• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 26

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 26



1
تبلیغ دین کا کام صرف روپیہ سے نہیں بلکہ آدمیوں سے چل سکتا ہے
(فرمودہ 5جنوری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘سردی کی وجہ سے میری طبیعت ناساز ہے اور منہ اور ہاتھوں پر ورم ہو گیا ہے۔ اور اس لئے مجھے سردی میں باہر تو نہ آنا چاہیے تھا۔ مگر چونکہ یہ جمعہ نئے سال کا پہلا جمعہ ہے اس لئے میں نے یہی مناسب سمجھاکہ میں اس نئے سال کے متعلق جماعت کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں۔
بعض باتیں بڑی صاف اور واضح ہوتی ہیں۔ مگر وہ جتنی صاف اور واضح ہوتی ہیں اتنی ہی ان کی طرف سے انسان کی طبیعت غافل کہویا ناواقف کہو ہوتی ہے۔
موت ایک ایسی چیز ہے جو ساری دنیا کی چیزوں میں سے جو زیادہ یقینی چیزیں ہیں ان میں سے ہے۔ کیونکہ ہر ایک چیز بدل بھی جاتی ہے اور اس میں فرق بھی پڑ جاتا ہے مگر موت نہیں ٹل سکتی۔دنیا میں سرد ہوائیں چلتی ہیں جو جگر و گُردوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ہزاروں انسان سرد ہواؤں کی وجہ سے زکام اور نزلہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہزاروں انسان بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہزاروں کے جگر اور گُردے خراب ہو کر وہ سُوء القنیہ اور البیومنریا 1 ( Albuminuria)
سے بیمار ہو جاتے ہیں، ہزاروں کو نمونیہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ہزاروں ہزار انسان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ سرد ہواؤں کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جانے والوں کی نسبت بظاہر کمزور ہوتے ہیں۔ مگر سرد ہواؤں کا ان کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہیں ہوتا۔ ان کی صحت نسبتاً ان لوگوں سے کمزور ہوتی ہے جو سرد ہوائیں چلنے کی وجہ سے نزلہ، زکام، نمونیہ، بخار، یا جگر اور گردوں کی خرابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مگر ان سرد ہواؤں کی وجہ سے ان کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہیں ہوتا۔ ملیریا کا موسم آتا ہے۔ کئی موٹے تازے اور اچھی صحت کے لوگ ملیریا کا شکار ہو جاتے ہیں اور کئی کئی روز تک بستر پر پڑے رہتے ہیں۔ مگر کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو بظاہر دبلے پتلے ہوتے ہیں اور ایسے کمزور نظر آتے ہیں کہ ان کے جسم کی ہڈیاں گِنی جا سکتی ہیں۔ اور جو عام طور پر بیماریوں کا شکار رہتے ہیں مگر ملیریا کے موسم میں سے سلامت گزر جاتے ہیں۔ یہی حال سب وباؤں اور سب امراض کا ہوتا ہے وہ بعض لوگوں پر حملہ کرتی ہیں اور بعض کو چھوڑ جاتی ہیں۔ ہندوستان میں جب انفلوئنزا (Influenza)پھیلا تو اکثر گھر ایسے تھے کہ جن کے سارے کے سارے افراد اس میں مبتلا ہو گئے۔ پھر کئی گھر ایسے تھے کہ ان میں بعض افراد بیمار ہو گئے اور بعض تندرست رہے۔ اور کچھ ایسے بھی تھے کہ جن میں کوئی بھی بیمار نہ ہوا۔ تو ہر وباء اور ہربیماری کچھ نہ کچھ لوگوں کو چھوڑ دیتی ہے اور کچھ لوگوں کو اپنا شکار بنا لیتی ہے۔ مگر موت ایک ایسی چیز ہے کہ جو کسی کو نہیں چھوڑتی، کوئی گھر، کوئی خاندان، کوئی بستی ، کوئی قوم اور کوئی ملک ایسا نہیں کہ جس پر موت نازل نہ ہوئی ہو۔ اور جس کے گزشتہ لوگ مر نہ چکے ہوں اور جس کے موجودہ لوگ آئندہ زمانہ میں مرنے والے نہ ہوں۔
پس موت تو ایک یقینی چیز ہے۔ مگر دیکھو دنیا میں اکثر لوگ کس طرح موت کو بُھلائے رکھتے ہیں۔ انہیں بیماریوں کا فکر ہوتا ہے۔ اپنی تجارتوں اور ملازمتوں کا فکر ہوتا ہے۔ ملازمتوں کے سلسلہ میں کسی الزام کے لگ جانے کا فکر ہوتا ہے۔ ترقیات نہ ملنے کا فکر ہوتا ہے اور دنیا کے کاموں کافکر ہوتا ہے مگر موت کا خیال ان کے دل میں نہیں آتا۔ حالانکہ موت ایک ایسی چیز ہے جو سب سےز یادہ یقینی اور قطعی ہے۔ مگر یا تو اس کی عمومیت کی وجہ سے لوگوں کی نظروں سے وہ اوجھل ہوتی ہے اور یا شدتِ دشت کی وجہ سے لوگ اس کا خیال بھی دل میں نہیں آنے دیتے تا زندگی خراب نہ ہو جائے۔ یا پھر یہ بات ہے کہ دنیا کی دلچسپیاں اور دنیا کی امنگیں اتنی زبردست ہوتی ہیں کہ وہ موت کے خیال کو پاس پھٹکنے نہیں دیتیں۔
ایسی ہی اَور بہت سی چیزیں ہیں جو موت ہی کی طرح قطعی اور یقینی ہوتی ہیں مگر انسان ان کے خیال کو پاس نہیں آنے دیتا۔ گرنے والے اور زوال پذیر ہونے والے خاندان جن کی جائدادیں بِکتی اور رہن ہوتی جاتی ہیں۔ جن کے نوجوان تعیّش کی زندگیاں بسر کرنے لگتے ہیں اور علم و تقویٰ کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور کام کاج سے جی چُرانے لگتے ہیں ہر دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ وہ گر رہے ہیں۔ سوائے ان کے جو ان خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو گر رہے ہوتے ہیں مگر اپنی حالت دیکھ نہیں سکتے۔ وہ گرتے چلے جاتے ہیں مگر اپنی حالت پر غور نہیں کرتے۔
ہماری جماعت کے سپرد جو کام ہے اس کے متعلق بھی ایک ایسی چیز ہے جو ایسی واضح ہے کہ اس کے بارہ میں کوئی شبہ نہیں مگر ابھی تک جماعت میں اس کا احساس پیدا نہیں ہوا۔ اور وہ ہے تبلیغی جدوجہد۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے نبیِٔ اشاعت قرار دیا ہے۔ اسلام کی اشاعت اور اظہار عَلَی الاَدیان کے آپ ہی کے زمانہ میں ہونے کے متعلق پیشگوئیاں ہیں۔ پھر آپ کا نام اللہ تعالیٰ نے سلطان القلم رکھا ہے۔ گویا کام کی دو ہی چیزیں ہیں۔ یعنی دعوۃ اور قلم۔ انہی دو سے اسلام کو دوسرے مذاہب پر غلبہ حاصل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے بیان اور تحریر دونوں چیزیں آپ کو دی ہیں اور ان دونوں سے ہی اسلام دوسرے مذاہب پر غالب ہو گا۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انہی دو سے آپ کی جماعت نے کام لینا ہے اور انہی ذرائع سے آپ کی جماعت کو ترقی حاصل ہو گی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ترقی کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ‘‘ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے۔ اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا ۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں۔ سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا۔ اور اب وہ بڑھے گا اور پُھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔’’2
اور یہ بات ظاہر ہے کہ اتنا بڑا کام سوائے اس کے نہیں ہو سکتا کہ وسیع پیمانہ پر تبلیغ کی جائے۔ اور پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ وسیع پیمانہ پر تبلیغ مبلغوں کے بغیر نہیں ہو سکتی۔اور پھر یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جو لوگ نئے جماعت میں شامل ہوں گے اُن کو دین سکھانے والوں کی بھی ضرورت ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ رات کو فرشتے آسمان سے اُتریں اور ان کو دین سکھا جائیں۔ یہ کام آدمی ہی کر سکتے ہیں اور آدمیوں نے ہی کرنا ہے۔ پس جہاں تبلیغ کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہے وہاں نئے داخل ہونے والوں کو دین سکھانے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے۔ کوئی شخص پورے طور پر کسی مذہب کو سیکھ کر اسے اختیار نہیں کیا کرتا۔ ہر وہ شخص جو مسلمان ہوتا ہے یا عیسائیت یا یہودیت کواختیار کرتا ہے وہ ان مذاہب کو پوری طرح سیکھ کر نہیں کرتا۔ دیگ میں سے چاولوں کے چند دانے ہی دیکھے جاتے ہیں اور پھر قیاس کر لیا جاتا ہے کہ تمام چاول پک چکے ہیں۔ اسی طرح کسی مذہب کو اختیار کرنے والا بھی اس کی پوری جزئیات سمجھ کر اختیار نہیں کرتا۔ جو لوگ حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے یا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لائے وہ ان کی تعلیمات کی پوری پوری جزئیات اور تفاصیل کو سمجھ کر ایمان نہ لائے تھے بلکہ بعض اصولی باتوں کو دیکھ کر لائے تھے۔ انہی باتوں کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ یہ دین سچا ہے۔ جس طرح دیگ میں سے چند دانے دیکھ کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ دیگ پک چکی ہے یا نہیں اسی طرح انہوں نے چند اصولی باتوں کو دیکھ کر ان مذاہب کا سچا ہونا تسلیم کر لیا اور ایمان لے آئے۔
سو فیصدی تسلی کر کے اگر ہر کام کیا جائے تو کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔ جو شخص دیگ کے تمام چاول انگلی کے نیچے دبا کر دیکھنا چاہے وہ مہمانوں کو اُسی دن کھانا نہ کِھلا سکے گا بلکہ ایک ماہ بعد کِھلا سکے گا۔ اور اتنے عرصہ تک چاول کھانے کے قابل رہ بھی نہیں سکتے سڑ جائیں گے۔ پس جو شخص سو فیصدی تسلی کرنا چاہے کہ ہر چاول پک گیا ہے وہ کبھی مہمانوں کی دعوت نہیں کر سکتا۔ جو شخص ہر بوٹی کو توڑ کر دیکھے اور ہر آلو کو انگلیوں میں دبا کر دیکھے کہ وہ اچھی طرح پک گیا ہے وہ بھی مہمانوں کو کھانا نہیں کِھلا سکتا بلکہ ایسا سالن کھانے سے مہمان کراہت کریں گے جس کی ہر بوٹی کا ٹکڑا ہاتھ سے توڑا گیا ہو اور جس کے ہر آلو کو انگلیوں سے دبا کر دیکھا گیا ہو۔ پس جس طرح آدمی دیگ کے ہر چاول اور ہر بوٹی اور ہر آلو کو نہیں دیکھا کرتا بلکہ چند ایک کو دیکھ کر ہی قیاس کر لیتا ہے اسی طرح جو لوگ کسی مذہب کو اختیار کرتے ہیں وہ صرف چند ایک اہم اصول اور مسائل کو دیکھ کر ہی اختیار کر لیتے ہیں تمام جزئیات اور تفاصیل کو نہیں سیکھا کرتے۔ وہ خیال کر لیتے ہیں کہ تفاصیل پھر سیکھیں گے۔ اسی طرح جو لوگ احمدیت میں داخل ہوں گے وہ سو فیصدی سیکھ کر نہیں ہوں گے بلکہ ان کے داخل ہونے کے بعد ان کو دین سکھانا ہمارا کام ہے۔ اور اگر کثرت سے لوگ داخل ہوں اور ان کو دین سکھانے والے نہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ان پر غالب نہیں آئے بلکہ وہ ہم پر غالب آگئے۔اسلام دوسرے مذاہب پر غالب نہیں آیا بلکہ اگر وہ عیسائیت سے آئے ہیں تو گویا عیسائیت اسلام پر غالب آگئی اور اگر نئے داخل ہونے والے ہندو مذہب سے آئیں گے تو ہندو مذہب اسلام پر غالب آگیا کیونکہ کسی قوم میں جن لوگوں کی کثرت ہو گی انہی کے خیالات پھیلیں گے۔ پس جو لوگ احمدیت میں بکثرت داخل ہوں گے اگر ہم ان کو دین سکھانے کا انتظام نہ کر سکے تو لازمی بات ہے کہ بجائے احمدیت کی تعلیم پھیلنے کے ان کے خیالات پھیل جائیں گے۔ اور اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ ہم میں داخل نہیں ہوئے بلکہ ہم ان میں داخل ہو گئے ہیں۔
بعض لوگ بہت حیرت سے پوچھتے ہیں کہ یہ ہوا کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے کا عقیدہ مسلمانوں میں پھیل گیا۔ یہ گویا ایک مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح ایک غیر اسلامی عقیدہ اسلامی بن گیا۔ یہ مثال ہمیں ہوشیار کرنے کے لئے ہے کہ غفلت کے باعث اِس طرح غیر احمدی عقائد احمدی عقائد بن سکتے ہیں اگر ہم آنے والوں کی اچھی طرح تربیت نہ کریں گے۔دیکھو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے کا غیر اسلامی عقیدہ اسلامی کس طرح بن گیا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ شروع میں جب خلافت کا نظام ٹُوٹا تو حکومت کا مرکز دمشق قرار پایا جہاں زیادہ تر عیسائی رہتے تھے۔ وہ مسلمان تو ہو گئے مگر چونکہ ان کی دینی تعلیم کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ تھا اس لئے ان کے بہت سے عقائد مسلمانوں میں پھیل گئے۔ اُس زمانہ میں عیسائیوں سے مسلمان ہونے والوں کی کثرت تھی۔ اگر شام میں دس عیسائیوں سے مسلمان ہونے والے تھے تو ایک عرب کا مسلمان تھا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ وہی عقائد زیادہ پھیل سکتے تھے جو دس کے ہوں۔ عیسائیوں سے مسلمان ہونے والوں کے دلوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت تھی۔ انہوں نے ان کی خدائی کا خیال تو ترک کر دیا مگر ان کی بڑائی کے سب عقائد کو نہ چھوڑا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے عقائد مسلمانوں میں بھی رائج ہو گئے۔ دیکھ لو ایسے تمام غلط عقائد جو آج مسلمانوں میں ہیں سب عیسائیوں والے ہی ہیں جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بڑائی پائی جاتی ہے۔ اگر کسی مسلمان سے پوچھا جائے کہ حضرت نوحؑ مُردے زندہ کرتے تھے؟ تو کہے گا نہیں۔ حضر ت ابراہیم ؑ مُردے زندہ کرتے تھے؟ وہ کہے گا نہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ کرتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کرتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ اگر پوچھو کوئی نبی کرتاتھا؟ تو وہ کہے گا ہاں حضرت عیسیٰ ؑ کرتے تھے۔ اسی طرح پوچھو کسی نبی نے کوئی مخلوق پیدا کی؟ حضرت نوحؑ نے حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت موسیٰؑ نے کوئی مخلوق پیدا کی؟ تو وہ انکار کرے گا۔ اگر پوچھا جائے کہ کسی نبی نے کی؟ تو کہے گا ہاں۔ کس نے؟ حضرت عیسیٰ ؑ نے۔ پوچھو کسی نبی کو علمِ غیب تھا؟ کوئی بتا سکتا تھا کہ کسی نے گھر میں کیا کھایا؟ کیا حضرت نوح ؑ یہ بات بتا سکتے تھے؟وہ کہے گا نہیں ۔ حضرت ابراہیمؑ بتا سکتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ بتا سکتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بتا سکتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ کوئی بتا بھی سکتا تھا؟ کہے گا ہاں ۔کون؟حضرت عیسیٰؑ۔ تو ایسی سب باتیں حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔کلمۃُ اللہ حضرت عیسیٰ ؑ ہیں اور کوئی نبی نہیں۔ گناہوں سے پاک صرف وہ ہیں اور کوئی نہیں۔ اور یہ سب عقائد وہی ہیں جو عیسائیوں کے تھے۔
حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد اسلامی بادشاہت دمشق میں چلی گئی تھی یہ عیسائی ملک تھا۔ یہاں کثرت سے عیسائی مسلمان ہو گئے۔ مگرچونکہ ان کی تربیت صحیح طور پر نہ ہو سکی انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کی خدائی کا عقیدہ تو ترک کر دیا لیکن قرآن کریم کی جو بھی ذُوالمعانی آیت نظر آئی اُس کو لیا اور اس رنگ میں اسکے معنے کئے کہ زیادہ سے زیادہ بڑائیاں حضرت عیسیٰؑ کی طرف منسوب کر دیں۔ اور چونکہ دمشق اُس وقت اسلامی حکومت کا مرکز تھا اس لئے وہاں سے جو خیالات پھیلتے تھے اُنہی کو دوسرے علاقوں کے مسلمان بھی صحیح سمجھنے لگتے تھے۔ اور یہ خیال ان کو نہ آتا تھا کہ دمشق پر عیسائیت کا اثر ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں قرآن کریم نے عیسیٰ کو مارا تھا عیسائیوں نے مسلمانوں کو مار دیا۔ یہی حال عیسائیت کا بھی ہوا تھا وہ اپنی جگہ کفر کا کشتہ تھی۔ عیسائیت زیادہ روما میں پھیلی اور وہ لوگ بت پرست تھے۔ وہ پہلے ستاروں وغیرہ کو خدا کا بیٹا مانتے تھے۔ پھر عیسائیت کو اختیار کرنے کےبعد حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا کا بیٹا ماننے لگے۔ اور حضرت عیسیٰؑ کی ماں کی پرستش کرنے لگے جس طرح وہ پہلے بعض دیوتاؤں کی ماں کی پرستش کرتے تھے۔ یہ لوگ آرین نسل کے تھے جو اتوار کو مقدس دن سمجھتے تھے۔ ان کے زیراثر عیسائیوں نے بھی ہفتہ کے بجائے اتوار کو مقدس دن بنا لیا۔ تو جس طرح عیسائیت روما میں جا کر بگڑی تھی اسی طرح اسلام دمشق میں جا کر بگڑ گیا۔ آج بعض لوگ حیرت سے پوچھتےہیں کہ یہ عیسائی عقائد مسلمانوں میں کیونکر داخل ہو گئے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ عیسائی بکثرت مسلمان ہوئے اور ان کو دینی تعلیم نہ دی جا سکی مسلمانوں نے ان کی تربیت کا کوئی انتظام نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نےا پنے عقائد اسلام میں داخل کر دیئے۔ اور یہی حال ہمارا ہونے کا ڈر ہے۔ اگر ہم نے کافی تبلیغ نہ کی اور پھر نئے داخل ہونے والوں کی تعلیم وتربیت کا خاطر خواہ انتظام نہ کر سکے۔
پس ہمارے پاس کافی مبلغ ہونے ضروری ہیں جو احمدیت کو دنیا کے کناروں تک پھیلا سکیں۔ اور جو نئے آنے والوں کو اسلام اور احمدیت کی صحیح تعلیم دے سکیں۔ مگر اس کے لئے ہم نے کون سے سامان کئے ہیں؟ ایک مدرسہ احمدیہ جاری ہے۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ کوئی ایک مدرسہ ساری دنیا میں تبلیغ کے لئے مبلغ مہیا نہیں کر سکتا۔ یا ایک کالج ہے وہ بھی کافی نہیں۔ دنیا کے دوسرے کالجوں میں ڈیڑھ ڈیڑھ اور دو دو ہزار طالب علم ہوتے ہیں۔ اور بڑے بڑے شہروں میں کئی کئی کالج ہیں۔ اور کئی یونیورسٹیاں مُلکوں میں ہوتی ہیں۔ کوئی بہت ہی چھوٹا ملک ہو گا جس میں یونیورسٹی ایک ہی ہو۔ ورنہ مختلف ممالک میں کئی کئی یونیورسٹیاں ہوتی ہیں۔ لیکن کسی ملک میں اگر ایک ہی یونیورسٹی ہو تو بھی اس میں ہزاروں طالب علم ہوتے ہیں۔ مصر ایک چھوٹا سا ملک ہے کروڑ سَوا کروڑ آبادی ہو گی۔ اور وہاں ایک ہی مذہبی یونیورسٹی ہے یعنی ازہر یونیورسٹی۔ اور اس میں قریباًَ دس ہزار طلباء تعلیم پاتے ہیں۔ مگر ہم نے جو سکول تعلیم ِدین کے لئے جاری کر رکھا ہے اس کی یہ حالت ہے کہ سارے سال میں اس میں صرف آٹھ طالبعلم داخل ہوئے ہیں۔ اور یہ وہ پہلی جماعت ہے جو آٹھ سال کے بعد آخری جماعت بنے گی۔ اور اس سال تو پھر بھی آٹھ طالب علم داخل ہوئے ہیں پچھلے سال صرف تین ہوئے تھے۔ اور آٹھ کے معنی ہیں چار۔ کیونکہ کسی سکول میں جتنے لڑکے شروع میں داخل ہوں ان میں سے نصف کے قریب بالعموم گر جایا کرتے ہیں۔کچھ تو ہمت ہار کر خود ہی پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ اَور ہوتے ہیں جو پڑھائی کی طرف توجہ نہیں کرتے اور مدرسہ والے ان کو خود نکال دیتے ہیں۔ کچھ پڑھائی تو ختم کر لیتے ہیں مگر وہ دینی کام کرنے کے بجائے دُنیوی کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ اس لئے آٹھ کے معنے چار ہی سمجھنے چاہئیں۔ تو اب جو آٹھ طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں ان میں سے چار ہمیں آٹھ سال کے بعد مل سکیں گے۔ حالانکہ ہمیں تمام دنیا میں تبلیغ اور دینی تعلیم و تربیت کے لئے لاکھوں آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اور اگر مبلغین کی تیاری کی رفتار یہی رہی تو اس کے یہ معنے ہیں کہ دس ہزار سال میں ہمیں کام کرنے والے آدمی پوری تعداد میں مل سکیں گے۔ اور وہ بھی اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ یہ قانون بنا دے کہ ان میں سے کوئی مرے گا نہیں اور بوڑھا بھی نہیں ہو گا۔ اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا قانون ہو تب دس ہزار سال کے بعدہمیں پورے مبلغ مل سکتے ہیں۔ اور دنیا کی کوئی قوم دس ہزار سال تک زندہ نہیں رہ سکتی۔ کسی قوم کی زندگی تین سَو سال سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس عرصہ میں وہ یا تو غالب آکر دوسری طرف متوجہ ہو جاتی ہے اور یا پھر مٹ جاتی ہے۔ اور اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ اس کے بعد کہیں کہیں صوفیاء وغیرہ رہ جاتے ہیں جو اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے حلقہ میں اپنے سلسلہ کو جاری رکھتے ہیں ورنہ اس مذہب کی طرف منسوب ہونے والے تو باقی رہتے ہیں لیکن مذہب باقی نہیں رہتا۔ آج ہندوستان میں کروڑوں ہندو موجود ہیں مگر ہندو مذہب باقی نہیں ۔ہندو کہلانے والے جو قانون اپنے لئے چاہتے ہیں بنا لیتے ہیں۔ عیسائی ہیں ان کو آج دنیا میں بڑی طاقت حاصل ہے مگر عیسائیت باقی نہیں۔ بلکہ عیسائیت تو رسول کریم ﷺ سے پہلے ہی مٹ گئی تھی۔ یہودی تو دنیا میں موجود ہیں لیکن اگر آج حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں آئیں تو اس یہودیت سے کانوں پر ہاتھ دھریں۔ رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا کہ خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ3 ثُمَّ یَکُوْنُ فَیْجُ اَعْوَجَ۔
توقوموں کی زندگی تین سو سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔ بلکہ بعض تو دو ڈیڑھ سو سال میں ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ اس عرصہ میں یا تو وہ غالب آکر سیاست کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں اور اس کے زور سے قائم رہتی ہیں یا مٹ جاتی ہیں۔ پس کوئی ایسی سکیم کہ دس ہزار سال میں قومی ترقی کے سامان کئے جائیں گے کسی پاگل کے نزدیک ہی قابلِ توجہ ہو سکتی ہے۔ بلکہ ایسی بات کو تو پاگل بھی نہیں مان سکتا اور جو ایسی بات پر یقین رکھتا ہے اس سے زیادہ پاگل کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک ایسی واضح بات ہے کہ جو دنیا کی واضح ترین باتوں میں سے ہے۔ مگر میں حیران ہوا کرتا ہوں کہ ہماری جماعت میں ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ بی۔اے اور ایم۔ اے لوگ ہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ واضح بات کیوں نہیں آتی کہ ہماری جماعت تبلیغ کے فریضہ کو کس طرح ادا کرے گی۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس کام کے لئے آسمان سے فرشتے اتریں گے؟ کیا پہلے انبیاء کے زمانوں میں فرشتوں نے آسمان سے اتر کر یہ کام کیا تھا جو اَب وہ اتر کر کریں گے؟ جب رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں فرشتے یہ کام کرنے کے لئے نہیں اترے تو اب کیا اتریں گے۔ حقیقت یہی ہے کہ پہلے بھی آدمیوں نے ہی یہ کام کیا تھا اور اب بھی آدمی ہی کریں گے۔ پہلے بھی بعد میں آنے والوں کو تعلیم آدمیوں نے ہی دی تھی اور اب بھی آدمی ہی دیں گے۔ اور ایک انسان اتنے ہی لوگوں کو تعلیم دے سکتا اورتبلیغ کر سکتا ہے جتنےلوگوں کو تعلیم دینے اور تبلیغ کرنے کی طاقت اُس کے اندر ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان لاکھوں کی تعلیم و تبلیغ کا بوجھ اٹھا سکے۔ لیکن ہمارے پاس مبلغوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ دنیا کی دو ارب آبادی کے لئے اگر دس ہزار مبلغ بھی ہوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ دو لاکھ افراد کے لئے ایک مبلغ ہے۔ اور یہ تعداد بالکل ناکافی ہے۔ قادیان کی آبادی دس ہزار ہے۔ اگر اس دس ہزار آبادی کے لئے ایک آدمی ہو تو کیا اسے کافی سمجھا جا سکتا ہے اور کام چل سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ لیکن ہمارے پاس تو ابھی اتنے بھی نہیں ہیں۔
ایک آدمی کے کام کا وقت 25سال عام طور پر ہوتا ہے۔ یا اگر 25سال کی عمر میں تعلیم ختم کر لی جائے تو تیس سال کام کا زمانہ سمجھا جا سکتا ہے۔ مگر چونکہ بعض کام کرنے والے اتنا عرصہ کام کرنے سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں اس لئے کام کرنے کی اوسط بیس سال سمجھنی چاہیے اور اگر موجودہ رفتار کے لحاظ سے ہمیں چار آدمی ہر سال ملیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ بیس سال میں ہمارے پاس صرف 80 آدمی ہوں گے۔ اور یہ اتنی واضح بات ہے کہ اس رفتار سے وہ عظیم الشان کام نہیں ہو سکتا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے۔ اس کے لئے بہت زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ مگر مدرسہ احمدیہ میں دوست اپنے بچوں کو داخل کرانے کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ہر خاندان یہی سمجھتا ہے کہ دوسرے خاندانوں سے لڑکے آجائیں گے اسے بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ اور چونکہ ہر گھر یہی سمجھ لیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سارے ہی گھر خالی رہ جاتے ہیں۔ حالانکہ ایمان کی کم سے کم علامت یہ ہونی چاہیے کہ ہر خاندان ایک لڑکا دے۔ اور جو یہ بھی نہیں کرتا وہ گو شرم و حیا کی وجہ سے منہ سے تو نہیں کہتا مگر عملی طور پر وہ یہی کہتا ہے کہ اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ۔4اے موسیٰ! تُو اور تیرا رب جاؤ اور دونوں جا کر دشمنانِ دین سے جنگ کرو ہم تو اسی جگہ بیٹھے رہیں گے۔ گو وہ منہ سے یہ الفاظ نہ کہے مگر اپنے عمل سے یہی کہتا ہے اور اس کے دل میں یہی ہے اور جس کےد ل میں یہ بات ہووہ بھی مومن نہیں ہو سکتا ۔کیا اگر کوئی شخص دل میں خداتعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات پر ایمان نہ رکھتا ہو، دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان نہ رکھتا ہو تو وہ مومن ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ کوئی شخص زبان سے ہزار کہے کہ وہ مومن ہے اگر وہ دل سے نہیں مانتا تو وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جو شخص دل میں کہتا ہے کہ اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ وہ بھی ہر گز مومن نہیں ہو سکتا۔
مَیں نے تحریک جدید کےپہلے دَور میں بھی یہ بات بیان کی تھی کہ کام آدمیوں سے چل سکتا ہے روپیہ سے نہیں۔ روپیہ تو ایک ضمنی چیز ہے۔ اور پھر روپیہ کے لحاظ سے تو ہم دنیا کا مقابلہ کر بھی نہیں سکتے۔ ہم خوش ہیں کہ ہم نے تحریک جدید کے پہلے دَور کے دس سالوں میں 14 لاکھ روپیہ جمع کر لیا۔ مگر دوسروں کے مقابلہ میں 14لاکھ روپیہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہندوستان ایک گھٹیا قسم کا ملک سمجھا جاتا ہے۔ اور صوبہ پنجاب کا ہندوستان کے گھٹیا صوبوں میں شمار ہوتا ہے۔ گویا پنجاب دولت کے لحاظ سے بہت گھٹیا درجہ کا ہے۔ لیکن اس صوبہ کے ایک ہندو سر گنگا رام نے ایک کروڑ روپیہ وقف کر دیا تھا اور جب ایک گھٹیا ملک کے گھٹیا صوبہ کے ایک فرد نے ایک کروڑ روپیہ وقف کر دیا تو ہمارا 14 لاکھ روپیہ دس سالوں میں جمع کر دینا اور روپیہ کے لحاظ سے کون سی بڑی بات ہے۔ ہم اس قربانی پر خوش ہیں تو اس لئے کہ یہ ایک غریب جماعت کی جیبوں سےنکلا ۔اور یہ ہماری جماعت کے اخلاص کا ثبوت ہے ورنہ دنیا کے روپیہ کے مقابلہ میں چودہ لاکھ روپیہ کی کوئی حقیقت نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اگر ہندوستان کے ہندو اخلاص سے کوئی رقم جمع کرنا چاہیں تو چودہ ارب جمع کر سکتے ہیں۔ صرف ایک ہندو نے اعلان کیا ہے کہ مَیں نے پچاس کروڑ روپیہ جنگ کے بعد موٹروں کا کارخانہ جاری کرنے کے لئے الگ کر دیا ہے۔ مَیں نے کمپنی نہیں بنائی اس لئے کہ اگر نقصان ہؤا تو کم سرمایہ والے لوگوں کو نقصان نہ ہو۔ اس نے اپنی جائداد کا صرف ایک حصہ الگ کیا ہے جو پچاس کروڑ ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ اس کے پاس دو تین ارب روپیہ ہو گا۔ اور یہ تو صرف ایک ہندو کی دولت کا حال ہے۔ ایسے اور بھی کئی ہیں اور میں سمجھتا ہوں صر ف سَو دو سَو بڑے بڑے ہندو اگر چاہیں تو چودہ ارب روپیہ جمع کر سکتے ہیں۔ یا زیادہ سے زیادہ ہزار آدمی مل کر دے سکتے ہیں۔ تو جہاں تک روپیہ کا سوال ہے چودہ لاکھ کی رقم اتنی حقیر رقم ہے کہ دوسروں کے روپیہ کے سامنے اس کا نام بھی نہیں لیا جا سکتا۔ یورپ اور امریکہ میں اگر کوئی احمدی اپنی چودہ لاکھ روپیہ کی رقم کو اپنی قربانی کی مثال کے طور پر پیش کرے تو سننے والے ہنسیں گے۔ کیونکہ وہاں تو دوستوں کی تفریح کے لئے کوئی فلم وغیرہ بنانے پر لوگ لاکھوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں۔پس ہماری اِس قربانی کی عظمت چودہ لاکھ روپیہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ یہ روپیہ غریبوں کی جیبوں سے آیا ہے۔ اور دوسرے اس لئے کہ یہ خدا تعالیٰ کی خاطر جمع کیا گیا ہے۔ پس جہاں تک روپیہ کے مقابلہ کا سوال ہے ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ دنیا اس سے بہت بڑھ کر یہ چیز پیش کر سکتی ہے۔ لیکن ایک ایسی چیز ہے کہ دنیا اس سے بڑھ کر پیش نہیں کر سکتی اور وہ جان ہے۔جان دینے میں وہ ہم سے بڑھ نہیں سکتی۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ جان کے مقابلہ میں جان پیش کر دے اس سے زیادہ نہیں کر سکتی۔ ہمارے ایک روپیہ کے مقابلہ میں تو بے شک امریکہ کا کوئی کروڑ پتی یا ہندوستان کا کوئی کروڑ پتی ایک کروڑ روپیہ دے سکتا ہے۔ مگر جان کے مقابلہ میں وہ زیادہ سے زیادہ جان ہی دے سکے گا ہم سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پس یہ وہ چیز ہے جس میں جماعت نمونہ دکھا سکتی تھی مگر افسوس ہے کہ اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی۔ تبلیغ کے کام کے لئے ہزاروں آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اگر کم سے کم تعداد رکھی جائے اور ایک ہزار مبلغ سے کام چلانے کی سکیم سامنے رکھی جائے تو بھی موجودہ رفتار کے لحاظ سے اتنے آدمی اڑھائی سَو سال میں ہمیں مل سکتے ہیں۔
تحریک جدید کے پہلے دَور میں مَیں نے صرف اِس کا اعلان کیا تھا مگر اب میں جماعت کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاص کا ثبوت دے اور نوجوان زندگیاں وقف کریں۔ ہر احمدی گھر سے ایک نوجوان ضرور اِس کام کے لئے پیش کیا جائے۔ مگر ہمارے مشورہ سے پیش کیا جائے۔ کیونکہ سب کو فورًا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ہم باری باری لیں گے۔ اس سال پچاس دیہاتی مبلغ لئے جائیں گے یوں تو صرف پنجاب کے لئے موجودہ حالات میں کم سے کم دو سَو دیہاتی مبلغین کی ضرورت ہے مگر اس سال صرف پچاس لئے جائیں گے۔ بیس سے تیس سال تک عمر کے دوست جو کم سے کم مڈل تک تعلیم رکھتے ہوں اپنے نام پیش کریں۔ چالیس سال عمر کے موزوں آدمی بھی لئے جا سکتے ہیں۔ انہیں سال ڈیڑھ سال تک ضروری تعلیم دینے کے بعد مختلف دیہات میں مقرر کر دیا جائے گا۔ اور اسی طرح مدرسہ احمدیہ میں بھی داخلہ کے لئے ہر سال کم سے کم پچاس طالبعلم آنے چاہئیں۔ سَو ہوں تو بہت بہتر ہے۔ ان کی تعلیم آٹھ سال میں ختم ہو گی۔ اگر پچاس طالب علم ہر سال داخل ہوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ آٹھ سال کے بعد ہمیں 25 آدمی کام کے لئے مل سکیں گے۔ گویا اٹھارہ سال کے بعد 250 آدمی مل سکیں گے۔ اور اگر ہر سال سَو طالب علم داخل ہوں تو 18 سال کے بعد پانچ سو حاصل ہوں گے۔ یہ کتنا لمبا عرصہ ہے پھر اتنے لمبے عرصہ کےبعد بھی جو آدمی ملیں گے وہ بالکل ناکافی ہوں گے۔ کیونکہ دنیا میں تبلیغ کے علاوہ نئے آنے والوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے۔ پس دوست اپنے لڑکوں کو اس تحریک کے ماتحت پیش کریں اور جن کے ہاں اولاد نہ ہو یا ہو مگر بڑی عمر کی ہو۔ یا جن کے ہاں لڑکیاں ہی ہوں لڑکے نہ ہوں تو وہ ایک دیہاتی مبلغ یا مدرسہ احمدیہ کے ایک طالب علم کا ماہوار خرچ دیں۔ یا چند دوست مل کر ایک طالب علم کا خرچ برداشت کریں٭ جو آج کل کے لحاظ سے بیس روپیہ ماہوار سے کم نہیں ہو گا تا غرباء کے بچوں کو تعلیم دلائی جا سکے۔ لیکن اصل قربانی تو جان کی ہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ بھی رکھا ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارے دوستوں کو اسماعیلؑ جیسی قربانیاں کرنی ہوں گی۔ ہر سال عید آتی ہے اور ہمیں یہی سبق دیتی ہے۔ آپ لوگ عید کے موقع پر بکرے ذبح کرتے ہیں مگر یہ اصل قربانی نہیں یہ تو صرف علامت ہوتی ہے اس بات کی کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آئے گا آپ اپنی جانیں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مگر اب جانی قربانی کا وقت آگیا ہے لیکن دوست ابھی بکرے ہی پیش کرتے ہیں جانیں پیش نہیں کرتے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ نےفرمایا تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ کتَابَ اللہِ وَ عِتْرَتِیْ5۔ کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں یعنی قرآن کریم اور عترت۔ شیعہ لوگ عترت سے مراد حضرت علیؓ لیتے ہیں مگریہ صحیح نہیں۔ عترت کے معنے ہیں وہ مخلص لوگ جو دین کی خاطر اپنے آپ کو ذبح کر دینے کے لئے تیار ہوں۔ الْعَتِیْرَۃُ اُس قربانی کا نام ہے جو بتوں کے آگے پیش کی جاتی تھی۔ عربی میں محاورہ ہے عَتَرَ الْعَتِیْرَۃَ۔ اس نے بت کے آگے بکری کی قربانی پیش کی۔ پس رسول کریم ﷺ کے قول کا یہ مطلب ہے کہ میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں ایک قرآن کریم اور دوسرے ایسے لوگ جو اپنی زندگیاں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔ جب تک یہ دونوں چیزیں باقی رہیں گی اسلام مٹ نہیں سکتا۔ شیعوں نے عِتْرَتِیْ کے معنے حضرت علیؓ اور اہلِ بیت کے کئے ہیں اور وہ اس سے ان کی فضیلت ثابت کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ حضرت علیؓ بھی عترت تھے۔ مگر دنیوی رشتہ داری کے لحاظ سے نہیں۔ بلکہ اس لئے کہ انہوں نے خدا کی راہ میں جان کی قربانی کر دی۔ ہم ان کے عترت ہونے کا انکار نہیں کرتے۔ صرف اُس وجہ کا انکار کرتے ہیں جو شیعہ پیش کرتے ہیں۔ وہ ضرور عترت تھے مگر اس لئے تھے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خاطر اپنی جان قربانی کے لئے پیش کر دی۔ جب کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
٭ اس خطبہ کے بعد تین وظائف تین طالب علموں کے لئے میرے پاس آچکے ہیں۔
کو مار دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ6۔ کیونکہ میں خداتعالیٰ کے حکم کے مطابق ہجرت کر کے جارہا ہوں7 اور حضرت علیؓ نے اس قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ اگر کفار بغیر دیکھے حملہ کردیتے تو آپ ضرور مارے جاتے۔ مگر ان کو شک پیدا ہوا کہ یہ جسم تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا معلوم نہیں ہوتا۔ اور انہوں نے شکل دیکھی تو معلوم ہوگیا کہ علیؓ ہیں اس لئے انہوں نے نہ مارا۔ تو اس میں شک نہیں کہ حضرت علیؓ عترت تھے مگر کسی دنیوی تعلق کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ انہوں نے دین کی خاطر اپنے آپ کو ذبح ہونے کے لئے پیش کر دیا۔
پس ہر وہ شخص جو دنیا پر لات مار کر دین کی خاطر اپنی زندگی کو وقف کرتا ہے اور ہر باپ جو اپنی اولاد کو تعلیم دلا کر دین کے لئے وقف کرتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عترت ہے جس سے اسلام زندہ رہ سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دو چیزیں چھوڑیں۔ ایک قرآن اور ایک عترت۔ قرآن تو ہمیشہ وہی رہے گا مگر عترت ہمیشہ بدلتی رہے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضر ت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعدؓ، حضرت سعیدؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور دوسرے ایسے ہی صحابہ عترت تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک موقع پر یہ بھی فرمایا کہ سَلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْتِ 8 کہ سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ اور یہ کہہ کر بتا دیا کہ میری عترت سے مراد صرف وہ لوگ نہیں جو صلب سے ہیں بلکہ وہ ہیں جو دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں ا پنی جانیں ذبح کئے جانے کے لئے پیش کر دیتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی انہی لوگوں کو اپنی عترت قرار دیا ہے۔ چنانچہ بائبل میں آتا ہے کہ ‘‘جب وہ بِھیڑ سے یہ کہہ ہی رہا تھا تو دیکھو اُس کی ماں اور بھائی باہر کھڑے تھے اور اُس سے باتیں کرنی چاہتے تھے۔ کسی نے اس سے کہا دیکھ ! تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سےباتیں کرنی چاہتے ہیں۔ اس نے خبر دینے والے کے جواب میں کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی۔ اور اپنے شاگردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا دیکھو! میری ماں اور میرے بھائی یہ ہیں۔ کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی بہن اور ماں ہے۔’’9
اور صحیح بات بھی یہی ہے کہ آپ جس کام کے لئے مبعوث ہوئے تھے وہ انہی سے وابستہ تھا جن کو وہ اس وقت تعلیم دے رہے تھے۔ اسی طرح جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کام کے چلانے والے ہیں وہی آپ کی عترت ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں دو چیزیں اپنے پیچھے چھوڑ رہا ہوں۔ جو ثَقَلَان ہیں یعنی بوجھ ہیں۔ ایسے بوجھ کہ جب تک وہ رہیں گے دین آسمان پر نہ جائے گا۔ یہ دو بوجھ ہوں گے جو دین کو زمین پر رکھیں گے جب یہ دونوں بوجھ اُٹھ جائیں گے اسلام بھی آسمان پر چلا جائے گا۔ جب مسلمانوں میں سے قرآن کریم کا مفہوم اُڑ گیا اور جب عترت اُڑ گئی تو اسلام بھی اُڑ کر آسمان پر چلا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے دوبارہ دنیا میں لائے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تھا کہ لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ مِّنْ ہٰٓؤُلَآءِ۔10 اس کا مطلب بھی یہی تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب مسلمانوں میں نہ قرآن رہے گا اور نہ میری عترت۔ یہ دونوں ایسے بوجھ ہیں جن کی وجہ سے ایمان زمین پر رہ سکتا ہے ورنہ ایمان ایسی ہلکی چیز ہے کہ جب یہ بوجھ نہ رہیں گے تو وہ بھی نہ رہ سکے گا۔ جب یہ بوجھ اُٹھ جائیں گے اسلام بھی اُٹھ جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوبارہ اسے دنیا میں لائے ہیں۔ مگر جو پہلے اُڑ کر آسمان پر چلا گیا تھا اب بھی جا سکتا ہے اور جن دو چیزوں نے پہلے اسے دبایا تھا وہی اب بھی دبا کر رکھ سکتی ہیں اور وہ دو چیزیں قرآن کریم اور عترت ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کا مفہوم دوبارہ سمجھایا ہے اور اس کی تفسیر بیان فرما دی ہے۔ مگر قرآن کریم عترت کے دل میں ہی رہ سکتا ہے۔ اگر باہر رہ سکتا تو پہلے اُڑ کیوں جاتا۔ اصل قرآن وہ نہیں جو اَوراق پر لکھا ہوتا ہے بلکہ وہ ہے جو عترت کے دل میں ہوتا ہے۔ اور جب عترت اُڑے گی تو وہ بھی اُڑ جائے گا۔ پس ہر وہ خاندان جو خدمت سلسلہ کے لئے کسی کو وقف نہیں کرتا وہ قرآن کریم کے دنیا سے اُڑنے میں مدد دیتا ہے۔ اور وہ ایمان کے دنیا سے اٹھ جانے میں مدد دیتا ہے کیونکہ جب تک قرآن کریم اور عترت دنیا میں قائم نہ ہو گی ایمان قائم نہیں رہ سکتا۔
پس میں جماعت کے دوستوں کو اس نہایت ہی ضروری امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ تحریک جدید کے پہلے دَور میں مَیں نے اس کی تمہید باندھی تھی۔ مگر اب دوسری تحریک کے موقع پر میں مستقل طور پر دعوت دیتا ہوں کہ جس طرح ہر احمدی اپنے اوپر چندہ دینا لازم کرتاہے اِسی طرح ہر احمدی خاندان اپنے لئے لازم کرے کہ وہ کسی نہ کسی کو دین کے لئے وقف کرے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ سب دوست جلد سے جلد اس بلاوا پر لبیک کہیں گے تااحمدیت کی تبلیغ ہماری زندگیوں میں ہی دور دور تک پہنچ سکے۔ اگر ہم نےز یادہ سے زیادہ آدمی دین کے سکھلانے کے لئےجلد از جلد پیدا نہ کر دیئے تو دین کے قیام میں خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ ہمیں آدمیوں کا فکر نہیں بلکہ یہ فکر ہے کہ دین اپنی اصل شکل میں دنیا میں قائم ہو جائے۔
اِس وقت دو قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے ایک تو دیہاتی مبلغ ان کی تعلیم کم سے کم مڈل تک ہونی چاہیے اور انہیں سال ڈیڑھ سال تک تعلیم دے کر دیہات میں لگا دیا جائے گا۔ دوسرے ایسے مڈل پاس طالب علم جو مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو کر تعلیم حاصل کریں۔ ابھی داخلہ میں تین ماہ کا عرصہ ہے۔ اس لئے ابھی سے اس کے لئے دوست تیاری کریں۔ زیادہ نہیں تو فِی الحال ہر ضلع سے چار پانچ طالب علم ضرور آنے چاہئیں۔ اور بنگال اور بہار وغیرہ صوبوں سے جہاں جماعتیں کم ہیں صوبہ بھر میں سے ہی چار پانچ آنے چاہئیں۔ ہم انشاء اللہ جلد تبلیغ کے کام کو وسیع کرنے والے ہیں۔ جس کے لئے مبلغ درکار ہیں اور معلّم بھی جو نئے آنے والوں کو دین سکھائیں۔
کل ہی میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں کابل گیا ہوں جس کے یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ وہاں بھی انشاء اللہ احمدیت کی اشاعت کی کوئی صورت پیدا ہو گی۔ میں نے دیکھا کہ مَیں وہاں گیا ہوں اور وہاں بادشاہ، وزراء اور بڑے سرکاری حکام اور بڑے بڑے آدمیوں سے مل چکا ہوں۔ مجھے وہاں گئے دو تین روز ہو چکے ہیں اور اب میں واپس آنا چاہتا ہوں۔ اور موٹر میں یہ سفر میں نے کیا ہے۔ جب میں واپسی کا ارادہ کر رہا ہوں تو کسی نے مجھے کہا کہ یہاں دو طرح سے پٹرول ملتا ہے ایک تو دکانوں میں ملتا ہےا ور ایک پٹرول پمپ پر۔ پمپ پر زیادہ مل سکتا ہے مگر قیمت زیادہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ اور میں کہتا ہوں کہ بطور احتیاط پٹرول زیادہ ہی ہونا چاہیے بیس پچیس روپے زیادہ خرچ ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اور اس خواب سے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ وہاں بھی تبلیغ کا راستہ کھولے گا اور ان علاقوں میں تبلیغ کے لئے فارسی اور پشتو زبانیں جاننے والوں کی ضرورت ہے۔ پس صوبہ سرحد کو بھی توجہ کرنی چاہیے اور وہاں سے بھی نوجوان آنے چاہئیں۔ اب تک اس صوبہ سے بہت کم آئے ہیں اور جو آئے بھی ہیں وہ تعلیم پانے کےبعد دوسرے کاموں میں لگ گئے ہیں۔ سوائے ایک کے کہ وہ مبلغ بنے ہیں۔ اور وہ اگر اس صوبہ کی جماعتوں میں تحریک کر کے نوجوانوں کو تعلیم کے لئے یہاں بھجوائیں تو میں سمجھتا ہوں ان کا یہی کام بڑا کام ہو گا۔
خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کی تبلیغ کے نئے رستے جلد کھولنے والا ہے اور ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہو گی۔ اور اگر آج تیاری شروع کی جائے تو آٹھ سال کے بعد پہلا پھل مل سکے گا اور اُس وقت تک ہم تبلیغ وسیع پیمانے پر نہ کر سکیں گے۔ اس لئے میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ گریجوایٹ اور مولوی فاضل نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں تا انہیں جلد سے جلد کام پر لگایا جا سکے۔ ایسے نوجوان دو سے چار سال تک کے عرصہ میں کام کے قابل ہو سکیں گے۔ اور ان سے وقتی ضرورت کو پورا کیا جا سکے گا۔ مگر اصل چیز تو یہ ہے کہ ہر سال مدرسہ احمدیہ میں سو دو سو طالب علم داخل ہوتے رہیں۔
