کھلا اور حضرت عمرؓ اندر داخل ہوئے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا عمر! تم کبھی ہمارا پیچھا چھوڑو گے بھی یا نہیں؟ ہم الگ مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تم وہاں بھی ہم کو دق کرتے ہو۔حضرت عمرؓ رو پڑے اور عرض کیا یَارَسُوْلَ اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میں تو بیعت کرنے آیا ہوں ۔یہ سن کر آپؐ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اورسب صحابہؓ نے بھی ۔۳؎صحابہ ؓبیان کرتے ہیں کہ وہ پہلا نعرہ تکبیر تھا جو مکہ میں بلند کیا گیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا یَارَسُوْلَ اﷲ ! چلیے کعبہ میں نماز پڑھیں ۔حضرت حمزہ ؓکو ساتھ لیا اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو کعبہ میں لے گئے۔یہ دونوں تلواریں لے کر کھڑے ہوگئے اورکہا کہ اگر کوئی آگے آیا تو ہم اسے فنا کر دیں گے یا خود مر مٹیں گے ۔دیکھو یہ کتنی بڑی فضیلت ہے مگر کیا ہر فضیلت حضرت عمرؓ کے لئے ہی ضروری ہے ۔اگر حضرت عمر ؓ کی اس فضیلت کو دیکھ کر دوسرے مواقع پر صحابہؓ کہہ دیتے کہ اب وہ کہاں ہیں۔اب آگے کیوں نہیں آتے؟تو یہ اعتراض صحیح نہ ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو نیکی کرنے کا موقع دیتا ہے وہ کر لیتا ہے اور جس کو موقع ملے وہ کیوں چھوڑے۔ اگر مولوی راجیکی صاحب کو یہ خیال آیا تھاکہ میر صاحب نے ایسا مضمون لکھا ہے جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے خلاف ہے تو انہوں نے کیوں اس کا جواب نہ دیااور انہوں نے یہ کیوں فرض کر لیا کہ اس کا جواب دینا بھی مولوی محمداسمٰعیل صاحب کا فرض ہے ۔وہ بھی آدمی ہیں اور یہ بھی اور جسے نیکی کی تحریک ہوتی اسے چاہئے تھا کرتا ۔پس مولوی محمد اسمٰعیل صاحب پر اعتراض کی کوئی وجہ نہیں۔اس قسم کے خیالات کا اظہار کرنا کہ ایک ہی شخص کے ذمہ ہے کہ وہ سلسلہ کی اصلاح کرے نہایت ہی خطرناک رَو ہے اور ضروری ہے کہ میں اس کے خلاف اظہارِناراضگی کروں ۔میں تو خلیفۂ وقت کے متعلق ایسا خیال کرنا بھی شرک سمجھتا ہوں کُجا یہ کہ کسی اور مولوی کے متعلق یہ امید رکھی جائے کہ ہر مضمون کا جواب دینا اس کا ہی فرض ہے۔اگر ان کو علم ہؤا تھا کہ میر صاحب نے کوئی ایسا مضمون شائع کرایا ہے تو ان کا فرض تھا کہ اس کی تردید کرتے اور اگر اس سے جھجکتے تھے کیونکہ بعض وقت آدمی خیال کرتا ہے کہ شاید میرا ہی خیال غلط ہوتوان کو چاہئے تھا مجھے توجہ دلاتے۔
معلوم ہوتا ہے انہوںنے خیال کر لیا کہ مجھے علم ہو چکا ہو گا۔مگر کیا وہ سمجھتے ہیں کہ میں عالم ُ الغیب ہوںاور ہر بات کو جانتا ہوں ۔اِس وقت جو لوگ میری آنکھوں کے سامنے بیٹھے ہیںان میں سے بیسیوں بعض حرکتیں کررہے ہوں گے مگر مجھے سامنے کھڑے ہوئے ان کا علم نہیں۔ ’’الفضل‘‘میں بیسیوں مضمون ایسے چھپتے ہیں جومیں نہیں پڑھتا۔ اگر ان کو خیال آیاتھا تو ان مفروضات کی بناء پر وہ کیوںنیکی سے محروم رہے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کو نیکی کا ایک موقع دیا تھا جو دوسروں کو نہیں ملا مگر انہوں نے گنوا دیا اوراب وہ موقع مجھے مل گیا ہے اور میں اعلان کرتا ہوں کہ اگر میرصاحب نے ایسا مضمون لکھا ہے تو وہ غلط ہے اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔٭یہی نیکی کا موقع مولوی راجیکی صاحب کو ملالیکن وہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب سے انقباض رکھنے یا ان کو سلسلہ کا واحد ذمہ دار سمجھنے کی وجہ سے اس ثواب سے محروم رہ گئے۔
اس جگہ ایک لطیفہ بیان کرنے سے میں نہیں رک سکتا ۔وہ لطیفہ یہ ہے کہ مولوی راجیکی صاحب نے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کے مضمون کے ردّ میں لکھا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل اِس کے خلاف کہا کرتے تھے اور اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت یحییٰ ؑ قتل نہیں ہوئے ۔(حالانکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں پہلے آپ کا یہ عقیدہ تھا بعد میں آپ نے غلطی تسلیم کر لی )لیکن انہیں شاید معلوم نہیں کہ جس دوسرے مضمون کی تردید وہ کرنا چاہتے ہیں اُس میں بھی حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کاخیال یہی تھاکہ یونس کو مچھلی نے نہیں نگلا بلکہ مچھلی کو یونس نے نگلاتھا۔ جن لوگوں نے حضرت خلیفہ اوّل سے قرآن شریف پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ عربی زبان میں بعض جگہ نسبت بدل جاتی ہے اس لئے اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ حوت حضرت یونس ؑ کے پیٹ میں چلی گئی تھی۔علاوہ عربی مثالوں کے حضرت خلیفہ اوّل اُردو کی بھی یہ مثال دیا کرتے تھے کہ جیسے کہتے ہیں کہ پرنالہ چلتا ہے حالانکہ پرنالہ نہیں چلتا بلکہ پانی چل رہاہوتا ہے۔تو حضرت خلیفہ اوّل عربی کی بہت سی مثالیں پیش کرکے کہا کرتے تھے کہ حوت حضر ت یونس ؑ کے پیٹ میں گئی تھی اور پھر وہ بیمار ہو گئے اس کے معنی آپ یہی فرمایا کرتے تھے کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو مچھلی حضرت یونس ؑ کے پیٹ سے نہ نکلتی اور ان کی ہلاکت کا موجب ہو جاتی مگر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور مچھلی کو آپ کے پیٹ سے نکال دیا ۔آپ فرماتے تھے معلوم ہوتا ہے مچھلی کھا کر تخمہ ہؤا آخر اللہ تعالیٰ نے زہر خارج کردیا اور آپ بچ گئے۔
پس اس بارہ میں بھی حضرت خلیفہ اوّل کا عقیدہ یہی تھا جو ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے بیان کیا ہے ۔(لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس خیال کو بھی آپ نے بعد میں بدلا کیونکہ پھرآپ نے ہمیں حضرت مسیح ؑ کی وفات کے ثبوت میں یونس ؑنبی والی پیش گوئی بھی دکھائی)لیکن ایسے امور میں نبیوں ہی کی بات پر انحصار کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ معجزے ہیں اور معجزوں کو انبیاء ہی زیادہ جان سکتے ہیں ۔ہم میں سے بیسیوں اشخاص اس بات کے زندہ گواہ ہیں کہ حضر ت خلیفہ اوّل جب کتاب نورالدین لکھ رہے تھے تو اس میں آپ نے لکھا کہ حضرت ابراہیم ؑکو آگ میں ڈالنے کا جو ذکر ہے اس سے مراد لڑائی کی آگ ہے ۔آپ نے خیال کیا کہ آگ میں پڑ کر زندہ بچنا تو بہت مشکل ہے اس لئے آگ سے مراد لڑائی کی آگ لی۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان دنوں بسراواں کی طرف سیر کو جایا کرتے تھے مجھے یاد ہے میںبھی ساتھ تھا کسی نے چلتے ہوئے کہا کہ حضور بڑے مولوی صاحب نے بڑا لطیف نقطہ بیان کیا ہے (جو لوگ عام طور پرعقلی باتوں کی طرف زیادہ راغب ہوں وہ ایسی باتوں کو بہت پسند کرتے ہیں)لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قریباًـــ ساری سیر میں اس بات کا رد کرتے رہے اور فرمایا کہ میری طرف سے مولوی صاحب کو کہہ دو کہ یہ مضمون کاٹ دیں۔ہمیں الہام ہؤا ہے کہ ’’آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے‘‘ تو حضرت ابرا ہیم ؑ سے اگر اللہ تعالے نے ایسا سلوک کیاتو کیا بعید ہے ۔کیا طاعون آگ سے کم ہے اور دیکھ لو کیا یہ کم معجزہ ہے کہ چاروں طرف طاعون آئی مگر ہمارے مکان کو اللہ تعالی نے اس سے محفوظ رکھا ۔پس اگر حضرت ابرا ہیم ؑکو اللہ تعالیٰ نے آگ سے بچا لیا ہو تو کیا بعید ہے ۔ہماری طرف سے مولوی صاحب سے کہہ دو کہ یہ مضمون کاٹ دیں چنانچہ آپ نے کاٹ دیا۔تو معجزات کے بارہ میں انبیا ء کی ہی رائے سہی سمجھی جا سکتی ہے کیونکہ وہ ان کی دیکھی ہوئی باتیں ہوتی ہیں ۔جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ آدھ آدھ گھنٹہ باتیں کرتا ہے، سوال کرتا اورجواب پاتا ہے،اس کی باتوں تک تو خواص بھی نہیں پہنچ سکتے کجا یہ کہ عوام الناس جنہوںنے کبھی خواب بھی نہیں دیکھا اور اگر دیکھا ہو تو ایک دو سے زیادہ نہیں اور پھر اگر زیادہ بھی دیکھیں تو دل میں تردّد رہتا ہے کہ شاید یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یا نفس کا ہی خیال ہے۔ جو کہتے ہیں کہ ادھر ہم نے سونے کے لئے تکیہ پر سر رکھا اور ادھر یہ آواز آنی شروع ہوئی کہ دن میں تمہیں بہت گالیاںلوگوں نے دی ہیں مگر فکر نہ کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور تکیہ پر سر رکھنے سے لے کر اُٹھنے تک اللہ تعالیٰ اِسی طرح تسلیاں دیتا رہا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بعض دفعہ ساری ساری رات یہی الہام ہوتا رہا ہے کہ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ ۴؎ میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں دوسرے لوگ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہاںاللہ تعالیٰ کے بزرگ اور نیک لوگ ایک حد تک سمجھ سکتے ہیں مگر اس حد تک نہیں جس حد تک نبی سمجھ سکتا ہے ۔نبی نبی ہی ہے۔اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا کلام ایسے رنگ میں ہوتا ہے کہ جس کی مثال دوسری جگہ نہیں مل سکتی ۔
میرے اپنے الہام اور خواب اس وقت تک ہزار کی تعداد تک پہنچ چکے ہوں گے مگر اُس شخص کی ایک رات کے الہامات کے برابر بھی یہ نہیں ہو سکتے جسے شام سے لے کر صبح تک اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُکا الہام ہوتا رہا ہے۔ پھر ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کی عزت کریں لیکن جب ہم ان کو انبیاء کے مقابلہ پر کھڑا کرتے ہیں تو گویا خواہ مخواہ ان کی ہتک کراتے ہیں۔ہر شخص کا اپنا اپنا مذاق ہوتا ہے ۔مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں عام طور پر یہ چرچہ رہتا تھا کہ آپ کو زیادہ پیارا کون ہے ۔بعض لوگ کہتے تھے بڑے مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اوّل اور بعض چھوٹے مولوی صاحب یعنی حضرت مولوی عبدلکریم صاحب کا نام لیتے تھے ۔ہم اس پارٹی میں تھے جو حضرت خلیفہ اوّل کو زیادہ محبوب سمجھتی تھی ۔مجھے یاد ہے ایک دفعہ دوپہر کے قریب کا وقت تھا، کیا موقع تھا یہ یاد نہیں، پہلے میں کبھی شاید یہ واقعہ بیان کر چکا ہوں اور ممکن ہے اس میں موقع بھی بیان کیا ہو مگر اس وقت یاد نہیں،میں گھر میں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھ سے یا حضرت اماں جان بھی شاید وہیں تھیں ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر جو احسانات ہیں ان میں سے ایک حکیم صاحب کا وجود ہے۔آپ بِالعموم حضرت خلیفہ اوّل کو حکیم صاحب کہا کرتے تھے۔کبھی بڑے مولوی صاحب اور کبھی مولوی نور الدین صاحب بھی کہا کرتے تھے ۔آپ اس وقت کچھ لکھ رہے تھے اور فرمایا کہ ان کی ذا ت بھی اللہ تعالی کے احسانات میں سے ایک احسان ہے اور یہ ہمارا نا شکراپَن ہوگا اگر اس کو تسلیم نہ کریں ۔اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایک ایسا عالم دیا ہے جو سارا دن درس دیتا ہے پھر طب بھی کرتا ہے اور جس کے ذریعہ ہزاروں جانیں بچ جاتی ہیں۔ اور آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ اسی طرح میرے ساتھ چلتے ہیں جس طرح انسان کی نبض چلتی ہے ۔
پس ایسے شخص کا کوئی حوالہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابلہ میں پیش کیا جائے یا مثلاََحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابلہ میںمیرا نام لے لیا جائے تو اس کے معنی سوائے اس کے کیا ہیں کہ ہم کو گالیاں دلوائی جائیں ۔خلفاء کی عزت اسی میں ہوتی ہے کہ متبوع کی پیروی کریں اور اگر عدمِ علم کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے تو جسے اس کا علم ہو اسے چاہئے کہ بتائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م نے یوں فرمایا ہے ۔شاید آپ کو اس کا علم نہ ہو ۔فقہ کا علم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دوسروں سے بہت زیادہ دیا ہے اور مامورین کی باتوں کو سمجھنے کی دوسروں سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں ۔پھر اس بات پر غور کر کے ہم دیکھیں گے کہ کیا اس کے معنی وہی ہیں جو لوگ لیتے ہیں اور یقینا فقہ کے بعد ہم اس کو حل کرلیں گے اور وہ حل ننانوے فیصد صحیح ہو گا لیکن اس کو حل کر نے کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ ہم آپ کے مقابل پر ہوں گے اور آپ کے ارشادات کے مقابلہ میں نام لے کر ہماری بات پیش کی جائے ۔کوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حوالہ پیش کرے تو آگے سے دوسرا میرا نام لے دے تو اس کے معنی سوائے اس کے کیا ہیں کہ ہتک کرائی جائی ۔
پس خواہ حضرت خلیفہ اوّل ہوں، یا میں ہوں، یا کوئی بعد میں آنے والا خلیفہ جب یہ بات پیش کردی جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے تو آگے سے یہ کہنا کہ فلاں خلیفہ نے یوں کہا ہے غلطی ہے، جو اگر عدم علم کی وجہ سے ہے تو سند نہیں ہو سکتی اور اگر علم کی وجہ سے ہے تو گویا خلیفہ کو اسکے متبوع کے مقابل پر کھڑا کرنا ہے۔ہاں یہ درست ہے کہ اگر متبوع کے کسی حوالہ کی تشریح خلیفہ نے کی ہے تو یہ کہا جائے کہ آپ اس کے یہ معنی کرتے ہیں لیکن فلاں خلیفہ نے اس کے یہ معنی کئے ہیں اس طرح خلیفہ نبی کے مقابلہ پر نہیں کھڑا ہوتا بلکہ اس شخص کے مقابلہ پر کھڑا ہوتا ہے جو نبی کے کلام کی تشریح کر رہا ہے ۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ضروری نہیں کہ خلفاء کو سب باتیںمعلوم ہوں کیا حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ کو ساری احادیث یاد تھیں۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیسیوں باتیں ایسی ہیں جوہم کو یاد نہیں اور دوسرے آکر بتاتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں جن کے پاس یہ باتیں ہیں وہ اگر سنائیں تو بڑا احسان ہے یہ ضروری نہیں کہ خلیفہ سب باتوں سے واقف ہو۔ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل کتا بیں بہت کم پڑھا کرتے تھے ۔میرے سامنے یہ واقعہ ہؤا کہ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا کہ آپ مولوی صاحب کو پروف پڑھنے کے لئے کیوں بھیجتے ہیں وہ تو اس کے ماہر نہیں ہیں اور ان کو پروف دیکھنے کی کوئی مشق نہیں ۔بعض لوگ ا س کے ماہر ہوتے ہیں اور بعض نہیں۔میں خطبہ دیکھتا ہوں مگر اس میں پھر بھی بیسیوں غلطیاں چھَپ جاتی ہیں ۔آج ہی جو خطبہ چھَپاہے اس میں ایک سخت غلطی ہو گئی ہے۔ میں نے اصلاح تو کی تھی مگر اصلاح کرتے وقت پہلے فقرہ کا جو مفہوم میرے ذہن میں تھا وہ دراصل نہ تھا۔میںنے سمجھا کہ اس سے پہلے یہ فقرہ ہے کہ صرف ان نبیوں کا رستہ مسدود قرار دیا گیا ہے اور میں نے اس کے بعد کے فقرہ کو جس میں کچھ غلطی رہ گئی تھی یوں درست کردیا کہ’’جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنادے ‘‘مگر چھَپنے کے بعد میںنے پڑھا تو پہلا فقرہ بالکل اس کے الٹ تھا ۔جو میں نے سمجھا تھا اور ’’الفضل‘‘ میںیہ فقرہ پڑھ کر میں حیران ہو گیا کہ’’کسی ایسے مدعی کے آنے کے رستہ کو مسدود قرارنہیں دیا گیا جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنا دے ‘‘۔اور اس طرح گویا اس کے یہ معنی ہو گئے کہ شرعی نبی تو آسکتا ہے مگر غیر شرعی نہیں حالانکہ مراد یہ تھی کہ صرف ایسے مدعی کے آنے کے رستہ کو مسدودقرار دیا گیا ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنادے ۔ یعنی صرف شرعی نبی کی اور مستقل نبی کی روک کی گئی ہے۔تو بعض لوگ پروف دیکھنے کے ماہر ہوتے ہیں اور بعض نہیں۔ میر مہدی حسین صاحب اس کے ماہر ہیں اور وہ ایسی باریک غلطیاں بھی پکڑ لیتے ہیں جو دوسرے سے یقینا رہ جائیں ۔تو کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا کہ مولوی صاحب تو اس کے ماہر نہیں ہیں آپ ان کو پروف کیوں دکھاتے ہیں تو آپ نے فرمایاکہ مولوی صاحب کو فرصت کم ہوتی ہے اور وہ بیماروغیرہ رہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ پروف ہی پڑھ لیا کریں تاکہ ہمارے خیالات سے واقفیت رہے اور پھرپڑھنے کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ ہر بات یاد ہو ۔مثلاََ حضرت یحییٰ ؑ کے قتل کے متعلق ہی حوالے میں نہیں نکال سکااور مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کو کہلا بھیجا کہ نکال دیں۔میرا حافظہ اس قسم کا ہے کہ قرآن کریم کی وہ سورتیں بھی جو مَیں روز پڑھتا ہوں ان میں سے کسی کی آیت نہیں نکال سکتا ۔لیکن دلیل کے ساتھ جس کا تعلق ہو خواہ کتناہی عرصہ گزر جائے مجھے یاد رہتی ہے۔جن باتوں کا یاد رکھنا میرے کام سے تعلق نہ ہو وہ مجھے یاد نہیں رہتیں ۔حوالے میں سمجھتا ہوں کہ دوسروں سے نکلوا لوں گا اس لئے یاد نہیں رکھ سکتا اورجو سورتیں میں روز پڑھتا ہوں ان کی آیت سن کر بھی فوراََ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں سورۃ کی ہے ۔ہاں بِسْمِ ﷲِ سے شروع کرکے ساری سورۃ پڑھوں تو پڑھ لوں گا لیکن ایک آیت کے متعلق پتہ نہیں لگا سکتا کہ کہاں سے ہے ۔سوائے پانچ سات چھوٹی سورتوں کے یا سورہ فاتحہ کے۔ بڑی بڑی سورتیں جویاد ہیں ان سے درمیان کا ٹکڑہ سن کر حوالہ نہیں نکال سکتا لیکن یوں بات یاد رکھنے میں میرا حافظہ ایسا ہے کہ بعض خطوط جب پرائیویٹ سیکرٹری دو دو ماہ بعد پیش کرتا اورکہتا ہے کہ فلاں نے یہ لکھا ہے اوراگر ان کی غلطی ہو تو میں کہہ دیتا ہوں کہ اس نے یہ تو نہیں بلکہ یہ لکھا ہے۔ جب میں ڈاک کے جواب مسجد میں لکھوایا کرتا تھا تو بعض لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے کہ بات وہی صحیح ہوتی تھی جو میں کہتا تھا حالانکہ خط سیکرٹری کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ تو میرا حافظہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسازبردست ہے کہ بہت کم لوگوں کا ایسا ہوگا۔مضمون کے لحاظ سے حوالہ ایسا یاد رہتا ہے کہ کوئی حافظ اس طرح نہیں رکھ سکتا۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ لاہور میں مجھے اچانک تقریر کرنی پڑی حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے جو آیات کا حوالہ نکالنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے ان کو میںنے پیچھے بٹھا لیا اور مضمون بیان کرنا شروع کر دیا جب ضرورت ہوتی ان سے حوالہ دریافت کر لیتا ۔اگلے دن ایک ہندو اخبار نے لکھا کہ تقریر تو بہت اچھی تھی لیکن ایک بات قابلِ ذکر ہے اوروہ یہ کہ موقع پا کر مَیں سٹیج کی پچھلی طرف چلا گیا تو معلوم ہؤا کہ پیچھے ایک شخص بیٹھا ہؤابتاتا جاتا ہے اور یہ آگے بیان کرتے جاتے تھے۔حافظ صاحب کے حوالے بتانے سے اس نے سمجھا شاید مضمون بھی و ہی بتا رہے ہیں۔ تو مضمون کے لحاظ سے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے القاء کے طور پر حوالے ملتے جاتے ہیں حالانکہ اس کا خیال اور واہمہ بھی نہیں ہوتا یونہی لفظ سامنے آجاتا ہے اور پھر میں حافظہ سے آیت پوچھ لیتا ہوں مگر یہ پتہ نہیں لگتا فلاں آیت کس سورۃ میں ہے۔
تو گو حافظوں کی بھی کئی کمزوریاں ہوتی ہیںمگر جب نص موجود ہے تو خواہ دوسری بات کو حافظہ کی کمزوری سمجھو،خواہ نا فہمی بہرحال مقدم و ہی بات ہو گی جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کہی ہے ۔
اس کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوںاور پہلے بائبل کو لیتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ اصولی طور پراس معاملے میں کیا کہتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری ؑ صلیب پر لٹکائے گئے اور اس وجہ سے یہود نے کہا کہ وہ *** ہو گئے اور انہوں نے اسی نیت سے ایسا کیا وہ سمجھتے تھے کہ بائبل کی رو سے جو نبی بھی قتل ہوتا ہے *** ہو جاتا ہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ کیا یہ مضمون واقعی بائبل میں درج ہے یا صرف یہ مضمون ہے کہ جھوٹا نبی ضرور سزا پاتا ہے۔گویا وہی بات ہے جو قرآن کریم نے آیت۵؎ میں کہی ہے یعنی جو کوئی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے اس کا دا ہنا ہاتھ پکڑکر ہم اس کی رگِ جان کو کاٹ دیتے ہیں اور اگر محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) جھوٹا ہوتا تو ہم اسے یہ سزا کیوں نہ دیتے؟
پس یہ اصول ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ میں بیان کیا تھا ،اسکے معنی یہ نہیں کہ سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ہیںکہ جھوٹا نبی ضرور قتل کیا جاتا ہے۔یہی مضمون ہمیں بائبل میں بھی نظر آتا ہے ۔چنانچہ استثناء باب ۱۳ آیت ۵ میں لکھا ہے کہ ’’اور وہ نبی جس کی خواب پوری ہوجاتی مگر شرک کی تعلیم دیتا ہے ،یا خواب دیکھنے والا قتل کیا جائے گا ‘‘یعنی کسی کے ایک خواب پورا ہونے سے یہ مت یقین کر لو کہ وہ نبی ہو گیا ہے ۔اگر وہ شرک کی تعلیم دیتا ہے تو اسے جھوٹا ہی سمجھو۔ پس اس کے یہ معنی نہیں کہ سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ہیں کہ جھوٹا قتل ضرور کیا جاتا ہے اور دونوںباتوں میں بہت فرق ہے ۔ہماری جماعت میںبھی اس کی مثال موجود ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہؤا کہ تیری مخالفت کی وجہ سے طاعون سے لوگ ہلاک ہوں گے۔اور گویا وہ دشمن کے لئے عذاب ہے۔مگر جب کوئی احمدی بھی کبھی اس کا شکار ہو جاتا تو مخالف مضحکہ اڑاتے۔اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا مسلمان جنگوں میں شہید نہ ہوتے تھے۔ وہ جنگیں کفار کے لئے تو عذاب ہوتی تھیں۔مگر مسلمانوں کے لئے شہادت کا موجب ۔تو استثنائی طور پر اللہ تعالی کبھی کبھار دشمنوں کو بھی ہنسی کا موقع دے دیتا ہے ۔پس اس کے معنی یہ نہیں کہ سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ہیں کہ جھوٹا نبی ضرور قتل ہوتا ہے اوردوسرے الفاظ میں اسکے یہ معنی بھی ہیں کہ یہود کی شریعت کا یہی حکم ہے کہ جھوٹے نبی کو ضرور قتل کرو ۔چنانچہ اسی باب کی آیت ۱۵ میں لکھا ہے کہ’’ تو تو اس شہر کے باشندوں کو تلوار کی دھار سے ضرور قتل کرے گا‘‘ جس سے مراد یہ ہے کہ تجھے چاہئے کہ اسے قتل کر دے ۔پس جبر اسی باب میں ’’کرے گا‘‘ بمعنے ’’کرے‘‘ استعمال ہؤا ہے تو مذکورہ بالا حوالہ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ بائبل کا حکم ہے کہ اس شخص کو جو شرک کی تعلیم دیتا ہو اور ساتھ نبوت کا مدعی ہو بنی اسرائیل قتل کردیا کریں ۔
پھر زکریا باب ۱۳ آیت ۳ میں لکھا ہے کہ ’’جھوٹا نبی جلد ہلاک ہوتا ہے (قتل کاذکر نہیں) اس کے ماں باپ جن سے وہ پیدا ہؤاہے اسے کہیں گے کہ تُو نہ جئے گا ۔‘‘یہاں جینے کالفظ ہے جس میں موت بھی، قتل بھی اور ہلاکت بھی ہو سکتی ہے۔قتل کا لفظ یہا ں نہیں ہے ۔
استثناء باب ۲۱آیت ۲۲،۲۳میںہے کہ’’ اگر کسی نے کچھ ایسا گناہ کیا ہو جس سے اس کا قتل واجب ہو اور وہ مارا جائے تو اسے درخت میں لٹکا دے ۔ اس کی لاش رات بھر درخت پرلٹکی نہ رہے بلکہ تُو اُسی دن اُسے گاڑدے کیونکہ وہ جو پھانسی دیا جاتا ہے وہ خدا کا ملعون ہے اس لئے چاہئے کہ تیری زمین جس کا وارث خداوند تیرا خدا تجھے کرتا ہے ناپاک نہ کی جائے ‘‘۔
یہاں پھانسی پر لٹکائے جانے والے کے متعلق ایک حکم بیان کیا ہے اور الفاظ سے پتہ لگتا ہے کہ ایسا پھانسی پانے والاجسے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت پھانسی دی جائے ملعون ہوتا ہے یعنی جب خدا تعالیٰ کی شریعت کے مطابق اس کا قتل واجب ہو تب *** ہوتا ہے محض پھانسی پانے کی وجہ سے کوئی *** نہیں ہو سکتا بلکہ وہ *** ہو گا جو کسی ایسے گناہ کا مرتکب ہو نے کی وجہ سے پھانسی دیاجائے۔جس کے متعلق تورات کہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے اورجسے خداتعالیٰ بسبب ناراضگی کے پھانسی پر لٹکانے کا حکم دے اس کے ملعون ہونے پر کیا شبہ ہو سکتا ہے۔یہود کے اندر احساس تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ جسے ہم پھانسی دیںوہ *** ہوتا ہے ۔اس کی وجہ سے لازمی طور پر ان کے اندر یہ احساس بھی تھا کہ جسے پھانسی پر لٹکا یا جائے اس کا دعوی تسلیم نہیں کرنا ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نبیوںکو ایسی باتوں سے بچاتاہے جن سے لوگ نفرت کریں۔یوں تو نبی ہرایک ہو سکتا ہے لیکن اگر کوئی چوہڑایا چما رنبی ہو جائے تو طبائع میں اتنی نفرت پیدا ہو گی کہ لوگ اس (نفرت)پر غالب نہ آسکیں گے اور اِس وجہ سے اُس کی طرف توجہ ہی نہیں کریںگے تو اللہ تعالی ان باتوں کا بھی خیال رکھتا ہے تا لوگ ضد نہ کریں کیونکہ یہ ضروری ہے ورنہ نفرت کی وجہ سے بہت سے لوگ ہدایت سے محروم رہ جائیں۔پس صلیب پر لٹکانے سے حضرت مسیح ناصری ؑ کا بچانااس نفرت کو دور کرنے کے لئے تھا نہ اس لئے کہ واقع میں صلیب پر لٹک کر انسان *** ہو جاتا ہے خواہ مجرم ہو یا نہ ہو۔ ہر عقلمند سمجھ سکتاہے کہ یونہی اگر کسی کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو وہ ملعون نہیں ہو سکتا۔کوئی شخص شریف ہے، بے گناہ ہے، خدمت خلق کرتا ہے، نیکی کے دوسرے کام کرتا ہے لیکن چور اور ظالم لوگ آکر اسے پھانسی دیتے ہیں تو کیا وہ ملعون ہو جائے گا؟انسانی فطرت اس کو ماننے کے لئے تیار نہیںکہ اگر کسی بے گناہ کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے تووہ ملعون ہو جائے گا ۔پس یا تو یہ مانوکہ کوئی بے گناہ پھانسی پر لٹکایا جا ہی نہیں جا سکتا جونہی کوئی چور اسے پکڑ کر پھانسی پر لٹکانے لگے تو فرشتے جھٹ سے آکر اسے اتار دیں گے اور چھین کرلے جائیں گے اور اس طرح صلیب پر کوئی غیرمجرم لٹکایا ہی نہیں جا سکتایا پھر یہ مانو کہ محض پھانسی پر لٹکانے سے کوئی شخص ملعون نہیں ہو سکتا۔ غرض یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ کسی یہودی مؤمن کو کوئی صلیب پر لٹکا سکتا ہی نہیں جس طرح دعائے گنج العرش کے متعلق مشہور ہے جو اسے پڑھے نہ تو اس کو آگ جلا سکتی ہے، نہ اس کو سمندر ڈبو سکتا ہے،نہ پہاڑ پر سے وہ گر سکتا ہے۔چنانچہ دعائے گنج العرش کی بابت لکھا ہے کہ کسی چور کو بادشاہ نے پھانسی دیئے جانے کا حکم دیا مگر رسی کھنچتے ہیں تو وہ کھنچتی ہی نہیں ۔بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ وہ پھانسی سے نہیں مرتا اس کی گردن ہی نہیں دبتی تو اس نے اسے آگ میں ڈالنے کا حکم دیا مگر جب آگ میں ڈالا تو دیکھا کہ وہ آگ سے کھیل رہا ہے ۔جب اس کی بادشاہ کو اطلاع ہوئی تو اس نے سمندر میں پھینک دینے کا حکم دیامگر جب پتھروںسے باندھ کر اسے سمندر میں پھینکا گیا تووہ کارک کی طرح تیرنے لگا، آخر اسے پہاڑسے گرانے کاحکم دیا گیا مگر جب پہاڑ سے گرایا گیا تو یوں معلوم ہؤاکہ کسی نے اسے پکڑ کر آرام سے زمین پر رکھ دیا ہے اور اسے ذرہ بھی چوٹ نہ آئی۔بادشاہ کو اطلاع ہوئی تو اس نے کہا کہ یہ تو کوئی ولی اللہ ہے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ میں معافی مانگتا ہوں آپ کو چور سمجھا،آپ تو ولی اللہ ہیں مگر اس نے کہا کہ نہیں میں ولی اللہ نہیںچور ہی ہوں صرف بات یہ ہے کہ دعا گنج العرش پڑھتا ہوں ۔تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ یہودی مؤمنوں کی مثال ایسی ہوئی جیسی دعا گنج العرش پڑھنے والوں کی بیان کی جاتی ہے ۔اگر بائبل کی اس آیت میں انبیاء کا ذکر ہوتا تو اور بات تھی مگر یہاں تو مؤمنوں کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ انبیاء کے ساتھ اللہ تعالی کا خاص سلوک ہوتا ہے وہ ان کے لئے نشان دکھاتا ہے مگر عام مؤمنوں کے ساتھ ویسا نہیں ہوتا۔وہ مارے بھی جاتے ہیں، ان کو شیر بھی کھا جاتے ہیں،پھانسی بھی پاجاتے ہیں اور صحابہ کرا م ؓکے ساتھ یہ سب باتیں گزریں تو کیا تورات کے ماننے والے مؤمنوںمیں ہی کوئی خاص خوبی تھی کہ خواہ سارے بادشاہ مل کر انہیں پھانسی دینا چاہیں کیل تک نہ گاڑ سکیں اور یا پھر یہ سمجھو کہ یہود کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ تھا کہ ان میں سے کسی ولی اللہ کو اٹھا کر پھانسی پر لٹکادو اسی وقت *** ہو جائے گا ۔گویا باقی دنیا کے لئے تو *** اس کے اپنے افعال سے پیدا ہوتی ہے لیکن یہود کے متعلق خدا تعالیٰ کی *** ڈالنے کا حق دشمنانِ دین کے سپرد کر دیا گیا تھا۔پس یا تو یہ دونوں خلافِ عقل و ایمان باتیں ماننی پڑیں گی اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ یہ دونوں امر ناقابلِ قبول ہیں۔ایک کو عقل نہیں مانتی اور دوسرے کو ایمان۔ اور اس طرح ماننا پڑے گا کہ جیسا کہ اصل حوالہ میں ذکر ہے ۔صرف وہ پھانسی پانے والا ملعون ہے جو خدا کے حکم کے مطابق پھانسی دیا جائے اور اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ایسا گناہ کرنے والا جس سے اس کا قتل واجب ہو جائے *** ہوتا ہے چونکہ خدا کی شریعت کہتی ہے کہ اسے مار ڈالو اس لئے وہ *** ہے ۔پس یہ حوالہ واضح ہے اور اس میں صرف نبوت کے مدعیوں کا ہی ذکر نہیں بلکہ ہر مجرم کا ذکرہے۔حضر ت موسی ؑ اصل شریعت لانے والے تھے باقی نبی ان کے تابع تھے اس لئے باقی بھی یہی بات بیا ن کرتے گئے ۔آہستہ آہستہ یہود میں جب یہ خیال پیدا ہؤا کہ ہم خدا تعالیٰ کے جانشین ہیں تو ساتھ ہی انہیں یہ وہم بھی پیدا ہو گیا کہ جسے وہ پھانسی پر لٹکا دیں وہ ملعون ہے ۔اس کے علاوہ اور حوالے بھی ہیں۔یرمیاہ باب۱۴آیت ۱۵ میں ہے (جھوٹے نبیوں کی نسبت)اُس لئے خدا وند یوں کہتا ہے کہ ان نبیوں کی بابت جو میرا نام لے کر نبوت کرتے ہیں جنہیں میں نے نہیں بھیجا اور جو کہتے ہیں کہ تلوار اور کال اس سرزمین پر نہ ہو گا یہ نبی تلوار اور کال سے ہلاک کئے جائیںگے۔
یرمیاہ باب ۲۲ آیت ۱۵سے آخر تک جھوٹے نبیوںکی سزا اور ان کی ناکامی کا ذکر ہے گوقتل کا ذکر نہیں۔سلاطین ۱باب ۱۸،۱۹ میں ذکر ہے کہ پچاس نبیوںکو بنی اسرائیل نے قتل کیا ۔ متی باب ۲۳ آیت ۲۹تا۳۱ میں ہے کہ’’ اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس کیونکہ نبیوں کی قبریں بناتے ہو اور راست بازوں کی گوریں سنوارتے ہو اور کہتے ہو کہ اگر ہم اپنے دادوںکے دنوںمیں ہوتے تو نبیوںکے خون میں ان کے شریک ہوتے ۔اسی طرح تم اپنے پر گواہی دیتے ہو کہ تم نبیوں کے قاتلوں کے فرزند ہو‘‘ ۔پھر باب ۲۳ آیت۳۷ میں لکھا ہے کہ ’’اے یروشلم اے یرو شلم جو نبیوں کو مار ڈالتی ہے‘‘۔ان تمام حوالوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹا نبی ضرور ہلاک ہوتا ہے مگر ان کے یہ معنی نہیں کہ سچا قتل نہیں ہوتا ۔
بائبل کے علاوہ احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے ۔میں نے گزشتہ خطبہ کو دیکھتے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م سے سنا ہؤا ایک واقعہ لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م فرماتے تھے کہ دنیا میں دو شخص سب سے زیادہ بدبخت ہوتے ہیں۔ایک وہ جو نبی کو قتل کرے اوردوسرا وہ جسے نبی قتل کرے۔ مجھے اس وقت خیا ل تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م نے یہ بھی فرمایا تھا کہ حدیث میںبھی یہ ذکر ہے مگر میں نے چونکہ وہ حدیث پڑھی نہ تھی یامجھے یاد نہ تھی ۔یہ حصہ میں نے نہ لکھا تھا لیکن عجیب بات ہے کہ آج اس بارہ میں احادیث دیکھنے پر یہی حوالہ میرے سامنے آگیا ۔چنانچہ مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے عن ابن مسعودان رسول اللہﷺ قَالَ اَشَدُّالنَّاسِ عَذَابًایَوْمَ الْقِیٰمَۃِرَجُلٌ قَتَلَ نَبِیًّا اَوْ قَتَلَہٗ نَبِیٌّ۶؎’’ یعنی ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس کو ملے گا جس نے نبی کوقتل کیا ہو یا جسے کسی نبی نے قتل کیا ہو ۔اس حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک نبی کاقتل ممکن ہے۔
اسی طرح ابن جریر اور ابن ابی حاتم یعنی حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓسے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا یَا اَبَاعُبَیْدَۃَ قَتَلَتْ بَنُوْاِسْرَائِیْلَ ثَلَاثَۃً وَاَرْبَعَیْنَ نَبِیًّا اَوَّلَ النَّہَارِ فِیْ سَاعَۃٍ وَاحِدَۃٍ ۷؎یعنی بنی اسرائیل نے ایک دفعہ گھنٹے میں ۴۳ نبیوں کو قتل کیا تھا ۔یہ در اصل وہی مضمون ہے جو سلاطین۱ باب ۱۸ میں بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرا ئیل نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا ہے ۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے الہام پاکر ان نبیوںکی صحیح تعدا د بھی بتا دی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ اس زمانے کے لوگوں کی کمزوری کی وجہ سے ایک وقت میں کئی کئی نبی معبوث ہوتے تھے اور بائبل سے ثابت ہے کہ جب کوئی بادشاہ خراب ہوتا تو کئی کئی نبی اکٹھے ہو کر اس کے خلاف فیصلہ کرتے تھے۔
اصل واقع مَیں بعد میں بیان کروں گا ۔اس وقت صرف یہ بتا رہا ہوں کہ اصولی طور پر بائبل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹا نبی ضرور مارا جاتا ہے مگر یہ نہیں کہ جو مارا جائے وہ جھوٹا ہے۔ اس کے متعلق اگر کوئی مشتبہ حوالہ ہو تو اس وقت میرے ذہن میں نہیں لیکن واضح حوالہ کوئی نہیں اصل حوالہ *** والا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس میں نبی کی شرط نہیں بلکہ وہاں یہ لکھا ہے کہ جو لٹکا یا جائے وہ ملعون ہوگا اور بات چونکہ عقل کے خلاف ہے۔ اس لئے وضاحت کردی گئی ہے ۔جو خدا کے حکم سے پھانسی دیا جائے وہ ملعون ہے لیکن بنی اسرائیل کا چونکہ خیال تھا کہ ہم خدا کے جانشین ہیں اس لئے انہیں بھی یہ خیال پیدا ہو گیا کہ جسے ہم لٹکادیں وہ ملعون ہو جائے گا اسی لئے وہ حضرت مسیح ناصری ؑکو صلیب پر لٹکا کر مارنا چاہتے تھے تا انہیںبھی *** ثابت کر دیں مگر خدا نے آپ کو زندہ بچا لیا تاکہ دشمنوںکو جھُوٹی خوشی بھی نصیب نہ ہو ۔پھر اس کے علاوہ جیسا میں نے بیان کیا ہے احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شدید ترین عذاب اُس شخص کو دیا جائے گا جس نے کسی نبی کو قتل کیا ہوگا اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایک گھنٹہ میں۴۳ نبی قتل ہوئے اور بائبل میں بھی اس امر کی شہادت موجو دہے کہ ایک وقت میں یہودی باد شاہوں نے کئی انبیا ء کو قتل کیا۔
پھر قاعدہ کے طور پر قرآن کریم نے بھی فرمایا ہے کہ۸؎ نیز ۹؎پس اصولی طور پر قرآن کریم، احادیث اور بائبل تینوں متفق ہیں اس امر پر کہ انبیا ء قتل ہوسکتے ہیں اگرچہ ایسا بہت شاذ ہوتا ہے ۔ایسا ہی شاذ جیسا کہ اس قاعدہ کے متعلق شاذ ہے کہ بالعموم دنیا میںہی اللہ تعالی انبیا ء کی نصرت کرتا ہے لیکن بعض ایسے بھی ہیں کہ جن کی نسبت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ قیامت کے دن ان کے ساتھ صرف ایک ہی ماننے والا ہوگا مگر یہ استثنائی حالت ہے ۔اسی طرح عام قاعدہ یہی ہے کہ اللہ تعالی انبیاء کو قتل ہونے سے بچاتا ہے مگر استثنائی طور پر بعض قتل کربھی دیئے جاتے ہیں اور اس میں بھی کوئی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے۔
پس قرآن، حدیث اور بائبل تینوں اس مسئلہ میں متفق ہیں اور ایسی متفقہ گواہی کی تردید کے لئے بھی کوئی زبردست وجہ ہونی چاہئے بغیر کسی معقول وجہ کے اس کی تاویل نہیں کی جا سکتی قرآن کریم نے فرشتوں کے وجود کا ذکر کیا ہے مگر سرسید احمد صاحب نے کہا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالی کی طاقتیں ہیں اور یہ تاویل بعض حوالوں کو مد نظر رکھ کر بیشک ہو سکتی ہے لیکن جس وضاحت سے فرشتوں کا ذکر قرآن کریم میںہے ان سب کو مد نظر رکھ کر یہ تاویل کسی صورت میں نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی ایسی تاویل کرے تو ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ میں کوئی زبردست ثبوت ہو ۔اسی طرح ان تینوں بیانات کی تاویل کرنے کے لئے کوئی زبردست شہادت چاہئے کیونکہ جب بائبل،قرآن اور حدیث تینوں قتل کے جوازکو مانتے ہیں تو اصولی طور پر اس کی تردیدکے لئے ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ ہم یہ ثابت کریں کہ بیشک نبی قتل ہوسکتا ہے لیکن حضرت یحیی ؑ کا قتل تاریخ وکتبِ دینیہ سے ثابت نہیں لیکن اس معاملے میں یہ صورت بھی موجودنہیں۔
اب چونکہ دیر ہو گئی ہے میں اِس مضمون کو اگلے خطبہ میں اِنْشَائَ اﷲُ بیان کروں گا ۔‘‘
(الفضل ۱۰؍ ستمبر ۱۹۳۸ئ)
’’اِس خطبہ کے بعد مولوی ابوالعطاء صاحب اورمولوی راجیکی صاحب دونوں کے خطوط ملے ہیں جن میں اُنہوں نے اپنی براء ت کی ہے۔ میں ان کی براء ت کو تسلیم کرتا ہوں۔ میری ہرگز یہ غرض نہیں کہ اُن کی تنقیص ہو میں ان کو مخلص اور سلسلہ کا خادم سمجھتا ہوں، میری غرض صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ صاف اور واضح ہو جائے اورمیں سمجھتا ہوں ان دوستوں کی بھی یہی خواہش ہو گی ۔ایسے امور میں تردید کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے اور نہ اس کی کہ نادان لوگ دھوکا کھا کر ہنسی مذاق کریں ۔وہ جو ایسے امور میں ہنسی کرتا ہے اُس کی روحانیت مُردہ ہے اُس کی پرواہ نہیں کر نی چاہئے یہ تو بڑے خوف کا مقام ہے ۔خاکسار ۔مرزا محمود احمد‘‘
(الفضل ۱۰؍ستمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱)
۱؎ الصّٰفّٰت:۱۴۵
۲؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خَیْبر
۳؎ اسد الغابۃ جلد ۴ صفحہ ۵۵ مطبوعہ بیروت ۱۲۸۶ء
۴؎ تذکرہ صفحہ ۴۶۲۔ ایڈیشن چہارم
۵؎ الحاقۃ: ۴۵
۶؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۹۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء کے الفاظ یہ ہیں ۔ اشْتَدَّ
غَضب اﷲ عَزَّوَجَلّ عَلٰی رَجُلٍ قتل نبیہ۔
۷؎ تفسیر در منثورللسیوطی جلد ۲ صفحہ ۲۳ مطبوعہ ۱۹۹۰ء
۸؎ البقرۃ :۸۸ ۹؎ البقرۃ :۶۲

۳۰
حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے متعلق شہادت
(فرمودہ ۹؍ ستمبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’میرا آج کا خطبہ بھی گزشتہ دونوں خطبات کے تسلسل میں ہی ہے ۔گزشتہ خطبہ میں مَیں نے اس امر پربحث کی تھی کہ اصولی طور پربائیبل قرآن اور احادیث سے انبیاء کے متعلق کیا معلوم ہوتا ہے کہ آیا وہ قتل ہوسکتے ہیں یا نہیں ۔ آج مَیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق خصوصیت کے ساتھ جو باتیں تاریخ یا احادیث یا بائیبل سے ثابت ہیں ان کو بیان کرنا چاہتا ہوں ۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کا مقام ایسا مقام نہیں ہے جو شُبہات پیدا کرنے والا ہو کیونکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام ایک ایسے زمانے میں ظاہر ہوئے جبکہ تاریخ مدون ہونی شروع ہوگئی تھی۔ بعض انبیاء بے شک ایسے زمانوں میں ہوئے ہیں جبکہ تاریخ ابھی مدون ہونی شروع نہیں ہوئی تھی اور اُس وقت کے انبیاء کی نسبت حقیقت کامعلوم کرنابہت مشکل ہے مثلاً حضرت شیث علیہ السلام کے متعلق بڑے اختلافات ہیں۔ حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق بڑے اختلافات ہیں ۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے متعلق بڑے اختلافات ہیں ۔کیونکہ یہ لوگ ایسے زمانوں میں ہوئے ہیں جبکہ تاریخ کی تدوین ابھی شروع نہیں ہوئی تھی اور چونکہ ان انبیاء کے حالات کا مدار زیادہ تر سُنی سنائی باتوں پرتھا۔ اس لئے ان کے متعلق بہت سے اختلافات ہوگئے مگر حضرت یحییٰ علیہ السلام ایک ایسے نبی ہیں جن کے زمانے سے تاریخ کی تدوین شروع ہوئی تھی ۔گو تاریخ کی اصل تدوین رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ سے شروع ہوئی ہے۔ مگربہرحال حضرت یحییٰ علیہ السلام کے زمانہ سے اس کی بنیاد پڑنی شروع ہوگئی تھی ۔
پس جبکہ حضرت یوحنا یا حضرت یحییٰ ؑجیسا کہ قرآن کریم میں ان کا نام آتا ہے۔ ایک تاریخی آدمی ہیں ۔ تو ان کے متعلق تاریخی شہادتیں ہمارے لئے بہت کچھ روشنی کا موجب ہوسکتی ہیں ۔ کیونکہ ایک نبی کی اپنی جماعت ممکن ہے کسی ایسے معاملہ میں جو ان کے مفید پڑتا ہو مبالغہ سے کام لے ممکن ہے دشمن بھی ایسے معاملہ میں جو اس کے حق میں ہو مبالغہ سے کام لے مگر جب دوست دشمن متفق ہوں اور جب ایک تیسرا بے تعلق شخص بھی وہی بات کہے اور پھر وہ اس بات کو تاریخ میں اسی وقت لکھ دے اوروہ تاریخ محفوظ چلی آئے تو اس کے متعلق اگرشکوک و شبہات شروع کردئیے جائیں تو اس کالازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمیں ہربات میں شک کرنا پڑے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بعض لوگوں نے شک کرنا شروع کردیا تو انہوں نے اس حد تک لکھ دیا ۔ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وجود ہی نہ تھا۔ اور بعض نے لکھ دیا کہ حضرت عیسیٰ کا وجود وہمی وجود ہے اوربعض نے یہ لکھ دیا ہے کہ بدھ کوئی آدمی ہی نہیں ہوئے تو اگر ان صداقتوں کاانکار کیا جائے جو تاریخی ہوں اور جن کا مخالف و موافق اقرارکرتے ہوں ۔ تو پھر کوئی ٹھکانا ہی نہیں رہتا ۔ چنانچہ دیکھ لو چکڑالوی فرقہ کے لوگوں نے جب شک کیا تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم وہ نماز نہیں پڑھتے تھے جو آجکل لوگ پڑھتے ہیں ۔
یہ نماز لوگوں نے بعد میں بنالی ہے کیونکہ اس کاذکر بقول ان کے قرآن میں نہیں ہے ۔ اسی طرح بیسیوں واقعات وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ کے تاریخوں میں پڑھتے ہیں۔ مگر چونکہ وہ انہیں اپنے فہمِ قرآن کے رو سے قرآن کریم کے احکام کے مطابق نہیں سمجھتے ۔ اس لئے تاریخی شہادتوں کا بالکل انکار کردیتے ہیں ۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض دفعہ تاریخ بھی غلطی کرجاتی ہے مگرجب تاریخ اور مذہب اور قومی روایات تینوں باتیں جمع ہوںتوپھر ان کو ردّ کرنا انسان کو ایسے مقام پر کھڑا کردیتاہے کہ اس کے لئے کوئی چیز ثابت کرنی ممکن ہی نہیں رہتی اور دنیا کی نگاہوں میں بھی اس کی عزت جاتی رہتی ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے میں نے یہ واقعہ سنا ہؤا ہے۔ آپ فرمایا کرتے کہ کوئی شخص تھا جو بڑا بزرگ کہلاتا تھا کسی بادشاہ کا وزیر اتفاقاً اس کا معتقد ہوگیا اور اس نے ہرجگہ اس کی بزرگی اور ولایت کا پروپیگنڈا شرو ع کردیا ۔اور کہنا شروع کردیا ۔ کہ وہ بڑے بزرگ اور خدارسیدہ انسان ہیں ۔ یہاں تک کہ اس نے بادشاہ کو بھی تحریک کی اور کہا کہ آپ ان کی ضرور زیارت کریں چنانچہ بادشاہ نے کہا ا چھا میں فلاں دن اس کے پاس چلوں گا ۔وزیر نے یہ بات فوراً اس بزرگ کے پاس پہنچا دی اور کہا کہ بادشاہ فلاں دن آپ کے پاس آئے گا آپ اس سے اس طرح باتیں کریں تا کہ اس پر اثر ہوجائے ۔ اوروہ بھی آپ کامعتقد ہوجائے۔ معلوم نہیں وہ بزرگ تھا یا نہیں مگر بے وقوف ضرور تھا ۔جب اسے اطلاع پہنچی کہ بادشاہ آنے والا ہے اور اس سے مجھے ایسی باتیں کرنی چاہئیں جن کا اس کی طبیعت پر اچھا اثر ہو تو اس نے اپنے ذہن میں کچھ باتیں سوچ لیں ۔اور جب بادشاہ اس سے ملنے کے لئے آیا تو وہ کہنے لگا ۔ بادشاہ سلامت آپ کو انصاف کرنا چاہیے دیکھئے مسلمانوں میں سے جو سکندر نامی بادشاہ گزرا ہے وہ کیسا عادل اورمنصف تھا او ر اس کا آج تک کتنا شُہرہ ہے ۔حالانکہ سکندر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ سے سینکڑوں سال پہلے بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی پہلے ہوچکا تھا مگراس نے سکندر کورسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کا بادشاہ قرار دے کر اسے مسلمان بادشاہ قرار دے دیا۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھی سینکڑوں سال بعد ہؤا تھا ۔ کیونکہ سکندر خلافتِ اربعہ کے زمانہ میں تو ہو نہیں سکتا تھا ۔ کیونکہ اس وقت خلفاء کی حکومت تھی ۔حضرت معاویہ کے زمانہ میں بھی نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ اس وقت حضرت معاویہ تمام دنیا کے بادشاہ تھے ۔بنو عباس کے ابتدائی ایامِ خلافت میں بھی نہیں ہوسکتاتھا کیونکہ اس وقت وہی روئے زمین کے حکمران تھے پس اگر سکندر مسلمان تھاتو وہ چوتھی پانچویں صدی ہجری کا بادشاہ ہوسکتا ہے حالانکہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے سینکڑوں سال پہلے گزرا ہے۔ تو وہ جو سینکڑوں سال پہلے کابادشاہ تھا اسے اس شخص نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اوراسلام کی امت میں سے قرار دے دیا ۔نتیجہ یہ ہؤا کہ بادشاہ اس سے سخت بدظن ہو کر فوراً اُٹھ کرچلا گیا۔
تاریخ دانی بزرگی کے لئے شرط نہیں مگریہ مصیبت تو اس نے آپ سہیڑی ۔اسے کس نے کہا تھا کہ وہ تاریخ میں دخل دینا شروع کردے۔ تو تاریخ کا انکار اور ایسی تاریخ کا انکار جس کو غلط کہنے کی کوئی معقول وجہ نہ ہو لوگوں کی نگاہ میں انسان کو گرادیتا ہے ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام بھی ایک ایسے زمانہ میں ہوئے ہیں جو تاریخی زمانہ ہے اور اسی وقت سے کچھ نہ کچھ عیسائیت کی اور کچھ نہ کچھ یہودیت کی تاریخ مدوّن ہوتی نظر آتی ہے ۔چنانچہ یہودیوں کاایک ہی مؤرخ جو دنیا کے بڑے مؤرخین میں سے سمجھا جاتا ہے واقعہ صلیب کے بالکل قریب زمانہ میں پیدا ہؤا ہے یعنی واقعہ صلیب کے ۲۶،۲۷ سال بعد۔ اس کا نام جوزیفس تھا اور چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام ۳۳سال کی عمر میں صلیب پر لٹکائے گئے تھے ۔ اس لئے ہمارے عقیدہ کے رو سے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر کے ۶۹ ویں یا سترھویں سال میں پیدا ہؤا تھا ۔
اور چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر ہمارے نزدیک ایک سو بیس سال کی ہوئی ہے ۔ اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب فوت ہوئے ہیں اس وقت جوزیفس کی عمر پچاس یا ۵۱ سال کی تھی ۔ اور وہ اس وقت تک بہت بڑا مؤرخ بہت بڑا گورنر اور بہت بڑا جرنیل کہلا چکا تھا کیونکہ جوزیفس صرف مؤرخ ہی نہیں تھا بلکہ جرنیل بھی تھا اور گورنر بھی رہاہے ۔ اور اسے صحیح واقعات معلوم کرنے کا پورا موقع حاصل تھا ۔ چونکہ وہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ کے صرف ۳۷ یا ۳۸ سال بعد پیدا ہؤا ہے۔ اس کے بلوغ اور جوانی کے وقت تک یقینا ابھی سینکڑوں ایسے لوگ زندہ ہوں گے جنہوں نے خود حضرت یحییٰ علیہ السلام سے بپتسمہ لیا ہوگا اور لاکھوں اس وقت کے حالات جاننے والے اور عَینی شاہدوں سے سننے والے موجود ہوں گے ۔آج غدر پر ۸۲ سال گزر چکے ہیں ۔ مگر کیا ۸۲ سال کے واقعہ پر کوئی شُبہ کرسکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ غدر ہؤا ہی نہیں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے غدر میں شمولیت کی اور وہ اُس وقت کے چشم دید واقعات بیان کرتے ہیں ۔
تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شخص میری بیعت کے لئے آئے ان کی باتوں سے مجھے یوں محسوس ہؤا کہ وہ بہت بڑی عمر کے ہیں ۔ کیونکہ وہ پرانی پرانی باتیں بیان کرتے تھے ۔ میں نے ان سے کہا معلوم ہوتا ہے آپ کی عمر بہت بڑی ہے اور غالباً آپ اسّی نوے سال کے ہوں گے وہ کہنے لگا ۔ اسّی نوے سال؟ میری عمر تو۱۴۱ سال کی ہے دس بارہ سال ہوئے گجرات سے ایک دوست بیعت کے لئے آئے تھے ۔انہوں نے اپنی عمر ایک سو بیس سال بتائی تھی اگروہ زندہ ہیں تو گویا یہ دونوں ہم عمر ہیں ۔ انہوں نے بیان کیا کہ غدر میں انہوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ اوروہ اُس وقت کی باتیں اس طرح بیان کرتے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا گویا قبروں میں سے کوئی آدمی اٹھ کر آگیا ہے ۔ اور وہ باتیں بیان کررہا ہے اور ابھی ماشاء اللہ ان کے قویٰ اچھے خاصے ہیں ان سے معلوم ہؤا کہ وہ حضرت خلیفہ اول کے استاد کے استاد کے مرید اور شاگرد ہیں اور ان کے پیراور مولوی محمد قاسم صاحب نانو توی بانی مدرسہ دارلعلوم دیوبند کے پیر ایک ہی شخص تھے ۔کئی واقعات جو ہم حضرت خلیفہ اول سے سنا کرتے تھے وہ انہوں نے اس مجلس میں بیٹھے بیٹھے سنائے۔ اور وہ اسی طرح تھے جس طرح ہم نے حضرت خلیفہ اول سے سنے تھے ۔ وہ سر ساوہ کے رہنے والے ہیں جہاں کے شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی ہیں۔ میں نے جب تعجب سے ان سے پوچھا کہ آپ تو شیخ اسماعیل صاحب سرساوی سے بہت بڑے ہوں گے تو وہ کہنے لگے آ پ ان سے کہتے ہیں ۔میں تو ان کے والد جن کا یہ نام تھا اُن سے بھی عمر میں بہت بڑا تھا ۔
پھر کہنے لگے ۔ پیر سراج الحق صاحب مرحوم کو تو میں نے گودی میں کھلایا ہے تو ایسے آدمی دنیا میں آجکل بھی پائے جاتے ہیں جن کی عمریں بہت بڑی ہیں اور وہ سَو سَوا سَو سال کے واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ گزشتہ سال مجھے ایک بوڑھے آدمی ملے۔ ان کی شکل حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی سے اس قدرملتی جلتی تھی ۔ کہ مَیں نے دیکھتے ہی کہا ۔ آپ ان کے رشتہ دار ہیں ۔ انہوں نے کہا۔ میں ان کا چچا ہوں۔ اور ان کی عیادت کے لئے آیا ہوں ان کے چہرے سے جس قسم کی طاقت ظاہر ہوتی تھی اس سے اندازہ کرکے مَیں نے قیاس کیا کہ یہ غالباً ان سے چھوٹے ہیں کیونکہ بعض اوقات بھتیجے کی عمر چچا سے زیادہ بھی ہوتی ہے اس لئے میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ حافظ صاحب سے چھوٹے ہیں ۔اس پر انہوں نے جواب دیا۔
’’ جدوں اس دی مائو دا ویاہ ہویا سی اودوں میں اٹھارہ وریاں دا ساں ‘‘
یعنی جب ان کی والدہ کی شادی میرے بھائی سے ہوئی تھی اس وقت میری عمر اٹھارہ برس کی تھی ۔ حافظ صاحب کے قویٰ بھی مضبو ط تھے گواب بیماری کی وجہ سے وہ کمزور ہوگئے ہوں ۔ مگر پھر بھی ان کا اپنے چچا سے کوئی جوڑ ہی نہیں ۔ پھرانہوں نے کہا ۔ اس وقت میری عمر ۹۸،۹۹ سال کی ہے ۔ اور چونکہ یہ گزشتہ سال کا واقعہ ہے اس لئے اب وہ ۹۹ سال یا سَوسال کے ہوں گے۔ تو ایسے آدمی بھی ہوتے ہیں جو خاص طور پر لمبی عمر رکھنے والے ہوتے ہیں۔ میں نے اپنے تجربہ میں ہی ایسے کئی آدمی دیکھے ہیں ۔ہماری تائی صاحبہ تھیں وہ بھی سَوسال کی تھیں ۔ اسی طرح اورکئی لوگ ہوتے ہیں قادیان کے ایک نائی تھے جو قریباً سَو سال کی عمر میں فوت ہوئے ۔گویا قادیان میں ہی تین چار آدمی مجھے ایسے معلوم ہیں۔ جنہوںنے سَوسال یا اس سے زیادہ عمر پائی۔ تو اگر چھوٹے چھوٹے قصبات میں بھی تین چار ایسے آدمی مل سکتے ہیں جو اتنی لمبی عمر پانے والے ہوں تو ایک قوم میں تو یقینا سینکڑوں ایسے آدمی ہوتے ہوں گے جن کی عمر سَو سال کے قریب ہوتی ہوگی ۔
پس جوزیفس کی جوانی کے وقت جو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ سے ستاون اٹھاون سال بعد کا زمانہ ہے ۔یقینا سینکڑوں آدمی موجود ہوں گے جو اس وقت کے عَینی شاہد یا صحیح حالات جاننے والے ہوں گے کیونکہ جوزیفس کے متعلق اگریہ سمجھا جائے کہ اس نے بیس بائیس سال کی عمر میں حالات جمع کرنے شروع کئے۔ تو جو لوگ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ کے وقت بیس سال کی عمر کے ہوں ۔ ان کی عمر جوزیفس کی بیس سال کی عمر کے وقت چھہتّر ستتر سال کی ہوتی ہے ۔ پس یقینا ان کے خاص مریدوں یا ان کے حالات کو دیکھنے والے غیر جانبدار لوگوں سے واقعات سن کر جوزیفس نے اپنی تاریخ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی وفات کے واقعات لکھے تھے۔ اس کے علاوہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے مریدوں میں سے ایسے لاکھوں آدمی اس وقت موجود تھے جو گویا تابعی تھے ۔اور جنہوں نے اس وقت کے حالات دیکھنے والوں سے حالات سنے تھے ۔ان سب سے معلوم ہوسکتا تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام طبعی موت سے فوت ہوئے ہیں یاشہید کئے گئے ہیں۔ بس جوزیفس کی گواہی نہایت ہی زبردست گواہی ہے یہ ۳۶۔۳۷ء میں پیدا ہؤا۔ گویا اس وقت پیدا ہؤا ۔ جب حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ پر ابھی صرف ۳۷ سال گزرے تھے ۔ اور اگر تاریخ کی تدوین کے وقت اس کی عمر بیس سال سمجھی جائے تو گویا جس وقت اس نے تاریخ لکھی حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ قتل پرصرف ۷ ۵ سال گزرے تھے یہ شخص حضرت یحییٰ علیہ السلام کا مرید نہیں نہ عیسائی او ررومی ہے۔بلکہ یہودی ہے اور اس وجہ سے اس کی گواہی بالکل غیر جانبدارانہ ہے اس نے اپنی تاریخ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے واقعات نہایت تفصیل سے لکھے ہیں ۔ وہ لکھتا ہے بادشاہ ہیرو ڈانٹی ایس نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا رسوخ دیکھ کر اس ڈر سے کہ زور پکڑ کر بغاوت نہ کردیں مینجرسکے قلعہ میں ان کوقید کردیا اور بعد میں مروادیا (ہیرو ڈانٹی ایس گورنر تھا ۔مگرچونکہ پرانے زمانہ میں گورنروں کو بادشاہ کہہ دیا جاتا تھا اس لئے جوزیفس نے بھی ہیرو کو بادشاہ قرار دیا ہے ،ورنہ درحقیقت وہ بادشاہ نہیں بلکہ گورنر تھا ایشیا میں پرانے زمانہ میں یہی طریق رائج تھا چنانچہ الف لیلیٰ میں نہایت کثرت سے گورنروں کو بادشاہ کے نام سے پکارا گیا ہے )
اس واقعہ شہادت کی تفصیلات تاریخ میں اس طرح آتی ہے کہ ہیرو ڈانٹی ایس کا ایک بھائی فیلبوس نامی تھا۔ جب وہ مرا۔ تو ہیرو ڈانٹی ایس نے چاہا کہ اس کی بیوی ہیرو دیاس سے شادی کرلے۔ اس کے خلاف حضرت یحییٰ علیہ السلام نے بعض اخلاقی وجوہ سے اعتراض کیا ۔ شُبہ یہ کیا جاتا ہے کہ ہیروڈانٹی ایس کا پہلے سے اس عورت کے ساتھ ناجائز تعلق تھا۔ اور اسی نے اپنے بھائی کو مرواڈالا تھا۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ عورت خود خراب اور بدچلن تھی اوراس نے اپنے خاوند کو مروا دیا ۔
بہرحال حضرت یحییٰ علیہ السلام کا اعتراض تاریخی طور پر ثابت ہے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ شادی مناسب نہیں کیونکہ اس طرح قوم کے اخلاق پر بُرا اثر پڑنے کااندیشہ ہے چونکہ وہ یہودیوں کا علاقہ تھا اور گورنر کو یہودیوں کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا اس لئے اس نے شادی تو نہ کی مگر دل میں اس نے اس بات کو بہت بُرا محسوس کیا۔ اور اس عورت کو بھی لازما بُرا محسوس ہؤا۔ کہ میں ملکہ بننے والی تھی ۔ مگر حضرت یحییٰ کی وجہ سے نہ بن سکی۔ چنانچہ اس نے اندر ہی اندر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے خلاف سازش شروع کردی بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نے اس عورت سے شادی کرلی تھی ۔اور اپنے گھر میں رکھ لیا تھا ۔ بہرحال ہیروڈانٹی ایس اوراس عورت کو اس بات کا غصہ تھا کہ حضرت یحییٰ نے ان کے رستہ میں رکاوٹ کیوں ڈالی۔ ایک دفعہ جب کہ ہیروڈانٹی ایس کی سالگرہ کا دن تھا تو ہیرو دیاس کی بیٹی جو ہیروڈانٹی ایس کی بھتیجی تھی اس کے سامنے ناچی۔
(ہمارے دوستوں کو اس موقع پر تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ ایک بھتیجی چچا کے سامنے کس طرح ناچ سکتی ہے۔ یہ رومیوں کی بات ہے اور ان میں شراب پینااور ناچ کرنا دونوں باتیں جائز سمجھی جاتی تھیں)بہرحال جب وہ ناچی تو ہیرو ڈانٹی ایس بہت ہی خوش ہؤا اور اس نے کہا مانگ جو کچھ مانگتی ہے ۔ اِس پر جیسا کہ اس کی ماں ہیرو دیاس نے اُسے سکھا رکھا تھا کہا کہ مَیں یحییٰ کاسر مانگتی ہوں ۔ بادشاہ نے کہا۔ اگر میں نے یحییٰ کو قتل کرایا تو بغاوت ہوجائے گی ۔ وہ کہنے لگی کچھ ہو آپ نے وعدہ کیاہے کہ میں جو کچھ مانگوں گی آپ دیں گے۔ پس آپ اپنے وعدے کاپاس کریں۔ اس پر بادشاہ نے اپنے آدمی بھجوا کر قید خانہ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کو قتل کرادیا اوران کا سرلڑکی کے سامنے رکھ دیا۔
اب یہ واقعہ ایک غیر جانبدار مؤرخ لکھتا ہے کوئی عیسائی نہیں لکھتا۔ کوئی یہودی نہیں لکھتا (یعنی ایسا یہودی نہیں لکھتا جو مذہبی آدمی ہو اور نہ یہ واقعہ وہ کسی مذہبی بناء پر لکھ رہا ہے ۔ بلکہ ایک مؤرخ ہونے کی حیثیت میں تاریخی بنا پر یہ واقعہ لکھ رہا ہے) اور ایسی حالت میں لکھتا ہے ۔ جبکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل پر ابھی صرف پچاس ساٹھ سال کا عرصہ گزرا اور اس وقت کے واقعات کو جاننے والے سینکڑوں زندہ ہوتے ہیں ۔ اور کوئی جھوٹ اور غلط بات نہیں لکھی جاسکتی۔ پھر یہ مؤرخ کوئی معمولی نہیں ۔بلکہ ایساسچ بولنے والا مؤرخ ہے کہ عیسائی بھی اس کی باتیں تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جوزیفس نہایت راستباز مؤرخ تھا ۔ وہ جان بوجھ کر غلط بیانی کبھی نہیں کرتا ۔ہاں اتفاق سے کوئی غلطی کرجائے تواور بات ہے ۔ اسی وجہ سے عیسائی مؤرخ اس کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ اور یہودی بھی بڑی قدر کرتے ہیں ۔
راستباز اور مشہور مؤرخ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے صرف پچاس ساٹھ سال بعد لکھتا ہے کہ ہیرڈ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو قتل کرایا۔ اور جب لڑکی نے یحییٰ کا سرمانگا تو اس نے کہا ۔ کہ حضرت یحییٰ کو ماننے والے بہت ہیں اگر مَیں نے انہیں قتل کرایا تو بغاوت ہوجائے گی۔ جس پر لڑکی نے کہا ۔کہ آپ نے جب وعدہ کیاہے تو اسے پورا کریں ۔ خواہ کچھ ہو ۔ چنانچہ اس نے قید خانہ میں آپ کو قتل کرایا۔ اور آپ کا سر منگوا کراپنی بھتیجی کے سامنے پیش کیا۔ اگرحضرت یحییٰ علیہ السلام کے مریدوں اور انجیلوں کے بیانوں کے ساتھ ایک ایسے مشہور اور راستباز مؤرخ کا بیان بھی مل جاتا ہے جو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے صرف پچاس سال بعد آپ کا واقعہ لکھ رہا ہے اور پھر بھی ہم اسے درست تسلیم نہ کریں تو ہم کسی بات کو بھی یقینی نہیں کہہ سکتے ۔ پھر توغدر کے متعلق بھی شُبہ کیا جاسکتا ہے ۔ کہ ہؤا یا نہیں یہ بھی شُبہ ہوسکتا ہے ۔کہ انگریز کہیں باہر سے نہیں آئے بلکہ ہندوستان ہی کی ایک قوم ہیں۔
یہ بھی شُبہ ہوسکتا ہے کہ شاید مولوی اسماعیل صاحب شہید کوئی آدمی ہی نہیں گزرے۔ ابوظفربادشاہ کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کا کوئی تاریخی وجود نہ تھا ۔ کیونکہ ان کی موت پر ۸۲ سال گزر چکے ہیں۔ اوراتنی دیر کی بات صحیح نہیں سمجھی جاسکتی سید احمد صاحب بریلوی پر سَو سال سے اوپر گزر چکے ہیں ان کے وجود میں بھی شُبہ کیا جاسکتا ہے پھر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت پر قریباً نوے سال گزر چکے ہیں ان کے وجود کا بھی انکار کیا جاسکتا ہے مگر کیا ان تمام واقعات میں سے کسی ایک کے متعلق بھی ہمیں شُبہ ہؤا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ان میں شُبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ قریب کے واقعات ہیں۔ اور ہزاروں لوگ جانتے ہیں کہ یہ باتیں ہوئی ہیں۔ اسی طرح یہ ناممکن ہے کہ جوزیفس کی شہادت کو ردّ کیاجاسکے۔ کیونکہ وہ ایک ایسے زمانہ میں ہؤا ہے جبکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ پر ابھی صرف پچاس ساٹھ سال گزرے تھے۔ اور ہزاروں نہیں لاکھوں آدمی ان کے مریدوں میں سے زندہ تھے۔ اور اسوقت کے حالات کو دیکھنے والے یا دیکھنے والوں سے سننے والے موجود تھے ۔ ایسے زمانہ میں ایسا مشہور مؤرخ یہ نہیں لکھتا ۔کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام فوت ہوئے ہیں بلکہ یہ لکھتا ہے کہ وہ قتل کئے گئے ۔ پس ان کا قتل تاریخی طور پر یقینا ثابت ہے۔
پھرتاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی جماعت صدیوں تک قائم رہی ہے اورصدیوں تک ان پر ایمان لانے والے دنیا میں موجود رہے ہیں۔ اور ان تمام کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں عیسائی بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ شہید ہوئے یہودی بھی یہی کہتے ہیںکہ وہ شہید ہوئے ۔ مؤرّخ بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ شہید ہوئے۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ اُس وقت حضرت یحییٰ کے ملک میں تین قومیں موجود تھیں اور تینوں کی متفقہ شہادت یہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے۔یہودی کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے، عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے مرید کہتے ہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے پھران تینوں قوموں کی شہادت کے ساتھ مؤرخوں کی شہادت بھی مل جاتی ہے اور وہ بھی کہتے ہیں ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے۔ ان تمام واقعات کی موجودگی میں اگرہم انیس سو سال کے بعد آج اُٹھ کر یہ کہہ دیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں کئے گئے تو دنیا کس طرح ہماری اس بات کو مان سکتی ہے۔یا خود ہماری عقلیں کس طرح اس عقیدہ کو تسلیم کرسکتی ہیں ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ کیا انیس سو سال تک لوگ یہ نہیں کہتے رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر لٹک کر فوت ہوئے ہیں اور کیا انیس سَو سال کے بعد جماعت احمدیہ نے اس نظریہ کو نہیں بدلا؟ پھر اگر یہ کہہ دیا جائے کہ انیس سَو سال تک عیسائی، یہودی اور مؤرّخ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق جو کچھ کہتے رہے وہ غلط ہے تو اس میں عجیب بات کون سی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم واقعہ صلیب کے متعلق عیسائیوں اور یہودیوں کی گواہی اس لئے تسلیم نہیں کرتے کہ اس میں عیسائیوں اور یہودیوں کی خود غرضی ہے۔ اور وہ اگر سچی بات بیان کریں تو ان کے اپنے مذہب پرپانی پھرتا ہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر لٹک کر فوت ہوئے ۔ اور اس میں یقینا عیسائیوں کافائدہ ہے کیونکہ ان کے کفارہ کی بنیاد اسی امر پرہے کہ مسیح نے ان کے گناہ اٹھالئے۔ اور ان کے بدلہ میںخود جان دے دی ۔ یہودی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پرمرے ۔ مگر اس لئے کہ وہ چاہتے ہیں حضرت مسیح کو ملعون ثابت کریں چونکہ وہ حضرت مسیح کو ماننا نہیں چاہتے۔ بلکہ چاہتے ہیں انہیں ملعون ثابت کریں۔
اس لئے وہ کہتے ہیں مسیح صلیب پرلٹکا اور پھروہاں سے زندہ نہیں اترا بلکہ صلیب پر لٹک کر مرگیا ۔اور تورات کے مطابق نعوذ باللہ ملعون ثابت ہؤا۔ اسی طرح رومی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوئے مگر اس لئے کہ رومی گورنرپیلاطس پر جو ہیرو ڈانٹی ایس کے ماتحت تھا یہ الزام آتا تھا کہ اس پر حضرت مسیح کو بچانے کی کوشش کی ۔ پس چونکہ اس پر بھی الزام آتاتھا اس لئے لازماً اس نے بھی حقیقت پرپردہ ڈالنا تھا پس چونکہ وہاں تینوں قوموں کامفاد اسی امر میں تھا کہ یہ مشہور کریں کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پرلٹک کر فوت ہوگئے ہیں۔ اسی لئے ان کی شہادت مخدوش تھی مگر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق یہ کہتے میں کہ وہ شہیدہوگئے ہیں ان کی قوم کو کیافائدہ تھا وہ تو اس امر کی قائل نہیں کہ حضرت یحییٰ ان کے گناہوں کا بوجھ اٹھا کران کے لئے کفارہ بن گئے ۔ پھرانہیں اپنے پیر کے شہید ہونے کی خبر دینے کا کیافائدہ تھا۔
خصوصاً جب کہ اس وقت بعض یہود کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ جو مارا جائے وہ جھوٹا ہوتا ہے وہ اپنے پیر کوجھوٹا کس طرح بناسکتے تھے اسی طرح یہودی جب حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ وہ صلیب پر لٹک کر فوت ہوئے تو ہر شخص کو نظر آرہا ہوتا ہے کہ ان کامقصد یہ ہے کہ حضرت مسیح کوملعون ثابت کریں مگرحضرت یحییٰ علیہ السلام کو مقتول قراردیتے ہیں ان کی یہ غرض تو نہیں ہوسکتی کیونکہ جو یہود ان کے مرید نہ تھے وہ بھی انہیں برگزیدہ انسان تسلیم کرتے تھے اسی طرح عیسائی بھی یہی مانتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے تھے حالانکہ ان کوشہید ماننے میں نہ صرف یہ کہ عیسائیوں کاکوئی فائدہ نہیں بلکہ ان پر بہت بڑا اعتراض وارد ہوتا ہے ۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بے گناہ مانتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بھی راستباز مانتے ہیں۔
پس جب وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ہمارے گناہوں کے بدلہ میں کفارہ ہوگئے تو ایک کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اس میں مسیح کی کیا خصوصیت ہے یحییٰ نبی کے متعلق بھی تم تسلیم کرتے ہو کہ وہ راستباز اور بے عیب تھا۔پس اگر وہ بھی مارا گیا تو اس کی نسبت بھی کہنا چاہیے کہ لوگوںکے گناہ اٹھا کرلے گیا ۔ اس صورت میں حضرت مسیح علیہ السلام کی جو منفردانہ حیثیت ہے وہ بالکل جاتی رہتی ہے۔
پس حضرت یحییٰ علیہ السلام کو شہید تسلیم کرنے میں عیسائیوں کابھی کوئی فائدہ نہیں ۔بلکہ الٹا اُن پراعتراض وارد ہوتا ہے ۔ اورکہنے والاکہہ سکتا ہے کہ یوحنا بھی کفارہ ہوگیا ۔اورتم اپنے مسیح کی جو خصوصیت پیش کرتے ہو وہ جاتی رہی۔
پس حقیقت یہ ہے کہ گو حضرت یحییٰ قتل ہوئے تھے مگرعیسائی یہی کہتے کہ وہ کوئی قتل نہیں ہوئے تا حضرت مسیح کی اس منفردانہ حیثیت پرحملہ نہ ہو جو وہ پیش کرتے ہیں۔ مگرباوجود اس اعتراض کے وارد ہونے کے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہیدہوئے ۔ پس اس میں کسی کافائدہ نہ تھا۔ بلکہ ان کا قتل تسلیم کرنے میں عیسائیوں کا نقصان تھا۔ کیونکہ اس طرح انہیں مانناپڑتا تھا کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی بے گناہوں کے لئے کفارہ نہیں ہوئے بلکہ ایک اور بے گناہ بھی گنہگاروں کے لئے کفارہ ہؤا۔ اوردشمنوں کی شرارت سے مارا گیا ۔ اور اس کوتسلیم کرناعیسائیوںکے لئے سخت گراں ہے۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں جو لوگوں کے لئے کفارہ ہوئے۔
ممکن ہے کوئی کہے کہ عیسائی پہلے بھی بعض نبیوں کے قتل کے قائل ہیں۔ پس حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قتل ماننے سے ان پر زیادہ اعتراض کس طرح آسکتا ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک وہ بعض اور انبیاء کے قتل کے بھی قائل ہیں۔ مگرحضرت یحییٰ علیہ السلام وہ ہیں جنہیں وہ بے گناہ قراردیتے ہیں اور جن کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بیعت کی تھی۔ اور جن کے متعلق ایک راستباز اور بے عیب کے الفاظ اناجیل میں آتے ہیں۔ پس حضرت یحییٰ علیہ ا لسلام کے واقعۂ قتل اوردوسرے بعض انبیاء کے واقعۂ قتل میں بہت بڑا فرق ہے ۔ دوسرے انبیاء پریہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں گناہ کئے۔ مگرحضرت یحییٰ علیہ السلام کی اناجیل میں تعریفیں کی گئی ہیں۔ پس حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قتل تو عیسائیوں کے خلاف حربہ قرارپاسکتا ہے۔ مگراورانبیاء کاقتل ان کے خلاف حربہ قرار نہیں پاسکتا ۔ ان کے متعلق کہنے والا کہہ سکتا ہے ۔ کہ جیسی قربانی حضرت مسیح علیہ السلام نے کی ویسی ہی قربانی حضرت یحییٰ علیہ السلام نے کی دونوں میں کونسا فرق ہے ۔وہ بھی کفارہ ہوئے اوریہ بھی۔ غرض عیسائیوں کافائدہ اسی میں تھا کہ گو حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے۔ وہ یہی کہتے ۔ کہ وہ شہید نہیں ہوئے۔ مگر باجود اس کے کہ ان کا اپنامفاد ان کو شہید تسلیم نہ کرنے میں تھا۔ پھر بھی وہ اس امرکے قائل ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق باوجود یکہ رومیوں ،یہودیوں اورعیسائیوں تینوں کا فائدہ اسی امر میں تھا کہ آپ کو صلیب پرفوت شدہ ثابت کریں۔ پھر بھی کس طرح حق پھُوٹ پھُوٹ کر ظاہرہوگیا ۔ رومی اوریہودی کہتے تھے کہ آپ صلیب پر فوت ہوگئے مگر انہیں دنوں یہودیوں نے روم کے گورنر کے پاس شکایت کی کہ مسیح کے مرید یہ کہتے پھرتے ہیںکہ مسیح زندہ ہوگیا ہے پس اس کی قبر پر پہرہ لگایاجائے۔ چنانچہ گورنر نے یہود کے کہنے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر پر پہرے لگادئیے ۔ گویا یہودیوں نے بھی حضرت مسیح کے زندہ ہونے کی خبر تسلیم کرلی۔ اور گورنر روم نے بھی ان کی بات پر اعتبار کرلیا ۔ اوراس نے ضروری سمجھا کہ آپ کی قبر پر پہرہ لگائے پھر عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوئے۔ مگرانجیل میں صاف لکھا ہے کہ قبر میں سے نکل کر حضرت مسیح لوگوں سے چھُپ کر یروشلم میں پھرتے رہے ۔ انہوں نے اپنے حواریوں کو اپنے زخم دکھائے۔ اور کہا کہ میرے ہاتھ پائوں کو دیکھو کہ میں ہی ہوں اور مجھے چھوئو اور دیکھو ۔کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیں۔ جیسامجھ میں دیکھتے ہو اور یہ کہہ کر انہیں اپنے ہاتھ پائوں دکھائے ۔ اور پھر بھُنی ہوئی مچھلی کاقتلہ لے کران سے کھایا ۔ بلکہ اس کے بعد انہوں نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ پھر وہ انہیں ایک پہاڑ پرلے گیا اور برکت دے کر غائب ہوگیا ۔ پس اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پر سے زندہ اترے تو تاریخ ہمیں یہ کہنے کا حق دیتی ہے اورہم صرف یہیں تک بس نہیں کردیتے کہ ثابت کردیں وہ صلیب پر سے زندہ اُتر آئے بلکہ ہم پھر ان کی بعد کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہیں ۔ اور کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخر میں کشمیر میں لا کر ان کی قبر بھی دکھادیتے ہیں۔ اوریہ سب کچھ تاریخی شواہد سے ثابت کرتے ہیں ۔ پس چونکہ اس بحث میں ہم تاریخی تائید اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور ہمارے مخالف تاریخی پہلو کو ترک کرتے ہیں اس لئے ہم غالب رہتے ہیں اوروہ مغلوب۔ لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے بلکہ زندہ رہے تھے تو اِس سوال کا جواب ہمارے پاس کوئی نہیں کہ پھر ان کے قتل کی خبر کیونکر مشہور ہوئی اور کس طرح ان کے مریدوں، عیسائیوں اوردو سرے یہود نے اسے صحیح تسلیم کرلیا۔ اور یہاں تک کہہ دیا کہ ہم نے ان کی لاش خود دفن کی ہے اور کس طرح اس واقعہ پر پردہ پڑا رہا۔ حتّٰی کہ قریب زمانہ بعد میں آنے والے بھی یہی قصہ لکھنے پرمجبور ہوئے۔اورپھر یہ کہ اگر حضرت یحییٰ مارے نہیں گئے تھے تو انہوں نے بقیہ زندگی کہاں گزاری اور کہاںچھپے رہے اور کیوں چھپے رہے اور ان کے مرید کیوں ان سے نہ ملتے تھے اور گورنر کو یہ دھوکاکس طرح لگا کہ میرے آدمیوں نے حضرت یحییٰ کو قتل کردیا ہے۔ اور سر جولایا گیا وہ کس کا تھا۔ اور اسے دیکھ کر کیوں نہ ہیرود یاس جو اُن کی دشمن تھی اس نے نہ پہچانا کہ یہ تو یحییٰ نہیں ہیں ۔ غرض ان کے قتل کے واقعات کی تشریح کرنی اور قتل سے بچ جانے کے بعد کے واقعات کا معلوم کرنا ہمارے لئے ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ ان کی حیثیت ایک مزدور کی سی نہ تھی کہ جو مر جائے تو کانوں کان کسی کو خبر بھی نہ ہو۔ وہ ایک قوم کے نبی تھے۔ لاکھوں ان کے اتباع تھے۔ بلکہ اُس زمانہ میںان کے مرید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مریدوں سے بہت زیادہ تھے ۔ سارے یہودی ان کا ادب کرتے تھے ۔ا وربادشاہ ہیرڈ بھی اس قدر ڈرتا تھا کہ وہ سمجھتا تھا اگرمیں نے انہیں قتل کردیا تو تمام ملک میں بغاوت ہوجائے گی ۔
ایسا عظیم الشان شخص اگر اس وقت دشمن کے حملہ سے بچ گیا تھا ۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر گیا کہاں۔ آخر کوئی پتہ نشان تو ملنا چاہیے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب صلیب سے زندہ اُترے تو ان کے متعلق تو یہ معلوم ہوگیا کہ وہ وہاں سے ہجرت کرگئے ۔ اورآخر کشمیر میں آکر ایک لمبا عرصہ زندہ رہنے کے بعد فوت ہوئے۔ مگرحضرت یوحنا کچھ ایسے بچے کہ غائب ہی ہوگئے اور پتہ ہی نہیں لگتا کہ بچ کر وہ کہاں گئے تمام تاریخیں خاموش ہیں۔ تمام لوگ ساکت ہیں نہ دشمن کہتا ہے کہ جس کو ہم نے قتل کرنا چاہا تھا وہ تو فلاں ملک میں بیٹھا ہے نہ کوئی مرید ان کے پیچھے جاتا ہے اور ان کا پتہ لگاتا ہے۔ گویا نہ دشمن کہتا ہے کہ وہ زندہ ہیں نہ دوست اور مرید کہتے ہیں کہ زندہ ہیں۔ تاریخیں خاموش ہیں اس کے بعد ان کی زندگی کا کوئی کام بھی نظرنہیں آتا ۔ ایسی صورت میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ قتل نہیں ہوئے تھے ۔ تو یقینا ایک ایسی بات ہوگی جس کی تائید کسی ایک تاریخی ثبوت سے بھی نہیں ہوگی ۔ مگرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق جب ہم کہتے ہیں کہ وہ صلیب سے زندہ اترے تو تاریخ ہمارا ساتھ دیتی ہے۔ اور وہ ہمارے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں آپ کی قبر تک پہنچا دیتی ہے۔ پس چونکہ اس قسم کے تاریخی شواہد حضرت یحییٰ علیہ السلام کے ساتھ نہیں۔ اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ قتل نہیں ہوئے تھے۔
میں نے بتایا ہے کہ انجیل بھی یہی شہادت دیتی ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے چنانچہ متی بات ۱۴ میں لکھا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ ا لسلام حضرت مسیح کی فلسطینی زندگی میں ہی وفات پاگئے تھے ان کے قتل کا واقعہ متی میںاس طرح لکھا ہے کہ ہیرود یس نے اپنے بھائی فیلبوس کی بیوی کو گھر میں ڈالنا چاہا یوحنا نے روکا۔ ہیرو دیس نے آپ کو مارنا چاہا مگر لوگ نبی مانتے تھے اس لئے رُک گیا ایک دن سالگرہ میں ہیرودیاس کی بیٹی (فیلبوس سے) ناچی اور ہیرودیس نے کہا۔ جو مانگے دو ں گا۔ اس پر اس نے اپنی ماں کے سکھانے کے مطابق یوحنا کا سرمانگا ۔ بادشاہ خائف تو ہؤا مگر وعدہ پورا کیا ۔اورقید خانہ میں قتل کرادیا۔ شاگردوں نے لاش دفن کی اوریسوع کو آکر اطلاع دی۔ ۱؎
یہ انجیل کی روایت ہے ادھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے مرید کہتے ہیںکہ وہ شہید ہوئے تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی جماعت دیرتک قائم رہی حتّٰی کہ ان کے بعض مرید رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ تک بھی رہے ہیں وہ صابی کہلاتے تھے ۔ اور توحید کے قائل تھے بعد میں آہستہ آہستہ عیسائیوں میں شامل ہوگئے ۔ قرآن مجید میں بھی ان کا ذکر آتا ہے ۔ پس حضرت یحییٰ علیہ السلام کی جماعت سینکڑوں سال تک قائم رہی ہے۔ اور یہ سب اسی بات کے دعویدار تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں۔ ان کو بھلایہ کہنے میں کہ ان کا پیر شہید ہؤاہے کیا فائدہ تھا۔ وہ کفارہ کے قائل نہیں تھے۔ کہ عیسائیوں کی طرح یہ کہتے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام ان کے گناہوں کے بدلہ میں مارے گئے ہیں۔ وہ موحّدتھے اور اسلامی تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ تک موحّد رہے ہیں۔ اب ایک موحّد قوم کا بھلا اس میں کیا فائدہ تھا کہ وہ اپنے پیر کے متعلق یہ کہے کہ وہ قتل ہوئے تھے۔ وہ تو اسی لئے انہیں شہید کہے گی جبکہ واقعات یہی کہتے ہوں گے ۔ کہ وہ شہید ہوئے تھے پھر ہم دیکھتے ہیں علاوہ تینوں قوموں یعنی رومیوں ، یہودیوں اور عیسائیوں کی تاریخ کے احادیث بھی اسی بات کی تائید کرتی ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے۔
ابن عسا کر نے روایت کی ہے کہ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلٰی اَصْحَابِہٖ یَوْمًا وَھُمْ یَتَذَاکَرُوْنَ فِیْ فَضْلِ الْاَنْبِیَائِکہ ایک دن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ نے دیکھا کہ صحابہ مسجد میں بیٹھے آپس میں انبیاء کی فضیلتوں کے بارہ میں گفتگو کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا مجھے فلاں نبی کی فلاں بات پسند ہے کوئی کہتا فلاں نبی کی یہ بات بڑی اچھی تھی غرض اسی طرح آپس میں باتیں کررہے تھے فَقَالَ قَائِلٌ مُوْسٰی کَلَّمَہُ اﷲُ تَکْلِیْمًاکسی کہنے والے نے کہا موسیٰ بڑا نبی تھا کیونکہ خدا نے اُس سے بِالمشافہ گفتگو کی ۔ قَالَ قَائِلٌ عِیْسٰی رُوْحُ اﷲُ وَکَلِمَتُہٗ کسی نے کہا عیسیٰ بڑا نبی تھا وہ اللہ کی روح اور اُس کا کلمہ تھا۔ قَالَ قَائِلٌ اِبْرَاہِیْمُ خَلِیْلُ اﷲِ۔ کسی نے کہا ابراہیم بڑا نبی تھا۔ وہ خدا کا خلیل اور دوست تھا۔ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَیْنَ الشَّھِیْدُبْنَ الشَّہِیْدِ یَلْتَبِسُ الْوَبَرَوَ یَأَکُلُ الشَّجَرَ مَخَافَۃَ الذَّنْبِ۔ یَحْیٰی بْنَ زَکَرِیَّا۔۲؎ یعنی یہ ذکر سن کر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی صحابہ میں بیٹھ گئے اورآپ نے فرمایا تم ان انبیاء کی فضیلتوں کا ذکر کرتے ہو مگر تم اس شہید کے شہید بیٹے کا کیوں ذکر نہیں کرتے جو ساری عمر گناہ کے خوف سے صوف کے کپڑے پہنتا رہا اور جنگلوں میں رہتا اور پتے کھا کھا کر گزارہ کرتا۔ جس کا نام یحییٰ تھا اور جو زکریا ؑکا بیٹا تھا۔ اب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم یہ بات صحابہؓ میں بیٹھ کر فرماتے ہیں اسے کون خطابیات میں سے قرار دے سکتا ہے۔ یہاں تو نبیوں کی خوبیوں کابیان ہورہا تھا ۔ کوئی حضرت موسیٰ کی خوبیاں بیان کررہا تھا کوئی حضرت عیسیٰ کی اور کوئی حضرت ابراہیم ؑ کی ۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تم یحییٰ بن زکریاکاکیوں ذکر نہیں کرتے جو شہید ابن شہید تھا۔ آپ نے اس طرح فرما کر یہ مسئلہ بالکل صاف کردیا ہے کہ حضرت یحییٰ واقعہ میں شہید ہوئے تھے ۔
پھر بیہقی اور ابن عسا کرمیں حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ان من ھوان الدنیا علی اﷲ ان یحییٰ بن زکریا قَتَلَتْہُ اِمْرَأَ ۃٌ ۳؎میں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ دنیا حقیر ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس وجہ سے کہ یحییٰ زکریا کے بیٹے کو ایک فاحشہ اور بدکار عورت نے قتل کرایا ۔ یہاں قتل کالفظ آتا ہے مگرمطلب خود قتل کرنا نہیں بلکہ قتل کرانا ہے۔ اسی طرح حاکم میںحضرت عبداللہ بن زیبر سے ایک اسی قسم کی روایت آتی ہے حضرت عبداللہ بن زبیر اپنے وقت کے بعض ظالم بادشاہوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے ۔ اوروہ اسلام میں پہلے مجدد مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے یزید کا بھی مقابلہ کیا اور اسی طرح بعض اور مظالم کے خلاف بھی آوازبلند کی ۔ا س مقابلہ میں انہیں بڑے بڑے مصائب پہنچے ۔ یہاں تک کہ ان کے اپنے ساتھی انہیں چھوڑ کر الگ ہوگئے۔ اور آخر میں تو یہ صرف اکیلے رہ گئے تھے اور دشمن نے انہیں مار کر پھانسی پرلٹکا دیا تھا جب لوگوں نے انہیں کہا کہ اب تو آپ کے ساتھی بھی آپ کو چھوڑتے چلے جارہے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ آپ بھی مقابلہ چھوڑدیں تو انہوں نے کہا مَنْ اَنْکَرَالْبَلائَ فَأِنِّیْ لَااُنْکِرُہٗ لَقَدْ ذَکَرَمِنَِّیْ اِنَّمَا قُتِلَ یَحْیٰ بْنُ زَکَرِیَّا فِیْ زَانِیَۃٍ۴؎ جو شخص مصیبتوں کو ناپسند کرتا ہے وہ بے شک کرے میںتو انہیں ناپسند نہیں کرتا اور مجھے تو یہی بتایا گیا ہے کہ یحییٰ بن زکریا کو ایک زانیہ عورت کی وجہ سے مارا گیا تھا اگر میں بھی ماراجائوں تو میرے لئے یہ کون سی بڑی بات ہے۔
پھر ابنِ عسا کر اور حاکم میں حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو وحی کی ۔ کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے وقت ستر ہزار آدمی مارا گیا تھا۔ اور تیرا ایک بیٹا مارا جائے گا جس کے بدلہ میں ایک لاکھ چالیس ہزار آدمی مرے گا۔۵؎ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل پر ہیرڈ کے خلاف خطرناک بغاوت ہوگئی تھی اور فلسطین کی رومی فوج کا ایک بہت بڑا حصہ تباہ ہوگیا تھا اور یہودیوں کا یہ عام عقیدہ تھا کہ یہ ہیرڈ کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کی سزا ملی ہے اب اس حدیث میں محض خبر نہیں بلکہ حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ وحی کی ۔ کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے وقت ستر ہزار آدمی مارا گیا تھا۔
پھر ابنِ عسا کر کی روایت ہے کہ صخرہ بیت المقدس میں ستّر نبی مارا گیا ہے ۔۶؎ جن میں سے ایک حضرت یحییٰ بن زکریا بھی ہیں میرے نزدیک صخرہپر مارے جانے کے معنے یہ ہیں کہ بیت المقدس کی تطہیر کی کوشش میں وہ انبیاء مارے گئے تھے ۔ یہ احادیث صرف حضرت یحییٰ علیہ السلام کی شہادت کا ثبوت نہیں بلکہ ان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام بھی شہید ہوئے تھے۔ گویا تاریخ جو اس وقت لکھی گئی۔
حضرت یحییٰ کی قوم کا اپنا بیان، یہود کا بیان، عیسائیوں کابیان اوراحادیث سب ایک طرف ہیں اتنے بڑے مجموعہ کو کس طرح ردّکیا جاسکتا ہے جب تک کُل ان دلائل کو رد نہ کیاجائے جن سے دنیا صحیح نتیجہ پرپہنچی ہے اور اگرہم انہیں رد کردیں ۔ تو پھردنیا میں نقلی طور پرکسی ایک بات کاثابت کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے اور پھر ہماری مثال دیسی ہی ہوجائے گی جیسے کہتے ہیں کہ کوئی بزدل شخص تھا وہ ایک دفعہ کسی لڑائی میں شامل ہؤا اور اتفاقاً ایک تیر اُسے آلگا ۔ تیر کی وجہ سے خون بہنے لگ گیا ۔ یہ دیکھ کر وہ میدان جنگ سے بھاگ پڑامگر اِدھر بھاگتا جائے اور اُدھر ساتھ ساتھ کہتا جائے یا اللہ یہ خواب ہی ہو یا اللہ یہ خواب ہی ہو ۔ تو دنیا میں کسی امر کو ثابت کرنے والی یہی چیزیں ہؤا کرتی ہیں ایک تاریخ ہوتی ہے جو کسی امر کو ثابت کرتی ہے پھر کسی قوم کا اپنا بیان ہوتا ہے پھر ارد گرد کی قوموں کا بیان ہوتا ہے۔ پھر بعد میں آنے والے بزرگ جو خداتعالیٰ سے خبریں پاتے ہیں ان کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہاں یہ سب باتیں جمع ہیں۔ تاریخ بھی کہتی ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے یہودی جو حضرت یحییٰ علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ شہید ہوئے ۔اور جو آپ کو نبی نہیں مانتے مگرآپ کو بزرگ تسلیم کرتے اور آپ کے حالات سے دل چسپی رکھتے ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ آپ مارے گئے عیسائی جن کے لئے یہ عقیدہ رکھنا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں۔ یقینا نقصان رساں ہے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ شہید ہوئے ۔ ان تمام کے بعد جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم آئے تو صحابہ کہتے ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی بتایا کہ حضرت یحییٰ شہید ہوئے تھے اور پھر بغیر وحی کی خبر بھی احادیث میں موجود ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے اگر اتنی بڑی شہادتوں کے باوجود اس میں شُبہ کی گنجائش ہوسکتی ہے تو پھر ہمیں اپنے وجود کے بارے میں بھی شُبہ کرنا چاہیے۔
قرآن کریم میں بھی۷؎ کے الفاظ آتے ہیں تم اس کی کوئی تشریح کرو لفظی طور پر تمہیں ماننا پڑے گا کہ اس میں قتل کے معنے بھی شامل ہیں اوراگر ہم ان تمام دلائل کو رد کردیں تو پھر کوئی ایک سچائی بھی ایسی نہیں رہتی جس کو ہم ثابت کرسکیں یا جس کو اطمینان کے ساتھ اپنے عقائد میں شامل کرسکیں ۔سچائی اسی طرح ثابت ہوتی ہے کہ یا تاریخ سے کوئی بات ثابت ہوتی ہے۔ یا کوئی قوم دعویٰ کرتی ہے کہ فلاں واقعہ اس طرح ہؤا یا بعد کے نبیوں اور خدارسیدہ لوگوں کی گواہی ہوتی ہے کہ ایسا ہؤا۔ اور اگر ہم ان تمام شواہد کو دیکھیں اور رد کردیں تو دنیا میں کوئی ایک مسئلہ بھی ایسانہیں رہ سکتا جو ثابت شدہ ہو ۔پھردیکھو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا واقعہ کیسا مشتبہ تھا۔ مگراس میں سے بھی ثبوت نکل آئے کہ وہ قتل نہیں ہوئے۔ اوروہاں تو ان کے صلیب پرمرنے کا فائدہ تینوں جماعتوں کو تھا۔
رومیوں کو کیونکہ گورنربچانے میں شامل تھااگران کا بچ جانا ثابت ہوتا تو اس کی بدنامی ہوتی تھی یہود کو کیونکہ وہ اس طرح مسیحیت کا خاتمہ کرتے تھے۔ مسیحیوں کو کیونکہ پہلے زمانہ میں وہ مسیح ؑ کی دوسری زندگی پرپردہ ڈالنا چاہتے تھے اور بعد میں اپنے گناہ ان کے ذمہ ڈالنے کے لئے۔ لیکن باوجود اس کے حق پھوٹ پھوٹ پڑا ہے اور حضرت مسیح دوبارہ زندہ ہوگئے کا شور پڑ گیا ہے۔ مگر اس کے خلاف حضرت یحییٰ کی نسبت کسی کا بھی کوئی فائدہ نہ تھا ۔ نہ رومیوں کو چھُپانے کی کوئی ضرورت تھی نہ مریدوں کو ۔ نہ عام یہود کو نہ مسیحیوں کو بلکہ مسیحیوں کے لئے تو مُضِر تھا۔ کیونکہ اس طرح یوحنا بھی کفارہ قرار پا سکتے تھے ۔ مگرانہوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ ان چار زبردست تاریخی شاہدوں اور حدیث اوراقوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیسے مذہبی شاہدوں کے بعد کسی تاویل کی گنجائش باقی ہی نہیں رہتی ۔ رہا یہ سوال کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو کچھ کہا وہ خطابیات کی قسم سے تھا سو اس کا مجمل جواب میں پہلے دے آیا ہوں ۔ اب میں بتاتا ہوں کہ ان کا خطابیات میں سے ہونا بالکل ناممکن ہے مثلاً ایک حوالہ جو حمامۃ البشریٰ سے پیش کیا گیاہے۔ا س میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
وَالْعَجَبُ مِنْھُمْ اَنَّھُمْ یُؤْمِنُوْنَ بِاَنَّ اﷲَ اَنْزَلَ فِی الْقُرْاٰنِ اٰیَاتٍ فِیْھَا ذِکْرُ وَفَاۃِ الْمَسِیْحِ ثُمَّ یَظُنُّوْنَ اَنَّہٗ حَیٌّ جَالِسٌ فِی السَّمَائِ الثَّانِیَۃِ مَعَ اِبْنِ خَالَتِہٖ یَحْییٰ النَّبِیُّ الشَّھِیْد عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْھِمُ السَّلَامُ وَلَا یَتَفَکَّرُوْنَ وَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلٰی اَنَّ یَحْییٰ قَدْ قُتِلَ وَلَحِقَ بِالْمَوْتیٰ فَکَیْفَ جَمَعَ اﷲُ الْحَیَّ بِالْمَیِّتِ وَمَا لِلْمَوْتیٰ وَالْأَحْیَائِ فَالْعَجَبُ کُلَّ الْعَجَبِ اَنَّھُمْ یَجْمَعُوْنَ فِیْ عَقَائِدِ ھِمْ اِخْتِلَافَاتٍ کَثِیْرَۃً وَلَا یَتَنَبَّھُوْنَ عَلٰی ذَالِکَ۔۸؎
یعنی غیر احمدیوں پر تعجب ہے کہ ایک طرف تو وہ ایمان رکھتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسی آیات نازل کی ہیں جن میں وفات مسیح کاذکرہے۔ دوسری طرف وہ گمان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح زندہ ہی دوسرے آسمان میں حضرت یحییٰ شہید کے پاس بیٹھے ہیں۔ وہ اس بات پر غوروتدبر نہیں کرتے کہ جب حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہو کر مُردوں سے جاملے تو اب خداتعالیٰ نے زندہ کو فوت شدہ کے ساتھ کیونکر جمع کردیا مُردوںاورزندہ میں کیاتعلق ۔
پس تعجب یہ ہے کہ غیر احمدی لوگ اپنے عقائد میں بہت سے تناقضات جمع کررہے ہیں اور اس پرآگاہ نہیں ہوتے۔
اس حوالہ سے یہ خیال کیاگیا ہے کہ یہاں خطابیات کے طور پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے واقعہ کو بیان کیاگیا ہے اور غیر احمدیوں کا عقیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نقل کردیا ہے ۔کہ چونکہ غیر احمدی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے اس لئے ان پر حجت تمام کرنے اور انہیں ملزم کرنے کے لئے اس عقیدہ کا ذکرکر دیاگیا حالانکہ اس میں غیر احمدیوں کا کیا قصور ہے یہ امر تو احادیث میں بیان کیا گیا ہے اور چار پانچ حدیثیں مَیں ایسی بیان کرچکا ہوں جن میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود یہ فرمایا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے۔ اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں چارپانچ ابھی اور بھی ایسی حدیثیں ہوں گی جن میں قتل یحییٰ کا ذکر ہے۔
پس جب ہر جگہ حدیثوں میں بِلا استثناء حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کا ذکر آتا ہے تواس عقیدہ کے رکھنے میں غیر احمدیوں کاکیا قصور ہوگیا۔ کہ ان پر حجت تمام کرنے اور انہیں ملزم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ذکر کردیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا جب ذکرآتا ہے تو غیر احمدی بعض ایسی حدیثیں بھی پیش کردیتے ہیں جن سے وہ سمجھتے ہیں ان کے دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے ۔
مگر ہم ایسی حدیثیں پیش کرتے ہیں جن میں آپ کی وفات کاذکر ہے مثلا یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک سو بیس برس کی عمر پائی یا یہ کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا لَوْکَانَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی حَیَّیْنِ لَمَاوَسِعَھُمَا اِلَّا اتِّبَاعِیْ۹؎ کہ اگرموسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری اطاعت کے بغیر اور کوئی چارہ نہ تھا۔ پس وہاں چونکہ دونوں قسم کے اقوال موجود ہوتے ہیں اس لئے ہم غیراحمدیوں سے کہتے ہیں تم ان احادیث کو دیکھو جو قرآن کے مطابق ہیں اور ان کو ترک کردو جو اس کے مطابق نہیں مگرحضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق جو حدیث نکلتی ہے اس میں یہی بیان ہوتا ہے کہ وہ شہید ہوئے ۔
پس اس عقیدہ کا احترام غیر احمدیوں پر کس طرح دیا جاسکتا ہے۔ یہ تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر اعتراض ہوگا۔ کہ حضرت یحییٰ شہید نہیں ہوئے تھے۔کیونکہ آپ نے باربار فرمایا کہ وہ شہید ہوئے ہیں۔ اور کسی ایک حدیث میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ انہوں نے اپنی طبعی موت سے وفات پائی ہے۔ پس اول تو یہ حوالہ خطابیات میں اس لئے شمار نہیں ہوسکتا ۔ کہ جو عقیدہ غیراحمدی رکھتے ہیں وہ احادیث میں بیان ہوچکا ہے اوررسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس کی تصدیق فرماچکے ہیں۔ پس جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق کردی تو لازما یہ ہمارا عقیدہ بھی بن گیا ۔ اور جو ہمارا اپناعقیدہ ہو وہ خطابیات میں شمار نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ خطابیات انہی دلائل کو کہتے ہیں جو صرف مخالف کے مسلّمہ ہوں اوراس پراتمام حجت کرنے کے لئے اس کے سامنے پیش کئے جارہے ہوں۔
پھر سوال یہ ہے کہ اگر یہاں قَدْ قُتِلَ کے الفاظ نہ ہوتے ۔ تو کیا جو دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیش فرما رہے ہیں۔ وہ کمزور ہوجاتی ۔ اگرتو قتل کے لفظ سے ہی دلیل بنتی تب تو ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ خطابیات میں سے ہے۔ مگر ہم تو دیکھتے ہیں۔ کہ بغیر قتل مانے کے بھی یہ دلیل پوری طرح قائم رہتی ہے ۔
در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے معراج کی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے پاس دیکھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی فوت ہوچکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یحییٰ مُردہ کے پاس حضرت عیسیٰ علیہ السلام دیکھے جانے سے توزندہ ثابت ہوسکتے تھے لیکن یحییٰ مقتول کے پاس دیکھے جانے سے وفات ثابت ہوتی تھی؟ اگر تو دلیل یہ ہوتی کہ کسی مقتول کے پاس جب عالمِ مکاشفات میں کسی شخص کو دیکھاجائے تو یہ اُس کی وفات کی دلیل ہوتی ہے تب توہم کہہ سکتے تھے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے وفاتِ مسیح ثابت کرنے کے لئے حضرت یحییٰ کے متعلق قَدْ قُتِلَکے الفاظ غیراحمدیوں کے عقیدہ کے مطابق اور ان پر حجت پوری کرنے کے لئے بڑھادیئے۔ لیکن اگر کسی مُردہ کی روح کے پاس کسی دوسرے کی روح دیکھے جانے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ دونوں فوت شدہ ہیں تو صاف معلوم ہوگیا کہ یہاں قَدْ قُتِلَ کے الفاظ خطابیات کے طور پر استعمال نہیں کئے گئے بلکہ امرِواقع کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں۔
پس قَدْ قُتِلَمیں جو دلیل پیش کی گئی ہے یہ خطابیات میں سے ہوہی نہیں سکتی ۔ کیونکہ بغیر قتل کہنے کے بھی اصل دلیل ثابت ہوسکتی تھی ۔ دوسرے مخاطب مسلمان ہیں ان پر بائیبل کے حوالوں کا کیا الزام تھا کہ ان کے سامنے یہ بات خطابی طور پر پیش کی جاتی ۔ پس یہ حوالہ ہرگز ایسا نہیں جس سے یہ استدلال کیا جاسکے کہ اس میں خطابیات کے طور پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کا واقعۂ قتل بیان کیاگیا ہے ۔ اس کی تائید میں ایک اور حوالہ تحفہ گولڑویہ سے بھی پیش کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ
’’اللہ تعالیٰ کی قدیم سنتوں اور عادتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب مخالف اس کے نبیوں اور ماموروں کو قتل کرناچاہتے ہیں تو ان کو ان کے ہاتھ سے اس طرح بھی بچالیتا ہے کہ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اس شخص کو ہلاک کردیا۔ حالانکہ موت تک اس کی نوبت نہیں پہنچتی اوریا وہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا حالانکہ وہیں چھُپا ہؤا ہوتا ہے ۔ اور ان کے شر سے بچ جاتا ہے ‘‘ ۔۱۰؎
کہتے ہیں اس سے بھی معلوم ہؤا کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو قتل سے محفوظ رکھتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمن کے ہاتھ سے انہیں اس طرح بھی بچا لیتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم نے اسے ہلاک کردیا۔ حالانکہ موت تک اس کی نوبت نہیں پہنچتی ۔ یاسمجھتے ہیں وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ۔ حالانکہ وہ وہیں چھُپا ہؤا ہوتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا حضرت یحییٰ علیہ السلام انہی انبیاء میں سے ہیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے ۔ آخراللہ تعالیٰ جب کسی کو دشمن کے ہاتھ سے بچاتا ہے تولوگوں کو بتاتا بھی ہے کہ دیکھو مَیں نے اسے دشمن کے ہاتھ سے بچا لیا ۔ مثلاً ہم کہتے ہیں دشمن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تعاقب میں غارثور تک پہنچے۔ مگرخداتعالیٰ نے ان پرایسا تصرف کردیا کہ وہ آگے جھُک کر نہ دیکھ سکے اور خائب و خاسرواپس لَوٹ آئے۔۱۱؎ اب جب ہم یہ کہتے ہیں۔ کہ غار ثور میں اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے حملہ سے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کوبچایا ۔ تو اس بچانے کی دلیل یہ دیتے ہیں ۔ کہ پھر کہتے ہیں وہ وہاں سے نکلے اورسلامتی کے ساتھ مدینہ پہنچ گئے۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صلیبی موت سے بچایا ۔ تو دلیل یہ دیتے ہیں کہ پھروہاں سے بچ کر وہ تبلیغ کرتے کرتے کشمیر آگئے اوریہیں ایک لمبا عرصہ رہ کرانہوں نے وفات پائی لیکن اگر ہم یہ ثبوت تو پیش نہ کریں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم غارِثور سے نکل کرمدینہ پہنچے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب سے زندہ اتر کر کشمیر چلے گئے اوریونہی کہناشروع کردیں ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بچالیا ۔ تو کیا دنیا کاکوئی بھی شخص ہماری اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہوگا۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بعض انبیاء کو اسی طرح بچاتا ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر کیا ۔ اور یہ بالکل درست ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقیدہ کے رو سے حضرت یحییٰ انہی میں سے ہیں اگر نہیں توپھرآپ کا صریح فیصلہ موجود ہوتے ہوئے ہم حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اس قانون کے نیچے کس طرح لاسکتے ہیں۔
پھرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے الفاظ سے صاف عیاں ہے کہ یہاں آپ تمام انبیاء کا ذکر نہیں کررہے ۔ بلکہ صرف رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاذکرکررہے ہیں ۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی وہ تھے جن کے متعلق دشمنوں نے سمجھا کہ انہوں نے آپ کو ہلاک کردیا ہے حالانکہ موت تک ان کی نوبت نہیں پہنچی تھی ۔ اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہی وہ نبی ہوئے ہیں جن کے متعلق دشمنوں نے یہ خیال کیاکہ وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گئے ہیں ۔ حالانکہ آپ وہیں غارِثورمیں چھُپے بیٹھے تھے۔ تو یہ دونوں مثالیں صرف دونبیوں کے متعلق ہیں ۔ جن میں سے ایک اپنے سلسلہ کا آخری نبی تھا۔ اوردوسرا اپنے سلسلہ کا پہلانبی اور یہ دونوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فتویٰ کے مطابق قتل نہیں ہوسکتے تھے۔ پس یہ دونوں مثالیں بتاتی ہیں کہ ان میں محض دونوں نبیوں یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اوررسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کاذکرکیاگیا ہے اگردرمیانی انبیاء کے متعلق بھی یہی اصول ہوتا تو ان کی بھی کوئی مثال آپ کیوں پیش نہ فرماتے ۔
دوسرا حوالہ اعجاز المسیح سے یہ پیش کیاگیا ہے کہ وَلَمَّا جَائَ ھُمْ اِمَامٌ بِمَا لَا تَھْوٰیٰ اَنْفُسُھُمْ اَرَادُوْا اَنْ یَقْتُلُوْہُ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یَّمُوْتُ اِلَّابِأِذْنِ اللّٰہِ فَکَیْفَ الْمُرْسَلُوْنَ اَنَّہٗ یَعْصِمُ عِبَادَہ‘ مِنْ عِنْدِہٖ وَلَوْمَکَرَالْمَاکِرُوْنَ۱۲؎ کہ جب ان لوگوں کے پاس امام وہ تعلیم لایا جسے ان کے نفس پسند نہ کرتے تھے تو انہوں نے دیدہ دانستہ اس کے قتل کا ارادہ کیا۔ حالانکہ کوئی انسان بھی بجز اذنِ الٰہی فوت نہیں ہوسکتا۔ چہ جائیکہ اس کے مُرسلوں کوقتل کیا جاسکے یقینا اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے خاص سامانوں کے ذریعہ اپنے رسولوں کو قتل سے محفوظ رکھتا ہے خواہ مکرکرنے والے ہزار مکر کریں یہ حوالہ بتاتا ہے کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف یہ بیان فرمارہے ہیں ۔ کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی شخص فوت نہیں ہوسکتا۔ کُجا یہ کہ اس کے رسول اورنبی بغیراذن کے فوت ہوسکیں سویہ بالکل درست ہے ہم بھی تسلیم کرتے ہیںکہ اگر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہوتا کہ وہ قتل نہیں ہوسکتے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں ہلاک نہ کرسکتی جیسے سلسلہ کے اول اور آخری نبی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے اور بڑے سے بڑا دشمن بھی کسی سلسلہ کے پہلے اورپچھلے نبی کو نہیں مارسکتا ۔ چنانچہ دیکھ لو ۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق دشمنوں نے بڑا زور لگایا۔ کہ آپؐ کو قتل کریں۔ مگروہ آپ کو قتل نہ کرسکے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بڑا زور لگایا۔ کہ وہ آپ کو قتل کریں مگر قتل نہ کرسکے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بڑا زور لگایا کہ وہ آپ کو قتل کردیں مگر قتل نہ کرسکے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بڑازورلگایا کہ وہ آپ کو قتل کریں ۔ مگر قتل نہ کرسکے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق بڑا زورلگایا کہ وہ آپ کو قتل کریں مگرقتل نہ کرسکے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے متعلق دشمنوں نے بڑا زور لگایا کہ وہ آپ کوقتل کریں۔ مگرقتل نہ کرسکے۔ کیونکہ سلسلہ کا پہلااور پچھلانبی قتل نہیں ہوسکتا ۔ اور اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صریح فیصلہ موجود ہے ۔یہ امر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ بیان فرمارہے ہیں کہ جب عام انسان بھی بغیر اذنِ الٰہی کے نہیں مرسکتے۔ تو رسول اور نبی کس طرح مر سکتے ہیں گویا یہ دلیل بالاولیٰ ہے جو پیش کی گئی ہے۔ ورنہ بغیر اذن کے نہ مرنے میں تو نبی اور غیر نبی سب شامل ہیں۔
حتّٰی کہ ابوجہل بھی بغیراذنِ الٰہی کے نہیں مرسکتا تھا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی بھی بغیر اذنِ الٰہی کے نہیں مرسکتا تھا اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری بھی بغیر اذنِ الٰہی کے نہیں مرسکتے۔ توحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دلیل صرف یہ دی ہے کہ جب بغیر اذنِ الٰہی کے کافر بھی نہیں مرسکتے تو خداتعالیٰ کے نبی کس طرح مرسکتے ہیں۔ گویا اس کے معنے یہ ہیں کہ ہرانسان کی موت اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے اگر وہ بچانا چاہے تو کون مارسکتا ہے اور نبیوں کا حال تو بالکل بالا ہے ۔ جب عام مومن حتّٰی کہ ایک کافر بھی بغیر اذنِ الٰہی کے نہیں مرسکتا ۔ تو نبی کس طرح بغیراِذنِ الٰہی کے مرسکتے ہیں۔ پس اس حوالہ سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی یا غیر نبی بغیراِذنِ الٰہی کے نہیں مرسکتے ۔ اس لئے تم لوگ مجھے نہیں مارسکتے ۔ کیونکہ میرے متعلق اللہ تعالیٰ کااِذن نہیں ہے کہ مجھے کوئی مار سکے۔ اوراس حوالہ کامضمون زیربحث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تیسراحوالہ تذکرۃ الشہادتین سے یہ پیش کیاگیا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اﷲِ لَا یَکُوْنُ لَھُمْ خَیْر الْعَاقِبَۃ وَیُعَادِیْھِمْ اﷲُ فَیَقُتَّلُوْنَ تَقْتِیْلًا۔وَ یطوی اَمْرَھُمْ بِاَسْرَعٍ حِیْنٍ فَلَا تَسْمَعُ ذِکْرَھُمْ اِلَّا قَلِیْلًا وَاَمَّا الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَجَاؤُوْ ا مِنْ رَبَّھِمْ فَمَنْ ذَالَّذِیْ یُقْتُلُھُمْ اَوْ یَجْعَلھُمْ ذَلِیْلًا۔ اِنَّ رَبَّھُمْ مَعَھُمْ فِیْ صَبَاحِھِمْ وَضحَاھِمْ وَھَجِیْرِھِمْ وَاِذَا دَخَلُوْا اَصِیْلًا۔۱۳؎
کہ جولوگ افتراء علی اللہ کرتے ہوئے مدعی نبوت بنتے ہیں۔ ان کا انجام ہرگز اچھا نہیں ہوتا۔بلکہ خدا ان کا دشمن ہوجاتا ہے۔ اور وہ بُری طرح قتل کئے جاتے ہیں ان کی صف جلد لپیٹ دی جاتی ہے۔ تجھے تھوڑے دنوں تک ہی ان کانام سنائی دے گا۔ ہاں جولوگ اپنے دعویٰ نبوت میں سچے ہوتے ہیں۔ اور اپنے رب کی طرف سے ہوتے ہیں ۔ کون ہے جو ان کو قتل کرسکے یاان کوذلیل و رُسوا کرسکے۔ ان کا خدا ہروقت اور ہرگھڑی ان کے ساتھ ہوتا ہے۔
اس سے بھی یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے ۔ کہ اس سے ثابت ہوتا ہے جو شخص سچانبی ہو ا سے کوئی قتل نہیں کرسکتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ صریح طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اور مقامات پریہ فرمادیا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں اوررسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی الہامی طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے اور آپ نے فرمایا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے۔
پھرتاریخ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ۔ پھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کی خود اپنی قوم اور دوسری اقوام یعنی رومیوں، عیسائیوں اور یہودیوں کا جو آپ کونبی نہیں مانتے صرف بزرگ مانتے ہیں یہی عقیدہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے۔ تو بہرحال صریح حوالجات کی موجودگی میں اورحدیث اور تاریخ اور اقوامِ عالَم کی گواہی کی موجودگی میں ہمیں اس کی کوئی تاویل کرنی پڑے گی۔ اوراس حوالہ کے کوئی ایسے معنے کرنے پڑیں گے جوخلافِ عقل نہ ہوں اور وہ معنے یہی ہیں کہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام انہی نبیوں کا ذکرکررہے ہیں جن کے متعلق یہ الٰہی فیصلہ ہو کہ وہ قتل نہیں ہوسکتے ۔ سلسلہ کا پہلا اورپچھلا نبی تو بہرحال قتل نہیں ہوسکتا ۔ درمیانی انبیاء میں سے بھی ضروری نہیں کہ سب قتل ہوں۔ بلکہ یہ ممکن ہے کہ درمیانی انبیاء میں سے بھی کوئی ایسا نبی ہو جسے اللہ تعالیٰ یہ الہام کردے کہ تجھے دشمن قتل نہیں کرسکتا۔
پس اگردرمیانی انبیاء میں سے بھی کوئی ایسا نبی ہو۔ جسے الہاماً اللہ تعالیٰ عصمت کا وعدہ دیدے اورکہہ دے۔ کہ دشمن تجھے قتل کرنے پرقادر نہیں ہوسکتے ۔تو پھر وہ بھی ان انبیاء میں شامل ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف اپنا ذکر کررہے ہیں۔ عام قاعدہ بیان نہیں فرمارہے ۔ اور اپنے متعلق یہ فرمارہے ہیں کہ مجھے دشمن کبھی قتل نہیں کرسکتا ۔ خواہ کس قدر کوشش کرے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے فارسی قصیدہ میں جو علامات مقربین کے بارہ میں ہیں۔ اور جس کا ایک مصرعہ علَی الْخصوص
’’اگر آہ میرزا باشد‘‘
ہے گوبظاہر سب مقربین کی علامات بیان کی ہیں۔ مگر بعض اشعار سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنے مقام کے متعلق ہیں اوردوسروں پر اس کی بعض علامات چسپاں نہیں ہوسکتیں۔
اسی طرح حقیقۃ الوحی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ
’’اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اس امت کے بعض افراد کو مریم سے تشبیہہ دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ وہ مریم عیسیٰ سے حاملہ ہوگئی ‘‘۱۴؎
حالانکہ آپ نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ :
’’ اس امت میں بجز میرے کسی نے اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ میرا نام خدا نے مریم رکھا۔ اور پھر اس مریم میں عیسیٰ کی روح پھونک دی ہے‘‘ ۱۵؎
اورپھر فرماتے ہیں کہ
’’ میرے سوا تیرہ سو برس میں کسی نے یہ دعویٰ نہیںکیا‘‘۱۶؎
حالانکہ پہلے آپ نے ’’بعض افراد‘‘ کے الفاظ استعمال کئے تھے۔ پس جس طرح آپ نے وہاں گو ’’بعض افراد ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ۔ مگرمراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو لیا۔ اسی طرح اس جگہ بھی صرف اپنا وجود مراد ہے اورفرماتے ہیں کہ دشمن کہتا ہے کہ میں تجھے قتل کردوں گا ۔ حالانکہ خدا نے مجھے مارنے کے لئے نہیں بلکہ زندہ رکھنے کے لئے پیدا کیا ہے اور کوئی نہیں جو میرے قتل پر قادر ہوسکے۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ کسی نبی کا قتل ہونا اس کے جھوٹے ہونے کی علامت ہوتی ہے اور اس کے ثبوت میں براہین احمدیہ حصہ پنجم کا حوالہ پیش کیاگیا ہے کہ:-
’’یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم نے عیسیٰ کوقتل کردیا۔ اس قول سے یہودیوں کا مطلب یہ تھا ۔ کہ عیسیٰ کامومنوں کی طرح خداتعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہؤا۔ کیونکہ توریت میں لکھا ہے کہ جھوٹا پیغمبر قتل کیا جاتا ہے پس خدا نے اس کا جواب دیا ہے کہ عیسیٰ قتل نہیں ہؤا بلکہ ایمانداروں کی طرح خداتعالیٰ کی طرف اُس کا رفع ہؤا ‘‘۱۷؎
اسی طرح یہ حوالہ پیش کیاگیا ہے کہ:-
’’اصل بات تو یہ تھی کہ توریت کی رو سے یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والا مقتول ہوجائے تو وہ مفتری ہوتا ہے سچا نبی نہیں ہوتا ۔ اوراگر کوئی صلیب دیا جائے تو وہ *** ہوتاہے‘‘۱۸؎
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں قتل سے مراد درحقیقت صلیب ہی ہے ۔ عام قتل نہیں ہے چونکہ قتل عام لفظ ہے ۔ اور صلیب خاص اس لئے قتل کالفظ جس طرح قتل پر بولا جاتا ہے خواہ کوئی تلوار سے مارے یا گلا گھونٹ کرمارے اسی طرح صلیب کے لئے بھی قتل کالفظ ہی استعمال کیاجاتا ہے۔
اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس جگہ قتل کاجو لفظ استعمال کیا ہے اس سے مراد دراصل صلیب والا قتل ہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے یہود کے اس طریق کو نہیں سمجھا۔ کہ وہ خالی صلیب نہیں دیا کرتے تھے بلکہ یاتو انسان کو قتل کرکے صلیب پرلٹکاتے تھے یا صلیب پرلٹکانے کے بعد اس کی ہڈیاں توڑتے اوراسے مارتے تھے اوران دونوں باتوں کا ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں سے بھی ملتا ہے اُر دو اناجیل میں گو عام طور پر اسی قسم کے الفاظ ہوتے ہیں کہ یہود نے حضرت مسیح کو صلیب پرلٹکاکرمار دیا۔ مگرانگریزی اناجیل میں اس مفہوم کو ان الفاظ میں ادا کیاگیا ہے۔
۱۹؎ـ"They killed him and hanged him on the tree"
کہ انہوں نے مسیح کوقتل کیا۔ا ور پھرصلیب پرلٹکا دیاکیونکہ یہودیوں میں طریق یہی تھا کہ یا تو وہ پہلے مار کر صلیب پر لٹکاتے تھے یاجسم کو صلیب پرسے اتار کر اس کی ہڈیاں توڑتے تھے خالی صلیب پرلٹکا کر مارنا اصل طریق نہیں تھا۔ اسی لئے خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں جب حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہود کے اس دعویٰ کی کہ انہوں نے آپ کو مصلوب کردیا ہے تردید کی تو فرمایا مَاقَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ ۲۰؎کہ انہوں نے نہ آپ کو قتل کیا ہے۔ نہ صلیب دیا ہے گویا قتل اورصلیب دونوں لفظ قرآن کریم نے اکٹھے استعمال کئے ہیں کیونکہ ان میں خالی صلیب دینے کادستور نہیں تھا۔ بلکہ وہ یاتو پہلے مارتے اور پھرصلیب دیتے یا پہلے صلیب پرلٹکاتے اوربعد میں ہڈیاں توڑتے ۔پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ حوالہ میں بھی قتل سے مراد صلیب ہی ہے۔ کیونکہ یہود یا تو قتل کرکے صلیب پرلٹکاتے تھے یا صلیب پر لٹکانے کے بعد ہڈیاں توڑ کر قتل کرتے تھے۔ ایک اورحوالہ یہ پیش کیاگیا ہے کہ :-
’’توریت کی رو سے یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والا مقتول ہوجائے۔ تو وہ مفتری ہوتا ہے۔ سچا نبی نہیں ہوتا ‘‘ ۔
یہ حوالہ جیسا کہ ظاہر ہے یہود کے متعلق ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا‘‘ مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ عقیدہ تمام یہودکا نہیں بلکہ یہود میں سے اکثر کا یہ عقیدہ ہے کہ خالی مارے جانے سے کوئی نبی *** نہیں ہوسکتا ۔ بلکہ *** اس وقت ہوتا ہے جب وہ صلیب پرلٹکا یا جائے ۔بائیبل کا بھی صرف یہ منشاء ہے کہ جھوٹا ضرور ہلاک ہوتا ہے۔ اس کے برعکس نہیں۔
پس بعض یہود کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس حوالہ میں جو ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ :-
’’اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والا مقتول ہوجائے تو وہ مفتری ہوتا ہے سچانبی نہیں ہوتا ‘‘
اس کے متعلق ضرور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض حوالے بتائے گئے ہوں گے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی بناء پر یہ بات لکھی ۔ لیکن یہ یقینی بات ہے کہ یہ ساری قوم کاعقیدہ نہیں ممکن ہے کوئی کہے کہ جب یہ ساری قوم کا عقیدہ نہیں۔ بلکہ بعض یہود کا یہ عقیدہ ہے توحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ذکر کیوں کیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے ذکرکی قرآن کریم میں بھی مثال پائی جاتی ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم صدیقہ کو خدا مانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سورۂ مائدہ میں یہ بیان فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں حضرت مسیح سے یہ سوال کروں گا کہ کیا تُو نے یہ لوگوں سے کہاتھا ۔ کہ مجھے اور میری والدہ کو خدا سمجھو اور ہماری پرستش کیاکرو۔۲۱؎ اب تم عیسائیوں سے پوچھ دیکھو ان میں سے کتنے ہیں۔جو حضرت مریم صدیقہ کی خدائی کے قائل ہیں۔ یقینا اگر تم تحقیق کروگے توتمہیں سو میں سے ایک نہیں ہزار میں سے ایک نہیں ۔لاکھ میں سے ایک نہیں۔ کروڑ میں سے بھی ایک عیسائی ایسا نہیں ملے گا جویہ کہتا ہو کہ وہ حضرت مریم صدیقہ کو خدا سمجھتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آج روئے زمین پرایک شخص بھی ایسا نہیں جو حضرت مریم صدیقہ کی خدائی کا قائل ہو۔ جب ہمیں موجودہ دنیا میں کوئی شخص ایسانظر نہیں آتا جو حضرت مریم کی خدائی کا قائل ہو تو ہمیں تاریخ کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے ۔ اور بڑی بڑی پرانی تاریخوں کی چھان بین کے بعد ہمیں معلوم ہوتاہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیسائیوں کا ایک چھوٹا سافرقہ تھا جویہ کہا کرتا تھا کہ حضرت مریم صدیقہ بھی خدا ہیں مگرقرآن نے تو یہ نہیں کہا کہ یہ ایک چھوٹا سا فرقہ ہے اس نے عام رنگ میں ذکر کیا ہے اسی طرح یہ حوالہ ہے۔ بعض یہود کاممکن ہے یہ خیال ہو کہ اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والا مقتول ہوجائے تو وہ مفتری ہوتاہے۔ سچانبی نہیں ہوتا مگرمجھے کوئی حوالہ یاد نہیں اورنہ ایسے یہود کا علم ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حوالے بِالعموم مفتی محمد صادق صاحب نکال کردیا کرتے تھے۔ اوریقینا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوکوئی ایسا حوالہ بتایا گیا ہوگاجس کی بناء پر آپ نے یہ لکھاگو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے میری نظر سے ابھی تک کوئی ایسا حوالہ نہیں گزرا ۔ بہرحال اگربعض یہود کا بھی یہ عقیدہ ہوتو بھی اس عقیدہ کوہم ساری قوم کی طرف منسوب کرسکتے ہیں؟ گومراد اس سے بعض یہود ہی ہوں گے اکثر یہود کا جو عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ نبی جوصلیب پرمارا جائے وہ *** ہوتا ہے۔ نہ یہ کہ جونبی قتل ہوجائے وہ بھی *** ہوتا ہے گویا قتل ہونا یا مارا جانا جھوٹے ہونے کی علامت نہیں۔ بلکہ صلیب پر ماراجانا جھوٹے ہونے کی علامت ہے ۔ اور اس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہود کی طرف جو امر منسوب فرمایا ہے یہ تمام یہود کا نہیں بلکہ بعض یہود کا ہے اورمیں بتا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا اسی طرح ذکرکیا ہے ۔جس طرح قرآن کریم نے کہہ دیا کہ عیسائی حضرت مریم صدیقہ کو خدا مانتے ہیں۔ حالانکہ آج انہیں خداماننے والا ایک عیسائی بھی نہیں۔
اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے کہ یہود کا یہ عقیدہ ہے کہ عزیراللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے۔ اب تم تمام یہودیوں سے پوچھ دیکھو۔ وہ کبھی نہیں مانیں گے کہ ان کا یہ عقیدہ ہے ۔ اس کے متعلق بھی ہمیں پرانی تاریخوں کی چھان بین کرنی پڑتی ہے اور ایک لمبی تلاش کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودکے بعض قبائل یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ حضرت عزیر اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا ذکر عام رنگ میں کردیا ۲۲؎ یہ نہیں کیا کہ عام یہود ایسا نہیں مانتے صرف بعض یہود کا یہ خیال ہے کیونکہ اگر ساری قوم میں سے کچھ لوگ بھی غلط راستے پر ہوں۔ اورقوم ان کارد نہ کرے۔ تو ساری قوم پراعتراض عائد ہوتا ہے۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں قوم ایسا کہتی ہے۔
ہمارے دعویٰ کاایک اور ثبوت بھی موجود ہے ۔ اور وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر یہودنے جب یہ الزام لگایا کہ وہ صلیب پر لٹک کرفوت ہوئے ہیں اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ *** موت مرے ہیں۔ تو دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے اس کی کتنی تردید کی اور کس طرح بار بار کہا کہ یہود اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔اگراس کی وجہ محض یہود کا یہ عقیدہ رکھنا ہوتی۔ کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیا ہے ۔ اور محض قتل کی وجہ سے وہ سمجھتے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جھوٹے ہیں تو جب انہوں نے کہا تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام بھی قتل ہوئے ہیں تو چاہیے تھا کہ قرآن کریم اس کا بھی رد کرتا۔ مگر قرآن کریم یحییٰ علیہ السلام کی برأت نہیں کرتا نہ یہود اس پر *** کا الزام لگاتے ہیں نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی تردید کرتے ہیں۔
مگر مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے کی قرآن باربار تردید کرتا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی تروید کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے خداتعالیٰ کی کوئی خاص رشتہ داری ہے ۔ کہ جب ان پر کوئی الزام لگتا ہے اس وقت تو و ہ تروید کرنے لگ جاتا ہے ۔ لیکن اگر اسی قسم کا الزام یحییٰ پرلگے ۔ تو وہ تروید کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق تو وہ باربار کہتا ہے کہ یہود بالکل جھوٹ کہتے ہیں۔ عیسیٰ ہرگز صلیب پر نہیں مرا۔ بَلْ رَّفَعَہُ اﷲُ أِلَیْہِ ۲۳؎ خدا نے اسے عزت دی ۔ اسی طرح اِنّی مُتَوَفِّیْکَ۲۴؎ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ۲۵؎ اوردوسری آیتوں میں خدا اس کی تروید کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ حضرت مسیح کی صلیب پر موت نہیں ہوئی۔ مگر اسی قسم کی موت یعنی جھوٹوں والی موت کاالزام یہود حضرت یحییٰ پربھی لگاتے ہیں اور وہ کوئی بھی تروید نہیں کرتا۔
پھر اگر یہود کا واقعہ میں یہ عقیدہ ہوتا کہ اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والامقتول ہوجائے تو وہ مفتری ہوتا ہے تو انہیں چاہیے تھا وہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو جھوٹا نبی سمجھتے حالانکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہود کی اکثریت انہیں بزرگ تسلیم کرتی ہے اور ان کا ایک حصہ انہیں نبی مانتا ہے اگر ان کا یہ عقیدہ ہوتا کہ جو نبی بھی قتل ہوجائے وہ جھوٹا ہوتا ہے تو وہ حضرت یحییٰ کو مقتول ماننے کے باوجود بزرگ کس طرح تسلیم کرتے کیا کوئی جھوٹا شخص بھی بزرگ ہؤا کرتا ہے ۔مگر ایک واقعہ ہے کہ آج تک یہودی انہیں بزرگ مانتے چلے آتے ہیں۔
پھرحضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی مسیح کے صلیب کے واقعہ کی تو بار بار تردید کرتے ہیں ۔ مگرقتلِ یحییٰ کی کوئی تردید نہیں کرتے ۔ اور اگر ذکر کرتے ہیں تو اس طرح کہ یحییٰ قتل ہؤا۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی صداقت کے لئے اس امر کی ہرگز کوئی ضرورت نہ تھی کہ باربار اس امر پرزور دیاجاتا ۔ کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پرلٹک کرفوت نہیں ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے دعویٰ کی صداقت کے لئے صرف اتنی بات ثابت کردینی کافی تھی۔ کہ حضرت مسیح فوت ہوگئے ہیں۔ چاہے وہ صلیب پر فوت ہوئے ہوں یا طبعی موت سے مرے ہوں۔ کیونکہ اگر ان کی وفات ثابت نہ ہوتی تو آپ کا دعویٰ ثابت نہ ہوسکتا ۔اور ایک کہنے والا کہہ سکتا تھا کہ جب مسیح آسمان پر زندہ موجود ہے اور اسی نے آخری زمانہ میں آنا ہے تو آپ کو ہم کیوں مانیں ۔ پس ضرورت صرف اس امر کی تھی کہ حضرت مسیح کی وفات ثابت کردی جاتی ا س امر کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ یہ ثابت کیا جاتا مسیح صلیب پر لٹک کر فوت نہیں ہؤا وہ چاہے صلیب پر مرتے یا طبعی موت سے وفات پاتے بات ایک ہی تھی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ ہر صورت میں ثابت تھا مگرآپ نے اس کی تروید کی اور اس لئے کی کہ اس سے قرآن اور روحانیت پرضرب پڑتی تھی پس آپ نے اس پر اپنے لئے زور نہیں دیا۔ بلکہ قرآن کریم کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے دیا۔ ورنہ آپ کادعویٰ ہر صورت میں ثابت تھا۔ چاہے یہ کہاجاتا کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوئے ہیں چاہے یہ کہاجاتا کہ وہ کسی مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہوئے ہیں۔
بہرحال جب یہ ثابت ہوجاتا کہ وہ مرگئے ہیں اور اب دنیا میں واپس نہیں آسکتے۔ تو ایک عقلمند شخص یہ سوچ سکتا تھا کہ جب پہلا مسیح مرچکا ہے ۔ اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں یہ ہیں۔ کہ ایک مسیح آنے والا ہے تو ضرور اس سے مراد اس کا کوئی بروز اور مثیل ہے اور اس کے بعد وہ اس بات پر مجبور ہوتا کہ آپ کے دعویٰ پر غور کرے۔ پس آپ کو اپنے دعویٰ کے ثبوت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر سے زندہ اتارنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیںتھی۔ مگر سب لوگ جانتے ہیں کہ آپ نے اس پر بڑا زور دیا ہے اور بار بار فرمایا ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے۔ پس سوال یہ ہے کہ آپ نے اس پر کیوں زوردیا ۔ جب کہ آپ کے دعویٰ کے ساتھ براہ راست اس امر کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کا جواب یہی ہے کہ آپ نے اپنے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ قرآنی صداقت کے اظہار کے لئے اس پر زور دیا ہے اور اس لئے زور دیا کہ اس سے قرآن اور روحانیت پرضرب پڑتی تھی۔ لیکن جب یحییٰ علیہ السلام کا ذکرآتا ہے تو وہاں ایک دفعہ بھی یہ نہیں فرماتے ۔ کہ وہ قتل نہیں ہوئے۔
بلکہ جہاں کہتے ہیں یہی کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ قتل ہوئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قتلِ یحییٰ سے آپ کے نزدیک کسی قرآنی صداقت پر زد نہیں پڑتی تھی۔ ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ عام حوالوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرمادیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو قتل سے محفوظ رکھتا ہے یہ چونکہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھا۔ کہ انبیاء قتل سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا الگ ذکر نہیں فرمایا ۔ ہم کہتے ہیں اگر عام حوالے ہی کافی ہوسکتے تھے تو پھر حضرت مسیح کے واقعہ کے متعلق زور دینے اور بار بار بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی اس کے متعلق بھی سمجھ لیتے کہ وہ عام حوالوں سے اس کی تروید ہوچکی ہے اور خاص طور پر زور نہ دیتے ۔ اوردونوں سے یکساں سلوک کرتے اگر ایک کا ذکر چھوڑا تھا تو دوسرے کاذکر بھی چھوڑ دیتے اور اگر ایک کے متعلق زوردیاتھا تو دوسرے کے متعلق بھی زوردے دیتے ۔ مگرآپ نے حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کی تو باربار تروید فرمائی۔ مگر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل ہونے کی ایک جگہ بھی تروید نہیں فرمائی ۔
بلکہ جہاں لکھا ہے یہی لکھا ہے کہ وہ قتل ہوئے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ کے واقعہ قتل کی آپ نے اس لئے تروید نہیں کی ۔ کہ وہ واقعہ میں قتل ہوئے اور حضرت مسیح کے مصلوب نہ ہونے پر اس لئے زوردیا۔ کہ وہ واقعہ میں صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے۔ بعضوں نے لکھا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو حوالجات ہیں یہ پہلے کے ہیں اور جن حوالوں میں آپ نے یہ فرمایا ہے۔ کہ انبیائِ قتل سے محفوظ رہتے ہیں۔ جیساکہ تحفہ گولڑویہ وغیرہ میں وہ بعد کے ہیں اور بعض ایسی کتابوں کے ہیں جو ۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھیں۔ اس لئے بعد کے حوالے زیادہ یقینی ہیں بہ نسبت پہلے حوالوں کے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اول میری جس قدر روایتیں ہیں۔ وہ سب بعد کے زمانہ کی ہیں۔ تحفہ گولڑویہ کی اشاعت کے وقت میں بالکل بچہ تھا۔ پس میں نے جو روایتیں بیان کی ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری دو تین سالوں کی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے ہیں اس وقت میری عمر انیس ۱۹سال کی تھی۔ اوروہ عمر جس میں مَیں مسائل سمجھ سکتا تھا اور روایت یاد رکھ سکتا تھا اور پیش کرسکتا تھا وہ سولہ سترہ سال کی ہی ہوسکتی ہے۔ پس میں نے جو روایتیں بیان کی ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری تین چار سال سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ بہرحال بعد کا زمانہ ہے پہلا نہیں پھر میں نے پچھلی دفعہ بیان کیاتھا کہ میں نے مفتی محمد صادق صاحب سے دریافت کرایا تو انہوں نے کہاکہ مجھے اس بارہ میں کچھ یادنہیں مگر اس کے بعد مفتی صاحب کی پرانی ڈائریوں میں سے وہی بات نکل آئی جو میں نے بیان کی تھی۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ وہ ڈائری آج سے سال دو سال پہلے کی ان کتاب میں چھَپی ہوئی موجود ہے۔ اور اس کے اندروہ تاریخ تک محفوظ ہے جس تاریخ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات فرمائی چنانچہ اس کتاب میں لکھا ہے کہ ۷؍ نومبر ۱۹۰۷ء کو گویا اپنی وفات سے صرف چھ ماہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ۔
’’ جس طرح کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے یوحنا نبی خدا تعالیٰ کی تبلیغ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ اسی طرح ہم سے پہلے اسی ملک پنجاب میں سید احمد صاحب توحید کا وعظ کرتے ہوئے سکھوں کے زمانہ میں شہید ہوگئے۔ یہ بھی ایک مماثلت تھی جو خداتعالیٰ نے پوری کردی ‘‘۲۶؎
یہ وفات سے صرف چھ مہینے پہلے کی بات ہے اور ۷؍ نومبر ۱۹۰۷ء کو ایسا فرماتے ہیں ۔ اس کے بعد کا حوالہ تو اس ضمن میں کوئی مل ہی نہیں سکتا ۔ پھرایک دوست نے لکھا ہے کہ حقیقۃ الوحی میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسا ہی تحریر فرمایا ہے ۔ اور حقیقۃ الوحی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آخری تصانیف میں سے ہے اور ۱۹۰۷ء میں چھَپی ہے ۔ گویا ایک طرف مفتی محمد صادق صاحب کی ڈائری ہے ۔ جو ۷؍ نومبر ۱۹۰۷ء کی ہے۔ دوسری طرف حقیقۃ الوحی کی شہادت ہے۔ جو ۱۹۰۷ء کی ہے۔
تیسری طرف میری روایتیں ہیں جو بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری زمانہ سے تعلق رکھتی ہے پھر ہمارے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت زیادہ روایات جمع کرنے والے دو شخص ہیں۔مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب مفتی محمد صادق صاحب کی روایت مَیں بتا چکا ہوں ۔ رہے شیخ یعقوب علی صاحب سو میں نے ان کی طرف بھی خط لکھا تھا کہ اس بارہ میں آپ کی کیا گواہی ہے۔ اس کے جواب میں انہوں نے لکھا ہے کہ آپ میری گواہی تو حیدر آباد کے دوستوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ میں نے ان کے سامنے اس بارہ میں کیا کہاہے ۔ میری یہ حالت تھی کہ جس دن الفضل میں مَیں نے مولوی ابوالعطاء صاحب کا یہ مضمون پڑھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں کئے گئے تو ایک شخص بشیر کنجا ہی کو مَیں نے مخاطب کرکے کہا ۔ جماعت میں ایک اور بڑا فتنہ پیدا کردیاگیا ہے کیونکہ یہ امر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف ہے گویا وہ کہتے ہیں میں نے مضمون پڑھتے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ ہماری ساری عمر کے علم کے خلاف ہے ہم ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنتے آئے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے۔
مگر آج یہ بیان کیا جارہا ہے کہ وہ شہید نہیں ہوئے یہ وہ دو شخص ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا منکر نکیر کہاکرتے تھے ۔فرماتے تھے۔ اِدھر ہم بات کرتے ہیں اور اُدھر یہ اخباروں میں شائع کردیتے ہیں میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے آپ فرمایا کرتے یہ ہمارے دوبازو بھی ہیں اور منکر نکیر بھی ہیں۔ بازو تو اس لئے کہ ان کے اخبارات کے ذریعہ دشمنوں کے حملہ کا رَدّ ہورہا ہے اور منکر نکیر اس لئے کہ کوئی بات اِدھر ہمارے منہ سے نکلتی ہے اور اُدھر یہ اپنے اخباروں میں شائع کردیتے ہیں جس سے دشمن بعض دفعہ فائدہ بھی اُٹھالیتا ہے اور جب وہ اعتراض کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ نے فلاں بات یوں کہی ہے تو ہم حیران ہوتے ہیں کہ اسے کس طرح پتہ لگ گیااوروہ جھَٹ ڈائری نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے کہ فلاں وقت فلاں مجلس میں آپ نے یہ بات کہی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دونوں کا نام منکرنکیر رکھا ہؤا تھا۔
اب بھلا منکر نکیر سے زیادہ قابلِ اعتبار گواہی اور کس کی ہوسکتی ہے اس کے علاوہ میں نے اپنی گواہی بھی دی ہے اور بتایا ہے کہ و فات تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی عقیدہ رہا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں وہ حوالے جو اپنے اندرعمومیت رکھتے ہیں۔ ان سے مراد بعض جگہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپناوجود ہے جیسے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس امت کے بعض افراد کو مریم سے تشبیہہ دی ہے اور پھر کہا ہے کہ وہ مریم عیسیٰ سے حاملہ ہوگئی حالانکہ اس سے مراد آپ کی ذات ہی تھی۔
پس ایسے حوالوں میں یا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف اپنا ذکر کیا ہے۔ یا اُن انبیاء کا ذکر کیا ہے جو کبھی قتل نہیں ہوسکتے جیسے سلسلہ کا پہلا اور پچھلا نبی اور یا پھر اس سے مراد وہ انبیاء ہوں گے جو خواہ درمیانی زمانہ میں آئیں مگر اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کا وعدہ کردے ۔ اور میں بتاآیا ہوں کہ ایسا وعدہ اگرکسی مومن سے ہوجائے تو اسے بھی کوئی قتل نہیں کرسکتا۔ آخر نہ مارا جانا انبیاء کے لئے شرط نہیں ۔کئی مومن بھی ایسے ہوسکتے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ یہی وعدہ کردے اور اگر کسی مومن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ایسا وعدہ کردے تو پھر اسے بھی کوئی قتل نہیں کرسکتا۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد قادیان میں طاعون کی بعض وارداتیں ہوئیں۔ مجھے بھی اتفاقاً بخار ہوگیا۔ اور اس کے ساتھ ہی ران میں درد محسوس ہونے لگا۔ میں نے سمجھا شاید طاعون ہونے لگا ہے ۔ یہ خیال آتے ہی میرا وہم بڑھنا شروع ہؤااور مجھے سخت فکر اور قلق محسوس ہوا اور میں نے اپنے کمرہ کے دروازے بند کردئے اور سجدہ میں اور اللہ تعالیٰ کے حضور گرکر دعا کررہا تھا میری آنکھیں کھلی تھیں اور میں کامل بیداری کی حالت میں تھا میں نے کیادیکھا کہ ایک سفید اور نہایت چمکتا ہؤا نور ہے جو نیچے سے آتا ہے اور اوپر چلاجاتا ہے وہ نور ایک گول ستون کی شکل میں ہے ۔جیسے اس مسجد ( اقصیٰ ) میں گول ستون ہیں اسی طرح وہ نور کاایک ستون ہے جونہایت ہی براق اور سفید ہے اس نور کے ستون نے اوپر کی طرف بڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ چھت پھاڑ کر باہر نکل گیا ۔ پھر اور زیادہ اوپر کی طرف بڑھا یہاں تک کہ بالا خانہ کی چھت کو پھاڑ کر بھی نکل گیا۔اسی طرح وہ نور کا ستون اونچا ہوتا چلاگیا ۔ یہاں تک کہ میں نے سمجھااب یہ غیر محدود فاصلہ تک پہنچ گیا ہے ۔
پھر جب میں نے نیچے کی طرف خیال کیا تو اس کی ابتداء کا بھی کوئی پتہ نہ چلتا تھاگویا وہ ایک ایسا نور تھا جس کی نہ ابتدا تھی نہ انتہاء جب اس طرح وہ زمین کی پاتا ل سے لے کرآسمان کی انتہاء تک پہنچ گیا تو میں کیادیکھتا ہوں کہ اس نور میں سے ایک نہایت سفید اور نورانی ہاتھ نکلا ہے اور اس نورانی اورسفید ہاتھ میں ایک سفید اوربراق پیالہ ہے اور اس سفید اور براق پیالہ میں نہایت سفید اور براق دودھ ہے اور مجھے کسی نے کہا کہ اسے پی لو۔ چنانچہ میں اس دودھ کو پی گیا۔ جب میں نے تمام دودھ پی لیا تو معاً میری زبان پریہ الفاظ جاری ہوئے کہ اب میری امت بھی کبھی گمراہ نہیں ہوگی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ معراج کی رات آپ کے سامنے ایک شراب کاپیالہ اور ایک دودھ کا پیالہ پیش کیا گیا ۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دودھ کاپیالہ پی لیا اورشراب کا پیالہ ردّ کردیا۔
اس پرجبرائیل نے کہا آپ نے اچھا کیاجودودھ کاپیالہ لیااور شراب کا پیالہ نہ لیا۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی امت کبھی گمراہ نہیں ہوگی۔۲۷؎ اسی طرح میں نے اس وقت دودھ کا پیالہ پی کر کہا اب میری امت بھی کبھی گمراہ نہیں ہوگی ۔ یہ استعارہ ہے جو میری زبان پرجاری ہؤا۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ میں نبی بن گیا ۔ مطلب یہ ہے کہ میرے شاگرد، میرے مرید اور میرے اتباع بھی کبھی گمراہ نہیں ہوں گے۔ اور یہ مقام رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ظلی طور پر مجھے حاصل ہؤا ہے یہ نظارہ دیکھنے کے معاً بعد مجھے آرام ہوگیا۔ اور میں نے دیکھا کہ نہ مجھے بخار ہے اور نہ کہیں درد کی شکایت ۔
تو اس وقت اس رؤیا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہی بات بتائی کہ تمہیں طاعون نہیں ہے اورتم اس سے محفوظ رہو گے ۔حالانکہ یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ کسی مومن کو بھی طاعون نہ ہو کئی مومن ہیں جو طاعون سے شہید ہوتے ہیں۔ لیکن مجھے اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا کہ تمہیں طاعون نہیں ہے کہ تم اس سے بفضلہ محفوظ ہو۔ اسی طرح بعض دفعہ مومن بھی اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی بناء پرکہہ سکتا ہے کہ مجھے کوئی قتل نہیں کرسکتا۔ اورپھر واقع میں کوئی دشمن اسے قتل کرنے کی طاقت نہیںرکھتا۔ مگریہ امر یاد رکھناچاہیے کہ انبیاء کا قتل شاذ ونادر ہوتا ہے اسی لئے میرا طریق اور علمائِ سلسلہ کا بھی یہی طریق رہاہے کہ قرآن کریم میں انبیاء کے متعلق جب قتل وغیرہ کے الفاظ آئیں تو ہم ان کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قتل سے مراد کوششِ قتل یا ارادہ قتل ہے کیونکہ وہاں عام لفظ ہیں اور خطرہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کے مضمون کوعام نہ کردیں۔
لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم انبیاء کے متعلق قتل کی کلیتہً نفی کردیں۔ جیسے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ کو بھی بعض دفعہ شکست ہوئی ہے مثلاً اُحد کے موقع پر۔ گو میرا احساس یہی ہے کہ میں اُحد کی شکست کوبھی فتح ہی سمجھتا ہوںاور حقیقت بھی یہی ہے مگرپھر بھی اس وقت حالات ایسا رنگ پکڑگئے تھے کہ تھوڑی دیر کے لئے مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی تھی لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم اس واقعہ پر زور دینے لگ جائیں۔ استثنائی حالات اور ہوتے ہیں ۔ اورقاعدہ کُلّیہ اور ہوتا ہے۔ اسی طرح عام قاعدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کی تائیدکرتا اور انہیں دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھتا ہے لیکن استثنائی طور پر بعض انبیاء قتل بھی ہوجاتے ہیں ۔ پس چونکہ انبیاء کا قتل نہایت ہی شاذ ہوتا ہے اوردشمن کو اس طرح بہت بڑی خوشی حاصل ہوتی ہے اس لئے ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ شاذ کو شاذ ہی رہنے دیں اور اسے وسیع نہ کریں۔
ایک دوست نے لکھا ہے یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ ۲۸؎کہ وہ نبیوں سے لڑتے ہیں مگرآج یہ معنے کئے جاتے ہیں کہ وہ نبیوں کوقتل کرتے تھے۔ اس کاجواب یہی ہے کہ جس طرح پہلے یہ معنے پڑھائے گئے تھے اسی طرح اب بھی یہی پڑھائے جاتے ہیں اور آئندہ بھی یہی پڑھائے جائیں گے مگرجب حضرت یحییٰ علیہ السلام کا ذکر آئے گا۔ توپہلے بھی یہی کہتے تھے اور اب بھی یہی کہیں گے کہ وہ شہید ہوئے ہیں مگربایں ہمہ ہم اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے متعلق کوئی ایسی بات گوارا نہیں کرسکتے جس سے ان کی توہین ہو یا جس میں ان کی سُبکی ہو۔ چونکہ قتل میں انبیاء کی ایک طرح کی سُبکی ہوتی ہے اور دشمن کو خوشی کا سامان ہاتھ آتا ہے اس لئے ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ جہاں نبیوں کے عام ذکر کے ساتھ قتل کالفظ آئے وہاں اس کے معنے ارادہ قتل یا کوششِ قتل یا لڑائی جھگڑے کے کریں تاکہ شاگرد پریہ اثر نہ ہو کہ شاید نبیوں کا قتل کوئی معمولی بات ہے ۔ مگرمومن کا یہ بھی کام ہے کہ جہاں خدااسے کہے کہ فلاں نبی قتل ہؤا ہے وہاں اس حقیقت کابھی اظہار کردے۔
پس مَیں نے ضروری سمجھا کہ اس حقیقت کوواضح طور پر احباب کے سامنے رکھ دوں میں نے اس ضمن میں بہت سی شہادتیں بیان کی ہیں۔ صحابہ میں سے ماسٹر عبدالرحمن صاحب ۔ میرمہدی حسین صاحب ۔ حافظ محمدابراہیم صاحب، مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب کی شہادتیں بیان کی ہیںاپنی شہادت بھی بیان کی ہے۔ اور پھر بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں بھی یہی مسئلہ بیان ہؤا ہے حتّٰی کہ حقیقتہ الوحی میںبھی جیسا کہ ایک دوست نے لکھاہے کہ یہی بات بیان کی گئی ہے ۔ پھر تاریخ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے احادیث میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی یہی بات بیان فرمائی ہے پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے جیوش انسائیکلوپیڈیا میں جوزیفس نامی مشہور مؤرخ کے حوالہ سے بھی اسی حقیقت کااظہار کیاگیاہے ۔
اسی طرح یہودیوں مسیحیوں اور رومیوں تینوں قوموں کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل کئے گئے ۔ اتنی بڑی شہادتوں کے بعد یہ بالکل ناممکن ہے کہ قتلِ یحییٰ کا انکار کیاجاسکے۔ اوراگر کوئی شخص اتنی بڑی شہادتوں کے بعد بھی شُبہ کی گنجائش نکالتا ہے تو اس کے لئے دنیا میں کسی ایک صداقت کا معلوم کرنابھی ناممکن ہے کیونکہ ہرصداقت انہی ذرائع سے ثابت ہوتی ہے ۔ اوراگران ذرائع اورشواہد کاانکار کردیاجائے تو پھرکوئی صداقت ثابت نہیں ہوسکتی۔‘‘ (الفضل ۱۷؍ ستمبر ۱۹۳۸ئ)
۱؎ متی باب ۱۴ آیت ۱ تا ۱۲۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن ۱۸۸۷ء (مفہوماً)
۲؎
۳؎ شعب الایمان لِلْبَیْہقی جُز ۷ صفحہ ۳۱۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان مطبوعہ ۱۹۹۰ء
۴؎ مستدرک حاکم جُز ۳ صفحہ ۵۵۵ کتاب معرفۃ الصحابۃ باب ذکر عبداﷲ بن زبیر
۵؎
۶؎
۷؎ اٰل عمران: ۱۱۳
۸؎ حمامۃ البشریٰ صفحہ ۴۸، ۴۹ ۔ روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۲۱۴، ۲۱۵
۹؎
۱۰؎
۱۱؎ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۵۲ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۳۸
۱۲؎ اعجاز المسیح ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۱۵، ۱۶ ۔ ایڈیشن ۲۰۰۸ء
۱۳؎ تذکرۃ الشہادتین صفحہ ۹۴۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۹۴
۱۴؎ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ ۔ حاشیہ صفحہ ۳۵۰
۱۵؎ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ حاشیہ صفحہ ۳۵۰، ۳۵۱
۱۶؎ حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ حاشیہ صفحہ ۳۵۱
۱۷؎ ضمیمہ براہین احمدیہ حصّہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ حاشیہ صفحہ ۳۳۷
۱۸؎ براہین احمدیہ حصّہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۴۵
۱۹؎
۲۰؎ النسآئ: ۱۵۸
۲۱؎
(المائدہ: ۱۱۷)
۲۲؎ (التوبۃ: ۳۰)
۲۳؎ النسآء :۱۵۹ ۲۴؎ اٰل عمران: ۵۶ ۲۵؎ المائدہ:۱۱۸
۲۶؎ ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب ۱۴۹، ۱۵۰
۲۷؎ بخاری کتاب مناقب الانصار باب المعراج
۲۸؎ البقرۃ : ۶۲

۳۱
الٰہی جماعتیں دین پر عمل کرکے ہی کامیابی حاصل کر سکتی ہیں
(فرمودہ ۱۶؍ ستمبر ۱۹۳۸ء )
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کے بعد حضور نے حسب ذیل آیات تلاوت فرمائیں:
’’ ۱؎
اس کے بعد فرمایا :-
’’یہ آیتیں جو میں نے اِس وقت تلاوت کی ہیں مومنوں کو اُن کے ان فرائض کی طرف توجہ دلاتی ہیں جو الٰہی جماعتوںکو کامیاب بنانے میں مُمِد ہوتے ہیں اور جن کے بغیر غلبے کا حصول بالکل ناممکن ہوتا ہے ۔دُنیوی جماعتوںکا طریقِ کار بالکل علیحدہ ہوتا ہے ان پر دینی جماعتوں کا قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دُنیوی جماعتوں کا دارومدار خالص طور پر ان کی اپنی سعی اور کوشش پر ہوتا ہے اور ساتھ ہی اس کے اُن کے لئے کوئی ضروری نہیں ہوتا کہ وہ سچ سے کام لیں ۔ وہ جھوٹ، فریب اور دغا بازی، ان سارے ہتھیاروں کو استعمال کرسکتے ہیں مگر یہ ہتھیار جو عام طورپر دُنیا میں کامیابی کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں دین میں اِن کو بالکل حرام قرار دیا گیا ہے۔ دُنیوی اُمور میں لوگ جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں، وہ فریب سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فریب کے بغیر گزارہ نہیں، وہ منافقت سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کے منافقت کے بغیر گزارہ نہیں ۔جب ایک قوم دوسری قوم کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے، جب اس کی ساری قوتیں دوسری قوم پر حملہ کرنے کے لیے مجتمع ہو رہی ہوتی ہیں، جب اس کے سارے محکمے اپنے کیل کانٹے درست کر ر ہے ہوتے ہیں اس وقت د نیا دار حکومتیں بڑے زور سے یہ اعلان کرتی سُنائی دیتی ہیں کہ ہمارے تعلقات اس حکومت سے بڑے اچھے ہیں اور جب وہ جنگ کا فیصلہ کر چکی ہوتی ہیں اُن کے مدبّر بڑے زور شور سے یہ اعلان کررہے ہوتے ہیں کہ ہم صلح کے لئے ہر ممکن تدبیر اختیا ر کریں گے مگر اُن کی غرض اِن اعلانات سے یہ ہوتی ہے کہ اگر ہمارا دُشمن بیوقوف بنایا جا سکے تو اسے بیوقوف بنائیں۔ اس کے مقابلہ میں ان کا دُشمن بھی اسی طرح کر رہا ہوتا ہے جس طرح وہ کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ بھی دھوکا اور فریب اور جھوٹ استعمال کر رہا ہوتا ہے مگر دین کے ساتھ تعلق رکھنے والی قوموں کو اس قسم کے طریق اختیارکرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔انہیں اگر کہا جاتا ہے تو یہ کہ تمہیں اچانک حملہ کرنے کی اجازت نہیں اور اگر تمہارا کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہے اور تم دیکھتے ہو کہ دوسرا فریق اس معاہدہ کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو ایک لمبا عرصہ قبل یہ اعلان کردو کہ ہمارا تمہارا معاہدہ ختم ہے ۔اس کے بعد اگر تم چاہو تو دوسری قوم سے لڑ سکتے ہو ۔
پس دینی کاموں کے لیے مشکلات بہت زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ جن تدابیر کو دُنیا اختیار کر سکتی ہے ان کو ان تدابیر کے اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔اس لئے کوئی ایسا قائمقام ہونا چاہئے جو جھوٹ اور فریب اور دغا کے مقابلہ میں نیکی کا سہارا ہو ۔اس سہارے کا اللہ تعالیٰ نے ان آیات میںجو ابھی مَیں نے تلاوت کی ہیں ذکر کیا ہے فرماتا ہے ۔ اے مومنو! تم رکوع کرو اور رکوع سے مرا د اس جگہ نماز والا رکوع نہیں بلکہ رکوع کے معنی نماز کے علاوہ بھی ایک ہوتے ہیں اور وہ معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی توحید پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اس کی طرف جھُک جانا اور ما سویٰ اللہ کا خیال اپنے دل سے بکلی نکال دینا۔ گویا کامل توحید کے خیالات دل میں پیدا کر لینا اور ما سویٰ اللہ کی عباد ت، اس پر انحصار، توکّل اور امید کا دل سے نکال دینا۔ اس کا نام عربی زبان میں رکوع ہے ۔چنانچہ عربی کا محاورہ ہے کہ فُلانٌ رَکَعَ اِلَی اﷲ۔ کہ فلاں شخص ہر ایک دُنیوی چیز کا خیال اپنے دل سے نکال کر خدا تعالی کی طرف جُھک گیا۔پس اس جگہ رکوع سے مرا د وہ رکوع نہیں جو نماز میں کیا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ رکوع ہم علیحدہ نہیں کرتے بلکہ نماز کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ خالی رکوع اسلام میں کہیں ثابت نہیں اور خالی سجدہ اسلام میں شکریہ یا تلاوتِ قرآن کریم کے سوا عبادت کے طور پر ثابت نہیں ہے بلکہ خالی سجدہ دُعا کے موقع پر کر بھی لیا جاتا ہے۔ خالی رکوع کا رسماًبھی اسلام میںکوئی ثبوت نہیں ملتا۔ پس رکوع سے مرادیہاں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک جانا نہیں بلکہ ماسویٰ اللہ کا خیال اپنے دل سے نکال کر کامل توحید پر ایمان رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کانام رکوع ہے یہ گویا قائمقام ہو جاتا ہے مومن کے لیے ان چیزوں کا جن کو چھوڑنے کا اسے حکم ہے۔ رکوع کا لفظ اصل میں اسی لئے استعمال کیا گیا ہے کہ رکوع میں ایک چیز ٹیڑھی ہو جاتی ہے اورسہارا ہمیشہ ٹیڑھا ہو کر لیا جاتا ہے۔ جو شخص سیدھا کھڑا ہو گاوہ سہارا نہیں لے سکتا اور اگر وہ سہارا لینا چاہے گا تو اسی وقت لے سکے گا جب وہ ٹیڑھا ہوگا تو کے معنی دراصل خدا تعالی پر سہارا لینا اور اس کے اوپر جُھک جانا ہے۔ جھوٹ، فریب اور منافقت یہ دُنیا کے سہارے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو بڑے گندے سہارے ہیں، ان کو چھوڑ و اور ان کے قریب بھی مت پھٹکو ۔جب دنیا کے سہارے ایک انسان سے لے لئے جائیں تو لازماََ وہ کسی اور سہارے کا محتا ج ہو گا کیونکہ انسا ن سخت کمزور اور بے بس ہے ۔ایک کمزور انسان جو بیمار بھی ہو کرچز(CRUTCHES)پر چلتا ہے یا کھڑا ہوتا ہے تو دیوار کی ٹیک لگا لیتا ہے یا دَم لینے کے لئے کرسی پر جا بیٹھتا ہے یا اگر لیٹے لیٹے سر اُٹھاتا ہے تو کُہنی کا سہارالے لیتا ہے یا گائو تکیہ اپنے پیچھے رکھ لیتا ہے تو کمزوری اور بیماری کے وقت انسان کو دوسری چیزوں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔چونکہ انسان روحانی عالَم میں سخت کمزور ہے اور ہزاروں خفیہ باتیں ایسی پیدا ہو جاتی ہیںجو اس کی ترقی کی راہ میں روک بن کر حائل ہوجاتی ہیں اس لئے اس عالم میںبھی وہ کسی نہ کسی سہارے کا محتاج ہوتا ہے۔ دُنیا دار شخص ایسے موقع پر دغا، فریب ، جھوٹ اور مکاری کا سہارا لے لیتا ہے مگر مومن کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان امور سے بچو۔ تم نہ فریب سے کام لو، نہ جھوٹ سے کام لو، نہ دھوکا سے کام لو اور نہ اَورکسی ناجائز ہتھیار کو استعمال کرو ۔اب جبکہ ایک کمزور انسان کے تمام دُنیوی سہارے شریعت نے لے لئے تو سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ کیا کرے؟ سہارا تو ایک کمزور انسان کے لئے ضروری تھا اور اس سے سہارے کو لے لینا ایسا ہی ہے جیسے ایک لُنجے کی سوٹیاں لے لی جائیں یابیمار کے نیچے سے گائو تکیہ نکال لیا جائے یا ایک کمزور انسان جب کرسی پر بیٹھنے لگے تو اس کے نیچے سے کرسی نکال لی جائے ۔ایسی حالت میں اسے لازماََ کسی اَور سہارے کی ضرورت پیش آئے گی اور وہ کہے گا مَیں کس پر سہارا لوں، میں تو گر جائوں گا۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کا جواب دیا ہے ۔فرمایا ہے تم ہمارے اوپر سہارا لے لو اور ہم پر جُھک جائویہ ایسی بات ہے جیسے کوئی انسان دوسرے کمزور انسان کی سوٹی تو لے لے مگر اپنا کندھا اس کے سامنے پیش کردے اور کہے کہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلو ۔اسی طرح جب اَور ناجائز ہتھیاروں اور ناجائز سہاروںسے اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا تو فرمایا چونکہ تمہیںکسی نہ کسی سہارے کی ضرور ت ہے اس لیے ہم تمہیں کہتے ہیں تم ہم پر جُھک جائو اور ہمارا سہارالے لو ۔تو کا لفظ تَوکّلعلَی اللہ پر دلالت کرتا ہے اور اس میں یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرنا اور سمجھ لینا چاہئے کہ میرے کاموں میں جو نقص ہے خدا تعالیٰ اس کا خود ذمہ دار ہے کیونکہ جب کامیابی کے حصول کی دُنیوی تدابیر سے اس نے منع کر دیا تو اب وہ ہمارا خود ذمہ دار ہے اور وہ آپ ہمارے نقصوں اور ہماری خامیوں کو پورا کرے گا ۔پھر فرماتا ہے یہاں میں جو سجدہ کا لفظ آتا ہے اس سے مرا د بھی نماز والا سجدہ نہیں ہے اس لئے کہ آگے کے الفاظ آتے ہیں جس میں سجدہ بھی شامل ہے۔ پس اس جگہ سجدہ سے مراد بھی وہ سجدہ نہیں جو ہم زمین پر کرتے ہیں بلکہ کے معنی ہیں۔ اے مومنو! تم کامل فرمانبرداری سے کام لو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری اتباع کرو اور جس طرح وہ حُکم دیتا ہے اسی طرح کرو۔چاہے وہ حُکم تمہاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ بسا اوقات انسان ایک چیز کے متعلق جانتاہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پیش کی گئی ہے مگر اپنی نادانی سے سمجھتا ہے کہ اس میں میری تباہی اور بربادی ہے لیکن جب وہ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس چیز کو اختیار کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی خود حفاظت کرتا اور بجائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اس پر انعامات کا نزول شروع ہو جاتا ہے۔حدیثوں میں اس کی ایک نہایت ہی لطیف مثا ل بیان کی گئی ہے کہ کس طرح وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے لئے تکلیفیں اُٹھاتے اور بظاہر اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھوں میں گراتے چلے جاتے ہیں انجام کار اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جاتے اور تباہی کے سامانوں میں ان کے لئے برکت کے سامان پیدا کردئے جاتے ہیں۔
حدیثوں میں آتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے ایک بندے سے کہے گا کہ دوزخ میں کُود، بندہ بے دھڑک دوزخ میں کُود جائے گا اور کہے گا کہ جب مجھے میرے ربّ کا یہی حُکم ہے کہ مَیں دوزخ میں کُود جائوں تو مجھے دوزخ ہی منظور ہے مگر جب وہ اس میں کُودے گا تو دوزخ اس کے لیے نہایت آرام دہ جنت بن جائے گی اور وہ آگ سے کھیلنے لگ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس پرکہے گا دیکھو میرا بندہ آگ سے کیسا خوش ہو رہا ہے ۔۲؎ یہ مثال در حقیقت اسی بات کی ہے کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے قُربانی کرکے بظاہر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں اللہ تعالی انہی ہلاکت کے سامانوںمیں ان کے لئے ترقی کے سامان پیدا کردیتا ہے۔ بظاہر دُنیا سمجھتی ہے کہ وہ آگ میں کُودے ہیں مگر جب وہ اس آگ میں کُود جاتے ہیں تو وہی آگ ان کے لئے جنت بن جاتی ہے ۔
صحابہؓ کو دیکھیں اُنہوں نے کیسی خطرناک آگ اپنے لئے قبول کی مگر وہی آگ ان کے لئے کیسی جنت بن گئی کہ دُنیا پر اس زمانے سے لے کر آج تک تیرہ سَو سال گزر چکے اور نا معلوم ابھی کتنے سَو سال یا کتنے ہزار سال یا کتنے لاکھ سال یا کتنے کروڑ سال یا کتنے ارب سال اَور گزرنے ہیں،اﷲ تعالیٰ ہی اس کو بہتر جانتا ہے مگر آج بھی جب صحابہ ؓ کا کوئی ذکر کرتاہے تو ایک مخلص کا دل محبت سے بھر جاتا ہے اور وہ ۳؎کہے بغیر نہیں رہتا اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا چلا جائے گا ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں دُنیا میں لوگ نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے بڑی بڑی قُربانیا ں کرتے ہیں ۔بعض آدمیوں کو مَیں نے دیکھا ہے ان کی ساری عمر’’خان صاحب ‘‘ کے خطاب کے حصول کے لئے ہی گزر جاتی ہے ۔حا لانکہ ’’خان صاحب‘‘ کے خطاب میں کیا رکھا ہے؟دو لفظ ہی ہیں ورنہ ان کی کیا حقیقت ہے؟ پھر ان کا یہ اپنا اختیار ہوتاہے کہ وہ اگر چاہیں تو اپنا نام ’’خان صاحب‘‘ رکھ لیں۔ چنانچہ کئی لوگ اپنے بچوں کا نام ’’خان صاحب‘‘ یا ’’خان بہادر‘‘ رکھ دیتے ہیں۔
پس اگر وہ چاہیں تو یہ نام آپ بھی اپنا رکھ سکتے ہیں مگر اس لئے کہ گورنمنٹ کی طرف سے ان کو یہ نام ملے وہ اپنی ساری عمر اسی کوشش میں گزار دیتے اور اس کے لئے بڑی بڑی غلامیاں کرتے ہیں، کہیں انہیں جھوٹ بولناپڑتا ہے، کہیں فریب سے کام لینا پڑتا ہے، کہیں عیّاری اور مکاری کرنی پڑتی ہے، کہیں قوم کو قُربان کرتے ہیں اور اس تمام مکر و فریب اور تمام چاپلوسی غلامی اور لجاجت میں ایک ہی بات اُن کے مدِّ نظر ہوتی ہے کہ کسی دن صاحب بہادر خوش ہوجائے تو وہ ہمارے متعلق خان صاحب یا خان بہادر کے خطاب کی سفارش کردے ۔اگر انسانی فطرت کی اس کمزوری کا خیال نہ رکھا جائے تو ایسے انسان کا تصور کر کے ہی شرم سے انسان پانی پانی ہو جاتا ہے اور وہ حیران ہوتاہے کہ ان الفاظ میں آخر رکھا ہی کیا ہے اور خان صاحب یا خان بہادر کا خطاب ملنے سے ہو کیا جاتاہے کہ وہ اس کے لئے اتنی جدوجہد کرتاہے سوائے اس کے کہ اُسے افسروں کو سلام کرنے پڑتے ہیں اور دربار میں اسے جُھکنا پڑتا ہے اور اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور ان عزتوںسے تو شریف آدمی بعض دفعہ بڑے گھبراتے ہیں۔
ہمارے ہی عزیزوںمیں سے ایک کٹردُنیا دار تھے وہ احمدی نہیں تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ کوشش کی اور وہ سفید پوش ہو گئے ۔اس زمانے میں ڈاک کے متعلق سرکاری انتظام چونکہ ابھی اعلیٰ پیمانہ پر نہیں تھا اس لئے جو ذیلدار یا سفید پوش ہوتے، انہیں بعض دفعہ ضروری چِٹھیاں بھیجی جاتی تھیں کہ وہ ڈپٹی کمشنر کو پہنچا آئیں ۔اتفاق ایسا ہؤا کہ اِدھر وہ کوشش کر کے سفید پو ش بنے اور اُدھر ایک سرکاری آفیسر نے اُنہیں بُلایا اور کہا کہ ڈپٹی کمشنر آجکل دورہ پر ہے اور فلاں جگہ ہے، ایک اہم سرکاری پروانہ لیفٹیننٹ گورنر صاحب کی طرف سے آیا ہے، آپ یہ جا کر اُنہیں پہنچا دیں ۔ وہ تو خیر حُکمِ حاکم مرگِ مفاجات اُنہوں نے جوںتوں کر کے پہنچا دیا مگر گھر واپس آتے ہی استعفیٰ دے دیا اور کہا مجھے سفید پوشی منظورنہیں۔مَیں سفید پوشی عزت کی چیز سمجھا تھا مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ سفید پوشی انسان کو ہرکارہ بناتی ہے۔مگر دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جو اس کے لئے ہر قسم کی تکلیف گوارہ کرتے اور خواہش رکھتے ہیں کہ کسی طرح وہ ذیلدار یا سفیدپوش بن جائیں۔
قادیان ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔دُنیا جہان سے الگ ایک کونہ میں واقع ہے ساری دُنیا ہماری دشمن ہے ۔قادیان کا نام سُن کر مخالف لوگ کوسوں بھاگتے ہیں ۔مگر میں نے دیکھا ہے جہاں کوئی احمدی افسر ہوتا ہے وہاں کے بڑے بڑے زمیندار جو بعض دفعہ چارچار،پانچ پانچ، چھ چھ یا دس دس ہزار ایکڑ زمین کے مالک ہوتے ہیں ۔با وجود مخالفت کے ہمارے پاس آتے ہیں او ر کہتے ہیں فلاں احمدی افسر کو ہمارے متعلق کوئی چِٹھی لکھ دیںکیونکہ ہمارا اُن کے پاس سفید پوشی یا ذیلداری کا مقد مہ ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ سفید پوشی یا ذیلداری ہمیں مِل جائے۔ مَیں جب ان کو دیکھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو گھر بیٹھے دولت و ثروت دی تھی اور یہ باپ دادا سے ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک چلے آتے تھے اگر یہ ولایت میں ہوتے تو لارڈ اور ڈیوک اور مارکوئیس اور ارل اور کیا کیا ہوتے مگر یہ سفید پوشی یا ذیلداری کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ یوں شاید وہ مذہبی تعصب کی بناء پر ہم سے بات کرنا بھی اپنی ہتک سمجھیں مگر سفارش کرانے کے لئے ہمارے پاس آموجود ہوتے ہیں ۔تو ان کی حالت دیکھ کر مجھے نہایت ہی تعجب آتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ الٰہی یہ کیسی ذلت کو پہنچ گئے ہیں؟ اگر یہ اسی عزت پر قناعت کرتے جو خدا تعالیٰ نے ان کو دی تھی تو ذیلدار یا سفید پوش ہونے کی جدوجہد میں انہیں کئی قسم کی ذلتیں برداشت نہ کرنا پڑتیں ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ شخص جو اپنی عزت پر قناعت کرتا ہے اس کی ساری دنیا عزت کرتی ہے اور عزت تو اپنے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ دُنیاداروںمیں سے بھی جو شریف لوگ ہوتے ہیں چاہے دین ان میں نہ ہو وہ اپنی عزت کے متعلق غیرت رکھتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی ان کی عزت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ہمارے دادا صاحب کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں لکھاہے کہ وہ بڑے دُنیا دار تھے اور ہمیشہ دُنیا کے خیالات میں منہمک رہتے لیکن شرافتِ خاندانی کی حِس اُن میں اس قدر تھی کہ پُرانے لوگوں سے میں نے سُناہے کہ وہ ایک دفعہ کمشنر سے ملنے کے لئے گئے ۔دورانِ گفتگو میں کمشنر پوچھ بیٹھا کہ مَیںدورہ پر جانے والا ہوں یہ بتائیں کہ قادیان سے سری گو بند پور کتنے میل ہے ؟ اُس نے جونہی یہ سوال کیا ہمارے دادا صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے مَیں اپنی ہتک کرانے کے لئے یہاں نہیں آیا مَیں کوئی ہر کارہ نہیں کہ ایسا سوال مجھ سے کیا جائے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ کمشنر اُن کی منتیں کرنے لگا اور کہنے لگا آپ ناراض نہ ہوں مجھ سے غلطی ہو ئی ہے۔۴؎وہ دُنیا دار تھے مگر یہ حِس اُن میں بھی تھی کہ مَیں عزت رکھتا ہوں اور اگر تم میری عزت کا پاس نہیں کر سکتے تو مَیںجاتا ہوں۔ تو انسان کی حقیقی عزت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے ملتی ہے ۔وہ عزت جتنی بھی ہو خواہ تھوڑی ہو یا بہت انسان کے لئے کافی ہوتی ہے مگر جب وہ خیا لی عزتوںکے پیچھے پڑ تا ہے تو اسے ایسی ایسی غلامیاں اور ایسی ایسی فرمانبرداریاں کرنی پڑتی ہیں کہ جن کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی اور پھر اسے جو چیز ملتی ہے وہ نہایت ہی حقیر ہوتی ہے ۔
ہمارے صوفیاء کی تاریخ میں ایک مشہور واقعہ آتا ہے ۔شبلی ؒ اسلام میں ایک بہت بڑے بزرگ اور ولی اللہ گزرے ہیں۔ ان کا نام اتنامشہور ہے کہ گائوںکے لوگ بھی انہیںجانتے ہیں اور اشعار میںاُن کا ذکر کرتے ہیں ۔وہ اسلام میں چوٹی کے بزرگ ہوئے ہیں۔وہ اسلامی بادشاہت میں پہلے گورنر تھے اور اس قدر ظالم اور جابر تھے کہ حجاج بن یوسف کی طرح ان کا بھی رُعب تھا اور لوگ اُن سے بڑے ڈرتے تھے ۔ذرہ سی بات پر بھی لوگوں کو سخت سزائیں دیتے اور انہیںمارتے یا قتل کر ادیتے ۔ایک دن بغداد میں بادشاہ کا دربار لگا ہؤا تھا وہ بھی اس دربار میں موجود تھے کہ ایک فاتح جرنیل بادشاہ کے سامنے پیش ہؤا۔اس جرنیل نے بعض مخالف افواج کو جن سے باشاہ بھی گھبراتاتھا شکست فاش دی تھی اور بادشاہ نے یہ دربار اسی لئے لگایا تھا کہ اپنے ہاتھ سے اس جرنیل کو خلعتِ فاخرہ دے اور اس طرح سب کے سامنے اس کی قدر افزائی کرے ۔چنانچہ وہ بادشاہ کے سامنے پیش ہؤا اور اُس نے نہایت ہی اعزاز کے ساتھ اسے خلعت پہنایا مگر وہ بیچارہ شاید اس دن شامتِ اعمال سے رومال لانا بھول گیا تھا۔ عام طور پر درباری اپنی آستینوںمیں رومال چھپا کر رکھتے ہیںیا ممکن ہے وہ رومال تو لایا ہو مگر اس کے پہلے کوٹ میں ہو جو اُس نے خلعت پہننے کے لئے اُتارا ہو ۔بہر حال اُس وقت رومال اس کے پا س نہیں تھا جب وہ خلعت پہن چُکا تو اتفاقاً اُسے چھینک آئی جس سے اُس کا ناک بہہ پڑا۔ شاید اُسے نزلہ کی شکایت تھی ۔یہ دیکھ کر وہ سخت گھبرا یا اور اُس نے بادشاہ کی بے ادبی کے ڈر سے جیب پرہاتھ جو مارا تودیکھا کے رومال نہیں۔ اسے اور زیادہ فکر لاحق ہؤا اور اب وہ سوچنے لگا کہ کیا کروں؟ آخر اس مصیبت سے بچنے کے لئے اُس نے ایک طرف منہ کرکے اسی خلعت کے ایک کونہ سے اپنا ناک پونچھ لیا ۔اتفاقاً بادشاہ کی بھی اُس پر نظر پڑ گئی۔ بس یہ دیکھتے ہی اسے قہر آگیا ۔بادشاہ نے بے تحاشہ اُسے گالیا ں دینی شروع کر دیں کہ بڑے بے حیا اور کمینہ ہو، ہم نے تمہاری عزت افزائی کی اور تم نے ہمارے خلعت کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ اس سے اپنا ناک پونچھ لیا ۔پھر اُس نے حُکم دیا کہ اس کا خلعت اُتار لیا جائے، اس سے تمام عہدے چھین لئے جائیں اور اسے ذلیل کر کے دربار میںسے نکال دیا جائے ۔اِدھر بادشاہ نے یہ حُکم دیا اور اُدھر شبلی رونے لگ گئے اور روتے ہی چلے گئے ۔بادشاہ نے اُن کی طرف دیکھا اور کہا شبلی تمہیں کیا ہو گیا؟ کیا تم پاگل ہو گئے ہو جو روتے ہو؟شبلی کہنے لگے حضور میرا استعفیٰ منظور کیجئے ۔وہ کہنے لگا کیوں ؟معلوم ہوتا ہے کہ شبلی کے دل میں کوئی نیکی اور تقویٰ تھا جو اُن کے کام آگیا اور وہ کہنے لگے حضور! آپ نے اس جرنیل کو خلعت دیا اور اس کی عزت افزائی فرمائی مگر یہ خلعت اس کی قُربانیوں کے مقابلہ میںکیا حقیقت رکھتا تھا؟ کچھ بھی نہیں ۔وہ سال دو سال آپ کے دشمن کے مقابلہ میںبرسرپیکار رہا۔وہ ہر روز اپنی بیوی کو بیوہ اور اپنے بچوں کو یتیم بنا دینے کے ارادہ سے نکلتا اور گھمسان کی لڑائیوں میں آپ کی عزت اور آپ کی حکومت کی وسعت کے لئے گھس جاتا۔ہر روز اس کی جان خطرے میں تھی، ہر روز اس پر ایک موت آتی تھی ۔کوئی دن نہ تھا جس میں وہ آپ کی عزت کے لئے اپنی بیوی کو بیوہ اوراپنے بچوںکو یتیم بنانے کا تہیہ نہ کرتا مگر اتنی بڑی قربانیوںکے بعد آپ نے اسے جو خلعت دیا وہ گو اُس کی قُربانیوں کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا تھا مگر آپ نے اتنا بھی گوارہ نہ کیا کہ اس نے آپ کے عطاکردہ خلعت سے ناک کیوں پونچھ لیا اور آپ نے اسے اپنے خلعت کی بے حرمتی قرار دیا ۔حضور اس سے بہت زیادہ قیمتی خلعت وہ ہے جو خدا نے مجھے دیا ہؤا ہے ۔یہ ناک ، یہ کان ،یہ منہ، یہ آنکھیں ،یہ زبان یہ ہاتھ ،یہ پاؤں ، یہ دماغ ، یہ اعضاء اور یہ تمام طاقتیں اﷲ تعالیٰ کا خلعت ہیں ۔مَیں آپ کی خاطر ایک لمبے عرصہ سے اللہ تعالیٰ کے اس خلعت کو خرا ب کر رہا ہوں۔مَیں ڈرتا ہوں کہ قیامت کے دن جب میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو ں گا تو اُس کو کیا جواب دوں گا اور اپنی براء ت میں کونسی بات پیش کرسکوں گا؟پس میر ا استعفیٰ منظور کیجئے مَیں ا ب اَور زیادہ اس الٰہی خلعت کی بے حرمتی کرنا نہیں چاہتا ۔بادشاہ نے اُنہیں بہتیرا سمجھایا مگر وہ نہ مانے او راستعفیٰ دے کر الگ ہوگئے ،وہ اتنے ظالم مشہور تھے کہ اس کے بعد وہ مختلف علماء کے پاس جب توبہ کے لئے گئے تو کوئی اُن کی توبہ قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا اورہر ایک کہتا کہ تیرے جیسے آدمی کوتو اللہ تعالیٰ سیدھا جہنم میں جھونکے گا۔آخر وہ حضرت جنیدبغدادی کے پاس گئے اور جا کر کہنے لگے کہ چاہے کوئی شرط آپ رکھیں مَیںہرشرط ماننے کے لئے تیار ہوں میری بیعت آپ قبول فرمائیں ۔وہ کہنے لگے اچھا اگر تمہیں ہر شرط منظور ہے تو پھر تم اس شہر میں جائو جہاں کے تم گورنر رہ چکے ہو اور اس شہر کے ہر گھر کے دروازہ پر دستک دو اور وہاں کے لوگوں سے معافی مانگو۔ چاہے معافی مانگنے میں تمہیں کتنا عرصہ لگ جائے ۔چنانچہ وہ اُس شہر میں گئے اورچھ مہینے یا سال یا جتنا عرصہ لگا وہ اس شہر میں رہے اور اُنہوں نے ہر دروازہ پر دستک دے کر لوگوں سے اپنے گناہوںکی معافی چاہی اور جب سب سے معافی مانگ چکے تو پھر حضرت جنید کے پاس آئے اور اُنہوں نے اپنی بیعت میں انہیںشامل کر لیا ۔۵؎اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُنہیں خود بھی بہت بڑا رُتبہ دے دیا چنانچہ وہ اسلام کے صوفیاء کے ایک ستون سمجھے جاتے ہیں۔
تو انسان چھوٹی چھوٹی عزتوں کے حصول کے لئے بڑی بڑی قُربانیاںکرتاہے اور پھر ان قُربانیوں کے بعد جو چیز اسے ملتی ہے وہ نہایت ہی ذلیل اور ادنیٰ قسم کی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں اللہ تعالی کے فضل اتنے اہم ہوتے ہیں کہ ان فضلوں کے مقابلہ میں دُنیا کی بادشاہتیں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ جیسے مَیں نے بتایا ہے کہ صحابہ کا جب بھی کوئی ذکر کرے ہم کہے بغیر نہیں رہتے ۔اب یہ ایک خطاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ۔ایسا ہی جیسا خان صاحب یا خان بہادر یا سریا ڈیوک یا مار کوئس یا ارل وغیرہ ہیں۔ مگر سوچوتو سہی کتنے خان بہادر یاسر یا ڈیوک یا مارکوئس یا ارل ہیں جن کا نام دُنیا جانتی ہے یا کتنے بادشاہ ہیں جن کا نام لوگ جانتے ہیں یا کتنے بادشاہ ہیں جن کا نام دُنیا خطاب سمیت لیتی ہے۔ بڑے بڑ ے بادشاہ دُنیا میں گزر ے ہیں مگر آج لوگ اُن کا نام نہایت بے پروائی سے لے دیتے ہیں ۔
سکندر کتنا بڑا بادشاہ تھا یونان سے وہ چلتا ہے اور ہندوستان تک فتح کرتا چلا آتا ہے اور بڑی زبر دست حکومتوںکو راستہ میں شکست دیتا ہے مگر آج ایک غریب اور معمولی مزدور بھی جو ایک انگریز سپاہی سے بھی ڈر جاتا ہے سکندر کا نام نہایت بے پروائی سے لے لیتا ہے ۔بچے بھی سکندر سکندر کہتے پھرتے ہیں اور کوئی ادب کا لفظ اس کے لئے استعمال نہیں کرتے ۔
دارا ۶؎ بھی ایک عظیم الشان بادشاہ تھا اور گو اُسے سکندر کے مقابلہ میں شکست ہوئی مگر اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ وہ بھی زبر دست سلطنت کا مالک تھا اورچین تک اس کی حکومت پھیلی ہوئی تھی مگر آج لوگ اُسے دارادارا کہتے پھرتیہیں۔بادشاہ کا لفظ بھی اس کے متعلق استعمال نہیں کرتے۔
تیمور جو ایک زمانہ میں دنیا کے لئے قیامت بن گیا تھا ۔آج اُسے ساری دنیا تیمور لنگ یعنی لنگڑا تیمور کہتی ہے ۔اپنے زمانہ میں اُس کی اتنی ہیبت تھی کہ جب وہ حملہ کرتا تو کُشتوں کے پشتے لگا دیتا اور بعض جگہ تو لوگوں کو مار مار کر اُن کی لاشوں کو جمع کرتا اور ایک مینار کھڑا کردیتا ۔بعض مؤرخ کہتے ہیں کہ اس نے کئی لاکھ آدمی قتل کیا ہے مگر اب ایک ذلیل سے ذلیل انسان بھی جب تیمور کا ذکر کرتا ہے تو کہتا ہے لنگڑا تیمور ۔حالانکہ اس کے زمانہ میں کسی کو یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ اُسے لنگڑا تیمور کہے بلکہ بادشاہ کیا وہ شہنشاہ کہلاتا تھا اور بڑے بڑے حکمران اس کے خوف سے کانپتے تھے ۔
تو وہ بادشاہ جن کی اپنے زمانہ میں بڑی ہیبت تھی جن کا نام سُن کر ہزاروںمیل پر لوگ کانپ اٹھتے تھے اُن کا نام آج انتہائی لاپروائی کے ساتھ ایک معمولی اور بے حیثیت آدمی بھی لے لیتا ہے اور کئی تو ایسے ہیں جن کانام بھی آج کوئی نہیں جانتا مگر وہ غریب بکریاں اور اونٹ چرانے واے صحابہ جنہوں نے غربت میں اپنی عمریں گزاردیں آج اُن کانام آتا ہے تو کہے بغیر ایک مسلمان کا دل مطمئن نہیں ہوتا ۔
حضرت ابو ہریرہؓ اپنے متعلق کہتے ہیں کہ مجھے سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا تھا اور جب میں شدتِ ضُعف سے بیہو ش ہو جاتا تھا تو لوگ میرے سر پر جُوتیا ںمارنے لگ جاتے اور سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دَورہ ہو گیا ہے۔۷؎ پھر حضرت ابوہریرہؓ کسی اعلیٰ خاندان میں سے نہ تھے، کوئی دولت مند نہ تھے،کوئی پڑھے لکھے نہ تھے۔ پھر ہمارا بھی ان سے کوئی رشتہ داری کاتعلق نہیں۔ نہ ملک کا تعلق ہے نا خاندان کا تعلق ہے نہ زبان کا تعلق ہے ۔دُنیوی لحاظ سے وہ نہایت ہی ادنیٰ حالت کے تھے مگر آج ہماری یہ حالت ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہے بغیر دل کو چین آتا ہی نہیں۔ حضرت ابو بکررضی اﷲ عنہ کی جو حالت تھی وہ خود ان کے باپ کی شہادت سے ظاہر ہے۔ حضر ت ابو بکررضی اﷲ عنہ کے باپ کانام ابو قحافہ تھا جب حضرت ابو بکر ؓ خلیفہ ہوئے تو اُس وقت ابو قحافہ مکّہ میں تھے ۔کسی شخص نے وہاں جا کر ذکر کیا کہ ابو بکر ؓعرب کا بادشاہ ہو گیا ہے ۔ابو قحافہ مجلس میں بیٹھے تھے کہنے لگے کون سا ابو بکر؟اس نے کہا وہی ابوبکر قریشی۔ وہ کہنے لگے کون سا قریشی؟ اس نے کہا و ہی جو تمہار ا بیٹا ہے اور کون ۔وہ کہنے لگے واہ ابو قحافہ کے بیٹے کو عرب اپنا بادشاہ مان لیں یہ کیسے ہو سکتاہے، تُو بھی عجیب باتیں کرتا ہے ۔غرض ابو قحافہ کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے متعلق یہ مان ہی نہیںسکتے تھے کہ سارا عرب انہیں اپنا بادشاہ تسلیم کرلے گا مگر اسلام کی خدمت اور دین کے لئے قربانیاں کرنے کی وجہ سے آج حضرت ابو بکررضی اﷲ عنہ کو جو عظمت حاصل ہے وہ کیا دُنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل ہے؟آج دنیا کے بادشاہوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جسے اتنی عظمت حاصل ہو جتنی حضرت ابوبکر ؓ کو حاصل ہے بلکہ حضرت ابو بکرؓ تو الگ رہے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی اتنی عظمت حاصل نہیں جتنی مسلمانوں کے نزدیک حضر ت ابوبکرؓکے نوکروں کو حاصل ہے۔بلکہ حق یہ ہے کہ ہمیںحضرت ابوبکرؓ کاکتا بھی بڑی بڑی عزتوں والوں سے اچھا لگتا ہے ۔اس لئے کہ وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے در کا خادم ہو گیا۔ اس لئے کہ اس نے ہمارے رب کے دروازہ پر سجدہ کیا ۔جب اس نے ہمارے رب کے دروازے پر سجدہ کیا اور وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے در کا غلام ہو گیا تو اس کی ہر چیز ہمیںپیاری لگنے لگ گئی اور اب یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اس عظمت کوہمارے دلوں سے محوکر سکے۔حضرت ابو بکررضی اﷲ عنہ تاجر آدمی تھے اور تاجر کو لڑا ئی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔وہ مال و اسباب کی گٹھڑی اُٹھا کر اِردگِردکے دیہات میں چلے جاتے اور اسے فروخت کرتے۔ بیشک حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ دولت مند تھے مگر آپ کا خاندان کوئی بڑا خاندان نہیںتھا صرف ایک عام شریف قریشی خاندان تھا اور کام آپ کا تجارت تھا۔مال و اسباب اِرد گِرد کے گائوں میں لے جاتے اور پھیری کے طور پر بیچ دیتے اور چونکہ آپ ذہین اور ہوشیار تھے اس لئے اُن کی تجارت میں برکت تھی اور وہ کافی روپیہ کما لیتے تھے۔پھر جب اللہ تعالی نے ان کو اسلام نصیب کیا تو اُس تاجر کے دل میں وہ جرأت اور بہادری پیدا ہوگئی جو بڑے بڑے فوجیوں کے دلوں میں بھی نہیں ہوتی ۔
ایک دفعہ صحابہ ؓکی مجلس میں کسی نے کہا کہ ابو بکرؓ لڑنے والے آدمی نہیںتھے۔ خبر نہیںجنگوں میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا۔اس پر ایک صحابی کہنے لگے ہم میں سے سب سے زیادہ بہادر وہ شخص سمجھا جاتا تھا جو جنگ میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔اس لئے کہ دشمن کا سارا حملہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر ہوتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے ان کو مار دیا تو باقی مسلمانوں کی ہمتیں پَست ہو جائیں گی اور ان کو ختم کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں رہے گا اور ہمیشہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پہرے پر حضرت ابوبکرؓ ہی کھڑے ہوتے تھے ۔۸؎
قربانی کایہ حال تھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ ان کے بڑ ے بیٹے نے جو بعد میں مسلمان ہو ئے اور جو بدر یا اُحد کی جنگ میں (مجھے صحیح یاد نہیں )کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے۔ کھانا کھاتے ہوئے باتو ں باتوں میںذکر کیا کہ اباجان اُس جنگ میں جب فلاں جگہ سے آپ گزرے تھے تومیں ایک پتھر کے پیچھے چھُپ کر کھڑا تھا اور مَیں اگر چاہتا تو آپ کو مار دیتا مگر مَیں نے کہا باپ کو تونہیں مارنا ۔حضرت ابو بکر ؓ نے جواب دیا کہ خدا نے تجھے ایمان نصیب کرناتھا اس لئے تو بچ گیا۔ خدا کی قسم اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا ۔۹؎جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہوئے ہیں تو اُس وقت سارا عرب مرتد ہو گیا اور حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ جیسے بہادر انسان بھی اس فتنہ کو دیکھ کر گھبرا گئے ۔ وفات کے قریب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک لشکر رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا اور اسامہ ؓ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا مگر ابھی وہ لشکر روانہ نہیں ہؤا تھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔ آپ کی وفات پر جب قریباََ سارا عرب مرتد ہو گیا تو صحابہ گھبرا گئے اور انہوں نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اُسامہؓ کا لشکر بھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا گیا تو پیچھے صرف بوڑھے ،مرد ،بچے اور عورتیں رہ جائیں گی اور مدینہ کی حفاظت کاکوئی سامان نہیں ہو سکے گا ۔چنانچہ انہوں نے تجویز کی کہ اکابر صحابہ ؓ کا ایک وفد حضرت ابو بکررضی اﷲ عنہ کی خد مت میں جائے اور اُن سے درخواست کرے کہ اس لشکر کو بغاوت کے فرو ہونے تک روک لیں ۔چنانچہ حضرت عمرؓاور اکابر صحابہ ؓ مل کر ایک وفد کی صورت میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے اور اُن سے عرض کیا کہ کچھ عرصہ کے لئے اس لشکر کو روک لیا جائے ۔جب بغاوت فرو ہو جائے تو پھر بیشک اسے بھیج دیا جائے ۔جب حضرت ابوبکرؓ کے پاس یہ وفد پہنچا تو آپ ؓ نے نہایت غصہ سے اس وفد کو یہ جواب دیا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد ابوقحافہ کا بیٹا سب سے پہلا یہ کام کرے کہ جس لشکر کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حُکم دیا تھا اسے روک لے۔(حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی عادت تھی کہ جب وہ اپنی تحقیر کرنا چاہتے تو اپنے باپ کا نام لیتے ۔یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ میری کیا حیثیت ہے کہ میں ایسا کروں۔ اس موقع پر بھی آپ نے اَپنے باپ کا نام لے کر کہا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ابو قحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا اسے وہ روک لے ۔)پھر آپ نے فرمایا گھبرانے کی کوئی بات نہیں اگر سارا عرب باغی ہو گیا ہے تو بیشک ہو جائے ،خدا کی قسم اگر دشمن کی فوج مدینہ میں گھس آئے اور ہمارے سامنے مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو ضرور روانہ کروں گا جس کو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کے لئے تیا ر کیا ہے ۔اگر تم دشمن کی فوجوں سے ڈرتے ہو تو بیشک میرا ساتھ چھوڑ دو میں اکیلا تمام دشمنوں کا مقابلہ کروں گا ۔۱۰؎یہ جرأت اور دلیری حضرت ابو بکر ؓ میں کہاں سے پیدا ہو گئی؟ یہ وہی والے حکم کی تعمیل کا نتیجہ ہے جس طرح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل جاتی ہے تو اس تار میں عظیم الشان طاقت پیدا ہوجاتی ہے اسی طرح جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کا قُرب حاصل کر لیتا ہے تو دُنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔بجلی سے علیحدہ کر لو تو تار کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی مگر اسی تار میں جب بجلی کی رَو آئی ہوئی ہو اور تار کے اوپر سے اتفاقاََ ربڑ اُترا ہؤا ہو تو اگر ایک قوی سے قوی پہلوان بھی اسے چُھوئے گا تو مُردہ چوہے کی طرح گر جائے گا اور اس کی طاقت اسے کوئی نفع نہیں پہنچاسکے گی۔
تو دُنیوی عزتوں کے حصول کے لئے لوگ بڑی بڑی قُر بانیاں کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس موقع پر اسی امر کا ذکر کرتا اور فرماتا ہے کہ ا ے مومنو! جب تم ہمارے پاس آئے ہو تو تمہیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ بغیر کے احکام پر عمل کرنے کے تمہیں کوئی کا میابی حاصل نہیں ہو سکتی ۔ہا ں اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو ،ہمارے احکام کی فرمانبرداری کا عہد کرو اور ہماری عبادت میں لگ جائو تو ہم تمہیں کامیاب کردیں گے مگر دُنیا ان باتوں پر عمل اپنے اوقات کا ضیاع سمجھتی ہے ۔وہ کہتی ہے ہمپانچ وقت کی نمازیں پڑھیں تو کیوں پڑھیں ۔اس سے ہمیں کوئی فائدہ تو نہیں ہوتا یونہی وقت ضائع ہوتا ہے اور اگر ہم پنجوقتہ نمازیں پڑھنے لگیں تو باقی کام کب کریں؟حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانہ کی بات ہے یہاںایک زمیندار آیا ۔اس کو کسی شخص نے کہا تھا کہ قادیان جا کر دیکھو اور مرزاصاحب کی زیارت کرو تب تمہیں وہاں کی قدر و منزلتمعلوم ہوگی ۔مخالفوںکی باتوں پر اعتبار کرنا درست نہیں ۔چنانچہ وہ اس تحریک پر قادیان آیا جب وہ واپس گیا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ سناؤ قادیان گئے تھے تم نے کیا دیکھا؟ وہ کہنے لگا واہ قادیان کی بڑی تعریفیں سُنی تھیں مَیں تو دیکھ آیا ہوں وہ تو آدمیوںکے رہنے کی جگہ ہی نہیں ۔لوگوں نے اُس سے پوچھا آخر بتائو تو سہی ہؤا کیا ؟ کہنے لگا کیا بتاوں، وہ بھی کوئی جگہ ہے۔ جب مَیں وہاں یکّہ پر پہنچا تو نو دس بجے کا وقت تھا۔ مَیں نے چاہا کہ مہمان خانہ میںذرا آرام کریں گے کہ کسی نے کہا چلو جی مولوی صاحب قرآن اور حدیث پڑھا رہے ہیںوہ سُنیں۔مَیں نے کہا اچھا آرام پھر کریں گے۔ جب قادیان آئے ہیں تو قرآن اور حدیث سُن لیں چنانچہ مَیں وہاں گیا وہ مطب میں بیٹھے تھے، بڑی دیر بیماروں کو دیکھتے رہے، پھر اُنہوں نے قرآن پڑھایا، پھر حدیث پڑھائی اور اسی طرح اَوردینی باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ بارہ بج گئے وہاں سے واپس آئے تو مَیں نے کہا چلواب آرام سے حُقّہ پیتے ہیں مگر ابھی حُقّہ تیار ہی کرنے لگا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا چوہدری صاحب کھانا تیا رہے پہلے یہ کھا لیں ۔مَیں نے کہا اچھا کھانا کھا لیں پھر حُقّہ پی لیں گے۔ چنانچہ کھانا کھایا اور حُقّہ تیار کرنا شروع کیا مگر ابھی چِلم سُلگی نہیں تھی کہ ظہر کی اذان ہو گئی اور ایک شخص مجھے کہنے لگا مسجد چلو وہا ں مرزا صاحب آئیں گے ان کی زیارت کرنا ۔چنانچہ مَیں حُقّہ کو وہیں چھوڑ کر مسجد چلا گیا اور نماز پڑھی۔ نمازکے بعد مرزا صاحب وہیں بیٹھ گئے اور دیر تک باتیں کرتے رہے۔جب وہ اُٹھ کر اندر گئے تو مَیں نے کہا چلو اب چل کر حُقّہ پئیں۔ چنانچہ مَیں نے پھر چِلم سُلگائی اور حُقّہ تیار کیا مگر ابھی دو تین کش ہی لگائے تھے کہ عصر کی اذان ہو گئی۔ لوگ مجھے کہنے لگے کہ چلو عصر کی نماز پڑھو۔مَیں حُقّہ کو و ہیں چھوڑ کر عصر کی نماز پڑھنے چلا گیا ۔جب مَیں عصر کی نماز پڑھ چُکا تو مَیں سمجھا کہ اب مَیں جاکر آرام سے حُقّہ پیئوں گا مگر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ لوگ کہنے لگے مولوی صاحب بڑی مسجد میں درس دینے چلے گئے ہیں ،وہاں چلو ۔چنانچہ مَیں اُٹھ کر بڑی مسجد چلا گیا۔ وہاں شام تک درس ہوتا رہا ۔وہاںسے ابھی اُٹھا ہی تھا کہ مغر ب کی اذان ہوگئی۔ چنانچہ مغرب کی نماز پڑھنے چلا گیا۔مغرب کے بعد مرزا صاحب پھر بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگ گئے۔ وہاں سے جب مَیں اُٹھا تو مَیں نے کہااب تو چِلم سُلگا کر آرام سے حُقّہ پیئوںگا مگر ابھی چلم سُلگانے بھی نہیں پایا تھا کہ عشاء کی اذان ہو گئی مَیں عشاء پڑھنے چلا گیا۔ وہاں سے واپس آیا تو کہنے لگے کھانا کھا لو۔ چنانچہ کھانا کھایا اور مَیں نے سمجھا کہ اب تو فراغت ہو ئی مگر کھانا کھا کر مَیں فارغ ہی ہؤا تھا کہ ایک مولوی صاحب کا مہمان خانہ میں ہی درس شروع ہو گیا مَیں وہ سُننے لگ گیا اور سُنتے سُنتے ہی نیند آگئی اور اُٹھ کر سو گیا اور حُقّہ پینے کا موقع نہ مِلا۔ جب صبح آنکھ کھلی تو بستر اُٹھا کر مَیں وہاں سے نکل کھڑا ہؤا اور مَیں نے سمجھ لیا کہ یہ آدمیوں کے رہنے کی جگہ نہیں ۔تو دُنیا کے لوگ جو ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ نماز پڑھنی اور روزے رکھنے،دین کی خدمت کرنا سب وقت کا ضیا ع ہے۔ چنانچہ کئی مسلمان ایسے ہیںجنہوں نے اپنی کتا بوں میں لکھا ہے کہ بھلا آج کل پانچ وقت نماز پڑھ کر بھی کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دُنیا کی کوئی قوم اس رنگ میں ترقی نہیں کر سکتی مگر جس نے خدا تعالیٰ کی مدد سے ترقی کرنی ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پنجوقتہ نمازپڑھے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزے رکھے ،اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدمت دین کرے خواہ دُنیا اسے وقت اور مال کا ضیاع ہی قرار دے۔پس فرماتا ہے تم اپنے رب کی عبادت کرو جب تم یہ باتیں کر لو یعنی جب اللہ تعالیٰ پر توکل کرو ۔جب اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جواَ اپنی گردنوں پر اُٹھا لو، جب تم اس کی شب و روز عبادت کرو تو پھر چوتھا فرض تمہارا یہ ہے کہ تم بنی نوع انسان کی بھلائی کی کوشش کرو ،تم یتیمو ں کی خبر گیری کرو،تم بیواؤںکی نگہداشت کرو، تم مساکین سے شفقت اور رأفت کے ساتھ پیش آو ،تم ہمسائیوں سے نیک سلوک کرو،تم دین اسلا م کو ان لوگوں میں پھیلائو جو اسلامی تعلیم سے نا آشنا ہیں ۔ غرض جس قدر اچھے کام ہیں وہ سب کرو تاکہ تم کا میاب ہو جائو کو تو لوگ کسی حد تک مانتے ہیں مگر باقی جس قدر احکام ہیں ان کو دُنیا اپنی تباہی کی علامت سمجھتی ہے۔وہ کہتے ہیں جو توّکل کرے گا اس کا بیڑا غرق نہیں ہو گا تو اور کس کا ہوگا؟پھر وہ کہتے ہیں جو احکامِ مذہبی پر چلے گا اور دین کی ترقی کے لئے چندہ دے گا وہ غریب نہیں ہو گا تو او ر کیا ہو گا؟ اسی طرح وہ کہتے ہیںجو پانچ وقت نماز پڑھے گا وہ تین چار گھنٹہ ضرور ضائع کردے گا اور جس نے اپنے اوقات کا اتنا بڑا حصہ اس طرح رائیگاں کر دیا وہ دُنیا میں کامیاب کس طرح ہو سکتا ہے؟غرض دُنیا ان تمام باتوںکو تباہی کا مؤجب سمجھتی ہے مگر جن امور کو دُنیا تباہی کا مؤجب سمجھتی ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ وہی تم کرو کیونکہ دُنیوی ترقی اور دینی ترقی میں زمین وآسمان کافرق ہے ۔اِس کے ذرائع اَور ہوتے ہیں اور اُس کے ذرائع اور۔ ہماری جماعت بھی ایک دینی جماعت ہے اور ہماری ترقیات بھی دین سے ہی وابستہ ہیںدُنیوی ذرائع سے نہیں۔
مَیںنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے بارہا سُنا ہے آپ فرمایا کرتے تھے ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں ۔ایک تو وہ ہیں جو میرے دعویٰ کو سمجھ کر اور سوچ کر احمدی ہوئے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ میری بعثت کی کیا غرض ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جس رنگ میں پہلے انبیاء کی جماعتوںنے قُربانیا ں کی ہیں اسی رنگ میں ہمیںبھی قُربانیاںکرنی چاہئیںمگر ایک اَور جماعت ایسی ہے جو صرف حضرت مولوی نور الدین صاحب کی وجہ سے ہمارے سلسلہ میں داخل ہوئی ہے وہ اُن کے استاد تھے، انہیں معزز اور عقلمند سمجھتے تھے ۔انہوںنے کہا جب مولوی صاحب احمدی ہوگئے ہیں تو آئو ہم بھی احمدی ہو جائیں۔ پس اُن کا تعلق ہمارے سلسلہ سے مولوی صاحب کی وجہ سے ہے ۔سلسلہ کی غرض اور میری بعثت کی حکمت اور غایت کو انہوں نے نہیں سمجھا ۔اس کے علاوہ ایک تیسری جماعت بعض نو جوانوں کی ہے جن کے دل میں گو مسلمانوں کا درد تھا مگر قومی طور پر نہ کہ مذہبی طور پر۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا کوئی جتھا ہو ان میں کچھ تنظیم ہو، ان میں انجمنیںقائم ہوں اور مدر سے جاری ہوں مگر چونکہ عام مسلمانوںکا کوئی جتھا بنانا ان کے لئے نا ممکن تھااس لئے جب انہوں نے ہماری طرف ایک جتھا دیکھا تو وہ ہم میں آگئے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ مدر سے قائم کریں اور لوگ ڈگریاں حاصل کریں ۔اسی وجہ سے وہ ہمارے سلسلہ کو ایک انجمن سمجھتے ہیں ،مذہب نہیں سمجھتے ۔تو دُنیا میں ترقیات کے جو ذرائع سمجھے جاتے ہیں وہ بالکل اَور ہیں اور دین میں جو ترقی کے ذرائع سمجھے جاتے ہیں وہ بالکل اَور ہیں ۔انجمنیں اَور طرح ترقی کرتی ہیں اور دین اور طرح۔ دین کی ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اخلاق کی درستگی کی جائے، قُربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کیا جائے ،نمازیں پڑھی جائیں روزے رکھے جائیں، اللہ تعالیٰ پر توکّل پیدا کیا جائے اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا جائے ۔اگر ہم یہ تمام باتیں کریں تو گو دُنیا کی نگاہوںمیں ہم پاگل قرار پائیں گے مگر خداتعالیٰ کی نگاہ میں ہم سے زیادہ عقلمند اورکوئی نہیں ہو گا۔قرآن کریم میں آتاہے کہ مسلمان جب مالی قُربانیاں کرتے تو منافق کہا کرتے کہ یہ مسلمان تو احمق ہیں بس روپیہ برباد کئے چلے جارہے ہیں۔ انہیں کوئی ہوش نہیں کہ اپنے روپیہ کو کسی اچھے کا م پر لگائیں ۔اسی طرح جب وہ اوقات کی قُربانی کرتے توپھر وہ کہتے یہ تو پاگل ہیں، اپنا وقت برباد کر رہے ہیں۔ انہوںنے ترقی خاک کرنی ہے ۔گویا مسلمانوں کو یا وہ احمق قرار دیتے یا ان کانام مجنوں رکھتے۔یہی دو نام اُنہوں نے مسلمانوں کے رکھے ہوئے تھے مگر دیکھو پھر وہی احمق اور مجنوں دُنیا کے عقلمندوں کے استا د قرار پائے۔
پس ہماری جماعت جب تک وہی احمقانہ رویّہ اختیار نہیں کرے گی جس کو کافر اور منافق احمقانہ قرار دیتے تھے اور ہماری جماعت جب تک وہی مجنونانہ رویّہ اختیار نہیں کرے گی جس کو کافر اور منافق مجنونانہ رویّہ قرار دیتے تھے اس وقت تک اسے کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی ۔
اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر جھوٹ بھی بول لیا کرو،اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پردھوکا فریب بھی کر لیا کرو،اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر چالبازی سے بھی کام لیا کرو، اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر غیبت اور چُغلی سے بھی کبھی کبھی فائدہ اُٹھا لیا کرو اور پھر یہ امید رکھو کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو جائے تو یاد رکھو تمہیں ہر گز وہ کامیابی حاصل نہیں ہوگی جس کا وعدہ اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے فرمایا ہے ۔یہ چیزیں دُنیا کی انجمنوں میں بیشک کام آیا کرتی ہیں مگر دین میں ان کی وجہ سے برکت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی *** اُترا کرتی ہے ۔
چند دن ہوئے ہمارے سلسلہ کے ایک آدمی نے کسی موقع پر مجھ سے ایک بات کا ذکر کیاجس سے مَیں یہ سمجھا کہ کسی اَور شخص کو جھوٹ بولنے کے لئے کہا گیا تھا ۔یہ سُن کر میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی کہ پچاس سال آج ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے ہو رہے ہیں اور پچاس سال سے یہ تعلیم ہماری جماعت کے کانوں میں ڈالی جا رہی ہیں کہ جھوٹ نہیں بولنا، جھوٹ نہیں بولنا۔ مگر با وجود اس کے میرے سامنے نہایت صفائی سے کہہ دیا گیاکہ فلاں احمدی سے اتنے جھوٹ کی اُمید کی گئی تھی مگر اس نے اتنا جھوٹ بھی نہ بولا۔مجھے طبعاََ اس پر غصہ آناچاہئے تھااور آیا۔ چنانچہ میں نے کہا احمدیت اور جھوٹ نہایت متضاد چیزیں ہیں ۔تم اس پر الزام لگاتے ہواور کہتے ہو کہ اس نے جھوٹ کیوں نہ بولا ۔حالانکہ میرے نزدیک اس نے بہت بڑی نیکی کا کام کیا کہ باوجود تحریک کے اس نے جھوٹ نہ بولا ۔میرے اس کہنے پر وہ نہایت سادگی سے کہنے لگا اچھا اگر کوئی غیراحمدی جھوٹ بول دے؟ مَیں نے کہا اگر کوئی غیر احمدی ہمارے علم کے بغیر ہزار دفعہ بھی جھوٹ بولتا ہے تو بیشک بول دے لیکن اگر وہ ہمارے اشارہ سے جھوٹ بولتا ہے تو جھوٹ بولنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو *** اُترے گی وہ اُس پر پڑے گی اور ہم پر بھی پڑے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر توکل کوئی آسان نہیں بلکہ بہت بڑا مشکل کام ہے۔ یہ ایک موت ہے جو انسان کو قبول کرنی پڑتی ہے اور جب تک کوئی شخص موت قبو ل کرنے کے لئے تیار نہ ہو اس وقت تک اسے توکل کا مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔جب تک انسان کے لئے سہولت اور آرام کا زمانہ رہتا ہے وہ بڑے بڑے دعوے کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے، جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔مگر جب کسی مصیبت میںمُبتلا ہوتا ہے تو جھوٹ بول لیتا ہے کیونکہ گو وہ مانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بچا سکتا ہے مگر اسے اس بات پر یقین نہیں ہوتا کہ واقع میں اللہ تعالیٰ اسے بچا سکتا ہے ۔وہ صرف ایک بات پر عقیدہ رکھتا ہے ۔اس بارے میں اسے یقین حاصل نہیں ہوتا اور عقیدہ اَور چیز ہے اور یقین اَور چیز ۔ عقیدہ ایک رسمی چیز ہوتا ہے مگر ایمان اور یقین ذاتی فعل ہیں یہ جو ماں باپ سے لوگ دین سیکھتے ہیں، یہ صرف عقیدہ ان سے لیتے ہیں، ایمان ان سے نہیں لیتے۔ایمان ہرانسان کو خود حاصل کر نا پڑتا ہے ۔یہ کوئی جائداد نہیں جو انسان کو اپنے ماں باپ سے ورثہ میں مل جائے۔دولت ورثہ میں مل سکتی ہے،مکان ورثہ میں مل سکتا ہے، جائداد ورثہ میںمل سکتی ہے مگر ایمان ورثہ میں نہیں مل سکتا ۔ایمان ہر انسان کو خود کمانا پڑتا ہے چاہے ہزار پُشت سے کوئی مؤمن خاندان چلاآرہا ہو پھر بھی ہزارویں پُشت میں جو لڑکا ہو گا اس کو خود ایمان کمانا پڑے گاورثہ میں اسے نہیںملے گا ۔ ورثہ میں اسے صرف عقیدہ ملے گا نہ کہ ایمان ۔ایک مسلمان کا بچہ عقیدۃً یہی کہے گا کہ خدا ایک ہے اور محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے سچے رسول ہیں مگر اسے ایمان نہیں کہا جائے گا ۔ایمان اُس میں تبھی پیدا ہو گاجب وہ اللہ تعالیٰ کی آیا ت پر غور کرکے اور اس کے نشانات پر تدبر کرکے یہ کہے گا کہ ہاں واقع میں اللہ ایک اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں ۔
مَیں گیارہ سال کا تھا جب اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے یہ توفیق عطا فرمائی کہ مَیں اپنے عقیدہ کو ایمان سے بدل لوں ۔مغرب کے بعدکاوقت تھا ،مَیں اپنے مکان میں کھڑا تھا کہ یکدم مجھے خیال آیا۔ کیا مَیں اس لئے احمدی ہوںکہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ میرے باپ ہیں یا اس لئے احمدی ہوںکہ احمدیت سچی ہے اور یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے۔ یہ خیال آنے کے بعد مَیں نے فیصلہ کیا کہ مَیں اس بات پر غور کر کے یہاںسے ہٹوں گا اور اگر مجھے پتہ لگ گیا کہ احمدیت سچی نہیں تو مَیں اپنے کمرے میں داخل نہیں ہوں گا بلکہ یہیں صحن سے باہر نکل جائوں گا۔یہ فیصلہ کر کے مَیںنے غور کرنا شروع کیا اور قدرتی طور پر اس کے نتیجہ میں بعض دلائل میرے سامنے آئے جن پر مَیں نے جرح کی۔ کبھی ایک دلیل دوں اور اُسے توڑوں پھر دوسری دلیل دوں اور اسے ردّ کروں پھر تیسری دلیل دوں اور اسے توڑوں۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے یہ سوال میرے سامنے آیا کہ کیا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول تھے ؟اور کیا مَیں ان کو سچا مانتا ہوں کہ میرے ماں باپ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ سچے ہیں؟یا مَیں ان کو اس لئے سچا مانتا ہوں کہ مجھ پر دلائل وبراہین کی رو سے یہ روشن ہو چکا ہے کہ واقع میں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم راستباز رسول ہیں؟جب یہ سوال میرے سامنے آیا تو میرے دل نے کہا کہ اب مَیں اس امر کا بھی فیصلہ کر کے ہٹوںگا۔ اس کے بعد قدرتی طور پر خداتعالیٰ کے متعلق میرے دل میںسوال پیدا ہؤا اور مَیں نے کہا یہ سوال بھی حل طلب ہے کہ آیا مَیں خدا تعالیٰ کو یونہی عقیدہ کے طور پر مانتاہوں یا سچ مچ یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہو چکی ہے کہ دُنیا کا ایک خداہے۔ تب اللہ تعالیٰ کے سوال پر بھی مَیں نے غور کرنا شروع کیا اور میرے دل نے کہا اگر خدا ہے تو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سچے رسول ہیں اور اگر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سچے رسول ہیں اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی سچے ہیں تو پھر احمدیت بھی یقینا سچی ہے اور اگر دُنیا کا کوئی خدا نہیں تو پھر ان میں سے کوئی بھی سچا نہیں اور مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ آج مَیں اس سوال کو حل کر کے رہوں گا اور اگر میرے دل نے یہی فیصلہ کیا کہ کوئی خدا نہیں تو پھر مَیں اپنے گھر میں نہیں رہوں گا بلکہ فوراََ باہر نکل جائوں گا۔
یہ فیصلہ کرکے مَیں نے سوچنا شروع کردیا اور سوچتا چلا گیا ۔اپنی عمر کے لحاظ سے مَیں اس سوال کا کوئی معقول جواب نہ دے سکامگر پھر بھی مَیں غور کرتا چلا گیا۔یہاں تک کہ میر ادماغ تھک گیا۔اُس وقت میں نے آسمان کی طر ف نظر اٹھا ئی ا س دن بادل نہیںتھے۔آسمان کا جَوّنہایت ہی مصفّٰی تھااور ستارے نہایت خوشنمائی کے ساتھ آسمان پر چمک رہے تھے ۔ایک تھکے ہوئے دماغ کے لئے اس سے زیادہ فرحت افزااَور کونسا نظارہ ہو سکتا تھا ۔مَیںنے بھی ان ستاروں کودیکھنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ مَیںانہی ستاروںمیں کھویا گیا۔تھوڑی دیر بعد جب پھر میرے دماغ کو تروتازگی حاصل ہوئی تو مَیں نے اپنے دل میں کہا کیسے اچھے ستارے ہیں مگر ان ستاروں کے بعد کیا ہوگا؟ میرے دماغ نے اس کا یہ جواب دیا کہ ان کے بعد اَور ستارے ہوں گے۔ پھر مَیں نے کہا ان کے بعد کیا ہو گا؟ اس کا جواب بھی مجھے میرے دل نے یہی دیا کہ ان کے بعد اَور ستارے ہوں گے۔ پھر میرے دل نے کہا اچھا تو پھر ان کے بعد کیا ہو گا؟ میرے دماغ نے پھر یہی جواب دیا کہ اُن کے بعد اَور ستارے ہوں گے ۔مَیں نے کہا اچھا تو پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس کا بھی پھر وہی جواب میرے دل اور دماغ نے دیا کہ کچھ اَور ستارے ہوں گے ۔تب میرے دل نے کہا کہ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے اور تیسرے کے بعد چوتھے ستارے ہوں۔ کیا یہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوگا؟اگر ختم ہو گا تو اس کے بعد کیا ہو گا؟یہی وہ سوال ہے جس کے متعلق اکژ لوگ حیران رہتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ہم جو کہتے ہیں کہ خدا غیر محدود ہے اس کے کیا معنی ہیں؟ اور ہم جو کہتے ہیںخدا ابدی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟ آخر کوئی نہ کوئی حَدْ ہونی چاہئے۔یہی سوال میرے دل میں ستاروںکے متعلق پیدا ہؤا اور مَیں نے کہا آخر یہ کہیں ختم بھی ہوتے ہیں یا نہیں اور اگر ہوتے ہیں تو اس کے بعد کیا ہے اور اگر ختم نہیں ہوتے تو یہ کیا سلسلہ ہے جس کا کوئی انتہاء نہیں۔ جب میرا دماغ یہاں تک پہنچا تو مَیںنے کہا خدا کی ہستی کے متعلق محدود اور غیر محدود کا سوال بالکل لغو ہے ۔تم خدا تعالیٰ کو جانے دو، تم ان ستاروںکے متعلق کیا کہو گے۔ میری آنکھوں کے سامنے یہ پڑے ہیں اگر ہم ان کو محدود کہتے ہیں تو محدود وہ ہوتا ہے جس کے بعد دوسری چیز شروع ہو جائے۔پس سوال یہ ہے کہ اگر یہ محدود ہیں تو ان کے بعد کیا ہے؟اور پھر اگر وہ بھی محدود رہے تو ا س کے بعد کیا ہے؟اور اگر کہوکہ یہ غیر محدود ہیں تو اگر ستاروں کی غیر محدودیت کا انسان قائل ہو سکتا ہے تو خدا تعالیٰ کی غیر محدودیت کا کیوں قائل نہیں ہو سکتا ۔تب میرے دل نے کہا کہ ہاں واقع میں خدا موجودہے کیونکہ اس نے قانونِ قدرت میں و ہی اعتراض رکھ دیا ہے جو اس کی ذات پر پیدا ہوتا ہے اور اس نے بتا دیا ہے کہ تم مجھے غیر مرئی چیز سمجھ کر اگر یہ اعتراض کرتے ہو تو پھر وہ چیزیںجو تمہیں نظر آرہی ہیں ان کے متعلق تمہارا کیا جواب ہے؟جبکہ وہی اعتراض جو تم مجھ پر کرتے ہو ان پر بھی عائد ہوتاہے اور تمہارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ۔تم خدا تعالیٰ کے متعلق تو بے تکلّفی سے یہ کہہ دو گے کہ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ وہ غیر محدود ہے؟مگر کیا یہ ستارے غیر محدود نہیں؟ اگر ہیں تو غیر محدود کی تمہیں سمجھ آگئی اور اگر محدود ہیں تو پھر ان کے بعد کیا ہے؟اور اس کے بعد کیا ہے؟ اگر تم سمجھتے ہو کہ فضائے آسمانی میں غیر محدود سیارے اور ستارے ہیں تو خدا تعالیٰ پر سے اعتراض دور ہو گیا اور اگر یہ محدود ہیں تو اس محدود کا مُحدِّدکون ہے؟ اور جب ا س کا مُحدِّد خداہے تو خدا کاوجود ثابت ہوگیا۔تب مَیں نے سمجھا کہ وہ اعتراض ہی غلط ہے جو خدا تعالیٰ کے متعلق کیا جاتا ہے اور مَیں نے یقین کیا کہ وہ موجود ہے اور جب مجھے یہ یقین حاصل ہو گیا کہ وہ موجود ہے تو میں نے کہا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بھی خدا کے رسول ہیں اوریہ نا ممکن ہے کہ ان کی اتباع کئے بغیر کوئی شخص نجات حاصل کر سکے اور جب محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت پر مجھے یقین پیدا ہؤا تو مَیںنے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام بھی سچے ہیں اور یقیناہمارا سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے۔تب اس فیصلہ کے بعد گیارہ ساڑھے گیارہ بجے مَیں اپنے بستر پر لیٹا۔ تو ایمان انسان کو خود حاصل کرنا پڑتا ہے مگر عقیدہ انسان کو ورثہ میں بھی مل جاتا ہے لیکن عقیدہ نفع نہیں دیتا۔ اگر دیتا ہے تو ایمان ہی دیتا ہے ۔یہی وجہ ہے کے جو لوگ اپنے بچوں کے اندر ایمان پیدا نہیں کرتے محض عقائد سکھا دینے پر اکتفا کرتے ہیں ان کی نسلوں میں سے دین آخر مٹ جاتا ہے ۔وہ سمجھتے ہیں چونکہ ان کو یہ رٹا دیا گیا ہے کہ خدا ایک ہے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔ اس لئے دین ان کے اندر داخل ہو گیا۔ حالانکہ یہ عقیدہ ہے جو وہ انہیں سکھاتے ہیں ایمان تب ہی پیدا ہو سکتا ہے جب وہ خود غور کریں اور اپنے طور پر فیصلہ کریں کہ واقع میں یہ باتیں صحیح ہیں ۔کئی لوگ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے اپنی اولاد خدمتِ دین کے لئے وقف کردی ہے ۔مَیں انہیں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ جَزَاکُمُ اﷲ آپ کو اس کا ثواب ہو گیا مگر اپنے آپ کو وقف کرنا بیٹے کا کام ہے باپ کا نہیں ۔ باپ اگر کہہ بھی دے کہ مَیں اپنے بیٹے کی زندگی وقف کرتا ہوں مگر بیٹا یہ کہے کہ مَیں دُنیا کماؤں گا تو ہم ایسے وقف سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیںاور اگر ایسے شخص کو زبردستی دین کے کام پر لگایا بھی جائے گا تو دین میں رخنہ پیدا ہونے کے سوا اَور کیا ہو گا ۔تو اگر کوئی شخص اپنے بچہ کے متعلق یہ کہے کہ مَیں اسے وقف کرتاہوں تو مَیں اسے یہی کہا کرتا ہوں کہ جَزَاکَ اﷲ مگر وقف کا زمانہ اس کا اسی وقت سے شروع ہو گا جب یہ خود جوان ہو کر کہے گا کہ مَیں اپنی زندگی خدمتِ دین کے لئے وقف کرتا ہوں۔ تو ایمان اور ذاتی طور پر کسب کئے ہوئے یقین کے بغیر دُنیا میں کبھی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی ورنہ رسمی طور پر جو باتیں عقائد میں شامل ہوتی ہیںوہ انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا کرتیں ۔
پس ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر ایمان پیدا کرے اور ہمیشہ یہ امر مدِّ نظر رکھے کہ اس نے اپنی اولادوں کے اندر یقین اور وثوق پیدا کرنا ہے ۔مگر مَیں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو عقائد بھی پوری طرح اپنی اولاد کو نہیںسکھاتے اور جب انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ اُن کے عقائدکیا ہیں تو انہوںنے دنیا میں کرنا کیا ہے؟اس میںکوئی شُبہ نہیں کہ عقیدہ خود اپنی ذات میں کوئی بڑی چیز نہیں مگر کم سے کم وہ ایک چھوٹا سہارا ضرور ہے اور ایمان کے حصول کاپہلا زینہ ہے تو دینی معاملات میں ترقیات ان ذرائع کو اختیارکئے بغیر نہیں ہو سکتیں جو اللہ تعالیٰ نے دینی ترقی کے لئے ضروری قرار دیئے ہیںمگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت نے پورے طور پر اس نقطہ کو نہیںسمجھا ۔حالانکہ جب تک ہماری جماعت پورے طور پر اس امر پر قائم نہیں ہو جاتی کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم نے جھوٹ نہیںبولنا ،ہم نے دھوکا اورفریب سے کام نہیں لینا ۔ہم نے کامل طور پر خداتعالیٰ پر توکل کرنا اوراسی کے احکام کی اطاعت اور فرمانبرداری کر نا ہے اس وقت تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی ۔مَیں کئی سال سے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوںمگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت میں بعض لوگ ایسے ہیں جو جھوٹ بولتے یا بلواتے ہیں ۔اگر ہماری جماعت جھوٹ کوہی کلیۃً چھوڑ دے تو یہ ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی تبلیغ ہو کہ دُشمن سے دُشمن بھی ہمارے اخلاق کی فوقیت کو تسلیم کئے بغیر نہ رہے۔اسی طرح فریب، دغا، منافقت یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جو قوم کو لوگوں کی نظروں میں گرا دیتی ہیںلیکن اگر ہم قربانی اور ایثار سے کام لیں اور ہمارے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے ہوں تو یقینا ہماری جماعت کی عظمت تمام لوگوں کے دلوں میں قائم ہو جائے کیونکہ سچی قربانی اور نیک اخلاق ہی ہیں جو کسی قوم کی عظمت کو دُنیا میں قائم کیا کرتے ہیں ۔ورنہ خالی منظم ہونا اور ایک جماعت میں شامل ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ یہ تو دُنیادار انجمنوں میں بھی ہوتا ہے۔ وہ بھی منظم ہوتی ہیں اور وہ بھی ایک جماعتی رنگ اپنے اندر رکھتی ہیں۔
پس روحانی سلسلہ کے قیام کی اصل غرض تنظیم نہیں ہوتی بلکہ اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ اس جماعت کے افراد سلسلہ کی تعلیم کے زیر اثر جھوٹ سے بچیں، فریب سے کام نہ لیں، دغا اور منافرت کو چھوڑ دیں، اﷲ تعالیٰ کی عبادت کریں، اسی پر توکل کریں، اس کے احکام کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں اگریہ باتیںلوگوں میں پیدا نہیں ہوتیں تو محض تنظیم اورنظام اور خلافت پر ایمان انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور نہ اس تنظیم کا وہ روحانی نتیجہ نکل سکتا ہے جو نماز، روزہ اور دوسرے احکامِ شرعیہ کا روحانی نتیجہ ہے۔ روحانی نتیجہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب نظام کو خادم سمجھا جائے۔ دُنیا اور دین میں یہی فرق ہے کہ دُنیا کے لوگ نظام کو اصل چیز قرار دیتے ہیں اور دیندار لوگ نظام کو اصل چیز کے حصول کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ چونکہ دُنیا خالص نظام سے مِل جاتی ہے اس لئے نظام ان کی نظروں میں بہت بھاری ہوتا ہے اور اس کی وقعت ان کے دلوں پر غالب ہوتی ہے لیکن روحانی انعامات محض نظام کی وجہ سے حاصل نہیں ہو سکتے بلکہ ان انعامات کے حصول کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اُن روحانی ہتھیاروں کو استعمال کرے جو خدا تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔
مَیں جماعت کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اب وہ زمانہ آگیا ہے جب اسے اپنی نیند چھوڑ دینی چاہئے اور غفلت اور سُستی کو ترک کر کے پوری ہوشیاری اور بیداری سے کام کرنا چاہئے کیونکہ دُنیا میں پھر تباہی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ لوگ پھر لڑنے کے لئے آمادہ ہو رہے ہیں۔ حکومتیں پھر جنگوں کے میدان میں کُودنے کے لئے تیار ہو رہی ہیں اور ہم جن کے لئے خدا تعالیٰ یہ تمام میدان صاف کر رہا ہے اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کر رہے۔ اگر دُنیا میں اب دوبارہ کوئی جنگ چھڑ گئی تو اس کے نتائج بنی نوع انسان کے لئے نہایت ہی خطرناک ہوں گے۔ تباہی کے سامان جو آج پیدا ہیں پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئے۔ بیشک آج کل بھی بعض جنگیں ہو رہی ہیں اور لوگ ان پر قیاس کرتے ہوئے مطمئن ہیں اور کہتے ہیں کہ ان جنگوں سے تو کوئی زیادہ تباہی نہیں ہوتی لیکن زیادہ تباہی نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ابھی تک حکومتیں اپنے سامانِ حرب کو چھپائے ہوئے ہیں۔ اگر آج وہ اپنے تمام سامانوں کو ظاہر کر دیں تو ان کے دُشمن اس کوشش میں لگ جائیں کہ ان کا کیا علاج ہے۔ مثلاً اگر سپین کی جنگ میں ہی اٹلی اور جرمن والے اپنے تمام ہتھیار ظاہر کر دیتے تو دوسری قومیں یکدم سپین کے معاملہ میں دخل دے دیتیں اور کہتیں کہ اتنا ظلم مت کرو اور ان کے مُوجد اس بات میں مشغول ہو جاتے تاکہ ان ہتھیاروں کے مقابلہ میں انہیں کون سے ہتھیار تیار کرنے چاہئیں اور اس طرح اصل جنگ سے سال دو سال پہلے وہ ان کا توڑ تجویز کر لیتے یا مثلاً فرانسیسیوں نے تباہی کی جو جو چیزیں ایجاد کی ہوئی ہیں اگر وہ معمولی معمولی جنگوں میں ان کو ظاہر کر دیں تو دُشمن ضرور ہوشیار ہو جائے اور وہ ان کا علاج سوچنے میں مشغول ہو جائے یا انگریز اگر ان چھوٹی چھوٹی لڑائیوں پر جو سرحد میں لڑی جاتی ہیں اپنے تمام ہتھیاروں کو ظاہر کر دیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ سب دُنیا کو معلوم ہو جائے کہ انگریزوں نے کون کون سی تباہی برپا کرنے والی چیزیں ایجاد کی ہوئی ہیں اور اس طرح انگریزوں کے دُشمن ان کا علاج سوچنے میں مصروف ہو جائیں۔ پس تباہی کے سامان تو نکلے ہوتے ہیں مگر اس وقت حکومتیں ان سامانوں کو چھپائے ہوئے ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ وہ ان سامانوں کو اسی دن ظاہر کریں جس دن ایک بڑی جنگ شروع ہو جائے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ایسے خطرناک سامان تیار ہو چکے ہیں کہ ان کا خیال کر کے ہی انسان کانپ اُٹھتا ہے۔ ایبے سینیا میں ایک جگہ اٹلی والوں نے ذرا سی اس کی نمائش کی تھی اور مَسٹر ڈگیس (MUSTARD GAS) ایبے سینیا کی فوج پر پھینکی تھی۔ اس وقت اٹلی کی فوج ایبے سینیا کی فوج سے شکست کھا رہی تھی مگر مسٹر ڈگیس پھینک کر انہوں نے جنگ کی کایا پلٹ دی۔ ہمارا ایک احمدی ڈاکٹر ان دنوں وہیں موجود تھا۔ اُس نے وہاں کے چشم دید حالات لکھ کر بھیجے تھے جنہیں پڑھ کر دل رحم سے بھر جاتا تھا۔ جس وقت ایبے سینیا کی فوج غلبہ کے خیال میں مست ہو کر آگے کی طرف بڑھتی چلی جارہی تھی یکدم اٹلی والوں نے مَسٹر ڈگیس پھینکنی شروع کر دی جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ تھوڑی ہی دیر میں وہ لوگ پاگلوں کی طرف ادھر اُدھر بھاگنے لگ گئے۔ خود ایبے سینیا کا بادشاہ بھی پاگلوں کی طرح اِدھراُدھر بھاگتا پھرتا تھا اور اس کا تمام جسم چھالے چھالے ہو گیا۔ مَسٹرڈ گیس ایک نہایت ہی زہریلی گیس ہوتی ہے۔ وَاﷲُ اَعْلَمُ۔ ابھی اور کتنی زہریلی گیسیں ہیں جو ان لوگوں نے تیار کر رکھی ہیں۔ کتابوں میں تو اس گیس کے متعلق مَیں نے پڑھا ہی تھا۔ تھوڑے دن ہوئے ایک دوست نے جنہیں اس گیس کا اچھی طرح علم تھا سُنایا کہ یہ گیس اس قسم کی ہوتی ہے کہ اس کے گرتے وقت یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ گیس گر رہی ہے مگر جسم کے اندر معاً گھس جاتی ہے، تمام بدن پر چھالے پڑ جاتے ہیں، کھانسی ہو جاتی ہے، سینہ میں زخم پڑ جاتے ہیں اور انسان کے اندر آگ بھی لگ جاتی ہے۔ ایک ایک فٹ کی موٹی چھت بھی اگر ہو تو یہ گیس اس کے اندر گھس جاتی ہے اور چھت پھاڑ کر اندر آجاتی ہے اور اس سے بچنے کا سوائے اس کے اور کوئی ذریعہ نہیں کہ انسان اپنے تمام جسم پر ربڑ لپیٹ لے اور چونکہ یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اِس وقت گیس گر رہی ہے یا نہیں اس لئے اس کا علم اُسی وقت ہوتا ہے جب انسان اس گیس کے زہریلے اثر کے نتیجہ میں مرنے لگتا ہے۔ پھر یہ گیس سیّال ہے اُڑتی نہیں۔ اگر کسی کمرے میں پڑی ہو تو بعض دفعہ سال سال پڑی رہتی ہے۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ کمرہ بالکل صاف ہے اور سمجھتا ہے کہ پچھلے سال دُشمن نے اس علاقہ میں یہ گیس پھینکی تھی اب وہ گیس کہاں باقی ہے مگر جونہی وہ اس کمرہ میں داخل ہوتا ہے اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح گڑھوں اور تالابوں میں یہ گیس ایک مدت دراز تک پڑی رہتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس علاقہ میں مَسٹر ڈگیس نہیں مگر اتفاقاً جب اس گڑھے سے کوئی جانور پانی پینے لگتا ہے یا انسان اس میں گھستا ہے تو گیس اس پر اپنا اثر پیدا کر کے اسے پاگل بنا دیتی اور بِالآخر ہلاک کر دیتی ہے۔ غرض یہ ایک نہایت ہی خطرناک گیس ہے۔ اگر یہی گیس ہوائی جہاز سپرے (Spray) کرتے چلے جائیں تو ملکوں کے مُلک وہ اسی ایک گیس سے تباہ کر سکتے ہیں اور کوئی اس کا علاج نہیں کر سکتا۔ گاؤں والے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوں اور ہوائی جہاز ان کے اوپر سے اس گیس کو سپرے کرتے چلے جائیں تو آدمی اور جانور سب کھانس کھانس کر مَر جائیں گے اور ان کے جسم پر آبلے ہی آبلے اُٹھ آئیں گے۔
اسی طرح ایسی شعاعیں ایجاد ہوئی ہیں جن کی مدد سے دور بیٹھے ہی ہوائی جہازوں اور توپوں کو چلایا جاسکتا ہے۔ ایسی شعاعیں ایجاد ہوئی ہیں جن کو پھینک کر دور بیٹھے ہی انسان ہوائی جہازوں کو گرا سکتا ہے۔ ایسے ایسے گولے نکلے ہیں جنہیں اگر ہوائی جہازوں کے ذریعہ شہروں اور دیہات پر گرا دیا جائے اور ان کے کنوؤں میں انہیں پھینک دیا جائے تو یکدم ٹائیفائیڈ اور ہیضہ تمام ملک میں پھیل جائے۔ غرض ایسی ایسی خطرناک تباہی کے سامان ایجاد ہو چکے ہیں کہ جس وقت بڑی قوموں میں لڑائی شروع ہوئی اس وقت لاکھوں بلکہ کروڑوں آدمیوں کا ایک ایک دن میں مَر جانا کوئی بڑی بات نہیں ہو گی بلکہ انہی سامانوں سے اگر کوئی حکومت چاہے تو سارے ہندوستان کا دو تین دن میں صفایا کر سکتی ہے۔ اس قدر خطرناک سامانوں کی موجودگی کیا تعجب ہے کہ ہماری ان دعاؤں کا ہی نتیجہ ہو جو ہم نے گزشتہ سالوں میں اﷲ تعالیٰ کے حضور کیں مگر سوال یہ ہے کہ اس تباہی کے نتیجہ میں اسلام کی شوکت اور عظمت کے جو سامان پیدا ہوں گے ان سے فائدہ اُٹھانے کی ہم کیا کوششیں کر رہے ہیں۔ میرے سامنے اِس وقت دو تین ہزار مرد اور عورت بیٹھے ہیں۔ مرد میرے سامنے ہیں اور عورتیں پردہ کے پیچھے۔ تم میں سے کتنے ہی ہیں جنہیں جب کہا جاتا ہے کہ تبلیغ کرو تو وہ آگے سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ تم مجھے بتاؤ کہ صحابہ ؓ میں سے کتنے تعلیم یافتہ تھے۔ سارے مکّہ میں صرف سات پڑھے لکھے شخص تھے مگر اب جو دین نظر آرہا ہے یہ انہی اَنْ پڑھوں کی کوششوں اور مساعی کا نتیجہ ہے اوروں کو جانے دو ہمارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم خود اَن پڑھ تھے پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ چونکہ ہم اَنْ پڑھ ہیں اس لئے دین کو سمجھنے اور اس کو پھیلانے کی طرف توجہ نہیں کر سکتے۔
پھر مَیں باہر کی جماعتوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ مجھے جواب دیں کہ وہ کیا قربانیاں کر رہے ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں سہارا دینا پڑتا ہے مثلاً چندے کا سوال آئے گا تو ایک دفعہ تو چندہ دیں گے مگر پھر دو تین سال بالکل خاموش رہیں گے اور دو تین سال گزرنے کے بعد ہمارے پاس آکر کہیں گے میری توبہ میری توبہ۔ گزشتہ بقایا مجھے معاف کیا جائے آئندہ مَیں باقاعدہ چندہ دیا کروں گا۔ پھر انہیں بقایا معاف کر دیا جاتا ہے تو ایک دفعہ چندہ دے دیں گے اور پھر تین چار سال تک کچھ نہیں دیں گے اور جب ان پر اسی طرح تین چار سال اور گزر جائیں گے تو پھر ہمارے پاس آجائیں گے اور کہیں گے میری توبہ میری توبہ۔ مَیں بڑا جاہل تھا بڑا بیوقوف تھا، بڑا احمق تھا۔ مَیں نے اتنے عرصہ تک کوئی چندہ نہ دیا۔ اب خدا کے لئے مجھے پچھلا چندہ معاف کیا جائے۔ آئندہ انشاء اﷲ اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہو گی۔ پھر ہم انہیں معاف کرتے ہیں تو وہ پھر غافل اور سُست ہو جاتے ہیں۔ یہی نمازوں کا حال ہے۔ کچھ دن درد سے نمازیں پڑھیں گے مگر پھر ان میں سُستی پیدا ہو جائے گی اور بعض تو بالکل نماز ترک کر بیٹھیں گے اور بعض جو پڑھیں گے وہ چَٹی سمجھ کر پڑھیں گے۔ یہی سچ کا حال ہے۔ خطبہ سُنیں گے تو کہیں گے لو جی اب ہم ہمیشہ سچ بولیں گے اور کبھی جھوٹ کے قریب بھی نہیں جائیں گے چنانچہ اس کے مطابق وہ دو تین دن سچ کا چوغہ پہن کر پھرتے رہیں گے مگر اس کے بعد وہ سچ کا چوغہ اُتار کر بکس میں بند کر کے رکھ دیں گے۔ گویا وہ ڈرتے ہیں کہ یہ اچھا لباس کہیں پہن پہن کر خراب ہی نہ ہو جائے۔
تو دین کے معاملہ میں استقلال جو کامیابی کی ایک بھاری شرط ہے وہ جماعت میں مفقود ہے اِلَّا مَاشَآئَ اﷲُ ۔پھر ایک اور طبقہ ہے جو افیم کھائے ہوئے مریض کی طرح ہے جسے ہر وقت جگانا پڑتا ہے۔ تحریک جدید کا کام عارضی اور مجموعی ہے مگر اس میں بھی سُستی پیدا ہو گئی ہے۔ مَیں نے اس تحریک کے ابتداء میں یہ شرط کر دی تھی کہ اس میں وہی شخص حصّہ لے جو اپنی خوشی اور مرضی سے اس میں شامل ہونا چاہے۔ کسی پر اس کے متعلق جبر نہیں کیا گیا مگر میں دیکھتا ہوں تین سال تو دوستوں کا جوش قائم رہا مگر اب چوتھے سال اس میں بھی کمزوری نظر آرہی ہے۔ حالانکہ اس سال تیسرے سال سے کم چندہ دوستوں کے ذمہ لگایا گیا ہے مگر پھر بھی پچپن ہزار کے قریب روپیہ ابھی وصول ہونا باقی ہے۔ گویا ساٹھ فیصدی چندہ تو وصول ہؤا ہے مگر چالیس فیصدی چندہ ابھی وصول ہونا باقی ہے۔ یہ امر بتا رہا ہے کہ باوجود اس کے کہ لوگوں نے طوعی طور پر اس چندہ میں شرکت کی تھی اور باوجود اس کے کہ ان پر کوئی جبر نہیں کیا گیا پھر بھی وہ ایسے تھے جن کے بدن میں اپنے قول کو پورا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ گویا ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں سوگزواروں دس گز نہ پھاڑوں یعنی جب نام لکھانا پڑے تو اس وقت کہہ دیا کہ میں سَو گز کپڑا قربان کردوں گا مگر جب دینا پڑے تو ایک گز بھی نہیں دیتے حالانکہ تین سال یا سات سال انسانی عمر کے مقابلہ میںچیز ہی کیا ہیں۔ معمولی معمولی بنّوں پر زمیندار آپس میں لڑ پڑتے اور دس دس سال کی قید کاٹ کر آجاتے ہیں۔ پس اگر زمیندار ایک کھیت کی منڈ یر پر دس سال کی قید بخوشی برداشت کر لیتے ہیں اور وہ ان سالوں کو کوئی بڑی بات نہیں سمجھتے تو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے دس سال قربانی کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ بالخصوص جب کہ مَیں نے بار ہا کہہ دیا ہے کہ یہ طوعی قربانی ہے اور اس میں وہی حصّہ لے جو اس کی ادائیگی کا اپنی خوشی سے اقرار کرے۔ یہ کوئی جبری سکیم نہیں کہ ہر شخص کو ہم اس میں حصّہ لینے پر مجبور کریں۔ ہم نے صاف کہہ دیا تھا کہ جس میں اسے برداشت کرنے کی ہمت نہیں وہ مت آئے۔ صرف وہی آگے بڑھے جو اپنی مرضی سے اس میں حصّہ لے مگر افسوس ہے کہ اس میں بھی سُستی آگئی۔ مَیں نے اس کے لئے سیکرٹری بھی مقرر کئے تھے مگر وہ بھی افیمی طرز کے سیکرٹری معلوم ہوتے ہیں کہ سیکرٹری تو بن گئے ہیں مگر کام کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں۔ یہی حال دوسرے کاموں کا ہے۔ حالانکہ اب دُنیا پر ایک ایسا نازک وقت آچُکا ہے کہ دُنیا میں عنقریب بہت بڑا تغیّر ہونے والا ہے۔ تین سال ہوئے مَیں نے کہا تھا کہ دس سال کے اندر دُنیا میں ایک عظیم الشان تغیّر پیدا ہو گا اور ابھی میری اس بات پر صرف تین سال گزرے ہیں کہ اس تغیّر کی علامتیں ظاہر ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ اب اگر دُنیا میں لڑائی شروع ہوئی تو یقینا سمجھ لو کہ اس لڑائی کے بعد کی دُنیا وہ دُنیا نہیں ہو گی جو اب ہے بلکہ بالکل بدلی ہوئی دُنیا ہو گی۔ ہزاروں ایجادیں ممکن ہے دُنیا سے مِٹ جائیں کیونکہ ان ایجادات کے موجد دُنیا سے مٹ جائیں گے۔ ہزاروں کارخانے ممکن ہے دُنیا سے مِٹ جائیں کیونکہ ان کارخانوں کو چلانے والے دُنیا سے مِٹ جائیں گے۔ دُنیا کے سامنے ایک ایسی خطرناک تباہی نظر آرہی ہے جو قیامت کا نمونہ ہو گی نہ انفلوائنزا اس تباہی کا مقابلہ کر سکتا ہے ،نہ طاعون اس تباہی کا مقابلہ کر سکتی ہے، نہ گزشتہ جنگِ عظیم اس تباہی کا مقابلہ کر سکتی ہے کیونکہ طاعون اور انفلوائنزا ایک ایک آدمی کو پکڑتے ہیں مگر اس جنگ کے ذریعہ ایک کو نہیں بلکہ شہروں کے شہروں کو یکدم برباد کیا جاسکتا ہے۔ بالکل ممکن ہے وہ بڑے بڑے شہر جن میں تیس تیس، چالیس چالیس لاکھ کی آبادی ہے، ایک دن آدمیوں سے بھرے ہوئے ہوں مگر دوسرے دن تمہیں یہ اطلاع ملے کہ اس شہر میں ایک آدمی بھی باقی نہیں رہا سب مار دیئے گئے ہیں۔ گویا ملکُ الموت کی حکومت دنیا میں ہونے والی ہے اور خدا اُسے کھلی ڈھیل دینے والا ہے۔ دُنیا کے بعید ترین علاقوں کے لوگ بھی اس تباہی سے محفوظ نہیں۔ تم خیال کرتے ہو کہ ہم ہندوستان کے رہنے والے ان حملوں سے محفوظ ہیں مگر یہ درست نہیں۔ دو دو، تین تین ہزار میل کی پرواز کرنے والے ہوائی جہاز ایجاد ہو چکے ہیں۔ اٹلی اور ایبے سینیا سے ہوائی جہاز آکر پنجاب اور سندھ پر گولہ باری کر سکتے ہیں اور جاپان کے ہوائی جہاز چین کے راستوں سے آکر مدراس ، بنگال اور برما کو تباہ کر سکتے ہیں۔ پس مت سمجھو کہ تم محفوظ جگہوں میں ہو۔ اِس وقت ایسی زبردست تباہی کے سامان پیدا ہو چکے ہیں کہ کسی انسان کی زندگی بھی محفوظ نہیں۔ جب انسانی زندگی کے خون کی اس قدر اَرزانی ہو رہی ہے اور جب زندگی کا کوئی اعتبار ہی نہیں رہا تو کیوں نہ اس زندگی کو خداتعالیٰ کے دین کے لئے خرچ کیا جائے۔ اگر آج تم اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرو گے تو کل والی دُنیا کو خدا تمہارے سپرد کر دے گا لیکن اگر آج تم نے اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کی تو نہ معلوم تمہاری جگہ کل خدا تعالیٰ کس قوم کو کھڑا کر دے گا جو ان سامانوں سے فائدہ اُٹھائے گی جو خداتعالیٰ نے تمہارے لئے پیدا کئے تھے۔ بیشک خدا تعالیٰ کے کام ہو کر رہیں گے اور کوئی نہیں جو انہیں روک سکے مگر کیسا بد قسمت ہے وہ شخص جس کی خدا تعالیٰ دعوت کرے مگر کوئی اور اس کو آکر کھا جائے اور وہ اس سے محروم رہے۔ پس اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور اس کے لئے ایثار اور قربانی کر کےکے مقام پر کھڑے ہو جاؤ اور کا جامہ پہن لو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ مگر یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم اپنی پہلی زندگی پر ایک موت وارد نہ کرو۔ پس اپنے اخلاق میں انتہاء درجہ کی تبدیلی پیدا کرو، اپنے افکار میں انتہاء درجہ کی تبدیلی پیدا کرو، اپنے اموال کی انتہاء درجہ کی قُربانی کرو، اپنے اوقات کی انتہاء درجہ کی قُربانی کرو تب تم یقینا اﷲ تعالیٰ کا قُرب حاصل کر سکو گے۔ باتیں تو مَیں بتا سکتا ہوں مگر عمل کرنا تمہارا کام ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے قرآن سمجھایا ہے اور مَیں وہ تمہیں سُنا دیتا ہوں مگر یہ میرے بس کی بات نہیں کہ مَیں ان باتوں پر تم سے عمل بھی کروالوں۔ یہ خدا نے تمہارے اختیار میں رکھا ہے کہ تم ان باتوں سے فائدہ اُٹھاؤ۔ اگر تم ان باتوں سے فائدہ اُٹھاؤ گے تو خدا تعالیٰ تمہارے لئے ترقیات کے سامان پیدا کر دے گا اور وہ تم پر رحم کرے گا اور اگر تم ان باتوں پر عمل نہیں کرو گے تو باقی دنیا پر اگر ایک جُرم ثابت کیا جائے گا تو تم پر دو جرم ثابت کئے جائیں گے لیکن اس کے مقابلہ میں اگر تم عمل کرو گے تو خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے بھی تم پر دوہرے طور پر کھولے جائیں گے۔ بعد میں جو لوگ آئیں گے انہیں ایک ثواب ملے گا مگر تمہیں دوہرا ثواب ملے گا کیونکہ وہ اس وقت آئیں گے جب دین ترقی کر چکا ہو گا اور تم اِس وقت دین کی خدمت کر رہے ہو جب ہزاروں گالیاں تمہیں دُشمنوں کی طرف سے سُننی پڑتی ہیں۔ پس تمہارے لئے برکتوں کے دروازے بھی کھلے ہیں اور لعنتوں کے دروازے بھی کھلے ہیں ۔ تمہارے سامنے تریاق کا پیالہ بھی پڑا ہے اور تمہارے سامنے زہر کا پیالہ بھی پڑا ہے۔ اگر تم چاہتے ہو تو قُربانیوں کے میدان میں اپنا قدم آگے سے آگے بڑھا کر تریاق کے پیالہ کو پی جاؤ اور ابدی زندگی کے وارث بن جاؤ اور اگر چاہتے ہو تو زہر کا پیالہ پی کر اس کی ابدی *** اور عذاب کے مورد بن جاؤ اور اس کی برکتوں سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاؤ۔ پس یہ تمہارے اپنے اختیار کی بات ہے اس میں نہ مَیں تمہاری مدد کر سکتا ہوں اور نہ کوئی اَور مدد کر سکتا ہے۔ خدا بیشک مدد کر سکتا ہے مگر وہ کرتا نہیں اس کا فیصلہ یہی ہے کہ بندہ خود اپنا راستہ چُنے۔ پھر جس راستہ کو وہ چُن لیتا ہے اس کے مطابق اﷲ تعالیٰ اس سے سلوک کرتا ہے۔‘‘
(الفضل ۲۷؍ستمبر ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الحج : ۷۸، ۷۹
۲؎ ترمذی ابواب صفۃ جھنم باب ماجاء ان … نفسین
۳؎ التوبۃ: ۱۰۰
۴؎ کتاب البریہ صفحہ ۱۷۰ حاشیہ
۵؎ نیا تذکرۃ الاولیاء از رئیس احمد جعفری صفحہ ۳۵
۶؎ دارا: اصل نام دار پوس۔ ایران کا عظیم شہنشاہ اور فاتح ۔ دورِ حکومت ۴۸۶ تا ۵۲۱ ق م۔
۷؎ ترمذی ابواب الزھد باب ماجاء فی اصحاب النبی صلی اﷲ علیہ وسلم و ابواب
شمائل ترمذی باب ماجاء فی عیش النبی صلی اﷲ علیہ وسلم
۸؎ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ ۸
۹؎ مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۴۷۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۱۰؎ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ ۵۱ مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء

۳۲
سچائی اور خلوص سے شُہرتِ دوام اور کامیابی حاصل ہوتی ہے
(فرمودہ ۲۳؍ستمبر۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’ایک مسلمان دن میں چالیس پچاس مرتبہ ۱؎ کہتا ہے۔
جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ابھی مجھے سیدھے رستہ کی ضرورت ہے اے خدا! تُو مجھے سیدھا رستہ دکھا یعنی وُہ اقرار کرتا ہے اور اظہار کرتاہے اور اصرار سے اظہار کرتا اور بار بار اقرار کرتا ہے کہ اسے سیدھے رستہ سے محبت ہے، وُہ سیدھا رستہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر وہ اسے مل جائے تو اسے قبول کرے گا۔یہ کتنی پاکیزہ اور اعلیٰ درجہ کی خواہش ہے اگر یہ سچی ہو۔دنیاکی ساری خوبیاں اور بھلائیاں اور اچھائیاں اس کے اندر آجاتی ہیںاور اس میں کیا شُبہ ہے کہ جو شخص سچے دل کے ساتھ یہ خواہش رکھتا ہے وہ دنیا میں چلتا پھرتا جنتی اور ولی اللہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ سچی خواہش رکھتا ہے یا نہیں۔ کونسا شخص دنیا میں ہے اور کس مذہب کا ہے کہ جو اس قسم کی سچی خواہش کو سن کر متاثر نہ ہوگا۔ مسلمانوںکو جانے دو یہ فقرہ کسی ہندو، سِکھ، عیسائی، یہودی کے سامنے رکھ دو کہ ایک شخص دن رات اس خواہش میں تڑپ رہا ہے اور دعائیں کرتا ہے کہ اے خدا! مجھے سیدھا رستہ دکھا اور وہ اس سیدھے راستہ پر چلنا چاہتا ہے تو پھر بغیر اس بات کا انتظارکئے کہ اسے یہ رستہ مل گیا ہے یا نہیں ہر ایک یہی کہے گا کہ وہ شخص بڑا نیک اور بڑابزرگ ہے۔
تو اس قسم کی مجرد خواہش ہی اعلیٰ چیز سمجھی جاتی ہے کُجا یہ کہ وہ پوری بھی ہو جائے۔تڑپ اور جوش اپنی ذات میں ہی نیکی ہوتے ہیں۔محبوب اپنے محب کی بات سنے یا نہ سنے،مطلوب ملے یا نہ ملے،طالب کے دل میں اسے پانے کی تڑپ کا موجودہونا اپنی ذات میں بہت اعلیٰ اور مبارک بات ہے۔
جس طرح دنیا میں بڑے بڑے کامیاب آدمی مشہور ہوتے ہیںہزاروں سال ان کا نام دنیا میں چلتا ہے اسی طرح سچی تڑپ رکھنے والے ناکام بھی مشہور ہوتے ہیں ۔سکندر دنیا میں مشہور ہے اس نے معلومہ دنیا کا بیشتر حصہ فتح کر لیا تھا ہزارہا سال گزر چکے ہیں ۔دو ہزار سے زیادہ لیکن آج تک اس کا نام دلوں سے محو نہیں ہؤا۔ رستم ایک پہلوان تھا بادشاہ نہ تھا مگر کامیاب زندگی بسر کرنے اور دشمنوں کو مغلوب کرنے کی وجہ سے جو لوگ اس کی حقیقت سے قطعاًواقف نہیں وہ بھی اس کا نام لیتے ہیں ۔جب کوئی بڑے دعوے کرے تو کہتے ہیں بڑارستم آیا ہے حالانکہ کہنے والے کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ رستم کون تھا اور کہاں کا رہنے والا تھا۔حاتم نیک کاموں کی وجہ سے اتنا مشہور ہے کہ مخلوق میں سے ایک بڑے حصہ کی زبان پر اس کا نام ہے کوئی بڑا سخی ہو تو کہتے ہیںیہ تو حاتمِ زماں ہے اور اگر کوئی تھوڑی سی سخاوت کے بعد بڑے بڑے دعوے کرنے لگے اور اس پر فخر کرے تو کہتے ہیں کہ اس نے حاتم کی قبر پر لات ماری ہے۔ تو یہ لوگ کامیاب تھے اور اپنے اپنے خاص فن یعنی کوئی بہادری، کوئی سخاوت اور کوئی فتوحات میں نمایاں تھے اور اس وجہ سے مشہور ہیں مگر جس طرح یہ مشہور ہیں اسی طرح بعض ناکام بھی مشہور ہیں۔جس طرح دنیا رستم ،سکندر اور حاتم کا نام لیتی ہے اسی طرح بلکہ شاید اس سے زیادہ مجنوں کا نام لیتی ہے گو وہ کامیاب نہیں تھا۔وہ ایک عورت کی وجہ سے دیوانہ ہؤااور اسی وجہ سے مجنوں کہلایا۔اس کا نام قیس تھا اس نے ایک عورت کی خواہش کی مگر اسے حاصل کئے بغیر ہی مر گیا اور اپنی معشوقہ سے شادی کا موقع اسے نہ مل سکا مگردنیا میں جس طرح سکندر کا نام مشہور ہے اسی طرح قیس کا ہے بلکہ ہندوستان میں سکندر کا نام جاننے والے کم اور قیس کا عرف جاننے والے زیادہ ملیں گے۔اپنے صوبہ میں دیکھ لو کتنے لو گ سکندر کا نام جانتے ہیں اورکتنے رانجھا کا حالانکہ وہ کامیاب نہ تھا۔اس کی کہانی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ وہ ناکام تھا مگر باوجود اس ناکامی کے اس کا نام آج تک قائم ہے۔یہی حال فرہاد کاہے اس کا نام غیرتعلیم یافتہ لوگوں میں زیادہ مشہور نہیں مگر تعلیم یافتہ طبقہ میں وہ ایسا ہی مشہور ہے جیسا سکندر،رستم یا مجنوں ۔حالانکہ وہ بھی ناکام تھا۔ ان لوگوں کے نام کامیاب لوگوں کی طرح کیوں مشہور ہیں اسی لئے کہ انہوں نے اپنے دل میں سچی تڑپ پیدا کی گو اسے پورا کرنے کے قابل نہ ہوسکے مگر انہوں نے اپنی تڑپ کو نہ چھوڑا۔تو استقلال کے ساتھ مقصود کی طلب میں لگے رہنا اپنی ذات میں کامیابی ہے اور ایسی ہی کامیابی ہے جیسے فتوحات حاصل کرنا ۔اگر یہ بڑی چیز نہ ہوتی تو کامیاب لوگوں کے ساتھ ان ناکاموں کے نام مشہور نہ ہوتے مگر بنی نوع انسان کایہ فیصلہ ہے اور متفقہ فیصلہ کہ جس مقام پر کامیاب لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے اسی پر سچی تڑپ رکھنے والے ناکام بھی بٹھائے جاتے ہیںاور صحیح فیصلہ وہی ہوتا ہے جو لوگ کرتے ہیں، اپنے متعلق اپنا فیصلہ صحیح نہیں سمجھا جاتا۔ ہر ڈاکٹر یہی سمجھتا ہے کہ وہ بڑا قابل ہے، ہر وکیل یہی خیال کرتا ہے کہ وہ بہت لائق ہے لیکن دراصل بڑا ڈاکٹر اور بڑا وکیل وہی ہوتا ہے جس کے متعلق لوگ فیصلہ کریں کہ وہ بڑا ہے۔ عوام قانون نہیں جانتے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر ایسی حِسّ رکھی ہے کہ وہ اچھی چیز کے متعلق فیصلہ کرسکتے ہیں ناکام وکیل شور مچاتے ہی رہتے ہیںکہ فلاں وکیل کچھ نہیں جانتا یونہی مشہور ہوگیا ہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ کیوں مشہور ہوگیا ہے ۔
پبلک اپنے فیصلوں میں غلطی نہیں کرتی ۔ہمارے سامنے آکر ایک شخص کام شروع کرتا ہے اور دیکھتے دیکھتے وہ آگے بڑھ جاتا ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ وہ لائق ہے۔ کامیاب ڈاکٹروں کے متعلق کوئی طبی مجلس فیصلہ نہیں کیا کرتی کہ فلاں قابل ہے اور فلاں ناقابل بلکہ جاہل عوام ہی کیا کرتے ہیں۔ ناکام شور مچاتے رہتے ہیںکہ اس کے نسخہ میں تو صرف فلاں دوائی ہوتی ہے وہ جس پر ہاتھ ڈالتا ہے وہی مر جاتا ہے مگر پبلک ہے کہ اس کی طرف چلی جارہی ہے وہ اپنی فیس پانچ سے دس ،دس سے سولہ،سولہ سے بتیس اور بتیس سے چونسٹھ کر دیتا ہے، اِدھر ملک غریب اور کنگال ہے مگر لوگ قرضہ لیںیا کچھ کریں بیماری کے وقت کسی نہ کسی طرح چونسٹھ روپے مہّیا کر کے اس کے پاس پہنچ جائیں گے۔
بسااوقات وہ توجہ نہیں کرے گا کہہ دے گا مجھے فرصت نہیں مگر لوگ اسی کے پیچھے چلے جارہے ہوں گے جہاں دوسرا اپنی قابلیت پر فخر کرنے والا ڈاکٹر سارا دن بیٹھا مکھیاں مارتا ہے وہ جسے بدنام کیا جاتا ہے انتہا درجہ مشغول رہتا ہے۔ میرااپنا تجربہ ہے۔۱۹۱۸ء میں جب میں بیمار ہؤا تو ڈاکٹر وں کی رائے تھی کہ ڈاکٹر سدر لینڈ سے مشورہ کیا جائے۔میں نے انہیں مشورہ کے لئے وقت دینے کے لئے لکھوایا تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے فرصت نہیںاور پندرہ دن یا شاید بیس دن کے بعد کہا کہ دیکھ سکوں گا ۔چنانچہ ہم اتنے ہی دن کے بعد گئے تو انہوں نے معذرت کی اور نوٹ بک نکال کر دکھائی اور بتایا کہ میں روزانہ ہی مریض دیکھتا ہوںاور آج تک کے نام پہلے ہی مقرر تھے۔
لیکن لاہور میں دوسرے ڈاکٹروں کی عام طور پر یہی رائے تھی کہ وہ B. Coli ۲؎کے سِوا کچھ جانتا ہی نہیں وہ اس کے خلاف شور مچاتے تھے مگر لوگ پھر اس کے پاس پہنچتے تھے حالانکہ وہ دیکھنے سے انکار کرتا تھا اور ظاہر ہے کہ جس وکیل یا ڈاکٹر کے پاس لوگ جائیںگے کمائی بھی وہی کرے گا اور عزت وشہر ت بھی اسے ہی حاصل ہوگی اور دوسرا اسے بدنام کرنے والا صرف کُڑھتا اور دل میں جَلتا رہے گا۔ تو پبلک جس کے متعلق فیصلہ کرے کہ وہ اچھا ہے اسے ہی روپیہ اور شہرت اور عزت حاصل ہوتی ہے۔ پبلک کے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھ دیا ہے کہ وہ محسوس کر لیتی ہے کہ قابلیت کس کے پاس ہے اور اس لئے اس کا فیصلہ قابلِ قدر ہوتاہے بشرطیکہ اس کا فیصلہ ورثہ میں نہ ملا ہو بلکہ اس نے خود تجربہ کے بعد حاصل کیا ہو اور پبلک کا فیصلہ یہی ہے کہ جو عزت وہ کامیاب وجودوں کو دیتی ہے وہی ایسے ناکام وجودوں کو دیتی ہے جو استقلال کے ساتھ اپنے مقصود کے پیچھے پڑے رہے۔ پبلک نے جس مقام پر سکندر اوررستم کو بٹھایاہے اسی پر مجنوں ،فرہاد اور پنجاب میں رانجھے کو بٹھایاہے۔ یہ پبلک کا فیصلہ بتاتا ہے کہ انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ اس کے نزدیک استقلال کے ساتھ کسی چیز کے پیچھے چلے جانا بڑی خوبی ہے۔
تو جو شخص دن میں چالیس پچاس مرتبہ عاجزانہ طور پر یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! مجھے سیدھا راستہ دکھا اور کہتا چلا جاتا ہے حتّٰی کہ اسے موت آجاتی ہے تواگر وہ یہ دعا اسی اخلاص سے کرتا ہے جس طرح قیس نے لیلیٰ کے حصول کے لئے کوشش کی، اسی محبت سے اللہ تعالیٰ کی یا د کرتا ہے جس طرح فرہاد شیریں کو کرتا تھا، اسی خلوص کے ساتھ اپنے اندر تڑپ پیداکرتا ہے جو ہیر کے لئے رانجھا کے دل میں تھی تو گو وہ ناکام ہی رہے ۔اگرچہ الٰہی محبت کے رستہ میں انسان ناکام نہیں رہا کرتا لیکن فرض کرلو وہ کامیاب نہ ہو تو بھی اسی شُہرت کا مستحق ہوگا جو سکندر کو حاصل ہے، رستم اور حاتم کو حاصل ہے۔مگرسوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہزاروں لوگ روزانہ یہ دعا مانگتے ہیں انہیں شہرتِ دوام کیوں حاصل نہیں ہوتی ۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں ہیں کہ جو دن رات یہی رٹ لگاتے ہیں مگر ان میں سے کسی کو بھی شُہرتِ دوام کامقام حاصل نہیں ہؤا ۔بڑے بڑے لوگوں کو تو جانے دو ان کو رانجھے والا مقام بھی حاصل نہیں جو صرف پنجاب کا ہیروتھا۔ اب غور کرو کہ کیوں ایسا نہیں ہوتا،دنیا کیوں فیصلہ نہیں کرتی کہ یہ شخص بھی فرہاد اور رانجھے کے مقام پر ہے۔کیا پہلوں نے دنیا کو کوئی رشوت دی ہوئی تھی کہ ان کا نام تو مشہور ہوگیااور ان کانہیں ہوتا۔ان کے واقعات سن کر لوگ رونے لگ جاتے ہیں ۔اچھے اچھے ثقہ آدمی وہ شعر گنگناتے ہیں جن میں ان کے حالات بیان ہیں مگر یہ ان کے دروازہ پر بیٹھا ہؤا انسان جو دن رات کہہ رہا ہے اور وہی نقل کر رہا ہے جو قیس ،فرہاداور رانجھے نے کی تھی مگر لوگ اُنہیں تو یاد کرتے ہیںلیکن اس کا نام کوئی نہیں لیتا اور پھر کوئی یہ بھی نہیں کہتا کہ میاں تم قیس کو تو یاد کرتے ہو فرہاد کی قدر کرتے ہو مگر یہ کیا اُن سے کم ہے کہ جو دن میں چالیس پچاس مرتبہ ، کہتا رہتا ہے۔ تم پرانے قیس ،فرہاد اور رانجھے کو یاد کرتے ہواور اس نئے قیس ،فرہاد او ر رانجھے کا ذکر تک نہیں کرتے حالانکہ وہ تو عورتوں کے عاشق تھے مگر یہ خدا کا عاشق ہے ۔
تم میں سے ہر ایک شخص اپنے نقس کو ٹٹولے کہ وہ اس کا کیا جواب دے گا ۔وہ یہی کہے گا کہ ایک چھوٹا ساہیرا شیشے کے بہت بڑے ٹکڑے سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ بے شک یہ شخص کہتا ہے کہ میں عاشق ہوں مگر اس کے چہرے پر عشق کے وہ آثار نظر نہیں آتے جو قیس اور رانجھا میں دکھائی دیتے ہیں۔میں کیا کروں میرے اندر جو دماغی قابلیتیں ہیں جب قیس کے واقعات سامنے آئیں تو ان سے آواز آتی ہے کہ یہ سچا ہے جب فرہاد کا ذکر آئے تو آواز آتی ہے کہ وہ سچا ہے، خوا ہ وہ عورتوں کے عاشق تھے مگر عشق میں سچے تھے مگر جب خداکے اس عاشق کا ذکر ہو تو میرے دل میں اس کے لئے کوئی عزت پیدا نہیں ہوتی ۔اگر واقع میں یہ خدا تعالیٰ کا عاشق ہوتا تو دنیا کو اس سے متاثر ہونے میں کیونکر انکار ہو سکتا تھا۔لیلیٰ سے ہماری کوئی رشتہ داری نہ تھی، شیریں سے کوئی واسطہ نہ تھا پھر کیا وجہ ہے کہ قیس اور فرہاد کے حالات پڑھ کر تو دل پر اثر ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ تو ہمارا ہے مگر اپنے اس خدا سے محبت کرنے والے کے متعلق ہمارے دلوں میں کوئی ٹیس نہیں اُٹھتی اسی وجہ سے کہ اس کی محبت بناوٹی ہے اور حقیقت کے سامنے بناوٹ ٹھہر نہیں سکتی۔شیشہ خواہ کتنا بڑا ہو چھوٹے سے چھوٹا ہیرا جو قلم کی نوک پر لگا ہو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے لیکن سچے دل سے کہنے والا فرض کر لو ناکام بھی رہے تو بھی وہ بڑی بھاری چیز ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ ہم دیکھیں گے کہ جو سچائی اسے ملی ہوئی ہے اس سے اس نے کیا فائدہ اٹھایا ہے۔آخر کوئی نہ کوئی سچائی خدا تعالیٰ نے اسے بتائی بھی تو ہوتی ہے ۔جب ہم خدا تعالیٰ سے یہ کہتے ہیں کہ تو کیا اس وقت تک ہمیںکسی سچائی کا پتہ بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ تو دیکھنا یہ ہوگا کہ اس دعا کے مانگنے والے کے پاس جو سچائی ہے اس سے اس نے کیا فائدہ اٹھایا ہے کہ اور مانگنے کا مستحق ٹھہر سکے۔جو شخص پہلی عطا کردہ سچائی سے تو فائدہ نہیں اٹھاتا اور مزید مانگتا رہتا ہے اس کی مثال اس بچہ کی سی ہے جس کی جھولی میں پھل پڑے ہیں اور انہیں وہ کھا نہیں سکتا مگر اور مانگتا جاتا ہے۔ اس کا پیٹ تو اتنا چھوٹا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسے بھی نہیں کھاسکتا لیکن حرص کی وجہ سے اس کا مطالبہ بڑھتا جاتا ہے مگر کیا یہ کبھی ہؤا ہے کہ بچہ اس طرح مانگتا جائے اور ماں تھالیاں اس کے سامنے رکھتی جائے۔ وہ اسے اور نہیںدیتی وہ جانتی ہے کہ اس کی خواہش جھوٹی ہے ورنہ جو کچھ اسے دیا جاچکا ہے پہلے اسے کیوں نہیں کھاتا۔ اسی طرح سوال یہ ہے کہ جو شخص کہتا ہے اس کے پاس پہلے سے کوئی صداقت موجود ہے یا نہیں؟ کیااسے معلوم نہیں کہ سب مذاہب نے سچ بولنے کا حکم دیا ہے پھر کیا وہ سچ بولتا ہے اگر نہیں تو اس کا اور مانگنا فضول ہے، اَور تو اسے ملتا ہے جو پہلی چیز کو ختم کرے، جو پہلی نعمت کو استعمال کرے خدا تعالیٰ اسے اور دیتا ہے لیکن جس کی یہ حالت ہو کہ جو کچھ اسے ملے اس کو تو پیچھے پھینک دیتااور اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا لیکن اور مانگتا جاتا ہے۔تو وہ نادان بچہ کی طرح ہے جسے یاتو بہلا دیا جائیگا اور یا اگر وہ زیادہ شورکرے گا تو ماںایک تھپڑ اس کے لگا دے گی ۔بیمار، جاہل او ر ضدی بچے ہمیشہ ایسا کرتے ہیں چیز مانگتے ہیں اور اسے پھینک کر اور مانگنے لگتے ہیں۔ایسا بچہ اگر تو بیمار ہو تو ماں اسے بہلاتی ہے اور اگر ضدی ہو تو تھپڑ رسید کر دیتی ہے۔ اسی طرح جو شخص پہلی سچائیوں پر عمل کئے بغیرکہے جاتا ہے وہ اگر تو بیمار ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بہلا دیگا لیکن اگر بیمار نہیں تو بجائے صراطِ مستقیم کے اسے تھپڑ بھیجے گااور کہے گا کہ نالائق تجھے اتنی چیزیں میں نے دے رکھی ہیں ان کو تو استعمال کرتا نہیں اور مزید مانگتا جاتا ہے۔ مگر جو پہلی ملی ہوئی سچائی سے فائدہ اٹھا کر اور مانگتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئی سچائی بھیجی جاتی ہے جس طرح ہمارا خدا غیر محدود ہے اسی طرح صراطِ مستقیم غیرمحدود ہے اور خداتعالیٰ کا وصال غیر محدود ہے جو شخص کسی بھی مقام پرپہنچ کر یہ کہتا ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ کو ایسا پالیا کہ اب آگے قدم اٹھانے کی کوئی گنجائش نہیں وہ جھوٹا ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اَنَا سَیِّدُوُلْدِاٰدَمَ۳؎ یعنی میں سب انسانوں کا سردار ہوں ۔آپ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۴؎یعنی وہ خدا تعالیٰ کے قریب ہؤا ۔اور اس نے انتہائی قُرب کو پالیا ۔اور پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۔۵؎کہ اے رسول! تو ان لوگو ں سے کہہ دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میرے غلام بن جائو خدا تعالیٰ کے محبوب بن جائو گے۔ اس انسان کو اللہ تعالیٰ یہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ ۶؎کی دعا مانگا کرو ۔یعنی اے اللہ! مجھے اپنا قُرب اور عرفان اَور زیادہ بخش،تو انتہائی مقام پر پہنچے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ یہ حکم دیتا ہے کہ کسی بھی مقام پر پہنچ کر یہ مت سمجھو کہ سب کچھ مل گیا بلکہ کہو اور یہ دعا کرتے رہو کہ اے خدا! مجھے علمِ دین اور عرفان میں اور بڑھا اور جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے بھی ترقی کی گنجائش باقی ہے تو اور کون ایسا انسان ہے جس کے لئے کوئی مقام بھی باقی نہ رہا ہو۔ ہر انسان کے لئے خواہ وہ کسی مقام پر ہو مزید مانگنے کی گنجائش باقی رہتی ہے اور جب تک انسان اس بات کو نہیں سمجھتا کہ خدا تعالیٰ کے قُرب کے لئے کوئی انتہا نہیں تب تک وہ نیکی کے مقام کو نہیںپاسکتا جس نے یہ گمان کیا کہ خدا تعالیٰ سے ملنے کی کوئی حَد ہے وہ یاتو پاگل ہے یا خدا تعالیٰ کا منکر ہے۔
ایک دفعہ اسی مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد ایک صاحب نے جو باہر سے آئے ہوئے تھے مجھ سے بات کرنے کی خواہش کی میں بیٹھ گیا تو انہوں نے سوال کیا کہ جب کوئی شخص کسی دوست سے ملنے جائے تو اس کے پاس پہنچ کر اسے گھوڑے سے اُتر جانا چاہئے یا سوارہی رہنا چاہئے یا اگر وہ دریا میں جارہا ہو تو دوست کو کنارہ پر پا کر کشتی سے اتر پڑے یا اسی میں بیٹھا رہے۔میں ان کا مطلب سمجھ گیا اور مجھے پتہ لگ گیا کہ یہ ابا حتی آدمی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز، روزہ وغیرہ عبادتیں سواری ہیں خداتعالیٰ تک پہنچانے کی اور جب وہ مل جائے تو پھر ان کی کیا ضرورت ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہم لوگ جب نمازیںپڑھتے اور دعائیں مانگتے جاتے ہیں تو کیا خداتعالیٰ کبھی ملتا ہی نہیں؟ اگر نہیں ملتا تو ان عبادتوں کا کیا فائدہ۔ اور اگر ان کے نتیجہ میں وہ مل جاتا ہے تو پھر ان کی کیا ضرورت باقی رہ سکتی ہے یہی وہ چیز ہے جس کا نام ان لوگوں نے طریقت رکھا ہؤا ہے۔خیر مَیں اس کا مطلب سمجھ گیا اور میں نے جواب دیا اگر تو دریا محدود ہے تو کنارہ آنے پر کشتی سے اتر جانا چاہئے لیکن اگر دریا غیر محدود ہے تو جس وقت اُترا اسی وقت ڈوبا اس کی نجات کشتی میں ہی ہے اس پر وہ خاموش ہو گیا اور کہنے لگا کہ اچھا یہ بات ہے۔ میں نے کہاہاں یہی ہے میں نے اسے بتایا کہ ہم خدا تعالیٰ کو غیر محدود مانتے ہیں اور اس لئے اس کا وصال بھی غیر محدود ہے دریا میں چلنے والا پہلے قدم میں اور جگہ ہوتا ہے، دوسرے قدم میں اورجگہ ہوتا ہے۔تیسرے پر اَور جگہ اور چوتھے پر اَور جگہ ۔ اگر اس کا مقصد دریا ہی کی سیر ہے تو وہ شروع سے آخر تک دریا کی سیر میں مشغول رہے گواس کا ہر دوسرا لمحہ پہلے سے مختلف ہے لیکن بڑھتا ہی چلا جائے تو آخر دریا ختم ہوجائے گا لیکن اگر دریا کا پاٹ غیر محدود ہے تو گو کشتی میں بیٹھنے کے ساتھ ہی دریا کی سیر شروع ہو جائے گی مگر وہ ختم کبھی نہ ہوگی اور اترنے کا وقت کبھی نہ آئے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت میں ترقی کرنیوالا بھی آگے ہی بڑھتا جاتا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی غیرمحدود ہے اُس کا وصال بھی غیر محدود ہے جو شخص دریا میں ایک فٹ بڑھا ہو اس کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ دریا میں ہے اور جو وسط میں ہو اس کے متعلق بھی، اسی طرح جو وصالِ الٰہی کی پہلی منزل پر ہی ہے اسے وصال تو حاصل ہے لیکن اگر وہ اس پر مطمئن ہو کر بیٹھ گیا ہے تو وہ عاشق نہیں کہلا سکتا ۔عاشق وہی ہے جو لیتا جائے اور مانگتا جائے۔اور جو اسے ملے اسے دل میں جگہ دے اور اس سے فائدہ اٹھائے اور پھر اور مانگتا چلا جائے۔عشقِ الٰہی کی یہی پَرکھ ہے کہ پہلی حاصل کردہ چیز کو اپنے دل میں جگہ دے اور پھر زائد کی درخواست کرے۔ جو شخص پہلی حاصل شدہ سچائی کو اپنے دل میں محبت سے جگہ دیتا ہے اس کا حق ہے کہ اس کے بعد اور ہدایت کی درخواست کرے حتّٰی کہ ہر روز مانگتا جائے۔بلکہ ہر لمحہ مانگتا جائے۔ایسا شخص اس زیادہ طلبی کی وجہ سے روز بروز خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا جائے گا لیکن اگر پہلی کو پھینک کر اور مانگتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے تھپڑ رسید کیا جائے گا اور خدا تعالیٰ کہے گا کہ نالائق پہلے جو کچھ تجھے دیا گیا ہے اسے تو استعمال کرتا نہیں اور اَور مانگتا ہے۔
پس مؤمن کا فرض ہے کہ وہ دیکھے پہلی سچائی جو اسے ملی ہوئی ہے اسے وہ استعمال کر رہا ہے یا نہیں۔ میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ ایک ادنیٰ نیکی سچ بولنا ہے مگر تم میں سے کتنے ہیں کہ جنہوں نے اس کو اختیار کیا ہؤا ہے اور جو اسے بھی اختیار نہیں کرتے اورکہتے رہتے ہیں ۔کیا ان کی مثال اس بچہ کی نہیں جو پہلی حاصل شدہ چیز کو تو پھینک دیتا ہے مگر اور مانگنے لگ جاتا ہے وہ اس نیکی کو تو چھوڑتا ہے اور خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ مجھے اور دے۔میں نے کئی بار بتایا ہے کہ سچ بولنا چھوٹی سے چھوٹی نیکی ہے اور اگر ہماری جماعت اسے ہی اختیار کرلے حتّٰی کہ دنیا میں ہر شخص یہ اقرار کرے کہ یہ جماعت سچی ہے اور کوئی احمدی جھوٹ نہیںبول سکتا تو ہمارا یہ ایک عمل ہی دوسرے ہزاروں عیوب کی پردہ پوشی کر سکتا ہے مگر افسوس ہے کہ جماعت نے ابھی یہ بھی تو حاصل نہیں کی ۔ہزاروں آدمی ابھی ایسے ہیں جو سچ کی تعریف بھی نہیں سمجھتے۔ پچھلے ہی دنوں میں نے ایک خطبہ پڑھا تھاجو شاید ابھی چھپاہے یا نہیں مگر ابھی جو میں لاہور گیا تو وہاں ایک دوست ایک واقعہ سنانے لگے کہ فلاں شخص نے یوںجھوٹ بولا گویا یہ کوئی بڑے فخر کی بات تھی ۔کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ پچاس سال سے جماعت کو یہ سبق دیا جارہا ہے کہ سچائی ایک قیمتی جوہر ہے جس کے بغیر کوئی نیکی نہیں ۔کوئی شخص صبح سے شام تک روزہ رکھے اور ساری رات تہجد میں لگا رہے اور ذکرِ الٰہی میں مشغول رہے لیکن اگر اس میں سچائی نہیں تو اس کی یہ ساری عبادتیں مچھر کے پَر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں۔تم چندے دے دے کر کنگال ہو جائو، تمہارے بیوی بچوں کے تن پر کپڑا نہ رہے اور کھانے کو نہ ملے ۔پچاس سال سے تم نے اس نیکی میں بھی ناغہ نہ کیا ہو لیکن اگرتمہارے اندر سچائی پیدا نہیں ہوئی تو تمہارے دل میں احمدیت کا ایک ذرہ بھی نہیں۔
سچائی پہلی سیڑھی ہے اور جو شخص پہلی سیڑھی پر قدم نہیںرکھتا وہ دوسری پر نہیں پہنچ سکتا۔ یادرکھو کہ چند نیکیاں ابتدائی ہیں جب تک وہ حاصل نہ ہوں کچھ نہیں مل سکتا اور ان کے بغیر جو ملے گا وہ ریا ،مکر ، فریب،دغااوردھوکا ہوگا اور سچائی ابتدائی نیکیوں میں سے ہے جب تک یہ حاصل نہیں ہوتی تم اور کوئی نیکی حاصل نہیں کر سکتے جس طرح خدا تعالیٰ پر ایمان کا ہونا نیکی کے لئے ضروری ہے اسی طرح سچائی بھی ضروری ہے۔ مؤمن اور غیر مؤمن میں یہی فرق ہوتا ہے کہ مؤمن سچا ہوتا ہے ۔کوئی شخص خواہ کتنی نمازیں پڑھے نیکی کی ہر آواز پر فوراً لبیک کہے لیکن اگر وہ سچائی پر قائم نہیں تو اس کی نمازیں بے سود ہیں اور اس کا خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنا فریب ہے کیونکہ دوسری سیڑھی پر وہی چڑھ سکتا ہے جو پہلی پر چڑھے ۔جو پہلی سیڑھی پر قدم رکھے بغیرسمجھتا ہے کہ میں آخری پر پہنچ گیا ہوں وہ پاگل ہے اور اس کا یہ دعویٰ ایسا ہی ہے جیسا بعض پاگل بادشاہ ہونے کا دعویٰ کیا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بادشاہ ہیں۔ پاگلوں میں اپنے آپ کو بادشاہ سمجھنے والے بھی ہوتے ہیں اور ولی اللہ اور فلاسفر بھی ۔میں نے پاگل خانہ دیکھا ہے بعض وہاں ایسے تھے جو مہدی ہونے کے مدعی تھے،بعض اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتے تھے۔ میں جب پاگل خانہ دیکھنے گیا تو ایک پاگل نے میرے کان میں آکر کہا کہ میں ایڈورڈہفتم ہوںیہاں سیر کے لئے آیاہؤا ہوں مگر آپ یہ بات کسی کو بتائیں نہیں جو ڈاکٹر میرے ساتھ تھا اس نے بتایا کہ یہ ہر شخص کو اسی طرح کہتا ہے۔ تو کئی پاگل بادشاہ ہونے کے مدعی ہوتے ہیںمگر ہم چونکہ جانتے ہیں کہ یہ پہلی سیڑھی ہی نہیں چڑھا اس لئے اُسے پاگل قرار دیتے ہیں اگر پہلی منازل وہ طے کر چکا ہوتا تو ہم اسے پاگل نہ کہتے۔بادشاہ کے لئے یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ وہ بادشاہ کا ہی بیٹا ہو آخر عوام میں سے بھی تو بادشاہ ہوئے ہیں۔نادرشاہ کسی بادشاہ کا بیٹا نہیں تھا بلکہ اس کا باپ گڈریا تھا جب اس نے ہندوستان کو فتح کیا تو ایک روز دربار لگا ہؤا تھا درباریوں نے مشورہ کیا کہ مختلف خاندانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آخر نادرشاہ سے اس کے خاندان کے متعلق پوچھا جائے اور چونکہ وہ کسی اعلیٰ خاندان سے نہیں اس لئے بہت نادم ہوگا۔چنانچہ اسی رنگ میں گفتگو شروع ہوگئی نادرشاہ سمجھ گیا کہ مقصد کیاہے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ ترقی دیتا ہے انہیں ذہنِ رَسابھی حاصل ہوتا ہے ۔چنانچہ وہ بیٹھا مسکراتا رہا۔آخر بات ہوتے ہوتے اس تک پہنچی اور اس سے پوچھا گیا کہ جناب کے باپ کا نام اور خاندانی حالات کیا ہیں۔اس نے تلوار نکال کر کہا کہ میرے باپ کا نام یہی ہے ۔یعنی تم میری تلوار کو دیکھ چکے ہو تمہیں میرے باپ کے نام سے کیا غرض۔میں تمہیں فتح کرکے یہاں بیٹھا ہوں اور جسے ذاتی جو ہر حاصل ہو اُسے والد کے جوہر کی کیا ضرورت ۔بھَلا اس بادشاہ کو جو اس وقت نادرشاہ کے غلام کی حیثیت رکھتا تھا۔ بابر اور ہمایوں کی اولاد میں سے ہونے کا کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا اورنادرشاہ کو جس نے تلوار سے فتح حاصل کی تھی اس بات سے کیا نقصان ہوسکتا تھا کہ اس کا باپ گڈریا تھا۔تو انسان ذاتی جوہر سے بھی ترقی کرسکتا ہے اس لئے اگر بادشاہ ہونے کا مدعی پہلی سیڑھی طے نہ کر چکا ہو تو اسے پاگل کہا جائے گا لیکن اگر وہ پہلے فتوحات حاصل کرے اور پھر کہے کہ میںبادشاہ ہوں تو سب کہیں گے کہ ہاں حضور بے شک بادشاہ ہیں تو پہلی سیڑھی کے بغیر دوسری کا خیال کرناجنون ہے۔
اسی طرح سچائی پر قائم ہوئے بغیر جو شخص سمجھتا ہے کہ میں مسلمان احمدی، نیک اور ولی اللہ بن گیا ہوں وہ پاگل ہے کیونکہ وہ کچھ بھی نہیں ہوسکتا جب تک سچائی کو اختیار نہیں کرتا اور اس کے بغیر اگر کوئی روحانی دعویٰ کرتا ہے وہ یا تو پاگل ہے اور یا پھر دنیاکو دھوکا دیتا ہے ۔سچائی ابتدائی نیکی ہے اس کی تعلیم محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے شروع نہیں ہوئی بلکہ آپ سے پہلے اس کی تعلیم حضرت عیسیٰ ؑدے چکے تھے اور وہ بھی یہ تعلیم دینے نہیں آئے تھے کیونکہ یہ بات اس سے بھی پہلے حضرت موسیٰ ؑکہہ چکے تھے اور وہ بھی یہ سکھانے نہیں آئے تھے بلکہ ان سے بھی پہلے حضرت ابراہیم ؑ یہ بات کہہ چکے تھے اور وہ بھی اس لئے نہیں آئے تھے بلکہ یہ حکم اس سے پہلے حضرت نوح ؑ بتا چکے تھے اور حضرت نوحؑ بھی یہ بات بتانے کے لئے نہیں آئے تھے کیونکہ ان سے پہلے حضرت آدمؑ اس کا اعلان کرچکے تھے ۔
گویا انسان کی پیدائش کے وقت سے اسے سچ بولنے کی تعلیم دی گئی ہے اور جو سچائی اس طرح سب دنیا میں متفقہ ہو وہ روحانیت کے لئے بطور بنیاد کے ہوتی ہے اور اس کو خدا تعالیٰ نے روحانیت کے لئے ایسا ہی ضروری قرار دیا ہوتا ہے جیسا کہ جسم کے لئے ناک، کان وغیرہ۔ہندوستانی ،افغانی، عرب اور مغربی لوگوں کے لباس میں تو فرق ہوسکتا ہے، زبانوں میں فرق ہوسکتا ہے مگر ناک،کان،آنکھوںمیں کوئی فرق نہ ہوگا۔یہ تو ہوسکتا ہے کہ یورپ کے رہنے والوں کے رنگ گورے ہوں مگر آنکھیں ان کی بھی دوہی ہوں گی،ان کے بال بھورے ہوں گے مگر یہ نہیں ہوگا کہ ناک سر کے پیچھے ہویہی چیزیں انسان کی شکل کہلاتی ہیںاسی طرح روحانیت میں بھی بعض باتیں اس کی شکل میں شامل ہیں۔جو چیزحضرت آدمؑ کے وقت انسان کو نہیں ملی وہ روحانی جسم کا حصہ نہیں بلکہ زائد نیکی ہے۔روحانی جسم کو مکمل کرنے والی وہی چیزیں ہیں جو آدم سے لے کر محمدمصطفیصلی اﷲ علیہ وسلم تک ایک ہی رہیں اور ان میں سے ایک سچائی ہے۔ جس طرح آدم سے لے کر اس وقت تک انسانوں نے بہت ترقیات کیں مگر آنکھیں اب بھی دوہی ہیں اسی طرح کئی عبادات قائم ہوئیں اور کئی منسوخ ہوئیں،کسی نبی نے شراب کو جائز رکھا اور کسی نے حرام کر دیا، کسی نے نماز کا طریق کوئی بتایا اور کسی نے کوئی،مگر اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی کہ ہمیشہ سچ بولنا چاہئے ہر نبی یہی کہتا آیا ہے کہ ہمیشہ سچ بولو ۔
پس جو چیز روحانیت کے لئے بمنزلہ آنکھ کے ہے اسے ترک کر کے انسان کبھی روحانی ترقی حاصل نہیں کرسکتا ۔جس کی آنکھیں نہ ہوں وہ جنرل نہیں بن سکتا۔کُشتی تو شاید وہ کچھ نہ کچھ کر ہی لے مگر جرنیلی نہیں کرسکے گا۔ اسی طرح روحانیت کے میدان کا شہسوار لولا،لنگڑایا اندھا نہیں ہوسکتا۔سچائی روحانیت کے جسم کا حصہ ہے جو اسے چھوڑتا ہے وہ روحانیت کو حاصل نہیں کرسکتا اور جو ایسا سمجھتا ہے وہ فریب خوردہ ہے اور بے وقوفوں کی جنت میں آباد ہے۔ہماری جماعت کو غور کرناچاہئے کہ وہ کونسا وقت آئے گا جب وہ یہ خیال کریں گے کہ ہم اب سچ پر قائم ہو جائیں گے۔بے شک بعض تم میں سے کہہ سکتے ہیںکہ ہم نے کبھی جھوٹ نہیں بولایا بعض کہہ سکتے ہیں کہ ہم جب سے احمدی ہوئے ہیں اس وقت سے ہمیشہ سچ بولتے ہیںمگر یہ تو کافی نہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ جماعت میں سچائی کے قیام کے لئے تم نے کیا کوشش کی ہے۔ اگر ہمارے دوست سچائی پر قائم ہو جائیں تو قضاء میں کوئی مقدمہ آئے ہی نہیںاور کوئی آئے بھی تو ایسا کہ جس میں کوئی غلط فہمی ہوگئی ہو اور ایسے معاملہ کا فیصلہ کرناقاضی کے لئے بالکل آسان ہوتا ہے مگر افسوس ہے کہ یہ بات نہیں۔ مقدمات میں ایسے ایسے گواہ پیش ہوتے ہیں جن کے متعلق ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں گو بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو غلط فہمی کی وجہ سے غلط بات کہہ دیتے ہیںلیکن اگر ہم میں ایک شخص بھی ایسا ہے کہ جو جھوٹ بولتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو سرطان کی بیماری ہو اور اس کا مقابلہ کرنا تمہارا فرض ہے۔
پس یہ وعدہ کرو کہ آئندہ نہ توخود جھوٹ بولوگے اور نہ ہی اپنی اولادوں اور محلہ والوں کو بولنے دوگے اور جب تم اپنی اولادوں کو جھوٹ سیکھنے ہی کا موقعہ نہ دو گے تو جھوٹ کہاں رہ جائیگا۔بعض بچوں کو جوئیں پڑجاتی ہیں تو سارا گھر باری باری نکالنے بیٹھتا ہے حتّٰی کہ چُن چُن کر سب کو مار دیتے ہیںبلکہ لیکھیں بھی تلاش کرکے ختم کر دیتے ہیں اسی طرح تم جھوٹ کو بھی ختم کرو۔ جس طرح دیوانے کتّے کو تلاش کر کے اسے ہلاک کیا جاتا ہے اسی طرح تم جھوٹ کو مٹائو۔سانپ اور بچھو کو اتنا زہریلانہ سمجھو جتنا جھوٹ کو اگر تم ایسا کرو تو چھ ماہ کے اندر اندر جماعت سے جھوٹ کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اس صورت میںہر شخص یہ سمجھ لے گاکہ اگر اس جماعت میں رہنا ہے تو جھوٹ چھوڑنا پڑے گا اور جب جھوٹ گیا تو باقی گناہ بھی نہیں رہ سکیں گے۔یعنی تمہارے اندر طاقت پیدا ہوجائے گی کہ دوسرے گناہوں کو بھی دبا دو۔ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت رکھی ہے کہ وہ سچائی کی مدد سے ہر گناہ کا مقابلہ کر سکتا ہے پھر ایک دفعہ توجہ کر کے ہماری جماعت جھوٹ کا کیوں خاتمہ نہیں کر دیتی۔تحریک جدید کے اصول میںسے ایک یہ تھا کہ سچ بولو مگر افسوس کہ خود تحریک جدید کے متعلق بھی سچ نہیں بولا جاتا۔میں نے بار بار کہا ہے کہ یہ چندہ مجبوری کا نہیں تم وہی لکھوائو جو دے سکتے ہو اور اگر نہیں دے سکتے تو مت لکھوائو۔مگر کئی لوگ ہیں جو محض اس وجہ سے نام لکھوا دیتے ہیں کہ اس وقت مجلس میں ان کا نام بھی آجائے،کئی ایسے ہیں کہ وہ ہر سال چندہ لکھوا دیتے ہیں مگر ادا نہیں کرتے اور پھر اگلے سال وہ لکھتے ہیں اس سال ہمارا وعدہ ضرور قبول کر لیا جائے اور ہم پچھلے سال کا بھی اس سا ل میں ادا کریں گے مگر کچھ نہیں ادا کرتے اور تیسرے سال پھر لکھتے ہیں کہ وعدہ ضرور لے لیا جائے ورنہ بڑی ذلّت ہوگی اور ہم تو بس مر ہی جائیںگے اور جب یہ سال بھی گزر گیا تو چٹھی آجائیگی کہ فلاں مصیبت کی وجہ سے ہم چندہ ادا نہ کرسکے۔ اب کے سال ہمیں ضرور اجازت دی جائے ورنہ غم کی وجہ سے ہم مر جائینگے۔ اس سال تو ضرور ادا کریں گے اور پھر کچھ ادا نہیں کرینگے۔ یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ان سے کس نے کہا تھا کہ ضرورچندہ دو اگر وہ دے نہیں سکتے تھے تو انہیں نام لکھوانا کیا ضروری تھاکیا پہلے ہی ان کے گناہ کم تھے کہ دین کے معاملہ میں بھی جھوٹ بولنا ضروری سمجھا۔
میں نے کئی بار کہا ہے کہ نام لکھوانے کے بعد بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ چندہ نہیں دے سکے گا تو اسے چاہئے کہ معاف کرالے اور یہ کبھی نہیں ہوگا کہ کوئی معاف کرانا چاہے اور میں معاف نہ کروں۔جو کہے گا میں نہیں دے سکتا اسے معاف کردیا جائے گا یا جو دے تو سکتا ہے مگر کہتا ہے کہ مجھ میں ہمت نہیں یا میں دینا نہیں چاہتا یا اگر ہمت تو ہے مگر اپنے بیوی بچوں کو تکالیف میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ان سب کو بھی میںمعاف کرنے کو تیار ہوں بلکہ بغیر کسی عذر کے بھی معاف کرنے پر آمادہ ہوں تاتم گنہگار نہ بنواور جھوٹے نہ کہلائو۔مگر بعض ہیں کہ وہ نہ تو معاف کراتے ہیں اور نہ ادا کرتے ہیں اور اس طرح خدا تعالیٰ کے معاملہ میں بھی جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور جو دین کے معاملہ میں جھوٹ بول لیتا ہے وہ دنیا کے معا ملہ میں کہاں کمی کرتا ہوگا۔اچھی طرح یادرکھو کہ جب تک ہمارے اندر جھوٹ موجود ہے ہم فتح کا وہ دن جس کی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کبھی نہیں دیکھ سکتے اگر اسے دیکھنے کی تڑپ اپنے دل میں رکھتے ہو تو ان گندوں اور خرابیوں کو دور کرو۔ اگر تم چاہتے ہو کہ اسلام کی اس وقت جو ہتک ہو رہی ہے یہ دُور ہو اور خدا تعالیٰ کے نام کو غلبہ حاصل ہو تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ اپنے دلوں سے جھوٹ نکال دو اگر تم ایسا کرلو تو اس بات کا یقین رکھو کہ وہ دن قریب سے قریب تر ہوتا جائیگا۔
فتوحات کے لئے قربانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ کسی قوم کے لیڈر کو یہ معلوم ہو کہ میرے پیچھے جو جماعت ہے وہ کس قدر قربانی کر سکتی ہے اور میرے ہاتھ میں کیا چیز ہے جو میں دشمن پر پھینک سکتا ہوں۔اسے علم ہونا چاہئے کہ وہ کتنے آدمیوں کے ساتھ لڑ سکے گا۔اگر جماعت سچ بولنے والی ہے اور اس کی آواز پر پچاس آدمی لبیک کہتے ہیں تو اسے یقین ہوگا کہ میرے ساتھ پچاس آدمی ضرور ہوں گے اور وہ دلیری کے ساتھ آگے بڑھے گا لیکن اگر صورت یہ ہو کہ لبیک کہتے وقت تو چاروں طرف سے لبیک لبیک کی صدائیں بلند ہوںلیکن میدان میں نکلتے وقت معلوم ہو کہ یہ لبیک لبیک کہنے والے دراصل گوہ کھانے والی بھیڑیں اور بکریاں تھیں تو وہ کس طرح یقین کر سکتا ہے کہ اس دفعہ لبیک کہنے والے جھوٹ نہیں بول رہے اور وہ کِس طرح اپنی طاقت کا اندازہ کرسکتا ہے۔سوال تھوڑوں یا بہتوں کا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ایک آدمی کام کرجاتا ہے۔آخر حضرت ابوبکر ؓنے کیا تھا یا نہیں جب ان سے کہا گیا کہ مدینہ میں خطرہ ہے اس لئے اسامہؓ والے لشکر کو روک لیا جائے اس پر آپ نے فرمایا جو ڈرتا ہے وہ یہاں سے چلا جائے میں اکیلا ہی مقابلہ کرونگا ۷؎تو تھوڑے ہونے کی وجہ سے دینی جنگ کبھی نہیں رک سکتی لیکن اس وجہ سے رک جاتی ہے کہ اپنی طاقت کا صحیح اندازہ نہ ہو سکے۔اگر امام لبیک کہنے والوں پر قیاس کر کے کوئی ایسی پالیسی اختیار کرتا ہے جس کے لئے ایک ہزار آدمی درکار ہوںگے لیکن عمل کے وقت صرف نو سَو آدمی ساتھ آتے ہیں تو اس کی شکست دُنیوی لحاظ سے یقینی ہوگی یا نہیں؟اور اگر وہ نوسو آدمیوں کا اندازہ کرکے کوئی قدم اٹھاتا ہے اور آتا آٹھ سو ہے تو بھی وہ دنیوی لحاظ سے ضرور شکست کھائے گا اس لئے امام کو واضح طور پر معلوم ہونا چاہئے کہ میں کس قدر قربانی کی امید کر سکتا ہوںاور یہ بات سچائی کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتی۔
مؤمن کا کام یہ ہونا چاہئے کہ جب وہ ایک دفعہ لبیک کہہ دے تو پھر خواہ کچھ ہو اسے پورا کرے تا امام یقین کے ساتھ یہ فیصلہ کر سکے کہ میرے پاس اتنی طاقت ہے اور اس سے میں نے مقابلہ کرنا ہے،وہ کم ہوں یا زیادہ اس کا سوال نہیں کیونکہ دینی کام میں کمی کی وجہ سے حرج نہیں ہوتا لیکن دھوکے سے بڑا ہوتا ہے دین کا کوئی کام بغیر سچ کے نہیں چل سکتا۔کئی ضروری کام ایسے ہیں جو محض اس وجہ سے چھوڑنے پڑتے ہیں کہ شاید لبیک کہنے والوں میں سے ایک گروہ گوہ کھانے والی بھیڑیں ثابت ہو۔ایسا طبقہ گو تھوڑا ہو ایک کثیر جماعت کی قربانیوں کو جو مخلص اور سچی عاشق اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے خراب کر دیتا ہے یاکم سے کم جماعت کی طاقت کو کمزور کر دیتا ہے۔پس یہ ایک چیز ہے جو اپنے نفسوں پر رحم کرتے ہوئے میری مان لوپھر دیکھو تھوڑے ہی عرصہ میں کس طرح تمام نقشہ بدل جاتا ہے۔اپنے اندر سچ قائم کرو باقی عیوب تمہارے خود بخود مٹ جائیں گے اور خدا تعالیٰ ان کو باقی نہیں رہنے دے گا۔پس میں آپ لوگوں کوپھر توجہ دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ کو معمولی نہ سمجھتے ہوئے اس پر غور کرو۔
تحریک جدید کے چوتھے سال کے اختتام کے قریب میں پھر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہمیشہ سچائی پر قائم رہو اور اگر اپنے اندر طاقت محسوس نہیں کرتے تو سچائی سے کہہ دو کہ ہم یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے اس سے دین کے کام کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا لیکن تم اپنی جان کو ضرور بچالو گے۔دین کے لئے خدا تعالیٰ کوئی اور رستہ کھول دے گا لیکن جب منہ سے وعدہ کرلو تو پھر خواہ کچھ ہو اسے پورا کرو اور اسے پورا کرنے کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک قربان کرنے سے دریغ نہ کرو پھر دیکھودنیا کا نقشہ کس طرح بدلتا ہے۔اسی طرح واقعات میں بھی سچائی اختیار کرو کیونکہ اس کے بغیر بھی دین کے کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔فرض کرو ایک شخص تبلیغ کے لئے باہر جانا چاہتا ہے۔اسے جب تک یقین نہ ہو کہ میرے محلہ والے اور میرے پڑوسی راست گو ہیں اسے ایک قسم کا خطرہ رہے گا کہ یہ لوگ میری اولاد کو بھی خرا ب کریں گے،یا جھوٹے مقدمات وغیرہ بنا کر ان کو پریشان کریں گے لیکن اگر وہ جانتا ہے کہ اس کے محلہ کا ہر شخص سچ بولنے والا ہے تو وہ ڈرے گا نہیں اسے خواہ تم دنیا کے کناروں تک بھیج دووہ بے خوف وخطر چلاجائے گا وہ اپنے بیوی بچوں کو اپنے ہمسایوں سے محفوظ سمجھے گا۔اسے اطمینان ہوگا کہ اگر کوئی واقعہ ہؤا تو میرے بیوی بچے بھی مجھے اصل واقعات لکھ دیں گے اور مدمقابل بھی سچ سچ لکھ دے گا اور اس طرح وہاں بیٹھے ہوئے بھی اس کے سامنے قادیان کے حالات ایسے ہی روشن ہونگے جیسے یہاں رہ کر ہو سکتے تھے اور وہ وہاں بیٹھے ہوئے بھی فیصلہ کر سکے گا اور اگر اس کے بیوی بچوں کی غلطی ہو گی تو ان کو لکھ دے گا کہ تمہاری غلطی ہے۔ تو دنیا میں شہادتوں کے وقت سچ بولنا ہمسایوں کو طاقت اور اہلِ محلہ کو برکت دیتا ہے اور دین کے معاملہ میں سچ بولنا انتظام کو وسیع اور مضبوط کرتا ہے۔ پس یہ گُر ایک دفعہ اختیار کرلواور دوسروں کو اختیار کرنے میں مدد دو یعنی وعدہ کروکہ اپنے محلہ میں اور ارد گرد رہنے والوں کو جھوٹ نہیں بولنے دوگے اور فیصلہ کر لو کہ خواہ انجام کچھ ہوجھوٹا آدمی کوئی بھی اس جماعت میں نہ رہنے دیں گے۔تو اس طرح خواہ آدھے لوگوں کو بھی نکالناپڑے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔جھوٹا آدمی اگر ایک بھی ہے تووہ سخت خطرناک ہے مگر اس وقت تو بہت سے ہیں، کئی ہیںجو دوست کی خاطر جھوٹ بول دیتے ہیں حالانکہ یہ دوست کی خیر خواہی نہیں بلکہ اس سے دشمنی کے مترادف ہے۔
دوست کے ساتھ سچی ہمدردی یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ غلطی پر ہو تو اسے یہ مشورہ دیا جائے کہ اپنی غلطی کا اقرار کرلو۔یہ قدم اٹھائو تو تم دیکھو گے کہ تمہارے لئے دنیا کی کوئی مصیبت باقی نہیں رہے گی اور تمہارے اندر ایسی دلیری پیدا ہو جائے گی جو ہر مخالفت کو ایک زبردست دریا کی طاقت کے ساتھ خَس وخَاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گی۔جھوٹ ہمیشہ بزدلی پیدا کرتا ہے۔اگر تم نے کسی کو پیٹا ہے تو بعد میں جھوٹ سے کا م نہ لو۔اگر شریعت تمہیں اس کو پیٹنے کا حق دیتی ہے تو اس کا اقرار کرو بلکہ یہ بھی کہو کہ میں پھر بھی ایسا ہی کروں گالیکن اگر شریعت اجازت نہیں دیتی تو اقرار کرو کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے خواہ اس کا انجام کچھ ہو۔زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ تم قید ہو جائو گے لیکن تم اس زندگی میں قید سے ڈرتے ہو اور خدا تعالیٰ کی قید کا تمہیں کوئی خوف نہیں۔
غرض تم سے جو فعل بھی سرزد ہو اس کا صاف طور پر اقرار کرو اور اگر شریعت تمہیں اس کا حق دیتی ہے تو کہہ دو کہ ہم آئندہ بھی اس حق کو استعمال کریں گے لیکن اگر ایسا کرنے کا تمہیں حق نہیں تو اپنی غلطی کا اقرار کرو۔قضاء میں کئی مقدمات آتے ہیں۔ایک احمدی احمدی سے لڑتا ہے یا اسے گالی دیتا ہے۔اِسے چاہئے تو یہ کہ جس قدر قصور ہؤا ہے اس کا اقرار کرے لیکن کئی احمدی اپنے جُرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انہیں سمجھنا چاہئے کہ اقرارِ جرم کے نتیجہ میں اگر کچھ جرمانہ ہو جائے گا یا چند روز کے لئے مقاطعہ ہو جائے گا تو کیا ہے۔کیا وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں تھوڑے سے جرمانے یا چند روزکے مقاطعہ سے دوزخ میں جانا زیادہ آسان ہے۔اگر وہ غور کریں تو یہاں کی سزا تو عین رحمت ہے وہ اسے کیوں عذاب سمجھتے ہیں۔اگروہ خیال کرتے ہیں کہ مقاطعہ کی وجہ سے لوگو ں میں ان کی سُبکی ہوگی توکیا اس وقت ان کی سُبکی نہ ہوگی جب ان کے آباء و اجداد اور ان کے بیٹوں، پوتوں اور پڑپوتوں کے سامنے انہیں دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ اگر وہ غور کریں تو یہ دنیوی سزا ایک نہایت حقیر سزاہے آخرت کی سزا کے مقابلہ میں اور انہیں اسے اپنے لئے رحمت سمجھنا چاہئے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھو جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ایک روز مجلس لگی ہوئی تھی اور آپ اپنی وفات کے متعلق ہی ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے فرمایا دیکھو ہر انسان جو اس دنیا میں کسی کو دکھ دیتا ہے اس کی سزا خدا تعالیٰ کے حضور پائے گا اور میں نہیں چاہتا کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور شرمندہ ہوںاس لئے میری خواہش ہے کہ جسے مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو وہ اس کا بدلہ آج ہی مجھ سے لے لے۔اس بات کا صحابہؓ پر جو اثر ہو سکتا تھا وہ ظاہر ہے اور اس کا قیاس وہی کرسکتا ہے جسے کسی سے سچی محبت ہو۔یہ بات سن کر ان کو ایسا معلوم ہؤاجیسا کہ کسی نے ان کے سینوں میں خنجر گھونپ دیا ہواور وہ بے تاب ہو کر رونے لگے لیکن ایک صحابی نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! فلاں موقع پر آپ نے مجھے کُہنی ماری تھی آپ جنگ کے لئے صفیں درست کررہے تھے راستہ تنگ تھا اور گزرتے ہوئے آپ کی کُہنی مجھے لگی تھی۔آپ نے فرمایا تم مجھے کہنی مارلو ۔اس صحابی نے کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! میں اس وقت ننگے بدن تھا اور آپ نے کرتہ پہن رکھا ہے۔ اس پر آپ نے اپنا کُرتہ اٹھا دیا۔اس وقت صحابہؓ کی جو حالت ہو گی وہ ظاہر ہے ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہوگا کہ رسول اللہصلی اﷲ علیہ وسلم کی نظر اُدھر ہو تو اس شخص کو ٹکڑے کردوںمگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا رُعب ایسا تھا کہ کسی کو بولنے کی جرأت نہ تھی۔ جب آپ نے کُرتہ اوپر اٹھایا تو وہ صحابی آگے بڑھا اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم پر اس جگہ بوسہ دیا اور کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ اب ہم سے جُدا ہونے والے ہیں۔یہ آخری موقع تھا میں نے چاہا کہ اس سے فائدہ اٹھا کر آپ کے جسم کو چھوتو لوں۔۸؎پس جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی آخرت کی سزا سے ڈرتے ہیںتو پھر اور کون ہے جو یہاں کی سزا کو سخت کہہ سکے ۔پس ہمیشہ سچ بولو اور اگر اس کے نتیجہ میں کوئی سزا بھی ملے وہ تمہارے لئے رحمت کا موجب ہوگی۔دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو سزا سے بچنے کے لئے رشوتیں دیتے ہیں۔آخر وہ بھی تو ایک سزا ہے کیونکہ اس میں بھی روپیہ جاتا ہے تو لوگ رشوتیں دے کر گورنمنٹ کی سزاسے بچنا چاہتے ہیں اور یہاں خداتعالیٰ نے خود تمہارے لئے انتظام کر دیا ہے کہ دنیا میں قضاء مقرر کر دی تا تم آخرت کی سزا سے بچ جائو مگر تم اس سے بچنا چاہتے ہو حالانکہ رشوت کی نسبت یہ کتنا آسان علاج اور پھر طیب علاج ہے۔پس میں پھر ایک دفعہ آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ اپنی جانوں پر رحم کرو،اولادوں پررحم کرو، سلسلہ پر رحم کرواور میں یہ تو نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ کے نبیوں پر رحم کرولیکن یہ کہتا ہوں کہ ان کی محبت کو یاد کرکے ان کی روحوں کو خوش کرنے کے لئے اور ان کے کا م کو تباہی سے بچانے کے لئے ہمیشہ کے لئے سچائی کو اختیار کر لو۔خودسچ بولواور اپنی اولادوں کو اور اہلِ محلہ کو سچ کا پابند کرواور اگر تم ایسا کرنے کا وعدہ کرلو تو ایک سا ل کے اندر اندر تمہارے حالات اس قدر بدل جائیں گے کہ موجودہ اور آئندہ حالات میں تمہیں زمین اور آسمان کا فرق نظر آئے گا۔تم جدھر قدم اٹھائو گے خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہیں برکت ملے گی اور ہر میدان میں دشمن تمہیں پیٹھ دکھائے گا کیونکہ سچ کی تلوار کے آگے کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی۔‘‘
(الفضل ۴ ؍اکتوبر ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الفاتحۃ: ۶، ۷
‏۲؎ Balantidium: A genus of protozoa with cilia that includes Balantidium coli (B. coli). B. coli is the largest protozoan and the only ciliate parasite to infect humans. The disease that B. coli causes is called balantidiasis Clinical features, when present, include persistent diarrhea, occasionally dysentery, abdominal pain, and weight loss.
‏Symptoms can be severe in debilitated persons.
‏B. coli is found worldwide. Because pigs are an animal reservoir for B. coli, human infections occur more frequently in arease where pigs are raised. Other potential animal reservoirs include rodents and nonhuman primates. Humans most often acquire the disease through
‏ingestion of contaminated food or water.
۳؎ ابن ماجہ کتاب الزھد باب ذکر الشفاعَۃِ
۴؎ النجم: ۹ ۵؎ اٰل عمران: ۳۲ ۶؎ طٰہٰ: ۱۱۵
۷؎ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۳۳۵ ۔ مطبوعہ بیروت۱۹۶۵ء
۸؎ سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ ۲۷۸ ، ۲۷۹ ۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء

۳۳
قرآن کے بیان کردہ طریق سے ہی امن قائم ہو سکتا ہے
(فرمودہ ۳۰؍ستمبر۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے او ر ہمیں بحیثیت جماعت براہِ راست سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں لیکن بعض موقعوں پر سیاسیات اخلاق کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہیںاور ان سے وابستہ ہو کر مذہب کا بھی جزو ہو جاتی ہیں۔گو یہ جائز نہیں جیسا کہ ہمارے ملک میں مولویوں اور ملانوں کا قاعدہ ہے کہ ہر چیز کو کھینچ تان کر مذہب کا جزو بنا دیتے ہیںگورنمنٹ نے کوئی رستہ سیدھا کرنے یا سڑک صاف کرنے کے لئے کسی مسجد کے غسل خانہ یا طہارت خانہ کو اپنی جگہ سے ہلایا تو سارے ملک میں شور بپاکر دیا کہ مداخلت فی الدین ہو گئی۔
یہ مذہب نہیں بلکہ مذہب کے ساتھ تمسخر ہے کیونکہ کم سے کم انگریزی گورنمنٹ ایسے تغیرات کسی مذہبی غرض کے ماتحت نہیں کرتی بلکہ تمدنی اغراض کے ماتحت کرتی ہے۔ہندوؤں مسلمانوں غرضیکہ سب پبلک کے مفاد کے لئے سڑک چوڑی کرنے کی غرض سے پاخانہ کی جگہ کو اگر ہٹا کر وہاں کر دیا گیا تو یہ مداخلت فی الدین نہیں ہو سکتی،یہ تو اگر کوئی عقلمند مسلمان حکومت ہو تو وہ بھی کر لے گی مگر یہ لوگ ہر چیز کو مذہب میں داخل کر دیتے ہیں۔حتّٰی کہ کبھی تو یہ فتویٰ دے دیتے ہیں کہ کانگرس میں شریک ہونا کفر ہے اور کبھی یہ کہ کانگرس میں شریک ہوئے بغیر اسلام باقی نہیں رہ سکتا،یہ طریق بالکل ناجائز ہے۔ گو بعض مواقع پر سیاست اور مذہب ایک ہو جاتا ہے اس صورت میں سیاست کی طرف توجہ کرنا اسلام کے لئے مفید ہوتا ہے اور ایسے ہی مواقع میں سے ایک کے متعلق میں آج کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔
آج صبح کی خبروں سے جو وائرلیس کے ذریعہ موصول ہوئی ہیں پتہ لگتا ہے کہ یورپ میں جنگ کے جو آثار نظر آرہے تھے اورجن کو دور رکھنے کے لئے برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر چیمبرلین کوشش کر رہے تھے ان کی کوشش کا میاب ہوگئی ہے۔بظاہر یہ ایک سیاسی چیز ہے مگر جیسا کہ میں آگے چل کر بتائوں گااس میں اسلام کی عظیم الشان فتح ہے۔فیصلہ ان اصول پرہؤا ہے کہ یکم اکتوبر کو زیکو سلواکیہ کا جرمن علاقہ جرمنی کے سپرد کر دیا جائے گاتا اس کا چیلنج پورا ہو جائے اور بقیہ حصہ دس اکتوبر تک آہستہ آہستہ دیا جاتا رہے گامگر یہ علاقہ اس سے کچھ کم ہے جو جرمن مانگتے تھے۔باقی جو جھگڑے والا علاقہ ہے یا جو دوسرے ضمنی سوالات یعنی جنگی اور اقتصادی امور حل طلب ہیں مثلاً یہ کہ جو زیک اس علاقہ سے دوسرے علاقہ میں جائیں گے یا جو جرمن کسی دوسرے علاقہ سے یہاں آئیں گے ان کی جائدادوں وغیرہ کا کیا بنے گا،ان کا ایک کمیشن کے ذریعہ جس میں برطانیہ ،فرانس،اٹلی اور زیکو سلواکیہ کا ایک ایک نمائندہ ہوگا فیصلہ کیا جائے گا اور کوشش کی جائے گی کہ اکتوبر کے آخر تک یہ سب فیصلہ کر دیا جائے اور ۲۵؍نومبر تک کُل جھگڑے کا فیصلہ ہو جائے گا۔یہ یورپ کی جنگ کا سوال تھا جو اس وقت ساری دنیا کا مالک سمجھا جاتا ہے اور خالص جنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایشیا کو اِس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی۔
ایشیا قومی لحاظ سے سیاسی رنگ میں اپنی طاقت کھو چکا ہے۔ایشیا کا سب سے بڑا ملک چین ہے جو اس وقت فٹ بال کی گرائونڈ بنا ہؤاہے،دوسرا بڑا ملک یعنی ہندوستا ن اس وقت یورپ کی ایک بڑی قوم کے ماتحت ہے گویا ایشیائی آبادی کا بیشتر حصہ یا تو طاقت سے محروم ہے یا دوسروں کے ماتحت ہے۔ایشیاء میں اگر کوئی طاقت ہے تووہ جاپان کی ہے،اس کے علاوہ ایران،افغانستان اور ٹرکی وغیرہ چھوٹی چھوٹی حکومتیں ہیںجو اگر اپنی جان بھی بچا سکیں تو غنیمت ہے۔سائبیریا کا رقبہ بہت بڑاہے مگر وہ روس کے ماتحت ہے۔گو یا ایشیا کی زمین میں سے ۵؍۴حصہ دوسروں کے ماتحت ہے یا اگر آزاد ہے تو اس کی آزادی برائے نام ہے۔جیسے چین ہے اسے اگرچہ آزادی حاصل ہے مگر ایسی ہی جیسی بلی چوہے کو آزادی دیتی ہے وہ اسے پکڑتی ہے اور پھر چھوڑ دیتی ہے مگر جب وہ بھاگنے لگتا ہے تو پھر پکڑ کر ایک چَپت رسید کردیتی ہے۔تو چین بظاہر تو آزاد ہے مگر مختلف اقوام کے معاہدات کے رو سے وہ کئی ممالک کا غلام ہے اور اس لحاظ سے اس کی حالت ہندوستان سے بھی بدتر ہے۔ہندوستان میں تو پھر بھی ایک منظم حکومت ہے مگر وہاں اس سے بدتر حالت ہے۔ اب تو خیر اس پر جاپان نے حملہ کر رکھا ہے مگر اس سے پہلے بھی وہ آزاد طاقت نہ تھی۔ ایشیا والے ان چیزوں سے فارغ ہیں اور ایسی ہی حالت کو دیکھتے ہوئے کسی دہریہ مزاج دل جَلے نے کسی مجلس میں جہاں یہ بات ہو رہی تھی کہ یورپ بہت ترقی کررہا ہے مگر ایشیا کو ترقی کا کوئی موقع نہیں ملتا یہ کہہ دیا تھاکہ اللہ تعالیٰ کو یورپ ہی سے فرصت نہیں ملتی ایشیا کی طرف کیسے دھیان دے سکتا ہے۔اسے یہ خیال نہ آیا کہ بے شک اللہ تعالیٰ کو یورپ سے فرصت نہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ دنیوی طور پر اس کے قانون کی پابندی کرتا ہے اور ایشیا نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جو ہمارے قانون کی پابندی نہیںکرتے انہو ں نے ہم کو بھلا دیا اس لئے ہم نے ان کو بھلا دیا۔اللہ تعالیٰ کو بھلانا صرف دینی لحاظ سے ہی نہیں ہوتابلکہ دنیوی لحاظ سے بھی ہوتا ہے اور دنیوی لحاظ سے خدا تعالیٰ کو نہ بھلانے والا ہی دنیوی رنگ میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ مثلاًخدا تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ جو روٹی کھاتا ہے اسی کاپیٹ بھرے گا اور جو نہیں کھاتا اس کا پیٹ نہیں بھرتا، اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا یہی قانون ہے۔اب ایک شخص بہت نمازیں پڑھے،روزے رکھے زکوٰۃ دے،حج کرے لیکن روٹی نہ کھائے اور کہے کہ خداتعالیٰ میری طرف توجہ نہیں کرتا اور میرا پیٹ نہیں بھرتا یا پڑھائی تو نہ کرے لیکن شکوہ یہ کرے کہ دیکھو فلاں شخص نے میٹرک یا بی۔اے یا ایم۔اے پاس کرلیا ہے اور میںکو دن ہی ہوں۔ تو ہم اسے کہیں گے کہ تم احمق نمازی ہو،احمق روزہ دار ہو،احمق حاجی اوراحمق خیرات دینے والے ہو کیاتم کبھی مدرسے گئے یا تعلیم پر کوئی وقت صرف کیا کہ میٹرک یا بی۔اے یاایم۔اے پاس کر سکتے۔اگر تم نے اس طرف توجہ ہی نہیں کی تو علم حاصل کیسے کر سکتے تھے۔تو اللہ تعالیٰ نے دنیوی ترقی کے جو ذرائع مقرر کئے ہیں ایشیا ان کو بھول چکا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو بھلا دیا ۔اس کے برعکس یورپ نے جب خدا تعالیٰ کے قانون کی طرف توجہ کی تو خداتعالیٰ نے بھی اس کو یاد کیا لیکن اس نے دین کے معاملہ میںخدا تعالیٰ کو بھلا دیا پس اس بارہ میں خدا تعالیٰ نے بھی اسے بھلا دیا۔بہر حال ایشیا اس وقت سیاسی لحاظ سے خدائی قانون کو توڑ کراس کی نظروں سے گرا ہؤا ہے اور یورپ خدا تعالیٰ کے دنیوی قانون کو پورا کرتے ہوئے دنیوی لحاظ سے اس کی نظروں میں پسندیدہ ہے اس لئے اس کی شان وشوکت کے مقابلہ میں ایشیا کی حیثیت کچھ نہیں۔
زیکوسلواکیہ ایک چھوٹا سا ملک ہے جو چین کے ایک صوبہ کے برابر بھی نہیں مگر چونکہ یورپ میں ہے اس لئے یورپین حکومتوں کے خون میں فوراً جوش پیدا ہؤااور انہوں نے کہہ دیا کہ اگر اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو ہم جنگ کریں گے لیکن چین ایشیا میں ہے۔وہاں عرصہ سے جنگ جاری ہے۔اگر اس میں زیکوسلواکیہ کی ساری آبادی کے برابر لوگ ایک دن میں بھی قتل ہو جائیں تو کسی کو فکر نہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے۔کیا یورپ والوں نے ایشیائیوں سے کہا تھا کہ تم اپنی ہمتوں کو پَست اور ارادوں کو کمزور کرلو۔بہرحال زیکوسلواکیہ چونکہ یورپ میں تھا اس لئے یورپین حکومتوں میں جوش پیدا ہؤا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اگر اس پر حملہ کیا گیاتو لڑائی ہوگی۔ایک طرف زیکوسلواکیہ کی امداد کے لئے روس اور فرانس نے اعلان کیا تو دوسری طرف اٹلی جرمنی کی امداد کے لئے تیار ہو گیا۔انگلینڈ نے صلح کرانے کی کوشش کی مگر یہ بھی کہہ دیا کہ اگر فرانس کو جنگ میں شامل ہونا پڑا تو ہم لازماً اپنے دوست کی امداد کریں گے ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے۔اس معاملہ میں انگریزی حکومت بِالخصوص وزیراعظم نے جو کوشش کی ہے اس کے متعلق عام طور پر یہی احساس ہے کہ اس نے کمزوری اور بزدلی دکھائی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب اس جھگڑے کی ساری تاریخ پڑھی جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ انہوں نے کوئی کمزوری یا بزدلی نہیں دکھائی۔
اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ زیکوسلواکیہ کی حکومت بنانے میں انگریزی قوم کا کوئی دخل نہ تھا زیک بڑی جنگجو قوم ہے کسی زمانہ میں اس نے وسطی یورپ میں زبردست حکومت قائم کی تھی اورکئی سو سال تک ان کی بادشاہت رہی لیکن بعد میں آسٹرین حکومت نے اسے فتح کرلیا اور آہستہ آہستہ اس کا کچھ حصہ آسٹریا کچھ جرمنی اور کچھ ہنگری نے ملا لیا اور اس طرح یہ لوگ قریباً ایک ہزار سال تک غلام رہے۔اٹھارویں صدی میں انہوں نے تعلیم کی طرف توجہ کی اور علم کی وجہ سے ان میں بیداری پیدا ہونے لگی اور اس وجہ سے انہوں نے حقوق مانگنے شروع کئے اور اس کے لئے جدوجہد کرنے لگے اور اس طرح سوسال تک لڑتے جھگڑتے رہے۔اتنے میں ان کی خوش قسمتی سے جنگ عظیم شروع ہوئی تو ڈاکٹر بینر اور بعض دوسرے لیڈروں نے اپنے اہلِ ملک کواُکسایا اور انہوں نے مزید جوش کے ساتھ جدوجہد جاری کی نتیجہ یہ ہؤا کہ صلح کے معاہدہ کے وقت فرانس وغیرہ کی مدد سے وہ ایک علیحدہ حکومت قرار دے دی گئی۔امریکہ کے پریذیڈنٹ ولسن نے جنگ کو ختم کرنے کے لئے یہ اصول قائم کیا تھا کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ کسی دوسری قوم پر حکومت کرے ہر قوم کو اس کا علاقہ دے دیا جائے لیکن صلح کے وقت اس اصول پر عمل نہیں ہؤا۔فرانس اور برطانیہ نے افریقہ کے سارے علاقے آپس میں بانٹ لئے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک ایشیائی انسان ہی نہیں ہیں۔پھر بعض ملکوں میں وہ مربی بن گئے،عراق کے مربی انگریز اور شام کے فرانسیسی ہوگئے گویا یہ ممالک یتیم تھے جن کے لئے کسی نہ کسی مربی کی ضرورت تھی۔جو ان کی نگہداشت کرے۔ فلسطین والے یتیم رہ گئے تھے ان کے مربی بھی انگریز بن گئے تو گویا کچھ ممالک کو تو یتیم قرار دے کر ان کے لئے مربی مقرر ہوگئے اور کچھ ایسے تھے جن میں رہنے والوں کوآدمی نہیں بلکہ جانور سمجھا گیا اور ان کے متعلق یہی فیصلہ ہؤا کہ ان کو باہم بانٹ لیا جائے۔چنانچہ افریقہ کے کچھ علاقے برطانیہ نے اور کچھ فرانس نے لے لئے اور یہ ایک نہایت ظالمانہ فعل تھا جو ان حکومتوں سے سرزد ہؤا۔دیانت داری کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو یہی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ لڑے بھڑے بغیر کوئی کسی کو اپنے ماتحت نہیں کر سکتا۔افریقہ کے حبشی تو کسی سے لڑے نہیں تھے وہاں سے اگر جرمنوں کو نکالنا تھا تو چاہئے تھا کہ ان کوآزاد کر دیا جاتا۔یہ عذر کہ وہ حکومت کے قابل نہ تھے بالکل غلط ہے۔جرمن ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ انگریز حکومت کے نااہل ہیں اور اس طرح ہر قوم اپنے آپ کو ہی سلطنت کا اہل سمجھتی ہے۔ اگر اس بناء پر کہ دوسرے کے نزدیک وہ حکومت کے اہل نہیں کسی قوم کو حکومت سے محروم کردینے کا اصول مان لیا جائے تو چاہئے کہ انگریز بھی حکومت سے دست بردار ہوجائیںکیونکہ جرمنوں کی رائے میں وہ اس کے قابل نہیں۔کیا انگریز اس کے لئے تیارہیں کہ اہلِ جرمنی ان پر حکومت کریں۔ یاجرمن اس کے لئے تیار ہے کہ انگریز ان پر حکومت کریں،کیا فرانسیسی اسے پسند کریں گے کہ ان پر جرمن حکمران ہوں اور اسی طرح کیا یہ سب ممالک اس بات کو مان لیں گے کہ ان پر امریکہ کی حکومت ہو۔ہر قوم اپنا قومی غرور رکھتی ہے اور خیال کرتی ہے کہ میں دوسرے سے برتر ہوں توکیا اس وہم کی بناء پراسے دوسروں پر حکومت کا حق حاصل ہو جاتاہے۔ اگر تو سوال یہ ہوتاکہ افریقہ کے لوگ جرمنی یا انگلستان پرحکومت کریں تب تو بے شک یہ کہا جاسکتا تھا کہ وہ جاہل ہیں لیکن ان کو اپنے ملک میں اور اپنے جیسوں پرحکومت کرنے دینے میں کوئی حرج نہیں تھاکیونکہ جن پر حکومت کی جاتی ہے وہ بھی تو کوئی تعلیم یافتہ نہیںبلکہ جاہل ہی ہیں۔جب تعلیم یافتہ اقوام کو اپنے ملک پر حکومت کا حق ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جاہلوں کو اپنے ملک میں حکومت کے ناقابل قرار دیا جائے۔
کیا یہ کبھی ہؤاہے کہ جو حقوق عورتوں کو حاصل ہیںان سے زمینداروں کو اس بناء پرمحروم کردیا جائے کہ وہ جاہل ہیں قانون اور شریعت ہر خاوند اور ہر بیوی کو یکساں حقوق دیتے ہیں۔ایک مزدور کی بیوی کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو ایک عالم یا جرنیل یا بادشاہ کی بیوی کودئیے جاتے ہیں اوراسی طرح جاہل خاوند اور عالم خاوند کو اپنی اپنی بیوی پریکساں حقوق دئیے جاتے ہیں کیونکہ اگر زمیندار اَن پڑھ ہے تو اس نے معاملہ بھی تو اپنی اَن پڑھ بیوی کے ساتھ ہی کرنا ہے۔اسی طرح افریقہ کے لوگ جاہل ہی سہی مگر کیا وہ اپنے اوپر حکومت کے بھی اہل نہیں۔آخر جب یورپ کے لوگ وہاں نہیں پہنچے تھے تو وہ اپنا گزارہ کرتے ہی تھے وہی صورت اب بھی ہوسکتی تھی۔کسی دوسری قوم کوکیا حق ہے کہ کسی دوسرے ملک میںجا کربزورِ قوت نَو آبادیاں قائم کرے۔تو یہ نہایت ظالمانہ فعل تھا جو یورپ نے غرور کے نشہ میں کیا اس نے بعض اقوام کو تو آدمیوں میں شمارنہیں کیا بلکہ جانورسمجھ کر آپس میں بانٹ لیا بعض کو آدمی تو قرار دیامگر یتیم جن کے لئے مربیوں کی ضرورت تھی جو ان کو کھلائیں پلائیں اور ان کی جائدادوں کا انتظام کریں۔یہ تو ایشیا کے ساتھ سلوک ہؤا لیکن یورپ والوں کو آدمی سمجھ کر حقوق دے دئیے گئے اور اس طرح عملاً اس اصول کی خلاف ورزی ہوئی جو مسٹرولسن نے صلح کے لئے تجویز کیاتھا اوراسی کے نتیجہ میں جرمنی کا کچھ علاقہ چھین کر زیکو سلواکیہ کے ساتھ ملا دیا گیا۔اس حکومت کے بنانے میںدراصل فرانسیسیوں کا دخل تھا۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ جرمنی ہمارا پرانادشمن ہے اس لئے اس کے پہلو میں ایک ایسی حکومت قائم کر دی جائے جو ہماری دوست ہو تو جب جرمنی کے ساتھ جنگ ہو تووہ حکومت ایک طرف سے حملہ کردے اور ہم دوسری طرف سے کریں۔اسی طرح ایک پولش حکومت بھی بنائی گئی لیکن مثل مشہور ہے کہـ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے،جرمن قوم کے متعلق خدائی فیصلہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے رکھے گا اور اس لئے یہ کس طرح ممکن تھا کہ کوئی اسے چکھ سکتا۔پہلے اٹلی میں مسولینی پیدا ہؤا، اس کے بعد جرمنی میں ایک شخص آگے آیاجسے اس کی قوم فیوہرر یعنی لیڈر کہتی ہے۔
یہ شخص پہلے فوج میںدفعدار کی حیثیت رکھتا تھا اورجنگِ عظیم سے پہلے یہ ایک معمولی ڈرافسمین تھا اورانجینئرکے زیر ہدایت نقشے تیار کیا کرتا تھا۔جنگ کے بعد اس کے دل میں خیال آیا کہ پریذیڈنٹ ولسن نے تو تحریک کی تھی کہ اگر جرمنی لڑائی چھوڑدے توصلح ان اصول کے ماتحت کی جائے گی کہ کوئی قوم دوسری قوم کو اپنے ماتحت نہ رکھے لیکن ہمارے ملک کا ایک حصہ تو زیکوسلواکیہ کے ساتھ ملا دیاگیاہے حالانکہ اس کا کسی کو حق نہیں تھا اور اسنے اعلان کیا کہ ہم اسے واپس لیں گے،اسی طرح اس نے بعض اور باتیں بھی سوچیں۔پھر اس نے اس سوال پرغور کرنا شروع کیا کہ لڑائی میں ہمیں شکست کیوں ہوئی اور آخر کار وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ یورپین اقوام نے جو ہمارے خلاف لڑرہی تھیںیہودیوں کو رشوت دے کر ملک کے اندر فساد برپا کرا دیا تھا۔انہوں نے یہودیوں کواُکسایا اور ان سے وعدہ کیا کہ تمہیں فلسطین میں آباد کیا جائے گا تم کوشش کرو کہ جرمنی کی طاقت کمزور ہوجائے۔ چنانچہ وہ روپے والے لوگ تھے،جس طرح یہاں ساہوکار جس طرف چاہیں زمینداروں کو ہانک کر لے جاتے ہیں انہوں نے جرمنی میں فساد پیدا کر دیا اورایجی ٹیشن شروع کرادی تو وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ جنگ میں ہماری کمزوری کا موجب دراصل یہودی تھے اور اس لئے اس نے اپنی انجمن کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی رکھا کہ ہم کسی غیر ملکی کو اپنے ملک میں نہیں رہنے دیں گے۔مہمان کے طور پر تو رہ سکتا ہے لیکن مستقل طور پر یہاں سکونت اختیار نہیں کر سکتا،ووٹ نہیں دے سکتا،حکومت میںکوئی حصہ نہیں لے سکتااور نوکری وغیرہ حاصل نہیں کر سکتا۔اس نے اپنی انجمن کے لئے پچیس نکات مقرر کئے جن میں سے کئی ایسے ہیں جو اسلامی تعلیم کے مطابق ہیں اور وہی دراصل اس کی برکت کا موجب ہوئے ہیں۔مثلاً فیوہررنے ایک مقصد اپنایہ بھی رکھا کہ ہم سود کی *** کوملک سے دور کریں گے اور اس یورپ میں جس کا تمام کاروبارہی سود پر چل رہا ہے اس نے بنکوں وغیرہ پر ایسا تصرف قائم کیا ہے کہ سود کو بہت محدود اور کم کر دیا ہے اگرچہ کُلّی طور پر دور کرنے کی توفیق اسے تا حال نہیں ملی۔جب فیوہرر ان خیالات کو لے کر کھڑا ہؤا تو چونکہ جرمن قوم میں ابھی بیداری موجود تھی،وہ ایک زندہ قوم تھی،تعلیم بھی موجود تھی ۔اس لئے لوگ آناًفاناً اس کے ساتھ شامل ہوگئے۔جبکہ بویریا میں ان کی تعداد ابھی سو کے قریب ہی تھی وہ ان کو لے کر برلن کی طرف چل پڑا۔اسے اس قدر وثوق تھا کہ لوگ اس کے ساتھ خود بخود شامل ہوجائیں گے کہ تعداد کی اس قدر کمی کے باوجود وہ ڈرا نہیںلیکن پولیس نے آکر اسے گرفتار کر لیا۔غالباً ۱۹۲۳ء یا ۱۹۲۴ء میں وہ قید ہؤا اور اس سے اگلے سال معافی کا اعلان ہوگیا۔قید سے نکل کر اس نے پھر کوشش شروع کی۔قوم زندہ اور بیدار تھی اور گو اس کی باتیں نئی تھیں مگر مذہب نہیں بدلا گیاتھا کہ لوگوں کویہ جدت ناگوارگزرتی۔نتیجہ یہ ہؤا کہ اس کی طاقت روز بروز بڑھنے لگی۔۱۹۲۶ء میں اس کی پارٹی کے دو آدمی پارلیمنٹ میں آئے۔۱۹۲۹ء میں بارہ اور ۱۹۳۲ئمیں بائیس اور ۱۹۳۳ء میں حکومت ہی ان کے قبضہ میں آگئی۔اس کے پچیس نکات میں سے ایک یہ تھا کہ ہم آسٹریا کا الحاق کریں گے۔ چنانچہ وہ اس میں کامیاب ہوگیا اور اس کے بعد اس نے اپنے ملک کے دوسرے حصوں کو واپس لینے کی طرف توجہ کی۔
میں بتا یہ رہا تھا کہ فیوہرر کے نکات میں سے بعض اسلام کی تعلیم کے مطابق ہیں۔ایک تو یہی کہ اس نے سود کو کم کیا ہے اور اسے دور کرنے کی فکر میں ہے۔اس کی یہ بات اسلامی تعلیم کے قریب لانے والی ہے اور اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ انہی قوموں کو برکت دے رہا ہے جو اسلامی تعلیم کے قریب آرہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فیوہرر کو برکت مل رہی ہے۔پھر اس نے عورتوں کے متعلق یہ حکم دیا ہے کہ ان کو گھروں میں بٹھائو اور اگرچہ اسلامی پردہ تو اس نے قائم نہیں کیا مگر ان کا مردوں کے ساتھ آزادانہ اختلاط ناچ گانوں میں شامل ہونا وغیرہ باتوں کی ممانعت کر دی ہے اور حکم دیا ہے کہ عورتیں گھروں میںبیٹھیں شادیاں کریں اور بچے جنیں۔جو مرد عورت شادی کریں ان پر ٹیکس میں کمی کر دی جاتی ہے اور جب بچوں کی ایک خاص تعداد ہو جائے تو خاص انعام دیا جاتا ہے اور یہ بھی اسلامی اصول کے مطابق ہے کیونکہ اسلام رہبانیت کو دور کرنے کا حکم دیتا ہے پھر اس نے یہ بھی کہا ہے کہ موجودہ عیسائی مذہب نے ہم کو کمزور کردیا ہے۔ یہ مذہب دنیا کی نجات کا موجب نہیں ہوسکتا اوراس لئے ہم اسے مٹائیں گے چنانچہ جرمنی میںعیسائیت پر سختیاں کی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پوپ ہمیشہ فیوہرر کے خلاف اعلان کرتا رہتاہے، تو اسلام کی کئی باتیں اس کے اندر پائی جاتی ہیں۔میں سمجھتا ہوں یہودیوں نے جو جرمنی کوتباہ کیا تھا اس وعدہ پر کہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کا موقع مل جائے گا اللہ تعالیٰ نے اس کا زبردست بدلہ لیاہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کو جرمنی سے نکلوایااور جرمن قوم کو پھر ایک زبردست سلطنت عطا کردی۔فیوہرر کی تحریک کو کئی رنگ میں اسلامی تعلیم کے ساتھ تعلق تھااور اس نے جو کام کیا ہے وہ اسلام کی تعلیم کو دنیا کے زیادہ قریب کرنے کا موجب ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے طاقت دی۔اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ مسیح موعود ؑکے زمانہ میں دجال آپ ہی آ پ گھلتا جائے گا اور اس کا یہی مطلب ہے کہ عیسائیت سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں سے اس کی عظمت اُٹھ جائے گی۔یہ ساری علامتیں وہی پیشگوئیاں ہیںجو احادیث میں موجود ہیں اور پوری ہو رہی ہیں۔
فلسطین میں یہودیوں کو جگہ ملنا بھی حدیث کی پیشگوئی کے عین مطابق ہے۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دجال کے ساتھ یہودی پھرفلسطین میں داخل ہوںگے۔ اب دیکھ لو یہودی داخل ہورہے ہیں یا نہیں،پھردیکھ لو کن کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں،صاف ظاہر ہے کہ عیسائی حکومتوں کے ساتھ، تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہود کے دجال کے ساتھ فلسطین میں داخلہ کی پیشگوئی صاف الفاظ میں فرمادی تھی۔
اب مَیں وہ اصل مضمون بیان کرتا ہوں جس کی طرف آج کے خطبہ میں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔۱۹۲۴ء میں مَیں نے جو کتاب احمدیت یعنی حقیقی اسلام لکھی تھی اس میں مَیں نے بِالوضاحت بتایا تھا کہ لیگ آف نیشنز کا قیام غلط اصول پر ہے۔ قرآن کریم نے جو لیگ پیش کی ہے یہ لیگ اس کے خلاف بنائی جارہی ہے اور جب تک اس میں اصلاح کرکے قرآن کریم کی بتائی ہوئی لیگ قائم نہیں ہوگی دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔قرآن کریم نے لیگ کے لئے جو اصول رکھے ہیں ان میں سے ایک اہم اصول یہ ہے کہ جب کوئی ظالم ظلم کرے تو اس کا ہاتھ روکو، مظلوم کی مدد کرواور دوسرا یہ کہ یہ نہ کرو کہ ظالم پر فتح پانے کے بعد تم اسے لوٹنے لگو،صرف اتناکروکہ مظلوم کا حق اسے دلوائو۔
میں نے اپنی اس کتاب میں اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ لیگ آف نیشنز نے قرآن کریم کے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔یعنی جرمنی کے بعض علاقے اس سے چھین کر دوسروں کو دے دئیے گئے ہیں اور میں نے وضاحت سے یہ لکھ دیا تھا کہ چونکہ یہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف کیا گیا ہے اس لئے اس کے نتیجہ میں دنیا میںامن نہیں ہوگا۔پھر یہ شرط رکھی گئی ہے کہ لیگ کے کاموں میں فوج استعمال نہیں کی جائے گی میںنے لکھا تھا کہ یہ اصول بھی غلط ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ فوج کے بغیر لیگ کی کو ئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی اورآج چودہ سال بعد واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ قرآن کریم نے جو بات پیش کی تھی اور جس کے متعلق مجھے یہ فخر ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ سرِّ قرآنی اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مجھ پرکھولا ہے،آخر سچی ثابت ہوئی۔آج جو امن قائم ہؤا ہے وہ اسی وجہ سے ہؤا ہے کہ فرانس اور برطانیہ نے اپنی افواج کو تیاری کا حکم دے دیا اور ان کوباہر نکالا جس سے فیوہرر کویہ خیال ہؤا کہ اب سنبھل کر چلنا چاہئے ورنہ لاکھوں جانیں ضائع ہوں گی۔
پس آج وہ لیگ کامیاب ہوئی ہے جو قرآن کریم نے پیش کی تھی اور جسے بیان کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے مجھے دی تھی،نہ وہ جو یورپ والوں نے بنائی تھی اور چونکہ قرآن کریم کا یہ اصول برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر چیمبرلین کے ذریعہ پورا ہؤاہے اس لئے انہیں بزدل کہنا غلطی ہے۔اگر تو انگریزوںنے زیک حکومت کی بنیاد رکھی ہوتی تو یہ اعتراض ان پر ہو سکتا تھا کہ اسے چھوڑتے کیوںہو۔مگر انگریزوں نے تو اس وقت بھی اس کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ یہ غیرطبعی تقسیم ہے جن لوگوں سے یہ علاقے چھینے گئے ہیں انہوں نے اگر لڑائی کی تو ہم ذمہ دار نہیں ہونگے اور جو ذمہ دارنہیں اس پر اعتراض کیسا۔ہاں اگر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے تو فرانس پر کہ جس نے یہ حکومت بنوائی تھی۔اگر بزدلی ہے تو اس کی جس نے پہلے حکومت قائم کرائی اور جب اس کے لئے مصیبت کے دن آئے تو پیچھے ہٹ گیا۔اس کی مثال تو وہی ہے کہ کہتے ہیں کوئی پٹھان تھا جس نے بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں جیسے فوجی لوگ اوپر اٹھا کر رکھتے ہیں وہ بھی رکھتا تھا اور اس وجہ سے اس کے دل میں خیال پیداہونا شروع ہؤا کہ میرے سواکسی کو مونچھیں اونچی کرنے کا حق ہی نہیں۔بازار میں چلتے چلتے ذرا کسی کے بال کھڑے دیکھے خواہ کپڑا لگنے سے ہی ہو گئے ہوں توجھَٹ اسے ڈانٹنا شروع کردیا کہ کم بخت مونچھیں نیچی کرتا ہے یا نہیں۔شہر والے اس کی ان حرکات سے سخت تنگ تھے مگر جرأت نہیں کرتے تھے کہ اسے کچھ کہیں۔ ایک شخص نے ارادہ کیا کہ میں اسے سیدھا کروں گا چنانچہ اس نے گھر میں بیٹھ کر مونچھوںکے بالوں کو خوب پالنا شروع کیا اورخوب موم لگا لگا کر انکو اونچا کرتارہا اور پھر ایک روز خوب اکڑ کراور تلوار وغیرہ لگاکر بازار میں آیا۔کسی نے خان صاحب کو بھی خبر کر دی وہ بہت جز بز ہوئے اور اسے کہا کہ کم بخت مونچھیں نیچی کرتا ہے کہ نہیں،تجھے معلوم نہیں کہ یہاں سوائے میرے کوئی مونچھیں اونچی نہیں رکھ سکتا۔اس نے جواب دیا کہ تم کو ن ہو؟ میرا حق ہے کہ مونچھیں اونچی رکھوں بلکہ میں تم کو کہتاہوں کہ تم فوراً مونچھیں نیچی کرلو نہیں تو تمہاری میری جنگ ہوگی اور فیصلہ تلوار سے ہوگا۔اس پر خان صاحب نے بھی تلوار سنبھالی لیکن قبل اس کے کہ لڑائی شروع ہو اس شخص نے کہا کہ خان صاحب مجھے ایک خیال آیا ہے۔لڑائی میں اگر آپ مارے گئے تو آپ کی بیوی بیوہ اور بچے یتیم ہو جائیں گے اور پھر طرح طرح کے مصائب اٹھائیں گے اور اگر میں مارا گیا تو میرے، اس لئے بہتر ہو گا کہ آپس میں لڑنے سے قبل پہلے اپنی اپنی بیوی اور بچوں کا صفایا کر دیا جائے تا ہماری وجہ سے انہیں تکلیف نہ ہو۔خان صاحب فوراً آمادہ ہو گئے،گھر میں گئے اور سب کو ہلاک کر کے آئے۔ہاتھ میں تلوار تھی جس سے خون ٹپک رہا تھا اور آتے ہی اس سے کہا کہ آئو اب فیصلہ کر لیں لیکن اس نے جواب دیا کہ نہیں خان صاحب مَیں نے سوچنے کے بعد یہی فیصلہ کیا ہے کہ مجھے اپنی مونچھیں نیچی کر لینی چاہیں آپ ہی اونچی رکھیں میری رائے اب بدل گئی ہے۔تو وہی کام فرانس نے کیاہے۔پہلے تو ایک قوم بنوائی حالانکہ اس وقت انگریزاور امریکہ سب اس بات کے خلاف تھے لیکن جب وہ قوم تیار ہوگئی اور ادھر سے جرمن تیار ہوئے کہ ہم لڑتے ہیں تو فرانس نے جھَٹ مونچھیں نیچی کر لیں اور بیچ میں آکر کہہ دیا کہ نہ لڑو۔مگر اتنی کسر رہ گئی کہ اس شخص نے تو دشمن کو اپنی تدبیر سے نقصان پہنچایا تھا فرانس نے خود اپنے دوستوں کو نقصان پہنچایاہے۔
پس اگر اس میں کسی پر الزام آسکتا ہے تو فرانس پرانگریزوں پر نہیں۔اس میں شک نہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں پنجاب میںبعض انگریزوں نے ہمارے ساتھ نہایت ہی گندہ رویہ اختیار کئے رکھا ہے اور بہت بری فطرت کا ثبوت پیش کیا ہے اور اسکی سزا ان لوگوں کو مل بھی رہی ہے اور انشاء اللہ اور بھی ملتی رہے گی اور اس امر کا ثبوت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اپنے دشمنوں کو سزا دینے کے لئے زمینی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ خود آسمانی حربوں سے ان کا بدلہ لیتا ہے مگر باوجود ان حالات کے ہم یہ نہیں کر سکتے کہ سب انگریزی قوم کو بُرا کہیں اور ان کے اچھے افراد کی خوبیوں کا اعتراف نہ کریں مسٹر چیمبر لین نے ستر سال کی عمر میں جس درد کے ساتھ تکلیف کو برداشت کر کے امن قائم کرنے کی کوشش کی ہے وہ انگریزی قوم کے لئے باعثِ فخر ہے اور مسٹر چیمبرلین کی عزت کو بڑھانے کا باعث۔ انہوں نے قطعاً کوئی بزدلی نہیں دکھائی،پارلیمنٹ میں انہوں نے جو تقریر کی وہ بہت ہی شریفانہ تھی،آپ نے کہا کہ ہمیں آج سے بیس سال قبل چاہئے تھا کہ ایک قوم کو دوسری کے ماتحت نہ کرنے دیتے،پھر اس بیس سال کے عرصہ میں کئی مواقع آئے مگر ہم نے اس کا ازالہ نہ کیااور اس ظلم کو یونہی رہنے دیا۔یہ ایک ایسی بات ہے جو بااخلاق آدمی کے منہ سے ہی نکل سکتی ہے اور گو وہ سچے مذہب پر قائم نہیں ہیں لیکن ان کی اس تقریر سے یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ ان کے اندر شرافت اور خوفِ خدا ضرور ہے آج ہی میں نے ان کی تقریر کا ایک اور فقرہ سنا۔ان کے ملک میں بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بڈھابزدل ہے بلکہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اسے الگ کر دیا جائے لیکن آپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ لوگ مجھ پر اعتراض کر رہے ہیںاور میرا عمل یہ ہے کہ میں نے سخت مصیبت اٹھاکر آگ میں سے ایک چیز نکالی ہے اور وہ دنیا کا امن ہے۔ تم مجھے بیشک گالیاں دے لو مگر میں نے یہ کام کیا ہے کہ دنیا میں امن قائم کر دیا ہے اور دنیا کو بہت بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔
جیسا کہ میں پہلے بھی کئی بار یہ کہہ چکا ہوں کہ اگر اب جنگ ہوئی تو نہایت خطرناک ہوگی اور عین ممکن ہے کہ ایک دوسال میں ہی دس بیس بلکہ پچاس کروڑ آدمی ماراجائے اور گو یہ جنگ ہو کر تو رہے گی کیونکہ پیشگوئیوں سے یہی ثابت ہوتا ہے مگر اسے بھڑکانے والے خطرناک مجرم ہونگے اور اگر اس کے آثار دیکھتے ہوئے برطانوی وزیراعظم نے کوشش کی کہ یہ جنگ ٹل جائے اور اس بناء پرکی کہ ایک قوم کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے تو اس کی یہ کوشش بہت قابلِ قدر ہے اور اس کے ذریعہ قرآن کریم کے اصول غالب آئے ہیںاور ہمیں یہ موقع ملاہے کہ ہم یورپ سے کہیں کہ تم نے سینکڑوں سال کے تجربہ کے بعد ایک لیگ قائم کی لیکن غلام ہندوستان کے شہروں سے دور ایک گائوں سے جہاں گو اب گاڑی آچکی ہے مگر اس وقت نہیں تھی۔محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک غلام نے یہ آواز اٹھائی کہ میرے آقا نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر جو تعلیم دی تھی تم اس کے خلا ف چل رہے ہو اس لئے اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا اور اس آواز کے چودہ سال بعد تم نے اپنے عمل سے تسلیم کر لیا ہے کہ تمہارافیصلہ غلط تھا اور امن قائم کرنے کا وہی طریق ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایاہے اور جسے اسکے ایک خادم نے چودہ سال پہلے پیش کیاتھا۔یعنی یہ کہ جب تم ظالم کو دبَالوتو یہ نیّت مت کرو کہ اب موقع ہے اسے مٹادیںصرف مظلوم کا حق اسے دلوادو اوربس۔
اگر جنگِ عظیم کے بعد اس تعلیم پر عمل کیا جاتاتو نہ زیکوسلواکیہ کی یہ حکومت قائم ہوتی نہ مسولینی اور نہ فیوہرر پیدا ہوتے اور نہ نئی جرمنی معرضِ وجود میں آتی اور نہ اس جنگ کے آثارنمودار ہوتے جو بظاہر ایک دن واقع ہو کر ہی رہے گی اور جس کی تباہی کا خیال کرکے بھی انسان کا دل کانپ جاتا ہے۔‘‘ (الفضل ۱۹؍اکتوبر۱۹۳۸ئ)

۳۴
اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے
آئندہ نسلوں کی اصلاح نہایت ضروری ہے
(فرمودہ۲۸؍اکتوبر ۱۹۳۸ء بمقام دہلی)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’ہر ایک قوم کے کچھ آداب ہوتے ہیں جن کو اگر وہ ملحوظ نہ رکھے تو اپنے ماحول کو کبھی درست نہیں کر سکتی۔میں آج کا مضمون بیان کرنے سے قبل یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد میں ایسے مواقع پر جب کہ خطبہ ہورہا ہو یا کوئی تقریر کی جارہی ہو چھوٹے بچوں کو پیچھے بٹھانے کا ارشاد فرمایا ہے تا کہ ان کے شورو غل سے وہ مقصد ضائع نہ ہو جائے جس کو حاصل کرنے کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہماری عبادتیں میلہ نہیں ہیں اور نہ ان کی یہ غرض ہے کہ محض ان سے وقتی سُرور حاصل کیا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عُرسوں نے لوگوں کو یہ عادت ڈال دی ہے کہ ایسے موقعوں کو کھیل اور تماشہ کے طورپر دیکھا جاتا ہے نہ کہ کسی سنجیدگی کی نظر سے اور جب بچپن سے ہی ان اجتماعات کے متعلق یہ خیالات دلوں میں راسخ ہوجائیں کہ وہ تماشہ ہیں تو پھر ایسے موقعوں سے سنجیدگی اور پوری توجہ کے ساتھ کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب ایسی مجالس ہوں تو بچے پیچھے رکھے جائیں کیونکہ اگر وہ لوگ جن کے مشوروں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے پیچھے رہیں گے تو جماعت ان کے مشوروں سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گی۔پس ضروری ہے کہ آگے بڑے آدمی ہوں، پھر بچے ہوں اور پھر عورتیں۔عورتوں کو سب سے پیچھے اس لئے نہیں رکھا جاتا کہ وہ ادنیٰ ہیں بلکہ اس لئے رکھا جاتا ہے کہ ان کے آگے پردہ کی دیوار کے طور پرکھڑے ہوسکیں۔
اس مختصر سی نصیحت کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں۔یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ قومی تربیت کے ہمیشہ دودَور ہوتے ہیں جس طرح جسمانی تربیت کے بھی دو دَور ہوتے ہیں اور یہ دونوں دَور متقابل چلتے ہیں گویا افراد کی ترقی اور قوم کی ترقی ایک ہی اصول پر مبنی ہے۔اس نقطہ نگاہ کے ماتحت جب ہم افراد کی حالت کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تربیت کا ایک دور وہ ہوتا ہے۔جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور دوسرا دور اس وقت ہوتا ہے جب بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتاہے۔ پہلے دور میں بچہ کی غذا وغیرہ کا انتظام خود خدا تعالیٰ کرتا ہے لیکن دوسرے دَور میں ان امور کو صرف خدا تعالیٰ پر نہیں چھوڑا جاتا بلکہ ماں باپ بچہ کی جسمانی تربیت اور کھانے پینے کی طرف خود توجہ کرتے ہیں اور اس کی خوراک اور لباس وغیرہ میں ان کا بہت دخل ہوتاہے۔اس دوسرے دَور میں بچہ کی تربیت کا کام اس کی پیدائش سے ہی شروع ہو جاتا ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دی جائے۔۱؎ اب دیکھو اذان عربی زبان میں ہے اور بچہ اِسے نہیں سمجھ سکتا مگر باوجود اس کے شریعت نے حکم دیا ہے کہ اس کے کان میں اذان دی جائے اور یہ خالی ازحکمت نہیں بلکہ جبکہ علم النفس کے رو سے اب ثابت ہوچکا ہے اس وقت کی باتوں کا بچہ کے دل و دماغ پر خاص اثر ہوتا ہے اور وہ نقوش اس کے دل ودماغ پر پیدا ہو جاتے ہیں جو مٹتے نہیں۔فرانس میںایک لڑکی تھی جو جرمن زبان میں سر من پڑھتی تھی حالانکہ اسے کسی نے جرمن زبان سکھائی نہیں تھی۔لوگ سمجھتے تھے کہ اس لڑکی پر جِنّ بھُوت کا اثر ہے مگر جب تحقیقات کی گئی تو پتہ چلا کہ جب وہ ابھی ایک سال کی تھی اُس وقت اس کی والدہ ایک جرمن پادری کے پاس ملازم تھی اور اس پادری کی عادت تھی کہ سرمن بلند آواز میں پڑھتا تھا چنانچہ وہی سرمن اس لڑکی کے دماغ میں بھی نقش ہوگئے اور وہ دَو رے کی حالت میں انہیں دُہراتی رہتی۔غرض بچہ کے کان میں اذان دینے کی ایک حکمت تو یہ ہے کہ اس طرح بچہ کو بڑے ہونے کے بعد عربی زبان سے وابستگی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ اسے خیال ہوتا ہے کہ اس زبان کی آواز پہلے بھی کبھی میرے کان میں پڑ چکی ہے۔اس کے علاوہ دوسری حکمت بچہ کے کان میں اذان کہنے کی یہ ہے کہ ماں باپ یہ سمجھ لیں کہ بچہ کی تربیت کا زمانہ شروع ہو گیا ہے۔کئی ماں باپ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بچہ بڑا ہو کر تربیت حاصل کر لے گاحالانکہ وہ سخت غلطی پر ہوتے ہیں۔جب بچے تعلیم حاصل کرلیتے ہیں تو کئی لڑکے اپنے اَن پڑھ ماں باپ کو پاگل سمجھنے لگتے ہیں اور بسا اوقات ان کی والدہ اگر کوئی بات کہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اماں تم نہیں جانتیں کہ یہ علمی بات ہے، پس بچے کی تربیت کا زمانہ اس کا بچپن ہی ہے،حضرت امام شافعیؒ نے ۹سال کی عمر میں تمام دینی تعلیم کی تکمیل کرلی تھی۔پس اذان یہ بتاتی ہے کہ تربیت کا کام بچہ کی پیدائش سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور حقیقت میں وہی وقت ہوتا ہے جب ماں باپ اپنے خیالات کا اثر بچہ پر ڈال سکتے ہیں۔غرض پہلے دَور میں جبکہ بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے خدا تعالیٰ خود بچہ کی تربیت کرتا ہے مگر دوسرے دَورمیں اسے تربیت کے لئے انسان کے سپرد کیا جاتا ہے۔ یہی دَور قوموں پر بھی آتے ہیں جب خدا تعالیٰ کا کوئی مامور دنیا میں آتا ہے تو اس وقت اس کی قوم کا ابتدائی دَور بچہ کے اس پہلے دَور سے مشابہت رکھتا ہے۔ جبکہ وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اس وقت خداتعالیٰ خود تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے،معجزات اور نشانات کے ذریعہ قوم کی تربیت ہوتی ہے اور وہ بمنزلہ ان غذاؤں کے ہوتے ہیں جو ماںکے پیٹ میں بچہ کو پہنچتی ہیں۔بے شک مامورانِ الٰہی بھی ان کی تعلیم وتربیت کرتے ہیں لیکن ان کا اس میں اتنا ہی دخل ہوتا ہے جتنا ماں کی خوراک کا خیال اس وقت رکھا جاتا ہے جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہو۔خدا بھی اپنے رسول کی خود تربیت کرتا ہے اور اس کے ذریعہ امت کو خوراک مل جاتی ہے۔
پھر جسمانی تربیت میں دوسرا دَور جس طرح اس وقت شروع ہوتا ہے جب بچہ پیدا ہو اسی طرح قوموں پر ان کی تربیت کا دوسرادَور جب نبی کی وفات کے بعد آتا ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ کمزور لوگوں کی ایک نظام کے ماتحت تربیت کی جائے۔جس طرح بچہ کے پہلے دَور پر قیاس کر کے کہ جب خدا تعالیٰ اسے پہلے دَور میں خود رزق دیتا رہا ہے کسی نادان کا یہ خیال کرلینا کہ دوسرے دَور میں بھی خدا تعالیٰ اس طریق پر اس کے رزق کا انتظام کرے گا اور اس کی مزیدتربیت کی ضرورت نہیں بے وقوفی ہے۔اسی طرح قوموں کی ترقی کے ابتدائی دَور کی تربیت پر قیاس کر کے یہ نتیجہ نکالنا کہ دوسرے دَور میں بھی مزید عمل کی ضرورت نہیں نادانی ہے۔
نبی کے زمانہ میں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نلکی لگا دی جاتی ہے اور اس کے ذریعہ معجزات و نشانات کی خوراک قوم کو اس طرح مل جاتی ہے جس طرح بچہ کو ماں کے پیٹ میں خوراک ملتی ہے لیکن اگر بچہ کے دوسرے دور میں بھی ہم پہلی مثال پر قائم رہیں گے اور کہیں گے کہ جس طرح پہلے خدا تعالیٰ بچے کو کھلاتا رہا اسی طرح اب بھی کھلائے اور جس طرح پہلے سردی گرمی سے بچاتا رہا اسی طرح اب بھی بچائے ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس کی غذا کا فکر کریں یا اسے کپڑے بنا کر دیں تو یقینا ہم اس کی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔ دیکھو ماں جب تک بچہ اس کے پیٹ میں ہو تو براہ راست کوئی تربیت بچہ کی نہیں کر سکتی مگر دوسرے دور میں کر سکتی ہے۔اسی طرح قوم جب دوسرے دور میں آتی ہے تو سخت قوانین اور کڑوی دوائیوں کی اس کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔جب تک بچہ ماں کے پیٹ میں تھا جہاں وہ کسی چیز کا (انکار نہیں کر سکتا تھا)وہاں وہ اپنی مرض سے کسی چیز کو اختیار نہیں کر سکتا تھالیکن پیدائش کے بعد اس میں تغیر آتا ہے اور کسی بات کو ردکرنا یا اختیار کرنا اس کی مرضی پر منحصر ہوتا چلا جاتا ہے۔یہی حال قوم کا ہوتا ہے اسے بھی دوسرے دور میں نئے عمل اور نئی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ سخت نادانی کا خیال ہے کہ قوم کی پہلی سی تربیت کیوں نہ ہوکیونکہ یہ ایک طبعی تغیر ہے۔اگر بچہ کی پیدائش کے بعد اس کے متعلق یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ اسے کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں تو وہ ضرور مرے گا۔پس یاد رکھو کہ وہ تغیرات جن پر میں اس وقت زوردے رہاہوں وہ ضروری ہیںکیونکہ اب ہماری جماعت پر وہ پہلاد ور نہیں۔جبکہ تواتر سے معجزات اور نشانات کا سلسلہ جاری تھا اور نہ اب وہ زمانہ ہے جسے خدا تعالیٰ نے لیلۃ القدر قرارد یا ہے اور جس کے متعلق قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ وہ ہزار ماہ سے بہتر ہے،اب وہ زمانہ واپس نہیں آسکتا۔اس زمانہ میں تربیت خدا خود کرتا تھا اور کُلّی طور پر باگ ڈور اس کے ہاتھ میں تھی مگر اب دوسرے دور میں وہ انسان کو سکھانا چاہتا ہے کہ وہ اپنی تربیت اپنے ہاتھ میں لے،اگر یہ زمانہ نہ آئے تو انسانی پیدائش کی غرض یقینا باطل ہو جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۲؎ یعنی انسان کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کے ساتھ میرا مظہرِ کامل بنے نہ یہ کہ میں اسے بنادوں۔گویا اس آیت میں ایک طرف انسان کو اپنا مظہر بتایا ہے اور دوسری طرف فرمایا ہے کہ یہ مظہریت قبول کرنا تمہارے اپنے اختیار میں ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے اس امر کو انسان کی اپنی مرضی پر چھوڑا ہے کہ وہ طوعی طور پر نہ کہ جبری طور پر اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کرے۔یہی انسانی جدوجہد کا وقت ہوتا ہے جس میں اسے اپنے علم اور تجربہ سے فائدہ اٹھا کر کام کرنا پڑتا ہے۔وہ شاگرد جو استاد کے پاس بیٹھا ہو اور وہ جو اپنے طور پر مطالعہ کرے دونوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔پہلا اپنی ہر مشکل استاد کے سامنے پیش کرکے اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن دوسرے کو اس غرض کے لئے کتابوں اور لغات کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے۔پس تغیرات ضروری ہیں اور انہی تغیرات کا نام تحریک جدید ہے۔اس تحریک کے تین بڑے حصے ہیں۔اول مردوں کی اصلاح، دوسرے عورتوں کی اصلاح اورتیسرے بچوں کی اصلاح۔دنیا میں کوئی قوم کامیابی حاصل نہیں کر سکتی جب تک کوئی مقصد اس کے سامنے نہ ہو اور اس کے لئے مرد عورت اور بچے سب مل کر کام نہ کریں۔پس ہر جماعت کا فرض ہے کہ اپنے ہاں کے مردوں، عورتوں اور بچوں کی اصلاح کرے۔عورتوں کی اصلاح کے لئے لجنہ کا قیام نہایت ضروری ہے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسے فرضِ کفایہ سمجھ لیا گیا ہے۔چند عورتیں لجنہ میں شامل ہو جاتی ہیں اور باقی اپنے لئے اس میں شامل ہونا ضروری نہیں سمجھتیں۔پس ضرورت ہے کہ ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کا قیام ہو اور سب بالغ عورتیں اس میں شامل ہوں اور کوئی ایک عورت بھی ایسی نہ رہے جو اس سے باہر ہو۔یہی ایک ذریعہ ہے جس سے عورتوں کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ دہلی کے متعلق مجھے رپورٹوں سے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ یہاں صرف دس بارہ عورتیں جمع ہوتی ہیں اور وہی لیکچر دے لیتی ہیں حالانکہ جب تک ایک عورت بھی باہر رہے اس وقت تک ہماری تنظیم مکمل نہیں ہو سکتی۔ لجنہ میں داخلہ کو اگرہم نے ضروری قرار نہیں دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتیں اس میں شمولیت کو غیر ضروری سمجھ لیں بلکہ ہمارا مقصد ہے کہ وہ اپنی مرضی اور خوشی سے اس میں شامل ہوں اور اس طرح انہیں ثواب اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوافل کو قُربِ الٰہی کا ذریعہ بتایا ہے لیکن آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہم نوافل کے متعلق کوئی پابندی نہیں عائد کرتے۔اسی طرح مثلاً میری خواہش یہی ہے کہ میرے بچے سرکاری ملازمت اختیار نہ کریں لیکن میں نے ان سے کبھی ایسا کہا نہیں کیونکہ اگر وہ میرے کہنے سے ایسا کریں گے تو اس کاثواب مجھے ملے گا نہ کہ ان کو۔یہی فائدہ اپنی امت کو پہچانا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنظر تھا اور اسی لئے آپ نے نوافل کے متعلق کوئی پابندی عائد نہیں کی۔دوسری ضروری چیز مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام اور اس میں شمولیت ہے۔میں نے اس بارہ میں ابھی تک کوئی پابندی نہیں لگائی لیکن اگر کوئی باہر رہ جاتا ہے اور خدام الاحمدیہ میں شامل نہیں ہوتا تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ہمیں نوجوانوں کو ایسے رنگ میں سمجھانا چاہئے کہ کوئی نوجوان اِس میں شامل ہونے سے نہ رہے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ جو بڑے کام ہوتے ہیں ان کی تکمیل کے لئے ایک لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ عظیم الشان انعامات جن کے مانگنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے وہ بغیر بڑی قربانیوں کے نہیں مل سکتے۔یہ بھی ایک غلطی تھی جس نے مسلمانوں کو تباہ کیا کہ انہوں نے سمجھ لیا صحابہؓ پر تمام ترقی ختم ہوگئی ہے حالانکہ اگریہ صحیح ہوتو پھر ہمیں کیا ملے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس عقیدہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچا ہے۔خدا تعالیٰ نے تو قرآن کریم میں۳؎کہہ کر یہ دعا سکھائی ہے کہ تم بڑے سے بڑے انعام طلب کرو۔پس جب دعا سکھانے والے نے بخل سے کام نہیں لیا،دینے والے کے ہاں کمی نہیں،تو مانگنے والا کیوں مایوس ہو۔صحابہؓ کے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی جب تک لوگ اس بات کو سمجھتے رہے ان کو اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے رُتبے دیئے اور انہوں نے لوگوں کے سامنے دعوے بھی کئے لیکن جب ان کے دماغ چھوٹی چھوٹی باتوں پر راضی ہونے لگ گئے تو وہ تنزل میں گر گئے۔ہمیں مسلمانوں کے اس تنزل سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ سے اس کی بڑی سے بڑی نعمت طلب کرنی چاہئے۔ہاں روحانی نعمتوں کو معین طور پر مانگنا نادانی ہوتا ہے۔ طبیب کو ہم یہ توکہہ سکتے ہیں کہ بہتر سے بہتر نسخہ دے مگر یہ کہنا کہ معجون فلاسفہ دو یا ایسٹرن سیرپ دو بے وقوفی ہے۔خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مانگنے والے کے لئے کونسی روحانی نعمت بہتر ہوگی۔مثلاً ایک شخص نفلوں کی توفیق اور اس کے ذریعہ قُربِ الٰہی مانگتا ہے حالانکہ ہو سکتا ہے کہ اس کے لئے روزوں سے ترقی مقدر ہو۔پس روحانی انعامات کو معین طور پر مانگنا قربِ الٰہی کے دروازہ کو اپنے اوپر بند کرنا ہے۔ہاں جسمانی طور پر اولاد وغیرہ کے لئے کسی معیّن نعمت کا طلب کرنا منع نہیںلیکن روحانی لحاظ سے ہمیں اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ اعلیٰ سے اعلیٰ انعامات طلب کرنے چاہئیں اور اس امر کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ کون سا انعام ہمیں دیتا ہے کیونکہ وہی اس امر کو بہتر سمجھ سکتا ہے کہ ہمارے قویٰ اور ہماری دماغی بناوٹ کے مناسبِ حال کونسا روحانی انعام ہے۔غرض نسلوں کو درست رکھنااعلیٰ مقاصد کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے مگر اس کے لئے ایک نظام کی ضرورت ہے اور اس نظام کو قائم کرنے کے لئے مختلف تحریکات ہوتی رہتی ہیں۔وہ لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کہ یہ نئی چیزیں ہیں وہ غلطی پر ہیں اگر حالات کے مطابق ہم تبدیلی اختیار نہیں کریں گے تو عقل مند ی سے بعید ہوگا۔ جیسے اگر کوئی شخص موٹر کو تعیّش کی چیز سمجھ کر اس سے کام نہ لے یاریل کے ہوتے ہوئے پیدل سفر کرنے پراصرار کرے تو یہ اس کی نادانی ہو گی۔ پس ضروری ہے کہ انعامات کے حصول کے لئے مقررہ نظام کے ماتحت سب دوست مل کر کام کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب دہلی تشریف لائے اور آپ یہاں کے بزرگوں کے مزارات پر تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا یہاں اتنے اولیاء اللہ دفن ہیں کہ اگر یہاں کے زندے توجہ نہ کریں گے تو ان بزرگوں کی روحیں تڑپ تڑپ کر فریاد کریں گی اور خداتعالیٰ کا کام پورا ہو کر رہے گا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہشات میں سے ایک خواہش یہ بھی تھی کہ دہلی احمدیت کو قبول کرنے سے محروم نہ رہے۔پس سمجھ لو کہ آپ کی اِس خواہش کو پورا کرنے کے لئے کتنی عظیم الشان کوششوں کی ضرورت ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ میں جب لکھنؤ طب پڑھنے کے لئے گیا تو مجھ سے میرے استاد نے پوچھا کہ تمہارا کہاں تک طب پڑھنے کا ارادہ ہے۔مجھے اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ سب سے بڑا طبیب کون گزرا ہے مگر میرے مُنہ سے بے ساختہ نکلا کہ افلاطون کے برابر۔ افلاطون اگرچہ فلاسفر تھا مگر استاد نے ان سے کہا شاباش تم نے بڑے آدمی کا نام لیا ہے اس سے تمہارا ارادہ بہت بلند معلوم ہوتا ہے تم کچھ نہ کچھ ضرور بن جاؤ گے۔ایسا عزم اور ارادہ رکھنے والے نوجوانوں کی اب بھی ضرورت ہے یاد رکھو حقیقی انسان وہی ہے جس کے مرنے پر لوگوں کو یہ خیال ہو کہ آج فلاں کی موت سے جو خَلا پیدا ہوگیا ہے اس کو پُر کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔
میں نے دیکھا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی تربیت میں ابھی بہت نقص ہے اور اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ مجھے اکثر بچیوں کی پیشانی پر ابھی وہ بات نظر نہیں آتی جو ان کے نورِایمان کو کامل طور پر ظاہر کرنے والی ہو۔بہت تھوڑے بچے اور نوجوان میں نے ایسے دیکھے ہیں کہ جن کی پیشانی پر میں نے لکھا ہؤا دیکھا ہو اور وہ خداتعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنے کے لئے پوری جدو جہد کرتے ہوں۔اسی طرح میں بڑوں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اس امر پر غور کریں کہ وہ رات دن کے اوقات میں سے کتنا وقت خدا کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر جماعت یہ عزم کر لے کہ اگلے سال وہ دگنی ہو جائے گی تو۴؎ کا زمانہ بہت جلدآسکتا ہے۔اگر جماعت متحدہ طور پر ہمت نہیں کرتی تو کم از کم افراد یہ عہد کر لیں کہ وہ ایک ایک آدمی کو احمدی بنا کر دم لیں گے۔یاد رکھو ایک ہی چیز ہے جس سے زندگی ملتی ہے اور وہ موت ہے۔جب تک انسان موت قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس وقت تک وہ حقیقی زندگی نہیں پا سکتا۔ نطفہ کا کیڑا بھی زندہ ہی ہوتا ہے لیکن جب وہ ماں کے پیٹ میں موت قبول کر کے ایک دوسری زندگی حاصل کرتا ہے تو اس کی وہ زندگی پہلی زندگی سے کتنی اعلیٰ اور کتنی بلند ہوتی ہے۔
کچھ عرصہ ہؤا جب میں یہاں آیا تھا تو جماعت میں اس وقت صرف بیس پچیس دوست تھے میں نے نماز جمعہ پڑھائی تو میر قاسم علی صاحب (مرحوم)بڑے خوش تھے اور کہتے تھے اب تو ہم پچیس ہوگئے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے اب ڈیڑھ دو سَو کے قریب یہاں ہماری جماعت کے آدمی ہیں اور اگر ہماری جماعت دعاؤں،اچھے نمونہ اور اصلاح وارشاد کے ذریعہ سے کوشش کرے تو ایک سال کے اندر اندر اپنی تعداد سے دُگنی ہو سکتی ہے۔بعض لوگوں کو شکوہ ہے کہ میں ان کی دعوت قبول نہیں کر سکا لیکن انہیں سوچنا چاہئے کہ ایک آدمی آخر کہاں تک کھا سکتا ہے۔میرا اصل کام خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت ہے اور جو شخص اس کام میں میری مدد کرتا ہے وہی میرا دوست ہے۔یہی وہ مہمان نوازی ہے جو ہر شخص کر سکتا ہے۔پس میری اگر خواہش ہے تو یہ کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے پھر یہاں آنے کا موقع عطا فرمائے تو میں دیکھوں کہ سب عورتیں لجنہ میں شامل ہیں،سب نوجوان خدام الاحمدیہ کے پروگرام پر کاربند ہیں اور سب لوگ سرگرمی سے اصلاح وارشاد کے کام میں مصروف ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔آمین۔‘‘
(الفضل۱۵؍جون۱۹۶۰ئ)
۱؎ کنزالعمال جلد ۱۶ صفحہ ۵۹۹ ۔ مطبوعہ حلب ۱۹۷۷ئ
۲؎ الذّٰرِیٰت: ۵۷ ۳؎ الفاتحۃ: ۶،۷ ۴؎ النصر: ۳

۳۵
رمضان میں تحریک جدید اورتحریک جدید میں
رمضان سے فائدہ اٹھاؤ
(فرمودہ ۴؍نومبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اللہ تعالیٰ کے فضل نے پھر ہمیں وہ بابرکت مہینہ دکھایا ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۱؎ کہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اُترا ہے یا جس کے بارہ میں قرآن اُترا ہے۔حدیثوں سے یہ امر ثابت ہے کہ ہر سال رمضان میں جبریل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے تھے اور آپ کے ساتھ تلاوتِ قرآن کیا کرتے تھے چنانچہ جس سال آپ کی وفات ہوئی آپ نے فرمایا کہ ہمیشہ جبریل رمضان میں ایک دفعہ میرے ساتھ تلاوت کیا کرتا تھا مگر اس دفعہ دو دفعہ اُس نے تلاوت کی ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ میری وفات قریب ہے۔۲؎
تو جب تک دنیا میں قرآن کریم کی خوبیوں کو تسلیم کرنے والے لوگ باقی ہیں، جب تک قرآن کریم کی عظمت لوگوں کے دلوں میں قائم ہے اس وقت تک رمضان کی عظمت بھی لازمی طور پر قائم ہے اور دراصل جو مہینہ قرآنی برکات کے نزول کا موجب ہؤا ہے اُس کی قدر اور اُس کی عظمت کا اندازہ ہمارے دل لگا ہی نہیں سکتے۔معمولی معمولی اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو لوگ عرصہ دراز تک یاد رکھتے ہیں۔عورتوں کو میں نے دیکھا ہے کہ ان کی ساری تاریخ بچوں کی پیدائش پر ختم ہو جاتی ہے،جب پوچھا جائے فلاں واقعہ کب ہؤا؟ تو کہیں گی فلاں بچہ کی پیدائش سے چار ماہ پہلے یا چار ماہ بعد۔گویا ان کے لئے دنیا کی تاریخ کا اندازہ ان کے بچوں کی پیدائش سے ہوتا ہے۔وہ بچے آگے کس حیثیت کے ہوتے ہیںیہ دوسرا امر ہے۔بعض دفعہ وہ اچھی حیثیت کے بھی مالک بن جاتے ہیںمگر بعض اوقات وہ اپنی زندگی سے بھی بیزار ہوتے ہیں،بھوکے مر رہے ہوتے ہیں،ان کی اولاد بھی بھوکی مر رہی ہوتی ہے،ان کی بیوی کو تن ڈھانکنے کے لئے کافی کپڑا بھی نہیں ملتا۔ان کے پاس کوئی مکان نہیں ہوتاجس میں وہ رہائش اختیار کرسکیں۔انہیں کوئی کام نہیں ملتاجس سے وہ اپنا گزارہ کر سکیں۔اور اگر کام ملتا ہے تو گزارے کے مطابق تنخواہ نہیں ملتی۔ اور اگر کام کے لحاظ سے تنخواہ معقول ملتی ہے تو کھانے والے زیادہ ہوتے ہیں۔غرض ان کی زندگی تکلیف اور مصیبت کا ایک غیر متناہی سلسلہ ہوتی ہے مگر ایک ماں دنیاکے سارے کاموں کی بنیاد انہی کی پیدائش پر رکھتی ہے۔چاند گرہن اور سورج گرہن عالمِ سفلی کے اَدوار کا ایک عجیب کرشمہ ہیں اور اس عالم کے بڑے بڑے کَل پُرزوں کی رفتار سے تعلق رکھتے ہیں مگر وہ سورج گرہن اور چاند گرہن کو بھی اپنے بچوں کی پیدائش کے ساتھ ملا دیتی ہیں۔ کہیںگی فلاں سورج گرہن اُس وقت ہؤا جب فلاں بچہ میرے پیٹ میں تھا یا فلاں چاند گرہن اُس وقت ہؤا جب میرا فلاں بچہ پیدا ہوا تھا یا اتنے مہینے اس کی پیدائش میں باقی تھے۔تو ان کی ساری دنیا ان کے بچوں میں ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ بچے ان کے ہوتے ہیں۔پس اگر ایک عورت تمام دنیا کی تاریخ اپنے بچوں کے ذریعہ یاد رکھتی ہے تو ہمیں جس مہینے سے قرآن کا نور ملا اس کی عظمت اور شان کو پہچاننا اور اس کے انوار اور برکات کے حصول کے لئے بے تاب ہو جانا ہمارے لئے جس قدر ضروری ہے وہ ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے۔
غرض رمضان اسلام اور ایمان کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اور جس شخص کے دل میں بھی اسلام اور ایمان کی قدر ہوگی وہ اس مہینہ کے آتے ہی اپنے دل میں ایک خاص حرکت اور اپنے جسم میں ایک خاص قسم کی کپکپاہٹ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔کتنی ہی صدیاں ہمارے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان گزر جائیں،کتنے ہی سال ہمیں اَور ان کو آپس میں جُدا کرتے چلے جائیں،کتنے ہی دنوں کا فاصلہ ہم میں اور ان میں حائل ہوتا چلاجائے لیکن جس وقت رمضان کا مہینہ آتا ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان صدیوں اور ان سالوں کو اس مہینہ نے لپیٹ لپاٹ کر چھوٹا سا کر کے رکھ دیا ہے اور ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئے ہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی قریب نہیں چونکہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہؤا ہے اس لئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام فاصلہ کو رمضان نے سمیٹ سماٹ کر ہمیں خداتعالیٰ کے قریب پہنچا دیا ہے۔وہ بُعد جو ایک انسان کو خدا سے ہوتا ہے،وہ بُعد جو ایک مخلوق کو اپنے خالق سے ہوتا ہے،وہ بُعد جو ایک کمزور اور نالائق ہستی کو زمین اور آسمان کے پیدا کرنے والے خدا سے ہوتا ہے وہ یوں سمٹ جاتا ہے اور وہ یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے سورج کی کرنوں سے رات کا اندھیرا۔یہی وہ حالت ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۳؎جب رمضان کا مہینہ آئے اور میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریںکہ میں انہیں کس طرح مل سکتا ہوں تو تُو انہیں کہہ دے رمضان اور خدا میں کوئی فرق نہیں۔یہی وہ مہینہ ہے جس میں خدا اپنے بندوں کے لئے ظاہر ہؤا اور اس نے چاہاکہ پھر اپنے بندوں کو اپنے پاس کھینچ کر لے آئے اس کلام کے ذریعہ سے جو حَبْلُ اللہ ہے۔ جو خُدا کا وہ رسّہ ہے جس کا ایک سِرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا مخلوق کے ہاتھ میں اب یہ بندوں کاکام ہے کہ وہ اس رسّہ پر چڑھ کر اپنے خدا کے پاس پہنچ جائیں۔شاید عام طور پر رسّے پر چڑھنے کی قیمت کا اندازہ ہم لوگ نہیں کر سکتے لیکن جہازوں میں یہ اندازہ بہت اچھی طرح ہو سکتا ہے۔جہازوں میں رسّی کی سیڑھیاں ایک لازمی چیز ہیں۔جب جہاز کسی بندرگاہ پر پہنچتا ہے تو قانون کے مطابق جہاز کے کپتان کو یہ اجازت نہیں ہوتی کہ وہ بندرگاہ تک اس جہاز کو لے جائے وہ چند میل بندرگاہ کی حدود سے باہر جہاز کو کھڑا کر دیتا ہے اور بندرگاہ سے ایک پائلٹ آتا ہے جو بندرگاہ کے رازوں سے واقف ہوتا ہے۔جب اس کی کشتی جہاز کے قریب پہنچتی ہے تو اوپر سے ایک رسّہ لٹکایا جاتا ہے جس کے ساتھ ایک سیڑھی ہوتی ہے وہ رسّہ اپنے ہاتھ میں پکڑکر اس سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے اوپر چڑھ جاتا ہے۔تو راستے کا صحیح مفہوم جو ۴؎ میں بیان کیا گیا ہے اسے انسان جہاز میں اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح رسّے وہاں سیڑھیوں کا کام دیتے ہیں۔سو قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے رسّے کے طور پر لٹکایا اور فرمایا تم اس کو پکڑ کر اوپر چڑھ آؤ مگر دیکھنا !اکیلے نہ آنا بلکہ باقیوں کو بھی لپیٹ لپاٹ کر اپنے ساتھ شامل کر لینااور سب کی گٹھڑی باندھ کر ہمارے پاس لے آنا۔گویا یہ ایک ایسا دعوت نامہ ہے جو کسی فرد سے مخصوص نہیں بلکہ تمام لوگوں کو اس میں شامل کیا گیا ہے۔جیسے ایک دعوت نامہ تو یہ ہوتا ہے کہ فلاں وقت آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں اور کھانا تناول فرمائیں اور ایک دعوت نامہ یہ ہوتا ہے کہ فلاں وقت صرف آپ کی ہی نہیں بلکہ آپ کے بیوی بچوں اور ملازموں کی بھی دعوت ہے۔ سوقرآن وہ دعوت نامہ ہے کہ جس نے بھی اسے کھولا اس نے اس میں یہ لکھا ہؤا نہیں دیکھاکہ صرف تمہاری دعوت ہے بلکہ اس نے یہ لکھا ہؤا دیکھا کہ تمہاری اور تمہارے سب جاننے والوں کی دعوت ہے۔
غرض رمضان آتے ہی اللہ تعالیٰ کی یاد ہمارے دلوں میں تازہ کر دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہاری طرف ایک رسّہ پھینکا گیا ہے جو آج بھی لٹک رہا ہے اور آج بھی اس بات کا موقع ہے کہ تم اس رسّہ کو پکڑ کر اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ جاؤ۔
ابھی ایک دو دن ہوئے مجھے اس کے متعلق ایک عجیب کشفی نظارہ نظرآیا۔میں سحری کے انتظار میں لیٹا ہؤا تھاکہ میں نے دیکھا جیسے پہاڑوں میں ٹنلزہوتی ہیں اور ان میں بورنگ کر کے اندرونی طور پر ایک گول سا رستہ تیار کیا جاتا ہے اس طرح مجھے معلوم ہؤا کہ جَوّ میں ایک گول رستہ بنا ہؤا ہے کہ جو تاگے کی رِیل کے اندرونی سوراخ سے مشابہہ ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ یہ تاگے کی رِیل کا سوراخ چھوٹا ہوتا ہے مگر وہ سوراخ بڑا تھا۔یا یوں سمجھ لو کہ جیسے آگ جلانے والی پھُنکنی ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک گول سا سوراخ ہوتا ہے جس سے آر پار نظر آ جاتا ہے اس طرح جَوّ میں ایک گول رستہ بنا ہؤا ہے اور اس کے ایک طرف خدا تعالیٰ کی ذات بیٹھی ہے اور دوسری طرف میں بیٹھا ہوںاور اس میں مجھے اللہ تعالیٰ کا اس قدر قُرب معلوم ہوتا ہے کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی چیز حائل نہیںاور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے راز آپ ہی آپ کھلتے چلے جارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی قطعی اور یقینی ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں اس کے مقابلہ میں مشکوک اور مشتبہ نظر آتی ہیں۔کئی منٹ تک برابریہی کیفیت مجھ پر طاری رہی اور اس ٹنل کے ایک سرے پر بیٹھے ہوئے اللہ تعالیٰ سے جو اُس کے دوسرے سرے پر بیٹھا تھا دل ہی دل میں مَیں باتیں کرتا رہا۔اُس وقت کی کیفیت ایسی ہی تھی جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ سورج کی ذات میں شُبہ ہو سکتاہے،زمین کے وجود میں شبہ ہو سکتا ہے، ہمیں اپنے وجود میں شُبہ ہو سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی ذات میں شُبہ نہیں ہو سکتا۔اسی قسم کی باتیں میں نے اُس وقت اللہ تعالیٰ سے کیں اور اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہا کہ تیرا وجود ایسا یقینی ہے اور ایسا شکوک کو دور کرنے والا۔ پھرتُو کیوں چھپا ہؤا ہے اور کیوں میرے لئے اور اپنے دوسرے بندوں کے لئے کامل تجلی کے ساتھ ظاہر نہیں ہوتا۔
جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں اس کشف کا مفہوم وہی تھا جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ دیکھو رمضان میں اللہ تعالیٰ بندے کے کتنے قریب ہو جاتا ہے۔بہت دفعہ انسان غلطی سے اس قُرب کو محسوس نہیں کرتا جیسے پیٹھ کے پیچھے اگر بالکل قریب آکر بھی کوئی شخص بیٹھ جائے تو انسان معلوم نہیں کر سکتاکہ میرے پیچھے کوئی بیٹھا ہؤا ہے لیکن اگر اس کا مُنہ اس کی طرف پھیر دیا جائے تو وہ دیکھ سکتا ہے کہ کوئی شخص میرے کتنے قریب بیٹھا ہؤا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ٹنل کا نظارہ دکھا کر مجھ پر ظاہر فرمایا کہ اگر ہم پَردہ دُور کردیں تو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہوکہ ہم تمہارے کتنے قریب ہیں مگر چونکہ خدا تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان ایک پردہ پڑا ہؤا ہے لوگ اس لئے اس بات کو سرسری نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے قُرب کو محسوس نہیں کرتے۔تو رمضان اپنے ساتھ بہت سی برکات لاتا ہے اور اس میں خدا اپنے بندے کے قریب آجاتا ہے اور گو وہ برکات جو رمضان اپنے ساتھ لاتا ہے بہت سی ہیں مگر میں اِس وقت چار امور کی طرف احباب کو خصوصیت کے ساتھ توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
اوّل رمضان میں انسان کو نیکی کی مشقّت کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔دنیا میں انسان محنتیں کرتا ہے اور آوارگی بھی کرتا ہے۔جو آوارہ لوگ ہوتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی طرح کام میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔چاہے وہ گپیں ہانکتے ہوں پھر بھی یہ ایک کام تو ہے۔چاہے وہ اِدھر اُدھر پھرتے ہوںپھر بھی وہ ایک کام تو کر رہے ہوتے ہیں بالکل فارغ نہ انسانی دماغ رہتا ہے اور نہ جسم، کچھ نہ کچھ کام انسان ضرور کرتا رہتا ہے۔ مگر بعض لغو کام ہوتے ہیں،بعض مُضِر، بعض مفید کام ہوتے ہیں اور بعض بہت ہی اچھے۔تو رمضان انسان کو ایک ایسے کام کی عادت ڈالتا ہے جس کے نتیجہ میں نیک کاموں میںمشقّت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہوجاتی ہے۔
انسانی زندگی کی راحت اور آرام کی چیزیں کیا ہوتی ہیںیہی کھانا،پینا،سونا اور جنسی تعلقات۔تمدن کا اعلیٰ نمونہ جنسی تعلقات ہیںجس میں دوستوں سے ملنا اور عزیزوں سے گفتگو کرنا بھی شامل ہے مگر جنسی تعلقات میں سب سے زیادہ قریبی تعلق میاں بیوی کا ہے۔پس انسانی آرام انہی چند باتوں پر منحصر ہے کہ وہ کھاتا ہے، پیتا ہے، سوتا ہے اور جنسی تعلقات قائم رکھتا ہے۔کسی صوفی نے کہا ہے کہ تصوف کی جان کم بولنا،کم کھانا اور کم سونا ہے اور رمضان اس تصوف کی ساری جان کا نچوڑ اپنے اندر رکھتا ہے۔کم سونا آپ ہی اس میں آجاتا ہے کیونکہ ہر شخص کو تہجد کے لئے اٹھنا پڑتا ہے،کم کھانا بھی ظاہر بات ہے کیونکہ سارادن فاقہ کرنا پڑتا ہے اور جنسی تعلقات کی کمی بھی ظاہر بات ہے،پھر کم بولنا بھی رمضان میں آجاتا ہے اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا،روزہ یہ نہیں کہ تُو اپنا مُنہ کھانے پینے سے بند رکھے بلکہ روزہ یہ ہے کہ تُو لغو باتیں بھی نہ کرے۔۵؎پس روزہ دار کے لئے بے ہودہ بکواس سے بچنا،لڑائی جھگڑے سے بچنا اور اس طرح کی لغو باتوں سے بچنا ضروری ہوتا ہے اور اس طرح کم بولنا بھی رمضان میں آگیا۔گویا کم کھانا، کم بولنا، کم سونا اور کم جنسی تعلقات کرنا یہ چاروں باتیں رمضان میں آگئی ہیں اور یہ چاروں چیزیں نہایت ہی اہم ہیں اور انسانی زندگی کا ان سے گہرا تعلق ہے۔پس جب ایک روزہ داراِن چاروں آرام وآسائش کے سامانوں میں کمی کرتا ہے تو اس میں مشقّت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔ کیونکہ رمضان ہم سے قربانی کراتا ہے نیند کی، رمضان ہم سے قربانی کراتا ہے باتوں کی،رمضان ہم سے قربانی کراتا ہے کھانے کی،رمضان ہم سے قربانی کراتا ہے جنسی تعلقات کی اور ان قربانیوں کے نتیجہ میں وہ ہمیں اس بات کی عادت ڈالتا ہے کہ ہم نیکی کے کاموں میں مشقّت برداشت کریں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اپنے کسی استاد یا کسی سابق بزرگ کا یہ قول بیان فرمایا کرتے تھے کہ گیارہ مہینے انسان حرام چھوڑنے کی مشق کرتا ہے مگر بارھویںمہینے میں وہ حلال چھوڑنے کی مشق کرتا ہے۔یعنی روزوں کے علاوہ دوسرے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے لئے ہم کس طرح حرام چھوڑ سکتے ہیںمگر روزوں کے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیںکہ خدا تعالیٰ کے لئے کس طرح حلال چھوڑ سکتے ہیںاور اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ حلال چھوڑنے کی عادت پیدا کئے بغیر دنیا میں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔دنیا میں اکثر فساد اس لئے نہیں ہوتے کہ لوگ حرام چھوڑنے کے لئے تیار نہیں بلکہ اکثر فساد اس لئے ہوتے ہیں کہ لوگ حلال کو بھی ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔وہ لوگ بہت ہی کم ہیں جو ناجائز طور پر کسی کاحق دبائیں مگر وہ لوگ دنیا میں بہت زیادہ ہیں جو لڑائی اور جھگڑے کو پسند کر لیں گے مگر اپنا حق چھوڑنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔وہ کہیں گے یہ ہمارا حق ہے ہم اسے کیوں چھوڑیں۔ سینکڑوں پاگل اور نادان دنیا میں ایسے ہیں جو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے دنیا میں عظیم الشان فتنہ و فساد پیدا کردیتے ہیں اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ دنیا کا امن برباد ہو رہا ہے حالانکہ اگر وہ ذاتی قربانی کریں تو دنیا سے جھگڑا اور فساد مٹ جائے اور نہائت خوشگوار امن قائم ہو جائے۔
تو رمضان آکر ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم حرام ہی نہ چھوڑو بلکہ خدا تعالیٰ کے لئے اگر ضرورت پڑ جائے تو حلال یعنی اپناحق بھی چھوڑ دو تا دنیا میں نیکی قائم ہو اور خدا تعالیٰ کا نام بلندہو۔ اس لحاظ سے رمضان کو تحریک جدید سے ایک گہری مناسبت ہے۔میںنے صرف ایک کھاناکھانے کا اـصل تحریک جدید میںشامل کیاہے۔اب دیکھو دو کھانے حرام تو نہیںہیںلیکن میں نے تم کو کہا کہ جو چیز حلال ہے اس کو بھی تم چھوڑ دو تاکہ امیر اور غریب کا فرق دور ہو اور تا خدا ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے روپیہ کو بچاتے ہوئے اسے خدمتِ دین کیلئے خرچ کرسکیں اور تاہمیں توفیق ملے کہ ہم اپنے نفس کو عیاشی اور آرام طلبی سے بچا سکیں۔یہی رمضان کی غرض ہے۔ رمضان بھی یہی کہتاہے کہ آؤ تم اب خدا تعالیٰ کی خاطر حلال چیزیں چھوڑ دو۔ بے شک دوسرا کھانا حرام نہیں ہے مگر ہم نے اسے اس لئے چھوڑ دیاہے کہ تا اس کے ذریعہ ہم بہت بڑا دینی اور دنیوی فائدہ حاصل کرسکیں۔ سادہ غذا کے استعمال کرنے میں نہ صرف دنیوی لحاظ سے فائدہ ہے بلکہ ہماری روح کا بھی اس میں فائدہ ہے اور وہ خلیج جو غرباء اور امراء میں حائل ہے وہ اس کے ذریعہ سے بالکل پاٹی جاتی ہے۔
دوسرافائدہ رمضان کا یہ ہے کہ اس کے ذریعہ لوگوںکواستقلال کی عادت ڈالی جاتی ہے کیونکہ یہ نیکی متواتر ایک مہینہ تک چلتی ہے۔غذا انسان کے ساتھ اس طرح لگی ہوئی ہے کہ اگر ہر انسان کھانے پینے کا اندازہ لگائے تو دیکھ سکتا ہے کہ وہ دن بھر میں دس بارہ دفعہ ضرور کھاتا پیتا ہے۔دو دفعہ کھانا توہمارے ملک میں عام ہے لیکن اس کے علاوہ غرباء اور امراء دونوں اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر انہیں میسر آسکے تو تیسرے وقت کا کھانا بھی کھائیں۔یعنی صبح کا ناشتہ کر لیں کیونکہ اطباء کے تجربے نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ صبح کچھ نہ کچھ کھانا صحت کے لئے مفید ہوتاہے۔پنجابی میںشاید اسے شاہ ویلا کہتے ہیں۔ایک زمیندار بھی اگر اَورنہیں تو چھاچھ ہی پی لے گا یا باسی روٹی ہی کھا لے گا۔اور اگر کسی کو زیادہ توفیق ہوگی تو باسی روٹی اور مکھن کھائے گا۔ہماری زبان کی کئی ضرب الامثال اس وقت کے کھانے کی تائید میں ملتی ہیں اور جسے میسر آتا ہے وہ علاوہ دو وقت کھانے کے صبح کا ناشتہ ضرور کرتا ہے۔پس اس طرح تین وقت کھانا ہوگیا اور جولوگ انگریزی طریق پر زندگی بسر کرتے ہیںیا شہری زندگی کے عادی ہوچکے ہیںوہ تین وقت کی بجائے چاروقت کھانا کھاتے ہیں،یعنی شام کو بھی ناشتہ کرتے ہیں۔ زمینداروں میں سے بھی بعض چار دفعہ کھاتے ہیں یعنی عصر کے وقت دانے بھُنوا کر چَبا لیتے ہیں۔پھر ایک اَور کھانا ہے جس کا استعمال انگریزی طرز کے عادی لوگوں میں اور بعض زمینداروں میں بھی پایا جاتا ہے۔انگریزوں میں وہ سپر (SUPPER)کہلاتا ہے یعنی رات کو زیادہ جاگنے پر وہ پہلی شب کے کھانے کے بعد ایک اَو رہلکا سا کھانا کھاتے ہیں۔بعض زمینداروں میں اس کھانے کا رواج اس رنگ میں ہے کہ وہ روزانہ رات کو سوتے وقت دودھ کا ایک گلاس پی لیتے ہیںاور اسے طاقت کے قیام کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔اس طرح دن رات کے پانچ کھانے ہو جاتے ہیں۔خالص انگریزی تمدن میں تو چھ کھانے بھی استعمال کر لئے جاتے ہیں۔ چنانچہ انگریزوں میں یہ رواج ہے کہ علی الصبح چائے بسکٹ استعمال کرتے ہیں اور پھر چائے پی کر سو جاتے ہیں۔گویا چائے وہ قریباً سحری کے وقت استعمال کرتے ہیں،اس کے بعد صبح کا ناشتہ کرتے ہیں،پھر دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں،پھر شام کی چائے پیتے ہیں،پھر شام کاکھانا کھاتے ہیں اور سوتے وقت طعامِ شب کا استعمال کرتے ہیں۔اس کے علاوہ چار پانچ دفعہ انسان کو پانی بھی پینا پڑتا ہے۔اس طرح دس گیار ہ دفعہ انسان کھاتا پیتا ہے۔ زمیندا ر بھی اگر زیادہ اعلیٰ کھانا استعمال نہیں کر سکتے تو اپنی حیثیت کے مطابق مختلف کھانے ضرور استعمال کرتے ہیں۔پہلے صبح کا ناشتہ کرتے ہیں،اس کے بعد دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں،پھر عصر کے وقت بعض زمینداروں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ دانے بھُنا لیتے ہیں یا دوپہر کی بچی ہوئی روٹی ہو تو وہی کھالیتے ہیں،شام کو پھر کھانا کھاتے ہیں اور سوتے وقت دودھ پیتے ہیں۔چھاچھ یا پانی جو درمیان میں پیتے رہتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہے۔گویا غرباء اور امرائ، شہری اور دیہاتی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق عام ایام میں دس بارہ دفعہ کھاتے پیتے ہیں مگر رمضان میں تمام کھانے سمٹ سمٹا کر صرف دو بن جاتے ہیں۔اسی طرح پانی میں بہت کچھ کمی آجاتی ہے۔یعنی اس کے پینے کے اوقات بہت کم ہو جاتے ہیں۔گو بعض لوگ روزہ کی افطاری کے وقت اکٹھا ہی اتنا پانی پی لیتے ہیں جتنا وہ دن بھر میں پیاکرتے ہیں لیکن پھر بھی پانی پینے کا عرصہ بہت کم ہو جاتا ہے۔ یہ کھانے پینے کی جو تنگی ہے باقی زندگی کے دنوں سے بالکل نرالی ہوتی ہے۔پہلے بھی بے شک کھانے پینے میں وقفے ہوتے ہیں مگر وہ اتنے لمبے نہیں ہوتے جتنے رمضان میں ہوتے ہیں۔کھانے پینے کا وقفہ عام طور پردو تین گھنٹے کا ہوتا ہے مگر رمضان میں اول تو تمام کھانے سمٹ سمٹا کر دو کھانوں پر آجاتے ہیں اور پھر وقفہ بھی کافی لمبا ہوجا تا ہے۔پس رمضان کے ایام میں اپنی عادت کی بہت کچھ قربانی کرنی پڑتی ہے اور یہ قربانی ایک دن نہیں دو نہیں،تین نہیں،ایک مہینہ تک بغیر کسی ناغہ کے کرنی پڑتی ہے۔بے شک شام کو انسان روزہ کھول لیتا ہے مگر دراصل شام کو روزہ کھولنا دوسرے دن کے روزہ کی تیاری ہوتا ہے کیونکہ اِدھر انسان روزہ کھولتا اور کھانا کھاتا ہے اور اُدھر نمازیں پڑھ کر اس نیت سے سو جاتا ہے کہ میں نے پچھلی رات تہجد کے لئے اٹھنا اور پھر روزہ رکھنا ہے اور یہ طبعی بات ہے کہ کوئی احساس نیند کے وقت میں نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں سویا ہؤا اور مُردہ برابر ہیں۔پس جو اس کے سونے کا وقت ہے وہ احساس کا نہیں اور جو اس کے احساس کا وقت ہے اُسے وہ کُلّی طور پر روزہ کے لئے وقف کر دیتا ہے۔کچھ روزہ رکھتے ہوئے اور کچھ روزہ کی نیت کرتے ہوئے۔ اور اگر اسے کوئی سفر پیش نہ آجائے یا اتفاقیہ طور پر بیمار نہ ہو جائے تو اس کی یہ قربانی مسلسل ۲۹یا۳۰ دن چلتی ہے اور اس طرح اس کے اندر استقلال کا مادہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اگر روزے رکھنا انسان کی مرضی پر چھوڑ دیا جاتا تو آدمی دودن روزے رکھتا اور پھر سانس لینے کی کوشش کرتا مگر اللہ تعالیٰ نے سانس لینے کی اجازت نہیں دی بلکہ ایک مہینہ مسلسل مقرر فرمادیا اور کہہ دیا کہ سانس نہیں لینا لگاتار روزے رکھتے چلے جانا ہے۔
پس روزوں سے دوسرا عظیم الشان سبق استقلال کا ملتاہے اوریہ بھی تحریک جدید سے ایک گہرا تعلق رکھتاہے۔ تحریک جدید میں مَیں نے جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ ہماری قربانیاںعارضی نہیں بلکہ مستقل ہیں ۔بے شک قربانیوں کی شکلیںبدل سکتی ہیںمگر یہ نہیں ہو سکتاکہ کسی وقت یہ کہا جائے کہ اب قربانیوںکی ضرورت نہیں رہی کیونکہ بغیرمستقل قربانیوںکے کوئی شخص خدا تعالیٰ کونہیں پا سکتا۔جس شخص کے دل میںبھی یہ خیال آیا کہ میںسانس لے لوں وہ سمجھ لے کہ اس کاایمان ضائع ہوگیا۔تم میں سے کئی ہیں جنہوں نے بڑی دیانت داری سے قربانیاں کیں، تم میں سے کئی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حضور چِلّائے اورانہوں نے آہ و زاری کی،تم میں سے کئی ہیں جنہوںنے روزے رکھے ، تہجد پڑھی نوافل ادا کئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور روئے اور گڑگڑائے،تم میںسے کئی ہیں جنہوں نے چندے د ئیے اور اپنے بیوی بچوں کے پیٹ کاٹ کردیئے،تم میںسے کئی ہیںجنہوں نے خود بھوکے اور ننگے رہ کر زکوٰتیں دیں اور دوسرے فرائض ادا کئے مگر انہوں نے دیکھا کہ ان قربانیوںکے وہ نتائج انہیںحاصل نہیں ہوئے جو ایسی قربانیوںکے نتیجہ میں ملا کرتے ہیں اورجن کی وہ امید لگائے بیٹھے تھے۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے قربانی تو کی مگراستقلال سے قربانی نہیں کی۔ان کاجوش ایسا ہی تھاجیسے عوام الناس جب کوئی پرُجوش تقریر سنتے ہیں تو لڑنے مرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی جب دیکھا جائے توان کے دل بالکل ٹھنڈے ہوچکے ہوتے ہیں اوران میں کوئی گرمی نہیں ہوتی۔اگران قربانیوں کا محرک حقیقی اخلاص اور حقیقی جوش ہوتاتو چاہئے تھا کہ وہ اپنی قربانیوں میں بڑھتے چلے جاتے اور کسی واعظ اور کسی یاد دلانے والے کی ضرورت محسوس نہ کرتے کیونکہ حقیقی محبت جوش دلانے سے تعلق نہیں رکھتی اورنہ وہ عارضی ہوتی ہے بلکہ حقیقی محبت استقلال سے تعلق رکھتی ہے۔تم اپنے بچہ سے محبت کرتے ہو مگرکیاتم بچوں سے محبت کرنے کے لئے کسی کے یاد دلانے کی ضرورت محسوس کیا کرتے ہو؟کیا تم نے کبھی محسوس کیا کہ سال دو سال گزرنے کے بعداپنے بچہ کی محبت تمہارے دل میں کم ہونی شروع ہوگئی ہو اورتمہیںاس بات کی ضرورت محسوس ہوئی ہو کہ کوئی واعظ آئے اورتمہیں جگائے اور کہے کہ اپنے بچہ سے محبت کرو؟آخر دنیامیں اسّی نوے فیصدی لوگ شادیاں کرتے ہیں اور ان کی اولادیں بھی ہوتی ہیں۔بعض مریضِ اخلاقی یا مریضِ جسمانی شادی بھی نہیں کرتے مگروہ بہت کم ہیں۔مریضِ اخلاقی سے میری مراد وہ بدکار لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں شادی کی کیا ضرورت ہے ہم بغیر شادی کے اپنا گزارہ کر لیتے ہیں اور مریضِ جسمانی وہ لوگ ہیں جن کی جسمانی طاقت شادی کی متحمل نہیں ہوتی ان کو اگر مستثنیٰ بھی کر دیا جائے تو اسّی نوّے فیصدی لوگ شادیاں کرتے ہیں اور ان کے بچے بھی ہوتے ہیں کیا اتنی بڑی اکثریت کو کبھی تم نے دیکھاکہ ان میں بچوں کی محبت کبھی کم ہو گئی ہواور وہ اس بات کے محتاج ہو ئے ہوںکہ انہیں یاددہانی کرائی جائے اور کہا جائے کہ اپنے بچوں سے محبت کرو تمہاری ان سے محبت کم ہوگئی ہے۔اگر ایک بھی مثال ہمیں ملتی تو ہمارے نفس بہانہ کر سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے اور اس کے دین کے لئے قربانیاں کرنے کے لئے بھی ہمیں یاد دہانی کی ضرورت ہے مگر ہمیں تو ایک مثال بھی ایسی نظر نہیں آتی۔کیا تم نے کبھی کوئی ماںدیکھی جس کو اپنے بچہ سے محبت نہ ہو اور اسے کسی مولوی یا پنڈت یا پادری کے واعظ کی ضرورت ہو؟کبھی تم نے دیکھاکہ ماؤں کے سامنے مولوی یہ لیکچر دے رہے ہوں کہ اے مسلمان ماؤ! اپنے بچوں سے محبت کرو یا پنڈت ہندو عورتوں کے سامنے یہ تقریریں کر رہے ہوں کہ ماؤں کو اپنے بچوں سے محبت کرنی چاہئے؟یا پادری عیسائی عورتوں کو تلقین کر رہے ہوںکہ اے ماؤ! اپنے بچوں سے محبت کرو؟یا کبھی تم نے دیکھا کہ قومی تحریک کے نام سے یہ تحریک اُٹھی ہوکہ ماؤں کے دلوں میں بچوں کی محبت پیدا کی جائے ؟یا کبھی تم نے دیکھاکہ گورنمنٹ نے ایسی کتابیں تصنیف کی ہوں جن میں یہ لکھا ہوکہ ماؤں کو بچوں سے محبت کرنی چاہئے؟ تم نے دنیا میں ایسا کبھی نہیں دیکھا اس لئے کہ ایسے وعظ کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔بچہ پیداہوتا ہے تو ماں اسے اپنے گلے سے چمٹا لیتی ہے اور پھر اسے چمٹائے چلی جاتی ہے۔وہ بعض دفعہ ناراض بھی ہوتی ہے اور ناراض ہونا انسانی فطرت کا تقاضا ہے مگر اس کی ناراضگی بھی اس کی محبت کو نہیں چھڑا سکتی۔ سوائے اس کے کہ کوئی دوسرا زبردست جذبۂ محبت اس محبت کے مقابلہ میں آجائے۔جیسے کوئی دیندار باپ اپنے اس بیٹے سے جو خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہوقطع تعلق کر لیتا ہے اور وہ خدا کی محبت کے لئے اپنے دل کے ٹکڑے کو کاٹ کر پرے پھینک دیتا ہے مگر باوجود اس کے یہ غیرت کا جذبہ اُس کی محبت کو مٹاتا نہیں، وہ اس جذبہ کو چھپا دیتا ہے، انسانی نگاہوں سے اوجھل کر دیتا ہے مگر اسے جڑ سے اُکھیڑ نہیں سکتا۔یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک دیندار باپ اپنے بے دین بچہ سے محبت کا اظہار خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے چھوڑ دے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ محبت کا جذبہ کُلیتہً مفقود ہو جائے۔باوجود اس کے کہ وہ ظاہر ی طور پر اس سے محبت نہیں کرتا، اس کا دل کڑھتا رہتا ہے اوراللہ تعالیٰ کے سامنے یہ دعا کرتارہتا ہے کہ اے خدا! تُو میرے بچہ کو بچا۔وہ بعض دفعہ اسے دیکھنا بند کردیتا ہے،اس سے ملنا جلنا بند کر دیتا ہے، اس کے ساتھ کھانا پینا بند کر دیتا ہے، اسے خرچ دینا بند کردیتا ہے،اس کے گھر میں رہنا بند کردیتا ہے،یا اسے اپنے گھر میں رہنے دینے سے انکار کردیتاہے،مگر اس کے دل کا زخم ایک ناسور کی طرح رِستا رہتا ہے اور اس کی موت تک یہی حالت رہتی ہے۔اوروہ خدا تعالیٰ سے رو رو کر کہتا رہتا ہے کہ اے خدا! میں نے تیرے لئے اپنے بچہ کو چھوڑ دیا ہے تو اپنے فضل سے اسے پھر مجھے واپس دلا دے۔تو حقیقی نفرت ایک باپ کو اپنے بچہ سے یا ایک ماں کو اپنے بیٹے سے کبھی نہیں ہوسکتی۔ جب ماں باپ غصے بھی ہوں گے تب بھی اُس کی تہہ میں محبت کا جلوہ کارفرما ہوگااور زیادہ سے زیادہ اگر ہوگا تو یہی ہوگا کہ ایک بڑی محبت چھوٹی محبت کو دبا دے گی مگر وہ اسے مار نہیں سکتی،اسے کُچل نہیں سکتی ،اسے مٹا نہیں سکتی۔تو جہاں حقیقی تعلق ہوتا ہے وہاں وقفہ نہیں پڑتابلکہ دائمی محبت اور دائمی قربانی کی روح کام کرتی نظر آتی ہے مگر جہاں محبت کی کمی ہوتی ہے وہاں قربانیوں میں وقفے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔
پس اگر تمہاری قربانیوں نے کوئی نیک نتائج پید انہیںکئے توسمجھ لو کہ تمہارا خداتعالیٰ سے عارضی تعلق تھا اورجب تم نے کسی عارضی تحریک کے ماتحت قربانی کی توا س کا وہ نتیجہ کس طرح پیدا ہوسکتا تھاجو دائمی قربانی کے نتیجہ میںپیدا ہؤا کرتاہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سامنے ذکر کیاگیاکہ فلاںشخص بڑا عبادت گزار ہے کیونکہ اس نے چھت میںایک رسّہ لٹکارکھاہے جب نما ز پڑھتے پڑھتے اسے نیند آنے لگتی ہے تو رسّہ پکڑ کر کھڑا ہو جاتاہے۔توآپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا یہ کوئی عبادت نہیں۔عبادت وہی ہے جس میںانسان کودوام اور استقلال نصیب ہو۔۶؎پسبے شک تم میںسے بعض نے بڑی بڑی قربانیاںکیں مگر جب تم نے ان قربانیوںکے بڑے بڑے نتائج نہیں دیکھے تو سمجھ لو کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ تم میںاستقلال نہیںتھا جس کے معنی یہی ہیںکہ تم میں حقیقی محبت نہ تھی۔ورنہ اگر تمہارے اندر حقیقی محبت ہوتی تو یقیناََتمہاری نمازیںاور تمہارے روزے اورتمہاری زکوٰتیں اورتمہار ے حج اور تمہارے چندے بہت زیادہ شاندار اور اعلیٰ نتائج پیدا کرتے اورتم اپنی موت سے پہلے اپنے خدا تعالیٰ کو دیکھ لیتے اورتمہاری موت شبہ کی موت نہ ہو تی بلکہ مرتے وقت انتہائی راحت اورآرام کی گھڑی تمہیںنصیب ہو تی ۔ موت کیا ہے؟ ایک نہایت ہی خطرناک راہ۔ جس طرح ایک اندھیرے کنویںمیں چھلانگ لگانے والا یہ نہیں جانتا کہ اس کنویں کی تہہ میں سانپ یا بچھو ہیں یا آراستہ و پیراستہ محلات۔ اسی طرح مرنے والا نہیں جانتا کہ موت کے بعد اس کے لئے آرام دہ زندگی اس کا انتظار کر رہی ہے یا تکلیف اور مصیبت کی گھڑیاں اسے اپنی طرف بُلا رہی ہیں۔ وہ چھلانگ لگاتا ہے مگر ایک گھنٹہ کے لئے نہیں ایک دن کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے۔ وہ جانتا ہے کہ اس موت کے بعد اس کے لئے کوئی لَوٹنا نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ پھر کبھی وہ اِس جہان میں واپس نہیں آسکتا۔ پس اگر اس موت کے بعد عذاب ہے تو ہمیشہ کے لئے عذاب ہے اور اگر اس موت کے بعد راحت ہے تو ہمیشہ کے لئے راحت ہے۔ اس بات کو جانتے ہوئے وہ چھلانگ لگاتا ہے اور وہ بھی خود نہیں بلکہ اُسے مجبور کیا جاتا ہے کہ اس میں کُودے۔ پس جب وہ انسانی نظروں سے ہمیشہ کے لئے پوشیدہ ہو رہا ہوتا ہے، جب وہ اس جہان کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ رہا ہوتا ہے اگر اُس وقت جیسا کہ قرآن کریم میں ذکر آتا ہے فرشتے آئیں اور اسے کہیں کہ گھبراؤ نہیں اﷲ تعالیٰ تمہارا انتظار کر رہا ہے تو دیکھو اس کی موت کی گھڑی خوشی سے کس قدر لبریز ہو جائے گی۔ یقینا اُس وقت کی خوشی کے مقابلہ میں اگر سارے جہان کی خوشیاں بھی مِلا کر رکھ دی جائیں تو وہ بالکل بے حقیقت ہوں گی کیونکہ دُنیا میں ہر خوشی کے ساتھ یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ یہ خوشی جلد ہی زائل ہو جائے گی مگر وہ خوشی ایسی ہے جس کے متعلق اسے یہ یقین ہو گا کہ وہ کبھی زائل نہیں ہو سکتی۔ پس موت کے وقت کی ایک منٹ کی خوشی بھی ساری زندگی کی خوشیوں سے ہزاروں گُنے زیادہ خوشی کا موجب ہے اور اگر یہ خوشی کسی کو نصیب ہوجائے تو وہ نہایت اطمینان سے اپنی جان اپنے خدا کے سُپرد کرے گا کیونکہ وہ سمجھے گا کہ میراخدا مجھ سے راضی ہے۔ مگر اس کے مقابلہ میں کس قدر تکلیف اور دُکھ کی وہ موت ہے جس میں ایک طرف انسان اپنے بیوی بچوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ انہیں وہ اکیلا چھوڑے جارہا ہے اور ان کا کوئی نگران و پُرسانِ حال نہیں اور دوسری طرف اسے خود یہ پتہ نہیں ہوتا کہ نہ معلوم میرے لئے دائمی آرام اور راحت کا سامان تیار ہے یا دائمی دُکھ اورعذاب کا سامان تیار ہے۔ اس کی وہ گھڑیاں کتنے شک اور شُبہ کی گھڑیاں ہوں گی اور وہ کس قدر دُکھ اورتکلیف محسوس کر رہا ہو گا۔ جو شخص اس دُبْدہا اور شک کو دُور کرلے اُس سے زیادہ کامیاب اور اس سے زیادہ خوش نصیب اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ تو تحریک جدید بھی استقلال سکھانے کیلئے ہے اور رمضان بھی لوگوں کے اندر استقلال کا مادہ پیدا کرتاہے۔
پس تم رمضان سے سبق حاصل کرتے ہوئے استقلال والی نیکی اختیار کرو اوراپنی وہ حالت نہ بناؤ کہ کبھی کھڑے ہو گئے اور کبھی گر گئے۔کم سے کم چند نیکیاں تو اپنے اندر ایسی پیدا کرو جن میں تم مستقل ہو اور جن کو تم کسی صورت چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو۔بے شک انسان کیلئے ہر وقت نیکی کے قدم مختلف ہوتے ہیں اورہر لحظہ اسے نیکی کرنی چاہئے مگر کم سے کم کچھ نیکیاں ایسی ضرور ہونی چاہئیں جن کے متعلق انسان یہ کہہ سکے کہ میں نے جب سے انہیںکر نا شروع کیاہے کبھی انہیںنہیںچھوڑا۔ایک مؤمن کو کم سے کم یہ ضرور کہنا چاہئے کہ میں نے جب سے نمازپڑھنی شروع کی ہے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی، میں نے جب سے روزے رکھنے شروع کئے ہیں کبھی کوئی روزہ نہیں چھوڑا جو شرعی طور پر میرے لئے رکھنا ضروری تھا اور کبھی مالی قربانی سے احتراز نہیں کیا جس کا پیش کرنا میرے لئے ضروری تھا۔ اسی طرح عورتیں بھی اپنے اندر استقلال والی نیکی پیدا کر کے کہہ سکتی ہیں کہ ہم نے ان دنوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جن میں شریعت نے ہمیں رخصت دی ہوئی ہے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی یا کبھی کوئی مالی قربانی کا موقع ایسا نہیں نکلا جس میں ہم نے حصہ نہ لیا ہو۔ اگر کم سے کم یہ تین نیکیاں ہی انسان میںپیدا ہو جائیں مثلاََ عبادت کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے قُرب میںبڑھنا،مالی خدمات کے ذریعہ مخلوقِ خدا کو نفع پہنچانا اور روزہ کے ذریعہ اپنے جذبات اور احساسات کی قربانی کرنا تو وہ کہہ سکتاہے کہ تین ایسی عظیم الشان نیکیاںمستقل طورپر میرے اندرپائی جاتی ہیںجن کے ہوتے ہوئے کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ میرے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت نہیں۔میںنے اپنی مرضی اور اختیار سے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی،میںنے اپنی مرضی اور اختیار سے کبھی کوئی روزہ نہیں چھوڑااورکبھی کوئی چندہ کاایسا موقع نہیں نکلا جس میں مَیںنے حصہ نہیں لیا۔اگر ان تینوںنیکیوں پر کسی شخص کا قدم مضبوطی سے قائم ہو اور باقی نیکیوں میں اس کا قدم کبھی ڈگمگا بھی جائے توکم سے کم وہ یہ ضرور یقین رکھے گا کہ میرا ان تین نیکیوں کے عوض جنت میںمکان ضروری ہے اور کوئی نہ کوئی ٹھکانہ میرا وہاں موجود ہے کیونکہ ہر مستقل نیکی جنت کا ایک مکان ہے۔بے شک وہ شخص بہت زیادہ خوش قسمت ہے جس کے جنت میںکئی محل ہوں مگر جس کاایک محل ہووہ بھی تو خوش قسمت ہے۔ دنیا میںہزارہا نیکیاںہیں جن کااستقلال سے بجا لانا جنت میںمختلف محلات تیار کردیتاہے مگرا دنیٰ نیکی یہ ہے کہ روزہ کے ذریعہ اپنے جذبات کا ہدیہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے، نماز کے ذریعہ اس کے قُرب کو تلاش کیاجائے اورمالی قربانیوں کے ذریعہ بنی نوع انسان کے حقوق اداکئے جائیں۔اگر کوئی شخص استقلال کے ساتھ بغیر ناغہ، بغیر وقفہ، بغیر تنزّل اور بغیر قدم ڈگمگانے کے یہ نیکیاں کرتا ہے اور کرتاچلاجاتاہے تو ہم اس کے متعلق یقین کرسکتے ہیںکہ اس کے نفس کواطمینان حاصل ہو گیا اوراس کی موت کی گھڑیاں دُبدَہا اورشک کی گھڑیاں نہیں ہونگی۔یہ تین زبردست شاہدہیں جوایک انسان کے ایمان کی شہادت دینے کیلئے کافی ہیں۔دُنیوی عدالتوںمیںبعض جگہ دو اور بعض جگہ چارگواہ کافی سمجھے جاتے ہیں،الہٰی عدالت میں بھی ان تین گواہوںکی گواہی ردّ نہیں کی جاسکتی بلکہ اگر ان کے ساتھ کوئی چوتھی نیکی بھی ملالی جائے تو یقیناََ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا وہ بہترین ثبوت پیش کرے گاجو کسی قضاء میں خطا نہیںجاتااور کہیں ناکام نہیںہوتا۔
تیسراسبق ہمیں رمضان سے یہ حاصل ہو تاہے کہ کوئی بڑی کامیابی بغیر مشقت برداشت کئے حاصل نہیںہو سکتی۔جس کااظہار ۷؎ میں کیاگیا ہے۔ گویا رمضان جہاں ہمیں یہ بتاتاہے کہ کوئی قربانی استقلال کے بغیر قبول نہیںہوتی تو وہاںہمیںوہ یہ بھی بتاتاہے کہ بغیر مشقت برداشت کئے کوئی کامیابی حاصل نہیںہو سکتی اوروہ شخص جو چاہتاہے کہ بغیر مشقت برداشت کئے دین و دنیامیںکامیابی حاصل کرلے وہ پاگل اور احمق ہے اور اسے کسی جگہ بھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔
آج ہمارے سامنے دنیا کی تین قومیںموجود ہیں جن میں سے دوہمارے سامنے گریں اور پھر ہمارے سامنے ہی بلند ہوئیں اورایک جو پہلے کمزور تھی مگر ہماری زندگیوں میں بیدار ہوئی اور اس نے ترقی کی۔ ہم میںسے وہ لوگ جو تیس چالیس سال کی عمر کے ہیں وہ اس بات کے گوا ہ ہیں کہ وہ قومیں ان کی آنکھوں کے سامنے گریں اور پھر ان کی آنکھوں کے سامنے ہی اٹھیں۔وہ اٹلی اور جرمنی ہیںاورجوپہلے کمزورتھی اوردیکھتے دیکھتے بڑھ گئی وہ جاپان ہے۔جرمنی قوم ہماری آنکھوںکے سامنے ۱۹۱۸ء میں گری۱۹۲۸ء میں اس نے اٹھنا شروع کیااور۱۹۳۵ء یا۱۹۳۸ء میں وہ منتھائے طاقت کو جاپہنچی لیکن کن قربانیوں کے ساتھ؟ ایسی قربانیوں کے ساتھ جو ایک یا دو نے نہیںبلکہ سارے ملک نے کیں۔ہماری جماعت بھی قربانیاں کرتی ہے لیکن اُن قربانیوں کو اگر دیکھا جائے جوجرمن قوم نے کیں توایک نقطہ نگاہ سے ہماری قربانیاں ان کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہوجاتی ہیں۔گو ایک دوسرے نقطہ نگاہ سے ہماری قربانیاں ان سے بڑھی ہو ئی ہیں۔ اخلاقی لحاظ سے ہماری قربانیاںبڑی ہیںاورعملی لحاظ سے اُن کی قربانیاںبڑی ہیں۔انہوں نے اپنے کھانے، پینے، پہننے اور قریباََ زندگی کے ہر عمل پر ایسی حدبندیاںلگائی ہوئی ہیںجن کو سن کرحیرت ہوتی ہے اورکوئی شخص ان حد بندیوں کو نہیں توڑسکتا۔گورنمنٹ ایک قانون بنا دیتی ہے اورتمام لوگوں کو کیا مرداور کیاعورتیں اورکیابچے اس قانون کی اتباع کرنی پڑتی ہے اوررات دن وہ قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں اس لحاظ سے یقیناََان کی قربانیاں بہت زیادہ ہیں۔ لیکن ایک لحاظ سے ہماری قربانیاں اُن سے بڑھی ہوئی ہیں اور وہ اس طرح کہ ان کو طاقت کے زور سے چلایا جاتاہے اور ہم میں سے ہرشخص اخلاص اور اپنی مرضی سے قربانی میں حصہ لیتاہے اوراصل قربانی دراصل وہی ہوتی ہے جو اپنی رضا اور اپنی مرضی سے کی جائے۔پس اخلاقی اورمذہبی لحاظ سے ہماری قربانی اُن سے بہت زیادہ ہے کیونکہ مرضی سے قربانی کرناہی اصل قربانی ہے وہ قربانی جو جبر اور زورسے کرائی جائے وہ قربانی نہیںکہلا سکتی۔ پس جرمن قوم کی قربانی جرمن قوم کی نہیں کہلا سکتی وہ دراصل اُن افراد کی قربانی ہے جو تمام ملک کو بعض خاص اصول کے ماتحت چلا رہے ہیں۔ پس وہ جرمن قوم کی قربانی نہیں بلکہ ہٹلر اور اس کے ساتھیوں کی ہے جو اپنی قوم سے زور اور جبر سے قربانی کرا رہے ہیں اور خود قربانیاں کر رہے ہیں۔ پہلے وہ کسی نہ کسی بہانہ سے آگے آگئے اور جب انہیں حکومت پر تصرف حاصل ہو گیا تو انہوں نے جبر سے ایسی طرز پر قوم کو چلانا شروع کیا جس کے نتیجہ میں ان کی قوم کو بہت بڑی ترقی حاصل ہو گئی۔ پس اس میں جرمن قوم کی اتنی قربانی نہیں جتنی ہٹلر اور اس کے ساتھیوں کی ہے مگر عملی لحاظ سے جو تکلیفیں انہوں نے اٹھائی ہیں وہ ہماری جماعت نے بالکل نہیں اٹھائیں۔ انہیں کھانے اور پینے کے متعلق بھی اس قدر پابندیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں جس قدر کہ ہم لوگوں کو سارے شعبہ ہائے زندگی میں برداشت نہیں کرنی پڑتیں۔ کبھی شکر پر پابندی لگتی ہے، کبھی گھی پر ، کبھی ترکاریوں پر، کبھی گوشت پر، کبھی آٹے پر اور انہیں وہ پابندیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض ایام میں ان پر یہ پابندی بھی عائد کی گئی کہ خالص آٹا نہ کھائیں بلکہ اس کے اندر ایک خاص مقدار میں لکڑی کا برادہ ملا کر کھائیں۔ انہوں نے یہ سب کچھ برداشت کیا اور بہتوں نے خوشی سے برداشت کیا۔ اسی طرح لباس پر پابندیاں عائد ہیں۔ حکم دیا جاتا ہے کہ فلاں کپڑا پہننا ہے اور فلاں نہیں پہننا کیونکہ فلاں ملک سے جہاں ممنوع کپڑا بنتا ہے ہمارے تعلقات اچھے نہیں اور معاً تمام ملک کے کپڑے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جب مکان تعمیر ہوتے ہیں تو سامانوں پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے کہ فلاں سامان استعمال کیا جائے اور فلاں سامان استعمال نہ کیا جائے۔ غرض رات دن ان کے کھانے پینے ،پہننے اور سونے پر پابندیاں عائد رہتی ہیں۔ حتّٰی کہ جرمن حکومت نے کتابوں پر بھی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں کہ فلاں کتابیں پڑھنی ہیں اور فلاں نہیں پڑھنیں اور تمام قوم چُپ چَاپ ان پابندیوں کو قبول کرتی چلی جاتی ہے۔ پس عملی لحاظ سے ان کی تکلیف بہت زیادہ ہے مگر ان کی مشکلات ایسی ہی ہیں جیسے ایک قیدی کو مشکلات میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اب ایک قیدی بھی سادہ غذا کھاتا ہے مگر تم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ فلاں قیدی نے بڑا ایثار کیا وہ سادہ غذا کھاتا ہے کیونکہ قیدی کو مجبور کر کے سادہ کھانا کھلایا جاتا ہے۔ اسی طرح جرمن قوم کی تعریف نہیںکی جائے گی کیونکہ جبر سے اس سے قربانیاں کروائی جاتی ہیں لیکن تمہاری تعریف کی جائے گی کیونکہ تم نے خداتعالیٰ کیلئے اپنے نفس پر پابندیاں عائدکیں۔پس گو ان کی تکلیف زیادہ ہے مگران کاثواب کم ہے کیونکہ طاقت اورقانون کے زور سے ان سے یہ قربانیاں کرائی جارہی ہیںاورگو تمہاری قربانیاں اورتکلیف کم ہے مگر تمہارا ثواب زیادہ ہے کیونکہ تم اپنی مرضی سے خدا تعالیٰ کیلئے قربانیاںکر رہے ہو لیکن بہرحال اس کا فائدہ انہیں پہنچ گیا اور گوطاقت اور قانونِ حکومت کے ڈر سے انہوں نے قربانیاں کیں لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس سال کے اندر ایک مُردہ قوم ترقی کر کے معراجِ کمال تک پہنچ گئی۔
یہی حال اٹلی کا ہے۔اٹلی کی قوم بھی مُردہ تھی،مگر اس نے بھی مشقتوں کااپنے آپ کوعادی بناکر اورمتواتر قربانیاں کرکے نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی عزت حاصل کی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ دبدبہ اور رُعب حاصل کر لیا۔اسی طرح جاپان بھی مُردہ تھا مگر جب ان میںقربانی کی روح پیداہوگئی تو وہ بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو گیا۔
تورمضان میںقربانی اور استقلال کے ساتھ قربانی کا سبق مؤمنوںکو سکھایاجاتا ہے اور انہیں مشقّت برداشت کرنے کاعادی بنایاجاتا ہے۔اگراس سے فائدہ اٹھایاجائے اورتحریک جدید کے مطالبات کو عملی جامہ پہنایاجائے تو یقیناََوہ اہم ثمرات پیدا ہونگے جو الٰہی قوموں کی جدوجہدکے نتیجہ میں پیداہؤا کرتے ہیں۔ہمارے ثمرات یقیناََ دیر کے بعد آنے والے ہیں اورہماری مثال اٹلی، جرمن اور جاپان کی نہیں۔وجہ یہ کہ اٹلی،جرمن اور جاپان نے ملکوںکوفتح کیا مگر ہم نے دلوں کوفتح کرنا ہے اوردلوں کو فتح کرناملکوںکے فتح کرنے سے زیادہ مشکل ہو ٔا کر تاہے۔پس ہماری فتح گو یقینی ہے مگر وہ کچھ دیر کے بعد دیر آید درست آید کے مقولہ کے مطابق آنے والی ہے۔
اس کے علاوہ ہم میںاور ان میںایک اور فرق بھی ہے اوروہ یہ کہ اگرجرمنی نے ترقی کی تو صرف جرمنی کی قوم کوا س نے عروج پر پہنچایا، اگر اٹلی نے ترقی کی تو صرف اٹلی کی قوم کواس نے عزت کامستحق بنایااوراگرجاپان نے ترقی کی تو صرف جاپانیوں کواس نے معراجِ کمال تک پہنچایا لیکن اگر ہماری کوششوں کواللہ تعالیٰ بار آور فرمائے تو وہ صرف ہمیںہی نہیں بلکہ ساری دنیاکوفائدہ پہنچائیںگی اورہماری فتح جسموں پر نہیںبلکہ دلوں پرہوگی اورہماری فتح انسانوں پر نہیں بلکہ فرشتوں پر ہوگی بلکہ اگر بے ادبی نہ ہوتو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیںکہ ہمارا خدا بھی ہمارے قبضہ میںآجائے گا۔پس ہماری کوششوںکے نتائج بہت اہم ہیں اورہماری ذمہ داریاں بہت وسیع ہیں اورہماری منزل بہت دور ہے۔کئی بیوقوف نوجوان ہیںجو کہہ دیاکرتے ہیں کہ جاپان نے تیس سال میںترقی کرلی،اٹلی نے بیس سال میں ترقی کرلی اورجرمنی نے دس سال میں ترقی کر لی مگر ہم نے ان کے مقابلے میں کچھ بھی ترقی حاصل نہیں کی۔وہ بیوقوف یہ نہیںجانتے کہ وہاں قوم کی قوم ایک مقصدکیلئے کھڑی تھی اوریہاں صرف ایک آدمی سے جدوجہدشروع ہوئی۔ جاپان نے جب دوڑشروع کی تواس نے چار کروڑلوگوں کواپنے ساتھ لیکردوڑلگائی اور تیس سال کی جدوجہد کے بعد اس نے چار کروڑ کو چھ کروڑبنایا۔اٹلی نے جب دوڑشروع کی تو اس نے بھی چارپانچ کروڑلوگوں کوساتھ لے کر دوڑشروع کی اوربیس سال کے عرصہ کے بعد انہیںچارسے پانچ کر وڑیا پانچ سے چھ کروڑ بنادیا۔اسی طرح جرمنی نے جب دوڑشروع کی تواس نے سات کروڑ لوگوںکے ساتھ شروع کی اوردس سال بعد انہیںآٹھ کروڑ بنادیا۔گویاوہ اس جدوجہد میں صرف چودہ فیصدی سے لے کر پچاس فیصدی تک بڑھے حالانکہ کروڑوںلوگ ایک ہی مقصد اورایک ہی مدعا کولے کر کھڑے ہوئے تھے۔
اس کے مقابلہ میںکیاتم نہیں دیکھتے کہ ہماری دوڑ صرف ایک شخص سے شروع ہوئی۔ ایک شخص نے قادیان میں کھڑے ہوکر جو تمام متمدن دنیاسے الگ ایک گوشہ میںپڑا ہؤا گاؤںتھا ساری دنیا کے مقابلہ میں لڑائی شروع کردی اورپھر وہ بڑھا اور بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ پہلے وہ ایک تھا مگر آج کئی لاکھ آدمی اس کے ساتھ ہیں۔پس اٹلی اور جرمنی اور جاپان نے پچاس فیصدی ترقی کی لیکن یہاں ایک سے کئی لاکھ بن گئے۔ اب پچاس فیصدی اور لاکھ فیصدی میں بھلا کوئی نسبت ہے؟پھر جس جس میدان میں قربانی کی ضرورت تھی ان تمام میدانوں میں جماعت احمدیہ نے قربانی کی۔ پس ہماری جماعت نے بھی حیرت انگیز ترقی کی ہے لیکن چونکہ ہماری جدوجہد کا دائرہ بہت وسیع ہے اس لئے گو ہماری موجودہ کامیابی بھی بہت بڑی ہے مگر ہمارا اصل مقصد ابھی دور ہے اور گو وہ دیر میں آنے والا ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کے مقابلہ میں تمام دنیا کی فتوحات بھی ہیچ ہیں کیونکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس کا حلقہ اثر عالمگیر ہے۔
چوتھا سبق رمضان سے ہمیں یہ حاصل ہو تا ہے کہ کوئی بڑی کامیابی بغیر دعا کے حاصل نہیں ہو سکتی بِالخصوص دین میں تو کوئی کامیابی اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک دعا نہ کی جائے دُنیا بغیر دعا کے حاصل ہو جائے تو ہو جائے دین حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دُنیوی کامیابیوں کے لئے بھی عملی دعا ضروری ہو تی ہے جسے دوسرے لفظوں میں قوتِ ارادی کہتے ہیں۔قو تِ ارادی اور عزم دراصل دعا ہی کا ایک نام ہے۔دعا کیا ہے؟ اپنے عزم اور ارادہ کالفظوں میں اظہار۔بہر حال کوئی دینی جماعت بغیر دعا کے ترقی نہیں کرسکتی یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں روزوں کے احکام کے ذکر میںبھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ۸؎جب مؤ من روزے رکھیں، قربانیاں کریں اور استقلال سے قربانیاں کرتے چلے جائیںاور اس کے بعد دعاؤں سے کام لیںتو وہ دعا خالی نہیں جاتی بلکہ ضروران کو ان کے مقاصد میں کامیاب کرتی ہے مگر فرمایا جب استقلال اور قربانیوں کے بعد دعا کریں گے تب ان کی دعا سُنی جائے گی یونہی نہیں۔گویا اللہ تعالیٰ نے استقلال، قربانیوں اور دعا کو لازم وملزوم قرار دیا ہے بغیر دعا کے استقلال کے ساتھ قربانی کرنا دینی عالَم میں ہیچ ہے اوربغیر استقلال والی قربانیوں کے دعا انسان کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی۔وہ فرماتا ہے جو اس رنگ میںدعا کرنے والے ہوں میں ان کی دعاؤںکو سنا کرتا ہوں یعنی جو استقلال کے ساتھ قربانیاں کریں اورپھر کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی کامیابی کیلئے دعائیں بھی کریں ان کی دعا ضرور قبول ہوکر رہتی ہے۔بعض لوگ غلطی سے اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے اور وہ حیران ہوتے ہیں کہ جب خدا کا یہ وعدہ ہے تو پھر ان کی بعض دعائیں قبول کیوں نہیں ہو تیںمگر یہ استدلال درست نہیں۔ اس جگہ تمام دعاؤں کی قبولیت کا اللہ تعالیٰ نے کوئی وعدہ نہیں کیابلکہ فرمایا ہے میںاس دعا کرنے والے کی دعا کوسنتا ہوں جس کا ذکر اوپر ہؤا ہے۔ اور اس سے پہلے رمضان اور روزوں کا ذکر ہے جو استقلال سے خداتعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرنے کا سبق دیتا ہے اور اس میںکوئی شبہ نہیں کہ اگر ان شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے جن کا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کوئی شخص دعا کرے تو اس کی دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی مجھے مقدس سے مقدس مقام میں بھی کھڑا کردے تو میں وہاں کھڑا ہو کر یہ قسم کھانے کے لئے تیار ہوں کہ اس قسم کی دعا ہر گز ردّ نہیں ہوتی۔ کوئی قوم جو خداتعالیٰ کے لئے مستقل قربانیاں کرنے کے ارادہ سے کھڑی ہو جائے اور پھر قربانیاں کرتی چلی جائے اوردعا سے بھی کام لے وہ ضرور کامیاب ہو جاتی ہے۔ سابق انبیاء علیھم السلام کی جماعت کا نمونہ ہمارے سامنے ہے کیا دنیا میں کوئی بھی نبی ایسا گزرا ہے جو ناکام ہؤا ہو؟ تاریخ سے کوئی ایک نبی ایسا ثابت نہیں کیا جاسکتا جو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہؤا۔ دعویٰ نبوت کے بعد ناکام وہی رہا ہو گا جس نے جھوٹا دعویٰ کیا ہو گا سچا دعویٰ کرنے والا کبھی ناکام نہیں ہؤا۔ یہ الگ امر ہے کہ کامیابی جلد آئے یا دیر سے۔ بہرحال سچے نبی کو کامیابی ہوتی ضرور ہے اور پھر وہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور ان کا ہر قدم ترقی کی طرف اٹھتا ہے۔ تم نے دیکھا کہ گزشتہ سالوں میں جماعت پر کیسے کیسے فتنے آئے۔ ہر دفعہ لوگوں نے یہی سمجھا کہ اب یہ سلسلہ مٹ جائے گا مگر ہردفعہ تم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی معجزانہ رنگ میں حفاظت کی اور کوئی دن ایسا نہیں چڑھا جس میںپہلے سے زیادہ جماعت نے ترقی نہیں کی۔ مختلف ممالک میں احمدیت پھیلتی جارہی ہے اوراسی طرح پھیلتی پھیلتی انشاء ا للہ ساری دنیا کو ایک دن اِدھر کھینچ لائے گی۔
یہ چوتھا سبق جو رمضان سے حاصل ہو تاہے ا س کا تعلق بھی تحریک جدید کے ساتھ ہے کیونکہ میں نے اُنیسواں مطالبہ یہی رکھا ہے کہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کو ترقی دے۔دعا کے بغیر ہماری قربانیوں کے وہ نتائج پیدا نہیں ہو سکتے جو ہم دیکھنے کے خواہش مند ہیںکیونکہ ان نتائج کا پیدا کرنا ہمارے اختیار میں نہیںبلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ایک ملک جو بارش کا محتاج ہوتم اگر محنت کرکے اس کی زمین میں ہل بھی چلا دو،عمدہ بیج بھی ڈال دولیکن آسمان سے بارش نہ اُترے تو تمہاری محنت کیا نتیجہ پیدا کرسکتی ہے۔اسی طرح جس نتیجہ کے ہم امیدوار ہیں وہ آسمانی بارش چاہتا ہے اور وہ آسمانی بارش دعاؤں سے ہی نازل ہو سکتی ہے۔پس وہ رمضان میں نازل ہو سکتی ہے۔ پس رمضان میں تحریک جدید سے اور تحریک جدید میںرمضان سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ یہ چار بڑی بڑی مناسبتیں رمضان کی تحریک جدید سے ہیں اور یہ چار مناسبتیں تحریک جدید کی رمضان سے ہیں پس اگر تم رمضان سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو تحریک جدید پر عمل کرو اور اگر تحریک جدید کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہوتو روزوں سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھاؤ۔ تحریک جدید یہی ہے کہ سادہ زندگی بسر کرو اور محنت و مشقّت اور قربانی کا اپنے آپ کو عادی بناؤ۔یہی سبق رمضان تمہیںسکھانے آتاہے پس جس غرض کے لئے رمضان آیا ہے اس غرض کے حاصل کرنے کی جدوجہد کر و ایسانہ ہو کہ اپنی زندگی ایسی طرز میں گزار دو کہ رمضان کا آنا نہ آنا تمہارے لئے برابر ہو جائے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے ملک میں روزے خوید کا کام دیتے ہیں جس طرح گھوڑے کو خوید دی جاتی ہے جس سے وہ موٹا ہو جاتا ہے اسی طرح رمضان میں بعض لوگ غذا کا خاص اہتمام رکھتے ہیں۔ رات اور دن گھی اور پراٹھے کھاتے رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روزے رکھ کر وہ پہلے سے بھی موٹے ہو جاتے ہیں۔ یہ طریق دراصل اس روح کے خلاف ہے جس کو پیدا کرنے کے لئے روزے مقرر کئے گئے ہیں۔
پس ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس کا رمضان تحریک جدید والا ہو اور تحریک جدید رمضان والی ہو۔ رمضان ہمارے نفس کو مارنے والا ہواور تحریک جدید ہماری روح کو تازگی بخشنے والی ہو۔پس جب مَیں نے کہا ہے کہ رمضان سے فائدہ اٹھاؤتو دراصل مَیںنے تمہیں یہ سمجھایا ہے کہ تم تحریک جدید کے اغراض اور مقاصد کو رمضان کی روشنی میں سمجھو اورجب میں نے کہا کہ تحریک جدید کی طرف توجہ کرو تو دوسرے لفظوں میں مَیں نے تمہیں یہ کہا ہے کہ تم ہر حالت میں رمضان کی کیفیت اپنے اوپر وارد رکھو اورصحیح قربانی اور مسلسل قربانی کی اپنے اندر عادت ڈالوجو رمضان بغیر سچی قربانی کے گزر جاتا ہے وہ رمضان نہیں اور جو تحریک جدید بغیر روح کی تازگی کے گزر جاتی ہے وہ تحریک جدید نہیں۔
اگرکوئی شخص سالہا سال سے قربانیاں کر رہا ہے مگر اس کے اندر بشاشتِ ایمانی پیدا نہیں ہوتی تو اس کو اس کی قربانیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ وہ محض سر پھوڑنے والی بات ہے اور کچھ نہیں۔ اب پھر وہ وقت آگیا ہے جبکہ تحریک جدید کے پانچویں سال کی مجھے تحریک کرنی چاہئے مگر اِس وقت میں صرف اصولی رنگ میںاس طرف توجہ دلادیتاہوں۔آج میں نے چاہا کہ تمہیںتحریک جدید کے اصول کی طرف توجہ دلادوں اور بتا دوں کہ بغیر ان اصول کو اختیار کئے وہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے جن فوائد کو حاصل کرنے کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں۔دراصل جب تک انسان کسی امرکی حکمت سے واقف نہیںہوتااُس وقت تک باوجود اس کے کہ اس کا کام اچھا ہو، اچھے نتائج پید ا نہیں ہؤا کرتے۔اب نماز، روزہ،زکوٰۃ،حج سب کام اچھے ہیں اورسب مؤمن ا ن احکام کو بجا لاتے ہیں مگر سارے یکساں فائدہ نہیں اٹھاتے۔ساروں کی نمازیں وہ نتیجہ پیدا نہیں کرتیں جو نمازوں سے مقصود ہے، نہ ساروں کے روزے وہ نتیجہ پیدا کرتے ہیں جوروزوں کا مقصود ہے اور نہ ساروں کی زکوٰتیں وہ نتیجہ پیدا کرتی ہیں جو زکوٰۃ کا مقصد ہے۔ بعض لوگ بہت زیادہ چندہ دیتے ہیں مگر نتیجہ بہت کم نکلتاہے اور بعض لوگ تھوڑا چندہ دیتے ہیں مگر نتیجہ بہت زیادہ نکلتا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ا یک دفعہ مسجد میں بعض لوگوں کی آواز سُنی کہ ابو بکر ؓ کو ہم پر کونسی زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ جیسے نیکی کے کام وہ کرتے ہیں اُسی طرح نیکی کے کام ہم کرتے ہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا اے لوگو! ابو بکر ؓکو فضیلت نماز اور روزوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اُس نیکی کی وجہ سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔پس نماز، روزہ،حج اور زکوٰۃ کی بظاہر ایک ہی شکل ہے اور جس طرح ایک شخص ان احکام پر عمل کرتا ہے اُسی طرح دوسرا عمل کرتا ہے مگر پیچھے جو محبت ہوتی ہے وہ نتائج کو بدل کرکہیں کا کہیں لے جاتی ہے۔ اسی طرح نماز ،روزہ کا فائدہ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق اٹھاتا ہے۔ ایک شخص نماز پڑھتا ہے اوراسے نماز کا بدلہ بھی مل جاتاہے لیکن اگر اس کے دل کا ظرف چھوٹا ہے توجتنا نور اس کے دل میں سما سکتا ہے اُتنا سما جائے گا اورباقی بہہ کر ضائع ہو جائے گاجیسے اگر کوئی ساقی دودھ تقسیم کررہا ہو اور اس کے ہاتھ میں ایک گلاس ہو جس کے مطابق اس نے سب کو یکساںدودھ دینا ہو تو وہ شخص جس کے پاس بڑا کٹورا ہو گا وہ تمام دودھ کٹورے میں ڈلوا لے گا اورپھر بھی اس کا کٹور اکچھ خالی رہے گا۔دوسرے کے پاس فرض کرو اتنا ہی پیالہ ہے جتنے میں گلاس بھر دودھ آسکتا ہے تو جب وہ دودھ پیا لہ میں ڈلوا لے گاتو گوا س کا پیالہ بھر جائے گا مگراوردودھ کے لئے اس کے پاس کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس تین چوتھائی جگہ ہو گی تو۴/۳حصہ تو پڑجائے گا مگر باقی چوتھائی اِدھر اُدھر کناروں سے بہہ جائے گا۔ اوراگر کسی کے پاس نصف گلاس دودھ کی گنجائش ہے تو نصف گلاس دودھ لے لے گا اور باقی دودھ زمین پر گر جائے گا۔اوراگر کسی کے پاس بہت ہی چھوٹی کٹوری ہے تواس میں چند گھونٹ دودھ پڑ جائے گا اورباقی ضائع ہو جائے گا۔اسی طرح بے شک نماز یکساںفائدہ لاتی ہے، روزہ یکساں فائدہ لاتاہے، حج اورزکوٰۃ یکساں فائدہ لاتے ہیں لیکن اگر کسی کا ظرف چھوٹا ہو اوردل ان انوارکوسمیٹ نہ سکے جو نماز روزہ کے نتیجہ میںاللہ تعالیٰ کی طرف سے اُترتے ہیںتووہ ضائع چلے جائیںگے۔ تواللہ تعالیٰ کے انعامات کا حصول بھی ظرف کے مطابق ہو تا ہے جتنا ظرف کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتاہے اُتنی چیز اس کے ظرف میںپڑجاتی ہے اور جو زائد ہوتی ہے وہ بہہ جاتی ہے۔ یہ ظرف کی وسعت اور تنگی کی حکمت کو سمجھنے اورجڑ کو پکڑنے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ جیسے جیسے انسان احکام کی حکمت سمجھتا جاتا ہے اس کے دل کا پیالہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور جتنا جتنا وہ احکام کی جڑ کو پکڑتا ہے اتنا ہی اس کے پیالہ میںمضبوطی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے گویا پیالے کی وسعت حکمت کو سمجھنے اوراس کی مضبوطی جڑکو پکڑنے سے پیدا ہو تی ہے۔حکمت کے سمجھنے سے ظرف وسیع ہو تا ہے اورجڑ کے پکڑنے سے اس میں دوام اوراستقلال پیدا ہو جاتا ہے۔ جو لوگ احکام کی جڑ کوپکڑلیتے اور حکمت کو سمجھ لیتے ہیںان کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ واعظوں کے وعظ سے مستغنی ہو جاتے ہیں۔انہیں ضرورت نہیںہو تی کہ واعظ آئیں اور انہیں جگائیں یا حادثات آئیںتو انہیںبیدار کریں وہ بغیر واعظوں کے جگانے کے خود ہی ہوشیار ہوتے ہیں اوربغیر حادثات کے بیدار کرنے کے خودہی بیدار ہوتے ہیں۔توحکمتوںکو جاننا اورجڑ کو پکڑنا کامیابی کیلئے نہایت ضروری ہو تا ہے۔جب تک انسان کسی کام کی حکمت نہیںسمجھتااس کے دل میںبشاشت پیدا نہیں ہوتی اور جب تک بشاشت پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک انسان اللہ تعالیٰ کے انوارکو جذب نہیں کرسکتا۔
بشاشت دراصل بھوک کا نام ہے اب اگر کسی کا معدہ ضعیف ہو اور اس کے سامنے بہت سا کھانا رکھا ہؤا ہو تو چونکہ اس کے اندر کھانے کے لئے بشاشت نہیں ہوگی اس لئے خواہ اس کے سامنے دو چار سیر کھانا پڑا ہؤا ہو جب کھانے لگے گا تو چند لقمے کھا کر ہاتھ کھینچ لے گا لیکن ایک دوسرا شخص جسے بھوک لگی ہوئی ہو اس کے سامنے خواہ تھوڑا ہی کھانا پڑا ہؤا ہو سب کھانا اس کے پیٹ میں چلا جائے گا۔اگر پاؤ پڑا ہؤا ہوگا تو پاؤ ہی کھا جائے گا اور اگر ڈیڑھ پاؤ پڑا ہو گا تو ڈیڑھ پاؤ کھا جائے گا لیکن دوسرے شخص کے سامنے اگر دو سیر بھی کھانا پڑا ہؤا ہوگا تو وہ چند لقموں سے زیادہ کھانا نہیں کھاسکے گا۔ اگر زیادہ کھائے گا تو اسے قَے آجائے گی اور پہلا کھانا بھی اس کے اندر سے نکل جائے گا۔تو حکمتوں کے جاننے کے ساتھ بشاشت اور رغبت پیدا ہوتی اور اس طرح روحانی لحاظ سے ایسی بھوک پیدا ہو جاتی ہے جس سے معنوی طور پر انسان کا ظرف بڑا ہو جاتا ہے۔ جس طرح انسان کو جتنی زیادہ بھوک لگتی چلی جاتی ہے اُتنا ہی اُس کا معدہ بڑھتا چلا جاتا ہے اِسی طرح جن لوگوں کے اندر بشاشتِ ایمانی پیدا ہوجاتی ہے اُن کا دل وسیع ہو جاتا ہے اور اس میں ربڑ کی سی لچک پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جتنا زیادہ اُسے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مقام ملتا جاتا ہے اُتنا زیادہ اُس کا دل پھیلتا چلا جاتا اور اللہ تعالیٰ کے انوار کو جذب کرتا چلا جاتا ہے۔ اور جڑکو پکڑ لینا ایسا ہی ہے جیسے کسی تھیلی میں کوئی چیز ڈال کر اوپر سے تسمہ باندھ لیا جائے۔اس طرح نیکی میں دوام پیدا ہو جاتا ہے اور اِس دوام کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے ساتھ انسان ایسا تعلق پیدا کر لیتا ہے کہ پھر اس کا قدم کبھی لڑکھڑاتا نہیں۔
پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ جب ہم دین کی طرف توجہ کریں تو ان مسئلوں کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ جب تک بشاشتِ ایمانی ہمیں حاصل نہیں اور جب تک ہم احکام کی جڑ کو نہیں پکڑتے اُس وقت تک نہ نیکیوں میں دوام پیدا ہوسکتا ہے اور نہ قربانیوں کے نیک نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ بیشک کچھ فضل ضرور نازل ہوں گے مگر وہ اتنے اہم نہیں ہونگے کیونکہ خدا تعالیٰ تو انعامات دے گالیکن ظرف چھوٹا ہوگا اور اس وجہ سے انعامات سے انسان پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔ جیسے اگر کوئی میزبان مہمان کے سامنے کھانا رکھے تو اب یہ مہمان کا کام ہے کہ وہ کھانا کھائے لیکن اگر اسے پیٹ درد شروع ہو جائے یا متلی ہو جائے تو وہ کس طرح کھا سکتا ہے۔پس بے شک جب ہم نمازیں پڑھتے ہیں، جب ہم روزے رکھتے ہیں، جب ہم زکوٰتیں دیتے ہیں،جب ہم توفیق ملنے پر حج کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے فضل بھی نازل ہوتے ہیں مگر چونکہ دل چھوٹا ہوتا ہے اس لئے وہ فضل اِدھر اُدھر بہہ جاتے ہیںیعنی اور لوگ اس سے فائدہ اٹھا لیتے ہیںمگر ہمارے اپنے نفس فائدہ اٹھانے سے محروم رہتے ہیں لیکن جب ہمارے اندر بشاشت ہو تو ہمارا ظرف وسیع ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پھر جس قدر فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے چلے جاتے ہیں ان تمام فضلوں کو ہمارا دل جذب کرتا چلا جاتا ہے بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ فضلوں کا اﷲ تعالیٰ سے مطالبہ کرنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے خدایا! مجھے اَور دے اور جب خدا تعالیٰ اَور فضل نازل کرتا ہے تو وہ اس کو بھی سمیٹ لیتا ہے اور کہتا ہے خدایا! اور دے۔ اورچونکہ وہ احکام کی حکمتوں کو ساتھ ساتھ سمجھتا جاتا ہے اس لئے اس کا دل وسیع ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے تمام فضلوں کو سمیٹ لیتا ہے۔گویا جس شخص کے اندر بشاشتِ ایمانی نہیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل ایسے ہی ہیں جیسے اِمتلاء کے مریض کے منہ میں روٹی ڈال دی جائے اور اسے قے ہو جائے لیکن جس شخص کے دل میں بشاشتِ ایمانی موجود ہے اس کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل ایسے ہی ہیں جیسے ہائیڈروکلورک ایسڈ ڈل کی ایک ڈوز یا چُورن کی ایک چٹکی۔اب چُورن کی چٹکی بھوک بڑھایا کرتی ہے گھٹایا نہیں کرتی۔اسی طرح جس شخص کے دل میں بشاشت ہوتی ہے اُس کے اعمال اُس کے لئے چورن بنتے چلے جاتے ہیں مگر جس شخص کے دل میں بشاشت نہیں ہوتی اُس پر خدا تعالیٰ کے فضل ایسے ہی آتے ہیں جیسے امتلاء کے مریض کو کوئی شخص روٹی دے دے ایسے مریض کی روٹی کے کھانے سے بھوک بڑھتی نہیں بلکہ مَتلی ہو جاتی اور پہلا کھایا پیا بھی باہر آجاتا ہے۔پس اپنے اندر بشاشتِ ایمانی پیدا کرو اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے انعامات کو اپنے دلوں میں زیادہ سے زیادہ جذب کرنے کے لئے تیار رہو۔اگر تم دیکھتے ہو کہ تم نے پچھلے سال قربانیاں بھی کیں، تم نے نمازیں بھی پڑھیں،تم نے روزے بھی رکھے،تم نے چندے بھی دیئے،تم نے حج بھی کیا،تم نے زکوٰۃ بھی دی لیکن باوجود ان تمام نیکیوں کے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہؤا تو یقینا تمہیں امتلاء کی تکلیف ہے اور تم میں بشاشتِ ایمانی نہیں تبھی تمہارا دل سُکڑ جاتا ہے اور اسی کے سُکڑنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی رحمت اپنے کمال کے ساتھ تم پر نازل نہیں ہوتی اور جو نازل ہوتی ہے وہ تمہارے انگ نہیں لگتی۔ لیکن اگر تمہارے اندر بشاشتِ ایمانی پیدا ہو جائے تو پھر جتنی زیادہ بشاشت ہوتی چلی جائے گی اتنا ہی تمہارا دل وسیع ہوتا چلا جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فضل نازل ہونگے وہ تمہارے انگ بھی لگیں گے اور تمہیں اپنی نیکیوں کا صریح فائدہ بھی دکھائی دینے لگ جائے گا۔
چونکہ اب تین بج چکے ہیں اس لئے میں خطبہ کو اسی پر ختم کرتا ہوں ۔اس مضمون کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے جو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں بیان کر دوںگا مگر اِس وقت میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم لوگوں نے گزشتہ سالوں میں بڑی بڑی قربانیاں کی ہیںلیکن چونکہ ابھی ہماری جدو جہد کا زمانہ ختم نہیں ہؤا اس لئے ان قربانیوں کے بعد ہماری حالت اُس عورت کی طرح نہیں ہونی چاہئے جس کے متعلق قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ وہ سُوت کا تتی اور پھر اسے اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی کہ نہ ان ٹکڑوں کا اسے خود کوئی فائدہ ہوتا اور نہ دوسرے لوگ ان سے کسی قسم کا فائدہ اٹھا سکتے۔
اور ہمیں اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کرنی چاہئے کہ ہماری گزشتہ قربانیاں ہمارے لئے سُستی کا موجب نہ ہوں بلکہ زیادہ چُستی اور زیادہ بیداری پیدا کرنے کا موجب ہوں تا پچھلی قربانیوں کے نتائج سے بھی ہم فائدہ اُٹھا سکیں اور آئندہ کی برکات بھی ہمیں حاصل ہوں۔آمین۔‘‘
(الفضل۱۱؍نومبر۱۹۳۸ئ)
۱؎ البقرۃ: ۱۸۶
۲؎ بخاری کتاب فضائل القراٰن باب کانَ جِبْرِیْلُ یَعْرِضُ الْقُرآنَ (الخ)
۳؎ البقرۃ: ۱۸۷ ۴؎ اٰل عمران: ۱۰۴
۵؎ بخاری کتاب الصوم باب مَنْ لَّمْ یَدَعَ قولَ الزور (الخ)
۶؎ ابن ماجہ کتاب الزھد باب المُدَاوَمَۃُ عَلَی الْعَمَلِ
۷؎ البقرۃ: ۱۸۴ ۸؎ البقرۃ: ۱۸۷


۳۶
خالص اللہ تعالیٰ کی محبت میں قربانیاں کریں
اور تحریک جدید کو کامیاب بنائیں
(فرمودہ ۱۱؍نومبر۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیںنے گزشتہ جمعہ میں اس امر کی طرف جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ رمضان اپنے اندرخاص برکات رکھتا ہے اوران برکات سے فائدہ حاصل کرنا مؤمن کا کام ہے اورمیںنے بتایا تھا کہ رمضان بہت سے ایسے فوائد اپنے اندر رکھتا ہے جو ہمیںان اغراض کی طرف توجہ دلاتے ہیں جن کی طرف تحریک جدید جماعت کو متوجہ کرتی ہے اور کہ معنوی طور پر تحریک جدید رمضان کے ساتھ ایک تعلق رکھتی ہے۔وہ مشقت اور قربانی کی روح اوروہ استقلال اور خداتعالیٰ کے قُرب کی جستجو جو رمضان سے وابستہ ہے وہی تحریک جدید کا مقصود ہے۔
پس جب اس تحریک کا بھی جو شروع کی گئی ہے واحد مقصد اسلام کا قیام اور احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت ہے تواس کیلئے جماعت جتنی بھی جدوجہد کرے تھوڑی ہے۔ہمارا پہلے دور کو کامیاب بنانا ایسا ہی تھا جیسا کہ کوئی شخص کسی جگہ کوئی عمارت تیار کرنا چاہے اور اس جگہ کوئی کھنڈر ہو تو اس کا پہلا کام یہ ہو تا ہے کہ اسے صاف کرے وہ اینٹیں یا ملبہ جو وہاں پڑا ہؤا ہواُسے وہاںسے ہٹا دے یاوہ بوسیدہ خراب اور کمزوردیواریں جو وہاںکھڑی ہوں ان کو توڑ کر گرادے تا نئی عمارت کے لئے جگہ صاف ہوسکے۔تحریک جدید کے پہلے دور کی غرض یہ تھی کہ دشمنانِ احمدیت کے اس حملہ کوتوڑاجائے جو انہوںنے احمدیت کو تباہ کر نے کی نیت سے کیا تھا مگر صرف میدان کو صاف کرلینا کوئی بڑی چیز نہیں۔جب میدان صاف ہو جائے تواصل غرض اس پر عمارت کا قیام ہو تا ہے سو اگر ہم صرف پرانی عمارت کو صاف کرکے ا س کی جگہ نئی عمارت کے قیام سے غافل رہتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیںکہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔کھنڈر کو صاف کرنا کوئی بڑا کام نہیںبلکہ بعض اوقات نقصان دہ ہو تا ہے اس لئے کہ کھنڈر بھی اپنے اندرسامان عبرت رکھتے ہیں۔ایک نئے نظام کیلئے پرانے عبرت کے سامان کو اگر ہم مٹا دیں تو یہ کوئی بُری بات نہیں لیکن اگر کوئی نیا نظام تو قائم نہ کریں اورپرانے عبر ت کے سامان کو مٹا دیں تو ا س کے یہ معنی ہونگے کہ ہم نے دنیا کوہدایت کے ایک رستے سے خواہ وہ کتناہی مخفی کیوں نہ ہو محروم کردیا۔غرض خالی کھنڈر کومٹا دینا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔
پس آج میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہو ں جو گزشتہ خطبہ کے سلسلہ میں ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد عظیم الشان امانت کی ہے ایسی عظیم الشان کہ جو بہت ہی کم لوگوں کو دی گئی ہے۔ وہ امانت صرف یہ نہیںکہ ہم اپنے آپ کو ا حمدی کہہ لیتے ہیںیا وفات مسیح علیہ السلام وغیرہ چند عقائد کو تسلیم کرلیتے ہیںیہ تو ایسا ہی ہے جیسے کھنڈروں کو گرانا۔حیاتِ مسیح کاعقیدہ دراصل ایک کھنڈر تھاجو اسلامی زمین پر موجود تھااوروفات ِمسیح کو تسلیم کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے ا س کھنڈرکو ہٹا دیا۔کسی کھنڈر کو اگر ہٹا دیا جائے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہاں نئی عمارت بنائی جائے اوراگر یہ غرض ہماری نظر کے سامنے نہیں یا ہم نے اسے پورا نہیں کیاتو ملبہ یا اینٹوں یا مٹی کے ڈھیر کوہٹا دینے سے کیا فائدہ اگر دنیا میں وہ نیا نظام قائم نہیں ہوتاجس کے رستہ میں حیاتِ مسیح روک ہے؟ تواس کو ہٹانے پراتنی طاقت اور قوت صرف کرنے کی ضرورت ہی کیاہے۔یہ خرابی کوئی نئی نہیں۔معاً صحابہ ؓکی وفات کے بعدکیونکہ ان کی زندگی میں کسی غلط عقیدہ کی اشاعت کا کوئی امکان نہ تھا۔لیکن ان کی وفات کے معاََ بعد بلکہ ابھی ان میں سے بعض زندہ ہی تھے یعنی پہلی صدی میں ہی مسلمانوںمیں یہ خیال پیدا ہو نے لگاکہ حضرت عیسیٰ ؑ زندہ ہیں اور دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔دوسری صدی میں یہ خیال اور قوی ہو گیا اور تیسری صدی میں قوی تر۔ پہلی اوردوسری صدی میں ہمیں ایسے علماء نظر آـتے ہیں جو بِالوضاحت اور بِا لبداہت اس عقیدہ کے خلاف اعلان کرتے ہیں مگر جوں جو ں زمانہ گزرتا گیاایسے لوگ کم ہوتے گئے۔حتّٰی کہ آخری زمانہ یعنی پانچویں اور چھٹی صدی سے یہ مسلمانوں کے اندر ایسے طور پر قائم ہوگیاکہ گویا اسلام کا جُزو ہے۔کیامصراورکیاسپین،کیامراکش اورکیاالجزائر،کیاشام اورکیااناطولیہ اور کیا فلسطین، عرب، عراق،ایران،بخارا،افغانستان،ہندوستان،فلپائن،سماٹرااورجاوا میں کوئی اسلامی مُلک ایسا نظرنہیں آتا جس میںیہ مسئلہ پورے طور پر قائم نہ ہو دنیا کا ہر مسلمان اس میںمبتلا دکھائی دیتاہے۔حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے اور شرک ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ جو شرک چھ سو سال تک اسلامی دنیا پر اس طرح چھایا رہا جس نے پہلی ہی صدی میںاپنی شکل دکھانی شروع کی اوربرابر زورپکڑتا گیا اللہ تعالیٰ کیوںاس کے مٹانے سے غافل رہا؟کیوںنہ اسے دور کیا گیااور کیوں اس کی اہمیت کو اب حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منہ سے ہی ظاہرکرایا اورکیوں وہ دلائل جن سے حضرت عیسیٰ ؑعلیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے۔آ ج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ظاہر فرمائے؟ذرا سی عقل اور سمجھ رکھنے والا آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس زمانہ میں اس مسئلہ پر بحث کا کوئی فائدہ نہ تھا کیونکہ اس کھنڈر کے گرانے کے بعد نئی عمارت بنانے کا کوئی موقع نہ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے ساتھ جو اصل مقصود وابستہ ہے وہ یہ ہے کہ اس امت میں پیدا ہو نے والے مسیح کے لئے راستہ صاف کیاجائے اورچونکہ اس کاموقع نہ تھا ا س لئے اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی غلطی کو چھوڑ دیا اور اس کا علاج اپنے ہاتھ میںنہ لیا بلکہ انسانوں کے دماغ پر اسے چھوڑ دیاکہ خود سوچیں۔قرآن کریم میں ایسی آیات جن سے وفات مسیحؑ ثابت ہوتی ہے موجود تھیں،اسی طرح ایسی احادیث بھی موجود تھیںجن سے وفات مسیح ثابت ہوتی تھی،وہ آثار صحابہ موجود تھے جن سے حیات مسیح کا مسئلہ باطل ہو تا تھا،اسی طرح عقل جو اس کو رد کرتی ہے وہ بھی انسانی دماغوں میںموجود تھی اوراگر انسان چاہتا تو اس کا رد کرسکتا تھا۔پس اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میںخود اس کا ردّ نہیں کیا اس نے کہا کہ ہم نے قرآن کریم میںاس مسئلہ کو اچھی طرح واضح کردیا ہے۔آیات قرآنیہ پر غور کرو، اپنے رسولؐ سے اس کی حقیقت کو ظاہر کروادیا ہے اس کی احادیث کو دیکھ لو،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ بِالخصوص خلیفہ اول ؓ نے ا سے حل کردیاہؤا ہے ان کے واقعات کو پڑھ لو، پھر تمہارے دماغوں میں عقل موجو د ہے اس سے مدد لولیکن اگر تم نہ عقل سے فائدہ اٹھاؤاورنہ صحابہؓ کے طریق اورآثار سے نہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے فائدہ اٹھاؤاورنہ قرآن کریم سے توہم بھی چُپ ہیں۔مگر وہی مسئلہ جس پر اللہ تعالیٰ تیرہ سَو سال تک چُپ رہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں اس پر اتنا زور دیا گیاکہ گویا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے۔یہ خرابی تو تیرہ سَو سال سے موجود تھی مگراس کی جڑ اُکھیڑنے کیلئے کوئی انتظام اللہ تعالیٰ نے نہیں کیا۔قرآن کریم کی جو آیات پُکار پُکار کر وفاتِ مسیحؑ کا اعلان کررہی ہیں وہ پہلے بھی موجود تھیں لیکن بالکل خاموش تھیں لیکن اب سامنے آکر دنیاکو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیںاورکہہ رہی ہیں کہ ہماری موجودگی میںتم کس طرح حیاتِ مسیح ؑ کا عقیدہ رکھتے ہو۔ اسی طرح وہ احادیث بھی جو وفاتِ مسیح ؑ پر شاہدِ ناطق ہیں تیرہ سو سال سے موجود تھیں لیکن خاموش تھیں آج کس طرح حقیقتِ حال کو ظاہر کررہی ہیں۔صحابہ ؓکرام کااجماع جو چپکے سے ایک گوشہ میں پڑا تھا اوراس غلط عقیدہ کو ردّ کرنے میں کوئی حصہ نہ لے رہا تھا مگر آج چِلاَّ چِلاَّ کر ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہا اورکہہ رہا ہے کہ میںنبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ان صحابہؓ کا فیصلہ ہوںجن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو قائم کیاتم میری طرف کیوں نہیں دیکھتے ۔وہ عقل جو پہلے بھی ہرانسان میںموجود تھی خاموش تھی مگر آج اس خیال کو دھکے دیتی اورا س پر قہقہے لگا رہی ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ایسی بات پر ایما ن رکھتے ہیں مگر یہ نظارہ ہمیںتیرہ سَو سال کے بعد آج نظر آتا ہے پہلے نہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ آج خداتعالیٰ نے ایک نئی عمارت بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔وہ عما رت بن نہیں سکتی تھی جب تک اس کھنڈر کو صاف نہ کیاجاتا۔پس اس نے حکم دیا کہ اس ملبہ کو اٹھاؤتا نئی عمارت تیار ہو سکے۔مرض، ضرراور نقصان پہلے بھی موجود تھا مگر تیرہ سَو سال تک آسمان سے ا س کا علاج نہ کیا گیا اورخدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اسے دور کرنے کی طرف توجہ نہ کی جس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی نئی عمارت وہاں بنانے کا موقع نہ تھا مگر جب نئی عمارت بنانے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیاتو اس نے فوراً اپنے کھنڈر کو مٹا دیا اور اس کی شناخت کو پورے زور کے ساتھ اور کھلے الفاظ میںبیان کیا۔
غرض حیات مسیحؑ کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے،مگراس کی حیثیت ایک کھنڈر سے زائد نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم اس ملبہ کو ہٹا کر خاموش ہو جائیںاور اس کی جگہ پر نئی عمارت نہ بنائیں تواللہ تعالیٰ پر یہ الزام آتاہے کہ اس نے صرف ملبہ کو ہی ہٹانا تھاتو پھر تیرہ سو سال میں کیوں نہ ہٹایا۔اللہ تعالیٰ کے اتنا عرصہ خاموش رہنے میں ایک ہی حکمت تھی کہ اس جگہ پر نئی عمارت کی تعمیر کا وقت ابھی نہ آیا تھا لیکن اب اگر ہم اس نئی عمارت کی تعمیر کو نظر انداز کردیںتواللہ تعالیٰ پر ضرور یہ الزام آئے گا کہ و ہ اتنا عرصہ کیوں خاموش رہا۔پس نئی عمارت کا بنایا جانا زیادہ اہم ہے اوروہی دین دراصل مقصود ہے۔وفاتِ مسیح کا مسئلہ گو اہم ہے مگر یہ ضمنی ہے۔یہ ہمارے راستے میں آگیا اس لئے اسے حل کرلیا گیا ورنہ شاید اتنی توجہ اس کی طرف نہ کی جاتی۔اصل مسائل اَور ہیں اور وہی امانتیں ہیںجو ہمارے سپرد کی گئیں۔
ان مسائل میںسے ایک توفہم قرآن ہے۔جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دنیامیںقائم کیا اوروہ قرآن کریم جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۱؎وہ قرآن جو ہدایتوں اورنشانات کا مجموعہ ہے،جو جھوٹ اورسچ میں فرق اور امتیاز کردینے والا ہے،جو نور اور تاریکی میںفرق کردینے کاواحد ذریعہ ہے،وہ جو خدا تعالیٰ تک انسان کو پہنچاتا ہے اس کا علم اورفہم مٹ گیا تھا مسلمان اسے بھلا چکے تھے۔اس کا کچھ درجہ تو احادیث کو دے دیاگیاتھا۔ان احادیث کو جو اگر سچی ہو ں تو بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا کلام ہیں مگر موجودہ وقت میں ان میں وضعی بھی ہیں،ان میں انسانی خیالات کا اثربھی ہے۔ایک بات کو دس آدمی سنتے اور نوٹ کرتے ہیں مگر سب میں کچھ نہ کچھ اختلاف ہو جاتا ہے۔نوٹ کرتے وقت انسان پوری احتیاط کے باوجود بھی غلطی کرجاتا ہے۔راوی خواہ کتنے سچے ہوں لیکن اگر بات سنتے سنتے کسی کا خیال کسی اورطرف چلا جائے اورکوئی حصہ رہ جائے تو غلطی کا ہو جانا بعید نہیں۔پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض راوی بات کو سمجھ ہی نہ سکے ہوں، پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سننے والے آگے جن سے بیان کریں وہ اچھی طرح سمجھ نہ سکے ہوں یا کسی وقت ان کا دماغ کسی اور طرف متوجہ ہو جائے اوریہی سلسلہ پانچ سات آدمیوں تک چلتا جائے توا س کے نتیجہ میں جوبات بن جائے گی اس میں غلطی کا کس قدر امکان ہوگا اورمفہوم کس قدر بدل جائے گا۔پس احادیث خواہ وضعی نہ ہو ں سچی ہی ہوں پھر بھی ان میں کئی وجوہ سے غلطیوں کا امکان ہے اور وہ اِس طرح ہدایت کاموجب نہیں ہو سکتیں جس طرح قرآن جس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک شوشہ محفوظ ہے۔مگر قرآن کی کچھ جگہ تو ان احادیث کو دے دی گئی کچھ اپنے فلسفہ کو اورکچھ رسوم و رواجات کواورکچھ اپنی ہوا اور خواہشات کو حتیٰ کہ قرآن کے لئے کوئی جگہ ہی باقی نہ رہی اوروہ اُڑ کر آسمان پر چلا گیا۔اس واقعہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میںقرآن کریم کے صرف الفاظ باقی رہ جائیںگے۔لَایَبْقٰی مِنَ الْقُرْانِ اِلَّارَسْمُہٗ۲؎ یعنی قرآن باقی نہیں رہے گا صرف اس کے الفاظ رہ جائیں گے۔ اورلَایَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّااسْمَہٗ۳؎ اسلام باقی نہیں رہے گا صرف اس کا نام رہ جائے گا۔قرآن کریم کی صرف سیاہی باقی رہ جائے گی گویا وہ بالکل ایک مُردہ جسم ہوگااورظاہر ہے کہ مُردہ جسم کسی کام کا نہیںہو سکتا۔کسی شخص کے ماں باپ مَر جائیں تو کیاوہ اس بات پر خوش ہو سکتاہے کہ ان کا جسم اس کے پاس ہے جب تک وہ بات نہ کریں،مشورہ نہ دیں،اگر وہ مذہبی خیالات رکھتے ہیںتو اس کے لئے دعائیں نہ کریں اور اگر دنیوی خیالات رکھتے ہیں تو اس کی دنیوی ترقی کے لئے کوئی سعی اور کوشش نہ کریں،اسی طرح جب قرآن کریم کی روح باقی نہ رہی تو وہ جسم بے جان تھا جس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جاسکتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اس میں پھر روح قائم کی اور قرآن کریم کا وہ علم بخشا جس کی مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد تیرہ سو سال میں نہیں ملتی۔آج جو فہم قرآن کریم کا ہمیں حاصل ہے اس کے مقابلہ میں پچھلی تمام تفاسیر ہیچ ہیں۔ جو علوم خدا تعالیٰ نے ہمیں دیئے ہیں انکو پڑھنے والے پرانی تفاسیر کو بغدادی قاعد ہ سے زیادہ نہیں سمجھتے۔ابھی جو بچے ہمارے باہر سے آئے ہیں ان میں سے عزیزم ناصر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ مغرب میں جو لوگ احمدیت کی طرف مائل ہو رہے ہیںان پر صرف یہ اثر ہے کہ قرآن کریم کی جو تفسیر ہماری طرف سے شائع ہو تی ہے اس سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم واقعی ایک زندہ کتاب ہے۔پہلے جو لوگ عیسائیت یا دہریت کی طرف مائل تھے وہ جب ہماری پیش کردہ تفسیر دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اوہو! یہ تو بہت بڑا خزانہ ہے اس لئے وہ واپس اسلام کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ان پر نہ کوئی وفات کے دلائل کا اثر ہو تا ہے اور نہ ختم نبوت کا بلکہ صرف ہماری تفسیر کا۔ جب وہ اسے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اب ہمیں معلوم ہؤا کہ قرآن کریم واقعی ایک زندہ کتاب ہے۔ہم بے وقوفی سے اسے چھوڑ رہے تھے تو جوفہم قرآن کریم کاحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوخدا تعالیٰ نے دیا ہے اوراصولی طور پر آ پ نے ہمیں جس کی تعلیم دی ہے وہ اتنا بڑا خزانہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ درمیان کے تیرہ سو سال کے تمام علوم اس کے سامنے ہیچ ہیں۔
پھر دوسری چیز حقیقتِ احکامِ اسلام ہے۔اس سے بھی مسلمان غافل تھے۔صحابہ کرامؓ کے معاََ بعد مسلمانوں نے اسلام کے احکام کی حقیقت سمجھنے سے غفلت برتنی شروع کردی تھی۔صرف انہیں احکام قرار دے کر ان پر عمل ہونے لگا۔نماز کو ایک حکم سمجھ کر نماز ادا کی جاتی تھی اورروزہ کوایک حکم سمجھ کر روزہ رکھا جاتا تھا مگر یہ بات کہ ان احکام کی حکمت کیاہے اس طرف سے توجہ بالکل ہٹ گئی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ احکامِ اسلام پرعمل کی رغبت نہ رہی۔یہاں تک کہ چوتھی صدی میں امام غزالی ؒ نے اسکے خلاف احتجاج کیااوراحکام کی حکمتیں بتا کران کی طرف رغبت دلانے کی کوشش کی۔ان کے لٹریچر کے نتیجہ میںکچھ توجہ اس طرف ہوئی اور اس نے مسلمانوں کو کچھ فائدہ بخشا مگر پھر نیند کا غلبہ ہؤااوراحکام ِ اسلام کے صرف لفظ رہ گئے اورروح مٹ گئی۔حتّٰی کہ ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی کا زمانہ آیاانہوں نے بعض کتابیں لکھیں جن میں احکامِ اسلام کی حکمت بیان کی مگر ان کادائرہ اثر بالکل محدود تھااورصرف چند لوگ ہندوستان میں ایسے تھے جن پر ان کا اثر ہؤااوراسکی وجہ یہ تھی کہ وہ شخص قریب میں آنے والا تھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس حکمت کو ظاہر کرنا تھا۔جب سورج چڑھنے والا ہوتو صبح کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی طر ف نظرنہیں اُٹھا کرتی۔پس مسلمان غافل ہی رہے حتّٰی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ آگیا اورآپ نے اسلام کے احکام کی حکمت ایسے رنگ میں بیان کی کہ ہر ایک شخص کی سمجھ میں آگئی کہ یہ احکام ہمارے ہی نفع کے لئے ہیں اوردنیاپر یہ حقیقت ظاہر ہو گئی کہ دنیاکی نجات ان قوانین میںنہیں جو نئے نئے بنائے ہیں بلکہ قرآن کی طرف جانے میںہی ہے۔ آپ نے اسلام کے وہ احکام جن کے متعلق مسلمان بھی معذرتیں پیش کرتے اورکہتے تھے کہ یہ خاص اوقات کیلئے ہیں نہایت جرأت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کئے اورابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ یو رپ میں زلزلے آنے لگے اوربڑے بڑے فلاسفراس طرف آنے پر مجبور ہوگئے اوروہ سمجھنے لگے کہ نئے مسائل ان کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔
شراب اور سود میںحد بندیاں ہونے لگیں،طلاق کے مسئلہ میںآزادی ہوئی اور کثرت ازدواج میںجو سختی سے کام لیا جارہا تھااس میںنرمی کی تحریک یورپ کے لوگوں میں شروع ہوگئی، عریانی کے معاملہ میںبھی آزادی کی بڑھتی ہوئی رَو میںکمی آنے لگی۔ان مسائل میں اسلام کی تعلیم کو پہلے حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھااوراسے اولڈ فیشن(OLD FASHION) اورپرانے زمانہ کی تعلیم کہاجاتاتھا مگراسکے بعد یورپ میں بھی جو زلزلے آئے اورجو حرکتیں ہوئیں انہوںنے نئے قوانین کی عمارتوں کو گرا کر لوگوں کوپھر اس تعلیم کی طرف آنے پر مجبورکیا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پرانی تعلیم بتا کرپیش کیا تھا۔طلاق کے بارہ میں وسعت پیدا ہورہی ہے یورپ میں ایک زبردست جماعت پیدا ہو رہی ہے جو یہ کہہ رہی ہے کہ کثرتِ ازدواج میں آزادی ہونی چاہئے،سودکے بارہ میں حدبندیوں کی حامی بھی زبردست جماعت پیدا ہوگئی ہے،جن میں سے ہٹلر اور جرمن کی یونیورسٹیوں کے پروفیسر پیش پیش ہیں۔ چند سال ہوئے برلن کی یونیورسٹیوں کے بعض پرفیسروں نے اپنی چھٹیاں اس لئے وقف کی تھیں کہ لوگوں کو جاکر سود کی برائیوں سے آگاہ کریں۔پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ یورپ جو اِن بیماریوں کا پیدا کرنے والا ہے وہی ان کے علاج کی طرف متوجہ ہو گا۔یہ تغیرات آج سب لوگوں کو نظرنہیں آتے جو مجھے آتے ہیں۔بے شک یورپ ابھی شراب کو چھوڑ نہیں سکا،طلاق میں بھی اسلامی تعلیم کو قائم نہیں کرسکا اور یہی حال دوسرے مسائل کا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ان کا مزاج کس طرف مائل ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ
آرہا ہے اس طرف احرارِ یورپ کا مزاج
اوراصل چیز یہی ہے کہ یو رپ کا مزاج اس طرف آرہا ہے اورجب اس طرف میلان ہو رہا ہے توایک نہ ایک دن ان احکام پر عمل بھی ہو کر رہے گا۔تمام قوم کوایک ہی دن میں کسی بات پر قائم نہیں کیاجاسکتا۔ہماری جماعت جو خدا تعالیٰ کو مانتی اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ کا نبی یقین کرتی ہے وہ کونسی ہربات پر پوری طرح فوراََعمل کرتی ہے۔بے شک بعض لوگ ایسے ہیں جو ہر اس بات پر جو پیش کی جاتی ہے فوراََ عمل شروع کر دیتے ہیں مگرکئی ایسے ہیں جن کو ہموارکرنا پڑتاہے۔جس طرح کوئی کیل موٹا ہو توا سے رگڑ رگڑ کر ٹھیک کرنا پڑتا ہے۔پھر یورپ کے لوگ جن کی گُھٹی میں یہ چیزیں داخل ہیں ان کوایک دن میںکس طرح چھوڑ سکتے ہیں مگر یہ سب باتیں احمدیت میں ہی مل سکتی ہیں۔ اگر یہ مٹ جائے توقرآن بھی ساتھ ہی مٹ جاتاہے، اگر یہ مٹ جائے تواسلام کے احکام کی حکمت بھی ساتھ ہی مٹ جاتی ہے۔پھر جماعت احمدیہ ہی ایک ایسی جماعت ہے جس نے خدا تعالیٰ کیلئے اپنی تمام طاقتوں کو لگا دیاہے۔ اس کے سوا کوئی جماعت ایسی نہیں جو خدا تعالیٰ کیلئے کوئی کام کرتی ہو۔ مصر، فلسطین، عرب، افغانستان، ترکی اور خود ہندوستان میں نئی نئی ترقیات ہو رہی ہیں۔مگران کا محور کہیں بھی خداتعالیٰ کی ذات نہیں۔سب تحریکات وطنی اور قومی ہیں اورخدا تعالیٰ کا خانہ سب جگہ خالی ہے۔اگر کوئی جماعت دعویٰ کے لحاظ سے بھی ایسی ہے تو وہ صرف ایک ا حمدیہ جماعت ہے۔یہ کوئی سوچنے والی بات نہیں اس میںکسی غور اورفکر کی ضرورت نہیں دنیامیںکوئی اور جماعت ایسی پیش کرو جو خدا تعالیٰ کی حکومت قائم کرنے کیلئے کام کررہی ہو۔یقیناایسا نہ کرسکو گے۔ مصری،ترکی، عربی اورہندوستان کی سب مذہبی اورسیاسی تحریکات میں سے کوئی ایسی نہیں جس کی غرض یہ ہو۔ہندوستان کی جمعیۃ العلماء بھی آج یہ کہہ رہی ہے کہ کانگرس کے ساتھ شامل ہوئے بغیر اسلام زندہ نہیں رہ سکتااورظاہر ہے کہ جس اسلام کو زندہ رہنے کے لئے کانگرس کی مدد درکار ہے اس کی حقیقت ہر مسلمان خود سمجھ سکتا ہے۔غرضیکہ دنیامیں کوئی ایسی جماعت نہیں نہ چھوٹی نہ بڑی جو خدا تعالیٰ کیلئے کام کرتی ہو صرف یہی ایک جماعت احمدیہ ہے جو محبت الٰہی کے محورکے گردگھومتی ہے اورجس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو کھینچ کر خدا تعالیٰ کے پاس لایا جائے۔دنیا میں لوگ مال کی قربانیاں بھی کرتے ہیںاورجذبات کی بھی مگر ان میںسے کوئی بھی خدا تعالیٰ کے لئے نہیںہوتی سب ذاتی یا قومی یا خاندانی اغراض کے ماتحت ہوتی ہیں خداتعالیٰ کیلئے کوئی نہیں ہوتی۔اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مرتبہ اوردرجہ کی صحیح شناخت بھی احمدیت سے باہرنظر نہیں آتی۔مُنہ سے کہنا کہ ہم آپ کے عاشق ہیں اوربات ہے لیکن ان لوگوں کی تقریروں کو اگر سنوتو اگر وہ ہمارے دلائل کی خوشہ چینی نہیں کرتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نقل نہیںکرتے تو ان میں سوائے اس کے کچھ نہیں ہوگاکہ آپ کملی والے ہیںآپ کی زلفیں ایسی تھیں۔وہ یہ نہیںسوچتے کہ کیاآپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی یہی خوبیاں تھیں جن کیلئے اللہ تعالیٰ تیر ہ سو سال سے دنیامیں لڑائیاں، جھگڑے اور خونریزیاں کراتا رہا، ان کے ذہن اس سے آگے نہیں جاتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا خلق،انسانی روح کی ترقی کے مدارج کا بیان اور اس کی ترقی کیلئے روحانی نور کا مہیا کرنایہ ساری خوبیاں ان کی نظرسے پوشیدہ ہیں۔اگر یہ خوبیاں کسی کے سامنے آئیںتو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اوراگر آج یہ خزانہ کہیںموجود ہے تو جماعت احمدیہ میں۔پھر خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے روحانی ترقیات کاجو دروازہ کھول دیاہے امید کے دودھ سے لبریز پیالہ جو دیاہے وہ بھی ہمارے سوا کسی کے پاس نہیں۔تمام مسلمان آپ کی ذات کو مایوس اورافسردگی کا پیغام قرار دیتے ہیں اورایک ایسی دیوار ظاہر کرتے ہیںجو افضال الٰہی کے دروازہ کے آگے کھڑی ہے۔صرف ایک ہی شخص ہے جس نے بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک دروازہ کو بند کرنے والی دیوارنہیںہیںبلکہ ایک بند دیوار کا دروازہ ہیں جو خدا تعالیٰ اوربندے کے درمیان حائل تھی۔ختم نبوت بند کرنے والی دیوارنہیںبلکہ ایک وسیع دروازہ ہے جس سے ہو کر بندہ خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتاہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ خدا تعالیٰ اوربندے کے تعلقات منقطع ہوگئے ہیںبلکہ یہ ہیں کہ زیادہ کثرت اور وسعت کے ساتھ خدا تعالیٰ آپ کے وجود میں سے ہوکر بندے تک پہنچے گا۔
یہ وہ عظیم الشان امید کا دروازہ ہے اورامنگیں پیدا کرنے والی تعلیم ہے جو احمدیت سے باہر نظر نہیں آسکتی۔اگر احمدیت نہ ہو تو یہ خزانہ پھر مٹ جاتاہے۔یہ اموردنیاسے مخفی تھے اورصرف احمدیت کے ذریعہ ہی ظاہر ہوئے۔بے شک ظاہری علماء کی دنیامیں کمی نہ تھی اورنہ ہے،عربی کے ایسے بڑے بڑے عالم دنیامیں موجود ہیں جو ہمارے بڑے بڑے علماء کو برسوں پڑھا سکتے ہیں،روایات حدیث کی چھان بین کے ایسے ایسے ماہر دنیامیںموجودہیں،صَرف و نحو کے ایسے ایسے ماہر دنیا میں موجود ہیں جو ہمارے علماء کو برسوں پڑھا سکتے ہیں لیکن یہ ایک قشر ہیں۔ایک مکان جب تیار کیاجاتا ہے تواس کے باہر سفیدی کرنے اور پھول اوربیل بوٹے بنانے والے بھی مفید کام کرنے والے ہوتے ہیںلیکن اگر عمارت بنا نے کے بعداس میں رہنے والے میسرنہ ہو ں تووہ عمارت کسی کام کی نہیں۔تغلق خاندان کے ایک بادشاہ نے ایک نیا شہر آباد کیا تھا اوروہ لوگوں کو جبراََ وہاں لے گیامگر دوسرے سال لوگ پھر وہاںسے بھاگ آئے اوروہ اُجاڑ ہو گیا۔
تو جب تک قرآن کریم کا مغزاوررسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حقیقی روح نہ ہو کسی میں خالی علم کا ہونا کسی کام کا نہیں۔جہاں تک عرفان کا تعلق ہے و ہ جاہل ہیں اورہمارے جاہل بھی ان سے زیادہ عالم ہیں۔اگر دولت صرف روپوں اورپونڈوںکا نام نہیں اور یقینا نہیں تو ہمیں وہ خزانہ ملا ہے جس کے مقابل میں دنیاکے سب خزانے ہیچ ہیں اورہمارا فرض ہے کہ اس خزانہ کو محفوظ رکھیں۔کسی شخص کی جیب میں اگر دس بیس روپیہ کے نوٹ ہوں تووہ باربار جیب پر ہاتھ مارتاہے۔دو چار سو روپیہ ہو تو بڑی احتیاط سے اس کی نگرانی کرتاہے،پچاس ساٹھ ہزار یا لاکھ دو لاکھ ہو تو اسے بنکوں میںمحفوظ کرتا ہے۔جس کے پاس لاکھوں روپیہ ہواس کی نیند بھی حرام ہو جاتی ہے ا ورکروڑوں کامالک تو تواپنی زندگی کامقصد اس کی حفاظت ہی سمجھتاہے۔کہنے کو تو وہ اس کامالک ہوتاہے لیکن حقیقتاً وہ ا س دولت کا چوکیدارہوتاہے۔تو جس قوم کو ایسی عظیم الشان دولت ملی ہو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری کتنی بڑی ہے۔اس ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے دو اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔اول تو جگہ کے لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ اسے پھیلا دیں کیونکہ اس کا ایک جگہ رہنا بہت خطرناک ہے۔کون کہہ سکتا ہے کہ کل کوکوئی ایسی حکومت نہیں آئے گی جو اسے مٹانے کے درپے ہواس لئے ہمارا فرض ہے کہ اسے اس طرح پھیلا دیں کہ اگر دس،بیس،چالیس،پچاس،نوے،پچانوے بلکہ نناوے فیصدی حکومتیں بھی اسے مٹانا چاہیں تو ایک نہ ایک ٹھکانہ ضرورایسا ہو جہاں احمدیت آزادی کے ساتھ اپنے خیالات پھیلارہی ہو۔سچائی کبھی مخالفت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی اوراس لئے جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ہم مخالفت کے بغیر ہی کامیاب ہو جائیںگے وہ غلطی خوردہ ہے۔اگر یہ صحیح ہے کہ احمدیت ایک روحانی طاقت ہے تو جوں جوں یہ طاقت میں بڑھتی جائے گی اس کی مخالفت بھی بڑھتی جائے گی یہاں تک کہ وہ دن آجائے گاکہ دنیا کی آخری لڑائی اس سوال پر لڑی جائے گی کہ دنیامیں احمدیت رہنی چاہئے یا دوسرے خیالات۔
پس اس کی حفاظت کیلئے پہلی ضروری چیز تویہ ہے کہ ہم اسے پھیلا دیں تا اگر اکثر حکومتیں بھی اسے مٹا دیں تب بھی ایسی جگہیں باقی رہ جائیں جہاں احمدیت پوری شان کے ساتھ قائم ہواورترقی کی طرف قدم اٹھا سکے۔
دوسرے اسے زمانہ کے لحاظ سے قائم کرنا ضروری ہے اگر ہم اسے ساری دنیا میں پھیلا دیں لیکن ہماری آئندہ نسلیں احمدیت پر مضبوط نہ ہوں تو ہماری ساری محنت رائیگاں جائے گی۔پس صرف دنیا تک اس کو پہنچا دینا ہی ہمارا کام نہیں بلکہ آئندہ نسلوں میں اس کا قائم کرنا بھی ہے۔ہمارا ایک حملہ مقام پر ہونا چاہئے اوردوسرا زمانہ پر۔مقام کے لحاظ سے اسے گوشہ گوشہ میں پہنچا دیناضروری ہے اورزمانہ کے لحاظ سے آئندہ نسلوں تک۔اگر ہم اسے ساری دنیا میںپہنچا دیںمگر آئندہ نسلوں میں اسے مضبوطی سے قائم نہ کریں تو وہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی شخص قطب صاحب کے مینار سے بھی دس گنا اونچا مینار بنا لے لیکن جس دن وہ کھڑا ہو اس سے اگلے روزوہ گر جائے۔پس ہمار ا فرض ہے کہ اسے نہ صرف مقام کے لحاظ سے بلکہ زمانہ کے لحا ظ سے بھی مضبوط کریں اوراسے سینکڑوں ہزاروں سالوں تک پھیلانے کا انتظام کریں اوراس عظیم الشان کام کو دیکھتے ہوئے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس کیلئے عظیم الشان جدوجہد کی ضرورت ہے جو بیدارکرنے والوں سے مستغنی ہو،جو بیداری دھماکوں سے پیدا ہو وہ بھی کیابیداری ہے جاگنا وہی مفید ہو تا ہے جو انسان جاگتااورپھرجاگتا ہی رہتا ہے۔جو بیدارہوتا اورپھر سوجاتا ہے،وہ افیونی کی طرح ہے۔دھماکوں سے بیدار ہونا اورپھر سو جانا بہت بڑامرض ہے اورمجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کی بیداری اس وقت تک دھماکوں کی بیداری ہے۔
تحریک جدید کے شروع میں مَیں نے جماعت کو اس طر ف خاص طورپر متوجہ کیا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ اس سبق کو جماعت نے یاد نہیں کیا۔جب تحریک جدید کااعلان کیا گیا ہے اس وقت جماعت میں ایسی بیداری پیدا ہو چکی تھی کہ میں نے حالات کا صحیح اندازہ نہ ہو نے کی وجہ سے جب اپنے محدود علم کے مطابق جماعت سے ستائیس ہزار روپیہ کا مطالبہ کیااورکہا کہ تین سال کیلئے یہ رقم درکار ہے تو جماعت نے ایک لاکھ سات ہزار کے وعدے کئے حالانکہ وعدے کرنے والوں میں سے بہتوں نے ابھی صرف پہلے ہی سال کا حصہ دیا تھا۔کتنی عظیم الشان بیداری تھی مگر یہ دھماکے کی بیداری تھی۔دشمن نے ایک تھپڑ رسید کیا تھا جس سے جماعت میں ایک سنسنی پیدا ہوئی،لرزہ پیدا ہؤا اوروہ بیدار ہو گئی۔ میں نے اس وقت یہ کہا تھا کہ جو بیداری مار سے پیداہو وہ کوئی بیداری نہیں،وہ خدا تعالیٰ کیلئے نہیں بلکہ دشمن کیلئے ہوتی ہے اوراس کاثواب اگر دشمن کو مل سکتاتو اسے ملتا۔
غرض۱۹۳۴ء کے آخر میں جماعت میں جو بیداری ہوئی اسکے نتیجہ میں جماعت نے ایسی غیر معمولی قربانی کی روح پیش کی جس کی نظیر اعلیٰ درجہ کی زندہ قوموں میں بھی مشکل سے مل سکتی ہے،کمزورقوموں سے مقابلہ کا کوئی سوال ہی نہیں۔یہ قربانی زندہ قوموں کے مقابل پر بھی فخرکے ساتھ پیش کی جاسکتی ہے مگر وہ تھپڑ اور مار کے نتیجہ میں تھی۔دشمن کے تھپڑ سے دوست یک دم گھبر اگئے اورانہوں نے محسوس کیا کہ ہم پیسے جانے لگے ہیں۔تب خیال کیا کہ موت سے پہلے کچھ خرچ کرلو اس کے بعد دوسر ا اور تیسرا سال آیااورمیں نے ہر موقع پر سمجھایا کہ حقیقی قربانی دائمی قربانی کا نام ہے مگر تھپڑ کی چوٹ اورصدمہ جوں جوں کم ہوتا گیا،جوں جوں دشمن کو ذلّت نصیب ہوتی گئی۔جماعت کے لوگ بھی لیٹنے لگے اوربعض تو غفلت کی نیند سو گئے۔حتّٰی کہ جب میں نے دوسرے دور کی تحریک کی تو بعض لو گوں نے خیال کرلیا کہ ہم اپنا فرض ادا کرچکے ہیں اوراب ہمیں کسی اور آواز کے سننے کی ضرورت نہیں۔میں مانتاہوں کہ تحریک جدید کے پہلے دور میں احباب نے غیرمعمولی کام کیااورہم اسے فخر کے ساتھ پیش کرسکتے ہیں۔مؤرخ آئیں گے جو اس امر کا تذکر ہ کریں گے کہ جماعت نے ایسی حیرت انگیز قربانی کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی اوراس کے نتائج بھی ظاہر ہیں۔حکومت کے اس عنصر کو جو ہمیں مٹانے کے درپے تھامتواتر ذلّت ہوئی،اس نے جھوٹ ا ور فریب سے کام لیا،جھوٹی مسلیں تک بنائیںمگراللہ تعالیٰ نے اسے ناکام کیااورہم اندر بھی اورباہر بھی ہر جگہ ا س قابل ہوئے کہ اعلیٰ حکام کو بتاسکیں کہ وہ ان کو بھی دھوکا دیتے رہے ہیںاوردنیاکو بھی حتّٰی کہ گورنمنٹ کو بھی محسوس کرنا پڑا اوراس نے پہلے نوٹس کے متعلق اپنی غلطی کو تسلیم کیا اورتسلیم کیاکہ اس کی غلطی تھی اورہم حق پر تھے۔مگر فتنہ پرداز حکام نے پھر کوشش کی کہ ایسی صورت پیدا کردیں جس سے وہ اپنی شکست کو چھُپاسکیں مگرانہیں پھر ناکامی ہو ئی۔کچھ عرصہ ہؤ ااس ضلع میں مسٹر اننرڈپٹی کمشنر ہو کر آئے تھے انہوں نے مجھ سے گفتگو کی اورکہا کیوں نہ جماعت احمدیہ اورگورنمنٹ میں صلح ہو جائے۔میں نے انہیں کہا کہ ہم صلح کے لئے توہر وقت تیار ہیں مگر دب کر صلح نہیں کریں گے۔انہوں نے ایک سکیم پیش کی اورکہا کہ اس سے جماعت کی عزت بھی قائم رہے گی اورگورنمنٹ کی بھی۔میں نے ان سے کہا کہ گورنمنٹ کو ذلیل کرنا تو ہمارا مقصد ہی نہیں۔افسوس ہے کہ وہ جلد یہاں سے چلے گئے۔اگرچہ انہوں نے کہا تو یہ تھا کہ میں اس وعدہ پر اس ضلع میں آیا ہوں کہ مجھے کم سے کم تین سال تک رہنے کا موقع دیاجائے گا مگر وہ جلد رخصت پر گئے اورپھر غالباََ پنجاب سے ہی بدل دئیے گئے۔
انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں پچھلی تمام مسلیںپڑھوں گااورپھر سب واقعات پر غور کرکے اس امر کے متعلق کوئی رائے قائم کروں گاکہ جماعت احمدیہ پر کہاں تک سختی ہوئی ہے۔ اس کے بعد وہ جلد یہاں سے چلے گئے لیکن جانے سے کچھ عرصہ پہلے ایک دفعہ خان صاحب مولوی فرزند علی ان سے ملے تو انہوں نے خان صاحب سے کہا کہ اس وقت تک میں نے تین مسلیں پڑھی ہیں اورمیری یہی رائے ہے کہ ان معاملات میں آپ حق پر تھے اورآپ پر ناواجب سختی کی گئی تھی۔افسوس کہ انہیں موقع نہ ملا ورنہ ا نہوں نے وعدہ کیاتھاکہ جاتی دفعہ میں ایک ایسا تفصیلی نوٹ چھوڑ کر جاؤں گاجس میں ان تمام اُمور کے متعلق جن میں آپ حق پر ثابت ہو نگے آپ کی برأت کردی جائے گی۔تو یہ موقع بھلا دوسری کمیونٹی کو کہاں مل سکتا ہے کہ وہ ثابت کردے کہ حکام نے غلطی کی تھی اوروہ حق پر تھی۔
ایک دفعہ یہاں ایک مار پیٹ کا کیس ہو گیااور ایک شخص نے بعض احمدیوں کے نام یونہی لکھو ا دئیے کہ انہوں نے مجھے مارا ہے۔بعد میں اس سے کسی نے کہا کہ تم نے غلطی کی بڑے بڑے آدمیوں کے نام لکھوانے چاہئیں تھے چنانچہ اس نے بعد میں بڑے بڑے احمدیوں کے نام لکھوا دئیے۔مقدمہ پولیس نے شروع کیا ہمیں معلوم تھا کہ اس کے پہلے بیان میں اور نام تھے۔چنانچہ جماعت نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو گواہی میں بلایا کہ ڈائریاں لے کر آئے اور بتائے کہ شکایت کرنے والے کا پہلا بیان کیا تھا مگر گورنمنٹ کی طرف سے کہا گیا کہ یہ سرکاری راز ہیں جن کو ظاہر نہیں کیا جاسکتا حالانکہ یہ بالکل نامعقول بات ہے۔زید اور بکر کی لڑائی ہو اورزید ایک رپورٹ لکھوائے تو اس میں سرکار کا کیا تعلق ہے اور زیدکی رپورٹ سرکاری راز کس طرح کہلا سکتا ہے سوائے اس صورت کے کہ سرکاری افسروں کی طرف سے اسے شرارت کرنے کے لئے بھیجا گیا ہو۔آخر اپیل میں اوپر کے مجسٹریٹ نے ان کاغذات کا مطالبہ کیا اور کاغذات پیش ہوئے اور سارا فریب کھل گیا۔
اس قسم کے بیسیوں واقعات گزشتہ چار سالوں میں ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے متواتر ان افسروں کو جو احمدیوں سے بِلا وجہ دشمنی رکھتے تھے بُری طرح ذلیل کیا ہے اور اسی طرح ہمارے دوسرے دشمنوں کو بُری طرح ذلیل کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ہر میدان میں کامیابی اور دشمنوں کو ذلت نصیب ہوئی اور احرار کو تو اللہ تعالیٰ نے ایسا ذلیل کیا ہے کہ اب وہ مسلمانوں کے سٹیج پر کھڑے ہونے کی جرأت نہیں کر سکتے۔کجا تو یہ کہ وہ وزارت کے خواب دیکھ رہے تھے اور وزارتیں تقسیم کر رہے تھے اور کجا یہ کہ اسمبلی میں ان کا صرف ایک ہی ممبر ہے۔اور لطف یہ ہے کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے احمدیہ جماعت کو کچل دیا ہے حالانکہ اسمبلی میں ایک ہی ممبر ان کا اور ایک ہی ہمارا ہے اور وہ تو سو فیصدی مسلمانوں کے نمائندہ ہونے کے مدعی ہیں مگر ہم ایک فیصدی ہیں مگر اسمبلی میںسوفیصدی والوں کے برابر ہیں۔اب ملتان میں انہوں نے پھر ایک کونسل کی ممبری کے حصول کی کوشش کی تھی مگر نہایت سخت شکست کھائی ہے۔تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سب دشمنوں کو ایسی سخت شکست دی ہے کہ حکام نے خود اس کو تسلیم کیا ہے۔کئی رنگ میں ہمیں نقصان پہنچانے کی کوششیں ہوئیں حتّٰی کہ عدالتوں کو بھی متاثر کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن اس صورت میں بھی ہائی کورٹ سے اللہ تعالیٰ نے ہماری برأت کرائی۔اس کے علاوہ جو جماعت میں تبدیلی ہو ئی وہ بہت ہی شاندار ہے۔ہماری جماعت لاکھوں کی تعداد میں ہے جس میں امیرغریب ہر طبقہ کے لوگ ہیں بعض ان میں سے ایسے ہیں جن کو سات سات اور آٹھ آٹھ کھانے کھانے کی عادت تھی اورجن کے دسترخوان پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھانے ہی کھانے پڑے ہوتے تھے۔حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں ایک دفعہ مجھے عربی مدارس کے معائنہ کے لئے ایک سفر کرنا پڑا راستہ میں ایک جگہ احباب نے دعوت کی۔میں نے دیکھا کہ اس قدر کھانے سامنے پڑے ہوئے تھے کہ اگر میں اپنا ہاتھ پھیلاتا تب بھی سب پلیٹوں تک نہیں پہنچ سکتا تھا حتّٰی کہ اگر لیٹ جاتا تب بھی بعض تھالیاں مجھ سے دور رہتیں۔کوئی چالیس قسم کے کھانے تھے۔میں نے دبی زبان سے اس کا شکوہ بھی کیا مگر ایک دوست نے جو ساتھ تھے مجھے روکا اور کہا کہ ایسا نہ کریں،صاحب خانہ کی دل شکنی ہوگی۔ابھی تو بہت سادگی سے کام لیا گیا ہے ورنہ یہاں معززین کی دعوت میں اس سے بہت زیادہ کھانے ہوتے ہیں۔تو اس قسم کے لوگ بھی جماعت میں موجود تھے مگر تحریک جدید کے ماتحت سب نے ایک ہی کھانا کھانا شروع کردیااورنہ صرف احمدیوں نے بلکہ بیسیوں بلکہ سینکڑوں غیراحمدیوں نے بھی اس طریق کو اختیار کر لیا۔ میری ایک ہمشیر ہ شملہ گئی تھیں انہوں نے بتایاکہ وہاں بہت سے رؤساء کی بیویوں نے مانگ مانگ کرتحریک جدید کی کاپیاں لیں اورکہاکہ کھانے کے متعلق ان کی ہدایات بہت اعلیٰ ہیںہم انہیںاپنے گھروں میںرائج کریں گی۔ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ بعض غیراحمدیوں کے ساتھ ایک مَیس میں شریک تھے تحریک جدید کے بعد جب انہوں نے دوسرا کھانا کھانے سے احتراز کیااوردوسرے ساتھیوں کے پوچھنے پر اس کی وجہ ان کو بتائی تو انہو ںنے بھی وعدہ کیا کہ یہ بہت اچھی تحریک ہے ہم بھی آئندہ اس پر عمل کریںگے۔پھر میں نے سینما دیکھنے کی ممانعت کی تھی اس بات کو ہمارے زمیندار دوست نہیں سمجھ سکتے کہ شہریوںکے لئے ا س ہدایت پر عمل کرنا کتنا مشکل تھا شہر والے ہی اسے سمجھ سکتے ہیں۔ان میں سے بعض کے لئے سینما کو چھوڑناایسا ہی مشکل تھاجیسے موت قبول کرناجن کو سینما جانے کی عادت ہو جاتی ہے وہ اسے زندگی کاجزو سمجھتے ہیں مگر اِدھر میں نے مطالبہ کیاکہ اسے چھوڑ دو اور اُدھر ننانوے فیصدی لو گو ں نے اسے چھوڑ دیا اورپھر نہایت دیانتداری سے اس عہد کو نبھایااورعورت مرد سب نے اس پر ایسا عمل کیاکہ جو دنیا کے لئے رشک کا موجب ہے اورمیں سمجھتا ہوں کہ اس سے لاکھوں روپیہ بچ گیا ہو گا۔سینما دیکھنے والے عموماََ روزانہ دیکھتے ہیں اگر مہینہ میں دس دن بھی سینما کے شمار کئے جائیں اورصرف چارآنہ والے ٹکٹ کااندازہ کیاجائے تب بھی سال میں تیس روپے فی کس کا خرچ ہے اوراگر جماعت کے سینماجانے والوںکی تعداد ایک ہزارسمجھی جائے تو تیس ہزارسالانہ کی بچت جماعت کو ہوگئی جو رقم کہ چار سال کے حساب سے سوا لاکھ بنتی ہے۔مگرسارے چار آنہ میں ہی دیکھنے والے نہیں ہوتے بعض روپیہ دو روپیہ کا ٹکٹ لیتے ہیں۔پھر اس سے جو وقت بچا اس کی قیمت کا اندازہ کرو گھر سے سینما آنے جانے،تماشہ کاانتظارخود تماشہ کاوقت اگر اندازہ لگایاجائے تو تین چار گھنٹہ سے کم نہ ہوتا ہوگا یہ وقت بھی بچ گیا۔پھر گھروں میں اس سے امن قائم ہؤا۔جو لوگ سینما دیکھنے جاتے تھے ان کی بیویوں کو واپسی تک جاگناپڑتاہوگا۔جس سے بعض اوقات لڑائی بھی ہو جاتی ہوگی۔ اب ایسے لوگ جلدی گھر آجاتے ہوں گے اورمیاں بیوی کو باہم دُکھ سُکھ کی بات چیت کرنے کا موقع مل جاتا ہو گا،کسی کی نیند خراب نہیں ہوتی ہوگی۔پس یہ مطالبہ معمولی نہ تھا لیکن جماعت نے اسے سنا اورپورا کردیااوراس سے فوائد بھی حاصل کئے۔اس کے علاوہ کون نہیں جانتاکہ عورت کپڑوںپرمرتی ہے مگر ہزارہا عورتوں نے دیانتداری سے لباس میں سادگی پیدا کرنے کے حکم پر عمل کیا۔یہ باتیں انفرادی قربانی اور قومی فتح کا ایک ایسا شاندارنمونہ ہیں جس کی مثال کم ملتی ہے۔یہ قربانی معمولی نہیںبلکہ زندگی کے ہر شعبہ کی قربانی ہے اوردیکھنے والی آنکھ کیلئے اس میں فتوحات کا لمبا سلسلہ ہے۔پھر کتنے نئے ممالک میں احمدیت روشناس ہوئی۔کم سے کم دس پندرہ ممالک ایسے ہیں۔کئی علاقوں میں گو احمدیت پہلے سے تھی مگرتحریک جدید کی جدو جہد کے نتیجہ میں اس کااثرپہلے سے بہت وسیع ہوگیا ہے۔
اس کے علاوہ ایک یہ نتیجہ نکلا کہ اس سے پہلے دنیوی لحاظ سے جماعت کو صرف ایک دستہ فوج سمجھا جاتا تھا اوراس کی حیثیت مسلمانوں کے ا یک بازو کی تھی لیکن احرار اوربعض حکام نے ہمارے خلاف جو شورش پید ا کی اس سے ڈر کر سارے مسلمانو ں نے ہم کو علیحد ہ کر دیا۔ خود گورنر پنجاب نے ایک دفعہ چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب سے کہاکہ کیاآپ سمجھتے ہیںکہ آ پ کے مخالف صرف احرارہیں سب قوموں اورفرقوں کے لوگ میرے پاس آ آکرآپکی شکایتیں کرتے ہیں۔ممکن ہے کہ اس میں کچھ مبالغہ ہو اوریہ بھی ممکن ہے کہ جو لوگ ہمارے مؤید تھے انہوں نے کبھی ان کے سامنے اپنے خیالات ظاہر نہ کئے ہوں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری مخالفت بہت عام ہو گئی تھی۔حتّٰی کہ وہ مسلم لیگ جس کے اجلاس بعض دفعہ نہ ہو سکتے تھے اوروہ مجھ سے روپیہ لے کر اجلاس کرتی تھی اسے بھی زکام ہؤااوراس کی پنجاب کی شاخ نے یہ فیصلہ کردیاکہ احمدی اس کے ممبر نہیں ہو سکتے یہ کفرانِ نعمت کی انتہاء تھی لیکن اس کی وجہ یہی تھی کہ اس وقت ہمارے خلاف لو گوں میں اتنا جوش تھاکہ انہوں نے خیال کیاکہ اگر ہم نے احمدیوں کو شامل رکھا تو لوگ ہمیں ووٹ نہیں دیں گے۔اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی اورپنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ کی بھی ایک ہی نشست ہے گویا وہ بھی ہمارے برابر ہیں جو یقینا ہماری فتح ہے۔ہماری جماعت تو مختلف مقامات پر پھیلی ہوئی ہے اگرایک ہی ضلع میں ہوں تو ہم دو ممبران بھی لے سکتے ہیں مگر ہم پھیلے ہوئے ہیں اس لئے ایک ممبرکا حصول بھی ہمارے لئے ناممکن ہے۔پس ایک نشست کاحاصل کرلینا بھی ہماری بہت بڑی فتح ہے لیکن ا ن کاصرف ایک نشست حاصل کرنا ان کی سخت شکست۔بہر حال اس وقت تک ہم مسلمانوں کا ایک حصہ سمجھے جاتے تھے مگرمسلمانوں نے گزشتہ فتنہ سے مرعوب ہو کرہمیں اس طرح الگ کرنے کی کوشش کی جس طرح دودھ سے مکھی نکال دی جاتی ہے اوراس طرح ہمیں تنِ تنہا سب دشمنوں سے لڑنے کاموقع ملا اورمحض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اس لڑائی میں کامیاب ہوئے اوردنیانے محسوس کرلیاکہ جماعت احمدیہ صرف مسلمانوں کے لشکر کاایک بازوہی نہیں بلکہ وہ اپنی منفردانہ حیثیت بھی رکھتی ہے اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے خوداپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔پہلے ہماری اس حیثیت سے دنیا واقف نہ تھی تحریک جدید کے نتیجہ میںہی وہ اس سے آشنا ہوئی ہے مگر یہ سب فتوحات جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں حاـصل ہوئیں ہمارا مقـصد نہیں۔ہمارا مقصد ان سے بہت بالا ہے اوراس میں کامیابی کیلئے ابھی بہت قربانیوں کی ضرورت ہے۔ دنیاکا کوئی ملک ایسا نہ ہونا چاہئے جہاں احمدیت قائم نہ ہو۔اس وقت تک جماعت حقیقی طور پر صرف ہندوستان میں ہے ا وریہاں اسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے رنگ میں مضبوطی حاصل ہے کہ اور کہیں نہیں۔ہندوستان سے اترکروہ ملک جہاں احمدیت کو مضبوطی حاصل ہو رہی ہے اورجہاں لو گ اسے سمجھنے اوراسے اپنی عملی زندگی کاجزو بنانے کی کوشش کررہے ہیں وہ سماٹرا اورجاوا ہیں۔وہاں سے طالب علم بھی دین سیکھنے کیلئے یہاں آتے رہتے ہیں اورجب تاریخ عالم میں احمدیت کی تاریخ لکھی جائے گی توہندوستان کے بعد ان جزائرکاذکر نمایاں طورپر ہوگا۔
تیسرا مقام جہاں احمدیت ترقی کررہی ہے اور جہاں اسے سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے عرب ہے۔جس کے ساتھ فلسطین بھی شامل ہے۔فلسطین میں ایک گاؤں احمدیہ جماعت کا مرکز ہے یعنی وہ قریباََ سب کاسب احمدی ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ احمدی جماعتیں مصر اور شام میں بھی ہیں۔فلسطین کے جس گاؤں کامیں نے ذکرکیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی جماعت ہے جو عملی طورپر احمدیت کو اپنی زندگی میں داخل کررہی ہے۔انہوں نے اپنے مدرسے بھی جاری کر رکھے ہیں، لٹریچر بھی شائع کرتے ہیں،روپیہ خرچ کرتے ہیں،گویاتیسرا ملک عرب ہے۔جس میں شام اورفلسطین وغیرہ بھی شامل ہیں جو احمدیت کی روح کو اپنے اندر داخل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔پھر تعداد کے لحاظ سے گوابھی علمی لحاظ سے نہیں مغربی افریقہ کو بھی نمایاں مقام حاصل ہے اورمیں سمجھتا ہوں کہ وہاں اس وقت تک پچاس ساٹھ ہزاراحمدی ہو چکا ہے اوراحمدیت وہاں وسیع طور پر پھیل رہی ہے اوریہ صرف ہما رے مبلغین کے ذریعہ نہیں بلکہ خود ان میں سے جو احمدی ہو ئے ہیں وہ آگے جاکر دوسروں کو تبلیغ کرتے ہیں۔ان لوگوں میں تعلیم بہت کم ہے اورایسے لوگوں کو ٹھوکر بھی لگ سکتی ہے بعض کو دوسرے لوگ دھوکا بھی دے سکتے ہیں مگر باوجود تعلیم کی کمی کے وہ لوگ بہت کام کررہے ہیں۔ان کے مدرسے جاری ہیں،اشتہارات شائع ہوتے ہیں، کئی نوجوان اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں،کئی ایسے ہیں جنہوں نے چھ چھ ماہ تبلیغ کے لئے وقف کئے اورسینکڑوں میلوں کے پیدل سفرکرکے تبلیـغ کیلئے گئے اورنئی جماعتیںقائم کیں۔ہندوستان میں بیٹھے ہوئے لوگ یہ اندازہ نہیں کرسکتے کہ غیرممالک میں کیا کام ہو رہا ہے یہاں تو بعض لو گ احمدیہ جماعتیں قادیان ننگل اوربھینی میں ہی سمجھتے ہیں۔ان کی آنکھوں کے سامنے وہ لڑائی نہیں جو غیر ممالک میں لڑ ی جارہی ہے اورجس میں ہمارے مجاہد نوجوان اپنا خون اور پانی ایک کررہے ہیں اوراحمدیت کے جھنڈے کو بلند کررہے ہیں۔بے شک ان ممالک میں سے کوئی روپیہ یہاں نہیںآتایا کم آتاہے۔مگراس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے فیصلہ کیاہؤا ہے کہ بیرونی ممالک کی جماعتوںکے چندہ کا ۷۵فیصدی مقامی طور پر خرچ کیاجائے اورصرف۲۵فیصدی یہاں آئے اورجہاں ضرورت ہو سو فیصدی ہی وہاں خرچ کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے لیکن اس لڑائی میں ہمیں یہاں سے روپیہ نہیں بھیجنا پڑتا۔کیایہ کم آرام کی بات ہے،بے شک ان کا روپیہ یہاں خزانہ میں جمع نہیں ہوتااورجو لوگ کامیابی کااندازہ روپیہ سے کرنے کے عادی ہوئے ہیں وہ یہی خیال کرتے ہیںکہ کوئی کام نہیں ہورہا مگرانہیںمعلوم ہونا چاہئے کہ وہ جماعتیں اپنے اپنے طورپر کافی خرچ کر رہی ہیںاوربعض جماعتوں کے بجٹ دس دس اورپندرہ پندرہ ہزار کے ہوتے ہیں۔اگروہ ساری رقمیں یہاں آئیں توہمارابجٹ دُگنا نہیں توڈیو ڑھا تو ضرور ہو جائے گامگر وہاں بھی ا یک لڑائی جاری ہے اورایسی صورت میں ہمارا وہاں سے روپیہ منگوانا بہت بڑی حماقت ہوگی۔گو کئی نادان وہاں سے روپیہ نہ آنے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ کوئی کام نہیں ہو رہاحالانکہ ان کے بجٹ ہزاروںکے ہوتے ہیں۔پھر تحریک جدید میں انہوںنے بھی پورے شوق سے حصہ لیاہے اور بعض ممالک سے ڈیڑھ ڈیڑھ اوردو دو ہزارروپے بھی آتے رہے ہیں۔پس میں اپنی جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ عظیم الشان کام ہمارے سامنے ہے۔اگر وہ اس امر کے منتظر ہیں کہ تھپڑ پڑے تو اٹھیں۔ تویاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس تھپڑوں کی کمی نہیںمگر یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ انسان تھپڑکھا کر بیدارہو۔یہ نمونہ تو ہم نے دکھادیاکہ کوئی ضرب لگائے تو بیدار ہو کر ہم ایسا مقابلہ کر تے ہیں کہ اس کی مثال نہیں ملتی اوراب تحریک جدید کے دورِ ثانی میں ہم نے یہ دکھانا ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں بغیر مارکھائے بھی ہم ویسی ہی قربانی کرنے کو تیار ہیں اوراس دورکی کامیابی پر اس سوال کا فیصلہ ہو گا کہ احرار کی مار کی ہمارے دلوں میں زیاد ہ عظمت ہے یا خداتعالیٰ کی محبت اوراس سوال کا آ پ جو بھی جواب دیںگے اس سے آپ کی قیمت کااندازہ ہوگا۔دورِثانی ایسی حالت میں شروع کیاگیاہے کہ جب بظاہر سامنے کوئی خطرہ نہ تھااوریہ اس لئے ہؤا کہ تا اللہ تعالیٰ ہمیںاس پر فخر کا موقع دے اورہم بتاسکیں کہ جس طرح اگر دشمن ہمیں ذلیل کرنا چاہے توہم ایسی قربانی کرتے ہیںجس سے وہ ناکام ہو جائے اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کی محبت میں بھی اگر ہمیں قربانی کرنا پڑے تو پیچھے ہٹنے والے نہیںہیں۔مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے ایک حصہ نے دورِ ثانی کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔
دورِ اول میں تو دشمن گھو نسے تانے ہمارے سروں پر کھڑا تھا اُس وقت ہم میں جو بیداری پیدا ہو ئی وہ اپنی جان بچانے کیلئے تھی مگرآج کوئی دشمن سامنے نہیںکھڑااوراُس طرح حملہ آور نہیں، گو اندر ہی اندر آگ سُلگائی جارہی ہے اورایک لاوا ہے جو پک رہا ہے مگر وہ تمہاری نظروں سے پو شیدہ ہے اسلئے آج کی قربانی دشمن کی مارکی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی۔اس وقت قربانی خالص خداتعالیٰ کی محبت کے لئے ہوگی،اس وقت ہمارے مد نظر صرف خدا تعالیٰ کے دین کوپھیلانے کیلئے مستقل کام کی بنیاد رکھنا ہے اوراس کے لئے میں چاہتا ہو ں کہ ایک مستقل ریزرو فنڈ قائم کردوں جس سے یہ کام سہولت کے ساتھ چلتارہے اوراس کے ساتھ نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تیار کروں جو اسلام کو صحیح معنوں میں قائم کرنے والی ہو۔یہ دونوں کام پہلے سے بہت زیادہ خرچ چاہتے ہیں لیکن باوجود اس کے میں نے کہہ دیا ہے کہ جو دوست زیادہ بوجھ نہ اٹھا سکیںہرسال دس فیصدی چندہ تحریک میں سے کم کرتے جائیں گو میں نے اپناچندہ گزشتہ سال بھی تیسرے سال کی نسبت دس فیصدی بڑھا دیاتھا۔بہر حال یہ دوسرا دور تحریک جدید کا آپ کے سامنے ہے۔مجھے اس سے غرض نہیں کہ آپ اس پر کس طرح عمل کرتے ہیں اگرآپ اس پر عمل نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ کامیابی کا کوئی اور رستہ کھول دے گا مگر میںآپ لوگوں کو توجہ دلاتاہوں کہ دو مواقع قربانی کے آئے ہیں ایک وہ جب دشمن مار رہا تھا اورایک خالص خدا تعالیٰ کی محبت میں قربانی کرنے کا۔اگراس دوسرے وقت میں ہم نے سستی دکھائی توآئندہ زمانہ کے لوگ ہمارے متعلق کیافیصلہ کریں گے وہ ظاہر ہی ہے۔آپ میں سے ہر ایک نے اپنی قبر میں جانا ہے اورمیں نے اپنی میں۔میرے اچھے عملوں سے آپ لوگوںکو کوئی فائدہ نہ ہو گا اورآپ کے اچھے عملوں سے مجھے نہیں ہو گا۔ہر ایک اپنے اپنے اعمال کاخدا تعالیٰ کے سامنے خود جو اب دِہ ہے۔ اگر وہ مجھے پو چھے گا کہ تم نے کیا قربانی کی تواس کے جواب کا میں ذمہ دار ہوں تم اپنے لئے آـپ سوچ لوکہ تم کیاجواب دو گے یا دے سکو گے۔میں جانتاہو ں کہ کل کو اگر کوئی اور قوم ہمارے مقابلہ کیلئے کھڑی ہو جائے تو سست دوست بھی قربانیاں کرنے لگیں گے مگرقیامت کے روز خدا تعالیٰ ان سے کہے گا بے شک تم نے قربانیاں کیں مگر میرے لئے نہیں بلکہ ا پنی جان بچانے کے لئے۔اس وقت میں نے آپ لوگوں کے سامنے چند اصول رکھ دئیے ہیں اوران پر تبصرہ کر دیاہے اس وقت میں کوئی تحریک نہیں کرتا۔صرف ایک تحریک کرتاہوں کہ رمضان کاآخری عشرہ جو آنے والا ہے ا س کو تحریک جدید کے متعلق سابق قربانیوں کے لئے شکریہ اورآئندہ کیلئے طاقت کے حصول کیلئے خرچ کرو۔جن کو گزشتہ سالوں میں قربانیوں کی توفیق ملی ہے وہ اس کیلئے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کریں اورہر ایک دعا کرنے والا اللہ تعالیٰ سے ہر قربانی کرنے والے کے لئے دعا کرے کہ اس نے شوکت دین اورمضبوطی سلسلہ کے لئے جو قربانی کی ہے اس کے نتیجہ میںاللہ تعالیٰ اس پر اپنے فضل اور رحمتیں نازل کرے اوراس کیلئے اپنی محبت اوربرکات کا نزول فرمائے اس محبت ا وراخلاص کے مطابق جس کے ساتھ اس نے خدا کی راہ میں قربانی کی تھی۔ پھر تم میں سے ہر شخص یہ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس دورِ ثانی کو پہلے دورسے بھی زیادہ کامیاب بنائے۔بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں چندہ کہاں سے دیں لیکن میںنے تواس تحریک کے شروع میں ہی یہ کہہ دیاتھا کہ غریب سے غریب بلکہ معذور سے معذوربھی حتّٰی کہ جس کی زبان بھی نہ ہو وہ بھی اس میں حصہ لے سکتاہے یعنی وہ دعا کے ذریعہ اس میں شامل ہو سکتاہے اوریہی انیسواں مطالبہ ہے جس میں وہ شخص بھی جو چارپائی پر پڑـا ہؤ اہو حتّٰی کہ ہاتھ بھی نہ ہلاسکے، زبان سے بول بھی نہ سکے،وہ بھی اس میں شریک ہو سکتا ہے اس طرح تم میں سے ہر وہ شخص خواہ وہ کتناہی جاہل اور اَن پـڑھ کیوں نہ ہو تحریک جدید میں حصہ لے سکتاہے۔
پس اس عشرہ میں خصوصیت سے دعائیں کرتے رہوکہ اللہ تعالیٰ دورِ ثانی کو پہلے سے بھی زیادہ کامیاب بنائے اورجماعت کے قلوب میں ایسی صفائی پیدا کردے کہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت میں بھی ویسی ہی قربانیاں کرسکے جیسی کہ دشمن سے مقابلہ کے وقت کرتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کراوراگر آپ لوگ سارے کے سارے میرے ساتھ دعاؤں میں شامل ہوجائیں تویقیناََ نتائج نہایت شاندار نکلیں گے(آخری عشرہ کے انتظار کی ہی کوئی خاص ضرورت نہیں۔آج سے ہی دعائیں شروع کر دینی چاہئیں اس طرح تیرہ یا بارہ دن دُعا کے لئے مل جائیں گے۔خطبہ چھاپنے والوں کو بھی چاہئے کہ جلدی کریںتا پیر کے روز خطبہ یہاں سے جا سکے۔اس کے یہ معنے ہوں گے۔کہ باہر کی جماعتوں کو بیسویں روز خطبہ پہنچے گا اور اس طرح نو دن ان کو مل سکیں گے۔گو قادیان کے لوگوں کو زیادہ موقع مل سکے گا)خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ ہمارا کام بہت بڑاہے۔دین کو ہمیشہ کے لئے ساری دنیا میںقائم کردینا کوئی آسان بات نہیں اوراس کیلئے بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے،لیکن ا گر تم کچھ اور نہیں کرسکتے تو اتنا تو کرو کہ دعائیں کرو اور اگر اور رنگ میں بھی قربانی کرسکواورپھر ساتھ دعائیںکرو تو دُہرا ثواب حاصل کرسکو گے۔
پس اس رمضان میںخصوصیت کے ساتھ ان لوگوں کیلئے دعائیں کرو جنہوں نے مال سے یا وقت سے یا اولاد کے ذریعہ سے قربانیاں کی ہیں یا دعاؤں سے مدد کی ہے اللہ تعالیٰ ان کے گھروں کو سکون اوربرکت سے بھر دے، انکی قربانیاں دائمی صدقہ کا کام دینے والی ہوں، اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں اوران کی غلطیوں کو معاف کرے اور انہیں گناہوں کی عادت سے بچائے۔ان کے قلوب میں اپنی محبت اور عرفان کے چشمے پھوڑے اورانہیں نیک نسلیںعطا کرے جو راستی پر قائم رہنے والی ہوں۔پھر یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس دورِ ثانی کو کہ جس کا محرک ا س کی محبت ہے کامیاب کرے اورجماعت کو قربانیوں کی توفیق دے کہ دراصل یہی اصل قربانی ہے۔اللہ تعالیٰ مالی قربانی کرنے والوں کو سچے معیار کے مطابق قربانی کی توفیق عطا فرمائے۔جن کو توفیق نہیں انہیں توفیق دے اورجنہیں توفیق ہے مگر وہ کمزوری دکھا رہے ہیں ان کے لئے بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں کو دور کرے۔جن لو گوںکو مالی قربانی کی توفیق نہیں ان پر بھی بڑی ذمہ داری ہے۔وہ رات دن دعائیں کریں تا اللہ تعالیٰ غیب سے راستے کھول دے اور ان کی دعاؤں کی وجہ سے دوسروںکو قربانی کی توفیق دے اوراگر سچے دل سے دعائیں کی جائیں تو یقیناََ ہم کامیاب ہونگے کیونکہ الٰہی سلسلوں کی بنیاد ہمیشہ الٰہی فضلوں پر ہوتی ہے اوران دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ہمیںقربانیاں کرنے کی ایک ایسی رفتار بخش دے گاجس میں روز بروز ترقی ہوتی چلی جائے گی۔یہاںتک کہ ہم اورہماری نسلیں ان کے ذریعہ اپنے اس مقصود کو پا لیں گی جس کیلئے ہم پیداکئے گئے ہیں اوراللہ تعالیٰ کے اس قدر نزدیک ہوجائیں گے اورقُرب کا وہ مقام حاصل کرلیں گے جس پر دوسری برگزیدہ جماعتوں کو رشک پیدا ہوگااورہمارے مخالف حسد کی آگ میں جل جائیں گے۔‘‘ (الفضل۱۵نومبر۱۹۳۸ئ)
۱؎ البقرۃ: ۱۸۶
۲؎ ، ۳؎ شعب الایمان لِلْبَیْھَقِی الجزء الثانیصفحہ ۳۱۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۰ء

۳۷
تحریکِ جدید کے دورِثانی میں زیادہ جدوجہد کی ضرورت ہے
(فرمودہ۱۸؍نومبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’جیسا کہ میںگزشتہ خطبات میں بیان کرچکا ہوں تحریک جدید کا دورِ اول صفائی کی مثال رکھتا تھا۔اس کی غرض یہ تھی کہ دشمنوں نے احمدیت پر جو حملہ کیاتھااس کا ازالہ کیاجائے اوردشمن کی حقیقت کو دنیاپر ظاہر کیاجائے۔واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ اس کوشش میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم کوعظیم الشان کامیابی عطا فرمائی ہے۔اس وقت ہماری سب سے بڑی مخالفت دو گروہوں کی طرف سے ہو رہی تھی،گو شامل سارے ہی تھے مگر خصوصیت کے ساتھ ایک تو احرارمخالفت کررہے تھے اور دوسرے حکومت کا وہ حصہ جو اندرونی طور پر برطانیہ کے دشمنوں کا ہمدرد تھا وہ اپنے عہدوں کی آڑ لے کرہمیں نقصان پہنچانا چاہتاتھا اس کوشش میںاس نے حکومت کے بعض ہندوستانی یا انگریز افسروں کو بھی جھوٹی سچی شکایتیں کرکے اپنے ساتھ ملا لیاتھا۔
احرار کاانجام جو ہؤا وہ سب پر ظاہر ہے۔خداتعالیٰ نے ان کی ذلت کے ایسے سامان مہیا کر دیئے کہ اب وہ مسلمانوںمیں خودآزادی سے تقریر بھی نہیں کرسکتے۔کئی سال تو ایسی حالت رہی کہ لاہور میںاحرار کا جلسہ ہونا ناممکن ہو گیا وہ جلسہ کرتے اور لوگ شور مچادیتے ابھی تک بہت جگہ ان کی یہی حالت ہے گو وہ اپنی کھوئی ہو ئی طاقت واپس لینے کے لئے اب کئی قسم کے بہانے بنانے لگ گئے ہیں۔کہیں فلسطین کے مظلوم مسلمانوںسے ہمدردی کے دعوے کرتے ہیں اورکہیں کشمیرایجی ٹیشن شروع کرتے ہیں مگرابھی تک انہیں اپنے مقصد میںکامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کوحافظہ دیاہے اوروسیع حافظہ دیا ہے۔تم میںسے وہ لوگ جو مایوس تھے اورہر جماعت میںکچھ نہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مایوسی کی عادت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ ذرا اپنے حافظہ پر زور ڈال کر احرار کی اس طاقت کا جو اُنہیں آج سے ساڑھے تین سال پہلے پنجاب میں حاصل تھی اندازہ لگائیں اورجو آج ان کی حالت ہے اس کا بھی اندازہ لگائیں، پھر جو اُس وقت ان کے روپیہ کی آمد کاحال تھا ا س کا بھی اندازہ لگائیں اور جوآج ان کے روپیہ کی آمد کا حال ہے اس کابھی اندازہ لگائیں۔گورنرپنجاب نے خود ہمارے آدمیوں سے ان دنوںبیان کیا کہ سینکڑوں روپیہ روزانہ ان کو منی آرڈروں کے ذریعہ آتاہے اوریہ ہمارے محکمہ کی رپورٹ ہے۔میں اگر غلطی نہیں کرتا تو شاید انہوںنے پانچ سو روپیہ روزانہ کی آمد بتائی تھی۔ گویا ان دنوںپندرہ بیس ہزار روپیہ ماہوار ان کی آمد تھی لیکن ا ٓج یہ حالت ہے کہ متواتران کی طرف سے اپنے لوگوںکے نام یہ اعلان ہو تے ہیں کہ دس روپے ہی بھجوا دیں، دس نہیں تو پانچ ہی سہی،میںجب اس کیفیت کو دیکھتا ہو ں تو مجھے وہی نظارہ یاد آجاتا ہے جو بچپن میں میر ے دیکھنے میںآیا کرتا تھا۔
یہاں ایک معذور فقیر ہؤا کرتاتھا۔اس کی عادت یہ تھی کہ اس کے پاس سے جو شخص بھی گزرتااس سے ضرور کچھ نہ کچھ مانگتاوہ ہمیشہ اپنا سوال روپیہ سے شروع کرتا اور کہتا کہ ایک روپیہ دیتے جاؤ مگر یہ الفاظ کہتے ہی معاً اس کی طبیعت کہتی کہ یہ روپیہ نہیں دے گا ا س لئے وہ اس کے ساتھ کہہ دیتا کہ اچھا اٹھنی ہی سہی اوربغیر وقفہ کے اس کے ساتھ زائد کر دیتا اچھا دونی ہی دے دو، پھر کہتاکہ چلو ایک آنہ ہی سہی اتنے میں گزرنے والا اس کے پاس پہنچ جاتا اوروہ کہتا دوپیسے ہی دے دو،اچھا ایک پیسہ ہی سہی جب وہ آدمی اسے چھوڑ کر آگے گزر جاتاتو کہتا کہ دھیلہ ہی دیتے جاؤ۔ایک پکوڑاہی سہی اورجب و ہ دو ر چلا جاتاتوزورسے آواز دیتا کہ ایک مرچ ہی دیتے جاؤ۔یہی حالت ان لوگو ں کی آج ہو رہی ہے۔
مگر وہ وقت ایسا تھا کہ ان سے گورنمنٹ بھی ڈرتی تھی۔چنانچہ گورنمنٹ پنجاب کے بعض ذمہ دار افسروں نے اس وقت ہمارے آدمیوں سے کہاتھا کہ بعض موقعوں پر ہم سمجھتے ہیں کہ احرارزیادتی کررہے ہیں۔مگر کوئی اقدام کرنے سے پہلے ہمارے لئے یہ دیکھنا بھی تو ضروری ہے کہ ہمارے اقدام کے نتیجہ میں عام مسلمانوں پر کیا اثر ہوگا۔تو یہ ایسی چیز ہے جس کاانکار دشمن بھی نہیں کر سکتا۔لاہور کے تمام مسلمان اخبارات باقاعدہ اس بات کو پیش کرتے اور اس کے متعلق مضامین لکھتے رہتے ہیںبلکہ ہمارے صوبہ کی سب سے بڑی طاقت یعنی یونینسٹ پارٹی جو بر سرِحکومت ہے اور جسے قانون کے لحاظ سے حاکم اور بادشاہ کہنا چاہئے وہ خود اسی نتیجہ کی سب سے بڑی شاہد ہے گو مجھ سے ایک ڈپٹی کمشنر نے بات کرتے وقت کہاکہ برطانوی گورنمنٹ فلاں چیز کی برداشت نہیں کرسکتی مگر یہ کہتے ہوئے معاً انہیں خیال آیا کہ ہم دعوے تو اَور کرتے رہتے ہیں اور میں نے اس موقع پر کیا کہہ دیا ہے اس لئے وہ یہ فقرہ کہتے ہی کہنے لگے آپ اس کو سلف گورنمنٹ کہہ لیں۔یعنے موجود ہ سلف گورنمنٹ برطانوی حکومت ہی ہے صرف اس کانام بدل دیا گیاہے۔یہ اس ڈپٹی کمشنر کے قول کا مطلب واقع میں ہے یا نہیں،یہ یونینسٹ گورنمنٹ جانے۔بہر حال ہمیں بتایا یہ جاتا ہے کہ اس وقت یونینسٹ گورنمنٹ حکومت کر رہی ہے اور یہی یونینسٹ گورنمنٹ اس نتیجہ کی سب سے بڑی شاہد ہے۔کیونکہ اسے شکست دینے کے لئے احرار نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اس کے کم سے کم دو درجن ممبر ایسے ہیں جو ہماری مدد سے باوجود احرار کی مخالفت کے کامیاب ہوئے تھے۔دوسری شکست احرار کو نمایاں طور پر یہ ملی کہ قادیان کے متعلق انہوں نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ ہم نے اسے فتح کر لیاہے اورقادیان کے علاقہ میں احمدیوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کے اِس دعویٰ کی تردید کا بھی سامان مہیا کر دیا۔گو ہمارے بعض آدمی اس حکمت کو نہیں سمجھے اورانہوں نے بغیر سوچے سمجھے یہ اعتراض کردیاکہ جماعت کا روپیہ بربادکیاگیاہے حالانکہ روپیہ تو آنے جانے والی چیزہے۔آج آتا ہے اور کل ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔یہ نہ کسی انسان کے پاس رہا،نہ کسی قوم کے پاس رہا، نہ کسی ملک کے پاس رہا،ایک زمانہ میںایک قوم دولت مند ہوتی ہے اوردوسرے زمانہ میں دوسری قوم دولت مند ہو جاتی ہے۔ ایک زمانہ میں ایک ملک دولت مند ہو تاہے اوردوسرے زمانہ میں دوسراملک دولت مند ہوتا ہے۔ پس روپیہ آتااورچلاجاتا ہے مگر جو چیز رہ جاتی ہے وہ نام اور شُہر ت ہو تی ہے۔آخر غورکرو کہ وہ ساری دنیاکی حکومت جو مسلمانوںکے پاس تھی وہ اب کہاں ہے،وہ خلافت جس کے ذریعہ حضرت ابو بکر ؓ حکومت کرتے تھے کہاںہے،وہ حکومت جو حضرت عمرؓ کو حاصل تھی وہ کہاں ہے۔وہ شوکت اور عظمت جو حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کو حاصل تھی وہ کہاں ہے،وہ دبدبہ اوروہ رعب جو صحابہ ؓکو حاصل تھا وہ ا ب کہاںہے،وہ ملک چلے گئے، حکومت جاتی رہی مگر جو چیز آج بھی موجودہے وہ رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ کا سرٹیفکیٹ ہے تو ملکوںکے ہاتھ سے نکل جانے نے انہیں نقصان نہیں پہنچایا کیونکہ جو ان کی عزت تھی وہ آج بھی قائم ہے جب ملک ان کے پاس تھا تب بھی وہ رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْکے القاب کے مستحق تھے اور جب ملک نہیں رہاتب بھی انہیں رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ کہا جاتا ہے۔گویا اصل قیمتی چیز رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْکا خطاب ہی ہے نہ کہ روپیہ یا جائداد یا حکومت اور بادشاہت۔تو روپیہ ایک آنی جانی چیز ہے مگر بعض لو گ حکمتوں کو نہیں سمجھتے اورچونکہ ان کے دماغ چھو ٹے ہو تے ہیں اس لئے وہ بعض دفعہ کسی روپیہ کے خرچ کر دیئے جانے پر اعتراض کر تے ہیں اوریہ نہیں سوچتے کہ اس کے نتیجہ میں جماعت کی عزت کس قدر قائم ہو گئی۔اب جو چیز میرے سامنے تھی وہ یہ تھی کہ قادیان کے متعلق دشمن نے یہ کہنا شرو ع کردیا تھا کہ ہم نے اسے فتح کر لیاہے اوراحمدیوں کو بالکل کُچل کر رکھ دیاگیا ہے۔یہاں بیٹھے ہو ئے ایک شخص اس اعتراض کو معمولی خیال کرتا ہے مگر سارے ہندوستان کو مد نظر رکھتے ہوئے بنگال، بمبئی، مدراس، یوپی، بہار، سندھ، صوبہ سرحد میں جو احراری پرو پیگنڈا جماعت احمدیہ کی موت کی نسبت کیاجا رہاتھاوہ ہماری تبلیغ کے راستہ میں بہت بڑی روک بن رہا تھابلکہ دورکیوں جاؤ خود پنجاب کے دوسرے علاقوں میں یہ بُرااثر پیدا کررہا تھا اورلوگ خیال کرنے لگے تھے کہ شاید یہ لوگ سچ ہی کہہ رہے ہیں اوراب جماعت ا حمدیہ ختم ہو رہی ہے اوراس اثرکا دورکرنا نہایت ضروری تھا۔پس میں نے چاہا کہ اس علاقہ میں احرارکا ممبری کیلئے کھڑا ہو نا ایک خدا تعالیٰ کا پیدا کردہ موقع ہے جسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے اورہمیںچاہئے کہ ہم اس موقع پر دنیا کو بتا دیں کہ اس علاقہ میں ہماری طاقت باوجود اقلیت ہونے کے ان سے زیا دہ ہے اور ا س خیال سے میں نے احمدی امیدوار،باوجود ہمارے بعض دوستوں کے شدید اصرارکے کہ ایسانہ کیا جائے کھڑا کیااوریہی جواب دیا کہ اس وقت ہمارے لئے یہ ایک اصولی سوال ہے اورہم اس ذریعہ سے احرار کے جھوٹے پروپیگنڈا کو باطل ثابت کرنا چاہتے ہیں اس لئے باوجو د آپ لوگوں کے اصرارکے ہم ا پنے آدمی کو نہیں بٹھا سکتے۔ چنانچہ جب الیکشن کا نتیجہ نکلاتو بیشک اہل سنت و الجماعت کا ایک نمائندہ کامیاب ہوگیا مگر دوسرے نمبر پر احمدی نمائندہ تھا۔تیسرے نمبر پر احراری اورچوتھے نمبر پر دوسرا سُنّی اب اس نتیجہ کو احرار کہاں چھپا سکتے تھے۔یہ پبلک کی آواز تھی جو ووٹوں کے ذریعہ ظاہر ہو ئی اوراس نے دنیاپرثابت کردیا کہ یہ کہنا کہ احمدیوں کو قادیان کے علاقہ میںکُچل دیا گیاہے بالکل بے معنیٰ دعویٰ ہے۔حقیقت ا س میں کچھ نہیں۔پس اس نتیجہ نے احرار کی آواز کو بالکل مدھم کردیا اوراس کے بعد قادیان کی فتح کا نقارہ بجتے کم از کم میں نے نہیں سنا اس لئے کہ یہ نتیجہ سرکاری افسروں کے سامنے نکلااورانہوںنے بھی دیکھ لیاکہ احرار کی نسبت جماعت احمدیہ کے نمائندہ کو ووٹ زیادہ ملے ہیں۔ایسے بیّن اور کھلے نتیجہ کو کوئی کہاں چھُپاسکتاہے۔تو اللہ تعالیٰ نے ہمیںپہلے دَورمیں زمین صاف کرنے کا موقع دیااوراِدھر تو حکام پر حقیقت کھل گئی اورادھر پبلک پر حقیقت کھل گئی ہمیں جو خدشہ تھا کہ جماعت کی سبکی اور بدنامی نہ ہو وہ جاتارہا۔
دوسری طرف ہمیںحکومت کے بعض افسروں سے اختلا ف پیدا ہو گیا تھا۔ہمیں ان پر بھی غصہ تھا کہ ہمیں کہا جاتاہے کہ تم باغی ہواورحکومت کا تختہ الٹنے والے ہو حالانکہ ہم ایسے نہیں۔ ہم نے اس الزام کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے رنگ میں غلط ثابت کیا کہ گورنمنٹ کو تقریراََ اورتحریراََ تسلیم کرنا پڑا کہ ہم جماعت پر ایسا کوئی الزام نہیں لگا تے اوریہ کہ اس نوٹس سے جو اس نے دیایہ مراد ہر گز نہیں تھی کہ حکومت کے نزدیک جماعت احمدیہ نے سول نافرمانی یا کسی خلافِ امن فعل کے ارتکاب کا ارادہ کیاہے۔چنانچہ حکومت پنجاب کی چٹھیوں کے علاوہ جب نائب وزیر ِ ہند کے پاس شکایت کرتے ہوئے انہیں اس معاملہ کی طرف توجہ دلائی گئی تو انہوں نے ایک خط کے ذریعہ اطلاع دی کہ حکومت ہند کی طرف سے انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ حکومت پنجاب اور اس کے افسروں نے اس معاملہ میں جو کچھ بھی کیاہے ا س کے کرتے وقت ان کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہ تھا کہ وہ کوئی ایسا کام کریں جس سے جماعت احمدیہ کے جذبات کو جس کی وفاداری پورے طور پر مسلم ہے کسی طرح ٹھیس لگے۔حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ پہلے انہوںنے ہم پر بغاوت اور سول نافرمانی کا الزام لگایاتھا۔
پھر ایک واقعہ ا یسا ہے کہ جسے گورنمنٹ کسی صورت میں بھی چھُپا نہیں سکتی۔میں نے کئی انگریز افسروںسے گفتگو کرتے ہوئے یہ واقعہ ان کے سامنے رکھا ہے اورانہوں نے تسلیم کیاہے کہ بعض حکام سے اس بارہ میں کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہوئی ہے گویا وہ ایک ایسی واضح غلطی ہے جس کو تسلیم کئے بغیر گورنمنٹ کے افسروںکیلئے کوئی چارہ ہی نہیں اوروہ یہ کہ گورنمنٹ کے کسی افسر نے ایک دفعہ ایک خفیہ سرکلر جاری کیاجو غالباََ کئی ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں کے نام بھیجا گیا تھاکہ جماعت احمدیہ کی حالت گورنمنٹ کی نگاہ میں مشتبہ ہے اس لئے اس کے افرادکا خیال رکھنا چاہئے،اب یہ ذرا حَد سے نکل چکے ہیںاوران کے خیالات باغیانہ ہو گئے ہیں۔یہ سرکلر تمام ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں یا بعض اضلاع کے ڈپٹی کمشنروںکو بھیجا گیااورہمیں بھی کسی طرح اس چِٹھی کا پتہ لگ گیا۔جب ہم نے گورنمنٹ سے اس چِٹھی کے متعلق دریافت کیاتو ا س نے بالکل انکارکردیااور کہا کہ ایسی کوئی چِٹھی نہیںبھیجی گئی حالانکہ ہمیںخبر دینے والے نے یہ بتایا تھا کہ یہ معتبرخبر ہے۔جب مجھے اس کا علم ہؤ ا تو میںنے اس وقت کی گورنمنٹ کواس طرف توجہ دلائی۔ (اس وقت تک موجودہ حکومت کا زمانہ نہ آیا تھا) گورنمنٹ نے ایسے سرکلر سے لاعلمی ظاہر کی اوربالکل ممکن تھا کہ ہم اپنی اطلاع کو کسی غلط فہمی کا نتیجہ قراردیتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا تازہ بتازہ ثبوت بہم پہنچا دیا اوروہ اس طرح کہ ا ِ دھر گورنمنٹ نے انکارکیاکہ ہم نے کوئی ایسی چِٹھی نہیں بھیجی اوراُدھر راولپنڈی کا ایک ہیڈ کانسٹیبل جلسہ سالانہ یا مجلس شوریٰ کے موقع پر (اس وقت مجھے یاد نہیں رہا)ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں میں گیا اورا س نے احمدیوں سے کہا کہ تم مجھے اپنے نام لکھاؤ۔تم میں سے کون کون قادیان جائے گا کیونکہ سرکاری حکم آیا ہے کہ احمدیوں کی نگرانی رکھو۔غرض اس نے وہاں کے احمدیوں سے اقرارلیاکہ وہ ا س موقع پربغیر پولیس کو اطلاع کئے نہیں جائیں گے۔جب ا نہوں نے اس بات کی اطلاع ہمیںدی تو ہماری طرف سے مقامی کارکنان کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس واقعہ کی تحقیق کریں اورافسرانِ بالا سے مل کر معلوم کریں کہ اصل بات کیاہے۔جب ا نہوںنے تحقیق کی اوروہ افسرانِ بالا سے ملے تو پولیس کے افسروںنے انہیں یہ جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ایک خفیہ چِٹھی آئی تھی کہ اس امر کی نگرانی رکھی جائے مگراس ہیڈ کانسٹیبل نے شراب پی ہو ئی تھی جس کے نشہ میں اس نے بات کہہ دی اوربجائے مخفی رکھنے کے اس نے خود احمدیوں سے اس کاذکر کردیا ورنہ ہمیں تو مخفی حکم ملا تھا اوراب بہتر ہے کہ آپ اس معا ملہ کو دبا دیںاورزیادہ شورنہ کریں کیونکہ ہماری بدنامی ہو تی ہے اوراگر یہ راز کھلا تو ا س ہیڈ کانسٹیبل کی شامت آجائے گی۔اب یہ ایک ایساواقعہ تھا کہ جس کا گورنمنٹ انکا ر کرہی نہیںسکتی تھی اورانہیںتسلیم کرنا پڑاکہ کوئی غلط فہمی اس بارہ میں ہو گئی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ یہ غلط فہمی ہو کس طرح گئی۔اگر گورنمنٹ یا گورنمنٹ کے کسی ذمہ دارافسرکا کوئی آرڈر نہیں تھا تو یہ کس طرح ممکن ہو گیاکہ راولپنڈی کے ایک ہیڈکانسٹیبل نے ایک دور دراز کے گاؤں میں جاکر احمدیوں کے نام لکھنے شروع کردیئے اوریہ کہنا شروع کردیاکہ بغیر پولیس میں اطلاع دیئے تم قادیان نہیں جاسکتے مگر خیر ہم کو ان بحثوں سے غرض نہیں۔حکومت پنجاب نے عَلَی الْاِعْلان تسلیم کیاکہ وہ کوئی ایسا الزام جماعت احمدیہ پر نہیں لگاتی اوربالا گورنمنٹ نے بھی یقین دلایا کہ جماعت ا حمدیہ کی وفاداری ا س کے نزدیک مسلّم ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حکومت کے مقابلہ میں بھی ہمیں فتح دی گو مخالفت کا سلسلہ ابھی تک اندرونی طور پر افسروں میں جاری ہے کیونکہ حکومت میں یہ مرض ہے کہ اس کا ایک معمولی سے معمولی افسربھی کوئی بات کہہ دے تو وہ اسے سچ تسلیم کرلے گی اوریہ گورنمنٹ کے تنزّل اوربعض دفعہ اس کے لئے ندامت کے موجبات میں سے ایک بہت بڑا موجب ہے۔ ممکن ہے اب جبکہ گورنمنٹ میں ہندوستانی عنصر زیادہ ہور ہا ہے یہ مرض کم ہونا شروع ہو جائے مگر ابھی تک پرانی روایات چلتی چلی جاتی ہیںاور حالت یہ ہے کہ چاہے کوئی افسر کتنا جھوٹا، کتنافریبی اور کتنا ہی مکار کیوں نہ ہو جو بات بھی وہ کہہ دے سارے اس کے پیچھے چل پڑیں گے اور کہیں گے کہ یہ بات بالکل سچی ہے کیونکہ فلاں افسر نے یہ بات کہی ہے اور ابھی تک ان کی طبیعت پر یہ اثر چلتا چلا جاتاہے خصوصًا لوکل افسر تو اس مرض میں بہت حد تک مبتلا ہیں اور وہ حقیقت کو سمجھ جانے کے باوجود سچائی اور دیانت کا طریق بعض دفعہ اس لئے اختیار نہیں کرتے کہ اگر ہم نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تو گورنمنٹ کے پر سٹیج کو نقصان پہنچے گا۔بہر حال ان دنوں میں اور آج کے ایام میں زمین وا ٓسمان کا فرق ہے۔پہلے وہ دھڑلے سے ہماری جماعت کو دبانے کیلئے تیار ہو جاتے تھے مگر اب وہ سوچ لیتے ہیں کہ اس دبانے کانتیجہ کیا ہو گا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو جس رنگ میں بڑھا یا ہے و ہ کوئی پوشیدہ بات نہیں۔ چاروں طرف ترقی کے آثار نظرآرہے ہیں کئی نئے ممالک ہیں جن میں احمدیت قائم ہوئی،ہزاروں لوگ جو اس دوران احمدیت میں داخل ہوئے بلکہ قریب کے علاقہ میںبھی خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت نے ترقی کرنی شروع کردی ہے اوربعض جگہ بالکل نئی جماعتیں قائم ہو گئی ہیں اوربعض جگہ پہلے چھوٹی جماعتیں تھیں مگر اب بہت بڑی جماعتیں ہو گئی ہیں۔چنانچہ ابھی ایک صاحب نے جو آکر کہا ہے کہ انتظام ہوگیا ہے۔وہ اسی امر کے متعلق تھا کہ ایک جگہ کی نئی جماعت نے خواہش کی تھی کہ انہیں جمعہ پڑھانے کے لئے کوئی آدمی بھجوایا جائے۔ہمارے افسر انتظام کرنابھول گئے اور جمعہ کو آتے ہوئے مجھے شاہ صاحب سے اس کا علم ہؤا اورمیں نے آدمی بھجوایا کہ ابھی خطیب کا انتظام کر کے مجھے اطلاع دی جائے تا ان لوگوں کی دل شکنی نہ ہو۔اس جگہ بھی بیس سال سے نہایت مختصر جماعت تھی مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی جماعت ہوگئی ہے۔
آج میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ میرے دل پر ان گالیوں کی وجہ سے ایک ناخوشگواراثر تھا جو احرار ایجی ٹیشن کی وجہ سے ہمیں ملتی رہی ہیں اوراب بھی مل رہی ہیںکیونکہ گالیاں فتح اور شکست سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ گِرا ہؤ ا آدمی زیادہ گالیاں دیا کرتاہے۔بہر حال میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ مسلمانوںنے اس موقع پر ہمارے ساتھ اچھا معاملہ نہیں کیا اورمجھے ان کی طرف سے رنج تھا۔ شاید میرا گزشتہ سفر اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت اسی غرض کیلئے تھا کہ تا میری طبیعت پر جو اثر ہے وہ دورہوجائے۔ میں نے اس سفر میں یہ اندازہ لگایا ہے کہ میرا وہ اثرکہ مسلمان شرفاء بھی اس گند میں مبتلا ہیںاس حد تک صحیح نہیں جس حد تک میرے دل پر یہ اثرتھا۔مجھے اس سفرمیں ملک کا ایک لمبا دورہ کرنے کاموقع ملا ہے۔پہلے میںسندھ گیا، وہاں سے بمبئی گیا، بمبئی سے حیدرآبادچلاگیا اورپھر حیدر آبادسے واپسی پر دہلی سے ہو تے ہوئے قادیان آگیا۔اس طرح گویا نصف ملک کا دورہ ہو جاتا ہے۔اس سفرکے دوران شرفاء کے طبقہ کے اندرجو بات میں نے دیکھی ہے اس سے جو میرے دل میں مسلمانوں کے متعلق رنج تھا وہ بہت کچھ دور ہوگیاہے اورمجھے معلوم ہؤ ا ہے کہ شریف طبقہ اب بھی وہی شرافت رکھتا ہے جو شرافت وہ پہلے رکھا کرتاتھا اوران خیالات سے جو احرارنے پیدا کرنے چاہے تھے وہ متاثر نہیں بلکہ ان کی گالیوں کی وجہ سے وہ ہم سے بہت کچھ ہمدردی رکھتے ہیں۔اگر مجھے یہ سفر پیش نہ آتاتو شاید یہ اثردیر تک میرے دل پر رہتااورمیںسمجھتاہوں یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اس سفرکا موقع دیااوروہ اثر جو میرے دل پر تھاکہ اتنے گند میںمسلمانوں کا شریف طبقہ کس طرح شامل ہو گیاوہ اس سفر کی وجہ سے دور ہو گیا۔حیدر آبادمیں میں نے دیکھا کہ جس قدر بھی بڑے آدمی تھے۔اِلَّا مَاشَا ئَ اﷲُ تھوڑے سے باہر بھی رہے ہوں گے اور وہ ان پارٹیوں میں شامل ہوتے رہے جو میرے اعزازمیں وہاں دی گئی تھیں۔ان لوگوں میں وزراء بھی تھے،امراء بھی تھے اور نواب بھی تھے۔چنانچہ نواب اکبر یار جنگ صاحب بہادر نے جو پارٹی دی اس میں بہت سے نواب شامل ہوئے اور سارے سو دوسو کے قریب معززین ہوں گے اور جو ان کی پارٹی میں شامل ہوئے۔اسی طرح دوسری جگہوں میں بھی میں نے دیکھا کہ شرفائ،آفیسرز،ججز اور بڑے بڑے امراء ان دعوتوں میں شریک ہوتے رہے ہیں اور میں دیکھتا رہا کہ ان کے دلوں میں یہ احساس ہے کہ احرار کی طرف سے ہم پر سخت مظالم توڑے گئے ہیںبلکہ بہتوں نے بیان بھی کیا کہ ہم تسلیم کرتے ہیںجماعت احمدیہ مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے بہت کچھ کر رہی ہے۔اسی طرح دہلی میں جو ایک دو تقریبات ہوئیں ان میں میں نے دیکھا کہ شہر کے ہر طبقہ کے لوگ اور بڑے بڑے روساء شامل ہوتے رہے۔مسلمانوں میں سے زیادہ اور ہندوؤں اور سکھوں میں سے قلیل اور قدرتی بات ہے کہ جس شخص کے اعزاز میں یہ تقریب پیدا کی جائے گی اس میں وہی لوگ زیادہ بلائے جائیں گے جو اس کے ہم مذہب ہوں گے۔پس ان دعوتوں میں ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوئے اور ان کی باتوں میں سے مَیں نے یہ معلوم کیا کہ درحقیقت احرار کا یہ دعویٰ کہ ان کا مسلمانوں پر بہت بڑا اثر ہے اور یہ کہ وہ گند جسے شرافت برداشت نہیں کر سکتی مسلمانوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے،یہ بالکل غلط ہے اور اس طرح میرے ان خیالات کا ازالہ ہؤا جو شرفا کے متعلق میرے دل میں پیدا ہو چکے تھے اور میں نے سمجھا کہ اگر ان ایام میں مسلمان خاموش رہے تھے تو محض مخالفت کی ہیبت کی وجہ سے کہ احرار کا ان کے دلوں پر کوئی اثر ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے بدظنی کے گناہ سے بچا لیا۔مجھے پرسوں ترسوں ہی حیدرآباد سے ایک معزز آدمی کاخط ملا ہے۔وہ لکھتا ہے میں خود آپ سے ملنا چاہتا تھاتا دیکھوں کہ جس شخص کی اس قدر تعریف اور اس قدر مذمت ہوتی ہے وہ ہیں کیسے؟خیالات ہر شخص کے مختلف ہوتے ہیں اس کے لحاظ سے جو چاہے آپ کے متعلق کہہ لیا جائے مگر اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آپ کے اخلاق اور آپ کی محبت ناقابلِ اعتراض اور قابلِ تقلید ہے۔ یہی اثر میں سمجھتا ہوں عام طور پردوسرے لوگوں کے دلوں پر بھی تھا اور بجائے اس کے کہ وہ اس گندسے متاثر ہوتے سوائے چند لوگوں کے باقی تمام شرفاء صورت حالات کو حیرت سے دیکھتے تھے اور خواہش رکھتے تھے کہ ہم معلوم کریں یہ کیسی جماعت ہے اور اس کا امام کیسا شخص ہے۔ پس احرار کے گند سے مسلمانوں کے شریف طبقہ میں صرف تجسّس پیدا ہؤا،ایک رو تحقیق کی پیدا ہوئی،اس سے زیادہ انہوں نے کوئی اثر قبول نہیں کیا۔اسی طرح میرے یہاں پہنچنے پر دو چار دن کے بعد ایک مشہور مسلمان لیڈر نے جنہیں گورنمنٹ کی طرف سے سر کا خطاب بھی ملا ہؤا ہے مجھے لکھا کہ میں آپ کے سفر کے حالات اخبار میں غور سے پڑھتا رہا ہوں اور میں اس دورہ کی کامیابی پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوںحالانکہ ان کا اس سفر سے کوئی واسطہ نہ تھا نہ وہ ان شہروں میں سے کسی ایک میں رہتے تھے جہاں میں گیا۔نہ وہ ان علاقوں کے باشندے ہیں،ایک دُور دراز کے علاقہ میں وہ رہتے ہیں اور مسلمانوں کے مشہور لیڈرہیں مگر انہوںنے بھی اس دورہ کی کامیابی پر مبار ک باد کا خط لکھنا ضروری سمجھا جس سے معلوم ہوتا ہے۔کہ شرفاء کے دلوں میں ایک کُرید تھی اور بجائے اس گند سے متاثر ہونے کے شریف طبقہ ایک تجسّس کی نگاہ سے تمام حالات کو دیکھ رہا تھااور اندرونی طور پر وہ ہم سے ہمدردی رکھتا تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں مسلمانوں کے متعلق میری بدظنی گناہ کا موجب تھی اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اس سفر کا موقع دے دیا تا وہ خیال جو ایک شکوہ کے رنگ میں مسلمان شرفاء کے متعلق میرے دل میں پیدا ہوچکا تھا کہ انہوں نے وہ امید پوری نہیں کی جو ان پر مجھے تھی وہ دور ہو جائے۔چنانچہ مجھ پر اس سفر نے یہ ثابت کر دیا کہ میرا پہلا خیال غلط تھااور درحقیقت ان کی خاموشی صرف ہیبت کی وجہ سے تھی ورنہ شریف ،دل میں شریف ہی تھے اور وہ اس گند کو پسند نہیں کرتے تھے جو احرار کی طرف سے اچھالا گیا۔مگرمیںنے بتایا ہے کہ دورِ اول کے بعد دورِ ثانی کی ضرورت ہے۔دَورِ اول زمین کی صفائی کیلئے تھا اب دورِ ثانی میں تعمیر کی ضرورت ہے اورتعمیر کاکام تخریب سے بہت زیادہ اہم ہوتا ہے۔ پس جو تخریبی حصہ تھا یعنی دشمنوں کی کوششوںکو باطل کرنااورانکو ان کے منصوبوں میںناکام و نامراد کرنا، یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے پورا ہو چکا ہے اورتعمیری دورکی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے جو دنیامیں ایسی فضا اورایسارنگ پیدا کردے جو ان مقاصد کو پورا کرنے میں ممد ہوجن مقاصد کوپورا کرنے کیلئے احمدیت قائم ہوئی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مقاصد کا پورا ہوناصرف احمدیت کیلئے ہی خاص طورپر مفید نہیں بلکہ اسلام کیلئے بھی مفید اوربابرکت ہے اورپھر صرف اسلا م کیلئے ہی ان مقاصد کا پورا ہو نا مفید نہیں بلکہ جس قسم کا مذہبی،سیاسی،تعلیمی،تمدنی اوراقتصادی ماحول ہم پیداکرنا چاہتے ہیںوہ دنیا کیلئے بھی مفید اورضروری ہے۔یہ عظیم الشان ماحول ہم نے پیدا کرنا ہے مگر ہماری موجودہ حالت تو ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کیا پدّی اورکیاپدّی کا شوربہ۔ہماری تعداد نہایت قلیل ہے اورجب ہم کہتے ہیں کہ ہم دنیامیںایسا انقلاب پید اکرکے رہیں گے تو دنیاہم پر ہنستی ہے اور کہتی ہے کہ یہ پاگل ہو گئے ہیں۔مگر آج تک دنیا میںجس قدر عظیم الشان کام ہوئے ہیں وہ ایسے ہی لوگوںسے ہو ئے ہیںجنہیں پاگل کہا گیا اورایسی ہی جماعتوںنے انقلاب برپاکیاہے جنہیں مجنون قراردیاگیا۔پس پاگل کا لقب ہمارے لئے کوئی گالی نہیں بلکہ خوشی کاموجب ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیںکہ ہماری انبیاء سابقین کی جماعتوں سے ضرور ایک گہری مشابہت ہے کیونکہ جس طرح انہیں پاگل کہا گیااسی طرح لوگ آج ہماری جماعت کو پاگل کہتے ہیں۔لیکن بہر حال ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ احمدیت کی ترقی کیلئے ہمیں ایک عظیم ا لشان جدوجہد کی ضرورت ہے اورجیسے جیسے احمدیت کو ترقی ہو گی ویسے ویسے اسلام بھی ترقی کرتا چلا جائے گااورجوںجوںاسلام دنیا میںترقی کرے گاتوں توں دنیابھی مذہبی اورسیاسی اورتمدنی اوراقتصادی پہلوؤں سے ترقی کرتی چلی جائے گی کیونکہ اسلام باقی اقوام کو مٹاکر مسلمانوں کو نہیں بڑھاتابلکہ باقی اقوام کو بڑھا کر مسلمانوں کو اور آگے لے جاتا ہے۔چنانچہ جب کبھی دنیامیں اسلامی اصول پر ترقی ہو گی ہندوؤں،سکھوں اورعیسائیوں کی بھی ترقی ہوگی بلکہ دنیا کے ہر مذہب کے متبع کیلئے ترقی کے راستے کھولے جائیں گے اورہر شخص کیلئے خواہ وہ کسی مذہب و ملت کا پابند ہو ترقی کی طرف قدم بڑھانے کی گنجائش رکھی جائے گی۔
بعض نادان اپنی جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے ہمیشہ ایسے موقع پر قادیان کا حوالہ دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں آئندہ تو جو ہوگا سو ہوگا ابھی آپ کو قادیان میں تھوڑا ساغلبہ حاصل ہے اور آپ نے اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوؤں اور سکھوں سے لین دین پر پابندی عائد کر رکھی ہے حالانکہ میں نے بار ہا بتایا ہے کہ یہ پابندی محض بعض فسادات سے بچنے کی وجہ سے عائد کی گئی ہے ورنہ ہم قادیان سے باہر ہر جگہ ہندوؤں اور سکھوں سے لین دین رکھتے ہیں۔گو یہ قدرتی بات ہے کہ انسان اپنی قوم کو ترجیح دیتا ہے اور ہم بھی تجارتی لین دین میں ایک مسلمان کہلانے والے کو فائدہ پہنچانا پسند کرتے ہیں لیکن بہر حال ہمارا ہندوؤں اور سکھوں سے کوئی مقاطعہ نہیں ہوتا اور ہم ان سے کھلے طور پر لین دین رکھتے ہیں۔قادیان میں اگر یہ پابندی عائد ہے تو صرف دفاعی طور پر ورنہ ہم نے ان کا مقاطعہ اب بھی نہیں کیا ہؤا بلکہ ایسے ہندو اور سکھ جو ہماری ناواجب مخالفت نہیں کرتے ان سے ہمارا لین دین قادیان میں بھی جاری ہے اور میں قادیان کی حالت کو بھی جیسا کہ اشارہ کر چکا ہوں جلد سے جلد بدلنا چاہتا ہوں اور یہاں کے قوانین میں بھی اصلاح کرنا چاہتا ہوں۔
لیکن میری عادت ہے کہ جب دشمن کی تلوار سر پر لٹک رہی ہو تو اس وقت میں اس کی بات نہیں مانا کرتا اور مجھے افسوس ہے کہ جب کبھی یہاں کے بزرگوں نے مجھ سے صلح کرنے کی کوشش کی ہے تو ہمیشہ ایسی صورت میں کہ پہلے کوئی ہم پر مقدمہ کرادیا یا فساد کھڑا کرا دیا اور پھر چاہا کہ ہم سے سمجھوتہ کر لیں حالانکہ میں ایسے مواقع پر سمجھوتہ نہیں کیا کرتا میں ہمیشہ ایسے موقع پر ہی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہؤا کرتا ہوں جب میرا ہاتھ دینے والا ہو اور ان کا ہاتھ لینے والا ہو لیکن جب کوئی ڈنڈا لے کر میرے سر پر آچڑھے اور کہے کہ مجھ سے صلح کرو تو پھر میں اس کی بات نہیں مانا کرتا۔
مجھے تعجب آتا ہے کہ میری عمر پچاس سال کے قریب ہونے کو آگئی،صرف چند ماہ اس میں باقی ہیںاور میںتمام عمر اس قادیان میں رہا،یہیں پیدا ہؤا،یہیں بڑھا،یہیں جوان ہؤا اور یہیں پچاس سال کی عمر تک پہنچامگر اب تک یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں نے میری طبیعت کو نہیں سمجھا۔ میری طبیعت یہ ہے اور یہی طبیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی تھی بلکہ دینی لحاظ سے گوحالت کچھ ہی ہویہی طبیعت ہمارے دادا صاحب کی بھی تھی کہ وہ کسی کے ساتھ دَب کر صلح نہیں کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے خاندان نے دوحکومتوں کے تغیر کے وقت سخت نقصان اٹھایا ہے جب سکھ آئے تب بھی اور جب انگریز آئے تب بھی کیونکہ یہ ہماری طبیعت کے خلاف ہے کہ ہم کسی کے سامنے سر جھُکا کر کھڑے ہوں اس لئے جب سکھ آئے تو نہ سکھوں کے آگے ہم جی حضور کرتے رہے اور نہ جب انگریز آئے تو انگریزوں کے آگے ہم نے جی حضور کیا گوہمارے خاندان نے سکھوں اور انگریزوں دونوں سے تعاون بھی کیا اور ان کی مدد بھی کی اور ان لوگوں سے زیادہ مدد کی جو جی حضور کرتے رہتے تھے مگرپھر بھی کبھی انگریزوں کے آگے گردن جھُکا کر کھڑے نہیں ہوئے۔یہ ایک خاندانی اثر ہے جو میرے اندر پایا جاتا ہے اور مذہب نے اسے اور زیادہ رنگ دے دیا ہے۔تو اگر یہاں کے ہندو اور سکھ درست طریقِ عمل اختیار کرتے تو یقینا باہمی جھگڑے اس حد تک نہ پہنچتے جس حد تک اب پہنچے ہوئے ہیں۔انہوں نے ہمیشہ پہلے دھمکی دی اور پھر صلح کرنے کی خواہش کی اور دھمکی سننے کے بعد فطرتاً میں صلح کرنے سے انکار پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں۔پس گو مَیں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ ہم میں صلح ہو جائے۔مگر حالات ہمیشہ اس رنگ میں بدلتے رہے کہ ان کی کوئی نہ کوئی دھمکی میرے سامنے آگئی اور میں اپنا قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور ہوگیا۔مثلًا جب مذبح کا سوال اٹھا اس وقت میری نیت یہی تھی کہ میں قادیان میں مذبح جاری نہیں ہونے دوں گا مگر بغیر میری اجازت کے بعض لوگوں نے مذبح کھلوانے کے متعلق درخواستیں دے دیں اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ سکھ لوگ جھٹکا کی دکان کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔میں نے اس وقت صلح کی کوشش کی۔لیکن ابھی میری کوشش کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تھا کہ میں چند روز کے لئے لاہور چلا گیا۔وہاں قادیان کے بعض ہندوؤں کا ایک وفد میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے شکایت کی کہ قادیان میں مذبح کھلنے والا ہے میں اس کا تدارک کروں۔میں نے ان سے کہا کہ ایک طرف آپ لوگ اپنی مشکلات کو پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف سکھوں نے جھٹکا کا کام شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ان حالات میں مَیں قادیان جا کر اور فریقین کے حالات سن کر ہی کوئی فیصلہ کر سکتاہوں اور انہیں تسلی دلائی کہ جس حد تک ممکن ہوگامیں ایسی صورت اختیار کروں گا کہ طرفین کی ضروریات اور احساسات کا لحاظ رکھا جائے پس آپ قادیان میںمجھ سے ملیں۔چنانچہ میں اپنا سفر منقطع کر کے دوسرے ہی دن قادیان آگیا حالانکہ میرے برادر نسبتی میجر تقی الدین احمد صاحب انہی دنوں ولایت سے پڑھ کر آئے تھے اور قدرتی طور پر ان کی ہمشیرہ کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ وہ اپنے بھائی کے پاس چند دن رہیں مگر معاً وہاں کی اقامت کو قطع کر کے میں واپس آگیامگر انہیں نہ معلوم کس نے ورغلادیاکہ باوجود اس کے کہ میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ قادیان میں مجھ سے ملیں اور باوجود یکہ میں ان کی خاطر سفر منقطع کر کے واپس آگیا تھا،وہ مجھ سے ملنے نہ آئے۔اس کے کچھ عرصہ بعد جب بات اور زیادہ پختہ ہوگئی تو پھر ہندوؤں کا ایک وفد میرے پاس آیا۔میں نے ان سے کہاکہ اب کئی قوموں کا سوال پیدا ہوچکا ہے۔ایک طرف غیر احمدیوں نے اس معاملہ میں ہمارا ساتھ دیا ہے دوسری طرف سکھوں نے جھٹکہ کا سوال چھیڑ کر میری پوزیشن نازک کر دی ہے کیونکہ ذبیحہ گائے کا روکنا احساسات کے احترام پر مبنی ہے اور مسلمانوں میں یہ شکایت پیدا ہوچکی ہے کہ جب دوسرا فریق ہمارے احساسات کاخیال نہیں رکھتا تو ہمیں اس کے احساسات کے لئے اس قدر بڑی قربانی کرنے پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے۔پس میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے سکھوں سے اور اپنی جماعت کے علاوہ دوسرے مسلمانوں سے بات کرنے کا موقع دیں میں دونوں فریقوں کو سمجھا کر ایسی صورت پیدا کروں گا کہ آپ لوگوں کی دل شکنی نہ ہو۔میں نے انہیں یہ بھی کہا کہ میں نے اپنے ذہن میں ایسی سکیم سوچ بھی لی ہے جس سے احمدیوں اور غیر احمدیوں کی بھی دل جوئی ہو جائے گی اور سکھ بھی مان جائیں گے مگر میں نے کہا کہ اس کے لئے ضروری ہے کہ سکھ مجھ سے الگ ملیں اور آپ الگ، اگر آپ اکٹھے ہو کرمیرے پاس آئے تو معاملہ بگڑ جائے گا کیونکہ سکھوں میں سے کچھ لوگ آپ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے مگر مذبح نہیں بننے دیں گے۔جب وہ آپ لوگوں کے سامنے ہوں گے تو انہیں وہ باتیں یاد آجائیں گی اور وہ اپنی زبان بدلنے میں شرم محسوس کریں گے۔ پس مناسب ہے کہ میں ان سے الگ بات کروں۔چنانچہ اس پروہ لوگ چلے گئے اور میں نے اپنے ذہن میں ایک سکیم سوچ لی جس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں مَیں سمجھتا تھا کہ تینوں قوموں کی دل جوئی ہو جائے گی لیکن میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب دوسرے تیسرے دن ایک آریہ صاحب دو سکھوں کو لے کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ سکھوں سے بات کرنا چاہتے تھے سو یہ لوگ آگئے ہیں۔میں نے کہا کہ میں نے تو یہ کہا تھا کہ میں خود قادیان کے سکھوں کو بلواؤں گا، یہ تو نہیں کہا تھاکہ آپ انہیں لے آئیں لیکن بہر حال میں نے اُن سے گفتگو شروع کر دی اور میں نے کہہ دیاکہ اب اس گفت وشنید کا جو نتیجہ نکلے اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہوگی کیونکہ میری ہدایت کے خلاف کام کیا گیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ جو صاحب سکھوں کو میرے پاس لائے تھے وہ ایسے ہی تھے جو صلح نہیں کرنا چاہتے تھے اور وہ لڑائی جھگڑے کے متعلق متہم تھے۔چنانچہ وہی ہؤا جس کاخطرہ تھا۔میں ان سے گفتگو کے دوران یہ ذکر کررہا تھا کہ میرے دادا صاحب نے اور بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور ان کے بعد میں نے بھی قادیان میںگائے کے ذبیحہ کو محض اس وجہ سے روکے رکھا کہ اس وقت تک اس کی اقتصادی طور پر زیادہ ضرورت معلوم نہیں ہوتی تھی اور ہم پسند نہیں کرتے تھے کہ خواہ مخواہ ہماری ہمسایہ اقوام کادل دُکھایا جائے۔چنانچہ ایک دفعہ جب بعض لوگوں نے قادیان کے ایک ملحقہ گاؤں سے مذبح کی درخواست دی تو میں نے خود ڈپٹی کمشنر صاحب کو کہلوا کر مذبح کو رکوا دیا تھا۔اس پر ایک سکھ صاحب بولے آپ بالکل غلط کہتے ہیں آپ نے ہمیشہ مذبح کے کھولے جانے پر زور دیا ہے مگر جب چاروں طرف سے ناکامی ہوئی تو آپ نے اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ میں نے خود مذبح کو رکوایا تھا۔میں نے ان ہندو صاحب کی طرف دیکھا اور کہا دیکھ لیا مَیں نہ کہتا تھا کہ آپ مجھے اکٹھے نہ ملیں ورنہ صلح کی گفتگو درمیان میں ہی رہ جائے گی۔اس پر دوسرے سکھ صاحب جو جتھے دار تھے وہ کہنے لگے ان کی بات جانے دیجئے یہ بڑی جلدی غصہ میں آجاتے ہیں اور بات کو سمجھتے نہیں۔اب میں آپ سے گفتگو کرتا ہوں۔چنانچہ وہ غصہ میں آنے والے احباب فرمانے لگے صلح بڑی اچھی چیز ہے۔میں نے کہایقینا ۔وہ کہنے لگے پھر کوئی ایسی کوشش ہونی چاہئے جس سے یہ مذبح کا سوال جاتا رہے۔یہاں تک تو بڑی اچھی گفتگو تھی مگر اس کے معاً بعد وہ کہنے لگے ورنہ یاد رکھئے سکھ یا مرجائیں گے یا مار دیں گے اور خون کی ندیاں بہا دیں گے۔میںنے کہا بس پہلے آپ اس فقرہ کو پور ا کر لیں۔آپ نے جتنی ندیاں بہانی ہیں وہ بہا لیں اور اگر ایسی دھمکیوں سے ہی مذبح کو روکنا چاہتے ہیں تو روک کر دیکھ لیں میں اس سے ہرگز نہیں رکوں گا۔چنانچہ وہ اٹھ کر چلے گئے اور پھر جیسا کہ ساری دنیا کو معلوم ہے مذبح بنا اور اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے جاری ہے۔ اب دیکھ لو کس طرح بات کو بدل کر کچھ کا کچھ بنا دیا گیا۔اس کے بعد میں نے پھر بھی کوشش جاری رکھی اور ایک اشتہار شائع کیا جس میں ہندوؤں اور سکھوں کو مخاطب کر کے لکھا کہ آپ کے نزدیک اگر کوئی ایسی راہ ہے جس سے مسلمان اپنی ضروری غذا کو بھی حاصل کرسکیں،ان کی مذہبی اور اخلاقی حالت بھی درست رہے اور ان کے ہمسایوں کے جذبات بھی ناواجب طور پر زخمی نہ ہوں مجھے اس سے مطلع کیا جائے میں ہر وہ تجویز جس سے ہندوؤں اور سکھوں کے احساسات کا ممکن سے ممکن حد تک خیال رکھ کر مذبح کو جاری کیا جاسکے قبول کرنے کے لئے تیار ہوںاور اس پر جہاں تک میرا اختیار اور میری طاقت ہے عمل کرنے کامیں ذمہ دار ہوں گا مگر ضروری ہے کہ ایسا قاعدہ صرف قادیان کے لئے نہ ہو بلکہ ہر جگہ کے لئے ہو کیونکہ اگر قادیان میں امن ہو جائے لیکن باقی ملک میں فسادات ہوتے رہیں تو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔پس چاہئے کہ ہم ایک عام قاعدہ بنا لیں اور اس کے مطابق قادیان میں بھی عمل ہو اور دوسری جگہوں میں بھی۔میںنے انہیں یہ بھی لکھا کہ اگر فلاں تاریخ تک اس کا جواب مجھے نہ ملا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ صلح کی خواہش نہیں رکھتے۔میرے اس خط پر دو سکھ لیڈوں نے اور ایک بہت بڑے ہندو لیڈر نے جواب دیا،میں ان صاحبان کا نام نہیں لیتاکہ تا ان کی پوزیشن خراب نہ ہو، ہندولیڈر صاحب نے جو اس وقت ہندوستان کے چوٹی کے لیڈروں میں سے ہیں لکھا کہ مجھے معلوم ہے آپ ہمیشہ ہندوؤں سے نیک سلوک کرتے چلے آئے ہیں اور میں آپ سے اپیل کرتا ہوںکہ اس موقع پر بھی آپ ہی صلح کی کوشش کریں اور ہندوؤں نے اگر کوئی زیادتی کی ہے تو معاف کردیں۔سکھ لیڈروں میں سے ایک سکھ لیڈر نے جو بہت بڑے زمیندار ہیں اور سر کا خطاب بھی رکھتے ہیں انہو ں نے یہ جواب دیا کہ آج کل مَیں شملہ میں ہوں۔میں پنجاب میں آ کر اس جھگڑے کا کوئی نہ کوئی فیصلہ کروں گا آپ مجھے کچھ مزید مہلت دیں۔ دوسرے سکھ لیڈر نے جو سکھوں کے مذہبی لیڈر اور ایک بڑی تعلیم گاہ کے ایک بہت بڑے عہدیدار ہیں مجھے لکھا کہ ہم کو گائے سے کوئی تعلق نہیں،یہ نادانوں کی باتیں ہیں کہ وہ ذبیحہ گائے کو ناپسند کرتے ہیں سکھوں کا ایسی باتوں سے کوئی واسطہ نہیں ہمارے نزدیک چاہے مذبح کھلے یا نہ کھلے یکساں بات ہے۔ یہ سکھوں کے ایک بہت بڑے مذہبی لیڈر کے خیالات تھے مگرمیں نے اس خط کو شائع نہیں کیا تاکہ سکھوں میں ان کی پوزیشن کمزورنہ ہو جائے۔بہر حال ان خطوط میں سے صرف ایک خط ہی ایسا تھا جس کے جواب کا مجھے مزید انتظار کرنا چاہئے تھا چنانچہ میں نے ایک لمبے عرصے تک انتظار بھی کیا مگر ان صاحب نے سمجھوتہ کی کوئی کوشش نہ کی۔غالبًا انہوں نے یہ سمجھ لیاکہ اب معاملہ دب گیا ہوگاکیونکہ شملہ سے نیچے اتر کر انہوں نے پھر بھی خبر نہ دی کہ میں پنجاب آگیا ہوں اور اس جھگڑے کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں۔اس کے بعد پھر میرے پاس ہندوؤں کے وفود آئے مگر میں نے انہیں یہی کہاکہ اگر کوئی فیصلہ کرنا ہے تو اکٹھا کر لو۔یعنی یہ نہ ہوکہ وہ صرف قادیان کے متعلق ہو بلکہ وہ فیصلہ ہر جگہ کے متعلق ہونا چاہئے اگر یہ فیصلہ ہوکہ مذبح نہیں کھلنا چاہئے تو ہم اپنا بنا بنا یا مذبح بند کرا دیں گے اور اگر بعض شرائط کے ساتھ مذبح کے کھلنے کافیصلہ ہو تو ان شرائط کا لحاظ رکھیںگے۔مگر جس رنگ میں آپ لوگوں کی طرف سے کوشش کی جاتی ہے یہ صحیح نہیں اور میں اس طرح ماننے کے لئے تیار نہیں۔یہی حال لین دین کے معاملات کا بھی ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ پابندی ہندوؤں پر اتنی گراں نہیں گزرتی جتنی مجھ پر گزرتی ہے۔مجھ سے کئی ہندو لیڈروں نے جب اس کے متعلق گفتگو کی ہے تو میں نے انہیں کہا ہے کہ آپ قادیان آئیں اور قومیت کے خیال کو نظر انداز کرتے ہوئے دیانت داری اور انصاف کے ساتھ تمام حالات کو دیکھ کر فیصلہ کریں۔پھر آپ پر خود بخود روشن ہو جائے گاکہ ہماری زیادتی ہے یا نہیں مگر کسی نے یہ جرأت نہیں کی کہ وہ قادیان آئے اور بچشم خود حالات دیکھ کر اور تمام واقعات سن کر رائے قائم کرے۔اور اگر کسی نے حالات سنے ہیںتو اس نے اقرار کیا ہے کہ ان حالات میں آپ نے جو پابندی عائد کی ہے اس میں آپ حق بجانب ہیں۔ تو یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں کی جو مثال ہے وہ بالکل اور رنگ رکھتی ہے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ احمدیت کی ترقی سے دوسری قوموں کا تنزل نہیں بلکہ ان کی ترقی ہے اور احمدیت کی ترقی میں اسلام کی ترقی ہے اور اسلام کی ترقی میں دنیا کی ترقی ہے۔تیرہ سو سال کے واقعات اس پر شاہد ہیںکہ اسلام نے جب بھی ترقی کی دوسری اقوام کو بھی اس نے ترقی کی شاہراہ پر لاڈالا اور کسی قوم کو اس نے نہیں گرایا۔آج دنیا پر نگاہ دوڑا کر دیکھ لویہود کا کیسا عبرت ناک حال ہے مگر تیرہ سَو سال تک مسلمانوں نے اس قوم کو اپنے ممالک میں آباد رکھا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جرمنی ایک سو سال تک بھی یہود کا اپنے اندر رہنا برداشت نہیں کرسکااور آج بھی اگر عرب فسلطین میں یہود کے داخلہ کے خلاف ہیں تو اس لئے نہیں کہ یہود کو فلسطین میں بسایا کیوں جاتا ہے بلکہ اس لئے کہ انہیں اس رنگ میں بسایا جاتا ہے کہ یہود کی آبادی بڑھ جائے اور مسلمانوں کی آبادی کم ہوجائے اور یہ واقع میں ایک ایسا امر ہے جسے کوئی قوم برداشت نہیں کرسکتی۔ورنہ رہنے کے متعلق جھگڑا نہیں یہود پہلے بھی فلسطین میں رہتے تھے۔اب اگر جھگڑا ہے تو یہ کہ انہیں ایسے رنگ میں بسایا جاتاہے کہ چند سال میں مسلمان جو پچاسی فیصدی تھے اقلیت میں بدل جائیں او ریہود اکثریت میں ہوجائیں اور کسی قوم کے لئے یہ برداشت کرنا بڑا مشکل ہوتاہے کہ جہاں وہ طاقتور ہو وہاں اسے کمزور کر دیا جائے اور کمزور کو طاقتور بنادیا جائے۔
غرض احمدیت کی ترقی کے ساتھ اسلام کی ترقی اوراسلام کی ترقی کے ساتھ دنیا کی ترقی وابستہ ہے اوراحمدیت کی ترقی کیلئے دو کام کرنے نہایت ضروری ہیں۔ایک تعلیم و تربیت کااوردوسراتبلیغ واشاعت کا ،ان کے بغیر جماعت نہ پھیل سکتی ہے اورنہ اس کے پھیلنے کا کوئی فائدہ ہے۔یعنی تبلیغ کے بغیر جماعت کی ترقی نہیں ہو سکتی اورصحیح تربیت کے بغیر احمدیت کا پھیلنا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔فرض کرو احمدی ساری دنیا میں پھیل جائیں مگر مذہبی، سیاسی، اقتصادی، تمدنی اورتعلیمی ماحول وہی رہے جو پہلے تھے تو ایسی احمدیت کے پھیلنے کا کیافائدہ اوراگر احمدیوں میں وہ روح نہ ہو جو اسلام پیدا کرنا چاہتاہے اورایک ظالم کی بجائے اگر دوسراظالم کھڑاہو گیاتو اس سے بنی نوع انسان کو کیافائدہ پہنچے گا۔پس تبلیغ ا ورتعلیم و تربیت دو ہی نہایت ہی اہم کام ہیں اورانہی دونوں کاموں کو تحریک جدید میںمد نظر رکھا گیا ہے۔تعلیم و تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سادہ غذا،سادہ لباس،خود ہاتھ سے کام کرنا،سینما کاترک،غریبوں کی امداد،بورڈنگ تحریک جدیداورورثہ وغیرہ کام تجویز کئے گئے ہیں اوریہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کو کسی وقت بھی ترک نہیں کیا جاسکتا۔بعض تو موجودہ صورت میں ہی ہر وقت قابلِ عمل رہیں گی اورانہیں کسی صورت میں بھی چھوڑا نہیں جاسکے گا لیکن بعض میں حالات کے ماتحت کچھ تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔عملی طورپر بعض حصوں کے متعلق مجلس خدا م الاحمدیہ جدوجہدکررہی ہے اورجہاں تک اس کے ایک سال کے کام کا تعلق ہے میں سمجھتا ہو ں کہ اس نے نہایت شاندار کام کیا ہے اوراگر وہ اسی طرح استقلال سے کام جاری رکھے اور نہ صرف اپنے موجودہ معیارکو قائم رکھے بلکہ اسے بڑھاتی چلی جائے تو وہ ایک عمدہ نمونہ قائم کرسکتی ہے۔مجالس خدا م الاحمدیہ کے نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے کام کے اثرات صرف موجودہ زمانہ کے لوگوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ اگر وہ اسی خوش دلی اوراخلاص سے کام جاری رکھیں گے تو آئندہ نسلوں تک ان کے نیک اثرات جائیںگے اورجس طرح آج صحابہ کا ذکر آنے پر بے اختیار رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْاعَنْہُ کافقرہ زبان سے نکل جاتا ہے اسی طرح ان کا نام لے کر آئندہ آنے والی نسلوں کا دل خوشی سے بھر جائے گااوروہ ان کی ترقی مدارج کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں گے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ جس کام کو شروع کریں اسے استقلال سے کرتے چلے جائیں۔جو شخص بھی اس جدوجہد میں کھڑاہوگاوہ گر جائے گااورسلامت وہی رہے گا جو اپنے قدم کی تیزی میں کمی نہیں آنے دے گا۔مجلس خدا م الاحمدیہ تحریک جدید کی فوج ہے اورمیں امید کرتا ہو ںکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس فوج میںداخل ہونگے ا ور اپنی عملی جدوجہد سے ثابت کردیںگے کہ انہوں نے اپنے فرائض کو سمجھا ہؤا ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسر ا پہلو تبلیغ واشاعت کا ہے اوراس کیلئے وقف زندگی،وقف رخصت اوردوسرے ممالک میں احمدیوں کے پھیل جانے اورچندہ جمع کرنے کی تحریک کی گئی ہے۔چندے کی تحریک گو جماعت کی تعلیم وتربیت کے لحاظ سے بھی ضروری ہے مگراس کو زیا دہ تر تبلیغ کے لئے جاری کیاگیا ہے۔ان میں سے ہر ایک تحریک اپنی اپنی جگہ نہایت اہم اورضروری ہے اورمیں اپنے اپنے موقع پر پھر دوبارہ ان تمام مطالبات کی طرف جماعت کوتوجہ دلانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
تیسری چیز جو ان دومقاصد کے علاوہ ہے اورجوتبلیغ و اشاعت اورتعلیم وتربیت کیلئے مُمِد ہے و ہ یہ ہے کہ چونکہ یہ سب کام خدا تعالیٰ کیلئے ہیں ا س لئے اس سے دعائیں کی جائیں کہ وہ ہمیں کامیابی عطا فرمائے اورچونکہ بعض دفعہ انسان اپنے جوش میں اورفتح کے نشہ میں اس امر کو بھُول جاتاہے کہ تمام کامیابی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوئی ہے اوراس کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ یہ فتح شاید میری جدوجہد کا نتیجہ ہے اسلئے روزوںکا سلسلہ جاری کیا گیا ہے تا ہماری جماعت کے دوست یہ سمجھیں کہ جو کچھ ہؤ ا ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہؤا ہے اورجو کچھ آئندہ ہو گا وہ بھی اُسی کے فضل سے ہوگاتا ایک طرف فتح کے نتیجہ میں جو بعض دفعہ کبر اور غرور پیدا ہوجاتا ہے وہ پید ا نہ ہو اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے احسانات کے متعلق شکر کا جذبہ دل میں موجزن ہو۔
یہ تحریک جدید کا مکمل ڈھانچہ ہے جس کا ایک پہلو تعلیم و تربیت ہے دوسرا پہلو تبلیغ و اشاعت اورتیسرا پہلو دعا اور روزے ہیںتا جتناکام بھی ہو اس یقین اور وثوق کے ساتھ ہو کہ یہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہؤا ہے اورہم آئندہ کی کامیابیوں کے لئے بھی اسی کی طرف اپنی توجہ رکھیں اوراس سے دعا کرتے رہیں کہ وہ ہماری مدد فرمائے۔
مَیں گزشتہ خطبات میں بتا چکا ہوں کہ پہلے دورمیں ہماری جماعت نے بے مثل نمونہ دکھایاہے اوراس نے ایسی غیر معمولی قربانی اور جوش کا ثبوت دیاہے کہ جس کا دشمن کو بھی اقرار ہے مگر میں یہ بھی بتا چکا ہوںکہ یہ کام زمین صاف کرنے کاتھا۔اتنے کام پر ہی خوش ہو جانا اوراپنی تمام جدوجہد کو ختم کردینا اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں کسی نیک نامی کا مستحق نہیں بلکہ ۱؎کا مصداق بنانے والا ہے۔وہ عورت بھی آخر کچھ نہ کچھ کام کیا ہی کرتی تھی اور محنت کرکے سُوت کاتا کرتی تھی مگر چونکہ جب کام کاوقت آتا تو وہ اپنے سُوت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی اس لئے اس کی محنت اس کے کسی کام نہیں آتی تھی۔ہم نے بھی پہلے دور میں سُوت کاتا ہے لیکن دوسرے دور میں ہم نے اس سُوت کے کپڑے بننے اورنہ صرف خود پہننے بلکہ دوسروںکو بھی پہنانے ہیں اگرا س دورمیں ہم نے سُستی دکھائی تو یقیناََ ہماری ساری محنت رائیگاں جائے گی اورہمیں جس قدرنیک نامی حاصل ہو چکی ہے وہ سب بدنامی سے بدل جائے گی۔
اس دوسرے دور میں مجھے بعض لوگ سُست نظر آتے ہیں مگر میرے لئے یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں۔میں نے اس تحریک کے شروع میں ہی بتایا تھا کہ کچھ لوگ وقتی مؤمن ہؤ ا کرتے ہیں اور ایسے وقتی مؤمن ہر جماعت میں ہؤا کرتے ہیں اوروقتی مؤمن سے میری مرادوہ لوگ ہیں جولڑائی جھگڑے کے وقت تو آگے آجاتے ہیں مگر جب مستقل اورلمبی قربانیوں کا موقع آتاہے توپیچھے ہٹ جاتے ہیں۔وہ جان دینے کیلئے تو فوراََ تیار ہو جائیں گے اوراگر جنگ ہو اور انہیںکہاجائے کہ فوج میں بھرتی ہوجاؤاورملک کی عزت کیلئے جان دے دوتو وہ بالکل نڈر ہو کر فوج میں شامل ہو جائیں گے اوردشمن سے لڑکر اپنی جان دے دیں گے لیکن اگر انہیں کہا جائے کہ پندرہ منٹ یا آدھ گھنٹہ روزانہ فلاں کام کیلئے وقت دو تو چند دنوں کے بعد ہی و ہ عذرات پیش کردیں گے کہ آج ہماری بیوی بیمار ہے،آج بچے اچھے نہیں،آج اپنی طبیعت ناساز ہے اوراس طرح وہ کام سے بچنا شروع کردیںگے۔یہ وقتی اور ہنگامی مؤمن ہو تے ہیں اوریہ ہنگامی مؤمن ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں۔
حضرت نوح علیہ السلام آئے تو اُن کی جماعت میں بھی یہ ہنگامی مؤمن تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو اُن کی جماعت میں بھی یہ ہنگامی مؤمن تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے تو اُن کے ساتھ بھی کچھ ہنگامی مؤمن تھے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تو اُن کی جماعت میں بھی کچھ ہنگامی مؤمن تھے پھر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے ساتھ بھی بعض ہنگامی مؤمن تھے۔ یہی ہنگامی مؤمن کبھی کبھی منافق بھی بن جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک تومستقل منافق ہوتاہے اورایک یہ ہنگامی مؤمن ہو تا ہے جو بعض دفعہ جوش میں آکر مؤمنانہ کام کرلیتاہے اور بعض دفعہ ایسی حرکات کا ارتکاب کر لیتا ہے جن سے خدا تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کرلیتا ہے اورمنافق بن جاتا ہے۔ پس ہنگامی مؤمن کاانجام محفوظ نہیں ہوتا لیکن جو مستقل مؤمن ہو ں ان کاانجام خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لے لیتاہے اورانہیں ہر قسم کے بد انجام سے بچا لیتاہے۔
سُستوں کا ہر جماعت میں ہونا لازمی ہوتاہے مگر ان کی وجہ سے کام کو نقصان نہ پہنچنے دیناہمارافرض ہے اوران لوگوں کی اصلاح ہم پر لازمی ہے اورہم یہ کہہ کر ہر گزبری نہیں ہو سکتے کہ ہم نے قربانی کردی ہے،اگر چندلوگوں نے قربانی نہیںکی تو ہم کیاکریں۔ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں بیدار کرتے رہیں،ان کی نیند اورغفلت کو دور کریں اور انہیں چُست اور ہوشیار بنائیں اگر ہم اپنی اس ڈیوٹی کو چھوـڑ دیں تو ہم خدا تعالیٰ کے بھی مجرم ہونگے اوراپنی قوم اور اپنے نفس کے بھی مجرم ہو نگے اس لئے میں ہمیشہ ایسے لوگوں کو چست کرتا رہتا ہوں اورجو پہلے ہی بیدارہوںانہیںاور زیادہ بیدار کرتارہتاہوں تاکہ وہ بھی کسی وقت سست نہ ہو جائیں۔پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان لوگوں کو جو سست ہیں چست اور ہو شیار بنائیں اورجو چست ہیںانہیںوقتی مؤمنوں کی صف سے نکال کر کامل الایمان لوگوں کے ساتھ شامل کریں اوراگرہم ایسا کریں تو یقیناََہم دوہرے ثواب اوردوہرے اجر کے مستحق ہو نگے لیکن اگر ہم اپنے اس فرض کی ادائیگی میںکوتاہی کریںتو ہم یہ کہہ کر ہرگز بری نہیں ہو سکتے کہ ہم تو بچ گئے ہیں۔خداتعالیٰ ہم سے پوچھے گا کہ تم تو بے شک بچ گئے لیکن جن اور لوگوں کو بچانا تمہاری طاقت میںتھا ان کو تم نے کیوں نہیں بچایا۔
میں تحریک جدید کے دورِثانی میں مستقل کام کی داغ بیل ڈالنے کیلئے مالی تحریک کے علاوہ کہ وہ بھی مستقل ہے ایک مستقل جماعت واقفین کی تیار کررہا ہوں۔دورِ اول میںمَیں نے کہا تھاکہ نوجوان تین سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر دورِ ثانی میں وقف عمر بھر کیلئے ہے اوراب یہ واقفین کاہر گز حق نہیں کہ وہ خود بخود کام چھوڑکر چلے جائیںہاںہمیںاس بات کا اختیار حاصل ہے کہ اگر ہم انہیں کام کے نا قابل جانیں توانہیںالگ کر دیں۔پس یہ سہ سالہ واقفین نہیں بلکہ جس طرح یہ دور مستقل ہے اسی طرح یہ وقف بھی مستقل ہے۔اس دور میںکام کی اہمیت کے پیشِ نظر میں نے یہ شرط عائد کردی ہے کہ صرف وہی نوجوان لئے جائیں گے جو یا تو گریجوایٹ ہو ں یا مو لو ی فاضل ہوں اورجو نہ گریجوایٹ ہوں اور نہ مولوی فاضل انہیں نہیں لیا جائے گا کیونکہ ا ن لو گوں نے علمی کام کرنے ہیں اور ا س کے لئے یا تو دینی علم کی ضرورت ہے یا دنیوی علم کی۔اس دور میں تین چار آدمیوں کو منہا کر کے کہ وہ گریجوایٹ نہیں کیونکہ وہ پہلے دور کے بقیہ واقفین میں سے ہیں باقی سب یا تو گریجوایٹ ہیں یا مولوی فاضل ہیں۔چنانچہ اس وقت چار گریجوایٹ ہیں اورچارہی مولوی فاضل ہیں۔کل غالباََ بارہ نوجوان ہیں۔چار ان میں سے غیر گریجوایٹ ہیں مگرہیں سب ایسے ہی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محنت سے کام کرنے والے اورسلسلہ سے محبت رکھنے والے ہیں اورمیں امید کرتا ہوںکہ جس رنگ میں یہ کام کررہے ہیں۔ اس کے ماتحت یہ ان علمی کاموں کو سر انجام دے دیں گے جو علمی کام میرے مد نظر ہیں۔
میرا ارادہ ہے کہ اس جماعت کا پہلا دور 24نوجوانوں پر مشتمل ہوکیونکہ کام کے لحاظ سے اس سے کم میں ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتااس کیلئے میں عنقریب تحریک کرنے والا ہوں بلکہ اس خطبہ کے ذریعہ میں تحریک کردیتاہوں کہ جو نوجوان گریجوایٹ ہوں یا مولوی فاضل وہ اپنی زندگی خدمتِ دین کے لئے وقف کرنے کے ارادہ سے میرے سامنے اپنے نام پیش کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو بھی گریجوایٹ یا مولوی فاضل ہو گا اسے ہم بہر حال لے لیں گے کیونکہ انتخاب ہماری مرضی پر ہے۔ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ان کا تقویٰ کیساہے،خدمت دین کا جذبہ کس حد تک ہے،علم کیسا ہے،صحت کیسی ہے،ان کے حالات کس قسم کے ہیںاورآیا جو کام ہمارے مدِّ نظر ہے اسے وہ خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکتے ہیںیا نہیں۔غرض تمام باتیں دیکھنی پڑیں گی اوراس طرح انتخاب کا معاملہ کُلّیۃًہماری مرضی پر منحصر ہوگا لیکن لئے وہی جائیں گے جو یا تو گریجوایٹ ہو ں یا مولوی فاضل ہوں۔اس طرح وہ لوگ بھی لئے جا سکیں گے جو دوسرے فنون کے گریجوایٹ ہوں۔مثلاََ ایک ڈاکٹر ہے وہ خواہ، بی۔اے نہ ہولیکن اسے گریجوایٹ ہی سمجھا جائے گا۔میرا منشاء یہ ہے کہ ان میں سے بعض کو مرکز کے علاو ہ باہر بھجوا کر اعلیٰ تعلیم دلوائی جائے اور علمی اور عملی لحاظ سے اس پایہ کے نوجوان تیار کئے جائیں جو تبلیغ، تعلیم اور تربیت کے کام میں دنیا کے بہترین نوجوانوں کا مقابلہ کرسکیںبلکہ ا ن سے فائق ہوں۔ صرف انہیں مذہبی تعلیم ہی دینا میرے مدنظر نہیںبلکہ میرا منشاء ہے کہ انہیں ہر قسم کی دنیوی معلومات بہم پہنچائی جائیں اوردنیا کے تمام علوم انہیں سکھائے جائیں تا دنیا کے ہر کام کو سنبھالنے کی اہلیت ان کے اندر پیدا ہوجائے۔ان نوجوانوں کے متعلق میری سکیم جیسا کہ میںگزشتہ مجلس شوریٰ کے موقع پر بیان کرچکا ہوں یہ ہے کہ اُنہیں یورپین ممالک میں بھیج کر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائی جائے اور جب یہ ہر قسم کے علوم میں ماہر ہو جائیں تو انہیں تنخواہیں نہ دی جائیں بلکہ صرف گزارے دیئے جائیں اوران کے گزارہ کی رقم کا انحصار علمی قابلیت کی بجائے گھر کے آدمیوں پر ہوجیسا کہ صحابہ ؓ کے زمانہ میں ہؤا کرتا تھا اوریوں انتظام ہو کہ جس کی بیوی ہوئی یا بچے ہوئے اسے زیادہ الاؤنس دے دیااور جس کے بیوی، بچے نہ ہوئے اُسے کم گزارہ دے دیا یا کسی نوجوان کی شادی ہونے لگی تو اسے تھوڑی سی امداد دے دی۔ یہ نہیں ہو گا کہ چونکہ فلاں ولایت سے پاس شدہ ہے اس لئے اسے زیادہ تنخواہ دی جائے ا ور فلاں چونکہ ولایت کا پاس شدہ نہیں اس لئے اسے کم تنخواہ دے دی جائے۔سب کو یکساں گزارے ملیں گے خواہ کوئی ولایت کا پاس شدہ ہو یا یہاں کا۔ہاں گزارے میں زیادتی شادی ہونے پر یا بچے پیدا ہو نے پر ہو سکے گی۔مثلاََاگر ایک ولایت کا پاس شدہ نوجوان بھی ہمارے پاس ہو گاتو ہم اسے پندرہ روپے ہی دیں گے اس کے مقابلہ میںاگر کوئی ایسا ہے جو ولایت کاپاس شدہ نہیں تو اسے بھی پندرہ روپے ہی ملیںگے۔ہاں اگر شادی ہو جائے اورپھر بچے پیدا ہونے لگ جائیں تواس صورت میںاس گزارہ میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہو تا رہے گاکیونکہ بچوں نے تو کھانا ہے مگر علم نے نہیں کھانا۔میں نے دیکھاہے کہ اگراس لحاظ سے تقسیم کی جائے تو دولت مند غریب ہو جاتے ہیں اور غریب دولت مند۔بعض لوگ صرف میاں بیوی ہو تے ہیںان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہو تی لیکن وہ پچاس روپیہ ماہوارکما رہے ہو تے ہیں۔اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص ہو تا ہے اسکے آٹھ بچے ہوتے ہیں اوروہ سَوروپیہ ماہوارکماتا ہے۔اب پچاس روپے والا یہ نہیں دیکھے گاکہ مجھے پچاس روپے ملتے ہیں اورہم کھانے والے صرف دو میاں بیوی ہیں اوراسے گو سو روپیہ ملتے ہیںمگر اس کے گھر کھانے والے دس افراد ہیں بلکہ وہ پچاس اورسو کودیکھ کر شورمچانے لگ جائے گاکہ غریبوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیںامیروں کو سب پوچھتے ہیں حالانکہ یہ پچاس روپے کما کر۲۵روپے خود رکھتا اور ۲۵روپے اپنی بیوی کو دیتاہے اورسو روپیہ کمانے والا ہر ایک کو دس دس روپے دیتا ہے بلکہ یہ ۲۵روپے لے کر بھی اپنے آپ کو غریب کہتا ہے اوردوسرے کو باوجو د دس روپیہ کی آمد کے امیر قرار دیتا ہے اوراسکی زبان یہ کہتے ہوئے گِھس جاتی ہے کہ غریبوں کو کوئی نہیں پوچھتا امیروں کو ہی سب پوچھتے ہیں۔تو میں نے تحریک جدید میں یہ اصل رکھا ہے کہ علم پر گزارہ مقرر نہ کیاجائے بلکہ کھانے پینے والوں کی تعداد کو دیکھ کر گزارہ مقررکیا جائے۔
میں نے تحریک جدیدکے ماتحت جو گزارے کے نئے اصول مقرر کئے ہیں وہ جیساکہ میں بتا چکا ہوں اسی اصل کے ماتحت ہیں۔میں نے ہدایت دے دی ہے کہ اگر کوئی مجردہوتو اسے اتنے روپے دیئے جائیں گے،شادی ہو جائے تو اتنے اوربچے پیدا ہو جائیں تو فی بچہ اتنا الاؤنس بڑھایا جائے اوراگر کسی کے بچے نہ ہو ں خواہ وہ کتنا ہی تعلیم یافتہ کیوںنہ ہووہ ہم سے اس شخص کی نسبت کم ہی گزارہ لے گاجو گو اتنا تعلیم یا فتہ نہیں مگراس کے بچے زیادہ ہیں اس لئے کہ اس کے کھانے والے کم ہیںاوراُس کے کھانے والے زیادہ اور اگر ہم اس کے گزارہ میں ترقی کریں گے تو اسی حساب سے۔مثلاََفرض کرو ہم نے تین روپیہ فی بچہ گزارہ مقرر کیا ہؤا ہے۔ اب جب بھی ہم کسی کا گزارہ بڑھائیں گے اسی اصل پر بڑھائیں گے کہ فی بچہ اتنے روپے زائد کردو یہ نہیں کہ یونہی سالوں کی زیادتی پرر قمیںبڑھاتے چلے جائیں۔تو میری غرض یہ ہے کہ میںتحریک جدید کے واقفین کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلاؤںوہ اپنی زندگی خدمت دین کیلئے وقف کریں اورہم اس قربانی کے معاوضہ میں انہیں وہ تعلیم دلائیں جو ان کا سارا خاندان مل کر بھی انہیں تعلیم نہیںدلا سکتا۔گویا ان کا معاوضہ انہیں روپیہ کی صور ت میں نہیں بلکہ تعلیم کی صورت میں ملے لیکن تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ہم سے وہی گزارہ لیں جو اس وقت لے رہے ہیں اوراس میں زیادتی انہی اصول پر ہو جو میں نے بیان کئے ہیں۔ان نوجوانوں میں بعض اچھے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہیں وہ اگر ا پنی زندگی وقف نہ کرتے اوریو ں کو شش کرتے تو انہیں اچھی اچھی ملازمتیں مل جاتیں۔پس چونکہ انہو ں نے ایک قربانی کی ہے اس لئے میری تجویز ہے کہ انہیں ایسی اعلیٰ تعلیم دلاؤں کہ نہ صرف دینی طور پر بلکہ دنیوی طور پر بھی وہ ہر جگہ عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جائیں۔اگر مالی لحاظ سے وہ غریب ہوں تو علم اورعقل اورتجربہ کے لحاظ سے اتنی دولت ان کے پاس ہو کہ وہ کسی جگہ ذلیل نہ ہوسکیں۔اگر کسی انسان کے پاس نہ تو علم ہو اورنہ دولت ہو تو وہ ذلیل ہو جاتاہے لیکن اگران میں سے اگر ایک چیز بھی ہو تو کسی جگہ وہ ذلت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔پس میں نہیں چاہتا کہ تحریک جدید کے واقفین ذلیل ہوں۔ میں یہی چاہتا ہوں کہ انہیں عزت حاصل ہو مگر ان کی عزت دولت کی وجہ سے نہ ہوبلکہ علم کی وجہ سے ہو اورانہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ مقام حاصل ہو کہ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا دولت مند بھی انہیں ذلیل نہ سمجھ سکے۔
میری کوشش یہ ہے کہ اس دور میں سو واقفین زندگی تیا ر ہو جائیں جو علا وہ مذہبی علم رکھنے کے ظاہر ی علوم کے بھی ماہر اورسلسلہ کے تمام کاموں کوحزم اور احتیاط سے کرنے والے اورقربانی و ایثار کا نمونہ دکھانے والے ہو ں۔اس غرض کے لئے تعلیمی اخراجات کے علاوہ ہمیں ان لو گوں کو گزارے بھی دینے پڑیں گے اوریہ گزارہ پندرہ روپے فی کس مقرر ہے۔اگر ا یک گریجوایٹ بھی ہو تو اسے بھی ہم پندرہ روپے ہی دیتے ہیں زیادہ نہیں اوریہ اتناقلیل گزارہ ہے کہ بعض یتامیٰ اور مساکین کے وظائف اس کے لگ بھگ ہیں مگر باوجو د اس کے کہ گزارہ انہیں اتنا تھوڑا دیا جاتا ہے جتنا بعض یتامیٰ اور مساکین کو بھی ملتا ہے وہ کام بھی کرتے ہیں اورانہو ں نے اپنی تمام زندگی خدمت دین کیلئے وقف کی ہو ئی ہے۔سر دست ہمارا قانون یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی کی شادی ہو جائے تو اسے بیس روپے دیئے جائیں اور پھر بچے پیدا ہو ں تو فی بچہ تین روپے زیادہ کئے جائیںاوراسی طرح چار بچوں تک یہی نسبت قائم رہے گویا ان کے گزارہ کی آخری حد بتیس روپے ہے مگر یہ بھی اس وقت ملیں گے جب ا ن کے گھروں میں چھ کھانے والے ہو جائیں گے۔ میںسمجھتا ہو ںکہ یہ گزارہ کم ہے اسی طرح بچوں کی حد بندی کرنی بھی درست نہیں اوراسے جلد سے جلد دور کرنا چاہئے۔مگر فی الحال ہماری مالی حالت چونکہ اس سے زیادہ گزارہ دینے کی متحمل نہیں اس لئے ہم اس سے زیادہ گزارہ نہیں دے سکتے اورانہوں نے بھی خوشی سے اس گزارہ کو قبول کیا ہے۔
میں سمجھتا ہو ں کہ بیوی کے لحاظ سے بھی پانچ روپے الاؤنس کم ہے اوراسے بڑھانے کی ضرورت ہے بچوں کے لحاظ سے بھی فی بچہ تین روپیہ گزارہ تھوڑا ہے اور اس میں زیادتی ہو نی چاہئے مگر یہ سب کچھ مالی حالت کے سدھرنے پر موقوف ہے۔اسی طرح میں یہ بھی سمجھتاہوں کہ بچوں کی حد بندی کرنی بھی درست نہیں کیونکہ نسل کا بڑھنا قومی لحاظ سے مفید ہو تا ہے لیکن بہرحال ابھی مالی دقتوں کی وجہ سے ہر عورت کے پانچ روپے اور فی بچہ تین روپے ہی مقرر کر سکے ہیں لیکن اگر ہم کسی وقت اس میں زیادتی بھی کریں تو میں سمجھتاہو ں کہ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ کے لئے شاید ہمیں پچاس روپیہ سے زائد گزارہ مقرر نہیں کرنا پڑے گا حالانکہ جس قسم کی اعلیٰ تعلیم میں اُ نہیں دلانا چاہتا ہوں اس کے بعد اگر یہ کہیں ملازمت کرلیں تو تین چار سو روپیہ ماہوار سے ان کی تنخواہ شروع ہولیکن پھر بھی خواہ ہم انہیں کس قدر قلیل گزارہ دیںجو کام یہ لوگ کریں گے آخر وہ روپیہ کا محتاج ہے۔
ہم سے صدر انجمن احمدیہ کے کاموں میں یہ غلطی ہو ئی ہے کہ عملہ کا بل سائر سے زیادہ ہو گیا ہے یعنی صدر انجمن احمدیہ کے کارکنان کی تنخواہوں کا بجٹ سائر کے بجٹ سے بہت زیادہ ہے حالانکہ کام کو مفید بنانے کے لئے ضروری ہو تا ہے کہ سائر کا بجٹ تنخواہوں سے کئی گُنا زیادہ ہو۔شاید یہ مجبوری تھی لیکن اس غلطی سے تحریک جدیدکے کام میں اجتناب ضروری ہے اور میراارادہ ہے کہ تحریک جدید کو اس رنگ میں چلایا جائے کہ اس کے سائر کا بجٹ زیادہ ہو اورکارکنان کے گزارہ کا بجٹ کم ہو۔میر ااپنا اندازہ یہ ہے کہ سائر کا بجٹ کئی گنے زیادہ ہو نا چاہئے،کم ازکم تین گنا ضرور ہو نا چاہئے۔یعنی اگر سوروپے پاس ہوں تو ان میں سے پچیس روپے آدمیوں پر خرچ ہونے چاہئیں اور۷۵روپے اشاعت لٹریچر اورکرایوں وغیرہ پر۔اگر اس طریق کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو کئی قسم کی قباحتیں پید ا ہو سکتی ہیں۔مثلاََ اگر لٹریچر موجود نہیں، کرایہ کیلئے کوئی رقم پاس نہیں، اشتہارات چھپوانے کیلئے کوئی روپیہ پاس نہیں،کہیں دواخانے وغیر ہ کھولنے کیلئے مالی گنجائش نہیں تو صرف آدمیوں کو ہم نے کیا کرنا ہے۔وہ تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں گے اورجو کام ہے وہ رُکا رہے گا۔پس ضروری ہے کہ جو خرچ آدمیوں پر ہو اس سے کئی گنے زیادہ اشاعت وغیرہ کے اخراجات کیلئے روپیہ ہو۔مثلاََ اشتہارات چھپوانے کیلئے،لٹریچر کی اشاعت کیلئے،دواخانے کھولنے کیلئے،آمد ورفت کے کرایوں کیلئے،مدرسوں کے اجراء کیلئے،غریب بچوں کو کتابیں مہیا کرکے دینے کیلئے اوراسی طرح کے اوربہت سے کاموں کیلئے۔فرض کروہم کسی جگہ مدرسہ کھولتے ہیں وہاں تمام لڑکے غریب ہیں۔اب سکول چلانے کیلئے ضروری ہو گا کہ بچوں کو کتب اوردوسرا سامان بھی دیا جائے۔ورنہ خالی مدرِّس بیٹھا ہؤ ا وہاں کیا کرسکتاہے۔پس میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر آدمیوں کی تنخواہوں پر۲۵روپے خرچ ہؤا کریں تو سائر کیلئے ۷۵روپے ہو نے چاہئیں اوریہ کم سے کم اندازہ ہے اورمیری کوشش ہے کہ اسی اصل پر تحریک جدید کے کام کو منظم کیا جائے۔پس اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ نوجوان جو بغیر روپیہ کے کام کرنے کو تیار ہوں وہ اپنی زندگیاں وقف کریں۔اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے بعض نوجوان ہمیں ایسی ہی روح رکھنے والے دیئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان واقفین زندگی میں ایک وکیل ہیں،ان کے والد کئی مربعوں کے مالک ہیں اوروہ اپنے علاقہ کے رئیس اورمرکزی اسمبلی کے ووٹروں میں سے ہیں،وہ شادی شدہ ہیں مگر ہم انہیں بیس روپے ہی دیتے ہیں اوروہ خوشی سے اسے قبول کرتے ہیںحالانکہ زمیندارہونے کی وجہ سے اوراس وجہ سے کہ اپنے علاقہ میں انہیں اچھا رسوخ حاصل ہے اگر وہ وکالت کرتے تو سو ڈیڑھ سو روپیہ ضرور کما لیتے۔ بلکہ ہوشیار آدمی تو آجکل کے گرے ہو ئے زمانہ میں بھی دو اڑھائی سو روپیہ کمالیتاہے لیکن انہوں نے اپنے آپ کو وقف کیااورقلیل گزارے پر ہی وقف کیااورمیں تو اس قسم کے وقف کو بغیر روپیہ کے کام کرنا ہی قراردیتا ہوں کیونکہ جو کچھ ہماری طرف سے دیا جاتاہے وہ نہ دیئے جانے کے برابر ہے۔ اسی طرح اورکئی گریجوایٹ ہیں جو اپنی ذہانت کی وجہ سے اگر باہر کہیں کام کرتے تو بہت زیادہ کما لیتے مگر ان سب نے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی وقف کی ہے۔پس گو تحریک جدید کے واقفین ایک قلیل گزارہ لے رہے ہیں مگر عقلاََ انہیں بغیر گزارہ کے ہی کام کرنے والے سمجھنا چاہئے کیونکہ ان کے گزارے انکی لیاقتوں اورضرورتوں سے بہت کم ہیں۔مگر جیسا کہ میں بتاچکا ہوں کہ اگر بغیر گزارہ کے کام کرنے والے آدمی بھی ہمیں ملیںتو بھی اس کام کیلئے جو ان سے لیا جانا ہے سرمایہ کی ضرورت ہے۔کچھ ان کے قلیل گزارہ کیلئے اورکچھ غیر ممالک میںتبلیغ اسلام اورلٹریچر وغیر ہ کی اشاعت کیلئے۔اگر ہماری جماعت کے آدمی کتابیں نہیںلکھتے یا اگر لکھتے ہیںتو شائع نہیں ہوتیںتو محض ا س لئے کہ روپیہ نہیں ہو تا۔پس میرامنشاء یہ ہے کہ جہاں نوجوان بغیر روپیہ کے کام کرنے والے ہو ں وہاں روزمرہ کے کاموںکیلئے روپیہ کا ایک ریزرو فنڈجائیداد کی صورت میںہو تا۔ اگر کسی وقت جماعت سے چندہ نہ ملے یا چندہ لیا نہ جاسکے توتبلیغ کے کام میںکوئی رکاوٹ پیدا نہ ہواورمستقل آمد ایسی ہو جس سے تمام کام بخوبی چلتاچلا جائے۔
مَیں نے ا ٓج سے کچھ سال پہلے پچیس لاکھ ریزروفنڈ کی تحریک کی تھی مگر وہ تو ایسا خواب رہا جو تشنہ تعبیر ہی رہا مگر اللہ تعالیٰ نے تحریک جدید کے ذریعہ اب پھر ایسے ریزرو فنڈ کے جمع کرنے کا موقع بہم پہنچا یا ہے اورایسی جائیدادوںپر یہ روپیہ لگایاجاچکاہے اورلگایاجارہاہے جس کی مستقل آمدپچیس تیس ہزارروپیہ سالانہ ہو سکتی ہے تاتبلیغ کے کام کو بجٹ کی کمی کی وجہ سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔
اگر ہم سَو واقفین رکھیں جو میرا مقصود ہے اورجن کو میںدوسرے دور میں تیارکرنا چاہتا ہوں اوران میں سے ہر ایک کے اخراجات کی اوسط پچاس روپیہ ماہوار رکھیں تو پانچ ہزارروپیہ ماہوار اورساٹھ ہزارروپیہ سالانہ بنتاہے مگر یہ عملہ کاخرچ ہے اورمیں بتا چکا ہو ں کہ سائر کے اخراجات کم از کم تین گنے زیادہ ہو نے چاہئیں جو لٹریچر کی مفت تقسیم یا دواؤں کی مفت تقسیم یا سفر خرچ وغیرہ پر خرچ ہونا چاہئے۔اس لحاظ سے دو لاکھ چالیس ہزار روپیہ بنتا ہے جس کی سالانہ ہمیںضرورت ہوگی گوسردست یہ ایک واہمہ اور خیال ہے مگر جس رنگ میں تحریک جدید کے سرمایہ سے مستقل جائیدادیں تیار ہورہی ہیںاس سے تیس چالیس ہزار روپیہ سالانہ تک آمدہو سکتی ہے بلکہ انشاء اللہ اس سے بھی زیادہ اورچونکہ اگر ۲۴نوجوان ہوں تو ان کے لحاظ سے ساٹھ ہزار روپیہ کا سالانہ بجٹ بن جاتا ہے اس لئے ۲۴نوجوانوں کے اخراجات کا بجٹ قریباََ قریباََ اس جائیداد سے پو را ہو سکتاہے اورچونکہ دورِ ثانی میں ابھی چھ سال باقی ہیںاس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کو شش کرے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے آسانی کے ساتھ ایسی جائیدادیں پیدا کی جاسکتی ہیں جن سے تبلیغ کاکام بسہولت ہوتا رہے اوراس کیلئے بعدمیںکسی خاص جدوجہد کی ضرورت نہ رہے۔مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ جماعت اپنی قربانی کو اس اعلیٰ معیارپر قائم رکھے جو گزشتہ سالوںمیں اس نے قائم کیا تھابلکہ کوشش کرے کہ پہلے معیار سے بھی وہ آگے بڑھ جائے۔دنیامیں لوگ کنوئیں کھدواتے ہیں، سرائیںبنواتے ہیں اورکوشش کرتے ہیںکہ ان کانام باقی رہے۔وہ بالکل بے دین ہوتے ہیں مگر ان کے دل میںیہ جذبہ ہو تاہے کہ ہمارا نام کسی طرح باقی رہے لیکن کنوؤں اورسراؤں کی کیا حیثیت ہوتی ہے پچاس، ساٹھ یا سوسال کے بعد ویران اور غیر آباد ہو جاتے ہیں،لیکن اس کے مقابلہ میںتحریک جدید کا دورِ ثانی مستقل صدقے کاکام ہے اورجو لوگ اس میں حصہ لیں گے وہ اس تبلیغ دین کے ذریعہ جو، ان کے روپیہ سے ہو تی رہے گی اپنی موت کے ہزاروں سال بعد بھی ثواب حاصل کرتے چلے جائیںگے۔دنیا میں حالات بدلتے رہتے ہیں اورعام طور پر جو وقف ہوتے ہیں وہ بھی دودو،تین تین، چار چارسو سال سے زیادہ دیر تک نہیں رہتے۔لوگ کنوئیں کھدواتے ہیں تووہ پچاس،ساٹھ یا سوسال کے بعد ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں لیکن دینی جماعتوں کاوقف اس سے بہت زیادہ لمبے عرصہ تک قائم رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے عیسائیوںسے ہمیں بہت بہتر مقام عطا فرمایا ہے کیونکہ ان کے مسیح سے ہمارا مسیح اپنی ہر شان میں بلند اوربالا ہے لیکن عیسائیوں کے بعض وقف بھی ہزار سال سے چلے آتے ہیں۔پس اگر عیسائیوں کے بعض وقف ہزار ہزار سال تک قائم رہ سکتے ہیں تو کیا تعجب ہے کہ تمہارا وقف ڈیڑھ ہزار یا دو ہزار سال تک قائم رہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے مسیح پر فضیلت دی ہے۔اب خودہی غور کروکہ یہ کتنا عظیم الشان ثواب کا موقع ہے جو تمہارے سامنے ہے۔تم تحریک جدیدکے دورِ ثانی میں غالباََ چھ سال تک اَور مالی قربانی کرو گے مگر سینکڑوں ہزاروں سال تک انشاء اللہ تمہارے روپیہ سے تبلیغِ اسلام ہوتی رہے گی اورتمہارے مرنے کے بعد بھی تمہیں ثواب پہنچتارہے گا۔میں کہتا ہوںکہ ہزاروں سال کو جانے دو اگر سو، دو سو سال تک بھی تمہیں مستقل ثواب پہنچتا چلاجائے تو یہ کتنی عظیم الشا ن کامیابی ہے اوراس کامیابی کے مقابلہ میں دس سا ل کی قربانی کی حقیقت ہی کیا ہے۔
مَیں نے گزشتہ سال کہا تھا کہ تحریک جدید کے دورِ اول کے پہلے سال میں جس نے جس قدر چندہ دیا ہو وہ اگر چاہے تو اسی قدر چندہ دورِ ثانی کے پہلے سال دے سکتاہے اورپھر ہر سال اسے اپنے چندہ میں دس فیصدی کمی کرنے کی اجازت ہے۔میں آج دورِ ثانی کے سال دوم کے چندہ کی تحریک کا اعلان کرتے ہو ئے پھر ا س بات کو دُہر ا دیتا ہوں کہ عام قانون یہی ہے کہ دوستوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ پچھلے سال انہوں نے تحریک جدیدمیں جس قدرچندہ دیا تھا اس سال اگر چاہیں توا س سے دس فیصدی کم چندہ دے دیں،یعنی اگر کسی نے سوروپے دیئے تھے تو وہ نوے روپے دے سکتا ہے،ہزار روپے دیئے تھے تو نو سو روپے دے سکتا ہے،پچاس روپے دیئے تھے تو ۴۵روپے دے سکتا ہے،۲۰روپے دیئے تھے تو ۱۸ روپے دے سکتاہے اوردس روپے دیئے تھے تو نو روپے دے سکتاہے لیکن میں اس کے ساتھ یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ جو شخص توفیق کے ہوتے ہوئے اپنے چندہ میں کمی کرتا ہے وہ اپنے ایمان کو اپنے ہاتھوں نقصان پہنچاتا ہے۔یہ اجازت جو مَیں نے دی ہے یہ صرف اس لئے ہے کہ میں جانتا ہوں کہ ابتداء میں بعض لو گوں نے جوش میں آکر اپنی طاقت سے بہت زیادہ چندہ دے دیا تھا۔پس ان کے لئے بغیر اس کمی کے چارہ نہیں اورانکے لئے بھی یہ کمی اس لئے ہے تا پہلے سالوں سے کم چندہ دینے کی وجہ سے ان کا دل میلا نہ ہو اوروہ کہہ سکیں کہ گو ہمیں مالی مشکلات درپیش ہیں مگر پھر بھی قانون کے اندر رہتے ہو ئے ہم نے مالی قربانی میں حصہ لے لیا ہے۔بے شک تم کہہ سکتے ہو کہ اگرایک شخص مجبوراورمعذورہے اوراس نے ا پنی معذوری کی وجہ سے تحریک میں پہلے جتنا حصہ نہیں لیا تواس میں کیا حرج ہے مگر تم ا س سے انکارنہیں کر سکتے کہ اگر اس کی اجازت میں قانون کے رنگ میں نہ دوں تو اس کا دل ضرور میلا ہو گا اور وہ کہے گا کہ افسوس کہ میں پہلے جتنا حصہ اب کی دفعہ نہ لے سکا۔پس میری غرض اس کمی سے یہ ہے کہ اگر کوئی واقع میں مجبور ہواوراپنی مجبوری کی وجہ سے پہلے جتنا حصہ نہ لے سکتاہوتو اس کا دل بھی میلا نہ ہو اوروہ یہ نہ کہے کہ افسوس میں اتنی قربانی نہیں کرسکابلکہ وہ پھر بھی خوش ہو اورکہے کہ باوجود مجبوری کے میں نے اس قدر قربانی کر لی ہے جس قدر قربانی کا سلسلہ نے مجھ سے مطالبہ کیا تھا۔پس یہ صرف دل کے میلا نہ ہو نے کیلئے میں نے شرط رکھی ہے ورنہ میرا ارادہ یہی ہے کہ ہر سال میں اپنا چندہ کچھ نہ کچھ بڑھاتا چلا جاؤں اورکئی دوسرے دوست بھی ہیں جنہوں نے ہر سال اپنا چندہ بڑھایا ہی ہے گھٹایانہیں۔
پس مجھے چندہ میں دس فیصدی کمی کی اجازت دینے کا قانون بنانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ لو گ جنہوں نے پہلے سال جو ش میں بہت کچھ چندہ دے دیا تھا حتّٰی کہ اپنی طاقت سے بھی زیادہ دے دیا تھا ان کے دل بھی میلے نہ ہو ں یا وہ لوگ جن کی مالی حالت بعد میں واقع میں کمزورہو گئی ہے ان کا دل بھی میلا نہ ہو ورنہ میں جانتاہوں کہ جماعت کا ایک حصہ ایسا ہے جس نے ہر سال اپنے چندہ میں زیادتی کی ہے۔
اس کے مقابلہ میں وہ لوگ بھی ہیں جنہو ں نے اپنی طاقت سے کم حصہ لیا ہے۔میں اس موقع پر ان تمام لوگوں کو جنہوں نے گزشتہ سالوں میں اپنی طاقت سے کم حصہ لیا تھا،یا ان لو گوں کو جو اپنی قربانی کے سابقہ معیار کو قائم رکھ سکتے ہیں اوراسی طرح ان لو گوں کو جو اپنی قربانی کے معیار کو بڑھا سکتے ہیں کہتا ہوں کہ تم میں سے وہ جنہو ں نے گزشتہ سالوں میں اپنی طاقت سے کم حصہ لیا تھا وہ اپنی سُستی کا ازالہ کریں اورخدا تعالیٰ نے ا ن کے لئے ثواب کا جوایک اَور موقع پیدا کردیا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اوروہ جو اپنی سابقہ قربانیوں کے معیارکو قائم رکھ سکتے ہیں وہ اپنے معیار کو قائم رکھیں اورجو ا س معیار کو بڑھا کر زیادہ قربانی کرسکتے ہیں وہ زیادہ قربانی کریں۔اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب کی کمی نہیںاگر تم زیادہ قربانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ سے زیادہ اجر پاؤ گے اوراگر کم قربانی کرو گے تو بالکل ممکن ہے کہ قیامت کے دن تم جو اپنے آپ کو ایم۔اے سمجھ رہے ہو انٹرنس پاس ثابت ہو اورایک انٹرنس پاس خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایم۔ اے ثابت ہو۔پس وہ لو گ جنہوں نے کمزور ی دکھائی تھی ان کیلئے ا س بات کاموقع ہے کہ وہ اپنی پچھلی کمزوریوں کا اس رنگ میں کفارہ ادا کریںکہ تحریک جدید کے اس سال میں پہلے سالوں سے زیادہ حصہ لیں تا خداتعالیٰ کے حضور ان لوگوں کا نام کمزور لو گوں میں نہ لکھاجائے بلکہ ان لوگوں میں لکھاجائے جنہوں نے اس کے دین کے جھنڈا کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ بلند رکھا۔
اس کے مقابلہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی مالی حالت خدا تعالیٰ نے پہلے سے زیادہ مضبوط کردی ہے۔آج سے چارسال پہلے ان کی حالت سخت کمزورتھی مگرآج خدا تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتوں سے مالا مال کیا ہؤا ہے ایسے لوگوں کی یہ بے وقوفی ہوگی اگروہ ا پنے چندوں میں کمی کریں۔جب خدا تعالیٰ نے ان سے خاص سلوک کیا ہے تو ان کا بھی فرض ہے کہ وہ خاص جواب دیں۔پس وہ لوگ جن کی مالی حالت کو اللہ تعالیٰ نے مضبوط بنایا ہے ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اورانہیں اپنے چندہ میں کمی کرنے کی بجائے اسے بڑھاتے چلے جانا چاہئے اوروہ جن کی مالی حالت تو اللہ تعالیٰ نے اچھی رکھی ہو مگر وہ چندے کو بڑھا نہ سکتے ہوں انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے معیار کو قائم رکھیں۔ پس گو قا نون یہی ہے کہ چندہ میں ہر سال دس فیصدی کمی کی اجازت ہے مگراس سے فائدہ اس کواٹھانا چاہئے جو واقع میں معذور اورمجبور ہواورجوواقع میں مجبوراور معذور نہ ہو اسے اس سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے۔میں نے خود گزشتہ سال پہلے سالوں سے زیادہ چندہ دیاتھااورباوجود سخت مقروض ہو نے کے اب بھی زیادہ ہی دینے کا ارادہ ہے اوربھی کئی دوست ہیں جنہوں نے پہلے سالوں سے زیادہ چندہ پیش کر دیا ہے اوربعض مخلصین نے تو ایسانمونہ دکھایا ہے کہ ان پر رشک آتا ہے۔ایک دوست ہیں وہ اپنی ملازمت سے ریٹائرہوئے توانہیں گورنمنٹ کی طرف سے پراویڈنٹ فنڈ ملا۔وہ اب بوڑھے اور کمزور ہو چکے ہیںاور کوئی تجارت وغیرہ کاکام نہیں کرسکتے،ان کا گزارہ جو کچھ ہے ا سی پراویڈنٹ فنڈپر ہے مگر انہوں نے پراویڈنٹ فنڈ ملتے ہی تحریک جدید کے دوسرے سات سالہ دَور کا چندہ اکٹھا ہی بھجوا دیااورلکھ دیا کہ میری طرف سے یہ دفتر میں بطور امانت رکھ لیا جائے اورہر سال اتنا چندہ تحریک جدید میری طرف سے منتقل کرلیاجایا کرے میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں اورنہ معلوم کب مر جاؤں یا کیا خبر ہے پھر چندہ دینے کی توفیق ملے نہ ملے اسلئے میں آئندہ سات سال کا چندہ اکٹھا بھجوا دیتاہوں۔ یہ کیسا اعلیٰ درجہ کااخلاص اورکس قدر خوش کن نمونہ ہے۔جماعت کے دوست ایسے لوگوں پر جس قدر فخرکریں کم ہے۔اسی طرح اورکئی دوست ہیں جنہوں نے گو سات سال کا نہیں مگر دو دو تین تین سال کا چندہ اکٹھا جمع کرا دیا ہے کہ ممکن ہے مالی لحاظ سے ہم پر کوئی کمزوری آجائے اورہم اس ثواب میں شریک ہونے سے محروم رہیں اس لئے بہتر ہے کہ ابھی سے آئندہ سالوں کا چندہ بھی جمع کرا دیا جائے۔یہی وہ لوگ ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۲؎یہ کام ایسا شاندار ہے کہ میں سمجھتاہوں جو لوگ ا س تحریک کو کامیاب بنانے میں مدد دیں گے ان کا نام اللہ تعالیٰ خاص لو گوں میں لکھے گا کیونکہ اس چندے میں جن لوگوں نے بھی حصہ لیاہے ان کے چندوں سے اشاعت اسلام کے لئے ایک مستقل ریزروفنڈ قائم کیا جائے گا۔پس اس کیلئے جتنی قربانی کی جائے تھوڑی ہے اورجس قدرثوا ب کی امید رکھی جائے وہ بھی تھوڑی ہے۔
میں سمجھتا ہو ں کہ تحریک جدید کا کام ان مستقل تحریکات میں سے ہے جن میں حصہ لینے والے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اسی طرح مستحق ہوں گے جس طرح بدرکی جنگ میںشریک ہونے والے صحابہؓ اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کے مورد ہوئے۔جنگ بدرمیں جو صحابہ ؓ شامل ہوئے تھے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فرمایا تھا کہ اِعْمَلُوْامَا شِئْتُمْ فَاِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔۳؎یعنی جو جی میں آئے کرو میں نے تم کو معاف کردیا۔اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اب تمہارے لئے چوری، ڈاکہ اور شراب اوردوسرے ناروا افعال سب جائز ہو گئے ہیں بلکہ یہ مطلب تھا کہ تم نے ایک ایسی نیکی میں حصہ لیا ہے کہ اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ خود تمہارے اعمال کا ذمہ دار ہو گیاہے اوروہ تمہیں ہر قسم کے بُرے انجام سے محفوظ رکھے گا۔انہی بدری صحابہ میں سے ایک دفعہ ایک صحابی سے ایک سخت غلطی ہوگئی۔انہوں نے مکہ والوں کو یہ خبر لکھ دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چڑھائی کرتے ہوئے آرہے ہیں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات مخفی رکھنا چاہتے تھے۔آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً اس واقعہ کی خبر دے دی اور وہ رُقعہ جو اس صحابیؓ نے اہل مکہ کی طرف لکھا تھا وہ پکڑا گیا۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ معاملہ پیش ہؤا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ باربار جوش میںاپنی تلوار پر ہاتھ مارتے اور کہتے یارسول اللہ! مجھے اجازت دیںکہ میں اس منافق کا سر کاٹ دوں۔آپؐ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھااور فرمایا عمرؓ! تم کو معلوم ہے یہ بدری صحابی ہے۔اور بدری صحابہؓ کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرما چکاہے کہ اِعْمَلُوْامَا شِئْتُمْ فَاِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ شاید اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا دل پڑھ کر یہ بات کہی تھی اور بتایا تھاکہ ان سے غلطیاں سر زد ہی نہ ہوں گی۔پس جن کو اللہ تعالیٰ نے بری قرار دیا ہے تم ان کو منافق کس طرح قرار دے سکتے ہو۔اللہ!اللہ۔یہ کس قدر اعلیٰ مقام ہے جس کے لئے مال تو کیا جان دینا بھی انسان پر گراں نہیں گزرتا۔ غرض بعض کام اتنے اہم ہو تے ہیں کہ دنیا میں بطور یادگار قائم رہتے ہیں اورصدیوں تک آنے والی نسلیں اس کا ذکر کئے بغیر نہیں رہتیں۔مثلاً یہی منارۃ المسیح ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ جو لوگ اس میں ایک سو روپیہ چندہ دیں گے ان کے نام اس پر کندہ کئے جائیں گے۔اب وہ لوگ جنہوں نے اس میں حصہ لیاان کے نام دنیا میں ہمیشہ بطور یادگار قائم رہیں گے اور آنے والی نسلیں ان کے لئے دعائیں کرتی رہیں گی۔ اسی طرح بعض ابتدائی جلسوں پر آنے والے مہمانوں کے نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں لکھ دئیے ہیں۔اب خواہ کس قدر صدیاں گزر جائیں ان کے نام ان کتابوں میں موجود رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک جدید کا کام بھی اسی قسم کا ہے اوراللہ تعالیٰ ا س کے ذریعہ جماعت کے مخلصین کی ایک مستقل یادگار قائم کرنا چاہتا ہے اوران کی روحوں کو ان کی وفات کے بعدبھی مستقل طور پر ثواب پہنچانا چاہتاہے کیونکہ اس چندے کے ذریعہ اشاعت اسلام کی ایک مستقل بنیاد پڑنے والی ہے۔پس تحریک جدید اپنے اندراس قسم کی برکات رکھتی ہے اوراس قسم کے انواراترتے محسوس ہو رہے ہیں کہ یہ امر صاف طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ جولوگ اس میں حصہ لیںگے انہیں اللہ تعالیٰ اپنے قرب کا کوئی خاص مقام عطا فرمائے گا۔دو چاردن ہو ئے الفضل میں قاضی اکمل صاحب کا ایک مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک پیشگوئی کے متعلق شائع ہؤا ہے جو تحریک جدید کے ذریعہ پوری ہوئی۔وہ دراصل ایک پرانا کشف ہے جو حضرت مسیح موعود ؑنے دیکھا۔آپ فرماتے ہیں کہ :-
’’ایک دفعہ کشفی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں۔ایک زمین پر اورایک چھت کے قریب۔پہلے میں نے ا س شخص کوجو زمین پر تھامخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے مگر اس نے کوئی جواب نہ دیااوروہ چپ رہا۔پھر میںنے اس دوسرے کی طرف رخ کیا جو چھت کے قریب اورآسمان کی طرف تھا اوراسے میں نے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے۔اس نے کہا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا‘‘۔
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ اس کا یہ جواب سن کر کشفی حالت میں ہی مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ:-
’’ اگرچہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں اگر خداتعالیٰ چاہے تو تھوڑے بُہتوں پر فتح پا سکتے ہیں۔ اُس وقت میں نے کشفی حالت میں ہی یہ آیت پڑھی کہ کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃًکَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اﷲِ۔‘‘۴؎
قاضی صاحب نے لکھاہے کہ اس رؤیا کے متعلق میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ یہ تحریک جدید میں قربانیاں کرنے والوں کے ذریعہ پورا ہو رہا ہے۔چنانچہ میں نے منشی برکت علی صاحب فنانشل سیکرٹری سے پوچھاکہ تحریک جدیدکے چندہ میں حصہ لینے والوں کی کس قدر تعدادہے تو انہوں نے بتایا کہ پانچ ہزار چار سَو بائیس۔چونکہ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ نادہند ہوتے ہیں اس لئے اگر ان کو نکال دیا جائے تو پانچ ہزارہی تعداد بنتی ہے۔علاوہ ازیںکسور بالعموم تعداد میں شمار نہیں کئے جاتے پس پانچ ہزار چار سو دراصل پانچ ہزار ہی ہیں۔لیکن اگرکسور کو بھی شامل کرلیاجائے تو میں نے بتایا ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسے لو گوں کی تعداد بھی ہو تی ہے جو وعدہ تو کرتے ہیں مگر اسے پورا نہیں کرتے، پس ایسے نادہند ہ اگرتعداد میں سے نکال دیئے جائیںتو پانچ ہزار ہی وہ لوگ رہ جاتے ہیں جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا۔مجھے خود بھی دو تین سال ہو ئے یہی خیال آیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی تحریک جدید میں حصہ لینے والوں پر ہی چسپاں ہوتی ہے اوران دنوں مَیں نے چوہدری برکت علی صاحب کو ایک دفعہ بُلا کر پوچھا بھی کہ اس تحریک میں حصہ لینے والوں کی تعداد کتنی ہے تو انہوں نے کہا کہ میں زبانی نہیں بتا سکتا دیکھ کر بتاؤں گا۔میں نے کہا اندازاََ آپ بتائیں کہ کس قدر لو گ ہو نگے۔ انہوں نے اس وقت بتلایا کہ شاید سات ہزار کے قریب ہیں۔ان کے اس جواب سے میرے ذہن میںجو یہ خیال تھا کہ شاید تحریک جدید میںحصہ لینے والے پانچ ہزار ہوں اوراس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ کشف اسی کے متعلق ہوجاتا رہا اور گو ایک حصہ نادہندوں کا بھی ہوتا ہے اور ایک حصہ ایسے لوگوں کا بھی ہوتا ہے جنہیں جس قدر حصہ لینا چاہئے اس قدر وہ حصہ نہیں لیتے او ر ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سپاہیوں میں شامل نہیں کرتا مگر چونکہ انہوں نے جو ظنی تخمینہ بتایا وہ بہت زیادہ تھا اس لئے یہ خیال میرے ذہن سے اتر گیا۔مگر اب قاضی صاحب کے مضمون سے جو اعدادو شمار سے مرتب کیا گیا ہے مجھے وہ پرانا خیال یاد آگیااورمیں سمجھتا ہوں کہ درحقیقت انہی لوگوں کے متعلق یہ کشف ہے اورحقیقت یہ ہے کہ کئی سال سے میرا یہ خیا ل ہے کہ یہی وہ فوج ہے جس کے ملنے کی حضرت مسیح موعود کو خبر دی گئی تھی اوراسی فوج کے ذریعہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اسلام کی فتح کے لئے ایک مستقل اورپائیداربنیاد قائم کردے اوریہ فوج اپنا ایک ایسا نشان چھوڑ جائے جس کے ذریعہ ہمیشہ دنیا میںاسلام کی تبلیغ ہو تی رہے۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ اِدھر’’ الفضل‘‘ میں یہ مضمون شائع ہؤا اورادھر چند دن پہلے میں یہ سوچ رہا تھا کہ تحریک جدیدمیں آخر تک قربانی کرنے والوں کو آئندہ نسلوں کے لئے بطور یادگار بنانے کیلئے کوئی تجویز کروں۔جب یہ کشف میرے سامنے آیا تواس نے میرے اس خیال کو اورزیادہ مضبوط کردیا اورمیں نے چاہا کہ وہ لوگ جو اس تحریک میں آخر تک استقلال کے ساتھ حصہ لیں ان کے ناموں کو محفوظ رکھنے کیلئے اوراس غرض کے لئے کہ آئندہ آنے والی نسلیں ان کے لئے دعائیں کرتی رہیں۔کوئی یادگار قائم کروں۔لوگ اولادکے لئے کتنا تڑپتے ہیں محض اس لئے کہ دنیامیں ان کانام قائم رہے۔میں نے اپنے دل میں کہا کہ وہ جنہوں نے خداتعالیٰ کے دین کے ا حیاء اوراس کے جھنڈے کو بلند رکھنے کیلئے اس تحریک میں حصہ لیا ہے ان کے نام آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ رکھنے کی خاطر کیوں نہ کوئی تجویز کی جائے۔چنانچہ اس کیلئے میں نے ایک نہایت موزوں تجویز سوچی ہے جسے اپنے وقت پر ظاہر کیا جائے گا۔غرض اس مضمون کو پڑھنے کے بعد میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جسے خدانے اپنا لشکرقرار دیاہے اورجس کے ذریعہ اسلام کی فتح کاسامان دنیامیںہونے والا ہے اس جماعت کو کو ن مٹا سکتاہے۔یقیناََکوئی نہیں جو اسے مٹا سکے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ ان پانچ ہزار سپاہیوں کی کوئی مستقل یادگار قائم کریں کیونکہ وہ سب لوگ جو اس جہاد کبیر میں آخر تک ثابت قدم رہیں گے ان کا حق ہے کہ اگلی نسلوں میں ان کا نام عزت سے لیاجائے اور ان کا حق ہے کہ ان کے لئے دعاؤں کا سلسلہ جاری رہے اوراس کیلئے جیسا کہ میں بتاچکا ہوں ایک نہایت موزوں تجویز میںنے سوچ لی ہے۔
پس میں آج اس تمہید کے ساتھ تحریک جدید کے سال پنجم کے چندہ کا اعلان کرتا ہوں۔ دوستوں کو چاہئے کہ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ بننے کی کو شش کریں۔میںنے تحریک جدید کے پانچویں سال کے چندہ کی شرائط بیان کردی ہیں۔میںنے بتایا ہے کہ قانون یہی ہے کہ دس فیصدی پچھلے سال سے کم چندہ دیا جاسکتاہے مگرایک سچے مؤمن کو اس اجازت سے اسی صورت میں فائدہ اٹھانا چاہئے جبکہ وہ واقع میں مجبور اور معذور ہو اوراگر وہ واقع میںمعذور اورمجبورنہیں یا مجبوراورمعذورتو ہے مگراس کاایمان اور اخلاص اسے پیچھے ہٹنے نہیں دیتاتو میںاسے کہوں گا کہ تم کوشش کرو کہ اپنی پہلی جگہ پر کھڑے رہو بلکہ اگر ہو سکے تو آگے بڑھنے کی کوشش کر و۔بے شک اس سال چندوں کی بھر مارہے مگر جو کام ہمارے سامنے ہے وہ بھی بہت بڑا ہے اوروہ اشاعتِ اسلام کے لئے مستقل جائداد کاپیدا کرنا ہے۔جو لوگ اس راستہ میں مشکلات کی پرواہ نہیں کریں گے اورمصیبتوںپر ثابت قدم رہیں گے وہی لو گ ہیںجواپنے عمل سے اس بات کو ثابت کردیںگے کہ وہ آئندہ نسلوں میں عزت کے ساتھ یاد کئے جانے کے مستحق ہیںمجبوریاں سب کیلئے ہو تی ہیں۔اگر ایک شخص پیچھے ہٹے اور دوسرا انہی حالات میں سے گزرتے ہوئے ثابت کر دے کہ اس نے قدم پیچھے نہیںہٹایا تویہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ لو گ جنہوں نے یہ کہا تھا کہ ہم مجبور ہیں انہو ں نے غلط کہا تھا کیونکہ انہی حالات میں دوسروں نے قربانی کی اوروہ کامیاب ہو ئے۔
اس طرح ہر وہ شخص جو نیااحمدی ہؤا ہے اس کو بھی میں توجہ دلاتاہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس پر بہت بڑا فضل کیا ہے کہ اپنے سچے دین کاراستہ اسے دکھادیایا بالفاظِ دیگراس کا خدا اسے مل گیا۔ اب اس پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوچکی ہے اوراس کافرض ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت آـگے بڑھنے کی کوشش کرے بلکہ جو نیا احمدی ہو اسے اس بات کی ا جازت ہے کہ اگر وہ چاہے تو گزشتہ سالوں کے چندہ میںبھی شامل ہو جائے۔پس ہر نئے احمدی سے گزشتہ سالوںکا چندہ بھی قبول کیا جاسکتا ہے۔اس طرح وہ جسے پہلے اس تحریک کا علم نہ تھایا جو پہلے کُلّی طور پر نا دار تھا اس سے پہلے سالوں کا چندہ بھی قبول کیا جاسکتا ہے مثلاََ فرض کرو ایک شخص پہلے طالبعلم تھامگربعد میں ملازم ہوگیایا پہلے بیکار تھامگر بعد میں اسے کوئی ملازمت مل گئی ایسے تمام لوگوں سے پہلے سالوں کا چندہ بھی قبول کرلیاجائے گاکیونکہ پہلے انہوں نے مجبور ی سے اس میں حصہ لینے سے اجتناب کیا تھاجان بوجھ کر حصہ لینے سے انکار نہیں کیا تھا۔ہاں جنہیں گزشتہ سالوں کے چندہ میں شریک ہونے کی توفیق تھی اوروہ ان دنوں بر سر کار بھی تھے مگرانہوں نے جان بوجھ کر حصہ نہیں لیاانہیں اجازت نہیں۔وہ صرف نئے سال میں شامل ہوسکتے ہیںپچھلے سالوں میں نہیں۔
یادرکھو ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے،بہت بڑی مشکلات ہیں جنہیں میںاپنے سامنے دیکھتا ہوں،ایک عظیم الشان جنگ ہے جو شیطان سے لڑی جانے والی ہے۔جو لوگ اس میں حصہ لیں گے وہ ا للہ تعالیٰ کی رضا اورخوشنودی حاصل کریں گے اور جو لوگ حصہ نہیں لیں گے وہ اپنے اعراض سے خدا تعالیٰ کے کام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے کیونکہ یہ خداتعالیٰ کا کام ہے ا ور اس نے بہر حال ہو کر رہنا ہے۔
’’قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا‘‘
پس یہ کام ہو کر رہے گااوراگر تم نہیں کرو تو تمہارا ہمسایہ کرے گااوراگر وہ نہیں کرے گا تو کوئی اور کرے گا،بہرحال غیب سے ا س کی ترقی کے سامان ہو نگے۔پچھلا پچاس سالہ تجربہ تمہارے سامنے ہے دشمن نے لاکھ رکاوٹیں ڈالیں، اس نے کروڑ حیلے کئے،اس نے طعنے بھی دیئے، اس نے گالیاں بھی دیں،اس نے بُر ا بھلا بھی کہا،بڑے بڑے لوگ مخالفت کے لئے بھی اٹھے اورانہوں نے چاہا کہ اس سلسلہ کی ترقی کوروک دیں مگر خدا تعالیٰ کا کام ہوکر رہا اوراس نے الہام کرکے ایسے لوگ کھڑے کردئیے جو اس کے دین کے انصار بنے اور یقینا ا ب بھی ایسا ہی ہوگالیکن میں چاہتا ہوں کہ تم میںسے کوئی کمزورثابت نہ ہوبلکہ تم میں سے ہر شخص اپنے عمل سے ثابت کردے کہ جب امتحان کا وقت آیاتو تم نے اسلام اوراحمدیت کے لئے وہ قربانی کی جس قربانی کا اسلام تم سے مطالبہ کرتا تھا اورتم اپنے ایمان اور اپنے عمل اوراپنی قربانیوں کے لحاظ سے گزشتہ جماعتوں سے پیچھے نہیں رہے بلکہ ان سے آگے بڑھے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کے دوستوں کے دلوں کو کھولے تا و ہ ا س پانچ ہزار سپاہیوں کے لشکر میں شمولیت کا فخر حاصل کرسکیں جس کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ا یک کشف کے ذریعہ دے چکے ہیں۔اَللّٰھُمّ اٰمِیْنَ ۔‘‘
(الفضل۲۴؍نومبر۱۹۳۸ئ)
۱؎ النحل: ۹۳ ۲؎ الاحزاب: ۲۴
۳؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الممتحنۃ
۴؎ تذکرہ صفحہ ۱۷۷، ۱۷۸۔ ایڈیشن چہارم