اِس کا دوسرا قدم یہ ہو گا کہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ہم ایسے ہی مدرسے جاری کریں گے۔ اور پھر مختلف ملکوں میں عرب، مصر، فلسطین، شام اور دیگر ممالک میں اِسی طرز پر اور اِسی کورس پر مدرسے جاری کئے جائیں گے۔ یہاں سےتعلیم مکمل کرنے کے بعد آدمی جائیں گے اور وہاں ایسے مدرسے چلائیں گے۔ تا ان ممالک کی تبلیغی اور تعلیمی ضرورت کےلئے آدمی تیار ہو سکیں۔ تمام ممالک میں ایسے مدرسے ہمیں جاری کرنے ہوں گے۔ حتّٰی کہ یورپ اور امریکہ میں بھی۔ پھر ان میں سے چند منتخب طالب علم یہاں آکر رہیں گے اور مکمل تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہاں جا کر کام کریں گے۔ اور اس طرح مرکز سے گہرا تعلق ان ملکوں کو پیدا ہوتا رہے گا۔ مگر ابھی تو ہندوستان میں بھی ہم انتظام نہیں کر سکتے بلکہ پنجاب کے لئے بھی ہمارے پاس سامان نہیں۔ پنجاب میں ساٹھ ہزار دیہات ہیں۔ اگر اوسطاً ساٹھ دیہات کے لئے ایک آدمی رکھا جائے جو بالکل بے معنی سی بات ہے تب بھی ایک ہزار آدمی چاہیے۔ اور اگر ہر گاؤں کے لئے ایک آدمی رکھا جائےتو ساٹھ ہزار آدمیوں کی ضرورت ہو گی۔ میں تو حیران ہوں کہ جماعت کیا سمجھتی ہے کہ یہ اتنا بڑا کام کس طرح ہو سکے گا۔ کیا دوست سمجھتے ہیں کہ صرف چندے دے دینے سے یہ کام ہو سکے گا؟ جو ایسا خیال کرتا ہے وہ سخت غلطی پر ہے۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اسلام کو زندہ رکھنے کے لئے دو چیزوں کے زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کی اور عترت کی۔ قرآن کریم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زندہ کر دیا اور عترت کا پیدا کرنا ہمارا کام ہے۔ پس میں قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے لڑکوں کو دین کے کاموں کے لئے وقف کریں۔
وہ دن عنقریب آنے والا ہے جب ہر قسم کی عزت احمدیت سے وابستہ ہو گی۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے دو سری قومیں چوہڑے چماروں کی طرح کمزور اور تھوڑی رہ جائیں گی۔ اور جو آج قربانی کرے گا وہ کل عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور جو آج غداری کرے گا وہ کوئی عزت نہ حاصل کر سکے گا۔ یہ بات میں نے ایسے لوگوں کے لئے کہی ہے جو دینی امور کو بھی دُنیوی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ورنہ مومن کو دُنیوی عزت کی کوئی پروا نہیں۔ وہ تو اُس چیز کو قبول کرتا ہے جس سے دین کو تقویت حاصل ہو اور اس کی خدمت ہو سکے۔ خواہ اس کے ساتھ دنیا کی ہزار لعنتیں کیوں نہ ہوں اسے دنیا کی لعنتوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ تو خداتعالیٰ کی رضاء کا طالب ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کا ایک پیار دنیا کی سب لعنتوں کو دھو دیتا ہے۔
پس میں پھر قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر کے دوستوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ایک تو وہ دیہاتی مبلغوں کے لئے ایسے آدمی دیں جو کم از کم مڈل تک تعلیم رکھتے ہوں۔ اور بیس سے تیس سال تک کی عمر کے ہوں۔ اگر موزوں ہوں تو چالیس سال کی عمر تک کے بھی لئے جا سکتے ہیں۔ دوسرے اپنے مڈل پاس لڑکوں کو مدرسہ احمدیہ میں تعلیم کے لئے بھیجیں۔ اور چونکہ ان سے کام آٹھ سال کے بعد لیا جا سکے گا اس لئے فِی الحال گریجوایٹ اور مولوی فاضل نوجوان آگے آئیں۔ تا ان کو دینی تعلیم دے کر جس قدر جلد ممکن ہو کام شروع کیا جا سکے۔ پس دوست جلد سے جلد اس طرف توجہ کریں تا ہمیں ایسے مبلغ مل سکیں جو دنیا کے کناروں تک احمدیت کو پھیلا دیں اور سلسلہ میں داخل ہونے والے نئے لوگوں کو دینی تعلیم دے سکیں۔ اے میرے رب! تُو لوگوں کے دل کھول دے کہ وہ اس بات کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ اور پھر ان کے اندر قربانی کی روح پیدا کر کہ وہ آگے بڑھ کر دین کے لئے اپنی جانیں فدا کریں۔ آمین۔’’ (الفضل مورخہ 10جنوری 1945ء)
1: البیومنریا: (ALBUMINURIA) گُردوں کی بیماری
2: تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ67
3: بخاری کتاب فضائل اَصْحَابِ النّبی ﷺ باب فضائل اَصْحَابِ النبی ﷺ
4: المائدۃ:25
5: کنزالعمال جلد 1صفحہ186 مطبوعہ حلب میں‘‘ اِنِّیْ تَارِکٌ ’’ کے الفاظ ہیں۔
6: سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ126۔ مطبوعہ مصر 1936ء
7: سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ129۔ مطبوعہ مصر 1936ء
8: مستدرک حاکم ۔ کتاب معرفۃ الصحابہ رضی اللہ عنہم ذکر سلمان فارسی
جزنمبر3صفحہ691۔ مطبوعہ بیروت 1990ء
9: متی باب 12 آیت 46تا50
10: بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الجمعۃ باب قولہ وآخرین منہم میں ‘‘عِنْدَ الثُّرَیَّا’’ کے الفاظ ہیں۔

2
وقت آگیا ہے کہ انگلستان اور ہندوستان آپس میں صلح کر لیں
(فرمودہ 12جنوری 1945ء)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘میں نے سالانہ جلسہ کے موقع پر یہ اعلان کیا تھا کہ آئندہ آنے والے دن دنیا کے لئے نہایت ہی نازک اور سخت معلوم ہوتے ہیں اور جیسا کہ میں اڑھائی سال کا عرصہ ہوا اِس منبر پر ایک خطبہ پڑھ چکا ہوں اور اپنے بعض خواب سنا چکا ہوں دنیا میں ایک اَور جنگ کی بنیاد پڑ رہی ہے۔ میں اُس خطبہ میں کسی ملک کے نام کا اظہار تو نہ کرنا چاہتا تھا مگر غلطی سے بعض نام میرے منہ سے نکل گئے تھے۔ دنیا میں جنگوں کا سلسلہ ابھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ بعض عظیم الشان تغیرات اُن پیشگوئیوں کے مطابق جو بعض سابق انبیاء کی موجود ہیں اور جو رسول کریم ﷺ نے کیں اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی ہیں اور جو شائع شدہ موجود ہیں ابھی دنیا کے لئےاَور فتنے بھی مقدر ہیں۔ میں نے ان خیالات کے ماتحت انگلستان اور ہندوستان دونوں کو نصیحت کی تھی کہ دونوں اپنے سابقہ اختلافات کو بُھلا کر باہم سمجھوتہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں شبہ نہیں کہ میرا ایسی نصیحت کرنا اِس زمانہ میں جبکہ ہماری جماعت ایک نہایت قلیل جماعت ہے بالکل ایک بے معنی سی چیز نظر آتی ہے۔ میری
آواز کا نہ ہندوستان پر اثر ہو سکتا ہے اور نہ انگلستان پر اثرہو سکتا ہے۔ہندوستان تک تو ایک حد تک میری یہ آواز پہنچ بھی سکتی ہے۔ گو زبردست طاقتیں اور زبردست قوتیں اسے سن کر ہنس دیں گی اور کہیں گی کہ لو جی مینڈکی کو بھی زکام ہو گیا۔ یہ چھوٹی سی جماعت جس کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہیں ہندوستان کو نصیحت کرنے نکلی ہے۔ لیکن انگلستان تک تو میری آواز شاید پہنچنی بھی مشکل ہے۔ سوائے اس کے کہ ہمارے انگلستان کے مبلغ کے ذریعہ کسی حد تک پہنچ سکے۔ مگر میں نے یہ باتیں اس لئے بیان کر دی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ارشاد فرمایا ہے کہ تو اپنی باتیں لوگوں کو سنا دے1 اِس سے اَور نہیں تو ان پر حجت تمام ہو جائے گی۔ سو میں نے بھی یہ باتیں اس لئے بیان کر دیں تا خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا پر حجت تمام ہو جائے اور لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ انہیں وقت پر خطرات سے آگاہ نہیں کیا گیا اور وقت پر صحیح طریق اختیار کرنے کی نصیحت نہیں کی گئی۔ اور دوسرے یہ باتیں میں نے اس لئے بیان کر دی تھیں کہ قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ 2بعض دفعہ کمزور آوازیں بھی اثر پیدا کر دیا کرتی ہیں اور بعض دفعہ اس سے بھی لوگ نصیحت حاصل کر لیا کرتے ہیں۔ خدائی جماعتیں تبلیغی جماعتیں ہوتی ہیں۔ پس اگر ہماری جماعت کے لوگ بیعت کے صحیح مفہوم کو سمجھیں اور اپنے فرائض کو ادا کرنے کا خیال رکھیں تو ضروری ہے کہ امام کی آواز کو ہر احمدی خواہ وہ ہندوستان کا رہنے والا ہو یا انگلستان کا یا امریکہ کا یا افریقہ کا اور یا کسی اَور ملک کا دہرانے لگے گا اور اپنے اپنے حلقہ میں اسے پھیلانے کی پوری کوشش کرے گا اور جب ہر احمدی ایسا کرے گا تو لازمی بات ہے کہ وہ آواز ہزاروں لاکھوں سے گزر کر کروڑوں انسانوں کے کانوں تک پہنچے گی۔ اور ہماری جماعت ہندوستان میں بھی ہے، پنجاب کے اضلاع میں بھی کثرت سے ہے، سندھ میں بھی ہے، صوبہ سرحد میں بھی ہے، یوپی، بہار، سی۔پی، بمبئی، مدراس میں بھی ہے، اڑیسہ میں بھی ہے، بنگال میں بھی ہے اور آسام میں بھی ہے، مختلف ریاستوں میں بھی ہے۔ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ۔ اور میری آواز کا اثر اگر غیروں پر نہیں ہو سکتا تو اپنی جماعت کے لوگوں پر تو ہو سکتا ہے اور جب جماعت کے لوگ جو ملک کے مختلف صوبوں اور ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں اگر دیانتداری سے اپنے فرضِ بیعت کو ادا کرنے والے ہوں۔ اگر ان کے تعلقات مخلصانہ ہوں اور وہ وہی آواز دہرائیں جو میرے منہ سے نکلے تو وہ آواز یقیناً لاکھوں انسانوں سے گزر کر کروڑوں کے کانوں تک پہنچ سکتی ہے۔
پھر ہمارے مبلغ اور ہماری جماعت انگلستان میں بھی ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ میں بھی مبلغ اور جماعت ہے۔ جنوبی امریکہ میں مبلغ بھی اور جماعت بھی ہے۔ فلسطین میں بھی ، شام میں بھی اور مصر میں بھی ہماری جماعت ہے۔ عراق میں بھی جماعت ہے، سوڈان میں بھی ہماری جماعت ہے۔ مغربی افریقہ کے تین اہم ملکوں میں بھی ہے اور مشرقی افریقہ کے تین اہم ملکوں میں بھی جماعت ہے۔ اور مختلف جزیروں میں بھی ہماری جماعتیں قائم ہیں۔ اور اگر یہ مبلغ اور یہ جماعتیں اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کرنے والے ہوں تو میری آواز دنیا کے ہر ملک میں پہنچ سکتی ہے۔ مبلغ دراصل امام کا لاؤڈ سپیکر ہوتا ہے۔ جس طرح میری یہ آواز دور دور بیٹھے ہوئے لوگوں تک یوں تو نہیں پہنچ سکتی مگر یہ آلہ پہنچا دیتا ہے اِسی طرح مبلغ بھی امام کی آواز کو اُن لوگوں تک پہنچانے والا ہوتا ہے جن تک وہ براہ راست نہیں پہنچ سکتی۔ اور اگر ہمارے مبلغ اپنے فرض کو سمجھیں اور یہ محسوس کریں کہ مبلغ ہونے کی حیثیت سے ہم پر یہ ذمہ داری ہے کہ امام جماعت کے منہ سے جو الفاظ نکلیں ان کو ہر چھوٹے بڑے تک پہنچا دیں اور اس میں زیادہ سے زیادہ اثر پیدا کرنے کی کوشش کریں تو میری آواز کا ہر جگہ پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ انگلستان، برٹش ایمپائر کے دوسرے ممالک بالخصوص ہندوستان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ میل جول رکھنے اور اس کے ساتھ صلح کرنے کے لئے پرانے جھگڑوں کو بُھلا دے اور دونوں مل کر دنیا میں آئندہ ترقیات اور امن کی بنیادوں کو مضبوط کریں اور اسی وجہ سے میں نے یہ اعلان کیا تھا۔ نہ اس لئے کہ ایک قلیل جماعت کا امام ہونے کے باوجود مجھے یہ خیال تھا کہ لوگ مجھے بڑا آدمی سمجھتے ہوئے میری نصیحت کی طرف توجہ کریں گے اور آج پھر میں اِسی مضمون کی طرف ان دونوں ممالک کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون بار بار دہرائے جانے کے قابل ہے کیونکہ دنیا کی آئندہ بہتری کا بڑا انحصار اِسی بات پر ہے۔ جہاں تک ہماری جماعت کے انگریزوں سے تعلقات کا سوال ہے لوگ ہمیں انگریزوں کا خوشامدی کہتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہم ایسے نہیں۔ مگر ہم اللہ تعالیٰ کے خوشامدی ضرور ہیں۔ اور جب خداتعالیٰ کی حکمتیں اس کی مقتضی ہوں اور دنیا کی ترقیات اور دنیا کا امن انگریزوں سے وابستہ ہو اور جب خداتعالیٰ نے اس قوم کی کمزوریوں کے باوجود اس میں بہت سی خوبیاں رکھی ہوں تو ہم خداتعالیٰ کی باتوں کو کیسے ردّ کر دیں اور ان کی طرف سے اندھے کس طرح بن جائیں۔ ہماری جماعت کا تعاون ہمیشہ حکومتوں کو حاصل رہا ہے خصوصاً انگلستان کو۔ کیونکہ ہم نے قرآن کریم کی تعلیم سے یہی سمجھا ہے کہ اپنے ملک کی حکومت سے تعاون کرنا چاہیے۔ اس کی راہ میں ہمارے لئے مشکلات بھی پیدا ہوئیں، ہمیں نقصان بھی پہنچے مگر جماعت نے بالعموم ہر حکومت سے تعاون ہی کیا ہے۔
پس ہماری جماعت کا سوال نہیں۔ دوسروں کے جذبات اور احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے مَیں انگلستان کو یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں خواہ میری یہ نصیحت ہوا میں ہی اُڑ جائے۔ اور اب تو ہوا میں اُڑنے والی آواز کو بھی پکڑنے کے سامان پیدا ہو چکے ہیں۔ یہ ریڈیو ہوا میں سے ہی آواز کو پکڑنے کا آلہ ہے۔ پس مجھے اس صورت میں اپنی آواز کے ہوا میں اُڑ جانے کا بھی کیا خوف ہو سکتا ہے۔ جبکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ہوا میں اڑنے والی آواز کو بھی لوگوں کے کانوں تک پہنچا دے۔ پس میں انگلستان کو نصیحت کرتا ہوں کہ اے انگلستان!تیرا فائدہ ہندوستان سے صلح کرنے میں ہے۔ خداتعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ تم دونوں مل کر کام کرو اور دونوں مل کر دنیا میں امن قائم کرو، دونوں مل کر دنیا میں صحیح آزادی کو قائم کرو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بِلا وجہ ہندوستان میں نہیں بھیجا بلکہ اس لئے بھیجا ہے کہ وہ اس ملک سے بڑے بڑے کام لینا چاہتا ہے۔ بے شک یہ ملک ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روحانی غلامی سے محروم ہے اور مذہبی طور پر ہمارے مخالف اس میں کثرت سے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بِلا وجہ اس ملک میں نہیں بھیجا۔ یہ ملک جلد یا بدیر، آج نہیں تو کل ضرور آپ کی غلامی میں آنے والا ہے۔ اس ملک کے لوگ خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان یا کسی اَور قوم و مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف آنے والے ہیں۔ اور ضرور آکر رہیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جدا نہیں رکھ سکے گی ۔ یہ ملک ایک عظیم الشان مرتبہ کو پہنچنے والا ہے اور اسے ایسی عزت ملنے والی ہے جو ہندوستانیوں کو خواب میں بھی اس سے پہلے نصیب نہیں ہوئی بلکہ یہ ملک ایسی ترقیات حاصل کرنے والا ہے جسے کسی اَور قوم نے خواب میں بھی نہیں دیکھا۔دنیا کی آئندہ ترقیات اس ملک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پس اے انگلستان! تجھے خداتعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ تُو اس ملک کے ساتھ صلح کر لے اور ان ترقیات میں حصہ لے اور برکات کا وارث ہو۔ تجھ پر صدیوں اللہ تعالیٰ نے رحمتیں کی ہیں۔ مگر گزشتہ صدیاں تو خواب ہو جایا کرتی ہیں۔ تیرے لئے موقع ہے کہ تُو آئندہ صدیوں میں اپنے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرنے کی بنیاد رکھ لے تا تجھ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے۔ ایک خوش ہندوستان انگلستان کے لئے بہت بڑی برکت اور بہت بڑی طاقت کا موجب ہے۔ خوش ہندوستان میں انگلستان کے لئے امن کے زمانہ میں ایسی وسیع منڈیاں ہیں کہ اسے کہیں اَور ایسی وسیع منڈیاں حاصل نہیں ہو سکتیں۔ اور جنگ کے زمانہ میں انگلستان کو اتنی بڑی فوج کہیں سے بھی نہیں مل سکتی جتنی خوش ہندوستان دے سکتا ہے۔
عام طور پر کسی ملک کی فوجی طاقت دس بارہ فیصدی سمجھی جاتی ہے۔ مگر ہندوستان چونکہ مدتوں اسلحہ سے محروم رہا ہے اور فوجی روح عام طور پر یہاں مفقود ہے اس لئے اگر 12 فیصدی نہیں چھ فیصدی ہی سمجھیں تو اگر ہندوستان خوشی کے ساتھ تعاون کرے اور اپنے فوائد انگلستان کے فوائد کے ساتھ اور اپنی امنگیں اس کی امنگوں کے ساتھ وابستہ سمجھے تو چالیس کروڑ کی آبادی میں سے دو کروڑ چالیس لاکھ سپاہی دے سکتا ہے۔ اور اتنے سپاہی دنیا کا اور کوئی ملک نہیں دے سکتا اور کوئی حکومت اتنی بڑی فوج بہم نہیں پہنچا سکتی۔ پس ہندوستان بے شک انگلستان کے بادشاہ کے تاج کا کوہ نور ہیرا ہے مگر انگلستان کو چاہیے کہ وقت سے پہلے پہلے اس ہیرے پر پوری طرح قبضہ کر لے مگر محبت اور صلح کے ساتھ اور ہندوستان کو خوش کرکے۔
دوسری طرف میں ہندوستان کو بھی یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی انگلستان کے ساتھ اپنے پرانے اختلافات کو بُھلا دے۔ لوگ ہمیں خواہ انگریزوں کا خوشامدی کہیں خواہ چاپلوسی کرنے والے کہیں مگر اس امر کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ ایک سچائی ہے کہ انگلستان جیسا نرمی کا معاملہ اپنے ساتھ والے ملک سے کرتا ہےاس کی مثال سوائے امریکہ کے اَور کہیں نہیں مل سکتی۔ ہم نے اَور ملکوں کو پھر کر دیکھا ہے اور ہمارے مبلغوں نے دوسری حکومتوں کو دیکھا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ سوائے امریکہ کے کوئی اَور حکومت ایسی نہیں جس کے ماتحت لوگوں کو ایسے آرام اور سُکھ کے سامان میسر ہوں جیسے برطانیہ کے ماتحت ہیں۔ پس میں ہندوستان کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اے ہندوستان! پیشتر اس کے کہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں، تُو ظالم بھیڑیوں کا شکار ہو جائے یا تیرے کُھلے دروازوں میں سے غنیم3 اندر گھس آئے تُو انگلستان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھا کہ یہی ملک ہے جو تیری سب سے زیادہ مدد کر سکتا ہے۔ تیری آزادی اور تیری حفاظت کے لئے اتنی قربانی کر سکتا ہے جتنی اس سے دُگنی آبادی رکھنے والے ممالک بھی کبھی کرنے کو تیار نہیں ہو سکتے۔ تاریخ میں اس کی بہت ہی کم مثالیں ہیں کہ انگلستان نے کبھی اپنے ساتھیوں کو چھوڑا ہو۔ کہا جاتاہے کہ وہ فوائد اُٹھاتا ہے مگر دنیا میں کون ہے جو فائدہ نہیں اٹھاتا؟ کیا دوست دوست سے فوائد نہیں حاصل کرتے؟ کیا مائیں اپنے بچوں سے فوائد حاصل نہیں کرتیں؟ کیا باپ اپنے بیٹوں سے اور بھائی بھائیوں سے فوائد حاصل نہیں کرتے؟ اور جب دوست دوست سے، ماں باپ اولاد سے اور بھائی بھائیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو اگر انگلستان نے ایمپائر کے دوسرے ممالک سے فوائد حاصل کرلئے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ اگر ہر قوم اور ہر ملت میں دوست دوست سے، ماں باپ اولاد سے اور بھائی بھائی سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اگر انگلستان اپنے ساتھ والے ملکوں سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اس پر اس وجہ سے کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ بے شک وہ فائدہ اٹھاتا ہے مگر فائدہ پہنچاتا بھی تو ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خطرہ کی حالت میں جس قسم کی مدد اپنے ساتھ والے ملکوں کی انگلستان نے کی ہے کبھی کسی نے نہیں کی۔ انگلستان ہر دفعہ ایسی ہی جنگ میں کُودا ہے کہ جس میں سے اس کے بچ نکلنے کے امکانات بہت کم ہوتے تھے۔ مگرہمیشہ خداتعالیٰ نے غیر معمولی طاقتوں سے اس کی مدد کی ہے اور اسے بچا لیا ہے۔
میں نے انگریزوں کے بعض مخالفوں کے سامنے یہ بات پیش کی ہے کہ اَور باتوں کو جانے دو صرف اِتنی ہی بات بتاؤ کہ اس کی وجہ کیا ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں میں جب بھی انگلستان کسی جنگ میں کُودا وہ ایسے خطرات میں مبتلا ہو گیا کہ اس کے مارے جانے میں بہت کم شبہ باقی رہا مگر پھر ایسے غیر معمولی حوادث پیدا ہوئے کہ وہ بچ گیا۔ اگر اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہیں کرتا تو یہ غیر معمولی حوادث کیونکر پیش آجاتے رہے ہیں۔ اسی لڑائی میں دیکھ لو۔ فرانس کے کُچلے جانے کے بعد اگر ہٹلر انگلستان پر حملہ کر دیتا تو انگلستان کے پاس اپنی حفاظت کا کوئی سامان نہ تھا حتّٰی کہ رائفلیں بھی پوری نہ تھیں۔ اور جس طرح انگریزی فوج کی پرانی رائفلیں بعض اوقات حکومت ریاستی فوجوں کو دے دیتی ہے یا پٹھانوں کے پاس فروخت کر دی جاتی ہیں اسی طرح اس انگلستان نے جو اسلحہ میں دنیا کی رہبری کر رہا تھا امریکہ سے پرانی مستعمل اور متروک رائفلیں قرض مانگیں۔ اور اس قسم کا نظارہ تاریخ میں اس سے پہلے کوئی نظر نہیں آتا۔ اور اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آسکتی کہ ہٹلر نے اس وقت کیوں انگلستان پر حملہ نہ کیا۔ وہ کس چیز سے ڈر رہا تھا کہ حملہ نہیں کرتا تھا۔ کہتے ہیں وہ برطانوی بحری بیڑے سے ڈرتا تھا مگر یہ بیڑا خود اس کے بعد جن حالات سے گزرا ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ جرمنوں کو روکنے کے لئے کافی طاقتور نہ تھا۔ یہ صرف وہ رعب اور ڈر تھا جو خداتعالیٰ نے ہٹلر کے دل میں پیدا کر دیا اور جس کی وجہ سے اس نے انگلستان پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انگلستان سے ایک بہت بڑا کام لینا ہے۔ جب تک یہ اس کام کو نہ کرلے گا خداتعالیٰ اسے کمزور نہ ہونے دے گا۔ الٰہی نوشتوں نے ازل سے اس کے ذمہ ایک اتنا بڑا کام لگایا ہے کہ جتنا بڑا کام آج تک اس نے نہیں کیا۔ اور جب تک وہ اس کام کو نہ کر لے گا کوئی طاقت اسے تباہ نہیں کر سکتی۔ اور اس کام کے کر لینے کے بعد امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعائیں کی ہیں اور آپ کی پیشگوئیاں بھی ہیں اسے سچا مذہب اختیار کرنے کی توفیق دے دے گا۔ اور پھر آئندہ صدیوں تک اس طرح اسے ایک نئی زندگی مل جائے گی۔
پس یہ خیال کہ انگلستان اپنے ساتھی ممالک کے ساتھ خود غرضی کے ماتحت سلوک کرتا ہے غلط ہے۔ بے شک وہ ان ممالک سے فائدہ اٹھاتا ہے مگر کون ہے جو فائدہ نہیں اٹھاتا۔ اپنے فائدہ کو تو ہر کوئی مدنظر رکھتا ہے۔ اگر ہندوستان کا تاجر انگلستان کے کسی تاجر سے کوئی چیز منگواتا ہے تو کیا اس لئے منگواتا ہے کہ نقصان اٹھائے؟ وہ اس لئے منگواتا ہے کہ اسے فائدہ حاصل ہو۔اور انگلستان کا تاجر اگر بھیجتا ہے تو اس لئے کہ اُسے فائدہ ہو۔ دونوں کے مدنظر فائدہ ہوتا ہے۔ پس یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں دونوں کو چاہیے کہ اس امر کو یاد رکھیں کہ صلح اور جنگ دونوں صورتوں میں جو فوائد انگلستان کو ہندوستان سے پہنچ سکتے ہیں وہ کسی اَور ملک سے نہیں پہنچ سکتے۔ اور ہندوستان کو جو مدد انگلستان سے مل سکتی ہے وہ کسی اَور ملک سے نہیں مل سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان بغیر ایک زبردست طاقت کی مدد کے ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ابھی اسے دسیوں سال چاہئیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے۔
پس مَیں پھر دونوں کو نصیحت کرتا ہوں باوجود یہ جاننے کے کہ اس معاملہ میں میری نصیحت ہوا میں اُڑنے والی چیز ہے۔ مگر اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ کبھی ایک کمزور آواز بھی اثر پیدا کر دیا کرتی ہے۔ اور پھر اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ سچی بات کا پہنچانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ تا قوموں پر حُجت تمام ہو سکے۔ اور بعد میں ان کے دلوں میں ندامت اور شرمندگی پیدا ہو کہ وقت پر ہم نے نصیحت کو کیوں نہ مانا۔ میں پھر یہ آواز اٹھاتا ہوں کہ انگلستان اور ہندوستان اپنے اختلافات بُھلا کر آپس میں جلد از جلد صلح کر لیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہماری جماعت کو سیاسیات سے کوئی واسطہ نہیں مگر یہ بات جو میں اب کہنے لگا ہوں سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی ہے۔ اور دنیا میں صلح اور امن کی بنیادوں کے قائم ہونے کا موجب ہے۔ دنیا میں صلح کی سکیم اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہندوستان کی مختلف قومیں آپس میں صلح نہ کر لیں۔ اگر انگلستان ہندوستان سے صلح کرنا بھی چاہے تو موجودہ صورت میں کس سے کرے۔ کیا ہندوؤں سے وہ صلح کرے؟ مگر کیا مسلمان ہندوستان کے باشندے نہیں ہیں؟ پھر کیا وہ مسلمانوں سے صلح کرے؟ تو کیا ہندو اس ملک میں نہیں رہتے؟
پس ضروری ہے کہ ہندوستان کی مختلف قومیں آپس میں صلح کریں۔مسلمان و ہندو، کانگرس و مسلم لیگ اور دوسری سیاسی پارٹیاں پہلے آپس میں صلح کریں۔ موجودہ حالات میں ہندوستان کی قوموں کے آپس میں اختلافات ایسی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ دماغوں کو سکون نصیب نہیں اور جب صلح کے سوال پر غور کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں تو غصہ میں آجاتے ہیں۔ اختلافات اتنے شدید ہیں کہ ان کو دور کرنا ہر قوم کو موت نظر آتا ہے۔ مگر بعض اہم زندگیاں بعض اعلیٰ درجہ کی زندگیاں اور بعض پائیدار زندگیاں موت سے گزرنے کے بعد ہی حاصل ہوا کرتی ہیں۔ یعنی جب تک ہندوستان کی مختلف قومیں اس موت کو قبول نہ کریں گی انہیں دائمی اور پائیدار زندگی حاصل نہیں ہو سکتی۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہندوستان کے رہنے والے یہ محسوس کریں کہ خداتعالیٰ نے ان کے لئے ترقی کے رستے کھول دیئے ہیں۔ اگر وہ آج ان سے فائدہ اٹھائے تو اسے ایسی قوت حاصل ہو سکتی ہےکہ اس کی آواز دنیا میں زیادہ سے زیادہ وزنی قرار دی جانے والی آواز بن سکتی ہے۔ وہ موقع ترقیات کا جو آج ہندوستان کو مل رہا ہے وہ اس ملک کے پہلے لوگوں کو کبھی نصیب نہیں ہوا۔ صرف ہاتھ لمبا کرنے کی دیر ہے اور اس امر کی ضرورت ہے کہ ہاتھ کی وہ انگلیاں جو ٹوٹی ہوئی ہیں ایک دوسری کےساتھ جڑ جائیں۔ اِس وقت تو یہ حالت ہے کہ اگر ہندوستان کو ایک ہاتھ قرار دیا جائے تو اس کی انگلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ہندو، مسلمان ، سکھ، عیسائی اور دوسری قومیں اس ہاتھ کی انگلیاں ہیں جو ٹوٹی ہوئی ہیں۔ اور تم کسی چیز کو انگلیوں کے بغیر نہیں پکڑ سکتے۔ انگلیوں پر بغیر کسی دوسرے کی مدد سے تم کسی چیز پر بوجھ تو ڈال سکتے ہو مگر کسی چیز کو پکڑ نہیں سکتے۔ پکڑنا اور گرفت کرنا انگلیوں کے بغیر ممکن نہیں۔ جب تک تمام انگلیاں ہتھیلی کے ساتھ جڑ نہ جائیں اِس ملک کو وہ عظیم الشان کامیابیاں حاصل نہیں ہو سکتیں جو سامنے دکھائی دے رہی ہیں اور صرف ہاتھ بڑھانے سے حاصل ہو سکتی ہیں۔ اِس وقت ہندوستان میں جو سیاسی فساد پھیلا ہوا ہے وہ ہم پر بھی اثر انداز ہوتا ہے گو ہماری جماعت سیاسی جماعت نہیں ہے اِس وقت پنجاب میں ہندو مسلم اختلافات کے علاوہ مسلمانوں میں آپس میں بھی اختلافات ہیں۔ مسلم لیگ اور زمیندارہ لیگ کا ایک نیا جھگڑا شروع ہو گیا ہے گویا پہلے جو اختلافات تھے وہ کافی نہ تھے۔ اتحاد کا جامہ جتنا چاک تھا اب اس کی دھجیاں اَور بھی اڑائی جا رہی ہیں۔ وہ دھجیاں ہماری تسلی کا موجب نہیں ہو سکتی تھیں۔ جب تک کہ جامہ کی تار تار الگ نہ ہو جائے اور اتحاد کے سُوت کا ہر دھاگا علیحدہ علیحدہ نہ ہو جائے اُس وقت تک چین نہیں آسکتا تھا۔ زمانہ تو یہ تھا کہ ہندو مسلمان اور دوسری قومیں بھی ایک دوسرے سے صلح کر لیتیں۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ مسلمان مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں اور اسی طرح خواہ اوپر سے نظر نہ آئے ہندو ہندو بھی آپس میں پھٹ رہے ہیں۔ اور اتحاد کی طرف قدم اٹھانے کے بجائے اختلافات کو بڑھایا جار ہا ہے۔
ہماری جماعت مذہبی جماعت ہے اور ہمارا کام سیاسی خیالات کو تقویت دینا نہیں بلکہ یہ ہے کہ اگر سیاست کے خیالات ہمارے دل میں پیدا ہوں تو ان کو کُچل دیں۔ مگر ہم پر بھی یہ اختلافات اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ ایک طرف سے مجھے خط آتا ہے کہ بعض لوگ آتے اور ہم پر زور دیتے ہیں کہ مسلم لیگ میں شامل ہو جاؤ۔ بتائیں ہم کیا جواب دیں؟ اور دوسری طرف سے خط آتا ہے کہ سرکاری افسر بلاتے ہیں وزراء آتے ہیں اور زور دیتے ہیں کہ زمیندارہ لیگ میں شامل ہو جاؤ۔ ہم ان کو کیا جواب دیں؟ گویا ہم سیاسیات سے بھاگتے ہیں اور سیاسیات ہماری طرف بھاگی آتی ہیں۔ بعض دفعہ انگریز حکام نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ کی جماعت کو سیاسیات سے کیا واسطہ؟ کشمیر کی تحریک کے دنوں میں لارڈ ولنگڈن نے خو دمجھے کہا کہ آپ کی جماعت مذہبی ہے آپ کو سیاسیات سے کیا واسطہ ہے؟ اور اس میں شک نہیں کہ ہماری جماعت مذہبی جماعت ہے اور خدا کرے کہ ہماری توجہات اور کسی طرف نہ پھریں۔ ہم اگر کسی اَور طرف متوجہ ہوں تو یہ بہت بڑی کمزوری ہو گی۔ بلکہ بڑی غداری اور بے ایمانی ہو گی اگر ہم اپنی توجہات کو کسی اَور طرف پھیریں۔ مگر ہم اس بات کا کیا علاج کریں کہ ہم بھی اِسی دنیا میں رہتے ہیں۔ اور ہماری مثال وہی ہے جو کہتے ہیں کہ دو آدمی نہر کے کنارے جا رہے تھے ایک نے کہا وہ دیکھو کسی کا کمبل نہر میں گر گیا ہے اور بہتا جارہا ہے۔ دوسرے نے اسے پکڑنے کے لئے نہر میں چھلانگ لگا دی کہ اسے لے آئے۔ مگر اس کی بدقسمتی سے وہ کمبل نہ تھا بلکہ سردی سے ٹھٹھرا ہوا ریچھ تھا جو بہا جارہا تھا اور اس کی کھال تھی جسے کمبل سمجھ لیا گیا۔ اس آدمی نے جب اسے پکڑ کر کھینچنا چاہا تو بجائے اِس کے کہ وہ اُس کی طرف کھنچتا ریچھ نے اسے اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ جب دیر ہو گئی تو اس کے ساتھی نے آواز دی کہ اگر کمبل نہیں کھینچا جاتا تو اسے چھوڑ دو اور واپس آجاؤ سفر خراب ہوتا ہے۔ اس پر اس ساتھی نے کہا کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔ یہی حالت ہماری ہے ہم تو سیاسیات کو چھوڑتے ہیں مگر وہ ہمیں نہیں چھوڑتیں۔ ہمارے آدمی مختلف مقامات پر رہتے ہیں کبھی مسلم لیگ والے آکر ان کی گردن پکڑتے اور کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل جاؤ اور کبھی زمیندارہ لیگ والے آکر ان کو کھینچتے ہیں کہ ہم میں شامل ہو جاؤ۔ اور اس کا علاج یہی ہے کہ ان میں باہم صلح ہو جائے اور ہم کہیں کہ تم اپنے گھر میں خوش رہو اور ہمیں آرام سے تبلیغ کا کام کرنے دو۔ جب تک یہ صلح نہ ہو گی ہمارے دوستوں کے لئے جو مختلف دیہات و قصبات اور شہروں میں رہتے ہیں مصیبت ہی مصیبت ہے۔ اِس وقت تو یہ حالت ہے کہ ہم تو کمبل کو چھوڑتے ہیں مگر کمبل ہمیں نہیں چھوڑتا۔
پس میں نے جو آواز بلند کی ہے اگر کوئی احمدی اپنے حلقہ میں کوئی رسوخ رکھتا ہے تو اسے یہی کام کرنا چاہیے کہ اِسی آواز کو بلند کرے اور ہر ایک سے کہے کہ آپس میں صلح کر لو یہ لڑائی کے دن نہیں ہیں۔ اور خوش قسمت ہے وہ شخص جسے کوئی رسوخ حاصل ہو اور وہ اس سے کام لے کر صلح کرانے کی کوشش کرے۔ جو کوئی اس کام میں ہاتھ ڈالے گا میری دعائیں اُس کے ساتھ ہوں گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا وارث ہو گا۔ ہمیں خود بھی ملک میں ایسی فضا کی ضرورت ہے جو سکون کی فضا ہو اور جو ہماری تبلیغی سکیم کی کامیابی میں مُمد ہو سکے۔ وہ زمانہ اب گزر گیا جب مذہبی جماعتیں ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی تھیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے ہمارے تبلیغ کے دائرہ کو اتنا وسیع کر دیا ہے کہ دشمن کے ہاتھ وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ اب اللہ تعالیٰ نے سب جگہ تبلیغ کے رستے کھول دیئے ہیں اور ہم اب ایک سمجھدار جرنیل کی طرح جو جب دیکھتا ہے کہ ایک محاذ پر دشمن کا مقابلہ شدت اختیار کر گیا ہے تو دوسری طرف اپنا حملہ تیز کر دیتا ہے کام کر سکتے ہیں۔ جب ایک جگہ دشمن حملہ کرے تو ہم رُخ دوسری طرف بدل سکتے ہیں تو یوں ہمیں تبلیغی لحاظ سے مشکلات نہیں ہیں۔ اب نئی قسم کی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اور وہ یہ کہ ہر ایک ہم کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اور جب ہم اس کی طرف نہیں جاتے تو وہ ناراض ہوتا اور ہم کوکمّی قرا دیتا ہے۔ حالانکہ مذہبی لحاظ سے اس میں کوئی شرم کی بات نہیں اور کوئی ہتک نہیں کہ ہم کہیں ہم تو ہر ایک کے کمّی ہیں اور ہر ایک کی خدمت کرنا ہمارا کام ہے۔ ہم زمیندارہ لیگ کے بھی کمّی ہیں اور مسلم لیگ کے بھی کمّی ہیں۔ ہم کانگرس والوں کے بھی کمّی ہیں اور ہندو مہاسبھا والوں کے بھی اور سکھوں و عیسائیوں کے بھی۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے ہمیں سب کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے اور اس میں ہمارے لئے عزت ہے کہ سب کی خدمت کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک پرانے صحابی جو ایک زمانہ دیکھے ہوئے تھے اور زمانہ شناس تھے یعنی مولوی برہان الدین صاحب ایک دفعہ گاڑی میں سوار ہونے لگے۔ وہ سادہ طریق کے آدمی تھے معمولی تہہ بند باندھا کرتے تھے اور پھٹا سا کُرتہ اور اوپر معمولی سی لوئی اوڑھے ہوتے تھے۔ گاڑی میں بھیڑ بہت تھی وہ سوار ہونے لگے تو لوگوں نے روکا۔ انہوں نے کہا کہ تھوڑی دور جانا ہے جلدی اُتر جاؤں گا سوار ہو لینے دو۔ آخر لوگوں نے انہیں سوار ہونے دیا۔ جب وہ سوار ہو گئے تو کسی نے ان سےپوچھا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم تو سب کے کمّی ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ تھا کہ ہم احمدی ہیں اور ہمارا کام یہ ہے کہ ہر ایک کی خدمت کریں۔ مگر لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ شخص چوہڑا ہے اور ہندؤوں کو چوہڑوں وغیرہ ادنیٰ درجہ کے لوگوں سے جو نفرت ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب ہندو یہ لفظ سنتے ہی دُور دُور کِھسک گئے اور تمام بنچ خالی ہو گیا اور مولوی برہان الدین صاحب بڑے مزے سے سوتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ گئے۔ تو یہ حقیقت ہے کہ ہماری عزت اور ہماری ترقی دنیا کی خدمت میں ہی ہے۔ ہمیں روحانی طور پر دنیا کی خدمت کے لئے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو بھی اور دنیا کے دوسرے لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملا دیں تا دنیا کے لوگوں کے دلوں سےظلم اور تاریکی دور ہو اور ہمارے اپنے دلوں سے بھی دور ہو۔ ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اپنی بھی اصلاح ہو، ہمسایہ کی بھی اصلاح ہو اور اپنے وطن اور اپنے براعظم اور تمام دنیا کے لوگوں کی اصلاح ہو۔ دنیا کے سب انسانوں کا گند اُٹھانا اور میل کو دُور کرنا ہمارا کام ہے۔ اگر دنیا ہمیں اس کام میں مشغول رہنے دے اور حکومتیں اور بادشاہتیں اپنے پاس رکھے تو ہم سمجھیں گے کہ اس خدمت کا موقع دے کر اس نے ہمیں بادشاہت اور حکومت دے دی ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کی تعلیم کے پھیلے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی ہیں اصل حکومت انہی کی ہے۔ وہ قلعہ جس میں دنیا کو امن مل سکتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو صرف اس کا دروازہ کھولنے والے ہیں۔ دنیا اس امن کے قلعہ سے ناواقف تھی اور ا س امن کے حصار سے باہر تھی اور اسی جگہ کھڑی تھی جہاں اسے درندے کھانے والے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر اس حصارِ امن کے دروازے کھول دیئے۔ پس بادشاہت اسی آقا کی ہے جو قرآن کریم دنیا میں لایا اور ہم سب بشمولیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی آقا کے خادم ہیں۔ اگر ہم اپنے حقِ خدمت کو دیانتداری سے ادا کریں اور وہ فرض سرانجام دیں جو خداتعالیٰ نے ہمارے ذمہ لگایا ہے تو خداتعالیٰ کے حضور عزت کے مستحق ہوں گے۔ لیکن اگر ہم اسے ادا نہ کر سکیں تو خداتعالیٰ ہم پر رحم کرے۔ کیونکہ دنیا نے تو ہمیں دھتکار دیا اگر خداتعالیٰ بھی دھتکار دے تو ہمارا ٹھکانا کہاں ہو گا۔
پس یہ نیا سال جو شروع ہوا ہے اس میں مَیں نے صلح کی آواز بلند کی ہے۔ ہر احمدی کا فرض ہے کہ اسے ہر ملک ہر شہر ہر گاؤں ہر گھر بلکہ ہر ایک کمرہ اور ہر ایک آدمی تک اسے پہنچائے تا یہ دنیا کے کونہ کونہ میں پہنچ جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صلح کا شہزادہ قرا دیا ہے۔ اور ہم بھی جو آپ کی روحانی اولاد ہیں صلح کے شہزادے ہیں۔ جو اولاد باپ کی صورت پر نہ ہو وہ اس کے نطفہ سے نہیں سمجھی جاتی۔ پس ہر احمدی جو صلح کا شہزادہ بننے کی کوش نہیں کرتا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سچا خادم نہیں۔اور آپ کی روحانی اولاد نہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صلح سے میری مراد وہ صلح نہیں جو عقائد کو قربان کر کے کی جائے۔ جو خداتعالیٰ نے سمجھایا ہے اس پر قائم رہنا ہر ایک کا فرض ہے۔ گو ہم کمزور ہیں، گو ہم میں سے بعض کے لئے دکھوں کی برداشت مشکل ہوتی ہے مگر ہم خداتعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایسا ایمان بخشے کہ اگر ہمارا ذرہ ذرہ آروں سے چِیر دیا جائے اور ہماری ہڈیاں ہتھوڑوں سے توڑ دی جائیں پھر بھی ہم ایمان کو نہ چھوڑیں اور ہماری زبانوں پر اُسی کا نام ہو۔ پس ہم وہ صلح چاہتے ہیں جو امن و اطمینان کا موجب ہو مگر جس میں حریتِ ضمیر قائم رہے۔
مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک دفعہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی میرے پاس آئے اور کہا کہ خواجہ کمال الدین صاحب صلح کرنا چاہتے ہیں اور اس غرض کے لئے انہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپس میں صلح ہو جائے۔ یہ خلیفہ اول کا زمانہ تھا۔ خواجہ صاحب ابھی ولایت نہ گئے تھے اور مسئلہ خلافت کے بارہ میں اختلاف پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ شیخ صاحب نے مجھے کہا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے اور صلح کا عمدہ موقع ہے ان کے اپنے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے ضرور صلح کر لینی چاہیے۔ میں نے کہا شیخ صاحب! صلح واقعی بہت اچھی چیز ہے میں بھی بہت خوش ہوں گا اگر جھگڑا مٹ جائے۔ مگر شیخ صاحب اگر تو جھگڑا کسی دنیوی امر کے بارہ میں ہے تو آپ خواجہ صاحب کو جا کر کہیں کہ وہ جو کچھ بھی لکھ دیں گے میں اُس پر دستخط کر دوں گا اور مان لوں گا۔ لیکن اگر اختلاف مذہبی عقائد کا ہے تو چاہے زمین و آسمان ٹل جائیں میں جب تک ایک عقیدہ کو درست سمجھتا ہوں اُسے ہرگز چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں گا۔ تو صلح وہی ہے جو خداتعالیٰ سے صلح کرا دے۔ یوں تو ہمارے پاس کوئی ریاست بھی نہیں لیکن اگر بادشاہتیں بھی ہوں تو ہم ان کو بڑی خوشی سے چھوڑ دیں گے لیکن وہ عقیدہ ہرگز نہ چھوڑیں گے جس پر خداتعالیٰ نے ہمیں قائم کیا ہو۔
پس میں اپنی طرف سے دنیا کو صلح کا پیغام دیتا ہوں۔ میں انگلستان کو دعوت دیتا ہوں کہ آؤ اور ہندوستان سے صلح کر لو۔ اور میں ہندوستان کو دعوت دیتا ہوں کہ جاؤ اور انگلستان سے صلح کر لو۔ اور میں ہندوستان کی ہر قوم کو دعوت دیتا ہوں اور پورے ادب و احترام کے ساتھ دعوت دیتا ہوں بلکہ لجاجت اور خوشامد سے ہر ایک کو دعوت دیتا ہوں کہ آپس میں صلح کر لو۔ اور میں ہر قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ جہاں تک دنیوی تعاون کا تعلق ہے ہم ان کی باہمی صلح اور محبت کے لئے تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ اور میں دنیا کی ہر قوم کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ ہم کسی کے دشمن نہیں۔ ہم کانگرس کے بھی دشمن نہیں۔ ہم ہندو مہا سبھا والوں کے بھی دشمن نہیں۔ مسلم لیگ والوں کے بھی دشمن نہیں۔اور زمیندارہ لیگ والوں کے بھی نہیں اور خاکساروں کے بھی دشمن نہیں۔ اور خداتعالیٰ جانتا ہے کہ ہم تو احراریوں کے بھی دشمن نہیں ہیں۔ ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں اور ہم صرف ان کی ان باتوں کو برا مناتے ہیں جو دین میں دخل اندازی کرنے والی ہوتی ہیں ورنہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں۔ اور ہم سب سےکہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دو کہ ہم خداتعالیٰ کی اور اس کی مخلوق کی خدمت کریں۔ ساری دنیا سیاسیات میں اُلجھی ہوئی ہے اگر ہم چند لوگ اس سے علیحدہ رہیں اور مذہب کی تبلیغ کا کام کریں تو دنیا کا کیا نقصان ہو جائے گا۔ ہم سیاسیات میں ہرگز دخل دینا نہیں چاہتے۔ احرار سے ہمارے اختلاف کی بنیاد تحریکِ کشمیر ہی تھی۔ مگر اس میں مَیں نے صرف اس لئے حصہ لیا تھا کہ اہلِ کشمیر انسانی حقوق سے محروم تھے۔ لارڈ ولنگڈن نے مجھے کہا کہ آپ کی جماعت مذہبی ہے آپ سیاسیات میں کیوں حصہ لیتے ہیں؟ تو مَیں نے ان سے کہا کہ ہم سیاسیات میں حصہ نہیں لیتے جب تک اہلِ کشمیر کا مطالبہ انسانی حقوق حاصل کرنے کا ہے میں اس تحریک میں حصہ لوں گا۔ اور جب یہ حقوق ان کو مل گئے تو میں اس میں حصہ لینا چھوڑ دوں گا۔ میرے پاس بعض اور ریاستوں کی طرف سے بھی آدمی آئے۔ بعض رؤساء کے آپس میں جھگڑے تھے۔ بعض کی طرف سے میرے پاس آدمی آئے کہ ہمارے پاس فلاں فلاں سامان موجود ہیں جو ہم آپ کو دیں گے آپ کے کام کرنے والے آدمیوں کےاخراجات بھی دیں گے آپ تحریک چلائیں۔ مگر میں نے انہیں یہی جواب دیا کہ میں تو کفر مار ہوں ریاست مار نہیں ہوں۔ میں نے تو کشمیر کی تحریک میں اگر ہاتھ ڈالا ہے تو صرف اس لئے کہ اہلِ کشمیر ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ جب یہ حقوق ان کو مل گئے تو کسی سیاسی تحریک سے میرا کوئی واسطہ نہ ہو گا۔ مگر بعض لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ سیاسیات کے میدان میں آگئے ہیں اور ان کی لیڈریاں خطرہ میں ہیں۔ حالانکہ یہ بات نہ تھی۔ ہمارا سیاسیات سے کوئی واسطہ نہیں یہ تو صرف ابتدائی انسانی حقوق کے حصول کا سوال تھا جس کے لئے میں نے کشمیر کی تحریک میں حصہ لیا۔ اور اہلِ کشمیر کو بہت سے حقوق مل بھی گئے اور ابھی باقی ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ بغیر اس کے کہ اللہ تعالیٰ کوئی اَور رَو چلائے مہاراجہ صاحب خود ہی انصاف سے کام لیتے ہوئے یہ حقوق اپنی رعایا کو دے دیں گے۔ ایک تو مذہب کی تبدیلی کا حق ہے جو ملنا چاہیے۔یہ بعض اور ریاستوں میں بھی نہیں۔ مگر یہ بہت ہی ناواجب بات ہے یہ گویا حریتِ ضمیر میں دخل اندازی ہے اور انسانیت کو کچلنے والی بات ہے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ مہاراجہ صاحب کشمیر خود ہی اپنی نیکی اور صلاحیت کو استعمال میں لاتے ہوئے یہ حق اپنی رعایا کو دے دیں گے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ وہاں ذبیحہ گاؤ پر بہت شدید سزا دی جاتی ہے اس جرم کی جو سزا وہاں مقرر ہے وہ حد سے زیادہ ہے۔ اس میں بھی اول تو منسوخی ورنہ کم سے کم نرمی کا پہلو انہیں اختیار کرنا چاہیے۔ تا جولوگ بعض دفعہ مجبوریوں کے ماتحت ایسا کرتے ہیں سخت سزا پانے سے محفوظ رہیں۔
بہرحال یہ احرار کی غلطی تھی کہ انہوں نے سمجھا کہ میں سیاسیات کے میدان میں آنا چاہتا ہوں۔ ہمارا سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کام کانگرس، احرار، مسلم لیگ، زمیندارہ لیگ، خاکساروں اور دوسری جماعتوں کو مبارک ہو۔ ہم اپنے حال میں خوش ہیں اورسوائے تبلیغی کام کے ہمیں کسی اور طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ پس میں ہر ایک قوم سے یہی کہتا ہوں کہ ہمیں کسی سے کوئی عِناد نہیں، کوئی دشمنی نہیں اور کوئی بُغض نہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے اور اب پھر کہتا ہوں کہ میں نے اپنے دل کو کئی بار ٹٹولا ہے اور دیکھا ہے کہ ہمارے سلسلہ کے سب سے دیرینہ مخالف مولوی ثناء اللہ صاحب ہیں۔ کیا میرے دل میں ان کی عداوت ہے؟ مگر خداتعالیٰ جانتا ہے کہ مَیں نے اپنے دل میں ان کے لئے بھی کوئی عداوت محسوس نہیں کی۔ میں نے آج تک ہر ایک کی عداوت سے اپنے آپ کو بچایا ہے۔ میں کسی کابھی دشمن نہیں گو ساری دنیا میری دشمن ہے۔ مگر مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ اس میں میرے لئے خداتعالیٰ کے عفو اور غفران کی علامت ہے کیونکہ جو کسی کا دشمن نہ ہو پھر بھی اُس سے دشمنی کی جائے تو خداتعالیٰ اس کے گناہوں کے بخشنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔
تو میں نے کہا ہے کہ سیاسیات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں مگر صلح کی بات سیاسیات سے نہیں بلکہ اخلاقیات سے تعلق رکھتی ہے اور ہر احمدی کا فرض ہے کہ مختلف اقوام میں صلح کرانے کی کوشش کرے اور جو لوگ ایسے مقام پر ہیں کہ ان کو کوئی عزت حاصل ہے وہ اگر سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی عزتیں جاتی رہیں گی تو میں ان سے کہوں گا کہ خدا کے لئے ان عزتوں کو جانےدو۔ جب تک تم ان عزتوں کو نہ چھوڑ و گے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی کھوئی ہوئی عزت واپس نہیں آسکتی۔ اگر تم بھی دنیا کے کاموں میں لگ گئے تو یہ کام کون کرے گا ۔ اگر تم میں سے کوئی ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کا صدر نہ بنے تو اور ہزاروں ہیں جو بڑے شوق سے بن جائیں گے۔ اگر تم میں سے کوئی زمیندارہ لیگ کا سیکرٹری نہ بنے تو اور ہزاروں لوگ ہوں گے جو اس پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہیں گے اور اس میں اپنے لئے بہت بڑی عزت اور فخر محسوس کریں گے۔ لیکن اگر تم ان کاموں میں لگ گئے تو خداورسول( ﷺ) کا کام کون کرے گا۔ پس ان عزتوں کو جو دنیا کی چند روزہ عزتیں ہیں جانے دو۔ تا محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم) کی کھوئی ہوئی عزت واپس آئے۔ آخر اِس دنیا کی زندگی اگلے جہان کی زندگی کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا رکھتی ہے کہ کوئی خیال کرے کہ اگر اس دنیا میں مجھے عزت نہ ملی تو میری زندگی برباد ہو جائے گی۔ اِس دنیا کی زندگی اور اگلے جہان کی زندگی میں اتنی نسبت بھی تونہیں جتنی کہ ایک آدمی اپنی پچاس ساٹھ سالہ عمر میں ایک دفعہ پاخانہ جاتا ہے اوروہاں پاخانہ پونچھتا اور اسے دھوتا ہے ۔کیا یہ وقت جو پاخانہ صاف کرنے اور دھونے پر لگاتا ہے اس کی وجہ سے وہ کہہ سکتا ہے اس کی زندگی برباد ہو گئی؟ اس دنیا کی زندگی آخرت کی غیر محدود زندگی کے مقابلہ میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتی جتنی کہ ایک آدمی کی زندگی میں ایک دفعہ پاخانہ جانے میں جو وقت صَرف ہوتا ہے۔ پس اگر اس زندگی میں خداتعالیٰ کے لئے کسی کو کسی عزت سے محروم بھی رہنا پڑے تو اس میں گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں۔ گھبراہٹ اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ اگلی زندگی پر ایمان نہیں ہوتا۔ اس غیر محدودزندگی کے مقابلہ میں چالیس یا پچاس سال کی زندگی کی حیثیت تو اتنی بھی نہیں جتنا کہ ایک دفعہ آدمی کا طہارت کرنے پر وقت صَرف ہوتا ہے۔ اور یہ وقت بادشاہ بھی صَرف کرتے ہیں اور غلام بھی۔ پھر اگر اس دنیا میں عزتیں نہ ملیں تو کیوں کوئی یہ خیال کرے کہ اس کی زندگی برباد ہو گئی۔
میں خدام الاحمدیہ سے بھی اور انصار اللہ سے بھی یہ کہتا ہوں کہ میں نے ان کو سیاسیات سے الگ رہنے کا حکم دیا ہوا ہے مگر یہ آواز جو میں نے بلند کی ہے اس کا سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اخلاقیات سے ہے۔پس وہ جہاں بھی جائیں اور جہاں بھی انہیں موقع ملےاس آواز کو دہرائیں اور ہر قوم کے لوگوں سے یہی کہیں کہ صلح کر لو۔ محبت کےساتھ اپنےاختلافات طے کر لو۔ کانگرس، مسلم لیگ، ہندو مہاسبھا، زمیندارہ لیگ، اکالی، خاکسار سب کے لئے ان کے پاس یہی الفاظ ہوں اور وہ سب کو یہی کہیں کہ آپس کے جھگڑے محبت کےساتھ طے کر لو۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ صلح کر لو اور پھر ہمیں چھوڑ دو کہ ہم تبلیغ دین کا کام کریں۔ اس مضمون کا دوسرا حصہ بھی ہے مگر اب وقت اتنا ہو گیا ہے کہ اگر میں نے فورًا نماز نہ پڑھائی تو عصر کا وقت ہو جائے گا اس لئے میں اس خطبہ کو اسی پر ختم کرتا ہوں۔ اس کا دوسرا حصہ ا گر خداتعالیٰ نے توفیق دی اور زندہ رہا تو انشاء اللہ اگلے جمعہ میں بیان کروں گا’’۔
(الفضل مورخہ 17جنوری 1945ء)
1: يٰۤاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ )المائدۃ: 68 (
2: القصص:47
3:غنیم: لٹیرا ، ڈاکو،دشمن

3
اپنی اولادیں خدمت دین کےلئے خدا کے سپرد کردو
(فرمودہ 19جنوری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ سیاسی حالات کے لحاظ سے یہ وقت ایسا ہےکہ ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو بھی آپس میں صلح کر لینی چاہیے۔ اور ہندوستان اور انگلستان کو بھی باہمی سمجھوتہ کر لینا چاہیے۔ اور میں نے بتایا تھا کہ ہماری جماعت کو چونکہ سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں اس لئے جہاں میں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہندوستان کی سیاسی پارٹیاں آپس میں سمجھوتہ کرنے کی کوئی صورت نکالیں وہاں میں ان سیاسی پارٹیوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کو وہ سیاسیات سے الگ رہنے دیں۔ کیونکہ ہمارا کام مذہبی ہے اور ہم اپنی زندگیاں اس مطمح نظر کے لئے وقف کر چکے ہیں جو مطمح نظر ہمارے ایمان اور ہمارے یقین کےمطابق خداتعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھا ہے۔ دشمن ہمارے عقیدہ اور ہمارے خیال کو تسلیم کرے یا نہ کرے، لوگ ہماری باتوں کو مانیں یا نہ مانیں بہرحال اس بات کو تو وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہر انسان اپنےعقیدہ کے مطابق عمل کرتا ہے۔ پس جبکہ ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی روحانی اور اخلاقی زندگی کا کام ہمارے سپرد کیا ہے تو سیاسی پارٹیوں کو ہماری جماعت پر زور نہیں ڈالنا چاہیے کہ ہم اپنے اس مقصد کو بُھلا کر جو خداتعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اپنی توجہ کسی اَور طرف پھیردیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت کے لوگ ملازمتیں بھی کرتے ہیں، ہماری جماعت کے لوگ تجارتیں بھی کرتے ہیں،ہماری جماعت لوگ صنعت وحرفت بھی کرتے ہیں، ہماری جماعت کے لوگ زمینداریاں بھی کرتے ہیں اور ہماری جماعت کے لوگ مزدوریاں بھی کرتے ہیں۔ سب کچھ کرتے ہیں لیکن دنیا میں اگر ایک کام مجبوری کےطور پر اور گزارے کے لئے کیا جائے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ چونکہ اصل مقصد کے سوا تم اپنے گزارے کے لئے کام کرتے ہو اس لئے کوئی اَور کام بھی کرو۔ انسان صرف ایک حد تک ہی اپنے اوقات اور اپنی قوتیں خرچ کر سکتا ہے۔ ایک شخص اگر اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے گزارہ کے لئے اپنے اوقات کا ایک حصہ دنیا کمانے پر صَرف کرتا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ دنیا کے اَور بھی تمام کام کر سکتا ہے۔ یہ بات ہی غلط ہے کہ ہر انسان، ہر ڈاکٹر،ہر طبیب، ہر صناع، ہر تاجر، ہر زمیندار اور ہر مزدور اپنے گزارہ کے لئے کام کرنے کے علاوہ دوسرے سارے کام بھی کر سکتا ہے۔ پس کسی ایک کام کو معیشت کمانے کے لئے اختیار کرنا اَور بات ہے لیکن یہ کہ ہر شخص دنیا کے سارے کاموں میں حصہ لے یہ بالکل اَور بات ہے۔
پس ہماری جماعت کے سامنے جو مقصد ہے اس کو پورا کرنے کے لئے اسے سیاسیات اور اس قسم کے دوسرے تمام کاموں سے الگ رہنا چاہیے۔ جو کام انسان کے اوقات کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اسے اہم کام کے قابل نہیں رہنے دیتے۔ سیاسی لوگ سیاسیات میں ہی حصہ لے سکتے ہیں، تعلیم والے تعلیم دینے پر ہی اپنے اوقات صَرف کر سکتے ہیں۔ اور پیشہ ور اپنے پیشہ میں ہی وقت لگا سکتے ہیں اور کسی دوسرے کام کے لئے وقت نکالنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ اگرممکن ہو سکتا تو ہماری جماعت کو پورے طور پر دین کے کاموں میں لگ جانا چاہیے تھا۔ لیکن چونکہ یہ ناممکن ہے اور ہمارے پاس ایسے ذرائع نہیں کہ ہر انسان کے کھانے پینے اور اس کے گزارہ کا ہم انتظام کر سکیں اور اپنی اس کمزوری کا ہمیں اقرار ہے کہ ہماری جماعت میں ابھی وہ ایمان پید انہیں ہوا کہ ہر شخص کھانے پینے اور اپنی دوسری دنیوی ضروریات سے بے نیاز ہو کر دین کے کاموں میں لگ جائے۔ اس لئے مجبورً اہماری جماعت کے لوگوں کو کچھ اس کمزوری کی وجہ سے اور کچھ خدائی قانون کے ماتحت اپنے گزارہ کے لئے کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اس کے علاوہ وہ سارے کے سارے اَور کاموں میں بھی لگ جائیں تو اتنی وسیع دنیا میں تبلیغ کا کام کس طرح ہو سکے گا۔ اگر ہم ایمان میں پختہ ہیں، اگر ہمارے اندر یقین اور وثوق ہے، اگر ہم نے دین کا کام کرنا ہے جس کا ہم منہ سے دعویٰ کرتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ جب تک ہم اپنے اوقات دین کی خدمت کے لئے نہ لگائیں گے اُس وقت تک ہمارے منہ کے کہنے سے کچھ نہیں بن سکتا اور ہم اس کام سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے ۔
کسی شخص کا ہماری جماعت سے یہ خواہش کرنا کہ ہم سیاسیات میں دخل دیں اور کسی احمدی کا یہ خیال کرنا کہ علاوہ اپنی روزی کمانے کے اور دین کا کام کرنے کے وہ سیاسیات اور دوسرے کاموں کے لئے بھی وقت نکال سکتاہے یہ بالکل غلط ہے۔ اگر واقع میں ایک احمدی سنجیدگی سے غور کرے تو اس کو اپنے تمام اوقات ضرورت کے مطابق اپنی روزی کمانے کے لئے اور باقی دین کے کاموں کے لئے صَرف کرنے چاہئیں۔ آج کل تو کام اتنے ہیں کہ انسان اپنے دنیوی کاموں سے ہی فارغ نہیں ہوتا اور اسے اپنے کام میں اتنی محنت کرنی پڑتی ہے کہ اس کی جان نکل رہی ہوتی ہے۔ پہلے زمانہ میں اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی تھی۔ لیکن اِس زمانہ میں ہر کام میں مقابلہ ہے۔ پہلے زمانہ میں دکاندار دکان پر بیٹھے مکھیاں مارتے تھے لیکن اِس زمانہ میں دکاندار کو اتنی محنت سے کام کرنا پڑتا ہے کہ شام کو جب وہ اپنے کام سے واپس آتا ہے تو تھک کر نڈھال ہو چکا ہوتا ہے۔ اسی طرح پہلے زمانہ میں ملازمین دفتروں میں بیٹھے قلمیں گھڑتے رہتے تھے لیکن اب یہ بات نہیں بلکہ اب ایک ملازم کو مسلسل چھ سات گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے اور جب وہ واپس آتا ہے تو کام کی وجہ سے اتنا چُور ہو چکا ہوتا ہے کہ اسے کچھ دیر آرام کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ وقت اسے گھر کےلیے سَودا سلف لانے پر بھی صَرف کرنا پڑتا ہے۔ پھر اگر دین کے لئے کوئی کام کرنے کی بجائے وہ کسی اَور کام کے لئے چلا جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا کیوں ہے۔ آخر اس نے دین کو کیا فائدہ پہنچایا ہے کہ وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے۔ اگر یہ نوکری کرتاہے تو اس کی طاقت تو اس کی نوکری نے سلب کر لی، اگر یہ پیشہ ور ہے تو اس کی طاقت تو اس کے پیشہ نے سلب کر لی، اگریہ مزدور ہے تو اس کی طاقت تو اس کی مزدوری نے سلب کر لی اور اگر یہ زمیندار ہے تو اس کی طاقت تو اس کی زمینداری اور اس کے ہل چلانے نے سلب کر لی۔ اور یہ اپنے کام سے چُور ہو کر تھکا ماندہ گھر آتا ہے۔ اب اگر کھانے پینے ، آرام کرنے اور سونے کے بعد اس کے پاس گھنٹہ دو گھنٹے نہایت قلیل وقت بچتا ہے جس میں یہ دین کا کوئی کام کر سکے۔ لیکن یہ اُس وقت کو بھی کسی اَور کام میں صَرف کر دیتا ہے تو پھر اسکا اپنے آپ کو احمدی کہنا کیا معنے رکھتا ہے۔ جب اس کے اوقات میں خداتعالیٰ کا کوئی خانہ خالی ہی نہیں تو پھر اس کو خدا کے سپاہیوں میں داخل ہونے کی ضرورت کیا ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ احمدیوں میں ابھی کئی ہیں جن کا ایمان راسخ نہیں کہ وہ اپنے اوقات دین کے لئے صَرف کریں۔ اگران سے پوچھا جائے کہ آپ نے دین کا کیا کام کیا ہے تو ان میں سے بمشکل پانچ فیصدی یا دو فیصدی ایسے ہوں گے جو یہ کہیں کہ ہم نے دین کا فلاں کام کیا ہے۔ باقی سارے کے سارے ایسے ہوں گے جویہ کہیں گے کہ جی فرصت ہی نہیں ملتی کہ کوئی کام کریں۔ پس اول تو یہی حالت نہایت خطرناک ہے کہ جماعت کےا کثر افراد ایسے ہیں جو دین کی خدمت کے لئے وقت نہیں نکال رہے۔ لیکن جو اپنا کچھ وقت دین کی خدمت کے لئے نکال رہے ہیں وہ بھی اگر اپنی توجہ اَور کاموں کی طرف پھیر دیں تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ جماعت میں دین کا کام کرنے والا کوئی نہ رہے اور اس کام کے لئے صرف مبلغ رہ جائیں۔ اور جو شخص یہ خیال کرتاہے کہ دین کا کام صرف مبلغوں کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے اُس کا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ مبلغ تبلیغ نہیں کرتا تبلیغ کے لئے رستہ صاف کرتاہے۔ مبلغ تبلیغ نہیں کرتا بلکہ تبلیغ کے لئے مصالحہ بہم پہنچاتا ہے۔ تبلیغ کرنے والا جماعت کا ہر فرد ہے۔ رشتہ دار اپنے رشتہ دار کو تبلیغ کر سکتا ہے۔ ہمسایہ اپنے ہمسایہ کو تبلیغ کر سکتا ہے۔ دوست اپنے دوست کو تبلیغ کرسکتاہے لیکن ایک اجنبی دوسرے اجنبی کو کیا تبلیغ کرے گا۔
میں نے بارہا جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے پاس جا کر بیٹھ جائیں اور ان سے جا کر کہیں کہ ہم یہاں سے اُس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک ہم آپ کو اپنی جماعت میں داخل نہ کر لیں اور آپ کو ہدایت نصیب نہ ہو جائے اور یا آپ ہم پر ثابت نہ کر دیں کہ ہم غلط راستہ پر جارہے ہیں۔ اور وہ اپنے اوپر کھانا پینا حرام کر لیتے اور اپنے رشتہ داروں سے جا کر کہتے کہ یا ہم مر جائیں گے اور یا آپ کو ہدایت منوا کر رہیں گے۔ مگر جماعت میں کتنے افراد ہیں جنہوں نے یہ کام کیا ہے؟ بہت ہی کم ہیں جنہوں نے اس طرف توجہ کی ہے۔ اگر وہ اس طرف توجہ کرتے اور اس طریق پر عمل کرتے تو بہت اچھے نتائج پید اہو سکتے تھے۔ آج ہی مجھے ایک احمدی کا خط آیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ آپ کی بات پر عمل کرتے ہوئے میں اپنے رشتہ داروں کے پاس چلا گیا جو دو میاں بیوی تھے۔ اور ان سے جاکر کہا کہ میں یہاں سے اُس وقت تک نہیں ہِلوں گا جب تک آپ کو ہدایت نہ منوا لوں۔ اب میں یہاں سے تب جاؤں گا کہ یا تو آپ مجھ پر واضح کر دیں کہ میں غلط راستہ پر جا رہا ہوں یا پھر آپ میرے مذہب میں داخل ہو جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر دونوں نے تیسرے دن بیعت کا خط ارسال کر دیا۔ پس جب آپ لوگوں کے اندر سنجیدگی پائی جائے گی اور آپ کا رشتہ دار یہ سمجھے گا کہ آپ روحانی طور پر مرنے مارنے پر تُلے بیٹھے ہیں تو لازمی بات ہے کہ وہ آپ کی باتوں کو ہنسی مذاق میں ٹالنے کی بجائے ان پر سنجیدگی سے غور کرے گا۔ اب تو ایک شخص اپنے رشتہ دار کو تبلیغ کرتا ہے تو تھوڑی دیر اس کی باتیں سننے کے بعد اسے کہہ دیتا ہے کہ اچھا جی جاؤ۔ آپ کے لئے آپ کا مذہب اچھا ہے اور ہمارے لئے ہمارا مذہب اچھا ہے۔ اور اس کے بعد یہ شخص واپس آکر اپنے گھر میں بیٹھ جاتاہے۔ لیکن اگر یہ اپنے رشتہ داروں کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور انہیں کہتا کہ میں کس طرح برداشت کر لوں کہ آپ میری آنکھوں کے سامنے جہنم میں جا رہے ہوں اور میں آپ کو بچانے کی کوشش نہ کروں۔ یا میں غلط راستہ پر جارہا ہوں اور آپ مجھے بچانے کی کوشش نہ کریں۔ پس میرے ساتھ فیصلہ کرو تاکہ جو بھی صحیح راستہ ہے اسے دونوں مل کر اختیار کریں۔ اگراس طرح کیا جاتا تو لازمی بات ہے کہ اس کے رشتہ دار اس کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کرتے اور ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ اور اس کے بعد یقینی بات ہے کہ انہیں ہدایت نصیب ہو جاتی۔
پس ابھی ہماری جماعت میں اس کام کے لئے بیداری پیدا نہیں ہوئی۔ اور اس بیداری پیدا نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنےمبلغ نہیں جو جماعت کو بیدار کریں اور جو تبلیغ کے لئے نئے نئے رستے تلاش کریں۔ اس کے لئے میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہر ایک جماعت اپنا ایک ایک آدمی قرآن شریف پڑھنے کے لئے یہاں بھیجے۔ مگرمجھے افسوس ہےکہ جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ حقیقی تبلیغ تو قرآن مجید جاننے سے ہی ہو سکتی ہے۔ خداتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا 1۔یعنی عظیم الشان جہاد قرآن مجید کے ذریعہ سے ہی ہو سکتا ہے۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہی نہیں کہ قرآن مجید میں کیا لکھا ہے تو وہ تبلیغ کیا کرے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت میں قرآن مجید سیکھنے کا شوق ہے۔ اس دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر عورتوں میں تقریر کرتے وقت میں نے کہا کہ جو عورتیں قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہو جائیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کتنی عورتیں ہیں جنہیں قرآن مجید کا ترجمہ آتا ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ ایک دو فیصدی عورتیں قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوں گی۔مگرمیری حیرت کی حد نہ رہی کہ آٹھ دس فیصدی عورتیں کھڑی ہو گئیں جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی تھیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں قرآن مجید سیکھنے کی خواہش تو ہے مگر جب تک وہ خواہش عملی جامہ نہ پہن لے اُس وقت تک صحیح تبلیغ کس طرح ہو سکتی ہے اور اپنا ایمان کس طرح مضبوط ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید کے معنے ہیں ایمان۔ اور ایمان کے معنے ہیں قرآن مجید۔ بِسْمِ اللّٰہِ سے لے کر وَالنَّاسِ تک سارے قرآن میں ایمان کی تشریح ہے۔ اگر کسی شخص کو قرآن مجید کا پتہ ہی نہیں تو وہ کس طرح کہتاہے کہ اس کے اندر ایمان پایا جاتا ہے۔ ایمان تو قرآن مجید کے مضمون کو ماننے کا نام ہے۔ اگر ایک شخص اپنے کسی دوست سے کہے کہ میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں تم وہ بات مان لو۔ اور وہ اس بات کو سُنے بغیر ہی کہہ دے کہ بہت اچھا میں نے تمہاری بات مان لی ہے تو وہ یقینا معقول آدمی نہ کہلا سکے گا کیونکہ جب اُس نے اس کی بات کو سنا ہی نہیں کہ وہ ہے کیا تو پھر یہ مانتا کس چیز کو ہے۔اِسی طرح اگر ایک شخص قرآن مجید کو پڑھتا نہیں، اس کے مضامین کو اپنے ذہن میں مستحضر نہیں کرتا اور ان پر غور نہیں کرتا تو پھر یہ ایمان کس چیز پر لاتا ہے۔ پس درحقیقت قرآن مجید کو ماننے کا نام ایمان ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر خداتعالیٰ کی طرف سے جو وحی نازل ہوئی۔ اس کو ماننے کا نام ایمان ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے تو اس کے یہی معنے ہیں کہ جو باتیں خداتعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے کہیں اور ان کے متعلق جو تفصیلات رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بیان فرمائیں ان سب باتوں کو ہم مانتے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں ان تمام باتوں کو مانتا ہوں لیکن وہ ان باتوں کو پڑھتا نہیں اور اسے معلوم نہیں کہ وہ کیا باتیں ہیں جنہیں وہ مانتا ہے۔
پس ہماری جماعت اگر صحیح معنوں میں تبلیغ کرنا چاہتی ہے، اگر ہماری جماعت اپنے نفس کی اصلاح کرنا چاہتی ہے اور اگر ہماری جماعت اپنی روحانیت کو درست رکھنا چاہتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا قریب ترین مقصد یہ ہو کہ سو فیصدی احمدی قرآن مجید جانتے ہوں۔ جب ہم اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے تب یہ امید ہو سکے گی کہ ہم اپنی اور اپنے گرد و پیش کی اصلاح کر سکیں۔ جب تک ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے اُس وقت تک نہ ہم اپنے شیطان کو قتل کر سکتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے کفر کو دور کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہر ایک جماعت میں سے ایک ایک آدمی یہاں آئے اور یہاں سے قرآن مجید پڑھ کر واپس جائے اور جا کر دوسروں کو پڑھائے ۔مجھے افسوس ہے کہ اس طرف توجہ پیدا نہیں ہوئی۔ میں نے کہا ہوا ہے کہ ہر ناظر کا کام ہے کہ جب مَیں خطبہ میں کسی کام کی طرف توجہ دلاؤں تو جس صیغہ کے ساتھ اُس کام کا تعلق ہو اُس صیغہ کا ناظر اس کے مطابق کام شروع کر دے۔ لیکن محکمہ تعلیم نے سُستی کی ہے اور اِس کام کو شروع کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ پس نظارت تعلیم کو چاہیے کہ اس کام کے لئے وہ ایک مہینہ مقرر کرے۔ اور پھر جماعتوں میں اخبار کے ذریعہ اور مبلغوں اور انسپکٹروں کے ذریعہ تحریک کریں کہ اس مہینہ میں ہر ایک جماعت اپنا ایک ایک آدمی قرآن مجید پڑھنے کے لئے یہاں بھیجے۔ جو یہاں سے سارا قرآن مجید یا آدھا یا دس پارے پڑھ کر واپس چلے جائیں اور اپنے اپنے ہاں واپس جا کر دوسروں کو پڑھائیں اور ہر سال یہ سلسلہ جاری رہے۔ پھر مبلغوں اور بیت المال کے انسپکٹروں کا یہ کام ہو کہ جس جس جماعت میں وہ جائیں وہاں جا کر دیکھیں کہ جو آدمی یہاں سےپڑھ کر گئے تھے انہوں نے آگے کتنے آدمیوں کو قرآن مجید پڑھایا ہے۔ اگراس سکیم پر عمل کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ چند سالوں کے اندر اندر ہماری جماعت کے لوگ قرآن مجید جاننے لگ جائیں گے اور جب وہ قرآن مجید جاننے لگ جائیں گے تو پھر ان کی تبلیغ بھی مؤثر ہو سکے گی اور ان کے اپنے ایمان بھی کامل ہو سکیں گے۔
دوسری چیز جس کے متعلق مَیں نے اس جلسہ پر بھی اعلان کیا تھا اور بعد میں خطبہ جمعہ میں بھی جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ علماء پیدا کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ کثرت کے ساتھ طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں۔ اور میں نے بتایا تھا کہ یہ کام بہت اہم اور بہت لمبا ہے۔ اگر ایک مڈل پاس طالب علم آج مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوتا ہے تو دس سال میں اس کی تعلیم مکمل ہو گی۔ گویا اگر ہم آج درخت لگائیں تو دس سال کے بعد ہمیں پہلا پھل ملے گا۔ اگر آج تین طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تو اس کے معنے ہیں کہ دس سال کے بعد ہمیں تین مبلغ ملنے کی امید ہو سکتی ہے۔ یہ کتنا ڈرنے کا مقام ہے اُس قوم کے لئے جو دس سال کے بعد تین مبلغ تیار کرے۔ وہ قوم تبلیغ نہیں کرتی بلکہ سُستی کر کے اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودتی ہے۔ اگر آج دس طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تو دس سال کے بعد دس مبلغوں کے تیار ہونے کی امید ہو سکتی ہے اور آج سے بیس سال بعد سَو مبلغوں کے تیار ہونے کی امیدہو سکتی ہے۔ مگر ہمیں تو ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے۔ بیس سال کے بعد سَو مبلغوں سے کام کس طرح ہو سکتا ہے۔ ہماری تو جماعتیں ہی کئی ہزار ہیں۔ ہندوستان میں آٹھ سَو سے اوپر تو ہماری انجمنیں ہی ہیں۔ اور ایک ایک انجمن میں کئی کئی گاؤں شامل ہیں۔ بعض انجمنیں ایسی ہیں جن میں پندرہ پندرہ بیس بیس گاؤں شامل ہیں۔ تو اگر ہم صرف احمدی گاؤں میں ہی مبلغ رکھیں تو ہزارہا گاؤں میں احمدی ہیں جن کے لئے ہمارے پاس ہزاروں مبلغ ہونے چاہئیں۔ اور پھر اس تعداد سے بہت زیادہ علاقے ہماری تبلیغ سے باہر رہ جائیں گے جہاں کوئی احمدی نہیں۔ تو یہ ہزاروں مبلغ تبھی پیدا ہو سکتے ہیں اگر ہم سو یا دو سو طالب علم ہر سال مدرسہ احمدیہ میں داخل کریں۔ اگر ایک سو طالب علم ہر سال مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں اور ان میں سے کوئی فیل نہ ہو، کوئی بیمار نہ ہو، کوئی تعلیم نہ چھوڑے اور سارے کے سارے پاس ہو جائیں تو پھر دس سال کے بعد ہمیں سَو مبلغ ملنے کی امید ہو سکتی ہے۔ اور بیس سال کے بعد ایک ہزار مبلغوں کی امید ہو سکتی ہے۔ میرا دل تو یہ قیاس کر کے بھی کانپ جاتا ہے کہ بیس سال کے بعد صرف ایک ہزار مبلغ تیار ہوں۔ کیونکہ بیس سال میں تو دنیا تہہ و بالا ہو جانے والی ہے۔ اور ایسے ایسے عظیم الشان تغیرات پیدا ہونے والے ہیں کہ ہم میں سے جو اُس وقت زندہ ہوں گے وہ دیکھیں گے کہ آج سے بیس سال بعد دنیا بالکل بدلی ہوئی ہو گی۔ خدا اور خدا کے فرشتے ایک طرف ہیں اور شیطان اور شیطان کے لشکر دوسری طرف ہیں اور ان کے درمیان جنگ ہو رہی ہے۔ اور آج سے بیس سال بعد یا اسلام کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہو گی (اِنْشَاءَ اللہ) اور یا کفر اسلام کی جڑوں کو اکھاڑ کر پھینک چکا ہو گا (اَلْعِیَاذُ بِاللہ) دہریت دوڑتی ہوئی دنیا میں پھیلتی جارہی ہے اور اس کے مقابلہ میں جس طرح ربڑ کو کھینچ کر چھوڑ دیں تو وہ سمٹ جاتی ہے اسلام پیچھے ہٹ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اصل چیز تو آخری فیصلہ ہے اور آخری فیصلہ کے لئے لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر جب کسی انسان پر غرغرہ اور نزع کی حالت طاری ہو جائے اور وہ اشاروں سے باتیں کرنے پر آجائے تو پھر اس کی زندگی قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔ پھر تو وہ آگے موت کی طرف ہی جاتا ہے۔ پس آخری فیصلہ کو جانے دو۔ اُس وقت تو تمام امیدیں ختم ہو جاتی ہیں اور تمام کوششیں بے کار ہوتی ہیں۔ انسان کی کوششیں تو اسی حالت میں کارآمد ہو سکتی ہیں جب اُسے حیات کی امید ہو اور وہ یہ سمجھ کر کام کرے کہ یا تو مَیں زندگی حاصل کر کے رہوں گا اور یا پھر مجھ پر موت آجائے گی۔
پس موت و حیات کی کشمکش میں کی ہوئی کوششیں ہی کار آمد ہو سکتی ہیں۔ اور وہ یہی چند سال ہیں اور ان چند سالوں کےاندر ایسے ایسے عظیم الشان تغیرات ہونے والے ہیں کہ اگر اس عرصہ کے اندر اندر ہماری طرف سے اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کی پوری پوری کوشش نہ کی گئی تو اس کا نتیجہ ہمارے حق میں نہایت خطرناک ہو گا اور ہم آپ اپنی موت کو بلانے والے ہوں گے۔ پس اگر ہر سال ایک سو طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تو بیس سال کے بعد ہمیں ایک ہزار مبلغ ملنے کی امید ہو سکتی ہے جو قلیل ترین تعداد ہے۔ کیونکہ ساری دنیا میں تبلیغ کرنے کے لئے ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے۔ اور پھر یہ اندازے بھی تو صرف خیالی ہیں واقع میں تو ہمارے پاس ایک سومبلغ بھی موجود نہیں۔ پچھلے سے پچھلے سال صرف تین طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے اور پچھلے سال سات طالب علم داخل ہوئے تھے۔ ان تین تین اور سات سات لڑکوں کے داخل ہونے سے کیا بن سکتا ہے۔ اور تین تین یا سات سات مبلغوں کے تیار ہونے سے ہم ساری دنیا میں کیا تبلیغ کر سکتے ہیں۔ اس سے تومعلوم ہوتاہے کہ ہماری جماعت کا بیشتر حصہ تبلیغ کوگداگروں، بھک منگوں اور بھوکوں کا کام سمجھتا ہے جن کو اور کوئی کام نہ ہو۔ اگر یہی سُستی رہی، اگر یہی غفلت رہی، اگر یہی افکار رہے کہ دین کے کام کرنا غریبوں کا کام ہے اور امراء دین کے کاموں سے غافل رہے تو یہ چیز خداتعالیٰ کے عذاب کوبلانے کا موجب ہو گی۔ اور دنیا ختم نہیں ہو گی کہ کفار کو مارنے کی بجائے خداتعالیٰ کے فرشتے پہلے ایسے لوگوں کو چُن چُن کر ماریں گے جو دین میں داخل ہوئے مگر پھر دین کی کوئی پرواہ نہ کی اور دین کی خدمت کے لئے کوئی کام نہ کیا۔
آخر تم کیا سمجھتے ہو کہ دین کی خدمت کا کام کس نے کرنا ہے۔ اگر تم اپنی آمدنی کا سولہواں حصہ دے کر یا دسواں حصہ دے کر یا پانچواں حصہ دے کر یہ سمجھتے ہو کہ تم نے دین کی خدمت کر لی تو یہ غلط خیال ہے۔ دین کے لئے تمہیں یہ چیز بھی دینی ہو گی اور اپنی جانیں بھی دینی ہوں گی۔ اور جانیں دینے کا بہترین طریق یہ ہے کہ اپنی اولادوں کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرو۔ کیا یہ خدا سے مذاق نہیں کہ تم اس کے دین میں داخل ہو کر پھر دین کی خدمت سے جی چُراتے ہو اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہو۔ کیا تم خدا سے مذاق کر کے اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے ہو؟ جب تم دنیا کے کسی بادشاہ سے مذاق کر کے اس کی سزا سے محفوظ نہیں رہ سکتے تو خداتعالیٰ سے مذاق کر کے پھر تم اس کے عذاب سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہو۔ مگر یہ کتنا مذاق ہے کہ تم خدا کے دین میں داخل ہوتے ہو اور اس کے بعد دین کی خدمت سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہو۔
میں دیکھتا ہوں کہ تم میں سےکئی ایسے ہیں جو پہلے اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں اور پھر بھاگ جاتے ہیں اورکہتےہیں کہ جی !ہم نے غلط سمجھا تھا۔ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ وقف کیا ہے۔ رات کومیرے پاس ایک شخص کا خط آیا جس میں اس نے لکھا ہے کہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ وقف کرنے میں اتنی تنگی ہو گی۔ میں نے اس کا غلط مفہوم سمجھا تھا میں اپنا وقف واپس لیتا ہوں۔ حالانکہ وقف کرتے وقت جس فارم پر دستخط کئے جاتے ہیں اُس میں یہ سب باتیں لکھی ہوتی ہیں کہ میں ہر قسم کی تنگی اور ہر قسم کی تکلیف برداشت کروں گا اور گزارہ کے لئے جو کچھ مجھے دیا جائے گا اسے میں انعام سمجھوں گا اور اسی میں گزارہ کروں گا۔ اور گزارہ نہ بھی ملے تب بھی اپنا پیٹ پالنے کے لئے خود کوئی انتظام کروں گا۔ اب یہ ایمان ہے یا بے ایمانی اور کفر ہے کہ پہلے ایک شخص اپنے آپ کو وقف کرتا ہے اور یہ عہد کرتا ہے کہ میں دین کی خاطر ہر طرح کی تکلیف برداشت کروں گا مگر پھر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے۔ اور پھر یہ بھی کتنے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہے ان کی تعداد بھی تو تسلی بخش نہیں۔ ظفر کا ایک شعر ہے۔
عجب طرح کی ہوئی تسلی جو بار اپنا گدھوں پہ ڈالا
میں تو سمجھتا ہوں کہ یہی حال ہماری جماعت کے ایک حصہ کا ہے کہ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ تبلیغ کرنا مبلغوں کا کام ہے۔ ہم اس کام سے آزاد ہیں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ خداتعالیٰ تم سے تمہاری جانوں کا مطالبہ کرتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ اپنی اولادیں دین کی خاطر وقف کرو۔ اگر تم دین کے لئے اپنی اولادیں دینے کے لئے تیار نہیں ہو گے تو خداتعالیٰ تمہاری اولادیں شیطان کو دے دے گا۔ یاد رکھو دنیا میں کسی کی اولاد اُس کے پاس نہیں رہتی۔ اگر تمہاری اولاد خدا کی ہو کر نہیں رہے گی تو وہ شیطان کی ہو جائے گی، اگرتمہاری اولاد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے رستہ میں اپنی جانیں نہیں دے گی تو وہ ابلیس کے رستہ میں مرے گی (اَلْعِیَاذُ بِاللہ) مگر موت بہرحال ہر ایک پر آتی ہے۔
پس اب وقت آگیا ہے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک فرد حالات پر غور کرے اور اس بات کی طرف توجہ کرے کہ ان میں سے جو بڑی عمر کے لوگ ہیں اور وہ نئے سرے سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے وہ کمائیں ان کے لئے جو پڑھتے ہیں۔ اور دوسرے جو پڑھے ہوئے ہیں وہ آگے آئیں اور اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ اور دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہر سال کم از کم ایک سَو طالبعلم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تاکہ ہمیں ہزاروں کی تعداد میں مبلغ مل سکیں۔
میں نے اپنے خطبات میں بتایا ہے کہ ہمیں کئی قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں ضرورت ہے عربی یا انگریزی کے گریجوایٹوں کی جو اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر یں اور دو تین سال میں ہم انہیں سلسلہ کے کاموں یا بیرونی تبلیغ کے لئے تیار کر سکیں۔ ہمیں ضرورت ہے مڈل پاس یا انٹرنس پاس طالب علموں کی جو فورًا سینکڑوں کی تعداد میں آکر مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں اور پھر آٹھ نو سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد بطور مبلغ کام کر سکیں۔ ہمیں ضرورت ہے ایسے نوجوانوں کی جو پرائمری پاس یا مڈل پاس ہوں اور ہم انہیں ایک دو سال میں موٹی موٹی تعلیم دے کر بطور دیہاتی مبلغ گاؤں میں مقرر کر سکیں۔ پس تین قسم کے آدمیوں کی ہمیں ضرورت ہے ۔ ایک مڈل پاس طالب علموں کی جو کثرت سے آکر مدسہ احمدیہ میں داخل ہوں۔ جن کا کام یہ ہو گا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے عربی ممالک میں جا کر تبلیغ کریں گے۔ یا جہاں علمی لوگوں سے مقابلہ ہو گا وہاں جائیں گے۔ یا قادیان میں درس دیں گے اور نئی پود تیار کرنے کا کام کریں گے۔ دوسرے مڈل یا پرائمری پاس نوجوانوں کی ضرورت ہے جو ایک دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد بطور دیہاتی مبلغ کام کریں۔ اور تیسرے بعض جگہوں پر فوری طور پر مشن کھولنے کے لئے عربی اور انگریزی گریجوایٹوں کی ضرورت ہے کیونکہ اِس وقت لوگوں کے دل مصائب اور مشکلات کی وجہ سے غمزدہ ہیں اور وہ خداتعالیٰ کی باتیں سُننے اور خدا کے دین کی طرف متوجہ ہونے کے لے تیار ہیں۔ اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان جگہوں پر ہم فوری طور پر مشن کھولیں اوران کی اِس غم اور مصیبت کی حالت سے فائدہ اٹھائیں۔ اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو ہم خداتعالیٰ کے جاں نثار سپاہی نہیں کہلا سکتے۔ غم اور مصیبت کی حالت میں ہی انسان خداتعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اور یہ غم کی حالت چار پانچ سال تک رہے گی۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد لوگ غم کو بھول جایا کرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام انگریزی حکومت کی خوبیاں بیان فرماتے تو اس پر بعض معترضین اعتراض کیا کرتے تھے۔ اس کے جواب میں آپ فرمایا کرتے تھے کہ تم نے سکھا شاہی کے زمانہ کا قریب سے مطالعہ نہیں کیاکہ اس میں کس قسم کی مشکلات تھیں لیکن ہم نے اس زمانہ کے آثار کو دیکھا ہے گو اصل کو نہیں اس لئے ہمارے دل میں انگریزی حکومت کی قدر ہے۔ پس جن لوگوں نے موجودہ مشکلات اور غم نہیں دیکھے ہوں گے وہ اِس قسم کا درد اپنے اندر نہیں رکھتے ہوں گے جس قسم کا درد ان لوگوں کے دلوں میں ہو سکتا ہے جنہوں نے ان مشکلات اور ان مصائب کو دیکھا ہے۔ پھر ان مصائب اور مشکلات دیکھنے والوں میں بھی بہت تھوڑا طبقہ ہوتا ہے جن کو وہ غم یاد رہتے ہیں۔ ہم نے کئی عورتوں کو اپنے خاوندوں کی وفات پر روتے اور سر پیٹتے بھی دیکھا ہے۔ اور پھر انہیں سنگار 2کر کے خوشی خوشی دوسرے مرد کے گھر جاتے بھی دیکھا ہے۔ ہم نے عورتوں کو اپنے بچوں کی وفات پر پچھاڑیں 3 کھا کھا کر گرتے اور دیواروں کے ساتھ سر پٹکتے بھی دیکھا ہے اور پھر سال دو سال بعد ان کی یاد محو ہوتے بھی دیکھا ہے۔ ہم نے خاوندوں کو اپنی بیویوں کی وفات پر تڑپتے بھی دیکھا ہے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد انہیں عیش کے دوسرے سامان کرتے بھی دیکھا ہے۔ پس کچھ عرصہ کے بعد غم کی تصویریں دھندلی پڑ جاتی ہیں اور اس کے نقش مٹ جاتے ہیں۔ اگر ہم نے بھی اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا یا جبکہ لوگ غم اور مصیبت میں مبتلا ہیں تو پھر چار پانچ سال کے بعد اس قسم کے نقش دھندلے پڑ جائیں گے اور مصائب کی یاد ان کے دلوں سے محو ہو جائے گی۔
پس ضروری ہے کہ ہمارے پاس کافی آدمی تیار ہوں جن کے ذریعے ہم غیر ممالک میں فورًا تبلیغ پھیلا سکیں۔ اس کے لئے مولوی فاضلوں کی ضرورت ہے تاکہ ہم انہیں فورًا باہر بھجوا سکیں۔ اور پھر ہماری جماعت کا سب سے مقدم فرض تو یہ ہے۔ اپنے ہمسایوں سے ہمدردی کریں اور اپنے ملک میں تبلیغ کو وسیع کریں۔ اس کے لئے بڑی تعداد میں دیہاتی مبلغین کی ضرورت ہے۔ اور پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ جماعت ہر سال ایک سو طالب علم مدرسہ احمدیہ کے لئے دے۔ اور جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس خیال کو زندہ رکھے ۔میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں یہ کمزوری پائی جاتی ہےکہ روپیہ کے مقابلہ میں بھی اگر تعہد نہ کیا جائے تو ہماری جماعت کے لوگ سُستی کر جاتے ہیں۔ مثلاً تحریک جدید کے دس سالوں میں چندہ دینے کے بعد بعض تو ایسے ہیں جنہوں نے پہلے سالوں سے بھی زیادہ چندہ دینے کے وعدے کئے ہیں۔ اور کئی ایسے ہیں جو دس سال چندہ دینے کے بعد اب تھک کر حصہ لینا چھوڑ چکے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ دراصل تو دس سالوں میں حصہ لینا ضروری تھا اب ضروری نہیں۔ حالانکہ خدا کے ہاں تو دس کا سوال ہی نہیں وہاں تو ضرورت کا سوال ہے۔ اگر ضرورت باقی ہے تو تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ
دیکھئے سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں
اگر کوئی شخص خدا کے ساتھ شرطیں باندھتا ہے تو وہ عقل سے کام لیتا ہے عشق سے کام نہیں لیتا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کےپاس جب مدینہ سے وفد آیا کہ وہ آپ کو اپنے ہاں لےجائے تو حضرت عباسؓ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چچا تھے لیکن عمر کے لحاظ سے کوئی زیادہ فرق نہیں تھا وہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ایک سال بڑے تھے مگر دنیوی تجربہ رکھتے تھے جب وہ وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس آپ کو مدینہ لے جانے کے لئے آیا تو حضرت عباسؓ نے کہا۔ بھتیجے! تمہیں دنیا کا تجربہ نہیں مجھے ساتھ لے چلو اور ان لوگوں سے شرط طے کر لو کہ وہ تمہاری حفاظت کریں گے۔ چنانچہ وہ آپ کے ساتھ گئے اور اس وفد سےکہنے لگے کہ تم اِن کو یہاں سے لے جاتے ہو تو ان کے ساتھ عہد کرو کہ تم وہاں ان کی حفاظت کرو گے۔ اور اگر کوئی مدینہ میں ان پر حملہ کرے گا تو تم اس کا مقابلہ کرو گے۔ یہاں تو خواہ کچھ بھی ہو اور لوگ کتنی مخالفت کریں پھر بھی ہم ان کے چچے تو ہیں۔ اگر کسی کے دل میں ان پر حملہ کرنے کا خیال آتا ہے تو وہ ان کو بالکل اکیلا نہیں سمجھتا بلکہ اسے اس کے دس پندرہ رشتہ دار بھی نظر آتے ہیں مگر تمہارے علاقے میں تو یہ بالکل غیر ہو گا اس لئے تم عہد کرو اگر کوئی مدینہ میں اِن پر حملہ آور ہو گا تو تم اس کے ذمہ دار ہو گے اور دشمن کا مقابلہ کرو گے۔ چنانچہ انہوں نےعہد کیا کہ اگر کوئی مدینہ میں آپ پر حملہ کرے گا تو ہم مدینہ کے لوگ اپنی جانیں قربان کر کے آپ کی حفاظت کریں گے۔ اس معاہدہ کے بعد آپ خداتعالیٰ کے حکم کے مطابق مدینہ تشریف لے گئے۔4
اس کے کچھ عرصہ بعد جب آپ کو خداتعالیٰ کی طرف سے اطلاع ملی۔ اور خداتعالیٰ نے حکم دیا کہ تم اپنے ساتھیوں کو لے کر مدینہ سے باہر جاؤ۔ تمہارے لئے ایک کام مقدر کیا ہے۔ چاہے کفار کا قافلہ تمہارے سامنے آئے اور چاہے کفار کے لشکر سے مقابلہ ہو۔ چونکہ کفار کے لشکر کے متعلق کمزور روایات تھیں جن کی بنا پر لشکر سے مقابلہ قطعی نہیں تھا اس لئے بیشتر صحابہؓ نے یہی سمجھا کہ قافلہ سے مقابلہ ہوگا جو کوئی مشکل نہیں اور جس کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت نہیں۔ اس لئے تھوڑے سے صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ باہر آئے۔ مختلف روایتوں میں ان کی مختلف تعدادیں بیان ہوئی ہیں جو تین ساڑھے تین سو تک کی ہیں۔ ان میں سے جو مشہور روایت ہے وہ تین سو تیرہ کی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مدینہ سے نکل کر تھوڑے فاصلہ پر گئے تو خداتعالیٰ نے آپ کو قطعی علم دے دیا کہ مقابلہ لشکر سے ہی ہو گا قافلہ سے نہیں ہو گا۔ اور یہ علم خداتعالیٰ نے مدینہ میں اس لئے نہ دیا تاکہ وہ مومنوں کی آزمائش کرے۔ تب آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان تمام صحابہؓ کو جمع کیا جو آپ کے ساتھ تھے اور آپ نے فرمایااے لوگو !مجھے مشورہ دو کہ کیا کرنا چاہیے کیونکہ اب مقابلہ قافلہ سے نہیں ہو گا بلکہ دشمن کی فوج سامنے آئے گی۔ صحابہؓ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا یہ مشورہ دے رہے تھے کہ یا رسول اللہ! اور کیا کرنا ہے ہم دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ لیکن جب ایک شخص مشورہ دےکر بیٹھتا تو آپؐ پھر فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو کیا کرنا چاہیے؟ جب دوسرا شخص مشورہ دے کر بیٹھتا تو آپ پھر فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو کیا کرنا چاہیے؟ اور جب تیسرا شخص مشورہ دے کر بیٹھتا تو آپ پھر فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو کیا کرنا چاہیے؟ اس پر ایک انصاری اٹھے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مشورہ تو آپ کو دیر سے مل رہا ہے لیکن آپ پھر بھی اس بات کو دُہرا رہے ہیں کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو میں کیا کروں۔ شاید اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ انصار مشورہ دیں۔ آپ نےفرمایا ہاں میری یہی مراد ہے، میں آپ سے مشورہ لینا چاہتا ہوں کہ کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہم اس مصلحت کی بناء پر خاموش تھے کہ مکہ والے جن کےساتھ مقابلہ ہے مہاجرین کے رشتہ دار ہیں ہمیں نہیں بولنا چاہیے شاید مہاجرین کو یہ بات بُری لگے۔ اس لئے یہ ان کا حق تھا کہ وہ مشورہ دیتے اور جو بھی وہ مشورہ دیں ہم تو آپ کےساتھ ہی ہیں۔ پھر اس نے کہا یا رسول اللہ ! شاید آپ اُس معاہدہ کی وجہ سے ہم سے مشورہ پوچھ رہے ہیں جو مکہ کی وادی میں ہم نے آپ سے کیا تھا کہ اگر آپ پر مدینہ میں حملہ ہو گا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گےاور مدینہ سے باہر کے ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ لیکن یا رسول اللہ ! اُس وقت ہمیں پتہ نہیں تھا کہ آپ کیا چیز ہیں اور ابھی آپ کی شان کا ہمیں علم نہیں ہوا تھا اور آپ کا مقام ہم پر نہیں کُھلا تھا۔ اس کے بعد جب آپ ہمارے اندر تشریف لائے تو پھر ہمیں آپ کے مقام اور آپ کی شان کا علم ہوا تو یا رسول اللہ! اب وہ معاہدہ ختم ہو چکا ۔ اب تو یہ سامنے سمندر ہے آپ حکم دیجئے کہ اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دو ہم بغیر چون و چرا کے اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دیں گے۔5 اور یارسول اللہ! اگر دشمن مقابلہ پر آئے گا تو ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے۔ اور دشمن اگر آپ تک پہنچے گا تو ہماری لاشوں کو روندتا ہوا ہی پہنچے گا اس کے بغیر نہیں پہنچ سکے گا۔ 6