۳۸
سادہ زندگی کے مطالبہ کی غرض
(فرمودہ ۲۵؍نومبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے تحریک جدید کے سال پنجم کے چندے کے حصہ کے متعلق اعلان کیا تھااورآج میں اُسی کے ساتھ تعلق رکھنے والے ایک اورمطالبہ کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اوروہ سادہ زندگی کا مطالبہ ہے۔سادہ زندگی کا مطالبہ اپنے ا ندردو شِقیںرکھتا ہے،ایک شق تو ا سکی سیاسی مگر سیاسی مذہبی ہے(حکومتوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی سیاست نہیں بلکہ مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والی سیاست مراد ہے۔)ہر تحریک جوکی جاتی ہے وہ کسی نہ کسی قانون کے ماتحت ہوتی ہے اورجس قانون کے ماتحت وہ کام کررہی ہو تی ہے اسے اس کی سیاست کہتے ہیں۔سیاست کے معنی دراصل ایک مکمل نظام اورایسے اصول کے ماتحت کسی چیز کو چلانے کے ہیںجو بدلنے والے حالات کا لحاظ رکھتا چلا جائے۔آج کل لو گوں نے سیاست کے معنی یا تو جھوٹ سمجھ رکھے ہیں یا پھر اس کے معنی حکومت کے سمجھ لئے ہیں اس لئے کئی نادان مخالف ہمارے متعلق بھی یہ کہتے رہتے ہیں کہ دیکھو جی یہ سیاست میں پڑ گئے ہیں حالانکہ دنیا میںکوئی معقول چیز اپنی ذاتی سیاست کے بغیر چل سکتی ہی نہیں ۔کو نسا وہ معقول کام ہے جو بغیر کسی خاص انتظام کے چل سکے اوراسی چیز کا نام سیاست ہے۔حکومتوں کو حکومت کے چلانے کے لئے سیاست کی ضرورت ہو تی ہے، مذاہب کو مذاہب کے چلانے کیلئے،تعلیمی محکموں کو تعلیم کی ترقی کیلئے ایک سیاست کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی طرح ہر محکمہ میں ایک علیحدہ سیاست کی ضرورت ہوتی ہے اوراس وجہ سے جب حکومت کیلئے سیاست کا لفظ بولاجائے تواسکے اَورمعنی ہونگے، مذہب کیلئے اَور، اور تعلیم کیلئے اَور معنے ہوں گے۔ نادان نادانی یا دشمن دشمنی کی وجہ سے اس کے کوئی اورمعنی سمجھ لیتا اورپھر ہم پر اعتراض کرتاہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہر نظام ایک سیاست کامحتاج ہو تاہے اورسیاست کے معنی حکمت کے ہو تے ہیں۔جو نظام کے پیچھے عمل کر رہی ہو تی ہے اوریہ معنی میںآج نہیں کررہابلکہ آج سے سینکڑوں سال پہلے مسلمان علماء نے ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں اس موضوع پر بڑی بڑی بحثیں کی ہیںکہ مذہب میں کس حد تک سیاست کادخل ہوسکتاہے اورہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کتابوں کا مقصد یہ ہے کہ مذہب میں جھوٹ کااستعمال جائز ہے یا یہ کہ حکومت میں مذہب کس طرح دخل دے سکتاہے بلکہ ان کتابوں میں مضمون صرف فقہ کے بیان ہیں اورفقہی بحثوں کے سوا کچھ نہیں حتّٰی کہ امام ابن قیّم نے بھی جو صوفیاء میں بھی اورفقہاء میں بھی چوٹی کے آدمی سمجھے جاتے ہیں اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں لیکن بحث ا ن میں صرف اس قدر ہے کہ فقہ کی بنیاد کن حکمتوں پر ہے اورکس طرح تبدیل ہونے والے حالات کے ماتحت فقہ کے احکام میں بھی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ان باتوں پر بحث کر کے ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام میںسیاست ضروری ہے کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو یکساں ہی چلتاجائے۔مختلف حالات پیش آمدہ کے ماتحت ان کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے اور اسی کو سیاست کہتے ہیں۔نماز کیلئے وضو کا حکم ہے لیکن اگر کوئی بیمارہویا پانی میسر نہ آسکے تو تیمم بھی جائزہے۔ اوراگر نہ پانی مل سکے اورنہ مٹی( ایسے بھی مواقع آسکتے ہیں) تو وہ تیمم کے بغیر ہی نماز پڑھ سکتاہے۔فرض کرو کوئی شخص قید ہے اورکسی نئی بنی ہو ئی کشتی میں سمندر میں اسے لے جایا جارہا ہے تو اسے پانی نہیں مل سکتاکیونکہ بڑی کشتیاں بہت اونچی ہو تی ہیںاوران میں بیٹھ کر سمندر میں وضو نہیں کیا جاسکتااورمٹی بھی نہیں مل سکتی تو اسے نماز معاف تو نہیں ہو سکتی اس کیلئے یہی حکم ہے کہ وہ بغیر وضو اوربغیر تیمم کے ہی نماز پڑھ لے۔یا کسی کے ہاتھ پاؤں جکڑے ہوئے ہوں۔ یوں تو پانی بھی مو جود ہواورمٹی بھی مگر وہ نہ وضو کرسکے نہ تیمم تو وہ بغیر اس کے بلکہ سجدہ اور رکوع کے بغیربھی نماز ادا کرسکتاہے اور دل ہی دل میں نماز ادا کر سکتا ہے۔ تو یہ احکام حالات کے ماتحت متغیر ہوتے رہتے ہیں۔پھر بعض اوقات بعض احکام میں لوگ خرابی پیدا کردیتے ہیں اور اس وقت حاکم یا قاضی کیلئے ضروری ہو تاہے کہ دخل دے کر اس خرابی کو دور کرے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طلاقیں الگ الگ وقتوں میں دئیے جانے کی شرط رکھی ہے مگر آپ کی زندگی کے بعد جب لو گوں میں یہ رواج بکثرت ہونے لگاکہ بیوی پر ناراض ہوئے اور کہہ دیا کہ تجھے طلاقیں ہیں۔تو پہلے علماء نے ایسی طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دیا لیکن جب یہ رواج ترقی پکڑتا گیاتو شریعت کی بے حرمتی کی رو ح کو دور کرنے کیلئے حضرت عمرؓ نے اعلان کردیا کہ اگر کوئی ایک دفعہ ہی بہت سی طلاقیں دے گاتومیںاسے تین ہی سمجھوں گاتو جس حد تک اسلام کے احکام میں متغیر حالات میں تبدیلی کی اجازت ہے ان میں تبدیلی کی جاسکتی ہے اوراسی کانام سیاست ہے، اسی کانام حکمت اوراسی کانام فلسفہ ہے۔پس مذہب کیلئے بھی ایک سیاست کی ضرورت ہوتی ہے اوریہ جو سادہ زندگی کی تحریک میں نے تحریک جدیدکے سلسلہ میں کی تھی اس کا ایک حصہ مذہبی سیاست کے ساتھ تعلق رکھتاہے۔یعنی اس زمانہ میں چونکہ اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے وہ مساوات جسے حکومتیں ہی قائم کر سکتی ہیںاس زمانہ میں قائم نہیں ہوسکتی اور آجکل مسلمان بھی امیر و غریب میں ویسا ہی امتیاز کرنے لگے ہیں جیساہندو یا عیسائی کرتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کی اپنی حکومت نہیں اوران کے سامنے کوئی نمونہ نہیں۔میری خلافت پر اب پچیس سال پورے ہونے کو آئے ہیں اورمیں شروع سے ہی یہ مسئلہ سمجھانے کی کوشش کرتاآیا ہوں مگراب تک جماعت میں یہ قائم نہیں ہوسکاکہ ایسا ادب جو شرک کے مشابہ ہویا جو ادب کا اظہار کرنے والے کو انسانیت کے مقام سے گرانے والا ہو ناجائز ہے۔مثلاََ یہاں کے لوگوں میں دستور ہے کہ جب کسی بڑے آدمی یا بزرگ کو ملنے کیلئے آتے ہیں تو جوتی اتار لیتے ہیں،بات کرنے لگیں توہاتھ جوڑ لیتے ہیں اوربیٹھنے کو کہا جائے تو نیچے بیٹھ جاتے ہیں۔اسلامی آداب کے لحاظ سے اسے ادب نہیں بلکہ انسانیت کی ہتک سمجھا جائے گا اوراسے نا پسندیدہ قراردیا جائے گا۔ پچیس سال سے یہ بات میں سکھا رہا ہوں مگر ابھی تک اس پر عمل کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔اب تک یہی حالت ہے کہ بعض لوگ ملاقات کیلئے آتے ہیں تو جوتیاں اُتار دیتے ہیںاورجب اصرار کیاجائے کہ جُوتیاںپہن کرآئیں تو پھر زمین پربیٹھ جاتے ہیں اورپکڑ پکڑ کر اوراٹھا اٹھا کر انہیں کرسی یا فرش پرجیسی بھی صورت پر بٹھانا پڑتا ہے لیکن بیٹھنے کے بعد جب بات شروع کرتے ہیں تو ہاتھ جوڑ لیتے ہیں اوراب تک ایسا ہو رہا ہے۔اسی ہفتہ ایک دوست ملنے آئے۔پہلی ملاقات ختم ہو نے پر میں گھنٹی بجادیتاہوں کہ تا دوسرے دوست آجائیں۔میں نے گھنٹی بجائی مگر کوئی نہ آیا پھر گھنٹی بجائی تو دفتر کا آدمی آگے آیا اورمیرے پوچھنے پر کہ اگلے ملاقاتی کیوںنہیں آئے بتایا کہ وہ نیچے ہی جوتااُتارکرآئے تھے اس لئے میں نے انہیں کہا کہ یہ درست نہیں۔آپ جوتا پہن کر تشریف لائیں۔آخر وہ صاحب تشریف لائے اورآتے ہی زمین پر بیٹھ گئے اورمجھے باصرار ہاتھ پکڑ کر کرسی پر بٹھانا پڑا اس کے بعد جب انہوں نے بات شروع کی تو ہاتھ باندھ لئے اورجب بڑے اصرار کے ساتھ انہیں کہا گیاکہ ہاتھ کھول دیں تو انہوں نے کھولے۔وہ ہیں احمدی اورآٹھ دس سال سے احمدی ہیں وہ سمجھدار آدمی ہیں کیونکہ جب انہوں نے میرے چہر ہ پر نا پسندیدگی کے آثار دیکھے تو بولے کہ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں نوکریوں میں ایسا کرنے کی عادت ہو جاتی ہے۔افسرتوقع رکھتے ہیں کہ ان کے سامنے اسی طرح کیا جائے آپ بے شک ایسا نہ کرنے کو کہتے رہتے ہیں مگر ہمیں چونکہ عمل اس کے خلاف کرنا پڑتاہے اس لئے آپ کی بات ذہن سے نکل جاتی ہے۔
تو غیر مذاہب کے ساتھ میل جول کی وجہ سے کئی چیزیں ایسی ہیں جن کو مسلمان بھی اسلامی سمجھنے لگ گئے ہیں حالانکہ وہ بالکل غیر اسلامی ہیں۔اسلام نے جو مساوات سکھائی ہے وہ کہیں اورنظر نہیں آتی مگر ہمارا ماحول چونکہ ہندو انہ ہے اوراوپر عیسائی حکومت ہے اوران دونوں میں مساوات نہیں۔ہندوؤں میں تو چھوٹائی بڑائی کا فرق اتنا نمایاں ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔اسی طرح عیسائیوں میں ہے انکے تو گرجوں میں بھی علیحدہ علیحد ہ سیٹیں علیحدہ علیحدہ لوگوں کیلئے مخصوص ہو تی ہیں ۔بعض گرجاؤں میں مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اوروہ اس طرح کہ یہ سیٹ پندرہ روپیہ کرایہ کی ہے،یا دس روپیہ کی اوریہ پانچ روپیہ کی ہے اور یہ دو روپیہ کی ہے اورجو یہ کرایہ ادا کرسکے وہاں بیٹھ سکتاہے۔مجھ سے ایک عیسائی نے کہا کہ ہمارے گرجامیں تو مساوات ہے میں نے کہا کہ اس مساوات سے تو وہی فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کے پاس پندرہ روپے ہوں جس کے پاس کھانے کو بھی نہ ہووہ وہاں کیسے بیٹھ سکتاہے اوریہ چیزیں کوئی اس طرح تو مسلمانوں میں داخل نہیں ہوئیں کہ مصلّے بکنے لگیں کہ امام کے پیچھے کے مصلّٰی کی یہ قیمت ہے اوردائیں بائیں کھڑے ہونے کی اتنی اور یہ تو نہیں ہؤا کہ پہلی صف میں کھڑے ہونے کا کرایہ پانچ روپیہ اوردوسری کا چار یا تین مگر اورشکلوںمیں عدمِ مساوات مسلمانوںمیں بھی آگئی ہے۔ اگر اسلامی حکومت ہوتی تو ماحول ہی ایساہوتا کہ یہ چیزیں پیدا نہ ہو سکتیں مگر چونکہ اسلامی حکومت قائم نہیں اس لئے ماحول کے مطابق مسلمانوں میں کچھ نہ کچھ رنگ دوسروں کا آگیاہے اورمیں نے محسوس کیا کہ تحریک جدید میں اس بات کا بھی خیا ل رکھا جائے کہ مساوات کااحساس جماعت میں قائم اورزندہ رہے اورمَر نہ جائے اور اس کیلئے سادہ زندگی کی تجویز میں نے کی اوراس کا ایک حصہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے،تاکہ امیر اور غریب کانمایاں امتیاز مٹ جائے، جس حد تک اس کو قائم رکھنے کی شریعت نے اجازت دی ہے اسے توہم نہیں مٹاتے۔ شریعت نے یہ نہیں کہا کہ کوئی شخص اگر دس روپے کماکرلائے تو اس سے چھین لو اس لئے ہم یہ نہیں کر سکتے ہاں روپیہ کمانے والوں پر جو پابندیاں اس نے عائد کی ہیں۔مثلاََ یہ کہ ان سے زکوٰۃ لو،چندے لو،یہ کرلیتے ہیں۔ہاں مساوات قائم کرنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالی جائے۔سب امیرغریب اکٹھے ہوکر ٹوکریاں اٹھائیں اورمٹی ڈھوئیں تا اخوت اور مساوات کی روح زندہ رہے۔
اسی طرح کھانے پینے کے متعلق پابندیاں ہیں۔جمعہ کے روز کیلئے بے شک میں نے پابندیوں کو ایک حد تک کم کر دیا ہؤا ہے تاجو دوست اپنے احباب اوررشتہ داروں کے ساتھ مل کر کھانا پینا چاہیں وہ ایسا کرسکیں مگر نسبتاً اس دن بھی تنگی رکھی ہے۔باقی ایام کیلئے سب کوایک ہی کھانے کا حکم ہے تا امیر غریب میں کوئی امتیاز نہ رہے۔اگر دوست ا س پر پوری طرح عمل کریں توامیر کو اپنے غریب بھائی کی دعوت پر کسی قسم کی تکلیف نہ ہوگی اوراسی طرح دعوتوں میں زیادہ دوستوں کو بلانے کا موقع مل سکے گا۔پہلے اگر دس دوستوں کو بلا سکتے تھے تو سادگی کی صورت میں تیس چالیس کو بلا سکیں گے۔اس کے برعکس امیر جب دعوت کرتے تھے تو پانچ دس کھانے پکانا ضروری سمجھتے تھے اورچونکہ کسی کے پاس لا محدود دولت تو ہوتی نہیں، اسلئے مجبوراََ صرف چند امیراحباب کو بُلا لیتے تھے لیکن کھانے میں سادگی کی وجہ سے اتنی گنجائش ہو سکتی ہے کہ غریبوں کو بھی بُلالیں اور اس طرح دونوں کیلئے ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کا راستہ کھل گیا ہے۔ گوامیر و غریب کے ہاں کھانے میں گھی یا مصالحہ اورخوشبو کی کمی بیشی کا امتیاز رہ جائے لیکن کھانا ایک ہی نظرآئے گااوریہ اس مطالبہ کا مذہبی سیاسی پہلو تھا کہ دوئی کی روح کو مٹایاجائے اور یہ احساس نہ رہے کہ دونوں علیحدہ علیحدہ طبقے ہیں اورگویکجہتی، اتحاد اورمساوات کی حقیقی روح حکومت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی مگر اس تحریک کے ذریعہ مَیں نے کوشش کی ہے کہ وہ زندہ رہے تا جب بھی مسلمان حکومت آئے تو ہم اسے قبول کرنے کیلئے تیار ہوں اوریہ نہ متحد ہو کر لڑنے لگیں کہ ہم یہ نہ ہو نے دیںگے کہ چھوٹائی بڑائی کے امتیاز کو مٹا دیا جائے۔آج اگر ہندوؤں کی حکومت قائم ہو جائے تو بجائے اس کے کہ مساوات قائم ہوان میں جو امتیازات ہیں وہ زیادہ شدت اختیار کریں گے لیکن اسلامی حکومت کاقیام مساوات کو صحیح رنگ میں قائم کرے گااورمیری غرض یہ ہے کہ جب تک اسلام کی حکومت دنیا میںقائم نہ ہو مساوات کی روح زندہ رہے۔
دوسرا پہلو اس مطالبہ کا اقتصادی تھا۔اس میں میرے مد نظر یہ بات تھی کہ اگر جماعت بغیر بچت کرنے کے چندوں میں زیادتی کرتی جائے گی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گاکہ وہ کمزور ہو تی جائے گی۔حتّٰی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس میںکوئی قربانی کرنے کی طاقت ہی نہ رہے گی اس لئے میں نے سوچا کہ ان میں کفایت شعاری کا مادہ پیدا ہو اور جب کفایت کی عادت ہو گی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ اپنے اخراجات میں کمی کرکے چندے دیںگے اورچند وں کیلئے ان کو قرض لینے کی ضرورت نہ ہوگی بلکہ جب یہ روح ان میں پیدا ہو گی تو وہ کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کریں گے۔امانت فنڈ کی مضبوطی کا مطالبہ دراصل پس انداز کرانے کے لئے ہی تھا مگر افسوس ہے کہ دوستوںنے اس سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا،حالانکہ اس کی اصل غرض صرف یہ تھی کہ جماعت کی مالی حالت مضبوط ہو،وہ اقتصادی لحاظ سے ترقی کرتی جائے اورفضول اخراجات کو محدود کرتی جائے یہ نہ ہو کہ ا خراجات کو بدستور رکھے اورجب چندہ کا وقت آئے تو بوجھ محسوس کرے اورجائدادیں فروخت کرکے دے۔اس میں شک نہیں کہ ایسے لوگ بھی ہو تے ہیں،جن کیلئے جائدادیں فروخت کرکے بھی چندوں کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے مگر یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی طرف دوسروںکی نگاہیں اٹھتی ہیں اورجنہیں دوسروںکے سامنے اپنا نمونہ پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔باقی لوگوں کیلئے اخراجات کوکم کرکے ہی دین کی مدد کرنا ضروری ہوتاہے اوریہی مددہے جوان کیلئے بھی اوردین کیلئے بھی زیادہ ثواب کا مستحق ہو سکتی ہے اوراخراجات میں کمی کرنا انسان کے بس کی بات ہوتی ہے۔جو لوگ پینشن لیتے ہیں وہ فوراََ اپنے اخراجات کوکم کر دیتے ہیں یا نہیں۔اگر ہزار تنخواہ ملتی تھی تو پینشن پانچ سو رہ جاتی ہے، پانچ سَو ہو تو اڑھائی سَو اورسَو ہو تو پچاس اور پینشن لینے والا اس کے مطابق اپنے اخراجات میں بھی کمی کردیتاہے اورجب دنیوی حالات میں تبدیلی کی وجہ سے اخراجات میں کمی کی جاسکتی ہے تو دین کیلئے ایسا کرنا کیا مشکل ہے حالانکہ ایسا کرنے میں سرا سر ہمارا اپنا فائدہ ہے کیونکہ جو بچت ہو گی وہ ہمارے ہی کام آئے گی۔شادی بیاہ اوردوسری ایسی ضروریات کے موقع پر قرض نہ لینا پڑے گایا اگر اس بچت سے ا ن کی جائیدادیںبڑھیں گی تو ان سے ان کی آمد میں اضافہ ہو گااوروہ ان کے اوران کی اولادوں کے کام آئیں گی۔تو بہت سے فوائد اس کے نتیجہ میں پیدا ہونگے اورسادہ زندگی کے فوائد کا یہ اقتصادی پہلو ہے۔خلاصہ یہ کہ ایک پہلو اس تحریک کا مذہبی سیاسی تھا تاکہ جماعت میں ایسی روح پیدا ہو جائے کہ مساوات قائم رہے اورچھوٹے بڑے کاامتیاز مٹ جائے اوریہ تفرقہ آگے جاکر دوسر ے بڑے تفرقوں کا موجب نہ ہو۔
بے شک عادتوں کو چھوڑنا مشکل ہوتا ہے جو شخص اپنے آپ کو بڑا سمجھتاہے اس کیلئے یہ بہت مشکل ہو تا ہے کہ کھانے اورکپڑے میں تبدیلی کرے اسے اس میں شرم محسوس ہوتی ہے۔وہ خیال کرتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اوراس وجہ سے یہ بہت بڑی قربانی ہے مگر قربانی کے بغیر قومی ترقی ہو ہی نہیں سکتی۔
یہ خیا ل بالکل غلط ہے کہ سادہ زندگی کا مطالبہ صرف امراء کیلئے ہے۔غریب کا تو پہلے ہی بمشکل گزارہ ہو تا ہے۔وہ بچت کس طرح کرسکتا ہے کیونکہ امیر کواگر ضرورت کے وقت زیادہ رقم درکار ہوتی ہے تو غریب کو اسی نسبت سے کم رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔امیر کہتاہے کہ اس وقت اگر دس ہزار روپیہ ہو تو کام چل سکتاہے مگر غریب کہتا ہے کہ اگر پانچ روپے ہوں تو کام چل سکتاہے۔کام دونوں کے رکے ہوئے ہوتے ہیں امیر کا دس ہزار کیلئے اور غریب کا پانچ کیلئے۔ میں نے بعض سوا لی دیکھے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایک روپیہ فلاں ضرورت کیلئے درکار ہے اس میں سے آٹھ آنے تو مہیا ہو گئے ہیں باقی صرف آٹھ آنے کی اور ضرورت ہے۔پس اگر غریب بھی بچت کا خیا ل کریں اور اتنی تبدیلی اخراجات میں کر لیں کہ ایک آنہ ماہوارہی بچا لیں تو انہیں بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ جیساکہ میں نے بتایا ایسے غریب لوگ بھی ہو تے ہیں جن کا آٹھ آنے نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کام رکا رہتاہے۔ایسے غریب بھی ہو تے ہیں جن کاکام کسی وقت بارہ آنے یا روپیہ پاس نہ ہونے کی وجہ سے رک جاتاہے اورجو شخص روپیہ یا دو روپیہ ماہوار کی بچت کرسکے وہ بھی اس کے لئے بہت مفیدہو سکتی ہے کیونکہ ایسے لو گ بھی ہو تے ہیں جو دس، بارہ یا بیس پچیس روپے نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کام نہیں چلا سکتے اوراگر وہ روپیہ دو روپیہ ماہوار بچاتے جائیں توچونکہ ان کی ضرورتیںبھی اسی کے مطابق ہوتی ہیں اس لئے یہ بچت بھی ان کے لئے مفید ہو تی ہے۔ہر شخص کے کام اور اسکی ضرورت کی نوعیت مختلف ہو تی ہے۔کسی کاکام آٹھ آنے نہ ہو نے کی وجہ سے رک جاتا ہے تو کسی کا دس ہزار نہ ہونے کی وجہ سے۔پھر ایسے غرباء بھی ہوتے ہیں جو ایک پیسہ کے محتاج ہوتے ہیں ان کیلئے بظاہر اقتصادی زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر میں نے ایسے لو گ بھی دیکھے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایک پیسہ ہو تو کیا اچھا ہو۔تو ہرشخص کی ضرورت اوراقتصادی پہلو برابر برابرچلتے ہیں۔بے شک ایک غریب آدمی کہہ سکتا ہے کہ اگرمیں نے دو چار روپے جمع کربھی لئے تو ان سے کیا ہو تا ہے لیکن اسے خیال رکھنا چاہئے کہ اس کی ضرورتیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں۔کئی دفعہ ایسی ضروریات پیش آجاتی ہیں کہ انسان کہتا ہے اس وقت اگر دس روپے پاس ہو تے تو بہت اچھاہوتا اوراگر وہ بارہ آنہ یا روپیہ ہر مہینہ جمع کرتا رہے تو دوسرے سال دس روپے والی ضرورت جب اسے پیش آئے گی تو ا س کاکام چل جائے گااوراسے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوگی۔ یہ صحیح ہے کہ غریب آدمی اپنی حالت کے مطابق بہت قلیل رقم پس انداز کرسکتا ہے مگراس کی ضرورتیںبھی تو قلیل ہی ہوتی ہیں۔تھوڑاتھوڑا کرکے وہ سال میں جس قدر پس انداز کرتا ہے اس کا نہ ہونا کسی وقت اس کی تباہی کا موجب ہو سکتاہے۔
تھوڑا ہی عرصہ ہؤا فیروز پور کا ایک واقعہ اخبارات میں شائع ہؤا ہے۔کسی زمیندار نے ساہو کار سے پچاس روپے قرض لئے چونکہ اسے ضرورت سخت تھی اس وقت روپیہ اسے ۵۰،۶۰ فیصدی شرح سُود پر ملا۔اس کے بعد اس نے اس قرض کو ادا کرنے کی بہت کوشش کی۔مگر چونکہ سُود کی شرح بہت زیادہ تھی اس لئے تیس روپے بطور سود دینے پڑتے تھے لیکن اس کی آمد اتنی تھی کہ وہ صرف پندرہ روپے ہی ادا کرسکتا تھا چنانچہ اس نے پندرہ روپے ادا کر دئیے۔تو چونکہ سُودتیس تھا اس لئے پندرہ روپے اس میں سے بھی باقی رہ گئے اس کے ذمہ بجائے پچاس کے پندرہ ادا کرنے کے بعد بھی پینسٹھ رہ گئے۔اس پر ساٹھ فیصدی سود ۳۹ روپے بنا،جن میں سے پھر اس نے پندرہ روپے ادا کر دئیے۔تو باقی ۲۴اصل میں جمع ہو کر ننانوے ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہؤاکہ اب چالیس پچاس سال کے بعد جبکہ وہ خاندان ہزاروں روپیہ ادا بھی کرچکا تھا اس کے ذمہ ایک لاکھ سے زائد رقم بقایا تھی۔ اب دیکھو اسے قرض لینے کے وقت ضرورت تو پچاس کی ہی تھی اور وہ پندرہ روپے سالانہ بچت کر کے بعد میں ادا بھی کرتا رہا لیکن پندرہ روپیہ سالانہ بچت کرنے کی مصیبت اگروہ تین سال پہلے اٹھا لیتا تو اس کے پاس ضرورت کے وقت ۴۵روپے اپنے جمع ہوتے اور اسے قرضہ لینے کی ضرورت پیش نہ آتی لیکن اس نے تین سال پہلے یہ تکلیف نہ اٹھائی مگر بعد میں پچاس سال برابر اٹھاتا رہا۔بعد میں غلہ کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا رہا، زمینوں کی حیثیت بھی بڑھتی گئی اس لئے وہ یا اس کاخاندان اس قرضہ میں زیادہ رقوم بھی ادا کرتا رہا مگر جتنا اضافہ ان کی ادائیگی کی اقساط میں ہوتا دوسری طرف اتنا ہی قرضہ کی رقم بڑھتی چلی جاتی تھی۔
تو انسان کو کسی نہ کسی وقت مصیبت تو آہی جاتی ہے اور اگر انسان سمجھے کہ مصیبت کے بعدجو تکلیف اٹھانی ہے وہ پہلے ہی اٹھا لوں تو بہت فائدہ میں رہتا ہے لیکن لوگ مصیبت تو اٹھاتے ہیں مگر بعد میں پہلے نہیں۔اگر کسی سے کہو کہ کچھ نہ کچھ پس انداز کیا کرو تو وہ یہی جواب دے گا کہ کھانے کو تو ملتا نہیں جمع کہاں سے کریں لیکن اگر پوچھوکہ قرض لیا ہؤا ہے یا نہیں تو جواب اثبات میں ملے گا۔اس قرض کا سُود تو ادا کرتے جائیں گے لیکن پہلے کچھ جمع نہیں کرسکتے حالانکہ پہلے اگر کچھ جمع کرتے جائیں تو نہ قرض لینے کی نوبت آئے اور نہ سود دینے کی۔بات ایک ہی ہے۔اگر پچاس روپیہ آدمی پہلے جمع کر لے تو بھی اور اگر بنئے سے روپیہ لے کر بعد میں سُودسمیت رقم ادا کردے تو بھی۔ہاں دوسری صورت میں تکلیف زیادہ اٹھانی پڑتی ہے اور روپیہ بھی زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے کیونکہ قرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔یہ اتنی موٹی بات ہے کہ معمولی سے معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے مگر مصیبت کے وقت تو لوگ بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن آرام کے وقت عقل سے کام نہیں لیتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مدت العمر مقروض رہتے ہیں اور فصل پکنے کے بعد بنیا آتا ہے اور غلہ اٹھا کر لے جاتا ہے حالانکہ اگر اس مصیبت کے آنے سے پہلے وہ آدھی مصیبت بھی اُٹھا لیتے تو نہ قرض لینے کی نوبت آتی اور نہ بنیا آکر اس طرح سب کچھ لے جاتا۔
پس یہ تحریک صرف امراء کیلئے ہی نہیں بلکہ غریبوںکیلئے بھی تھی لیکن امراء تو خیال کرتے ہیں کہ ہمارا گزارہ تو اچھاچل رہا ہے ہمیں پس انداز کرنے کی کیا ضرورت ہے جب کہ آمد کافی ہے حالانکہ وہ بھی حادثات کاشکار ہو سکتے ہیں اورغریب سمجھتے ہیں کہ ہم نے جمع کیا کرنا ہے ہمارے پاس ضرورت سے زیادہ ہے ہی نہیں مگر یہ وہ کر لیتے ہیں کہ پہلے قرض لے لیا اور پھر جمع کر کے اسے ادا کردیا۔گویا وہ جمع تو کرتے ہیں مگرایک ایسے صندوق میں جس کے نیچے سوراخ ہو ا ور جو کچھ اس میں ڈالیں وہ دوسرے رستے سے نکلتا جائے۔وہ جو کچھ اس میں ڈالتے ہیںوہ اسی سوراخ کے رستے بنئے کے گھر میں گرتا جاتا ہے۔عقلمندی یہ نہیں کہ جسے دو روٹیاں نہیں ملتیں وہ ڈیڑھ ہی کھائے،بلکہ عقلمندی یہ ہے کہ جب اسے دو ملتی ہیں اس وقت بھی وہ ڈیڑھ کھائے اور نصف ضرورت کیلئے اٹھارکھے اورجسے دو بھی نہیں ملتیں وہ بھی جو ملے اس میں سے کچھ نہ کچھ پس انداز کرے تا مصیبت کے وقت اس سے فائدہ اٹھا سکے کیونکہ جب تک ایسی حکومت موجود نہ ہو جو ہر شخص کے کھانے کی ذمہ دار ہو اس وقت تک یہ فکر نہ کرنا عاقبت نا اندیشی ہے۔
پس میری تجویز یہ ہے کہ آدھی روٹی گھر میں رکھو تا جب نہ ملے تو اسے کھاسکواوراسی غرض سے میں نے تحریک جدید امانت فنڈ قائم کیاتھا۔جو شخص اس تجویز پر عمل کرتاہے وہ فائدہ میں رہتا ہے اورباقی ماندہ روٹی اس کے کام آتی ہے لیکن جو عمل نہیں کرتا کھاتاتو وہ بھی ڈیڑھ ہی ہے، مگرآدھی بنئے کو دیتا ہے۔
پس کوئی شخص خواہ کتنا غریب ہو اُسے چاہئے کہ کچھ نہ کچھ ضرورجمع کرتا رہے خواہ پیسہ یا دوپیسے ہی کیوں نہ ہوںکیونکہ بعض اوقات پیسہ دو پیسہ کا ہی خرچ آپڑتا ہے جس کے پورا کرنے کی کوئی اورصورت نہیں ہوتی اوراس وقت جمع شدہ پیسہ کام آتاہے۔بعض اوقات غریب لو گ فوت ہوجاتے ہیں تو کفن کیلئے بھی گھر میں کچھ نہیں ہوتا۔اوراگرایک دو آنہ ماہوار بھی انسان بچاتا رہے تو بھی مرنے کے بعد گھر کے برتن یا دوسرا سامان گرو رکھ کر کفن کا انتظام نہ کرنا پڑے گا۔
یہ اتنی موٹی بات ہے۔مگر شایدمیرے بیان میںکوئی نقص ہے یا جماعت کے سمجھنے میں کہ ابھی تک جماعت میں یہ بات پیدا نہیں ہو سکی۔
اچھی طرح یاد رکھو کہ سادہ زندگی اس تحریک کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے اس میں غریبوں کا امیروں کی نسبت زیادہ فائدہ ہے کیونکہ وہ جو کچھ جمع کریں گے اپنی ضرورت کیلئے کریں گے اوراسی طرح امراء کو بھی اس سے فائدہ ہے اگر کوئی مصیبت کا وقت آجائے تو اس وقت پس انداز کیا ہؤا سرمایہ ان کے کام آئے گا۔
پس میں آج پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ سادہ زندگی کا مطالبہ تحریک جدید کے اہم مطالبات میں سے ایک ہے۔اس کا اقتصادی پہلو اورمذہبی سیاسی پہلو دونوں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر ہم اس کے ذریعہ غریب اور امیر کے فرق کو کسی حد تک مٹانے اورمساوات کی اس روح کوجو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے قائم رکھنے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ ایک عظیم الشان کام ہوگا،جو لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں، کھربوں روپیہ سے زیادہ قیمتی ہے،بلکہ دنیاکی تمام دولت سے زیادہ بیش قیمت ہے۔
میں نے دیکھاہے کہ کھانے کے متعلق بالعموم احباب جماعت نے پابندی کی ہے،لباس کے متعلق کچھ حصہ نے کی ہے مگر کچھ حصہ نے نہیں کی۔بعض کے متعلق تومجھے معلوم ہے کہ انہوں نے چندے زیادہ لکھوا دئے اورپھر دو د و تین تین سال تک کوئی کپڑے نہیں بنوائے۔خودمیرا بھی یہی حال ہے کہ کل ہی ایک عجیب اتفاق ہؤا۔جس پر مجھے حیر ت بھی آئی۔ ایک دوست ملنے آئے اورانہوںنے ایک تحفہ دیاکہ فلاں دوست نے بھیجا ہے وہ ایک کپڑے کاتھان تھا اس کے ساتھ ایک خط تھا جس میں اس دوست نے لکھا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ آئے ہیں اور کہا ہے کہ قمیضوں کیلئے کپڑے کی ضرورت ہے بازار سے لادو۔اس پر میں نے دریافت کیا کہ آپ صاف کپڑا پسند کرتے ہیں یا دھاری دار؟آپ نے اس کا کوئی جواب لفظوں میں تو نہیں دیا،لیکن میرے دل پر یہ اثر ہؤا کہ دھاری دار آپ کی پسند نہیں اوراس خواب کو پوراکرنے کے لئے میں یہ کپڑا بھیجتاہوں۔میں نے وہ تھان لا کر گھر میں دیا کہ کسی نے بھیجا ہے اوراس سے قمیضیںبنوائی جائیں۔انہوں نے لے کر کہا کہ الحمد للہ چارسال کے عرصہ میںآپ نے قمیضوں کیلئے کپڑا نہیں خرید اتھا اورآپ کی پہلی قمیضیںہی سنبھال سنبھال کر اب تک کام چلا یا جارہاتھا یاایک دو قمیضوں کے کپـڑوں سے جو کوئی تحفہ کے طور پر دے جاتا تھا،اب یہ مشکل دورہوئی تو خود میں نے کپـڑوںمیں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے۔
میںضمناً یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس دوست کے خط کو پڑھ کر معاََ میرے دل میں خیال آیا کہ پچاس سال کی عمر ہونے کو آئی ہے،جاگتے ہو ئے تو میں نے کبھی کسی سے مانگا نہیں مگر خواب میں جا مانگا اورگویہ میں نے نہیں مانگاتھابلکہ فرشتوں نے مانگا تھا،لیکن یہ امر واقع ہے کہ پھر بھی مجھے شرم محسوس ہوئی اورمیں نے اس وقت دعا کی کہ اے خدا! جس طرح تُو نے اپنے فضل سے جاگتے ہوئے مانگنے سے اب تک بچایاہے خواب کے سوال سے بھی بچائے رکھ۔ اوراگر خواب میں کسی کو تحریک کرنی ہوتو میرے منہ سے نہ کروا۔اوریہ خواب میں مانگنے کا بھی میری یاد کے مطابق پہلا ہی واقعہ ہے۔ ورنہ خواب میں بھی میں نے کسی سے کبھی نہیں مانگا۔ایک دفعہ ایک دوست نے لکھا کہ میں نے خواب میںدیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اورفرماتے ہیں کہ اتنے روپیہ کی ضرورت تھی اس میںسے اتناپور ا ہوگیاہے اور اتنا ابھی باقی ہے جو تم قرض دے دو۔ سومیرے پاس اس قدر رقم ہے،اگر خواب ظاہری تعبیر کے مطابق درست ہے تو اطلاع ملنے پر روپیہ بھجوا دوں گا۔یہ خواب بالکل سچی تھی بعینہٖ حالات اسی طرح تھے مجھے اس وقت کچھ ضرورت تھی،اس میں سے اسی قدر رقم کا جو خواب میں اس دوست کو بتائی گئی تھی انتظام ہو گیا تھا اوراس قدر رقم جو ان سے طلب کی گئی تھی مہیا ہو نی باقی تھی۔میں نے ا نہیں اطلاع دی اورانہوں نے وہ رقم بھجوا دی۔فَجَزَاہُ اﷲُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ۔خیر تواس شخص کا خط پڑھ کر جنہوں نے کپڑا بھجوایا تھا بے اختیار میرے منہ سے دعا نکلی کہ خدا وندا! خواب میں بھی میں مانگنا پسند نہیں کرتاآئندہ اپنے فضل سے ایسا خواب بھی کسی کو نہ دکھا،جس میں سوال میرے منہ سے ہو۔مجھے تو تُو اپنے ہی دَ ر کاسوالی بنا رہنے دے۔
ہاں میں کہہ رہا تھا کہ کھانے کے متعلق پابندی دوستوں نے کی ہے مگر لباس کے متعلق ایک حصے نے کی ہے اورایک نے نہیں کی۔میرے لئے تو اس پابندی کاسوال اکثر پیدا ہی نہیںہو سکتا،کیونکہ بعض دوست میرے لئے کوٹ وغیرہ لباس بنوا کر بھیج دیتے ہیں اس لئے میں خود تو وہ بنواتا ہی نہیں،کرتہ یا پاجامہ عام طور پر بنواتاہوںمگر وہ بھی گھر والوں نے بتایا ہے کہ چارسال سے نہیںبنے۔کوٹ بھی میں تھوڑا تھوڑا عرصہ پہن کر دوستوں کو دے دیتا ہوں مگر بعض دوست اوربھیج دیتے ہیں اوراس طرح یہ سلسلہ چلا جاتا ہے۔مجھے اوربھی ایسے لوگ معلوم ہیں جنہوں نے دو دو چار چار سال سے کپڑے نہیں بنوائے اور اس میں سراسرانہی کافائدہ ہے۔اگر اس بچت سے وہ چندہ دیتے ہیں تو بھی ان کا فائدہ ہے اوراگر جمع کرتے ہیں تو بھی ان کا یا ان کی اولادوںکا۔تویہ تحریک جدیدکا بہت ضروری حصہ ہے،جس کی طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہئے۔ لباس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اس قدر سادگی پسند فرماتے تھے کہ درحقیقت آج آپ کے حالات پڑھ کرمجھے تو شرم آجاتی ہے۔گو آجکل حالات بدل گئے ہیں اور حالات کے ماتحت تبدیلیاں بھی کرنی پڑتی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سا تھ جو محبت ہے اس کی وجہ سے حالات کی تبدیلی کے باوجود شرم آنے لگتی ہے۔حضرت عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک چغہ پسند آیا جو کوئی شخص بیچنے کیلئے لایا تھا میں اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس لے گیا اور عرض کی کہ یَا رَسُوْلُ اللہ! اسے خرید لیجئے،عید وغیر ہ کے موقع پر پہننے کے کام آئے گا اوراچھا لگے گا۔حضرت عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میری یہ بات سن کر آنحضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے منہ پرسرخی آگئی،گویا آپ نے اسے بہت نا پسند فرمایااور فرمایایہ توقیصر و کسریٰ والی باتیں ہیں عمر! یہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے نہیں رکھیں۔۱؎شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خیال آیا کہ عمر کو یہ چغہ پسند آیا ہے کیونکہ بعد میں جب کسی شخص نے ویسا چغہ بطور ہدیہ آپ کو بھجوایا تو آپ نے وہ چغہ حضرت عمر ؓ کے پاس بھجواد یا۔حضرت عمر ؓ نے عرض کی کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ کو یاد ہو گا۔میں نے ایک دفعہ آپ سے ایسے ہی چغہ کو خریدنے کو کہا تھا تو آپ نے سخت نا پسند فرمایا تھامگر اب آپ نے اسی قسم کا چغہ میرے پاس بھیج دیا ہے۔آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے پہننے کیلئے نہیں بھیجا اسے پھاڑ پھوڑ کر عورتوں کے کپڑے بنوا لو۔۲؎ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کپڑوں میں جس قدر سادگی اختیار کرتے تھے اس میں سے تغیر زمانہ کے حصّہ کو اگر مِنہا بھی کردیاجائے تب بھی وہ بہت بڑی سادگی ہے۔یہ بھی صحیح ہے کہ اس زمانہ میں کپڑا بہت کم ہوتا تھا اور اس لئے قیمتیں زیادہ تھیں اور اب بہت سستا ہے۔اُس زمانہ میں جو کپڑا امراء پہنتے تھے وہ آج غریبوں کو بھی میسر ہے یہی گبرون اور لدھیانہ اُس زمانہ میں بہت قیمتی اورامراء کے پہننے کا کپڑ ا سمجھا جاتا تھامگر اب یہی غریبوں کا عام لباس ہے تو آج کپڑا بہت سستا ہوگیا ہے۔جو آج غرباء کا لباس ہے وہ اُس زمانہ میں امارت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ یہ سوسیاں۳؎ وغیرہ بہت قیمت پاتی تھیں جن میں کوئی کوئی تار ریشم کا ہو تا تھااوراسے معیارِ امارت سمجھا جاتا تھا۔تو یہ فرق بے شک دونوں زمانوں میں ہے لیکن اس فرق کو منہا کرکے بھی دیکھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زندگی بہت سادہ تھی اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر ساری دنیا کی ترقی کا سامان ہو ہی نہیں سکتا۔اسلام بے شک اس کی اجازت دیتا ہے کہ روپیہ کماؤ مگرا سے خرچ اس طرح کرنے کاحکم دیتا ہے کہ سب بنی نوع انسان اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔سادہ زندگی سے صرف بچت ہی نہیں ہوتی بلکہ اور بھی کئی فوائد ہوتے ہیں۔مہمان نوازی میں مدد ملتی ہے جو اعلیٰ درجہ کے اخلاق میں سے ایک ہے اور جسے حضرت خدیجہ ؓ نے نبوت کی تصدیق میں بطور ثبوت پیش کیا تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر جب پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی تو ا ٓ پ بہت گھبرائے ہوئے گھر پہنچے اس وقت حضرت خدیجہ ؓ نے آپ کو تسلی دی اورکہا کہ آپ میں یہ یہ خوبیاں ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو ہر گز ضائع نہیں کرے گااوران خوبیوں میں سے ایک آپ نے مہمان نوازی بیان کی۔۴؎پُر تکلف کھانوں کا رواج ہو تو انسان کو مہمان نوازی میںبہت سخت دقت پیش آتی ہے ایک روپیہ میں ایک شخص کیلئے کھانا بمشکل تیار ہو سکتا ہے اس لئے مہمان نوازی نہیں ہو سکتی لیکن اس طرح ایک دوا ٓنہ میں گزارہ ہوجاتا ہے اورایک روپیہ کے صرف سے دس بیس مہمانوں کو کھاناکھلایا جاسکتاہے۔تو سادہ زندگی میںمہمان نوازی بڑھ جاتی ہے۔مہمان سمجھتا ہے کہ میرادوست تکلف نہیں کرے گااس لئے دلیری سے وہاں چلا جاتا ہے اورمیزبان بھی کوئی تکلف محسوس نہیں کرتاکیونکہ جو کچھ گھر میں موجود ہو لا کر رکھ سکتا ہے۔کسی کی دعوت کا مفہوم آجکل یہی سمجھاجاتاہے کہ بہت پر تکلف کھانے تیار کروائے جائیں اورذہنیت بھی ایسی ہوگئی ہے کہ اگر کسی کو بلاؤ اور پلاؤ تیار نہ ہو تو اس کے ماتھے پرسلوٹیں پڑنے لگتی ہیں اوریوں محسوس ہوتاہے کہ گویاکسی نے جوتیاں ماری ہیں۔دل میںکڑھتا اورکہتا ہے کہ دیکھو خبیث نے بلا کر میرا وقت ضائع کیا حالانکہ اس غریب نے محبت کی وجہ سے کہیںسے قرض لے کریا کئی روز کا فاقہ کرکے دعوت کی اور اس کے گلے میں کھانا اس لئے پھنس رہا ہے کہ پلاؤنہیں اس لئے غریب آدمی مہمان نوازی سے ڈرتے ہیں لیکن اگر اسی طرح مہمان نوازی ہو کہ جس طرح گھر میں کھانا پکتا اورکھایا جاتاہے اسی طرح مہمان کے بھی پیش کردیاجائے تو کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی اورپیسہ بھی خرچ نہ ہوگا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک مؤمن کا کھانا دو کیلئے کافی ہوتاہے۔۵؎کل ہی جب میں عید پڑھ کرآیا تو معلوم ہؤا کہ چھ سات ہندو دوست آئے ہوئے ہیںجن میںسے ایک ولایت کے سفرمیں ہم سفر تھے۔میںنے پہلے ان سے دریافت کرایاکہ مسلمانوں کے ہاں کھا لیتے ہیں یا نہیں تا اگر نہ کھائیں تو ہندوؤںکے ہاں ان کیلئے انتظام کرایا جائے مگر انہوں نے کہا کہ ہم تو کھالیتے ہیں۔اس پر میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ ان کو لے آئیں اورسب بیویوں سے کہا کہ اپنے کھانے بھجوادیں گو اس میں شک نہیں کہ اگر وہ کسی دوسرے روز آتے تو مجھے ا ن کیلئے خاص کھانا تیار کرانا پڑتا،لیکن عید کی وجہ سے چونکہ نسبتاً اچھا کھاناتھا میں نے سب گھروں سے کھانا جمع کر لیا اورنہ ہمیں کوئی تکلیف ہو ئی اور نہ مہمانوں کو۔اگر سادہ زندگی کے لوگ عادی ہوں تو ہر روز کی دعوت بھی تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتی بلکہ میں تو سمجھتاہوں کہ اگر دوستوںمیںسادہ زندگی کی روح قائم ہو جائے تو لنگر خانہ کی ضرورت بھی نہیں رہتی اورمہمان نوازی میں بھی کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔آنے والا مہمان بھی یہ سمجھے گاکہ جو موجود ہو گا کھالوں گااس لئے اسے کوئی تکلیف نہ ہوگی اورمیزبان یہ سمجھے گاکہ جو ہوگا وہ پیش کردونگااس لئے اسے بھی کوئی تکلیف نہ ہوگی۔انسان کیلئے بعض اوقات پیسہ مہیا کرکے خرچ کرنا مشکل ہوتا ہے،لیکن خود فاقہ کرلینا مشکل نہیںہو تا۔کسی شخص کے گھر کے دس آدمی ہیں تو اگراس کے پاس سَو مہمان آجائے اوراگراس کے پاس طاقت نہ ہو تواسے ضرور قرض لے کر مہمان نوازی کرنی پڑے گی لیکن اگرپانچ آجائیں توگھر کے پانچ افراد فاقہ کرکے ان کوکھلاسکتے ہیں۔فاقہ اختیارکرنا اختیاری امر ہے۔آخر روزے بھی تورکھے ہی جاتے ہیں مگر روپیہ لانا اختیاری امرنہیں اسلئے سادہ زندگی میں انسان بغیر کسی بوجھ کے اپنا فرض ادا کر سکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانہ میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ایک دفعہ ایک مہمان آیا آپ نے ایک صحابی سے فرمایا تم اسے اپنے گھر لے جاؤ وہ انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔شاید کسی وقت ان کی حالت اچھی ہوگی اسلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کے سپر دمہمان کردیا مگر ان دنوں ان کی حالت اچھی نہ تھی گھر پر پہنچے تو معلوم ہؤا کہ کھانا صرف ایک آدمی کاہے اور صرف بچوں کیلئے کفایت کرسکتاہے۔ میاں بیوی نے یہ تجویز کی کہ بچوں کو تو بھوکا ہی سلادو اورمہمان کو کھانا کھلا دو۔اب یہ بات ان کی طاقت میں تھی،لیکن اس وقت اگران کو پیسہ مہیا کرنا پڑتا تویہ مشکل تھااوروہ مہمان کی خدمت میں ناکام رہتے یا پھر اگر یہ ضروری ہوتاکہ مہمان کوپلاؤ ہی کھلانا ہے۔تو اُس صحابی کو کہنا پڑتاکہ یَا رَسُوْلَ اللہ! میںنہیں لے جاسکتا،لیکن صحابہ ؓ کا یہی طریق تھا کہ جو موجود ہوتا لا کر پیش کردیتے۔یہ بات ان کے بس کی تھی کہ بچوںکو سلادیں اوران کاکھانا مہمان کوکھلادیں۔اس پر عمل کرنے کیلئے وہ تیارہو گئے لیکن اس کے علاوہ ایک مشکل اورتھی کہ مہمان کھانے میں ساتھ شامل ہونے پر اصرار کرے گا اورکھانا تھوڑا ہے آخراس کا بھی حل سوچ لیا گیا۔اس زمانہ میں وہ دئے جلائے جاتے تھے جن میں روئی کی بتی ڈالی جاتی تھی۔تجویز یہ ہوئی کہ جب مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھیں تو میاں بیوی سے کہیں کہ روشنی تیز کردو اوربیوی تیز کرنے کے بہانے بتی کو اس طرح ا نگلیوں سے پکڑکر باہر کردے کہ وہ بجھ جائے اورجب پھر جلانے کو کہا جائے تو کہہ دے کہ آگ نہیں اوراب ہمسایوں کے ہاں آگ لینے کیا جاناہے ان کو خواہ مخواہ تکلیف ہوگی۔اس پر مہمان خود ہی کہہ دے گا کہ نہیں رہنے دو روشنی کی کیا ضرورت ہے اوراس طرح دونوں مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ کر اندھیرے میں یونہی مچاکے مارتے جائیں گے اور مہمان کھانا کھا لے گا۔اس وقت تک پردہ کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا کہ بغیر کھانا کھانے کے ہی بڑے زور کے ساتھ مچاکے مارتے رہے۔مہمان بے چارہ بھی حیران ہوگا کہ کھانا تو اس قدر لذیذ نہیں، معلوم نہیں کہ یہ اتنے مچاکے کیوں مارتے ہیں۔بہرحال مہمان نے کھانا کھا لیااوریہ سب بھوکے ہی رات سو رہے۔صبح رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کو بلوایا اور پوچھا رات تم نے مہمان کے ساتھ کیا کیا؟انہوںنے شرمندہ ہو کر عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ!کیا کیا ہے ؟آپؐ نے فرمایا کہ جو کچھ کیا مجھے اللہ تعالیٰ نے بتا دیاہے اورآپ ہنس پڑے اورفرمایا کہ تمہارے فعل پر خدا تعالیٰ بھی عرش پر ہنسا ۶؎اور میں بھی اس لئے ہنسا ہوں کہ خداتعالیٰ ہنسا تھا۔تو یہ ذاتی قربانی کا سوال تھا جو انہوں نے کر دی اگر مالی قربانی کا سوال ہو تا تو وہ کیا کرسکتے تھے۔اگرتمام کام ذاتی قربانی کی طرز پر ہوں تو کام بہت وسیع ہو سکتاہے اور دنیا میں فوراََامن قائم ہوسکتالیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا کہ سارے کام اس طرز پر چلائے جائیں۔اگر آج ا س طرح چلایا جائے تو جماعت کے لئے یہ امر تباہی کاموجب ہوگا۔زمانہ کے حالات ایسے ہیں کہ بعض باتوںکو مجبوراً ترک کرنا پڑتاہے۔مثلاََ اسلام کا حکم ہے کہ آگ کا عذاب نہ دیا جائے لیکن اگر آج اسے جاری کردیا جائے تو مسلمان حکومتوں کا بندوقوں، توپوں سے کس طرح بچاؤ ہو سکے ہاں جب ساری دنیا میں اسلامی حکومت اور غلبہ ہو تو اس وقت یہی حکم ہے۔اسی طرح اسلامی اصول یہ ہے کہ جہاںتک ہو سکے روپیہ کے استعمال کو کم کیا جائے،لیکن اگر آج اس پر عمل کردیاجائے تو اس کا لازمی نتیجہ تباہی ہو گا اس لئے ہمیںدرمیانی راہ اختیار کرنی پڑتی ہے،جس سے دشمن کے حملہ کو بھی بچایا جائے اوراسلامی روح کو بھی قائم رکھاجائے۔بعض نادان یہ اعتراض کردیتے ہیںکہ اسلام کے فلاں حکم پر عمل کیوں نہیںکیا جاتا حالانکہ حالات ا یسے ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو اسلام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سود لینے اور دینے والے دونوں پر *** کی ہے ۷؎اوراسلام نے اس کو حرام قرار دیاہے لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کو ایک جگہ سود دینا پڑتاہواوردوسری جگہ اس کا روپیہ کسی ایسی جگہ پرلگا ہؤ اہو جہاں سے اسے سود مل سکتاہوتو اسے چاہئے کہ لے لے اورجہاں دینا ہو وہاں دے دے۔ اب بظاہر تو یہ دو لعنتوں کا جمع ہو نا ہے لیکن کافر سے لے کر کافرکو ہی دے دینے سے مسلمان نقصان سے بچ جائے گااور اسی کو مذہبی سیاست کہتے ہیں۔ نادان ہم پر اعترا ض کرتے ہیں کہ یہ سیاسی آدمی بن رہے ہیں حالانکہ ہماری سیاست یہ نہیں کہ جرمن یا اٹلی سے کوئی معاہدہ کرتے ہیں بلکہ ایسی ہی مذہبی سیاست ہے۔
تو سادہ زندگی کامطالبہ نہایت اہم ہے مذہبی سیاسی لحاظ سے بھی اور اقتصادی لحاظ سے بھی اس لئے میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کی اہمیت پر غور کریں امیر بھی اور غریب بھی۔ آج میںنے پھر اچھی طرح اس بات کو واضح کردیا ہے کہ دونوں کیلئے یہ مطالبہ یکساں طور پر ضروری ہے اور دونوں کے لئے مفید ہے،اس کے بغیر نہ ہماری اقتصادی حالت درست ہو سکتی ہے اورنہ مذہبی جدوجہد وسیع ہو سکتی ہے۔اگرمیں دیکھتا کہ جماعت نے پہلا قدم پوری طرح اٹھایاہے تو دوسرامضبوطی کے ساتھ اٹھاتا، لیکن ابھی میں دیکھتاہوں کہ بہت اصلاح کی ضرورت ہے اس لئے دوسراقدم نہیں اٹھا سکتا۔کھانے کے معاملہ میں بے شک دوستوں نے اصلاح کی ہے مگر دوسرے معاملات میںنہیں بلکہ مجھے اس کا بھی اعتراف ہے کہ ابھی تک خود ہمارے گھروں میں بھی کھانے اور لباس کو چھوڑ کر باقی امور میں اس کی پوری طرح پابندی نہیں کی جاسکی۔ اورجب تک پہلا قدم صحیح طور پر نہ اٹھا لیا جائے دوسرانہیں اٹھایا جاسکتا اس لئے میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتاہوں کہ سادہ زندگی کے سب پہلوؤں پر عمل کرنے کی کوشش کریں تا ہماری اقتصادی حالت درست ہو سکے اور ہم اس قابل ہو سکیں کہ اپنے مالوں سے ہی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرسکیں۔جماعت اگر اس کی اہمیت کو سمجھے تو چند سالوں میں ہی اہم دینی اور دنیوی تغیر پیدا ہوسکتا ہے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس بارہ میں ہمیں صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق دے جماعت میں بھی اور ہمارے گھروں میں بھی۔اس مطالبہ کی اہمیت پوری طرح سمجھ میں آجائے کیونکہ ہمارے گھروں کو نمونہ ہو نا چاہئے۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ جتنا اس نے ہمیںموقع دیا ہے اس کے مطابق اسلامی ماحول پیدا کرسکیں تا خداتعالیٰ کے حضورہم یہ کہہ سکیں کہ جتنا تو نے اختیار دیا تھا اتنا ہم نے کردیا اورباقی اس لئے نہ کرسکے کہ وہ ہمارے بس میں نہ تھا۔‘‘ (الفضل۲؍دسمبر۱۹۳۸ئ)
۱؎ ، ۲؎ مسلم کتاب اللباس و الزینۃ باب تحریم لُبس الحریر(الخ)
۳؎ سوسیاں: سوسی۔ ایک قسم کا رنگین دھاری دار کپڑا
۴؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کَیْفَ کَانَ بدء الوحی اِلٰی رَسُوْلِ اﷲ صلی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّم
۵؎ مسلم کتاب الاشربۃ باب فضیلۃ المؤاساۃ (الخ)
۶؎ بخاری کتاب مناقب الْاَنْصَار باب قول اﷲ عَزَّوَ جَلَّ وَ یُؤْ ثِرُوْنَ عَلٰی أَنْفُسِھِمْ (الخ)
۷؎ بخاری کتاب الطلاق باب مَھرالبَغْی (الخ)

۳۹
دشمن کی گالیوں کا جواب شرافت اور احسان سے دو
نیز خدمتِ دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرو
(فرمودہ ۲ ؍دسمبر ۱۹۳۸ء )
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’میرے پاس گزشتہ ایام میں ان اشتہارات کے خلاف نفرت کے اظہار کے خطوط آئے ہیں جو کچھ عرصہ ہؤا مصری صاحب کے ساتھ تعلق یا ہمدردی رکھنے والوں اور احرار کے ساتھ تعلق یا ہمدردی رکھنے والوں کی طرف سے اس علاقہ میں اور باہر پنجاب میں بھی تقسیم کئے گئے ہیں۔ میں اُس غیرت کی قدر کرتا ہوں جس کا اظہار ان دوستوں یا جماعتوں نے کیا ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں ان اشتہارات میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک فائدہ مخفی رکھا ہؤا ہے۔ شروع شروع میں جب مصری صاحب نے خط و کتابت شروع کی ہے تو اُنہوں نے بہت ہی غصہ کا اظہار اس امر پر کیا تھا کہ مجھے کہا جاتا ہے تم گالیاں دیتے ہو حالانکہ میں تو کوئی گالی نہیں دیتا اور ہماری جماعت کے کئی دوست جو ایسے امور میں مذبذب ہو جانے کے عادی ہیں وہ بھی کہنے لگ گئے تھے کہ آخر وہ کیا گالیاں ہیں جو وہ دیتے ہیں اور جب کہ وہ گالیاں دینے سے انکار کرتے ہیں تو یہ کیونکر تسلیم کیا جائے کہ واقع میں اُنہوں نے کوئی گالی دی ہے۔ مگر اب ہائیکورٹ کے ایک فیصلہ میں وہ الفاظ نقل ہو گئے ہیں جو میرے متعلق انہوں نے عدالت میں کہے اور اب ہرشریف انسان ان الفاظ کو پڑھ کر یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا وہ گالیاں دیتے ہیں یا نہیں اور آیا وہ بات جو میں نے کہی تھی وہ صحیح تھی یا نہیں۔ بھلا گالیوں سے کسی کا کیا بگڑتا ہے۔ ان کی گالیوں سے ہمارا تو کوئی نقصان نہیں چاہے وہ گالیاں کوٹیشن (Quotation) کے طور پر ہائی کورٹ کے کسی فیصلہ میں ہی کیوں نہ آ گئی ہوں۔ ہائیکورٹ کے فیصلہ میں کسی کی گالیاں نقل ہو جانا گالیاں دینے والے کی حقیقت واضح کرتا ہے۔ اس کی بات کو تقویت نہیں دے دیتا۔ اوّل تو مذہبی معاملات میں حکومتوں یا ہائیکورٹوں کے فیصلوں کا کوئی دخل ہی نہیں ہوتا۔ لیکن جو اشتہار شائع کیا گیا ہے اور اس میں جو فیصلہ درج کیا گیا ہے (گو سارا فیصلہ میں نے ابھی نہیں پڑھا) اسی سے ظاہر ہے کہ اس میں ان کی کوئی کامیابی نہیں کیونکہ ہائیکورٹ کا جج اُس فیصلہ میں یہ لکھتا ہے کہ چونکہ انہوں نے ایسے ایسے فقرات استعمال کئے ہیں اور ان سے اشتعال اور نقصِ امن کا اندیشہ ہے اس لئے مقامی حکام نے مصری صاحب کے خلاف جو کارروائی حفظِ امن کی ضمانت کے متعلق کی تھی وہ مناسب تھی اور ان کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ جج یہ نہیں کہتا کہ میں نے تحقیقات کی ہے اور تحقیق کے بعد میرا یہ فیصلہ ہے کہ واقع میں وہ الزامات درست ہیں جو عائد کئے گئے ہیں بلکہ وہ کہتا ہے کہ چونکہ انہوں نے ایسے الفاظ کہے ہیں اور یہ سخت اشتعال انگیز ہیں ۔ اس لئے میں ان کی ضمانت لینے کو درست قرار دیتا ہوں اس پر خوش ہوتے پھرنا اور کہنا کہ دیکھو ہائی کورٹ کے ایک جج کے فیصلہ میں یہ بات آگئی ہے یہ تو انتہا درجہ کی حماقت اور نادانی ہے۔ جج تو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ انہوں نے واقع میں اشتعال انگیزی سے کام لیا ہے۔ یہ تو نہیں کہتا کہ اس نے ان الزامات کی تحقیق کی ہے اور انہیں درست پایا ہے۔ وہ صرف یہ کہتا ہے کہ انہوں نے یہ یہ گالیاں دی ہیں اور ان وجوہ سے میرے نزدیک انہوں نے اشتعال انگیزی سے کام لیا ہے۔
یہ علیحدہ سوال ہے کہ ایسے فیصلوں کی اشاعت ملک کا امن قائم کرنے میں مُمِد ہے یا اس کے مخالف۔ یہ سوال گورنمنٹ سے تعلق رکھتا ہے۔ ان لوگوں سے محض اس حصہ کا تعلق ہے جس حصہ میں انہوں نے ہم کو گالیاں دیں اور جج نے ان کی گالیوں کو ان پر حجت تمام کرنے کے لئے اور ان کی اشتعال انگیزی ثابت کرنے کے لئے اپنے فیصلہ میں نقل کر دیا اور میں سمجھتا ہوں اس فیصلہ سے جماعت پر یہ امر واضح ہو گیا ہوگا کہ یہ نہ صرف گالیاں دیتے ہیں بلکہ ایسی گندی گالیاں دیتے ہیں جو دوسری جگہوں میں ایسے لوگوں کو ہرگز نہیں دی جا سکتیں جو اس جگہ کی اکثریت کے نزدیک واجب الاحترام ہوں بلکہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ فقرات جو انہوں نے ہمارے متعلق استعمال کئے ہیں وہ اس قسم کی گالیوں پر مشتمل ہیں کہ ادنیٰ سے ادنیٰ اقوام کے لوگ بھی ایسی گندی گالیاں نہیں دیا کرتے۔ پس یہ گالیاں گو رنج کا موجب بھی ہوں مگر ایک لحاظ سے یہ ہماری فتح کی علامت بھی ہیں کیونکہ جو لوگ اخلاق کے ذریعہ فتح حاصل کیا کرتے ہیں ان کے لئے یہ کامیابی اور خوشی کی بات ہے کہ دشمن اب ننگا ہو گیا ہے اور اس نے اپنے اندرونی گند کو بالکل ظاہر کر کے رکھ دیا ہے اور پہلے جو بات مخفی تھی وہ اب سب کو معلوم ہو گئی ہے اور ہر ایک کو نظر آ گیا ہے کہ ان کے اصل خیالات کیا ہیں۔ پھر جن حکام نے ایسا جلسہ کروا کے اس قسم کے اشتہار بانٹنے میں مدد کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں وہ بھی ایک حد تک ننگے ہوگئے ہیں اور اب گورنمنٹ کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ ہم سے یہ مطالبہ کرے کہ اس قسم کے الفاظ ہم دوسری جماعتوں کے لیڈروں اور اماموں کی نسبت استعمال نہ کریں۔ اگر عیسائیوں کے یسوع کی نسبت (جو اُن حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بالکل مختلف وجود ہے جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے اور جو ہمارے نزدیک واجب الاحترام ہستی ہیں) ہماری طرف سے وہی الفاظ استعمال کئے گئے جو ہمارا دشمن ہمارے متعلق استعمال کرتا ہے تو یقینا گورنمنٹ کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ کہے تم اشتعال انگیزی سے کام لیتے ہو۔ کیونکہ اس نے اپنے قانون اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ بات جائز ہے۔ باقی میں نے بتایا ہے کہ ہائیکورٹ کے فیصلہ میں کسی کو ٹیشن کا آ جانا اسے کوئی اہمیت نہیں دے دیتا۔ آخر جج نے جب الزام ثابت کرنا تھا تو اس کے لئے سوائے اس کے اور کیا صورت تھی کہ وہ ان کی کچھ گالیاں اپنے فیصلہ میں نقل کر دیتا اور کہہ دیتا کہ چونکہ یہ الفاظ اشتعال انگیز ہیں اس لئے تم مجرم ہو اور تم سے جو ضمانت طلب کی گئی تھی وہ بالکل درست ہے اس کوٹیشن پر خوش ہو جانا تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی جج اپنے فیصلہ میں لکھے کہ چونکہ فلاں نے قتل کیا ہے اس لئے اسے پھانسی کی سزا دی جاتی ہے۔ اب کوئی اور شخص اس فیصلہ کو لے لے اور کہے چونکہ جج نے اپنے فیصلہ میں قتل کا ذکر کر دیا ہے اس لئے معلوم ہؤا کہ قتل جائز ہے۔ جج تو ان کے فقرات کو معیوب قرار دیتا ہے اور ان کے کچھ الفاظ اپنے فیصلہ میں نقل کر کے بتاتا ہے کہ دیکھو انہوں نے یہ یہ الفاظ کہے ہیں اور کہتا ہے میری رائے میں یہ امر قابلِ اعتراض اور حفظِ امن کی ضمانت طلبی کا متقاضی ہے۔ مگر وہ اس سے نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ ان کے الزامات کو بڑی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے میں نے بتایا ہے کہ کوئی جج اپنے فیصلہ میں قتل کا ذکر کرے تو اس سے نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ ان کے الزامات کو بڑی اہمیت حاصل ہوگئی ہے یہ ایسی ہی بات ہے جیسے میں نے بتایا ہے کہ کوئی جج اپنے فیصلہ میں قتل کا ذکر کرے تو اس سے یہ نتیجہ نکال لیا جائے کہ اب قتل جائز ہوگیا۔ کوئی عقل کا اندھا ہی ایسا نتیجہ نکالے تو نکالے کوئی عقلمند ایسا نتیجہ نہیں نکال سکتا۔ بہرحال میرے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے ہمارے لئے دوراستے کھولے ہیں۔ ایک تو ہمارے لئے یہ راستہ کھولا ہے کہ ہمیں لوگوں کے سامنے یہ بات ثابت کرنے کا موقع حاصل ہو گیا ہے کہ ہم جو کہتے تھے یہ ہم پر ظالمانہ الزام لگاتے ہیں ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور ہمیں بُرا بھلا کہتے ہیں یہ بالکل درست تھا اور اس کا ثبوت ان کا یہ تازہ اشتہار ہے۔ چنانچہ یہ اشتہار کسی شریف ہندو، کسی شریف عیسائی، کسی شریف سکھ اور کسی شریف مسلمان کے سامنے رکھ دو اور کہو کہ یہ اشتہار ہے اسے پڑھ کر آپ بتائیں کہ ظالم یہ ہیں یا ہم، تو ہر شریف انسان (اور شریف انسان کی رائے ہی وقعت رکھتی ہے) یہی کہے گا کہ تم مظلوم ہو اور یہ ظالم ہیں۔ اور جو غیر شریف ہیں ان کی رائے کی کوئی قدر ہی نہیں ہوتی وہ ہمیشہ گنداُچھالتے رہتے ہیں اور گند میں ہی ان کو لذت آتی ہے۔
تو خدا تعالیٰ نے ہمارے دشمن کے مقابلہ میں خود دشمن کے منہ سے ہی ہماری مظلومیت کو ثابت کرا دیا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے گورنمنٹ پر حُجت قائم کرنے کے لئے بھی ایک راستہ کھول دیا ہے۔ اب اگر ہم یہی الفاظ دوسری قوموں کے لیڈروں کے متعلق استعمال کریں اور ہماری جماعت کے کسی فرد پر گورنمنٹ ان الفاظ کے استعمال کی وجہ سے مقدمہ چلا دے تو اس کا حق ہوگا کہ وہ اپنے مقدمہ کے دوران میں یہی اشتہار عدالت میں پیش کر دے اور کہے صاحب گورنمنٹ نے ان الفاظ کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور باوجود اس کے کہ گورنمنٹ نے یہ قانون مقرر کیا ہؤا تھا کہ فلاں شخص کو قادیان کی حدود کے دو میل کے اندر اندر جلسہ کرنے یا تقریر کرنے کی اجازت نہیں۔ پھر بھی اُس سے قادیان کی حدود کے دو میل کے اندر جلسہ کرایا گیا اور اس موقع پر یہ اشتہار لوگوں میں بانٹا گیا۔ اب بتائیے جب گورنمنٹ ان الفاظ کو قدر کی نگاہ سے دیکھ چکی ہے تو اگر میں نے ایسے ہی بعض الفاظ کسی اور قوم کے لیڈر کی نسبت استعمال کر لئے تو اس میں حرج کونسا ہوگیا۔ تو اب ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے گورنمنٹ پر حجت تمام کرنے کے لئے پہلے سے زیادہ راستہ کھول دیا ہے اور دو باتوں میں سے ایک بات گورنمنٹ کو ضرور ماننی پڑے گی۔ یا تو اُسے یہ ماننا پڑے گا کہ یہ الفاظ بہت اعلیٰ درجہ کے ہیں۔ ان سے کوئی فساد نہیں ہوتا اور نہ کسی کا دل دُکھتا ہے لیکن اگر کسی غیر مسلم قوم کے بزرگ کو مسلمان کہہ دیا جائے تو اس سے اس قوم کا دل بہت دُکھتا ہے یا اسے تسلیم کرنا ہوگاکہ وہ احمدیوں کے لئے اور قانون چلانا چاہتی ہے اور دوسری اقوام کے لئے اور۔ گویا گورنمنٹ اگر خاموش رہے گی جیسا کہ وہ اب تک خاموش ہے تو وہ اپنی خاموشی سے یہ اعلان کر دے گی کہ کسی کو مسلمان کہنا تو گالی ہے لیکن وہ الفاظ استعمال کرنے جو اس اشتہار میں استعمال کئے گئے ہیں گالی نہیں۔ پس ہمیں گورنمنٹ پر بھی حجت کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے ایک دلیل دے دی ہے اور اب دنیا کی تمام قوموں کے سامنے تم یہ معاملہ رکھ سکتے ہو۔ ایک طرف وہ الفاظ لکھ دو جو اس اشتہار میں ہمارے متعلق لکھے گئے ہیں اور دوسری طرف باوا نانک صاحب کے متعلق مسلمان کا لفظ لکھ دو اور اس کے نیچے تحریر کر دو کہ گورنمنٹ پنجاب کا یہ فیصلہ ہے کہ ان الفاظ کا استعمال تو گالی نہیں مگر مسلمان کہنا گالی ہے۔ پھر خود بخود دیکھ لو گے کہ دنیا کا عقلمند اور شریف طبقہ تمہاری تائید کرتا ہے یا گورنمنٹ کی، تو اگر گورنمنٹ نے اپنے رویہ میں تبدیلی نہ کی تو ہمارے ہاتھ میں وہ اپنے خلاف ایک اور ہتھیار دے گی۔ پس ہمارے لئے اس میں رنج کی کوئی بات نہیں بلکہ گورنمنٹ کے خلاف ایک اور دلیل ہمیں مل جائے گی غرض دونوں اطراف کے لئے خداتعالیٰ نے ہمیں دلیل مہیا کر دی ہے۔ ہمارے مخالف کے خلاف بھی کہ وہ یہ الفاظ استعمال کرتا ہے اورا بھی اپنے آپ کو مظلوم کہتا ہے اور گورنمنٹ کے خلاف بھی کہ یہ الفاظ گورنمنٹ کے نزدیک گالی نہیں۔ مگر غیرمسلم اقوام کے کسی بزرگ کو مسلمان کہنا سخت گالی ہے اور اس سے اس قوم کا دل بُری طرح دُکھ جاتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ جو لوگ اس قسم کے دشمنوں کا جواب دینا چاہیں گے وہ یہ الفاظ اس کے بزرگوں کی نسبت استعمال کر دیں گے اور کہیں گے کہ یہ لفظ ہم اس لئے استعمال کر رہے ہیں تا دوسرے کا دل بھی نہ دکھے اور ہماری طرف سے جواب بھی ہو جائے۔ بہرحال تھوڑے ہی دنوں میں گورنمنٹ کے رویہ سے یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ آیا یہ اشتہارات اُس کی مرضی اور خوشی سے بانٹے گئے تھے یا اس کے علم کے بغیر بانٹ دیئے گئے تھے اور واقع میں اُس نے انہیں ایسا ہی بُرا سمجھا ہے جیسے ہر شریف آدمی انہیں بُرا سمجھتا ہے۔ دو چار ہفتوں میں یہ بات کھل جائے گی اگر گورنمنٹ نے ان الفاظ کو کوئی اشتعال انگیز بات قرار نہ دیا تو آپ لوگوں کے ہاتھ قانون کے ماتحت ایک نیا حربہ آ جائے گا (اور ہماری تعلیم بھی یہی ہے کہ قانون کے ماتحت چلا جائے) اور اگر گورنمنٹ نے اپنے ان اختیارات کو استعمال کیا جن اختیارات کو وہ سنبھال سنبھال کر رکھتی ہے اور جنہیں چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتی تو گورنمنٹ کے متعلق ہمیں جو شکوہ ہے وہ آپ ہی دور ہو جائے گا۔
اِس کے بعد میں اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہوں کہ حسبِ عادت اس موقع پر مولوی محمدعلی صاحب نے بھی اظہارِ خیالات کیا ہے وہ کہتے ہیں اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقی جماعت کونسی ہے تو اس کے لئے چند خصوصیات کا دیکھنا ضروری ہے۔
’’سب سے پہلی چیز نیکی اور بلند اخلاقی ہے… ذرا غور کرو۔ وہ شہرت قادیان کی جو نیکی اور راستبازی سے حاصل ہوئی تھی کیا وہ اب باقی ہے۔ شاید کوئی کہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکو بھی لوگ گالیاں دیتے تھے اور بُرا بھلا کہتے تھے۔ شاید کوئی ناپاک الزام بھی لگاتے ہوں لیکن یہ سب دشمن اور مخالف تھے۔ دشمن ایسا کیا ہی کرتے ہیں۔ کیا دشمن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جھوٹ اور ناپاک الزام نہیں لگاتے لیکن رنجدہ بات یہ ہے کہ قادیان میں دشمن نہیں بلکہ مرید کہلانے والے، زندگیاں وقف کرنے والے، جان و مال فدا کرنے والے آج کیا کہتے ہیں۔ میرا دل تو کانپ اُٹھا آج ہائیکورٹ کا ایک فیصلہ پڑھ کر جس میں ایک مرید کی شہادت درج ہے یعنی مولوی شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے ایک عدالتی بیان کو اس فیصلہ میں نقل کیا گیا ہے۔ وہ بیان کیا ہے؟ وہ اس قدر افسوسناک ہے کہ میں اس کو اپنی زبان سے بیان کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ اس قدر بُرے واقعات اور حالات قادیان کے اس میں بتائے گئے ہیں کہ دل ان کو پڑھ کرکانپ اُٹھتا ہے۔ اب یہ باتیں ہائیکورٹ کے فیصلہ میں آ گئی ہیں اور ساری دنیا میں پھیل جائیں گی… وہ قادیان جو کبھی نیکی، اعلیٰ اخلاق اور راستبازی کی وجہ سے دنیا میں مشہور تھا آج بُری باتوں کے لئے دنیا میں مشہور ہو رہا ہے‘‘۔
پھر لکھتے ہیں:
’’دوسری چیز علم ہے حضرت مسیح موعود ؑ نے تمام مذاہب پر اتمامِ حجت کیا، ایک نیا علم الکلام پیدا کیا، اسلام کی حقانیت پر کتابوں اور مضامین کے انبار لگا دیئے، قرآن کو ساری دنیا میں پھیلانے کی بنیاد رکھی، آج ذرا دیکھو کہ قادیان میں کس قدر علم رہ گیا ہے۔ کل ہی کی بات ہے دورانِ سفر میں ایک قادیانی بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اُن سے کہا کہ آخر یہ کیا ہو گیا ہے آپ کا انگریزی ترجمہ قرآن چھَپنے ہی میں نہیں آتا۔ آج پچیس سال ہوگئے ۔ اُنہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور بات ٹال گئے… تیسری بات ہے کام۔ سو اب قادیانی جماعت کی تمام طاقت سیاست پر صرف ہو رہی ہے اسلام کی حفاظت اور تبلیغ کا خیال انہیں بھولتا جا رہاہے‘‘۔ ۱؎
یہ تقریر اُنہوں نے بھی کی۔ گویا ان کے نزدیک جب کوئی دشمن اعتراض کر دے خصوصاً جو اس جماعت میں شامل ہو تو ضرور تہہ میں کوئی نہ کوئی بات ہوتی ہے اور وہ دوسرے کو تقویٰ و طہارت سے کوسوں دور ثابت کرنے والی ہوتی ہے اور اگر ہائیکورٹ کے فیصلہ میں کوئی گالی نقل ہو جائے تو پھر تو اس کے سچا ہونے میں کوئی شُبہ ہی نہیں رہتا۔ چاہے صرف حوالہ کے طور پر ہی ان گالیوں کو نقل کیا گیا ہے۔ اگر یہی بات ہے تو کیا کہیں گے مولوی محمد علی صاحب ان کیسز کے متعلق جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دشمنانِ اسلام کی گالیاں نقل کی گئی ہیں اور ہائیکورٹ کے فیصلوں میں نقل کی گئی ہیں۔ کیا وہ اسی اصل کے مطابق جو انہوں نے یہاں اختیار کیا ہے ان گالیوں کو بھی سچا سمجھنے کے لئے تیار ہیں۔ معلوم ہوتا ہے وہیں سے مولوی صاحب کے دل میں مرض پیدا ہونا شروع ہؤا ہے اور جب کسی کو آقا کے متعلق شبہات پیدا ہو جائیں تو اس کا غلاموں کے متعلق شک کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہو سکتا۔ مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ اس بات کو کسی قسم کی اہمیت دینا نادانی ہے جب بھی کوئی جج کسی پر الزام قائم کرے گا اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اس کا جُرم بیان کرے۔ مثلاً بزرگوں کو گالیاں دینا ایک جُرم ہے اب کوئی بھی جج جب کسی کے متعلق یہ فیصلہ کرے گا کہ اس نے دوسری قوم کے بزرگوں کو گالیاں دیں تو وہ اُس کی گالیوں میں سے کچھ گالیاں اپنے فیصلہ میں نقل بھی کرے گا۔ بغیر اس کے اس کا فیصلہ مکمل کس طرح ہو سکتا ہے۔ پس مصری صاحب کی چند گالیوں کے نقل ہو جانے سے اس میں طاقت کونسی پیدا ہوگئی کہ مولوی صاحب کو یہ فکر لاحق ہو گیا کہ اب یہ باتیں ساری دنیا میں پھیل جائیں گی اور لوگ نہ معلوم کیا کچھ کہیں حالانکہ اس قسم کے ٹریکٹ اور اشتہارات شائع بھی وہیں سے ہوتے ہیں اور وہ ان کی اشاعت کے لئے روپے پیسے بھی خرچ کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ انہیں افسوس بھی ہوتا ہے کہ اب یہ لوگوں میں پھیلیں گی اور وہ بُرا اثر قبول کریں گے۔
مولوی صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ برابر ان کی طرف سے ہم پر گندے حملے ہوتے جا رہے ہیں اور شاید وہ سمجھتے ہیں کہ گالیاں ہم کو ہی دی جاتی ہیں اور ہمارے متعلق ہی ایسی باتیں کہی جاتی ہیں کسی اور کے متعلق ایسی باتیں نہیں کہی جاتیں حالانکہ کہنے والوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی ایسی ہی باتیں کہیں اور وہ ان کے مرید تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی ایسی ہی باتیں کہیں اور وہ ان کے مرید تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی ایسی ہی باتیں کہیں اور کہنے والے آپ کے مرید کہلاتے تھے۔ پس جب اس قدر عظیم الشان ہستیوں پر ان کے مرید کہلانے والوں نے الزام لگائے تو میری یا اور کسی کی کیا ہستی ہے کہ ہم ایسے الزاموں سے بچ جائیں۔ خود مولوی محمد علی صاحب اور ان کے خاندان کے متعلق بھی ایسی کئی باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میرے پاس جب وہ باتیں پہنچتی ہیں تو میں انہیں دبا دیتا ہوں۔ مگر مولوی صاحب کے پاس جب ہمارے متعلق کوئی اس قسم کی بات پہنچتی ہے تو وہ خوشی سے اچھل پڑتے ہیں اور اس کی اشاعت اور ترویج میں حصہ لینے لگ جاتے ہیں لیکن ان کا یہ سلسلہ مخالفت کا اور خواہ مخواہ اپنے آپ کو ایسے مقام پر کھڑا کرنا جہاں کھڑے ہونے کا شریعت انہیں حق نہیں دیتی لمبا ہوتا چلا جاتا ہے اور میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر ان کا یہ سلسلہ لمبا چلتا چلا گیا اور ہماری جماعت کے آدمیوں نے بھی ان باتوں کو دہرانا شروع کر دیا جو ان کی جماعت کے ہی بعض افراد جن کی پوزیشن مصری صاحب سے ملتی ہے ان کے متعلق کہتے ہیں توپھر انہیں ہم پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ میں جانتا ہوں کہ اگر ہماری طرف سے اس قسم کے جواب دیئے گئے تو تھوڑے ہی دنوں میں ان کی جماعت چیخ پڑے گی۔ یہ محض میری شرافت ہے کہ بیس سال سے جو باتیں میں ان کے متعلق، ان کے خاندان کے متعلق اور ان کی جماعت کے متعلق سنتا چلا آ رہا ہوں انہیں میں نے کبھی ظاہر نہیں کیا۔ کیونکہ میں کہتا ہوں کہ جس بات کو میں اپنے متعلق ناجائز سمجھتا ہوں میرا کوئی حق نہیں کہ میں اسے دوسروں کے متعلق جائز قرار دوں۔ یہی اسلام نے ہمیں سبق سکھایا ہے اور اس سبق کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے ہمیں تعلیم دی ہے۔ پس میں ایسی باتوں کو نہ اپنے متعلق جائز سمجھتا ہوں اور نہ ان کے متعلق جائز سمجھتا ہوں مگر چونکہ وہ متواتر اس قسم کے حملے ہم پر کرتے چلے آئے ہیں اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس لئے میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ خود شیشے کے محل میں بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں شیش محل میں بیٹھ کر دوسرے پر پتھر مارنا کوئی عقلمندی نہیں ہوتی کیونکہ اگر دوسرے نے بھی پتھر مارنے شروع کر دیئے تو اس کا شیش محل چکنا چُور ہو جائے گا۔ پس اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کسی مخالف یا مرید کہلانے والے یا ہم عقیدہ کا کوئی اعتراض بیان کرنا جائز ہوتا ہے اور لوگوں کو اس بات کا حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اسے درست سمجھتے ہوئے پھیلائیں اور یہ کہنا شروع کر دیں کہ تمام جماعت بگڑ گئی ہے اب نیکی اور تقویٰ کا تو نام ونشان تک نہیں رہا تو پھر مہربانی کر کے وہ چیخیں نہیں اگر ان کے متعلق ایسی ہی باتیں ہماری طرف سے شائع کر دی جائیں۔
باقی رہا ان کا یہ کہنا کہ مرید ایسی باتیں کہتے ہیں سو مولوی صاحب نے اس امر کے بیان کرنے میں بھی دیانت سے کام نہیں لیا کیونکہ مولوی صاحب کو معلوم ہے کہ مصری صاحب خلافت کے اس رنگ میں منکر ہیں جس رنگ میں ہم قائل ہیں اور جب انہیں ہم سے اختلاف مذہبی پیدا ہوچکا ہے تو ان کی ظاہری بیعت جو ارتداد سے پہلے تھی بیعت نہیں کہلا سکتی۔
باقی رہا کام تو ان کے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر ان کا ایک مبلغ ہندوستان سے باہر کام کر رہا ہے تو ہمارے تیس چالیس مبلغ کام کر رہے ہیں۔ رہا قرآن مجید کا ترجمہ تو اس کے متعلق میں اُن سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ترجمہ کی تاریخ کو دنیا کے سامنے لانے سے نہیں شرماتے تو ہم اس سوال کو بھی دینا کے سامنے لانے کے لئے تیار ہیں۔ ہمارے ترجمہ میں بے شک دیر ہوگئی ہے مگر اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مولوی شیر علی صاحب کی صحت ایسی نہ تھی کہ وہ اس کام کو جلد کر سکتے اور ترجمہ کا شائع کرنا ہی اصل کام نہیں ترجمہ تو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی شائع نہیں کیا۔ ہاں علم قرآن کے بارے میں مولوی صاحب کو باربار مقابلہ کا چیلنج دے چکا ہوں اور اب پھر کہتا ہوں کہ اگر انہیں علم قرآن کا دعویٰ ہے تو وہ میرے سامنے بیٹھ جائیں اور تفسیر نویسی میں مجھ سے مقابلہ کر لیں لیکن وہ کبھی بھی اس طرف نہیں آتے اور مجھے یقین ہے کہ اب بھی نہ آئیں گے وہ ہمیشہ ہی اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ بالکل سیدھی سادی بات ہے ایک رکوع یا ایک سورۃ قرعہ کے ذریعہ نکال لی جائے۔ پھر اس کی تفسیر وہ بھی لکھیں اور میں بھی لکھتا ہوں۔ اس تفسیر کو شائع کر دیا جائے پھر دنیا کو خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ علم کے دروازے کس پر کھولے گئے ہیں اس میں زیادہ شرائط کی بھی ضرورت نہیں۔ امن کے قیام کی ایک شرط رکھ لی جائے اور بالمقابل بیٹھ کر کسی رکوع یا کسی سورۃ کی تفسیر لکھنی شروع کر دی جائے۔ بعد میں وہ دونوں شائع کر دی جائیں لوگ خود بخود فیصلہ کر لیں گے کہ معارفِ قرآن کس پر کھولے گئے ہیں۔ مگر سابقہ تجربہ بتاتا ہے کہ جب بھی تفسیر نویسی میں مقابلہ کا ذکر شروع ہو وہ ایسی شرائط پیش کرنے لگتے ہیں جن کا تفسیر نویسی سے کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا بلکہ محض ایک اکھاڑہ جمانا مقصود ہوتا ہے حالانکہ تفسیر نویسی کے کام میں زیادہ تر آسانی انہیں حاصل ہے کیونکہ وہ قرآن کریم کی ایک تفسیر پہلے سے لکھ چکے ہیں مگر میں نے کوئی تفسیر نہیں لکھی۔ پس وہ ظاہری حالات کے مطابق تفسیر کے لکھنے پر زیادہ قادر ہیں۔ ایسی تفسیر دنیا میں جب شائع ہو جائے گی لوگ خود بخود فیصلہ کر لیں گے کہ زیادہ معارف کس نے بیان کئے ہیں اور دنیا کا فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہوتا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ انبیاء بھی بوجہ مبلغ سماوی ہونے کے دنیا ہی کو مخاطب کرتے چلے آئے ہیں خلفاء بھی اسی کی اصلاح کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ علماء بھی دنیا کو اپنا ہم خیال بنانے میں کوشاں رہتے ہیں۔ میرا کام بھی یہی ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس صداقت کا قائل کروں جس کو میں صداقت سمجھتا ہوں اور مولوی صاحب کا بھی یہی کام ہے۔ پس بہترین فیصلہ کرنے والے وہی لوگ ہیں۔ ہماری تفسیریں شائع ہو کر لوگوں میں پھیل جائیں گی لوگ خود فیصلہ کر لیں گے اگر ان کی تفسیر بہتر ہوئی توخود بخود لوگوں کی رغبت ان کی طرف ہو جائے گی اور اگر میری تفسیر اعلیٰ ہوئی تو لوگوں کی رغبت میری طرف بڑھ جائے گی۔ اس کام کے لئے صرف اس قدر کافی ہے کہ دونوں تفسیریں ایک جِلد میں چھپ جائیں ۔اس کے لئے ہمارے اکٹھا بیٹھنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ دونوں طرف کے نمائندے اکٹھے ہو کر قرعہ ڈال لیں اور ایک وقت مقرر ہو جائے کہ فلاں ٹکڑہ کی اتنے دنوں کے اندر تفسیر لکھی جائے پھر وقت مقررہ پر دونوں طرف کے نمائندے تفاسیر پیش کر دیں اور ہر فریق دوسرے کو کاپی دے دے جو بعد ازاں اکٹھی چھپ جائیں اور دونوں فریق اس کا خرچ برداشت کریں اور چھپنے پر برابر برابر کاپیاں لے لیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ’’اعجاز المسیح‘‘ کے وقت اسی رنگ میں تفسیر لکھی ہے۔ اس مقابلہ میں یہ تو سوال ہی نہیں کہ الگ تفسیر لکھی گئی تو دوسرے لوگ مدد دے دیں گے کیونکہ اوّل تو یہ سہولت مولوی صاحب کو بھی حاصل ہوگی۔ دوسرے اس قسم کی تفسیر کی خوبی تو نئے معارف سے ظاہر ہوگی اور یہ معارف تو بہرحال عارف ہی بیان کر سکتا ہے۔ ورنہ ظاہری علم تو یقینا مولوی صاحب کا مجھ سے زیادہ ہے اس کا تو انکار میں نے کبھی کیا ہی نہیں وہ ایم۔ اے ہیں اور میں پرائمری پاس بھی نہیں ہوں۔ میں ان کی اس فوقیت کا مقر ہوں مجھے تو جس امر میں اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ میں کہتا ہوں خدا تعالیٰ میری مدد کرتا ہے اور وہ کہتے ہیں خدا تعالیٰ میری مدد کرتا ہے گویا الٰہی مدد اور نصرت کا سوال ہے کسی ذاتی علم کا سوال نہیں۔
پس وہ اس طریق کو اختیار کر کے دیکھ لیں جو میں نے تجویز کیا ہے۔ پھر خود بخود ان پر واضح ہو جائے گا کہ اس میں مجھے ان پر فوقیت حاصل ہے لیکن اگر باوجود میرے اس طریق کو پیش کر دینے کے مولوی صاحب نے اپنے طریق کو نہ بدلا تو میں انہیں کہہ دینا چاہتا ہوںکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کرنے کے سامان پیدا کر رہے ہیں۔ لوگ خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی تدابیر اختیار کرتے ہیں اور وہ اس کو ناراض کرنے کے حیلے ڈھونڈ رہے ہیں اگر وہ اس طریق سے باز نہیں آئیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی ذلت کے سامان کرے گا۔ وہ ہمارے متعلق بے شک جو چاہیں کہیں ہم جانتے ہیں کہ وہ گو اقلیت میں ہیں مگر انہوں نے ایک بڑی اکثریت سے جو ہماری مخالف ہے صلح کی ہوئی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے ایک بڑی اکثریت کو اُن سے ہمدردی ہے اور وہ انہیں مسلمان کہہ کہہ کر خوش کرتے رہتے ہیں۔ پس دُنیوی طاقت کے لحاظ سے بے شک وہ ہم سے بڑھے ہوئے ہیں مگر ہمارا اور ان کا مقابلہ دُنیوی طاقت سے نہیں یہ کوئی جسمانی لڑائی بھڑائی نہیں جس میں عدد اور شمار کا سوال زیادہ اہمیت رکھ سکتا ہو۔ یہ الٰہی مدد اور الٰہی گرفت کا سوال ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جو باتیں آج مصری صاحب میرے متعلق کہہ رہے ہیں ایسی ہی باتیں اُن کی پارٹی کے بعض آدمی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہا کرتے تھے۔ پس اگر ایسی باتیں کہنا کوئی ثبوت ہوتا ہے تو پھر انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی چھوڑ دینا چاہیے اور ان کو معلوم ہے کہ ایسی ہی باتیں پہلے انبیاء و خلفاء اور خدا تعالیٰ کے مقدس اور پاک لوگوں کے متعلق ان کے دشمن کہتے چلے آئے ہیں۔ وہ مبالغہ سے بھی کام لیتے رہے ہیں، وہ جھوٹ سے بھی کام لیتے رہے ہیں، وہ دھوکا اور فریب بھی استعمال کرتے رہے ہیں اور ہزاروں ترکیبیں اپنی فتح کی ایجاد کرتے رہے ہیں مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ اسی طرح اب انشاء اللہ دنیا دیکھ لے گی کہ میرے مخالف کامیاب نہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ باوجود ان باتوں کے انہیں میری طرف کھینچ کھینچ کر لاتا جائے گا اور میرے ذریعہ سے انشاء اللہ احمدیت اور اسلام کی ترقی دنیا کے چاروں گوشوں میں ہوتی جائے گی اور دشمن حسد کی آگ میں جلتا چلا جائے گا۔
مجھے افسوس ہے کہ پہلے لوگوں کے حالات مولوی صاحب کے سامنے ہیں مگر باوجود اس کے وہ گند میں پتھر مارنے سے باز نہیں آتے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہے جاتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے یہ باتیں مشہور نہ ہو جائیں۔ حالانکہ ان کیچڑ اُچھالنے والوں کو چندہ دینے والے بِالعموم پیغامی ہی ہوتے ہیں۔ چند سال پہلے جب مستریوں کی طرف سے شورش اُٹھی تھی تو اس وقت بھی ان لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ ہم نے ان کے لٹریچر کی اشاعت میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ مگر بغداد سے بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ یہ غلط ہے۔ خود احمدیہ بلڈنگز سے ایک غیر مبائع کو ایسا لٹریچر آتا رہا ہے اور جہاں تک مجھے یاد ہے اس غیر مبائع نے اس کی تصدیق بھی کر دی تھی۔ میراخیال ہے کہ یہ شہادت اُنہی دنوں ’’الفضل‘‘ میں بھی شائع کرا دی گئی تھی۔ اسی طرح ہمارے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ ان کی انجمن کے بعض افسروں نے اپنے کلرکوں کو رُقعے لکھے ہیں کہ فلاں شخص مثلاً مستری عبدالکریم کو اتنے روپے دے دو۔ ایک شخص ان لوگوں میں سے باغی ہو کر الگ ہو گیا تھا۔ اس نے ان کی انجمن کے تمام ریزولیوشنوں کی نقل اور اُن چِٹھیوں کی کاپیاں تک مجھے بھجوا دیں وہ غالباً محاسب کے عہدہ پر کام کر چکا تھا۔ تو یہ درست نہیں کہ یہ لوگ ہمارے مخالفوں کی مدد نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خود انہیں اُکستاتے ہیں۔ خود ان کی مدد کرتے ہیں خود ان کی باتوں کو پھیلاتے ہیں اور روپے والے ان کی روپوں سے مدد کرتے ہیں۔ چنانچہ پچھلے جلسہ سالانہ کے موقع پر ہی لائل پور کا ایک پیغامی یہاں آیا اور اس نے ایک معقول رقم انہیں مدد کے طور پر دی اور وعدہ کیا کہ اگر ان کا کوئی آدمی لائل پور آئے تو وہ اور بھی مدد کر دیں گے۔ اسی طرح اور لوگ بھی ان کی مدد کرتے رہتے ہیں اور جب یہ معترض وہاں جاتے ہیں تو وہ ان کی کافی مدد کرتے رہتے ہیں۔
پس یہ غلط ہے کہ ان باتوں کے پھیلنے سے ان کو رنج ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ ان باتوں کے پھیلانے میں ان کا حصہ ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں ان باتوں پر کوئی غصہ نہیں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں اس قسم کی باتیں کرنے والا زیادہ دیر تک لوگوں میں اپنی حیثیت قائم نہیں رکھ سکتا۔ آخر کب تک یہ حقیقت لوگوں کی نظر سے مخفی رہ سکتی ہے کہ ایک طرف تو یہ خود فتنہ کھڑا کریں۔ خود اس فتنہ کی آگ کو ہوا دیں خود فتنہ پردازوں کی مدد کریں، خود ان کی باتوں کو لوگوں میں پھیلائیں اور پھر بڑے ناصح اور مشفق بن کر کہنے لگ جائیں کہ ہمیں ان باتوں کا سخت صدمہ ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ یہ باتیں کہیں پھیل نہ جائیں تو یہ بات دنیا کے علم سے زیادہ دیر باہر نہیں رہ سکتی لیکن میں سمجھتا ہوں کوئی وقت ایسا بھی آ جایا کرتا ہے جب کہ عفو کرنا جائز نہیں ہوتا۔
پس ممکن ہے ہم پر بھی کبھی وہ وقت آ جائے جب کہ ہمارے لئے عفو اور خاموشی ناجائز ہو جائے اور ہم کو بھی اُن کے مقابلہ میں ان کی باتوں کی تشہیر کرنی پڑے اور اگر ایسا موقع پیش آیا تو یقینا اس کی ذمہ داری پیغامیوں کی جماعت پر ہی ہوگی اور پھر کوئی پیغامی ہم پر ناراض نہ ہو بلکہ اپنے امیر پر ناراض ہو کیونکہ وہ متواتر اس طریق کو اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں جو شرافت اور تہذیب کے بالکل خلاف ہے۔
لاہور کے ایک ہندو جو ہندوؤں کے مشہور لیڈر ہیں ان کی لڑکی کے متعلق کئی سال ہوئے اخبارات میں بڑا شور اُٹھا کہ اس کی خط و کتابت کسی شخص سے پکڑی گئی ہے۔ الفضل کا ایڈیٹر میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ فلاں ہندو کی لڑکی کے خطوط پکڑے گئے ہیں۔ یہ واقعہ ایسا مشہور ہے کہ باوجود اس کے کہ کئی سال کا عرصہ گزر چکا ہے اب تک بھی کبھی کبھی اخبارات میں اس کی طرف اشارہ کر دیا جاتا ہے چنانچہ آٹھ دس دن ہوئے ایک ہندو اخبار مَیں نے کھولا تو اس میں ایک مقام پر اس لڑکی کا ذکر تھا اور لکھا تھا کہ اس کے فلاں سے تعلقات تھے اور گو اس نے نام بھی لکھ دیئے اور بیسیوں اخبارات میں بھی یہ بات آ چکی ہے مگر میں اب بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ ان کے نام لوں، تو الفضل کا ایڈیٹر میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ یہ شخص سلسلہ کا سخت مخالف ہے۔ اب خدا نے ہمیں ایک موقع عطا کیا ہے اس کی لڑکی کے خطوط پکڑے گئے ہیں بہتر ہے کہ ہم بھی اس واقعہ کا اپنے اخبار میں ذکر کر دیں۔ میں نے اسے کہا بیشک خداتعالیٰ نے تمہیں یہ موقع دیا ہے مگر یہ موقع خداتعالیٰ نے تمہیں اپنی شرافت کے اظہار کا دیا ہے تمہیں چاہئے کہ تم اس کے خلاف پروٹسٹ کرو کہ ایک مسکین اور بے کس لڑکی کے خلاف اخبارات میں جو پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے یہ نہایت ہی کمینہ پن اور اخلاق سے گرا ہوا فعل ہے۔ چنانچہ ہمارے اخبار میں عام اخبارات کے رویہ کے خلاف پروٹسٹ کیا گیا مگر اس ہندو لیڈر نے ہمیں اس کا یہ بدلہ دیا کہ جب مستریوں کا فتنہ اُٹھا تو اس نے ہمارے خلاف خوب لکھا۔ مجھے جب اس کا علم ہؤا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی اور میں نے سمجھا اب کسی شریف آدمی کے سامنے بھی یہ دونوں باتیں رکھ دی جائیں کہ ہم نے اس سے کیا سلوک کیا اور اس نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا تو یقینا ہماری ہی فتح ہوگی اور ہر شریف انسان کے دل میں ہماری عزت اور عظمت بیٹھ جائے گی۔ آجکل بھی اس کے بیٹے کے متعلق اخبارات میں بعض حملے ہوئے تو ہمارے اخبار نے میرے اسی حکم کے مطابق جو میں نے اس وقت دیا تھا اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا حالانکہ جس طرح وہ ہمارے خلاف ہمیشہ لکھتا رہتا ہے، اس کے لحاظ سے اگر وہ چاہتے تو وہ خود بھی اس واقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کے خلاف لکھ سکتے تھے مگر انہیں چونکہ میری پالیسی کا علم تھا اس لئے انہوں نے اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا اور میں سمجھتا ہوں اگر پھر بھی کبھی اس پر یا اس کے خاندان کے کسی فرد پر کوئی غیرشریفانہ حملے ہوئے تو ہم کبھی حملہ کرنے والوں کی حمایت نہیں کریں گے اور کبھی وہ طریق اختیار نہیں کریں گے جو وہ ہمارے متعلق اختیار کرتا رہا ہے کیونکہ شریف شرافت سے بدلہ لیا کرتا ہے۔ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ ایک افسر تھا جسے اپنے ماتحت سے ضد تھی اور وہ کبھی کبھی اس پر سختی کر لیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے اسے گالی دے دی وہ ماتحت بہت باغیرت نوجوان تھا اسے یہ بات بہت بُری معلوم ہوئی مگر چونکہ وہ افسر کے مقابلہ میں کچھ کر نہیں سکتا تھا اس لئے خاموش ہو رہا۔ کچھ عرصہ کے بعد جنگ چھڑ گئی اور اسی افسر کو ایک بالاافسر کی طرف سے ایک پہاڑی فتح کرنے کا حکم دیا گیا اور اسے تاکید کی گئی کہ جس طرح بھی ہو یہ پہاڑی ضرور فتح کی جائے اس نے بہت زور لگایا مگر وہ اس پہاڑی کو فتح نہ کر سکا۔ جب وہ عاجز آ گیا تو اس نے تمام سپاہیوں کو اکٹھا کیا اور کہا آج میری اور تمہاری عزت کا سوال ہے اور مجھے ایسے نوجوان درکار ہیں جو اپنی جان قربان کرنے اور موت کو قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔ چونکہ اس پہاڑی کو فتح کرنا یقینی موت تھا اس لئے اس نے جبری حکم نہ دیا بلکہ کہا کہ جو شخص خوشی سے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہے وہ آگے آئے یہ سن کر وہی نوجوان جسے اس نے گالی دی تھی آگے بڑھا اور اس نے اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کر دیا۔ اسے دیکھ کر اور نوجوان بھی آگے بڑھے اور انہوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ چنانچہ ان سب نے پہاڑی پر دھاوا بول دیا اور اس نوجوان نے تو ایسی بے جگری سے حملہ کیا کہ اپنی طرف سے موت قبول کرنے میں اس نے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ جہاں گھمسان کی لڑائی ہوتی وہاں وہ پہنچ جاتا اور جہاں زیادہ خطرہ ہوتا اس میں بے دھڑک کُود جاتا۔ آخر یہ جدوجہد نتیجہ خیز ہوئی اور وہ پہاڑی فتح ہو گئی۔ فتح کے بعد نام چونکہ افسر کا ہی ہونا تھا اور اعزاز افسر کو ہی ملنا تھا اس لئے وہ بڑی خوشی کے ساتھ نیچے کھڑے ہو کر یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔ جب فتح کے بعد وہ نوجوان واپس آیا تو افسر نے آگے بڑھ کر اس کی طرف اپنے ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا میں تم کو مبارک باد دیتا ہوں مگر جب اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو نوجوان نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور کہا۔ آپ کو یاد ہے آپ نے فلاں وقت مجھے گالی دی تھی۔ میرے دل میں اس گالی کا احساس تھا اور میں نے آج اس گالی کا آپ سے اسی طرح بدلہ لے لیا ہے جس طرح ایک شریف بدلہ لیا کرتا ہے۔کیونکہ میری اس قربانی کی وجہ سے آپ کا نام مشہور ہوگا۔ آپ کو رتبہ میں ترقی ملے گی اور آپ کو اعزازی خطاب مل جائیں گے۔ شریف اسی رنگ میں بدلے لیا کرتے ہیں مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے بعض دفعہ جب بات حدسے بڑھ جاتی ہے تو پھر کسی حد تک ان باتوں کا جواب بھی دینا پڑتا ہے۔ عیسائی ہمیشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کیا کرتے تھے اور مسلمان چونکہ ان کے حملوں کا جواب نہیں دیا کرتے تھے۔ اس لئے وہ یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے بانی میں عیب ہی عیب ہیں اگر کسی میں عیب نہیں تو وہ یسوع کی ذات ہے وہ مسلمانوں کی شرافت کے غلط معنی لیتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے چونکہ ہم گنداُچھالتے ہیں اور یہ نہیں اُچھالتے اس لئے معلوم ہوا کہ واقع میں ان کے سردار میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں۔ دنوں کے بعد دن گزرے، ہفتوں کے بعد ہفتے، سالوں کے بعد سال اور صدیوں کے بعد صدیاں سات آٹھ سَو سال تک عیسائی متواتر گند اچھالتے رہے اور مسلمان انہیں معاف کرتے رہے۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ اب ذرا تم بھی ہاتھ دکھاؤ اور انہیں بتاؤ کہ ہمیں تم میں کوئی عیب نظر آتا ہے یا نہیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یسوع کو مخاطب کرتے ہوئے وہ باتیں لکھنی شروع کیں جو یہودی آپ کے متعلق کہا کرتے تھے یا خود مسیحیوں کی کتابوں میں لکھی تھیں۔ ابھی اس قسم کی دو چار کتابیں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھی تھیں کہ ساری عیسائی دنیا میں شورمچ گیا کہ یہ طریق اچھا نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہی ہم نے تم کو کہا تھا کہ تمہارا طریق اچھا نہیں مگر تم نے ہمای بات کو نہ سمجھا۔ آخر جب خود تم پر زد پڑنے لگی تو تمہیں ہوش آ گیا اور تم کہنے لگ گئے کہ یہ طریق درست نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعض دفعہ اس کے متعلق ایک لطیفہ بھی بیان فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بعض دفعہ حقیقت معلوم کرنے اور دوسرے کا جائزہ لینے کے لئے انسان کو ایسا طریق بھی اختیار کرنا پڑتا ہے جو عام طریق کے مخالف ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے کہ کوئی سکھ صاحب تھے ان کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں، داڑھی بھی ان کی بڑی لمبی تھی اور چہرے پر قدرتی طور پر بال بھی بہت زیادہ تھے۔ سکھوں میں چونکہ مذہباً بال کٹوانے منع ہیں اس لئے ان کے بال بے تحاشا بڑھے ہوئے تھے وہ ایک دن اپنے چبوترہ پر بیٹھے تھے اور بالوں کی کثرت کی وجہ سے حال یہ تھا کہ ان کے ہونٹ بالکل چھپے ہوئے تھے مسلمان چونکہ مونچھیں کترواتے رہتے ہیں اس لئے ان کے ہونٹ صاف طور پر دکھائی دیتے ہیں مگر ان سکھ صاحب کے بال چونکہ قدرتاً بہت بڑے بڑے تھے اورپھر انہوں نے مذہبی لحاظ سے ان بالوں کو کبھی ترشوایا بھی نہیں تھا اس لئے مونچھوں اور چہرے اور داڑھی کے بالوں سے ان کے ہونٹ بالکل چھپ گئے تھے اتفاقاً ان کے پاس سے کوئی مسلمان گزرا اور وہ کھڑا ہو کر حیرت سے ان کا منہ دیکھنے لگ گیا۔ مزید اتفاق یہ ہؤا کہ اس وقت وہ سکھ صاحب کسی فکر میں خاموش بیٹھے تھے، اب یہ دیکھ دیکھ کر حیران تھا کہ یہ کیا تماشہ بنا ہؤا ہے مگر اسے کچھ سمجھ نہ آئی۔ آخر قریب آ کر اس نے ان سکھ صاحب کے ہونٹوں کے قریب ہاتھ مارا یہ دیکھنے کے لئے کہ ان کے ہونٹ بھی ہیں یا نہیں۔ اب ایک بھلا مانس بیٹھا ہؤا ہو اور کوئی گزرنے والا اس کے منہ پر ہاتھ مارنا شروع کر دے تو اسے لازماً غصہ آئے گا۔ سردار صاحب نے بھی آنکھیں کھول کر اسے سخت سست کہنا شروع کر دیا اور کہا نامعقول یہ کیا حرکت کرتا ہے وہ کہنے لگا سردار جی معاف کرو اتنا ہی دیکھنا تھا کہ آپ بولتے کس طرح ہیں۔ تو بعض دفعہ کسی دوسرے پر اس کی حقیقت واضح کرنی پڑتی ہے اور بعض دفعہ خود کوئی مخفی حقیقت معلوم کرنے کی تڑپ ہوتی ہے اور ان دونوں صورتوں میں بعض دفعہ ایسے امور بھی زیر بحث لانے پڑتے ہیں جن کو عام حالات میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ میرا طریق یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس سے بچا جائے لیکن اگر کوئی شخص ہمیں اس پر مجبور کر دے یا ضرورت ہمیں یہ طریق اختیار کرنے پر مجبور کر دے تو پھر اس کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہو سکتی۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عیسائیوں نے اس امر پر مجبور کر دیا تھا کہ آپ یسوع کے حالات بے نقاب کریں۔ مگر جب آپ نے انہی کی کتابوں میں سے حالات بیان کرنے شروع کر دیئے تو عیسائی گھبرائے اور انہوں نے رفتہ رفتہ اس طریق کو ترک کر دیا جس طریق کو وہ پہلے بڑی شدّومد کے ساتھ استعمال کیا کرتے تھے۔ چنانچہ پہلے تو ان کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پے در پے ایسے رسائل نکلتے تھے جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوتی تھی مگر اب ہندوستان میں عام طو پر عیسائی ایسا نہیں کرتے یورپ میں ابھی ویلز اور فشر جیسے عیسائی مصنفین رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق بعض اس قسم کے توہین آمیز کلمات لکھ دیتے ہیں لیکن اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ابھی ان کو اس رنگ میں جواب نہیں دیا گیا جس رنگ میں جواب دینا ایسے عیسائیوں کو ساکت کر سکتا ہے لیکن اگر ہم نے یورپ میں اس قسم کے جوابات شائع کرنے شروع کر دیئے تو پھر عیسائی ہماری منتیں کرنے لگ جائیں گے کہ ایسا نہیں چاہیے اور میرا ارادہ ہے کہ اگر یورپ کے عیسائی اس طریق سے باز نہ آئے تو انگلستان میں بھی اپنے مبلّغین کو اسی قسم کا جواب دینے کی ہدایت کر دوں پھر انہیں خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ یہ طریق کہاں تک پُرامن ہے۔ اب تو وہاں کی گورنمنٹ یہ کہہ دیا کرتی ہے کہ ہمارے ہاں اس قسم کے مصنفین کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے کوئی قانون نہیں لیکن جب ہم بھی ایسی باتوں کو شائع کریں گے تو اس وقت دیکھیں گے کہ وہاں کوئی قانون بنتا ہے یا نہیں۔تو اس قسم کی مجبوریاں بعض دفعہ انسان کو اپنا طریق بدلنے پر مجبور کر دیا کرتی ہیں لیکن جب تک مجبوریاں نہ ہوں ہم اپنا پہلا طریق عمل ہی جاری رکھیں گے اور کہیں گے کہ ان باتوں کا خداخود فیصلہ کرے گا ہمیں جواب دینے کی کیا ضرورت ہے ہاں جب الٰہی قانون ہمیں اس بات کی ہدایت کرے کہ تم جواب دو تو پھر ہم جواب دینے پر مجبور ہونگے اور میں جانتا ہوں کہ پھر یہی لوگ ہمارے آگے ہاتھ جوڑیں گے اور کہیں گے یوں نہیں کرنا چاہیے۔
مجھے مجبوراً آج ان امور کے متعلق کچھ کہنا پڑا ورنہ ان دنوں مَیں تحریک جدید کے متعلق خطبوں میں مشغول ہوں اور آج بھی کچھ نہ کچھ اس موضوع کے متعلق کہنا چاہتا ہوں گو اب تین بجنے والے ہیں اور وقت بہت ہی کم رہ گیا ہے مگر پھر بھی میں دو چار منٹ میںایک اہم امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلا دیتا ہوں۔ میں بتا چکا ہوں کہ بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے اور اس ملک میں بھی اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرنے اور سلسلہ کے کاموں کو مضبوطی سے چلانے کے لئے مجھے ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں۔ میں شروع سے بتاتا چلا آ رہا ہوں کہ تحریک جدید کا کام وسیع کرنے کے لئے ہماے پاس روپیہ نہیں۔ اگر ساری جماعت اپنی ساری دولت بھی دے دے تب بھی اتنا روپیہ ہمارے ہاتھ میں نہیں آ سکتا جس کے ذریعہ سے ہم اس کام کو سرانجام دے سکیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ اگر ہم کام کر سکتے ہیں تو اسی طرح کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں اور وہ قلیل گزاروں پر جو ان کی حیثیت کے لحاظ سے قلیل ہوں کام کریں۔ چونکہ حقیقت بھی یہی ہے اور تجربہ سے بھی یہی ثابت ہؤا ہے کہ جب تک مبلغ اعلیٰ پایہ کی علمی قابلیت نہ رکھتے ہوں، اس وقت تک تبلیغ سے چنداں فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لئے ہمارے لئے ضروری ہوگا کہ ہم ان نوجوانوں کو تعلیم دلائیں۔ نہ صرف دینی بلکہ دنیوی بھی تا کہ بیرونی ممالک میں جب وہ کام کرنے کے لئے نکلیں تو ان کی راہ میں کوئی روک واقع نہ ہو۔ پس ہر نوجوان کو دو تین سال تک تعلیم دینے کے بعد پھر کام پر لگایا جائے گا بلکہ ڈیڑھ دو سال تو قادیان کی تعلیم پر ہی جو مذہبی اور دینی تعلیم ہے خرچ ہو جائیں گے اور ڈیڑھ دو سال انہیں بیرونی ممالک میں سے کسی ملک میں انگریزی یا عربی کی تعلیم دلانی پڑے گی تب کہیں جا کر وہ کام کے قابل بن سکیں گے۔ پس اس کے لئے آج ہی تیاری کی ضرورت ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ اس وقت ہمارے پاس ۱۲ نوجوان ہیں جو یا تو انگریزی کے گریجوایٹ ہیں یا عربی کے گریجوایٹ ہیں لیکن ابھی اور بہت سے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ پہلے کام کو شروع کرنے کے لئے بھی اور آئندہ کام کو وسیع کرنے کے لئے بھی۔ پس میں آج پھر اپنی جماعت کے نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ہمت کر کے آگے آئیں اور اس جوش کا ثبوت دیں جس کا اظہار وہ اس طرح کیا کرتے ہیں کہ ہم اپنی جانیں احمدیت کی عزت کی حفاظت کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ آجکل اسلام کو اس کی ضرورت نہیں کہ تلوار اور بندوق سے جنگ کر کے جان قربان کی جائے بلکہ آجکل اپنی جان قربان کرنے کا صرف یہی ذریعہ ہے کہ نوجوان اپنی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے اِعْلَاء کے لئے صرف کر دیں اگر ہماری جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر دیں تو وہ دشمن کو کہہ سکتے ہیں کہ تم تو کہتے ہو یہ جماعت گندی ہوگئی، اس جماعت میں کوئی قربانی کی روح نہیں رہی، یہ دین سے غافل اور لاپروا ہوچکی ہے پھر اگر یہ جماعت ایسی ہی ہے تو ہم لوگ کہاں سے پیدا ہو گئے جنہوں نے اپنی زندگی کی ہر گھڑی خداتعالیٰ کے دین کے اِعْلَاء کے لئے وقف کر دی ہے۔ یہ بہترین جواب ہوگا جو ہمارے نوجوان اپنے عمل سے دشمنوں کو دے سکتے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقف کی شرائط وہی ہیں جو شائع ہو چکی ہیں بعض لوگ یونہی اپنے نام پیش کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی کچھ مجبوریاں اور کچھ شرطیں بھی لکھ دیتے ہیں۔ یہ بالکل نادرست طریق ہے ہماری طرف سے جس قدر شرائط ہیں وہ چھپی ہوئی موجود ہیں۔ وہ دیکھ لی جائیں اور ان پر غور کرنے کے بعد اگر کوئی شخص تیار ہو تو وہ ہماری طرف آئے۔ یونہی اپنا نام پیش کر دینا اور پھر عذرات بیان کرنے لگ جانا مومنانہ طریق نہیں بلکہ اس طرح اپنے آپ کو پیش کرنا گناہ کا موجب ہے کیونکہ اس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ شخص جھوٹی شہرت چاہتا ہے۔ میں بتا چکا ہوں کہ اب کی دفعہ صرف ایسے ہی لوگ لئے جائیں گے جو یا تو انگریزی کے گریجوایٹ ہوں یا عربی کے۔ اگر کوئی نوجوان اپنی تعلیم کے ایسے حصہ میں ہو جس سے وہ عنقریب فارغ ہونے والا ہو تو وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتا ہے۔ گو فیصلہ اسی وقت ہوگا جب وہ اپنی تعلیم سے فارغ ہو جائے گا مثلاً وہ نوجوان جنہوں نے اب کی دفعہ بی۔ اے کا امتحان دینا ہے یا جو وکالت یا ڈاکٹری کی تیاری کر رہے ہیں وہ اگر چاہیں تو اپنے آپ کو وقف کر سکتے ہیں۔ ان کے بقیہ زمانہ تعلیم میں ہمیں بھی علم ہو جائے گا کہ ہم انہیں لے سکتے ہیں یا نہیں اور انہیں خود بھی علم ہو جائے گا کہ وہ امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ اس زمانہ میں نوکریوں کا ملنا بہت مشکل ہو گیا ہے اور اگر کسی کو نوکری ملتی بھی ہے تو معاوضہ اتنا قلیل ملتا ہے کہ گزارہ ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ پس اگر انسان نے تعلیم سے فارغ ہو کر گھر میں بیٹھ کر ہی روٹی کھانی ہے تو کیوں نہیں وہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیتا اور سمجھ لیتا کہ گھر میں بیکار بیٹھنے سے یہ کروڑ درجے بہتر ہے کہ انسان دین کی خدمت کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خوشنودی حاصل کرے اور آئندہ آنے والی نسلوں کی دعا حاصل کرتا رہے۔ یہ کتنا بڑا اعزاز ہے جو اسے حاصل ہو سکتاہے۔ مگر کئی آدمی گھر میں بیٹھے مکھیاں مارتے رہیں گے اور ہر روز اخبارات دیکھتے رہیں گے کہ کہیں اس میں کوئی ملازمت کا اعلان تو نہیں اور جب انہیں کوئی اعلان نظر آئے گا تو فوراً درخواست بھیج دیں گے۔ چند دن بعد جواب آ جائے گا کہ جگہ پُر ہوگئی ہے یا ہمیں جس لیاقت کا آدمی چاہیے تھا وہ تم میں نہیں۔ یا انٹرویو کے لئے آ جاؤ مگر آنے جانے کا خرچ تمہارا ہوگا۔ یہ پندرہ بیس روپے خرچ کر کے وہاں پہنچیں گے تو معلوم ہوگا کہ وہاں چار پانچ سَو امیدوار ہیں جو ان سے لیاقت میں کہیں بڑھ چڑھ کر ہیں اور یہ ان میں ایسے ہی معلوم ہوتے ہیں جیسے اونٹوں میں بلّی۔ چنانچہ یہ وہاں سے ناکام و نامراد گھر واپس آئیں گے ماں باپ گالیاں دیں گے کہ بے حیا ہمیں تجھ سے امید تھی کہ تُو ہماری مدد کرے گا مگر تو نے اُلٹا ہم پر دس پندرہ روپے کا مزید قرض چڑھا دیا۔ یہ حالات ہیں جو آجکل عام طور پر نوجوانوں کو پیش آتے رہتے ہیں۔ پھر کیوں وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ جب خدا نے ہمیں ایک ایسی جماعت میں پیدا کیا ہے جو دین کی خدمت کے لئے کھڑی ہے تو اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا وہ اعزاز حاصل کیا جائے۔ جس سے بڑا اور کوئی اعزاز نہیں۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم ایسے ہی لوگ لیں گے جو ہمارے معیار پر پورے اُتریں گے اور جن کے متعلق ہمیں یہ یقین ہوگا کہ وہ ہمارے کام کے اہل ہیں۔ بعض ممکن ہے محنتی نہ ہوں بعض ممکن ہے اچھی تقریر نہ کر سکتے ہوں۔ اسی طرح ممکن ہے بعض میں دین کی محبت اور اخلاص کم ہو۔ بعض کے متعلق شبہ ہو کہ وہ سچائی کے معیار پر پورے نہیں اُتریں گے بعض علوم میں ترقی کی قابلیت نہ رکھتے ہوں اور چونکہ اس قسم کے تمام امکانات ہوسکتے ہیں۔ اس لئے جو نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں گے اُن میں سے ہم مناسب حال نوجوانوں کو چنیں گے۔ مگر بہرحال جو اپنے آپ کو پیش کریں گے انہی میں سے ہم چنیں گے جو اپنے آپ کو پیش ہی نہیں کریں گے ان کا انتخاب ہم کس طرح کر سکتے ہیں۔ پس میں آج کے خطبہ کے ذریعہ پھر اعلان کرتا ہوں کہ جو دوست گریجوایٹ ہوں یا مولوی فاضل ہوں یا فنون عالیہ سیکھ رہے ہوں وہ اپنے آپ کو پیش کریں تا ہم انتخاب کر کے اُس تعداد کو پورا کر سکیں جس تعداد کو پورا کرنا اس دوسرے دور میں میرا منشاء ہے۔ اگر ایسے نوجوان ہمیں جلد میسر آ جائیں تو وہ موجودہ نوجوانوں کے ساتھ ہی تعلیم سے فارغ ہو جائیں گے۔ گو ان کی نو ماہ سے پڑھائی شروع ہے مگر نو ماہ کی پڑھائی کی کمی کو پورا کرنا ان کے لئے کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ اگر وہ توجہ اور محنت سے کام کریں گے تو امید ہے کہ یہ کمی بہت جلد پوری کر لیں گے اور اس طرح ہمارے لئے بھی آسانی رہے گی کہ ہمیں دو دفعہ سکول نہیں کھولنا پڑے گا اور نہ دو دفعہ مدرّسوں کو ان کی تعلیم کے لئے مقرر کرنا پڑے گا لیکن اگر جلد یہ تعداد پوری نہ ہوئی تو دو سال ان کی تعلیم اور پیچھے جا پڑے گی۔ اور اس کام میں زیادہ وقفہ پڑ جائے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح پہلے نوجوانوں نے دلیری کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کیا ہؤا ہے اسی طرح اور نوجوان بھی اپنے آپ کو پیش کریں گے۔ میرے پہلے اعلان کے بعد اس وقت تک پانچ سات درخواستیں آ چکی ہیں مگر یہ تعداد کافی نہیں اور انتخاب کے لئے تو اس سے بہت زیادہ تعداد کی ضرورت ہے۔ پس دوست اپنے آپ کو وقف کریں مگر یہ ضروری ہوگا کہ وہ بلاشرط اپنی زندگی وقف کریں۔ جو شخص کسی شرط کے ساتھ اپنے آپ کو وقف کرتا ہے اس کا وقف بالکل فضول ہے۔ یہ ساری عمر کا وقف ہوگا اور ان کا یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ پیچھے ہٹیں۔ ہاں ہمیں یہ اختیار ہر وقت حاصل رہے گا کہ ہم چاہیں تو انہیں شروع میں ہی ردّ کر دیں اور چاہیں تو کام کے دوران میں ان کو فارغ کر دیں۔ ہم ایسے نوجوانوں کو پہلے دین کی تعلیم دلائیں گے اور صحیح اسلامی تمدن انہیں بتائیں گے اس کے بعد انہیں دنیوی تعلیم دلائیں گے اور پھر ہم ان سے یہ امید رکھیں گے کہ وہ اپنی زندگی اسلام اور احمدیت کی اشاعت بنی نوع انسان کی ہمدردی اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے صرف کر دیں ہمیں ایسے نوجوان نہیں چاہئیں جو حکومت کے طالب ہوں بلکہ ہمیں وہ نوجوان چاہئیں جو سچے طور پر غرباء کی خدمت اور اپنے سلسلہ کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ میں ان واقفین کے ذریعہ وہ جماعت تیار نہیں کرنا چاہتا جو افسروںکی جماعت ہو بلکہ وہ جماعت تیار کرنا چاہتا ہوں جس کے ہر فرد کو یہ احساس ہو کہ میں نے جماعت احمدیہ کی خصوصاً اور بنی نوع انسان کی عموماً خدمت کرنی ہے۔ جب تک اس رنگ میں کام کرنے والے ہمیں نہیں ملیں گے اس وقت تک وہ تمدن قائم نہیں ہو سکتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں قائم کیا تھا اور جس کے قائم کرنے کی آپ نے تعلیم دی ہے۔ ہاں یہ یاد رکھو کہ وہ شخص جو خداتعالیٰ کے لئے ذلّت اختیار کرتا ہے وہ بہت زیادہ عزت حاصل کرتا ہے۔ کوئی تم میں سے یہ خیال نہ کرے کہ وہ خداتعالیٰ کے دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کر کے اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کرلے گا۔ ذلیل وہی ہوتا ہے جس کے دل میں دوغلی حکومت ہوتی ہے۔ آدھی خدا کی اور آدھی شیطان کی۔ ایسا شخص کبھی ذلّت بھی دیکھ لیتا ہے مگر وہ جس کے دل پر خالص خدا تعالیٰ کی حکومت ہو وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا کئی ہیں جو کہتے ہیں کہ غرباء کی کوئی قدر نہیں۔ بے شک دنیا میں غرباء کی کوئی قدر نہیں مگر وہ جو خالص خدا تعالیٰ کے لئے غریب ہو اس کی پھر بھی عزت ہوتی ہے مگر وہ جو دوغلی چال چلے وہ اگر کسی وقت عزت پا لیتا ہے تو دوسرے وقت ذلیل بھی ہو جاتا ہے۔ آخر خودہی غور کرو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کون سے امیر تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل کا اتنا سادہ لباس ہوا کرتا تھا کہ اس کی کوئی حد نہیں۔ مگر باوجود اس کے بڑے سے بڑا آدمی آپ کی عزت کرنے پر مجبور ہوتا تھا۔ اسی طرح مجھے دنیوی لحاظ سے کونسی دولت حاصل ہے مگر دنیا میں کون ہے جو مجھے ذلیل سمجھ سکے۔ کسی علم کا ماہر میرے سامنے آ جائے خدا تعالیٰ کے فضل سے اُسے شکست ہی کھانی پڑتی ہے تو عزت کے مختلف موجبات ہوا کرتے ہیں کبھی دولت عزت کا موجب ہوتی ہے اور کبھی علم عزت کا موجب ہوتا ہے اور کبھی عرفان عزت کا موجب ہوتا ہے۔ دولت ہمارے پاس نہیں مگر علم روحانی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پاس بہت ہے۔ اگر ہماے پاس امراء آتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ وہ ہم سے کسی جائیداد کے طالب ہوتے ہیں بلکہ اس لئے کہ روحانی فائدہ حاصل کریں۔ اگر نواب آتے ہیں تو وہ بھی اسی لئے اور یہ خزانہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پاس بہت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عالم ہمارے پاس آئے گا تو اس لئے نہیں کہ ہم اس کا کوئی وظیفہ مقرر کر دیں بلکہ وہ کوئی علمی فائدہ ہم سے اُٹھانا چاہے گا یا اپنے علمی خیالات کے متعلق ہم سے تبادلہ خیالات کرنا چاہے گا اور یہ ذخیرہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت دیا ہؤا ہے اس کے مقابلہ میں ہم کسی کے دروازے پر جاتے ہی نہیں۔ پس اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں کہ وہ کیا سمجھے گا۔ وہ جو جی میں آئے سمجھے مگر جو ہمارے پاس آئے گاوہ وہی چیز لینے آئے گا جو علمی رنگ میں ہمارے پاس ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پاس تھوڑی نہیں بلکہ بہت کافی ہے اسی لئے صوفیاء نے کہا ہے سالکین کو امراء کے دروازوں پر نہیں جانا چاہیے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں بِئْسَ الْفَقِیْرُ عَلٰی بَابِ الْاَمِیْرِ وہ فقیرجو کسی امیر کے دروازے پر جاتا ہے وہ بہت ہی ذلیل ہوتا ہے۔ اسے کس نے کہا تھا کہ وہ اپنا گھر چھوڑے اور دوسرے کے دروازے پر جا کر بھیک مانگے۔ پس اگر یہ دوسرے کے دروازے پر جاتا نہیں اور خود اس کے پاس دولت نہیں تو جو شخص اس کے پاس آئے گا روحانی علم سیکھنے ہی آئے گا اور جب وہ علم سیکھنے کے لئے آئے گا تو لازماً عزت کرنے پر بھی مجبور ہوگا۔
کہتے ہیں ایک فلسفی غالباً دیوجانس اس کا نام تھا۔ سکندر نے اس کی شہرت سنی تو اس نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا چلو دیوجانس کی چل کر زیارت کریں۔ لوگوں نے کہا وہ سخت مزاج آدمی ہے آپ کی کوئی ہتک کر بیٹھے گا آپ اس کے پاس نہ جائیں۔ وہ کہنے لگا کیا حرج ہے۔ ہم نے اس سے اپنی عزت کروانے تھوڑا جانا ہے ہم تو اس سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ سکندر وہاں گیا وہ اپنے مکان کے صحن میں لیٹا ہوا تھا دیوجانس دراصل ان لوگوں میں سے تھا جو دنیا کو بالکل چھوڑ کر الگ ہو جاتے ہیں جیسے سادھو ہوتے ہیں۔ پس وہ بھی ایک سادھو تھا اسلامی صوفیوں کی طرح نہیں تھا۔ سکندر اس کے پاس کھڑا رہا مگر دیوجانس نے اس کی طرف منہ پھیر کر بھی نہ دیکھا۔ تھوڑی دیر کھڑا رہنے کے بعد سکندر اسے کہنے لگا کوئی میرے لائق خدمت۔ دیوجانس اُس وقت دھوپ سینک رہا تھا وہ کہنے لگا میں دھوپ سینک رہا تھا آپ نے آ کر دھوپ روک لی ہے۔ بس آپ کے لئے اتنی خدمت ہی کافی ہے کہ سامنے سے ہٹ جائیے اور مجھے دھوپ سینکنے دیجئے۔ سکندر اس کی اس بات کو سن کر حیران ہو گیا اور خاموشی سے واپس چلا آیا۔ اب دیکھو اس فلسفی نے دنیا سے چونکہ اپنی کوئی غرض نہیں رکھی تھی اس لئے سکندر جیسا بادشاہ بھی اس کے پاس جانے اور اس کی عزت کرنے پر مجبور ہو گیا۔ تو ذلیل وہی ہوتا ہے جس کے دل میں کچھ نہ کچھ دنیا رہ جاتی ہے اور چونکہ اس کے دل میں دنیا کی محبت ہوتی ہے وہ محبت اسے ذلیل کر دیتی ہے۔ اگر یہ دنیا کی محبت اپنے دل سے بالکل نکال دے اور اس کے تن پر کپڑا بھی نہ ہو تو پھر بھی کون ہے جو اسے ذلیل سمجھ سکے۔ پس یہ مت خیال کرو کہ دنیوی دولت کے نہ ہونے کی وجہ سے تم ذلیل ہو جاؤ گے۔ ذلیل وہی ہوتا ہے جو آدھا خدا کا ہوتا ہے اور آدھا شیطان کا اور آدھا تیتر آدھا بٹیر خدا تعالیٰ کو پسند نہیں ہوتا۔ یہ اِدھر خدا تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور اُدھر بندوں کے آگے اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ مجھ پر رحم کرو۔ مگر وہ جو دنیا کی محبت اپنے دل سے بالکل نکال دیتا ہے اور کہتا ہے اگر مجھے بادشاہت ملی تو میں بادشاہت لے لوں گا اور اگر فقیری ملی تو فقیری قبول کر لوں گا۔ اگر تخت ملا تو تخت پر بیٹھ جاؤں گا اور اگر پھانسی کا تختہ ملا تو اس پھانسی کے تختہ پر چڑھ جاؤں گا۔ ایسے شخص کو کوئی نہیں جو ذلیل سمجھ سکے۔ یہ خود کسی کے پاس اپنی کوئی غرض لے کر جائے گا نہیں اور جو اس کے پاس آئے گا وہ اس سے کوئی علمی فائدہ حاصل کرنے کے لئے ہی آئے گا اور اگر یہ سچا مومن ہے تو یہ خزانہ اس کے پاس اس کثرت سے ہوگا کہ باوجود خرچ کرنے کے ختم ہونے میں نہیں آئے گا۔ پس دین کی خدمت اور خداتعالیٰ کی محبت میں ہر قسم کی عزت ہے بشرطیکہ دنیا کا رُعب دل سے مٹ جائے اور خدا تعالیٰ کا رُعب دل پر چھاجائے اور دراصل ایسے شخص کا وقف ہی حقیقی وقف ہے۔
پس میں آج پھر جماعت کے نوجوانوں کے سامنے یہ اعلان کرتا ہوں کہ اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کرو اور اپنے عمل سے دشمن کو یہ جواب دو کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے دین کی خدمت میں تم سے ہزاروں گنے بڑھ کر ہیں۔ اس وقت تک ہی جس قدر نوجوانوں نے ہماری جماعت میں سے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں اگر مولوی محمد علی صاحب جو یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ ان کی جماعت شب و روز تبلیغ اسلام کر رہی ہے ان کا مقابلہ اپنی جماعت کے نوجوانوں سے کریں تو انہیں پتہ لگ جائے کہ کونسی جماعت ہے جو اسلام کی خدمت کر رہی ہے اور کونسی جماعت ہے جس میں خدمت اسلام کی تڑپ ہے۔ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ بتائیں کہ ان کی جماعت کے کتنے گریجوایٹ اور مولوی فاضل ہیں جنہوں نے ان شرطوں پر اپنے آپ کو وقف کیا ہے جن شرائط پر ہماری جماعت کے نوجوانوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہؤا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں بھی ہماری جماعت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن میں کہتا ہوں جتنا کام ہو چکا ہے تم اس سے بھی زیادہ شاندار نمونہ دکھاؤ۔ پس میں پھر جماعت کے نوجوانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی شاندار قربانیوں کے ذریعہ اس امر کو ثابت کر دیں گے کہ ہماری جماعت دین کو دنیا پر مقدم رکھتی ہے اور جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ تقویٰ اس جماعت کے دلوں میں سے نکل گیا۔ تقویٰ کا نمونہ اگر اس وقت روئے زمین پر کوئی جماعت دکھا رہی ہے تو وہ صرف ہماری ہی جماعت ہے وَذَالِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ لَا رَآدََّلِفَضْلِہٖ اِلَّاھُوَ یُعِزُّمَنْ یَّشَائُ وَیُذِلُّ مَنْ یَّشَائُ وَبِیَدِہِ الْخَیْرُ۔‘‘
(الفضل ۸؍ دسمبر ۱۹۳۸ئ)
۱؎ پیغام صلح ۳۰؍نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۸

۴۰
جلسہ سالانہ کے متعلق احباب جماعت کو ضروری ہدایات
(فرمودہ۹؍دسمبر۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’چونکہ میری طبیعت کچھ خراب ہے میں زیادہ بول نہیں سکتا لیکن اس کے ساتھ چونکہ میں جمعہ ہی کی خاطر لاہور سے چل کر یہاں پہنچا ہوںاس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ خود ہی جمعہ پڑھائوں۔
دوستوں کو معلوم ہے کہ جلسہ سالانہ اب قریب آرہا ہے جلسہ سالانہ ہم سے خاص طور پر مالی وجانی قربانیاں چاہتاہے۔جو لوگ جلسہ کے لئے یہاں آتے ہیں ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام کرنا ہوتاہے اور پھر مہمان نوازی اور خدمت کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔میں نے بارہا بیان کیا ہے کہ ہونا یہ چاہئے کہ اگر مقدرت ہو تو جلسہ سالانہ کی مہمان نوازی کا بوجھ صرف قادیان کے لوگ برداشت کریں اور یا پھر زیادہ سے زیادہ ضلع گورداسپور کے لوگ مگر چونکہ ابھی ہماری مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ صرف قادیان کے لوگ ہی یہ بوجھ اٹھا سکیں اس لئے کم سے کم انہیں یہ تو کرنا چاہئے کہ بیرونی جماعتوں کی نسبت زیادہ حصہ لیںتا میزبانی کا جو حق اللہ تعالیٰ نے انہیں بخشا ہے اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے سامنے بعض چھوٹے چھوٹے موانع پیش آکر انہیں قربانی سے روک دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے دین کے سب پہلوئوں پر غور نہیں کیا ہوتا اور موت ان کی آنکھوں کے سامنے نہیں ہوتی۔ چھوٹی چھوٹی روکیں بھی ان کے لئے پہاڑ بن جاتی ہیں حالانکہ ویسے ہی موانع اور ویسی ہی روکیں ان کے ہمسائے کے لئے بھی پیش آئیں مگر اس نے ان کے باوجود قربانیوں میں کوئی کمی نہیں کی ہوتی بلکہ زیادتی کرکے اور ثواب حاصل کیا ہوتا ہے ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے مؤمنوں کو دوسروں پر گواہ بنایا ہے۔۱؎اس کے معنی مَیں تو یہی کیا کرتا ہوںکہ قیامت کے روز لوگ آکر اپنے موانع پیش کریں گے اور کہیں گے ہماری راہ میںیہ مشکلات تھیں اس لئے ہم قربانی نہ کرسکے تب اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو پیش کرے گا اور کہے گا کہ یہ بھی تمہاری ہی طرح کے انسان تھے،ان کو بھی ضرورتیں تھیں،ان کے لئے بھی مشکلات تھیں لیکن ان سب کی موجودگی میں یہ قربانیاں کرتے رہے،تو پھر تمہارے عذر کس طرح قابلِ اعتناء ہوسکتے ہیں۔جب تک انسان کے سامنے نمونہ نہ ہو اس پر حجت نہیں ہوسکتی ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو مسلمانوں کے لئے گواہ بنایاہے اورمسلمانوں کو بحیثیت جماعت دوسری قوموں پر گواہ بنایا ہے۔۲؎ محمدرسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم مسلمانوں کے لئے حجت ہیں تا ان میں سے کمزور اوربزدل جب اپنے عذرات پیش کریں تو اللہ تعالیٰ ان سے کہے کہ دُنیوی سامانوں کے لحاظ سے تم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ کمزور نہ تھے اگر انہوں نے ان بے سامانیوں کے باوجود قربانیاں کیں تو کیا وجہ ہے کہ تم نہ کرسکے اور اسی طرح دوسری قوموں کے عذرات کے جواب میںاللہ تعالیٰ کہے گا کہ مسلمان بھی تمہاری ہی طرح کے انسان تھے، ان کی راہ میںبھی اسی طرح رکاوٹیں اور مشکلات تھیں اور جب ان کے باوجود انہوں نے قربانیاں کیں تو تم کیوں نہ کرسکتے تھے۔ہر جماعت میں کوئی گروہ ایسا ہوتا ہے جو نمونہ ہوتاہے،اور وہ مشکلات، رکاوٹوں اور موانع کے باوجود قربانی کرتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ دوسروں پر بطور شہید کھڑا کرتا ہے کہ یہ بھی تمہارے ہی جیسے انسان ہیںاور جب انہوں نے تکالیف اور اپنی ضرورتوں کے باوجود کوتاہی نہیں کی اور انہی حالات میں آگے بڑھے ہیں توتم کیوں نہیں کرسکتے تھے۔
بازارمیں ایک دکاندار نماز کے وقت اٹھ کر چلا جاتا ہے اور دوسرا نہیں جاتا اور وہیں بیٹھا رہتا ہے اور اگر پوچھا جائے توکہتا ہے کہ دکان اکیلی ہے کس طرح جائوں تو دوسرے کا نمونہ اس کے سامنے پیش کرکے اسے کہا جاسکتا ہے کہ دکان دوسرے کی بھی اکیلی تھی اور جب وہ چلاگیا تو تم یہ عذر کیسے کر سکتے ہو۔یا اگر دوسرادکاندار کہے کہ یہی بِکری کا وقت ہے چھوڑ کر جانا مشکل ہے تو دوسرے کی مثال اس کے سامنے اس پر بطور حجت پیش کی جاسکتی ہے کہ جب بِکری کا وقت ہونے کے باوجود وہ چَلاگیا توتم بھی جاسکتے تھے۔اسی طرح بعض کہہ دیتے ہیں کہ وقت کا پتہ نہیں لگا،اذان سنائی نہیں دی تو اسے کہا جا سکتا ہے کہ دوسرے کے کان بھی ویسے ہی تھے جیسے تمہارے اگر وہ اذان سن سکتا تھا تو یقیناتم بھی سن سکتے تھے۔تو جو عذر بھی انسان کرے اس کے توڑنے والے اس کے ہمسایہ میں ہی مل جاتے ہیں اور یہی قیامت کے روز اس پرگواہ ہوں گے۔ایک شخص کہتا ہے کہ میرے بچے زیادہ تھے اس لئے میں قربانی نہیں کر سکا تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو جو اس سے زیادہ بچوں والا ہے پیش کر کے کہے گا کہ جب اس نے اتنے بچوں کے باوجود قربانی کی تو تم کیوں نہ کر سکے۔ایک شخص کہے گا مالی تنگی بہت تھی اس لئے قربانی نہ کرسکا تو اللہ تعالیٰ دوسرے مالی تنگی والے کو پیش کر دے گا کہ اس کے لئے مالی تنگی تم سے زیادہ تھی پھر کوئی وجہ نہیں کہ جب اس نے قربانی کی تو تم اگرچاہتے تو نہ کر سکتے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان قربانی کرنا چاہے تو مشکلات پر غالب آسکتا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ چندہ کی تحریک کی۔ایک صحابی کے پاس دینے کو کچھ نہ تھا لیکن دل میں شوق تھا کہ حصہ لیں، ایک شخص کے پاس پہنچے اور اس سے کہا کہ مجھ سے سارا دن کام لو اور کم سے کم مزدوری دے دینا۔ چنانچہ دو مٹھی جَو مزدوری مقرر ہوئی آپ نے تمام دن کام کیا اور شام کو جو جَو ملے وہ لا کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ضرورت ہزاروں روپے کی تھی کیونکہ ایک لڑائی کا سامان کیا جا رہا تھا۔مگر انہوں نے لاکر دو مُٹھی جَو دئیے تو بجائے اس کے کہ منافقین کے دل میں غیرت پیدا ہوتی اور وہ کہتے کہ یہ غریب محنت ومشقت کر کے جو کچھ حاصل کر سکا لے آیا ہے انہوں نے طنزیہ رنگ میں کہنا شروع کیا کہ لو جی دو مٹھی جَو سے اب دنیا فتح ہوگی ۳؎ اور اس طرح اس قربانی پر ہنسی اور تمسخر کرنے لگے۔انہوں نے اس مخلص کی نیکی سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ اسے اپنے مرض میں اضافہ کا موجب بنالیا۔قیامت کے روز جب منافق اس موقع پر قربانی نہ کرسکنے کے عذرات پیش کریں گے اور اپنی مشکلات بتائیں گے اور ان سب کے جواب میں اللہ تعالیٰ اس دومٹھی جو پیش کرنے والے کو پیش کردے گا تو ان کی کیا عزت رہ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تمہارے پاس تو روپے موجود تھے مگر تم نے قربانی نہ کی لیکن اس کے پاس کچھ نہ تھا پھر بھی یہ پیچھے نہ رہا اس نے سمجھا کہ اگر میں نے عام مزدوری کے اصول پر مزدوری تلاش کی تو شاید کوئی کام نہ ملے اس لئے کسی کے آگے یہ تجویز رکھ دی کہ مجھ سے کام لے لواور جو دینا چاہو دے دینا اور ظاہر ہے کہ ایسا نوکر جسے مل جائے وہ کیوں اس سے کام نہ لے گا۔ہمارے ملک کے چھوٹے قصبات میں چپڑاسی کی تنخواہ عام طور پر دس بارہ روپے ماہوار ہے۔شہروں میں پندرہ بیس بھی ہوتی ہے۔خاص قسم کے نوکر مثلاً بیرے وغیرہ پچیس تیس بھی لیتے ہیں لیکن اگر کسی کو کوئی ایسا چپڑاسی مل جائے جو کہے کہ مجھے کھانا دے دیا کریں اور ساتھ صرف ایک دوروپے ہی دے دیں تو کئی لوگ جو عام طور پر نوکر نہیں رکھتے اسے رکھنے کے لئے تیارہو جائیں گے۔پوری تنخواہ پر ملازمت تلاش کرو تو شاید ہی مل سکے لیکن اس طرح اگر کہا جائے کہ جو مرضی ہو دے دیں تو کئی لوگ آمادہ ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ چلو اسے ملازم رکھنے کی وجہ سے جو وقت ہمارا بچے گا اس میں ہم اپنے کام کو وسعت دے لیں گے۔تو اسی طرح اس صحابی نے یہ نہیں کہا کہ مجھے پوری مزدوری دوکیونکہ اس طرح ممکن تھا کہ کام مل ہی نہ سکتابلکہ تھوڑی سی مزدوری پر راضی ہوگئے تا ثواب سے محروم نہ رہیںاور کام لینے والے کو بھی اگرچہ ضرورت نہ تھی لیکن سستا مزدور مل گیا اس لئے اس نے کام لے لیااور اس طرح مزدوری کرکے اس صحابی نے اُجرت لا کر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیش کردی اور اس طرح ایک اعلیٰ نمونہ دوسرے ہزاروں ایسے لوگوں کے لئے جو اپنے آپ کو نادار قرار دے کر قربانی سے گریز کرتے ہیں پیش کر دیا۔
پس ہر شخص کو عذر کرتے وقت غور کر لینا چاہئے کہ اسی جیسے حالات میں بعض دوسرے لوگ قربانی پیش کر رہے ہیں پھر کیا اس کا عذر اللہ تعالیٰ کے حضور میں قابلِ سماعت ہوگا اور جلسہ کی امداد کے بارہ میں قادیان کے لوگوں کو خصوصاً اپنے نفس کا محاسبہ کر لینا چاہئے کیونکہ جیسا میں نے بتایا ہے جلسہ کے اخراجات کے مہیا کرنے کے متعلق قادیان کے لوگوں پر دوسروں سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے بلکہ گو ابھی ہماری مالی حالت ایسی ہے کہ بیرونی جماعت کو بھی اس بوجھ کے اٹھانے میں مدد دینی پڑتی ہے لیکن اصل میں قادیان کے لوگوں کا ہی حق ہے کہ وہ یہ بوجھ اٹھائیں۔میں دیکھتا ہوں کہ ہر سال جلسہ سالانہ کی آمد کم ہوتی ہے اور اس پر خرچہ زیادہ ہوتا ہے حالانکہ جلسہ سالانہ ایک اہم صیغہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی اہمیت پر خاص زور دیا ہے۔پس میں دوستوں کو پھر یہ نصیحت کرتا ہوںکہ اس موقع پر زیادہ سے زیادہ مالی قربانی کریں۔قادیان اور ضلع گورداسپورکی جماعتوں کو بِالخصوص اور باہر کی جماعتوں کو بِالعموم اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔مجھے افسوس ہے کہ اگرچہ میں نے بارہا کہا ہے محکمہ والے بھی اس صیغہ کی طرف پوری توجہ نہیں کرتے۔اگر وقت پر اجناس وغیرہ لے لی جائیں تو زمیندار احباب بھی پورے جوش کے ساتھ اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔جلسہ کے قرب کے ایام میں ان کے لئے حصہ لینا بہت مشکل ہوتاہے کیونکہ یہ وقت زمینداروں کے لئے سب سے زیادہ تنگی کا ہوتاہے۔غلہ اور چارہ وغیرہ دونوں قریباً ختم ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ قرض لے لے کر گزارہ کرتے ہیں اور اس وقت ان کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں ہوتا کہ قرض لے کر چندہ دیں لیکن جب گیہوں کی فصل تیار ہو اس وقت اگر ان سے جلسہ کے لئے غلہ لے لیا جائے تو وہ بڑی آسانی سے دے سکتے ہیں۔اسی طرح دوسری چیزیں مثلاً گھی وغیرہ بھی اگر اسی طرح جمع کی جائیں تو آسانی سے جمع ہوسکتی ہیں ہاں ان کے محفوظ رکھنے کا سوال حل طلب ہے۔جو میرے نزدیک اس طرح حل ہو جاتاہے کہ جو غلہ یا دوسری جنس وصول ہو دکانداروں کو اس شرط پر دے دی جائے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر وہ ایسی ہی جنس اسی مقدار میں مہیا کردیں۔کوئی بدنیت دکاندار ہی ہوگا جو اس سمجھوتا کے لئے تیار نہ ہو اور مزید شرطیں لگا کر سلسلہ کو لوٹنا چاہے کیونکہ اس تجویز میں دکاندار کو بھی فائدہ ہے اسے کئی ماہ کے لئے مفت میں سرمایہ مل جاتاہے۔
پس یہ انتظام نہایت آسانی سے ہو سکتا ہے لیکن افسوس کہ محکمہ والے توجہ نہیں کرتے۔میں نے کئی زمینداروں سے باتیں کی ہیں بالخصوص بار کے زمینداروں سے اور انہوں نے یہی کہا ہے کہ گھی وغیرہ جمع کر دینا بشرطیکہ مناسب اوقات میں اگر کوشش کی جائے ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں۔ایک ایک ضلع کے زمیندار کا فی گھی جمع کر سکتے ہیں۔یہی حال غلّہکا ہے۔اگر غلّہ کی صورت میں تھوڑا تھوڑا بھی چندہ ان سے بروقت وصول کرنے کا انتظام کر لیا جائے تو بہت مقدار جمع ہو سکتی ہے۔اسی طرح دالیں وغیرہ بھی جمع کی جا سکتی ہیں اور انہی چیزوں کا زیادہ خرچ ہوتاہے۔باقی گوشت وغیرہ رہ جاتا ہے وہ بیشک اس طرح جمع نہیںکیا جاسکتا مگر اس کا زیادہ خرچ نہیں ہوتا۔ایسے علاقے بھی ہیں جن سے چاول وغیرہ بھی جمع کئے جاسکتے ہیں مگر افسوس ہے کہ محکمہ والے توجہ نہیں کرتے۔بہرحال اس سال بھی وہی دقت درپیش ہے اور محکمہ والے شور کر رہے ہیں کہ روپیہ نہیں کام کس طرح چلایا جائے اس لئے میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتاہوں۔ بے شک اس وقت ہماری جماعت کے لئے بہت سی مشکلات ہیں یہ سال مالی لحاظ سے بہت تنگی کا سال ہے اور شاید اسکے نتیجہ میں اگلا سال بھی کسی قدر مشکلات رکھتا ہو۔مگر مومنوں کے لئے یہ باتیں پرواہ کے قابل نہیں جن کے ایمان کمزور ہیں ان کے لئے سُکھ کے دن بھی کمزوری کے دن ہوتے ہیں۔جن کے دل میں مرض ہو ان کے پاس اگر کروڑوں روپیہ ہو تب بھی وہ یہی کہیں گے کہ کھانے کو نہیں ملتا۔چندے کہاں سے دیں لیکن مؤمن کے پاس کچھ بھی نہ ہو توبھی وہ یہی کہے گا کہ بسم اللہ میں حاضر ہوں۔
یہ سچے اور جھوٹے دوست کے فرق کا وقت ہے۔اس سال صحیح یا غلط طور پر ایک مقابلہ کا رنگ پیدا ہوگیا ہے یا پیدا کر دیا گیا ہے۔کیونکہ جوبلی کی تحریک دراصل چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب نے پہلے سے کی ہوئی تھی مگر ہمارے قدیم معاندین یعنی اہل پیغام نے بھی اسے شروع کردیا ہے اور ان کے لئے یہ آسانی ہے کہ وہ غیر احمدیوں سے بھی مانگ لیتے ہیں اور پھردنیا کے سامنے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ دیکھو ہماری چھوٹی سی جماعت کس قدر قربانی کر رہی ہے تو یہ تحریک بھی ہمارے سامنے ہے۔اس کے علاوہ تحریک جدید کے چندے ہیں۔جن کی طرف میں جماعت کو توجہ دلا چکا ہوں کہ ان سے ایک مستقل فنڈ کی بنیاد ڈالی جارہی ہے۔پس جو اِن میں حصہ لے گا اُس کا نام ہمیشہ کے لئے تاریخ میں محفوظ ہوجائیگا ۔
پھر عام چندوں کا مطالبہ بدستور ہے یہاں کے کارکنوں کی تنخواہوں میں بھی کمی کردی گئی ہے اور پھر اس کے ساتھ بیرونی جماعتوں کو تحریک کی گئی ہے کہ وہ اپنے چندوں میں اضافہ کریں۔پس یہ دن غیر معمولی مالی قربانی کے ہیں مگر مؤمن کا ایمان اور اخلاص ایسے ہی وقت میں پر کھا جاتا ہے اور حقیقی دوست کی پہچان کا یہی وقت ہوتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک امیر کا نوجوان بیٹا سارا سارا دن اپنے دوستوں میں بیٹھا وقت ضائع کرتا رہتا تھا۔باپ اسے نصیحت کرتا کہ اس طرح ان لوگوں میں بیٹھ کر وقت ضائع نہ کیا کرو یہ تمہارے دوست نہیں ہیں بلکہ سب کھانے پینے کے یار ہیں انہیں تمہارے ساتھ کوئی اخلاص نہیں مگر بیٹا کہتا کہ اباجی آپ کو پتہ نہیں آپ نے ان کی باتیں کبھی نہیں سنیںیہ میرے بہت وفادار دوست ہیں۔باپ کہتا کہ باتیں کر لینا تو بالکل آسان ہے ۔آخر ایک دن باپ نے بیٹے سے کہا کہ اچھا میں تمہیں تجربہ کر ادیتا ہوں۔باپ کا بھی ایک دوست تھا جو سپاہی تھا،وہ پہلے زمانہ کا دوست تھا جبکہ یہ امیربھی معمولی حیثیت رکھتا تھا مگربعد میںاسے ترقی حاصل ہوگئی مگر اس کے ساتھ دوستی بدستور رہی۔لڑکا اسے حقیر سمجھتا اور دل میں کہتا کہ میرا باپ خود ایسے ذلیل لوگوں سے دوستی رکھتا ہے اور میرے دوستوں کو جو اچھے لوگ اور معزز آدمی ہیں پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا۔باپ نے اسی دوست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آئو دیکھیں کہ میرے اور تمہارے دوستوں میں سے سچا مخلص کون ہے اور لڑکے سے کہا کہ میں تمہیںدوستوں کا تجربہ کرانے کے لئے گھر سے نکال دیتا ہوں اور تم جاکر اپنے دوستوں سے مدد مانگنا۔بیٹے نے کہا بیشک نکال کر دیکھ لیں میرے دوست ایسے نہیں ہیں وہ مجھے سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔چنانچہ باپ نے اسے گھر سے نکال دیا اور وہ اپنے دوستوں کے ہاں چکر لگانے لگا۔اسے نکالنے کی خبر مشہور ہوگئی اور اس کے جن دوستوںکو اس کی اطلاع ہو گئی ان میں سے کئی ایک نے دروازہ پر آکر اس سے ملنا بھی گوارانہ کیا۔کسی نے کہلوادیاکہ میں بیمار ہوں،کسی نے کہلوادیا کہ گھر پر نہیں ہیں اور بعض جن کو علم نہ ہؤا تھا وہ آکر مل تو لیتے مگر جب وہ یہ کہتا کہ میرے باپ نے مجھے نکال دیا ہے آپ میری امداد کریں تا میں تجارت وغیرہ کا کام کرلوں۔توبعض تو کہہ دیتے کہ افسوس اس وقت ہمارا روپیہ فلاں جگہ لگا ہؤا ہے ورنہ ہم ضرور مدد کرتے اور بعض کوئی اور بہانہ بنا دیتے اور بعض تو یہاں تک کہہ دیتے کہ جب تمہارے باپ کو تم پر اعتماد نہیں توہم کس طرح کرسکتے ہیں۔آخر وہ سب طرف سے ذلیل ہو کر باپ کے پاس آیا اور کہا کہ واقعی آپ کا کہنا سچ تھا میرے سب دوست مطلب کے دوست تھے۔تب باپ نے کہا کہ آئو اب میں تمہیں اپنے دوست کا تجربہ کراتا ہوں۔وہ بیٹے کو ساتھ لے کر رات کے بارہ ایک بجے اپنے اس دوست کے مکان پر پہنچا اور دستک دی اور کہا کہ جلدی باہر آئو۔اس نے جواب دیا کہ کون ہے اور جب اپنے دوست کی آواز پہچانی تو کہا بہت اچھا آتا ہوں۔باپ بیٹا باہر انتظار کرنے لگے مگر وہ دس پندرہ منٹ تک باہر نہ آیا۔بیٹے نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا دوست بھی ویساہی نکلا اور جب اسے شُبہ ہؤاکہ کسی غرض سے آئے ہیں تو چھُپ کر اندر بیٹھ رہا ہے۔باپ نے کہا کہ تھوڑی دیر اور انتظار کرو۔آخر پندرہ بیس منٹ کے بعد دروازہ کھلا اور دوست اس حالت میں باہر آیا کہ اس کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی،دوسرے میں ایک تھیلی اور ساتھ بیوی تھی۔اس نے پوچھا کہ آپ نے نکلنے میں بہت دیر کردی۔تو اس نے کہا کہ یہ ساری عمرمیں پہلا موقع ہے کہ آپ اس وقت آئے ہیں اور اس وجہ سے میں نے خیال کیا کہ ضرور کوئی تکلیف کا وقت آپ پر آیا ہوگا اور دنیا میں تین ہی قسم کی مشکلات ہوسکتی ہیں۔یاتو آدمی کے گھر میں بیماری وغیرہ ہو،یا اس کے لئے مالی مشکلات ہوں او ر یا پھر اس کی عزت خطرہ میں ہو۔عزت کے خطرہ کے خیال سے میں نے تلوار لی،تا اگر اس کا موقع ہو تو اس سے آپ کی امداد کروں اور بیماری وغیرہ کاخیال کر کے میں نے اپنی بیوی کو ساتھ لے لیا کہ عورتیں تیمارداری اچھی کرتی ہیں،پھر مجھے خیا ل آیا کہ مالی مشکل بھی پیش آسکتی ہے اور بعض اوقات بڑے بڑے مالداروں کے دیوالے نکل جاتے ہیں جس سے ان کی حالت خطرناک ہوجاتی ہے اور وہ معمولی امداد کے بھی محتاج ہو جاتے ہیںاور گو مَیںکوئی مالدار آدمی نہیںپھر بھی ساری عمر تھوڑا تھوڑا کرکے بیوی بچوں کے لئے کچھ جوڑتا رہا ہوں اسے میں نے برتن میں ڈال کر زمین میں گاڑ رکھا تھا سو میں نے کہا اسے بھی نکال لوں کہ شاید میرے دوست کو آج میرے اس روپیہ ہی کی ضرورت پیش آگئی ہو اور اسی وجہ سے میرے نکلنے میں دیر ہوگئی سو اب میںحاضر ہوں اگر آپ کی عزت خطرہ میں ہے تو میری تلوار اور میری جان موجود ہے،اگر کوئی گھر میں بیمار ہے تو میری بیوی موجود ہے، اگر روپیہ کی حاجت ہے تو یہ میری ساری عمر کا اندوختہ موجود ہے۔اس کی باتیںسن کر بیٹے نے باپ سے کہا کہ مجھے معلوم ہوگیا کہ سچے دوست کون ہوتے ہیں واقع میں سچے دوست کا ملنا بہت مشکل ہے۔اس پر باپ نے اپنے دوست کو بتایا کہ میرا لڑکا گمراہ ہورہا تھا میں نے اسے سبق دینے کے لئے آپ کو بے وقت تکلیف دی ۔آپ معاف فرمائیںاور گھر تشریف لے جائیں۔تو جو سچا دوست ہو مشکلات کے وقت میں اس کا اخلاص بڑھ جاتا ہے اور وہ دوست کی امداد کے لئے سب قسم کی مشکلات برداشت کرنے پر تیار ہوتا ہے۔قرآن کریم میں ہے کہ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خطرناک جنگوں کے لئے باہر نکلتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اسلام بڑی مصیبت میں مبتلا ہے،مسلمانوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں،اور دشمن اتنا زبردست ہے کہ اس پر غالب آنے کی توقع نہیںتو بعض لوگ آکر کہتے کہ ہم آپ کے ساتھ تو چلیںمگر ہمارے گھر بے پناہ ہیں ان کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں حقیقتاً کوئی خطرہ ان کے لئے نہیں۔۴؎ان کے پاس دوسروں سے زیادہ سامان ہیں اور ان کے گھر دوسروں سے زیادہ محفوظ ہیں۔صرف بہانے بناتے ہیں مگر دوسرے جو سب مشکلات کو نظر انداز کر کے شامل ہو جاتے تھے ان کے متعلق فرماتا ہے کہ۵؎ کہ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنے وعدے پورے کردئیے اور بعض ایسے ہیں کہ جو انتظار میں ہیں کہ موقع ملے تو پورا کریں،ایسے ہی لوگوں میں سے ایک انصاری صحابی تھے۔ مفسرین نے تو لکھا ہے کہ یہ آیت ان ہی کے متعلق تھی مگر اس آیت کا مضمون ظاہر کرتا ہے کہ یہ کسی خاص فرد کے لئے نہیں بلکہ ایسے سب لوگوں پر چسپاں ہوسکتی ہے جو اس نمونہ کو پیش کر نے والے ہوں اور درحقیقت ایسے صحابی کئی تھے۔ وہ انصاری صحابی جن کا میں نے ذکر کیا حضرت انس کے چچا تھے۔ان کو جنگ بدر میں شامل ہونے کا موقع نہ مل سکا تھا۔جب لوگ ان کے سامنے بدر کے واقعات بیان کرتے اور کہتے کہ فلاں بات یوں ہوئی اور ہم نے یوں کیا تو ان کو بہت غصہ آتا لیکن غصہ نکالنے کی کوئی صورت نہ تھی اس لئے وہ ان باتوں کو سن کر یہ کہنے لگ جاتے کہ بے شک تم لوگوں نے جو کچھ کیا خوب کیا لیکن اگر میں ہوتا تو دکھاتا کہ لڑائی کس طرح کی جاتی ہے۔ان کی یہ بات ایک قسم کا لطیفہ بن گئی تھی جہاں دو چار آدمی بیٹھے بدر کی باتیں کر رہے ہوتے تھے وہ وہاں پہنچ کر اپنے دل کی حسرت اس طرح نکالنا شروع کر دیتے کہ دوستو!میں بدر میں موجود ہوتا تو تم کو بتاتا کہ خدا کی راہ میں کس طرح لڑا کرتے ہیں۔کئی لوگ تو یونہی لاف زنی کر دیا کرتے ہیں مگر یہ صحابی جو کچھ کہتے تھے اخلاص سے کہتے تھے اور دراصل ان کا دل خون ہو رہا ہوتا تھا کہ مجھے کیوں بدر میں شمولیت کا موقع نہ ملا اور وہ ان الفاظ سے اپنے دردِ دل کا اظہار کیا کرتے ۔آخر اللہ تعالیٰ کی حکمت اُحد کا دن لے آئی اور یہ ایسے لوگوں کے لئے دلی حسرت نکالنے کا ایک بے نظیر موقع تھا۔چنانچہ یہ صحابی جنگ اُحد میں شریک ہوئے اور جو قربانی کرسکتے تھے کی اور جب دشمن کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ گیا توانہوں نے چونکہ کھانا نہیں کھایا ہؤا تھا کچھ کھجوریں پاس تھیں،میدان سے ایک طرف ہٹ کر کھجوریں کھانے لگے اتنے میں وہ واقعہ ہؤا کہ جس سے مسلمانوں کے پائوں اُکھڑ گئے،دشمن نے پیچھے سے حملہ کر دیا اور مسلمان چونکہ فتح کے خیال میں ادھر اُدھر منتشر ہو چکے تھے سنبھل نہ سکے،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم زخمی ہو کر ایک گڑھے میں گرگئے اور صحابہؓ کو خیال آیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں۔یہ صحابی اپنے خیال میں مست کھجوریں کھا رہے تھے اور بالکل مطمئن تھے کہ ٹہلتے ٹہلتے میدان جنگ کے قریب آئے اور دیکھا کہ ایک پتھر پر حضرت عمرؓ بیٹھے ہوئے باوجود نہایت جری اور دلیر ہونے کے بچوں کی طرح رو رہے ہیں۔انہوں نے حضرت عمرؓ کو اس حال میں دیکھ کر حیرت سے پوچھا کہ عمرؓ یہ رونے کا کون سا وقت ہے یہ تو خوش ہونے کا وقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی ہے۔حضرت عمرؓ نے کہا کہ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ فتح کے بعد کیا ہو گیا ہے اور پھر بتا یا کہ اس طرح دشمن نے پلٹ کر حملہ کر دیا اور مسلمان پراگندہ ہونے کی وجہ سے سنبھل نہ سکے اور رسول کریمصلی اﷲ علیہ وسلم شہید ہوگئے۔اس وقت ان صحابی کے ہاتھ میں صرف ایک کھجور باقی رہ گئی تھی انہوں نے فوراً اسے پھینک دیا اور کہا کہ میرے اور جنت کے درمیان اس کے سوا اور ہے کیا اور پھر حیرت سے حضرت عمرؓکو مخاطب ہو کر کہا کہ عمر ؓاگر یہ خبر سچی ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو تم یہاں کیوں بیٹھے ہو جس طرف خدا کا رسول گیا ہم بھی وہیں جائیں گے۔یہ کہہ کر تلوار نیام سے نکال لی اور دشمن کے لشکر کی طرف دوڑ پڑے اور جاکر لڑائی شروع کر دی اور نہ معلوم کتنوں کو اپنے خیال میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا بدلہ لینے کے لئے جہنم واصل کر کے یہ خدا کا جری شہید ہوگیا۔رَضِیَ اﷲ عَنْہُ وَرَضِیَ ھُوَ عَنِ اﷲِ۔جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دوبارہ فتح دی تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ میدان میں جاکر دیکھو کہ ہمارے ساتھیوں میں سے کو ن کون شہید ہوئے ہیں اور کون کون زخمی پڑے ہیں تا زخمیوں کی امدار کی جائے اور شہیدوں کی تکفین کا انتظام کیا جائے۔صحابہ میدانِ جنگ میں پھیل گئے اور زخمیوں کی تیمارداری شروع ہوئی اور شہیدوں کی لاشیں جمع کی جانے لگیں۔جب وہ لاشیں جمع کررہے تھے تو انہوں نے ایک لاش کو دیکھا کہ وہ پہچانی نہ جاتی تھی اس کے ٹکڑے ادھر اُدھر پھیلے ہوئے تھے اور چہرہ زخموں سے بالکل چھلنی ہو رہا تھا ایسا کہ مُردہ کی شناخت ناممکن تھی۔انہوں نے سب ٹکڑے جمع کر کے اکٹھے رکھے تو نضر جن کا ذکر اوپر ہؤا ہے ان کی ہمشیرہ نے ایک انگلی سے پہچانا کہ یہ تو میرا بھائی ہے۔صحابہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے گِنا تو ان کے جسم کے ستّر ٹکڑے الگ الگ پڑے تھے۔۶؎
یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ۔فتح دراصل ایسے ہی لوگوں سے ہوتی ہے ان سے نہیں جو محض ایک نام کے ماتحت جمع ہوجاتے ہیں تم اس وقت جو ہزاروں یہاں بیٹھے ہو یا جو لاکھوں دنیا میں پھیلے ہوئے ہو سارے کے سارے وہ نہیں ہو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں احمدی ہیں۔یا جن کے ذریعہ سے اسلام کو فتح حاصل ہوگی۔ جن کے ذریعہ سے یہ فتح حاصل ہوگی وہ وہی ہیں جن کے دل ہروقت قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں اور جو مشکلات اور تکالیف میں زیادہ قربانی کرتے ہیں انہی لوگوں کی کوشش سے فتح آتی ہے اور انہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی برکات نازل ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک جماعت احمدیہ کو قائم رکھنے والے بھی وہی لوگ ہیں۔بسا اوقات یہ صرف چند آدمی ہوتے ہیں،لاکھوں میں سے ہزاروں، ہزاروں میں سے سینکڑوں اور سینکڑوں میں سے دسیوں بظاہر لاکھوں ،ہزاروں اور سینکڑوں ہوتے ہیں مگر جن کی قربانی کی وجہ سے فتح حاصل ہوتی ہے وہ بہت کم ہوتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ۔جو ہر مصیبت میں قدم آگے بڑھاتے ہیں اور کسی صورت میں بھی پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لیتے۔دنیا کے دئیے ہوئے ناموں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ہندو،سکھ، عیسائی،یہودی،مسلمان ،احمدی خواہ کوئی کچھ کہلائے فائدہ اسی نام سے حاصل ہوگا جو نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا جائے۔ہزاروں عبدالرحمٰن کہلاتے ہیں مگر دراصل عبدالشیطان ہوتے ہیں اور ہزاروں ہیں جن کا نام عبدالرحیم ہے مگر دراصل وہ عبدالرجیم ہوتے ہیں،ہزاروں کے نام عبدالحلیم ہیںمگر خداتعالیٰ کی نظر میں وہ عبدالغضب ہوتے ہیں اور ہر ایک کو کُتّے کی طرح کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔پس اصل نام وہی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملتا ہے۔ صحابہ کے نام دیکھو بعض بالکل ادنیٰ قسم کے تھے۔مثلاً کسی کا نام جریر تھا مگر ہم جب ان کا نام لیں گے تو ساتھ رضی اللہ عنہ کہیں گے۔جریر کے معنی پنجابی زبان میں گھسیٹا کے ہیںہم یہ نہیں دیکھتے کہ ان کا نام گھسیٹا تھا بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں کیاہیں۔گھسیٹا ہیں یا تخت پر بیٹھنے والے ہیں ۔ہماری جماعت میں بھی بعض نام ایسے ہی ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک مخلص صحابی کا نام اروڑہ تھا بعض لوگ جن کے بچے عام طور پر فوت ہوجاتے ہیں وہ بچہ کو میلے کے ڈھیر پر گھسیٹتے ہیں کہ شاید وہ اس طرح بچ جائے اور پھر ان کا نام اروڑہ رکھ دیا جاتا ہے۔ان منشی صاحب کا نام بھی اسی طرح ان کے والدین نے اروڑہ رکھا تھا مگر وہ خداتعالیٰ کی نگاہ میں اروڑہ نہ تھے۔ماںباپ نے ان کا نام اس لئے رکھاتھا کہ شاید میلے کے ڈھیر پر پڑ کر ہی یہ بچہ زندہ رہے مگر اللہ تعالیٰ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدموں میں ڈال کر نہ صرف جسمانی موت سے بلکہ روحانی موت سے بھی بچانا چاہتا تھا۔ ماںباپ نے اسے گندکی نذر کرنا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے پاک دل کو دیکھا اور اسے اپنے لئے قبول کیا چنانچہ اس نے انہیں ایمان نصیب کیا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی بنے اور ایسے مخلص کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایسے اخلاص کے بغیر نجات کی امید رکھنا فضول بات ہے۔ان لوگوں نے اپنے اخلاص کا ثبوت ایسے رنگ میں پیش کیا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔یہ لوگ محبت پیار کے مجسمے تھے۔ منشی اروڑہ صاحب مرحوم نے مجھے خود ایک واقعہ سنایا کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ لیا تھا کہ آپ کبھی کپور تھلہ تشریف لائیں۔اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ابتدائی زمانہ میں دوریاستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت کا خاص موقع نصیب ہؤا۔ ایک کپور تھلہ اور دوسری پٹیالہ ۔مجھے افسوس ہے کہ پٹیالہ نے اپنا معیار قائم نہ رکھا،بعد میں کئی فتنوں میں پٹیالہ کا کوئی نہ کوئی حصہ ہوتا رہا ہے۔ (یہ ضمنی بات میں نے اس لئے کہہ دی ہے کہ پٹیالہ کی جماعت کو توجہ ہو اور وہ اپنے معیار کو قائم رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ محض ماں باپ کی وجہ سے کوئی ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکتا)تو کپورتھلہ کی جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے خواہش کی کہ حضور وہاں تشریف لائیں اور آپ نے وعدہ فرمایا۔منشی اروڑہ صاحب مرحوم نے سنایا کہ ایک دفعہ وہ ایک دکان پر بیٹھے تھے،اس زمانہ میں کپور تھلہ میں ریل نہ جاتی تھی شایدپھگواڑہ سے تانگوں پر لوگ جاتے تھے،منشی صاحب مرحوم ایک دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شدید دشمنِ سلسلہ جو ہمیشہ احمدیوں کے ساتھ بُرائی کیا کرتا تھا آیا اور ان سے کہا کہ تمہارے مرزا صاحب(علیہ الصلوٰۃ والسلام) آئے ہیں اور اڈے پر کھڑے ہیں۔منشی صاحب اس وقت دکان پر بیٹھے آرام سے باتیں کر رہے تھے،پگڑی اور جُوتی اُتاری ہوئی تھی،جب اس دشمن نے یہ خبر سنائی تو اسی طرح اٹھ کر دوڑ پڑے۔ تھوڑی دور گئے تو خیا ل آیا کہ یہ شخص ہمیشہ ہمیں چِڑایا کرتا ہے یہ بھی اس نے تمسخر نہ کیا ہو اس لئے پندرہ بیس قدم دوڑنے کے بعد ٹھہر گئے اور اسے بُرا بھلا کہنا شروع کردیا کہ تو بڑا خبیث ہے ہمیشہ ستاتا ہے۔یہ بھی تُو نے جھوٹ بولا ہوگا،ورنہ ہماری قسمت ایسی کہاں کہ حضور تشریف لائیں مگر اس نے کہا کہ نہیں میں جھوٹ نہیں بولتا۔میں انہیں اکوّں کے اڈے پر کھڑا چھوڑ کر آیا ہوں یہ پھر دوڑ پڑے مگر پھر پندرہ بیس قدم دوڑ کر کھڑے ہوگئے اور پھر اسے بُرا بھلا کہنے لگے اور آخر میں کہا کہ ہماری قسمت ایسی کہاں کہ حضور تشریف لائیں اور اسی طرح تین چار مرتبہ کیا۔ تھوڑی دور بھاگتے اور پھرکھڑے ہو کر اسے کوسنے لگتے کہ اتنے میں سامنے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لاتے ہوئے دکھائی دئیے۔منشی صاحب مرحوم شاید مجسٹریٹ یا سیشن جج کی پیشی میں تھے۔ مہینہ میں ایک بار ضرور قادیان آجاتے تھے اور چونکہ ایک چھُٹی سے فائدہ نہ اٹھا سکتے تھے جب تک ساتھ ہفتہ کا کچھ وقت نہ ملے اس لئے جس دن ان کے قادیان آنے کا موقع ہوتا ان کا افسردفتر والوں سے کہہ دیتا کہ آج کام جلدی ختم ہونا چاہئے کیونکہ منشی جی نے قادیان جاناہے اگر وہ نہ جا سکے تو ان کے دل سے ایسی آہ نکلے گی کہ میں برباد ہو جائوں گا اور اس طرح ہمیشہ ان کو ٹھیک وقت پر فارغ کر دیتا۔افسر گو ہندو تھا مگر آپ کی نیکی ،تقویٰ اور قبولیت دعا کا اس پر ایسا اثر تھا کہ وہ آپ ہی آپ انکے لئے قادیان آنے کا وقت نکا ل دیتا اور کہتا کہ اگر یہ قادیان نہ جاسکے تو ان کے دل سے ایسی آہ نکلے گی کہ میں نہیں بچ سکوں گا۔
توانسان جیسا اللہ تعالیٰ سے معاملہ کرتا ہے ویسا ہی وہ اس سے کرتا ہے۔ جس جس رنگ میں انسان اپنے دل کو اس کے لئے پگھلاتا ہے اسی رنگ میں اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ سلوک کرتا ہے۔ دنیا اسے مارتی ہے، گالیاں دیتی ہے، اسے دبانے کی کوشش کرتی ہے مگروہ ہردفعہ گرائے جانے کے بعد گیند کی طرح پھراُ بھرتا ہے ۔ایسے مؤمنوں کو ہرقسم کی روکوں کے باوجود اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہے اور یہی حقیقی جماعت ہوتی ہے جوترقی کرتی ہے۔ پس اپنے دلوں کو ایسا ہی بنائو اور ایسی محبت سلسلہ کے لئے پیدا کرو پھردیکھوتمہیں اللہ تعالیٰ کس طرح بڑھاتا ہے۔ جولوگ خداتعالیٰ کے ہوجاتے ہیں ان کوتو مانگنا بھی نہیں پڑتا بعض وقت وہ ناز کے انداز میں کہتے ہیں کہ ہم نہیں مانگیں گے اوراللہ تعالیٰ خود بخود ان کی ضروریات کو پورا کردیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہی میں نے یہ واقعہ بھی سنا ہے کہ ایک بزرگ تھے ایک دفعہ ان پرایسی حالت آئی کہ وہ سخت مصیبت میں تھے کسی نے ان سے کہا کہ آپ دعا کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر میرا رب مجھے نہیں دیناچاہتا تو میرا دعا کرنا گستاخی ہے جب اس کی مرضی نہیں تو میں کیوں مانگوں۔ اس صورت میں تو میں یہی کہوں گا کہ مجھے نہ ملے اور اگر وہ دینا چاہتا ہے تو میرامانگنا بے صبری ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ دعا کرتے ہی نہیں بلکہ کبھی کبھی کامل مؤمنوں پر ایسی کیفیات آتی ہیں اور وہ کہتے ہیں اچھا ہم مانگیں گے نہیں اللہ تعالیٰ خود ہماری ضرورت کو پورا کرے گا مگر یہ مقام یونہی حاصل نہیں ہوتا۔ یہ مت خیال کرو کہ تم یونہی بیٹھے رہو، اپنے قلوب میں محبت پیدا نہ کرو، نمازوں میں خشوع خضوع پیدا نہ کرو، صدقہ و خیرات اورچندوں میں غفلت کرو، جھوٹ اور فریب سے کام لیتے رہو اور پھربھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے وارث ہوجائو یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔
ابھی لاہور میں مجھے ایک بوہرہ صاحب ملنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں، خداتعالیٰ سے ملنے کی خواہش بھی ہے مگرخداتعالیٰ ملتا نہیں۔ میں نے کہا کہ خواہش کا تو پتہ نہیں یہ تو خداتعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے مگر یہ بات ضرور ہے کہ دودھ یا شہد کے لئے پیالہ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اگر پیالہ نہ ہو تو اسے رکھا کہاں جائے گا لیکن دودھ اور شہد کے بغیر پیالہ کی بھی کوئی قیمت نہیں دو نوںچیزیں ضروری ہیں آپ کے پاس پیالہ تو بے شک ہے مگردودھ یا شہد نہیں اورظاہر ہے کہ خالی پیالہ کو کوئی کیاکرے گا، دونوںچیزیں ضروری ہیں۔ کئی دل درست نہیں ہوتے اس لئے خداتعالیٰ انہیں نہیں ملتا، کئی ایک جھوٹی قسم کی محبت تو رکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے ہوئے ظاہری احکام کی پیروی نہیں کرتے، انہیں بھی خداتعالیٰ نہیں ملتا ۔ پس خالی نماز، روزہ کافی نہیں بلکہ خداتعالیٰ کوملنے کے لئے عاشقانہ قلبی کیفیت کی ضرورت ہے اور ایسے دل کی ضرورت ہوتی جو تمام عذروں اور بہانوں سے خالی ہوکر خداتعالیٰ کی طرف جھک جائے اور اگرکوئی کہے کہ ہمارے دل میں اخلاص موجود ہے تو ظاہری احکام کی کیاضرورت ہے تو یہ بھی درست نہیں ظاہری احکام پر عمل بھی ضروری چیز ہے۔ میں نے کئی دفعہ پہلے بھی سنایا ہے کہ قاضی امیرحسین صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص صحابی تھے احمدی ہونے سے قبل وہ کٹروہابی تھے اور اس وجہ سے کئی باتیں ظاہری آداب کی وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب حضور باہرتشریف لاتے تو دوست کھڑے ہوجاتے تھے۔ قاضی صاحب مرحوم کا خیال تھا کہ یہ جائز نہیں بلکہ شرک ہے اوراس بارہ میں ہمیشہ بحث کیاکرتے تھے کہ اگر آج ہم میں ایسی باتیں موجود ہیں تو آئندہ کیاہوگا ۔ وہ میر ے استاد تھے میری خلافت کا زمانہ آیا تو ایک دفعہ میں باہر آیا تو وہ معاً کھڑے ہوگئے میں نے کہا قاضی صاحب یہ توآپ کے نزدیک شرک ہے اس پر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ خیال تو میرا یہی ہے مگر کیا کروں رُکا نہیں جاتا، اس وقت بغیر خیال کے کھڑا ہوجاتا ہوں ۔ میں نے کہا بس یہی جواب ہے آپ کے تمام اعتراضات کا۔ جہاں بناوٹ سے کوئی کھڑا ہو تو یہ بے شک شرک ہے مگر جب آدمی بے تاب ہو کر کھڑا ہوجائے تو یہ شرک نہیں۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بعض امور ایسے ہیں جنہیں تکلف اور بناوٹ شرک بنادیتے ہیں، فرماتے تھے اپنے ایک بھائی کی وفات پر حضرت عائشہ ؓ نے بے اختیار چیخ ماری اور منہ پرہاتھ مارلئے۔ کسی نے ان سے دریافت کیا کہ کیا یہ جائز ہے؟ آپ نے فرمایا بے اختیاری میں ایسا ہوگیا۔ میں نے جان کرنہیں کیا۔ تو قاضی صاحب کی یہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے کہ یاتو وہ بحث کیا کرتے تھے اور یا خود کھڑے ہو گئے۔یہ قلبی حالت ہی اصل حالت ہے جو بات بے ساختگی میں آپ ہی آپ ہو جائے وہی اصل نیکی ہے، اس سے نیچے جو نیکی ہے وہ نیکی تو ہے مگرسہارے کی محتاج ہے ۔اصل نیکی وہی ہے جو آپ ہی آپ ہو اور ارادہ سے بھی پہلے کام ہو جائے۔ بچوں کو دیکھو وہ سوتے سوتے یوں منہ مارتے ہیں کہ گویا دودھ پی رہے ہیں یا بعض مائیں جن کے بچے فوت ہو جاتے ہیں وہ نیند میں اپنے پستان پکڑ کر اس طرح دودھ پلاتی ہیں کہ گویا ان کا بچہ ساتھ سویا ہؤا ہے،انہیں دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ طبعی محبت کیا ہے۔ اس میں کسی کوشش کا دخل نہیں ہوتا اور یہی محبت اورتعلق ہے جو سچی قربانی کراتاہے اور سچی قربانی ہی ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کا پیارا بنا دیتی ہے۔بعض اوقات جاہل اور اَن پڑھ لوگ بھی اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو پا لیتے ہیں۔میں نے منشی اروڑہ صاحب کا ذکر کیا ہے وہ بالکل معمولی تعلیم رکھتے تھے مگر انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اخلاص تھا اور اسی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظروں میں ان کی بڑی قدر تھی ان کی کمیِٔ علم کو دیکھ کر ایک دفعہ لوگ ان کو مولوی ثناء اللہ صاحب کے لیکچر میں لے گئے۔وہ تقریر کرتے رہے اور یہ بیٹھے رہے۔لوگوں نے پوچھا کچھ اثر ہؤا اگر نہیں ہؤا تو جواب دو۔ کہنے لگے یہاں تو جواب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میں نے تو مرزا صاحب (علیہ السلام) کا منہ دیکھا ہؤا ہے کوئی خواہ سال بھر بیٹھا ان کے خلاف تقریریں کرتا رہے میں تو ان سب کے جواب میں صرف یہی کہوں گاکہ وہ منہ جھوٹوں والا نہیں تھا۔مجھ پر کسی تقریر کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا کیونکہ میں نے خود ان کو دیکھ لیا ہے۔آفتاب آمددلیل آفتاب۔سورج آپ اپنی سچائی کی دلیل ہوتا ہے۔اس کے لئے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔مرزا صاحب کو دیکھنے کے بعد ان کی صداقت کے لئے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔سب تقریریں سن کر میں زیادہ سے زیادہ یہ کہوں گا کہ تم بڑے لسّان ہو۔ باتیں خوب بنا لیتے ہو مگر میں نے جب اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ لیا تو کس طرح جھٹلا سکتا ہوں۔ تو جہاں دل میں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص پایا جاتا ہو وہاں وہ آپ ہی آپ ان لوگوں کی حفاظت کرتا ہے۔میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سناہؤا ہے کہ ایک دفعہ غالباً ہارون الرشید کے زمانہ میں ایک بزرگ جو اہلِ بیت میںسے تھے اور جن کا نام موسٰی رضا تھا۔ اس بہانہ سے قید کر دئیے گئے کہ ان کی وجہ سے فتنہ کے پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ ایک دفعہ آدھی رات کے وقت ایک شخص ان کے پاس قید خانہ میں رہائی کا حکم لے کر پہنچا ۔وہ بہت حیران ہوئے کہ میں تو سیاسی قیدی تھا پھر اس طرح میری فوری رہائی کس طرح ہوگئی۔وہ بادشاہ سے ملے تو اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ آپ نے مجھے اس طرح یکایک رہاکر دیا۔اس نے کہا کہ وجہ یہ ہوئی کہ میں سورہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کسی نے آکر مجھے جگایا ہے۔خواب میں ہی میری آنکھ کھلی تو پوچھا آپ کون ہیں تو معلوم ہؤا کہ محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔میں نے عرض کیا کہ کیا حکم ہے تو آپ نے فرمایا ۔ہارون الرشید یہ کیا بات ہے کہ تم آرام سے سو رہے ہو اور ہمارا بیٹا قید خانہ میں ہے یہ سن کر مجھ پر ایسا رُعب طاری ہؤا کہ اسی وقت رہائی کے احکام بھجوائے انہوں نے کہا کہ اس روز مجھے بھی قید خانہ میں بڑا کرب تھا، اس سے پہلے مجھے بھی کبھی رہائی کی خواہش نہ پیدا ہوئی تھی۔تو ہم ایسے ہزاروں لاکھوں بیانوں کو کس طرح جھُٹلا سکتے ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے خدا تعالیٰ کی قدرت کے متعلق کس طرح شُبہ کرسکتے ہیں۔وہ ضرور قادر ہے مگر ہمیں چاہئے کہ اس کی قدرت کو جنبش دینے والے اور اس کی رحمت کو اپنے اندر جذب کرنے والے بنیں۔
پس میں احباب کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ ان اہم ایام کی قدر کرومصائب اور فتن جتنے زیادہ ہوں گے اتنے ہی قُربِ الہٰی کے رستے نزدیک ہوں گے اور میں توجہ دلاتا ہوں کہ دوست ایک طرف تو مالی طور پر قربانی کریں اور دوسری طرف جسمانی لحاظ سے اور مکانوں کو دینے کے لحاظ سے بھی زیادہ سے زیادہ حصہ لیں۔تم میں سے بیسیوں شریف الطبع ایسے ہوں گے کہ گزشتہ سالوں میں پہلے تو انہوں نے چندہ دینے یا مکانات دینے میں بُخل سے کام لیا ہوگا مگرجلسہ کے ایام گزرنے کے بعد ان کے دل میں ایک ٹیس اٹھی ہوگی اور انہیں احساس ہؤا ہوگا کہ اگر ہم یہ معمولی سی قربانی کردیتے تو کیا اچھا ہوتا آخر یہ تین چار روز گزر ہی گئے۔میں مان نہیں سکتا کے تم میںسے جس سے کوتاہی ہوئی ہو اور اس کے اندر شرافت موجود ہو اس کے دل میں یہ درد نہ اٹھاہو۔ضرور اس کے دل میں بعد میں کرب پیدا ہؤا ہوگا۔ایسے لوگوں کے لئے اپنی حسرتیں پوری کرنے کا آج موقع ہے اور میں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے پھر انہیں موقع دیا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں۔
اسی طرح میں بیرونی جماعتوں کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بوجھوںکی وجہ سے وہ کمزوری محسوس نہ کریں اور اس وجہ سے یہاں آنے یا مالی بوجھ اٹھانے میں کوئی کمی نہ کریں۔کون کہہ سکتا ہے کہ اسے یہ دن دیکھنے نصیب ہوں گے یا نہیں اور اگر اس دفعہ ہوئے تو آئندہ ہوں گے یا نہیں اس لئے ثواب حاصل کرنے کا جو موقع بھی انہیں ملا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور اسی طرح قادیان کے لوگوں سے بھی یہ کہتا ہوں کہ وہ مالی لحاظ سے بھی، مکانات دینے کے لحاظ سے بھی اور خدمات بجا لانے کے لحاظ سے بھی زیادہ سے زیادہ حصہ لیں، اسی طرح دوسری تحریکات میں بھی حصہ لیں۔بے شک بوجھ زیادہ ہیں مگر ہماری ہی کوتاہیوں کے نتیجہ میں یہ فتنے پیدا ہوتے ہیں اور انہیں روکنے کا ذریعہ یہی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ قربانیاں کریں اورباہر کے دوستوں سے بھی یہ کہتا ہوں کہ ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں،وہ ہوشیار ہو جائیں اور اپنی کمریں کس لیں۔اس وقت دنیا کی نگاہیں ہم پر پڑرہی ہیں اور لوگ دیکھ رہے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کے سپاہی کیا قربانیاں پیش کرتے ہیں اس لئے دوستوں کو خدا تعالیٰ کے سپاہیوں جیسا نمونہ پیش کرنا چاہئے اور یہ ثابت کردینا چاہئے کہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کا جذبہ اس سے بہت زیادہ ہے جو دُنیوی سپاہی اپنے ملک کے لئے کرتے ہیں۔اگر انہوں نے یہ ثابت نہ کر دیا کہ ان کے دلوں میںقربانی کا بے انتہا جذبہ موجود ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی ہتک کرانیوالے ہوںگے کیونکہ دنیا کہے گی کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی اتنی بھی قدر نہیں جتنی جاپان، جرمنی اور اٹلی کے سپاہیوں کے دلوں میں اپنے وطن کی قدر ہے۔‘‘
(الفضل ۱۶؍ دسمبر ۱۹۳۸ئ)
۱؎ ، ۲؎
(البقرۃ: ۱۴۴)
۳؎ بخاری کتاب التفسیر باب قولہِ الَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ (الخ)
۴؎
(الاحزاب:۱۴)
۵؎ الاحزاب: ۲۴
۶؎ سیرت ابن ھشام جلد ۳ صفحہ ۸۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء

۴۱
(۱) قادیان کے غیر احمدیوں، ہندوؤں اور سکھوں کے حقوق
کی حفاظت کی جائے ۔
(۲) قادیان ہجرت کر کے آنے سے قبل اجازت لینی چاہئے۔
(۳) احمدی نوجوانوں سے وقفِ زندگی کا مطالبہ۔
(فرمودہ ۱۶؍دسمبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
(۱)
’’بعض ہمارے دوست اس بات کے شاکی رہتے ہیں کہ بعض دفعہ مَیں اپنی تقریروں یا خطبات میں بعض ایسی باتیں کہہ جاتاہوں جن سے بعض دفعہ مخالف لوگ فائدہ اُٹھا لیتے ہیں۔ مَیں ان دوستوں کے نقطۂ نگاہ کی بھی قدر کرتا ہوں لیکن اصلاح کے کام میں بعض دفعہ ایسی باتیں کہنی ضروری ہوتی ہیں خواہ دُشمن اُن پر خوش ہی کیوں نہ ہو۔ ہم نے جو اخلاقی معیار دُنیا کے سامنے پیش کرنا ہے اس کی بنیاد ہمیں آج سے ہی رکھنی ہو گی اور جب تک ہم اس کی بنیاد نہیں رکھیں گے اُس وقت تک اس پر عمارت بھی کھڑی نہیں کی جاسکے گی۔
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ موجودہ زمانہ میں جیسا کہ بڑھنے والی قوموں کی مخالفت ہؤا کرتی ہے ہماری بھی مخالفت ہے اور اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ ہم دُنیا کی بہتری کا خواہ کوئی کام کریں معترض ہم پر اعتراض کرتے چلے جائیں گے اور ہم پر الزام لگانے والے الزام لگاتے ہی رہیں گے اور ہم اس بات پر مجبور ہیں کہ ان فضول اور لغو اعتراضات کی پرواہ نہ کریں جو حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ تعصب حسد یا ضِد کی وجہ سے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ ہمیں اپنے اخلاق اور اپنے معاملات ہر وقت درست رکھنے چاہئیں۔ یہ ایک طبعی بات ہے کہ جب کسی قوم پر ناجائز اعتراضات ہوتے ہوں تو بعض دفعہ آہستہ آہستہ اس کے اندر یہ مرض پیدا ہو جاتا ہے کہ دُشمن کے اعتراض کو وہ ہمیشہ ہی بے قدری کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتی ہے جبکہ اس کے بعض اعتراض صحیح اور درست بھی ہوتے ہیں۔ انسان کے اندر خدا تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ جو چیز کثرت سے اس پر وارد ہو اس کا وہ عادی ہو جاتا ہے اور چونکہ اس پر کثرت سے دُشمنوں کی طرف سے ناواجب اعتراضات ہوتے ہیں اس لئے وہ قوم ایسی عادی ہو جاتی ہے کہ صحیح اعتراض کی طرف بھی اُس کی پوری توجہ نہیں ہوتی۔
اِن دنوں قادیان میں ایک سوال ایسا پیش ہے کہ جس سوال کی اہمیت ایک حد تک مَیں خود بھی تسلیم کرتا ہوں اور دیر سے اس کو تسلیم کرتا چلا آیا ہوں لیکن وہ سوال ایسا سلجھا ہؤا نہیں ہے جیسا کہ اس کو سمجھا جاتا ہے بلکہ وہ ایک پیچیدہ سوال ہے اور گورنمنٹ کی طرف سے بعض غلطیوں نے اس میں اور زیادہ پیچیدگی پیدا کر دی ہے اور وہ سوال قادیان کی ٹاؤن کمیٹی کا ہے۔ جو دوست میرے ساتھ کام کر رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مَیں قریباً آٹھ دس سال سے یہ سوال اُٹھا رہا ہوں کہ قادیان میں ہندوؤں کی نمائندگی موجود ہے، سکھوں کی نمائندگی موجود ہے لیکن غیراحمدی عنصر جو اِن دونوں سے زیادہ ہے اس کی نمائندگی موجود نہیں اور یہ کہ صحیح طریق کار چلانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی نمائندگی بھی ہو لیکن گورنمنٹ نے جس رنگ میں یہاں وارڈ بنائے ہیں اس کے ماتحت ایک کثیر اکثریت کو قانونی جبر کے ساتھ ایسے حالات میں رکھ دیا گیا ہے کہ یا تو وہ اپنی اکثریت سے فائدہ نہ اُٹھا سکے اور یا پھر اقلّیت میں تبدیل ہو جائے۔ چنانچہ قادیان جیسی جگہ میں جہاں کی آبادی اپنے ساتھ خاص نوعیت رکھتی ہے کُل چھ وارڈ بنائے گئے ہیں جن میں سے چار شہر میں رکھ دیئے گئے ہیں جس کی آبادی باہر کی آبادی کے مقابلہ میں کم ہے۔ مردم شماری کے رو سے شہر کی آبادی تین ہزار کے قریب ہے لیکن قادیان کی کل آبادی دس ہزار کے قریب ہے۔ تو تین ہزار یا اب وہ ترقی کر کے اور مہمانخانہ وغیرہ ڈال کر ساڑھے تین ہزار ہو گی۔ بہرحال وہ کل آبادی کے نصف سے بھی کم ہے۔ اس کے تو گورنمنٹ نے چار بلکہ شاید پانچ وارڈ بنا دیئے ہیں لیکن بیرونی آبادی کے لئے دو یا تین وارڈ رکھے ہیں۔ حالانکہ احمدی آبادی قدرتی طور پر باہر زیادہ بڑھ رہی ہے کیونکہ اب زیادہ تر ایسے لوگ آتے ہیں جو زیادہ آسودہ حال اور تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور وہ شہر سے باہر کھلی ہوا میں اپنے مکان بنانے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ گورنمنٹ کی اپنی مردم شماری کے رو سے قادیان میں احمدی ۷۵ فیصدی سے زیادہ ہیں۔ اب ۷۵ فیصدی کے لحاظ سے اگر آٹھ ممبریاں ہوں تو چھ ممبریاں احمدیوں کو ملنی چاہئیں اور دوممبریاں دوسری قوموں کو ملنی چاہئیں لیکن ممبریاں ہیں سات جن میں سے پانچ احمدیوں کے پاس ہیںاور دو غیروں کے پاس۔ ان دو میں سے ایک ممبر ایسی آبادی کی طرف سے جو ڈیڑھ دو سو کی تعداد رکھتی ہے باقاعدہ طور پر نامزد ہوتا چلا آرہا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ایک دوسری جماعت جن کے ساتھ آٹھ سو آدمی ہیں ان کو گورنمنٹ ہمیشہ نظر انداز کرتی چلی آئی ہے۔ اِدھراکثریت قدرتی طور پر یہ جدوجہد کرتی ہے کہ وہ اپنے حقوق کو پورے طور پر حاصل کرے اور کسی لحاظ سے اسے نقصان نہ رہے اور آخر ۷۵ فیصدی آبادی رکھنے والے کب یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ انہیں پچاس یا چالیس فیصدی بنا دیا جائے مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اس میں مُشکلات گورنمنٹ کی طرف سے ہیں۔ اگر وہ زیادہ وارڈ بناتی اور صحیح طور پر بناتی تو یقینا یہ دقّت پیش نہ آتی اور جیسا کہ میرے ساتھ کام کرنے والے واقف ہیں مَیں موجودہ حالات میں بھی کہتا رہتا ہوں کہ ان کے لئے نمائندگی کی کوئی نہ کوئی صورت ہونی چاہئے۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ اگر ان کی نمائندگی کی کوئی صورت پیدا کی جائے تو ۷۵ فیصدی آبادی کے حقوق تلف ہو جائیں گے اور میرے نزدیک یہ بات بھی ایسی ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پس جب تک گورنمنٹ پر زور دے کر اس نقص کی اصلاح نہ کرالی جائے اُس وقت تک میرے نزدیک کم سے کم یہ ضرور ہونا چاہئے کہ وہ لوگ جن کی کمیٹی میں نمائندگی نہ ہو اُن کے حقوق پورے طور پر ادا کئے جائیں۔
ابھی جبکہ مَیں جمعہ کے لئے آنے والا تھا مجھے رپورٹ ملی ہے کہ یہاں ڈیفنس کمیٹی کے نام سے ایک جلسہ ہؤا ہے اس میں بہت کچھ جھوٹ بولے گئے ہیں لیکن بعض باتیں ایسی ہیں جو میرے نزدیک قابلِ توجہ ہیں اور مَیں عام طور پر اس کا اظہار اس لئے کر رہا ہوں تا جماعت کی عام رائے کی اصلاح کروں ورنہ میرے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ مَیں ٹاؤن کمیٹی کے ممبروں کو اس طرف توجہ دلا دیتا۔ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ لوگوں میں یہ شکایت ہے کہ وہ محلّے جو شہروں کی قدیم آبادی کے ہیں ان میں روشنی اور صفائی کا پورا انتظام نہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ مطالبات نہ صرف ان کے ہیں بلکہ مَیں بھی اپنے آپ کو ان مطالبات میں شریک سمجھوں گا۔ یہ قطعی طور پر دیانتداری کے خلاف ہے کہ ہم کوئی ایسا کام کریں جس میں کسی فریق کے حقوق کو نظرانداز کر دیا جائے۔ مَیں مخالفت کی پرواہ نہیں کرتا اور مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوستوں کا یہ حق ہے کہ اگر وہ دیکھیں کہ ان کے جماعتی حقوق کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہے تو سب مل کر اس کا ازالہ کریں اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی جدوجہد کریں لیکن میرے نزدیک احمدیوں کو اپنا معیار بہت بُلند رکھنا چاہئے اور انہیں ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے کہ دوسروں کے حقوق بھی تلف نہ ہوں۔ شہریوں کو یہ باتیں بالعموم سمجھانے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن قادیان چونکہ قریب زمانہ میں گاؤں تھا اس لئے مَیں دیکھتا ہوں کہ کئی دفعہ جھگڑے معمولی معمولی باتوں پر پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً اگر کمیٹی سڑکیں چوڑی کرنے کے لئے بعض تھَڑے گرا دے تو قدیم آبادی کے نا تعلیم یافتہ لوگ حتّٰی کہ بعض احمدی بھی مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں۔ انہیں اُس وقت صرف یہ خیال آتا ہے کہ ہمارا تھَڑا گر جائے گا۔ یہ خیال نہیں آتا کہ اگر تھڑا نہ گرا تو گلیاں چلنے والوں کے لئے تکلیف دہ ہو جائیں گی اور راستے کھلے نہ کئے گئے تو لوگوں کی صحت پر بُرا اثر پڑے گا۔ اس میں جہاں تک مجھے علم ہے غیر احمدی عنصر کی طرف سے بھی مخالفت ہوتی ہے، ہندو سِکھ عنصر کی طرف سے بھی مخالفت ہوتی ہے اور کچھ احمدی عنصر بھی اس کی مخالفت کرتا ہے اور یہ ایک نہایت ہی نا پسندیدہ فعل ہے اور ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے تعلیم یافتہ لوگ انہیں سمجھائیں اور بتائیں کہ یہ اقدام تمہارے فائدہ کے لئے ہے،تمہیں نقصان پہنچانے کے لئے نہیں۔
پس اگر اس قسم کے تعلقات غیروں سے رکھے جائیں اور ان کے حقوق کی ویسی ہی نگہداشت کی جائے جیسے اپنے حقوق کی کی جاتی ہے تو یقینا نتیجہ پہلے سے بہتر ہو گا۔ مَیں مانتا ہوں کہ ہماری جماعت کی مخالفت ہے اور وہ مخالفت ایسے رنگ میں ہے کہ اب وہ اُس وقت تک مِٹ نہیں سکتی جب تک دُنیا ہماری طرف سے نا اُمید نہ ہو جائے اور اسے یہ یقین نہ ہو جائے کہ اب یہ جماعت کسی صوت میں بھی مٹائے مِٹ نہیں سکتی بلکہ ہمیشہ قائم رہنے والی ہے لیکن بہرحال جب تک یہ حالت پیدا نہ ہو اُس وقت تک ہم پر مخالفوں کی طرف سے ناجائز اعتراضات ہونے ضروری ہیں مگر اس وجہ سے اُن کے کسی جائز اعتراض کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ مَیں جانتا ہوں کہ مخالف لوگ میرے اس خطبہ سے فائدہ اُٹھائیں گے اور وہ کہیں گے کہ جماعت احمدیہ کے امام نے اپنی جماعت کے لوگوں کو جھاڑا لیکن مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ لوگ کیا کہتے ہیں۔ مجھے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اخلاق ایسے اعلیٰ ہوں کہ ہم خدا کے نزدیک بالکل بری الذّمہ ہوں اور ہم پر یہ الزام عائد نہ ہو سکے کہ ہم نے کسی کے حقوق کو تلف کر دیا۔
پس باوجود اس علم کے کہ یقینا میری اس بات سے دُشمن ناجائز فائدہ اُٹھائے گا مَیں یہ کہنے سے رُک نہیں سکتا کہ میرے لئے یہ بات ناقابلِ برداشت ہے کہ ہمارے سپرد ایک کام کیا جائے اور ہم اِس میں کوئی جنبہ داری یا غفلت کا پہلو اختیار کریں۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے خدمتِ خلق کے لئے کھڑا کیا ہے اور یہ خدمتِ خلق ہمارے لئے ایسی ہی ضروری ہے جیسے دوسروں کے لئے۔ بلکہ چونکہ وہ ہم پر شک کرتے ہیں کہ ہم اپنی اکثریت سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں اس لئے اگر ہم اُن کا کچھ لحاظ کر دیا کریں تو یہ نہ صرف ہمارے لئے ضروری ہے بلکہ واجب ہے کہ ہم ایسا کریں۔ پس ان معاملات میں ممبران کمیٹی جس جس وارڈ کی طرف سے منتخب ہوں ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے وارڈ کے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کریں۔ یقینا تمام گلیوں کی پوری صفائی ہونی چاہئے خواہ وہ گلی ہندوؤں کی ہو یا سکھوں کی ہو یا غیر احمدیوں کی ہو اور مَیں سمجھتا ہوں ایک وارڈ کی طرف سے جو ممبر بھی منتخب ہو اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے وارڈ کے لوگوں کے جائز حقوق کی حفاظت کرے۔
میونسپل کمیٹیوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ روشنی کا معقول انتظام کریں۔ میونسپل کمیٹیوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ گلیوں اور سڑکوں کو صاف رکھیں اور میونسپل کمیٹیوں کا فرض ہؤا کرتا ہے کہ وہ سڑکیں کھلی اور چوڑی رکھیں۔ اگر یہاں کی ٹاؤن کمیٹی کے ممبراِن امور کی طرف توجہ نہیں کرتے تو یقینا وہ اپنے فرائض کی بجاآوری میں غفلت اور کوتاہی سے کام لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے جلسہ میں کہا ہے کہ آرائیوں کی جو مسجد ہے جہاں احرار کا جمعہ ہوتا ہے وہاں پوری صفائی نہیں کی جاتی اور گند پڑا رہتا ہے۔ اگر یہ بات واقعی صحیح ہے تو یہ اس وارڈ کے ممبر کی غلطی ہے کہ اس نے اپنے وارڈ کی صفائی کا خیال نہیں رکھا۔ ایسے معاملات میں ہمیں قطعاً یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ان لوگوں کی طرف سے ہماری مخالفت کی جاتی ہے بلکہ ہمیں ان کے حقوق کی کامِل حفاظت کرنی چاہئے اور ہماری جماعت کے ممبروں کا فرض ہے کہ خواہ کسی وارڈ میں احمدی رہتے ہوں یا غیراحمدی، سب کے حقوق کا خیال رکھیں۔ روشنی کا معقول انتظام کرنا، گلیوں کی صفائی، سڑکوں کی صفائی اور اسی طرح اَور رفاہِ عام کے کام میونسپل کمیٹیوں کے فرائض میں شامل ہیں اور ممبران کا فرض ہے کہ وہ یہ دیکھتے رہیں کہ یہ حقوق سب کو ملے ہیں یا نہیں اور اگر کسی جگہ یہ حق ادا نہ کیا جارہا ہو تو اس جگہ فوری طور پر مناسب انتظام کیا جائے تاکہ کسی کو کوئی شکوہ نہ رہے۔
باقی رہا ان کا اور ہمارا مقابلہ یا اُن کی گالیاں اور دھمکیاں۔ سو یہ ایسی چیز نہیں جس کی ہم پرواہ کریں یا جس کی وجہ سے ہم گھبرا جائیں۔ بہرحال ان کا راستہ الگ ہے اور ہمارا الگ۔ انہوں نے جب اپنے لئے یہ رستہ تجویز کیا ہؤا ہے کہ وہ ہماری مخالفت کریں تو وہ اس کے اچھے یا بُرے پہلو کو خود سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارا فرض یہی ہونا چاہئے کہ ہم ان کے مقابلہ میں اپنی حفاظت اور بچاؤ کے تمام جائز ذرائع اختیار کرتے ہوئے اپنی برتری اور اپنے حقوق کی فوقیت کو قائم رکھیں اور چونکہ ہماری یہاںتعداد زیادہ ہے، ہم یہاں کے مالک ہیں اور قادیان ہمارا ایک علمی اور مذہبی مرکز ہے اِس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قادیان کی امتیازی شان کو بھی برقرار رکھیں لیکن اس کے مقابلہ میں جو شہری حقوق ہیں وہ سب کو یکساں ملنے چاہئیں اور سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہئے۔ مثلاً ہمارے مرکز کی گلیاں ہیں۔ اب مذہبی لحاظ سے چاہے یہ ہمارا مرکز ہی ہے اور چاہے ہم کتنی ہی خواہش رکھتے ہوں کہ ہمارے مرکز کی گلیاں زیادہ پاکیزہ اور زیادہ صاف ستھری ہوں پھر بھی کمیٹی کے قانون کے لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام گلیوں کا یکساں خیال رکھیں۔ خواہ وہ گلیاں احمدیوں کے محلہ کی ہوں یا ہندوؤں اور سکھوں کے محلہ کی۔ ہاں اگر مذہبی مرکز ہونے کے لحاظ سے ہم اپنی گلیوں کو عام گلیوں سے زیادہ مصفٰی اور زیادہ اعلیٰ بنانا چاہیں تو ہمیں ان گلیوں کی صفائی پر اپنا ذاتی روپیہ خرچ کرنا چاہئے۔ ہمیں قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ ہم کمیٹی کا روپیہ اپنی گلیوں پر زیادہ صرف کر لیں اور اس کے فنڈ سے زیادہ حصّہ اپنے لئے لے لیں۔ دوسری جگہوں میں بے شک ایسا ہی ہوتا ہے۔ مثلاً لاہور میں جتنا روپیہ مال روڈ پر خرچ کیا جاتا ہے اتنا روپیہ دوسری سڑکوں یا عام گلیوں پر صرف نہیں کیا جاتا مگر وہ انگریزی اخلاق ہیں، اسلامی اخلاق نہیں اور ہم یقینا اسلامی تعلیم کے ماتحت انگریزوں کے اس فعل کو بھی نا پسند کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں مال روڈ پر بھی اتنا ہی روپیہ خرچ کرنا چاہئے جتنا روپیہ وہ باقی سڑکوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اسی طرح گلیوں کی صفائی پر بھی ایک جیسا خرچ ہونا چاہئے اور یہ صرف لاہور کی بات نہیں اور شہروں میں بھی یہی نظر آتا ہے کہ وہ سڑکوں اور گلیوں کی صفائی میں سب سے یکساں سلوک نہیں کرتے۔ مگر ہمیں ان باتوں میں ان کی نقل نہیں کرنی چاہئے بلکہ شہر کا روپیہ سارے شہر پر یکساں خرچ کرنا چاہئے اور اگر کوئی چیز ایسی ہو جسے جماعت کے لحاظ سے کوئی فوقیت حاصل ہو تو ہمیں یہ امر ضرور مدّ نظر رکھنا چاہئے کہ اس کے اخراجات ہم آپ برداشت کریں۔ بجائے اس کے کہ شہر کے روپیہ کو اس پر صرف کیا جائے۔ یہ کم سے کم انصاف ہے جو لوگوں سے کیا جاسکتا ہے کہ جس جس جماعت کا جتنا روپیہ آئے اس قدر روپیہ سے اس جماعت کو فائدہ پہنچ جائے ورنہ جو زیادہ لوگ ہوں اور اکثریت میں ہوں اُن کا تو اخلاقی لحاظ سے یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے روپیہ میں سے کچھ حصّہ بچا کر غریبوں پر خرچ کیا کریں۔ کیونکہ اصل اسلامی اخلاق یہی ہیں۔ پس مَیں امید کرتا ہوں کہ مخالفت اور گالیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اور ان ناجائز ذرائع کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جو دُشمن ہمارے مقابلہ میں اختیار کرتا ہے صبر اور اسلامی علّوِ حوصلہ سے کام لیتے ہوئے ہماری جماعت کے احمدی ممبرنہ صرف احمدی حقوق کی حفاظت کریں گے بلکہ وہ غیر احمدیوں، سکھوں اور ہندوؤں کے حقوق کی بھی حفاظت کریں گے اور جہاں کہیں انہیں نقصان پہنچ رہا ہو وہاں وہ ان کی جائز مدد سے دریغ نہیں کریں گے۔ مَیں ان سے کہتا ہوں کہ وہ زیادہ حوصلہ دکھائیں اور بہرحال ان کی رعایت رکھیں۔ کیونکہ وہ خود اکثریت میں ہیں اور دوسرے اقلّیت میں اور میرے نزدیک ٹاؤن کمیٹی کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے حلقوں کو اس طرح تبدیل کرے کہ غیر احمدیوں کا بھی ایک نمائندہ ضرور آجائے۔ اس احساس میں مَیں خود بھی شریک ہوں مگر موجودہ حالات میں گورنمنٹ نے وارڈ ایسے رنگ میں تقسیم کر رکھے ہیں کہ احمدی باوجود اکثریت میں ہونے کے اقلّیت میں بدل سکتے ہیں اور یہ بات قطعاً برداشت نہیں کی جاسکتی۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہم ۷۵ فیصدی ہونے کے باوجود ۶۰ یا ۶۵ فیصدی نیابت قبول کر لیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ۴۰ یا ۵۰ فیصدی نیابت قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔
(۲)
اس کے بعد مَیں جماعت کے دوستوں کو ایک اَور امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ ہجرت کا مسئلہ ہے۔ ہجرت کے معاملہ میں ہماری جماعت سے بہت کچھ غلطیاں ہو جاتی ہیں حالانکہ مَیں نے ایک دفعہ پہلے بھی اس کی طرف توجّہ دلائی تھی مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ بیرونی جماعتیں اس کی طرف توجّہ کر رہی ہیں اور نہ قادیان کی جماعت اس کی طرف متوجّہ ہے۔ یہ مسئلہ بھی نہایت پیچیدہ ہے اور جب تک خاص غور اور فکر سے اس کی طرف توجّہ نہیں کی جائے گی اس وقت تک ہم اسے کبھی بھی حل نہیں کر سکیں گے۔ اس میں پیچیدگی یہ ہے کہ ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ قادیان ترقی کرے گا اور آپ نے خود یہ تحریر فرمایا ہے کہ وہ شخص جو قادیان آکر رہائش اختیار نہیں کرتا یا کم سے کم یہاں رہائش اختیار کرنے کی دل میں تمنّا اور خواہش نہیں رکھتا اس کی نسبت مجھے اندیشہ ہے کہ وہ پاک کرنے والے تعلقات میں ناقص نہ رہے۔ پس اس امر کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہر احمدی کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ وہ یہاں آکر رہائش اختیار کرے اور ہماری بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہاں آکر رہیں تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہو۔ کیونکہ پیشگوئیوں کے پورا ہونے کی خواہش ایک قدرتی خواہش ہے اور ہم اس خواہش میں کہ قادیان کی احمدی آبادی جلد سے جلد بڑھے کسی سے پیچھے نہیں لیکن دوسری طرف ہماری یہ خواہش بھی رہتی ہے کہ قادیان میں ایسی آبادی نہ بڑھے جو دینی لحاظ سے کمزور ہو اور ایسا نہ ہو کہ قادیان کی ترقی کے ساتھ ہی ہم پر یہ مثل صادق آجائے کہ سرمنڈواتے ہی اولے پڑے اور تعداد کی ترقی کے ساتھ ہم میں اخلاقی تنزّل شروع ہو جائے۔ اب جو دشمن بعض دفعہ ہماری جماعت پر اعتراض کرتا اور شور مچانے لگ جاتا ہے اس کی زیادہ تر وجہ یہی ہے کہ قادیان میں بعض ایسے لوگ ہجرت کر کے آجاتے ہیں جو اخلاقی معیار پر پورے نہیں اُترتے۔ پہلے زمانہ میں قادیان میں مشکلات باہر سے زیادہ تھیں اور اُس وقت وہی لوگ یہاں آکر بستے تھے جو اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے۔ دین کے لئے قربانیاں کرنے کا جذبہ اپنے دل میں رکھتے تھے اور محض خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے فضل کی تلاش کے لئے وہ قادیان آکر ڈیرہ جما دیتے تھے۔ مگر اب قادیان میں احمدی آبادی کی زیادتی کی وجہ سے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اگر ہم ہجرت کر کے قادیان گئے تو ہماری تجارت میں ترقی ہو جائے گی یا کوئی ملازمت ہی مل جائے گی یا امداد کے لئے کوئی وظیفہ ہی مقرر ہو جائے گا۔ اس وجہ سے وہ کمزور اور بُزدل لوگ جو اپنی جگہوں پر مخالفوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے وہ ہجرت کا نام لے کر قادیان آجاتے ہیں۔
پس ان سے یہ اُمید رکھنا کہ وہ سلسلہ کے نظام کی پابندی کریں گے، احکامِ سلسلہ کی فرمانبرداری کریں گے، قربانی کے موقعوں پر قربانی اور ایثار کا شاندار نمونہ دکھائیں گے اور جماعتی کاموں میں بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ حصّہ لیں گے، بالکل غلط ہوتا ہے۔ وہ حاجتمند ہوتے ہیں، وہ طالب امداد ہوتے ہیں، وہ ایک قسم کے سائل ہوتے ہیں۔
پس ان سائلوں یا بُزدلوں اور کمزوروں کی جماعت کے بڑھنے سے ہمارے اخلاق ترقی نہیں کریں گے بلکہ تباہ ہوں گے اور جماعت کی ترقی نہیں ہو گی بلکہ تنزّل ہو گا اور اس کی شان بلند نہیں ہو گی بلکہ گرے گی۔ پس ہجرت محدود ہونی چاہئے اور ایسے ہی لوگوں کے لئے ہجرت ہونی چاہئے جو سلسلہ کے لئے قربانی کرنے والے ہوں نہ وہ جو کہ سائل کی حیثیت رکھتے ہوں یابھگوڑوں اور بزدلوں کی جماعت ہو۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ مَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلَی اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ فَہِجْرَتُہٗ اِلٰی اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ ۱؎ کہ جو شخص اس لئے ہجرت کرتا ہے کہ مَیں خدا اور اس کے رسول کا قُرب حاصل کروں تو اسے واقع میں خدا اور اس کے رسول کا قُرب حاصل ہو جاتا ہے مگر فرمایا مَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُہَا اَوْ اِلٰی اِمْرَأَۃٍ یَنْکِحُھَا فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ ۔۲؎ جو شخص اس لئے ہجرت کرتا ہے کہ مجھے کوئی دُنیاوی فائدہ پہنچ جائے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی غرض سے وہ ہجرت کرتا ہے تو فرمایا اس کی ہجرت تو اسی کے لئے ہو گی۔ وہ عورت کا مہاجر کہلا سکتا ہے، وہ دُنیا کا مہاجر کہلا سکتا ہے، وہ تجارت کا مہاجر کہلا سکتا ہے، وہ امن کا مہاجر کہلا سکتا ہے مگر وہ خدا اور اس کے رسول کا مہاجر نہیں کہلا سکتا۔ یہ ہجرت کا فرق رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے زمانہ میں ہی بیان فرما دیا تھا، آج کا ایجاد کردہ نہیں۔ پس ہمیں تو اس ہجرت کی ضرورت ہے جو خدا اور اس کے رسول کے لئے ہو اس ہجرت کی ضرورت نہیں جو دُنیوی اغراض کے ماتحت ہو مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے جو محض اس لئے ہجرت کا نام لے کرقادیان آگئے ہیں کہ باہر وہ دُشمنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ پس وہ ڈر کر اور مصیبتوں سے چھُٹکارا حاصل کرنے کے لئے قادیان آئے ہیں۔ اس لئے قادیان نہیں آئے کہ انہیں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہو۔ چنانچہ جب بھی ان سے پوچھا جائے کہ تم کیوں قادیان آئے ہو تو وہ یہی جواب دیں گے کہ باہر ہمارے لئے مشکلات بڑی تھیں۔ گویا وہ خدا کے لئے نہیں آئے بلکہ اپنے آپ کو امن پہنچانے کے لئے یہاں آئے ہیں۔ پس وہ خدا کے مہاجر نہیں بلکہ دُنیا کے مہاجر ہیں ، وہ امن کے مہاجر ہیں وہ تجارت کے مہاجر ہیں مگر انہیں خدا اور اس کے رسول کا مہاجر نہیں کہا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے قادیان میں کیوں بیٹھے ہو، باہر جاؤ اور تبلیغ کرو تو وہ کہتے ہیں ہم کہاں جائیں، باہر دُشمن تو ہمیں آرام نہیں لینے دیتا۔ جس کا صاف طور پر یہی مطلب ہے کہ وہ آرام طلبی کے لئے قادیان آئے ہیں۔ حالانکہ ہجرت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی خاطر تکلیف اُٹھانے کے لئے آئے نہ یہ کہ اپنے آپ کو آرام پہنچانے یا دُنیوی اغراض و مقاصد میں ترقی حاصل کرنے کے لئے آجائے اور آرام سے مہاجربن جائے۔ اگر ان کے دل میں ہجرت کی عظمت ہوتی اور اگر انہوں نے خدا اور اس کے رسول کے لئے ہجرت کی ہوتی تو جب بھی ان سے کہا جاتا کہ جاؤ اور باہر نکل کر اسلام پھیلاؤ تو وہ خوشی سے اُٹھ کھڑے ہوتے اور کہتے کہ الحمدﷲ، ہماری ہجرت کا مقصد پورا ہوگیا۔ ہم نے خدا اور اس کے رسول کے لئے ہجرت کی تھی اور خدا نے ہم سے اپنا کام لے لیا مگر ہوتا یہ ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے باہر جاؤ تو وہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں ہم جائیں کہاں اور اگر جائیں تو کھائیں کیا؟ پس ان کی ہجرت إِلَی اﷲِ وَإِلَی الرَّسُوْلِنہیں بلکہ ان کی ہجرت إِلَی الطَّعَامِ یَا إِلَی اللِّبَاس ہے۔ یعنی یا تو وہ کھانے پینے کے لئے قادیان آئے ہیں یا تجارت کرنے کے لئے قادیان آئے ہیں یا دشمن کے شر سے بچنے کے لئے قادیان آئے ہیں۔ دین کا کوئی حصّہ اور ہجرت کا کوئی حقیقی رنگ ان میں نہیں پایا جاتا۔ حالانکہ ہجرت ہمیشہ دین کی خدمت کے لئے ہوتی ہے، اپنے ذاتی مفاد کے حصول کے لئے نہیں ہوتی۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ مکّہ سے جو مسلمان ہجرت کرتے وہ اسی لئے ہجرت کرتے تھے کہ باہر نکل کر اسلام کو چاردانگِ عالم میں پھیلائیں گے اسی وجہ سے جب وہ مکّہ سے ہجرت کرتے تو کفار ان کا پیچھا کرتے، انہیں پکڑ پکڑ کر واپس لاتے اور اگر کوئی نہ پکڑا جاتا تو اس کے لئے انعام مقرر کرتے کیونکہ وہ سمجھتے تھے اگر یہ ہجرت کر کے چلے گئے تو اسلام پہلے سے بھی زیادہ زور کے ساتھ پھیلنا شروع ہو جائے گا اور اس کی ترقی جو پہلے صرف مکّہ تک محدود ہے اِرد گِرد کے علاقوں کو بھی اپنے اندر شامل کرے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔
صحابہ جب مکہ سے ہجرت کر کے گئے تو مدینہ میں وہ روٹیاں کھانے کے لئے نہیں بیٹھ گئے بلکہ انہوں نے اسلام کی فتح کے لئے لڑائیوں میں حصّہ لیا اور اپنی جانیں خُدا اور اس کے رسول کے لئے قربان کر دیں۔
پس وہ قربانی کرنے اور اپنی جانیں خدا تعالیٰ کی راہ میں دینے کے لئے ہجرت کرتے تھے۔ اس لئے ہجرت نہیں کرتے تھے کہ مدینہ جاکر انہیں آرام سے روٹی مل جائے گی اور دشمن کے حملوں سے ان کی جان بچ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی اسلامی حکومت قائم ہوئی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اعلان فرمادیا کہ اب کوئی ہجرت نہیں ۳؎کیونکہ ہجرت تکلیف اُٹھانے کے لئے تھی اور چونکہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد قربانیوں کا کوئی موقع نہیں تھا اس لئے آپ نے فرمادیا کہ اب کوئی ہجرت نہیں۔ جو باہر آرام اور سہولت سے رہتے ہوں، ان کے کام چلتے ہوں، انہیں ملازمتیں حاصل ہوں، ان کی تجارتیں اعلیٰ پیمانہ پر ہوں اور ہر طرح کی فارغ البالی اور اطمینان انہیں نصیب ہو مگر پھر بھی وہ اپنے آرام و آسائش کو قربان کر کے محض خدا اور اس کے رسول کی رضا مندی کے لئے قادیان آکر رہائش اختیار کر لیں اور کہیں کہ ہم اپنی زندگی خدمتِ دین کے لئے وقف کرتے ہیں۔ روپیہ ہمارے پاس کافی ہے۔ جائداد ہمارے پاس وافر ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم سے خدا تعالیٰ کے دین کا بھی کوئی کام ہو جائے اور ہم اپنی تمام زندگی اب اشاعتِ اسلام اور اشاعتِ احمدیت کے لئے صرف کر دیں گے۔ یا وہ دوست سچے مہاجر ہیں کہ جن کے پاس مال اور روپیہ تو نہ ہو مگر وہ اپنے جسموں اور وقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی نیّت سے گھر سے نکلیں اور اپنی زندگیوں کو اشاعتِ اسلام و احمدیت کے لئے سلسلہ کی راہ میں اُسی طرح خرچ کریں اور کرنے کے لئے تیار رہیں جس طرح کہ صحابہ نے کیا۔ یہی اصل مہاجر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ان کا قادیان میں آنا ضروری ہے مگر وہ جو باہر کی مشکلات سے ڈر کر قادیان آتا ہے یا اس لئے آتا ہے کہ باہر اس کا کام نہیں چلتا تھا مگر یہاں احمدیوں کی کثرت کی وجہ سے اُسے اپنی تجارت میں ترقی کی اُمید ہوتی ہے وہ مہاجر نہیں بلکہ وہ بزدل اور بھگوڑا ہے۔ وہ لڑائی کے میدان سے بھاگنے والا انسان ہے۔ اس کے ٹھہرنے کا مقام بھلا قادیان کس طرح ہو سکتا ہے؟ کیاقادیان بھگوڑوں اور بزدلوں کی رہائش کی جگہ ہے؟ ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد جب عرب میں چاروں طرف ارتداد کا طوفان پھیل گیا اور صرف تین جگہ اسلامی حکومت رہ گئی باقی تمام مقامات میں بغاوت رونما ہو گئی اور مرتدّین نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تو اس وقت بڑی خطرناک جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں سے بعض مسلمان دُشمن کے حملہ کی تاب نہ لا کر بھاگے اور مدینہ آگئے۔ حضرت ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس کا علم ہؤا تو آپ نے حُکم دیا کہ وہ مدینہ سے چلے جائیں اور یہ اعلان فرما دیا کہ آئندہ ان کو مدینہ میں داخل ہونے کی کبھی اجازت نہ ہو گی۔ حالانکہ وہ میدانِ جنگ سے عارضی طور پر بھاگ کر آئے تھے مستقل طور پر بھاگ کر نہیں آئے تھے مگر باوجود اس کے کہ وہ تھوڑی دیر کے لئے دشمن کے مقابلہ سے ہٹ کر مدینہ میں آکر پناہ گزین ہو گئے۔ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے ان پر سخت اظہارِ ناراضگی کیا اور فرمایا کہ مدینہ میں صرف ان لوگوں کی جگہ ہے جو یہاں سے نکل کر دنیا کا مقابلہ کریں۔ ان لوگوں کے لئے جگہ نہیں جو ڈر کر یہاں آجائیں۔ پس ایسی ہجرت قطعاً کوئی ہجرت نہیں اور اسی وجہ سے بار ہا یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی ہجرت کرنا چاہے تو پہلے وہ ہجرت کی مرکز سے اجازت حاصل کرے اور بغیر اجازت حاصل کرنے کے کوئی ہجرت کر کے قادیان آیا تو اُسے واپس جانے پر مجبور کیا جائے گا اور یہ کہ جماعتیں ہمیشہ ایسے ہی آدمیوں کے متعلق ہجرت کی سفارش کیا کریں جو واقع میں اخلاص اور تقویٰ رکھتے ہوں اور خدا اور اس کے رسول کی رضا کے لئے آنا چاہتے ہوں۔ اپنی دنیوی ضرورتوں کی وجہ سے یہاں نہ آرہے ہوں مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیرونی جماعتوں نے بھی اس ضمن میں اپنے فرائض کو بالکل نہیں سمجھا۔ انہیں جب کسی کے متعلق یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہجرت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو فوراً اس کی سفارش کر دیتی ہیں کہ فلاں بڑا مخلص ہے اس کے گزارہ کی یہاں کوئی صورت نہیں، اسے قادیان میں آنے کی اجازت دے دی جائے یا فلاں کو احمدیت کی وجہ سے سخت تکلیف ہے ہم بڑے زور سے سفارش کرتے ہیں کہ اسے قادیان آنے کی اجازت دے دی جائے تاکہ وہ آرام کا سانس لے سکے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ دو حکومتوں میں جنگ ہو رہا ہو، مُلک کی عزت خطرہ میں ہو ، قوم کی زندگی اور موت کا سوال ہو اور کوئی شخص میدان سے بھاگنا چاہتا ہو تو اس کے متعلق بڑے زور سے سفارش کی جائے کہ یہ شخص میدانِ جنگ سے بھاگنا چاہتا ہے اس کے لئے مرکز میں فوراً جگہ نکالی جائے۔ کیا انگریزی گورنمنٹ یا دُنیا کی کوئی عقلمند اور دُوراندیش گورنمنٹ ایسا ہی کیا کرتی ہے۔ کیا تم نے کبھی سُنا ہے کہ میدانِ جنگ سے کوئی برطانوی سپاہی بھاگ آیا ہو اور اسے لنڈن میں شاہی محلات کے قریب جگہ دی گئی ہو۔ وہاں تو اسے فوراً گولی سے اُڑا دیا جاتا ہے مگر یہاں جماعتیں ہیں کہ سفارش کر رہی ہوتی ہیں کہ فلاں کو قادیان میں بُلالیا جائے کیونکہ باہر دُشمنوں کا وہ مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مَیں حیران ہوں کہ جماعتیں بار بار میرے خطبات سُننے کے باوجود کیوں ایسی جرأت کرتی ہیں اور کس طرح یہ سفارش کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں کہ فلاں سخت مصیبت میں ہے اسے قادیان میں ہجرت کی اجازت دی جائے ۔ ایسے شخص کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ دُشمنوں کا مقابلہ کرے اور اس وقت تک اپنے مقام کو مت چھوڑے جب تک وہاں احمدیت قائم نہیں ہو جاتی۔ وہاں تو ایک لڑائی دُشمنوں سے لڑی جارہی ہوتی ہے۔ ایک تلوار ہے جو سر پر لٹک رہی ہوتی ہے۔ احمدیت نرغۂ اعداء میں گھری ہوئی ہوتی ہے۔ ایمان اور کفر آپس میں مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں مگر جماعتیں لکھ رہی ہوتی ہیں کہ اُسے فوراً ہجرت کی اجازت دینی چاہئے۔ حالانکہ جہاں احمدیت کے لئے مُشکلات ہوں وہاں تو ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس جگہ سے اس وقت تک ہلے نہیں جب تک احمدیت کی بنیادیں مضبوط طور پر اُس زمین میں گڑ نہ جائیں مگر تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ جماعتیں اب تک اپنی ذمّہ داری کو نہیں سمجھیں اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ ہم تحقیقات کر کے آپ کے خط کا جواب دیں گے تو وہ لکھتی ہیں تحقیقات بعد میں کر لیں سرِدست اس کو اجازت دے دیں کیونکہ وہ بہت ہی تکلیف میں ہے۔ اس سے زیادہ ایک اسلامی اصل کی تضحیک اور کیا ہو سکتی ہے؟ گویا قادیان اسلامی جنگ کا مرکز نہیں بلکہ اسلامی بھگوڑوں کا مرکز ہے۔ ایسی جماعتیں یقینا اپنے عمل سے احمدیت کی ہتک کرتی ہیں، اسلام کی ہتک کرتی ہیں اور سلسلہ کے نظام کی ہتک کرتی ہیں اور ایسے لوگوں کے متعلق یہ کہنا کہ انہیں قادیان میں ہجرت کی اجازت دے دی جائے۔ یہ ہجرت کی انتہائی ہتک ہے۔ اگر کسی جگہ بعض لوگوں کو احمدیت کی وجہ سے مُشکلات در پیش ہوں تو انہیں اس وقت تک اپنے مقام سے نہیں ہلنا چاہئے جب تک وہ مخالفت احمدیت کے لئے امن کی صورت میں تبدیل نہیں ہو جاتی۔ اگر اس طریق پر سختی سے عمل کیا جائے تو یقینا امن قائم ہو جانے کے بعد وہی لوگ ہجرت کی خواہش رکھیں گے جو سچے دل سے دین کی خدمت کرنے کی تڑپ رکھتے ہوں گے مگر اب جو سینکڑوں لوگ مہاجربن کر قادیان آئے ہوئے ہیں ان کو دیکھو تو وہ کیا دین کی خدمت کر رہے ہیں؟ رات دن لون(نمک) تیل اور ترکاری بیچنے میں مشغول ہیں۔ اس کے سوا وہ اور کیا کر رہے ہیں مگر کیا اسی کے لئے انہوں نے ہجرت کی تھی؟ اور کیا یہی ہجرت کی غرض اور اس کا مفہوم ہوتا ہے؟ یہی لوگ ہیں جو جماعت کے لئے گلے کا پتھر بنے ہوئے ہیں، یہی لوگ ہیں جن میں متفنِّی پیدا ہوتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن میں سے منافق پیدا ہوتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو احمدیت کو بدنام کرنے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ نہ عبادات میں چُست ہیں، نہ چندے دیتے ہیں، نہ قربانیاں کرتے ہیں، نہ تبلیغ میں حصّہ لیتے ہیں۔ سال میں ایک یا دو دن یوم التبلیغ آتا ہے مگر اس روز بھی انہیں اپنے گھروں اور دکانوں کو چھوڑ کر تبلیغ کے لئے باہر نکلنا موت دکھائی دیتا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم ہجرت کر کے آئے ہیں۔ *** ہے ایسی ہجرت پر کہ سال کے ۳۶۰ دنوں میں سے انہیں دو دن بھی تبلیغ کرنے کی توفیق نہیں ملتی اور جب بھی انہیں دین کی خدمت کے لئے بلایا جاتا ہے تو اس کے جواب میں ان کی زبانیں گُنگ ہو جاتی ہیں۔ مجھے ناظر دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے ہمیشہ یہ شکایت پہنچتی ہے کہ جب بھی لوگوں کو تبلیغ کے لئے کہا جاتا ہے ایک جماعت جی چُرانے لگ جاتی ہے۔ اِس وقت قادیان کی احمدی آبادی سات ہزار ہے اور اگر صرف مردوں کا حساب کیا جائے تو وہ تین ہزار بنتے ہیں بلکہ مَیں نے ابھی چنددن ہوئے قادیان کی مردم شماری کرائی تو پانچ سال سے اوپر کی عمر کے ۳۳ سَو ذکور نکلے۔ اِس میں سے اگر آٹھ سَو ایسے بچے فرض کر لیں جو پانچ سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے ہیں اور انہیں اس تعداد میں سے نکال دیا جائے تو بھی اڑھائی ہزار عاقل بالغ مَرد رہ جاتے ہیں۔ اگر یہ اڑھائی ہزار آدمی ۱۵، ۱۵ دن بھی سال میں تبلیغ کے لئے دیں تو قریباً ایک سَو آدمی روزانہ تبلیغ پر رہ سکتے ہیں۔ اب اگر سو گاؤں میں ہر وقت تبلیغ ہو رہی ہو اور ہر وقت ان گاؤں میں ہمارا ایک ایک آدمی بیٹھا انہیں تبلیغ کر رہا ہو تو ایک سال کے اندر ہی عظیم الشان تغیّرپیدا ہو سکتا ہے مگر وہ جو ہجرت کر کے آئے ہیں وہ بتائیں کہ انہوں نے کیا ہجرت کی ہے اور کس چیز کا نام انہوں نے ہجرت رکھا ہؤا ہے۔ یہ تو شریعت کی ایک تو اصطلاح کی شدید ہتک ہے کہ کام اپنا کیا جائے اور مفاد ذاتی سوچا جائے مگر نام اس کا ہجرت رکھ لیا جائے۔ آخر تم میں سے وہ لوگ جنہوں نے دُنیا کے لئے ہجرت کی یا تجارت کے لئے ہجرت کی یا امن تلاش کرنے کے لئے ہجرت کی مگر اُس کا نام انہوں نے دین رکھ لیا ہے اور مُنہ سے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہم نے خدا اور اُس کے رسول کے لئے ہجرت کی ہے۔ کیا وہ خیال کرتے ہیں کہ یہ ہجرت ان کو کوئی فائدہ دیتی ہے؟ وہ اﷲ تعالیٰ کے حضور میں سُرخرو ہو جائیں گے؟ یہ ہجرت تو ایسی ہی ہے جیسے مَیں جب طالبعلم تھا اور سکول میں پڑھا کرتا تھا تو مَیں نے ایک طالبعلم کو ایک دفعہ دیکھا کہ وہ بڑے زور شور سے ریوڑیاں کھا رہا ہے۔ ریوڑیاں تو لوگ کھایا ہی کرتے ہیں مگر اُس کے کھانے کا طریق ایسا تھا جس میں شدید حرص پائی جاتی تھی۔ مَیں نے انہیں کہا کہ معلوم ہوتا ہے آپ کے دل میں ریوڑیوں کی بہت زیادہ خواہش پائی جاتی ہے۔ وہ کہنے لگے ہاں! خواہش کیوں نہ ہو مَیں نے سُنا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ریوڑیوں کو بہت پسند فرمایا کرتے ہیں۔ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو کونین کو بھی کھایا کرتے ہیں، ایسٹرن سیرپ بھی پیا کرتے ہیں اور چرائتہ وغیرہ کے مرکبات بھی استعمال کر لیا کرتے ہیں۔ آپ وہ کیوں نہیں کھاتے؟ وہ کہنے لگے یہ چیزیں تو کڑوی ہوئیں مَیں نے کہا بس ٹھیک ہے۔ آپ کی مثال تو وہی ہوئی کہ کڑوا کڑوا تھُو اور میٹھا میٹھا ہپ۔ یہی ان لوگوں کی ہجرت کا معاملہ ہے۔ یہ ظاہری طور پر نقل مکانی کر لیتے ہیں اور اس سے ذاتی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن جب قربانی اور ایثار اور تبلیغ کا سوال پیدا ہو تو عُذر تراشنے لگ جاتے ہیں اور باوجود اس کے فخر سے اپنے آپ کو مہاجر قرار دیتے ہیں۔ اگر وہ کہتے کہ ہم دُنیا کمانے کے لئے یہاں آئے ہوئے ہیں، ہم اس لئے آئے ہیں کہ ہمیں روٹی ملے اور ہمارے روزگار میں ترقی ہو تو ہم ان پر کبھی اعتراض نہ کرتے۔ ہم کہتے جو کچھ یہ کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں۔ ان کا عمل بالکل قول کے مطابق ہے مگر ہمیں ان پر اگر گِلہہے تو یہ کہ وہ اپنے ترکِ وطن کا نام ہجرت رکھتے ہیں اور کام وہ کرتے ہیں جو ہجرت کے مخالف ہے۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو توجّہ دلاتا ہوں کہ وہ اس بارے میں اپنی ذمّہ داری کو سمجھیں۔ میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ آئندہ کسی کو ہجرت کی اجازت نہیں بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ وہ جماعت کے دوستوں کو بے شک ہجرت کی تحریک کریں مگر ہجرت کے اصول کو بھی مدّ نظر رکھیں۔ جو شخص صحیح طور پر ہجرت کر کے یہاں آنا چاہے ہم اس کے راستہ میں ہر گز روک نہیں بنیں گے بلکہ ہم تو اس کی مدد کرنے کے لئے بھی تیار ہیں اور جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک حد تک مستحق مہاجرین کی مدد کیا کریں۔ چنانچہ صحابہ ؓ جب ہجرت کر کے مدینہ گئے تو انصار نے اپنی جائدادوں میں سے ان کے لئے ایک حصّہ الگ کر دیا اور اپنے کھانے پینے میں ان کو شریک کر لیا۔ پھر جب مہاجرین کے لئے اﷲ تعالیٰ نے سامان پیدا کر دیئے تو اس طریق کو منسوخ کر دیا گیا اور مَیں سمجھتا ہوں یہی حق ہر سچے مہاجر کا ہے۔ بشرطیکہ اس کی ہجرت خدا کے لئے ہو ، اس کی ہجرت رسول کے لئے ہو، اس کی ہجرت دُنیا کے لئے یا آرام طلبی کے لئے نہ ہو مگر اب جو ہجرت کے نام سے قادیان آئے ہوتے ہیں وہ سب سے زیادہ یہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ ہمیں کوئی پوچھتا نہیں مگر سوال یہ ہے کہ تمہیں کیوں پوچھا جائے۔ تم پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے ہجرت کی کیوں ؟ اور تمہاری ہجرت کے معنے کیا ہیں؟ آخر کہاں سے ہمارا فرض آگیا کہ ہم ان لوگوں کے لئے قربانیاں کریں جو بھگوڑے ہوں اور دُشمن کے مقابلہ سے بھاگ کر آگئے ہوں۔ ایسے لوگوں کی مدد کرنے کا اگر خدا اور اس کے رسول نے کہیں حُکم دیا ہو تو وہ حُکم ہمیں دکھاؤ مگر جہاں تک مَیں نے قرآن اور احادیث کو دیکھا ہے مجھے یہی نظر آیا ہے کہ بجائے اس کے کہ ایسے لوگوں کی مدد کی تحریک کی جاتی اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ حُکم دیا ہے کہ اگر تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو فوراً انہیں اپنے اِرد گِرد سے دور پھینکو کیونکہ وہ منافق ہیں اور اپنی عملی حالت سے اسلام کو نقصان پہنچانے والے ہیں۔ پس ایسے لوگوں کی مدد کرنا تو اسلام اور احمدیت پر سخت ظلم کرنا ہے۔ پھر کئی لوگوں کو مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ قادیان آتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کو یہاں چھوڑ جاتے ہیں اور خود کہیں باہر بھاگ جاتے ہیں۔ اب ان کے بیوی بچوں کے مجھے رُقعوں پر رُقعے آنے لگ جاتے ہیں کہ ہماری مدد کی جائے اور ہمارا کوئی وظیفہ مقرر کیا جائے۔ مَیں ہمیشہ ان سے کہا کرتا ہوں کہ تمہاری وہ جائداد کہاں گئی جس کے بھروسہ پر تم قادیان آئے تھے اور اگر تمہارے گزارہ کا کوئی سامان نہ تھا تو تم قادیان کیوں آگئے اور اب تمہارے لئے وظیفہ کیوں مقرر کیا جائے؟ اگر اس قسم کے لوگوں کے لئے وظائف مقرر کئے جائیں تو دس دن کے اندر ہی اندر سلسلہ کے تمام کام بند ہو جائیں کیونکہ جس دن انہیں پتہ لگے گا کہ اس طرح بے کاروں، ناداروں اور بھگوڑوں کے لئے وظائف مقرر کئے جانے لگے ہیں تو سینکڑوں بے کار اور اخلاق میں گرے ہوئے لوگ قادیان آجائیں گے اور سب اپنے لئے وظائف کی درخواستیں دے دیں گے اور جب ان کو وظیفہ دے دیا گیا تو باقی کام کس طرح چل سکتے ہیں۔ پس اصولی طور پر علاج یہی ہے کہ ایسے آدمی کو آتے ہی قادیان سے رخصت کر دیا جائے۔ ہمیں یہ تو منظور ہے کہ ہم ایسے آدمی کو واپسی کا کرایہ اپنی گِرہ سے دے دیں مگر ہم ایسے آدمی کو قادیان میں ایک دن رہنے کی بھی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ وہ سلسلہ پر ایک ایسا بوجھ ڈالتے ہیں جو بالکل ناواجب ہوتا ہے اور چونکہ نہ تو بیرونی جماعتیں اس طرف صحیح طور پر توجہ کرتی ہیں اور نہ یہاں کے محلّوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری ایسے لوگوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں۔ اس لئے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی طرف سے وظائف مقرر کئے جانے کے متعلق دھڑا دھڑ درخواستیں موصول ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور اگر ہم یہ وظائف جاری کر دیں جیسا کہ بعض نادان اس قسم کے وظائف جاری کرنے کا نام ہی قومی خدمت رکھتے ہیں تو سال بھر میں ایک ہزار فیملی قادیان آکر بس جائے اور نتیجہ یہ ہو کہ تمام تبلیغ بند ہوجائے، مدرسے بند ہو جائیں، اخبارات اور رسالے بند ہو جائیں، دفاتر بند ہو جائیں اور جب کوئی پوچھے کہ کیا ہؤا؟ نہ سکول جاری ہیں، نہ اخبارات نکلتے ہیں، نہ دفاتر کھلتے ہیں، نہ تبلیغ ہوتی ہے، نہ کسی سرگرمی اور عملی روح کا اظہار ہوتا ہے تو کہا جائے کہ ہم بڑی قومی خدمت کر رہے ہیں۔ ایک ہزار نادار مفلس اور قلّاش لوگوں کے لئے جو روحانی جنگ کے میدان سے بھاگ کر قادیان آئے تھے وظیفے مقرر کر دیئے ہیں اور وہ سب اپنے اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھ کر دن رات روٹیاں توڑتے رہتے ہیں۔ کیا دُنیا کا کوئی بھی شخص ہو گا جو یہ بات سُن کر ہماری تعریف کرے؟ وہ تو یہ سُنتے ہی کہہ دے گا کہ تم پاگل ہو گئے ہو اور تمہارے علاج کی یہی صورت ہے کہ تمہیں کسی پاگل خانہ میں بھیج دیا جائے۔ مجھے تعجب آتا ہے کہ یہاں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بھی ہمیشہ ایسے موقعوں پر سفارش کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ان کا فرض ہے کہ جب بھی انہیں کسی ایسے آدمی کا علم ہو اُسے پکڑ کر ہمارے پاس اس کی رپورٹ کریں اور اسے جلد سے جلد یہاں سے نکالیں کیونکہ وہ دھوکا کے طور پر یہاں آگیا ہے اور ہجرت کے بہانہ سے وہ یہاں کے لوگوں پر اور خود سلسلہ پر ایک بار بننا چاہتا ہے۔ پس ان لوگوں کے لئے ہجرت نہیں بلکہ ہجرت ان مخلصین کے لئے ہے جو باہر دُشمنوں کا سینہ سپر ہو کر مقابلہ کرتے ہیں، جو احمدیت کے فدائی ہیں، جن کے باہر مکان بھی ہیں، زمینیں بھی ہیں، جائداد بھی ہے یا اگر یہ نہیں تو وہ اپنے جسم کو سلسلہ کی خدمات میں لگانے کی خواہش رکھتے ہیں اور عملاً دین کے سپاہی ہیں اور ان کے اوقات، ان کے اوقات نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے اوقات ہیں، سلسلہ کے اوقات ہیں۔ایسے لوگ اگر قادیان آجائیں تو یقینا اس میں سلسلہ کا فائدہ ہے کیونکہ ہم انہیں کہہ دیں گے کہ جب تم خدمتِ دین کے لئے ہی قادیان آئے تھے تو جاؤ اور فلاں گاؤں میں بیٹھ کر دین کی خدمت کرو، تمہاری ہجرت کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ جیسے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مہاجرین کو بعض دفعہ تبلیغ کے لئے اور بعض دفعہ لڑائی کے لئے اِدھر اُدھر بھیج دیتے اور مہاجر نہایت خوشی کے ساتھ وہاں چلے جاتے مگر وہ جو دکان کرنے کے لئے یہاں آتے ہیں ان کو جب کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ تبلیغ کے لئے جاؤ تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم کس طرح جائیں ہماری تو دکان کا نقصان ہو گا۔ پس ان کی ہجرت کوئی ہجرت نہیں اور نہ ایسے مہاجرین کی ہمیں کوئی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے ہی مہاجرین درکار ہیں جو خدا اور اُس کے رسول کے لئے آئیں اور جب بھی ان کے کانوں میں یہ آواز پڑے کہ دین کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو وہ اپنے تمام کام چھوڑ کر کھڑے ہو جائیں اور خدا اَور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہیں اور مَیں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایسے ہی لوگوں کو ہجرت کرنے کی تحریک کریں۔ اگر ایسے لوگ قادیان آجائیں تو عارضی طور پر ہم ان کی مدد کرنے کے لئے بھی تیار ہیں جیسے اگر ان کے باہر مکان ہوں یا اور کوئی جائداد ہو جس کا فوری طور پر فروخت ہونا مُشکل ہو تو ہم ایسا انتظام کر سکتے ہیں کہ انہیں کچھ قرضہ دے دیں اور اس طرح ان کے مکان کی تعمیر کرا دیں اور جب ان کی باہر کی جائداد فروخت ہو جائے تو وہ بیچ کر ہمارا روپیہ ہمیں واپس دے دیں۔ پس اگر ایسے لوگ آئیں تو ہم حتّی الْمقدور اُن کی مدد بھی کرسکتے ہیں اور درحقیقت یہی لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں قادیان میں رکھا جائے اور جو آبادی ان لوگوں سے بڑھے گی وہی اصل اور نیک آبادی ہو گی مگر وہ جو اب قادیان آچکے ہیں مَیں ان سے بھی کہتا ہوں کہ تمہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ تم اپنی نیّتوں کو بدل لو اور اپنی پہلی فاسد نیّتوں کو تبدیل کرتے ہوئے عہد کر لو کہ آئندہ کے لئے تم خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے قادیان میں رہو گے فتنوں سے ہمیشہ بچتے رہو گے اور دین کے لئے جب بھی قُربانی کی آواز تمہارے کانوں میں پڑے گی تم اُس آواز پر فوراً لبّیک کہو گے اور تمہیں جہاں کہیں بھی تبلیغ کے لئے جانا پڑے گا تم اپنا سَو حرج کر کے بھی وہاں پہنچو گے۔ تو یقینا تم دیکھو گے کہ تم پر وہ فضل نازل ہونے شروع ہو جائیں گے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مہاجرین پر نازل ہؤا کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک منافق طبع شخص تھا اُسے ایک دفعہ خیال آیا کہ لوگ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کر کے بڑے عابد ،زاہد مشہور ہو جاتے ہیں اور دُنیا ان کی عزت کرتی ہے۔ آؤ میں بھی عبادت کروں تاکہ لوگ میری عزت کریں اَور وہ مجھے بڑا معزز اور خدا رسیدہ انسان سمجھیں۔ چنانچہ وہ مسجد میں بیٹھ گیا اور لگا تسبیحیںپھیرنے اور نفل پڑھنے اور خشوع و خضوع ظاہر کرنے اور ذکر الٰہی کرنے اور یہ امید رکھنے کہ اب لوگ میری تعریفیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ بڑا نیک اور پاک انسان ہے۔ سات سال تک وہ ایسا ہی کرتا رہا مگر لوگ جہاں اسے دیکھتے کہتے یہ بڑا منافق ہے، اس کا ہر کام ریاء کے لئے ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی اس کے مدِّنظر نہیں۔ بچے تک اسے دیکھتے تو کہتے کہ یہ بڑا دھوکے باز ہے۔ سب کام منافقت سے کرتا ہے۔ ایسے دھوکے باز بعض دفعہ لوگوں میں مقبول بھی ہو جاتے ہیں اور گوخدائی فضل ان پر نازل نہیں ہوتے مگر بندوں میں ایک حد تک انہیں شُہرت حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی نگاہ تو انسان کے قلب کی گہرائیوں تک پہنچ جاتی ہے مگر انسان دوسرے انسان کے اندرونی حالات سے ناواقف ہوتا ہے اس لئے ایسے دھوکا باز بعض دفعہ لوگوں میں مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں اور لوگ انہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں مگر اس پر چونکہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرنا چاہتا تھا اور اسے منافقت سے نکال کر حقیقی ایمان نصیب کرنا چاہتا تھا اس لئے اس کی مقبولیت نہ ہوئی بلکہ اُلٹا لوگ اس کے متعلق یہی کہنے لگے کہ وہ بڑا منافق ہے۔ ایک دفعہ وہ پاخانہ پھرنے جارہا تھا کہ راستہ میں چند بچّے اس نے کھیلتے ہوئے دیکھے۔ بچّوں نے جونہی اسے دیکھا آپس میں ایک دوسرے سے کہنا شروع کر دیا کہ یہ بڑا منافق ہے ہر وقت لوگوں کے دکھاوے کے لئے نیکی کا کام کرتا ہے۔ بچّوں کی نظر یوں بھی وسیع ہوتی ہے اور وہ بات کو فوراً تاڑ جاتے ہیں۔ چنانچہ مَیں نے ایک دفعہ یورپ کے ایک مشہور ہتھکنڈے دکھانے والے کی کتاب پڑھی وہ ایک مشہور پروفیسر ہے ۔ اس کتاب میں وہ لکھتا ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ خطرہ بچّوں کے سامنے تماشہ کرتے وقت ہوتا ہے کیونکہ بڑے بڑے پروفیسروں، وزیروں اور امیروں کو تو ہم جھَٹ دھوکا دے لیتے ہیں مگر بچے ہماری کوئی چالاکی چلنے نہیں دیتے اور وہ ہمارا ہاتھ پکڑ کر کہہ دیتے ہیں کہ تم نے یوں کیا تھا ۔ بچّہ چونکہ تکلفات سے بالا ہوتا ہے اس لئے وہ حرکتوں کو خوب پہچان جاتا ہے اس موقع پر بھی بچّوں نے اس کے متعلق ایک دوسرے سے کہا کہ یہ بڑا منافق ہے، اس نے جب یہ بات سُنی تو اس کے دل میں سخت ندامت پیدا ہوئی اور اس نے خیال کیا کہ مَیں نے اپنی عمر کے سات سال یونہی ضائع کر دیئے اور مجھے نہ تو خدا مِلا اور نہ ہی دُنیا ملی۔ آؤ اب مَیں خالص خدا کے لئے عبادت کروں۔ اگر دُنیا مجھے نہیں ملتی تو بے شک نہ ملے مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ مَیں اپنے ربّ کو راضی کرنے کی اب سچے دل سے کوشش کروں گا۔ چنانچہ اس نے پیشاب وغیرہ سے فارغ ہو کر وضو کیا اور جنگل میں ایک طرف سجدہ میں گر کر اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرنی شروع کر دی کہ خدایا اب میں بندوں کی واہ واہ کی کبھی خواہش نہیں کروں گا۔ مَیں تُجھ سے عہد کرتا ہوں کہ مَیں صرف تیری رضا کے لئے ہی عبادت کیا کروں گا۔ پس تو مجھ سے راضی ہو جا۔ اگر بندے مجھے بُرا بھلا کہتے ہیں تو بے شک کہیں مجھے ان کی پرواہ نہیں۔ معلوم ہوتا ہے اس نے نہایت ہی اخلاص کے ساتھ یہ دُعا کی تھی کہ معاً نیّت کے بدلتے ہی اس کے اعمال اور اس کی حرکات اور سکنات میں بھی تبدیلی آگئی اور تھوڑی دیر کے بعد جب وہ واپس آیا تو اس نے لوگوں میں یہ چرچا پایا کہ ہم نے اس شخص پر خواہ مخواہ اتنا عرصہ بد ظنی کی ہے۔ یہ آدمی تو واقع میں نیک اور خدا رسیدہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ باتیں سُن کر اس کے نفس میں بہت ہی شرمندگی پیدا ہوئی اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ اگر مَیں خداتعالیٰ کی رضا کے لئے سات سال عبادت کرتا تو آج تک خدا تعالیٰ کے حضور میں مجھے کتنا قُرب حاصل ہو چُکا ہوتا۔ مَیں نے تو اتنے سال فضول ضائع کر دیئے۔ تو خدا تعالیٰ کا دروازہ سب کے لئے کھلا ہے اور ہر شخص پر وہ رحم کرنے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ کوئی شخص رحم کا طالب بن کر اس کے دربار میں حاضر ہو۔ پس تم میں سے وہ لوگ جو دُنیا کے لئے یہاں ہجرت کر کے آئے ہیں اور جو یہاں بیٹھ کر محض روٹی کما رہے ہیں دین کا کوئی کام نہیں کر رہے۔ مَیں ان سے کہتا ہوں کہ ان کے لئے بھی مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ وہ اپنے دلوں کی اصلاح کر لیں اور سچی توبہ اﷲ تعالیٰ کے حضور کریں تو آج سے ہی وہ حقیقی مہاجربن سکتے ہیں بلکہ ممکن ہے اگر وہ اﷲ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائیں اور روئیں تو خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں وہ اسی دن سے مہاجر لکھے جائیں جس دن سے وہ قادیان میں آئے ہیں۔
پس آج مَیں اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ ہجرت کے مسئلہ کی اہمیت کو پوری طرح سمجھا جائے اور ایسے ہی لوگوں کو ہجرت کے طور پر قادیان آنے کے لئے بھیجا جائے جو ہجرت کے اصول کے مطابق آنے کے لئے تیار ہوں اور جیسا کہ مَیں کہہ چُکا ہوں اگر ایسے لوگ ہجرت کرکے آئیں تو ہم اس وقت تک ان کی امداد کرنے کے لئے بھی تیار ہیں جب تک کہ عارضی دقّتیں ان کے راستہ سے دور نہ ہو جائیں اور یہ ہجرت کا معاملہ میری تحریک جدید کے مطالبات میں شامل ہے۔ چنانچہ مَیں نے جماعت سے جو مطالبات کئے ہیں ان میں سے ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ لوگ یہاں رہائش کے لئے مکان بنائیں اور اسی جگہ رہائش اختیار کریں۔ بعض لوگوں نے مجھ پر اعتراض کیا ہے کہ اِدھر تو آپ نے یہ کہا کہ قادیان میں رہائش اختیار کرو اور اُدھر ہجرت پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ مَیں نے اس خطبہ میں اسی اعتراض کا جواب دیا ہے اور بتایا ہے کہ مَیں ہجرت کا مخالف نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ اس بات کی تحریک کرتا ہوں کہ قادیان میں اپنے مکان بناؤ اور یہیں کی رہائش اختیار کرو مگر مَیں کہتا ہوں محض خدا اور اس کے رسول کی رضا کے لئے آؤ، نفسانی اغراض اَور دُنیوی لالچوں کے لئے یہاں مت آؤ۔ اگر تم خداتعالیٰ کے لئے یہاں آکر مکان بناؤ گے تو تم کو بھی فائدہ ہو گا اور دین کو بھی فائدہ ہو گا کیونکہ اﷲ تعالیٰ کسی کی محبت کو ضائع نہیں کرتا اور نہ اس کی خاطر قربانی کرنے والے ردّ کئے جاتے ہیں۔ ایسا شخص اگر جنگل میں بھی ہو گا تو اﷲ تعالیٰ اس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے گا اور لوگ آپ ہی آپ اس کی طرف کھینچے چلے جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہی دیکھو، آپ ایک گوشہ میں پڑے ہوئے تھے اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ خلوت میں سے نکل کر جلوت میں آئیں مگر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو الہام کیا اور کہا فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرف بَیْنَ النَّاسِ۔۴؎ کہ اے شخص اب وہ وقت آگیا ہے کہ خدا تیری نصرت کرے اور تیرے نام کو دُنیا میں پھیلائے ۔ پس اب تو گوشے میں نہیں بیٹھ سکتا بلکہ اب تجھے نکلنا پڑے گا اور لوگوں کے سامنے ظاہر ہونا پڑے گا۔ تو جو شخص اﷲ تعالیٰ کا ہو جائے خدا تعالیٰ خود اس کا حافظ و ناصر ہو جاتا ہے۔ پس اﷲ تعالیٰ کے لئے ہجرت کرو اور یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے ہجرت کرتاہے اُسے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا۔ وہ قادیان میں رہے تب بھی اس کی ترقی ہو گی اور اگر وہ شیروں کی کچھار میں رہے تب بھی خدا اس کی حفاظت کرے گا۔ ہاں یہ بالکل ممکن ہے کہ شیر اس کے جسم کو پھاڑ دیں مگر اس طرح پھاڑے جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ اس کا جسم بے شک پھاڑا جائے گا مگر اس کی روح اﷲ تعالیٰ کے ابدی انعامات کی وارث ہو جائے گی۔ پس ایسے شخص کے لئے اگر موت مقدر ہو تب بھی اﷲ تعالیٰ اس کی اولاد کو یااس کی اولاد کی اولاد کو اپنے دُنیوی انعامات سے محروم نہیں رکھے گا اور آخرت میں جو اسے انعامات ملیں گے وہ اس کے علاوہ ہیں۔
پس آج میں تحریک جدید کے اس حصّہ کو پھر دُہراتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہر کام میں عقل سے کام لو۔ دیکھو ہماری شریعت نے نماز کا حُکم دیا ہے مگر بعض دفعہ نماز پڑھنی بھی منع ہے۔ ہماری شریعت نے روزے رکھنے کا حُکم دیا ہے مگر بعض دفعہ روزہ رکھنا بھی منع ہے۔ اسی طرح مَیں کہتا ہوں تم بے شک ہجرت کرو بلکہ پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ مَیں تحریک کرتا ہوں کہ تم ہجرت کرکے یہاں آؤ مگر مَیں کہتا ہوں وہ ہجرت کرو جو خدا اور اُس کے رسول کے لئے ہو، وہ ہجرت کرو جس میں یہ عہد مصمّم ہو کہ ہم دین کی خدمت کریں گے اور اپنی عمر میں سے ایک کافی حصّہ خدمتِ خلق اور خدمتِ اسلام کے لئے خرچ کریں گے۔ میرے پاس شکایت کی گئی ہے کہ جب بعض لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں گاؤں میں جاکر بیٹھ رہو اور تبلیغ کرو تو وہ کہتے ہیں ہم وہاں نہیں جاسکتے، ہمیں وہاں تکلیف ہو گی یا ہمارے کاروبار کو نقصان ہو گا۔ حالانکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں جن صحابہ نے مدینہ میں ہجرتیں کی تھیں وہ سارے مدینہ میں نہیں رہتے تھے بلکہ ارد گرد کے گاؤں میں بھی رہتے تھے۔ حضرت عمر ؓ بھی مدینہ میں نہیں رہتے تھے بلکہ مدینہ سے قریب ایک گاؤں تھا جہاں وہ رہتے تھے مگر یہاں کے لوگ تو بھینی اور ننگل کا نام سُن کر کانپ اُٹھتے ہیں۔ حالانکہ اگر انسان خدا تعالیٰ کو روزی رساں سمجھے تو اس قسم کے وساوس اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کر سکتے۔
پس ان معمولی معمولی باتوں کی طرف مت دیکھو بلکہ جب بھی تمہیں کہا جائے کہ تم تبلیغ کے لئے باہر جاؤ تو فوراً نکل کھڑے ہو اَور وہیں اپنا کام کرو اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے، دین کا بھی فائدہ ہے اور لوگوں کا بھی فائدہ ہے۔
(۳)
اسی سلسلہ میں مَیں آج یہ بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ وقفِ زندگی کے متعلق مَیں نے اپنی جماعت کے نوجوانوں سے جو یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو پیش کریں ۔اس کے ماتحت بہت سی درخواستیں مولوی فاضلوں اَور گریجوایٹوں کی آرہی ہیں مگر ابھی اور بھی بہت سے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ اس لئے جو دوست مولوی فاضل یا گریجوایٹ ہوں اور وہ بِلا شرط اپنی تمام زندگی خدمتِ اسلام اور خدمتِ احمدیت کے لئے وقف کرنے کی خواہش رکھتے ہوں، وہ اپنے نام جلد سے جلد پیش کریں۔ درخواستوں کی ایک کافی تعداد جب ہمارے پاس پہنچ جائے گی تو اس کے بعد اُن میں سے مناسب نوجوانوں کا انتخاب کیا جائے گا لیکن اس دوران میں ایک اور تجویز میرے ذہن میں آئی ہے اور مَیں اُس کا بھی آج اعلان کر دینا چاہتا ہوں اور وہ تجویز یہ ہے کہ ان مولوی فاضلوں اور گریجوایٹوں کے علاوہ چند ایسے آدمیوں کی بھی ضرورت ہے جو عمر کے لحاظ سے بیس سے چالیس سال تک کے ہوں۔ مڈل پاس ہوں اور شادی شُدہ ہوں یا اُن کی شادی کی کہیں تجویز ہو چکی ہو اور چھ ماہ یا سال میں ان کی شادی ہو جانے والی ہو یہ جو واقفینِ زندگی ہوں گے ان کو گاؤں میں رکھا جائے گا۔ پس یہ ایسے ہی آدمی ہونے چاہئیں جو محنت کرنے اور ہاتھ سے کام کرانے کے لئے تیار ہوں۔ ان سے کام زیادہ تر مدرّسی کا لیا جائے گا لیکن ان کو جو ٹریننگ اور تربیت دی جائے گی اُس میں زراعت کا سب قسم کا کام جیسے ہل چلانا، نلائی کرنی، فصل کاٹنی نیز اس کے علاوہ لوہارہ اور بڑھئی کا کام بھی ان کو سکھایا جائے گا اور جب ٹریننگ کے بعد ان کو کہیں کام پر مقرر کیا جائے گا تو اس وقت بھی یہ کام بدستور جاری رہیں گے اور بعد میں بھی ہل چلانے کا کام اور لوہارے اور ترکھانے کا کام ان کے ساتھ لگا رہے گا۔ فی الحال ایسے چھ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ ہماری جماعت میں بہت سے دوست ایسے ہیں جو مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ ہم زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہماری تعلیم مڈل یا انٹرنس تک ہے مگر ہمیں بھی دین کی خدمت کا شوق ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اگر خدمتِ دین کا کوئی موقع ہو تو ہمیں اس سے محروم نہ رکھا جائے۔ ایسے لوگوں کے لئے اب موقع ہے کہ وہ اپنے آپ کو پیش کریں۔ چاہے وہ مڈل پاس ہوں اور چاہے انٹرنس پاس دونوں صورتوں میں وہ اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں مگر کم سے کم انہیں مڈل پاس ضرور ہونا چاہئے کیونکہ اُن کا ایک کام مدرّسی بھی ہوگا۔ مَیں نے اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اس تجویز کے مطابق ایک ایسی سکیم سوچ لی ہے کہ اگر وہ کامیاب ہو گئی تو ہم بہت قلیل عرصہ میں تعلیم و تربیت کا ایک وسیع جال دُنیا میں پھیلا سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تحریک جدید کے ماتحت ہی ٹریننگ دی جائے گی اور تحریک جدید کے ماتحت ہی انہیں تعلیم دی جائے گی اور جب وہ ٹریننگ حاصل کر لیں گے تو انہیں مختلف گاؤں میں مقرر کر دیا جائے گا۔ اُن کے وہاں کیا کام ہوں گے؟ یہ بعد میں بتایا جائے گا۔ سرِدست مَیں اسی قدر بتا سکتا ہوں کہ اُن سے زیادہ تر ایسا کام لیا جائے گا جو ہاتھ سے کرنے والا ہو گا کیونکہ گاؤں میں ایسے لوگ کبھی مُفید نہیں ہو سکتے جو صرف کتابی حد تک اپنی کوششوں کو محدود رکھنے والے ہوں بلکہ کتابی حد تک کام کرنے والے بالعموم گاؤں والوں کے کیریکٹر کو بگاڑ دیتے ہیں۔ گاؤں والوں کی ترقی اس شخص کے ذریعہ ہو سکتی ہے جو انہی میں سے ہو ان کے ساتھ مل کر ہل چلائے، ان کے ساتھ مل کر بڑھئی کا کام کرے اور اُن کے ساتھ مل کر لوہارہ کا کام کرے اور پھر اس کے ساتھ ہی انہیں تعلیم بھی دیتا چلا جائے اور انہیں تبلیغ بھی کرتا چلا جائے۔ جب تک گاؤں والوں کے سامنے اس رنگ میں کام نہ کیا جائے اُس وقت تک نہ صرف ان کی ترقی نہیں ہو سکتی بلکہ اُن میں پَستی رونما ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے مثلاً مدرسہ لگا ہو اور اُستاد کے مُنہ میں حقّہ کی نال ہو اور وہ بیٹھا گپیں ہانکتا چلا جارہا ہو تو ایسے شخص کے نمونہ کو دیکھ کر لوگوں نے کیا ترقی کرنی ہے۔ وہ تو اُس کے بُرے نمونہ کو دیکھ کر اپنی اچھی عادتوں کو بھی ترک کر دیں گے لیکن اگر یہ اُن کے ساتھ ہی ہل چلا رہا ہو اور ساتھ ہی یہ بتاتا جاتا ہو کہ تمہارے بیج میں یہ نقص ہے مگر میرے بیج میں یہ خوبی ہے یا میرا ہل اچھا ہے اور تمہارے ہل میں وہ نقص ہے۔ تو یہ مدرّس پہلے مدرّس سے زیادہ مُفید اور زیادہ نفع بخش ثابت ہو گا۔ پس میری اِس تحریک پر جو لوگ اپنے آپ کو پیش کرنے والے ہوں وہ بیس سے چالیس سال تک کی عمر کے ہوں، ہاتھ سے کام کرنے والے ہوں اور محنت کے لئے تیار ہوںہم ایسے لوگوں کو گزارہ بھی اسی صورت میں دیں گے یعنی ہم روپیہ کی صورت میں انہیں تنخواہ نہیں دیں گے بلکہ کام کی صورت میں دیں گے تاکہ وہ گاؤں والوں کے لئے نیک نمونہ بنیں اور ان کی ترقی اور اقبال مندی کا موجب ہوں ۔ اسی طرح ان کے ذریعہ گاؤں والوں کو اصلاحِ دیہات کے طریق بتاتے جائیں گے۔ کئی پیشے سکھائے جائیں گے اور کئی ترقی کی تدابیر بتائی جائیں گی۔ غرض یہ گاؤں میں اس طرح رہیں گے جس طرح باپ اپنے بچوں میں رہتا ہے اور یہ اپنا بھی گزارہ کریں گے اور دوسروں کو بھی ایسے پیشے سکھائیں گے جن کے ذریعہ وہ روزی کما سکیں گے۔ گویا یہ زمینداروں کے لڑکوں کو صرف کتابی تعلیم دے کر آرام طلب نہیں بنائیں گے بلکہ انہیں زیادہ محنتی زیادہ کمانے والا اور زیادہ ہوشیار بنائیں گے۔ یہ سکیم اگر کامیاب ہو گئی تو اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے قدم دیہات میں نہایت مضبوط ہو جائیں گے۔ اب تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گاؤں میں بعض احمدی ہوتے ہیں تو چونکہ وہ اسلام کی تعلیم سے نا واقف رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کے دلوں پر زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ پھر احمدیت سے ارتداد اختیار کر لیتے ہیں بے شک جو مخلص ہوں وہ اپنے اخلاص میں ترقی کرتے رہتے ہیں مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ ایک حصّہ ایسے کمزوروں کا بھی ہوتا ہے اوروہ بجائے ترقی کرنے کے تنزّل میں گرجاتے ہیں ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے درختوں پر جب آم کا بُور لگتا ہے تو اس کا اکثر حصّہ آندھیوں اور بارشوں کی وجہ سے گر کر ضائع ہو جاتا ہے اسی طرح بہت سے آدمی احمدی ہوتے ہیں مگر پھر مناسب ماحول نہ ملنے کی وجہ سے گر جاتے ہیں کیونکہ وہ بُور کی طرز پر ہوتے ہیں اور جس طرح بُور کا ایک حصّہ آندھیوں وغیرہ کی وجہ سے گر جاتا ہے اسی طرح وہ بھی پکنے نہیں پاتے اور گر جاتے ہیں مگر میں چاہتا ہوں کہ اس سکیم کے ذریعہ ایسا سامان ہو جائے کہ بُور کا کوئی حصّہ ضائع نہ ہو اور سب پکّے ہوئے پھل کی شکل اختیار کر لے مگر یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی جگہ ایسی نہ رہے جہاں احمدیت کا مرکز نہ ہو بلکہ ہر جگہ ایسے تعلیم یافتہ لوگ موجود ہوں جو اپنی روزی بھی کمائیں اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں کو تعلیم بھی دیتے چلے جائیں اس غرض کے لئے پہلی جماعت چھ آدمیوں پر مشتمل ہو گی پس وہ دوست جو اس تحریک میں حصّہ لینا چاہتے ہوں انہیں چاہئے کہ وہ اپنی زندگی وقف کریں اور اپنے نام میرے سامنے پیش کریں اور یاد رکھیں کہ مُنہ سے خدمت کرنے کا دعویٰ کرنا اور عملی رنگ میں کوئی کام کرنا ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے مُنہ سے دعویٰ کرنا آسان ہوتا ہے لیکن عمل کرنا مُشکل ہوتا ہے اور درحقیقت عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے نتیجہ میں اﷲ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ میں اس طرح ان لوگوں کی خواہشات کو بھی ایک حد تک پورا کر سکوں گا جو کہتے رہتے ہیں کہ مولوی فاضلوں اور گریجوایٹوں کے لئے توخدمتِ دین کا موقع نکالا جاتاہے مگر ہم جو کم تعلیم یافتہ ہیں ہمارے لئے کیوں کوئی راستہ نہیں نکالا جاتا۔ اگر یہ سکیم کامیاب ہو گئی تو مَیں سمجھتا ہوں کہ تربیت کے لحاظ سے جماعت میں ایک تغیّر پیدا ہو جائے گا۔ باقی کام تو سب اﷲ تعالیٰ نے کرنے ہیں۔ ہم ہزاروں کام کرتے ہیں مگر اپنی سُستی اور غفلت کی وجہ سے ان کے نیک نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔ پس یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے اور مَیں اس سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس سکیم کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہر گاؤں میں ہمارا کوئی نہ کوئی مبلّغ کام کر رہا ہو اور اس کے فضل ہم پر نازل ہوں اور اس سکیم میں ہماری دینی اور دنیوی دونوں قسم کی بہتری کے سامان پوشیدہ ہوں۔‘‘
(الفضل ۲۴؍دسمبر ۱۹۳۸ئ)
۱؎ بخاری کتاب الایمان باب ماجاء انّ الاعمال بِالنّیۃ (الخ)
۲؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الٰی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
۳؎ بخاری کتاب الجہاد و السیر باب فضل الجہاد و السیر
۴؎ تذکرہ صفحہ ۶۴۲۔ ایڈیشن چہارم