تو دیکھو جہاں عشق ہوتا ہے وہاں اس بات کو نہیں دیکھا جاتا کہ ہم نے کیا شرط کی تھی بلکہ اِس بات کو دیکھا جاتا ہے کہ ہم نے وہ کام کر لیا ہے یا نہیں جو ہمارے سپرد کیا گیا تھا۔ پس کیا ان دس سالوں میں ہم نے روپیہ کے لحاظ سے یا آدمیوں کے لحاظ سے کام کر لیا ہے؟ ہم نے معمولی سی تبلیغ کے لئے جس میں چند سو مبلغ ہوں تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کا اندازہ بتایا تھا اور ان دس سالوں میں کُل تیرہ چودہ لاکھ روپیہ چندہ جمع کیا ہے جس میں سے کچھ ساتھ کے ساتھ خرچ ہو چکا ہے۔ تو جہاں چند لاکھ روپیہ کا کُل ریزرو فنڈ ہو وہاں تبلیغ کی معمولی سے معمولی سکیم پر عمل کرنے کے لئے تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ کہاں سے آئے گا؟ اگر پانچ فیصدی منافع کا اندازہ لگا لیا جائے جو زیادہ سے زیادہ اندازہ ہے گورنمنٹ تو اپنے کاموں میں عام طور پر اڑھائی فیصدی منافع کا اندازہ لگایا کرتی ہے۔ لیکن اگر پانچ فیصدی منافع کا ہی اندازہ لگا لیا جائے تو عام کاروباری اندازہ کے مطابق تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کے لئے پانچ کروڑ بیس لاکھ روپیہ کا ریزرو فنڈ ہو تو اس سے تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ کی آمدنی ہو سکتی ہے۔ اور پانچ فیصدی آمد رکھی جائے تب بھی اڑھائی کروڑ روپیہ سے یہ آمد پیدا ہو سکتی ہے۔ پس جب تک ہماری جماعت دین کی ہر ضرورت کے موقع پر اپنا روپیہ اور اپنی جانیں پیش نہیں کرتی اُس وقت تک اس کو کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ خداتعالیٰ کا کام تو ہو جائے گالیکن ہم دین کی خدمت کا ثواب حاصل کرنے اور اپنے ایمانوں کا ثبوت دینے سے قاصر رہیں گے۔ پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کو سمجھے۔ اور دین کے لئے جہاں مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کا سوال ہو وہاں آگے بڑھ بڑھ کر اپنے اموال پیش کریں۔اور جہاں جانی قربانی کا سوال ہو وہاں آگے بڑھ بڑھ کر اپنی جانیں اور اپنی اولادیں دین کے لئے پیش کریں۔
میں نے گزشتہ سے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں یہ تحریک کی تھی کہ جن کے ہاں کوئی اولاد نہ ہو یا ان کی اولاد چھوٹی ہو یا صر ف لڑکیاں ہی ہوں لڑکے نہ ہوں وہ کم از کم اتنا ہی کریں کہ تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے وظائف مقرر کریں۔ اس تحریک میں اِس وقت تک تین وظائف کے وعدے آچکے ہیں۔ بعض لوگوں نے دریافت کیا ہے کہ اگر کوئی غریب ہو اور وہ اکیلا وظیفہ کے لئے رقم نہ دے سکے تو کیا وہ اور لوگوں کے ساتھ مل کر دے سکتا ہے؟ تو اس کے متعلق بھی میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہاں اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص اکیلا وظیفہ مقرر کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ دوسروں کے ساتھ مل کر اس میں حصہ لے سکتا ہے۔
اِس وقت تک تین وظائف کے وعدے آچکے ہیں۔ ایک تو میاں محمد احمدخاں صاحب جو میرے بھانجے ہیں انہوں نے ایک وظیفہ کے لئے نقد رقم جمع کرا دی ہے اور ایک وظیفہ دینے کے لئے چودھری ظفراللہ خاں صاحب نے وعدہ کیا ہے اور انہوں نے دفتر محاسب کو لکھ دیا ہے کہ میری امانت میں سے یہ رقم ادا کر دی جائے۔ اور ایک میری بیٹی اور ان کے خاوند نے وعدہ کیا ہے وہ مجھے کہتے تھے کہ ہم اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ اور میں نے انہیں کہا تھا کہ دفتر میں لکھوا دو۔ غالبًا انہوں نے لکھوا دیا ہو گا۔ میں نے یہ نیت کی ہے کہ اگر خداتعالیٰ زیادہ کی توفیق دے گا تو اس سے زیادہ دوں گا لیکن انشاء اللہ دس سال تک کم از کم پانچ طالبعلموں کا مَیں سالانہ وظیفہ دوں گا اور میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میں زندہ رہوں تو میں اس وعدہ کو پورا کرنے کا خود پابند رہوں گا اور اگر میں مر جاؤں تو میری جائیداد میں سے پہلے اِس رقم کو پورا کر لیا جائے اور بعد میں پھر وہ میرے ورثاء میں تقسیم ہو۔
میرا منشاء ہے کہ ہر سال چھ ہزار روپیہ مَیں داخل کرتا چلا جاؤں تا پہلے سالوں کی تعلیم پر جو کم رقم خرچ ہو گی اور بعد میں زیادہ خرچ ہو گی۔ پہلے وقت کا بچا ہوا روپیہ دوسرے وقت میں کام دے۔ یہ وعدہ دس سال میں پچاس طالبعلموں کو تعلیم دلانے کا ہوتا ہے جس پر قریباً ایک لاکھ روپیہ خرچ ہو گا۔ باقی میں نے اپنی اولاد اپنی طرف سے دین کے لئے وقف کی ہوئی ہے۔ آگے کام کا ثواب تو انہوں نے خدا سے ہی لینا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو دین کی خدمت کا موقع ملے اور کس کو نہ ملے۔ میں نے بہرحال اپنی طرف سے انہیں دین کے لئے ہی وقف کیا ہوا ہےاور ان کو تعلیم دلانے میں بھی میں نے ہمیشہ اسی چیز کو مدنظر رکھا ہے۔ میں نے اپنی اولاد میں سے کبھی ایک بیٹے کو بھی خالصۃً اپنے لئے رکھنے کی خداتعالیٰ سے درخواست نہیں کی۔ یہ سب اُسی کے دیئے ہوئے ہیں اور اُسی کی چیز ہیں۔ اُس کی مہربانی اور اُس کا احسان ہو گا تو ان کو اپنے دین کی خدمت کے لئے قبول فرمالے گا۔ لیکن اگر وہ کسی کو اس کی غفلت کی وجہ سے رد کر دے تو میں بری الذّمہ ہوں۔ میں نے اپنے لئے ان کو لینے کی کبھی ضرورت نہیں سمجھی سوائے اس کے کہ اپنے گزارہ کے لئے باری باری کچھ عرصہ وہ جائیداد کا انتظام کریں تادوسرے دین کا کام کر سکیں۔ اور وہ بھی دوسرے وقت میں دین کا کام کر سکیں۔
میرا تو عقیدہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باقی اولاد بھی اگر اس پر غور کرے تو اسے سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اتنے بڑے احسان کے بعد کہ شدید ترین گمراہی کے وقت میں اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے خاندان میں سے مبعوث فرمایا۔ اس احسان کے بعد بھی اگر ہمارے اندر دنیا طلبی اور دین سے بے رغبتی پائی جائے تو ہم سے زیادہ بدقسمت اور کون ہو سکتا ہے۔ اس ایک احسان کے بدلہ اگر ہمارا سر قیامت تک خداتعالیٰ کے آگے جھکا رہے تو ہم اس احسان کا بدلہ نہیں اُتار سکتے۔ یہ خداتعالیٰ کا اتنا بڑا احسان ہے کہ اس سے بڑھ کر احسان ممکن ہی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس احسان کو دیکھ کراگر ہمارے خاندان کے لوگ ہی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو چونکہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ فرمایا ہے کہ تَرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا۔7 یعنی تیری نسل دور دور تک پھیل جائے گی۔ اور جس طرح ہم نے ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا اسی طرح تیری نسل بھی اتنی زیادہ ہو گی کہ وہ گنی نہیں جائے گی۔ پس ہمارے خاندان ہی کے افراد اگر دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کووقف کر دیں تو تبلیغ اور مبلغوں کا سوال حل ہو جاتا ہے۔ مگر بہرحال کسی ایک شخص کے اپنے آپ کو پیش کر دینے سے دوسرے لوگ بری الذّمہ نہیں ہو سکتے۔ جب تک ساری جماعت اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش نہیں کرتی اُس وقت تک جماعت بری الذّمہ نہیں ہو سکتی۔ اور جب تک کوئی فرد اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش نہیں کرتا۔ اُس وقت تک وہ فرد ہونے کے لحاظ سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ اگر جماعت کی اکثریت اپنی ذمہ داریاں اور اپنے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کرتی ہے تو وہ بلحاظ جماعت خداتعالیٰ کے فضل کو جذب نہیں کر سکتی۔ اور اگرایک فرد اپنی ذمہ داریاں اور اپنے فرائض نہیں سمجھتا تو وہ منفرد طور پر سزا کا مستحق ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو کھول دے اور ہمارے ایمانوں کو مضبوط کر دے۔ اور ہمیں اُس مقام پر کھڑا نہ کرے جہاں مجرم کو سزا دینے کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے۔ بلکہ خداتعالیٰ ہمیں اُس مقام پر کھڑا کرے جہاں خدمت گزار اور وفادار غلام کو انعام کے لئے کھڑا کیا جاتاہے۔ آمین’’ (الفضل 23 جنوری 1945 ء )
1: الفرقان:53
2: سنگار: سنگھار۔ زیب و زینت
3: پچھاڑیں کھانا: تڑپنا، صدمے اُٹھانا
4: سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ84،85۔ مطبوعہ مصر1936ء
5: سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ266،267
6: بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ
7: تذکرہ صفحہ185 ایڈیشن چہارم

4
تحریک جدید کے وعدے جلد سے جلد کئے جائیں
(فرمودہ 26جنوری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مَیں آج زیادہ بول نہیں سکتا۔ کیونکہ دو تین گھنٹے سے میری طبیعت خراب ہے اور بخار کے آثار بھی معلوم ہوتے ہیں ۔ چونکہ تحریک جدید کے وعدوں کا وقت چند دنوں (7فروری) تک ختم ہونے والا ہے اس لئے میں پھر ایک دفعہ جماعت کو اس کے فرض کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ شروع میں جن لوگوں نے اس سال وعدے لکھوائے ان میں ایک خاص جوش اور اخلاص پایا جاتا تھا۔ مگر ان کے بعد جماعت کا جو بقیہ حصہ رہ جاتا ہے انہوں نے وعدے بھجوانے میں سُستی کی ہے۔ ممکن ہے وہ کوشش کر رہے ہوں اور میعاد ختم ہونے سے پہلے پہلے وہ اپنے وعدے بھجوا دیں مگر جس رفتار میں ہر سال ان ایام میں وعدے آیا کرتے تھے اُس رفتار میں اس سال فرق معلوم ہوتا ہے۔ گویا پہلا حصہ تو اخلاص میں بڑھا ہوا تھا اور بہت ہی نمایاں حصہ لینے والا تھا اور یہ لوگ کُل حصہ لینے والوں کے ساٹھ فیصدی تھے۔ انہوں نے نہایت اخلاص سے حصہ لیا ہے۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنی حیثیت سے بھی زیادہ حصہ لینے کی کوشش کی ہے لیکن بقیہ چالیس فیصدی لوگ جن کے وعدے دسمبر میں نہ آئے تھے ان میں سے ایک حصہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سُستی دکھا رہا ہے۔ چونکہ ابھی وعدہ کی آخری میعاد ختم نہیں ہوئی اس لئے جیسا کہ میں نے بتایا ہے ممکن ہے بقیہ جماعتیں کوشش کر رہی ہوں اور وقت ختم ہونے کے قریب یکدم اپنے وعدے بھجوا دیں۔ لیکن گزشتہ سالوں میں جس رفتار سے وعدے ہوا کرتےتھے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی قیاس ہوتا ہے کہ جماعت کا ایک حصہ کچھ تھکا ہوا سا ہے۔ میں نے اس کے متعلق ایک نوٹ الفضل میں بھی شائع کرایا ہے۔ اور آج خطبہ میں بھی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارے سامنے جو کام ہے بغیر قربانی کے ہم اس کام میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہر کام ان ذرائع سے ہوتا ہے جو ذرائع اس کام کےلئے مقرر ہوتے ہیں۔ جب تک اس کام کے لئے وہ ذرائع اور وہ سامان مہیا نہ کئے جائیں اُس وقت تک انسان کا یہ امید کرنا کہ میں اس کام میں ان ذرائع کی مدد کے بغیر اور ان سامانوں کے مہیا کرنے کے بغیر کامیاب ہو جاؤں گا سراسر خلافِ عقل ہے۔ ہم نے بہت بڑا کام کرنا ہے۔ اتنا بڑا کام کہ ہمارے جیسی کسی کمزور جماعت نے کبھی اتنا بڑا کام نہیں کیا۔ پہلے انبیاء کی جماعتیں ایسے زمانہ میں ہوئی ہیں جب ساری دنیا کا تمدن اس قسم کا تھا کہ اس میں روپیہ خرچ نہیں ہؤا کرتا تھا۔ لیکن اب وہ زمانہ نہیں۔ اب بسا اوقات روپیہ خرچ نہ کرنا انسان کے ایمان میں سستی اور غفلت پیدا کرنے کا موجب ہو جاتاہے۔ مثلاً حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے ساتھی پیدل سفر کر کے تبلیغ کیا کرتے تھے مگر اُس زمانہ میں چونکہ ساری دنیا ہی پیدل سفر کیا کرتی تھی اس لئے ان کا تبلیغ کے لئے پیدل سفر کرنا دشمن کے مقابلہ میں کمزوری نہیں تھی۔ لیکن آج جبکہ سفر کے لئے ریلیں اور ہوائی جہاز تیار ہو چکے ہیں اگرہم دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو ریلوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ سفر کرنا ہو گا۔ اگر ہم ریلوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ سفر نہیں کرتے تو ہم دشمن کے مقابلہ میں ہر میدان میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
پس اگر دشمن کا ہر میدان میں مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے مبلغوں کا ریلوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ سفر کرنا ضروری ہے تو یہ کام ان کے اخلاص اور ان کی قربانی سے نہیں ہو سکتا بلکہ روپیہ سے ہو سکتا ہے۔ اگر ہمارا کوئی مبلغ سٹیشن پر جا کر کہے کہ میں نے اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی ہوئی ہے مجھے ریل میں بیٹھنے دیجئے، اگر ہمارا کوئی مبلغ جہاز کے دروازہ پر جا کر کہے کہ میں نے اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی ہوئی ہے مجھے جہاز میں سفر کرنے دیجئے تو وہ کہیں گے کرایہ کے لئے پیسے لاؤ۔ پس جس واقفِ زندگی کو ہم یہ کہیں کہ پیدل پھر کر دنیا میں تبلیغ کرو کیا یہ پیدل پھر کر اپنے اُس دشمن کا مقابلہ کر سکتا ہےجس کے مبلغ ریلوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ سفر کرتے ہیں ؟وہ اگر ایک دن میں دس جگہوں پر پہنچ کر تبلیغ کرے گا یا ایک ماہ میں سارے ملک کا چکر لگا لے گا تو یہ پیدل سفر کر کے ساری عمر میں اُس ملک کا چکر لگا سکے گا۔ تو اُس کا اور اِس کا مقابلہ کہاں ہو سکتا ہے۔ ایک یورپین پادری یا کسی دوسرے مذہب کا مبلغ ہندوستان میں تبلیغ کرنے کے لئے کھڑا ہوتاہے اور وہ ایک مہینہ کے اندر بمبئی، مدراس، بنگال اور پنجاب کے علاقوں کا دورہ کر کے لیکچر دیتا ہے۔ اس کے مقابلہ کے لئے اگر ہم اپنے مبلغ کو یہ کہتے ہیں کہ پیدل سفر کر کے تبلیغ کرو تو وہ تو پیدل سفر کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا مگر سوال یہ ہے کہ اتنی جگہوں پر وہ کتنی دیر میں پہنچے گا۔ اس کی قربانی اسلام کے لئے مفید نہیں ہو گی بلکہ اسلام کے لئے مُضِر ہو گی۔ پس یہ وہ زمانہ ہے جبکہ جانی قربانی کے علاوہ مالی قربانی کی اہمیت بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ پس مَیں اس خطبہ میں جو وقت پر پہنچنے کے لحاظ سے آخری خطبہ ہے گو 7 فروری سے پہلے ابھی ایک اَور جمعہ آئے گا مگر اُس جمعہ کا خطبہ وقت پر جماعتوں تک نہیں پہنچ سکے گا۔ وقت پر پہنچنے کے لحاظ سے یہ آخری خطبہ ہے۔ پھر جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جنہوں نے اس سال تحریک جدید کے وعدوں کی طرف ابھی تک توجہ نہیں کی وہ توجہ کریں اور جنہوں نے کم توجہ کی ہے وہ پوری توجہ کریں۔ اور وہ لوگ جو تحریک جدید کے دفتر اول میں شامل نہیں ہوئے تھے وہ اب دفتر ثانی میں شامل ہوں۔ اور جن کو خداتعالیٰ شامل ہونے کی توفیق دے اُنہیں چاہیے کہ وہ دوسرے ایسے لوگوں کو بھی شامل ہونے کی تحریک کریں جنہوں نے ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا۔
اس کے علاوہ میں پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تبلیغ کے لئے واقفین کے تین گروہ ضروری ہیں۔ ان کےبغیر خالی روپیہ ہمیں کام نہیں دے سکتا۔ ہمیں ضرورت ہے گریجوایٹ اور مولوی فاضلوں کی جو اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کریں اور انہیں ایک دو سال میں ضروری تعلیم دے کر مختلف ممالک میں تبلیغ کے لئے بھیجا جائے۔ یا ہندوستان میں تبلیغ کے لئے یا سلسلہ کے اداروں میں ان کو کام پر لگایا جائے۔
ہمیں ضرورت ہے مڈل پاس طالبعلموں کی جو اس سال مارچ میں مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو کر اور ہر سال داخل ہو کر اور اتنی کثرت سے داخل ہو کر مبلغین کی تعداد کو بڑھائیں کہ چند سالوں میں سینکڑوں اورہزاروں مبلغ تیار ہو جائیں۔ اور ہمیں ضرورت ہے ایسے مڈل پاس یا کم از کم پرائمری پاس نوجوانوں کی جو ایک دو سال ٹریننگ لینے کے بعد دیہاتی مبلغین کا کام دے سکیں۔ اس سال ہمیں پچاس دیہاتی مبلغوں کی ضرورت ہے اور اِس وقت تک پینتیس آئے ہیں۔ پس میں اَور نوجوانوں کو جنہوں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دیہاتی مبلغین میں شامل ہوں۔ یہ وہ ہوں جو واقفین کی طرح ہر قسم کی تکلیف اٹھا کر تبلیغ کے لئے تیار ہوں۔ ایسے لوگ جو قربانی نہ کر سکیں تبلیغ کا کام نہیں کر سکتے۔ ہم ان کو کچھ طب بھی پڑھا دیں گے اور سلسلہ کی طرف سے گزارہ کےلئے ماہوار کچھ رقم بھی دیں گے ۔ اس رقم سے اور طب کے ذریعہ سے وہ اپنی روزی کا سامان کر سکیں گے۔ گو میری سکیم یہی ہے کہ ہمارے واقفین جس علاقہ میں جائیں وہ اُس علاقہ کو اتنا منظم کر لیں کہ وہاں کی جماعتیں اس مبلغ کا بوجھ اٹھا سکیں تاکہ نئے مبلغین تیار کرنے میں ہمیں سہولت ہو۔ میں نے اندازہ لگایا ہے کہ پنجاب میں صحیح طور پر تبلیغ کرنے کے لئے ایک ہزار مبلغ ہونے چاہئیں۔ پنجاب میں ساٹھ ہزار گاؤں ہیں۔ ان ساٹھ ہزار گاؤں کے لئے اگر ہم ایک ہزار مبلغ رکھیں تو اس کے معنے ہیں ساٹھ گاؤں کے لئے ایک مبلغ۔ اگر ہم اس سکیم پر عمل کریں اور ساٹھ ہزار گاؤں کے لئے ایک ہزار مبلغ رکھیں تو خط و کتابت، سٹیشنری، سفر اور گزارہ کی رقم ملا کر ایک ہزار مبلغ کے لئے تمام خرچ چھ لاکھ روپیہ سالانہ کم از کم ہونا چاہیے۔ اور اگر بافراغت خرچ کیا جائے تو آٹھ لاکھ روپیہ سالانہ ہونا چاہیے۔ گویا ساٹھ دیہات کے لئے اگر ہم ایک مبلغ رکھیں تو چھ لاکھ سے لے کر آٹھ لاکھ روپیہ تک سالانہ خرچ کی ضرورت ہے۔ مگر ہم یہ بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتے۔ ہمارا تو صدر انجمن کا چندہ والا سالانہ بجٹ سارا چھ لاکھ روپیہ کا ہوتاہے۔ اگر ہم وہ سارا بھی اس کام کے لئے لگا دیں تو پھر بھی گزارہ نہیں ہو سکتا۔ گزارہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جو مبلغ یہاں سے تیار ہو کر جائیں وہ جا کر وہاں کی جماعتوں کو منظم کریں اور وہاں کی جماعتوں کا چندہ اور افراد اتنے بڑھ جائیں کہ اس مبلغ کا خرچ وہ خود برداشت کر سکیں تاکہ ہم اَور مبلغ بھجوائیں۔ اور جب وہ بھی باہر جا کر وہاں کی جماعتوں کو منظم کر لیں اور وہ جماعتیں ان مبلغوں کا بوجھ خود اٹھا لیں تو ہم اَور مبلغ بھجوائیں۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے ہر علاقہ میں ہماری تبلیغ پھیل جائے۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو وہ اخلاص عطا فرمائے کہ جس کے ساتھ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور محسوس کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق پائے۔ اور اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کی سستیوں اور غفلتوں کو معاف فرمائے۔ اور دین کے لئے اور اعلاءِ کلمۃ اللہ کے لئے جن سامانوں کی ضرورت ہے وہ سامان اپنے فضل سے مہیا فرما دے۔ اور آسمان سے اپنے فرشتوں کو نازل فرمائے جو جماعت کے نوجوانوں کے دلوں میں دین کی ایسی محبت اور ایسا اخلاص پیدا فرمائیں کہ وہ پروانوں کی طرح آگے بڑھ بڑھ کر اپنی جانیں دین کی خدمت کے لئے پیش کریں۔ اور اللہ تعالیٰ ان کےد لوں میں اور جماعت کے دوسرے لوگوں کےد لوں میں آخرت کی ایسی محبت پیدا فرمائے کہ وہ آخرت کو دنیا پر مقدم کریں۔ آمین
میری طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے یہ نماز بھی میں نہیں پڑھاؤں گا۔ مولوی سرور شاہ صاحب پڑھا دیں گے مجھے نماز بیٹھ کر پڑھنی پڑے گی۔ ’’
(الفضل 29جنوری 1945ء)

5
ستیارتھ پرکاش کا جواب۔ آخری پارہ کی تفسیر
(فرمودہ 2 فروری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘میں نے جلسہ سالانہ پر آج سے ایک مہینہ پہلے اس سال کے متعلق بعض کاموں کا اعلان کیا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل سےا س وقت تک وہ کام اپنے پروگرام کے مطابق ہو رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے چاہا تو پروگرام کے مطابق وہ ہو جائیں گے۔ ایک تو میں نے ستیارتھ پرکاش کا جواب شائع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ اس کا جواب قریباً سات آٹھ بابوں کا ہو چکا ہے اور بقیہ تیار ہو رہا ہے۔ جو نوجوان اس کام کو کر رہے ہیں مجھے خوشی ہے کہ وہ محنت کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اور مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے نوجوان پیدا ہو رہے ہیں جو ہندو لٹریچر کو اس کی اپنی زبان میں پڑھ کر غور کر سکتے ہیں۔ اس کام کے لئے میں نے مولوی ناصر الدین صاحب عبداللہ اور مہاشہ محمد عمر صاحب اور مہاشہ فضل حسین صاحب کو مقرر کیا ہؤا ہے۔ اور یہ تینوں بہت جانفشانی سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اور مَیں سرِدست ایڈیٹنگ(Editing) کرتا ہوں۔ وہ نوٹ لکھ کر مجھے دے دیتے ہیں اور میں جرح کرکے واپس بھیج دیتا ہوں۔ پھر وہ اصل مضمون لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور میں اسے دیکھ لیتا ہوں۔ اس میں میرا اپنا کام صرف اتنا ہی ہے کہ جو دلائل کمزور ہوں ان کی طرف انہیں توجہ دلا دیتا ہوں کہ یہ یہ دلائل کمزور ہیں۔ یا تمہارا یہ اعتراض ان معنوں پر پڑتا ہے اور ان معنوںپر نہیں پڑتا۔ یا یہ کہ
بعض دفعہ ان کی عبارتوں میں جوش ہوتا ہے۔ کیونکہ ستیارتھ پرکاش میں سخت سخت حملے کئے گئے ہیں اس لئے اس کا جواب دیتے وقت جذبات کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے میں اس بات کی بھی نگرانی کرتا ہوں کہ ایسے سخت الفاظ استعمال نہ کئے جائیں جن سے کسی کی دل شکنی ہو یا اس بات کو بھی مَیں مدنظر رکھتا ہوں کہ یہ کتاب آریہ سماج کی ہے۔ لیکن ہمارے نوجوان بعض دفعہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے اس بات کو بھول کر کہ ہمارے مخاطب تمام ہندو نہیں بلکہ صرف آریہ سماجی ہیں مضمون زیر بحث میں سناتن دھرم کی بعض باتوں کی بھی تردید شروع کر دیتے ہیں۔ تو میں اس بات میں بھی ان کی نگرانی کرتا ہوں کہ وہ صرف آریہ سماج کو ہی مخاطب کریں اور ایسی باتوں کا ذکر نہ کریں جو براہِ راست ویدوں یا سناتن دھرم کے لٹریچر کے متعلق ہوں۔ جس حد تک میرے پاس مضمون آچکا ہے اور غالباً اکثر آچکا ہے اس کو دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا ہے کہ بہت محنت اور جانفشانی سے لکھا گیا ہے۔ انشاء اللہ جب یہ جواب شائع ہو گا تو اس سے دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو آریہ سماج کا پرانا قرضہ جو ہمارے ذمہ تھا وہ اتر جائے گا۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اس قسم کی اہم کتاب کا جواب دینے کی آریہ سماج ضرور کوشش کرے گی۔ اور جب اس کی طرف سے اس کا جواب دیا جائے گا تو ہمیں پتہ لگ جائے گا کہ ہمارے نوجوانوں کی ہندی جاننے کی ذاتی قابلیت کہاں تک ہے۔ اس وقت ہم پورے طور پر فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ہمارے نوجوان کس حد تک ہندی یا سنسکرت جانتے ہیں۔ لیکن جب آریہ سماج کی طرف سے اس کا جواب دیا جائے گا کہ تمہارا فلاں ترجمہ غلط ہے فلاں معنے لغت کے خلاف ہیں تو پھر ہم کو بھی صحیح طور پر موازنہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اور ہمیں آئندہ سنسکرت کے علماء پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ دراصل ہندو علم اتنا مخفی ہے اور ہمیں اس کے متعلق اتنی ناواقفیت ہے کہ ہم پورے طور پر ہندو مذہب کےعالم بھی پیدا کرنے کے قابل نہیں۔ بعض علوم ایسے ہیں جن کا اندازہ ہم کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے جاننے والے ہمیں کثرت سے ملتے ہیں مگر ویدوں کا علم اس قسم کا ہے کہ خود ہندوؤں میں بھی اس علم کو جاننے والے بہت کم ہیں۔ بلکہ بعض لوگوں کا تو خیال ہے کہ سارے ہندوستان میں کُل تین آدمی ویدوں کا علم جاننے والے ہیں۔ تو جہاں سارے ہندوستان میں ویدوں کے جاننے والے کُل تین آدمی ہوں وہاں ہمیں کہاں توفیق مل سکتی ہے کہ ہم یہ پتہ لگائیں کہ ہمارے نوجوان اس علم کو جان گئے ہیں یا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں ایسے مقابلہ میں آکر ہمیں صحیح طور پرپتہ لگ جائے گا کہ ہمارے نوجوانوں کے علم میں خامیاں ہیں یا نہیں۔ اگر خامیاں ہوں گی توہم سوچ سکیں گے کہ کس رنگ میں ان کی اصلاح ہو سکتی ہے اور اگر خامیاں نہیں ہوں گی تو پھر اسی طریق پر ہندو مذہب کے نئے علماء پیدا کرنے میں ہمیں سہولت ہو گی۔ اس وقت تک ہماری یہ کمزوری ہے کہ ہم ہندوؤں اور سکھوں کو صرف اردو میں ہی تبلیغ کرتے ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوؤں اور سکھوں میں بھی اردو جاننے والے موجود ہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ خواہ وہ اردو جانتے ہوں مگر وہ مانوس ہندی اور گورمکھی سے ہیں۔ اور یہ قدرتی بات ہے کہ جس زبان سے انسان مانوس ہو اُس کی طبیعت پر زیادہ اثر اسی زبان میں ہی تبلیغ کرنے سے ہو سکتا ہے۔ مثلاً اردو کو ہی لے لو ۔ اردو میں بعض چیزوں کے دو دو لفظ ہوتے ہیں۔ ایک لفظ عربی یا فارسی کا ہوتا ہے اور دوسرا لفظ ہندی یا بھاشا کا ہوتا ہے۔ اگر کوئی مقرر کھڑا ہو اور اپنی تقریر میں چُن چُن کر ہندی یا بھاشا کے الفاظ استعمال کرنے شروع کر دے تو ہماری مجلس اس بات کو عجیب سا سمجھے گی اور اس کی باتوں سے اتنا متاثر نہیں ہو گی جتنا کہ عام اردو زبان سے متاثر ہو سکتی ہے۔ مثلاً ایک لفظ ہے ابر آیا، برکھا آئی۔ ایک لفظ فارسی ہے اور ایک ہندی، گو دونوں لفظ ہم سمجھتے ہیں مگر ایک مقرر اگر کھڑا ہو کر چُن چُن کر ایسے ہندی الفاظ استعمال کرنا شروع کر دے تو گو وہ بولے اور سمجھے بھی جاتے ہوں گے مگر جب وہ ان الفاظ کو جمع کر کے لے آئے گا تو گو ان کا سمجھنا تو مشکل نہیں ہو گا مگر وہ الفاظ ہمارے اندر وہ کیفیتِ جذب پیدا نہیں کر سکیں گے جو کیفیت عام اردو الفاظ سے ہمارے اندر پیدا ہو سکتی ہے۔ ہم صرف اسی خیال میں رہیں گے کہ کیسے کیسے انوکھے الفاظ استعمال کر رہا ہے۔ اسی طرح ایک ہندو یا ایک سکھ گو اردو سمجھتا ہے بالعموم شہری طبقہ مگر دیہات کا بھاری طبقہ ایسا ہے جن کی اردو اپنی ہی قسم کی ہوتی ہے۔ چنانچہ میں نےد یکھا ہے کہ کئی دفعہ ایسے لوگوں سےبات کرتے وقت ان کو ٹوک ٹوک کر پوچھنا پڑتا ہے کہ آپ کے اس فقرہ کا مطلب ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ کیونکہ ان کی زبان میں ہندی اور گورمکھی کے ایسے پرانے الفاظ ہوتے ہیں جنہوں نے اردو کی شکل اختیار نہیں کی۔ پس ہم اُس وقت تک اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کی کافی تعداد موجود نہ ہو جو ہندی، گورمکھی اور بنگالی، مرہٹی، تاملی وغیرہ جاننے والے ہوں۔ کیونکہ ہندوؤں میں تبلیغ کرنے کے لئے ہندی زبان اسی طرح ہے جس طرح مسلمانوں کے لئے اردو ۔ گویا ہندی اور اردو کے دو الگ الگ دریا بہتے ہیں جو آپس میں ملتے نہیں۔ قرآن مجید میں آتا ہے ۔ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیٰنِ1 کہ دو دریا پاس پاس بہتے ہیں لیکن ان کے درمیان برزخ ہے اور وہ آپس میں ملتے نہیں۔ اسی طرح ہندی اور اردو بھی دو الگ الگ دریا ہیں جو سارے ہندوستان پر چھائے ہوئے ہیں۔ مگر اردو کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ جو ہندی جاننے والے ہیں ان میں سے اکثر اردو بھی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ مگر مسلمان جو اردو جاننے والے ہیں ان میں بہت کم لوگ ہیں جو ہندی جانتے ہیں۔ گویا اردو کا دریا ہندی پر بھی چھایا ہوا ہے۔ لیکن ہندوؤں میں سے بعض لوگ جو گاؤں کے رہنے والے ہیں وہ ہندی کے ذریعہ تو باتیں سمجھ سکتے ہیں مگر اردو کے ذریعہ سے ان کے اندر وہ اثر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ ان کو مؤثر طور پر تبلیغ کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے اندر ہندی اور سنسکرت جاننے والے ہوں۔ اِس وقت تک جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ بہت کم لوگ ہیں جو ہندی جانتے ہیں۔
پس جہاں میں جماعت کو یہ اطلاع دیتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل سے ستیارتھ پرکاش کا جواب شائع کرنے کا کام جلد جلد ہو رہا ہے وہاں میں جماعت کو اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہندوؤں اور سکھوں میں مؤثر طور پر تبلیغ کرنے کے لئے کثرت سے ہندی اور گورمکھی وغیرہ جاننے والے ہونے چاہئیں۔ یہ تو ایک ضمنی بات تھی اصل بات میں یہ کہہ رہا تھا کہ ستیارتھ پرکاش کا جواب لکھا جا رہا ہے اور اس میں تین باتوں میں میرا حصہ ہے۔ اول یہ کہ کوئی دلیل کمزور نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ عام ہندوؤں کی طرف خطاب نہ ہو بلکہ صرف آریہ سماج مخاطب ہو۔ تیسرے یہ کہ کوئی سخت کلامی نہ ہو۔ اور ان تینوں باتوں کے لحاظ سے میں اس مضمون کو دیکھ چکا ہوں جو اِس وقت تک تیار ہو چکا ہے۔
دوسرا کامقرآن مجید کی تفسیر شائع کرنے کا تھا۔ چنانچہ روزانہ جماعت کے چھ سات سَو کے قریب آدمی جمع ہوتے ہیں اور میں ان کے سامنے قرآن مجید کے نوٹ لکھا رہاہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِس وقت تک دو سو پچھتر صفحات کے قریب کا مضمون جنوری میں لکھوایا جاچکا ہے۔ اس سے پہلے ڈلہوزی میں ساڑھےتین سو صفحات کا مضمون میں لکھوا چکا ہوں۔ اس طرح گویا سَوا چھ سَو صفحہ کا مضمون ہو چکا ہے۔ یوں تو ہزار بارہ سو صفحات جنوری میں لکھے جا چکے ہیں۔ مگر چھپوائی میں چونکہ باریک اور گنجان الفاظ لکھے جاتے ہیں اور تھوڑی جگہ لیتے ہیں اس لئے ہزار بارہ سو صفحات کا مضمون تفسیرکے دو سو پچھتر صفحات میں آتا ہے۔ تو اتنا کام ہو چکا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو ایک مہینہ میں آخری پارہ کی تفسیر ختم ہو جائے گی ۔آخری پارہ اس لحاظ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں چھوٹے چھوٹے فاصلہ پر سورۃ بدلتی ہے۔ اگر انسان بڑی بڑی عمارتوں کو دیکھے جو دو دو تین تین فرلانگ تک لمبی چلتی چلی جائیں تو وہ شخص اپنی ساری سیر میں تین چار عمارتوں کے پاس سے گزرتا ہے اور اس کی طبیعت پر اَور قسم کا اثر ہوتا ہے ۔ مگر جب وہ ایسی عمارتوں کے پاس سے گزرے جو ایک مکان کے بعد دوسرا مکان اور دوسرے مکان کے بعد تیسرا مکان اور تیسرے مکان کے بعد چوتھا مکان سامنے لاتی ہوں اور تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر مکان بدلتے چلے جائیں تو اس کی طبیعت پر اَور قسم کا اثر ہوتا ہے۔ چلتا تو وہ اُتنا ہی ہے مگر وہاں بڑی بڑی عمارتوں کے پاس سےگزرتے وقت وہ اتنے عرصہ میں تین یا چار نظارے دیکھتا ہے۔ اور یہاں اتنے ہی عرصہ میں سینکڑوں نظارے اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید کی تفسیر ہے پہلے پاروں کی سورتیں لمبی ہیں۔ سورۃ بقرۃ میں پہلا پارہ سارا ختم ہو جاتا ہے۔ پھر دوسرا پارہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور تیسرا بھی آدھا گزر جاتا ہے اور پھر جا کر یہ سورۃ ختم ہوتی ہے۔ اور اڑھائی پاروں تک ایک ہی سورۃ چلتی چلی جاتی ہے۔ پھر آگے چل کر ڈیڑھ ڈیڑھ پارہ میں ایک ایک سورۃ آجاتی ہے۔ پھر پارے پارے میں اور پھر ایک ایک پارے میں دو دو سورتیں آجاتی ہیں۔ پھر ایک ایک پارے میں تین تین چار چار سورتیں آجاتی ہیں اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آخری پارہ میں جا کر سینتیس سورتیں آگئی ہیں۔ گویا پہلی سورتیں لمبی لمبی عمارتیں تھیں جو دُور تک چلتی چلی جاتی ہیں اور آخری سورتیں چھوٹی چھوٹی عمارتیں ہیں جو ایک کے بعد دوسری اور دوسری کےبعد تیسری بدلتی چلی جاتی ہیں۔ وہاں سورۃ بقرۃ میں پہلا پارہ گزر کر بھی ایک ہی مضمون تھا اور وہی مضمون پھر دوسرے پارے میں بھی چلتا چلا جاتا ہے اور تیسرے پارہ کے نصف میں جا کر ختم ہوتا ہے۔ مگر یہاں قدم قدم پر مضمون بدلتا ہے۔ یورپین مصنفین کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی سورتوں کی ترتیب مضمون کے لحاظ سے نہیں بلکہ جو لمبی سورتیں ہیں وہ پہلے رکھ دی گئی ہیں اور جو چھوٹی سورتیں ہیں وہ آخر میں رکھ دی گئی ہیں۔ یہ بات غلط ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ قرآن مجید کی سورتوں میں مضمون کے لحاظ سے ترتیب پائی جاتی ہے اور اس ترتیب کے مطابق سورتیں رکھی گئی ہیں۔ اور اس دعویٰ کی وجہ سے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم وہ ترتیب ثابت کریں۔ اور یہ ترتیب کا مضمون اتنا مشکل ہے کہ آج تک اس پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی جس میں بِالاستیعاب یہ بحث کی گئی ہو کہ قرآن مجید کی تمام سورتوں میں کُلی طور پر کس طرح ترتیب پائی جاتی ہے۔ یہ اتنا مشکل مضمون ہے کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب جیسے آدمی جو زمانہ آخر کے چوٹی کے عالم تھے اور جنہوں نے قرآن مجید کی بڑی خدمت کی ہے انہوں نے بھی آخر لکھ دیا کہ قرآن مجید کے مضامین ایسے ہیں جیسے نمائش میں مختلف اشیاء جمع کر کے رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ گویا مکمل ترتیب ثابت کرنے سے وہ بھی قاصر رہے۔پس چونکہ آج تک اس قسم کی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی جس میں قرآن مجید کی ترتیب کے متعلق مکمل بحث کی گئی ہو اور ہمارے عقیدہ کی رو سے چونکہ قرآن مجید میں کُلّی ترتیب پائی جاتی ہے اس لحاظ سے آخری پارہ کی تفسیر سب سے اہم اور سب سے مشکل ہے۔ کیونکہ پہلے حصہ میں تو کہیں اڑھائی پاروں یا دو پاروں یا ڈیڑھ پارہ کے بعد جا کر سوچنا پڑتا تھا کہ اب اس سورۃ کی پہلی سورۃ سے کیا ترتیب ہے گویا مضمون کی یگانگت ہمیں سوچنے سے بے نیاز کر دیتی تھی او راڑھائی پارہ تک یا ڈیڑھ پارہ تک یا ایک پارہ تک یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ اب اس مضمون کی ترتیب کیا ہے۔ کیونکہ ایک ہی مضمون چلتا چلا جاتاتھا۔ مگر یہاں نام کو تو ایک پارہ ہے مگر سینتیس دفعہ ٹھہر کر دیکھنا پڑتا ہے کہ اس سورۃ کا تعلق پہلی سورۃ سے کیا ہےاور مضمون کے لحاظ سے کیا ترتیب پائی جاتی ہے۔ اور اس سورۃ کو اس سے پہلی سورۃ کے بعد کیوں رکھا ہے۔
پس اس لحاظ سے آخری پارہ کی تفسیر سب سے زیادہ اہم اور سب سےز یادہ مشکل ہے یہ تفسیر اگر خداتعالیٰ توفیق دے دے تو ایک مہینہ تک ہو جائے گی اور پھر اس کی وجہ سے ترتیب کے متعلق ذہنوں میں جو مشکل پید اہوتی ہے وہ حل ہو جائے گی۔ اس سے پہلے مسلمان قرآن مجید پڑھتے تھے مگر ان کے ذہن میں کبھی یہ شبہ پیدا ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے کیا تعلق ہے اور مضمون کے لحاظ سے ان دونوں میں کیا ترتیب ہے۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ عَمَّ يَتَسَآءَلُوْنَ۠الگ ہے، سورۃ النازعات الگ ہے، سورۂ عبس الگ ہے، ہر ایک سورۃ پہلی سورۃ سے الگ ہے اور ان میں کوئی جوڑ اور کوئی ترتیب نہیں بلکہ الگ الگ مضامین ہیں۔ اس لئے ان کو اس بات کے متعلق سوچنے کی کوفت نہیں ہوتی تھی کہ ایک سورۃ کی دوسری سورۃ سے ترتیب معلوم کریں۔ مگر ہم نے جہاں دنیا کے سامنے قرآن مجید کی ترتیب کا دعویٰ پیش کیا ہے وہاں لوگوں کاجھوٹا امن جو اُن کو حاصل تھا وہ بھی ساتھ ہی برباد کر دیا ہے۔ پہلے تو ایک مسلمان قرآن مجید پڑھتا تھا تو یہ سمجھ کر پڑھتا تھا کہ اس کے مضامین میں کوئی ترتیب نہیں اس لئے وہ بغیر کسی شُبہ کے پڑھتا چلا جاتا تھا۔ خواہ یہ اس کی کمزوری تھی، خواہ یہ علم کا نقص تھا، خواہ یہ قرآن مجید کی ہتک تھی کہ کہا جائے کہ قرآن مجید کی سورتوں میں کوئی جوڑ نہیں کوئی ترتیب نہیں۔ یونہی پہلے لمبی لمبی سورتیں جمع کر دی ہیں اور آخر میں چھوٹی چھوٹی سورتیں رکھ دی ہیں۔ کچھ بھی ہو بہرحال اس خیال کی وجہ سے وہ شبہات سے بچا ہوا تھا۔ سب مسلمان اس خیال سے قرآن مجید پڑھتے تھے کہ اس کی سورتوں میں کوئی جوڑ نہیں اس لئے وہ اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے تھے کہ کوئی ترتیب اور جوڑ معلوم کرنے کی کوشش کریں۔ اور ان کو مضمون کی ترتیب نکالنے کے متعلق کوئی تشویش پیدا نہیں ہوتی تھی۔ جب کوئی نئی سورۃ شروع ہوتی تو وہ یہی سمجھتے کہ اب ایک نیا مضمون شروع ہوا ہے جس کا پہلی سورۃ کے مضمون سے کوئی تعلق اور جوڑ نہیں۔ مگر جب ہماری طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ سارا قرآن مجید باترتیب ہے اور ہر ایک سورۃ اپنے سے پہلی سورۃ کے ساتھ ملتی ہے اور ان کے اندر ایک فلسفیانہ اور عقلی جوڑ پایا جاتا ہے تو ہمارے اس دعویٰ سے وہ جو جھوٹا امن حاصل تھا کہ قرآن مجید کی ترتیب نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں وہ جھوٹا امن بھی جاتا رہا۔ اب ایک احمدی یہ نہیں کہہ سکتا کہ چلو سورۃالنَّبَاء کے بعد سورۃ النازعات آگئی اور اب ایک نیا مضمون شروع ہو گیا جس کا پہلی سورۃکے مضمون سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کو تو جب تک پتہ نہیں لگتا کہ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے کیا جوڑ ہے اور مضمون کے لحاظ سے ان میں کیا ترتیب پائی جاتی ہے اُس وقت تک اس کی تشویش دور نہیں ہوتی اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے قرآن مجید کو سمجھا ہی نہیں۔ کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ تمام سورتوں کا آپس میں جوڑ ہے اور اس کے مضامین میں زنجیر کی طرح ایک تسلسل اور ایک تعلق پایا جاتا ہے۔ مگر مجھے وہ ترتیب اور وہ جوڑ معلوم نہیں اس لئے میں نے قرآن مجید کو نہیں سمجھا اور یہ بے کلی اس کے دل کے اطمینان کو ضائع کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس تفسیر کے ذریعہ جو لوگ درس میں شامل نہیں ہو سکتے یا جو باہر رہتے ہیں ان کی یہ تشویش اور یہ بے کلی دور ہو جائے گی۔ اور جو لوگ درس میں شامل ہوتے ہیں ان کو تو ساتھ ہی ساتھ معلوم ہو جاتا ہے کہ کس طرح خاص حکمت اور خاص غرض کے ماتحت سورتوں کو ایک دوسری کے بعد رکھا گیا ہے اور ان کےمضامین میں کیا ترتیب اور کیا جوڑپایا جاتا ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی آخری پارہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اور اس لحاظ سے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں کثرت کے ساتھ زمانہ حاضرہ کے متعلق پیشگوئیاں اور حالات بیان کئے گئے ہیں۔ زمانہ حاضرہ کے متعلق جتنی باتیں اور جتنی خبریں اس پارہ میں بیان کی گئی ہیں شاید سارے قرآن مجید میں بھی اس زمانہ کے متعلق اتنی خبریں اور اتنے حالات بیان نہیں کئے گئے۔ بعض جگہوں پر تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اِس زمانہ کا گویا تمام نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے۔ پس اِس زمانہ کے حالات کا جس رنگ میں اس پارہ میں ذکر کیا گیا ہے اور جو نقشہ خداتعالیٰ کے اس زمانہ میں ظاہر ہونے والے افعال کا اس بارہ میں کھینچا گیا ہے ہر آدمی جو چاہے احمدی نہ ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کا مطالعہ کرے اور معلوم کرے کہ قرآن مجید میں آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے کس طرح اس زمانہ کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور اِس زمانہ میں پیدا ہونے والے مفاسد کا کیا علاج بتایا گیا ہے اور کس رنگ میں آئندہ ترقی کرنے کی صورت کو پیش کیا گیا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اگر حالات مساعد ہوں تو آخری پارہ فروری کے آخر تک یا مارچ کے شروع تک ختم ہو جائے گا۔ آگے پھر چھپنے کا سوال ہے اس کا میرے ساتھ تعلق نہیں۔ اس کا تعلق دفاتر کے ساتھ ہے اور یہ ان کا کام ہے۔ جنگ کی وجہ سے مشکلات اور قدم قدم پر روکیں پیدا ہو رہیں ہیں۔ کاغذ تو موجود ہے باقی کاموں کے متعلق کوشش ہو رہی ہے۔ امید ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اپریل، مئی یا حد جون تک یہ جلد شائع ہو جائے گی۔ اس کے بعد جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر اعلان کیا تھا میرا ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اسی سال پہلی جلد بھی جو آدھی باقی ہے مکمل کرکے شائع کر دی جائے۔
اس کے بعد میں جماعت کوتحریک جدید کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ اب جو جمعہ آئے گا اس جمعہ کے خطبہ میں تحریک جدید کی تحریک کرنا بے فائدہ ہو گا کیونکہ وہ خطبہ وقت پر نہیں پہنچ سکے گا۔ پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو اپنے آئندہ فرائض معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ میں یہ بتا دوں کہ جو کام ہمارے سامنے ہے وہ بہت بڑی قربانی چاہتا ہے۔ وہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے ابتدائی اخراجات کے لئے بھی ہمارے پاس سامان موجود نہیں۔ اب جبکہ جنگ کے خاتمہ کے آثار نظر آرہے ہیں اور جبکہ ہمیں جلد سے جلد تبلیغ کرنے کا موقع ملنے والاہے میں نے پھر ایک دفعہ اس سارے مضمون کو اپنے دماغ میں دہرانا شروع کیا اور ساتھ ساتھ اس میں سے کچھ باتیں کاغذ پر نوٹ کرتا گیا۔ میں نے غور کیا کہ تبلیغ کے لئے ہم پہلا قدم کیا اٹھائیں اور اس کے لئے کس قدر اخراجات کی ضرورت ہے۔ چنانچہ میں غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگرہم صحیح طور پر تبلیغ کرنا چاہیں تو فی مرکز میں چھ چھ مبلغوں کی ضرورت ہے۔ اور مرکز سے مراد وہ علاقہ نہیں ہے جس میں ہم تبلیغ وسیع کرنا چاہتے ہیں اور جہاں آدمی کامیاب طور پر تبلیغ کر سکتا ہے۔ مثلاً انگلستان کو ہی لے لیں۔ تو اسے ہم ایک مرکز قرار نہیں دے سکتے۔ کیونکہ انگلستان کی آبادی ساڑھے چار کروڑ کی ہے۔ اس ساڑھے چار کروڑ کی آبادی کو چھ آدمی ایک جگہ بیٹھ کر تبلیغ نہیں کر سکتے۔ انگلستان کو جانے دو۔ لندن کو ہی لے لیا جائے تو لندن میں بھی چھ آدمی تبلیغ نہیں کر سکتے۔ لندن کی آبادی اسّی لاکھ کی ہے اور یہ شہر ستّر اسّی میل تک پھیلا ہؤا ہے اور اس کے باشندے اپنے کاموں میں اتنے مشغول رہتے ہیں کہ ان کو سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہوتی۔ شاذ ہی کوئی ہو گا جو اپنے کام سےوقت بچا کر کسی دوسرے کام کے لئے دے سکے اور اس طرف توجہ کر سکے۔ تو انگلستان کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ چھ مبلغ وہاں مؤثر طور پر تبلیغ کر سکتے ہیں یہ خیال ہی غلط ہے۔ اگر لندن کے دس دس لاکھ کے حصے کر لئے جائیں تو تب بھی سات آٹھ مبلغ ہونے چاہئیں مگر یہ تو ساری دور کی خوابیں ہیں۔ بے شک دور کی خوابیں بھی اللہ تعالیٰ نزدیک کر دیا کرتاہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مکی زندگی میں کس کو یہ خیال آسکتا تھا کہ آج سے سات سال کے اند رمسلمان سارے عرب پر غالب آجائیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ دور کی خوابیں بھی حقیقت میں بدل دیا کرتاہے۔ مگریہ تو اس کا فعل ہے اس کو وہی جانتا ہے کہ کب ہو گا۔ ہم نے تو اپنے ماحول کو ہی دیکھنا ہے۔ تو موجودہ حالات کے لحاظ سے اگر ہم یہی کریں کہ سارے انگلینڈ کو ایک مرکز قرار دیں تو ہے تو یہ عجیب بات کہ چار ساڑھے چار کروڑ کی آبادی کو تبلیغ کرنے کے لئے جو کئی ہزار مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے ہم یہ فیصلہ کریں کہ اس کو ایک مرکز قرار دیں اور چھ مبلغ وہاں رکھیں۔ کیونکہ چھ آدمی اتنی آبادی میں تبلیغ کا کام پوری طرح نہیں کر سکتے۔ بہرحال اگر موجودہ مشکلات کے لحاظ سے ایک مرکز انگلستان کو قرار دیں اور ایک ایک مرکز جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین اور شمالی یورپ اور مشرقی یورپ میں رکھیں تو یہ سارے دس کے قریب مرکز ہوتے ہیں۔ اور پھر اس کے علاوہ شمالی اور جنوبی امریکہ کے حصے ہیں۔ پھر عرب ممالک کے پانچ اور ایران کا ایک اور افریقہ کے دس کُل اٹھائیس مراکز، ممالک اور براعظموں کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ اور ان میں ایک ایک ملک میں صرف چھ چھ مبلغ مقرر کریں تو کُل ایک سَو اَڑسٹھ مبلغوں کی ضرورت بنتی ہے۔ اور چونکہ ہر مبلغ، اس کے قائمقام ، سفر خرچ ، لٹریچر اور نگرانی کا خرچ کم سے کم سات سو ماہوار فی مبلغ ہوتا ہے۔ اس تعداد کا کُل خرچ گیارہ لاکھ روپیہ سالانہ کے قریب ہوتا ہے۔ جب میں نے اس پر غور کیا تو میں نے کہا ابھی جتنی چادر ہے اُتنے پاؤں پھیلاؤ۔ کیونکہ یہ کام ابھی ہماری طاقت سے باہر ہے اور ہمارے پاس اتنے سامان نہیں کہ ان تمام جگہوں پر مرکز قائم کر سکیں۔ لیکن یہ بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا کہ کسی ایک ملک کو چُن کر وہاں تبلیغ شروع کر دی جائے۔ کیونکہ حالات کے لحاظ سے یہ تمام ممالک ایسے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔ اس زمانہ میں خطرناک تغیرات کسی ایک ملک میں رونما نہیں ہو رہے بلکہ یہ تغیرات عالمگیر ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ عالمگیر تبلیغ کے سامان مہیا فرمائے۔ اگر خداتعالیٰ کا ارادہ عالمگیر تبلیغ کے لئے سامان مہیا فرمانے کا نہ ہوتا تو خطرناک تغیرات صرف اٹلی میں رونما ہوتے یا صرف فرانس میں رونما ہوتے یا صرف جرمنی میں رونما ہوتے یا صرف انگلستان میں رونما ہوتے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ کے ایک سرے سے لے کر دوسرے تک اس قسم کے تغیرات رونما ہوئے ہیں اور خصوصاً مغربی یورپ میں تو اتنے خطرناک تغیرات پیدا ہو چکے ہیں کہ وہاں نہ کوئی حکو مت باقی رہی ہے اور نہ سرحدیں باقی رہی ہیں اور جس طرح لوہے کو گلا دیا جاتا ہے اِسی طرح سارے کا سارا یورپ گل گیا ہے۔ کوئی قومیت باقی نہیں رہی اور کوئی ملک نہیں جانتا کہ مستقبل میں کیا ہونے والاہے۔ فرانس اپنے مستقبل کے متعلق نہیں جانتا کہ کل کو کیا بننے والا ہے، اٹلی اپنے مستقبل کے متعلق نہیں جانتا ،سپین اپنے مستقبل کے متعلق نہیں جانتا، یوگوسلاویہ اپنے مستقبل کے متعلق نہیں جانتا۔ اسی طرح ہنگری اور دوسرے یورپین ممالک بھی نہیں جانتے کہ کیا بننے والا ہے اور مستقبل میں ہمارا کیا حال ہو گا۔ شاید روس اپنے مستقبل کے متعلق سمجھتا ہو لیکن درحقیقت اس کی بھی ناواقفیت ہے۔ خود انگلستان میں بھی گھبراہٹ ہے کہ ہماری کامن ویلتھ کا کیا بنے گا۔ اخبارات میں اس قسم کے حالات نہیں آتے۔ میں انگلستان سے ایک رسالہ منگواتا ہوں جو پارلیمنٹ کی طرف سے شائع ہوتاہے۔ قانونی طور پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے کچھ ممبر مل کر اسے شائع کرتے ہیں۔ جس میں اس قسم کی ساری اہم باتوں کے متعلق بحث ہوتی ہے کہ ہماری کامن ویلتھ کا کیا بننے والا ہے۔ اسی طرح یورپ اور امریکہ کے ممالک کی پالیٹکس کے متعلق بحث ہوتی ہے کہ کیا کیا تغیرات رونما ہونے والے ہیں اور کس قسم کے خطرات پیش آنے والے ہیں۔ اس رسالہ سے پتہ لگتا ہے کہ خود انگلستان کے لوگ بھی گھبرا رہے ہیں کہ ہماری کامن ویلتھ کا کیا ہونے والا ہے۔
پس ان حالات میں ہمیں سمجھنا چاہیے کہ خدا کی آواز ہمیں بلا کر کہہ رہی ہے کہ ہماری تبلیغ کسی ایک ملک کے ساتھ وابستہ نہیں بلکہ ان تمام ممالک میں تبلیغ کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ جب میں نے ان حالات پر غور کیا تو میں نے سوچا کہ انگلستان، جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین کم سے کم یورپ کے یہ ممالک تو ایسے ہیں جن کو کسی طرح بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔ روس کو بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔ مگر وہاں چونکہ تبلیغ کی اجاز ت نہیں اس لئے مجبوری ہے۔ روس میں آزادی کا ڈھول تو بہت پیٹا جاتا ہے مگر اس کے متعلق ہمارا نہایت تلخ تجربہ ہے۔ ہمارے آدمی وہاں کے قید خانوں سے نکل نکل کر آئے ہیں اور ایک کو تو کئی سال قید میں رکھا اور اسے بڑی بڑی سخت تکالیف دی گئیں۔ پس اس میں تبلیغ کا ابھی انتظام نہیں کیا جا سکتا۔ باقی یورپ کے ہر ملک کے دروازے ہمارے لئے کُھلے ہیں اور ہم انہیں اپنی تبلیغ میں لا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ میں بھی شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ دو الگ الگ براعظم ہیں۔ اول تو جنوبی امریکہ میں ہی تیرہ چودہ وسیع حکومتیں ہیں۔ پھر بھی اگر ہم سارے جنوبی امریکہ کو ایک مرکز قرار دے لیں کہ وہ لوگ متحدُ الْقوم اور متحدُ الِّلسان ہیں اور اسی طرح شمالی امریکہ کو بھی ایک مرکز قرار دیں تو پانچ وہ (یعنی انگلستان جرمنی، فرانس، اٹلی اور سپین) اور دو یہ ۔ کُل سات مرکز ہو گئے۔ گویا بیالیس مبلغ ہوں تو ان سات مراکز میں تبلیغ ہو سکتی ہے۔ مگر میں نے اندازہ لگایا کہ بیالیس مبلغوں کا بھی اتنا بوجھ ہے کہ موجودہ حالات کے لحاظ سے اسے برداشت کرنا ناممکن ہے یعنی جہاں تک جماعت کی قابلیت کے معیار کا سوال ہے اس کے لحاظ سے تو یہ ناممکن نہیں۔ مگر جس قربانی کے معیار پر جماعت اِس وقت کھڑی ہے اس کے لحاظ سے یہ مشکل ہے۔ ورنہ جماعت کی حالت تو ایسی ہے کہ اگر وہ قربانی کے صحیح معیار کو قائم رکھے تو پھر یہ ناممکن نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت قربانی کے صحیح معیار پر قائم رہے تو اس سے زیادہ کام بھی ہو تو وہ بھی ہو سکتا ہے۔
خیر تو مَیں نے سوچا کہ اگر ہم ان مرکزوں میں سے ہر ایک میں چھ چھ مبلغ رکھیں تو سات مراکز کا خرچ ساڑھے تین لاکھ روپیہ سالانہ ہو جاتا ہے۔ اور یہ ساڑھے تین لاکھ روپیہ سالانہ کا بار ایسا ہے کہ تحریک جدید کا فنڈ اسے اٹھا نہیں سکتا۔ مگر عرب، ایران یہ پھر بھی اس سے باہر رہ جاتے ہیں اور یہ دونوں ملک ایسے ہیں کہ ان کو بھی خالی نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر ان ممالک کو بھی ملا لیں، افریقہ کو بھی ملا لیں اور پھر اس رقم کو بھی ملا لیں جو مبلغین کے جانے پر کرایہ کے لئے خرچ ہو گی اور پھر ان مبلغین کے جو قائمقام یہاں رکھے جائیں گے ان کے اخراجات کو بھی ملا لیں تو اس لحاظ سے یہ سکیم ناقابلِ عمل نظر آتی ہے۔ اور یہ اتنا بار ہے کہ موجودہ حالات کے لحاظ سے ناممکن ہے کہ تحریک جدید اس بار کو اٹھا سکے۔ یہ سوچنے کے بعد پھر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر ایک مرکز میں مبلغین کی تعداد کم کر دی جائے۔ اور میں نے یہ تجویز کیا کہ انگلستان میں بجائے پورا مرکز رکھنے کے آدھا مرکز رکھا جائے یعنی چھ کی بجائے تین مبلغ رکھے جائیں۔ اور اسی طرح امریکہ میں بھی آدھا مرکز رکھا جائے اور تین مبلغ وہاں رکھے جائیں۔ اور باقی جتنے مراکز ہیں ان میں دو دو مبلغ رکھے جائیں۔ گویا ایک مرکز کا ایک تہائی حصہ وہاں رکھیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک ایک مرکز میں د ودو مبلغ رکھنا کوئی مؤثر تبلیغ نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ یہ ممالک ہیں شہر نہیں۔ لیکن بہرحال کام چلانے کے لئے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ تجویز کیا ہے کہ تین مبلغ انگلستان میں، دو فرانس میں، دو جرمنی میں اور اگر ایک زائد کا انتظام ہو گیا تو جرمنی میں تین کر دیئے جائیں گے اور ہالینڈ کو بھی اس کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ گویا دو جرمنی کے لئے اور ایک ہالینڈ کے لئے اور دو مبلغ اٹلی میں اور دو سپین میں۔یہ گویا قلیل سے قلیل دائرہ تبلیغ ہے۔ اور پھر ادھر فلسطین اور شام اور ایران ہیں۔ فلسطین اور شام میں ہمارا صرف ایک مشنری کام کر رہا ہے۔ مگر خدا کے فضل سےان لوگوں میں بیداری پائی جاتی ہے اور یہ لوگ جلد صداقت قبول کرتے معلوم ہوتے ہیں اور یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا ہم پر بڑا احسان ہے۔ اگر عرب، فلسطین، شام، عراق اور مصر کے لوگ دور دور دنیا کے کناروں تک اسلام نہ پہنچاتے تو ہم تک یہ نعمت نہ پہنچتی۔ ہم میں سے ہر ایک کی گردن ان ملکوں کے احسان کےنیچے جُھکی ہوئی ہے۔ کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہمیں انہوں نے پڑھایا۔ اب ہمارا بھی حق ہے کہ اگر وہ اس لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کے اصلی معنوں کو بھول گئے ہیں توہم دوبارہ ان کو یاد کرائیں۔ ایک شریف آدمی جب تک ایک معمولی سے معمولی احسان کا بدلہ بھی اتار نہیں لیتا اُس وقت تک اسے چَین نہیں آتا۔ اور یہ تو اتنا بڑا احسان ہے کہ اگر ہم اتنے بڑے احسان کا بدلہ نہ اتاریں تو حد درجہ کی بے حیائی کہلائے گا۔ تو یہاں مشن قائم کرنے بھی ضروری ہیں اس کے لئے اگر ہم قلیل سے قلیل تعداد میں مبلغ رکھیں تو کم از کم تین عرب میں اور دو ایران میں ہونے چاہئیں۔ ا س سے کم تعداد میں کام ہو سکتا ہی نہیں۔ دراصل تو بیسیوں مبلغ عربی ممالک میں اور درجنوں ایران میں ہونےچاہئیں۔ پھر افریقہ ہے جہاں خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھ رہی ہے اور نہایت سُرعت کے ساتھ ہماری تبلیغ پھیل رہی ہے۔
میں نے ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو قلیل سے قلیل اندازہ لگایا ہے تاکہ میں اس کے مطابق کام شروع کر دوں وہ یہ ہے کہ میں نے تجویز کیا ہے کہ تین مبلغ عربی ممالک میں، دو ایران میں، دو سپین میں، دو فرانس میں، دو اٹلی میں، تین جرمنی میں (جس میں ہالینڈ بھی شامل ہو گا) تین انگلستان میں، تین شمالی امریکہ میں اور دو جنوبی امریکہ میں رکھے جائیں۔ یہ سارے بائیس مبلّغ بنتے ہیں اور یہ قلیل سے قلیل تعداد ہے جس سے کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سے کم تعداد میں کسی صور ت میں بھی کام نہیں کیا جا سکتا۔ جب میں نے ان کے اخراجات کا اندازہ لگایا تو تین مبلغ انگلستان میں، تین جرمنی میں، دو فرانس میں، دو اٹلی میں، دو سپین میں، دو ایران میں، تین عرب میں، تین شمالی امریکہ میں اور دو جنوبی امریکہ میں، بائیس مبلغ تو یہ ہو گئے۔ اور پندرہ مبلغ افریقہ میں۔ یہ کُل سینتیس مبلغ ہو گئے۔ اور سینتیس مبلغ ان کو فارغ کرنے کے لئے مرکز میں رکھے جانے چاہئیں۔ ان 74مبلغوں کے لئے میں نے دو لاکھ پچاس ہزار روپیہ سالانہ کا اندازہ لگایا ہے۔ ہمارا تحریک جدید کا دسویں سال کا جو چندہ تھا اگر جماعت کی قربانی کا معیار گیارھویں سال میں اس کے مطابق ہوتا تو اس سے یہ کام چل سکتا تھا۔ دسویں سال تحریک جدید کے تین لاکھ تیس ہزار سے کچھ زائد کے وعدے تھے اور ان میں سے تین لاکھ ا ٹھائیس ہزار روپیہ وصول ہو چکا ہے۔ اگر جماعت کی قربانی اس معیار پر قائم رہتی تو یہ ایسی رقم تھی کہ اس سے ان سینتیس مبلغوں کے اخراجات کا انتظام ہو سکتا تھا۔ اور پھر اتنے ہی آدمی یہاں قادیان میں بھی رکھے جا سکتے تھے جو مدرسہ کو جاری رکھیں۔ اور پہلے مبلغوں کو جو باہر گئے ہوئے ہوں جب ان کو واپس بلایا جائے(تاکہ ان کی نسل اور ان کی بیویاں تباہ نہ ہوں اور یوں بھی پہلوں کا واقفیت کے لئے بار بار قادیان آنا ضروری ہے) تو ان لوگوں کوان کی جگہ بھجوایا جائے۔
پس اگر جماعت کی قربانی کا وہی معیار قائم رہتا جو دسویں سال میں تھا تو اس سکیم کو جاری کرنا مشکل نہیں تھا۔ تین لاکھ تیس ہزر روپیہ کی آمد سے دو لاکھ پچاس ہزار کا خرچ سینتیس مبلغوں کا کام چلانے کے لئے کافی ہو جاتا۔ اور باقی کو ریزرو فنڈ کے طور پر جمع رکھا جاتا تا فوری ضرورتوں کے وقت اس سے کام لیا جا سکے۔ اسی وجہ سے میں نے گیارھویں سال کے لئے یہ تجویز کی تھی کہ جن لوگوں نے دس سال حصہ لیا ہے وہ اپنی قربانی کو اور نو سال تک جاری رکھیں اور کم سے کم نویں سال کے برابر حصہ لیں۔ اس طرح اس قدر رقم کا پورا کرنا ممکن ہو جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اِسی خیال سے کہ اس کام نے ہمیشہ جاری رہنا ہے میں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ ایک اَور جماعت پانچ ہزاری فوج کی تیار کی جائے جو آئندہ انیس سال تک اپنی ایک ماہ کی آمد ہر سال دیا کرے تاکہ نو سال کے بعد جب پہلی پانچ ہزاری فوج اپنے کام سے فارغ ہو تو یہ دوسری پانچ ہزاری فوج بوجھ اٹھالے اور اسی طرح ہر دس سال بعد ایک نئی پانچ ہزاری فوج۔ اور اگر خداتعالیٰ چاہے تو ائندہ دس ہزاری اور پھر اس سے بڑی فوج تیار ہوتی چلی جائے۔ کیونکہ آخر اس انیس سال کے عرصہ میں بعض بچے جوان ہو چکے ہوں گے اور بعض نئے احمدی بھی ہوں گے۔ تو جب پہلے دَور کے لوگ اپنے انیس سال پورے کریں گے تو ان کے بعد نئے احمدی ہونے والے اور نئے پیدا ہونے والے ان کے قائم مقام پیدا ہو چکے ہوں گے اور اس طرح ہمیشہ ہمیش تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ جو لڑکا اس دَور کے پہلے سال میں پیدا ہو گا انیس سال کے بعد وہ جوان ہو کر برسرِروزگار ہو چکا ہو گا اور اس قابل ہو گا کہ دین کی خاطر قربانیوں میں حصہ لے سکے۔ اور جو اس دَور کے پہلے سال میں تین چار سال کا ہو گا انیس سال کے بعد وہ بائیس تئیس سال کا ہو چکا ہو گا۔ گویا انیس سال کا دَور ہونے کے لحاظ سے نئی پود تیار کرنے کا ایسا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے جو قیامت تک اپنی قربانی کو جاری رکھے۔ انیس سال کے بعد پہلے لوگوں پر سے یہ بوجھ اُتر چکا ہو گا۔ اور ان کے بعد ایک نئی پَود اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہو گی جنہوں نے پہلے سالوں میں حصہ نہیں لیا ہو گا۔ یا جو نئے احمدی ہوں گے یا جو بچے تھے اور انیس سا ل کے بعد جوان ہو کر برسرِروزگارہو چکے ہوں گے اب ان کا فرض ہو گا کہ وہ اپنے باپ دادوں اور بھائیوں کی قربانی کا بوجھ اپنے ذمہ اٹھائیں۔ اور جب ان لوگوں کے بھی انیس سال ختم ہوں گے تو پھر اَور نئی پَود تیار ہو چکی ہو گی جوان کا بوجھ اٹھائے گی۔ اور اس طرح جماعت کی قربانی کا سلسلہ ہمیشہ ہمیش کے لئے جاری رہے گا۔ غرض انیس سال کاعرصہ اتنا کافی عرصہ ہے کہ اس کے بعد نئی نسل آجاتی ہے اور پھر بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی آجاتی ہے جو ہزاروں کی تعداد میں نئے احمدی ہوتے ہیں۔ ان کا بھی فرض ہو گا کہ اس قربانی میں حصہ لیں۔
پس اس سکیم سے میرا منشاء یہ تھا کہ یہ سلسلہ قیامت تک چلتا چلا جائے اور جوں جوں ہماری تبلیغ بڑھتی جائے اور کام وسیع ہوتا جائے ساتھ ہی ساتھ اس کام کو چلانے کےلئے بھی سامان بھی پیدا ہوتے چلے جائیں۔ چنانچہ اس سکیم کے ماتحت میں نے تحریک کی تھی کہ جو لوگ پچھلے دس سالوں میں حصہ لیتے رہے ہیں وہ آئندہ نو سال تک حصہ لیں اور انیس سال کا دور پورا کریں۔ اور گیارھویں سال کا چندہ کم از کم نویں سال کے برابر ضرور دیں۔ میں سمجھتا تھا کہ کچھ لوگ تو ایسے ہوں گے کہ اگر ان کے حالات اجازت نہ دیں تو وہ کم از کم نویں سال کے برابر تو ضرور دیں گے اور کچھ مخلصین ایسے بھی ہوں گے جو دسویں سال کے برابر یا ا س سے زیادہ دیں گے اور اس طرح ہمارا سلسلہ تحریک جدید کی اتنی رقم پیدا کرتا رہے گا کہ جو رقم تبلیغ کی اس سکیم کے بوجھ کو اٹھا لے گی۔ کیونکہ نویں سال دو لاکھ کے قریب کے وعدے وصول ہوئے تھے۔ تو اگر گیارہویں سال اڑھائی لاکھ کی آمد ہو تو تبلیغ کی سکیم پر جو اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی رقم خرچ ہو گی وہ اس سے نکل آئے گی۔ اور اگر کسی وقت کچھ کمی رہی تو وہ نئی پانچ ہزاری فوج کی رقم سے ادا کی جا سکے گی۔ پھر جس وقت دفتر اول والوں کے انیس سال پورے ہو جائیں گے تو دفتر دوم والوں کے ابھی دس سال باقی ہوں گے اور وہ منظم ہو کر اس بوجھ کو اٹھا لیں گے۔اور جو کمی رہ جائے گی اس کو پورا کرنے کے لئے دفتر سوئم والے آجائیں گے۔ اور پھر جب دفتر دوئم والوں کے انیس سال پورے ہو جائیں گے تو اُس وقت دفتر سوئم والوں کے ابھی دس سال باقی ہوں گے وہ اس بوجھ کو اٹھا لیں گے۔ اور جو کمی رہ جائے گی اس کو پورا کرنے کے لئے دفتر چہارم والے آجائیں گے اور اس طرح جماعت کی قربانی کا سلسلہ قیامت تک چلتا جائے گا۔
یہ سکیم میرے ذہن میں تھی جہاں تک ابتدائی حصہ نے حصہ لیا ہے واقع میں ان کی قربانی بہت شاندار تھی۔ ان ابتدائی حصہ لینے والوں میں بالعموم ایسے تھے جنہوں نےد سویں سال سے بڑھا کر وعدے کئے۔ اور تھوڑے ایسے تھے جنہوں نے نویں سال کے برابر وعدے کئے۔ پھر ان وعدہ کرنے والوں میں سے چونکہ بعض فوت بھی ہو جاتے ہیں، بعض کی پنشن ہو جاتی ہے اس بات کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اس وجہ سے بھی وصولی کے وقت آٹھ دس فیصدی رقم خطرہ میں رہتی ہے۔ مگر جو حصہ باقی رہ گیا تھا انہوں نے قربانی کرنے میں کوتاہی کی ہے اور انہوں نے ابتدائی حصہ لینے والوں کے برابر اخلاص کا نمونہ پیش نہیں کیا۔ اس وقت تک دفتر اول کے گیارھویں سال میں صرف ایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ کےوعدے آئے ہیں۔٭ لیکن یہ وعدے صرف ہندوستان کے ہیں۔ ہندوستان سے باہر کے وعدے ابھی باقی ہیں۔ اور ابھی ہندوستان کے وعدوں میں بھی آٹھ دس دن باقی ہیں۔ سات دن (7فروری) تک تو وعدے لکھوائے جا سکتے ہیں اور کچھ وقت ڈاک میں خطوط آنے پر بھی صَرف ہو گا۔ اس کو ملا کر قریباً دس دن ابھی باقی ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ اس سال دو لاکھ سے اوپر کے وعدے ہو جائیں گے۔ لیکن یہ دو لاکھ کی رقم تبلیغ کے اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان مشنوں کو جاری رکھنے کے لئے اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی کم سے کم ضرورت ہے اور جو نئی تحریک (دفتر دوم) کی میں نے جاری کی تھی مجھے افسوس ہے کہ اب تک وہ پوری طرح منظم نہیں ہو سکی۔ اس کے وعدے اِس وقت تک صرف پچیس ہزار سالانہ کے ہوئے ہیں۔ اگر دفتر دوم کو منظم کر کے پانچ ہزار نئے آدمی تیار کر لئے جائیں توامید ہے دفتر دوم کے ذریعہ سے بھی ڈیڑھ دو لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہو سکتی ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو دفتر اول والوں کی قربانی کا وقت ختم ہونے کے بعد یہ لوگ اس بوجھ کو اٹھا سکیں گے۔ مگرجو وقفہ پڑا ہے اور اس سے جو کمی واقع ہوئی ہے اس کمی کودور کرنے کے لئے جماعت کو اس کام کی اہمیت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو کام ہمارے سامنے ہے اس کے لئے کتنی بڑی قربانی درکار ہے۔
بعض لوگوں کے دلوں میں یہ بھی خیال پیدا ہو سکتاہے کہ جائیدادوں کی آمدنی کہاں جائے گی۔ یہ بھی میں واضح کر دیتا ہوں کہ بڑے کاموں کے لئے ہمیشہ بڑی تیاری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے نہ تو تبلیغ کا یہ دائرہ وسیع ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے اور نہ ہی اتنے مبلغ کافی ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ہر ملک میں اس سے آٹھ دس گُنا زیادہ مبلغ رکھنے پڑیں گے اور علاقوں کے لحاظ سے گویا ساٹھ ستّر گُنا زیادہ علاقوں میں تبلیغ کو وسیع کرنا پڑے گا۔ اور پھر بھی ابھی بہت سی دنیا ہماری تبلیغ سے باہر رہ جائے گی۔ اگر موجودہ حالت سے ساٹھ گُنا زیادہ علاقوں میں تبلیغ کو وسیع کریں تو موجودہ اندازہ مَیں نے اڑھائی لاکھ بتایا ہے اس کو اگر ساٹھ سے ضرب دیں تو یہ ایک کروڑ پچاس لاکھ روپیہ ہو جاتا ہے۔ بہرحال جب وہ زمانہ آئے گا تو اُس وقت خداتعالیٰ ایسے سامان بھی پیدا کر دے گا کہ ایک کروڑ پچاس لاکھ تو کیا اگر ایک ارب روپیہ کا مطالبہ کیا جائے گا تو لوگ کہیں گے یہ تھوڑا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ زمانہ کب آئے گا ۔ہماری زندگی میں آئے یا ہماری زندگی کے بعد آئے، مگر آئے گا ضرور۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خداتعالیٰ کے وعدے نہیں ٹل سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیّت فیصلہ کر چکی ہے کہ ساری دنیا پر اسلام اور احمدیت کی تبلیغ پھیلا دی جائے۔ اور اس کے لئے غیر معمولی سامان پیدا ہو رہے ہیں، آسمان سے فرشتے نازل ہو رہے ہیں کہ لوگوں کے دلوں کی اصلاح کرلیں اور روحانی توپیں مادیت کے قلعوں کو مسمار کرنے کے لئے گاڑی جارہی ہیں۔
یہ کام تو ہو گا جب ہو گا مگر جہاں تک انسانی تدابیر کا سوال ہے اس کے لحاظ سے بھی اب ایسا زمانہ آرہا ہے کہ ہمیں اپنے کاموں کو بڑھانا پڑے گا۔ اگر کسی شخص کے ہاں آج بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے لئے ایک گز کپڑا درکار ہوتاہے تو کوئی احمق ہی ہو گا جو یہ کہے کہ اگلے سال بھی اتنے کپڑے میں ہی کام چل جائے گا۔ کیونکہ اگلے سال اس کے لئے دو گز کپڑا درکار ہو گا۔ اور کوئی نادان ہی ہو گا جو یہ خیال کرے کہ پانچ چھ سال کے بعد بھی دو گز میں ہی کام چل جائے گا کیونکہ پانچ چھ سال کے بعد پھر اسے تین چار گز کپڑا درکار ہو گا۔ اسی طرح جوں جوں وہ بچہ بڑھتا چلا جائے گا اس کے لئے زیادہ سے زیادہ کپڑا درکار ہو گا۔ پس ہم نے اگر آج ایک کام شروع کیا ہے تو کل اس کام میں جو زیادتی پیدا ہونے والی ہے ہمیں اس کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا۔ اگر آج ہم اڑھائی لاکھ روپے سے کام شروع کرتے ہیں تو آج سے پانچ سال بعد ہمیں پانچ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہو گی اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہمیں آج سے ہی سامان کرنا ہو گا۔ اس لئے میں نے جائیداد کی آمد کو اس وقت بالکل مدنظر نہیں رکھا۔ اول تو اِس جائیداد پر پانچ لاکھ روپے کا قرضہ ہے۔ اس عرصہ میں اس سے جو آمد ہو گی اس سے یہ قرضہ اتاریں گے۔ اس کے بعد جو آمد ہو گی اس کو ریزرو فنڈ میں جمع کریں گے۔ اور پھر اس سے اَور آمدنی پیدا کرنے کے ذرائع سوچیں گے اور کام میں جووسعت پیدا ہو گی وہ اس آمدنی سے پوری کریں گے۔ پس جہاں تک موجودہ اڑھائی لاکھ روپے کا بوجھ اٹھانے کا سوال ہے یہ بوجھ تحریک جدید کے چندوں پر ڈالا جائے اور جب دفتر اول کے انیس سال پورے ہوں تو دفترثانی اس بوجھ کو اٹھائے۔ مگر اُس وقت تک کام میں جو وسعت پیدا ہو چکی ہو گی اور اس کام کو چلانے کےلئے جو ضرورت بڑھ جائےگی وہ ضرورت اس ریزرو فنڈ کی آمد سے پوری کی جائے۔ میں اس کے متعلق بتانا نہیں چاہتا تھا مگر شاید یہ خیال کیا جائے کہ جائیداد کی آمد بے کار پڑی رہے گی اس لئے میں نے بتا دیا ہے کہ وہ بے کار نہیں پڑی رہے گی بلکہ اس کے آمدنی کےنئے ذرائع پیدا کئے جائیں گے جو کام کی وسعت کو سنبھال سکیں۔ اِس وقت اس جائیداد کی قیمت پنجاب کی قیمتوں کےلحاظ سے اسّی لاکھ روپیہ کی ہے اور وہاں (سندھ) کی قیمتوں کے لحاظ سے ستائیس لاکھ روپے کی ہے اور گورنمنٹ کو اس پر کوئی سترہ لاکھ روپے کے قریب اس کی قیمت دی گئی ہے۔ اس رقم میں سے چھ سات لاکھ روپیہ چندوں سے بچا کر دیا گیا ہے۔ باقی وہیں کی آمدنی سے یا قرض لے کر ادا کیا گیا ہے۔ کُل سترہ لاکھ روپیہ دے کر اب یہ جائیداد آزاد کرائی جا چکی ہے جس کی قیمت اب ستائیس لاکھ روپیہ ہے۔ تین چار لاکھ وہاں کی آمدنی سے، پانچ لاکھ قرض لے کر اور چھ سات لاکھ چندہ میں سے ادا کیا گیا ہے اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ ان جائیدادوں کو منظم کر کے ان کی آمدنی سے آہستہ آہستہ بیس پچیس لاکھ کا ایک اَور ریزرو فنڈ قائم کر دیا جائے۔
پس میری اِس سکیم کے ماتحت جائیداد کی آمدنی کو اُس وقت تک چُھؤ انہیں جا سکتا۔ ورنہ کچھ سال کے بعد کام کے بڑھنے پر سلسلہ کو سخت نقصان پہنچے گا۔ ضرورت ہے کہ اس کی آمدن سے مزید آمد پیدا کی جائے تاکہ کام میں جو وسعت پیدا ہو اس کے لئے ابھی سے سامان مہیا کرنا شروع کر دیا جائے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہمارے چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے ڈیڑھ کروڑ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر ہم بیس پچیس لاکھ روپیہ سالانہ بھی خرچ کریں تو اس بیس پچیس لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد پیدا کرنے کے لئے بھی ابھی سے سامان پید اکرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ جماعت کو کس قدر بڑھا دے گا کہ وہ اِس بوجھ کو اٹھا لے۔ ہماری امیدیں تو یہی ہیں اور کل مَیں نے جب مبلغین بلائے کہ باہر جانے کے لئے تیاری شروع کردیں تو میں نے ان سے یہی کہا کہ ہمارے پاس اتنے سامان بھی نہیں لیکن کام کو وسیع کرنے کے بغیر بھی چارہ نہیں۔ آپ اس نیت سے باہر جائیں اور وہاں جاکر یہ کوشش کریں کہ اس ملک کے اتنے افراد احمدی ہو جائیں کہ اُن کا چندہ اُس ملک کی تبلیغ کے بوجھ کو اٹھائے تاکہ مرکز پر سے جلد اُن مشنوں کا بوجھ اُتر جائے۔ اور وہ فارغ شدہ رقوم سے اَور مبلغ بھجوا سکے۔ پس یہ تین باتیں میں جماعت کے سامنے رکھتا ہوں۔
اول یہ کہ جماعت کے دوست تحریک جدید کے چندہ میں اس رنگ میں حصہ لیں کہ ہر گروپ انیس سال تک اس بوجھ کو اٹھائے۔ اور جب انیس سال کے بعد ان کی قربانی ختم ہو جائے تو پھر دوسرا گروپ آگے آئے اور وہ اس بوجھ کو اٹھائے اور اس طرح قیامت تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے۔ اس طرح ہر فرد پر اس کا ہمیشہ بوجھ نہیں رہے گا۔ کیونکہ انیس سال کے بعد نئی نسل آجائے گی اور وہ اس بوجھ کو اٹھا لے گی اور اس طرح یہ تبلیغ ہمیشہ تک جاری رہے گی۔
دوسرے یہ کہ ہمارے مبلغ اس محنت اور دیانتداری سے کام کریں کہ وہ جس ملک میں جائیں وہ ملک دو تین سال کے بعد وہاں کی تبلیغ کا بوجھ خود اٹھائے۔
تیسرے یہ کہ جائیداد کی آمدنی ریزرو فنڈمیں جمع ہوتی رہے۔ ان تینوں ذرائع کو ملا کر امید ہے کہ اگر ہم اس کے مطابق چلیں اور گناہ کی شامت ہمارےرستہ میں حائل نہ ہو تو دس بارہ سال کے بعد بیس پچیس لاکھ روپیہ سالانہ کی آمدنی ان تینوں ذرائع سے پیدا ہو سکے۔ بہرحال اصل نتیجہ تو دس بارہ دن کے بعد ہی معلوم ہو گا کہ تحریک جدید میں دوستوں نے کس حد تک حصہ لیا ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ میرے الفاظ کےظاہری معنوں سےجو کچھ نکلتا تھا کہ کم از کم نویں سال کے برابر چندہ ہو یہ تو ہو جائے گا ۔)اور جیسا کہ میں نے اوپر بتایا ہے اِس وقت تک ہو چکا ہے( مگر جو سکیم ہمارے مدنظر ہے اس کے لحاظ سے وہ رقم کافی نہیں۔ کیونکہ گیارھویں سال کے چندوں کا موجودہ اندازہ دو لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ مگر میں نے بتایا ہے کہ ہمیں اپنی اس تبلیغی سکیم کو جاری کرنے کے لئے اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے۔ مگر اس اڑھائی لاکھ میں ابھی ایک چیز مَیں نے شامل نہیں کی۔ اور وہ یہ کہ جو مبلغین باہر جائیں گے ان کے سفر خرچ پر بھی چالیس پچاس ہزار روپیہ خرچ ہو گا بلکہ اس بھی زیادہ۔
اِس وقت تک چار مبلغ افریقہ جا چکے ہیں اور دو تیاری کر رہے ہیں۔ باقی ہر ملک کے لئے میں نے مبلغ مقرر کر دیئے ہیں جو ممالک قریب ہیں اُن کا کرایہ کم ہے اور جو دور ہیں اُن کا زیادہ ہے۔ مثلاً افریقہ جانے کے لئے ڈیڑھ ہزار روپیہ کرایہ خرچ ہوتا ہے۔ اور جو ممالک دور ہیں وہاں کے لئے اڑھائی تین ہزار روپیہ کرایہ خرچ ہوتاہے۔ اگر ڈیڑھ ہزار روپیہ ہی اوسط لگالی جائے تواس لحاظ سےسینتیس مبلغوں کا پچپن چھپن ہزار روپیہ تو صرف کرایہ کا خرچ ہے۔ اور یہ بھی تھرڈ کلاس کا کرایہ ہے یہ نہیں کہ وہ بڑے آرام سے سفر کریں گے۔ آخر جو کرایہ مقرر ہے وہی دینا پڑے گا اِس میں کفایت کرنا تو ہمارے اختیار کی بات نہیں۔ تو یہ رقم ابھی میرے اس حساب سے باہر ہے۔ بہرحال اگر اس کو بھی شامل کر لیا جائے تو تین لاکھ روپیہ کی اس سال ضرورت ہو گی۔
اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق دے کہ وہ ان تینوں باتوں کی اہمیت کو سمجھے اور دوسروں پر ان کی اہمیت اور معقولیت واضح کرے اور اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ وہ خوشی خوشی ان بوجھوں کو اپنے سروں پر اٹھا لیں اور خداتعالیٰ کی رضا حاصل کریں۔ اور اللہ تعالیٰ نئے نئے لوگوں کو پیدا کرے کچھ ہمارے گھروں میں اور کچھ باہر سے لا کر جو اس بوجھ کو ہم سے بھی زیادہ اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ اور اس قسم کی قربانی کی روح اپنے ساتھ لائیں کہ یہ کام بجائے گھٹنے کے ہر سال بڑھتا چلا جائے اور ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ لیں کہ ہر ملک میں اسلام کی تبلیغ پھیل چکی ہو۔ ہمارے مبلغ ہزاروں کی تعداد میں تبلیغ کر رہے ہوں اور لاکھوں لاکھ آدمی ہر ملک میں احمدیت میں داخل ہو چکے ہوں۔ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لیں کہ دشمن بھی اقرار کرے کہ اب اسلام پھیل چکا اور اب احمدیت دنیا پر غالب آگئی۔ اب اس کا مقابلہ کرنا فضول ہے۔ یہ خدا کی بات تھی جو پوری ہو گئی۔ آمین ’’ (الفضل مورخہ 8فروری 1945ء)
1: الرحمٰن: 20،21

6
دفتردوم کے مجاہدین کے وعدوں کی میعاد میں اضافہ
(فرمودہ 9فروری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘تحریک جدید دفتر اول کے وعدوں کا وقت تو گزر چکا ہے اور اردو بولنے والوں کے لئے وعدوں کی جو میعاد مقرر تھی وہ میعاد ختم ہو چکی ہے۔ سوائے ایسے لوگوں کے وعدوں کے جو کسی وجہ سے اس تحریک کے گیارھویں سال کا علم ہی حاصل نہیں کر سکے۔ یا ان ممالک کے جن کی اصلی زبان اردو نہیں ہے جیسے بنگال ،مدراس وغیرہ۔یافوجی لوگ جن تک نہ تو اخبار پہنچتے ہیں اور نہ ان کو ڈاک کے ذریعہ خطوط پہنچتے ہیں کیونکہ ان کی ڈاک بھی بہت کچھ ضائع ہو جاتی ہے۔ گورنمنٹ نے انتظام تو بہت اعلیٰ کیا ہے جس کی غرض یہ ہے کہ سپاہیوں کی ڈاک اُن تک پہنچتی رہے اور وہ مطمئن رہیں لیکن پچھلے چار پانچ ماہ سے کثرت سے سپاہیوں کو شکایت پیدا ہو رہی ہے کہ ان کو خطوط نہیں ملتے۔ کئی ایسے خطوط آئے ہیں جن میں ان لوگوں نے شکوہ کیا ہے کہ ہم نے کثرت سے خطوط لکھے ہیں لیکن ہمیں ان کا جواب نہیں ملا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ دونوں طرف سے خط و کتابت ہوتی رہی ہے لیکن نہ ان کے خطوط ان کے ماں باپ یا رشتہ داروں تک پہنچے ہیں اور نہ ہی ان کے ماں باپ یا رشتہ داروں کے یا ہمارے خطوط ان تک پہنچ سکے ہیں۔ نہ معلوم اس کی کیا وجہ ہے۔ شاید سپاہیوں کے دو ردو رپھیل جانے کی وجہ سے ایسا ہؤا ہے یا اِس وجہ سے کہ وہ ڈاک کے مرکز سے یعنی جہاں اُن کا بیس (Base) ہے اس سے دور چلے گئےہیں۔ یا دہلی کے ڈاکخانہ میں کوئی نقص ہے یا کوئی اَور وجہ ہے ۔ بہرحال پہلے یہ نقص نہیں تھا لیکن اب چار پانچ ماہ سے کثرت سے یہ شکایت پیدا ہو رہی ہے کہ سپاہیوں کے خطوط ان کے بال بچوں کو نہیں مل رہے۔ اور اگر مل جاتے ہیں تو فوجیوں کو ان کا جواب نہیں ملتا حالانکہ جواب لکھا جاتاہے۔ پس ایسے حالات میں فوجیوں کو کم از کم اپریل تک وعدہ بھجوانے کی اجازت ہو گی۔ اور اگر یہ ثابت ہوا کہ اُن تک خطوط پہنچنے میں دقت پیدا ہو رہی ہے تو پھر بعد میں بھی اجازت ہو گی۔ یا غیر ممالک کے لوگ ہیں جن کے وعدوں کی میعاد گزشتہ سالوں میں بھی جون تک مقرر ہوتی تھی۔ اس سال بھی ان کے لئے جون تک میعاد مقرر ہے۔ وہ جون کے آخر تک اپنے وعدے بھیج سکتے ہیں۔ کیونکہ وہاں کے لوگوں تک اطلاعات پہنچنا اور پھر ہمارے سلسلہ کے کارکنوں کا ہر جگہ یہ اطلاع پہنچا کر لوگوں سے وعدے لینا مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ امریکہ کے نویں سال کے وعدے جولائی کے چلے ہوئے ہمیں یہاں اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں آکر ملے تھے۔ پس ان لوگوں کے سوا باقی لوگوں کےوعدوں کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔ مگر دفتر دوم کے متعلق چونکہ ہم نے نئے سرے سے ایک اَورپانچ ہزاری فوج قائم کرنی ہے اس لئے اس کی میعاد کو ابھی ختم نہیں کیا جاتا۔
جیسا کہ میں نے بیان کیاہے اللہ تعالیٰ نے آہستہ آہستہ اس تحریک کی بنیاد ایسے رنگ میں رکھ دی ہے کہ اس کے ذریعہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تبلیغی مشنوں کی جڑیں مضبوط کر دی جائیں۔ جماعت کے وہ دوست جنہوں نے پہلے دس سالوں میں حصہ لیا تھا ان میں سے اکثر 19 سال کی سکیم میں شامل ہو چکے ہیں اور انہوں نے گیارہویں سال کے وعدے لکھوا دیئے ہیں۔ اور جو باقی ہیں وہ ایسے ہیں جو دوسرے ممالک میں ہیں یا جو فوج میں ہیں یا ایسے صوبوں میں ہیں جن کی زبان اردو نہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو غالباً دس سال کے بعدحصہ لینا چھوڑ بیٹھے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دس سال حصہ لینے کےبعد اب ضروری نہیں رہا کہ گیارہویں سال میں بھی ہم حصہ لیں۔ اول تو پہلے دس سالوں میں حصہ لینا بھی فرض نہیں تھا۔ بار بار میں بتا چکا ہوں کہ یہ تو طوعی چندہ ہے جس کی مرضی ہو اس میں شامل ہو اور جس کی مرضی نہ ہو وہ شامل نہ ہو تو بقیہ نو سال حصہ لینا تو اَور بھی طوعی ہے کیونکہ جو دس سال میعاد مقرر کی گئی تھی وہ ختم ہو چکی ہے۔ باقی جیسے میں نے بتایا تھا اگر کوئی صاحبِ توفیق ہے اور اس کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت اور اسلام کی خدمت کا جذبہ پایا جاتا ہے تو طوعی کہنا تو الگ رہا اگر لوگ اس کے رستہ میں روک بن کر کھڑے ہو جائیں تب بھی وہ راستہ نکال کر ضرور اس میں حصہ لے گا۔ کیونکہ اس کے دل میں جو محبت خداتعالیٰ کی پائی جاتی ہو گی اس محبت کی وجہ سے کوئی چیز اُس کو اسلام کی خدمت کا کام کرنے سے روک نہیں سکے گی۔ دنیا میں مختلف قسم کے کام ہوتے ہیں۔ کوئی کام جبری ہوتا ہے لیکن وہ جبری، سیاسی جبری نہیں ہوتا جیسے ماں باپ اپنے بچوں سے کام لیتے ہیں۔ کوئی کام طاقت سے کروایاجاتا ہے جیسے کسی کو مار پیٹ کر اس سے کام کرایا جائے۔ کوئی کام سیاسی جبری ہوتا ہے کہ اگر کوئی اس کام کو کرنے سے انکار کرے تو اسے قید میں ڈالا جاتا ہے۔ لیکن دینی کام تو ہمیشہ طوعی ہی رہے ہیں اور طوعی ہی رہیں گے۔ اور طوعی کاموں میں ہی برکتیں ہوتی ہیں۔ مار مار کر کسی کو نماز پڑھانا نماز پڑھنے والے کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتا۔ وہ نماز جس میں کھڑےہو کر وہ یہ سوچتا رہے کہ مجھے فلاں نے مار کر نماز پڑھائی ہے ورنہ میں کیوں پڑھتا تو اس کی نماز نماز نہیں ہو گی۔
حضرت بابا نانکؒ کے متعلق ایک بات مشہور ہے نامعلوم وہ کہاں تک سچی ہے لیکن وہ بڑی اچھی بات ہے۔ غالباً پشاور کی کسی مسجد میں بابا صاحبؒ نے امام کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد نماز توڑ کر الگ پڑھنی شروع کر دی۔ سلام پھیرنے کے بعد امام نے پوچھا کہ آپ نے جماعت کے ساتھ نماز توڑ کر الگ نماز کیوں شروع کر دی؟ یہ تو آپ نے نہایت نادرست اور تقویٰ کے خلاف کام کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں کمزور آدمی ہوں آپ کے پیچھے نماز کس طرح پڑھ سکتا تھا۔ بات یہ تھی کہ نماز پڑھاتے وقت امام کے دل میں جو خیالات گزر رہے تھے وہ بابا صاحبؒ پر کشف میں ظاہر ہو گئے۔ امام جب نماز پڑھانے کے لئے گھر سے آیا تو وہ یہ سوچ رہا تھا کہ میرا گزارہ امامت سے نہیں ہوتا کوئی اَور کام کرنا چاہیے۔ اس نے سوچا کہ جو قافلہ تجارت کرنے کے لئے یہاں سے بخارا جا رہا ہے کسی سے کچھ روپیہ قرض لے کر اس کا سامان خرید کر بخار ابھیج دوں۔ اس سامان کو فروخت کر کے وہاں سے کوئی اَور سامان خرید لائیں گے۔ اسے یہاں فروخت کر کے اس کا پھر اَور سامان خرید کر بخارا بھیجوں گا۔ اور پھر وہاں سے اس کا اَور سامان اور قالین وغیرہ منگواؤں گا۔ اورپھر کچھ سامان بنگال وغیرہ کی طرف بھیجوں گا اور اس طرح تجارت کر کے بہت سا روپیہ کماؤں گا۔ تو یہ خیالی سکیم بناتا ہؤا وہ گھر سے آیا اور جب نماز میں کھڑا ہؤا تو وہی خیالات دماغ میں جاری رہے۔ منہ سے کہہ رہا تھا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ1 اور دماغ کبھی قالین خریدنے بخارا جا رہا تھا اور کبھی بنگال کی طرف تجارت کرنے جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کشف میں یہ نظارہ بابا صاحبؒ کو دکھا دیا اور انہوں نےامام کے پیچھے نماز چھوڑ کر الگ پڑھنی شروع کر دی۔ اور جب امام نے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ تو انہوں نےجواب دیا کہ حضرت! آپ تو قوی آدمی ہیں آپ نے لمبے لمبے سفر شروع کر دیئے میں کمزور آدمی ہوں آپ کے پیچھے پیچھے مجھ سے بخارا اور بنگال نہیں جایا جاتا۔ اس لئے میں نے الگ نماز پڑھ لی۔
تو انسان اپنے جذبات میں اسی طرح بہنے کا عادی ہوتا ہے۔ جس کو مار پیٹ کر نماز پڑھائی جائے گی اُس کے دل میں خداتعالیٰ کا خیال آئے گا کس طرح۔ اُس کے دل میں تو شکوے گِلے چلتے چلے جائیں گے کہ فلاں شخص نے مجھے مار کر نماز پڑھائی ورنہ میں کیوں پڑھتا۔ نماز تو اُسی کی ہو گی جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے پڑھے گا۔ جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے نماز پڑھے گا اس کے دل میں الٰہی محبت کے خیالات پیدا ہوں گے اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی خواہش اس کے دل میں سوز و گداز پیدا کرے گی۔ اور اس کی وجہ سے وہ زیادہ سے زیادہ خداتعالیٰ کی طرف جھکے گا۔ ورنہ یہ چیز اگر اس کے دل میں نہیں ہو گی تو اس کے دل میں جس قسم کے خیالات ہوں گے نماز میں بھی وہ خیالات اُسے اپنی طرف کھینچ لیں گے۔ امام بے شک اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ 2 پڑھ رہا ہو گا مگر یہ اس کے پیچھے کھڑا اپنے خیالات کی دنیا میں بہتا چلا جائے گااور اس کی نماز صرف ظاہری نماز ہو گی باطنی نہیں ہو گی۔
پس دین کے ایسے کام جو جبر سے کرائے جائیں وہ کبھی بھی نفع رساں نہیں ہوتے۔ بچوں پر جبر کرنا بے شک جائز ہوتا ہے تاکہ انہیں عادت ڈالی جائے۔ بچے کے ماں باپ اگر اس پر جبر کر کے نماز پڑھاتے ہیں یا بورڈنگ کا سپرنٹنڈنٹ جبر کر کے نماز پڑھاتا ہے تو وہ نماز بچے کی نماز نہیں ہوتی بلکہ اُ س کے ماں باپ یا بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ کی ہوتی ہے۔ جب تک بچے کےد ل میں یہ احساس پید انہیں ہوتا کہ میں خدا کے لئے نماز پڑھتا ہوں اُس وقت تک اگر اس کے ماں باپ اُس کو نماز پڑھاتے ہیں تو اُس کا ثواب اُس کے ماں باپ کو ملے گا۔ اور اگر بورڈنگ کا سپرنٹنڈنٹ نماز پڑھاتا ہے تو اس نماز کا ثواب سپرنٹنڈنٹ کو ملے گا۔ اور اگر اس بچے کے ماں باپ اس کو نماز پڑھانے میں کوتاہی کرتے ہیں یا سپرنٹنڈنٹ نماز پڑھانے میں کوتاہی کرتا ہے تو بچے سے پُرسش نہیں ہوگی کہ تم نے نماز کیوں نہیں پڑھی۔ بلکہ اُس کے ماں باپ یا سپرنٹنڈنٹ سے پُرسش ہو گی کہ کیوں تم نے نماز نہیں پڑھی۔ یعنی کیوں تم نے بچے سے نماز نہیں پڑھوائی۔ لیکن جس وقت بچے کے دل میں احساس پیدا ہو جائے کہ میرا ایک مالک اور آقا ہے اور میں نے اس کی عبادت کرنی ہے اور اس سے اپنے تعلقات بڑھانے ہیں اور اس کی محبت کو اپنے دل میں پیدا کرنا ہے اُس وقت سے اس کی نماز اس کی ہو جاتی ہے خواہ اس کی عمر چار پانچ سال کی ہویا دس سال کی ہو یا بارہ سال کی ہو۔جس وقت یہ احساس پیدا ہو جائے گا اُس وقت سے اُس کی نماز ہو گی۔ اُس سے پہلی اس کی نماز نہیں بلکہ اس کے ماں باپ یا بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ کی نماز ہو گی۔
یہ مَیں اس لئے کہتا ہوں کہ اِس وقت بچے میرے سامنے بیٹھے ہیں۔ یہ میں تعیین نہیں کرتا کہ بچے کی نماز کس وقت سے شروع ہوتی ہے کیونکہ بعض بچے بڑے ذہین ہوتے ہیں اور بعض کم ذہین ہوتے ہیں۔ بعض بچے چودہ پندرہ سال کے ہو کر بھی ایسے ہوتے ہیں جیسے پانچ چھ سال کا بچہ اور بعض پانچ چھ سال کے بچے ایسے ذہین ہوتے ہیں جیسے چودہ پندرہ سال کا نوجوان۔ اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو چھ سات سال کی عمر میں اٹھارہ انیس سال کی عمر والوں سے بھی زیادہ ذہین اور زیادہ عقلمند ہوتے ہیں۔