۴۲
(۱) مسجد اقصیٰ کی توسیع میں حصہ لے کر
ہراحمدی دائمی ثواب حاصل کرسکتا ہے
(۲)جلسہ سالانہ کے لئے تشریف لانے والے
احباب سے خطاب
(فرمودہ ۲۳؍ دسمبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’سابق دستور کے مطابق آج کا جمعہ مسجد نور میں ہوناچاہئے تھا کیونکہ اس کے ارد گرد میدان زیادہ ہے اور صفیں دور تک پھیلائی جاسکتیں ہیں لیکن مسجد نور میں آج لائوڈ سپیکر کا انتظام نہیں تھا۔ اس لئے میں نے دونوں امور میں موازنہ کرکے یہی مناسب سمجھا کہ جمعہ اسی جگہ (مسجد اقصیٰ میں ) ہو۔ کیونکہ جگہ کے متعلق شریعت کا حکم موجود ہے کہ تنگ ہونے کی صورت میں لوگ ایک دوسرے کی پیٹھوں پر سجدہ کرسکتے ہیں لیکن خطبہ کی آواز نہ پہنچنے کا دوسرا کوئی قائم مقام نہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت تھی ۔ اس مسجد میں جو نیا تغیر ہؤا ہے اسے دیکھنے اورعملی طور پر دیکھنے کا موقع دوستوں کومل گیا ۔ اگریہ تغیر نہ ہوتا تو آج اس میں اتنے لوگ سما نہ سکتے ۔ قریب قریب بیٹھ کربھی نہ سما سکتے ۔ دوستوں نے دیکھا ہوگا کہ مسجد کا ایک حصہ نامکمل پڑا ہے۔ جب اس کے متعلق میں نے سوال کیا کہ کیوں نامکمل ہے تو اس کا جواب مجھے یہ دیاگیا کہ اس کے لئے روپیہ نہیں تھا۔ جو چندہ جمع ہؤا تھا وہ ختم ہوگیا اور چونکہ مزید گنجائش نہ تھی اس لئے باقی حصہ نامکمل رہ گیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ مسجد نور میں لائوڈ سپیکر کاآج نہ لگنا اس لحاظ سے مفید ہوگیا کہ دوستوں کو اس جگہ آنے اور جگہ میں دقّت کو محسوس کرنے کاموقع مل گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت جس سُرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے اس مسجد کو ابھی بہت زیادہ پھیلنے کی ضرورت ہے ۔جلسہ کے ایام کے سوا بھی جمعہ کے دن بہت سے مہمان باہر سے آجاتے ہیں ارد گرد کے دیہات سے تو دوست کثرت سے آتے ہیں۔پھرقادیان کی آبادی بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھتی جارہی ہے جس کانتیجہ یہ ہؤا ہے کہ نماز پڑھا کر جب میں باہر جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ لوگ دور دور تک گلیوں میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ گلیوں میں نماز پڑھنا مناسب نہیںاس لحاظ سے بھی کہ مسافروں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ یہ بات نماز کے آداب کے خلاف ہے اور اسی دقّت کو دیکھتے ہوئے حال میں مسجد بڑھائی گئی ہے مگر میں نے دیکھا ہے کہ اب بھی لوگ گلیوں میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں اور اس لئے ابھی ضرورت ہے کہ اس مسجد کو اور زیادہ بڑھایا جائے لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب اس کے اور بڑھانے کی بظاہر کوئی صورت نہیں کیونکہ دائیں بائیں روکیں ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بلند حوصلہ لوگ ایسی باتیں نہیں کرتے اور مومن کا ایمان توبہت ہی بڑا ہوتا ہے ۔
انگریزی زبان میں ایک ضرب المثل ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ جہاں ارادہ پیدا ہوجائے وہاں رستہ بھی نکل آیا کرتا ہے تو جب کسی بات کا ارادہ کرلیاجائے تو اس کے لئے آپ ہی آپ رستہ بھی نکل آیا کرتا ہے۔ جب یہ مکان لیا گیا ہے جس میں اب صدر انجمن کے دفاتر ہیں تو میں نے یہی کہا تھا کہ یہاں دفاتر تو عارضی ہیں کسی وقت یہ مکان بھی مسجد کے کام آجائے گا ۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور مکان بھی ہے جس میں پہلے ڈاکخانہ تھا وہ بھی مسجد کے کام آسکتا ہے اور میں سمجھتا ہوں اگر ارادہ کر لیا جائے تو اس مسجد کے چاروں طرف بڑھنے کا موقع اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابھی موجود ہے ۔ اب بھی میں سمجھتا ہوں ہندوستان کے بہت بڑے بڑے شہروں مثلاً لاہور ،دہلی ،حیدر آباد اور لکھنؤ وغیرہ کو چھوڑ کر جن کی آبادی تین تین چار چار لاکھ اور بعض صورتوں میں دس دس اورپندرہ پندرہ لاکھ ہے، جو چھوٹے شہر ہیں اور جو قادیان سے دس دس بلکہ بیس بیس گنا بڑے ہیں، ان کی جامع مسجدیںہماری اس مسجد کا مقابلہ نہیں کرسکتیں ۔ نمازیوں کے لحاظ سے تو وہ بالکل ہی مقابلہ نہیں کرسکتیں ۔ کیونکہ وہ تو نمازیوں سے بالکل خالی ہوتی ہیں۔
۱۹۲۴ء میں جب میں ولایت گیا تو رستہ میں قاہرہ کی مسجد دیکھنے کا اتفاق ہؤا۔ غالباً ظہر یا عصر کی نماز کا وقت تھا اور میں نے دیکھا کہ ایک کونے کی محراب میں ایک شخص نماز پڑھا رہا تھا اورپیچھے چار پانچ آدمی کھڑے تھے اور کونے کے محراب میں نماز پڑھنے کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ شرم آتی ہے کہ اتنی بڑی مسجد میں چار پانچ آدمی کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔ وہ مسجد بنانے والے نے تو اتنی شاندار بنائی کہ اسے دیکھ کر پرانے زمانہ کے لوگوں کی عظمت یاد آجاتی ہے اور کچھ عرصہ تک ممکن ہے اس میں رونق بھی رہتی رہی ہو۔ مگرموجودہ نسلوں نے نماز کی طرف سے اپنی توجہ ہٹالی ہے اور اس کی پابندی کوبالکل بھلادیا ہے لیکن ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز کی پابندی زیادہ ہے گو وہ معیار تو نہیں جو میں دیکھنا چاہتا ہوں ۔یعنی یہ کہ جماعت میں کوئی ایک بھی سست نہ رہے اور ابھی ہماری جماعت میں ایسے لوگ بھی ہیں جو موقع بے موقع نماز کا ناغہ کرنے کے عادی ہیں حالانکہ جہاں تک میں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور قرآن کریم پر غور کیا ہے ۔ اگر کوئی شخص دس سال باقاعدہ نماز یں پڑھتا اور صرف ایک نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑ دیتا ہے تو وہ ایماندار نہیں بلکہ جو کچھ میں نے قرآن کریم سے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ساری عمر میں ایک بھی نماز عمداً چھوڑ تا ہے تو و ہ مسلمان نہیں ۔
ہاں بعض دفعہ بے ہوشی کی حالت میں چھوٹ جائے تو اوربات ہے یا بعض دفعہ سوتے ہوئے دیر ہوجائے تو اس کے لئے شریعت کا یہ حکم ہے کہ جس وقت جاگ آجائے اسی وقت پڑھ لے اور اس طرح اگر دیر سے اٹھ کر بھی کسی نے نماز اداکرلی تو اس کی نماز ہوگئی اور اس کا وقت وہی تھا جب وہ بیدار ہؤا۔ یاجب اسے ہوش آئی۔ مگر جوشخص جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے اس علم کے باوجود کہ نمازکاوقت ہے مگر وہ سمجھتا ہے کہ ابھی میں دوسرا کام کررہا ہوں اسے ختم کرلوں تو نمازپڑھ لوں گا ۔ یا وہ کام تو نہیں کررہا مگردوستوں کی مجلس میں بیٹھا باتیں کررہا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس مجلس کو چھوڑ کر کیا جانا ہے پھرپڑھ لوں گا تو اس قسم کے حالات کے ماتحت نماز کو ترک کرنے والا ہرگز مؤمن کہلانے کا مستحق نہیں ۔ہاں اس کے بعد اگر اس کے دل میں ندامت محسوس ہو، حسرت پیدا ہو اور وہ سچے دل سے توبہ کرکے خداتعالیٰ کے حضور عرض کرے کہ میراایمان ضائع ہوچکا ،میں اسلام سے نکل گیا مگر اب دوبارہ داخل ہوتاہوں تو پھر وہ دوبارہ داخل اسلام سمجھا جائے گا لیکن اس کی پہلی حالت غیر مؤمن کی سمجھی جائے گی مگر نماز کی اس اہمیت کا احساس بھی ابھی ہماری جماعت میں پیدا نہیں ہؤا،گو میں سمجھتا ہوں کہ اکثر دوست ایسے ہیں جن کے دلوں میں یہ احساس ہے کیونکہ غیرلوگ جو طرح طرح کے اعتراضات احمدیوں پر کرتے رہتے ہیں وہ یہ اعتراض نہیں کرتے کہ یہ نماز نہیں پڑھتے بلکہ اکثر معترض تسلیم کرتے ہیں کہ نمازیں تو یہ ضرور پڑھتے ہیں مگر ہیں کافر ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیرونی احمدیوں کے متعلق لوگوں کایہی تجربہ ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں ۔ ورنہ جہاں دشمن اور اعتراض کرتے ہیں وہاں یہ بھی ضرور کرتے ۔
احمدیوں کے معاملات کی خرابی کے متعلق اعتراضات میں نے سُنے ہیں۔کسی ایک احمدی نے کسی کے ساتھ بدمعاملگی کی تو وہ ساری جماعت کو ہی بد معاملہ قراردے دیتا ہے یا کسی نے جھوٹ بول دیا تو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ احمدی جھوٹ بولتے ہیں لیکن یہ اعتراض نہیں کرتے کہ احمدی نماز نہیں پڑھتے ۔ ناواقفی سے یا جھوٹ بول کر بعض لوگ یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ قادیان کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتے ہیں مگر نماز نہ پڑھنے کی کوئی شکایت نہیں کرتا بلکہ عام طور پر یہی کہاجاتا ہے کہ احمدی نمازی ہوتے ہیں۔ ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے میرے ایک عزیز کے متعلق ایک دوست نے لکھا کہ ایک جگہ بعض افسروں میں یہ ذکر ہو رہا تھا کہ فلاں نوجوان ہے مگر داڑھی رکھی ہوئی ہے ۔ ایک افسر نے کہا کہ یہ قادیان کا ہے اور پھر میرے ساتھ اس کا رشتہ بتایا اس پر ایک افسرنے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی نوجوان داڑھی رکھتا ہے تو میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ یہ یا تو یوپی سے آیا ہے اور یا پھر قادیانی ہے۔ پھر اس نے ایک لمبی تقریر کی اور کہا کہ قادیانی لوگ نمازیں باقاعدہ پڑھتے ہیں، دین کے دوسرے احکام پر بھی عمل کرتے ہیں مگر افسوس کہ ہیں دین سے خارج اور کافر حالانکہ اس آخری فقرہ کے کہہ دینے سے کیا ہوتا ہے ۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص کہے کہ سورج کی ٹکیا تو سر پر نظر آتی ہے،دھوپ بھی نکلی ہوئی ہے، گرمی بھی محسوس ہوتی ہے، تاریکی کا کہیں نام نہیں مگر عجیب بات ہے کہ ہے ابھی رات۔ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے مُنہ سے صرف یہ کہہ دینے سے کہ ابھی رات ہے کون مانتا ہے کہ یہ سچ کہہ رہا ہے یہ بات توکوئی شخص سارا دن کہتا رہے پھر بھی کوئی نہیں مانے گا ۔تو احمدیوں میں نماز کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی حد تک احساس ہے مگر ابھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو نماز کے نیم تارک ہیں اپنے نزدیک اور کلّی تارک ہیں میرے نزدیک کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے میرا عقیدہ یہی ہے کہ جو شخص ایک نماز بھی جان بوجھ کر ساری عمر میں چھوڑ تا ہے وہ کافر ہے۔ چاہے وہ دس سال یا بیس سال مسلسل نمازیں پڑھنے کے بعد ہی کیوں نہ ایک نماز چھوڑے اور اپنے دل میں یہ سمجھ رہا ہو کہ میں نمازی ہوں میرے نزدیک ایسا شخص بالکل احمق ہے ۔
نماز کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے بعض لوگ بٹیرے پکڑتے ہیں اور پکڑنے کے بعدجو بٹیروں کے شکاری ہوتے ہیں وہ ان کو پنجروں میں بند رکھتے ہیں ۔جب اس پنجرہ کا دروازہ کھل جائے اور ان میں سے ایک کو نکلنے کا موقع ملے تو باقی بھی سب نکل جائیں گے ۔ یہی حال نماز کا ہے،ایک نماز کے نکل جانے کا یہ مطلب ہے کہ دل کی کھڑکی کھلی رہ گئی اور جب ایک کو نکلنے کا موقع ملا تو سب پُھر کرکے نکل جائیں گے جس دن دروازہ کھلا رہ گیا اس دن یہ خیال کرنا کہ صرف ایک ہی نماز گئی ہے باقی سب موجود ہیں بالکل احمقانہ خیال ہے اسی دن سب اُڑ جائیں گی اور واپس نہیں آسکیں گی ۔ ہاں توبہ ان کو واپس لاسکتی ہے۔ بٹیرے تو نکل جانے کے بعد بعض اوقات پکڑے بھی جاتے ہیں مگر نماز جب ایک گئی سب جائیں گی اور پھر خداتعالیٰ ہی واپس دے تو آسکتی ہیں ورنہ نہیں اور اگر انسان صدقِ دل سے توبہ کرے تو خداتعالیٰ واپس دے دیتا ہے بغیر توبہ کئے واپس نہیں آسکتیں۔ تو نماز ایک نہایت اہم چیز ہے اور اس لئے ہمارے نزدیک مساجدبہت زیادہ اہم ہونی چاہئیں ۔بعض لوگوں نے مسجدیں نمائش کے لئے بنائی ہیں اور آج وہ اسی کام آرہی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ چھ سات فٹ کی نہایت چھوٹی گلیوں میں ایک مسجدگلی کے ایک طرف ہے اور دوسری دوسری طرف حالانکہ جہاں تک اذان کی آواز جائے دوسری مسجد نہیں ہونی چاہئے سوائے اس کے کہ دوسرے حصہ کے لوگوں کے لئے ہو مگر لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے فلاں رشتہ دار نے مسجد بنائی ہے تو ہم کیوں نہ بنائیں اور ایسی نمائشی مسجد پہلی مسجد کے پاس ہی بنے تو ان کی غرض پوری ہوتی ہے اس لئے اپنا مکان گرا کروہاں مسجد بنادیتے ہیں مگر یہ دکھاوے کی مسجدیں ہیں، اخلاص سے بنائی ہوئی مسجدیں بہت کم ہیں اور آباد بھی ایسی ہی مسجدیں رہتی ہیں جو اخلاص سے بنائی جائیں۔ اِلَّا مَا شَآئَ اﷲُ اور ایسی مسجدیں بہت تھوڑی ہیں ان میں سے جامع مسجد دہلی کی میں نے یہ خصوصیت دیکھی ہے گو اس کی پہلی شان و شوکت تومٹ چکی ہے مگر جب بھی مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہؤا وہا ں چہل پہل ضرور دیکھی ہے اور باقی مساجد سے زیادہ لوگ وہاں نماز پڑھتے ہیں اور لوگوں کی رغبت زیادہ نظر آتی ہے ۔خاص دنوں میں تو رونق بہت زیادہ ہوتی ہے مگر عام طور پر بھی اچھی رونق ہوتی ہے ۔گوشاہ جہاں جس نے وہ مسجد بنائی کوئی مذہبی آدمی نہ تھا مگرمعلوم ہوتا ہے مسجد بنانے کے وقت اس میں ریاء نہیں تھا اور اس نے اسی خیال سے اسے بنوایا کہ میں نے گناہ بہت کئے ہیں شاید یہی میری بخشش کا باعث ہوجائے کیونکہ اتنا لمبا عرصہ گزر گیا مسلمانوں میں نماز کی عادت بھی نہ رہی مگرآج تک اس میں کثرت سے نمازیں پڑھی جاتی ہیں ۔
میں ذکر کررہا تھا کہ نماز ہمارے لئے بہت اہم چیز ہے ۔پس جس جگہ نماز پڑھی جائے وہ بھی ہمارے نزدیک بہت اہم ہونی چاہئے اوریہ مسجد تو الٰہی پیشگوئی کی مصداق ہے جس کا قرآن شریف اور احادیث میں بھی ذکر ہے۔ قرآن کریم میں مسجد اقصی کا ذکر ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مسجد کو مسجد اقصیٰ قراردیا ہے اور پیشگوئیوں سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مسیح موعود آنے والا ہے وہ اسی کے قریب پید ا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ منارہ تعمیر کرایا کیونکہ احادیث کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود نے سفید مینارہ کے قریب یا اس کے مشرق میں اُترنا تھا ۱؎اور یہی وہ مینارہ ہے جس کے مشرق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مکان ہے
پس یہ مسجد خاص اہمیت رکھتی ہے اور اس کی وسعت اور آبادی کے لئے جتنی بھی ہم کوشش کریں کم ہے اور اس اجتماع سے آج ایک یہ فائدہ ہوگیا ہے کہ دوستوں کو یہ دیکھنے کا موقع مل گیا ہے۔ باقی مساجد کے متعلق تو یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ معلوم نہیں کب تک ان کی آبادی رہے لیکن یہ تو پیشگوئیوں کے ماتحت ہے اور جس طرح خانہ کعبہ کے متعلق یہ کبھی خیال نہیں کیاجاسکتا کہ وہ کبھی غیر آباد ہو اسی طرح اس کے متعلق بھی یہ خیال نہیں کیاجاسکتا کہ کبھی اس کی آبادی میں فرق آجائے گا اور اس طرح جن لوگوں کا روپیہ اس کی تعمیر پر خرچ ہوگا وہ دائمی ثواب کے مستحق ہوں گے اور اس طرح یہ خاص طور پر ثواب حاصل کرنے کا موقع ہے اور موجودہ ضرورت کے لئے تو چند ہزار روپیہ بھی کافی تھا اس لئے کوئی وجہ نہ تھی کہ اس میں کمی رہ جاتی اور عمارت بیچ ہی میں چھوڑنی پڑتی ۔
میرا خیال ہے کہ کارکنوں نے اس بات کو اچھی طرح جماعت کے سامنے رکھا نہیںکہ یہ ایک دائمی ثواب حاصل کرنے کا موقع ہے اور اس میں جو ایک پیسہ بھی لگایا جائے گا وہ قیامت تک کے لئے ثواب کا موجب ہوگا ۔ باقی کسی مسجد میں دس ہزار روپیہ لگا کر بھی کوئی شخص یہ یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ اس سے بنی ہوئی مسجد میں ہمیشہ خداتعالیٰ کی عبادت ہوتی رہے گی ۔بعض مساجد کو دشمن مٹا دیتے ہیں ۔ لوگ اس جگہ مکان بنا لیتے ہیں مگر یہ مسجد جسے خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اہمیت دی گئی اور جس کے ساتھ للّہی تعلق رکھنے والی ایک ایسی جماعت ہے جس کے متعلق خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے تمام دنیا میں غلبہ حاصل ہوگا اور جس کی تعداد آج لاکھوں ہے مگر کسی وقت کروڑوں اور اربوں ہوگی اور جو اپنے خون کا آخری قطرہ اس کی حفاظت کے لئے گرادینے پر ہمیشہ تیار رہے گی۔ آج بھی گو ہم کمزور ہیںمگرکوئی طاقت ورسے طاقت ور حکومت بھی بغیر اس کے کہ اس کا دل دھڑکے یہ خیال بھی نہیں کرسکتی کہ اس کی طرف نگاہ اٹھا کردیکھے۔ احمدی جماعت کا بچہ بچہ قربان ہوجائے گا مگر اس مسجد کی تقدیس میں فرق نہ آنے دے گا اورکبھی وہ زمانہ آنے والا ہے کہ کوئی غیر مسلم حکومت بھی اس علاقہ پر اگر حملہ کرنے لگے گی تو اس سے پہلے یہ اعلان کرنا پڑیگا کہ جماعت احمدیہ کے جذبات کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا اور ایسے اعلان کے بغیر اسے علاقہ کی طرف بڑھنے کی جرأت نہ ہوگی ۔
بچپن میں بوڑھی عورتیں قصے سنایا کرتی تھیں جن میں سے ایک فقرہ مجھے اب تک یاد ہے کہ کوئی دیو کسی پر خوش ہوگیا اور اس نے کہا کہ میں آج’’ ٹھٹھا ‘‘ہؤا ہوں مانگ جو مانگتا ہے مجھے یہی لفظ یاد ہے گو ممکن ہے بوجہ اس کے کہ میں ٹھیٹھ پنجابی نہیں جانتا اس کے تلفظ میں کوئی غلطی ہو مگر جہاں تک مجھے یاد ہے یہی لفظ تھا ،قربانی کا یہ موقع بھی ایسا ہی ہے آج اللہ تعالیٰ کے متعلق بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ انعام دینے پر تُلا ہوا ہے ۔ جو مانگنا چاہے مانگ لے اور ایسی حالت میں کوئی بے وقوف یا نا واقف ہی ہوگا جو مانگنے میں کوتا ہی کرے۔ یہ تو ایسا موقع ہے کہ پیسہ پیسہ دے کر بھی لوگ بڑے ثواب میں شامل ہوسکتے ہیں بسااوقات لوگ اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سینکڑوں، ہزاروں روپے ہوں تبھی شمولیت ممکن ہے حالانکہ ایسے چندوں کے لئے کوئی حد بندی نہیں ہوتی۔ بے شک بعض تحریکوں میں حد بندی ہوتی ہے۔ جیسے تحریک جدید میں بعض مصلحتوں کے ماتحت میں نے پانچ یا دس روپیہ کی حد بندی کی ہے مگر اس کے لئے کوئی حدبندی نہیں اور اس میں غریب سے غریب آدمی بھی حصہ لے سکتا ہے حتّٰی کہ ایک اپاہج اور لُولا لنگڑا آدمی بھی اپنی بچی ہوئی روٹی کا ٹکڑا بھی دے سکتا ہے کہ اسے بیچ کر خرچ کرلیا جائے ۔اور ہم اس کے لینے سے انکار نہیں کرسکتے یہ ایک غلطی ہے کہ لوگ خیال کرلیتے ہیں کہ سینکڑوں، ہزاروں روپے دیکر ہی شمولیت کی جاسکتی ہے اگر پیسہ پیسہ بھی دیا جائے تو ثواب میں شمولیت ہوسکتی ہے۔ پس بجائے اس کے کہ اس مسجد کی تعمیر اس لئے رُکی رہے کہ روپیہ نہیں یہ ایسا اہم کام ہے کہ چاہئے اس کے لئے فنڈ ہمیشہ جمع رہے تا جب بھی موقع ملے اس کو اورزیادہ وسیع کیا جاسکے۔ یہ مسجد تو انشاء اللہ دنیا میں تیسرے نمبر پر شمار ہوگی اول خانہ کعبہ دوم مسجد نبوی اور سوم یہ مسجد ہوگی اور اس لحاظ سے اس کی وسعت کا بھی خیال رکھنا چاہئے تاجب اس میں ہزاروں لاکھوں لوگ نماز پڑھنے کے لئے آئیں تو بھی یہ مسجد ان کے لئے کافی ہو اور میں سمجھتا ہوں کہ ہراحمدی اس ثواب میں اپنا حق لینے کی کوشش کرے گا اور جو چاہے وہ پیسہ دوپیسہ دے کر بھی مدد کرسکتا ہے ۔
قادیان کی آبادی اس وقت دس ہزار کے قریب ہے جس میں سے قریباً آٹھ ہزار احمدی ہیں اور اگرایک آنہ فی کس بھی سمجھا جائے تو پانسو روپیہ توفوراً یہاں سے ہی مل سکتا ہے اس لئے میرے نزدیک کوئی وجہ نہیں کہ اس عمارت کو روکا جائے۔ کارکنوں نے معلوم ہوتا ہے اس بات کو اچھی طرح جماعت کے سامنے پیش نہیں کیا اگر وہ کرتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ روپیہ کافی نہ آجاتا۔ اگرایک شاعر نے اپنے شعر وں سے ایک تاجر کی کالی اوڑھنیاں بکوا دی تھیں تو اس الٰہی وعدہ والی مسجد کے لئے روپیہ فراہم کرنا کیا مشکل کام ہے۔ کہتے ہیں کسی شخص کو مالی تنگی تھی اور روپیہ ملنے میں دقت پیش آرہی تھی ایک شاعر نے جو اس کا دوست تھا ا س سے کہا کہ تم شہر کی سب کالی اوڑھنیاں خرید لو ۔ جب وہ خرید چکا تو اس شاعر نے کچھ شعر کہہ دئیے جن میں کالی اوڑھنی کی تعریف کردی شاعر مشہور تھا جب اس کی طرف سے کالی اوڑھنیوں کی تعریف ہوئی تو عورتوں کی طرف سے کالی اوڑھنیوں کے لئے مطالبات ہونے لگے اور اس طرح ان کی قیمت بڑھ گئی اور اس نے ہزاروں روپیہ کمالیا ۔ پس جب ایک شاعر نے کالی اوڑھنیوں کی تعریف کرکے اپنے دوست کے لئے روپیہ جمع کروادیا تو میں کس طرح مان لوں کہ ہمارے کارکنوں نے اس مسجد کی اہمیت کو دوستوں پر ظاہر کیا ہوتا تو روپیہ جمع نہ ہوتا ۔بڑے آدمی تو الگ رہے میں سمجھتا ہوں اگر صحیح طور پر جماعت کے سامنے اس بات کو پیش کیا جاتا تو پندرہ سال تک کے بچے بھی اسے پورا کرسکتے تھے اور اس وجہ سے میرا آج یہاں خطبہ پڑھنا مفید ہوگیا ہے کہ یہ حالات میرے سامنے بھی اور جماعت کے سامنے بھی آگئے ہیں۔
اس کے بعد میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے تشریف لائے ہیں جو انشاء اللہ دو روز کے بعد شروع ہوگا ۔ یہ جلسہ جیسا کہ باربار جماعت کے سامنے پیش کیاجاچکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے الہام اور حکم کے ماتحت قائم کیا ہے اور اس لحاظ سے دنیا کے تمام جلسوںمیں منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ جلسہ خالص مذہبی اغراض کے ماتحت ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ اور شان کو بلند کرنے کے لئے ہر قسم کے مسائل پر اس میں تقریریں ہوتی ہیں اور اس میں شمولیت کے لئے آنے والے ہرقسم کی دُنیوی اغراض کو پیچھے ڈال کر یہاں آتے ہیں ۔ یہاں کوئی تجارت نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ کسی نے پیسہ پیسہ کی کوئی کتاب بیچ لی اور چند پیسے کمالئے ۔یہ کوئی تجارت نہیں اتنے پیسے تو آدمی مانگ کر بھی لے لیتا ہے ۔ اس کے سوا یہاںدنیوی لحاظ سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور جو لوگ اپنے گھروں میں آرام و آسائش کے ساتھ رہتے ہیںوہ بھی یہاں آکر ایسی تکلیف اٹھاتے ہیں جو گھروں میں عام آدمی بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ یہاں بیشتر حصہ کو کھوری یاکسیر ملتی ہے جس پر انہیں سونا پڑتا ہے۔ جگہ کی تنگی کی یہ حالت ہوتی ہے کہ بعض دفعہ کمروں میں اس طرح آدمی ٹھونسے ہوئے ہوتے ہیں ۔جس طرح ڈبے میں مرغیاں۔ مجھے ایک دفعہ کسی غرض سے سیالکوٹ کی جماعت کے کمرے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانا پڑا اور اتنے میں ہی مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ گویا میرے پائوں جل کر گوشت اتر جائے گا باوجود یکہ شدید سردی کے دن تھے۔ آج کل کتنی سخت سردی پڑ رہی ہے آج ہی خبرآئی ہے کہ انگلستان میں نو آدمی سردی کی وجہ سے مرگئے اور گوہندوستان میں اتنی سردی تو نہیں ہوتی مگر پھر بھی بہت کافی ہوتی ہے لیکن جن کمروں میں لوگ سوئے ہوتے ہیں ان میں ان کی سانسوں کی وجہ سے اتنی گرمی پیدا ہوجاتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ تنور ہے کمرہ نہیں۔ عام حالتوں میں ان باتوں کی برداشت انسان کیسے کرسکتا ہے۔ پھر جو کھانا ملتا ہے وہ بھی ظاہر ہے میں منتظمین کی برائی نہیں کرتا۔ وہ تو رات دن ایک کرکے انتظام کرتے ہیں اور ان کی حالت دیکھ کر ان پررشک آتا ہے کہ وہ یہ ہفتہ کس طرح تکلیف سے گزارتے ہیں ۔ رات دن کام میں لگے رہتے ہیں اور پتہ نہیں کس وقت سوتے ہیں ۔
یہ سب تکلیف وہ خداتعالیٰ کی رضا کے لئے برداشت کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی کوشش و سعی، محنت، جفاکشی اور نیک نیتی کے باوجود جو کھانا تیار ہوتا ہے وہ ایسا ہوتا ہے کہ عام طور پرگھر میں لوگ اس کے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ پھر اتنی بڑی جماعت جو ہر قوم اور ہر ملک و صوبہ کے لوگوں پر مشتمل ہو اسے خوش کرنا کتنا مشکل ہے ۔بعض ایسے علاقوں کے ہوتے ہیں جو گائے کے گوشت کے بغیر کھانا کھاتے ہی نہیں اور ان کے ہاں اگرکوئی بکرے کا گوشت لینے جارہا ہو تو بڑی فکر مند ی کے ساتھ اس سے دریافت کرتے ہیں کہ کیوں خیر ہے گھر میں کوئی بیمار تو نہیں جو آپ بکرے کاگوشت خریدنے جارہے ہیںلیکن بعض علاقوں میں گائے کے گوشت سے اتنا شدید پرہیز کیا جاتا ہے جتنا سؤر کے گوشت سے ۔ خاص کر ہندو ریاستوں کے باشندے تو اس سے بہت پرہیز کرتے ہیں اور اگر ان کو شک بھی ہو جائے کہ گائے کا گوشت کھایاگیا ہے توخیالی طور پر ہی اتنا نفخ ہوجاتا ہے کہ سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ اس کے عادی نہیںہوتے ان کو یہ وہم ہوتا ہے کہ گائے کا گوشت نفاخ ہے ادھر کھایا اور ادھر پیٹ پھولنا شروع ہؤا۔
پھر ہمارے مہمانوں میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو چاول کے بغیر گزارہ نہیں کرسکتے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنہوں نے سارا سال گھر میں دال کی شکل بھی نہیں دیکھی ہوتی بلکہ جن کے نوکر بھی دال نہیں کھاتے۔ اس کے علاوہ دیہات کے لوگ گھر کا خالص گھی کھانے کے عادی ہوتے ہیں اور بازاری گھی کھانے سے فوراً ان کا گلا خراب اور کھانسی شروع ہوجاتی ہے اور پھر ایسے علاقوں کے بھی لوگ ہوتے ہیں جو تیل کھانے کے عادی ہیں اور جب گھی کھاتے ہیں تو ان کا گلا خراب ہوجاتا ہے یو۔پی اور بہار وغیرہ میں تیل کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے زمانہ طالب علمی میں ان علاقوں کے طلباء یہاں پڑھا کرتے تھے وہ بعض اوقات کھانستے ہوئے آتے اور کھانسی کی وجہ یہ بتاتے کہ گھی کھانے سے ہوگئی ہے لیکن کچھ عرصہ یہاں رہ کر ان کو گھی کی عادت ہوجاتی ہے اورجب رخصتوں میں پھر گھر جا کر تیل کھانا پڑتا تو پھر اس سے کھانسی ہوجاتی اور ظاہر ہے کہ اتنے طبقوں اور اتنی نوعیت کے لوگوں کو کون خوش کرسکتا ہے اور کس طرح کرسکتا ہے جو مخلص یہاں آتے ہیں ان کو خوش کرنے کا تو سوال ہی نہیں ہوتا ۔ ان کو تو یہاں کا کوئی آدمی چیں بجبیںہو کر بھی دیکھے تو وہ اس پر بھی مسکراتے ہیں کہ یہ چیںبجبیں بھی قادیان کی ہے اور اس لئے ان کو خوش کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن ان کی عادتوں یا صحت کی کمزوری کی وجہ سے جو تکلیف ہوتی ہے اس کو کون دور کرسکتا ہے۔ جہاں تک تو خوشی کا تعلق ہے وہ ہرچیز کھانے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور ایسا مزہ لے لے کرکھاسکتے ہیں کہ گویا دنیا جہاں کی نعمتیں حاصل ہوگئیں مگران سے وہ بعد میں اگر بیمار ہوجائیں تو اس میں تو ان کا کوئی قصور نہیں۔
تو ایسی مشکلات میں یہ جلسہ ہوتا ہے اور ان سب کے باوجود اس لئے لوگ یہاں آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو خوش کریں مگرکئی ہیں جو عدم علم اور ناواقفی کی وجہ سے ان ایام سے پورا فائدہ نہیں اٹھاسکتے حالانکہ جتنی قربانی کسی چیز کے لئے کی جائے اتنی ہی اس کی قدر ہونی چاہئے اس لئے میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان دنوں کو نمازوں ،دعائوں اور ذکرالٰہی میں صرف کریں، جماعتیںباہمی ملاقاتوں میں صرف کریں ۔یہ ایسا موقع ہوتا ہے جب باہمی واقفیت آسانی سے پیدا ہوسکتی ہے ۔ اسلام اور احمدیت نے(کہ یہی حقیقی اسلام ہے )اب جس قسم کی مساوات کو قائم کرنا ہے وہ باہم کثیر تعارف اورایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ واقفیت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ وہ حدِّ فاصل جو اس وقت مختلف طبقات اور مختلف ممالک کے لوگوں کے درمیان قائم ہے جب تک اسے دور نہ کیا جائے کامیابی محال ہے اور اسے دور کرنے کا ذریعہ یہی ہے کہ کثرت سے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کی جائیں تا کہ آہستہ آہستہ پنجابی ،بنگالی ،بہاری ،مدراسی اور پھرہندوستانی ،چینی ،جاپانی ، انگریز اور مصری کا امتیاز مٹ کر سب ایسے ہی انسان نظر آنے لگیں جیسا خدا تعالیٰ نے ان کو بنایا ہے اللہ تعالیٰ نے تو ہم سب کو انسان ہی پیدا کیا ہے آگے انگریز، اورہندی اورچینی وغیرہ کا فرق توانسان نے خود بنالیا ہے اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ پھر اسی طرح کے انسان بن جائیں جیسا کہ خداتعالیٰ نے بنایا ہے اور اس وقت باہمی بُعد پیدا ہو کر جو غیریت نظر آتی ہے وہ مٹ جائے ۔ بے شک ابتداء میں ملاقات ہو تو بجائے محبت کے ایک قسم کا تنفر ہوتا ہے مگروہ آہستہ آہستہ ملتے رہنے سے دور ہوجاتا ہے ۔اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی جنگلی طوطا یا بے سدھا گھوڑا لایا جائے تو پہلے پہل وہ خوب شور کرتا ہے مگر آہستہ آہستہ وہی طوطا ہاتھ پرکھانا کھانے لگتاہے اور گھوڑا سواری کے کام آتا ہے ۔ پس ان امتیازات کو مٹانے کے لئے ضروری ہے کہ باہم ملاقاتیں کی جائیں۔ اس میں شک نہیں کہ کچھ نہ کچھ اختلافات تورہتے ہیں مگریہ ایسے اختلاف ہوتے ہین جن کے متعلق رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ ۲؎لیکن جب یہ اختلافات لڑائی کا موجب ہوجائیں تو سمجھ لو کہ خداتعالیٰ کے نزدیک اُمت سے نکل گئے ۔
پس ان ایام کو زیادہ سے زیادہ عمدہ کاموں میں صرف کرو سلسلہ کی مشکلات کو دیکھو۔ ناظروں کو چاہئے کہ ان ایام میں اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ فارغ رکھیں اور کثرت سے ملاقاتیں کریں، دوستوں سے مشورے کریں، ان کے سامنے اپنی مشکلات رکھیں اور دوست دیکھیں کہ وہ سلسلہ کے کاموں میں کہاں تک مدد کرسکتے ہیں اور اس طرح یہ ایام ناظروں کی کانفرنس کے ایام ہونے چاہئیں مگرشاید کارکنوں کی کمی یا اپنی بزدلی کی وجہ سے وہ ایسا کرتے نہیں۔ بزدلی کی وجہ سے میں نے اس لئے کہا ہے کہ بعض ناداں کہہ دیا کرتے ہیں کہ ناظر خود تو کوئی کام کرتے نہیں دوسروں سے ہی لیتے ہیں اور اس لئے وہ بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم کام کرنے میں دوسروں کے ساتھ شریک نہ ہوئے تو لوگ اعتراض کریں گے اور اس لئے ایسے بیوقوفوں کی وجہ سے وہ زیادہ ضروری کام چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہوناچاہئے ایسے بے وقوف تو ہمیشہ ہوتے آئے ہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تھے ا ور آپ سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی تھے اور ہمیشہ باقی رہیں گے ۔جس طرح پاگلوں کو دنیا سے نہیں مٹایا جاسکتا ایسے لوگوں کا مٹایا جانا بھی ناممکن ہے اور اس لئے کہ ایسے بے وقوف اعتراض نہ کریں ناظروں کو بہتر کام چھوڑ کر اپنے لئے نسبتاً معمولی کام تجویز نہیں کرنا چاہئے۔ اس وقت تک وہ ایسا نہیں کرتے رہے اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خیال نہ آیا ہو اور یہ بھی کہ کام کے لئے آدمی نہ مل سکتے ہوں لیکن اب ایسا کرنے کی کوشش انہیں کرنی چاہیے ۔
جو دوست باہر سے آتے ہیں انہیں بھی چاہئے کہ دفاتر میں جا جا کر ناظروں سے ملیں اور دیکھیں کہ کام کس طرح ہورہا ہے، کام کی نوعیت کیاہے، عملہ کتنا ہے اگر دوستوں کو یہ علم ہو کہ کام زیادہ اور کارکن تھوڑ ے ہیں تو ان کے دل میں یہ تحریک ہوسکتی ہے کہ پنشن لے کر یہاں آئیں اور کام کریں۔ اس کے علاوہ بعض وسوسے بھی دور ہوسکتے ہیں۔ بعض لوگوں کو شکایت ہوتی ہے کہ ہم نے فلاں کام کہا تھا مگر وہ اب تک نہیں ہؤا اور حالات کو دیکھ کر ان کا شکوہ دور ہوسکتا ہے اورناظروں کو بھی چاہئے کہ دن رات کا زیادہ سے زیادہ حصہ ملاقاتوں کے لئے فارغ رکھیں۔ اگر اس کے ساتھ اور کام بھی وہ اپنے ذمہ رکھیں گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ طبیعت میں چِڑ چڑا پَن پیدا ہوجائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا تو میں اس بات کو صحیح ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ ایسے حالات میں چڑ چڑاپن پیدا ہونا ضروری ہے۔ ایک شخص آکر بات کرے گا یہ اسے مختصر جواب دیں گے وہ اس کی مزید وضاحت چاہے گا اور یہ کثرت کار کی وجہ سے یہ کہہ دیں گے کہ آپ تو خواہ مخواہ مغز چاٹ رہے ہیں اور وہ ناراض ہو کر چلا جائے گا ۔پس چاہئے کہ ناظر دس بارہ گھنٹہ ضرور اپنے دفاتر میں بیٹھے رہیں اور دوستوں کو دعوت دیں کہ آئیں اور ان سے ملاقاتیں کریں اور اس طرح رات دن کانفرنس میں شریک رہیں ان کو اپنی مشکلات بتائیں تا ان کے اندر زیادہ سے زیادہ تعاون کی روح پیدا ہو۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ دوست ان ایام سے زیادہ سے زیاد ہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ا ور ناظر بھی ایسے رنگ میں اپنے اوقات صَرف کریں گے جو جماعت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کا موجب ہوسکیں ۔
مگر چونکہ سب کام اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے میں اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم میں سے ہر ایک کو اس رنگ میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس کے نزدیک زیادہ مناسب اور بہتر ہو اور ہمارے قلوب سے ایسے خیالات جو مختلف قوموں اور طبقوں میں جھگڑے پیدا کردیتے ہیں نکال دے ۔ ہمارے اندر اتحاد اور یک جہتی پیدا کردے اور ہم سب کا ایک ہی مقصود اور قبلہ ہویعنی اسلام اور احمدیت کی ترقی اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے تقویٰ کا دلوں میں قائم ہونا ۔‘‘
(الفضل ۱۰؍ جنوری ۱۹۳۹ئ)
۱؎ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال
۲؎ موضوعات مُلّا علی قاری صفحہ ۱۷ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ ھ

۴۳
(ا) تحریک جدید سال پنجم کے وعدوں کی
آخری میعاد دس فروری ہے
(۲)آئندہ سال خصوصیت سے ہندودوستوں کو
جلسہ پر لانے کی کوشش کی جائے
(فرمودہ ۳۰؍ دسمبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’پہلے تو میں تحریک جدید سال پنجم کی میعا د کے متعلق آج یہ اعلا ن کر نا چاہتا ہوں کہ اس سال کا چندہ لکھوانے کی آ خری تاریخ دس فروری ہے (میں نے خطبہ میں31جنوری کہا تھا مگر خطبہ دیر سے شا ئع ہو رہا ہے دس فر وری آخری میعاد کر دی ہے) اس وقت تک میں یہ اعلان نہیں کرسکاتھا۔کیونکہ پہلے خطبہ میں تو یہ با ت مجھ سے نظر انداز ہوگئی اور بعد میں میں نے سمجھا اب تو دوست جلسہ سالانہ پر آنے ہی والے ہیں اب اگر اس چندہ کی میعاد کے متعلق اعلان کیا گیا تو اس کا چنداں فائدہ نہ ہو گا سو آ ج میں اعلان کرتا ہو ں کہ تحریک جدید کے پانچو یںسال کا چندہ لکھو انے کی آخر ی تاریخ ہند و ستان میں رہنے والو ں کے لئے، بنگال اور مدراس کے اصل باشندوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کہ وہاں کی ز با ن مختلف ہے اور ہم ہمیشہ وہاں کے رہنے والوں کو زیادہ عرصہ دیا کرتے ہیں، دس فروری ہے۔ پس دوستو ں کی طرف سے وہی وعدے قبول کئے جائیں گے جو یا تو اس عرصہ میں دفتر پہنچ جائیںگے یا جن پر ڈاکخا نہ کی مہر۱۱؍فروری کی ہو گی کیونکہ دس فروری جوآخری تاریخ ہے اسلئے شام کو اگر کوئی وعدہ لکھوانا چاہے تواسی روز اس کا خط ڈاکخانہ سے روانہ نہیں ہو سکتا اس کا خط بہر حا ل گیارہ فروری کو روانہ ہو سکے گا۔
پس گیارہ فروری کی مہر جس خط پر ہو گی اسکے وعدہ کو بھی قبول کر لیا جائے گا ہاں ہندوستان کے صو بوں میں سے بنگال اور مدراس کی جما عتوں کے وعدے اور اسکے علا وہ ان تمام جماعتو ں کے وعد ے جو ایشیا اور افریقہ میں ہیں۔30اپریل تک قبول کیے، جا سکتے ہیں جیسے ایسٹ افریقہ ہے، عراق ہے، یو گنڈا ہے، ٹانگا نیکا ہے، اسی طرح دوسری طرف سماٹرا اور جاوا وغیرہ ہیں مغربی ممالک کیلئے جو زیا دہ فاصلہ پر ہیں آخر ی میعاد ۳۰؍جون ہو گی۔ جیسا کہ گزشتہ سالوں سے ہوتا چلا آیاہے یہ ر عایت اس لئے ہے کہ وہاں خطبوں کے پہنچنے میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیںپھران کی زبان اور ہے اور ان تک بات پہنچانے میںوہاں کے کارکنوں کو تحریک کا ترجمہ کرنا پڑ تا ہے۔
اس سلسلہ میں مَیں بعض اور باتیںبھی واضح کر دینا چاہتا ہوں جو ملاقا ت کے ایا م میں چندہ تحریک جدید کے متعلق میرے سامنے آئیں اور جلسہ سالا نہ کے ایام میں لوگ ان کے متعلق مجھ سے پو چھتے رہے ہیں۔ یہ سوالات میرے اس اعلان کے متعلق ہیںجو میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر کیا تھا کہ چندہ تحریک جدید میں آخر تک حصہ لینے والوں کی جولسٹ بنائی جائے گی وہ دو حصوں میں منقسم ہو گی، ایک تو ان لوگوں کی فہرست ہو گی جنہوں نے اس تحریک میں قا نو ن کے مطابق کمی کر کے باقاعدہ دس سال تک چندہ دیا ہو گا یا یکسا ں دیتے چلے گئے ہو ں گے۔ اپنے چندہ میں کمی کرنیوالوں کی وجہ میری سمجھ میں آ جاتی ہے مگر ہرسال یکساں چندہ دینے والوں کی وجہ میری سمجھ میںنہیں آتی۔ مثلاً یہ تو سمجھ میں آسکتا ہے کہ ایک شخص جسے پانچ روپے چندہ دینے کی توفیق نہ تھی اس نے دوسرے دور کے دوسرے سال میں ساڑھے چار کر دئیے اور اس سے اگلے سال قانو ن کے مطابق اس کے ذمہ چار روپے رہ گئے اور پھر اس سے اگلے سال ساڑھے تین رہ گئے اور پھر تین تین روپے وہ تین سال متواتردیتا رہا یادوسرے دور کے پہلے سال اس نے دس روپے دئیے تو اگلے سال نو روپے رہ گے، پھر نو کے آ ٹھ رہ گئے، پھر آٹھ کے سات رہ گئے، سات کے چھ رہ گئے، چھ چھ روپے وہ باقاعدہ تین سا ل تک دیتا رہا لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ شخص جو اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن میں نہا یت معمو لی زیادتی کے ساتھ شامل ہوسکتا ہے وہ چندہ ہرسال برابرکیوں دیتا رہا مثلاً وہ شخص جس نے پہلے سال پانچ روپے چندہ میں دئیے اورپھر ہر سال وہ پانچ روپے ہی دیتا رہا اس نے یقیناًاس بات کو نہیں سمجھا کہ وہ بہت ہی معمولی قربا نی کے ساتھ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن میں شا مل ہو سکتاتھا مگر اس نے اس طرف تو جہ نہیں کی مثلاًًوہ شخص جس نے پہلے سال پانچ روپے دئیے جبکہ وہ دوسرے سال پانچ روپے ایک آنہ دے کر، تیسرے سال پانچ روپے دو آنہ دے کر، چوتھے سال پانچ روپے تین آنے دے کر، پانچویں سال پانچ روپے چار آنے دے کر، چھٹے سال پانچ روپے پانچ آنے دے کر،ساتویں سا ل پانچ روپے چھ آنے دے کر، السابقون اور ہر سال قدم آگے بڑھانیوالوں میں شامل ہو سکتا تھا تو میںنہیں سمجھ سکتا کہ کیوں وہ چند آنوں کی زیادتی میںبخل سے کام لے کرسابقون کے درجہ میں شامل نہ ہؤا اور ہر سال پانچ روپے ہی دیتا چلاگیا۔جب ہر سال کے چند ہ میں محض ایک آنہ کی زیادتی اسے اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن میں شا مل کر سکتی ہے تو یقیناًاگر کوئی شخص یہ زیادتی نہیںکریگا تو اس کے متعلق یہ سمجھا جائیگا کہ یاتو اس نے ناواقفیت اور عدمِ علم کی وجہ سے ایسا نہیںکیا اور یا پھر اسکے دل میں سابق ہونے کی ایسی قدر نہیں ہے۔ توقاعدہ کے مطابق جن دوستوںنے اپنے چندہ میں کمی کی ہے ان کی اس کمی کی حکمت تو میری سمجھ میں آسکتی ہے اورمیں مان سکتا ہوں کہ مالی مشکلات کی وجہ سے وہ کمی کرنے پرمجبور ہوئے ہیںمگر وہ لوگ جوہر سال برابر چندہ دیتے رہے ہیںان کے اس یکساں چندہ دینے کی حکمت میری سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ وہ بِلاوجہ ایک عظیم الشان ثواب کے حصو ل سے محروم رہتے ہیں۔ بیشک ایک شخص کہہ سکتاہے کہ پچھلے سال میں نے پانچ روپے چندہ میں دیئے تھے اس سال چھ روپے چندہ دینے کی مجھے توفیق نہیںمگر ہم کب کہتے ہیںکہ زیادتی ضرور ایک روپیہ ہی کی ہونی چاہئے۔ ہم نے زیادتی کے متعلق کوئی تعیین نہیں کی اور جب زیادتی کے متعلق ہماری طرف سے کوئی تعیین نہیں تو یہ زیادتی پانچ روپے ایک آنہ دے کر بھی ہو سکتی ہے بلکہ پانچ روپے ایک پیسہ دے کر بھی ہو سکتی ہے اوراگر صرف ایک پیسہ کو زیادتی کی وجہ سے کوئی شخص اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ نمیں شامل ہو سکتا ہو تو کیا یہ نادانی نہیں ہو گی کہ دس روپے چندہ دینے والا ہمیشہ دس روپے ہی دیتا رہے یا سو روپے چندہ دینے والا ہمیشہ سو روپیہ ہی دیتا رہے اور نہایت معمولی سی زیادتی کر کے وہ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْن میں شامل نہ ہو جائے۔
ہمار ی جماعت کے ایک دوست ہیںجو نہا یت ہی مخلص اور سادہ طبیعت کے ہیں کئی موقعوں پر میں نے ان میںسلسلہ سے اخلاص اورمحبت کا تجربہ کیا ہے انہوں نے گزشتہ سال ۱۱۵روپے چندہ میں دئیے اس سال پھر انہوں نے ۱۱۵روپے کا وعدہ کیا اس پر میں نے انہیں لکھا کہ آپ بڑی آسانی سے اس سال ۱۱۶ روپے دے کر اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ نمیں شامل ہو سکتے ہیںچنانچہ گو میں نے انہیں ایک روپیہ کی زیادتی کیلئے ہی مشورہ دیا تھا مگر انہوں نے جو ش اخلاص میں اپنے وعدہ کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ تو بعض لوگ اصل حقیقت کو سمجھے نہیں وہ سمجھتے ہیں شاید اگر ہم نے ایک سال پانچ روپے چندہ میں دیئے ہیں تو دوسرے سال جب تک دس روپے نہیںدیں گے زیادتی نہیں سمجھی جائے گی حالا نکہ ہمیں تو ایمان کی زیادتی کاثبوت چاہئے خواہ وہ ایک پیسہ سے ہو خواہ ایک آنہ سے ہو، خواہ دو آنہ سے ہو،خواہ تین آنہ سے ہو،خواہ چار آنہ سے ہو اور خواہ وہ دس ۔بیس یاسو دوسوروپیہ کے ذریعہ سے ہو۔تو کمی کرنے والوں کی حکمت میری سمجھ میں آجاتی ہے کیونکہ وہ کہہ سکتے ہیںکہ ہم اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے اور ہماری مالی حالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم زیادتی کریں مگر جو ہر سال یکساں چندہ دیتے ہیںان کے اس فعل کی حکمت میری سمجھ سے بالا ہے جبکہ وہ نہایت ہی معمولی زیادتی کر کے اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن میں شامل ہوسکتے ہیںمثلاً وہ شخص جس نے سات سالہ دور میں سے پہلے سال پانچ روپے چندہ دیاہے وہ اگر ہر سال قاعدہ کے مطابق دس فی صدی کمی کرتا اور آخری تین سالوںمیں چالیس فیصدی کمی پرٹھہرکردو سال مسلسل چندہ دیتا تو وہ نو روپے بچاتاہے دس روپے دینے والاسات سال میں اس کمی کے نتیجہ میںاٹھارہ روپے بچاتاہے، بیس روپے دینے والا چھتیس روپے بچاتاہے اور اگر کوئی سو روپے دینے والا تھاتووہ سات سال میں ایک سو اسی روپے بچاتا ہے ۔
پس اس کے فعل کی حکمت تو میری سمجھ میں آسکتی ہے مگر یہ جو برابر چندہ دیتے چلے جاتے ہیں اور ہر سال مثلاًپانچ روپے یادس روپے ہی چندہ دے دیتے ہیں انکا یہ طریق میری سمجھ میں نہیں آتاکیونکہ وہ محض پیسے کی زیادتی سے بھی یا ایک آنہ یا چار آنہ یاایک روپیہ کی زیادتی سے بھی سابقون میںشامل ہو سکتے تھے۔اگر وہ ہر سال ایک پیسہ کی ہی زیادتی کریںتو سات سال میں سواپانچ آنے کی ز یا دتی بنتی ہے۔ اب میرے لئے یہ تسلیم کرنا بالکل ناممکن ہے کہ وہ شخص جو سات سال میں۳۵روپے چندہ دے دیتا ہے وہ سو اپانچ آنے زائد چندہ نہیں د ے سکتا تھا یقیناًسات سال میں ۳۵روپے چندہ دینے والوں میں سے ایک شخص بھی ا یسا نہیں ملے گا جو سات سال میں سوا پانچ آنے زائدنہ دے سکتاہو مگرافسوس ہے کہ معمولی سی غفلت کی وجہ سے لوگ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ نَ کے ثواب سے محر وم ہو جاتے ہیںاور اگر کوئی شخص ایک پیسے کی بجائے ایک آنہ کی زیادتی کرے تو وہ یوں کر سکتا ہے کہ اگر اس نے پہلے سال پانچ روپے دئیے ہیں تو دوسرے سال پانچ روپے ایک آنہ دیدے، تیسرے سال پانچ روپے دو آنے، چوتھے سال پانچ روپے تین آنے، پانچویں سال پانچ روپے چار آنے، چھٹے سال پانچ روپے پانچ آنے، ساتویں سال پانچ روپے چھ آنے، اس طرح سات سالوں میں ایک روپیہ پانچ آنہ کی زیادتی ہوتی ہے اور یہ زیادتی کوئی ایسی نہیںجو ناقا بلِ برداشت ہو بلکہ جو شخص سات سال میں سترّروپے چندہ دے سکتا ہے وہ آسانی سے ایک روپیہ نو آنہ سات سال میں اور بھی ادا کر سکتاہے۔
پس میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جو دوست یکساں چندہ دے رہے ہوں وہ ذرا سی زیادتی کر کے اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن میں شا مل ہو سکتے ہیں اگر انہوں نے پچھلے سال پانچ روپے دئیے تھے تو اس سال وہ اپنے چندہ کو پانچ روپے ایک آنہ بنا سکتے ہیں یا اگر اتنی زیادتی بھی وہ نہیں کر سکتے تو پانچ روپے ایک پیسہ کر دیں کیونکہ سابقون کیلئے محض زیادتی کی شرط ہے مقدار کی تعین نہیں۔بعض لوگ الفاظ غور سے نہیں سنتے اور اس وجہ سے دھو کا کھا جاتے ہیں جیسے امانت فنڈ میں حصہ لینے والے اب شور مچا رہے ہیں کہ ہمیں ہمارا روپیہ واپس کیا جائے حالانکہ اگر وہ غو ر سے میرے خطبات کو پڑھتے تو متواتر کئی خطبات میں میں نے بتایا تھا کہ یہ میرا اختیار ہو گا کہ میں اگر چاہوں تو امانت روپیہ کی صورت میںہی انہیں واپس کروں اور چاہوں تو جائیداد کی صورت میں واپس کروں مگر انہوںنے اس بات کو نہ سمجھا اور اب شور مچا رہے ہیں کہ ہمیں روپیہ ہی دیا جائے جائیداد ہم لینے کیلئے تیار نہیں۔
اسی طرح چندہ میں زیادتی کے متعلق بھی بعض لوگ سمجھتے ہیںکہ شاید سابقون میں شامل ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ انہوں نے اگر پہلے پانچ روپے چندہ دیا ہے تو اب چھ دیں یا سات دیں حالانکہ سابقون میں شامل ہونے کے لئے ایسی کوئی شرط نہیں صرف زیادتی کی شرط ہے خواہ وہ پیسے سے ہو یا آنہ سے ہو یا زیادہ سے ہو بلکہ پیسہ سے کم ہمارے ہاں کوئی سکہ استعمال نہیں ہوتا ورنہ میں توکہتا کہ ایک آدھی یا ایک پائی سے بھی زیادتی کی جاسکتی ہے۔پرانے زمانہ میں کوڑیاں استعمال ہؤا کرتی تھیں آجکل انکا رواج نہیں لیکن اگر ان کا رواج ہوتا تو اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْن میں شامل ہونے کے لئے یہی کافی تھا کہ وہ ایک کوڑی زائد دے دیتے مقصد یہ ہے کہ چندہ پہلے سے زیادہ دیا جائے خواہ یہ زیادتی ایک آدھی سے ہو خواہ پائی سے خواہ ایک کوڑی سے ہو یہ انسان کے اپنے حالات پر منحصر ہے کہ وہ جس قسم کی چاہے زیادتی اختیار کر سکتاہے۔ پس دوستوںکو چاہئے کہ چندہ میں زیادتی کے متعلق وہ میرا نقطہ نگاہ سمجھ لیں اور جن دوستوں سے اپنے گزشتہ سالوں کے چندہ میں غلطی ہوئی ہے وہ اس کی اصلاح کر لیں۔
میں نے بتایا ہے کہ یہ اصلاح اتنی آسان ہے کہ بغیر کسی بوجھ کے اسے اختیار کر سکتے ہیں اور سوائے ان لوگوں کے جو اپنے حالات کی وجہ سے کمی کرنے پر مجبور ہیںباقی سب دوست چندپیسوں یا چند آنوں کے ساتھ ہی اپنی غلطی کو دورکر سکتے ہیںاور اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن میں شامل ہوسکتے ہیں تو یہ بات میں واضح کر دینا چاہتا ہوں تاکہ جو دوست غلطی کی وجہ سے اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ نمیں شامل ہونے سے محروم رہے ہیں وہ اب اپنی غلطی کا ازالہ کرکے سابقون میں شامل ہوجائیں۔
دوسری بات اس سلسلہ میں مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ زیادتی بھی دو قسم کی ہے ایک تو وہ دوست ہیں جنہوں نے پہلے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ چندہ انہوں نے دوسرے سال دیا اور دوسرے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ چندہ انہوں نے تیسرے سال دیا اور تیسرے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ چندہ انہوں نے چوتھے سال دیااور چوتھے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ انہوں نے پانچویں سال دیا ان کے لئے اگر وہ سابقون میں شامل ہونا چاہیں تو یہی قاعدہ ہے کہ وہ اب دسویں سال تک اپنے چندہ کو پہلے سالوں سے بڑھاتے چلے جائیں کیونکہ انہوں نے چوتھے سال میں آکر تیسرے سال سے کم چندہ نہیں دیا تھا بلکہ زیادہ دیا تھا۔
پس چونکہ انہوں نے ایک حلقہ اپنے لئے پسند کر لیا ہے اسلئے اب ان کی زیادتی اس صورت میں زیادتی متصور ہوگی کہ جب وہ ہر سال پہلے سال سے زیادہ چندہ دیںگے۔لیکن ایک وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے تین سالوں میں تو اپنے چندوں میںزیادتی کی لیکن چوتھے سال آکر میری رعایت سے فائد ہ اٹھا کر انہوں نے اتنا ہی چندہ دیا جتنا انہوں نے تحریک جدید کے سال اول میں دیا تھا۔مثلاََپہلے سال انہوں نے پانچ روپے دیئے تھے،دوسرے سال انہوں نے دس روپے دیئے اور تیسرے سال پندرہ لیکن چوتھے سال آکر پھر انہوںنے پہلے سال کے چندہ کے مطابق میری رعایت سے فائدہ اٹھا کر صرف پانچ روپے ہی چندہ دیا ایسے لوگوں نے چونکہ میری مقرر کردہ رعایت اور قانون کے مطابق چوتھے سال اپنے چندہ میں کمی کی اس لئے اب انکی زیادتی پانچویںسال سے شمار ہوگی اور وہ اگر چاہیں تو اب کے پانچ روپے کی جگہ پانچ روپے ایک آنہ دے کر یا پانچ روپے چار آنے دے کر یا چھ روپے دے کر یا سات روپے دے کر یا آٹھ روپے دے کر اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن میںشامل ہوسکتے ہیں بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ پانچ روپے ایک پیسہ دے کر بھی ایک شخص اپنے چندہ میں اضافہ کر سکتا ہے اور ایساشخص زیادتی کرنے والوں میں ہی شمار ہوگا بشرطیکہ اب وہ آئندہ سالوں میں کمی نہ کرے بلکہ ہر سال اپنے چوتھے سال کے چندہ پر اضافہ کر تا چلا جائے۔ غرض شرط یہ نہیں کہ تیسرے سال اس نے جتنا چندہ دیا تھا اس پر اضافہ کرے بلکہ چوتھے سال اس نے جتنا چندہ دیا تھا اگر آئندہ سالوں میں وہ اس پر زیادتی کرتا رہتا ہے تو وہ بھی سابقون میں ہی شمار کیا جائے گا۔پس ایسے لوگوں کے لئے اصل زیادتی تیسرے سال پر نہیں بلکہ چوتھے سال کے چندہ پر سمجھی جائے گی مثلاََ اگر کسی شخص نے پہلے سال پانچ روپے چندہ دیا تھا دوسرے سال اس نے دس روپے دیئے اور تیسرے سال بیس لیکن چوتھے سال پھر اس نے پانچ دے دیئے تو اب اگر وہ زیادتی کرنا چاہے تو پانچ پر ہی کر سکتا ہے اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ بیس پر زیادتی کرے کیونکہ اس نے چوتھے سال اپنے چندہ میں جو کمی کی تھی وہ اجازت اور قانون کے ماتحت کی تھی۔ میں نے اس امر کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں کو فکر لگ گیا ہے کہ ہم نے جو چوتھے سال چندہ دیا تھا وہ تیسرے سال سے بہت کم ہے اب اگر ہم تیسرے سال کے چندہ پر زیادتی کریں تو ہم پر بہت زیادہ بار پڑجائیگا۔ میں ایسے دوستوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر انہوں نے چوتھے سال کم چندہ دیا ہے تو یہ ان کی زیادتی میںحارج نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے یہ کمی میری دی ہوئی رعایت کے مطابق کی تھی پس وہ اب تیسرے سال کے چندہ پر نہیں بلکہ چوتھے سال کے چندہ پر اگر دسویں سال تک زیادتی کرتے چلے جائیں گے تو اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن کی فہرست میں آجائیںگے بشرطیکہ پہلے تین سالوں میں بھی ہر سال زیادتی ہوتی چلی گئی ہو۔یا اب وہ زیادتی کر دیں مگر شرط یہی ہے کہ انہوں نے چوتھے سال قانون کے مطابق کمی کی ہو۔ لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ جس نے چوتھے سال بھی کمی نہیں کی تو اسے ا جازت نہیں کہ وہ پیچھے ہٹے بلکہ اب وہ اس صورت میں اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ نمیں شامل رہ سکتا ہے کہ جب ہر سال وہ اپنے چندہ میں اضافہ کرتا چلا جائے۔ جیسے میں نے دوسرے سال پہلے سال سے زیادہ چندہ دیا تھا، تیسرے سال دوسرے سال سے زیادہ چندہ دیا،چوتھے سال تیسرے سال سے زیادہ چندہ دیا اور پانچویں سال چوتھے سال سے زیادہ چندہ لکھا یاہے۔پس میں اور میری قسم کے دوسرے دوست جنہوں نے چوتھے سال بھی کمی نہیںکی بلکہ تیسرے سال کے چندہ پرزیادتی کی تھی وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ اب آئندہ ہر سا ل اضافہ ہی کرتے چلے جائیںاور پانچویںسال میں چوتھے سے اور چھٹے سال میں پانچویںسے اور ساتویں سال میںچھٹے سے اور آٹھویں سال میں ساتویں سے اورنویں سال میں آٹھویں سے اور دسویں سال میں نویں سے زیادہ چندہ دیں خواہ زیادتی کتنی ہی قلیل ہو۔لیکن جنہوں نے چوتھے سال اپنا چندہ پہلے سال کے برابر کر دیا تھا لیکن دوسرے اور تیسرے سال بڑھتے چلے گئے تھے ان کی راہ میں چوتھے سال کے چندہ کی کمی کوئی روک نہیں ہوگی بلکہ چوتھے سال سے انکا نیادور شروع ہوگا اور انکی زیادتی ، زیادتی ہی تصور ہوگی اگر انہوں نے چوتھے سال کے چندہ سے پانچویں سال میں کچھ زیادہ چندہ دیا ہو۔
یہ دو تشریحیں ہیں جو آج میں کر دینا چاہتا ہوںکیونکہ بہت سے دوستوں نے ملاقات کے وقت مجھ سے اس بارے میں دریافت کیا ہے اور بعض نے رُقعے لکھ کر بھی سوالات کئے ہیںاور چونکہ میںدیکھتا ہوںکہ تحریک جدید کی اہمیت معلوم ہونے کے بعد بہت سے دوستوں کے دلوںمیں یہ احساس پیدا ہوگیا ہے کہ وہ بھی اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ نمیں شامل ہوں اسلئے میںنے یہ تشریحات کر دی ہیں اور ان کی راہ میں جو روکیں حائل تھیں انہیں دور کر دیا ہے۔میںان دونوں قسم کی زیادتی کو ایک نقشہ کے ذریعہ سے بھی حل کر دیتا ہوں اور پانچ روپے چندہ دینے والوں کی مثال کی دونوں صورتیں بیان کردیتا ہوں۔اول نقشہ یہ ہے کہ ایک شخص نے پہلے سال پانچ روپے دیئے، دوسرے سال پانچ روپے ایک آنہ یادو آنہ یاچارآنہ زیادتی کی، تیسرے سال پھر زیادتی کی مگر چوتھے سال پھرپانچ روپے چندہ دیاچھٹے سال پانچ روپے ایک آنہ یا دو آنہ یا چار آنہ چندہ دیااور پانچویں سال اس سے زیادہ اور آخر تک پھر بڑھاتے چلے گئے انکا چوتھے سال کا چندہ گو تیسرے سال سے کم ہے لیکن چونکہ یہ پہلے تین سالہ دور میں بھی چندہ بڑھاتے رہے ہیں اور دوسرے سالہ دور میں بھی چندہ بڑھاتے رہے ہیںباوجود چوتھے سال میں کمی کر دینے کے یہ لوگ سابقون میں شمار ہونگے کیونکہ دونوں دور مستقل صورت رکھتے ہیں اور دونوںدورمیں وہ چندہ بڑھاتے چلے گئے ہیں۔دوسری مثال یہ ہے کہ ایک شخص نے پہلے سال میںپانچ روپے چندہ دیا دوسرے میں پانچ روپے ایک آنہ تیسرے میںپانچ روپے ۲آنے، چوتھے میں پانچ روپے تین آنے اور پانچویں میں پانچ روپے ۴آنے اور آخر دور تک وہ کچھ نہ کچھ زیادتی پہلے سال کے چندہ میں کرتے چلے گئے یہ بھی سابقون میںسمجھے جائیں گے کارکنوں کو چاہئے کہ وہ اس امر کو اچھی طرح جماعت کے ذہن نشین کر دیں تاکہ عدم علم کی وجہ سے وہ دوست جو زیادہ ثواب میں حصہ لیناچاہیں اس سے محروم نہ رہ جائیں۔
میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جو دوست اس دوران میںفوت ہو جائیں انکی نسبت سمجھا جائے گاکہ وہ آخر تک چندہ دیتے رہے ہیں اور وہ اپنی زندگی میں جس قسم کے چندہ دہندوں کی قسم میں آرہے تھے اسی قسم میں ان کا نام شامل کیا جائے گا اور یہ نہ کہا جائے گا کہ انہوں نے پورے دس سال چندہ نہیں دیا۔کیونکہ ثواب نیت پر ہوتا ہے نہ کہ اس عمل پر جو انسان کے اختیار میں نہ ہو۔
اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوںکہ اس سال کے جلسہ میںایک غیر معمولی تبلیغ ہوئی ہے جو پہلے سالوں میں نہیں ہؤا کرتی تھی اور وہ ہندوؤں اور سکھوں کو تبلیغ ہے۔اس سال ہمارے جلسہ میں ہندوؤں اور سکھوں میں سے ایک معقول تعداد شامل ہوئی ہے۔معقول کالفظ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد کے لحاظ سے استعمال نہیں کررہا۔بلکہ پہلے زمانہ کے لحاظ سے استعمال کر رہا ہوں۔پندرہ بیس ہندو اور سکھ دوست اس دفعہ ہمارے اس جلسہ میں شامل ہوئے اور وہ مجھ سے بھی ملے اور لیکچروں میں بھی شامل ہوتے رہے۔ان میں سے بعض تو درمیان میں چلے گئے مگر بعض آخر تک ٹھہرے رہے۔ان ہندوؤں اور سکھوں میں بیرسٹر بھی تھے،وکلا بھی تھے،انجینئر بھی تھے،ڈاکٹر بھی تھے،زمیندار بھی تھے، غرض ہر قسم کے لوگ ان میں شامل تھے۔ ہندوؤں میں چونکہ ایک لمباعرصہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری ہے اور مسلمانوں سے وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہیںاس لئے ہندو تعلیم یافتہ طبقہ مسلمان تعلیم یافتہ طبقہ سے زیادہ سنجیدہ ہے۔ مسلمانوں میںابھی چھچھورا پن پایا جاتا ہے لیکن ہندوؤں میں چونکہ دیر سے تعلیم میں ترقی ہو رہی ہے اس لئے اس تعلیم کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان میں ایک ایسا وقار پیدا ہو گیا ہے جو بالعموم مسلمانوںمیں نظر نہیں آتا۔ہندوؤں میں اس روح کا پیدا ہو جانا اور پھر ان کا ہمارے پاس ہی ٹھہرنا ہمارے لئے بہت بڑی خوشی کا موجب ہے۔ایک ہندو صاحب کو تو میں دیکھ کر حیران رہ گیا وہ میری تقریر کے باقاعدہ اسی طرح نوٹ لیتے رہے جس طرح باقی احمدی دوست نوٹ لیتے رہے تھے۔
پس یہ ایک نیا سلسلہ شروع ہؤا ہے جسے میرے نزدیک زیادہ سے زیادہ ترقی دیتے چلے جانا چاہئے۔پچھلے آٹھ دس سال میں ہم نے غیر احمدی اصحاب کو یہاں لانے کی کوشش شروع کی ہے اور اس میں ہمیں بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔چنانچہ ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں غیر احمدی آتے اورسینکڑوں ہی بیعت کر کے جاتے ہیں۔نصف کے قریب تو ضرور ہی بیعت کر کے جاتے ہیں۔گو اگر صحیح کوشش کی جائے تو میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ لوگ بیعت کر سکتے ہیں۔مگر نقص یہ ہے کہ جو دوست انہیں اپنے ہمراہ لاتے ہیں وہ ان کی نگرانی نہیں کرتے۔اگر وہ نگرانی رکھیں اور انہیں جلسوں اور لیکچروں میں توجہ سے بٹھائیں تو اسّی نوّے فیصدی بلکہ سو فیصدی کی بیعت کی امید کرنا بے جا نہ ہوگا۔مگر ابھی ان غیر احمدی دوستوں کو اپنے ہمراہ لانے والے اس امر کی طرف صحیح متوجہ نہیں ہوئے کہ ان کا کوئی وقت ضائع نہ ہونے دیں اور کوشش کریں کہ وہ جلسہ سے پورا فائدہ اٹھائیں لیکن پھر بھی میں نے دیکھا ہے کہ پچاس فیصدی لوگ بیعت کر کے ہی واپس جاتے ہیں۔بعض لوگ پہلے دن سے ہی شکایت کرتے ہیں کہ ہم فلاں غیر احمدی دوست کو اپنے ہمراہ لائے تھے مگر وہ متأثر نہیں ہؤا لیکن دوسرے ہی دن وہ پھر آجاتے ہیں اور کہتے ہیں آج آپ کی تقریر سن کر یا دوسرے دوستوں کی تقریریں سن کر ان کا سینہ کھل گیا ہے۔اِن کی بیعت لی جائے اور جو دوسرے دن بھی رہ جاتا ہے اس کا تیسرے دن سینہ کھل جاتا ہے اور وہ بیعت کر لیتا ہے۔
پس یہاں آنے کے بعد بہت سے لوگوں کے دل کھل جاتے ہیں اور سوائے ان کے جو بھاگ جائیں۔باقیوں میں سے اکثر بیعت کر کے ہی واپس لوٹتے ہیں لیکن کئی ایسے ہوتے ہیں جو سالہا سال آتے رہتے ہیں اور بیعت نہیں کرتے آخر کئی سالوں کے بعد وہ بیعت میں شامل ہوتے ہیں۔چنانچہ اسی سال ایک صاحب نے بتایا کہ میں آٹھ سال سے جلسہ سالانہ پر آرہا ہوںمگر بیعت کی مجھے آج توفیق ملی ہے۔ایک اور صاحب نے بتایا کہ میںتین چار سال سے آرہا ہوںاور باقاعدہ ہر جلسہ میں شامل ہوتا رہا ہوںلیکن بیعت میں آج کر رہا ہوں۔تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو سالہا سال آتے رہتے ہیں اور بیعت میں شامل نہیں ہوتے لیکن ایسے لوگوں کو بھی دراصل بیعت میں ہی سمجھنا چاہئے کیونکہ جب وہ ایک دفعہ یہاں آئے تو پھر وہ اس بات پر مجبور ہوگئے کہ یہاں بار بار آئیں اور وہ ہر دفعہ ہم سے کچھ لینے کے لئے آموجود ہوئے۔پس گو وہ بیعت میں شامل نہ تھے مگر ان کا معاملہ ایسا ہی تھا جیسے بیعت والوں کا ہوتا ہے انہوں نے بھی جب قادیان کو دیکھا تو پھر وہ اسے چھوڑ نہ سکے اور اس بات پر مجبورہوئے کہ باربار یہاں آئیں۔تو یہ تجربہ جواس دفعہ ہندوؤں اور سکھوں کے متعلق ہؤا ہے نہایت ہی کامیاب رہا ہے اور ضرورت ہے کہ اس پر زیادہ زور دیا جائے۔یہ ایک نیا تجربہ ہے اوراس بات کا متقاضی ہے کہ ہم لوگ اس کی طرف زیادہ توجہ کریں۔سب سے پہلے صرف ایک ہندو دوست ہمارے جلسہ پر آئے تھے۔جس پر ہم نے بڑی خوشی کا اظہار کیا وہ دوست اب ہیں تو احمدی لیکن ان کا نام ہندوانہ ہی ہے۔اسی طرح ایک اور ہندو دوست ہیں وہ ابھی احمدی نہیں ہوئے لیکن انہیں احمدیت کی سچائی کا احساس شروع ہو گیا ہے۔چنانچہ اُس نے مجھے ایسے خط لکھنے شروع کر دئیے ہیںکہ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ مجھے آپ کی بیعت کر لینی چاہئے۔
ایک اور اسی قسم کے صاحب دہلی میں ہیں۔انہوں نے ذکر کیاکہ فلاں فلاں روک میرے رستہ میں حائل ہے اگر یہ دور ہو جائے تو میں آپ کی ضرور بیعت کر لوں۔ایک روک انہوں نے یہ بتائی کہ میری والدہ زندہ ہیںاور میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں نے احمدیت قبول کی تو انہیں صدمہ ہوگا۔پس ایک طرف میرا جی چاہتا ہے کہ وہ زندہ رہیںاور دوسری طرف میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں۔کہ وہ ایک صداقت کے قبول کرنے میں روک بن رہی ہیںتو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوؤںمیں ایک تغیر محسوس کرتا ہوں۔بعض ہندو دوست ہمارے جلسہ پر چار چار پانچ پانچ سال آتے رہے اور آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں صداقت قبول کرنے کی توفیق دے دی یا صداقت قبول کرنے کے لئے وہ بہت حد تک تیار ہو گئے مگر تبلیغ کے صرف یہ معنی نہیں ہوتے کہ کوئی مسلمان ہو جائے۔ہماری جماعت میں سے کئی ایسے دوست ہیںجو ہندو اور سکھ صاحبان کو اپنے ہمراہ لانے میں اس لئے کوتاہی کر جاتے ہیںکہ وہ خیال کرتے ہیں کہ انہوں نے کونسا مسلمان ہو جانا ہے حالانکہ ہر تبلیغ میں ایک تعلیمی پہلو بھی ہوتا ہے جسے مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ آخر اس ملک میں ہندو بھی رہتے ہیں،مسلمان بھی رہتے ہیںاور دوسری قومیں بھی رہتی ہیں اب اگر تمام قوموں کے افراد ایک دوسرے سے ملیںگے نہیں تو انہیں ایک دوسرے کے حالات کا کیونکر علم ہوگا اور ایک دوسرے کے متعلق جو غلط فہمیاں پیدا ہو چکی ہیں وہ دورکس طرح ہونگی۔قادیان کو ہی دیکھ لو یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں میں سے بعض ہمارے خلاف جھوٹ بولتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان پر ہماری طرف سے مظالم توڑے جاتے ہیں اس طرح وہ اپنی تمام قوم کے لوگوں میں ہمارے خلاف اشتعال پیدا کرتے ہیں۔اب قدرتی طور پر اس پروپیگنڈے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ناواقف لوگ یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیںکہ واقعی میں قادیان میں جماعت احمدیہ کی طرف سے ہندوؤں اور سکھوں پر ظلم ہو رہا ہے لیکن اگر انہی کے ہم مذہب آدمی یہاں آئیں اور وہ ہمارے سلوک کو دیکھیں تو وہ خود بخود حقیقتِ حال سے آگاہ ہو جائیںگے اور سمجھ لیں گے کہ وہ لوگ جو خود اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کر رہے ہیں،ظالم ہیں اور جن کو ظالم کہا جاتا ہے وہ مظلوم ہیں۔تو صرف یہی نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی احمدی ہوتا ہے یا نہیںبلکہ یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ان تعلقات کے نتیجہ میں ملک کے امن میں ترقی ہوتی ہے اور وہ تنافر دور ہو جاتا ہے جو ہندوؤں سکھوں اور مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے متعلق پایا جاتا ہے۔ پچھلی دفعہ ایک ہندو اخبار کے ایڈیٹر ہمارے جلسہ پر آئے اور انہوں نے واپس جاکر اپنے اخبار میں لکھا کہ ہمیں تو یہ بتایا جاتا تھا کہ احمدی بڑے وحشی ہوتے ہیں مگر ان کا جلسہ دیکھنے کے بعد میری یہ رائے ہے کہ یہ درست نہیں۔احمدی بڑے اچھے ہوتے ہیں اور ان کی خواہش ہے دنیا میں نیکی ترقی کرے اور ملک میں امن قائم ہو۔اب چاہے وہ کتنے ہی متعصّب ہوں کسی مجلس میںجب یہ کہا جائے گا کہ احمدی ظالم اور بد اخلاق ہوتے ہیں تو وہ کہیں گے بالکل غلط ہے۔میں خود ان کے جلسہ میں شامل ہؤا اور میں اپنے مشاہدہ کے رو سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ بالکل جھوٹ ہے جو ان کے متعلق کہا جاتا ہے۔تو یہ بھی ہندوؤں اور سکھوں کے یہاں آنے کا ایک فائدہ ہے اور درحقیقت بہت بڑا فائدہ ہے ۔پس اس بات سے گھبرانا نہیں چاہئے کہ اگر ہم انہیں ہمراہ لائے تو وہ احمدی نہیں ہونگے۔بے شک وہ احمدی نہ ہوں لیکن یہ ضرور فائدہ حاصل ہوگاکہ ہماری جماعت کے متعلق ان کی رائے بدل جائے گی اور وہ یہ اقرار کرنے پر مجبور ہونگے کہ جماعت احمدیہ کے متعلق مخالف جوکچھ کہتے ہیں وہ غلط ہے۔ پھر ایک اور بات بھی ہے جس کا ہمارے احمدی دوست اگر چاہیں تو تجربہ کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ جب وہ غیر احمدی دوستوں کو اپنے ہمراہ لاتے ہیں تو ان میں سے اکثر کا کرایہ انہیں خود ادا کرنا پڑتا ہے لیکن ہندو اکثر اپنے کرایہ پر آتے ہیں اور اپنے کرایہ پر ہی جاتے ہیں چونکہ انہیں علم کی قدر ہے اس لئے وہ ایسے موقعوں پر اپنی گرہ سے روپیہ خرچ کر کے نئے علوم حاصل کرنے کے لئے پہنچ جاتے ہیں مگر مسلمانوںمیں چونکہ تعلیم کی کمی ہے۔اس لئے انہیں کرایہ دے دے کر ساتھ لانا پڑتا ہے۔تو ہندو اور سکھ دوستوں کو اپنے ہمراہ لانے میں بہت بڑا فائدہ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں جلسہ سالانہ کے موقع پر یہاں آنے کی تحریک کی جائے۔غیر احمدیوں میں اپنا کرایہ خرچ کر کے آنے والوں کی تعداد کم ہوتی ہے اور ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو دوسروں کے کرایہ پر یہاں آتے ہیں مگر ہندوؤں میں ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو اپنے کرایہ پر یہاں آتے ہیں اور ان لوگوں کی تعداد کم ہے جو دوسروں کے کرایہ پر یہاں آتے ہیں۔
پس اگر ہندو دوستوں کو آئندہ کوشش کر کے اپنے ہمراہ لایا جائے تو وہ ہماری جماعت کے دوستوں پر بوجھ بھی نہیں بنیں گے اور فائدہ بھی زیادہ ہوگا۔بے شک وہ مسلمان نہ ہوںلیکن اگر وہ یہ سمجھ کر یہاں سے جائیں کہ احمدی ایسے برے نہیں ہوتے جیسا کہ ان کو سمجھا جاتا ہے تو میںسمجھتا ہوں یہ بھی ایک بہت بڑا فائدہ ہے۔ایسا شخص ہر جگہ ہمارا ایک قسم کا مبلّغ ہوتاہے اور جب بھی جماعت پر کوئی اعتراض ہو رہا ہو تو وہ اس کا رد کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ایک ہندو صاحب اسی جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے تھے،دوستوں نے سنایا کہ یہ ہر وقت ہماری ہی تبلیغ کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے وہ دلائل یاد کر لئے ہیں جو وفات مسیح وغیرہ کے ثبوت میں ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں اور جب کوئی ایسا موقع پیش آتا ہے جب کسی غیر احمدی مولوی سے وفات مسیح پر بحث کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں مرکز سے مبلغ کیا منگوانا ہے میں اس سے بحث کرتا ہوں۔چنانچہ وہ قرآن کریم کے رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کرنے لگ جاتے ہیںاور ایسی اعلیٰ درجہ کی بحث کرتے ہیںکہ مخالف مولوی لاجواب ہوتے ہیں۔دوستوں نے سنایاکہ ان میں تبلیغ کا ایسا اعلیٰ ملکہ پیدا ہوگیا ہے کہ مخالف مولویوں کا ناطقہ بند کر دیتے ہیں۔اسی طرح سیالکوٹ کے ضلع میں ایک ہندو صاحب ہیں اُن کے متعلق بھی دوستوں نے بتایاکہ انہوںنے اسلامی مسائل خوب یاد کر لئے ہیںاور مخالفوں سے ہماری جگہ بحثیں کرتے رہتے ہیں۔تو یہ ایک بھاری فائدہ ہے جو اس دفعہ ہمیں حاصل ہؤا ہے اور میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوںکہ وہ آئندہ ہندو صاحبان کو بہت کثرت کے ساتھ اپنے ہمراہ لانے کی کوشش کریں۔ہم ان کے کھانے کا الگ انتظام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ایک ہندو باورچی رکھ کر ان کے لئے کھانا تیار کیا جا سکتاہے۔گو اب ہندوؤں کا تعلیم یافتہ طبقہ مسلمانوں کے ساتھ کھانے پینے لگ گیا ہے لیکن پھر بھی ان کے لئے الگ انتظام کیا جاسکتا ہے۔گو اس دفعہ ہندودوستوں کے لئے جب الگ انتظام کیا گیا تو ان میں سے بعض نے انکار کر دیا اور کہا کہ جس طرح باقی لوگ رہتے ہیںہم اسی طرح رہیں گے ہمارے لئے کسی الگ انتظام کی ضرورت نہیں۔درحقیقت اس قوم میں دیر سے تعلیم ہونے کی وجہ سے وقار پیدا ہوگیا ہے اور ایسی سعادت کے آثار ان میں پائے جاتے ہیں جو بہت ہی قابلِ تعریف ہیں لیکن پھر بھی ہم ہندو دوستوں کے لئے الگ انتظام کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ آئندہ سال خصوصیت کے ساتھ ہندو دوستوں کو اپنے ہمراہ لانے کی کوشش کریں۔غرض تبدیلی مذہب کے نقطہ نگاہ سے ہر بات کو نہیں دیکھنا چاہئے اور محض اس وجہ سے ان کو اپنے ہمراہ لانے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے کہ انہوں نے کونسا مسلمان ہو جانا ہے کیونکہ ان کو یہاں لانے کی غرض صرف یہی نہیں کہ وہ مسلمان ہو جائیں بلکہ ہماری غرض یہ بھی ہے کہ وہ احمدیت کا نقطہ نگاہ سمجھنے کے قابل ہو جائیں اور انہیں پتہ لگ جائے کہ ہم کیا کہتے ہیں۔پس میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلادیتا ہوں اور چونکہ آج بہت سے دوستوں نے ساڑھے تین بجے کی گاڑی سے واپس جانا ہے اس لئے خطبہ کوختم کرتا ہوں۔ہاں یہ اعلان کر دینا چاہتا ہوںکہ میں جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی عصر کی نماز جمع کر کے پڑھاؤں گا تاکہ وہ دوست جنہوں نے جانا ہے جا سکیں۔
(الفضل۱۷؍جنوری ۱۹۳۹ئ)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۲۴
الٰہی جماعتوں میں منافقین کا پیدا ہونا سنتُ اللہ ہے
(فرمودہ۲۹ ؍جولائی ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’گزشتہ ایام میں یہاں ایک واقعہ ہؤا ہے جسے مد نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوںکہ پھر مجھے منافقین کے متعلق جماعت کو اچھی طرح واقفیت بہم پہنچا دینی چاہئے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم جیسی کتا ب بھی بعض لوگوں کے لئے ہدایت کا مگر بعض کے لئے گمراہی کا موجب بھی ہوجاتی ہے۔ ۱؎اس لئے مجھے اس سے غرض نہیںکہ جماعت اس سے فائدہ اٹھاتی ہے یا نہیں،میرے لئے یہی کافی ہے کہ میں ایک بات کو کھول کر پہنچا دوں آگے احباب جماعت اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں میرے لئے یہ سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ہر ایک کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے جولوگ میری بات کو سنیں گے اور اس پر عمل کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ اور ان کی اولادوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرے گالیکن جو ردّ کر دیں گے ان کے اور ان کی اولادوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی ویسا ہی ہوگا۔ ہر شخص کا انعام اس کی ذات سے وابستہ ہے مجھے اس سے واسطہ نہیں کہ لوگ کن کانوں سے سنتے ہیں۔میرا فرض صرف یہ ہے کہ جماعت کو آگاہ کردوں اور مخلصین کے طبقہ تک اسے پہنچا دوں۔ چند روز ہوئے ناظر صاحب امور عامہ میرے پاس آئے اور اپنی ڈائری میں نوٹ کردہ واقعہ مجھے سنایا کہ یہاں کے ایک دکاندار چوہدری حاکم دین صاحب اور ایک اور دکاندار کے نمائندے محمد سعید صاحب ان کے پاس آئے اور اجازت طلب کی کہ ہم نے مصری صاحب کے ساتھ حساب کرنا ہے ان سے ملنے کی اجازت دی جائے اور چونکہ ہم نے یہ قانون مقرر کیا ہؤا ہے کہ ایسی صورت میں تین آدمیوں کو اکٹھا ملنے کی اجازت دی جایا کرے کیونکہ حساب کتاب کا معاملہ ایسا ہے کہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس غرض سے اجازت حاصل کرنے والا بہانا کرتا ہے یا واقعہ اس نے کچھ لینا ہے۔ ناظرصاحب امور عامہ نے بتایا کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ مرزا مہتاب بیگ صاحب کو ساتھ لے جائیں دو آپ ہیں تیسرے وہ ہو جائیں گے اور تینوں اکٹھے جا کر مل آئیں لیکن انہوں نے واپس آ کر کہا کہ ہم مِل تو آئے ہیں مگر ایک غلطی ہو گئی مرزا مہتاب بیگ صاحب ملے نہیں تھے اس لئے ہم ان کے بغیر ہی چلے گئے تھے۔ان کا یہ ایسا نامعقول عذرتھا کہ کوئی معقول آدمی اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا اس لئے جس حساب پر پہلے سَوا سال گزر چکا ہے یہ حساب ان کے اخراج کے بعد کا تو ہو نہیں سکتا اس لئے لازماً یہ سوا سال سے پہلے کا ماننا پڑے گا۔ اس پر اگر چند گھنٹے اور انتظار کرنا پڑتا حتّٰی کہ وہ تیسرا آدمی مل جاتا اور وہ اسے ساتھ لے جاسکتے تو اس میں کیا حرج تھا۔کیااسی دن کوئی خاص مہورت تھا اور کسی جو تشی نے ان سے کہا تھا کہ اگر تم چند گھنٹوں کے اندر اندر نہ پہنچے تو تمہارا روپیہ مارا جائے گا۔یا گورنمنٹ کا کوئی حکم تھا کہ اس وقت تک کے بعد تمہارا روپیہ ضبط ہو جائے گا۔یا کیا قرآن کریم کا کوئی ایسا حکم ہے کہ اگر اتنے عرصہ کے اندر اندر قرضہ نہ مانگا جائے تو وہ تلف ہو جاتا ہے۔آخر کیا وجہ تھی؟ کہ وہ دوتین گھنٹے یا اگر تیسرا آدمی اس روز نہیںمل سکتا تھا تو دوسرے روز جا کر نہیں مل سکتے تھے اور ان کے لئے فوراً ہی وہاں پہنچنا ضروری تھا یا انہیں اس بات سے کس نے منع کیا تھا کہ اگر مرزامہتاب بیگ صاحب نہیں مل سکے تھے تو دوبارہ ناظرا مور عامہ کے پاس آکر انہیں کہتے کہ کوئی اور آدمی مقرر کردیا جائے۔خیر تو ناظر صاحب نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد مجھے بتایا کہ انہوں نے کل پھر جانا ہے اور میں نے ان کو تاکیداً کہہ دیا ہے کہ کل ضرور مرزا صاحب کو ساتھ لے جائیں۔ یہ سنتے ہی میرے مُنہ سے فوراً نکلا کہ وہ کل بھی نہیں لے جائیں گے اور اگلے دن وہ پھر میرے پاس آئے اور شرمندگی سے کہا کہ وہ آج پھر کسی کو ساتھ لے کر نہیں گئے۔گو ضروری نہیں کہ ایسے قیاسات جو ان حالات میں کئے جا سکتے ہیں صحیح ہوں بعض اوقات اَور وجوہ بھی ہو سکتے ہیں۔مگر جب پہلے روز میں نے سنتے ہی کہہ دیا تھاکہ وہ کل بھی کسی کو ساتھ نہیں لے جا ئیں گے تو قدرتاً دوسرے روز کی بات طبیعت پر زیادہ گراں گزری۔اس وجہ سے میرے مشورہ کے ساتھ ان کے متعلق ناظر صاحب نے یہ فیصلہ کیا تھاکہ کچھ عرصہ کے لئے جماعت ان کا مقاطعہ کرے یہ عرصہ پہلے پندرہ دن کا تھا مگر بعد میں سات دن کر دیا گیااس لئے کہ ان کا بعد کا جو رویہ تھا وہ اچھا تھا ۔میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوںکہ میعاد میں یہ کمی ان سفارشوں کی وجہ سے نہ تھی جو ان کے لئے کی گئیںکیونکہ ایسے موقع پر سفار ش کرنا ملزم کو کوئی فائدہ پہنچانے کے بجائے خود سفارش کرنے والے کی منافقت کی علامت ہوتی ہے۔مجھے افسوس ہے کہ سفارش کرنے والوں میں میرے رشتہ دار بھی تھے اور دوسرے لوگ بھی اور انہوں نے یہ خیال نہ کیاکہ ایسی سفارش اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔تم ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کر سکتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یا صحابہ کے وقت میں کسی کو سزا دی گئی ہو اور اس مسئلہ کے واضح ہو جانے کے بعد اس کی سفارش آئی ہو۔پھر میں نہیں سمجھتا کہ تم ان مسائل کو کیوں یاد نہیں رکھتے۔ کیا اس وجہ سے کہ کوئی شخص میرا رشتہ دار ہے یا پریذیڈنٹ ہے،وہ یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ اسے شریعت کو توڑنے کا حق ہے۔میں یہ امر بھی صاف طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا ان لوگوں کا فعل منافقانہ تھا ویسا ہی سفارش کرنے والوںکا ہے۔مجھے کسی کا مطلقاً ڈر نہیں۔خواہ کوئی میرا رشتہ دار ہو یا جماعت میںسے بڑا آدمی ہو۔جو بھی خلافِ شریعت فعل کا مرتکب ہوگا اسے یہ بات سننی پڑے گی۔مجھے افسوس ہے کہ میرے ایک رشتہ دار نے یہاں تک کہاکہ میں چوہدری حاکم دین کے متعلق مسجد اقصیٰ میں قسم کھانے کو تیار ہوںحالانکہ قرآن کریم نے منافقوں کی ایک یہ علامت بھی قرار دی ہے کہ وہ بِلا شرعی حق یا ضرورت کے قَسمیں کھانے لگ جاتے ہیں۲؎ اور جو شخص ایسی بات کے متعلق قسم کھانے کو تیار ہو جاتا ہے جس کی صداقت کا شرعی ثبوت اس کے پاس نہیں،اس کا فعل یقینا منافقانہ ہے۔جو شخص خدا تعالیٰ کی قسم کو اتنا کمزور سمجھتا ہے کہ ذاتی علم کے نہ ہونے کے باوجود اس کے لئے تیار ہو جاتا ہے اس کے اندر ضرور کمزور ی ہے۔میںنے ان میں سے کسی کو بھی منافق قرار نہیں دیا۔ان لوگوں کو بھی نہیں جو علیحدہ جا کر مِلے تھے اور سفارش کرنے والوں کو بھی نہیں اور جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے منافق ہونا اور منافقت کی رگ کا ہونا دونوں میں بڑا فرق ہے بعض اوقات مخلص مسلمانوں سے بھی شریعت کے کسی حصّہ کی خلاف ورزی ہو جاتی ہے مگر اس وجہ سے ہم انہیں کافر نہیں کہتے۔نماز کے متعلق میرا تو یہی عقیدہ ہے کہ جو شخص اسے چھوڑتا ہے وہ مسلمان نہیں مگر ایک گروہ ایسا ہے جو تارکِ نماز کو کافر نہیں کہتا۔اب دیکھو مسلمانوں میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو نمازوں میں سُست ہے،ہزاروں ہیں جو روزے باقاعدہ نہیں رکھتے اور شریعت کے دوسرے احکام بھی توڑتے رہتے ہیںمگر ہم ان کو مسلمان ہی کہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک بات کو پیشہ کے طور پر اختیار کرلینا اَور بات ہے اور غفلت یا غلطی ہو جانا اور ہے۔ابو الدرداء ایک بڑے صحابی گزرے ہیں وہ اتنے پایۂ کے صحابی تھے کہ ان کی موجودگی میں صحابہ کوئی کام ان کے مشورہ کے بغیر نہ کرتے تھے۔ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ تمہارے اندر جاہلیت کی رَگ ہے۔انہوںنے پوچھا کہ جاہلیت کفر والی یا اسلام والی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفر والی۔ توبعض دفعہ مخلص آدمی بھی منافقانہ فعل کر دیتا ہے۔وہ خود منافق نہیں ہوتا ہاں اس کا فعل منافقانہ ہوتا ہے۔جن کو سزا دی گئی تھی منافق سمجھ کر نہیں بلکہ منافقانہ فعل پر سزا دی گئی تھی اور جن لوگوں نے سفارشیں کیں انہوں نے اسلام کے احکام کی خلاف ورزی کی اس لئے ان کا فعل بھی منافقانہ ہے گو وہ خود منافق نہیں ہیں۔بعض امور میں شریعت نے سفارش کی اجازت دی ہے مگر وہ ایسے امور ہیں جوسیاسی اور حکومت کے متعلق نہ ہوں۔ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو جس نے چوری کی تھی سزا دی۔اس پر بعض لوگ سفارشیں کرنے آئے کیونکہ اس وقت تک اسلامی تعلیم پوری طرح قائم نہیں ہوئی تھی مگر سفارش سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور فرمایا خدا کی قسم اگر فاطمہ چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا۔۳؎ تو ایسی باتوں میں سفارش کرنا سخت نادانی کی بات ہے۔اس کے معنے نظام کو درہم برہم کرنے کے ہیں اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ کوئی شخص کسی ناظر کے پاس انتظامی کا م کے متعلق کوئی سفارش نہ کرے اور اگر اس اعلان کے بعد بھی کرے گا تو میں اسے منافق سمجھوں گا۔کسی قاضی یا ناظر کے پاس کسی ایسے معاملہ میں سفارش منافقانہ فعل ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اسے اپنے فرض کی ادائیگی سے روکا جائے۔نظامِ سلسلہ میںہر شخص یکساں حیثیت رکھتا ہے۔یہ لوگ جوسفارشیں کرنے جاتے ہیں آخر اسی برتے پر جاتے ہیں کہ ہم جماعت میں بڑے سمجھے جاتے ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کسی تعلق کی وجہ سے ہمیں رسوخ حاصل ہے۔اور یاد رکھو جب کسی جماعت میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ ہم بڑے آدمی ہیں ہماری بات سُنی جانی چاہئے تو یہ اس کی تباہی کا پہلا قدم ہوتا ہے۔نظامِ سلسلہ کا جہاںتک تعلق ہے،کوئی بڑا نہیں اور کوئی چھوٹا نہیں۔دارالصحت کے آدمی سفارشیں لے کر کیوں نہیں آتے۔وہ سمجھتے ہیںکہ ہم غریب ہیں ہماری بات کو ن سنے گا اور جو آئے وہ یہی سمجھ کر آئے کہ ہمیں ایک عزت اور رسوخ حاصل ہے اور ہم بڑے آدمی ہیں لیکن میں ان کو بتا دینا چاہتا ہوںکہ نظامِ سلسلہ میں ان کی بھی اتنی عزت ہے جتنی دارالصحت کے رہنے والوں کی اور جو اس سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے،وہ آج بھی گیا اور کل بھی۔اچھی طرح سن لوکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد اور پوتے یا داماد سب کی جہاں تک نظام کا تعلق ہے ان کی ویسی ہی حیثیت ہے جیسی ایک ادنیٰ خادم کی اور جو اس سے زیادہ سمجھتا ہے اسے ارتداد،کفر اور یا پھر خدا تعالیٰ کے عذاب کے لئے تیار ہونا چاہئے۔اور جو ناظروں میں سے سفارش سنتا ہے وہ بھی تیار ہو جائے کہ یا تو اسے ٹھوکر لگے گی اور یا پھر وہ عذاب میں مبتلا ہوگا۔ناظر یا جسے کوئی اور عہدہ ملے اس کے کان اس معاملہ میں بہرے ہونے چاہئیں اور کسی کی بات کی اسے کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ جب کوئی اس کے پاس ایسی سفارش لے کر آئے اسے کہنا چاہئے کہ نکل جاؤ یہاں سے۔گو مجھے اس بات کے کہنے سے شرم آتی ہے اور حجاب محسوس ہوتا ہے مگر کہنے سے رہ نہیں سکتا کہ شروع ایامِ خلافت میں ایک دو دفعہ ایسا ہؤا۔بعض عورتیں حضرت اماں جان کے پاس پہنچیں اور ان سے سفارش کرانے کی کوشش کی۔وہ میری والدہ ہیں۔اماں جان ہیں اور ان کا پایۂ سلسلہ میں بہت بلند ہے مگر میں نے ان کی سفارش کو بھی کبھی برداشت نہیں کیا اور صاف کہہ دیا ہے کہ میں اسے سننے کے لئے تیار نہیں ہوں اور ان سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے۔ جب سلسلہ کے نظام میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ سفارش کریں تو پھر کسی اور کی سفارش کو کس طرح برداشت کیا جا سکتا ہے۔سفارش کرنے والے امور اَور ہوتے ہیں۔مثلاً میں نے کسی سے روپیہ لینا ہے اور تقاضا کر رہا ہوں ۔کسی کو علم ہے کہ اس کی مالی حالت اچھی نہیں وہ سفارش کر سکتا ہے کہ اس کی مالی حالت کا مجھے علم ہے بہت خراب ہے،ابھی اسے مہلت دی جائے۔ایسی سفارش ثواب ہے مگر نظام کے بارہ میں سفارش جائز نہیں۔ہاں واقعات کا اگر کسی کو علم ہو تو بتا سکتا ہے۔مثلاً یہی معاملہ تھا اگر کوئی عینی شاہد ہوتا اور پھر وہ دیکھتا کہ تحقیقات غلط ہوئی ہے تو وہ بتا سکتا تھاکہ میں خودوہاں موجود تھا بات یوں نہیں یوں ہوئی تھی۔یہ سفارش نہیں بلکہ شہادت ہے جو واجب اور فرض ہے۔مگر اس کیس میں تو ایسی صورت نہ تھی۔انہوں نے خود اقرار کیا کہ وہ تیسرے آدمی کے بغیر گئے اور مصری صاحب نے ان سے الگ الگ باتیں کیں۔میں تو حیران ہوں کہ یہ حساب فہمی ہو رہی تھی یا رشتہ ناطہ کی بات چیت تھی جو کسی دوسرے کے سامنے نہ کی جا سکتی تھی۔جب ان کے سامنے علیحدہ علیحدہ ملنے کا سوال پیش کیا گیا۔تو ان کو اسی وقت سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اب ہمارے ایمان کے امتحان کا موقع ہے۔پھر یہ کیا ضروری ہے کہ قرض خواہ مقروض کے مکان پر ہی جا کر مطالبہ کرے ۔قانون نے اور ذرائع بھی رکھے ہیں،ان کو استعمال کیا جا سکتا تھا۔
آئندہ کے لئے میں ناظروں پر بھی یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوںکہ اگر کسی ایسے معاملہ میں کوئی شخص ان کے پاس سفارش لے کر آئے تو ان کافرض ہے کہ فوراً میرے پاس اس کی رپورٹ کریں۔صرف رَدّ کردینا ہی کافی نہیں۔اگر مجھے معلوم ہؤا کہ ان کے پاس کسی نے سفارش کی اور انہوں نے رَدّ کردی مگر مجھے رپورٹ نہیں کی تو میں سمجھوں گاکہ منافقت کی رَگ ان کے اندر بھی ہے۔متواتر شکایتیں آتی رہتی ہیںکہ سفارشیں کی جاتی ہیں۔میرے اِسی عزیز کے متعلق پہلے بھی ایک دفعہ شکایت آئی تھی کہ دو شخصوں کا آپس میں مقدمہ تھا اور ایک کے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ بڑا نیک آدمی ہے،اس کا خیال رکھیں۔دوسرے فریق کو اس کا علم ہو گیا اور انہوں نے میرے پاس شکایت کر دی۔میں نہیں سمجھتا کہ انہیں کس نے داروغہ بنایا ہے کہ اس طرح سفارشیں کرتے پھریں۔ہر شخص اپنے دوستوں کو نیک سمجھتا ہے تو کیا صرف اس وجہ سے کہ کوئی شخص اپنے دوست کے نزدیک نیک ہے،ضروری ہے کہ مقدمہ بھی اس کے حق میں ہو جائے۔اگر اس سلسلہ کو جاری رہنے دیا جائے تو ہرفریق کے متعلق اس کے دوست آآکر کہہ دیا کریں گے کہ وہ نیک آدمی ہے۔دس (۱۰)اِسے اچھا کہیں گے اور دس (۱۰)اُسے ۔تو کیا اس صورت میں قاضی کسی کے خلاف بھی فیصلہ نہ کرے اور اندھے راجہ کی طرح اپنے آپ کو پھانسی پر لٹکا لیا کرے؟یہ طریق نہایت غلط ہے اور منافقانہ ہے۔میں ان لوگوں کو تو منافق نہیں کہتا مگر ان کا یہ فعل ضرور منافقانہ ہے۔
اسی طرح میں قاضیوں اور ناظروں کو نصیحت کرتا ہوںکہ وہ بہت احتیاط سے کام لیا کریں۔اگر کوئی ان کے پاس کسی کی سفارش کرے تو ہرگز پروا ہ نہ کیا کریں خواہ وہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو۔میں جانتا ہوں کہ غلطیاں ہو جاتی ہیں بعض اوقات ہمارے گھروں میںبھی عورتیں آجاتی ہیں اور میری بیویوں سے کہتی ہیں۔بعض دفعہ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ میری بیویوں میں سے کسی نے کوئی سفارش اپنے کسی رشتہ دار ناظر یا افسر سے کردی لیکن جب مجھے معلوم ہؤا تو میں نے ہمیشہ گھر میں ڈانٹا کہ کیوں ایسا کیا گیا۔کیا ناظر بد دیانت ہے۔اگر بددیانت ہے تو اسے علیحدہ کر دینا چاہئے لیکن اگر نہیں تو پھر کہنے کا کیا فائدہ؟ دوسرے اداروں میں سفارشیں ہوتی رہتی ہیںاور چونکہ وہاں سارا نظام ہی اس طرح چل رہا ہے اس لئے بعض اوقات ہم بھی سفارش کر دیتے ہیں۔جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دنیا میں اس وقت چونکہ پیسہ کے بغیر کام نہیں چلتا اس لئے اپنا حق لینے کے لئے کسی کو کچھ دے دینا جائز ہے ہاں کسی کا حق لینے کے لئے ایسا کرنا ناجائز ہے یہی حال سفارش کا ہے۔جہاں یہ چل رہی ہے وہاں اپنا حق لینے کے لئے سفارش کر دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن دوسرے کا حق مارنے کے لئے سفارش جائز نہیں لیکن سلسلہ کے نظام میں اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ناظروں کو یہ بھی چاہئے کہ اپنی بیویوں پر دباؤ رکھیں اور ان کو سختی سے روک دیں کہ ایسی باتوں میںدخل نہ دیا کریں۔ میری خلافت کا پچیسواں سال اب ختم ہونے کو ہے مگر کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کبھی اپنی بیویوں سے ایسی باتیں کی ہوں۔بلکہ بعض اوقات لطیفہ ہو جاتا ہے۔میں ناظروں سے کوئی بات کرتا ہوں وہ اپنی بیویوں سے کر دیتے ہیں وہ میری بیویوں سے کرتی ہیں اور پھر وہ مجھ سے کرتی ہیں کہ سنا ہے یوں ہؤا۔تو یہ طریق بھی غلط ہے۔میں نے سلسلہ کی ایسی بات اپنی بیویوں سے کبھی کی ہی نہیں اور افسروں کا بھی فرض ہے کہ اس کا خیال رکھیں۔ہم نے انہیں مقرر کیا ہؤا ہے ان کی بیویوں کو نہیں۔ انہیں اگر اپنی بیویوں پر اعتماد ہے تو اپنے راز بے شک ظاہر کر دیں مگر سلسلہ کے نہیں۔
پس جس فعل پر ان دو آدمیوں کو سزا دی گئی وہ یقینا منافقانہ ہے۔ایک شخص کا مسجد اقصٰی میں قسم کھانا تو الگ رہا اگر تم سارے کے سارے بھی قسم کھاؤ تو میں کہوں گا تم غلط کہتے ہو۔یہ فعل واقعی منافقانہ ہے۔ان میں سے ایک نے عجیب لطیفہ مجھے لکھا کہ میں نے سلسلہ کا کیا قصور کیا ہے۔ستر روپے گئے تو میرے گئے۔سلسلہ کو کیا نقصان ہؤا۔یہ تو ایسی بات ہے کہ کوئی احرار کو چندہ دے کر کہے کہ روپیہ تو میرا گیا سلسلہ کو کیا نقصان پہنچا۔تم جو ستّر روپے ایک مخالف کو دے آئے کیا یہ سلسلہ کا نقصان نہیں۔ستّر چھوڑ اگر تم سات روپے بھی دے آتے،سات آنے بلکہ سات دمڑی بلکہ ایک دمڑی بھی دیتے تو بھی سلسلہ کا نقصان تھا۔اس طرح تو ایک کافر بھی کہہ سکتا ہے کہ ابو جہل کے ساتھ مل کر جان تو میں نے اپنی دی خدا تعالیٰ کا اس سے کیا نقصان ہؤا۔تو یہ جواب خود کمزوریٔ ایمان کی دلالت کرتاہے۔اگر اس کے اندر غیرت ہوتی تو اسے خود معلوم ہو جاتاکہ اس سے سلسلہ پر حرف آتا ہے۔کیا یہ سلسلہ کی ہتک نہیں کہ اس کے دو افراد نے اس کے نظام کو توڑا۔اگر وہ سمجھتا ہے کہ جماعت کے افراد کا روپیہ مخالف کے پاس جانا سلسلہ کا نقصان نہیں تو یہ دوسری رگ منافقت کی ہے مگر میں اسے بھی منافق نہیں کہتا۔ اگر وہ اپنے آئندہ طرزِ عمل سے ثابت کر دیں گے کہ وہ منافق نہیں ہیں تو ہمارے بھائی ہیں اور اگر ان کا آئندہ طرزِعمل ان کو منافق ثابت کرے گا تو خدا تعالیٰ کے سلسلہ کو اس سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا میںکوئی جماعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی پیدا نہیں ہوئی کہ جس میں منافق نہ پیدا ہوئے ہوں۔میں حیران ہوں کہ آپ لوگوں کے دماغ میں یہ بات کیوں نہیں گھستی۔ بعض دفعہ آپ لوگوں کو حیرت ہوتی ہے کہ منافق کہاں سے آجاتے ہیں۔مگر یاد رکھو کہ یہ سُنت اللہ ہے۔آج تک کوئی جماعت ایسی نہیں ہوئی جس میں منافق نہ ہوئے ہوں۔جب بھی کوئی جماعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہوتی ہے اس میں منافق بھی ضرور ہوتے ہیں۔
مشہور انبیاء جن کے حالات معلوم ہیں،تین ہیں۔سب سے زیادہ حالات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محفوظ ہیںاور ان سے اُتر کر حضرت موسیٰ اور عیسی علیہما السلام کے ہیںاور زمانہ کے لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام ان سے پہلے گزرے ہیں۔اِن کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ منافق تھے یا نہیں۔قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے زمانہ میں منافقوں نے تین مرتبہ بڑا زور پکڑا ہے۔ایک قصہ توسامری کا مشہور ہی ہے۔ یہ شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بڑا اخلاص رکھتا تھا اور آپ کے ساتھ ہجرت کر کے آیا تھا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو الہام ہؤا کہ طور پر آؤ ہم تم سے باتیں کریں گے۔آپ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے وہاں پہنچے اور وہاں عبادت کی اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کی بہت جدو جہد کی جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آئی اور اس نے آپ کو الہام کیا۔کہ اس مدت میں ہم دس دن اور بڑھاتے ہیں اور دس دن آپ کو اور الہا م ہوں گے۔پہلے تیس دن تھے۔پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ۴؎ مگر جب تیس دن گزر گئے اور لوگ حیران ہوئے کہ موسیٰ واپس کیوں نہیں آئے تو سامری جھَٹ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ موسیٰ تو گیا ہے مر۔اور جس سے وہ باتیں کیا کرتا تھا اس کا مجھے پتہ ہے۔لوگوں سے جھَٹ وہ سونا لیا جو بنی اسرائیل نے فرعونیوں سے قرض لیا ہؤا تھا اور ایک بچھڑے کی شکل بنادی۔اس کے اندر ایک خَلا رکھاجس سے آواز نکلتی تھی۔۵؎جیسے آجکل مکینک وغیرہ بنا لیتے ہیں۔یہ دیکھ کر بنی اسرائیل کو وہی عقیدت یاد آگئی جو مصر میں ان کو بچھڑے سے تھی اور جب اس میں سے آواز نکلی تو انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ واقعی خدا ہے۔فوراً ایک جماعت اس کے ساتھ شامل ہوگئی اور آناً فاناً اس کا اتنا رسوخ بڑھ گیا کہ حضرت ہارون علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تعلقِ اخلاص رکھنے والے دوسرے لوگ ان کو کچھ نہ کہہ سکے۔ان کو خیال تھا کہ ایسا نہ ہو کہ باہم تلوار چل جائے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام آکر ناراض ہوں۔انہیں یقین تھا کہ حضرت موسیٰ فوت نہیں ہوئے ۔اللہ تعالیٰ کے حکم سے گئے ہوئے ہیں اور ضرور واپس آئینگے کیونکہ ابھی وہ پیشگوئیاں بھی پوری نہیں ہوئیں جو آپ کی زندگی میں ہونی ہیں اس لئے اگر ہم نے کچھ کہا اور فساد پیدا ہوگیا تو ایسا نہ ہو کہ حضرت موسیٰ آکر ناراض ہوں۔اور کہیں کہ تمہیں سمجھانا نہیں آیا۔پس وہ اسی وہم میں کہ ایسا نہ ہو حضرت موسیٰ آکر کہیں کہ تم نے لوگوں کو مرتد کر دیا۔خاموش رہے نتیجہ یہ ہؤا کہ ان منافقوں کی حکومت ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو بھی الہاماً بتا دیا کہ پتہ بھی ہے پیچھے کیا ہؤا ہے۔چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام غصہ میں واپس آئے ۶؎اور بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ تین ہزار منافق قتل کئے گئے۔تمہیں تو بعض دفعہ یہ سن کر کہ دو چار آدمی منافق ہوگئے ہیں گھبراہٹ پیدا ہوجاتی ہے کہ اب کیا ہوگا لیکن وہاں تین ہزار کو ایک دن میں سزادی گئی۔میں نے کہا ہے کہ قتل کئے گئے۔بائیبل میں بھی یہی لفظ ہے۔۷؎قرآن کریم میں بھی قتل کا لفظ آیا ہے۔قتل بعض دفعہ اور طریق سے بھی ہوتا ہے۔ممکن ہے یہ قتل بائیکاٹ کی صورت میں ہی ہو جیسا کہ احادیث سے پتہ لگتا ہے۔یا ممکن ہے ان کی شریعت میں ہر منافق کی سزا قتل ہی ہو۔بہرحال تین ہزار منافق تھے۔ذرا اندازہ کرو کتنی بڑی تعداد ہے۔دوسرا واقعہ قارون کا ہے۔سامری کو تو صرف پڑھے لکھے لوگ ہی جانتے ہیں مگرقارون سے ہمارے زمیندار بھائی بھی واقف ہیں۔کہتے ہیں بڑا قارون کا خزانہ دے دیا ہے۔یا کسی سے مانگتے ہی جاؤ تو وہ کہتا کہ کہ کیا میرے پاس قارون کا خزانہ ہے۔تو یہ شخص بہت مالدار تھا۔یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے تھامگر اندر ہی اندر آپ کے خلاف کوششیں کرتا رہتا تھا۔آخر اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کر دیا۔گویا اسے آسمانی سزا ملی۔ تیسراواقعہ وہ ہے۔جس کی طرف قرآن کریم نے اٰذَوْا مُوْسٰی۸؎ والی آیت میں اشارہ کیا ہے۔حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم میں سے ایک جماعت یہ کہنے لگ گئی تھی کہ آپ کو کوڑھ ہو گیا ہے۔بعض کا خیال تھا کہ آپ کے خصیوں میں پانی بھر گیا ہے اور اسے بھی وہ لوگ عیب سمجھتے تھے۔بعض کا خیال تھا کہ خصیوں پر کوڑھ ہے۔بعض لوگوں کو بوجہ اس کے کہ ان کا چمڑا نرم ہوتا ہے بعض دفعہ کھجلی کی ضرورت پیش آتی ہے ممکن ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی یہ تکلیف ہو اور وہ اس سے سمجھتے ہوں کہ کوڑھ ہے۔حدیثوں میں ایک واقعہ آتا ہے جس کی مَیں تو اور تاویل کیا کرتاہوں مگر بہر حال آتا یوں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک مرتبہ نہانے لگے تو ایک پتھر پر کپڑے رکھے اور وہ پتھر کپڑے لے کر بھاگ گیا حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے بھاگے اور ان لوگوں نے دیکھ لیا کہ آپ کے اندامِ نہانی پر داغ نہیں تھے۔وہاں بِحَجَر کا لفظ ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ واقعہ اسی طرح ہے تو حجر کسی شخص کا نام ہوگا یہ نام ہوتا ہے۔۹؎ ابنِ حجر ایک بہت بلند پایہ امام گزرے ہیں۔گزشتہ تیرہ سو سال میں جو چند ایک ممتاز علماء پیدا ہوئے ہیںان میں سے ایک ہیں۔وہ پتھر کے بیٹے تو نہیں تھے یا توکسی وجہ سے یہ ان کی کنیت تھی اور یا پھر ان کے باپ کا نام حجر ہوگا۔
اس کے علاوہ ایک اَور واقعہ بھی ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن مریم اور خاندان کے بعض اَور افراد بھی شامل تھے۔یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر زنا کے الزام کا واقعہ ہے۔
قارون کے واقعہ اور اس واقعہ کو اگر اکٹھا ہی سمجھ لیا جائے تو یہ تین واقعات منافقوں کے ہیںاور اگر یہ علیحدہ ہے تو چار ہیںلیکن اگر اسے علیحدہ نہ بھی سمجھا جائے تو بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف کم سے کم تین مرتبہ منافقوں نے بغاوت کی ہے۔ان کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے ہیںاور ان کے بارہ حواریوں میں سے ایک جو سب سے زیادہ آپ کا مقر ّب تھا۔اور جس کا دعویٰ تھا کہ خواہ ساری دنیا چھوڑ دے میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا اور جو ان کے ساتھ ایک تھالی میں کھانا کھایا کرتا تھاآخر اسی نے آپ کو پکڑوا دیا۔واقعات اس قسم کے ہیں کہ اگر اس وقت آپ نہ پکڑے جاتے تو شاید بچ جاتے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ پتہ لگ گیا تھا وہ چھُپ گئے تھے اور بھیس بدل لیا تھاجس سے کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔یہودا اسکریوطی کو چونکہ علم تھا کہ کیا بھیس بدلا ہؤا ہے اس نے سرکاری افسروں سے ساز باز کی اور کہا کہ میں جا کرجسے پکڑ کر پیار کروں گا سمجھنا وہی عیسیٰ ہے۔چنانچہ وہ گیا اور جا کر آپ کو چوما۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی الہام سے علم ہو چکا تھا اور آپ نے فرمایا کہ میں نے جو بات کہی تھی وہ پوری ہوگئی۔میں نے کہا تھا کہ’’ جس نے طباق میں ہاتھ ڈالا ہے وہی مجھے پکڑوائے گا۔‘‘۱۰؎
اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آیا۔آپ کا حال بھی ظاہر ہے۔ایک دو نہیں بلکہ ایک زمانہ ایسا آیا کہ آپ کو ماننے والوں کا قریباً تیسرا حصہ منافق ثابت ہؤا۔اُحد کی جنگ کے موقع پر جتنے مسلمان تھے سب کے سب شامل ہوئے حتّٰی کہ بچے بھی شریک ہوگئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ پندرہ سال سے کم عمر کے بچے واپس چلے جائیں۔ ایک لڑکے نے کہا یَارَسُوْ لَ اللہ! میں تیر بہت اچھا چلانا جانتا ہوںدوسروں نے بھی کہا کہ واقعی اس کا نشانہ بہت اچھا ہے خطا نہیں جاتا۔آپ نے فرمایا اسے رہنے دو مگر اس کا مدمقابل ایک اور ساتھی تھا وہ بھی پندرہ سال سے کم عمر کا تھا۔وہ رونے لگ گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی سے شاید اس کا کوئی رشتہ تھا یا کوئی رضاعی رشتہ ہوگا اس نے ان سے جاکر کہاکہ اس طرح فلاں لڑکے کو شامل کر لیا گیا ہے حالانکہ میں تو اسے گرا لیتا ہوں۔انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ لڑکا اس طرح کہتا ہے۔ آپ کو اس بات کا لطف آیا چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اچھا آؤ دونوں کی کشتی کراتے ہیں۔یہ لڑکا طاقتور تھا یا نہ تھامگر چونکہ اس کے دل میں جوش تھاکہ کسی نہ کسی طرح شامل ہو جاؤں اس لئے ایسا زور لگایاکہ اسے گرا کر سینہ پر بیٹھ گیا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تمہارا حق ہو گیا۔۱۱؎اب چلو۔تو پندرہ پندرہ برس کے بچوں کو بھی ساتھ لے جانا بتاتا ہے کہ وہ وقت مسلمانوں کے لئے کس قدر خطرناک تھا مگر سب کو مِلا کر مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار تھی اور مقابل پر مکّہ کے کفار کا لشکر تین ہزار تھا اور کچھ لوگ دوسری قوموں کے بھی تھے لیکن جب یہ ایک ہزار کا لشکر مدینہ سے تین چار میل باہر آیا تو عبداللہ بن ابی کے ساتھ تین سو مسلمان واپس ہوگئے کہ ہم نہیں جا سکتے ذرا اس حالت کا اندازہ کرو کہ ایک ہزار میں سے تین سو لَوٹ پڑتے ہیں اور اس جگہ سے لوٹتے ہیں جہاں خداتعالیٰ کا رسول خود موجود ہے۔اس کی نظروں کے سامنے اٹھتے اور واپس ہو جاتے ہیں۔اور تین سو ہزار میں سے تیس فیصدی ہے ۔قادیان میں دس ہزار احمدی آباد ہیں۔اس نسبت سے تین ہزار بنتا ہے مگر وہاں تین سو آدمی ایسے نازک موقع پر چلے جاتے ہیں اور صحابہ ذرا بھر پرواہ نہیں کرتے۔مگر تم ہو کہ تین آدمیوں کے منافق ہونے کا علم ہونے سے گھبرا جاتے ہو حالانکہ خداتعالیٰ کے سلسلہ میں تین نہیں، تین سَو، تین ہزار بلکہ تین لاکھ بھی منافق ہوں اور کامل مؤمن ان کے مقابلہ میں ایک ہی ہو تو بھی وہ نہیں ڈرے گا۔اور کہے گا کہ تم شیطان کے ساتھی ہو اس لئے بے شک اس کی طرف چلے جاؤ لیکن میں خدا تعالیٰ کا ہوں اس لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا۔
حضرت انسؓ بن نضر ایک صحابی تھے جو جنگ بدر میں شامل نہ ہوئے تھے کیونکہ اس وقت کوئی عام احساس نہ تھا کہ لڑائی ہوگی اس لئے خصوصاً انصارمیں سے بہت سے لوگ رہ گئے تھے۔جب انہوں نے جنگ کی خبر سُنی تو دل میں غصہ آتا تھااور کہتے تھے کہ اگر پھر کبھی جنگ ہوئی تو میں اللہ تعالیٰ کو بتاؤں گا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیںاور اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ مؤمن کس طرح لڑتے ہیں۔یہ گو جہالت کی بات تھی مگر چونکہ وہ اخلاص سے کہتے تھے اور ایسی ہی بات تھی جیسے حضرت موسیٰ اور گڈرئیے کا واقعہ ہے اور گو یہ ایسی بات تھی جو معمولی ایمان والے شخص کو مرتد کرنے کے لئے کافی تھی مگر چونکہ وہ کمال اخلاص اور دین کی خدمت کی حسرت سے کہہ رہے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا اور کچھ عرصہ بعد اُحدکی جنگ پیش آگئی جس میں پہلے مسلمانوں کو فتح ہوگئی۔بعض مستغنی المزاج لوگوں نے کہا کہ فتح تو ہوگئی مال کیا کرنا ہے اس لئے ادھر ادھر پھیل گئے لیکن بعد میں فتح شکست سے بدل گئی۔ابو عامر ایک شخص کفار کے لشکر میں تھا اس کی یہودیوں کے ساتھ رشتہ داری تھی مگر وہ مکہ چلا گیا تھا ہوشیار آدمی تھا۔اسے معلوم تھا کہ مسلمان جیت جایا کرتے ہیںاس لئے اس نے گڑھے کھود کر اوپر تنکے وغیرہ ڈال دئیے تھے تامسلمان فتح پانے کے بعد جب آگے بڑھیں گے تو ان میں گر جائیں گے۔انہی گڑھوں میںسے ایک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گر گئے۔آپ کے اوپر کئی اور صحابہ شہید اور زخمی ہو کر گرے۔اور یہ خیال ہو گیا ۔کہ آپ شہید ہو گئے ہیں۔یہی حضرت انس بن نضر کھجوریں کھاتے پھرتے تھے کہ حضرت عمرؓ کو ایک پتھر پر سرجھُکائے نہایت دلگیر دیکھا تو پوچھا کہ پریشانی کی کیا وجہ ہے۔مسلمانوں کو فتح ہوئی یہ خوش ہونے کی بات ہے یا غمگین ہونے کی۔حضرت عمرؓ نے کہا نضرتمہیں پتا نہیںکیا ہوگیا؟دشمن نے پھر حملہ کر دیااور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے۔حضرت نضرؓ کھجوریں کھا رہے تھے صرف ایک کھجور باقی تھی وہ بھی پھینک دی اور کہا کہ میرے اور جنت کے درمیان کیا ہے صرف ایک کھجور ہے۔اور حضرت عمرؓسے کہا کہ جب محمدصلی اللہ علیہ وسلم نہیں رہے تو ہم نے دنیا میں رہ کر کیا کرنا ہے۔۱۲؎تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور آخر شہادت پائی۔ جب لاش دیکھی گئی تو اسّی زخم تھے۔آپ کی انگلی پر ایک نشان تھا اور اسی سے آپ کی بہن نے لاش کو شناخت کیا ورنہ پہچاننا مشکل تھا۔۱۳؎یہ وہ شخص تھا کہ جس نے جب سنا کہ لوگ بھاگ گئے ہیں تو اس نے کہا کہ انہوں نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اورمیں نے اپنے کا۔مجھے کیا اگر دوسرے بھاگ گئے ہیں،میں تو وہیں جاؤنگا جہاں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔تو دیکھو ایسے نازک موقع پر تین سَو آدمی ہزار میں سے لَوٹ جاتا ہے مگر صحابہ بھی کس دل گُردے کے آدمی تھے کہ پرواہ نہیں کرتے۔
اسی طرح ایک اور مخلص صحابی کا واقعہ ایسا رقّت انگیز ہے کہ کوئی شخص بغیر رقّت اسے پڑھ بھی نہیں سکتا چہ جائیکہ بیان کر سکے۔جب یہ تین سو آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر لَوٹ گئے تو عبد اللہ بن عمرو جو انصار میں سے تھے،مسلمان اور خصوصاً احمدی ان کو جانتے ہیں، جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا وہ یہ برداشت نہ کر سکے ۔اور انہیں سمجھانے کے لئے یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اس وقت تین سَو کے لَوٹنے سے ان کا مؤمنانہ استغناء بھی متزلزل ہو گیا تھا،خیر تو حضرت عبداللہ بن عمرو ان کے پاس گئے اور جو الفاظ انہوں نے کہے وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت ان کی وہی حالت تھی جوہمارے ملک میں ایک مصیبت زدہ کی ہوتی ہے جو شدتِ غم اور بے بسی کی حالت میں اپنے پر رحم دلانے کے لئے ہاتھ باندھ باندھ کر اپنے مخاطب سے التجا کرتا ہے کہ وہ الفاظ جن میں انہوں نے ان منافقوں کو مخاطب کیا وہ یہ ہیں۔اے میری قوم! میں تمہیں خداتعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں کہ اس طرح اپنے نبی کو چھوڑ کر نہ جاؤ۔۱۴؎ان کی یہ بات بتاتی ہے کہ اُس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لئے ایسا خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ عبد اللہ جیسے بہادر کے مؤمنانہ استغناء میں بھی تزلزل آگیا مگر ان ظالموں نے آگے سے یہ جواب دیا کہ اگر ہم جانتے کہ یہ لڑائی ہے تو ضرور لڑتے۔ یعنی یہ تو لڑائی نہیں خود کشی ہے۔ایک دوست نے کچھ عرصہ ہؤا میرے ایک خطبہ میں یہ معنی سن کر مجھے لکھا تھا کہ اس آیت کے تو یہ معنی ہیں کہ ہمیں لڑنا آتا تو ہم کبھی واپس نہ لَوٹتے لیکن اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ معنی وہی صحیح ہیںجو مَیں کرتا ہوں ۔عبد اللہ بن اُبی ایک جرنیل تھا اُسے کیا لڑنا نہیں آتا تھا؟یہاں نَعْلَمُ کے معنے نَعْرِفُہیں۔یعنی اگر ہم اسے قتال قرار دیتے، اگر اسے لڑائی سمجھتے تو یہ تو خود کشی ہے۔جب اُنہوں نے یہ جواب دیا تو حضرت عبداللہ نے کہا کہ اچھا اگر جاتے ہو تو جاؤ پرواہ نہیں ہم تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے ہیں۔ وہ (حضرت عبداﷲ بن عمرو) بھی شہید ہوئے اور ان کی لاش پر بھی بہت زخم تھے۔غریب آدمی تھے اور خاندان بڑا تھا اس لئے مقروض بھی رہتے تھے۔ان کے لڑکے حضرت جابر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ سر نیچے ڈالے بیٹھے ہیں تو دریافت فرمایا کہ جابر کیوں کیا بات ہے؟ اس نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ جانتے ہیں باپ مرگیا ہے۔عیالداری ہے،قرضہ بھی بہت ہے اور یہ سب بوجھ مجھ پر آپڑا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہیں علم ہو کہ تمہارے باپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا سلوک کیا تو تم ہرگز ملول نہ ہو۔دوسروں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ حجاب کے پیچھے سے بات کرتا ہے مگر تمہارے والد کو بِالمشافہ بلایا اور فرمایا عبد اللہ مانگ جو مانگنا ہے ،میں دوں گا۔اس پر عبد اللہ نے کہا کہ اے اللہ! میرا مطالبہ یہی ہے کہ مجھے پھر زندہ کر تا مَیں پھر تیری راہ میں مارا جاؤں۔اس پر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اگر میں نے اپنی ذات کی قسم نہ کھائی ہوتی کہ مُردے دنیا میں واپس نہیں لوٹائے جائیں گے۔۱۵؎تو میں ضرور تجھے واپس کر دیتا۔یہی وہ حدیث ہے جسے ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی مُردوں کے زندہ نہ کر سکنے کے متعلق ہمیشہ پیش کیا کرتے ہیںاور اس وجہ سے اکثر احمدی ان کے نام سے واقف ہیں۔ جب ان عبداللہ بن عمرو کی وفات کی خبرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ انصارپر فضل کرے ان میں سے عبداللہ نے ہماری بہت خدمت کی ہے۔تو یہ کتنا نازک موقع تھا مگر تیس فیصدی لوگ واپس ہوگئے اور اس سے صحابہ کو قطعاً کوئی ابتلاء نہیں آیا۔مگر تمہارے لئے کیا کبھی اس کا دسواں حصہ بھی ابتلاء آیا ہے؟تمہارے لئے تو اس کا سواں حصہ بھی نہیں آیا ۔
اس کے بعد اسلام کو شوکت حاصل ہوتی گئی اور جوں جوں مسلمان بڑھتے گئے منافقوںکی نسبت بھی کم ہوتی گئی۔جب مسلمان دو ہزار ہو گئے تو منافق جو تین سو تھے لازماً پندرہ فیصدی ہوگئے۔جب مؤمن پانچ ہزار ہوئے تو منافق چھ فیصدی رہ گئے،جب مؤمن دس ہزار ہوئے تو منافق تین فیصدی باقی رہ گئے۔چاہے تعداد ان کی اس وقت بھی تین سو ہی ہو مگر نسبت کم ہوگئی۔اس طرح ان کی تعداد کم ہوگئی اور یہ ابھرنے سے رہ گئے مگر جب اسلام دوسرے ملکوں میں پھیلا تو ان علاقوں میں جہاں تربیت مکمل نہ ہوئی تھی ان لوگوں نے پھر زور پکڑا خصوصاً جب غیر قوموں سے مقابلہ ہوتا تو ان میں بھی جوش پیدا ہوتا۔جیسا کہ پچھلے دنوں جب حکومت سے ہمیں بعض اختلافات ہوئے تھے تو منافق کہتے تھے کہ اب کام بن گیا۔اب انگریزوں سے لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ذرا کسی سپاہی نے سلام کر دیا۔کہ اس طرح واقفیت پیدا کرکے کچھ باتیں معلوم کرے تو ان کا دماغ عرش پر پہنچ گیا کہ سپاہی نے ہم سے بات کی۔منافقوں کے دماغ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ ایک چوہڑے کا تھا۔جب مہاراجہ رنجیب سنگھ فوت ہوئے تو چونکہ ان کی حکومت کے زمانہ میں ایک نظام قائم ہؤا تھا اور عدل بھی ہونے لگا تھا اس لئے لوگوں کو بہت صدمہ ہؤا۔وہ بہت رو رہے تھے کہ ایک چوہڑا ادھر سے گزرا۔پوچھنے لگا کہ کیا ہؤا لوگ اتنا رورہے ہیں؟کسی نے بتایا کہ مہاراجہ کاانتقال ہو گیا ہے۔سن کر کہنے لگا کہ میں نے سمجھا خبر نہیں کیا ہوگیا ہے کہ لوگ ایسے بے تاب ہیں۔جب باپو یعنی میرے باپ جیسے لوگ مر گئے تو مہاراجہ رنجیت سنگھ بے چارہ کس حساب میں تھا کہ وہ نہ مرتا۔اس طرح ان کے نزدیک بھی سپاہی یا تھانہ دار کا سلام بڑی چیز ہے۔گھر پہنچتے ہیں تو پیر زمین پر نہیں لگتے کہ سرکاری افسر نے ہمیں سلام کر دیا۔حالانکہ سمجھتے نہیں کہ اس نے تمہارے چہرہ پر نفاق دیکھا اور سلام کر دیا کہ اس سے کام لیں گے۔ اس طرح مسلمانوں کی جب روم والوں سے لڑائی شروع ہوئی تو منافقوں نے کہا کہ اب گئے۔چنانچہ منافقوں نے ابو عامر راہب کی مدد سے پھر آپس کی تنظیم کی اور ایک بستی الگ بسائی اور اس میں علیحدہ مسجد بنائی اور علیحدہ گاؤں بنالیا۔ ابو عامر راہب بھیس بدل کر آیا اور صوفی بن کر مسجد میں رہنے لگا۔ان لوگوں نے یہ تجویز یں کرناشروع کر دیں کہ کسی طرح روم کی حکومت سے مسلمانوں کی لڑائی کرائی جائے اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ادھر جائیں تو مدینہ میںبغاوت کر دی جائے اس لئے انہوں نے مشہور کرنا شروع کیا کہ رومیوں کا لشکر مدینہ پر حملہ کے لئے آرہا ہے۔اس خبر سے مسلمانوں میں شور پیدا ہؤا کیونکہ ان کے لئے یہ ایسی ہی خبر تھی جیسے کوئی کہے کہ ریاست کپورتھلہ یا مالیر کوٹلہ پر انگریزفوج کشی کر رہے ہیں۔کُجادہ سلطنت جو یورپ سے شروع ہو کر ایران تک آتی تھی اور مصر بھی اس کے ماتحت تھا اور کئی ممالک اس کے باجگذار تھے اور جو بیک وقت چار پانچ لاکھ کا لشکر میدان میںلا سکتی تھی بلکہ بعض جنگوں میں تو رومی آٹھ دس لاکھ آدمی بھی لائے ہیں اور کجادہ لوگ جن کا سارا لشکر ہی دس پندرہ ہزار تھا۔چنانچہ ان لوگوں نے مشہور کر دیاکہ رومی حملہ کر رہے ہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ بہتر ہوگا ہم باہر جا کر مقابلہ کریں۔چنانچہ آپ مسلمانوں کو ساتھ لے کر چل پڑے۔رستہ میں جب پوچھنا شروع کیاکہ یہ خبر کہاں سے نکلی ہے تو اس کی حقیقت کھلی۔کسی نے بھی یہ اقرار نہ کیا کہ ہم نے لشکر کو آتے دیکھا ہے۔آپ کو شُبہ ہؤاکہ یہ منافقوں کی شرارت ہے اور آپ تھوڑی دور سے ہی واپس آگئے۔ منافق بہانوں سے پہلے ہی ساتھ نہ گئے تھے ان کو خیال تھا کہ اس خبر کے زیر اثر مسلمان جاتے ہی رومی علاقہ پر حملہ کر دیں گے اور پھر رومی خود بخود ان کے مقابلہ پر آئیں گے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ طریق ہی نہ تھا دشمن اگر حملہ کرے تو آپ کرتے تھے ورنہ نہیں۔جب مسلمان واپس آگئے تو ان کی امیدیں ناکام ہو گئیں۔آخر آپ نے اس مسجد کو مسمار کرایا ۱۶؎ اور اس کی جگہ مَیلہ کا ڈھیر بنایا گیا بلکہ اس محلہ کو ہی آپ نے گروا دیا۔پھر آپ کی وفات کے بعد تویہ فتنہ اس طرح اٹھا کہ صرف اڑھائی شہر ایسے رہ گئے جہاں نماز باجماعت ہوتی تھی ورنہ سب جگہ آگ لگ گئی تھی۔حضرت عمرؓ کے زمانہ میں یہ اِکّادُکّار ہے مگر حضرت عثمانؓ اور حضرت علی ؓکے زمانہ میں پھرزور پکڑا ۔
تو منافقوں کا ہر زمانہ میں موجود رہنا ضروری ہے۔کیا تم سمجھتے ہو کہ شیطان سو جائے گا اگر رحمانی فوجیں کام کرتی رہتی ہیں تو شیطانی بھی غافل نہیں رہ سکتیں۔یہ شیطان کا دستور ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے آدمی کھڑا کرتا رہتا ہے جن سے اسلام کو نقصان پہنچے اس لئے ہماری جماعت اگر یہ خیال کرتی ہے کہ کسی وقت منافق باقی نہیں رہیں گے تو یہ اس کی غلطی ہے۔کوئی قوم ایسی نہیں ہوئی کہ جس کے سو فیصدی افراد مؤمن اور مخلص ہوں۔یہ خدا تعالیٰ کے نظام کو باطل کرنے والی بات ہے۔یہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔پس یہ امید ہرگز نہیں کرنی چاہئے کہ منافق ختم ہو جائیں گے۔
اب چونکہ سوا تین بج چکے ہیںاس لئے باقی باتیں آئندہ مَیں انشاء اللہ بیان کروں گا۔اس وقت صرف یہی کہہ کر ختم کرتا ہوںکہ منافق ہر جماعت میں ہوتے رہتے ہیں اس لئے ہمیں یہ خیال کبھی نہیں کرنا چاہئے کہ یہ ہم میں کس طرح پیدا ہوگئے۔تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر تو نہیں ہو سکتے۔اگرآپ کے ایک ہزار ساتھیوں میں سے تین سو آدمی منافق ہو سکتے ہیںتو تم میں سے اگر دو، چار، دس یا زیادہ منافق نکل کھڑے ہوں تو گھبرانے کی کونسی بات ہے۔‘‘
(الفضل ۵؍اگست۱۹۳۸ئ)
۱؎ (البقرۃ:۲۷)
۲؎ (المنافقون:۲)
۳؎ بخاری کتاب الحدود باب کَرَاھِیۃ الشَّفَاعَۃ فی الحَدِّ(الخ)
۴؎ الاعراف: ۱۴۳
۵؎
(الاعراف: ۱۴۹)
۶؎ (الاعراف: ۱۵۱)
۷؎ خروج باب ۳۲ آیت ۲۸۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۸؎ الاحزاب: ۷۰
۹؎ بخاری کتاب الغسل باب مَنِ اغْتَسَلَ عُرْیَانًا(الخ)
۱۰؎ متی باب ۲۶ آیت ۲۰ تا ۲۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن
۱۱؎ اسد الغابۃ جلد ۲ صفحہ ۳۵۴ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
۱۲؎ ، ۱۳؎ سیرت ابن ھشام جلد ۳ صفحہ ۸۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۴؎ ابن ماجہ کتاب الجہاد باب فضل الشہادۃ فی سبیلِ اﷲ۔
۱۵؎ اسد الغابۃ جلد ۳ صفحہ ۲۳۳ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۱۶؎ سیرت ابن ھشام جلد ۴ صفحہ ۱۷۳، ۱۷۴۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء

۲۵
منافقین کی قِسمیں اور اُن کی علامتیں
(فرمودہ ۵؍اگست ۱۹۳۸ء )
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں منافقین کے متعلق بعض باتیں بیان کی تھیں اور بتایا تھا کہ منافق ہر جماعت میں ہونے ضروری ہوتے ہیں۔کبھی کوئی جماعت آج تک دُنیا میں ایسی نہیں بنی جس کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہواور اُس میں منافق پیدا نہ ہوئے ہوں۔بعض لوگ نادانی سے یہ کہا کرتے ہیں کہ منافقت حکومت میں ہوتی ہے حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے اور روزانہ تجربہ کے بھی خلاف ہے۔مذہبی جماعتوں کو جانے دوتم افراد کی دوستیوں کو لے لو۔کیا کوئی بھی شخص ایسا ہے جو یہ کہہ سکے کہ اُس کے کسی دوست نے اس سے کبھی دھوکا بازی نہیں کی اور دوست کی دھوکا بازی کو ہی منافقت کہاکرتے ہیں۔یعنی یوں ظاہر میں دوست ہو مگر اندر سے دشمنی اور شرارت کرتا ہو۔میں سمجھتا ہوں سوائے ایسے بے وقوف کے جو انسان کی حقیقت سمجھنے سے عاری ہو اور جس میں قوتِ فیصلہ نہ ہوہر انسان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس نے بعض سے حُسنِ سلوک کیا،ان کی وقتاً فوقتاً امداد کی اور ان سے ہر رنگ میں اچھا معاملہ کیا مگر وہ اندرہی اندر سے اُس کے خلاف کوئی منصوبہ یا شرارت کرتے رہے۔بچوں میں یہی ہوتا ہے۔سکول کے لڑکے آپس میں دوستانہ تعلقات پیدا کرتے ہیں مگر ان میں بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض دفعہ ظاہر میں ایک دوست بنا ہؤا ہوتا ہے مگر باطن میں وہ مخالف ہوتا ہے۔وہاں کونسی حکومت ہوتی ہے؟ہاں نظام میں یہ بات زیادہ ہوتی ہے اور جہاں کہیں نظام ہوگا وہاں یہ بات نمایاں نظر آجائے گی اِس لئے کہ نظام ہر شخص کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے سپرد اِس نظام کی نگرانی ہوتی ہے اور چونکہ وہ نگرانی کرتے ہیںاِس لئے جب معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص منافق ہے تو اسے بلایا جاتا ہے، اُس پر جرح کی جاتی ہے،اس کے متعلق گواہیاں لی جاتی ہیں اور اِس طرح تمام باتیں ریکارڈ اور شہادتوں میں آجاتی ہیں۔پس چونکہ ایک نظام کے نتیجہ میں اس قسم کی باتیں ریکارڈ میں آجاتی ہیں اور منافقوںکو بُلابُلا کر ان سے سوالات کئے جاتے ہیں اس لئے یہ بات نمایاں طور پر نظر آجاتی ہے لیکن جب ایک دوست دوسرے دوست سے غداری کرتا ہے تو وہ صرف اِتنا ہی کرتا ہے کہ اُس سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔ اس کے اندر یہ طاقت نہیں ہوتی کہ اُسے بلائے،اُس کے متعلق شہادتیں لے اور جرح کر کے اُس کی منافقت کو ثابت کرے اور اگر وہ اسے بلائے بھی تو وہ آئے گا کیوں؟ کہے گا تم گھر بیٹھو میں تمہارا کوئی نوکر نہیں کہ تمہارے بلانے پر آجاؤں۔مگر جہاں نظام ہوتا ہے وہاں چونکہ ایک قسم کی طاقت ہوتی ہے اس لئے جن پر منافقت کا الزام ہو اُنہیںبلایا بھی جاتا ہے اُن کے متعلق گواہیاں بھی لی جاتی ہیں،اُن پر جرح بھی کی جاتی ہے اور اِس طرح یہ تمام چیزیں ریکارڈ میں آجاتی اور لوگوں کو نمایاں طور پر نظر آنے لگ جاتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ کہنا کہ حکومت کے ساتھ منافقت ہوتی ہے،یہ حکومت کے مفہوم کے سمجھنے میں غلطی کھانے کا نتیجہ ہے اور اگر یہ صحیح ہو کہ حکومت کے ساتھ ہی منافقت ہوتی ہے تو اس حکومت سے مرادوہی حکومت ہوگی جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہکُلُّکُمْ رَاعِِ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ۱؎ کہ تم میں سے ہر شخص بادشاہ ،چرواہا یا نگران ہے اور ہر شخص سے اپنی اپنی رعیت یا گلے کے متعلق سوال کیا جائے گا۔تو کوئی انسان دنیا میں ایسا نہیں جس کو کچھ نہ کچھ حکومت نہ ملی ہو۔اگر اس کی بیوی ہے تو۲؎ کے ماتحت وہ اپنی بیوی کی نگرانی کرتا ہے۔اگر اس کے بچے ہیں تو وہ اپنے بچوں کا نگران ہے۔پھر یہ دنیا سینکڑوں یا ہزاروں افراد پر مشتمل نہیں بلکہ اربوں کی دنیا ہے اس دنیا میںہزاروں ایسے آدمی ملیں گے جن کی بیویاں منافق ہوتی ہیں۔ وہ بظاہر اپنے خاوندوں کے ساتھ رہتی ہیں مگر در پردہ بدکاری اور فسق وفجور اُن میں پایا جاتا ہے اور وہ دوسروں سے تعلقات رکھتی ہیں،پھر ہزاروں ایسی ہیں جو بدکارتو نہیں لیکن انہیں اپنے خاوندوں سے دشمنی ہے اور اِس وجہ سے وہ اپنے خاوندوں کے خلاف بھی منصوبے کرتی رہتی ہیں،پھر ہزاروں ایسی ملیں گی جو خاوندوں کے حُسنِ سلوک میں کمی ہونے کی وجہ سے اُن کے خلاف فتنہ و فساد بپا رکھتی ہیں اور اسی کا نام منافقت ہے۔پھر جو دوست ہوتے ہیں ان میں بھی ایک رنگ کی حکومت ہوتی ہے۔تم کبھی دودوست مساوی نہیں دیکھو گے۔جب بھی دیکھو گے تمہیں معلوم ہوگا کہ ایک غالب دوست ہے اور ایک مغلوب دوست ہے۔یعنی ایک دوست دوسرے دوست کے پیچھے چلنے والا ہوگا اور دوسرا اُسے مشورہ دینے والا اور اُسے چلانے والا ہوگا ۔دو برابر کے دوست تمہیں کبھی نظر نہیں آئیں گے کیونکہ یہ فطرت کے ہی خلاف ہے کہ انسانوں میںکُلّی طور پر مساوات ہو۔وہ ضرور اپنے میں سے ایک کی قابلیت اور برتری کو تسلیم کرتے اور اُس کے پیچھے چلتے ہیں چاہے وہ مُنہ سے نہ کہتے ہوں کہ تُو ہمارا بادشاہ ہے۔جہاں بھی چار پانچ دوست ہوں گے تم دیکھو گے کہ ان میں سے ایک دو مشورہ دینے والے ہوں گے اور باقی مشورہ لینے والے،ایک دو حکم دینے والے ہوں گے اور باقی حکم سُننے والے تو دوستوں میں بھی حکومت کا ایک رنگ پایا جاتا ہے۔ اسی طرح مدرسے ہیں،مساجد کے اجتماع ہیں،تجارتیں ہیں،زراعتیں ہیں،اِن سب میں ایک رنگ حکومت کا پایا جاتا ہے۔بازار کا سوال ہو تو ایک چودھری ہوتا ہے جسے اپنے حلقہ میں ایک رنگ کی حکومت حاصل ہوتی ہے۔
غرض تھوڑی یا بہت حکومت ہر شخص کو حاصل ہے اور اس کے بغیر دنیا کا کام نہیں چلتا۔چوروں اور ڈاکوؤں تک کو لے لیں ان کے سردار ہوتے ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ چور چوریاں کریں اور وہ کسی کو اپنا افسر نہ بنائیں، ڈاکو ڈاکے ڈالیں اور کسی کو اپنا لیڈر تجویز نہ کریں،فقیر اور سادھو بھی اپنے میں سے ایک کو افسر بنا لیتے ہیں۔پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ کوئی دو مؤمن ایسے نہ ہوں جو اپنے میں سے ایک شخص کو امیر نہ بنا لیں۔۳؎تو اب ایک رنگ کی حکومت تمام دنیا میں ہوگئی ۔ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیاکہ کُلُّکُمْ رَاعِِ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ اور دوسری طرف یہ فرما دیا کہ جب بھی دو مؤمن اکٹھے ہوں اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لیں۔ادھر دنیا کا قاعدہ بتا رہا ہے کہ یہ صحیح اصل ہے ہم کسی کو اپنا حاکم یا افسر نہ بھی بنائیں جس کے ذہن میں جِدّت اور تیزی ہوگی وہ آپ ہی آپ ہمارا افسر بن جائے گا۔چاہے اُسے مُنہ سے نہ کہا جائے کہ آپ ہمارے افسر اور حاکم ہیں مگر عملاً یہی ہوگا کہ دوست اُسی سے مشورہ لیں گے اور اسی کے پیچھے اپنے آپ کو چلائیں گے چاہے یہ برتری اور فوقیت عقل کی وجہ سے ہو، چاہے مال کی وجہ سے۔اگر چار پانچ دوست ہوں اور ان میں سے ایک دولت مند ہو تو گو بظاہر وہ اُس دولت مند کو کسی میٹنگ میں اپنا بادشاہ یا افسر مقرر نہیں کریں گے مگر عملاً یہی ہو گا کہ وہ اُسی دوست کے گھر میں جمع ہوں گے جو اُنہیں کھانا کھلائے یا چائے پلائے یا مٹھائی کھلائے۔اب یہ برتری مال کی وجہ سے ہوگی کسی طاقت کی وجہ سے نہیں ہوگی۔اِسی طرح چار پانچ اَور دوست ہوتے ہیں اور اُن میں سے ایک پہلوان ہوتا ہے دوسرے جانتے ہیں کہ اگر اس نے کسی کو ایک تھپڑ بھی مارا تو وہ کئی گز تک لڑھکتا چلا جائے گا۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باقی کمزور لڑکے اُس کے اِردگِرد اکٹھے رہتے ہیں تا اگر دوسرے لڑکے ہمیں دِق کریں تو ہم اس کی پناہ میں محفوظ رہیں۔اب وہ بادشاہ نہیں ہوتا انہو ں نے کسی میٹنگ یا مجلس میں اُس کی افسری کو تسلیم کرنے کے متعلق کوئی ریزولیوشن پاس نہیں کیا ہوتا،کوئی کمیٹی نہیں کی ہوتی مگر فطرت خود بخودبہادر انسان کی فوقیت کو تسلیم کرا لیتی ہے۔اسی طرح منافقوں کو دیکھ لو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بھی لیڈر ہوتے ہیں، کفار کے بھی لیڈر ہوتے ہیں،حتّٰی کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب دوزخی دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو وہ کہیں گے یا اللہ! ہمارے کچھ سردار بھی تھے انہیں بھی سزادی جائے اور ہم سے زیادہ دی جائے کیونکہ انہوں نے ہی ہم کو گمراہ کیا۔۴؎ منافقوں کا بھی یہی حال ہے۔عام طور پر کہاجاتا ہے کہ منافقوں کا لیڈر عبداللہ بن اُبی بن سلول تھا۔اب اس کے یہ معنے نہیں کہ انہوں نے اس کی لیڈری کے متعلق کوئی ریزولیوشن پاس کیا تھا یا کوئی کمیٹی ہوئی تھی جس میں یہ پاس ہؤا تھا کہ عبداللہ بن اُبی بن سلول کو اپنا لیڈر منتخب کیا جائے بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ چونکہ منافقت میں دوسروں سے بڑھا ہؤا تھا اِس لئے خود بخود منافقوں کا لیڈر بن گیا۔چوروں کا لیڈر بڑا چور ہوتا ہے،ڈاکوؤں کا لیڈر بڑا ڈاکو ہوتاہے،بدکاروں کا لیڈر بڑا بدکار ہوتا ہے، سپاہیوں کا لیڈر بڑا لڑنے والا ہوتا ہے، حساب دانوں کی اگر ایک مجلس ہو تو وہ اُسی کو اپنا لیڈر منتخب کریں گے جو سب سے زیادہ حساب دان ہو اور اگر اسے منتخب نہ بھی کریں تو بھی اگر کوئی بات کریں گے تو اُس سے پوچھ کر اوراگر کوئی فیصلہ کریں گے تو اس کی رائے لے کر۔اسی طرح پانچ سات ڈاکٹر جمع ہوں،دو تین سب اسسٹنٹ سرجن ہوں دو اسسٹنٹ سرجن ہوں اورایک سِول سرجن ہو تو جب بھی کوئی بات ہوگی تو وہ سِول سرجن کی طرف منہ کرکے کہیں گے کیوں جی! یہ بات اسی طرح ہے نا۔یا سول سرجن کوئی نہ بھی ہو اگر ایک ڈاکٹر اپنے اندر غیر معمولی لیاقت رکھتا ہے تو ہر ڈاکٹر اُس کی بات پر مجبور ہو گا کہ اُس کی طرف منہ کر کے پوچھے کہ کیوں جی! یہ درست ہے؟کیونکہ فطرت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ قابلیت والے کی طرف جھکے اور اِسی کا نام حکومت ہے۔ایسی مجالس میں جب بھی کسی کو شکوہ پیدا ہو تا ہے اور وہ اندر ہی اندر منصوبے کرنے لگ جاتا ہے تو اِس کو منافقت کہا جاتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوستیاں دشمنیوں سے اور رفاقتیں اختلاف سے بدل جاتی ہیں۔میاں بیوی ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے ہیں مگر پھر کوئی ایسا اختلاف ان میں پیدا ہو جاتا ہے کہ کہتے ہیں اب طلاق کے سوا کوئی علاج ہی نہیں مگر پھرکچھ عرصہ کے بعد انہیں دیکھا جاتا ہے تو ان میں اس قدر محبت ہوتی ہے گویا عاشق و معشوق ہیں۔میرے سامنے چونکہ جماعت کے مقدمات آتے رہتے ہیں اس لئے مجھے ایسی بہت سی مثالیں معلوم ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان لڑائی ہوئی اور وہ لڑائی بڑھتی چلی گئی اور جب صلح کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کہا اب رہنے دیجئے ہمارے دل پھَٹ چکے ہیں اور پھَٹا ہؤا دل کسی صورت میں نہیں جُڑ سکتا۔پھر اس پر زور دینے کے لئے کوئی پنجابی کی مثالیں دے گا، کوئی اردو کی مثالیںدے گا،کوئی انگریزی کی مثالیں دے گا اورجیسی جیسی لیاقت ہوگی اس کے مطابق اس بات پر زور دیا جائے گا کہ اب صلح بالکل ناممکن ہے دل ٹوٹ چکے ہیں اور سارے بزرگ یہ تسلیم کر تے چلے آئے ہیں کہ ٹُوٹا ہؤا دل نہیں جُڑ سکتا مگر سال بھر کے بعد اُن کو دیکھا جائے تو یک جان ودو قالب ہوتے ہیں۔پھر اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہؤا؟تم تو کہا کرتے تھے کہ صلح بالکل ناممکن ہے اور ٹوٹا ہوا دل جُڑ نہیں سکتا!!تو وہ کہتے ہیں کہ جی! اللہ نے بڑا فضل کر دیا اب تو ہماری آپس میں بڑی محبت ہے۔پھر وہ تمام مثالیں بھول جاتے ہیں جو اختلاف کے موقع پر اُن کی زبانوں سے سُنی جاتی ہیں۔
ایک میاں بیوی کاجھگڑا ایک دفعہ میرے پاس آیا۔میں نے دونوں کے رشتہ داروں کو اکٹھا کیا اور چاہاکہ وہ آپس میں صلح کر لیںمگر اُس وقت صلح تو ایک طرف رہی اُنہوں نے میرے سامنے ایسی لڑائی کی،ایسی لڑائی کی کہ اس کی کوئی حد نہ رہی۔میں نے بہتیری کوشش کی اور کہا کہ جھگڑا جانے دو اور صلح کر لومگر وہ کہیں اب صلح کہاں ہو سکتی ہے، اب ایک کے رشتہ داروں کے دل دوسرے کے رشتہ داروں سے کٹ چکے ہیں اور میاں کا دل بیوی سے بھر چکا ہے اب صلح کی کوشش بالکل عبث ہے مگر اب اُنہی میاں بیوی کے درمیان اتنی محبت ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں۔میں اکثر اُن سے پوچھا کرتا ہوں بتاؤ صلح ہو سکتی تھی کہ نہیں؟ وہ کہتے ہیں جانے بھی دیجئیے وہ تو ہماری بے وقوفی کی بات تھی۔تو ایک وقت ایسا آیا جب کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے درمیان صلح بالکل ناممکن ہے مگر اب وہ دنیا کے اچھے خوش جوڑوں میں سے ہیں اور ان کے درمیان اچھی محبت اور پیار ہے اور ان کی دینی حالت بھی بہت کچھ سُدھر گئی ہے۔مگر وہ بھی اور ان کے رشتہ دار بھی اُس مجلس میں یہی کہتے تھے کہ اب دل پھٹ چکے ہیں صلح کی کوششیں سب عبث ہیں اور اب دوبارہ محبت کسی طرح پیدا نہیں ہو سکتی۔تو ایسے کیس میں نے بہت دیکھے ہیں جہاں دوستیاں دشمنیوں سے اور دشمنیاں دوستی سے بدل جاتی ہیں اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی سے محبت کرو تو حد کے اندر کرو کیا معلوم کل تم آپس میں دشمن بن جاؤ اور جب کسی سے دشمنی کرو تو حد کے اندر کرو کیا معلوم کل تم آپس میں دوست بن جاؤ۔۵؎
تو یہ جنہوں نے کہا ہے کہ منافقت حکومت کی وجہ سے ہوتی ہے، بالکل غلط ہے اور اگر اسے تسلیم بھی کر لیا جائے تو حکومت سے مراد فوجوں والی حکومت نہیں ہوگی بلکہ اِس سے مراد نظام ہوگا۔چاہے وہ ایک آئینی نظام ہو اور چاہے وہ ایک طبعی نظام ہو جیسے دوستوں میں ایک رنگ کی حکومت ہوتی ہے۔یا جیسے چور اور ڈاکو اپنے میں سے ایک کو سردار سمجھ کر اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔بے شک وہ بعض دفعہ باقاعدہ طور پر بھی اپنا لیڈر چُن لیتے ہیں لیکن بعض دفعہ آپ ہی آپ ایک کی برتری اور فوقیت کو تسلیم کر لیتے ہیں۔چاہے یہ برتری عقل کی وجہ سے ہو، چاہے علم کی وجہ سے ہو، چاہے مال کی وجہ سے ہواور باقی آپ ہی آپ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔
میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے کہ انسانی طبیعت ان امورسے قطع نظر کرتے ہوئے جو انسانوں سے ہی مخصوص ہیں اِس معاملہ میں بعض جانوروں سے مشابہت رکھتی ہے۔آجکل تو یہاں کُتّے بہت کم نظر آتے ہیں،حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بڑی کثرت سے کُتّے ہوتے تھے اور جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ یہ حکم دیا کرتے تھے کہ آوارہ کُتّے مار دئیے جائیں۔۶؎اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ہر چھٹے ماہ یہ حکم دیا کرتے تھے کہ آوارہ کُتّے مار دئیے جائیں مگر اب ہمارے گھروں میں بہت کم کُتّا دکھائی دیتا ہے۔میں نے بچپن میں کُتّوں کو کئی دفعہ آپس میں لڑتے دیکھا ہے،اسی طرح بلیوں کودیکھا ہے،جب یہ آپس میں لڑتے ہیں تو اپنی دُموں کو عجیب طرح حرکت دیتے اور اُنہیں اوپر اٹھا لیتے ہیں۔آنکھیں ان کی باہر نکلی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تھوڑی دیر بھُوں بھُوں یا غر غر کرتے رہتے ہیں اور کچھ وقت گزرنے کے بعد ایک کُتّا دُم دبا کر ایک طرف کو چل دیتا ہے۔یا بِلّی دوسری کے مقابلہ سے ہٹ کر ایک طرف کو چل دیتی ہے۔جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اُس نے اپنی ہار تسلیم کرلی۔اب نہ اُن میں لڑائی ہوتی ہے نہ فساد ہوتا ہے۔نہ ایک دوسرے کو زخمی کرتے ہیں،محض آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تھوڑی دیر بھُوں بھُوں کرنے کے بعد ایک ان میں سے مقابلہ سے ہٹ جاتا ہے۔اسی طرح بلیاں کرتی ہیں۔بلیاں حقیقی طور پر بہت کم لڑتی ہیں۔اکثروہ پیار سے ایک دوسری سے لڑتی ہیں۔دشمنی کی لڑائی بلیوں میں بہت کم ہوتی ہے اور کُتّوں میں بھی بہت کم ہوتی ہے۔جب وہ پیار سے لڑتے ہیں تو بظاہر ایک دوسرے کو گراتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کو پیار بھی کرتے جاتے ہیںاور چاٹتے جاتے ہیں مگرجب حقیقی طور پر کوئی لڑنے کا ارادہ کرے تو بہت کم لڑائی ہوتی ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک زبردست کُتّا اچانک کمزور کُتّے پر پیچھے سے حملہ کر کے اُسے زخمی کردے مگر مقابل میں ٹک کر ان میں لڑائی بہت شاذ ہوتی ہے اوہ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں تاڑ جاتے ہیںکہ کون کمزور ہے اور کون طاقت ور۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کمزور دُم دبا کر ایک طرف کو چل دیتا ہے۔یہی حالت انسان کی ہے مگر انسان کی عقلِ طبعی بہت کمزور ہو چکی ہے۔اِس کا علم ظاہری زیادہ ہے مگر حِسِ طبعی بہت کمزور ہو گئی ہے۔ اس لئے جن چیزوں کو جانور پہچان لیتا ہے انسان ان کو نہیں پہچان سکتا۔جانوروں میںچونکہ علم اندرونی ہے اس لئے ان کی اندرونی حِس بہت تیز ہوتی ہے ۔بیماریاں اور وبائیں آنے والی ہوتی ہیں توکُتّے کئی کئی دن پہلے رونے لگ جاتے ہیں نہ معلوم اُنہیں وبا کے کیڑے نظر آجاتے ہیں یا سُونگھنے سے اُنہیں پتہ لگ جاتا ہے کہ اب وبا پھُوٹنے والی ہے۔اللہ ہی جانے مگر بہر حال اِس مطالعہ میں ان کی عقل بڑی تیز ہوتی ہے اِسی طرح وہ قومیںجن کا ظاہری علم کم ہے،اُن کی بھی باطنی حِس بہت تیز ہوتی ہے۔امریکہ کے ریڈاِنڈینز کئی کئی میل سے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سن لیتے ہیں اور یہ بتا دیتے ہیںکہ کوئی سوار آرہا ہے حالانکہ اُن کے پاس کوئی دُوربین نہیں ہوتی۔وہ زمین کے ساتھ اپنا کان لگا دیتے اور دو دو تین میل سے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سُن لیتے ہیں اور بتا دیتے ہیں کہ کوئی لشکر آرہا ہے اور وہ اتنے فاصلہ پر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں زمین کے ساتھ کان لگا دینے سے کوئی ایسی حرکت محسوس ہوتی ہے جسے دوسرے لوگ محسوس نہیں کر سکتے۔تو ظاہری علم کی وجہ سے انسان کی باطنی حِسّ بہت کم ہوگئی ہے مگر پھر بھی ہے گو اتنی نمایاں نہیں جتنی جانوروں میں ہے یہی وجہ ہے کہ ایک کمزور انسان زبردست کی حکومت کو آپ ہی تسلیم کر لیتا ہے مگر اس حکومت میں کبھی کوئی ایسی بات بھی ہو جاتی ہے جو اُس کی طبیعت کے خلاف ہوتی ہے اور جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ شریف ہو تو الگ ہو جاتا ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حضرت خضرعلیہ السلام سے اختلاف ہؤا تو آپ نے کہہ دیا۔۷؎ حضرت موسیٰ ؑنے یہ نہیں کیاکہ انہوں نے اوپر سے دوستی رکھتے ہوئے حضرت خضر کے ٹبّر میں فتنہ وفساد پھیلانا شروع کر دیا ہوبلکہ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ جب ہماری آپس میں نہیں نبھ سکتی تو بہتر ہے ہم الگ الگ ہو جائیں۔پس جب تک وہ اکٹھے رہے وفادار رہے اور جب جُدا ہوئے تو جو شریف آدمی ہوتے ہیں وہ تو یہ طریق اختیارکرتے ہیں مگر جو کمینے ہوتے ہیں وہ اندر ہی اندر منصوبے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہیں یہ ویسے ہیں۔
تو منافقوں کا ہونا ہر قوم اور سوسائٹی میں ممکن ہے لیکن نبیوں کی جماعتوں میں منافقوں کا ہونا ضروری ہے کیونکہ منافقت شیطان کا حربہ ہے اور شیطان سے بڑھ کر بھلا نبیوں کی جماعت کا اور کون دشمن ہو سکتا ہے اور جب وہ نبیوں کی جماعت کا سب سے بڑا دشمن ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اَور حربے تو استعمال کرے مگر منافقت کے حربہ کو استعمال نہ کرے۔یہ حربہ تو ضرور استعمال کرے گا اور اگر دوسری جگہ وہ اس حربہ کو اتفاقی چلاتا ہے تو نبیوں کی جماعت میں منظم طور پر چلاتا ہے۔
اس تمہید کے بعد میں بتانا چاہتا ہوں کہ منافق کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ہماری جماعت کو منافقین کے متعلق جو دھوکا لگا ہؤا ہے اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ منافق کی تعریف نہیں سمجھتے۔بسا اوقات جو تعریف ان کے ذہن میں ہوتی ہے وہ اَور ہوتی ہے اور منافق کی تعریف اَور ہوتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دھوکا کھا جاتے ہیں اور منافق کو پہچان نہیں سکتے۔کئی لوگ خیال کرتے ہیں کہ منافق شائد نمازیں نہیں پڑھتے اور اِسی وجہ سے جب کسی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ منافق ہے تو کہتے ہیں وہ منافق کس طرح ہو سکتا ہے وہ تو بڑی نمازیں اور تہجد پڑھا کرتا ہے۔حالانکہ یہ تو کوئی بات نہیں ۔ایک نمازیں پڑھنے والا بھی منافق ہو سکتا ہے۔ایک تہجد پڑھنے والا بھی منافق ہو سکتا ہے،اور ایک ذکرِ الٰہی کرنے والا بھی منافق ہو سکتا ہے۔پھر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ منافق شاید چندے نہیں دیتے اور اِس وجہ سے جب انہیں کہا جائے کہ فلاں منافق ہے تو کہتے ہیں وہ منافق کس طرح ہو سکتا ہے معلوم ہوتا ہے تمہیں غلطی لگی ہے وہ تو بڑے چندے دیا کرتا ہے۔حالانکہ منافق کی علامت یہ بھی ہے کہ وہ نِفاق کے ساتھ ساتھ چندے بھی دیتا ہے تا اُس کے افعال پر پردہ پڑا رہے اور اگر کوئی اعتراض کرے تو دوسرا اُسے یہ کہہ کر خاموش کرا سکے کہ یہ تو چندے دیا کرتا ہے،یہ کس طرح منافق ہو سکتا ہے۔حالانکہ ایمان کسی ایک عمل کا نام نہیں بلکہ مجموعۂ اعمال کانام ایمان ہے۔مگر تم ایک بات دیکھتے ہو اور کہتے ہو چونکہ وہ نمازیں پڑھتا ہے یا چونکہ وہ سچ بولتا ہے اس لئے وہ منافق نہیں ہو سکتا حالانکہ اول تو تمہیں کیا پتہ وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔دوسرے بعض ہوشیار لوگ ہوتے ہیں جو کئی موقعوں پر سچ بول کر اپنی صداقت کا لوگوں پر اثر ڈالتے ہیں اور پھر در پردہ فتنہ وفساد بھی کرتے رہتے ہیں۔وہ سچ اِس لئے نہیں بولتے کہ اُنہیں سچ سے محبت ہوتی ہے بلکہ اس لئے سچ بولتے ہیں کہ ان کے اَورجھوٹوں پر پردہ پڑا رہے۔تو ایمان اس بات کا نام نہیں کہ نمازیں پڑھ لیں یا روزے رکھ لئے یا حج کر لیا یا زکوٰۃ دے دی یا سچ بول لیابلکہ چاروں جہت سے اپنے ایمان کے محل کو ہرقسم کے رخنوں سے محفوظ رکھنے کا نام ایمان ہے۔بے شک مؤمنوں میں بھی بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں مگر وہ ان کی نیکیوں کے مقابلہ میں نہایت قلیل ہوتی ہیں اور ان کے صدق کے اعمال بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن منافق اگر چندے بھی دے گا تو منافقانہ طور پر اور اگرنمازیں بھی پڑھے گا تو منافقانہ طور پر جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۸؎کہ ان نماز پڑھنے والوں پر اﷲ تعالیٰ کی *** ہے جو حقیقتِ نماز سے غافل رہتے ہیں اور صرف دکھاوے کی نماز پڑھتے ہیں۔اب اِس جگہ یہ مراد نہیں کہ وہ نماز چھوڑ دیتے ہیں بلکہ کہہ کر بتا دیا کہ ہماری یہ مراد ہے کہ وہ دِکھلاوے کی نمازیں پڑھتے ہیں۔یعنی اُن کا نمازوں سے یہ مقصد نہیں ہوتاکہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے بلکہ یہ مقصد ہوتا ہے کہ لوگ اُنہیں نمازی سمجھیں اور اُن کی شرارتوں پر پردہ پڑا رہے۔تم بیشک بعض دفعہ یہ سمجھ لیتے ہو کہ یہ تو بڑی لمبی نمازیں پڑھنے والے ہیں یہ منافق کس طرح ہو سکتے ہیں مگر ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ بے شک یہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر ان نمازوں کا اُن کے دلوں پر کوئی اثر نہیں۔یہ محض دکھاوے کی نمازیں ہیں اور غفلت سے مراد بھی نماز کو چھوڑ دینا نہیں بلکہ حقیقت نماز سے عاری ہوکر نماز پڑھنا ہے۔یہی حال چندے کا ہے۔بے شک چندہ دینا ایمان کی ایک علامت ہے۔مگر سورۃ بقرہ میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگ چندے دیتے ہیں مگر ریاء کے لئے اور وہ چندہ دینے کے باوجود منافق ہوتے ہیں۔اگر چندہ کا دینا ہی ایمان ہوتا،اگرنمازیں پڑھنا ہی انسانی ایمان کی علامت ہوتی تو قرآن کیوں کہتا کہ بعض نمازیوں پر اللہ تعالیٰ کی *** ہوتی ہے اور بعض چندہ دینے کے باوجود منافق ہوتے ہیں۔صاف معلوم ہؤا کہ بعض چندہ دینے والے بھی منافق ہوتے ہیں اور بعض نمازیں پڑھنے والے بھی منافق ہوتے ہیں۔چندے دینے والے بھی منافق ہوتے ہیں جو رِیاء کے لئے چندہ دیتے ہیں اور نمازیں پڑھنے والے وہ منافق ہوتے ہیں جو کسی دُنیوی مفاد یا عزت و مرتبت کے حصول کے لئے نمازیں پڑھتے ہیں۔میں نے کئی ایسے لوگ دیکھے ہیں جنہیں خفا ہو کر اگر ذرا ڈانٹا جائے تو وہ باقاعدگی سے نمازیں پڑھنے لگ جائیں گے،زیادہ چندے دینے شروع کر دیں گے اور یوں معلوم ہوگا کہ وہ بڑے مخلص ہیں مگر جب دیکھیں گے کہ اب ہماری طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹ گئی ہے تو پھر اپنی اصلی حالت پر آجائیں گے۔غرض منافقوں کی کئی اقسام ہیں مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے دوست ان اقسام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور اسی لئے بعض دفعہ دھوکا کھا جاتے اور منافق کو پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقوں کی ایک قسم وہ ہے جن کے دل میں کبھی ایمان نہیں آتا وہ کسی ڈر یا لالچ کے اثر کے ماتحت ایک مذہب میں داخل ہو جاتے ہیںورنہ ایمان ایک دن بھی ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوتا۔مثلاً فرض کرو کسی کے تمام رشتے دار احمدی ہو گئے ہیں اور صرف اکیلا وہی غیر احمدی رہ گیا ہے یا کوئی گاؤں ہے وہاں سب کے سب احمدی ہو گئے ہیں اور صرف ایک یا دو آدمی علیحدہ ہیں۔اب جس خاندان کے تمام افراد احمدی ہو چکے ہیں،صرف ایک ان سے علیحدہ ہے وہ دل میں خیال کرتاہے کہ اگر میں علیحدہ رہا تو کیا فائدہ میرے تمام رشتے دار مجھے بُرا بھلا کہیں گے اور ہر وقت لڑائی جھگڑا رہے گا، آؤ اوپر سے احمدی ہو جاتے ہیں۔چنانچہ وہ ڈر کر احمدی ہو جاتا ہے ورنہ ایمان اُس کے اندر نہیں ہوتا۔یا دیکھتا ہے بیوی بھی اِدھر چلی گئی، باپ بھی اِدھر چلا گیا، بچے بھی اِدھر چلے گئے،اب میں اکیلا ایک طرف کیا اچھا لگتا ہوں اور چونکہ منافق دل کا کمزور ہوتا ہے اور وہ مقابلہ کی قوت اپنے اندر نہیں رکھتا اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ بجائے مخالفت کے یہی بہتر ہے کہ میں بھی اوپر سے احمدیت میں شامل ہوجاؤں اور دل میں جو چاہے عقیدہ رکھوں۔یا بعض دفعہ مثلاً احمدیت کا ایسا غلبہ ہؤا کہ گاؤں کا گاؤں احمدی ہو گیا۔اب یہ سمجھتا ہے گاؤں میں مجھ اکیلے کی کیا حیثیت ہو گی اور مجھے ضرورت کیا ہے کہ میں خواہ مخواہ سب سے لڑائی کرتا پِھروں چنانچہ وہ اِس ڈر کے مارے احمدیت قبول کر لیتا ہے۔مگر اندر سے وہ ویسا ہی بے ایمان ہوتا ہے جیسے احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے تھا۔یا بعض دفعہ لالچ کے ماتحت بھی ایک انسان دوسرا مذہب اختیار کر لیتا ہے۔مثلاً کوئی امیر احمدی زیادہ پُر جوش ہؤااور اُس نے چاہا کہ وہ اپنے تمام نوکر احمدی ہی رکھے۔اس پر ایک مخالف کو جو بھُوکا مر رہا ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی احمدی کو نوکر رکھنا چاہتا ہے۔یہ دیکھ کر وہ جھٹ مرکز میں بیعت کی ایک چِٹھی لکھ دیتا ہے اور جب ہماری طرف سے اُسے جواب جاتا ہے تو وہ اُس خط کو سنبھال کر رکھ لیتا ہے اور ہمیں کہتا ہے احمدیت کی وجہ سے لوگوں نے مجھے سخت تنگ کرنا شروع کردیا ہے پہلے میرا اچھا گزارہ تھا مگر احمدی ہو جانے کی وجہ سے کاروبار کو سخت نقصان پہنچا ہے اورمیں بھوکا مر رہا ہوں حالانکہ اُس کا گزارہ پہلے بھی ویسا ہی ہوتا ہے اور پہلے بھی وہ بھُوکا ہی مررہا ہوتا ہے مگر ہمیں دھوکا دینے کے لئے کہہ دیتا ہے کہ پہلے میرا بڑا اچھا گزارہ تھا مگر اب قبولِ احمدیت کی وجہ سے بھُوکا مرنے لگا ہوں میرے لئے کسی نوکری کا انتظام کر دیں۔ ہم اُسے لکھتے ہیںکہ ہمارے ذہن میںتو اِس وقت کوئی جگہ نہیں اگر کوئی جگہ نکلی تو آپ کا خیال رکھا جائے گا ۔اس پر وہ لکھتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ فلاں احمدی اپنے ہاں ایک نوکر رکھنا چاہتا ہے آپ اُسے سفارشی چِٹھی لکھ دیں اور میں آپ کابڑا ممنون ہوں گا۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اس کے دھوکا میں آجاتے اور اس احمدی کے پاس اس کی سفارش کر دیتے ہیں اور وہ اسے ملازم رکھ لیتا ہے حالانکہ دل میں وہ پکا غیر احمدی ہوتا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایک طبقہ ایسا تھا جو قبیلے کے ڈر کی وجہ سے یا کسی لالچ کی وجہ سے اسلام قبول کر لیتا۔مثلاً یہی لالچ ہؤا کہ اسلام ترقی کر رہا ہے اگر ہم اس مذہب میںشامل ہو گئے تو ہمیں عزت مل جائے گی۔یا یہ دیکھا کہ اپنے خاندان کاکوئی امیرآدمی جو پہلے ان سے حُسنِ سلوک کیا کرتا تھا مسلمان ہو گیا ہے تو وہ بھی مسلمان ہوگئے تا وہ حُسنِ سلوک کو بند نہ کر دے۔ تو ڈر اور لالچ دونوں کی وجہ سے لوگ منافق بن جاتے ہیں لیکن یہ ایسا طبقہ ہے جس کے اندر ایمان ہوتا ہی نہیں۔ وہ داخل ہو تاہے خوف یا لالچ کی وجہ سے ورنہ اس کے دل میں کفر ہوتا ہے وہ کفر کی حالت میں پیدا ہوتا کفر کی حالت میں ہی اسلام میں داخل ہوتا اور کفر کی حالت میں ہی مر جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اسی طبقہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ۹؎کہ اے ہمارے رسول! کچھ لوگ تیرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم خدا اور یومِ آخرت پر ایمان لائے اور خدا کا شکر ہے کہ ہمیں ایمان نصیب ہوگیا اور سمجھ آگئی کہ سچا راستہ کونسا ہے۔فرماتا ہے وہ دعوے تو یہ کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہان کے دلوں میں ایمان نہیں ہے وہ صرف لالچ یا خوف کی وجہ سے آگئے ہیں اس کے علاوہ ان کے آنے کی اور کوئی غرض نہیں ۔تو یہ منافق طبقہ آتا ہی اسی وجہ سے ہے کہ یا اسے کسی چیز کی لالچ ہوتی ہے یا کسی چیز کا خوف ہوتا ہے۔اگر چندے دے گا تو ڈر سے یا لالچ سے، اگر نمازیں پڑھے گا تو بھی ڈر سے یا لالچ سے۔فرض کرو اسے کسی احمدی کے پاس بیس روپے کی ملازمت مل گئی ہے تو اب اگر یہ سَوا یا ڈیرھ روپیہ چندہ دے دیتا ہے تو دل میں یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ پھر بھی میرے پاس ساڑھے اٹھارہ یا پونے انیس روپے تو بچ گئے۔پس وہ چندہ اس لئے نہیں دیتا کہ خدا تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے بلکہ اس لئے دیتا ہے کہ اسے اٹھارہ یااُنیس روپے تو مل رہے ہیں۔گویا وہ احمدیت میں داخل ہو کر کوئی دین کی خدمت نہیں کرتا بلکہ اٹھارہ یا انیس روپے کماتا ہے۔جیسے زمیندار جب زمین میں بیج ڈالتا ہے تو اس سے کئی گُنا فصل کاٹتا ہے اسی طرح وہ روپیہ یا سوا روپیہ چندہ دیتا اور ۱۸ یا ۱۹ روپے خود وصول کرتا ہے۔پس وہ سمجھتا ہے کہ یہ چندہ دینا میرے لئے کوئی گراں نہیں کیونکہ اگر میں چندہ نہیں دوں گا تو مجھے ملازمت سے الگ کر دیا جائیگا۔اسی طرح منافق بعض دفعہ ڈر کی وجہ سے نماز پڑھتا۔ یا روزے رکھتایا حج کرتایا زکوٰۃ دیتاہے۔مثلافرض کرو وہ کسی کا نوکر نہیں بلکہ آزاد ہے لیکن اسکے تمام رشتے دار احمدی ہوچکے ہیں تو اب اگر وہ نمازیں نہیں پڑھتا یا روزے نہیں رکھتا تو سمجھتا ہے کہ یہ میری شکائت کریں گے،اور کہیں گے بے دین ہو گیا۔پس وہ ان کے ڈر کی وجہ سے نمازیں بھی پڑھ لیتا ہے اور روزے بھی رکھ لیتا ہے تا اس کی کمزور حالت پر پردہ پڑارہے۔اسی طرح وہ چندے دیتا ہے تا اس کے دوسرے بھائی بند جوش میں نہ آئیںاور وہ یہ نہ کہیں کہ یہ ایماندار نہیں مگر میں یہ اسی شخص کی نسبت کہتا ہوں جس کے اندر اخلاص نہیں ہوتا۔بعض لوگ یوں مخلص ہوتے ہیں۔مگر کسی سُستی کی وجہ سے چندہ نہیں دیتے۔ان لوگوں کا بیان نہیں ہے کیونکہ میں ان لوگوں کو منافق نہیں سمجھتا۔جیسے ایک گزشتہ خطبہ میں مَیںنے مثال دی تھی کہ ایک جگہ جہاں بعض لوگ چندے میں سُست تھے ہم نے تحریک کی کہ بجائے مردوں کو کہنے کے اُن کی عورتوں سے جا کر کہو کہ وہ اپنے مردوں کو چندہ دینے کے لئے آمادہ کریں۔چنانچہ ایک عورت کو جب ایسی تحریک کی گئی تو اُس کے بعد ایک دن جب اس کا خاوند گھر میں تنخواہ لایا تو وہ کہنے لگی میں یوں روپیہ نہیں لیتی یہ حرام کا روپیہ ہے۔ وہ کہنے لگا حرام کا روپیہ کس طرح ہو گیا میں صبح سے شام تک کام کرتا ہوں پھر کہیں مہینے کے بعد جا کر روپیہ ملتا ہے یہ حرام کیونکر ہؤا ؟وہ کہنے لگی جب تک خدا کا حق اس میں سے ادا نہیں کرو گے میں اسے استعمال نہیں کروں گی اگر چاہتے ہو کہ میں گھرکے اخراجات کے لئے اس روپیہ کو استعمال کروں تو پہلے چندہ دے کر آؤ مجھے رسید دکھاؤ۔ چنانچہ وہ گیا اور چندہ دے آیا۔ اُس کے بعد اس کی ایسی عادت ہو گئی کہ وہ تنخواہ گھر میں اُس وقت تک نہ لاتا جب تک کہ چندہ ادا نہ کرلیتا۔ تو یہ منافقت کی علامت نہیں کمزوری کی علامت ہے۔ ایسے آدمی کو کوئی دوسرا نصیحت کرے گا تو وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ثواب کے مستحق ہوں گے۔ میری مراد اِس جگہ منافق سے ایسے شخص سے ہے جو دل سے خدا تعالیٰ کی راہ میں روپیہ خرچ کرنا پسند نہیں کرتا وہ سست نہیں ہے بلکہ دل میں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کے لئے چندہ دینا بے فائدہ ہے۔ پس جو شخص یہ خیال کرتا ہے اُس کو میں منافق کہتا ہوں ورنہ کمزور ہونا اَور چیز ہے آخر سارے مؤمن ایک درجہ کے تو نہیں ہو سکتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کم سے کم حصہ وصیت کا 1/10قرار دیا ہے اب جو شخص 1/10حصہ کی وصیت کرتا ہے ہم اُسے منافق نہیں کہتے۔ ہم سمجھتے ہیں کسی کا کم ایمان ہے اور کسی کا زیادہ۔ جس کے اندر تھوڑا ایمان ہے اس نے دسویں حصہ کی وصیت کر دی اور جس کے اندر زیادہ ایمان ہے اُس نے زیادہ کی وصیت کر دی۔ تو جس کو میں منافق کہتا ہوں وہ تو وہی شخص ہے جو دل سے چندہ دینا ناپسند کرتا اور جس مذہب میں بھی وہ شامل ہے اُس کے لئے روپیہ خرچ کرنے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ میرا اِن الفاظ کے کہنے سے یہ مطلب ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ منافق صرف سچے مذہب میں پائے جائیں بلکہ ایک ہندو بھی منافق ہو سکتا ہے، ایک سکھ بھی منافق ہو سکتا ہے اور ایک عیسائی بھی منافق ہو سکتا ہے۔ ہندو منافق وہ ہوگا جو ہندوؤں سے غداری کرے، سکھ منافق وہ ہوگا جو سکھوں سے منافقت کرے اور عیسائی منافق وہ ہوگا جو عیسائیوں سے غداری کرے۔ ہاں جو سچے دین سے منافقت کرے گا اُس سے خدا بھی ناراض ہو گا اور جو دوسروں سے منافقت کرے گا اُسے اس منافقت کا صرف دُنیوی نقصان ہو گا اور یوں اُس کے اخلاق پر بھی بُرا اثر پڑے گا۔اللہ تعالیٰ کی ناراضگی صرف اس کے اتنے فعل سے اسے نہیں ہو سکتی کیونکہ اُس کا امتحان اصولی سچائیوں کی بناء پر ہوگا نہ کہ تفصیلی احکام کی بناء پر۔ دوسری قسم کے منافق قرآن کریم سے وہ معلوم ہوتے ہیں جو اسلام کو سچا سمجھ کر اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور انہیں ابتداء میں یہی یقین ہوتا ہے کہ یہ مذہب سچا ہے مگر بعد میں ان کے دلوں میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔پہلی قسم کے منافق جو میں نے بتائے ہیں ہماری جماعت کے بعض لوگ غلطی سے صرف انہی کو منافق سمجھتے ہیں کسی اَور کو نہیںاِسی لئے جب کسی کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ منافق ہے تو جھٹ کہہ دیتے ہیںاُس نے تو فلاں وقت اتنی قربانی کی تھی وہ منافق کس طرح ہو سکتا ہے مطلب ان کا یہ ہوتا ہے کہ چونکہ اُس نے فلاں وقت قربانی کی اس لئے وہ منافق نہیںحالانکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک قسم منافقوں کی ایسی بھی ہے جوایمان اور اخلاص سے سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں، سلسلہ کے لئے مختلف رنگوں میں قربانیاں بھی کرتے ہیں مگر پھر گِر جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان منافقوں کا ذکر سورۃ توبہ میں کرتا ہے۔فرماتا ہے۱۰؎فرماتا ہے۔تم ہمارے سامنے عُذر مت کرو۔ہم تصدیق کرتے ہیں کہ پہلے تم بھی مؤمن تھے مگر کچھ عرصہ کے بعد بعض رنجشوں، بدگمانیوں اور کمزوریٔ اعمال کی وجہ سے تمہارے دل پر زنگ لگتے لگتے آخر ایمان بالکل جاتا رہا اور حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ اب تمہارے دل میں کوئی ایمان نہیں۔یہاں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ ایمان تم یقینا لائے تھے اور جس وقت تم خدا تعالیٰ کے سلسلہ میں داخل ہوئے تھے اخلاص اور محبت سے داخل ہوئے تھے اور اسی ایمان کے باعث تم نے نمازیں بھی پڑھیں،روزے بھی رکھے،چندے بھی دئیے،زکوٰۃ بھی دی،حج بھی کیا،قربانیاں بھی کیں،یہ ٹھیک بات ہے۔ ایمان جو تم لائے تھے ایمان لانے کے بعد انسان ایسا ہی کیا کرتا ہے مگر کسی وجہ سے (یہاں وجہ نہیں بتائی وہ وجوہات اَور جگہ بیان ہیں)ایمان لانے کے کچھ عرصہ بعد تم میں کفر پیدا ہونا شروع ہؤا اور ہوتے ہوتے تم منافق ہو گئے۔ اگر تم اُسی وقت جب سے تمہارے دل میں کفر پیدا ہونا شروع ہؤا تھا کہہ دیتے کہ ہم تم میں شامل نہیں رہنا چاہتے ہمیں اب شبہات پیدا ہوگئے ہیں مگر چونکہ تم نے کفر کو ظاہر نہیں کیا تم نے اپنے دلوں میں کہا کہ اب جس فرقہ میں ہم مل گئے ہیں اسی میں ملے رہیںاگر ہم علیحدہ ہوئے تو ہماری سُبکی اور ذلّت ہوگی اور تم ایک طرف تو یہ کہتے رہے کہ ہم جماعت میں فتنہ نہیں ڈالنا چاہتے اور دوسری طرف جب کوئی ملتاتو اُسے کہتے کہ جماعت میں یہ یہ خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں، اس کے افراد نہایت گندے ہو گئے ہیں،ان کے اخلاق نہایت خراب ہو گئے ہیں،روحانیت اور ایمان ان سے بالکل جاتا رہا ہے اس لئے اب ہمارا حق ہو گیا ہے کہ ہم تمہیں منافق کہیں۔ تو یہ دوسری قسم منافقوں کی ہے یہ ایسے احمق ہوتے ہیں کہ ایک طرف اپنی مجالس میں جماعت اور نظام کی خرابیاں بیان کرتے ہیں اور دوسری طرف جب کوئی مؤمن ان سے ملے اور کہے کہ آپ خلیفۃ المسیح تک بات کیوں نہیں پہنچاتے تو وہ کہہ دیتے ہیں ہم خواہ مخواہ بات بڑھانا نہیں چاہتے۔
اِن کی مثال بالکل اُس بے وقوف کی سی ہوتی ہے جو ایک قتل کے مقدمہ کے سلسلہ میں ایک دفعہ کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہؤا تو مجسٹریٹ نے مقدمہ سُننے کے بعد اسے پھانسی کی سزا کا حکم دے دیا۔اس نے لوگوں سے پوچھاکہ میرے متعلق کیا فیصلہ ہؤا ہے؟انہوں نے بتایاکہ تجھے پھانسی کی سزا کا حکم ملا ہے۔یہ سن کر وہ بولاکہ اس سے تو موت کی سزا اچھی تھی۔اِسی طرح یہ لوگ کرتے ہیں ایک طرف تو فتنہ کرتے جاتے ہیں دوسری طرف فتنہ کے خلاف اظہارِ نفرت بھی کرتے جاتے ہیںحالانکہ جس رنگ میں وہ بُرائیاں بیان کرتے ہیں اسی کا نام تو فتنہ ہے۔مگر جب ان سے کہا جائے کہ خلیفۃ المسیح سے ان کاذکر کیوں نہیں کرتے تو بڑے مصلح بن جائیں گے اور کہیں گے ہم کوئی فتنہ پیدا کرنا نہیں چاہتے اگر شکایت کی تو وہ کیا کہیں گے۔ ہماری جماعت میں بھی ایسے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں حالانکہ ان کا مقصد اصلاح نہیں بلکہ فتنہ پیدا کرنا ہوتا ہے اور اندر ہی اندر وہ اس لئے شرارتیں کرتے رہتے ہیں کہ اگر عَلَی الْاِعْلَان غیروں سے مل گئے تو وہ کہیں گے کہ اب جھک مار کر واپس آیا ہے پہلے خیال نہ آیا تھا کہ ایسے لوگوں میں نہیں ملنا چاہئے۔پس وہ خدا کے لئے نہیں بلکہ اپنی عزت کے خیال سے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں یا اس وجہ سے شامل رہتے ہیں کہ انہیں ایک سوسائٹی ملی ہوئی ہوتی ہے اور ان کے دوستوں کا ایک حلقہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم علیحدہ ہوئے تو یہ سوسائٹی ہمارے ہاتھ سے جاتی رہے گی۔یہ قدرتی بات ہے کہ جب انسان پہلوں سے قطع تعلق کر کے آتاہے تو اسے نئی جماعت میں نئی سوسائٹی مل جاتی ہے،نئے محبت کرنے والے مل جاتے ہیں،نئے پیار کرنے والے مل جاتے ہیںاور چونکہ ان کا چھوڑنا مشکل ہوتا ہے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ ظاہری طور پر ملے رہیں اور اندرونی طور پر شرارتیں کرتے رہیں۔پہلوں سے اگر انہوں نے قطع تعلق کیا تھا تو اس لئے کہ اُس وقت ان میں ایمان کی کشش تھی اور اب اگر یہ قطع تعلق کرنے سے ڈرتے ہیں تو اس لئے کہ ان میں نِفاق ہوتا ہے اور نِفاق میں کوئی کشش نہیں ہوتی۔جس شخص کے اندر ایمان پیدا ہو جاتا ہے وہ اپنے بھائیوں کو چھوڑ دیتا ہے،اپنے عزیزوں کو چھوڑ دیتا ہے،اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ دیتا ہے، اپنے ماں باپ کو چھوڑ دیتا ہے اور اس امر کی کوئی پرواہ نہیں کرتاکہ اس قطع تعلق کا اس پر کیا اثر پڑے گا۔مگر جس کے اندر نِفاق پیدا ہو جاتا ہے وہ اپنے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کو نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ وہ گناہ کی حالت میں ہوتا ہے۔
میں نے یہ بات اس لئے بیان کی ہے تا کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ انہوں نے پہلے بھی تو اپنے قرابتیوں اور دوستوں کو چھوڑا تھا پھر اب یہ کیوں چھوڑ نہیں سکتے۔میں نے بتایا ہے کہ پہلے انہوں نے اس لئے چھوڑا تھا کہ ان کے اندر ایمان کی طاقت پائی جاتی تھی مگر اب جو ان کے اندر تغیر پیدا ہؤا ہے وہ نِفاق کا تغیر ہے۔
پس چونکہ اب ان کے اندر ایمان والی حالت نہیں ہوتی اس لئے نئے دوست، نئی برادری اور نئے رشتہ دار ان کو چھوڑنے بہت مشکل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں اِسی طرح رہنے دو۔اوپر سے ہم ملے رہتے ہیں اور اندر سے منصوبے کرتے رہیں گے۔تو فرماتا ہے۔ ۔ تم عذر مت کرو بے شک کسی وقت تم مؤمن تھے مگر اب تمہیں اسلام میں سَوسَو کیڑے نظر آتے ہیں اور پہلے جن باتوں کو خوبیاں سمجھتے تھے اُنہی کو اب عیب قرار دینے لگ گئے ہو۔میں اس تغیر کی جو ایمان لانے کے بعد بعض لوگوں میں پیدا ہوتا ہے ایک وجہ بھی بتا دیتا ہوں اور گو اَور بھی اِس کی وجوہ ہیں مگر جو سب سے اقرب وجہ ہے اور جو میرے اس مضمون کو بالکل واضح کر دیتی ہے میں وہ بیان کر دیتا ہوں۔اللہ تعالیٰ اسی سورۃ توبہ میں فرماتا ہے۔۱۱؎اس کے ایک ظاہری معنی یہ بھی ہیں کہ چونکہ سفر لمبا تھا اس لئے تم جہاد میں جانے سے رُک گئے مگر اس کے باطنی معنے بھی ہیں اور وہ یہ کہ جو لوگ ایمان لائے جب اس قسم کی پیشگوئیاں سنتے ہیں کہ عنقریب اسلام تمام دنیا کو فتح کرلے گا،سب بادشاہتیں مغلوب ہو جائیں گی اور بڑے بڑے بادشاہ حلقہ بگوشِ اسلام بن جائیں گے، ہر طرف اسلامی پھریرا لہرائے گا،کفر پر موت آ جائیگی اور فقر و فاقہ میں مبتلا رہنے والے مسلمان بڑی بڑی عزتوں کے مالک بن جائیں گے تو چونکہ طبیعت میں حرص ہوتی ہے اِس لئے ان پیشگوئیوں کو تسلیم کر کے اور یہ دیکھ کر کہ بعض پیشگوئیاں تو پوری بھی ہو چکی ہیں کیا تعجب کہ دوسری پیشگوئیاں بھی ابھی پوری ہو جائیں اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔مگر چونکہ یہ مذہب میں داخل کامل ایمان کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ لالچ کی وجہ سے ہوتے ہیں اور دل میں یہ خیال ہوتا ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد ہمیں بڑے بڑے عُہدے مل جائیں گے اور خبر نہیں ہم کیا سے کیا ہوجائیں گے اس لئے ان کے ایمان کے ساتھ مخفی طورپر دل کا لالچ اور کبر اور غرور بھی شامل ہوتا ہے۔پس ان کا ایمان مخلوط ہو تا ہے نفسانی حرص اور لالچ سے یہ پیشگوئیاں سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جب ہم نے اَور پیشگوئیاں اپنی آنکھوں کے سامنے پوری ہوتی دیکھی ہیں تو یہ پیشگوئیاں بھی بہرحال پوری ہوں گی۔پھر جب وہ انبیاء اور ان کے خلفاء کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ بس عنقریب ترقی ہو جائے گی،بڑی بڑی حکومتیں اسلام میں آملیں گی اور قرآن میں یہ لکھا ہؤا پاتے ہیں کہ وہ ساعت قریب آگئی،بس تم اسے آئی سمجھوتو یہ منافق بھی آملتے ہیں اور کہتے ہیں جب آئی سمجھو تو ہم بھی اپنا حصہ لینے کے لئے آگئے ہیں۔پھر چھ مہینے، سال،دوسال،چارسال، پانچ سال، دس سال،بیس سال گزرتے ہیںاور وہ دیکھتے ہیں کہ حکومت تو کوئی آئی نہیں بس آئے روزیہی مطالبہ ہوتا ہے کہ قربانی کرو قربانی کرو دین خطرے میں ہے اس کے لئے اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر دو۔تو ان کے قدم ڈگمگانے شروع ہو جاتے ہیں اورکہتے ہیں وہ وعدے کہاں گئے جو فتوحات اور ترقیات کے متعلق ہم سے کئے گئے تھے۔پہلے تو انہیں یہ خیال ہوتا ہے کہ ادھر اسلام قبول کیا اور ادھر ہمیں افغانستان یا ایران کی حکومت مل جائے گی۔یا اگر نہ ہؤا تو کسی مہاجن کا خزانہ ضرور مل جائے گا اور اگر یہ بھی نہ ہؤا تو کوئی عُہدہ تو ہاتھ سے جاتا ہی نہیں۔ان امیدوں اور خیالوں کی وجہ سے وہ قربانیاں بھی کرتے ہیں،وہ مال بھی دیتے ہیں،وہ وقت بھی خرچ کرتے ہیں،وہ جانی قربانیاں بھی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کیا ہؤا آج اگر ہم نے دس روپے دئیے تو کل دس ہزار مل بھی جائیں گے۔مگر جب دوسال،چار سال،دس سال، پندرہ سال، بیس سال گزر جاتے ہیں اور وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی حکومت نہیں ملی بلکہ جو کچھ پہلے ہمارے پاس تھا وہ بھی خرچ ہو گیا تو کہتے ہیں ہمارے ساتھ مکر اور فریب کیا گیا۔جو مؤمن ہوتا ہے وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ کل جو اسلام کی طاقت تھی آج اس سے کئی گُنابڑھ کر ہے۔پہلے اسلام کمزور تھا پھر طاقتور ہو گیا اور اب ہر روز اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔پس اس کا ایمان اسلام کی طاقت بڑھتے دیکھ کر تازہ ہو جاتا اور اس کا دل مسرت و انبساط سے بھر جاتا ہے اور وہ کہتا ہے خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ اسلام کو ہر روز غلبہ عطا فرما رہا ہے۔اسی طرح جو سچے دل سے احمدی ہوتا ہے وہ ہر سال کے خاتمہ پر دسمبر کے مہینہ میں یہی دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے کہ اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی ہزار آدمی اَور احمدی ہو گئے ہیں اور اس طرح اس کا ایمان لمحہ بہ لمحہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور چونکہ اس نے احمدیت کو احمدیت کی خاطر قبول کیا ہوتا ہے،کسی لالچ یا حرص کے ماتحت قبول نہیں کیا ہوتا اس لئے وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ پچھلے سال اتنے احمدی تھے اور اس سال اس سے بھی پانچ دس ہزار زیادہ ہو گئے ہیں تو وہ سمجھتا ہے کہ اسلام جیت گیا مگر جو منافق ہوتا ہے وہ یہ دیکھتا ہے کہ پہلے سال میں نے اتنا چندہ دیا۔دوسرے سال اس سے بڑھ کر دینا پڑا، تیسرے سال اس سے بھی زیادہ دینا پڑا،چوتھے سال اس سے زیادہ یہ حساب کر کے وہ کہتا ہے اوہو! میں تو نقصان اور گھاٹے کی طرف جا رہا ہوں۔میں نے سمجھا تھا تھیلیوں کے منہ میرے لئے کھل جائیں گے مگر یہاں تو اپنی جیب سے روپے خرچ کرنے پڑے اور پھر بھی کچھ نہ بنا۔پس منافق اپنی جیب کی طرف دیکھتا ہے اور چونکہ اس میں کمی ہو رہی ہوتی ہے اس لئے اس کا ایمان جاتا رہتا ہے لیکن مؤمن جماعت کی طرف دیکھتا ہے اور چونکہ اُس میں زیادتی ہو رہی ہوتی ہے اِس لئے اُس کا ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے اور وہ کہتا ہے فتح تو آرہی ہے مگر یہ کہتا ہے فتح نہیں آرہی اور دونوں اپنی اپنی جگہ سچے ہوتے ہیں۔یہ جب کہتا ہے فتح نہیں آرہی تو اِس وجہ سے کہتا ہے کہ یہ فتح مال کی زیادتی کو سمجھتا ہے اور چونکہ اس کا مال کم ہورہا ہوتا ہے اس لئے یہ مایوس ہو جاتا ہے اور کہتا ہے ہم سے جھوٹے وعدے کئے جاتے رہے ہیں لیکن مؤمن فتح اسلام کی ترقی کو سمجھتا ہے اور چونکہ اُس کی ترقی میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا ہوتا ہے اس لئے وہ خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے اَلْحَمْدُ ِﷲ خدا کی باتیں پوری ہو رہی ہیں۔تو یہ دو مختلف نقطہ ہائے نظر ہیں جن کے ماتحت مختلف نتائج پیدا ہوتے ہیں۔وہ جو خدا کی رضا اور اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے جماعت میں داخل ہوتا ہے وہ تو جماعت کی ترقی کو دیکھ کر یقین کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل آرہا ہے مگر وہ جو اپنے نفس کی کسی خواہش کو پورا کرنے کے لئے الٰہی سلسلہ میں داخل ہوتا ہے۔وہ پہلے قربانیوں میں شریک رہتا ہے اور دو، چار، پانچ، دس، پندرہ، بیس سال جتنا جتنا ایمان ہوتا ہے اتنا عرصہ چلتا چلا جاتا ہے مگر آخر حوصلہ ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے سب جھوٹ اور فریب ہے تو فرماتا ہے۔لَوْکَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا جس کام کے لئے تو کھڑا ہے اس میں کئی آدمی لالچ اور حرص کے خیالات کے ماتحت شامل ہو گئے تھے،اب اگر ان کا مقصود انہیں جلدی حاصل ہو جاتا(عَرَضًا کے معنی مطلب اور فائدہ کے ہیں)یعنی اگر ان کا وہ فائدہ اور مطلب جس کے لئے وہ اسلام میں داخل ہوئے تھے،سہلُ الْحصول اور بالکل قریب ہوتا وَسَفَراً قَاصِدًا اور سفر چھوٹا ہوتاکئی سالوں کے بعد اسلام کی ترقی نہ آنیوالی ہوتی لَاتَّبَعُوْکَ تو وہ آخر تک تیرے ساتھ چلتے اور اپنے عہد نبھادیتے وَلٰکِنْ بَعُدَتْ عَلَیْھِمُ الشُّقَّۃُ لیکن چونکہ سفر لمبا ہے اور ابھی ختم نہیں ہؤا اس وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ جھوٹ ہی ہے اور پھر مرتد ہو جاتے ہیں۔یعنی اگر وہ ظاہر میں بھی مرتد ہو جائیں تو کافر ہو جاتے ہیں اور اگر اندر ملے رہیں تو منافق بن جاتے ہیں۔
منافقوںکی تیسری قسم وہ ہے جن کے اندر ایمان تو ہوتا ہے مگر ساتھ ہی کفر بھی ہوتا ہے اور اس ایمان اور کفر کے اُن پر دَورے آتے رہتے ہیں۔کبھی ایمان کا دَورہ آجاتا ہے اور کبھی کفر کا دَورہ آجاتا ہے یہ عملی منافق ہوتے ہیں۔انہیں عقائد کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔وہ منافق ہوں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسیح موعود بھی مانیں گے۔گویااُن کا دماغ کہتا ہے کہ عقائدوہی درست ہیںجو اِس جماعت کے ہیں مگر چونکہ اُن کے دل کالگاؤ اور محبت کم ہوجاتی ہے،اِس وجہ سے اُن پر کفراور ایمان کا دَورہ آتا رہتا ہے۔کبھی کہتے ہیں یہ جماعت بہت بُری ہے اس میں شامل رہنے سے کیا فائدہ۔ اور کبھی کہتے ہیں اچھے لوگ ہیں، عقائد اِن کے خوب ہیں صرف فلاں فلاں باتیں اگر اِن میں نہ پائی جائیں تو پھر ٹھیک ہے۔ایسے منافقوں کا ذکر اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ میں ان الفاظ میں فرماتا ہے ۱۲؎چونکہ ان کے دل میںکفر اور ایمان ملا ہؤا ہوتا ہے اِس لئے گویہ خدا کو مانتے، اُس کے رسول کو مانتے اور باقی ارکانِ اسلام کو بھی درست تسلیم کرتے ہیں مگر ان کا ایمان سرحد پر ہوتا ہے کبھی اُنہیں ایسا دھکّا لگتا ہے کہ وہ کفر کی طرف جا پڑتے ہیںاور کبھی ایسا دھکّا لگتا ہے کہ ایمان کی طرف آجاتے ہیں۔چونکہ اُن کا ایمان صرف ذہنی ایمان رہ جاتا ہے محبت کا ایمان جاتا رہتا ہے اِس لئے اُن کی یہ حالت ہو جاتی ہے۔حالانکہ اصل خوبی محبت کے ایمان میںہی ہے ذہنی ایمان میں نہیں۔
محبت کی مثال میں ہی بیان کیا کرتے ہیں کہ کوئی بادشاہ تھا۔ایک دن وہ اپنے دربار میں ایک نہایت قیمتی ٹوپی لایا اور کہنے لگا آج ہم یہ ٹوپی اُس بچے کو دیں گے جو سب سے زیادہ خوبصورت ہوگا۔یہ کہہ کر وہ ٹوپی اُس نے اپنے ایک حبشی غلام کو دی اور کہا جو لڑکا سب سے زیادہ خوبصورت ہو اُس کے سر پر رکھ دو۔اب ان لڑکوں میں حبشی کا اپنا لڑکا بھی تھا اور امراء اور وزراء کے بھی لڑکے تھے۔ حبشیوں کی شکل یوں بھی خراب ہوتی ہے مگر اُس کا بچہ تو بہت ہی غلیظ اور گندہ تھا،ناک بہہ رہا تھا،آنکھوں میں گِد لگی ہوئی تھی اور مکھیاں اس پر بھنبھنا رہی تھیں وہ حبشی نہایت بے تکلفی کے ساتھ اس ٹوپی کو اٹھائے سیدھا اپنے لڑکے کی طرف گیا اور اُس کے سر پر ٹوپی رکھ دی۔یہ دیکھ کر سارے دربار میں قہقہہ لگا اور خوب اس سے ہنسی کی گئی اور کہا گیاکیا سب بچوں سے زیادہ خوبصورت تجھے اپنا بچہ ہی نظر آیا ہے؟وہ کہنے لگا۔ بادشاہ سلامت! آپ نے میرے ہاتھ میں ٹوپی دی تھی اور مجھے تو سب سے زیادہ یہی خوبصورت نظر آتا ہے۔تو جہاں محبت ہوتی ہے وہاں عیوب بھی خوبیاں دکھائی دیتے ہیں اور جہاں نفرت ہوتی ہے وہاں عیوب تو الگ رہے خوبیاں بھی عیب بن کر نظر آنے لگ جاتی ہیں۔
اب قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی انسان بے عیب نہیں حتی کہ بشریت کی کمزوریاں انبیاء میں بھی پائی جاتی ہیں۔پس جب کوئی بھی بے عیب نہیں تو کیا یہ جائز ہوگا کہ سوائے خدا کے ہر ایک کی عیب چینی اور نکتہ چینی کی جائے۔اگر نہیں تو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتوں پر نکتہ چینی کرنا بھی کسی صورت میں جائز نہیں ہو سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ جب کسی کے دل میں محبت والا ایمان نہیں ہوگا تو اسے خوبیاں بھی عیب نظر آئیں گے لیکن جب کسی کا ایمان کامل ہوگا تو معمولی عیوب کو دیکھ کر سمجھے گا کہ یہ لوگ قابلِ تحسین ہیں نہ کہ لائق ملامت کیونکہ یہ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان عیوب سے پاک ہو جائیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک استاد بچے کو پڑھاتا ہے تو بچہ کئی دفعہ غلطیاں بھی کرتا ہے مگر وہ اسے سمجھاتا ہے اور بار بار سمجھاتا ہے اور جب سبق کا زیادہ حصہ وہ یاد کر لیتا ہے اور ایک آدھ بات اُسے یاد نہیں رہتی تو اس پر خوش ہوتا ہے ناراض نہیں ہوتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے بچہ کوشش کر رہا ہے کہ مجھے سبق یاد ہوجائے اگر ایک آدھ اس سے غلطی ہو گئی ہے تو اس کی وجہ سے اس کی محنت کو باطل اور رائیگاں نہیں سمجھا جا سکتا۔یہی حال خدمتِ دین کا ہے اگر باوجود نیکی اور تقویٰ کے میدان میں آگے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرنے کے بعض سے غلطیاں ہو جاتی ہیں تو کامل مؤمن تو سمجھتا ہے کیا ہؤا جب یہ چوبیس گھنٹے خدمتِ دین میں لگے رہتے ہیں تو ایک آدھ غلطی اگر ان سے سر زد ہو جاتی ہے تو اِس سے کون سی قیامت آجاتی ہے خصوصًا اس صورت میں جب کہ ان کی یہ خواہش بھی ہے کہ اتنی غلطی بھی آئندہ ہم سے سر زد نہ ہو۔آخر ساری جماعت نمازیں پڑھتی ہے، روزے رکھتی ہے،زکوٰۃ دیتی ہے، چندے دیتی ہے،تبلیغ کرتی ہے،غریبوں کی مدد کرتی ہے،اتنی نیکیوں کے ہوتے ہوئے اگر کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو وہ سمجھتا ہے یہ ایسی ہی غلطی ہے جیسے بچہ سے تعلیم حاصل کرنے کے زمانہ میں ہو جاتی ہے۔ایسے مواقع پر عقلمند اُستاد ہمیشہ اُس کی حوصلہ افزائی کرتا اور کہتا ہے تُو خوب ہوشیار ہے اور اگر اس لڑکے کا باپ اُسے مل جائے تو اُسے بھی وہ یہی کہتا ہے کہ آپ کا لڑکا بڑا ہونہار ہے یہ نہیں کہتا کہ آپ کا لڑکا بڑا نالائق ہے۔میں نے اسے سوال دیئے تھے ان میں سے نو اِس نے حل کر لئے مگر ایک حل نہ کر سکا۔وہ سمجھتا ہے جب اس نے نو سوال حل کر لئے ہیں تو یہی اس کی بڑی ذہانت ہے بقیہ ایک سوال بھی آہستہ آہستہ حل کر لے گا۔اسی طرح جو مؤمن ہوتا ہے اُسے تو یہ نظر آتا ہے کہ جماعت نیکی اور تقویٰ اور قربانیوں اور دین کی خدمت میں لمحہ بہ لمحہ بڑھتی چلی جارہی ہے اور جو کمزور ہیں وہ بھی اپنی کمزوری کو ناپسند کرتے اور اس بات کے خواہشمند ہیں کہ کسی طرح یہ کمزوریاں ان سے دور ہوجائیں۔یہ اللہ تعالیٰ کے سپاہی ہیں جو اس کی راہ میں لڑرہے ہیں۔سپاہی کا کام یہ ہے کہ وہ لڑے اگر کوئی دشمن اُسے قتل کر دیتا ہے تو اس میں سپاہی کا کیا قصور ہے۔اس کا زیادہ سے زیادہ یہی کام تھا کہ مرتے دَم تک دشمن سے لڑائی کرتا۔سو جب اس نے مرتے دم تک دشمن سے لڑائی رکھی اور آخر اسی لڑائی میں اپنی جان دے دی تو اب وہ عزت کا مستحق ہوگیا۔یہ نہیں ہوگا کہ افسر اسے بُرا بھلا کہیں کہ یہ دشمن کے مقابلہ میں مرکیوں گیا؟ اسی طرح مؤمن جب دیکھتا ہے کہ جماعت کے لوگ نمازیں پڑھتے ہیں،روزے رکھتے ہیں،زکوٰۃ دیتے ہیں،حج کرتے ہیں،قربانیاں کرتے ہیں، استغفار پڑھتے ہیں،دعائیں کرتے ہیں اور باوجود اس کے کوئی خطا بھی ان سے سر زد ہو جاتی ہے اور وہ اس خطا کا ازالہ کرنے کے لئے تیار رہتا ہے تو وہ ان خطاؤں کو ایسا ہی سمجھتا ہے جیسے میدانِ جنگ میں لڑنے والا سپاہی بعض دفعہ دشمن کے مقابلہ میں مارا جاتا ہے۔اب یہ نہیں ہوتا کہ جو سپاہی دشمن سے لڑتا ہؤا مارا جائے اُسے فوج والے کوڑے لگانے شروع کر دیں اور کہیں کہ اس نے ہماری ہتک کی بلکہ وہ اس کی عزت کرتے ہیں کیونکہ وہ جو کچھ کر سکتا تھا اُس نے کر دیا۔اگر دشمن اُس پر وار کرنے میں ایک دفعہ کامیاب ہوگیا ہے تو اِس میں اُس کا کیا قصور ہے۔اُس کا کام صرف اتنا تھا کہ بچنے کی کوشش کرتا اور دشمن پر غالب آنے کی جدو جہد کرتا۔جب اُس نے یہ دونوں کام کر لئے تو نتیجہ کا وہ ذمہ دار نہیں۔ اسی طرح جب کوئی قوم رات دن دین کی خدمت میں مشغول رہتی ہے، رات دن بنی نوع انسان کی بہبودی کے کاموں میں مصروف رہتی ہے، رات دن اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے اور اُس کا جلال دنیا میں قائم کرنے کے لئے کوشاں رہتی ہے، تو اگر ان سب کوششوں کے ساتھ کوئی غلطی بھی کسی مؤمن سے ہو جاتی ہے تو وہ جماعت کی جدوجہد اور قربانیوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کمزوری کو وہ نظر انداز کر دیتا ہے۔جیسے اگر کوئی بیمار ہواور لڑائی کی خبر سن کر وہ بیماری کے باوجود چارپائی سے اُٹھ کر میدان میں چلا جائے اور لڑنا شروع کر دے تو چاہے وہ ایک گھنٹہ میں ایک ہی گولی چلائے تب بھی تم سب اُس کی تعریف کرو گے اور کہو گے یہ بیمار تھا مگر پھر بھی اس نے اس موقع سے پیچھے ہٹنا مناسب خیال نہ کیا ۔
تو مؤمن نگاہ تو یہ کہتی ہے کہ میرے بھائی میں اگر ایک عیب ہے تو سَو خوبیاں بھی تو ہیں۔ اس ایک کمزوری کے باوجود وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے شیطان سے جنگ کر رہا ہے اور اِس قابل ہے کہ اِسے سراہا جائے اور اِس کی خدمات کی تعریف کی جائے مگر جو منافق ہوتا ہے اُس کا قلبی لگاؤ چونکہ نہیں ہوتا اور محبت کا تعلق اُسے سلسلہ سے نہیں رہتا اِس لئے وہ اِس قسم کی بعض کمزوریوں کو دیکھ کر یہ کہنے لگ جاتا ہے اب پتہ لگا ان میں بھی فلاں فلاں عیب ہیں،ان میں بھی یہ یہ نقص پایا جاتا ہے اور چونکہ اب اس میں کچھ غیریت آنے لگ جاتی ہے اس لئے اب وہ اپنی جماعت کا ذکر’’ان ان‘‘کے الفاظ میں کرنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے ان میں یہ نقص ہے، ان میں وہ عیب ہے۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جماعت کو غلبہ حاصل ہونا شروع ہو جاتا ہے، ترقیات ملنی شروع ہو جاتی ہیں، طاقت حاصل ہو جاتی ہے اور جماعت کی کمزوریاں دب جاتی ہیں ایسی حالت میں منافق بھی ساتھ چل پڑتے ہیں۔اِس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے جلسوں میں بعض دفعہ جب نعرے لگائے جاتے ہیں تو چونکہ ایک رَو جاری ہوتی ہے اس لئے جب اللہ اکبر کا نعرہ لگے گا تو ایک منافق بھی زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگا دے گامگر جب اپنے گھر میں جائے گا تو چونکہ وہاں وہ رَو نہیں ہوگی اس لئے وہ اپنے دل کو جذباتِ محبت سے بالکل خالی پائے گا۔مجھے ان منافقین کی مجالس کی باتوں کا علم ہے۔مجھے معلوم ہے کئی دفعہ ان میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ بعض لوگ میری نسبت یہ کہتے ہیں یہ عجیب قسم کا آدمی ہے۔ہے تو بالکل بُرا مگر جب تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو ایسی تقریر کرتا ہے کہ ہمیں بھی اس کی باتیں سچی معلوم ہونے لگتی ہیں مگر جب ہم اپنے گھر میں آکر ان باتوں پرغور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل جھوٹی ہیں۔یہی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںفرماتا ہے کہ جب دین اُن پر زور سے حملہ کرتا ہے تو انہیں بھی کچھ روشنی نظر آنے لگ جاتی ہے اور وہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ یہ باتیں جو پیش کی جاتی ہیں سچی ہیں۔۔مگر جب وہ خدا کے نور اور اس کے خلیفہ سے دور ہو جاتے ہیں تو پھر منافقت اُن میں آجاتی ہے۔ یا اِس کے یہ معنے بھی ہیں کہ ترقی اور آرام کا زمانہ آئے تو ساتھ شامل رہتے ہیںمگر جب قربانیوں کا وقت آجائے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیںمگر اُن کے دلوں میں ایک حد تک ایمان ضرور ہوتا ہے۔ انہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۱۳؎۔ان کے دلوں میں ایمان بھی ہے مگر ساتھ ہی ایک مرض بھی ہے یعنی گو ان کے اندر ایمان پایا جاتا ہے مگر ان کے دل مریض ہیں۔عربی زبان کے لحاظ سے کے یہ معنے بنیں گے کہ یوں ایمان ان کے دلوں میں ہے مگر ایک مرض بھی ہے ۔ایمان کُلّیتہً اُن کے دلوں سے گیا نہیں۔
چوتھی قسم کا منافق وہ ہوتا ہے جو یوں توپکّا مؤمن ہوتا ہے مگر اس کے اندر یہ کمزوری ہوتی ہے کہ وہ ناواجب دوستی کرتا ہے۔یوں وہ مؤمن ہوتا ہے پکا مؤمن مگر ناواجب دوستی کے مرض میں وہ مبتلا ہوتا اور اپنے منافق دوست کو نہیں چھوڑ سکتا بلکہ اس محبت کے جوش میں اُسے اپنے دوست کا عیب بھی نظر نہیں آتا۔ممکن ہے اسے عیب نظر آجائے تو وہ اُسے چھوڑ دے مگر اُس کا دل ایسی غلط محبت کاشکار ہو چکا ہوتا ہے جیسے عشق کا جنون بعض لوگوں کو ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے منافق دوست کے عیب کو نہیں دیکھ سکتا بلکہ اُس سے بڑھ کر وہ یہ کرتا ہے کہ اُس کے عیب کو خوبیاں سمجھتا ہے۔جیسے سورۃ توبہ رکوع ۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱۴؎فرماتا ہے اگر یہ منافق لوگ تیرے ساتھ چلے بھی جاتے تو فساد پیدار کرنے کے سِوا اور کیا کرتے ان کا بڑا کارنامہ یہی ہوتا کہ کسی کے آگے کچھ کہہ دیتے اور کسی کے آگے کچھ اور اس طرح ان میں لڑائی اور پھُوٹ ڈال دیتے یا اگر لڑائی میں جاتے تو دشمن کو خبریں پہنچاتے رہتے۔تو فرمایا اگر منافق نہیں گئے تو اس سے نقصان کیا ہؤا۔یہ تواچھا ہؤا کہ نہیں گئے۔یہ جاتے بھی تو یہی کرتے کہ ایک کی چغلی دوسرے کے پاس اور دوسرے کی چغلی تیسرے کے پاس کرتے۔ایک کے پاس جاتے اور اُسے کہتے کہ تیری نسبت فلاں شخص یوں کہتا ہے اور اُس کے پاس جا کر کہتے کہ تیری نسبت فلاں یہ کہہ رہا تھا اور اس طرح آپس میں لڑائیاں کرا دیتے پس اچھا ہی ہؤا جو یہ نہیں گئے۔اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافق کوئی باہر کے نہیں بلکہ مدینہ کے رہنے والے ہی تھے۔چنانچہ آیتوں کا مضمون صاف بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لئے تشریف لے گئے تو مدینہ سے کچھ لوگ اس جنگ میں شریک نہ ہوئے انہی کا خدا تعالیٰ نے ان آیات میں ذکر کیا ہے ااور انہی کو منافق قرار دیا ہے، پس یہ منافق وہی تھے جو مدینہ میں رہتے تھے۔مسلمانوں کی کمیٹیوں کے ممبر تھے اور محلوں میں ان کے ساتھ رہتے تھے۔اس کے بعد فرماتا ہے یہ منافق تو ہیں ہی مگر ان کے علاوہ بھی ایک اَور جماعت ہےتم میں ایک جماعت ہے جو تمہاری باتیں اُن تک پہنچاتی ہے۔جب ذکر ہوتا ہے کہ فلاں شخص منافق ہے تو وہ جھٹ دَوڑ کر اس کے پاس پہنچتا ہے اور کہتا ہے کہ تم تو اتنے مخلص ہو مگر دیکھو فلاں مجلس میں تمہاری نسبت لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ تم منافق ہو۔ایسا شخص منافق نہیں ہوتا مگر منافق کی سواری ضرور ہوتا ہے۔ اورمنافق اس کے ذریعہ اپنے مقصود کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یا جیسا کہ سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے ان کا نام ۱۵؎رکھا ہے کہ منافق بات کرتا ہے اور یہ اس کی بات کو پھیلا دیتا ہے اور اگر مؤمن کوئی بات کریں تو ان کی بات منافقوں تک پہنچا دیتا ہے اور کہتا ہے تم تو بڑے اچھے ہو مگر ان لوگوں کو نہ معلوم کیا ہو گیا ہے کہ وہ خواہ مخواہ تمہیں بدنام کرتے پھرتے ہیں۔یہ آپ منافق نہیں ہوتا مگر منافق تک خبریں پہنچائے بغیر بھی نہیں رہتا۔دوسری بات اس میں یہ پائی جاتی ہے کہ منافقوں کے اعتراضات کو پھیلاتا رہتا ہے۔منافق کہتا ہے جماعت خراب ہوگئی، اور یہ طوطے کی طرح اس فقرہ کو رٹنا شروع کر دیتا ہے اور جہاں بیٹھتا ہے کہتا ہے جماعت خراب ہوگئی جماعت خراب ہوگئی۔پس یہ مؤمن تو ہے مگر بے وقوف اور جاہل مؤمن ہے۔ایسا مؤمن ہے جو منافقوں کا ہتھیار ہے جب اس قسم کی باتیں کرنے کے نتیجہ میں گرفت کی جاتی ہے تو پکڑا یہ بے وقوف مؤمن جاتا ہے جو منافق کی بات طوطے کی طرح رَٹ کرہر شخص کے آگے بیان کر رہا ہوتا ہے اور منافق دندناتا پھرتا ہے کیونکہ منافق کا یہی کام ہے کہ ۱۶؎ وہ سینہ میں وسوسہ ڈال دیتااورآپ پیچھے ہٹ جاتا ہے تو یہ چوتھی قسم کا منافق ہے اور گو یہ اصل میں مؤمن ہوتا ہے مگراس کے اندر نِفاق سے ہمدردی اور منافقوں کی دوستی پائی جاتی ہے۔اس وجہ سے یہ بالکل ایمان کے کنارے پر کھڑا ہوتا ہے۔بالکل ممکن ہے یہ مؤمن ہی رہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی کوئی ایسا دھکّا لگے کہ خود بھی نِفاق کے گڑھے میں گر جائے اور اگر خود منافق نہ بھی بنے تب بھی بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ منافقوں کی سزا پا لیتا ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے۱۷؎دیکھو ظالموں کی طرف مت جھکو ورنہ تمہیں بھی آگ چھُو جائے گی۔یہ آیت بتاتی ہے کہ وہ جو ظالم نہیں وہ بھی بعض دفعہ ظالم کی دوستی کی وجہ سے جہنم میں چلے جاتے ہیں۔پس یہ گروہ ایمان کے لحاظ سے منافق نہیں ہوتا مگر منافقوں کی دوستی اِس کا شعار ہوتا ہے اور اِس وجہ سے زمرۂ منافقین میں شمار کیا جاتا ہے۔
یہ وہ چار قسم کے منافق ہیں جن کا قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے۔اب اگر تم ان چاروں کو مدنظر رکھو تو تمہیں کبھی دھوکا نہیں لگ سکتا۔بسا اوقات صرف اتناسمجھا جاتا ہے کہ منافق وہ ہوتا ہے جوایمان کے بغیر داخل ہوتا ہے۔یا منافق وہ ہوتا ہے جو گو ایمان کے ساتھ ہی سلسلہ میں داخل ہؤا ہوتا ہے مگر بعد میں کُلّی طور پر اس کے دل سے ایمان نکل جاتا ہے حالانکہ یہ صرف منافقوں کی دوقسمیں ہیں ورنہ ان کے علاوہ بھی منافقوں کی اور قسمیں ہیں۔ مثلاً ایک تو وہ منافق ہے جو عقائد میں ہمارے ساتھ متحد ہوتا ہے مگر اس کے دل میں بشاشتِ ایمان باقی نہیں رہتی اب اس کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ اعتراض کرتا رہتا ہے۔جب اسے فائدہ پہنچے گا ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گا اور جب اسے کوئی نقصان پہنچے گا وہ اعتراض کرنے لگ جائے گا۔قرآن کریم میں ان کا بڑا لطیف نقشہ کھنچا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب لڑائی میں نقصان ہوتا ہے تو منافق کہتے ہیں ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ لڑائی نہیں کرنی چاہئے مگر ہماری بات تو کوئی سنتا ہی نہیں۔ہم بہتیرے چیخے چِلّائے کہ دیکھو لڑائی کے لئے مت جاؤمگر ہماری ایک بھی نہ سُنی گئی۔ اس پر کمزور دل مؤمن سمجھتا ہے انہوں نے کہا تو تھا؟ معلوم ہوتا ہے یہ سچ کہتے ہیں۔اور وہ یہ نہیں جانتا کہ انہوں نے محض مسلمانوں کو کمزور کرنے اوران کے ارادوں کو پَست کرنے کے لئے یہ الفاظ کہے تھے خیر خواہی اور محبت کے لئے نہیں کہے تھے۔ تو کمزور ایمان والے منافقوں کی ایسی باتوں میں آجاتے ہیں اور اُن کو مخلص سمجھ کر اُن سے تعلقات رکھنے شروع کر دیتے ہیںحالانکہ منافق عملی طور پر سخت کمزور ہوتے ہیں اور اپنی عملی کمزوری کی وجہ سے ہی جماعت کی ترقی میں ہمیشہ روکیں ڈالتے رہے ہیں۔جہاں قربانی کا سوال آتا ہے وہاں یہ کہنا شروع کر دیتے ہیںکہ قربانیوں سے جماعت کی طاقت کو برباد کیا جا رہا ہے اور کمزور لوگ سمجھتے ہیں ان کے دل میں سلسلہ کا کس قدر درد ہے اور اگر کبھی کوئی قربانی نتیجہ خیز نہ ہو بلکہ جماعت کو اس کی وجہ سے کچھ نقصان پہنچے تو پھر تو پھُولے نہیں سماتے اور کہتے ہیں ہم نے نہیں کہا تھا اِس قسم کی قربانیاں بے فائدہ ہیں حالانکہ جہاں جماعت کو دس بیس کامیابیاں ہوئی تھیں وہاں انہوں نے کونسا مشورہ دیا تھا۔مگر جب کامیابی ہو تو اُس وقت تو منافق بالکل خاموش رہتا ہے اور جب کوئی ناکامی ہو تو بڑھ بڑھ کر باتیں شروع کر دیتا ہے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس کی غرض محض جماعت کو بدنام کرنا ہے اور کوئی نہیں۔ اور اگر فرض بھی کرو کہ ایک کام کا نتیجہ اتنا اچھا نہیں نکلا جس قدر اچھے نتیجہ کی ہمیں توقع تھی تو اس سے حرج کونسا ہؤا۔کیا وہ یہ نہیں دیکھتا کہ رات دن جماعت ترقی کر رہی ہے اور ہر روز اس کا قدم عزت اور شرف کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہے۔اب جن باتوں میں ہمیں کامیابی ہو رہی ہے کیا وہ باتیں ہم نے منافقوں سے پوچھ کر کی تھیں کہ نقصان کے موقع پر وہ اپنی ہمدردی جتانے کے لئے آگے آجاتا ہے۔مگر اس کی فطرت میں یہ بات داخل ہوتی ہے کہ جب کوئی نقصان ہو تو پھر اپنی خیرخواہی جتانے لگ جاتا ہے اور جب کامیابیاں ہی کامیابیاں حاصل ہوں تو دل ہی دل میں جل بھن کر خاموش رہتا ہے ۔اسی طرح جن جن امور میں اس کی باتیں غلط ثابت ہوتیںاور جن قربانیوں کے متعلق اس کی رائے بالکل بیہودہ ثابت ہوتی ہے،انہیں تو کھا جاتا ہے مگر جب کوئی ایک آدھ بات درست نکلے تو اسے لے بیٹھتا ہے اور کہتا ہے میںنے نہیں کہا تھا کہ اس سے نقصان ہوگا۔
تو چوتھی قسم کا منافق وہ ہے جو پورا مؤمن ہوتاہے مگر منافق اُس کے دوست ہوتے ہیں اور ان کی غلط دوستی اختیار کر لینے کی وجہ سے سلسلہ کو اس کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے اور اُسے اپنے منافق دوست کی غلطی محسوس تک نہیں ہوتی اور وہ باوجود مؤمن ہونے کے مؤمنوں پر عیب لگاتا ہے۔مؤمن خدا کی بات کہتا ہے تو وہ جھٹ بول اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھو کسی پر بدظنی نہیں کرنی چاہئے۔اس کے مقابلہ میں منافق اعتراض کرتا ہے تو وہ بیٹھا ہؤا کہہ رہا ہو تا ہے سُبْحَانَ اﷲِکیسا مخلص ہے سلسلہ کا اِس کے اندر کتنا درد ہے۔تو دوستی کی وجہ سے منافق کی بُری بات بھی اُسے اچھی لگتی ہے اور مؤمن کی اچھی بات بھی اُسے بُری لگتی ہے۔وہ ہوتا مؤمن ہے مگر نام اس کا منافقوں میں ہوتا ہے اورکے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے کبھی کبھی وہ اس کی سزا بھی پا لیتا ہے۔اگر آپ لوگ میری اس تشریح کے بعد سمجھ لیں کہ منافقین کے چار گروہ ہوتے ہیں تو میں یقین رکھتا ہوںکہ بہت حد تک آپ غلط فہمیوں سے بچ جائیں ۔
اب کئی دوستوں کو محض اِس وجہ سے دھوکا لگ جاتا ہے کہ جب انہیں معلوم ہوتا ہے فلاں شخص منافق ہے تو وہ یہ دیکھتے ہیں کہ آیا وہ وفاتِ مسیح کا قائل ہے یا نہیں، یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی مانتا ہے یانہیں، یا خلافت کا قائل ہے یا نہیں اور جب وہ دیکھیں کہ وہ وفاتِ مسیح کا بھی قائل ہے، وہ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی تسلیم کرتا ہے، وہ خلافت کا بھی قائل ہے تو کہتے ہیںہمارے بھائیوں کو غلطی لگی ہے وہ منافق نہیں ہے وہ تو تمام عقائد کو تسلیم کرتا ہے حالانکہ قرآن کریم کہتا ہے یوں تو وہ مؤمن ہی ہیں مگر ان کے دلوں میں ایک مرض ہے۔ جب کبھی سہولت اور آرام کا زمانہ ہوتا ہے تو آگے آگے چل دیتے ہیں۔نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں۔مگر جہاں کوئی امتحان کا وقت آیا اور انہوں نے پیچھے ہٹنا شروع کردیا وہ اُس وقت کھڑے ہو جاتے ہیں وہ کہتے ہیں ہمارا دل نہیں مانتا کہ ان قربانیوں سے کوئی فائدہ ہو۔ایسے انسان کو اگر عقائد کے لحاظ سے تم دیکھو گے تو ضرور دھوکا کھاؤ گے اور دوسرں کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب بنو گے بلکہ میں کہتا ہوں ایمان ہی نہیں عمل کو بھی اگر دیکھو گے تو تم یہ اندازہ نہیں لگا سکو گے کہ یہ منافق ہے۔ وہ نمازیں بھی پڑھے گا، وہ روزے بھی رکھے گا، وہ زکوٰۃ بھی دے گا، وہ حج بھی کرے گا، وہ چندے بھی دے گا،وہ تبلیغ بھی کرے گا،وہ قربانیوں کے مطالبات میں بھی شامل ہوگا،وہ جلسوں میں تقریریں بھی کرے گا،اِسی طرح وہ عقائد میں ہمارے ساتھ متحدہوگا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا مأمور سمجھے گا،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النّبیّٖن یقین کرے گا،قرآن کریم کو سچا سمجھے گا،خدا کو واحد اور لاشریک تسلیم کرے گا۔غرض عقیدہ بھی اُس کا وہی ہوگا جو تمہارا ہے اُس کا عمل بھی وہی ہوگا جو تمہارا ہے مگر جو چیز اُس کے اندر منافقت ثابت کررہی ہوگی وہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے دشمنوں کا دوست ہوتا ہے،وہ منافقوں سے محبت اور پیار رکھتا ہے اور اُن کی عزت اُسے اِس قدر منظور ہوتی ہے کہ وہ مؤمنوں کے تریاق کو پاخانہ سمجھتا مگر منافقوں کے پاخانہ کو تریاق سمجھتا ہے۔ایسے منافق کو اگر تم عقائد سے پرکھنا چاہو تو کیا تم پرکھ سکتے ہو؟ یا ایسے منافق کو تم اعمال سے پرکھنا چاہو تو کیا تم اُس کی منافقت کو پرکھ سکتے ہو؟ سوائے اِس کے اور کسی چیز سے معلوم نہیں کر سکتے کہ وہ منافقوں کی حمایت کرتا ہے، وہ منافقوں کا دوست ہوتا ہے اور منافقوں کی بُری باتیں مؤمنوں میں پھیلاتا اور مؤمنوں کی آراء منافقوں تک پہنچاتا ہے ایسا شخص عقیدے کے لحاظ سے منافق نہیں مگروالا منافق ضرور ہے۔ وہ خود ظالم نہیں مگر ظالم کامُعین اور مدد گار ہے۔ اُن ظالموں کامُعین ومددگار جن کے متعلق خدا تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ انہیں دوزخ کے سب سے نچلے حصہ میں ڈالا جائے گا اور چونکہ اُس نے اِس جماعت کے لوگوں سے دوستی ترک کرد ی جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدتھی اور اِن کے ساتھ اُس کی دلی وابستگی نہ رہی اور بد قسمتی سے اُس کی دوستی اُن لوگوں کے ساتھ ہو گئی جو منافق تھے اور جن کے دلوں میں مرض پایا جاتا تھااِس لئے اب وہ اس دوستی کی وجہ سے ہمیشہ ان کا ساتھ دیتا ہے انہیں بڑا مخلص اور نیک قرار دیتا ہے اور اگر وہ کوئی اعتراض کریں تو کہتا ہے یہ تو اصلاح کی خاطر اعتراض کر رہے ہیں ان کی غرض کوئی فتنہ و فساد پیدا کرنا تھوڑا ہے۔ پس وہ اعتراض کانام اصلاح رکھتے، بد گوئی کا نام خیر خواہی رکھتے اور عیب چینی کا نام نصیحت رکھتے ہیں اور اسی کو قرآن کریم نے منافقت قرار دیا ہے۔چنانچہ وہ فرماتا ہے منافقوں کو جب پکڑا جاتا ہے تو کہتے ہیں۱۸؎ہم تو صرف اصلاح کی نیت سے یہ باتیں کر رہے تھے حالانکہ اگر ان کا مقصد محض اصلاح ہوتا تو اُنہیں چاہئے تھا کہ نظام سلسلہ کے ذمہ داروں کے نوٹس میں وہ امر لاتے نہ یہ کہ الگ تھلگ بیٹھ کر اپنی مجالس میں ان باتوں کو بیان کرتے اور اس طرح لوگوں کے قلوب میں مختلف قسم کے وساوس پیدا کرتے۔
اگر ہماری جماعت کے دوست ان چاروں قسم کے منافقین کو اچھی طرح سمجھ لیں تو بہت سے فتنوں کا سدِّ باب ہو سکتاہے۔مجھے ہمیشہ یہ حیرت ہوتی ہے کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے جب بعض کومعلوم ہوتا ہے فلاںمنافق ہے تو وہ اُس کے پاس جاتے اور اُس سے کسی مسئلہ کے متعلق گفتگو شروع کردیتے ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ مسائل میں اُسے کوئی اختلاف نہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بھائیوں کو غلطی لگی ہے یہ تو حضرت مسیح موعود کو نبی مانتا ہے۔ پھر وہ دیکھتے ہیں کہ وہ نماز پڑھتا ہے یا نہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ وہ نمازوں میں بھی باقاعدہ ہے تو کہتے ہیں کہ اب یقین ہوگیا کہ ہمارے بھائیوں کو اس کے متعلق ضرور غلط فہمی ہوئی ہے۔پھر وہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ چندے دیتا ہے یا نہیں اور جب اُنہیں معلوم ہو کہ چندے بھی دیتا ہے تو پھر اُنہیں حقُّ الْیقین ہو جاتا ہے کہ وہ منافق نہیں حالانکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ ایک منافق ایسا بھی ہوتا ہے جو اعمال کے لحاظ سے ویسے ہی عمل کرتا ہے جیسے مؤمن اور عقائد کے لحاظ سے ویسے ہی عقائد رکھتا ہے جیسے مؤمن مگر پھر بھی منافق ہوتا ہے۔ آخر جب خدا نے یہ کہا ہے کہ کہ تم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اُن تک خبریں پہنچاتے ہیں تو اِس کے یہ معنے تو نہیں ہیں کہ وہ مدینہ میں رہنے والے ہیں،کے یہ معنی بھی نہیں کہ وہ تمہارے ساتھ لڑائیوں میں شامل ہونے والے ہیں بلکہ کے یہ معنی ہیں کہ وہ بظاہر تمہاری طرح نہایت پکے مسلمان ہیں،وہ تمہاری طرح نمازیں پڑھتے، تمہاری طرح روزے رکھتے، تمہاری طرح زکوٰتیں دیتے، تمہاری طرح حج کرتے اور تمہاری طرح جہاد میں شامل ہوتے ہیں۔اگر اس ایک بات کو نکال دیا جائے جو اُن میں پائی جاتی ہے تو تم میں اور اُن میں کوئی فرق نہیں ہوگا مگرکے حکم کی خلاف ورزی نے باوجود تم میں سے ہونے کے اُنہیں منافقوں میں شامل کر دیا ہے ورنہ عمل اُن کا وہی ہے جو تمہارا ہے، عقیدہ اُن کا وہی ہے جو تمہارا ہے۔
بعض نے کہا ہے چونکہ یہ آیت رستہ میں نازل ہوئی تھی اِس لئے اِس سے مراد وہ لوگ ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور مسلمانوں کی باتیں سن کر منافقوں تک پہنچا دیتے تھے۔ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ان معنوں کو لیا جائے تب بھی وہی بات آجائے گی جومیں نے بیان کی ہے کہ وہ لڑائی میں شامل ہوئے،اُنہوں نے جہاد میں حصہ لیا، وہ مسلمانوں کے دوش بدوش لڑے اور سب جانتے تھے کہ وہ منافق نہیں بلکہ مخلص ہیں سوائے اُن چند لوگوں کے جن کے متعلق یہ آیت نہیں اور جو درمیان میں ایک جگہ شرارتًا بیٹھ گئے تھے باقی سب مخلص تھے قرآن کریم خود اِس امر کی وضاحت کرتا اور فرماتا ہے کہ اگرمنافق نکلتے تو تمہیں فائدہ تو کوئی نہیں پہنچتا البتہ نقصان ضرور ہو جاتا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر منافق لڑائی میں شامل نہ ہوئے تھے پس میں جن لوگوں کاذکر ہے وہ منافق نہیں بلکہ مومن ہیں اور اگر ان میں نِفاق ہے تو اتنا کہ وہ بدقسمتی سے منافقوں سے دوستی رکھتے ہیں۔اُن تک مسلمانوں کی خبریں پہنچاتے اور اُن کے اعتراضات طوطے کی طرح رٹ کر عام لوگوں میں پھیلاتے ہیںلیکن عام تعلقات منافقوں سے رکھنے کے باوجود وہ نمازیں پڑھتے، وہ روزے رکھتے، وہ زکوٰۃ دیتے، وہ حج کرتے اور باقی تمام احکامِ اسلام کو بجا لاتے ہیں لیکن باوجود ان احکام کی بجا آوری کے وہ ایسے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں کہ منافقوں کی تائیدکرتے اور اس طرح جماعت میں فتنہ و فساد پیداکرتے ہیں۔ یہ منافق نہیں ہوتے مگر اس وجہ سے کہ منافقوں سے تعلقات رکھتے ہیں قریب ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں منافقوں میں شامل کر دے یا وہی سزا ان پر بھی وارد کردے جو اُس کے حضور منافقوں کے لئے مقدر ہے۔
پس مَیں منافقوں کی ان چاروں اقسام کی طرف جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے کہتا ہوں کہ جب تم پہلی دو قسموں کے منافقوں کو پہچانتے ہو تو باقی دو کو بھی تلاش کرو۔پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کے فضل کس سُرعت سے تم پر نازل ہوتے اور تمہارے قدم کو کتنی جلدی میدانِ ترقی میں آگے سے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ایسے لوگ ہماری جماعت میں بھی ہیں اور وہ طرح طرح کے فتنے پیدا کرتے رہتے ہیں مگر وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔کامیاب ہمیشہ الٰہی سلسلہ ہوتا ہے اور اب بھی اللہ تعالیٰ کا سلسلہ ہی کامیاب ہوگا۔ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ منافقوں کی رُکاوٹوں کی وجہ سے وہ فتح جو احمدیت کو بیس سال میں ہوتی ہے وہ بجائے بیس سال کے تیس سالوں میں ہومگر یہ نہیں ہوسکتا کہ فتح نہ آئے لیکن کیا تم یہ پسند کرو گے کہ خدا تعالیٰ کا نور دس سال اَور پیچھے جا پڑے؟
مجھے افسوس ہے کہ کئی نادان ہماری جماعت میں ایسے بھی ہیں جو یہ کہا کرتے ہیں کہ ان منافقوں کی ریشہ دوانیوں سے حرج کیا ہے جبکہ ہماری فتح یقینی ہے حالانکہ وہ اِتنا نہیں سمجھتے کہ بے شک ہماری فتح یقینی ہے مگر ان کی کوششوں اور فتنوں کے نتیجہ میں یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ فتح جو دس سالوں میں ہونی ہے وہ بجائے دس سالوں کے بیس سالوں میں ہو اور اس طرح دس سال فتح میں دیر ہو جائے حالانکہ مؤمن تو ایک منٹ کی دیر بھی پسند نہیں کرتاکُجا یہ کہ وہ دس یا بیس سال کی دیر کو پسند کرے۔ کیا اگر کسی کا اکلوتا بیٹا بیمارہواور ڈاکٹر اُس سے یہ کہے کہ وہ بیس دنوں میں اچھا ہو جائے گا لیکن اسی دوران میں ایک اَور ڈاکٹر آجائے اور کہے تم میرے ساتھ ٹھیکہ کر لو۔ اتنی فیس مَیں لوں گا اور اِسے دس دن میں اچھا کر دوں گاتو کیا کوئی ایک باپ بھی ایسا ہو سکتا ہے جس کے پاس روپیہ ہو اور وہ پھر یہ پسند نہ کرے کہ اُس کا اکلوتا بیٹا بیس دنوں کی بجائے دس دنوں میں اچھا ہو جائے؟ میں تو سمجھتا ہوں اگر کسی شخص کے پاس روپیہ ہوگا تو وہ سینکڑوں روپے دے کر بھی یہ چاہے گا کہ اس کا بیٹا بیس دن کی بجائے دس دن میں اچھا ہو جائے۔مگر کیا تمہاری یہ تمام سخاوت دین کے معاملہ میں بھی آکر یہی ظاہر ہوتی ہے اور تم کہتے ہو کہ اگر دس سال کی بجائے بیس سال میں اسلام کو فتح ہو جائے تو کیا حرج ہے۔ گویا تمہارے نزدیک دس سال کی دیر کوئی دیر نہیں ۔کہتے ہیں ’’حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ‘‘۔ تم اپنے معاملہ میں تو یہ پسند نہیں کرتے کہ ایک یادو دن کی دیر بھی ہو مگر جب خدا تعالیٰ کے دین کا معاملہ آجائے توکہنے لگ جاتے ہو کیا حرج ہے دس سال نہ سہی بیس سال میں فتح ہو جائے گی۔تم اپنے معاملات میں تو ہمیشہ نتائج کو پہلے دیکھنے کی کوشش کیا کرتے ہو،پھر تمہیں کیا ہو گیاکہ تم یہ نہیں چاہتے کہ خدا تعالیٰ کا نور دنیا میں جلد سے جلد پھیلے اور درمیان میں جس قدر روکیں ہیںوہ دور ہو جائیں۔
ایک زمیندار کو اگر کوئی شخص کہے کہ تمہاری کھیتی چھ ماہ کی بجائے تین ماہ میں پک کر تیار ہو سکتی ہے اور میں اِس کا ذمہ لیتا ہوںتو تم دیکھو گے کہ وہ فوراً اِس کوشش میں لگ جائے گا کہ اُس کی کھیتی کسی طرح جلدی پک کر تیار ہو جائے۔پس ذاتی امور میں تو تم نتائج کو جلد سے جلد دیکھنے کے متمنی ہوتے ہومگر جب خدا تعالیٰ کا معاملہ آجائے تو اُسے آخر سے آخر وقت تک ڈالنے کے لئے تیار ہو جاتے ہو۔یہ کوئی خوبی کی بات نہیں بلکہ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بے دینی کی رگ ہے جوتمہارے اندر پائی جاتی ہے۔ورنہ جو شخص دین سے محبت کرتا ہے وہ تو کہے گا کہ میرا کام بے شک پیچھے پڑا رہے مگر خدا تعالیٰ کے دین کا کام نہ رُکے۔ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت اگر تم اپنے اِرد گرد نظر ڈالو تو تمہیں منافق بھی نظر آنے لگ جائیں گے۔اور پھر تم منافقین کے فتنہ کی اہمیت کو بھی سمجھ سکو گے۔تم ہمیشہ اس نقطہ نگاہ سے دیکھا کرتے ہو کہ یہ خدا کا دین ہے اور آخر یہ کامیاب ہو کر رہے گا۔بیشک یہ کامیاب ہوگامگر کیا تم یہ پسند کرو گے کہ اس کی ترقی دس یا بیس سال اور پیچھے جا پڑے؟ اوراگر تم کہو کہ ہاں ہم یہ پسند کرتے ہیں تو تم مجھے معاف کرومجھے تمہارے دین اور ایمان کے متعلق شُبہ پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی مَیں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ لوگ بھی غلطی پر ہیں جو منافقوں سے گھبرا جاتے ہیں۔گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔منافق ہر الٰہی سلسلہ میں پیدا ہوئے اور پیدا ہوتے رہیں گے اور منافقوں کو ظاہر کرنا اور منافقت کو کچلنا ہر مؤمن کا فرض ہے۔نِفاق کا مرض کوڑھ کی طرح ہوتا ہے۔جس طرح کوڑھ پہلے تھوڑا ہوتا ہے اور پھر پھیلتے پھیلتے تمام جسم کو ماؤف کر دیتا ہے اِسی طرح نِفاق بھی آہستہ آہستہ انسانی قلب کو بالکل سیاہ کر دیتا اور اُس کے نورِ ایمان کو سلب کر لیتا ہے۔
پس نفاق کامقابلہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کایہ اولین فرض ہے کہ وہ نہ صرف خود نِفاق سے بچے بلکہ دوسروں کو بھی نِفاق سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے اور منافقوں کو اُن کی تدابیر اور منصوبوں میںپوری طرح ناکام کر دے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کو منافقوں کے پہچاننے اور اُن کا مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسی طاقت اُنہیں بخشے کہ وہ منافقوں کا پوری طرح مقابلہ کریں تا دینِ اسلام کو جلد سے جلد فتح حاصل ہواور خود اُن کے اندر ایسی یک جہتی اور اتحاد پیدا ہو جائے کہ دشمن ہزار وسوسے ڈالے وہ ان کے اتحاد اور یک جہتی کو توڑ نہ سکے وہ بنیانِ مرصوص ہو کر دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہوں اور ہر کمزوری اور ہر رخنہ اُس کے فضل سے دور ہو جائے۔ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔‘‘ (الفضل ۱۲؍اگست ۱۹۳۸ئ)
۱؎ بخاری کتاب النکاح باب المَرْئَ ۃُ رَاعِیَۃٌ فی ببْتِ زَوْجِھَا
۲؎ النسآئ: ۳۵
۳؎ بخاری کتاب الاذان باب الاذان لِلْمُسَافِرِیْنَ… ۔(مفہوماً)
۴؎

(الاعراف:۳۹)
۵؎ ترمذی کتاب البروالصلۃ باب مَاجَائَ فی الْاِقْتِصَادِ فی الْحُبّ وَ الْبُغْضِ
۶؎ مسلم کتاب المساقاۃ باب الْاَمْرُ بِقَتْلِ الْکِلَابِ
۷؎ الکھف: ۷۹ ۸؎ الماعون: ۵ تا ۷ ۹؎ البقرۃ: ۹
۱۰؎ التوبۃ: ۶۶ ۱۱؎ التوبۃ: ۴۲ ۱۲؎ البقرۃ:۲۱
۱۳؎ البقرۃ:۱۱ ۱۴؎ التوبۃ: ۴۷ ۱۵؎ الاحزاب:۶۱
۱۶؎ الناس: ۶ ۱۷؎ ھود: ۱۱۴ ۱۸؎ البقرۃ:۱۲

۲۶
خالق و مخلوق دونوں کے کامل مظہر بنو
(فرمودہ ۱۲؍اگست ۱۹۳۸ء )
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’ہر انسان کے اندراللہ تعالیٰ نے دو قسم کے حواس رکھے ہیں۔ایک وہ حواس ہیں جو اس کے تعلقات کو بیرونی دنیا سے قائم کرتے ہیں اور ایک وہ حواس ہیں جو اس کے تعلقات کو خود اس کے جسم کے اندرونی حصوں سے قائم کرتے ہیں۔یہ دونوں قسم کے حواس اپنی اپنی جگہ پر نہایت ہی ضروری ہیں۔جو حواس انسان کے اپنے نفس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ قائم مقام ہیں مخلوق کے اور جو حو اس بیرونی دنیا کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ قائم مقام ہیں خالق کے۔گویا انسان ایک مرکزی نقطہ ہے جس پر خالق کی طرف سے ایک وتر آکر گرتا ہے اور ایک مخلوق کی طرف سے آکرگرتا ہے۔وہ اپنے اندر الٰہی صفات کو بھی پیداکرتا ہے اور عبودیت کرنے والے وجود جو اللہ تعالیٰ کی ذات پر دال ہیں ان کو بھی اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور جو تشبیہی یا تنزّلی صفات کہلاتی ہیں وہ وہی ہیں جن سے خدا تعالیٰ اور بنی نوع انسان کے درمیان واسطہ ہوتا ہے اور خدائی صفات ان کے اندر آکر اپنی قوتوں اور طاقتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔مثلاً اللہ تعالیٰ رحم کرتا ہے اور رحم کا وجود چاہتا ہے کہ کوئی اور ہستیاں ہوںجن پر رحم کرے اور جبکہ وہ رحم کرتا ہے تو ضروری ہے کہ رحم کے دو مقتضیات اس کے اندر پائے جائیں۔یعنی وہ سننے والا بھی ہو اور دیکھنے والا بھی۔تا اس کے رحم کی مستحق جو مخلوق فریاد کرسکتی ہے اسے سن کر رحم کرے اور جو فریاد نہیں کر سکتی ان کی کسی فریاد کے بغیر ہی ان کی حالت کو دیکھ کر ان پر رحم کرے۔پھر اس رحم کے تقاضا کے ساتھ رحم کا انتہائی حصہ ہدایت ہوتی ہے۔یعنی جبکہ ایک ہستی یہ چاہتی ہے کہ دوسری کو ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر اوپر لے جائے۔رحمت کا ادنیٰ مفہوم شفقت ہے یعنی تکلیف کو دور کرنا اور اس کے اعلیٰ حصہ میں ترقی دینے کی خواہش ہوتی ہے۔ایک تندرست بچہ جسے کوئی بیماری نہیں اس کا معدہ بھی اچھا ہے،اسے کھانے کو بھی مل جاتا ہے،دیکھنے کے لئے آنکھیں موجود ہیں اور نظارے بھی مہیا ہیں کان ہیں اور اس کے ایسے رشتہ دار بھی موجود ہیں جن کی باتیں وہ سن سکے اس کے لئے جسمانی طور پر کسی شفقت کا موقع نہیں کیونکہ اس کی ہر طبعی ضرورت پوری ہے لیکن اس کی طبعی ضرورتوں کا پورا ہو جانا اسے کسی بلند مقام پر کھڑا نہیں کرتا بلکہ اس کے لئے اور چیزوں کی ضرورت ہے جو اسے دوسری اشیاء سے ممتاز کردیں،اس کے طبعی مقام کو بلند کر کے اسے اوپر لے جائیں جسے دیکھ کر ہر شخص کہے کہ یہ اپنے طبعی مقام سے اوپر پہنچ گیا ہے اور اس طرح اس نے ایک امتیاز حاصل کر لیا ہے اور اس کے لئے تعلیم اورہدایت کی ضرورت ہوتی ہے۔
پس رحم کاآخری حصہ ہدایت ہے اور اس کا ادنیٰ مقام شفقت ہے۔دوسرے کی کمزوری کو محسوس کرنا اور اسے دور کرنا یہ تو شفقت ہے لیکن جب کوئی کمزوری اور تکلیف نہ ہو تو اسے بلند مقام پر لے جانے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ احسان ہے اور اسے مکمل کرنے کے لئے صفتِ ہدایت کی ضرورت ہوتی ہے۔جس طرح شفقت کے پورا ہونے کے لئے سمع و بصر کی صفاتِ ضروری ہیں،اسی طرح احسان کے مکمل ہونے کے لئے ہادی ہونا ضروری ہے اور خدا ہادی ہے،وہ ہادی بھیجتا بھی ہے اور خود بھی رہنما کی صورت اختیارکرتا ہے اور انسان کے آگے آگے چلتا ہے حتّٰی کہ اسے وہ مقام حاصل ہوجاتا ہے کہ جس کے پانے سے وہ دوسروں سے ممتاز نظر آنے لگ جاتا ہے اور ثابت ہو جاتا ہے کہ اُسے دوسری مخلوق سے کچھ امتیاز حاصل تھا اور وہ اپنے اندر کچھ الوہیت کی صفات بھی رکھتا ہے۔
ہدایت کا ظاہری نمونہ زبان ہے ۔زبان کی گفتگو سے انسان دوسرے کو ہدایت دیتا ہے اور اس کی تکمیل کے لئے حرکت کی ضرورت ہے۔عربی میں ہدایت کے تین معنے ہیں۔رستہ بتانا، رستہ دکھانا۔اور رستہ پر لیتے چلے جانا۔۱؎کبھی کوئی شخص تم سے رستہ پوچھتا ہے تم کسی کام میں مشغول ہوتے ہو یا طبیعت میں بخل کا مادہ ہوتا ہے یا احسان کامادہ نہیں ہوتا۔تم ہل چلا رہے ہوتے ہو یا لکڑیاں کاٹتے ہو تو وہیں سے منہ اٹھا کر کہہ دیتے ہو کہ اس طرف چلے جاؤ آگے دو رستے ہوں گے وہاں سے اس طرف ہو جانا۔تم اسے رستہ تو بتا دیتے ہو مگر اپنی جگہ سے ہلتے نہیں ہو۔اس سے ایک اجنبی آدمی جسے رستہ پانے کی مشکلات ہونگی اور جو اس علاقہ کا واقف نہ ہوگا اس کے دل کی گھبراہٹ دور نہ ہو سکے گی گو وہ تمہارا ممنون ہوگا اسے خدشہ ہوگا کہ شاید کہیں بھول جاؤںاور وہ تسلی کے لئے بعد میں اگر کوئی اور شخص اسے ملے تو وہ اس سے بھی پوچھتا ہے کہ فلاں مقام کو کونسا رستہ جاتا ہے۔لیکن اگر تمہارے اندر احسان کا مادہ زیادہ ہے یاتمہیں فرصت ہے اورنیکی کی طرف تمہاری طبیعت راغب ہے تو تم اسے کہتے ہو کہ بھائی جی آؤ میں رستہ دکھاؤں اور اس کے ساتھ جا کر عین اس جگہ اسے چھوڑ آتے ہو جہاں سے دھوکا لگ سکتا تھا اور پھر اسے بتا دیتے ہو کہ سیدھے چلے جاؤ لیکن اگر منزل دور اور رستہ پیچیدہ ہے تو کچھ دور تک جا کر اسے پھر مشکل پیدا ہوگی اور وہ پھر پوچھے گا۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ اگر تمہیں مقدرت اور توفیق ہے طبیعت میں نیکی اور احسان کا مادہ بہت زیادہ ہے تو تم اس کے ساتھ ہو جاتے ہو اور گھر پہنچا آتے ہو اور دکھا آتے ہو کہ یہ جگہ ہے۔مجھے یاد ہے جب ہم ولائت گئے تو ہم ایسی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے جہاں سے مسجد احمدیہ دس بارہ میل تھی۔منتظمین کو بھی اس کا خیال نہ آیا کہ ممکن ہے ان کو یہاں پہنچنے میں دقّت ہو۔چنانچہ پہلی دفعہ جب ہم مسجد کی طرف چلے تو اتفاق کی بات ہے کہ ٹیکسی والا بھی وہ ملا جو لنڈن کا نہیں بلکہ اَور علاقہ کا رہنے والا تھا اور بڑے بڑے رستوں کے سِوا چھوٹی گلیوں کا واقف نہ تھا۔لنڈن کے رہنے والے ڈرائیور تو عام طور پر واقف ہوتے ہیں لیکن وہ نہ تھا اس لئے بڑی بڑی گلیوں تک وہ آگیا لیکن جب مسجد دو تین میل کے فاصلہ پر رہ گئی تو وہ رستہ بھول گیا اب ادھر مسجد میں ہمارا انتظار ہو رہا تھا اور ادھر ہم اِدھر اُدھر چکر لگا رہے تھے۔کئی جگہ سے پوچھا مگر رستہ نہ ملا۔ایک جگہ ایک شخص موٹر میں بیٹھا تھا اور اس کے پاس ایک شخص موٹرسائیکل پر سوار کھڑا اس سے باتیں کر رہا تھا۔ٹیکسی کھڑی کر کے ڈرائیور نے اس موٹر والے سے رستہ دریافت کیا لیکن اسے معلوم نہ تھا موٹر سائیکل والا جانتا تھا اس لئے اس نے اسے تفصیل کے ساتھ رستہ بتایا۔مگر ڈرائیور چونکہ ناواقف تھا اس نے پھر جرح کی اور وہ سمجھ گیا کہ یہ لنڈن کا رہنے والا نہیں معلوم ہوتا ہے اسے موٹر والے سے کوئی ضروری کام تھا کیونکہ اس نے اس سے کہا کہ آپ میرا انتظار کریں میں رستہ بتا آؤں۔چنانچہ وہ دو تین میل تک ہمارے ساتھ آیا اور مسجد کے سامنے پہنچ کر اس نے بتایا کہ یہ ہے۔تو تیسری شق اس کی یہ ہے کہ منزلِ مقصود پر پہنچا دیا جائے۔پہلی شق میں تو صرف زبان ہی کام کرتی ہے مگر دوسری اور تیسری میں صرف زبان کام نہیں دے سکتی بلکہ اس کے ساتھ حرکت کی قابلیت بھی ضروری ہے۔اگر پاؤں نہ ہوں تو صرف پہلی قسم ہدایت کی ہی ہے جو ہم اختیار کر سکتے ہیں۔یہ نہیں کر سکتے کہ رستہ دکھاویں۔یا رستہ پر لیتے چلیں کیونکہ ان دونوں شقوں کے لئے حرکت کی قابلیت درکار ہے جو انسان کے اندر لاتوں کے ساتھ ہوتی ہے۔
یہ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بغیر فضل کی تکمیل نہیں ہو سکتی اور یہ اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔وہ سمیع ہے یعنی سنتا ہے مگر کانوں سے نہیں،وہ بصیر ہے یعنی دیکھتا ہے مگر آنکھوں سے نہیں، وہ متکلم ہے یعنی بولتا ہے مگر زبان سے نہیں،وہ حرکت کرتا ہے مگر پاؤں سے نہیں، وہ پکڑتا ہے اور دیتا ہے گرفت کی طاقت رکھتا ہے مگر ہاتھوں سے نہیں۔وہ اگر سننے والا نہ ہوتا تو فریاد کس طرح سنتا،وہ اگر دیکھنے والا نہ ہوتا تو جمادات اور حیوانات کی حالت سے کس طرح آگاہ ہوتا، اگر بولنے والانہ ہوتا تو ہدایت کس طرح دیتا،اگر چلنے والا نہ ہوتاتو ہدایت کے مقام پر کس طرح پہنچاتا،اگر اس کے ہاتھ نہ ہوتے تو وہ مشکل کے وقت مدد کس طرح کرتا۔جب ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ ہیں تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ تمام وہ کام کر دیتا ہے جس کے لئے انسان کو ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے یہی وہ صفات الوہیت کی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ مخلوق کے ساتھ تعلق پیدا کر دیتا ہے اور یہ سب کامل طور پر انسان میں ہی پائی جاتی ہیں۔باقی حیوانات میں سے بعض چلتے ہیں لیکن ان کے ہاتھ انسان کی طرح نہیں ہوتے۔ جیسے بعض بندر، پکڑتے ہیں اوراس طرح کہا جا سکتاہے کہ ان کے ہاتھ ہیں مگر ان کی زبان نہیں وہ چیز کو پکڑ تو لیں گے مگر اپنے خیالات تفصیلی طور پر بیان نہیں کر سکتے۔یہ سب باتیں انسان ہی میں پائی جاتی ہیں تا وہ الوہیت کا مرکز ہو جائے اور جس طرح خدا تعالیٰ اپنی قوتوں کو ظاہر کرتا ہے،یہ بھی کرے۔ورنہ تھوڑی تھوڑی یہ طاقتیں تو سب میںہیں۔قرآن کریم نے سب سے پہلے بتایاکہ نباتات میں حِسّ ہے اور اب سائنس نے بھی اس کو تسلیم کر لیا ہے۔قرآن کریم ہی سب سے پہلا کلام ہے جس نے یہ بتایا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے ہوتے ہیں ۲؎اور جوڑا ہونے کے یہ معنی ہیں کہ حِس موجود ہے۔ قرآن کریم نے ہر چیز کا جوڑا بتایا ہے گویا نہ صرف نباتات بلکہ جمادات میں بھی حِس ہے۔اور اب سائنس کے بعض ماہرین اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں اور بعض دھاتوں کے متعلق وہ مانتے ہیں کہ ان میں حِسّ ہوتی ہے۔مثلاً ٹین کے متعلق مجھے یاد ہے میں نے پڑھاہے کہ اس میں حِسّکا ہونا تسلیم کیا گیاہے۔امید ہے کہ دنیا آہستہ آہستہ ان علوم کو پالے گی۔ تو بیرونی حواس کامل طور پر انسان میں پائے جاتے ہیں اور اگر غور سے دیکھیں تو اندرونی حصے بھی بیرونی میں موجود ہیں۔جب ہم کہتے ہیں کہ تبلیغ کرو،چندہ دو یا بنی نوع انسان کی خدمت کرو تو سارا زور ہمارا ان صفات کے متعلق ہوتا ہے جو الوہیت کی ہیں یہ سارے کام اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ چندے دو تو گویا ہم یہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی صفتِ رزاق کے مظہر بنو اور جب کہتے ہیں تبلیغ کرو تو منشاء یہ ہوتا ہے کہ ہادی بن جاؤ،جب کہتے ہیںلوگوں کی خدمت کرو تو رحمٰن اور رحیم بناتے ہیں یہ سارے کام الوہیت کے ہیں اور یہ سب اچھے کام ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہے کہ ہمارے یہ سارے کام الوہیت کے ہوں اور اپنے مقام کو ہم بھول ہی جائیں ہمیں یہ کبھی یاد بھی نہ آئے کہ ہم مخلوق ہیں۔خدا تعالیٰ خالق اور إِلٰہ ہے اس لحاظ سے اس کی ذاتی صفات ازلی طور پر کامل ہیں اور ان کی تکمیل کا بار اس پر نہیں لیکن ہم تو مخلوق ہیں اس لئے اپنی تکمیل کی طرف بھی ہماری توجہ ہونی چاہئے۔خدا تعالیٰ تو آپ ہی آپ کامل ہے اسے تو یہ ضرورت نہیں کہ کہے میرے اندر کی فلاں چیز خراب ہے اسے درست کروں۔وہ ازلی طور پر کامل ہے۔لیکن ہمارے اندر تو مخلوق کی صفات بھی ہیں اور مخلوق کا انجن بگڑتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندرونی حصوں کے مقابلہ پر بعض بیرونی حصے ایسے رکھے ہیں کہ جن سے یہ علم ہوتا ہے کہ جسم کے اندرونی حصہ میں کیا خرابی ہے۔مثلاً ہماری زبان ہے یہ میٹھا بھی چکھتی ہے اور کڑوا بھی، تُرش بھی اور نمکین بھی لیکن بعض اوقات یہ آپ ہی آپ ہر چیز کو کڑوا چکھنے لگتی ہے۔یہ حالت بتا تی ہے کہ جسم کے اندر کوئی خرابی ہے اور یہ اندرونی حِسّ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ گویا ہماری زبان صرف باہر کی چیزوں کو ہی نہیں چکھتی بلکہ اندر کی حالت کو بھی محسوس کرتی ہے۔زبان کے یہ مزے اپنی ذات میں بعض قوتوں پر دلالت کرتے ہیں۔اگر یہ مزے قائم نہ رہیں تو ہم دوسرے لوگوں کو مشکلات میں ڈال دیں گے کیونکہ جہاں میٹھا دینے کی ضرورت ہے نمکین دے دیں گے اور جہاں کڑوے کی ضرورت ہو تُرش دے دینگے ۔تو یہ مزے خالی منہ کے مزے نہیں بلکہ انسان کے جسم کی اندرونی حِسّوں سے ان کا تعلق ہے۔ذیابیطس کے مریض کو ہم شکر نہیں دیتے تو کیا اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کے منہ کا ذائقہ خراب ہے۔یہ وجہ نہیں بلکہ اس کی وجہ اس کی اندرونی خرابی ہے یا خون کی خرابی کی صورت میں ہم نمک نہیں دیتے، یانزلہ میں تُرشی سے پرہیز ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ زبان خواہش نہیں کرتی بلکہ زبان تو ایسی حالت میں زیادہ خواہش کرتی ہے ہم اس لئے نہیں دیتے کہ جسم میں ان کی ضرورت نہیں ہوتی۔تو مزے دراصل انسان کی اندرونی قوتوں پر دلالت کرتے ہیں۔یہ بھی رنگوں کی طرح ہیں کبھی ہمیں سرخ رنگ پسند ہوتا ہے اور کبھی سبز۔
اسی طرح ان ذائقوں کا حال ہے۔ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھ کچھ تأثیریں رکھتا ہے۔میٹھا اپنے ساتھ کچھ تاثیریں رکھتا ہے۔جو کبھی اچھی اور کبھی بُری ہوتی ہیں۔اسی طرح کڑواہٹ کی بعض تاثیریں ہیں۔ زبان کے ذائقہ کا کڑوا ہونا بتاتا ہے کہ معدہ میں نقص ہے اور کہ اسے کڑوی چیزوں کی ضرورت ہے۔ڈاکٹری تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کڑوی اشیاء خون کی صفائی اور معدہ کی تقویت کا موجب ہوتی ہیں۔ اسی طرح میٹھا دل کی تقویت کا موجب ہے۔جب ہم کسی چیز کو چکھتے ہیں اور اسے میٹھی پا تے ہیں تو ہمیں خیال ہوتا ہے کہ یہ دل کے لئے مفید ہوگی۔تو اللہ تعالیٰ نے یہ ٹیسٹ (TASTE)بتا دئیے ہیں اور مختلف چیزوں میں مختلف ذائقے رکھ کر ہماری اس طرف راہنمائی کی ہے کہ ہم ان اشیاء کی تأثیروں سے فائدہ اٹھائیں۔ میٹھا کیا ہے یہ گویاایک ٹریکٹ ہے، اشتہار ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ فلاں چیز میں یہ فائدہ ہے۔ کرواہٹ ایک ٹریکٹ ہے جو بتاتا ہے کہ اس چیز میں یہ خاصیت ہے اور ہماری زبان ان ٹریکٹوں کو پڑھنے والی آنکھ ہے۔جس طرح حرفوں کو پڑھنے کے لئے آنکھ میں ڈیلا ہوتا ہے اسی طرح ہماری زبان مختلف اشیاء کی خاصیتوں کو پڑھنے کی آنکھ ہے۔تو یہ خاصیتوں کو بتانے کاذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔زبان کے ذائقوں میں تبدیلی سے ڈاکٹر اور اطباء اندرونی نقائص کا پتہ لگاتے ہیں۔طبیبوں نے اس کے ماتحت انسانی طبائع کو کئی اقسام میںتقسیم کر رکھا ہے۔دموی،بلغمی،سوداوی، صفراوی وغیرہ۔ڈاکٹروں نے ان کے اور نام رکھے ہیں مگر درحقیقت یہ انڈیکس ہیں جو مختصر طور پر انسان کی حالت کو بتاتے ہیں۔آنکھ بیرونی اشیاء کو دیکھتی ہے مگر ساتھ ہی وہ اندر کی حالت کو بھی ظاہر کر رہی ہوتی ہے۔کسی شخص کی آنکھیں سرخ ہوں توہم معلوم کر سکتے ہیں کہ اس کے سر کی طرف دورانِ خون زیادہ ہے۔بعض آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک ہوتی ہے جو بتاتی ہے کہ اس شخص میں سِل کا مادہ ہے۔حضرت خلیفہ اول کی شناخت اس بارے میں قریباً سو فیصد ی درست ہوتی تھی اور ہم جنہوں نے آپ سے طب پڑھی ہے اسے پہچانتے ہیں اور بہت حد تک اس بارہ میں ہماری تشخیص درست ہوتی ہے۔تو آنکھ گو بظاہر بھی دیکھتی ہے مگر اندرونی حالت کا بھی پتہ دیتی ہے۔جس طرح انسان کے ان حصو ں کے سپرد بیرونی طور پر کچھ کام ہیں،کوئی دیکھتا ہے،کوئی سنتا ہے،کوئی سونگھتا ہے،اسی طرح اندرونی طور پر بھی ان چیزوں کے سپرد مختلف کام ہیں اور وہ جسم کے بعض نقائص کو ظاہر کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان کو فہرست مضامین کے طور پر بنایاہے تا ان کو پڑھ کر پتہ لگایا جا سکے کہ اندر کیانقص ہے۔فرق صرف اس قدر ہے کہ کتابوں کی فہرست مضامین تو ہمیشہ یکساں حالت پر رہتی ہے اس میں لکھا ہوتا ہے کہ اس کتاب کے صفحہ۱۹ پر فلاں مضمون ہے۔اب خواہ اس صفحہ کو دیمک چاٹ لے،بیچ میں سے کوئی پھاڑ لے،وہ وہاں رہے یا نہ رہے فہرست میں یہ بات برابر درج رہے گی لیکن یہ ایسی فہرست ہے کہ جو حالات کی تبدیلی کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔انسان کی اندرونی کتاب کا ورق جونہی الٹتا ہے فہرست بھی اس تبدیلی کو بتا دیتی ہے اور پھر یہ پہلے سے انسان کو آگاہ کرتا رہتا ہے کہ یہ خرابی ہونے والی ہے۔انسان امراضِ سینہ کا شکار ہونے والا ہو تو بعض شخصوں پر مہینوں بلکہ سالوں پہلے نزلہ گرنا شروع ہو جاتا ہے جو اسے آئندہ آنے والے خطرہ سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔ایک قطرہ گرتا اور اسے بتاتا ہے کہ اندر کوئی خرابی ہو رہی ہے، دوسرا گرتا ہے اور بتاتا ہے۔اسی طرح اگر جنون ہونا ہو تو بعض لوگوں کے پہلے ہی سے کان بہرے ہونے لگتے ہیں۔اور گھوں گھوں ہوتی رہتی ہے۔انسان سمجھتا ہے کہ کانوں میں خرابی ہے حالانکہ یہ دماغ میں گھوں گھوں ہو رہی ہوتی ہے۔تو یہ سب اعضاء ایسی فہرست ہائے مضامین ہیں جو اندر کا حال بتاتی رہتی ہیں۔طب نے ابھی تک پوری ترقی نہیں کی ورنہ حواسِ خمسہ انسان کے اندر کی سب چیزوں کو دکھا دیتے۔بخار کیا ہے جس طرح باہر کی چیزوں کو چھوکر ہم معلوم کرتے ہیں کہ یہ نرم یا سخت ہے،اسی طرح بخار یہ بتاتا ہے کہ اندر فلاں قسم کی خرابی ہو گئی ہے۔کبھی ٹائیفائڈ اور کبھی ملیریا کبھی کچھ، کبھی کچھ تو مخلوق کے اندرونی حواس بہت اہمیت رکھتے ہیں اس لئے میں جماعت کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اندرونی حواس بھی کچھ کم ذمہ داری والے نہیں ہیں اور ان کی طرف توجہ بھی ضروری ہے۔ہم بیرونی حواس سے تعلق رکھنے والی باتوں پر بہت زور دیتے ہیں۔بیشک ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم دوسروں سے کہیں نماز پڑھو مگر اس کے ساتھ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ دیکھیں کہ ہمارا نفس بھی نماز پڑھتا ہے یا نہیں۔اور دراصل مخلوق کا حصہ تو یہی ہے۔ہم خالقیت کی جو چادر اوڑھتے ہیں وہ تو مانگی ہوئی ہے۔جب ہم دوسرے سے کہتے ہیں کہ نماز پڑھو تو خدا تعالیٰ کا کام کرتے ہیںاور ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ بندہ ہونے کے لحاظ سے جو کام ہمارے ذمہ ہے وہ بھی ہوتا ہے یانہیں۔جو یہ ہے کہ دیکھیں ہمارا نفس بھی نماز پڑھتا ہے یا نہیں۔ہم لوگوں سے کہتے ہیں چندہ دو یا خود دیتے ہیں تو یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔کہ وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌّ۔۳؎اس لئے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ہم اپنے نفس کو بھی چندہ دیتے ہیںیا نہیں۔ظاہر ہے کہ نفس کو ہم روپیہ تو نہیں دے سکتے بیرونی دنیا کا چندہ روپیہ ہے لیکن اندرونی دنیا کا یہ نہیں ہو سکتا۔ اس کا خزانہ دل و دماغ میں ہے اور اس لئے نفس کا چندہ صحیح علم اور صحیح فکر ہے۔جس طرح بیرونی دنیا کی تربیت کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔اندرونی دنیا کے لئے صحیح فکر کی ضرورت ہے۔منافقت بِالعموم صحیح فکر نہ ہونے کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کسی سے دوستی ہوئی اور اس کی نیکی کو دیکھ کر اس سے تعلق پیدا کر لیا اور اس طرح اپنے لئے ایک رستہ مقرر کر لیا جاتا ہے۔اس کے بعد حالات میں خواہ کتنی تبدیلی کیوں نہ پیدا ہو جائے یہ اس رستہ پر ہی چلیں گے۔اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم کسی شخص کو پکڑنے کے لئے دوڑتے ہیں۔وہ شمال کی طرف بھاگ رہا ہے اور اس لئے اس کے پیچھے ہم بھی شمال کی طرف بھاگیں گے لیکن جب وہ اپنا رخ بدل کر مشرق کی طرف بھاگنے لگے تو ہمیں بھی چاہئے کہ اپنا رُخ بدل لیں اور اگر نہ بدلیں گے تو تمام دَوڑدھوپ رائیگاں جائے گی۔تو انسانی حالات بھی بدلتے رہتے ہیں اور جب دوست کی حالت میں تبدیلی ہوگئی تو اسے چاہئے کہ اس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت میں تبدیلی کرے اور اگر یہ نہیں بدلتا تو یہ اس کی بیماری کی علامت ہے۔ منافقت میں ترقی اور منافقت کی ترقی بھی صحیح فکر نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔منافق اس سے فائدہ اٹھاتا اور دوسروں کو بھی اس مرض میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ شکار ایسے ہی لوگ بنتے ہیں جو کسی کو اس کی نیکی کی وجہ سے دوست بناتے ہیں اور پھر کبھی اِس بات پر غور نہیں کرتے کہ اس کی نیکی میں کوئی فرق آیا ہے یا نہیں حالانکہ کسی کے متعلق کبھی یہ اطمینان نہیں ہو سکتا کہ اُس کی حالت یکساں رہے گی۔جس چیز کے متعلق ہم مطمئن ہو سکتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جس کے لئے اس نے فرماد یاہے کہ یہ نہیں بدلتا اور اس کے بغیر اگر کسی کے متعلق کوئی شخص مطمئن ہے تو ہو سکتا ہے کہ ایک دن وہ خود بھی کسی مرض میں مبتلا ہو جائے۔پس نفسِ انسانی کا چندہ صحیح فکر ہے۔ہر چیز کو اس ذریعہ سے دیکھو جو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔تمام علوم کی ترقی صحیح فکر سے ہوتی ہے۔جو لوگ صحیح فکر کے عادی نہیں ہوتے وہ خود بھی گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔کل ہی ایک نوجوان مبلّغ میرے پاس آئے اور کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کریں۔میں نے کہا کہ میری نصیحت یہی ہے کہ صحیح فکر کی عادت ڈالو۔میری ذاتی کوشش یہی ہوتی ہے کہ دشمن کی بات کو یونہی غلط نہ قرار دے دوں بلکہ اگر وہ سچی ہو تو اسے سچی کہوں اور غلط ہو تو اسے غلط اور اس وجہ سے جب میں غور کرتا ہوں تواللہ تعالیٰ مجھے یہ توفیق دیتا ہے کہ اس کی تہہ کو پہنچوں اور بسا اوقات میں دیکھتا ہوں کہ وہ اتنی بُری نہیں ہوتی یا اتنی بے وقوفی کی نہیں ہوتی جتنی بظاہر نظر آتی ہو۔جب میں فلسفیانہ رنگ میں اس پر غور کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کرتا ہوں تو اس کی اہمیت مجھے نظر آجاتی ہے اس لئے میں اسے ٹالنے والا جواب نہیں دیتا بلکہ اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دیتا ہوںاور یہ بات میری علمی ترقی کا موجب ہوتی ہے۔جو شخص دشمن کی بات کو جھوٹا قرار دے کر اس کو ٹال دیتا ہے اس کے لئے قرآن کریم بھی نہیں کھل سکتا اس لئے کہ اس نے سوال کی صورت کو بگاڑ دیا اور بگڑے ہوئے سوالات کا جواب قرآن کریم نہیں دیتا لیکن جب وہ اس پر غور کرتا،سوچتا اور دیکھتا ہے کہ اس کے اندر کیا باریکیاں ہیں اور پھر اگر دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی حصہ ایسا ہے جس کا جواب کوئی نہیں اور وہ سچ ہے تو اسے مان لیتا ہے،تو اس سوال کا جواب اسے ضرور قرآن کریم سے مل جائے گا۔پس صحیح فکر نہایت ضروری چیز ہے۔ اسی سے صحیح ہدایت پیدا ہوتی ہے اور یہی نفس کا چندہ ہے اور جو اس کی عادت نہیں ڈالتا وہ اپنے نفس کو بھوکا مارتا ہے۔
اسی طرح روزہ انسان کے نفس کو ترقی دینے والی چیز ہے اور ہمارا صرف یہ فرض نہیں کہ دوسروں سے کہیں روزے رکھو بلکہ یہ ہے کہ خود بھی رکھیں مگر بہت کم لوگ ہوں گے جو روزے کی فرضیت کے قائل ہوں گے۔تم کہو گے کہ یہ بات صحیح نہیں۔اکثر لوگ اس کی فرضیت کے قائل ہیں لیکن میں پوچھتا ہوں کہ جن لوگوں کے روزے رمضان میں رہ جائیں،ان میں سے کتنے پھر سال کے دوران بقیہ روزے رکھتے ہیں۔یقینا ایک بڑی تعداد نہیں رکھتی۔خصوصاً عورتیں جو رمضان میں خاص ایام یا خاص حالات کی وجہ سے روزے نہیں رکھتیں وہ بہت کم بعد میں ان روزوں کو پورا کرتی ہیں۔بد قسمتی سے مسلمانوں میں یہ خیال ہے کہ روزہ کی فرضیت صرف رمضان میں ہے،حالانکہ یہ صحیح نہیںیہ سارے سال میں ہے۔اور جو لوگ کسی وجہ سے رمضان میں روزے نہ رکھ سکیں ان کو سال کے دوسرے دنوںمیں پورے کرنے چاہئیں لیکن بہت کم لوگ ایسا کرتے ہیںحالانکہ نفس کی اصلاح بہت ضروری ہے۔اور ایک اہم فرض بلکہ عبودیت کے لحاظ سے نہایت ہی اہم فرض ہے۔پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے تبلیغ بہت ضروری چیز ہے مگر یہ الوہیت کا فرض ہے، عبودیت کا فرض وہ ہے جو انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہو مگر لوگ الوہیت کے اس فرض یعنی تبلیغ کو تو ادا کریںگے لیکن عبودیت کا فرض نظر انداز کر دیں گے۔نمازوں میں سُستی کرتے ہیں،ذکرِ الٰہی کا رواج بھی لوگوں میں بہت کم ہے، جو دوست مسجد میں پہلے آجاتے ہیں وہ لغو باتوں میں مصروف رہتے ہیں اور اس طرح مل کر وقت ضائع کرتے ہیں اور اسی کے نہ ہونے سے طبائع میں شوخی ہوتی ہے۔میرا تجربہ ہے کہ ذکرِ الٰہی نفس کی شوخی کو دور کرتا ہے اور اس کی کثرت تمسخر اور استہزاء سے بچاتی ہے۔بعض لوگوں میں یہ عادتِ بد ہوتی ہے کہ وہ تمسخر کے رنگ میں قرآن کریم کی کوئی آیت پڑھ دیتے ہیں۔یا دین کے کسی معاملہ میں ہنسی کر دیتے ہیں،یا کسی بزرگِ دین کے ذکر پر استہزاء سے کام لیتے ہیں یہ سب باتیں ذکرِ الٰہی کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں اور منافقت کی بنیاد ہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۴؎ذکرِ الٰہی انسان کے اندر بری باتوں سے ڈر پیدا کرتا ہے ذکرِ الٰہی کرنے والا ہمیشہ بیہودہ اور لغو مذاق سے بچتا ہے۔
پس آج میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوںکہ ہمیں نہ صرف الوہیت کے بلکہ وہ فرائض بھی ادا کرنے کا پورا پورا احساس ہونا چاہئے جو مخلوق ہونے کی حیثیت میں ہم پر عائد ہوتے ہیں۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے مرکب بنایا ہے اس پر ربوبیت کی چادر بھی ڈالی گئی ہے اور یہ مخلوق بھی ہے ربوبیت کی چادر اسے اعلیٰ کمالات پر لے جانے کے لئے ہے لیکن جب تک نقائص دور نہ ہوں،ترقی ممکن نہیں۔اعلیٰ مقام پر پہنچنا کیسے ہو سکتا ہے۔تم مِیلوں لمبا غبارہ بنا دو اور اس میں گیس بھی بھر دو لیکن اس میںدو چھوٹے چھوٹے سوراخ بھی اگر کردو تو وہ اوپر نہیں جا سکے گا۔اسی طرح جس شخص کی ذات میں کمزوریاں اور نقائص ہیں،وہ تو چھاج ہے،غربال ۵؎ہے جس میں سے روحانیت نکل جائے گی۔روحانی چیزیں تو ایسی باریک اور لطیف ہوتی ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹے سوراخ سے بھی بہہ جاتی ہیں۔
پس جب تک ان سوراخوں کو بندنہ کیا جائے کوئی فائدہ نہیں۔مخلوق ہونے کے لحاظ سے جو باتیں ہم پر فرض ہیں تکمیل کے لئے ان کا پورا کرنا بھی اشد ضروری ہے۔بیہودہ ہنسی مخول اور نمازوں میں سستی کو ترک کر دو ،پابندی کے ساتھ نمازیں پڑھو،ذکر الٰہی کرو،روزے باقاعدہ رکھو،پھر طوعی روزے بھی رکھو،اپنے نفس کی اصلاح کے لئے جاگنے کی عادت ڈالو اور اس پر بوجھ ڈالو۔ان باتوں سے صحیح تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور پھر اس سے ترقی کر کے ربوبیت کا مقام آتا ہے اور یہی صحیح طریق ترقی کرنے کا ہے۔ورنہ جو شخص سوراخ بندکرنے کے بغیر غبارہ میں گیس بھرتا ہے وہ اسے بلندی پر پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا کیونکہ اس کی گیس باہر نکل جائے گی۔پس ان دونوں حصوں کو مکمل کرو تا تمہارا نفس مکمل ہو اور تا تمہیں روحانی گیس اوپر اٹھاسکے۔اسی کی طرف قرآن کریم نے اشارہ فرمایا ہے کہ ۶؎ عمل صالح یعنی بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے والی نیکیاں اسے اوپر اٹھاتی ہیں اور گیس کا کام دیتی ہیں جو عمل بیرونی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں وہ الوہیت کا چندہ ہیں اورجو اپنی ذات کے لئے ہیں وہ نفس کا چندہ ہیں اور جب تک یہ دونوں حواس مکمل نہ ہوں ترقی نہیں ہو سکتی۔بعض لوگوں کی آنکھیں بیمار ہوتی ہیں وہ دیکھ تو سکتی ہیں مگر رنگوں میں امتیاز نہیں کر سکتیں۔ریلوے کے امتحانات کے وقت یہ امر خاص طور پر دیکھا جاتا ہے کہ رنگ صحیح نظر آتا ہے یا نہیں۔پہلے تو اس بیماری کا علم ہی نہ تھا یا علم تو تھا مگر یہ علم نہ تھا کہ کثرت سے لوگ اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔جب سے ریلوے کے امتحانات شروع ہوئے ہیں اس کی اہمیت ظاہر ہو گئی ہے۔ریلوے میں اس کاخاص خیال رکھا جاتا ہے۔تا ایسا نہ ہو کہ سرخ جھنڈی دکھائی جائے اور وہ اسے سبز سمجھ لے اور اس طرح گاڑی کو ہی کہیںٹکرا دے۔چنانچہ ان امتحانوں کے بعد پتہ لگا ہے۔کہ ایک خاصی تعداد لوگوں کی ایسی ہے جو رنگوں کے پہچاننے میں غلطی کر جاتی ہے۔اس طرح بعض دفعہ کانوں میں نقص ہوجاتا ہے۔ کسی اندرونی نقص کی وجہ سے حِسّکمزور ہو جاتی ہے اور انسان کا جسم بیمار ہوتا ہے۔پس ان دونوں حِسّوں کی درستی جس طرح ظاہری جسم کے لئے ضروری ہے اسی طرح روحانی جسم کے لئے بھی ضروری ہے۔جیسا کہ میں نے بتایا ہے بیرونی حواس الوہیت والے افعال ہیں ان سے انسان کبھی رحمٰن بنتا ہے،کبھی رحیم، کبھی مالک۔ بعض صفات اللہ تعالیٰ کی ایسی ہیں جو اپنی ذات میں مکمل ہیں۔جیسے اللہ تعالیٰ محی ہے اس کے زندہ ہونے کا مخلوق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔اَور بھی ایسی صفات ہیں جن کی حقیقت انسان پر نہیں کھولی جاتی اس لئے کہ ان کاواسطہ انسان کے ساتھ نہیں ہوتا ۔ان کو قرآن کریم نے مجمل الفاظ میں یہ کہہ کر بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پر استویٰ کیا۔اس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ ایسی بالا طاقت ہے کہ اس حد تک ہی انسان کی نظر جاسکتی ہے اس سے اوپر نہیں۔عرش ایک واسطہ ہے جس طرح انسان مخلوق اور خداتعالیٰ کے درمیان واسطہ ہے اسی طرح عرش واسطہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات اور افادہ والی صفات کے درمیان۔ وہ جو صفات ہیں۔ان کا رحمانیت اور رحیمیت کے ساتھ کیا تعلق ہے۔اللہ تعالیٰ کس طرح ازلی ابدی ہے۔یہ ایسی باتیں ہیں جن کو انسان سمجھ نہیں سکتا۔اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات کا علم نہ انسان کو ہے نہ ہو سکتا ہے۔ہاں جو بندوں سے تعلق رکھتی ہیں ان کا مظہر انسان کو بنایا گیا ہے اور تکمیل کے لئے ہم سے دونوں باتوں کی امید رکھی گئی ہے۔ یعنی اپنی ذات کو بھی نقائص سے پاک کیا جائے اور دوسروں کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک کرنے والے ہوں۔چندہ دینا،تبلیغ کرنا،یہ ایسی نیکیاں ہیں جو الوہیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور نمازوں کو سنوار کر پڑھنا،ذکر الٰہی کرنا،ہنسی ٹھٹھے سے بچنا،روزہ رکھنا،حج کرنا یہ ایسی نیکیاں ہیں جو نفسِ انسانی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور ان کی تکمیل کئے بغیر انسان کبھی اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچ سکتا اور یہ ایسی عبادات ہیں جن میں دوسروں کا کوئی فائدہ نہیں۔
فکر کی صحت، خیالات کی پاکیزگی وغیرہ باتوں کی طرف بھی دوستوں کو ایسی ہی توجہ کرنی چاہئے جیسی چندہ کی طرف۔ جو شخص صرف ان باتوں کی طرف توجہ رکھتا ہے جو دوسروں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور اندرونی اصلاح کافکر نہیں کرتا۔اس کی مثال اس شخص کی ہے جو دوسرے کے گھر کی حفاظت کے لئے تو جائے مگر اپنے گھر کی فکر نہ کرے۔دوسرے کے گھر کی حفاظت بھی اچھی بات ہے لیکن اپنے گھر کو تباہ کر لینا بھی درست نہیں۔اگر انسان کا اپنا نفس خراب رہے اور بیرونی دنیا اچھی ہو جائے تو اسے کیا۔جب نفس کی حالت درست نہ ہو تو سب سے پہلے اسے درست کرنا چاہئے اور پھر دوسروں کی اصلاح سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر تمہارے اندرالوہیت کا جلوہ نہیں یعنے تم دوسروں کو نہیں بچا سکتے یا دوسروں کا خیال تو رکھتے ہو لیکن تمہارا اپنا نفس تباہی کی طرف جا رہا ہے تو تمہارا وجود ایک کافر کے وجود کی طرح ہے جو نہ اپنے کام آسکتا ہے اور نہ دوسروں کے۔مؤمن وہی ہے جو اپنی جان کو بھی بچا تا ہے اوردوسروں کو بھی۔وہ الوہیت کا بھی مظہر ہوتا ہے اور عبودیت کا بھی۔یہی اصل غرض ہے دنیا کے پیدا کرنے کی کہ ایسی مخلوق پیدا کی جائے جو ایک طرف خدا تعالیٰ کی مظہر ہو اور دوسری طرف عبودیت کی۔خدا تعالیٰ اپنی باریک مصلحتوں کے ماتحت چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق میں سے کچھ ایسے بھی ہوں جو الوہیت کی چادر اوڑھنے والے ہوں اور دوسری طرف مخلوق کا بھی کامل مظہر ہوں۔
پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس امر کی طرف خصوصیت سے توجہ کریں کہ خالی چندے دے دینا یا تبلیغ کر دینا کافی نہیں۔ہنسی اور ٹھٹھے کی عادت چھوڑ دو،نماز اور روزہ کو باقاعدگی کے ساتھ ادا کرو،جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے ان کے لئے حج بھی ضروری ہے۔بیسیوں ایسے ہیں جن کو حج کی توفیق ہے مگر وہ خیال نہیں کرتے۔ کئی ملازم ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پنشن لے کر حج کو جائیں گے لیکن یہ خیال نہیں کرتے کہ پنشن پانے کے بعد زندگی پائیں گے بھی یا نہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ پنشن کے بعد ایسے بیمار پڑتے ہیںکہ اس قابل ہی نہیں رہتے۔یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو سزا دے گا۔اپنی نیت کا بدلہ وہ ضرور پائیں گے مگر ترقیات سے محروم تو رہ ہی جائیں گے۔پنشن تو گورنمنٹ اسی وقت دیتی ہے جب اچھی طرح نچوڑ لیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اب ہمارے کام کا نہیں رہا۔پھر بعض لوگ کاروبار کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگلے سال جائیں گے، پھر اس سے اگلے سال کا ارادہ کر لیتے ہیںحالانکہ دنیا کے کام تو ختم ہوتے ہی نہیں۔اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہو تو کر ہی لینا چاہئے۔میں جب تعلیم کے لئے مصر گیا تو ارادہ تھا کہ حج بھی کرتا آؤں گامگر یہ پختہ ارادہ نہ تھاکہ اسی سال حج کروں گا۔یہ بھی خیال آتا تھاکہ واپسی پر حج کر لوں گا جب میں ممبئی پہنچا تو وہاں نانا جان صاحب مرحوم بھی آملے وہ براہِ راست حج کو جارہے تھے اس پر میرا بھی ارادہ پختہ ہوگیا کہ اسی سال ان کے ساتھ حج کرلوں۔جب پورٹ سعید پہنچے تو میں نے رؤیا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور وہ فرماتے ہیں کہ اگر حج کی نیت ہے تو کل ہی جہاز میں سوار ہو جاؤکیونکہ یہ آخری جہاز ہے۔ گو حج میں ابھی دس پندرہ روز کا وقفہ تھا مگر فاصلہ بھی وہاں سے قریب ہے اس لئے خیال کیا جاتا تھا کہ ابھی کئی جہاز حاجیوں کے مصرسے جدہ جائیں گے۔میرے ساتھ عبدالحئی صاحب عرب بھی تھے وہ اس بات پرزور دیتے تھے کہ اگلے جہاز پر چلے جائیں گے مگر مجھے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اگر نیت ہے تو اسی جہاز سے جاؤ ورنہ جہازوں میں روک پیدا ہوجائے گی اس لئے میںنے پختہ ارادہ کر لیا۔وہاں جوایک دو اصحاب واقف ہوئے تھے وہ بھی کہنے لگے کہ ابھی تو کئی جہازجائیں گے قاہرہ اور اسکندریہ وغیرہ دیکھتے جائیں اتنی دور آکر ان کو دیکھے بغیر چلے جانا مناسب نہیں مگر میں نے کہا کہ مجھے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ کل نہ جانے سے حج سے رہ جانے کا خطرہ ہے اس لئے میں تو ضرور جاؤں گا۔چنانچہ اس جہازران کمپنی سے گورنمنٹ کا کوئی جھگڑا تھا اور اس نے ایسی صورت اختیار کر لی کہ وہ جہاز آخری ثابت ہؤا اور کمپنی والے اس سال اور جہاز حاجیوں کے نہ لے گئے۔حج کے بعد جب میری نیت ہوئی کہ مصر چل کر عربی پڑھوںتو لوگوں نے مجھے بتایا کہ قانون کے مطابق اب تین ماہ تک آپ مصر میں داخل نہیں ہوسکتے۔اتنے میں مکہ میں ایسا ہیضہ پھیلاکہ ایسا نظارہ بہت کم لوگوں نے دیکھا ہوگا۔انتہاء درجہ کی تباہی ہوئی۔میں نے انفلوئنزا کی تباہی بھی دیکھی ہے۔ آپ بھی کئی بار بیمار ہؤا ہوں مگر ایسا تکلیف دہ نظارہ کبھی نہیں دیکھا۔ہاں تو مکّہ پہنچ کر اس خیال سے کہ یہ مواقع کہاں ملتے ہیںمیں نے وہاں تبلیغ شروع کر دی۔ مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی بھی وہاں تھے مجھے اطلاع ملی کہ وہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھ مباحثہ کیا جائے۔ہمارے ایک رشتہ دار تھے جو نانا جان مرحوم کی ہمشیرہ کے بیٹے تھے اور اس لحاظ سے ہمارے ماموں تھے وہ بھی اہلحدیث خیال کے تھے اور مولوی ابراہیم صاحب کے مداحوں میں سے تھے۔وہ بھی کوشش کرتے تھے کہ مناظرہ ہو جائے۔ان کا خیال تھا کہ یہاں باقاعدہ حکومت کوئی نہیں اگر مباحثہ ہؤا تو لوگ انہیں مارڈالیں گے اور اس طرح ایک کانٹا نکل جائے گا لیکن وہاں اہلحدیثوں کو لوگ سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔جب مولوی ابراہیم صاحب کی آمد کا چرچا ہؤا توانہیں خود وہاں سے جلد بھاگنا پڑا۔شریف کے بیٹوں کے ایک استاد تھے جن کا نام عبد الستار تھا بہت شریف آدمی تھے۔میں ان سے ملا تو انہوں نے بتایا کہ میں خود بھی اہلحدیث ہوں اور یہ تعلیم کا کام میں اس لئے کرتا ہوں کہ چھُپا رہوں اس پوزیشن میں ہونے کی وجہ سے میرے خلاف کوئی شخص شرارت کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔میری باتیں سن کر کہنے لگے کہ باتیں تو بہت معقول ہیں لیکن میرے سوا کسی اور سے یہ نہ کریں ورنہ آپ کی جان کی خیر نہیں۔میں نے ان سے کہا کہ آپ کسی کے ساتھ یہ باتیں کرنے میں ہمارے لئے زیادہ خطرہ سمجھتے ہیںاور اس لئے چاہتے ہیں کہ اس سے ہرگز یہ باتیں نہ کریں۔وہ کہنے لگے کہ فلاں شخص سے ہرگز نہ کرنا۔میں نے کہا کہ اسے مَیں تو پورا ایک گھنٹہ تبلیغ کر کے آیا ہوں۔پوچھنے لگے۔پھر کیا ہؤا میں نے کہا کہ میں تبلیغ کرتا رہا اور وہ غصہ کا اظہار کرتا رہا۔کبھی کبھی جوش میں آکر یہ بھی کہہ دیتا کہ افسوس نہ ہوئی تلوار ورنہ سر اُڑا دیتا۔اپنے جس رشتہ دار کا میں نے ذکر کیا وہ خوب شور مچاتے پھرتے تھے کہ یہ واجبُ القتل ہیں۔یہ بھوپال کے رہنے والے تھے۔ان کے ساتھ وہاں کے ایک او رشخص بھی جو بھوپال ہی کے رہنے والے اور نواب صدیق حسن خاں کے نواسے تھے شامل تھے۔لیکن اُدھر حج ختم ہؤا اور اِدھر ہیضہ پھُوٹ پڑا۔ہمارا بھی ارادہ ہوگیا کہ جدہ چلے جائیںاور آخری ملاقات کے لئے ان سے ملنے کے لئے گئے۔جب مکان پر پہنچے تو کیا دیکھا کہ مکان پر لوگ جمع ہیں،غسل وغیرہ کا سامان ہو رہا ہے،افسردگی طاری ہے،پتہ کیا کہ کیا بات ہے تو معلوم ہؤا کہ ان کو ہیضہ ہؤا اور فوت ہوگئے۔ اورانہی دنوں ایک اور دوست سے ملنے گئے تو میں نے دیکھا کہ ایک ہندوستانی کو بعض لوگ کوٹھے سے اٹھا کر نیچے گلی میں چھوڑ گئے۔وہ تڑپ رہا تھا اس نے بتایا کہ میرے پاس کچھ روپیہ تھا جو ان لوگوں نے نکال لیا اور مجھے یہاں پھینک گئے ہیں۔جہاں تک یاد ہے تھوڑی ہی دیر میں فوت ہو گیا۔میں نے خود لاشوں کو کُتّوں کو چاٹتے دیکھا ہے۔غرض کہ ایسی تباہی تھی جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔تو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے حج کرانا تھا اس لئے یہ موقع مل گیا۔اِدھر ہیضہ پھوٹااور اُدھر مصر جانے میں رُکاوٹ پیدا ہو گئی۔اس پر میں نے واپسی کا ارادہ کر لیا۔جدہ کے انگریزی قونصل خانہ میں بھی ہمارے ننھیال کے ایک رشتہ دار میر منشی تھے۔بھوپال کے جس رشتہ دار کا میں نے ذکر کیا ہے وہ تو نانا جان مرحوم کے رشتہ داروں میں تھے اور یہ نانی اماں صاحبہ مرحومہ کے رشتہ داروں میں تھے۔یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہمارے جتنے رشتہ دار نانا جان مرحوم کی طرف سے تھے۔ وہ بِالعموم مخالف تھے اور جتنے نانی اماں صاحبہ کی طرف سے تھے وہ بِالعموم محبت کرنے والے تھے یہ غالباً ان کی خالہ کے لڑکے تھے اور بہت محبت کرتے تھے۔جہاز چونکہ کم تھے اور لوگ جلدی واپس ہونا چاہتے تھے اس لئے ٹکٹ ملنے میں سخت دشواری تھی۔ہم جب جدہ پہنچے تو ان سے کہا کہ جلد ٹکٹوں کا انتظام کر دیں تا پہلے جہاز میں واپس ہو سکیں۔انہوں نے جہاز ران کمپنی کے دفتر میں بٹھا دیا یہ کمرہ بہت اونچا تھا۔اتنے میں ایک دبلا پتلا آدمی نیچے آیا۔میں کھڑکی میں بیٹھا تھا اور وہاں ہاتھ بمشکل اونچا کر کے پہنچ سکتا تھا ہجوم اور شور بہت تھا اور ہر طرف سے ٹکٹ ٹکٹ کا شور بلند ہو رہا تھا مگر وہ مجمع کو چِیرتا پھاندتا کھڑکی کے نیچے پہنچا اس نے خیال کیا کہ شاید میں کمپنی کا ملازم ہوں۔مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کمپنی میںکام کرتے ہیں ۔میں نے کہا میں تو مسافر ہوںتو پھر آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔میں نے کہا میرے ایک عزیز یہاں بٹھا گئے ہیں اور ٹکٹوں کی خرید کا انتظام کر رہے ہیں۔اس پر وہ کہنے لگے کہ ہمارا چالیس،پینتالیس عورت اور مردوں کا قافلہ ہے،بڑی مصیبت کا سامنا ہے مگر ہمیں سب سے زیادہ فکر عورتوں کی ہے۔اگر آپ دس بارہ ٹکٹ خرید دیں تو ہم عورتوں کو یہاں سے نکال دیں اور مردوں کے ساتھ جو گزرے گی کاٹیں گے۔میںنے کہا کہ عورتیں اکیلی کس طرح جائیں گی۔اس پر وہ کہنے لگا کہ اگر دوچار اور ٹکٹ لے دیں تو کچھ مرد بھی ان کے ساتھ جا سکیں گے اور آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ہمارے وہ جو رشتہ دار تھے ہم انہیں ماموں کہا کرتے تھے۔میں نے ان سے کہا کہ ماموں ان لوگوں کی حالت قابلِ رحم ہے آپ ان کو بھی ٹکٹ لا دیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بہت مشکل ہے مگر میں نے اصرار کیا کہ وہ ضرور لادیں اور میری خاطر لادیں وہ گئے اور سترہ ٹکٹ لا کر دیئے میں نے وہ ٹکٹ کھڑکی میں سے انہیں پکڑا دیئے اور انہوں نے کھڑکی میں سے روپیہ پکڑا دیا۔جب ہم جہاز پر سوار ہونے کے لئے گئے تو وہ دروازہ پر ملے بہت ممنونیت کا اظہار کیا اور بڑی تعریف کی اور جب میں نے ان کی تعریف پوچھی تو معلوم ہؤا کہ یہ وہ دوسرے شخص تھے جنہوں نے ہمیں مروانے کی کوشش کی تھی اور جو کہتے تھے کہ ان کا یہاں آنے کا کیا حق ہے اس پر وہ بھی بہت شرمندہ ہوئے۔
غرضیکہ ہم حج کر کے واپس ہندوستان آگئے۔مصر جانا محض ایک بہانا ہی ہؤا اور اگر اس وقت حج نہ ہو جاتا تو اب جس قسم کے انتظامات کی ضرورت ہے نہ اتنا روپیہ ہوتا کہ یہ انتظامات ہو سکتے اور نہ حج ہوتا اور اب تو ممکن ہے اس ملک کی حکومت ہی اجازت نہ دے۔تو کئی لوگ خواہش تو رکھتے ہیں مگر وقت پر اسے پورا نہیں کرتے اور اس طرح ان کا نفس لنگڑا ہی رہ جاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے کہ وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌّ َّ وہ اس کی تعمیل نہیں کر سکتے۔بہت لوگ گناہوں میں اس لئے مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ان کے نفس میں قوت پیدا نہیں ہوئی ہوتی وہ الوہیت کے کام کرتے ہیں مگر اپنے نفس کو بھُول جاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایسے گڑھے میں گرتے ہیں کہ نکلا نہیں جاتا۔میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں توفیق دے کہ ہم خالق کے بھی اور مخلوق کے بھی کامل مظہر بن سکیں۔آمین‘‘(الفضل۲۵؍اگست۱۹۳۸ئ)
۱؎ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ ۱۳۸۰ ۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ئ
۲؎ (الذّٰریٰت:۵۰)
۳؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۲۰۰ ۔ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۴؎ الزمر: ۲۴
۵؎ غربال: چھاج۔ پیٹ کا ہلکا۔ کم ظرف ۶؎ فاطر: ۱۱