امام شافعیؒ کی نسبت آتا ہے وہ کہتے تھے میں چھ سات سال کی عمر کا تھا جبکہ اچھی طرح قرآن مجید سمجھنے لگ گیا تھا۔ اور وہ نو سال کے تھے جب انہوں نے گھر کی تعلیم ساری حاصل کر لی۔ اور بارہ تیرہ سال کی عمر میں امام مالکؒ کے پاس جا کر ان کے شاگرد ہو گئے۔ امام مالکؒ نے اپنے شاگردوں کو حکم دے رکھا تھا کہ جب وہ مجلس میں سبق پڑھنے کے لئے آئیں تو کاپیاں اور قلم دوات لے کر آئیں اور جو سبق میں انہیں پڑھاؤں اسے لکھیں۔ جب امام شافعیؒ وہاں پہنچے تو سینکڑوں شاگرد امام مالکؒ کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھے تھے۔ یہ ان میں سے گزر کر آگے آکر بیٹھ گئے۔ کسی نے انہیں بچہ ہونے کے لحاظ سے کچھ نہ کہا کہ بچہ ہے جہاں چاہے بیٹھ جائے۔ دو تین دن بیٹھے رہے امام مالکؒ کی نظر ان پر پڑی تو انہوں نے کہا بچے! تم یہاں کیا کرتے ہو؟ کہنے لگے میں آپ کا شاگرد بنا ہوں اور سبق پڑھتا ہوں۔ امام مالکؒ نے کہا سبق، تم نے سبق کیا پڑھنا ہے یہ دوسرے لوگ جو سبق پڑھ رہے ہیں قلم دوات اور کاپیاں ان کے پاس ہیں اور وہ سبق ساتھ کے ساتھ لکھتے جا رہے ہیں مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لکھتے لکھاتے کچھ نہیں تم کیا سبق پڑھو گے۔ امام شافعیؒ نے جواب دیا کہ ان کو لکھنے کی حاجت ہو گی اس لئے یہ لکھتے ہیں مجھے لکھنے کی حاجت نہیں۔ امام مالکؒ نے سمجھا بچپن کی شوخی کی وجہ سے ایسی بات کرتا ہے۔ لیکن امام شافعیؒ نے ان سے کہا کہ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو تجربہ کر لیجئے۔ ابھی جب آپ اپنے شاگردوں سے سبق سنیں گے تو میں آپ کو بتاتا جاؤں گا۔ امام مالکؒ باقاعدہ اپنے شاگردوں سے سبق سنا کرتے تھے کہ کل میں نے کیا بیان کیا تھا۔ جب انہوں نے ایک شاگرد سے سننا شروع کیا تو امام شافعیؒ نے اس کو ٹوکنا شروع کیا۔ پیشتر اس کے کہ امام صاحب اُس شاگرد کی غلطی نکالتے امام شافعیؒ اُسے ٹوک دیتے کہ یوں نہیں امام صاحب نے یوں بتایا تھا اور وہ ٹھیک ہوتا۔ یہ دیکھ کر امام مالکؒ نے کہہ دیا کہ تم کو یہ شرط معاف ہے۔ تم کو کاپی اور قلم دوات کی ضرورت نہیں۔ لیکن ہر آدمی تو شافعی نہیں بن جاتا۔ہر شخص الگ الگ ذہن کا مالک ہوتاہے۔ اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ کونسی عمر میں بچہ کی نماز اس کی نماز ہوتی ہے۔ اگر اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ میں خدا کی نماز پڑھتا ہوں، اگر اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ نماز کاچھوڑ دینا اس سے زیادہ خطرناک ہے جتنا کہ مر جانا، اگر اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ نماز کے ذریعہ میں خداتعالیٰ کا قرب حاصل کروں تو جس عمر میں بھی یہ احساس پیدا ہو جائے اُس عمر میں اُس کی نماز اس کی ہو جاتی ہے ماں باپ یا سپرنٹنڈنٹ کی نماز نہیں رہنی چاہیے۔ چار پانچ سال کے بچے کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے تو یہ بات اس کے متعلق نہیں کہ اس کی نماز اپنی نماز نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے متعلق ہے جس کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہؤا کہ میں خدا کی نماز پڑھتا ہوں بلکہ ماں باپ نے کہا کہ نماز پڑھ تو میں نے نماز پڑھی۔ جس کی حالت یہ ہو کہ اگر کوئی اسے روکے کہ نماز نہیں پڑھنی اور خواہ اس پر سختی کی جائے اور اس کو زخمی کر دیا جائے اور اسے گِھسٹ کر جا کر نماز پڑھنی پڑے تو بھی وہ نماز نہ ترک کرے تو اس کی نماز اس کی نماز ہے۔ خواہ یہ خیال تین چار سال کے بچہ میں پید اہو جائے۔ بہرحال میں بتارہا تھا کہ دینی کام ہمیشہ طوعی ہی ہوتے ہیں۔ جب عبادت میں بھی وہی عبادت فائدہ مند ہوتی ہے جو طوعی ہو اور دل کی محبت کےساتھ کی جائے تو یہ چندے تو اس سے زیادہ طوعی ہیں۔ پس تحریک جدید کا ابتدائی دَور بھی طوعی تھا اور یہ دَور بھی طوعی ہے۔ ہر شخص جو خداتعالیٰ کی محبت اور اسلام کی خدمت کے لئے اس میں حصہ لیتا ہے خداتعالیٰ اس کی قربانی کو قبول کرے گا اور اسے اپنی طرف بڑھنے کا موقع دے گا۔ اور ہر وہ شخص جو کسی مجبوری کی وجہ سے حصہ نہیں لیتا مگر اُس کا دل چاہتا ہے کہ حصہ لے تو خداتعالیٰ اس کی دلی خواہش اور کوشش کو ضائع نہیں کرے گا اور اس کے لئے ان برکتوں میں حصہ لینے کے سامان پید کر دے گا۔ لیکن ہر وہ شخص جس کے دل میں اسلام کی محبت نہیں رہی اور باوجود طاقت رکھنے کے اوردیکھنے کے کہ مجھ سے زیادہ غریب آدمی حصہ لے رہے ہیں وہ حصہ نہیں لیتا اور سمجھتا ہے کہ اس میں حصہ لینا طوعی ہے اور ہمیں کوئی مجبور نہیں کرتاکہ ہم اس میں ضرور حصہ لیں تو وہ شخص اپنی عاقبت کا خود ذمہ دار ہے۔ ہم نہ اس کے ٹھیکیدار ہیں اور نہ ذمہ دار۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ خدا کے پاس اس کے اعمال کا بڑا ذخیرہ پڑا ہے اور زیادہ اعمال کی مجھے ضرورت نہیں تو وہ بے شک مطمئن ہو۔ لیکن اگر خداکے سامنے اس کے ذخیرۂ اعمال میں سے بہت سے اعمال کھوٹے بھی ہیں تو پھر اگر یہ طوعی اعمال کو ضائع کرتا ہے تو اس سے زیادہ قابلِ افسوس اور قابلِ حسرت حالت میں اور کون ہو سکتا ہے۔
تو یہ جو طوعی چندوں کا سلسلہ ہے اس میں اکثر دوستوں نے حصہ لے لیا ہے گو اِس وقت تک اس رقم کی مقدار اُتنی تو نہیں جتنی ایک سال کے لئے ضرورت ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا تھا تبلیغی مشنوں کو چلانے کے لئے ہمیں اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے۔ لیکن کل تک جو رپورٹ میرے پاس آچکی ہے اس کے حساب سے دو لاکھ پندرہ ہزار کے وعدے آچکے ہیں۔ چونکہ ابھی بیرونجات سے وعدے آنے ہیں اور فوجیوں کی طرف سے بھی اور ان علاقوں کی طرف سے بھی ابھی وعدے آنے ہیں جن کی اصلی زبان اردو نہیں ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ غالبًا دو لاکھ تیس ہزار روپیہ سے لے کر دو لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ تک کوئی رقم ان وعدوں کی ہو جائے گی۔ اور اللہ تعالیٰ کےفضل سے نویں سال تک تبلیغی سکیم کے چلانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ اس عرصہ میں ہم نے تحریک جدید دفتر دوم کی دوسری پانچ ہزاری فوج کا انتظام کرنا ہے۔ پہلی فوج کا انتظام زیادہ مشکل نہیں تھا اس لئے کہ جماعت ساری کی ساری خالی پڑی تھی اور اس میں سے لوگ چُننے تھے۔ جیسے پہلی دفعہ بھرتی ہوتی ہے تو آسانی سے آدمی مل جاتے ہیں۔ لیکن دوسری دفعہ بھرتی مشکل ہوتی ہے کیونکہ بہت سارے آدمی بھرتی ہو چکے ہوتے ہیں۔ اِسی طرح تحریک جدید کی پہلی پانچ ہزاری فوج کا تیار کرنا آسان تھا کیونکہ جماعت کے سب آسودہ حال آدمی بار سے خالی تھے۔ لیکن اب دوسری پانچ ہزاری فوج کا تیار کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ اب اکثر مالدار اور بہت سارے درمیانہ طبقہ کے لوگ پہلی تحریک میں شامل ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ سے اب دوسری نئی فوج بنانا پہلی فوج کی طرح آسان نہیں مشکل ہے۔ لیکن اس عرصہ میں کئی نئے احمدی بھی آئے ہیں اور کئی بچے بھی جوان ہو چکے ہیں اور ابھی نو سال تک پہلی پانچ ہزاری فوج نے بوجھ اٹھانا ہے۔ اور نو سال کے بعد اس دوسری پانچ ہزاری فوج نے بوجھ اٹھانا ہو گا۔ تو یہ نو سال کا عرصہ اس دوسری فوج کو منظم کرنے کے لئے پڑا ہے۔
پس ہمیں چاہیے کہ کوشش کر کے اس نئی پانچ ہزاری فوج کو تیار کریں۔ کئی نئے احمدی ہوئے ہیں، کئی بچے تھے جو اَب جوان ہو چکے ہیں یا بعض کمزور آدمی جو پہلی تحریک میں شامل نہیں ہوئے تھے وہ اب اس دَور میں شامل ہوں ۔جب انسان کے دل میں نیکی ہوتی ہے تو وہ نیکی انسان سے بعض دفعہ کمزوری کے بعد طاقت کے زمانہ سے بھی زیادہ کام کرا دیتی ہے۔ چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ اس دوسری پانچ ہزاری فوج میں بعض ایسے آدمی شامل ہوئے ہیں جن کی مالی حیثیت پہلے سے خراب ہے وہ پہلے دَور میں پانچ روپے دے کر شامل ہو سکتے تھے لیکن وہ اُس وقت شامل نہ ہوئے اور اب ان کے دل میں افسوس پیدا ہوا کہ ہم نے پہلے دَور کا وقت گزار دیا اور ہم سے سستی ہوئی کہ ہم اُس میں شامل نہ ہوئے۔ اب ہم ایک ماہ کی آمد دے کر نئے دَور میں شامل ہوتے ہیں۔ جب ان سے پانچ روپے مانگے گئے تو انہوں نے نہیں دیئے۔ لیکن اب پچاس روپے کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے دے دیئے حالانکہ ان کی مالی حالت پہلے سے خراب ہے۔ اب ان کے دل میں افسوس پیدا ہوا کہ کاش! ہم پہلے دَور میں شامل ہو جاتے اور اُس میں ہمارا نام آجاتا۔ مگر ہم پہلے دَور میں شامل نہ ہوئے۔ اب اس کا کفارہ یہ ہے کہ زیادہ روپےدےکر اس دوسرے دور میں شامل ہوں۔ اسی طرح اب جو دوسرے دَور میں شامل نہیں ہوں گے ان میں سے کئی ہوں گے جو تیسرے دَور میں شامل ہوں گے اور ان کے دل میں افسوس پیدا ہو گا کہ ہم دوسرے دَور میں کیوں شامل نہ ہوئے۔ اور اُس وقت اگر ان سے اِس سے بھی زیادہ رقم کا مطالبہ کیا جائے گا تو وہ زیادہ دے کر تیسرے دور میں شامل ہو جائیں گے۔ اور اس تحریک کو آہستہ آہستہ خداتعالیٰ ایسی شکل دے دے گا کہ جب تک ہماری جماعت زندہ ہے خداتعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کے ذریعہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تبلیغ کا راستہ کھلتا چلا جائے گا۔ کیونکہ ہر نو سال کے بعد دوسری پانچ ہزاری فوج پہلی فوج کی جگہ لینے کے لئے آجائے گی۔ دس سال تک ہر پانچ ہزاری فوج تبلیغ کے اخراجات کا بوجھ اٹھائے گی اور نو سال تک اس کا چندہ ریزرو فنڈ میں جمع ہوتا رہے گا۔ آج جس دوسری پانچ ہزاری فوج کا میں نے اعلان کیا ہے اس نے نو سال کے بعد کام شروع کرنا ہے اور اس کے بعد دس سال تک بوجھ اٹھانا ہے نو سال تک اس کا جو چندہ ہو گا وہ ریزرو فنڈ میں جمع ہوتا رہے گا۔ جس کی غرض یہ ہو گی کہ اگر نو سال کے بعد اس دوسری فوج نے پورا بوجھ اٹھا لیا تو پھر اس رقم سے ریزرو فنڈ کو اَور مضبوط کیا جائے گا۔ اور اگر خدانخواستہ اس کی رقم اڑھائی لاکھ کی نہ بنتی ہو تو پھر اس جمع شدہ رقم سے اس کمی کو پورا کیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر اَور بچے جوان ہو جائیں گے اور کئی نئے احمدی بھی ہوں گے اور ان کے لئے دینی کاموں کے لئے قربانی میں حصہ لینا اُسی طرح ضروری ہو گا جیسے ہمارے لئے ضروری ہے۔ جس طرح جومبلغین آج تبلیغ کے لئے جائیں گے آج سے کچھ سال بعد اَور نوجوان مبلغین کی ضرورت ہو گی جو ان کی جگہ لیں۔ اسی طرح دوسری پانچ ہزاری فوج نو سال کے بعد روپے کا بوجھ اٹھائے گی اور دس سال تک اٹھاتی چلی جائے گی۔ اور آج سے نو سال کے بعد جب یہ فوج بوجھ اٹھا لے گی تو پھر تیسری فوج آگے آئے گی جو نو سال تک اپنا چندہ ریزرو فنڈ میں جمع کرے گی۔ اور جب دوسری فوج کی قربانی کی میعاد ختم ہو جائے گی تو پھر دس سال تک یہ تیسری فوج اس بوجھ کو اٹھائے گی اور اللہ تعالیٰ چاہے تو اس صورت میں یہ سلسلہ قیامت تک چلتا چلا جائے گا۔
پس یہ ایک ایسی تحریک ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے ذریعہ تبلیغ کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ قائم کر دی گئی ہیں ۔آج سے دس سوا دس سال پہلے جب میں نے اسی ممبر سے تحریک جدید کا اعلان کیا تھا اُس وقت میرے وہم و گمان میں بھی یہ سکیم نہیں تھی جو آج میرے ذہن میں ہے۔ اسی طرح جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس سکیم کےلئے اگر آج اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کا بجٹ ہے تو کچھ عرصہ کےبعد پانچ لاکھ۔ پھر دس لاکھ، پھر بیس لاکھ، پھر چالیس لاکھ، پھر اسّی لاکھ، پھر کروڑ اور پھر دو کروڑ اور پھر چار کروڑ روپیہ سالانہ بجٹ کی ضرورت ہو گی (کیونکہ پانچ ہزاری مبلغوں کی فوج کا خرچ چار کروڑ ہوتا ہے) کیونکہ ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کرنی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انگلستان کی ایک مشنری انجمن کابجٹ ایک کروڑ روپیہ سالانہ ہے اور باقی ممالک کی انجمنیں اس کے علاوہ ہیں۔ جب ہم نے ان سب کا مقابلہ کرنا ہے تو ہم کو بھی ہزاروں مبلغ اور کروڑوں روپے کے بجٹ کی ضرورت ہو گی۔ گو ابھی وہ وقت نہیں آیا مگر تحریک جدید نے اس کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے تین قسم کی آمدنیاں تبلیغ کے لئے پیدا ہوں گی۔ ایک آمدن جائیداد کی جو اس طرح محفوظ رکھی جائے گی کہ تبلیغی سلسلہ کو وسیع کرنے میں کام آئے۔ دوسرا حصہ آمدن کا وہ ہے جو ہر پانچ ہزاری فوج دس سال تک مہیا کرے گی جو ساتھ کےساتھ خرچ ہو گا ۔اور تیسرا حصہ آمدن کا وہ ہے جو ہر پانچ ہزاری فوج نو سال تک ایسے زمانہ میں پیدا کرے گی جبکہ پہلی پانچ ہزاری فوج بوجھ اٹھائے ہوئے ہو گی جو یا تو ریزرو فنڈ میں جائے گا یا اگر خدانخواستہ کوئی پانچ ہزاری فوج دس سال پورا بوجھ نہ اٹھا سکی تو کمی پوری کرنے میں خرچ ہو گا۔
پس یہ تین ذرائع آمدنی کے ہیں اور تینوں کو ہم نے پورا کرنا ہے۔ ہماری پہلی پانچ ہزاری فوج نے خداتعالیٰ کے فضل سے دس سالہ دَور کو کامیابی سے نبھایا ہے میں امید کرتا ہوں اور دعا بھی کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی دس سالہ قربانی کے بدلہ ان کو توفیق دے کہ آئندہ نو سال میں اپنے اخلاص اور محبت اسلام کے جذبہ کو اعلیٰ دکھاتے ہوئے اس دور کو کامیابی کے ساتھ ختم کریں۔ اس کے بعد دوسری پانچ ہزاری فوج کو خداتعالیٰ کھڑا کر دے اور لاکھوں لاکھ آدمی نئے جماعت میں داخل ہو کر اور ہزاروں ہزار بچے جوان ہو کر اس بوجھ کو اٹھا لیں۔ اِس وقت تک دفتر دوم کے تیس ہزار سے زیادہ کے وعدے آچکے ہیں۔ مگر میں نے بتایاہے کہ اس سکیم کو چلانے کے لئے اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے اس لئے میں تحریک جدید کے دورِ ثانی یعنی دفتر دوم والوں کے وعدوں کی میعاد کو ختم نہیں کرتا۔ دفتر اول والوں کی میعاد تو ختم ہو چکی ہے لیکن دفتر دوم والوں کے لئے دو ماہ کی میعاد اَور بڑھاتا ہوں یعنی سات اپریل تک وہ اپنے وعدے بھجوا سکتے ہیں۔ اس عرصہ میں دفتر اول والوں کو بھی چاہیے کہ جہاں انہوں نے انیس سال تک قربانی کرنے میں حصہ لیا ہے وہاں اس رنگ میں بھی وہ دائمی ثواب حاصل کریں کہ دفتر اول کا ہر مجاہد یہ کوشش کرے کہ دفتر دوم میں حصہ لینے والا ایک مجاہد کھڑا کرے۔ اس طرح دفتر دوم والوں کا ثواب دفتر اول والوں کو بھی ملتا رہے گا۔ پھر دفتر دوم والے آگے دفتر سوم والوں کو کھڑا کریں گے اور اس طرح دفتر اول والوں کے ثواب کا سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ اور جہاں ان کو اپنے روپے کا ثواب ملے گا ساتھ ہی دفتر دوم اور دفتر سوم والوں کے روپیہ کا ثواب بھی ملتا رہے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی دوسرے کو نیکی کی تحریک کرکے اُسے نیکی پر قائم کرتا ہے تو اس نیکی کا ثواب تحریک کرنے والے کوبھی ہوتا ہے۔3 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس فتویٰ کے مطابق جب دفتر اول والے کوشش کر کے دفتر دوم کے لئے آدمی تیار کریں گے تو خداتعالیٰ دفترِاول والوں کو دفتر دوم والوں کے ثواب میں بھی شامل کرے گا۔ تو یہ دو ماہ کی مہلت میں اس لئے دیتا ہوں کہ ہر دفتر اول والے کو چاہیے کہ وہ تحریک کر کے کم از کم ایک آدمی دفتر دوم میں حصہ لینے کے لئے کھڑا کرے۔ اسی طرح جو لوگ دفتر دوم میں شامل ہو چکے ہیں اُن کو چاہیے کہ دوسرے لوگوں میں تحریک کر کے اِس تعداد کو بڑھائیں۔ اور اُن کو کوشش کرنی چاہیے کہ یہ پانچ ہزار کی تعداد پوری ہو جائے۔ پہلے بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں تھا کہ اُس نے دَورِ اول کی تکمیل کے لئے رستہ کھول دیا اور اب بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنے فضل سے لوگوں کے دلوں کوکھول دے اور دَو ر ثانی کی تکمیل کے سامان پیدا کر دے۔
میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ہمارے نئے آنے والے بھائیوں اور پچھلی نسلوں کو جنہوں نے پہلے دو رمیں حصہ نہیں لیا یا جن کو توفیق نہیں ملی کہ وہ دَور اول میں حصہ لیں توفیق دے کہ وہ اب دَورِ ثانی میں حصہ لیں۔اور خداتعالیٰ جماعت کی بیداری کو قائم رکھے کہ پہلی کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری اور تیسری کے بعد چوتھی پانچ ہزاری فوج آگے آکر اس بوجھ کو اٹھاتی رہے اور قیامت تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے۔ بلکہ پانچ ہزاری کی بجائے پھر یہ تعداد بڑھتی چلی جائے اور پانچ ہزار کے بعد دس ہزار اور دس ہزار کے بعد بیس ہزار اور بیس ہزار کے بعد پچاس ہزار کی فوج آگے آئے اور اس بوجھ کو اٹھاتی چلی جائے۔ یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو دعا مانگی ہے کہ ایک لاکھ سپاہی مجھے دیا جائے خدا کرے کہ ایک لاکھ نہیں بلکہ کئی لاکھ سپاہی ہمیشہ ہمیش کے لئے اسلام کی خدمت کے لئے احمدیت میں پیداہوتے رہیں جو تبلیغِ اسلام کا بوجھ اُٹھاتے چلے جائیں۔ ہم کمزور ہیں، ہمارے ارادے بھی کمزور ہیں اور ہماری تمام کوششیں اُس وقت تک بیکار ہیں جب تک کہ خداتعالیٰ کی طرف سے مدد اور نصرت نہ آئے۔ ہماری غریب جماعت میں سے پانچ ہزار آدمیوں کا نکلنا اور اسلام کی خدمت کے لئے مشقت اٹھا کر اور اپنے بیوی بچوں کو تکلیف میں رکھ کر سال بسال محنت کر کے اور پیسہ پیسہ جوڑ کر ایسے سامان پیدا کرنا جس سے تبلیغِ اسلام جاری رہےخداتعالیٰ کے نزدیک یہ اتنی مقبول قربانی ہے کہ خداتعالیٰ نے ان کے مال میں اتنی برکت دے دی کہ اُس کے فضل و کرم سے اس روپیہ سے چار سو مربع زمین پیدا کرنے کی طاقت مل گئی۔ جس کی آمدنی سے ہمیشہ ہمیش کے لئے دین کی خدمت ہو سکے۔ اُس خدا سے میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری اس حقیر اور کمزور قربانی میں مزید برکت دے دے اور ہمارا یہ روپیہ قیامت تک دین کی خدمت میں لگا رہے ۔اور خداتعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے بچوں اور عزیزوں اور دوستوں کے دلوں میں یہ تحریک جاری رکھیں اور کم از کم اتنی ہی تعداد دوسرے دور میں حصہ لینے والوں کی پیدا کر سکیں اور یہ تعداد بڑھتی چلی جائے۔ اور ہماری اس حقیر قربانی کے ذریعہ ایسا بیج بویا جائے جس میں سے ایسا درخت اُگےکہ ساری دنیا اس کے سایہ تلے آرام کرے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نام روشن ہو اور خداتعالیٰ کی بادشاہت جیسی کہ آسمان پر ہے زمین پر بھی قائم ہو۔ آمین’’ (الفضل مورخہ 17 فروری 1945ء)
1: الفاتحۃ: 2
2: الفاتحۃ: 4
3: مسند احمد بن حنبل جلد 5صفحہ274 مطبوعہ بیروت 1313ھ

7
کسی بددیانت اور دروغ گو کو جماعت احمدیہ میں نہیں رہنے دیا جائے گا
(فرمودہ 16فروری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مذہب صرف عقیدہ کا ہی نام نہیں عمل کا بھی نام ہے اور اعمال کچھ شخصی ہوتے ہیں اور کچھ قومی ہوتے ہیں۔ یعنی کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جن کا اثر افراد پر یا ان افراد کے اہل و عیال پر پڑتا ہے اور کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا اثر جا کے قوم پر پڑتا ہے۔ بعض جرائم ایسے ہیں کہ ان کو لوگوں نے ناواجب طور پر سب سے بڑا گناہ کہنا شروع کر دیا ہے۔ ناواجب سے میری مراد یہ نہیں کہ وہ بُرے نہیں بلکہ میری مراد یہ ہے کہ وہ افعال سب سے بُرے نہیں۔ اور ان کی بُرائی بعض لحاظ سے اتنی خطرناک نہیں ہوتی جتنی کہ بعض اَور قسم کے افعال کی برائی خطرناک ہوتی ہے۔ مثلاً لوگوں میں قتل کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اور جہاں تک قتل کی برائی کا سوال ہے یہ صحیح ہے کہ یہ بہت بُرا فعل ہے لیکن قتل کے مقابلہ میں جھوٹ اور بددیانتی کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ حالانکہ جھوٹ اور بددیانتی ایسے افعال ہیں جو قتل سے کم نہیں۔
ہزاروں آدمی ایسے ہوں گے جو کہ ایک قاتل سزا یافتہ کے ساتھ جو اپنی سزا بھگت کر آیا ہو مثلاً اسے پھانسی کی سزانہیں ملی بلکہ اور کوئی سزا قید و غیرہ بُھگت کر آیا ہے تو لوگ اس کے ساتھ بیٹھنے اور اس کے ساتھ کھانے پینے میں کراہت محسوس کریں گے۔ حالانکہ اس سے پہلے اُسی منٹ میں ایک جھوٹ بولنے والے اور بددیانتی کرنے والے انسان کے گلے میں باہیں ڈالے اُس سے پیار اور محبت کا اظہار کر رہے ہوں گے۔ حالانکہ قاتل تو صرف ظالم ہے۔ مگرجھوٹا اور بددیانت آدمی ظالم بھی ہے اور کمینہ بھی ہے۔ اور پھر قتل ایسا جرم نہیں جو عام ہوتا ہے کیونکہ قتل میں آخر دوسرا انسان بھی تو اپنی حفاظت کرتا ہے سوائے اس کے کہ کوئی دھوکا سے قتل کرد ے۔ دھوکا کے ساتھ کسی کو قتل کر دینا بہت کم ہوتا ہے۔ مثلاً زہر دے کر مار دینا یا حیلہ بہانہ سے قتل کر دینا۔ اس قسم کے قتل کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر اس قسم کےقتل ہوتے ہیں کہ دو آدمیوں میں لڑائی ہو گئی دونوں نے ایک دوسرے کو مارنے کے لئے لٹھ اٹھایا اور بسا اوقات دونوں کا منشاء نہیں ہوتا کہ دوسرے کو جان سے مار دیا جائے۔ بلکہ اکثر دفعہ دیکھا گیا ہے کہ جب اس کے ہاتھ سے دوسرا مارا جائے تو یہ خود گھبرا جاتا ہے مگر باوجود اس کے طبائع اس کو زیادہ برا محسوس کرتی ہیں۔ حالانکہ نیت کے لحاظ سے بھی یہ صاف نیت تھا اس کا منشاء نہیں تھا کہ کسی کو قتل کر دے۔ لڑائی ہوئی اور اتفاقی طور پر اس سے قتل ہو گیا۔ مگر چونکہ اس کا لڑنا ثابت ہوتا ہے چونکہ اس کا لٹھ اٹھانا ثابت ہوتاہے اور چونکہ اس کا مقابلہ کرنا اور مارنا ثابت ہوتا ہے اس لئے بنی نوع انسان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر چہ اس نے دفاعی لڑائی لڑی لیکن یہ اس قتل کا ذمہ دار ہے۔ اس لئے لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں اور اس کے اس فعل کو بُرا مناتے ہیں۔ اس سے بھاگتے ہیں اور اس کے ساتھ مجلس میں بیٹھنے سے گھبراتے ہیں۔ سوائے ان چند لوگوں کے جو اسی ماحول میں پلتے ہیں یا خود قاتل ہوتے ہیں یا قاتل کے ساتھی ہوتے ہیں۔ ان کو چھوڑ کر باقی عام لوگ قاتل سے گھبراتے ہیں۔ ذرا مجلس میں کسی کے متعلق کہہ دو کہ یہ شخص قاتل ہے اُس نے بِالارادہ قتل کیا یا لڑائی لڑی اور اس لڑائی میں فلاں کو قتل کر دیا۔ تو تمام انگلیاں اس کی طرف اٹھنی شروع ہو جائیں گی اور کانوں میں کُھسر پُھسر شروع ہو جائے گی کہ اس نے قتل کیا تھا۔ اور ہر شخص اپنے آپ کو سمٹانے لگ جائے گا تاکہ وہ اس قاتل کےساتھ چُھو کر گندہ نہ ہو جائے۔ مگر اس سے زیادہ مجرم وہ ہے جو جھوٹا ہے۔ اس سے زیادہ مجرم وہ ہے جو بد دیانت ہے جو اس کی مجلس میں بیٹھتا ہے۔ اور یہ نہ صرف اس کی مجلس میں اس کے ساتھ بیٹھتا اور اس کے ساتھ محبت اور پیار کرتاہے بلکہ بسا اوقات اس کی مدد کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اسے کیا کہو گے؟ میں اگر اس کو زیادہ عام کروں تو تم میں سےبُہتوں کے لئے اس کا جواب دینا مشکل ہو جائے۔ مگرجو اِس وقت یہاں بیٹھے ہیں ان میں سے بیسیوں اور سینکڑوں ایسے ہوں گے جن کے دوست جھوٹ بولتے ہیں اوریہ ان کو برا نہیں مناتے بلکہ ان کو اگر اپنے دوست کے جھوٹ کا پتہ لگ جائے تو اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ خصوصاً لڑکوں میں یہ مرض بہت زیادہ ہوتاہے۔ میں نے دیکھا ہےکہ بظاہر بڑے بڑے دیانتدار نظر آنے والے آدمی جب اپنے دوست کے متعلق گواہی دینے آئیں تو آئیں بائیں شائیں کر کے بات کوٹالنے اور پردہ ڈالنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ ‘‘جی بات دراصل یوں ہے’’۔اصل سوال کا جواب نہیں دیں گے اور کہیں گے پہلے آپ میری بات سن لیں۔ بات دراصل یوں ہےاور ‘‘بات یوں ہے’’ کہنے سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصل بات معلوم نہ ہو سکے اور وہ ایک کہانی کے ریت کے میدان میں حقیقت کے دریا کو خشک کریں۔ براہ راست اور بِلاواسطہ سیدھے طور پر وہ ہاں یا نہ میں جواب نہیں دیں گے۔ پہلا فقرہ ان کا یہی ہو گا کہ ‘‘جی میں تہانوں گل دساں’’ (یعنی میں آپ کو اصل بات بتاؤں) یہ نہیں کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ کیا فلاں شخص نے فلاں کو مارا؟ تو وہ اس کے جواب میں ہاں یا نہ کہے بلکہ اپنی گواہی کو ان الفاظ سے شروع کرے گاکہ ‘‘پہلے میرے کولوں گل سنو’’۔(یعنی پہلے میری بات سن لیں) اور یہ کہہ کر پھر لمبا قصہ شروع کر دے گا تاکہ اس لمبے قصہ میں اصل بات کو ضائع کر دے۔ وہ سیدھا جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہو گا کہ ہاں یوں ہے یا یوں نہیں ہے۔ یہ تو سچے کا حال ہوتاہے۔ اور جو جھوٹ بولنے والا ہوتا ہے وہ تو صاف جھوٹ بول دیتا ہے۔ حالانکہ کوئی قوم اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کے اندر سچائی پیدا نہ ہو اور جب تک اس کے اندر دیانت پیدا نہ ہو۔ سچائی اور دیانت کے بغیر ہرگز کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے ہزاروں عیبوں میں سے جو عیب چُنا ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ بددیانت ہیں۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے اگر تم کسی یہودی کے پاس اپنا روپیہ رکھو تو جب تک تم اُس کے سر پر کھڑے رہو اُس وقت تک وہ اقرار کرے گا کہ ہاں تمہارا روپیہ میرے پاس ہے۔ ذرا تم اُس سے جدا ہوئے تو وہ اس کا انکار کر دے گا۔1 تو یہودیوں کے ہزاروں عیوب میں سے یہ عیب سب سے زیادہ نمایاں ہے کہ ان کے اندر بددیانتی پائی جاتی ہے۔ باقی تمام عیوب اس کے ماتحت آجاتے ہیں۔
پس جب کسی قوم میں بد دیانت لوگ پیدا ہو جائیں تو اُس قوم پر کبھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بد دیانتی ہی کی وجہ سے ہے کہ ہر قوم یہودیوں سے آنکھ چُراتی ہے۔انگریز بظاہر یہودیوں کی جلاوطنی سے چِڑتے ہیں مگر خود انگلستان میں زبردست سوسائیٹیاں بنی ہوئی ہیں کہ یہودیوں کو ملک سے نکال دینا چاہئے۔ کیونکہ یہ بددیانت اور جھوٹ بولنے والے لوگ ہیں۔ تو یہ بد دیانتی اور جھوٹ ہی ہے جس کی وجہ سے قوم مغلوب ہوتی ہے۔ ہندوستان کی ساری بدقسمتی اور خرابی کی وجہ یہی ہے کہ ہندوستان کے لوگوں میں سچ نہیں پایا جاتا، دیانت اور امانت نہیں پائی جاتی۔ کسی ہندوستانی کے ہاتھ اگر کچھ روپیہ آجائے تو وہ یہی کوشش کرے گا کہ کسی طرح اسے کھا جاؤں اور یہ روپیہ واپس نہ جانے پائے۔ اکثر ہندوستانی گواہی میں جھوٹ بول جاتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ منافق کی علامت یہ ہے کہ اِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ اس میں خیانت کرتا ہے۔ وَ اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ جب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔2 تو جو قوم منافق ہو وہ کبھی غالب ہو ہی نہیں سکتی۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق کو دوزخ کے ذلیل ترین مقام میں رکھا جائے گا۔ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ 3 فرمایا کہ دوزخ میں بھی جو سب سے نچلا درجہ ہے۔ منافق کو وہاں رکھا جائے گا۔ گویا خداتعالیٰ منافقوں کے ساتھ کفار سے بھی سخت معاملہ کرے گا اور ان کو ذلیل ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اس لئے کہ کافر کی وجہ سے تو کافر کو ہی نقصان پہنچتا ہے مگر منافق کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ہندوستان کے لوگ شور مچاتے ہیں کہ انگریزوں نے ہمیں یہ نقصان پہنچایا اور وہ نقصان پہنچایا۔ انگریزوں نے بھلا ان کو کیا نقصان پہنچانا تھا ۔واقع یہ ہے کہ ہندوستان کی بڑی بھاری بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کے اندر جھوٹ اور بددیانتی پائی جاتی ہے۔ یہاں کی کوئی ایک چیز بھی معیار کے مطابق نہیں ہر چیز بے معیاری اور ہر چیز میں پردہ ہے۔ اگر کسی انگریز کی فرم میں چلے جاؤ تو وہ ناقص چیز نکال کر الگ پھینک دے گا اور اچھی چیز آپ کےسامنے رکھے گا۔ اور بعض تو ایسے ہیں کہ سال کے بعد ناقص اور خراب چیزوں کو نکال کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ مگر ایک ہندوستانی کٹے ہوئے تھان کو بڑے اہتمام سے لپیٹ لپاٹ کر ناقص حصہ چُھپا دے گا اور اچھا حصہ آپ کے سامنے رکھے گا۔ اور جب آپ اس کو گھر لا کر دیکھیں کہ وہ خراب ہے اور آپ اسے واپس کرنے جائیں تو وہ صاف انکار کر دے گا کہ میں نے تو آپ کو یہ نہیں دیا آپ کو غلطی لگتی ہے۔ شاید آپ نے کسی اور دکان سے خریدا ہو گا۔ اور اس بد دیانتی کی وجہ سے خوش ہو گا کہ میں نے اپنا ناقص مال چلا دیا۔
پس قومی تنزل کی بنیاد جھوٹ اور بددیانتی ہے۔ جو قوم جھوٹ اور بددیانتی کو مٹا نہیں سکتی اور اس کے باوجود وہ یہ سمجھتی ہے کہ اسے ترقی اور عزت حاصل ہو جائے گی تو اس کا یہ خیال ایسا خام خیال ہے جیسے ایک بچہ کا یہ خیال کہ وہ چاند کے پاس پہنچ جائے گا یا ستاروں کے پاس پہنچ جائے گا۔ جس طرح ایک بچہ کی چاند یا ستاروں تک پہنچنے کی خواہش ناکام رہتی ہے اور اس کی یہ مراد پوری نہیں ہو سکتی اِسی طرح وہ قوم جس کے اندر جھوٹ اور بددیانتی پائی جاتی ہے اور اس کے باوجود وہ یہ امید رکھتی ہے کہ اسے ترقی اور عزت حاصل ہو گی اس کی یہ امید کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے منافق کی یہ دو علامتیں بیان فرمائی ہیں کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ بددیانتی کرتا ہے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے۔ مگر ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ حال تھا کہ آپ کا دشمن بھی اقرار کرتا تھا کہ آپ جھوٹ نہیں بولتے۔ ایک تو کسی کے متعلق یہ کہا جاتاہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا اور ایک یہ کہ وہ سچائی کے لئے مشہور ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق یہی نہیں کہ دشمن یہ اقرار کرتا تھا کہ آپ جھوٹ نہیں بولتے بلکہ آپ سچائی کے لئے مشہور تھے اور یہ اُس وقت کی بات ہے جب آپ پر وحی نازل ہونا شروع نہیں ہوئی تھی۔ لوگوں کو آپ کی سچائی پر اِس قدر اعتبار تھا کہ جب آپ پر وحی نازل ہوئی کہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاؤ تو آپ نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر مکہ کے لوگوں کو بلانا شروع کیا۔ اونچا پہاڑ تو نہیں تھا پہاڑ تو اُس علاقہ میں ہوتے ہی نہیں۔ ایک ٹیلہ تھا جس کا نام ابو قبیس ہے۔ اُس پر کھڑے ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مکہ کے لوگوں کو بلانا شروع کیا کہ اے فلاں قبیلہ کے لوگو! ادھر آؤ اور اے فلاں قبیلہ کے لوگو! تم بھی ادھر آؤ ۔جب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا دشمن تم پر حملہ کرنے کے لئے جمع ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ اب بظاہر یہ بات ناممکن تھی اس لئے کہ اس ٹیلہ کے پیچھے میدان تھا جس میں کھڑی ہونے والی فوج نظر آ سکتی تھی اور ہر دیکھنے والا شخص آکر بتا سکتا تھا کہ وہاں فوج کھڑی ہے۔ پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ اتنی بڑی فوج وہاں جمع ہوجہاں پانی وغیرہ کا بھی کوئی انتظام نہیں اور کسی کو نظر بھی نہ آئے۔ پس بظاہر یہ ناممکن تھا کہ اتنی بڑی فوج وہاں جمع ہو اور مکہ والوں کو اس کا علم نہ ہو۔ جیسے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لشکر کا مکہ والوں کو پتہ لگ گیا تھا۔ اور پھر مکہ پر کسی کے حملہ کرنے کا خیال بھی ان لوگوں کے دل میں پیدا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ مکہ تمام عرب کے نزدیک ایک متبرک مقام تھا اور مذہبی طور پر لوگ اس کا احترام کرتے تھے اس لئے مکہ پر حملہ کرنے کا خیال بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کے لئے تیار کھڑا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے ؟تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہم مان لیں گے۔ گویا ان کو آپ کی سچائی پر اتنا اعتبار اور اتنا اعتماد تھا کہ انہوں نے کہا کہ اگر آپ اس قسم کی ناممکن بات بھی کہیں تو ہم اس کو رد نہیں کریں گے اور اسے مان لیں گے۔ مگر جس وقت آپ نے فرمایا کہ اگر تم کو مجھ پر اتنا اعتبار اور اتنا اعتماد ہے تو میں تم کو خبر دیتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے مجھے اس کام کے لئے مقرر فرمایا ہے کہ میں تمہیں متنبہ کر دوں کہ خداتعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اگر تم باز نہیں آؤ گے اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ گےتو وہ تمہیں عذاب دے گا۔ تو یہ سن کر وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ بے چارہ پاگل ہو گیا ہے۔4 تو جہاں تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کا سوال تھا مکہ والے باوجود اِس کے کہ وہ آپ کے دشمن تھے پھر بھی وہ آپ کی سچائی کا یہاں تک اقرار کرتے تھے کہ آپ کی طرف سے پیش ہونے والی ایک فرضی اور بظاہر ناممکن بات ماننے کے لئے بھی آمادگی کا اظہار کرتے تھے کہ ہم ایسی ناممکن بات بھی مان لیں گے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔
اِسی طرح قیصر روما نے جب ابوسفیان کو اپنے دربار میں بلا کر اُس سے پوچھا کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اور اس کے ساتھی جھوٹ بولتے ہیں اور کیا انہوں نے تمہارے ساتھ کبھی جھوٹا معاہدہ کیا ہے؟ تو ابوسفیان نے کہا کہ ان کے پچھلےافعال کے متعلق تو میں کوئی گرفت نہیں کر سکتا اب انہوں نے ایک معاہدہ کیا ہے دیکھیں وہ عہد شکنی کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔5 تو قیصر نے کہا آئندہ کا جانے دو۔ جب اس نے پیچھے تمہارے ساتھ عہد شکنی نہیں کی تو یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ آئندہ بھی نہیں کرے گا۔
تو شدید سے شدید دشمن کو بھی جو آپ سے لڑائی کر رہا تھا یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ آپ کے متعلق یہ کہے کہ آپ نے کبھی جھوٹ بولا۔ یا کوئی معاہدہ کیا اور اس میں عہد شکنی کی۔ یہی وہ چیز تھی کہ مسلمان جب کسی ملک میں بھی جاتے تو وہاں کے لوگ اُن کا اِس طرح استقبال کرتے کہ اپنےر شتہ داروں کا بھی اُس طرح استقبال نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ وہ قوم ہے جوجھوٹ نہیں بولتی، یہ وہ قوم ہے جو دیانتدار ہے اور یہ وہ قوم ہے کہ جب معاہدہ کرے تو اسے پورا کرتی ہے۔ دنیا تو آخر امن چاہتی ہے۔ اگر اسے حقیقی امن نصیب ہو جائے تو جس کے ذریعہ سے اسے امن نصیب ہو گا خواہ وہ اُس کا دشمن ہی ہو دنیا اُس کو مان لے گی۔
احمدی اپنے اپنے رنگ میں اخلاص دکھاتے رہے ہیں۔ ایک احمدی مغلا نام تھا۔ شروع شروع میں یہاں آکر بھی رہا ہے۔ نوجوان احمدی تھا۔ غالباً حضرت خلیفہ اول کے آخری زمانہ میں یا میرے شروع زمانہ میں احمدی ہوا تھا۔ جھنگ کا رہنے والا تھا۔ جب وہ احمدی ہو کر واپس گیا تو اس کے بھائیوں اور باپ نے اُس کی بہت مخالفت کی اور اسے مارا پیٹا ۔سارے علاقے نے کہہ دیا کہ یہ کافر ہو گیا ہے۔ مدتوں تک اُس پر ظلم ہوتے رہے۔ اس علاقہ میں جانوروں کی چوری کا عام رواج ہے۔ جیسے گوجرانوالہ اور گجرات میں بھی جانوروں کی چوری کو فن سمجھا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں ایسی ایسی قومیں بھی ہیں جن میں یہ رواج ہے کہ اُس وقت تک لڑکے کے سر پر پگڑی نہیں پہنائی جاتی جب تک بھینس چُرا کر بہن کو نہ دے۔ گویا یہ بھی ان کے شرفاء کے اعلیٰ اخلاق میں سے ہے کہ وہ چوری کا فن جانتا ہو۔ چنانچہ گوجرانوالہ کے ایک ڈپٹی کمشنر نے گورنمنٹ کو رپورٹ کی تھی کہ اس علاقہ میں ہر شخص چوری کرتا ہے اس لئے اس کو چوری کہنا درست ہی نہیں۔ ان لوگوں میں چوری کرنا ایک قومی رسم اور کھیل سمجھا جاتا ہے۔ جیسے کبڈی کھیلتے ہیں اور ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ان علاقوں میں چوری بھی ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے لئے ہوتی ہے اور اس کو ذلیل نہیں سمجھا جاتا۔ اگر کوئی بھینس چُرا لائے تو کہتے ہیں بہت اچھا کیا بڑی بہادری دکھائی۔ بہن کو جب تک بھائی چوری کی بھینس لا کر نہ دے اُس وقت تک اس کے سر پر پگڑی نہیں باندھتے۔ پھر دوسرے اس چوری کا پتہ بھی لگاتے ہیں اور کھوج کا ملکہ بھی ان میں پایا جاتا ہے۔ تو مغلا کے بھائی بھی ان امراض میں مبتلا تھے اور جانور چوری کر کے لاتے تھے۔ جن کی چوری ہوتی وہ بھی کھوج لگا کر وہاں پہنچ جاتے۔ لوگ ان کو جمع کر کے پوچھتے کہ یہ تمہارے پیچھے کھوج لائے ہیں کہ تم جانور چُرا کر لائے ہو۔ وہ قسمیں کھا دیتے کہ ہم تو نہیں لائے۔ اِس پر وہ کہتے کہ اچھا پھر مغلے سے پوچھو۔ اگر وہ کہہ دے کہ تم نہیں لائے تو ہم مان لیں گے ۔باپ اور بھائی مغلے سے کہتے کہ دیکھو! اگر تم سچی گواہی دو گے تو ہماری بہت ذلت ہو گی۔ تم ہماری خاطر کہہ دو کہ نہیں لائے ورنہ ہم تمہیں ماریں گے۔ وہ کہتا تم لائے تو تھے پھر میں کس طرح کہہ دوں کہ تم نہیں لائے۔ وہ کہتے لانے کا سوال نہیں، تم ہماری خاطر کہہ دو کہ نہیں لائے۔ وہ کہتا یہ تو میں نہیں کہوں گا۔ جب تمہیں معلوم ہے کہ میں سچی گواہی دوں گا تو پھر تم میری گواہی کیوں دلواتے ہو۔ وہ کہتے تمہارے بغیر وہ مانتے نہیں اور اسے مجبور کر کے لے جاتے۔ مجلس میں جا کر جب اُسے گواہی کے لئے پیش کرتے تو وہ کہہ دیتا کہ میں تو تمہارے نزدیک کافر ہوں تم کافر سے کیوں گواہی لیتے ہو؟ وہ کہتے ہو تو تم کافر لیکن بولتے سچ ہو اِس لئے اگر تم کہہ دو گے کہ تمہارے بھائی جانور چُرا کر نہیں لائے تو ہم واپس چلے جائیں گے۔ اور اگر کہہ دو گے کہ لائے ہیں تو پھر ان کو دینے پڑیں گے۔ پھر وہ جواب دیتا کہ میں تو تمہارے نزدیک کافر ہوں میں گواہی نہیں دینا چاہتا۔ آخر جب دونوں طرف سے اصرار ہوتا تو یہ کہہ دیتا کہ ہاں لائے تو تھے۔ بھینس والوں کو اُن کی بھینس مل جاتی اور اِس کو ڈنڈے پڑتے۔ یہ وہ نمونہ ہے جس کے ذریعہ غیر قوم بھی مرعوب ہو جاتی ہے۔ اب خواہ وہ اِس کو مارتے تھے لیکن جس مجلس میں یہ ذکر ہوتا ہو گا کہ مغلا ہے تو کافر پر ہے بڑا سچا۔ تو اُس مجلس میں جتنی صادق روحیں اور نیک فطرتیں ہوں گی وہ یہی کہتی ہوں گی کہ کاش! یہ کفر ہمیں بھی نصیب ہو جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ؂
بعد از خدا بعشقِ محمّد مخمرم
گر کفر ایں بَوَدْ بخدا سخت کافرم 6
کہ لوگ مجھے کافر کافر کہتے ہیں میرا قصور کیا ہے جس کی وجہ سے وہ مجھے کافر کہتے ہیں۔ مجھے تو یہی نظر آتا ہے کہ خدا کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بے انتہا طور پر میرے اندر پائی جاتی ہے۔اگر وہ اِس کی وجہ سے مجھے کافر کہتے ہیں تو خدا کی قسم! میں سب سے بڑا کافر ہوں۔ اب جو راستباز اور صادق روحیں ہوں گی وہ تو یہی کہیں گی کہ اگر یہ کفر ہے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا عاشق کافر ہے تو خدایا! ہمیں بھی ایسا کافر بنا دے۔ کیونکہ سعید الفطرت انسان سمجھتے ہیں کہ روح کی صفائی اور پاکیزگی اور روحانی ترقی جب اسی میں ہے تو یہی چیز ہم چاہتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ گندی چیز ہمیں ملے۔ تو جب کسی انسان کےا ندر سچائی اور دیانت پائی جائے تو دنیا خواہ اُس کے ساتھ کتنا ہی تعصب اور بُغض رکھے مگر اُس کو کوئی حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا اور کتنا ہی شدید سے شدید دشمن کیوں نہ ہو وہ اس چیز سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے اندر ایسا اخلاص اور ایسا تقویٰ پیدا کر دیا تھا کہ ابتدائی ایام میں شدید سے شدید دشمن بھی اِس بات کو تسلیم کرتا تھا کہ اگر احمدی کسی بات کے متعلق گواہی دے گا تو ہم مان لیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اور اگر ہم احمدی کے پاس امانت رکھیں گے تو وہ کبھی ضائع نہیں ہو گی۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ کبھی خیانت نہیں کرے گا۔
دلّی کا ایک مشہور خاندان ہے جو طب کی وجہ سے بہت مشہور ہے لیکن حق یہ ہے کہ اِتنی عزت انہوں نے اپنے شہر میں اس فن کی وجہ سے حاصل نہیں کی جتنی عزت کہ دیانت کی وجہ سے اس کو حاصل ہوئی۔ حکیم اجمل خان صاحب اسی خاندان میں سے تھے۔ یہ خاندان دیانت کی وجہ سے اتنا مشہور تھا کہ غدر کے موقع پر جب سخت گڑبڑ ہوئی تو لوگ وہاں سے بھاگ گئے۔ کہا تو یہی جاتا ہے کہ انگریزوں نے ظلم نہیں کیا لیکن حق یہ ہے کہ اُس وقت انگریزی فوج نے لُوٹ مار اور قتل و غارت میں کوئی کمی نہیں کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے ہندوستانیوں نے ان کے ساتھ برا سلوک کیا اور ان پر ظلم کئے جس کے بدلہ میں پھر انگریزوں نے کئی قسم کے مظالم توڑے۔ انہوں نے ضرور بدلہ لیا اور سخت لیا۔ ہم نے خود سنا ہے۔ غیروں سے کیا ہماری اپنی نانی جان مرحومہ سنایا کرتی تھیں کہ میری عمر اُس وقت آٹھ نو سال کی تھی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے سپاہی ہمارے مکان کے اندر گھسے۔ اُس مکان کے اندر ہمارے والد کئی ماہ کے بیمار لیٹے ہوئے تھے جو غدر میں گھر سے بھی نہ نکلے تھے اور نہ نکل سکتے تھے۔ ایک شخص نے اُن کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ بھی غدر میں شامل تھا اور اس پر سپاہیوں نے ان کو مار دیا۔ پھر یہ بھی ہم نے سنا ہے کہ بعض بچوں کو ان کی ماؤں کے سامنے کِرَچِیں 7اور برچھے مار مار کر مار دیا گیا۔ بے شک ابتدا میں ہندوستانیوں نے بھی انگریزوں سے ایسا ہی سلوک کیا تھا لیکن یہ کہ انگریزوں نے ان کے مقابلہ میں محبت کا نظارہ دکھایا یہ بالکل غلط ہے۔ انگریزی فوج نے بھی اس کے مقابلہ میں وہ وہ مظالم توڑے کہ ان واقعات کو سن کر دل بیٹھنے لگ جاتا ہے۔ بے تحاشا لوگ مارے جاتے تھے اور کُھلے بندوں لُوٹے جاتے تھے۔ سپاہی گھروں کےا ندر گھس جاتے اور عورتوں کی بے حرمتی کرتے۔ اس لئے لوگ اپنی عورتیں اور بچے لے کر بھاگ رہے تھے کہ کسی طرح شہر سے نکل کر گاؤں میں پہنچ جائیں اور چُھپ جائیں۔ اُس وقت طبیبوں کا یہ خاندان جو دیانت میں مشہور ہے اس کے بزرگ اُس وقت مہاراجہ پٹیالہ کے طبیب تھے۔ چونکہ مہاراجہ پٹیالہ انگریزوں کےساتھ تھے اس لئے انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ یہ ہمارے طبیب ہیں، ان کی ہمارے دل میں عزت ہے ان کے گھر کو نہ لُوٹا جائے۔ چنانچہ پٹیالہ کی فوج ان کے گھر کے پہرہ پر مقرر کر دی گئی تھی۔ اُس وقت جو لوگ بھاگ رہے تھے وہ ان کےدروازے کے آگے سے گزرتے تھے اور اپنے زیور اور روپوں کی پوٹلیاں ان کی ڈیوڑھی میں پھینک جاتے تھے۔ سینکڑوں لوگ ایسے تھے جنہوں نے دس دس سال بعد روپوں اور زیورات کی تھیلیاں ان کے ہاں سے آکر لیں۔ وہ پوٹلیاں جن کا کوئی گواہ نہ تھا، وہ پوٹلیاں جو کسی کے ہاتھ میں نہیں دی گئی تھیں دس دس سال بعد آکر ویسی کی ویسی لے گئے۔ اس قسم کی امانت ہے جو لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ آج تک اس خاندان کی جو عظمت دلّی کے لوگوں کے دلوں میں ہے اور اس خاندان کا جو ادب و احترم لوگوں میں پایا جاتا ہےیہ خالی اِس بات کی وجہ سے نہیں کہ یہ بڑے طبیب ہیں بلکہ ساتھ ہی یہ ادب واحترام اس بات کی وجہ سے بھی ہے کہ ان کے خاندان نے ایک وقت دیانت کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا تھا۔ پس اعلیٰ درجہ کی دیانت کا جو نمونہ اِس خاندان نے دکھایا ہے اس کی وجہ سے اس خاندان کی عزت اور عظمت کم از کم پوتوں تک تو جائے گی۔ چاہے دیسی طب کا کوئی مخالف ہو اور چاہے ڈاکٹری علاج کرائے مگر دلّی کا رہنے والا اِس خاندان کی عظمت کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اس نے اس خاندان کی دیانت اور شرافت کا حال سنا ہوا ہے۔ کچھ مدت کے بعد پھر خرابیاں شروع ہو جاتی ہیں اور لوگ بھول جاتے ہیں وہ اور بات ہے۔ کم از کم یہ اثر ان کے پوتوں تک تو جائے گا۔