۲۷
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک واضح پیشگوئی
اور اس کا ظہور
(فرمودہ ۱۹؍اگست ۱۹۳۸ئ) ٭
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب کوئی شخص ایک صداقت پر اعتراض کرتا ہے تو وہ لازماً آہستہ آہستہ دوسری صداقتوں پر بھی اعتراض کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جس قدر اعتراضا ت لوگوں نے کئے وہ سارے ایسے ہی تھے جو دوسرے انبیاء پر بھی پڑتے تھے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مثال دیتے اور فرماتے کہ دیکھو یہ اعتراض تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پڑتا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی پڑتا ہے یا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر پڑتا ہے۔تو وہ لوگ گالیوں پر اترآتے اور کہتے کہ آپ انبیاء کی ہتک کرتے ہیں حالانکہ جب ایک شخص ایک صداقت کا مدعی ہے اور وہ اپنے آپ کو اس کی کڑی کے طور پر پیش کرتا ہے تو لازماً اسے دوسروں کی مثالوں کو پیش کرنا پڑتا ہے کیونکہ اگر اس کا فعل قابلِ اعتراض ہوگا تو دوسروں کے افعال کو بھی قابلِ اعتراض قرار دینا پڑے گا اور اگر دوسروں کے افعال کو درست سمجھا جائے گا تو اس کے کسی ویسے ہی فعل پر اعتراض کرنا بھی ناجائز ہوگا۔بہر حال جن اصول کو وہاں تسلیم کیا جائے گا ان اصول کو یہاں بھی تسلیم کیا جائے گا مگر ان کا جواب یہ ہوتا کہ عوام الناس کو بھڑکادیتے اور کہتے مرزا صاحب انبیاء کی ہتک کرتے ہیں۔آتھم کا جن دنوں مباحثہ تھا عیسائی ایک دن شرارت کر کے مسلمانوں اور عیسائیوں کو جوش دلانے اور ہنسی مذاق کی ایک صورت پیدا کرنے کے لئے کچھ اندھے، لُولے اور لنگڑے جمع کر کے لے آئے اور انہیں ایک گوشہ میں چھُپا کر بٹھا دیا اور تجویز یہ کی کہ ہم مرزا صاحب سے کہیں گے کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں اور حضرت مسیح ؑ اندھوں کو بینا کیا کرتے تھے،لنگڑوں اور لُولوں پر ہاتھ پھیرتے اوروہ اچھے ہو جاتے تھے۔اب ہم نے آپ کو تکلیف سے بچا لیا ہے اور یہ کچھ لُولے،لنگڑے اور اندھے جمع کر کے لے آئے ہیں آپ بھی ان پر ہاتھ پھیریں اور انہیں اچھا کر کے دکھائیں،اگر آپ کے معجزہ سے یہ اچھے ہو جائیں گے تو ہم آپ کو اپنے دعویٰ میں سچا مان لیں گے۔میں تو اس وقت بچہ تھا شاید پانچ یا چھ سال میری عمر ہوگی مگر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سے اور بعض دوسروں سے بھی جو اس واقعہ کے عینی شاہد تھے میں نے تمام باتیں سنی ہیں۔آپ فرماتے جب ہم نے یہ بات سنی تو ہم سخت گھبرائے اور ہم نے کہابس اب بڑی ہنسی ہوگی،جو اب تو خیر دیا ہی جائے گا مگر عوام الناس میں اس کی وجہ سے بڑا جوش پیدا ہو جائے گا لیکن جس وقت انہوں نے اس امر کو پیش کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا جواب لکھوانا شروع کیا تو دیکھنے والے جو اس وقت موجود تھے سناتے ہیں کہ عیسائیوں کے لئے سخت مشکل پیش آگئی اور انہوں نے چوری چھُپے ان اندھوں، لُولوں اور لنگڑوں کو ایک ایک کر کے غائب کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ ایک بھی ان میں سے باقی نہ رہا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے جواب میں لکھوایا کہ یہ دعویٰ کہ حضرت مسیح ؑ اندھوں کو آنکھیں دیا کرتے تھے،لُولوں اور لنگڑوں پر ہاتھ پھیرتے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے ان معنوں میں کہ وہ ظاہری اندھوں کو بینا کیا کرتے تھے یا ظاہری لُولوں اور لنگڑوں کو تندرست کر دیا کرتے تھے عیسائی دنیا کا ہے اور حضرت مسیحؑ انجیل میں یہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا تو وہ تمام وہ معجزے دکھا سکے گا جو میں دکھاتا ہوں۔۱؎پس آپ نے فرمایا تم لوگ جو اِس وقت مسیح ؑ کی طرف سے نمائندہ بن کر آئے ہو تم میں کم از کم ایک رائی کے دانہ کے برابر تو ضرور ایمان ہونا چاہئے ورنہ تم نمائندے کیسے ہو سکتے ہوبلکہ حق یہ ہے کہ تم میں ایک رائی کے دانہ سے بہت زیادہ ایمان ہوگا کیونکہ تم معمولی عیسائی نہیں بلکہ عیسائیوں کے پادری ہو اور اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان نہیںتو تم مسیحؑ کے نمائندے نہیں ہو سکتے،اس صورت میں تو تم بے ایمان ہوگے اور اگر تم میں کم از کم ایک رائی کے دانہ کے برابر ایمان موجود ہے تو ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ لوگوں نے ہمیں اس تکلیف سے بچا لیاکہ ہم خود ان اندھوں،لُولوں اور لنگڑوں کو اکٹھا کر کے لاتے اور آپ سے کہتے ہیں کہ انہیں اچھا کر دیں،اب یہ آپ کی کوشش سے خود ہی حاضر ہیں آپ ان پر ہاتھ پھیریں،یا پھونک ماریں اور انہیں اچھا کر کے دکھادیں۔دنیا کو خودبخود معلوم ہو جائے گا کہ واقع میں آپ مسیحؑ کے سچے پیرو ہیں اور انجیل میں ایمان اور صداقت کا جو معیار بتایا گیا تھا اس پر آپ پورے اُترتے ہیں کہتے ہیں۔
جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ جواب لکھوانا شروع کیا تو عیسائیوں نے ان اندھوں، لُولوں اور لنگڑوں کو کھسکانا شروع کر دیایہاں تک کہ اس پرچہ کے سناتے وقت وہ سب اندھے، لُولے اور لنگڑے غائب ہوگئے حالانکہ یہ صاف بات ہے اور انجیل میں بھی موجود ہے کہ حضرت مسیحؑ سے یہود ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں کوئی معجزہ دکھاؤ۔اگر واقع میں وہ اندھوں کو آنکھیں دیا کرتے تھے،لُولوں اور لنگڑوں پر ہاتھ پھیرتے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے تو دشمنوں کے یہ کہنے کا کیا مطلب تھا کہ ہمیںکوئی معجزہ دکھاؤ۔خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مطالبہ حضرت مسیحؑ سے انہوں نے آخری زمانہ میں کیا ہے۔اگر واقع میں وہ ایسے ہی معجزے دکھایا کرتے تھے تو وہ کہہ سکتے تھے کہ تم مجھ سے یہ معجزات کا بار بار کیوںمطالبہ کرتے ہو میں نے اتنے اندھوں کو آنکھیں دیں،اتنے لنگڑوں کو تندرست کیا،اتنے لُولوں کو اچھا کیا اس سے بڑھ کر تمہیں اور کیا معجزہ چاہئے مگر وہ یہ جواب نہیں دیتے بلکہ جواب یہ دیتے ہیں کہ اس زمانہ کے بُرے اور حرامکار لوگ مجھے سے نشان طلب کرتے ہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ انہیں یونس نبی کے نشان کے سِوا اور کوئی نشان نہیں دیا جائے گا۔۲؎یعنی اب تمہارے لئے یہی معجزہ ہوگا کہ تم میرے قتل کی تدبیریں کرو گے، مجھے صلیب پر لٹکاکر مجھے ملعون ثابت کرنا چاہو گے، مگر میرا خدا مجھے صلیب سے بچا لے گا اور جس طرح یونس مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلا اِسی طرح میں بھی صلیب پر سے زندہ اُتروں گا اور یہی تمہارے لئے معجزہ ہوگا اس کے سوا اور کوئی نشان تمہیں نہیں دکھایا جائے گا۔اگر واقع میں وہ اندھوں کو ظاہری آنکھیں دے دیا کرتے تھے،کوڑھیوں کو اچھا کر دیتے تھے،لُولوں اور لنگڑوں پر ہاتھ پھیرتے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے تو وہ ہزاروں آدمیوں کو اپنے معجزات کے ثبوت میں پیش کر سکتے تھے اور کہہ سکتے تھے کہ اتنے ہزار اندھوں کو میں نے بینا بنایا،اتنے ہزار لُولوں کو میں نے تندرست کیا،اتنے ہزار لنگڑوں کو میں نے اچھا کر کے کام کے قابل بنایا۔مگر اناجیل میں باوجود ایسی عبارتوں کے موجود ہونے کے جن میں یہ لکھا ہؤا ہے کہ حضرت مسیح نے اندھوںکو بینا کیا،لُولوں اور لنگڑوں کو اچھا کیا،پھر وہ یہودی پوچھتے اور کہتے ہیں کہ کوئی معجزہ دکھاؤ۔جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں ظاہری اندھوں کو بینا کرنے یاظاہری مُردوں کو زندہ کرنے یا ظاہری لُولوں اور لنگڑوں کو اچھا کرنے کا ذکر نہیں بلکہ روحانی مُردوں کے احیاء اور روحانی بیماروں کے اچھا ہونے کا بیان ہے اور روحانی مُردہ کے زندہ ہونے یا روحانی اندھے کے بینا ہونے کو کو ن تسلیم کرتا ہے۔صرف وہی لوگ جن کے اندر ایمان ہوتا ہے سمجھتے ہیں کہ ایک شخص پہلے روحانی لحاظ سے مُردہ تھامگر پھر زندہ ہو گیا،پہلے روحانی لحاظ سے اندھا تھا مگر پھر بینا ہو گیا،مگر دشمن تو اس امر کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ دشمن تو یہ کہتا ہے کہ پہلے یہ زندہ تھے اب مر گئے ہیں،پہلے یہ بینا تھے اور اب اندھے ہو گئے ہیں۔پہلے یہ تندرست تھے مگراب لُولے اور لنگڑے ہو گئے ہیں۔ہمارے نزدیک جب ایک غیر احمدی احمدی بنتا ہے تو پہلے وہ نابینا ہوتا ہے مگر پھر بینا ہو جاتا ہے مگر غیر احمدیوں کے نزدیک پہلے وہ بینا ہوتا ہے اور احمدی بن کر نابینا ہو جاتا ہے۔اسی وجہ سے ہم تو کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ سے لاکھوں روحانی مُردے زندہ ہوگئے مگر ایک غیر احمدی جب ہماری اس بات کو سنے گا تو وہ ہنس کر کہہ دے گا مرزا صاحب نے لاکھوں کو کافر مرتد اور دجال بنا دیا۔پس ایسے معجزات سے ایک مؤمن تو فائدہ اٹھالیتا ہے مگر غیر مؤمن فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔اِسی لئے حضرت مسیح علیہ السلام سے یہود کہا کرتے تھے کہ تم نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا۔آپ ان کی اس بات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں تمہیں ہمیشہ یہی نظر آئے گا کہ میں نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا اور تم میری مخالفت میں بڑھتے چلے جاؤ گے یہاں تک کہ ایک دن تم مجھے مارنا چاہو گے تب خدا مجھے بچائے گا اور یہی تمہارے لئے میری صداقت کا ایک نشان ہوگا۔تو ہر نبی پر یا راست باز پریا ہر راستبازی پر جو بھی اعتراضات ہوں لازماً اُسی قسم کے اعتراضات دوسرے نبیوں ،دوسرے راستبازوں اور دوسری راستبازیوں پر بھی پڑتے ہیں مگر لوگ ہیں کہ اس صداقت کو تسلیم نہیں کرتے حالانکہ الٰہی سنت یہ ہے اوراللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس قسم کا بنایا ہے کہ اس کا ہر دن پہلے دن کے مشابہہ ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام پہلے نبی تھے جو آئے، پھر حضرت نوح ؑ آئے،پھر حضرت ابراہیم ؑآئے، پھر حضرت موسیٰ ؑاور پھرحضرت عیسیٰ ؑآئے اور اسی طرح اور بہت سے انبیاء درمیانی زمانوں میں آتے رہے،یہ صرف چندمعروف نام ہیں جو میں نے لئے،اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور دوسرے مُلکوں میں حضرت کرشن ؑ آئے،حضرت رام چندر ؑ آئے،حضرت زر تشتؑ آئے لیکن ان سب کے حالات یکساں ملتے چلے جاتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ ان کے دشمنوں کے حالات بھی آپس میں بالکل یکساں ہیں۔چنانچہ قرآن کریم میں جہاں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ انبیاء ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں،وہاں یہ بھی فرماتا ہے کہ کفار بھی ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں۔چنانچہ فرماتا ہے۔۳؎کیایہ کفار وصیت نامہ لکھتے چلے گئے تھے کہ جب اگلا نبی آئے تو اس پر بھی تم ایساہی اعتراض کرنا۔پھر اگر کفار ایک سے چلے جاتے ہیں تو منافق بھی ایک سے چلے جاتے ہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم اس طرح نفاق نہ کروجس طرح موسیٰ کے زمانہ میں بعض لوگوں نے نفاق کیا اور آپ کو ان کے افعال سے اذیت پہنچی۔۴؎مگر کرنے والوں نے اسی طرح نِفاق کیا۔پھر اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ آیا تو وہی کچھ جو پہلے انبیاء کے زمانہ میں ہوتا رہا اب ہورہا ہے اورجس طرح پہلے منافق اعتراض کیا کرتے تھے اسی طرح موجودہ زمانہ کے منافق اعتراضات کرتے نظر آتے ہیں۔
میںنے ایک پچھلے خطبہ جمعہ میں منافقوں کی بعض علامات بتائی تھیں اور جماعت کے دوستوں کو سمجھایا تھا کہ منافق کون ہوتا ہے اور اس کی کیاکیا علامتیں ہوتی ہیں۔ اس پر مجھے ایک منافق کا ایک گمنام خط آیا۔یہ شخص پہلے بھی کئی دفعہ ایسے خط لکھ چکا ہے اور ہمارا خیال ہے کہ یہ مصری پارٹی کا کوئی فرد ہے مگر خطوں میں ہمیشہ مصری صاحب کو ’’کمبخت مصری‘‘لکھا کرتا ہے لیکن بات وہی کرتا ہے جو مصری پارٹی کرتی ہے۔پھر نہ معلوم اس کا ’’کم بخت‘‘کہنا کیا معنے رکھتاہے اگر تو وہ انہی میں سے ہے تو یہ اول درجہ کی بے حیائی ہے کہ ان میں سے ہوتے ہوئے ’’کمبخت مصری‘‘لکھتا ہے۔اور اگر ان میں سے نہیں تو یہ اوّل درجہ کا پاگل ہے کہ بات تو وہی کہتا ہے جو مصری پارٹی کہہ رہی ہے مگر پھر انہیں’’کم بخت‘‘کہتا ہے۔تو کئی خطوط اس گمنام خط بھیجنے والے کے میرے نام آئے ہیں۔میں ’’کئی خطوط‘‘اس لئے کہتا ہوں کہ یہ خود بھی اپنے اس خط میں تسلیم کرتا ہے کہ پہلے جو خط آپ کو ملے ہیں وہ بھی میرے ہی ہیں۔دوسرے ان تمام خطوط کا طرز تحریر آپس میں ملتا ہے۔وہ اس خط میں اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے۔دیکھو تم نے منافقوں کے متعلق ایک خطبہ پڑھا مگر تم نے یہ نہ سمجھا کہ منافقت کا دائرہ تم نے اتنا وسیع کر دیا ہے کہ اب کوئی مومن رہ ہی نہیں سکتا بلکہ ہر شخص پر نِفاق کا شُبہ ہو سکتا ہے۔حالانکہ میرا مضمون کیا تھا؟ میرا مضمون یہ تھا کہ منافق چار قسم کے ہوتے ہیں۔ایک وہ ہوتے ہیں جو کسی ڈر یا لالچ کے ماتحت ایک مذہب میں داخل ہوجاتے ہیں ورنہ ایمان ایک دن بھی اُن کے دلوں میں داخل نہیں ہوتا وہ کفر کی حالت میں پیدا ہوتے، کفر کی حالت میں اسلام میں داخل ہوتے اور کفر کی حالت میں ہی مر جاتے ہیں۔اب بتایا جائے وہ کون سے مؤمن اور مخلص ہیں جو اِس تعریف کے اندر آجاتے ہیں۔آیا بعض مؤمن اور مخلص بھی ذاتی فوائد کے لئے الٰہی سلسلہ میں داخل ہؤا کرتے ہیں اور آیا ان کے دلوں میں ایک دن بھی ایمان کبھی داخل نہیں ہوتا۔پھردوسری قسم منافقوں کی میں نے یہ بیان کی تھی کہ بعض لوگ ایمان کی حالت میں ایک مذہب قبول کرتے ہیں مگر بعد میں ان کے دلوں میںبگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ مرتد ہو جاتے ہیں۔اس تعریف کے ماتحت بھی بھلاکونسا مخلص ہے جو آسکے اور کونسے مخلصوں کو میں نے یہ تعریف کر کے منافق بنادیا ہے۔کیا مخلص بھی کبھی مرتد ہؤا کرتے ہیں یا وہ جو ایمان سے داخل ہوتے اور بعد میں مرتد ہو جاتے ہیں۔انہیں منافقین کی بجائے سابقون الاولون اور انصاراور مہاجر کہنا چاہئے۔پھر میں نے کہا تھا کہ منافقوں کی ایک قسم وہ ہے جن کے اندر ایمان تو ہوتا ہے مگر ساتھ کفر بھی ہوتا ہے اور اس ایمان اور کفر کے ان پر دَورے آتے رہتے ہیں۔کبھی قربانیاں کرنے لگ جائیں گے اور کبھی ہمت ہار کر بیٹھ جائیں گے اور سلسلہ اور نظام پر اعتراض کرنے لگ جائیں گے۔اس تعریف کے ماتحت بھی کوئی مخلص نہیں آسکتا کیونکہ مخلص اور مؤمن کبھی ہمت نہیں ہارا کرتے اور ان پر انکار اور بُزدلی کا دَورہ کبھی نہیں آیا کرتا۔
پھر منافقوں کا چوتھا گروہ میں نے اُسے قرار دیا تھا جو مؤمن کی بات کوبُرا سمجھتا اور منافق کی دوستانہ تعلقات کی وجہ سے تائید کرتا رہتا ہے۔اب بتاؤ اس دائرہ میں بھی کونسے مخلص آسکتے ہیں یا کونسے ایسے مؤمن ہیں جو اِس تعریف کی زد میں آسکتے ہیں۔اگر واقع میں کوئی مخلص ہے تو وہ مخلصوں کی تائید کرے گا منافقوں کی تائیدکس طرح کرے گا۔اور اگر وہ منافقوں کی تائیدکرے گا تو اُسے مخلص اور مؤمن سمجھنا غلطی ہوگا۔
غرض منافقین کی جو علامتیں میں نے بتائی تھیں ان میں سے کوئی بھی ایسی علامت نہیں جس سے مخلصین کے اخلاص اور مؤمنین کے ایمان کو اشتباہ کی نگاہوں سے دیکھا جا سکے۔پھر جو کچھ میں نے بیان کیا تھا قرآن کریم سے بیان کیا تھا اگر اسے یہ باتیں بُری معلوم ہوتی ہیں تو وہ قرآن کریم سے یہ آیتیں نکال کر پھینک دے اور کوئی ایسا قرآن چھاپے جس میں یہ آیتیں موجود نہ ہوں۔ جس دن وہ ایسا قرآن چھاپ دے گا ہم سمجھ لیں گے کہ اب ہمیں منافقوں کی یہ تعریف نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر یہ آیتیں قرآن کریم میں رہیں گی اور ہمیشہ رہیں گی اور قیامت تک کوئی کافر اور منافق ان کو قرآن کریم سے نکال نہیں سکتاتو جب تک یہ آیتیں موجود ہیں، ایسے لوگ منافق ہی رہیں گے اور کسی صورت میں منافقت کا داغ ان کے چہروں سے مٹ نہیںسکتا۔آخر۵؎قرآن کریم میں مَیں نے نہیں لکھ دیا۔منافق قرآن کریم کے تمام نسخوں کو دیکھ لیں ان نسخوں کو بھی دیکھ لیں جو میری اس بیان کردہ تعریف سے پہلے کے چھَپے ہوئے ہیں اور پھر دیکھیں کہ آیا ان نسخوں میں یہ آیت ہے یا نہیں اور جب ہے تو وہ خود ہی سوچیں کہ اس میں میراکیا دخل ہؤا۔انہیں اگر اعتراض کا شوق ہے تو وہ خدا پر کریں کہ اس نے کیوں نَعُوْذُ بِاﷲِ ایسی جھوٹی بات قرآن کریم میں لکھ دی جو ان کی سمجھ میں نہیں آتی اور جسے موجودہ منافق غلط قرار دے رہے ہیں۔اس نے آپ ہی آپ ایک بات قرآن کریم میں لکھ دی حالانکہ اسے چاہئے تھا کہ وہ پہلے ان منافقوں سے مشورہ لیتا اور پوچھتا کہ منافق کون ہوتا ہے پھر جو تعریف یہ بتاتے اسے قرآن کریم میں نازل کرتا۔لیکن اس قدر اعتراضات کرنے کے باوجود ہر خط میں بڑا اخلاص بھی ظاہر کیا ہؤا ہوتا ہے اور لکھا ہوتا ہے کہ ہم سلسلہ کے خادم ہیں مگر اس کی سلسلہ سے محبت کا اندازہ اسی سے ہوسکتاہے کہ ایک خط میں جس کے متعلق اس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ اسی کا لکھا ہؤا ہے اس پر یہ تحریر کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود ولی اللہ تھے اور ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے ہیں،اگر انہوں نے کبھی کبھار زنا کر لیا تو اس میں حرج کیا ہؤا۔پھر لکھا ہے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض نہیں کیونکہ وہ کبھی کبھی زنا کیا کرتے تھے ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے جو ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے ۔اس اعتراض سے پتا لگتا ہے کہ یہ شخص پیغامی طبع ہے اس لئے کہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ اعتقاد ہے کہ آپ نبی اللہ تھے مگر پیغامی اس بات کو نہیں مانتے اور وہ آپ کو صرف ولی اللہ سمجھتے ہیں۔
تو جب کوئی شخص ایک سچائی پر اعتراض کرتا ہے اسے لازماً دوسری سچائیوں پر بھی اعتراض کرنا پڑتا ہے۔مثلًا مصری صاحب کو سب سے پہلے میری خلافت میں نقائص نظر آئے۔اب اس کا یہ لازمی نتیجہ ہے حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل پر بھی ان کا حملہ ہو کیونکہ جس طرح میں خلیفہ ہوں اسی طرح وہ بھی خلیفہ تھے،جس طر ح میں یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنایا ہے کسی انسان نے نہیں بنایا اسی طرح آپ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے ۔اور کسی انسان کی یہ طاقت نہیں کہ مجھے خلافت سے معزول کرے۔پھر آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص میری خلافت پر اعتراض کرے گا وہ ابلیس بن جائے گا اور جب میں مر جاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہوگا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اُس کو آپ کھڑا کرے گا۔
پس جب انہوں نے بھی یہی باتیں کہی ہیں تومعترض اپنے دل میں سوچتا اور کہتا ہے اگر حضرت خلیفہ اوّل کی باتیں صحیح تھیں تو موجودہ خلافت پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور اگر موجودہ خلافت قابلِ اعتراض ہے تو حضرت خلیفہ اوّل کی خلافت بھی باطل ہے اور چونکہ اس کے دل میں بُغض ہوتا ہے اس لئے وہی اعتراض جو وہ مجھ پر کرتا ہے حضرت خلیفہ اوّل پر بھی کر دیتا ہے اور اس طرح ان کی خلات کا بھی منکر ہو جاتا ہے۔پھر اس سے اوپر جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان پیشگوئیوں کو دیکھتا ہے جو آپ نے میرے متعلق فرمائیں،آپ کی ان دعاؤں کو پڑھتا ہے جو آپ نے میرے لئے اور اپنی باقی اولاد کے لئے کیں،تو اسے کہنا پڑتا ہے کہ یہ بھی غلط ہی ہیں۔ وہ پیشگوئیاں سنتا اور کہتا ہے کہ یہ پوری نہیں ہوئیں اورد عاؤں کا ذکر سنتا ہے تو کہتا ہے ہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعائیں بیشک کی تھیں مگر وہ قبول نہیں ہوئیں۔ان کم بختوں کی دعائیں تو قبول ہو جائیں لیکن اگر دعائیں قبول نہ ہوں تو خدا کے مسیحؑ اور اس کے نبی کی! اپنے متعلق تو ان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بار بار کہتے ہیں ہم دعا کریں گے اللہ تعالیٰ ہمیں غلبہ دے گا اللہ سچوں کی سنتا ہے۔مگر کیا مسیح موعودؑہی نَعُوْذُ بِاﷲِ احرار کے اقوال کے مطابق کذّاب اور دجال تھا کہ خدا نے اس کی دعاؤں کو نہ سنا۔وہ سنتا ہے تو انہی منافقوں اور بد باطنوں کی۔پھر لکھنے والا مجھے لکھتا ہے تم نے جماعت سے نذرانے وصول کر کے اسے غریب کر دیا۔تم اس وقت یہاں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو،کیا تم میں سے کوئی ایک شخص بھی قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ میں نے کبھی ایک پیسے کا بھی اس سے فائدہ اٹھایا ہو۔میرا طریق ہمیشہ یہ ہے کہ بعض دوست میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم فلاں چیزآپ کے لئے لاناچاہتے ہیں وہ کس سائز کی ہو۔مثلاً بوٹ کا کیا سائز ہو،یا جرابیں کس سائز کی ہوں مگر میں کبھی انہیں جواب نہیں دیتا سوائے اس کے کہ بعض دفعہ کوئی پیچھے پڑ کر پاؤں کا ناپ لے لے تو یہ دوسری بات ہے۔ورنہ میںنے کبھی کسی کو بھی ایسی باتوں کا جواب نہیں دیا بلکہ بعض تو کئی کئی خط لکھتے ہیں اور جب میں جواب نہیں دیتا تو وہ شکایت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں شاید میں ان کے خطوں کا اس لئے جواب نہیںدیتا کہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہوں حالانکہ میں جواب اس لئے نہیں دیتا کہ یہ بات میری طبیعت کے خلاف ہے اور میں اسے بھی سوال کا ایک رنگ سمجھتا ہوں۔ہاں اگر کوئی دوست خود بخود کوئی تحفہ دے جائے تو میں اسے رد بھی نہیں کرتا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ امر ثابت ہے کہ آپ ایسے تحائف قبول فرما لیا کرتے تھے۔آپ نے فرمایا بھی ہے کہ بِغَیْرِ اَشْرَافِ نَفْسٍِ بغیر نفس کی خواہش کے اگر کوئی شخص تحفہ دے تو اُسے قبول کر لو۔۶؎ بَارَکَ اﷲُ لَکَ فِیْہِ اللہ تعالیٰ تجھے اس میں برکت دے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ایسے تحائف قبول کر لیا کرتے ۔آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تجارت نہیں کیا کرتے تھے آپ کی کوئی جائداد نہیں تھی۔پھر آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں کوئی اجر نہیں مانگتا۔ایسی صورت میں صحابہ میں سے اگر کوئی اپنی مرضی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیتہً کچھ پیش کرتا تو آپ اسے قبول فرما لیتے ۷؎اور اگر کوئی آپ ہی اپنی مرضی سے خدمت کرتا اور پھر اس کا احسان جتاتا ہے تو اس سے زیادہ گندہ اور کمینہ شخص اور کون ہو سکتا ہے اور کب اسے کہا گیا تھا کہ کچھ دو۔اسی طرح میں ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ مجھے کچھ مت دو اور اگر کوئی مجھ سے کچھ لانے کے لئے پوچھتا بھی ہے تو میں اس کا جواب نہیں دیتا۔ایسی حالت میںبغیر میری خواہش کے اگر کوئی شخص مجھے نذرانہ دیتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے دیتا ہے میں نے کبھی کسی سے نذارنہ نہیں مانگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے ایام میں سیالکوٹ کے ایک زمیندار دوست نے میرے ہاتھ پر چونی رکھ دی مجھے یا دہے کہ اس وقت شرم کے مارے میرا جسم پسینہ پسینہ ہو گیا اور میں اس مجلس سے بھاگا اور سیدھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کی خدمت میںپہنچا اور وہ چونی آپؑ کے سامنے پیش کر دی اور شکوہ کیا کہ ایک شخص نے آج میرے ہاتھ پر یہ چونی رکھ دی ہے۔اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ مجھے اس کا فعل اچھا نہیں لگا۔فرمایا تمہیں اس کے جذبے کی قدر کرنی چاہئے اس نے جو کچھ کیا ہے محبت کے ماتحت کیا ہے،تمہاری ہتک کرنے کے خیال سے نہیں کیا۔حدیث میں بھی آیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے کچھ دے تو وہ لے لو۔ چنانچہ اب اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے مجھے کچھ دے دے تو میں لے لیتا ہوں ورنہ مانگنے کے لحاظ سے کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کبھی کسی سے کچھ مانگا ہو۔باقی رہے چندے سو اگر میں نے اپنے لئے جماعت سے نذرانے لینے ہوتے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ میں چندے کم لگاتاتا جماعت کے پاس روپیہ رہے اور وہ نذرانوں میں مجھے دیتی رہے۔کیونکہ میں خیال کرتا اگر تمام روپیہ سلسلہ کے خزانہ میں چلا گیا تو جماعت غریب ہو جائے گی اور وہ مجھے نذرانے نہیں دے سکے گی۔پس اس نقطہ نگاہ کے ماتحت مجھے چندے کم لگانے چاہئیں تھے مگر میرا زیادہ چندے مانگنا ہی بتاتا ہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں سلسلہ کی خیر خواہی کے لئے کر رہا ہوں۔
پھر میں کہتا ہوں کہ یہ اعتراض صرف مجھ پر ہی نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام پر بھی اعتراض پڑتا ہے۔دشمنوں کی تمام کتابیں اس قسم کے اعتراضات سے بھری پڑی ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے زمانہ میں بعض منافق بھی اس قسم کے اعتراض کر دیا کرتے تھے۔
لدھیانہ کا ایک شخص تھا جس نے ایک دفعہ مسجد میں مولوی محمد علی صاحب،خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب کے سامنے کہا کہ جماعت مقروض ہو کر اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندہ میں روپیہ بھیجتی ہے مگر یہاں بیوی صاحبہ کے زیورات اور کپڑے بن جاتے ہیں اور ہوتا ہی کیا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کو جب اس کا علم ہؤا تو آپ نے فرمایا اس پر حرام ہے کہ وہ ایک حبہ بھی کبھی سلسلہ کے لئے بھیجے اور پھر دیکھے کہ خدا کے سلسلہ کا کیا بگاڑ سکتا ہے اور آپ نے فرمایا کہ آئندہ اس سے کبھی چندہ نہ لیا جائے حالانکہ وہ پرانا احمدی تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے دعویٰ سے پہلے بھی آپ سے تعلق رکھتا تھا۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے زمانہ میں تو ایک بے دین اور بے ایمان شخص کے لئے اشتباہ کا موقع کسی حد تک پیدا ہو سکتا تھا کیونکہ نذرانہ کا روپیہ اور لنگر خانہ کا روپیہ اکٹھا آتا تھا مگر ہمارے زمانہ میں یہ بات بھی نہیں۔
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانہ میں مَیں لنگر کا افسر تھا اور یہ بات میں بھی جانتا ہوں اورد وسرے سب دوست بھی جانتے ہیںکہ حضرت خلیفہ اوّل کے گھر ہمیشہ لنگر سے کھانا جایا کرتا تھا مگر ہمارے گھر میں تو کبھی لنگر کا کھانا نہیں آیا۔میری خلافت پر ابھی دوچار دن ہی گزرے تھے کہ میںنے اپنے گھر والوں کو نہایت سختی سے روک دیا اور کہا کہ لنگر سے کھانا کبھی نہیں منگوانا لنگر تمہارا ذمہ دار نہیں۔تم چاہو تو پہرے لگا کر دیکھ سکتے ہوکہ آیا یہ بات درست ہے یا نہیں اور آیا کبھی بھی ہمارے گھر لنگر خانہ سے کھانا آیا حالانکہ حضرت خلیفہ اوّل کے گھر ہمیشہ لنگر کا کھانا جایا کرتا تھا۔
صدر انجمن احمدیہ کے جو کارکن ہیں ان میں بھی بعض منافق ہیں وہ اور دوسرے منافق ہمت کر کے ایک لسٹ کیوں شائع نہیں کرتے جس سے ہر شخص کو یہ معلوم ہو سکے کہ میں جماعت کا کتنا روپیہ کھاگیا ہوں۔اگر ان میں ہمت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا دعویٰ درست ہے تو وہ ایسی لسٹ شائع کردیںپھر لوگوں کو خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ کون درست بات کہہ رہا ہے اور کون غلط۔میری تو یہ حالت ہے کہ میں سوائے اس رقم میں سے جس کے متعلق مجلس شوریٰ نے میری عدم موجودگی میں فیصلہ کیا تھا قرض کے طور پر اخراجات لینے کے بطور امداد انجمن سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتا،بلکہ کئی دفعہ میرے چندے ان رقموں سے بڑھ جاتے ہیں جو جماعت کے دوستوں کی طرف سے بطورنذرانہ وغیرہ ملتی ہیں۔
اسی طرح اُس نے لکھا ہے کہ آپ کوروپیہ دیتے دیتے جماعت غریب ہو گئی۔چنانچہ وہ اس کی مثال دیتے ہوئے لکھتا ہے حکیم نظام الدین صاحب کا لڑکا صلاح الدین رشید تو تعلیم سے محروم رہے مگر تمہارے لڑکے ولایت تک تعلیم حاصل کر آئیں یہ کونسا انصاف ہے حالانکہ ہمارے لڑکے اگر ولایت تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے ہیں تو اس کے خرچ کا بار جماعت پر نہیں پڑا بلکہ ہم نے اپنی زمینیں فروخت کر کے انہیں ولایت تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔
پس میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہمارے لڑکوں کے پڑھنے سے جماعت کیونکر غریب ہوگئی۔کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہمارے لڑکے پڑھیں اپنے خرچ پر اور غریب جماعت ہو جائے۔ولایت تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہمارے تین لڑکے گئے ہیں اور تینوں کے لئے ہم نے اپنی زمینیں فروخت کیں۔ مرزا عزیز احمد صاحب کا لڑکا تعلیم حاصل کرنے کے لئے گیا تھا جوبے چارہ فوت بھی ہوگیااس کے لئے انہوں نے اپنے حصہ کی زمین فروخت کی تھی۔ میاںشریف احمد صاحب نے اپنے لڑکے کو بھیجا تو انہوں نے اپنے حصہ کی زمین فروخت کی اور میاں بشیر احمد صاحب نے اپنا لڑکا بھیجا تو انہوں نے اپنے حصہ کی زمین فروخت کی صرف میں نے اپنے لڑکے کے لئے کوئی زمین نہیں بیچی مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس پر جماعت کا خرچ ہؤا۔ اس پر بھی جماعت کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہؤابلکہ بات یہ ہوئی کہ جب میرے بھائیوں نے اپنے لڑکوں کو ولایت بھیجنے کے خیال کا اظہار کیا تو ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست نے مجھے میرے لڑکے کے متعلق لکھا کہ چونکہ بڑے ہو کر اس نے دین کی خدمت کرنی ہے اس لئے میرا ارادہ ہے کہ اسے اپنے خرچ پر ولایت بھجوا دوں تا کہ اسے تجربہ حاصل ہو جائے۔چونکہ پہلے لڑکوں کے لئے تو ہم نے زمینیں فروخت کرنی تھیں اگر اس کے لئے بھی کوئی زمین فروخت کی جاتی تو یہ بار مشکل سے سہارا جا سکتا اس لئے میں نے اپنے بچہ کو سمجھادیا تھا کہ تم دل میں کوئی اور خیال نہ لانا کہ اَوروں کو تو ولایت بھیجا جا رہا ہے مگر مجھے نہیں بھیجا جاتا کیونکہ تمہارے بھائیوں کے جانے کی صورت میں ایک وقت اس قدر روپیہ جمع نہیں کیا جا سکتا اور وہ بالکل اِس پر خوش تھا۔
لیکن اس دوست نے لکھا کہ میری نیت یہ ہے کہ میں اپنا روپیہ خرچ کر کے آپ کے بچہ کو ولایت تعلیم دلاؤں اور اسے ولایت بھیجوں۔تب میں نے انہیں لکھا کہ میری غیرت اسے برداشت نہیں کر سکتی کہ میرے بچہ کے اخراجات آپ برداشت کریں۔انہوں نے اصرار کیا اور بہت اصرار کیا جس پرآخر میں نے انہیں لکھا کہ اس شرط پر میںآپ کی تجویز مان سکتا ہوںکہ آپ کا جس قدر روپیہ خرچ ہو وہ آپ میرے ذمہ اپنا قرض سمجھیں جب خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے گا تو میں اسے اتار دوں گا۔انہوں نے کہا بہت اچھا مجھے یہ بات منظور ہے۔چنانچہ وہ ان کے خرچ پر ولایت گیا اور انہی کے خرچ پر تعلیم پاتا رہا۔مجھے اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس پر ان کا کیا خرچ ہؤا اور کس قدر وہ رقم اسے دیتے رہے پس میرے بچہ کے اخراجات وہی دوست برداشت کر رہے ہیں۔انجمن کا توایک پیسہ بھی ہم پر حرام ہے۔باقی اخراجات کے متعلق رجسٹرات موجود ہیں۔وہ زمینیں دیکھی جا سکتی ہیں جن کو ہم نے فروخت کیا ہے اپنے بچہ کے متعلق اس دوست کا نام مَیں ابھی ظاہر نہیں کرتا جنہوں نے اس کے تمام اخراجات برداشت کئے ہوئے ہیں۔اگر کوئی شخص قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ میں نے جو بات بیان کی ہے وہ غلط ہے اور اس پر صدر انجمن کا روپیہ خرچ ہؤا ہے تو میں اُس دوست سے کہوں گا کہ اب اگر آپ کانام ظاہر کر دیا جائے تو اس میں آپ کوکوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ان بینکوں کے نام جن کی معرفت اسے روپیہ جاتا رہا۔روپیہ بھیجنے والے دوست کا نام اور اسی طرح کی اور تمام باتیں ہمارے علم میں ہیں اورہم بوقت ضرورت ان کا اظہار کرنے کے لئے تیار ہیں۔ پس میں نہیں سمجھتا کہ جماعت اس وجہ سے غریب کس طرح ہوگئی اور اگر سلسلہ کے لئے چندہ لینے کی وجہ سے جماعت غریب ہوگئی ہے تو جیسے دوسروں سے میں نے چندہ لیا ہے اسی طرح خود بھی چندہ دیا ہے پس وہ غریب ہو گئے اور میں بھی غریب ہوگیا مگر دنیا کی نظر میں ہم غریب ہوئے خدا کی نگاہ میں غریب نہیں ہوئے بلکہ ہم میں سے ہر شخص جو مؤمن ہے سمجھتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کر کے مالدار بن گیا ہوں کیونکہ جب ہمیں اس کے رستہ میں اپنے اموال قربان کرنے کی توفیق مل گئی تو یہی بڑی سعادت اور بڑی عزت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان باتوں کے کہتے ہوئے شرم آتی ہے اور محض منافقوں کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے کہنی پڑتی ہیں۔ورنہ ہم نے جو کچھ دیا ہے اپنے خدا کے لئے دیا ہے،کسی بندہ کے لئے تھوڑا دیا ہے۔میں نے اگر اس کی راہ میں کچھ روپیہ دیا ہے تو وہ میرے رب کی ایک چیز تھی اس نے مطالبہ کیا اور میں نے اس کا ایک حصہ دے دیا میں شرمندہ ہوں کہ میں نے سارا نہیں دیا اور جو حصہ دیا ہے اُس کا ذکر بھی میں کبھی نہ کرتا اگر منافق مجھ پر اعتراض نہ کرتے۔ تو وہ کہتے ہیں اور بار بار اپنے خطوں میں لکھتے ہیں کہ میں جماعت کا روپیہ کھا گیا۔میں ان سے کہتا ہوں انجمن کے رجسٹر موجود ہیں کیا کوئی شخص ثابت کر سکتا ہے کہ میں نے ایک پیسہ بھی کھایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تم سینکڑوں روپیہ ماہوار اپنی بیویوں کے لئے اور ہزاروں روپیہ ماہوار اپنے بچوں کے لئے لیتے ہو جماعت یہ روپیہ دیتی دیتی کنگال ہوگئی حالانکہ میںنہ سینکڑوں روپیہ بیویوں کے لئے لیتا ہوںنہ ہزاروں روپیہ بچوں کے لئے اور یہ جو کچھ کہا گیا ہے بالکل جھوٹ اور افتراء ہے۔ہمارے چار بچے بیشک ولایت تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے تین کے لئے ہم نے اپنی زمینیں فروخت کیں اور ایک کو ایک دوست نے اپنے خرچ پر بھیجا۔
پھر بعض لوگ ہم پر اعتراض کرتے اور کہتے ہیں کہ تم نے اپنے نفع کے لئے قادیان میں زمینوں کی قیمتیں بہت بڑھا رکھیں ہیں حالانکہ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم نے زمین کی قیمتیں گرائی ہوئی ہیں،بڑھائی ہوئی نہیں۔۱۹۱۴ء میںجب پہلی دفعہ محلہ دارالفضل کے لئے ہم نے اپنی زمین فروخت کی تو وہ قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کے لئے کی تھی اور تین ہزار روپیہ اس طرح جمع کیا تھا۔چنانچہ وہ زمین فروخت کرکے ہم نے پہلے پارے کا ترجمہ چھپوایا اور صدر انجمن احمدیہ کو دے دیا۔اس وقت بعضوں نے کہا بھی کہ آپ ابھی یہ زمین نہ بیچیں کچھ عرصہ کے بعد زمین کی قیمت بہت بڑھ جائے گی اس وقت فروخت کر دیں لیکن میں نے کہا کہ اوّل اس وقت قرآن کریم کی اشاعت کی ضرورت ہے اس کے لئے ہر قربانی کرنا ہمارا فرض ہے اور دوسرے قیمت کے زیادہ ہونے کا انتظار کرتے رہیں گے تو قادیان کی ترقی کس طرح ہوگی۔چنانچہ اس وقت نہایت سَستے داموں پر ہم نے یہ زمین فروخت کر دی۔
پھر لوگ کہتے ہیں زمینوں کے بارہ میں غیروں سے سختی کی جاتی ہے حالانکہ قادیان میں جس قدر آبادی ہے اتنی آبادی اور کسی شہر میں ہو تو وہاں کبھی اِس قیمت پر زمینیں نہ ملیں جس قیمت پر ہم یہاں دیتے ہیں۔اور شہروں میں پھر کر دیکھ لیا جائے جتنی بستی قادیان کی ہے اتنی بستی اگر کوئی اور ہوگی تو وہاں یہاں کی نسبت بہت زیادہ زمین کی قیمت ہوگی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ہندو چلے جاتے ہیں اور منڈیوں اور تجارت کی وجہ سے زمینوں کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے۔ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہندوؤں کو قادیان میں زمینیں نہیں لینے دیتے حالانکہ اگر ہم اس پابندی کو اڑا دیں اور ہندوؤں کے لئے بھی زمین خریدنے کا رستہ کھول دیں تو دو سال کے اندر اندر موجودہ قیمتوں سے چار پانچ گُنا قیمت بڑھ جائے۔قادیان ایک بڑھتا ہؤا شہر ہے اگر ہم اجازت دے دیں تو سینکڑوں ہندو یہاں آکر آباد ہو جائیں۔چنانچہ بیسیوں دفعہ سری گو بند پور اور بٹالہ وغیرہ کے سیٹھ اِس امر کی کوشش کر چکے ہیں کہ اُنہیں یہاں زمین مل جائے۔ہندوؤں کے پاس روپیہ ہوتا ہے اِس لئے وہ جہاں جائیں گے زمین کی قیمت بڑھ جائے گی۔منٹگمری میں بعض چھوٹی چھوٹی جگہیں ہیں جیسے عارف والا مگر ان کی قیمتیں قادیان سے بہت زیادہ ہیں اور اگر ہم سلسلہ کے نظام اور احمدیت کے قیام کی خاطر یہ شرط نہ رکھیں کہ یہاں صرف احمدی ہی زمین خرید سکتے ہیں غیروں کو زمین نہیں دی جا سکتی تو جس ایکڑ کا آج ہمیں ہزار دو ہزار روپیہ ملتا ہے اسی ایکڑ سے ہمیں دس بیس ہزار روپیہ مل جائے ۔یہ ایک ایسی سیدھی سادی بات ہے کہ جسے ذرا بھی تجربہ ہو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ صحیح ہے۔یہاں منڈی کے لئے ہم نے تجویز کی تو پانچ سات ہندو ہم سے کہتے تھے کہ ہمیں یہاں کی زمین کا حق ملکیت دے دیا جائے ہم یہاں آنے کے لئے تیار ہیں مگر ہم نے دیکھا کہ اس میں سلسلہ کا نقصان ہے اس لئے انہیں کہا تم اگر چاہو تو کرایہ دار کی حیثیت سے رہو۔حقوق مالکانہ ہم تمہیں نہیں دیں گے مگر وہ حق ملکیت لینے پر اصرار کرتے تھے اور اس طرح بات رہ گئی۔حالانکہ اگر ہم سلسلہ کے مفاداور اس کی ترقی کا خیال نہ رکھیں تو ہمیں بہت زیادہ قیمتیں ہندوؤں اور سکھوں سے مل سکتی ہیںتو ہمارے اس فعل کی وجہ سے ہماری زمینوں کی قیمتیں بہت گری ہوئی ہیں۔ورنہ اگر دوسال کے لئے ہی ہم اس شرط کو اُڑا دیں اور ہندوؤں اور سکھوں کو زمینیں دینی شروع کر دیں تو قادیان کی زمینوں کی چار یا پانچ گُنا قیمت بڑھ جائے۔قادیان تو بہت بڑھتی ہوئی جگہ ہے۔تم وڈالہ گرنتھیاں کوہی دیکھ لو پہلے وہ بھاں بھاں کرتا ہؤا ایک گاؤں تھا مگر اب وہاں کارخانے کھل گئے ہیں اور کئی ہندو اور سکھ وہاں آکر آباد ہوگئے ہیں۔اب تو ریل یہاں آکر ختم ہو گئی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کی تجارت کی مار بیس بیس میل پر پڑتی ہے۔مشرق اور شمال کی طرف اور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں منڈی بن سکے۔پس یہاں کی تجارت کا بیس بیس میل پر اثر پڑسکتا ہے اور کروڑوں کی تجارت یہاں ہو سکتی ہے۔بٹالہ کے کئی ہندوؤں نے ہم سے خواہش کی کہ ہمیں قادیان میں زمین دی جائے ہم وہاں اپنے کارخانے کھولنا چاہتے ہیں مگر ہم نے سوچا کہ اس میں گو ہمارا ذاتی فائدہ ہے مگراحمدیت کا نقصان ہے اور ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ احمدیت کو نقصان ہو اس لئے انکار کر دیا۔اگر ہم انہیں آنے کی اجازت دے دیتے تو جس زمین کی قیمت آج سَو روپے ہے اس کی ہزار روپیہ ہوتی اور دس دس میل تک جس قدر ہندو ساہو کارتاجر اور کارخانہ دار ہیں وہ یہاں جمع ہوجاتے۔میرا خیال ہے کہ اگر اس کی اجازت دی جاتی تو چار پانچ سَو ہندوتاجر اِس وقت تک قادیان میں جمع ہو چکا ہوتا اور ان کی وجہ سے ہماری زمینیں نہایت گراں قیمت پر فروخت ہوتیں۔پس گو ہمیں اس کا فائدہ رہتا مگر یہ ضرور ہوتا کہ احمدیت کو جو یہاں غلبہ حاصل ہے وہ جاتا رہتا اور کئی احمدی ان مالدارہندوؤں کے دستِ نگر ہو جاتے۔پھر احمدی قانون جس رنگ میں ہم اپنی جماعت پر اس وقت جاری کر رہے ہیں وہ دوسری صورت میں نہ کر سکتے اس لئے کہ احمدیوں میں سے بہت سے لوگ ان کے دستِ نگر ہوجاتے مگر ذاتی فائدہ یقینا ہمیں بہت زیادہ ہوتا۔
غرض اپنی زمینوں کو فروخت کر کے ہم نے اپنے بچوں کو تعلیم دلائی ہے اور جب زمینیں ہم نے اپنی فروخت کی ہیں تو یہ سمجھ میں نہیں آسکتا کہ جماعت کیونکر غریب ہوگئی۔ دنیا میں ہر شخص اپنی جائدادیں فروخت کرنے کا حق رکھتا ہے اور کئی لوگ ہیں جو جائدادیں فروخت کر کے اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں۔پس اگر ہم نے بھی اپنے بچوں کو جائداد کا ایک حصہ فروخت کر کے تعلیم دلادی تواس سے ان کا نقصان کیا ہؤا۔مگر ان کا اعتراض کرنا بتاتا ہے کہ در پردہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد سے بُغض ہے اور وہ اتنا بھی پسند نہیں کر سکتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کوئی پوتا تعلیم حاصل کرے خواہ اپنے خرچ پر ہی کرے حالانکہ صحابہؓ کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں جب گزارے مقرر ہوئے اور یہ سوال پیدا ہؤا کہ گزاروں کی تعیین کس رنگ میں ہونی چاہئے تو انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ اَلْاَقْرَبُ فَالْاَقْرَبُ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو شخص جتنا زیادہ قریب ہے اُتنا ہی اُسے زیادہ دیا جائے۔چنانچہ بارہ ہزار دینار سالانہ حضرت عباسؓ کا مقرر ہؤا،دس دس ہزار وظیفہ اُمہاتُ المؤمنین کا مقرر ہؤا پھر سات سات ہزار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے قریبی رشتہ داروں کا، پھر پانچ پانچ ہزار بدری صحابہؓ کا،پھر چار چار ہزار دینار فی کس ان صحابہؓ کا مقرر ہؤا جو فتح مکہ تک مسلمان ہو چکے تھے،پھر تین تین ہزار وظیفہ ان کامقرر ہؤا جو جنگ یرموک تک مسلمان ہوئے تھے،اس طرح کم ہوتے ہوتے آخری فتوحات میں جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے ان کا سَوسَو اور دودو سَو سالانہ وظیفہ مقرر کیا گیا۔۸؎
حضرت عمرؓ کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ تحائف کے طور پر باہر سے بہت سے کپڑے آئے آپ نے وہ تقسیم کئے۔مگر فرمایا حسنؔ اور حسینؔ کے لئے ان میں سے کوئی ایسا کپڑا اچھانہیں جو انہیں دے کر میرا دل خوش ہو چنانچہ آپ نے گورنر یمن کوخاص طور پر لکھا کہ نہایت خوبصورت چادریں حضرت حسن اورحسین کے لئے بنواکر بھیجی جائیں۔چنانچہ گورنر یمن نے جب چادریں بھیجیں تو حضرت عمرؓ نے وہ حضرت حسن اور حسین کو پہنائیں اور فرمایا آج میرادل ٹھنڈا ہؤا ہے۔۹؎مدینہ سے یمن سات سَو میل پرہے اور اُن دنوں گھوڑوں کی سواری ہؤا کرتی تھی مگرمیں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پوتوں کے لئے تم سے سات میل سے بھی کبھی کوئی چیز نہیں منگوائی۔
پھر اس شخص نے اپنی گندی فطرت کا اظہار ایک اَور رنگ میں بھی کیا ہے۔(معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ شخص ہمارے خاندان کی دوسری شاخ کے بعض لوگوں کے پاس جا کر بیٹھتا ہے، (لکھتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب جیسازانی جس مقبرہ میں داخل ہو جائے اُس مقبرہ کو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بہشتی مقبرہ ہے۔ہم کہتے ہیںتم کچھ کہو جسے خدا نے توبہ کی توفیق عطا فرمادی ہو اُس کے خواہ کتنے بڑے گُناہ ہوں خدا اُن سب کو معاف کر دیتا ہے۔ایک صحابی کہتے ہیں ہم اسلام لانے سے پہلے رات دن زنا کرتے اور شراب نوشی میں مشغول رہتے تھے تو جب تک وہ سلسلہ سے باہرتھے ہم ان کے افعال کے ذمہ دار نہیں تھے مگر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات سے کچھ عرصہ قبل سلسلہ میں داخل ہونے اور توبہ کرنے کی توفیق عطا فرما دی تو ہم کون ہیں جو اللہ تعالیٰ کی بخشش کو محدود قرار دیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں بندہ کی توبہ اللہ تعالیٰ اُس وقت تک قبول کرتا ہے مَالَمْ یُغَرْ غِرْ۱۰؎ جب تک اسے غر غرہ شروع نہ ہو۔ اگر غرغرہ موت سے ایک منٹ پہلے بھی وہ توبہ کر لیتا ہے تو جنتی ہو جاتا ہے۔مرزا سلطان احمد صاحب کو تو غرغرہ موت سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ نے توبہ نصیب کر دی تھی۔پھر میں کہتا ہوں زنا کیا اگر ساری دنیا کے گناہ بھی کوئی شخص کرے اور پھر سچے دل سے توبہ کرے تب بھی اُس کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی کوئی حد بست نہیں۔پس ہمیں کسی کے اعمال میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہمیں تو یہ دیکھنا چاہئے کہ جب کوئی شخص توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دیتا ہے۔
پھر وہ لکھتا ہے وہ تو پنجتن میں نہیں۔میں کہتا ہوں کہ جو پنجتن ہیں تم نے اُن کی کون سی عزت کی ہے۔تم ہی ایک خط میں پہلے لکھ چکے ہو کہ ہم تمہاری قبریں بہشتی مقبرہ سے اُکھیڑ کر نعشوں کو باہر پھینک دیں گے۔
پس تم نے پنجتن کا کونسا ادب کیا ہے جو کہتے ہو کہ مرزا سلطان احمد صاحب چونکہ پنجتن میں نہیں اس لئے ان کی نسبت اس قسم کی بات کہنے میں کوئی حرج نہیں۔اس کا بُغض میری ذات کی نسبت اس طرح ظاہر ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے کہیں خلافت جوبلی فنڈ کی تحریک کر دی اب اس دن سے وہ بے چارے بھی تختہ مشق بنے ہوئے ہیں اور ہر خط میں مجھ پر جو اعتراضات ہوتے ہیں ان میں چوہدری صاحب بھی شامل ہوتے ہیں اور کئی خطوں میںیہ لکھا ہوا ہے کہ مرزا سلطان احمد اور چوہدری ظفر اللہ خاں جیسے گندے آدمی جس مقبرہ میں دفن ہو سکیں وہ مقبرہ بہشتی مقبرہ کہاں کہلا سکتا ہے۔اسی طرح اور بھی کئی قسم کے اعتراض چوہدری صاحب پر کئے جاتے ہیں۔خلافت جوبلی فنڈ کی تحریک سے پہلے تو اسے چوہدری صاحب میں کوئی عیب نظر نہ آیا مگر ادھر انہوں نے تحریک کی اور ادھر سے ان میں سَوسَو کیڑے نظر آنے لگ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص ایک صداقت پر اعتراض کرتا ہے تو پھر اس کا قدم ٹھہرتا نہیں بلکہ اور دوسری صداقت پر بھی اس کے اعتراض کی زد پڑنی شروع ہو جاتی ہے۔میں نے بتایا ہے کہ روپے کے بارے میں اگر مجھ پر اعتراض کیا جاتا ہے تو یہ مجھ پر ہی نہیں بلکہ پہلوںپر بھی پڑتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی ہؤا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ہؤا۔حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت تقسیم کرنے لگے ایک شخص آپ کے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا اور آپ کو غنائم کے اموال تقسیم کرتے دیکھتا رہا۔جب آپ تمام اموال تقسیم فرما چکے تو کہنے لگا۔یہ ایک ایسی تقسیم ہے جس میں خدا تعالیٰ کی رضا مندی مد نظر نہیں رکھی گئی۔ھٰذِہٖ قِسْمَۃٌ مَا اُرِیْدَ بِھَا وَجْہُ اﷲِ۱۱؎ یہ تقسیم ایسی ہوئی ہے جس میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو آپ نے اسے فرمایا۔افسوس تیری حالت پر اگر میں انصاف کو مدنظر نہیں رکھوں گا تو پھراور کون انصاف کرے گا۔پھر آپ نے فرمایا ۔اس شخص کی نسل اور ہم خیالوں میں سے کچھ لوگ ایسے پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا،وہ نمازیں پڑھیں گے مگر ان کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا،وہ دین سے اِسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار میں سے نکل جاتاہے۔۱۲؎ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی یہ اعتراض ہؤا اور تاریخوں میں تو صرف ایک واقعہ کا ذکر آتا ہے۔ قرآن کریم کی شہادت یہ ہے کہ منافق ہمیشہ اس قسم کے اعتراضات کیا کرتے تھے چنانچہ فرماتا ہے۱۳؎کہ منافق ہمیشہ صدقات کے بارے میں اعتراضات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی تقسیم درست نہیں ہوتی۔تو اگر محض اعتراض کرنے سے بات بن سکتی ہے اور کسی ثبوت کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تو میں کہتا ہوں کہ مجھ پرہی یہ اعتراض نہیںپڑتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پڑتاہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں لاہور گیا۔اس وقت تک ابھی نمازیں علیحدہ نہیں ہوئی تھیں آپ فرماتے ہیں ایک مسجد میں بیٹھا وضو کر رہا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آگئے اور بڑے غصہ سے کہنے لگے تم لوگ دینِ اسلام سے مرتد ہو،تم کہتے ہو قرآن کریم میں کوئی آیت منسوخ نہیں اور اس کی ہر آیت قابلِ عمل ہے یہ کیسا بیہودہ اور خلافِ قرآن عقیدہ ہے ۔آپ فرماتے مَیں چپکے سے سنتا جاؤں مگر وہ برابر گالیاں دیتا چلا گیا اور کہنے لگا تم بڑے بے دین، کافر اور مرتد ہو۔پھر کہنے لگا۔دیکھو سر سید جو نیچری خیالات کا تھا اس کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ قرآن میں کوئی آیت منسوخ نہیں۔فرماتے تھے اس پر میں نے ہنس کر کہا چلو ہم دو ہوگئے۔پھر کچھ دیر وہ گالیاں دیتا رہا اور آخر میں کہنے لگا ابو مسلم خراسانی کو جانتے ہو وہ بھی یہی عقیدہ رکھتا تھا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں۔میں نے کہا بہت اچھا مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس کا بھی یہی عقیدہ تھا خیر تو پہلے ہم دو تھے اب تین ہو گئے ہیں۔میں بھی کہتا ہوں کہ ہم بھی تین ہوگئے پہلے مجھ پر اعتراض ہؤا،پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض ہؤا ،پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض ہوگیا لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر شرافت کا ایک شمّہ بھی ان میں باقی ہے اور کوئی بھی تخمِ دیانت ان میں پایا جاتاہے تو وہ ثبوت پیش کریں۔وہ ایک ایک سو روپیہ جو میں نے کھایا ہے ثابت کرتے چلے جائیں اور میں چار چار، پانچ پانچ سَو کی جائداد ان کو اس جرمانہ میں دیتا چلا جاؤں گا۔
بعض کہتے ہیں تمہارے پاس روپیہ تو ہے مگر وہ تم نے بنکوں میں رکھوا دیا ہؤا ہے۔احرار نے بھی ایک دفعہ اعتراض کیا تھا کہ ولایت کے بنکوں میں تین لاکھ روپیہ ان کا جمع ہے۔ میں نے اُس وقت انہیں جواب دیا تھا کہ تم جو اپنے گزارہ کے لئے لوگوں سے چندے جمع کرتے رہتے ہو،اب اس اعتراض کے بعد تمہیں وہ چندے جمع کرنے کی ضرورت نہیں تم ثابت کردو کہ فلاں بنک میں میرا تین لاکھ روپیہ جمع ہے میں فوراً چیک تمہارے نام بھجوا دوں گا تم وہاں سے روپیہ نکلوا لینا۔
باقی ہماری زمینیں ہیں اور میں لوگوں سے قرضہ بھی لیا کرتا ہوں،بعض زمینیں میں نے خریدی بھی ہیں مگر اسی طرح کہ بعض مکان گرو رکھ کر یا بعض دوستوں سے قرض لے کر۔اگر اللہ تعالیٰ میری ان زمینوں میں برکت ڈال دے تو یہ اس کافضل ہوگا مگر اس میں کسی کا کیا دخل ہے۔دنیا کا یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے حساب مانگے اور یقینا جماعت کا حق ہے کہ وہ ایک ایک پیسے کا مجھ سے حساب لے۔ وہ مجھ سے پوچھ سکتی ہے کہ یہ مکان تم نے کہاں سے روپیہ لے کر بنوایا،یہ کپڑا تم نے کہاں سے خریدا، یہ جائداد تم نے کس طرح بنائی۔یقینا یہ سلسلہ کا حق ہے اور میں ہر وقت حساب دینے کے لئے تیار ہوں۔وہ دوست موجود ہیں جن سے میں نے قرض لئے،وہ تحریریں موجود ہیں جو اس ضمن میں لکھی گئی ہیں سندھ میں جو زمین حکومت سے خریدی گئی۔اس میں بھی پہلا حق میں نے جماعت کو ہی دیا تھا۔چنانچہ’’الفضل‘‘کے فائل اور ہماری چِٹھیاں گواہ ہیں کہ جب سندھ میں زمینیں ملنے لگیں تو ہم نے دوستوں کو توجہ دلائی کہ وہ انہیں خرید لیں مگر انہوں نے سمجھا جس طرح سٹور میں ہمارا روپیہ برباد ہؤا تھا اس طرح یہاں بھی برباد ہو جائے گا۔اور جب انہوں نے کوئی توجہ نہ کی تو چونکہ ہم سودا کر چکے تھے اس لئے یہ زمین زیادہ تر انجمن نے لے لی اور باقی مختلف دوستوں کے ذمہ لگائی گئی۔مگر جب فائدے کی امیدنظر نہیں آتی تھی اس وقت تو ہمیں کہا گیا کہ ہمیں دھوکا دیا جاتااور ہمارے روپیہ کو برباد کیا جاتا ہے اور جب یہ نظر آ یا کہ اس زمین میں شاید نفع آنے لگ جائے تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ سلسلہ کا روپیہ کھا گئے ہیں۔ہم کہتے ہیں ان زمینوں پر سلسلہ کا جس قدر روپیہ خرچ ہؤا ہے وہ ہم سے لے لو۔اس سے دُگنے داموں کی زمین ہم سے لے لو ،چارگُنے کی زمین لے لو، پانچ گُنے کی زمین لے لو، (کیونکہ نقد ہمارے پاس بالکل نہیں ہے)یقینا جو شخص سلسلہ کا روپیہ کھاتا ہے وہ اس بات کا سزا وار نہیں کہ اس سے وہ روپیہ واپس لیا جائے بلکہ اس بات کا بھی مستحق ہے کہ اس پر بڑا بھاری جرمانہ کیا جائے۔ بیشک میں صدرانجمن احمدیہ سے گزارے کے لئے روپیہ قرض لے لیتا ہوں مگر اسی طرح قرض کے طور پر حضرت عمرؓ بھی لے لیتے تھے۔جب حضرت عمرؓ فوت ہوئے ہیں تو بیت المال کا پچھتر ہزار روپیہ ان کے ذمہ قرض تھا۔۱۴؎حالانکہ اس زمانہ میں غنائم کے اموال بھی آیا کرتے تھے۔اور حضرت علی ؓ اور حضرت عمرؓ کا حصہ ایک سا ہوتا تھا کیونکہ دونوں ہی بدری صحابہ میں سے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ قالین کا ایک حصہ ملا جس کی بیس ہزار روپیہ قیمت تھی پس یقینا بیس ہزار کا حصہ حضرت عمرؓ کو بھی ملا ہوگاحضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ ایک طرف بیت المال سے اپنا گزارہ لیتے تھے اور دوسری طرف غنائم کے اموال میں سے بھی باقی مسلمانوں کی طرح حصہ لیتے تھے۔مگر میںتو گزارہ بھی نہیں لیتا اور جو کچھ میںلیتا ہوں قرض کے طور پر لیتا ہوں۔میری کوشش یہی ہوگی کہ میں اپنی زندگی میںاس قرض کو ادا کروںورنہ میری جائداد اس قرض کو ادا کرے گی۔
شروع شروع میں تو مَیں نے صدرانجمن احمدیہ کے خزانہ سے کچھ بھی نہیں لیا۔نہ قرض کے طور پر اور نہ گزارہ کے طور پر اور اس طرح آٹھ دس سال گزر گئے مگر اس کے بعد جب بچے زیادہ ہوگئے اور کام بھی وسیع ہو گیا تو میں نے صدر انجمن سے قرضہ لینا شروع کر دیا۔اس سلسلہ میں صدر انجمن احمدیہ کو بعض بڑی بڑی رقمیں میں نے ادا بھی کی ہیں۔ چنانچہ ۱۹۲۹ء میں ایک غیر احمدی نے مجھ سے ایک دعا کرائی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اس پر اس نے مجھے بیس ہزار روپیہ نذرانہ کے طور پر بھیجا۔جس میں سے گیارہ ہزار میںنے اپنے قرض کے سلسلہ میں صدر انجمن احمدیہ کو دے دیا اور باقی اور قرضوں کی ادائیگی اور دیگر ضروریات پر خرچ کیا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اموال جو غیر احمدیوں سے مجھے نذرانہ کے طور پر ملے ہیں وہ احمدیوں کے نذرانہ سے بہت زیادہ ہیں۔اس غیر احمدی کا ایک کام تھا اور اس نے مجھے لکھا کہ اگر مجھے اس میں کامیابی ہوگئی تو جو کچھ مجھے نفع ملے گا اس کا دس فیصد آپ کو دوں گا ۔چنانچہ اسے دولاکھ کا نفع ہؤا جس میں سے بیس ہزار اس نے مجھے بھیج دیا۔میں نے گیارہ ہزار صدر انجمن احمدیہ کو قرضہ میں دے دیا،باقی کچھ رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا،کچھ دیگر قرضوں میں ادا کیااور کچھ اور اخراجات میں لگا دیا۔تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس حدتک مَیں بوجھ اٹھا سکتا ہوں اٹھاتا ہوں اور اب بھی قرض کے طور پر صدر انجمن احمدیہ سے جو کچھ لیتا ہوں اس کے متعلق اللہ تعالیٰ سے یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ چاہے گا تو وہ میری زندگی میں ہی ادا ہو جائے گا۔ورنہ میں ہمیشہ حساب رکھتاہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ میرا قرض جائداد سے نہ بڑھے تا اگر جائداد سے قرض ادا کرنا پڑے تو تمام قرض ادا ہو جائے اور کسی کوکوئی دقت پیش نہ آئے۔سو جس قدر اعتراض دشمن نے مجھ پر کئے ہیں سب پہلے موجود ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ مجھ پر وہی اعتراض دشمن کی طرف سے ہوتے ہیں جو پہلوں پر ہو چکے ہیں بلکہ کل اللہ تعالیٰ نے میرے لئے ایک بہت بڑی خوشی کا سامان کیا اور مجھ پر اس امر کا انکشاف کیا کہ آج کل دشمن جو مجھ پرحملہ کر رہا ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک واضح پیشگوئی موجود ہے۔خواب میںکپڑوں کو آگ لگنے کے معنی بِالعموم اعتراض ہونے اور دشمن کے حملہ کرنے کے ہوتے ہیں۔اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ اس کے کپڑوں کو آگ لگ گئی ہے تو اس کی تعبیر یہ ہوگی کہ اس کے خلاف سخت فساد ہوگا اور دشمن اس پر کئی قسم کے اعتراض کرے گا۔کل اتفاقاً میں بعض شہادتوں کے متعلق پرانے کاغذات دیکھ رہا تھا کہ کاغذات کی پڑتال کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کی ایک کاپی آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی مجھے مل گئی اس میں ۱۸۹۴ء کے الہامات درج ہیں، گویا آج سے ۴۴ سال پہلے کی یہ کاپی مکمل ہوئی ہے۔ جبکہ میری عمر چھ سال کی تھی۔
(جہاں تک میںسمجھتا ہوں یہ الہامات چھَپے ہوئے نہیں اور چونکہ یہ تمام کاپی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اس لئے یہ سوال پیدا نہیں ہوسکتا کہ یہ بعد میں بنا لی گئی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خط کو پہچاننے والے سینکڑوں دوست اب بھی موجود ہیں اور وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ یہ تمام کاپی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔)اس میں۱۷؍ اگست ۱۸۹۴ء سے لے کر ۲۱؍دسمبر ۱۸۹۴ء تک کے الہامات درج ہیں۔اس کاپی میں ۵؍دسمبر۱۸۹۴ء کی تاریخ کے نیچے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں:
’’میں نے خواب میں دیکھا کہ اول گویا محمودکے کپڑوں کو آگ لگ گئی ہے اور میں نے بُجھا دی ہے‘‘
یہ پیشگوئی بتاتی تھی کہ ایک زمانہ میں میرے اوپر دشمن کی طرف سے اعتراضات ہونے والے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔میں نے اس آگ کو جو محمود کے کپڑوں کو لگی ہے بجھا دیا ہے۔یعنی میری پیشگوئیوں اور میری دعاؤں کی وجہ سے خدا تعالیٰ دشمن کو ناکام کرے گا اور اسے اپنے منصوبوں میں ناکام و نامراد رکھے گا۔دشمن بے شک آگ لگائے گا مگر انجام کار وہ آگ بجھا دی جائے گی۔اگر خالی بجھ گئی کے الفاظ ہوتے تب بھی دشمن کہہ سکتا تھا کہ انہوں نے اپنی تدبیروں اور عقلوں سے کامیابی حاصل کر لی۔ یہاں’’بُجھ گئی‘‘کے الفاظ نہیں بلکہ یہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بجھا دی ہے۔اس سے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ آگ کسی تدبیر یا کسی عقل کی وجہ سے نہیں بجھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں اور آپ کی پیشگوئیوں نے اس آگ کو بجھایا ہے۔
پس یقینا جو شخص آگ لگانے والا ہے وہ سلسلہ کا دشمن ہے۔اگر یہ آگ سلسلہ کے مفاد اور اس کی ترقی کے لئے ہوتی تو کس طرح ممکن تھا کہ خواب میںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آگ کو بجھا دیتے۔ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اپنے سلسلہ کی خیر خواہی مد نظر نہیں تھی؟ مگر آپ کا اس آگ کا بجھانا بتاتا ہے کہ آگ لگانے والے سلسلہ کے دشمن ہیں۔
پس اگر جو لوگ اعتراض کرتے ہیں وہ حق پر ہوتے اور جنہوں نے میرے خلاف فتنہ و فساد کی آگ بھڑکا رکھی ہے وہ صداقت پر ہوتے تو بجائے یہ الفاظ ہونے کے کہ’’میں نے بُجھا دی ہے‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرماتے کہ میں نے اٹھ کر محمود کے کپڑوں کو آگ لگا دی ہے۔مگر آپ یہ نہیں فرماتے بلکہ یہ فرماتے ہیں کہ آگ لگانے والے اور ہیں اور بجھانے والا میں ہوں۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے فعل کو مٹانے والے ہیںاور جس فعل کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مٹانے والے ہوں وہ یقینا سلسلہ کے خلاف ہوگا۔مگر جو مضمون میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ جو شخص ایک صداقت پر اعتراض کرتا ہے اسے لازماً دوسری صداقتوں پربھی اعتراض کرنا پڑتا ہے اور جو ایک راستباز پر اعتراض کرتاہے اسے لازماً دوسرے راستبازوں پر بھی اعتراض کرنا پڑتا ہے وہ بھی اس رؤیا میں نہائت عمدگی کے ساتھ بیان کردیا گیاہے۔میں نے بتایا تھا کہ جب ان اعتراض کرنے والوں کو اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی اور وہ جماعت کو خلافت سے الگ نہ کر سکے تو انہوں نے کہا۔اوہو! بات ہماری سمجھ میں اب آئی۔اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کو اس بات پر یقین ہے کہ یہ خلیفہ ہیں اور چونکہ یہ خیال ان کے دلوںمیں بیٹھ چکا ہے اس لئے وہ اس کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے پس آؤ ہم خلافت کا ہی انکار کر دیں۔چنانچہ پھر وہ خلافت کو اڑانے لگ گئے جس کے معنے یہ تھے کہ اب ان کاحملہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل پر بھی جا پڑا کیونکہ جس طرح میں خلیفہ ہوںاسی طرح آ پ بھی خلیفہ تھے۔اگر میں خلیفہ نہیں تو وہ بھی خلیفہ نہیںتھے وہ بھی یہی کہا کرتے تھے کہ میں خدا تعالیٰ کا قائم کردہ خلیفہ ہوں اور میرا دشمن ابلیس ہے اور میرے بعد بھی اللہ تعالیٰ خلفاء کھڑے کرے گا جنہیں وہ آپ کھڑا کرے گا،تم نے نہ مجھے خلیفہ بنایا ہے اور نہ ان کو بناؤ گے ہم سب کو خدا نے خلیفہ بنایا ہے۔ پس وہ سمجھتے ہیںکہ چونکہ یہ خلیفہ کہلاتاہے اس لئے لوگ اس کی باتیں سنتے ہیں اور ہماری طرف توجہ نہیں کرتے۔چنانچہ پھر وہ کہتے ہیں آؤ ہم خلافت کا ہی انکار کردیں اور لوگوں سے یہ کہنا شروع کر دیں کہ خلافت اسلام کا کوئی مسئلہ نہیں سب کو مل کر اسلام کی خدمت کرنی چاہئے۔تب وہ دوسرا حملہ کرتے اور ایک بار پھر آگ لگانا چاہتے ہیں مگر وہ حملہ حضرت خلیفہ اوّل پر جاپڑتا ہے کیونکہ آپ یہی فرمایا کرتے تھے کہ خلافت کوئی کیسری کی دکان کا سوڈاواٹر نہیں کہ جس کا جی چاہے جا کر پی لے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے جو بعض مخصوص لوگوں کو ملا کرتا ہے پس مجھ پر حملہ کرنے کے بعد ان کا دوسرا حملہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل پر ہوتاہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس رؤیا میں اس کا بھی ذکر ہے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’پھر ایک اور شخص کے آگ لگی ہے اور اس کو بھی مَیں نے بُجھا دیا ہے‘‘
یہاں حضرت خلیفہ اوّل کا نام آپ نے نہیں لیا۔چاہے جان کر نام نہیں لیا اور چاہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا نہیں۔بہر حال اس خواب سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ یہ آگ میرے وقت میںلگے گی اوراس کی ابتداء مجھ سے ہوگی اور جب یہ آگ بجھ جائے گی اور مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گی تو وہ کہیں گے کہ اوہو! ہم جماعت کو اس لئے بگاڑ نہیں سکے کہ وہ خلافت کی وجہ سے متحد ہے۔اگر ہم خلافت کاانکار کر دیں تو اس کا منتشر ہونا بالکل آسان بات ہے۔پس وہ خلافت مٹانے کے درپے ہو جاتے ہیں اور اس طرح سے حضرت خلیفہ اوّل کی خلافت پر بھی حملہ کرتے ہیں اور اس طرح میرے کپڑوں کو آگ لگنے کے بعد آپ کے کپڑوں کو بھی آگ لگ جاتی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں میں نے اس آگ کو بھی بجھا دیا۔یعنی آپ کی خلافت سے بھی وہ لوگوں کو منحرف نہیں کر سکیں گے۔تب وہ ایک اور قدم آگے بڑھیں گے اور کہیں گے اصل میں محض خلیفہ ہونے کی وجہ سے لوگ ان کے ساتھ نہیں بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ ان کے دلوںمیں یہ غلط خیال بیٹھ چکا ہے کہ یہ مصلح موعود ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان کے متعلق کئی پیشگوئیاں ہیں۔پس آؤ ہم ان تمام پیشگوئیوں کاہی انکار کردیں اور کہہ دیںکہ ان کا مصداق ابھی پیدا ہی نہیں ہؤا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض پیشگوئیاں ایسی ہیں جن کے متعلق میں نہ ہاں کرتا ہوں نہ نہ کرتا ہوںمگر جو پیشگوئیاں مجھ پر چسپاں ہوتی ہیں اُن کا انکار کرنابھی دیانت اور انصاف کے قطعاً خلاف ہے مگر وہ سرے سے تمام پیشگوئیوں کا انکار کر دیتے ہیںاور کہتے ہیں کوئی پیشگوئی ہے ہی نہیں۔ اس طرح ان کے حملہ کی زد حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی جا پڑتی ہے اور انہیں کہنا پڑتا ہے کہ آ پ نے جس قدر میرے متعلق پیشگوئیاں کیں وہ نعوذباللہ جھوٹی نکلیں، اس طرح جو دعائیں کیں وہ پوری نہ ہوئیں اور آپ نے غلط لکھ دیا کہ میری دعائیں اللہ تعالیٰ نے سن لی ہیں۔پس وہ مجھ پر حملہ کرتے مگر اس کے ساتھ ہی حضرت خلیفہ اوّل اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر بھی حملہ کر دیتے ہیںاور اس طرح میری ہتک کرتے کرتے ان کی بھی ہتک کر دیتے ہیں جن کویہ اپنا پیشوا مانا کرتے ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے پیغامیوں نے جب مجھ پر اعتراض کرنے شروع کئے تو رفتہ رفتہ ان کے اعتراضات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر بھی ہونے لگے۔چنانچہ ایک دفعہ ایک پیغامی نے کہا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے آپ کو جو ظلّی نبی کہا ہے اس کے معنے کوئی اصلی نبی کے تھوڑے ہی ہیںظل کا کیا ہوتا ہے ظل پرتو (نَعُوْذُ بِاﷲِ)جُوتے مارنے بھی جائز ہوتے ہیں۔ پھر یہاں تک کہہ دیا کہ جوحضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت بن باپ کو تسلیم کرتا ہے وہ مشرک اور بے وقوف ہے۔ جب میری خلافت کے شروع ایام تھے تو ایک شخص نے حضرت مسیح موعود السلام کے متعلق ایسے ہی الفاظ استعمال کئے۔میں نے اسے کہا اب تم دہریہ ہوئے بغیر نہیں رہو گے۔چنانچہ ابھی ایک مہینہ نہیں گزرا تھا کہ اس کے دل میں احمدیت کے متعلق شکوک پیدا ہونے شروع ہو گئے اور اس پر بھی ایک مہینہ اور نہیں گزرا تھا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق اس کے دل میں شکوک پیدا ہوگئے۔تو لازماً جو شخص ایک سچائی پراعتراض کرتا ہے اسے دوسری سچائیوںپر بھی اعتراض کرنا پڑتا ہے اور جو شخص ایک صداقت کو چھوڑتا ہے اسے دوسری صداقتوںکو بھی ترک کرنا پڑتا ہے۔چنانچہ یہی خبر اس رؤیا میں بھی دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان کا پہلا حملہ مجھ پر ہوگا،دوسرا حملہ حضرت خلیفہ اوّل پر ہوگا اور جب وہ ان دونوں حملوں میں ناکام ہوں گے تو تیسرا حملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کر دیںگے اور آپ کی پیشگوئیوں اور الہامات کے بھی منکر ہو جائیں گے۔چنانچہ آخری حصہ رؤیا کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ تحریر فرماتے ہیں:
’’پھر میرے کپڑوں کو آگ لگا دی ہے اور میں نے اپنے اوپر پانی ڈال لیا ہے اور آگ بجھ گئی ہے۔‘‘
اس میں اسی سلسلہ اعتراض کی خبر دی گئی ہے جس کو میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ پہلے وہ مجھ پر اعتراض کریں گے اور جب اس میں خدا تعالیٰ ان کو ناکام کرے گا تو وہ کہیں گے اوہوہم نے ہاتھ ذرا نیچے ڈالا ہے آؤ ذرا اوپر ہاتھ ڈالیں۔چنانچہ پھر وہ حضرت خلیفہ اوّل کی خلافت پر اعتراض کرنا شروع کر دیں گے اور جب وہاں سے بھی کام نہیں بنے گا تو کہیں گے یہ سلسلہ ہی ایساہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس قدر دعائیں کی تھیں سب جھوٹی نکلیں اور جس قدر پیشگوئیاں آپ نے کی تھیں وہ باطل ثابت ہوئیں۔پس ان کا آخری حملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہوگا جیسا کہ اس شخص نے لکھ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ولی اللہ تھے اور ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کر لیتے ہیں۔اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ گو آگیں سب بجھ گئیں ہیں’’مگر کچھ سیاہ داغ سا بازو پر نمودار ہے اور خیر ہے‘‘۔
بازو پر داغ رہنے کے معنی یہ تھے کہ یہ حملہ جماعت کے منافقین کی طرف سے ہوگا غیروں کی طرف سے نہیں ہوگا۔پھر فرماتے ہیں اور خیر ہے وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اﷲِ۔ گویا اُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اﷲکے الفاظ میں یہ بھی بتا دیا کہ جس وقت یہ اعتراض ہوں گے اُس وقت میں دنیا میں نہیں ہوں گا مگر چونکہ میرا خدا زندہ خدا ہے اس لئے میں اپنا معاملہ اُس کے سپرد کرتا ہوں۔ میں نہ ہؤا تو کیا ہؤا وہ تو ہوگا۔٭
یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کاپی ہے جو کل پہلی دفعہ مجھے دیکھنے کا موقع ملا۔اب تک میں سمجھتا تھا کہ میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کا حافظ ہوں اور آپ کا کوئی بھی ایسا الہام یا ایسا رؤیا نہیں جو میری نظر سے نہ گزرا ہو مگر کل اتفاقاً بعض کاغذات کی تلاش کرتے ہوئے مجھے پہلی دفعہ یہ کاپی ملی اور مجھ پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اس نئی پیشگوئی کا انکشاف ہؤا۔پھر ایک اور لطیفہ ہے جو ابھی خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں ڈالا ہے اور یہ کہ وہ یہ کاپی اسی سبز کاغذ کی بنی ہوئی ہے جس سبز کاغذ پر حضرت مسیح موعود السلام نے ’’سبزاشتہار ‘‘شائع فرمایا تھا معلوم ہوتا ہے اس زمانہ کے بعض بچے ہوئے کاغذ آپ کے پاس موجود تھے اور انہی سبز کاغذوں کی آپ نے یہ کاپی بنا کر اس پر اپنے الہامات اور رؤیا و کشوف درج کر دیئے۔
پس دشمن جو چاہے اعتراض کرے ہمیں اس کا اعتراض کرنا بُرا نہیں لگتا۔ ہمیں افسوس آتا ہے تو اِس بات پر کہ وہ ظاہر کچھ کرتے ہیں اور ان کا باطن کچھ اور ہے۔ وہ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام ہیں مگر کام وہ کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں کو آگ لگانے والا ہے مگر وہ یاد رکھیں نہ پہلے کوئی دشمن اپنے منصوبوں میں کامیاب ہؤا اور نہ وہ کامیاب ہوں گے۔ آگیں بجھائی جائیں گی اور صرف داغ باقی رہ جائیں گے مگروہ داغ انہی منافقین کا وجود ہو گا۔‘‘ (الفضل۳۱؍اگست ۱۹۳۸ئ)
۱؎ متی باب ۱۷ آیت ۲۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۲؎ متی باب ۱۶ آیت ۴ (مفہوماً)
۳؎ الذّٰریٰت: ۵۴
۴؎ (الاحزاب: ۷۰)
۵؎ التوبۃ: ۴۷
۶؎ ، ۷؎ بخاری کتاب الھبۃ۔ باب فَضْل الْھِبَۃ
۸؎
۹؎
۱۰؎ ترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء فی فضل التوبۃ
۱۱؎ بخاری کتاب فرض الخمس باب مَا کانَ النَّبِیُّ صلی اﷲ علیہ وسلم
یُعطی الْمُؤَ لَّفَۃَ قُلُوْ بِھِمْ … (مفہوماً)
۱۲؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النُبُوَّۃ فی الاسلام
۱۳؎ التوبۃ: ۵۸
۱۴؎ الطبقات الکُبٰری ۔ لِا بْنِ سعد جلد ۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء میں ۸۰ہزار درہم قرض
کا ذکر ہے۔

۲۸
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصوص صریحہ سے ثابت شُدہ مسئلہ کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے
(فرمودہ ۲۶؍ اگست ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۂ حجرات کی آیت ۱؎کی تلاوت کی۔ اس کے بعد فرمایا:-
’’انبیاء کی بعثت کی غرض دُنیا سے اختلافات کو مٹانا اور صحیح عقائد لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہے۔ دُنیا کبھی افراط کی طرف چلی جاتی ہے اور کبھی تفریط کی طرف، کبھی بُغض ان کی گمراہی کا موجب ہو جاتا ہے اور کبھی حد سے زیادہ محبت خواہ وہ خدا تعالیٰ کے نبیوں سے ہی ہو۔ ان کی گمراہی کا موجب ہو جاتی ہے۔ مثلاً چکڑالوی فرقہ کے لوگ ہیں یہ بظاہر خدا تعالیٰ سے حد سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور کہتے ہیں خدا تعالیٰ کے بعد کسی نبی کا کیا حق ہے کہ وہ ہم سے اپنی باتیں منوائے۔ وہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ہمارے جیسے ہی ایک آدمی تھے۔ ان کی باتیں اگر ہم نہ مانیں تو اس میں کیا حرج ہے۔ اس طرح وہ ساری حدیثوں کو ردّ کر دیتے اور کہتے ہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اگر اس طرح نماز پڑھی ہے تو غلط پڑھی۔ قرآن کریم میں اس طرح نماز پڑھنے کا حُکم ہے۔
اب بظاہر اس عقیدہ کی تہہ میں اﷲ تعالیٰ کی محبت کام کرتی نظر آتی ہے لیکن دراصل یہ اﷲ تعالیٰ کی حقیقی محبت نہیں بلکہ غلط محبت ہے اور اس کی وجہ سے کئی انسان ٹھوکر کھا گئے ہیں۔
اسی طرح بعض لوگوں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلط محبت اختیار کی اور انہوں نے کہا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کسی نبی کی کیا ضرورت ہے اَب بظاہر اس عقیدہ کا منبع اور مبدأ محبت رسول ہے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے ہی انہوں نے یہ قرار دے دیا کہ اب کسی اور نبی کے آنے کی ضرورت نہیں۔ مگر اس کا کیسا خطرناک نتیجہ نکلا کہ تیرہ سَو سال گزرنے کے بعد جب اﷲ تعالیٰ کی مشیت نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دُنیا کی ہدایت کے لئے اپنا ایک نبی بھیجے اور اس نے بنی نوع انسان کی حالت پر رحم فرماتے ہوئے اپنا نبی بھیج دیا تو لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ محض اس عقیدہ کی وجہ سے اسے قبول کرنے سے محروم رہ گئے۔ حالانکہ بظاہر یہ عقیدہ محبتِ رسول کی وجہ سے اختیار کیا گیا تھا لیکن اگر وہ غلط محبت اختیار نہ کرتے تو انہیں وقت پر ٹھوکر نہ لگتی۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مریدوں نے ان سے غلط محبت کی اور وہ ٹھوکر کھا کر کہیں کے کہیں چلے گئے۔ انہوں نے بھی یہ کہہ دیا کہ اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ دوسری طرف انہوں نے یہ غلط رویہ اختیار کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو ساری عمر یہ کہتے رہے کہ مجھے نیک مت کہو نیک ایک ہی ہے جو آسمان پر ہے۔ مَیں آدم کا بیٹا ہوں اور مَیں ویسا ہی بشر ہوں جیسے تم مگر باوجود ان کے یہ بار بار کہنے کے ان کی جماعت نے کہہ دیا کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں غلط کہتے ہیں۔ اصل میں یہ آدم کے بیٹے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ تو صحیح رویہ یہ ہؤا کرتا ہے کہ جو بات جس رنگ میں ہو انسان اسے اس رنگ میں ہی رکھے اور حدسے آگے نہ بڑھائے۔
غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کبھی غلط محبت پیدا ہو گی اس کے متعلق غلط اصول قرار دے دیئے جائیں گے اور وہ غلط اصول دُنیا کو کوئی فائدہ تو نہیں پہنچائیں گے البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ کسی وقت خطرناک نقصان پہنچا دیں مثلاً رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد جب تک خداتعالیٰ کا کوئی سچا نبی نہیں آیا تھا اس عقیدہ نے کہ آپ کے بعد کسی قسم کا بھی کوئی نبی نہیں آسکتا دُنیا کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچایا۔ جو جھوٹے نبی آئے ان کے ردّ کرنے کے تو اَور سامان قرآن و حدیث میں موجود ہی تھے مگر باوجود حضرت عائشہ ؓ اور دوسرے مجتہد صحابہ کے روکنے کے جب لوگ اس بارہ میں غلط عقیدہ پر مُصر رہے تو نتیجہ یہ نِکلا کہ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب جو شخص بھی دعویٔ نبوت کرے گا وہ دجّال اور کذّاب ہو گا اور اس کا یہ نقصان ہؤا کہ جب خدا تعالیٰ کا ایک نبی آیا تو ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ اس غلط عقیدہ کی وجہ سے اس کو قبول کرنے سے محروم رہ گئے۔ اگر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے غلط محبت اختیار نہ کی جاتی، اگر غلط اصول لوگوں کے دلوں میں قائم نہ کر دیئے جاتے تو یقینا وہ ہدایت پا جاتے مگر چونکہ ان کے کانوں میں کَذَّابُوْنَ، دَجَّالُوْنَ،کَذَّابُوْنَ، دَجَّالُوْنَکے الفاظ گونج رہے تھے۔ اس لئے جب خدا تعالیٰ کا ایک نبی آیا تو انہوں نے اسے ردّ کر دیا اور اس طرح وہ خود کذّاب اور دجّال بن گئے اور بجائے اس کے کہ کذّابون دجّالون کے الفاظ انہیں کسی کاذب مدعیٔ نبوت پر ایمان لانے سے بچاتے یہی الفاظ ان کے لئے ایک سچے مُدعی کو کذّاب اور دجّال قرار دینے کے محرک ہو گئے اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ یہ الفاظ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہی فرمائے تھے مگر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے اور بھی تو الفاظ ہیں ان سب کو اکٹھا اپنے سامنے رکھ کر موازنہ کرنا چاہئے تھا اور دیکھنا چاہئے تھا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تمام احادیث سے بحیثیت مجموعی کیا نتیجہ نکلتا ہے مگر اُنہوں نے ایک حدیث کو لے لیا اور اس پر اتنا زور دینا شروع کر دیا کہ وہ لاکھوں کی گمراہی کا مؤجب ہو گئے۔
حدیثوں میں آتا ہے ایک صحابی کہتے ہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہر چیز کو تم اس کے مقام پر رکھو۔۲؎ پس مؤمن کا فرض یہ ہے کہ وہ غلو نہ کرے کیونکہ جب کبھی کسی بات میں غلو کیا جائے گا اس کا آخری نتیجہ خرابی اور گمراہی ہو گا۔ اصل سچائی وہی ہوتی ہے جو خدا اور اس کا رسول بتاتا ہے اور کسی کا یہ ہرگز کوئی حق نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک رسول کے فیصلہ کے خلاف کوئی بات کہے یا ایک بات کو جس حد تک اس نے محدود قرار دیا ہے اس کو اس حد سے آگے نکال دے۔ مثلاً رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے صرف یہ فرمایا تھا کہ میرے بعد چھبیس یا تیس دجّال ہوں گے۔ آپ نے یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ میرے بعد قیامت تک جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ دجّال ہو گا۔ آپ نے جو کچھ فرمایا وہ یہ ہے کہ میرے بعد جھوٹے نبی بھی ہوں گے۔ بعض حدیثوں میں آپ نے چھبیس کی تعداد بتائی اور بعض میں تیس کی اور فرمایا کہ یہ دجّال اور کذّاب ہوں گے۔ پس ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص بھی جھوٹا دعویٰ نبوت کرے گا وہ کذّاب اور دجّال ہو گا مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب کوئی سچا نبی ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے کسی سچے نبی کے آنے کی نفی نہیں فرمائی بلکہ بعض جھوٹے مُدعیان نبوت کے پیدا ہونے کی اس میں خبر دی ہے۔ پس رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک حد مقرر کر دی اور فرمایا کہ میرے بعد بعض جھوٹے نبی بھی پیدا ہوں گے۔ بعض احادیث میں چھبیس جھوٹے مُدعیان نبوت کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی ہے اور بعض میں آتا ہے کہ تیس جھوٹے مُدعی پیدا ہوں گے ۳؎مگر بہرحال آپ نے فرمایا کہ وہ جھوٹے مُدعی ہوں گے اور کذّاب اور دجّال ہوں گے اور اس میں کیا شُبہ ہے کہ جو شخص جھوٹا دعویٰ ٔ نبوت کرے گا وہ ضرور کذّاب اور دجّال ہو گا۔ تو ہم اس کا انکار تو نہیں کرتے۔ ہم تو تسلیم کرتے ہیں کہ جھوٹا دعویٰ ٔ نبوت کرنے والا کذاب ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک ایسا دعویٰ کرتا ہے جس کی خدا تعالیٰ نے اسے اجازت نہیں دی۔ پس وہ جھوٹ بولتا ہے اور جو شخص جھوٹ بولتا ہو وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت میں سے نہیں ہو سکتا اور جو اُمتِ محمدیہ میں سے ہی نہیں اور پھر وہ خدا تعالیٰ پر افترا بھی کرتا ہے وہ اگر کذّاب اوردجّال نہیں تو کذّاب اور دجّال اور کون ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ ۴؎کہ اس شخص سے زیادہ ظالم اور کوئی نہیں جو خداتعالیٰ پر افتراء کرے۔ پس جو شخص دعویٰ کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے الہام ہوتا ہے۔ حالانکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے کوئی الہام نہیں ہوتا اور دعویٰ کرتا ہے کہ میں نبی ہوں۔ حالانکہ خدا نے اُسے نہیں کہا کہ تُو نبی ہے وہ مسلمان کیا وہ تو ایک ہندو سے بھی بدتر ہے، ایک عیسائی سے بھی بدتر ہے، ایک یہودی سے بھی بدتر ہے بلکہ ایک دہریہ سے بھی بدتر ہے۔وہ اُمت محمدیہ میں کہاں ہو سکتا ہے؟ تو اُمت محمدیہ سے خارج ہو کر دعویٰ ٔ نبوت کرنے والے ضرور کذّابون دجّالون ہوں گے مگر اس سے یہ کہاں سے نِکلا کہ کوئی سچا مُدعی بھی نہیں ہو سکتا اور اگر تمہیں کوئی سچا مُدعی ملے تو اسے بھی کذّاب اور دجّال قرار دے دو لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہ نقص اسی لئے پیدا ہؤا کہ مسلمانوں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ بات اُس حد کے اندر نہ رکھی جس حد کے اندر رکھنی چاہئے تھی۔ اگر مسلمان اس کو اس کی حد کے اندر رکھتے اور سمجھتے کہ اس میں محض جھوٹے مدعیانِ نبوت کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ کسی ایسے مُدعی کے آنے کے راستہ کو مسدود قرار نہیں دیا گیا جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنادے تو کبھی وہ فتنہ پیدا نہ ہوتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت پر پیدا ہؤا اور جس کی وجہ سے لاکھوں مسلمان خدا تعالیٰ کے ایک نبی کو قبول کرنے سے محروم رہ گئے۔
یہی غلطی ہمیشہ ٹھوکر کا موجب ہؤا کرتی ہے اور اسی وجہ سے خلفائِ اربعہ کے زمانہ میں یہ دستور تھا کہ مسائل کے متعلق جب آپس میں گفتگو ہوتی تو وہ صحابہ ؓکی رائے معلوم کیا کرتے اور اُن سے دریافت کیا کرتے کہ انہوں نے اس بارہ میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے کیا سُنا ہؤا ہے تا خالی رائے اور عقلی قیاسات پر لوگ نہ جائیں بلکہ اس لمبے تجربہ پر جائیں جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ پھر جب بہت سے صحابہ ؓ کی رائیں مل جاتیں اور وہ متفقہ طور پر یا ان کی اکثریت یہ بتاتی کہ انہوں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے فلاں مسئلہ اس طرح سُنا ہؤا ہے تو اس پر متحد ہو جاتے اور اُن کے آپس کے اختلافات سب دُور ہو جاتے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اس میں بھی بعض دفعہ غلط فہمی ہو جاتی ہے مگر جب مختلف روایات جمع ہو جائیں تو فیصلہ کرنا آسان ہو جاتاہے اور انسان دیکھ سکتا ہے کہ اکثر روایات کا اتحاد کِس بات پر ہے۔ ورنہ ایک آدمی بعض دفعہ سمجھنے میں غلطی بھی کر جاتا ہے۔ بیسیوں مثالیں تاریخ میں ایسی ملتی ہیں کہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اﷲ عنہم کے زمانہ میں صحابہ ؓ جمع ہوتے۔ زیر بحث مسائل پر تبادلۂ خیالات کرتے اور بتاتے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس بارہ میں کیا سُنا ہؤا ہے۔ ان روایات پر جو مختلف ہوتیں وہ تنقید کرتے اوراس تبادلۂ خیالات کے نتیجہ میں آخر صحابہ ؓکی اکثریت تسلیم کر لیتی کہ فلاں بات صحیح ہے اور دوسرے کو غلطی لگی ہے یا بعض دفعہ وہ مختلف روایات سُن کر یہ کہتے کہ روائتیں تو دونوں درست ہیں مگر پہلے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے یوں کہا اور بعد میں آپ نے یوں فرمایا۔ تو صحابہ ؓکی موجودگی میں اگر صحابہ ؓ کی گواہیوں پر مسائلِ مختلفہ کے تصفیہ کی بنیاد نہ اُٹھائی جائے تو انبیاء کی صحبت میں اُن کے ایک لمبا عرصہ رہنے کی کوئی غرض ہی نہیں رہتی۔ پھر تو چاہئے تھا ایک لکھی لکھائی کتاب آسمان سے لوگوں کے لئے نازل ہو جاتی۔ نہ کوئی نبی آتا، نہ اس کا کوئی صحابی بنتا مگر جب ایک نبی آتا ہے اُس کے زمانہ میں لوگ اس پر ایمان لاتے، اس کی صحبت میں اپنی عمروں کا ایک لمبا عرصہ گزارتے، اس کی باتیں سُنتے اور اس کے فیوض سے مستفیض ہوتے ہیں تو اسی لئے کہ وہ آئندہ زمانہ میں لوگوں کی صحیح راہنمائی کر سکیں اور بتا سکیں کہ وہ نبی جس کی صحبت میں وہ رہے اس کا فلاں مسئلہ کے متعلق کیا فیصلہ تھا اس طریق پر جب کوئی نتیجہ نکالا جائے گا تو وہ بہت زیادہ سلجھا ہؤا ہو گا۔ اگر تو کسی مسئلہ کے متعلق صحابہ ؓکا اتفاق ہو گا تو وہ تو بہرحال صحیح ہو گا کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے اجماع امت کبھی غلط نہیں ہو سکتا اور اگر ان کا کسی بات پر اتفاق نہیں ہو گا تو بھی ان کی روایات سُن کر لوگوں کے لئے اصل بات کا سمجھنا بہت آسان ہو جائے گا کیونکہ ان کے صرف الفاظ نہیں ہوں گے بلکہ اپنا ایک تأثر بھی ہو گا اور تاثر بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم بعض الفاظ سُنتے ہیں اور ان سے ہمیں غلطی لگ جاتی ہے مگر ہماری طبیعت پر جو مجموعی اثر نبی کی صحبت کا ہوتا ہے وہ غلط نہیں ہو سکتا کیونکہ تاثر سُنت کا رنگ رکھتا ہے اور سُنت حدیث پر غالب ہے۔
مجھے اس مضمون کے بیان کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ آج کے الفضل میں ایک ایسا مضمون شائع ہؤا ہے جو قطعی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منشاء کے خلاف اور آپ کی تحریرات کے یقینا مخالف ہے اور ہم لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ ہیں ہم جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتیں اپنے کانوں سے سُنی ہیں اور ہم جو ایک لمبا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں رہے ہمارے علم بلکہ متواتر علم کے خلاف ہے اور اسی قسم کی باتیں ہیں جو آئندہ زمانہ میں خطرناک فتن پیدا کرنے کا مؤجب بن جاتی ہیں مثلاً دیکھ لو ہم مسئلہ اجرائے نبوت کے قائل ہیں۔ اب بالکل ممکن ہے اﷲ تعالیٰ کی مشیت آئندہ بھی دُنیا میں کوئی ایسا نبی بھیجے جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا امتی ہو۔ جب ایسا ممکن ہے تو جو معیارِ نبوت پہلے انبیاء کے لئے اﷲ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے وہی اس کے لئے بھی ہو گا کیونکہ معیار کے لحاظ سے تمام انبیاء برابر ہوتے ہیں بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام امتی نبی تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام امتی نبی نہیں تھے مگر معیارِ نبوت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تھا وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی تھا اور جن دلائل سے حضرت موسیٰ علیہ السلام سچے ثابت ہو سکتے تھے اُنہی دلائل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سچے ثابت ہو سکتے ہیں اور اگر کسی معیار پر حضرت موسیٰ علیہ السلام پورے نہیں اُتریں گے تو اس معیار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی پورے نہیں اُتر سکیں گے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار لوگوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا مجھے منہاجِ نبوت پر پرکھو۔ اگر مَیں اس منہاج پر سچا ہوں تو مجھے سچا قرار دو اور اگر مَیں اس منہاج پر پورا نہیں اُترتا تو بے شک مجھے جھوٹا قرار دے دو۔۵؎ آپ نے یہ نہیں کیا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوئی بات کرتا تو آپ فرماتے کہ موسیٰ ؑ تو پہلے نبی تھے مَیں امتی نبی ہوں یا حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی کوئی مثال دیتا تو آپ فرماتے کہ وہ تو پہلے نبی ہوئے ہیں ان کا کیا ذکر کرتے ہو بلکہ آپ نے تسلیم کیا کہ چونکہ وہ نبی تھے اس لئے جو معیارِ نبوت ان پر چسپاں ہوتا ہے وہی مجھ پر بھی چسپاں کر کے دیکھ لو۔ بے شک آپ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تابع، آپ کی شریعت کی تشریح کرنے والے ، آپ کے شاگرد اور آپ کے کامل غلام ہیں اور ایک قدم بھی آپ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بتائے ہوئے طریق سے ادھر اُدھر نہیں ہو سکتے اور نبوت بھی آپ کو براہ راست نہیں ملی بلکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی کی وجہ سے ملی مگر نبوت کے منہاج کے لحاظ سے آپ میں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام میں یا آپ میں اور حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام میں یا آپ میں اور دوسرے انبیاء میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ایک بات پہلے کسی نبی کو جھوٹا قرار دیتی ہے تو وہی بات آپ کو بھی جھوٹا قرار دے گی اور اگر ایک بات پہلے کسی نبی کی سچائی کی دلیل قرارپاتی ہے تو وہی بات آپ کی سچائی کی بھی دلیل قرار پائے گی چنانچہ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمام وہ دلائل جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صداقت کے طور پر پیش کئے تھے اپنے اوپر چسپاں کئے ہیں۔ اب اگر آئندہ زمانہ میں بھی کوئی نبی آئے اور ہم اس کے آنے سے پہلے ایک غلط معیار قائم کر کے لوگوں کے قلوب میں راسخ کر دیں تو یقینا ہم ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کی ٹھوکر کا موجب بن جائیں گے مثلاً کوئی شخص آج بیان کر دے کہ آئندہ ہندوستان میں کوئی نبی نہیں ہو سکتا اور کل ہندوستان میں کوئی نبی آجائے تو یقینا اس نبی کے جتنے مُنکر ہوں گے ان تمام کا بارِ گناہ اس شخص پر ہو گا جس نے یہ کہا تھا کہ آئندہ ہندوستان میں کوئی نبی نہیں آسکتا۔ کیونکہ اس نے ایک ایسی علامت بیان کر دی تھی جو صحیح نہیں تھی اور جس سے لوگوں کو غلطی لگ گئی۔ پس اس وجہ سے آئندہ جو بھی ٹھوکر کھائے گا اس کی ذمہ داری اس پر عائد ہو گی جس نے ایک غلط بات لوگوں کے سامنے بیان کی ہو گی۔
وہ مضمون جس کے متعلق مَیں نے اشارہ کیا ہے وہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق ہے کہ وہ قتل نہیں کئے گئے۔ یہ مولوی ابوالعطاء صاحب کا مضمون ہے اور چونکہ وہ صحابی نہیں ہیں اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتیں سُننے کا موقع نہیں مِلا اس لئے ان کی طبیعت پر وہ اثر نہیں ہو سکتا جو اُن لوگوں کی طبائع پر اثر ہے جنہوں نے اپنے کانوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتیں سُنیں۔ یقینا بعد میں آنے والوں کا فرض ہے کہ خواہ وہ سلسلہ کے علماء میں سے ہی کیوں نہ ہوں ایسے مسائل کے متعلق سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات کو دیکھیں پھر آپ کے صحابہ سے ملیں اور ان سے دریافت کریں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے اس مسئلہ کے متعلق اپنی طبائع پر کیا اثر رکھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ وہ کہیں فلاں مسئلہ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے کیونکہ رائے کے لحاظ سے ان کی بھی ایک الگ رائے ہو سکتی ہے۔
پس ان کا یہ فرض نہیں کہ وہ صحابہ کی رائے دریافت کریں بلکہ ان کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ پوچھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں اُنہوں نے فلاں مسئلہ کے متعلق کیا بات سُنی ہے اور ان مجالس کے ماتحت اُنہوں نے کیا اثر قبول کیا ہے۔ اگر بعد میں پیدا ہونے والے لوگ صحابہ سے فائدہ نہیں اُٹھائیں گے تو ایک ایسی غلط بنیاد قائم ہو جائے گی جو سلسلہ کے لئے آئندہ زمانہ میں نہایت خطرناک اور تباہ کُن نتائج کی حامل ہو گی۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ ؓ کے زمانہ مین ایسا ہی ہؤا کرتا تھا اور میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کا بھی یہ فرض ہے کہ جب وہ کوئی ایسی بات دیکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منشاء کے خلاف ہو تو وہ اس کی تردید کریں اور اس بات پر زور دیں کہ اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فلاں بات اس طرح سُنی ہوئی ہے اور اب جو بات اس کے خلاف پیش کی جارہی ہے وہ غلط ہے۔ بے شک بعض دفعہ کسی ایک صحابی کی رائے ردّ بھی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً ایک دفعہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کوئی بات کہی تو ایک صحابی کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا یہ بات اس طرح نہیں اس طرح ہے کیونکہ مَیں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایسا سُنا ہے۔ آپ نے فرمایا اگر تم نے یہ بات آئندہ کسی کے سامنے بیان کی تو میں تجھے کوڑے ماروں گا۔ اگر تو نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے واقع میں یہ بات سُنی ہے تو کوئی گواہ لا۔ وہ اُس وقت تو خاموش رہے مگر دوسرے موقع پر وہ ایک اور صحابی کو بطور گواہ لائے اور اُنہوں نے بھی یہی بیان کیا کہ مَیں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایسا فرماتے سُنا ہے۔ تب آپ نے فرمایا اچھا اب مَیں تمہاری بات مان لیتا ہوں۶؎ مگر جب تک وہ کوئی گواہ نہیں لا سکا تھا آپ نے اس کے متعلق فرمایا کہ ہم تمہاری بات ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ تمہاری اس بیان کردہ روایت کا کوئی اور گواہ نہیں مگر مَیں کہتا ہوں کیا اس وجہ سے صحابہ کو ڈر جانا چاہئے اور انہیں وہ بات بیان نہیں کرنی چاہئے جو اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان مبارک سے خود سُنی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے یقینا صحابہ ؓ کا فرض ہے کہ جب وہ کوئی ایسی بات سُنیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منشاء اور آپ کی تعلیم کے خلاف ہو تو وہ کھڑے ہو جائیں اور اپنی روایات بیان کرنا شروع کر دیں مگر وہ یاد رکھیں کہ اس کے بعد ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو جائے گی اور ان کا یہ حق ہر گز نہیں ہو گا کہ وہ اپنا خیال پیش کریں بلکہ ان کا فرض ہو گا کہ وہ وہی بات بیان کریں جو اُنہوں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سُنی ہو اور جس پر انہیں کامل یقین ہو۔
میرے پاس ایک دفعہ ایک دوست آئے اور اُنہوں نے علیحدہ مجلس میں قرآن کریم کی بعض آیات کی تفسیر بیان کرنی شروع کر دی اور کہا کہ ان آیات کی یہ تفسیر مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سُنی ہے۔ وہ آدھ گھنٹہ تک بیان کرتے رہے۔ کسی موقع پر مَیں نے ان سے کہا کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ بات آپ نے اسی طرح سُنی ہے میرا یہ کہنا تھا کہ وہ رونے لگ گئے اور روتے چلے گئے یہاں تک کہ پانچ سات منٹ گزر گئے اس کے بعد بڑی مُشکل سے وہ کہنے لگے میرا حافظہ خراب ہے اور مَیں عالم نہیں ہوں۔ شائد مجھ سے ان باتوں کے سمجھنے یا بیان کرنے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو۔ اس لئے اب مَیں آگے آپ کو کوئی بات نہیں سُناتا۔ مبادا مَیں کوئی غلط بات حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب کردوں۔ بات ان کی معقول تھی اور پھر ان کا جو تقویٰ تھا وہ بھی مجھے پسندآیا کہ محض اتنی بات کاکہ کیا فلاں بات آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اسی طرح سُنی ہے اُن پر اس قدراثر ہؤا کہ روتے روتے ان کی گھِگی بندھ گئی اور انہوں نے مزید تفسیر بیان کرنی بند کر دی اور کہا کہ میرا حافظہ خراب ہے اور علم زیادہ نہیں۔ کہیں میں کوئی غلط بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب نہ کر دوں۔ اُنہوں نے جو باتیں بیان کیں وہ بڑی معقول تھیں اور چونکہ بات لمبی تھی اس لئے ممکن ہے بعض باتیں انہیں بھول بھی گئی ہوں کیونکہ پون گھنٹہ یا گھنٹہ کی تقریر زبانی یاد نہیں رہ سکتی لیکن میری ایک ذرا سی جرح پر وہ اتنے ڈرگئے کہ اُن کی گھِگی بندھ گئی اور انہوں نے کہا کہ میرے لئے خدا تعالیٰ سے معافی طلب کریں۔ خبر ے۷؎ مَیں کوئی غلط بات آپ کی طرف منسوب کر گیا ہوں۔ پھر مَیں نے بہتیرا زور لگایا اور کہا کہ آپ کوئی اوربات بھی سُنائیں مگر اُنہوں نے کہا بات لمبی ہے کیا پتہ ہے مَیں صحیح طور پر اُسے یاد نہ رکھ سکاہوں۔
غرض اُنہوں نے پھر مجھے کوئی بات نہ سُنائی اور اُٹھ کر چلے گئے۔ یہ ان کی احتیاط تھی جو اُنہوں نے اختیار کی ورنہ اصولی طور پر جس قدر باتیں تھیں وہ بیان کر چکے تھے اور اس میں بعض باتیں واقع میں نہایت پُر معارف تھیں اور قرآن کریم کے نئے نکات ان میں بیان کئے گئے تھے۔ تو احتیاط ضرور چاہیئے مگر احتیاط کے یہ معنے نہیں کہ یقینی طور پر انسان کو ایک بات معلوم ہو اور پھر وہ چپ کر جائے۔ محض اس لئے کہ وہ پڑھا ہؤا نہیں آخر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے جنہوں نے روایتیں بیان کی ہیں وہ کوئی بی۔اے یا ایم۔اے تو نہیں تھے۔ یقینا ابو ہریرہ ؓکو اتنا علم نہیں تھا جتنا میر مہدی حسین صاحب کو ہے مگر احادیث کی کتابیں پڑھ کر دیکھ لو۔ ابوہریرہ ؓ کی اتنی روایتیں آتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ تو ہماری جماعت میں صحابہ کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم پڑھے ہوئے نہیں۔ بے شک ہم انہیں قرآن کریم کا درس دینے کے لئے نہیں کہتے کیونکہ ہم جانتے ہیں اگر وہ درس دیں گے تو کئی جگہ غلطی کر جائیں گے۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جتنی بات اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سُنی ہو اُسے دھڑلّے سے بیان کر دیں اور کسی شخص سے نہ ڈریں۔ اگر کوئی دوسرا صحابی اس کے مقابلہ میں کوئی اَور بات بیان کر دے تو اس میں ان کا کیا حرج ہے۔ وہ خدا تعالیٰ کے حضور بری الذمّہ ہو جائیں گے اور دوسرے لوگ موازنہ کر کے ایک صحیح رائے پر پہنچ سکیں گے۔ حدیثوں میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں ایک صحابی کہتے ہیں مَیں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے فلاں بات اس طرح سُنی ہے دوسرا کہتا ہے اس طرح نہیں بلکہ اس طرح ہے۔ اب خود ہی سوچو اس میں کسی کی کیا ہتک ہو گئی۔ دونوں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ اُس نے بھی اور اِس نے بھی بلکہ عقلمند کے نزدیک ان کی عزت بڑھ جائے گی کیونکہ وہ کہے گا انہوں نے دین پر اپنی عزت کو مقدم نہیں سمجھا بلکہ اسے صحیح بنیادوں پر قائم رکھنے کے لئے اپنی ایک رنگ کی ہتک کو بھی گوارا کر لیا۔ جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کے صحابہ کا بھی یہی طریقِ عمل ہونا چاہئے۔ اگر کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک واضح تعلیم کے خلاف کوئی قدم اُٹھاتا ہے تو ان کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ بتا دیں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا سُنا ہؤا ہے تا جماعت کسی غلطی کا شکار نہ ہو جائے۔ اگر وہ ایک متفقہ بات جماعت کے سامنے پیش کریں گے یا ایک ایسی بات پیش کریں گے جس پر ان کی اکثریت متفق ہو گی تو خدا تعالیٰ کے حضور بہت بڑا اجر پائیں گے اور اگر اُن میں سے کوئی شخص حافظہ کی کمزوری یا علم کی کمی یا کسی اور نقص کی وجہ سے کوئی بات صحیح طورپر بیان نہیں کرے گا اور صحابہ کی اکثریت اس کی بات کو ردّ کر دے گی تب بھی وہ خداتعالیٰ سے کہہ سکے گا کہ اے خدا مَیں نے تیرے مسیح سے جس رنگ میں بات سُنی اور جس رنگ میں میرے حافظہ میں محفوظ تھی وہ مَیں نے لوگوں تک پہنچا دی تھی اور یقینا ایسی حالت میں اگر وہ غلط بات بھی کہے گا تب بھی اسے ثواب ملے گا۔ کیونکہ خدا کہے گا تم نے میرے دین کے جھنڈا کو اونچا رکھنے کی کوشش کی ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ اﷲ تعالیٰ اپنے نبی کی ایک امت کو اس کے قریب ترین عہد میں غلط راستہ پر جانے دے۔ یقینا اگر کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کرے گا جو صحیح نہیں ہو گی تو خدا تعالیٰ دو اَور صحابیوں کو کھڑا کر دے گا جو صحیح بات بیان کر کے اس کی غلطی کو واضح کر دیں گے۔
پھر مجھے ’’الفضل ‘‘پر بھی تعجب آتا ہے ’’الفضل‘‘سلسلہ کا آرگن ہے اور ’’الفضل‘‘ کے ایڈیٹر گو عالم نہ ہوں مگر خدا تعالیٰ نے ان کو دماغ دیا ہؤا ہے ۔ کیا اُن کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ اس مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نصوص صریحہ پیش ہو جانے کے بعد کسی شخص کا مضمون نہ لیں۔ چاہے وہ کتنا بڑا عالم کیوں نہ ہو ’’الفضل‘‘ کے ۲۶؍جون کے پرچہ میں نصوصِ صریحہ کے ساتھ یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قتلِ یحییٰ کے قائل تھے مگر اُن نصوص کے شائع ہونے کے دو ماہ بعد ایڈیٹر اُٹھتا ہے اور ایک اور مضمون شائع کر دیتا ہے جو صراحتاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے خلاف ہے۔ محض اس لئے کہ وہ مولوی ابو العطاء صاحب کا ہے جو سلسلہ کے نوجوان علماء میں سے سابقون میں نظرآرہے ہیں۔ حالانکہ مولوی ابو العطاء کیا اگر اُس مضمون پر مولوی سیّد سرور شاہ صاحب یا میرمحمداسحاق صاحب یا مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کا نام بھی لکھا ہؤا ہوتا تو ’’الفضل‘‘ والوں کا فرض تھا کہ وہ کہتے تم سب شاگرد اور تابع ہو اپنے آقا کے۔ جب تمہارا آقا اور مطاع یہ کہتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے تو تمہارا کیا حق ہے کہ اس کے خلاف لب کشائی کرو۔
’’الفضل‘‘ سلسلہ کا اخبار ہے۔ وہ اس لئے جاری نہیں کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کی تردید کی جائے بلکہ اس لئے جاری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اس کے ذریعہ دُنیا میں پھیلائی جائے اور گو یہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو دُنیا میں پھیلائے مگر جو شخص اسی بات کی تنخواہ لیتا ہو اس کی تو یہ انتہائی بد دیانتی ہو گی اگر وہ دیدہ و دانستہ ایسا کرے اور سلسلہ کا کارکن ہوتا ہؤا کام وہ کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو ردّ کرنے والا ہو۔ ان کو تو مقرر اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ ان باتوں کو شائع کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی اشاعت کرنے والی ہوں مگر وہ اپنے اخبار میں ان باتوں کو بھی لے آتے ہیں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقائد کی تردید ہوتی ہے۔ مولوی ابوالعطاء الگ رہے اگر مَیں بھی کوئی مضمون بھیجوں اور الفضل والوں کو معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی نصّ صریح اس کے خلاف ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں سے وہ حوالہ نکال کر مجھے بھیج دیں اور کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد ہے اور آپ کا مضمون یہ ہے۔ اب کیا کِیا جائے؟ اس حوالہ کو دیکھنے کے بعد بھی اگر مَیں یہ کہوں کہ مضمون بیشک شائع کر دیا جائے اس حوالہ کا وہ مطلب نہیں جو تم نے سمجھا تو بیشک وہ مضمون شائع کر دیں۔ اس صورت میں وہ خداتعالیٰ کے سامنے بری ہو جائیں گے اور اسے کہہ سکیں گے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں مین سے ایک حوالہ نکال کر انہیں بتا دیا تھا۔ پس اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں ان پر ہے۔ ایسی حالت میں اگر اس حوالہ کے معنے کرنے میں مَیں غلطی کرتا ہوں تو مَیں ذمہ دار ہوں گا وہ نہیں ہوں گے لیکن اگر انہیں میرے مضمون کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی نصِّ صریح معلوم ہو اور وہ چپ کر کے بیٹھے رہیں اور مضمون شائع کر دیں تو مَیں بھی مجرم ہوں گا اور وہ بھی مجرم ہوں گے کیونکہ انہوں نے میری غفلت کو دورنہ کیا اور میرے علم میں وہ بات نہ لائے جو ان کے علم میں تھی۔ آخر یہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اسی اخبار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصوص چھپتی ہیں ۔ ایسی نصوص جو بالکل واضح ہیں اور جن سے علیٰ وجہ البصیرت یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے لیکن دو مہینہ کا وقفہ دے کر اخبار والے ایک اور مضمون چھاپ دیتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات کے صریح خلاف ہے۔ اگر یہ طریق ہمارے سلسلہ میں جاری ہو جائے تو وہ فتنے جنہوں نے صدیوں کے بعد پیدا ہونا ہے آج ہی اُٹھنے شروع ہو جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام کتابیں پارہ پارہ ہو کر رہ جائیں اور جیسے یہود کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ۸؎کہ تم نے خدا تعالیٰ کی کتاب کو ورق ورق کر دیا۔ ویسے ہی آدمی ہم میں بھی پیدا ہو جائیں۔ ہم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صُحبت میں ایک لمباعرصہ رہے اور ہم آپ کے پاس بیٹھنے والے ہیں۔ مَیں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان مبارک سے باتیں سُنیں اور بار ہا سُنیں۔ پس میرے لئے کسی کی زبان سے یہ سُننا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات کے قائل تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے ایسا ہی قابلِ تعجب ہے جیسے کوئی کہہ دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات کے قائل تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور بجسد عنصری آسمان پر بیٹھے ہیں۔ ایک دفعہ نہیں بلکہ متواتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے ہم نے یہ سُنا اور ایک رنگ میں نہیں بلکہ مختلف رنگوں اور مختلف پیرایوں میں سُنا اور اب ہمارے لئے یہ بات ماننی بالکل ناممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قتلِ یحییٰ کے قائل نہیں تھے۔ پھر صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے سُننے کا سوال نہیں بلکہ ہم میں اس بات پر بحثیں ہؤا کرتی تھیں اور ہم ہمیشہ اُس وقت کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہی عقیدہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے مثلاً حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اس بات کے قائل تھے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی نبی قتل نہیں ہو سکتا اور ہم ہمیشہ آپ سے اس معاملہ میں بحث کیا کرتے اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں سے حوالہ جات نکال نکال کر دکھایا کرتے۔ آخر ۱۹۱۰ء کے قریب انہوں نے اقرار کیا کہ اب آئندہ کے لئے مَیں اس مسئلہ کو بیان نہیں کروں گا ورنہ پہلے آپ ہمیشہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ خطا بیات ہیں جیسے علی گڑھ کے سیّد احمد خان صاحب کہا کرتے تھے کہ قرآن کریم میں بہت جگہ خطابیات کے طور پر باتیں بیان کی گئی ہیں مگر جب ہم نے متواتر حوالہ جات کو نکال نکال کر آپ کے سامنے رکھا اور کئی شہادتیں آپ کے سامنے اس امر کے متعلق پیش کیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی بات کے قائل تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں تو آپ نے اُس وقت فرمایا مَیں سمجھتا ہوں اب مجھے آئندہ کے لئے اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہئے مگر حضرت خلیفہ اوّل نے بھی اپنے دلائل کے ضمن میں یہ کبھی نہیں فرمایا تھا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایسا سُنا ہے۔ آپ فرماتے میرا علم یوں کہتا ہے مگر جب ہم نے ان پر یہ بات ثابت کر دی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اِس بات کے قائل تھے کہ بعض انبیاء شہید ہوئے ہیں تو پھر حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا اب مَیں خاموش ہو جاتا ہوں اور آئندہ اِس کے متعلق کبھی کوئی بات نہیں کروں گا۔٭
لیکن اگر بفرض محال یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ہمیشہ اس بات کے قائل رہے ہیں کہ انبیاء قتل نہیں ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں ان کا یا کسی اور عالم کا پیش کرنا ایسا ہی ہے جیسے ایک پٹھان نے کہہ دیا تھا خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا۔ پہلے اس نے کہیں کنزمیں پڑھ لیا تھا کہ حرکت کرنے سے نماز ٹو ٹ جاتی ہے اس کے بعد ایک دن جب وہ حدیث پڑھ رہا تھا تو اس میں ایک حدیث ایسی آگئی جس میں یہ لکھا تھا کہ نماز پڑھتے پڑھتے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے حرکت کی۔ اپنا ایک نواسہ آپ نے اُٹھا لیا۔ جب سجدہ میں جاتے تو اُسے اُتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اُسے پھر اُٹھا لیتے۔ یہ پڑھتے ہی وہ کہنے لگا خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا۔ کنز میں لکھا ہے کہ حرکت سے نماز ٹوٹ جاتا ہے۔ اب نمازیں لانے والے محمد صاحب (صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم) تھے مگر آپ کی نمازیں توڑنے والا وہ پٹھان بن گیا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابلہ میں کسی کے قول کی کیا حیثیت ہے۔ قول وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنا ہو اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجالس میں متواتر یہ ذکر آتا رہا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے۔
آج ہی میں نے میر محمد اسحق صاحب کو بُلایا اور ان سے کہا کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک روایت یاد ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بار ہا یہ ذکر ہوتا تھا کہ آپ سے پہلے ارہاص کے طور پر اﷲ تعالیٰ نے حضرت سید احمد صاحب بریلوی کو بھیجا اور یہ کہ مسیح اوّل اور مسیح موعود میں یہ بھی باہمی مشابہت ہے کہ جیسے حضرت مسیح کی خبر دینے والے حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خبر دینے والے حضرت سید احمد صاحب بریلوی بھی شہید ہوئے اب یہ روایت مجھے اچھی طرح یاد ہے اور یہ صرف میری روایت ہی نہیں بلکہ بعض اور صحابہ کی بھی ہے ۔ چنانچہ ابھی جبکہ میں جمعہ پڑھانے کے لئے آرہا تھا ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندہری نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں مجھے ایک رُقعہ دیا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مَیں اﷲ جَلَّ شَأْنُہٗ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو مرتبہ مسجد مبارک میں فرمایا (گویا کہ مَیں اب بھی آپ کو بولتے سُنتا ہوں) کہ اﷲ تعالیٰ نے سلسلہ محمدیہ کو سلسلہ موسویہ کے تقابل کے طور پر قائم کیا ہے۔ سلسلہ موسویہ کے اوّل نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں اور ان کے آخری خلیفہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ اسی طرح سلسلہ محمدیہ کے بانی حضرت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں اور آپ کا آخری خلیفہ (حضرت) مسیح موعود ؑ ہے۔ پس ایسے سلسلہ کا اوّل نبی اور اس کا آخری خلیفہ قتل نہیں ہو سکتا ورنہ حق مُشتبہ ہو جائے۔ ہاں درمیان میں اگر کوئی نبی قتل ہو بھی جائے تو اس سے ۹؎ کے اصل پر کہ سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا زد نہیں پڑتی۔
اور فرمایا کہ ایک امر تشبیہہ کا یہ بھی ہے کہ جس طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام سلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ حضرت عیسیٰ ؑ سے پیشتر قتل ہوئے اسی طرح میری بعثت یا آمد سے پیشتر حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی شہید ہوئے۔
پھر فرمایا کہ حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی اور اسمٰعیل شہید میرے لئے بطور ارہاص تھے۔ جیسے حضرت یحییٰ ؑحضرت عیسیٰ ؑ کے لئے بطور ارہاص تھے۔
یہ بعینہٖ وہی روایت ہے جو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے سُنی اور یہ بھی میرے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے طور پر اُنہوں نے لکھ کر مجھے بھیجی ہے۔ جب صبح میں نے میر محمد اسحق صاحب سے اس کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے مجھے روایت تو کوئی یاد نہیں لیکن یہ میں کہہ سکتا ہوں کہ شروع سے یہی عقیدہ سمجھتے آئے ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل کا بیشک پہلے یہ خیال تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے اور آپ اپنی مجالس میں بھی یہ بات بیان کیا کرتے تھے مگر بعد میں آپ نے اس سے رجوع کر لیا تھا۔ یہ عجیب بات ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل وہی دلائل دیا کرتے تھے جو مولوی ابو العطاء صاحب نے اپنے پہلے مضمون میں پیش کئے ہیں۔ آپ بھی فرمایا کرتے تھے دیکھو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ۱۰؎کہ اس پر سلامتی ہے جس دن وہ پیدا ہوا اور سلامتی ہے جس دن فوت ہوا اور سلامتی ہے جس دن دوبارہ اُٹھایا جائے گا۔ اس آیت کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ آپ شہید ہوئے ہیں۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ جب حضرت خلیفہ اوّل نے یہی دلیل پیش فرمائی تو مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی جب موقع لگے یہ آیت پوچھنا۔ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے یہ آیت جاکر پیش کر دی اور عرض کیا کہ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے۔ مجھے اس وقت یہ یاد نہیں کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ کہا کہ اس بارہ میں مجھے حضرت مولوی صاحب نے فرمایا ہے یا یہ نہیں کہا مگر ایک دوسری روایت جو اصحاب الکہف کے متعلق میں بیان کیا کرتا ہوں اس کے متعلق تو مجھے یہ اچھی طرح یاد ہے کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کر دیا تھا کہ حضرت مولوی صاحب نے مجھے کہا ہے کہ مَیں آپ سے اس کے متعلق پوچھوں مگر آپ نے سُن کر فرمایا مولوی صاحب کی غلطی ہے۔ اصحاب الکہف تو میری جماعت کا نام بھی رکھا گیا ہے۔ اس لئے اس سے مراد کوئی مشرک جماعت نہیں ہو سکتی۔ (بعد میں اﷲ تعالیٰ نے مجھے ایسے معنے سمجھا دیئے جن سے دونوں معنے باہم مطابق ہو جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی اور حضرت خلیفہ اوّل کے بھی) غرض مجھے یقینی طور پر یہ یاد نہیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس اس دوسرے حوالہ کے بارہ میں یہ ذکر کیا یا نہیں کہ حضرت مولوی صاحب نے مجھے اس کے دریافت کرنے کے لئے کہا تھا۔ بہرحال میں گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے میں نے یہ آیت پیش کی اور عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں یا مَیں نے یہ کہا کہ حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے اس پر آپ نے قرآن کریم منگوایا۔ یا قرآن کریم اس وقت مَیں ہی ساتھ لے کر گیا تھا اور اسے آپ نے کھولا اور سورۂ مریم میں سے یہ آیت نکال کر اس کے دوسرے حصے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا۔ اگراس کے یہی معنے ہیں تو اس دوسرے حصہ کے کیا معنے ہوں گے۔ وہ حصہ کونسا تھا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ہاتھ رکھا، یہ مجھے یاد نہیں رہا۔ مَیں قیاساً کہہ سکتا ہوں کہ غالباً وہ آیت کا وہ آخری حصّہ ہو گا جس میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یحییٰ ؑ پر اس دن بھی سلامتی ہو گی جس دن وہ دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ مطلب یہ کہ اگر آپ پر سلامتی ہونے کا یہی مطلب ہے کہ آپ قتل سے محفوظ رہے تو قیامت کے دن آپ پر سلامتی ہونے کے کیا معنے ہیں۔ کیا قیامت کے دن بھی آپ کے قتل کی کوئی دُشمن تدبیر کرے گا کہ اس دن اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی آپ کے لاحق حال ہو گی۔ آخر اگر سلامتی کا اس جگہ یہی مفہوم لیا جائے کہ دُشمن کی تدابیرِ قتل کا اس میں ردّ ہے تو اس کے معنے یہ بنیں گے کہ جس دن حضرت یحییٰ پیدا ہوئے اس دن بھی وہ قتل سے محفوظ رہیں گے۔ جس دن وہ فوت ہوں گے اس دن بھی وہ قتل نہیں ہوں گے اور جب قیامت کے دن جی اُٹھیں گے تو اس دن بھی قتل نہیں ہوں گے۔ اب کیا قیامت کے دن بھی وہ قتل ہو سکتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ کو ان کے متعلق پر بھی سلامتی کا وعدہ کرنا پڑا۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان معنوں کو ردّ کیا اور فرمایا کہ اس کے یہ معنے غلط ہیں۔ پس گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس وقت جو دلیل بیان فرمائی وہ مجھے یاد نہیں مگر میں قیاساً کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا اشارہ کے آخری حصہ کی طرف تھا۔ کے متعلق تو پھر بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس میں اﷲ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوتے ہی نہیں مر جائیں گے بلکہ کچھ عرصہ دنیا میں زندہ رہیں گے۔ مگر کے کیا معنے بنیں گے۔ کیا اس دن اور لوگ مارے جائیں گے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ خاص طور پر بچائے گا۔ جب اور لوگ بھی اس دن زندہ ہوں گے تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی زندگی اور آپ پر اﷲ تعالیٰ کی سلامتی خاص ندرت اپنے اندر کیا رکھتی ہے۔
در حقیقت اﷲ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ مین تین مختلف زمانوں کو بیان کیا ہے مگر لوگوں نے غلطی سے اس کا مفہوم کچھ کا کچھ سمجھ لیا۔ دراصل انسانی زندگیاں تین ہوتی ہیں۔ ایک زندگی شروع ہوتی ہے انسانی پیدائش سے اور ختم ہوتی ہے انسانی موت پر۔ اس زندگی کو حیاۃ الدنیا کہاجاتا ہے۔ دوسری زندگی موت سے شروع ہوتی اور قیامت تک قائم رہتی ہے۔ اس زندگی کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور اسی کے متعلق حدیثوں میں خبر دی گئی ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو اگر وہ جنتی ہوتا ہے تو جنت کی طرف سے اس کے لئے ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور اگر دوزخی ہوتا ہے تو دوزخ کی طرف سے اس کے لئے ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ گویا مرتے ہی انسان کو آرام یا عذاب ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی مختلف قسم کی رحمتیں اور فضل اس پر نازل ہونے لگ جاتے ہیں اور اگر دوزخی ہوتا ہے تو مختلف قسم کے عذاب اس پر نازل ہونے لگ جاتے ہیں۔ مگر اس کے بعد ایک تیسرا زمانہ ہے جسے قرآن کریم نے یوم البعث قرار دیا ہے اور جس دن کامل طور پر جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل کر دیئے جائیں گے یہ تین ابتدائی نقطے ہیں انسانی زندگی کے۔ پیدائش ابتدائی نقطہ ہے حیاۃ الدنیا کا۔ موت ابتدائی نقطہ ہے حیاۃِ برزخی کا اور یوم البعث ابتدائی نقطہ ہے اُخروی حیاۃ کا۔ یہ تین ابتدائی نقطے ہیں اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یحییٰ کے تینوں نقطہ ہائے حیات میں سلامتی ہی سلامتی ہے۔ اس کی پیدائش پر بھی ہماری طرف سے سلامتی نازل ہو گی اور وہ زندگی بھر اس سے متمتع ہوتا رہے گا۔ پھر جب اس نے وفات پائی تو پھر بھی اس پر سلامتی نازل ہو گی اور وہ عالمِ برزخ میں بھی سلامتی سے حصّہ پائے گا اور اس کے بعد جب یوم البعث آئے گا تو اس دن پھر اس پر سلامتی نازل ہو گی اور وہ اخروی حیاۃ میں بھی اﷲ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت رہے گا۔ یہ تین ابتدائی مرتبے انسانی زندگی کے ہیں جو اس آیت میں بیان کئے گئے ہیں۔ قتل کا یہاں ذکر ہی کہاں ہے۔ اگر کہیں قتل کی نفی ہو سکتی ہے تو وہ وہ مقام ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اسی قسم کے الفاظ اپنے متعلق استعمال کئے ہیں اور فرمایا ہے ۱۱؎ مگر وہاں بھی یہ معنے ہم اسی لئے لیتے ہیں کہ یہود ان کے متعلق یہ کہا کرتے تھے کہ وہ *** موت مرے ہیں اور اس کی دلیل یہ دیا کرتے تھے کہ تورات میں لکھا ہے جو صلیب پر لٹک کر وفات پاتا ہے وہ *** ہوتا ہے۔ پس چونکہ یہود ان کے متعلق یہ کہا کرتے تھے کہ وہ *** کی موت مرے ہیں اور عالَمِ برزخ میں عذاب دیئے جارہے ہیں اس لئے ہم کہتے ہیں اس آیت کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے ان یہود کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مَرے۔ پس اگر ہم وہاں یہ معنے کرتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مَرے تو اس کی ہمارے پاس دلیل ہوتی ہے اور ہم کہتے ہیں چونکہ یہود کا یہ اعتقاد تھا کہ صلیب پر مَرنے والا *** ہوتا ہے اور دوسری طرف ان کا یہ دعویٰ تھا کہ ہم نے مسیح ؑ کو مصلوب کر دیا۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ نے ان کی تردید کی مگر یہاں تو اس قسم کا کوئی اعتراض نظر نہیں آتا۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ اس آیت کے ایسے معنے کئے جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہیں۔
مَیں جیسا کہ بیان کر چُکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہم نے ہمیشہ یہ بات سُنی ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے۔ ممکن ہے حضرت خلیفۂ اوّل کی شاگردی کے لحاظ سے ابتدائی ایّام میں مَیں نے بھی کبھی کہہ دیا ہو کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے کیونکہ قرآن کریم مَیں نے حضرت خلیفہ اوّل سے ہی پڑھا ہے۔ گو مجھے یاد نہیں کہ مَیں نے کبھی ایسا کہا ہو لیکن یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے یہ آیت رکھی تو آپ نے ان معنوں کو غلط قرار دیا جو عام طور پر کئے جاتے ہیں اور فرمایا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے۔ آپ نے اس کے متعلق مجھے یہ دلیل بتائی تھی۔ وہ جیسا کہ مَیں بتا چُکا ہوں مجھے یاد نہیں مگر مَیں اس وقت اس آیت کی تشریح کر کے بتا چُکا ہوں کہ اس میں قتل کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اس میں تین زندگیوں کا ذکر کیا گیا ہے ایک وہ زندگی ہے جس کی پیدائش سے ابتداء ہوتی ہے، دوسری وہ زندگی ہے جس کی موت سے ابتداء ہوتی ہے اور تیسری وہ زندگی ہے جس کی یوم البعث سے ابتداء ہوتی ہے۔ پیدائش سے ابتداء دُنیوی زندگی کی ہوتی ہے۔ موت سے ابتداء برزخی زندگی کی ہوتی ہے اور یوم البعث سے ابتداء اخروی زندگی کی ہوتی ہے اور قرآن کریم سے یہ تینوں زندگیوں کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے بیان کر دیا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام ان سب زندگیوں میں خدا تعالیٰ کی سلامتی کے نیچے ہیں۔ وہ دُنیوی زندگی میں بھی اس کی سلامتی کے مورِد رہے، وہ برزخی زندگی میں بھی اس کی سلامتی کے مورد ہیں اور وہ اُخروی زندگی میں بھی اس کی سلامتی کے مورد ہوں گے اور یہ سلام صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ ؑ کے لئے نہیں آیا بلکہ سب مومنوں کے لئے آیا ہے۔ چنانچہ سورۂ انعام میں آتا ہے ۱۲؎ یعنی جب تیرے پاس ہماری آیتوں پر ایمان لانے والے لوگ آئیں تو ان کو ہمارا یہ پیغام دے دینا کہ تم پر سلام ہو اور تمہارے رب نے تمہارے لئے اپنے آپ پر رحمت واجب کر لی ہے۔ یہ سلام بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے حالانکہ ان میں سے کئی شہید ہوئے۔ پھر سب مومنوں کی نسبت آتا ہے کہ ۱۳؎ یعنی جن لوگوں کی روح فرشتے اس حالت میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں۔ فرشتے انہیں اس وقت یہ کہتے چلے جاتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو۔ جاؤ اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ فرشتے مومنوں کی جان کئی طرح نکالتے ہیں۔ بعض کی شہادت کے ذریعہ سے نکالتے ہیں تو کیا اگر سلامتی کے معنے دُشمنوں کے ہاتھوں سے نہ مارے جانے کے ہیں تو یہ عجیب بات نہ ہو گی کہ دُشمن ان کو قتل بھی کر رہا ہو گا اور فرشتے ساتھ سلام سلام بھی کرتے جارہے ہوں گے۔ گویا جو بات ہو رہی ہو گی اسی کی تردید کر رہے ہوں گے۔ اسی طرح سورۂ طٰہٰ میں آتا ہے ۱۴؎ جو بھی ہدایت کے تابع چلے اس پر سلامتی ہے۔ اگر سلام کے معنے دُشمنوں کے قتل سے محفوظ رہنے کے لئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ کبھی کوئی مومن قتل نہیں ہوتا پھر سورۂ مائدہ میں مومنوں کی نسبت فرماتا ہے ۱۵؎ یعنی قرآن کریم کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ ان کو جو خدا تعالیٰ کی رضا کے تابع ہوتے ہیں سلام کے راستے دکھاتا ہے۔ اب اگر سلام کے معنے دُشمنوں کے ہاتھوں قتل نہ ہونے کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اﷲ تعالیٰ مؤمنوں کو ایسی زندگی بخشتا ہے کہ وہ کبھی دُشمن کے ہاتھ سے قتل نہیں ہوتے۔ جو بِالبداہت غلط ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ سلام ایک وسیع معنوں کا لفظ ہے۔ بعض موقعوں پر یقینا اس کے یہ معنی بھی ہوں گے کہ دُشمن کے کسی حملے سے بچالے، بعض جگہ بیماری سے بچانے کے، بعض جگہ ناکامی سے بچانے کے معنے ہوں گے لیکن بغیر کسی زبردست قرینے کے ایک خاص معنے ایک عام لفظ کے کرنے اور اسے نص قرار دے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کو اس کے ماتحت کرنے کی کوشش کرنا یہ درست نہیں ہے۔ غرض میری مراد یہ نہیں کہ سلامتی کے معنے قتل سے بچنے کے نہیں ہو سکتے۔ یقینا ہو سکتے ہیں لیکن اس کے اور بھی بہت سے معنے ہو سکتے ہیں اس کے وہی معنے لئے جائیں گے جو خدا تعالیٰ کے نبی کے قول کے خلاف نہ ہوں گے۔ اس آیت میں نص سلامتی ہے نہ کہ قتل سے بچنا۔ اگر سلامتی کے معنے نصِ قتل سے بچنے کے ہوں تو پھر لازماً اوپر کی آیات کے مخاطبین کو بھی قتل سے بچنا چاہئے اور لازماً قیامت کے دن بھی قتل کی کوئی صورتیں ممکن ہونی چاہئیں بلکہ جنت میں بھی کیونکہ اس کے لئے بھی سلامتی کا لفظ آتا ہے لیکن اگر جیسا کہ مَیں کہتا ہوں سلام کے کئی معنی ہو سکتے ہیں اور ہر موقع کے مناسب معنے اس کے کئے جانے ضروری ہیں۔ تب کسی آیت پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ہر جگہ کے مناسبِ حال سلام کے معنے کئے جائیں اور جب کسی لفظ کے کئی معنے ہوں تو ایک معنی کو لے کر اسے نص قرار دینا جائز نہیں اور جب کئی معنے ہوتے ہوں تو نبی کے ادنیٰ سے اشارہ کے بعد بھی ایسے معنے کرنے درست نہ ہوں گے جو نبی کے معنوں کو ردّ کر دیتے ہوں۔ ہاں وہ معنے درست ہوں گے جن کی موجودگی میں نبی کے معنے بھی قائم رہتے ہوں کیونکہ قرآن غیر محدود معارف رکھتا ہے اور نبیوں اور ان کی اُمتوں پر ہمیشہ اس کے وسیع معنے کھلتے رہیں گے۔ وَذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ۔
پھر یہ بات بھی ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے متواتر سُنی ہے کہ دو قسم کے نبی کبھی قتل نہیں ہؤا کرتے۔ ایک وہ جو سلسلہ کے اوّل پر آتے ہیں جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام یا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں اور ایک وہ جو سلسلہ کے آخر میں آتے ہیں جیسے سلسلۂ موسویہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ باقیوں کے متعلق یہ کوئی شرط نہیں کہ وہ قتل نہیں ہو سکتے۔ یہ نہیں کہ وہ ضرور مارے جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر ان میں سے کوئی مارا جائے تو اِس سے اُسے جھوٹا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مَیں نے بھی متواتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ بات سُنی ہے اور ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری بھی یہی شہادت دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے سلسلۂ محمدیہ کو سلسلۂ موسویہ کے تقابل کے طور پر قائم کیا ہے۔ سلسلۂ موسویہ کا اوّل نبی حضرت موسیٰ ؑ ہوئے ہیں اور ان کے آخری خلیفہ حضرت عیسیٰ ؑ ہیں۔ اسی طرح سلسلۂ محمدیہ کے بانی حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں اور آپ کا آخری خلیفہ (حضرت) مسیح موعود ؑ ہے۔ پس ایسے سلسلہ کا اوّل نبی اور اس کا آخری خلیفہ قتل نہیں ہو سکتاورنہ حق مشتبہ ہو جائے۔ ہاں درمیان میں اگر کوئی نبی قتل ہو جائے تو اس سے لَوتَقَوَّل کے اصل پر کہ سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا زد نہیں پڑتی۔
یہی مضمون مَیں نے بار ہا سُنا ہے ایک دفعہ نہیں بلکہ متواتر۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں جب اپنی تقاریر یا بحث مباحثہ میں ہم نے لَوْتَقَوَّلَوالی آیت پیش کرنی ہوتی تو ہمیں متواتر یہ سبق دیا جاتا کہ یہ مت کہنا کہ جو نبی قتل ہو جائیں وہ جھوٹے ہوتے ہیں بلکہ یہ کہنا کہ جس مدعی کو دعویٔ نبوت کے بعد اُتنی مہلت ملے جتنی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ملی تھی وہ ضرور سچا ہوتا ہے۔ یہ معنے ہیں جو ہمیں متواتر بتائے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ لَوْتَقَوَّلَکے یہ معنے نہ کرنا کہ جو مارا جائے وہ جھوٹا ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا کہ جو اتنی عمر پائے جتنی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کے بعد پائی یا اس سے بھی زیادہ لمبی عمر پائے وہ کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ گویا لمبی عمر پانا سچے ہونے کی دلیل ہے۔ کسی نبی کا قتل ہو جانا جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں جس طرح انگریزی میں ہیمر (HAMMER) کرنا یعنی ہتھوڑے سے کُوٹ کُوٹ کر کسی چیز کو اندر داخل کرنا بولا جاتا ہے۔ اسی طرح بار بار ہمارے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جاتی تھی اور ہمیں کہا جاتا تھا کہ اس سے یہ استدلال نہ کرنا کہ کوئی سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ کرنا کہ دعویٔ نبوت کے بعد محمد صلی اﷲ علیہ وسلم جتنی عمر اگر کوئی مدعی نبوت پا لے تو وہ کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ گویا کسی مدعی کا لمبی عمر پانا اس کے سچے ہونے کی دلیل ہے۔ کسی کا مارا جانا اس کے جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں۔ میر مہدی حسین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی ہیں وہ بھی لکھتے ہیں:
مَیں یہ بیان مؤکدّبہ قسم حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کی نسبت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کی مجلس میں سُنا ہے لکھ کر دیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا:
یحییٰ علیہ السلام کے قتل کی بابت یہ سمجھنا چاہئے کہ سلسلہ کا اوّل اور آخر نبی قتل نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہو تو کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور مصیبت حد سے بڑھ جاتی ہے۔ درمیانی انبیاء اور خلفاء اگر قتل ہوں تو اس قدر نقصان نہیں ہوتا۔
ابھی بعض اَور گواہیاں بھی میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے لے رہا ہوں مگر یہ بات بہرحال یقینی ہے کہ ہم نے اس بات کو اتنے تواتر کے ساتھ سُنا ہے کہ اس میں شُبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہو سکتی۔
مولوی ابو العطاء صاحب نے مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کی ایک شہادت بھی اپنے مضمون میں درج کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
بِالآخر مَیں جناب مولوی علام رسول صاحب راجیکی کے ایک تازہ خط کے مندرجہ ذیل اقتباس پر مضمون کو ختم کرتا ہوں جو یہ ہے:
’’حضرت خلیفۂ اوّل …کا یہی عقیدہ تھا کہ کوئی نبی قتل نہیں کیا گیا۔ بلکہ مَیں شہادۃً بِاﷲ لکھتا ہوں کہ مَیں نے اپنے کانوں سے ان کی زبانِ مبارک سے سُنا ہے کہ مَیں چونکہ نبیوں سے بہت محبت رکھتا ہوں اس لئے مَیں بھی قتل سے محفوظ رہوں گا۔ شاید یہ بات انہوں نے کسی الہامی بشارت کی بنا پر کہی ہو یا حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی مماثلتِ حفاظت پر قیاس فرماتے ہوئے‘‘۔۱۶؎
مَیں خود بتا چُکا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا یہی خیال تھا مگر جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے حوالہ جات نکال نکال کر آپ کو بتائے تو آپ نے فرمایا اب میں آئندہ کے لئے اس بات کو بیان نہیں کروں گا۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ مَیں نے حضرت خلیفہ اوّل کو وہ روایت سُنائی تھی یا نہیں جو ابھی مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق بیان کی ہے اور جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ اگر اس آیت کا یہی مطلب ہے تو اس کے آخری حصّہ کا کیا مطلب ہؤا؟ ممکن ہے شرم کے مارے مَیں نے آپ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بات کا ذکر نہ کیا ہو مگر یہ مجھے یقینی طور پر یاد ہے کہ مَیں اور حافظ صاحب مرحوم متواتر آپ کو اس بارہ میں توجہ دلاتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالہ جات دکھاتے اور روایات سُناتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنے سابقہ عقیدہ سے رجوع کیا اور فرمایا آئندہ مَیں یہ بات بیان نہیں کیا کروں گا۔٭ پس یہ شہادت کسی پر حُجت نہیں ہو سکتی۔ ایک شخص کو اگر علم ہی نہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فلاں مسئلہ کے متعلق کیا ارشاد فرمایا ہے یا آپ کی اس بارہ میں کیا رائے ہے تو وہ اگر لا علمی میں کوئی بات کہہ دے تو اس سے اَور لوگ استدلال نہیں کر سکتے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ نبوت اور کفرواسلام وغیرہ مسائل کے متعلق بھی بعض جُزئیات کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو پوری واقفیت نہیں تھی۔ پیغامیوں کا جب فتنہ اُٹھا اور اُنہوں نے ان مسائل کو غلط رنگ میں بیان کرنا شروع کیا تو بعض اجزاء کے متعلق بعض دفعہ آپ فرما دیتے ممکن ہے یہ بات یوں ہی ہو۔ مگر جب حوالہ جات نکال کر دکھائے جاتے تو آپ فرماتے ہاں اب بات میری سمجھ میں آگئی ہے لیکن اس مسئلہ کے متعلق جیسا کہ مَیں بتا چُکا ہوں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے صاف طور پر فرمایا تھا کہ اب مَیں آئندہ ایسی بات نہیں کہوں گا لیکن اگر بفرض محال ان کا یہ عقیدہ ہمیشہ رہا ہو تو بھی ان کی بات کو پیش کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کسی بات کو ردّ کرنا ایسی ہی بات ہے جیسے اس پٹھان نے کہا تھا خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا۔ حضرت خلیفۂ اوّل چاہے کتنی بڑی حیثیت رکھتے ہوں۔ ایک نبی کے مقابلہ میں ان کی بات کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر مؤمنوں کو ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْاأَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّکہ اے ایمانداروں تم اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔ پس اس آیت کے ماتحت تو ہم سمجھتے ہیں اگر حضرت خلیفۂ اوّل بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کسی بات کا انکار کر دیتے تو وہ ویسے ہی مجرم ہوتے جیسے دوسرے لوگ ہوتے مگر ہم جانتے ہیں انہوں نے انکار نہیں کیا اور اوّل المؤمنین ہوئے لیکن نَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ ذَالِکَ اگر وہ منکر ہوتے تو پھر کیا ان کی کوئی حیثیت ہماری جماعت میں ہوتی۔ آخر خلیفہ کی نبی کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہوتی ہے۔ خلیفہ تابع ہوتا ہے اور نبی متبوع۔ ہم حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کا اسلام میں بہت بلند مقام تسلیم کرتے ہیں مگر اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ اکر کل کو کوئی کہے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی فلاں بات غلط ہے کیونکہ حضرت ابو بکر ؓ نے یوں کہا تھا تو یہ بات حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کی شان کو بلند کرنے والی نہیں بلکہ آپ کی شان کو گرانے والی ہو گی۔ خلفاء کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے نبی متوبع کے تابع ہو کر چلیں۔ اگر وہ ان کی تعلیم سے باہر ہو کر کوئی بات کرتے ہیں تو ان کی کوئی ہستی ہی نہیں سمجھی جا سکتی۔ پس اﷲ تعالیٰ کے نبی کے مقابلہ میں کسی کی بات تسلیم نہیں کی جاسکتی خواہ وہ کتنا بڑا عالم کیوں نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام کتنا بلند ہے مگر آپ فرماتے ہیں اگر میرا الہام رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کے خلاف ہوتا تو مَیں اسے تھُوک کی طرح اُٹھا کر پھینک دیتا اور اس کی ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی قدر نہ کرتا۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے اور یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ آپ پر کوئی خلافِ قرآن الہام نازل ہوتا۔ پیغامی اس سے غلطی سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے الہامات کو کوئی وقعت نہیں دی اور آپ کے الہامات پر ایک ضعیف سے ضعیف حدیث بھی فوقیت رکھتی ہے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس جگہ اپنے الہامات کا غلط ہونا بیان نہیں کر رہے بلکہ قرآنی الہامات کی عظمت اور برتری کا ذکر فرما رہے ہیں اور لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وہ عظمت اور شان ہے کہ اگر میرے الہام خلافِ قرآن ہوتے تو مَیں انہیں تھُوک کی طرح پھینک دیتا یعنی کبھی ان کی بناء پر دعویٰ نہ کرتا اور اسے بلغم جتنی حیثیت بھی نہ دیتا۔ مولوی ابوالعطاء صاحب نے مولوی سیّد سرور شاہ صاحب کی ایک روایت کا بھی اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے۔ مولوی صاحب لکھتے ہیں:
’’مَیں نے مندرجہ بالا مضمون بمبئی سے لکھا تھا۔ میرے ذہن میں فولادی میخ کی طرح یہ بات قائم تھی کہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قتل انبیاء کے متعلق سوال کیا گیا تو حضور نے فرمایا کہ سلسلہ کا پہلا اور پچھلا نبی تو بہرحال قتل نہیں ہو سکتا۔ درمیانی انبیاء میرے راستہ میں نہیں آئے اس لئے ان کا حال مجھ پر نہیں کھولا گیا۔ (ملخصاً) اس روایت کا صاف مطلب یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قتلِ یحییٰ علیہ السلام وغیرہ کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ نہیں فرمایا لہٰذا اس سلسلہ میں تحقیق سے اگر یہ ثابت ہو کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے تو اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قطعی فیصلہ کے خلاف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ روایت مَیں نے بار ہا سُنی مگر یاد نہ رہا تھا کہ اس کے راوی کون بزرگ تھے۔ قادیان آنے پر معلوم ہؤا کہ استاذی المکرم حضرت مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ سے مَیں نے یہ روایت سُنی تھی۔ انہوں نے دریافت کرنے پر فرمایا کہ ہاں میری موجودگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مرتبہ یہی جواب دیا ہے۔ یہ قطعی اور یقینی بات ہے اور مَیں نے خود اسے بار ہا بیان کیا ہے‘‘۔
مَیں نہیں جانتا یہ روایت کیا ہے مگر کم سے کم چالیس پچاس لوگ ایسے گواہ ضرور ہوں گے جو یہ جانتے ہیں کہ جب پہلی دفعہ مولوی ابو العطاء صاحب کا یہ مضمون چھپا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں کئے گئے تو مَیں نے ایک دن عصر کے بعد مولوی سیّد سرور شاہ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا ’’الفضل‘‘ میں مولوی ابو العطاء صاحب کا ایک مضمون شائع ہؤا ہے جس میں اُنہوں نے لکھا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں کئے گئے۔ حالانکہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بار ہا سُنا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے تھے۔ اس پر مولوی سیّد سرور شاہ صاحب نے فرمایا مَیں نے بھی متعدد بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے یہی بات سُنی ہے۔ یہ بات کہیں علیحدہ نہیں ہوئی مجلس میں ہوئی۔ اُس وقت چالیس پچاس آدمی موجود تھے۔٭
اس کے بعد جب مولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے مولوی ابو العطاء صاحب کے مضمون کی تردید میں بعض مضامین لکھے تو ایک دن عصر کے بعد مسجد میں ہی مَیں نے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے اپنے مضامین کی آخری قسط میں جو یہ لکھا ہے کہ بعض لوگ اس قسم کے بے ہودہ خیالات رکھنے والے بھی دیکھے گئے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات پر اپنے اوہام کو مقدم رکھتے ہیں اور عذریہ کرتے ہیںکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوئی شارع نبی نہیں تھے اور اس میں کچھ شک بھی نہیں کہ آپ شارع نبی نہیں تھے مگر جو لوگ اپنے اجتہادات کو حضور کے ارشادات پر ترجیح دیتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے وہ خود کیا شارع نبی ہوتے ہیں۔ یہ آپ نے کیوں لکھا اور آپ کو کیونکر پتہ لگ گیا کہ مولوی ابوالعطاء صاحب کو اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم وضاحت سے بتائی جائے تو پھر بھی وہ آپ کا حُکم ماننے کے لئے تیار نہیں۔ ممکن ہے انہوں نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے عدمِ قتل کے متعلق جو کچھ لکھا ہو عدمِ علم کی وجہ سے لکھا ہو۔ پس آپ کو محض اصولی طور پر جواب لکھنا چاہئے تھا۔ یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام کو نہیں مانتا وہ ایسا ہوتا ہے پھر مَیں نے اس مجلس میں بھی ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہم نے بار ہا سُنا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے۔ اس پر مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب نے پھر کہا کہ واقع میں یہی بات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے ہیں۔ باقی رہی مولوی صاحب کی روایت۔ سو اس کا اصل مضمون سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ اوّل تو ممکن ہے مولوی صاحب کو خلط ہو گیا ہو کیونکہ یہ بات حضرت خلیفۂ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ ممکن ہے یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پُرانی تحقیق کی بنا پر فرمائی ہو۔ اس کی وضاحت آپ پر نہ ہوئی ہو مگر یہ اس سے پہلے کا واقعہ ہے کہ جب ہم نے حوالہ جات نکال کر دکھائے تھے پھر سوال یہ ہے کہ جن اُمور کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انکشاف ہؤا ہے وہ تو پھر وفاتِ مسیح وغیرہ چند ہی ہیں۔ اس لئے ہم میں سے ہر ایک کو حق ہونا چاہئے کہ جس مضمون میں چاہیں آپ سے اختلاف کریں۔ حکماً عدلاً اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کی معرفت آپ کا نام رکھا ہے۔ ہمارا تو نام نہیں رکھا۔ حق یہ ہے کہ ہر دینی مسئلہ کے متعلق جس کا ذکر قرآن و حدیث میں آیا ہو۔ آپ کا ہر قول حجت ہے اور اس قول کو تو آپ خود حجت قرار دے رہے ہیں۔ چنانچہ جو حوالے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے دیئے گئے ہیں ان میں تو بالوضاحت یہ بات پائی جاتی ہے اور وہاں شک کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ روایات میں تو پھر بھی کسی حد تک شُبہ کا امکان ہو سکتا ہے مگر تحریرات میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بِالوضاحت اس مسئلہ کو بیان فرمایا ہے اور ان کے ہوتے ہوئے کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے۔
خدا کرے غلط ہی ہو مگر مجھ پر مولوی صاحب کا مضمون پڑھ کر یہ اثر ہؤا ہے کہ گویا انہیں اس بات کا غصّہ ہے کہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے ان کے مضمون کی تردید کیوں کی ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے بعض جگہ پر حوالہ جات پر بھی غور نہیں کیا۔ چنانچہ انہوں نے ایک حوالہ میری طرف اور علمائِ سلسلہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے درج کیا ہے جو اگر وہ غور کرتے تو ہر گز اس قابل نہ تھا کہ اس موقع پر اور اس طرح اسے درج کیا جاتا۔ مولوی ابو العطاء صاحب مولوی محمداسماعیل صاحب کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جناب مولوی صاحب کے نزدیک کامیابی سے پہلے تو کوئی نبی قتل نہیں ہو سکتا۔ ہاں یہ کہنا کہ کوئی سچا نبی مطلق طور پر قتل ہو ہی نہیں سکتا یہ کُلّیۃً درست نہیں۔ کیونکہ قرآن مجید نے ۱۷؎میں یہ بتایا ہے کہ نبی قتل ہو سکتے ہیں اور فیِ الواقع قتل ہوئے ہیں۔ مَیں نہایت ادب سے اپنے محسن اُستاد کی خدمت میں عرض پرداز ہوں کہ شاید جناب کی نظر سے کے وہ معنے اوجھل ہو گئے جو اس آیت کے احمدی علماء کی طرف سے سیدنا حضرت …خلیفۃ المسیح الثانی اَیَّدَہُ اﷲُ بِنَصْرِہٖ کی زیرنگرانی شائع ہو چکے ہیں۔ لکھا ہے:اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ بنی اسرائیل نبیوں کو قتل کرتے تھے …پس سے یہ مراد نہیں کہ وہ فیِ الواقع نبیوں کو قتل کرتے تھے … کبھی قتل کا لفظ صرف کوششِ قتل یا اردۂ قتل پر بھی بولا جاتا ہے‘‘۔ ۱۸؎
مولوی ابوالعطاء صاحب نے اس حوالہ کو نقل کر کے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ مولوی صاحب کا سے یہ استدلال کہ نبی قتل نہیں ہو سکتے درست نہیں۔ کیونکہ علمائے سلسلہ احمدیہ نے خلیفۂ ثانی کی نگرانی میں جو ترجمہ کیا ہے۔ اس میں ان معنوں کو ردّ کیا ہے اور یہ درست ہے کہ سلسلہ کے علماء نے ان معنوں کو اس آیت میں ردّ کیا ہے لیکن جب احقاقِ حق کی کوشش کی جائے تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس یا اس حوالہ سے کیا نکلتا ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اصل مضمون کیا ہے اور اسی حوالہ سے جو مولوی صاحب نے درج کیا ہے اصل مضمون پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ بنی اسرائیل نبیوں کو قتل کرتے تھے کیونکہ حضرت موسیٰ کے زمانہ تک کسی نبی کا قتل بنی اسرائیل سے ثابت نہیں‘‘۔۱۹؎
اس دوسرے حصّہ سے ثابت ہے کہ علماء کے نزدیک صرف تاریخی بنیاد پر اس آیت کے یہ معنے کئے گئے ہیں کہ اس میں نبیوں کو قتل کرنا مراد نہیں بلکہ ان کے قتل کی کوشش مراد ہے کیونکہ اس آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے جو قتل نہیں کئے گئے اور اس سے اگلی عبارت میں گو نص نہیں لیکن اس طرف اشارہ ضرور موجود ہے کہ ترجمہ کرنے والوں کے نزدیک انبیاء کا مجرّد قتل ناممکن نہیں ہے۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑکے زمانہ تک کسی نبی کا قتل ثابت نہیں۔ پس مولوی صاحب کا فرض تھا کہ اس حصّہ کو بھی آپ بیان کرتے کیونکہ یہ میدان مباحثہ نہ تھا جہاں کبھی دُشمن کو خاموش کرانا مقصود ہوتا ہے بلکہ اپنے اخبار میں احقاقِ حق کی کوشش ہو رہی تھی۔ اگر مولوی صاحب کو کسی اور نے اس طرح قطع و برید کر کے یہ حوالہ نہیں دیا تو یقینا اس رنگ میں حوالہ نقل کرنا جائز نہ تھا۔ اگر علماء کا قول کوئی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کو خاموش کرایا جاسکتا ہے تو پھر ان کا وہ خیال بھی تو سامنے آنا چاہئے تھا جو زیر بحث مسئلہ کے بارہ میں تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے بغیر قرآن نکال کہ دیکھے عام تفسیری معنوں پر انحصار کر لیا اور یہ آیت بیان کر دی لیکن جیسا کہ ہم نے لکھا ہے اس جگہ قتل کے معنے قتل کے نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ مُشَارٌ عَلَیہِمْ حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ یا ان سے پہلے کے نبی ہیں اور وہ بِالاتفاق قتل نہیں ہوئے۔
مفسرین نے اس امر پر غور نہیں کیا اور عام عقیدہ کے مطابق یہاں بھی لکھ دیا ہے کہ وہ نبیوں کو قتل کرتے تھے۔ ہم نے اس فرق کو ظاہر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس آیت میں یہ معنے نہیں ہو سکتے کیونکہ اس وقت تک کسی نبی کا قتل ثابت نہیں مگر اس آیت کے علاوہ اور آیات ہیں جن پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا مثلاً آل عمران میں لکھا ہے ۲۰؎ اسی طرح اور مقامات میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ نبیوں کا قتل ایک اہم امر ہے اور عام طور پر ہم ایسے معنے کرنے کی طرف راغب رہتے ہیں جن سے اس مضمون کی وسعت کو محدود کیا جائے مگر جہاں خدا تعالیٰ کی گواہی ہو اُسے کیونکر ردّ کیا جاسکتا ہے۔
غرضیکہ ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک کسی نبی کا قتل بنی اسرائیل سے ثابت نہیں‘‘ کا صاف مطلب یہ تھا کہ بعد میں ایسے قتل ہوتے رہے ہیں مگر انہوں نے صرف وہ حصّہ نقل کر دیا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ اس آیت میں قتل سے مراد حقیقی قتل نہیں۔ حالانکہ عبارت میں اشارہ موجود ہے کہ اس کے بعد کے زمانہ میں قتل انبیاء ثابت ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہم کہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کبھی کوئی اُمتی نبی نہیں ہؤا تو کوئی شخص ہمارے ان الفاظ کو لے اُڑے اور کہنا شروع کر دے کہ صاف اقرار کر لیا گیا ہے کہ کبھی کوئی اُمتی نبی نہیں ہو سکتا۔ ہر شخص اسے کہے گا کہ یہاں تو یہ ذکر ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کبھی کوئی اُمتی نبی نہیں ہؤا۔ یہ تم نے کہاں سے نکال لیا کہ بعد میں بھی کوئی امتی نبی نہیں ہو گا۔ اسی طرح یہاں یہ لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک کسی نبی کا قتل بنی اسرائیل سے ثابت نہیں اور سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام ہی ہو سکتے ہیں اور ان دونوں نبیوں کو بنی اسرائیل نے قتل نہیں کیا مگر اسے ایسے رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ طبیعت پر یہ اثر ہو کہ بنی اسرائیل نے کبھی کسی نبی کو قتل نہیں کیا۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ ہم نے یہ لکھا ہے کہ ’’کبھی قتل کا لفظ صرف کوششِ قتل یا ارادۂ قتل پر بھی بولا جاتا ہے‘‘ مگر سوال یہ ہے کہ کیا قتل کا لفظ واقعی قتل پر نہیں بولا جاتا۔ یقینا قتل پر بھی یہی لفظ بولا جائے گا۔ مگر یہاں جو ہم نے اس کے معنے کوششِ قتل یا ارادۂ قتل کے کئے ہیں تو اس لئے کہ یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہی ذکر تھا اور تاریخوں سے یہ امر ثابت ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کر سکے۔
پس چونکہ یہود اس وقت اپنے ارادۂ قتل میں ناکام رہے تھے اور اس آیت میں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کے متعلق ہے۔ کے الفاظ آتے تھے اس لئے ہم نے اس کے معنے کوششِ قتل یا ارادۂ قتل کے کئے لیکن یہ بات تو اُس وقت کے علم کی بنا پر لکھی گئی تھی۔ (حقیقت یہ ہے کہ ترجمہ قرآن کا یہ نوٹ اور یہ استدلال میرا ہی لکھا ہؤا ہے) اب جو میرا علم ہے اس کی بناء پر مَیں کہہ سکتا ہوں کہ ممکن ہے اس وقت بھی یہود نے بعض انبیاء کو قتل کیا ہو کیونکہ تاریخ سے بعض شہادتیں اس امر کے متعلق ملتی ہیں کہ حضرت ہارون علیہ السلام بھی شہید کئے گئے تھے اور یہود نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ہارون کی ترقی سے جل کر اسے قتل کر ڈالا ہے۔ پس اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس وقت کے لحاظ سے بھی کے یہی معنے ہوں کے کہ بنی اسرائیل نبیوں کو قتل کیا کرتے تھے۔ یہ معنے نہیں ہوں گے کہ وہ کوششِ قتل یا ارادۂ قتل کرتے تھے۔
ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری اور میر مہدی حسین صاحب کے علاوہ حافظ محمد ابراہیم صاحب امام مسجد محلہ دارالفضل کی بھی یہ شہادت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح ؑ سے اپنی مماثلت کے ذکر میں ایک دفعہ فرمایا کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے اسی طرح مجھ سے پہلے سیّد احمد صاحب بریلوی شہید ہوئے۔
(اس موقع پر حضور کے ارشاد پر بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے حافظ محمد ابراہیم صاحب کی حسب ذیل شہادت بیان کی:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی مشابہتیں پہلے مسیح کے ساتھ بیان فرما رہے تھے جس میں آپ نے فرمایا کہ گورنمنٹ برطانیہ بھی اسی طرح ہے جس طرح روما کی سلطنت حضرت مسیح کے زمانہ میں تھی۔اسی ضمن میں آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح ؑ سے پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح ؑ کی گواہی کے لئے بھیجا۔ وہ بھی شہید کئے گئے۔ مجھ سے پہلے حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی جو حضرت یحییٰ علیہ السلام نبی کے ہم شکل تھے ان کو خدا نے میری گواہی کے لئے بھیجا اور وہ بھی شہید کئے گئے۔ یہ بھی ایک مماثلت میری مسیح کے ساتھ ہے‘‘۔
پھر اسی ضمن میں یہ بھی فرمایا کہ سلسلہ کا پہلا نبی اور آخری نبی لوگوں کے ہاتھ سے بچایا جاتا ہے۔ درمیان میں اگر کوئی شہید بھی ہو جائے تو سلسلہ کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔)
مَیں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بار ہا سُنا ہے کہ سلسلۂ موسویہ میں حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلے بطور ارہاص حضرت یحییٰ علیہ السلام آئے اور وہ شہید کئے گئے۔ اسی طرح سلسلہ محمدیہ میں مجھ سے پہلے حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی بطور ارہاص آئے اور وہ بھی شہید کئے گئے۔ یہ بھی میری حضرت مسیح ناصری سے ایک مماثلت ہے۔٭
اِس وقت تو مَیں صرف انہی روایتوں پر اکتفا کرتا ہوں۔ ایک مَیں نے اپنی روایت کا ذکر کیا ہے ایک ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری کی روایت کا، ایک میر مہدی حسین صاحب کی روایت کا اور ایک حافظ محمد ابراہیم صاحب کی روایت کا۔ میرا مقصد ان روایات کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ نوجوان علماء کا خواہ وہ علم میں کتنے ہی بڑھ جائیں ہر گز حق نہیں کہ وہ ایسے وسائل کے بارہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچتے ہوں انہیں بغیر ان لوگوں سے رائے لئے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں ایک لمبا عرصہ ہے کوئی رائے قائم کریں اور اس پر لوگوں کو لانے کی کوشش کریں۔ ابھی ہمارا زمانہ ہے اور ہم وہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے تمام باتیں سُنیں۔ پس یہ ہمارا حق ہے کہ ہم جماعت احمدیہ کو یہ بتائیں کہ وہ کون سے امور ہیں جن پر انہیں اپنے عقائد کی بنیاد رکھنی چاہئے۔ دوسروں کا یہ فرض ہے کہ وہ ہمارے تابع ہو کر چلیں اور اگر کسی بات میں انہیں اختلاف ہو تو اس کو اسی رنگ میں دور کرنے کی کوشش کریں کہ صحابۂ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جمع کیا جائے اور ان سے دریافت کیا جائے کہ انہوں نے فلاں مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا سُنا ہے تاکہ اگر آیت کے معنوں میں اختلاف ہو تو صحابہ کی روایتوں سے فیصلہ کیا جائے اور جہاں کتابوں میں کوئی مسئلہ نہ ملے تو پھر صرف صحابہ کی روایات اور ان کے تأثرات کو دیکھا جائے اور تحقیق کی جائے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس بارہ میں کیا سُنا ہؤا ہے۔ مولوی ابوالعطاء صاحب نے اپنے مضمون میں ایسے حوالہ جات پر بنیاد رکھی ہے جن میں صرف اصولی طور پر ان باتوں کو بیان کیا گیا ہے اور انہوں نے ان اصولی امور کو لے کر یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے حالانکہ اصولی باتوں سے نتیجہ اخذ کرنا کبھی درست نہیں ہوتا اور اگر یہ درست طریق ہو تو پھر حدیث میں جو یہ آتا ہے کہ لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ۲۱؎ کہ کوئی نماز سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نہیں ہوتی اس کے مطابق ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص رکوع میں آکر جماعت میں شامل ہو جائے تو اس کی وہ رکعت نہ ہوکیونکہ اس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی ہو گی۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فتویٰ موجود ہے کہ باجماعت نماز میں رکوع میں شامل ہو نے والے کی رکعت ہو جاتی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں لکھا ہے ۲۲؎کہ قیامت کے روز نہ کوئی بیع ہو گی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ شفاعت ہو گی۔ حالانکہ قرآن کریم کے بعض اور مقامات میں اور احادیث میں بھی شفاعت کا ذکر آتا ہے تو بعض دفعہ ایک بات عام قاعدہ کے رنگ میں بیان کی جاتی ہے حالانکہ اس میں مستثنیات بھی ہوتے ہیں اور جب عام قاعدہ کے علاوہ کسی استثنیٰ کا بھی صراحتاً ذکر موجود ہو تو پھرقیاس کے کیا معنے ہو سکتے ہیں۔ اس طرح تو پیغامی بھی استدلال کر لیا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں قرآن کریم کی سورۂ حجرات میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ۔۲۳؎ اے لوگو! ہم نے تم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے۔ اس آیت کے ہوتے ہوئے یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی شخص بن باپ پیدا ہو سکے۔ ہم جب کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو وہ کہتے ہیں دیکھو قرآن کریم میں صراحتاً یہ آیت موجود ہے کہ ہم مَرد اور عورت سے انسان کو پیدا کیا کرتے ہیں۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی بغیر باپ کے پیدا ہو جائے۔ ہم اس کے جواب میں یہی کہا کرتے ہیں کہ عام اصول تو یہی ہے مگر جب خداتعالیٰ نے حضرت مسیح ؑکا استثناء بھی کر دیا اور اسی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کو بن باپ تسلیم کیا تو وہ استثناء اس عام کُلّیہ میں شامل کس طرح ہو سکتا ہے۔ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہر انسان کی دو آنکھیں اور دو ہاتھ ہوتے ہیں۔ اب کوئی شخص کسی اندھے کو پکڑ کر ہمارے سامنے لا کر کھڑا کر دے اور کہے تم جھوٹ بولتے ہو اس کی تو دو آنکھیں نہیں یا کسی لنجے کو پکڑ کر ہمارے سامنے لے آئے اور کہے تم کس طرح کہتے ہو ہر انسان کے دو ہاتھ ہوتے ہیں۔ اس کے تو کوئی ہاتھ نہیں۔ تو ہم اسے یہی کہیں گے کہ جب ہم نے یہ کہا تھا کہ ہر انسان کی دو آنکھیں ہوتی ہیں یا ہر انسان کے دو ہاتھ ہوتے ہیں تو یہ فقرہ ہم نے اس استثناء کو تسلیم کر کے کہا تھا۔ تو اگر بعض مستثنیات ثابت ہوں تو کلیہ ہمیشہ مستثنیٰ کے تابع ہو گا نہ کہ مستثنیٰ کُلیہ کے تابع ہو گا۔
یہی غلطی کھا کر پیغامیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بن باپ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ کہتے ہیں قرآن کریم میں صاف لکھا ہے ہم نے تم سب کو مَرد اور عورت سے پیدا کیا ہے۔ جب ہر ایک کو مرد اور عورت سے پیدا کیا گیا ہے تو حضرت مسیح علیہ السلام بغیر باپ کے کس طرح پیدا ہو گئے۔ ہم ان کو یہی جواب دیتے ہیں کہ اگر کوئی استثناء ثابت ہو جائے تو پھر کلیہ اس مستثنیٰ کے تابع ہو گا اور وہ کُلّیہ اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھے گا بلکہ وہ کُلّیہ مستثنیات کے ساتھ ثابت ہو گا اور اگر کوئی استثناء نہ ہو تو پھر بیشک کُلّیہ اپنی اصلی حالت پر قائم رہے گا۔ جیسے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔۲۴؎ اب یہ بالکل درست ہے اور ہم بھی اسے تسلیم کرتے ہیں مگر ہم غیر احمدیوں سے کہتے ہیں تم یہ بھی تو دیکھو کہ آیا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی استثناء بھی کیا ہے یا نہیں۔ جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسے نبی کی آمد کا استثناء کیا ہؤا ہے جو آپ کی شریعت کا تابع ہو تو لَا نَبِیَّ بَعْدِیْسے مطلقاً ہر قسم کی نبوت کے بند ہونے کا استدلال کرنا کیونکر درست ہو سکتا ہے۔ تو خالی کُلّیے کوئی چیز نہیں ہؤا کرتے بلکہ ان کے ساتھ مستثنیات کو بھی دیکھا جاتا ہے اور اگر مستثنیات ثابت ہوں تو پھر مستثنیات مقدم ہوں گے اور کُلّیے مؤخر ہوں گے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ کُلّیات دو قسم کے ہؤا کرتے ہیں۔ ایک کُلّیہ سُنت اﷲ کا ہوتا ہے اس میں اگر کوئی استثناء سمجھا جائے تو وہ کُلّیہ کے تابع کیا جائے گا کیونکہ اﷲ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ۔۲۵؎ سنت اﷲ میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ پس اگر سنتُ اﷲ کا کسی اور بات سے اختلاف ہو جائے تو ہم کہیں گے استثناء کے اور معنے کرو اور سنتُ اﷲ کو اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے دو کیونکہ سنتُ اﷲ کبھی نہیں بدلتی لیکن جہاں سنت اﷲ نہ ہو وہاں استثناء مقدم ہو گا اور کُلّیہ مؤخر۔ اب اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ سارے انسان دو ہاتھ رکھتے ہیں اور پھر کہتا ہے کہ بعض اندھے بھی ہوتے ہیں، بعض لنجے بھی ہوتے ہیں تو پہلے کُلّیہ کو استثناء کے ساتھ مِلا کر ہمیں پڑھنا پڑے گا اور اگر ہم اس اصل کو مدّ نظر نہ رکھیں تو لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِکے ماتحت یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رکوع میں آکر شامل ہو جائے اور سورۂ فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی رکعت ہو جاتی ہے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صریح فتویٰ موجود ہے کہ اس شخص کی جو رکوع میں شامل ہو رکعت ہو جاتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا پہلے یہی عقیدہ تھا کہ سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر رکعت نہیں ہوتی مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ نے یہ سُنا کہ رکعت ہو جاتی ہے تو آپ نے فرمایا اب مَیں نے اپنی رائے بدل لی ہے۔ پھر فرمایا کہ اب مَیں اس حدیث کے یہ معنے لے لوں گا کہ اگر کوئی شخص عمداً سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا یا نماز میں شامل نہیں ہوتا اور اس انتظار میں بیٹھا رہتا ہے کہ امام رکوع میں گیا تو مَیں شامل ہو جاؤں گا اس کی وہ رکعت نہیں ہو گی مگر جو شخص اتفاق سے ایسے وقت پہنچتا ہے جب کہ امام رکوع میں ہے تو چونکہ اس کی نیت یہی تھی کہ مَیں سورۂ فاتحہ پڑھوں اس لئے جب وہ رکوع میں شامل ہو گیا تو اس کی نیت اور مجبوری کو دیکھتے ہوئے اﷲ تعالیٰ وہ رکعت اس کے نام لکھ دے گا اور وہ ایسا ہی سمجھا جائے گا جیسے دوسرے جنہوں نے سورۂ فاتحہ پڑھی۔
تو اگر کوئی کُلیہ بیان ہو اور دوسری جگہ بعض مستثنیات کا ذکر ہو تو مستثنیات کو شامل کر کے اس کُلیہ کو بیان کرنا پڑے گا جیسے مَیں نے بتایا ہے کہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے لَا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ کہ قیامت کے دن نہ بیع ہو گی نہ دوستی ہو گی نہ شفاعت ہو گی۔ حالانکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ شفاعت کا مسئلہ درست ہے اور جاہل سے جاہل مسلمان بھی اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ قیامت کے دن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے شفیع ہوں گے۔ حتّٰی کہ قرآن کریم بھی دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ وہاں شفاعت تو ہو گی مگر بِاذْنِ اﷲ ہو گی۲۶؎ اور حدیثوں میں تو نہایت تفصیل سے واقعۂ شفاعت کو بیان کیا گیا ہے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن مَیں اپنی اُمت کی شفاعت کروں گا۲۷؎ اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ باقی انبیاء بھی اور ملائکہ بھی بلکہ مؤمن بھی شفاعت کریں گے اور جب سب شفاعت کر کے فارغ ہو جائیں گے تو اﷲ تعالیٰ فرمائے گا میرے نبیوں نے بھی شفاعت کر کے اپنا حق لے لیا، میرے صدیقوں نے بھی شفاعت کر کے اپنا حق لے لیا، میرے شہیدوں نے بھی شفاعت کر کے اپنا حق لے لیا اور میرے نیک اور پاک بندوں نے بھی شفاعت کر کے اپنا حق لے لیا۔ اب صرف مَیں رہ گیا ہوں۔ آؤ مَیں بھی اپنے علم اور رحمت سے کام لوں اور وہ اپنا ہاتھ ڈال کر دوزخ سے نکال لے گا اور اس کے نکالے ہوئے باقی سب کی شفاعت والے لوگوں سے کئی گُنے زیادہ ہوں گے۔ یہ بھی آتا ہے کہ اس کا ذکر کر کے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا دیکھو اﷲ تعالیٰ کی مُٹھی کے بعد اور کیا رہ جائے گا۔۲۸؎ تو شفاعت جو اتنا یقینی اور قطعی مسئلہ ہے اس کے متعلق بھی قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ لَا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ کہ اس دن نہ کوئی بیع ہو گی نہ دوستی ہو گی نہ شفاعت۔اس کا یہی مطلب ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس شفاعت کو ردّ کر دے گا جو بغیر اذن کے کی جائے گی مگر جو شفاعت باذن اﷲ ہو گی اس کو وہ قبول کرے گا کیونکہ اور مقامات پر اس کا ذکر آتا ہے۔ اسی طرح جہاں انبیاء کا قتل ممکن ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اسے ردّ نہیں کرتیں مگر جہاں وہ قتل نا ممکن ہے جیسے سلسلہ کے اوّل یا آخر نبی کا قتل وہاں وہ تحریرات اسے ردّ کر دیں گی۔ بظاہر ہم دو ہی سلسلے سمجھتے ہیں ایک سلسلہ موسویہ اور ایک سلسلۂ محمدیہ لیکن جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار انبیاء آچکے ہیں تو ممکن ہے پچاس ساٹھ سَو یا دو سَو مختلف سلسلے چل کر ختم ہو چکے ہوں اور چونکہ الٰہی سلسلہ کا پہلا اور پچھلا نبی قتل نہیں ہوتا اس لئے دو سَو یا چار سَو انبیاء ایسے نکل آئیں گے جو کسی صورت میں قتل نہیں ہو سکتے تھے۔ رہ گئے درمیانی انبیاء سو ان کے متعلق بھی یہ کوئی ضروری نہیں کہ جو درمیان میں نبی آئے وہ ضرور قتل ہو۔ مطلب صرف یہ ہے کہ اگر درمیانی انبیاء میں سے کوئی قتل ہو جائے تو وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا مثلاً حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق یہ ثابت ہے کہ وہ شہید ہوئے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کے متعلق بھی ثابت ہے کہ وہ شہید ہوئے اسی طرح دوسری قوموں میں جو انبیاء آئے ہیں ان میں سے بھی بعض کے متعلق ان کی قومیں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ قتل ہوئے ہیں۔ ہندوؤں میں حضرت کرشن اور حضرت رام چندر جی یہ دو نبی ہوئے ہیں۔ مجھے اب صحیح طور پر یاد نہیں مگر ان میں سے بھی ایک کے متعلق بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ وہ قتل ہوئے۔ حضرت زرتشت علیہ السلام کے متعلق بہت سے زرتشتی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ قتل ہوئے اور یہ امر تاریخ سے بھی ثابت ہے۔ پھر اگر سقراط کو اپنے وقت کا نبی سمجھا جائے جیسا کہ اس کے دعوؤں میں الہامی رنگ نظر آتا ہے تو وہ بھی قتل ہؤا ہے۔ سقراط نے اپنے زمانہ میں شرک کے خلاف آواز اُٹھائی تھی اور اس نے ایسے ہی دعوے کئے تھے جیسے نبی دعوے کیا کرتے ہیں۔ جب اُسے کہا گیا کہ ان دعوؤں کو چھوڑ دو تو اُس نے جواب دیا اگر یہ عقلی بات ہوتی تو مَیں اسے ردّ کر دیتا مجھے تو آسمان سے خدا تعالیٰ کی یہ آواز سُنائی دیتی ہے کہ بتوں میں کوئی طاقت نہیں اور تُو اس کے خلاف آواز اُٹھا اور تو ایک خدا کی پرستش کی لوگوں کو تعلیم دے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی کوئی نبی تھے۔ بہرحال ایسے لوگ گزرے ہیں جنہیں ان کی قوموں نے نبی یقین کیا مگر تاریخیں کہتی ہیں کہ وہ قتل ہوئے۔ حضرت زرتشت علیہ السلام کے متعلق تو یہ یقینی طور پر ثابت ہے کہ وہ شہید ہوئے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں جب ایران کا ملک فتح ہؤا اور بہت سے ایرانی قید ہو کر آئے تو اس وقت یہ سوال پیدا ہؤا کہ ایرانیوں سے کیسا سلوک کرنا چاہئے؟ کیا ان سے مشرکوں جیسا معاملہ کرنا چاہئے یا اہلِ کتاب جیسا۔ اس پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایرانیوں سے اہلِ کتاب جیسا سلوک کرنا چاہئے کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجر کے مقام پر جنگِ تبوک پر جاتے ہوئے بعض ایرانیوں سے ویسا ہی سلوک کیا تھا جیسے اہلِ کتاب سے کیا جاتا ہے اور جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے اہلِ کتاب جیسا سلوک کیا تو اس کا صاف یہ مطلب تھا کہ آپ نے حضرت زرتشت علیہ السلام کو نبی تسلیم کیا اور حضرت زرتشت علیہ السلام کے متعلق یہ ثابت ہے کہ ان کی وفات قتل سے ہوئی ہے۔
درحقیقت ہم حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق اگر یہ زور دیتے ہیں کہ وہ قتل نہیں ہوئے تو دو وجہ سے۔ اوّل یہ کہ وہ سلسلۂ موسویہ کے آخری نبی تھے اور اس وجہ سے قتل ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ دوسرے یہود یہ چاہتے تھے کہ صلیب پر مار کر انہیں *** ثابت کریں اور یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی نبی *** ثابت ہو۔ پس اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے ورنہ درمیانی انبیاء میں سے بعض قتل ہوئے ہیں اور کسی نبی کا قتل ہونا ہر گز اس کے جھوٹے ہونے کی علامت نہیں ہو سکتی۔
مولوی ابو العطاء صاحب کے تمام حوالے قریباً ایسے ہی ہیں جن میں اصولی رنگ میں بات بیان کی گئی ہے۔ صرف ایک حوالہ ایسا ہے جس میں ’’اَور‘‘ کا لفظ آتا ہے اور اس سے شُبہ پڑ سکتا ہے کہ شاید حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے مگر جب قطعی اور یقینی حوالے ایسے موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں تو ہمیں اس حوالہ کو ان کے تابع کرنا پڑے گا اور سمجھنا پڑے گا کہ ممکن ہے اور کتابت کی غلطی سے لکھا گیا ہو یا یہ کہ اس کا کوئی ایسا مطلب ہو جو ہم نہیں سمجھے (میں نے ابھی اصل کتاب نکال کر حوالہ نہیں دیکھا ممکن ہے اس کے دیکھنے سے مطلب حل ہوجائے) آخر کتابوں اور اخباروں میں کتابت کی بیسیوں غلطیاں ہوتی ہیں۔ اگر چند غلطیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں بھی ہو گئی ہوں تو ان سے قطعی اور یقینی حوالوں کو کس طرح ردّ کیا جاسکتا ہے۔ مَیں نے تو دیکھا ہے خطبہ جمعہ مَیں آپ درست کرتا ہوں مگر جب اخبار میں چھپ کر آتا ہے تو کتابت کی بیسیوں غلطیاں اس میں ہوتی ہیں۔ ایک دو غلطیاں تو ہمیشہ ہوتی ہیں اور بعض دفعہ بیس بیس غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ شاید اخبار والے خطبہ پڑھتے نہیں کہ باوجود میری اصلاح کے ان کے کاتب اس قدر غلطیاں کر جاتے ہیں یا پڑھتے تو ہیں مگر غلطیاں درست نہیں کی جاتیں۔بہرحال کتابت کی کئی غلطیاں میرے خطبات میں بھی ہوتی ہیں۔ حالانکہ وہ میری نظر سے گزر چُکا ہوتا ہے اسی طرح ممکن ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر میں بھی کتاب کی غلطی ہو گئی ہو کیونکہ جب دوسرے یقینی اور قطعی حوالے ہمارے پاس موجود ہیں تو ہم اس ایک کی وجہ سے ان تمام حوالوں کو ردّ نہیں کر سکتے۔ بہرصورت جو حوالہ نہ سمجھ میں آئے اسے اکثریت کے تابع کرنا ہو گا۔
پھر صرف حوالوں کا سوال نہیں بلکہ ہم نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے سُنا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے نہ ایک دفعہ بلکہ بار بار اور اب یہ بات ہمارے اس قدر ذہن نشین ہو چکی ہے کہ کسی صورت میں نہیں نکل سکتی۔ اگر ہم اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واضح ارشادات کے خلاف چلنے لگیں تو اور مسائل میں بھی تفسیر بِالرائے کا غلبہ ہوجائے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا کام مخفی ہو جائے گا۔
کوئی ایک دفعہ کی بات ہو تو شُبہ کی گنجائش ہو سکتی ہے مگر یہ بات تو ہم مسلسل اور متواتر سُنتے رہے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں اگر اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واضح ارشادات کوہم اپنی قوتِ استدلال سے ردّ کرنے لگ گئے تو پھر احمدیت کا کیا باقی رہے گا۔
پس مَیں نے مناسب سمجھا کہ اس امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلا دوں۔ اصل مضمون کے متعلق بھی میں انشاء اﷲ روشنی ڈالوں گا۔ فی الحال میں نے ایک تو اپنی گواہی پیش کر دی ہے دوسری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض صحابہ کی گواہیاں پیش کی ہیں۔ ان تحریروں اور شہادتوں کے بعد کسی کا اپنے قیاس سے باتیں کرنا ہر گز درست نہیں ہو سکتا اور میرے نزدیک ’’الفضل‘‘ والوں نے قطعاً فرض شناسی سے کام نہیں لیا۔ ان کو چاہئے تھا کہ وہ اس مضمون کو ردّ کر دیتے یا کم سے کم نظارتِ دعوۃ و تبلیغ کے پیش کرتے یا میرے پاس بھجوا دیتے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قطعی اور یقینی حوالے انہی کے اخبار میں شائع ہو چکے تھے تو اس کے بعد کسی مخالف مضمون کے درج کرنے کے معنے ہی کیا تھے۔ بیشک مولوی ابو العطاء صاحب کے مضمون میں بھی بعض حوالے ہیں مگر وہ سب قیاسات اور استدلالات ہیں لیکن مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کے مضمون میں اس کے متعلق نصوص درج ہیں اور نصوصِ بیّنہ کے شائع ہو جانے کے بعدہر گز الفضل کا حق نہ تھا کہ بغیر مشورہ کے اس مضمون کو شائع کرتا اور ادارۂ الفضل کو چاہئے تھا کہ ایسا مضمون میرے سامنے پیش کرتا اور اگر میرے سامنے انہوں نے پیش نہیں کیا تھا تو خود ہی ردّ کر دیتے مگر انہوں نے قطعاً فرض شناسی سے کام نہیں لیا۔
پس مَیں اس موقع پر یہ امر واضح کر دیتا ہوں کہ صحابہ کی موجودگی میں نئے علماء کو یہ ہر گز کوئی حق نہیں کہ وہ اپنی طرف سے استنباط اور اجتہاد کریں۔ اگر دُنیا نے اپنے استنباط اور اجتہاد سے یہ کام لینا تھا تو کسی نبی کے آنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ ہمارا حق ہے کہ اگر کوئی اختلاف ہو تو ہم اس کو نپٹائیں اور صحیح طریق جماعت کے سامنے پیش کریں اور نئے علماء کا بھی یہ فرض ہے کہ جب کوئی اختلافی مسئلہ سامنے آجائے تو وہ اسے مجلس صحابہ کے سامنے پیش کریں۔ بیشک وہ خود اس امر کا اختیار نہیں رکھتے کہ صحابہ کی ایک مجلس قائم کریں مگر وہ سلسلہ کی وساطت سے ایسا کر سکتے ہیںاِن کا فرض ہے کہ وہ اختلافی مسئلہ میرے سامنے رکھیں۔ اگر مَیں اس کے متعلق ضرورت سمجھوں گا تو خود بخود صحابہ کو جمع کر لوں گا اور اس طرح جو بات طے ہو گی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشا کے عین مطابق ہو گی۔ اگر ہم یہ طریق اختیار کریں تو آئندہ کے لئے بالکل امن ہو جائے گا اور کوئی ایسا اختلاف پیدا نہیں ہو گا جو جماعت کی گمراہی کا مؤجب ہو لیکن اگر ہر شخص اپنے طور پر ایسے مسائل پر رائے زنی کرنا شروع کر دے جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھلے حوالے موجود ہوں اور ایسا استدلال پیش کرے جو ان کو ردّ کرتا ہو تو آئندہ نسلوں کے لئے بڑی مشکل پیش آئے گی اور وہ حیران ہوں گی کہ ہم کون سا مسلک اختیار کریں لیکن اگر نئے مسائل یا اختلافی مسائل ہمارے سامنے پیش کئے جائیں اور ہم اس بارہ میں اپنا فیصلہ نافذ کریں تو اگلے لوگ بہت سی گمراہیوں سے بچ جائیں گے کیونکہ ان کے سامنے وہ فیصلے ہوں گے جو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متفقہ ہوں گے یا ایسے فیصلے ہوں گے جن پر صحابۂ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثریت کا اتفاق ہو گا اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے کوئی مسئلہ صاف ہو جائے تو پھر صحابہ ؓ کے فیصلوں کی ضرورت نہیں لیکن اگر کتابوں میں کوئی بات وضاحت سے نہ ملے یا اختلاف ہو جائے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی روایات اور ان کے ان تاثرات کو دیکھنا پڑے گا جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے رکھتے چلے آرہے ہیں اور جو سُنت کے قائمقام ہیں۔ روایات میں ایسا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ الفاظ یاد نہیں رہتے مثلاً مجھے یہ تو یاد ہے کہ مَیں نے قرآن کریم کی یہ آیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے رکھی کہ اور میں نے کہا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے مگر آپ نے ان معنوں کو غلط قرار دیا اور فرمایا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے مگر مجھے دلیل جو آپ نے بتائی یاد نہیں رہی۔
دوسری روایت مجھے یہ یاد ہے کہ آپ نے فرمایا سلسلہ کا صرف پہلا اور پچھلا نبی قتل نہیں ہو سکتا درمیانی انبیاء میں سے اگر کوئی قتل ہو جائے تو اس سے اس سلسلہ کی صداقت مشتبہ نہیں ہوسکتی اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ سلسلۂ موسویہ کی سلسلۂ محمدیہ سے ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ جس طرح سلسلۂ موسویہ کے آخر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے اور ان سے پہلے بطور ارہاص حضرت یحییٰ آئے اس طرح سلسلۂ محمدیہ کے آخر میں مَیں آیا اور مجھ سے پہلے بطور ارہاص حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی آئے اور یہ کہ جس طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام جو حضرت مسیح ؑ سے پہلے آئے شہید ہوئے تھے اسی طرح سیّد احمد صاحب بریلوی جو مجھ سے پہلے آئے تھے شہید ہوئے۔ یہ دو روائتیں مجھے یقینی طور پر یاد ہیں۔ اس کے علاوہ جیسا کہ میں نے بتلایا ہے میری طبیعت پر اس زمانہ سے یہ اثر چلا آتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے اور یہ اثر اتنا پُختہ ہے کہ اب کسی کی زبان سے یہ سُننا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے ایسا ہی قابل تعجب ہے جیسے کوئی کہہ دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ موجود تھا۔ یہ میرا اثر کوئی معمولی نہیں بلکہ نہایت ہی زبردست ہے کیونکہ مَیں نے قرآن اُس استاد سے پڑھا ہے جس کا یہ عقیدہ تھا کہ انبیاء قتل نہیں ہو سکتے۔
پس اگر یہ اثر مجھ پر نہ ہوتا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں تو لازماً میں بھی اسی بات کا قائل ہوتا کہ کوئی نبی قتل نہیں ہؤا کیونکہ مجھے حضرت خلیفہ اوّل جیسا استاد ملا تھا اَور یہ قدرتی بات ہے کہ ایسے ماہرِ قرآن کی طرف سے جو سبق ملے وہ طبیعت سے نہیں اُتر سکتا مگر باوجود اس کے وہ کون سی چیز تھی جس نے مجھے اس عقیدہ کا قائل نہ ہونے دیا۔ وہ یہی چیز تھی کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اس امر کے قائل ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تو اگر ہمیں ایک اشارہ بھی نظر آجاتا تو حضرت خلیفۂ اوّل کی سَو دلیلیں بھی ہمارے لئے بیکار ہو جاتی تھیں بلکہ سَو کیا ہم کہا کرتے تھے حضرت خلیفۂ اوّل اگر دس ہزار دلیلیں بھی کیوں نہ دیتے چلے جائیں ہمیں پرواہ نہیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جب ہمیں ایک ارشاد مِل گیا تو اب ہمارا عقیدہ تو وہی ہو گا اس کے خلاف نہیں ہو سکتا۔
حضرت خلیفۂ اوّل نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کم پڑھی تھیں اور مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے پاس بعض کتب کے پروف پڑھنے کے لئے بھجوادیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے کہا حضور! مولوی صاحب تو یہ کام اچھی طرح نہیں کر سکتے۔ میر مہدی حسین صاحب یہ کام خوب کرتے ہیں ان کا دیکھنا کافی ہے۔ تو آپ نے فرمایا ہم تو اس لئے بھجواتے ہیں کہ مولوی صاحب کو فرصت کم ہوتی ہے۔ کتاب پڑھنی مشکل ہوتی ہے۔ آپ اسی طرح ہماری تحریرات سے واقف ہوتے جائیں گے۔ اور اس وجہ سے بعض دفعہ پرانی تحقیق کو آپ پیش کر دیا کرتے تھے اور بعض دفعہ آپ اجتہاد سے کام لے کر ایک فلسفیانہ رنگ اختیار کرلیتے تھے۔ مثلاً آپ نے ایک دفعہ ایک شخص کو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دے دی تھی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صریح فتویٰ موجود ہے کہ کسی مکفّر، مکذّب یا متردّد کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کی یہ بھی عادت تھی کہ آپ اپنی اجازت کی تشریح بھی کر دیا کرتے۔ چنانچہ اس اجازت کے بعد اس شخص کا بھائی بھی آیا کہ مجھے بھی غیراحمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ اُس وقت مَیں آپ کی مجلس میں بیٹھا تھا۔ آپ نے میری طرف دیکھ کر اُسے فرمایا تمہارے بھائی کو تو ہم نے اس لئے اجازت دی تھی کہ وہ نماز پڑھتا ہی نہیں تھا۔ پس مَیں نے کہا جب وہ نماز پڑھتا ہی نہیں تو چلو اس اجازت کے ماتحت کم از کم اسے نماز پڑھنے کی عادت تو ہو جائے گی مگر ہم تمہیں اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اگر اجازت لینا چاہتے ہو تو تم پہلے اپنے بھائی کی طرح بن جاؤ پھر ہم تمہیں بھی اجازت دے دیں گے تو یہ ایک حکیمانہ رنگ تھا اسے فتویٰ نہیں کہا جاسکتا۔
مَیں نے ابھی مولوی ابو العطاء صاحب کے پیش کردہ تمام حوالوں کو نہیں دیکھا مگر انہوں نے جو میرا حوالہ پیش کیا ہے اس میں چونکہ غلطی رہ گئی ہے ممکن ہے ان کے دیکھنے سے مضمون زیادہ کھل جاتا۔ مَیں نے آج اس بارہ میں کئی اَور صحابہ سے بھی پوچھا ہے کہ انہیں اس مسئلہ کے متعلق کیا یاد ہے۔ میاں بشیر احمد صاحب نے یہ جواب دیا کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی روایت تو یاد نہیں مگر اتنا یقینی طور پر یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہمارا یہی عقیدہ ہؤا کرتا تھا کہ بعض انبیاء قتل بھی ہوئے ہیں مگر یہ مجھے یاد نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے میں نے ایسا سُنا ہو۔ میر محمد اسحاق صاحب نے بھی یہی جواب دیا کہ مجھے کوئی حوالہ تو یاد نہیں مگر یہ یاد ہے کہ ہمارا عقیدہ یہی ہؤا کرتا تھا کہ بعض انبیاء قتل بھی ہوئے ہیں۔ پھر مَیں نے اپنی شہادت پیش کی ہے اور ماسٹر عبدالرحمن صاحب، میر مہدی حسین صاحب اور حافظ محمد ابراہیم صاحب کی گواہیوں سے بھی یہی ثابت ہے۔بعض اور صحابہ کو بھی مَیں نے خطوط لکھوائے ہوئے ہیں اور میرا منشاء ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق صحابہ کی روایتوں اور ان کے تاثرات کو جمع کردوں٭ کیونکہ صحابہ مَرتے چلے جاتے ہیں اور اگر ہم نے جلدی توجہ نہ کی تو بعد میں کسی قیمت پربھی ان باتوں کو حاصل نہیں کر سکیں گے۔۲۹؎ مگر بہرحال جب تک ہم لوگ زندہ ہیں یہ ہمارا حق ہے کہ ہم ان مضامین کے متعلق اُس علم کو پیش کریں جو ہم نے براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سُنا اور نئے علماء کا خواہ وہ علم میں ہم سے ہزاروں گنے زیادہ ہوں، یہ حق نہیں کہ وہ اس حصہ میں اپنے علم کو پیش کریں۔ ان تمام باتوں میں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی بات ثابت ہو ہمارا حق او رہمارا کام ہے کہ ہم جماعت کی راہبری کریں اور دُنیا کا کوئی شخص ہمارے اس مقام کو ہم سے چھین نہیں سکتا اور اگر کوئی شخص یہ حق صحابۂ مسیح موعود علیہ السلام سے چھینے گا تو وہ خود بھی گمراہ ہو گا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا۔ صداقت ہمارے پاس ہے اور ہمارے کانوں میں ابھی تک وہ آوازیں گونج رہی ہیں جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست سُنیں۔ مَیں چھوٹا تھا مگر میرا مشغلہ یہی تھا کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں بیٹھا رہتا اور آپ کی باتیں سُنتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام کتابیں اب بھی مَیں نہیں کہہ سکتا کہ مَیں نے پڑھی ہوں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست ہم نے اس قدر مسائل سُنے ہوئے ہیں کہ جب آپ کی کتابوں کو پڑھا جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام باتیں ہم نے پہلے سُنی ہوئی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عادت تھی کہ آپ دن کو جو کچھ لکھتے دن اور شام کی مجلس میں آکر بیان کر دیتے اس لئے آپ کی تمام کتابیں ہم کو حفظ ہیں اور ہم ان مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء اور آپ کی تعلیم کے مطابق ہوں۔ بیشک بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو صرف اشارہ کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ تفصیلات کا ان میں ذکر نہیں اور اُن باتوں کے متعلق ہمیں ان دوسرے لوگوں سے پوچھنا پڑتا ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت اُٹھائی ہے اور اگر ان سے بھی کسی بات کا علم حاصل نہیں ہوتا تو پھر ہم قیاس کرتے اور اس علم سے کام لیتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے ہمیں بخشا ہے مگر باوجود اس کے میرا اپنا طریق یہی ہے کہ اگرمجھے کسی بات کے متعلق یہ معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی تحریر اس کے خلاف ہے تو مَیں فوراً اپنی بات کو ردّ کر دیتا ہوں۔ اِسی مسجد میں ۱۹۲۲ء یا ۱۹۲۸ء کے درس القرآن کے موقع پر مَیں نے عرش کے متعلق ایک نوٹ دوستوں کو لکھوایا جو اچھا خاصہ لمبا تھا مگر جب مَیں وہ تمام نوٹ لکھوا چُکا تو شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی یا حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک حوالہ نکال کر میرے سامنے پیش کیا اور کہا کہ آپ نے تو یوں لکھوایا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے مَیں نے اس حوالہ کو دیکھ کر اُسی وقت دوستوں سے کہہ دیا کہ مَیں نے عرش کے متعلق آپ لوگوں کو جو کچھ لکھوایا ہے وہ غلط ہے اور اسے اپنی کاپیوں میں سے کاٹ ڈالیں۔ چنانچہ جو لوگ اُس وقت میرے درس میں شامل تھے وہ گواہی دے سکتے ہیں اور اگر ان کے پاس اُس وقت کی کاپیاں موجود ہوں تو وہ دیکھ سکتے ہیں کہ مَیں نے عرش کے متعلق نوٹ لکھوا کر بعد میں جب مجھے معلوم ہؤا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ اس کے خلاف ہے اسے کاپیوں سے کٹوا دیا اور کہا کہ ان اوراق کو پھاڑ ڈالو کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے خلاف لکھا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کے مقابلہ میں بھی ہم اپنی رائے پر اڑے رہیں اور کہیں کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہی صحیح ہے اور اپنے نفس کی عزت کا خیال رکھیں تو اس طرح تو دین اور ایمان کا کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا۔
پس یاد رکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حَکم عدل ہیں اور آپ کے فیصلوں کے خلاف ایک لفظ کہنا بھی کسی صورت میں جائز نہیں۔ ہم آپ کے بتائے ہوئے معارف کو قائم رکھتے ہوئے قرآن کریم کی آیات کے دوسرے معانی کر سکتے ہیں مگر اسی صورت میں کہ ان میں اور ہمارے معافی میں تنا قض نہ ہو۔ میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ ہمارے لئے نئے معانی کرنے ناجائز ہیں بے شک تم قرآن کریم کے معارف بیان کرو اور ایک ایک آیت کے ہزاروں نہیں لاکھوں معارف بیان کرو۔ یہ سب تمہارے لئے جائز ہو گا اور ہمارے لئے خوشی کا مؤجب بلکہ اگر تم قرآن کریم کی ایک ایک آیت کو سَو سَو جزو کی تفسیر بھی بنا ڈالو تو اگر وہ قابلِ قدر ہو گی ہمارے دل اس پر فخر محسوس کریں گے کیونکہ ہر باپ چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا اس سے بڑھ کر عالم ہو مگر یہ اسی صورت میں ہو گا کہ تمہارا کوئی استدلال اور تمہارا کوئی نکتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تعلیم کے خلاف نہ ہو اور اگر تم کسی آیت کے کوئی ایسے معنے کرتے ہو جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ردّ کیا ہے تو وہ معنے ردّ کئے جائیں گے لیکن آپ کی تعلیم کو برقرار رکھتے ہوئے اگر تم بعض زائد مطالب قرآنی آیات کے بیان کر دیتے ہو تو وہ مسیح موعود کا طفیل ہو گا اور آپ کی خوشہ چینی اور آپ کی متابعت کی برکت ہو گی جیسا کہ ہم جو کچھ بیان کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اور آپ کی برکت سے ہے۔ آخر اﷲ تعالیٰ کے انبیاء جو آتے ہیں وہ کتاب اﷲ کی ساری تفسیر خود تو نہیں کر جاتے وہ اپنے ماننے والوں کے اندر ایسا ملکہ پیدا کر دیتے ہیں کہ جس سے فائدہ اُٹھاتے اور اسے ترقی دیتے ہوئے وہ نئی سے نئی تفسیریں کر سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں بھی بہت کم قرآنی آیات ہیں جن کی آپ نے تفسیر کی ہے اور جن آیات کی آپ نے تفسیر فرمائی بھی ہے ان میں سے بھی چند آیات ہی ایسی ہیں جن کے ایک سے زیادہ معارف آپ نے بیان کئے ہیں۔ ورنہ عام طور پر ایک آیت کے ایک معنے ہی آپ نے کئے ہیں۔ اب اگر ہم کسی آیت کے پانچ یا سات یادس معنے بھی کر دیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نَعُوْذُ بِاﷲِ بڑھ گئے یا آپ کے معانی کو ہم نے ردّ کر دیا کیونکہ ہم جو کچھ بیان کریں گے آپ سے فیض حاصل کر کے کریں گے اور ہم جس قدر معارف لوگوں پر ظاہر کریں گے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی متابعت کے طفیل کریں گے۔ پس چونکہ ہمارے معانی آپ کی شان کو بُلند کرنے والے ہوں گے اور وہ اس صداقت کا ایک زندہ نشان ہوں گے جو آپ نے ہمارے سامنے رکھی کہ قرآنِ کریم غیر محدود معارف کا خزانہ ہے اس لئے ان کے بیان کرنے میں نہ صرف کوئی حرج نہیں بلکہ ان کے بیان کرنے سے اسلام اور احمدیت کی عظمت ظاہر ہوتی ہے لیکن اگر کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیان کردہ معنوں کے خلاف قرآنِ کریم کی کسی آیت کے کوئی اور معنے کرے تو ہم وہ معنے اسے نہیں کرنے دیں گے۔ بے شک بعض دفعہ انسان بجائے اپنا عقیدہ یا اپنا مذہب بیان کرنے کے دوسروں کے عقیدہ کو بھی اپنے الفاظ میں بیان کر دیتا ہے مگر اس وقت وہ اس سے اپنی صداقت کا استدلال نہیں کرتا مگر یہاں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام زور دیتے اور فرماتے ہیں کہ میری حضرت مسیح ؑ سے ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ ان سے پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام بطور ارہاص آئے جو شہید ہوئے اور مجھ سے پہلے حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی بطور ارہاص آئے جو شہید ہوئے۔ اس روایت کا ایک تو مَیں گواہ ہوں، ایک ماسٹر عبدالرحمن صاحب گواہ ہیں اور ایک حافظ محمد ابراہیم صاحب گواہ ہیں اور ہم تینوں کی یہ گواہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فرمایا کہ سلسلۂ محمدیہ کی سلسلۂ موسویہ سے ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ جس طرح وہاں حضرت یحییٰ شہید ہوئے اسی طرح یہاں سیّد احمد صاحب بریلوی شہید ہوئے۔ اب اس دلیل کو خطابیات میں کس طرح شمار کیا جاسکتا ہے۔ خطابیات کے لئے تو زبردست قرائن اور وجوہ چاہئیں اور اگر وہ قرائن اور وجوہ نہ پائے جائیں تو اسے خطابیات بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ شاید عام لوگ خطابیات کے معنے نہ سمجھتے ہوں اس لئے مَیں انہیں سمجھانے کے لئے بتا دیتا ہوں کہ خطابیات اسے کہا جاتا ہے کہ کسی دوسری قوم کے عقیدہ کو نقل کر لیا جائے اور کہا جائے کہ چونکہ تم فلاں بات اس طرح مانتے ہو اس لئے تم پر یہ حجت ہے اب اس تعریف کے ماتحت خود ہی غور کرو کہ یہ بات خطابیات میں کس طرح شمار کی جاسکتی ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جس طرح حضرت یحییٰ شہید ہوئے جو حضرت مسیح سے پہلے ان کی خبر دینے کے لئے آئے اسی طرح حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی شہید کئے گئے جو مجھ سے پہلے آپ کی بعثت کی خبر دینے کے لئے آئے۔ اب اگر یہ بات خطابیات میں سے ہے تو یہ کس پر حُجت ہو سکتی ہے ؟ کیا غیر احمدی حضرت سیّد احمد بریلوی کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کا مثیل مانتے ہیں یا عیسائی ان کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کا مثیل مانتے ہیں؟ جو بات خطابیات میں سے ہو وہ تو وہ دلیل ہؤا کرتی ہے جو غیر قوموں کے لئے حجت ہو۔ مثلاً اگر ہم کہیں کہ انجیل میں یوں لکھا ہے تو یہ امر عیسائیوں پر تو حُجت ہو سکتا ہے مگر ایک مسلمان پر کس طرح حُجت ہو سکتا ہے جبکہ وہ انجیل کو الہامی کتاب مانتا ہی نہیں۔ مثال کے طور پر دیکھ لو انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ناصری نے شراب پی۔ اب اس بناء پر ہم عیسائیوں کو تو ملزم کر سکتے ہیں مگر کیا ہم مسلمانوں کو بھی کہہ سکتے ہیں کہ اے مسلمانو! حضرت مسیح ؑ نے شراب پی تھی اور جب ہم پر اعتراض ہو تو ہم کہہ دیں یہ خطابیات میں سے تھا۔ جب ہم مسلمانوں کے سامنے مسیح ؑ کے ایسے واقعات پیش کریں گے جن کو وہ نہیں مانتے تو وہ خطابیات نہیں کہلائیں گے بلکہ ایسے حقائق کہلائیں گے جن کو ہم تسلیم کرتے ہیں۔ غرض خطابیات وہی باتیں ہوتی ہیں جہاں ایسے لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہو جن پر ان باتوں کی وجہ سے اتمام حُجت ہو سکتاہو مگر جب اپنی جماعت کے سامنے کسی بات کا ذکر ہو رہا ہو اور دوسری کسی قوم پر وہ بات حُجت بھی نہ ہو تو اُسے خطابیات میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔
خطابیہ کے معنے اپنے مخاطب کے عقیدہ کے بیان کو اس پر حجت کرنے کی غرض سے بیان کرنے کے ہیں مگر اپنی جماعت کو چُپ کرانا تو مدِّنظر نہیں ہوتا۔ اپنی جماعت کو تو ہدایت دینا مدِّنظر ہوتا ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہم کوئی دلیل دے کر ایک عیسائی کو چُپ کرا دیں یا ایک یہودی کو چُپ کرا دیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ انجیل کا حوالہ دے کر اپنی جماعت سے کوئی بات منوانے اور اسے چپ کرانے کی کوشش کریں۔ غرض اگر ہم غیروں کی کتب سے کوئی ایسا استدلال کریں گے جس سے ہم ان پر حجت نہیں کرتے بلکہ اپنی قوم یا اس قوم کے سوا دوسری کسی اَور قوم کو کوئی علم دیتے ہیں تو ہمارا ایسا استدلال خطابیات میں شمار نہیں ہو گا۔ ہاں اگر وہ استدلال جس کتاب سے کیا گیا ہے دلیل بھی اسی کے ماننے والوں کے خلاف ہے تو پھر قرائن اگر موجود ہوں تو وہ
خطابیات میں سے کہلا سکتا ہے۔‘‘ (الفضل ۳؍ستمبر ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الحجرات: ۳
۲؎ کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۱۷۰، ۱۷۱ مطبوعہ حیدر آباد ۱۳۱۴ ھ
۳؎ ابو داؤد کتاب الملاحم باب خبر ابن الصائد
۴؎ الانعام: ۲۲
۵؎ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۳ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۹
۶؎
۷؎ خبرے: شاید۔ کیا پتہ
۸؎ الانعام: ۹۲ ۹؎ الحاقۃ: ۴۵ ۱۰؎ مریم: ۱۶
۱۱؎ مریم : ۳۴ ۱۲؎ الانعام: ۵۵ ۱۳؎ النحل: ۳۳
۱۴؎ طٰہٰ : ۴۸ ۱۵؎ المائدۃ: ۱۷
۱۶؎ الفضل ۲۷؍اگست
۱۷؎ البقرۃ: ۶۲
۱۸؎ ، ۱۹؎ تفسیر کبیر جلد ۱ صفحہ ۴۸۰ ، ۴۸۱ (مفہوماً)
۲۰؎ اٰل عمران: ۱۱۳
۲۱؎ بخاری کتاب الاذان باب وجوب القراء ۃ للامام (الخ) میں یہ الفاظ ہیں’’ لَا صَلٰوۃَ
لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ‘‘
۲۲؎ البقرۃ: ۲۵۵ ۲۳؎ الحجرات: ۱۴
۲۴؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل
۲۵؎ الاحزاب : ۶۳
۲۶؎ (البقرۃ:۲۵۶)
۲۷؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اﷲ عزّوجلّ و لقد ارسلنا نوحاً الٰی قومہٖ
۲۸؎ مسلم کتاب الایمان باب معرفۃ طریق الرؤیۃ
۲۹؎ یہ شہادات الفضل ۳؍ستمبر اور ۱۱؍نومبر ۱۹۳۸ء میں شائع ہوئیں۔

۲۹
استثنائی طور پر انبیاء قتل ہو سکتے ہیں
(فرمودہ ۲؍ستمبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’میں نے پچھلے خطبہ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے متعلق بعض باتیں کہی تھیں اور میں نے اس بارہ میں الفضل کے عملے پر بھی اظہارِ نا پسندیدگی کیا تھا کہ انہوں نے کیوں ایک ایسی بات بغیر پوچھے اور بغیر مشورہ لینے کے شائع کر دی جس کے متعلق خود ان کے اخبار میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام کے حوالہ جات بِالتفصیل چھپ چکے تھے ۔ایڈیٹر صاحب ’’الفضل‘‘ نے اس کی ایک معذرت کی ہے وہ تو میرے نزدیک درست نہیں ہے مگر اس نے مضمون میں سے ایک اَور شاخسانہ پیدا کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو یہ دوسرا مضمون شائع کیا ہے اس سے پہلے مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کا مضمون آیا تھا جو ہم نے شائع نہیں کیا۔ اسے تو میں سمجھ نہیںسکا کہ اگر ایک کی بجائے دو مضمون آجائیں تو انسان مجبور ہو جاتا ہے مگر بہرحال ایڈیٹر صاحب نے وہ مضمون مجھے بھیج دیا ہے اور اسے پڑھنے کے بعد میں اِس امر کی ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ اس کے متعلق بھی بعض باتیں کہہ دوں ۔گو وہ مضمون شائع نہیں ہؤا مگر چونکہ شائع ہونے کے لئے آیا تھا اِس لئے اسے شائع شدہ سمجھنا چاہئے ۔انبیاء کی جماعتوں کے لئے روحانیت کا معیار بلند رکھنا نہائت ضروری ہوتا ہے ساری ہی دنیا انبیاء کی جماعتوں پر پھٹکار ڈالتی ہے۔ اگر ان کے مخالفوں کی زبان میں تأثیر ہو اور اگر ان کی لعنتیں کچھ اثر کر سکتی ہوں تو شاید ان کا نام و نشان بھی مٹ جائے ۔ہر طرف سے ان پر *** و پھٹکار پڑتی ہے اور ایک ہی چیز ان کے لئے موجبِ تسکین و تسلّی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں ۔
باپ بیٹے پر *** کرتا ہے ، بھائی بھائی پر، بیوی خاوند پر اور خاوند بیوی پر،دوست دوست پر، غرض اِس قدر گالیاں ان کو دی جاتی ہیں، اِس قدر بد دعائیں ان کے لئے کی جاتی ہیں، اس قدر بُرا کہا جاتا ہے اور ان کو اس قدر حقیر سمجھا جا تا ہے کہ اگر انسانوں کی زبانوں میں تأثیر ہو تی تو وہ جل کر راکھ ہو جاتے مگر ا ن کا اللہ تعالی پر توکل ہوتاہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر بھائی گیا ہے تو جائے،بیوی گئی ہے تو جائے، اگر ماں باپ گئے ہیں تو جائیں، دوست جاتے ہیں تو جائیں، ایک ہی چیز ان کے پاس ہوتی ہے اور وہ ان کا خدا ہوتا ہے۔
پس اگر ہم روحانیت کو پورے طور پر اور ایسے طور پر نہ پکڑیں جیسے انسان ڈوبتے وقت کسی سہارے کو پکڑتا ہے اور کسی صورت میں اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تو پھر ہماری بدبختی کی کوئی حد نہیں ہوگی اور ہماری مثال و ہی ہو گی:
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ہم چونکہ اللہ تعالی کے مامور کی جماعت ہیں اور یہ سب باتیں ہم نے دیکھی اور دیکھ رہے ہیں سنی اور سن رہے ہیں، محسوس کی ہیں اور محسوس کر رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پر ہمارا توکل نہ ہوتا تو جس قسم کا گند ہمارے خلاف اچھالا جا رہا ہے اس کا سواں حصہ بھی اگر ایسے شخص کے متعلق اچھالا جائے جس کا توکل اللہ تعالیٰ پر نہ ہو تو وہ مر جائے ۔اگر نہ مرے تو جنگلوں اور غاروں میں چلا جائے تاکہ کسی کو منہ نہ دکھا سکے اور محض اللہ تعالی پر توکل ہی ہے جو ہمیں دنیا کو منہ دکھانے کی طاقت دیتا ہے اور اس کی آواز ہمارے کانوںمیں آتی اور کہتی ہے کہ تم یہ گالیاں میری خاطر سنتے ہو پس سنو اور برداشت کرو اور صبر کرو ۔ورنہ جو کچھ ہمیں کہا جاتا ہے اسے کوئی چوہڑا اور سانسی بھی بر داشت نہیں کر سکتا ۔
یہ تو نہیں کہ ہمارے دل نہیں ۔ہمارے بھی دل ہیں، ہمارے بھی جذبات ہیں، ہم بھی غیرتیں رکھتے ہیں اور ہمارے اندر بھی شرم و حیا کا مادہ ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ؓمیں بھی یہ باتیں تھیں اور آپ سے پہلے انبیاء اور ان کی جماعتوں میں بھی مگروہ سنتے تھے اور چُپ رہتے تھے کیونکہ سمجھتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے رستے میں ہے اور یہی چیز ہے جو ان کو خداتعالیٰ کے حضور پیارا اور محبوب بنا دیتی ہے اور جو مرنے کے بعد ا ن کے کام آئے گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی محبت دیکھیں گے کہ جسے دیکھ کر ان کو گالیاں دینے والے اگلے جہان میں کٹ کٹ کر مریں گے جب خدا تعالیٰ ان کو پیار کرے گا،جب وہ محبت کے تمام ظہور ان کے لئے ظاہر کرے گا تو ان کو گالیاں دینے والے کہیں گے کہ کاش! دنیا کی بیسیوں سالوں کی خوشیاں نہ ہوتیں اور اِس جہان کی ایک منٹ کی خوشی حاصل ہو جاتی۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کے لئے مؤمن یہ ساری باتیں بر داشت کرتے ہیں ورنہ اور کیا چیز ان کی ڈھارس بندھاتی ہے پس اِس ایک ہی چیز کو سنبھالنا نہایت ہی ضروری ہے۔ ہمارے سب کاموں کی بنیاد تقوی اللہ پر ہونی چاہئے اور ہمارے تعلقات بھی خدا تعالیٰ کے لئے ہونے چاہئیں کسی سے دوستی یا دشمنی کے لئے نہیں۔
مجھے یہ مضمون دیکھ کر نہایت تعجب ہؤا اور میں نے چاہا کہ دوستوں کو پھر ایک دفعہ نصیحت کروں کہ اپنے معاملات اور تعلقات کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے رکھا کرو اور ان کی بنیاد کسی قسم کی نفرت یا محبت پر نہ رکھو۔ میں نے بعض اپنے گزشتہ خطبات میں ہی بیان کیا ہے کہ بعض لوگ کسی سے محبت یا نفرت کی وجہ سے ٹھوکر کھا جاتے ہیں وہ کسی سچی بات کو نفر ت کی وجہ سے قبول نہیں کرتے ۔اوردوست کی جھوٹی بات کو بھی سچ سمجھ لیتے ہیں۔ مولوی غلام رسول صاحب نے یہ مضمون اخبار میں اشاعت کے لئے بھیجا ہے اور گو وہ شائع نہیں ہؤا مگر وہ اس کی اشاعت کی اجازت دے چکے ہیں بلکہ وہ خوش ہوتے اگر یہ شائع ہو جاتا ۔اس لئے اس کو شائع شدہ سمجھ کر اس کے متعلق بعض باتیں کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
مولوی صاحب لکھتے ہیں ’’وہ ـــــــ پاک نیت کے ساتھ اپنے اپنے معلومات کے دائرہ کے اندر صداقت کی تائید میں قلم کو جُنبش دینا خواہ حقیقت نفس الامری کے لحاظ سے مضمون کی نوعیت صداقت سے مختلف نظر آئے ،پھر بھی موجبِ ثواب ہے۔ہاں بعد انکشافِ حقیقت و اتمامِ حُجت ضد کے ساتھ قبولِ حق سے اعراض اختیار کرنا سخت عیب اور غیر مناسب ہے ۔ہمیں تعلیمِ احمدیت کی بناء پر با وجود دونوں فاضلوں کے اختلافِ مضمون کے دونوں کے متعلق حُسنِ ظن ہے ۔مولوی ابو العطاء صاحب کا مضمون اَور طرح کے نظریہ کے لحاظ سے لکھا گیا ہے اور مولانامولوی محمداسماعیل صاحب کا مضمون اَور طرح کے نظریہ کے لحاظ سے۔ مولانا محمد اسمٰعیل صاحب کا مضمون اِس لحاظ سے کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیش کردہ حوالہ جات سے مولوی ابولعطا ء صاحب کا مضمون مخالف جہت پر محسوس ہوتا ہے تردید میں لکھنا جماعت احمدیہ کے لئے ایک قابلِ قدر امر ہے بشرطیکہ علمِ تنقید صحیح حاصل ہو۔ اور اگر مولانا محمد اسمٰعیل صاحب کا یہ قابلِ قدر طرزِ عمل ہر مخالف مضمون کے مقابل جو سیدنا حضرت اقدس کے حوالہ جات سے مخالف جہت پر بصورت تعارض وتخالف پایا جاتا ہو بغرض تنبیہہ مضمون نگار کو متنبہ اور جماعت کے افراد کو علمی مفاد کے لحاظ سے مستفید فرماتے رہا کریں تو یہ بھی ایک فائدہ بخش خدمت ہے گو اِس کے متعلق یہ بھی خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ افرادِجماعت کی خداداد علمی طاقتیںبجائے اِس کے کہ مخالفین کے محاذمیں صَرف کی جائیں خانہ جنگی کے طور پر اپنے ہی نقصان کا موجب نہ بن جائیں چنانچہ کئی احباب نے مجھ سے ذکر کیا اور تعجب کرتے ہوئے ذکر کیا کہ حضرت ڈاکٹر میر محمداسماعیل صاحب کا مضمون جو یکم جون کے’’ الفضل‘‘ میں شائع ہؤا ہے ـاس میں حضرت یونس علیہ اسلام کے متعلق جو کچھ مچھلی کا واقعہ لکھا ہے حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں داخل نہیں کئے گئے تھے اور نہ وہ مچھلی کے پیٹ کے اندر رہے یہ نہ صرف قرآن کریم کی نصِّ صریح لَلَبِث فِیْ بَطَنِہٖ ۱؎کے ہی خلاف ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو اسلام کی تحریروں میں بھی جس قدر حوالے پائے جاتے ہیں سب کے خلاف ہے اور کسی ایک حوالے سے بھی حضرت ڈاکٹر صاحب کی پیش کردہ بات کی تصدیق نہیں ہوتی اور مولانا محمد اسماعیل صاحب جنہوں نے مولوی ابو العطا ء صاحب کے مضمون کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ اسلام کے پیش کردہ حوالہ جات کے خلاف پا کر فوراََ تردید میں مضمون لکھ دیا۔ کیوں انہوںنے حضرت ڈاکٹر صاحب کے مضمون کی تردید میں حضرت اقدس کے حوالہ جات پیش نہیں کئے اور کیوں خاموشی اختیار کر لی ۔میںنے یہی عرض کیا کہ ممکن ہے مولانا صاحب حضرت ڈاکٹر صاحب کے خلاف حضرت اقدس کی تحریروں سے حوالہ جات نکالنے کے لئے کوشش کر رہے ہوںاور پھر حسبِ دستور ان حوالہ جات کو بھی ’’الفضل‘‘کی کسی اشاعت میں شائع کرا دیں ۔ہاں بعض حوالہ جات جو یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ کے اندر داخل ہونے کے متعلق پائے جاتے ہیں کتاب ’’مسیح ہندستان میں‘‘ اور کتاب ’’راز حقیقت‘‘۔ ’’کشف الغطائ‘‘ اور نور القرآن حصہ دوئم سے مل سکتے ہیں اور ’’حقیقۃ الوحی ‘‘ کے تتمہ کے صفہ ۳۱پرحضور اقدس فرماتے ہیں:
’’قوم کی تضرع اور زاری سے یونس نبی کی پیشگوئی ٹل گئی جس سے یونس نبی کو بڑا ابتلا پیش آیا اور وہ پیشگوئی کے ٹل جانے سے رنجیدہ ہؤا اِس لئے خدا نے اُس کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا ‘‘
ایسا بہت سی کتب مسیح موعود علیہ السلام میں اس طرح کا حوالہ مل سکتا ہے کہ یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں داخل کئے گئے تھے اور پھر مسیح علیہ السلام کا زندہ قبر میں داخل ہونا اور زندہ تین دن تک رہنا اور زندہ نکلنا یونس علیہ السلام کے واقعہ حوت کی مماثلت میں پیش کیا گیا اور جنین کا رحمِ مادہ میں زندہ رکھنا اور ہزار ہا جراثیم کا دوسری ہستیوں میں زندگی کے ساتھ قائم رکھنا جس خدا کا قانون ہے اُس کا کسی مناسب مچھلی کے پیٹ میں یونس ؑکا زندہ رکھنا خواہ وہ غشی کی حالت میں ہوتصرفاتِ قدرت سے مستبعد نہیں ۔‘‘
گو مولوی غلام رسول راجیکی صاحب نے آگے چل کر مولوی محمد اسماعیل صاحب کے مضمون کی تردید میں بعض حوالے درج کئے ہیں اور اپنے درجہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے الفاظ بھی بہت احتیاط سے استعمال کئے ہیں مگر جیسا کہ ہر پڑھنے والا سمجھ سکتا ہے ان کے مضمون میں اس قسم کا اشارہ ضرور ہے کہ مولوی محمد اسماعیل صاحب نے ڈاکٹر محمدا سمٰعیل صاحب کے مضمون کی تردید کیو ں نہیں کی ۔جو مضمون میر صاحب کی طرف منسوب کیا گیا ہے و ہ اگر اِسی طرز پر ہے تو یقینا غلط ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متواتر احکام اور ارشادات کے خلاف ہے اور اس وجہ سے اِس کی غلطی واضح ہے ۔مگر مولوی صاحب کے اس مضمون میں سے جس چیز نے مجھ پر اثر کیا ہے وہ یہ ہے کہ کسی شخص کے متعلق یہ اعتراض کرنا کہ اس نے فلاں مضمون کا جواب دیا ہے اور فلاں کا نہیں دیاچاہے اِسی رنگ میں کہہ دیا ہو کہ حوالے نکال رہے ہوں گے یہ طریق صحیح نہیں ۔کیا یہ فرض ہے کہ ہر ایسے مضمون کا جواب مولوی محمد اسمٰعیل صاحب ہی دیا کریں ؟ کیا یہ بھی کوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے؟ مولوی راجیکی صاحب کے مضمون میں اِس بات کا واضح اشارہ ہے کہ میر صاحب کے مضمون کا جواب کسی اور وجہ سے نہیں دیا گیا حالانکہ یہ بات تقویٰ اللہ اور عقل دونوں کے خلاف ہے ۔جو اعتراض مولوی راجیکی صاحب نے اپنے مضمون میں مولوی محمداسمٰعیل صاحب پر کیا ہے وہ خود ان پر بھی پڑتا ہے۔ انہوں نے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب پر اعتراض کیا ہے کہ کل انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی تردید کرنے والے ایک مضمون کا جواب دیا ہے ،دوسرے کا کیوں نہیں دیا لیکن یہی اعتراض مولوی راجیکی صاحب پر پڑتا ہے بلکہ زیادہ سخت صورت میں پڑتا ہے کہ انہوںنے اس مضمون کا جواب تو دیا جو مولوی ابواعطا ء صاحب کے مضمون کی تردید میں لکھا گیا تھا مگر اُس کا کیوں نہ دیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کو ردّ کرنے والا تھا۔ جب میر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی تردید کی تو وہ منتظر رہے کہ کوئی اور ان کا ردّ کرے لیکن جب مولوی ابوالعطاء کی تردید ہوئی توانہوں نے فوراََ اس کے ردّ میں مضمون لکھنا ضروری سمجھا ۔پھر میں نے تو میر صاحب کا یہ مضمون نہیں پڑھا اگر پڑھتا تو یقینا اس کا ردّ کرادیتا اور اس طرح یہ بھی ممکن ہے کہ مولوی محمداسمٰعیل صاحب نے بھی وہ نہ پڑھا ہو مگر مولوی راجیکی صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ انہوںنے دونوں مضمون پڑھے ہیں لیکن چونکہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے کہیں بیان نہیں کیا کہ انہوں نے ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب کا مضمون پڑھا ہے اس لئے یہ خیال ہوسکتا ہے کہ شاید مولوی محمداسمٰعیل صاحب نے میر صاحب کا مضمون نہ پڑھا ہو ۔یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ آدمی ’’الفضل‘‘میں جو کچھ چھپا ہو سارے کا سارا پڑھے ۔میں نے میر صاحب کے کئی مضمون پڑھے ہیں مگر یہ میری نظر سے نہیں گزرا۔اسی طرح مولوی غلام رسول راجیکی صاحب کے مضامین چھپتے رہتے ہیں ان میں سے بعض میں نے پڑھے ہیں بعض نہیں پڑھے۔ جس دن زیادہ فُرصت ہو سارا اخبار پڑھ لیتا ہوں،جس دن کم ہو اُس دن ضروری ضروری حصے پڑھ لیتا ہوںاور باقی عنوان دیکھ لیتا ہوں ۔اِسی طرح دوسرے لوگ بھی کرتے ہو ں گے؛پس یہ کہاںسے ثابت ہوگیا کہ میرصاحب کا مضمون جو مولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے بھی ضرور پڑھا ہوگا۔ لیکن وہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب پر تو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کا جواب کیوں نہیں دیا مگر خود تسلیم کرتے ہیں کہ پڑھا اورپھر اس کا ردّ نہیں کیا ۔اس کا جواب دینا جیسا مولوی محمداسمٰعیل صاحب کا فرض تھاویسا ہی مولوی راجیکی صاحب کا بھی تھا لیکن انہوںنے مولوی ابوالعطاء صاحب کے ردّ کا جواب تو جھٹ دیا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رد کا نہیں دیا۔
پس ان پر یہ شدید اعتراض پڑتا ہے کہ انہوںنے مولوی ابوالعطاء صاحب کے لئے تو غیرت دکھائی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے اس کی ضرورت نہیں سمجھی ۔یہ دیکھ کر میرے دل میں شبہ پیدا ہؤا کہ کہیں ہمارے علماء میں پارٹی بازی کا رنگ تو نہیں پیدا ہو رہا۔خدا نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن اگر سلسلہ میں کسی قسم کی بھی کوئی پارٹی بازی کی روح پیداہوئی تو اِنْشَائَ اﷲُ اللہ تعالیٰ کی ہی توفیق سے میں اس کو اپنی زندگی میں کبھی برداشت نہیں کرو ں گا۔ مولوی محمد اسماعیل صاحب اور مولوی راجیکی صاحب صحابہ میں سے اور مولوی ابوالعطاء صاحب تابعین میں سے چوٹی کے علماء میں سے ہیں اور انہوںنے سلسلہ کی مشکلات کے وقت میں میری اعانت بھی کی ہے اور اخلاص کے ساتھ سلسلہ کے کام کرتے رہے ہیں جن کے لئے میں جَزَاکُمُ اﷲ کہتا ہوں اور میرے دل سے ان کے لئے دعا نکلتی ہے مگر ان باتوں کے باوجود اگر خدا نخواستہ کوئی ایسی صورت ہوتو میں قطعاََ اس طرف راغب نہیں ہوں کہ ان کی اس قسم کی غلطیوں کو نظرانداز کر دیا جائے ۔صاف بات یہ ہے کہ ایک مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی تردید کی گئی مولوی راجیکی صاحب نے اُس مضمون کو پڑھا انکا فرض تھا کہ اُس کا جواب دیتے مگر انہوںنے نہ دیا ۔مجھے ان کے اس قول پر تعجب ہے کہ لوگ ان کے پاس گئے اور کہا کہ میر صاحب کے مضمون کا جواب مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کیوں نہیں دیتے ۔ان لوگوں نے مولوی صاحب سے یہ کیوں نہ کہا کہ مولانا آپ اس مضمون کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ انہیں یہ کیونکر خیال پیدا ہؤاکہ وہ مولوی راجیکی صاحب کے پاس جا کر یہ شکائت کریںکہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب جواب کیوں نہیں دیتے جبکہ ایک عالم ان کے سامنے تھا جسے اس مضمون کا بھی علم تھا پھر بھی اس نے جواب نہیں دیا ۔
مولوی محمد اسمٰعیل صاحب تو ممکن ہے مولوی ابوالعطاء صاحب کے مضمون کا بھی جواب نہ دیتے۔ اس کا محرک تو یہ امر ہے کہ جب یہ مضمون نکلا ہے تو میں نے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کو لکھا یا زبانی کہا کہ زبانی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس کے خلاف سُنا ہؤا ہے اورکتابوں میں بھی اس کے خلاف پڑھا ہؤا ہے لیکن حوالے مجھے یاد نہیں آپ کو مشق ہے آپ قتلِ یحییٰ کے بارے میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے بھجوا دیں ۔چنانچہ انہوں نے حوالے نکال کرمجھے بھیج دیئے ۔معلوم ہوتا ہے جب مولوی صاحب نے حوالے نکالے تو ساتھ ہی اُنہیں یہ خیال بھی آگیا کہ لوگوں کے فائدہ کے لئے اِن کو شائع بھی کرا دوں تومولوی محمد اسمٰعیل صاحب نے مولوی ابوالعطاء صاحب کے مضمون کی اصلاح کے لئے جو مضمون لکھا کسی مخالفت کی وجہ سے نہیں لکھابلکہ میرا حوالے طلب کرنا اِس کا موجب ہو گیا اور نہ انہوں نے یہ مضمون اس لئے لکھا کہ ان کا خیا ل تھایا جماعت کاخیال تھا کہ سب مضمونوں کا ردّ کرنا اِنہی کاہی کام تھا لیکن مولوی راجیکی صاحب کے مضمون میں اس قسم کا مخفی اشارہ پایا جاتا ہے کہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کو چونکہ مولوی ابوالعطاء صاحب سے کینہ تھا اِس لئے ان کا ردّ کیا اور میرصاحب سے چونکہ ان کی دوستی تھی اس لئے ان کی تردید نہ کی اور اگرمولوی صاحب سے غلطی سے ایسا نہیں لکھا گیا تو یہ صریح ظلم ہے ۔٭میرا تو خیال ہے کہ میں اگر ان کو حوالے نکالنے کو نہ کہتا توممکن ہے اس مضمون کا بھی ان کو پتہ نہ لگتا اور وہ جواب نہ دیتے یا شاید سمجھ لیتے کہ کوئی اَور اس کا جواب دیدے گا۔دراصل نیکی کے مختلف مواقع ہوتے ہیں جو مختلف لوگوں کو مل جاتے ہیں۔
ہر نیکی حضرت ابوبکر ؓ نے ہی نہیں کی بلکہ بعض حضرت عمر ؓ نے بھی کیں، پھر بعض کا موقع حضرت عمرؓ کو نہیں ملا اور وہ حضرت عثمان ؓنے کیں،پھر بعض کا حضرت عثمان ؓ کو نہیں ملا اور حضر ت علیؓ کو موقع ملا،بعض حضرت طلحہؓ نے کیں ،بعض حضرت زبیرؓ نے کیں تو نیکی کے مواقع ہوتے ہیں اور اس موقع پر اللہ تعالی کی طرف سے کسی کو تحریک ہو جاتی ہے ۔اسی طرح کوئی مضمون کسی کو سوجھ جاتا ہے اور کسی کی تحریک کسی اَور کو ہو جاتی ہے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ہر نیکی کی تحریک کسی ایک ہی انسان کو ہو اور ہر مضمون لکھنے کا خیال ایک ہی شخص کو آئے یہ انسانی فطرت ہے کہ کبھی کسی کو خیال آجاتا ہے اور کبھی کسی کو ۔ہم روز دیکھتے ہیں کے مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک کام کہتے ہیں اور زید خیال کرتا ہے کہ بکر کر ے گا اور وہ سمجھتا ہے کہ عمر کرے گا اور کبھی کوئی کردیتا ہے اور کبھی کوئی اور اس بات کو کسی کی نیت سے وابستہ کر دینا نہایت خطرناک امر ہے۔
اگر ہر نیکی کے موقع پر حضرت ابوبکر ؓکو ہی خیال آتا تو باقی سب صحابہ ؓ خالی ہاتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جاتے ۔بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓکو نیکیوں کے بہت سے مواقع عطاء کئے مگر بعض دفعہ حضرت عمرؓ کو بھی دیئے اور بعض مواقع پر حضرت عمرؓ کو ایسی سُوجھی جو حضرت ابو بکر ؓ یا کسی اور صحابی کو نہیں سُوجھی ۔پس اگر ہر نیکی کا خیال حضرت ابوبکرؓ کو ہی آجاتا تو حضرت عمر ؓ کہاں جاتے اوراگر اُنہیں ہی خیال آتا تو حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ اور دوسرے صحابہؓ کہاں جاتے۔
پس یہ بات انسانی فطرت میں ہے کہ مختلف مواقع پر مختلف تحریکات دل میں پیدا ہوتی ہیںاِسی طرح مضامین کا حال ہے ۔کوئی مضمون کسی کے خیال میں آتا ہے اور کوئی کسی کے خیال میں۔ ’’الفضل ‘‘کو پڑھو۔بعض دفعہ بچے ایسے مضمون لکھتے ہیں جو نہ علماء کے خیال میں آتے ہیں اور نہ میرے دل میں ۔اللہ تعالی ہمیں اُس کی تحریک نہیں کرتا اور کسی بچے کو کر دیتا ہے کیونکہ اُسے ثواب دینا ہوتاہے ۔پس یہ خیال کرنا کہ ایک ہی شخض کا فرض ہے کہ جواب دے بالکل عقل کے خلاف ہے۔یہ اللہ تعالی کی دین ہے کبھی وہ کسی کو تحریک کر کے موقع عطا کر دیتا ہے اور کبھی کسی کو۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ سے نکل کر مدینہ آئے تو حضرت ابوبکر ؓکو موقع ملااور وہ ساتھ رہے اور ہر رنگ میں خدمت کا ثواب حاصل کیا لیکن احد کی جنگ میں جب چاروں طرف سے تیروںکی بارش ہو رہی تھی تو طلحہؓ کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ اپنا سینہ آگے کر دیا۔ جب چاروں طرف سے شور کی آواز سن کر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دیکھنا چاہتے کہ کیا ہے تو حضرت طلحہ ؓ عرض کرتے کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ اِدھر اُدھر نہ دیکھیں ایسا نہ ہو کوئی تیر لگ جائے ۔میں سامنے کھڑا ہوں ۔اب کوئی کہے کہ احد کے دن حضرت ابوبکرؓ کیوں آگے کھڑے نہ ہوئے، دراصل مکّہ سے ساتھ آنے میںبھی ان کی بد نیتی تھی تو یہ درست نہ ہوگا۔بیشک احد کے دن حضرت ابوبکرؓکو اللہ تعالیٰ نے موقع نہیںدیامگر اس میں حضرت ابوبکر ؓ کاکوئی نقص نہیں ۔حضرت طلحہؓ بھی تو اللہ تعالیٰ کا پیارا بندہ تھا اور اسے بھی اللہ تعالی نے کوئی فخرکی بات عطاء کرنی تھی ۔پس یہ موقع بھی اگر حضرت ابوبکرؓ کو ہی مل جاتا توحضرت طلحہ ؓ کیا کہتے۔ پھرخیبر کے دن حضرت علی ؓکو موقع ملا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا آج میں اسے موقع دوں گا جو خدا سے محبت کرتا ہے اور جس سے خدا تعالیٰ محبت کرتا ہے اور تلوار اس کے سپرد کروں گا جسے خدا تعالیٰ نے فضیلت دی ہے۔حضر ت عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں اس مجلس میں موجود تھا اور اپنا سر اونچا کرتا تھاکہ شاید رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مجھے دیکھ لیں اور مجھے دیدیں۔مگر آپ دیکھتے اور چُپ رہتے میں پھر سر اونچا کرتا اور آپ پھر دیکھتے اور چُپ رہتے حتّٰی کہ علی ؓ آئے اُن کی آنکھیں سخت دُکھتی تھیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ۔علی!آگے آئو۔وہ آپ کے پاس پہنچے تو آپ نے لعابِ دہن اُن کی آنکھوں پر لگایااور فرمایااللہ تعالیٰ تمہاری آنکھوں کو شفا ء دے،یہ تلوار لوجو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہے۔۲؎
اب اگر کوئی کہے کہ یہ موقع نہ تو حضرت ابوبکرؓ کو ملا اور نہ حضرت عمرؓ کواس لئے اللہ تعالیٰ ان سے محبت نہیں کرتا تو یہ درست نہیں ۔حضرت علی ؓکو یہ موقع نہ ملتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جا کر کیا کہتے۔ حضرت ابوبکرؓ ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓاور حضرت طلحہؓ تو اپنی خدمات پیش کردیتے مگر حضرت علیؓکیا کرتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی موقع دیا۔اسی طرح حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمر ؓ کو بھی کئی مواقع ملے بلکہ حضرت عمر ؓ کو پہلے دن ہی موقع ملا جب وہ مسلمان ہوئے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ایک مکان کے اندر تشریف فرما تھے ۔صحابہ ؓ بھی پاس تھے۔ دروازہ بند تھا ۔آپ نے آکر کہا دروازہ کھولو ۔صحابہؓ نے کہا کہ عمر کی آوازہے مت کھولو مگر حضرت حمزہ ؓ پہرے پر تھے انہوں نے کہا ،عمر کی ایسی تیسی آئے تو سہی میں اس کا سر نہ پھوڑ دوں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ دروازہ کھول دو۔دروازہ کھلا اور حضرت عمرؓ اندر داخل ہوئے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا عمر! تم کبھی ہمارا پیچھا چھوڑو گے بھی یا نہیں؟ ہم الگ مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تم وہاں بھی ہم کو دق کرتے ہو۔حضرت عمرؓ رو پڑے اور عرض کیا یَارَسُوْلَ اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میں تو بیعت کرنے آیا ہوں ۔یہ سن کر آپؐ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اورسب صحابہؓ نے بھی ۔۳؎صحابہ ؓبیان کرتے ہیں کہ وہ پہلا نعرہ تکبیر تھا جو مکہ میں بلند کیا گیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا یَارَسُوْلَ اﷲ ! چلیے کعبہ میں نماز پڑھیں ۔حضرت حمزہ ؓکو ساتھ لیا اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو کعبہ میں لے گئے۔یہ دونوں تلواریں لے کر کھڑے ہوگئے اورکہا کہ اگر کوئی آگے آیا تو ہم اسے فنا کر دیں گے یا خود مر مٹیں گے ۔دیکھو یہ کتنی بڑی فضیلت ہے مگر کیا ہر فضیلت حضرت عمرؓ کے لئے ہی ضروری ہے ۔اگر حضرت عمر ؓ کی اس فضیلت کو دیکھ کر دوسرے مواقع پر صحابہؓ کہہ دیتے کہ اب وہ کہاں ہیں۔اب آگے کیوں نہیں آتے؟تو یہ اعتراض صحیح نہ ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو نیکی کرنے کا موقع دیتا ہے وہ کر لیتا ہے اور جس کو موقع ملے وہ کیوں چھوڑے۔ اگر مولوی راجیکی صاحب کو یہ خیال آیا تھاکہ میر صاحب نے ایسا مضمون لکھا ہے جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے خلاف ہے تو انہوں نے کیوں اس کا جواب نہ دیااور انہوں نے یہ کیوں فرض کر لیا کہ اس کا جواب دینا بھی مولوی محمداسمٰعیل صاحب کا فرض ہے ۔وہ بھی آدمی ہیں اور یہ بھی اور جسے نیکی کی تحریک ہوتی اسے چاہئے تھا کرتا ۔پس مولوی محمد اسمٰعیل صاحب پر اعتراض کی کوئی وجہ نہیں۔اس قسم کے خیالات کا اظہار کرنا کہ ایک ہی شخص کے ذمہ ہے کہ وہ سلسلہ کی اصلاح کرے نہایت ہی خطرناک رَو ہے اور ضروری ہے کہ میں اس کے خلاف اظہارِناراضگی کروں ۔میں تو خلیفۂ وقت کے متعلق ایسا خیال کرنا بھی شرک سمجھتا ہوں کُجا یہ کہ کسی اور مولوی کے متعلق یہ امید رکھی جائے کہ ہر مضمون کا جواب دینا اس کا ہی فرض ہے۔اگر ان کو علم ہؤا تھا کہ میر صاحب نے کوئی ایسا مضمون شائع کرایا ہے تو ان کا فرض تھا کہ اس کی تردید کرتے اور اگر اس سے جھجکتے تھے کیونکہ بعض وقت آدمی خیال کرتا ہے کہ شاید میرا ہی خیال غلط ہوتوان کو چاہئے تھا مجھے توجہ دلاتے۔
معلوم ہوتا ہے انہوںنے خیال کر لیا کہ مجھے علم ہو چکا ہو گا۔مگر کیا وہ سمجھتے ہیں کہ میں عالم ُ الغیب ہوںاور ہر بات کو جانتا ہوں ۔اِس وقت جو لوگ میری آنکھوں کے سامنے بیٹھے ہیںان میں سے بیسیوں بعض حرکتیں کررہے ہوں گے مگر مجھے سامنے کھڑے ہوئے ان کا علم نہیں۔ ’’الفضل‘‘میں بیسیوں مضمون ایسے چھپتے ہیں جومیں نہیں پڑھتا۔ اگر ان کو خیال آیاتھا تو ان مفروضات کی بناء پر وہ کیوںنیکی سے محروم رہے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کو نیکی کا ایک موقع دیا تھا جو دوسروں کو نہیں ملا مگر انہوں نے گنوا دیا اوراب وہ موقع مجھے مل گیا ہے اور میں اعلان کرتا ہوں کہ اگر میرصاحب نے ایسا مضمون لکھا ہے تو وہ غلط ہے اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔٭یہی نیکی کا موقع مولوی راجیکی صاحب کو ملالیکن وہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب سے انقباض رکھنے یا ان کو سلسلہ کا واحد ذمہ دار سمجھنے کی وجہ سے اس ثواب سے محروم رہ گئے۔
اس جگہ ایک لطیفہ بیان کرنے سے میں نہیں رک سکتا ۔وہ لطیفہ یہ ہے کہ مولوی راجیکی صاحب نے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کے مضمون کے ردّ میں لکھا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل اِس کے خلاف کہا کرتے تھے اور اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت یحییٰ ؑ قتل نہیں ہوئے ۔(حالانکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں پہلے آپ کا یہ عقیدہ تھا بعد میں آپ نے غلطی تسلیم کر لی )لیکن انہیں شاید معلوم نہیں کہ جس دوسرے مضمون کی تردید وہ کرنا چاہتے ہیں اُس میں بھی حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کاخیال یہی تھاکہ یونس کو مچھلی نے نہیں نگلا بلکہ مچھلی کو یونس نے نگلاتھا۔ جن لوگوں نے حضرت خلیفہ اوّل سے قرآن شریف پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ عربی زبان میں بعض جگہ نسبت بدل جاتی ہے اس لئے اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ حوت حضرت یونس ؑ کے پیٹ میں چلی گئی تھی۔علاوہ عربی مثالوں کے حضرت خلیفہ اوّل اُردو کی بھی یہ مثال دیا کرتے تھے کہ جیسے کہتے ہیں کہ پرنالہ چلتا ہے حالانکہ پرنالہ نہیں چلتا بلکہ پانی چل رہاہوتا ہے۔تو حضرت خلیفہ اوّل عربی کی بہت سی مثالیں پیش کرکے کہا کرتے تھے کہ حوت حضر ت یونس ؑ کے پیٹ میں گئی تھی اور پھر وہ بیمار ہو گئے اس کے معنی آپ یہی فرمایا کرتے تھے کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو مچھلی حضرت یونس ؑ کے پیٹ سے نہ نکلتی اور ان کی ہلاکت کا موجب ہو جاتی مگر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور مچھلی کو آپ کے پیٹ سے نکال دیا ۔آپ فرماتے تھے معلوم ہوتا ہے مچھلی کھا کر تخمہ ہؤا آخر اللہ تعالیٰ نے زہر خارج کردیا اور آپ بچ گئے۔
پس اس بارہ میں بھی حضرت خلیفہ اوّل کا عقیدہ یہی تھا جو ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے بیان کیا ہے ۔(لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس خیال کو بھی آپ نے بعد میں بدلا کیونکہ پھرآپ نے ہمیں حضرت مسیح ؑ کی وفات کے ثبوت میں یونس ؑنبی والی پیش گوئی بھی دکھائی)لیکن ایسے امور میں نبیوں ہی کی بات پر انحصار کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ معجزے ہیں اور معجزوں کو انبیاء ہی زیادہ جان سکتے ہیں ۔ہم میں سے بیسیوں اشخاص اس بات کے زندہ گواہ ہیں کہ حضر ت خلیفہ اوّل جب کتاب نورالدین لکھ رہے تھے تو اس میں آپ نے لکھا کہ حضرت ابراہیم ؑکو آگ میں ڈالنے کا جو ذکر ہے اس سے مراد لڑائی کی آگ ہے ۔آپ نے خیال کیا کہ آگ میں پڑ کر زندہ بچنا تو بہت مشکل ہے اس لئے آگ سے مراد لڑائی کی آگ لی۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان دنوں بسراواں کی طرف سیر کو جایا کرتے تھے مجھے یاد ہے میںبھی ساتھ تھا کسی نے چلتے ہوئے کہا کہ حضور بڑے مولوی صاحب نے بڑا لطیف نقطہ بیان کیا ہے (جو لوگ عام طور پرعقلی باتوں کی طرف زیادہ راغب ہوں وہ ایسی باتوں کو بہت پسند کرتے ہیں)لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قریباًـــ ساری سیر میں اس بات کا رد کرتے رہے اور فرمایا کہ میری طرف سے مولوی صاحب کو کہہ دو کہ یہ مضمون کاٹ دیں۔ہمیں الہام ہؤا ہے کہ ’’آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے‘‘ تو حضرت ابرا ہیم ؑ سے اگر اللہ تعالے نے ایسا سلوک کیاتو کیا بعید ہے ۔کیا طاعون آگ سے کم ہے اور دیکھ لو کیا یہ کم معجزہ ہے کہ چاروں طرف طاعون آئی مگر ہمارے مکان کو اللہ تعالی نے اس سے محفوظ رکھا ۔پس اگر حضرت ابرا ہیم ؑکو اللہ تعالیٰ نے آگ سے بچا لیا ہو تو کیا بعید ہے ۔ہماری طرف سے مولوی صاحب سے کہہ دو کہ یہ مضمون کاٹ دیں چنانچہ آپ نے کاٹ دیا۔تو معجزات کے بارہ میں انبیا ء کی ہی رائے سہی سمجھی جا سکتی ہے کیونکہ وہ ان کی دیکھی ہوئی باتیں ہوتی ہیں ۔جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ آدھ آدھ گھنٹہ باتیں کرتا ہے، سوال کرتا اورجواب پاتا ہے،اس کی باتوں تک تو خواص بھی نہیں پہنچ سکتے کجا یہ کہ عوام الناس جنہوںنے کبھی خواب بھی نہیں دیکھا اور اگر دیکھا ہو تو ایک دو سے زیادہ نہیں اور پھر اگر زیادہ بھی دیکھیں تو دل میں تردّد رہتا ہے کہ شاید یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یا نفس کا ہی خیال ہے۔ جو کہتے ہیں کہ ادھر ہم نے سونے کے لئے تکیہ پر سر رکھا اور ادھر یہ آواز آنی شروع ہوئی کہ دن میں تمہیں بہت گالیاںلوگوں نے دی ہیں مگر فکر نہ کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور تکیہ پر سر رکھنے سے لے کر اُٹھنے تک اللہ تعالیٰ اِسی طرح تسلیاں دیتا رہا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بعض دفعہ ساری ساری رات یہی الہام ہوتا رہا ہے کہ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ ۴؎ میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں دوسرے لوگ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہاںاللہ تعالیٰ کے بزرگ اور نیک لوگ ایک حد تک سمجھ سکتے ہیں مگر اس حد تک نہیں جس حد تک نبی سمجھ سکتا ہے ۔نبی نبی ہی ہے۔اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا کلام ایسے رنگ میں ہوتا ہے کہ جس کی مثال دوسری جگہ نہیں مل سکتی ۔
میرے اپنے الہام اور خواب اس وقت تک ہزار کی تعداد تک پہنچ چکے ہوں گے مگر اُس شخص کی ایک رات کے الہامات کے برابر بھی یہ نہیں ہو سکتے جسے شام سے لے کر صبح تک اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُکا الہام ہوتا رہا ہے۔ پھر ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کی عزت کریں لیکن جب ہم ان کو انبیاء کے مقابلہ پر کھڑا کرتے ہیں تو گویا خواہ مخواہ ان کی ہتک کراتے ہیں۔ہر شخص کا اپنا اپنا مذاق ہوتا ہے ۔مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں عام طور پر یہ چرچہ رہتا تھا کہ آپ کو زیادہ پیارا کون ہے ۔بعض لوگ کہتے تھے بڑے مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اوّل اور بعض چھوٹے مولوی صاحب یعنی حضرت مولوی عبدلکریم صاحب کا نام لیتے تھے ۔ہم اس پارٹی میں تھے جو حضرت خلیفہ اوّل کو زیادہ محبوب سمجھتی تھی ۔مجھے یاد ہے ایک دفعہ دوپہر کے قریب کا وقت تھا، کیا موقع تھا یہ یاد نہیں، پہلے میں کبھی شاید یہ واقعہ بیان کر چکا ہوں اور ممکن ہے اس میں موقع بھی بیان کیا ہو مگر اس وقت یاد نہیں،میں گھر میں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھ سے یا حضرت اماں جان بھی شاید وہیں تھیں ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر جو احسانات ہیں ان میں سے ایک حکیم صاحب کا وجود ہے۔آپ بِالعموم حضرت خلیفہ اوّل کو حکیم صاحب کہا کرتے تھے۔کبھی بڑے مولوی صاحب اور کبھی مولوی نور الدین صاحب بھی کہا کرتے تھے ۔آپ اس وقت کچھ لکھ رہے تھے اور فرمایا کہ ان کی ذا ت بھی اللہ تعالی کے احسانات میں سے ایک احسان ہے اور یہ ہمارا نا شکراپَن ہوگا اگر اس کو تسلیم نہ کریں ۔اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایک ایسا عالم دیا ہے جو سارا دن درس دیتا ہے پھر طب بھی کرتا ہے اور جس کے ذریعہ ہزاروں جانیں بچ جاتی ہیں۔ اور آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ اسی طرح میرے ساتھ چلتے ہیں جس طرح انسان کی نبض چلتی ہے ۔
پس ایسے شخص کا کوئی حوالہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابلہ میں پیش کیا جائے یا مثلاََحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابلہ میںمیرا نام لے لیا جائے تو اس کے معنی سوائے اس کے کیا ہیں کہ ہم کو گالیاں دلوائی جائیں ۔خلفاء کی عزت اسی میں ہوتی ہے کہ متبوع کی پیروی کریں اور اگر عدمِ علم کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے تو جسے اس کا علم ہو اسے چاہئے کہ بتائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م نے یوں فرمایا ہے ۔شاید آپ کو اس کا علم نہ ہو ۔فقہ کا علم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دوسروں سے بہت زیادہ دیا ہے اور مامورین کی باتوں کو سمجھنے کی دوسروں سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں ۔پھر اس بات پر غور کر کے ہم دیکھیں گے کہ کیا اس کے معنی وہی ہیں جو لوگ لیتے ہیں اور یقینا فقہ کے بعد ہم اس کو حل کرلیں گے اور وہ حل ننانوے فیصد صحیح ہو گا لیکن اس کو حل کر نے کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ ہم آپ کے مقابل پر ہوں گے اور آپ کے ارشادات کے مقابلہ میں نام لے کر ہماری بات پیش کی جائے ۔کوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حوالہ پیش کرے تو آگے سے دوسرا میرا نام لے دے تو اس کے معنی سوائے اس کے کیا ہیں کہ ہتک کرائی جائی ۔
پس خواہ حضرت خلیفہ اوّل ہوں، یا میں ہوں، یا کوئی بعد میں آنے والا خلیفہ جب یہ بات پیش کردی جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے تو آگے سے یہ کہنا کہ فلاں خلیفہ نے یوں کہا ہے غلطی ہے، جو اگر عدم علم کی وجہ سے ہے تو سند نہیں ہو سکتی اور اگر علم کی وجہ سے ہے تو گویا خلیفہ کو اسکے متبوع کے مقابل پر کھڑا کرنا ہے۔ہاں یہ درست ہے کہ اگر متبوع کے کسی حوالہ کی تشریح خلیفہ نے کی ہے تو یہ کہا جائے کہ آپ اس کے یہ معنی کرتے ہیں لیکن فلاں خلیفہ نے اس کے یہ معنی کئے ہیں اس طرح خلیفہ نبی کے مقابلہ پر نہیں کھڑا ہوتا بلکہ اس شخص کے مقابلہ پر کھڑا ہوتا ہے جو نبی کے کلام کی تشریح کر رہا ہے ۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ضروری نہیں کہ خلفاء کو سب باتیںمعلوم ہوں کیا حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ کو ساری احادیث یاد تھیں۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیسیوں باتیں ایسی ہیں جوہم کو یاد نہیں اور دوسرے آکر بتاتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں جن کے پاس یہ باتیں ہیں وہ اگر سنائیں تو بڑا احسان ہے یہ ضروری نہیں کہ خلیفہ سب باتوں سے واقف ہو۔ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل کتا بیں بہت کم پڑھا کرتے تھے ۔میرے سامنے یہ واقعہ ہؤا کہ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا کہ آپ مولوی صاحب کو پروف پڑھنے کے لئے کیوں بھیجتے ہیں وہ تو اس کے ماہر نہیں ہیں اور ان کو پروف دیکھنے کی کوئی مشق نہیں ۔بعض لوگ ا س کے ماہر ہوتے ہیں اور بعض نہیں۔میں خطبہ دیکھتا ہوں مگر اس میں پھر بھی بیسیوں غلطیاں چھَپ جاتی ہیں ۔آج ہی جو خطبہ چھَپاہے اس میں ایک سخت غلطی ہو گئی ہے۔ میں نے اصلاح تو کی تھی مگر اصلاح کرتے وقت پہلے فقرہ کا جو مفہوم میرے ذہن میں تھا وہ دراصل نہ تھا۔میںنے سمجھا کہ اس سے پہلے یہ فقرہ ہے کہ صرف ان نبیوں کا رستہ مسدود قرار دیا گیا ہے اور میں نے اس کے بعد کے فقرہ کو جس میں کچھ غلطی رہ گئی تھی یوں درست کردیا کہ’’جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنادے ‘‘مگر چھَپنے کے بعد میںنے پڑھا تو پہلا فقرہ بالکل اس کے الٹ تھا ۔جو میں نے سمجھا تھا اور ’’الفضل‘‘ میںیہ فقرہ پڑھ کر میں حیران ہو گیا کہ’’کسی ایسے مدعی کے آنے کے رستہ کو مسدود قرارنہیں دیا گیا جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنا دے ‘‘۔اور اس طرح گویا اس کے یہ معنی ہو گئے کہ شرعی نبی تو آسکتا ہے مگر غیر شرعی نہیں حالانکہ مراد یہ تھی کہ صرف ایسے مدعی کے آنے کے رستہ کو مسدودقرار دیا گیا ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنادے ۔ یعنی صرف شرعی نبی کی اور مستقل نبی کی روک کی گئی ہے۔تو بعض لوگ پروف دیکھنے کے ماہر ہوتے ہیں اور بعض نہیں۔ میر مہدی حسین صاحب اس کے ماہر ہیں اور وہ ایسی باریک غلطیاں بھی پکڑ لیتے ہیں جو دوسرے سے یقینا رہ جائیں ۔تو کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا کہ مولوی صاحب تو اس کے ماہر نہیں ہیں آپ ان کو پروف کیوں دکھاتے ہیں تو آپ نے فرمایاکہ مولوی صاحب کو فرصت کم ہوتی ہے اور وہ بیماروغیرہ رہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ پروف ہی پڑھ لیا کریں تاکہ ہمارے خیالات سے واقفیت رہے اور پھرپڑھنے کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ ہر بات یاد ہو ۔مثلاََ حضرت یحییٰ ؑ کے قتل کے متعلق ہی حوالے میں نہیں نکال سکااور مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کو کہلا بھیجا کہ نکال دیں۔میرا حافظہ اس قسم کا ہے کہ قرآن کریم کی وہ سورتیں بھی جو مَیں روز پڑھتا ہوں ان میں سے کسی کی آیت نہیں نکال سکتا ۔لیکن دلیل کے ساتھ جس کا تعلق ہو خواہ کتناہی عرصہ گزر جائے مجھے یاد رہتی ہے۔جن باتوں کا یاد رکھنا میرے کام سے تعلق نہ ہو وہ مجھے یاد نہیں رہتیں ۔حوالے میں سمجھتا ہوں کہ دوسروں سے نکلوا لوں گا اس لئے یاد نہیں رکھ سکتا اورجو سورتیں میں روز پڑھتا ہوں ان کی آیت سن کر بھی فوراََ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں سورۃ کی ہے ۔ہاں بِسْمِ ﷲِ سے شروع کرکے ساری سورۃ پڑھوں تو پڑھ لوں گا لیکن ایک آیت کے متعلق پتہ نہیں لگا سکتا کہ کہاں سے ہے ۔سوائے پانچ سات چھوٹی سورتوں کے یا سورہ فاتحہ کے۔ بڑی بڑی سورتیں جویاد ہیں ان سے درمیان کا ٹکڑہ سن کر حوالہ نہیں نکال سکتا لیکن یوں بات یاد رکھنے میں میرا حافظہ ایسا ہے کہ بعض خطوط جب پرائیویٹ سیکرٹری دو دو ماہ بعد پیش کرتا اورکہتا ہے کہ فلاں نے یہ لکھا ہے اوراگر ان کی غلطی ہو تو میں کہہ دیتا ہوں کہ اس نے یہ تو نہیں بلکہ یہ لکھا ہے۔ جب میں ڈاک کے جواب مسجد میں لکھوایا کرتا تھا تو بعض لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے کہ بات وہی صحیح ہوتی تھی جو میں کہتا تھا حالانکہ خط سیکرٹری کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ تو میرا حافظہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسازبردست ہے کہ بہت کم لوگوں کا ایسا ہوگا۔مضمون کے لحاظ سے حوالہ ایسا یاد رہتا ہے کہ کوئی حافظ اس طرح نہیں رکھ سکتا۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ لاہور میں مجھے اچانک تقریر کرنی پڑی حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے جو آیات کا حوالہ نکالنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے ان کو میںنے پیچھے بٹھا لیا اور مضمون بیان کرنا شروع کر دیا جب ضرورت ہوتی ان سے حوالہ دریافت کر لیتا ۔اگلے دن ایک ہندو اخبار نے لکھا کہ تقریر تو بہت اچھی تھی لیکن ایک بات قابلِ ذکر ہے اوروہ یہ کہ موقع پا کر مَیں سٹیج کی پچھلی طرف چلا گیا تو معلوم ہؤا کہ پیچھے ایک شخص بیٹھا ہؤابتاتا جاتا ہے اور یہ آگے بیان کرتے جاتے تھے۔حافظ صاحب کے حوالے بتانے سے اس نے سمجھا شاید مضمون بھی و ہی بتا رہے ہیں۔ تو مضمون کے لحاظ سے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے القاء کے طور پر حوالے ملتے جاتے ہیں حالانکہ اس کا خیال اور واہمہ بھی نہیں ہوتا یونہی لفظ سامنے آجاتا ہے اور پھر میں حافظہ سے آیت پوچھ لیتا ہوں مگر یہ پتہ نہیں لگتا فلاں آیت کس سورۃ میں ہے۔
تو گو حافظوں کی بھی کئی کمزوریاں ہوتی ہیںمگر جب نص موجود ہے تو خواہ دوسری بات کو حافظہ کی کمزوری سمجھو،خواہ نا فہمی بہرحال مقدم و ہی بات ہو گی جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کہی ہے ۔
اس کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوںاور پہلے بائبل کو لیتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ اصولی طور پراس معاملے میں کیا کہتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری ؑ صلیب پر لٹکائے گئے اور اس وجہ سے یہود نے کہا کہ وہ *** ہو گئے اور انہوں نے اسی نیت سے ایسا کیا وہ سمجھتے تھے کہ بائبل کی رو سے جو نبی بھی قتل ہوتا ہے *** ہو جاتا ہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ کیا یہ مضمون واقعی بائبل میں درج ہے یا صرف یہ مضمون ہے کہ جھوٹا نبی ضرور سزا پاتا ہے۔گویا وہی بات ہے جو قرآن کریم نے آیت۵؎ میں کہی ہے یعنی جو کوئی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے اس کا دا ہنا ہاتھ پکڑکر ہم اس کی رگِ جان کو کاٹ دیتے ہیں اور اگر محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) جھوٹا ہوتا تو ہم اسے یہ سزا کیوں نہ دیتے؟
پس یہ اصول ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ میں بیان کیا تھا ،اسکے معنی یہ نہیں کہ سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ہیںکہ جھوٹا نبی ضرور قتل کیا جاتا ہے۔یہی مضمون ہمیں بائبل میں بھی نظر آتا ہے ۔چنانچہ استثناء باب ۱۳ آیت ۵ میں لکھا ہے کہ ’’اور وہ نبی جس کی خواب پوری ہوجاتی مگر شرک کی تعلیم دیتا ہے ،یا خواب دیکھنے والا قتل کیا جائے گا ‘‘یعنی کسی کے ایک خواب پورا ہونے سے یہ مت یقین کر لو کہ وہ نبی ہو گیا ہے ۔اگر وہ شرک کی تعلیم دیتا ہے تو اسے جھوٹا ہی سمجھو۔ پس اس کے یہ معنی نہیں کہ سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ہیں کہ جھوٹا قتل ضرور کیا جاتا ہے اور دونوںباتوں میں بہت فرق ہے ۔ہماری جماعت میںبھی اس کی مثال موجود ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہؤا کہ تیری مخالفت کی وجہ سے طاعون سے لوگ ہلاک ہوں گے۔اور گویا وہ دشمن کے لئے عذاب ہے۔مگر جب کوئی احمدی بھی کبھی اس کا شکار ہو جاتا تو مخالف مضحکہ اڑاتے۔اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا مسلمان جنگوں میں شہید نہ ہوتے تھے۔ وہ جنگیں کفار کے لئے تو عذاب ہوتی تھیں۔مگر مسلمانوں کے لئے شہادت کا موجب ۔تو استثنائی طور پر اللہ تعالی کبھی کبھار دشمنوں کو بھی ہنسی کا موقع دے دیتا ہے ۔پس اس کے معنی یہ نہیں کہ سچا نبی قتل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ہیں کہ جھوٹا نبی ضرور قتل ہوتا ہے اوردوسرے الفاظ میں اسکے یہ معنی بھی ہیں کہ یہود کی شریعت کا یہی حکم ہے کہ جھوٹے نبی کو ضرور قتل کرو ۔چنانچہ اسی باب کی آیت ۱۵ میں لکھا ہے کہ’’ تو تو اس شہر کے باشندوں کو تلوار کی دھار سے ضرور قتل کرے گا‘‘ جس سے مراد یہ ہے کہ تجھے چاہئے کہ اسے قتل کر دے ۔پس جبر اسی باب میں ’’کرے گا‘‘ بمعنے ’’کرے‘‘ استعمال ہؤا ہے تو مذکورہ بالا حوالہ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ بائبل کا حکم ہے کہ اس شخص کو جو شرک کی تعلیم دیتا ہو اور ساتھ نبوت کا مدعی ہو بنی اسرائیل قتل کردیا کریں ۔
پھر زکریا باب ۱۳ آیت ۳ میں لکھا ہے کہ ’’جھوٹا نبی جلد ہلاک ہوتا ہے (قتل کاذکر نہیں) اس کے ماں باپ جن سے وہ پیدا ہؤاہے اسے کہیں گے کہ تُو نہ جئے گا ۔‘‘یہاں جینے کالفظ ہے جس میں موت بھی، قتل بھی اور ہلاکت بھی ہو سکتی ہے۔قتل کا لفظ یہا ں نہیں ہے ۔
استثناء باب ۲۱آیت ۲۲،۲۳میںہے کہ’’ اگر کسی نے کچھ ایسا گناہ کیا ہو جس سے اس کا قتل واجب ہو اور وہ مارا جائے تو اسے درخت میں لٹکا دے ۔ اس کی لاش رات بھر درخت پرلٹکی نہ رہے بلکہ تُو اُسی دن اُسے گاڑدے کیونکہ وہ جو پھانسی دیا جاتا ہے وہ خدا کا ملعون ہے اس لئے چاہئے کہ تیری زمین جس کا وارث خداوند تیرا خدا تجھے کرتا ہے ناپاک نہ کی جائے ‘‘۔
یہاں پھانسی پر لٹکائے جانے والے کے متعلق ایک حکم بیان کیا ہے اور الفاظ سے پتہ لگتا ہے کہ ایسا پھانسی پانے والاجسے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت پھانسی دی جائے ملعون ہوتا ہے یعنی جب خدا تعالیٰ کی شریعت کے مطابق اس کا قتل واجب ہو تب *** ہوتا ہے محض پھانسی پانے کی وجہ سے کوئی *** نہیں ہو سکتا بلکہ وہ *** ہو گا جو کسی ایسے گناہ کا مرتکب ہو نے کی وجہ سے پھانسی دیاجائے۔جس کے متعلق تورات کہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے اورجسے خداتعالیٰ بسبب ناراضگی کے پھانسی پر لٹکانے کا حکم دے اس کے ملعون ہونے پر کیا شبہ ہو سکتا ہے۔یہود کے اندر احساس تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ جسے ہم پھانسی دیںوہ *** ہوتا ہے ۔اس کی وجہ سے لازمی طور پر ان کے اندر یہ احساس بھی تھا کہ جسے پھانسی پر لٹکا یا جائے اس کا دعوی تسلیم نہیں کرنا ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نبیوںکو ایسی باتوں سے بچاتاہے جن سے لوگ نفرت کریں۔یوں تو نبی ہرایک ہو سکتا ہے لیکن اگر کوئی چوہڑایا چما رنبی ہو جائے تو طبائع میں اتنی نفرت پیدا ہو گی کہ لوگ اس (نفرت)پر غالب نہ آسکیں گے اور اِس وجہ سے اُس کی طرف توجہ ہی نہیں کریںگے تو اللہ تعالی ان باتوں کا بھی خیال رکھتا ہے تا لوگ ضد نہ کریں کیونکہ یہ ضروری ہے ورنہ نفرت کی وجہ سے بہت سے لوگ ہدایت سے محروم رہ جائیں۔پس صلیب پر لٹکانے سے حضرت مسیح ناصری ؑ کا بچانااس نفرت کو دور کرنے کے لئے تھا نہ اس لئے کہ واقع میں صلیب پر لٹک کر انسان *** ہو جاتا ہے خواہ مجرم ہو یا نہ ہو۔ ہر عقلمند سمجھ سکتاہے کہ یونہی اگر کسی کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو وہ ملعون نہیں ہو سکتا۔کوئی شخص شریف ہے، بے گناہ ہے، خدمت خلق کرتا ہے، نیکی کے دوسرے کام کرتا ہے لیکن چور اور ظالم لوگ آکر اسے پھانسی دیتے ہیں تو کیا وہ ملعون ہو جائے گا؟انسانی فطرت اس کو ماننے کے لئے تیار نہیںکہ اگر کسی بے گناہ کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے تووہ ملعون ہو جائے گا ۔پس یا تو یہ مانوکہ کوئی بے گناہ پھانسی پر لٹکایا جا ہی نہیں جا سکتا جونہی کوئی چور اسے پکڑ کر پھانسی پر لٹکانے لگے تو فرشتے جھٹ سے آکر اسے اتار دیں گے اور چھین کرلے جائیں گے اور اس طرح صلیب پر کوئی غیرمجرم لٹکایا ہی نہیں جا سکتایا پھر یہ مانو کہ محض پھانسی پر لٹکانے سے کوئی شخص ملعون نہیں ہو سکتا۔ غرض یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ کسی یہودی مؤمن کو کوئی صلیب پر لٹکا سکتا ہی نہیں جس طرح دعائے گنج العرش کے متعلق مشہور ہے جو اسے پڑھے نہ تو اس کو آگ جلا سکتی ہے، نہ اس کو سمندر ڈبو سکتا ہے،نہ پہاڑ پر سے وہ گر سکتا ہے۔چنانچہ دعائے گنج العرش کی بابت لکھا ہے کہ کسی چور کو بادشاہ نے پھانسی دیئے جانے کا حکم دیا مگر رسی کھنچتے ہیں تو وہ کھنچتی ہی نہیں ۔بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ وہ پھانسی سے نہیں مرتا اس کی گردن ہی نہیں دبتی تو اس نے اسے آگ میں ڈالنے کا حکم دیا مگر جب آگ میں ڈالا تو دیکھا کہ وہ آگ سے کھیل رہا ہے ۔جب اس کی بادشاہ کو اطلاع ہوئی تو اس نے سمندر میں پھینک دینے کا حکم دیامگر جب پتھروںسے باندھ کر اسے سمندر میں پھینکا گیا تووہ کارک کی طرح تیرنے لگا، آخر اسے پہاڑسے گرانے کاحکم دیا گیا مگر جب پہاڑ سے گرایا گیا تو یوں معلوم ہؤاکہ کسی نے اسے پکڑ کر آرام سے زمین پر رکھ دیا ہے اور اسے ذرہ بھی چوٹ نہ آئی۔بادشاہ کو اطلاع ہوئی تو اس نے کہا کہ یہ تو کوئی ولی اللہ ہے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ میں معافی مانگتا ہوں آپ کو چور سمجھا،آپ تو ولی اللہ ہیں مگر اس نے کہا کہ نہیں میں ولی اللہ نہیںچور ہی ہوں صرف بات یہ ہے کہ دعا گنج العرش پڑھتا ہوں ۔تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ یہودی مؤمنوں کی مثال ایسی ہوئی جیسی دعا گنج العرش پڑھنے والوں کی بیان کی جاتی ہے ۔اگر بائبل کی اس آیت میں انبیاء کا ذکر ہوتا تو اور بات تھی مگر یہاں تو مؤمنوں کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ انبیاء کے ساتھ اللہ تعالی کا خاص سلوک ہوتا ہے وہ ان کے لئے نشان دکھاتا ہے مگر عام مؤمنوں کے ساتھ ویسا نہیں ہوتا۔وہ مارے بھی جاتے ہیں، ان کو شیر بھی کھا جاتے ہیں،پھانسی بھی پاجاتے ہیں اور صحابہ کرا م ؓکے ساتھ یہ سب باتیں گزریں تو کیا تورات کے ماننے والے مؤمنوںمیں ہی کوئی خاص خوبی تھی کہ خواہ سارے بادشاہ مل کر انہیں پھانسی دینا چاہیں کیل تک نہ گاڑ سکیں اور یا پھر یہ سمجھو کہ یہود کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ تھا کہ ان میں سے کسی ولی اللہ کو اٹھا کر پھانسی پر لٹکادو اسی وقت *** ہو جائے گا ۔گویا باقی دنیا کے لئے تو *** اس کے اپنے افعال سے پیدا ہوتی ہے لیکن یہود کے متعلق خدا تعالیٰ کی *** ڈالنے کا حق دشمنانِ دین کے سپرد کر دیا گیا تھا۔پس یا تو یہ دونوں خلافِ عقل و ایمان باتیں ماننی پڑیں گی اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ یہ دونوں امر ناقابلِ قبول ہیں۔ایک کو عقل نہیں مانتی اور دوسرے کو ایمان۔ اور اس طرح ماننا پڑے گا کہ جیسا کہ اصل حوالہ میں ذکر ہے ۔صرف وہ پھانسی پانے والا ملعون ہے جو خدا کے حکم کے مطابق پھانسی دیا جائے اور اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ایسا گناہ کرنے والا جس سے اس کا قتل واجب ہو جائے *** ہوتا ہے چونکہ خدا کی شریعت کہتی ہے کہ اسے مار ڈالو اس لئے وہ *** ہے ۔پس یہ حوالہ واضح ہے اور اس میں صرف نبوت کے مدعیوں کا ہی ذکر نہیں بلکہ ہر مجرم کا ذکرہے۔حضر ت موسی ؑ اصل شریعت لانے والے تھے باقی نبی ان کے تابع تھے اس لئے باقی بھی یہی بات بیا ن کرتے گئے ۔آہستہ آہستہ یہود میں جب یہ خیال پیدا ہؤا کہ ہم خدا تعالیٰ کے جانشین ہیں تو ساتھ ہی انہیں یہ وہم بھی پیدا ہو گیا کہ جسے وہ پھانسی پر لٹکا دیں وہ ملعون ہے ۔اس کے علاوہ اور حوالے بھی ہیں۔یرمیاہ باب۱۴آیت ۱۵ میں ہے (جھوٹے نبیوں کی نسبت)اُس لئے خدا وند یوں کہتا ہے کہ ان نبیوں کی بابت جو میرا نام لے کر نبوت کرتے ہیں جنہیں میں نے نہیں بھیجا اور جو کہتے ہیں کہ تلوار اور کال اس سرزمین پر نہ ہو گا یہ نبی تلوار اور کال سے ہلاک کئے جائیںگے۔
یرمیاہ باب ۲۲ آیت ۱۵سے آخر تک جھوٹے نبیوںکی سزا اور ان کی ناکامی کا ذکر ہے گوقتل کا ذکر نہیں۔سلاطین ۱باب ۱۸،۱۹ میں ذکر ہے کہ پچاس نبیوںکو بنی اسرائیل نے قتل کیا ۔ متی باب ۲۳ آیت ۲۹تا۳۱ میں ہے کہ’’ اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس کیونکہ نبیوں کی قبریں بناتے ہو اور راست بازوں کی گوریں سنوارتے ہو اور کہتے ہو کہ اگر ہم اپنے دادوںکے دنوںمیں ہوتے تو نبیوںکے خون میں ان کے شریک ہوتے ۔اسی طرح تم اپنے پر گواہی دیتے ہو کہ تم نبیوں کے قاتلوں کے فرزند ہو‘‘ ۔پھر باب ۲۳ آیت۳۷ میں لکھا ہے کہ ’’اے یروشلم اے یرو شلم جو نبیوں کو مار ڈالتی ہے‘‘۔ان تمام حوالوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹا نبی ضرور ہلاک ہوتا ہے مگر ان کے یہ معنی نہیں کہ سچا قتل نہیں ہوتا ۔
بائبل کے علاوہ احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے ۔میں نے گزشتہ خطبہ کو دیکھتے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م سے سنا ہؤا ایک واقعہ لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م فرماتے تھے کہ دنیا میں دو شخص سب سے زیادہ بدبخت ہوتے ہیں۔ایک وہ جو نبی کو قتل کرے اوردوسرا وہ جسے نبی قتل کرے۔ مجھے اس وقت خیا ل تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م نے یہ بھی فرمایا تھا کہ حدیث میںبھی یہ ذکر ہے مگر میں نے چونکہ وہ حدیث پڑھی نہ تھی یامجھے یاد نہ تھی ۔یہ حصہ میں نے نہ لکھا تھا لیکن عجیب بات ہے کہ آج اس بارہ میں احادیث دیکھنے پر یہی حوالہ میرے سامنے آگیا ۔چنانچہ مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے عن ابن مسعودان رسول اللہﷺ قَالَ اَشَدُّالنَّاسِ عَذَابًایَوْمَ الْقِیٰمَۃِرَجُلٌ قَتَلَ نَبِیًّا اَوْ قَتَلَہٗ نَبِیٌّ۶؎’’ یعنی ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس کو ملے گا جس نے نبی کوقتل کیا ہو یا جسے کسی نبی نے قتل کیا ہو ۔اس حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک نبی کاقتل ممکن ہے۔
اسی طرح ابن جریر اور ابن ابی حاتم یعنی حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓسے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا یَا اَبَاعُبَیْدَۃَ قَتَلَتْ بَنُوْاِسْرَائِیْلَ ثَلَاثَۃً وَاَرْبَعَیْنَ نَبِیًّا اَوَّلَ النَّہَارِ فِیْ سَاعَۃٍ وَاحِدَۃٍ ۷؎یعنی بنی اسرائیل نے ایک دفعہ گھنٹے میں ۴۳ نبیوں کو قتل کیا تھا ۔یہ در اصل وہی مضمون ہے جو سلاطین۱ باب ۱۸ میں بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرا ئیل نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا ہے ۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے الہام پاکر ان نبیوںکی صحیح تعدا د بھی بتا دی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ اس زمانے کے لوگوں کی کمزوری کی وجہ سے ایک وقت میں کئی کئی نبی معبوث ہوتے تھے اور بائبل سے ثابت ہے کہ جب کوئی بادشاہ خراب ہوتا تو کئی کئی نبی اکٹھے ہو کر اس کے خلاف فیصلہ کرتے تھے۔
اصل واقع مَیں بعد میں بیان کروں گا ۔اس وقت صرف یہ بتا رہا ہوں کہ اصولی طور پر بائبل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹا نبی ضرور مارا جاتا ہے مگر یہ نہیں کہ جو مارا جائے وہ جھوٹا ہے۔ اس کے متعلق اگر کوئی مشتبہ حوالہ ہو تو اس وقت میرے ذہن میں نہیں لیکن واضح حوالہ کوئی نہیں اصل حوالہ *** والا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس میں نبی کی شرط نہیں بلکہ وہاں یہ لکھا ہے کہ جو لٹکا یا جائے وہ ملعون ہوگا اور بات چونکہ عقل کے خلاف ہے۔ اس لئے وضاحت کردی گئی ہے ۔جو خدا کے حکم سے پھانسی دیا جائے وہ ملعون ہے لیکن بنی اسرائیل کا چونکہ خیال تھا کہ ہم خدا کے جانشین ہیں اس لئے انہیں بھی یہ خیال پیدا ہو گیا کہ جسے ہم لٹکادیں وہ ملعون ہو جائے گا اسی لئے وہ حضرت مسیح ناصری ؑکو صلیب پر لٹکا کر مارنا چاہتے تھے تا انہیںبھی *** ثابت کر دیں مگر خدا نے آپ کو زندہ بچا لیا تاکہ دشمنوںکو جھُوٹی خوشی بھی نصیب نہ ہو ۔پھر اس کے علاوہ جیسا میں نے بیان کیا ہے احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شدید ترین عذاب اُس شخص کو دیا جائے گا جس نے کسی نبی کو قتل کیا ہوگا اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایک گھنٹہ میں۴۳ نبی قتل ہوئے اور بائبل میں بھی اس امر کی شہادت موجو دہے کہ ایک وقت میں یہودی باد شاہوں نے کئی انبیا ء کو قتل کیا۔
پھر قاعدہ کے طور پر قرآن کریم نے بھی فرمایا ہے کہ۸؎ نیز ۹؎پس اصولی طور پر قرآن کریم، احادیث اور بائبل تینوں متفق ہیں اس امر پر کہ انبیا ء قتل ہوسکتے ہیں اگرچہ ایسا بہت شاذ ہوتا ہے ۔ایسا ہی شاذ جیسا کہ اس قاعدہ کے متعلق شاذ ہے کہ بالعموم دنیا میںہی اللہ تعالی انبیا ء کی نصرت کرتا ہے لیکن بعض ایسے بھی ہیں کہ جن کی نسبت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ قیامت کے دن ان کے ساتھ صرف ایک ہی ماننے والا ہوگا مگر یہ استثنائی حالت ہے ۔اسی طرح عام قاعدہ یہی ہے کہ اللہ تعالی انبیاء کو قتل ہونے سے بچاتا ہے مگر استثنائی طور پر بعض قتل کربھی دیئے جاتے ہیں اور اس میں بھی کوئی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے۔
پس قرآن، حدیث اور بائبل تینوں اس مسئلہ میں متفق ہیں اور ایسی متفقہ گواہی کی تردید کے لئے بھی کوئی زبردست وجہ ہونی چاہئے بغیر کسی معقول وجہ کے اس کی تاویل نہیں کی جا سکتی قرآن کریم نے فرشتوں کے وجود کا ذکر کیا ہے مگر سرسید احمد صاحب نے کہا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالی کی طاقتیں ہیں اور یہ تاویل بعض حوالوں کو مد نظر رکھ کر بیشک ہو سکتی ہے لیکن جس وضاحت سے فرشتوں کا ذکر قرآن کریم میںہے ان سب کو مد نظر رکھ کر یہ تاویل کسی صورت میں نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی ایسی تاویل کرے تو ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ میں کوئی زبردست ثبوت ہو ۔اسی طرح ان تینوں بیانات کی تاویل کرنے کے لئے کوئی زبردست شہادت چاہئے کیونکہ جب بائبل،قرآن اور حدیث تینوں قتل کے جوازکو مانتے ہیں تو اصولی طور پر اس کی تردیدکے لئے ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ ہم یہ ثابت کریں کہ بیشک نبی قتل ہوسکتا ہے لیکن حضرت یحیی ؑ کا قتل تاریخ وکتبِ دینیہ سے ثابت نہیں لیکن اس معاملے میں یہ صورت بھی موجودنہیں۔
اب چونکہ دیر ہو گئی ہے میں اِس مضمون کو اگلے خطبہ میں اِنْشَائَ اﷲُ بیان کروں گا ۔‘‘
(الفضل ۱۰؍ ستمبر ۱۹۳۸ئ)
’’اِس خطبہ کے بعد مولوی ابوالعطاء صاحب اورمولوی راجیکی صاحب دونوں کے خطوط ملے ہیں جن میں اُنہوں نے اپنی براء ت کی ہے۔ میں ان کی براء ت کو تسلیم کرتا ہوں۔ میری ہرگز یہ غرض نہیں کہ اُن کی تنقیص ہو میں ان کو مخلص اور سلسلہ کا خادم سمجھتا ہوں، میری غرض صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ صاف اور واضح ہو جائے اورمیں سمجھتا ہوں ان دوستوں کی بھی یہی خواہش ہو گی ۔ایسے امور میں تردید کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے اور نہ اس کی کہ نادان لوگ دھوکا کھا کر ہنسی مذاق کریں ۔وہ جو ایسے امور میں ہنسی کرتا ہے اُس کی روحانیت مُردہ ہے اُس کی پرواہ نہیں کر نی چاہئے یہ تو بڑے خوف کا مقام ہے ۔خاکسار ۔مرزا محمود احمد‘‘
(الفضل ۱۰؍ستمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱)
۱؎ الصّٰفّٰت:۱۴۵
۲؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خَیْبر
۳؎ اسد الغابۃ جلد ۴ صفحہ ۵۵ مطبوعہ بیروت ۱۲۸۶ء
۴؎ تذکرہ صفحہ ۴۶۲۔ ایڈیشن چہارم
۵؎ الحاقۃ: ۴۵
۶؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۹۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء کے الفاظ یہ ہیں ۔ اشْتَدَّ
غَضب اﷲ عَزَّوَجَلّ عَلٰی رَجُلٍ قتل نبیہ۔
۷؎ تفسیر در منثورللسیوطی جلد ۲ صفحہ ۲۳ مطبوعہ ۱۹۹۰ء
۸؎ البقرۃ :۸۸ ۹؎ البقرۃ :۶۲

۳۰
حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے متعلق شہادت
(فرمودہ ۹؍ ستمبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’میرا آج کا خطبہ بھی گزشتہ دونوں خطبات کے تسلسل میں ہی ہے ۔گزشتہ خطبہ میں مَیں نے اس امر پربحث کی تھی کہ اصولی طور پربائیبل قرآن اور احادیث سے انبیاء کے متعلق کیا معلوم ہوتا ہے کہ آیا وہ قتل ہوسکتے ہیں یا نہیں ۔ آج مَیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق خصوصیت کے ساتھ جو باتیں تاریخ یا احادیث یا بائیبل سے ثابت ہیں ان کو بیان کرنا چاہتا ہوں ۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کا مقام ایسا مقام نہیں ہے جو شُبہات پیدا کرنے والا ہو کیونکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام ایک ایسے زمانے میں ظاہر ہوئے جبکہ تاریخ مدون ہونی شروع ہوگئی تھی۔ بعض انبیاء بے شک ایسے زمانوں میں ہوئے ہیں جبکہ تاریخ ابھی مدون ہونی شروع نہیں ہوئی تھی اور اُس وقت کے انبیاء کی نسبت حقیقت کامعلوم کرنابہت مشکل ہے مثلاً حضرت شیث علیہ السلام کے متعلق بڑے اختلافات ہیں۔ حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق بڑے اختلافات ہیں ۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے متعلق بڑے اختلافات ہیں ۔کیونکہ یہ لوگ ایسے زمانوں میں ہوئے ہیں جبکہ تاریخ کی تدوین ابھی شروع نہیں ہوئی تھی اور چونکہ ان انبیاء کے حالات کا مدار زیادہ تر سُنی سنائی باتوں پرتھا۔ اس لئے ان کے متعلق بہت سے اختلافات ہوگئے مگر حضرت یحییٰ علیہ السلام ایک ایسے نبی ہیں جن کے زمانے سے تاریخ کی تدوین شروع ہوئی تھی ۔گو تاریخ کی اصل تدوین رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ سے شروع ہوئی ہے۔ مگربہرحال حضرت یحییٰ علیہ السلام کے زمانہ سے اس کی بنیاد پڑنی شروع ہوگئی تھی ۔
پس جبکہ حضرت یوحنا یا حضرت یحییٰ ؑجیسا کہ قرآن کریم میں ان کا نام آتا ہے۔ ایک تاریخی آدمی ہیں ۔ تو ان کے متعلق تاریخی شہادتیں ہمارے لئے بہت کچھ روشنی کا موجب ہوسکتی ہیں ۔ کیونکہ ایک نبی کی اپنی جماعت ممکن ہے کسی ایسے معاملہ میں جو ان کے مفید پڑتا ہو مبالغہ سے کام لے ممکن ہے دشمن بھی ایسے معاملہ میں جو اس کے حق میں ہو مبالغہ سے کام لے مگر جب دوست دشمن متفق ہوں اور جب ایک تیسرا بے تعلق شخص بھی وہی بات کہے اور پھر وہ اس بات کو تاریخ میں اسی وقت لکھ دے اوروہ تاریخ محفوظ چلی آئے تو اس کے متعلق اگرشکوک و شبہات شروع کردئیے جائیں تو اس کالازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمیں ہربات میں شک کرنا پڑے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بعض لوگوں نے شک کرنا شروع کردیا تو انہوں نے اس حد تک لکھ دیا ۔ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وجود ہی نہ تھا۔ اور بعض نے لکھ دیا کہ حضرت عیسیٰ کا وجود وہمی وجود ہے اوربعض نے یہ لکھ دیا ہے کہ بدھ کوئی آدمی ہی نہیں ہوئے تو اگر ان صداقتوں کاانکار کیا جائے جو تاریخی ہوں اور جن کا مخالف و موافق اقرارکرتے ہوں ۔ تو پھر کوئی ٹھکانا ہی نہیں رہتا ۔ چنانچہ دیکھ لو چکڑالوی فرقہ کے لوگوں نے جب شک کیا تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم وہ نماز نہیں پڑھتے تھے جو آجکل لوگ پڑھتے ہیں ۔
یہ نماز لوگوں نے بعد میں بنالی ہے کیونکہ اس کاذکر بقول ان کے قرآن میں نہیں ہے ۔ اسی طرح بیسیوں واقعات وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ کے تاریخوں میں پڑھتے ہیں۔ مگر چونکہ وہ انہیں اپنے فہمِ قرآن کے رو سے قرآن کریم کے احکام کے مطابق نہیں سمجھتے ۔ اس لئے تاریخی شہادتوں کا بالکل انکار کردیتے ہیں ۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض دفعہ تاریخ بھی غلطی کرجاتی ہے مگرجب تاریخ اور مذہب اور قومی روایات تینوں باتیں جمع ہوںتوپھر ان کو ردّ کرنا انسان کو ایسے مقام پر کھڑا کردیتاہے کہ اس کے لئے کوئی چیز ثابت کرنی ممکن ہی نہیں رہتی اور دنیا کی نگاہوں میں بھی اس کی عزت جاتی رہتی ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے میں نے یہ واقعہ سنا ہؤا ہے۔ آپ فرمایا کرتے کہ کوئی شخص تھا جو بڑا بزرگ کہلاتا تھا کسی بادشاہ کا وزیر اتفاقاً اس کا معتقد ہوگیا اور اس نے ہرجگہ اس کی بزرگی اور ولایت کا پروپیگنڈا شرو ع کردیا ۔اور کہنا شروع کردیا ۔ کہ وہ بڑے بزرگ اور خدارسیدہ انسان ہیں ۔ یہاں تک کہ اس نے بادشاہ کو بھی تحریک کی اور کہا کہ آپ ان کی ضرور زیارت کریں چنانچہ بادشاہ نے کہا ا چھا میں فلاں دن اس کے پاس چلوں گا ۔وزیر نے یہ بات فوراً اس بزرگ کے پاس پہنچا دی اور کہا کہ بادشاہ فلاں دن آپ کے پاس آئے گا آپ اس سے اس طرح باتیں کریں تا کہ اس پر اثر ہوجائے ۔ اوروہ بھی آپ کامعتقد ہوجائے۔ معلوم نہیں وہ بزرگ تھا یا نہیں مگر بے وقوف ضرور تھا ۔جب اسے اطلاع پہنچی کہ بادشاہ آنے والا ہے اور اس سے مجھے ایسی باتیں کرنی چاہئیں جن کا اس کی طبیعت پر اچھا اثر ہو تو اس نے اپنے ذہن میں کچھ باتیں سوچ لیں ۔اور جب بادشاہ اس سے ملنے کے لئے آیا تو وہ کہنے لگا ۔ بادشاہ سلامت آپ کو انصاف کرنا چاہیے دیکھئے مسلمانوں میں سے جو سکندر نامی بادشاہ گزرا ہے وہ کیسا عادل اورمنصف تھا او ر اس کا آج تک کتنا شُہرہ ہے ۔حالانکہ سکندر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ سے سینکڑوں سال پہلے بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی پہلے ہوچکا تھا مگراس نے سکندر کورسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کا بادشاہ قرار دے کر اسے مسلمان بادشاہ قرار دے دیا۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھی سینکڑوں سال بعد ہؤا تھا ۔ کیونکہ سکندر خلافتِ اربعہ کے زمانہ میں تو ہو نہیں سکتا تھا ۔ کیونکہ اس وقت خلفاء کی حکومت تھی ۔حضرت معاویہ کے زمانہ میں بھی نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ اس وقت حضرت معاویہ تمام دنیا کے بادشاہ تھے ۔بنو عباس کے ابتدائی ایامِ خلافت میں بھی نہیں ہوسکتاتھا کیونکہ اس وقت وہی روئے زمین کے حکمران تھے پس اگر سکندر مسلمان تھاتو وہ چوتھی پانچویں صدی ہجری کا بادشاہ ہوسکتا ہے حالانکہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے سینکڑوں سال پہلے گزرا ہے۔ تو وہ جو سینکڑوں سال پہلے کابادشاہ تھا اسے اس شخص نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اوراسلام کی امت میں سے قرار دے دیا ۔نتیجہ یہ ہؤا کہ بادشاہ اس سے سخت بدظن ہو کر فوراً اُٹھ کرچلا گیا۔
تاریخ دانی بزرگی کے لئے شرط نہیں مگریہ مصیبت تو اس نے آپ سہیڑی ۔اسے کس نے کہا تھا کہ وہ تاریخ میں دخل دینا شروع کردے۔ تو تاریخ کا انکار اور ایسی تاریخ کا انکار جس کو غلط کہنے کی کوئی معقول وجہ نہ ہو لوگوں کی نگاہ میں انسان کو گرادیتا ہے ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام بھی ایک ایسے زمانہ میں ہوئے ہیں جو تاریخی زمانہ ہے اور اسی وقت سے کچھ نہ کچھ عیسائیت کی اور کچھ نہ کچھ یہودیت کی تاریخ مدوّن ہوتی نظر آتی ہے ۔چنانچہ یہودیوں کاایک ہی مؤرخ جو دنیا کے بڑے مؤرخین میں سے سمجھا جاتا ہے واقعہ صلیب کے بالکل قریب زمانہ میں پیدا ہؤا ہے یعنی واقعہ صلیب کے ۲۶،۲۷ سال بعد۔ اس کا نام جوزیفس تھا اور چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام ۳۳سال کی عمر میں صلیب پر لٹکائے گئے تھے ۔ اس لئے ہمارے عقیدہ کے رو سے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر کے ۶۹ ویں یا سترھویں سال میں پیدا ہؤا تھا ۔
اور چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر ہمارے نزدیک ایک سو بیس سال کی ہوئی ہے ۔ اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب فوت ہوئے ہیں اس وقت جوزیفس کی عمر پچاس یا ۵۱ سال کی تھی ۔ اور وہ اس وقت تک بہت بڑا مؤرخ بہت بڑا گورنر اور بہت بڑا جرنیل کہلا چکا تھا کیونکہ جوزیفس صرف مؤرخ ہی نہیں تھا بلکہ جرنیل بھی تھا اور گورنر بھی رہاہے ۔ اور اسے صحیح واقعات معلوم کرنے کا پورا موقع حاصل تھا ۔ چونکہ وہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ کے صرف ۳۷ یا ۳۸ سال بعد پیدا ہؤا ہے۔ اس کے بلوغ اور جوانی کے وقت تک یقینا ابھی سینکڑوں ایسے لوگ زندہ ہوں گے جنہوں نے خود حضرت یحییٰ علیہ السلام سے بپتسمہ لیا ہوگا اور لاکھوں اس وقت کے حالات جاننے والے اور عَینی شاہدوں سے سننے والے موجود ہوں گے ۔آج غدر پر ۸۲ سال گزر چکے ہیں ۔ مگر کیا ۸۲ سال کے واقعہ پر کوئی شُبہ کرسکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ غدر ہؤا ہی نہیں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے غدر میں شمولیت کی اور وہ اُس وقت کے چشم دید واقعات بیان کرتے ہیں ۔
تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شخص میری بیعت کے لئے آئے ان کی باتوں سے مجھے یوں محسوس ہؤا کہ وہ بہت بڑی عمر کے ہیں ۔ کیونکہ وہ پرانی پرانی باتیں بیان کرتے تھے ۔ میں نے ان سے کہا معلوم ہوتا ہے آپ کی عمر بہت بڑی ہے اور غالباً آپ اسّی نوے سال کے ہوں گے وہ کہنے لگا ۔ اسّی نوے سال؟ میری عمر تو۱۴۱ سال کی ہے دس بارہ سال ہوئے گجرات سے ایک دوست بیعت کے لئے آئے تھے ۔انہوں نے اپنی عمر ایک سو بیس سال بتائی تھی اگروہ زندہ ہیں تو گویا یہ دونوں ہم عمر ہیں ۔ انہوں نے بیان کیا کہ غدر میں انہوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ اوروہ اُس وقت کی باتیں اس طرح بیان کرتے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا گویا قبروں میں سے کوئی آدمی اٹھ کر آگیا ہے ۔ اور وہ باتیں بیان کررہا ہے اور ابھی ماشاء اللہ ان کے قویٰ اچھے خاصے ہیں ان سے معلوم ہؤا کہ وہ حضرت خلیفہ اول کے استاد کے استاد کے مرید اور شاگرد ہیں اور ان کے پیراور مولوی محمد قاسم صاحب نانو توی بانی مدرسہ دارلعلوم دیوبند کے پیر ایک ہی شخص تھے ۔کئی واقعات جو ہم حضرت خلیفہ اول سے سنا کرتے تھے وہ انہوں نے اس مجلس میں بیٹھے بیٹھے سنائے۔ اور وہ اسی طرح تھے جس طرح ہم نے حضرت خلیفہ اول سے سنے تھے ۔ وہ سر ساوہ کے رہنے والے ہیں جہاں کے شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی ہیں۔ میں نے جب تعجب سے ان سے پوچھا کہ آپ تو شیخ اسماعیل صاحب سرساوی سے بہت بڑے ہوں گے تو وہ کہنے لگے آ پ ان سے کہتے ہیں ۔میں تو ان کے والد جن کا یہ نام تھا اُن سے بھی عمر میں بہت بڑا تھا ۔
پھر کہنے لگے ۔ پیر سراج الحق صاحب مرحوم کو تو میں نے گودی میں کھلایا ہے تو ایسے آدمی دنیا میں آجکل بھی پائے جاتے ہیں جن کی عمریں بہت بڑی ہیں اور وہ سَو سَوا سَو سال کے واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ گزشتہ سال مجھے ایک بوڑھے آدمی ملے۔ ان کی شکل حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی سے اس قدرملتی جلتی تھی ۔ کہ مَیں نے دیکھتے ہی کہا ۔ آپ ان کے رشتہ دار ہیں ۔ انہوں نے کہا۔ میں ان کا چچا ہوں۔ اور ان کی عیادت کے لئے آیا ہوں ان کے چہرے سے جس قسم کی طاقت ظاہر ہوتی تھی اس سے اندازہ کرکے مَیں نے قیاس کیا کہ یہ غالباً ان سے چھوٹے ہیں کیونکہ بعض اوقات بھتیجے کی عمر چچا سے زیادہ بھی ہوتی ہے اس لئے میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ حافظ صاحب سے چھوٹے ہیں ۔اس پر انہوں نے جواب دیا۔
’’ جدوں اس دی مائو دا ویاہ ہویا سی اودوں میں اٹھارہ وریاں دا ساں ‘‘
یعنی جب ان کی والدہ کی شادی میرے بھائی سے ہوئی تھی اس وقت میری عمر اٹھارہ برس کی تھی ۔ حافظ صاحب کے قویٰ بھی مضبو ط تھے گواب بیماری کی وجہ سے وہ کمزور ہوگئے ہوں ۔ مگر پھر بھی ان کا اپنے چچا سے کوئی جوڑ ہی نہیں ۔ پھرانہوں نے کہا ۔ اس وقت میری عمر ۹۸،۹۹ سال کی ہے ۔ اور چونکہ یہ گزشتہ سال کا واقعہ ہے اس لئے اب وہ ۹۹ سال یا سَوسال کے ہوں گے۔ تو ایسے آدمی بھی ہوتے ہیں جو خاص طور پر لمبی عمر رکھنے والے ہوتے ہیں۔ میں نے اپنے تجربہ میں ہی ایسے کئی آدمی دیکھے ہیں ۔ہماری تائی صاحبہ تھیں وہ بھی سَوسال کی تھیں ۔ اسی طرح اورکئی لوگ ہوتے ہیں قادیان کے ایک نائی تھے جو قریباً سَو سال کی عمر میں فوت ہوئے ۔گویا قادیان میں ہی تین چار آدمی مجھے ایسے معلوم ہیں۔ جنہوںنے سَوسال یا اس سے زیادہ عمر پائی۔ تو اگر چھوٹے چھوٹے قصبات میں بھی تین چار ایسے آدمی مل سکتے ہیں جو اتنی لمبی عمر پانے والے ہوں تو ایک قوم میں تو یقینا سینکڑوں ایسے آدمی ہوتے ہوں گے جن کی عمر سَو سال کے قریب ہوتی ہوگی ۔
پس جوزیفس کی جوانی کے وقت جو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ سے ستاون اٹھاون سال بعد کا زمانہ ہے ۔یقینا سینکڑوں آدمی موجود ہوں گے جو اس وقت کے عَینی شاہد یا صحیح حالات جاننے والے ہوں گے کیونکہ جوزیفس کے متعلق اگریہ سمجھا جائے کہ اس نے بیس بائیس سال کی عمر میں حالات جمع کرنے شروع کئے۔ تو جو لوگ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ کے وقت بیس سال کی عمر کے ہوں ۔ ان کی عمر جوزیفس کی بیس سال کی عمر کے وقت چھہتّر ستتر سال کی ہوتی ہے ۔ پس یقینا ان کے خاص مریدوں یا ان کے حالات کو دیکھنے والے غیر جانبدار لوگوں سے واقعات سن کر جوزیفس نے اپنی تاریخ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی وفات کے واقعات لکھے تھے۔ اس کے علاوہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے مریدوں میں سے ایسے لاکھوں آدمی اس وقت موجود تھے جو گویا تابعی تھے ۔اور جنہوں نے اس وقت کے حالات دیکھنے والوں سے حالات سنے تھے ۔ان سب سے معلوم ہوسکتا تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام طبعی موت سے فوت ہوئے ہیں یاشہید کئے گئے ہیں۔ بس جوزیفس کی گواہی نہایت ہی زبردست گواہی ہے یہ ۳۶۔۳۷ء میں پیدا ہؤا۔ گویا اس وقت پیدا ہؤا ۔ جب حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ پر ابھی صرف ۳۷ سال گزرے تھے ۔ اور اگر تاریخ کی تدوین کے وقت اس کی عمر بیس سال سمجھی جائے تو گویا جس وقت اس نے تاریخ لکھی حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ قتل پرصرف ۷ ۵ سال گزرے تھے یہ شخص حضرت یحییٰ علیہ السلام کا مرید نہیں نہ عیسائی او ررومی ہے۔بلکہ یہودی ہے اور اس وجہ سے اس کی گواہی بالکل غیر جانبدارانہ ہے اس نے اپنی تاریخ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے واقعات نہایت تفصیل سے لکھے ہیں ۔ وہ لکھتا ہے بادشاہ ہیرو ڈانٹی ایس نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا رسوخ دیکھ کر اس ڈر سے کہ زور پکڑ کر بغاوت نہ کردیں مینجرسکے قلعہ میں ان کوقید کردیا اور بعد میں مروادیا (ہیرو ڈانٹی ایس گورنر تھا ۔مگرچونکہ پرانے زمانہ میں گورنروں کو بادشاہ کہہ دیا جاتا تھا اس لئے جوزیفس نے بھی ہیرو کو بادشاہ قرار دیا ہے ،ورنہ درحقیقت وہ بادشاہ نہیں بلکہ گورنر تھا ایشیا میں پرانے زمانہ میں یہی طریق رائج تھا چنانچہ الف لیلیٰ میں نہایت کثرت سے گورنروں کو بادشاہ کے نام سے پکارا گیا ہے )
اس واقعہ شہادت کی تفصیلات تاریخ میں اس طرح آتی ہے کہ ہیرو ڈانٹی ایس کا ایک بھائی فیلبوس نامی تھا۔ جب وہ مرا۔ تو ہیرو ڈانٹی ایس نے چاہا کہ اس کی بیوی ہیرو دیاس سے شادی کرلے۔ اس کے خلاف حضرت یحییٰ علیہ السلام نے بعض اخلاقی وجوہ سے اعتراض کیا ۔ شُبہ یہ کیا جاتا ہے کہ ہیروڈانٹی ایس کا پہلے سے اس عورت کے ساتھ ناجائز تعلق تھا۔ اور اسی نے اپنے بھائی کو مرواڈالا تھا۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ عورت خود خراب اور بدچلن تھی اوراس نے اپنے خاوند کو مروا دیا ۔
بہرحال حضرت یحییٰ علیہ السلام کا اعتراض تاریخی طور پر ثابت ہے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ شادی مناسب نہیں کیونکہ اس طرح قوم کے اخلاق پر بُرا اثر پڑنے کااندیشہ ہے چونکہ وہ یہودیوں کا علاقہ تھا اور گورنر کو یہودیوں کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا اس لئے اس نے شادی تو نہ کی مگر دل میں اس نے اس بات کو بہت بُرا محسوس کیا۔ اور اس عورت کو بھی لازما بُرا محسوس ہؤا۔ کہ میں ملکہ بننے والی تھی ۔ مگر حضرت یحییٰ کی وجہ سے نہ بن سکی۔ چنانچہ اس نے اندر ہی اندر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے خلاف سازش شروع کردی بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نے اس عورت سے شادی کرلی تھی ۔اور اپنے گھر میں رکھ لیا تھا ۔ بہرحال ہیروڈانٹی ایس اوراس عورت کو اس بات کا غصہ تھا کہ حضرت یحییٰ نے ان کے رستہ میں رکاوٹ کیوں ڈالی۔ ایک دفعہ جب کہ ہیروڈانٹی ایس کی سالگرہ کا دن تھا تو ہیرو دیاس کی بیٹی جو ہیروڈانٹی ایس کی بھتیجی تھی اس کے سامنے ناچی۔
(ہمارے دوستوں کو اس موقع پر تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ ایک بھتیجی چچا کے سامنے کس طرح ناچ سکتی ہے۔ یہ رومیوں کی بات ہے اور ان میں شراب پینااور ناچ کرنا دونوں باتیں جائز سمجھی جاتی تھیں)بہرحال جب وہ ناچی تو ہیرو ڈانٹی ایس بہت ہی خوش ہؤا اور اس نے کہا مانگ جو کچھ مانگتی ہے ۔ اِس پر جیسا کہ اس کی ماں ہیرو دیاس نے اُسے سکھا رکھا تھا کہا کہ مَیں یحییٰ کاسر مانگتی ہوں ۔ بادشاہ نے کہا۔ اگر میں نے یحییٰ کو قتل کرایا تو بغاوت ہوجائے گی ۔ وہ کہنے لگی کچھ ہو آپ نے وعدہ کیاہے کہ میں جو کچھ مانگوں گی آپ دیں گے۔ پس آپ اپنے وعدے کاپاس کریں۔ اس پر بادشاہ نے اپنے آدمی بھجوا کر قید خانہ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کو قتل کرادیا اوران کا سرلڑکی کے سامنے رکھ دیا۔
اب یہ واقعہ ایک غیر جانبدار مؤرخ لکھتا ہے کوئی عیسائی نہیں لکھتا۔ کوئی یہودی نہیں لکھتا (یعنی ایسا یہودی نہیں لکھتا جو مذہبی آدمی ہو اور نہ یہ واقعہ وہ کسی مذہبی بناء پر لکھ رہا ہے ۔ بلکہ ایک مؤرخ ہونے کی حیثیت میں تاریخی بنا پر یہ واقعہ لکھ رہا ہے) اور ایسی حالت میں لکھتا ہے ۔ جبکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل پر ابھی صرف پچاس ساٹھ سال کا عرصہ گزرا اور اس وقت کے واقعات کو جاننے والے سینکڑوں زندہ ہوتے ہیں ۔ اور کوئی جھوٹ اور غلط بات نہیں لکھی جاسکتی۔ پھر یہ مؤرخ کوئی معمولی نہیں ۔بلکہ ایساسچ بولنے والا مؤرخ ہے کہ عیسائی بھی اس کی باتیں تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جوزیفس نہایت راستباز مؤرخ تھا ۔ وہ جان بوجھ کر غلط بیانی کبھی نہیں کرتا ۔ہاں اتفاق سے کوئی غلطی کرجائے تواور بات ہے ۔ اسی وجہ سے عیسائی مؤرخ اس کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ اور یہودی بھی بڑی قدر کرتے ہیں ۔
راستباز اور مشہور مؤرخ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے صرف پچاس ساٹھ سال بعد لکھتا ہے کہ ہیرڈ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو قتل کرایا۔ اور جب لڑکی نے یحییٰ کا سرمانگا تو اس نے کہا ۔ کہ حضرت یحییٰ کو ماننے والے بہت ہیں اگر مَیں نے انہیں قتل کرایا تو بغاوت ہوجائے گی۔ جس پر لڑکی نے کہا ۔کہ آپ نے جب وعدہ کیاہے تو اسے پورا کریں ۔ خواہ کچھ ہو ۔ چنانچہ اس نے قید خانہ میں آپ کو قتل کرایا۔ اور آپ کا سر منگوا کراپنی بھتیجی کے سامنے پیش کیا۔ اگرحضرت یحییٰ علیہ السلام کے مریدوں اور انجیلوں کے بیانوں کے ساتھ ایک ایسے مشہور اور راستباز مؤرخ کا بیان بھی مل جاتا ہے جو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے صرف پچاس سال بعد آپ کا واقعہ لکھ رہا ہے اور پھر بھی ہم اسے درست تسلیم نہ کریں تو ہم کسی بات کو بھی یقینی نہیں کہہ سکتے ۔ پھر توغدر کے متعلق بھی شُبہ کیا جاسکتا ہے ۔ کہ ہؤا یا نہیں یہ بھی شُبہ ہوسکتا ہے ۔کہ انگریز کہیں باہر سے نہیں آئے بلکہ ہندوستان ہی کی ایک قوم ہیں۔
یہ بھی شُبہ ہوسکتا ہے کہ شاید مولوی اسماعیل صاحب شہید کوئی آدمی ہی نہیں گزرے۔ ابوظفربادشاہ کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کا کوئی تاریخی وجود نہ تھا ۔ کیونکہ ان کی موت پر ۸۲ سال گزر چکے ہیں۔ اوراتنی دیر کی بات صحیح نہیں سمجھی جاسکتی سید احمد صاحب بریلوی پر سَو سال سے اوپر گزر چکے ہیں ان کے وجود میں بھی شُبہ کیا جاسکتا ہے پھر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت پر قریباً نوے سال گزر چکے ہیں ان کے وجود کا بھی انکار کیا جاسکتا ہے مگر کیا ان تمام واقعات میں سے کسی ایک کے متعلق بھی ہمیں شُبہ ہؤا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ان میں شُبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ قریب کے واقعات ہیں۔ اور ہزاروں لوگ جانتے ہیں کہ یہ باتیں ہوئی ہیں۔ اسی طرح یہ ناممکن ہے کہ جوزیفس کی شہادت کو ردّ کیاجاسکے۔ کیونکہ وہ ایک ایسے زمانہ میں ہؤا ہے جبکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ پر ابھی صرف پچاس ساٹھ سال گزرے تھے۔ اور ہزاروں نہیں لاکھوں آدمی ان کے مریدوں میں سے زندہ تھے۔ اور اسوقت کے حالات کو دیکھنے والے یا دیکھنے والوں سے سننے والے موجود تھے ۔ ایسے زمانہ میں ایسا مشہور مؤرخ یہ نہیں لکھتا ۔کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام فوت ہوئے ہیں بلکہ یہ لکھتا ہے کہ وہ قتل کئے گئے ۔ پس ان کا قتل تاریخی طور پر یقینا ثابت ہے۔
پھرتاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی جماعت صدیوں تک قائم رہی ہے اورصدیوں تک ان پر ایمان لانے والے دنیا میں موجود رہے ہیں۔ اور ان تمام کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں عیسائی بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ شہید ہوئے یہودی بھی یہی کہتے ہیںکہ وہ شہید ہوئے ۔ مؤرّخ بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ شہید ہوئے۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ اُس وقت حضرت یحییٰ کے ملک میں تین قومیں موجود تھیں اور تینوں کی متفقہ شہادت یہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے۔یہودی کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے، عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے مرید کہتے ہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے پھران تینوں قوموں کی شہادت کے ساتھ مؤرخوں کی شہادت بھی مل جاتی ہے اور وہ بھی کہتے ہیں ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے۔ ان تمام واقعات کی موجودگی میں اگرہم انیس سو سال کے بعد آج اُٹھ کر یہ کہہ دیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں کئے گئے تو دنیا کس طرح ہماری اس بات کو مان سکتی ہے۔یا خود ہماری عقلیں کس طرح اس عقیدہ کو تسلیم کرسکتی ہیں ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ کیا انیس سو سال تک لوگ یہ نہیں کہتے رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر لٹک کر فوت ہوئے ہیں اور کیا انیس سَو سال کے بعد جماعت احمدیہ نے اس نظریہ کو نہیں بدلا؟ پھر اگر یہ کہہ دیا جائے کہ انیس سَو سال تک عیسائی، یہودی اور مؤرّخ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق جو کچھ کہتے رہے وہ غلط ہے تو اس میں عجیب بات کون سی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم واقعہ صلیب کے متعلق عیسائیوں اور یہودیوں کی گواہی اس لئے تسلیم نہیں کرتے کہ اس میں عیسائیوں اور یہودیوں کی خود غرضی ہے۔ اور وہ اگر سچی بات بیان کریں تو ان کے اپنے مذہب پرپانی پھرتا ہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر لٹک کر فوت ہوئے ۔ اور اس میں یقینا عیسائیوں کافائدہ ہے کیونکہ ان کے کفارہ کی بنیاد اسی امر پرہے کہ مسیح نے ان کے گناہ اٹھالئے۔ اور ان کے بدلہ میںخود جان دے دی ۔ یہودی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پرمرے ۔ مگر اس لئے کہ وہ چاہتے ہیں حضرت مسیح کو ملعون ثابت کریں چونکہ وہ حضرت مسیح کو ماننا نہیں چاہتے۔ بلکہ چاہتے ہیں انہیں ملعون ثابت کریں۔
اس لئے وہ کہتے ہیں مسیح صلیب پرلٹکا اور پھروہاں سے زندہ نہیں اترا بلکہ صلیب پر لٹک کر مرگیا ۔اور تورات کے مطابق نعوذ باللہ ملعون ثابت ہؤا۔ اسی طرح رومی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوئے مگر اس لئے کہ رومی گورنرپیلاطس پر جو ہیرو ڈانٹی ایس کے ماتحت تھا یہ الزام آتا تھا کہ اس پر حضرت مسیح کو بچانے کی کوشش کی ۔ پس چونکہ اس پر بھی الزام آتاتھا اس لئے لازماً اس نے بھی حقیقت پرپردہ ڈالنا تھا پس چونکہ وہاں تینوں قوموں کامفاد اسی امر میں تھا کہ یہ مشہور کریں کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پرلٹک کر فوت ہوگئے ہیں۔ اسی لئے ان کی شہادت مخدوش تھی مگر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق یہ کہتے میں کہ وہ شہیدہوگئے ہیں ان کی قوم کو کیافائدہ تھا وہ تو اس امر کی قائل نہیں کہ حضرت یحییٰ ان کے گناہوں کا بوجھ اٹھا کران کے لئے کفارہ بن گئے ۔ پھرانہیں اپنے پیر کے شہید ہونے کی خبر دینے کا کیافائدہ تھا۔
خصوصاً جب کہ اس وقت بعض یہود کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ جو مارا جائے وہ جھوٹا ہوتا ہے وہ اپنے پیر کوجھوٹا کس طرح بناسکتے تھے اسی طرح یہودی جب حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ وہ صلیب پر لٹک کر فوت ہوئے تو ہر شخص کو نظر آرہا ہوتا ہے کہ ان کامقصد یہ ہے کہ حضرت مسیح کوملعون ثابت کریں مگرحضرت یحییٰ علیہ السلام کو مقتول قراردیتے ہیں ان کی یہ غرض تو نہیں ہوسکتی کیونکہ جو یہود ان کے مرید نہ تھے وہ بھی انہیں برگزیدہ انسان تسلیم کرتے تھے اسی طرح عیسائی بھی یہی مانتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے تھے حالانکہ ان کوشہید ماننے میں نہ صرف یہ کہ عیسائیوں کاکوئی فائدہ نہیں بلکہ ان پر بہت بڑا اعتراض وارد ہوتا ہے ۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بے گناہ مانتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بھی راستباز مانتے ہیں۔
پس جب وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ہمارے گناہوں کے بدلہ میں کفارہ ہوگئے تو ایک کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اس میں مسیح کی کیا خصوصیت ہے یحییٰ نبی کے متعلق بھی تم تسلیم کرتے ہو کہ وہ راستباز اور بے عیب تھا۔پس اگر وہ بھی مارا گیا تو اس کی نسبت بھی کہنا چاہیے کہ لوگوںکے گناہ اٹھا کرلے گیا ۔ اس صورت میں حضرت مسیح علیہ السلام کی جو منفردانہ حیثیت ہے وہ بالکل جاتی رہتی ہے۔
پس حضرت یحییٰ علیہ السلام کو شہید تسلیم کرنے میں عیسائیوں کابھی کوئی فائدہ نہیں ۔بلکہ الٹا اُن پراعتراض وارد ہوتا ہے ۔ اورکہنے والاکہہ سکتا ہے کہ یوحنا بھی کفارہ ہوگیا ۔اورتم اپنے مسیح کی جو خصوصیت پیش کرتے ہو وہ جاتی رہی۔
پس حقیقت یہ ہے کہ گو حضرت یحییٰ قتل ہوئے تھے مگرعیسائی یہی کہتے کہ وہ کوئی قتل نہیں ہوئے تا حضرت مسیح کی اس منفردانہ حیثیت پرحملہ نہ ہو جو وہ پیش کرتے ہیں۔ مگرباوجود اس اعتراض کے وارد ہونے کے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہیدہوئے ۔ پس اس میں کسی کافائدہ نہ تھا۔ بلکہ ان کا قتل تسلیم کرنے میں عیسائیوں کا نقصان تھا۔ کیونکہ اس طرح انہیں مانناپڑتا تھا کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی بے گناہوں کے لئے کفارہ نہیں ہوئے بلکہ ایک اور بے گناہ بھی گنہگاروں کے لئے کفارہ ہؤا۔ اوردشمنوں کی شرارت سے مارا گیا ۔ اور اس کوتسلیم کرناعیسائیوںکے لئے سخت گراں ہے۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں جو لوگوں کے لئے کفارہ ہوئے۔
ممکن ہے کوئی کہے کہ عیسائی پہلے بھی بعض نبیوں کے قتل کے قائل ہیں۔ پس حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قتل ماننے سے ان پر زیادہ اعتراض کس طرح آسکتا ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک وہ بعض اور انبیاء کے قتل کے بھی قائل ہیں۔ مگرحضرت یحییٰ علیہ السلام وہ ہیں جنہیں وہ بے گناہ قراردیتے ہیں اور جن کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بیعت کی تھی۔ اور جن کے متعلق ایک راستباز اور بے عیب کے الفاظ اناجیل میں آتے ہیں۔ پس حضرت یحییٰ علیہ ا لسلام کے واقعۂ قتل اوردوسرے بعض انبیاء کے واقعۂ قتل میں بہت بڑا فرق ہے ۔ دوسرے انبیاء پریہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں گناہ کئے۔ مگرحضرت یحییٰ علیہ السلام کی اناجیل میں تعریفیں کی گئی ہیں۔ پس حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قتل تو عیسائیوں کے خلاف حربہ قرارپاسکتا ہے۔ مگراورانبیاء کاقتل ان کے خلاف حربہ قرار نہیں پاسکتا ۔ ان کے متعلق کہنے والا کہہ سکتا ہے ۔ کہ جیسی قربانی حضرت مسیح علیہ السلام نے کی ویسی ہی قربانی حضرت یحییٰ علیہ السلام نے کی دونوں میں کونسا فرق ہے ۔وہ بھی کفارہ ہوئے اوریہ بھی۔ غرض عیسائیوں کافائدہ اسی میں تھا کہ گو حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے۔ وہ یہی کہتے ۔ کہ وہ شہید نہیں ہوئے۔ مگر باجود اس کے کہ ان کا اپنامفاد ان کو شہید تسلیم نہ کرنے میں تھا۔ پھر بھی وہ اس امرکے قائل ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق باوجود یکہ رومیوں ،یہودیوں اورعیسائیوں تینوں کا فائدہ اسی امر میں تھا کہ آپ کو صلیب پرفوت شدہ ثابت کریں۔ پھر بھی کس طرح حق پھُوٹ پھُوٹ کر ظاہرہوگیا ۔ رومی اوریہودی کہتے تھے کہ آپ صلیب پر فوت ہوگئے مگر انہیں دنوں یہودیوں نے روم کے گورنر کے پاس شکایت کی کہ مسیح کے مرید یہ کہتے پھرتے ہیںکہ مسیح زندہ ہوگیا ہے پس اس کی قبر پر پہرہ لگایاجائے۔ چنانچہ گورنر نے یہود کے کہنے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر پر پہرے لگادئیے ۔ گویا یہودیوں نے بھی حضرت مسیح کے زندہ ہونے کی خبر تسلیم کرلی۔ اور گورنر روم نے بھی ان کی بات پر اعتبار کرلیا ۔ اوراس نے ضروری سمجھا کہ آپ کی قبر پر پہرہ لگائے پھر عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوئے۔ مگرانجیل میں صاف لکھا ہے کہ قبر میں سے نکل کر حضرت مسیح لوگوں سے چھُپ کر یروشلم میں پھرتے رہے ۔ انہوں نے اپنے حواریوں کو اپنے زخم دکھائے۔ اور کہا کہ میرے ہاتھ پائوں کو دیکھو کہ میں ہی ہوں اور مجھے چھوئو اور دیکھو ۔کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیں۔ جیسامجھ میں دیکھتے ہو اور یہ کہہ کر انہیں اپنے ہاتھ پائوں دکھائے ۔ اور پھر بھُنی ہوئی مچھلی کاقتلہ لے کران سے کھایا ۔ بلکہ اس کے بعد انہوں نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ پھر وہ انہیں ایک پہاڑ پرلے گیا اور برکت دے کر غائب ہوگیا ۔ پس اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پر سے زندہ اترے تو تاریخ ہمیں یہ کہنے کا حق دیتی ہے اورہم صرف یہیں تک بس نہیں کردیتے کہ ثابت کردیں وہ صلیب پر سے زندہ اُتر آئے بلکہ ہم پھر ان کی بعد کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہیں ۔ اور کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخر میں کشمیر میں لا کر ان کی قبر بھی دکھادیتے ہیں۔ اوریہ سب کچھ تاریخی شواہد سے ثابت کرتے ہیں ۔ پس چونکہ اس بحث میں ہم تاریخی تائید اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور ہمارے مخالف تاریخی پہلو کو ترک کرتے ہیں اس لئے ہم غالب رہتے ہیں اوروہ مغلوب۔ لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے بلکہ زندہ رہے تھے تو اِس سوال کا جواب ہمارے پاس کوئی نہیں کہ پھر ان کے قتل کی خبر کیونکر مشہور ہوئی اور کس طرح ان کے مریدوں، عیسائیوں اوردو سرے یہود نے اسے صحیح تسلیم کرلیا۔ اور یہاں تک کہہ دیا کہ ہم نے ان کی لاش خود دفن کی ہے اور کس طرح اس واقعہ پر پردہ پڑا رہا۔ حتّٰی کہ قریب زمانہ بعد میں آنے والے بھی یہی قصہ لکھنے پرمجبور ہوئے۔اورپھر یہ کہ اگر حضرت یحییٰ مارے نہیں گئے تھے تو انہوں نے بقیہ زندگی کہاں گزاری اور کہاںچھپے رہے اور کیوں چھپے رہے اور ان کے مرید کیوں ان سے نہ ملتے تھے اور گورنر کو یہ دھوکاکس طرح لگا کہ میرے آدمیوں نے حضرت یحییٰ کو قتل کردیا ہے۔ اور سر جولایا گیا وہ کس کا تھا۔ اور اسے دیکھ کر کیوں نہ ہیرود یاس جو اُن کی دشمن تھی اس نے نہ پہچانا کہ یہ تو یحییٰ نہیں ہیں ۔ غرض ان کے قتل کے واقعات کی تشریح کرنی اور قتل سے بچ جانے کے بعد کے واقعات کا معلوم کرنا ہمارے لئے ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ ان کی حیثیت ایک مزدور کی سی نہ تھی کہ جو مر جائے تو کانوں کان کسی کو خبر بھی نہ ہو۔ وہ ایک قوم کے نبی تھے۔ لاکھوں ان کے اتباع تھے۔ بلکہ اُس زمانہ میںان کے مرید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مریدوں سے بہت زیادہ تھے ۔ سارے یہودی ان کا ادب کرتے تھے ۔ا وربادشاہ ہیرڈ بھی اس قدر ڈرتا تھا کہ وہ سمجھتا تھا اگرمیں نے انہیں قتل کردیا تو تمام ملک میں بغاوت ہوجائے گی ۔
ایسا عظیم الشان شخص اگر اس وقت دشمن کے حملہ سے بچ گیا تھا ۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر گیا کہاں۔ آخر کوئی پتہ نشان تو ملنا چاہیے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب صلیب سے زندہ اُترے تو ان کے متعلق تو یہ معلوم ہوگیا کہ وہ وہاں سے ہجرت کرگئے ۔ اورآخر کشمیر میں آکر ایک لمبا عرصہ زندہ رہنے کے بعد فوت ہوئے۔ مگرحضرت یوحنا کچھ ایسے بچے کہ غائب ہی ہوگئے اور پتہ ہی نہیں لگتا کہ بچ کر وہ کہاں گئے تمام تاریخیں خاموش ہیں۔ تمام لوگ ساکت ہیں نہ دشمن کہتا ہے کہ جس کو ہم نے قتل کرنا چاہا تھا وہ تو فلاں ملک میں بیٹھا ہے نہ کوئی مرید ان کے پیچھے جاتا ہے اور ان کا پتہ لگاتا ہے۔ گویا نہ دشمن کہتا ہے کہ وہ زندہ ہیں نہ دوست اور مرید کہتے ہیں کہ زندہ ہیں۔ تاریخیں خاموش ہیں اس کے بعد ان کی زندگی کا کوئی کام بھی نظرنہیں آتا ۔ ایسی صورت میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ قتل نہیں ہوئے تھے ۔ تو یقینا ایک ایسی بات ہوگی جس کی تائید کسی ایک تاریخی ثبوت سے بھی نہیں ہوگی ۔ مگرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق جب ہم کہتے ہیں کہ وہ صلیب سے زندہ اترے تو تاریخ ہمارا ساتھ دیتی ہے۔ اور وہ ہمارے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں آپ کی قبر تک پہنچا دیتی ہے۔ پس چونکہ اس قسم کے تاریخی شواہد حضرت یحییٰ علیہ السلام کے ساتھ نہیں۔ اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ قتل نہیں ہوئے تھے۔
میں نے بتایا ہے کہ انجیل بھی یہی شہادت دیتی ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے چنانچہ متی بات ۱۴ میں لکھا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ ا لسلام حضرت مسیح کی فلسطینی زندگی میں ہی وفات پاگئے تھے ان کے قتل کا واقعہ متی میںاس طرح لکھا ہے کہ ہیرود یس نے اپنے بھائی فیلبوس کی بیوی کو گھر میں ڈالنا چاہا یوحنا نے روکا۔ ہیرو دیس نے آپ کو مارنا چاہا مگر لوگ نبی مانتے تھے اس لئے رُک گیا ایک دن سالگرہ میں ہیرودیاس کی بیٹی (فیلبوس سے) ناچی اور ہیرودیس نے کہا۔ جو مانگے دو ں گا۔ اس پر اس نے اپنی ماں کے سکھانے کے مطابق یوحنا کا سرمانگا ۔ بادشاہ خائف تو ہؤا مگر وعدہ پورا کیا ۔اورقید خانہ میں قتل کرادیا۔ شاگردوں نے لاش دفن کی اوریسوع کو آکر اطلاع دی۔ ۱؎
یہ انجیل کی روایت ہے ادھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے مرید کہتے ہیںکہ وہ شہید ہوئے تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی جماعت دیرتک قائم رہی حتّٰی کہ ان کے بعض مرید رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ تک بھی رہے ہیں وہ صابی کہلاتے تھے ۔ اور توحید کے قائل تھے بعد میں آہستہ آہستہ عیسائیوں میں شامل ہوگئے ۔ قرآن مجید میں بھی ان کا ذکر آتا ہے ۔ پس حضرت یحییٰ علیہ السلام کی جماعت سینکڑوں سال تک قائم رہی ہے۔ اور یہ سب اسی بات کے دعویدار تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں۔ ان کو بھلایہ کہنے میں کہ ان کا پیر شہید ہؤاہے کیا فائدہ تھا۔ وہ کفارہ کے قائل نہیں تھے۔ کہ عیسائیوں کی طرح یہ کہتے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام ان کے گناہوں کے بدلہ میں مارے گئے ہیں۔ وہ موحّدتھے اور اسلامی تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ تک موحّد رہے ہیں۔ اب ایک موحّد قوم کا بھلا اس میں کیا فائدہ تھا کہ وہ اپنے پیر کے متعلق یہ کہے کہ وہ قتل ہوئے تھے۔ وہ تو اسی لئے انہیں شہید کہے گی جبکہ واقعات یہی کہتے ہوں گے ۔ کہ وہ شہید ہوئے تھے پھر ہم دیکھتے ہیں علاوہ تینوں قوموں یعنی رومیوں ، یہودیوں اور عیسائیوں کی تاریخ کے احادیث بھی اسی بات کی تائید کرتی ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے۔
ابن عسا کر نے روایت کی ہے کہ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلٰی اَصْحَابِہٖ یَوْمًا وَھُمْ یَتَذَاکَرُوْنَ فِیْ فَضْلِ الْاَنْبِیَائِکہ ایک دن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ نے دیکھا کہ صحابہ مسجد میں بیٹھے آپس میں انبیاء کی فضیلتوں کے بارہ میں گفتگو کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا مجھے فلاں نبی کی فلاں بات پسند ہے کوئی کہتا فلاں نبی کی یہ بات بڑی اچھی تھی غرض اسی طرح آپس میں باتیں کررہے تھے فَقَالَ قَائِلٌ مُوْسٰی کَلَّمَہُ اﷲُ تَکْلِیْمًاکسی کہنے والے نے کہا موسیٰ بڑا نبی تھا کیونکہ خدا نے اُس سے بِالمشافہ گفتگو کی ۔ قَالَ قَائِلٌ عِیْسٰی رُوْحُ اﷲُ وَکَلِمَتُہٗ کسی نے کہا عیسیٰ بڑا نبی تھا وہ اللہ کی روح اور اُس کا کلمہ تھا۔ قَالَ قَائِلٌ اِبْرَاہِیْمُ خَلِیْلُ اﷲِ۔ کسی نے کہا ابراہیم بڑا نبی تھا۔ وہ خدا کا خلیل اور دوست تھا۔ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَیْنَ الشَّھِیْدُبْنَ الشَّہِیْدِ یَلْتَبِسُ الْوَبَرَوَ یَأَکُلُ الشَّجَرَ مَخَافَۃَ الذَّنْبِ۔ یَحْیٰی بْنَ زَکَرِیَّا۔۲؎ یعنی یہ ذکر سن کر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی صحابہ میں بیٹھ گئے اورآپ نے فرمایا تم ان انبیاء کی فضیلتوں کا ذکر کرتے ہو مگر تم اس شہید کے شہید بیٹے کا کیوں ذکر نہیں کرتے جو ساری عمر گناہ کے خوف سے صوف کے کپڑے پہنتا رہا اور جنگلوں میں رہتا اور پتے کھا کھا کر گزارہ کرتا۔ جس کا نام یحییٰ تھا اور جو زکریا ؑکا بیٹا تھا۔ اب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم یہ بات صحابہؓ میں بیٹھ کر فرماتے ہیں اسے کون خطابیات میں سے قرار دے سکتا ہے۔ یہاں تو نبیوں کی خوبیوں کابیان ہورہا تھا ۔ کوئی حضرت موسیٰ کی خوبیاں بیان کررہا تھا کوئی حضرت عیسیٰ کی اور کوئی حضرت ابراہیم ؑ کی ۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تم یحییٰ بن زکریاکاکیوں ذکر نہیں کرتے جو شہید ابن شہید تھا۔ آپ نے اس طرح فرما کر یہ مسئلہ بالکل صاف کردیا ہے کہ حضرت یحییٰ واقعہ میں شہید ہوئے تھے ۔
پھر بیہقی اور ابن عسا کرمیں حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ان من ھوان الدنیا علی اﷲ ان یحییٰ بن زکریا قَتَلَتْہُ اِمْرَأَ ۃٌ ۳؎میں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ دنیا حقیر ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس وجہ سے کہ یحییٰ زکریا کے بیٹے کو ایک فاحشہ اور بدکار عورت نے قتل کرایا ۔ یہاں قتل کالفظ آتا ہے مگرمطلب خود قتل کرنا نہیں بلکہ قتل کرانا ہے۔ اسی طرح حاکم میںحضرت عبداللہ بن زیبر سے ایک اسی قسم کی روایت آتی ہے حضرت عبداللہ بن زبیر اپنے وقت کے بعض ظالم بادشاہوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے ۔ اوروہ اسلام میں پہلے مجدد مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے یزید کا بھی مقابلہ کیا اور اسی طرح بعض اور مظالم کے خلاف بھی آوازبلند کی ۔ا س مقابلہ میں انہیں بڑے بڑے مصائب پہنچے ۔ یہاں تک کہ ان کے اپنے ساتھی انہیں چھوڑ کر الگ ہوگئے۔ اور آخر میں تو یہ صرف اکیلے رہ گئے تھے اور دشمن نے انہیں مار کر پھانسی پرلٹکا دیا تھا جب لوگوں نے انہیں کہا کہ اب تو آپ کے ساتھی بھی آپ کو چھوڑتے چلے جارہے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ آپ بھی مقابلہ چھوڑدیں تو انہوں نے کہا مَنْ اَنْکَرَالْبَلائَ فَأِنِّیْ لَااُنْکِرُہٗ لَقَدْ ذَکَرَمِنَِّیْ اِنَّمَا قُتِلَ یَحْیٰ بْنُ زَکَرِیَّا فِیْ زَانِیَۃٍ۴؎ جو شخص مصیبتوں کو ناپسند کرتا ہے وہ بے شک کرے میںتو انہیں ناپسند نہیں کرتا اور مجھے تو یہی بتایا گیا ہے کہ یحییٰ بن زکریا کو ایک زانیہ عورت کی وجہ سے مارا گیا تھا اگر میں بھی ماراجائوں تو میرے لئے یہ کون سی بڑی بات ہے۔
پھر ابنِ عسا کر اور حاکم میں حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو وحی کی ۔ کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے وقت ستر ہزار آدمی مارا گیا تھا۔ اور تیرا ایک بیٹا مارا جائے گا جس کے بدلہ میں ایک لاکھ چالیس ہزار آدمی مرے گا۔۵؎ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل پر ہیرڈ کے خلاف خطرناک بغاوت ہوگئی تھی اور فلسطین کی رومی فوج کا ایک بہت بڑا حصہ تباہ ہوگیا تھا اور یہودیوں کا یہ عام عقیدہ تھا کہ یہ ہیرڈ کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کی سزا ملی ہے اب اس حدیث میں محض خبر نہیں بلکہ حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ وحی کی ۔ کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے وقت ستر ہزار آدمی مارا گیا تھا۔
پھر ابنِ عسا کر کی روایت ہے کہ صخرہ بیت المقدس میں ستّر نبی مارا گیا ہے ۔۶؎ جن میں سے ایک حضرت یحییٰ بن زکریا بھی ہیں میرے نزدیک صخرہپر مارے جانے کے معنے یہ ہیں کہ بیت المقدس کی تطہیر کی کوشش میں وہ انبیاء مارے گئے تھے ۔ یہ احادیث صرف حضرت یحییٰ علیہ السلام کی شہادت کا ثبوت نہیں بلکہ ان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام بھی شہید ہوئے تھے۔ گویا تاریخ جو اس وقت لکھی گئی۔
حضرت یحییٰ کی قوم کا اپنا بیان، یہود کا بیان، عیسائیوں کابیان اوراحادیث سب ایک طرف ہیں اتنے بڑے مجموعہ کو کس طرح ردّکیا جاسکتا ہے جب تک کُل ان دلائل کو رد نہ کیاجائے جن سے دنیا صحیح نتیجہ پرپہنچی ہے اور اگرہم انہیں رد کردیں ۔ تو پھردنیا میں نقلی طور پرکسی ایک بات کاثابت کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے اور پھر ہماری مثال دیسی ہی ہوجائے گی جیسے کہتے ہیں کہ کوئی بزدل شخص تھا وہ ایک دفعہ کسی لڑائی میں شامل ہؤا اور اتفاقاً ایک تیر اُسے آلگا ۔ تیر کی وجہ سے خون بہنے لگ گیا ۔ یہ دیکھ کر وہ میدان جنگ سے بھاگ پڑامگر اِدھر بھاگتا جائے اور اُدھر ساتھ ساتھ کہتا جائے یا اللہ یہ خواب ہی ہو یا اللہ یہ خواب ہی ہو ۔ تو دنیا میں کسی امر کو ثابت کرنے والی یہی چیزیں ہؤا کرتی ہیں ایک تاریخ ہوتی ہے جو کسی امر کو ثابت کرتی ہے پھر کسی قوم کا اپنا بیان ہوتا ہے پھر ارد گرد کی قوموں کا بیان ہوتا ہے۔ پھر بعد میں آنے والے بزرگ جو خداتعالیٰ سے خبریں پاتے ہیں ان کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہاں یہ سب باتیں جمع ہیں۔ تاریخ بھی کہتی ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے یہودی جو حضرت یحییٰ علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ شہید ہوئے ۔اور جو آپ کو نبی نہیں مانتے مگرآپ کو بزرگ تسلیم کرتے اور آپ کے حالات سے دل چسپی رکھتے ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ آپ مارے گئے عیسائی جن کے لئے یہ عقیدہ رکھنا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں۔ یقینا نقصان رساں ہے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ شہید ہوئے ۔ ان تمام کے بعد جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم آئے تو صحابہ کہتے ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی بتایا کہ حضرت یحییٰ شہید ہوئے تھے اور پھر بغیر وحی کی خبر بھی احادیث میں موجود ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے اگر اتنی بڑی شہادتوں کے باوجود اس میں شُبہ کی گنجائش ہوسکتی ہے تو پھر ہمیں اپنے وجود کے بارے میں بھی شُبہ کرنا چاہیے۔
قرآن کریم میں بھی۷؎ کے الفاظ آتے ہیں تم اس کی کوئی تشریح کرو لفظی طور پر تمہیں ماننا پڑے گا کہ اس میں قتل کے معنے بھی شامل ہیں اوراگر ہم ان تمام دلائل کو رد کردیں تو پھر کوئی ایک سچائی بھی ایسی نہیں رہتی جس کو ہم ثابت کرسکیں یا جس کو اطمینان کے ساتھ اپنے عقائد میں شامل کرسکیں ۔سچائی اسی طرح ثابت ہوتی ہے کہ یا تاریخ سے کوئی بات ثابت ہوتی ہے۔ یا کوئی قوم دعویٰ کرتی ہے کہ فلاں واقعہ اس طرح ہؤا یا بعد کے نبیوں اور خدارسیدہ لوگوں کی گواہی ہوتی ہے کہ ایسا ہؤا۔ اور اگر ہم ان تمام شواہد کو دیکھیں اور رد کردیں تو دنیا میں کوئی ایک مسئلہ بھی ایسانہیں رہ سکتا جو ثابت شدہ ہو ۔پھردیکھو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا واقعہ کیسا مشتبہ تھا۔ مگراس میں سے بھی ثبوت نکل آئے کہ وہ قتل نہیں ہوئے۔ اوروہاں تو ان کے صلیب پرمرنے کا فائدہ تینوں جماعتوں کو تھا۔
رومیوں کو کیونکہ گورنربچانے میں شامل تھااگران کا بچ جانا ثابت ہوتا تو اس کی بدنامی ہوتی تھی یہود کو کیونکہ وہ اس طرح مسیحیت کا خاتمہ کرتے تھے۔ مسیحیوں کو کیونکہ پہلے زمانہ میں وہ مسیح ؑ کی دوسری زندگی پرپردہ ڈالنا چاہتے تھے اور بعد میں اپنے گناہ ان کے ذمہ ڈالنے کے لئے۔ لیکن باوجود اس کے حق پھوٹ پھوٹ پڑا ہے اور حضرت مسیح دوبارہ زندہ ہوگئے کا شور پڑ گیا ہے۔ مگر اس کے خلاف حضرت یحییٰ کی نسبت کسی کا بھی کوئی فائدہ نہ تھا ۔ نہ رومیوں کو چھُپانے کی کوئی ضرورت تھی نہ مریدوں کو ۔ نہ عام یہود کو نہ مسیحیوں کو بلکہ مسیحیوں کے لئے تو مُضِر تھا۔ کیونکہ اس طرح یوحنا بھی کفارہ قرار پا سکتے تھے ۔ مگرانہوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ ان چار زبردست تاریخی شاہدوں اور حدیث اوراقوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیسے مذہبی شاہدوں کے بعد کسی تاویل کی گنجائش باقی ہی نہیں رہتی ۔ رہا یہ سوال کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو کچھ کہا وہ خطابیات کی قسم سے تھا سو اس کا مجمل جواب میں پہلے دے آیا ہوں ۔ اب میں بتاتا ہوں کہ ان کا خطابیات میں سے ہونا بالکل ناممکن ہے مثلاً ایک حوالہ جو حمامۃ البشریٰ سے پیش کیا گیاہے۔ا س میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
وَالْعَجَبُ مِنْھُمْ اَنَّھُمْ یُؤْمِنُوْنَ بِاَنَّ اﷲَ اَنْزَلَ فِی الْقُرْاٰنِ اٰیَاتٍ فِیْھَا ذِکْرُ وَفَاۃِ الْمَسِیْحِ ثُمَّ یَظُنُّوْنَ اَنَّہٗ حَیٌّ جَالِسٌ فِی السَّمَائِ الثَّانِیَۃِ مَعَ اِبْنِ خَالَتِہٖ یَحْییٰ النَّبِیُّ الشَّھِیْد عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْھِمُ السَّلَامُ وَلَا یَتَفَکَّرُوْنَ وَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلٰی اَنَّ یَحْییٰ قَدْ قُتِلَ وَلَحِقَ بِالْمَوْتیٰ فَکَیْفَ جَمَعَ اﷲُ الْحَیَّ بِالْمَیِّتِ وَمَا لِلْمَوْتیٰ وَالْأَحْیَائِ فَالْعَجَبُ کُلَّ الْعَجَبِ اَنَّھُمْ یَجْمَعُوْنَ فِیْ عَقَائِدِ ھِمْ اِخْتِلَافَاتٍ کَثِیْرَۃً وَلَا یَتَنَبَّھُوْنَ عَلٰی ذَالِکَ۔۸؎
یعنی غیر احمدیوں پر تعجب ہے کہ ایک طرف تو وہ ایمان رکھتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسی آیات نازل کی ہیں جن میں وفات مسیح کاذکرہے۔ دوسری طرف وہ گمان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح زندہ ہی دوسرے آسمان میں حضرت یحییٰ شہید کے پاس بیٹھے ہیں۔ وہ اس بات پر غوروتدبر نہیں کرتے کہ جب حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہو کر مُردوں سے جاملے تو اب خداتعالیٰ نے زندہ کو فوت شدہ کے ساتھ کیونکر جمع کردیا مُردوںاورزندہ میں کیاتعلق ۔
پس تعجب یہ ہے کہ غیر احمدی لوگ اپنے عقائد میں بہت سے تناقضات جمع کررہے ہیں اور اس پرآگاہ نہیں ہوتے۔
اس حوالہ سے یہ خیال کیاگیا ہے کہ یہاں خطابیات کے طور پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے واقعہ کو بیان کیاگیا ہے اور غیر احمدیوں کا عقیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نقل کردیا ہے ۔کہ چونکہ غیر احمدی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے اس لئے ان پر حجت تمام کرنے اور انہیں ملزم کرنے کے لئے اس عقیدہ کا ذکرکر دیاگیا حالانکہ اس میں غیر احمدیوں کا کیا قصور ہے یہ امر تو احادیث میں بیان کیا گیا ہے اور چار پانچ حدیثیں مَیں ایسی بیان کرچکا ہوں جن میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود یہ فرمایا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے۔ اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں چارپانچ ابھی اور بھی ایسی حدیثیں ہوں گی جن میں قتل یحییٰ کا ذکر ہے۔
پس جب ہر جگہ حدیثوں میں بِلا استثناء حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کا ذکر آتا ہے تواس عقیدہ کے رکھنے میں غیر احمدیوں کاکیا قصور ہوگیا۔ کہ ان پر حجت تمام کرنے اور انہیں ملزم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ذکر کردیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا جب ذکرآتا ہے تو غیر احمدی بعض ایسی حدیثیں بھی پیش کردیتے ہیں جن سے وہ سمجھتے ہیں ان کے دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے ۔
مگر ہم ایسی حدیثیں پیش کرتے ہیں جن میں آپ کی وفات کاذکر ہے مثلا یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک سو بیس برس کی عمر پائی یا یہ کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا لَوْکَانَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی حَیَّیْنِ لَمَاوَسِعَھُمَا اِلَّا اتِّبَاعِیْ۹؎ کہ اگرموسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری اطاعت کے بغیر اور کوئی چارہ نہ تھا۔ پس وہاں چونکہ دونوں قسم کے اقوال موجود ہوتے ہیں اس لئے ہم غیراحمدیوں سے کہتے ہیں تم ان احادیث کو دیکھو جو قرآن کے مطابق ہیں اور ان کو ترک کردو جو اس کے مطابق نہیں مگرحضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق جو حدیث نکلتی ہے اس میں یہی بیان ہوتا ہے کہ وہ شہید ہوئے ۔
پس اس عقیدہ کا احترام غیر احمدیوں پر کس طرح دیا جاسکتا ہے۔ یہ تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر اعتراض ہوگا۔ کہ حضرت یحییٰ شہید نہیں ہوئے تھے۔کیونکہ آپ نے باربار فرمایا کہ وہ شہید ہوئے ہیں۔ اور کسی ایک حدیث میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ انہوں نے اپنی طبعی موت سے وفات پائی ہے۔ پس اول تو یہ حوالہ خطابیات میں اس لئے شمار نہیں ہوسکتا ۔ کہ جو عقیدہ غیراحمدی رکھتے ہیں وہ احادیث میں بیان ہوچکا ہے اوررسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس کی تصدیق فرماچکے ہیں۔ پس جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق کردی تو لازما یہ ہمارا عقیدہ بھی بن گیا ۔ اور جو ہمارا اپناعقیدہ ہو وہ خطابیات میں شمار نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ خطابیات انہی دلائل کو کہتے ہیں جو صرف مخالف کے مسلّمہ ہوں اوراس پراتمام حجت کرنے کے لئے اس کے سامنے پیش کئے جارہے ہوں۔
پھر سوال یہ ہے کہ اگر یہاں قَدْ قُتِلَ کے الفاظ نہ ہوتے ۔ تو کیا جو دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیش فرما رہے ہیں۔ وہ کمزور ہوجاتی ۔ اگرتو قتل کے لفظ سے ہی دلیل بنتی تب تو ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ خطابیات میں سے ہے۔ مگر ہم تو دیکھتے ہیں۔ کہ بغیر قتل مانے کے بھی یہ دلیل پوری طرح قائم رہتی ہے ۔
در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے معراج کی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے پاس دیکھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی فوت ہوچکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یحییٰ مُردہ کے پاس حضرت عیسیٰ علیہ السلام دیکھے جانے سے توزندہ ثابت ہوسکتے تھے لیکن یحییٰ مقتول کے پاس دیکھے جانے سے وفات ثابت ہوتی تھی؟ اگر تو دلیل یہ ہوتی کہ کسی مقتول کے پاس جب عالمِ مکاشفات میں کسی شخص کو دیکھاجائے تو یہ اُس کی وفات کی دلیل ہوتی ہے تب توہم کہہ سکتے تھے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے وفاتِ مسیح ثابت کرنے کے لئے حضرت یحییٰ کے متعلق قَدْ قُتِلَکے الفاظ غیراحمدیوں کے عقیدہ کے مطابق اور ان پر حجت پوری کرنے کے لئے بڑھادیئے۔ لیکن اگر کسی مُردہ کی روح کے پاس کسی دوسرے کی روح دیکھے جانے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ دونوں فوت شدہ ہیں تو صاف معلوم ہوگیا کہ یہاں قَدْ قُتِلَ کے الفاظ خطابیات کے طور پر استعمال نہیں کئے گئے بلکہ امرِواقع کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں۔
پس قَدْ قُتِلَمیں جو دلیل پیش کی گئی ہے یہ خطابیات میں سے ہوہی نہیں سکتی ۔ کیونکہ بغیر قتل کہنے کے بھی اصل دلیل ثابت ہوسکتی تھی ۔ دوسرے مخاطب مسلمان ہیں ان پر بائیبل کے حوالوں کا کیا الزام تھا کہ ان کے سامنے یہ بات خطابی طور پر پیش کی جاتی ۔ پس یہ حوالہ ہرگز ایسا نہیں جس سے یہ استدلال کیا جاسکے کہ اس میں خطابیات کے طور پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کا واقعۂ قتل بیان کیاگیا ہے ۔ اس کی تائید میں ایک اور حوالہ تحفہ گولڑویہ سے بھی پیش کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ
’’اللہ تعالیٰ کی قدیم سنتوں اور عادتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب مخالف اس کے نبیوں اور ماموروں کو قتل کرناچاہتے ہیں تو ان کو ان کے ہاتھ سے اس طرح بھی بچالیتا ہے کہ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اس شخص کو ہلاک کردیا۔ حالانکہ موت تک اس کی نوبت نہیں پہنچتی اوریا وہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا حالانکہ وہیں چھُپا ہؤا ہوتا ہے ۔ اور ان کے شر سے بچ جاتا ہے ‘‘ ۔۱۰؎
کہتے ہیں اس سے بھی معلوم ہؤا کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو قتل سے محفوظ رکھتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمن کے ہاتھ سے انہیں اس طرح بھی بچا لیتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم نے اسے ہلاک کردیا۔ حالانکہ موت تک اس کی نوبت نہیں پہنچتی ۔ یاسمجھتے ہیں وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ۔ حالانکہ وہ وہیں چھُپا ہؤا ہوتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا حضرت یحییٰ علیہ السلام انہی انبیاء میں سے ہیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے ۔ آخراللہ تعالیٰ جب کسی کو دشمن کے ہاتھ سے بچاتا ہے تولوگوں کو بتاتا بھی ہے کہ دیکھو مَیں نے اسے دشمن کے ہاتھ سے بچا لیا ۔ مثلاً ہم کہتے ہیں دشمن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تعاقب میں غارثور تک پہنچے۔ مگرخداتعالیٰ نے ان پرایسا تصرف کردیا کہ وہ آگے جھُک کر نہ دیکھ سکے اور خائب و خاسرواپس لَوٹ آئے۔۱۱؎ اب جب ہم یہ کہتے ہیں۔ کہ غار ثور میں اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے حملہ سے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کوبچایا ۔ تو اس بچانے کی دلیل یہ دیتے ہیں ۔ کہ پھر کہتے ہیں وہ وہاں سے نکلے اورسلامتی کے ساتھ مدینہ پہنچ گئے۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صلیبی موت سے بچایا ۔ تو دلیل یہ دیتے ہیں کہ پھروہاں سے بچ کر وہ تبلیغ کرتے کرتے کشمیر آگئے اوریہیں ایک لمبا عرصہ رہ کرانہوں نے وفات پائی لیکن اگر ہم یہ ثبوت تو پیش نہ کریں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم غارِثور سے نکل کرمدینہ پہنچے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب سے زندہ اتر کر کشمیر چلے گئے اوریونہی کہناشروع کردیں ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بچالیا ۔ تو کیا دنیا کاکوئی بھی شخص ہماری اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہوگا۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بعض انبیاء کو اسی طرح بچاتا ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر کیا ۔ اور یہ بالکل درست ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقیدہ کے رو سے حضرت یحییٰ انہی میں سے ہیں اگر نہیں توپھرآپ کا صریح فیصلہ موجود ہوتے ہوئے ہم حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اس قانون کے نیچے کس طرح لاسکتے ہیں۔
پھرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے الفاظ سے صاف عیاں ہے کہ یہاں آپ تمام انبیاء کا ذکر نہیں کررہے ۔ بلکہ صرف رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاذکرکررہے ہیں ۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی وہ تھے جن کے متعلق دشمنوں نے سمجھا کہ انہوں نے آپ کو ہلاک کردیا ہے حالانکہ موت تک ان کی نوبت نہیں پہنچی تھی ۔ اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہی وہ نبی ہوئے ہیں جن کے متعلق دشمنوں نے یہ خیال کیاکہ وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گئے ہیں ۔ حالانکہ آپ وہیں غارِثورمیں چھُپے بیٹھے تھے۔ تو یہ دونوں مثالیں صرف دونبیوں کے متعلق ہیں ۔ جن میں سے ایک اپنے سلسلہ کا آخری نبی تھا۔ اوردوسرا اپنے سلسلہ کا پہلانبی اور یہ دونوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فتویٰ کے مطابق قتل نہیں ہوسکتے تھے۔ پس یہ دونوں مثالیں بتاتی ہیں کہ ان میں محض دونوں نبیوں یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اوررسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کاذکرکیاگیا ہے اگردرمیانی انبیاء کے متعلق بھی یہی اصول ہوتا تو ان کی بھی کوئی مثال آپ کیوں پیش نہ فرماتے ۔
دوسرا حوالہ اعجاز المسیح سے یہ پیش کیاگیا ہے کہ وَلَمَّا جَائَ ھُمْ اِمَامٌ بِمَا لَا تَھْوٰیٰ اَنْفُسُھُمْ اَرَادُوْا اَنْ یَقْتُلُوْہُ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یَّمُوْتُ اِلَّابِأِذْنِ اللّٰہِ فَکَیْفَ الْمُرْسَلُوْنَ اَنَّہٗ یَعْصِمُ عِبَادَہ‘ مِنْ عِنْدِہٖ وَلَوْمَکَرَالْمَاکِرُوْنَ۱۲؎ کہ جب ان لوگوں کے پاس امام وہ تعلیم لایا جسے ان کے نفس پسند نہ کرتے تھے تو انہوں نے دیدہ دانستہ اس کے قتل کا ارادہ کیا۔ حالانکہ کوئی انسان بھی بجز اذنِ الٰہی فوت نہیں ہوسکتا۔ چہ جائیکہ اس کے مُرسلوں کوقتل کیا جاسکے یقینا اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے خاص سامانوں کے ذریعہ اپنے رسولوں کو قتل سے محفوظ رکھتا ہے خواہ مکرکرنے والے ہزار مکر کریں یہ حوالہ بتاتا ہے کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف یہ بیان فرمارہے ہیں ۔ کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی شخص فوت نہیں ہوسکتا۔ کُجا یہ کہ اس کے رسول اورنبی بغیراذن کے فوت ہوسکیں سویہ بالکل درست ہے ہم بھی تسلیم کرتے ہیںکہ اگر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہوتا کہ وہ قتل نہیں ہوسکتے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں ہلاک نہ کرسکتی جیسے سلسلہ کے اول اور آخری نبی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے اور بڑے سے بڑا دشمن بھی کسی سلسلہ کے پہلے اورپچھلے نبی کو نہیں مارسکتا ۔ چنانچہ دیکھ لو ۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق دشمنوں نے بڑا زور لگایا۔ کہ آپؐ کو قتل کریں۔ مگروہ آپ کو قتل نہ کرسکے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بڑا زور لگایا۔ کہ وہ آپ کو قتل کریں مگر قتل نہ کرسکے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بڑا زور لگایا کہ وہ آپ کو قتل کردیں مگر قتل نہ کرسکے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بڑازورلگایا کہ وہ آپ کو قتل کریں ۔ مگر قتل نہ کرسکے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق بڑا زورلگایا کہ وہ آپ کو قتل کریں مگرقتل نہ کرسکے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے متعلق دشمنوں نے بڑا زور لگایا کہ وہ آپ کوقتل کریں۔ مگرقتل نہ کرسکے۔ کیونکہ سلسلہ کا پہلااور پچھلانبی قتل نہیں ہوسکتا ۔ اور اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صریح فیصلہ موجود ہے ۔یہ امر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ بیان فرمارہے ہیں کہ جب عام انسان بھی بغیر اذنِ الٰہی کے نہیں مرسکتے۔ تو رسول اور نبی کس طرح مر سکتے ہیں گویا یہ دلیل بالاولیٰ ہے جو پیش کی گئی ہے۔ ورنہ بغیر اذن کے نہ مرنے میں تو نبی اور غیر نبی سب شامل ہیں۔
حتّٰی کہ ابوجہل بھی بغیراذنِ الٰہی کے نہیں مرسکتا تھا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی بھی بغیر اذنِ الٰہی کے نہیں مرسکتا تھا اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری بھی بغیر اذنِ الٰہی کے نہیں مرسکتے۔ توحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دلیل صرف یہ دی ہے کہ جب بغیر اذنِ الٰہی کے کافر بھی نہیں مرسکتے تو خداتعالیٰ کے نبی کس طرح مرسکتے ہیں۔ گویا اس کے معنے یہ ہیں کہ ہرانسان کی موت اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے اگر وہ بچانا چاہے تو کون مارسکتا ہے اور نبیوں کا حال تو بالکل بالا ہے ۔ جب عام مومن حتّٰی کہ ایک کافر بھی بغیر اذنِ الٰہی کے نہیں مرسکتا ۔ تو نبی کس طرح بغیراِذنِ الٰہی کے مرسکتے ہیں۔ پس اس حوالہ سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی یا غیر نبی بغیراِذنِ الٰہی کے نہیں مرسکتے ۔ اس لئے تم لوگ مجھے نہیں مارسکتے ۔ کیونکہ میرے متعلق اللہ تعالیٰ کااِذن نہیں ہے کہ مجھے کوئی مار سکے۔ اوراس حوالہ کامضمون زیربحث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تیسراحوالہ تذکرۃ الشہادتین سے یہ پیش کیاگیا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اﷲِ لَا یَکُوْنُ لَھُمْ خَیْر الْعَاقِبَۃ وَیُعَادِیْھِمْ اﷲُ فَیَقُتَّلُوْنَ تَقْتِیْلًا۔وَ یطوی اَمْرَھُمْ بِاَسْرَعٍ حِیْنٍ فَلَا تَسْمَعُ ذِکْرَھُمْ اِلَّا قَلِیْلًا وَاَمَّا الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَجَاؤُوْ ا مِنْ رَبَّھِمْ فَمَنْ ذَالَّذِیْ یُقْتُلُھُمْ اَوْ یَجْعَلھُمْ ذَلِیْلًا۔ اِنَّ رَبَّھُمْ مَعَھُمْ فِیْ صَبَاحِھِمْ وَضحَاھِمْ وَھَجِیْرِھِمْ وَاِذَا دَخَلُوْا اَصِیْلًا۔۱۳؎
کہ جولوگ افتراء علی اللہ کرتے ہوئے مدعی نبوت بنتے ہیں۔ ان کا انجام ہرگز اچھا نہیں ہوتا۔بلکہ خدا ان کا دشمن ہوجاتا ہے۔ اور وہ بُری طرح قتل کئے جاتے ہیں ان کی صف جلد لپیٹ دی جاتی ہے۔ تجھے تھوڑے دنوں تک ہی ان کانام سنائی دے گا۔ ہاں جولوگ اپنے دعویٰ نبوت میں سچے ہوتے ہیں۔ اور اپنے رب کی طرف سے ہوتے ہیں ۔ کون ہے جو ان کو قتل کرسکے یاان کوذلیل و رُسوا کرسکے۔ ان کا خدا ہروقت اور ہرگھڑی ان کے ساتھ ہوتا ہے۔
اس سے بھی یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے ۔ کہ اس سے ثابت ہوتا ہے جو شخص سچانبی ہو ا سے کوئی قتل نہیں کرسکتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ صریح طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اور مقامات پریہ فرمادیا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں اوررسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی الہامی طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے اور آپ نے فرمایا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے۔
پھرتاریخ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ۔ پھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کی خود اپنی قوم اور دوسری اقوام یعنی رومیوں، عیسائیوں اور یہودیوں کا جو آپ کونبی نہیں مانتے صرف بزرگ مانتے ہیں یہی عقیدہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے۔ تو بہرحال صریح حوالجات کی موجودگی میں اورحدیث اور تاریخ اور اقوامِ عالَم کی گواہی کی موجودگی میں ہمیں اس کی کوئی تاویل کرنی پڑے گی۔ اوراس حوالہ کے کوئی ایسے معنے کرنے پڑیں گے جوخلافِ عقل نہ ہوں اور وہ معنے یہی ہیں کہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام انہی نبیوں کا ذکرکررہے ہیں جن کے متعلق یہ الٰہی فیصلہ ہو کہ وہ قتل نہیں ہوسکتے ۔ سلسلہ کا پہلا اورپچھلا نبی تو بہرحال قتل نہیں ہوسکتا ۔ درمیانی انبیاء میں سے بھی ضروری نہیں کہ سب قتل ہوں۔ بلکہ یہ ممکن ہے کہ درمیانی انبیاء میں سے بھی کوئی ایسا نبی ہو جسے اللہ تعالیٰ یہ الہام کردے کہ تجھے دشمن قتل نہیں کرسکتا۔
پس اگردرمیانی انبیاء میں سے بھی کوئی ایسا نبی ہو۔ جسے الہاماً اللہ تعالیٰ عصمت کا وعدہ دیدے اورکہہ دے۔ کہ دشمن تجھے قتل کرنے پرقادر نہیں ہوسکتے ۔تو پھر وہ بھی ان انبیاء میں شامل ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف اپنا ذکر کررہے ہیں۔ عام قاعدہ بیان نہیں فرمارہے ۔ اور اپنے متعلق یہ فرمارہے ہیں کہ مجھے دشمن کبھی قتل نہیں کرسکتا ۔ خواہ کس قدر کوشش کرے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے فارسی قصیدہ میں جو علامات مقربین کے بارہ میں ہیں۔ اور جس کا ایک مصرعہ علَی الْخصوص
’’اگر آہ میرزا باشد‘‘
ہے گوبظاہر سب مقربین کی علامات بیان کی ہیں۔ مگر بعض اشعار سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنے مقام کے متعلق ہیں اوردوسروں پر اس کی بعض علامات چسپاں نہیں ہوسکتیں۔
اسی طرح حقیقۃ الوحی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ
’’اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اس امت کے بعض افراد کو مریم سے تشبیہہ دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ وہ مریم عیسیٰ سے حاملہ ہوگئی ‘‘۱۴؎
حالانکہ آپ نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ :
’’ اس امت میں بجز میرے کسی نے اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ میرا نام خدا نے مریم رکھا۔ اور پھر اس مریم میں عیسیٰ کی روح پھونک دی ہے‘‘ ۱۵؎
اورپھر فرماتے ہیں کہ
’’ میرے سوا تیرہ سو برس میں کسی نے یہ دعویٰ نہیںکیا‘‘۱۶؎
حالانکہ پہلے آپ نے ’’بعض افراد‘‘ کے الفاظ استعمال کئے تھے۔ پس جس طرح آپ نے وہاں گو ’’بعض افراد ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ۔ مگرمراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو لیا۔ اسی طرح اس جگہ بھی صرف اپنا وجود مراد ہے اورفرماتے ہیں کہ دشمن کہتا ہے کہ میں تجھے قتل کردوں گا ۔ حالانکہ خدا نے مجھے مارنے کے لئے نہیں بلکہ زندہ رکھنے کے لئے پیدا کیا ہے اور کوئی نہیں جو میرے قتل پر قادر ہوسکے۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ کسی نبی کا قتل ہونا اس کے جھوٹے ہونے کی علامت ہوتی ہے اور اس کے ثبوت میں براہین احمدیہ حصہ پنجم کا حوالہ پیش کیاگیا ہے کہ:-
’’یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم نے عیسیٰ کوقتل کردیا۔ اس قول سے یہودیوں کا مطلب یہ تھا ۔ کہ عیسیٰ کامومنوں کی طرح خداتعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہؤا۔ کیونکہ توریت میں لکھا ہے کہ جھوٹا پیغمبر قتل کیا جاتا ہے پس خدا نے اس کا جواب دیا ہے کہ عیسیٰ قتل نہیں ہؤا بلکہ ایمانداروں کی طرح خداتعالیٰ کی طرف اُس کا رفع ہؤا ‘‘۱۷؎
اسی طرح یہ حوالہ پیش کیاگیا ہے کہ:-
’’اصل بات تو یہ تھی کہ توریت کی رو سے یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والا مقتول ہوجائے تو وہ مفتری ہوتا ہے سچا نبی نہیں ہوتا ۔ اوراگر کوئی صلیب دیا جائے تو وہ *** ہوتاہے‘‘۱۸؎
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں قتل سے مراد درحقیقت صلیب ہی ہے ۔ عام قتل نہیں ہے چونکہ قتل عام لفظ ہے ۔ اور صلیب خاص اس لئے قتل کالفظ جس طرح قتل پر بولا جاتا ہے خواہ کوئی تلوار سے مارے یا گلا گھونٹ کرمارے اسی طرح صلیب کے لئے بھی قتل کالفظ ہی استعمال کیاجاتا ہے۔
اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس جگہ قتل کاجو لفظ استعمال کیا ہے اس سے مراد دراصل صلیب والا قتل ہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے یہود کے اس طریق کو نہیں سمجھا۔ کہ وہ خالی صلیب نہیں دیا کرتے تھے بلکہ یاتو انسان کو قتل کرکے صلیب پرلٹکاتے تھے یا صلیب پرلٹکانے کے بعد اس کی ہڈیاں توڑتے اوراسے مارتے تھے اوران دونوں باتوں کا ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں سے بھی ملتا ہے اُر دو اناجیل میں گو عام طور پر اسی قسم کے الفاظ ہوتے ہیں کہ یہود نے حضرت مسیح کو صلیب پرلٹکاکرمار دیا۔ مگرانگریزی اناجیل میں اس مفہوم کو ان الفاظ میں ادا کیاگیا ہے۔
۱۹؎ـ"They killed him and hanged him on the tree"
کہ انہوں نے مسیح کوقتل کیا۔ا ور پھرصلیب پرلٹکا دیاکیونکہ یہودیوں میں طریق یہی تھا کہ یا تو وہ پہلے مار کر صلیب پر لٹکاتے تھے یاجسم کو صلیب پرسے اتار کر اس کی ہڈیاں توڑتے تھے خالی صلیب پرلٹکا کر مارنا اصل طریق نہیں تھا۔ اسی لئے خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں جب حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہود کے اس دعویٰ کی کہ انہوں نے آپ کو مصلوب کردیا ہے تردید کی تو فرمایا مَاقَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ ۲۰؎کہ انہوں نے نہ آپ کو قتل کیا ہے۔ نہ صلیب دیا ہے گویا قتل اورصلیب دونوں لفظ قرآن کریم نے اکٹھے استعمال کئے ہیں کیونکہ ان میں خالی صلیب دینے کادستور نہیں تھا۔ بلکہ وہ یاتو پہلے مارتے اور پھرصلیب دیتے یا پہلے صلیب پرلٹکاتے اوربعد میں ہڈیاں توڑتے ۔پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ حوالہ میں بھی قتل سے مراد صلیب ہی ہے۔ کیونکہ یہود یا تو قتل کرکے صلیب پرلٹکاتے تھے یا صلیب پر لٹکانے کے بعد ہڈیاں توڑ کر قتل کرتے تھے۔ ایک اورحوالہ یہ پیش کیاگیا ہے کہ :-
’’توریت کی رو سے یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والا مقتول ہوجائے۔ تو وہ مفتری ہوتا ہے۔ سچا نبی نہیں ہوتا ‘‘ ۔
یہ حوالہ جیسا کہ ظاہر ہے یہود کے متعلق ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا‘‘ مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ عقیدہ تمام یہودکا نہیں بلکہ یہود میں سے اکثر کا یہ عقیدہ ہے کہ خالی مارے جانے سے کوئی نبی *** نہیں ہوسکتا ۔ بلکہ *** اس وقت ہوتا ہے جب وہ صلیب پرلٹکا یا جائے ۔بائیبل کا بھی صرف یہ منشاء ہے کہ جھوٹا ضرور ہلاک ہوتا ہے۔ اس کے برعکس نہیں۔
پس بعض یہود کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس حوالہ میں جو ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ :-
’’اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والا مقتول ہوجائے تو وہ مفتری ہوتا ہے سچانبی نہیں ہوتا ‘‘
اس کے متعلق ضرور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض حوالے بتائے گئے ہوں گے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی بناء پر یہ بات لکھی ۔ لیکن یہ یقینی بات ہے کہ یہ ساری قوم کاعقیدہ نہیں ممکن ہے کوئی کہے کہ جب یہ ساری قوم کا عقیدہ نہیں۔ بلکہ بعض یہود کا یہ عقیدہ ہے توحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ذکر کیوں کیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے ذکرکی قرآن کریم میں بھی مثال پائی جاتی ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم صدیقہ کو خدا مانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سورۂ مائدہ میں یہ بیان فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں حضرت مسیح سے یہ سوال کروں گا کہ کیا تُو نے یہ لوگوں سے کہاتھا ۔ کہ مجھے اور میری والدہ کو خدا سمجھو اور ہماری پرستش کیاکرو۔۲۱؎ اب تم عیسائیوں سے پوچھ دیکھو ان میں سے کتنے ہیں۔جو حضرت مریم صدیقہ کی خدائی کے قائل ہیں۔ یقینا اگر تم تحقیق کروگے توتمہیں سو میں سے ایک نہیں ہزار میں سے ایک نہیں ۔لاکھ میں سے ایک نہیں۔ کروڑ میں سے بھی ایک عیسائی ایسا نہیں ملے گا جویہ کہتا ہو کہ وہ حضرت مریم صدیقہ کو خدا سمجھتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آج روئے زمین پرایک شخص بھی ایسا نہیں جو حضرت مریم صدیقہ کی خدائی کا قائل ہو۔ جب ہمیں موجودہ دنیا میں کوئی شخص ایسانظر نہیں آتا جو حضرت مریم کی خدائی کا قائل ہو تو ہمیں تاریخ کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے ۔ اور بڑی بڑی پرانی تاریخوں کی چھان بین کے بعد ہمیں معلوم ہوتاہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیسائیوں کا ایک چھوٹا سافرقہ تھا جویہ کہا کرتا تھا کہ حضرت مریم صدیقہ بھی خدا ہیں مگرقرآن نے تو یہ نہیں کہا کہ یہ ایک چھوٹا سا فرقہ ہے اس نے عام رنگ میں ذکر کیا ہے اسی طرح یہ حوالہ ہے۔ بعض یہود کاممکن ہے یہ خیال ہو کہ اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والا مقتول ہوجائے تو وہ مفتری ہوتاہے۔ سچانبی نہیں ہوتا مگرمجھے کوئی حوالہ یاد نہیں اورنہ ایسے یہود کا علم ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حوالے بِالعموم مفتی محمد صادق صاحب نکال کردیا کرتے تھے۔ اوریقینا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوکوئی ایسا حوالہ بتایا گیا ہوگاجس کی بناء پر آپ نے یہ لکھاگو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے میری نظر سے ابھی تک کوئی ایسا حوالہ نہیں گزرا ۔ بہرحال اگربعض یہود کا بھی یہ عقیدہ ہوتو بھی اس عقیدہ کوہم ساری قوم کی طرف منسوب کرسکتے ہیں؟ گومراد اس سے بعض یہود ہی ہوں گے اکثر یہود کا جو عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ نبی جوصلیب پرمارا جائے وہ *** ہوتا ہے۔ نہ یہ کہ جونبی قتل ہوجائے وہ بھی *** ہوتا ہے گویا قتل ہونا یا مارا جانا جھوٹے ہونے کی علامت نہیں۔ بلکہ صلیب پر ماراجانا جھوٹے ہونے کی علامت ہے ۔ اور اس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہود کی طرف جو امر منسوب فرمایا ہے یہ تمام یہود کا نہیں بلکہ بعض یہود کا ہے اورمیں بتا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا اسی طرح ذکرکیا ہے ۔جس طرح قرآن کریم نے کہہ دیا کہ عیسائی حضرت مریم صدیقہ کو خدا مانتے ہیں۔ حالانکہ آج انہیں خداماننے والا ایک عیسائی بھی نہیں۔
اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے کہ یہود کا یہ عقیدہ ہے کہ عزیراللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے۔ اب تم تمام یہودیوں سے پوچھ دیکھو۔ وہ کبھی نہیں مانیں گے کہ ان کا یہ عقیدہ ہے ۔ اس کے متعلق بھی ہمیں پرانی تاریخوں کی چھان بین کرنی پڑتی ہے اور ایک لمبی تلاش کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودکے بعض قبائل یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ حضرت عزیر اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا ذکر عام رنگ میں کردیا ۲۲؎ یہ نہیں کیا کہ عام یہود ایسا نہیں مانتے صرف بعض یہود کا یہ خیال ہے کیونکہ اگر ساری قوم میں سے کچھ لوگ بھی غلط راستے پر ہوں۔ اورقوم ان کارد نہ کرے۔ تو ساری قوم پراعتراض عائد ہوتا ہے۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں قوم ایسا کہتی ہے۔
ہمارے دعویٰ کاایک اور ثبوت بھی موجود ہے ۔ اور وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر یہودنے جب یہ الزام لگایا کہ وہ صلیب پر لٹک کرفوت ہوئے ہیں اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ *** موت مرے ہیں۔ تو دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے اس کی کتنی تردید کی اور کس طرح بار بار کہا کہ یہود اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔اگراس کی وجہ محض یہود کا یہ عقیدہ رکھنا ہوتی۔ کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیا ہے ۔ اور محض قتل کی وجہ سے وہ سمجھتے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جھوٹے ہیں تو جب انہوں نے کہا تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام بھی قتل ہوئے ہیں تو چاہیے تھا کہ قرآن کریم اس کا بھی رد کرتا۔ مگر قرآن کریم یحییٰ علیہ السلام کی برأت نہیں کرتا نہ یہود اس پر *** کا الزام لگاتے ہیں نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی تردید کرتے ہیں۔
مگر مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے کی قرآن باربار تردید کرتا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی تروید کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے خداتعالیٰ کی کوئی خاص رشتہ داری ہے ۔ کہ جب ان پر کوئی الزام لگتا ہے اس وقت تو و ہ تروید کرنے لگ جاتا ہے ۔ لیکن اگر اسی قسم کا الزام یحییٰ پرلگے ۔ تو وہ تروید کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق تو وہ باربار کہتا ہے کہ یہود بالکل جھوٹ کہتے ہیں۔ عیسیٰ ہرگز صلیب پر نہیں مرا۔ بَلْ رَّفَعَہُ اﷲُ أِلَیْہِ ۲۳؎ خدا نے اسے عزت دی ۔ اسی طرح اِنّی مُتَوَفِّیْکَ۲۴؎ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ۲۵؎ اوردوسری آیتوں میں خدا اس کی تروید کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ حضرت مسیح کی صلیب پر موت نہیں ہوئی۔ مگر اسی قسم کی موت یعنی جھوٹوں والی موت کاالزام یہود حضرت یحییٰ پربھی لگاتے ہیں اور وہ کوئی بھی تروید نہیں کرتا۔
پھر اگر یہود کا واقعہ میں یہ عقیدہ ہوتا کہ اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والامقتول ہوجائے تو وہ مفتری ہوتا ہے تو انہیں چاہیے تھا وہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو جھوٹا نبی سمجھتے حالانکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہود کی اکثریت انہیں بزرگ تسلیم کرتی ہے اور ان کا ایک حصہ انہیں نبی مانتا ہے اگر ان کا یہ عقیدہ ہوتا کہ جو نبی بھی قتل ہوجائے وہ جھوٹا ہوتا ہے تو وہ حضرت یحییٰ کو مقتول ماننے کے باوجود بزرگ کس طرح تسلیم کرتے کیا کوئی جھوٹا شخص بھی بزرگ ہؤا کرتا ہے ۔مگر ایک واقعہ ہے کہ آج تک یہودی انہیں بزرگ مانتے چلے آتے ہیں۔
پھرحضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی مسیح کے صلیب کے واقعہ کی تو بار بار تردید کرتے ہیں ۔ مگرقتلِ یحییٰ کی کوئی تردید نہیں کرتے ۔ اور اگر ذکر کرتے ہیں تو اس طرح کہ یحییٰ قتل ہؤا۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی صداقت کے لئے اس امر کی ہرگز کوئی ضرورت نہ تھی کہ باربار اس امر پرزور دیاجاتا ۔ کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پرلٹک کرفوت نہیں ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے دعویٰ کی صداقت کے لئے صرف اتنی بات ثابت کردینی کافی تھی۔ کہ حضرت مسیح فوت ہوگئے ہیں۔ چاہے وہ صلیب پر فوت ہوئے ہوں یا طبعی موت سے مرے ہوں۔ کیونکہ اگر ان کی وفات ثابت نہ ہوتی تو آپ کا دعویٰ ثابت نہ ہوسکتا ۔اور ایک کہنے والا کہہ سکتا تھا کہ جب مسیح آسمان پر زندہ موجود ہے اور اسی نے آخری زمانہ میں آنا ہے تو آپ کو ہم کیوں مانیں ۔ پس ضرورت صرف اس امر کی تھی کہ حضرت مسیح کی وفات ثابت کردی جاتی ا س امر کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ یہ ثابت کیا جاتا مسیح صلیب پر لٹک کر فوت نہیں ہؤا وہ چاہے صلیب پر مرتے یا طبعی موت سے وفات پاتے بات ایک ہی تھی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ ہر صورت میں ثابت تھا مگرآپ نے اس کی تروید کی اور اس لئے کی کہ اس سے قرآن اور روحانیت پرضرب پڑتی تھی پس آپ نے اس پر اپنے لئے زور نہیں دیا۔ بلکہ قرآن کریم کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے دیا۔ ورنہ آپ کادعویٰ ہر صورت میں ثابت تھا۔ چاہے یہ کہاجاتا کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوئے ہیں چاہے یہ کہاجاتا کہ وہ کسی مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہوئے ہیں۔
بہرحال جب یہ ثابت ہوجاتا کہ وہ مرگئے ہیں اور اب دنیا میں واپس نہیں آسکتے۔ تو ایک عقلمند شخص یہ سوچ سکتا تھا کہ جب پہلا مسیح مرچکا ہے ۔ اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں یہ ہیں۔ کہ ایک مسیح آنے والا ہے تو ضرور اس سے مراد اس کا کوئی بروز اور مثیل ہے اور اس کے بعد وہ اس بات پر مجبور ہوتا کہ آپ کے دعویٰ پر غور کرے۔ پس آپ کو اپنے دعویٰ کے ثبوت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر سے زندہ اتارنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیںتھی۔ مگر سب لوگ جانتے ہیں کہ آپ نے اس پر بڑا زور دیا ہے اور بار بار فرمایا ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے۔ پس سوال یہ ہے کہ آپ نے اس پر کیوں زوردیا ۔ جب کہ آپ کے دعویٰ کے ساتھ براہ راست اس امر کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کا جواب یہی ہے کہ آپ نے اپنے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ قرآنی صداقت کے اظہار کے لئے اس پر زور دیا ہے اور اس لئے زور دیا کہ اس سے قرآن اور روحانیت پرضرب پڑتی تھی۔ لیکن جب یحییٰ علیہ السلام کا ذکرآتا ہے تو وہاں ایک دفعہ بھی یہ نہیں فرماتے ۔ کہ وہ قتل نہیں ہوئے۔
بلکہ جہاں کہتے ہیں یہی کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ قتل ہوئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قتلِ یحییٰ سے آپ کے نزدیک کسی قرآنی صداقت پر زد نہیں پڑتی تھی۔ ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ عام حوالوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرمادیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو قتل سے محفوظ رکھتا ہے یہ چونکہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھا۔ کہ انبیاء قتل سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا الگ ذکر نہیں فرمایا ۔ ہم کہتے ہیں اگر عام حوالے ہی کافی ہوسکتے تھے تو پھر حضرت مسیح کے واقعہ کے متعلق زور دینے اور بار بار بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی اس کے متعلق بھی سمجھ لیتے کہ وہ عام حوالوں سے اس کی تروید ہوچکی ہے اور خاص طور پر زور نہ دیتے ۔ اوردونوں سے یکساں سلوک کرتے اگر ایک کا ذکر چھوڑا تھا تو دوسرے کاذکر بھی چھوڑ دیتے اور اگر ایک کے متعلق زوردیاتھا تو دوسرے کے متعلق بھی زوردے دیتے ۔ مگرآپ نے حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کی تو باربار تروید فرمائی۔ مگر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل ہونے کی ایک جگہ بھی تروید نہیں فرمائی ۔
بلکہ جہاں لکھا ہے یہی لکھا ہے کہ وہ قتل ہوئے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ کے واقعہ قتل کی آپ نے اس لئے تروید نہیں کی ۔ کہ وہ واقعہ میں قتل ہوئے اور حضرت مسیح کے مصلوب نہ ہونے پر اس لئے زوردیا۔ کہ وہ واقعہ میں صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے۔ بعضوں نے لکھا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو حوالجات ہیں یہ پہلے کے ہیں اور جن حوالوں میں آپ نے یہ فرمایا ہے۔ کہ انبیائِ قتل سے محفوظ رہتے ہیں۔ جیساکہ تحفہ گولڑویہ وغیرہ میں وہ بعد کے ہیں اور بعض ایسی کتابوں کے ہیں جو ۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھیں۔ اس لئے بعد کے حوالے زیادہ یقینی ہیں بہ نسبت پہلے حوالوں کے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اول میری جس قدر روایتیں ہیں۔ وہ سب بعد کے زمانہ کی ہیں۔ تحفہ گولڑویہ کی اشاعت کے وقت میں بالکل بچہ تھا۔ پس میں نے جو روایتیں بیان کی ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری دو تین سالوں کی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے ہیں اس وقت میری عمر انیس ۱۹سال کی تھی۔ اوروہ عمر جس میں مَیں مسائل سمجھ سکتا تھا اور روایت یاد رکھ سکتا تھا اور پیش کرسکتا تھا وہ سولہ سترہ سال کی ہی ہوسکتی ہے۔ پس میں نے جو روایتیں بیان کی ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری تین چار سال سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ بہرحال بعد کا زمانہ ہے پہلا نہیں پھر میں نے پچھلی دفعہ بیان کیاتھا کہ میں نے مفتی محمد صادق صاحب سے دریافت کرایا تو انہوں نے کہاکہ مجھے اس بارہ میں کچھ یادنہیں مگر اس کے بعد مفتی صاحب کی پرانی ڈائریوں میں سے وہی بات نکل آئی جو میں نے بیان کی تھی۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ وہ ڈائری آج سے سال دو سال پہلے کی ان کتاب میں چھَپی ہوئی موجود ہے۔ اور اس کے اندروہ تاریخ تک محفوظ ہے جس تاریخ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات فرمائی چنانچہ اس کتاب میں لکھا ہے کہ ۷؍ نومبر ۱۹۰۷ء کو گویا اپنی وفات سے صرف چھ ماہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ۔
’’ جس طرح کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے یوحنا نبی خدا تعالیٰ کی تبلیغ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ اسی طرح ہم سے پہلے اسی ملک پنجاب میں سید احمد صاحب توحید کا وعظ کرتے ہوئے سکھوں کے زمانہ میں شہید ہوگئے۔ یہ بھی ایک مماثلت تھی جو خداتعالیٰ نے پوری کردی ‘‘۲۶؎
یہ وفات سے صرف چھ مہینے پہلے کی بات ہے اور ۷؍ نومبر ۱۹۰۷ء کو ایسا فرماتے ہیں ۔ اس کے بعد کا حوالہ تو اس ضمن میں کوئی مل ہی نہیں سکتا ۔ پھرایک دوست نے لکھا ہے کہ حقیقۃ الوحی میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسا ہی تحریر فرمایا ہے ۔ اور حقیقۃ الوحی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آخری تصانیف میں سے ہے اور ۱۹۰۷ء میں چھَپی ہے ۔ گویا ایک طرف مفتی محمد صادق صاحب کی ڈائری ہے ۔ جو ۷؍ نومبر ۱۹۰۷ء کی ہے۔ دوسری طرف حقیقۃ الوحی کی شہادت ہے۔ جو ۱۹۰۷ء کی ہے۔
تیسری طرف میری روایتیں ہیں جو بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری زمانہ سے تعلق رکھتی ہے پھر ہمارے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت زیادہ روایات جمع کرنے والے دو شخص ہیں۔مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب مفتی محمد صادق صاحب کی روایت مَیں بتا چکا ہوں ۔ رہے شیخ یعقوب علی صاحب سو میں نے ان کی طرف بھی خط لکھا تھا کہ اس بارہ میں آپ کی کیا گواہی ہے۔ اس کے جواب میں انہوں نے لکھا ہے کہ آپ میری گواہی تو حیدر آباد کے دوستوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ میں نے ان کے سامنے اس بارہ میں کیا کہاہے ۔ میری یہ حالت تھی کہ جس دن الفضل میں مَیں نے مولوی ابوالعطاء صاحب کا یہ مضمون پڑھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں کئے گئے تو ایک شخص بشیر کنجا ہی کو مَیں نے مخاطب کرکے کہا ۔ جماعت میں ایک اور بڑا فتنہ پیدا کردیاگیا ہے کیونکہ یہ امر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف ہے گویا وہ کہتے ہیں میں نے مضمون پڑھتے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ ہماری ساری عمر کے علم کے خلاف ہے ہم ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنتے آئے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے۔
مگر آج یہ بیان کیا جارہا ہے کہ وہ شہید نہیں ہوئے یہ وہ دو شخص ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا منکر نکیر کہاکرتے تھے ۔فرماتے تھے۔ اِدھر ہم بات کرتے ہیں اور اُدھر یہ اخباروں میں شائع کردیتے ہیں میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے آپ فرمایا کرتے یہ ہمارے دوبازو بھی ہیں اور منکر نکیر بھی ہیں۔ بازو تو اس لئے کہ ان کے اخبارات کے ذریعہ دشمنوں کے حملہ کا رَدّ ہورہا ہے اور منکر نکیر اس لئے کہ کوئی بات اِدھر ہمارے منہ سے نکلتی ہے اور اُدھر یہ اپنے اخباروں میں شائع کردیتے ہیں جس سے دشمن بعض دفعہ فائدہ بھی اُٹھالیتا ہے اور جب وہ اعتراض کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ نے فلاں بات یوں کہی ہے تو ہم حیران ہوتے ہیں کہ اسے کس طرح پتہ لگ گیااوروہ جھَٹ ڈائری نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے کہ فلاں وقت فلاں مجلس میں آپ نے یہ بات کہی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دونوں کا نام منکرنکیر رکھا ہؤا تھا۔
اب بھلا منکر نکیر سے زیادہ قابلِ اعتبار گواہی اور کس کی ہوسکتی ہے اس کے علاوہ میں نے اپنی گواہی بھی دی ہے اور بتایا ہے کہ و فات تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی عقیدہ رہا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں وہ حوالے جو اپنے اندرعمومیت رکھتے ہیں۔ ان سے مراد بعض جگہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپناوجود ہے جیسے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس امت کے بعض افراد کو مریم سے تشبیہہ دی ہے اور پھر کہا ہے کہ وہ مریم عیسیٰ سے حاملہ ہوگئی حالانکہ اس سے مراد آپ کی ذات ہی تھی۔
پس ایسے حوالوں میں یا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف اپنا ذکر کیا ہے۔ یا اُن انبیاء کا ذکر کیا ہے جو کبھی قتل نہیں ہوسکتے جیسے سلسلہ کا پہلا اور پچھلا نبی اور یا پھر اس سے مراد وہ انبیاء ہوں گے جو خواہ درمیانی زمانہ میں آئیں مگر اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کا وعدہ کردے ۔ اور میں بتاآیا ہوں کہ ایسا وعدہ اگرکسی مومن سے ہوجائے تو اسے بھی کوئی قتل نہیں کرسکتا۔ آخر نہ مارا جانا انبیاء کے لئے شرط نہیں ۔کئی مومن بھی ایسے ہوسکتے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ یہی وعدہ کردے اور اگر کسی مومن کے ساتھ اللہ تعالیٰ ایسا وعدہ کردے تو پھر اسے بھی کوئی قتل نہیں کرسکتا۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد قادیان میں طاعون کی بعض وارداتیں ہوئیں۔ مجھے بھی اتفاقاً بخار ہوگیا۔ اور اس کے ساتھ ہی ران میں درد محسوس ہونے لگا۔ میں نے سمجھا شاید طاعون ہونے لگا ہے ۔ یہ خیال آتے ہی میرا وہم بڑھنا شروع ہؤااور مجھے سخت فکر اور قلق محسوس ہوا اور میں نے اپنے کمرہ کے دروازے بند کردئے اور سجدہ میں اور اللہ تعالیٰ کے حضور گرکر دعا کررہا تھا میری آنکھیں کھلی تھیں اور میں کامل بیداری کی حالت میں تھا میں نے کیادیکھا کہ ایک سفید اور نہایت چمکتا ہؤا نور ہے جو نیچے سے آتا ہے اور اوپر چلاجاتا ہے وہ نور ایک گول ستون کی شکل میں ہے ۔جیسے اس مسجد ( اقصیٰ ) میں گول ستون ہیں اسی طرح وہ نور کاایک ستون ہے جونہایت ہی براق اور سفید ہے اس نور کے ستون نے اوپر کی طرف بڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ چھت پھاڑ کر باہر نکل گیا ۔ پھر اور زیادہ اوپر کی طرف بڑھا یہاں تک کہ بالا خانہ کی چھت کو پھاڑ کر بھی نکل گیا۔اسی طرح وہ نور کا ستون اونچا ہوتا چلاگیا ۔ یہاں تک کہ میں نے سمجھااب یہ غیر محدود فاصلہ تک پہنچ گیا ہے ۔
پھر جب میں نے نیچے کی طرف خیال کیا تو اس کی ابتداء کا بھی کوئی پتہ نہ چلتا تھاگویا وہ ایک ایسا نور تھا جس کی نہ ابتدا تھی نہ انتہاء جب اس طرح وہ زمین کی پاتا ل سے لے کرآسمان کی انتہاء تک پہنچ گیا تو میں کیادیکھتا ہوں کہ اس نور میں سے ایک نہایت سفید اور نورانی ہاتھ نکلا ہے اور اس نورانی اورسفید ہاتھ میں ایک سفید اوربراق پیالہ ہے اور اس سفید اور براق پیالہ میں نہایت سفید اور براق دودھ ہے اور مجھے کسی نے کہا کہ اسے پی لو۔ چنانچہ میں اس دودھ کو پی گیا۔ جب میں نے تمام دودھ پی لیا تو معاً میری زبان پریہ الفاظ جاری ہوئے کہ اب میری امت بھی کبھی گمراہ نہیں ہوگی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ معراج کی رات آپ کے سامنے ایک شراب کاپیالہ اور ایک دودھ کا پیالہ پیش کیا گیا ۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دودھ کاپیالہ پی لیا اورشراب کا پیالہ ردّ کردیا۔
اس پرجبرائیل نے کہا آپ نے اچھا کیاجودودھ کاپیالہ لیااور شراب کا پیالہ نہ لیا۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی امت کبھی گمراہ نہیں ہوگی۔۲۷؎ اسی طرح میں نے اس وقت دودھ کا پیالہ پی کر کہا اب میری امت بھی کبھی گمراہ نہیں ہوگی ۔ یہ استعارہ ہے جو میری زبان پرجاری ہؤا۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ میں نبی بن گیا ۔ مطلب یہ ہے کہ میرے شاگرد، میرے مرید اور میرے اتباع بھی کبھی گمراہ نہیں ہوں گے۔ اور یہ مقام رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ظلی طور پر مجھے حاصل ہؤا ہے یہ نظارہ دیکھنے کے معاً بعد مجھے آرام ہوگیا۔ اور میں نے دیکھا کہ نہ مجھے بخار ہے اور نہ کہیں درد کی شکایت ۔
تو اس وقت اس رؤیا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہی بات بتائی کہ تمہیں طاعون نہیں ہے اورتم اس سے محفوظ رہو گے ۔حالانکہ یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ کسی مومن کو بھی طاعون نہ ہو کئی مومن ہیں جو طاعون سے شہید ہوتے ہیں۔ لیکن مجھے اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا کہ تمہیں طاعون نہیں ہے کہ تم اس سے بفضلہ محفوظ ہو۔ اسی طرح بعض دفعہ مومن بھی اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی بناء پرکہہ سکتا ہے کہ مجھے کوئی قتل نہیں کرسکتا۔ اورپھر واقع میں کوئی دشمن اسے قتل کرنے کی طاقت نہیںرکھتا۔ مگریہ امر یاد رکھناچاہیے کہ انبیاء کا قتل شاذ ونادر ہوتا ہے اسی لئے میرا طریق اور علمائِ سلسلہ کا بھی یہی طریق رہاہے کہ قرآن کریم میں انبیاء کے متعلق جب قتل وغیرہ کے الفاظ آئیں تو ہم ان کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قتل سے مراد کوششِ قتل یا ارادہ قتل ہے کیونکہ وہاں عام لفظ ہیں اور خطرہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کے مضمون کوعام نہ کردیں۔
لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم انبیاء کے متعلق قتل کی کلیتہً نفی کردیں۔ جیسے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ کو بھی بعض دفعہ شکست ہوئی ہے مثلاً اُحد کے موقع پر۔ گو میرا احساس یہی ہے کہ میں اُحد کی شکست کوبھی فتح ہی سمجھتا ہوںاور حقیقت بھی یہی ہے مگرپھر بھی اس وقت حالات ایسا رنگ پکڑگئے تھے کہ تھوڑی دیر کے لئے مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی تھی لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم اس واقعہ پر زور دینے لگ جائیں۔ استثنائی حالات اور ہوتے ہیں ۔ اورقاعدہ کُلّیہ اور ہوتا ہے۔ اسی طرح عام قاعدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کی تائیدکرتا اور انہیں دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھتا ہے لیکن استثنائی طور پر بعض انبیاء قتل بھی ہوجاتے ہیں ۔ پس چونکہ انبیاء کا قتل نہایت ہی شاذ ہوتا ہے اوردشمن کو اس طرح بہت بڑی خوشی حاصل ہوتی ہے اس لئے ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ شاذ کو شاذ ہی رہنے دیں اور اسے وسیع نہ کریں۔
ایک دوست نے لکھا ہے یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ ۲۸؎کہ وہ نبیوں سے لڑتے ہیں مگرآج یہ معنے کئے جاتے ہیں کہ وہ نبیوں کوقتل کرتے تھے۔ اس کاجواب یہی ہے کہ جس طرح پہلے یہ معنے پڑھائے گئے تھے اسی طرح اب بھی یہی پڑھائے جاتے ہیں اور آئندہ بھی یہی پڑھائے جائیں گے مگرجب حضرت یحییٰ علیہ السلام کا ذکر آئے گا۔ توپہلے بھی یہی کہتے تھے اور اب بھی یہی کہیں گے کہ وہ شہید ہوئے ہیں مگربایں ہمہ ہم اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے متعلق کوئی ایسی بات گوارا نہیں کرسکتے جس سے ان کی توہین ہو یا جس میں ان کی سُبکی ہو۔ چونکہ قتل میں انبیاء کی ایک طرح کی سُبکی ہوتی ہے اور دشمن کو خوشی کا سامان ہاتھ آتا ہے اس لئے ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ جہاں نبیوں کے عام ذکر کے ساتھ قتل کالفظ آئے وہاں اس کے معنے ارادہ قتل یا کوششِ قتل یا لڑائی جھگڑے کے کریں تاکہ شاگرد پریہ اثر نہ ہو کہ شاید نبیوں کا قتل کوئی معمولی بات ہے ۔ مگرمومن کا یہ بھی کام ہے کہ جہاں خدااسے کہے کہ فلاں نبی قتل ہؤا ہے وہاں اس حقیقت کابھی اظہار کردے۔
پس مَیں نے ضروری سمجھا کہ اس حقیقت کوواضح طور پر احباب کے سامنے رکھ دوں میں نے اس ضمن میں بہت سی شہادتیں بیان کی ہیں۔ صحابہ میں سے ماسٹر عبدالرحمن صاحب ۔ میرمہدی حسین صاحب ۔ حافظ محمدابراہیم صاحب، مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب کی شہادتیں بیان کی ہیںاپنی شہادت بھی بیان کی ہے۔ اور پھر بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں بھی یہی مسئلہ بیان ہؤا ہے حتّٰی کہ حقیقتہ الوحی میںبھی جیسا کہ ایک دوست نے لکھاہے کہ یہی بات بیان کی گئی ہے ۔ پھر تاریخ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے احادیث میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی یہی بات بیان فرمائی ہے پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے جیوش انسائیکلوپیڈیا میں جوزیفس نامی مشہور مؤرخ کے حوالہ سے بھی اسی حقیقت کااظہار کیاگیاہے ۔
اسی طرح یہودیوں مسیحیوں اور رومیوں تینوں قوموں کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل کئے گئے ۔ اتنی بڑی شہادتوں کے بعد یہ بالکل ناممکن ہے کہ قتلِ یحییٰ کا انکار کیاجاسکے۔ اوراگر کوئی شخص اتنی بڑی شہادتوں کے بعد بھی شُبہ کی گنجائش نکالتا ہے تو اس کے لئے دنیا میں کسی ایک صداقت کا معلوم کرنابھی ناممکن ہے کیونکہ ہرصداقت انہی ذرائع سے ثابت ہوتی ہے ۔ اوراگران ذرائع اورشواہد کاانکار کردیاجائے تو پھرکوئی صداقت ثابت نہیں ہوسکتی۔‘‘ (الفضل ۱۷؍ ستمبر ۱۹۳۸ئ)
۱؎ متی باب ۱۴ آیت ۱ تا ۱۲۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن ۱۸۸۷ء (مفہوماً)
۲؎
۳؎ شعب الایمان لِلْبَیْہقی جُز ۷ صفحہ ۳۱۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان مطبوعہ ۱۹۹۰ء
۴؎ مستدرک حاکم جُز ۳ صفحہ ۵۵۵ کتاب معرفۃ الصحابۃ باب ذکر عبداﷲ بن زبیر
۵؎
۶؎
۷؎ اٰل عمران: ۱۱۳
۸؎ حمامۃ البشریٰ صفحہ ۴۸، ۴۹ ۔ روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۲۱۴، ۲۱۵
۹؎
۱۰؎
۱۱؎ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۵۲ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۳۸
۱۲؎ اعجاز المسیح ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۱۵، ۱۶ ۔ ایڈیشن ۲۰۰۸ء
۱۳؎ تذکرۃ الشہادتین صفحہ ۹۴۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۹۴
۱۴؎ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ ۔ حاشیہ صفحہ ۳۵۰
۱۵؎ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ حاشیہ صفحہ ۳۵۰، ۳۵۱
۱۶؎ حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ حاشیہ صفحہ ۳۵۱
۱۷؎ ضمیمہ براہین احمدیہ حصّہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ حاشیہ صفحہ ۳۳۷
۱۸؎ براہین احمدیہ حصّہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۴۵
۱۹؎
۲۰؎ النسآئ: ۱۵۸
۲۱؎
(المائدہ: ۱۱۷)
۲۲؎ (التوبۃ: ۳۰)
۲۳؎ النسآء :۱۵۹ ۲۴؎ اٰل عمران: ۵۶ ۲۵؎ المائدہ:۱۱۸
۲۶؎ ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب ۱۴۹، ۱۵۰
۲۷؎ بخاری کتاب مناقب الانصار باب المعراج
۲۸؎ البقرۃ : ۶۲

۳۱
الٰہی جماعتیں دین پر عمل کرکے ہی کامیابی حاصل کر سکتی ہیں
(فرمودہ ۱۶؍ ستمبر ۱۹۳۸ء )
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کے بعد حضور نے حسب ذیل آیات تلاوت فرمائیں:
’’ ۱؎
اس کے بعد فرمایا :-
’’یہ آیتیں جو میں نے اِس وقت تلاوت کی ہیں مومنوں کو اُن کے ان فرائض کی طرف توجہ دلاتی ہیں جو الٰہی جماعتوںکو کامیاب بنانے میں مُمِد ہوتے ہیں اور جن کے بغیر غلبے کا حصول بالکل ناممکن ہوتا ہے ۔دُنیوی جماعتوںکا طریقِ کار بالکل علیحدہ ہوتا ہے ان پر دینی جماعتوں کا قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دُنیوی جماعتوں کا دارومدار خالص طور پر ان کی اپنی سعی اور کوشش پر ہوتا ہے اور ساتھ ہی اس کے اُن کے لئے کوئی ضروری نہیں ہوتا کہ وہ سچ سے کام لیں ۔ وہ جھوٹ، فریب اور دغا بازی، ان سارے ہتھیاروں کو استعمال کرسکتے ہیں مگر یہ ہتھیار جو عام طورپر دُنیا میں کامیابی کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں دین میں اِن کو بالکل حرام قرار دیا گیا ہے۔ دُنیوی اُمور میں لوگ جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں، وہ فریب سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فریب کے بغیر گزارہ نہیں، وہ منافقت سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کے منافقت کے بغیر گزارہ نہیں ۔جب ایک قوم دوسری قوم کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے، جب اس کی ساری قوتیں دوسری قوم پر حملہ کرنے کے لیے مجتمع ہو رہی ہوتی ہیں، جب اس کے سارے محکمے اپنے کیل کانٹے درست کر ر ہے ہوتے ہیں اس وقت د نیا دار حکومتیں بڑے زور سے یہ اعلان کرتی سُنائی دیتی ہیں کہ ہمارے تعلقات اس حکومت سے بڑے اچھے ہیں اور جب وہ جنگ کا فیصلہ کر چکی ہوتی ہیں اُن کے مدبّر بڑے زور شور سے یہ اعلان کررہے ہوتے ہیں کہ ہم صلح کے لئے ہر ممکن تدبیر اختیا ر کریں گے مگر اُن کی غرض اِن اعلانات سے یہ ہوتی ہے کہ اگر ہمارا دُشمن بیوقوف بنایا جا سکے تو اسے بیوقوف بنائیں۔ اس کے مقابلہ میں ان کا دُشمن بھی اسی طرح کر رہا ہوتا ہے جس طرح وہ کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ بھی دھوکا اور فریب اور جھوٹ استعمال کر رہا ہوتا ہے مگر دین کے ساتھ تعلق رکھنے والی قوموں کو اس قسم کے طریق اختیارکرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔انہیں اگر کہا جاتا ہے تو یہ کہ تمہیں اچانک حملہ کرنے کی اجازت نہیں اور اگر تمہارا کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہے اور تم دیکھتے ہو کہ دوسرا فریق اس معاہدہ کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو ایک لمبا عرصہ قبل یہ اعلان کردو کہ ہمارا تمہارا معاہدہ ختم ہے ۔اس کے بعد اگر تم چاہو تو دوسری قوم سے لڑ سکتے ہو ۔
پس دینی کاموں کے لیے مشکلات بہت زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ جن تدابیر کو دُنیا اختیار کر سکتی ہے ان کو ان تدابیر کے اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔اس لئے کوئی ایسا قائمقام ہونا چاہئے جو جھوٹ اور فریب اور دغا کے مقابلہ میں نیکی کا سہارا ہو ۔اس سہارے کا اللہ تعالیٰ نے ان آیات میںجو ابھی مَیں نے تلاوت کی ہیں ذکر کیا ہے فرماتا ہے ۔ اے مومنو! تم رکوع کرو اور رکوع سے مرا د اس جگہ نماز والا رکوع نہیں بلکہ رکوع کے معنی نماز کے علاوہ بھی ایک ہوتے ہیں اور وہ معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی توحید پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اس کی طرف جھُک جانا اور ما سویٰ اللہ کا خیال اپنے دل سے بکلی نکال دینا۔ گویا کامل توحید کے خیالات دل میں پیدا کر لینا اور ما سویٰ اللہ کی عباد ت، اس پر انحصار، توکّل اور امید کا دل سے نکال دینا۔ اس کا نام عربی زبان میں رکوع ہے ۔چنانچہ عربی کا محاورہ ہے کہ فُلانٌ رَکَعَ اِلَی اﷲ۔ کہ فلاں شخص ہر ایک دُنیوی چیز کا خیال اپنے دل سے نکال کر خدا تعالی کی طرف جُھک گیا۔پس اس جگہ رکوع سے مرا د وہ رکوع نہیں جو نماز میں کیا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ رکوع ہم علیحدہ نہیں کرتے بلکہ نماز کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ خالی رکوع اسلام میں کہیں ثابت نہیں اور خالی سجدہ اسلام میں شکریہ یا تلاوتِ قرآن کریم کے سوا عبادت کے طور پر ثابت نہیں ہے بلکہ خالی سجدہ دُعا کے موقع پر کر بھی لیا جاتا ہے۔ خالی رکوع کا رسماًبھی اسلام میںکوئی ثبوت نہیں ملتا۔ پس رکوع سے مرادیہاں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک جانا نہیں بلکہ ماسویٰ اللہ کا خیال اپنے دل سے نکال کر کامل توحید پر ایمان رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کانام رکوع ہے یہ گویا قائمقام ہو جاتا ہے مومن کے لیے ان چیزوں کا جن کو چھوڑنے کا اسے حکم ہے۔ رکوع کا لفظ اصل میں اسی لئے استعمال کیا گیا ہے کہ رکوع میں ایک چیز ٹیڑھی ہو جاتی ہے اورسہارا ہمیشہ ٹیڑھا ہو کر لیا جاتا ہے۔ جو شخص سیدھا کھڑا ہو گاوہ سہارا نہیں لے سکتا اور اگر وہ سہارا لینا چاہے گا تو اسی وقت لے سکے گا جب وہ ٹیڑھا ہوگا تو کے معنی دراصل خدا تعالی پر سہارا لینا اور اس کے اوپر جُھک جانا ہے۔ جھوٹ، فریب اور منافقت یہ دُنیا کے سہارے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو بڑے گندے سہارے ہیں، ان کو چھوڑ و اور ان کے قریب بھی مت پھٹکو ۔جب دنیا کے سہارے ایک انسان سے لے لئے جائیں تو لازماََ وہ کسی اور سہارے کا محتا ج ہو گا کیونکہ انسا ن سخت کمزور اور بے بس ہے ۔ایک کمزور انسان جو بیمار بھی ہو کرچز(CRUTCHES)پر چلتا ہے یا کھڑا ہوتا ہے تو دیوار کی ٹیک لگا لیتا ہے یا دَم لینے کے لئے کرسی پر جا بیٹھتا ہے یا اگر لیٹے لیٹے سر اُٹھاتا ہے تو کُہنی کا سہارالے لیتا ہے یا گائو تکیہ اپنے پیچھے رکھ لیتا ہے تو کمزوری اور بیماری کے وقت انسان کو دوسری چیزوں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔چونکہ انسان روحانی عالَم میں سخت کمزور ہے اور ہزاروں خفیہ باتیں ایسی پیدا ہو جاتی ہیںجو اس کی ترقی کی راہ میں روک بن کر حائل ہوجاتی ہیں اس لئے اس عالم میںبھی وہ کسی نہ کسی سہارے کا محتاج ہوتا ہے۔ دُنیا دار شخص ایسے موقع پر دغا، فریب ، جھوٹ اور مکاری کا سہارا لے لیتا ہے مگر مومن کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان امور سے بچو۔ تم نہ فریب سے کام لو، نہ جھوٹ سے کام لو، نہ دھوکا سے کام لو اور نہ اَورکسی ناجائز ہتھیار کو استعمال کرو ۔اب جبکہ ایک کمزور انسان کے تمام دُنیوی سہارے شریعت نے لے لئے تو سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ کیا کرے؟ سہارا تو ایک کمزور انسان کے لئے ضروری تھا اور اس سے سہارے کو لے لینا ایسا ہی ہے جیسے ایک لُنجے کی سوٹیاں لے لی جائیں یابیمار کے نیچے سے گائو تکیہ نکال لیا جائے یا ایک کمزور انسان جب کرسی پر بیٹھنے لگے تو اس کے نیچے سے کرسی نکال لی جائے ۔ایسی حالت میں اسے لازماََ کسی اَور سہارے کی ضرورت پیش آئے گی اور وہ کہے گا مَیں کس پر سہارا لوں، میں تو گر جائوں گا۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کا جواب دیا ہے ۔فرمایا ہے تم ہمارے اوپر سہارا لے لو اور ہم پر جُھک جائویہ ایسی بات ہے جیسے کوئی انسان دوسرے کمزور انسان کی سوٹی تو لے لے مگر اپنا کندھا اس کے سامنے پیش کردے اور کہے کہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلو ۔اسی طرح جب اَور ناجائز ہتھیاروں اور ناجائز سہاروںسے اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا تو فرمایا چونکہ تمہیںکسی نہ کسی سہارے کی ضرور ت ہے اس لیے ہم تمہیں کہتے ہیں تم ہم پر جُھک جائو اور ہمارا سہارالے لو ۔تو کا لفظ تَوکّلعلَی اللہ پر دلالت کرتا ہے اور اس میں یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرنا اور سمجھ لینا چاہئے کہ میرے کاموں میں جو نقص ہے خدا تعالیٰ اس کا خود ذمہ دار ہے کیونکہ جب کامیابی کے حصول کی دُنیوی تدابیر سے اس نے منع کر دیا تو اب وہ ہمارا خود ذمہ دار ہے اور وہ آپ ہمارے نقصوں اور ہماری خامیوں کو پورا کرے گا ۔پھر فرماتا ہے یہاں میں جو سجدہ کا لفظ آتا ہے اس سے مرا د بھی نماز والا سجدہ نہیں ہے اس لئے کہ آگے کے الفاظ آتے ہیں جس میں سجدہ بھی شامل ہے۔ پس اس جگہ سجدہ سے مراد بھی وہ سجدہ نہیں جو ہم زمین پر کرتے ہیں بلکہ کے معنی ہیں۔ اے مومنو! تم کامل فرمانبرداری سے کام لو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری اتباع کرو اور جس طرح وہ حُکم دیتا ہے اسی طرح کرو۔چاہے وہ حُکم تمہاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ بسا اوقات انسان ایک چیز کے متعلق جانتاہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پیش کی گئی ہے مگر اپنی نادانی سے سمجھتا ہے کہ اس میں میری تباہی اور بربادی ہے لیکن جب وہ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس چیز کو اختیار کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی خود حفاظت کرتا اور بجائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اس پر انعامات کا نزول شروع ہو جاتا ہے۔حدیثوں میں اس کی ایک نہایت ہی لطیف مثا ل بیان کی گئی ہے کہ کس طرح وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے لئے تکلیفیں اُٹھاتے اور بظاہر اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھوں میں گراتے چلے جاتے ہیں انجام کار اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جاتے اور تباہی کے سامانوں میں ان کے لئے برکت کے سامان پیدا کردئے جاتے ہیں۔
حدیثوں میں آتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے ایک بندے سے کہے گا کہ دوزخ میں کُود، بندہ بے دھڑک دوزخ میں کُود جائے گا اور کہے گا کہ جب مجھے میرے ربّ کا یہی حُکم ہے کہ مَیں دوزخ میں کُود جائوں تو مجھے دوزخ ہی منظور ہے مگر جب وہ اس میں کُودے گا تو دوزخ اس کے لیے نہایت آرام دہ جنت بن جائے گی اور وہ آگ سے کھیلنے لگ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس پرکہے گا دیکھو میرا بندہ آگ سے کیسا خوش ہو رہا ہے ۔۲؎ یہ مثال در حقیقت اسی بات کی ہے کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے قُربانی کرکے بظاہر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں اللہ تعالی انہی ہلاکت کے سامانوںمیں ان کے لئے ترقی کے سامان پیدا کردیتا ہے۔ بظاہر دُنیا سمجھتی ہے کہ وہ آگ میں کُودے ہیں مگر جب وہ اس آگ میں کُود جاتے ہیں تو وہی آگ ان کے لئے جنت بن جاتی ہے ۔
صحابہؓ کو دیکھیں اُنہوں نے کیسی خطرناک آگ اپنے لئے قبول کی مگر وہی آگ ان کے لئے کیسی جنت بن گئی کہ دُنیا پر اس زمانے سے لے کر آج تک تیرہ سَو سال گزر چکے اور نا معلوم ابھی کتنے سَو سال یا کتنے ہزار سال یا کتنے لاکھ سال یا کتنے کروڑ سال یا کتنے ارب سال اَور گزرنے ہیں،اﷲ تعالیٰ ہی اس کو بہتر جانتا ہے مگر آج بھی جب صحابہ ؓ کا کوئی ذکر کرتاہے تو ایک مخلص کا دل محبت سے بھر جاتا ہے اور وہ ۳؎کہے بغیر نہیں رہتا اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا چلا جائے گا ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں دُنیا میں لوگ نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے بڑی بڑی قُربانیا ں کرتے ہیں ۔بعض آدمیوں کو مَیں نے دیکھا ہے ان کی ساری عمر’’خان صاحب ‘‘ کے خطاب کے حصول کے لئے ہی گزر جاتی ہے ۔حا لانکہ ’’خان صاحب‘‘ کے خطاب میں کیا رکھا ہے؟دو لفظ ہی ہیں ورنہ ان کی کیا حقیقت ہے؟ پھر ان کا یہ اپنا اختیار ہوتاہے کہ وہ اگر چاہیں تو اپنا نام ’’خان صاحب‘‘ رکھ لیں۔ چنانچہ کئی لوگ اپنے بچوں کا نام ’’خان صاحب‘‘ یا ’’خان بہادر‘‘ رکھ دیتے ہیں۔
پس اگر وہ چاہیں تو یہ نام آپ بھی اپنا رکھ سکتے ہیں مگر اس لئے کہ گورنمنٹ کی طرف سے ان کو یہ نام ملے وہ اپنی ساری عمر اسی کوشش میں گزار دیتے اور اس کے لئے بڑی بڑی غلامیاں کرتے ہیں، کہیں انہیں جھوٹ بولناپڑتا ہے، کہیں فریب سے کام لینا پڑتا ہے، کہیں عیّاری اور مکاری کرنی پڑتی ہے، کہیں قوم کو قُربان کرتے ہیں اور اس تمام مکر و فریب اور تمام چاپلوسی غلامی اور لجاجت میں ایک ہی بات اُن کے مدِّ نظر ہوتی ہے کہ کسی دن صاحب بہادر خوش ہوجائے تو وہ ہمارے متعلق خان صاحب یا خان بہادر کے خطاب کی سفارش کردے ۔اگر انسانی فطرت کی اس کمزوری کا خیال نہ رکھا جائے تو ایسے انسان کا تصور کر کے ہی شرم سے انسان پانی پانی ہو جاتا ہے اور وہ حیران ہوتاہے کہ ان الفاظ میں آخر رکھا ہی کیا ہے اور خان صاحب یا خان بہادر کا خطاب ملنے سے ہو کیا جاتاہے کہ وہ اس کے لئے اتنی جدوجہد کرتاہے سوائے اس کے کہ اُسے افسروں کو سلام کرنے پڑتے ہیں اور دربار میں اسے جُھکنا پڑتا ہے اور اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور ان عزتوںسے تو شریف آدمی بعض دفعہ بڑے گھبراتے ہیں۔
ہمارے ہی عزیزوںمیں سے ایک کٹردُنیا دار تھے وہ احمدی نہیں تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ کوشش کی اور وہ سفید پوش ہو گئے ۔اس زمانے میں ڈاک کے متعلق سرکاری انتظام چونکہ ابھی اعلیٰ پیمانہ پر نہیں تھا اس لئے جو ذیلدار یا سفید پوش ہوتے، انہیں بعض دفعہ ضروری چِٹھیاں بھیجی جاتی تھیں کہ وہ ڈپٹی کمشنر کو پہنچا آئیں ۔اتفاق ایسا ہؤا کہ اِدھر وہ کوشش کر کے سفید پو ش بنے اور اُدھر ایک سرکاری آفیسر نے اُنہیں بُلایا اور کہا کہ ڈپٹی کمشنر آجکل دورہ پر ہے اور فلاں جگہ ہے، ایک اہم سرکاری پروانہ لیفٹیننٹ گورنر صاحب کی طرف سے آیا ہے، آپ یہ جا کر اُنہیں پہنچا دیں ۔ وہ تو خیر حُکمِ حاکم مرگِ مفاجات اُنہوں نے جوںتوں کر کے پہنچا دیا مگر گھر واپس آتے ہی استعفیٰ دے دیا اور کہا مجھے سفید پوشی منظورنہیں۔مَیں سفید پوشی عزت کی چیز سمجھا تھا مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ سفید پوشی انسان کو ہرکارہ بناتی ہے۔مگر دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جو اس کے لئے ہر قسم کی تکلیف گوارہ کرتے اور خواہش رکھتے ہیں کہ کسی طرح وہ ذیلدار یا سفیدپوش بن جائیں۔
قادیان ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔دُنیا جہان سے الگ ایک کونہ میں واقع ہے ساری دُنیا ہماری دشمن ہے ۔قادیان کا نام سُن کر مخالف لوگ کوسوں بھاگتے ہیں ۔مگر میں نے دیکھا ہے جہاں کوئی احمدی افسر ہوتا ہے وہاں کے بڑے بڑے زمیندار جو بعض دفعہ چارچار،پانچ پانچ، چھ چھ یا دس دس ہزار ایکڑ زمین کے مالک ہوتے ہیں ۔با وجود مخالفت کے ہمارے پاس آتے ہیں او ر کہتے ہیں فلاں احمدی افسر کو ہمارے متعلق کوئی چِٹھی لکھ دیںکیونکہ ہمارا اُن کے پاس سفید پوشی یا ذیلداری کا مقد مہ ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ سفید پوشی یا ذیلداری ہمیں مِل جائے۔ مَیں جب ان کو دیکھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو گھر بیٹھے دولت و ثروت دی تھی اور یہ باپ دادا سے ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک چلے آتے تھے اگر یہ ولایت میں ہوتے تو لارڈ اور ڈیوک اور مارکوئیس اور ارل اور کیا کیا ہوتے مگر یہ سفید پوشی یا ذیلداری کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ یوں شاید وہ مذہبی تعصب کی بناء پر ہم سے بات کرنا بھی اپنی ہتک سمجھیں مگر سفارش کرانے کے لئے ہمارے پاس آموجود ہوتے ہیں ۔تو ان کی حالت دیکھ کر مجھے نہایت ہی تعجب آتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ الٰہی یہ کیسی ذلت کو پہنچ گئے ہیں؟ اگر یہ اسی عزت پر قناعت کرتے جو خدا تعالیٰ نے ان کو دی تھی تو ذیلدار یا سفید پوش ہونے کی جدوجہد میں انہیں کئی قسم کی ذلتیں برداشت نہ کرنا پڑتیں ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ شخص جو اپنی عزت پر قناعت کرتا ہے اس کی ساری دنیا عزت کرتی ہے اور عزت تو اپنے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ دُنیاداروںمیں سے بھی جو شریف لوگ ہوتے ہیں چاہے دین ان میں نہ ہو وہ اپنی عزت کے متعلق غیرت رکھتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی ان کی عزت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ہمارے دادا صاحب کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں لکھاہے کہ وہ بڑے دُنیا دار تھے اور ہمیشہ دُنیا کے خیالات میں منہمک رہتے لیکن شرافتِ خاندانی کی حِس اُن میں اس قدر تھی کہ پُرانے لوگوں سے میں نے سُناہے کہ وہ ایک دفعہ کمشنر سے ملنے کے لئے گئے ۔دورانِ گفتگو میں کمشنر پوچھ بیٹھا کہ مَیںدورہ پر جانے والا ہوں یہ بتائیں کہ قادیان سے سری گو بند پور کتنے میل ہے ؟ اُس نے جونہی یہ سوال کیا ہمارے دادا صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے مَیں اپنی ہتک کرانے کے لئے یہاں نہیں آیا مَیں کوئی ہر کارہ نہیں کہ ایسا سوال مجھ سے کیا جائے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ کمشنر اُن کی منتیں کرنے لگا اور کہنے لگا آپ ناراض نہ ہوں مجھ سے غلطی ہو ئی ہے۔۴؎وہ دُنیا دار تھے مگر یہ حِس اُن میں بھی تھی کہ مَیں عزت رکھتا ہوں اور اگر تم میری عزت کا پاس نہیں کر سکتے تو مَیںجاتا ہوں۔ تو انسان کی حقیقی عزت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے ملتی ہے ۔وہ عزت جتنی بھی ہو خواہ تھوڑی ہو یا بہت انسان کے لئے کافی ہوتی ہے مگر جب وہ خیا لی عزتوںکے پیچھے پڑ تا ہے تو اسے ایسی ایسی غلامیاں اور ایسی ایسی فرمانبرداریاں کرنی پڑتی ہیں کہ جن کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی اور پھر اسے جو چیز ملتی ہے وہ نہایت ہی حقیر ہوتی ہے ۔
ہمارے صوفیاء کی تاریخ میں ایک مشہور واقعہ آتا ہے ۔شبلی ؒ اسلام میں ایک بہت بڑے بزرگ اور ولی اللہ گزرے ہیں۔ ان کا نام اتنامشہور ہے کہ گائوںکے لوگ بھی انہیںجانتے ہیں اور اشعار میںاُن کا ذکر کرتے ہیں ۔وہ اسلام میں چوٹی کے بزرگ ہوئے ہیں۔وہ اسلامی بادشاہت میں پہلے گورنر تھے اور اس قدر ظالم اور جابر تھے کہ حجاج بن یوسف کی طرح ان کا بھی رُعب تھا اور لوگ اُن سے بڑے ڈرتے تھے ۔ذرہ سی بات پر بھی لوگوں کو سخت سزائیں دیتے اور انہیںمارتے یا قتل کر ادیتے ۔ایک دن بغداد میں بادشاہ کا دربار لگا ہؤا تھا وہ بھی اس دربار میں موجود تھے کہ ایک فاتح جرنیل بادشاہ کے سامنے پیش ہؤا۔اس جرنیل نے بعض مخالف افواج کو جن سے باشاہ بھی گھبراتاتھا شکست فاش دی تھی اور بادشاہ نے یہ دربار اسی لئے لگایا تھا کہ اپنے ہاتھ سے اس جرنیل کو خلعتِ فاخرہ دے اور اس طرح سب کے سامنے اس کی قدر افزائی کرے ۔چنانچہ وہ بادشاہ کے سامنے پیش ہؤا اور اُس نے نہایت ہی اعزاز کے ساتھ اسے خلعت پہنایا مگر وہ بیچارہ شاید اس دن شامتِ اعمال سے رومال لانا بھول گیا تھا۔ عام طور پر درباری اپنی آستینوںمیں رومال چھپا کر رکھتے ہیںیا ممکن ہے وہ رومال تو لایا ہو مگر اس کے پہلے کوٹ میں ہو جو اُس نے خلعت پہننے کے لئے اُتارا ہو ۔بہر حال اُس وقت رومال اس کے پا س نہیں تھا جب وہ خلعت پہن چُکا تو اتفاقاً اُسے چھینک آئی جس سے اُس کا ناک بہہ پڑا۔ شاید اُسے نزلہ کی شکایت تھی ۔یہ دیکھ کر وہ سخت گھبرا یا اور اُس نے بادشاہ کی بے ادبی کے ڈر سے جیب پرہاتھ جو مارا تودیکھا کے رومال نہیں۔ اسے اور زیادہ فکر لاحق ہؤا اور اب وہ سوچنے لگا کہ کیا کروں؟ آخر اس مصیبت سے بچنے کے لئے اُس نے ایک طرف منہ کرکے اسی خلعت کے ایک کونہ سے اپنا ناک پونچھ لیا ۔اتفاقاً بادشاہ کی بھی اُس پر نظر پڑ گئی۔ بس یہ دیکھتے ہی اسے قہر آگیا ۔بادشاہ نے بے تحاشہ اُسے گالیا ں دینی شروع کر دیں کہ بڑے بے حیا اور کمینہ ہو، ہم نے تمہاری عزت افزائی کی اور تم نے ہمارے خلعت کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ اس سے اپنا ناک پونچھ لیا ۔پھر اُس نے حُکم دیا کہ اس کا خلعت اُتار لیا جائے، اس سے تمام عہدے چھین لئے جائیں اور اسے ذلیل کر کے دربار میںسے نکال دیا جائے ۔اِدھر بادشاہ نے یہ حُکم دیا اور اُدھر شبلی رونے لگ گئے اور روتے ہی چلے گئے ۔بادشاہ نے اُن کی طرف دیکھا اور کہا شبلی تمہیں کیا ہو گیا؟ کیا تم پاگل ہو گئے ہو جو روتے ہو؟شبلی کہنے لگے حضور میرا استعفیٰ منظور کیجئے ۔وہ کہنے لگا کیوں ؟معلوم ہوتا ہے کہ شبلی کے دل میں کوئی نیکی اور تقویٰ تھا جو اُن کے کام آگیا اور وہ کہنے لگے حضور! آپ نے اس جرنیل کو خلعت دیا اور اس کی عزت افزائی فرمائی مگر یہ خلعت اس کی قُربانیوں کے مقابلہ میںکیا حقیقت رکھتا تھا؟ کچھ بھی نہیں ۔وہ سال دو سال آپ کے دشمن کے مقابلہ میںبرسرپیکار رہا۔وہ ہر روز اپنی بیوی کو بیوہ اور اپنے بچوں کو یتیم بنا دینے کے ارادہ سے نکلتا اور گھمسان کی لڑائیوں میں آپ کی عزت اور آپ کی حکومت کی وسعت کے لئے گھس جاتا۔ہر روز اس کی جان خطرے میں تھی، ہر روز اس پر ایک موت آتی تھی ۔کوئی دن نہ تھا جس میں وہ آپ کی عزت کے لئے اپنی بیوی کو بیوہ اوراپنے بچوںکو یتیم بنانے کا تہیہ نہ کرتا مگر اتنی بڑی قربانیوںکے بعد آپ نے اسے جو خلعت دیا وہ گو اُس کی قُربانیوں کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا تھا مگر آپ نے اتنا بھی گوارہ نہ کیا کہ اس نے آپ کے عطاکردہ خلعت سے ناک کیوں پونچھ لیا اور آپ نے اسے اپنے خلعت کی بے حرمتی قرار دیا ۔حضور اس سے بہت زیادہ قیمتی خلعت وہ ہے جو خدا نے مجھے دیا ہؤا ہے ۔یہ ناک ، یہ کان ،یہ منہ، یہ آنکھیں ،یہ زبان یہ ہاتھ ،یہ پاؤں ، یہ دماغ ، یہ اعضاء اور یہ تمام طاقتیں اﷲ تعالیٰ کا خلعت ہیں ۔مَیں آپ کی خاطر ایک لمبے عرصہ سے اللہ تعالیٰ کے اس خلعت کو خرا ب کر رہا ہوں۔مَیں ڈرتا ہوں کہ قیامت کے دن جب میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو ں گا تو اُس کو کیا جواب دوں گا اور اپنی براء ت میں کونسی بات پیش کرسکوں گا؟پس میر ا استعفیٰ منظور کیجئے مَیں ا ب اَور زیادہ اس الٰہی خلعت کی بے حرمتی کرنا نہیں چاہتا ۔بادشاہ نے اُنہیں بہتیرا سمجھایا مگر وہ نہ مانے او راستعفیٰ دے کر الگ ہوگئے ،وہ اتنے ظالم مشہور تھے کہ اس کے بعد وہ مختلف علماء کے پاس جب توبہ کے لئے گئے تو کوئی اُن کی توبہ قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا اورہر ایک کہتا کہ تیرے جیسے آدمی کوتو اللہ تعالیٰ سیدھا جہنم میں جھونکے گا۔آخر وہ حضرت جنیدبغدادی کے پاس گئے اور جا کر کہنے لگے کہ چاہے کوئی شرط آپ رکھیں مَیںہرشرط ماننے کے لئے تیار ہوں میری بیعت آپ قبول فرمائیں ۔وہ کہنے لگے اچھا اگر تمہیں ہر شرط منظور ہے تو پھر تم اس شہر میں جائو جہاں کے تم گورنر رہ چکے ہو اور اس شہر کے ہر گھر کے دروازہ پر دستک دو اور وہاں کے لوگوں سے معافی مانگو۔ چاہے معافی مانگنے میں تمہیں کتنا عرصہ لگ جائے ۔چنانچہ وہ اُس شہر میں گئے اورچھ مہینے یا سال یا جتنا عرصہ لگا وہ اس شہر میں رہے اور اُنہوں نے ہر دروازہ پر دستک دے کر لوگوں سے اپنے گناہوںکی معافی چاہی اور جب سب سے معافی مانگ چکے تو پھر حضرت جنید کے پاس آئے اور اُنہوں نے اپنی بیعت میں انہیںشامل کر لیا ۔۵؎اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُنہیں خود بھی بہت بڑا رُتبہ دے دیا چنانچہ وہ اسلام کے صوفیاء کے ایک ستون سمجھے جاتے ہیں۔
تو انسان چھوٹی چھوٹی عزتوں کے حصول کے لئے بڑی بڑی قُربانیاںکرتاہے اور پھر ان قُربانیوں کے بعد جو چیز اسے ملتی ہے وہ نہایت ہی ذلیل اور ادنیٰ قسم کی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں اللہ تعالی کے فضل اتنے اہم ہوتے ہیں کہ ان فضلوں کے مقابلہ میں دُنیا کی بادشاہتیں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ جیسے مَیں نے بتایا ہے کہ صحابہ کا جب بھی کوئی ذکر کرے ہم کہے بغیر نہیں رہتے ۔اب یہ ایک خطاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ۔ایسا ہی جیسا خان صاحب یا خان بہادر یا سریا ڈیوک یا مار کوئس یا ارل وغیرہ ہیں۔ مگر سوچوتو سہی کتنے خان بہادر یاسر یا ڈیوک یا مارکوئس یا ارل ہیں جن کا نام دُنیا جانتی ہے یا کتنے بادشاہ ہیں جن کا نام لوگ جانتے ہیں یا کتنے بادشاہ ہیں جن کا نام دُنیا خطاب سمیت لیتی ہے۔ بڑے بڑ ے بادشاہ دُنیا میں گزر ے ہیں مگر آج لوگ اُن کا نام نہایت بے پروائی سے لے دیتے ہیں ۔
سکندر کتنا بڑا بادشاہ تھا یونان سے وہ چلتا ہے اور ہندوستان تک فتح کرتا چلا آتا ہے اور بڑی زبر دست حکومتوںکو راستہ میں شکست دیتا ہے مگر آج ایک غریب اور معمولی مزدور بھی جو ایک انگریز سپاہی سے بھی ڈر جاتا ہے سکندر کا نام نہایت بے پروائی سے لے لیتا ہے ۔بچے بھی سکندر سکندر کہتے پھرتے ہیں اور کوئی ادب کا لفظ اس کے لئے استعمال نہیں کرتے ۔
دارا ۶؎ بھی ایک عظیم الشان بادشاہ تھا اور گو اُسے سکندر کے مقابلہ میں شکست ہوئی مگر اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ وہ بھی زبر دست سلطنت کا مالک تھا اورچین تک اس کی حکومت پھیلی ہوئی تھی مگر آج لوگ اُسے دارادارا کہتے پھرتیہیں۔بادشاہ کا لفظ بھی اس کے متعلق استعمال نہیں کرتے۔
تیمور جو ایک زمانہ میں دنیا کے لئے قیامت بن گیا تھا ۔آج اُسے ساری دنیا تیمور لنگ یعنی لنگڑا تیمور کہتی ہے ۔اپنے زمانہ میں اُس کی اتنی ہیبت تھی کہ جب وہ حملہ کرتا تو کُشتوں کے پشتے لگا دیتا اور بعض جگہ تو لوگوں کو مار مار کر اُن کی لاشوں کو جمع کرتا اور ایک مینار کھڑا کردیتا ۔بعض مؤرخ کہتے ہیں کہ اس نے کئی لاکھ آدمی قتل کیا ہے مگر اب ایک ذلیل سے ذلیل انسان بھی جب تیمور کا ذکر کرتا ہے تو کہتا ہے لنگڑا تیمور ۔حالانکہ اس کے زمانہ میں کسی کو یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ اُسے لنگڑا تیمور کہے بلکہ بادشاہ کیا وہ شہنشاہ کہلاتا تھا اور بڑے بڑے حکمران اس کے خوف سے کانپتے تھے ۔
تو وہ بادشاہ جن کی اپنے زمانہ میں بڑی ہیبت تھی جن کا نام سُن کر ہزاروںمیل پر لوگ کانپ اٹھتے تھے اُن کا نام آج انتہائی لاپروائی کے ساتھ ایک معمولی اور بے حیثیت آدمی بھی لے لیتا ہے اور کئی تو ایسے ہیں جن کانام بھی آج کوئی نہیں جانتا مگر وہ غریب بکریاں اور اونٹ چرانے واے صحابہ جنہوں نے غربت میں اپنی عمریں گزاردیں آج اُن کانام آتا ہے تو کہے بغیر ایک مسلمان کا دل مطمئن نہیں ہوتا ۔
حضرت ابو ہریرہؓ اپنے متعلق کہتے ہیں کہ مجھے سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا تھا اور جب میں شدتِ ضُعف سے بیہو ش ہو جاتا تھا تو لوگ میرے سر پر جُوتیا ںمارنے لگ جاتے اور سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دَورہ ہو گیا ہے۔۷؎ پھر حضرت ابوہریرہؓ کسی اعلیٰ خاندان میں سے نہ تھے، کوئی دولت مند نہ تھے،کوئی پڑھے لکھے نہ تھے۔ پھر ہمارا بھی ان سے کوئی رشتہ داری کاتعلق نہیں۔ نہ ملک کا تعلق ہے نا خاندان کا تعلق ہے نہ زبان کا تعلق ہے ۔دُنیوی لحاظ سے وہ نہایت ہی ادنیٰ حالت کے تھے مگر آج ہماری یہ حالت ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہے بغیر دل کو چین آتا ہی نہیں۔ حضرت ابو بکررضی اﷲ عنہ کی جو حالت تھی وہ خود ان کے باپ کی شہادت سے ظاہر ہے۔ حضر ت ابو بکررضی اﷲ عنہ کے باپ کانام ابو قحافہ تھا جب حضرت ابو بکر ؓ خلیفہ ہوئے تو اُس وقت ابو قحافہ مکّہ میں تھے ۔کسی شخص نے وہاں جا کر ذکر کیا کہ ابو بکر ؓعرب کا بادشاہ ہو گیا ہے ۔ابو قحافہ مجلس میں بیٹھے تھے کہنے لگے کون سا ابو بکر؟اس نے کہا وہی ابوبکر قریشی۔ وہ کہنے لگے کون سا قریشی؟ اس نے کہا و ہی جو تمہار ا بیٹا ہے اور کون ۔وہ کہنے لگے واہ ابو قحافہ کے بیٹے کو عرب اپنا بادشاہ مان لیں یہ کیسے ہو سکتاہے، تُو بھی عجیب باتیں کرتا ہے ۔غرض ابو قحافہ کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے متعلق یہ مان ہی نہیںسکتے تھے کہ سارا عرب انہیں اپنا بادشاہ تسلیم کرلے گا مگر اسلام کی خدمت اور دین کے لئے قربانیاں کرنے کی وجہ سے آج حضرت ابو بکررضی اﷲ عنہ کو جو عظمت حاصل ہے وہ کیا دُنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل ہے؟آج دنیا کے بادشاہوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جسے اتنی عظمت حاصل ہو جتنی حضرت ابوبکر ؓ کو حاصل ہے بلکہ حضرت ابو بکرؓ تو الگ رہے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی اتنی عظمت حاصل نہیں جتنی مسلمانوں کے نزدیک حضر ت ابوبکرؓکے نوکروں کو حاصل ہے۔بلکہ حق یہ ہے کہ ہمیںحضرت ابوبکرؓ کاکتا بھی بڑی بڑی عزتوں والوں سے اچھا لگتا ہے ۔اس لئے کہ وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے در کا خادم ہو گیا۔ اس لئے کہ اس نے ہمارے رب کے دروازہ پر سجدہ کیا ۔جب اس نے ہمارے رب کے دروازے پر سجدہ کیا اور وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے در کا غلام ہو گیا تو اس کی ہر چیز ہمیںپیاری لگنے لگ گئی اور اب یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اس عظمت کوہمارے دلوں سے محوکر سکے۔حضرت ابو بکررضی اﷲ عنہ تاجر آدمی تھے اور تاجر کو لڑا ئی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔وہ مال و اسباب کی گٹھڑی اُٹھا کر اِردگِردکے دیہات میں چلے جاتے اور اسے فروخت کرتے۔ بیشک حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ دولت مند تھے مگر آپ کا خاندان کوئی بڑا خاندان نہیںتھا صرف ایک عام شریف قریشی خاندان تھا اور کام آپ کا تجارت تھا۔مال و اسباب اِرد گِرد کے گائوں میں لے جاتے اور پھیری کے طور پر بیچ دیتے اور چونکہ آپ ذہین اور ہوشیار تھے اس لئے اُن کی تجارت میں برکت تھی اور وہ کافی روپیہ کما لیتے تھے۔پھر جب اللہ تعالی نے ان کو اسلام نصیب کیا تو اُس تاجر کے دل میں وہ جرأت اور بہادری پیدا ہوگئی جو بڑے بڑے فوجیوں کے دلوں میں بھی نہیں ہوتی ۔
ایک دفعہ صحابہ ؓکی مجلس میں کسی نے کہا کہ ابو بکرؓ لڑنے والے آدمی نہیںتھے۔ خبر نہیںجنگوں میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا۔اس پر ایک صحابی کہنے لگے ہم میں سے سب سے زیادہ بہادر وہ شخص سمجھا جاتا تھا جو جنگ میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔اس لئے کہ دشمن کا سارا حملہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر ہوتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے ان کو مار دیا تو باقی مسلمانوں کی ہمتیں پَست ہو جائیں گی اور ان کو ختم کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں رہے گا اور ہمیشہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پہرے پر حضرت ابوبکرؓ ہی کھڑے ہوتے تھے ۔۸؎
قربانی کایہ حال تھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ ان کے بڑ ے بیٹے نے جو بعد میں مسلمان ہو ئے اور جو بدر یا اُحد کی جنگ میں (مجھے صحیح یاد نہیں )کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے۔ کھانا کھاتے ہوئے باتو ں باتوں میںذکر کیا کہ اباجان اُس جنگ میں جب فلاں جگہ سے آپ گزرے تھے تومیں ایک پتھر کے پیچھے چھُپ کر کھڑا تھا اور مَیں اگر چاہتا تو آپ کو مار دیتا مگر مَیں نے کہا باپ کو تونہیں مارنا ۔حضرت ابو بکر ؓ نے جواب دیا کہ خدا نے تجھے ایمان نصیب کرناتھا اس لئے تو بچ گیا۔ خدا کی قسم اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا ۔۹؎جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہوئے ہیں تو اُس وقت سارا عرب مرتد ہو گیا اور حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ جیسے بہادر انسان بھی اس فتنہ کو دیکھ کر گھبرا گئے ۔ وفات کے قریب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک لشکر رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا اور اسامہ ؓ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا مگر ابھی وہ لشکر روانہ نہیں ہؤا تھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔ آپ کی وفات پر جب قریباََ سارا عرب مرتد ہو گیا تو صحابہ گھبرا گئے اور انہوں نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اُسامہؓ کا لشکر بھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا گیا تو پیچھے صرف بوڑھے ،مرد ،بچے اور عورتیں رہ جائیں گی اور مدینہ کی حفاظت کاکوئی سامان نہیں ہو سکے گا ۔چنانچہ انہوں نے تجویز کی کہ اکابر صحابہ ؓ کا ایک وفد حضرت ابو بکررضی اﷲ عنہ کی خد مت میں جائے اور اُن سے درخواست کرے کہ اس لشکر کو بغاوت کے فرو ہونے تک روک لیں ۔چنانچہ حضرت عمرؓاور اکابر صحابہ ؓ مل کر ایک وفد کی صورت میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے اور اُن سے عرض کیا کہ کچھ عرصہ کے لئے اس لشکر کو روک لیا جائے ۔جب بغاوت فرو ہو جائے تو پھر بیشک اسے بھیج دیا جائے ۔جب حضرت ابوبکرؓ کے پاس یہ وفد پہنچا تو آپ ؓ نے نہایت غصہ سے اس وفد کو یہ جواب دیا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد ابوقحافہ کا بیٹا سب سے پہلا یہ کام کرے کہ جس لشکر کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حُکم دیا تھا اسے روک لے۔(حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی عادت تھی کہ جب وہ اپنی تحقیر کرنا چاہتے تو اپنے باپ کا نام لیتے ۔یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ میری کیا حیثیت ہے کہ میں ایسا کروں۔ اس موقع پر بھی آپ نے اَپنے باپ کا نام لے کر کہا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ابو قحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا اسے وہ روک لے ۔)پھر آپ نے فرمایا گھبرانے کی کوئی بات نہیں اگر سارا عرب باغی ہو گیا ہے تو بیشک ہو جائے ،خدا کی قسم اگر دشمن کی فوج مدینہ میں گھس آئے اور ہمارے سامنے مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو ضرور روانہ کروں گا جس کو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کے لئے تیا ر کیا ہے ۔اگر تم دشمن کی فوجوں سے ڈرتے ہو تو بیشک میرا ساتھ چھوڑ دو میں اکیلا تمام دشمنوں کا مقابلہ کروں گا ۔۱۰؎یہ جرأت اور دلیری حضرت ابو بکر ؓ میں کہاں سے پیدا ہو گئی؟ یہ وہی والے حکم کی تعمیل کا نتیجہ ہے جس طرح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل جاتی ہے تو اس تار میں عظیم الشان طاقت پیدا ہوجاتی ہے اسی طرح جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کا قُرب حاصل کر لیتا ہے تو دُنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔بجلی سے علیحدہ کر لو تو تار کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی مگر اسی تار میں جب بجلی کی رَو آئی ہوئی ہو اور تار کے اوپر سے اتفاقاََ ربڑ اُترا ہؤا ہو تو اگر ایک قوی سے قوی پہلوان بھی اسے چُھوئے گا تو مُردہ چوہے کی طرح گر جائے گا اور اس کی طاقت اسے کوئی نفع نہیں پہنچاسکے گی۔
تو دُنیوی عزتوں کے حصول کے لئے لوگ بڑی بڑی قُر بانیاں کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس موقع پر اسی امر کا ذکر کرتا اور فرماتا ہے کہ ا ے مومنو! جب تم ہمارے پاس آئے ہو تو تمہیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ بغیر کے احکام پر عمل کرنے کے تمہیں کوئی کا میابی حاصل نہیں ہو سکتی ۔ہا ں اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو ،ہمارے احکام کی فرمانبرداری کا عہد کرو اور ہماری عبادت میں لگ جائو تو ہم تمہیں کامیاب کردیں گے مگر دُنیا ان باتوں پر عمل اپنے اوقات کا ضیاع سمجھتی ہے ۔وہ کہتی ہے ہمپانچ وقت کی نمازیں پڑھیں تو کیوں پڑھیں ۔اس سے ہمیں کوئی فائدہ تو نہیں ہوتا یونہی وقت ضائع ہوتا ہے اور اگر ہم پنجوقتہ نمازیں پڑھنے لگیں تو باقی کام کب کریں؟حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانہ کی بات ہے یہاںایک زمیندار آیا ۔اس کو کسی شخص نے کہا تھا کہ قادیان جا کر دیکھو اور مرزاصاحب کی زیارت کرو تب تمہیں وہاں کی قدر و منزلتمعلوم ہوگی ۔مخالفوںکی باتوں پر اعتبار کرنا درست نہیں ۔چنانچہ وہ اس تحریک پر قادیان آیا جب وہ واپس گیا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ سناؤ قادیان گئے تھے تم نے کیا دیکھا؟ وہ کہنے لگا واہ قادیان کی بڑی تعریفیں سُنی تھیں مَیں تو دیکھ آیا ہوں وہ تو آدمیوںکے رہنے کی جگہ ہی نہیں ۔لوگوں نے اُس سے پوچھا آخر بتائو تو سہی ہؤا کیا ؟ کہنے لگا کیا بتاوں، وہ بھی کوئی جگہ ہے۔ جب مَیں وہاں یکّہ پر پہنچا تو نو دس بجے کا وقت تھا۔ مَیں نے چاہا کہ مہمان خانہ میںذرا آرام کریں گے کہ کسی نے کہا چلو جی مولوی صاحب قرآن اور حدیث پڑھا رہے ہیںوہ سُنیں۔مَیں نے کہا اچھا آرام پھر کریں گے۔ جب قادیان آئے ہیں تو قرآن اور حدیث سُن لیں چنانچہ مَیں وہاں گیا وہ مطب میں بیٹھے تھے، بڑی دیر بیماروں کو دیکھتے رہے، پھر اُنہوں نے قرآن پڑھایا، پھر حدیث پڑھائی اور اسی طرح اَوردینی باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ بارہ بج گئے وہاں سے واپس آئے تو مَیں نے کہا چلواب آرام سے حُقّہ پیتے ہیں مگر ابھی حُقّہ تیار ہی کرنے لگا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا چوہدری صاحب کھانا تیا رہے پہلے یہ کھا لیں ۔مَیں نے کہا اچھا کھانا کھا لیں پھر حُقّہ پی لیں گے۔ چنانچہ کھانا کھایا اور حُقّہ تیار کرنا شروع کیا مگر ابھی چِلم سُلگی نہیں تھی کہ ظہر کی اذان ہو گئی اور ایک شخص مجھے کہنے لگا مسجد چلو وہا ں مرزا صاحب آئیں گے ان کی زیارت کرنا ۔چنانچہ مَیں حُقّہ کو وہیں چھوڑ کر مسجد چلا گیا اور نماز پڑھی۔ نمازکے بعد مرزا صاحب وہیں بیٹھ گئے اور دیر تک باتیں کرتے رہے۔جب وہ اُٹھ کر اندر گئے تو مَیں نے کہا چلو اب چل کر حُقّہ پئیں۔ چنانچہ مَیں نے پھر چِلم سُلگائی اور حُقّہ تیار کیا مگر ابھی دو تین کش ہی لگائے تھے کہ عصر کی اذان ہو گئی۔ لوگ مجھے کہنے لگے کہ چلو عصر کی نماز پڑھو۔مَیں حُقّہ کو و ہیں چھوڑ کر عصر کی نماز پڑھنے چلا گیا ۔جب مَیں عصر کی نماز پڑھ چُکا تو مَیں سمجھا کہ اب مَیں جاکر آرام سے حُقّہ پیئوں گا مگر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ لوگ کہنے لگے مولوی صاحب بڑی مسجد میں درس دینے چلے گئے ہیں ،وہاں چلو ۔چنانچہ مَیں اُٹھ کر بڑی مسجد چلا گیا۔ وہاں شام تک درس ہوتا رہا ۔وہاںسے ابھی اُٹھا ہی تھا کہ مغر ب کی اذان ہوگئی۔ چنانچہ مغرب کی نماز پڑھنے چلا گیا۔مغرب کے بعد مرزا صاحب پھر بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگ گئے۔ وہاں سے جب مَیں اُٹھا تو مَیں نے کہااب تو چِلم سُلگا کر آرام سے حُقّہ پیئوںگا مگر ابھی چلم سُلگانے بھی نہیں پایا تھا کہ عشاء کی اذان ہو گئی مَیں عشاء پڑھنے چلا گیا۔ وہاں سے واپس آیا تو کہنے لگے کھانا کھا لو۔ چنانچہ کھانا کھایا اور مَیں نے سمجھا کہ اب تو فراغت ہو ئی مگر کھانا کھا کر مَیں فارغ ہی ہؤا تھا کہ ایک مولوی صاحب کا مہمان خانہ میں ہی درس شروع ہو گیا مَیں وہ سُننے لگ گیا اور سُنتے سُنتے ہی نیند آگئی اور اُٹھ کر سو گیا اور حُقّہ پینے کا موقع نہ مِلا۔ جب صبح آنکھ کھلی تو بستر اُٹھا کر مَیں وہاں سے نکل کھڑا ہؤا اور مَیں نے سمجھ لیا کہ یہ آدمیوں کے رہنے کی جگہ نہیں ۔تو دُنیا کے لوگ جو ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ نماز پڑھنی اور روزے رکھنے،دین کی خدمت کرنا سب وقت کا ضیا ع ہے۔ چنانچہ کئی مسلمان ایسے ہیںجنہوں نے اپنی کتا بوں میں لکھا ہے کہ بھلا آج کل پانچ وقت نماز پڑھ کر بھی کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دُنیا کی کوئی قوم اس رنگ میں ترقی نہیں کر سکتی مگر جس نے خدا تعالیٰ کی مدد سے ترقی کرنی ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پنجوقتہ نمازپڑھے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزے رکھے ،اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدمت دین کرے خواہ دُنیا اسے وقت اور مال کا ضیاع ہی قرار دے۔پس فرماتا ہے تم اپنے رب کی عبادت کرو جب تم یہ باتیں کر لو یعنی جب اللہ تعالیٰ پر توکل کرو ۔جب اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جواَ اپنی گردنوں پر اُٹھا لو، جب تم اس کی شب و روز عبادت کرو تو پھر چوتھا فرض تمہارا یہ ہے کہ تم بنی نوع انسان کی بھلائی کی کوشش کرو ،تم یتیمو ں کی خبر گیری کرو،تم بیواؤںکی نگہداشت کرو، تم مساکین سے شفقت اور رأفت کے ساتھ پیش آو ،تم ہمسائیوں سے نیک سلوک کرو،تم دین اسلا م کو ان لوگوں میں پھیلائو جو اسلامی تعلیم سے نا آشنا ہیں ۔ غرض جس قدر اچھے کام ہیں وہ سب کرو تاکہ تم کا میاب ہو جائو کو تو لوگ کسی حد تک مانتے ہیں مگر باقی جس قدر احکام ہیں ان کو دُنیا اپنی تباہی کی علامت سمجھتی ہے۔وہ کہتے ہیں جو توّکل کرے گا اس کا بیڑا غرق نہیں ہو گا تو اور کس کا ہوگا؟پھر وہ کہتے ہیں جو احکامِ مذہبی پر چلے گا اور دین کی ترقی کے لئے چندہ دے گا وہ غریب نہیں ہو گا تو او ر کیا ہو گا؟ اسی طرح وہ کہتے ہیںجو پانچ وقت نماز پڑھے گا وہ تین چار گھنٹہ ضرور ضائع کردے گا اور جس نے اپنے اوقات کا اتنا بڑا حصہ اس طرح رائیگاں کر دیا وہ دُنیا میں کامیاب کس طرح ہو سکتا ہے؟غرض دُنیا ان تمام باتوںکو تباہی کا مؤجب سمجھتی ہے مگر جن امور کو دُنیا تباہی کا مؤجب سمجھتی ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ وہی تم کرو کیونکہ دُنیوی ترقی اور دینی ترقی میں زمین وآسمان کافرق ہے ۔اِس کے ذرائع اَور ہوتے ہیں اور اُس کے ذرائع اور۔ ہماری جماعت بھی ایک دینی جماعت ہے اور ہماری ترقیات بھی دین سے ہی وابستہ ہیںدُنیوی ذرائع سے نہیں۔
مَیںنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے بارہا سُنا ہے آپ فرمایا کرتے تھے ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں ۔ایک تو وہ ہیں جو میرے دعویٰ کو سمجھ کر اور سوچ کر احمدی ہوئے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ میری بعثت کی کیا غرض ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جس رنگ میں پہلے انبیاء کی جماعتوںنے قُربانیا ں کی ہیں اسی رنگ میں ہمیںبھی قُربانیاںکرنی چاہئیںمگر ایک اَور جماعت ایسی ہے جو صرف حضرت مولوی نور الدین صاحب کی وجہ سے ہمارے سلسلہ میں داخل ہوئی ہے وہ اُن کے استاد تھے، انہیں معزز اور عقلمند سمجھتے تھے ۔انہوںنے کہا جب مولوی صاحب احمدی ہوگئے ہیں تو آئو ہم بھی احمدی ہو جائیں۔ پس اُن کا تعلق ہمارے سلسلہ سے مولوی صاحب کی وجہ سے ہے ۔سلسلہ کی غرض اور میری بعثت کی حکمت اور غایت کو انہوں نے نہیں سمجھا ۔اس کے علاوہ ایک تیسری جماعت بعض نو جوانوں کی ہے جن کے دل میں گو مسلمانوں کا درد تھا مگر قومی طور پر نہ کہ مذہبی طور پر۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا کوئی جتھا ہو ان میں کچھ تنظیم ہو، ان میں انجمنیںقائم ہوں اور مدر سے جاری ہوں مگر چونکہ عام مسلمانوںکا کوئی جتھا بنانا ان کے لئے نا ممکن تھااس لئے جب انہوں نے ہماری طرف ایک جتھا دیکھا تو وہ ہم میں آگئے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ مدر سے قائم کریں اور لوگ ڈگریاں حاصل کریں ۔اسی وجہ سے وہ ہمارے سلسلہ کو ایک انجمن سمجھتے ہیں ،مذہب نہیں سمجھتے ۔تو دُنیا میں ترقیات کے جو ذرائع سمجھے جاتے ہیں وہ بالکل اَور ہیں اور دین میں جو ترقی کے ذرائع سمجھے جاتے ہیں وہ بالکل اَور ہیں ۔انجمنیں اَور طرح ترقی کرتی ہیں اور دین اور طرح۔ دین کی ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اخلاق کی درستگی کی جائے، قُربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کیا جائے ،نمازیں پڑھی جائیں روزے رکھے جائیں، اللہ تعالیٰ پر توکّل پیدا کیا جائے اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا جائے ۔اگر ہم یہ تمام باتیں کریں تو گو دُنیا کی نگاہوںمیں ہم پاگل قرار پائیں گے مگر خداتعالیٰ کی نگاہ میں ہم سے زیادہ عقلمند اورکوئی نہیں ہو گا۔قرآن کریم میں آتاہے کہ مسلمان جب مالی قُربانیاں کرتے تو منافق کہا کرتے کہ یہ مسلمان تو احمق ہیں بس روپیہ برباد کئے چلے جارہے ہیں۔ انہیں کوئی ہوش نہیں کہ اپنے روپیہ کو کسی اچھے کا م پر لگائیں ۔اسی طرح جب وہ اوقات کی قُربانی کرتے توپھر وہ کہتے یہ تو پاگل ہیں، اپنا وقت برباد کر رہے ہیں۔ انہوںنے ترقی خاک کرنی ہے ۔گویا مسلمانوں کو یا وہ احمق قرار دیتے یا ان کانام مجنوں رکھتے۔یہی دو نام اُنہوں نے مسلمانوں کے رکھے ہوئے تھے مگر دیکھو پھر وہی احمق اور مجنوں دُنیا کے عقلمندوں کے استا د قرار پائے۔
پس ہماری جماعت جب تک وہی احمقانہ رویّہ اختیار نہیں کرے گی جس کو کافر اور منافق احمقانہ قرار دیتے تھے اور ہماری جماعت جب تک وہی مجنونانہ رویّہ اختیار نہیں کرے گی جس کو کافر اور منافق مجنونانہ رویّہ قرار دیتے تھے اس وقت تک اسے کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی ۔
اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر جھوٹ بھی بول لیا کرو،اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پردھوکا فریب بھی کر لیا کرو،اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر چالبازی سے بھی کام لیا کرو، اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر غیبت اور چُغلی سے بھی کبھی کبھی فائدہ اُٹھا لیا کرو اور پھر یہ امید رکھو کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو جائے تو یاد رکھو تمہیں ہر گز وہ کامیابی حاصل نہیں ہوگی جس کا وعدہ اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے فرمایا ہے ۔یہ چیزیں دُنیا کی انجمنوں میں بیشک کام آیا کرتی ہیں مگر دین میں ان کی وجہ سے برکت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی *** اُترا کرتی ہے ۔
چند دن ہوئے ہمارے سلسلہ کے ایک آدمی نے کسی موقع پر مجھ سے ایک بات کا ذکر کیاجس سے مَیں یہ سمجھا کہ کسی اَور شخص کو جھوٹ بولنے کے لئے کہا گیا تھا ۔یہ سُن کر میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی کہ پچاس سال آج ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے ہو رہے ہیں اور پچاس سال سے یہ تعلیم ہماری جماعت کے کانوں میں ڈالی جا رہی ہیں کہ جھوٹ نہیں بولنا، جھوٹ نہیں بولنا۔ مگر با وجود اس کے میرے سامنے نہایت صفائی سے کہہ دیا گیاکہ فلاں احمدی سے اتنے جھوٹ کی اُمید کی گئی تھی مگر اس نے اتنا جھوٹ بھی نہ بولا۔مجھے طبعاََ اس پر غصہ آناچاہئے تھااور آیا۔ چنانچہ میں نے کہا احمدیت اور جھوٹ نہایت متضاد چیزیں ہیں ۔تم اس پر الزام لگاتے ہواور کہتے ہو کہ اس نے جھوٹ کیوں نہ بولا ۔حالانکہ میرے نزدیک اس نے بہت بڑی نیکی کا کام کیا کہ باوجود تحریک کے اس نے جھوٹ نہ بولا ۔میرے اس کہنے پر وہ نہایت سادگی سے کہنے لگا اچھا اگر کوئی غیراحمدی جھوٹ بول دے؟ مَیں نے کہا اگر کوئی غیر احمدی ہمارے علم کے بغیر ہزار دفعہ بھی جھوٹ بولتا ہے تو بیشک بول دے لیکن اگر وہ ہمارے اشارہ سے جھوٹ بولتا ہے تو جھوٹ بولنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو *** اُترے گی وہ اُس پر پڑے گی اور ہم پر بھی پڑے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر توکل کوئی آسان نہیں بلکہ بہت بڑا مشکل کام ہے۔ یہ ایک موت ہے جو انسان کو قبول کرنی پڑتی ہے اور جب تک کوئی شخص موت قبو ل کرنے کے لئے تیار نہ ہو اس وقت تک اسے توکل کا مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔جب تک انسان کے لئے سہولت اور آرام کا زمانہ رہتا ہے وہ بڑے بڑے دعوے کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے، جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔مگر جب کسی مصیبت میںمُبتلا ہوتا ہے تو جھوٹ بول لیتا ہے کیونکہ گو وہ مانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بچا سکتا ہے مگر اسے اس بات پر یقین نہیں ہوتا کہ واقع میں اللہ تعالیٰ اسے بچا سکتا ہے ۔وہ صرف ایک بات پر عقیدہ رکھتا ہے ۔اس بارے میں اسے یقین حاصل نہیں ہوتا اور عقیدہ اَور چیز ہے اور یقین اَور چیز ۔ عقیدہ ایک رسمی چیز ہوتا ہے مگر ایمان اور یقین ذاتی فعل ہیں یہ جو ماں باپ سے لوگ دین سیکھتے ہیں، یہ صرف عقیدہ ان سے لیتے ہیں، ایمان ان سے نہیں لیتے۔ایمان ہرانسان کو خود حاصل کر نا پڑتا ہے ۔یہ کوئی جائداد نہیں جو انسان کو اپنے ماں باپ سے ورثہ میں مل جائے۔دولت ورثہ میں مل سکتی ہے،مکان ورثہ میں مل سکتا ہے، جائداد ورثہ میںمل سکتی ہے مگر ایمان ورثہ میں نہیں مل سکتا ۔ایمان ہر انسان کو خود کمانا پڑتا ہے چاہے ہزار پُشت سے کوئی مؤمن خاندان چلاآرہا ہو پھر بھی ہزارویں پُشت میں جو لڑکا ہو گا اس کو خود ایمان کمانا پڑے گاورثہ میں اسے نہیںملے گا ۔ ورثہ میں اسے صرف عقیدہ ملے گا نہ کہ ایمان ۔ایک مسلمان کا بچہ عقیدۃً یہی کہے گا کہ خدا ایک ہے اور محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے سچے رسول ہیں مگر اسے ایمان نہیں کہا جائے گا ۔ایمان اُس میں تبھی پیدا ہو گاجب وہ اللہ تعالیٰ کی آیا ت پر غور کرکے اور اس کے نشانات پر تدبر کرکے یہ کہے گا کہ ہاں واقع میں اللہ ایک اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں ۔
مَیں گیارہ سال کا تھا جب اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے یہ توفیق عطا فرمائی کہ مَیں اپنے عقیدہ کو ایمان سے بدل لوں ۔مغرب کے بعدکاوقت تھا ،مَیں اپنے مکان میں کھڑا تھا کہ یکدم مجھے خیال آیا۔ کیا مَیں اس لئے احمدی ہوںکہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ میرے باپ ہیں یا اس لئے احمدی ہوںکہ احمدیت سچی ہے اور یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے۔ یہ خیال آنے کے بعد مَیں نے فیصلہ کیا کہ مَیں اس بات پر غور کر کے یہاںسے ہٹوں گا اور اگر مجھے پتہ لگ گیا کہ احمدیت سچی نہیں تو مَیں اپنے کمرے میں داخل نہیں ہوں گا بلکہ یہیں صحن سے باہر نکل جائوں گا۔یہ فیصلہ کر کے مَیںنے غور کرنا شروع کیا اور قدرتی طور پر اس کے نتیجہ میں بعض دلائل میرے سامنے آئے جن پر مَیں نے جرح کی۔ کبھی ایک دلیل دوں اور اُسے توڑوں پھر دوسری دلیل دوں اور اسے ردّ کروں پھر تیسری دلیل دوں اور اسے توڑوں۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے یہ سوال میرے سامنے آیا کہ کیا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول تھے ؟اور کیا مَیں ان کو سچا مانتا ہوں کہ میرے ماں باپ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ سچے ہیں؟یا مَیں ان کو اس لئے سچا مانتا ہوں کہ مجھ پر دلائل وبراہین کی رو سے یہ روشن ہو چکا ہے کہ واقع میں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم راستباز رسول ہیں؟جب یہ سوال میرے سامنے آیا تو میرے دل نے کہا کہ اب مَیں اس امر کا بھی فیصلہ کر کے ہٹوںگا۔ اس کے بعد قدرتی طور پر خداتعالیٰ کے متعلق میرے دل میںسوال پیدا ہؤا اور مَیں نے کہا یہ سوال بھی حل طلب ہے کہ آیا مَیں خدا تعالیٰ کو یونہی عقیدہ کے طور پر مانتاہوں یا سچ مچ یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہو چکی ہے کہ دُنیا کا ایک خداہے۔ تب اللہ تعالیٰ کے سوال پر بھی مَیں نے غور کرنا شروع کیا اور میرے دل نے کہا اگر خدا ہے تو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سچے رسول ہیں اور اگر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سچے رسول ہیں اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی سچے ہیں تو پھر احمدیت بھی یقینا سچی ہے اور اگر دُنیا کا کوئی خدا نہیں تو پھر ان میں سے کوئی بھی سچا نہیں اور مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ آج مَیں اس سوال کو حل کر کے رہوں گا اور اگر میرے دل نے یہی فیصلہ کیا کہ کوئی خدا نہیں تو پھر مَیں اپنے گھر میں نہیں رہوں گا بلکہ فوراََ باہر نکل جائوں گا۔
یہ فیصلہ کرکے مَیں نے سوچنا شروع کردیا اور سوچتا چلا گیا ۔اپنی عمر کے لحاظ سے مَیں اس سوال کا کوئی معقول جواب نہ دے سکامگر پھر بھی مَیں غور کرتا چلا گیا۔یہاں تک کہ میر ادماغ تھک گیا۔اُس وقت میں نے آسمان کی طر ف نظر اٹھا ئی ا س دن بادل نہیںتھے۔آسمان کا جَوّنہایت ہی مصفّٰی تھااور ستارے نہایت خوشنمائی کے ساتھ آسمان پر چمک رہے تھے ۔ایک تھکے ہوئے دماغ کے لئے اس سے زیادہ فرحت افزااَور کونسا نظارہ ہو سکتا تھا ۔مَیںنے بھی ان ستاروں کودیکھنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ مَیںانہی ستاروںمیں کھویا گیا۔تھوڑی دیر بعد جب پھر میرے دماغ کو تروتازگی حاصل ہوئی تو مَیں نے اپنے دل میں کہا کیسے اچھے ستارے ہیں مگر ان ستاروں کے بعد کیا ہوگا؟ میرے دماغ نے اس کا یہ جواب دیا کہ ان کے بعد اَور ستارے ہوں گے۔ پھر مَیں نے کہا ان کے بعد کیا ہو گا؟ اس کا جواب بھی مجھے میرے دل نے یہی دیا کہ ان کے بعد اَور ستارے ہوں گے۔ پھر میرے دل نے کہا اچھا تو پھر ان کے بعد کیا ہو گا؟ میرے دماغ نے پھر یہی جواب دیا کہ اُن کے بعد اَور ستارے ہوں گے ۔مَیں نے کہا اچھا تو پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس کا بھی پھر وہی جواب میرے دل اور دماغ نے دیا کہ کچھ اَور ستارے ہوں گے ۔تب میرے دل نے کہا کہ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے اور تیسرے کے بعد چوتھے ستارے ہوں۔ کیا یہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوگا؟اگر ختم ہو گا تو اس کے بعد کیا ہو گا؟یہی وہ سوال ہے جس کے متعلق اکژ لوگ حیران رہتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ہم جو کہتے ہیں کہ خدا غیر محدود ہے اس کے کیا معنی ہیں؟ اور ہم جو کہتے ہیںخدا ابدی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟ آخر کوئی نہ کوئی حَدْ ہونی چاہئے۔یہی سوال میرے دل میں ستاروںکے متعلق پیدا ہؤا اور مَیں نے کہا آخر یہ کہیں ختم بھی ہوتے ہیں یا نہیں اور اگر ہوتے ہیں تو اس کے بعد کیا ہے اور اگر ختم نہیں ہوتے تو یہ کیا سلسلہ ہے جس کا کوئی انتہاء نہیں۔ جب میرا دماغ یہاں تک پہنچا تو مَیںنے کہا خدا کی ہستی کے متعلق محدود اور غیر محدود کا سوال بالکل لغو ہے ۔تم خدا تعالیٰ کو جانے دو، تم ان ستاروںکے متعلق کیا کہو گے۔ میری آنکھوں کے سامنے یہ پڑے ہیں اگر ہم ان کو محدود کہتے ہیں تو محدود وہ ہوتا ہے جس کے بعد دوسری چیز شروع ہو جائے۔پس سوال یہ ہے کہ اگر یہ محدود ہیں تو ان کے بعد کیا ہے؟اور پھر اگر وہ بھی محدود رہے تو ا س کے بعد کیا ہے؟اور اگر کہوکہ یہ غیر محدود ہیں تو اگر ستاروں کی غیر محدودیت کا انسان قائل ہو سکتا ہے تو خدا تعالیٰ کی غیر محدودیت کا کیوں قائل نہیں ہو سکتا ۔تب میرے دل نے کہا کہ ہاں واقع میں خدا موجودہے کیونکہ اس نے قانونِ قدرت میں و ہی اعتراض رکھ دیا ہے جو اس کی ذات پر پیدا ہوتا ہے اور اس نے بتا دیا ہے کہ تم مجھے غیر مرئی چیز سمجھ کر اگر یہ اعتراض کرتے ہو تو پھر وہ چیزیںجو تمہیں نظر آرہی ہیں ان کے متعلق تمہارا کیا جواب ہے؟جبکہ وہی اعتراض جو تم مجھ پر کرتے ہو ان پر بھی عائد ہوتاہے اور تمہارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ۔تم خدا تعالیٰ کے متعلق تو بے تکلّفی سے یہ کہہ دو گے کہ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ وہ غیر محدود ہے؟مگر کیا یہ ستارے غیر محدود نہیں؟ اگر ہیں تو غیر محدود کی تمہیں سمجھ آگئی اور اگر محدود ہیں تو پھر ان کے بعد کیا ہے؟اور اس کے بعد کیا ہے؟ اگر تم سمجھتے ہو کہ فضائے آسمانی میں غیر محدود سیارے اور ستارے ہیں تو خدا تعالیٰ پر سے اعتراض دور ہو گیا اور اگر یہ محدود ہیں تو اس محدود کا مُحدِّدکون ہے؟ اور جب ا س کا مُحدِّد خداہے تو خدا کاوجود ثابت ہوگیا۔تب مَیں نے سمجھا کہ وہ اعتراض ہی غلط ہے جو خدا تعالیٰ کے متعلق کیا جاتا ہے اور مَیں نے یقین کیا کہ وہ موجود ہے اور جب مجھے یہ یقین حاصل ہو گیا کہ وہ موجود ہے تو میں نے کہا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بھی خدا کے رسول ہیں اوریہ نا ممکن ہے کہ ان کی اتباع کئے بغیر کوئی شخص نجات حاصل کر سکے اور جب محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت پر مجھے یقین پیدا ہؤا تو مَیںنے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام بھی سچے ہیں اور یقیناہمارا سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے۔تب اس فیصلہ کے بعد گیارہ ساڑھے گیارہ بجے مَیں اپنے بستر پر لیٹا۔ تو ایمان انسان کو خود حاصل کرنا پڑتا ہے مگر عقیدہ انسان کو ورثہ میں بھی مل جاتا ہے لیکن عقیدہ نفع نہیں دیتا۔ اگر دیتا ہے تو ایمان ہی دیتا ہے ۔یہی وجہ ہے کے جو لوگ اپنے بچوں کے اندر ایمان پیدا نہیں کرتے محض عقائد سکھا دینے پر اکتفا کرتے ہیں ان کی نسلوں میں سے دین آخر مٹ جاتا ہے ۔وہ سمجھتے ہیں چونکہ ان کو یہ رٹا دیا گیا ہے کہ خدا ایک ہے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔ اس لئے دین ان کے اندر داخل ہو گیا۔ حالانکہ یہ عقیدہ ہے جو وہ انہیں سکھاتے ہیں ایمان تب ہی پیدا ہو سکتا ہے جب وہ خود غور کریں اور اپنے طور پر فیصلہ کریں کہ واقع میں یہ باتیں صحیح ہیں ۔کئی لوگ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے اپنی اولاد خدمتِ دین کے لئے وقف کردی ہے ۔مَیں انہیں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ جَزَاکُمُ اﷲ آپ کو اس کا ثواب ہو گیا مگر اپنے آپ کو وقف کرنا بیٹے کا کام ہے باپ کا نہیں ۔ باپ اگر کہہ بھی دے کہ مَیں اپنے بیٹے کی زندگی وقف کرتا ہوں مگر بیٹا یہ کہے کہ مَیں دُنیا کماؤں گا تو ہم ایسے وقف سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیںاور اگر ایسے شخص کو زبردستی دین کے کام پر لگایا بھی جائے گا تو دین میں رخنہ پیدا ہونے کے سوا اَور کیا ہو گا ۔تو اگر کوئی شخص اپنے بچہ کے متعلق یہ کہے کہ مَیں اسے وقف کرتاہوں تو مَیں اسے یہی کہا کرتا ہوں کہ جَزَاکَ اﷲ مگر وقف کا زمانہ اس کا اسی وقت سے شروع ہو گا جب یہ خود جوان ہو کر کہے گا کہ مَیں اپنی زندگی خدمتِ دین کے لئے وقف کرتا ہوں۔ تو ایمان اور ذاتی طور پر کسب کئے ہوئے یقین کے بغیر دُنیا میں کبھی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی ورنہ رسمی طور پر جو باتیں عقائد میں شامل ہوتی ہیںوہ انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا کرتیں ۔
پس ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر ایمان پیدا کرے اور ہمیشہ یہ امر مدِّ نظر رکھے کہ اس نے اپنی اولادوں کے اندر یقین اور وثوق پیدا کرنا ہے ۔مگر مَیں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو عقائد بھی پوری طرح اپنی اولاد کو نہیںسکھاتے اور جب انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ اُن کے عقائدکیا ہیں تو انہوںنے دنیا میں کرنا کیا ہے؟اس میںکوئی شُبہ نہیں کہ عقیدہ خود اپنی ذات میں کوئی بڑی چیز نہیں مگر کم سے کم وہ ایک چھوٹا سہارا ضرور ہے اور ایمان کے حصول کاپہلا زینہ ہے تو دینی معاملات میں ترقیات ان ذرائع کو اختیارکئے بغیر نہیں ہو سکتیں جو اللہ تعالیٰ نے دینی ترقی کے لئے ضروری قرار دیئے ہیںمگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت نے پورے طور پر اس نقطہ کو نہیںسمجھا ۔حالانکہ جب تک ہماری جماعت پورے طور پر اس امر پر قائم نہیں ہو جاتی کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم نے جھوٹ نہیںبولنا ،ہم نے دھوکا اورفریب سے کام نہیں لینا ۔ہم نے کامل طور پر خداتعالیٰ پر توکل کرنا اوراسی کے احکام کی اطاعت اور فرمانبرداری کر نا ہے اس وقت تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی ۔مَیں کئی سال سے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوںمگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت میں بعض لوگ ایسے ہیں جو جھوٹ بولتے یا بلواتے ہیں ۔اگر ہماری جماعت جھوٹ کوہی کلیۃً چھوڑ دے تو یہ ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی تبلیغ ہو کہ دُشمن سے دُشمن بھی ہمارے اخلاق کی فوقیت کو تسلیم کئے بغیر نہ رہے۔اسی طرح فریب، دغا، منافقت یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جو قوم کو لوگوں کی نظروں میں گرا دیتی ہیںلیکن اگر ہم قربانی اور ایثار سے کام لیں اور ہمارے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے ہوں تو یقینا ہماری جماعت کی عظمت تمام لوگوں کے دلوں میں قائم ہو جائے کیونکہ سچی قربانی اور نیک اخلاق ہی ہیں جو کسی قوم کی عظمت کو دُنیا میں قائم کیا کرتے ہیں ۔ورنہ خالی منظم ہونا اور ایک جماعت میں شامل ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ یہ تو دُنیادار انجمنوں میں بھی ہوتا ہے۔ وہ بھی منظم ہوتی ہیں اور وہ بھی ایک جماعتی رنگ اپنے اندر رکھتی ہیں۔
پس روحانی سلسلہ کے قیام کی اصل غرض تنظیم نہیں ہوتی بلکہ اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ اس جماعت کے افراد سلسلہ کی تعلیم کے زیر اثر جھوٹ سے بچیں، فریب سے کام نہ لیں، دغا اور منافرت کو چھوڑ دیں، اﷲ تعالیٰ کی عبادت کریں، اسی پر توکل کریں، اس کے احکام کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں اگریہ باتیںلوگوں میں پیدا نہیں ہوتیں تو محض تنظیم اورنظام اور خلافت پر ایمان انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور نہ اس تنظیم کا وہ روحانی نتیجہ نکل سکتا ہے جو نماز، روزہ اور دوسرے احکامِ شرعیہ کا روحانی نتیجہ ہے۔ روحانی نتیجہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب نظام کو خادم سمجھا جائے۔ دُنیا اور دین میں یہی فرق ہے کہ دُنیا کے لوگ نظام کو اصل چیز قرار دیتے ہیں اور دیندار لوگ نظام کو اصل چیز کے حصول کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ چونکہ دُنیا خالص نظام سے مِل جاتی ہے اس لئے نظام ان کی نظروں میں بہت بھاری ہوتا ہے اور اس کی وقعت ان کے دلوں پر غالب ہوتی ہے لیکن روحانی انعامات محض نظام کی وجہ سے حاصل نہیں ہو سکتے بلکہ ان انعامات کے حصول کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اُن روحانی ہتھیاروں کو استعمال کرے جو خدا تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔
مَیں جماعت کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اب وہ زمانہ آگیا ہے جب اسے اپنی نیند چھوڑ دینی چاہئے اور غفلت اور سُستی کو ترک کر کے پوری ہوشیاری اور بیداری سے کام کرنا چاہئے کیونکہ دُنیا میں پھر تباہی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ لوگ پھر لڑنے کے لئے آمادہ ہو رہے ہیں۔ حکومتیں پھر جنگوں کے میدان میں کُودنے کے لئے تیار ہو رہی ہیں اور ہم جن کے لئے خدا تعالیٰ یہ تمام میدان صاف کر رہا ہے اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کر رہے۔ اگر دُنیا میں اب دوبارہ کوئی جنگ چھڑ گئی تو اس کے نتائج بنی نوع انسان کے لئے نہایت ہی خطرناک ہوں گے۔ تباہی کے سامان جو آج پیدا ہیں پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئے۔ بیشک آج کل بھی بعض جنگیں ہو رہی ہیں اور لوگ ان پر قیاس کرتے ہوئے مطمئن ہیں اور کہتے ہیں کہ ان جنگوں سے تو کوئی زیادہ تباہی نہیں ہوتی لیکن زیادہ تباہی نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ابھی تک حکومتیں اپنے سامانِ حرب کو چھپائے ہوئے ہیں۔ اگر آج وہ اپنے تمام سامانوں کو ظاہر کر دیں تو ان کے دُشمن اس کوشش میں لگ جائیں کہ ان کا کیا علاج ہے۔ مثلاً اگر سپین کی جنگ میں ہی اٹلی اور جرمن والے اپنے تمام ہتھیار ظاہر کر دیتے تو دوسری قومیں یکدم سپین کے معاملہ میں دخل دے دیتیں اور کہتیں کہ اتنا ظلم مت کرو اور ان کے مُوجد اس بات میں مشغول ہو جاتے تاکہ ان ہتھیاروں کے مقابلہ میں انہیں کون سے ہتھیار تیار کرنے چاہئیں اور اس طرح اصل جنگ سے سال دو سال پہلے وہ ان کا توڑ تجویز کر لیتے یا مثلاً فرانسیسیوں نے تباہی کی جو جو چیزیں ایجاد کی ہوئی ہیں اگر وہ معمولی معمولی جنگوں میں ان کو ظاہر کر دیں تو دُشمن ضرور ہوشیار ہو جائے اور وہ ان کا علاج سوچنے میں مشغول ہو جائے یا انگریز اگر ان چھوٹی چھوٹی لڑائیوں پر جو سرحد میں لڑی جاتی ہیں اپنے تمام ہتھیاروں کو ظاہر کر دیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ سب دُنیا کو معلوم ہو جائے کہ انگریزوں نے کون کون سی تباہی برپا کرنے والی چیزیں ایجاد کی ہوئی ہیں اور اس طرح انگریزوں کے دُشمن ان کا علاج سوچنے میں مصروف ہو جائیں۔ پس تباہی کے سامان تو نکلے ہوتے ہیں مگر اس وقت حکومتیں ان سامانوں کو چھپائے ہوئے ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ وہ ان سامانوں کو اسی دن ظاہر کریں جس دن ایک بڑی جنگ شروع ہو جائے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ایسے خطرناک سامان تیار ہو چکے ہیں کہ ان کا خیال کر کے ہی انسان کانپ اُٹھتا ہے۔ ایبے سینیا میں ایک جگہ اٹلی والوں نے ذرا سی اس کی نمائش کی تھی اور مَسٹر ڈگیس (MUSTARD GAS) ایبے سینیا کی فوج پر پھینکی تھی۔ اس وقت اٹلی کی فوج ایبے سینیا کی فوج سے شکست کھا رہی تھی مگر مسٹر ڈگیس پھینک کر انہوں نے جنگ کی کایا پلٹ دی۔ ہمارا ایک احمدی ڈاکٹر ان دنوں وہیں موجود تھا۔ اُس نے وہاں کے چشم دید حالات لکھ کر بھیجے تھے جنہیں پڑھ کر دل رحم سے بھر جاتا تھا۔ جس وقت ایبے سینیا کی فوج غلبہ کے خیال میں مست ہو کر آگے کی طرف بڑھتی چلی جارہی تھی یکدم اٹلی والوں نے مَسٹر ڈگیس پھینکنی شروع کر دی جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ تھوڑی ہی دیر میں وہ لوگ پاگلوں کی طرف ادھر اُدھر بھاگنے لگ گئے۔ خود ایبے سینیا کا بادشاہ بھی پاگلوں کی طرح اِدھراُدھر بھاگتا پھرتا تھا اور اس کا تمام جسم چھالے چھالے ہو گیا۔ مَسٹرڈ گیس ایک نہایت ہی زہریلی گیس ہوتی ہے۔ وَاﷲُ اَعْلَمُ۔ ابھی اور کتنی زہریلی گیسیں ہیں جو ان لوگوں نے تیار کر رکھی ہیں۔ کتابوں میں تو اس گیس کے متعلق مَیں نے پڑھا ہی تھا۔ تھوڑے دن ہوئے ایک دوست نے جنہیں اس گیس کا اچھی طرح علم تھا سُنایا کہ یہ گیس اس قسم کی ہوتی ہے کہ اس کے گرتے وقت یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ گیس گر رہی ہے مگر جسم کے اندر معاً گھس جاتی ہے، تمام بدن پر چھالے پڑ جاتے ہیں، کھانسی ہو جاتی ہے، سینہ میں زخم پڑ جاتے ہیں اور انسان کے اندر آگ بھی لگ جاتی ہے۔ ایک ایک فٹ کی موٹی چھت بھی اگر ہو تو یہ گیس اس کے اندر گھس جاتی ہے اور چھت پھاڑ کر اندر آجاتی ہے اور اس سے بچنے کا سوائے اس کے اور کوئی ذریعہ نہیں کہ انسان اپنے تمام جسم پر ربڑ لپیٹ لے اور چونکہ یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اِس وقت گیس گر رہی ہے یا نہیں اس لئے اس کا علم اُسی وقت ہوتا ہے جب انسان اس گیس کے زہریلے اثر کے نتیجہ میں مرنے لگتا ہے۔ پھر یہ گیس سیّال ہے اُڑتی نہیں۔ اگر کسی کمرے میں پڑی ہو تو بعض دفعہ سال سال پڑی رہتی ہے۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ کمرہ بالکل صاف ہے اور سمجھتا ہے کہ پچھلے سال دُشمن نے اس علاقہ میں یہ گیس پھینکی تھی اب وہ گیس کہاں باقی ہے مگر جونہی وہ اس کمرہ میں داخل ہوتا ہے اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح گڑھوں اور تالابوں میں یہ گیس ایک مدت دراز تک پڑی رہتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس علاقہ میں مَسٹر ڈگیس نہیں مگر اتفاقاً جب اس گڑھے سے کوئی جانور پانی پینے لگتا ہے یا انسان اس میں گھستا ہے تو گیس اس پر اپنا اثر پیدا کر کے اسے پاگل بنا دیتی اور بِالآخر ہلاک کر دیتی ہے۔ غرض یہ ایک نہایت ہی خطرناک گیس ہے۔ اگر یہی گیس ہوائی جہاز سپرے (Spray) کرتے چلے جائیں تو ملکوں کے مُلک وہ اسی ایک گیس سے تباہ کر سکتے ہیں اور کوئی اس کا علاج نہیں کر سکتا۔ گاؤں والے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوں اور ہوائی جہاز ان کے اوپر سے اس گیس کو سپرے کرتے چلے جائیں تو آدمی اور جانور سب کھانس کھانس کر مَر جائیں گے اور ان کے جسم پر آبلے ہی آبلے اُٹھ آئیں گے۔
اسی طرح ایسی شعاعیں ایجاد ہوئی ہیں جن کی مدد سے دور بیٹھے ہی ہوائی جہازوں اور توپوں کو چلایا جاسکتا ہے۔ ایسی شعاعیں ایجاد ہوئی ہیں جن کو پھینک کر دور بیٹھے ہی انسان ہوائی جہازوں کو گرا سکتا ہے۔ ایسے ایسے گولے نکلے ہیں جنہیں اگر ہوائی جہازوں کے ذریعہ شہروں اور دیہات پر گرا دیا جائے اور ان کے کنوؤں میں انہیں پھینک دیا جائے تو یکدم ٹائیفائیڈ اور ہیضہ تمام ملک میں پھیل جائے۔ غرض ایسی ایسی خطرناک تباہی کے سامان ایجاد ہو چکے ہیں کہ جس وقت بڑی قوموں میں لڑائی شروع ہوئی اس وقت لاکھوں بلکہ کروڑوں آدمیوں کا ایک ایک دن میں مَر جانا کوئی بڑی بات نہیں ہو گی بلکہ انہی سامانوں سے اگر کوئی حکومت چاہے تو سارے ہندوستان کا دو تین دن میں صفایا کر سکتی ہے۔ اس قدر خطرناک سامانوں کی موجودگی کیا تعجب ہے کہ ہماری ان دعاؤں کا ہی نتیجہ ہو جو ہم نے گزشتہ سالوں میں اﷲ تعالیٰ کے حضور کیں مگر سوال یہ ہے کہ اس تباہی کے نتیجہ میں اسلام کی شوکت اور عظمت کے جو سامان پیدا ہوں گے ان سے فائدہ اُٹھانے کی ہم کیا کوششیں کر رہے ہیں۔ میرے سامنے اِس وقت دو تین ہزار مرد اور عورت بیٹھے ہیں۔ مرد میرے سامنے ہیں اور عورتیں پردہ کے پیچھے۔ تم میں سے کتنے ہی ہیں جنہیں جب کہا جاتا ہے کہ تبلیغ کرو تو وہ آگے سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ تم مجھے بتاؤ کہ صحابہ ؓ میں سے کتنے تعلیم یافتہ تھے۔ سارے مکّہ میں صرف سات پڑھے لکھے شخص تھے مگر اب جو دین نظر آرہا ہے یہ انہی اَنْ پڑھوں کی کوششوں اور مساعی کا نتیجہ ہے اوروں کو جانے دو ہمارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم خود اَن پڑھ تھے پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ چونکہ ہم اَنْ پڑھ ہیں اس لئے دین کو سمجھنے اور اس کو پھیلانے کی طرف توجہ نہیں کر سکتے۔
پھر مَیں باہر کی جماعتوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ مجھے جواب دیں کہ وہ کیا قربانیاں کر رہے ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں سہارا دینا پڑتا ہے مثلاً چندے کا سوال آئے گا تو ایک دفعہ تو چندہ دیں گے مگر پھر دو تین سال بالکل خاموش رہیں گے اور دو تین سال گزرنے کے بعد ہمارے پاس آکر کہیں گے میری توبہ میری توبہ۔ گزشتہ بقایا مجھے معاف کیا جائے آئندہ مَیں باقاعدہ چندہ دیا کروں گا۔ پھر انہیں بقایا معاف کر دیا جاتا ہے تو ایک دفعہ چندہ دے دیں گے اور پھر تین چار سال تک کچھ نہیں دیں گے اور جب ان پر اسی طرح تین چار سال اور گزر جائیں گے تو پھر ہمارے پاس آجائیں گے اور کہیں گے میری توبہ میری توبہ۔ مَیں بڑا جاہل تھا بڑا بیوقوف تھا، بڑا احمق تھا۔ مَیں نے اتنے عرصہ تک کوئی چندہ نہ دیا۔ اب خدا کے لئے مجھے پچھلا چندہ معاف کیا جائے۔ آئندہ انشاء اﷲ اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہو گی۔ پھر ہم انہیں معاف کرتے ہیں تو وہ پھر غافل اور سُست ہو جاتے ہیں۔ یہی نمازوں کا حال ہے۔ کچھ دن درد سے نمازیں پڑھیں گے مگر پھر ان میں سُستی پیدا ہو جائے گی اور بعض تو بالکل نماز ترک کر بیٹھیں گے اور بعض جو پڑھیں گے وہ چَٹی سمجھ کر پڑھیں گے۔ یہی سچ کا حال ہے۔ خطبہ سُنیں گے تو کہیں گے لو جی اب ہم ہمیشہ سچ بولیں گے اور کبھی جھوٹ کے قریب بھی نہیں جائیں گے چنانچہ اس کے مطابق وہ دو تین دن سچ کا چوغہ پہن کر پھرتے رہیں گے مگر اس کے بعد وہ سچ کا چوغہ اُتار کر بکس میں بند کر کے رکھ دیں گے۔ گویا وہ ڈرتے ہیں کہ یہ اچھا لباس کہیں پہن پہن کر خراب ہی نہ ہو جائے۔
تو دین کے معاملہ میں استقلال جو کامیابی کی ایک بھاری شرط ہے وہ جماعت میں مفقود ہے اِلَّا مَاشَآئَ اﷲُ ۔پھر ایک اور طبقہ ہے جو افیم کھائے ہوئے مریض کی طرح ہے جسے ہر وقت جگانا پڑتا ہے۔ تحریک جدید کا کام عارضی اور مجموعی ہے مگر اس میں بھی سُستی پیدا ہو گئی ہے۔ مَیں نے اس تحریک کے ابتداء میں یہ شرط کر دی تھی کہ اس میں وہی شخص حصّہ لے جو اپنی خوشی اور مرضی سے اس میں شامل ہونا چاہے۔ کسی پر اس کے متعلق جبر نہیں کیا گیا مگر میں دیکھتا ہوں تین سال تو دوستوں کا جوش قائم رہا مگر اب چوتھے سال اس میں بھی کمزوری نظر آرہی ہے۔ حالانکہ اس سال تیسرے سال سے کم چندہ دوستوں کے ذمہ لگایا گیا ہے مگر پھر بھی پچپن ہزار کے قریب روپیہ ابھی وصول ہونا باقی ہے۔ گویا ساٹھ فیصدی چندہ تو وصول ہؤا ہے مگر چالیس فیصدی چندہ ابھی وصول ہونا باقی ہے۔ یہ امر بتا رہا ہے کہ باوجود اس کے کہ لوگوں نے طوعی طور پر اس چندہ میں شرکت کی تھی اور باوجود اس کے کہ ان پر کوئی جبر نہیں کیا گیا پھر بھی وہ ایسے تھے جن کے بدن میں اپنے قول کو پورا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ گویا ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں سوگزواروں دس گز نہ پھاڑوں یعنی جب نام لکھانا پڑے تو اس وقت کہہ دیا کہ میں سَو گز کپڑا قربان کردوں گا مگر جب دینا پڑے تو ایک گز بھی نہیں دیتے حالانکہ تین سال یا سات سال انسانی عمر کے مقابلہ میںچیز ہی کیا ہیں۔ معمولی معمولی بنّوں پر زمیندار آپس میں لڑ پڑتے اور دس دس سال کی قید کاٹ کر آجاتے ہیں۔ پس اگر زمیندار ایک کھیت کی منڈ یر پر دس سال کی قید بخوشی برداشت کر لیتے ہیں اور وہ ان سالوں کو کوئی بڑی بات نہیں سمجھتے تو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے دس سال قربانی کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ بالخصوص جب کہ مَیں نے بار ہا کہہ دیا ہے کہ یہ طوعی قربانی ہے اور اس میں وہی حصّہ لے جو اس کی ادائیگی کا اپنی خوشی سے اقرار کرے۔ یہ کوئی جبری سکیم نہیں کہ ہر شخص کو ہم اس میں حصّہ لینے پر مجبور کریں۔ ہم نے صاف کہہ دیا تھا کہ جس میں اسے برداشت کرنے کی ہمت نہیں وہ مت آئے۔ صرف وہی آگے بڑھے جو اپنی مرضی سے اس میں حصّہ لے مگر افسوس ہے کہ اس میں بھی سُستی آگئی۔ مَیں نے اس کے لئے سیکرٹری بھی مقرر کئے تھے مگر وہ بھی افیمی طرز کے سیکرٹری معلوم ہوتے ہیں کہ سیکرٹری تو بن گئے ہیں مگر کام کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں۔ یہی حال دوسرے کاموں کا ہے۔ حالانکہ اب دُنیا پر ایک ایسا نازک وقت آچُکا ہے کہ دُنیا میں عنقریب بہت بڑا تغیّر ہونے والا ہے۔ تین سال ہوئے مَیں نے کہا تھا کہ دس سال کے اندر دُنیا میں ایک عظیم الشان تغیّر پیدا ہو گا اور ابھی میری اس بات پر صرف تین سال گزرے ہیں کہ اس تغیّر کی علامتیں ظاہر ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ اب اگر دُنیا میں لڑائی شروع ہوئی تو یقینا سمجھ لو کہ اس لڑائی کے بعد کی دُنیا وہ دُنیا نہیں ہو گی جو اب ہے بلکہ بالکل بدلی ہوئی دُنیا ہو گی۔ ہزاروں ایجادیں ممکن ہے دُنیا سے مِٹ جائیں کیونکہ ان ایجادات کے موجد دُنیا سے مٹ جائیں گے۔ ہزاروں کارخانے ممکن ہے دُنیا سے مِٹ جائیں کیونکہ ان کارخانوں کو چلانے والے دُنیا سے مِٹ جائیں گے۔ دُنیا کے سامنے ایک ایسی خطرناک تباہی نظر آرہی ہے جو قیامت کا نمونہ ہو گی نہ انفلوائنزا اس تباہی کا مقابلہ کر سکتا ہے ،نہ طاعون اس تباہی کا مقابلہ کر سکتی ہے، نہ گزشتہ جنگِ عظیم اس تباہی کا مقابلہ کر سکتی ہے کیونکہ طاعون اور انفلوائنزا ایک ایک آدمی کو پکڑتے ہیں مگر اس جنگ کے ذریعہ ایک کو نہیں بلکہ شہروں کے شہروں کو یکدم برباد کیا جاسکتا ہے۔ بالکل ممکن ہے وہ بڑے بڑے شہر جن میں تیس تیس، چالیس چالیس لاکھ کی آبادی ہے، ایک دن آدمیوں سے بھرے ہوئے ہوں مگر دوسرے دن تمہیں یہ اطلاع ملے کہ اس شہر میں ایک آدمی بھی باقی نہیں رہا سب مار دیئے گئے ہیں۔ گویا ملکُ الموت کی حکومت دنیا میں ہونے والی ہے اور خدا اُسے کھلی ڈھیل دینے والا ہے۔ دُنیا کے بعید ترین علاقوں کے لوگ بھی اس تباہی سے محفوظ نہیں۔ تم خیال کرتے ہو کہ ہم ہندوستان کے رہنے والے ان حملوں سے محفوظ ہیں مگر یہ درست نہیں۔ دو دو، تین تین ہزار میل کی پرواز کرنے والے ہوائی جہاز ایجاد ہو چکے ہیں۔ اٹلی اور ایبے سینیا سے ہوائی جہاز آکر پنجاب اور سندھ پر گولہ باری کر سکتے ہیں اور جاپان کے ہوائی جہاز چین کے راستوں سے آکر مدراس ، بنگال اور برما کو تباہ کر سکتے ہیں۔ پس مت سمجھو کہ تم محفوظ جگہوں میں ہو۔ اِس وقت ایسی زبردست تباہی کے سامان پیدا ہو چکے ہیں کہ کسی انسان کی زندگی بھی محفوظ نہیں۔ جب انسانی زندگی کے خون کی اس قدر اَرزانی ہو رہی ہے اور جب زندگی کا کوئی اعتبار ہی نہیں رہا تو کیوں نہ اس زندگی کو خداتعالیٰ کے دین کے لئے خرچ کیا جائے۔ اگر آج تم اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرو گے تو کل والی دُنیا کو خدا تمہارے سپرد کر دے گا لیکن اگر آج تم نے اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کی تو نہ معلوم تمہاری جگہ کل خدا تعالیٰ کس قوم کو کھڑا کر دے گا جو ان سامانوں سے فائدہ اُٹھائے گی جو خداتعالیٰ نے تمہارے لئے پیدا کئے تھے۔ بیشک خدا تعالیٰ کے کام ہو کر رہیں گے اور کوئی نہیں جو انہیں روک سکے مگر کیسا بد قسمت ہے وہ شخص جس کی خدا تعالیٰ دعوت کرے مگر کوئی اور اس کو آکر کھا جائے اور وہ اس سے محروم رہے۔ پس اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور اس کے لئے ایثار اور قربانی کر کےکے مقام پر کھڑے ہو جاؤ اور کا جامہ پہن لو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ مگر یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم اپنی پہلی زندگی پر ایک موت وارد نہ کرو۔ پس اپنے اخلاق میں انتہاء درجہ کی تبدیلی پیدا کرو، اپنے افکار میں انتہاء درجہ کی تبدیلی پیدا کرو، اپنے اموال کی انتہاء درجہ کی قُربانی کرو، اپنے اوقات کی انتہاء درجہ کی قُربانی کرو تب تم یقینا اﷲ تعالیٰ کا قُرب حاصل کر سکو گے۔ باتیں تو مَیں بتا سکتا ہوں مگر عمل کرنا تمہارا کام ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے قرآن سمجھایا ہے اور مَیں وہ تمہیں سُنا دیتا ہوں مگر یہ میرے بس کی بات نہیں کہ مَیں ان باتوں پر تم سے عمل بھی کروالوں۔ یہ خدا نے تمہارے اختیار میں رکھا ہے کہ تم ان باتوں سے فائدہ اُٹھاؤ۔ اگر تم ان باتوں سے فائدہ اُٹھاؤ گے تو خدا تعالیٰ تمہارے لئے ترقیات کے سامان پیدا کر دے گا اور وہ تم پر رحم کرے گا اور اگر تم ان باتوں پر عمل نہیں کرو گے تو باقی دنیا پر اگر ایک جُرم ثابت کیا جائے گا تو تم پر دو جرم ثابت کئے جائیں گے لیکن اس کے مقابلہ میں اگر تم عمل کرو گے تو خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے بھی تم پر دوہرے طور پر کھولے جائیں گے۔ بعد میں جو لوگ آئیں گے انہیں ایک ثواب ملے گا مگر تمہیں دوہرا ثواب ملے گا کیونکہ وہ اس وقت آئیں گے جب دین ترقی کر چکا ہو گا اور تم اِس وقت دین کی خدمت کر رہے ہو جب ہزاروں گالیاں تمہیں دُشمنوں کی طرف سے سُننی پڑتی ہیں۔ پس تمہارے لئے برکتوں کے دروازے بھی کھلے ہیں اور لعنتوں کے دروازے بھی کھلے ہیں ۔ تمہارے سامنے تریاق کا پیالہ بھی پڑا ہے اور تمہارے سامنے زہر کا پیالہ بھی پڑا ہے۔ اگر تم چاہتے ہو تو قُربانیوں کے میدان میں اپنا قدم آگے سے آگے بڑھا کر تریاق کے پیالہ کو پی جاؤ اور ابدی زندگی کے وارث بن جاؤ اور اگر چاہتے ہو تو زہر کا پیالہ پی کر اس کی ابدی *** اور عذاب کے مورد بن جاؤ اور اس کی برکتوں سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاؤ۔ پس یہ تمہارے اپنے اختیار کی بات ہے اس میں نہ مَیں تمہاری مدد کر سکتا ہوں اور نہ کوئی اَور مدد کر سکتا ہے۔ خدا بیشک مدد کر سکتا ہے مگر وہ کرتا نہیں اس کا فیصلہ یہی ہے کہ بندہ خود اپنا راستہ چُنے۔ پھر جس راستہ کو وہ چُن لیتا ہے اس کے مطابق اﷲ تعالیٰ اس سے سلوک کرتا ہے۔‘‘
(الفضل ۲۷؍ستمبر ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الحج : ۷۸، ۷۹
۲؎ ترمذی ابواب صفۃ جھنم باب ماجاء ان … نفسین
۳؎ التوبۃ: ۱۰۰
۴؎ کتاب البریہ صفحہ ۱۷۰ حاشیہ
۵؎ نیا تذکرۃ الاولیاء از رئیس احمد جعفری صفحہ ۳۵
۶؎ دارا: اصل نام دار پوس۔ ایران کا عظیم شہنشاہ اور فاتح ۔ دورِ حکومت ۴۸۶ تا ۵۲۱ ق م۔
۷؎ ترمذی ابواب الزھد باب ماجاء فی اصحاب النبی صلی اﷲ علیہ وسلم و ابواب
شمائل ترمذی باب ماجاء فی عیش النبی صلی اﷲ علیہ وسلم
۸؎ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ ۸
۹؎ مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۴۷۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۱۰؎ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ ۵۱ مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء

۳۲
سچائی اور خلوص سے شُہرتِ دوام اور کامیابی حاصل ہوتی ہے
(فرمودہ ۲۳؍ستمبر۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’ایک مسلمان دن میں چالیس پچاس مرتبہ ۱؎ کہتا ہے۔
جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ابھی مجھے سیدھے رستہ کی ضرورت ہے اے خدا! تُو مجھے سیدھا رستہ دکھا یعنی وُہ اقرار کرتا ہے اور اظہار کرتاہے اور اصرار سے اظہار کرتا اور بار بار اقرار کرتا ہے کہ اسے سیدھے رستہ سے محبت ہے، وُہ سیدھا رستہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر وہ اسے مل جائے تو اسے قبول کرے گا۔یہ کتنی پاکیزہ اور اعلیٰ درجہ کی خواہش ہے اگر یہ سچی ہو۔دنیاکی ساری خوبیاں اور بھلائیاں اور اچھائیاں اس کے اندر آجاتی ہیںاور اس میں کیا شُبہ ہے کہ جو شخص سچے دل کے ساتھ یہ خواہش رکھتا ہے وہ دنیا میں چلتا پھرتا جنتی اور ولی اللہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ سچی خواہش رکھتا ہے یا نہیں۔ کونسا شخص دنیا میں ہے اور کس مذہب کا ہے کہ جو اس قسم کی سچی خواہش کو سن کر متاثر نہ ہوگا۔ مسلمانوںکو جانے دو یہ فقرہ کسی ہندو، سِکھ، عیسائی، یہودی کے سامنے رکھ دو کہ ایک شخص دن رات اس خواہش میں تڑپ رہا ہے اور دعائیں کرتا ہے کہ اے خدا! مجھے سیدھا رستہ دکھا اور وہ اس سیدھے راستہ پر چلنا چاہتا ہے تو پھر بغیر اس بات کا انتظارکئے کہ اسے یہ رستہ مل گیا ہے یا نہیں ہر ایک یہی کہے گا کہ وہ شخص بڑا نیک اور بڑابزرگ ہے۔
تو اس قسم کی مجرد خواہش ہی اعلیٰ چیز سمجھی جاتی ہے کُجا یہ کہ وہ پوری بھی ہو جائے۔تڑپ اور جوش اپنی ذات میں ہی نیکی ہوتے ہیں۔محبوب اپنے محب کی بات سنے یا نہ سنے،مطلوب ملے یا نہ ملے،طالب کے دل میں اسے پانے کی تڑپ کا موجودہونا اپنی ذات میں بہت اعلیٰ اور مبارک بات ہے۔
جس طرح دنیا میں بڑے بڑے کامیاب آدمی مشہور ہوتے ہیںہزاروں سال ان کا نام دنیا میں چلتا ہے اسی طرح سچی تڑپ رکھنے والے ناکام بھی مشہور ہوتے ہیں ۔سکندر دنیا میں مشہور ہے اس نے معلومہ دنیا کا بیشتر حصہ فتح کر لیا تھا ہزارہا سال گزر چکے ہیں ۔دو ہزار سے زیادہ لیکن آج تک اس کا نام دلوں سے محو نہیں ہؤا۔ رستم ایک پہلوان تھا بادشاہ نہ تھا مگر کامیاب زندگی بسر کرنے اور دشمنوں کو مغلوب کرنے کی وجہ سے جو لوگ اس کی حقیقت سے قطعاًواقف نہیں وہ بھی اس کا نام لیتے ہیں ۔جب کوئی بڑے دعوے کرے تو کہتے ہیں بڑارستم آیا ہے حالانکہ کہنے والے کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ رستم کون تھا اور کہاں کا رہنے والا تھا۔حاتم نیک کاموں کی وجہ سے اتنا مشہور ہے کہ مخلوق میں سے ایک بڑے حصہ کی زبان پر اس کا نام ہے کوئی بڑا سخی ہو تو کہتے ہیںیہ تو حاتمِ زماں ہے اور اگر کوئی تھوڑی سی سخاوت کے بعد بڑے بڑے دعوے کرنے لگے اور اس پر فخر کرے تو کہتے ہیں کہ اس نے حاتم کی قبر پر لات ماری ہے۔ تو یہ لوگ کامیاب تھے اور اپنے اپنے خاص فن یعنی کوئی بہادری، کوئی سخاوت اور کوئی فتوحات میں نمایاں تھے اور اس وجہ سے مشہور ہیں مگر جس طرح یہ مشہور ہیں اسی طرح بعض ناکام بھی مشہور ہیں۔جس طرح دنیا رستم ،سکندر اور حاتم کا نام لیتی ہے اسی طرح بلکہ شاید اس سے زیادہ مجنوں کا نام لیتی ہے گو وہ کامیاب نہیں تھا۔وہ ایک عورت کی وجہ سے دیوانہ ہؤااور اسی وجہ سے مجنوں کہلایا۔اس کا نام قیس تھا اس نے ایک عورت کی خواہش کی مگر اسے حاصل کئے بغیر ہی مر گیا اور اپنی معشوقہ سے شادی کا موقع اسے نہ مل سکا مگردنیا میں جس طرح سکندر کا نام مشہور ہے اسی طرح قیس کا ہے بلکہ ہندوستان میں سکندر کا نام جاننے والے کم اور قیس کا عرف جاننے والے زیادہ ملیں گے۔اپنے صوبہ میں دیکھ لو کتنے لو گ سکندر کا نام جانتے ہیں اورکتنے رانجھا کا حالانکہ وہ کامیاب نہ تھا۔اس کی کہانی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ وہ ناکام تھا مگر باوجود اس ناکامی کے اس کا نام آج تک قائم ہے۔یہی حال فرہاد کاہے اس کا نام غیرتعلیم یافتہ لوگوں میں زیادہ مشہور نہیں مگر تعلیم یافتہ طبقہ میں وہ ایسا ہی مشہور ہے جیسا سکندر،رستم یا مجنوں ۔حالانکہ وہ بھی ناکام تھا۔ ان لوگوں کے نام کامیاب لوگوں کی طرح کیوں مشہور ہیں اسی لئے کہ انہوں نے اپنے دل میں سچی تڑپ پیدا کی گو اسے پورا کرنے کے قابل نہ ہوسکے مگر انہوں نے اپنی تڑپ کو نہ چھوڑا۔تو استقلال کے ساتھ مقصود کی طلب میں لگے رہنا اپنی ذات میں کامیابی ہے اور ایسی ہی کامیابی ہے جیسے فتوحات حاصل کرنا ۔اگر یہ بڑی چیز نہ ہوتی تو کامیاب لوگوں کے ساتھ ان ناکاموں کے نام مشہور نہ ہوتے مگر بنی نوع انسان کایہ فیصلہ ہے اور متفقہ فیصلہ کہ جس مقام پر کامیاب لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے اسی پر سچی تڑپ رکھنے والے ناکام بھی بٹھائے جاتے ہیںاور صحیح فیصلہ وہی ہوتا ہے جو لوگ کرتے ہیں، اپنے متعلق اپنا فیصلہ صحیح نہیں سمجھا جاتا۔ ہر ڈاکٹر یہی سمجھتا ہے کہ وہ بڑا قابل ہے، ہر وکیل یہی خیال کرتا ہے کہ وہ بہت لائق ہے لیکن دراصل بڑا ڈاکٹر اور بڑا وکیل وہی ہوتا ہے جس کے متعلق لوگ فیصلہ کریں کہ وہ بڑا ہے۔ عوام قانون نہیں جانتے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر ایسی حِسّ رکھی ہے کہ وہ اچھی چیز کے متعلق فیصلہ کرسکتے ہیں ناکام وکیل شور مچاتے ہی رہتے ہیںکہ فلاں وکیل کچھ نہیں جانتا یونہی مشہور ہوگیا ہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ کیوں مشہور ہوگیا ہے ۔
پبلک اپنے فیصلوں میں غلطی نہیں کرتی ۔ہمارے سامنے آکر ایک شخص کام شروع کرتا ہے اور دیکھتے دیکھتے وہ آگے بڑھ جاتا ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ وہ لائق ہے۔ کامیاب ڈاکٹروں کے متعلق کوئی طبی مجلس فیصلہ نہیں کیا کرتی کہ فلاں قابل ہے اور فلاں ناقابل بلکہ جاہل عوام ہی کیا کرتے ہیں۔ ناکام شور مچاتے رہتے ہیںکہ اس کے نسخہ میں تو صرف فلاں دوائی ہوتی ہے وہ جس پر ہاتھ ڈالتا ہے وہی مر جاتا ہے مگر پبلک ہے کہ اس کی طرف چلی جارہی ہے وہ اپنی فیس پانچ سے دس ،دس سے سولہ،سولہ سے بتیس اور بتیس سے چونسٹھ کر دیتا ہے، اِدھر ملک غریب اور کنگال ہے مگر لوگ قرضہ لیںیا کچھ کریں بیماری کے وقت کسی نہ کسی طرح چونسٹھ روپے مہّیا کر کے اس کے پاس پہنچ جائیں گے۔
بسااوقات وہ توجہ نہیں کرے گا کہہ دے گا مجھے فرصت نہیں مگر لوگ اسی کے پیچھے چلے جارہے ہوں گے جہاں دوسرا اپنی قابلیت پر فخر کرنے والا ڈاکٹر سارا دن بیٹھا مکھیاں مارتا ہے وہ جسے بدنام کیا جاتا ہے انتہا درجہ مشغول رہتا ہے۔ میرااپنا تجربہ ہے۔۱۹۱۸ء میں جب میں بیمار ہؤا تو ڈاکٹر وں کی رائے تھی کہ ڈاکٹر سدر لینڈ سے مشورہ کیا جائے۔میں نے انہیں مشورہ کے لئے وقت دینے کے لئے لکھوایا تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے فرصت نہیںاور پندرہ دن یا شاید بیس دن کے بعد کہا کہ دیکھ سکوں گا ۔چنانچہ ہم اتنے ہی دن کے بعد گئے تو انہوں نے معذرت کی اور نوٹ بک نکال کر دکھائی اور بتایا کہ میں روزانہ ہی مریض دیکھتا ہوںاور آج تک کے نام پہلے ہی مقرر تھے۔
لیکن لاہور میں دوسرے ڈاکٹروں کی عام طور پر یہی رائے تھی کہ وہ B. Coli ۲؎کے سِوا کچھ جانتا ہی نہیں وہ اس کے خلاف شور مچاتے تھے مگر لوگ پھر اس کے پاس پہنچتے تھے حالانکہ وہ دیکھنے سے انکار کرتا تھا اور ظاہر ہے کہ جس وکیل یا ڈاکٹر کے پاس لوگ جائیںگے کمائی بھی وہی کرے گا اور عزت وشہر ت بھی اسے ہی حاصل ہوگی اور دوسرا اسے بدنام کرنے والا صرف کُڑھتا اور دل میں جَلتا رہے گا۔ تو پبلک جس کے متعلق فیصلہ کرے کہ وہ اچھا ہے اسے ہی روپیہ اور شہرت اور عزت حاصل ہوتی ہے۔ پبلک کے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھ دیا ہے کہ وہ محسوس کر لیتی ہے کہ قابلیت کس کے پاس ہے اور اس لئے اس کا فیصلہ قابلِ قدر ہوتاہے بشرطیکہ اس کا فیصلہ ورثہ میں نہ ملا ہو بلکہ اس نے خود تجربہ کے بعد حاصل کیا ہو اور پبلک کا فیصلہ یہی ہے کہ جو عزت وہ کامیاب وجودوں کو دیتی ہے وہی ایسے ناکام وجودوں کو دیتی ہے جو استقلال کے ساتھ اپنے مقصود کے پیچھے پڑے رہے۔ پبلک نے جس مقام پر سکندر اوررستم کو بٹھایاہے اسی پر مجنوں ،فرہاد اور پنجاب میں رانجھے کو بٹھایاہے۔ یہ پبلک کا فیصلہ بتاتا ہے کہ انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ اس کے نزدیک استقلال کے ساتھ کسی چیز کے پیچھے چلے جانا بڑی خوبی ہے۔
تو جو شخص دن میں چالیس پچاس مرتبہ عاجزانہ طور پر یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! مجھے سیدھا راستہ دکھا اور کہتا چلا جاتا ہے حتّٰی کہ اسے موت آجاتی ہے تواگر وہ یہ دعا اسی اخلاص سے کرتا ہے جس طرح قیس نے لیلیٰ کے حصول کے لئے کوشش کی، اسی محبت سے اللہ تعالیٰ کی یا د کرتا ہے جس طرح فرہاد شیریں کو کرتا تھا، اسی خلوص کے ساتھ اپنے اندر تڑپ پیداکرتا ہے جو ہیر کے لئے رانجھا کے دل میں تھی تو گو وہ ناکام ہی رہے ۔اگرچہ الٰہی محبت کے رستہ میں انسان ناکام نہیں رہا کرتا لیکن فرض کرلو وہ کامیاب نہ ہو تو بھی اسی شُہرت کا مستحق ہوگا جو سکندر کو حاصل ہے، رستم اور حاتم کو حاصل ہے۔مگرسوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہزاروں لوگ روزانہ یہ دعا مانگتے ہیں انہیں شہرتِ دوام کیوں حاصل نہیں ہوتی ۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں ہیں کہ جو دن رات یہی رٹ لگاتے ہیں مگر ان میں سے کسی کو بھی شُہرتِ دوام کامقام حاصل نہیں ہؤا ۔بڑے بڑے لوگوں کو تو جانے دو ان کو رانجھے والا مقام بھی حاصل نہیں جو صرف پنجاب کا ہیروتھا۔ اب غور کرو کہ کیوں ایسا نہیں ہوتا،دنیا کیوں فیصلہ نہیں کرتی کہ یہ شخص بھی فرہاد اور رانجھے کے مقام پر ہے۔کیا پہلوں نے دنیا کو کوئی رشوت دی ہوئی تھی کہ ان کا نام تو مشہور ہوگیااور ان کانہیں ہوتا۔ان کے واقعات سن کر لوگ رونے لگ جاتے ہیں ۔اچھے اچھے ثقہ آدمی وہ شعر گنگناتے ہیں جن میں ان کے حالات بیان ہیں مگر یہ ان کے دروازہ پر بیٹھا ہؤا انسان جو دن رات کہہ رہا ہے اور وہی نقل کر رہا ہے جو قیس ،فرہاداور رانجھے نے کی تھی مگر لوگ اُنہیں تو یاد کرتے ہیںلیکن اس کا نام کوئی نہیں لیتا اور پھر کوئی یہ بھی نہیں کہتا کہ میاں تم قیس کو تو یاد کرتے ہو فرہاد کی قدر کرتے ہو مگر یہ کیا اُن سے کم ہے کہ جو دن میں چالیس پچاس مرتبہ ، کہتا رہتا ہے۔ تم پرانے قیس ،فرہاد اور رانجھے کو یاد کرتے ہواور اس نئے قیس ،فرہاد او ر رانجھے کا ذکر تک نہیں کرتے حالانکہ وہ تو عورتوں کے عاشق تھے مگر یہ خدا کا عاشق ہے ۔
تم میں سے ہر ایک شخص اپنے نقس کو ٹٹولے کہ وہ اس کا کیا جواب دے گا ۔وہ یہی کہے گا کہ ایک چھوٹا ساہیرا شیشے کے بہت بڑے ٹکڑے سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ بے شک یہ شخص کہتا ہے کہ میں عاشق ہوں مگر اس کے چہرے پر عشق کے وہ آثار نظر نہیں آتے جو قیس اور رانجھا میں دکھائی دیتے ہیں۔میں کیا کروں میرے اندر جو دماغی قابلیتیں ہیں جب قیس کے واقعات سامنے آئیں تو ان سے آواز آتی ہے کہ یہ سچا ہے جب فرہاد کا ذکر آئے تو آواز آتی ہے کہ وہ سچا ہے، خوا ہ وہ عورتوں کے عاشق تھے مگر عشق میں سچے تھے مگر جب خداکے اس عاشق کا ذکر ہو تو میرے دل میں اس کے لئے کوئی عزت پیدا نہیں ہوتی ۔اگر واقع میں یہ خدا تعالیٰ کا عاشق ہوتا تو دنیا کو اس سے متاثر ہونے میں کیونکر انکار ہو سکتا تھا۔لیلیٰ سے ہماری کوئی رشتہ داری نہ تھی، شیریں سے کوئی واسطہ نہ تھا پھر کیا وجہ ہے کہ قیس اور فرہاد کے حالات پڑھ کر تو دل پر اثر ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ تو ہمارا ہے مگر اپنے اس خدا سے محبت کرنے والے کے متعلق ہمارے دلوں میں کوئی ٹیس نہیں اُٹھتی اسی وجہ سے کہ اس کی محبت بناوٹی ہے اور حقیقت کے سامنے بناوٹ ٹھہر نہیں سکتی۔شیشہ خواہ کتنا بڑا ہو چھوٹے سے چھوٹا ہیرا جو قلم کی نوک پر لگا ہو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے لیکن سچے دل سے کہنے والا فرض کر لو ناکام بھی رہے تو بھی وہ بڑی بھاری چیز ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ ہم دیکھیں گے کہ جو سچائی اسے ملی ہوئی ہے اس سے اس نے کیا فائدہ اٹھایا ہے۔آخر کوئی نہ کوئی سچائی خدا تعالیٰ نے اسے بتائی بھی تو ہوتی ہے ۔جب ہم خدا تعالیٰ سے یہ کہتے ہیں کہ تو کیا اس وقت تک ہمیںکسی سچائی کا پتہ بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ تو دیکھنا یہ ہوگا کہ اس دعا کے مانگنے والے کے پاس جو سچائی ہے اس سے اس نے کیا فائدہ اٹھایا ہے کہ اور مانگنے کا مستحق ٹھہر سکے۔جو شخص پہلی عطا کردہ سچائی سے تو فائدہ نہیں اٹھاتا اور مزید مانگتا رہتا ہے اس کی مثال اس بچہ کی سی ہے جس کی جھولی میں پھل پڑے ہیں اور انہیں وہ کھا نہیں سکتا مگر اور مانگتا جاتا ہے۔ اس کا پیٹ تو اتنا چھوٹا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسے بھی نہیں کھاسکتا لیکن حرص کی وجہ سے اس کا مطالبہ بڑھتا جاتا ہے مگر کیا یہ کبھی ہؤا ہے کہ بچہ اس طرح مانگتا جائے اور ماں تھالیاں اس کے سامنے رکھتی جائے۔ وہ اسے اور نہیںدیتی وہ جانتی ہے کہ اس کی خواہش جھوٹی ہے ورنہ جو کچھ اسے دیا جاچکا ہے پہلے اسے کیوں نہیں کھاتا۔ اسی طرح سوال یہ ہے کہ جو شخص کہتا ہے اس کے پاس پہلے سے کوئی صداقت موجود ہے یا نہیں؟ کیااسے معلوم نہیں کہ سب مذاہب نے سچ بولنے کا حکم دیا ہے پھر کیا وہ سچ بولتا ہے اگر نہیں تو اس کا اور مانگنا فضول ہے، اَور تو اسے ملتا ہے جو پہلی چیز کو ختم کرے، جو پہلی نعمت کو استعمال کرے خدا تعالیٰ اسے اور دیتا ہے لیکن جس کی یہ حالت ہو کہ جو کچھ اسے ملے اس کو تو پیچھے پھینک دیتااور اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا لیکن اور مانگتا جاتا ہے۔تو وہ نادان بچہ کی طرح ہے جسے یاتو بہلا دیا جائیگا اور یا اگر وہ زیادہ شورکرے گا تو ماںایک تھپڑ اس کے لگا دے گی ۔بیمار، جاہل او ر ضدی بچے ہمیشہ ایسا کرتے ہیں چیز مانگتے ہیں اور اسے پھینک کر اور مانگنے لگتے ہیں۔ایسا بچہ اگر تو بیمار ہو تو ماں اسے بہلاتی ہے اور اگر ضدی ہو تو تھپڑ رسید کر دیتی ہے۔ اسی طرح جو شخص پہلی سچائیوں پر عمل کئے بغیرکہے جاتا ہے وہ اگر تو بیمار ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بہلا دیگا لیکن اگر بیمار نہیں تو بجائے صراطِ مستقیم کے اسے تھپڑ بھیجے گااور کہے گا کہ نالائق تجھے اتنی چیزیں میں نے دے رکھی ہیں ان کو تو استعمال کرتا نہیں اور مزید مانگتا جاتا ہے۔ مگر جو پہلی ملی ہوئی سچائی سے فائدہ اٹھا کر اور مانگتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئی سچائی بھیجی جاتی ہے جس طرح ہمارا خدا غیر محدود ہے اسی طرح صراطِ مستقیم غیرمحدود ہے اور خداتعالیٰ کا وصال غیر محدود ہے جو شخص کسی بھی مقام پرپہنچ کر یہ کہتا ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ کو ایسا پالیا کہ اب آگے قدم اٹھانے کی کوئی گنجائش نہیں وہ جھوٹا ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اَنَا سَیِّدُوُلْدِاٰدَمَ۳؎ یعنی میں سب انسانوں کا سردار ہوں ۔آپ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۴؎یعنی وہ خدا تعالیٰ کے قریب ہؤا ۔اور اس نے انتہائی قُرب کو پالیا ۔اور پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۔۵؎کہ اے رسول! تو ان لوگو ں سے کہہ دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میرے غلام بن جائو خدا تعالیٰ کے محبوب بن جائو گے۔ اس انسان کو اللہ تعالیٰ یہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ ۶؎کی دعا مانگا کرو ۔یعنی اے اللہ! مجھے اپنا قُرب اور عرفان اَور زیادہ بخش،تو انتہائی مقام پر پہنچے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ یہ حکم دیتا ہے کہ کسی بھی مقام پر پہنچ کر یہ مت سمجھو کہ سب کچھ مل گیا بلکہ کہو اور یہ دعا کرتے رہو کہ اے خدا! مجھے علمِ دین اور عرفان میں اور بڑھا اور جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے بھی ترقی کی گنجائش باقی ہے تو اور کون ایسا انسان ہے جس کے لئے کوئی مقام بھی باقی نہ رہا ہو۔ ہر انسان کے لئے خواہ وہ کسی مقام پر ہو مزید مانگنے کی گنجائش باقی رہتی ہے اور جب تک انسان اس بات کو نہیں سمجھتا کہ خدا تعالیٰ کے قُرب کے لئے کوئی انتہا نہیں تب تک وہ نیکی کے مقام کو نہیںپاسکتا جس نے یہ گمان کیا کہ خدا تعالیٰ سے ملنے کی کوئی حَد ہے وہ یاتو پاگل ہے یا خدا تعالیٰ کا منکر ہے۔
ایک دفعہ اسی مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد ایک صاحب نے جو باہر سے آئے ہوئے تھے مجھ سے بات کرنے کی خواہش کی میں بیٹھ گیا تو انہوں نے سوال کیا کہ جب کوئی شخص کسی دوست سے ملنے جائے تو اس کے پاس پہنچ کر اسے گھوڑے سے اُتر جانا چاہئے یا سوارہی رہنا چاہئے یا اگر وہ دریا میں جارہا ہو تو دوست کو کنارہ پر پا کر کشتی سے اتر پڑے یا اسی میں بیٹھا رہے۔میں ان کا مطلب سمجھ گیا اور مجھے پتہ لگ گیا کہ یہ ابا حتی آدمی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز، روزہ وغیرہ عبادتیں سواری ہیں خداتعالیٰ تک پہنچانے کی اور جب وہ مل جائے تو پھر ان کی کیا ضرورت ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہم لوگ جب نمازیںپڑھتے اور دعائیں مانگتے جاتے ہیں تو کیا خداتعالیٰ کبھی ملتا ہی نہیں؟ اگر نہیں ملتا تو ان عبادتوں کا کیا فائدہ۔ اور اگر ان کے نتیجہ میں وہ مل جاتا ہے تو پھر ان کی کیا ضرورت باقی رہ سکتی ہے یہی وہ چیز ہے جس کا نام ان لوگوں نے طریقت رکھا ہؤا ہے۔خیر مَیں اس کا مطلب سمجھ گیا اور میں نے جواب دیا اگر تو دریا محدود ہے تو کنارہ آنے پر کشتی سے اتر جانا چاہئے لیکن اگر دریا غیر محدود ہے تو جس وقت اُترا اسی وقت ڈوبا اس کی نجات کشتی میں ہی ہے اس پر وہ خاموش ہو گیا اور کہنے لگا کہ اچھا یہ بات ہے۔ میں نے کہاہاں یہی ہے میں نے اسے بتایا کہ ہم خدا تعالیٰ کو غیر محدود مانتے ہیں اور اس لئے اس کا وصال بھی غیر محدود ہے دریا میں چلنے والا پہلے قدم میں اور جگہ ہوتا ہے، دوسرے قدم میں اورجگہ ہوتا ہے۔تیسرے پر اَور جگہ اور چوتھے پر اَور جگہ ۔ اگر اس کا مقصد دریا ہی کی سیر ہے تو وہ شروع سے آخر تک دریا کی سیر میں مشغول رہے گواس کا ہر دوسرا لمحہ پہلے سے مختلف ہے لیکن بڑھتا ہی چلا جائے تو آخر دریا ختم ہوجائے گا لیکن اگر دریا کا پاٹ غیر محدود ہے تو گو کشتی میں بیٹھنے کے ساتھ ہی دریا کی سیر شروع ہو جائے گی مگر وہ ختم کبھی نہ ہوگی اور اترنے کا وقت کبھی نہ آئے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت میں ترقی کرنیوالا بھی آگے ہی بڑھتا جاتا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی غیرمحدود ہے اُس کا وصال بھی غیر محدود ہے جو شخص دریا میں ایک فٹ بڑھا ہو اس کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ دریا میں ہے اور جو وسط میں ہو اس کے متعلق بھی، اسی طرح جو وصالِ الٰہی کی پہلی منزل پر ہی ہے اسے وصال تو حاصل ہے لیکن اگر وہ اس پر مطمئن ہو کر بیٹھ گیا ہے تو وہ عاشق نہیں کہلا سکتا ۔عاشق وہی ہے جو لیتا جائے اور مانگتا جائے۔اور جو اسے ملے اسے دل میں جگہ دے اور اس سے فائدہ اٹھائے اور پھر اور مانگتا چلا جائے۔عشقِ الٰہی کی یہی پَرکھ ہے کہ پہلی حاصل کردہ چیز کو اپنے دل میں جگہ دے اور پھر زائد کی درخواست کرے۔ جو شخص پہلی حاصل شدہ سچائی کو اپنے دل میں محبت سے جگہ دیتا ہے اس کا حق ہے کہ اس کے بعد اور ہدایت کی درخواست کرے حتّٰی کہ ہر روز مانگتا جائے۔بلکہ ہر لمحہ مانگتا جائے۔ایسا شخص اس زیادہ طلبی کی وجہ سے روز بروز خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا جائے گا لیکن اگر پہلی کو پھینک کر اور مانگتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے تھپڑ رسید کیا جائے گا اور خدا تعالیٰ کہے گا کہ نالائق پہلے جو کچھ تجھے دیا گیا ہے اسے تو استعمال کرتا نہیں اور اَور مانگتا ہے۔
پس مؤمن کا فرض ہے کہ وہ دیکھے پہلی سچائی جو اسے ملی ہوئی ہے اسے وہ استعمال کر رہا ہے یا نہیں۔ میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ ایک ادنیٰ نیکی سچ بولنا ہے مگر تم میں سے کتنے ہیں کہ جنہوں نے اس کو اختیار کیا ہؤا ہے اور جو اسے بھی اختیار نہیں کرتے اورکہتے رہتے ہیں ۔کیا ان کی مثال اس بچہ کی نہیں جو پہلی حاصل شدہ چیز کو تو پھینک دیتا ہے مگر اور مانگنے لگ جاتا ہے وہ اس نیکی کو تو چھوڑتا ہے اور خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ مجھے اور دے۔میں نے کئی بار بتایا ہے کہ سچ بولنا چھوٹی سے چھوٹی نیکی ہے اور اگر ہماری جماعت اسے ہی اختیار کرلے حتّٰی کہ دنیا میں ہر شخص یہ اقرار کرے کہ یہ جماعت سچی ہے اور کوئی احمدی جھوٹ نہیںبول سکتا تو ہمارا یہ ایک عمل ہی دوسرے ہزاروں عیوب کی پردہ پوشی کر سکتا ہے مگر افسوس ہے کہ جماعت نے ابھی یہ بھی تو حاصل نہیں کی ۔ہزاروں آدمی ابھی ایسے ہیں جو سچ کی تعریف بھی نہیں سمجھتے۔ پچھلے ہی دنوں میں نے ایک خطبہ پڑھا تھاجو شاید ابھی چھپاہے یا نہیں مگر ابھی جو میں لاہور گیا تو وہاں ایک دوست ایک واقعہ سنانے لگے کہ فلاں شخص نے یوںجھوٹ بولا گویا یہ کوئی بڑے فخر کی بات تھی ۔کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ پچاس سال سے جماعت کو یہ سبق دیا جارہا ہے کہ سچائی ایک قیمتی جوہر ہے جس کے بغیر کوئی نیکی نہیں ۔کوئی شخص صبح سے شام تک روزہ رکھے اور ساری رات تہجد میں لگا رہے اور ذکرِ الٰہی میں مشغول رہے لیکن اگر اس میں سچائی نہیں تو اس کی یہ ساری عبادتیں مچھر کے پَر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں۔تم چندے دے دے کر کنگال ہو جائو، تمہارے بیوی بچوں کے تن پر کپڑا نہ رہے اور کھانے کو نہ ملے ۔پچاس سال سے تم نے اس نیکی میں بھی ناغہ نہ کیا ہو لیکن اگرتمہارے اندر سچائی پیدا نہیں ہوئی تو تمہارے دل میں احمدیت کا ایک ذرہ بھی نہیں۔
سچائی پہلی سیڑھی ہے اور جو شخص پہلی سیڑھی پر قدم نہیںرکھتا وہ دوسری پر نہیں پہنچ سکتا۔ یادرکھو کہ چند نیکیاں ابتدائی ہیں جب تک وہ حاصل نہ ہوں کچھ نہیں مل سکتا اور ان کے بغیر جو ملے گا وہ ریا ،مکر ، فریب،دغااوردھوکا ہوگا اور سچائی ابتدائی نیکیوں میں سے ہے جب تک یہ حاصل نہیں ہوتی تم اور کوئی نیکی حاصل نہیں کر سکتے جس طرح خدا تعالیٰ پر ایمان کا ہونا نیکی کے لئے ضروری ہے اسی طرح سچائی بھی ضروری ہے۔ مؤمن اور غیر مؤمن میں یہی فرق ہوتا ہے کہ مؤمن سچا ہوتا ہے ۔کوئی شخص خواہ کتنی نمازیں پڑھے نیکی کی ہر آواز پر فوراً لبیک کہے لیکن اگر وہ سچائی پر قائم نہیں تو اس کی نمازیں بے سود ہیں اور اس کا خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنا فریب ہے کیونکہ دوسری سیڑھی پر وہی چڑھ سکتا ہے جو پہلی پر چڑھے ۔جو پہلی سیڑھی پر قدم رکھے بغیرسمجھتا ہے کہ میں آخری پر پہنچ گیا ہوں وہ پاگل ہے اور اس کا یہ دعویٰ ایسا ہی ہے جیسا بعض پاگل بادشاہ ہونے کا دعویٰ کیا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بادشاہ ہیں۔ پاگلوں میں اپنے آپ کو بادشاہ سمجھنے والے بھی ہوتے ہیں اور ولی اللہ اور فلاسفر بھی ۔میں نے پاگل خانہ دیکھا ہے بعض وہاں ایسے تھے جو مہدی ہونے کے مدعی تھے،بعض اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتے تھے۔ میں جب پاگل خانہ دیکھنے گیا تو ایک پاگل نے میرے کان میں آکر کہا کہ میں ایڈورڈہفتم ہوںیہاں سیر کے لئے آیاہؤا ہوں مگر آپ یہ بات کسی کو بتائیں نہیں جو ڈاکٹر میرے ساتھ تھا اس نے بتایا کہ یہ ہر شخص کو اسی طرح کہتا ہے۔ تو کئی پاگل بادشاہ ہونے کے مدعی ہوتے ہیںمگر ہم چونکہ جانتے ہیں کہ یہ پہلی سیڑھی ہی نہیں چڑھا اس لئے اُسے پاگل قرار دیتے ہیں اگر پہلی منازل وہ طے کر چکا ہوتا تو ہم اسے پاگل نہ کہتے۔بادشاہ کے لئے یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ وہ بادشاہ کا ہی بیٹا ہو آخر عوام میں سے بھی تو بادشاہ ہوئے ہیں۔نادرشاہ کسی بادشاہ کا بیٹا نہیں تھا بلکہ اس کا باپ گڈریا تھا جب اس نے ہندوستان کو فتح کیا تو ایک روز دربار لگا ہؤا تھا درباریوں نے مشورہ کیا کہ مختلف خاندانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آخر نادرشاہ سے اس کے خاندان کے متعلق پوچھا جائے اور چونکہ وہ کسی اعلیٰ خاندان سے نہیں اس لئے بہت نادم ہوگا۔چنانچہ اسی رنگ میں گفتگو شروع ہوگئی نادرشاہ سمجھ گیا کہ مقصد کیاہے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ ترقی دیتا ہے انہیں ذہنِ رَسابھی حاصل ہوتا ہے ۔چنانچہ وہ بیٹھا مسکراتا رہا۔آخر بات ہوتے ہوتے اس تک پہنچی اور اس سے پوچھا گیا کہ جناب کے باپ کا نام اور خاندانی حالات کیا ہیں۔اس نے تلوار نکال کر کہا کہ میرے باپ کا نام یہی ہے ۔یعنی تم میری تلوار کو دیکھ چکے ہو تمہیں میرے باپ کے نام سے کیا غرض۔میں تمہیں فتح کرکے یہاں بیٹھا ہوں اور جسے ذاتی جو ہر حاصل ہو اُسے والد کے جوہر کی کیا ضرورت ۔بھَلا اس بادشاہ کو جو اس وقت نادرشاہ کے غلام کی حیثیت رکھتا تھا۔ بابر اور ہمایوں کی اولاد میں سے ہونے کا کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا اورنادرشاہ کو جس نے تلوار سے فتح حاصل کی تھی اس بات سے کیا نقصان ہوسکتا تھا کہ اس کا باپ گڈریا تھا۔تو انسان ذاتی جوہر سے بھی ترقی کرسکتا ہے اس لئے اگر بادشاہ ہونے کا مدعی پہلی سیڑھی طے نہ کر چکا ہو تو اسے پاگل کہا جائے گا لیکن اگر وہ پہلے فتوحات حاصل کرے اور پھر کہے کہ میںبادشاہ ہوں تو سب کہیں گے کہ ہاں حضور بے شک بادشاہ ہیں تو پہلی سیڑھی کے بغیر دوسری کا خیال کرناجنون ہے۔
اسی طرح سچائی پر قائم ہوئے بغیر جو شخص سمجھتا ہے کہ میں مسلمان احمدی، نیک اور ولی اللہ بن گیا ہوں وہ پاگل ہے کیونکہ وہ کچھ بھی نہیں ہوسکتا جب تک سچائی کو اختیار نہیں کرتا اور اس کے بغیر اگر کوئی روحانی دعویٰ کرتا ہے وہ یا تو پاگل ہے اور یا پھر دنیاکو دھوکا دیتا ہے ۔سچائی ابتدائی نیکی ہے اس کی تعلیم محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے شروع نہیں ہوئی بلکہ آپ سے پہلے اس کی تعلیم حضرت عیسیٰ ؑدے چکے تھے اور وہ بھی یہ تعلیم دینے نہیں آئے تھے کیونکہ یہ بات اس سے بھی پہلے حضرت موسیٰ ؑکہہ چکے تھے اور وہ بھی یہ سکھانے نہیں آئے تھے بلکہ ان سے بھی پہلے حضرت ابراہیم ؑ یہ بات کہہ چکے تھے اور وہ بھی اس لئے نہیں آئے تھے بلکہ یہ حکم اس سے پہلے حضرت نوح ؑ بتا چکے تھے اور حضرت نوحؑ بھی یہ بات بتانے کے لئے نہیں آئے تھے کیونکہ ان سے پہلے حضرت آدمؑ اس کا اعلان کرچکے تھے ۔
گویا انسان کی پیدائش کے وقت سے اسے سچ بولنے کی تعلیم دی گئی ہے اور جو سچائی اس طرح سب دنیا میں متفقہ ہو وہ روحانیت کے لئے بطور بنیاد کے ہوتی ہے اور اس کو خدا تعالیٰ نے روحانیت کے لئے ایسا ہی ضروری قرار دیا ہوتا ہے جیسا کہ جسم کے لئے ناک، کان وغیرہ۔ہندوستانی ،افغانی، عرب اور مغربی لوگوں کے لباس میں تو فرق ہوسکتا ہے، زبانوں میں فرق ہوسکتا ہے مگر ناک،کان،آنکھوںمیں کوئی فرق نہ ہوگا۔یہ تو ہوسکتا ہے کہ یورپ کے رہنے والوں کے رنگ گورے ہوں مگر آنکھیں ان کی بھی دوہی ہوں گی،ان کے بال بھورے ہوں گے مگر یہ نہیں ہوگا کہ ناک سر کے پیچھے ہویہی چیزیں انسان کی شکل کہلاتی ہیںاسی طرح روحانیت میں بھی بعض باتیں اس کی شکل میں شامل ہیں۔جو چیزحضرت آدمؑ کے وقت انسان کو نہیں ملی وہ روحانی جسم کا حصہ نہیں بلکہ زائد نیکی ہے۔روحانی جسم کو مکمل کرنے والی وہی چیزیں ہیں جو آدم سے لے کر محمدمصطفیصلی اﷲ علیہ وسلم تک ایک ہی رہیں اور ان میں سے ایک سچائی ہے۔ جس طرح آدم سے لے کر اس وقت تک انسانوں نے بہت ترقیات کیں مگر آنکھیں اب بھی دوہی ہیں اسی طرح کئی عبادات قائم ہوئیں اور کئی منسوخ ہوئیں،کسی نبی نے شراب کو جائز رکھا اور کسی نے حرام کر دیا، کسی نے نماز کا طریق کوئی بتایا اور کسی نے کوئی،مگر اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی کہ ہمیشہ سچ بولنا چاہئے ہر نبی یہی کہتا آیا ہے کہ ہمیشہ سچ بولو ۔
پس جو چیز روحانیت کے لئے بمنزلہ آنکھ کے ہے اسے ترک کر کے انسان کبھی روحانی ترقی حاصل نہیں کرسکتا ۔جس کی آنکھیں نہ ہوں وہ جنرل نہیں بن سکتا۔کُشتی تو شاید وہ کچھ نہ کچھ کر ہی لے مگر جرنیلی نہیں کرسکے گا۔ اسی طرح روحانیت کے میدان کا شہسوار لولا،لنگڑایا اندھا نہیں ہوسکتا۔سچائی روحانیت کے جسم کا حصہ ہے جو اسے چھوڑتا ہے وہ روحانیت کو حاصل نہیں کرسکتا اور جو ایسا سمجھتا ہے وہ فریب خوردہ ہے اور بے وقوفوں کی جنت میں آباد ہے۔ہماری جماعت کو غور کرناچاہئے کہ وہ کونسا وقت آئے گا جب وہ یہ خیال کریں گے کہ ہم اب سچ پر قائم ہو جائیں گے۔بے شک بعض تم میں سے کہہ سکتے ہیںکہ ہم نے کبھی جھوٹ نہیں بولایا بعض کہہ سکتے ہیں کہ ہم جب سے احمدی ہوئے ہیں اس وقت سے ہمیشہ سچ بولتے ہیںمگر یہ تو کافی نہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ جماعت میں سچائی کے قیام کے لئے تم نے کیا کوشش کی ہے۔ اگر ہمارے دوست سچائی پر قائم ہو جائیں تو قضاء میں کوئی مقدمہ آئے ہی نہیںاور کوئی آئے بھی تو ایسا کہ جس میں کوئی غلط فہمی ہوگئی ہو اور ایسے معاملہ کا فیصلہ کرناقاضی کے لئے بالکل آسان ہوتا ہے مگر افسوس ہے کہ یہ بات نہیں۔ مقدمات میں ایسے ایسے گواہ پیش ہوتے ہیں جن کے متعلق ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں گو بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو غلط فہمی کی وجہ سے غلط بات کہہ دیتے ہیںلیکن اگر ہم میں ایک شخص بھی ایسا ہے کہ جو جھوٹ بولتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو سرطان کی بیماری ہو اور اس کا مقابلہ کرنا تمہارا فرض ہے۔
پس یہ وعدہ کرو کہ آئندہ نہ توخود جھوٹ بولوگے اور نہ ہی اپنی اولادوں اور محلہ والوں کو بولنے دوگے اور جب تم اپنی اولادوں کو جھوٹ سیکھنے ہی کا موقعہ نہ دو گے تو جھوٹ کہاں رہ جائیگا۔بعض بچوں کو جوئیں پڑجاتی ہیں تو سارا گھر باری باری نکالنے بیٹھتا ہے حتّٰی کہ چُن چُن کر سب کو مار دیتے ہیںبلکہ لیکھیں بھی تلاش کرکے ختم کر دیتے ہیں اسی طرح تم جھوٹ کو بھی ختم کرو۔ جس طرح دیوانے کتّے کو تلاش کر کے اسے ہلاک کیا جاتا ہے اسی طرح تم جھوٹ کو مٹائو۔سانپ اور بچھو کو اتنا زہریلانہ سمجھو جتنا جھوٹ کو اگر تم ایسا کرو تو چھ ماہ کے اندر اندر جماعت سے جھوٹ کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اس صورت میںہر شخص یہ سمجھ لے گاکہ اگر اس جماعت میں رہنا ہے تو جھوٹ چھوڑنا پڑے گا اور جب جھوٹ گیا تو باقی گناہ بھی نہیں رہ سکیں گے۔یعنی تمہارے اندر طاقت پیدا ہوجائے گی کہ دوسرے گناہوں کو بھی دبا دو۔ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت رکھی ہے کہ وہ سچائی کی مدد سے ہر گناہ کا مقابلہ کر سکتا ہے پھر ایک دفعہ توجہ کر کے ہماری جماعت جھوٹ کا کیوں خاتمہ نہیں کر دیتی۔تحریک جدید کے اصول میںسے ایک یہ تھا کہ سچ بولو مگر افسوس کہ خود تحریک جدید کے متعلق بھی سچ نہیں بولا جاتا۔میں نے بار بار کہا ہے کہ یہ چندہ مجبوری کا نہیں تم وہی لکھوائو جو دے سکتے ہو اور اگر نہیں دے سکتے تو مت لکھوائو۔مگر کئی لوگ ہیں جو محض اس وجہ سے نام لکھوا دیتے ہیں کہ اس وقت مجلس میں ان کا نام بھی آجائے،کئی ایسے ہیں کہ وہ ہر سال چندہ لکھوا دیتے ہیں مگر ادا نہیں کرتے اور پھر اگلے سال وہ لکھتے ہیں اس سال ہمارا وعدہ ضرور قبول کر لیا جائے اور ہم پچھلے سال کا بھی اس سا ل میں ادا کریں گے مگر کچھ نہیں ادا کرتے اور تیسرے سال پھر لکھتے ہیں کہ وعدہ ضرور لے لیا جائے ورنہ بڑی ذلّت ہوگی اور ہم تو بس مر ہی جائیںگے اور جب یہ سال بھی گزر گیا تو چٹھی آجائیگی کہ فلاں مصیبت کی وجہ سے ہم چندہ ادا نہ کرسکے۔ اب کے سال ہمیں ضرور اجازت دی جائے ورنہ غم کی وجہ سے ہم مر جائینگے۔ اس سال تو ضرور ادا کریں گے اور پھر کچھ ادا نہیں کرینگے۔ یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ان سے کس نے کہا تھا کہ ضرورچندہ دو اگر وہ دے نہیں سکتے تھے تو انہیں نام لکھوانا کیا ضروری تھاکیا پہلے ہی ان کے گناہ کم تھے کہ دین کے معاملہ میں بھی جھوٹ بولنا ضروری سمجھا۔
میں نے کئی بار کہا ہے کہ نام لکھوانے کے بعد بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ چندہ نہیں دے سکے گا تو اسے چاہئے کہ معاف کرالے اور یہ کبھی نہیں ہوگا کہ کوئی معاف کرانا چاہے اور میں معاف نہ کروں۔جو کہے گا میں نہیں دے سکتا اسے معاف کردیا جائے گا یا جو دے تو سکتا ہے مگر کہتا ہے کہ مجھ میں ہمت نہیں یا میں دینا نہیں چاہتا یا اگر ہمت تو ہے مگر اپنے بیوی بچوں کو تکالیف میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ان سب کو بھی میںمعاف کرنے کو تیار ہوں بلکہ بغیر کسی عذر کے بھی معاف کرنے پر آمادہ ہوں تاتم گنہگار نہ بنواور جھوٹے نہ کہلائو۔مگر بعض ہیں کہ وہ نہ تو معاف کراتے ہیں اور نہ ادا کرتے ہیں اور اس طرح خدا تعالیٰ کے معاملہ میں بھی جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور جو دین کے معاملہ میں جھوٹ بول لیتا ہے وہ دنیا کے معا ملہ میں کہاں کمی کرتا ہوگا۔اچھی طرح یادرکھو کہ جب تک ہمارے اندر جھوٹ موجود ہے ہم فتح کا وہ دن جس کی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کبھی نہیں دیکھ سکتے اگر اسے دیکھنے کی تڑپ اپنے دل میں رکھتے ہو تو ان گندوں اور خرابیوں کو دور کرو۔ اگر تم چاہتے ہو کہ اسلام کی اس وقت جو ہتک ہو رہی ہے یہ دُور ہو اور خدا تعالیٰ کے نام کو غلبہ حاصل ہو تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ اپنے دلوں سے جھوٹ نکال دو اگر تم ایسا کرلو تو اس بات کا یقین رکھو کہ وہ دن قریب سے قریب تر ہوتا جائیگا۔
فتوحات کے لئے قربانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ کسی قوم کے لیڈر کو یہ معلوم ہو کہ میرے پیچھے جو جماعت ہے وہ کس قدر قربانی کر سکتی ہے اور میرے ہاتھ میں کیا چیز ہے جو میں دشمن پر پھینک سکتا ہوں۔اسے علم ہونا چاہئے کہ وہ کتنے آدمیوں کے ساتھ لڑ سکے گا۔اگر جماعت سچ بولنے والی ہے اور اس کی آواز پر پچاس آدمی لبیک کہتے ہیں تو اسے یقین ہوگا کہ میرے ساتھ پچاس آدمی ضرور ہوں گے اور وہ دلیری کے ساتھ آگے بڑھے گا لیکن اگر صورت یہ ہو کہ لبیک کہتے وقت تو چاروں طرف سے لبیک لبیک کی صدائیں بلند ہوںلیکن میدان میں نکلتے وقت معلوم ہو کہ یہ لبیک لبیک کہنے والے دراصل گوہ کھانے والی بھیڑیں اور بکریاں تھیں تو وہ کس طرح یقین کر سکتا ہے کہ اس دفعہ لبیک کہنے والے جھوٹ نہیں بول رہے اور وہ کِس طرح اپنی طاقت کا اندازہ کرسکتا ہے۔سوال تھوڑوں یا بہتوں کا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ایک آدمی کام کرجاتا ہے۔آخر حضرت ابوبکر ؓنے کیا تھا یا نہیں جب ان سے کہا گیا کہ مدینہ میں خطرہ ہے اس لئے اسامہؓ والے لشکر کو روک لیا جائے اس پر آپ نے فرمایا جو ڈرتا ہے وہ یہاں سے چلا جائے میں اکیلا ہی مقابلہ کرونگا ۷؎تو تھوڑے ہونے کی وجہ سے دینی جنگ کبھی نہیں رک سکتی لیکن اس وجہ سے رک جاتی ہے کہ اپنی طاقت کا صحیح اندازہ نہ ہو سکے۔اگر امام لبیک کہنے والوں پر قیاس کر کے کوئی ایسی پالیسی اختیار کرتا ہے جس کے لئے ایک ہزار آدمی درکار ہوںگے لیکن عمل کے وقت صرف نو سَو آدمی ساتھ آتے ہیں تو اس کی شکست دُنیوی لحاظ سے یقینی ہوگی یا نہیں؟اور اگر وہ نوسو آدمیوں کا اندازہ کرکے کوئی قدم اٹھاتا ہے اور آتا آٹھ سو ہے تو بھی وہ دنیوی لحاظ سے ضرور شکست کھائے گا اس لئے امام کو واضح طور پر معلوم ہونا چاہئے کہ میں کس قدر قربانی کی امید کر سکتا ہوںاور یہ بات سچائی کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتی۔
مؤمن کا کام یہ ہونا چاہئے کہ جب وہ ایک دفعہ لبیک کہہ دے تو پھر خواہ کچھ ہو اسے پورا کرے تا امام یقین کے ساتھ یہ فیصلہ کر سکے کہ میرے پاس اتنی طاقت ہے اور اس سے میں نے مقابلہ کرنا ہے،وہ کم ہوں یا زیادہ اس کا سوال نہیں کیونکہ دینی کام میں کمی کی وجہ سے حرج نہیں ہوتا لیکن دھوکے سے بڑا ہوتا ہے دین کا کوئی کام بغیر سچ کے نہیں چل سکتا۔کئی ضروری کام ایسے ہیں جو محض اس وجہ سے چھوڑنے پڑتے ہیں کہ شاید لبیک کہنے والوں میں سے ایک گروہ گوہ کھانے والی بھیڑیں ثابت ہو۔ایسا طبقہ گو تھوڑا ہو ایک کثیر جماعت کی قربانیوں کو جو مخلص اور سچی عاشق اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے خراب کر دیتا ہے یاکم سے کم جماعت کی طاقت کو کمزور کر دیتا ہے۔پس یہ ایک چیز ہے جو اپنے نفسوں پر رحم کرتے ہوئے میری مان لوپھر دیکھو تھوڑے ہی عرصہ میں کس طرح تمام نقشہ بدل جاتا ہے۔اپنے اندر سچ قائم کرو باقی عیوب تمہارے خود بخود مٹ جائیں گے اور خدا تعالیٰ ان کو باقی نہیں رہنے دے گا۔پس میں آپ لوگوں کوپھر توجہ دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ کو معمولی نہ سمجھتے ہوئے اس پر غور کرو۔
تحریک جدید کے چوتھے سال کے اختتام کے قریب میں پھر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہمیشہ سچائی پر قائم رہو اور اگر اپنے اندر طاقت محسوس نہیں کرتے تو سچائی سے کہہ دو کہ ہم یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے اس سے دین کے کام کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا لیکن تم اپنی جان کو ضرور بچالو گے۔دین کے لئے خدا تعالیٰ کوئی اور رستہ کھول دے گا لیکن جب منہ سے وعدہ کرلو تو پھر خواہ کچھ ہو اسے پورا کرو اور اسے پورا کرنے کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک قربان کرنے سے دریغ نہ کرو پھر دیکھودنیا کا نقشہ کس طرح بدلتا ہے۔اسی طرح واقعات میں بھی سچائی اختیار کرو کیونکہ اس کے بغیر بھی دین کے کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔فرض کرو ایک شخص تبلیغ کے لئے باہر جانا چاہتا ہے۔اسے جب تک یقین نہ ہو کہ میرے محلہ والے اور میرے پڑوسی راست گو ہیں اسے ایک قسم کا خطرہ رہے گا کہ یہ لوگ میری اولاد کو بھی خرا ب کریں گے،یا جھوٹے مقدمات وغیرہ بنا کر ان کو پریشان کریں گے لیکن اگر وہ جانتا ہے کہ اس کے محلہ کا ہر شخص سچ بولنے والا ہے تو وہ ڈرے گا نہیں اسے خواہ تم دنیا کے کناروں تک بھیج دووہ بے خوف وخطر چلاجائے گا وہ اپنے بیوی بچوں کو اپنے ہمسایوں سے محفوظ سمجھے گا۔اسے اطمینان ہوگا کہ اگر کوئی واقعہ ہؤا تو میرے بیوی بچے بھی مجھے اصل واقعات لکھ دیں گے اور مدمقابل بھی سچ سچ لکھ دے گا اور اس طرح وہاں بیٹھے ہوئے بھی اس کے سامنے قادیان کے حالات ایسے ہی روشن ہونگے جیسے یہاں رہ کر ہو سکتے تھے اور وہ وہاں بیٹھے ہوئے بھی فیصلہ کر سکے گا اور اگر اس کے بیوی بچوں کی غلطی ہو گی تو ان کو لکھ دے گا کہ تمہاری غلطی ہے۔ تو دنیا میں شہادتوں کے وقت سچ بولنا ہمسایوں کو طاقت اور اہلِ محلہ کو برکت دیتا ہے اور دین کے معاملہ میں سچ بولنا انتظام کو وسیع اور مضبوط کرتا ہے۔ پس یہ گُر ایک دفعہ اختیار کرلواور دوسروں کو اختیار کرنے میں مدد دو یعنی وعدہ کروکہ اپنے محلہ میں اور ارد گرد رہنے والوں کو جھوٹ نہیں بولنے دوگے اور فیصلہ کر لو کہ خواہ انجام کچھ ہوجھوٹا آدمی کوئی بھی اس جماعت میں نہ رہنے دیں گے۔تو اس طرح خواہ آدھے لوگوں کو بھی نکالناپڑے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔جھوٹا آدمی اگر ایک بھی ہے تووہ سخت خطرناک ہے مگر اس وقت تو بہت سے ہیں، کئی ہیںجو دوست کی خاطر جھوٹ بول دیتے ہیں حالانکہ یہ دوست کی خیر خواہی نہیں بلکہ اس سے دشمنی کے مترادف ہے۔
دوست کے ساتھ سچی ہمدردی یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ غلطی پر ہو تو اسے یہ مشورہ دیا جائے کہ اپنی غلطی کا اقرار کرلو۔یہ قدم اٹھائو تو تم دیکھو گے کہ تمہارے لئے دنیا کی کوئی مصیبت باقی نہیں رہے گی اور تمہارے اندر ایسی دلیری پیدا ہو جائے گی جو ہر مخالفت کو ایک زبردست دریا کی طاقت کے ساتھ خَس وخَاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گی۔جھوٹ ہمیشہ بزدلی پیدا کرتا ہے۔اگر تم نے کسی کو پیٹا ہے تو بعد میں جھوٹ سے کا م نہ لو۔اگر شریعت تمہیں اس کو پیٹنے کا حق دیتی ہے تو اس کا اقرار کرو بلکہ یہ بھی کہو کہ میں پھر بھی ایسا ہی کروں گالیکن اگر شریعت اجازت نہیں دیتی تو اقرار کرو کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے خواہ اس کا انجام کچھ ہو۔زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ تم قید ہو جائو گے لیکن تم اس زندگی میں قید سے ڈرتے ہو اور خدا تعالیٰ کی قید کا تمہیں کوئی خوف نہیں۔
غرض تم سے جو فعل بھی سرزد ہو اس کا صاف طور پر اقرار کرو اور اگر شریعت تمہیں اس کا حق دیتی ہے تو کہہ دو کہ ہم آئندہ بھی اس حق کو استعمال کریں گے لیکن اگر ایسا کرنے کا تمہیں حق نہیں تو اپنی غلطی کا اقرار کرو۔قضاء میں کئی مقدمات آتے ہیں۔ایک احمدی احمدی سے لڑتا ہے یا اسے گالی دیتا ہے۔اِسے چاہئے تو یہ کہ جس قدر قصور ہؤا ہے اس کا اقرار کرے لیکن کئی احمدی اپنے جُرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انہیں سمجھنا چاہئے کہ اقرارِ جرم کے نتیجہ میں اگر کچھ جرمانہ ہو جائے گا یا چند روز کے لئے مقاطعہ ہو جائے گا تو کیا ہے۔کیا وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں تھوڑے سے جرمانے یا چند روزکے مقاطعہ سے دوزخ میں جانا زیادہ آسان ہے۔اگر وہ غور کریں تو یہاں کی سزا تو عین رحمت ہے وہ اسے کیوں عذاب سمجھتے ہیں۔اگروہ خیال کرتے ہیں کہ مقاطعہ کی وجہ سے لوگو ں میں ان کی سُبکی ہوگی توکیا اس وقت ان کی سُبکی نہ ہوگی جب ان کے آباء و اجداد اور ان کے بیٹوں، پوتوں اور پڑپوتوں کے سامنے انہیں دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ اگر وہ غور کریں تو یہ دنیوی سزا ایک نہایت حقیر سزاہے آخرت کی سزا کے مقابلہ میں اور انہیں اسے اپنے لئے رحمت سمجھنا چاہئے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھو جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ایک روز مجلس لگی ہوئی تھی اور آپ اپنی وفات کے متعلق ہی ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے فرمایا دیکھو ہر انسان جو اس دنیا میں کسی کو دکھ دیتا ہے اس کی سزا خدا تعالیٰ کے حضور پائے گا اور میں نہیں چاہتا کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور شرمندہ ہوںاس لئے میری خواہش ہے کہ جسے مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو وہ اس کا بدلہ آج ہی مجھ سے لے لے۔اس بات کا صحابہؓ پر جو اثر ہو سکتا تھا وہ ظاہر ہے اور اس کا قیاس وہی کرسکتا ہے جسے کسی سے سچی محبت ہو۔یہ بات سن کر ان کو ایسا معلوم ہؤاجیسا کہ کسی نے ان کے سینوں میں خنجر گھونپ دیا ہواور وہ بے تاب ہو کر رونے لگے لیکن ایک صحابی نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! فلاں موقع پر آپ نے مجھے کُہنی ماری تھی آپ جنگ کے لئے صفیں درست کررہے تھے راستہ تنگ تھا اور گزرتے ہوئے آپ کی کُہنی مجھے لگی تھی۔آپ نے فرمایا تم مجھے کہنی مارلو ۔اس صحابی نے کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! میں اس وقت ننگے بدن تھا اور آپ نے کرتہ پہن رکھا ہے۔ اس پر آپ نے اپنا کُرتہ اٹھا دیا۔اس وقت صحابہؓ کی جو حالت ہو گی وہ ظاہر ہے ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہوگا کہ رسول اللہصلی اﷲ علیہ وسلم کی نظر اُدھر ہو تو اس شخص کو ٹکڑے کردوںمگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا رُعب ایسا تھا کہ کسی کو بولنے کی جرأت نہ تھی۔ جب آپ نے کُرتہ اوپر اٹھایا تو وہ صحابی آگے بڑھا اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم پر اس جگہ بوسہ دیا اور کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ اب ہم سے جُدا ہونے والے ہیں۔یہ آخری موقع تھا میں نے چاہا کہ اس سے فائدہ اٹھا کر آپ کے جسم کو چھوتو لوں۔۸؎پس جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی آخرت کی سزا سے ڈرتے ہیںتو پھر اور کون ہے جو یہاں کی سزا کو سخت کہہ سکے ۔پس ہمیشہ سچ بولو اور اگر اس کے نتیجہ میں کوئی سزا بھی ملے وہ تمہارے لئے رحمت کا موجب ہوگی۔دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو سزا سے بچنے کے لئے رشوتیں دیتے ہیں۔آخر وہ بھی تو ایک سزا ہے کیونکہ اس میں بھی روپیہ جاتا ہے تو لوگ رشوتیں دے کر گورنمنٹ کی سزاسے بچنا چاہتے ہیں اور یہاں خداتعالیٰ نے خود تمہارے لئے انتظام کر دیا ہے کہ دنیا میں قضاء مقرر کر دی تا تم آخرت کی سزا سے بچ جائو مگر تم اس سے بچنا چاہتے ہو حالانکہ رشوت کی نسبت یہ کتنا آسان علاج اور پھر طیب علاج ہے۔پس میں پھر ایک دفعہ آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ اپنی جانوں پر رحم کرو،اولادوں پررحم کرو، سلسلہ پر رحم کرواور میں یہ تو نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ کے نبیوں پر رحم کرولیکن یہ کہتا ہوں کہ ان کی محبت کو یاد کرکے ان کی روحوں کو خوش کرنے کے لئے اور ان کے کا م کو تباہی سے بچانے کے لئے ہمیشہ کے لئے سچائی کو اختیار کر لو۔خودسچ بولواور اپنی اولادوں کو اور اہلِ محلہ کو سچ کا پابند کرواور اگر تم ایسا کرنے کا وعدہ کرلو تو ایک سا ل کے اندر اندر تمہارے حالات اس قدر بدل جائیں گے کہ موجودہ اور آئندہ حالات میں تمہیں زمین اور آسمان کا فرق نظر آئے گا۔تم جدھر قدم اٹھائو گے خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہیں برکت ملے گی اور ہر میدان میں دشمن تمہیں پیٹھ دکھائے گا کیونکہ سچ کی تلوار کے آگے کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی۔‘‘
(الفضل ۴ ؍اکتوبر ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الفاتحۃ: ۶، ۷
‏۲؎ Balantidium: A genus of protozoa with cilia that includes Balantidium coli (B. coli). B. coli is the largest protozoan and the only ciliate parasite to infect humans. The disease that B. coli causes is called balantidiasis Clinical features, when present, include persistent diarrhea, occasionally dysentery, abdominal pain, and weight loss.
‏Symptoms can be severe in debilitated persons.
‏B. coli is found worldwide. Because pigs are an animal reservoir for B. coli, human infections occur more frequently in arease where pigs are raised. Other potential animal reservoirs include rodents and nonhuman primates. Humans most often acquire the disease through
‏ingestion of contaminated food or water.
۳؎ ابن ماجہ کتاب الزھد باب ذکر الشفاعَۃِ
۴؎ النجم: ۹ ۵؎ اٰل عمران: ۳۲ ۶؎ طٰہٰ: ۱۱۵
۷؎ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۳۳۵ ۔ مطبوعہ بیروت۱۹۶۵ء
۸؎ سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ ۲۷۸ ، ۲۷۹ ۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء

۳۳
قرآن کے بیان کردہ طریق سے ہی امن قائم ہو سکتا ہے
(فرمودہ ۳۰؍ستمبر۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے او ر ہمیں بحیثیت جماعت براہِ راست سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں لیکن بعض موقعوں پر سیاسیات اخلاق کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہیںاور ان سے وابستہ ہو کر مذہب کا بھی جزو ہو جاتی ہیں۔گو یہ جائز نہیں جیسا کہ ہمارے ملک میں مولویوں اور ملانوں کا قاعدہ ہے کہ ہر چیز کو کھینچ تان کر مذہب کا جزو بنا دیتے ہیںگورنمنٹ نے کوئی رستہ سیدھا کرنے یا سڑک صاف کرنے کے لئے کسی مسجد کے غسل خانہ یا طہارت خانہ کو اپنی جگہ سے ہلایا تو سارے ملک میں شور بپاکر دیا کہ مداخلت فی الدین ہو گئی۔
یہ مذہب نہیں بلکہ مذہب کے ساتھ تمسخر ہے کیونکہ کم سے کم انگریزی گورنمنٹ ایسے تغیرات کسی مذہبی غرض کے ماتحت نہیں کرتی بلکہ تمدنی اغراض کے ماتحت کرتی ہے۔ہندوؤں مسلمانوں غرضیکہ سب پبلک کے مفاد کے لئے سڑک چوڑی کرنے کی غرض سے پاخانہ کی جگہ کو اگر ہٹا کر وہاں کر دیا گیا تو یہ مداخلت فی الدین نہیں ہو سکتی،یہ تو اگر کوئی عقلمند مسلمان حکومت ہو تو وہ بھی کر لے گی مگر یہ لوگ ہر چیز کو مذہب میں داخل کر دیتے ہیں۔حتّٰی کہ کبھی تو یہ فتویٰ دے دیتے ہیں کہ کانگرس میں شریک ہونا کفر ہے اور کبھی یہ کہ کانگرس میں شریک ہوئے بغیر اسلام باقی نہیں رہ سکتا،یہ طریق بالکل ناجائز ہے۔ گو بعض مواقع پر سیاست اور مذہب ایک ہو جاتا ہے اس صورت میں سیاست کی طرف توجہ کرنا اسلام کے لئے مفید ہوتا ہے اور ایسے ہی مواقع میں سے ایک کے متعلق میں آج کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔
آج صبح کی خبروں سے جو وائرلیس کے ذریعہ موصول ہوئی ہیں پتہ لگتا ہے کہ یورپ میں جنگ کے جو آثار نظر آرہے تھے اورجن کو دور رکھنے کے لئے برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر چیمبرلین کوشش کر رہے تھے ان کی کوشش کا میاب ہوگئی ہے۔بظاہر یہ ایک سیاسی چیز ہے مگر جیسا کہ میں آگے چل کر بتائوں گااس میں اسلام کی عظیم الشان فتح ہے۔فیصلہ ان اصول پرہؤا ہے کہ یکم اکتوبر کو زیکو سلواکیہ کا جرمن علاقہ جرمنی کے سپرد کر دیا جائے گاتا اس کا چیلنج پورا ہو جائے اور بقیہ حصہ دس اکتوبر تک آہستہ آہستہ دیا جاتا رہے گامگر یہ علاقہ اس سے کچھ کم ہے جو جرمن مانگتے تھے۔باقی جو جھگڑے والا علاقہ ہے یا جو دوسرے ضمنی سوالات یعنی جنگی اور اقتصادی امور حل طلب ہیں مثلاً یہ کہ جو زیک اس علاقہ سے دوسرے علاقہ میں جائیں گے یا جو جرمن کسی دوسرے علاقہ سے یہاں آئیں گے ان کی جائدادوں وغیرہ کا کیا بنے گا،ان کا ایک کمیشن کے ذریعہ جس میں برطانیہ ،فرانس،اٹلی اور زیکو سلواکیہ کا ایک ایک نمائندہ ہوگا فیصلہ کیا جائے گا اور کوشش کی جائے گی کہ اکتوبر کے آخر تک یہ سب فیصلہ کر دیا جائے اور ۲۵؍نومبر تک کُل جھگڑے کا فیصلہ ہو جائے گا۔یہ یورپ کی جنگ کا سوال تھا جو اس وقت ساری دنیا کا مالک سمجھا جاتا ہے اور خالص جنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایشیا کو اِس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی۔
ایشیا قومی لحاظ سے سیاسی رنگ میں اپنی طاقت کھو چکا ہے۔ایشیا کا سب سے بڑا ملک چین ہے جو اس وقت فٹ بال کی گرائونڈ بنا ہؤاہے،دوسرا بڑا ملک یعنی ہندوستا ن اس وقت یورپ کی ایک بڑی قوم کے ماتحت ہے گویا ایشیائی آبادی کا بیشتر حصہ یا تو طاقت سے محروم ہے یا دوسروں کے ماتحت ہے۔ایشیاء میں اگر کوئی طاقت ہے تووہ جاپان کی ہے،اس کے علاوہ ایران،افغانستان اور ٹرکی وغیرہ چھوٹی چھوٹی حکومتیں ہیںجو اگر اپنی جان بھی بچا سکیں تو غنیمت ہے۔سائبیریا کا رقبہ بہت بڑاہے مگر وہ روس کے ماتحت ہے۔گو یا ایشیا کی زمین میں سے ۵؍۴حصہ دوسروں کے ماتحت ہے یا اگر آزاد ہے تو اس کی آزادی برائے نام ہے۔جیسے چین ہے اسے اگرچہ آزادی حاصل ہے مگر ایسی ہی جیسی بلی چوہے کو آزادی دیتی ہے وہ اسے پکڑتی ہے اور پھر چھوڑ دیتی ہے مگر جب وہ بھاگنے لگتا ہے تو پھر پکڑ کر ایک چَپت رسید کردیتی ہے۔تو چین بظاہر تو آزاد ہے مگر مختلف اقوام کے معاہدات کے رو سے وہ کئی ممالک کا غلام ہے اور اس لحاظ سے اس کی حالت ہندوستان سے بھی بدتر ہے۔ہندوستان میں تو پھر بھی ایک منظم حکومت ہے مگر وہاں اس سے بدتر حالت ہے۔ اب تو خیر اس پر جاپان نے حملہ کر رکھا ہے مگر اس سے پہلے بھی وہ آزاد طاقت نہ تھی۔ ایشیا والے ان چیزوں سے فارغ ہیں اور ایسی ہی حالت کو دیکھتے ہوئے کسی دہریہ مزاج دل جَلے نے کسی مجلس میں جہاں یہ بات ہو رہی تھی کہ یورپ بہت ترقی کررہا ہے مگر ایشیا کو ترقی کا کوئی موقع نہیں ملتا یہ کہہ دیا تھاکہ اللہ تعالیٰ کو یورپ ہی سے فرصت نہیں ملتی ایشیا کی طرف کیسے دھیان دے سکتا ہے۔اسے یہ خیال نہ آیا کہ بے شک اللہ تعالیٰ کو یورپ سے فرصت نہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ دنیوی طور پر اس کے قانون کی پابندی کرتا ہے اور ایشیا نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جو ہمارے قانون کی پابندی نہیںکرتے انہو ں نے ہم کو بھلا دیا اس لئے ہم نے ان کو بھلا دیا۔اللہ تعالیٰ کو بھلانا صرف دینی لحاظ سے ہی نہیں ہوتابلکہ دنیوی لحاظ سے بھی ہوتا ہے اور دنیوی لحاظ سے خدا تعالیٰ کو نہ بھلانے والا ہی دنیوی رنگ میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ مثلاًخدا تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ جو روٹی کھاتا ہے اسی کاپیٹ بھرے گا اور جو نہیں کھاتا اس کا پیٹ نہیں بھرتا، اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا یہی قانون ہے۔اب ایک شخص بہت نمازیں پڑھے،روزے رکھے زکوٰۃ دے،حج کرے لیکن روٹی نہ کھائے اور کہے کہ خداتعالیٰ میری طرف توجہ نہیں کرتا اور میرا پیٹ نہیں بھرتا یا پڑھائی تو نہ کرے لیکن شکوہ یہ کرے کہ دیکھو فلاں شخص نے میٹرک یا بی۔اے یا ایم۔اے پاس کرلیا ہے اور میںکو دن ہی ہوں۔ تو ہم اسے کہیں گے کہ تم احمق نمازی ہو،احمق روزہ دار ہو،احمق حاجی اوراحمق خیرات دینے والے ہو کیاتم کبھی مدرسے گئے یا تعلیم پر کوئی وقت صرف کیا کہ میٹرک یا بی۔اے یاایم۔اے پاس کر سکتے۔اگر تم نے اس طرف توجہ ہی نہیں کی تو علم حاصل کیسے کر سکتے تھے۔تو اللہ تعالیٰ نے دنیوی ترقی کے جو ذرائع مقرر کئے ہیں ایشیا ان کو بھول چکا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو بھلا دیا ۔اس کے برعکس یورپ نے جب خدا تعالیٰ کے قانون کی طرف توجہ کی تو خداتعالیٰ نے بھی اس کو یاد کیا لیکن اس نے دین کے معاملہ میںخدا تعالیٰ کو بھلا دیا پس اس بارہ میں خدا تعالیٰ نے بھی اسے بھلا دیا۔بہر حال ایشیا اس وقت سیاسی لحاظ سے خدائی قانون کو توڑ کراس کی نظروں سے گرا ہؤا ہے اور یورپ خدا تعالیٰ کے دنیوی قانون کو پورا کرتے ہوئے دنیوی لحاظ سے اس کی نظروں میں پسندیدہ ہے اس لئے اس کی شان وشوکت کے مقابلہ میں ایشیا کی حیثیت کچھ نہیں۔
زیکوسلواکیہ ایک چھوٹا سا ملک ہے جو چین کے ایک صوبہ کے برابر بھی نہیں مگر چونکہ یورپ میں ہے اس لئے یورپین حکومتوں کے خون میں فوراً جوش پیدا ہؤااور انہوں نے کہہ دیا کہ اگر اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو ہم جنگ کریں گے لیکن چین ایشیا میں ہے۔وہاں عرصہ سے جنگ جاری ہے۔اگر اس میں زیکوسلواکیہ کی ساری آبادی کے برابر لوگ ایک دن میں بھی قتل ہو جائیں تو کسی کو فکر نہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے۔کیا یورپ والوں نے ایشیائیوں سے کہا تھا کہ تم اپنی ہمتوں کو پَست اور ارادوں کو کمزور کرلو۔بہرحال زیکوسلواکیہ چونکہ یورپ میں تھا اس لئے یورپین حکومتوں میں جوش پیدا ہؤا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اگر اس پر حملہ کیا گیاتو لڑائی ہوگی۔ایک طرف زیکوسلواکیہ کی امداد کے لئے روس اور فرانس نے اعلان کیا تو دوسری طرف اٹلی جرمنی کی امداد کے لئے تیار ہو گیا۔انگلینڈ نے صلح کرانے کی کوشش کی مگر یہ بھی کہہ دیا کہ اگر فرانس کو جنگ میں شامل ہونا پڑا تو ہم لازماً اپنے دوست کی امداد کریں گے ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے۔اس معاملہ میں انگریزی حکومت بِالخصوص وزیراعظم نے جو کوشش کی ہے اس کے متعلق عام طور پر یہی احساس ہے کہ اس نے کمزوری اور بزدلی دکھائی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب اس جھگڑے کی ساری تاریخ پڑھی جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ انہوں نے کوئی کمزوری یا بزدلی نہیں دکھائی۔
اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ زیکوسلواکیہ کی حکومت بنانے میں انگریزی قوم کا کوئی دخل نہ تھا زیک بڑی جنگجو قوم ہے کسی زمانہ میں اس نے وسطی یورپ میں زبردست حکومت قائم کی تھی اورکئی سو سال تک ان کی بادشاہت رہی لیکن بعد میں آسٹرین حکومت نے اسے فتح کرلیا اور آہستہ آہستہ اس کا کچھ حصہ آسٹریا کچھ جرمنی اور کچھ ہنگری نے ملا لیا اور اس طرح یہ لوگ قریباً ایک ہزار سال تک غلام رہے۔اٹھارویں صدی میں انہوں نے تعلیم کی طرف توجہ کی اور علم کی وجہ سے ان میں بیداری پیدا ہونے لگی اور اس وجہ سے انہوں نے حقوق مانگنے شروع کئے اور اس کے لئے جدوجہد کرنے لگے اور اس طرح سوسال تک لڑتے جھگڑتے رہے۔اتنے میں ان کی خوش قسمتی سے جنگ عظیم شروع ہوئی تو ڈاکٹر بینر اور بعض دوسرے لیڈروں نے اپنے اہلِ ملک کواُکسایا اور انہوں نے مزید جوش کے ساتھ جدوجہد جاری کی نتیجہ یہ ہؤا کہ صلح کے معاہدہ کے وقت فرانس وغیرہ کی مدد سے وہ ایک علیحدہ حکومت قرار دے دی گئی۔امریکہ کے پریذیڈنٹ ولسن نے جنگ کو ختم کرنے کے لئے یہ اصول قائم کیا تھا کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ کسی دوسری قوم پر حکومت کرے ہر قوم کو اس کا علاقہ دے دیا جائے لیکن صلح کے وقت اس اصول پر عمل نہیں ہؤا۔فرانس اور برطانیہ نے افریقہ کے سارے علاقے آپس میں بانٹ لئے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک ایشیائی انسان ہی نہیں ہیں۔پھر بعض ملکوں میں وہ مربی بن گئے،عراق کے مربی انگریز اور شام کے فرانسیسی ہوگئے گویا یہ ممالک یتیم تھے جن کے لئے کسی نہ کسی مربی کی ضرورت تھی۔جو ان کی نگہداشت کرے۔ فلسطین والے یتیم رہ گئے تھے ان کے مربی بھی انگریز بن گئے تو گویا کچھ ممالک کو تو یتیم قرار دے کر ان کے لئے مربی مقرر ہوگئے اور کچھ ایسے تھے جن میں رہنے والوں کوآدمی نہیں بلکہ جانور سمجھا گیا اور ان کے متعلق یہی فیصلہ ہؤا کہ ان کو باہم بانٹ لیا جائے۔چنانچہ افریقہ کے کچھ علاقے برطانیہ نے اور کچھ فرانس نے لے لئے اور یہ ایک نہایت ظالمانہ فعل تھا جو ان حکومتوں سے سرزد ہؤا۔دیانت داری کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو یہی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ لڑے بھڑے بغیر کوئی کسی کو اپنے ماتحت نہیں کر سکتا۔افریقہ کے حبشی تو کسی سے لڑے نہیں تھے وہاں سے اگر جرمنوں کو نکالنا تھا تو چاہئے تھا کہ ان کوآزاد کر دیا جاتا۔یہ عذر کہ وہ حکومت کے قابل نہ تھے بالکل غلط ہے۔جرمن ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ انگریز حکومت کے نااہل ہیں اور اس طرح ہر قوم اپنے آپ کو ہی سلطنت کا اہل سمجھتی ہے۔ اگر اس بناء پر کہ دوسرے کے نزدیک وہ حکومت کے اہل نہیں کسی قوم کو حکومت سے محروم کردینے کا اصول مان لیا جائے تو چاہئے کہ انگریز بھی حکومت سے دست بردار ہوجائیںکیونکہ جرمنوں کی رائے میں وہ اس کے قابل نہیں۔کیا انگریز اس کے لئے تیارہیں کہ اہلِ جرمنی ان پر حکومت کریں۔ یاجرمن اس کے لئے تیار ہے کہ انگریز ان پر حکومت کریں،کیا فرانسیسی اسے پسند کریں گے کہ ان پر جرمن حکمران ہوں اور اسی طرح کیا یہ سب ممالک اس بات کو مان لیں گے کہ ان پر امریکہ کی حکومت ہو۔ہر قوم اپنا قومی غرور رکھتی ہے اور خیال کرتی ہے کہ میں دوسرے سے برتر ہوں توکیا اس وہم کی بناء پراسے دوسروں پر حکومت کا حق حاصل ہو جاتاہے۔ اگر تو سوال یہ ہوتاکہ افریقہ کے لوگ جرمنی یا انگلستان پرحکومت کریں تب تو بے شک یہ کہا جاسکتا تھا کہ وہ جاہل ہیں لیکن ان کو اپنے ملک میں اور اپنے جیسوں پرحکومت کرنے دینے میں کوئی حرج نہیں تھاکیونکہ جن پر حکومت کی جاتی ہے وہ بھی تو کوئی تعلیم یافتہ نہیںبلکہ جاہل ہی ہیں۔جب تعلیم یافتہ اقوام کو اپنے ملک پر حکومت کا حق ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جاہلوں کو اپنے ملک میں حکومت کے ناقابل قرار دیا جائے۔
کیا یہ کبھی ہؤاہے کہ جو حقوق عورتوں کو حاصل ہیںان سے زمینداروں کو اس بناء پرمحروم کردیا جائے کہ وہ جاہل ہیں قانون اور شریعت ہر خاوند اور ہر بیوی کو یکساں حقوق دیتے ہیں۔ایک مزدور کی بیوی کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو ایک عالم یا جرنیل یا بادشاہ کی بیوی کودئیے جاتے ہیں اوراسی طرح جاہل خاوند اور عالم خاوند کو اپنی اپنی بیوی پریکساں حقوق دئیے جاتے ہیں کیونکہ اگر زمیندار اَن پڑھ ہے تو اس نے معاملہ بھی تو اپنی اَن پڑھ بیوی کے ساتھ ہی کرنا ہے۔اسی طرح افریقہ کے لوگ جاہل ہی سہی مگر کیا وہ اپنے اوپر حکومت کے بھی اہل نہیں۔آخر جب یورپ کے لوگ وہاں نہیں پہنچے تھے تو وہ اپنا گزارہ کرتے ہی تھے وہی صورت اب بھی ہوسکتی تھی۔کسی دوسری قوم کوکیا حق ہے کہ کسی دوسرے ملک میںجا کربزورِ قوت نَو آبادیاں قائم کرے۔تو یہ نہایت ظالمانہ فعل تھا جو یورپ نے غرور کے نشہ میں کیا اس نے بعض اقوام کو تو آدمیوں میں شمارنہیں کیا بلکہ جانورسمجھ کر آپس میں بانٹ لیا بعض کو آدمی تو قرار دیامگر یتیم جن کے لئے مربیوں کی ضرورت تھی جو ان کو کھلائیں پلائیں اور ان کی جائدادوں کا انتظام کریں۔یہ تو ایشیا کے ساتھ سلوک ہؤا لیکن یورپ والوں کو آدمی سمجھ کر حقوق دے دئیے گئے اور اس طرح عملاً اس اصول کی خلاف ورزی ہوئی جو مسٹرولسن نے صلح کے لئے تجویز کیاتھا اوراسی کے نتیجہ میں جرمنی کا کچھ علاقہ چھین کر زیکو سلواکیہ کے ساتھ ملا دیا گیا۔اس حکومت کے بنانے میںدراصل فرانسیسیوں کا دخل تھا۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ جرمنی ہمارا پرانادشمن ہے اس لئے اس کے پہلو میں ایک ایسی حکومت قائم کر دی جائے جو ہماری دوست ہو تو جب جرمنی کے ساتھ جنگ ہو تووہ حکومت ایک طرف سے حملہ کردے اور ہم دوسری طرف سے کریں۔اسی طرح ایک پولش حکومت بھی بنائی گئی لیکن مثل مشہور ہے کہـ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے،جرمن قوم کے متعلق خدائی فیصلہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے رکھے گا اور اس لئے یہ کس طرح ممکن تھا کہ کوئی اسے چکھ سکتا۔پہلے اٹلی میں مسولینی پیدا ہؤا، اس کے بعد جرمنی میں ایک شخص آگے آیاجسے اس کی قوم فیوہرر یعنی لیڈر کہتی ہے۔
یہ شخص پہلے فوج میںدفعدار کی حیثیت رکھتا تھا اورجنگِ عظیم سے پہلے یہ ایک معمولی ڈرافسمین تھا اورانجینئرکے زیر ہدایت نقشے تیار کیا کرتا تھا۔جنگ کے بعد اس کے دل میں خیال آیا کہ پریذیڈنٹ ولسن نے تو تحریک کی تھی کہ اگر جرمنی لڑائی چھوڑدے توصلح ان اصول کے ماتحت کی جائے گی کہ کوئی قوم دوسری قوم کو اپنے ماتحت نہ رکھے لیکن ہمارے ملک کا ایک حصہ تو زیکوسلواکیہ کے ساتھ ملا دیاگیاہے حالانکہ اس کا کسی کو حق نہیں تھا اور اسنے اعلان کیا کہ ہم اسے واپس لیں گے،اسی طرح اس نے بعض اور باتیں بھی سوچیں۔پھر اس نے اس سوال پرغور کرنا شروع کیا کہ لڑائی میں ہمیں شکست کیوں ہوئی اور آخر کار وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ یورپین اقوام نے جو ہمارے خلاف لڑرہی تھیںیہودیوں کو رشوت دے کر ملک کے اندر فساد برپا کرا دیا تھا۔انہوں نے یہودیوں کواُکسایا اور ان سے وعدہ کیا کہ تمہیں فلسطین میں آباد کیا جائے گا تم کوشش کرو کہ جرمنی کی طاقت کمزور ہوجائے۔ چنانچہ وہ روپے والے لوگ تھے،جس طرح یہاں ساہوکار جس طرف چاہیں زمینداروں کو ہانک کر لے جاتے ہیں انہوں نے جرمنی میں فساد پیدا کر دیا اورایجی ٹیشن شروع کرادی تو وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ جنگ میں ہماری کمزوری کا موجب دراصل یہودی تھے اور اس لئے اس نے اپنی انجمن کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی رکھا کہ ہم کسی غیر ملکی کو اپنے ملک میں نہیں رہنے دیں گے۔مہمان کے طور پر تو رہ سکتا ہے لیکن مستقل طور پر یہاں سکونت اختیار نہیں کر سکتا،ووٹ نہیں دے سکتا،حکومت میںکوئی حصہ نہیں لے سکتااور نوکری وغیرہ حاصل نہیں کر سکتا۔اس نے اپنی انجمن کے لئے پچیس نکات مقرر کئے جن میں سے کئی ایسے ہیں جو اسلامی تعلیم کے مطابق ہیں اور وہی دراصل اس کی برکت کا موجب ہوئے ہیں۔مثلاً فیوہررنے ایک مقصد اپنایہ بھی رکھا کہ ہم سود کی *** کوملک سے دور کریں گے اور اس یورپ میں جس کا تمام کاروبارہی سود پر چل رہا ہے اس نے بنکوں وغیرہ پر ایسا تصرف قائم کیا ہے کہ سود کو بہت محدود اور کم کر دیا ہے اگرچہ کُلّی طور پر دور کرنے کی توفیق اسے تا حال نہیں ملی۔جب فیوہرر ان خیالات کو لے کر کھڑا ہؤا تو چونکہ جرمن قوم میں ابھی بیداری موجود تھی،وہ ایک زندہ قوم تھی،تعلیم بھی موجود تھی ۔اس لئے لوگ آناًفاناً اس کے ساتھ شامل ہوگئے۔جبکہ بویریا میں ان کی تعداد ابھی سو کے قریب ہی تھی وہ ان کو لے کر برلن کی طرف چل پڑا۔اسے اس قدر وثوق تھا کہ لوگ اس کے ساتھ خود بخود شامل ہوجائیں گے کہ تعداد کی اس قدر کمی کے باوجود وہ ڈرا نہیںلیکن پولیس نے آکر اسے گرفتار کر لیا۔غالباً ۱۹۲۳ء یا ۱۹۲۴ء میں وہ قید ہؤا اور اس سے اگلے سال معافی کا اعلان ہوگیا۔قید سے نکل کر اس نے پھر کوشش شروع کی۔قوم زندہ اور بیدار تھی اور گو اس کی باتیں نئی تھیں مگر مذہب نہیں بدلا گیاتھا کہ لوگوں کویہ جدت ناگوارگزرتی۔نتیجہ یہ ہؤا کہ اس کی طاقت روز بروز بڑھنے لگی۔۱۹۲۶ء میں اس کی پارٹی کے دو آدمی پارلیمنٹ میں آئے۔۱۹۲۹ء میں بارہ اور ۱۹۳۲ئمیں بائیس اور ۱۹۳۳ء میں حکومت ہی ان کے قبضہ میں آگئی۔اس کے پچیس نکات میں سے ایک یہ تھا کہ ہم آسٹریا کا الحاق کریں گے۔ چنانچہ وہ اس میں کامیاب ہوگیا اور اس کے بعد اس نے اپنے ملک کے دوسرے حصوں کو واپس لینے کی طرف توجہ کی۔
میں بتا یہ رہا تھا کہ فیوہرر کے نکات میں سے بعض اسلام کی تعلیم کے مطابق ہیں۔ایک تو یہی کہ اس نے سود کو کم کیا ہے اور اسے دور کرنے کی فکر میں ہے۔اس کی یہ بات اسلامی تعلیم کے قریب لانے والی ہے اور اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ انہی قوموں کو برکت دے رہا ہے جو اسلامی تعلیم کے قریب آرہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فیوہرر کو برکت مل رہی ہے۔پھر اس نے عورتوں کے متعلق یہ حکم دیا ہے کہ ان کو گھروں میں بٹھائو اور اگرچہ اسلامی پردہ تو اس نے قائم نہیں کیا مگر ان کا مردوں کے ساتھ آزادانہ اختلاط ناچ گانوں میں شامل ہونا وغیرہ باتوں کی ممانعت کر دی ہے اور حکم دیا ہے کہ عورتیں گھروں میںبیٹھیں شادیاں کریں اور بچے جنیں۔جو مرد عورت شادی کریں ان پر ٹیکس میں کمی کر دی جاتی ہے اور جب بچوں کی ایک خاص تعداد ہو جائے تو خاص انعام دیا جاتا ہے اور یہ بھی اسلامی اصول کے مطابق ہے کیونکہ اسلام رہبانیت کو دور کرنے کا حکم دیتا ہے پھر اس نے یہ بھی کہا ہے کہ موجودہ عیسائی مذہب نے ہم کو کمزور کردیا ہے۔ یہ مذہب دنیا کی نجات کا موجب نہیں ہوسکتا اوراس لئے ہم اسے مٹائیں گے چنانچہ جرمنی میںعیسائیت پر سختیاں کی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پوپ ہمیشہ فیوہرر کے خلاف اعلان کرتا رہتاہے، تو اسلام کی کئی باتیں اس کے اندر پائی جاتی ہیں۔میں سمجھتا ہوں یہودیوں نے جو جرمنی کوتباہ کیا تھا اس وعدہ پر کہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کا موقع مل جائے گا اللہ تعالیٰ نے اس کا زبردست بدلہ لیاہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کو جرمنی سے نکلوایااور جرمن قوم کو پھر ایک زبردست سلطنت عطا کردی۔فیوہرر کی تحریک کو کئی رنگ میں اسلامی تعلیم کے ساتھ تعلق تھااور اس نے جو کام کیا ہے وہ اسلام کی تعلیم کو دنیا کے زیادہ قریب کرنے کا موجب ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے طاقت دی۔اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ مسیح موعود ؑکے زمانہ میں دجال آپ ہی آ پ گھلتا جائے گا اور اس کا یہی مطلب ہے کہ عیسائیت سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں سے اس کی عظمت اُٹھ جائے گی۔یہ ساری علامتیں وہی پیشگوئیاں ہیںجو احادیث میں موجود ہیں اور پوری ہو رہی ہیں۔
فلسطین میں یہودیوں کو جگہ ملنا بھی حدیث کی پیشگوئی کے عین مطابق ہے۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دجال کے ساتھ یہودی پھرفلسطین میں داخل ہوںگے۔ اب دیکھ لو یہودی داخل ہورہے ہیں یا نہیں،پھردیکھ لو کن کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں،صاف ظاہر ہے کہ عیسائی حکومتوں کے ساتھ، تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہود کے دجال کے ساتھ فلسطین میں داخلہ کی پیشگوئی صاف الفاظ میں فرمادی تھی۔
اب مَیں وہ اصل مضمون بیان کرتا ہوں جس کی طرف آج کے خطبہ میں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔۱۹۲۴ء میں مَیں نے جو کتاب احمدیت یعنی حقیقی اسلام لکھی تھی اس میں مَیں نے بِالوضاحت بتایا تھا کہ لیگ آف نیشنز کا قیام غلط اصول پر ہے۔ قرآن کریم نے جو لیگ پیش کی ہے یہ لیگ اس کے خلاف بنائی جارہی ہے اور جب تک اس میں اصلاح کرکے قرآن کریم کی بتائی ہوئی لیگ قائم نہیں ہوگی دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔قرآن کریم نے لیگ کے لئے جو اصول رکھے ہیں ان میں سے ایک اہم اصول یہ ہے کہ جب کوئی ظالم ظلم کرے تو اس کا ہاتھ روکو، مظلوم کی مدد کرواور دوسرا یہ کہ یہ نہ کرو کہ ظالم پر فتح پانے کے بعد تم اسے لوٹنے لگو،صرف اتناکروکہ مظلوم کا حق اسے دلوائو۔
میں نے اپنی اس کتاب میں اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ لیگ آف نیشنز نے قرآن کریم کے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔یعنی جرمنی کے بعض علاقے اس سے چھین کر دوسروں کو دے دئیے گئے ہیں اور میں نے وضاحت سے یہ لکھ دیا تھا کہ چونکہ یہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف کیا گیا ہے اس لئے اس کے نتیجہ میں دنیا میںامن نہیں ہوگا۔پھر یہ شرط رکھی گئی ہے کہ لیگ کے کاموں میں فوج استعمال نہیں کی جائے گی میںنے لکھا تھا کہ یہ اصول بھی غلط ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ فوج کے بغیر لیگ کی کو ئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی اورآج چودہ سال بعد واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ قرآن کریم نے جو بات پیش کی تھی اور جس کے متعلق مجھے یہ فخر ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ سرِّ قرآنی اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مجھ پرکھولا ہے،آخر سچی ثابت ہوئی۔آج جو امن قائم ہؤا ہے وہ اسی وجہ سے ہؤا ہے کہ فرانس اور برطانیہ نے اپنی افواج کو تیاری کا حکم دے دیا اور ان کوباہر نکالا جس سے فیوہرر کویہ خیال ہؤا کہ اب سنبھل کر چلنا چاہئے ورنہ لاکھوں جانیں ضائع ہوں گی۔
پس آج وہ لیگ کامیاب ہوئی ہے جو قرآن کریم نے پیش کی تھی اور جسے بیان کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے مجھے دی تھی،نہ وہ جو یورپ والوں نے بنائی تھی اور چونکہ قرآن کریم کا یہ اصول برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر چیمبرلین کے ذریعہ پورا ہؤاہے اس لئے انہیں بزدل کہنا غلطی ہے۔اگر تو انگریزوںنے زیک حکومت کی بنیاد رکھی ہوتی تو یہ اعتراض ان پر ہو سکتا تھا کہ اسے چھوڑتے کیوںہو۔مگر انگریزوں نے تو اس وقت بھی اس کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ یہ غیرطبعی تقسیم ہے جن لوگوں سے یہ علاقے چھینے گئے ہیں انہوں نے اگر لڑائی کی تو ہم ذمہ دار نہیں ہونگے اور جو ذمہ دارنہیں اس پر اعتراض کیسا۔ہاں اگر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے تو فرانس پر کہ جس نے یہ حکومت بنوائی تھی۔اگر بزدلی ہے تو اس کی جس نے پہلے حکومت قائم کرائی اور جب اس کے لئے مصیبت کے دن آئے تو پیچھے ہٹ گیا۔اس کی مثال تو وہی ہے کہ کہتے ہیں کوئی پٹھان تھا جس نے بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں جیسے فوجی لوگ اوپر اٹھا کر رکھتے ہیں وہ بھی رکھتا تھا اور اس وجہ سے اس کے دل میں خیال پیداہونا شروع ہؤا کہ میرے سواکسی کو مونچھیں اونچی کرنے کا حق ہی نہیں۔بازار میں چلتے چلتے ذرا کسی کے بال کھڑے دیکھے خواہ کپڑا لگنے سے ہی ہو گئے ہوں توجھَٹ اسے ڈانٹنا شروع کردیا کہ کم بخت مونچھیں نیچی کرتا ہے یا نہیں۔شہر والے اس کی ان حرکات سے سخت تنگ تھے مگر جرأت نہیں کرتے تھے کہ اسے کچھ کہیں۔ ایک شخص نے ارادہ کیا کہ میں اسے سیدھا کروں گا چنانچہ اس نے گھر میں بیٹھ کر مونچھوںکے بالوں کو خوب پالنا شروع کیا اورخوب موم لگا لگا کر انکو اونچا کرتارہا اور پھر ایک روز خوب اکڑ کراور تلوار وغیرہ لگاکر بازار میں آیا۔کسی نے خان صاحب کو بھی خبر کر دی وہ بہت جز بز ہوئے اور اسے کہا کہ کم بخت مونچھیں نیچی کرتا ہے کہ نہیں،تجھے معلوم نہیں کہ یہاں سوائے میرے کوئی مونچھیں اونچی نہیں رکھ سکتا۔اس نے جواب دیا کہ تم کو ن ہو؟ میرا حق ہے کہ مونچھیں اونچی رکھوں بلکہ میں تم کو کہتاہوں کہ تم فوراً مونچھیں نیچی کرلو نہیں تو تمہاری میری جنگ ہوگی اور فیصلہ تلوار سے ہوگا۔اس پر خان صاحب نے بھی تلوار سنبھالی لیکن قبل اس کے کہ لڑائی شروع ہو اس شخص نے کہا کہ خان صاحب مجھے ایک خیال آیا ہے۔لڑائی میں اگر آپ مارے گئے تو آپ کی بیوی بیوہ اور بچے یتیم ہو جائیں گے اور پھر طرح طرح کے مصائب اٹھائیں گے اور اگر میں مارا گیا تو میرے، اس لئے بہتر ہو گا کہ آپس میں لڑنے سے قبل پہلے اپنی اپنی بیوی اور بچوں کا صفایا کر دیا جائے تا ہماری وجہ سے انہیں تکلیف نہ ہو۔خان صاحب فوراً آمادہ ہو گئے،گھر میں گئے اور سب کو ہلاک کر کے آئے۔ہاتھ میں تلوار تھی جس سے خون ٹپک رہا تھا اور آتے ہی اس سے کہا کہ آئو اب فیصلہ کر لیں لیکن اس نے جواب دیا کہ نہیں خان صاحب مَیں نے سوچنے کے بعد یہی فیصلہ کیا ہے کہ مجھے اپنی مونچھیں نیچی کر لینی چاہیں آپ ہی اونچی رکھیں میری رائے اب بدل گئی ہے۔تو وہی کام فرانس نے کیاہے۔پہلے تو ایک قوم بنوائی حالانکہ اس وقت انگریزاور امریکہ سب اس بات کے خلاف تھے لیکن جب وہ قوم تیار ہوگئی اور ادھر سے جرمن تیار ہوئے کہ ہم لڑتے ہیں تو فرانس نے جھَٹ مونچھیں نیچی کر لیں اور بیچ میں آکر کہہ دیا کہ نہ لڑو۔مگر اتنی کسر رہ گئی کہ اس شخص نے تو دشمن کو اپنی تدبیر سے نقصان پہنچایا تھا فرانس نے خود اپنے دوستوں کو نقصان پہنچایاہے۔
پس اگر اس میں کسی پر الزام آسکتا ہے تو فرانس پرانگریزوں پر نہیں۔اس میں شک نہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں پنجاب میںبعض انگریزوں نے ہمارے ساتھ نہایت ہی گندہ رویہ اختیار کئے رکھا ہے اور بہت بری فطرت کا ثبوت پیش کیا ہے اور اسکی سزا ان لوگوں کو مل بھی رہی ہے اور انشاء اللہ اور بھی ملتی رہے گی اور اس امر کا ثبوت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اپنے دشمنوں کو سزا دینے کے لئے زمینی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ خود آسمانی حربوں سے ان کا بدلہ لیتا ہے مگر باوجود ان حالات کے ہم یہ نہیں کر سکتے کہ سب انگریزی قوم کو بُرا کہیں اور ان کے اچھے افراد کی خوبیوں کا اعتراف نہ کریں مسٹر چیمبر لین نے ستر سال کی عمر میں جس درد کے ساتھ تکلیف کو برداشت کر کے امن قائم کرنے کی کوشش کی ہے وہ انگریزی قوم کے لئے باعثِ فخر ہے اور مسٹر چیمبرلین کی عزت کو بڑھانے کا باعث۔ انہوں نے قطعاً کوئی بزدلی نہیں دکھائی،پارلیمنٹ میں انہوں نے جو تقریر کی وہ بہت ہی شریفانہ تھی،آپ نے کہا کہ ہمیں آج سے بیس سال قبل چاہئے تھا کہ ایک قوم کو دوسری کے ماتحت نہ کرنے دیتے،پھر اس بیس سال کے عرصہ میں کئی مواقع آئے مگر ہم نے اس کا ازالہ نہ کیااور اس ظلم کو یونہی رہنے دیا۔یہ ایک ایسی بات ہے جو بااخلاق آدمی کے منہ سے ہی نکل سکتی ہے اور گو وہ سچے مذہب پر قائم نہیں ہیں لیکن ان کی اس تقریر سے یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ ان کے اندر شرافت اور خوفِ خدا ضرور ہے آج ہی میں نے ان کی تقریر کا ایک اور فقرہ سنا۔ان کے ملک میں بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بڈھابزدل ہے بلکہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اسے الگ کر دیا جائے لیکن آپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ لوگ مجھ پر اعتراض کر رہے ہیںاور میرا عمل یہ ہے کہ میں نے سخت مصیبت اٹھاکر آگ میں سے ایک چیز نکالی ہے اور وہ دنیا کا امن ہے۔ تم مجھے بیشک گالیاں دے لو مگر میں نے یہ کام کیا ہے کہ دنیا میں امن قائم کر دیا ہے اور دنیا کو بہت بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔
جیسا کہ میں پہلے بھی کئی بار یہ کہہ چکا ہوں کہ اگر اب جنگ ہوئی تو نہایت خطرناک ہوگی اور عین ممکن ہے کہ ایک دوسال میں ہی دس بیس بلکہ پچاس کروڑ آدمی ماراجائے اور گو یہ جنگ ہو کر تو رہے گی کیونکہ پیشگوئیوں سے یہی ثابت ہوتا ہے مگر اسے بھڑکانے والے خطرناک مجرم ہونگے اور اگر اس کے آثار دیکھتے ہوئے برطانوی وزیراعظم نے کوشش کی کہ یہ جنگ ٹل جائے اور اس بناء پرکی کہ ایک قوم کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے تو اس کی یہ کوشش بہت قابلِ قدر ہے اور اس کے ذریعہ قرآن کریم کے اصول غالب آئے ہیںاور ہمیں یہ موقع ملاہے کہ ہم یورپ سے کہیں کہ تم نے سینکڑوں سال کے تجربہ کے بعد ایک لیگ قائم کی لیکن غلام ہندوستان کے شہروں سے دور ایک گائوں سے جہاں گو اب گاڑی آچکی ہے مگر اس وقت نہیں تھی۔محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک غلام نے یہ آواز اٹھائی کہ میرے آقا نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر جو تعلیم دی تھی تم اس کے خلا ف چل رہے ہو اس لئے اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا اور اس آواز کے چودہ سال بعد تم نے اپنے عمل سے تسلیم کر لیا ہے کہ تمہارافیصلہ غلط تھا اور امن قائم کرنے کا وہی طریق ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایاہے اور جسے اسکے ایک خادم نے چودہ سال پہلے پیش کیاتھا۔یعنی یہ کہ جب تم ظالم کو دبَالوتو یہ نیّت مت کرو کہ اب موقع ہے اسے مٹادیںصرف مظلوم کا حق اسے دلوادو اوربس۔
اگر جنگِ عظیم کے بعد اس تعلیم پر عمل کیا جاتاتو نہ زیکوسلواکیہ کی یہ حکومت قائم ہوتی نہ مسولینی اور نہ فیوہرر پیدا ہوتے اور نہ نئی جرمنی معرضِ وجود میں آتی اور نہ اس جنگ کے آثارنمودار ہوتے جو بظاہر ایک دن واقع ہو کر ہی رہے گی اور جس کی تباہی کا خیال کرکے بھی انسان کا دل کانپ جاتا ہے۔‘‘ (الفضل ۱۹؍اکتوبر۱۹۳۸ئ)

۳۴
اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے
آئندہ نسلوں کی اصلاح نہایت ضروری ہے
(فرمودہ۲۸؍اکتوبر ۱۹۳۸ء بمقام دہلی)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’ہر ایک قوم کے کچھ آداب ہوتے ہیں جن کو اگر وہ ملحوظ نہ رکھے تو اپنے ماحول کو کبھی درست نہیں کر سکتی۔میں آج کا مضمون بیان کرنے سے قبل یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد میں ایسے مواقع پر جب کہ خطبہ ہورہا ہو یا کوئی تقریر کی جارہی ہو چھوٹے بچوں کو پیچھے بٹھانے کا ارشاد فرمایا ہے تا کہ ان کے شورو غل سے وہ مقصد ضائع نہ ہو جائے جس کو حاصل کرنے کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہماری عبادتیں میلہ نہیں ہیں اور نہ ان کی یہ غرض ہے کہ محض ان سے وقتی سُرور حاصل کیا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عُرسوں نے لوگوں کو یہ عادت ڈال دی ہے کہ ایسے موقعوں کو کھیل اور تماشہ کے طورپر دیکھا جاتا ہے نہ کہ کسی سنجیدگی کی نظر سے اور جب بچپن سے ہی ان اجتماعات کے متعلق یہ خیالات دلوں میں راسخ ہوجائیں کہ وہ تماشہ ہیں تو پھر ایسے موقعوں سے سنجیدگی اور پوری توجہ کے ساتھ کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب ایسی مجالس ہوں تو بچے پیچھے رکھے جائیں کیونکہ اگر وہ لوگ جن کے مشوروں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے پیچھے رہیں گے تو جماعت ان کے مشوروں سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گی۔پس ضروری ہے کہ آگے بڑے آدمی ہوں، پھر بچے ہوں اور پھر عورتیں۔عورتوں کو سب سے پیچھے اس لئے نہیں رکھا جاتا کہ وہ ادنیٰ ہیں بلکہ اس لئے رکھا جاتا ہے کہ ان کے آگے پردہ کی دیوار کے طور پرکھڑے ہوسکیں۔
اس مختصر سی نصیحت کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں۔یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ قومی تربیت کے ہمیشہ دودَور ہوتے ہیں جس طرح جسمانی تربیت کے بھی دو دَور ہوتے ہیں اور یہ دونوں دَور متقابل چلتے ہیں گویا افراد کی ترقی اور قوم کی ترقی ایک ہی اصول پر مبنی ہے۔اس نقطہ نگاہ کے ماتحت جب ہم افراد کی حالت کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تربیت کا ایک دور وہ ہوتا ہے۔جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور دوسرا دور اس وقت ہوتا ہے جب بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتاہے۔ پہلے دور میں بچہ کی غذا وغیرہ کا انتظام خود خدا تعالیٰ کرتا ہے لیکن دوسرے دَور میں ان امور کو صرف خدا تعالیٰ پر نہیں چھوڑا جاتا بلکہ ماں باپ بچہ کی جسمانی تربیت اور کھانے پینے کی طرف خود توجہ کرتے ہیں اور اس کی خوراک اور لباس وغیرہ میں ان کا بہت دخل ہوتاہے۔اس دوسرے دَور میں بچہ کی تربیت کا کام اس کی پیدائش سے ہی شروع ہو جاتا ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دی جائے۔۱؎ اب دیکھو اذان عربی زبان میں ہے اور بچہ اِسے نہیں سمجھ سکتا مگر باوجود اس کے شریعت نے حکم دیا ہے کہ اس کے کان میں اذان دی جائے اور یہ خالی ازحکمت نہیں بلکہ جبکہ علم النفس کے رو سے اب ثابت ہوچکا ہے اس وقت کی باتوں کا بچہ کے دل و دماغ پر خاص اثر ہوتا ہے اور وہ نقوش اس کے دل ودماغ پر پیدا ہو جاتے ہیں جو مٹتے نہیں۔فرانس میںایک لڑکی تھی جو جرمن زبان میں سر من پڑھتی تھی حالانکہ اسے کسی نے جرمن زبان سکھائی نہیں تھی۔لوگ سمجھتے تھے کہ اس لڑکی پر جِنّ بھُوت کا اثر ہے مگر جب تحقیقات کی گئی تو پتہ چلا کہ جب وہ ابھی ایک سال کی تھی اُس وقت اس کی والدہ ایک جرمن پادری کے پاس ملازم تھی اور اس پادری کی عادت تھی کہ سرمن بلند آواز میں پڑھتا تھا چنانچہ وہی سرمن اس لڑکی کے دماغ میں بھی نقش ہوگئے اور وہ دَو رے کی حالت میں انہیں دُہراتی رہتی۔غرض بچہ کے کان میں اذان دینے کی ایک حکمت تو یہ ہے کہ اس طرح بچہ کو بڑے ہونے کے بعد عربی زبان سے وابستگی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ اسے خیال ہوتا ہے کہ اس زبان کی آواز پہلے بھی کبھی میرے کان میں پڑ چکی ہے۔اس کے علاوہ دوسری حکمت بچہ کے کان میں اذان کہنے کی یہ ہے کہ ماں باپ یہ سمجھ لیں کہ بچہ کی تربیت کا زمانہ شروع ہو گیا ہے۔کئی ماں باپ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بچہ بڑا ہو کر تربیت حاصل کر لے گاحالانکہ وہ سخت غلطی پر ہوتے ہیں۔جب بچے تعلیم حاصل کرلیتے ہیں تو کئی لڑکے اپنے اَن پڑھ ماں باپ کو پاگل سمجھنے لگتے ہیں اور بسا اوقات ان کی والدہ اگر کوئی بات کہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اماں تم نہیں جانتیں کہ یہ علمی بات ہے، پس بچے کی تربیت کا زمانہ اس کا بچپن ہی ہے،حضرت امام شافعیؒ نے ۹سال کی عمر میں تمام دینی تعلیم کی تکمیل کرلی تھی۔پس اذان یہ بتاتی ہے کہ تربیت کا کام بچہ کی پیدائش سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور حقیقت میں وہی وقت ہوتا ہے جب ماں باپ اپنے خیالات کا اثر بچہ پر ڈال سکتے ہیں۔غرض پہلے دَور میں جبکہ بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے خدا تعالیٰ خود بچہ کی تربیت کرتا ہے مگر دوسرے دَورمیں اسے تربیت کے لئے انسان کے سپرد کیا جاتا ہے۔ یہی دَور قوموں پر بھی آتے ہیں جب خدا تعالیٰ کا کوئی مامور دنیا میں آتا ہے تو اس وقت اس کی قوم کا ابتدائی دَور بچہ کے اس پہلے دَور سے مشابہت رکھتا ہے۔ جبکہ وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اس وقت خداتعالیٰ خود تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے،معجزات اور نشانات کے ذریعہ قوم کی تربیت ہوتی ہے اور وہ بمنزلہ ان غذاؤں کے ہوتے ہیں جو ماںکے پیٹ میں بچہ کو پہنچتی ہیں۔بے شک مامورانِ الٰہی بھی ان کی تعلیم وتربیت کرتے ہیں لیکن ان کا اس میں اتنا ہی دخل ہوتا ہے جتنا ماں کی خوراک کا خیال اس وقت رکھا جاتا ہے جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہو۔خدا بھی اپنے رسول کی خود تربیت کرتا ہے اور اس کے ذریعہ امت کو خوراک مل جاتی ہے۔
پھر جسمانی تربیت میں دوسرا دَور جس طرح اس وقت شروع ہوتا ہے جب بچہ پیدا ہو اسی طرح قوموں پر ان کی تربیت کا دوسرادَور جب نبی کی وفات کے بعد آتا ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ کمزور لوگوں کی ایک نظام کے ماتحت تربیت کی جائے۔جس طرح بچہ کے پہلے دَور پر قیاس کر کے کہ جب خدا تعالیٰ اسے پہلے دَور میں خود رزق دیتا رہا ہے کسی نادان کا یہ خیال کرلینا کہ دوسرے دَور میں بھی خدا تعالیٰ اس طریق پر اس کے رزق کا انتظام کرے گا اور اس کی مزیدتربیت کی ضرورت نہیں بے وقوفی ہے۔اسی طرح قوموں کی ترقی کے ابتدائی دَور کی تربیت پر قیاس کر کے یہ نتیجہ نکالنا کہ دوسرے دَور میں بھی مزید عمل کی ضرورت نہیں نادانی ہے۔
نبی کے زمانہ میں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نلکی لگا دی جاتی ہے اور اس کے ذریعہ معجزات و نشانات کی خوراک قوم کو اس طرح مل جاتی ہے جس طرح بچہ کو ماں کے پیٹ میں خوراک ملتی ہے لیکن اگر بچہ کے دوسرے دور میں بھی ہم پہلی مثال پر قائم رہیں گے اور کہیں گے کہ جس طرح پہلے خدا تعالیٰ بچے کو کھلاتا رہا اسی طرح اب بھی کھلائے اور جس طرح پہلے سردی گرمی سے بچاتا رہا اسی طرح اب بھی بچائے ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس کی غذا کا فکر کریں یا اسے کپڑے بنا کر دیں تو یقینا ہم اس کی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔ دیکھو ماں جب تک بچہ اس کے پیٹ میں ہو تو براہ راست کوئی تربیت بچہ کی نہیں کر سکتی مگر دوسرے دور میں کر سکتی ہے۔اسی طرح قوم جب دوسرے دور میں آتی ہے تو سخت قوانین اور کڑوی دوائیوں کی اس کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔جب تک بچہ ماں کے پیٹ میں تھا جہاں وہ کسی چیز کا (انکار نہیں کر سکتا تھا)وہاں وہ اپنی مرض سے کسی چیز کو اختیار نہیں کر سکتا تھالیکن پیدائش کے بعد اس میں تغیر آتا ہے اور کسی بات کو ردکرنا یا اختیار کرنا اس کی مرضی پر منحصر ہوتا چلا جاتا ہے۔یہی حال قوم کا ہوتا ہے اسے بھی دوسرے دور میں نئے عمل اور نئی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ سخت نادانی کا خیال ہے کہ قوم کی پہلی سی تربیت کیوں نہ ہوکیونکہ یہ ایک طبعی تغیر ہے۔اگر بچہ کی پیدائش کے بعد اس کے متعلق یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ اسے کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں تو وہ ضرور مرے گا۔پس یاد رکھو کہ وہ تغیرات جن پر میں اس وقت زوردے رہاہوں وہ ضروری ہیںکیونکہ اب ہماری جماعت پر وہ پہلاد ور نہیں۔جبکہ تواتر سے معجزات اور نشانات کا سلسلہ جاری تھا اور نہ اب وہ زمانہ ہے جسے خدا تعالیٰ نے لیلۃ القدر قرارد یا ہے اور جس کے متعلق قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ وہ ہزار ماہ سے بہتر ہے،اب وہ زمانہ واپس نہیں آسکتا۔اس زمانہ میں تربیت خدا خود کرتا تھا اور کُلّی طور پر باگ ڈور اس کے ہاتھ میں تھی مگر اب دوسرے دور میں وہ انسان کو سکھانا چاہتا ہے کہ وہ اپنی تربیت اپنے ہاتھ میں لے،اگر یہ زمانہ نہ آئے تو انسانی پیدائش کی غرض یقینا باطل ہو جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۲؎ یعنی انسان کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کے ساتھ میرا مظہرِ کامل بنے نہ یہ کہ میں اسے بنادوں۔گویا اس آیت میں ایک طرف انسان کو اپنا مظہر بتایا ہے اور دوسری طرف فرمایا ہے کہ یہ مظہریت قبول کرنا تمہارے اپنے اختیار میں ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے اس امر کو انسان کی اپنی مرضی پر چھوڑا ہے کہ وہ طوعی طور پر نہ کہ جبری طور پر اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کرے۔یہی انسانی جدوجہد کا وقت ہوتا ہے جس میں اسے اپنے علم اور تجربہ سے فائدہ اٹھا کر کام کرنا پڑتا ہے۔وہ شاگرد جو استاد کے پاس بیٹھا ہو اور وہ جو اپنے طور پر مطالعہ کرے دونوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔پہلا اپنی ہر مشکل استاد کے سامنے پیش کرکے اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن دوسرے کو اس غرض کے لئے کتابوں اور لغات کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے۔پس تغیرات ضروری ہیں اور انہی تغیرات کا نام تحریک جدید ہے۔اس تحریک کے تین بڑے حصے ہیں۔اول مردوں کی اصلاح، دوسرے عورتوں کی اصلاح اورتیسرے بچوں کی اصلاح۔دنیا میں کوئی قوم کامیابی حاصل نہیں کر سکتی جب تک کوئی مقصد اس کے سامنے نہ ہو اور اس کے لئے مرد عورت اور بچے سب مل کر کام نہ کریں۔پس ہر جماعت کا فرض ہے کہ اپنے ہاں کے مردوں، عورتوں اور بچوں کی اصلاح کرے۔عورتوں کی اصلاح کے لئے لجنہ کا قیام نہایت ضروری ہے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسے فرضِ کفایہ سمجھ لیا گیا ہے۔چند عورتیں لجنہ میں شامل ہو جاتی ہیں اور باقی اپنے لئے اس میں شامل ہونا ضروری نہیں سمجھتیں۔پس ضرورت ہے کہ ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کا قیام ہو اور سب بالغ عورتیں اس میں شامل ہوں اور کوئی ایک عورت بھی ایسی نہ رہے جو اس سے باہر ہو۔یہی ایک ذریعہ ہے جس سے عورتوں کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ دہلی کے متعلق مجھے رپورٹوں سے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ یہاں صرف دس بارہ عورتیں جمع ہوتی ہیں اور وہی لیکچر دے لیتی ہیں حالانکہ جب تک ایک عورت بھی باہر رہے اس وقت تک ہماری تنظیم مکمل نہیں ہو سکتی۔ لجنہ میں داخلہ کو اگرہم نے ضروری قرار نہیں دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتیں اس میں شمولیت کو غیر ضروری سمجھ لیں بلکہ ہمارا مقصد ہے کہ وہ اپنی مرضی اور خوشی سے اس میں شامل ہوں اور اس طرح انہیں ثواب اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوافل کو قُربِ الٰہی کا ذریعہ بتایا ہے لیکن آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہم نوافل کے متعلق کوئی پابندی نہیں عائد کرتے۔اسی طرح مثلاً میری خواہش یہی ہے کہ میرے بچے سرکاری ملازمت اختیار نہ کریں لیکن میں نے ان سے کبھی ایسا کہا نہیں کیونکہ اگر وہ میرے کہنے سے ایسا کریں گے تو اس کاثواب مجھے ملے گا نہ کہ ان کو۔یہی فائدہ اپنی امت کو پہچانا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنظر تھا اور اسی لئے آپ نے نوافل کے متعلق کوئی پابندی عائد نہیں کی۔دوسری ضروری چیز مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام اور اس میں شمولیت ہے۔میں نے اس بارہ میں ابھی تک کوئی پابندی نہیں لگائی لیکن اگر کوئی باہر رہ جاتا ہے اور خدام الاحمدیہ میں شامل نہیں ہوتا تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ہمیں نوجوانوں کو ایسے رنگ میں سمجھانا چاہئے کہ کوئی نوجوان اِس میں شامل ہونے سے نہ رہے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ جو بڑے کام ہوتے ہیں ان کی تکمیل کے لئے ایک لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ عظیم الشان انعامات جن کے مانگنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے وہ بغیر بڑی قربانیوں کے نہیں مل سکتے۔یہ بھی ایک غلطی تھی جس نے مسلمانوں کو تباہ کیا کہ انہوں نے سمجھ لیا صحابہؓ پر تمام ترقی ختم ہوگئی ہے حالانکہ اگریہ صحیح ہوتو پھر ہمیں کیا ملے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس عقیدہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچا ہے۔خدا تعالیٰ نے تو قرآن کریم میں۳؎کہہ کر یہ دعا سکھائی ہے کہ تم بڑے سے بڑے انعام طلب کرو۔پس جب دعا سکھانے والے نے بخل سے کام نہیں لیا،دینے والے کے ہاں کمی نہیں،تو مانگنے والا کیوں مایوس ہو۔صحابہؓ کے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی جب تک لوگ اس بات کو سمجھتے رہے ان کو اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے رُتبے دیئے اور انہوں نے لوگوں کے سامنے دعوے بھی کئے لیکن جب ان کے دماغ چھوٹی چھوٹی باتوں پر راضی ہونے لگ گئے تو وہ تنزل میں گر گئے۔ہمیں مسلمانوں کے اس تنزل سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ سے اس کی بڑی سے بڑی نعمت طلب کرنی چاہئے۔ہاں روحانی نعمتوں کو معین طور پر مانگنا نادانی ہوتا ہے۔ طبیب کو ہم یہ توکہہ سکتے ہیں کہ بہتر سے بہتر نسخہ دے مگر یہ کہنا کہ معجون فلاسفہ دو یا ایسٹرن سیرپ دو بے وقوفی ہے۔خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مانگنے والے کے لئے کونسی روحانی نعمت بہتر ہوگی۔مثلاً ایک شخص نفلوں کی توفیق اور اس کے ذریعہ قُربِ الٰہی مانگتا ہے حالانکہ ہو سکتا ہے کہ اس کے لئے روزوں سے ترقی مقدر ہو۔پس روحانی انعامات کو معین طور پر مانگنا قربِ الٰہی کے دروازہ کو اپنے اوپر بند کرنا ہے۔ہاں جسمانی طور پر اولاد وغیرہ کے لئے کسی معیّن نعمت کا طلب کرنا منع نہیںلیکن روحانی لحاظ سے ہمیں اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ اعلیٰ سے اعلیٰ انعامات طلب کرنے چاہئیں اور اس امر کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ کون سا انعام ہمیں دیتا ہے کیونکہ وہی اس امر کو بہتر سمجھ سکتا ہے کہ ہمارے قویٰ اور ہماری دماغی بناوٹ کے مناسبِ حال کونسا روحانی انعام ہے۔غرض نسلوں کو درست رکھنااعلیٰ مقاصد کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے مگر اس کے لئے ایک نظام کی ضرورت ہے اور اس نظام کو قائم کرنے کے لئے مختلف تحریکات ہوتی رہتی ہیں۔وہ لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کہ یہ نئی چیزیں ہیں وہ غلطی پر ہیں اگر حالات کے مطابق ہم تبدیلی اختیار نہیں کریں گے تو عقل مند ی سے بعید ہوگا۔ جیسے اگر کوئی شخص موٹر کو تعیّش کی چیز سمجھ کر اس سے کام نہ لے یاریل کے ہوتے ہوئے پیدل سفر کرنے پراصرار کرے تو یہ اس کی نادانی ہو گی۔ پس ضروری ہے کہ انعامات کے حصول کے لئے مقررہ نظام کے ماتحت سب دوست مل کر کام کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب دہلی تشریف لائے اور آپ یہاں کے بزرگوں کے مزارات پر تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا یہاں اتنے اولیاء اللہ دفن ہیں کہ اگر یہاں کے زندے توجہ نہ کریں گے تو ان بزرگوں کی روحیں تڑپ تڑپ کر فریاد کریں گی اور خداتعالیٰ کا کام پورا ہو کر رہے گا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہشات میں سے ایک خواہش یہ بھی تھی کہ دہلی احمدیت کو قبول کرنے سے محروم نہ رہے۔پس سمجھ لو کہ آپ کی اِس خواہش کو پورا کرنے کے لئے کتنی عظیم الشان کوششوں کی ضرورت ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ میں جب لکھنؤ طب پڑھنے کے لئے گیا تو مجھ سے میرے استاد نے پوچھا کہ تمہارا کہاں تک طب پڑھنے کا ارادہ ہے۔مجھے اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ سب سے بڑا طبیب کون گزرا ہے مگر میرے مُنہ سے بے ساختہ نکلا کہ افلاطون کے برابر۔ افلاطون اگرچہ فلاسفر تھا مگر استاد نے ان سے کہا شاباش تم نے بڑے آدمی کا نام لیا ہے اس سے تمہارا ارادہ بہت بلند معلوم ہوتا ہے تم کچھ نہ کچھ ضرور بن جاؤ گے۔ایسا عزم اور ارادہ رکھنے والے نوجوانوں کی اب بھی ضرورت ہے یاد رکھو حقیقی انسان وہی ہے جس کے مرنے پر لوگوں کو یہ خیال ہو کہ آج فلاں کی موت سے جو خَلا پیدا ہوگیا ہے اس کو پُر کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔
میں نے دیکھا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی تربیت میں ابھی بہت نقص ہے اور اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ مجھے اکثر بچیوں کی پیشانی پر ابھی وہ بات نظر نہیں آتی جو ان کے نورِایمان کو کامل طور پر ظاہر کرنے والی ہو۔بہت تھوڑے بچے اور نوجوان میں نے ایسے دیکھے ہیں کہ جن کی پیشانی پر میں نے لکھا ہؤا دیکھا ہو اور وہ خداتعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنے کے لئے پوری جدو جہد کرتے ہوں۔اسی طرح میں بڑوں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اس امر پر غور کریں کہ وہ رات دن کے اوقات میں سے کتنا وقت خدا کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر جماعت یہ عزم کر لے کہ اگلے سال وہ دگنی ہو جائے گی تو۴؎ کا زمانہ بہت جلدآسکتا ہے۔اگر جماعت متحدہ طور پر ہمت نہیں کرتی تو کم از کم افراد یہ عہد کر لیں کہ وہ ایک ایک آدمی کو احمدی بنا کر دم لیں گے۔یاد رکھو ایک ہی چیز ہے جس سے زندگی ملتی ہے اور وہ موت ہے۔جب تک انسان موت قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس وقت تک وہ حقیقی زندگی نہیں پا سکتا۔ نطفہ کا کیڑا بھی زندہ ہی ہوتا ہے لیکن جب وہ ماں کے پیٹ میں موت قبول کر کے ایک دوسری زندگی حاصل کرتا ہے تو اس کی وہ زندگی پہلی زندگی سے کتنی اعلیٰ اور کتنی بلند ہوتی ہے۔
کچھ عرصہ ہؤا جب میں یہاں آیا تھا تو جماعت میں اس وقت صرف بیس پچیس دوست تھے میں نے نماز جمعہ پڑھائی تو میر قاسم علی صاحب (مرحوم)بڑے خوش تھے اور کہتے تھے اب تو ہم پچیس ہوگئے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے اب ڈیڑھ دو سَو کے قریب یہاں ہماری جماعت کے آدمی ہیں اور اگر ہماری جماعت دعاؤں،اچھے نمونہ اور اصلاح وارشاد کے ذریعہ سے کوشش کرے تو ایک سال کے اندر اندر اپنی تعداد سے دُگنی ہو سکتی ہے۔بعض لوگوں کو شکوہ ہے کہ میں ان کی دعوت قبول نہیں کر سکا لیکن انہیں سوچنا چاہئے کہ ایک آدمی آخر کہاں تک کھا سکتا ہے۔میرا اصل کام خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت ہے اور جو شخص اس کام میں میری مدد کرتا ہے وہی میرا دوست ہے۔یہی وہ مہمان نوازی ہے جو ہر شخص کر سکتا ہے۔پس میری اگر خواہش ہے تو یہ کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے پھر یہاں آنے کا موقع عطا فرمائے تو میں دیکھوں کہ سب عورتیں لجنہ میں شامل ہیں،سب نوجوان خدام الاحمدیہ کے پروگرام پر کاربند ہیں اور سب لوگ سرگرمی سے اصلاح وارشاد کے کام میں مصروف ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔آمین۔‘‘
(الفضل۱۵؍جون۱۹۶۰ئ)
۱؎ کنزالعمال جلد ۱۶ صفحہ ۵۹۹ ۔ مطبوعہ حلب ۱۹۷۷ئ
۲؎ الذّٰرِیٰت: ۵۷ ۳؎ الفاتحۃ: ۶،۷ ۴؎ النصر: ۳