پس دیانت اور سچائی ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے بغیر کسی قوم کا رعب قائم نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں میں امانت اور قول کی پاسداری اتنی شاندار تھی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک قتل کا مقدمہ پیش ہوا اور قاتل کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ جب اسے قتل کرنے لگے تو اُس نے کہا میرے پاس یتیموں کی امانتیں ہیں اگر میں مارا گیا تو بے چارے یتیم جن کی امانتیں میرے پاس جمع ہیں ساری عمر بھوکے مریں گے۔ مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان کی امانتیں ان کے سپرد کر آؤں۔ تھا وہ بادیہ کا رہنے والا۔ قاضی نے کہا کہ تمہارا کوئی ضامن ہے کہ تم وقت پر پہنچ جاؤ گے اور اگر نہ آؤ تو ہم اسے پکڑیں؟ غالباً خود حضرت عمرؓ ہی کی مجلس تھی۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا اور حضرت ابوذر غفاریؓ پر اُس کی نظر پڑی اور کہا کہ یہ میرے ضامن ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اس کی ضمانت دیتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ چنانچہ اُس کو تاریخ دے دی گئی اور وہ چلا گیا۔ جب مقررہ دن آیا توپھر مدعی بدلہ لینے کےلئے آموجود ہوئے۔ دوسرے لوگ بھی جمع ہو گئے۔ سزا کا جو وقت مقرر تھا وہ وقت قریب ہو رہا تھا۔ لیکن اس شخص کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ تب صحابہؓ میں گھبراہٹ شروع ہوئی کہ ایک مخلص صحابی مارا جائے گا کیونکہ وہ ضامن تھا۔ بعض نے پوچھا ابوذر ؓ !جانتے ہو وہ تھا کون؟ اتنی دیر ہو گئی ابھی تک وہ آیا نہیں۔ انہوں نے جواب دیا مجھے نہیں پتہ کون تھا۔ لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ تمہیں پتہ نہیں تھا کہ وہ کون ہے تو پھر تم نے ضمانت کیوں دی؟ ابوذرؓ نے کہا اس نے جو اتنے آدمیوں کا منہ دیکھ کر ان میں سے اپنی ضمانت کے لئے مجھے چُنا تو کیا میں اُس پر بے اعتباری کرتا؟ اُس نے مجھ پر اعتبار کیا میں نے بھی اُس پر اعتبار کیا۔ جب اس نے میرے متعلق یہ سمجھا کہ یہ وہ شخص ہے جو ایک اجنبی کی خاطر جان دے دے گا تو میں کس طرح اس کی بات کو رد کرتا۔ مَیں نے بھی ضمانت دے دی۔ جب مقررہ وقت آگیا اور لوگ سمجھنے لگے کہ ضامن کو سزا دینے کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سوار گھوڑا دَوڑاتا ہوا اتنا تیز آرہا ہے کہ گَرد میں سوار کا پتہ نہ لگتا۔ وہ گرد قریب ہوتی گئی اور مجمع کے قریب آکر سوار گھوڑے پر سے اُترا۔ وہ اتنی تیزی سے گھوڑا دوڑاتا ہوا آرہا تھا کہ جونہی اُس نے گھوڑے پر سے چھلانگ لگائی گھوڑا زمین پر گِرا اور گِرتے ہی دم توڑ دیا۔ یہ وہی شخص تھا جس کے لئے یہ دن قصاص کے لئے مقرر تھا۔ لوگوں کو یہ اطمینان ہو گیا کہ ابوذرؓ کی جان بچ گئی۔ کسی شخص نے اُس شخص سے پوچھا میاں! تم آکس طرح گئے تمہارے متعلق تو معلوم ہوا ہے کہ یہاں کوئی تمہارا واقف ہی نہیں۔ ابوذرؓ جس نے تمہاری ضمانت دی تھی اِس کو بھی پتہ نہیں تھا کہ تم کون ہو۔ دوستی اور تعلقات کا آخر لحاظ اور شرم ہوتی ہے کہ کسی دن پکڑ لیں گے لیکن تمہیں تو کوئی جانتا ہی نہیں تھا تم کس طرح آگئے؟ اُس نے آگے سے جواب دیا کہ ایک شخص جو مجھے جانتا ہی نہیں تھا اُس نے جب میری خاطر اپنی جان کی پروا نہ کی اور میری ضمانت دے دی تو کیا میں اتنا ہی بے حیا تھا کہ نہ آتا اور اس کی جان کی پروا نہ کرتا۔ مجھے آنے میں کچھ دیر ہو گئی اس لئے میں اتنی تیزی سے گھوڑا دَوڑاتا آرہا تھا کہ مجھے اس کی پروا نہیں تھی کہ گھوڑا بچتا ہے یا مرتا ہے۔ جب دونوں طرف کی شرافت کا یہ نظارہ مدعیوں نے دیکھا تو انہوں نے بھی آگے بڑھ کر کہہ دیا کہ ہم اپنا قصاص معاف کرتے ہیں، ہم بدلہ لینا نہیں چاہتے اِس کو معاف کیا جائے۔
یہ وہ شرافت تھی، یہ وہ ایمان تھا، یہ وہ سچائی اور یہ وہ دیانت تھی جس نے مسلمانوں کے نام کو بلند کیا اور ہمیشہ کے لئے دنیا میں ان کی عزت قائم کر دی۔ جو لوگ یہ نمونہ دکھاتے ہیں وہ قوم کو چار چاند لگا دیتے ہیں اور جو لوگ یہ نمونہ نہیں دکھاتے وہ قوم کا گلا کاٹنے والے ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ لوگوں کو یہ شبہ ہو گا کہ جماعت کو ترقی کس طرح ہو گی اور اموال کس طرح آئیں گےلیکن مجھے یہ شبہ نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ خداتعالیٰ کا کام ہے اور خداتعالیٰ ہی تبلیغ کے لئے جن جن سامانوں کی ضرورت ہے وہ سامان مہیا فرمائے گا۔ پس مجھے یہ فکر نہیں کہ اموال کہاں سے آئیں گے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ کیا جماعت میں وہ لوگ ہوں گے یا نہیں ہوں گے جو دیانتداری سے اموال استعمال کریں۔ مجھے اس کے متعلق تو شبہ ہی نہیں کہ اموال کہاں سے آئیں گے۔ اموال بھیجنا خدا کا کام ہےاور خدا یہ کام ضرور کرے گا۔ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ جماعت اپنے فرض کو ادا نہیں کر سکے گی۔ کیونکہ ان اموال کو سنبھالنے کے لئے سچے اور دیانتدار آدمیوں کی ضرورت ہے جو ان اموال کو صحیح رنگ میں استعمال کرنے والے ہوں۔ 8 اور میں دیکھتا ہوں کہ آج جبکہ خداتعالیٰ کے فضل سے اموال بڑھ رہے ہیں یہ کوڑھ کا مرض جماعت میں پیدا ہو رہا ہے۔ یہ ذلیل ترین مرض میں مبتلا کر دینے والے کیڑے جماعت میں پیدا ہو رہے ہیں۔ اور دیانت کا وہ معیار اب بعض شخصوں میں نہیں رہا جو پہلے تھا۔ وہ معیار نہیں رہاجو ہونا چاہئے تھا۔ وہ معیار نہیں رہاجس سے قومی شرافت اور عزت پیدا ہوتی ہے اور وہ معیار نہیں رہا جس سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔
بعض نوجوانوں کے ہاتھ میں اگر سلسلہ کا روپیہ آجائے جو سلسلہ کے ملازم ہیں تو وہ اس روپیہ کو بجائے سلسلہ کے کاموں پر خرچ کرنے کے اسے کھانے کی طرف دَوڑ پڑتے ہیں۔ سلسلہ کے ملازموں میں بھی بعض ایسے غداروں کا ثبوت ملا ہے۔ اور چندہ لینےو الوں میں بھی بعض ایسے آدمیوں کا ثبوت ملا ہے جو دیانتداری سےکام نہیں لیتے۔ اگر طاعون کسی کے گھر کےپاس آجائے یا اُس کے گھر میں آجائے اور اس کے کسی عزیز کو طاعون ہو جائے تو جتنی گھبراہٹ اور جتنا خطرہ اُس سے ہوتا ہے اُس سے ہزاروں گُنا زیادہ اِس ذلیل ترین مرض سے خطرہ اور گھبراہٹ ہونی چاہیے۔ وہ طاعون تو ایک آدمی یا ایک گھر کو تباہ کرتی ہے لیکن یہ طاعون اتنی خطرناک ہے کہ ساری قوم کو تباہ کر دیتی ہے۔ جس طرح اُس طاعون کے چُوہوں کو بِلوں میں مارا جاتاہے اِسی طرح جب تک تم اِس طاعون کے چُوہوں کو ان کے بِلوں میں روحانی طور پر نہیں ماردو گے اُس وقت تک یہ امید رکھنا کہ تم اس خطرناک اور ذلیل ترین مرض سے بچ جاؤ گے اور اُس وقت تک تمہارا یہ امید رکھنا کہ تم ترقی حاصل کر سکو گے اور کامیاب ہو جاؤ گے ایک موہوم امر ہے۔
پس ہماری جماعت کا کوئی فرد ایسا نہیں ہونا چاہیے جو جھوٹی گواہی دے اور جماعت کا کوئی فرد ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ بددیانت ہے۔ میں نے اس پر غور کیا ہے اور غور کرنے کے بعد میں نے قطعی طور پر فیصلہ کیا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ جماعت میں کوئی بددیانت ہے تو ایسے شخص کو جماعت میں نہیں رہنے دیا جائے گا۔ اور جس شخص کی بددیانتی ثابت ہو جائے گی اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا۔ اور اگر آئندہ کے لئے توبہ کرنے کی وجہ سے اُسے معاف کیا جائے گا تو اُسے سلسلہ کے کسی کام کا موقع ہر گز نہیں دیا جائے گا۔ اور جس طرح قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والے کی گواہی نہ لی جائے9 ایسے شخص کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی اور سلسلہ اسے مجرم اور غدار تسلیم کرےگا۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ ہمارا رحم بعض دفعہ ایسے شخص کو پولیس کے حوالے نہ کرے اور اس کے متعلق انجمن میں ہی کارروائی کی جائے۔ مگر ایک شخص کے ساتھ رحم کرنے کے یہ معنے نہیں کہ قوم کی گردن پر چُھری پھیر دی جائے۔ اگر اُس پر ہمارا رحم اُسے پولیس کے حوالہ نہ کرنے سے گریز کرے گا تو ہمارا قوم پر رحم اسے جماعت سے خارج کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔
پس اگر کوئی شخص بددیانتی کرے گا یا اس کا جھوٹ ثابت ہو جائےگا بچوں کی عقل چونکہ کم ہوتی ہے اس لئے ان کے بارہ میں یہ قاعدہ ہو گا کہ ان کا جو اہم جھوٹ پکڑا جائے۔ اس دونوں قسم کے لوگوں کو جماعت سے خارج کر دیا جائے گا۔ لیکن یہ ضروری ہو گا کہ اگر کوئی شخص کسی پر بددیانتی یا جھوٹ کا الزام لگاتا ہےتو اُس کو اپنا یہ دعویٰ قضاء میں ثابت کرنا پڑے گا۔ یہ نہیں کہ یونہی کسی کے متعلق کہہ دیا جائے کہ یہ بددیانت یا جھوٹا ہے بلکہ اس الزام کو ثابت کرنا ہو گا۔ مثلاً ایک شخص زید کا ملازم ہے اور زید آکر کہتا ہے کہ میرا یہ ملازم بددیانت ہے۔ تو اس کو قضاء میں اس کا بددیانت ہونا ثابت کرنا ہو گا۔ یا ایک شخص آکر کسی کے متعلق کہتا ہے کہ اس نے فلاں جھوٹ بولا۔ تو اس کو قضاء میں وہ جھوٹ ثابت کرنا ہوگا۔ اور جب قضائی طور پر اُس کا بددیانت یا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے گا تو پھر سلسلہ اُس کو یہ سزا دے گا کہ اسے جماعت سے خارج کر دے گا۔ اور اگر سزا کے بعد اسے معافی بھی دی جائے گی تو بعض شرطوں کےساتھ دی جائے گی تاکہ ہر شخص کو معلوم ہو جائے کہ احمدی جھوٹ اور بددیانتی کو برداشت نہیں کرتے اور کہ احمدی جھوٹ بولنے والے نہیں ہوتے۔ سچے احمدی بددیانت نہیں ہوتے۔ اگر ان میں سے کوئی ایسا فعل کرتا ہے تو وہ ظاہر کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ جماعت انہیں ایسی سزا دیتی ہے جس سے وہ ہمیشہ کےلئے مشہور ہو جاتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان اپنے اخلاق کو درست کرنے کی کوشش کریں گے اور میں امید کرتا ہوں کہ تم میں سے ہر فرد جھوٹ اور بددیانتی کو مٹانے کی کوشش کرے گا۔جب تک ہم جھوٹ اور بددیانتی کو مٹانے میں کامیاب نہیں ہوں گے اُس وقت تک جماعت معیاری سکّہ پر پوری نہیں اُتر سکتی۔ معیاری سکّہ پر جماعت تبھی پوری اُتر سکتی ہے جب ساری کی ساری جماعت سچائی کے ساتھ مشہور ہو اور جب ساری کی ساری جماعت بددیانتی سے بکلی پاک ہو۔
خدام الاحمدیہ کا دعویٰ ہے کہ ہم خدمتِ خلق کرتے ہیں۔ الفضل میں چھپتا ہے کہ ہم نے خدمتِ خلق کا یہ کام کیا، فلاں کے کھیت کی منڈیر بنائی، فلاں کے کھیت کو پانی دیا اور فلاں کا کھیت کاٹا۔ بے شک وہ بھی خدمتِ خلق ہے لیکن یہ خدمتِ خلق نہایت ہی ضروری ہے۔ آیا خدام نے کبھی یہ خدمتِ خلق بھی کی ہے؟ میں ان کو اس خدمتِ خلق کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو غیر کی بھی خدمت ہے اور اپنی بھی خدمت ہے کہ سچائی اور دیانت قائم کی۔ میں نے بار بار خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی ہے مگر اِس وقت تک باوجود توجہ دلانے کے انہوں نے اخلاق کی درستی کی طرف توجہ نہیں کی۔ یہ کہ کسی کے کھیت کو پانی دے دیا یا منڈیریں بنا دیں اس سے کیا بنتا ہے۔ اصل کام تو قوم کے اندر سچائی اور دیانت کو قائم کرنا ہے۔ جب وہ اس چیز کو قائم کریں گے تو نہ صرف وہ ایک کھیت کوتباہ ہونے سے بچائیں گے بلکہ ہزاروں ہزار آدمیوں کو بچائیں گے جنہوں نے ان مکّاروں کا شکار ہونا تھا۔ آخر بددیانت آدمی اپنا روپیہ نہیں کھاتا دوسروں کا کھاتا ہے۔ اپنی بدنامی نہیں کرتا بلکہ ساری قوم کی بدنامی کا موجب ہوتا ہے۔
پس قومی ترقیات تمام کی تمام دیانت اور سچائی کے ساتھ وابستہ ہیں اور جس قوم میں یہ دونوں چیزیں نہیں پائی جاتیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ایک شخص کسی انگریزی فرم کو آرڈر دے کر گھر آجاتا ہے اور اُسے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اور اگر وہ کسی ہندوستانی فرم کو آرڈر دے کر واپس آتا ہے تو اُس کا دل گھٹتا رہتا ہے کہ خبر نہیں پتھر یا کیا چیز بھیج دیں۔ اسی بددیانتی کی وجہ سے ہندوستان کی ترقی رُکی ہوئی ہے۔جو دکاندار دیانتدار ہو گا اُس پر لوگ اعتبار کریں گے اور بغیر کسی فکر اور ہچکچاہٹ کے اس کو آرڈر دے آئیں گے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ کبھی ناقص چیز نہیں دے گا۔ پس قومی ترقی امانت اور دیانت کی شہرت کے ساتھ ہوتی ہے۔ اگر تمام احمدی دیانتدار ہوں گے تو جہاں بھی کوئی احمدی دکاندار ہو گا لو گ اُس کے پاس جائیں گے کہ اس سے سودا اچھا ملتا ہے چلو اس کے پاس چلیں۔ اور کہیں گے کہ ہےتو کافر پر ہے دیانتدار۔ اور سب سودا لوگ اس سے خریدیں گے۔ لیکن اگر قادیان کا احمدی دکاندار بھی ایک من آٹے میں سیر بھر مٹی ملا دیتا ہے تو اس کے اندر وہ کونسی چیز ہے جس کی وجہ سے لوگ احمدیت کی طرف توجہ کریں گے اور جو چیز اس کو دوسرے دکانداروں سے ممتاز کرنے والی ہے۔
میں نے خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر خدام کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ اس کی نگرانی کریں۔ انہوں نے کچھ دن کام بھی کیا تھا مگر انہوں نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی۔ اگر ہر خادم اس بات کا فیصلہ کر لے کہ میں نے بددیانتی کو مٹانا ہے، اگر اس کا باپ دکاندار ہے تو باپ سے کہہ دے کہ تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوں گا، اگر اس کے بھائی دکاندار ہیں تو بھائیوں سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوں گا، اگراس کے دوست اور رشتہ دار دکاندار ہیں تو دوستوں اور رشتہ داروں سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوں گا،اگر اس کی بیوی دکان کرتی ہے تو بیوی سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوں گا اور اگر تم باز نہ آئے اور اصلاح نہ کی تو میں تمہارے خلاف گواہی دوں گا۔ تو مجھے امید ہے کہ اگر ہر خادم یہ فیصلہ کر لے تو ایک گھنٹہ کے اندر اندر اس عیب کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ اگر تمہار ابھائی تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتا ہے، اگر تمہارا باپ تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتا ہے، اگر تمہاری ماں تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتی ہے ، اگر تمہاری بیوی تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتی ہے تو یہ بددیانتی اُسی وقت تک ہے جب تک ان کو یقین ہے کہ تم ان کی محبت کی خاطر ان کی رپورٹ نہیں کرو گے۔ لیکن جب ان کو معلوم ہو جائے گا کہ تم ان کی محبت کی پروا نہیں کرو گے۔ اور تم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر وہ بددیانتی سے باز نہ آئے تو تم اس کی رپورٹ کرو گے تو کیا ہو سکتا ہے کہ وہ دوسرے منٹ میں بددیانتی کریں؟ باپ کہے گا بیٹا پچھلا جانے دو آئندہ میں کبھی بددیانتی نہیں کروں گا۔ بھائی کہے گا پچھلا معاف کر دو آج سے میں باز آیا۔ بیوی کہے گی یہ قصور معاف کر دو آئندہ یہ حرکت نہیں کروں گی۔ پس جب تم یہ تنبیہہ کر دو گے اور ایسے موقع پر ان کی محبت کو قربان کر دو گے تو تم دیکھوگے کہ ایک گھنٹہ کے اندر اندر بددیانتی مٹ جائے گی۔
پس قوم کی اصلاح تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ بیٹے کی اصلاح باپ کے ہاتھ میں ہے۔ باپ کی اصلاح بیٹے کے ہاتھ میں ہے۔ بھائی کی اصلاح بھائی کے ہاتھ میں ہے۔ بیوی کی اصلاح خاوند کے ہاتھ میں ہے اور ماں کی اصلاح بیٹوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگرتم اس طریق کو استعمال کرو تو چند دن نہیں بلکہ ایک گھنٹہ کے اندر ساری قوم کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر تمہارا دوست دیکھتا ہے کہ وہ بددیانتی کرے گا تو تم اس پر پردہ ڈالو گے اورجھوٹ بولو گے تو تم اُس کو بھی غرق کرتے ہو اور آپ بھی غرق ہوتے ہو۔ کیا تم اس کو پسند کرتے ہو کہ اس کی بددیانتی پکڑی جائے اور اس کی سزا میں اسے پانچ دس گالیاں یا دو چار تھپڑ پڑیں؟ یا تم اس کو پسند کرتے ہو کہ اس کو لاکھ سال تک جلتی ہوئی جہنم میں ڈال دیا جائے؟ اگر تم پسند نہیں کرتے کہ اس کو جہنم میں ڈالا جائے تو تمہارا دوست ان پانچ دس گالیوں یا دو چار تھپڑوں سے اگر بچنا بھی چاہتا ہو تو تمہارا فرض ہے کہ تم اس کو گھسیٹ کر لاؤ اور اسے تھپڑ اور گالیاں دلاؤ تاکہ اس کی سزا اسی دنیا میں ختم ہو جائے اور وہ خداتعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائے۔ ہاں اگر تمہیں خدا پر ایمان نہیں، اگر تمہیں جزا سزا اور دوزخ پر اعتبار نہیں تو پھر بے شک تم اس شخص کو انسانوں کی سزا سے بچاؤ۔ کیونکہ تم سمجھتے ہو کہ خدا کی کوئی سزا نہیں۔ اس سے بچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انسان کی سزا ہے اس سے میں بچاتا ہوں۔پس ایسی بے ایمانی کی صور ت میں ہی ہو سکتا ہے کہ تم اس کو سزا سے بچانے کی کوشش کرو۔ ورنہ قومی جرائم میں کسی کی رعایت کرنا خطرناک چیز ہے۔ ہاں فردی خرابی میں پردہ پوشی کرنابے شک اعلیٰ صفت ہے۔ ایک ایسا جُرم ہے جس کا زید یا بکر سے تعلق ہے مثلاً زید سے کوئی غلطی ہوئی یا بکر سے کوئی غلطی ہوئی جس کا صرف ان کےساتھ ہی تعلق ہے تو ہمارا فرض ہے کہ پردہ پوشی سے کام لیں۔ خداتعالیٰ ان کے گناہ بھی معاف کرے اور ہمارے گناہ بھی معاف کرے۔ مگر ایسا جرم جو قوم کے اخلاق بگاڑنے والا ہے اور جس کا اثر ساری قوم پر پڑتا ہے۔ ہر شخص جو اس کاارتکاب کرتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے اور ہر شخص جو اُس پر پردہ ڈالتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے اور ہر وہ شخص جس کے دل میں اس جرم کو دور کرنے کی خواہش نہیں وہ بھی قوم کا دشمن ہے۔ پس آج سے تم یہ فیصلہ کر لو کہ جھوٹ اور بددیانتی کو مٹانا ہے۔ تم یہ کر کے دیکھ لو۔ اگر یہ دونوں چیزیں تم اپنے اندر پیدا کر لو گے تو تم دیکھو گے کہ شدید سے شدید دشمن بھی تمہاری تعریف کرنے پر مجبور ہو گا اور اپنی ضرورتوں کے موقع پر وہ تم پر اعتبار اور اعتماد کرے گا۔
پس میں جماعت کو آنے والے خطرہ سے جس کی الوصیت میں خبر دی گئی تھی آگاہ کرتا ہوں اوریہ نہیں کہ آگاہ کر دینے سے میں اپنے آپ کو اپنی ذمہ داری سے آزادسمجھتا ہوں بلکہ جب تک مجھے خدا تعالیٰ توفیق دے میں اپنی اس ذمہ داری کو پورے طور پر ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اور میرا ہی نہیں بلکہ تم میں سے ہر شخص کا فرض ہو گا کہ اس خطرہ سے آگاہ رہے جس کے متعلق آج سے سینتیس سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خبردار کیا تھا۔ اگر پھر بھی وہ چور تمہارے گھر میں گھس آئے تو تم سے زیادہ اَبْلَہ 10کون ہو گا کہ خدا کے مامور نے سینتیس سال پہلے بتا دیا تھا کہ شیطان فلاں طرف سے آئے گا مگر پھر بھی تم نے احتیاط نہ کی اور اسے گھر میں گھسنے دیا ۔ پس اب بھی تمہارا فرض ہے کہ ہو شیار ہو جاؤ اور کمریں کَس لو اور قومی عزت کو بچانے اور قومی ناک کو بچانے کے لئے مجرموں اور غداروں کو نکال باہر کرو۔ خواہ وہ تمہارا باپ ہو، خواہ وہ تمہارا بھائی ہو، خواہ وہ تمہاری ماں ہو، خواہ وہ تمہاری بیوی ہو اور خواہ وہ تمہارا دوست ہو۔ اور کوشش کرو کہ اللہ تعالیٰ کا سلسلہ نیک نامی اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ ترقی کرے۔ یاد رکھو قومی اخلاق اُسی وقت غالب ہو سکتے ہیں جب قوم غالب ہو۔ اور جب احمدیت غالب آئے گی تو اُس وقت ہمارے یہ اخلاق کام نہیں آئیں گے جو آج میرے اندر یا تمہارے اندر پائے جاتے ہیں بلکہ وہ اخلاق کام آئیں گے اور اُن سے دنیا کی اصلاح ہو گی جو اُس وقت جماعت کے اندر پائے جاتے ہوں گے۔ میرے اندر جو اخلاق پائے جاتے ہیں اُس وقت یہ کام نہیں آئیں گے بلکہ اُس شخص کے اخلاق کام آئیں گے جو اُس وقت جماعت کے سر پر ہو گا۔ جب جماعت میں حکومت آئے گی کیونکہ یہ کام اُس نے کرنا ہے کہ ان اخلاق کو تمام دنیا پر غالب کرے۔ میں تو واعظ ہوں سیاست میرے پاس نہیں، غلبہ مجھے حاصل نہیں، میرے پاس تو اتنی بھی طاقت نہیں جتنی کم سے کم اقلیّت کو حاصل ہے۔ ہندوستان میں سب سے چھوٹی مینارٹی(Minority) سکھوں کی ہے مجھے تو اتنی بھی طاقت حاصل نہیں جتنی کہ سکھوں کو حاصل ہے۔ تو میرے اندر کتنے ہی بلند اخلاق ہوں وہ دنیا کی اصلاح میں کام نہیں آ سکتے۔ ہاں اس شخص کے اخلاق کام آئیں گے جو اُس وقت جماعت کے سر پر ہو گا جب جماعت کو غلبہ حاصل ہو گا۔ میں تو وعظ کرتا ہوں لیکن وعظ کیا قرآن مجید میں کم ہے؟ اچھے سے اچھا وعظ قرآن مجید میں موجود ہے، اچھے سے اچھا وعظ حدیث میں موجود ہے۔ اگر قرآن مجید اور حدیث کے وعظ نے کام نہ دیا تو میرا وعظ کیا کام دے گا۔ پس وہی اخلاق کام دیں گے جو اُس وقت جماعت میں ہوں گے جب جماعت کو غلبہ حاصل ہو گا اور جو اُس شخص میں پائے جائیں گے جو جماعت کے سر پر ہو گا۔ اس لئے اُس وقت تک اخلاق کی درستی کا کام کرتے جاؤ جب تک کہ جماعت کو غلبہ حاصل ہو۔ اگراُس وقت تک تم برابر اخلاق کو درست رکھتے گئے تو جب غلبہ ملے گا وہ غلبہ نیکی کا ہو گا۔ پس جماعت کی حالت کم از کم اس وقت تک نیک ہونی چاہیے۔ جب تک یہ حالت قائم رہے گی اُس وقت تک جماعت بڑھتی جائے گی۔ اور جب یہ حالت نہ رہے اور خرابی پھیل جائے تو پھر ترقی رُک جاتی ہے۔ پھر کسی مامور کے ذریعہ سے ترقی حاصل ہو تو ہو اس جماعت کے اخلاق سے نہیں ہو سکتی۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ان اخلاق کو کم از کم اُس دن تک جاری رکھیں جس دن کہ احمدیت کو غلبہ حاصل ہو، تاکہ یہ اخلاق ساری دنیا میں جاری ہو جائیں اور دنیا تسلیم کرلے کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آکر ان اخلاق کو جاری کیا۔ اگر آج ہم نے ان اخلاق کو مار دیا تو کل کو خراب اخلاق دنیا میں جاری ہوں گے اور جب جماعت میں حکومت آئے گی تو وہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حکومت نہیں ہو گی وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حکومت نہیں ہو گی بلکہ وہ شیطان کی حکومت ہو گی۔ اور اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی جماعت کو اس لئے تو پیدا نہیں کیا کہ ان کے ذریعہ انسانوں کی گردنیں شیطان کے قبضہ میں چلی جائیں۔
پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی قوم کےا خلاق کو درست رکھیں، اپنی اولادوں کے اخلاق کو درست رکھیں، اور وہ آگے اپنی اولادوں کے اخلاق کو درست کرتے چلے جائیں۔ یہاں تک کہ یہ اخلاق رواج پا جائیں۔ اور جب احمدیت کا غلبہ ہو اور دنیا کی اصلاح کا کام احمدیت کے سپرد ہو تو احمدیت دنیا کےاخلاق درست کردے۔ اور دنیا تسلیم کر لے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر شیطان کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کام کے لئے اگر ہماری راتوں کی نیندیں حرام ہو جائیں، ہمارے دنوں کا آرام اُڑ جائے اور ہمارے دلوں کا چین اور سکینت کھویا جائے تو یہ کوئی بڑی تکلیف نہیں بلکہ عین حق ہو گا جو ہم نےا دا کیا۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ان بلاؤں سے ہمیں اس سے زیادہ نجات دے جتنی کہ طاعون اور ہیضہ سے بچنے کی بندے تمنا رکھتے ہیں۔اٰمین’’ (الفضل مورخہ 22فروری 1945ء)

1: وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّهٖۤ اِلَيْكَ١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِيْنَارٍ
لَّا يُؤَدِّهٖۤ اِلَيْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآىِٕمًا(آل عمران: 76)
2: بخاری کتاب الایمان باب علامات المنافق
3: النساء: 146
4: بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الشعراء باب وَاَنْذِرْ (الخ)
5: بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ (الخ)
6: درثمین فارسی صفحہ112 شائع کردہ سید عبدالحی شاہ صاحب
7: کِرَچِیں: ایک قسم کی لمبی تلوار
8: الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ319(مفہوماً)
9: لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا(النور:5)
10: اَبْلَہ: نادان۔ بیوقوف


8
خدا تعالیٰ کی ساری کی ساری صفات کو ظاہر کرنے والے بنو
(فرمودہ 23فروری 1945ء بمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ انبیاء کی آمد ایک بادل سے مشابہت رکھتی ہے جس طرح بادل اور وہ بادل جو کہ ضرورت کے مطابق اور لمبے انتظار کے بعد دنیا میں آتا ہے جب لوگ گرمی کی شدت اور حبس کی تکلیف کی وجہ سے بے کل ہو رہے ہوتے ہیں، جب انسان اور جانور تازہ اور اچھے پانی کے لئے تڑپ رہے ہوتے ہیں، جب کھیت اپنی روئیدگی کو نکالنے اور سبزہ کو اُبھارنے کے لئے پانی کے چھینٹوں کو ترس رہے ہوتے ہیں تب اُس تاریکی کے زمانہ میں اور تکلیف کے زمانہ میں ایک لمبے عرصہ اور لمبے انتظار کے بعد آسمان پر بادل نظر آتا ہے اور اسے دیکھ کردنیا خوش ہوتی ہے کہ اب ہماری امیدیں پوری ہوں گی۔
اِسی طرح تکلیف اور دکھ کے بعد اور ایک لمبے انتظار کے بعد انبیاء علیہم السلام کا ظہور ہؤا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی بھی خدا کی طرف سے صادق اور راستباز انبیاء علیہم السلام ظاہر ہوتے ہیں تو ان کے ظاہر ہونے سے پہلے اور پیچھے ایک گروہ غلطی خوردہ اور حقیقت سے دور مدعیوں کا بھی پیدا ہو جاتاہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد سے پہلے بھی اور پیچھے بھی ایسے لوگ ظاہر ہوئے جو اپنے آپ کو خدا کا فرستادہ اور رسول قرار دیتے تھے۔ لیکن وہ خدا کی طرف سے سچے اور راستباز نہیں تھے۔ ان کے دلوں میں رسول بننے کی خواہش پہلے تو ان پیشگوئیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی جو ایک آنے والے نبی اور رسول کے متعلق گزشتہ انبیاء علیہم السلام کی طرف سے کی گئی تھیں۔ جب ان کے باپ دادوں نے سنا کہ ایک آنے والے کی خبر دی گئی ہے جس کا نام یہودیوں کی بعض کتابوں میں محمد بتایا گیا ہے تو انہوں نے بھی اپنے بچوں کے نام محمد رکھنا شروع کر دیئے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیدائش سے پہلے محمد نام بہت کم بلکہ قریباً نہیں تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیدائش کے قریب پانچ نام محمد ثابت ہیں۔ اور اپنے بچوں کے یہ نام رکھنے والے ماں باپ وہی تھے جنہوں نے یہودیوں سے یہ خبر سنی ہوئی تھی کہ آنے والے نبی کا نام محمد(ﷺ) ہو گا۔ تو کچھ لوگوں نے تو نام ایسے رکھے جس کا یہودیوں کی کتب میں ذکر تھا کہ آنے والے کا یہ نام ہو گا۔ اور اس کے بعد جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والا ظاہر ہؤا اور لوگوں نے دیکھا کہ پروانہ وار لوگ اس کے گرد جمع ہو رہے اور اس کے دین میں داخل ہو رہے ہیں اور اس کو فتح نصیب ہو رہی ہے۔ تو اس فتح اور کامیابی کو دیکھ کر بعض جھوٹے لوگوں نے بھی نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ جب تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کامیابی نہیں ہوئی اُس وقت تک ان جھوٹے مدعیوں کو دعویٰ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ اور جب آپ کو کامیابی اور فتح ہونا شروع ہوئی تو آپ کی کامیابی کو دیکھ کر ان جھوٹے مدعیوں نے بھی دعویٰ کر دیا۔ اور یہی ثبوت تھا اِس بات کا کہ دعویٰ کرنے والے جھوٹے تھے اور وہ آپ کی کامیابی کا نمونہ دیکھ کر لُوٹ کا مال سمجھ کر آگے آئے تھے ورنہ اگر وہ واقع میں خداتعالیٰ کی طرف سے اصلاح کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے تو پھر ان مدعیوں کا زمانہ فتح مکہ سے پہلے بلکہ ہجرت سے پہلے ہونا چاہیےتھا۔
ہجرت سے پہلے عرب ایک تاریک ملک تھا جو گناہ اور غفلت میں ڈوباہوا تھا اور جس کی جہالت انتہا تک پہنچ چکی تھی۔ کیونکہ اگر بنی نوع انسان کی محبت نے اُن کو اِس دعویٰ پر آمادہ کیا تب بھی ان کو اُس زمانہ میں کھڑا ہونا چاہیے تھا اور اگر ان مدعیوں کو خدا نے بھیجا تھا تب بھی ان کو ایسے زمانہ میں آنا چاہیے تھا جبکہ جہالت اور گمراہی پھیلی ہوئی تھی۔ کیا کوئی شخص یہ خیال کر سکتا ہے کہ خداتعالیٰ نے نعوذ باللہ ایک جھوٹے آدمی کو کھڑا کر دیا تاکہ وہ عرب سے شرک کو دور کر دے، تاکہ وہ جہالت اور گمراہی کو دور کر دے، تاکہ وہ فساد کو دور کر دے، تاکہ وہ عرب سےعورتوں پر جو ظلم ہوتے ہیں اُن کو مٹا دے، تاکہ وہ عرب سے بچوں کے قتل کو مٹا دے، تاکہ وہ عرب سے دوسری بد رسوم کو دور کر دے۔ اور جب نَعُوْذُ بِاللہ جھوٹا مدعی یہ تمام کام کر چکا تو پھر خدا تعالیٰ نے اپنے سچے نبیوں مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی وغیرہ کو بھیجنا شروع کر دیا۔ جب ملک میں بغاوت ہوتی ہے تو اُسی وقت بادشاہ کی طرف سے جرنیل آیا کرتے ہیں۔ شاہی جرنیل اُس وقت نہیں آیا کرتے جب بغاوت فرو ہو چکی ہو اور امن قائم ہو چکا ہو۔ تو کسی مدعی کی طرف سے اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ابتدائی زمانہ میں دعویٰ کیا جاتا تو ایک انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید یہ سچا ہو، شاید خداتعالیٰ نے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے اسی کو بھیجا ہو ۔ مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وہ کام کر لیا جو کام خدا چاہتا تھا اور اس کے دین کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ قائم کر دیں تو کچھ اَور لوگ اٹھے کہ ہم کو بھی خداتعالیٰ نے بھیجا ہے۔ کوئی پوچھے تم کو کس لئے بھیجا ہے؟ کام تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کر چکے ہیں اب وہ کونسی کمی رہ گئی تھی جس کو پورا کرنے کےلئے خداتعالیٰ نے تم کو بھیجا ہے۔ تو ان کااُس ابتدائی زمانہ میں ظاہر نہ ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں تھے۔ یا تو یہ ہوتا کہ کوئی مدعی کھڑا ہو کر یہ بتاتا کہ اسلام نے یہ یہ خرابیاں پیدا کر دی ہیں اور وہ یہ ثابت کرتا کہ عرب کی حالت اسلام سےپہلے اچھی تھی محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے ظاہر ہونے سے خراب ہو گئی۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ عرب کی حالت پہلے سے بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے اس لئے خدا نے مسیلمہ کو یا اسود عنسی کو یا کسی اور کو بھیجا تاکہ وہ اس خرابی کی اصلاح کرے مگر جب وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عرب کی حالت کیا سیاسی لحاظ سے اور کیا علمی لحاظ سے اور کیا اخلا قی لحاظ سے اور کیا روحانی لحاظ سے پہلے سے بہتر ہو چکی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے سچے نبی کو بھیجنے کے لئے انتظار کیوں کیا؟ پس وقت کے لحاظ سے ان کا دعویٰ بالبداہت جھوٹا تھا۔ اگر کسی اَور نے آنا ہوتا تو وہ آتا اور آکر یہ کہتا کہ یہ جھوٹا ہے میں سچا ہوں۔ اس نے آکر خرابی پیدا کر دی میں اب اصلاح کرنے کے لئے آیا ہوں۔ اور پھر وہ اصلاح کرتا۔ لیکن ایسا نہیں ہؤا۔ پس وقت کے لحاظ سے ان کا ایسے زمانہ میں ظاہر ہونا جبکہ کام ہو چکا تھا جہاں یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جھوٹے تھے وہاں اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ گزشتہ خبروں کی وجہ سے ایک آنے والے کا انتظار قلوب میں پیدا ہو چکا تھا جس سے ان لوگوں نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی مگرغلطی یہ کی کہ انتظار کے بعد جب آنےو الا آگیا اور قلوب کو سیری ہو چکی تو اُس وقت انہوں نےبھی دعویٰ کر دیا۔
ان کی مثال ایسی ہے کہ ہمارے گھرمیں ایک عورت ہؤا کرتی تھی اس نے قرآن شریف پڑھنا شروع کیا۔ وہ ایسی کند ذہن تھی کہ اُس نے اپنی استانی سے کہا کہ صبح مجھے ایک آیت بتا دیا کرو میں شام تک اُسے دہراتی رہا کروں گی اس طرح مجھے وہ آیت یاد ہو جائے گی اور اگلے دن دوسری آیت یاد کر لوں گی۔ ایک دن صبح کے وقت ایک آیت جو اسے پڑھائی گئی تو عصر کے قریب لوگوں نے سنا کہ وہ آٹا گوندھ رہی تھی اور یہ فقرہ بار بار دُہرا رہی تھی۔ ‘‘جا بھانوں آبھیناں جا بھانوں آبھیناں‘‘۔کسی نے پوچھا یہ کیا کر رہی ہو؟کہنے لگی آیت یاد کر رہی ہوں۔ اس نے کہا قرآن مجید میں تو اِس قسم کی کوئی آیت نہیں۔ کہنے لگی کیوں نہیں صبح مَیں نے یہ آیت سیکھی تھی اور اب تک میں اِسے دُہرا رہی ہوں۔ آخر معلوم ہوا کہ صبح اُس کو يَعْلَمُ مَا بَيْنَ سکھایا گیا تھا جو بگڑتے بگڑتے ‘‘جا بھانوں آبھیناں’’ بن گیا۔ اس عورت کو یہ بھی عادت تھی کہ مجلس میں جب دوسری عورتیں ہنستی تھیں اور تھوڑی دیر کے بعد ہنس کے خاموش ہو جاتیں اور کوئی سنجیدہ بات شروع ہو جاتی تو دو منٹ کے بعد یہ عورت زور سے قہقہہ لگا کر ہنسنا شروع کر دیتی تھی۔ دوسری عورتوں نے ایک دفعہ اس سے پوچھا کہ تم کس بات پر ہنس رہی ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ فلاں بات کی وجہ سے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بات تو دو منٹ ہوئے ختم ہو چکی اُس وقت تو تم ہنسی نہیں اب کیوں ہنس رہی ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ‘‘ساڈا ہاسا دوسریاں دے ہاسے وچہ مل جائے!!’’۔یعنی میری ہنسی کیا دوسروں کی ہنسی میں مل کر ضائع ہو جائے۔ تو یہ مدعی بھی اِسی رنگ کے ہوتے ہیں۔ اگر یہ اُس وقت دعویٰ کرتے جب اصلاح کی ضرورت تھی تو لوگ بجائے ان کو پاگل سمجھنے کے یہ خیال کرتے کہ شاید یہ سچے ہوں۔ مگر جب کام ہو چکا اور پھر انہوں نے دعویٰ کیا تو اب تو ان کے پاگل ہونے میں شبہ ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خدا کے دین کو قائم کر دیا اور لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کر دیا اور ایسی جماعت تیار کی اور ایسے شاگرد پیدا کئے جنہوں نے آپ کی تعلیم کو پھیلانا شروع کر دیا تو پھر جھوٹے مدعی بھی کھڑے ہو گئے کہ شاید ہم بھی اِسی طرح کامیاب ہو جائیں گے جس طرح محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ فعل ایسا ہی تھا جیسا کہ منافق مدینہ میں کیا کرتے تھے کہ جب مسلمان لڑائی میں فتح حاصل کر کے آتے تو مدینہ سے آگے نکل کر اُن سے جاملتے اور کہتے کہ ہم بھی آپ کے بھائی ہیں۔ ان کا مطلب دراصل یہ تھا کہ ہم بھی تمہاری فتح اور کامیابی میں شریک ہیں ۔ بہرحال اس میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ اتنے جھوٹے آدمیوں کا ظاہر ہونا اس وجہ سے تھا کہ دنیا ایک آنے والے نبی کی منتظر تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ چونکہ وہ جھوٹےتھے اس لئے جب قربانی اور تکالیف کا وقت تھا اُس وقت وہ شامل نہ ہوئے اورجب کامیابی کا زمانہ آیا اُس وقت شامل ہوئے۔
ایسے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی دنیا ایک مسیح اور مہدی کی منتظر تھی اور اس انتظار کا بڑا بھاری ثبوت یہ ہے کہ آپ کے آنے سے پہلے بھی کئی مدعی ظاہر ہوئے جنہوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ ایران میں باب کی طرف سے باب مہدی ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔ اس لئے وہ آنے والے مہدی کے لئے بطور دروازہ کے ہے اور اس کے بعد مہدی ظاہر ہو گا۔ سوڈان میں بھی ایک مہدی ظاہر ہوا۔ اَور ملکوں میں بھی کئی جھوٹے مہدی ظاہر ہوئے۔ ان سب جھوٹے مدعیوں کا دعوی کرنا اِس بات کی علامت تھی کہ آنے والے مہدی کے متعلق لوگوں میں یہ احساس پیدا ہونے لگ گیا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ وہ موعود مہدی ظاہر ہو۔ اِس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ظاہر ہوئے اور آپ نے ایک جماعت بنائی اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ مگر آپ سے پہلے جن لوگوں نے دعویٰ کیا اور جن کا دعویٰ کرنا صرف اس بات کی علامت تھی کہ اب وقت آگیا ہے کہ سچا مدعی پیدا ہو جس کی وجہ سے وہ سمجھے تھے کہ شاید وہ ہم ہی ہوں وہ سب ناکام رہے اور ان کی ناکامی نے بتا دیا کہ یہ لوگ اپنے خیالات میں غلطی کرنے والے تھے اور ان کا یہ خیال غلطی کی وجہ سے یا افتراء کی وجہ سے درست نہیں تھا۔ پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے اور آپ نے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر لی۔ کامیابی کے یہ معنے نہیں کہ وہ ساری دنیا پر غالب آگئے بلکہ یہ مطلب ہے کہ آپ نے اسلام کی فتح کی ایسی داغ بیل ڈال دی اور ایسی جماعت پیدا کی کہ دنیا بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ یہی وہ جماعت ہے جس کے ذریعہ اسلام کو فتح حاصل ہو گی۔ اس کے بعد پھر ہم دیکھتے ہیں کہ چونکہ انتظار کا اثر بہت سی طبائع میں پایاجاتا تھا اس لئے اس کامیابی کو دیکھ کر کئی اَور جھوٹے مدعی کھڑے ہو گئے کہ ہم بھی ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے ہیں جو ایک آنے والے کے متعلق پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ شاید دنیا کو فتح کر لینا آسان کام ہے اور شاید ہم بھی اس میں کامیاب ہو جائیں گے مگر پہلے بھی ناکام رہے تھے اوریہ بعد والے بھی ناکام رہے۔
اِسی قسم کے مدعیوں میں سے کچھ دن ہوئے ایک کے خطوط میرے پاس روزانہ آتے تھے۔ میں نے آخر ایک دن دفتر کو ہدایت کی کہ اسے یہ خط لکھیں کہ تم مجھے کیوں لکھتے ہو؟ اس سے تمہاری غرض کیا ہے؟ اگر تمہارا میری طرف خط لکھنے سے مطلب یہ ہے کہ تم میرے ذریعہ سے جماعت کو فتح کر لو گےتو جماعت کی خوبی کو تم بھی تسلیم کرتے ہو کہ یہی وہ جماعت ہے جو کام کرنے والی ہے اور تم یہ خواہش رکھتے ہو کہ بنی بنائی جماعت تمہیں مل جائے۔ ورنہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ جماعت خراب ہے اور اس کے اندر نقص پایا جاتا ہے تو پھر تم بھی کوشش کر کے ایک جماعت بنا لو تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ جماعت بناناکہاں تک آسان کام ہے۔ اور اگر تمہارے دل میں یہ خیال ہے کہ پکی پکائی چیز تمہیں مل جائے تو یہ خیال غلط ہے۔ اس کو تو جس کے لئے خدا نے پکایا ہے وہی استعمال کرے گا خدا کسی دوسرے کو نہیں دے گا۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد بھی ایسا گروہ جھوٹے مدعیوں کا کھڑا ہوا اور انہوں نے سمجھا کہ جو جماعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بنائی ہے اسے ہم اُچک کر لے جائیں گے۔ حالانکہ اگر جماعت بنا لینا انسانوں ہی کا کام ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے ہی کیوں نہ بنا لیتے۔ یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے جو مہدی ہونے کے جھوٹے مدعی کھڑے ہوئے تھے انہوں نے جماعت کیوں نہ بنالی۔ یا بعد میں جھوٹے مدعی اس طرف کیوں راغب ہوئے کہ بنی بنائی جماعت ہمیں مل جائے۔ کیوں نئی جماعت نہ بنا لی۔ تو جہاں ان جھوٹے مدعیوں کا وجود غلطی خوردہ یا افترا کرنے والا ثابت ہوتا ہے وہاں ساتھ ہی یہ بھی ضرور ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے زمانہ میں بنی نوع انسان کویہ امید ہوتی ہے کہ اب خداتعالیٰ ضرور روحانی بادل بھیجے گا۔ اور سچے نبی کی بعثت سے قبل ان جھوٹے مدعیوں کا دعویٰ اس بات کاثبوت ہے کہ لوگوں کو ایک سچے نبی کی امید اور آس ہے۔ پھر جب خداتعالیٰ کی طرف سے بارش آتی ہے توہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح مادی بادل برستے ہیں تو طریق یہ ہے کہ وہ ہر جگہ پر برستے ہیں اور ان کے برسنے سے ہر قسم کی روئیدگی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ بارش ایک ہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اسی بارش سے ایک طرف میٹھے پھل پیدا ہوتے ہیں اور دوسری طرف اسی بارش سے کڑوے پھلوں کو بھی نشو ونماحاصل ہوتا ہے۔1 ایک ہی قطرہ بارش کا جہاں انگور کو زیادہ شیریں بنا دیتا ہے، جہاں آم کو زیادہ شیریں بنا دیتا ہے، جہاں اَور مختلف قسم کے میٹھے پھلوں کو زیادہ شیریں بنا دیتا ہے وہاں بارش کا وہی قطرہ کیکر کو اور حنظل کو زیادہ تلخ بنا دیتا ہے اور کھٹی چیزوں کو زیادہ ترش بنا دیتا ہے۔ وہی بارش کا قطرہ جو انسان کے اندر گوشت پیدا کر دیتا ہے وہی قطرہ گھاس کے اندر روئیدگی پید اکر دیتاہے۔ جنگل میں اُگی ہوئی مختلف قسم کی جھاڑیاں اور جڑی بُوٹیاں جن کے نام بھی ہمیں معلوم نہیں اور پہاڑوں کی وادیوں میں پیدا ہونے والی بُوٹیاں بھی اِسی بارش سے اپنی روئیدگی کو ابھارنا شروع کردیتی ہیں۔ تو بارش کا وہی قطرہ جہاں انسان کے اندر تر وتازگی اور نمو پیدا کر دیتاہے وہاں وہ جنگل میں اُگنے والی ہزاروں قسم کی جڑی بوٹیوں میں بھی روئیدگی پیدا کر دیتا ہے۔ یہی حال انبیاء علیہم السلام کے زمانہ میں ہوتاہے یعنی جب روحانی بارش آسمان سے آتی ہے تو دونوں قسم کی روئیدگی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایک طرف سویا ہؤا کفربھی بیدار ہو جاتا ہے اور دوسری طرف ایمان بھی تر و تازہ ہو جاتا ہے۔ کفر بھی اُس زمانہ میں اپنی شان دکھانا شروع کردیتا ہے اور مخالف لوگوں کے اندر بھی بیداری پیدا ہو جاتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے آخر مکہ بھی وہی تھا اور عرب بھی وہی تھا لیکن آپ کی بعثت سے قبل عرب کے سرداروں کا کوئی نظام معلوم نہیں ہوتا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کے بعد ہم کفار کو بھی منظّم اور مشہور عمل پاتے ہیں۔ اور وہ سارے کے سارے اس کام کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں کہ کسی طرح محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے دین کو پھیلنے سے روکیں اور سارے متحد ہو کر اس دین کو مٹانے کے لئے کوشش کریں۔ لیکن کیا وجہ تھی کہ یہ تنظیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت سے قبل نہیں تھی؟ اس کی یہی وجہ ہے کہ جب آسمان سے بارش آتی ہے تو ہر قسم کی چیزوں میں روئیدگی پید اہو جاتی ہے۔ اس معاملہ میں بھی جھوٹے اور سچے میں بڑا فرق ہے۔ جب جھوٹےمدعی کھڑے ہوتے ہیں تو لوگ اُن سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ کیونکہ بکری بکری سے کبھی نہیں ڈرتی بلکہ بکری شیر سے ڈرتی ہے۔ اس لئے جب کوئی جھوٹا مدعی کھڑا ہوتاہے تو لوگ اُس سے نہیں ڈرتے۔ لیکن جب کبھی فطرتِ انسانی یہ سمجھتی ہے کہ سچا موعود آگیا ہے تو اُس وقت کافر بھی بیدار ہوجاتا ہے کہ یہ ہے سچا خطرہ۔ اس کو دور کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ جو مخالفت اور جس قسم کی منظم مخالفت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں ہوئی ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہوئی ہے ایسی مخالفت اور کسی کے زمانہ میں نہیں ہوئی۔ باب کے زمانہ میں بے شک شورش اور فساد پیدا ہوا لیکن یہ فساد بابیوں کے اپنے افعال کے نتیجہ میں تھا۔ پہلے بابیوں نے بعض لوگوں کو قتل کیا ان قتلوں کے نتیجہ میں حکومت نے ان کو مارا۔ لیکن پبلک خاموش رہی اور اس نے کوئی خاص مقابلہ نہیں کیا۔ مگرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں تمام غیر قوموں میں آپ کے مقابلہ کا جوش پایا جاتاہے۔ غیر احمدی علماء کی تنظیم پہلے سے زیادہ ہے ۔ کیا تعلیمی لحاظ سے اور کیا دوسرے لحاظ سے۔ سارے کےسارے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ احمدیت کو کُچلا جائے۔ یہ چیز دنیا کے پردہ پر اور کسی مدعی کے مقابلہ میں نظر نہیں آتی۔ بہائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شریعت کو منسوخ قرا ر دیتے ہیں۔ لیکن ایک مسلمان کہلانے والا ایک بہائی کی باہوں میں باہیں ڈالتا ہے اور کہتا ہے چھوڑو اِن باتوں کو تم بھی سچے اور ہم بھی سچے، چلو دونوں مل کر احمدیت کا مقابلہ کریں۔ بہائیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کے دل میں کوئی جوش پید انہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی وجہ سے کوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ ہے تو احمدیت کی وجہ سے ہے۔