۳۵
رمضان میں تحریک جدید اورتحریک جدید میں
رمضان سے فائدہ اٹھاؤ
(فرمودہ ۴؍نومبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اللہ تعالیٰ کے فضل نے پھر ہمیں وہ بابرکت مہینہ دکھایا ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۱؎ کہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اُترا ہے یا جس کے بارہ میں قرآن اُترا ہے۔حدیثوں سے یہ امر ثابت ہے کہ ہر سال رمضان میں جبریل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے تھے اور آپ کے ساتھ تلاوتِ قرآن کیا کرتے تھے چنانچہ جس سال آپ کی وفات ہوئی آپ نے فرمایا کہ ہمیشہ جبریل رمضان میں ایک دفعہ میرے ساتھ تلاوت کیا کرتا تھا مگر اس دفعہ دو دفعہ اُس نے تلاوت کی ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ میری وفات قریب ہے۔۲؎
تو جب تک دنیا میں قرآن کریم کی خوبیوں کو تسلیم کرنے والے لوگ باقی ہیں، جب تک قرآن کریم کی عظمت لوگوں کے دلوں میں قائم ہے اس وقت تک رمضان کی عظمت بھی لازمی طور پر قائم ہے اور دراصل جو مہینہ قرآنی برکات کے نزول کا موجب ہؤا ہے اُس کی قدر اور اُس کی عظمت کا اندازہ ہمارے دل لگا ہی نہیں سکتے۔معمولی معمولی اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو لوگ عرصہ دراز تک یاد رکھتے ہیں۔عورتوں کو میں نے دیکھا ہے کہ ان کی ساری تاریخ بچوں کی پیدائش پر ختم ہو جاتی ہے،جب پوچھا جائے فلاں واقعہ کب ہؤا؟ تو کہیں گی فلاں بچہ کی پیدائش سے چار ماہ پہلے یا چار ماہ بعد۔گویا ان کے لئے دنیا کی تاریخ کا اندازہ ان کے بچوں کی پیدائش سے ہوتا ہے۔وہ بچے آگے کس حیثیت کے ہوتے ہیںیہ دوسرا امر ہے۔بعض دفعہ وہ اچھی حیثیت کے بھی مالک بن جاتے ہیںمگر بعض اوقات وہ اپنی زندگی سے بھی بیزار ہوتے ہیں،بھوکے مر رہے ہوتے ہیں،ان کی اولاد بھی بھوکی مر رہی ہوتی ہے،ان کی بیوی کو تن ڈھانکنے کے لئے کافی کپڑا بھی نہیں ملتا۔ان کے پاس کوئی مکان نہیں ہوتاجس میں وہ رہائش اختیار کرسکیں۔انہیں کوئی کام نہیں ملتاجس سے وہ اپنا گزارہ کر سکیں۔اور اگر کام ملتا ہے تو گزارے کے مطابق تنخواہ نہیں ملتی۔ اور اگر کام کے لحاظ سے تنخواہ معقول ملتی ہے تو کھانے والے زیادہ ہوتے ہیں۔غرض ان کی زندگی تکلیف اور مصیبت کا ایک غیر متناہی سلسلہ ہوتی ہے مگر ایک ماں دنیاکے سارے کاموں کی بنیاد انہی کی پیدائش پر رکھتی ہے۔چاند گرہن اور سورج گرہن عالمِ سفلی کے اَدوار کا ایک عجیب کرشمہ ہیں اور اس عالم کے بڑے بڑے کَل پُرزوں کی رفتار سے تعلق رکھتے ہیں مگر وہ سورج گرہن اور چاند گرہن کو بھی اپنے بچوں کی پیدائش کے ساتھ ملا دیتی ہیں۔ کہیںگی فلاں سورج گرہن اُس وقت ہؤا جب فلاں بچہ میرے پیٹ میں تھا یا فلاں چاند گرہن اُس وقت ہؤا جب میرا فلاں بچہ پیدا ہوا تھا یا اتنے مہینے اس کی پیدائش میں باقی تھے۔تو ان کی ساری دنیا ان کے بچوں میں ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ بچے ان کے ہوتے ہیں۔پس اگر ایک عورت تمام دنیا کی تاریخ اپنے بچوں کے ذریعہ یاد رکھتی ہے تو ہمیں جس مہینے سے قرآن کا نور ملا اس کی عظمت اور شان کو پہچاننا اور اس کے انوار اور برکات کے حصول کے لئے بے تاب ہو جانا ہمارے لئے جس قدر ضروری ہے وہ ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے۔
غرض رمضان اسلام اور ایمان کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اور جس شخص کے دل میں بھی اسلام اور ایمان کی قدر ہوگی وہ اس مہینہ کے آتے ہی اپنے دل میں ایک خاص حرکت اور اپنے جسم میں ایک خاص قسم کی کپکپاہٹ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔کتنی ہی صدیاں ہمارے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان گزر جائیں،کتنے ہی سال ہمیں اَور ان کو آپس میں جُدا کرتے چلے جائیں،کتنے ہی دنوں کا فاصلہ ہم میں اور ان میں حائل ہوتا چلاجائے لیکن جس وقت رمضان کا مہینہ آتا ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان صدیوں اور ان سالوں کو اس مہینہ نے لپیٹ لپاٹ کر چھوٹا سا کر کے رکھ دیا ہے اور ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئے ہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی قریب نہیں چونکہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہؤا ہے اس لئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام فاصلہ کو رمضان نے سمیٹ سماٹ کر ہمیں خداتعالیٰ کے قریب پہنچا دیا ہے۔وہ بُعد جو ایک انسان کو خدا سے ہوتا ہے،وہ بُعد جو ایک مخلوق کو اپنے خالق سے ہوتا ہے،وہ بُعد جو ایک کمزور اور نالائق ہستی کو زمین اور آسمان کے پیدا کرنے والے خدا سے ہوتا ہے وہ یوں سمٹ جاتا ہے اور وہ یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے سورج کی کرنوں سے رات کا اندھیرا۔یہی وہ حالت ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۳؎جب رمضان کا مہینہ آئے اور میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریںکہ میں انہیں کس طرح مل سکتا ہوں تو تُو انہیں کہہ دے رمضان اور خدا میں کوئی فرق نہیں۔یہی وہ مہینہ ہے جس میں خدا اپنے بندوں کے لئے ظاہر ہؤا اور اس نے چاہاکہ پھر اپنے بندوں کو اپنے پاس کھینچ کر لے آئے اس کلام کے ذریعہ سے جو حَبْلُ اللہ ہے۔ جو خُدا کا وہ رسّہ ہے جس کا ایک سِرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا مخلوق کے ہاتھ میں اب یہ بندوں کاکام ہے کہ وہ اس رسّہ پر چڑھ کر اپنے خدا کے پاس پہنچ جائیں۔شاید عام طور پر رسّے پر چڑھنے کی قیمت کا اندازہ ہم لوگ نہیں کر سکتے لیکن جہازوں میں یہ اندازہ بہت اچھی طرح ہو سکتا ہے۔جہازوں میں رسّی کی سیڑھیاں ایک لازمی چیز ہیں۔جب جہاز کسی بندرگاہ پر پہنچتا ہے تو قانون کے مطابق جہاز کے کپتان کو یہ اجازت نہیں ہوتی کہ وہ بندرگاہ تک اس جہاز کو لے جائے وہ چند میل بندرگاہ کی حدود سے باہر جہاز کو کھڑا کر دیتا ہے اور بندرگاہ سے ایک پائلٹ آتا ہے جو بندرگاہ کے رازوں سے واقف ہوتا ہے۔جب اس کی کشتی جہاز کے قریب پہنچتی ہے تو اوپر سے ایک رسّہ لٹکایا جاتا ہے جس کے ساتھ ایک سیڑھی ہوتی ہے وہ رسّہ اپنے ہاتھ میں پکڑکر اس سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے اوپر چڑھ جاتا ہے۔تو راستے کا صحیح مفہوم جو ۴؎ میں بیان کیا گیا ہے اسے انسان جہاز میں اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح رسّے وہاں سیڑھیوں کا کام دیتے ہیں۔سو قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے رسّے کے طور پر لٹکایا اور فرمایا تم اس کو پکڑ کر اوپر چڑھ آؤ مگر دیکھنا !اکیلے نہ آنا بلکہ باقیوں کو بھی لپیٹ لپاٹ کر اپنے ساتھ شامل کر لینااور سب کی گٹھڑی باندھ کر ہمارے پاس لے آنا۔گویا یہ ایک ایسا دعوت نامہ ہے جو کسی فرد سے مخصوص نہیں بلکہ تمام لوگوں کو اس میں شامل کیا گیا ہے۔جیسے ایک دعوت نامہ تو یہ ہوتا ہے کہ فلاں وقت آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں اور کھانا تناول فرمائیں اور ایک دعوت نامہ یہ ہوتا ہے کہ فلاں وقت صرف آپ کی ہی نہیں بلکہ آپ کے بیوی بچوں اور ملازموں کی بھی دعوت ہے۔ سوقرآن وہ دعوت نامہ ہے کہ جس نے بھی اسے کھولا اس نے اس میں یہ لکھا ہؤا نہیں دیکھاکہ صرف تمہاری دعوت ہے بلکہ اس نے یہ لکھا ہؤا دیکھا کہ تمہاری اور تمہارے سب جاننے والوں کی دعوت ہے۔
غرض رمضان آتے ہی اللہ تعالیٰ کی یاد ہمارے دلوں میں تازہ کر دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہاری طرف ایک رسّہ پھینکا گیا ہے جو آج بھی لٹک رہا ہے اور آج بھی اس بات کا موقع ہے کہ تم اس رسّہ کو پکڑ کر اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ جاؤ۔
ابھی ایک دو دن ہوئے مجھے اس کے متعلق ایک عجیب کشفی نظارہ نظرآیا۔میں سحری کے انتظار میں لیٹا ہؤا تھاکہ میں نے دیکھا جیسے پہاڑوں میں ٹنلزہوتی ہیں اور ان میں بورنگ کر کے اندرونی طور پر ایک گول سا رستہ تیار کیا جاتا ہے اس طرح مجھے معلوم ہؤا کہ جَوّ میں ایک گول رستہ بنا ہؤا ہے کہ جو تاگے کی رِیل کے اندرونی سوراخ سے مشابہہ ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ یہ تاگے کی رِیل کا سوراخ چھوٹا ہوتا ہے مگر وہ سوراخ بڑا تھا۔یا یوں سمجھ لو کہ جیسے آگ جلانے والی پھُنکنی ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک گول سا سوراخ ہوتا ہے جس سے آر پار نظر آ جاتا ہے اس طرح جَوّ میں ایک گول رستہ بنا ہؤا ہے اور اس کے ایک طرف خدا تعالیٰ کی ذات بیٹھی ہے اور دوسری طرف میں بیٹھا ہوںاور اس میں مجھے اللہ تعالیٰ کا اس قدر قُرب معلوم ہوتا ہے کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی چیز حائل نہیںاور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے راز آپ ہی آپ کھلتے چلے جارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی قطعی اور یقینی ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں اس کے مقابلہ میں مشکوک اور مشتبہ نظر آتی ہیں۔کئی منٹ تک برابریہی کیفیت مجھ پر طاری رہی اور اس ٹنل کے ایک سرے پر بیٹھے ہوئے اللہ تعالیٰ سے جو اُس کے دوسرے سرے پر بیٹھا تھا دل ہی دل میں مَیں باتیں کرتا رہا۔اُس وقت کی کیفیت ایسی ہی تھی جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ سورج کی ذات میں شُبہ ہو سکتاہے،زمین کے وجود میں شبہ ہو سکتا ہے، ہمیں اپنے وجود میں شُبہ ہو سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی ذات میں شُبہ نہیں ہو سکتا۔اسی قسم کی باتیں میں نے اُس وقت اللہ تعالیٰ سے کیں اور اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہا کہ تیرا وجود ایسا یقینی ہے اور ایسا شکوک کو دور کرنے والا۔ پھرتُو کیوں چھپا ہؤا ہے اور کیوں میرے لئے اور اپنے دوسرے بندوں کے لئے کامل تجلی کے ساتھ ظاہر نہیں ہوتا۔
جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں اس کشف کا مفہوم وہی تھا جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ دیکھو رمضان میں اللہ تعالیٰ بندے کے کتنے قریب ہو جاتا ہے۔بہت دفعہ انسان غلطی سے اس قُرب کو محسوس نہیں کرتا جیسے پیٹھ کے پیچھے اگر بالکل قریب آکر بھی کوئی شخص بیٹھ جائے تو انسان معلوم نہیں کر سکتاکہ میرے پیچھے کوئی بیٹھا ہؤا ہے لیکن اگر اس کا مُنہ اس کی طرف پھیر دیا جائے تو وہ دیکھ سکتا ہے کہ کوئی شخص میرے کتنے قریب بیٹھا ہؤا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ٹنل کا نظارہ دکھا کر مجھ پر ظاہر فرمایا کہ اگر ہم پَردہ دُور کردیں تو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہوکہ ہم تمہارے کتنے قریب ہیں مگر چونکہ خدا تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان ایک پردہ پڑا ہؤا ہے لوگ اس لئے اس بات کو سرسری نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے قُرب کو محسوس نہیں کرتے۔تو رمضان اپنے ساتھ بہت سی برکات لاتا ہے اور اس میں خدا اپنے بندے کے قریب آجاتا ہے اور گو وہ برکات جو رمضان اپنے ساتھ لاتا ہے بہت سی ہیں مگر میں اِس وقت چار امور کی طرف احباب کو خصوصیت کے ساتھ توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
اوّل رمضان میں انسان کو نیکی کی مشقّت کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔دنیا میں انسان محنتیں کرتا ہے اور آوارگی بھی کرتا ہے۔جو آوارہ لوگ ہوتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی طرح کام میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔چاہے وہ گپیں ہانکتے ہوں پھر بھی یہ ایک کام تو ہے۔چاہے وہ اِدھر اُدھر پھرتے ہوںپھر بھی وہ ایک کام تو کر رہے ہوتے ہیں بالکل فارغ نہ انسانی دماغ رہتا ہے اور نہ جسم، کچھ نہ کچھ کام انسان ضرور کرتا رہتا ہے۔ مگر بعض لغو کام ہوتے ہیں،بعض مُضِر، بعض مفید کام ہوتے ہیں اور بعض بہت ہی اچھے۔تو رمضان انسان کو ایک ایسے کام کی عادت ڈالتا ہے جس کے نتیجہ میں نیک کاموں میںمشقّت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہوجاتی ہے۔
انسانی زندگی کی راحت اور آرام کی چیزیں کیا ہوتی ہیںیہی کھانا،پینا،سونا اور جنسی تعلقات۔تمدن کا اعلیٰ نمونہ جنسی تعلقات ہیںجس میں دوستوں سے ملنا اور عزیزوں سے گفتگو کرنا بھی شامل ہے مگر جنسی تعلقات میں سب سے زیادہ قریبی تعلق میاں بیوی کا ہے۔پس انسانی آرام انہی چند باتوں پر منحصر ہے کہ وہ کھاتا ہے، پیتا ہے، سوتا ہے اور جنسی تعلقات قائم رکھتا ہے۔کسی صوفی نے کہا ہے کہ تصوف کی جان کم بولنا،کم کھانا اور کم سونا ہے اور رمضان اس تصوف کی ساری جان کا نچوڑ اپنے اندر رکھتا ہے۔کم سونا آپ ہی اس میں آجاتا ہے کیونکہ ہر شخص کو تہجد کے لئے اٹھنا پڑتا ہے،کم کھانا بھی ظاہر بات ہے کیونکہ سارادن فاقہ کرنا پڑتا ہے اور جنسی تعلقات کی کمی بھی ظاہر بات ہے،پھر کم بولنا بھی رمضان میں آجاتا ہے اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا،روزہ یہ نہیں کہ تُو اپنا مُنہ کھانے پینے سے بند رکھے بلکہ روزہ یہ ہے کہ تُو لغو باتیں بھی نہ کرے۔۵؎پس روزہ دار کے لئے بے ہودہ بکواس سے بچنا،لڑائی جھگڑے سے بچنا اور اس طرح کی لغو باتوں سے بچنا ضروری ہوتا ہے اور اس طرح کم بولنا بھی رمضان میں آگیا۔گویا کم کھانا، کم بولنا، کم سونا اور کم جنسی تعلقات کرنا یہ چاروں باتیں رمضان میں آگئی ہیں اور یہ چاروں چیزیں نہایت ہی اہم ہیں اور انسانی زندگی کا ان سے گہرا تعلق ہے۔پس جب ایک روزہ داراِن چاروں آرام وآسائش کے سامانوں میں کمی کرتا ہے تو اس میں مشقّت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔ کیونکہ رمضان ہم سے قربانی کراتا ہے نیند کی، رمضان ہم سے قربانی کراتا ہے باتوں کی،رمضان ہم سے قربانی کراتا ہے کھانے کی،رمضان ہم سے قربانی کراتا ہے جنسی تعلقات کی اور ان قربانیوں کے نتیجہ میں وہ ہمیں اس بات کی عادت ڈالتا ہے کہ ہم نیکی کے کاموں میں مشقّت برداشت کریں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اپنے کسی استاد یا کسی سابق بزرگ کا یہ قول بیان فرمایا کرتے تھے کہ گیارہ مہینے انسان حرام چھوڑنے کی مشق کرتا ہے مگر بارھویںمہینے میں وہ حلال چھوڑنے کی مشق کرتا ہے۔یعنی روزوں کے علاوہ دوسرے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے لئے ہم کس طرح حرام چھوڑ سکتے ہیںمگر روزوں کے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیںکہ خدا تعالیٰ کے لئے کس طرح حلال چھوڑ سکتے ہیںاور اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ حلال چھوڑنے کی عادت پیدا کئے بغیر دنیا میں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔دنیا میں اکثر فساد اس لئے نہیں ہوتے کہ لوگ حرام چھوڑنے کے لئے تیار نہیں بلکہ اکثر فساد اس لئے ہوتے ہیں کہ لوگ حلال کو بھی ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔وہ لوگ بہت ہی کم ہیں جو ناجائز طور پر کسی کاحق دبائیں مگر وہ لوگ دنیا میں بہت زیادہ ہیں جو لڑائی اور جھگڑے کو پسند کر لیں گے مگر اپنا حق چھوڑنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔وہ کہیں گے یہ ہمارا حق ہے ہم اسے کیوں چھوڑیں۔ سینکڑوں پاگل اور نادان دنیا میں ایسے ہیں جو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے دنیا میں عظیم الشان فتنہ و فساد پیدا کردیتے ہیں اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ دنیا کا امن برباد ہو رہا ہے حالانکہ اگر وہ ذاتی قربانی کریں تو دنیا سے جھگڑا اور فساد مٹ جائے اور نہائت خوشگوار امن قائم ہو جائے۔
تو رمضان آکر ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم حرام ہی نہ چھوڑو بلکہ خدا تعالیٰ کے لئے اگر ضرورت پڑ جائے تو حلال یعنی اپناحق بھی چھوڑ دو تا دنیا میں نیکی قائم ہو اور خدا تعالیٰ کا نام بلندہو۔ اس لحاظ سے رمضان کو تحریک جدید سے ایک گہری مناسبت ہے۔میںنے صرف ایک کھاناکھانے کا اـصل تحریک جدید میںشامل کیاہے۔اب دیکھو دو کھانے حرام تو نہیںہیںلیکن میں نے تم کو کہا کہ جو چیز حلال ہے اس کو بھی تم چھوڑ دو تاکہ امیر اور غریب کا فرق دور ہو اور تا خدا ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے روپیہ کو بچاتے ہوئے اسے خدمتِ دین کیلئے خرچ کرسکیں اور تاہمیں توفیق ملے کہ ہم اپنے نفس کو عیاشی اور آرام طلبی سے بچا سکیں۔یہی رمضان کی غرض ہے۔ رمضان بھی یہی کہتاہے کہ آؤ تم اب خدا تعالیٰ کی خاطر حلال چیزیں چھوڑ دو۔ بے شک دوسرا کھانا حرام نہیں ہے مگر ہم نے اسے اس لئے چھوڑ دیاہے کہ تا اس کے ذریعہ ہم بہت بڑا دینی اور دنیوی فائدہ حاصل کرسکیں۔ سادہ غذا کے استعمال کرنے میں نہ صرف دنیوی لحاظ سے فائدہ ہے بلکہ ہماری روح کا بھی اس میں فائدہ ہے اور وہ خلیج جو غرباء اور امراء میں حائل ہے وہ اس کے ذریعہ سے بالکل پاٹی جاتی ہے۔
دوسرافائدہ رمضان کا یہ ہے کہ اس کے ذریعہ لوگوںکواستقلال کی عادت ڈالی جاتی ہے کیونکہ یہ نیکی متواتر ایک مہینہ تک چلتی ہے۔غذا انسان کے ساتھ اس طرح لگی ہوئی ہے کہ اگر ہر انسان کھانے پینے کا اندازہ لگائے تو دیکھ سکتا ہے کہ وہ دن بھر میں دس بارہ دفعہ ضرور کھاتا پیتا ہے۔دو دفعہ کھانا توہمارے ملک میں عام ہے لیکن اس کے علاوہ غرباء اور امراء دونوں اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر انہیں میسر آسکے تو تیسرے وقت کا کھانا بھی کھائیں۔یعنی صبح کا ناشتہ کر لیں کیونکہ اطباء کے تجربے نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ صبح کچھ نہ کچھ کھانا صحت کے لئے مفید ہوتاہے۔پنجابی میںشاید اسے شاہ ویلا کہتے ہیں۔ایک زمیندار بھی اگر اَورنہیں تو چھاچھ ہی پی لے گا یا باسی روٹی ہی کھا لے گا۔اور اگر کسی کو زیادہ توفیق ہوگی تو باسی روٹی اور مکھن کھائے گا۔ہماری زبان کی کئی ضرب الامثال اس وقت کے کھانے کی تائید میں ملتی ہیں اور جسے میسر آتا ہے وہ علاوہ دو وقت کھانے کے صبح کا ناشتہ ضرور کرتا ہے۔پس اس طرح تین وقت کھانا ہوگیا اور جولوگ انگریزی طریق پر زندگی بسر کرتے ہیںیا شہری زندگی کے عادی ہوچکے ہیںوہ تین وقت کی بجائے چاروقت کھانا کھاتے ہیں،یعنی شام کو بھی ناشتہ کرتے ہیں۔ زمینداروں میں سے بھی بعض چار دفعہ کھاتے ہیں یعنی عصر کے وقت دانے بھُنوا کر چَبا لیتے ہیں۔پھر ایک اَور کھانا ہے جس کا استعمال انگریزی طرز کے عادی لوگوں میں اور بعض زمینداروں میں بھی پایا جاتا ہے۔انگریزوں میں وہ سپر (SUPPER)کہلاتا ہے یعنی رات کو زیادہ جاگنے پر وہ پہلی شب کے کھانے کے بعد ایک اَو رہلکا سا کھانا کھاتے ہیں۔بعض زمینداروں میں اس کھانے کا رواج اس رنگ میں ہے کہ وہ روزانہ رات کو سوتے وقت دودھ کا ایک گلاس پی لیتے ہیںاور اسے طاقت کے قیام کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔اس طرح دن رات کے پانچ کھانے ہو جاتے ہیں۔خالص انگریزی تمدن میں تو چھ کھانے بھی استعمال کر لئے جاتے ہیں۔ چنانچہ انگریزوں میں یہ رواج ہے کہ علی الصبح چائے بسکٹ استعمال کرتے ہیں اور پھر چائے پی کر سو جاتے ہیں۔گویا چائے وہ قریباً سحری کے وقت استعمال کرتے ہیں،اس کے بعد صبح کا ناشتہ کرتے ہیں،پھر دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں،پھر شام کی چائے پیتے ہیں،پھر شام کاکھانا کھاتے ہیں اور سوتے وقت طعامِ شب کا استعمال کرتے ہیں۔اس کے علاوہ چار پانچ دفعہ انسان کو پانی بھی پینا پڑتا ہے۔اس طرح دس گیار ہ دفعہ انسان کھاتا پیتا ہے۔ زمیندا ر بھی اگر زیادہ اعلیٰ کھانا استعمال نہیں کر سکتے تو اپنی حیثیت کے مطابق مختلف کھانے ضرور استعمال کرتے ہیں۔پہلے صبح کا ناشتہ کرتے ہیں،اس کے بعد دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں،پھر عصر کے وقت بعض زمینداروں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ دانے بھُنا لیتے ہیں یا دوپہر کی بچی ہوئی روٹی ہو تو وہی کھالیتے ہیں،شام کو پھر کھانا کھاتے ہیں اور سوتے وقت دودھ پیتے ہیں۔چھاچھ یا پانی جو درمیان میں پیتے رہتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہے۔گویا غرباء اور امرائ، شہری اور دیہاتی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق عام ایام میں دس بارہ دفعہ کھاتے پیتے ہیں مگر رمضان میں تمام کھانے سمٹ سمٹا کر صرف دو بن جاتے ہیں۔اسی طرح پانی میں بہت کچھ کمی آجاتی ہے۔یعنی اس کے پینے کے اوقات بہت کم ہو جاتے ہیں۔گو بعض لوگ روزہ کی افطاری کے وقت اکٹھا ہی اتنا پانی پی لیتے ہیں جتنا وہ دن بھر میں پیاکرتے ہیں لیکن پھر بھی پانی پینے کا عرصہ بہت کم ہو جاتا ہے۔ یہ کھانے پینے کی جو تنگی ہے باقی زندگی کے دنوں سے بالکل نرالی ہوتی ہے۔پہلے بھی بے شک کھانے پینے میں وقفے ہوتے ہیں مگر وہ اتنے لمبے نہیں ہوتے جتنے رمضان میں ہوتے ہیں۔کھانے پینے کا وقفہ عام طور پردو تین گھنٹے کا ہوتا ہے مگر رمضان میں اول تو تمام کھانے سمٹ سمٹا کر دو کھانوں پر آجاتے ہیں اور پھر وقفہ بھی کافی لمبا ہوجا تا ہے۔پس رمضان کے ایام میں اپنی عادت کی بہت کچھ قربانی کرنی پڑتی ہے اور یہ قربانی ایک دن نہیں دو نہیں،تین نہیں،ایک مہینہ تک بغیر کسی ناغہ کے کرنی پڑتی ہے۔بے شک شام کو انسان روزہ کھول لیتا ہے مگر دراصل شام کو روزہ کھولنا دوسرے دن کے روزہ کی تیاری ہوتا ہے کیونکہ اِدھر انسان روزہ کھولتا اور کھانا کھاتا ہے اور اُدھر نمازیں پڑھ کر اس نیت سے سو جاتا ہے کہ میں نے پچھلی رات تہجد کے لئے اٹھنا اور پھر روزہ رکھنا ہے اور یہ طبعی بات ہے کہ کوئی احساس نیند کے وقت میں نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں سویا ہؤا اور مُردہ برابر ہیں۔پس جو اس کے سونے کا وقت ہے وہ احساس کا نہیں اور جو اس کے احساس کا وقت ہے اُسے وہ کُلّی طور پر روزہ کے لئے وقف کر دیتا ہے۔کچھ روزہ رکھتے ہوئے اور کچھ روزہ کی نیت کرتے ہوئے۔ اور اگر اسے کوئی سفر پیش نہ آجائے یا اتفاقیہ طور پر بیمار نہ ہو جائے تو اس کی یہ قربانی مسلسل ۲۹یا۳۰ دن چلتی ہے اور اس طرح اس کے اندر استقلال کا مادہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اگر روزے رکھنا انسان کی مرضی پر چھوڑ دیا جاتا تو آدمی دودن روزے رکھتا اور پھر سانس لینے کی کوشش کرتا مگر اللہ تعالیٰ نے سانس لینے کی اجازت نہیں دی بلکہ ایک مہینہ مسلسل مقرر فرمادیا اور کہہ دیا کہ سانس نہیں لینا لگاتار روزے رکھتے چلے جانا ہے۔
پس روزوں سے دوسرا عظیم الشان سبق استقلال کا ملتاہے اوریہ بھی تحریک جدید سے ایک گہرا تعلق رکھتاہے۔ تحریک جدید میں مَیں نے جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ ہماری قربانیاںعارضی نہیں بلکہ مستقل ہیں ۔بے شک قربانیوں کی شکلیںبدل سکتی ہیںمگر یہ نہیں ہو سکتاکہ کسی وقت یہ کہا جائے کہ اب قربانیوںکی ضرورت نہیں رہی کیونکہ بغیرمستقل قربانیوںکے کوئی شخص خدا تعالیٰ کونہیں پا سکتا۔جس شخص کے دل میںبھی یہ خیال آیا کہ میںسانس لے لوں وہ سمجھ لے کہ اس کاایمان ضائع ہوگیا۔تم میں سے کئی ہیں جنہوں نے بڑی دیانت داری سے قربانیاں کیں، تم میں سے کئی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حضور چِلّائے اورانہوں نے آہ و زاری کی،تم میں سے کئی ہیں جنہوںنے روزے رکھے ، تہجد پڑھی نوافل ادا کئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور روئے اور گڑگڑائے،تم میںسے کئی ہیں جنہوں نے چندے د ئیے اور اپنے بیوی بچوں کے پیٹ کاٹ کردیئے،تم میںسے کئی ہیںجنہوں نے خود بھوکے اور ننگے رہ کر زکوٰتیں دیں اور دوسرے فرائض ادا کئے مگر انہوں نے دیکھا کہ ان قربانیوںکے وہ نتائج انہیںحاصل نہیں ہوئے جو ایسی قربانیوںکے نتیجہ میں ملا کرتے ہیں اورجن کی وہ امید لگائے بیٹھے تھے۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے قربانی تو کی مگراستقلال سے قربانی نہیں کی۔ان کاجوش ایسا ہی تھاجیسے عوام الناس جب کوئی پرُجوش تقریر سنتے ہیں تو لڑنے مرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی جب دیکھا جائے توان کے دل بالکل ٹھنڈے ہوچکے ہوتے ہیں اوران میں کوئی گرمی نہیں ہوتی۔اگران قربانیوں کا محرک حقیقی اخلاص اور حقیقی جوش ہوتاتو چاہئے تھا کہ وہ اپنی قربانیوں میں بڑھتے چلے جاتے اور کسی واعظ اور کسی یاد دلانے والے کی ضرورت محسوس نہ کرتے کیونکہ حقیقی محبت جوش دلانے سے تعلق نہیں رکھتی اورنہ وہ عارضی ہوتی ہے بلکہ حقیقی محبت استقلال سے تعلق رکھتی ہے۔تم اپنے بچہ سے محبت کرتے ہو مگرکیاتم بچوں سے محبت کرنے کے لئے کسی کے یاد دلانے کی ضرورت محسوس کیا کرتے ہو؟کیا تم نے کبھی محسوس کیا کہ سال دو سال گزرنے کے بعداپنے بچہ کی محبت تمہارے دل میں کم ہونی شروع ہوگئی ہو اورتمہیںاس بات کی ضرورت محسوس ہوئی ہو کہ کوئی واعظ آئے اورتمہیں جگائے اور کہے کہ اپنے بچہ سے محبت کرو؟آخر دنیامیں اسّی نوے فیصدی لوگ شادیاں کرتے ہیں اور ان کی اولادیں بھی ہوتی ہیں۔بعض مریضِ اخلاقی یا مریضِ جسمانی شادی بھی نہیں کرتے مگروہ بہت کم ہیں۔مریضِ اخلاقی سے میری مراد وہ بدکار لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں شادی کی کیا ضرورت ہے ہم بغیر شادی کے اپنا گزارہ کر لیتے ہیں اور مریضِ جسمانی وہ لوگ ہیں جن کی جسمانی طاقت شادی کی متحمل نہیں ہوتی ان کو اگر مستثنیٰ بھی کر دیا جائے تو اسّی نوّے فیصدی لوگ شادیاں کرتے ہیں اور ان کے بچے بھی ہوتے ہیں کیا اتنی بڑی اکثریت کو کبھی تم نے دیکھاکہ ان میں بچوں کی محبت کبھی کم ہو گئی ہواور وہ اس بات کے محتاج ہو ئے ہوںکہ انہیں یاددہانی کرائی جائے اور کہا جائے کہ اپنے بچوں سے محبت کرو تمہاری ان سے محبت کم ہوگئی ہے۔اگر ایک بھی مثال ہمیں ملتی تو ہمارے نفس بہانہ کر سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے اور اس کے دین کے لئے قربانیاں کرنے کے لئے بھی ہمیں یاد دہانی کی ضرورت ہے مگر ہمیں تو ایک مثال بھی ایسی نظر نہیں آتی۔کیا تم نے کبھی کوئی ماںدیکھی جس کو اپنے بچہ سے محبت نہ ہو اور اسے کسی مولوی یا پنڈت یا پادری کے واعظ کی ضرورت ہو؟کبھی تم نے دیکھاکہ ماؤں کے سامنے مولوی یہ لیکچر دے رہے ہوں کہ اے مسلمان ماؤ! اپنے بچوں سے محبت کرو یا پنڈت ہندو عورتوں کے سامنے یہ تقریریں کر رہے ہوں کہ ماؤں کو اپنے بچوں سے محبت کرنی چاہئے؟یا پادری عیسائی عورتوں کو تلقین کر رہے ہوںکہ اے ماؤ! اپنے بچوں سے محبت کرو؟یا کبھی تم نے دیکھا کہ قومی تحریک کے نام سے یہ تحریک اُٹھی ہوکہ ماؤں کے دلوں میں بچوں کی محبت پیدا کی جائے ؟یا کبھی تم نے دیکھاکہ گورنمنٹ نے ایسی کتابیں تصنیف کی ہوں جن میں یہ لکھا ہوکہ ماؤں کو بچوں سے محبت کرنی چاہئے؟ تم نے دنیا میں ایسا کبھی نہیں دیکھا اس لئے کہ ایسے وعظ کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔بچہ پیداہوتا ہے تو ماں اسے اپنے گلے سے چمٹا لیتی ہے اور پھر اسے چمٹائے چلی جاتی ہے۔وہ بعض دفعہ ناراض بھی ہوتی ہے اور ناراض ہونا انسانی فطرت کا تقاضا ہے مگر اس کی ناراضگی بھی اس کی محبت کو نہیں چھڑا سکتی۔ سوائے اس کے کہ کوئی دوسرا زبردست جذبۂ محبت اس محبت کے مقابلہ میں آجائے۔جیسے کوئی دیندار باپ اپنے اس بیٹے سے جو خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہوقطع تعلق کر لیتا ہے اور وہ خدا کی محبت کے لئے اپنے دل کے ٹکڑے کو کاٹ کر پرے پھینک دیتا ہے مگر باوجود اس کے یہ غیرت کا جذبہ اُس کی محبت کو مٹاتا نہیں، وہ اس جذبہ کو چھپا دیتا ہے، انسانی نگاہوں سے اوجھل کر دیتا ہے مگر اسے جڑ سے اُکھیڑ نہیں سکتا۔یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک دیندار باپ اپنے بے دین بچہ سے محبت کا اظہار خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے چھوڑ دے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ محبت کا جذبہ کُلیتہً مفقود ہو جائے۔باوجود اس کے کہ وہ ظاہر ی طور پر اس سے محبت نہیں کرتا، اس کا دل کڑھتا رہتا ہے اوراللہ تعالیٰ کے سامنے یہ دعا کرتارہتا ہے کہ اے خدا! تُو میرے بچہ کو بچا۔وہ بعض دفعہ اسے دیکھنا بند کردیتا ہے،اس سے ملنا جلنا بند کر دیتا ہے، اس کے ساتھ کھانا پینا بند کر دیتا ہے، اسے خرچ دینا بند کردیتا ہے،اس کے گھر میں رہنا بند کردیتا ہے،یا اسے اپنے گھر میں رہنے دینے سے انکار کردیتاہے،مگر اس کے دل کا زخم ایک ناسور کی طرح رِستا رہتا ہے اور اس کی موت تک یہی حالت رہتی ہے۔اوروہ خدا تعالیٰ سے رو رو کر کہتا رہتا ہے کہ اے خدا! میں نے تیرے لئے اپنے بچہ کو چھوڑ دیا ہے تو اپنے فضل سے اسے پھر مجھے واپس دلا دے۔تو حقیقی نفرت ایک باپ کو اپنے بچہ سے یا ایک ماں کو اپنے بیٹے سے کبھی نہیں ہوسکتی۔ جب ماں باپ غصے بھی ہوں گے تب بھی اُس کی تہہ میں محبت کا جلوہ کارفرما ہوگااور زیادہ سے زیادہ اگر ہوگا تو یہی ہوگا کہ ایک بڑی محبت چھوٹی محبت کو دبا دے گی مگر وہ اسے مار نہیں سکتی،اسے کُچل نہیں سکتی ،اسے مٹا نہیں سکتی۔تو جہاں حقیقی تعلق ہوتا ہے وہاں وقفہ نہیں پڑتابلکہ دائمی محبت اور دائمی قربانی کی روح کام کرتی نظر آتی ہے مگر جہاں محبت کی کمی ہوتی ہے وہاں قربانیوں میں وقفے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔
پس اگر تمہاری قربانیوں نے کوئی نیک نتائج پید انہیںکئے توسمجھ لو کہ تمہارا خداتعالیٰ سے عارضی تعلق تھا اورجب تم نے کسی عارضی تحریک کے ماتحت قربانی کی توا س کا وہ نتیجہ کس طرح پیدا ہوسکتا تھاجو دائمی قربانی کے نتیجہ میںپیدا ہؤا کرتاہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سامنے ذکر کیاگیاکہ فلاںشخص بڑا عبادت گزار ہے کیونکہ اس نے چھت میںایک رسّہ لٹکارکھاہے جب نما ز پڑھتے پڑھتے اسے نیند آنے لگتی ہے تو رسّہ پکڑ کر کھڑا ہو جاتاہے۔توآپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا یہ کوئی عبادت نہیں۔عبادت وہی ہے جس میںانسان کودوام اور استقلال نصیب ہو۔۶؎پسبے شک تم میںسے بعض نے بڑی بڑی قربانیاںکیں مگر جب تم نے ان قربانیوںکے بڑے بڑے نتائج نہیں دیکھے تو سمجھ لو کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ تم میںاستقلال نہیںتھا جس کے معنی یہی ہیںکہ تم میں حقیقی محبت نہ تھی۔ورنہ اگر تمہارے اندر حقیقی محبت ہوتی تو یقیناََتمہاری نمازیںاور تمہارے روزے اورتمہاری زکوٰتیں اورتمہار ے حج اور تمہارے چندے بہت زیادہ شاندار اور اعلیٰ نتائج پیدا کرتے اورتم اپنی موت سے پہلے اپنے خدا تعالیٰ کو دیکھ لیتے اورتمہاری موت شبہ کی موت نہ ہو تی بلکہ مرتے وقت انتہائی راحت اورآرام کی گھڑی تمہیںنصیب ہو تی ۔ موت کیا ہے؟ ایک نہایت ہی خطرناک راہ۔ جس طرح ایک اندھیرے کنویںمیں چھلانگ لگانے والا یہ نہیں جانتا کہ اس کنویں کی تہہ میں سانپ یا بچھو ہیں یا آراستہ و پیراستہ محلات۔ اسی طرح مرنے والا نہیں جانتا کہ موت کے بعد اس کے لئے آرام دہ زندگی اس کا انتظار کر رہی ہے یا تکلیف اور مصیبت کی گھڑیاں اسے اپنی طرف بُلا رہی ہیں۔ وہ چھلانگ لگاتا ہے مگر ایک گھنٹہ کے لئے نہیں ایک دن کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے۔ وہ جانتا ہے کہ اس موت کے بعد اس کے لئے کوئی لَوٹنا نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ پھر کبھی وہ اِس جہان میں واپس نہیں آسکتا۔ پس اگر اس موت کے بعد عذاب ہے تو ہمیشہ کے لئے عذاب ہے اور اگر اس موت کے بعد راحت ہے تو ہمیشہ کے لئے راحت ہے۔ اس بات کو جانتے ہوئے وہ چھلانگ لگاتا ہے اور وہ بھی خود نہیں بلکہ اُسے مجبور کیا جاتا ہے کہ اس میں کُودے۔ پس جب وہ انسانی نظروں سے ہمیشہ کے لئے پوشیدہ ہو رہا ہوتا ہے، جب وہ اس جہان کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ رہا ہوتا ہے اگر اُس وقت جیسا کہ قرآن کریم میں ذکر آتا ہے فرشتے آئیں اور اسے کہیں کہ گھبراؤ نہیں اﷲ تعالیٰ تمہارا انتظار کر رہا ہے تو دیکھو اس کی موت کی گھڑی خوشی سے کس قدر لبریز ہو جائے گی۔ یقینا اُس وقت کی خوشی کے مقابلہ میں اگر سارے جہان کی خوشیاں بھی مِلا کر رکھ دی جائیں تو وہ بالکل بے حقیقت ہوں گی کیونکہ دُنیا میں ہر خوشی کے ساتھ یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ یہ خوشی جلد ہی زائل ہو جائے گی مگر وہ خوشی ایسی ہے جس کے متعلق اسے یہ یقین ہو گا کہ وہ کبھی زائل نہیں ہو سکتی۔ پس موت کے وقت کی ایک منٹ کی خوشی بھی ساری زندگی کی خوشیوں سے ہزاروں گُنے زیادہ خوشی کا موجب ہے اور اگر یہ خوشی کسی کو نصیب ہوجائے تو وہ نہایت اطمینان سے اپنی جان اپنے خدا کے سُپرد کرے گا کیونکہ وہ سمجھے گا کہ میراخدا مجھ سے راضی ہے۔ مگر اس کے مقابلہ میں کس قدر تکلیف اور دُکھ کی وہ موت ہے جس میں ایک طرف انسان اپنے بیوی بچوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ انہیں وہ اکیلا چھوڑے جارہا ہے اور ان کا کوئی نگران و پُرسانِ حال نہیں اور دوسری طرف اسے خود یہ پتہ نہیں ہوتا کہ نہ معلوم میرے لئے دائمی آرام اور راحت کا سامان تیار ہے یا دائمی دُکھ اورعذاب کا سامان تیار ہے۔ اس کی وہ گھڑیاں کتنے شک اور شُبہ کی گھڑیاں ہوں گی اور وہ کس قدر دُکھ اورتکلیف محسوس کر رہا ہو گا۔ جو شخص اس دُبْدہا اور شک کو دُور کرلے اُس سے زیادہ کامیاب اور اس سے زیادہ خوش نصیب اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ تو تحریک جدید بھی استقلال سکھانے کیلئے ہے اور رمضان بھی لوگوں کے اندر استقلال کا مادہ پیدا کرتاہے۔
پس تم رمضان سے سبق حاصل کرتے ہوئے استقلال والی نیکی اختیار کرو اوراپنی وہ حالت نہ بناؤ کہ کبھی کھڑے ہو گئے اور کبھی گر گئے۔کم سے کم چند نیکیاں تو اپنے اندر ایسی پیدا کرو جن میں تم مستقل ہو اور جن کو تم کسی صورت چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو۔بے شک انسان کیلئے ہر وقت نیکی کے قدم مختلف ہوتے ہیں اورہر لحظہ اسے نیکی کرنی چاہئے مگر کم سے کم کچھ نیکیاں ایسی ضرور ہونی چاہئیں جن کے متعلق انسان یہ کہہ سکے کہ میں نے جب سے انہیںکر نا شروع کیاہے کبھی انہیںنہیںچھوڑا۔ایک مؤمن کو کم سے کم یہ ضرور کہنا چاہئے کہ میں نے جب سے نمازپڑھنی شروع کی ہے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی، میں نے جب سے روزے رکھنے شروع کئے ہیں کبھی کوئی روزہ نہیں چھوڑا جو شرعی طور پر میرے لئے رکھنا ضروری تھا اور کبھی مالی قربانی سے احتراز نہیں کیا جس کا پیش کرنا میرے لئے ضروری تھا۔ اسی طرح عورتیں بھی اپنے اندر استقلال والی نیکی پیدا کر کے کہہ سکتی ہیں کہ ہم نے ان دنوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جن میں شریعت نے ہمیں رخصت دی ہوئی ہے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی یا کبھی کوئی مالی قربانی کا موقع ایسا نہیں نکلا جس میں ہم نے حصہ نہ لیا ہو۔ اگر کم سے کم یہ تین نیکیاں ہی انسان میںپیدا ہو جائیں مثلاََ عبادت کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے قُرب میںبڑھنا،مالی خدمات کے ذریعہ مخلوقِ خدا کو نفع پہنچانا اور روزہ کے ذریعہ اپنے جذبات اور احساسات کی قربانی کرنا تو وہ کہہ سکتاہے کہ تین ایسی عظیم الشان نیکیاںمستقل طورپر میرے اندرپائی جاتی ہیںجن کے ہوتے ہوئے کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ میرے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت نہیں۔میںنے اپنی مرضی اور اختیار سے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی،میںنے اپنی مرضی اور اختیار سے کبھی کوئی روزہ نہیں چھوڑااورکبھی کوئی چندہ کاایسا موقع نہیں نکلا جس میں مَیںنے حصہ نہیں لیا۔اگر ان تینوںنیکیوں پر کسی شخص کا قدم مضبوطی سے قائم ہو اور باقی نیکیوں میں اس کا قدم کبھی ڈگمگا بھی جائے توکم سے کم وہ یہ ضرور یقین رکھے گا کہ میرا ان تین نیکیوں کے عوض جنت میںمکان ضروری ہے اور کوئی نہ کوئی ٹھکانہ میرا وہاں موجود ہے کیونکہ ہر مستقل نیکی جنت کا ایک مکان ہے۔بے شک وہ شخص بہت زیادہ خوش قسمت ہے جس کے جنت میںکئی محل ہوں مگر جس کاایک محل ہووہ بھی تو خوش قسمت ہے۔ دنیا میںہزارہا نیکیاںہیں جن کااستقلال سے بجا لانا جنت میںمختلف محلات تیار کردیتاہے مگرا دنیٰ نیکی یہ ہے کہ روزہ کے ذریعہ اپنے جذبات کا ہدیہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے، نماز کے ذریعہ اس کے قُرب کو تلاش کیاجائے اورمالی قربانیوں کے ذریعہ بنی نوع انسان کے حقوق اداکئے جائیں۔اگر کوئی شخص استقلال کے ساتھ بغیر ناغہ، بغیر وقفہ، بغیر تنزّل اور بغیر قدم ڈگمگانے کے یہ نیکیاں کرتا ہے اور کرتاچلاجاتاہے تو ہم اس کے متعلق یقین کرسکتے ہیںکہ اس کے نفس کواطمینان حاصل ہو گیا اوراس کی موت کی گھڑیاں دُبدَہا اورشک کی گھڑیاں نہیں ہونگی۔یہ تین زبردست شاہدہیں جوایک انسان کے ایمان کی شہادت دینے کیلئے کافی ہیں۔دُنیوی عدالتوںمیںبعض جگہ دو اور بعض جگہ چارگواہ کافی سمجھے جاتے ہیں،الہٰی عدالت میں بھی ان تین گواہوںکی گواہی ردّ نہیں کی جاسکتی بلکہ اگر ان کے ساتھ کوئی چوتھی نیکی بھی ملالی جائے تو یقیناََ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا وہ بہترین ثبوت پیش کرے گاجو کسی قضاء میں خطا نہیںجاتااور کہیں ناکام نہیںہوتا۔
تیسراسبق ہمیں رمضان سے یہ حاصل ہو تاہے کہ کوئی بڑی کامیابی بغیر مشقت برداشت کئے حاصل نہیںہو سکتی۔جس کااظہار ۷؎ میں کیاگیا ہے۔ گویا رمضان جہاں ہمیں یہ بتاتاہے کہ کوئی قربانی استقلال کے بغیر قبول نہیںہوتی تو وہاںہمیںوہ یہ بھی بتاتاہے کہ بغیر مشقت برداشت کئے کوئی کامیابی حاصل نہیںہو سکتی اوروہ شخص جو چاہتاہے کہ بغیر مشقت برداشت کئے دین و دنیامیںکامیابی حاصل کرلے وہ پاگل اور احمق ہے اور اسے کسی جگہ بھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔
آج ہمارے سامنے دنیا کی تین قومیںموجود ہیں جن میں سے دوہمارے سامنے گریں اور پھر ہمارے سامنے ہی بلند ہوئیں اورایک جو پہلے کمزور تھی مگر ہماری زندگیوں میں بیدار ہوئی اور اس نے ترقی کی۔ ہم میںسے وہ لوگ جو تیس چالیس سال کی عمر کے ہیں وہ اس بات کے گوا ہ ہیں کہ وہ قومیں ان کی آنکھوں کے سامنے گریں اور پھر ان کی آنکھوں کے سامنے ہی اٹھیں۔وہ اٹلی اور جرمنی ہیںاورجوپہلے کمزورتھی اوردیکھتے دیکھتے بڑھ گئی وہ جاپان ہے۔جرمنی قوم ہماری آنکھوںکے سامنے ۱۹۱۸ء میں گری۱۹۲۸ء میں اس نے اٹھنا شروع کیااور۱۹۳۵ء یا۱۹۳۸ء میں وہ منتھائے طاقت کو جاپہنچی لیکن کن قربانیوں کے ساتھ؟ ایسی قربانیوں کے ساتھ جو ایک یا دو نے نہیںبلکہ سارے ملک نے کیں۔ہماری جماعت بھی قربانیاں کرتی ہے لیکن اُن قربانیوں کو اگر دیکھا جائے جوجرمن قوم نے کیں توایک نقطہ نگاہ سے ہماری قربانیاں ان کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہوجاتی ہیں۔گو ایک دوسرے نقطہ نگاہ سے ہماری قربانیاں ان سے بڑھی ہو ئی ہیں۔ اخلاقی لحاظ سے ہماری قربانیاںبڑی ہیںاورعملی لحاظ سے اُن کی قربانیاںبڑی ہیں۔انہوں نے اپنے کھانے، پینے، پہننے اور قریباََ زندگی کے ہر عمل پر ایسی حدبندیاںلگائی ہوئی ہیںجن کو سن کرحیرت ہوتی ہے اورکوئی شخص ان حد بندیوں کو نہیں توڑسکتا۔گورنمنٹ ایک قانون بنا دیتی ہے اورتمام لوگوں کو کیا مرداور کیاعورتیں اورکیابچے اس قانون کی اتباع کرنی پڑتی ہے اوررات دن وہ قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں اس لحاظ سے یقیناََان کی قربانیاں بہت زیادہ ہیں۔ لیکن ایک لحاظ سے ہماری قربانیاں اُن سے بڑھی ہوئی ہیں اور وہ اس طرح کہ ان کو طاقت کے زور سے چلایا جاتاہے اور ہم میں سے ہرشخص اخلاص اور اپنی مرضی سے قربانی میں حصہ لیتاہے اوراصل قربانی دراصل وہی ہوتی ہے جو اپنی رضا اور اپنی مرضی سے کی جائے۔پس اخلاقی اورمذہبی لحاظ سے ہماری قربانی اُن سے بہت زیادہ ہے کیونکہ مرضی سے قربانی کرناہی اصل قربانی ہے وہ قربانی جو جبر اور زورسے کرائی جائے وہ قربانی نہیںکہلا سکتی۔ پس جرمن قوم کی قربانی جرمن قوم کی نہیں کہلا سکتی وہ دراصل اُن افراد کی قربانی ہے جو تمام ملک کو بعض خاص اصول کے ماتحت چلا رہے ہیں۔ پس وہ جرمن قوم کی قربانی نہیں بلکہ ہٹلر اور اس کے ساتھیوں کی ہے جو اپنی قوم سے زور اور جبر سے قربانی کرا رہے ہیں اور خود قربانیاں کر رہے ہیں۔ پہلے وہ کسی نہ کسی بہانہ سے آگے آگئے اور جب انہیں حکومت پر تصرف حاصل ہو گیا تو انہوں نے جبر سے ایسی طرز پر قوم کو چلانا شروع کیا جس کے نتیجہ میں ان کی قوم کو بہت بڑی ترقی حاصل ہو گئی۔ پس اس میں جرمن قوم کی اتنی قربانی نہیں جتنی ہٹلر اور اس کے ساتھیوں کی ہے مگر عملی لحاظ سے جو تکلیفیں انہوں نے اٹھائی ہیں وہ ہماری جماعت نے بالکل نہیں اٹھائیں۔ انہیں کھانے اور پینے کے متعلق بھی اس قدر پابندیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں جس قدر کہ ہم لوگوں کو سارے شعبہ ہائے زندگی میں برداشت نہیں کرنی پڑتیں۔ کبھی شکر پر پابندی لگتی ہے، کبھی گھی پر ، کبھی ترکاریوں پر، کبھی گوشت پر، کبھی آٹے پر اور انہیں وہ پابندیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض ایام میں ان پر یہ پابندی بھی عائد کی گئی کہ خالص آٹا نہ کھائیں بلکہ اس کے اندر ایک خاص مقدار میں لکڑی کا برادہ ملا کر کھائیں۔ انہوں نے یہ سب کچھ برداشت کیا اور بہتوں نے خوشی سے برداشت کیا۔ اسی طرح لباس پر پابندیاں عائد ہیں۔ حکم دیا جاتا ہے کہ فلاں کپڑا پہننا ہے اور فلاں نہیں پہننا کیونکہ فلاں ملک سے جہاں ممنوع کپڑا بنتا ہے ہمارے تعلقات اچھے نہیں اور معاً تمام ملک کے کپڑے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جب مکان تعمیر ہوتے ہیں تو سامانوں پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے کہ فلاں سامان استعمال کیا جائے اور فلاں سامان استعمال نہ کیا جائے۔ غرض رات دن ان کے کھانے پینے ،پہننے اور سونے پر پابندیاں عائد رہتی ہیں۔ حتّٰی کہ جرمن حکومت نے کتابوں پر بھی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں کہ فلاں کتابیں پڑھنی ہیں اور فلاں نہیں پڑھنیں اور تمام قوم چُپ چَاپ ان پابندیوں کو قبول کرتی چلی جاتی ہے۔ پس عملی لحاظ سے ان کی تکلیف بہت زیادہ ہے مگر ان کی مشکلات ایسی ہی ہیں جیسے ایک قیدی کو مشکلات میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اب ایک قیدی بھی سادہ غذا کھاتا ہے مگر تم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ فلاں قیدی نے بڑا ایثار کیا وہ سادہ غذا کھاتا ہے کیونکہ قیدی کو مجبور کر کے سادہ کھانا کھلایا جاتا ہے۔ اسی طرح جرمن قوم کی تعریف نہیںکی جائے گی کیونکہ جبر سے اس سے قربانیاں کروائی جاتی ہیں لیکن تمہاری تعریف کی جائے گی کیونکہ تم نے خداتعالیٰ کیلئے اپنے نفس پر پابندیاں عائدکیں۔پس گو ان کی تکلیف زیادہ ہے مگران کاثواب کم ہے کیونکہ طاقت اورقانون کے زور سے ان سے یہ قربانیاں کرائی جارہی ہیںاورگو تمہاری قربانیاں اورتکلیف کم ہے مگر تمہارا ثواب زیادہ ہے کیونکہ تم اپنی مرضی سے خدا تعالیٰ کیلئے قربانیاںکر رہے ہو لیکن بہرحال اس کا فائدہ انہیں پہنچ گیا اور گوطاقت اور قانونِ حکومت کے ڈر سے انہوں نے قربانیاں کیں لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس سال کے اندر ایک مُردہ قوم ترقی کر کے معراجِ کمال تک پہنچ گئی۔
یہی حال اٹلی کا ہے۔اٹلی کی قوم بھی مُردہ تھی،مگر اس نے بھی مشقتوں کااپنے آپ کوعادی بناکر اورمتواتر قربانیاں کرکے نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی عزت حاصل کی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ دبدبہ اور رُعب حاصل کر لیا۔اسی طرح جاپان بھی مُردہ تھا مگر جب ان میںقربانی کی روح پیداہوگئی تو وہ بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو گیا۔
تورمضان میںقربانی اور استقلال کے ساتھ قربانی کا سبق مؤمنوںکو سکھایاجاتا ہے اور انہیں مشقّت برداشت کرنے کاعادی بنایاجاتا ہے۔اگراس سے فائدہ اٹھایاجائے اورتحریک جدید کے مطالبات کو عملی جامہ پہنایاجائے تو یقیناََوہ اہم ثمرات پیدا ہونگے جو الٰہی قوموں کی جدوجہدکے نتیجہ میں پیداہؤا کرتے ہیں۔ہمارے ثمرات یقیناََ دیر کے بعد آنے والے ہیں اورہماری مثال اٹلی، جرمن اور جاپان کی نہیں۔وجہ یہ کہ اٹلی،جرمن اور جاپان نے ملکوںکوفتح کیا مگر ہم نے دلوں کوفتح کرنا ہے اوردلوں کو فتح کرناملکوںکے فتح کرنے سے زیادہ مشکل ہو ٔا کر تاہے۔پس ہماری فتح گو یقینی ہے مگر وہ کچھ دیر کے بعد دیر آید درست آید کے مقولہ کے مطابق آنے والی ہے۔
اس کے علاوہ ہم میںاور ان میںایک اور فرق بھی ہے اوروہ یہ کہ اگرجرمنی نے ترقی کی تو صرف جرمنی کی قوم کوا س نے عروج پر پہنچایا، اگر اٹلی نے ترقی کی تو صرف اٹلی کی قوم کواس نے عزت کامستحق بنایااوراگرجاپان نے ترقی کی تو صرف جاپانیوں کواس نے معراجِ کمال تک پہنچایا لیکن اگر ہماری کوششوں کواللہ تعالیٰ بار آور فرمائے تو وہ صرف ہمیںہی نہیں بلکہ ساری دنیاکوفائدہ پہنچائیںگی اورہماری فتح جسموں پر نہیںبلکہ دلوں پرہوگی اورہماری فتح انسانوں پر نہیں بلکہ فرشتوں پر ہوگی بلکہ اگر بے ادبی نہ ہوتو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیںکہ ہمارا خدا بھی ہمارے قبضہ میںآجائے گا۔پس ہماری کوششوںکے نتائج بہت اہم ہیں اورہماری ذمہ داریاں بہت وسیع ہیں اورہماری منزل بہت دور ہے۔کئی بیوقوف نوجوان ہیںجو کہہ دیاکرتے ہیں کہ جاپان نے تیس سال میںترقی کرلی،اٹلی نے بیس سال میں ترقی کرلی اورجرمنی نے دس سال میں ترقی کر لی مگر ہم نے ان کے مقابلے میں کچھ بھی ترقی حاصل نہیں کی۔وہ بیوقوف یہ نہیںجانتے کہ وہاں قوم کی قوم ایک مقصدکیلئے کھڑی تھی اوریہاں صرف ایک آدمی سے جدوجہدشروع ہوئی۔ جاپان نے جب دوڑشروع کی تواس نے چار کروڑلوگوں کواپنے ساتھ لیکردوڑلگائی اور تیس سال کی جدوجہد کے بعد اس نے چار کروڑ کو چھ کروڑبنایا۔اٹلی نے جب دوڑشروع کی تو اس نے بھی چارپانچ کروڑلوگوں کوساتھ لے کر دوڑشروع کی اوربیس سال کے عرصہ کے بعد انہیںچارسے پانچ کر وڑیا پانچ سے چھ کروڑ بنادیا۔اسی طرح جرمنی نے جب دوڑشروع کی تواس نے سات کروڑ لوگوںکے ساتھ شروع کی اوردس سال بعد انہیںآٹھ کروڑ بنادیا۔گویاوہ اس جدوجہد میں صرف چودہ فیصدی سے لے کر پچاس فیصدی تک بڑھے حالانکہ کروڑوںلوگ ایک ہی مقصد اورایک ہی مدعا کولے کر کھڑے ہوئے تھے۔
اس کے مقابلہ میںکیاتم نہیں دیکھتے کہ ہماری دوڑ صرف ایک شخص سے شروع ہوئی۔ ایک شخص نے قادیان میں کھڑے ہوکر جو تمام متمدن دنیاسے الگ ایک گوشہ میںپڑا ہؤا گاؤںتھا ساری دنیا کے مقابلہ میں لڑائی شروع کردی اورپھر وہ بڑھا اور بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ پہلے وہ ایک تھا مگر آج کئی لاکھ آدمی اس کے ساتھ ہیں۔پس اٹلی اور جرمنی اور جاپان نے پچاس فیصدی ترقی کی لیکن یہاں ایک سے کئی لاکھ بن گئے۔ اب پچاس فیصدی اور لاکھ فیصدی میں بھلا کوئی نسبت ہے؟پھر جس جس میدان میں قربانی کی ضرورت تھی ان تمام میدانوں میں جماعت احمدیہ نے قربانی کی۔ پس ہماری جماعت نے بھی حیرت انگیز ترقی کی ہے لیکن چونکہ ہماری جدوجہد کا دائرہ بہت وسیع ہے اس لئے گو ہماری موجودہ کامیابی بھی بہت بڑی ہے مگر ہمارا اصل مقصد ابھی دور ہے اور گو وہ دیر میں آنے والا ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کے مقابلہ میں تمام دنیا کی فتوحات بھی ہیچ ہیں کیونکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس کا حلقہ اثر عالمگیر ہے۔
چوتھا سبق رمضان سے ہمیں یہ حاصل ہو تا ہے کہ کوئی بڑی کامیابی بغیر دعا کے حاصل نہیں ہو سکتی بِالخصوص دین میں تو کوئی کامیابی اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک دعا نہ کی جائے دُنیا بغیر دعا کے حاصل ہو جائے تو ہو جائے دین حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دُنیوی کامیابیوں کے لئے بھی عملی دعا ضروری ہو تی ہے جسے دوسرے لفظوں میں قوتِ ارادی کہتے ہیں۔قو تِ ارادی اور عزم دراصل دعا ہی کا ایک نام ہے۔دعا کیا ہے؟ اپنے عزم اور ارادہ کالفظوں میں اظہار۔بہر حال کوئی دینی جماعت بغیر دعا کے ترقی نہیں کرسکتی یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں روزوں کے احکام کے ذکر میںبھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ۸؎جب مؤ من روزے رکھیں، قربانیاں کریں اور استقلال سے قربانیاں کرتے چلے جائیںاور اس کے بعد دعاؤں سے کام لیںتو وہ دعا خالی نہیں جاتی بلکہ ضروران کو ان کے مقاصد میں کامیاب کرتی ہے مگر فرمایا جب استقلال اور قربانیوں کے بعد دعا کریں گے تب ان کی دعا سُنی جائے گی یونہی نہیں۔گویا اللہ تعالیٰ نے استقلال، قربانیوں اور دعا کو لازم وملزوم قرار دیا ہے بغیر دعا کے استقلال کے ساتھ قربانی کرنا دینی عالَم میں ہیچ ہے اوربغیر استقلال والی قربانیوں کے دعا انسان کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی۔وہ فرماتا ہے جو اس رنگ میںدعا کرنے والے ہوں میں ان کی دعاؤںکو سنا کرتا ہوں یعنی جو استقلال کے ساتھ قربانیاں کریں اورپھر کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی کامیابی کیلئے دعائیں بھی کریں ان کی دعا ضرور قبول ہوکر رہتی ہے۔بعض لوگ غلطی سے اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے اور وہ حیران ہوتے ہیں کہ جب خدا کا یہ وعدہ ہے تو پھر ان کی بعض دعائیں قبول کیوں نہیں ہو تیںمگر یہ استدلال درست نہیں۔ اس جگہ تمام دعاؤں کی قبولیت کا اللہ تعالیٰ نے کوئی وعدہ نہیں کیابلکہ فرمایا ہے میںاس دعا کرنے والے کی دعا کوسنتا ہوں جس کا ذکر اوپر ہؤا ہے۔ اور اس سے پہلے رمضان اور روزوں کا ذکر ہے جو استقلال سے خداتعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرنے کا سبق دیتا ہے اور اس میںکوئی شبہ نہیں کہ اگر ان شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے جن کا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کوئی شخص دعا کرے تو اس کی دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی مجھے مقدس سے مقدس مقام میں بھی کھڑا کردے تو میں وہاں کھڑا ہو کر یہ قسم کھانے کے لئے تیار ہوں کہ اس قسم کی دعا ہر گز ردّ نہیں ہوتی۔ کوئی قوم جو خداتعالیٰ کے لئے مستقل قربانیاں کرنے کے ارادہ سے کھڑی ہو جائے اور پھر قربانیاں کرتی چلی جائے اوردعا سے بھی کام لے وہ ضرور کامیاب ہو جاتی ہے۔ سابق انبیاء علیھم السلام کی جماعت کا نمونہ ہمارے سامنے ہے کیا دنیا میں کوئی بھی نبی ایسا گزرا ہے جو ناکام ہؤا ہو؟ تاریخ سے کوئی ایک نبی ایسا ثابت نہیں کیا جاسکتا جو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہؤا۔ دعویٰ نبوت کے بعد ناکام وہی رہا ہو گا جس نے جھوٹا دعویٰ کیا ہو گا سچا دعویٰ کرنے والا کبھی ناکام نہیں ہؤا۔ یہ الگ امر ہے کہ کامیابی جلد آئے یا دیر سے۔ بہرحال سچے نبی کو کامیابی ہوتی ضرور ہے اور پھر وہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور ان کا ہر قدم ترقی کی طرف اٹھتا ہے۔ تم نے دیکھا کہ گزشتہ سالوں میں جماعت پر کیسے کیسے فتنے آئے۔ ہر دفعہ لوگوں نے یہی سمجھا کہ اب یہ سلسلہ مٹ جائے گا مگر ہردفعہ تم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی معجزانہ رنگ میں حفاظت کی اور کوئی دن ایسا نہیں چڑھا جس میںپہلے سے زیادہ جماعت نے ترقی نہیں کی۔ مختلف ممالک میں احمدیت پھیلتی جارہی ہے اوراسی طرح پھیلتی پھیلتی انشاء ا للہ ساری دنیا کو ایک دن اِدھر کھینچ لائے گی۔
یہ چوتھا سبق جو رمضان سے حاصل ہو تاہے ا س کا تعلق بھی تحریک جدید کے ساتھ ہے کیونکہ میں نے اُنیسواں مطالبہ یہی رکھا ہے کہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کو ترقی دے۔دعا کے بغیر ہماری قربانیوں کے وہ نتائج پیدا نہیں ہو سکتے جو ہم دیکھنے کے خواہش مند ہیںکیونکہ ان نتائج کا پیدا کرنا ہمارے اختیار میں نہیںبلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ایک ملک جو بارش کا محتاج ہوتم اگر محنت کرکے اس کی زمین میں ہل بھی چلا دو،عمدہ بیج بھی ڈال دولیکن آسمان سے بارش نہ اُترے تو تمہاری محنت کیا نتیجہ پیدا کرسکتی ہے۔اسی طرح جس نتیجہ کے ہم امیدوار ہیں وہ آسمانی بارش چاہتا ہے اور وہ آسمانی بارش دعاؤں سے ہی نازل ہو سکتی ہے۔پس وہ رمضان میں نازل ہو سکتی ہے۔ پس رمضان میں تحریک جدید سے اور تحریک جدید میںرمضان سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ یہ چار بڑی بڑی مناسبتیں رمضان کی تحریک جدید سے ہیں اور یہ چار مناسبتیں تحریک جدید کی رمضان سے ہیں پس اگر تم رمضان سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو تحریک جدید پر عمل کرو اور اگر تحریک جدید کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہوتو روزوں سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھاؤ۔ تحریک جدید یہی ہے کہ سادہ زندگی بسر کرو اور محنت و مشقّت اور قربانی کا اپنے آپ کو عادی بناؤ۔یہی سبق رمضان تمہیںسکھانے آتاہے پس جس غرض کے لئے رمضان آیا ہے اس غرض کے حاصل کرنے کی جدوجہد کر و ایسانہ ہو کہ اپنی زندگی ایسی طرز میں گزار دو کہ رمضان کا آنا نہ آنا تمہارے لئے برابر ہو جائے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے ملک میں روزے خوید کا کام دیتے ہیں جس طرح گھوڑے کو خوید دی جاتی ہے جس سے وہ موٹا ہو جاتا ہے اسی طرح رمضان میں بعض لوگ غذا کا خاص اہتمام رکھتے ہیں۔ رات اور دن گھی اور پراٹھے کھاتے رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روزے رکھ کر وہ پہلے سے بھی موٹے ہو جاتے ہیں۔ یہ طریق دراصل اس روح کے خلاف ہے جس کو پیدا کرنے کے لئے روزے مقرر کئے گئے ہیں۔
پس ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس کا رمضان تحریک جدید والا ہو اور تحریک جدید رمضان والی ہو۔ رمضان ہمارے نفس کو مارنے والا ہواور تحریک جدید ہماری روح کو تازگی بخشنے والی ہو۔پس جب مَیں نے کہا ہے کہ رمضان سے فائدہ اٹھاؤتو دراصل مَیںنے تمہیں یہ سمجھایا ہے کہ تم تحریک جدید کے اغراض اور مقاصد کو رمضان کی روشنی میں سمجھو اورجب میں نے کہا کہ تحریک جدید کی طرف توجہ کرو تو دوسرے لفظوں میں مَیں نے تمہیں یہ کہا ہے کہ تم ہر حالت میں رمضان کی کیفیت اپنے اوپر وارد رکھو اورصحیح قربانی اور مسلسل قربانی کی اپنے اندر عادت ڈالوجو رمضان بغیر سچی قربانی کے گزر جاتا ہے وہ رمضان نہیں اور جو تحریک جدید بغیر روح کی تازگی کے گزر جاتی ہے وہ تحریک جدید نہیں۔
اگرکوئی شخص سالہا سال سے قربانیاں کر رہا ہے مگر اس کے اندر بشاشتِ ایمانی پیدا نہیں ہوتی تو اس کو اس کی قربانیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ وہ محض سر پھوڑنے والی بات ہے اور کچھ نہیں۔ اب پھر وہ وقت آگیا ہے جبکہ تحریک جدید کے پانچویں سال کی مجھے تحریک کرنی چاہئے مگر اِس وقت میں صرف اصولی رنگ میںاس طرف توجہ دلادیتاہوں۔آج میں نے چاہا کہ تمہیںتحریک جدید کے اصول کی طرف توجہ دلادوں اور بتا دوں کہ بغیر ان اصول کو اختیار کئے وہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے جن فوائد کو حاصل کرنے کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں۔دراصل جب تک انسان کسی امرکی حکمت سے واقف نہیںہوتااُس وقت تک باوجود اس کے کہ اس کا کام اچھا ہو، اچھے نتائج پید ا نہیں ہؤا کرتے۔اب نماز، روزہ،زکوٰۃ،حج سب کام اچھے ہیں اورسب مؤمن ا ن احکام کو بجا لاتے ہیں مگر سارے یکساں فائدہ نہیں اٹھاتے۔ساروں کی نمازیں وہ نتیجہ پیدا نہیں کرتیں جو نمازوں سے مقصود ہے، نہ ساروں کے روزے وہ نتیجہ پیدا کرتے ہیں جوروزوں کا مقصود ہے اور نہ ساروں کی زکوٰتیں وہ نتیجہ پیدا کرتی ہیں جو زکوٰۃ کا مقصد ہے۔ بعض لوگ بہت زیادہ چندہ دیتے ہیں مگر نتیجہ بہت کم نکلتاہے اور بعض لوگ تھوڑا چندہ دیتے ہیں مگر نتیجہ بہت زیادہ نکلتا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ا یک دفعہ مسجد میں بعض لوگوں کی آواز سُنی کہ ابو بکر ؓ کو ہم پر کونسی زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ جیسے نیکی کے کام وہ کرتے ہیں اُسی طرح نیکی کے کام ہم کرتے ہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا اے لوگو! ابو بکر ؓکو فضیلت نماز اور روزوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اُس نیکی کی وجہ سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔پس نماز، روزہ،حج اور زکوٰۃ کی بظاہر ایک ہی شکل ہے اور جس طرح ایک شخص ان احکام پر عمل کرتا ہے اُسی طرح دوسرا عمل کرتا ہے مگر پیچھے جو محبت ہوتی ہے وہ نتائج کو بدل کرکہیں کا کہیں لے جاتی ہے۔ اسی طرح نماز ،روزہ کا فائدہ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق اٹھاتا ہے۔ ایک شخص نماز پڑھتا ہے اوراسے نماز کا بدلہ بھی مل جاتاہے لیکن اگر اس کے دل کا ظرف چھوٹا ہے توجتنا نور اس کے دل میں سما سکتا ہے اُتنا سما جائے گا اورباقی بہہ کر ضائع ہو جائے گاجیسے اگر کوئی ساقی دودھ تقسیم کررہا ہو اور اس کے ہاتھ میں ایک گلاس ہو جس کے مطابق اس نے سب کو یکساںدودھ دینا ہو تو وہ شخص جس کے پاس بڑا کٹورا ہو گا وہ تمام دودھ کٹورے میں ڈلوا لے گا اورپھر بھی اس کا کٹور اکچھ خالی رہے گا۔دوسرے کے پاس فرض کرو اتنا ہی پیالہ ہے جتنے میں گلاس بھر دودھ آسکتا ہے تو جب وہ دودھ پیا لہ میں ڈلوا لے گاتو گوا س کا پیالہ بھر جائے گا مگراوردودھ کے لئے اس کے پاس کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس تین چوتھائی جگہ ہو گی تو۴/۳حصہ تو پڑجائے گا مگر باقی چوتھائی اِدھر اُدھر کناروں سے بہہ جائے گا۔ اوراگر کسی کے پاس نصف گلاس دودھ کی گنجائش ہے تو نصف گلاس دودھ لے لے گا اور باقی دودھ زمین پر گر جائے گا۔اوراگر کسی کے پاس بہت ہی چھوٹی کٹوری ہے تواس میں چند گھونٹ دودھ پڑ جائے گا اورباقی ضائع ہو جائے گا۔اسی طرح بے شک نماز یکساںفائدہ لاتی ہے، روزہ یکساں فائدہ لاتاہے، حج اورزکوٰۃ یکساں فائدہ لاتے ہیں لیکن اگر کسی کا ظرف چھوٹا ہو اوردل ان انوارکوسمیٹ نہ سکے جو نماز روزہ کے نتیجہ میںاللہ تعالیٰ کی طرف سے اُترتے ہیںتووہ ضائع چلے جائیںگے۔ تواللہ تعالیٰ کے انعامات کا حصول بھی ظرف کے مطابق ہو تا ہے جتنا ظرف کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتاہے اُتنی چیز اس کے ظرف میںپڑجاتی ہے اور جو زائد ہوتی ہے وہ بہہ جاتی ہے۔ یہ ظرف کی وسعت اور تنگی کی حکمت کو سمجھنے اورجڑ کو پکڑنے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ جیسے جیسے انسان احکام کی حکمت سمجھتا جاتا ہے اس کے دل کا پیالہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور جتنا جتنا وہ احکام کی جڑ کو پکڑتا ہے اتنا ہی اس کے پیالہ میںمضبوطی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے گویا پیالے کی وسعت حکمت کو سمجھنے اوراس کی مضبوطی جڑکو پکڑنے سے پیدا ہو تی ہے۔حکمت کے سمجھنے سے ظرف وسیع ہو تا ہے اورجڑ کے پکڑنے سے اس میں دوام اوراستقلال پیدا ہو جاتا ہے۔ جو لوگ احکام کی جڑ کوپکڑلیتے اور حکمت کو سمجھ لیتے ہیںان کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ واعظوں کے وعظ سے مستغنی ہو جاتے ہیں۔انہیں ضرورت نہیںہو تی کہ واعظ آئیں اور انہیں جگائیں یا حادثات آئیںتو انہیںبیدار کریں وہ بغیر واعظوں کے جگانے کے خود ہی ہوشیار ہوتے ہیں اوربغیر حادثات کے بیدار کرنے کے خودہی بیدار ہوتے ہیں۔توحکمتوںکو جاننا اورجڑ کو پکڑنا کامیابی کیلئے نہایت ضروری ہو تا ہے۔جب تک انسان کسی کام کی حکمت نہیںسمجھتااس کے دل میںبشاشت پیدا نہیں ہوتی اور جب تک بشاشت پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک انسان اللہ تعالیٰ کے انوارکو جذب نہیں کرسکتا۔
بشاشت دراصل بھوک کا نام ہے اب اگر کسی کا معدہ ضعیف ہو اور اس کے سامنے بہت سا کھانا رکھا ہؤا ہو تو چونکہ اس کے اندر کھانے کے لئے بشاشت نہیں ہوگی اس لئے خواہ اس کے سامنے دو چار سیر کھانا پڑا ہؤا ہو جب کھانے لگے گا تو چند لقمے کھا کر ہاتھ کھینچ لے گا لیکن ایک دوسرا شخص جسے بھوک لگی ہوئی ہو اس کے سامنے خواہ تھوڑا ہی کھانا پڑا ہؤا ہو سب کھانا اس کے پیٹ میں چلا جائے گا۔اگر پاؤ پڑا ہؤا ہوگا تو پاؤ ہی کھا جائے گا اور اگر ڈیڑھ پاؤ پڑا ہو گا تو ڈیڑھ پاؤ کھا جائے گا لیکن دوسرے شخص کے سامنے اگر دو سیر بھی کھانا پڑا ہؤا ہوگا تو وہ چند لقموں سے زیادہ کھانا نہیں کھاسکے گا۔ اگر زیادہ کھائے گا تو اسے قَے آجائے گی اور پہلا کھانا بھی اس کے اندر سے نکل جائے گا۔تو حکمتوں کے جاننے کے ساتھ بشاشت اور رغبت پیدا ہوتی اور اس طرح روحانی لحاظ سے ایسی بھوک پیدا ہو جاتی ہے جس سے معنوی طور پر انسان کا ظرف بڑا ہو جاتا ہے۔ جس طرح انسان کو جتنی زیادہ بھوک لگتی چلی جاتی ہے اُتنا ہی اُس کا معدہ بڑھتا چلا جاتا ہے اِسی طرح جن لوگوں کے اندر بشاشتِ ایمانی پیدا ہوجاتی ہے اُن کا دل وسیع ہو جاتا ہے اور اس میں ربڑ کی سی لچک پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جتنا زیادہ اُسے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مقام ملتا جاتا ہے اُتنا زیادہ اُس کا دل پھیلتا چلا جاتا اور اللہ تعالیٰ کے انوار کو جذب کرتا چلا جاتا ہے۔ اور جڑکو پکڑ لینا ایسا ہی ہے جیسے کسی تھیلی میں کوئی چیز ڈال کر اوپر سے تسمہ باندھ لیا جائے۔اس طرح نیکی میں دوام پیدا ہو جاتا ہے اور اِس دوام کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے ساتھ انسان ایسا تعلق پیدا کر لیتا ہے کہ پھر اس کا قدم کبھی لڑکھڑاتا نہیں۔
پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ جب ہم دین کی طرف توجہ کریں تو ان مسئلوں کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ جب تک بشاشتِ ایمانی ہمیں حاصل نہیں اور جب تک ہم احکام کی جڑ کو نہیں پکڑتے اُس وقت تک نہ نیکیوں میں دوام پیدا ہوسکتا ہے اور نہ قربانیوں کے نیک نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ بیشک کچھ فضل ضرور نازل ہوں گے مگر وہ اتنے اہم نہیں ہونگے کیونکہ خدا تعالیٰ تو انعامات دے گالیکن ظرف چھوٹا ہوگا اور اس وجہ سے انعامات سے انسان پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔ جیسے اگر کوئی میزبان مہمان کے سامنے کھانا رکھے تو اب یہ مہمان کا کام ہے کہ وہ کھانا کھائے لیکن اگر اسے پیٹ درد شروع ہو جائے یا متلی ہو جائے تو وہ کس طرح کھا سکتا ہے۔پس بے شک جب ہم نمازیں پڑھتے ہیں، جب ہم روزے رکھتے ہیں، جب ہم زکوٰتیں دیتے ہیں،جب ہم توفیق ملنے پر حج کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے فضل بھی نازل ہوتے ہیں مگر چونکہ دل چھوٹا ہوتا ہے اس لئے وہ فضل اِدھر اُدھر بہہ جاتے ہیںیعنی اور لوگ اس سے فائدہ اٹھا لیتے ہیںمگر ہمارے اپنے نفس فائدہ اٹھانے سے محروم رہتے ہیں لیکن جب ہمارے اندر بشاشت ہو تو ہمارا ظرف وسیع ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پھر جس قدر فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے چلے جاتے ہیں ان تمام فضلوں کو ہمارا دل جذب کرتا چلا جاتا ہے بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ فضلوں کا اﷲ تعالیٰ سے مطالبہ کرنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے خدایا! مجھے اَور دے اور جب خدا تعالیٰ اَور فضل نازل کرتا ہے تو وہ اس کو بھی سمیٹ لیتا ہے اور کہتا ہے خدایا! اور دے۔ اورچونکہ وہ احکام کی حکمتوں کو ساتھ ساتھ سمجھتا جاتا ہے اس لئے اس کا دل وسیع ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے تمام فضلوں کو سمیٹ لیتا ہے۔گویا جس شخص کے اندر بشاشتِ ایمانی نہیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل ایسے ہی ہیں جیسے اِمتلاء کے مریض کے منہ میں روٹی ڈال دی جائے اور اسے قے ہو جائے لیکن جس شخص کے دل میں بشاشتِ ایمانی موجود ہے اس کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل ایسے ہی ہیں جیسے ہائیڈروکلورک ایسڈ ڈل کی ایک ڈوز یا چُورن کی ایک چٹکی۔اب چُورن کی چٹکی بھوک بڑھایا کرتی ہے گھٹایا نہیں کرتی۔اسی طرح جس شخص کے دل میں بشاشت ہوتی ہے اُس کے اعمال اُس کے لئے چورن بنتے چلے جاتے ہیں مگر جس شخص کے دل میں بشاشت نہیں ہوتی اُس پر خدا تعالیٰ کے فضل ایسے ہی آتے ہیں جیسے امتلاء کے مریض کو کوئی شخص روٹی دے دے ایسے مریض کی روٹی کے کھانے سے بھوک بڑھتی نہیں بلکہ مَتلی ہو جاتی اور پہلا کھایا پیا بھی باہر آجاتا ہے۔پس اپنے اندر بشاشتِ ایمانی پیدا کرو اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے انعامات کو اپنے دلوں میں زیادہ سے زیادہ جذب کرنے کے لئے تیار رہو۔اگر تم دیکھتے ہو کہ تم نے پچھلے سال قربانیاں بھی کیں، تم نے نمازیں بھی پڑھیں،تم نے روزے بھی رکھے،تم نے چندے بھی دیئے،تم نے حج بھی کیا،تم نے زکوٰۃ بھی دی لیکن باوجود ان تمام نیکیوں کے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہؤا تو یقینا تمہیں امتلاء کی تکلیف ہے اور تم میں بشاشتِ ایمانی نہیں تبھی تمہارا دل سُکڑ جاتا ہے اور اسی کے سُکڑنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی رحمت اپنے کمال کے ساتھ تم پر نازل نہیں ہوتی اور جو نازل ہوتی ہے وہ تمہارے انگ نہیں لگتی۔ لیکن اگر تمہارے اندر بشاشتِ ایمانی پیدا ہو جائے تو پھر جتنی زیادہ بشاشت ہوتی چلی جائے گی اتنا ہی تمہارا دل وسیع ہوتا چلا جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فضل نازل ہونگے وہ تمہارے انگ بھی لگیں گے اور تمہیں اپنی نیکیوں کا صریح فائدہ بھی دکھائی دینے لگ جائے گا۔
چونکہ اب تین بج چکے ہیں اس لئے میں خطبہ کو اسی پر ختم کرتا ہوں ۔اس مضمون کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے جو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں بیان کر دوںگا مگر اِس وقت میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم لوگوں نے گزشتہ سالوں میں بڑی بڑی قربانیاں کی ہیںلیکن چونکہ ابھی ہماری جدو جہد کا زمانہ ختم نہیں ہؤا اس لئے ان قربانیوں کے بعد ہماری حالت اُس عورت کی طرح نہیں ہونی چاہئے جس کے متعلق قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ وہ سُوت کا تتی اور پھر اسے اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی کہ نہ ان ٹکڑوں کا اسے خود کوئی فائدہ ہوتا اور نہ دوسرے لوگ ان سے کسی قسم کا فائدہ اٹھا سکتے۔
اور ہمیں اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کرنی چاہئے کہ ہماری گزشتہ قربانیاں ہمارے لئے سُستی کا موجب نہ ہوں بلکہ زیادہ چُستی اور زیادہ بیداری پیدا کرنے کا موجب ہوں تا پچھلی قربانیوں کے نتائج سے بھی ہم فائدہ اُٹھا سکیں اور آئندہ کی برکات بھی ہمیں حاصل ہوں۔آمین۔‘‘
(الفضل۱۱؍نومبر۱۹۳۸ئ)
۱؎ البقرۃ: ۱۸۶
۲؎ بخاری کتاب فضائل القراٰن باب کانَ جِبْرِیْلُ یَعْرِضُ الْقُرآنَ (الخ)
۳؎ البقرۃ: ۱۸۷ ۴؎ اٰل عمران: ۱۰۴
۵؎ بخاری کتاب الصوم باب مَنْ لَّمْ یَدَعَ قولَ الزور (الخ)
۶؎ ابن ماجہ کتاب الزھد باب المُدَاوَمَۃُ عَلَی الْعَمَلِ
۷؎ البقرۃ: ۱۸۴ ۸؎ البقرۃ: ۱۸۷


۳۶
خالص اللہ تعالیٰ کی محبت میں قربانیاں کریں
اور تحریک جدید کو کامیاب بنائیں
(فرمودہ ۱۱؍نومبر۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیںنے گزشتہ جمعہ میں اس امر کی طرف جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ رمضان اپنے اندرخاص برکات رکھتا ہے اوران برکات سے فائدہ حاصل کرنا مؤمن کا کام ہے اورمیںنے بتایا تھا کہ رمضان بہت سے ایسے فوائد اپنے اندر رکھتا ہے جو ہمیںان اغراض کی طرف توجہ دلاتے ہیں جن کی طرف تحریک جدید جماعت کو متوجہ کرتی ہے اور کہ معنوی طور پر تحریک جدید رمضان کے ساتھ ایک تعلق رکھتی ہے۔وہ مشقت اور قربانی کی روح اوروہ استقلال اور خداتعالیٰ کے قُرب کی جستجو جو رمضان سے وابستہ ہے وہی تحریک جدید کا مقصود ہے۔
پس جب اس تحریک کا بھی جو شروع کی گئی ہے واحد مقصد اسلام کا قیام اور احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت ہے تواس کیلئے جماعت جتنی بھی جدوجہد کرے تھوڑی ہے۔ہمارا پہلے دور کو کامیاب بنانا ایسا ہی تھا جیسا کہ کوئی شخص کسی جگہ کوئی عمارت تیار کرنا چاہے اور اس جگہ کوئی کھنڈر ہو تو اس کا پہلا کام یہ ہو تا ہے کہ اسے صاف کرے وہ اینٹیں یا ملبہ جو وہاں پڑا ہؤا ہواُسے وہاںسے ہٹا دے یاوہ بوسیدہ خراب اور کمزوردیواریں جو وہاںکھڑی ہوں ان کو توڑ کر گرادے تا نئی عمارت کے لئے جگہ صاف ہوسکے۔تحریک جدید کے پہلے دور کی غرض یہ تھی کہ دشمنانِ احمدیت کے اس حملہ کوتوڑاجائے جو انہوںنے احمدیت کو تباہ کر نے کی نیت سے کیا تھا مگر صرف میدان کو صاف کرلینا کوئی بڑی چیز نہیں۔جب میدان صاف ہو جائے تواصل غرض اس پر عمارت کا قیام ہو تا ہے سو اگر ہم صرف پرانی عمارت کو صاف کرکے ا س کی جگہ نئی عمارت کے قیام سے غافل رہتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیںکہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔کھنڈر کو صاف کرنا کوئی بڑا کام نہیںبلکہ بعض اوقات نقصان دہ ہو تا ہے اس لئے کہ کھنڈر بھی اپنے اندرسامان عبرت رکھتے ہیں۔ایک نئے نظام کیلئے پرانے عبرت کے سامان کو اگر ہم مٹا دیں تو یہ کوئی بُری بات نہیں لیکن اگر کوئی نیا نظام تو قائم نہ کریں اورپرانے عبر ت کے سامان کو مٹا دیں تو ا س کے یہ معنی ہونگے کہ ہم نے دنیا کوہدایت کے ایک رستے سے خواہ وہ کتناہی مخفی کیوں نہ ہو محروم کردیا۔غرض خالی کھنڈر کومٹا دینا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔
پس آج میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہو ں جو گزشتہ خطبہ کے سلسلہ میں ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد عظیم الشان امانت کی ہے ایسی عظیم الشان کہ جو بہت ہی کم لوگوں کو دی گئی ہے۔ وہ امانت صرف یہ نہیںکہ ہم اپنے آپ کو ا حمدی کہہ لیتے ہیںیا وفات مسیح علیہ السلام وغیرہ چند عقائد کو تسلیم کرلیتے ہیںیہ تو ایسا ہی ہے جیسے کھنڈروں کو گرانا۔حیاتِ مسیح کاعقیدہ دراصل ایک کھنڈر تھاجو اسلامی زمین پر موجود تھااوروفات ِمسیح کو تسلیم کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے ا س کھنڈرکو ہٹا دیا۔کسی کھنڈر کو اگر ہٹا دیا جائے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہاں نئی عمارت بنائی جائے اوراگر یہ غرض ہماری نظر کے سامنے نہیں یا ہم نے اسے پورا نہیں کیاتو ملبہ یا اینٹوں یا مٹی کے ڈھیر کوہٹا دینے سے کیا فائدہ اگر دنیا میں وہ نیا نظام قائم نہیں ہوتاجس کے رستہ میں حیاتِ مسیح روک ہے؟ تواس کو ہٹانے پراتنی طاقت اور قوت صرف کرنے کی ضرورت ہی کیاہے۔یہ خرابی کوئی نئی نہیں۔معاً صحابہ ؓکی وفات کے بعدکیونکہ ان کی زندگی میں کسی غلط عقیدہ کی اشاعت کا کوئی امکان نہ تھا۔لیکن ان کی وفات کے معاََ بعد بلکہ ابھی ان میں سے بعض زندہ ہی تھے یعنی پہلی صدی میں ہی مسلمانوںمیں یہ خیال پیدا ہو نے لگاکہ حضرت عیسیٰ ؑ زندہ ہیں اور دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔دوسری صدی میں یہ خیال اور قوی ہو گیا اور تیسری صدی میں قوی تر۔ پہلی اوردوسری صدی میں ہمیں ایسے علماء نظر آـتے ہیں جو بِالوضاحت اور بِا لبداہت اس عقیدہ کے خلاف اعلان کرتے ہیں مگر جوں جو ں زمانہ گزرتا گیاایسے لوگ کم ہوتے گئے۔حتّٰی کہ آخری زمانہ یعنی پانچویں اور چھٹی صدی سے یہ مسلمانوں کے اندر ایسے طور پر قائم ہوگیاکہ گویا اسلام کا جُزو ہے۔کیامصراورکیاسپین،کیامراکش اورکیاالجزائر،کیاشام اورکیااناطولیہ اور کیا فلسطین، عرب، عراق،ایران،بخارا،افغانستان،ہندوستان،فلپائن،سماٹرااورجاوا میں کوئی اسلامی مُلک ایسا نظرنہیں آتا جس میںیہ مسئلہ پورے طور پر قائم نہ ہو دنیا کا ہر مسلمان اس میںمبتلا دکھائی دیتاہے۔حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے اور شرک ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ جو شرک چھ سو سال تک اسلامی دنیا پر اس طرح چھایا رہا جس نے پہلی ہی صدی میںاپنی شکل دکھانی شروع کی اوربرابر زورپکڑتا گیا اللہ تعالیٰ کیوںاس کے مٹانے سے غافل رہا؟کیوںنہ اسے دور کیا گیااور کیوں اس کی اہمیت کو اب حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منہ سے ہی ظاہرکرایا اورکیوں وہ دلائل جن سے حضرت عیسیٰ ؑعلیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے۔آ ج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ظاہر فرمائے؟ذرا سی عقل اور سمجھ رکھنے والا آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس زمانہ میں اس مسئلہ پر بحث کا کوئی فائدہ نہ تھا کیونکہ اس کھنڈر کے گرانے کے بعد نئی عمارت بنانے کا کوئی موقع نہ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے ساتھ جو اصل مقصود وابستہ ہے وہ یہ ہے کہ اس امت میں پیدا ہو نے والے مسیح کے لئے راستہ صاف کیاجائے اورچونکہ اس کاموقع نہ تھا ا س لئے اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی غلطی کو چھوڑ دیا اور اس کا علاج اپنے ہاتھ میںنہ لیا بلکہ انسانوں کے دماغ پر اسے چھوڑ دیاکہ خود سوچیں۔قرآن کریم میں ایسی آیات جن سے وفات مسیحؑ ثابت ہوتی ہے موجود تھیں،اسی طرح ایسی احادیث بھی موجود تھیںجن سے وفات مسیح ثابت ہوتی تھی،وہ آثار صحابہ موجود تھے جن سے حیات مسیح کا مسئلہ باطل ہو تا تھا،اسی طرح عقل جو اس کو رد کرتی ہے وہ بھی انسانی دماغوں میںموجود تھی اوراگر انسان چاہتا تو اس کا رد کرسکتا تھا۔پس اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میںخود اس کا ردّ نہیں کیا اس نے کہا کہ ہم نے قرآن کریم میںاس مسئلہ کو اچھی طرح واضح کردیا ہے۔آیات قرآنیہ پر غور کرو، اپنے رسولؐ سے اس کی حقیقت کو ظاہر کروادیا ہے اس کی احادیث کو دیکھ لو،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ بِالخصوص خلیفہ اول ؓ نے ا سے حل کردیاہؤا ہے ان کے واقعات کو پڑھ لو، پھر تمہارے دماغوں میں عقل موجو د ہے اس سے مدد لولیکن اگر تم نہ عقل سے فائدہ اٹھاؤاورنہ صحابہؓ کے طریق اورآثار سے نہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے فائدہ اٹھاؤاورنہ قرآن کریم سے توہم بھی چُپ ہیں۔مگر وہی مسئلہ جس پر اللہ تعالیٰ تیرہ سَو سال تک چُپ رہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں اس پر اتنا زور دیا گیاکہ گویا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے۔یہ خرابی تو تیرہ سَو سال سے موجود تھی مگراس کی جڑ اُکھیڑنے کیلئے کوئی انتظام اللہ تعالیٰ نے نہیں کیا۔قرآن کریم کی جو آیات پُکار پُکار کر وفاتِ مسیحؑ کا اعلان کررہی ہیں وہ پہلے بھی موجود تھیں لیکن بالکل خاموش تھیں لیکن اب سامنے آکر دنیاکو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیںاورکہہ رہی ہیں کہ ہماری موجودگی میںتم کس طرح حیاتِ مسیح ؑ کا عقیدہ رکھتے ہو۔ اسی طرح وہ احادیث بھی جو وفاتِ مسیح ؑ پر شاہدِ ناطق ہیں تیرہ سو سال سے موجود تھیں لیکن خاموش تھیں آج کس طرح حقیقتِ حال کو ظاہر کررہی ہیں۔صحابہ ؓکرام کااجماع جو چپکے سے ایک گوشہ میں پڑا تھا اوراس غلط عقیدہ کو ردّ کرنے میں کوئی حصہ نہ لے رہا تھا مگر آج چِلاَّ چِلاَّ کر ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہا اورکہہ رہا ہے کہ میںنبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ان صحابہؓ کا فیصلہ ہوںجن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو قائم کیاتم میری طرف کیوں نہیں دیکھتے ۔وہ عقل جو پہلے بھی ہرانسان میںموجود تھی خاموش تھی مگر آج اس خیال کو دھکے دیتی اورا س پر قہقہے لگا رہی ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ایسی بات پر ایما ن رکھتے ہیں مگر یہ نظارہ ہمیںتیرہ سَو سال کے بعد آج نظر آتا ہے پہلے نہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ آج خداتعالیٰ نے ایک نئی عمارت بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔وہ عما رت بن نہیں سکتی تھی جب تک اس کھنڈر کو صاف نہ کیاجاتا۔پس اس نے حکم دیا کہ اس ملبہ کو اٹھاؤتا نئی عمارت تیار ہو سکے۔مرض، ضرراور نقصان پہلے بھی موجود تھا مگر تیرہ سَو سال تک آسمان سے ا س کا علاج نہ کیا گیا اورخدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اسے دور کرنے کی طرف توجہ نہ کی جس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی نئی عمارت وہاں بنانے کا موقع نہ تھا مگر جب نئی عمارت بنانے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیاتو اس نے فوراً اپنے کھنڈر کو مٹا دیا اور اس کی شناخت کو پورے زور کے ساتھ اور کھلے الفاظ میںبیان کیا۔
غرض حیات مسیحؑ کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے،مگراس کی حیثیت ایک کھنڈر سے زائد نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم اس ملبہ کو ہٹا کر خاموش ہو جائیںاور اس کی جگہ پر نئی عمارت نہ بنائیں تواللہ تعالیٰ پر یہ الزام آتاہے کہ اس نے صرف ملبہ کو ہی ہٹانا تھاتو پھر تیرہ سو سال میں کیوں نہ ہٹایا۔اللہ تعالیٰ کے اتنا عرصہ خاموش رہنے میں ایک ہی حکمت تھی کہ اس جگہ پر نئی عمارت کی تعمیر کا وقت ابھی نہ آیا تھا لیکن اب اگر ہم اس نئی عمارت کی تعمیر کو نظر انداز کردیںتواللہ تعالیٰ پر ضرور یہ الزام آئے گا کہ و ہ اتنا عرصہ کیوں خاموش رہا۔پس نئی عمارت کا بنایا جانا زیادہ اہم ہے اوروہی دین دراصل مقصود ہے۔وفاتِ مسیح کا مسئلہ گو اہم ہے مگر یہ ضمنی ہے۔یہ ہمارے راستے میں آگیا اس لئے اسے حل کرلیا گیا ورنہ شاید اتنی توجہ اس کی طرف نہ کی جاتی۔اصل مسائل اَور ہیں اور وہی امانتیں ہیںجو ہمارے سپرد کی گئیں۔
ان مسائل میںسے ایک توفہم قرآن ہے۔جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دنیامیںقائم کیا اوروہ قرآن کریم جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۱؎وہ قرآن جو ہدایتوں اورنشانات کا مجموعہ ہے،جو جھوٹ اورسچ میں فرق اور امتیاز کردینے والا ہے،جو نور اور تاریکی میںفرق کردینے کاواحد ذریعہ ہے،وہ جو خدا تعالیٰ تک انسان کو پہنچاتا ہے اس کا علم اورفہم مٹ گیا تھا مسلمان اسے بھلا چکے تھے۔اس کا کچھ درجہ تو احادیث کو دے دیاگیاتھا۔ان احادیث کو جو اگر سچی ہو ں تو بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا کلام ہیں مگر موجودہ وقت میں ان میں وضعی بھی ہیں،ان میں انسانی خیالات کا اثربھی ہے۔ایک بات کو دس آدمی سنتے اور نوٹ کرتے ہیں مگر سب میں کچھ نہ کچھ اختلاف ہو جاتا ہے۔نوٹ کرتے وقت انسان پوری احتیاط کے باوجود بھی غلطی کرجاتا ہے۔راوی خواہ کتنے سچے ہوں لیکن اگر بات سنتے سنتے کسی کا خیال کسی اورطرف چلا جائے اورکوئی حصہ رہ جائے تو غلطی کا ہو جانا بعید نہیں۔پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض راوی بات کو سمجھ ہی نہ سکے ہوں، پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سننے والے آگے جن سے بیان کریں وہ اچھی طرح سمجھ نہ سکے ہوں یا کسی وقت ان کا دماغ کسی اور طرف متوجہ ہو جائے اوریہی سلسلہ پانچ سات آدمیوں تک چلتا جائے توا س کے نتیجہ میں جوبات بن جائے گی اس میں غلطی کا کس قدر امکان ہوگا اورمفہوم کس قدر بدل جائے گا۔پس احادیث خواہ وضعی نہ ہو ں سچی ہی ہوں پھر بھی ان میں کئی وجوہ سے غلطیوں کا امکان ہے اور وہ اِس طرح ہدایت کاموجب نہیں ہو سکتیں جس طرح قرآن جس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک شوشہ محفوظ ہے۔مگر قرآن کی کچھ جگہ تو ان احادیث کو دے دی گئی کچھ اپنے فلسفہ کو اورکچھ رسوم و رواجات کواورکچھ اپنی ہوا اور خواہشات کو حتیٰ کہ قرآن کے لئے کوئی جگہ ہی باقی نہ رہی اوروہ اُڑ کر آسمان پر چلا گیا۔اس واقعہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میںقرآن کریم کے صرف الفاظ باقی رہ جائیںگے۔لَایَبْقٰی مِنَ الْقُرْانِ اِلَّارَسْمُہٗ۲؎ یعنی قرآن باقی نہیں رہے گا صرف اس کے الفاظ رہ جائیں گے۔ اورلَایَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّااسْمَہٗ۳؎ اسلام باقی نہیں رہے گا صرف اس کا نام رہ جائے گا۔قرآن کریم کی صرف سیاہی باقی رہ جائے گی گویا وہ بالکل ایک مُردہ جسم ہوگااورظاہر ہے کہ مُردہ جسم کسی کام کا نہیںہو سکتا۔کسی شخص کے ماں باپ مَر جائیں تو کیاوہ اس بات پر خوش ہو سکتاہے کہ ان کا جسم اس کے پاس ہے جب تک وہ بات نہ کریں،مشورہ نہ دیں،اگر وہ مذہبی خیالات رکھتے ہیںتو اس کے لئے دعائیں نہ کریں اور اگر دنیوی خیالات رکھتے ہیں تو اس کی دنیوی ترقی کے لئے کوئی سعی اور کوشش نہ کریں،اسی طرح جب قرآن کریم کی روح باقی نہ رہی تو وہ جسم بے جان تھا جس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جاسکتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اس میں پھر روح قائم کی اور قرآن کریم کا وہ علم بخشا جس کی مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد تیرہ سو سال میں نہیں ملتی۔آج جو فہم قرآن کریم کا ہمیں حاصل ہے اس کے مقابلہ میں پچھلی تمام تفاسیر ہیچ ہیں۔ جو علوم خدا تعالیٰ نے ہمیں دیئے ہیں انکو پڑھنے والے پرانی تفاسیر کو بغدادی قاعد ہ سے زیادہ نہیں سمجھتے۔ابھی جو بچے ہمارے باہر سے آئے ہیں ان میں سے عزیزم ناصر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ مغرب میں جو لوگ احمدیت کی طرف مائل ہو رہے ہیںان پر صرف یہ اثر ہے کہ قرآن کریم کی جو تفسیر ہماری طرف سے شائع ہو تی ہے اس سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم واقعی ایک زندہ کتاب ہے۔پہلے جو لوگ عیسائیت یا دہریت کی طرف مائل تھے وہ جب ہماری پیش کردہ تفسیر دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اوہو! یہ تو بہت بڑا خزانہ ہے اس لئے وہ واپس اسلام کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ان پر نہ کوئی وفات کے دلائل کا اثر ہو تا ہے اور نہ ختم نبوت کا بلکہ صرف ہماری تفسیر کا۔ جب وہ اسے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اب ہمیں معلوم ہؤا کہ قرآن کریم واقعی ایک زندہ کتاب ہے۔ہم بے وقوفی سے اسے چھوڑ رہے تھے تو جوفہم قرآن کریم کاحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوخدا تعالیٰ نے دیا ہے اوراصولی طور پر آ پ نے ہمیں جس کی تعلیم دی ہے وہ اتنا بڑا خزانہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ درمیان کے تیرہ سو سال کے تمام علوم اس کے سامنے ہیچ ہیں۔
پھر دوسری چیز حقیقتِ احکامِ اسلام ہے۔اس سے بھی مسلمان غافل تھے۔صحابہ کرامؓ کے معاََ بعد مسلمانوں نے اسلام کے احکام کی حقیقت سمجھنے سے غفلت برتنی شروع کردی تھی۔صرف انہیں احکام قرار دے کر ان پر عمل ہونے لگا۔نماز کو ایک حکم سمجھ کر نماز ادا کی جاتی تھی اورروزہ کوایک حکم سمجھ کر روزہ رکھا جاتا تھا مگر یہ بات کہ ان احکام کی حکمت کیاہے اس طرف سے توجہ بالکل ہٹ گئی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ احکامِ اسلام پرعمل کی رغبت نہ رہی۔یہاں تک کہ چوتھی صدی میں امام غزالی ؒ نے اسکے خلاف احتجاج کیااوراحکام کی حکمتیں بتا کران کی طرف رغبت دلانے کی کوشش کی۔ان کے لٹریچر کے نتیجہ میںکچھ توجہ اس طرف ہوئی اور اس نے مسلمانوں کو کچھ فائدہ بخشا مگر پھر نیند کا غلبہ ہؤااوراحکام ِ اسلام کے صرف لفظ رہ گئے اورروح مٹ گئی۔حتّٰی کہ ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی کا زمانہ آیاانہوں نے بعض کتابیں لکھیں جن میں احکامِ اسلام کی حکمت بیان کی مگر ان کادائرہ اثر بالکل محدود تھااورصرف چند لوگ ہندوستان میں ایسے تھے جن پر ان کا اثر ہؤااوراسکی وجہ یہ تھی کہ وہ شخص قریب میں آنے والا تھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس حکمت کو ظاہر کرنا تھا۔جب سورج چڑھنے والا ہوتو صبح کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی طر ف نظرنہیں اُٹھا کرتی۔پس مسلمان غافل ہی رہے حتّٰی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ آگیا اورآپ نے اسلام کے احکام کی حکمت ایسے رنگ میں بیان کی کہ ہر ایک شخص کی سمجھ میں آگئی کہ یہ احکام ہمارے ہی نفع کے لئے ہیں اوردنیاپر یہ حقیقت ظاہر ہو گئی کہ دنیاکی نجات ان قوانین میںنہیں جو نئے نئے بنائے ہیں بلکہ قرآن کی طرف جانے میںہی ہے۔ آپ نے اسلام کے وہ احکام جن کے متعلق مسلمان بھی معذرتیں پیش کرتے اورکہتے تھے کہ یہ خاص اوقات کیلئے ہیں نہایت جرأت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کئے اورابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ یو رپ میں زلزلے آنے لگے اوربڑے بڑے فلاسفراس طرف آنے پر مجبور ہوگئے اوروہ سمجھنے لگے کہ نئے مسائل ان کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔
شراب اور سود میںحد بندیاں ہونے لگیں،طلاق کے مسئلہ میںآزادی ہوئی اور کثرت ازدواج میںجو سختی سے کام لیا جارہا تھااس میںنرمی کی تحریک یورپ کے لوگوں میں شروع ہوگئی، عریانی کے معاملہ میںبھی آزادی کی بڑھتی ہوئی رَو میںکمی آنے لگی۔ان مسائل میں اسلام کی تعلیم کو پہلے حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھااوراسے اولڈ فیشن(OLD FASHION) اورپرانے زمانہ کی تعلیم کہاجاتاتھا مگراسکے بعد یورپ میں بھی جو زلزلے آئے اورجو حرکتیں ہوئیں انہوںنے نئے قوانین کی عمارتوں کو گرا کر لوگوں کوپھر اس تعلیم کی طرف آنے پر مجبورکیا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پرانی تعلیم بتا کرپیش کیا تھا۔طلاق کے بارہ میں وسعت پیدا ہورہی ہے یورپ میں ایک زبردست جماعت پیدا ہو رہی ہے جو یہ کہہ رہی ہے کہ کثرتِ ازدواج میں آزادی ہونی چاہئے،سودکے بارہ میں حدبندیوں کی حامی بھی زبردست جماعت پیدا ہوگئی ہے،جن میں سے ہٹلر اور جرمن کی یونیورسٹیوں کے پروفیسر پیش پیش ہیں۔ چند سال ہوئے برلن کی یونیورسٹیوں کے بعض پرفیسروں نے اپنی چھٹیاں اس لئے وقف کی تھیں کہ لوگوں کو جاکر سود کی برائیوں سے آگاہ کریں۔پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ یورپ جو اِن بیماریوں کا پیدا کرنے والا ہے وہی ان کے علاج کی طرف متوجہ ہو گا۔یہ تغیرات آج سب لوگوں کو نظرنہیں آتے جو مجھے آتے ہیں۔بے شک یورپ ابھی شراب کو چھوڑ نہیں سکا،طلاق میں بھی اسلامی تعلیم کو قائم نہیں کرسکا اور یہی حال دوسرے مسائل کا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ان کا مزاج کس طرف مائل ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ
آرہا ہے اس طرف احرارِ یورپ کا مزاج
اوراصل چیز یہی ہے کہ یو رپ کا مزاج اس طرف آرہا ہے اورجب اس طرف میلان ہو رہا ہے توایک نہ ایک دن ان احکام پر عمل بھی ہو کر رہے گا۔تمام قوم کوایک ہی دن میں کسی بات پر قائم نہیں کیاجاسکتا۔ہماری جماعت جو خدا تعالیٰ کو مانتی اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ کا نبی یقین کرتی ہے وہ کونسی ہربات پر پوری طرح فوراََعمل کرتی ہے۔بے شک بعض لوگ ایسے ہیں جو ہر اس بات پر جو پیش کی جاتی ہے فوراََ عمل شروع کر دیتے ہیں مگرکئی ایسے ہیں جن کو ہموارکرنا پڑتاہے۔جس طرح کوئی کیل موٹا ہو توا سے رگڑ رگڑ کر ٹھیک کرنا پڑتا ہے۔پھر یورپ کے لوگ جن کی گُھٹی میں یہ چیزیں داخل ہیں ان کوایک دن میںکس طرح چھوڑ سکتے ہیں مگر یہ سب باتیں احمدیت میں ہی مل سکتی ہیں۔ اگر یہ مٹ جائے توقرآن بھی ساتھ ہی مٹ جاتاہے، اگر یہ مٹ جائے تواسلام کے احکام کی حکمت بھی ساتھ ہی مٹ جاتی ہے۔پھر جماعت احمدیہ ہی ایک ایسی جماعت ہے جس نے خدا تعالیٰ کیلئے اپنی تمام طاقتوں کو لگا دیاہے۔ اس کے سوا کوئی جماعت ایسی نہیں جو خدا تعالیٰ کیلئے کوئی کام کرتی ہو۔ مصر، فلسطین، عرب، افغانستان، ترکی اور خود ہندوستان میں نئی نئی ترقیات ہو رہی ہیں۔مگران کا محور کہیں بھی خداتعالیٰ کی ذات نہیں۔سب تحریکات وطنی اور قومی ہیں اورخدا تعالیٰ کا خانہ سب جگہ خالی ہے۔اگر کوئی جماعت دعویٰ کے لحاظ سے بھی ایسی ہے تو وہ صرف ایک ا حمدیہ جماعت ہے۔یہ کوئی سوچنے والی بات نہیں اس میںکسی غور اورفکر کی ضرورت نہیں دنیامیںکوئی اور جماعت ایسی پیش کرو جو خدا تعالیٰ کی حکومت قائم کرنے کیلئے کام کررہی ہو۔یقیناایسا نہ کرسکو گے۔ مصری،ترکی، عربی اورہندوستان کی سب مذہبی اورسیاسی تحریکات میں سے کوئی ایسی نہیں جس کی غرض یہ ہو۔ہندوستان کی جمعیۃ العلماء بھی آج یہ کہہ رہی ہے کہ کانگرس کے ساتھ شامل ہوئے بغیر اسلام زندہ نہیں رہ سکتااورظاہر ہے کہ جس اسلام کو زندہ رہنے کے لئے کانگرس کی مدد درکار ہے اس کی حقیقت ہر مسلمان خود سمجھ سکتا ہے۔غرضیکہ دنیامیں کوئی ایسی جماعت نہیں نہ چھوٹی نہ بڑی جو خدا تعالیٰ کیلئے کام کرتی ہو صرف یہی ایک جماعت احمدیہ ہے جو محبت الٰہی کے محورکے گردگھومتی ہے اورجس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو کھینچ کر خدا تعالیٰ کے پاس لایا جائے۔دنیا میں لوگ مال کی قربانیاں بھی کرتے ہیںاورجذبات کی بھی مگر ان میںسے کوئی بھی خدا تعالیٰ کے لئے نہیںہوتی سب ذاتی یا قومی یا خاندانی اغراض کے ماتحت ہوتی ہیں خداتعالیٰ کیلئے کوئی نہیں ہوتی۔اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مرتبہ اوردرجہ کی صحیح شناخت بھی احمدیت سے باہرنظر نہیں آتی۔مُنہ سے کہنا کہ ہم آپ کے عاشق ہیں اوربات ہے لیکن ان لوگوں کی تقریروں کو اگر سنوتو اگر وہ ہمارے دلائل کی خوشہ چینی نہیں کرتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نقل نہیںکرتے تو ان میں سوائے اس کے کچھ نہیں ہوگاکہ آپ کملی والے ہیںآپ کی زلفیں ایسی تھیں۔وہ یہ نہیںسوچتے کہ کیاآپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی یہی خوبیاں تھیں جن کیلئے اللہ تعالیٰ تیر ہ سو سال سے دنیامیں لڑائیاں، جھگڑے اور خونریزیاں کراتا رہا، ان کے ذہن اس سے آگے نہیں جاتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا خلق،انسانی روح کی ترقی کے مدارج کا بیان اور اس کی ترقی کیلئے روحانی نور کا مہیا کرنایہ ساری خوبیاں ان کی نظرسے پوشیدہ ہیں۔اگر یہ خوبیاں کسی کے سامنے آئیںتو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اوراگر آج یہ خزانہ کہیںموجود ہے تو جماعت احمدیہ میں۔پھر خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے روحانی ترقیات کاجو دروازہ کھول دیاہے امید کے دودھ سے لبریز پیالہ جو دیاہے وہ بھی ہمارے سوا کسی کے پاس نہیں۔تمام مسلمان آپ کی ذات کو مایوس اورافسردگی کا پیغام قرار دیتے ہیں اورایک ایسی دیوار ظاہر کرتے ہیںجو افضال الٰہی کے دروازہ کے آگے کھڑی ہے۔صرف ایک ہی شخص ہے جس نے بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک دروازہ کو بند کرنے والی دیوارنہیںہیںبلکہ ایک بند دیوار کا دروازہ ہیں جو خدا تعالیٰ اوربندے کے درمیان حائل تھی۔ختم نبوت بند کرنے والی دیوارنہیںبلکہ ایک وسیع دروازہ ہے جس سے ہو کر بندہ خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتاہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ خدا تعالیٰ اوربندے کے تعلقات منقطع ہوگئے ہیںبلکہ یہ ہیں کہ زیادہ کثرت اور وسعت کے ساتھ خدا تعالیٰ آپ کے وجود میں سے ہوکر بندے تک پہنچے گا۔
یہ وہ عظیم الشان امید کا دروازہ ہے اورامنگیں پیدا کرنے والی تعلیم ہے جو احمدیت سے باہر نظر نہیں آسکتی۔اگر احمدیت نہ ہو تو یہ خزانہ پھر مٹ جاتاہے۔یہ اموردنیاسے مخفی تھے اورصرف احمدیت کے ذریعہ ہی ظاہر ہوئے۔بے شک ظاہری علماء کی دنیامیں کمی نہ تھی اورنہ ہے،عربی کے ایسے بڑے بڑے عالم دنیامیں موجود ہیں جو ہمارے بڑے بڑے علماء کو برسوں پڑھا سکتے ہیں،روایات حدیث کی چھان بین کے ایسے ایسے ماہر دنیامیںموجودہیں،صَرف و نحو کے ایسے ایسے ماہر دنیا میں موجود ہیں جو ہمارے علماء کو برسوں پڑھا سکتے ہیں لیکن یہ ایک قشر ہیں۔ایک مکان جب تیار کیاجاتا ہے تواس کے باہر سفیدی کرنے اور پھول اوربیل بوٹے بنانے والے بھی مفید کام کرنے والے ہوتے ہیںلیکن اگر عمارت بنا نے کے بعداس میں رہنے والے میسرنہ ہو ں تووہ عمارت کسی کام کی نہیں۔تغلق خاندان کے ایک بادشاہ نے ایک نیا شہر آباد کیا تھا اوروہ لوگوں کو جبراََ وہاں لے گیامگر دوسرے سال لوگ پھر وہاںسے بھاگ آئے اوروہ اُجاڑ ہو گیا۔
تو جب تک قرآن کریم کا مغزاوررسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حقیقی روح نہ ہو کسی میں خالی علم کا ہونا کسی کام کا نہیں۔جہاں تک عرفان کا تعلق ہے و ہ جاہل ہیں اورہمارے جاہل بھی ان سے زیادہ عالم ہیں۔اگر دولت صرف روپوں اورپونڈوںکا نام نہیں اور یقینا نہیں تو ہمیں وہ خزانہ ملا ہے جس کے مقابل میں دنیاکے سب خزانے ہیچ ہیں اورہمارا فرض ہے کہ اس خزانہ کو محفوظ رکھیں۔کسی شخص کی جیب میں اگر دس بیس روپیہ کے نوٹ ہوں تووہ باربار جیب پر ہاتھ مارتاہے۔دو چار سو روپیہ ہو تو بڑی احتیاط سے اس کی نگرانی کرتاہے،پچاس ساٹھ ہزار یا لاکھ دو لاکھ ہو تو اسے بنکوں میںمحفوظ کرتا ہے۔جس کے پاس لاکھوں روپیہ ہواس کی نیند بھی حرام ہو جاتی ہے ا ورکروڑوں کامالک تو تواپنی زندگی کامقصد اس کی حفاظت ہی سمجھتاہے۔کہنے کو تو وہ اس کامالک ہوتاہے لیکن حقیقتاً وہ ا س دولت کا چوکیدارہوتاہے۔تو جس قوم کو ایسی عظیم الشان دولت ملی ہو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری کتنی بڑی ہے۔اس ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے دو اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔اول تو جگہ کے لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ اسے پھیلا دیں کیونکہ اس کا ایک جگہ رہنا بہت خطرناک ہے۔کون کہہ سکتا ہے کہ کل کوکوئی ایسی حکومت نہیں آئے گی جو اسے مٹانے کے درپے ہواس لئے ہمارا فرض ہے کہ اسے اس طرح پھیلا دیں کہ اگر دس،بیس،چالیس،پچاس،نوے،پچانوے بلکہ نناوے فیصدی حکومتیں بھی اسے مٹانا چاہیں تو ایک نہ ایک ٹھکانہ ضرورایسا ہو جہاں احمدیت آزادی کے ساتھ اپنے خیالات پھیلارہی ہو۔سچائی کبھی مخالفت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی اوراس لئے جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ہم مخالفت کے بغیر ہی کامیاب ہو جائیںگے وہ غلطی خوردہ ہے۔اگر یہ صحیح ہے کہ احمدیت ایک روحانی طاقت ہے تو جوں جوں یہ طاقت میں بڑھتی جائے گی اس کی مخالفت بھی بڑھتی جائے گی یہاں تک کہ وہ دن آجائے گاکہ دنیا کی آخری لڑائی اس سوال پر لڑی جائے گی کہ دنیامیں احمدیت رہنی چاہئے یا دوسرے خیالات۔
پس اس کی حفاظت کیلئے پہلی ضروری چیز تویہ ہے کہ ہم اسے پھیلا دیں تا اگر اکثر حکومتیں بھی اسے مٹا دیں تب بھی ایسی جگہیں باقی رہ جائیں جہاں احمدیت پوری شان کے ساتھ قائم ہواورترقی کی طرف قدم اٹھا سکے۔
دوسرے اسے زمانہ کے لحاظ سے قائم کرنا ضروری ہے اگر ہم اسے ساری دنیا میں پھیلا دیں لیکن ہماری آئندہ نسلیں احمدیت پر مضبوط نہ ہوں تو ہماری ساری محنت رائیگاں جائے گی۔پس صرف دنیا تک اس کو پہنچا دینا ہی ہمارا کام نہیں بلکہ آئندہ نسلوں میں اس کا قائم کرنا بھی ہے۔ہمارا ایک حملہ مقام پر ہونا چاہئے اوردوسرا زمانہ پر۔مقام کے لحاظ سے اسے گوشہ گوشہ میں پہنچا دیناضروری ہے اورزمانہ کے لحاظ سے آئندہ نسلوں تک۔اگر ہم اسے ساری دنیا میںپہنچا دیںمگر آئندہ نسلوں میں اسے مضبوطی سے قائم نہ کریں تو وہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی شخص قطب صاحب کے مینار سے بھی دس گنا اونچا مینار بنا لے لیکن جس دن وہ کھڑا ہو اس سے اگلے روزوہ گر جائے۔پس ہمار ا فرض ہے کہ اسے نہ صرف مقام کے لحاظ سے بلکہ زمانہ کے لحا ظ سے بھی مضبوط کریں اوراسے سینکڑوں ہزاروں سالوں تک پھیلانے کا انتظام کریں اوراس عظیم الشان کام کو دیکھتے ہوئے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس کیلئے عظیم الشان جدوجہد کی ضرورت ہے جو بیدارکرنے والوں سے مستغنی ہو،جو بیداری دھماکوں سے پیدا ہو وہ بھی کیابیداری ہے جاگنا وہی مفید ہو تا ہے جو انسان جاگتااورپھرجاگتا ہی رہتا ہے۔جو بیدارہوتا اورپھر سوجاتا ہے،وہ افیونی کی طرح ہے۔دھماکوں سے بیدار ہونا اورپھر سو جانا بہت بڑامرض ہے اورمجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کی بیداری اس وقت تک دھماکوں کی بیداری ہے۔
تحریک جدید کے شروع میں مَیں نے جماعت کو اس طر ف خاص طورپر متوجہ کیا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ اس سبق کو جماعت نے یاد نہیں کیا۔جب تحریک جدید کااعلان کیا گیا ہے اس وقت جماعت میں ایسی بیداری پیدا ہو چکی تھی کہ میں نے حالات کا صحیح اندازہ نہ ہو نے کی وجہ سے جب اپنے محدود علم کے مطابق جماعت سے ستائیس ہزار روپیہ کا مطالبہ کیااورکہا کہ تین سال کیلئے یہ رقم درکار ہے تو جماعت نے ایک لاکھ سات ہزار کے وعدے کئے حالانکہ وعدے کرنے والوں میں سے بہتوں نے ابھی صرف پہلے ہی سال کا حصہ دیا تھا۔کتنی عظیم الشان بیداری تھی مگر یہ دھماکے کی بیداری تھی۔دشمن نے ایک تھپڑ رسید کیا تھا جس سے جماعت میں ایک سنسنی پیدا ہوئی،لرزہ پیدا ہؤا اوروہ بیدار ہو گئی۔ میں نے اس وقت یہ کہا تھا کہ جو بیداری مار سے پیداہو وہ کوئی بیداری نہیں،وہ خدا تعالیٰ کیلئے نہیں بلکہ دشمن کیلئے ہوتی ہے اوراس کاثواب اگر دشمن کو مل سکتاتو اسے ملتا۔
غرض۱۹۳۴ء کے آخر میں جماعت میں جو بیداری ہوئی اسکے نتیجہ میں جماعت نے ایسی غیر معمولی قربانی کی روح پیش کی جس کی نظیر اعلیٰ درجہ کی زندہ قوموں میں بھی مشکل سے مل سکتی ہے،کمزورقوموں سے مقابلہ کا کوئی سوال ہی نہیں۔یہ قربانی زندہ قوموں کے مقابل پر بھی فخرکے ساتھ پیش کی جاسکتی ہے مگر وہ تھپڑ اور مار کے نتیجہ میں تھی۔دشمن کے تھپڑ سے دوست یک دم گھبر اگئے اورانہوں نے محسوس کیا کہ ہم پیسے جانے لگے ہیں۔تب خیال کیا کہ موت سے پہلے کچھ خرچ کرلو اس کے بعد دوسر ا اور تیسرا سال آیااورمیں نے ہر موقع پر سمجھایا کہ حقیقی قربانی دائمی قربانی کا نام ہے مگر تھپڑ کی چوٹ اورصدمہ جوں جوں کم ہوتا گیا،جوں جوں دشمن کو ذلّت نصیب ہوتی گئی۔جماعت کے لوگ بھی لیٹنے لگے اوربعض تو غفلت کی نیند سو گئے۔حتّٰی کہ جب میں نے دوسرے دور کی تحریک کی تو بعض لو گوں نے خیال کرلیا کہ ہم اپنا فرض ادا کرچکے ہیں اوراب ہمیں کسی اور آواز کے سننے کی ضرورت نہیں۔میں مانتاہوں کہ تحریک جدید کے پہلے دور میں احباب نے غیرمعمولی کام کیااورہم اسے فخر کے ساتھ پیش کرسکتے ہیں۔مؤرخ آئیں گے جو اس امر کا تذکر ہ کریں گے کہ جماعت نے ایسی حیرت انگیز قربانی کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی اوراس کے نتائج بھی ظاہر ہیں۔حکومت کے اس عنصر کو جو ہمیں مٹانے کے درپے تھامتواتر ذلّت ہوئی،اس نے جھوٹ ا ور فریب سے کام لیا،جھوٹی مسلیں تک بنائیںمگراللہ تعالیٰ نے اسے ناکام کیااورہم اندر بھی اورباہر بھی ہر جگہ ا س قابل ہوئے کہ اعلیٰ حکام کو بتاسکیں کہ وہ ان کو بھی دھوکا دیتے رہے ہیںاوردنیاکو بھی حتّٰی کہ گورنمنٹ کو بھی محسوس کرنا پڑا اوراس نے پہلے نوٹس کے متعلق اپنی غلطی کو تسلیم کیا اورتسلیم کیاکہ اس کی غلطی تھی اورہم حق پر تھے۔مگر فتنہ پرداز حکام نے پھر کوشش کی کہ ایسی صورت پیدا کردیں جس سے وہ اپنی شکست کو چھُپاسکیں مگرانہیں پھر ناکامی ہو ئی۔کچھ عرصہ ہؤ ااس ضلع میں مسٹر اننرڈپٹی کمشنر ہو کر آئے تھے انہوں نے مجھ سے گفتگو کی اورکہا کیوں نہ جماعت احمدیہ اورگورنمنٹ میں صلح ہو جائے۔میں نے انہیں کہا کہ ہم صلح کے لئے توہر وقت تیار ہیں مگر دب کر صلح نہیں کریں گے۔انہوں نے ایک سکیم پیش کی اورکہا کہ اس سے جماعت کی عزت بھی قائم رہے گی اورگورنمنٹ کی بھی۔میں نے ان سے کہا کہ گورنمنٹ کو ذلیل کرنا تو ہمارا مقصد ہی نہیں۔افسوس ہے کہ وہ جلد یہاں سے چلے گئے۔اگرچہ انہوں نے کہا تو یہ تھا کہ میں اس وعدہ پر اس ضلع میں آیا ہوں کہ مجھے کم سے کم تین سال تک رہنے کا موقع دیاجائے گا مگر وہ جلد رخصت پر گئے اورپھر غالباََ پنجاب سے ہی بدل دئیے گئے۔
انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں پچھلی تمام مسلیںپڑھوں گااورپھر سب واقعات پر غور کرکے اس امر کے متعلق کوئی رائے قائم کروں گاکہ جماعت احمدیہ پر کہاں تک سختی ہوئی ہے۔ اس کے بعد وہ جلد یہاں سے چلے گئے لیکن جانے سے کچھ عرصہ پہلے ایک دفعہ خان صاحب مولوی فرزند علی ان سے ملے تو انہوں نے خان صاحب سے کہا کہ اس وقت تک میں نے تین مسلیں پڑھی ہیں اورمیری یہی رائے ہے کہ ان معاملات میں آپ حق پر تھے اورآپ پر ناواجب سختی کی گئی تھی۔افسوس کہ انہیں موقع نہ ملا ورنہ ا نہوں نے وعدہ کیاتھاکہ جاتی دفعہ میں ایک ایسا تفصیلی نوٹ چھوڑ کر جاؤں گاجس میں ان تمام اُمور کے متعلق جن میں آپ حق پر ثابت ہو نگے آپ کی برأت کردی جائے گی۔تو یہ موقع بھلا دوسری کمیونٹی کو کہاں مل سکتا ہے کہ وہ ثابت کردے کہ حکام نے غلطی کی تھی اوروہ حق پر تھی۔
ایک دفعہ یہاں ایک مار پیٹ کا کیس ہو گیااور ایک شخص نے بعض احمدیوں کے نام یونہی لکھو ا دئیے کہ انہوں نے مجھے مارا ہے۔بعد میں اس سے کسی نے کہا کہ تم نے غلطی کی بڑے بڑے آدمیوں کے نام لکھوانے چاہئیں تھے چنانچہ اس نے بعد میں بڑے بڑے احمدیوں کے نام لکھوا دئیے۔مقدمہ پولیس نے شروع کیا ہمیں معلوم تھا کہ اس کے پہلے بیان میں اور نام تھے۔چنانچہ جماعت نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو گواہی میں بلایا کہ ڈائریاں لے کر آئے اور بتائے کہ شکایت کرنے والے کا پہلا بیان کیا تھا مگر گورنمنٹ کی طرف سے کہا گیا کہ یہ سرکاری راز ہیں جن کو ظاہر نہیں کیا جاسکتا حالانکہ یہ بالکل نامعقول بات ہے۔زید اور بکر کی لڑائی ہو اورزید ایک رپورٹ لکھوائے تو اس میں سرکار کا کیا تعلق ہے اور زیدکی رپورٹ سرکاری راز کس طرح کہلا سکتا ہے سوائے اس صورت کے کہ سرکاری افسروں کی طرف سے اسے شرارت کرنے کے لئے بھیجا گیا ہو۔آخر اپیل میں اوپر کے مجسٹریٹ نے ان کاغذات کا مطالبہ کیا اور کاغذات پیش ہوئے اور سارا فریب کھل گیا۔
اس قسم کے بیسیوں واقعات گزشتہ چار سالوں میں ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے متواتر ان افسروں کو جو احمدیوں سے بِلا وجہ دشمنی رکھتے تھے بُری طرح ذلیل کیا ہے اور اسی طرح ہمارے دوسرے دشمنوں کو بُری طرح ذلیل کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ہر میدان میں کامیابی اور دشمنوں کو ذلت نصیب ہوئی اور احرار کو تو اللہ تعالیٰ نے ایسا ذلیل کیا ہے کہ اب وہ مسلمانوں کے سٹیج پر کھڑے ہونے کی جرأت نہیں کر سکتے۔کجا تو یہ کہ وہ وزارت کے خواب دیکھ رہے تھے اور وزارتیں تقسیم کر رہے تھے اور کجا یہ کہ اسمبلی میں ان کا صرف ایک ہی ممبر ہے۔اور لطف یہ ہے کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے احمدیہ جماعت کو کچل دیا ہے حالانکہ اسمبلی میں ایک ہی ممبر ان کا اور ایک ہی ہمارا ہے اور وہ تو سو فیصدی مسلمانوں کے نمائندہ ہونے کے مدعی ہیں مگر ہم ایک فیصدی ہیں مگر اسمبلی میںسوفیصدی والوں کے برابر ہیں۔اب ملتان میں انہوں نے پھر ایک کونسل کی ممبری کے حصول کی کوشش کی تھی مگر نہایت سخت شکست کھائی ہے۔تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سب دشمنوں کو ایسی سخت شکست دی ہے کہ حکام نے خود اس کو تسلیم کیا ہے۔کئی رنگ میں ہمیں نقصان پہنچانے کی کوششیں ہوئیں حتّٰی کہ عدالتوں کو بھی متاثر کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن اس صورت میں بھی ہائی کورٹ سے اللہ تعالیٰ نے ہماری برأت کرائی۔اس کے علاوہ جو جماعت میں تبدیلی ہو ئی وہ بہت ہی شاندار ہے۔ہماری جماعت لاکھوں کی تعداد میں ہے جس میں امیرغریب ہر طبقہ کے لوگ ہیں بعض ان میں سے ایسے ہیں جن کو سات سات اور آٹھ آٹھ کھانے کھانے کی عادت تھی اورجن کے دسترخوان پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھانے ہی کھانے پڑے ہوتے تھے۔حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں ایک دفعہ مجھے عربی مدارس کے معائنہ کے لئے ایک سفر کرنا پڑا راستہ میں ایک جگہ احباب نے دعوت کی۔میں نے دیکھا کہ اس قدر کھانے سامنے پڑے ہوئے تھے کہ اگر میں اپنا ہاتھ پھیلاتا تب بھی سب پلیٹوں تک نہیں پہنچ سکتا تھا حتّٰی کہ اگر لیٹ جاتا تب بھی بعض تھالیاں مجھ سے دور رہتیں۔کوئی چالیس قسم کے کھانے تھے۔میں نے دبی زبان سے اس کا شکوہ بھی کیا مگر ایک دوست نے جو ساتھ تھے مجھے روکا اور کہا کہ ایسا نہ کریں،صاحب خانہ کی دل شکنی ہوگی۔ابھی تو بہت سادگی سے کام لیا گیا ہے ورنہ یہاں معززین کی دعوت میں اس سے بہت زیادہ کھانے ہوتے ہیں۔تو اس قسم کے لوگ بھی جماعت میں موجود تھے مگر تحریک جدید کے ماتحت سب نے ایک ہی کھانا کھانا شروع کردیااورنہ صرف احمدیوں نے بلکہ بیسیوں بلکہ سینکڑوں غیراحمدیوں نے بھی اس طریق کو اختیار کر لیا۔ میری ایک ہمشیر ہ شملہ گئی تھیں انہوں نے بتایاکہ وہاں بہت سے رؤساء کی بیویوں نے مانگ مانگ کرتحریک جدید کی کاپیاں لیں اورکہاکہ کھانے کے متعلق ان کی ہدایات بہت اعلیٰ ہیںہم انہیںاپنے گھروں میںرائج کریں گی۔ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ بعض غیراحمدیوں کے ساتھ ایک مَیس میں شریک تھے تحریک جدید کے بعد جب انہوں نے دوسرا کھانا کھانے سے احتراز کیااوردوسرے ساتھیوں کے پوچھنے پر اس کی وجہ ان کو بتائی تو انہو ںنے بھی وعدہ کیا کہ یہ بہت اچھی تحریک ہے ہم بھی آئندہ اس پر عمل کریںگے۔پھر میں نے سینما دیکھنے کی ممانعت کی تھی اس بات کو ہمارے زمیندار دوست نہیں سمجھ سکتے کہ شہریوںکے لئے ا س ہدایت پر عمل کرنا کتنا مشکل تھا شہر والے ہی اسے سمجھ سکتے ہیں۔ان میں سے بعض کے لئے سینما کو چھوڑناایسا ہی مشکل تھاجیسے موت قبول کرناجن کو سینما جانے کی عادت ہو جاتی ہے وہ اسے زندگی کاجزو سمجھتے ہیں مگر اِدھر میں نے مطالبہ کیاکہ اسے چھوڑ دو اور اُدھر ننانوے فیصدی لو گو ں نے اسے چھوڑ دیا اورپھر نہایت دیانتداری سے اس عہد کو نبھایااورعورت مرد سب نے اس پر ایسا عمل کیاکہ جو دنیا کے لئے رشک کا موجب ہے اورمیں سمجھتا ہوں کہ اس سے لاکھوں روپیہ بچ گیا ہو گا۔سینما دیکھنے والے عموماََ روزانہ دیکھتے ہیں اگر مہینہ میں دس دن بھی سینما کے شمار کئے جائیں اورصرف چارآنہ والے ٹکٹ کااندازہ کیاجائے تب بھی سال میں تیس روپے فی کس کا خرچ ہے اوراگر جماعت کے سینماجانے والوںکی تعداد ایک ہزارسمجھی جائے تو تیس ہزارسالانہ کی بچت جماعت کو ہوگئی جو رقم کہ چار سال کے حساب سے سوا لاکھ بنتی ہے۔مگرسارے چار آنہ میں ہی دیکھنے والے نہیں ہوتے بعض روپیہ دو روپیہ کا ٹکٹ لیتے ہیں۔پھر اس سے جو وقت بچا اس کی قیمت کا اندازہ کرو گھر سے سینما آنے جانے،تماشہ کاانتظارخود تماشہ کاوقت اگر اندازہ لگایاجائے تو تین چار گھنٹہ سے کم نہ ہوتا ہوگا یہ وقت بھی بچ گیا۔پھر گھروں میں اس سے امن قائم ہؤا۔جو لوگ سینما دیکھنے جاتے تھے ان کی بیویوں کو واپسی تک جاگناپڑتاہوگا۔جس سے بعض اوقات لڑائی بھی ہو جاتی ہوگی۔ اب ایسے لوگ جلدی گھر آجاتے ہوں گے اورمیاں بیوی کو باہم دُکھ سُکھ کی بات چیت کرنے کا موقع مل جاتا ہو گا،کسی کی نیند خراب نہیں ہوتی ہوگی۔پس یہ مطالبہ معمولی نہ تھا لیکن جماعت نے اسے سنا اورپورا کردیااوراس سے فوائد بھی حاصل کئے۔اس کے علاوہ کون نہیں جانتاکہ عورت کپڑوںپرمرتی ہے مگر ہزارہا عورتوں نے دیانتداری سے لباس میں سادگی پیدا کرنے کے حکم پر عمل کیا۔یہ باتیں انفرادی قربانی اور قومی فتح کا ایک ایسا شاندارنمونہ ہیں جس کی مثال کم ملتی ہے۔یہ قربانی معمولی نہیںبلکہ زندگی کے ہر شعبہ کی قربانی ہے اوردیکھنے والی آنکھ کیلئے اس میں فتوحات کا لمبا سلسلہ ہے۔پھر کتنے نئے ممالک میں احمدیت روشناس ہوئی۔کم سے کم دس پندرہ ممالک ایسے ہیں۔کئی علاقوں میں گو احمدیت پہلے سے تھی مگرتحریک جدید کی جدو جہد کے نتیجہ میں اس کااثرپہلے سے بہت وسیع ہوگیا ہے۔
اس کے علاوہ ایک یہ نتیجہ نکلا کہ اس سے پہلے دنیوی لحاظ سے جماعت کو صرف ایک دستہ فوج سمجھا جاتا تھا اوراس کی حیثیت مسلمانوں کے ا یک بازو کی تھی لیکن احرار اوربعض حکام نے ہمارے خلاف جو شورش پید ا کی اس سے ڈر کر سارے مسلمانو ں نے ہم کو علیحد ہ کر دیا۔ خود گورنر پنجاب نے ایک دفعہ چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب سے کہاکہ کیاآپ سمجھتے ہیںکہ آ پ کے مخالف صرف احرارہیں سب قوموں اورفرقوں کے لوگ میرے پاس آ آکرآپکی شکایتیں کرتے ہیں۔ممکن ہے کہ اس میں کچھ مبالغہ ہو اوریہ بھی ممکن ہے کہ جو لوگ ہمارے مؤید تھے انہوں نے کبھی ان کے سامنے اپنے خیالات ظاہر نہ کئے ہوں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری مخالفت بہت عام ہو گئی تھی۔حتّٰی کہ وہ مسلم لیگ جس کے اجلاس بعض دفعہ نہ ہو سکتے تھے اوروہ مجھ سے روپیہ لے کر اجلاس کرتی تھی اسے بھی زکام ہؤااوراس کی پنجاب کی شاخ نے یہ فیصلہ کردیاکہ احمدی اس کے ممبر نہیں ہو سکتے یہ کفرانِ نعمت کی انتہاء تھی لیکن اس کی وجہ یہی تھی کہ اس وقت ہمارے خلاف لو گوں میں اتنا جوش تھاکہ انہوں نے خیال کیاکہ اگر ہم نے احمدیوں کو شامل رکھا تو لوگ ہمیں ووٹ نہیں دیں گے۔اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی اورپنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ کی بھی ایک ہی نشست ہے گویا وہ بھی ہمارے برابر ہیں جو یقینا ہماری فتح ہے۔ہماری جماعت تو مختلف مقامات پر پھیلی ہوئی ہے اگرایک ہی ضلع میں ہوں تو ہم دو ممبران بھی لے سکتے ہیں مگر ہم پھیلے ہوئے ہیں اس لئے ایک ممبرکا حصول بھی ہمارے لئے ناممکن ہے۔پس ایک نشست کاحاصل کرلینا بھی ہماری بہت بڑی فتح ہے لیکن ا ن کاصرف ایک نشست حاصل کرنا ان کی سخت شکست۔بہر حال اس وقت تک ہم مسلمانوں کا ایک حصہ سمجھے جاتے تھے مگرمسلمانوں نے گزشتہ فتنہ سے مرعوب ہو کرہمیں اس طرح الگ کرنے کی کوشش کی جس طرح دودھ سے مکھی نکال دی جاتی ہے اوراس طرح ہمیں تنِ تنہا سب دشمنوں سے لڑنے کاموقع ملا اورمحض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اس لڑائی میں کامیاب ہوئے اوردنیانے محسوس کرلیاکہ جماعت احمدیہ صرف مسلمانوں کے لشکر کاایک بازوہی نہیں بلکہ وہ اپنی منفردانہ حیثیت بھی رکھتی ہے اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے خوداپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔پہلے ہماری اس حیثیت سے دنیا واقف نہ تھی تحریک جدید کے نتیجہ میںہی وہ اس سے آشنا ہوئی ہے مگر یہ سب فتوحات جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں حاـصل ہوئیں ہمارا مقـصد نہیں۔ہمارا مقصد ان سے بہت بالا ہے اوراس میں کامیابی کیلئے ابھی بہت قربانیوں کی ضرورت ہے۔ دنیاکا کوئی ملک ایسا نہ ہونا چاہئے جہاں احمدیت قائم نہ ہو۔اس وقت تک جماعت حقیقی طور پر صرف ہندوستان میں ہے ا وریہاں اسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے رنگ میں مضبوطی حاصل ہے کہ اور کہیں نہیں۔ہندوستان سے اترکروہ ملک جہاں احمدیت کو مضبوطی حاصل ہو رہی ہے اورجہاں لو گ اسے سمجھنے اوراسے اپنی عملی زندگی کاجزو بنانے کی کوشش کررہے ہیں وہ سماٹرا اورجاوا ہیں۔وہاں سے طالب علم بھی دین سیکھنے کیلئے یہاں آتے رہتے ہیں اورجب تاریخ عالم میں احمدیت کی تاریخ لکھی جائے گی توہندوستان کے بعد ان جزائرکاذکر نمایاں طورپر ہوگا۔
تیسرا مقام جہاں احمدیت ترقی کررہی ہے اور جہاں اسے سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے عرب ہے۔جس کے ساتھ فلسطین بھی شامل ہے۔فلسطین میں ایک گاؤں احمدیہ جماعت کا مرکز ہے یعنی وہ قریباََ سب کاسب احمدی ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ احمدی جماعتیں مصر اور شام میں بھی ہیں۔فلسطین کے جس گاؤں کامیں نے ذکرکیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی جماعت ہے جو عملی طورپر احمدیت کو اپنی زندگی میں داخل کررہی ہے۔انہوں نے اپنے مدرسے بھی جاری کر رکھے ہیں، لٹریچر بھی شائع کرتے ہیں،روپیہ خرچ کرتے ہیں،گویاتیسرا ملک عرب ہے۔جس میں شام اورفلسطین وغیرہ بھی شامل ہیں جو احمدیت کی روح کو اپنے اندر داخل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔پھر تعداد کے لحاظ سے گوابھی علمی لحاظ سے نہیں مغربی افریقہ کو بھی نمایاں مقام حاصل ہے اورمیں سمجھتا ہوں کہ وہاں اس وقت تک پچاس ساٹھ ہزاراحمدی ہو چکا ہے اوراحمدیت وہاں وسیع طور پر پھیل رہی ہے اوریہ صرف ہما رے مبلغین کے ذریعہ نہیں بلکہ خود ان میں سے جو احمدی ہو ئے ہیں وہ آگے جاکر دوسروں کو تبلیغ کرتے ہیں۔ان لوگوں میں تعلیم بہت کم ہے اورایسے لوگوں کو ٹھوکر بھی لگ سکتی ہے بعض کو دوسرے لوگ دھوکا بھی دے سکتے ہیں مگر باوجود تعلیم کی کمی کے وہ لوگ بہت کام کررہے ہیں۔ان کے مدرسے جاری ہیں،اشتہارات شائع ہوتے ہیں، کئی نوجوان اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں،کئی ایسے ہیں جنہوں نے چھ چھ ماہ تبلیغ کے لئے وقف کئے اورسینکڑوں میلوں کے پیدل سفرکرکے تبلیـغ کیلئے گئے اورنئی جماعتیںقائم کیں۔ہندوستان میں بیٹھے ہوئے لوگ یہ اندازہ نہیں کرسکتے کہ غیرممالک میں کیا کام ہو رہا ہے یہاں تو بعض لو گ احمدیہ جماعتیں قادیان ننگل اوربھینی میں ہی سمجھتے ہیں۔ان کی آنکھوں کے سامنے وہ لڑائی نہیں جو غیر ممالک میں لڑ ی جارہی ہے اورجس میں ہمارے مجاہد نوجوان اپنا خون اور پانی ایک کررہے ہیں اوراحمدیت کے جھنڈے کو بلند کررہے ہیں۔بے شک ان ممالک میں سے کوئی روپیہ یہاں نہیںآتایا کم آتاہے۔مگراس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے فیصلہ کیاہؤا ہے کہ بیرونی ممالک کی جماعتوںکے چندہ کا ۷۵فیصدی مقامی طور پر خرچ کیاجائے اورصرف۲۵فیصدی یہاں آئے اورجہاں ضرورت ہو سو فیصدی ہی وہاں خرچ کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے لیکن اس لڑائی میں ہمیں یہاں سے روپیہ نہیں بھیجنا پڑتا۔کیایہ کم آرام کی بات ہے،بے شک ان کا روپیہ یہاں خزانہ میں جمع نہیں ہوتااورجو لوگ کامیابی کااندازہ روپیہ سے کرنے کے عادی ہوئے ہیں وہ یہی خیال کرتے ہیںکہ کوئی کام نہیں ہورہا مگرانہیںمعلوم ہونا چاہئے کہ وہ جماعتیں اپنے اپنے طورپر کافی خرچ کر رہی ہیںاوربعض جماعتوں کے بجٹ دس دس اورپندرہ پندرہ ہزار کے ہوتے ہیں۔اگروہ ساری رقمیں یہاں آئیں توہمارابجٹ دُگنا نہیں توڈیو ڑھا تو ضرور ہو جائے گامگر وہاں بھی ا یک لڑائی جاری ہے اورایسی صورت میں ہمارا وہاں سے روپیہ منگوانا بہت بڑی حماقت ہوگی۔گو کئی نادان وہاں سے روپیہ نہ آنے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ کوئی کام نہیں ہو رہاحالانکہ ان کے بجٹ ہزاروںکے ہوتے ہیں۔پھر تحریک جدید میں انہوںنے بھی پورے شوق سے حصہ لیاہے اور بعض ممالک سے ڈیڑھ ڈیڑھ اوردو دو ہزارروپے بھی آتے رہے ہیں۔پس میں اپنی جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ عظیم الشان کام ہمارے سامنے ہے۔اگر وہ اس امر کے منتظر ہیں کہ تھپڑ پڑے تو اٹھیں۔ تویاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس تھپڑوں کی کمی نہیںمگر یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ انسان تھپڑکھا کر بیدارہو۔یہ نمونہ تو ہم نے دکھادیاکہ کوئی ضرب لگائے تو بیدار ہو کر ہم ایسا مقابلہ کر تے ہیں کہ اس کی مثال نہیں ملتی اوراب تحریک جدید کے دورِ ثانی میں ہم نے یہ دکھانا ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں بغیر مارکھائے بھی ہم ویسی ہی قربانی کرنے کو تیار ہیں اوراس دورکی کامیابی پر اس سوال کا فیصلہ ہو گا کہ احرار کی مار کی ہمارے دلوں میں زیاد ہ عظمت ہے یا خداتعالیٰ کی محبت اوراس سوال کا آ پ جو بھی جواب دیںگے اس سے آپ کی قیمت کااندازہ ہوگا۔دورِثانی ایسی حالت میں شروع کیاگیاہے کہ جب بظاہر سامنے کوئی خطرہ نہ تھااوریہ اس لئے ہؤا کہ تا اللہ تعالیٰ ہمیںاس پر فخر کا موقع دے اورہم بتاسکیں کہ جس طرح اگر دشمن ہمیں ذلیل کرنا چاہے توہم ایسی قربانی کرتے ہیںجس سے وہ ناکام ہو جائے اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کی محبت میں بھی اگر ہمیں قربانی کرنا پڑے تو پیچھے ہٹنے والے نہیںہیں۔مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے ایک حصہ نے دورِ ثانی کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔
دورِ اول میں تو دشمن گھو نسے تانے ہمارے سروں پر کھڑا تھا اُس وقت ہم میں جو بیداری پیدا ہو ئی وہ اپنی جان بچانے کیلئے تھی مگرآج کوئی دشمن سامنے نہیںکھڑااوراُس طرح حملہ آور نہیں، گو اندر ہی اندر آگ سُلگائی جارہی ہے اورایک لاوا ہے جو پک رہا ہے مگر وہ تمہاری نظروں سے پو شیدہ ہے اسلئے آج کی قربانی دشمن کی مارکی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی۔اس وقت قربانی خالص خداتعالیٰ کی محبت کے لئے ہوگی،اس وقت ہمارے مد نظر صرف خدا تعالیٰ کے دین کوپھیلانے کیلئے مستقل کام کی بنیاد رکھنا ہے اوراس کے لئے میں چاہتا ہو ں کہ ایک مستقل ریزرو فنڈ قائم کردوں جس سے یہ کام سہولت کے ساتھ چلتارہے اوراس کے ساتھ نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تیار کروں جو اسلام کو صحیح معنوں میں قائم کرنے والی ہو۔یہ دونوں کام پہلے سے بہت زیادہ خرچ چاہتے ہیں لیکن باوجود اس کے میں نے کہہ دیا ہے کہ جو دوست زیادہ بوجھ نہ اٹھا سکیںہرسال دس فیصدی چندہ تحریک میں سے کم کرتے جائیں گو میں نے اپناچندہ گزشتہ سال بھی تیسرے سال کی نسبت دس فیصدی بڑھا دیاتھا۔بہر حال یہ دوسرا دور تحریک جدید کا آپ کے سامنے ہے۔مجھے اس سے غرض نہیں کہ آپ اس پر کس طرح عمل کرتے ہیں اگرآپ اس پر عمل نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ کامیابی کا کوئی اور رستہ کھول دے گا مگر میںآپ لوگوں کو توجہ دلاتاہوں کہ دو مواقع قربانی کے آئے ہیں ایک وہ جب دشمن مار رہا تھا اورایک خالص خدا تعالیٰ کی محبت میں قربانی کرنے کا۔اگراس دوسرے وقت میں ہم نے سستی دکھائی توآئندہ زمانہ کے لوگ ہمارے متعلق کیافیصلہ کریں گے وہ ظاہر ہی ہے۔آپ میں سے ہر ایک نے اپنی قبر میں جانا ہے اورمیں نے اپنی میں۔میرے اچھے عملوں سے آپ لوگوںکو کوئی فائدہ نہ ہو گا اورآپ کے اچھے عملوں سے مجھے نہیں ہو گا۔ہر ایک اپنے اپنے اعمال کاخدا تعالیٰ کے سامنے خود جو اب دِہ ہے۔ اگر وہ مجھے پو چھے گا کہ تم نے کیا قربانی کی تواس کے جواب کا میں ذمہ دار ہوں تم اپنے لئے آـپ سوچ لوکہ تم کیاجواب دو گے یا دے سکو گے۔میں جانتاہو ں کہ کل کو اگر کوئی اور قوم ہمارے مقابلہ کیلئے کھڑی ہو جائے تو سست دوست بھی قربانیاں کرنے لگیں گے مگرقیامت کے روز خدا تعالیٰ ان سے کہے گا بے شک تم نے قربانیاں کیں مگر میرے لئے نہیں بلکہ ا پنی جان بچانے کے لئے۔اس وقت میں نے آپ لوگوں کے سامنے چند اصول رکھ دئیے ہیں اوران پر تبصرہ کر دیاہے اس وقت میں کوئی تحریک نہیں کرتا۔صرف ایک تحریک کرتاہوں کہ رمضان کاآخری عشرہ جو آنے والا ہے ا س کو تحریک جدید کے متعلق سابق قربانیوں کے لئے شکریہ اورآئندہ کیلئے طاقت کے حصول کیلئے خرچ کرو۔جن کو گزشتہ سالوں میں قربانیوں کی توفیق ملی ہے وہ اس کیلئے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کریں اورہر ایک دعا کرنے والا اللہ تعالیٰ سے ہر قربانی کرنے والے کے لئے دعا کرے کہ اس نے شوکت دین اورمضبوطی سلسلہ کے لئے جو قربانی کی ہے اس کے نتیجہ میںاللہ تعالیٰ اس پر اپنے فضل اور رحمتیں نازل کرے اوراس کیلئے اپنی محبت اوربرکات کا نزول فرمائے اس محبت ا وراخلاص کے مطابق جس کے ساتھ اس نے خدا کی راہ میں قربانی کی تھی۔ پھر تم میں سے ہر شخص یہ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس دورِ ثانی کو پہلے دورسے بھی زیادہ کامیاب بنائے۔بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں چندہ کہاں سے دیں لیکن میںنے تواس تحریک کے شروع میں ہی یہ کہہ دیاتھا کہ غریب سے غریب بلکہ معذور سے معذوربھی حتّٰی کہ جس کی زبان بھی نہ ہو وہ بھی اس میں حصہ لے سکتاہے یعنی وہ دعا کے ذریعہ اس میں شامل ہو سکتاہے اوریہی انیسواں مطالبہ ہے جس میں وہ شخص بھی جو چارپائی پر پڑـا ہؤ اہو حتّٰی کہ ہاتھ بھی نہ ہلاسکے، زبان سے بول بھی نہ سکے،وہ بھی اس میں شریک ہو سکتا ہے اس طرح تم میں سے ہر وہ شخص خواہ وہ کتناہی جاہل اور اَن پـڑھ کیوں نہ ہو تحریک جدید میں حصہ لے سکتاہے۔
پس اس عشرہ میں خصوصیت سے دعائیں کرتے رہوکہ اللہ تعالیٰ دورِ ثانی کو پہلے سے بھی زیادہ کامیاب بنائے اورجماعت کے قلوب میں ایسی صفائی پیدا کردے کہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت میں بھی ویسی ہی قربانیاں کرسکے جیسی کہ دشمن سے مقابلہ کے وقت کرتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کراوراگر آپ لوگ سارے کے سارے میرے ساتھ دعاؤں میں شامل ہوجائیں تویقیناََ نتائج نہایت شاندار نکلیں گے(آخری عشرہ کے انتظار کی ہی کوئی خاص ضرورت نہیں۔آج سے ہی دعائیں شروع کر دینی چاہئیں اس طرح تیرہ یا بارہ دن دُعا کے لئے مل جائیں گے۔خطبہ چھاپنے والوں کو بھی چاہئے کہ جلدی کریںتا پیر کے روز خطبہ یہاں سے جا سکے۔اس کے یہ معنے ہوں گے۔کہ باہر کی جماعتوں کو بیسویں روز خطبہ پہنچے گا اور اس طرح نو دن ان کو مل سکیں گے۔گو قادیان کے لوگوں کو زیادہ موقع مل سکے گا)خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ ہمارا کام بہت بڑاہے۔دین کو ہمیشہ کے لئے ساری دنیا میںقائم کردینا کوئی آسان بات نہیں اوراس کیلئے بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے،لیکن ا گر تم کچھ اور نہیں کرسکتے تو اتنا تو کرو کہ دعائیں کرو اور اگر اور رنگ میں بھی قربانی کرسکواورپھر ساتھ دعائیںکرو تو دُہرا ثواب حاصل کرسکو گے۔
پس اس رمضان میںخصوصیت کے ساتھ ان لوگوں کیلئے دعائیں کرو جنہوں نے مال سے یا وقت سے یا اولاد کے ذریعہ سے قربانیاں کی ہیں یا دعاؤں سے مدد کی ہے اللہ تعالیٰ ان کے گھروں کو سکون اوربرکت سے بھر دے، انکی قربانیاں دائمی صدقہ کا کام دینے والی ہوں، اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں اوران کی غلطیوں کو معاف کرے اور انہیں گناہوں کی عادت سے بچائے۔ان کے قلوب میں اپنی محبت اور عرفان کے چشمے پھوڑے اورانہیں نیک نسلیںعطا کرے جو راستی پر قائم رہنے والی ہوں۔پھر یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس دورِ ثانی کو کہ جس کا محرک ا س کی محبت ہے کامیاب کرے اورجماعت کو قربانیوں کی توفیق دے کہ دراصل یہی اصل قربانی ہے۔اللہ تعالیٰ مالی قربانی کرنے والوں کو سچے معیار کے مطابق قربانی کی توفیق عطا فرمائے۔جن کو توفیق نہیں انہیں توفیق دے اورجنہیں توفیق ہے مگر وہ کمزوری دکھا رہے ہیں ان کے لئے بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں کو دور کرے۔جن لو گوںکو مالی قربانی کی توفیق نہیں ان پر بھی بڑی ذمہ داری ہے۔وہ رات دن دعائیں کریں تا اللہ تعالیٰ غیب سے راستے کھول دے اور ان کی دعاؤں کی وجہ سے دوسروںکو قربانی کی توفیق دے اوراگر سچے دل سے دعائیں کی جائیں تو یقیناََ ہم کامیاب ہونگے کیونکہ الٰہی سلسلوں کی بنیاد ہمیشہ الٰہی فضلوں پر ہوتی ہے اوران دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ہمیںقربانیاں کرنے کی ایک ایسی رفتار بخش دے گاجس میں روز بروز ترقی ہوتی چلی جائے گی۔یہاںتک کہ ہم اورہماری نسلیں ان کے ذریعہ اپنے اس مقصود کو پا لیں گی جس کیلئے ہم پیداکئے گئے ہیں اوراللہ تعالیٰ کے اس قدر نزدیک ہوجائیں گے اورقُرب کا وہ مقام حاصل کرلیں گے جس پر دوسری برگزیدہ جماعتوں کو رشک پیدا ہوگااورہمارے مخالف حسد کی آگ میں جل جائیں گے۔‘‘ (الفضل۱۵نومبر۱۹۳۸ئ)
۱؎ البقرۃ: ۱۸۶
۲؎ ، ۳؎ شعب الایمان لِلْبَیْھَقِی الجزء الثانیصفحہ ۳۱۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۰ء

۳۷
تحریکِ جدید کے دورِثانی میں زیادہ جدوجہد کی ضرورت ہے
(فرمودہ۱۸؍نومبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’جیسا کہ میںگزشتہ خطبات میں بیان کرچکا ہوں تحریک جدید کا دورِ اول صفائی کی مثال رکھتا تھا۔اس کی غرض یہ تھی کہ دشمنوں نے احمدیت پر جو حملہ کیاتھااس کا ازالہ کیاجائے اوردشمن کی حقیقت کو دنیاپر ظاہر کیاجائے۔واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ اس کوشش میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم کوعظیم الشان کامیابی عطا فرمائی ہے۔اس وقت ہماری سب سے بڑی مخالفت دو گروہوں کی طرف سے ہو رہی تھی،گو شامل سارے ہی تھے مگر خصوصیت کے ساتھ ایک تو احرارمخالفت کررہے تھے اور دوسرے حکومت کا وہ حصہ جو اندرونی طور پر برطانیہ کے دشمنوں کا ہمدرد تھا وہ اپنے عہدوں کی آڑ لے کرہمیں نقصان پہنچانا چاہتاتھا اس کوشش میںاس نے حکومت کے بعض ہندوستانی یا انگریز افسروں کو بھی جھوٹی سچی شکایتیں کرکے اپنے ساتھ ملا لیاتھا۔
احرار کاانجام جو ہؤا وہ سب پر ظاہر ہے۔خداتعالیٰ نے ان کی ذلت کے ایسے سامان مہیا کر دیئے کہ اب وہ مسلمانوںمیں خودآزادی سے تقریر بھی نہیں کرسکتے۔کئی سال تو ایسی حالت رہی کہ لاہور میںاحرار کا جلسہ ہونا ناممکن ہو گیا وہ جلسہ کرتے اور لوگ شور مچادیتے ابھی تک بہت جگہ ان کی یہی حالت ہے گو وہ اپنی کھوئی ہو ئی طاقت واپس لینے کے لئے اب کئی قسم کے بہانے بنانے لگ گئے ہیں۔کہیں فلسطین کے مظلوم مسلمانوںسے ہمدردی کے دعوے کرتے ہیں اورکہیں کشمیرایجی ٹیشن شروع کرتے ہیں مگرابھی تک انہیں اپنے مقصد میںکامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کوحافظہ دیاہے اوروسیع حافظہ دیا ہے۔تم میںسے وہ لوگ جو مایوس تھے اورہر جماعت میںکچھ نہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مایوسی کی عادت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ ذرا اپنے حافظہ پر زور ڈال کر احرار کی اس طاقت کا جو اُنہیں آج سے ساڑھے تین سال پہلے پنجاب میں حاصل تھی اندازہ لگائیں اورجو آج ان کی حالت ہے اس کا بھی اندازہ لگائیں، پھر جو اُس وقت ان کے روپیہ کی آمد کاحال تھا ا س کا بھی اندازہ لگائیں اور جوآج ان کے روپیہ کی آمد کا حال ہے اس کابھی اندازہ لگائیں۔گورنرپنجاب نے خود ہمارے آدمیوں سے ان دنوںبیان کیا کہ سینکڑوں روپیہ روزانہ ان کو منی آرڈروں کے ذریعہ آتاہے اوریہ ہمارے محکمہ کی رپورٹ ہے۔میں اگر غلطی نہیں کرتا تو شاید انہوںنے پانچ سو روپیہ روزانہ کی آمد بتائی تھی۔ گویا ان دنوںپندرہ بیس ہزار روپیہ ماہوار ان کی آمد تھی لیکن ا ٓج یہ حالت ہے کہ متواتران کی طرف سے اپنے لوگوںکے نام یہ اعلان ہو تے ہیں کہ دس روپے ہی بھجوا دیں، دس نہیں تو پانچ ہی سہی،میںجب اس کیفیت کو دیکھتا ہو ں تو مجھے وہی نظارہ یاد آجاتا ہے جو بچپن میں میر ے دیکھنے میںآیا کرتا تھا۔
یہاں ایک معذور فقیر ہؤا کرتاتھا۔اس کی عادت یہ تھی کہ اس کے پاس سے جو شخص بھی گزرتااس سے ضرور کچھ نہ کچھ مانگتاوہ ہمیشہ اپنا سوال روپیہ سے شروع کرتا اور کہتا کہ ایک روپیہ دیتے جاؤ مگر یہ الفاظ کہتے ہی معاً اس کی طبیعت کہتی کہ یہ روپیہ نہیں دے گا ا س لئے وہ اس کے ساتھ کہہ دیتا کہ اچھا اٹھنی ہی سہی اوربغیر وقفہ کے اس کے ساتھ زائد کر دیتا اچھا دونی ہی دے دو، پھر کہتاکہ چلو ایک آنہ ہی سہی اتنے میں گزرنے والا اس کے پاس پہنچ جاتا اوروہ کہتا دوپیسے ہی دے دو،اچھا ایک پیسہ ہی سہی جب وہ آدمی اسے چھوڑ کر آگے گزر جاتاتو کہتا کہ دھیلہ ہی دیتے جاؤ۔ایک پکوڑاہی سہی اورجب و ہ دو ر چلا جاتاتوزورسے آواز دیتا کہ ایک مرچ ہی دیتے جاؤ۔یہی حالت ان لوگو ں کی آج ہو رہی ہے۔
مگر وہ وقت ایسا تھا کہ ان سے گورنمنٹ بھی ڈرتی تھی۔چنانچہ گورنمنٹ پنجاب کے بعض ذمہ دار افسروں نے اس وقت ہمارے آدمیوں سے کہاتھا کہ بعض موقعوں پر ہم سمجھتے ہیں کہ احرارزیادتی کررہے ہیں۔مگر کوئی اقدام کرنے سے پہلے ہمارے لئے یہ دیکھنا بھی تو ضروری ہے کہ ہمارے اقدام کے نتیجہ میں عام مسلمانوں پر کیا اثر ہوگا۔تو یہ ایسی چیز ہے جس کاانکار دشمن بھی نہیں کر سکتا۔لاہور کے تمام مسلمان اخبارات باقاعدہ اس بات کو پیش کرتے اور اس کے متعلق مضامین لکھتے رہتے ہیںبلکہ ہمارے صوبہ کی سب سے بڑی طاقت یعنی یونینسٹ پارٹی جو بر سرِحکومت ہے اور جسے قانون کے لحاظ سے حاکم اور بادشاہ کہنا چاہئے وہ خود اسی نتیجہ کی سب سے بڑی شاہد ہے گو مجھ سے ایک ڈپٹی کمشنر نے بات کرتے وقت کہاکہ برطانوی گورنمنٹ فلاں چیز کی برداشت نہیں کرسکتی مگر یہ کہتے ہوئے معاً انہیں خیال آیا کہ ہم دعوے تو اَور کرتے رہتے ہیں اور میں نے اس موقع پر کیا کہہ دیا ہے اس لئے وہ یہ فقرہ کہتے ہی کہنے لگے آپ اس کو سلف گورنمنٹ کہہ لیں۔یعنے موجود ہ سلف گورنمنٹ برطانوی حکومت ہی ہے صرف اس کانام بدل دیا گیاہے۔یہ اس ڈپٹی کمشنر کے قول کا مطلب واقع میں ہے یا نہیں،یہ یونینسٹ گورنمنٹ جانے۔بہر حال ہمیں بتایا یہ جاتا ہے کہ اس وقت یونینسٹ گورنمنٹ حکومت کر رہی ہے اور یہی یونینسٹ گورنمنٹ اس نتیجہ کی سب سے بڑی شاہد ہے۔کیونکہ اسے شکست دینے کے لئے احرار نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اس کے کم سے کم دو درجن ممبر ایسے ہیں جو ہماری مدد سے باوجود احرار کی مخالفت کے کامیاب ہوئے تھے۔دوسری شکست احرار کو نمایاں طور پر یہ ملی کہ قادیان کے متعلق انہوں نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ ہم نے اسے فتح کر لیاہے اورقادیان کے علاقہ میں احمدیوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کے اِس دعویٰ کی تردید کا بھی سامان مہیا کر دیا۔گو ہمارے بعض آدمی اس حکمت کو نہیں سمجھے اورانہوں نے بغیر سوچے سمجھے یہ اعتراض کردیاکہ جماعت کا روپیہ بربادکیاگیاہے حالانکہ روپیہ تو آنے جانے والی چیزہے۔آج آتا ہے اور کل ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔یہ نہ کسی انسان کے پاس رہا،نہ کسی قوم کے پاس رہا، نہ کسی ملک کے پاس رہا،ایک زمانہ میںایک قوم دولت مند ہوتی ہے اوردوسرے زمانہ میں دوسری قوم دولت مند ہو جاتی ہے۔ ایک زمانہ میں ایک ملک دولت مند ہو تاہے اوردوسرے زمانہ میں دوسراملک دولت مند ہوتا ہے۔ پس روپیہ آتااورچلاجاتا ہے مگر جو چیز رہ جاتی ہے وہ نام اور شُہر ت ہو تی ہے۔آخر غورکرو کہ وہ ساری دنیاکی حکومت جو مسلمانوںکے پاس تھی وہ اب کہاں ہے،وہ خلافت جس کے ذریعہ حضرت ابو بکر ؓ حکومت کرتے تھے کہاںہے،وہ حکومت جو حضرت عمرؓ کو حاصل تھی وہ کہاں ہے۔وہ شوکت اور عظمت جو حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کو حاصل تھی وہ کہاں ہے،وہ دبدبہ اوروہ رعب جو صحابہ ؓکو حاصل تھا وہ ا ب کہاںہے،وہ ملک چلے گئے، حکومت جاتی رہی مگر جو چیز آج بھی موجودہے وہ رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ کا سرٹیفکیٹ ہے تو ملکوںکے ہاتھ سے نکل جانے نے انہیں نقصان نہیں پہنچایا کیونکہ جو ان کی عزت تھی وہ آج بھی قائم ہے جب ملک ان کے پاس تھا تب بھی وہ رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْکے القاب کے مستحق تھے اور جب ملک نہیں رہاتب بھی انہیں رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ کہا جاتا ہے۔گویا اصل قیمتی چیز رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْکا خطاب ہی ہے نہ کہ روپیہ یا جائداد یا حکومت اور بادشاہت۔تو روپیہ ایک آنی جانی چیز ہے مگر بعض لو گ حکمتوں کو نہیں سمجھتے اورچونکہ ان کے دماغ چھو ٹے ہو تے ہیں اس لئے وہ بعض دفعہ کسی روپیہ کے خرچ کر دیئے جانے پر اعتراض کر تے ہیں اوریہ نہیں سوچتے کہ اس کے نتیجہ میں جماعت کی عزت کس قدر قائم ہو گئی۔اب جو چیز میرے سامنے تھی وہ یہ تھی کہ قادیان کے متعلق دشمن نے یہ کہنا شرو ع کردیا تھا کہ ہم نے اسے فتح کر لیاہے اوراحمدیوں کو بالکل کُچل کر رکھ دیاگیا ہے۔یہاں بیٹھے ہو ئے ایک شخص اس اعتراض کو معمولی خیال کرتا ہے مگر سارے ہندوستان کو مد نظر رکھتے ہوئے بنگال، بمبئی، مدراس، یوپی، بہار، سندھ، صوبہ سرحد میں جو احراری پرو پیگنڈا جماعت احمدیہ کی موت کی نسبت کیاجا رہاتھاوہ ہماری تبلیغ کے راستہ میں بہت بڑی روک بن رہا تھابلکہ دورکیوں جاؤ خود پنجاب کے دوسرے علاقوں میں یہ بُرااثر پیدا کررہا تھا اورلوگ خیال کرنے لگے تھے کہ شاید یہ لوگ سچ ہی کہہ رہے ہیں اوراب جماعت ا حمدیہ ختم ہو رہی ہے اوراس اثرکا دورکرنا نہایت ضروری تھا۔پس میں نے چاہا کہ اس علاقہ میں احرارکا ممبری کیلئے کھڑا ہو نا ایک خدا تعالیٰ کا پیدا کردہ موقع ہے جسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے اورہمیںچاہئے کہ ہم اس موقع پر دنیا کو بتا دیں کہ اس علاقہ میں ہماری طاقت باوجود اقلیت ہونے کے ان سے زیا دہ ہے اور ا س خیال سے میں نے احمدی امیدوار،باوجود ہمارے بعض دوستوں کے شدید اصرارکے کہ ایسانہ کیا جائے کھڑا کیااوریہی جواب دیا کہ اس وقت ہمارے لئے یہ ایک اصولی سوال ہے اورہم اس ذریعہ سے احرار کے جھوٹے پروپیگنڈا کو باطل ثابت کرنا چاہتے ہیں اس لئے باوجو د آپ لوگوں کے اصرارکے ہم ا پنے آدمی کو نہیں بٹھا سکتے۔ چنانچہ جب الیکشن کا نتیجہ نکلاتو بیشک اہل سنت و الجماعت کا ایک نمائندہ کامیاب ہوگیا مگر دوسرے نمبر پر احمدی نمائندہ تھا۔تیسرے نمبر پر احراری اورچوتھے نمبر پر دوسرا سُنّی اب اس نتیجہ کو احرار کہاں چھپا سکتے تھے۔یہ پبلک کی آواز تھی جو ووٹوں کے ذریعہ ظاہر ہو ئی اوراس نے دنیاپرثابت کردیا کہ یہ کہنا کہ احمدیوں کو قادیان کے علاقہ میںکُچل دیا گیاہے بالکل بے معنیٰ دعویٰ ہے۔حقیقت ا س میں کچھ نہیں۔پس اس نتیجہ نے احرار کی آواز کو بالکل مدھم کردیا اوراس کے بعد قادیان کی فتح کا نقارہ بجتے کم از کم میں نے نہیں سنا اس لئے کہ یہ نتیجہ سرکاری افسروں کے سامنے نکلااورانہوںنے بھی دیکھ لیاکہ احرار کی نسبت جماعت احمدیہ کے نمائندہ کو ووٹ زیادہ ملے ہیں۔ایسے بیّن اور کھلے نتیجہ کو کوئی کہاں چھُپاسکتاہے۔تو اللہ تعالیٰ نے ہمیںپہلے دَورمیں زمین صاف کرنے کا موقع دیااوراِدھر تو حکام پر حقیقت کھل گئی اورادھر پبلک پر حقیقت کھل گئی ہمیں جو خدشہ تھا کہ جماعت کی سبکی اور بدنامی نہ ہو وہ جاتارہا۔
دوسری طرف ہمیںحکومت کے بعض افسروں سے اختلا ف پیدا ہو گیا تھا۔ہمیں ان پر بھی غصہ تھا کہ ہمیں کہا جاتاہے کہ تم باغی ہواورحکومت کا تختہ الٹنے والے ہو حالانکہ ہم ایسے نہیں۔ ہم نے اس الزام کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے رنگ میں غلط ثابت کیا کہ گورنمنٹ کو تقریراََ اورتحریراََ تسلیم کرنا پڑا کہ ہم جماعت پر ایسا کوئی الزام نہیں لگا تے اوریہ کہ اس نوٹس سے جو اس نے دیایہ مراد ہر گز نہیں تھی کہ حکومت کے نزدیک جماعت احمدیہ نے سول نافرمانی یا کسی خلافِ امن فعل کے ارتکاب کا ارادہ کیاہے۔چنانچہ حکومت پنجاب کی چٹھیوں کے علاوہ جب نائب وزیر ِ ہند کے پاس شکایت کرتے ہوئے انہیں اس معاملہ کی طرف توجہ دلائی گئی تو انہوں نے ایک خط کے ذریعہ اطلاع دی کہ حکومت ہند کی طرف سے انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ حکومت پنجاب اور اس کے افسروں نے اس معاملہ میں جو کچھ بھی کیاہے ا س کے کرتے وقت ان کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہ تھا کہ وہ کوئی ایسا کام کریں جس سے جماعت احمدیہ کے جذبات کو جس کی وفاداری پورے طور پر مسلم ہے کسی طرح ٹھیس لگے۔حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ پہلے انہوںنے ہم پر بغاوت اور سول نافرمانی کا الزام لگایاتھا۔
پھر ایک واقعہ ا یسا ہے کہ جسے گورنمنٹ کسی صورت میں بھی چھُپا نہیں سکتی۔میں نے کئی انگریز افسروںسے گفتگو کرتے ہوئے یہ واقعہ ان کے سامنے رکھا ہے اورانہوں نے تسلیم کیاہے کہ بعض حکام سے اس بارہ میں کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہوئی ہے گویا وہ ایک ایسی واضح غلطی ہے جس کو تسلیم کئے بغیر گورنمنٹ کے افسروںکیلئے کوئی چارہ ہی نہیں اوروہ یہ کہ گورنمنٹ کے کسی افسر نے ایک دفعہ ایک خفیہ سرکلر جاری کیاجو غالباََ کئی ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں کے نام بھیجا گیا تھاکہ جماعت احمدیہ کی حالت گورنمنٹ کی نگاہ میں مشتبہ ہے اس لئے اس کے افرادکا خیال رکھنا چاہئے،اب یہ ذرا حَد سے نکل چکے ہیںاوران کے خیالات باغیانہ ہو گئے ہیں۔یہ سرکلر تمام ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں یا بعض اضلاع کے ڈپٹی کمشنروںکو بھیجا گیااورہمیں بھی کسی طرح اس چِٹھی کا پتہ لگ گیا۔جب ہم نے گورنمنٹ سے اس چِٹھی کے متعلق دریافت کیاتو ا س نے بالکل انکارکردیااور کہا کہ ایسی کوئی چِٹھی نہیںبھیجی گئی حالانکہ ہمیںخبر دینے والے نے یہ بتایا تھا کہ یہ معتبرخبر ہے۔جب مجھے اس کا علم ہؤ ا تو میںنے اس وقت کی گورنمنٹ کواس طرف توجہ دلائی۔ (اس وقت تک موجودہ حکومت کا زمانہ نہ آیا تھا) گورنمنٹ نے ایسے سرکلر سے لاعلمی ظاہر کی اوربالکل ممکن تھا کہ ہم اپنی اطلاع کو کسی غلط فہمی کا نتیجہ قراردیتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا تازہ بتازہ ثبوت بہم پہنچا دیا اوروہ اس طرح کہ ا ِ دھر گورنمنٹ نے انکارکیاکہ ہم نے کوئی ایسی چِٹھی نہیں بھیجی اوراُدھر راولپنڈی کا ایک ہیڈ کانسٹیبل جلسہ سالانہ یا مجلس شوریٰ کے موقع پر (اس وقت مجھے یاد نہیں رہا)ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں میں گیا اورا س نے احمدیوں سے کہا کہ تم مجھے اپنے نام لکھاؤ۔تم میں سے کون کون قادیان جائے گا کیونکہ سرکاری حکم آیا ہے کہ احمدیوں کی نگرانی رکھو۔غرض اس نے وہاں کے احمدیوں سے اقرارلیاکہ وہ ا س موقع پربغیر پولیس کو اطلاع کئے نہیں جائیں گے۔جب ا نہوں نے اس بات کی اطلاع ہمیںدی تو ہماری طرف سے مقامی کارکنان کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس واقعہ کی تحقیق کریں اورافسرانِ بالا سے مل کر معلوم کریں کہ اصل بات کیاہے۔جب ا نہوںنے تحقیق کی اوروہ افسرانِ بالا سے ملے تو پولیس کے افسروںنے انہیں یہ جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ایک خفیہ چِٹھی آئی تھی کہ اس امر کی نگرانی رکھی جائے مگراس ہیڈ کانسٹیبل نے شراب پی ہو ئی تھی جس کے نشہ میں اس نے بات کہہ دی اوربجائے مخفی رکھنے کے اس نے خود احمدیوں سے اس کاذکر کردیا ورنہ ہمیں تو مخفی حکم ملا تھا اوراب بہتر ہے کہ آپ اس معا ملہ کو دبا دیںاورزیادہ شورنہ کریں کیونکہ ہماری بدنامی ہو تی ہے اوراگر یہ راز کھلا تو ا س ہیڈ کانسٹیبل کی شامت آجائے گی۔اب یہ ایک ایساواقعہ تھا کہ جس کا گورنمنٹ انکا ر کرہی نہیںسکتی تھی اورانہیںتسلیم کرنا پڑاکہ کوئی غلط فہمی اس بارہ میں ہو گئی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ یہ غلط فہمی ہو کس طرح گئی۔اگر گورنمنٹ یا گورنمنٹ کے کسی ذمہ دارافسرکا کوئی آرڈر نہیں تھا تو یہ کس طرح ممکن ہو گیاکہ راولپنڈی کے ایک ہیڈکانسٹیبل نے ایک دور دراز کے گاؤں میں جاکر احمدیوں کے نام لکھنے شروع کردیئے اوریہ کہنا شروع کردیاکہ بغیر پولیس میں اطلاع دیئے تم قادیان نہیں جاسکتے مگر خیر ہم کو ان بحثوں سے غرض نہیں۔حکومت پنجاب نے عَلَی الْاِعْلان تسلیم کیاکہ وہ کوئی ایسا الزام جماعت احمدیہ پر نہیں لگاتی اوربالا گورنمنٹ نے بھی یقین دلایا کہ جماعت ا حمدیہ کی وفاداری ا س کے نزدیک مسلّم ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حکومت کے مقابلہ میں بھی ہمیں فتح دی گو مخالفت کا سلسلہ ابھی تک اندرونی طور پر افسروں میں جاری ہے کیونکہ حکومت میں یہ مرض ہے کہ اس کا ایک معمولی سے معمولی افسربھی کوئی بات کہہ دے تو وہ اسے سچ تسلیم کرلے گی اوریہ گورنمنٹ کے تنزّل اوربعض دفعہ اس کے لئے ندامت کے موجبات میں سے ایک بہت بڑا موجب ہے۔ ممکن ہے اب جبکہ گورنمنٹ میں ہندوستانی عنصر زیادہ ہور ہا ہے یہ مرض کم ہونا شروع ہو جائے مگر ابھی تک پرانی روایات چلتی چلی جاتی ہیںاور حالت یہ ہے کہ چاہے کوئی افسر کتنا جھوٹا، کتنافریبی اور کتنا ہی مکار کیوں نہ ہو جو بات بھی وہ کہہ دے سارے اس کے پیچھے چل پڑیں گے اور کہیں گے کہ یہ بات بالکل سچی ہے کیونکہ فلاں افسر نے یہ بات کہی ہے اور ابھی تک ان کی طبیعت پر یہ اثر چلتا چلا جاتاہے خصوصًا لوکل افسر تو اس مرض میں بہت حد تک مبتلا ہیں اور وہ حقیقت کو سمجھ جانے کے باوجود سچائی اور دیانت کا طریق بعض دفعہ اس لئے اختیار نہیں کرتے کہ اگر ہم نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تو گورنمنٹ کے پر سٹیج کو نقصان پہنچے گا۔بہر حال ان دنوں میں اور آج کے ایام میں زمین وا ٓسمان کا فرق ہے۔پہلے وہ دھڑلے سے ہماری جماعت کو دبانے کیلئے تیار ہو جاتے تھے مگر اب وہ سوچ لیتے ہیں کہ اس دبانے کانتیجہ کیا ہو گا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو جس رنگ میں بڑھا یا ہے و ہ کوئی پوشیدہ بات نہیں۔ چاروں طرف ترقی کے آثار نظرآرہے ہیں کئی نئے ممالک ہیں جن میں احمدیت قائم ہوئی،ہزاروں لوگ جو اس دوران احمدیت میں داخل ہوئے بلکہ قریب کے علاقہ میںبھی خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت نے ترقی کرنی شروع کردی ہے اوربعض جگہ بالکل نئی جماعتیں قائم ہو گئی ہیں اوربعض جگہ پہلے چھوٹی جماعتیں تھیں مگر اب بہت بڑی جماعتیں ہو گئی ہیں۔چنانچہ ابھی ایک صاحب نے جو آکر کہا ہے کہ انتظام ہوگیا ہے۔وہ اسی امر کے متعلق تھا کہ ایک جگہ کی نئی جماعت نے خواہش کی تھی کہ انہیں جمعہ پڑھانے کے لئے کوئی آدمی بھجوایا جائے۔ہمارے افسر انتظام کرنابھول گئے اور جمعہ کو آتے ہوئے مجھے شاہ صاحب سے اس کا علم ہؤا اورمیں نے آدمی بھجوایا کہ ابھی خطیب کا انتظام کر کے مجھے اطلاع دی جائے تا ان لوگوں کی دل شکنی نہ ہو۔اس جگہ بھی بیس سال سے نہایت مختصر جماعت تھی مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی جماعت ہوگئی ہے۔
آج میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ میرے دل پر ان گالیوں کی وجہ سے ایک ناخوشگواراثر تھا جو احرار ایجی ٹیشن کی وجہ سے ہمیں ملتی رہی ہیں اوراب بھی مل رہی ہیںکیونکہ گالیاں فتح اور شکست سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ گِرا ہؤ ا آدمی زیادہ گالیاں دیا کرتاہے۔بہر حال میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ مسلمانوںنے اس موقع پر ہمارے ساتھ اچھا معاملہ نہیں کیا اورمجھے ان کی طرف سے رنج تھا۔ شاید میرا گزشتہ سفر اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت اسی غرض کیلئے تھا کہ تا میری طبیعت پر جو اثر ہے وہ دورہوجائے۔ میں نے اس سفر میں یہ اندازہ لگایا ہے کہ میرا وہ اثرکہ مسلمان شرفاء بھی اس گند میں مبتلا ہیںاس حد تک صحیح نہیں جس حد تک میرے دل پر یہ اثرتھا۔مجھے اس سفرمیں ملک کا ایک لمبا دورہ کرنے کاموقع ملا ہے۔پہلے میںسندھ گیا، وہاں سے بمبئی گیا، بمبئی سے حیدرآبادچلاگیا اورپھر حیدر آبادسے واپسی پر دہلی سے ہو تے ہوئے قادیان آگیا۔اس طرح گویا نصف ملک کا دورہ ہو جاتا ہے۔اس سفرکے دوران شرفاء کے طبقہ کے اندرجو بات میں نے دیکھی ہے اس سے جو میرے دل میں مسلمانوں کے متعلق رنج تھا وہ بہت کچھ دور ہوگیاہے اورمجھے معلوم ہؤ ا ہے کہ شریف طبقہ اب بھی وہی شرافت رکھتا ہے جو شرافت وہ پہلے رکھا کرتاتھا اوران خیالات سے جو احرارنے پیدا کرنے چاہے تھے وہ متاثر نہیں بلکہ ان کی گالیوں کی وجہ سے وہ ہم سے بہت کچھ ہمدردی رکھتے ہیں۔اگر مجھے یہ سفر پیش نہ آتاتو شاید یہ اثردیر تک میرے دل پر رہتااورمیںسمجھتاہوں یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اس سفرکا موقع دیااوروہ اثر جو میرے دل پر تھاکہ اتنے گند میںمسلمانوں کا شریف طبقہ کس طرح شامل ہو گیاوہ اس سفر کی وجہ سے دور ہو گیا۔حیدر آبادمیں میں نے دیکھا کہ جس قدر بھی بڑے آدمی تھے۔اِلَّا مَاشَا ئَ اﷲُ تھوڑے سے باہر بھی رہے ہوں گے اور وہ ان پارٹیوں میں شامل ہوتے رہے جو میرے اعزازمیں وہاں دی گئی تھیں۔ان لوگوں میں وزراء بھی تھے،امراء بھی تھے اور نواب بھی تھے۔چنانچہ نواب اکبر یار جنگ صاحب بہادر نے جو پارٹی دی اس میں بہت سے نواب شامل ہوئے اور سارے سو دوسو کے قریب معززین ہوں گے اور جو ان کی پارٹی میں شامل ہوئے۔اسی طرح دوسری جگہوں میں بھی میں نے دیکھا کہ شرفائ،آفیسرز،ججز اور بڑے بڑے امراء ان دعوتوں میں شریک ہوتے رہے ہیں اور میں دیکھتا رہا کہ ان کے دلوں میں یہ احساس ہے کہ احرار کی طرف سے ہم پر سخت مظالم توڑے گئے ہیںبلکہ بہتوں نے بیان بھی کیا کہ ہم تسلیم کرتے ہیںجماعت احمدیہ مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے بہت کچھ کر رہی ہے۔اسی طرح دہلی میں جو ایک دو تقریبات ہوئیں ان میں میں نے دیکھا کہ شہر کے ہر طبقہ کے لوگ اور بڑے بڑے روساء شامل ہوتے رہے۔مسلمانوں میں سے زیادہ اور ہندوؤں اور سکھوں میں سے قلیل اور قدرتی بات ہے کہ جس شخص کے اعزاز میں یہ تقریب پیدا کی جائے گی اس میں وہی لوگ زیادہ بلائے جائیں گے جو اس کے ہم مذہب ہوں گے۔پس ان دعوتوں میں ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوئے اور ان کی باتوں میں سے مَیں نے یہ معلوم کیا کہ درحقیقت احرار کا یہ دعویٰ کہ ان کا مسلمانوں پر بہت بڑا اثر ہے اور یہ کہ وہ گند جسے شرافت برداشت نہیں کر سکتی مسلمانوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے،یہ بالکل غلط ہے اور اس طرح میرے ان خیالات کا ازالہ ہؤا جو شرفا کے متعلق میرے دل میں پیدا ہو چکے تھے اور میں نے سمجھا کہ اگر ان ایام میں مسلمان خاموش رہے تھے تو محض مخالفت کی ہیبت کی وجہ سے کہ احرار کا ان کے دلوں پر کوئی اثر ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے بدظنی کے گناہ سے بچا لیا۔مجھے پرسوں ترسوں ہی حیدرآباد سے ایک معزز آدمی کاخط ملا ہے۔وہ لکھتا ہے میں خود آپ سے ملنا چاہتا تھاتا دیکھوں کہ جس شخص کی اس قدر تعریف اور اس قدر مذمت ہوتی ہے وہ ہیں کیسے؟خیالات ہر شخص کے مختلف ہوتے ہیں اس کے لحاظ سے جو چاہے آپ کے متعلق کہہ لیا جائے مگر اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آپ کے اخلاق اور آپ کی محبت ناقابلِ اعتراض اور قابلِ تقلید ہے۔ یہی اثر میں سمجھتا ہوں عام طور پردوسرے لوگوں کے دلوں پر بھی تھا اور بجائے اس کے کہ وہ اس گندسے متاثر ہوتے سوائے چند لوگوں کے باقی تمام شرفاء صورت حالات کو حیرت سے دیکھتے تھے اور خواہش رکھتے تھے کہ ہم معلوم کریں یہ کیسی جماعت ہے اور اس کا امام کیسا شخص ہے۔ پس احرار کے گند سے مسلمانوں کے شریف طبقہ میں صرف تجسّس پیدا ہؤا،ایک رو تحقیق کی پیدا ہوئی،اس سے زیادہ انہوں نے کوئی اثر قبول نہیں کیا۔اسی طرح میرے یہاں پہنچنے پر دو چار دن کے بعد ایک مشہور مسلمان لیڈر نے جنہیں گورنمنٹ کی طرف سے سر کا خطاب بھی ملا ہؤا ہے مجھے لکھا کہ میں آپ کے سفر کے حالات اخبار میں غور سے پڑھتا رہا ہوں اور میں اس دورہ کی کامیابی پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوںحالانکہ ان کا اس سفر سے کوئی واسطہ نہ تھا نہ وہ ان شہروں میں سے کسی ایک میں رہتے تھے جہاں میں گیا۔نہ وہ ان علاقوں کے باشندے ہیں،ایک دُور دراز کے علاقہ میں وہ رہتے ہیں اور مسلمانوں کے مشہور لیڈرہیں مگر انہوںنے بھی اس دورہ کی کامیابی پر مبار ک باد کا خط لکھنا ضروری سمجھا جس سے معلوم ہوتا ہے۔کہ شرفاء کے دلوں میں ایک کُرید تھی اور بجائے اس گند سے متاثر ہونے کے شریف طبقہ ایک تجسّس کی نگاہ سے تمام حالات کو دیکھ رہا تھااور اندرونی طور پر وہ ہم سے ہمدردی رکھتا تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں مسلمانوں کے متعلق میری بدظنی گناہ کا موجب تھی اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اس سفر کا موقع دے دیا تا وہ خیال جو ایک شکوہ کے رنگ میں مسلمان شرفاء کے متعلق میرے دل میں پیدا ہوچکا تھا کہ انہوں نے وہ امید پوری نہیں کی جو ان پر مجھے تھی وہ دور ہو جائے۔چنانچہ مجھ پر اس سفر نے یہ ثابت کر دیا کہ میرا پہلا خیال غلط تھااور درحقیقت ان کی خاموشی صرف ہیبت کی وجہ سے تھی ورنہ شریف ،دل میں شریف ہی تھے اور وہ اس گند کو پسند نہیں کرتے تھے جو احرار کی طرف سے اچھالا گیا۔مگرمیںنے بتایا ہے کہ دورِ اول کے بعد دورِ ثانی کی ضرورت ہے۔دَورِ اول زمین کی صفائی کیلئے تھا اب دورِ ثانی میں تعمیر کی ضرورت ہے اورتعمیر کاکام تخریب سے بہت زیادہ اہم ہوتا ہے۔ پس جو تخریبی حصہ تھا یعنی دشمنوں کی کوششوںکو باطل کرنااورانکو ان کے منصوبوں میںناکام و نامراد کرنا، یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے پورا ہو چکا ہے اورتعمیری دورکی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے جو دنیامیں ایسی فضا اورایسارنگ پیدا کردے جو ان مقاصد کو پورا کرنے میں ممد ہوجن مقاصد کوپورا کرنے کیلئے احمدیت قائم ہوئی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مقاصد کا پورا ہوناصرف احمدیت کیلئے ہی خاص طورپر مفید نہیں بلکہ اسلام کیلئے بھی مفید اوربابرکت ہے اورپھر صرف اسلا م کیلئے ہی ان مقاصد کا پورا ہو نا مفید نہیں بلکہ جس قسم کا مذہبی،سیاسی،تعلیمی،تمدنی اوراقتصادی ماحول ہم پیداکرنا چاہتے ہیںوہ دنیا کیلئے بھی مفید اورضروری ہے۔یہ عظیم الشان ماحول ہم نے پیدا کرنا ہے مگر ہماری موجودہ حالت تو ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کیا پدّی اورکیاپدّی کا شوربہ۔ہماری تعداد نہایت قلیل ہے اورجب ہم کہتے ہیں کہ ہم دنیامیںایسا انقلاب پید اکرکے رہیں گے تو دنیاہم پر ہنستی ہے اور کہتی ہے کہ یہ پاگل ہو گئے ہیں۔مگر آج تک دنیا میںجس قدر عظیم الشان کام ہوئے ہیں وہ ایسے ہی لوگوںسے ہو ئے ہیںجنہیں پاگل کہا گیا اورایسی ہی جماعتوںنے انقلاب برپاکیاہے جنہیں مجنون قراردیاگیا۔پس پاگل کا لقب ہمارے لئے کوئی گالی نہیں بلکہ خوشی کاموجب ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیںکہ ہماری انبیاء سابقین کی جماعتوں سے ضرور ایک گہری مشابہت ہے کیونکہ جس طرح انہیں پاگل کہا گیااسی طرح لوگ آج ہماری جماعت کو پاگل کہتے ہیں۔لیکن بہر حال ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ احمدیت کی ترقی کیلئے ہمیں ایک عظیم ا لشان جدوجہد کی ضرورت ہے اورجیسے جیسے احمدیت کو ترقی ہو گی ویسے ویسے اسلام بھی ترقی کرتا چلا جائے گااورجوںجوںاسلام دنیا میںترقی کرے گاتوں توں دنیابھی مذہبی اورسیاسی اورتمدنی اوراقتصادی پہلوؤں سے ترقی کرتی چلی جائے گی کیونکہ اسلام باقی اقوام کو مٹاکر مسلمانوں کو نہیں بڑھاتابلکہ باقی اقوام کو بڑھا کر مسلمانوں کو اور آگے لے جاتا ہے۔چنانچہ جب کبھی دنیامیں اسلامی اصول پر ترقی ہو گی ہندوؤں،سکھوں اورعیسائیوں کی بھی ترقی ہوگی بلکہ دنیا کے ہر مذہب کے متبع کیلئے ترقی کے راستے کھولے جائیں گے اورہر شخص کیلئے خواہ وہ کسی مذہب و ملت کا پابند ہو ترقی کی طرف قدم بڑھانے کی گنجائش رکھی جائے گی۔
بعض نادان اپنی جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے ہمیشہ ایسے موقع پر قادیان کا حوالہ دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں آئندہ تو جو ہوگا سو ہوگا ابھی آپ کو قادیان میں تھوڑا ساغلبہ حاصل ہے اور آپ نے اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوؤں اور سکھوں سے لین دین پر پابندی عائد کر رکھی ہے حالانکہ میں نے بار ہا بتایا ہے کہ یہ پابندی محض بعض فسادات سے بچنے کی وجہ سے عائد کی گئی ہے ورنہ ہم قادیان سے باہر ہر جگہ ہندوؤں اور سکھوں سے لین دین رکھتے ہیں۔گو یہ قدرتی بات ہے کہ انسان اپنی قوم کو ترجیح دیتا ہے اور ہم بھی تجارتی لین دین میں ایک مسلمان کہلانے والے کو فائدہ پہنچانا پسند کرتے ہیں لیکن بہر حال ہمارا ہندوؤں اور سکھوں سے کوئی مقاطعہ نہیں ہوتا اور ہم ان سے کھلے طور پر لین دین رکھتے ہیں۔قادیان میں اگر یہ پابندی عائد ہے تو صرف دفاعی طور پر ورنہ ہم نے ان کا مقاطعہ اب بھی نہیں کیا ہؤا بلکہ ایسے ہندو اور سکھ جو ہماری ناواجب مخالفت نہیں کرتے ان سے ہمارا لین دین قادیان میں بھی جاری ہے اور میں قادیان کی حالت کو بھی جیسا کہ اشارہ کر چکا ہوں جلد سے جلد بدلنا چاہتا ہوں اور یہاں کے قوانین میں بھی اصلاح کرنا چاہتا ہوں۔
لیکن میری عادت ہے کہ جب دشمن کی تلوار سر پر لٹک رہی ہو تو اس وقت میں اس کی بات نہیں مانا کرتا اور مجھے افسوس ہے کہ جب کبھی یہاں کے بزرگوں نے مجھ سے صلح کرنے کی کوشش کی ہے تو ہمیشہ ایسی صورت میں کہ پہلے کوئی ہم پر مقدمہ کرادیا یا فساد کھڑا کرا دیا اور پھر چاہا کہ ہم سے سمجھوتہ کر لیں حالانکہ میں ایسے مواقع پر سمجھوتہ نہیں کیا کرتا میں ہمیشہ ایسے موقع پر ہی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہؤا کرتا ہوں جب میرا ہاتھ دینے والا ہو اور ان کا ہاتھ لینے والا ہو لیکن جب کوئی ڈنڈا لے کر میرے سر پر آچڑھے اور کہے کہ مجھ سے صلح کرو تو پھر میں اس کی بات نہیں مانا کرتا۔
مجھے تعجب آتا ہے کہ میری عمر پچاس سال کے قریب ہونے کو آگئی،صرف چند ماہ اس میں باقی ہیںاور میںتمام عمر اس قادیان میں رہا،یہیں پیدا ہؤا،یہیں بڑھا،یہیں جوان ہؤا اور یہیں پچاس سال کی عمر تک پہنچامگر اب تک یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں نے میری طبیعت کو نہیں سمجھا۔ میری طبیعت یہ ہے اور یہی طبیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی تھی بلکہ دینی لحاظ سے گوحالت کچھ ہی ہویہی طبیعت ہمارے دادا صاحب کی بھی تھی کہ وہ کسی کے ساتھ دَب کر صلح نہیں کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے خاندان نے دوحکومتوں کے تغیر کے وقت سخت نقصان اٹھایا ہے جب سکھ آئے تب بھی اور جب انگریز آئے تب بھی کیونکہ یہ ہماری طبیعت کے خلاف ہے کہ ہم کسی کے سامنے سر جھُکا کر کھڑے ہوں اس لئے جب سکھ آئے تو نہ سکھوں کے آگے ہم جی حضور کرتے رہے اور نہ جب انگریز آئے تو انگریزوں کے آگے ہم نے جی حضور کیا گوہمارے خاندان نے سکھوں اور انگریزوں دونوں سے تعاون بھی کیا اور ان کی مدد بھی کی اور ان لوگوں سے زیادہ مدد کی جو جی حضور کرتے رہتے تھے مگرپھر بھی کبھی انگریزوں کے آگے گردن جھُکا کر کھڑے نہیں ہوئے۔یہ ایک خاندانی اثر ہے جو میرے اندر پایا جاتا ہے اور مذہب نے اسے اور زیادہ رنگ دے دیا ہے۔تو اگر یہاں کے ہندو اور سکھ درست طریقِ عمل اختیار کرتے تو یقینا باہمی جھگڑے اس حد تک نہ پہنچتے جس حد تک اب پہنچے ہوئے ہیں۔انہوں نے ہمیشہ پہلے دھمکی دی اور پھر صلح کرنے کی خواہش کی اور دھمکی سننے کے بعد فطرتاً میں صلح کرنے سے انکار پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں۔پس گو مَیں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ ہم میں صلح ہو جائے۔مگر حالات ہمیشہ اس رنگ میں بدلتے رہے کہ ان کی کوئی نہ کوئی دھمکی میرے سامنے آگئی اور میں اپنا قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور ہوگیا۔مثلًا جب مذبح کا سوال اٹھا اس وقت میری نیت یہی تھی کہ میں قادیان میں مذبح جاری نہیں ہونے دوں گا مگر بغیر میری اجازت کے بعض لوگوں نے مذبح کھلوانے کے متعلق درخواستیں دے دیں اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ سکھ لوگ جھٹکا کی دکان کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔میں نے اس وقت صلح کی کوشش کی۔لیکن ابھی میری کوشش کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تھا کہ میں چند روز کے لئے لاہور چلا گیا۔وہاں قادیان کے بعض ہندوؤں کا ایک وفد میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے شکایت کی کہ قادیان میں مذبح کھلنے والا ہے میں اس کا تدارک کروں۔میں نے ان سے کہا کہ ایک طرف آپ لوگ اپنی مشکلات کو پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف سکھوں نے جھٹکا کا کام شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ان حالات میں مَیں قادیان جا کر اور فریقین کے حالات سن کر ہی کوئی فیصلہ کر سکتاہوں اور انہیں تسلی دلائی کہ جس حد تک ممکن ہوگامیں ایسی صورت اختیار کروں گا کہ طرفین کی ضروریات اور احساسات کا لحاظ رکھا جائے پس آپ قادیان میںمجھ سے ملیں۔چنانچہ میں اپنا سفر منقطع کر کے دوسرے ہی دن قادیان آگیا حالانکہ میرے برادر نسبتی میجر تقی الدین احمد صاحب انہی دنوں ولایت سے پڑھ کر آئے تھے اور قدرتی طور پر ان کی ہمشیرہ کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ وہ اپنے بھائی کے پاس چند دن رہیں مگر معاً وہاں کی اقامت کو قطع کر کے میں واپس آگیامگر انہیں نہ معلوم کس نے ورغلادیاکہ باوجود اس کے کہ میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ قادیان میں مجھ سے ملیں اور باوجود یکہ میں ان کی خاطر سفر منقطع کر کے واپس آگیا تھا،وہ مجھ سے ملنے نہ آئے۔اس کے کچھ عرصہ بعد جب بات اور زیادہ پختہ ہوگئی تو پھر ہندوؤں کا ایک وفد میرے پاس آیا۔میں نے ان سے کہاکہ اب کئی قوموں کا سوال پیدا ہوچکا ہے۔ایک طرف غیر احمدیوں نے اس معاملہ میں ہمارا ساتھ دیا ہے دوسری طرف سکھوں نے جھٹکہ کا سوال چھیڑ کر میری پوزیشن نازک کر دی ہے کیونکہ ذبیحہ گائے کا روکنا احساسات کے احترام پر مبنی ہے اور مسلمانوں میں یہ شکایت پیدا ہوچکی ہے کہ جب دوسرا فریق ہمارے احساسات کاخیال نہیں رکھتا تو ہمیں اس کے احساسات کے لئے اس قدر بڑی قربانی کرنے پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے۔پس میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے سکھوں سے اور اپنی جماعت کے علاوہ دوسرے مسلمانوں سے بات کرنے کا موقع دیں میں دونوں فریقوں کو سمجھا کر ایسی صورت پیدا کروں گا کہ آپ لوگوں کی دل شکنی نہ ہو۔میں نے انہیں یہ بھی کہا کہ میں نے اپنے ذہن میں ایسی سکیم سوچ بھی لی ہے جس سے احمدیوں اور غیر احمدیوں کی بھی دل جوئی ہو جائے گی اور سکھ بھی مان جائیں گے مگر میں نے کہا کہ اس کے لئے ضروری ہے کہ سکھ مجھ سے الگ ملیں اور آپ الگ، اگر آپ اکٹھے ہو کرمیرے پاس آئے تو معاملہ بگڑ جائے گا کیونکہ سکھوں میں سے کچھ لوگ آپ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے مگر مذبح نہیں بننے دیں گے۔جب وہ آپ لوگوں کے سامنے ہوں گے تو انہیں وہ باتیں یاد آجائیں گی اور وہ اپنی زبان بدلنے میں شرم محسوس کریں گے۔ پس مناسب ہے کہ میں ان سے الگ بات کروں۔چنانچہ اس پروہ لوگ چلے گئے اور میں نے اپنے ذہن میں ایک سکیم سوچ لی جس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں مَیں سمجھتا تھا کہ تینوں قوموں کی دل جوئی ہو جائے گی لیکن میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب دوسرے تیسرے دن ایک آریہ صاحب دو سکھوں کو لے کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ سکھوں سے بات کرنا چاہتے تھے سو یہ لوگ آگئے ہیں۔میں نے کہا کہ میں نے تو یہ کہا تھا کہ میں خود قادیان کے سکھوں کو بلواؤں گا، یہ تو نہیں کہا تھاکہ آپ انہیں لے آئیں لیکن بہر حال میں نے اُن سے گفتگو شروع کر دی اور میں نے کہہ دیاکہ اب اس گفت وشنید کا جو نتیجہ نکلے اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہوگی کیونکہ میری ہدایت کے خلاف کام کیا گیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ جو صاحب سکھوں کو میرے پاس لائے تھے وہ ایسے ہی تھے جو صلح نہیں کرنا چاہتے تھے اور وہ لڑائی جھگڑے کے متعلق متہم تھے۔چنانچہ وہی ہؤا جس کاخطرہ تھا۔میں ان سے گفتگو کے دوران یہ ذکر کررہا تھا کہ میرے دادا صاحب نے اور بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور ان کے بعد میں نے بھی قادیان میںگائے کے ذبیحہ کو محض اس وجہ سے روکے رکھا کہ اس وقت تک اس کی اقتصادی طور پر زیادہ ضرورت معلوم نہیں ہوتی تھی اور ہم پسند نہیں کرتے تھے کہ خواہ مخواہ ہماری ہمسایہ اقوام کادل دُکھایا جائے۔چنانچہ ایک دفعہ جب بعض لوگوں نے قادیان کے ایک ملحقہ گاؤں سے مذبح کی درخواست دی تو میں نے خود ڈپٹی کمشنر صاحب کو کہلوا کر مذبح کو رکوا دیا تھا۔اس پر ایک سکھ صاحب بولے آپ بالکل غلط کہتے ہیں آپ نے ہمیشہ مذبح کے کھولے جانے پر زور دیا ہے مگر جب چاروں طرف سے ناکامی ہوئی تو آپ نے اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ میں نے خود مذبح کو رکوایا تھا۔میں نے ان ہندو صاحب کی طرف دیکھا اور کہا دیکھ لیا مَیں نہ کہتا تھا کہ آپ مجھے اکٹھے نہ ملیں ورنہ صلح کی گفتگو درمیان میں ہی رہ جائے گی۔اس پر دوسرے سکھ صاحب جو جتھے دار تھے وہ کہنے لگے ان کی بات جانے دیجئے یہ بڑی جلدی غصہ میں آجاتے ہیں اور بات کو سمجھتے نہیں۔اب میں آپ سے گفتگو کرتا ہوں۔چنانچہ وہ غصہ میں آنے والے احباب فرمانے لگے صلح بڑی اچھی چیز ہے۔میں نے کہایقینا ۔وہ کہنے لگے پھر کوئی ایسی کوشش ہونی چاہئے جس سے یہ مذبح کا سوال جاتا رہے۔یہاں تک تو بڑی اچھی گفتگو تھی مگر اس کے معاً بعد وہ کہنے لگے ورنہ یاد رکھئے سکھ یا مرجائیں گے یا مار دیں گے اور خون کی ندیاں بہا دیں گے۔میںنے کہا بس پہلے آپ اس فقرہ کو پور ا کر لیں۔آپ نے جتنی ندیاں بہانی ہیں وہ بہا لیں اور اگر ایسی دھمکیوں سے ہی مذبح کو روکنا چاہتے ہیں تو روک کر دیکھ لیں میں اس سے ہرگز نہیں رکوں گا۔چنانچہ وہ اٹھ کر چلے گئے اور پھر جیسا کہ ساری دنیا کو معلوم ہے مذبح بنا اور اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے جاری ہے۔ اب دیکھ لو کس طرح بات کو بدل کر کچھ کا کچھ بنا دیا گیا۔اس کے بعد میں نے پھر بھی کوشش جاری رکھی اور ایک اشتہار شائع کیا جس میں ہندوؤں اور سکھوں کو مخاطب کر کے لکھا کہ آپ کے نزدیک اگر کوئی ایسی راہ ہے جس سے مسلمان اپنی ضروری غذا کو بھی حاصل کرسکیں،ان کی مذہبی اور اخلاقی حالت بھی درست رہے اور ان کے ہمسایوں کے جذبات بھی ناواجب طور پر زخمی نہ ہوں مجھے اس سے مطلع کیا جائے میں ہر وہ تجویز جس سے ہندوؤں اور سکھوں کے احساسات کا ممکن سے ممکن حد تک خیال رکھ کر مذبح کو جاری کیا جاسکے قبول کرنے کے لئے تیار ہوںاور اس پر جہاں تک میرا اختیار اور میری طاقت ہے عمل کرنے کامیں ذمہ دار ہوں گا مگر ضروری ہے کہ ایسا قاعدہ صرف قادیان کے لئے نہ ہو بلکہ ہر جگہ کے لئے ہو کیونکہ اگر قادیان میں امن ہو جائے لیکن باقی ملک میں فسادات ہوتے رہیں تو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔پس چاہئے کہ ہم ایک عام قاعدہ بنا لیں اور اس کے مطابق قادیان میں بھی عمل ہو اور دوسری جگہوں میں بھی۔میںنے انہیں یہ بھی لکھا کہ اگر فلاں تاریخ تک اس کا جواب مجھے نہ ملا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ صلح کی خواہش نہیں رکھتے۔میرے اس خط پر دو سکھ لیڈوں نے اور ایک بہت بڑے ہندو لیڈر نے جواب دیا،میں ان صاحبان کا نام نہیں لیتاکہ تا ان کی پوزیشن خراب نہ ہو، ہندولیڈر صاحب نے جو اس وقت ہندوستان کے چوٹی کے لیڈروں میں سے ہیں لکھا کہ مجھے معلوم ہے آپ ہمیشہ ہندوؤں سے نیک سلوک کرتے چلے آئے ہیں اور میں آپ سے اپیل کرتا ہوںکہ اس موقع پر بھی آپ ہی صلح کی کوشش کریں اور ہندوؤں نے اگر کوئی زیادتی کی ہے تو معاف کردیں۔سکھ لیڈروں میں سے ایک سکھ لیڈر نے جو بہت بڑے زمیندار ہیں اور سر کا خطاب بھی رکھتے ہیں انہو ں نے یہ جواب دیا کہ آج کل مَیں شملہ میں ہوں۔میں پنجاب میں آ کر اس جھگڑے کا کوئی نہ کوئی فیصلہ کروں گا آپ مجھے کچھ مزید مہلت دیں۔ دوسرے سکھ لیڈر نے جو سکھوں کے مذہبی لیڈر اور ایک بڑی تعلیم گاہ کے ایک بہت بڑے عہدیدار ہیں مجھے لکھا کہ ہم کو گائے سے کوئی تعلق نہیں،یہ نادانوں کی باتیں ہیں کہ وہ ذبیحہ گائے کو ناپسند کرتے ہیں سکھوں کا ایسی باتوں سے کوئی واسطہ نہیں ہمارے نزدیک چاہے مذبح کھلے یا نہ کھلے یکساں بات ہے۔ یہ سکھوں کے ایک بہت بڑے مذہبی لیڈر کے خیالات تھے مگرمیں نے اس خط کو شائع نہیں کیا تاکہ سکھوں میں ان کی پوزیشن کمزورنہ ہو جائے۔بہر حال ان خطوط میں سے صرف ایک خط ہی ایسا تھا جس کے جواب کا مجھے مزید انتظار کرنا چاہئے تھا چنانچہ میں نے ایک لمبے عرصے تک انتظار بھی کیا مگر ان صاحب نے سمجھوتہ کی کوئی کوشش نہ کی۔غالبًا انہوں نے یہ سمجھ لیاکہ اب معاملہ دب گیا ہوگاکیونکہ شملہ سے نیچے اتر کر انہوں نے پھر بھی خبر نہ دی کہ میں پنجاب آگیا ہوں اور اس جھگڑے کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں۔اس کے بعد پھر میرے پاس ہندوؤں کے وفود آئے مگر میں نے انہیں یہی کہاکہ اگر کوئی فیصلہ کرنا ہے تو اکٹھا کر لو۔یعنی یہ نہ ہوکہ وہ صرف قادیان کے متعلق ہو بلکہ وہ فیصلہ ہر جگہ کے متعلق ہونا چاہئے اگر یہ فیصلہ ہوکہ مذبح نہیں کھلنا چاہئے تو ہم اپنا بنا بنا یا مذبح بند کرا دیں گے اور اگر بعض شرائط کے ساتھ مذبح کے کھلنے کافیصلہ ہو تو ان شرائط کا لحاظ رکھیںگے۔مگر جس رنگ میں آپ لوگوں کی طرف سے کوشش کی جاتی ہے یہ صحیح نہیں اور میں اس طرح ماننے کے لئے تیار نہیں۔یہی حال لین دین کے معاملات کا بھی ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ پابندی ہندوؤں پر اتنی گراں نہیں گزرتی جتنی مجھ پر گزرتی ہے۔مجھ سے کئی ہندو لیڈروں نے جب اس کے متعلق گفتگو کی ہے تو میں نے انہیں کہا ہے کہ آپ قادیان آئیں اور قومیت کے خیال کو نظر انداز کرتے ہوئے دیانت داری اور انصاف کے ساتھ تمام حالات کو دیکھ کر فیصلہ کریں۔پھر آپ پر خود بخود روشن ہو جائے گاکہ ہماری زیادتی ہے یا نہیں مگر کسی نے یہ جرأت نہیں کی کہ وہ قادیان آئے اور بچشم خود حالات دیکھ کر اور تمام واقعات سن کر رائے قائم کرے۔اور اگر کسی نے حالات سنے ہیںتو اس نے اقرار کیا ہے کہ ان حالات میں آپ نے جو پابندی عائد کی ہے اس میں آپ حق بجانب ہیں۔ تو یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں کی جو مثال ہے وہ بالکل اور رنگ رکھتی ہے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ احمدیت کی ترقی سے دوسری قوموں کا تنزل نہیں بلکہ ان کی ترقی ہے اور احمدیت کی ترقی میں اسلام کی ترقی ہے اور اسلام کی ترقی میں دنیا کی ترقی ہے۔تیرہ سو سال کے واقعات اس پر شاہد ہیںکہ اسلام نے جب بھی ترقی کی دوسری اقوام کو بھی اس نے ترقی کی شاہراہ پر لاڈالا اور کسی قوم کو اس نے نہیں گرایا۔آج دنیا پر نگاہ دوڑا کر دیکھ لویہود کا کیسا عبرت ناک حال ہے مگر تیرہ سَو سال تک مسلمانوں نے اس قوم کو اپنے ممالک میں آباد رکھا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جرمنی ایک سو سال تک بھی یہود کا اپنے اندر رہنا برداشت نہیں کرسکااور آج بھی اگر عرب فسلطین میں یہود کے داخلہ کے خلاف ہیں تو اس لئے نہیں کہ یہود کو فلسطین میں بسایا کیوں جاتا ہے بلکہ اس لئے کہ انہیں اس رنگ میں بسایا جاتا ہے کہ یہود کی آبادی بڑھ جائے اور مسلمانوں کی آبادی کم ہوجائے اور یہ واقع میں ایک ایسا امر ہے جسے کوئی قوم برداشت نہیں کرسکتی۔ورنہ رہنے کے متعلق جھگڑا نہیں یہود پہلے بھی فلسطین میں رہتے تھے۔اب اگر جھگڑا ہے تو یہ کہ انہیں ایسے رنگ میں بسایا جاتاہے کہ چند سال میں مسلمان جو پچاسی فیصدی تھے اقلیت میں بدل جائیں او ریہود اکثریت میں ہوجائیں اور کسی قوم کے لئے یہ برداشت کرنا بڑا مشکل ہوتاہے کہ جہاں وہ طاقتور ہو وہاں اسے کمزور کر دیا جائے اور کمزور کو طاقتور بنادیا جائے۔
غرض احمدیت کی ترقی کے ساتھ اسلام کی ترقی اوراسلام کی ترقی کے ساتھ دنیا کی ترقی وابستہ ہے اوراحمدیت کی ترقی کیلئے دو کام کرنے نہایت ضروری ہیں۔ایک تعلیم و تربیت کااوردوسراتبلیغ واشاعت کا ،ان کے بغیر جماعت نہ پھیل سکتی ہے اورنہ اس کے پھیلنے کا کوئی فائدہ ہے۔یعنی تبلیغ کے بغیر جماعت کی ترقی نہیں ہو سکتی اورصحیح تربیت کے بغیر احمدیت کا پھیلنا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔فرض کرو احمدی ساری دنیا میں پھیل جائیں مگر مذہبی، سیاسی، اقتصادی، تمدنی اورتعلیمی ماحول وہی رہے جو پہلے تھے تو ایسی احمدیت کے پھیلنے کا کیافائدہ اوراگر احمدیوں میں وہ روح نہ ہو جو اسلام پیدا کرنا چاہتاہے اورایک ظالم کی بجائے اگر دوسراظالم کھڑاہو گیاتو اس سے بنی نوع انسان کو کیافائدہ پہنچے گا۔پس تبلیغ ا ورتعلیم و تربیت دو ہی نہایت ہی اہم کام ہیں اورانہی دونوں کاموں کو تحریک جدید میںمد نظر رکھا گیا ہے۔تعلیم و تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سادہ غذا،سادہ لباس،خود ہاتھ سے کام کرنا،سینما کاترک،غریبوں کی امداد،بورڈنگ تحریک جدیداورورثہ وغیرہ کام تجویز کئے گئے ہیں اوریہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کو کسی وقت بھی ترک نہیں کیا جاسکتا۔بعض تو موجودہ صورت میں ہی ہر وقت قابلِ عمل رہیں گی اورانہیں کسی صورت میں بھی چھوڑا نہیں جاسکے گا لیکن بعض میں حالات کے ماتحت کچھ تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔عملی طورپر بعض حصوں کے متعلق مجلس خدا م الاحمدیہ جدوجہدکررہی ہے اورجہاں تک اس کے ایک سال کے کام کا تعلق ہے میں سمجھتا ہو ں کہ اس نے نہایت شاندار کام کیا ہے اوراگر وہ اسی طرح استقلال سے کام جاری رکھے اور نہ صرف اپنے موجودہ معیارکو قائم رکھے بلکہ اسے بڑھاتی چلی جائے تو وہ ایک عمدہ نمونہ قائم کرسکتی ہے۔مجالس خدا م الاحمدیہ کے نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے کام کے اثرات صرف موجودہ زمانہ کے لوگوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ اگر وہ اسی خوش دلی اوراخلاص سے کام جاری رکھیں گے تو آئندہ نسلوں تک ان کے نیک اثرات جائیںگے اورجس طرح آج صحابہ کا ذکر آنے پر بے اختیار رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْاعَنْہُ کافقرہ زبان سے نکل جاتا ہے اسی طرح ان کا نام لے کر آئندہ آنے والی نسلوں کا دل خوشی سے بھر جائے گااوروہ ان کی ترقی مدارج کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں گے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ جس کام کو شروع کریں اسے استقلال سے کرتے چلے جائیں۔جو شخص بھی اس جدوجہد میں کھڑاہوگاوہ گر جائے گااورسلامت وہی رہے گا جو اپنے قدم کی تیزی میں کمی نہیں آنے دے گا۔مجلس خدا م الاحمدیہ تحریک جدید کی فوج ہے اورمیں امید کرتا ہو ںکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس فوج میںداخل ہونگے ا ور اپنی عملی جدوجہد سے ثابت کردیںگے کہ انہوں نے اپنے فرائض کو سمجھا ہؤا ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسر ا پہلو تبلیغ واشاعت کا ہے اوراس کیلئے وقف زندگی،وقف رخصت اوردوسرے ممالک میں احمدیوں کے پھیل جانے اورچندہ جمع کرنے کی تحریک کی گئی ہے۔چندے کی تحریک گو جماعت کی تعلیم وتربیت کے لحاظ سے بھی ضروری ہے مگراس کو زیا دہ تر تبلیغ کے لئے جاری کیاگیا ہے۔ان میں سے ہر ایک تحریک اپنی اپنی جگہ نہایت اہم اورضروری ہے اورمیں اپنے اپنے موقع پر پھر دوبارہ ان تمام مطالبات کی طرف جماعت کوتوجہ دلانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
تیسری چیز جو ان دومقاصد کے علاوہ ہے اورجوتبلیغ و اشاعت اورتعلیم وتربیت کیلئے مُمِد ہے و ہ یہ ہے کہ چونکہ یہ سب کام خدا تعالیٰ کیلئے ہیں ا س لئے اس سے دعائیں کی جائیں کہ وہ ہمیں کامیابی عطا فرمائے اورچونکہ بعض دفعہ انسان اپنے جوش میں اورفتح کے نشہ میں اس امر کو بھُول جاتاہے کہ تمام کامیابی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوئی ہے اوراس کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ یہ فتح شاید میری جدوجہد کا نتیجہ ہے اسلئے روزوںکا سلسلہ جاری کیا گیا ہے تا ہماری جماعت کے دوست یہ سمجھیں کہ جو کچھ ہؤ ا ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہؤا ہے اورجو کچھ آئندہ ہو گا وہ بھی اُسی کے فضل سے ہوگاتا ایک طرف فتح کے نتیجہ میں جو بعض دفعہ کبر اور غرور پیدا ہوجاتا ہے وہ پید ا نہ ہو اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے احسانات کے متعلق شکر کا جذبہ دل میں موجزن ہو۔
یہ تحریک جدید کا مکمل ڈھانچہ ہے جس کا ایک پہلو تعلیم و تربیت ہے دوسرا پہلو تبلیغ و اشاعت اورتیسرا پہلو دعا اور روزے ہیںتا جتناکام بھی ہو اس یقین اور وثوق کے ساتھ ہو کہ یہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہؤا ہے اورہم آئندہ کی کامیابیوں کے لئے بھی اسی کی طرف اپنی توجہ رکھیں اوراس سے دعا کرتے رہیں کہ وہ ہماری مدد فرمائے۔
مَیں گزشتہ خطبات میں بتا چکا ہوں کہ پہلے دورمیں ہماری جماعت نے بے مثل نمونہ دکھایاہے اوراس نے ایسی غیر معمولی قربانی اور جوش کا ثبوت دیاہے کہ جس کا دشمن کو بھی اقرار ہے مگر میں یہ بھی بتا چکا ہوںکہ یہ کام زمین صاف کرنے کاتھا۔اتنے کام پر ہی خوش ہو جانا اوراپنی تمام جدوجہد کو ختم کردینا اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں کسی نیک نامی کا مستحق نہیں بلکہ ۱؎کا مصداق بنانے والا ہے۔وہ عورت بھی آخر کچھ نہ کچھ کام کیا ہی کرتی تھی اور محنت کرکے سُوت کاتا کرتی تھی مگر چونکہ جب کام کاوقت آتا تو وہ اپنے سُوت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی اس لئے اس کی محنت اس کے کسی کام نہیں آتی تھی۔ہم نے بھی پہلے دور میں سُوت کاتا ہے لیکن دوسرے دور میں ہم نے اس سُوت کے کپڑے بننے اورنہ صرف خود پہننے بلکہ دوسروںکو بھی پہنانے ہیں اگرا س دورمیں ہم نے سُستی دکھائی تو یقیناََ ہماری ساری محنت رائیگاں جائے گی اورہمیں جس قدرنیک نامی حاصل ہو چکی ہے وہ سب بدنامی سے بدل جائے گی۔
اس دوسرے دور میں مجھے بعض لوگ سُست نظر آتے ہیں مگر میرے لئے یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں۔میں نے اس تحریک کے شروع میں ہی بتایا تھا کہ کچھ لوگ وقتی مؤمن ہؤ ا کرتے ہیں اور ایسے وقتی مؤمن ہر جماعت میں ہؤا کرتے ہیں اوروقتی مؤمن سے میری مرادوہ لوگ ہیں جولڑائی جھگڑے کے وقت تو آگے آجاتے ہیں مگر جب مستقل اورلمبی قربانیوں کا موقع آتاہے توپیچھے ہٹ جاتے ہیں۔وہ جان دینے کیلئے تو فوراََ تیار ہو جائیں گے اوراگر جنگ ہو اور انہیںکہاجائے کہ فوج میں بھرتی ہوجاؤاورملک کی عزت کیلئے جان دے دوتو وہ بالکل نڈر ہو کر فوج میں شامل ہو جائیں گے اوردشمن سے لڑکر اپنی جان دے دیں گے لیکن اگر انہیں کہا جائے کہ پندرہ منٹ یا آدھ گھنٹہ روزانہ فلاں کام کیلئے وقت دو تو چند دنوں کے بعد ہی و ہ عذرات پیش کردیں گے کہ آج ہماری بیوی بیمار ہے،آج بچے اچھے نہیں،آج اپنی طبیعت ناساز ہے اوراس طرح وہ کام سے بچنا شروع کردیںگے۔یہ وقتی اور ہنگامی مؤمن ہو تے ہیں اوریہ ہنگامی مؤمن ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں۔
حضرت نوح علیہ السلام آئے تو اُن کی جماعت میں بھی یہ ہنگامی مؤمن تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو اُن کی جماعت میں بھی یہ ہنگامی مؤمن تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے تو اُن کے ساتھ بھی کچھ ہنگامی مؤمن تھے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تو اُن کی جماعت میں بھی کچھ ہنگامی مؤمن تھے پھر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے ساتھ بھی بعض ہنگامی مؤمن تھے۔ یہی ہنگامی مؤمن کبھی کبھی منافق بھی بن جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک تومستقل منافق ہوتاہے اورایک یہ ہنگامی مؤمن ہو تا ہے جو بعض دفعہ جوش میں آکر مؤمنانہ کام کرلیتاہے اور بعض دفعہ ایسی حرکات کا ارتکاب کر لیتا ہے جن سے خدا تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کرلیتا ہے اورمنافق بن جاتا ہے۔ پس ہنگامی مؤمن کاانجام محفوظ نہیں ہوتا لیکن جو مستقل مؤمن ہو ں ان کاانجام خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لے لیتاہے اورانہیں ہر قسم کے بد انجام سے بچا لیتاہے۔
سُستوں کا ہر جماعت میں ہونا لازمی ہوتاہے مگر ان کی وجہ سے کام کو نقصان نہ پہنچنے دیناہمارافرض ہے اوران لوگوں کی اصلاح ہم پر لازمی ہے اورہم یہ کہہ کر ہر گزبری نہیں ہو سکتے کہ ہم نے قربانی کردی ہے،اگر چندلوگوں نے قربانی نہیںکی تو ہم کیاکریں۔ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں بیدار کرتے رہیں،ان کی نیند اورغفلت کو دور کریں اور انہیں چُست اور ہوشیار بنائیں اگر ہم اپنی اس ڈیوٹی کو چھوـڑ دیں تو ہم خدا تعالیٰ کے بھی مجرم ہونگے اوراپنی قوم اور اپنے نفس کے بھی مجرم ہو نگے اس لئے میں ہمیشہ ایسے لوگوں کو چست کرتا رہتا ہوں اورجو پہلے ہی بیدارہوںانہیںاور زیادہ بیدار کرتارہتاہوں تاکہ وہ بھی کسی وقت سست نہ ہو جائیں۔پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان لوگوں کو جو سست ہیں چست اور ہو شیار بنائیں اورجو چست ہیںانہیںوقتی مؤمنوں کی صف سے نکال کر کامل الایمان لوگوں کے ساتھ شامل کریں اوراگرہم ایسا کریں تو یقیناََہم دوہرے ثواب اوردوہرے اجر کے مستحق ہو نگے لیکن اگر ہم اپنے اس فرض کی ادائیگی میںکوتاہی کریںتو ہم یہ کہہ کر ہرگز بری نہیں ہو سکتے کہ ہم تو بچ گئے ہیں۔خداتعالیٰ ہم سے پوچھے گا کہ تم تو بے شک بچ گئے لیکن جن اور لوگوں کو بچانا تمہاری طاقت میںتھا ان کو تم نے کیوں نہیں بچایا۔
میں تحریک جدید کے دورِثانی میں مستقل کام کی داغ بیل ڈالنے کیلئے مالی تحریک کے علاوہ کہ وہ بھی مستقل ہے ایک مستقل جماعت واقفین کی تیار کررہا ہوں۔دورِ اول میںمَیں نے کہا تھاکہ نوجوان تین سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر دورِ ثانی میں وقف عمر بھر کیلئے ہے اوراب یہ واقفین کاہر گز حق نہیں کہ وہ خود بخود کام چھوڑکر چلے جائیںہاںہمیںاس بات کا اختیار حاصل ہے کہ اگر ہم انہیں کام کے نا قابل جانیں توانہیںالگ کر دیں۔پس یہ سہ سالہ واقفین نہیں بلکہ جس طرح یہ دور مستقل ہے اسی طرح یہ وقف بھی مستقل ہے۔اس دور میںکام کی اہمیت کے پیشِ نظر میں نے یہ شرط عائد کردی ہے کہ صرف وہی نوجوان لئے جائیں گے جو یا تو گریجوایٹ ہو ں یا مو لو ی فاضل ہوں اورجو نہ گریجوایٹ ہوں اور نہ مولوی فاضل انہیں نہیں لیا جائے گا کیونکہ ا ن لو گوں نے علمی کام کرنے ہیں اور ا س کے لئے یا تو دینی علم کی ضرورت ہے یا دنیوی علم کی۔اس دور میں تین چار آدمیوں کو منہا کر کے کہ وہ گریجوایٹ نہیں کیونکہ وہ پہلے دور کے بقیہ واقفین میں سے ہیں باقی سب یا تو گریجوایٹ ہیں یا مولوی فاضل ہیں۔چنانچہ اس وقت چار گریجوایٹ ہیں اورچارہی مولوی فاضل ہیں۔کل غالباََ بارہ نوجوان ہیں۔چار ان میں سے غیر گریجوایٹ ہیں مگرہیں سب ایسے ہی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محنت سے کام کرنے والے اورسلسلہ سے محبت رکھنے والے ہیں اورمیں امید کرتا ہوںکہ جس رنگ میں یہ کام کررہے ہیں۔ اس کے ماتحت یہ ان علمی کاموں کو سر انجام دے دیں گے جو علمی کام میرے مد نظر ہیں۔
میرا ارادہ ہے کہ اس جماعت کا پہلا دور 24نوجوانوں پر مشتمل ہوکیونکہ کام کے لحاظ سے اس سے کم میں ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتااس کیلئے میں عنقریب تحریک کرنے والا ہوں بلکہ اس خطبہ کے ذریعہ میں تحریک کردیتاہوں کہ جو نوجوان گریجوایٹ ہوں یا مولوی فاضل وہ اپنی زندگی خدمتِ دین کے لئے وقف کرنے کے ارادہ سے میرے سامنے اپنے نام پیش کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو بھی گریجوایٹ یا مولوی فاضل ہو گا اسے ہم بہر حال لے لیں گے کیونکہ انتخاب ہماری مرضی پر ہے۔ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ان کا تقویٰ کیساہے،خدمت دین کا جذبہ کس حد تک ہے،علم کیسا ہے،صحت کیسی ہے،ان کے حالات کس قسم کے ہیںاورآیا جو کام ہمارے مدِّ نظر ہے اسے وہ خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکتے ہیںیا نہیں۔غرض تمام باتیں دیکھنی پڑیں گی اوراس طرح انتخاب کا معاملہ کُلّیۃًہماری مرضی پر منحصر ہوگا لیکن لئے وہی جائیں گے جو یا تو گریجوایٹ ہو ں یا مولوی فاضل ہوں۔اس طرح وہ لوگ بھی لئے جا سکیں گے جو دوسرے فنون کے گریجوایٹ ہوں۔مثلاََ ایک ڈاکٹر ہے وہ خواہ، بی۔اے نہ ہولیکن اسے گریجوایٹ ہی سمجھا جائے گا۔میرا منشاء یہ ہے کہ ان میں سے بعض کو مرکز کے علاو ہ باہر بھجوا کر اعلیٰ تعلیم دلوائی جائے اور علمی اور عملی لحاظ سے اس پایہ کے نوجوان تیار کئے جائیں جو تبلیغ، تعلیم اور تربیت کے کام میں دنیا کے بہترین نوجوانوں کا مقابلہ کرسکیںبلکہ ا ن سے فائق ہوں۔ صرف انہیں مذہبی تعلیم ہی دینا میرے مدنظر نہیںبلکہ میرا منشاء ہے کہ انہیں ہر قسم کی دنیوی معلومات بہم پہنچائی جائیں اوردنیا کے تمام علوم انہیں سکھائے جائیں تا دنیا کے ہر کام کو سنبھالنے کی اہلیت ان کے اندر پیدا ہوجائے۔ان نوجوانوں کے متعلق میری سکیم جیسا کہ میںگزشتہ مجلس شوریٰ کے موقع پر بیان کرچکا ہوں یہ ہے کہ اُنہیں یورپین ممالک میں بھیج کر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائی جائے اور جب یہ ہر قسم کے علوم میں ماہر ہو جائیں تو انہیں تنخواہیں نہ دی جائیں بلکہ صرف گزارے دیئے جائیں اوران کے گزارہ کی رقم کا انحصار علمی قابلیت کی بجائے گھر کے آدمیوں پر ہوجیسا کہ صحابہ ؓ کے زمانہ میں ہؤا کرتا تھا اوریوں انتظام ہو کہ جس کی بیوی ہوئی یا بچے ہوئے اسے زیادہ الاؤنس دے دیااور جس کے بیوی، بچے نہ ہوئے اُسے کم گزارہ دے دیا یا کسی نوجوان کی شادی ہونے لگی تو اسے تھوڑی سی امداد دے دی۔ یہ نہیں ہو گا کہ چونکہ فلاں ولایت سے پاس شدہ ہے اس لئے اسے زیادہ تنخواہ دی جائے ا ور فلاں چونکہ ولایت کا پاس شدہ نہیں اس لئے اسے کم تنخواہ دے دی جائے۔سب کو یکساں گزارے ملیں گے خواہ کوئی ولایت کا پاس شدہ ہو یا یہاں کا۔ہاں گزارے میں زیادتی شادی ہونے پر یا بچے پیدا ہو نے پر ہو سکے گی۔مثلاََاگر ایک ولایت کا پاس شدہ نوجوان بھی ہمارے پاس ہو گاتو ہم اسے پندرہ روپے ہی دیں گے اس کے مقابلہ میںاگر کوئی ایسا ہے جو ولایت کاپاس شدہ نہیں تو اسے بھی پندرہ روپے ہی ملیںگے۔ہاں اگر شادی ہو جائے اورپھر بچے پیدا ہونے لگ جائیں تواس صورت میںاس گزارہ میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہو تا رہے گاکیونکہ بچوں نے تو کھانا ہے مگر علم نے نہیں کھانا۔میں نے دیکھاہے کہ اگراس لحاظ سے تقسیم کی جائے تو دولت مند غریب ہو جاتے ہیں اور غریب دولت مند۔بعض لوگ صرف میاں بیوی ہو تے ہیںان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہو تی لیکن وہ پچاس روپیہ ماہوارکما رہے ہو تے ہیں۔اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص ہو تا ہے اسکے آٹھ بچے ہوتے ہیں اوروہ سَوروپیہ ماہوارکماتا ہے۔اب پچاس روپے والا یہ نہیں دیکھے گاکہ مجھے پچاس روپے ملتے ہیں اورہم کھانے والے صرف دو میاں بیوی ہیں اوراسے گو سو روپیہ ملتے ہیںمگر اس کے گھر کھانے والے دس افراد ہیں بلکہ وہ پچاس اورسو کودیکھ کر شورمچانے لگ جائے گاکہ غریبوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیںامیروں کو سب پوچھتے ہیں حالانکہ یہ پچاس روپے کما کر۲۵روپے خود رکھتا اور ۲۵روپے اپنی بیوی کو دیتاہے اورسو روپیہ کمانے والا ہر ایک کو دس دس روپے دیتا ہے بلکہ یہ ۲۵روپے لے کر بھی اپنے آپ کو غریب کہتا ہے اوردوسرے کو باوجو د دس روپیہ کی آمد کے امیر قرار دیتا ہے اوراسکی زبان یہ کہتے ہوئے گِھس جاتی ہے کہ غریبوں کو کوئی نہیں پوچھتا امیروں کو ہی سب پوچھتے ہیں۔تو میں نے تحریک جدید میں یہ اصل رکھا ہے کہ علم پر گزارہ مقرر نہ کیاجائے بلکہ کھانے پینے والوں کی تعداد کو دیکھ کر گزارہ مقررکیا جائے۔
میں نے تحریک جدیدکے ماتحت جو گزارے کے نئے اصول مقرر کئے ہیں وہ جیساکہ میں بتا چکا ہوں اسی اصل کے ماتحت ہیں۔میں نے ہدایت دے دی ہے کہ اگر کوئی مجردہوتو اسے اتنے روپے دیئے جائیں گے،شادی ہو جائے تو اتنے اوربچے پیدا ہو جائیں تو فی بچہ اتنا الاؤنس بڑھایا جائے اوراگر کسی کے بچے نہ ہو ں خواہ وہ کتنا ہی تعلیم یافتہ کیوںنہ ہووہ ہم سے اس شخص کی نسبت کم ہی گزارہ لے گاجو گو اتنا تعلیم یا فتہ نہیں مگراس کے بچے زیادہ ہیں اس لئے کہ اس کے کھانے والے کم ہیںاوراُس کے کھانے والے زیادہ اور اگر ہم اس کے گزارہ میں ترقی کریں گے تو اسی حساب سے۔مثلاََفرض کرو ہم نے تین روپیہ فی بچہ گزارہ مقرر کیا ہؤا ہے۔ اب جب بھی ہم کسی کا گزارہ بڑھائیں گے اسی اصل پر بڑھائیں گے کہ فی بچہ اتنے روپے زائد کردو یہ نہیں کہ یونہی سالوں کی زیادتی پرر قمیںبڑھاتے چلے جائیں۔تو میری غرض یہ ہے کہ میںتحریک جدید کے واقفین کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلاؤںوہ اپنی زندگی خدمت دین کیلئے وقف کریں اورہم اس قربانی کے معاوضہ میں انہیں وہ تعلیم دلائیں جو ان کا سارا خاندان مل کر بھی انہیں تعلیم نہیںدلا سکتا۔گویا ان کا معاوضہ انہیں روپیہ کی صور ت میں نہیں بلکہ تعلیم کی صورت میں ملے لیکن تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ہم سے وہی گزارہ لیں جو اس وقت لے رہے ہیں اوراس میں زیادتی انہی اصول پر ہو جو میں نے بیان کئے ہیں۔ان نوجوانوں میں بعض اچھے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہیں وہ اگر ا پنی زندگی وقف نہ کرتے اوریو ں کو شش کرتے تو انہیں اچھی اچھی ملازمتیں مل جاتیں۔پس چونکہ انہو ں نے ایک قربانی کی ہے اس لئے میری تجویز ہے کہ انہیں ایسی اعلیٰ تعلیم دلاؤں کہ نہ صرف دینی طور پر بلکہ دنیوی طور پر بھی وہ ہر جگہ عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جائیں۔اگر مالی لحاظ سے وہ غریب ہوں تو علم اورعقل اورتجربہ کے لحاظ سے اتنی دولت ان کے پاس ہو کہ وہ کسی جگہ ذلیل نہ ہوسکیں۔اگر کسی انسان کے پاس نہ تو علم ہو اورنہ دولت ہو تو وہ ذلیل ہو جاتاہے لیکن اگران میں سے اگر ایک چیز بھی ہو تو کسی جگہ وہ ذلت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔پس میں نہیں چاہتا کہ تحریک جدید کے واقفین ذلیل ہوں۔ میں یہی چاہتا ہوں کہ انہیں عزت حاصل ہو مگر ان کی عزت دولت کی وجہ سے نہ ہوبلکہ علم کی وجہ سے ہو اورانہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ مقام حاصل ہو کہ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا دولت مند بھی انہیں ذلیل نہ سمجھ سکے۔
میری کوشش یہ ہے کہ اس دور میں سو واقفین زندگی تیا ر ہو جائیں جو علا وہ مذہبی علم رکھنے کے ظاہر ی علوم کے بھی ماہر اورسلسلہ کے تمام کاموں کوحزم اور احتیاط سے کرنے والے اورقربانی و ایثار کا نمونہ دکھانے والے ہو ں۔اس غرض کے لئے تعلیمی اخراجات کے علاوہ ہمیں ان لو گوں کو گزارے بھی دینے پڑیں گے اوریہ گزارہ پندرہ روپے فی کس مقرر ہے۔اگر ا یک گریجوایٹ بھی ہو تو اسے بھی ہم پندرہ روپے ہی دیتے ہیں زیادہ نہیں اوریہ اتناقلیل گزارہ ہے کہ بعض یتامیٰ اور مساکین کے وظائف اس کے لگ بھگ ہیں مگر باوجو د اس کے کہ گزارہ انہیں اتنا تھوڑا دیا جاتا ہے جتنا بعض یتامیٰ اور مساکین کو بھی ملتا ہے وہ کام بھی کرتے ہیں اورانہو ں نے اپنی تمام زندگی خدمت دین کیلئے وقف کی ہو ئی ہے۔سر دست ہمارا قانون یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی کی شادی ہو جائے تو اسے بیس روپے دیئے جائیں اور پھر بچے پیدا ہو ں تو فی بچہ تین روپے زیادہ کئے جائیںاوراسی طرح چار بچوں تک یہی نسبت قائم رہے گویا ان کے گزارہ کی آخری حد بتیس روپے ہے مگر یہ بھی اس وقت ملیں گے جب ا ن کے گھروں میں چھ کھانے والے ہو جائیں گے۔ میںسمجھتا ہو ںکہ یہ گزارہ کم ہے اسی طرح بچوں کی حد بندی کرنی بھی درست نہیں اوراسے جلد سے جلد دور کرنا چاہئے۔مگر فی الحال ہماری مالی حالت چونکہ اس سے زیادہ گزارہ دینے کی متحمل نہیں اس لئے ہم اس سے زیادہ گزارہ نہیں دے سکتے اورانہوں نے بھی خوشی سے اس گزارہ کو قبول کیا ہے۔
میں سمجھتا ہو ں کہ بیوی کے لحاظ سے بھی پانچ روپے الاؤنس کم ہے اوراسے بڑھانے کی ضرورت ہے بچوں کے لحاظ سے بھی فی بچہ تین روپیہ گزارہ تھوڑا ہے اور اس میں زیادتی ہو نی چاہئے مگر یہ سب کچھ مالی حالت کے سدھرنے پر موقوف ہے۔اسی طرح میں یہ بھی سمجھتاہوں کہ بچوں کی حد بندی کرنی بھی درست نہیں کیونکہ نسل کا بڑھنا قومی لحاظ سے مفید ہو تا ہے لیکن بہرحال ابھی مالی دقتوں کی وجہ سے ہر عورت کے پانچ روپے اور فی بچہ تین روپے ہی مقرر کر سکے ہیں لیکن اگر ہم کسی وقت اس میں زیادتی بھی کریں تو میں سمجھتاہو ں کہ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ کے لئے شاید ہمیں پچاس روپیہ سے زائد گزارہ مقرر نہیں کرنا پڑے گا حالانکہ جس قسم کی اعلیٰ تعلیم میں اُ نہیں دلانا چاہتا ہوں اس کے بعد اگر یہ کہیں ملازمت کرلیں تو تین چار سو روپیہ ماہوار سے ان کی تنخواہ شروع ہولیکن پھر بھی خواہ ہم انہیں کس قدر قلیل گزارہ دیںجو کام یہ لوگ کریں گے آخر وہ روپیہ کا محتاج ہے۔
ہم سے صدر انجمن احمدیہ کے کاموں میں یہ غلطی ہو ئی ہے کہ عملہ کا بل سائر سے زیادہ ہو گیا ہے یعنی صدر انجمن احمدیہ کے کارکنان کی تنخواہوں کا بجٹ سائر کے بجٹ سے بہت زیادہ ہے حالانکہ کام کو مفید بنانے کے لئے ضروری ہو تا ہے کہ سائر کا بجٹ تنخواہوں سے کئی گُنا زیادہ ہو۔شاید یہ مجبوری تھی لیکن اس غلطی سے تحریک جدیدکے کام میں اجتناب ضروری ہے اور میراارادہ ہے کہ تحریک جدید کو اس رنگ میں چلایا جائے کہ اس کے سائر کا بجٹ زیادہ ہو اورکارکنان کے گزارہ کا بجٹ کم ہو۔میر ااپنا اندازہ یہ ہے کہ سائر کا بجٹ کئی گنے زیادہ ہو نا چاہئے،کم ازکم تین گنا ضرور ہو نا چاہئے۔یعنی اگر سوروپے پاس ہوں تو ان میں سے پچیس روپے آدمیوں پر خرچ ہونے چاہئیں اور۷۵روپے اشاعت لٹریچر اورکرایوں وغیرہ پر۔اگر اس طریق کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو کئی قسم کی قباحتیں پید ا ہو سکتی ہیں۔مثلاََ اگر لٹریچر موجود نہیں، کرایہ کیلئے کوئی رقم پاس نہیں، اشتہارات چھپوانے کیلئے کوئی روپیہ پاس نہیں،کہیں دواخانے وغیر ہ کھولنے کیلئے مالی گنجائش نہیں تو صرف آدمیوں کو ہم نے کیا کرنا ہے۔وہ تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں گے اورجو کام ہے وہ رُکا رہے گا۔پس ضروری ہے کہ جو خرچ آدمیوں پر ہو اس سے کئی گنے زیادہ اشاعت وغیرہ کے اخراجات کیلئے روپیہ ہو۔مثلاََ اشتہارات چھپوانے کیلئے،لٹریچر کی اشاعت کیلئے،دواخانے کھولنے کیلئے،آمد ورفت کے کرایوں کیلئے،مدرسوں کے اجراء کیلئے،غریب بچوں کو کتابیں مہیا کرکے دینے کیلئے اوراسی طرح کے اوربہت سے کاموں کیلئے۔فرض کروہم کسی جگہ مدرسہ کھولتے ہیں وہاں تمام لڑکے غریب ہیں۔اب سکول چلانے کیلئے ضروری ہو گا کہ بچوں کو کتب اوردوسرا سامان بھی دیا جائے۔ورنہ خالی مدرِّس بیٹھا ہؤ ا وہاں کیا کرسکتاہے۔پس میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر آدمیوں کی تنخواہوں پر۲۵روپے خرچ ہؤا کریں تو سائر کیلئے ۷۵روپے ہو نے چاہئیں اوریہ کم سے کم اندازہ ہے اورمیری کوشش ہے کہ اسی اصل پر تحریک جدید کے کام کو منظم کیا جائے۔پس اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ نوجوان جو بغیر روپیہ کے کام کرنے کو تیار ہوں وہ اپنی زندگیاں وقف کریں۔اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے بعض نوجوان ہمیں ایسی ہی روح رکھنے والے دیئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان واقفین زندگی میں ایک وکیل ہیں،ان کے والد کئی مربعوں کے مالک ہیں اوروہ اپنے علاقہ کے رئیس اورمرکزی اسمبلی کے ووٹروں میں سے ہیں،وہ شادی شدہ ہیں مگر ہم انہیں بیس روپے ہی دیتے ہیں اوروہ خوشی سے اسے قبول کرتے ہیںحالانکہ زمیندارہونے کی وجہ سے اوراس وجہ سے کہ اپنے علاقہ میں انہیں اچھا رسوخ حاصل ہے اگر وہ وکالت کرتے تو سو ڈیڑھ سو روپیہ ضرور کما لیتے۔ بلکہ ہوشیار آدمی تو آجکل کے گرے ہو ئے زمانہ میں بھی دو اڑھائی سو روپیہ کمالیتاہے لیکن انہوں نے اپنے آپ کو وقف کیااورقلیل گزارے پر ہی وقف کیااورمیں تو اس قسم کے وقف کو بغیر روپیہ کے کام کرنا ہی قراردیتا ہوں کیونکہ جو کچھ ہماری طرف سے دیا جاتاہے وہ نہ دیئے جانے کے برابر ہے۔ اسی طرح اورکئی گریجوایٹ ہیں جو اپنی ذہانت کی وجہ سے اگر باہر کہیں کام کرتے تو بہت زیادہ کما لیتے مگر ان سب نے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی وقف کی ہے۔پس گو تحریک جدید کے واقفین ایک قلیل گزارہ لے رہے ہیں مگر عقلاََ انہیں بغیر گزارہ کے ہی کام کرنے والے سمجھنا چاہئے کیونکہ ان کے گزارے انکی لیاقتوں اورضرورتوں سے بہت کم ہیں۔مگر جیسا کہ میں بتاچکا ہوں کہ اگر بغیر گزارہ کے کام کرنے والے آدمی بھی ہمیں ملیںتو بھی اس کام کیلئے جو ان سے لیا جانا ہے سرمایہ کی ضرورت ہے۔کچھ ان کے قلیل گزارہ کیلئے اورکچھ غیر ممالک میںتبلیغ اسلام اورلٹریچر وغیر ہ کی اشاعت کیلئے۔اگر ہماری جماعت کے آدمی کتابیں نہیںلکھتے یا اگر لکھتے ہیںتو شائع نہیں ہوتیںتو محض ا س لئے کہ روپیہ نہیں ہو تا۔پس میرامنشاء یہ ہے کہ جہاں نوجوان بغیر روپیہ کے کام کرنے والے ہو ں وہاں روزمرہ کے کاموںکیلئے روپیہ کا ایک ریزرو فنڈجائیداد کی صورت میںہو تا۔ اگر کسی وقت جماعت سے چندہ نہ ملے یا چندہ لیا نہ جاسکے توتبلیغ کے کام میںکوئی رکاوٹ پیدا نہ ہواورمستقل آمد ایسی ہو جس سے تمام کام بخوبی چلتاچلا جائے۔
مَیں نے ا ٓج سے کچھ سال پہلے پچیس لاکھ ریزروفنڈ کی تحریک کی تھی مگر وہ تو ایسا خواب رہا جو تشنہ تعبیر ہی رہا مگر اللہ تعالیٰ نے تحریک جدید کے ذریعہ اب پھر ایسے ریزرو فنڈ کے جمع کرنے کا موقع بہم پہنچا یا ہے اورایسی جائیدادوںپر یہ روپیہ لگایاجاچکاہے اورلگایاجارہاہے جس کی مستقل آمدپچیس تیس ہزارروپیہ سالانہ ہو سکتی ہے تاتبلیغ کے کام کو بجٹ کی کمی کی وجہ سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔
اگر ہم سَو واقفین رکھیں جو میرا مقصود ہے اورجن کو میںدوسرے دور میں تیارکرنا چاہتا ہوں اوران میں سے ہر ایک کے اخراجات کی اوسط پچاس روپیہ ماہوار رکھیں تو پانچ ہزارروپیہ ماہوار اورساٹھ ہزارروپیہ سالانہ بنتاہے مگر یہ عملہ کاخرچ ہے اورمیں بتا چکا ہو ں کہ سائر کے اخراجات کم از کم تین گنے زیادہ ہو نے چاہئیں جو لٹریچر کی مفت تقسیم یا دواؤں کی مفت تقسیم یا سفر خرچ وغیرہ پر خرچ ہونا چاہئے۔اس لحاظ سے دو لاکھ چالیس ہزار روپیہ بنتا ہے جس کی سالانہ ہمیںضرورت ہوگی گوسردست یہ ایک واہمہ اور خیال ہے مگر جس رنگ میں تحریک جدید کے سرمایہ سے مستقل جائیدادیں تیار ہورہی ہیںاس سے تیس چالیس ہزار روپیہ سالانہ تک آمدہو سکتی ہے بلکہ انشاء اللہ اس سے بھی زیادہ اورچونکہ اگر ۲۴نوجوان ہوں تو ان کے لحاظ سے ساٹھ ہزار روپیہ کا سالانہ بجٹ بن جاتا ہے اس لئے ۲۴نوجوانوں کے اخراجات کا بجٹ قریباََ قریباََ اس جائیداد سے پو را ہو سکتاہے اورچونکہ دورِ ثانی میں ابھی چھ سال باقی ہیںاس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کو شش کرے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے آسانی کے ساتھ ایسی جائیدادیں پیدا کی جاسکتی ہیں جن سے تبلیغ کاکام بسہولت ہوتا رہے اوراس کیلئے بعدمیںکسی خاص جدوجہد کی ضرورت نہ رہے۔مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ جماعت اپنی قربانی کو اس اعلیٰ معیارپر قائم رکھے جو گزشتہ سالوںمیں اس نے قائم کیا تھابلکہ کوشش کرے کہ پہلے معیار سے بھی وہ آگے بڑھ جائے۔دنیامیں لوگ کنوئیں کھدواتے ہیں، سرائیںبنواتے ہیں اورکوشش کرتے ہیںکہ ان کانام باقی رہے۔وہ بالکل بے دین ہوتے ہیں مگر ان کے دل میںیہ جذبہ ہو تاہے کہ ہمارا نام کسی طرح باقی رہے لیکن کنوؤں اورسراؤں کی کیا حیثیت ہوتی ہے پچاس، ساٹھ یا سوسال کے بعد ویران اور غیر آباد ہو جاتے ہیں،لیکن اس کے مقابلہ میںتحریک جدید کا دورِ ثانی مستقل صدقے کاکام ہے اورجو لوگ اس میں حصہ لیں گے وہ اس تبلیغ دین کے ذریعہ جو، ان کے روپیہ سے ہو تی رہے گی اپنی موت کے ہزاروں سال بعد بھی ثواب حاصل کرتے چلے جائیںگے۔دنیا میں حالات بدلتے رہتے ہیں اورعام طور پر جو وقف ہوتے ہیں وہ بھی دودو،تین تین، چار چارسو سال سے زیادہ دیر تک نہیں رہتے۔لوگ کنوئیں کھدواتے ہیں تووہ پچاس،ساٹھ یا سوسال کے بعد ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں لیکن دینی جماعتوں کاوقف اس سے بہت زیادہ لمبے عرصہ تک قائم رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے عیسائیوںسے ہمیں بہت بہتر مقام عطا فرمایا ہے کیونکہ ان کے مسیح سے ہمارا مسیح اپنی ہر شان میں بلند اوربالا ہے لیکن عیسائیوں کے بعض وقف بھی ہزار سال سے چلے آتے ہیں۔پس اگر عیسائیوں کے بعض وقف ہزار ہزار سال تک قائم رہ سکتے ہیں تو کیا تعجب ہے کہ تمہارا وقف ڈیڑھ ہزار یا دو ہزار سال تک قائم رہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے مسیح پر فضیلت دی ہے۔اب خودہی غور کروکہ یہ کتنا عظیم الشان ثواب کا موقع ہے جو تمہارے سامنے ہے۔تم تحریک جدیدکے دورِ ثانی میں غالباََ چھ سال تک اَور مالی قربانی کرو گے مگر سینکڑوں ہزاروں سال تک انشاء اللہ تمہارے روپیہ سے تبلیغِ اسلام ہوتی رہے گی اورتمہارے مرنے کے بعد بھی تمہیں ثواب پہنچتارہے گا۔میں کہتا ہوںکہ ہزاروں سال کو جانے دو اگر سو، دو سو سال تک بھی تمہیں مستقل ثواب پہنچتا چلاجائے تو یہ کتنی عظیم الشا ن کامیابی ہے اوراس کامیابی کے مقابلہ میں دس سا ل کی قربانی کی حقیقت ہی کیا ہے۔
مَیں نے گزشتہ سال کہا تھا کہ تحریک جدید کے دورِ اول کے پہلے سال میں جس نے جس قدر چندہ دیا ہو وہ اگر چاہے تو اسی قدر چندہ دورِ ثانی کے پہلے سال دے سکتاہے اورپھر ہر سال اسے اپنے چندہ میں دس فیصدی کمی کرنے کی اجازت ہے۔میں آج دورِ ثانی کے سال دوم کے چندہ کی تحریک کا اعلان کرتے ہو ئے پھر ا س بات کو دُہر ا دیتا ہوں کہ عام قانون یہی ہے کہ دوستوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ پچھلے سال انہوں نے تحریک جدیدمیں جس قدرچندہ دیا تھا اس سال اگر چاہیں توا س سے دس فیصدی کم چندہ دے دیں،یعنی اگر کسی نے سوروپے دیئے تھے تو وہ نوے روپے دے سکتا ہے،ہزار روپے دیئے تھے تو نو سو روپے دے سکتا ہے،پچاس روپے دیئے تھے تو ۴۵روپے دے سکتا ہے،۲۰روپے دیئے تھے تو ۱۸ روپے دے سکتاہے اوردس روپے دیئے تھے تو نو روپے دے سکتاہے لیکن میں اس کے ساتھ یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ جو شخص توفیق کے ہوتے ہوئے اپنے چندہ میں کمی کرتا ہے وہ اپنے ایمان کو اپنے ہاتھوں نقصان پہنچاتا ہے۔یہ اجازت جو مَیں نے دی ہے یہ صرف اس لئے ہے کہ میں جانتا ہوں کہ ابتداء میں بعض لو گوں نے جوش میں آکر اپنی طاقت سے بہت زیادہ چندہ دے دیا تھا۔پس ان کے لئے بغیر اس کمی کے چارہ نہیں اورانکے لئے بھی یہ کمی اس لئے ہے تا پہلے سالوں سے کم چندہ دینے کی وجہ سے ان کا دل میلا نہ ہو اوروہ کہہ سکیں کہ گو ہمیں مالی مشکلات درپیش ہیں مگر پھر بھی قانون کے اندر رہتے ہو ئے ہم نے مالی قربانی میں حصہ لے لیا ہے۔بے شک تم کہہ سکتے ہو کہ اگرایک شخص مجبوراورمعذورہے اوراس نے ا پنی معذوری کی وجہ سے تحریک میں پہلے جتنا حصہ نہیں لیا تواس میں کیا حرج ہے مگر تم ا س سے انکارنہیں کر سکتے کہ اگر اس کی اجازت میں قانون کے رنگ میں نہ دوں تو اس کا دل ضرور میلا ہو گا اور وہ کہے گا کہ افسوس کہ میں پہلے جتنا حصہ اب کی دفعہ نہ لے سکا۔پس میری غرض اس کمی سے یہ ہے کہ اگر کوئی واقع میں مجبور ہواوراپنی مجبوری کی وجہ سے پہلے جتنا حصہ نہ لے سکتاہوتو اس کا دل بھی میلا نہ ہو اوروہ یہ نہ کہے کہ افسوس میں اتنی قربانی نہیں کرسکابلکہ وہ پھر بھی خوش ہو اورکہے کہ باوجود مجبوری کے میں نے اس قدر قربانی کر لی ہے جس قدر قربانی کا سلسلہ نے مجھ سے مطالبہ کیا تھا۔پس یہ صرف دل کے میلا نہ ہو نے کیلئے میں نے شرط رکھی ہے ورنہ میرا ارادہ یہی ہے کہ ہر سال میں اپنا چندہ کچھ نہ کچھ بڑھاتا چلا جاؤں اورکئی دوسرے دوست بھی ہیں جنہوں نے ہر سال اپنا چندہ بڑھایا ہی ہے گھٹایانہیں۔
پس مجھے چندہ میں دس فیصدی کمی کی اجازت دینے کا قانون بنانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ لو گ جنہوں نے پہلے سال جو ش میں بہت کچھ چندہ دے دیا تھا حتّٰی کہ اپنی طاقت سے بھی زیادہ دے دیا تھا ان کے دل بھی میلے نہ ہو ں یا وہ لوگ جن کی مالی حالت بعد میں واقع میں کمزورہو گئی ہے ان کا دل بھی میلا نہ ہو ورنہ میں جانتاہوں کہ جماعت کا ایک حصہ ایسا ہے جس نے ہر سال اپنے چندہ میں زیادتی کی ہے۔
اس کے مقابلہ میں وہ لوگ بھی ہیں جنہو ں نے اپنی طاقت سے کم حصہ لیا ہے۔میں اس موقع پر ان تمام لوگوں کو جنہوں نے گزشتہ سالوں میں اپنی طاقت سے کم حصہ لیا تھا،یا ان لو گوں کو جو اپنی قربانی کے سابقہ معیار کو قائم رکھ سکتے ہیں اوراسی طرح ان لو گوں کو جو اپنی قربانی کے معیار کو بڑھا سکتے ہیں کہتا ہوں کہ تم میں سے وہ جنہو ں نے گزشتہ سالوں میں اپنی طاقت سے کم حصہ لیا تھا وہ اپنی سُستی کا ازالہ کریں اورخدا تعالیٰ نے ا ن کے لئے ثواب کا جوایک اَور موقع پیدا کردیا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اوروہ جو اپنی سابقہ قربانیوں کے معیارکو قائم رکھ سکتے ہیں وہ اپنے معیار کو قائم رکھیں اورجو ا س معیار کو بڑھا کر زیادہ قربانی کرسکتے ہیں وہ زیادہ قربانی کریں۔اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب کی کمی نہیںاگر تم زیادہ قربانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ سے زیادہ اجر پاؤ گے اوراگر کم قربانی کرو گے تو بالکل ممکن ہے کہ قیامت کے دن تم جو اپنے آپ کو ایم۔اے سمجھ رہے ہو انٹرنس پاس ثابت ہو اورایک انٹرنس پاس خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایم۔ اے ثابت ہو۔پس وہ لو گ جنہوں نے کمزور ی دکھائی تھی ان کیلئے ا س بات کاموقع ہے کہ وہ اپنی پچھلی کمزوریوں کا اس رنگ میں کفارہ ادا کریںکہ تحریک جدید کے اس سال میں پہلے سالوں سے زیادہ حصہ لیں تا خداتعالیٰ کے حضور ان لوگوں کا نام کمزور لو گوں میں نہ لکھاجائے بلکہ ان لوگوں میں لکھاجائے جنہوں نے اس کے دین کے جھنڈا کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ بلند رکھا۔
اس کے مقابلہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی مالی حالت خدا تعالیٰ نے پہلے سے زیادہ مضبوط کردی ہے۔آج سے چارسال پہلے ان کی حالت سخت کمزورتھی مگرآج خدا تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتوں سے مالا مال کیا ہؤا ہے ایسے لوگوں کی یہ بے وقوفی ہوگی اگروہ ا پنے چندوں میں کمی کریں۔جب خدا تعالیٰ نے ان سے خاص سلوک کیا ہے تو ان کا بھی فرض ہے کہ وہ خاص جواب دیں۔پس وہ لوگ جن کی مالی حالت کو اللہ تعالیٰ نے مضبوط بنایا ہے ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اورانہیں اپنے چندہ میں کمی کرنے کی بجائے اسے بڑھاتے چلے جانا چاہئے اوروہ جن کی مالی حالت تو اللہ تعالیٰ نے اچھی رکھی ہو مگر وہ چندے کو بڑھا نہ سکتے ہوں انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے معیار کو قائم رکھیں۔ پس گو قا نون یہی ہے کہ چندہ میں ہر سال دس فیصدی کمی کی اجازت ہے مگراس سے فائدہ اس کواٹھانا چاہئے جو واقع میں معذور اورمجبور ہواورجوواقع میں مجبوراور معذور نہ ہو اسے اس سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے۔میں نے خود گزشتہ سال پہلے سالوں سے زیادہ چندہ دیاتھااورباوجود سخت مقروض ہو نے کے اب بھی زیادہ ہی دینے کا ارادہ ہے اوربھی کئی دوست ہیں جنہوں نے پہلے سالوں سے زیادہ چندہ پیش کر دیا ہے اوربعض مخلصین نے تو ایسانمونہ دکھایا ہے کہ ان پر رشک آتا ہے۔ایک دوست ہیں وہ اپنی ملازمت سے ریٹائرہوئے توانہیں گورنمنٹ کی طرف سے پراویڈنٹ فنڈ ملا۔وہ اب بوڑھے اور کمزور ہو چکے ہیںاور کوئی تجارت وغیرہ کاکام نہیں کرسکتے،ان کا گزارہ جو کچھ ہے ا سی پراویڈنٹ فنڈپر ہے مگر انہوں نے پراویڈنٹ فنڈ ملتے ہی تحریک جدید کے دوسرے سات سالہ دَور کا چندہ اکٹھا ہی بھجوا دیااورلکھ دیا کہ میری طرف سے یہ دفتر میں بطور امانت رکھ لیا جائے اورہر سال اتنا چندہ تحریک جدید میری طرف سے منتقل کرلیاجایا کرے میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں اورنہ معلوم کب مر جاؤں یا کیا خبر ہے پھر چندہ دینے کی توفیق ملے نہ ملے اسلئے میں آئندہ سات سال کا چندہ اکٹھا بھجوا دیتاہوں۔ یہ کیسا اعلیٰ درجہ کااخلاص اورکس قدر خوش کن نمونہ ہے۔جماعت کے دوست ایسے لوگوں پر جس قدر فخرکریں کم ہے۔اسی طرح اورکئی دوست ہیں جنہوں نے گو سات سال کا نہیں مگر دو دو تین تین سال کا چندہ اکٹھا جمع کرا دیا ہے کہ ممکن ہے مالی لحاظ سے ہم پر کوئی کمزوری آجائے اورہم اس ثواب میں شریک ہونے سے محروم رہیں اس لئے بہتر ہے کہ ابھی سے آئندہ سالوں کا چندہ بھی جمع کرا دیا جائے۔یہی وہ لوگ ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۲؎یہ کام ایسا شاندار ہے کہ میں سمجھتاہوں جو لوگ ا س تحریک کو کامیاب بنانے میں مدد دیں گے ان کا نام اللہ تعالیٰ خاص لو گوں میں لکھے گا کیونکہ اس چندے میں جن لوگوں نے بھی حصہ لیاہے ان کے چندوں سے اشاعت اسلام کے لئے ایک مستقل ریزروفنڈ قائم کیا جائے گا۔پس اس کیلئے جتنی قربانی کی جائے تھوڑی ہے اورجس قدرثوا ب کی امید رکھی جائے وہ بھی تھوڑی ہے۔
میں سمجھتا ہو ں کہ تحریک جدید کا کام ان مستقل تحریکات میں سے ہے جن میں حصہ لینے والے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اسی طرح مستحق ہوں گے جس طرح بدرکی جنگ میںشریک ہونے والے صحابہؓ اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کے مورد ہوئے۔جنگ بدرمیں جو صحابہ ؓ شامل ہوئے تھے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فرمایا تھا کہ اِعْمَلُوْامَا شِئْتُمْ فَاِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔۳؎یعنی جو جی میں آئے کرو میں نے تم کو معاف کردیا۔اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اب تمہارے لئے چوری، ڈاکہ اور شراب اوردوسرے ناروا افعال سب جائز ہو گئے ہیں بلکہ یہ مطلب تھا کہ تم نے ایک ایسی نیکی میں حصہ لیا ہے کہ اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ خود تمہارے اعمال کا ذمہ دار ہو گیاہے اوروہ تمہیں ہر قسم کے بُرے انجام سے محفوظ رکھے گا۔انہی بدری صحابہ میں سے ایک دفعہ ایک صحابی سے ایک سخت غلطی ہوگئی۔انہوں نے مکہ والوں کو یہ خبر لکھ دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چڑھائی کرتے ہوئے آرہے ہیں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات مخفی رکھنا چاہتے تھے۔آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً اس واقعہ کی خبر دے دی اور وہ رُقعہ جو اس صحابیؓ نے اہل مکہ کی طرف لکھا تھا وہ پکڑا گیا۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ معاملہ پیش ہؤا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ باربار جوش میںاپنی تلوار پر ہاتھ مارتے اور کہتے یارسول اللہ! مجھے اجازت دیںکہ میں اس منافق کا سر کاٹ دوں۔آپؐ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھااور فرمایا عمرؓ! تم کو معلوم ہے یہ بدری صحابی ہے۔اور بدری صحابہؓ کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرما چکاہے کہ اِعْمَلُوْامَا شِئْتُمْ فَاِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ شاید اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا دل پڑھ کر یہ بات کہی تھی اور بتایا تھاکہ ان سے غلطیاں سر زد ہی نہ ہوں گی۔پس جن کو اللہ تعالیٰ نے بری قرار دیا ہے تم ان کو منافق کس طرح قرار دے سکتے ہو۔اللہ!اللہ۔یہ کس قدر اعلیٰ مقام ہے جس کے لئے مال تو کیا جان دینا بھی انسان پر گراں نہیں گزرتا۔ غرض بعض کام اتنے اہم ہو تے ہیں کہ دنیا میں بطور یادگار قائم رہتے ہیں اورصدیوں تک آنے والی نسلیں اس کا ذکر کئے بغیر نہیں رہتیں۔مثلاً یہی منارۃ المسیح ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ جو لوگ اس میں ایک سو روپیہ چندہ دیں گے ان کے نام اس پر کندہ کئے جائیں گے۔اب وہ لوگ جنہوں نے اس میں حصہ لیاان کے نام دنیا میں ہمیشہ بطور یادگار قائم رہیں گے اور آنے والی نسلیں ان کے لئے دعائیں کرتی رہیں گی۔ اسی طرح بعض ابتدائی جلسوں پر آنے والے مہمانوں کے نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں لکھ دئیے ہیں۔اب خواہ کس قدر صدیاں گزر جائیں ان کے نام ان کتابوں میں موجود رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک جدید کا کام بھی اسی قسم کا ہے اوراللہ تعالیٰ ا س کے ذریعہ جماعت کے مخلصین کی ایک مستقل یادگار قائم کرنا چاہتا ہے اوران کی روحوں کو ان کی وفات کے بعدبھی مستقل طور پر ثواب پہنچانا چاہتاہے کیونکہ اس چندے کے ذریعہ اشاعت اسلام کی ایک مستقل بنیاد پڑنے والی ہے۔پس تحریک جدید اپنے اندراس قسم کی برکات رکھتی ہے اوراس قسم کے انواراترتے محسوس ہو رہے ہیں کہ یہ امر صاف طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ جولوگ اس میں حصہ لیںگے انہیں اللہ تعالیٰ اپنے قرب کا کوئی خاص مقام عطا فرمائے گا۔دو چاردن ہو ئے الفضل میں قاضی اکمل صاحب کا ایک مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک پیشگوئی کے متعلق شائع ہؤا ہے جو تحریک جدید کے ذریعہ پوری ہوئی۔وہ دراصل ایک پرانا کشف ہے جو حضرت مسیح موعود ؑنے دیکھا۔آپ فرماتے ہیں کہ :-
’’ایک دفعہ کشفی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں۔ایک زمین پر اورایک چھت کے قریب۔پہلے میں نے ا س شخص کوجو زمین پر تھامخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے مگر اس نے کوئی جواب نہ دیااوروہ چپ رہا۔پھر میںنے اس دوسرے کی طرف رخ کیا جو چھت کے قریب اورآسمان کی طرف تھا اوراسے میں نے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے۔اس نے کہا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا‘‘۔
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ اس کا یہ جواب سن کر کشفی حالت میں ہی مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ:-
’’ اگرچہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں اگر خداتعالیٰ چاہے تو تھوڑے بُہتوں پر فتح پا سکتے ہیں۔ اُس وقت میں نے کشفی حالت میں ہی یہ آیت پڑھی کہ کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃًکَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اﷲِ۔‘‘۴؎
قاضی صاحب نے لکھاہے کہ اس رؤیا کے متعلق میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ یہ تحریک جدید میں قربانیاں کرنے والوں کے ذریعہ پورا ہو رہا ہے۔چنانچہ میں نے منشی برکت علی صاحب فنانشل سیکرٹری سے پوچھاکہ تحریک جدیدکے چندہ میں حصہ لینے والوں کی کس قدر تعدادہے تو انہوں نے بتایا کہ پانچ ہزار چار سَو بائیس۔چونکہ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ نادہند ہوتے ہیں اس لئے اگر ان کو نکال دیا جائے تو پانچ ہزارہی تعداد بنتی ہے۔علاوہ ازیںکسور بالعموم تعداد میں شمار نہیں کئے جاتے پس پانچ ہزار چار سو دراصل پانچ ہزار ہی ہیں۔لیکن اگرکسور کو بھی شامل کرلیاجائے تو میں نے بتایا ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسے لو گوں کی تعداد بھی ہو تی ہے جو وعدہ تو کرتے ہیں مگر اسے پورا نہیں کرتے، پس ایسے نادہند ہ اگرتعداد میں سے نکال دیئے جائیںتو پانچ ہزار ہی وہ لوگ رہ جاتے ہیں جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا۔مجھے خود بھی دو تین سال ہو ئے یہی خیال آیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی تحریک جدید میں حصہ لینے والوں پر ہی چسپاں ہوتی ہے اوران دنوں مَیں نے چوہدری برکت علی صاحب کو ایک دفعہ بُلا کر پوچھا بھی کہ اس تحریک میں حصہ لینے والوں کی تعداد کتنی ہے تو انہوں نے کہا کہ میں زبانی نہیں بتا سکتا دیکھ کر بتاؤں گا۔میں نے کہا اندازاََ آپ بتائیں کہ کس قدر لو گ ہو نگے۔ انہوں نے اس وقت بتلایا کہ شاید سات ہزار کے قریب ہیں۔ان کے اس جواب سے میرے ذہن میںجو یہ خیال تھا کہ شاید تحریک جدید میںحصہ لینے والے پانچ ہزار ہوں اوراس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ کشف اسی کے متعلق ہوجاتا رہا اور گو ایک حصہ نادہندوں کا بھی ہوتا ہے اور ایک حصہ ایسے لوگوں کا بھی ہوتا ہے جنہیں جس قدر حصہ لینا چاہئے اس قدر وہ حصہ نہیں لیتے او ر ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سپاہیوں میں شامل نہیں کرتا مگر چونکہ انہوں نے جو ظنی تخمینہ بتایا وہ بہت زیادہ تھا اس لئے یہ خیال میرے ذہن سے اتر گیا۔مگر اب قاضی صاحب کے مضمون سے جو اعدادو شمار سے مرتب کیا گیا ہے مجھے وہ پرانا خیال یاد آگیااورمیں سمجھتا ہوں کہ درحقیقت انہی لوگوں کے متعلق یہ کشف ہے اورحقیقت یہ ہے کہ کئی سال سے میرا یہ خیا ل ہے کہ یہی وہ فوج ہے جس کے ملنے کی حضرت مسیح موعود کو خبر دی گئی تھی اوراسی فوج کے ذریعہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اسلام کی فتح کے لئے ایک مستقل اورپائیداربنیاد قائم کردے اوریہ فوج اپنا ایک ایسا نشان چھوڑ جائے جس کے ذریعہ ہمیشہ دنیا میںاسلام کی تبلیغ ہو تی رہے۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ اِدھر’’ الفضل‘‘ میں یہ مضمون شائع ہؤا اورادھر چند دن پہلے میں یہ سوچ رہا تھا کہ تحریک جدیدمیں آخر تک قربانی کرنے والوں کو آئندہ نسلوں کے لئے بطور یادگار بنانے کیلئے کوئی تجویز کروں۔جب یہ کشف میرے سامنے آیا تواس نے میرے اس خیال کو اورزیادہ مضبوط کردیا اورمیں نے چاہا کہ وہ لوگ جو اس تحریک میں آخر تک استقلال کے ساتھ حصہ لیں ان کے ناموں کو محفوظ رکھنے کیلئے اوراس غرض کے لئے کہ آئندہ آنے والی نسلیں ان کے لئے دعائیں کرتی رہیں۔کوئی یادگار قائم کروں۔لوگ اولادکے لئے کتنا تڑپتے ہیں محض اس لئے کہ دنیامیں ان کانام قائم رہے۔میں نے اپنے دل میں کہا کہ وہ جنہوں نے خداتعالیٰ کے دین کے ا حیاء اوراس کے جھنڈے کو بلند رکھنے کیلئے اس تحریک میں حصہ لیا ہے ان کے نام آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ رکھنے کی خاطر کیوں نہ کوئی تجویز کی جائے۔چنانچہ اس کیلئے میں نے ایک نہایت موزوں تجویز سوچی ہے جسے اپنے وقت پر ظاہر کیا جائے گا۔غرض اس مضمون کو پڑھنے کے بعد میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جسے خدانے اپنا لشکرقرار دیاہے اورجس کے ذریعہ اسلام کی فتح کاسامان دنیامیںہونے والا ہے اس جماعت کو کو ن مٹا سکتاہے۔یقیناََکوئی نہیں جو اسے مٹا سکے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ ان پانچ ہزار سپاہیوں کی کوئی مستقل یادگار قائم کریں کیونکہ وہ سب لوگ جو اس جہاد کبیر میں آخر تک ثابت قدم رہیں گے ان کا حق ہے کہ اگلی نسلوں میں ان کا نام عزت سے لیاجائے اور ان کا حق ہے کہ ان کے لئے دعاؤں کا سلسلہ جاری رہے اوراس کیلئے جیسا کہ میں بتاچکا ہوں ایک نہایت موزوں تجویز میںنے سوچ لی ہے۔
پس میں آج اس تمہید کے ساتھ تحریک جدید کے سال پنجم کے چندہ کا اعلان کرتا ہوں۔ دوستوں کو چاہئے کہ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ بننے کی کو شش کریں۔میںنے تحریک جدید کے پانچویں سال کے چندہ کی شرائط بیان کردی ہیں۔میںنے بتایا ہے کہ قانون یہی ہے کہ دس فیصدی پچھلے سال سے کم چندہ دیا جاسکتاہے مگرایک سچے مؤمن کو اس اجازت سے اسی صورت میں فائدہ اٹھانا چاہئے جبکہ وہ واقع میں مجبور اور معذور ہو اوراگر وہ واقع میںمعذور اورمجبورنہیں یا مجبوراورمعذورتو ہے مگراس کاایمان اور اخلاص اسے پیچھے ہٹنے نہیں دیتاتو میںاسے کہوں گا کہ تم کوشش کرو کہ اپنی پہلی جگہ پر کھڑے رہو بلکہ اگر ہو سکے تو آگے بڑھنے کی کوشش کر و۔بے شک اس سال چندوں کی بھر مارہے مگر جو کام ہمارے سامنے ہے وہ بھی بہت بڑا ہے اوروہ اشاعتِ اسلام کے لئے مستقل جائداد کاپیدا کرنا ہے۔جو لوگ اس راستہ میں مشکلات کی پرواہ نہیں کریں گے اورمصیبتوںپر ثابت قدم رہیں گے وہی لو گ ہیںجواپنے عمل سے اس بات کو ثابت کردیںگے کہ وہ آئندہ نسلوں میں عزت کے ساتھ یاد کئے جانے کے مستحق ہیںمجبوریاں سب کیلئے ہو تی ہیں۔اگر ایک شخص پیچھے ہٹے اور دوسرا انہی حالات میں سے گزرتے ہوئے ثابت کر دے کہ اس نے قدم پیچھے نہیںہٹایا تویہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ لو گ جنہوں نے یہ کہا تھا کہ ہم مجبور ہیں انہو ں نے غلط کہا تھا کیونکہ انہی حالات میں دوسروں نے قربانی کی اوروہ کامیاب ہو ئے۔
اس طرح ہر وہ شخص جو نیااحمدی ہؤا ہے اس کو بھی میں توجہ دلاتاہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس پر بہت بڑا فضل کیا ہے کہ اپنے سچے دین کاراستہ اسے دکھادیایا بالفاظِ دیگراس کا خدا اسے مل گیا۔ اب اس پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوچکی ہے اوراس کافرض ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت آـگے بڑھنے کی کوشش کرے بلکہ جو نیا احمدی ہو اسے اس بات کی ا جازت ہے کہ اگر وہ چاہے تو گزشتہ سالوں کے چندہ میںبھی شامل ہو جائے۔پس ہر نئے احمدی سے گزشتہ سالوںکا چندہ بھی قبول کیا جاسکتا ہے۔اس طرح وہ جسے پہلے اس تحریک کا علم نہ تھایا جو پہلے کُلّی طور پر نا دار تھا اس سے پہلے سالوں کا چندہ بھی قبول کیا جاسکتا ہے مثلاََ فرض کرو ایک شخص پہلے طالبعلم تھامگربعد میں ملازم ہوگیایا پہلے بیکار تھامگر بعد میں اسے کوئی ملازمت مل گئی ایسے تمام لوگوں سے پہلے سالوں کا چندہ بھی قبول کرلیاجائے گاکیونکہ پہلے انہوں نے مجبور ی سے اس میں حصہ لینے سے اجتناب کیا تھاجان بوجھ کر حصہ لینے سے انکار نہیں کیا تھا۔ہاں جنہیں گزشتہ سالوں کے چندہ میں شریک ہونے کی توفیق تھی اوروہ ان دنوں بر سر کار بھی تھے مگرانہوں نے جان بوجھ کر حصہ نہیں لیاانہیں اجازت نہیں۔وہ صرف نئے سال میں شامل ہوسکتے ہیںپچھلے سالوں میں نہیں۔
یادرکھو ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے،بہت بڑی مشکلات ہیں جنہیں میںاپنے سامنے دیکھتا ہوں،ایک عظیم الشان جنگ ہے جو شیطان سے لڑی جانے والی ہے۔جو لوگ اس میں حصہ لیں گے وہ ا للہ تعالیٰ کی رضا اورخوشنودی حاصل کریں گے اور جو لوگ حصہ نہیں لیں گے وہ اپنے اعراض سے خدا تعالیٰ کے کام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے کیونکہ یہ خداتعالیٰ کا کام ہے ا ور اس نے بہر حال ہو کر رہنا ہے۔
’’قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا‘‘
پس یہ کام ہو کر رہے گااوراگر تم نہیں کرو تو تمہارا ہمسایہ کرے گااوراگر وہ نہیں کرے گا تو کوئی اور کرے گا،بہرحال غیب سے ا س کی ترقی کے سامان ہو نگے۔پچھلا پچاس سالہ تجربہ تمہارے سامنے ہے دشمن نے لاکھ رکاوٹیں ڈالیں، اس نے کروڑ حیلے کئے،اس نے طعنے بھی دیئے، اس نے گالیاں بھی دیں،اس نے بُر ا بھلا بھی کہا،بڑے بڑے لوگ مخالفت کے لئے بھی اٹھے اورانہوں نے چاہا کہ اس سلسلہ کی ترقی کوروک دیں مگر خدا تعالیٰ کا کام ہوکر رہا اوراس نے الہام کرکے ایسے لوگ کھڑے کردئیے جو اس کے دین کے انصار بنے اور یقینا ا ب بھی ایسا ہی ہوگالیکن میں چاہتا ہوں کہ تم میںسے کوئی کمزورثابت نہ ہوبلکہ تم میں سے ہر شخص اپنے عمل سے ثابت کردے کہ جب امتحان کا وقت آیاتو تم نے اسلام اوراحمدیت کے لئے وہ قربانی کی جس قربانی کا اسلام تم سے مطالبہ کرتا تھا اورتم اپنے ایمان اور اپنے عمل اوراپنی قربانیوں کے لحاظ سے گزشتہ جماعتوں سے پیچھے نہیں رہے بلکہ ان سے آگے بڑھے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کے دوستوں کے دلوں کو کھولے تا و ہ ا س پانچ ہزار سپاہیوں کے لشکر میں شمولیت کا فخر حاصل کرسکیں جس کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ا یک کشف کے ذریعہ دے چکے ہیں۔اَللّٰھُمّ اٰمِیْنَ ۔‘‘
(الفضل۲۴؍نومبر۱۹۳۸ئ)
۱؎ النحل: ۹۳ ۲؎ الاحزاب: ۲۴
۳؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الممتحنۃ
۴؎ تذکرہ صفحہ ۱۷۷، ۱۷۸۔ ایڈیشن چہارم

۳۸
سادہ زندگی کے مطالبہ کی غرض
(فرمودہ ۲۵؍نومبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے تحریک جدید کے سال پنجم کے چندے کے حصہ کے متعلق اعلان کیا تھااورآج میں اُسی کے ساتھ تعلق رکھنے والے ایک اورمطالبہ کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اوروہ سادہ زندگی کا مطالبہ ہے۔سادہ زندگی کا مطالبہ اپنے ا ندردو شِقیںرکھتا ہے،ایک شق تو ا سکی سیاسی مگر سیاسی مذہبی ہے(حکومتوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی سیاست نہیں بلکہ مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والی سیاست مراد ہے۔)ہر تحریک جوکی جاتی ہے وہ کسی نہ کسی قانون کے ماتحت ہوتی ہے اورجس قانون کے ماتحت وہ کام کررہی ہو تی ہے اسے اس کی سیاست کہتے ہیں۔سیاست کے معنی دراصل ایک مکمل نظام اورایسے اصول کے ماتحت کسی چیز کو چلانے کے ہیںجو بدلنے والے حالات کا لحاظ رکھتا چلا جائے۔آج کل لو گوں نے سیاست کے معنی یا تو جھوٹ سمجھ رکھے ہیں یا پھر اس کے معنی حکومت کے سمجھ لئے ہیں اس لئے کئی نادان مخالف ہمارے متعلق بھی یہ کہتے رہتے ہیں کہ دیکھو جی یہ سیاست میں پڑ گئے ہیں حالانکہ دنیا میںکوئی معقول چیز اپنی ذاتی سیاست کے بغیر چل سکتی ہی نہیں ۔کو نسا وہ معقول کام ہے جو بغیر کسی خاص انتظام کے چل سکے اوراسی چیز کا نام سیاست ہے۔حکومتوں کو حکومت کے چلانے کے لئے سیاست کی ضرورت ہو تی ہے، مذاہب کو مذاہب کے چلانے کیلئے،تعلیمی محکموں کو تعلیم کی ترقی کیلئے ایک سیاست کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی طرح ہر محکمہ میں ایک علیحدہ سیاست کی ضرورت ہوتی ہے اوراس وجہ سے جب حکومت کیلئے سیاست کا لفظ بولاجائے تواسکے اَورمعنی ہونگے، مذہب کیلئے اَور، اور تعلیم کیلئے اَور معنے ہوں گے۔ نادان نادانی یا دشمن دشمنی کی وجہ سے اس کے کوئی اورمعنی سمجھ لیتا اورپھر ہم پر اعتراض کرتاہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہر نظام ایک سیاست کامحتاج ہو تاہے اورسیاست کے معنی حکمت کے ہو تے ہیں۔جو نظام کے پیچھے عمل کر رہی ہو تی ہے اوریہ معنی میںآج نہیں کررہابلکہ آج سے سینکڑوں سال پہلے مسلمان علماء نے ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں اس موضوع پر بڑی بڑی بحثیں کی ہیںکہ مذہب میں کس حد تک سیاست کادخل ہوسکتاہے اورہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کتابوں کا مقصد یہ ہے کہ مذہب میں جھوٹ کااستعمال جائز ہے یا یہ کہ حکومت میں مذہب کس طرح دخل دے سکتاہے بلکہ ان کتابوں میں مضمون صرف فقہ کے بیان ہیں اورفقہی بحثوں کے سوا کچھ نہیں حتّٰی کہ امام ابن قیّم نے بھی جو صوفیاء میں بھی اورفقہاء میں بھی چوٹی کے آدمی سمجھے جاتے ہیں اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں لیکن بحث ا ن میں صرف اس قدر ہے کہ فقہ کی بنیاد کن حکمتوں پر ہے اورکس طرح تبدیل ہونے والے حالات کے ماتحت فقہ کے احکام میں بھی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ان باتوں پر بحث کر کے ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام میںسیاست ضروری ہے کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو یکساں ہی چلتاجائے۔مختلف حالات پیش آمدہ کے ماتحت ان کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے اور اسی کو سیاست کہتے ہیں۔نماز کیلئے وضو کا حکم ہے لیکن اگر کوئی بیمارہویا پانی میسر نہ آسکے تو تیمم بھی جائزہے۔ اوراگر نہ پانی مل سکے اورنہ مٹی( ایسے بھی مواقع آسکتے ہیں) تو وہ تیمم کے بغیر ہی نماز پڑھ سکتاہے۔فرض کرو کوئی شخص قید ہے اورکسی نئی بنی ہو ئی کشتی میں سمندر میں اسے لے جایا جارہا ہے تو اسے پانی نہیں مل سکتاکیونکہ بڑی کشتیاں بہت اونچی ہو تی ہیںاوران میں بیٹھ کر سمندر میں وضو نہیں کیا جاسکتااورمٹی بھی نہیں مل سکتی تو اسے نماز معاف تو نہیں ہو سکتی اس کیلئے یہی حکم ہے کہ وہ بغیر وضو اوربغیر تیمم کے ہی نماز پڑھ لے۔یا کسی کے ہاتھ پاؤں جکڑے ہوئے ہوں۔ یوں تو پانی بھی مو جود ہواورمٹی بھی مگر وہ نہ وضو کرسکے نہ تیمم تو وہ بغیر اس کے بلکہ سجدہ اور رکوع کے بغیربھی نماز ادا کرسکتاہے اور دل ہی دل میں نماز ادا کر سکتا ہے۔ تو یہ احکام حالات کے ماتحت متغیر ہوتے رہتے ہیں۔پھر بعض اوقات بعض احکام میں لوگ خرابی پیدا کردیتے ہیں اور اس وقت حاکم یا قاضی کیلئے ضروری ہو تاہے کہ دخل دے کر اس خرابی کو دور کرے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طلاقیں الگ الگ وقتوں میں دئیے جانے کی شرط رکھی ہے مگر آپ کی زندگی کے بعد جب لو گوں میں یہ رواج بکثرت ہونے لگاکہ بیوی پر ناراض ہوئے اور کہہ دیا کہ تجھے طلاقیں ہیں۔تو پہلے علماء نے ایسی طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دیا لیکن جب یہ رواج ترقی پکڑتا گیاتو شریعت کی بے حرمتی کی رو ح کو دور کرنے کیلئے حضرت عمرؓ نے اعلان کردیا کہ اگر کوئی ایک دفعہ ہی بہت سی طلاقیں دے گاتومیںاسے تین ہی سمجھوں گاتو جس حد تک اسلام کے احکام میں متغیر حالات میں تبدیلی کی اجازت ہے ان میں تبدیلی کی جاسکتی ہے اوراسی کانام سیاست ہے، اسی کانام حکمت اوراسی کانام فلسفہ ہے۔پس مذہب کیلئے بھی ایک سیاست کی ضرورت ہوتی ہے اوریہ جو سادہ زندگی کی تحریک میں نے تحریک جدیدکے سلسلہ میں کی تھی اس کا ایک حصہ مذہبی سیاست کے ساتھ تعلق رکھتاہے۔یعنی اس زمانہ میں چونکہ اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے وہ مساوات جسے حکومتیں ہی قائم کر سکتی ہیںاس زمانہ میں قائم نہیں ہوسکتی اور آجکل مسلمان بھی امیر و غریب میں ویسا ہی امتیاز کرنے لگے ہیں جیساہندو یا عیسائی کرتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کی اپنی حکومت نہیں اوران کے سامنے کوئی نمونہ نہیں۔میری خلافت پر اب پچیس سال پورے ہونے کو آئے ہیں اورمیں شروع سے ہی یہ مسئلہ سمجھانے کی کوشش کرتاآیا ہوں مگراب تک جماعت میں یہ قائم نہیں ہوسکاکہ ایسا ادب جو شرک کے مشابہ ہویا جو ادب کا اظہار کرنے والے کو انسانیت کے مقام سے گرانے والا ہو ناجائز ہے۔مثلاََ یہاں کے لوگوں میں دستور ہے کہ جب کسی بڑے آدمی یا بزرگ کو ملنے کیلئے آتے ہیں تو جوتی اتار لیتے ہیں،بات کرنے لگیں توہاتھ جوڑ لیتے ہیں اوربیٹھنے کو کہا جائے تو نیچے بیٹھ جاتے ہیں۔اسلامی آداب کے لحاظ سے اسے ادب نہیں بلکہ انسانیت کی ہتک سمجھا جائے گا اوراسے نا پسندیدہ قراردیا جائے گا۔ پچیس سال سے یہ بات میں سکھا رہا ہوں مگر ابھی تک اس پر عمل کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔اب تک یہی حالت ہے کہ بعض لوگ ملاقات کیلئے آتے ہیں تو جوتیاں اُتار دیتے ہیںاورجب اصرار کیاجائے کہ جُوتیاںپہن کرآئیں تو پھر زمین پربیٹھ جاتے ہیں اورپکڑ پکڑ کر اوراٹھا اٹھا کر انہیں کرسی یا فرش پرجیسی بھی صورت پر بٹھانا پڑتا ہے لیکن بیٹھنے کے بعد جب بات شروع کرتے ہیں تو ہاتھ جوڑ لیتے ہیں اوراب تک ایسا ہو رہا ہے۔اسی ہفتہ ایک دوست ملنے آئے۔پہلی ملاقات ختم ہو نے پر میں گھنٹی بجادیتاہوں کہ تا دوسرے دوست آجائیں۔میں نے گھنٹی بجائی مگر کوئی نہ آیا پھر گھنٹی بجائی تو دفتر کا آدمی آگے آیا اورمیرے پوچھنے پر کہ اگلے ملاقاتی کیوںنہیں آئے بتایا کہ وہ نیچے ہی جوتااُتارکرآئے تھے اس لئے میں نے انہیں کہا کہ یہ درست نہیں۔آپ جوتا پہن کر تشریف لائیں۔آخر وہ صاحب تشریف لائے اورآتے ہی زمین پر بیٹھ گئے اورمجھے باصرار ہاتھ پکڑ کر کرسی پر بٹھانا پڑا اس کے بعد جب انہوں نے بات شروع کی تو ہاتھ باندھ لئے اورجب بڑے اصرار کے ساتھ انہیں کہا گیاکہ ہاتھ کھول دیں تو انہوں نے کھولے۔وہ ہیں احمدی اورآٹھ دس سال سے احمدی ہیں وہ سمجھدار آدمی ہیں کیونکہ جب انہوں نے میرے چہر ہ پر نا پسندیدگی کے آثار دیکھے تو بولے کہ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں نوکریوں میں ایسا کرنے کی عادت ہو جاتی ہے۔افسرتوقع رکھتے ہیں کہ ان کے سامنے اسی طرح کیا جائے آپ بے شک ایسا نہ کرنے کو کہتے رہتے ہیں مگر ہمیں چونکہ عمل اس کے خلاف کرنا پڑتاہے اس لئے آپ کی بات ذہن سے نکل جاتی ہے۔
تو غیر مذاہب کے ساتھ میل جول کی وجہ سے کئی چیزیں ایسی ہیں جن کو مسلمان بھی اسلامی سمجھنے لگ گئے ہیں حالانکہ وہ بالکل غیر اسلامی ہیں۔اسلام نے جو مساوات سکھائی ہے وہ کہیں اورنظر نہیں آتی مگر ہمارا ماحول چونکہ ہندو انہ ہے اوراوپر عیسائی حکومت ہے اوران دونوں میں مساوات نہیں۔ہندوؤں میں تو چھوٹائی بڑائی کا فرق اتنا نمایاں ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔اسی طرح عیسائیوں میں ہے انکے تو گرجوں میں بھی علیحدہ علیحد ہ سیٹیں علیحدہ علیحدہ لوگوں کیلئے مخصوص ہو تی ہیں ۔بعض گرجاؤں میں مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اوروہ اس طرح کہ یہ سیٹ پندرہ روپیہ کرایہ کی ہے،یا دس روپیہ کی اوریہ پانچ روپیہ کی ہے اور یہ دو روپیہ کی ہے اورجو یہ کرایہ ادا کرسکے وہاں بیٹھ سکتاہے۔مجھ سے ایک عیسائی نے کہا کہ ہمارے گرجامیں تو مساوات ہے میں نے کہا کہ اس مساوات سے تو وہی فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کے پاس پندرہ روپے ہوں جس کے پاس کھانے کو بھی نہ ہووہ وہاں کیسے بیٹھ سکتاہے اوریہ چیزیں کوئی اس طرح تو مسلمانوں میں داخل نہیں ہوئیں کہ مصلّے بکنے لگیں کہ امام کے پیچھے کے مصلّٰی کی یہ قیمت ہے اوردائیں بائیں کھڑے ہونے کی اتنی اور یہ تو نہیں ہؤا کہ پہلی صف میں کھڑے ہونے کا کرایہ پانچ روپیہ اوردوسری کا چار یا تین مگر اورشکلوںمیں عدمِ مساوات مسلمانوںمیں بھی آگئی ہے۔ اگر اسلامی حکومت ہوتی تو ماحول ہی ایساہوتا کہ یہ چیزیں پیدا نہ ہو سکتیں مگر چونکہ اسلامی حکومت قائم نہیں اس لئے ماحول کے مطابق مسلمانوں میں کچھ نہ کچھ رنگ دوسروں کا آگیاہے اورمیں نے محسوس کیا کہ تحریک جدید میں اس بات کا بھی خیا ل رکھا جائے کہ مساوات کااحساس جماعت میں قائم اورزندہ رہے اورمَر نہ جائے اور اس کیلئے سادہ زندگی کی تجویز میں نے کی اوراس کا ایک حصہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے،تاکہ امیر اور غریب کانمایاں امتیاز مٹ جائے، جس حد تک اس کو قائم رکھنے کی شریعت نے اجازت دی ہے اسے توہم نہیں مٹاتے۔ شریعت نے یہ نہیں کہا کہ کوئی شخص اگر دس روپے کماکرلائے تو اس سے چھین لو اس لئے ہم یہ نہیں کر سکتے ہاں روپیہ کمانے والوں پر جو پابندیاں اس نے عائد کی ہیں۔مثلاََ یہ کہ ان سے زکوٰۃ لو،چندے لو،یہ کرلیتے ہیں۔ہاں مساوات قائم کرنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالی جائے۔سب امیرغریب اکٹھے ہوکر ٹوکریاں اٹھائیں اورمٹی ڈھوئیں تا اخوت اور مساوات کی روح زندہ رہے۔
اسی طرح کھانے پینے کے متعلق پابندیاں ہیں۔جمعہ کے روز کیلئے بے شک میں نے پابندیوں کو ایک حد تک کم کر دیا ہؤا ہے تاجو دوست اپنے احباب اوررشتہ داروں کے ساتھ مل کر کھانا پینا چاہیں وہ ایسا کرسکیں مگر نسبتاً اس دن بھی تنگی رکھی ہے۔باقی ایام کیلئے سب کوایک ہی کھانے کا حکم ہے تا امیر غریب میں کوئی امتیاز نہ رہے۔اگر دوست ا س پر پوری طرح عمل کریں توامیر کو اپنے غریب بھائی کی دعوت پر کسی قسم کی تکلیف نہ ہوگی اوراسی طرح دعوتوں میں زیادہ دوستوں کو بلانے کا موقع مل سکے گا۔پہلے اگر دس دوستوں کو بلا سکتے تھے تو سادگی کی صورت میں تیس چالیس کو بلا سکیں گے۔اس کے برعکس امیر جب دعوت کرتے تھے تو پانچ دس کھانے پکانا ضروری سمجھتے تھے اورچونکہ کسی کے پاس لا محدود دولت تو ہوتی نہیں، اسلئے مجبوراََ صرف چند امیراحباب کو بُلا لیتے تھے لیکن کھانے میں سادگی کی وجہ سے اتنی گنجائش ہو سکتی ہے کہ غریبوں کو بھی بُلالیں اور اس طرح دونوں کیلئے ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کا راستہ کھل گیا ہے۔ گوامیر و غریب کے ہاں کھانے میں گھی یا مصالحہ اورخوشبو کی کمی بیشی کا امتیاز رہ جائے لیکن کھانا ایک ہی نظرآئے گااوریہ اس مطالبہ کا مذہبی سیاسی پہلو تھا کہ دوئی کی روح کو مٹایاجائے اور یہ احساس نہ رہے کہ دونوں علیحدہ علیحدہ طبقے ہیں اورگویکجہتی، اتحاد اورمساوات کی حقیقی روح حکومت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی مگر اس تحریک کے ذریعہ مَیں نے کوشش کی ہے کہ وہ زندہ رہے تا جب بھی مسلمان حکومت آئے تو ہم اسے قبول کرنے کیلئے تیار ہوں اوریہ نہ متحد ہو کر لڑنے لگیں کہ ہم یہ نہ ہو نے دیںگے کہ چھوٹائی بڑائی کے امتیاز کو مٹا دیا جائے۔آج اگر ہندوؤں کی حکومت قائم ہو جائے تو بجائے اس کے کہ مساوات قائم ہوان میں جو امتیازات ہیں وہ زیادہ شدت اختیار کریں گے لیکن اسلامی حکومت کاقیام مساوات کو صحیح رنگ میں قائم کرے گااورمیری غرض یہ ہے کہ جب تک اسلام کی حکومت دنیا میںقائم نہ ہو مساوات کی روح زندہ رہے۔
دوسرا پہلو اس مطالبہ کا اقتصادی تھا۔اس میں میرے مد نظر یہ بات تھی کہ اگر جماعت بغیر بچت کرنے کے چندوں میں زیادتی کرتی جائے گی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گاکہ وہ کمزور ہو تی جائے گی۔حتّٰی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس میںکوئی قربانی کرنے کی طاقت ہی نہ رہے گی اس لئے میں نے سوچا کہ ان میں کفایت شعاری کا مادہ پیدا ہو اور جب کفایت کی عادت ہو گی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ اپنے اخراجات میں کمی کرکے چندے دیںگے اورچند وں کیلئے ان کو قرض لینے کی ضرورت نہ ہوگی بلکہ جب یہ روح ان میں پیدا ہو گی تو وہ کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کریں گے۔امانت فنڈ کی مضبوطی کا مطالبہ دراصل پس انداز کرانے کے لئے ہی تھا مگر افسوس ہے کہ دوستوںنے اس سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا،حالانکہ اس کی اصل غرض صرف یہ تھی کہ جماعت کی مالی حالت مضبوط ہو،وہ اقتصادی لحاظ سے ترقی کرتی جائے اورفضول اخراجات کو محدود کرتی جائے یہ نہ ہو کہ ا خراجات کو بدستور رکھے اورجب چندہ کا وقت آئے تو بوجھ محسوس کرے اورجائدادیں فروخت کرکے دے۔اس میں شک نہیں کہ ایسے لوگ بھی ہو تے ہیں،جن کیلئے جائدادیں فروخت کرکے بھی چندوں کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے مگر یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی طرف دوسروںکی نگاہیں اٹھتی ہیں اورجنہیں دوسروںکے سامنے اپنا نمونہ پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔باقی لوگوں کیلئے اخراجات کوکم کرکے ہی دین کی مدد کرنا ضروری ہوتاہے اوریہی مددہے جوان کیلئے بھی اوردین کیلئے بھی زیادہ ثواب کا مستحق ہو سکتی ہے اوراخراجات میں کمی کرنا انسان کے بس کی بات ہوتی ہے۔جو لوگ پینشن لیتے ہیں وہ فوراََ اپنے اخراجات کوکم کر دیتے ہیں یا نہیں۔اگر ہزار تنخواہ ملتی تھی تو پینشن پانچ سو رہ جاتی ہے، پانچ سَو ہو تو اڑھائی سَو اورسَو ہو تو پچاس اور پینشن لینے والا اس کے مطابق اپنے اخراجات میں بھی کمی کردیتاہے اورجب دنیوی حالات میں تبدیلی کی وجہ سے اخراجات میں کمی کی جاسکتی ہے تو دین کیلئے ایسا کرنا کیا مشکل ہے حالانکہ ایسا کرنے میں سرا سر ہمارا اپنا فائدہ ہے کیونکہ جو بچت ہو گی وہ ہمارے ہی کام آئے گی۔شادی بیاہ اوردوسری ایسی ضروریات کے موقع پر قرض نہ لینا پڑے گایا اگر اس بچت سے ا ن کی جائیدادیںبڑھیں گی تو ان سے ان کی آمد میں اضافہ ہو گااوروہ ان کے اوران کی اولادوں کے کام آئیں گی۔تو بہت سے فوائد اس کے نتیجہ میں پیدا ہونگے اورسادہ زندگی کے فوائد کا یہ اقتصادی پہلو ہے۔خلاصہ یہ کہ ایک پہلو اس تحریک کا مذہبی سیاسی تھا تاکہ جماعت میں ایسی روح پیدا ہو جائے کہ مساوات قائم رہے اورچھوٹے بڑے کاامتیاز مٹ جائے اوریہ تفرقہ آگے جاکر دوسر ے بڑے تفرقوں کا موجب نہ ہو۔
بے شک عادتوں کو چھوڑنا مشکل ہوتا ہے جو شخص اپنے آپ کو بڑا سمجھتاہے اس کیلئے یہ بہت مشکل ہو تا ہے کہ کھانے اورکپڑے میں تبدیلی کرے اسے اس میں شرم محسوس ہوتی ہے۔وہ خیال کرتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اوراس وجہ سے یہ بہت بڑی قربانی ہے مگر قربانی کے بغیر قومی ترقی ہو ہی نہیں سکتی۔
یہ خیا ل بالکل غلط ہے کہ سادہ زندگی کا مطالبہ صرف امراء کیلئے ہے۔غریب کا تو پہلے ہی بمشکل گزارہ ہو تا ہے۔وہ بچت کس طرح کرسکتا ہے کیونکہ امیر کواگر ضرورت کے وقت زیادہ رقم درکار ہوتی ہے تو غریب کو اسی نسبت سے کم رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔امیر کہتاہے کہ اس وقت اگر دس ہزار روپیہ ہو تو کام چل سکتاہے مگر غریب کہتا ہے کہ اگر پانچ روپے ہوں تو کام چل سکتاہے۔کام دونوں کے رکے ہوئے ہوتے ہیں امیر کا دس ہزار کیلئے اور غریب کا پانچ کیلئے۔ میں نے بعض سوا لی دیکھے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایک روپیہ فلاں ضرورت کیلئے درکار ہے اس میں سے آٹھ آنے تو مہیا ہو گئے ہیں باقی صرف آٹھ آنے کی اور ضرورت ہے۔پس اگر غریب بھی بچت کا خیا ل کریں اور اتنی تبدیلی اخراجات میں کر لیں کہ ایک آنہ ماہوارہی بچا لیں تو انہیں بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ جیساکہ میں نے بتایا ایسے غریب لوگ بھی ہو تے ہیں جن کا آٹھ آنے نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کام رکا رہتاہے۔ایسے غریب بھی ہو تے ہیں جن کاکام کسی وقت بارہ آنے یا روپیہ پاس نہ ہونے کی وجہ سے رک جاتاہے اورجو شخص روپیہ یا دو روپیہ ماہوار کی بچت کرسکے وہ بھی اس کے لئے بہت مفیدہو سکتی ہے کیونکہ ایسے لو گ بھی ہو تے ہیں جو دس، بارہ یا بیس پچیس روپے نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کام نہیں چلا سکتے اوراگر وہ روپیہ دو روپیہ ماہوار بچاتے جائیں توچونکہ ان کی ضرورتیںبھی اسی کے مطابق ہوتی ہیں اس لئے یہ بچت بھی ان کے لئے مفید ہو تی ہے۔ہر شخص کے کام اور اسکی ضرورت کی نوعیت مختلف ہو تی ہے۔کسی کاکام آٹھ آنے نہ ہو نے کی وجہ سے رک جاتا ہے تو کسی کا دس ہزار نہ ہونے کی وجہ سے۔پھر ایسے غرباء بھی ہوتے ہیں جو ایک پیسہ کے محتاج ہوتے ہیں ان کیلئے بظاہر اقتصادی زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر میں نے ایسے لو گ بھی دیکھے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایک پیسہ ہو تو کیا اچھا ہو۔تو ہرشخص کی ضرورت اوراقتصادی پہلو برابر برابرچلتے ہیں۔بے شک ایک غریب آدمی کہہ سکتا ہے کہ اگرمیں نے دو چار روپے جمع کربھی لئے تو ان سے کیا ہو تا ہے لیکن اسے خیال رکھنا چاہئے کہ اس کی ضرورتیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں۔کئی دفعہ ایسی ضروریات پیش آجاتی ہیں کہ انسان کہتا ہے اس وقت اگر دس روپے پاس ہو تے تو بہت اچھاہوتا اوراگر وہ بارہ آنہ یا روپیہ ہر مہینہ جمع کرتا رہے تو دوسرے سال دس روپے والی ضرورت جب اسے پیش آئے گی تو ا س کاکام چل جائے گااوراسے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوگی۔ یہ صحیح ہے کہ غریب آدمی اپنی حالت کے مطابق بہت قلیل رقم پس انداز کرسکتا ہے مگراس کی ضرورتیںبھی تو قلیل ہی ہوتی ہیں۔تھوڑاتھوڑا کرکے وہ سال میں جس قدر پس انداز کرتا ہے اس کا نہ ہونا کسی وقت اس کی تباہی کا موجب ہو سکتاہے۔
تھوڑا ہی عرصہ ہؤا فیروز پور کا ایک واقعہ اخبارات میں شائع ہؤا ہے۔کسی زمیندار نے ساہو کار سے پچاس روپے قرض لئے چونکہ اسے ضرورت سخت تھی اس وقت روپیہ اسے ۵۰،۶۰ فیصدی شرح سُود پر ملا۔اس کے بعد اس نے اس قرض کو ادا کرنے کی بہت کوشش کی۔مگر چونکہ سُود کی شرح بہت زیادہ تھی اس لئے تیس روپے بطور سود دینے پڑتے تھے لیکن اس کی آمد اتنی تھی کہ وہ صرف پندرہ روپے ہی ادا کرسکتا تھا چنانچہ اس نے پندرہ روپے ادا کر دئیے۔تو چونکہ سُودتیس تھا اس لئے پندرہ روپے اس میں سے بھی باقی رہ گئے اس کے ذمہ بجائے پچاس کے پندرہ ادا کرنے کے بعد بھی پینسٹھ رہ گئے۔اس پر ساٹھ فیصدی سود ۳۹ روپے بنا،جن میں سے پھر اس نے پندرہ روپے ادا کر دئیے۔تو باقی ۲۴اصل میں جمع ہو کر ننانوے ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہؤاکہ اب چالیس پچاس سال کے بعد جبکہ وہ خاندان ہزاروں روپیہ ادا بھی کرچکا تھا اس کے ذمہ ایک لاکھ سے زائد رقم بقایا تھی۔ اب دیکھو اسے قرض لینے کے وقت ضرورت تو پچاس کی ہی تھی اور وہ پندرہ روپے سالانہ بچت کر کے بعد میں ادا بھی کرتا رہا لیکن پندرہ روپیہ سالانہ بچت کرنے کی مصیبت اگروہ تین سال پہلے اٹھا لیتا تو اس کے پاس ضرورت کے وقت ۴۵روپے اپنے جمع ہوتے اور اسے قرضہ لینے کی ضرورت پیش نہ آتی لیکن اس نے تین سال پہلے یہ تکلیف نہ اٹھائی مگر بعد میں پچاس سال برابر اٹھاتا رہا۔بعد میں غلہ کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا رہا، زمینوں کی حیثیت بھی بڑھتی گئی اس لئے وہ یا اس کاخاندان اس قرضہ میں زیادہ رقوم بھی ادا کرتا رہا مگر جتنا اضافہ ان کی ادائیگی کی اقساط میں ہوتا دوسری طرف اتنا ہی قرضہ کی رقم بڑھتی چلی جاتی تھی۔
تو انسان کو کسی نہ کسی وقت مصیبت تو آہی جاتی ہے اور اگر انسان سمجھے کہ مصیبت کے بعدجو تکلیف اٹھانی ہے وہ پہلے ہی اٹھا لوں تو بہت فائدہ میں رہتا ہے لیکن لوگ مصیبت تو اٹھاتے ہیں مگر بعد میں پہلے نہیں۔اگر کسی سے کہو کہ کچھ نہ کچھ پس انداز کیا کرو تو وہ یہی جواب دے گا کہ کھانے کو تو ملتا نہیں جمع کہاں سے کریں لیکن اگر پوچھوکہ قرض لیا ہؤا ہے یا نہیں تو جواب اثبات میں ملے گا۔اس قرض کا سُود تو ادا کرتے جائیں گے لیکن پہلے کچھ جمع نہیں کرسکتے حالانکہ پہلے اگر کچھ جمع کرتے جائیں تو نہ قرض لینے کی نوبت آئے اور نہ سود دینے کی۔بات ایک ہی ہے۔اگر پچاس روپیہ آدمی پہلے جمع کر لے تو بھی اور اگر بنئے سے روپیہ لے کر بعد میں سُودسمیت رقم ادا کردے تو بھی۔ہاں دوسری صورت میں تکلیف زیادہ اٹھانی پڑتی ہے اور روپیہ بھی زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے کیونکہ قرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔یہ اتنی موٹی بات ہے کہ معمولی سے معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے مگر مصیبت کے وقت تو لوگ بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن آرام کے وقت عقل سے کام نہیں لیتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مدت العمر مقروض رہتے ہیں اور فصل پکنے کے بعد بنیا آتا ہے اور غلہ اٹھا کر لے جاتا ہے حالانکہ اگر اس مصیبت کے آنے سے پہلے وہ آدھی مصیبت بھی اُٹھا لیتے تو نہ قرض لینے کی نوبت آتی اور نہ بنیا آکر اس طرح سب کچھ لے جاتا۔
پس یہ تحریک صرف امراء کیلئے ہی نہیں بلکہ غریبوںکیلئے بھی تھی لیکن امراء تو خیال کرتے ہیں کہ ہمارا گزارہ تو اچھاچل رہا ہے ہمیں پس انداز کرنے کی کیا ضرورت ہے جب کہ آمد کافی ہے حالانکہ وہ بھی حادثات کاشکار ہو سکتے ہیں اورغریب سمجھتے ہیں کہ ہم نے جمع کیا کرنا ہے ہمارے پاس ضرورت سے زیادہ ہے ہی نہیں مگر یہ وہ کر لیتے ہیں کہ پہلے قرض لے لیا اور پھر جمع کر کے اسے ادا کردیا۔گویا وہ جمع تو کرتے ہیں مگرایک ایسے صندوق میں جس کے نیچے سوراخ ہو ا ور جو کچھ اس میں ڈالیں وہ دوسرے رستے سے نکلتا جائے۔وہ جو کچھ اس میں ڈالتے ہیںوہ اسی سوراخ کے رستے بنئے کے گھر میں گرتا جاتا ہے۔عقلمندی یہ نہیں کہ جسے دو روٹیاں نہیں ملتیں وہ ڈیڑھ ہی کھائے،بلکہ عقلمندی یہ ہے کہ جب اسے دو ملتی ہیں اس وقت بھی وہ ڈیڑھ کھائے اور نصف ضرورت کیلئے اٹھارکھے اورجسے دو بھی نہیں ملتیں وہ بھی جو ملے اس میں سے کچھ نہ کچھ پس انداز کرے تا مصیبت کے وقت اس سے فائدہ اٹھا سکے کیونکہ جب تک ایسی حکومت موجود نہ ہو جو ہر شخص کے کھانے کی ذمہ دار ہو اس وقت تک یہ فکر نہ کرنا عاقبت نا اندیشی ہے۔
پس میری تجویز یہ ہے کہ آدھی روٹی گھر میں رکھو تا جب نہ ملے تو اسے کھاسکواوراسی غرض سے میں نے تحریک جدید امانت فنڈ قائم کیاتھا۔جو شخص اس تجویز پر عمل کرتاہے وہ فائدہ میں رہتا ہے اورباقی ماندہ روٹی اس کے کام آتی ہے لیکن جو عمل نہیں کرتا کھاتاتو وہ بھی ڈیڑھ ہی ہے، مگرآدھی بنئے کو دیتا ہے۔
پس کوئی شخص خواہ کتنا غریب ہو اُسے چاہئے کہ کچھ نہ کچھ ضرورجمع کرتا رہے خواہ پیسہ یا دوپیسے ہی کیوں نہ ہوںکیونکہ بعض اوقات پیسہ دو پیسہ کا ہی خرچ آپڑتا ہے جس کے پورا کرنے کی کوئی اورصورت نہیں ہوتی اوراس وقت جمع شدہ پیسہ کام آتاہے۔بعض اوقات غریب لو گ فوت ہوجاتے ہیں تو کفن کیلئے بھی گھر میں کچھ نہیں ہوتا۔اوراگرایک دو آنہ ماہوار بھی انسان بچاتا رہے تو بھی مرنے کے بعد گھر کے برتن یا دوسرا سامان گرو رکھ کر کفن کا انتظام نہ کرنا پڑے گا۔
یہ اتنی موٹی بات ہے۔مگر شایدمیرے بیان میںکوئی نقص ہے یا جماعت کے سمجھنے میں کہ ابھی تک جماعت میں یہ بات پیدا نہیں ہو سکی۔
اچھی طرح یاد رکھو کہ سادہ زندگی اس تحریک کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے اس میں غریبوں کا امیروں کی نسبت زیادہ فائدہ ہے کیونکہ وہ جو کچھ جمع کریں گے اپنی ضرورت کیلئے کریں گے اوراسی طرح امراء کو بھی اس سے فائدہ ہے اگر کوئی مصیبت کا وقت آجائے تو اس وقت پس انداز کیا ہؤا سرمایہ ان کے کام آئے گا۔
پس میں آج پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ سادہ زندگی کا مطالبہ تحریک جدید کے اہم مطالبات میں سے ایک ہے۔اس کا اقتصادی پہلو اورمذہبی سیاسی پہلو دونوں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر ہم اس کے ذریعہ غریب اور امیر کے فرق کو کسی حد تک مٹانے اورمساوات کی اس روح کوجو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے قائم رکھنے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ ایک عظیم الشان کام ہوگا،جو لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں، کھربوں روپیہ سے زیادہ قیمتی ہے،بلکہ دنیاکی تمام دولت سے زیادہ بیش قیمت ہے۔
میں نے دیکھاہے کہ کھانے کے متعلق بالعموم احباب جماعت نے پابندی کی ہے،لباس کے متعلق کچھ حصہ نے کی ہے مگر کچھ حصہ نے نہیں کی۔بعض کے متعلق تومجھے معلوم ہے کہ انہوں نے چندے زیادہ لکھوا دئے اورپھر دو د و تین تین سال تک کوئی کپڑے نہیں بنوائے۔خودمیرا بھی یہی حال ہے کہ کل ہی ایک عجیب اتفاق ہؤا۔جس پر مجھے حیر ت بھی آئی۔ ایک دوست ملنے آئے اورانہوںنے ایک تحفہ دیاکہ فلاں دوست نے بھیجا ہے وہ ایک کپڑے کاتھان تھا اس کے ساتھ ایک خط تھا جس میں اس دوست نے لکھا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ آئے ہیں اور کہا ہے کہ قمیضوں کیلئے کپڑے کی ضرورت ہے بازار سے لادو۔اس پر میں نے دریافت کیا کہ آپ صاف کپڑا پسند کرتے ہیں یا دھاری دار؟آپ نے اس کا کوئی جواب لفظوں میں تو نہیں دیا،لیکن میرے دل پر یہ اثر ہؤا کہ دھاری دار آپ کی پسند نہیں اوراس خواب کو پوراکرنے کے لئے میں یہ کپڑا بھیجتاہوں۔میں نے وہ تھان لا کر گھر میں دیا کہ کسی نے بھیجا ہے اوراس سے قمیضیںبنوائی جائیں۔انہوں نے لے کر کہا کہ الحمد للہ چارسال کے عرصہ میںآپ نے قمیضوں کیلئے کپڑا نہیں خرید اتھا اورآپ کی پہلی قمیضیںہی سنبھال سنبھال کر اب تک کام چلا یا جارہاتھا یاایک دو قمیضوں کے کپـڑوں سے جو کوئی تحفہ کے طور پر دے جاتا تھا،اب یہ مشکل دورہوئی تو خود میں نے کپـڑوںمیں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے۔
میںضمناً یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس دوست کے خط کو پڑھ کر معاََ میرے دل میں خیال آیا کہ پچاس سال کی عمر ہونے کو آئی ہے،جاگتے ہو ئے تو میں نے کبھی کسی سے مانگا نہیں مگر خواب میں جا مانگا اورگویہ میں نے نہیں مانگاتھابلکہ فرشتوں نے مانگا تھا،لیکن یہ امر واقع ہے کہ پھر بھی مجھے شرم محسوس ہوئی اورمیں نے اس وقت دعا کی کہ اے خدا! جس طرح تُو نے اپنے فضل سے جاگتے ہوئے مانگنے سے اب تک بچایاہے خواب کے سوال سے بھی بچائے رکھ۔ اوراگر خواب میں کسی کو تحریک کرنی ہوتو میرے منہ سے نہ کروا۔اوریہ خواب میں مانگنے کا بھی میری یاد کے مطابق پہلا ہی واقعہ ہے۔ ورنہ خواب میں بھی میں نے کسی سے کبھی نہیں مانگا۔ایک دفعہ ایک دوست نے لکھا کہ میں نے خواب میںدیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اورفرماتے ہیں کہ اتنے روپیہ کی ضرورت تھی اس میںسے اتناپور ا ہوگیاہے اور اتنا ابھی باقی ہے جو تم قرض دے دو۔ سومیرے پاس اس قدر رقم ہے،اگر خواب ظاہری تعبیر کے مطابق درست ہے تو اطلاع ملنے پر روپیہ بھجوا دوں گا۔یہ خواب بالکل سچی تھی بعینہٖ حالات اسی طرح تھے مجھے اس وقت کچھ ضرورت تھی،اس میں سے اسی قدر رقم کا جو خواب میں اس دوست کو بتائی گئی تھی انتظام ہو گیا تھا اوراس قدر رقم جو ان سے طلب کی گئی تھی مہیا ہو نی باقی تھی۔میں نے ا نہیں اطلاع دی اورانہوں نے وہ رقم بھجوا دی۔فَجَزَاہُ اﷲُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ۔خیر تواس شخص کا خط پڑھ کر جنہوں نے کپڑا بھجوایا تھا بے اختیار میرے منہ سے دعا نکلی کہ خدا وندا! خواب میں بھی میں مانگنا پسند نہیں کرتاآئندہ اپنے فضل سے ایسا خواب بھی کسی کو نہ دکھا،جس میں سوال میرے منہ سے ہو۔مجھے تو تُو اپنے ہی دَ ر کاسوالی بنا رہنے دے۔
ہاں میں کہہ رہا تھا کہ کھانے کے متعلق پابندی دوستوں نے کی ہے مگر لباس کے متعلق ایک حصے نے کی ہے اورایک نے نہیں کی۔میرے لئے تو اس پابندی کاسوال اکثر پیدا ہی نہیںہو سکتا،کیونکہ بعض دوست میرے لئے کوٹ وغیرہ لباس بنوا کر بھیج دیتے ہیں اس لئے میں خود تو وہ بنواتا ہی نہیں،کرتہ یا پاجامہ عام طور پر بنواتاہوںمگر وہ بھی گھر والوں نے بتایا ہے کہ چارسال سے نہیںبنے۔کوٹ بھی میں تھوڑا تھوڑا عرصہ پہن کر دوستوں کو دے دیتا ہوں مگر بعض دوست اوربھیج دیتے ہیں اوراس طرح یہ سلسلہ چلا جاتا ہے۔مجھے اوربھی ایسے لوگ معلوم ہیں جنہوں نے دو دو چار چار سال سے کپڑے نہیں بنوائے اور اس میں سراسرانہی کافائدہ ہے۔اگر اس بچت سے وہ چندہ دیتے ہیں تو بھی ان کا فائدہ ہے اوراگر جمع کرتے ہیں تو بھی ان کا یا ان کی اولادوںکا۔تویہ تحریک جدیدکا بہت ضروری حصہ ہے،جس کی طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہئے۔ لباس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اس قدر سادگی پسند فرماتے تھے کہ درحقیقت آج آپ کے حالات پڑھ کرمجھے تو شرم آجاتی ہے۔گو آجکل حالات بدل گئے ہیں اور حالات کے ماتحت تبدیلیاں بھی کرنی پڑتی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سا تھ جو محبت ہے اس کی وجہ سے حالات کی تبدیلی کے باوجود شرم آنے لگتی ہے۔حضرت عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک چغہ پسند آیا جو کوئی شخص بیچنے کیلئے لایا تھا میں اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس لے گیا اور عرض کی کہ یَا رَسُوْلُ اللہ! اسے خرید لیجئے،عید وغیر ہ کے موقع پر پہننے کے کام آئے گا اوراچھا لگے گا۔حضرت عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میری یہ بات سن کر آنحضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے منہ پرسرخی آگئی،گویا آپ نے اسے بہت نا پسند فرمایااور فرمایایہ توقیصر و کسریٰ والی باتیں ہیں عمر! یہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے نہیں رکھیں۔۱؎شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خیال آیا کہ عمر کو یہ چغہ پسند آیا ہے کیونکہ بعد میں جب کسی شخص نے ویسا چغہ بطور ہدیہ آپ کو بھجوایا تو آپ نے وہ چغہ حضرت عمر ؓ کے پاس بھجواد یا۔حضرت عمر ؓ نے عرض کی کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ کو یاد ہو گا۔میں نے ایک دفعہ آپ سے ایسے ہی چغہ کو خریدنے کو کہا تھا تو آپ نے سخت نا پسند فرمایا تھامگر اب آپ نے اسی قسم کا چغہ میرے پاس بھیج دیا ہے۔آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے پہننے کیلئے نہیں بھیجا اسے پھاڑ پھوڑ کر عورتوں کے کپڑے بنوا لو۔۲؎ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کپڑوں میں جس قدر سادگی اختیار کرتے تھے اس میں سے تغیر زمانہ کے حصّہ کو اگر مِنہا بھی کردیاجائے تب بھی وہ بہت بڑی سادگی ہے۔یہ بھی صحیح ہے کہ اس زمانہ میں کپڑا بہت کم ہوتا تھا اور اس لئے قیمتیں زیادہ تھیں اور اب بہت سستا ہے۔اُس زمانہ میں جو کپڑا امراء پہنتے تھے وہ آج غریبوں کو بھی میسر ہے یہی گبرون اور لدھیانہ اُس زمانہ میں بہت قیمتی اورامراء کے پہننے کا کپڑ ا سمجھا جاتا تھامگر اب یہی غریبوں کا عام لباس ہے تو آج کپڑا بہت سستا ہوگیا ہے۔جو آج غرباء کا لباس ہے وہ اُس زمانہ میں امارت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ یہ سوسیاں۳؎ وغیرہ بہت قیمت پاتی تھیں جن میں کوئی کوئی تار ریشم کا ہو تا تھااوراسے معیارِ امارت سمجھا جاتا تھا۔تو یہ فرق بے شک دونوں زمانوں میں ہے لیکن اس فرق کو منہا کرکے بھی دیکھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زندگی بہت سادہ تھی اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر ساری دنیا کی ترقی کا سامان ہو ہی نہیں سکتا۔اسلام بے شک اس کی اجازت دیتا ہے کہ روپیہ کماؤ مگرا سے خرچ اس طرح کرنے کاحکم دیتا ہے کہ سب بنی نوع انسان اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔سادہ زندگی سے صرف بچت ہی نہیں ہوتی بلکہ اور بھی کئی فوائد ہوتے ہیں۔مہمان نوازی میں مدد ملتی ہے جو اعلیٰ درجہ کے اخلاق میں سے ایک ہے اور جسے حضرت خدیجہ ؓ نے نبوت کی تصدیق میں بطور ثبوت پیش کیا تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر جب پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی تو ا ٓ پ بہت گھبرائے ہوئے گھر پہنچے اس وقت حضرت خدیجہ ؓ نے آپ کو تسلی دی اورکہا کہ آپ میں یہ یہ خوبیاں ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو ہر گز ضائع نہیں کرے گااوران خوبیوں میں سے ایک آپ نے مہمان نوازی بیان کی۔۴؎پُر تکلف کھانوں کا رواج ہو تو انسان کو مہمان نوازی میںبہت سخت دقت پیش آتی ہے ایک روپیہ میں ایک شخص کیلئے کھانا بمشکل تیار ہو سکتا ہے اس لئے مہمان نوازی نہیں ہو سکتی لیکن اس طرح ایک دوا ٓنہ میں گزارہ ہوجاتا ہے اورایک روپیہ کے صرف سے دس بیس مہمانوں کو کھاناکھلایا جاسکتاہے۔تو سادہ زندگی میںمہمان نوازی بڑھ جاتی ہے۔مہمان سمجھتا ہے کہ میرادوست تکلف نہیں کرے گااس لئے دلیری سے وہاں چلا جاتا ہے اورمیزبان بھی کوئی تکلف محسوس نہیں کرتاکیونکہ جو کچھ گھر میں موجود ہو لا کر رکھ سکتا ہے۔کسی کی دعوت کا مفہوم آجکل یہی سمجھاجاتاہے کہ بہت پر تکلف کھانے تیار کروائے جائیں اورذہنیت بھی ایسی ہوگئی ہے کہ اگر کسی کو بلاؤ اور پلاؤ تیار نہ ہو تو اس کے ماتھے پرسلوٹیں پڑنے لگتی ہیں اوریوں محسوس ہوتاہے کہ گویاکسی نے جوتیاں ماری ہیں۔دل میںکڑھتا اورکہتا ہے کہ دیکھو خبیث نے بلا کر میرا وقت ضائع کیا حالانکہ اس غریب نے محبت کی وجہ سے کہیںسے قرض لے کریا کئی روز کا فاقہ کرکے دعوت کی اور اس کے گلے میں کھانا اس لئے پھنس رہا ہے کہ پلاؤنہیں اس لئے غریب آدمی مہمان نوازی سے ڈرتے ہیں لیکن اگر اسی طرح مہمان نوازی ہو کہ جس طرح گھر میں کھانا پکتا اورکھایا جاتاہے اسی طرح مہمان کے بھی پیش کردیاجائے تو کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی اورپیسہ بھی خرچ نہ ہوگا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک مؤمن کا کھانا دو کیلئے کافی ہوتاہے۔۵؎کل ہی جب میں عید پڑھ کرآیا تو معلوم ہؤا کہ چھ سات ہندو دوست آئے ہوئے ہیںجن میںسے ایک ولایت کے سفرمیں ہم سفر تھے۔میںنے پہلے ان سے دریافت کرایاکہ مسلمانوں کے ہاں کھا لیتے ہیں یا نہیں تا اگر نہ کھائیں تو ہندوؤںکے ہاں ان کیلئے انتظام کرایا جائے مگر انہوں نے کہا کہ ہم تو کھالیتے ہیں۔اس پر میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ ان کو لے آئیں اورسب بیویوں سے کہا کہ اپنے کھانے بھجوادیں گو اس میں شک نہیں کہ اگر وہ کسی دوسرے روز آتے تو مجھے ا ن کیلئے خاص کھانا تیار کرانا پڑتا،لیکن عید کی وجہ سے چونکہ نسبتاً اچھا کھاناتھا میں نے سب گھروں سے کھانا جمع کر لیا اورنہ ہمیں کوئی تکلیف ہو ئی اور نہ مہمانوں کو۔اگر سادہ زندگی کے لوگ عادی ہوں تو ہر روز کی دعوت بھی تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتی بلکہ میں تو سمجھتاہوں کہ اگر دوستوںمیںسادہ زندگی کی روح قائم ہو جائے تو لنگر خانہ کی ضرورت بھی نہیں رہتی اورمہمان نوازی میں بھی کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔آنے والا مہمان بھی یہ سمجھے گاکہ جو موجود ہو گا کھالوں گااس لئے اسے کوئی تکلیف نہ ہوگی اورمیزبان یہ سمجھے گاکہ جو ہوگا وہ پیش کردونگااس لئے اسے بھی کوئی تکلیف نہ ہوگی۔انسان کیلئے بعض اوقات پیسہ مہیا کرکے خرچ کرنا مشکل ہوتا ہے،لیکن خود فاقہ کرلینا مشکل نہیںہو تا۔کسی شخص کے گھر کے دس آدمی ہیں تو اگراس کے پاس سَو مہمان آجائے اوراگراس کے پاس طاقت نہ ہو تواسے ضرور قرض لے کر مہمان نوازی کرنی پڑے گی لیکن اگرپانچ آجائیں توگھر کے پانچ افراد فاقہ کرکے ان کوکھلاسکتے ہیں۔فاقہ اختیارکرنا اختیاری امر ہے۔آخر روزے بھی تورکھے ہی جاتے ہیں مگر روپیہ لانا اختیاری امرنہیں اسلئے سادہ زندگی میں انسان بغیر کسی بوجھ کے اپنا فرض ادا کر سکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانہ میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ایک دفعہ ایک مہمان آیا آپ نے ایک صحابی سے فرمایا تم اسے اپنے گھر لے جاؤ وہ انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔شاید کسی وقت ان کی حالت اچھی ہوگی اسلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کے سپر دمہمان کردیا مگر ان دنوں ان کی حالت اچھی نہ تھی گھر پر پہنچے تو معلوم ہؤا کہ کھانا صرف ایک آدمی کاہے اور صرف بچوں کیلئے کفایت کرسکتاہے۔ میاں بیوی نے یہ تجویز کی کہ بچوں کو تو بھوکا ہی سلادو اورمہمان کو کھانا کھلا دو۔اب یہ بات ان کی طاقت میں تھی،لیکن اس وقت اگران کو پیسہ مہیا کرنا پڑتا تویہ مشکل تھااوروہ مہمان کی خدمت میں ناکام رہتے یا پھر اگر یہ ضروری ہوتاکہ مہمان کوپلاؤ ہی کھلانا ہے۔تو اُس صحابی کو کہنا پڑتاکہ یَا رَسُوْلَ اللہ! میںنہیں لے جاسکتا،لیکن صحابہ ؓ کا یہی طریق تھا کہ جو موجود ہوتا لا کر پیش کردیتے۔یہ بات ان کے بس کی تھی کہ بچوںکو سلادیں اوران کاکھانا مہمان کوکھلادیں۔اس پر عمل کرنے کیلئے وہ تیارہو گئے لیکن اس کے علاوہ ایک مشکل اورتھی کہ مہمان کھانے میں ساتھ شامل ہونے پر اصرار کرے گا اورکھانا تھوڑا ہے آخراس کا بھی حل سوچ لیا گیا۔اس زمانہ میں وہ دئے جلائے جاتے تھے جن میں روئی کی بتی ڈالی جاتی تھی۔تجویز یہ ہوئی کہ جب مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھیں تو میاں بیوی سے کہیں کہ روشنی تیز کردو اوربیوی تیز کرنے کے بہانے بتی کو اس طرح ا نگلیوں سے پکڑکر باہر کردے کہ وہ بجھ جائے اورجب پھر جلانے کو کہا جائے تو کہہ دے کہ آگ نہیں اوراب ہمسایوں کے ہاں آگ لینے کیا جاناہے ان کو خواہ مخواہ تکلیف ہوگی۔اس پر مہمان خود ہی کہہ دے گا کہ نہیں رہنے دو روشنی کی کیا ضرورت ہے اوراس طرح دونوں مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ کر اندھیرے میں یونہی مچاکے مارتے جائیں گے اور مہمان کھانا کھا لے گا۔اس وقت تک پردہ کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا کہ بغیر کھانا کھانے کے ہی بڑے زور کے ساتھ مچاکے مارتے رہے۔مہمان بے چارہ بھی حیران ہوگا کہ کھانا تو اس قدر لذیذ نہیں، معلوم نہیں کہ یہ اتنے مچاکے کیوں مارتے ہیں۔بہرحال مہمان نے کھانا کھا لیااوریہ سب بھوکے ہی رات سو رہے۔صبح رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کو بلوایا اور پوچھا رات تم نے مہمان کے ساتھ کیا کیا؟انہوںنے شرمندہ ہو کر عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ!کیا کیا ہے ؟آپؐ نے فرمایا کہ جو کچھ کیا مجھے اللہ تعالیٰ نے بتا دیاہے اورآپ ہنس پڑے اورفرمایا کہ تمہارے فعل پر خدا تعالیٰ بھی عرش پر ہنسا ۶؎اور میں بھی اس لئے ہنسا ہوں کہ خداتعالیٰ ہنسا تھا۔تو یہ ذاتی قربانی کا سوال تھا جو انہوں نے کر دی اگر مالی قربانی کا سوال ہو تا تو وہ کیا کرسکتے تھے۔اگرتمام کام ذاتی قربانی کی طرز پر ہوں تو کام بہت وسیع ہو سکتاہے اور دنیا میں فوراََامن قائم ہوسکتالیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا کہ سارے کام اس طرز پر چلائے جائیں۔اگر آج ا س طرح چلایا جائے تو جماعت کے لئے یہ امر تباہی کاموجب ہوگا۔زمانہ کے حالات ایسے ہیں کہ بعض باتوںکو مجبوراً ترک کرنا پڑتاہے۔مثلاََ اسلام کا حکم ہے کہ آگ کا عذاب نہ دیا جائے لیکن اگر آج اسے جاری کردیا جائے تو مسلمان حکومتوں کا بندوقوں، توپوں سے کس طرح بچاؤ ہو سکے ہاں جب ساری دنیا میں اسلامی حکومت اور غلبہ ہو تو اس وقت یہی حکم ہے۔اسی طرح اسلامی اصول یہ ہے کہ جہاںتک ہو سکے روپیہ کے استعمال کو کم کیا جائے،لیکن اگر آج اس پر عمل کردیاجائے تو اس کا لازمی نتیجہ تباہی ہو گا اس لئے ہمیںدرمیانی راہ اختیار کرنی پڑتی ہے،جس سے دشمن کے حملہ کو بھی بچایا جائے اوراسلامی روح کو بھی قائم رکھاجائے۔بعض نادان یہ اعتراض کردیتے ہیںکہ اسلام کے فلاں حکم پر عمل کیوں نہیںکیا جاتا حالانکہ حالات ا یسے ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو اسلام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سود لینے اور دینے والے دونوں پر *** کی ہے ۷؎اوراسلام نے اس کو حرام قرار دیاہے لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کو ایک جگہ سود دینا پڑتاہواوردوسری جگہ اس کا روپیہ کسی ایسی جگہ پرلگا ہؤ اہو جہاں سے اسے سود مل سکتاہوتو اسے چاہئے کہ لے لے اورجہاں دینا ہو وہاں دے دے۔ اب بظاہر تو یہ دو لعنتوں کا جمع ہو نا ہے لیکن کافر سے لے کر کافرکو ہی دے دینے سے مسلمان نقصان سے بچ جائے گااور اسی کو مذہبی سیاست کہتے ہیں۔ نادان ہم پر اعترا ض کرتے ہیں کہ یہ سیاسی آدمی بن رہے ہیں حالانکہ ہماری سیاست یہ نہیں کہ جرمن یا اٹلی سے کوئی معاہدہ کرتے ہیں بلکہ ایسی ہی مذہبی سیاست ہے۔
تو سادہ زندگی کامطالبہ نہایت اہم ہے مذہبی سیاسی لحاظ سے بھی اور اقتصادی لحاظ سے بھی اس لئے میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کی اہمیت پر غور کریں امیر بھی اور غریب بھی۔ آج میںنے پھر اچھی طرح اس بات کو واضح کردیا ہے کہ دونوں کیلئے یہ مطالبہ یکساں طور پر ضروری ہے اور دونوں کے لئے مفید ہے،اس کے بغیر نہ ہماری اقتصادی حالت درست ہو سکتی ہے اورنہ مذہبی جدوجہد وسیع ہو سکتی ہے۔اگرمیں دیکھتا کہ جماعت نے پہلا قدم پوری طرح اٹھایاہے تو دوسرامضبوطی کے ساتھ اٹھاتا، لیکن ابھی میں دیکھتاہوں کہ بہت اصلاح کی ضرورت ہے اس لئے دوسراقدم نہیں اٹھا سکتا۔کھانے کے معاملہ میں بے شک دوستوں نے اصلاح کی ہے مگر دوسرے معاملات میںنہیں بلکہ مجھے اس کا بھی اعتراف ہے کہ ابھی تک خود ہمارے گھروں میں بھی کھانے اور لباس کو چھوڑ کر باقی امور میں اس کی پوری طرح پابندی نہیں کی جاسکی۔ اورجب تک پہلا قدم صحیح طور پر نہ اٹھا لیا جائے دوسرانہیں اٹھایا جاسکتا اس لئے میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتاہوں کہ سادہ زندگی کے سب پہلوؤں پر عمل کرنے کی کوشش کریں تا ہماری اقتصادی حالت درست ہو سکے اور ہم اس قابل ہو سکیں کہ اپنے مالوں سے ہی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرسکیں۔جماعت اگر اس کی اہمیت کو سمجھے تو چند سالوں میں ہی اہم دینی اور دنیوی تغیر پیدا ہوسکتا ہے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس بارہ میں ہمیں صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق دے جماعت میں بھی اور ہمارے گھروں میں بھی۔اس مطالبہ کی اہمیت پوری طرح سمجھ میں آجائے کیونکہ ہمارے گھروں کو نمونہ ہو نا چاہئے۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ جتنا اس نے ہمیںموقع دیا ہے اس کے مطابق اسلامی ماحول پیدا کرسکیں تا خداتعالیٰ کے حضورہم یہ کہہ سکیں کہ جتنا تو نے اختیار دیا تھا اتنا ہم نے کردیا اورباقی اس لئے نہ کرسکے کہ وہ ہمارے بس میں نہ تھا۔‘‘ (الفضل۲؍دسمبر۱۹۳۸ئ)
۱؎ ، ۲؎ مسلم کتاب اللباس و الزینۃ باب تحریم لُبس الحریر(الخ)
۳؎ سوسیاں: سوسی۔ ایک قسم کا رنگین دھاری دار کپڑا
۴؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کَیْفَ کَانَ بدء الوحی اِلٰی رَسُوْلِ اﷲ صلی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّم
۵؎ مسلم کتاب الاشربۃ باب فضیلۃ المؤاساۃ (الخ)
۶؎ بخاری کتاب مناقب الْاَنْصَار باب قول اﷲ عَزَّوَ جَلَّ وَ یُؤْ ثِرُوْنَ عَلٰی أَنْفُسِھِمْ (الخ)
۷؎ بخاری کتاب الطلاق باب مَھرالبَغْی (الخ)

۳۹
دشمن کی گالیوں کا جواب شرافت اور احسان سے دو
نیز خدمتِ دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرو
(فرمودہ ۲ ؍دسمبر ۱۹۳۸ء )
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’میرے پاس گزشتہ ایام میں ان اشتہارات کے خلاف نفرت کے اظہار کے خطوط آئے ہیں جو کچھ عرصہ ہؤا مصری صاحب کے ساتھ تعلق یا ہمدردی رکھنے والوں اور احرار کے ساتھ تعلق یا ہمدردی رکھنے والوں کی طرف سے اس علاقہ میں اور باہر پنجاب میں بھی تقسیم کئے گئے ہیں۔ میں اُس غیرت کی قدر کرتا ہوں جس کا اظہار ان دوستوں یا جماعتوں نے کیا ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں ان اشتہارات میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک فائدہ مخفی رکھا ہؤا ہے۔ شروع شروع میں جب مصری صاحب نے خط و کتابت شروع کی ہے تو اُنہوں نے بہت ہی غصہ کا اظہار اس امر پر کیا تھا کہ مجھے کہا جاتا ہے تم گالیاں دیتے ہو حالانکہ میں تو کوئی گالی نہیں دیتا اور ہماری جماعت کے کئی دوست جو ایسے امور میں مذبذب ہو جانے کے عادی ہیں وہ بھی کہنے لگ گئے تھے کہ آخر وہ کیا گالیاں ہیں جو وہ دیتے ہیں اور جب کہ وہ گالیاں دینے سے انکار کرتے ہیں تو یہ کیونکر تسلیم کیا جائے کہ واقع میں اُنہوں نے کوئی گالی دی ہے۔ مگر اب ہائیکورٹ کے ایک فیصلہ میں وہ الفاظ نقل ہو گئے ہیں جو میرے متعلق انہوں نے عدالت میں کہے اور اب ہرشریف انسان ان الفاظ کو پڑھ کر یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا وہ گالیاں دیتے ہیں یا نہیں اور آیا وہ بات جو میں نے کہی تھی وہ صحیح تھی یا نہیں۔ بھلا گالیوں سے کسی کا کیا بگڑتا ہے۔ ان کی گالیوں سے ہمارا تو کوئی نقصان نہیں چاہے وہ گالیاں کوٹیشن (Quotation) کے طور پر ہائی کورٹ کے کسی فیصلہ میں ہی کیوں نہ آ گئی ہوں۔ ہائیکورٹ کے فیصلہ میں کسی کی گالیاں نقل ہو جانا گالیاں دینے والے کی حقیقت واضح کرتا ہے۔ اس کی بات کو تقویت نہیں دے دیتا۔ اوّل تو مذہبی معاملات میں حکومتوں یا ہائیکورٹوں کے فیصلوں کا کوئی دخل ہی نہیں ہوتا۔ لیکن جو اشتہار شائع کیا گیا ہے اور اس میں جو فیصلہ درج کیا گیا ہے (گو سارا فیصلہ میں نے ابھی نہیں پڑھا) اسی سے ظاہر ہے کہ اس میں ان کی کوئی کامیابی نہیں کیونکہ ہائیکورٹ کا جج اُس فیصلہ میں یہ لکھتا ہے کہ چونکہ انہوں نے ایسے ایسے فقرات استعمال کئے ہیں اور ان سے اشتعال اور نقصِ امن کا اندیشہ ہے اس لئے مقامی حکام نے مصری صاحب کے خلاف جو کارروائی حفظِ امن کی ضمانت کے متعلق کی تھی وہ مناسب تھی اور ان کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ جج یہ نہیں کہتا کہ میں نے تحقیقات کی ہے اور تحقیق کے بعد میرا یہ فیصلہ ہے کہ واقع میں وہ الزامات درست ہیں جو عائد کئے گئے ہیں بلکہ وہ کہتا ہے کہ چونکہ انہوں نے ایسے الفاظ کہے ہیں اور یہ سخت اشتعال انگیز ہیں ۔ اس لئے میں ان کی ضمانت لینے کو درست قرار دیتا ہوں اس پر خوش ہوتے پھرنا اور کہنا کہ دیکھو ہائی کورٹ کے ایک جج کے فیصلہ میں یہ بات آگئی ہے یہ تو انتہا درجہ کی حماقت اور نادانی ہے۔ جج تو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ انہوں نے واقع میں اشتعال انگیزی سے کام لیا ہے۔ یہ تو نہیں کہتا کہ اس نے ان الزامات کی تحقیق کی ہے اور انہیں درست پایا ہے۔ وہ صرف یہ کہتا ہے کہ انہوں نے یہ یہ گالیاں دی ہیں اور ان وجوہ سے میرے نزدیک انہوں نے اشتعال انگیزی سے کام لیا ہے۔
یہ علیحدہ سوال ہے کہ ایسے فیصلوں کی اشاعت ملک کا امن قائم کرنے میں مُمِد ہے یا اس کے مخالف۔ یہ سوال گورنمنٹ سے تعلق رکھتا ہے۔ ان لوگوں سے محض اس حصہ کا تعلق ہے جس حصہ میں انہوں نے ہم کو گالیاں دیں اور جج نے ان کی گالیوں کو ان پر حجت تمام کرنے کے لئے اور ان کی اشتعال انگیزی ثابت کرنے کے لئے اپنے فیصلہ میں نقل کر دیا اور میں سمجھتا ہوں اس فیصلہ سے جماعت پر یہ امر واضح ہو گیا ہوگا کہ یہ نہ صرف گالیاں دیتے ہیں بلکہ ایسی گندی گالیاں دیتے ہیں جو دوسری جگہوں میں ایسے لوگوں کو ہرگز نہیں دی جا سکتیں جو اس جگہ کی اکثریت کے نزدیک واجب الاحترام ہوں بلکہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ فقرات جو انہوں نے ہمارے متعلق استعمال کئے ہیں وہ اس قسم کی گالیوں پر مشتمل ہیں کہ ادنیٰ سے ادنیٰ اقوام کے لوگ بھی ایسی گندی گالیاں نہیں دیا کرتے۔ پس یہ گالیاں گو رنج کا موجب بھی ہوں مگر ایک لحاظ سے یہ ہماری فتح کی علامت بھی ہیں کیونکہ جو لوگ اخلاق کے ذریعہ فتح حاصل کیا کرتے ہیں ان کے لئے یہ کامیابی اور خوشی کی بات ہے کہ دشمن اب ننگا ہو گیا ہے اور اس نے اپنے اندرونی گند کو بالکل ظاہر کر کے رکھ دیا ہے اور پہلے جو بات مخفی تھی وہ اب سب کو معلوم ہو گئی ہے اور ہر ایک کو نظر آ گیا ہے کہ ان کے اصل خیالات کیا ہیں۔ پھر جن حکام نے ایسا جلسہ کروا کے اس قسم کے اشتہار بانٹنے میں مدد کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں وہ بھی ایک حد تک ننگے ہوگئے ہیں اور اب گورنمنٹ کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ ہم سے یہ مطالبہ کرے کہ اس قسم کے الفاظ ہم دوسری جماعتوں کے لیڈروں اور اماموں کی نسبت استعمال نہ کریں۔ اگر عیسائیوں کے یسوع کی نسبت (جو اُن حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بالکل مختلف وجود ہے جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے اور جو ہمارے نزدیک واجب الاحترام ہستی ہیں) ہماری طرف سے وہی الفاظ استعمال کئے گئے جو ہمارا دشمن ہمارے متعلق استعمال کرتا ہے تو یقینا گورنمنٹ کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ کہے تم اشتعال انگیزی سے کام لیتے ہو۔ کیونکہ اس نے اپنے قانون اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ بات جائز ہے۔ باقی میں نے بتایا ہے کہ ہائیکورٹ کے فیصلہ میں کسی کو ٹیشن کا آ جانا اسے کوئی اہمیت نہیں دے دیتا۔ آخر جج نے جب الزام ثابت کرنا تھا تو اس کے لئے سوائے اس کے اور کیا صورت تھی کہ وہ ان کی کچھ گالیاں اپنے فیصلہ میں نقل کر دیتا اور کہہ دیتا کہ چونکہ یہ الفاظ اشتعال انگیز ہیں اس لئے تم مجرم ہو اور تم سے جو ضمانت طلب کی گئی تھی وہ بالکل درست ہے اس کوٹیشن پر خوش ہو جانا تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی جج اپنے فیصلہ میں لکھے کہ چونکہ فلاں نے قتل کیا ہے اس لئے اسے پھانسی کی سزا دی جاتی ہے۔ اب کوئی اور شخص اس فیصلہ کو لے لے اور کہے چونکہ جج نے اپنے فیصلہ میں قتل کا ذکر کر دیا ہے اس لئے معلوم ہؤا کہ قتل جائز ہے۔ جج تو ان کے فقرات کو معیوب قرار دیتا ہے اور ان کے کچھ الفاظ اپنے فیصلہ میں نقل کر کے بتاتا ہے کہ دیکھو انہوں نے یہ یہ الفاظ کہے ہیں اور کہتا ہے میری رائے میں یہ امر قابلِ اعتراض اور حفظِ امن کی ضمانت طلبی کا متقاضی ہے۔ مگر وہ اس سے نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ ان کے الزامات کو بڑی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے میں نے بتایا ہے کہ کوئی جج اپنے فیصلہ میں قتل کا ذکر کرے تو اس سے نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ ان کے الزامات کو بڑی اہمیت حاصل ہوگئی ہے یہ ایسی ہی بات ہے جیسے میں نے بتایا ہے کہ کوئی جج اپنے فیصلہ میں قتل کا ذکر کرے تو اس سے یہ نتیجہ نکال لیا جائے کہ اب قتل جائز ہوگیا۔ کوئی عقل کا اندھا ہی ایسا نتیجہ نکالے تو نکالے کوئی عقلمند ایسا نتیجہ نہیں نکال سکتا۔ بہرحال میرے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے ہمارے لئے دوراستے کھولے ہیں۔ ایک تو ہمارے لئے یہ راستہ کھولا ہے کہ ہمیں لوگوں کے سامنے یہ بات ثابت کرنے کا موقع حاصل ہو گیا ہے کہ ہم جو کہتے تھے یہ ہم پر ظالمانہ الزام لگاتے ہیں ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور ہمیں بُرا بھلا کہتے ہیں یہ بالکل درست تھا اور اس کا ثبوت ان کا یہ تازہ اشتہار ہے۔ چنانچہ یہ اشتہار کسی شریف ہندو، کسی شریف عیسائی، کسی شریف سکھ اور کسی شریف مسلمان کے سامنے رکھ دو اور کہو کہ یہ اشتہار ہے اسے پڑھ کر آپ بتائیں کہ ظالم یہ ہیں یا ہم، تو ہر شریف انسان (اور شریف انسان کی رائے ہی وقعت رکھتی ہے) یہی کہے گا کہ تم مظلوم ہو اور یہ ظالم ہیں۔ اور جو غیر شریف ہیں ان کی رائے کی کوئی قدر ہی نہیں ہوتی وہ ہمیشہ گنداُچھالتے رہتے ہیں اور گند میں ہی ان کو لذت آتی ہے۔
تو خدا تعالیٰ نے ہمارے دشمن کے مقابلہ میں خود دشمن کے منہ سے ہی ہماری مظلومیت کو ثابت کرا دیا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے گورنمنٹ پر حُجت قائم کرنے کے لئے بھی ایک راستہ کھول دیا ہے۔ اب اگر ہم یہی الفاظ دوسری قوموں کے لیڈروں کے متعلق استعمال کریں اور ہماری جماعت کے کسی فرد پر گورنمنٹ ان الفاظ کے استعمال کی وجہ سے مقدمہ چلا دے تو اس کا حق ہوگا کہ وہ اپنے مقدمہ کے دوران میں یہی اشتہار عدالت میں پیش کر دے اور کہے صاحب گورنمنٹ نے ان الفاظ کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور باوجود اس کے کہ گورنمنٹ نے یہ قانون مقرر کیا ہؤا تھا کہ فلاں شخص کو قادیان کی حدود کے دو میل کے اندر اندر جلسہ کرنے یا تقریر کرنے کی اجازت نہیں۔ پھر بھی اُس سے قادیان کی حدود کے دو میل کے اندر جلسہ کرایا گیا اور اس موقع پر یہ اشتہار لوگوں میں بانٹا گیا۔ اب بتائیے جب گورنمنٹ ان الفاظ کو قدر کی نگاہ سے دیکھ چکی ہے تو اگر میں نے ایسے ہی بعض الفاظ کسی اور قوم کے لیڈر کی نسبت استعمال کر لئے تو اس میں حرج کونسا ہوگیا۔ تو اب ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے گورنمنٹ پر حجت تمام کرنے کے لئے پہلے سے زیادہ راستہ کھول دیا ہے اور دو باتوں میں سے ایک بات گورنمنٹ کو ضرور ماننی پڑے گی۔ یا تو اُسے یہ ماننا پڑے گا کہ یہ الفاظ بہت اعلیٰ درجہ کے ہیں۔ ان سے کوئی فساد نہیں ہوتا اور نہ کسی کا دل دُکھتا ہے لیکن اگر کسی غیر مسلم قوم کے بزرگ کو مسلمان کہہ دیا جائے تو اس سے اس قوم کا دل بہت دُکھتا ہے یا اسے تسلیم کرنا ہوگاکہ وہ احمدیوں کے لئے اور قانون چلانا چاہتی ہے اور دوسری اقوام کے لئے اور۔ گویا گورنمنٹ اگر خاموش رہے گی جیسا کہ وہ اب تک خاموش ہے تو وہ اپنی خاموشی سے یہ اعلان کر دے گی کہ کسی کو مسلمان کہنا تو گالی ہے لیکن وہ الفاظ استعمال کرنے جو اس اشتہار میں استعمال کئے گئے ہیں گالی نہیں۔ پس ہمیں گورنمنٹ پر بھی حجت کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے ایک دلیل دے دی ہے اور اب دنیا کی تمام قوموں کے سامنے تم یہ معاملہ رکھ سکتے ہو۔ ایک طرف وہ الفاظ لکھ دو جو اس اشتہار میں ہمارے متعلق لکھے گئے ہیں اور دوسری طرف باوا نانک صاحب کے متعلق مسلمان کا لفظ لکھ دو اور اس کے نیچے تحریر کر دو کہ گورنمنٹ پنجاب کا یہ فیصلہ ہے کہ ان الفاظ کا استعمال تو گالی نہیں مگر مسلمان کہنا گالی ہے۔ پھر خود بخود دیکھ لو گے کہ دنیا کا عقلمند اور شریف طبقہ تمہاری تائید کرتا ہے یا گورنمنٹ کی، تو اگر گورنمنٹ نے اپنے رویہ میں تبدیلی نہ کی تو ہمارے ہاتھ میں وہ اپنے خلاف ایک اور ہتھیار دے گی۔ پس ہمارے لئے اس میں رنج کی کوئی بات نہیں بلکہ گورنمنٹ کے خلاف ایک اور دلیل ہمیں مل جائے گی غرض دونوں اطراف کے لئے خداتعالیٰ نے ہمیں دلیل مہیا کر دی ہے۔ ہمارے مخالف کے خلاف بھی کہ وہ یہ الفاظ استعمال کرتا ہے اورا بھی اپنے آپ کو مظلوم کہتا ہے اور گورنمنٹ کے خلاف بھی کہ یہ الفاظ گورنمنٹ کے نزدیک گالی نہیں۔ مگر غیرمسلم اقوام کے کسی بزرگ کو مسلمان کہنا سخت گالی ہے اور اس سے اس قوم کا دل بُری طرح دُکھ جاتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ جو لوگ اس قسم کے دشمنوں کا جواب دینا چاہیں گے وہ یہ الفاظ اس کے بزرگوں کی نسبت استعمال کر دیں گے اور کہیں گے کہ یہ لفظ ہم اس لئے استعمال کر رہے ہیں تا دوسرے کا دل بھی نہ دکھے اور ہماری طرف سے جواب بھی ہو جائے۔ بہرحال تھوڑے ہی دنوں میں گورنمنٹ کے رویہ سے یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ آیا یہ اشتہارات اُس کی مرضی اور خوشی سے بانٹے گئے تھے یا اس کے علم کے بغیر بانٹ دیئے گئے تھے اور واقع میں اُس نے انہیں ایسا ہی بُرا سمجھا ہے جیسے ہر شریف آدمی انہیں بُرا سمجھتا ہے۔ دو چار ہفتوں میں یہ بات کھل جائے گی اگر گورنمنٹ نے ان الفاظ کو کوئی اشتعال انگیز بات قرار نہ دیا تو آپ لوگوں کے ہاتھ قانون کے ماتحت ایک نیا حربہ آ جائے گا (اور ہماری تعلیم بھی یہی ہے کہ قانون کے ماتحت چلا جائے) اور اگر گورنمنٹ نے اپنے ان اختیارات کو استعمال کیا جن اختیارات کو وہ سنبھال سنبھال کر رکھتی ہے اور جنہیں چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتی تو گورنمنٹ کے متعلق ہمیں جو شکوہ ہے وہ آپ ہی دور ہو جائے گا۔
اِس کے بعد میں اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہوں کہ حسبِ عادت اس موقع پر مولوی محمدعلی صاحب نے بھی اظہارِ خیالات کیا ہے وہ کہتے ہیں اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقی جماعت کونسی ہے تو اس کے لئے چند خصوصیات کا دیکھنا ضروری ہے۔
’’سب سے پہلی چیز نیکی اور بلند اخلاقی ہے… ذرا غور کرو۔ وہ شہرت قادیان کی جو نیکی اور راستبازی سے حاصل ہوئی تھی کیا وہ اب باقی ہے۔ شاید کوئی کہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکو بھی لوگ گالیاں دیتے تھے اور بُرا بھلا کہتے تھے۔ شاید کوئی ناپاک الزام بھی لگاتے ہوں لیکن یہ سب دشمن اور مخالف تھے۔ دشمن ایسا کیا ہی کرتے ہیں۔ کیا دشمن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جھوٹ اور ناپاک الزام نہیں لگاتے لیکن رنجدہ بات یہ ہے کہ قادیان میں دشمن نہیں بلکہ مرید کہلانے والے، زندگیاں وقف کرنے والے، جان و مال فدا کرنے والے آج کیا کہتے ہیں۔ میرا دل تو کانپ اُٹھا آج ہائیکورٹ کا ایک فیصلہ پڑھ کر جس میں ایک مرید کی شہادت درج ہے یعنی مولوی شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے ایک عدالتی بیان کو اس فیصلہ میں نقل کیا گیا ہے۔ وہ بیان کیا ہے؟ وہ اس قدر افسوسناک ہے کہ میں اس کو اپنی زبان سے بیان کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ اس قدر بُرے واقعات اور حالات قادیان کے اس میں بتائے گئے ہیں کہ دل ان کو پڑھ کرکانپ اُٹھتا ہے۔ اب یہ باتیں ہائیکورٹ کے فیصلہ میں آ گئی ہیں اور ساری دنیا میں پھیل جائیں گی… وہ قادیان جو کبھی نیکی، اعلیٰ اخلاق اور راستبازی کی وجہ سے دنیا میں مشہور تھا آج بُری باتوں کے لئے دنیا میں مشہور ہو رہا ہے‘‘۔
پھر لکھتے ہیں:
’’دوسری چیز علم ہے حضرت مسیح موعود ؑ نے تمام مذاہب پر اتمامِ حجت کیا، ایک نیا علم الکلام پیدا کیا، اسلام کی حقانیت پر کتابوں اور مضامین کے انبار لگا دیئے، قرآن کو ساری دنیا میں پھیلانے کی بنیاد رکھی، آج ذرا دیکھو کہ قادیان میں کس قدر علم رہ گیا ہے۔ کل ہی کی بات ہے دورانِ سفر میں ایک قادیانی بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اُن سے کہا کہ آخر یہ کیا ہو گیا ہے آپ کا انگریزی ترجمہ قرآن چھَپنے ہی میں نہیں آتا۔ آج پچیس سال ہوگئے ۔ اُنہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور بات ٹال گئے… تیسری بات ہے کام۔ سو اب قادیانی جماعت کی تمام طاقت سیاست پر صرف ہو رہی ہے اسلام کی حفاظت اور تبلیغ کا خیال انہیں بھولتا جا رہاہے‘‘۔ ۱؎
یہ تقریر اُنہوں نے بھی کی۔ گویا ان کے نزدیک جب کوئی دشمن اعتراض کر دے خصوصاً جو اس جماعت میں شامل ہو تو ضرور تہہ میں کوئی نہ کوئی بات ہوتی ہے اور وہ دوسرے کو تقویٰ و طہارت سے کوسوں دور ثابت کرنے والی ہوتی ہے اور اگر ہائیکورٹ کے فیصلہ میں کوئی گالی نقل ہو جائے تو پھر تو اس کے سچا ہونے میں کوئی شُبہ ہی نہیں رہتا۔ چاہے صرف حوالہ کے طور پر ہی ان گالیوں کو نقل کیا گیا ہے۔ اگر یہی بات ہے تو کیا کہیں گے مولوی محمد علی صاحب ان کیسز کے متعلق جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دشمنانِ اسلام کی گالیاں نقل کی گئی ہیں اور ہائیکورٹ کے فیصلوں میں نقل کی گئی ہیں۔ کیا وہ اسی اصل کے مطابق جو انہوں نے یہاں اختیار کیا ہے ان گالیوں کو بھی سچا سمجھنے کے لئے تیار ہیں۔ معلوم ہوتا ہے وہیں سے مولوی صاحب کے دل میں مرض پیدا ہونا شروع ہؤا ہے اور جب کسی کو آقا کے متعلق شبہات پیدا ہو جائیں تو اس کا غلاموں کے متعلق شک کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہو سکتا۔ مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ اس بات کو کسی قسم کی اہمیت دینا نادانی ہے جب بھی کوئی جج کسی پر الزام قائم کرے گا اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اس کا جُرم بیان کرے۔ مثلاً بزرگوں کو گالیاں دینا ایک جُرم ہے اب کوئی بھی جج جب کسی کے متعلق یہ فیصلہ کرے گا کہ اس نے دوسری قوم کے بزرگوں کو گالیاں دیں تو وہ اُس کی گالیوں میں سے کچھ گالیاں اپنے فیصلہ میں نقل بھی کرے گا۔ بغیر اس کے اس کا فیصلہ مکمل کس طرح ہو سکتا ہے۔ پس مصری صاحب کی چند گالیوں کے نقل ہو جانے سے اس میں طاقت کونسی پیدا ہوگئی کہ مولوی صاحب کو یہ فکر لاحق ہو گیا کہ اب یہ باتیں ساری دنیا میں پھیل جائیں گی اور لوگ نہ معلوم کیا کچھ کہیں حالانکہ اس قسم کے ٹریکٹ اور اشتہارات شائع بھی وہیں سے ہوتے ہیں اور وہ ان کی اشاعت کے لئے روپے پیسے بھی خرچ کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ انہیں افسوس بھی ہوتا ہے کہ اب یہ لوگوں میں پھیلیں گی اور وہ بُرا اثر قبول کریں گے۔
مولوی صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ برابر ان کی طرف سے ہم پر گندے حملے ہوتے جا رہے ہیں اور شاید وہ سمجھتے ہیں کہ گالیاں ہم کو ہی دی جاتی ہیں اور ہمارے متعلق ہی ایسی باتیں کہی جاتی ہیں کسی اور کے متعلق ایسی باتیں نہیں کہی جاتیں حالانکہ کہنے والوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی ایسی ہی باتیں کہیں اور وہ ان کے مرید تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی ایسی ہی باتیں کہیں اور وہ ان کے مرید تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی ایسی ہی باتیں کہیں اور کہنے والے آپ کے مرید کہلاتے تھے۔ پس جب اس قدر عظیم الشان ہستیوں پر ان کے مرید کہلانے والوں نے الزام لگائے تو میری یا اور کسی کی کیا ہستی ہے کہ ہم ایسے الزاموں سے بچ جائیں۔ خود مولوی محمد علی صاحب اور ان کے خاندان کے متعلق بھی ایسی کئی باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میرے پاس جب وہ باتیں پہنچتی ہیں تو میں انہیں دبا دیتا ہوں۔ مگر مولوی صاحب کے پاس جب ہمارے متعلق کوئی اس قسم کی بات پہنچتی ہے تو وہ خوشی سے اچھل پڑتے ہیں اور اس کی اشاعت اور ترویج میں حصہ لینے لگ جاتے ہیں لیکن ان کا یہ سلسلہ مخالفت کا اور خواہ مخواہ اپنے آپ کو ایسے مقام پر کھڑا کرنا جہاں کھڑے ہونے کا شریعت انہیں حق نہیں دیتی لمبا ہوتا چلا جاتا ہے اور میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر ان کا یہ سلسلہ لمبا چلتا چلا گیا اور ہماری جماعت کے آدمیوں نے بھی ان باتوں کو دہرانا شروع کر دیا جو ان کی جماعت کے ہی بعض افراد جن کی پوزیشن مصری صاحب سے ملتی ہے ان کے متعلق کہتے ہیں توپھر انہیں ہم پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ میں جانتا ہوں کہ اگر ہماری طرف سے اس قسم کے جواب دیئے گئے تو تھوڑے ہی دنوں میں ان کی جماعت چیخ پڑے گی۔ یہ محض میری شرافت ہے کہ بیس سال سے جو باتیں میں ان کے متعلق، ان کے خاندان کے متعلق اور ان کی جماعت کے متعلق سنتا چلا آ رہا ہوں انہیں میں نے کبھی ظاہر نہیں کیا۔ کیونکہ میں کہتا ہوں کہ جس بات کو میں اپنے متعلق ناجائز سمجھتا ہوں میرا کوئی حق نہیں کہ میں اسے دوسروں کے متعلق جائز قرار دوں۔ یہی اسلام نے ہمیں سبق سکھایا ہے اور اس سبق کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے ہمیں تعلیم دی ہے۔ پس میں ایسی باتوں کو نہ اپنے متعلق جائز سمجھتا ہوں اور نہ ان کے متعلق جائز سمجھتا ہوں مگر چونکہ وہ متواتر اس قسم کے حملے ہم پر کرتے چلے آئے ہیں اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس لئے میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ خود شیشے کے محل میں بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں شیش محل میں بیٹھ کر دوسرے پر پتھر مارنا کوئی عقلمندی نہیں ہوتی کیونکہ اگر دوسرے نے بھی پتھر مارنے شروع کر دیئے تو اس کا شیش محل چکنا چُور ہو جائے گا۔ پس اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کسی مخالف یا مرید کہلانے والے یا ہم عقیدہ کا کوئی اعتراض بیان کرنا جائز ہوتا ہے اور لوگوں کو اس بات کا حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اسے درست سمجھتے ہوئے پھیلائیں اور یہ کہنا شروع کر دیں کہ تمام جماعت بگڑ گئی ہے اب نیکی اور تقویٰ کا تو نام ونشان تک نہیں رہا تو پھر مہربانی کر کے وہ چیخیں نہیں اگر ان کے متعلق ایسی ہی باتیں ہماری طرف سے شائع کر دی جائیں۔
باقی رہا ان کا یہ کہنا کہ مرید ایسی باتیں کہتے ہیں سو مولوی صاحب نے اس امر کے بیان کرنے میں بھی دیانت سے کام نہیں لیا کیونکہ مولوی صاحب کو معلوم ہے کہ مصری صاحب خلافت کے اس رنگ میں منکر ہیں جس رنگ میں ہم قائل ہیں اور جب انہیں ہم سے اختلاف مذہبی پیدا ہوچکا ہے تو ان کی ظاہری بیعت جو ارتداد سے پہلے تھی بیعت نہیں کہلا سکتی۔
باقی رہا کام تو ان کے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر ان کا ایک مبلغ ہندوستان سے باہر کام کر رہا ہے تو ہمارے تیس چالیس مبلغ کام کر رہے ہیں۔ رہا قرآن مجید کا ترجمہ تو اس کے متعلق میں اُن سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ترجمہ کی تاریخ کو دنیا کے سامنے لانے سے نہیں شرماتے تو ہم اس سوال کو بھی دینا کے سامنے لانے کے لئے تیار ہیں۔ ہمارے ترجمہ میں بے شک دیر ہوگئی ہے مگر اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مولوی شیر علی صاحب کی صحت ایسی نہ تھی کہ وہ اس کام کو جلد کر سکتے اور ترجمہ کا شائع کرنا ہی اصل کام نہیں ترجمہ تو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی شائع نہیں کیا۔ ہاں علم قرآن کے بارے میں مولوی صاحب کو باربار مقابلہ کا چیلنج دے چکا ہوں اور اب پھر کہتا ہوں کہ اگر انہیں علم قرآن کا دعویٰ ہے تو وہ میرے سامنے بیٹھ جائیں اور تفسیر نویسی میں مجھ سے مقابلہ کر لیں لیکن وہ کبھی بھی اس طرف نہیں آتے اور مجھے یقین ہے کہ اب بھی نہ آئیں گے وہ ہمیشہ ہی اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ بالکل سیدھی سادی بات ہے ایک رکوع یا ایک سورۃ قرعہ کے ذریعہ نکال لی جائے۔ پھر اس کی تفسیر وہ بھی لکھیں اور میں بھی لکھتا ہوں۔ اس تفسیر کو شائع کر دیا جائے پھر دنیا کو خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ علم کے دروازے کس پر کھولے گئے ہیں اس میں زیادہ شرائط کی بھی ضرورت نہیں۔ امن کے قیام کی ایک شرط رکھ لی جائے اور بالمقابل بیٹھ کر کسی رکوع یا کسی سورۃ کی تفسیر لکھنی شروع کر دی جائے۔ بعد میں وہ دونوں شائع کر دی جائیں لوگ خود بخود فیصلہ کر لیں گے کہ معارفِ قرآن کس پر کھولے گئے ہیں۔ مگر سابقہ تجربہ بتاتا ہے کہ جب بھی تفسیر نویسی میں مقابلہ کا ذکر شروع ہو وہ ایسی شرائط پیش کرنے لگتے ہیں جن کا تفسیر نویسی سے کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا بلکہ محض ایک اکھاڑہ جمانا مقصود ہوتا ہے حالانکہ تفسیر نویسی کے کام میں زیادہ تر آسانی انہیں حاصل ہے کیونکہ وہ قرآن کریم کی ایک تفسیر پہلے سے لکھ چکے ہیں مگر میں نے کوئی تفسیر نہیں لکھی۔ پس وہ ظاہری حالات کے مطابق تفسیر کے لکھنے پر زیادہ قادر ہیں۔ ایسی تفسیر دنیا میں جب شائع ہو جائے گی لوگ خود بخود فیصلہ کر لیں گے کہ زیادہ معارف کس نے بیان کئے ہیں اور دنیا کا فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہوتا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ انبیاء بھی بوجہ مبلغ سماوی ہونے کے دنیا ہی کو مخاطب کرتے چلے آئے ہیں خلفاء بھی اسی کی اصلاح کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ علماء بھی دنیا کو اپنا ہم خیال بنانے میں کوشاں رہتے ہیں۔ میرا کام بھی یہی ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس صداقت کا قائل کروں جس کو میں صداقت سمجھتا ہوں اور مولوی صاحب کا بھی یہی کام ہے۔ پس بہترین فیصلہ کرنے والے وہی لوگ ہیں۔ ہماری تفسیریں شائع ہو کر لوگوں میں پھیل جائیں گی لوگ خود فیصلہ کر لیں گے اگر ان کی تفسیر بہتر ہوئی توخود بخود لوگوں کی رغبت ان کی طرف ہو جائے گی اور اگر میری تفسیر اعلیٰ ہوئی تو لوگوں کی رغبت میری طرف بڑھ جائے گی۔ اس کام کے لئے صرف اس قدر کافی ہے کہ دونوں تفسیریں ایک جِلد میں چھپ جائیں ۔اس کے لئے ہمارے اکٹھا بیٹھنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ دونوں طرف کے نمائندے اکٹھے ہو کر قرعہ ڈال لیں اور ایک وقت مقرر ہو جائے کہ فلاں ٹکڑہ کی اتنے دنوں کے اندر تفسیر لکھی جائے پھر وقت مقررہ پر دونوں طرف کے نمائندے تفاسیر پیش کر دیں اور ہر فریق دوسرے کو کاپی دے دے جو بعد ازاں اکٹھی چھپ جائیں اور دونوں فریق اس کا خرچ برداشت کریں اور چھپنے پر برابر برابر کاپیاں لے لیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ’’اعجاز المسیح‘‘ کے وقت اسی رنگ میں تفسیر لکھی ہے۔ اس مقابلہ میں یہ تو سوال ہی نہیں کہ الگ تفسیر لکھی گئی تو دوسرے لوگ مدد دے دیں گے کیونکہ اوّل تو یہ سہولت مولوی صاحب کو بھی حاصل ہوگی۔ دوسرے اس قسم کی تفسیر کی خوبی تو نئے معارف سے ظاہر ہوگی اور یہ معارف تو بہرحال عارف ہی بیان کر سکتا ہے۔ ورنہ ظاہری علم تو یقینا مولوی صاحب کا مجھ سے زیادہ ہے اس کا تو انکار میں نے کبھی کیا ہی نہیں وہ ایم۔ اے ہیں اور میں پرائمری پاس بھی نہیں ہوں۔ میں ان کی اس فوقیت کا مقر ہوں مجھے تو جس امر میں اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ میں کہتا ہوں خدا تعالیٰ میری مدد کرتا ہے اور وہ کہتے ہیں خدا تعالیٰ میری مدد کرتا ہے گویا الٰہی مدد اور نصرت کا سوال ہے کسی ذاتی علم کا سوال نہیں۔
پس وہ اس طریق کو اختیار کر کے دیکھ لیں جو میں نے تجویز کیا ہے۔ پھر خود بخود ان پر واضح ہو جائے گا کہ اس میں مجھے ان پر فوقیت حاصل ہے لیکن اگر باوجود میرے اس طریق کو پیش کر دینے کے مولوی صاحب نے اپنے طریق کو نہ بدلا تو میں انہیں کہہ دینا چاہتا ہوںکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کرنے کے سامان پیدا کر رہے ہیں۔ لوگ خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی تدابیر اختیار کرتے ہیں اور وہ اس کو ناراض کرنے کے حیلے ڈھونڈ رہے ہیں اگر وہ اس طریق سے باز نہیں آئیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی ذلت کے سامان کرے گا۔ وہ ہمارے متعلق بے شک جو چاہیں کہیں ہم جانتے ہیں کہ وہ گو اقلیت میں ہیں مگر انہوں نے ایک بڑی اکثریت سے جو ہماری مخالف ہے صلح کی ہوئی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے ایک بڑی اکثریت کو اُن سے ہمدردی ہے اور وہ انہیں مسلمان کہہ کہہ کر خوش کرتے رہتے ہیں۔ پس دُنیوی طاقت کے لحاظ سے بے شک وہ ہم سے بڑھے ہوئے ہیں مگر ہمارا اور ان کا مقابلہ دُنیوی طاقت سے نہیں یہ کوئی جسمانی لڑائی بھڑائی نہیں جس میں عدد اور شمار کا سوال زیادہ اہمیت رکھ سکتا ہو۔ یہ الٰہی مدد اور الٰہی گرفت کا سوال ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جو باتیں آج مصری صاحب میرے متعلق کہہ رہے ہیں ایسی ہی باتیں اُن کی پارٹی کے بعض آدمی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہا کرتے تھے۔ پس اگر ایسی باتیں کہنا کوئی ثبوت ہوتا ہے تو پھر انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی چھوڑ دینا چاہیے اور ان کو معلوم ہے کہ ایسی ہی باتیں پہلے انبیاء و خلفاء اور خدا تعالیٰ کے مقدس اور پاک لوگوں کے متعلق ان کے دشمن کہتے چلے آئے ہیں۔ وہ مبالغہ سے بھی کام لیتے رہے ہیں، وہ جھوٹ سے بھی کام لیتے رہے ہیں، وہ دھوکا اور فریب بھی استعمال کرتے رہے ہیں اور ہزاروں ترکیبیں اپنی فتح کی ایجاد کرتے رہے ہیں مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ اسی طرح اب انشاء اللہ دنیا دیکھ لے گی کہ میرے مخالف کامیاب نہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ باوجود ان باتوں کے انہیں میری طرف کھینچ کھینچ کر لاتا جائے گا اور میرے ذریعہ سے انشاء اللہ احمدیت اور اسلام کی ترقی دنیا کے چاروں گوشوں میں ہوتی جائے گی اور دشمن حسد کی آگ میں جلتا چلا جائے گا۔
مجھے افسوس ہے کہ پہلے لوگوں کے حالات مولوی صاحب کے سامنے ہیں مگر باوجود اس کے وہ گند میں پتھر مارنے سے باز نہیں آتے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہے جاتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے یہ باتیں مشہور نہ ہو جائیں۔ حالانکہ ان کیچڑ اُچھالنے والوں کو چندہ دینے والے بِالعموم پیغامی ہی ہوتے ہیں۔ چند سال پہلے جب مستریوں کی طرف سے شورش اُٹھی تھی تو اس وقت بھی ان لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ ہم نے ان کے لٹریچر کی اشاعت میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ مگر بغداد سے بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ یہ غلط ہے۔ خود احمدیہ بلڈنگز سے ایک غیر مبائع کو ایسا لٹریچر آتا رہا ہے اور جہاں تک مجھے یاد ہے اس غیر مبائع نے اس کی تصدیق بھی کر دی تھی۔ میراخیال ہے کہ یہ شہادت اُنہی دنوں ’’الفضل‘‘ میں بھی شائع کرا دی گئی تھی۔ اسی طرح ہمارے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ ان کی انجمن کے بعض افسروں نے اپنے کلرکوں کو رُقعے لکھے ہیں کہ فلاں شخص مثلاً مستری عبدالکریم کو اتنے روپے دے دو۔ ایک شخص ان لوگوں میں سے باغی ہو کر الگ ہو گیا تھا۔ اس نے ان کی انجمن کے تمام ریزولیوشنوں کی نقل اور اُن چِٹھیوں کی کاپیاں تک مجھے بھجوا دیں وہ غالباً محاسب کے عہدہ پر کام کر چکا تھا۔ تو یہ درست نہیں کہ یہ لوگ ہمارے مخالفوں کی مدد نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خود انہیں اُکستاتے ہیں۔ خود ان کی مدد کرتے ہیں خود ان کی باتوں کو پھیلاتے ہیں اور روپے والے ان کی روپوں سے مدد کرتے ہیں۔ چنانچہ پچھلے جلسہ سالانہ کے موقع پر ہی لائل پور کا ایک پیغامی یہاں آیا اور اس نے ایک معقول رقم انہیں مدد کے طور پر دی اور وعدہ کیا کہ اگر ان کا کوئی آدمی لائل پور آئے تو وہ اور بھی مدد کر دیں گے۔ اسی طرح اور لوگ بھی ان کی مدد کرتے رہتے ہیں اور جب یہ معترض وہاں جاتے ہیں تو وہ ان کی کافی مدد کرتے رہتے ہیں۔
پس یہ غلط ہے کہ ان باتوں کے پھیلنے سے ان کو رنج ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ ان باتوں کے پھیلانے میں ان کا حصہ ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں ان باتوں پر کوئی غصہ نہیں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں اس قسم کی باتیں کرنے والا زیادہ دیر تک لوگوں میں اپنی حیثیت قائم نہیں رکھ سکتا۔ آخر کب تک یہ حقیقت لوگوں کی نظر سے مخفی رہ سکتی ہے کہ ایک طرف تو یہ خود فتنہ کھڑا کریں۔ خود اس فتنہ کی آگ کو ہوا دیں خود فتنہ پردازوں کی مدد کریں، خود ان کی باتوں کو لوگوں میں پھیلائیں اور پھر بڑے ناصح اور مشفق بن کر کہنے لگ جائیں کہ ہمیں ان باتوں کا سخت صدمہ ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ یہ باتیں کہیں پھیل نہ جائیں تو یہ بات دنیا کے علم سے زیادہ دیر باہر نہیں رہ سکتی لیکن میں سمجھتا ہوں کوئی وقت ایسا بھی آ جایا کرتا ہے جب کہ عفو کرنا جائز نہیں ہوتا۔
پس ممکن ہے ہم پر بھی کبھی وہ وقت آ جائے جب کہ ہمارے لئے عفو اور خاموشی ناجائز ہو جائے اور ہم کو بھی اُن کے مقابلہ میں ان کی باتوں کی تشہیر کرنی پڑے اور اگر ایسا موقع پیش آیا تو یقینا اس کی ذمہ داری پیغامیوں کی جماعت پر ہی ہوگی اور پھر کوئی پیغامی ہم پر ناراض نہ ہو بلکہ اپنے امیر پر ناراض ہو کیونکہ وہ متواتر اس طریق کو اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں جو شرافت اور تہذیب کے بالکل خلاف ہے۔
لاہور کے ایک ہندو جو ہندوؤں کے مشہور لیڈر ہیں ان کی لڑکی کے متعلق کئی سال ہوئے اخبارات میں بڑا شور اُٹھا کہ اس کی خط و کتابت کسی شخص سے پکڑی گئی ہے۔ الفضل کا ایڈیٹر میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ فلاں ہندو کی لڑکی کے خطوط پکڑے گئے ہیں۔ یہ واقعہ ایسا مشہور ہے کہ باوجود اس کے کہ کئی سال کا عرصہ گزر چکا ہے اب تک بھی کبھی کبھی اخبارات میں اس کی طرف اشارہ کر دیا جاتا ہے چنانچہ آٹھ دس دن ہوئے ایک ہندو اخبار مَیں نے کھولا تو اس میں ایک مقام پر اس لڑکی کا ذکر تھا اور لکھا تھا کہ اس کے فلاں سے تعلقات تھے اور گو اس نے نام بھی لکھ دیئے اور بیسیوں اخبارات میں بھی یہ بات آ چکی ہے مگر میں اب بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ ان کے نام لوں، تو الفضل کا ایڈیٹر میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ یہ شخص سلسلہ کا سخت مخالف ہے۔ اب خدا نے ہمیں ایک موقع عطا کیا ہے اس کی لڑکی کے خطوط پکڑے گئے ہیں بہتر ہے کہ ہم بھی اس واقعہ کا اپنے اخبار میں ذکر کر دیں۔ میں نے اسے کہا بیشک خداتعالیٰ نے تمہیں یہ موقع دیا ہے مگر یہ موقع خداتعالیٰ نے تمہیں اپنی شرافت کے اظہار کا دیا ہے تمہیں چاہئے کہ تم اس کے خلاف پروٹسٹ کرو کہ ایک مسکین اور بے کس لڑکی کے خلاف اخبارات میں جو پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے یہ نہایت ہی کمینہ پن اور اخلاق سے گرا ہوا فعل ہے۔ چنانچہ ہمارے اخبار میں عام اخبارات کے رویہ کے خلاف پروٹسٹ کیا گیا مگر اس ہندو لیڈر نے ہمیں اس کا یہ بدلہ دیا کہ جب مستریوں کا فتنہ اُٹھا تو اس نے ہمارے خلاف خوب لکھا۔ مجھے جب اس کا علم ہؤا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی اور میں نے سمجھا اب کسی شریف آدمی کے سامنے بھی یہ دونوں باتیں رکھ دی جائیں کہ ہم نے اس سے کیا سلوک کیا اور اس نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا تو یقینا ہماری ہی فتح ہوگی اور ہر شریف انسان کے دل میں ہماری عزت اور عظمت بیٹھ جائے گی۔ آجکل بھی اس کے بیٹے کے متعلق اخبارات میں بعض حملے ہوئے تو ہمارے اخبار نے میرے اسی حکم کے مطابق جو میں نے اس وقت دیا تھا اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا حالانکہ جس طرح وہ ہمارے خلاف ہمیشہ لکھتا رہتا ہے، اس کے لحاظ سے اگر وہ چاہتے تو وہ خود بھی اس واقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کے خلاف لکھ سکتے تھے مگر انہیں چونکہ میری پالیسی کا علم تھا اس لئے انہوں نے اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا اور میں سمجھتا ہوں اگر پھر بھی کبھی اس پر یا اس کے خاندان کے کسی فرد پر کوئی غیرشریفانہ حملے ہوئے تو ہم کبھی حملہ کرنے والوں کی حمایت نہیں کریں گے اور کبھی وہ طریق اختیار نہیں کریں گے جو وہ ہمارے متعلق اختیار کرتا رہا ہے کیونکہ شریف شرافت سے بدلہ لیا کرتا ہے۔ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ ایک افسر تھا جسے اپنے ماتحت سے ضد تھی اور وہ کبھی کبھی اس پر سختی کر لیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے اسے گالی دے دی وہ ماتحت بہت باغیرت نوجوان تھا اسے یہ بات بہت بُری معلوم ہوئی مگر چونکہ وہ افسر کے مقابلہ میں کچھ کر نہیں سکتا تھا اس لئے خاموش ہو رہا۔ کچھ عرصہ کے بعد جنگ چھڑ گئی اور اسی افسر کو ایک بالاافسر کی طرف سے ایک پہاڑی فتح کرنے کا حکم دیا گیا اور اسے تاکید کی گئی کہ جس طرح بھی ہو یہ پہاڑی ضرور فتح کی جائے اس نے بہت زور لگایا مگر وہ اس پہاڑی کو فتح نہ کر سکا۔ جب وہ عاجز آ گیا تو اس نے تمام سپاہیوں کو اکٹھا کیا اور کہا آج میری اور تمہاری عزت کا سوال ہے اور مجھے ایسے نوجوان درکار ہیں جو اپنی جان قربان کرنے اور موت کو قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔ چونکہ اس پہاڑی کو فتح کرنا یقینی موت تھا اس لئے اس نے جبری حکم نہ دیا بلکہ کہا کہ جو شخص خوشی سے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہے وہ آگے آئے یہ سن کر وہی نوجوان جسے اس نے گالی دی تھی آگے بڑھا اور اس نے اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کر دیا۔ اسے دیکھ کر اور نوجوان بھی آگے بڑھے اور انہوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ چنانچہ ان سب نے پہاڑی پر دھاوا بول دیا اور اس نوجوان نے تو ایسی بے جگری سے حملہ کیا کہ اپنی طرف سے موت قبول کرنے میں اس نے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ جہاں گھمسان کی لڑائی ہوتی وہاں وہ پہنچ جاتا اور جہاں زیادہ خطرہ ہوتا اس میں بے دھڑک کُود جاتا۔ آخر یہ جدوجہد نتیجہ خیز ہوئی اور وہ پہاڑی فتح ہو گئی۔ فتح کے بعد نام چونکہ افسر کا ہی ہونا تھا اور اعزاز افسر کو ہی ملنا تھا اس لئے وہ بڑی خوشی کے ساتھ نیچے کھڑے ہو کر یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔ جب فتح کے بعد وہ نوجوان واپس آیا تو افسر نے آگے بڑھ کر اس کی طرف اپنے ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا میں تم کو مبارک باد دیتا ہوں مگر جب اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو نوجوان نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور کہا۔ آپ کو یاد ہے آپ نے فلاں وقت مجھے گالی دی تھی۔ میرے دل میں اس گالی کا احساس تھا اور میں نے آج اس گالی کا آپ سے اسی طرح بدلہ لے لیا ہے جس طرح ایک شریف بدلہ لیا کرتا ہے۔کیونکہ میری اس قربانی کی وجہ سے آپ کا نام مشہور ہوگا۔ آپ کو رتبہ میں ترقی ملے گی اور آپ کو اعزازی خطاب مل جائیں گے۔ شریف اسی رنگ میں بدلے لیا کرتے ہیں مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے بعض دفعہ جب بات حدسے بڑھ جاتی ہے تو پھر کسی حد تک ان باتوں کا جواب بھی دینا پڑتا ہے۔ عیسائی ہمیشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کیا کرتے تھے اور مسلمان چونکہ ان کے حملوں کا جواب نہیں دیا کرتے تھے۔ اس لئے وہ یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے بانی میں عیب ہی عیب ہیں اگر کسی میں عیب نہیں تو وہ یسوع کی ذات ہے وہ مسلمانوں کی شرافت کے غلط معنی لیتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے چونکہ ہم گنداُچھالتے ہیں اور یہ نہیں اُچھالتے اس لئے معلوم ہوا کہ واقع میں ان کے سردار میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں۔ دنوں کے بعد دن گزرے، ہفتوں کے بعد ہفتے، سالوں کے بعد سال اور صدیوں کے بعد صدیاں سات آٹھ سَو سال تک عیسائی متواتر گند اچھالتے رہے اور مسلمان انہیں معاف کرتے رہے۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ اب ذرا تم بھی ہاتھ دکھاؤ اور انہیں بتاؤ کہ ہمیں تم میں کوئی عیب نظر آتا ہے یا نہیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یسوع کو مخاطب کرتے ہوئے وہ باتیں لکھنی شروع کیں جو یہودی آپ کے متعلق کہا کرتے تھے یا خود مسیحیوں کی کتابوں میں لکھی تھیں۔ ابھی اس قسم کی دو چار کتابیں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھی تھیں کہ ساری عیسائی دنیا میں شورمچ گیا کہ یہ طریق اچھا نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہی ہم نے تم کو کہا تھا کہ تمہارا طریق اچھا نہیں مگر تم نے ہمای بات کو نہ سمجھا۔ آخر جب خود تم پر زد پڑنے لگی تو تمہیں ہوش آ گیا اور تم کہنے لگ گئے کہ یہ طریق درست نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعض دفعہ اس کے متعلق ایک لطیفہ بھی بیان فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بعض دفعہ حقیقت معلوم کرنے اور دوسرے کا جائزہ لینے کے لئے انسان کو ایسا طریق بھی اختیار کرنا پڑتا ہے جو عام طریق کے مخالف ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے کہ کوئی سکھ صاحب تھے ان کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں، داڑھی بھی ان کی بڑی لمبی تھی اور چہرے پر قدرتی طور پر بال بھی بہت زیادہ تھے۔ سکھوں میں چونکہ مذہباً بال کٹوانے منع ہیں اس لئے ان کے بال بے تحاشا بڑھے ہوئے تھے وہ ایک دن اپنے چبوترہ پر بیٹھے تھے اور بالوں کی کثرت کی وجہ سے حال یہ تھا کہ ان کے ہونٹ بالکل چھپے ہوئے تھے مسلمان چونکہ مونچھیں کترواتے رہتے ہیں اس لئے ان کے ہونٹ صاف طور پر دکھائی دیتے ہیں مگر ان سکھ صاحب کے بال چونکہ قدرتاً بہت بڑے بڑے تھے اورپھر انہوں نے مذہبی لحاظ سے ان بالوں کو کبھی ترشوایا بھی نہیں تھا اس لئے مونچھوں اور چہرے اور داڑھی کے بالوں سے ان کے ہونٹ بالکل چھپ گئے تھے اتفاقاً ان کے پاس سے کوئی مسلمان گزرا اور وہ کھڑا ہو کر حیرت سے ان کا منہ دیکھنے لگ گیا۔ مزید اتفاق یہ ہؤا کہ اس وقت وہ سکھ صاحب کسی فکر میں خاموش بیٹھے تھے، اب یہ دیکھ دیکھ کر حیران تھا کہ یہ کیا تماشہ بنا ہؤا ہے مگر اسے کچھ سمجھ نہ آئی۔ آخر قریب آ کر اس نے ان سکھ صاحب کے ہونٹوں کے قریب ہاتھ مارا یہ دیکھنے کے لئے کہ ان کے ہونٹ بھی ہیں یا نہیں۔ اب ایک بھلا مانس بیٹھا ہؤا ہو اور کوئی گزرنے والا اس کے منہ پر ہاتھ مارنا شروع کر دے تو اسے لازماً غصہ آئے گا۔ سردار صاحب نے بھی آنکھیں کھول کر اسے سخت سست کہنا شروع کر دیا اور کہا نامعقول یہ کیا حرکت کرتا ہے وہ کہنے لگا سردار جی معاف کرو اتنا ہی دیکھنا تھا کہ آپ بولتے کس طرح ہیں۔ تو بعض دفعہ کسی دوسرے پر اس کی حقیقت واضح کرنی پڑتی ہے اور بعض دفعہ خود کوئی مخفی حقیقت معلوم کرنے کی تڑپ ہوتی ہے اور ان دونوں صورتوں میں بعض دفعہ ایسے امور بھی زیر بحث لانے پڑتے ہیں جن کو عام حالات میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ میرا طریق یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس سے بچا جائے لیکن اگر کوئی شخص ہمیں اس پر مجبور کر دے یا ضرورت ہمیں یہ طریق اختیار کرنے پر مجبور کر دے تو پھر اس کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہو سکتی۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عیسائیوں نے اس امر پر مجبور کر دیا تھا کہ آپ یسوع کے حالات بے نقاب کریں۔ مگر جب آپ نے انہی کی کتابوں میں سے حالات بیان کرنے شروع کر دیئے تو عیسائی گھبرائے اور انہوں نے رفتہ رفتہ اس طریق کو ترک کر دیا جس طریق کو وہ پہلے بڑی شدّومد کے ساتھ استعمال کیا کرتے تھے۔ چنانچہ پہلے تو ان کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پے در پے ایسے رسائل نکلتے تھے جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوتی تھی مگر اب ہندوستان میں عام طو پر عیسائی ایسا نہیں کرتے یورپ میں ابھی ویلز اور فشر جیسے عیسائی مصنفین رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق بعض اس قسم کے توہین آمیز کلمات لکھ دیتے ہیں لیکن اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ابھی ان کو اس رنگ میں جواب نہیں دیا گیا جس رنگ میں جواب دینا ایسے عیسائیوں کو ساکت کر سکتا ہے لیکن اگر ہم نے یورپ میں اس قسم کے جوابات شائع کرنے شروع کر دیئے تو پھر عیسائی ہماری منتیں کرنے لگ جائیں گے کہ ایسا نہیں چاہیے اور میرا ارادہ ہے کہ اگر یورپ کے عیسائی اس طریق سے باز نہ آئے تو انگلستان میں بھی اپنے مبلّغین کو اسی قسم کا جواب دینے کی ہدایت کر دوں پھر انہیں خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ یہ طریق کہاں تک پُرامن ہے۔ اب تو وہاں کی گورنمنٹ یہ کہہ دیا کرتی ہے کہ ہمارے ہاں اس قسم کے مصنفین کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے کوئی قانون نہیں لیکن جب ہم بھی ایسی باتوں کو شائع کریں گے تو اس وقت دیکھیں گے کہ وہاں کوئی قانون بنتا ہے یا نہیں۔تو اس قسم کی مجبوریاں بعض دفعہ انسان کو اپنا طریق بدلنے پر مجبور کر دیا کرتی ہیں لیکن جب تک مجبوریاں نہ ہوں ہم اپنا پہلا طریق عمل ہی جاری رکھیں گے اور کہیں گے کہ ان باتوں کا خداخود فیصلہ کرے گا ہمیں جواب دینے کی کیا ضرورت ہے ہاں جب الٰہی قانون ہمیں اس بات کی ہدایت کرے کہ تم جواب دو تو پھر ہم جواب دینے پر مجبور ہونگے اور میں جانتا ہوں کہ پھر یہی لوگ ہمارے آگے ہاتھ جوڑیں گے اور کہیں گے یوں نہیں کرنا چاہیے۔
مجھے مجبوراً آج ان امور کے متعلق کچھ کہنا پڑا ورنہ ان دنوں مَیں تحریک جدید کے متعلق خطبوں میں مشغول ہوں اور آج بھی کچھ نہ کچھ اس موضوع کے متعلق کہنا چاہتا ہوں گو اب تین بجنے والے ہیں اور وقت بہت ہی کم رہ گیا ہے مگر پھر بھی میں دو چار منٹ میںایک اہم امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلا دیتا ہوں۔ میں بتا چکا ہوں کہ بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے اور اس ملک میں بھی اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرنے اور سلسلہ کے کاموں کو مضبوطی سے چلانے کے لئے مجھے ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں۔ میں شروع سے بتاتا چلا آ رہا ہوں کہ تحریک جدید کا کام وسیع کرنے کے لئے ہماے پاس روپیہ نہیں۔ اگر ساری جماعت اپنی ساری دولت بھی دے دے تب بھی اتنا روپیہ ہمارے ہاتھ میں نہیں آ سکتا جس کے ذریعہ سے ہم اس کام کو سرانجام دے سکیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ اگر ہم کام کر سکتے ہیں تو اسی طرح کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں اور وہ قلیل گزاروں پر جو ان کی حیثیت کے لحاظ سے قلیل ہوں کام کریں۔ چونکہ حقیقت بھی یہی ہے اور تجربہ سے بھی یہی ثابت ہؤا ہے کہ جب تک مبلغ اعلیٰ پایہ کی علمی قابلیت نہ رکھتے ہوں، اس وقت تک تبلیغ سے چنداں فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لئے ہمارے لئے ضروری ہوگا کہ ہم ان نوجوانوں کو تعلیم دلائیں۔ نہ صرف دینی بلکہ دنیوی بھی تا کہ بیرونی ممالک میں جب وہ کام کرنے کے لئے نکلیں تو ان کی راہ میں کوئی روک واقع نہ ہو۔ پس ہر نوجوان کو دو تین سال تک تعلیم دینے کے بعد پھر کام پر لگایا جائے گا بلکہ ڈیڑھ دو سال تو قادیان کی تعلیم پر ہی جو مذہبی اور دینی تعلیم ہے خرچ ہو جائیں گے اور ڈیڑھ دو سال انہیں بیرونی ممالک میں سے کسی ملک میں انگریزی یا عربی کی تعلیم دلانی پڑے گی تب کہیں جا کر وہ کام کے قابل بن سکیں گے۔ پس اس کے لئے آج ہی تیاری کی ضرورت ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ اس وقت ہمارے پاس ۱۲ نوجوان ہیں جو یا تو انگریزی کے گریجوایٹ ہیں یا عربی کے گریجوایٹ ہیں لیکن ابھی اور بہت سے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ پہلے کام کو شروع کرنے کے لئے بھی اور آئندہ کام کو وسیع کرنے کے لئے بھی۔ پس میں آج پھر اپنی جماعت کے نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ہمت کر کے آگے آئیں اور اس جوش کا ثبوت دیں جس کا اظہار وہ اس طرح کیا کرتے ہیں کہ ہم اپنی جانیں احمدیت کی عزت کی حفاظت کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ آجکل اسلام کو اس کی ضرورت نہیں کہ تلوار اور بندوق سے جنگ کر کے جان قربان کی جائے بلکہ آجکل اپنی جان قربان کرنے کا صرف یہی ذریعہ ہے کہ نوجوان اپنی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے اِعْلَاء کے لئے صرف کر دیں اگر ہماری جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر دیں تو وہ دشمن کو کہہ سکتے ہیں کہ تم تو کہتے ہو یہ جماعت گندی ہوگئی، اس جماعت میں کوئی قربانی کی روح نہیں رہی، یہ دین سے غافل اور لاپروا ہوچکی ہے پھر اگر یہ جماعت ایسی ہی ہے تو ہم لوگ کہاں سے پیدا ہو گئے جنہوں نے اپنی زندگی کی ہر گھڑی خداتعالیٰ کے دین کے اِعْلَاء کے لئے وقف کر دی ہے۔ یہ بہترین جواب ہوگا جو ہمارے نوجوان اپنے عمل سے دشمنوں کو دے سکتے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقف کی شرائط وہی ہیں جو شائع ہو چکی ہیں بعض لوگ یونہی اپنے نام پیش کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی کچھ مجبوریاں اور کچھ شرطیں بھی لکھ دیتے ہیں۔ یہ بالکل نادرست طریق ہے ہماری طرف سے جس قدر شرائط ہیں وہ چھپی ہوئی موجود ہیں۔ وہ دیکھ لی جائیں اور ان پر غور کرنے کے بعد اگر کوئی شخص تیار ہو تو وہ ہماری طرف آئے۔ یونہی اپنا نام پیش کر دینا اور پھر عذرات بیان کرنے لگ جانا مومنانہ طریق نہیں بلکہ اس طرح اپنے آپ کو پیش کرنا گناہ کا موجب ہے کیونکہ اس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ شخص جھوٹی شہرت چاہتا ہے۔ میں بتا چکا ہوں کہ اب کی دفعہ صرف ایسے ہی لوگ لئے جائیں گے جو یا تو انگریزی کے گریجوایٹ ہوں یا عربی کے۔ اگر کوئی نوجوان اپنی تعلیم کے ایسے حصہ میں ہو جس سے وہ عنقریب فارغ ہونے والا ہو تو وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتا ہے۔ گو فیصلہ اسی وقت ہوگا جب وہ اپنی تعلیم سے فارغ ہو جائے گا مثلاً وہ نوجوان جنہوں نے اب کی دفعہ بی۔ اے کا امتحان دینا ہے یا جو وکالت یا ڈاکٹری کی تیاری کر رہے ہیں وہ اگر چاہیں تو اپنے آپ کو وقف کر سکتے ہیں۔ ان کے بقیہ زمانہ تعلیم میں ہمیں بھی علم ہو جائے گا کہ ہم انہیں لے سکتے ہیں یا نہیں اور انہیں خود بھی علم ہو جائے گا کہ وہ امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ اس زمانہ میں نوکریوں کا ملنا بہت مشکل ہو گیا ہے اور اگر کسی کو نوکری ملتی بھی ہے تو معاوضہ اتنا قلیل ملتا ہے کہ گزارہ ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ پس اگر انسان نے تعلیم سے فارغ ہو کر گھر میں بیٹھ کر ہی روٹی کھانی ہے تو کیوں نہیں وہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیتا اور سمجھ لیتا کہ گھر میں بیکار بیٹھنے سے یہ کروڑ درجے بہتر ہے کہ انسان دین کی خدمت کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خوشنودی حاصل کرے اور آئندہ آنے والی نسلوں کی دعا حاصل کرتا رہے۔ یہ کتنا بڑا اعزاز ہے جو اسے حاصل ہو سکتاہے۔ مگر کئی آدمی گھر میں بیٹھے مکھیاں مارتے رہیں گے اور ہر روز اخبارات دیکھتے رہیں گے کہ کہیں اس میں کوئی ملازمت کا اعلان تو نہیں اور جب انہیں کوئی اعلان نظر آئے گا تو فوراً درخواست بھیج دیں گے۔ چند دن بعد جواب آ جائے گا کہ جگہ پُر ہوگئی ہے یا ہمیں جس لیاقت کا آدمی چاہیے تھا وہ تم میں نہیں۔ یا انٹرویو کے لئے آ جاؤ مگر آنے جانے کا خرچ تمہارا ہوگا۔ یہ پندرہ بیس روپے خرچ کر کے وہاں پہنچیں گے تو معلوم ہوگا کہ وہاں چار پانچ سَو امیدوار ہیں جو ان سے لیاقت میں کہیں بڑھ چڑھ کر ہیں اور یہ ان میں ایسے ہی معلوم ہوتے ہیں جیسے اونٹوں میں بلّی۔ چنانچہ یہ وہاں سے ناکام و نامراد گھر واپس آئیں گے ماں باپ گالیاں دیں گے کہ بے حیا ہمیں تجھ سے امید تھی کہ تُو ہماری مدد کرے گا مگر تو نے اُلٹا ہم پر دس پندرہ روپے کا مزید قرض چڑھا دیا۔ یہ حالات ہیں جو آجکل عام طور پر نوجوانوں کو پیش آتے رہتے ہیں۔ پھر کیوں وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ جب خدا نے ہمیں ایک ایسی جماعت میں پیدا کیا ہے جو دین کی خدمت کے لئے کھڑی ہے تو اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا وہ اعزاز حاصل کیا جائے۔ جس سے بڑا اور کوئی اعزاز نہیں۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم ایسے ہی لوگ لیں گے جو ہمارے معیار پر پورے اُتریں گے اور جن کے متعلق ہمیں یہ یقین ہوگا کہ وہ ہمارے کام کے اہل ہیں۔ بعض ممکن ہے محنتی نہ ہوں بعض ممکن ہے اچھی تقریر نہ کر سکتے ہوں۔ اسی طرح ممکن ہے بعض میں دین کی محبت اور اخلاص کم ہو۔ بعض کے متعلق شبہ ہو کہ وہ سچائی کے معیار پر پورے نہیں اُتریں گے بعض علوم میں ترقی کی قابلیت نہ رکھتے ہوں اور چونکہ اس قسم کے تمام امکانات ہوسکتے ہیں۔ اس لئے جو نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں گے اُن میں سے ہم مناسب حال نوجوانوں کو چنیں گے۔ مگر بہرحال جو اپنے آپ کو پیش کریں گے انہی میں سے ہم چنیں گے جو اپنے آپ کو پیش ہی نہیں کریں گے ان کا انتخاب ہم کس طرح کر سکتے ہیں۔ پس میں آج کے خطبہ کے ذریعہ پھر اعلان کرتا ہوں کہ جو دوست گریجوایٹ ہوں یا مولوی فاضل ہوں یا فنون عالیہ سیکھ رہے ہوں وہ اپنے آپ کو پیش کریں تا ہم انتخاب کر کے اُس تعداد کو پورا کر سکیں جس تعداد کو پورا کرنا اس دوسرے دور میں میرا منشاء ہے۔ اگر ایسے نوجوان ہمیں جلد میسر آ جائیں تو وہ موجودہ نوجوانوں کے ساتھ ہی تعلیم سے فارغ ہو جائیں گے۔ گو ان کی نو ماہ سے پڑھائی شروع ہے مگر نو ماہ کی پڑھائی کی کمی کو پورا کرنا ان کے لئے کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ اگر وہ توجہ اور محنت سے کام کریں گے تو امید ہے کہ یہ کمی بہت جلد پوری کر لیں گے اور اس طرح ہمارے لئے بھی آسانی رہے گی کہ ہمیں دو دفعہ سکول نہیں کھولنا پڑے گا اور نہ دو دفعہ مدرّسوں کو ان کی تعلیم کے لئے مقرر کرنا پڑے گا لیکن اگر جلد یہ تعداد پوری نہ ہوئی تو دو سال ان کی تعلیم اور پیچھے جا پڑے گی۔ اور اس کام میں زیادہ وقفہ پڑ جائے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح پہلے نوجوانوں نے دلیری کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کیا ہؤا ہے اسی طرح اور نوجوان بھی اپنے آپ کو پیش کریں گے۔ میرے پہلے اعلان کے بعد اس وقت تک پانچ سات درخواستیں آ چکی ہیں مگر یہ تعداد کافی نہیں اور انتخاب کے لئے تو اس سے بہت زیادہ تعداد کی ضرورت ہے۔ پس دوست اپنے آپ کو وقف کریں مگر یہ ضروری ہوگا کہ وہ بلاشرط اپنی زندگی وقف کریں۔ جو شخص کسی شرط کے ساتھ اپنے آپ کو وقف کرتا ہے اس کا وقف بالکل فضول ہے۔ یہ ساری عمر کا وقف ہوگا اور ان کا یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ پیچھے ہٹیں۔ ہاں ہمیں یہ اختیار ہر وقت حاصل رہے گا کہ ہم چاہیں تو انہیں شروع میں ہی ردّ کر دیں اور چاہیں تو کام کے دوران میں ان کو فارغ کر دیں۔ ہم ایسے نوجوانوں کو پہلے دین کی تعلیم دلائیں گے اور صحیح اسلامی تمدن انہیں بتائیں گے اس کے بعد انہیں دنیوی تعلیم دلائیں گے اور پھر ہم ان سے یہ امید رکھیں گے کہ وہ اپنی زندگی اسلام اور احمدیت کی اشاعت بنی نوع انسان کی ہمدردی اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے صرف کر دیں ہمیں ایسے نوجوان نہیں چاہئیں جو حکومت کے طالب ہوں بلکہ ہمیں وہ نوجوان چاہئیں جو سچے طور پر غرباء کی خدمت اور اپنے سلسلہ کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ میں ان واقفین کے ذریعہ وہ جماعت تیار نہیں کرنا چاہتا جو افسروںکی جماعت ہو بلکہ وہ جماعت تیار کرنا چاہتا ہوں جس کے ہر فرد کو یہ احساس ہو کہ میں نے جماعت احمدیہ کی خصوصاً اور بنی نوع انسان کی عموماً خدمت کرنی ہے۔ جب تک اس رنگ میں کام کرنے والے ہمیں نہیں ملیں گے اس وقت تک وہ تمدن قائم نہیں ہو سکتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں قائم کیا تھا اور جس کے قائم کرنے کی آپ نے تعلیم دی ہے۔ ہاں یہ یاد رکھو کہ وہ شخص جو خداتعالیٰ کے لئے ذلّت اختیار کرتا ہے وہ بہت زیادہ عزت حاصل کرتا ہے۔ کوئی تم میں سے یہ خیال نہ کرے کہ وہ خداتعالیٰ کے دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کر کے اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کرلے گا۔ ذلیل وہی ہوتا ہے جس کے دل میں دوغلی حکومت ہوتی ہے۔ آدھی خدا کی اور آدھی شیطان کی۔ ایسا شخص کبھی ذلّت بھی دیکھ لیتا ہے مگر وہ جس کے دل پر خالص خدا تعالیٰ کی حکومت ہو وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا کئی ہیں جو کہتے ہیں کہ غرباء کی کوئی قدر نہیں۔ بے شک دنیا میں غرباء کی کوئی قدر نہیں مگر وہ جو خالص خدا تعالیٰ کے لئے غریب ہو اس کی پھر بھی عزت ہوتی ہے مگر وہ جو دوغلی چال چلے وہ اگر کسی وقت عزت پا لیتا ہے تو دوسرے وقت ذلیل بھی ہو جاتا ہے۔ آخر خودہی غور کرو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کون سے امیر تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل کا اتنا سادہ لباس ہوا کرتا تھا کہ اس کی کوئی حد نہیں۔ مگر باوجود اس کے بڑے سے بڑا آدمی آپ کی عزت کرنے پر مجبور ہوتا تھا۔ اسی طرح مجھے دنیوی لحاظ سے کونسی دولت حاصل ہے مگر دنیا میں کون ہے جو مجھے ذلیل سمجھ سکے۔ کسی علم کا ماہر میرے سامنے آ جائے خدا تعالیٰ کے فضل سے اُسے شکست ہی کھانی پڑتی ہے تو عزت کے مختلف موجبات ہوا کرتے ہیں کبھی دولت عزت کا موجب ہوتی ہے اور کبھی علم عزت کا موجب ہوتا ہے اور کبھی عرفان عزت کا موجب ہوتا ہے۔ دولت ہمارے پاس نہیں مگر علم روحانی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پاس بہت ہے۔ اگر ہماے پاس امراء آتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ وہ ہم سے کسی جائیداد کے طالب ہوتے ہیں بلکہ اس لئے کہ روحانی فائدہ حاصل کریں۔ اگر نواب آتے ہیں تو وہ بھی اسی لئے اور یہ خزانہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پاس بہت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عالم ہمارے پاس آئے گا تو اس لئے نہیں کہ ہم اس کا کوئی وظیفہ مقرر کر دیں بلکہ وہ کوئی علمی فائدہ ہم سے اُٹھانا چاہے گا یا اپنے علمی خیالات کے متعلق ہم سے تبادلہ خیالات کرنا چاہے گا اور یہ ذخیرہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت دیا ہؤا ہے اس کے مقابلہ میں ہم کسی کے دروازے پر جاتے ہی نہیں۔ پس اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں کہ وہ کیا سمجھے گا۔ وہ جو جی میں آئے سمجھے مگر جو ہمارے پاس آئے گاوہ وہی چیز لینے آئے گا جو علمی رنگ میں ہمارے پاس ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پاس تھوڑی نہیں بلکہ بہت کافی ہے اسی لئے صوفیاء نے کہا ہے سالکین کو امراء کے دروازوں پر نہیں جانا چاہیے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں بِئْسَ الْفَقِیْرُ عَلٰی بَابِ الْاَمِیْرِ وہ فقیرجو کسی امیر کے دروازے پر جاتا ہے وہ بہت ہی ذلیل ہوتا ہے۔ اسے کس نے کہا تھا کہ وہ اپنا گھر چھوڑے اور دوسرے کے دروازے پر جا کر بھیک مانگے۔ پس اگر یہ دوسرے کے دروازے پر جاتا نہیں اور خود اس کے پاس دولت نہیں تو جو شخص اس کے پاس آئے گا روحانی علم سیکھنے ہی آئے گا اور جب وہ علم سیکھنے کے لئے آئے گا تو لازماً عزت کرنے پر بھی مجبور ہوگا۔
کہتے ہیں ایک فلسفی غالباً دیوجانس اس کا نام تھا۔ سکندر نے اس کی شہرت سنی تو اس نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا چلو دیوجانس کی چل کر زیارت کریں۔ لوگوں نے کہا وہ سخت مزاج آدمی ہے آپ کی کوئی ہتک کر بیٹھے گا آپ اس کے پاس نہ جائیں۔ وہ کہنے لگا کیا حرج ہے۔ ہم نے اس سے اپنی عزت کروانے تھوڑا جانا ہے ہم تو اس سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ سکندر وہاں گیا وہ اپنے مکان کے صحن میں لیٹا ہوا تھا دیوجانس دراصل ان لوگوں میں سے تھا جو دنیا کو بالکل چھوڑ کر الگ ہو جاتے ہیں جیسے سادھو ہوتے ہیں۔ پس وہ بھی ایک سادھو تھا اسلامی صوفیوں کی طرح نہیں تھا۔ سکندر اس کے پاس کھڑا رہا مگر دیوجانس نے اس کی طرف منہ پھیر کر بھی نہ دیکھا۔ تھوڑی دیر کھڑا رہنے کے بعد سکندر اسے کہنے لگا کوئی میرے لائق خدمت۔ دیوجانس اُس وقت دھوپ سینک رہا تھا وہ کہنے لگا میں دھوپ سینک رہا تھا آپ نے آ کر دھوپ روک لی ہے۔ بس آپ کے لئے اتنی خدمت ہی کافی ہے کہ سامنے سے ہٹ جائیے اور مجھے دھوپ سینکنے دیجئے۔ سکندر اس کی اس بات کو سن کر حیران ہو گیا اور خاموشی سے واپس چلا آیا۔ اب دیکھو اس فلسفی نے دنیا سے چونکہ اپنی کوئی غرض نہیں رکھی تھی اس لئے سکندر جیسا بادشاہ بھی اس کے پاس جانے اور اس کی عزت کرنے پر مجبور ہو گیا۔ تو ذلیل وہی ہوتا ہے جس کے دل میں کچھ نہ کچھ دنیا رہ جاتی ہے اور چونکہ اس کے دل میں دنیا کی محبت ہوتی ہے وہ محبت اسے ذلیل کر دیتی ہے۔ اگر یہ دنیا کی محبت اپنے دل سے بالکل نکال دے اور اس کے تن پر کپڑا بھی نہ ہو تو پھر بھی کون ہے جو اسے ذلیل سمجھ سکے۔ پس یہ مت خیال کرو کہ دنیوی دولت کے نہ ہونے کی وجہ سے تم ذلیل ہو جاؤ گے۔ ذلیل وہی ہوتا ہے جو آدھا خدا کا ہوتا ہے اور آدھا شیطان کا اور آدھا تیتر آدھا بٹیر خدا تعالیٰ کو پسند نہیں ہوتا۔ یہ اِدھر خدا تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور اُدھر بندوں کے آگے اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ مجھ پر رحم کرو۔ مگر وہ جو دنیا کی محبت اپنے دل سے بالکل نکال دیتا ہے اور کہتا ہے اگر مجھے بادشاہت ملی تو میں بادشاہت لے لوں گا اور اگر فقیری ملی تو فقیری قبول کر لوں گا۔ اگر تخت ملا تو تخت پر بیٹھ جاؤں گا اور اگر پھانسی کا تختہ ملا تو اس پھانسی کے تختہ پر چڑھ جاؤں گا۔ ایسے شخص کو کوئی نہیں جو ذلیل سمجھ سکے۔ یہ خود کسی کے پاس اپنی کوئی غرض لے کر جائے گا نہیں اور جو اس کے پاس آئے گا وہ اس سے کوئی علمی فائدہ حاصل کرنے کے لئے ہی آئے گا اور اگر یہ سچا مومن ہے تو یہ خزانہ اس کے پاس اس کثرت سے ہوگا کہ باوجود خرچ کرنے کے ختم ہونے میں نہیں آئے گا۔ پس دین کی خدمت اور خداتعالیٰ کی محبت میں ہر قسم کی عزت ہے بشرطیکہ دنیا کا رُعب دل سے مٹ جائے اور خدا تعالیٰ کا رُعب دل پر چھاجائے اور دراصل ایسے شخص کا وقف ہی حقیقی وقف ہے۔
پس میں آج پھر جماعت کے نوجوانوں کے سامنے یہ اعلان کرتا ہوں کہ اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کرو اور اپنے عمل سے دشمن کو یہ جواب دو کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے دین کی خدمت میں تم سے ہزاروں گنے بڑھ کر ہیں۔ اس وقت تک ہی جس قدر نوجوانوں نے ہماری جماعت میں سے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں اگر مولوی محمد علی صاحب جو یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ ان کی جماعت شب و روز تبلیغ اسلام کر رہی ہے ان کا مقابلہ اپنی جماعت کے نوجوانوں سے کریں تو انہیں پتہ لگ جائے کہ کونسی جماعت ہے جو اسلام کی خدمت کر رہی ہے اور کونسی جماعت ہے جس میں خدمت اسلام کی تڑپ ہے۔ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ بتائیں کہ ان کی جماعت کے کتنے گریجوایٹ اور مولوی فاضل ہیں جنہوں نے ان شرطوں پر اپنے آپ کو وقف کیا ہے جن شرائط پر ہماری جماعت کے نوجوانوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہؤا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں بھی ہماری جماعت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن میں کہتا ہوں جتنا کام ہو چکا ہے تم اس سے بھی زیادہ شاندار نمونہ دکھاؤ۔ پس میں پھر جماعت کے نوجوانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی شاندار قربانیوں کے ذریعہ اس امر کو ثابت کر دیں گے کہ ہماری جماعت دین کو دنیا پر مقدم رکھتی ہے اور جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ تقویٰ اس جماعت کے دلوں میں سے نکل گیا۔ تقویٰ کا نمونہ اگر اس وقت روئے زمین پر کوئی جماعت دکھا رہی ہے تو وہ صرف ہماری ہی جماعت ہے وَذَالِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ لَا رَآدََّلِفَضْلِہٖ اِلَّاھُوَ یُعِزُّمَنْ یَّشَائُ وَیُذِلُّ مَنْ یَّشَائُ وَبِیَدِہِ الْخَیْرُ۔‘‘
(الفضل ۸؍ دسمبر ۱۹۳۸ئ)
۱؎ پیغام صلح ۳۰؍نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۸

۴۰
جلسہ سالانہ کے متعلق احباب جماعت کو ضروری ہدایات
(فرمودہ۹؍دسمبر۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’چونکہ میری طبیعت کچھ خراب ہے میں زیادہ بول نہیں سکتا لیکن اس کے ساتھ چونکہ میں جمعہ ہی کی خاطر لاہور سے چل کر یہاں پہنچا ہوںاس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ خود ہی جمعہ پڑھائوں۔
دوستوں کو معلوم ہے کہ جلسہ سالانہ اب قریب آرہا ہے جلسہ سالانہ ہم سے خاص طور پر مالی وجانی قربانیاں چاہتاہے۔جو لوگ جلسہ کے لئے یہاں آتے ہیں ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام کرنا ہوتاہے اور پھر مہمان نوازی اور خدمت کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔میں نے بارہا بیان کیا ہے کہ ہونا یہ چاہئے کہ اگر مقدرت ہو تو جلسہ سالانہ کی مہمان نوازی کا بوجھ صرف قادیان کے لوگ برداشت کریں اور یا پھر زیادہ سے زیادہ ضلع گورداسپور کے لوگ مگر چونکہ ابھی ہماری مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ صرف قادیان کے لوگ ہی یہ بوجھ اٹھا سکیں اس لئے کم سے کم انہیں یہ تو کرنا چاہئے کہ بیرونی جماعتوں کی نسبت زیادہ حصہ لیںتا میزبانی کا جو حق اللہ تعالیٰ نے انہیں بخشا ہے اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے سامنے بعض چھوٹے چھوٹے موانع پیش آکر انہیں قربانی سے روک دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے دین کے سب پہلوئوں پر غور نہیں کیا ہوتا اور موت ان کی آنکھوں کے سامنے نہیں ہوتی۔ چھوٹی چھوٹی روکیں بھی ان کے لئے پہاڑ بن جاتی ہیں حالانکہ ویسے ہی موانع اور ویسی ہی روکیں ان کے ہمسائے کے لئے بھی پیش آئیں مگر اس نے ان کے باوجود قربانیوں میں کوئی کمی نہیں کی ہوتی بلکہ زیادتی کرکے اور ثواب حاصل کیا ہوتا ہے ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے مؤمنوں کو دوسروں پر گواہ بنایا ہے۔۱؎اس کے معنی مَیں تو یہی کیا کرتا ہوںکہ قیامت کے روز لوگ آکر اپنے موانع پیش کریں گے اور کہیں گے ہماری راہ میںیہ مشکلات تھیں اس لئے ہم قربانی نہ کرسکے تب اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو پیش کرے گا اور کہے گا کہ یہ بھی تمہاری ہی طرح کے انسان تھے،ان کو بھی ضرورتیں تھیں،ان کے لئے بھی مشکلات تھیں لیکن ان سب کی موجودگی میں یہ قربانیاں کرتے رہے،تو پھر تمہارے عذر کس طرح قابلِ اعتناء ہوسکتے ہیں۔جب تک انسان کے سامنے نمونہ نہ ہو اس پر حجت نہیں ہوسکتی ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو مسلمانوں کے لئے گواہ بنایاہے اورمسلمانوں کو بحیثیت جماعت دوسری قوموں پر گواہ بنایا ہے۔۲؎ محمدرسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم مسلمانوں کے لئے حجت ہیں تا ان میں سے کمزور اوربزدل جب اپنے عذرات پیش کریں تو اللہ تعالیٰ ان سے کہے کہ دُنیوی سامانوں کے لحاظ سے تم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ کمزور نہ تھے اگر انہوں نے ان بے سامانیوں کے باوجود قربانیاں کیں تو کیا وجہ ہے کہ تم نہ کرسکے اور اسی طرح دوسری قوموں کے عذرات کے جواب میںاللہ تعالیٰ کہے گا کہ مسلمان بھی تمہاری ہی طرح کے انسان تھے، ان کی راہ میںبھی اسی طرح رکاوٹیں اور مشکلات تھیں اور جب ان کے باوجود انہوں نے قربانیاں کیں تو تم کیوں نہ کرسکتے تھے۔ہر جماعت میں کوئی گروہ ایسا ہوتا ہے جو نمونہ ہوتاہے،اور وہ مشکلات، رکاوٹوں اور موانع کے باوجود قربانی کرتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ دوسروں پر بطور شہید کھڑا کرتا ہے کہ یہ بھی تمہارے ہی جیسے انسان ہیںاور جب انہوں نے تکالیف اور اپنی ضرورتوں کے باوجود کوتاہی نہیں کی اور انہی حالات میں آگے بڑھے ہیں توتم کیوں نہیں کرسکتے تھے۔
بازارمیں ایک دکاندار نماز کے وقت اٹھ کر چلا جاتا ہے اور دوسرا نہیں جاتا اور وہیں بیٹھا رہتا ہے اور اگر پوچھا جائے توکہتا ہے کہ دکان اکیلی ہے کس طرح جائوں تو دوسرے کا نمونہ اس کے سامنے پیش کرکے اسے کہا جاسکتا ہے کہ دکان دوسرے کی بھی اکیلی تھی اور جب وہ چلاگیا تو تم یہ عذر کیسے کر سکتے ہو۔یا اگر دوسرادکاندار کہے کہ یہی بِکری کا وقت ہے چھوڑ کر جانا مشکل ہے تو دوسرے کی مثال اس کے سامنے اس پر بطور حجت پیش کی جاسکتی ہے کہ جب بِکری کا وقت ہونے کے باوجود وہ چَلاگیا توتم بھی جاسکتے تھے۔اسی طرح بعض کہہ دیتے ہیں کہ وقت کا پتہ نہیں لگا،اذان سنائی نہیں دی تو اسے کہا جا سکتا ہے کہ دوسرے کے کان بھی ویسے ہی تھے جیسے تمہارے اگر وہ اذان سن سکتا تھا تو یقیناتم بھی سن سکتے تھے۔تو جو عذر بھی انسان کرے اس کے توڑنے والے اس کے ہمسایہ میں ہی مل جاتے ہیں اور یہی قیامت کے روز اس پرگواہ ہوں گے۔ایک شخص کہتا ہے کہ میرے بچے زیادہ تھے اس لئے میں قربانی نہیں کر سکا تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو جو اس سے زیادہ بچوں والا ہے پیش کر کے کہے گا کہ جب اس نے اتنے بچوں کے باوجود قربانی کی تو تم کیوں نہ کر سکے۔ایک شخص کہے گا مالی تنگی بہت تھی اس لئے قربانی نہ کرسکا تو اللہ تعالیٰ دوسرے مالی تنگی والے کو پیش کر دے گا کہ اس کے لئے مالی تنگی تم سے زیادہ تھی پھر کوئی وجہ نہیں کہ جب اس نے قربانی کی تو تم اگرچاہتے تو نہ کر سکتے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان قربانی کرنا چاہے تو مشکلات پر غالب آسکتا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ چندہ کی تحریک کی۔ایک صحابی کے پاس دینے کو کچھ نہ تھا لیکن دل میں شوق تھا کہ حصہ لیں، ایک شخص کے پاس پہنچے اور اس سے کہا کہ مجھ سے سارا دن کام لو اور کم سے کم مزدوری دے دینا۔ چنانچہ دو مٹھی جَو مزدوری مقرر ہوئی آپ نے تمام دن کام کیا اور شام کو جو جَو ملے وہ لا کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ضرورت ہزاروں روپے کی تھی کیونکہ ایک لڑائی کا سامان کیا جا رہا تھا۔مگر انہوں نے لاکر دو مُٹھی جَو دئیے تو بجائے اس کے کہ منافقین کے دل میں غیرت پیدا ہوتی اور وہ کہتے کہ یہ غریب محنت ومشقت کر کے جو کچھ حاصل کر سکا لے آیا ہے انہوں نے طنزیہ رنگ میں کہنا شروع کیا کہ لو جی دو مٹھی جَو سے اب دنیا فتح ہوگی ۳؎ اور اس طرح اس قربانی پر ہنسی اور تمسخر کرنے لگے۔انہوں نے اس مخلص کی نیکی سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ اسے اپنے مرض میں اضافہ کا موجب بنالیا۔قیامت کے روز جب منافق اس موقع پر قربانی نہ کرسکنے کے عذرات پیش کریں گے اور اپنی مشکلات بتائیں گے اور ان سب کے جواب میں اللہ تعالیٰ اس دومٹھی جو پیش کرنے والے کو پیش کردے گا تو ان کی کیا عزت رہ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تمہارے پاس تو روپے موجود تھے مگر تم نے قربانی نہ کی لیکن اس کے پاس کچھ نہ تھا پھر بھی یہ پیچھے نہ رہا اس نے سمجھا کہ اگر میں نے عام مزدوری کے اصول پر مزدوری تلاش کی تو شاید کوئی کام نہ ملے اس لئے کسی کے آگے یہ تجویز رکھ دی کہ مجھ سے کام لے لواور جو دینا چاہو دے دینا اور ظاہر ہے کہ ایسا نوکر جسے مل جائے وہ کیوں اس سے کام نہ لے گا۔ہمارے ملک کے چھوٹے قصبات میں چپڑاسی کی تنخواہ عام طور پر دس بارہ روپے ماہوار ہے۔شہروں میں پندرہ بیس بھی ہوتی ہے۔خاص قسم کے نوکر مثلاً بیرے وغیرہ پچیس تیس بھی لیتے ہیں لیکن اگر کسی کو کوئی ایسا چپڑاسی مل جائے جو کہے کہ مجھے کھانا دے دیا کریں اور ساتھ صرف ایک دوروپے ہی دے دیں تو کئی لوگ جو عام طور پر نوکر نہیں رکھتے اسے رکھنے کے لئے تیارہو جائیں گے۔پوری تنخواہ پر ملازمت تلاش کرو تو شاید ہی مل سکے لیکن اس طرح اگر کہا جائے کہ جو مرضی ہو دے دیں تو کئی لوگ آمادہ ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ چلو اسے ملازم رکھنے کی وجہ سے جو وقت ہمارا بچے گا اس میں ہم اپنے کام کو وسعت دے لیں گے۔تو اسی طرح اس صحابی نے یہ نہیں کہا کہ مجھے پوری مزدوری دوکیونکہ اس طرح ممکن تھا کہ کام مل ہی نہ سکتابلکہ تھوڑی سی مزدوری پر راضی ہوگئے تا ثواب سے محروم نہ رہیںاور کام لینے والے کو بھی اگرچہ ضرورت نہ تھی لیکن سستا مزدور مل گیا اس لئے اس نے کام لے لیااور اس طرح مزدوری کرکے اس صحابی نے اُجرت لا کر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیش کردی اور اس طرح ایک اعلیٰ نمونہ دوسرے ہزاروں ایسے لوگوں کے لئے جو اپنے آپ کو نادار قرار دے کر قربانی سے گریز کرتے ہیں پیش کر دیا۔
پس ہر شخص کو عذر کرتے وقت غور کر لینا چاہئے کہ اسی جیسے حالات میں بعض دوسرے لوگ قربانی پیش کر رہے ہیں پھر کیا اس کا عذر اللہ تعالیٰ کے حضور میں قابلِ سماعت ہوگا اور جلسہ کی امداد کے بارہ میں قادیان کے لوگوں کو خصوصاً اپنے نفس کا محاسبہ کر لینا چاہئے کیونکہ جیسا میں نے بتایا ہے جلسہ کے اخراجات کے مہیا کرنے کے متعلق قادیان کے لوگوں پر دوسروں سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے بلکہ گو ابھی ہماری مالی حالت ایسی ہے کہ بیرونی جماعت کو بھی اس بوجھ کے اٹھانے میں مدد دینی پڑتی ہے لیکن اصل میں قادیان کے لوگوں کا ہی حق ہے کہ وہ یہ بوجھ اٹھائیں۔میں دیکھتا ہوں کہ ہر سال جلسہ سالانہ کی آمد کم ہوتی ہے اور اس پر خرچہ زیادہ ہوتا ہے حالانکہ جلسہ سالانہ ایک اہم صیغہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی اہمیت پر خاص زور دیا ہے۔پس میں دوستوں کو پھر یہ نصیحت کرتا ہوںکہ اس موقع پر زیادہ سے زیادہ مالی قربانی کریں۔قادیان اور ضلع گورداسپورکی جماعتوں کو بِالخصوص اور باہر کی جماعتوں کو بِالعموم اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔مجھے افسوس ہے کہ اگرچہ میں نے بارہا کہا ہے محکمہ والے بھی اس صیغہ کی طرف پوری توجہ نہیں کرتے۔اگر وقت پر اجناس وغیرہ لے لی جائیں تو زمیندار احباب بھی پورے جوش کے ساتھ اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔جلسہ کے قرب کے ایام میں ان کے لئے حصہ لینا بہت مشکل ہوتاہے کیونکہ یہ وقت زمینداروں کے لئے سب سے زیادہ تنگی کا ہوتاہے۔غلہ اور چارہ وغیرہ دونوں قریباً ختم ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ قرض لے لے کر گزارہ کرتے ہیں اور اس وقت ان کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں ہوتا کہ قرض لے کر چندہ دیں لیکن جب گیہوں کی فصل تیار ہو اس وقت اگر ان سے جلسہ کے لئے غلہ لے لیا جائے تو وہ بڑی آسانی سے دے سکتے ہیں۔اسی طرح دوسری چیزیں مثلاً گھی وغیرہ بھی اگر اسی طرح جمع کی جائیں تو آسانی سے جمع ہوسکتی ہیں ہاں ان کے محفوظ رکھنے کا سوال حل طلب ہے۔جو میرے نزدیک اس طرح حل ہو جاتاہے کہ جو غلہ یا دوسری جنس وصول ہو دکانداروں کو اس شرط پر دے دی جائے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر وہ ایسی ہی جنس اسی مقدار میں مہیا کردیں۔کوئی بدنیت دکاندار ہی ہوگا جو اس سمجھوتا کے لئے تیار نہ ہو اور مزید شرطیں لگا کر سلسلہ کو لوٹنا چاہے کیونکہ اس تجویز میں دکاندار کو بھی فائدہ ہے اسے کئی ماہ کے لئے مفت میں سرمایہ مل جاتاہے۔
پس یہ انتظام نہایت آسانی سے ہو سکتا ہے لیکن افسوس کہ محکمہ والے توجہ نہیں کرتے۔میں نے کئی زمینداروں سے باتیں کی ہیں بالخصوص بار کے زمینداروں سے اور انہوں نے یہی کہا ہے کہ گھی وغیرہ جمع کر دینا بشرطیکہ مناسب اوقات میں اگر کوشش کی جائے ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں۔ایک ایک ضلع کے زمیندار کا فی گھی جمع کر سکتے ہیں۔یہی حال غلّہکا ہے۔اگر غلّہ کی صورت میں تھوڑا تھوڑا بھی چندہ ان سے بروقت وصول کرنے کا انتظام کر لیا جائے تو بہت مقدار جمع ہو سکتی ہے۔اسی طرح دالیں وغیرہ بھی جمع کی جا سکتی ہیں اور انہی چیزوں کا زیادہ خرچ ہوتاہے۔باقی گوشت وغیرہ رہ جاتا ہے وہ بیشک اس طرح جمع نہیںکیا جاسکتا مگر اس کا زیادہ خرچ نہیں ہوتا۔ایسے علاقے بھی ہیں جن سے چاول وغیرہ بھی جمع کئے جاسکتے ہیں مگر افسوس ہے کہ محکمہ والے توجہ نہیں کرتے۔بہرحال اس سال بھی وہی دقت درپیش ہے اور محکمہ والے شور کر رہے ہیں کہ روپیہ نہیں کام کس طرح چلایا جائے اس لئے میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتاہوں۔ بے شک اس وقت ہماری جماعت کے لئے بہت سی مشکلات ہیں یہ سال مالی لحاظ سے بہت تنگی کا سال ہے اور شاید اسکے نتیجہ میں اگلا سال بھی کسی قدر مشکلات رکھتا ہو۔مگر مومنوں کے لئے یہ باتیں پرواہ کے قابل نہیں جن کے ایمان کمزور ہیں ان کے لئے سُکھ کے دن بھی کمزوری کے دن ہوتے ہیں۔جن کے دل میں مرض ہو ان کے پاس اگر کروڑوں روپیہ ہو تب بھی وہ یہی کہیں گے کہ کھانے کو نہیں ملتا۔چندے کہاں سے دیں لیکن مؤمن کے پاس کچھ بھی نہ ہو توبھی وہ یہی کہے گا کہ بسم اللہ میں حاضر ہوں۔
یہ سچے اور جھوٹے دوست کے فرق کا وقت ہے۔اس سال صحیح یا غلط طور پر ایک مقابلہ کا رنگ پیدا ہوگیا ہے یا پیدا کر دیا گیا ہے۔کیونکہ جوبلی کی تحریک دراصل چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب نے پہلے سے کی ہوئی تھی مگر ہمارے قدیم معاندین یعنی اہل پیغام نے بھی اسے شروع کردیا ہے اور ان کے لئے یہ آسانی ہے کہ وہ غیر احمدیوں سے بھی مانگ لیتے ہیں اور پھردنیا کے سامنے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ دیکھو ہماری چھوٹی سی جماعت کس قدر قربانی کر رہی ہے تو یہ تحریک بھی ہمارے سامنے ہے۔اس کے علاوہ تحریک جدید کے چندے ہیں۔جن کی طرف میں جماعت کو توجہ دلا چکا ہوں کہ ان سے ایک مستقل فنڈ کی بنیاد ڈالی جارہی ہے۔پس جو اِن میں حصہ لے گا اُس کا نام ہمیشہ کے لئے تاریخ میں محفوظ ہوجائیگا ۔
پھر عام چندوں کا مطالبہ بدستور ہے یہاں کے کارکنوں کی تنخواہوں میں بھی کمی کردی گئی ہے اور پھر اس کے ساتھ بیرونی جماعتوں کو تحریک کی گئی ہے کہ وہ اپنے چندوں میں اضافہ کریں۔پس یہ دن غیر معمولی مالی قربانی کے ہیں مگر مؤمن کا ایمان اور اخلاص ایسے ہی وقت میں پر کھا جاتا ہے اور حقیقی دوست کی پہچان کا یہی وقت ہوتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک امیر کا نوجوان بیٹا سارا سارا دن اپنے دوستوں میں بیٹھا وقت ضائع کرتا رہتا تھا۔باپ اسے نصیحت کرتا کہ اس طرح ان لوگوں میں بیٹھ کر وقت ضائع نہ کیا کرو یہ تمہارے دوست نہیں ہیں بلکہ سب کھانے پینے کے یار ہیں انہیں تمہارے ساتھ کوئی اخلاص نہیں مگر بیٹا کہتا کہ اباجی آپ کو پتہ نہیں آپ نے ان کی باتیں کبھی نہیں سنیںیہ میرے بہت وفادار دوست ہیں۔باپ کہتا کہ باتیں کر لینا تو بالکل آسان ہے ۔آخر ایک دن باپ نے بیٹے سے کہا کہ اچھا میں تمہیں تجربہ کر ادیتا ہوں۔باپ کا بھی ایک دوست تھا جو سپاہی تھا،وہ پہلے زمانہ کا دوست تھا جبکہ یہ امیربھی معمولی حیثیت رکھتا تھا مگربعد میںاسے ترقی حاصل ہوگئی مگر اس کے ساتھ دوستی بدستور رہی۔لڑکا اسے حقیر سمجھتا اور دل میں کہتا کہ میرا باپ خود ایسے ذلیل لوگوں سے دوستی رکھتا ہے اور میرے دوستوں کو جو اچھے لوگ اور معزز آدمی ہیں پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا۔باپ نے اسی دوست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آئو دیکھیں کہ میرے اور تمہارے دوستوں میں سے سچا مخلص کون ہے اور لڑکے سے کہا کہ میں تمہیںدوستوں کا تجربہ کرانے کے لئے گھر سے نکال دیتا ہوں اور تم جاکر اپنے دوستوں سے مدد مانگنا۔بیٹے نے کہا بیشک نکال کر دیکھ لیں میرے دوست ایسے نہیں ہیں وہ مجھے سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔چنانچہ باپ نے اسے گھر سے نکال دیا اور وہ اپنے دوستوں کے ہاں چکر لگانے لگا۔اسے نکالنے کی خبر مشہور ہوگئی اور اس کے جن دوستوںکو اس کی اطلاع ہو گئی ان میں سے کئی ایک نے دروازہ پر آکر اس سے ملنا بھی گوارانہ کیا۔کسی نے کہلوادیاکہ میں بیمار ہوں،کسی نے کہلوادیا کہ گھر پر نہیں ہیں اور بعض جن کو علم نہ ہؤا تھا وہ آکر مل تو لیتے مگر جب وہ یہ کہتا کہ میرے باپ نے مجھے نکال دیا ہے آپ میری امداد کریں تا میں تجارت وغیرہ کا کام کرلوں۔توبعض تو کہہ دیتے کہ افسوس اس وقت ہمارا روپیہ فلاں جگہ لگا ہؤا ہے ورنہ ہم ضرور مدد کرتے اور بعض کوئی اور بہانہ بنا دیتے اور بعض تو یہاں تک کہہ دیتے کہ جب تمہارے باپ کو تم پر اعتماد نہیں توہم کس طرح کرسکتے ہیں۔آخر وہ سب طرف سے ذلیل ہو کر باپ کے پاس آیا اور کہا کہ واقعی آپ کا کہنا سچ تھا میرے سب دوست مطلب کے دوست تھے۔تب باپ نے کہا کہ آئو اب میں تمہیں اپنے دوست کا تجربہ کراتا ہوں۔وہ بیٹے کو ساتھ لے کر رات کے بارہ ایک بجے اپنے اس دوست کے مکان پر پہنچا اور دستک دی اور کہا کہ جلدی باہر آئو۔اس نے جواب دیا کہ کون ہے اور جب اپنے دوست کی آواز پہچانی تو کہا بہت اچھا آتا ہوں۔باپ بیٹا باہر انتظار کرنے لگے مگر وہ دس پندرہ منٹ تک باہر نہ آیا۔بیٹے نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا دوست بھی ویساہی نکلا اور جب اسے شُبہ ہؤاکہ کسی غرض سے آئے ہیں تو چھُپ کر اندر بیٹھ رہا ہے۔باپ نے کہا کہ تھوڑی دیر اور انتظار کرو۔آخر پندرہ بیس منٹ کے بعد دروازہ کھلا اور دوست اس حالت میں باہر آیا کہ اس کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی،دوسرے میں ایک تھیلی اور ساتھ بیوی تھی۔اس نے پوچھا کہ آپ نے نکلنے میں بہت دیر کردی۔تو اس نے کہا کہ یہ ساری عمرمیں پہلا موقع ہے کہ آپ اس وقت آئے ہیں اور اس وجہ سے میں نے خیال کیا کہ ضرور کوئی تکلیف کا وقت آپ پر آیا ہوگا اور دنیا میں تین ہی قسم کی مشکلات ہوسکتی ہیں۔یاتو آدمی کے گھر میں بیماری وغیرہ ہو،یا اس کے لئے مالی مشکلات ہوں او ر یا پھر اس کی عزت خطرہ میں ہو۔عزت کے خطرہ کے خیال سے میں نے تلوار لی،تا اگر اس کا موقع ہو تو اس سے آپ کی امداد کروں اور بیماری وغیرہ کاخیال کر کے میں نے اپنی بیوی کو ساتھ لے لیا کہ عورتیں تیمارداری اچھی کرتی ہیں،پھر مجھے خیا ل آیا کہ مالی مشکل بھی پیش آسکتی ہے اور بعض اوقات بڑے بڑے مالداروں کے دیوالے نکل جاتے ہیں جس سے ان کی حالت خطرناک ہوجاتی ہے اور وہ معمولی امداد کے بھی محتاج ہو جاتے ہیںاور گو مَیںکوئی مالدار آدمی نہیںپھر بھی ساری عمر تھوڑا تھوڑا کرکے بیوی بچوں کے لئے کچھ جوڑتا رہا ہوں اسے میں نے برتن میں ڈال کر زمین میں گاڑ رکھا تھا سو میں نے کہا اسے بھی نکال لوں کہ شاید میرے دوست کو آج میرے اس روپیہ ہی کی ضرورت پیش آگئی ہو اور اسی وجہ سے میرے نکلنے میں دیر ہوگئی سو اب میںحاضر ہوں اگر آپ کی عزت خطرہ میں ہے تو میری تلوار اور میری جان موجود ہے،اگر کوئی گھر میں بیمار ہے تو میری بیوی موجود ہے، اگر روپیہ کی حاجت ہے تو یہ میری ساری عمر کا اندوختہ موجود ہے۔اس کی باتیںسن کر بیٹے نے باپ سے کہا کہ مجھے معلوم ہوگیا کہ سچے دوست کون ہوتے ہیں واقع میں سچے دوست کا ملنا بہت مشکل ہے۔اس پر باپ نے اپنے دوست کو بتایا کہ میرا لڑکا گمراہ ہورہا تھا میں نے اسے سبق دینے کے لئے آپ کو بے وقت تکلیف دی ۔آپ معاف فرمائیںاور گھر تشریف لے جائیں۔تو جو سچا دوست ہو مشکلات کے وقت میں اس کا اخلاص بڑھ جاتا ہے اور وہ دوست کی امداد کے لئے سب قسم کی مشکلات برداشت کرنے پر تیار ہوتا ہے۔قرآن کریم میں ہے کہ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خطرناک جنگوں کے لئے باہر نکلتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اسلام بڑی مصیبت میں مبتلا ہے،مسلمانوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں،اور دشمن اتنا زبردست ہے کہ اس پر غالب آنے کی توقع نہیںتو بعض لوگ آکر کہتے کہ ہم آپ کے ساتھ تو چلیںمگر ہمارے گھر بے پناہ ہیں ان کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں حقیقتاً کوئی خطرہ ان کے لئے نہیں۔۴؎ان کے پاس دوسروں سے زیادہ سامان ہیں اور ان کے گھر دوسروں سے زیادہ محفوظ ہیں۔صرف بہانے بناتے ہیں مگر دوسرے جو سب مشکلات کو نظر انداز کر کے شامل ہو جاتے تھے ان کے متعلق فرماتا ہے کہ۵؎ کہ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنے وعدے پورے کردئیے اور بعض ایسے ہیں کہ جو انتظار میں ہیں کہ موقع ملے تو پورا کریں،ایسے ہی لوگوں میں سے ایک انصاری صحابی تھے۔ مفسرین نے تو لکھا ہے کہ یہ آیت ان ہی کے متعلق تھی مگر اس آیت کا مضمون ظاہر کرتا ہے کہ یہ کسی خاص فرد کے لئے نہیں بلکہ ایسے سب لوگوں پر چسپاں ہوسکتی ہے جو اس نمونہ کو پیش کر نے والے ہوں اور درحقیقت ایسے صحابی کئی تھے۔ وہ انصاری صحابی جن کا میں نے ذکر کیا حضرت انس کے چچا تھے۔ان کو جنگ بدر میں شامل ہونے کا موقع نہ مل سکا تھا۔جب لوگ ان کے سامنے بدر کے واقعات بیان کرتے اور کہتے کہ فلاں بات یوں ہوئی اور ہم نے یوں کیا تو ان کو بہت غصہ آتا لیکن غصہ نکالنے کی کوئی صورت نہ تھی اس لئے وہ ان باتوں کو سن کر یہ کہنے لگ جاتے کہ بے شک تم لوگوں نے جو کچھ کیا خوب کیا لیکن اگر میں ہوتا تو دکھاتا کہ لڑائی کس طرح کی جاتی ہے۔ان کی یہ بات ایک قسم کا لطیفہ بن گئی تھی جہاں دو چار آدمی بیٹھے بدر کی باتیں کر رہے ہوتے تھے وہ وہاں پہنچ کر اپنے دل کی حسرت اس طرح نکالنا شروع کر دیتے کہ دوستو!میں بدر میں موجود ہوتا تو تم کو بتاتا کہ خدا کی راہ میں کس طرح لڑا کرتے ہیں۔کئی لوگ تو یونہی لاف زنی کر دیا کرتے ہیں مگر یہ صحابی جو کچھ کہتے تھے اخلاص سے کہتے تھے اور دراصل ان کا دل خون ہو رہا ہوتا تھا کہ مجھے کیوں بدر میں شمولیت کا موقع نہ ملا اور وہ ان الفاظ سے اپنے دردِ دل کا اظہار کیا کرتے ۔آخر اللہ تعالیٰ کی حکمت اُحد کا دن لے آئی اور یہ ایسے لوگوں کے لئے دلی حسرت نکالنے کا ایک بے نظیر موقع تھا۔چنانچہ یہ صحابی جنگ اُحد میں شریک ہوئے اور جو قربانی کرسکتے تھے کی اور جب دشمن کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ گیا توانہوں نے چونکہ کھانا نہیں کھایا ہؤا تھا کچھ کھجوریں پاس تھیں،میدان سے ایک طرف ہٹ کر کھجوریں کھانے لگے اتنے میں وہ واقعہ ہؤا کہ جس سے مسلمانوں کے پائوں اُکھڑ گئے،دشمن نے پیچھے سے حملہ کر دیا اور مسلمان چونکہ فتح کے خیال میں ادھر اُدھر منتشر ہو چکے تھے سنبھل نہ سکے،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم زخمی ہو کر ایک گڑھے میں گرگئے اور صحابہؓ کو خیال آیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں۔یہ صحابی اپنے خیال میں مست کھجوریں کھا رہے تھے اور بالکل مطمئن تھے کہ ٹہلتے ٹہلتے میدان جنگ کے قریب آئے اور دیکھا کہ ایک پتھر پر حضرت عمرؓ بیٹھے ہوئے باوجود نہایت جری اور دلیر ہونے کے بچوں کی طرح رو رہے ہیں۔انہوں نے حضرت عمرؓ کو اس حال میں دیکھ کر حیرت سے پوچھا کہ عمرؓ یہ رونے کا کون سا وقت ہے یہ تو خوش ہونے کا وقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی ہے۔حضرت عمرؓ نے کہا کہ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ فتح کے بعد کیا ہو گیا ہے اور پھر بتا یا کہ اس طرح دشمن نے پلٹ کر حملہ کر دیا اور مسلمان پراگندہ ہونے کی وجہ سے سنبھل نہ سکے اور رسول کریمصلی اﷲ علیہ وسلم شہید ہوگئے۔اس وقت ان صحابی کے ہاتھ میں صرف ایک کھجور باقی رہ گئی تھی انہوں نے فوراً اسے پھینک دیا اور کہا کہ میرے اور جنت کے درمیان اس کے سوا اور ہے کیا اور پھر حیرت سے حضرت عمرؓکو مخاطب ہو کر کہا کہ عمر ؓاگر یہ خبر سچی ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو تم یہاں کیوں بیٹھے ہو جس طرف خدا کا رسول گیا ہم بھی وہیں جائیں گے۔یہ کہہ کر تلوار نیام سے نکال لی اور دشمن کے لشکر کی طرف دوڑ پڑے اور جاکر لڑائی شروع کر دی اور نہ معلوم کتنوں کو اپنے خیال میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا بدلہ لینے کے لئے جہنم واصل کر کے یہ خدا کا جری شہید ہوگیا۔رَضِیَ اﷲ عَنْہُ وَرَضِیَ ھُوَ عَنِ اﷲِ۔جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دوبارہ فتح دی تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ میدان میں جاکر دیکھو کہ ہمارے ساتھیوں میں سے کو ن کون شہید ہوئے ہیں اور کون کون زخمی پڑے ہیں تا زخمیوں کی امدار کی جائے اور شہیدوں کی تکفین کا انتظام کیا جائے۔صحابہ میدانِ جنگ میں پھیل گئے اور زخمیوں کی تیمارداری شروع ہوئی اور شہیدوں کی لاشیں جمع کی جانے لگیں۔جب وہ لاشیں جمع کررہے تھے تو انہوں نے ایک لاش کو دیکھا کہ وہ پہچانی نہ جاتی تھی اس کے ٹکڑے ادھر اُدھر پھیلے ہوئے تھے اور چہرہ زخموں سے بالکل چھلنی ہو رہا تھا ایسا کہ مُردہ کی شناخت ناممکن تھی۔انہوں نے سب ٹکڑے جمع کر کے اکٹھے رکھے تو نضر جن کا ذکر اوپر ہؤا ہے ان کی ہمشیرہ نے ایک انگلی سے پہچانا کہ یہ تو میرا بھائی ہے۔صحابہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے گِنا تو ان کے جسم کے ستّر ٹکڑے الگ الگ پڑے تھے۔۶؎
یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ۔فتح دراصل ایسے ہی لوگوں سے ہوتی ہے ان سے نہیں جو محض ایک نام کے ماتحت جمع ہوجاتے ہیں تم اس وقت جو ہزاروں یہاں بیٹھے ہو یا جو لاکھوں دنیا میں پھیلے ہوئے ہو سارے کے سارے وہ نہیں ہو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں احمدی ہیں۔یا جن کے ذریعہ سے اسلام کو فتح حاصل ہوگی۔ جن کے ذریعہ سے یہ فتح حاصل ہوگی وہ وہی ہیں جن کے دل ہروقت قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں اور جو مشکلات اور تکالیف میں زیادہ قربانی کرتے ہیں انہی لوگوں کی کوشش سے فتح آتی ہے اور انہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی برکات نازل ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک جماعت احمدیہ کو قائم رکھنے والے بھی وہی لوگ ہیں۔بسا اوقات یہ صرف چند آدمی ہوتے ہیں،لاکھوں میں سے ہزاروں، ہزاروں میں سے سینکڑوں اور سینکڑوں میں سے دسیوں بظاہر لاکھوں ،ہزاروں اور سینکڑوں ہوتے ہیں مگر جن کی قربانی کی وجہ سے فتح حاصل ہوتی ہے وہ بہت کم ہوتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ۔جو ہر مصیبت میں قدم آگے بڑھاتے ہیں اور کسی صورت میں بھی پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لیتے۔دنیا کے دئیے ہوئے ناموں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ہندو،سکھ، عیسائی،یہودی،مسلمان ،احمدی خواہ کوئی کچھ کہلائے فائدہ اسی نام سے حاصل ہوگا جو نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا جائے۔ہزاروں عبدالرحمٰن کہلاتے ہیں مگر دراصل عبدالشیطان ہوتے ہیں اور ہزاروں ہیں جن کا نام عبدالرحیم ہے مگر دراصل وہ عبدالرجیم ہوتے ہیں،ہزاروں کے نام عبدالحلیم ہیںمگر خداتعالیٰ کی نظر میں وہ عبدالغضب ہوتے ہیں اور ہر ایک کو کُتّے کی طرح کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔پس اصل نام وہی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملتا ہے۔ صحابہ کے نام دیکھو بعض بالکل ادنیٰ قسم کے تھے۔مثلاً کسی کا نام جریر تھا مگر ہم جب ان کا نام لیں گے تو ساتھ رضی اللہ عنہ کہیں گے۔جریر کے معنی پنجابی زبان میں گھسیٹا کے ہیںہم یہ نہیں دیکھتے کہ ان کا نام گھسیٹا تھا بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں کیاہیں۔گھسیٹا ہیں یا تخت پر بیٹھنے والے ہیں ۔ہماری جماعت میں بھی بعض نام ایسے ہی ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک مخلص صحابی کا نام اروڑہ تھا بعض لوگ جن کے بچے عام طور پر فوت ہوجاتے ہیں وہ بچہ کو میلے کے ڈھیر پر گھسیٹتے ہیں کہ شاید وہ اس طرح بچ جائے اور پھر ان کا نام اروڑہ رکھ دیا جاتا ہے۔ان منشی صاحب کا نام بھی اسی طرح ان کے والدین نے اروڑہ رکھا تھا مگر وہ خداتعالیٰ کی نگاہ میں اروڑہ نہ تھے۔ماںباپ نے ان کا نام اس لئے رکھاتھا کہ شاید میلے کے ڈھیر پر پڑ کر ہی یہ بچہ زندہ رہے مگر اللہ تعالیٰ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدموں میں ڈال کر نہ صرف جسمانی موت سے بلکہ روحانی موت سے بھی بچانا چاہتا تھا۔ ماںباپ نے اسے گندکی نذر کرنا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے پاک دل کو دیکھا اور اسے اپنے لئے قبول کیا چنانچہ اس نے انہیں ایمان نصیب کیا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی بنے اور ایسے مخلص کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایسے اخلاص کے بغیر نجات کی امید رکھنا فضول بات ہے۔ان لوگوں نے اپنے اخلاص کا ثبوت ایسے رنگ میں پیش کیا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔یہ لوگ محبت پیار کے مجسمے تھے۔ منشی اروڑہ صاحب مرحوم نے مجھے خود ایک واقعہ سنایا کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ لیا تھا کہ آپ کبھی کپور تھلہ تشریف لائیں۔اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ابتدائی زمانہ میں دوریاستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت کا خاص موقع نصیب ہؤا۔ ایک کپور تھلہ اور دوسری پٹیالہ ۔مجھے افسوس ہے کہ پٹیالہ نے اپنا معیار قائم نہ رکھا،بعد میں کئی فتنوں میں پٹیالہ کا کوئی نہ کوئی حصہ ہوتا رہا ہے۔ (یہ ضمنی بات میں نے اس لئے کہہ دی ہے کہ پٹیالہ کی جماعت کو توجہ ہو اور وہ اپنے معیار کو قائم رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ محض ماں باپ کی وجہ سے کوئی ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکتا)تو کپورتھلہ کی جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے خواہش کی کہ حضور وہاں تشریف لائیں اور آپ نے وعدہ فرمایا۔منشی اروڑہ صاحب مرحوم نے سنایا کہ ایک دفعہ وہ ایک دکان پر بیٹھے تھے،اس زمانہ میں کپور تھلہ میں ریل نہ جاتی تھی شایدپھگواڑہ سے تانگوں پر لوگ جاتے تھے،منشی صاحب مرحوم ایک دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شدید دشمنِ سلسلہ جو ہمیشہ احمدیوں کے ساتھ بُرائی کیا کرتا تھا آیا اور ان سے کہا کہ تمہارے مرزا صاحب(علیہ الصلوٰۃ والسلام) آئے ہیں اور اڈے پر کھڑے ہیں۔منشی صاحب اس وقت دکان پر بیٹھے آرام سے باتیں کر رہے تھے،پگڑی اور جُوتی اُتاری ہوئی تھی،جب اس دشمن نے یہ خبر سنائی تو اسی طرح اٹھ کر دوڑ پڑے۔ تھوڑی دور گئے تو خیا ل آیا کہ یہ شخص ہمیشہ ہمیں چِڑایا کرتا ہے یہ بھی اس نے تمسخر نہ کیا ہو اس لئے پندرہ بیس قدم دوڑنے کے بعد ٹھہر گئے اور اسے بُرا بھلا کہنا شروع کردیا کہ تو بڑا خبیث ہے ہمیشہ ستاتا ہے۔یہ بھی تُو نے جھوٹ بولا ہوگا،ورنہ ہماری قسمت ایسی کہاں کہ حضور تشریف لائیں مگر اس نے کہا کہ نہیں میں جھوٹ نہیں بولتا۔میں انہیں اکوّں کے اڈے پر کھڑا چھوڑ کر آیا ہوں یہ پھر دوڑ پڑے مگر پھر پندرہ بیس قدم دوڑ کر کھڑے ہوگئے اور پھر اسے بُرا بھلا کہنے لگے اور آخر میں کہا کہ ہماری قسمت ایسی کہاں کہ حضور تشریف لائیں اور اسی طرح تین چار مرتبہ کیا۔ تھوڑی دور بھاگتے اور پھرکھڑے ہو کر اسے کوسنے لگتے کہ اتنے میں سامنے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لاتے ہوئے دکھائی دئیے۔منشی صاحب مرحوم شاید مجسٹریٹ یا سیشن جج کی پیشی میں تھے۔ مہینہ میں ایک بار ضرور قادیان آجاتے تھے اور چونکہ ایک چھُٹی سے فائدہ نہ اٹھا سکتے تھے جب تک ساتھ ہفتہ کا کچھ وقت نہ ملے اس لئے جس دن ان کے قادیان آنے کا موقع ہوتا ان کا افسردفتر والوں سے کہہ دیتا کہ آج کام جلدی ختم ہونا چاہئے کیونکہ منشی جی نے قادیان جاناہے اگر وہ نہ جا سکے تو ان کے دل سے ایسی آہ نکلے گی کہ میں برباد ہو جائوں گا اور اس طرح ہمیشہ ان کو ٹھیک وقت پر فارغ کر دیتا۔افسر گو ہندو تھا مگر آپ کی نیکی ،تقویٰ اور قبولیت دعا کا اس پر ایسا اثر تھا کہ وہ آپ ہی آپ انکے لئے قادیان آنے کا وقت نکا ل دیتا اور کہتا کہ اگر یہ قادیان نہ جاسکے تو ان کے دل سے ایسی آہ نکلے گی کہ میں نہیں بچ سکوں گا۔
توانسان جیسا اللہ تعالیٰ سے معاملہ کرتا ہے ویسا ہی وہ اس سے کرتا ہے۔ جس جس رنگ میں انسان اپنے دل کو اس کے لئے پگھلاتا ہے اسی رنگ میں اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ سلوک کرتا ہے۔ دنیا اسے مارتی ہے، گالیاں دیتی ہے، اسے دبانے کی کوشش کرتی ہے مگروہ ہردفعہ گرائے جانے کے بعد گیند کی طرح پھراُ بھرتا ہے ۔ایسے مؤمنوں کو ہرقسم کی روکوں کے باوجود اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہے اور یہی حقیقی جماعت ہوتی ہے جوترقی کرتی ہے۔ پس اپنے دلوں کو ایسا ہی بنائو اور ایسی محبت سلسلہ کے لئے پیدا کرو پھردیکھوتمہیں اللہ تعالیٰ کس طرح بڑھاتا ہے۔ جولوگ خداتعالیٰ کے ہوجاتے ہیں ان کوتو مانگنا بھی نہیں پڑتا بعض وقت وہ ناز کے انداز میں کہتے ہیں کہ ہم نہیں مانگیں گے اوراللہ تعالیٰ خود بخود ان کی ضروریات کو پورا کردیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہی میں نے یہ واقعہ بھی سنا ہے کہ ایک بزرگ تھے ایک دفعہ ان پرایسی حالت آئی کہ وہ سخت مصیبت میں تھے کسی نے ان سے کہا کہ آپ دعا کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر میرا رب مجھے نہیں دیناچاہتا تو میرا دعا کرنا گستاخی ہے جب اس کی مرضی نہیں تو میں کیوں مانگوں۔ اس صورت میں تو میں یہی کہوں گا کہ مجھے نہ ملے اور اگر وہ دینا چاہتا ہے تو میرامانگنا بے صبری ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ دعا کرتے ہی نہیں بلکہ کبھی کبھی کامل مؤمنوں پر ایسی کیفیات آتی ہیں اور وہ کہتے ہیں اچھا ہم مانگیں گے نہیں اللہ تعالیٰ خود ہماری ضرورت کو پورا کرے گا مگر یہ مقام یونہی حاصل نہیں ہوتا۔ یہ مت خیال کرو کہ تم یونہی بیٹھے رہو، اپنے قلوب میں محبت پیدا نہ کرو، نمازوں میں خشوع خضوع پیدا نہ کرو، صدقہ و خیرات اورچندوں میں غفلت کرو، جھوٹ اور فریب سے کام لیتے رہو اور پھربھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے وارث ہوجائو یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔
ابھی لاہور میں مجھے ایک بوہرہ صاحب ملنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں، خداتعالیٰ سے ملنے کی خواہش بھی ہے مگرخداتعالیٰ ملتا نہیں۔ میں نے کہا کہ خواہش کا تو پتہ نہیں یہ تو خداتعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے مگر یہ بات ضرور ہے کہ دودھ یا شہد کے لئے پیالہ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اگر پیالہ نہ ہو تو اسے رکھا کہاں جائے گا لیکن دودھ اور شہد کے بغیر پیالہ کی بھی کوئی قیمت نہیں دو نوںچیزیں ضروری ہیں آپ کے پاس پیالہ تو بے شک ہے مگردودھ یا شہد نہیں اورظاہر ہے کہ خالی پیالہ کو کوئی کیاکرے گا، دونوںچیزیں ضروری ہیں۔ کئی دل درست نہیں ہوتے اس لئے خداتعالیٰ انہیں نہیں ملتا، کئی ایک جھوٹی قسم کی محبت تو رکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے ہوئے ظاہری احکام کی پیروی نہیں کرتے، انہیں بھی خداتعالیٰ نہیں ملتا ۔ پس خالی نماز، روزہ کافی نہیں بلکہ خداتعالیٰ کوملنے کے لئے عاشقانہ قلبی کیفیت کی ضرورت ہے اور ایسے دل کی ضرورت ہوتی جو تمام عذروں اور بہانوں سے خالی ہوکر خداتعالیٰ کی طرف جھک جائے اور اگرکوئی کہے کہ ہمارے دل میں اخلاص موجود ہے تو ظاہری احکام کی کیاضرورت ہے تو یہ بھی درست نہیں ظاہری احکام پر عمل بھی ضروری چیز ہے۔ میں نے کئی دفعہ پہلے بھی سنایا ہے کہ قاضی امیرحسین صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص صحابی تھے احمدی ہونے سے قبل وہ کٹروہابی تھے اور اس وجہ سے کئی باتیں ظاہری آداب کی وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب حضور باہرتشریف لاتے تو دوست کھڑے ہوجاتے تھے۔ قاضی صاحب مرحوم کا خیال تھا کہ یہ جائز نہیں بلکہ شرک ہے اوراس بارہ میں ہمیشہ بحث کیاکرتے تھے کہ اگر آج ہم میں ایسی باتیں موجود ہیں تو آئندہ کیاہوگا ۔ وہ میر ے استاد تھے میری خلافت کا زمانہ آیا تو ایک دفعہ میں باہر آیا تو وہ معاً کھڑے ہوگئے میں نے کہا قاضی صاحب یہ توآپ کے نزدیک شرک ہے اس پر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ خیال تو میرا یہی ہے مگر کیا کروں رُکا نہیں جاتا، اس وقت بغیر خیال کے کھڑا ہوجاتا ہوں ۔ میں نے کہا بس یہی جواب ہے آپ کے تمام اعتراضات کا۔ جہاں بناوٹ سے کوئی کھڑا ہو تو یہ بے شک شرک ہے مگر جب آدمی بے تاب ہو کر کھڑا ہوجائے تو یہ شرک نہیں۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بعض امور ایسے ہیں جنہیں تکلف اور بناوٹ شرک بنادیتے ہیں، فرماتے تھے اپنے ایک بھائی کی وفات پر حضرت عائشہ ؓ نے بے اختیار چیخ ماری اور منہ پرہاتھ مارلئے۔ کسی نے ان سے دریافت کیا کہ کیا یہ جائز ہے؟ آپ نے فرمایا بے اختیاری میں ایسا ہوگیا۔ میں نے جان کرنہیں کیا۔ تو قاضی صاحب کی یہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے کہ یاتو وہ بحث کیا کرتے تھے اور یا خود کھڑے ہو گئے۔یہ قلبی حالت ہی اصل حالت ہے جو بات بے ساختگی میں آپ ہی آپ ہو جائے وہی اصل نیکی ہے، اس سے نیچے جو نیکی ہے وہ نیکی تو ہے مگرسہارے کی محتاج ہے ۔اصل نیکی وہی ہے جو آپ ہی آپ ہو اور ارادہ سے بھی پہلے کام ہو جائے۔ بچوں کو دیکھو وہ سوتے سوتے یوں منہ مارتے ہیں کہ گویا دودھ پی رہے ہیں یا بعض مائیں جن کے بچے فوت ہو جاتے ہیں وہ نیند میں اپنے پستان پکڑ کر اس طرح دودھ پلاتی ہیں کہ گویا ان کا بچہ ساتھ سویا ہؤا ہے،انہیں دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ طبعی محبت کیا ہے۔ اس میں کسی کوشش کا دخل نہیں ہوتا اور یہی محبت اورتعلق ہے جو سچی قربانی کراتاہے اور سچی قربانی ہی ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کا پیارا بنا دیتی ہے۔بعض اوقات جاہل اور اَن پڑھ لوگ بھی اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو پا لیتے ہیں۔میں نے منشی اروڑہ صاحب کا ذکر کیا ہے وہ بالکل معمولی تعلیم رکھتے تھے مگر انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اخلاص تھا اور اسی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظروں میں ان کی بڑی قدر تھی ان کی کمیِٔ علم کو دیکھ کر ایک دفعہ لوگ ان کو مولوی ثناء اللہ صاحب کے لیکچر میں لے گئے۔وہ تقریر کرتے رہے اور یہ بیٹھے رہے۔لوگوں نے پوچھا کچھ اثر ہؤا اگر نہیں ہؤا تو جواب دو۔ کہنے لگے یہاں تو جواب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میں نے تو مرزا صاحب (علیہ السلام) کا منہ دیکھا ہؤا ہے کوئی خواہ سال بھر بیٹھا ان کے خلاف تقریریں کرتا رہے میں تو ان سب کے جواب میں صرف یہی کہوں گاکہ وہ منہ جھوٹوں والا نہیں تھا۔مجھ پر کسی تقریر کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا کیونکہ میں نے خود ان کو دیکھ لیا ہے۔آفتاب آمددلیل آفتاب۔سورج آپ اپنی سچائی کی دلیل ہوتا ہے۔اس کے لئے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔مرزا صاحب کو دیکھنے کے بعد ان کی صداقت کے لئے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔سب تقریریں سن کر میں زیادہ سے زیادہ یہ کہوں گا کہ تم بڑے لسّان ہو۔ باتیں خوب بنا لیتے ہو مگر میں نے جب اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ لیا تو کس طرح جھٹلا سکتا ہوں۔ تو جہاں دل میں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص پایا جاتا ہو وہاں وہ آپ ہی آپ ان لوگوں کی حفاظت کرتا ہے۔میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سناہؤا ہے کہ ایک دفعہ غالباً ہارون الرشید کے زمانہ میں ایک بزرگ جو اہلِ بیت میںسے تھے اور جن کا نام موسٰی رضا تھا۔ اس بہانہ سے قید کر دئیے گئے کہ ان کی وجہ سے فتنہ کے پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ ایک دفعہ آدھی رات کے وقت ایک شخص ان کے پاس قید خانہ میں رہائی کا حکم لے کر پہنچا ۔وہ بہت حیران ہوئے کہ میں تو سیاسی قیدی تھا پھر اس طرح میری فوری رہائی کس طرح ہوگئی۔وہ بادشاہ سے ملے تو اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ آپ نے مجھے اس طرح یکایک رہاکر دیا۔اس نے کہا کہ وجہ یہ ہوئی کہ میں سورہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کسی نے آکر مجھے جگایا ہے۔خواب میں ہی میری آنکھ کھلی تو پوچھا آپ کون ہیں تو معلوم ہؤا کہ محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔میں نے عرض کیا کہ کیا حکم ہے تو آپ نے فرمایا ۔ہارون الرشید یہ کیا بات ہے کہ تم آرام سے سو رہے ہو اور ہمارا بیٹا قید خانہ میں ہے یہ سن کر مجھ پر ایسا رُعب طاری ہؤا کہ اسی وقت رہائی کے احکام بھجوائے انہوں نے کہا کہ اس روز مجھے بھی قید خانہ میں بڑا کرب تھا، اس سے پہلے مجھے بھی کبھی رہائی کی خواہش نہ پیدا ہوئی تھی۔تو ہم ایسے ہزاروں لاکھوں بیانوں کو کس طرح جھُٹلا سکتے ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے خدا تعالیٰ کی قدرت کے متعلق کس طرح شُبہ کرسکتے ہیں۔وہ ضرور قادر ہے مگر ہمیں چاہئے کہ اس کی قدرت کو جنبش دینے والے اور اس کی رحمت کو اپنے اندر جذب کرنے والے بنیں۔
پس میں احباب کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ ان اہم ایام کی قدر کرومصائب اور فتن جتنے زیادہ ہوں گے اتنے ہی قُربِ الہٰی کے رستے نزدیک ہوں گے اور میں توجہ دلاتا ہوں کہ دوست ایک طرف تو مالی طور پر قربانی کریں اور دوسری طرف جسمانی لحاظ سے اور مکانوں کو دینے کے لحاظ سے بھی زیادہ سے زیادہ حصہ لیں۔تم میں سے بیسیوں شریف الطبع ایسے ہوں گے کہ گزشتہ سالوں میں پہلے تو انہوں نے چندہ دینے یا مکانات دینے میں بُخل سے کام لیا ہوگا مگرجلسہ کے ایام گزرنے کے بعد ان کے دل میں ایک ٹیس اٹھی ہوگی اور انہیں احساس ہؤا ہوگا کہ اگر ہم یہ معمولی سی قربانی کردیتے تو کیا اچھا ہوتا آخر یہ تین چار روز گزر ہی گئے۔میں مان نہیں سکتا کے تم میںسے جس سے کوتاہی ہوئی ہو اور اس کے اندر شرافت موجود ہو اس کے دل میں یہ درد نہ اٹھاہو۔ضرور اس کے دل میں بعد میں کرب پیدا ہؤا ہوگا۔ایسے لوگوں کے لئے اپنی حسرتیں پوری کرنے کا آج موقع ہے اور میں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے پھر انہیں موقع دیا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں۔
اسی طرح میں بیرونی جماعتوں کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بوجھوںکی وجہ سے وہ کمزوری محسوس نہ کریں اور اس وجہ سے یہاں آنے یا مالی بوجھ اٹھانے میں کوئی کمی نہ کریں۔کون کہہ سکتا ہے کہ اسے یہ دن دیکھنے نصیب ہوں گے یا نہیں اور اگر اس دفعہ ہوئے تو آئندہ ہوں گے یا نہیں اس لئے ثواب حاصل کرنے کا جو موقع بھی انہیں ملا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور اسی طرح قادیان کے لوگوں سے بھی یہ کہتا ہوں کہ وہ مالی لحاظ سے بھی، مکانات دینے کے لحاظ سے بھی اور خدمات بجا لانے کے لحاظ سے بھی زیادہ سے زیادہ حصہ لیں، اسی طرح دوسری تحریکات میں بھی حصہ لیں۔بے شک بوجھ زیادہ ہیں مگر ہماری ہی کوتاہیوں کے نتیجہ میں یہ فتنے پیدا ہوتے ہیں اور انہیں روکنے کا ذریعہ یہی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ قربانیاں کریں اورباہر کے دوستوں سے بھی یہ کہتا ہوں کہ ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں،وہ ہوشیار ہو جائیں اور اپنی کمریں کس لیں۔اس وقت دنیا کی نگاہیں ہم پر پڑرہی ہیں اور لوگ دیکھ رہے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کے سپاہی کیا قربانیاں پیش کرتے ہیں اس لئے دوستوں کو خدا تعالیٰ کے سپاہیوں جیسا نمونہ پیش کرنا چاہئے اور یہ ثابت کردینا چاہئے کہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کا جذبہ اس سے بہت زیادہ ہے جو دُنیوی سپاہی اپنے ملک کے لئے کرتے ہیں۔اگر انہوں نے یہ ثابت نہ کر دیا کہ ان کے دلوں میںقربانی کا بے انتہا جذبہ موجود ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی ہتک کرانیوالے ہوںگے کیونکہ دنیا کہے گی کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی اتنی بھی قدر نہیں جتنی جاپان، جرمنی اور اٹلی کے سپاہیوں کے دلوں میں اپنے وطن کی قدر ہے۔‘‘
(الفضل ۱۶؍ دسمبر ۱۹۳۸ئ)
۱؎ ، ۲؎
(البقرۃ: ۱۴۴)
۳؎ بخاری کتاب التفسیر باب قولہِ الَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ (الخ)
۴؎
(الاحزاب:۱۴)
۵؎ الاحزاب: ۲۴
۶؎ سیرت ابن ھشام جلد ۳ صفحہ ۸۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء

۴۱
(۱) قادیان کے غیر احمدیوں، ہندوؤں اور سکھوں کے حقوق
کی حفاظت کی جائے ۔
(۲) قادیان ہجرت کر کے آنے سے قبل اجازت لینی چاہئے۔
(۳) احمدی نوجوانوں سے وقفِ زندگی کا مطالبہ۔
(فرمودہ ۱۶؍دسمبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
(۱)
’’بعض ہمارے دوست اس بات کے شاکی رہتے ہیں کہ بعض دفعہ مَیں اپنی تقریروں یا خطبات میں بعض ایسی باتیں کہہ جاتاہوں جن سے بعض دفعہ مخالف لوگ فائدہ اُٹھا لیتے ہیں۔ مَیں ان دوستوں کے نقطۂ نگاہ کی بھی قدر کرتا ہوں لیکن اصلاح کے کام میں بعض دفعہ ایسی باتیں کہنی ضروری ہوتی ہیں خواہ دُشمن اُن پر خوش ہی کیوں نہ ہو۔ ہم نے جو اخلاقی معیار دُنیا کے سامنے پیش کرنا ہے اس کی بنیاد ہمیں آج سے ہی رکھنی ہو گی اور جب تک ہم اس کی بنیاد نہیں رکھیں گے اُس وقت تک اس پر عمارت بھی کھڑی نہیں کی جاسکے گی۔
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ موجودہ زمانہ میں جیسا کہ بڑھنے والی قوموں کی مخالفت ہؤا کرتی ہے ہماری بھی مخالفت ہے اور اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ ہم دُنیا کی بہتری کا خواہ کوئی کام کریں معترض ہم پر اعتراض کرتے چلے جائیں گے اور ہم پر الزام لگانے والے الزام لگاتے ہی رہیں گے اور ہم اس بات پر مجبور ہیں کہ ان فضول اور لغو اعتراضات کی پرواہ نہ کریں جو حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ تعصب حسد یا ضِد کی وجہ سے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ ہمیں اپنے اخلاق اور اپنے معاملات ہر وقت درست رکھنے چاہئیں۔ یہ ایک طبعی بات ہے کہ جب کسی قوم پر ناجائز اعتراضات ہوتے ہوں تو بعض دفعہ آہستہ آہستہ اس کے اندر یہ مرض پیدا ہو جاتا ہے کہ دُشمن کے اعتراض کو وہ ہمیشہ ہی بے قدری کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتی ہے جبکہ اس کے بعض اعتراض صحیح اور درست بھی ہوتے ہیں۔ انسان کے اندر خدا تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ جو چیز کثرت سے اس پر وارد ہو اس کا وہ عادی ہو جاتا ہے اور چونکہ اس پر کثرت سے دُشمنوں کی طرف سے ناواجب اعتراضات ہوتے ہیں اس لئے وہ قوم ایسی عادی ہو جاتی ہے کہ صحیح اعتراض کی طرف بھی اُس کی پوری توجہ نہیں ہوتی۔
اِن دنوں قادیان میں ایک سوال ایسا پیش ہے کہ جس سوال کی اہمیت ایک حد تک مَیں خود بھی تسلیم کرتا ہوں اور دیر سے اس کو تسلیم کرتا چلا آیا ہوں لیکن وہ سوال ایسا سلجھا ہؤا نہیں ہے جیسا کہ اس کو سمجھا جاتا ہے بلکہ وہ ایک پیچیدہ سوال ہے اور گورنمنٹ کی طرف سے بعض غلطیوں نے اس میں اور زیادہ پیچیدگی پیدا کر دی ہے اور وہ سوال قادیان کی ٹاؤن کمیٹی کا ہے۔ جو دوست میرے ساتھ کام کر رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مَیں قریباً آٹھ دس سال سے یہ سوال اُٹھا رہا ہوں کہ قادیان میں ہندوؤں کی نمائندگی موجود ہے، سکھوں کی نمائندگی موجود ہے لیکن غیراحمدی عنصر جو اِن دونوں سے زیادہ ہے اس کی نمائندگی موجود نہیں اور یہ کہ صحیح طریق کار چلانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی نمائندگی بھی ہو لیکن گورنمنٹ نے جس رنگ میں یہاں وارڈ بنائے ہیں اس کے ماتحت ایک کثیر اکثریت کو قانونی جبر کے ساتھ ایسے حالات میں رکھ دیا گیا ہے کہ یا تو وہ اپنی اکثریت سے فائدہ نہ اُٹھا سکے اور یا پھر اقلّیت میں تبدیل ہو جائے۔ چنانچہ قادیان جیسی جگہ میں جہاں کی آبادی اپنے ساتھ خاص نوعیت رکھتی ہے کُل چھ وارڈ بنائے گئے ہیں جن میں سے چار شہر میں رکھ دیئے گئے ہیں جس کی آبادی باہر کی آبادی کے مقابلہ میں کم ہے۔ مردم شماری کے رو سے شہر کی آبادی تین ہزار کے قریب ہے لیکن قادیان کی کل آبادی دس ہزار کے قریب ہے۔ تو تین ہزار یا اب وہ ترقی کر کے اور مہمانخانہ وغیرہ ڈال کر ساڑھے تین ہزار ہو گی۔ بہرحال وہ کل آبادی کے نصف سے بھی کم ہے۔ اس کے تو گورنمنٹ نے چار بلکہ شاید پانچ وارڈ بنا دیئے ہیں لیکن بیرونی آبادی کے لئے دو یا تین وارڈ رکھے ہیں۔ حالانکہ احمدی آبادی قدرتی طور پر باہر زیادہ بڑھ رہی ہے کیونکہ اب زیادہ تر ایسے لوگ آتے ہیں جو زیادہ آسودہ حال اور تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور وہ شہر سے باہر کھلی ہوا میں اپنے مکان بنانے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ گورنمنٹ کی اپنی مردم شماری کے رو سے قادیان میں احمدی ۷۵ فیصدی سے زیادہ ہیں۔ اب ۷۵ فیصدی کے لحاظ سے اگر آٹھ ممبریاں ہوں تو چھ ممبریاں احمدیوں کو ملنی چاہئیں اور دوممبریاں دوسری قوموں کو ملنی چاہئیں لیکن ممبریاں ہیں سات جن میں سے پانچ احمدیوں کے پاس ہیںاور دو غیروں کے پاس۔ ان دو میں سے ایک ممبر ایسی آبادی کی طرف سے جو ڈیڑھ دو سو کی تعداد رکھتی ہے باقاعدہ طور پر نامزد ہوتا چلا آرہا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ایک دوسری جماعت جن کے ساتھ آٹھ سو آدمی ہیں ان کو گورنمنٹ ہمیشہ نظر انداز کرتی چلی آئی ہے۔ اِدھراکثریت قدرتی طور پر یہ جدوجہد کرتی ہے کہ وہ اپنے حقوق کو پورے طور پر حاصل کرے اور کسی لحاظ سے اسے نقصان نہ رہے اور آخر ۷۵ فیصدی آبادی رکھنے والے کب یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ انہیں پچاس یا چالیس فیصدی بنا دیا جائے مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اس میں مُشکلات گورنمنٹ کی طرف سے ہیں۔ اگر وہ زیادہ وارڈ بناتی اور صحیح طور پر بناتی تو یقینا یہ دقّت پیش نہ آتی اور جیسا کہ میرے ساتھ کام کرنے والے واقف ہیں مَیں موجودہ حالات میں بھی کہتا رہتا ہوں کہ ان کے لئے نمائندگی کی کوئی نہ کوئی صورت ہونی چاہئے۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ اگر ان کی نمائندگی کی کوئی صورت پیدا کی جائے تو ۷۵ فیصدی آبادی کے حقوق تلف ہو جائیں گے اور میرے نزدیک یہ بات بھی ایسی ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پس جب تک گورنمنٹ پر زور دے کر اس نقص کی اصلاح نہ کرالی جائے اُس وقت تک میرے نزدیک کم سے کم یہ ضرور ہونا چاہئے کہ وہ لوگ جن کی کمیٹی میں نمائندگی نہ ہو اُن کے حقوق پورے طور پر ادا کئے جائیں۔
ابھی جبکہ مَیں جمعہ کے لئے آنے والا تھا مجھے رپورٹ ملی ہے کہ یہاں ڈیفنس کمیٹی کے نام سے ایک جلسہ ہؤا ہے اس میں بہت کچھ جھوٹ بولے گئے ہیں لیکن بعض باتیں ایسی ہیں جو میرے نزدیک قابلِ توجہ ہیں اور مَیں عام طور پر اس کا اظہار اس لئے کر رہا ہوں تا جماعت کی عام رائے کی اصلاح کروں ورنہ میرے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ مَیں ٹاؤن کمیٹی کے ممبروں کو اس طرف توجہ دلا دیتا۔ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ لوگوں میں یہ شکایت ہے کہ وہ محلّے جو شہروں کی قدیم آبادی کے ہیں ان میں روشنی اور صفائی کا پورا انتظام نہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ مطالبات نہ صرف ان کے ہیں بلکہ مَیں بھی اپنے آپ کو ان مطالبات میں شریک سمجھوں گا۔ یہ قطعی طور پر دیانتداری کے خلاف ہے کہ ہم کوئی ایسا کام کریں جس میں کسی فریق کے حقوق کو نظرانداز کر دیا جائے۔ مَیں مخالفت کی پرواہ نہیں کرتا اور مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوستوں کا یہ حق ہے کہ اگر وہ دیکھیں کہ ان کے جماعتی حقوق کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہے تو سب مل کر اس کا ازالہ کریں اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی جدوجہد کریں لیکن میرے نزدیک احمدیوں کو اپنا معیار بہت بُلند رکھنا چاہئے اور انہیں ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے کہ دوسروں کے حقوق بھی تلف نہ ہوں۔ شہریوں کو یہ باتیں بالعموم سمجھانے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن قادیان چونکہ قریب زمانہ میں گاؤں تھا اس لئے مَیں دیکھتا ہوں کہ کئی دفعہ جھگڑے معمولی معمولی باتوں پر پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً اگر کمیٹی سڑکیں چوڑی کرنے کے لئے بعض تھَڑے گرا دے تو قدیم آبادی کے نا تعلیم یافتہ لوگ حتّٰی کہ بعض احمدی بھی مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں۔ انہیں اُس وقت صرف یہ خیال آتا ہے کہ ہمارا تھَڑا گر جائے گا۔ یہ خیال نہیں آتا کہ اگر تھڑا نہ گرا تو گلیاں چلنے والوں کے لئے تکلیف دہ ہو جائیں گی اور راستے کھلے نہ کئے گئے تو لوگوں کی صحت پر بُرا اثر پڑے گا۔ اس میں جہاں تک مجھے علم ہے غیر احمدی عنصر کی طرف سے بھی مخالفت ہوتی ہے، ہندو سِکھ عنصر کی طرف سے بھی مخالفت ہوتی ہے اور کچھ احمدی عنصر بھی اس کی مخالفت کرتا ہے اور یہ ایک نہایت ہی نا پسندیدہ فعل ہے اور ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے تعلیم یافتہ لوگ انہیں سمجھائیں اور بتائیں کہ یہ اقدام تمہارے فائدہ کے لئے ہے،تمہیں نقصان پہنچانے کے لئے نہیں۔
پس اگر اس قسم کے تعلقات غیروں سے رکھے جائیں اور ان کے حقوق کی ویسی ہی نگہداشت کی جائے جیسے اپنے حقوق کی کی جاتی ہے تو یقینا نتیجہ پہلے سے بہتر ہو گا۔ مَیں مانتا ہوں کہ ہماری جماعت کی مخالفت ہے اور وہ مخالفت ایسے رنگ میں ہے کہ اب وہ اُس وقت تک مِٹ نہیں سکتی جب تک دُنیا ہماری طرف سے نا اُمید نہ ہو جائے اور اسے یہ یقین نہ ہو جائے کہ اب یہ جماعت کسی صوت میں بھی مٹائے مِٹ نہیں سکتی بلکہ ہمیشہ قائم رہنے والی ہے لیکن بہرحال جب تک یہ حالت پیدا نہ ہو اُس وقت تک ہم پر مخالفوں کی طرف سے ناجائز اعتراضات ہونے ضروری ہیں مگر اس وجہ سے اُن کے کسی جائز اعتراض کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ مَیں جانتا ہوں کہ مخالف لوگ میرے اس خطبہ سے فائدہ اُٹھائیں گے اور وہ کہیں گے کہ جماعت احمدیہ کے امام نے اپنی جماعت کے لوگوں کو جھاڑا لیکن مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ لوگ کیا کہتے ہیں۔ مجھے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اخلاق ایسے اعلیٰ ہوں کہ ہم خدا کے نزدیک بالکل بری الذّمہ ہوں اور ہم پر یہ الزام عائد نہ ہو سکے کہ ہم نے کسی کے حقوق کو تلف کر دیا۔
پس باوجود اس علم کے کہ یقینا میری اس بات سے دُشمن ناجائز فائدہ اُٹھائے گا مَیں یہ کہنے سے رُک نہیں سکتا کہ میرے لئے یہ بات ناقابلِ برداشت ہے کہ ہمارے سپرد ایک کام کیا جائے اور ہم اِس میں کوئی جنبہ داری یا غفلت کا پہلو اختیار کریں۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے خدمتِ خلق کے لئے کھڑا کیا ہے اور یہ خدمتِ خلق ہمارے لئے ایسی ہی ضروری ہے جیسے دوسروں کے لئے۔ بلکہ چونکہ وہ ہم پر شک کرتے ہیں کہ ہم اپنی اکثریت سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں اس لئے اگر ہم اُن کا کچھ لحاظ کر دیا کریں تو یہ نہ صرف ہمارے لئے ضروری ہے بلکہ واجب ہے کہ ہم ایسا کریں۔ پس ان معاملات میں ممبران کمیٹی جس جس وارڈ کی طرف سے منتخب ہوں ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے وارڈ کے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کریں۔ یقینا تمام گلیوں کی پوری صفائی ہونی چاہئے خواہ وہ گلی ہندوؤں کی ہو یا سکھوں کی ہو یا غیر احمدیوں کی ہو اور مَیں سمجھتا ہوں ایک وارڈ کی طرف سے جو ممبر بھی منتخب ہو اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے وارڈ کے لوگوں کے جائز حقوق کی حفاظت کرے۔
میونسپل کمیٹیوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ روشنی کا معقول انتظام کریں۔ میونسپل کمیٹیوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ گلیوں اور سڑکوں کو صاف رکھیں اور میونسپل کمیٹیوں کا فرض ہؤا کرتا ہے کہ وہ سڑکیں کھلی اور چوڑی رکھیں۔ اگر یہاں کی ٹاؤن کمیٹی کے ممبراِن امور کی طرف توجہ نہیں کرتے تو یقینا وہ اپنے فرائض کی بجاآوری میں غفلت اور کوتاہی سے کام لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے جلسہ میں کہا ہے کہ آرائیوں کی جو مسجد ہے جہاں احرار کا جمعہ ہوتا ہے وہاں پوری صفائی نہیں کی جاتی اور گند پڑا رہتا ہے۔ اگر یہ بات واقعی صحیح ہے تو یہ اس وارڈ کے ممبر کی غلطی ہے کہ اس نے اپنے وارڈ کی صفائی کا خیال نہیں رکھا۔ ایسے معاملات میں ہمیں قطعاً یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ان لوگوں کی طرف سے ہماری مخالفت کی جاتی ہے بلکہ ہمیں ان کے حقوق کی کامِل حفاظت کرنی چاہئے اور ہماری جماعت کے ممبروں کا فرض ہے کہ خواہ کسی وارڈ میں احمدی رہتے ہوں یا غیراحمدی، سب کے حقوق کا خیال رکھیں۔ روشنی کا معقول انتظام کرنا، گلیوں کی صفائی، سڑکوں کی صفائی اور اسی طرح اَور رفاہِ عام کے کام میونسپل کمیٹیوں کے فرائض میں شامل ہیں اور ممبران کا فرض ہے کہ وہ یہ دیکھتے رہیں کہ یہ حقوق سب کو ملے ہیں یا نہیں اور اگر کسی جگہ یہ حق ادا نہ کیا جارہا ہو تو اس جگہ فوری طور پر مناسب انتظام کیا جائے تاکہ کسی کو کوئی شکوہ نہ رہے۔
باقی رہا ان کا اور ہمارا مقابلہ یا اُن کی گالیاں اور دھمکیاں۔ سو یہ ایسی چیز نہیں جس کی ہم پرواہ کریں یا جس کی وجہ سے ہم گھبرا جائیں۔ بہرحال ان کا راستہ الگ ہے اور ہمارا الگ۔ انہوں نے جب اپنے لئے یہ رستہ تجویز کیا ہؤا ہے کہ وہ ہماری مخالفت کریں تو وہ اس کے اچھے یا بُرے پہلو کو خود سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارا فرض یہی ہونا چاہئے کہ ہم ان کے مقابلہ میں اپنی حفاظت اور بچاؤ کے تمام جائز ذرائع اختیار کرتے ہوئے اپنی برتری اور اپنے حقوق کی فوقیت کو قائم رکھیں اور چونکہ ہماری یہاںتعداد زیادہ ہے، ہم یہاں کے مالک ہیں اور قادیان ہمارا ایک علمی اور مذہبی مرکز ہے اِس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قادیان کی امتیازی شان کو بھی برقرار رکھیں لیکن اس کے مقابلہ میں جو شہری حقوق ہیں وہ سب کو یکساں ملنے چاہئیں اور سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہئے۔ مثلاً ہمارے مرکز کی گلیاں ہیں۔ اب مذہبی لحاظ سے چاہے یہ ہمارا مرکز ہی ہے اور چاہے ہم کتنی ہی خواہش رکھتے ہوں کہ ہمارے مرکز کی گلیاں زیادہ پاکیزہ اور زیادہ صاف ستھری ہوں پھر بھی کمیٹی کے قانون کے لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام گلیوں کا یکساں خیال رکھیں۔ خواہ وہ گلیاں احمدیوں کے محلہ کی ہوں یا ہندوؤں اور سکھوں کے محلہ کی۔ ہاں اگر مذہبی مرکز ہونے کے لحاظ سے ہم اپنی گلیوں کو عام گلیوں سے زیادہ مصفٰی اور زیادہ اعلیٰ بنانا چاہیں تو ہمیں ان گلیوں کی صفائی پر اپنا ذاتی روپیہ خرچ کرنا چاہئے۔ ہمیں قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ ہم کمیٹی کا روپیہ اپنی گلیوں پر زیادہ صرف کر لیں اور اس کے فنڈ سے زیادہ حصّہ اپنے لئے لے لیں۔ دوسری جگہوں میں بے شک ایسا ہی ہوتا ہے۔ مثلاً لاہور میں جتنا روپیہ مال روڈ پر خرچ کیا جاتا ہے اتنا روپیہ دوسری سڑکوں یا عام گلیوں پر صرف نہیں کیا جاتا مگر وہ انگریزی اخلاق ہیں، اسلامی اخلاق نہیں اور ہم یقینا اسلامی تعلیم کے ماتحت انگریزوں کے اس فعل کو بھی نا پسند کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں مال روڈ پر بھی اتنا ہی روپیہ خرچ کرنا چاہئے جتنا روپیہ وہ باقی سڑکوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اسی طرح گلیوں کی صفائی پر بھی ایک جیسا خرچ ہونا چاہئے اور یہ صرف لاہور کی بات نہیں اور شہروں میں بھی یہی نظر آتا ہے کہ وہ سڑکوں اور گلیوں کی صفائی میں سب سے یکساں سلوک نہیں کرتے۔ مگر ہمیں ان باتوں میں ان کی نقل نہیں کرنی چاہئے بلکہ شہر کا روپیہ سارے شہر پر یکساں خرچ کرنا چاہئے اور اگر کوئی چیز ایسی ہو جسے جماعت کے لحاظ سے کوئی فوقیت حاصل ہو تو ہمیں یہ امر ضرور مدّ نظر رکھنا چاہئے کہ اس کے اخراجات ہم آپ برداشت کریں۔ بجائے اس کے کہ شہر کے روپیہ کو اس پر صرف کیا جائے۔ یہ کم سے کم انصاف ہے جو لوگوں سے کیا جاسکتا ہے کہ جس جس جماعت کا جتنا روپیہ آئے اس قدر روپیہ سے اس جماعت کو فائدہ پہنچ جائے ورنہ جو زیادہ لوگ ہوں اور اکثریت میں ہوں اُن کا تو اخلاقی لحاظ سے یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے روپیہ میں سے کچھ حصّہ بچا کر غریبوں پر خرچ کیا کریں۔ کیونکہ اصل اسلامی اخلاق یہی ہیں۔ پس مَیں امید کرتا ہوں کہ مخالفت اور گالیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اور ان ناجائز ذرائع کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جو دُشمن ہمارے مقابلہ میں اختیار کرتا ہے صبر اور اسلامی علّوِ حوصلہ سے کام لیتے ہوئے ہماری جماعت کے احمدی ممبرنہ صرف احمدی حقوق کی حفاظت کریں گے بلکہ وہ غیر احمدیوں، سکھوں اور ہندوؤں کے حقوق کی بھی حفاظت کریں گے اور جہاں کہیں انہیں نقصان پہنچ رہا ہو وہاں وہ ان کی جائز مدد سے دریغ نہیں کریں گے۔ مَیں ان سے کہتا ہوں کہ وہ زیادہ حوصلہ دکھائیں اور بہرحال ان کی رعایت رکھیں۔ کیونکہ وہ خود اکثریت میں ہیں اور دوسرے اقلّیت میں اور میرے نزدیک ٹاؤن کمیٹی کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے حلقوں کو اس طرح تبدیل کرے کہ غیر احمدیوں کا بھی ایک نمائندہ ضرور آجائے۔ اس احساس میں مَیں خود بھی شریک ہوں مگر موجودہ حالات میں گورنمنٹ نے وارڈ ایسے رنگ میں تقسیم کر رکھے ہیں کہ احمدی باوجود اکثریت میں ہونے کے اقلّیت میں بدل سکتے ہیں اور یہ بات قطعاً برداشت نہیں کی جاسکتی۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہم ۷۵ فیصدی ہونے کے باوجود ۶۰ یا ۶۵ فیصدی نیابت قبول کر لیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ۴۰ یا ۵۰ فیصدی نیابت قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔
(۲)
اس کے بعد مَیں جماعت کے دوستوں کو ایک اَور امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ ہجرت کا مسئلہ ہے۔ ہجرت کے معاملہ میں ہماری جماعت سے بہت کچھ غلطیاں ہو جاتی ہیں حالانکہ مَیں نے ایک دفعہ پہلے بھی اس کی طرف توجّہ دلائی تھی مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ بیرونی جماعتیں اس کی طرف توجّہ کر رہی ہیں اور نہ قادیان کی جماعت اس کی طرف متوجّہ ہے۔ یہ مسئلہ بھی نہایت پیچیدہ ہے اور جب تک خاص غور اور فکر سے اس کی طرف توجّہ نہیں کی جائے گی اس وقت تک ہم اسے کبھی بھی حل نہیں کر سکیں گے۔ اس میں پیچیدگی یہ ہے کہ ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ قادیان ترقی کرے گا اور آپ نے خود یہ تحریر فرمایا ہے کہ وہ شخص جو قادیان آکر رہائش اختیار نہیں کرتا یا کم سے کم یہاں رہائش اختیار کرنے کی دل میں تمنّا اور خواہش نہیں رکھتا اس کی نسبت مجھے اندیشہ ہے کہ وہ پاک کرنے والے تعلقات میں ناقص نہ رہے۔ پس اس امر کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہر احمدی کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ وہ یہاں آکر رہائش اختیار کرے اور ہماری بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہاں آکر رہیں تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہو۔ کیونکہ پیشگوئیوں کے پورا ہونے کی خواہش ایک قدرتی خواہش ہے اور ہم اس خواہش میں کہ قادیان کی احمدی آبادی جلد سے جلد بڑھے کسی سے پیچھے نہیں لیکن دوسری طرف ہماری یہ خواہش بھی رہتی ہے کہ قادیان میں ایسی آبادی نہ بڑھے جو دینی لحاظ سے کمزور ہو اور ایسا نہ ہو کہ قادیان کی ترقی کے ساتھ ہی ہم پر یہ مثل صادق آجائے کہ سرمنڈواتے ہی اولے پڑے اور تعداد کی ترقی کے ساتھ ہم میں اخلاقی تنزّل شروع ہو جائے۔ اب جو دشمن بعض دفعہ ہماری جماعت پر اعتراض کرتا اور شور مچانے لگ جاتا ہے اس کی زیادہ تر وجہ یہی ہے کہ قادیان میں بعض ایسے لوگ ہجرت کر کے آجاتے ہیں جو اخلاقی معیار پر پورے نہیں اُترتے۔ پہلے زمانہ میں قادیان میں مشکلات باہر سے زیادہ تھیں اور اُس وقت وہی لوگ یہاں آکر بستے تھے جو اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے۔ دین کے لئے قربانیاں کرنے کا جذبہ اپنے دل میں رکھتے تھے اور محض خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے فضل کی تلاش کے لئے وہ قادیان آکر ڈیرہ جما دیتے تھے۔ مگر اب قادیان میں احمدی آبادی کی زیادتی کی وجہ سے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اگر ہم ہجرت کر کے قادیان گئے تو ہماری تجارت میں ترقی ہو جائے گی یا کوئی ملازمت ہی مل جائے گی یا امداد کے لئے کوئی وظیفہ ہی مقرر ہو جائے گا۔ اس وجہ سے وہ کمزور اور بُزدل لوگ جو اپنی جگہوں پر مخالفوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے وہ ہجرت کا نام لے کر قادیان آجاتے ہیں۔
پس ان سے یہ اُمید رکھنا کہ وہ سلسلہ کے نظام کی پابندی کریں گے، احکامِ سلسلہ کی فرمانبرداری کریں گے، قربانی کے موقعوں پر قربانی اور ایثار کا شاندار نمونہ دکھائیں گے اور جماعتی کاموں میں بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ حصّہ لیں گے، بالکل غلط ہوتا ہے۔ وہ حاجتمند ہوتے ہیں، وہ طالب امداد ہوتے ہیں، وہ ایک قسم کے سائل ہوتے ہیں۔
پس ان سائلوں یا بُزدلوں اور کمزوروں کی جماعت کے بڑھنے سے ہمارے اخلاق ترقی نہیں کریں گے بلکہ تباہ ہوں گے اور جماعت کی ترقی نہیں ہو گی بلکہ تنزّل ہو گا اور اس کی شان بلند نہیں ہو گی بلکہ گرے گی۔ پس ہجرت محدود ہونی چاہئے اور ایسے ہی لوگوں کے لئے ہجرت ہونی چاہئے جو سلسلہ کے لئے قربانی کرنے والے ہوں نہ وہ جو کہ سائل کی حیثیت رکھتے ہوں یابھگوڑوں اور بزدلوں کی جماعت ہو۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ مَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلَی اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ فَہِجْرَتُہٗ اِلٰی اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ ۱؎ کہ جو شخص اس لئے ہجرت کرتا ہے کہ مَیں خدا اور اس کے رسول کا قُرب حاصل کروں تو اسے واقع میں خدا اور اس کے رسول کا قُرب حاصل ہو جاتا ہے مگر فرمایا مَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُہَا اَوْ اِلٰی اِمْرَأَۃٍ یَنْکِحُھَا فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ ۔۲؎ جو شخص اس لئے ہجرت کرتا ہے کہ مجھے کوئی دُنیاوی فائدہ پہنچ جائے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی غرض سے وہ ہجرت کرتا ہے تو فرمایا اس کی ہجرت تو اسی کے لئے ہو گی۔ وہ عورت کا مہاجر کہلا سکتا ہے، وہ دُنیا کا مہاجر کہلا سکتا ہے، وہ تجارت کا مہاجر کہلا سکتا ہے، وہ امن کا مہاجر کہلا سکتا ہے مگر وہ خدا اور اس کے رسول کا مہاجر نہیں کہلا سکتا۔ یہ ہجرت کا فرق رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے زمانہ میں ہی بیان فرما دیا تھا، آج کا ایجاد کردہ نہیں۔ پس ہمیں تو اس ہجرت کی ضرورت ہے جو خدا اور اس کے رسول کے لئے ہو اس ہجرت کی ضرورت نہیں جو دُنیوی اغراض کے ماتحت ہو مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے جو محض اس لئے ہجرت کا نام لے کرقادیان آگئے ہیں کہ باہر وہ دُشمنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ پس وہ ڈر کر اور مصیبتوں سے چھُٹکارا حاصل کرنے کے لئے قادیان آئے ہیں۔ اس لئے قادیان نہیں آئے کہ انہیں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہو۔ چنانچہ جب بھی ان سے پوچھا جائے کہ تم کیوں قادیان آئے ہو تو وہ یہی جواب دیں گے کہ باہر ہمارے لئے مشکلات بڑی تھیں۔ گویا وہ خدا کے لئے نہیں آئے بلکہ اپنے آپ کو امن پہنچانے کے لئے یہاں آئے ہیں۔ پس وہ خدا کے مہاجر نہیں بلکہ دُنیا کے مہاجر ہیں ، وہ امن کے مہاجر ہیں وہ تجارت کے مہاجر ہیں مگر انہیں خدا اور اس کے رسول کا مہاجر نہیں کہا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے قادیان میں کیوں بیٹھے ہو، باہر جاؤ اور تبلیغ کرو تو وہ کہتے ہیں ہم کہاں جائیں، باہر دُشمن تو ہمیں آرام نہیں لینے دیتا۔ جس کا صاف طور پر یہی مطلب ہے کہ وہ آرام طلبی کے لئے قادیان آئے ہیں۔ حالانکہ ہجرت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی خاطر تکلیف اُٹھانے کے لئے آئے نہ یہ کہ اپنے آپ کو آرام پہنچانے یا دُنیوی اغراض و مقاصد میں ترقی حاصل کرنے کے لئے آجائے اور آرام سے مہاجربن جائے۔ اگر ان کے دل میں ہجرت کی عظمت ہوتی اور اگر انہوں نے خدا اور اس کے رسول کے لئے ہجرت کی ہوتی تو جب بھی ان سے کہا جاتا کہ جاؤ اور باہر نکل کر اسلام پھیلاؤ تو وہ خوشی سے اُٹھ کھڑے ہوتے اور کہتے کہ الحمدﷲ، ہماری ہجرت کا مقصد پورا ہوگیا۔ ہم نے خدا اور اس کے رسول کے لئے ہجرت کی تھی اور خدا نے ہم سے اپنا کام لے لیا مگر ہوتا یہ ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے باہر جاؤ تو وہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں ہم جائیں کہاں اور اگر جائیں تو کھائیں کیا؟ پس ان کی ہجرت إِلَی اﷲِ وَإِلَی الرَّسُوْلِنہیں بلکہ ان کی ہجرت إِلَی الطَّعَامِ یَا إِلَی اللِّبَاس ہے۔ یعنی یا تو وہ کھانے پینے کے لئے قادیان آئے ہیں یا تجارت کرنے کے لئے قادیان آئے ہیں یا دشمن کے شر سے بچنے کے لئے قادیان آئے ہیں۔ دین کا کوئی حصّہ اور ہجرت کا کوئی حقیقی رنگ ان میں نہیں پایا جاتا۔ حالانکہ ہجرت ہمیشہ دین کی خدمت کے لئے ہوتی ہے، اپنے ذاتی مفاد کے حصول کے لئے نہیں ہوتی۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ مکّہ سے جو مسلمان ہجرت کرتے وہ اسی لئے ہجرت کرتے تھے کہ باہر نکل کر اسلام کو چاردانگِ عالم میں پھیلائیں گے اسی وجہ سے جب وہ مکّہ سے ہجرت کرتے تو کفار ان کا پیچھا کرتے، انہیں پکڑ پکڑ کر واپس لاتے اور اگر کوئی نہ پکڑا جاتا تو اس کے لئے انعام مقرر کرتے کیونکہ وہ سمجھتے تھے اگر یہ ہجرت کر کے چلے گئے تو اسلام پہلے سے بھی زیادہ زور کے ساتھ پھیلنا شروع ہو جائے گا اور اس کی ترقی جو پہلے صرف مکّہ تک محدود ہے اِرد گِرد کے علاقوں کو بھی اپنے اندر شامل کرے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔
صحابہ جب مکہ سے ہجرت کر کے گئے تو مدینہ میں وہ روٹیاں کھانے کے لئے نہیں بیٹھ گئے بلکہ انہوں نے اسلام کی فتح کے لئے لڑائیوں میں حصّہ لیا اور اپنی جانیں خُدا اور اس کے رسول کے لئے قربان کر دیں۔
پس وہ قربانی کرنے اور اپنی جانیں خدا تعالیٰ کی راہ میں دینے کے لئے ہجرت کرتے تھے۔ اس لئے ہجرت نہیں کرتے تھے کہ مدینہ جاکر انہیں آرام سے روٹی مل جائے گی اور دشمن کے حملوں سے ان کی جان بچ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی اسلامی حکومت قائم ہوئی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اعلان فرمادیا کہ اب کوئی ہجرت نہیں ۳؎کیونکہ ہجرت تکلیف اُٹھانے کے لئے تھی اور چونکہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد قربانیوں کا کوئی موقع نہیں تھا اس لئے آپ نے فرمادیا کہ اب کوئی ہجرت نہیں۔ جو باہر آرام اور سہولت سے رہتے ہوں، ان کے کام چلتے ہوں، انہیں ملازمتیں حاصل ہوں، ان کی تجارتیں اعلیٰ پیمانہ پر ہوں اور ہر طرح کی فارغ البالی اور اطمینان انہیں نصیب ہو مگر پھر بھی وہ اپنے آرام و آسائش کو قربان کر کے محض خدا اور اس کے رسول کی رضا مندی کے لئے قادیان آکر رہائش اختیار کر لیں اور کہیں کہ ہم اپنی زندگی خدمتِ دین کے لئے وقف کرتے ہیں۔ روپیہ ہمارے پاس کافی ہے۔ جائداد ہمارے پاس وافر ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم سے خدا تعالیٰ کے دین کا بھی کوئی کام ہو جائے اور ہم اپنی تمام زندگی اب اشاعتِ اسلام اور اشاعتِ احمدیت کے لئے صرف کر دیں گے۔ یا وہ دوست سچے مہاجر ہیں کہ جن کے پاس مال اور روپیہ تو نہ ہو مگر وہ اپنے جسموں اور وقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی نیّت سے گھر سے نکلیں اور اپنی زندگیوں کو اشاعتِ اسلام و احمدیت کے لئے سلسلہ کی راہ میں اُسی طرح خرچ کریں اور کرنے کے لئے تیار رہیں جس طرح کہ صحابہ نے کیا۔ یہی اصل مہاجر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ان کا قادیان میں آنا ضروری ہے مگر وہ جو باہر کی مشکلات سے ڈر کر قادیان آتا ہے یا اس لئے آتا ہے کہ باہر اس کا کام نہیں چلتا تھا مگر یہاں احمدیوں کی کثرت کی وجہ سے اُسے اپنی تجارت میں ترقی کی اُمید ہوتی ہے وہ مہاجر نہیں بلکہ وہ بزدل اور بھگوڑا ہے۔ وہ لڑائی کے میدان سے بھاگنے والا انسان ہے۔ اس کے ٹھہرنے کا مقام بھلا قادیان کس طرح ہو سکتا ہے؟ کیاقادیان بھگوڑوں اور بزدلوں کی رہائش کی جگہ ہے؟ ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد جب عرب میں چاروں طرف ارتداد کا طوفان پھیل گیا اور صرف تین جگہ اسلامی حکومت رہ گئی باقی تمام مقامات میں بغاوت رونما ہو گئی اور مرتدّین نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تو اس وقت بڑی خطرناک جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں سے بعض مسلمان دُشمن کے حملہ کی تاب نہ لا کر بھاگے اور مدینہ آگئے۔ حضرت ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس کا علم ہؤا تو آپ نے حُکم دیا کہ وہ مدینہ سے چلے جائیں اور یہ اعلان فرما دیا کہ آئندہ ان کو مدینہ میں داخل ہونے کی کبھی اجازت نہ ہو گی۔ حالانکہ وہ میدانِ جنگ سے عارضی طور پر بھاگ کر آئے تھے مستقل طور پر بھاگ کر نہیں آئے تھے مگر باوجود اس کے کہ وہ تھوڑی دیر کے لئے دشمن کے مقابلہ سے ہٹ کر مدینہ میں آکر پناہ گزین ہو گئے۔ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے ان پر سخت اظہارِ ناراضگی کیا اور فرمایا کہ مدینہ میں صرف ان لوگوں کی جگہ ہے جو یہاں سے نکل کر دنیا کا مقابلہ کریں۔ ان لوگوں کے لئے جگہ نہیں جو ڈر کر یہاں آجائیں۔ پس ایسی ہجرت قطعاً کوئی ہجرت نہیں اور اسی وجہ سے بار ہا یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی ہجرت کرنا چاہے تو پہلے وہ ہجرت کی مرکز سے اجازت حاصل کرے اور بغیر اجازت حاصل کرنے کے کوئی ہجرت کر کے قادیان آیا تو اُسے واپس جانے پر مجبور کیا جائے گا اور یہ کہ جماعتیں ہمیشہ ایسے ہی آدمیوں کے متعلق ہجرت کی سفارش کیا کریں جو واقع میں اخلاص اور تقویٰ رکھتے ہوں اور خدا اور اس کے رسول کی رضا کے لئے آنا چاہتے ہوں۔ اپنی دنیوی ضرورتوں کی وجہ سے یہاں نہ آرہے ہوں مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیرونی جماعتوں نے بھی اس ضمن میں اپنے فرائض کو بالکل نہیں سمجھا۔ انہیں جب کسی کے متعلق یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہجرت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو فوراً اس کی سفارش کر دیتی ہیں کہ فلاں بڑا مخلص ہے اس کے گزارہ کی یہاں کوئی صورت نہیں، اسے قادیان میں آنے کی اجازت دے دی جائے یا فلاں کو احمدیت کی وجہ سے سخت تکلیف ہے ہم بڑے زور سے سفارش کرتے ہیں کہ اسے قادیان آنے کی اجازت دے دی جائے تاکہ وہ آرام کا سانس لے سکے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ دو حکومتوں میں جنگ ہو رہا ہو، مُلک کی عزت خطرہ میں ہو ، قوم کی زندگی اور موت کا سوال ہو اور کوئی شخص میدان سے بھاگنا چاہتا ہو تو اس کے متعلق بڑے زور سے سفارش کی جائے کہ یہ شخص میدانِ جنگ سے بھاگنا چاہتا ہے اس کے لئے مرکز میں فوراً جگہ نکالی جائے۔ کیا انگریزی گورنمنٹ یا دُنیا کی کوئی عقلمند اور دُوراندیش گورنمنٹ ایسا ہی کیا کرتی ہے۔ کیا تم نے کبھی سُنا ہے کہ میدانِ جنگ سے کوئی برطانوی سپاہی بھاگ آیا ہو اور اسے لنڈن میں شاہی محلات کے قریب جگہ دی گئی ہو۔ وہاں تو اسے فوراً گولی سے اُڑا دیا جاتا ہے مگر یہاں جماعتیں ہیں کہ سفارش کر رہی ہوتی ہیں کہ فلاں کو قادیان میں بُلالیا جائے کیونکہ باہر دُشمنوں کا وہ مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مَیں حیران ہوں کہ جماعتیں بار بار میرے خطبات سُننے کے باوجود کیوں ایسی جرأت کرتی ہیں اور کس طرح یہ سفارش کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں کہ فلاں سخت مصیبت میں ہے اسے قادیان میں ہجرت کی اجازت دی جائے ۔ ایسے شخص کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ دُشمنوں کا مقابلہ کرے اور اس وقت تک اپنے مقام کو مت چھوڑے جب تک وہاں احمدیت قائم نہیں ہو جاتی۔ وہاں تو ایک لڑائی دُشمنوں سے لڑی جارہی ہوتی ہے۔ ایک تلوار ہے جو سر پر لٹک رہی ہوتی ہے۔ احمدیت نرغۂ اعداء میں گھری ہوئی ہوتی ہے۔ ایمان اور کفر آپس میں مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں مگر جماعتیں لکھ رہی ہوتی ہیں کہ اُسے فوراً ہجرت کی اجازت دینی چاہئے۔ حالانکہ جہاں احمدیت کے لئے مُشکلات ہوں وہاں تو ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس جگہ سے اس وقت تک ہلے نہیں جب تک احمدیت کی بنیادیں مضبوط طور پر اُس زمین میں گڑ نہ جائیں مگر تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ جماعتیں اب تک اپنی ذمّہ داری کو نہیں سمجھیں اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ ہم تحقیقات کر کے آپ کے خط کا جواب دیں گے تو وہ لکھتی ہیں تحقیقات بعد میں کر لیں سرِدست اس کو اجازت دے دیں کیونکہ وہ بہت ہی تکلیف میں ہے۔ اس سے زیادہ ایک اسلامی اصل کی تضحیک اور کیا ہو سکتی ہے؟ گویا قادیان اسلامی جنگ کا مرکز نہیں بلکہ اسلامی بھگوڑوں کا مرکز ہے۔ ایسی جماعتیں یقینا اپنے عمل سے احمدیت کی ہتک کرتی ہیں، اسلام کی ہتک کرتی ہیں اور سلسلہ کے نظام کی ہتک کرتی ہیں اور ایسے لوگوں کے متعلق یہ کہنا کہ انہیں قادیان میں ہجرت کی اجازت دے دی جائے۔ یہ ہجرت کی انتہائی ہتک ہے۔ اگر کسی جگہ بعض لوگوں کو احمدیت کی وجہ سے مُشکلات در پیش ہوں تو انہیں اس وقت تک اپنے مقام سے نہیں ہلنا چاہئے جب تک وہ مخالفت احمدیت کے لئے امن کی صورت میں تبدیل نہیں ہو جاتی۔ اگر اس طریق پر سختی سے عمل کیا جائے تو یقینا امن قائم ہو جانے کے بعد وہی لوگ ہجرت کی خواہش رکھیں گے جو سچے دل سے دین کی خدمت کرنے کی تڑپ رکھتے ہوں گے مگر اب جو سینکڑوں لوگ مہاجربن کر قادیان آئے ہوئے ہیں ان کو دیکھو تو وہ کیا دین کی خدمت کر رہے ہیں؟ رات دن لون(نمک) تیل اور ترکاری بیچنے میں مشغول ہیں۔ اس کے سوا وہ اور کیا کر رہے ہیں مگر کیا اسی کے لئے انہوں نے ہجرت کی تھی؟ اور کیا یہی ہجرت کی غرض اور اس کا مفہوم ہوتا ہے؟ یہی لوگ ہیں جو جماعت کے لئے گلے کا پتھر بنے ہوئے ہیں، یہی لوگ ہیں جن میں متفنِّی پیدا ہوتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن میں سے منافق پیدا ہوتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو احمدیت کو بدنام کرنے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ نہ عبادات میں چُست ہیں، نہ چندے دیتے ہیں، نہ قربانیاں کرتے ہیں، نہ تبلیغ میں حصّہ لیتے ہیں۔ سال میں ایک یا دو دن یوم التبلیغ آتا ہے مگر اس روز بھی انہیں اپنے گھروں اور دکانوں کو چھوڑ کر تبلیغ کے لئے باہر نکلنا موت دکھائی دیتا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم ہجرت کر کے آئے ہیں۔ *** ہے ایسی ہجرت پر کہ سال کے ۳۶۰ دنوں میں سے انہیں دو دن بھی تبلیغ کرنے کی توفیق نہیں ملتی اور جب بھی انہیں دین کی خدمت کے لئے بلایا جاتا ہے تو اس کے جواب میں ان کی زبانیں گُنگ ہو جاتی ہیں۔ مجھے ناظر دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے ہمیشہ یہ شکایت پہنچتی ہے کہ جب بھی لوگوں کو تبلیغ کے لئے کہا جاتا ہے ایک جماعت جی چُرانے لگ جاتی ہے۔ اِس وقت قادیان کی احمدی آبادی سات ہزار ہے اور اگر صرف مردوں کا حساب کیا جائے تو وہ تین ہزار بنتے ہیں بلکہ مَیں نے ابھی چنددن ہوئے قادیان کی مردم شماری کرائی تو پانچ سال سے اوپر کی عمر کے ۳۳ سَو ذکور نکلے۔ اِس میں سے اگر آٹھ سَو ایسے بچے فرض کر لیں جو پانچ سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے ہیں اور انہیں اس تعداد میں سے نکال دیا جائے تو بھی اڑھائی ہزار عاقل بالغ مَرد رہ جاتے ہیں۔ اگر یہ اڑھائی ہزار آدمی ۱۵، ۱۵ دن بھی سال میں تبلیغ کے لئے دیں تو قریباً ایک سَو آدمی روزانہ تبلیغ پر رہ سکتے ہیں۔ اب اگر سو گاؤں میں ہر وقت تبلیغ ہو رہی ہو اور ہر وقت ان گاؤں میں ہمارا ایک ایک آدمی بیٹھا انہیں تبلیغ کر رہا ہو تو ایک سال کے اندر ہی عظیم الشان تغیّرپیدا ہو سکتا ہے مگر وہ جو ہجرت کر کے آئے ہیں وہ بتائیں کہ انہوں نے کیا ہجرت کی ہے اور کس چیز کا نام انہوں نے ہجرت رکھا ہؤا ہے۔ یہ تو شریعت کی ایک تو اصطلاح کی شدید ہتک ہے کہ کام اپنا کیا جائے اور مفاد ذاتی سوچا جائے مگر نام اس کا ہجرت رکھ لیا جائے۔ آخر تم میں سے وہ لوگ جنہوں نے دُنیا کے لئے ہجرت کی یا تجارت کے لئے ہجرت کی یا امن تلاش کرنے کے لئے ہجرت کی مگر اُس کا نام انہوں نے دین رکھ لیا ہے اور مُنہ سے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہم نے خدا اور اُس کے رسول کے لئے ہجرت کی ہے۔ کیا وہ خیال کرتے ہیں کہ یہ ہجرت ان کو کوئی فائدہ دیتی ہے؟ وہ اﷲ تعالیٰ کے حضور میں سُرخرو ہو جائیں گے؟ یہ ہجرت تو ایسی ہی ہے جیسے مَیں جب طالبعلم تھا اور سکول میں پڑھا کرتا تھا تو مَیں نے ایک طالبعلم کو ایک دفعہ دیکھا کہ وہ بڑے زور شور سے ریوڑیاں کھا رہا ہے۔ ریوڑیاں تو لوگ کھایا ہی کرتے ہیں مگر اُس کے کھانے کا طریق ایسا تھا جس میں شدید حرص پائی جاتی تھی۔ مَیں نے انہیں کہا کہ معلوم ہوتا ہے آپ کے دل میں ریوڑیوں کی بہت زیادہ خواہش پائی جاتی ہے۔ وہ کہنے لگے ہاں! خواہش کیوں نہ ہو مَیں نے سُنا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ریوڑیوں کو بہت پسند فرمایا کرتے ہیں۔ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو کونین کو بھی کھایا کرتے ہیں، ایسٹرن سیرپ بھی پیا کرتے ہیں اور چرائتہ وغیرہ کے مرکبات بھی استعمال کر لیا کرتے ہیں۔ آپ وہ کیوں نہیں کھاتے؟ وہ کہنے لگے یہ چیزیں تو کڑوی ہوئیں مَیں نے کہا بس ٹھیک ہے۔ آپ کی مثال تو وہی ہوئی کہ کڑوا کڑوا تھُو اور میٹھا میٹھا ہپ۔ یہی ان لوگوں کی ہجرت کا معاملہ ہے۔ یہ ظاہری طور پر نقل مکانی کر لیتے ہیں اور اس سے ذاتی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن جب قربانی اور ایثار اور تبلیغ کا سوال پیدا ہو تو عُذر تراشنے لگ جاتے ہیں اور باوجود اس کے فخر سے اپنے آپ کو مہاجر قرار دیتے ہیں۔ اگر وہ کہتے کہ ہم دُنیا کمانے کے لئے یہاں آئے ہوئے ہیں، ہم اس لئے آئے ہیں کہ ہمیں روٹی ملے اور ہمارے روزگار میں ترقی ہو تو ہم ان پر کبھی اعتراض نہ کرتے۔ ہم کہتے جو کچھ یہ کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں۔ ان کا عمل بالکل قول کے مطابق ہے مگر ہمیں ان پر اگر گِلہہے تو یہ کہ وہ اپنے ترکِ وطن کا نام ہجرت رکھتے ہیں اور کام وہ کرتے ہیں جو ہجرت کے مخالف ہے۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو توجّہ دلاتا ہوں کہ وہ اس بارے میں اپنی ذمّہ داری کو سمجھیں۔ میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ آئندہ کسی کو ہجرت کی اجازت نہیں بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ وہ جماعت کے دوستوں کو بے شک ہجرت کی تحریک کریں مگر ہجرت کے اصول کو بھی مدّ نظر رکھیں۔ جو شخص صحیح طور پر ہجرت کر کے یہاں آنا چاہے ہم اس کے راستہ میں ہر گز روک نہیں بنیں گے بلکہ ہم تو اس کی مدد کرنے کے لئے بھی تیار ہیں اور جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک حد تک مستحق مہاجرین کی مدد کیا کریں۔ چنانچہ صحابہ ؓ جب ہجرت کر کے مدینہ گئے تو انصار نے اپنی جائدادوں میں سے ان کے لئے ایک حصّہ الگ کر دیا اور اپنے کھانے پینے میں ان کو شریک کر لیا۔ پھر جب مہاجرین کے لئے اﷲ تعالیٰ نے سامان پیدا کر دیئے تو اس طریق کو منسوخ کر دیا گیا اور مَیں سمجھتا ہوں یہی حق ہر سچے مہاجر کا ہے۔ بشرطیکہ اس کی ہجرت خدا کے لئے ہو ، اس کی ہجرت رسول کے لئے ہو، اس کی ہجرت دُنیا کے لئے یا آرام طلبی کے لئے نہ ہو مگر اب جو ہجرت کے نام سے قادیان آئے ہوتے ہیں وہ سب سے زیادہ یہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ ہمیں کوئی پوچھتا نہیں مگر سوال یہ ہے کہ تمہیں کیوں پوچھا جائے۔ تم پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے ہجرت کی کیوں ؟ اور تمہاری ہجرت کے معنے کیا ہیں؟ آخر کہاں سے ہمارا فرض آگیا کہ ہم ان لوگوں کے لئے قربانیاں کریں جو بھگوڑے ہوں اور دُشمن کے مقابلہ سے بھاگ کر آگئے ہوں۔ ایسے لوگوں کی مدد کرنے کا اگر خدا اور اس کے رسول نے کہیں حُکم دیا ہو تو وہ حُکم ہمیں دکھاؤ مگر جہاں تک مَیں نے قرآن اور احادیث کو دیکھا ہے مجھے یہی نظر آیا ہے کہ بجائے اس کے کہ ایسے لوگوں کی مدد کی تحریک کی جاتی اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ حُکم دیا ہے کہ اگر تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو فوراً انہیں اپنے اِرد گِرد سے دور پھینکو کیونکہ وہ منافق ہیں اور اپنی عملی حالت سے اسلام کو نقصان پہنچانے والے ہیں۔ پس ایسے لوگوں کی مدد کرنا تو اسلام اور احمدیت پر سخت ظلم کرنا ہے۔ پھر کئی لوگوں کو مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ قادیان آتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کو یہاں چھوڑ جاتے ہیں اور خود کہیں باہر بھاگ جاتے ہیں۔ اب ان کے بیوی بچوں کے مجھے رُقعوں پر رُقعے آنے لگ جاتے ہیں کہ ہماری مدد کی جائے اور ہمارا کوئی وظیفہ مقرر کیا جائے۔ مَیں ہمیشہ ان سے کہا کرتا ہوں کہ تمہاری وہ جائداد کہاں گئی جس کے بھروسہ پر تم قادیان آئے تھے اور اگر تمہارے گزارہ کا کوئی سامان نہ تھا تو تم قادیان کیوں آگئے اور اب تمہارے لئے وظیفہ کیوں مقرر کیا جائے؟ اگر اس قسم کے لوگوں کے لئے وظائف مقرر کئے جائیں تو دس دن کے اندر ہی اندر سلسلہ کے تمام کام بند ہو جائیں کیونکہ جس دن انہیں پتہ لگے گا کہ اس طرح بے کاروں، ناداروں اور بھگوڑوں کے لئے وظائف مقرر کئے جانے لگے ہیں تو سینکڑوں بے کار اور اخلاق میں گرے ہوئے لوگ قادیان آجائیں گے اور سب اپنے لئے وظائف کی درخواستیں دے دیں گے اور جب ان کو وظیفہ دے دیا گیا تو باقی کام کس طرح چل سکتے ہیں۔ پس اصولی طور پر علاج یہی ہے کہ ایسے آدمی کو آتے ہی قادیان سے رخصت کر دیا جائے۔ ہمیں یہ تو منظور ہے کہ ہم ایسے آدمی کو واپسی کا کرایہ اپنی گِرہ سے دے دیں مگر ہم ایسے آدمی کو قادیان میں ایک دن رہنے کی بھی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ وہ سلسلہ پر ایک ایسا بوجھ ڈالتے ہیں جو بالکل ناواجب ہوتا ہے اور چونکہ نہ تو بیرونی جماعتیں اس طرف صحیح طور پر توجہ کرتی ہیں اور نہ یہاں کے محلّوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری ایسے لوگوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں۔ اس لئے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی طرف سے وظائف مقرر کئے جانے کے متعلق دھڑا دھڑ درخواستیں موصول ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور اگر ہم یہ وظائف جاری کر دیں جیسا کہ بعض نادان اس قسم کے وظائف جاری کرنے کا نام ہی قومی خدمت رکھتے ہیں تو سال بھر میں ایک ہزار فیملی قادیان آکر بس جائے اور نتیجہ یہ ہو کہ تمام تبلیغ بند ہوجائے، مدرسے بند ہو جائیں، اخبارات اور رسالے بند ہو جائیں، دفاتر بند ہو جائیں اور جب کوئی پوچھے کہ کیا ہؤا؟ نہ سکول جاری ہیں، نہ اخبارات نکلتے ہیں، نہ دفاتر کھلتے ہیں، نہ تبلیغ ہوتی ہے، نہ کسی سرگرمی اور عملی روح کا اظہار ہوتا ہے تو کہا جائے کہ ہم بڑی قومی خدمت کر رہے ہیں۔ ایک ہزار نادار مفلس اور قلّاش لوگوں کے لئے جو روحانی جنگ کے میدان سے بھاگ کر قادیان آئے تھے وظیفے مقرر کر دیئے ہیں اور وہ سب اپنے اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھ کر دن رات روٹیاں توڑتے رہتے ہیں۔ کیا دُنیا کا کوئی بھی شخص ہو گا جو یہ بات سُن کر ہماری تعریف کرے؟ وہ تو یہ سُنتے ہی کہہ دے گا کہ تم پاگل ہو گئے ہو اور تمہارے علاج کی یہی صورت ہے کہ تمہیں کسی پاگل خانہ میں بھیج دیا جائے۔ مجھے تعجب آتا ہے کہ یہاں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بھی ہمیشہ ایسے موقعوں پر سفارش کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ان کا فرض ہے کہ جب بھی انہیں کسی ایسے آدمی کا علم ہو اُسے پکڑ کر ہمارے پاس اس کی رپورٹ کریں اور اسے جلد سے جلد یہاں سے نکالیں کیونکہ وہ دھوکا کے طور پر یہاں آگیا ہے اور ہجرت کے بہانہ سے وہ یہاں کے لوگوں پر اور خود سلسلہ پر ایک بار بننا چاہتا ہے۔ پس ان لوگوں کے لئے ہجرت نہیں بلکہ ہجرت ان مخلصین کے لئے ہے جو باہر دُشمنوں کا سینہ سپر ہو کر مقابلہ کرتے ہیں، جو احمدیت کے فدائی ہیں، جن کے باہر مکان بھی ہیں، زمینیں بھی ہیں، جائداد بھی ہے یا اگر یہ نہیں تو وہ اپنے جسم کو سلسلہ کی خدمات میں لگانے کی خواہش رکھتے ہیں اور عملاً دین کے سپاہی ہیں اور ان کے اوقات، ان کے اوقات نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے اوقات ہیں، سلسلہ کے اوقات ہیں۔ایسے لوگ اگر قادیان آجائیں تو یقینا اس میں سلسلہ کا فائدہ ہے کیونکہ ہم انہیں کہہ دیں گے کہ جب تم خدمتِ دین کے لئے ہی قادیان آئے تھے تو جاؤ اور فلاں گاؤں میں بیٹھ کر دین کی خدمت کرو، تمہاری ہجرت کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ جیسے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مہاجرین کو بعض دفعہ تبلیغ کے لئے اور بعض دفعہ لڑائی کے لئے اِدھر اُدھر بھیج دیتے اور مہاجر نہایت خوشی کے ساتھ وہاں چلے جاتے مگر وہ جو دکان کرنے کے لئے یہاں آتے ہیں ان کو جب کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ تبلیغ کے لئے جاؤ تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم کس طرح جائیں ہماری تو دکان کا نقصان ہو گا۔ پس ان کی ہجرت کوئی ہجرت نہیں اور نہ ایسے مہاجرین کی ہمیں کوئی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے ہی مہاجرین درکار ہیں جو خدا اور اُس کے رسول کے لئے آئیں اور جب بھی ان کے کانوں میں یہ آواز پڑے کہ دین کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو وہ اپنے تمام کام چھوڑ کر کھڑے ہو جائیں اور خدا اَور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہیں اور مَیں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایسے ہی لوگوں کو ہجرت کرنے کی تحریک کریں۔ اگر ایسے لوگ قادیان آجائیں تو عارضی طور پر ہم ان کی مدد کرنے کے لئے بھی تیار ہیں جیسے اگر ان کے باہر مکان ہوں یا اور کوئی جائداد ہو جس کا فوری طور پر فروخت ہونا مُشکل ہو تو ہم ایسا انتظام کر سکتے ہیں کہ انہیں کچھ قرضہ دے دیں اور اس طرح ان کے مکان کی تعمیر کرا دیں اور جب ان کی باہر کی جائداد فروخت ہو جائے تو وہ بیچ کر ہمارا روپیہ ہمیں واپس دے دیں۔ پس اگر ایسے لوگ آئیں تو ہم حتّی الْمقدور اُن کی مدد بھی کرسکتے ہیں اور درحقیقت یہی لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں قادیان میں رکھا جائے اور جو آبادی ان لوگوں سے بڑھے گی وہی اصل اور نیک آبادی ہو گی مگر وہ جو اب قادیان آچکے ہیں مَیں ان سے بھی کہتا ہوں کہ تمہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ تم اپنی نیّتوں کو بدل لو اور اپنی پہلی فاسد نیّتوں کو تبدیل کرتے ہوئے عہد کر لو کہ آئندہ کے لئے تم خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے قادیان میں رہو گے فتنوں سے ہمیشہ بچتے رہو گے اور دین کے لئے جب بھی قُربانی کی آواز تمہارے کانوں میں پڑے گی تم اُس آواز پر فوراً لبّیک کہو گے اور تمہیں جہاں کہیں بھی تبلیغ کے لئے جانا پڑے گا تم اپنا سَو حرج کر کے بھی وہاں پہنچو گے۔ تو یقینا تم دیکھو گے کہ تم پر وہ فضل نازل ہونے شروع ہو جائیں گے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مہاجرین پر نازل ہؤا کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک منافق طبع شخص تھا اُسے ایک دفعہ خیال آیا کہ لوگ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کر کے بڑے عابد ،زاہد مشہور ہو جاتے ہیں اور دُنیا ان کی عزت کرتی ہے۔ آؤ میں بھی عبادت کروں تاکہ لوگ میری عزت کریں اَور وہ مجھے بڑا معزز اور خدا رسیدہ انسان سمجھیں۔ چنانچہ وہ مسجد میں بیٹھ گیا اور لگا تسبیحیںپھیرنے اور نفل پڑھنے اور خشوع و خضوع ظاہر کرنے اور ذکر الٰہی کرنے اور یہ امید رکھنے کہ اب لوگ میری تعریفیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ بڑا نیک اور پاک انسان ہے۔ سات سال تک وہ ایسا ہی کرتا رہا مگر لوگ جہاں اسے دیکھتے کہتے یہ بڑا منافق ہے، اس کا ہر کام ریاء کے لئے ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی اس کے مدِّنظر نہیں۔ بچے تک اسے دیکھتے تو کہتے کہ یہ بڑا دھوکے باز ہے۔ سب کام منافقت سے کرتا ہے۔ ایسے دھوکے باز بعض دفعہ لوگوں میں مقبول بھی ہو جاتے ہیں اور گوخدائی فضل ان پر نازل نہیں ہوتے مگر بندوں میں ایک حد تک انہیں شُہرت حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی نگاہ تو انسان کے قلب کی گہرائیوں تک پہنچ جاتی ہے مگر انسان دوسرے انسان کے اندرونی حالات سے ناواقف ہوتا ہے اس لئے ایسے دھوکا باز بعض دفعہ لوگوں میں مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں اور لوگ انہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں مگر اس پر چونکہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرنا چاہتا تھا اور اسے منافقت سے نکال کر حقیقی ایمان نصیب کرنا چاہتا تھا اس لئے اس کی مقبولیت نہ ہوئی بلکہ اُلٹا لوگ اس کے متعلق یہی کہنے لگے کہ وہ بڑا منافق ہے۔ ایک دفعہ وہ پاخانہ پھرنے جارہا تھا کہ راستہ میں چند بچّے اس نے کھیلتے ہوئے دیکھے۔ بچّوں نے جونہی اسے دیکھا آپس میں ایک دوسرے سے کہنا شروع کر دیا کہ یہ بڑا منافق ہے ہر وقت لوگوں کے دکھاوے کے لئے نیکی کا کام کرتا ہے۔ بچّوں کی نظر یوں بھی وسیع ہوتی ہے اور وہ بات کو فوراً تاڑ جاتے ہیں۔ چنانچہ مَیں نے ایک دفعہ یورپ کے ایک مشہور ہتھکنڈے دکھانے والے کی کتاب پڑھی وہ ایک مشہور پروفیسر ہے ۔ اس کتاب میں وہ لکھتا ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ خطرہ بچّوں کے سامنے تماشہ کرتے وقت ہوتا ہے کیونکہ بڑے بڑے پروفیسروں، وزیروں اور امیروں کو تو ہم جھَٹ دھوکا دے لیتے ہیں مگر بچے ہماری کوئی چالاکی چلنے نہیں دیتے اور وہ ہمارا ہاتھ پکڑ کر کہہ دیتے ہیں کہ تم نے یوں کیا تھا ۔ بچّہ چونکہ تکلفات سے بالا ہوتا ہے اس لئے وہ حرکتوں کو خوب پہچان جاتا ہے اس موقع پر بھی بچّوں نے اس کے متعلق ایک دوسرے سے کہا کہ یہ بڑا منافق ہے، اس نے جب یہ بات سُنی تو اس کے دل میں سخت ندامت پیدا ہوئی اور اس نے خیال کیا کہ مَیں نے اپنی عمر کے سات سال یونہی ضائع کر دیئے اور مجھے نہ تو خدا مِلا اور نہ ہی دُنیا ملی۔ آؤ اب مَیں خالص خدا کے لئے عبادت کروں۔ اگر دُنیا مجھے نہیں ملتی تو بے شک نہ ملے مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ مَیں اپنے ربّ کو راضی کرنے کی اب سچے دل سے کوشش کروں گا۔ چنانچہ اس نے پیشاب وغیرہ سے فارغ ہو کر وضو کیا اور جنگل میں ایک طرف سجدہ میں گر کر اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرنی شروع کر دی کہ خدایا اب میں بندوں کی واہ واہ کی کبھی خواہش نہیں کروں گا۔ مَیں تُجھ سے عہد کرتا ہوں کہ مَیں صرف تیری رضا کے لئے ہی عبادت کیا کروں گا۔ پس تو مجھ سے راضی ہو جا۔ اگر بندے مجھے بُرا بھلا کہتے ہیں تو بے شک کہیں مجھے ان کی پرواہ نہیں۔ معلوم ہوتا ہے اس نے نہایت ہی اخلاص کے ساتھ یہ دُعا کی تھی کہ معاً نیّت کے بدلتے ہی اس کے اعمال اور اس کی حرکات اور سکنات میں بھی تبدیلی آگئی اور تھوڑی دیر کے بعد جب وہ واپس آیا تو اس نے لوگوں میں یہ چرچا پایا کہ ہم نے اس شخص پر خواہ مخواہ اتنا عرصہ بد ظنی کی ہے۔ یہ آدمی تو واقع میں نیک اور خدا رسیدہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ باتیں سُن کر اس کے نفس میں بہت ہی شرمندگی پیدا ہوئی اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ اگر مَیں خداتعالیٰ کی رضا کے لئے سات سال عبادت کرتا تو آج تک خدا تعالیٰ کے حضور میں مجھے کتنا قُرب حاصل ہو چُکا ہوتا۔ مَیں نے تو اتنے سال فضول ضائع کر دیئے۔ تو خدا تعالیٰ کا دروازہ سب کے لئے کھلا ہے اور ہر شخص پر وہ رحم کرنے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ کوئی شخص رحم کا طالب بن کر اس کے دربار میں حاضر ہو۔ پس تم میں سے وہ لوگ جو دُنیا کے لئے یہاں ہجرت کر کے آئے ہیں اور جو یہاں بیٹھ کر محض روٹی کما رہے ہیں دین کا کوئی کام نہیں کر رہے۔ مَیں ان سے کہتا ہوں کہ ان کے لئے بھی مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ وہ اپنے دلوں کی اصلاح کر لیں اور سچی توبہ اﷲ تعالیٰ کے حضور کریں تو آج سے ہی وہ حقیقی مہاجربن سکتے ہیں بلکہ ممکن ہے اگر وہ اﷲ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائیں اور روئیں تو خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں وہ اسی دن سے مہاجر لکھے جائیں جس دن سے وہ قادیان میں آئے ہیں۔
پس آج مَیں اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ ہجرت کے مسئلہ کی اہمیت کو پوری طرح سمجھا جائے اور ایسے ہی لوگوں کو ہجرت کے طور پر قادیان آنے کے لئے بھیجا جائے جو ہجرت کے اصول کے مطابق آنے کے لئے تیار ہوں اور جیسا کہ مَیں کہہ چُکا ہوں اگر ایسے لوگ ہجرت کرکے آئیں تو ہم اس وقت تک ان کی امداد کرنے کے لئے بھی تیار ہیں جب تک کہ عارضی دقّتیں ان کے راستہ سے دور نہ ہو جائیں اور یہ ہجرت کا معاملہ میری تحریک جدید کے مطالبات میں شامل ہے۔ چنانچہ مَیں نے جماعت سے جو مطالبات کئے ہیں ان میں سے ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ لوگ یہاں رہائش کے لئے مکان بنائیں اور اسی جگہ رہائش اختیار کریں۔ بعض لوگوں نے مجھ پر اعتراض کیا ہے کہ اِدھر تو آپ نے یہ کہا کہ قادیان میں رہائش اختیار کرو اور اُدھر ہجرت پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ مَیں نے اس خطبہ میں اسی اعتراض کا جواب دیا ہے اور بتایا ہے کہ مَیں ہجرت کا مخالف نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ اس بات کی تحریک کرتا ہوں کہ قادیان میں اپنے مکان بناؤ اور یہیں کی رہائش اختیار کرو مگر مَیں کہتا ہوں محض خدا اور اس کے رسول کی رضا کے لئے آؤ، نفسانی اغراض اَور دُنیوی لالچوں کے لئے یہاں مت آؤ۔ اگر تم خداتعالیٰ کے لئے یہاں آکر مکان بناؤ گے تو تم کو بھی فائدہ ہو گا اور دین کو بھی فائدہ ہو گا کیونکہ اﷲ تعالیٰ کسی کی محبت کو ضائع نہیں کرتا اور نہ اس کی خاطر قربانی کرنے والے ردّ کئے جاتے ہیں۔ ایسا شخص اگر جنگل میں بھی ہو گا تو اﷲ تعالیٰ اس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے گا اور لوگ آپ ہی آپ اس کی طرف کھینچے چلے جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہی دیکھو، آپ ایک گوشہ میں پڑے ہوئے تھے اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ خلوت میں سے نکل کر جلوت میں آئیں مگر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو الہام کیا اور کہا فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرف بَیْنَ النَّاسِ۔۴؎ کہ اے شخص اب وہ وقت آگیا ہے کہ خدا تیری نصرت کرے اور تیرے نام کو دُنیا میں پھیلائے ۔ پس اب تو گوشے میں نہیں بیٹھ سکتا بلکہ اب تجھے نکلنا پڑے گا اور لوگوں کے سامنے ظاہر ہونا پڑے گا۔ تو جو شخص اﷲ تعالیٰ کا ہو جائے خدا تعالیٰ خود اس کا حافظ و ناصر ہو جاتا ہے۔ پس اﷲ تعالیٰ کے لئے ہجرت کرو اور یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے ہجرت کرتاہے اُسے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا۔ وہ قادیان میں رہے تب بھی اس کی ترقی ہو گی اور اگر وہ شیروں کی کچھار میں رہے تب بھی خدا اس کی حفاظت کرے گا۔ ہاں یہ بالکل ممکن ہے کہ شیر اس کے جسم کو پھاڑ دیں مگر اس طرح پھاڑے جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ اس کا جسم بے شک پھاڑا جائے گا مگر اس کی روح اﷲ تعالیٰ کے ابدی انعامات کی وارث ہو جائے گی۔ پس ایسے شخص کے لئے اگر موت مقدر ہو تب بھی اﷲ تعالیٰ اس کی اولاد کو یااس کی اولاد کی اولاد کو اپنے دُنیوی انعامات سے محروم نہیں رکھے گا اور آخرت میں جو اسے انعامات ملیں گے وہ اس کے علاوہ ہیں۔
پس آج میں تحریک جدید کے اس حصّہ کو پھر دُہراتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہر کام میں عقل سے کام لو۔ دیکھو ہماری شریعت نے نماز کا حُکم دیا ہے مگر بعض دفعہ نماز پڑھنی بھی منع ہے۔ ہماری شریعت نے روزے رکھنے کا حُکم دیا ہے مگر بعض دفعہ روزہ رکھنا بھی منع ہے۔ اسی طرح مَیں کہتا ہوں تم بے شک ہجرت کرو بلکہ پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ مَیں تحریک کرتا ہوں کہ تم ہجرت کرکے یہاں آؤ مگر مَیں کہتا ہوں وہ ہجرت کرو جو خدا اور اُس کے رسول کے لئے ہو، وہ ہجرت کرو جس میں یہ عہد مصمّم ہو کہ ہم دین کی خدمت کریں گے اور اپنی عمر میں سے ایک کافی حصّہ خدمتِ خلق اور خدمتِ اسلام کے لئے خرچ کریں گے۔ میرے پاس شکایت کی گئی ہے کہ جب بعض لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں گاؤں میں جاکر بیٹھ رہو اور تبلیغ کرو تو وہ کہتے ہیں ہم وہاں نہیں جاسکتے، ہمیں وہاں تکلیف ہو گی یا ہمارے کاروبار کو نقصان ہو گا۔ حالانکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں جن صحابہ نے مدینہ میں ہجرتیں کی تھیں وہ سارے مدینہ میں نہیں رہتے تھے بلکہ ارد گرد کے گاؤں میں بھی رہتے تھے۔ حضرت عمر ؓ بھی مدینہ میں نہیں رہتے تھے بلکہ مدینہ سے قریب ایک گاؤں تھا جہاں وہ رہتے تھے مگر یہاں کے لوگ تو بھینی اور ننگل کا نام سُن کر کانپ اُٹھتے ہیں۔ حالانکہ اگر انسان خدا تعالیٰ کو روزی رساں سمجھے تو اس قسم کے وساوس اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کر سکتے۔
پس ان معمولی معمولی باتوں کی طرف مت دیکھو بلکہ جب بھی تمہیں کہا جائے کہ تم تبلیغ کے لئے باہر جاؤ تو فوراً نکل کھڑے ہو اَور وہیں اپنا کام کرو اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے، دین کا بھی فائدہ ہے اور لوگوں کا بھی فائدہ ہے۔
(۳)
اسی سلسلہ میں مَیں آج یہ بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ وقفِ زندگی کے متعلق مَیں نے اپنی جماعت کے نوجوانوں سے جو یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو پیش کریں ۔اس کے ماتحت بہت سی درخواستیں مولوی فاضلوں اَور گریجوایٹوں کی آرہی ہیں مگر ابھی اور بھی بہت سے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ اس لئے جو دوست مولوی فاضل یا گریجوایٹ ہوں اور وہ بِلا شرط اپنی تمام زندگی خدمتِ اسلام اور خدمتِ احمدیت کے لئے وقف کرنے کی خواہش رکھتے ہوں، وہ اپنے نام جلد سے جلد پیش کریں۔ درخواستوں کی ایک کافی تعداد جب ہمارے پاس پہنچ جائے گی تو اس کے بعد اُن میں سے مناسب نوجوانوں کا انتخاب کیا جائے گا لیکن اس دوران میں ایک اور تجویز میرے ذہن میں آئی ہے اور مَیں اُس کا بھی آج اعلان کر دینا چاہتا ہوں اور وہ تجویز یہ ہے کہ ان مولوی فاضلوں اور گریجوایٹوں کے علاوہ چند ایسے آدمیوں کی بھی ضرورت ہے جو عمر کے لحاظ سے بیس سے چالیس سال تک کے ہوں۔ مڈل پاس ہوں اور شادی شُدہ ہوں یا اُن کی شادی کی کہیں تجویز ہو چکی ہو اور چھ ماہ یا سال میں ان کی شادی ہو جانے والی ہو یہ جو واقفینِ زندگی ہوں گے ان کو گاؤں میں رکھا جائے گا۔ پس یہ ایسے ہی آدمی ہونے چاہئیں جو محنت کرنے اور ہاتھ سے کام کرانے کے لئے تیار ہوں۔ ان سے کام زیادہ تر مدرّسی کا لیا جائے گا لیکن ان کو جو ٹریننگ اور تربیت دی جائے گی اُس میں زراعت کا سب قسم کا کام جیسے ہل چلانا، نلائی کرنی، فصل کاٹنی نیز اس کے علاوہ لوہارہ اور بڑھئی کا کام بھی ان کو سکھایا جائے گا اور جب ٹریننگ کے بعد ان کو کہیں کام پر مقرر کیا جائے گا تو اس وقت بھی یہ کام بدستور جاری رہیں گے اور بعد میں بھی ہل چلانے کا کام اور لوہارے اور ترکھانے کا کام ان کے ساتھ لگا رہے گا۔ فی الحال ایسے چھ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ ہماری جماعت میں بہت سے دوست ایسے ہیں جو مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ ہم زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہماری تعلیم مڈل یا انٹرنس تک ہے مگر ہمیں بھی دین کی خدمت کا شوق ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اگر خدمتِ دین کا کوئی موقع ہو تو ہمیں اس سے محروم نہ رکھا جائے۔ ایسے لوگوں کے لئے اب موقع ہے کہ وہ اپنے آپ کو پیش کریں۔ چاہے وہ مڈل پاس ہوں اور چاہے انٹرنس پاس دونوں صورتوں میں وہ اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں مگر کم سے کم انہیں مڈل پاس ضرور ہونا چاہئے کیونکہ اُن کا ایک کام مدرّسی بھی ہوگا۔ مَیں نے اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اس تجویز کے مطابق ایک ایسی سکیم سوچ لی ہے کہ اگر وہ کامیاب ہو گئی تو ہم بہت قلیل عرصہ میں تعلیم و تربیت کا ایک وسیع جال دُنیا میں پھیلا سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تحریک جدید کے ماتحت ہی ٹریننگ دی جائے گی اور تحریک جدید کے ماتحت ہی انہیں تعلیم دی جائے گی اور جب وہ ٹریننگ حاصل کر لیں گے تو انہیں مختلف گاؤں میں مقرر کر دیا جائے گا۔ اُن کے وہاں کیا کام ہوں گے؟ یہ بعد میں بتایا جائے گا۔ سرِدست مَیں اسی قدر بتا سکتا ہوں کہ اُن سے زیادہ تر ایسا کام لیا جائے گا جو ہاتھ سے کرنے والا ہو گا کیونکہ گاؤں میں ایسے لوگ کبھی مُفید نہیں ہو سکتے جو صرف کتابی حد تک اپنی کوششوں کو محدود رکھنے والے ہوں بلکہ کتابی حد تک کام کرنے والے بالعموم گاؤں والوں کے کیریکٹر کو بگاڑ دیتے ہیں۔ گاؤں والوں کی ترقی اس شخص کے ذریعہ ہو سکتی ہے جو انہی میں سے ہو ان کے ساتھ مل کر ہل چلائے، ان کے ساتھ مل کر بڑھئی کا کام کرے اور اُن کے ساتھ مل کر لوہارہ کا کام کرے اور پھر اس کے ساتھ ہی انہیں تعلیم بھی دیتا چلا جائے اور انہیں تبلیغ بھی کرتا چلا جائے۔ جب تک گاؤں والوں کے سامنے اس رنگ میں کام نہ کیا جائے اُس وقت تک نہ صرف ان کی ترقی نہیں ہو سکتی بلکہ اُن میں پَستی رونما ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے مثلاً مدرسہ لگا ہو اور اُستاد کے مُنہ میں حقّہ کی نال ہو اور وہ بیٹھا گپیں ہانکتا چلا جارہا ہو تو ایسے شخص کے نمونہ کو دیکھ کر لوگوں نے کیا ترقی کرنی ہے۔ وہ تو اُس کے بُرے نمونہ کو دیکھ کر اپنی اچھی عادتوں کو بھی ترک کر دیں گے لیکن اگر یہ اُن کے ساتھ ہی ہل چلا رہا ہو اور ساتھ ہی یہ بتاتا جاتا ہو کہ تمہارے بیج میں یہ نقص ہے مگر میرے بیج میں یہ خوبی ہے یا میرا ہل اچھا ہے اور تمہارے ہل میں وہ نقص ہے۔ تو یہ مدرّس پہلے مدرّس سے زیادہ مُفید اور زیادہ نفع بخش ثابت ہو گا۔ پس میری اِس تحریک پر جو لوگ اپنے آپ کو پیش کرنے والے ہوں وہ بیس سے چالیس سال تک کی عمر کے ہوں، ہاتھ سے کام کرنے والے ہوں اور محنت کے لئے تیار ہوںہم ایسے لوگوں کو گزارہ بھی اسی صورت میں دیں گے یعنی ہم روپیہ کی صورت میں انہیں تنخواہ نہیں دیں گے بلکہ کام کی صورت میں دیں گے تاکہ وہ گاؤں والوں کے لئے نیک نمونہ بنیں اور ان کی ترقی اور اقبال مندی کا موجب ہوں ۔ اسی طرح ان کے ذریعہ گاؤں والوں کو اصلاحِ دیہات کے طریق بتاتے جائیں گے۔ کئی پیشے سکھائے جائیں گے اور کئی ترقی کی تدابیر بتائی جائیں گی۔ غرض یہ گاؤں میں اس طرح رہیں گے جس طرح باپ اپنے بچوں میں رہتا ہے اور یہ اپنا بھی گزارہ کریں گے اور دوسروں کو بھی ایسے پیشے سکھائیں گے جن کے ذریعہ وہ روزی کما سکیں گے۔ گویا یہ زمینداروں کے لڑکوں کو صرف کتابی تعلیم دے کر آرام طلب نہیں بنائیں گے بلکہ انہیں زیادہ محنتی زیادہ کمانے والا اور زیادہ ہوشیار بنائیں گے۔ یہ سکیم اگر کامیاب ہو گئی تو اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے قدم دیہات میں نہایت مضبوط ہو جائیں گے۔ اب تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گاؤں میں بعض احمدی ہوتے ہیں تو چونکہ وہ اسلام کی تعلیم سے نا واقف رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کے دلوں پر زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ پھر احمدیت سے ارتداد اختیار کر لیتے ہیں بے شک جو مخلص ہوں وہ اپنے اخلاص میں ترقی کرتے رہتے ہیں مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ ایک حصّہ ایسے کمزوروں کا بھی ہوتا ہے اوروہ بجائے ترقی کرنے کے تنزّل میں گرجاتے ہیں ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے درختوں پر جب آم کا بُور لگتا ہے تو اس کا اکثر حصّہ آندھیوں اور بارشوں کی وجہ سے گر کر ضائع ہو جاتا ہے اسی طرح بہت سے آدمی احمدی ہوتے ہیں مگر پھر مناسب ماحول نہ ملنے کی وجہ سے گر جاتے ہیں کیونکہ وہ بُور کی طرز پر ہوتے ہیں اور جس طرح بُور کا ایک حصّہ آندھیوں وغیرہ کی وجہ سے گر جاتا ہے اسی طرح وہ بھی پکنے نہیں پاتے اور گر جاتے ہیں مگر میں چاہتا ہوں کہ اس سکیم کے ذریعہ ایسا سامان ہو جائے کہ بُور کا کوئی حصّہ ضائع نہ ہو اور سب پکّے ہوئے پھل کی شکل اختیار کر لے مگر یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی جگہ ایسی نہ رہے جہاں احمدیت کا مرکز نہ ہو بلکہ ہر جگہ ایسے تعلیم یافتہ لوگ موجود ہوں جو اپنی روزی بھی کمائیں اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں کو تعلیم بھی دیتے چلے جائیں اس غرض کے لئے پہلی جماعت چھ آدمیوں پر مشتمل ہو گی پس وہ دوست جو اس تحریک میں حصّہ لینا چاہتے ہوں انہیں چاہئے کہ وہ اپنی زندگی وقف کریں اور اپنے نام میرے سامنے پیش کریں اور یاد رکھیں کہ مُنہ سے خدمت کرنے کا دعویٰ کرنا اور عملی رنگ میں کوئی کام کرنا ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے مُنہ سے دعویٰ کرنا آسان ہوتا ہے لیکن عمل کرنا مُشکل ہوتا ہے اور درحقیقت عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے نتیجہ میں اﷲ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ میں اس طرح ان لوگوں کی خواہشات کو بھی ایک حد تک پورا کر سکوں گا جو کہتے رہتے ہیں کہ مولوی فاضلوں اور گریجوایٹوں کے لئے توخدمتِ دین کا موقع نکالا جاتاہے مگر ہم جو کم تعلیم یافتہ ہیں ہمارے لئے کیوں کوئی راستہ نہیں نکالا جاتا۔ اگر یہ سکیم کامیاب ہو گئی تو مَیں سمجھتا ہوں کہ تربیت کے لحاظ سے جماعت میں ایک تغیّر پیدا ہو جائے گا۔ باقی کام تو سب اﷲ تعالیٰ نے کرنے ہیں۔ ہم ہزاروں کام کرتے ہیں مگر اپنی سُستی اور غفلت کی وجہ سے ان کے نیک نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔ پس یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے اور مَیں اس سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس سکیم کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہر گاؤں میں ہمارا کوئی نہ کوئی مبلّغ کام کر رہا ہو اور اس کے فضل ہم پر نازل ہوں اور اس سکیم میں ہماری دینی اور دنیوی دونوں قسم کی بہتری کے سامان پوشیدہ ہوں۔‘‘
(الفضل ۲۴؍دسمبر ۱۹۳۸ئ)
۱؎ بخاری کتاب الایمان باب ماجاء انّ الاعمال بِالنّیۃ (الخ)
۲؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الٰی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
۳؎ بخاری کتاب الجہاد و السیر باب فضل الجہاد و السیر
۴؎ تذکرہ صفحہ ۶۴۲۔ ایڈیشن چہارم

۴۲
(۱) مسجد اقصیٰ کی توسیع میں حصہ لے کر
ہراحمدی دائمی ثواب حاصل کرسکتا ہے
(۲)جلسہ سالانہ کے لئے تشریف لانے والے
احباب سے خطاب
(فرمودہ ۲۳؍ دسمبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’سابق دستور کے مطابق آج کا جمعہ مسجد نور میں ہوناچاہئے تھا کیونکہ اس کے ارد گرد میدان زیادہ ہے اور صفیں دور تک پھیلائی جاسکتیں ہیں لیکن مسجد نور میں آج لائوڈ سپیکر کا انتظام نہیں تھا۔ اس لئے میں نے دونوں امور میں موازنہ کرکے یہی مناسب سمجھا کہ جمعہ اسی جگہ (مسجد اقصیٰ میں ) ہو۔ کیونکہ جگہ کے متعلق شریعت کا حکم موجود ہے کہ تنگ ہونے کی صورت میں لوگ ایک دوسرے کی پیٹھوں پر سجدہ کرسکتے ہیں لیکن خطبہ کی آواز نہ پہنچنے کا دوسرا کوئی قائم مقام نہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت تھی ۔ اس مسجد میں جو نیا تغیر ہؤا ہے اسے دیکھنے اورعملی طور پر دیکھنے کا موقع دوستوں کومل گیا ۔ اگریہ تغیر نہ ہوتا تو آج اس میں اتنے لوگ سما نہ سکتے ۔ قریب قریب بیٹھ کربھی نہ سما سکتے ۔ دوستوں نے دیکھا ہوگا کہ مسجد کا ایک حصہ نامکمل پڑا ہے۔ جب اس کے متعلق میں نے سوال کیا کہ کیوں نامکمل ہے تو اس کا جواب مجھے یہ دیاگیا کہ اس کے لئے روپیہ نہیں تھا۔ جو چندہ جمع ہؤا تھا وہ ختم ہوگیا اور چونکہ مزید گنجائش نہ تھی اس لئے باقی حصہ نامکمل رہ گیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ مسجد نور میں لائوڈ سپیکر کاآج نہ لگنا اس لحاظ سے مفید ہوگیا کہ دوستوں کو اس جگہ آنے اور جگہ میں دقّت کو محسوس کرنے کاموقع مل گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت جس سُرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے اس مسجد کو ابھی بہت زیادہ پھیلنے کی ضرورت ہے ۔جلسہ کے ایام کے سوا بھی جمعہ کے دن بہت سے مہمان باہر سے آجاتے ہیں ارد گرد کے دیہات سے تو دوست کثرت سے آتے ہیں۔پھرقادیان کی آبادی بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھتی جارہی ہے جس کانتیجہ یہ ہؤا ہے کہ نماز پڑھا کر جب میں باہر جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ لوگ دور دور تک گلیوں میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ گلیوں میں نماز پڑھنا مناسب نہیںاس لحاظ سے بھی کہ مسافروں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ یہ بات نماز کے آداب کے خلاف ہے اور اسی دقّت کو دیکھتے ہوئے حال میں مسجد بڑھائی گئی ہے مگر میں نے دیکھا ہے کہ اب بھی لوگ گلیوں میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں اور اس لئے ابھی ضرورت ہے کہ اس مسجد کو اور زیادہ بڑھایا جائے لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب اس کے اور بڑھانے کی بظاہر کوئی صورت نہیں کیونکہ دائیں بائیں روکیں ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بلند حوصلہ لوگ ایسی باتیں نہیں کرتے اور مومن کا ایمان توبہت ہی بڑا ہوتا ہے ۔
انگریزی زبان میں ایک ضرب المثل ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ جہاں ارادہ پیدا ہوجائے وہاں رستہ بھی نکل آیا کرتا ہے تو جب کسی بات کا ارادہ کرلیاجائے تو اس کے لئے آپ ہی آپ رستہ بھی نکل آیا کرتا ہے۔ جب یہ مکان لیا گیا ہے جس میں اب صدر انجمن کے دفاتر ہیں تو میں نے یہی کہا تھا کہ یہاں دفاتر تو عارضی ہیں کسی وقت یہ مکان بھی مسجد کے کام آجائے گا ۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور مکان بھی ہے جس میں پہلے ڈاکخانہ تھا وہ بھی مسجد کے کام آسکتا ہے اور میں سمجھتا ہوں اگر ارادہ کر لیا جائے تو اس مسجد کے چاروں طرف بڑھنے کا موقع اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابھی موجود ہے ۔ اب بھی میں سمجھتا ہوں ہندوستان کے بہت بڑے بڑے شہروں مثلاً لاہور ،دہلی ،حیدر آباد اور لکھنؤ وغیرہ کو چھوڑ کر جن کی آبادی تین تین چار چار لاکھ اور بعض صورتوں میں دس دس اورپندرہ پندرہ لاکھ ہے، جو چھوٹے شہر ہیں اور جو قادیان سے دس دس بلکہ بیس بیس گنا بڑے ہیں، ان کی جامع مسجدیںہماری اس مسجد کا مقابلہ نہیں کرسکتیں ۔ نمازیوں کے لحاظ سے تو وہ بالکل ہی مقابلہ نہیں کرسکتیں ۔ کیونکہ وہ تو نمازیوں سے بالکل خالی ہوتی ہیں۔
۱۹۲۴ء میں جب میں ولایت گیا تو رستہ میں قاہرہ کی مسجد دیکھنے کا اتفاق ہؤا۔ غالباً ظہر یا عصر کی نماز کا وقت تھا اور میں نے دیکھا کہ ایک کونے کی محراب میں ایک شخص نماز پڑھا رہا تھا اورپیچھے چار پانچ آدمی کھڑے تھے اور کونے کے محراب میں نماز پڑھنے کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ شرم آتی ہے کہ اتنی بڑی مسجد میں چار پانچ آدمی کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔ وہ مسجد بنانے والے نے تو اتنی شاندار بنائی کہ اسے دیکھ کر پرانے زمانہ کے لوگوں کی عظمت یاد آجاتی ہے اور کچھ عرصہ تک ممکن ہے اس میں رونق بھی رہتی رہی ہو۔ مگرموجودہ نسلوں نے نماز کی طرف سے اپنی توجہ ہٹالی ہے اور اس کی پابندی کوبالکل بھلادیا ہے لیکن ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز کی پابندی زیادہ ہے گو وہ معیار تو نہیں جو میں دیکھنا چاہتا ہوں ۔یعنی یہ کہ جماعت میں کوئی ایک بھی سست نہ رہے اور ابھی ہماری جماعت میں ایسے لوگ بھی ہیں جو موقع بے موقع نماز کا ناغہ کرنے کے عادی ہیں حالانکہ جہاں تک میں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور قرآن کریم پر غور کیا ہے ۔ اگر کوئی شخص دس سال باقاعدہ نماز یں پڑھتا اور صرف ایک نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑ دیتا ہے تو وہ ایماندار نہیں بلکہ جو کچھ میں نے قرآن کریم سے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ساری عمر میں ایک بھی نماز عمداً چھوڑ تا ہے تو و ہ مسلمان نہیں ۔
ہاں بعض دفعہ بے ہوشی کی حالت میں چھوٹ جائے تو اوربات ہے یا بعض دفعہ سوتے ہوئے دیر ہوجائے تو اس کے لئے شریعت کا یہ حکم ہے کہ جس وقت جاگ آجائے اسی وقت پڑھ لے اور اس طرح اگر دیر سے اٹھ کر بھی کسی نے نماز اداکرلی تو اس کی نماز ہوگئی اور اس کا وقت وہی تھا جب وہ بیدار ہؤا۔ یاجب اسے ہوش آئی۔ مگر جوشخص جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے اس علم کے باوجود کہ نمازکاوقت ہے مگر وہ سمجھتا ہے کہ ابھی میں دوسرا کام کررہا ہوں اسے ختم کرلوں تو نمازپڑھ لوں گا ۔ یا وہ کام تو نہیں کررہا مگردوستوں کی مجلس میں بیٹھا باتیں کررہا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس مجلس کو چھوڑ کر کیا جانا ہے پھرپڑھ لوں گا تو اس قسم کے حالات کے ماتحت نماز کو ترک کرنے والا ہرگز مؤمن کہلانے کا مستحق نہیں ۔ہاں اس کے بعد اگر اس کے دل میں ندامت محسوس ہو، حسرت پیدا ہو اور وہ سچے دل سے توبہ کرکے خداتعالیٰ کے حضور عرض کرے کہ میراایمان ضائع ہوچکا ،میں اسلام سے نکل گیا مگر اب دوبارہ داخل ہوتاہوں تو پھر وہ دوبارہ داخل اسلام سمجھا جائے گا لیکن اس کی پہلی حالت غیر مؤمن کی سمجھی جائے گی مگر نماز کی اس اہمیت کا احساس بھی ابھی ہماری جماعت میں پیدا نہیں ہؤا،گو میں سمجھتا ہوں کہ اکثر دوست ایسے ہیں جن کے دلوں میں یہ احساس ہے کیونکہ غیرلوگ جو طرح طرح کے اعتراضات احمدیوں پر کرتے رہتے ہیں وہ یہ اعتراض نہیں کرتے کہ یہ نماز نہیں پڑھتے بلکہ اکثر معترض تسلیم کرتے ہیں کہ نمازیں تو یہ ضرور پڑھتے ہیں مگر ہیں کافر ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیرونی احمدیوں کے متعلق لوگوں کایہی تجربہ ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں ۔ ورنہ جہاں دشمن اور اعتراض کرتے ہیں وہاں یہ بھی ضرور کرتے ۔
احمدیوں کے معاملات کی خرابی کے متعلق اعتراضات میں نے سُنے ہیں۔کسی ایک احمدی نے کسی کے ساتھ بدمعاملگی کی تو وہ ساری جماعت کو ہی بد معاملہ قراردے دیتا ہے یا کسی نے جھوٹ بول دیا تو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ احمدی جھوٹ بولتے ہیں لیکن یہ اعتراض نہیں کرتے کہ احمدی نماز نہیں پڑھتے ۔ ناواقفی سے یا جھوٹ بول کر بعض لوگ یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ قادیان کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتے ہیں مگر نماز نہ پڑھنے کی کوئی شکایت نہیں کرتا بلکہ عام طور پر یہی کہاجاتا ہے کہ احمدی نمازی ہوتے ہیں۔ ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے میرے ایک عزیز کے متعلق ایک دوست نے لکھا کہ ایک جگہ بعض افسروں میں یہ ذکر ہو رہا تھا کہ فلاں نوجوان ہے مگر داڑھی رکھی ہوئی ہے ۔ ایک افسر نے کہا کہ یہ قادیان کا ہے اور پھر میرے ساتھ اس کا رشتہ بتایا اس پر ایک افسرنے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی نوجوان داڑھی رکھتا ہے تو میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ یہ یا تو یوپی سے آیا ہے اور یا پھر قادیانی ہے۔ پھر اس نے ایک لمبی تقریر کی اور کہا کہ قادیانی لوگ نمازیں باقاعدہ پڑھتے ہیں، دین کے دوسرے احکام پر بھی عمل کرتے ہیں مگر افسوس کہ ہیں دین سے خارج اور کافر حالانکہ اس آخری فقرہ کے کہہ دینے سے کیا ہوتا ہے ۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص کہے کہ سورج کی ٹکیا تو سر پر نظر آتی ہے،دھوپ بھی نکلی ہوئی ہے، گرمی بھی محسوس ہوتی ہے، تاریکی کا کہیں نام نہیں مگر عجیب بات ہے کہ ہے ابھی رات۔ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے مُنہ سے صرف یہ کہہ دینے سے کہ ابھی رات ہے کون مانتا ہے کہ یہ سچ کہہ رہا ہے یہ بات توکوئی شخص سارا دن کہتا رہے پھر بھی کوئی نہیں مانے گا ۔تو احمدیوں میں نماز کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی حد تک احساس ہے مگر ابھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو نماز کے نیم تارک ہیں اپنے نزدیک اور کلّی تارک ہیں میرے نزدیک کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے میرا عقیدہ یہی ہے کہ جو شخص ایک نماز بھی جان بوجھ کر ساری عمر میں چھوڑ تا ہے وہ کافر ہے۔ چاہے وہ دس سال یا بیس سال مسلسل نمازیں پڑھنے کے بعد ہی کیوں نہ ایک نماز چھوڑے اور اپنے دل میں یہ سمجھ رہا ہو کہ میں نمازی ہوں میرے نزدیک ایسا شخص بالکل احمق ہے ۔
نماز کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے بعض لوگ بٹیرے پکڑتے ہیں اور پکڑنے کے بعدجو بٹیروں کے شکاری ہوتے ہیں وہ ان کو پنجروں میں بند رکھتے ہیں ۔جب اس پنجرہ کا دروازہ کھل جائے اور ان میں سے ایک کو نکلنے کا موقع ملے تو باقی بھی سب نکل جائیں گے ۔ یہی حال نماز کا ہے،ایک نماز کے نکل جانے کا یہ مطلب ہے کہ دل کی کھڑکی کھلی رہ گئی اور جب ایک کو نکلنے کا موقع ملا تو سب پُھر کرکے نکل جائیں گے جس دن دروازہ کھلا رہ گیا اس دن یہ خیال کرنا کہ صرف ایک ہی نماز گئی ہے باقی سب موجود ہیں بالکل احمقانہ خیال ہے اسی دن سب اُڑ جائیں گی اور واپس نہیں آسکیں گی ۔ ہاں توبہ ان کو واپس لاسکتی ہے۔ بٹیرے تو نکل جانے کے بعد بعض اوقات پکڑے بھی جاتے ہیں مگر نماز جب ایک گئی سب جائیں گی اور پھر خداتعالیٰ ہی واپس دے تو آسکتی ہیں ورنہ نہیں اور اگر انسان صدقِ دل سے توبہ کرے تو خداتعالیٰ واپس دے دیتا ہے بغیر توبہ کئے واپس نہیں آسکتیں۔ تو نماز ایک نہایت اہم چیز ہے اور اس لئے ہمارے نزدیک مساجدبہت زیادہ اہم ہونی چاہئیں ۔بعض لوگوں نے مسجدیں نمائش کے لئے بنائی ہیں اور آج وہ اسی کام آرہی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ چھ سات فٹ کی نہایت چھوٹی گلیوں میں ایک مسجدگلی کے ایک طرف ہے اور دوسری دوسری طرف حالانکہ جہاں تک اذان کی آواز جائے دوسری مسجد نہیں ہونی چاہئے سوائے اس کے کہ دوسرے حصہ کے لوگوں کے لئے ہو مگر لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے فلاں رشتہ دار نے مسجد بنائی ہے تو ہم کیوں نہ بنائیں اور ایسی نمائشی مسجد پہلی مسجد کے پاس ہی بنے تو ان کی غرض پوری ہوتی ہے اس لئے اپنا مکان گرا کروہاں مسجد بنادیتے ہیں مگر یہ دکھاوے کی مسجدیں ہیں، اخلاص سے بنائی ہوئی مسجدیں بہت کم ہیں اور آباد بھی ایسی ہی مسجدیں رہتی ہیں جو اخلاص سے بنائی جائیں۔ اِلَّا مَا شَآئَ اﷲُ اور ایسی مسجدیں بہت تھوڑی ہیں ان میں سے جامع مسجد دہلی کی میں نے یہ خصوصیت دیکھی ہے گو اس کی پہلی شان و شوکت تومٹ چکی ہے مگر جب بھی مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہؤا وہا ں چہل پہل ضرور دیکھی ہے اور باقی مساجد سے زیادہ لوگ وہاں نماز پڑھتے ہیں اور لوگوں کی رغبت زیادہ نظر آتی ہے ۔خاص دنوں میں تو رونق بہت زیادہ ہوتی ہے مگر عام طور پر بھی اچھی رونق ہوتی ہے ۔گوشاہ جہاں جس نے وہ مسجد بنائی کوئی مذہبی آدمی نہ تھا مگرمعلوم ہوتا ہے مسجد بنانے کے وقت اس میں ریاء نہیں تھا اور اس نے اسی خیال سے اسے بنوایا کہ میں نے گناہ بہت کئے ہیں شاید یہی میری بخشش کا باعث ہوجائے کیونکہ اتنا لمبا عرصہ گزر گیا مسلمانوں میں نماز کی عادت بھی نہ رہی مگرآج تک اس میں کثرت سے نمازیں پڑھی جاتی ہیں ۔
میں ذکر کررہا تھا کہ نماز ہمارے لئے بہت اہم چیز ہے ۔پس جس جگہ نماز پڑھی جائے وہ بھی ہمارے نزدیک بہت اہم ہونی چاہئے اوریہ مسجد تو الٰہی پیشگوئی کی مصداق ہے جس کا قرآن شریف اور احادیث میں بھی ذکر ہے۔ قرآن کریم میں مسجد اقصی کا ذکر ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مسجد کو مسجد اقصیٰ قراردیا ہے اور پیشگوئیوں سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مسیح موعود آنے والا ہے وہ اسی کے قریب پید ا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ منارہ تعمیر کرایا کیونکہ احادیث کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود نے سفید مینارہ کے قریب یا اس کے مشرق میں اُترنا تھا ۱؎اور یہی وہ مینارہ ہے جس کے مشرق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مکان ہے
پس یہ مسجد خاص اہمیت رکھتی ہے اور اس کی وسعت اور آبادی کے لئے جتنی بھی ہم کوشش کریں کم ہے اور اس اجتماع سے آج ایک یہ فائدہ ہوگیا ہے کہ دوستوں کو یہ دیکھنے کا موقع مل گیا ہے۔ باقی مساجد کے متعلق تو یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ معلوم نہیں کب تک ان کی آبادی رہے لیکن یہ تو پیشگوئیوں کے ماتحت ہے اور جس طرح خانہ کعبہ کے متعلق یہ کبھی خیال نہیں کیاجاسکتا کہ وہ کبھی غیر آباد ہو اسی طرح اس کے متعلق بھی یہ خیال نہیں کیاجاسکتا کہ کبھی اس کی آبادی میں فرق آجائے گا اور اس طرح جن لوگوں کا روپیہ اس کی تعمیر پر خرچ ہوگا وہ دائمی ثواب کے مستحق ہوں گے اور اس طرح یہ خاص طور پر ثواب حاصل کرنے کا موقع ہے اور موجودہ ضرورت کے لئے تو چند ہزار روپیہ بھی کافی تھا اس لئے کوئی وجہ نہ تھی کہ اس میں کمی رہ جاتی اور عمارت بیچ ہی میں چھوڑنی پڑتی ۔
میرا خیال ہے کہ کارکنوں نے اس بات کو اچھی طرح جماعت کے سامنے رکھا نہیںکہ یہ ایک دائمی ثواب حاصل کرنے کا موقع ہے اور اس میں جو ایک پیسہ بھی لگایا جائے گا وہ قیامت تک کے لئے ثواب کا موجب ہوگا ۔ باقی کسی مسجد میں دس ہزار روپیہ لگا کر بھی کوئی شخص یہ یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ اس سے بنی ہوئی مسجد میں ہمیشہ خداتعالیٰ کی عبادت ہوتی رہے گی ۔بعض مساجد کو دشمن مٹا دیتے ہیں ۔ لوگ اس جگہ مکان بنا لیتے ہیں مگر یہ مسجد جسے خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اہمیت دی گئی اور جس کے ساتھ للّہی تعلق رکھنے والی ایک ایسی جماعت ہے جس کے متعلق خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے تمام دنیا میں غلبہ حاصل ہوگا اور جس کی تعداد آج لاکھوں ہے مگر کسی وقت کروڑوں اور اربوں ہوگی اور جو اپنے خون کا آخری قطرہ اس کی حفاظت کے لئے گرادینے پر ہمیشہ تیار رہے گی۔ آج بھی گو ہم کمزور ہیںمگرکوئی طاقت ورسے طاقت ور حکومت بھی بغیر اس کے کہ اس کا دل دھڑکے یہ خیال بھی نہیں کرسکتی کہ اس کی طرف نگاہ اٹھا کردیکھے۔ احمدی جماعت کا بچہ بچہ قربان ہوجائے گا مگر اس مسجد کی تقدیس میں فرق نہ آنے دے گا اورکبھی وہ زمانہ آنے والا ہے کہ کوئی غیر مسلم حکومت بھی اس علاقہ پر اگر حملہ کرنے لگے گی تو اس سے پہلے یہ اعلان کرنا پڑیگا کہ جماعت احمدیہ کے جذبات کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا اور ایسے اعلان کے بغیر اسے علاقہ کی طرف بڑھنے کی جرأت نہ ہوگی ۔
بچپن میں بوڑھی عورتیں قصے سنایا کرتی تھیں جن میں سے ایک فقرہ مجھے اب تک یاد ہے کہ کوئی دیو کسی پر خوش ہوگیا اور اس نے کہا کہ میں آج’’ ٹھٹھا ‘‘ہؤا ہوں مانگ جو مانگتا ہے مجھے یہی لفظ یاد ہے گو ممکن ہے بوجہ اس کے کہ میں ٹھیٹھ پنجابی نہیں جانتا اس کے تلفظ میں کوئی غلطی ہو مگر جہاں تک مجھے یاد ہے یہی لفظ تھا ،قربانی کا یہ موقع بھی ایسا ہی ہے آج اللہ تعالیٰ کے متعلق بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ انعام دینے پر تُلا ہوا ہے ۔ جو مانگنا چاہے مانگ لے اور ایسی حالت میں کوئی بے وقوف یا نا واقف ہی ہوگا جو مانگنے میں کوتا ہی کرے۔ یہ تو ایسا موقع ہے کہ پیسہ پیسہ دے کر بھی لوگ بڑے ثواب میں شامل ہوسکتے ہیں بسااوقات لوگ اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سینکڑوں، ہزاروں روپے ہوں تبھی شمولیت ممکن ہے حالانکہ ایسے چندوں کے لئے کوئی حد بندی نہیں ہوتی۔ بے شک بعض تحریکوں میں حد بندی ہوتی ہے۔ جیسے تحریک جدید میں بعض مصلحتوں کے ماتحت میں نے پانچ یا دس روپیہ کی حد بندی کی ہے مگر اس کے لئے کوئی حدبندی نہیں اور اس میں غریب سے غریب آدمی بھی حصہ لے سکتا ہے حتّٰی کہ ایک اپاہج اور لُولا لنگڑا آدمی بھی اپنی بچی ہوئی روٹی کا ٹکڑا بھی دے سکتا ہے کہ اسے بیچ کر خرچ کرلیا جائے ۔اور ہم اس کے لینے سے انکار نہیں کرسکتے یہ ایک غلطی ہے کہ لوگ خیال کرلیتے ہیں کہ سینکڑوں، ہزاروں روپے دیکر ہی شمولیت کی جاسکتی ہے اگر پیسہ پیسہ بھی دیا جائے تو ثواب میں شمولیت ہوسکتی ہے۔ پس بجائے اس کے کہ اس مسجد کی تعمیر اس لئے رُکی رہے کہ روپیہ نہیں یہ ایسا اہم کام ہے کہ چاہئے اس کے لئے فنڈ ہمیشہ جمع رہے تا جب بھی موقع ملے اس کو اورزیادہ وسیع کیا جاسکے۔ یہ مسجد تو انشاء اللہ دنیا میں تیسرے نمبر پر شمار ہوگی اول خانہ کعبہ دوم مسجد نبوی اور سوم یہ مسجد ہوگی اور اس لحاظ سے اس کی وسعت کا بھی خیال رکھنا چاہئے تاجب اس میں ہزاروں لاکھوں لوگ نماز پڑھنے کے لئے آئیں تو بھی یہ مسجد ان کے لئے کافی ہو اور میں سمجھتا ہوں کہ ہراحمدی اس ثواب میں اپنا حق لینے کی کوشش کرے گا اور جو چاہے وہ پیسہ دوپیسہ دے کر بھی مدد کرسکتا ہے ۔
قادیان کی آبادی اس وقت دس ہزار کے قریب ہے جس میں سے قریباً آٹھ ہزار احمدی ہیں اور اگرایک آنہ فی کس بھی سمجھا جائے تو پانسو روپیہ توفوراً یہاں سے ہی مل سکتا ہے اس لئے میرے نزدیک کوئی وجہ نہیں کہ اس عمارت کو روکا جائے۔ کارکنوں نے معلوم ہوتا ہے اس بات کو اچھی طرح جماعت کے سامنے پیش نہیں کیا اگر وہ کرتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ روپیہ کافی نہ آجاتا۔ اگرایک شاعر نے اپنے شعر وں سے ایک تاجر کی کالی اوڑھنیاں بکوا دی تھیں تو اس الٰہی وعدہ والی مسجد کے لئے روپیہ فراہم کرنا کیا مشکل کام ہے۔ کہتے ہیں کسی شخص کو مالی تنگی تھی اور روپیہ ملنے میں دقت پیش آرہی تھی ایک شاعر نے جو اس کا دوست تھا ا س سے کہا کہ تم شہر کی سب کالی اوڑھنیاں خرید لو ۔ جب وہ خرید چکا تو اس شاعر نے کچھ شعر کہہ دئیے جن میں کالی اوڑھنی کی تعریف کردی شاعر مشہور تھا جب اس کی طرف سے کالی اوڑھنیوں کی تعریف ہوئی تو عورتوں کی طرف سے کالی اوڑھنیوں کے لئے مطالبات ہونے لگے اور اس طرح ان کی قیمت بڑھ گئی اور اس نے ہزاروں روپیہ کمالیا ۔ پس جب ایک شاعر نے کالی اوڑھنیوں کی تعریف کرکے اپنے دوست کے لئے روپیہ جمع کروادیا تو میں کس طرح مان لوں کہ ہمارے کارکنوں نے اس مسجد کی اہمیت کو دوستوں پر ظاہر کیا ہوتا تو روپیہ جمع نہ ہوتا ۔بڑے آدمی تو الگ رہے میں سمجھتا ہوں اگر صحیح طور پر جماعت کے سامنے اس بات کو پیش کیا جاتا تو پندرہ سال تک کے بچے بھی اسے پورا کرسکتے تھے اور اس وجہ سے میرا آج یہاں خطبہ پڑھنا مفید ہوگیا ہے کہ یہ حالات میرے سامنے بھی اور جماعت کے سامنے بھی آگئے ہیں۔
اس کے بعد میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے تشریف لائے ہیں جو انشاء اللہ دو روز کے بعد شروع ہوگا ۔ یہ جلسہ جیسا کہ باربار جماعت کے سامنے پیش کیاجاچکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے الہام اور حکم کے ماتحت قائم کیا ہے اور اس لحاظ سے دنیا کے تمام جلسوںمیں منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ جلسہ خالص مذہبی اغراض کے ماتحت ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ اور شان کو بلند کرنے کے لئے ہر قسم کے مسائل پر اس میں تقریریں ہوتی ہیں اور اس میں شمولیت کے لئے آنے والے ہرقسم کی دُنیوی اغراض کو پیچھے ڈال کر یہاں آتے ہیں ۔ یہاں کوئی تجارت نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ کسی نے پیسہ پیسہ کی کوئی کتاب بیچ لی اور چند پیسے کمالئے ۔یہ کوئی تجارت نہیں اتنے پیسے تو آدمی مانگ کر بھی لے لیتا ہے ۔ اس کے سوا یہاںدنیوی لحاظ سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور جو لوگ اپنے گھروں میں آرام و آسائش کے ساتھ رہتے ہیںوہ بھی یہاں آکر ایسی تکلیف اٹھاتے ہیں جو گھروں میں عام آدمی بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ یہاں بیشتر حصہ کو کھوری یاکسیر ملتی ہے جس پر انہیں سونا پڑتا ہے۔ جگہ کی تنگی کی یہ حالت ہوتی ہے کہ بعض دفعہ کمروں میں اس طرح آدمی ٹھونسے ہوئے ہوتے ہیں ۔جس طرح ڈبے میں مرغیاں۔ مجھے ایک دفعہ کسی غرض سے سیالکوٹ کی جماعت کے کمرے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانا پڑا اور اتنے میں ہی مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ گویا میرے پائوں جل کر گوشت اتر جائے گا باوجود یکہ شدید سردی کے دن تھے۔ آج کل کتنی سخت سردی پڑ رہی ہے آج ہی خبرآئی ہے کہ انگلستان میں نو آدمی سردی کی وجہ سے مرگئے اور گوہندوستان میں اتنی سردی تو نہیں ہوتی مگر پھر بھی بہت کافی ہوتی ہے لیکن جن کمروں میں لوگ سوئے ہوتے ہیں ان میں ان کی سانسوں کی وجہ سے اتنی گرمی پیدا ہوجاتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ تنور ہے کمرہ نہیں۔ عام حالتوں میں ان باتوں کی برداشت انسان کیسے کرسکتا ہے۔ پھر جو کھانا ملتا ہے وہ بھی ظاہر ہے میں منتظمین کی برائی نہیں کرتا۔ وہ تو رات دن ایک کرکے انتظام کرتے ہیں اور ان کی حالت دیکھ کر ان پررشک آتا ہے کہ وہ یہ ہفتہ کس طرح تکلیف سے گزارتے ہیں ۔ رات دن کام میں لگے رہتے ہیں اور پتہ نہیں کس وقت سوتے ہیں ۔
یہ سب تکلیف وہ خداتعالیٰ کی رضا کے لئے برداشت کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی کوشش و سعی، محنت، جفاکشی اور نیک نیتی کے باوجود جو کھانا تیار ہوتا ہے وہ ایسا ہوتا ہے کہ عام طور پرگھر میں لوگ اس کے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ پھر اتنی بڑی جماعت جو ہر قوم اور ہر ملک و صوبہ کے لوگوں پر مشتمل ہو اسے خوش کرنا کتنا مشکل ہے ۔بعض ایسے علاقوں کے ہوتے ہیں جو گائے کے گوشت کے بغیر کھانا کھاتے ہی نہیں اور ان کے ہاں اگرکوئی بکرے کا گوشت لینے جارہا ہو تو بڑی فکر مند ی کے ساتھ اس سے دریافت کرتے ہیں کہ کیوں خیر ہے گھر میں کوئی بیمار تو نہیں جو آپ بکرے کاگوشت خریدنے جارہے ہیںلیکن بعض علاقوں میں گائے کے گوشت سے اتنا شدید پرہیز کیا جاتا ہے جتنا سؤر کے گوشت سے ۔ خاص کر ہندو ریاستوں کے باشندے تو اس سے بہت پرہیز کرتے ہیں اور اگر ان کو شک بھی ہو جائے کہ گائے کا گوشت کھایاگیا ہے توخیالی طور پر ہی اتنا نفخ ہوجاتا ہے کہ سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ اس کے عادی نہیںہوتے ان کو یہ وہم ہوتا ہے کہ گائے کا گوشت نفاخ ہے ادھر کھایا اور ادھر پیٹ پھولنا شروع ہؤا۔
پھر ہمارے مہمانوں میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو چاول کے بغیر گزارہ نہیں کرسکتے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنہوں نے سارا سال گھر میں دال کی شکل بھی نہیں دیکھی ہوتی بلکہ جن کے نوکر بھی دال نہیں کھاتے۔ اس کے علاوہ دیہات کے لوگ گھر کا خالص گھی کھانے کے عادی ہوتے ہیں اور بازاری گھی کھانے سے فوراً ان کا گلا خراب اور کھانسی شروع ہوجاتی ہے اور پھر ایسے علاقوں کے بھی لوگ ہوتے ہیں جو تیل کھانے کے عادی ہیں اور جب گھی کھاتے ہیں تو ان کا گلا خراب ہوجاتا ہے یو۔پی اور بہار وغیرہ میں تیل کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے زمانہ طالب علمی میں ان علاقوں کے طلباء یہاں پڑھا کرتے تھے وہ بعض اوقات کھانستے ہوئے آتے اور کھانسی کی وجہ یہ بتاتے کہ گھی کھانے سے ہوگئی ہے لیکن کچھ عرصہ یہاں رہ کر ان کو گھی کی عادت ہوجاتی ہے اورجب رخصتوں میں پھر گھر جا کر تیل کھانا پڑتا تو پھر اس سے کھانسی ہوجاتی اور ظاہر ہے کہ اتنے طبقوں اور اتنی نوعیت کے لوگوں کو کون خوش کرسکتا ہے اور کس طرح کرسکتا ہے جو مخلص یہاں آتے ہیں ان کو خوش کرنے کا تو سوال ہی نہیں ہوتا ۔ ان کو تو یہاں کا کوئی آدمی چیں بجبیںہو کر بھی دیکھے تو وہ اس پر بھی مسکراتے ہیں کہ یہ چیںبجبیں بھی قادیان کی ہے اور اس لئے ان کو خوش کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن ان کی عادتوں یا صحت کی کمزوری کی وجہ سے جو تکلیف ہوتی ہے اس کو کون دور کرسکتا ہے۔ جہاں تک تو خوشی کا تعلق ہے وہ ہرچیز کھانے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور ایسا مزہ لے لے کرکھاسکتے ہیں کہ گویا دنیا جہاں کی نعمتیں حاصل ہوگئیں مگران سے وہ بعد میں اگر بیمار ہوجائیں تو اس میں تو ان کا کوئی قصور نہیں۔
تو ایسی مشکلات میں یہ جلسہ ہوتا ہے اور ان سب کے باوجود اس لئے لوگ یہاں آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو خوش کریں مگرکئی ہیں جو عدم علم اور ناواقفی کی وجہ سے ان ایام سے پورا فائدہ نہیں اٹھاسکتے حالانکہ جتنی قربانی کسی چیز کے لئے کی جائے اتنی ہی اس کی قدر ہونی چاہئے اس لئے میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان دنوں کو نمازوں ،دعائوں اور ذکرالٰہی میں صرف کریں، جماعتیںباہمی ملاقاتوں میں صرف کریں ۔یہ ایسا موقع ہوتا ہے جب باہمی واقفیت آسانی سے پیدا ہوسکتی ہے ۔ اسلام اور احمدیت نے(کہ یہی حقیقی اسلام ہے )اب جس قسم کی مساوات کو قائم کرنا ہے وہ باہم کثیر تعارف اورایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ واقفیت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ وہ حدِّ فاصل جو اس وقت مختلف طبقات اور مختلف ممالک کے لوگوں کے درمیان قائم ہے جب تک اسے دور نہ کیا جائے کامیابی محال ہے اور اسے دور کرنے کا ذریعہ یہی ہے کہ کثرت سے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کی جائیں تا کہ آہستہ آہستہ پنجابی ،بنگالی ،بہاری ،مدراسی اور پھرہندوستانی ،چینی ،جاپانی ، انگریز اور مصری کا امتیاز مٹ کر سب ایسے ہی انسان نظر آنے لگیں جیسا خدا تعالیٰ نے ان کو بنایا ہے اللہ تعالیٰ نے تو ہم سب کو انسان ہی پیدا کیا ہے آگے انگریز، اورہندی اورچینی وغیرہ کا فرق توانسان نے خود بنالیا ہے اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ پھر اسی طرح کے انسان بن جائیں جیسا کہ خداتعالیٰ نے بنایا ہے اور اس وقت باہمی بُعد پیدا ہو کر جو غیریت نظر آتی ہے وہ مٹ جائے ۔ بے شک ابتداء میں ملاقات ہو تو بجائے محبت کے ایک قسم کا تنفر ہوتا ہے مگروہ آہستہ آہستہ ملتے رہنے سے دور ہوجاتا ہے ۔اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی جنگلی طوطا یا بے سدھا گھوڑا لایا جائے تو پہلے پہل وہ خوب شور کرتا ہے مگر آہستہ آہستہ وہی طوطا ہاتھ پرکھانا کھانے لگتاہے اور گھوڑا سواری کے کام آتا ہے ۔ پس ان امتیازات کو مٹانے کے لئے ضروری ہے کہ باہم ملاقاتیں کی جائیں۔ اس میں شک نہیں کہ کچھ نہ کچھ اختلافات تورہتے ہیں مگریہ ایسے اختلاف ہوتے ہین جن کے متعلق رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ ۲؎لیکن جب یہ اختلافات لڑائی کا موجب ہوجائیں تو سمجھ لو کہ خداتعالیٰ کے نزدیک اُمت سے نکل گئے ۔
پس ان ایام کو زیادہ سے زیادہ عمدہ کاموں میں صرف کرو سلسلہ کی مشکلات کو دیکھو۔ ناظروں کو چاہئے کہ ان ایام میں اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ فارغ رکھیں اور کثرت سے ملاقاتیں کریں، دوستوں سے مشورے کریں، ان کے سامنے اپنی مشکلات رکھیں اور دوست دیکھیں کہ وہ سلسلہ کے کاموں میں کہاں تک مدد کرسکتے ہیں اور اس طرح یہ ایام ناظروں کی کانفرنس کے ایام ہونے چاہئیں مگرشاید کارکنوں کی کمی یا اپنی بزدلی کی وجہ سے وہ ایسا کرتے نہیں۔ بزدلی کی وجہ سے میں نے اس لئے کہا ہے کہ بعض ناداں کہہ دیا کرتے ہیں کہ ناظر خود تو کوئی کام کرتے نہیں دوسروں سے ہی لیتے ہیں اور اس لئے وہ بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم کام کرنے میں دوسروں کے ساتھ شریک نہ ہوئے تو لوگ اعتراض کریں گے اور اس لئے ایسے بیوقوفوں کی وجہ سے وہ زیادہ ضروری کام چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہوناچاہئے ایسے بے وقوف تو ہمیشہ ہوتے آئے ہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تھے ا ور آپ سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی تھے اور ہمیشہ باقی رہیں گے ۔جس طرح پاگلوں کو دنیا سے نہیں مٹایا جاسکتا ایسے لوگوں کا مٹایا جانا بھی ناممکن ہے اور اس لئے کہ ایسے بے وقوف اعتراض نہ کریں ناظروں کو بہتر کام چھوڑ کر اپنے لئے نسبتاً معمولی کام تجویز نہیں کرنا چاہئے۔ اس وقت تک وہ ایسا نہیں کرتے رہے اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خیال نہ آیا ہو اور یہ بھی کہ کام کے لئے آدمی نہ مل سکتے ہوں لیکن اب ایسا کرنے کی کوشش انہیں کرنی چاہیے ۔
جو دوست باہر سے آتے ہیں انہیں بھی چاہئے کہ دفاتر میں جا جا کر ناظروں سے ملیں اور دیکھیں کہ کام کس طرح ہورہا ہے، کام کی نوعیت کیاہے، عملہ کتنا ہے اگر دوستوں کو یہ علم ہو کہ کام زیادہ اور کارکن تھوڑ ے ہیں تو ان کے دل میں یہ تحریک ہوسکتی ہے کہ پنشن لے کر یہاں آئیں اور کام کریں۔ اس کے علاوہ بعض وسوسے بھی دور ہوسکتے ہیں۔ بعض لوگوں کو شکایت ہوتی ہے کہ ہم نے فلاں کام کہا تھا مگر وہ اب تک نہیں ہؤا اور حالات کو دیکھ کر ان کا شکوہ دور ہوسکتا ہے اورناظروں کو بھی چاہئے کہ دن رات کا زیادہ سے زیادہ حصہ ملاقاتوں کے لئے فارغ رکھیں۔ اگر اس کے ساتھ اور کام بھی وہ اپنے ذمہ رکھیں گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ طبیعت میں چِڑ چڑا پَن پیدا ہوجائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا تو میں اس بات کو صحیح ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ ایسے حالات میں چڑ چڑاپن پیدا ہونا ضروری ہے۔ ایک شخص آکر بات کرے گا یہ اسے مختصر جواب دیں گے وہ اس کی مزید وضاحت چاہے گا اور یہ کثرت کار کی وجہ سے یہ کہہ دیں گے کہ آپ تو خواہ مخواہ مغز چاٹ رہے ہیں اور وہ ناراض ہو کر چلا جائے گا ۔پس چاہئے کہ ناظر دس بارہ گھنٹہ ضرور اپنے دفاتر میں بیٹھے رہیں اور دوستوں کو دعوت دیں کہ آئیں اور ان سے ملاقاتیں کریں اور اس طرح رات دن کانفرنس میں شریک رہیں ان کو اپنی مشکلات بتائیں تا ان کے اندر زیادہ سے زیادہ تعاون کی روح پیدا ہو۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ دوست ان ایام سے زیادہ سے زیاد ہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ا ور ناظر بھی ایسے رنگ میں اپنے اوقات صَرف کریں گے جو جماعت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کا موجب ہوسکیں ۔
مگر چونکہ سب کام اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے میں اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم میں سے ہر ایک کو اس رنگ میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس کے نزدیک زیادہ مناسب اور بہتر ہو اور ہمارے قلوب سے ایسے خیالات جو مختلف قوموں اور طبقوں میں جھگڑے پیدا کردیتے ہیں نکال دے ۔ ہمارے اندر اتحاد اور یک جہتی پیدا کردے اور ہم سب کا ایک ہی مقصود اور قبلہ ہویعنی اسلام اور احمدیت کی ترقی اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے تقویٰ کا دلوں میں قائم ہونا ۔‘‘
(الفضل ۱۰؍ جنوری ۱۹۳۹ئ)
۱؎ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال
۲؎ موضوعات مُلّا علی قاری صفحہ ۱۷ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ ھ

۴۳
(ا) تحریک جدید سال پنجم کے وعدوں کی
آخری میعاد دس فروری ہے
(۲)آئندہ سال خصوصیت سے ہندودوستوں کو
جلسہ پر لانے کی کوشش کی جائے
(فرمودہ ۳۰؍ دسمبر ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’پہلے تو میں تحریک جدید سال پنجم کی میعا د کے متعلق آج یہ اعلا ن کر نا چاہتا ہوں کہ اس سال کا چندہ لکھوانے کی آ خری تاریخ دس فروری ہے (میں نے خطبہ میں31جنوری کہا تھا مگر خطبہ دیر سے شا ئع ہو رہا ہے دس فر وری آخری میعاد کر دی ہے) اس وقت تک میں یہ اعلان نہیں کرسکاتھا۔کیونکہ پہلے خطبہ میں تو یہ با ت مجھ سے نظر انداز ہوگئی اور بعد میں میں نے سمجھا اب تو دوست جلسہ سالانہ پر آنے ہی والے ہیں اب اگر اس چندہ کی میعاد کے متعلق اعلان کیا گیا تو اس کا چنداں فائدہ نہ ہو گا سو آ ج میں اعلان کرتا ہو ں کہ تحریک جدید کے پانچو یںسال کا چندہ لکھو انے کی آخر ی تاریخ ہند و ستان میں رہنے والو ں کے لئے، بنگال اور مدراس کے اصل باشندوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کہ وہاں کی ز با ن مختلف ہے اور ہم ہمیشہ وہاں کے رہنے والوں کو زیادہ عرصہ دیا کرتے ہیں، دس فروری ہے۔ پس دوستو ں کی طرف سے وہی وعدے قبول کئے جائیں گے جو یا تو اس عرصہ میں دفتر پہنچ جائیںگے یا جن پر ڈاکخا نہ کی مہر۱۱؍فروری کی ہو گی کیونکہ دس فروری جوآخری تاریخ ہے اسلئے شام کو اگر کوئی وعدہ لکھوانا چاہے تواسی روز اس کا خط ڈاکخانہ سے روانہ نہیں ہو سکتا اس کا خط بہر حا ل گیارہ فروری کو روانہ ہو سکے گا۔
پس گیارہ فروری کی مہر جس خط پر ہو گی اسکے وعدہ کو بھی قبول کر لیا جائے گا ہاں ہندوستان کے صو بوں میں سے بنگال اور مدراس کی جما عتوں کے وعدے اور اسکے علا وہ ان تمام جماعتو ں کے وعد ے جو ایشیا اور افریقہ میں ہیں۔30اپریل تک قبول کیے، جا سکتے ہیں جیسے ایسٹ افریقہ ہے، عراق ہے، یو گنڈا ہے، ٹانگا نیکا ہے، اسی طرح دوسری طرف سماٹرا اور جاوا وغیرہ ہیں مغربی ممالک کیلئے جو زیا دہ فاصلہ پر ہیں آخر ی میعاد ۳۰؍جون ہو گی۔ جیسا کہ گزشتہ سالوں سے ہوتا چلا آیاہے یہ ر عایت اس لئے ہے کہ وہاں خطبوں کے پہنچنے میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیںپھران کی زبان اور ہے اور ان تک بات پہنچانے میںوہاں کے کارکنوں کو تحریک کا ترجمہ کرنا پڑ تا ہے۔
اس سلسلہ میں مَیں بعض اور باتیںبھی واضح کر دینا چاہتا ہوں جو ملاقا ت کے ایا م میں چندہ تحریک جدید کے متعلق میرے سامنے آئیں اور جلسہ سالا نہ کے ایام میں لوگ ان کے متعلق مجھ سے پو چھتے رہے ہیں۔ یہ سوالات میرے اس اعلان کے متعلق ہیںجو میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر کیا تھا کہ چندہ تحریک جدید میں آخر تک حصہ لینے والوں کی جولسٹ بنائی جائے گی وہ دو حصوں میں منقسم ہو گی، ایک تو ان لوگوں کی فہرست ہو گی جنہوں نے اس تحریک میں قا نو ن کے مطابق کمی کر کے باقاعدہ دس سال تک چندہ دیا ہو گا یا یکسا ں دیتے چلے گئے ہو ں گے۔ اپنے چندہ میں کمی کرنیوالوں کی وجہ میری سمجھ میں آ جاتی ہے مگر ہرسال یکساں چندہ دینے والوں کی وجہ میری سمجھ میںنہیں آتی۔ مثلاً یہ تو سمجھ میں آسکتا ہے کہ ایک شخص جسے پانچ روپے چندہ دینے کی توفیق نہ تھی اس نے دوسرے دور کے دوسرے سال میں ساڑھے چار کر دئیے اور اس سے اگلے سال قانو ن کے مطابق اس کے ذمہ چار روپے رہ گئے اور پھر اس سے اگلے سال ساڑھے تین رہ گئے اور پھر تین تین روپے وہ تین سال متواتردیتا رہا یادوسرے دور کے پہلے سال اس نے دس روپے دئیے تو اگلے سال نو روپے رہ گے، پھر نو کے آ ٹھ رہ گئے، پھر آٹھ کے سات رہ گئے، سات کے چھ رہ گئے، چھ چھ روپے وہ باقاعدہ تین سا ل تک دیتا رہا لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ شخص جو اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن میں نہا یت معمو لی زیادتی کے ساتھ شامل ہوسکتا ہے وہ چندہ ہرسال برابرکیوں دیتا رہا مثلاً وہ شخص جس نے پہلے سال پانچ روپے چندہ میں دئیے اورپھر ہر سال وہ پانچ روپے ہی دیتا رہا اس نے یقیناًاس بات کو نہیں سمجھا کہ وہ بہت ہی معمولی قربا نی کے ساتھ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن میں شا مل ہو سکتاتھا مگر اس نے اس طرف تو جہ نہیں کی مثلاًًوہ شخص جس نے پہلے سال پانچ روپے دئیے جبکہ وہ دوسرے سال پانچ روپے ایک آنہ دے کر، تیسرے سال پانچ روپے دو آنہ دے کر، چوتھے سال پانچ روپے تین آنے دے کر، پانچویں سال پانچ روپے چار آنے دے کر، چھٹے سال پانچ روپے پانچ آنے دے کر،ساتویں سا ل پانچ روپے چھ آنے دے کر، السابقون اور ہر سال قدم آگے بڑھانیوالوں میں شامل ہو سکتا تھا تو میںنہیں سمجھ سکتا کہ کیوں وہ چند آنوں کی زیادتی میںبخل سے کام لے کرسابقون کے درجہ میں شامل نہ ہؤا اور ہر سال پانچ روپے ہی دیتا چلاگیا۔جب ہر سال کے چند ہ میں محض ایک آنہ کی زیادتی اسے اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن میں شا مل کر سکتی ہے تو یقیناًاگر کوئی شخص یہ زیادتی نہیںکریگا تو اس کے متعلق یہ سمجھا جائیگا کہ یاتو اس نے ناواقفیت اور عدمِ علم کی وجہ سے ایسا نہیںکیا اور یا پھر اسکے دل میں سابق ہونے کی ایسی قدر نہیں ہے۔ توقاعدہ کے مطابق جن دوستوںنے اپنے چندہ میں کمی کی ہے ان کی اس کمی کی حکمت تو میری سمجھ میں آسکتی ہے اورمیں مان سکتا ہوں کہ مالی مشکلات کی وجہ سے وہ کمی کرنے پرمجبور ہوئے ہیںمگر وہ لوگ جوہر سال برابر چندہ دیتے رہے ہیںان کے اس یکساں چندہ دینے کی حکمت میری سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ وہ بِلاوجہ ایک عظیم الشان ثواب کے حصو ل سے محروم رہتے ہیں۔ بیشک ایک شخص کہہ سکتاہے کہ پچھلے سال میں نے پانچ روپے چندہ میں دیئے تھے اس سال چھ روپے چندہ دینے کی مجھے توفیق نہیںمگر ہم کب کہتے ہیںکہ زیادتی ضرور ایک روپیہ ہی کی ہونی چاہئے۔ ہم نے زیادتی کے متعلق کوئی تعیین نہیں کی اور جب زیادتی کے متعلق ہماری طرف سے کوئی تعیین نہیں تو یہ زیادتی پانچ روپے ایک آنہ دے کر بھی ہو سکتی ہے بلکہ پانچ روپے ایک پیسہ دے کر بھی ہو سکتی ہے اوراگر صرف ایک پیسہ کو زیادتی کی وجہ سے کوئی شخص اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ نمیں شامل ہو سکتا ہو تو کیا یہ نادانی نہیں ہو گی کہ دس روپے چندہ دینے والا ہمیشہ دس روپے ہی دیتا رہے یا سو روپے چندہ دینے والا ہمیشہ سو روپیہ ہی دیتا رہے اور نہایت معمولی سی زیادتی کر کے وہ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْن میں شامل نہ ہو جائے۔
ہمار ی جماعت کے ایک دوست ہیںجو نہا یت ہی مخلص اور سادہ طبیعت کے ہیں کئی موقعوں پر میں نے ان میںسلسلہ سے اخلاص اورمحبت کا تجربہ کیا ہے انہوں نے گزشتہ سال ۱۱۵روپے چندہ میں دئیے اس سال پھر انہوں نے ۱۱۵روپے کا وعدہ کیا اس پر میں نے انہیں لکھا کہ آپ بڑی آسانی سے اس سال ۱۱۶ روپے دے کر اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ نمیں شامل ہو سکتے ہیںچنانچہ گو میں نے انہیں ایک روپیہ کی زیادتی کیلئے ہی مشورہ دیا تھا مگر انہوں نے جو ش اخلاص میں اپنے وعدہ کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ تو بعض لوگ اصل حقیقت کو سمجھے نہیں وہ سمجھتے ہیں شاید اگر ہم نے ایک سال پانچ روپے چندہ میں دیئے ہیں تو دوسرے سال جب تک دس روپے نہیںدیں گے زیادتی نہیں سمجھی جائے گی حالا نکہ ہمیں تو ایمان کی زیادتی کاثبوت چاہئے خواہ وہ ایک پیسہ سے ہو خواہ ایک آنہ سے ہو، خواہ دو آنہ سے ہو،خواہ تین آنہ سے ہو،خواہ چار آنہ سے ہو اور خواہ وہ دس ۔بیس یاسو دوسوروپیہ کے ذریعہ سے ہو۔تو کمی کرنے والوں کی حکمت میری سمجھ میں آجاتی ہے کیونکہ وہ کہہ سکتے ہیںکہ ہم اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے اور ہماری مالی حالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم زیادتی کریں مگر جو ہر سال یکساں چندہ دیتے ہیںان کے اس فعل کی حکمت میری سمجھ سے بالا ہے جبکہ وہ نہایت ہی معمولی زیادتی کر کے اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن میں شامل ہوسکتے ہیںمثلاً وہ شخص جس نے سات سالہ دور میں سے پہلے سال پانچ روپے چندہ دیاہے وہ اگر ہر سال قاعدہ کے مطابق دس فی صدی کمی کرتا اور آخری تین سالوںمیں چالیس فیصدی کمی پرٹھہرکردو سال مسلسل چندہ دیتا تو وہ نو روپے بچاتاہے دس روپے دینے والاسات سال میں اس کمی کے نتیجہ میںاٹھارہ روپے بچاتاہے، بیس روپے دینے والا چھتیس روپے بچاتاہے اور اگر کوئی سو روپے دینے والا تھاتووہ سات سال میں ایک سو اسی روپے بچاتا ہے ۔
پس اس کے فعل کی حکمت تو میری سمجھ میں آسکتی ہے مگر یہ جو برابر چندہ دیتے چلے جاتے ہیں اور ہر سال مثلاًپانچ روپے یادس روپے ہی چندہ دے دیتے ہیں انکا یہ طریق میری سمجھ میں نہیں آتاکیونکہ وہ محض پیسے کی زیادتی سے بھی یا ایک آنہ یا چار آنہ یاایک روپیہ کی زیادتی سے بھی سابقون میںشامل ہو سکتے تھے۔اگر وہ ہر سال ایک پیسہ کی ہی زیادتی کریںتو سات سال میں سواپانچ آنے کی ز یا دتی بنتی ہے۔ اب میرے لئے یہ تسلیم کرنا بالکل ناممکن ہے کہ وہ شخص جو سات سال میں۳۵روپے چندہ دے دیتا ہے وہ سو اپانچ آنے زائد چندہ نہیں د ے سکتا تھا یقیناًسات سال میں ۳۵روپے چندہ دینے والوں میں سے ایک شخص بھی ا یسا نہیں ملے گا جو سات سال میں سوا پانچ آنے زائدنہ دے سکتاہو مگرافسوس ہے کہ معمولی سی غفلت کی وجہ سے لوگ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ نَ کے ثواب سے محر وم ہو جاتے ہیںاور اگر کوئی شخص ایک پیسے کی بجائے ایک آنہ کی زیادتی کرے تو وہ یوں کر سکتا ہے کہ اگر اس نے پہلے سال پانچ روپے دئیے ہیں تو دوسرے سال پانچ روپے ایک آنہ دیدے، تیسرے سال پانچ روپے دو آنے، چوتھے سال پانچ روپے تین آنے، پانچویں سال پانچ روپے چار آنے، چھٹے سال پانچ روپے پانچ آنے، ساتویں سال پانچ روپے چھ آنے، اس طرح سات سالوں میں ایک روپیہ پانچ آنہ کی زیادتی ہوتی ہے اور یہ زیادتی کوئی ایسی نہیںجو ناقا بلِ برداشت ہو بلکہ جو شخص سات سال میں سترّروپے چندہ دے سکتا ہے وہ آسانی سے ایک روپیہ نو آنہ سات سال میں اور بھی ادا کر سکتاہے۔
پس میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جو دوست یکساں چندہ دے رہے ہوں وہ ذرا سی زیادتی کر کے اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن میں شا مل ہو سکتے ہیں اگر انہوں نے پچھلے سال پانچ روپے دئیے تھے تو اس سال وہ اپنے چندہ کو پانچ روپے ایک آنہ بنا سکتے ہیں یا اگر اتنی زیادتی بھی وہ نہیں کر سکتے تو پانچ روپے ایک پیسہ کر دیں کیونکہ سابقون کیلئے محض زیادتی کی شرط ہے مقدار کی تعین نہیں۔بعض لوگ الفاظ غور سے نہیں سنتے اور اس وجہ سے دھو کا کھا جاتے ہیں جیسے امانت فنڈ میں حصہ لینے والے اب شور مچا رہے ہیں کہ ہمیں ہمارا روپیہ واپس کیا جائے حالانکہ اگر وہ غو ر سے میرے خطبات کو پڑھتے تو متواتر کئی خطبات میں میں نے بتایا تھا کہ یہ میرا اختیار ہو گا کہ میں اگر چاہوں تو امانت روپیہ کی صورت میںہی انہیں واپس کروں اور چاہوں تو جائیداد کی صورت میں واپس کروں مگر انہوںنے اس بات کو نہ سمجھا اور اب شور مچا رہے ہیں کہ ہمیں روپیہ ہی دیا جائے جائیداد ہم لینے کیلئے تیار نہیں۔
اسی طرح چندہ میں زیادتی کے متعلق بھی بعض لوگ سمجھتے ہیںکہ شاید سابقون میں شامل ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ انہوں نے اگر پہلے پانچ روپے چندہ دیا ہے تو اب چھ دیں یا سات دیں حالانکہ سابقون میں شامل ہونے کے لئے ایسی کوئی شرط نہیں صرف زیادتی کی شرط ہے خواہ وہ پیسے سے ہو یا آنہ سے ہو یا زیادہ سے ہو بلکہ پیسہ سے کم ہمارے ہاں کوئی سکہ استعمال نہیں ہوتا ورنہ میں توکہتا کہ ایک آدھی یا ایک پائی سے بھی زیادتی کی جاسکتی ہے۔پرانے زمانہ میں کوڑیاں استعمال ہؤا کرتی تھیں آجکل انکا رواج نہیں لیکن اگر ان کا رواج ہوتا تو اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْن میں شامل ہونے کے لئے یہی کافی تھا کہ وہ ایک کوڑی زائد دے دیتے مقصد یہ ہے کہ چندہ پہلے سے زیادہ دیا جائے خواہ یہ زیادتی ایک آدھی سے ہو خواہ پائی سے خواہ ایک کوڑی سے ہو یہ انسان کے اپنے حالات پر منحصر ہے کہ وہ جس قسم کی چاہے زیادتی اختیار کر سکتاہے۔ پس دوستوںکو چاہئے کہ چندہ میں زیادتی کے متعلق وہ میرا نقطہ نگاہ سمجھ لیں اور جن دوستوں سے اپنے گزشتہ سالوں کے چندہ میں غلطی ہوئی ہے وہ اس کی اصلاح کر لیں۔
میں نے بتایا ہے کہ یہ اصلاح اتنی آسان ہے کہ بغیر کسی بوجھ کے اسے اختیار کر سکتے ہیں اور سوائے ان لوگوں کے جو اپنے حالات کی وجہ سے کمی کرنے پر مجبور ہیںباقی سب دوست چندپیسوں یا چند آنوں کے ساتھ ہی اپنی غلطی کو دورکر سکتے ہیںاور اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن میں شامل ہوسکتے ہیں تو یہ بات میں واضح کر دینا چاہتا ہوں تاکہ جو دوست غلطی کی وجہ سے اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ نمیں شامل ہونے سے محروم رہے ہیں وہ اب اپنی غلطی کا ازالہ کرکے سابقون میں شامل ہوجائیں۔
دوسری بات اس سلسلہ میں مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ زیادتی بھی دو قسم کی ہے ایک تو وہ دوست ہیں جنہوں نے پہلے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ چندہ انہوں نے دوسرے سال دیا اور دوسرے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ چندہ انہوں نے تیسرے سال دیا اور تیسرے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ چندہ انہوں نے چوتھے سال دیااور چوتھے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ انہوں نے پانچویں سال دیا ان کے لئے اگر وہ سابقون میں شامل ہونا چاہیں تو یہی قاعدہ ہے کہ وہ اب دسویں سال تک اپنے چندہ کو پہلے سالوں سے بڑھاتے چلے جائیں کیونکہ انہوں نے چوتھے سال میں آکر تیسرے سال سے کم چندہ نہیں دیا تھا بلکہ زیادہ دیا تھا۔
پس چونکہ انہوں نے ایک حلقہ اپنے لئے پسند کر لیا ہے اسلئے اب ان کی زیادتی اس صورت میں زیادتی متصور ہوگی کہ جب وہ ہر سال پہلے سال سے زیادہ چندہ دیںگے۔لیکن ایک وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے تین سالوں میں تو اپنے چندوں میںزیادتی کی لیکن چوتھے سال آکر میری رعایت سے فائد ہ اٹھا کر انہوں نے اتنا ہی چندہ دیا جتنا انہوں نے تحریک جدید کے سال اول میں دیا تھا۔مثلاََپہلے سال انہوں نے پانچ روپے دیئے تھے،دوسرے سال انہوں نے دس روپے دیئے اور تیسرے سال پندرہ لیکن چوتھے سال آکر پھر انہوںنے پہلے سال کے چندہ کے مطابق میری رعایت سے فائدہ اٹھا کر صرف پانچ روپے ہی چندہ دیا ایسے لوگوں نے چونکہ میری مقرر کردہ رعایت اور قانون کے مطابق چوتھے سال اپنے چندہ میں کمی کی اس لئے اب انکی زیادتی پانچویںسال سے شمار ہوگی اور وہ اگر چاہیں تو اب کے پانچ روپے کی جگہ پانچ روپے ایک آنہ دے کر یا پانچ روپے چار آنے دے کر یا چھ روپے دے کر یا سات روپے دے کر یا آٹھ روپے دے کر اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن میںشامل ہوسکتے ہیں بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ پانچ روپے ایک پیسہ دے کر بھی ایک شخص اپنے چندہ میں اضافہ کر سکتا ہے اور ایساشخص زیادتی کرنے والوں میں ہی شمار ہوگا بشرطیکہ اب وہ آئندہ سالوں میں کمی نہ کرے بلکہ ہر سال اپنے چوتھے سال کے چندہ پر اضافہ کر تا چلا جائے۔ غرض شرط یہ نہیں کہ تیسرے سال اس نے جتنا چندہ دیا تھا اس پر اضافہ کرے بلکہ چوتھے سال اس نے جتنا چندہ دیا تھا اگر آئندہ سالوں میں وہ اس پر زیادتی کرتا رہتا ہے تو وہ بھی سابقون میں ہی شمار کیا جائے گا۔پس ایسے لوگوں کے لئے اصل زیادتی تیسرے سال پر نہیں بلکہ چوتھے سال کے چندہ پر سمجھی جائے گی مثلاََ اگر کسی شخص نے پہلے سال پانچ روپے چندہ دیا تھا دوسرے سال اس نے دس روپے دیئے اور تیسرے سال بیس لیکن چوتھے سال پھر اس نے پانچ دے دیئے تو اب اگر وہ زیادتی کرنا چاہے تو پانچ پر ہی کر سکتا ہے اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ بیس پر زیادتی کرے کیونکہ اس نے چوتھے سال اپنے چندہ میں جو کمی کی تھی وہ اجازت اور قانون کے ماتحت کی تھی۔ میں نے اس امر کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں کو فکر لگ گیا ہے کہ ہم نے جو چوتھے سال چندہ دیا تھا وہ تیسرے سال سے بہت کم ہے اب اگر ہم تیسرے سال کے چندہ پر زیادتی کریں تو ہم پر بہت زیادہ بار پڑجائیگا۔ میں ایسے دوستوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر انہوں نے چوتھے سال کم چندہ دیا ہے تو یہ ان کی زیادتی میںحارج نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے یہ کمی میری دی ہوئی رعایت کے مطابق کی تھی پس وہ اب تیسرے سال کے چندہ پر نہیں بلکہ چوتھے سال کے چندہ پر اگر دسویں سال تک زیادتی کرتے چلے جائیں گے تو اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ ن کی فہرست میں آجائیںگے بشرطیکہ پہلے تین سالوں میں بھی ہر سال زیادتی ہوتی چلی گئی ہو۔یا اب وہ زیادتی کر دیں مگر شرط یہی ہے کہ انہوں نے چوتھے سال قانون کے مطابق کمی کی ہو۔ لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ جس نے چوتھے سال بھی کمی نہیں کی تو اسے ا جازت نہیں کہ وہ پیچھے ہٹے بلکہ اب وہ اس صورت میں اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ نمیں شامل رہ سکتا ہے کہ جب ہر سال وہ اپنے چندہ میں اضافہ کرتا چلا جائے۔ جیسے میں نے دوسرے سال پہلے سال سے زیادہ چندہ دیا تھا، تیسرے سال دوسرے سال سے زیادہ چندہ دیا،چوتھے سال تیسرے سال سے زیادہ چندہ دیا اور پانچویں سال چوتھے سال سے زیادہ چندہ لکھا یاہے۔پس میں اور میری قسم کے دوسرے دوست جنہوں نے چوتھے سال بھی کمی نہیںکی بلکہ تیسرے سال کے چندہ پرزیادتی کی تھی وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ اب آئندہ ہر سا ل اضافہ ہی کرتے چلے جائیںاور پانچویںسال میں چوتھے سے اور چھٹے سال میں پانچویںسے اور ساتویں سال میںچھٹے سے اور آٹھویں سال میں ساتویں سے اورنویں سال میں آٹھویں سے اور دسویں سال میں نویں سے زیادہ چندہ دیں خواہ زیادتی کتنی ہی قلیل ہو۔لیکن جنہوں نے چوتھے سال اپنا چندہ پہلے سال کے برابر کر دیا تھا لیکن دوسرے اور تیسرے سال بڑھتے چلے گئے تھے ان کی راہ میں چوتھے سال کے چندہ کی کمی کوئی روک نہیں ہوگی بلکہ چوتھے سال سے انکا نیادور شروع ہوگا اور انکی زیادتی ، زیادتی ہی تصور ہوگی اگر انہوں نے چوتھے سال کے چندہ سے پانچویں سال میں کچھ زیادہ چندہ دیا ہو۔
یہ دو تشریحیں ہیں جو آج میں کر دینا چاہتا ہوںکیونکہ بہت سے دوستوں نے ملاقات کے وقت مجھ سے اس بارے میں دریافت کیا ہے اور بعض نے رُقعے لکھ کر بھی سوالات کئے ہیںاور چونکہ میںدیکھتا ہوںکہ تحریک جدید کی اہمیت معلوم ہونے کے بعد بہت سے دوستوں کے دلوںمیں یہ احساس پیدا ہوگیا ہے کہ وہ بھی اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّ لُوْ نمیں شامل ہوں اسلئے میںنے یہ تشریحات کر دی ہیں اور ان کی راہ میں جو روکیں حائل تھیں انہیں دور کر دیا ہے۔میںان دونوں قسم کی زیادتی کو ایک نقشہ کے ذریعہ سے بھی حل کر دیتا ہوں اور پانچ روپے چندہ دینے والوں کی مثال کی دونوں صورتیں بیان کردیتا ہوں۔اول نقشہ یہ ہے کہ ایک شخص نے پہلے سال پانچ روپے دیئے، دوسرے سال پانچ روپے ایک آنہ یادو آنہ یاچارآنہ زیادتی کی، تیسرے سال پھر زیادتی کی مگر چوتھے سال پھرپانچ روپے چندہ دیاچھٹے سال پانچ روپے ایک آنہ یا دو آنہ یا چار آنہ چندہ دیااور پانچویں سال اس سے زیادہ اور آخر تک پھر بڑھاتے چلے گئے انکا چوتھے سال کا چندہ گو تیسرے سال سے کم ہے لیکن چونکہ یہ پہلے تین سالہ دور میں بھی چندہ بڑھاتے رہے ہیں اور دوسرے سالہ دور میں بھی چندہ بڑھاتے رہے ہیںباوجود چوتھے سال میں کمی کر دینے کے یہ لوگ سابقون میں شمار ہونگے کیونکہ دونوں دور مستقل صورت رکھتے ہیں اور دونوںدورمیں وہ چندہ بڑھاتے چلے گئے ہیں۔دوسری مثال یہ ہے کہ ایک شخص نے پہلے سال میںپانچ روپے چندہ دیا دوسرے میں پانچ روپے ایک آنہ تیسرے میںپانچ روپے ۲آنے، چوتھے میں پانچ روپے تین آنے اور پانچویں میں پانچ روپے ۴آنے اور آخر دور تک وہ کچھ نہ کچھ زیادتی پہلے سال کے چندہ میں کرتے چلے گئے یہ بھی سابقون میںسمجھے جائیں گے کارکنوں کو چاہئے کہ وہ اس امر کو اچھی طرح جماعت کے ذہن نشین کر دیں تاکہ عدم علم کی وجہ سے وہ دوست جو زیادہ ثواب میں حصہ لیناچاہیں اس سے محروم نہ رہ جائیں۔
میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جو دوست اس دوران میںفوت ہو جائیں انکی نسبت سمجھا جائے گاکہ وہ آخر تک چندہ دیتے رہے ہیں اور وہ اپنی زندگی میں جس قسم کے چندہ دہندوں کی قسم میں آرہے تھے اسی قسم میں ان کا نام شامل کیا جائے گا اور یہ نہ کہا جائے گا کہ انہوں نے پورے دس سال چندہ نہیں دیا۔کیونکہ ثواب نیت پر ہوتا ہے نہ کہ اس عمل پر جو انسان کے اختیار میں نہ ہو۔
اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوںکہ اس سال کے جلسہ میںایک غیر معمولی تبلیغ ہوئی ہے جو پہلے سالوں میں نہیں ہؤا کرتی تھی اور وہ ہندوؤں اور سکھوں کو تبلیغ ہے۔اس سال ہمارے جلسہ میں ہندوؤں اور سکھوں میں سے ایک معقول تعداد شامل ہوئی ہے۔معقول کالفظ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد کے لحاظ سے استعمال نہیں کررہا۔بلکہ پہلے زمانہ کے لحاظ سے استعمال کر رہا ہوں۔پندرہ بیس ہندو اور سکھ دوست اس دفعہ ہمارے اس جلسہ میں شامل ہوئے اور وہ مجھ سے بھی ملے اور لیکچروں میں بھی شامل ہوتے رہے۔ان میں سے بعض تو درمیان میں چلے گئے مگر بعض آخر تک ٹھہرے رہے۔ان ہندوؤں اور سکھوں میں بیرسٹر بھی تھے،وکلا بھی تھے،انجینئر بھی تھے،ڈاکٹر بھی تھے،زمیندار بھی تھے، غرض ہر قسم کے لوگ ان میں شامل تھے۔ ہندوؤں میں چونکہ ایک لمباعرصہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری ہے اور مسلمانوں سے وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہیںاس لئے ہندو تعلیم یافتہ طبقہ مسلمان تعلیم یافتہ طبقہ سے زیادہ سنجیدہ ہے۔ مسلمانوں میںابھی چھچھورا پن پایا جاتا ہے لیکن ہندوؤں میں چونکہ دیر سے تعلیم میں ترقی ہو رہی ہے اس لئے اس تعلیم کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان میں ایک ایسا وقار پیدا ہو گیا ہے جو بالعموم مسلمانوںمیں نظر نہیں آتا۔ہندوؤں میں اس روح کا پیدا ہو جانا اور پھر ان کا ہمارے پاس ہی ٹھہرنا ہمارے لئے بہت بڑی خوشی کا موجب ہے۔ایک ہندو صاحب کو تو میں دیکھ کر حیران رہ گیا وہ میری تقریر کے باقاعدہ اسی طرح نوٹ لیتے رہے جس طرح باقی احمدی دوست نوٹ لیتے رہے تھے۔
پس یہ ایک نیا سلسلہ شروع ہؤا ہے جسے میرے نزدیک زیادہ سے زیادہ ترقی دیتے چلے جانا چاہئے۔پچھلے آٹھ دس سال میں ہم نے غیر احمدی اصحاب کو یہاں لانے کی کوشش شروع کی ہے اور اس میں ہمیں بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔چنانچہ ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں غیر احمدی آتے اورسینکڑوں ہی بیعت کر کے جاتے ہیں۔نصف کے قریب تو ضرور ہی بیعت کر کے جاتے ہیں۔گو اگر صحیح کوشش کی جائے تو میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ لوگ بیعت کر سکتے ہیں۔مگر نقص یہ ہے کہ جو دوست انہیں اپنے ہمراہ لاتے ہیں وہ ان کی نگرانی نہیں کرتے۔اگر وہ نگرانی رکھیں اور انہیں جلسوں اور لیکچروں میں توجہ سے بٹھائیں تو اسّی نوّے فیصدی بلکہ سو فیصدی کی بیعت کی امید کرنا بے جا نہ ہوگا۔مگر ابھی ان غیر احمدی دوستوں کو اپنے ہمراہ لانے والے اس امر کی طرف صحیح متوجہ نہیں ہوئے کہ ان کا کوئی وقت ضائع نہ ہونے دیں اور کوشش کریں کہ وہ جلسہ سے پورا فائدہ اٹھائیں لیکن پھر بھی میں نے دیکھا ہے کہ پچاس فیصدی لوگ بیعت کر کے ہی واپس جاتے ہیں۔بعض لوگ پہلے دن سے ہی شکایت کرتے ہیں کہ ہم فلاں غیر احمدی دوست کو اپنے ہمراہ لائے تھے مگر وہ متأثر نہیں ہؤا لیکن دوسرے ہی دن وہ پھر آجاتے ہیں اور کہتے ہیں آج آپ کی تقریر سن کر یا دوسرے دوستوں کی تقریریں سن کر ان کا سینہ کھل گیا ہے۔اِن کی بیعت لی جائے اور جو دوسرے دن بھی رہ جاتا ہے اس کا تیسرے دن سینہ کھل جاتا ہے اور وہ بیعت کر لیتا ہے۔
پس یہاں آنے کے بعد بہت سے لوگوں کے دل کھل جاتے ہیں اور سوائے ان کے جو بھاگ جائیں۔باقیوں میں سے اکثر بیعت کر کے ہی واپس لوٹتے ہیں لیکن کئی ایسے ہوتے ہیں جو سالہا سال آتے رہتے ہیں اور بیعت نہیں کرتے آخر کئی سالوں کے بعد وہ بیعت میں شامل ہوتے ہیں۔چنانچہ اسی سال ایک صاحب نے بتایا کہ میں آٹھ سال سے جلسہ سالانہ پر آرہا ہوںمگر بیعت کی مجھے آج توفیق ملی ہے۔ایک اور صاحب نے بتایا کہ میںتین چار سال سے آرہا ہوںاور باقاعدہ ہر جلسہ میں شامل ہوتا رہا ہوںلیکن بیعت میں آج کر رہا ہوں۔تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو سالہا سال آتے رہتے ہیں اور بیعت میں شامل نہیں ہوتے لیکن ایسے لوگوں کو بھی دراصل بیعت میں ہی سمجھنا چاہئے کیونکہ جب وہ ایک دفعہ یہاں آئے تو پھر وہ اس بات پر مجبور ہوگئے کہ یہاں بار بار آئیں اور وہ ہر دفعہ ہم سے کچھ لینے کے لئے آموجود ہوئے۔پس گو وہ بیعت میں شامل نہ تھے مگر ان کا معاملہ ایسا ہی تھا جیسے بیعت والوں کا ہوتا ہے انہوں نے بھی جب قادیان کو دیکھا تو پھر وہ اسے چھوڑ نہ سکے اور اس بات پر مجبورہوئے کہ باربار یہاں آئیں۔تو یہ تجربہ جواس دفعہ ہندوؤں اور سکھوں کے متعلق ہؤا ہے نہایت ہی کامیاب رہا ہے اور ضرورت ہے کہ اس پر زیادہ زور دیا جائے۔یہ ایک نیا تجربہ ہے اوراس بات کا متقاضی ہے کہ ہم لوگ اس کی طرف زیادہ توجہ کریں۔سب سے پہلے صرف ایک ہندو دوست ہمارے جلسہ پر آئے تھے۔جس پر ہم نے بڑی خوشی کا اظہار کیا وہ دوست اب ہیں تو احمدی لیکن ان کا نام ہندوانہ ہی ہے۔اسی طرح ایک اور ہندو دوست ہیں وہ ابھی احمدی نہیں ہوئے لیکن انہیں احمدیت کی سچائی کا احساس شروع ہو گیا ہے۔چنانچہ اُس نے مجھے ایسے خط لکھنے شروع کر دئیے ہیںکہ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ مجھے آپ کی بیعت کر لینی چاہئے۔
ایک اور اسی قسم کے صاحب دہلی میں ہیں۔انہوں نے ذکر کیاکہ فلاں فلاں روک میرے رستہ میں حائل ہے اگر یہ دور ہو جائے تو میں آپ کی ضرور بیعت کر لوں۔ایک روک انہوں نے یہ بتائی کہ میری والدہ زندہ ہیںاور میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں نے احمدیت قبول کی تو انہیں صدمہ ہوگا۔پس ایک طرف میرا جی چاہتا ہے کہ وہ زندہ رہیںاور دوسری طرف میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں۔کہ وہ ایک صداقت کے قبول کرنے میں روک بن رہی ہیںتو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوؤںمیں ایک تغیر محسوس کرتا ہوں۔بعض ہندو دوست ہمارے جلسہ پر چار چار پانچ پانچ سال آتے رہے اور آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں صداقت قبول کرنے کی توفیق دے دی یا صداقت قبول کرنے کے لئے وہ بہت حد تک تیار ہو گئے مگر تبلیغ کے صرف یہ معنی نہیں ہوتے کہ کوئی مسلمان ہو جائے۔ہماری جماعت میں سے کئی ایسے دوست ہیںجو ہندو اور سکھ صاحبان کو اپنے ہمراہ لانے میں اس لئے کوتاہی کر جاتے ہیںکہ وہ خیال کرتے ہیں کہ انہوں نے کونسا مسلمان ہو جانا ہے حالانکہ ہر تبلیغ میں ایک تعلیمی پہلو بھی ہوتا ہے جسے مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ آخر اس ملک میں ہندو بھی رہتے ہیں،مسلمان بھی رہتے ہیںاور دوسری قومیں بھی رہتی ہیں اب اگر تمام قوموں کے افراد ایک دوسرے سے ملیںگے نہیں تو انہیں ایک دوسرے کے حالات کا کیونکر علم ہوگا اور ایک دوسرے کے متعلق جو غلط فہمیاں پیدا ہو چکی ہیں وہ دورکس طرح ہونگی۔قادیان کو ہی دیکھ لو یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں میں سے بعض ہمارے خلاف جھوٹ بولتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان پر ہماری طرف سے مظالم توڑے جاتے ہیں اس طرح وہ اپنی تمام قوم کے لوگوں میں ہمارے خلاف اشتعال پیدا کرتے ہیں۔اب قدرتی طور پر اس پروپیگنڈے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ناواقف لوگ یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیںکہ واقعی میں قادیان میں جماعت احمدیہ کی طرف سے ہندوؤں اور سکھوں پر ظلم ہو رہا ہے لیکن اگر انہی کے ہم مذہب آدمی یہاں آئیں اور وہ ہمارے سلوک کو دیکھیں تو وہ خود بخود حقیقتِ حال سے آگاہ ہو جائیںگے اور سمجھ لیں گے کہ وہ لوگ جو خود اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کر رہے ہیں،ظالم ہیں اور جن کو ظالم کہا جاتا ہے وہ مظلوم ہیں۔تو صرف یہی نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی احمدی ہوتا ہے یا نہیںبلکہ یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ان تعلقات کے نتیجہ میں ملک کے امن میں ترقی ہوتی ہے اور وہ تنافر دور ہو جاتا ہے جو ہندوؤں سکھوں اور مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے متعلق پایا جاتا ہے۔ پچھلی دفعہ ایک ہندو اخبار کے ایڈیٹر ہمارے جلسہ پر آئے اور انہوں نے واپس جاکر اپنے اخبار میں لکھا کہ ہمیں تو یہ بتایا جاتا تھا کہ احمدی بڑے وحشی ہوتے ہیں مگر ان کا جلسہ دیکھنے کے بعد میری یہ رائے ہے کہ یہ درست نہیں۔احمدی بڑے اچھے ہوتے ہیں اور ان کی خواہش ہے دنیا میں نیکی ترقی کرے اور ملک میں امن قائم ہو۔اب چاہے وہ کتنے ہی متعصّب ہوں کسی مجلس میںجب یہ کہا جائے گا کہ احمدی ظالم اور بد اخلاق ہوتے ہیں تو وہ کہیں گے بالکل غلط ہے۔میں خود ان کے جلسہ میں شامل ہؤا اور میں اپنے مشاہدہ کے رو سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ بالکل جھوٹ ہے جو ان کے متعلق کہا جاتا ہے۔تو یہ بھی ہندوؤں اور سکھوں کے یہاں آنے کا ایک فائدہ ہے اور درحقیقت بہت بڑا فائدہ ہے ۔پس اس بات سے گھبرانا نہیں چاہئے کہ اگر ہم انہیں ہمراہ لائے تو وہ احمدی نہیں ہونگے۔بے شک وہ احمدی نہ ہوں لیکن یہ ضرور فائدہ حاصل ہوگاکہ ہماری جماعت کے متعلق ان کی رائے بدل جائے گی اور وہ یہ اقرار کرنے پر مجبور ہونگے کہ جماعت احمدیہ کے متعلق مخالف جوکچھ کہتے ہیں وہ غلط ہے۔ پھر ایک اور بات بھی ہے جس کا ہمارے احمدی دوست اگر چاہیں تو تجربہ کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ جب وہ غیر احمدی دوستوں کو اپنے ہمراہ لاتے ہیں تو ان میں سے اکثر کا کرایہ انہیں خود ادا کرنا پڑتا ہے لیکن ہندو اکثر اپنے کرایہ پر آتے ہیں اور اپنے کرایہ پر ہی جاتے ہیں چونکہ انہیں علم کی قدر ہے اس لئے وہ ایسے موقعوں پر اپنی گرہ سے روپیہ خرچ کر کے نئے علوم حاصل کرنے کے لئے پہنچ جاتے ہیں مگر مسلمانوںمیں چونکہ تعلیم کی کمی ہے۔اس لئے انہیں کرایہ دے دے کر ساتھ لانا پڑتا ہے۔تو ہندو اور سکھ دوستوں کو اپنے ہمراہ لانے میں بہت بڑا فائدہ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں جلسہ سالانہ کے موقع پر یہاں آنے کی تحریک کی جائے۔غیر احمدیوں میں اپنا کرایہ خرچ کر کے آنے والوں کی تعداد کم ہوتی ہے اور ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو دوسروں کے کرایہ پر یہاں آتے ہیں مگر ہندوؤں میں ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو اپنے کرایہ پر یہاں آتے ہیں اور ان لوگوں کی تعداد کم ہے جو دوسروں کے کرایہ پر یہاں آتے ہیں۔
پس اگر ہندو دوستوں کو آئندہ کوشش کر کے اپنے ہمراہ لایا جائے تو وہ ہماری جماعت کے دوستوں پر بوجھ بھی نہیں بنیں گے اور فائدہ بھی زیادہ ہوگا۔بے شک وہ مسلمان نہ ہوںلیکن اگر وہ یہ سمجھ کر یہاں سے جائیں کہ احمدی ایسے برے نہیں ہوتے جیسا کہ ان کو سمجھا جاتا ہے تو میںسمجھتا ہوں یہ بھی ایک بہت بڑا فائدہ ہے۔ایسا شخص ہر جگہ ہمارا ایک قسم کا مبلّغ ہوتاہے اور جب بھی جماعت پر کوئی اعتراض ہو رہا ہو تو وہ اس کا رد کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ایک ہندو صاحب اسی جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے تھے،دوستوں نے سنایا کہ یہ ہر وقت ہماری ہی تبلیغ کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے وہ دلائل یاد کر لئے ہیں جو وفات مسیح وغیرہ کے ثبوت میں ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں اور جب کوئی ایسا موقع پیش آتا ہے جب کسی غیر احمدی مولوی سے وفات مسیح پر بحث کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں مرکز سے مبلغ کیا منگوانا ہے میں اس سے بحث کرتا ہوں۔چنانچہ وہ قرآن کریم کے رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کرنے لگ جاتے ہیںاور ایسی اعلیٰ درجہ کی بحث کرتے ہیںکہ مخالف مولوی لاجواب ہوتے ہیں۔دوستوں نے سنایاکہ ان میں تبلیغ کا ایسا اعلیٰ ملکہ پیدا ہوگیا ہے کہ مخالف مولویوں کا ناطقہ بند کر دیتے ہیں۔اسی طرح سیالکوٹ کے ضلع میں ایک ہندو صاحب ہیں اُن کے متعلق بھی دوستوں نے بتایاکہ انہوںنے اسلامی مسائل خوب یاد کر لئے ہیںاور مخالفوں سے ہماری جگہ بحثیں کرتے رہتے ہیں۔تو یہ ایک بھاری فائدہ ہے جو اس دفعہ ہمیں حاصل ہؤا ہے اور میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوںکہ وہ آئندہ ہندو صاحبان کو بہت کثرت کے ساتھ اپنے ہمراہ لانے کی کوشش کریں۔ہم ان کے کھانے کا الگ انتظام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ایک ہندو باورچی رکھ کر ان کے لئے کھانا تیار کیا جا سکتاہے۔گو اب ہندوؤں کا تعلیم یافتہ طبقہ مسلمانوں کے ساتھ کھانے پینے لگ گیا ہے لیکن پھر بھی ان کے لئے الگ انتظام کیا جاسکتا ہے۔گو اس دفعہ ہندودوستوں کے لئے جب الگ انتظام کیا گیا تو ان میں سے بعض نے انکار کر دیا اور کہا کہ جس طرح باقی لوگ رہتے ہیںہم اسی طرح رہیں گے ہمارے لئے کسی الگ انتظام کی ضرورت نہیں۔درحقیقت اس قوم میں دیر سے تعلیم ہونے کی وجہ سے وقار پیدا ہوگیا ہے اور ایسی سعادت کے آثار ان میں پائے جاتے ہیں جو بہت ہی قابلِ تعریف ہیں لیکن پھر بھی ہم ہندو دوستوں کے لئے الگ انتظام کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ آئندہ سال خصوصیت کے ساتھ ہندو دوستوں کو اپنے ہمراہ لانے کی کوشش کریں۔غرض تبدیلی مذہب کے نقطہ نگاہ سے ہر بات کو نہیں دیکھنا چاہئے اور محض اس وجہ سے ان کو اپنے ہمراہ لانے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے کہ انہوں نے کونسا مسلمان ہو جانا ہے کیونکہ ان کو یہاں لانے کی غرض صرف یہی نہیں کہ وہ مسلمان ہو جائیں بلکہ ہماری غرض یہ بھی ہے کہ وہ احمدیت کا نقطہ نگاہ سمجھنے کے قابل ہو جائیں اور انہیں پتہ لگ جائے کہ ہم کیا کہتے ہیں۔پس میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلادیتا ہوں اور چونکہ آج بہت سے دوستوں نے ساڑھے تین بجے کی گاڑی سے واپس جانا ہے اس لئے خطبہ کوختم کرتا ہوں۔ہاں یہ اعلان کر دینا چاہتا ہوںکہ میں جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی عصر کی نماز جمع کر کے پڑھاؤں گا تاکہ وہ دوست جنہوں نے جانا ہے جا سکیں۔
(الفضل۱۷؍جنوری ۱۹۳۹ئ)
 
Top