تو جس طرح بارش کا پانی گرنے سے ہر قسم کی روئیدگی پیدا ہوتی ہے اسی طرح روحانی بارش کے وقت کفر بھی بیدار ہو جاتا ہے اور ایمان بھی تر وتازہ ہو جاتا ہے۔ ادھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد سے ایک جماعت قائم ہوئی۔ وہ جماعت کہ اس کے اندر اخلاص اور تقویٰ پایا جاتا ہے اور اس کے ایمان کے اندر ایک بیداری اور بلندی کی امنگ پائی جاتی ہے۔ خواہ وہ اس درجہ تک نہ ہو جس کی امید کی جاتی ہے، خواہ وہ ابھی تربیت کی محتاج ہو۔ مگر ایک لُولہ لنگڑا اور کمزو رآدمی اگر صحیح راستہ پر جا رہا ہو تو ہر دیکھنے والا یہی کہے گا کہ ہے تو یہ لنگڑا پر چلتا ٹھیک راستہ پر ہے۔ آخر یہ ایک دن اپنی منزل پر پہنچ ہی جائے گا۔ اسی طرح ہماری جماعت کے متعلق خدائی قانون کے مطابق دیکھ کر ہرشخص یہی کہے گا کہ خواہ یہ جماعت سُست ہو یا چُست ہو، کمزور ہو یا طاقتور ہو مگر چلتی ٹھیک راستہ پر ہے۔ ایک دن آخر اپنی منزل پر پہنچ ہی جائے گی۔ تو ادھر آپ کی آمد سے اس قسم کی ایک جماعت قائم ہوئی اور اُدھر آپ کے آنے سے کفر میں بھی بیداری پیدا ہو گئی۔ یہ دونوں قسم کی جماعتیں ہیں اور دونوں اپنے اندر بیداری اور اُبھار پیدا کر رہی ہیں۔ جس طرح تلخ بُوٹیاں جو آپ ہی آپ اُگ آتی ہیں وہ اپنا جوش اور ابھار دکھا رہی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے بھی امید رکھتا ہے کہ ان تلخ بُوٹیوں کےمقابل میں اُسی طرح بلکہ اس سے زیادہ اپنا ابھار دکھائے اور اپنی روئیدگی کو ظاہر کرے۔ دنیا ساری کی ساری اپنا ابھار اور اپنا جوش دکھانا چاہتی ہے اور اپنے حسن اور اپنی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ گویا شیطان اپنی پوری زینت کے ساتھ ظاہر ہو اہے تاکہ وہ لوگوں کو خد اکے دین سے موڑے۔ تو اس کے بالمقابل خدا کے بیٹوں کا بھی یہ کام ہے٭ کہ وہ اپنے اندرونی اور روحانی حسن کو ظاہر کرنے کی اس رنگ میں کوشش کریں کہ شیطان کا حسن ماند پڑ جائے۔ اور اس کی خرابی تمام دنیا کو نظر آجائے، ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا اپنے کاموں میں اس قدر چستی سے آگے بڑھ رہی ہے کہ اس کے مقابلہ میں پچھلے کام ہیچ نظر آتے ہیں۔ مجھےحیرت آتی ہے اور میں جرمن قوم کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا خواہ وہ ہمارے دشمن ہیں، خواہ ہمیں ان کے ساتھ اختلاف ہے مگر جب میں جرمن فوجوں کی قربانی کو دیکھتا ہوں تو میں ان کی بہادری کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ چھ سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں۔ چھ سال سے ان لوگوں نے نہ تو آرام کیاہے اور نہ پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے۔ رات اور دن لڑتے رہے ہیں۔ بعض دن تو ایسے آئے ہیں اور روسیوں نے بھی ان کی بہادری کو تسلیم کیا ہے کہ سٹالن گراڈ سے ہٹتے وقت لاکھوں کی جرمن فوج متواتر سات دن تک لڑتی رہی اور اس نے آرام نہیں کیا۔ سارا دن لڑتے اور رات کو پیچھے ہٹتے۔ ساتویں دن جا کر اس فوج کو آرام کرنے کا موقع ملا۔ اور وہ جگہ اتنی تنگ تھی کہ سپاہیوں نے کھڑے کھڑے ایک دوسرے سے ٹیک لگا کر آرام کیا۔ یہ کتنی ہمت اور کتنی بہادری ہے۔ لیکن یہ ہمت ہمارے آدمیوں میں ابھی کہاں ہے۔ حالانکہ اگر ہم نے ان سب کا مقابلہ کرنا ہے تو ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ ہم اِس زمانے کے حالات کو دیکھیں اور سمجھیں کہ کفر کی بُوٹیوں نے اس پانی سے کتنا فائدہ اٹھایا ہے۔
کیا یہ شرم کا مقام نہیں کہ ایمان کے درخت تو اس پانی سے فائدہ نہ اٹھائیں حالانکہ یہ پانی ان کے لئے اتارا گیا تھا۔ مگر کفر کی بُوٹیاں اس سے فائدہ اٹھائیں۔ جب باغ کو پانی دیا جاتا ہے تو اس کا مقصد یہی ہوتاہے کہ باغ کے درختوں کو سیراب کیا جائے لیکن یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اس پانی سے باغ کے کناروں کا گھاس تو اُگ آئے اور اس میں روئیدگی پیدا ہو جائے لیکن باغ کا درخت سُوکھ جائے۔ حالانکہ وہ پانی کنارے کے گھاس کو نہیں دیا گیا تھا بلکہ ان درختوں کو دیا گیا تھا جو اس باغ کے درمیان میں ہیں۔پس اللہ تعالیٰ نے یہ روحانی بارش اس لئے بھیجی ہے کہ مومن اپنے ایمان کو مضبوط کریں۔ اور اپنے اندر ترو تازگی اور جوش اور نئی زندگی پیدا کریں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جن کے لئے یہ پانی نہیں اتارا گیا وہ گھاس پھونس تو اِس پانی سے فائدہ اٹھا کر سرسبز و شاداب ہو رہا ہے لیکن باغ کے وہ درخت جن کے لئےیہ پانی اتارا گیا تھا وہ ابھی اس بات کے محتاج ہیں کہ ان کےا ندر بیداری اور ہوشیاری پیدا کی جائے۔
پس میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ وقت کو پہچاننے اور ضرورتِ زمانہ کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ ایک نئی دنیا پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس کام کے لئے پہلا موقع اُس نے ہم کو دیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پہلے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے آسانیاں ہیں۔ مگر خداتعالیٰ کے ساتھ ہمارا معاہدہ نہیں کہ ہم اس کے ساتھ اپنے عہد کو توڑتے چلے جائیں اور پھر بھی یہ کام وہ ہمارے ذریعہ سے ہی کرائے۔ یہ تو اس کا احسان اور اس کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ اس نے ہم کو موقع دے دیا ہے۔ اب ہماری شرافت ہو گی، ہماری ایمانداری ہو گی ، ہماری دیانت ہو گی اور ہماری ہوشیاری ہو گی اگر ہم اس انعام سے فائدہ اٹھا کر خداتعالیٰ کی برکتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں اپنی عادات اور اپنے افعال کی نگرانی کرنا چاہیے۔ ہمارا سونا ضرورت سے زیادہ نہ ہو۔ ہمارا کھانا ضرورت سے زیادہ نہ ہو۔ جب تک ہر چیز اس طرح ہمارے قابو میں نہ ہو اور ہمارے زائد اوقات، ہماری عقل اور ہمارا علم خدا اور اس کے دین کی خاطر صَرف نہ ہو اُس وقت تک ہماری مثال اُس برتن کی ہو گی جو ٹوٹا ہوا ہو اور جب اس میں پانی بھرا جائے تو وہ پانی دوسرے سوراخ کے رستہ نکل جائے۔ پس ٹوٹا ہوا برتن کسی کام نہیں آتا اور میلا شیشہ کوئی اپنے پاس نہیں رکھتا۔
میں جب بچہ تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تقریر کر رہا ہوں اور میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے اور میں کہتا ہوں کہ دیکھو انسان کا دل خدا کے سامنے آئینہ کی مانند ہے۔ جس طرح انسان اپنا حسن آئینہ میں دیکھتا ہے اسی طرح خدا بھی اپنے حسن کو اور اپنی صفات کو انسان کے قلب میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لئے اگر انسان کا دل خدا تعالیٰ کی صفات کو اعلیٰ درجہ کا ظاہر کرنے والا ہو تو خداتعالیٰ اُس کو قیمتی قرار دیتا ہے اور اسے اپنے پاس رکھتا ہے۔ لیکن اگر انسان کا قلب داغدار اور میلا ہو اور شفاف نہ ہو اور اس میں سے خدا تعالیٰ کا چہرہ غلط نظر آتا ہو تو اتنا کہہ کر میں نے رؤیا میں اس آئینہ کو جو میرے ہاتھ میں تھا زور سے زمین پر دے مارا اور کہا کہ ایسے دل کو خداتعالیٰ بھی اٹھا کر اِسی طرح دے مارتا ہے۔ تو انسان کو اور خصوصاً انبیاء کے زمانہ کے انسان کو خداتعالیٰ نے چُنا تو ہے مگر اس لئے کہ وہ خداتعالیٰ کا چہرہ دکھائے اور اس کے ذریعہ خداتعالیٰ کی صفات کا ظہورہو۔ پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ رب ہو، وہ رحمٰن ہو، وہ رحیم ہو، وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہو،2 وہ مُحیٖ ہو، وہ مُمِیت ہو وہ رزّاق ہو، وہ جبّار ہو، وہ علیم ہو، وہ شکور ہو، وہ ستّار ہو، وہ غفّار ہو، اور وہ رشید و حمید ہو۔ غرض خداتعالیٰ کی ساری کی ساری صفات کو ظاہر کرنے والا ہو جن کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ننانوے ہیں مگر ہیں اس سے بھی زیادہ۔ وہ ساری کی ساری صفات مومن اپنے اندر دکھائے اور ان کو صحیح طور پر استعمال کرے اور ان سے اچھے پھل پھول پیدا کرے۔ تبھی یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اُس مقصد کو پورا کرنے والاہے جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا اور اس مقصد کو پورا کرنے والا نہیں تو وہ ایسا آئینہ ہے جو میلا ہے اور جو شفاف نہیں اور اس میں سے خدا تعالیٰ کا چہرہ نظر نہیں آتا۔ خداتعالیٰ ایسے آئینہ کو توڑ دے گا۔ کیا ہی بدقسمت ہے وہ آئینہ جو پہلے خدا کے ہاتھ میں اور خدا کی آنکھوں کے سامنے اس کے حسن کو ظاہر کرنے کے لئے آیا مگر جب میلا ہونے کی وجہ سے وہ خدا کے حسن کو ظاہر نہ کر سکا تو بعد میں خدا کے حکم کے مطابق اُسے توڑ دیا گیا۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ 3یعنی ان کو کہہ دے کہ اے لوگو! اگر تم اس مقصد کو پورا نہیں کرتے جس کے لئے تم پیدا کئے گئے ہو تو خداتعالیٰ کو تمہاری کیا پرواہ ہے۔ اگر تم اس بچہ کی طرح جو ماں کی طرف دَوڑ کر جاتا ہے میری طرف دَوڑ کر آنے والے نہیں۔ اگر تم میرے حضور اپنی اصلاح کے لئے نہیں آتے تو پھر میں بھی تمہاری کوئی پروا نہیں کرتا۔ اُس وقت انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ یعنی دوزخ کے اس مقام میں جا گرتا ہے جس کے نیچے اور کوئی مقام نہیں۔
پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر بیداری پیدا کریں اور اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنے آپ کو ایسا بدقسمت نہ بنائیں کہ جو بارش خداتعالیٰ نے ان کے لئے نازل کی ہے کافر تو اس سے فائدہ اٹھائیں او ر وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائیں۔ خداتعالیٰ نے دنیا کا مستقبل ان ہی کے ہاتھ میں دے دیا ہے؟ اگر وہ خداتعالیٰ کے وعدوں پر قائم رہے اورانہوں نےاپنے عہد کو نباہا تو جس طرح آج لوگ ابراہیم ؑ اور موسیٰؑ اور دوسرے نبیوں کی جماعتوں کو یاد کرتے ہیں اسی طرح آنے والی نسلیں انہیں بھی یاد کریں گی اور خواہش کریں گی کہ کاش! اُس وقت ہم بھی ہوتے اور مل کر دین کی خدمت کرتے۔ لیکن جو صحیح طور پر دین کی خدمت نہیں کرتا اور اپنے اوقات اور اپنی طاقتوں کو صحیح طور پر استعمال نہیں کرتا اُس کا نام اسی طرح لیا جائے گا جس طرح اُبی بن سلول کا نام لیا جاتاہے۔ آج ہر شخص کراہت سے اس کا نام لیتا ہے اور حیران ہوتا ہے کہ یہ بھی کیا شخص تھا کہ خداتعالیٰ نے اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب عطا کیا اور پھر بھی یہ ایمان سے محروم رہا اور خداتعالیٰ کی نعمت اسے نصیب نہ ہوئی۔ اور وہ ایک ایسی بُوٹی ثابت ہوا جو ایک اچھے باغ میں پیدا ہوئی مگر اس نے تلخ اور بدمزہ پھل دیا۔ پس تم اپنے آپ کو شکور بناؤ اور اپنے علوم اور اپنے اوقات کو ضائع کرنے کی بجائے ان کو دین کے لئے صَرف کرو تا کہ خدا بھی تم سے خوش ہو اور خداتعالیٰ کے بندے بھی دعاؤں کے ساتھ تمہیں یاد کریں۔’’ (الفضل مورخہ 2مارچ 1945ء)
1: وَ فِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَيْرُ صِنْوَانٍ
يُّسْقٰى بِمَآءٍ وَّاحِدٍ١۫ وَ نُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰى بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ
يَّعْقِلُوْنَ۔ (الرعد:5)
2: الفاتحۃ:4
3: الفرقان:78

9
جماعت احمدیہ لاہور کو بہت زیادہ ترقی اور حرکت کی ضرورت ہے
(فرمودہ 2 مارچ 1945ء بمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘پچھلے دنوں میں نے اخباروں میں پڑھا تھا کہ لاہور کی آبادی جس کے لئے راشن مہیا کرنے کی ذمہ د اری گورنمنٹ نے اٹھائی ہے نو لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ پڑھ کر جہاں میں نے پنجابی لوگوں کے ترقی کے جذبہ کی تعریف کی وہاں میرے دل میں یہ احساس اور تکلیف دہ احساس بھی پیدا ہؤا کہ جس نسبت سے لاہور کی آبادی بڑھی ہے اُس نسبت سے یہاں کی احمدی جماعت نہیں بڑھی۔ پہلے میں یہ خیال کرکے اپنے ذہن میں خوش تھا کہ لاہور کی آبادی تو وہیں چار پانچ لاکھ پر کھڑی ہے اور ہماری جماعت بڑھ رہی ہے۔ لیکن جب لاہور کی آبادی چار پانچ لاکھ سے بڑھ کر نو لاکھ تک ہو گئی ہے تو ہماری لاہور کی جماعت کی ترقی تبھی تسلی بخش ہو سکتی تھی کہ یہاں کی جماعت چار ہزار سے بڑھ کر دس ہزار ہو جاتی۔ گو لاہور کی جماعت نے ترقی کی ہے۔ اولاد کے ذریعہ بھی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور کچھ نئے آدمی بھی جماعت میں داخل ہوئے ہیں۔ مگر پھر بھی اس نسبت سے ترقی نہیں کی جس سے لاہور کی آبادی بڑھی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ متمدن ملک کے رہنے والے دنیا دار لوگوں کی توجہ زیادہ تر شہروں کی طرف ہوتی ہے۔ جس ملک کی صنعت و حرفت ترقی کرتی ہے اس ملک کے شہر بھی بڑے ہوتے ہیں۔ کیونکہ صنعت و حرفت کی ترقی کا اصل مقام شہر ہی ہوتے ہیں۔ کیا بلحاظ اس کے کہ کارخانوں وغیرہ کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ مزدور شہروں میں رہ سکتے ہیں اور کیا بلحاظ اس کے کہ شہروں میں بوجہ کمپنیوں کے مرکز ہونے کے مشینیں اور صنعت و حرفت کے دوسرے سامان آسانی سے میسر آجاتے ہیں۔ اور کیا بلحاظ اس کے کہ روپیہ کمانے والےلوگ جن کےدل میں خدا کا خوف نہیں ہوتا ایسی جگہوں میں رہنا پسند کرتے ہیں جہاں کھانے پینے اور پہننے کے سامانوں کے علاوہ سینما (Cinema)تھیٹر(Theatre) اور سرکس(Circus) وغیرہ کا انتظام ہو۔ وہ کہتے ہیں روپیہ کمانے کی غرض تو یہ ہے کہ انسان عیش اور راحت سے زندگی بسر کرسکے۔ اگر روپیہ کے بدلہ میں راحت اور عیش میسر نہیں ہو سکتا تو روپیہ کمانے سے کیا فائدہ۔
پس ریلوں کی سہولتوں کی وجہ سے اور کارخانوں کی وجہ سے اور رہائش اور دوسرے سامانوں کے میسر آنے کی وجہ سے اور پھر بینکوں کی وجہ سے صنعت جب شہروں میں پھیلتی ہے تو اردگرد کے علاقہ کے لوگ شہروں کی طرف دوڑتے ہیں۔ لیکن ہماری جماعت کے لوگ بجائے اِدھر اُدھر جانے کے قادیان کی طرف دوڑتے ہیں۔ اس لئے جہاں تک امیگریشن (Immigration) یعنی نقل مکانی کا سوال ہے ہماری جماعت کو دوسری اقوام کے ساتھ مشابہت نہیں۔ دوسرے لوگ خالص طور پر بڑے بڑے شہروں کی طرف خصوصًا دارالحکومت کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں کیونکہ بینکوں کی وجہ سے اور سرکاری امداد میسر ہوسکنے کی وجہ سے جو سہولتیں وہاں حاصل ہوتی ہیں دوسرے چھوٹے شہروں میں اتنی سہولتیں صنعتی اور تجارتی ترقی کی حاصل نہیں ہوتیں۔ مگر جماعت احمدیہ کا بیشتر حصہ جب اپنے علاقہ کو چھوڑنا چاہتا ہے تو بجائے دوسرے شہروں کی طرف جانے کے وہ قادیان کی طرف دوڑتا ہے۔ لیکن قادیان کی آبادی کی ترقی اور لاہور کی جماعت کی معمولی ترقی کو ملا کر بھی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ باوجود قادیان کی طرف میلان ہونے کے لاہور کی جماعت میں ایسی حرکت پیدا نہیں ہوئی جس کی قومی ترقی کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔
میں جب ایک مذہبی تقریب پر انگلستان گیا تو راستہ میں فسلطین، شام اور لبنان کو بھی دیکھا۔ لبنان جانا تو خیال ہی تھا کیونکہ لبنان میں داخل ہونے سے پہلے میں شدید بیمار ہو گیا تھا اور اسی حالت میں تھا جبکہ لبنان کو چھوڑا۔ اس لئے لبنان کو میر ادیکھنا نہ دیکھنے کے برابر تھا۔ لیکن فلسطین اور شام کو میں نے دیکھا۔ فلسطین میں یہودیوں کی اصل آبادی تو دو تین فیصدی تھی۔ مگر نقل مکانی کی وجہ سے جس کی غرض یہ ہے کہ چاروں طرف سے یہودیوں کو جمع کر کے لایا جائے اور ان کے آبائی وطن میں ان کو آباد کیا جائے اس کی وجہ سے دو تین فیصدی سے فلسطین میں یہودیوں کی آبادی دس فیصدی ہو گئی۔ اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی کچھ تو یہودیوں کے کثرت سے آجانے سے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ طبقہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا ایسا بھی تھا جو فلسطین کے جھگڑے سے ڈر کر شام یا دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہو گیا تھا اس لئے یہودیوں کی آبادی دس فیصدی ہو گئی اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی نوے فیصدی رہ گئی تھی۔ بہرحال عیسائی اور مسلمان جو اُس وقت متحد تھے اور آج تک بھی متحد ہیں ٭فلسطین میں ان دونوں کی آبادی نوے فیصدی تھی اور یہودیوں کی آبادی دس فیصدی تھی۔
قوموں کی حرکت دیکھنے کا ذریعہ اسٹیشن ہوتے ہیں۔ جہاں پر لوگ آنے جانے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ اورجہاں پر پتہ لگ جاتا ہے کہ قوم کے اندر کیسی حرکت پائی جاتی ہے۔ تجارتیں کرنے والوں کو اِدھر اُدھر آنا جانا پڑتا ہے۔ ملازمتوں والے بھی اِدھر اُدھر دورے کرتے ہیں۔ صنعت و حرفت والوں کو بھی اپنے کام کے لئے دورے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے اسٹیشنوں اور ریلوں کے ذریعہ پتہ لگ جاتا ہے کہ کسی قوم میں آبادی کے لحاظ سے حرکت پائی جاتی ہے یا نہیں۔ فلسطین کے ریلوے اسٹیشنوں پر مجھے اس بات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور میں نے آبادی کے لحاظ سے دس فیصدی یہودیوں کو اسٹیشنوں پر نوے فیصدی کی تعداد میں دیکھا۔ اور آبادی کے لحاظ سے نوے فیصدی مسلمان اور عیسائی اسٹیشنوں پر دس فیصدی نظر آئے۔ یہ کوئی معمولی فرق نہیں بلکہ ایسا فرق ہے کہ شاید خطۂ زمین پر اور کسی جگہ نظر نہیں آسکتا۔
٭یہ عجیب بات ہے کہ باقی تمام دنیا میں یہودی اور عیسائی مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنے آپ کو ایک سمجھتے ہیں۔ لیکن فلسطین کے عیسائی کُلّی طور پر مسلمانوں کے ساتھ اس بات میں متفق ہیں۔ اور وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہودیوں کو یہاں آباد نہ ہونے دیا جائے۔
پس قوموں میں حرکت بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں سفر کرنے اور سیر فی الارض کا بار بار ذکر آتا ہے۔ بعض مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید نے خالی سیر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ پہاڑوں، دریاؤں اور سمندروں کی سیر کیا کرو۔ رات کے وقت آسمان پر نظر ڈال کر ستارے دیکھ لیا کرو۔ اس سے زیادہ قرآن مجید کا اور کوئی مطلب نہیں۔ اور یہ سمجھنے والے بھی صرف ایک فیصدی ہیں باقی ننانوے فیصدی ایسے ہیں جو یہ بھی نہیں جانتے کہ قرآن مجید میں لکھا کیا ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ آسمان کو دیکھنے اور ستاروں پر غور کرنے کا ذکر آتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ پہاڑوں کو دیکھنے اور دریاؤں اور سمندروں کو دیکھنے اور ان پر غور کرنے کا ذکرآتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ اس بات کا ذکر آتا ہے کہ جاؤ اور دنیا میں پھر کر دنیا کے حالات کا مطالعہ کرو۔ مگر مسلمانوں میں کتنے ہیں جنہوں نے کبھی آسمان پر اور ستاروں پر غور کیا ہے؟ ہزار میں سے ایک بھی نہیں بلکہ لاکھ میں سے ایک بھی نہیں۔ کتنے ہیں جنہوں نےپہاڑوں اور دریاؤں اور سمندروں پر کبھی غور کیا ہے؟ کتنے ہیں جنہوں نے دنیا میں پھر کر دنیا کے حالات کا مطالعہ کیا ہے؟ قرآ ن مجید میں اِس قسم کی آیات پڑھ کر اکثر مسلمان تو یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں یہ باتیں محض حُسنِ کلام کے طور پر ہیں۔ اس سے زیادہ اس کا اور کوئی مطلب نہیں۔ جس طرح غالب کے کلام میں یا ذوق کے کلام میں یا سودا کے کلام میں یا میرتقی کے کلام میں بعض باتیں محض تزئینِ کلام کے طور پر ہیں اور اس سے زیادہ اُن کی اور کوئی غرض نہیں اسی طرح اللہ میاں نے بھی قرآن مجید میں اِس قسم کی باتیں کہ جاؤاور پہاڑوں کو دیکھو، جاؤ اور دریاؤں اور سمندروں کی سیر کرو اور ان پر غور کرو، آسمان اور آسمان کے ستاروں پر غور کرو محض کلام کو مزیدار بنانے کے لئے بیان کر دی ہیں ورنہ خدا کا یہ منشاء نہیں کہ آسمان اور آسمان کے ستاروں پر سچ مچ غور کیا جائے۔ یا پہاڑوں اور دریاؤں اور سمندروں پر غور کرو۔ پس جب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی باتیں محض حُسنِ کلام کے طور پر بیان کی گئی ہیں اس سے زیادہ اس کی اور کوئی غرض نہیں تو انہوں نے ان باتوں پر عمل کیا کرنا ہے۔ اور جب انہوں نے عمل نہیں کرنا تو قرآ ن کریم کی تعلیم سے انہوں نے فائدہ کیا اٹھانا ہے۔
تھوڑے دن ہوئے میں نے ایک فرانسیسی شخص کے لکھے ہوئے مضمون کا ایک اقتباس پڑھا۔ یہ شخص جہازوں کا افسر ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میری ساری عمر جہازوں میں گزری۔ مجھے قرآن مجید دیکھنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ایک دن اتفاقاً سفر میں مجھے ایک شخص ملا جس کےپاس فرانسیسی یا ڈچ زبان میں قرآن مجید کی ایک کاپی تھی۔ اُسے لے کر میں نے کھولا تو اس میں سے پہلی جگہ جس پر میری نظر پڑی وہ یہ تھی کہ کافر کی زندگی ایسی ہوتی ہے جیسے رات کی تاریکی میں کوئی شخص سمندر میں سفر کر رہا ہو۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہوں اور سخت تاریکی ہو۔ گہرے سمندر میں ایک لہر کے بعد دوسری لہر اُٹھ رہی ہو اور بچاؤ کا کوئی سامان نظر نہ آتا ہو۔ بالکل یہی حالت کافرکی ہوتی ہے۔ وہ شخص لکھتا ہے کہ میں نے اسے بہت پسند کیا اور میں نے کہا کہ کسی اچھے تجربہ کار بحری نے نہایت عمدگی سے سمندر کے خطرات کو تھوڑے سے تھوڑے الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد جب مجھے معلوم ہوا کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو سمندر کا سفر کرنے کا موقع ملنا تو الگ رہا آپ نے کبھی کسی چھوٹی کشتی میں بھی پاؤں نہ رکھا تو پھر میں نے کہا کہ یہ بات کہنے والی کوئی اَور ذات ہے۔ یعنی خدا جو سمندروں کے رازوں سے بھی واقف ہے اور میں نے اسلام کا مزید مطالعہ کیا اور میں مسلمان ہو گیا۔
پس یہ خیال کرنا جیسا کہ بعض مسلمان سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں اس قسم کی باتیں محض شاعرانہ رنگ میں حُسنِ کلام کے طور پر بیان کی گئی ہیں کہ پہاڑوں کو دیکھو، سمندروں اور دریاؤں کو دیکھو اور آسمان کے ستاروں کو دیکھو بالکل غلط ہے۔ قرآن مجید میں اس قسم کی باتیں محض حُسنِ کلام کے طور پر بیان نہیں کی گئیں بلکہ دنیا کی ہر ایک چیز کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ان کو دیکھو اور ان پر غور کرو۔ اور ان سے سبق حاصل کرو۔ مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو ان باتوں پر غور کرتے ہیں؟ بہت کم لوگ ہیں جو ان باتوں پر غور کرتے ہیں اکثر لوگ کنویں کے مینڈک کی طرح اپنے ماحول سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اگر کوئی چیز انگشتانہ1 میں رہ سکے۔ تو وہ اس انگشتانہ میں رہنے والی چیز ہیں۔ قرآن مجید ہمیں کسی ایک چیز پر بس نہیں کراتا بلکہ وہ ہمیں دنیا کے سارے علوم کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ میرے پاس بعض آدمی آتے ہیں اور باتیں سننے کے بعد وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ اچھا صاحب آپ نے یہ علم کہاں سے پڑھا ہے؟ جب میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ میں نے سب کچھ قرآن مجید سے پڑھا ہے تو وہ حیران ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میں نے جھوٹ بولا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اُس سے زیادہ نادان دنیا میں اور کوئی نہیں ہو سکتا جس کو یہ بھی پتہ نہیں کہ قرآن مجید میں دنیا کے سارے علوم پائے جاتے ہیں۔ اور جس طرح پودوں میں خداتعالیٰ نے یہ طاقت رکھی ہے کہ وہ سورج کی روشنی میں سے کیمیائی مادے کھینچ لیتے ہیں جن سے ان کی نشو و نما ہوتی رہتی ہے اور آپ ہی آپ بڑھتے رہتے ہیں اِسی طرح قرآن مجید کے علوم میں بھی خداتعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ اس کو پڑھ کر انسان دنیا کا ہر علم حاصل کر سکتا ہے۔
لاہور میں ایک دفعہ میرے پاس ایک عورت آئی وہ ایم اے میں فلاسفی پڑھتی تھی۔ مرد تو اس قسم کے بیہودہ سوال بہت کم کرتے ہیں مگر عورتیں ایسے سوال کر لیا کرتی ہیں۔ کم از کم مجھ سے سوائے ایک شخص کے کبھی کسی مرد نے ایسا سوال نہیں کیا۔ مگر اس عورت نے چُھوٹتے ہی مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ میں دین کی خدمت کرتا ہوں۔ کہنے لگی آپ کی تعلیم کہاں تک ہے؟ میں نے کہا میں تو پرائمری فیل ہوں۔ پھر اور باتیں شروع ہوئیں۔ میں اُس پر کوئی سوال کرتا جب وہ اُس کا جواب دیتی تو میں اُس پر جرح کرتا۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگی۔ کیا آپ انگلستان اور امریکہ رہے ہیں؟ میں نے کہا میں صرف دو ماہ کے لئے انگلستان گیا تھا اور امریکہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ پھر اَور باتیں شروع ہوئیں۔ پھر شاید اُسے یاد آگیا کہ باہر اس نے شیخ بشیر احمد صاحب کا بورڈ دیکھا تھا۔ اس پر کہنے لگی اچھا آپ ایڈووکیٹ ہیں؟ میں نے کہا میں کچھ بھی نہیں میں تو صرف قرآن مجید پڑھا ہؤا ہوں۔
پس حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہر سچائی موجود ہے۔ اگر ہم قرآن مجید پر غور اور تدبر کریں تو کوئی ایسی ضرورت نہیں جو قرآن مجید میں پوری نہ ہوتی ہو۔ اگر ہم دنیوی علوم کے لحاظ سے جاہل مطلق بھی ہوں تب بھی قرآن مجید پر غور کرنے کےبعد اتنا علم ہمیں ضرور حاصل ہو جائے گا کہ ہم کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہوں گے۔ اور اگر ہم قرآن مجید پر غور اور تدبر کرنے کےعادی ہوں گے تو ہم اس کے علوم سے فائدہ اٹھائیں گے۔ مگر جیساکہ میں نے بتایا ہے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں جو اس قسم کی باتیں بیان کی گئی ہیں کہ دنیا میں پھرو اور دنیا کے حالات کا مطالعہ کرو اور دریاؤں اور سمندروں اور پہاڑوں پر غور کرو یہ باتیں محض کلام کو زور دار بنانے کے لئے بیان کی گئی ہیں اس سے زیادہ ان کی اور کوئی غرض نہیں۔ حالانکہ قرآن مجید نے ان باتوں کو یونہی بیان نہیں کیا بلکہ قرآن مجید ہر مسلمان کو وہی پوزیشن دیتا ہے جو آجکل مسٹر چرچل یا روز ویلٹ یا سٹالن کی ہے۔ اور فرماتا ہے کہ تم دنیا کی قوموں کی کامیابی پر نگاہ ڈالو اور غور کرو کہ ان کو وہ کامیابیاں کس طرح حاصل ہوئیں۔ اور جو قومیں دنیا میں گری ہیں ان کے گرنے کی وجوہ تلاش کرو اور سوچو کہ ان کے تنزل کے کیا اسباب تھے۔ جن قوموں نے ترقی حاصل کی ہے ان کو کون کونسی سہولتیں میسر تھیں جن کی وجہ سے انہوں نے ترقی کی۔ تم بھی وہ سہولتیں اور وہ سامان مہیا کرنے کی کوشش کرو۔ اور جو قومیں گر گئی ہیں ان کےگر جانے کے کیا اسباب تھے۔ اور کونسی خرابیاں تھیں جن کی وجہ سے ان کا تنزل ہوا۔ تم ان باتوں سے بچنے کی کوشش کرو۔ اسی طرح قرآن مجید علمِ جغرافیہ اور علم ِہیئت کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ تم زمین و آسمان کو دیکھو اور ان پر غور کرو۔ ستاروں کو دیکھو اور ان پر غور کرو۔ تمہیں ان کے پیچھے اَور بہت سارے جہان نظر آئیں گے۔ یہ وہ چیز ہے جو قرآن مجید ہمیں سکھاتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر ایک چیز پر زیادہ سے زیادہ غور کرو۔ اِدھر تو قران مجید یہ کہتا ہے کہ لغو چیزوں سے پرہیز کرو اور اُدھر فرماتا ہے کہ آسمان اور ستاروں کو دیکھا کرو۔ اِس سے صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ آسمان اور ستاروں پر غور کرنا لغو نہیں بلکہ ان پر غور کرنے سے بہت سے علوم کھلتے ہیں۔ اِسی طرح اِدھر تو قرآن مجید فرماتا ہے کہ لغو کاموں سے پرہیز کرو اور اُدھر یہ فرماتا ہے کہ کھنڈرات کو دیکھو۔ تو صاف معلوم ہوا کہ کھنڈرات کو دیکھنا لغو نہیں بلکہ اس سے سبق حاصل ہوتا ہے اور معلومات وسیع ہوتے ہیں۔ اسی طرح اِدھر تو قرآن مجید یہ فرماتا ہے کہ لغو کاموں سے پرہیز کرو اور اُدھر فرماتا ہے کہ گزشتہ لوگوں کی تاریخوں پر غور کرو۔ اِدھر فرماتا ہے لغو کاموں سے پرہیز کرو اور اُدھر فرماتا ہے کہ قوموں کی ترقی اور تنزل کے اسباب پر غور کرو۔ تو معلوم ہؤا کہ یہ ساری باتیں جن کے دیکھنے اور جن پر غور کرنے کا قرآن مجید نے حکم دیا ہے یہ لغو نہیں بلکہ ان کو دیکھنا اور ان پر غور کرنا ضروری ہے۔
بعض لوگ جہالت کے جوش میں آکر کہہ دیا کرتے ہیں کہ سیاحت کرنا لغو اور بے ہودہ ہے حالانکہ قرآن مجید نے ایک طرف لغو کاموں سے اِعراض کرنے کا حکم دیا ہے اور دوسری طرف یہ فرمایا ہے کہ دنیا میں چلو، پھرو اور دنیا کے حالات کو دیکھو۔ تو صاف معلوم ہوگیا کہ قرآن مجید ہر کام کی حد بندی کرتا ہے۔ وہی چیز جو اپنے دائرہ کے اندر مفید ہوتی ہے اپنے دائرہ سے باہر لغو ہو جاتی ہے۔کیا اس صورت میں دین کا علم حاصل کرنا بھی لغونہیں بن جاتا جب مولوی ساٹھ ساٹھ سال تک اپنی عمر پڑھنے میں گزار دیتے ہیں؟ جب میں عربی مدارس کا دورہ کرتے ہوئے رام پور گیا تو وہاں میں نے ایک افغانی طالب علم کو دیکھا جس کی عمر پچاس پچپن سال کی تھی اور بال سفید ہو رہے تھے۔ وہ بیٹھا بخاری پڑھ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا آپ کیوں پڑھ رہے ہیں؟ اُس وقت تو سب کے سامنے اُس نے یہی جواب دیا کہ علم کو علم کی خاطر حاصل کرنا نیکی ہے لیکن میں بھی سمجھتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اور وہ بھی جانتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ جب ہم وہاں سے باہر آئے تو وہ بھی ہمارے پیچھے باہر آگیا اورباہر آکر کہنے لگا کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ علم جو ہم پڑھ رہے ہیں اِس کا دنیا میں کیا فائدہ ہے۔ اسے پڑھ کر کونسی نوکری مل جانی ہے۔ مجھے پڑھائی ختم کئے تو پندرہ بیس سال ہو گئے ہیں لیکن میں ہر سال عمدًا فیل ہو جاتا ہوں کیونکہ میں اس انتظار میں ہوں کہ یہاں کے بڑے مدرِّس صاحب فوت ہوں۔ جب وہ فوت ہو جائیں گے تو مَیں بھی پاس ہو جاؤں گا اور مجھے ان کی جگہ نوکری مل جائے گی۔ اب اس زندگی کا کیا فائدہ؟ بظاہر وہ دین کی کتابیں پڑھتا تھا، بخاری پڑھتا تھا ،فقہ کی کتابیں پڑھتا تھا لیکن وہ یہ ساری کتابیں محض اس لئے پڑھتا تھا کہ اُس کا وقت کسی کام میں لگا رہے اور انتظار کرنا اُس پر شاق نہ گزرے۔یہاں تک کہ استاد فوت ہو جائے اور اُس کی جگہ اُسے مل جائے۔ اب یہ کام ایسا ہی لغو تھا جیسا کہ سینما یا سرکس میں وقت گزارنا لغو ہے۔ بلکہ اس سے زیادہ لغو تھا کیونکہ ایک شخص سینما یا سرکس دیکھنے کے بعد آکر اَور کام شروع کر دیتا ہے مگر اس نے تو اپنی ساری عمر ہی سینما میں گزار دی۔ ساری عمر ہی سرکس میں گزار دی اور ساری عمر ہی عملی میدان میں قدم نہ رکھا۔ مرنے کے بعد جب خداتعالیٰ اس سے سوال کرے گا کہ تم نے دنیا میں کیا کام کیا؟ تو وہ سوائے اس کے اور کیا جواب دے گا کہ حضور! میں نے اپنی ساری عمر اس انتظار میں گزار دی کہ کب استاد مرے اور مجھے اس کی جگہ ملے۔
پس قرآ ن مجید نے عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ 2 کہہ کر ایک طرف یہ اشارہ فرمایا ہے کہ جس کام کا کوئی نتیجہ اور کوئی فائدہ نہ ہو وہ لغو ہے اُس سے مومن کو اعراض کرنا چاہیے اور دوسری طرف یہ ارشادفرمایا ہے کہ سمندروں اور دریاؤں کی سیر کرو، صحراؤں اور میدانوں کو دیکھو اور دنیا کے حالات پر غور کرو جس سے معلوم ہوا کہ یہ کام لغو نہیں بلکہ ان کو دیکھنے سے علوم حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں یہ ذکر آتا ہے کہ قافلے صحراؤں میں رستہ بھول جاتے ہیں اور صحرا میں چلتے چلتے انسان اپنے سامنے دیکھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ سامنے جھیل ہے اور چمکتا ہوا پانی اسے نظر آتا ہے مگرجب وہاں پہنچتا ہے تو اسے معلوم ہوتاہے کہ وہ جھیل نہیں بلکہ سفید ریت ہے۔ اور چمکتا ہوا پانی نہیں بلکہ سورج کی شعاعیں ہیں جو ریت کے اوپر تپ رہی تھیں۔ اور ایسے رنگ میں ریت پر روشنی ڈال رہی تھیں کہ دور سے دیکھنے والا اسے پانی سمجھتا تھا۔ ایسا ہی ان لوگوں کا حال ہوتا ہے جو جھوٹی دنیا اپنے دل میں بساتے ہیں اور جھوٹی امیدیں اور جھوٹی امنگیں اور جھوٹے مقاصد کو اپنے سامنے رکھ کر ان کو حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی عمر کا زمانہ ختم ہو جاتاہے اور ان کی امیدیں اور امنگیں سراب کی طرح ثابت ہوتی ہیں۔ جس طرح سراب کو دور سے پانی سمجھنے والا جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو پانی کی بجائے چمکتی ہوئی ریت پاتا ہے اسی طرح وہ شخص جو جھوٹی امیدوں اورجھوٹی امنگوں میں اپنی ساری عمر گزار دیتا ہے زندگی کے خاتمہ پر مایوسی کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔ اور ا س کی تمام امیدیں اسے سراب معلوم ہوتی ہیں جسے وہ پانی سمجھ رہا تھا۔ اب یہ نظارہ ایک لاہور میں رہنے والا کس طرح قیاس میں لا سکتا ہے جس نے کبھی سراب دیکھا ہی نہیں کہ کس طرح صحرا کی ریت دور سے شفاف پانی نظر آتی ہے جس کو دیکھ کر پیاسا آدمی اس کی طرف دوڑنے لگتا ہے۔ جب اس نے یہ نظارہ دیکھا ہی نہیں تو وہ قرآن مجید کے اس مضمون کو سمجھنے کی کوشش میں ناکام رہے گا اور خیال کرے گا کہ قرآن مجید کوئی ایسی بولی بول رہا ہے جسے میں نہیں سمجھ سکتا ۔اسی طرح قرآن مجید میں کافر کی زندگی کو جو سمندر کے طوفان سے مشابہت دی گئی ہے اس مثال کو وہ شخص کس طرح سمجھ سکتا ہے جس نے کبھی سمندر نہ دیکھا ہو کہ اس میں طوفان اٹھ رہا ہو، بجلیاں چمک رہی ہوں، سمندر کا پانی جہاز کے اوپر سے کُود کُود کر اسے اپنی گود میں لے رہا ہو۔ جہاز ڈوب جائے اور یہ شخص سمندر میں غوطے کھاتا ہوا بچنے کی کوشش کررہا ہو۔ لیکن نہ دائیں اور نہ بائیں، نہ آگے اور نہ پیچھے بچاؤ کا کوئی سامان نظر نہ آتا ہو۔ اس کے دائیں بھی پہاڑ کی سی ایک لہر اُٹھ رہی ہو اور بائیں بھی پہاڑ کی سی ایک لہر اٹھ رہی ہو۔ اس کے سامنے بھی پہاڑ کی سی ایک لہر اٹھ رہی ہو اور پیچھے بھی پہاڑ کی سی ایک لہر اٹھ رہی ہو۔ اور یہ سمجھ رہا ہو کہ اس کے ساتھیوں کو سمندر کھا گیا ہے اور ان میں سے کوئی باقی نہیں بچا۔ حالانکہ واقع یہ ہو کہ اس سے دس فٹ کے فاصلہ پر یہی جذبات اُس کے ساتھی کے دل میں پیدا ہو رہے ہوں گے اور اِن دونوں کو ایک دوسرے کا پتہ نہیں ہو گاکیونکہ ان کے درمیان پہاڑ کی سی ایک لہر حائل ہو گی۔ یہ تمام نظارے جب تک کسی شخص نے سمندر کا سفر نہ کیا ہو اُس وقت تک اس کے قیاس میں بھی نہیں آ سکتے۔ اِسی طرح بہت سے انسان آسمان کی طرف اِس طرح دیکھتے ہیں جس طرح مُقَیش 3 والے دوپٹہ کی طرف دیکھتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ آسمان ایک نیلی چادر ہے جس میں سفید سفید مُقَیش لگی ہوئی ہے اور وہ اس کی بیک گراؤنڈ (Background)پر نظر نہیں کرتے۔ اور اس احساس سے آسمان پر غور نہیں کرتے کہ اس کے پیچھے کیا ہے۔ اور غورنہیں کرتے کہ درحقیقت اَن گِنت میلوں وسیع علاقہ میں یہ ستارے پھیلے ہوئے ہیں اور آسمان میں اس طرح تیرتے پھرتے ہیں جس طرح ایک پھدڑ 4 ایک وسیع سمندر میں تیرتی پھرتی ہو۔ پس جب تک کوئی شخص ان تمام باتوں پر غور نہ کرے وہ خداتعالیٰ کی قدرتوں کا اندازہ کس طرح لگا سکتا ہے۔
آجکل کے مسلمانوں نے ان باتوں پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے لیکن اس زمانہ میں جب کہ نہ تاریں تھیں اور نہ ریلیں ایک مسلمان عرب سے اٹھتا تھا اور بغیر روپیہ اور بغیر سامانوں کے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھر جاتا تھا۔ ابن بطوطہ سپین سے چلا اور افریقہ کا دَورہ کرتاہوا مڈل اِیسٹ میں سے ہوتاہوا ایران آیا ۔ ایران سے افغانستان اور افغانستان سے ہندوستان اور ہندوستان سے پھر چین پہنچا اور پھر اپنے ملک واپس جا کر ایک کتاب لکھی اور اُس زمانہ کے حالات کا حیرت انگیز نقشہ کھینچا۔ گو بعض باتیں اس نے ایسی بھی لکھی ہیں کہ اُن میں مبالغہ معلوم ہوتاہے۔ اور بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو بظاہر اُس زمانہ کے لحاظ سے صحیح معلوم نہیں ہوتیں۔ لیکن ممکن ہے اس قسم کی باتیں اُس زمانہ میں ہوتی ہوں۔ تو مسلمان نکلتے تھے اور دنیا کے کونوں میں پھیل جاتے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو لاہور کی جماعت کی ترقی بالکل محدود اور کیلے سے بندھی ہوئی نظر آتی ہے۔ حالانکہ ہماری مثال تو اُس بادل کی ہے جوکبھی ایک جگہ پر نہیں ٹھہرتا۔ کبھی تم نے دیکھا ہے کہ بادل کیلے سے بندھا ہؤا ہو؟ لیکن وہ شخص جو اپنے ماحول سے باہر نہیں نکلتا اور کیلے سے بندھا رہتا ہے۔ گھر سے دفتر چلے جانا اور دفتر سے گھر آجانا یہی اُس کی زندگی ہے۔ وہ ہر جگہ برسنے والا بادل نہیں بلکہ پنجرے کا قیدی ہے۔ وہ طوطا یا بَیَّا 5 ہے جو کبھی اپنے قفس سے باہر نہیں نکلا۔ حالانکہ مومن تو ان بادلوں کی طرح ہوتاہے جو ایک وقت کلکتہ پر برس رہے ہوں تو دوسرے وقت کراچی پر موسلا دھار بارش برسا رہے ہوں۔ پس جب تک یہ بیداری پیدا نہ ہو، جب تک مومن کی یہ حالت نہ ہو کہ اُس کو ایک جگہ پر بیٹھنا دوبھر معلوم ہو اُس وقت تک صحیح رنگ میں تبلیغ بھی نہیں ہو سکتی۔
صحیح تبلیغ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مومن کے اندر ایسا مادہ پایا جائے جو اسے کبھی نچلا نہ بیٹھنے دے۔ اور وہ یہ سمجھے کہ اگر ایک منٹ کے لئے بھی میری حرکت بند ہو گئی اور میں بیٹھ گیا تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے بھی تھے تو چل پھر کر۔ آپ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کمرے کے اندر چلتے جاتے تھے اور لکھتے جاتے تھے۔ مولوی برہان الدین صاحب ذکر کیا کرتے تھے کہ جوانی میں ہم نے سنا کہ قادیان میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو قرآنی علوم کا بڑا ماہر ہے اور اُس نے آریوں اور عیسائیوں کو ان کے اعتراضات کے خوب جواب دیئے ہیں۔ اُس وقت ابھی حضور علیہ السلام نے دعویٰ نہیں فرمایا تھا۔ جب ہم نے آپ کا ذکر سنا تو خواہش پیدا ہوئی کہ اس شخص کی زیارت ضرور کرنی چاہیے۔ چنانچہ میں جہلم سے چل پڑا اور قادیان پہنچا۔ قادیان آکر معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی کام کی وجہ سے گورداسپور تشریف لے گئے ہیں۔ میں بھی گورداسپور چلا گیا اور پوچھ پاچھ کر اُس مکان پر پہنچا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹھہرے ہوئے تھے۔ کمرے کے دروازے پر چِک لٹک رہی تھی اور باہر شیخ حامد علی صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اُن سے ذکر کیا کہ میں حضرت صاحب کی زیارت کے لئے آیا ہوں۔ وہ کہنے لگے کہ اندر جانے کی اجازت نہیں حضور کتاب لکھ رہے ہیں۔ اور حضور نے منع فرمایا ہؤا ہے کہ کوئی شخص اِس وقت میرے پاس نہ آئے۔ مولوی برہان الدین صاحب سنایا کرتے تھے کہ میں نے بہت لجاجت سے حامد علی صاحب سے کہا کہ صرف اتنی اجازت دے دو کہ چِک اٹھا کر جھانک لوں۔ مگر انہوں نے اس کی بھی اجازت نہ دی اور کہا کہ حضور ایک کتاب کا مسودہ لکھ رہے ہیں ان کا حکم ہے کہ کسی کو اندر نہ جانے دیا جائے۔ میں نے بہت منت سماجت کی کہ میں صرف حضور کی زیارت کے لئے بڑی دور سےآیا ہوں مجھے صرف ایک نظر اندر جھانک کر دیکھ لینے دو تمہاری بڑی مہربانی ہو گی۔ مگر انہوں نے ایک نہ مانی۔ آخر میں ان کے پاس بیٹھ گیا اور سوچ رہا تھا کہ اِتنی دور سے آیا ہوں اب زیارت کئے بغیر جانا ٹھیک نہیں۔ میں اِس تاڑ میں بیٹھا رہا کہ حامد علی صاحب ذرا اِدھر اُدھر ہوں تو میں اندر جھانک کر حضور کی زیارت کر لوں۔ اتفاقاً کسی شخص نے اُن کو آواز دی اور وہ اُدھر چلے گئے۔ میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر چِک اٹھا کر اندر جھانکا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کمرے کے اندر جلدی جلدی چل رہے تھے اور ساتھ ساتھ لکھتے بھی جاتے تھے۔ جس وقت میں نے آپ کودیکھا اُس وقت دروازے کی طرف آپ کی پیٹھ تھی۔ لیکن پیشتر اِس کے کہ میں اچھی طرح سے آپ کو دیکھوں اتنی دیر میں آپ واپس لَوٹ چکے تھے۔ میں ڈر کے مارے بھاگا کہ کہیں آپ دیکھ نہ لیں۔ اُس وقت میں نے آپ کو دیکھ کر یہی نتیجہ نکالا کہ جو شخص اتنا تیز تیز چلتا ہے اس نے بہت دور جانا ہے۔ یہ اُس زمانہ کی بات ہے جب کہ آپ نے ابھی دعویٰ نہیں کیا تھا صرف آپ کے مضامین اور آپ کی کتابیں شائع ہوئی تھیں۔ آپ کو ایک عالم اور بزرگ مانا جاتا تھا۔ اُس زمانہ میں مولوی برہان الدین صاحب پر آپ کے تیز تیز چلنے کا یہ اثر تھا کہ اِس شخص نے کسی بڑی منزل پر جانا ہے۔ اب بظاہر یہ بچوں والی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ صحیح ہے کہ جس شخص کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کا مادہ ہو گا اُس کے اندر بے کلی بھی ضرور پیدا ہو گی۔ اور ہو نہیں سکتا کہ وہ اطمینان سے ایک جگہ بیٹھا رہے۔وہ کبھی نچلا نہیں بیٹھے گا۔ وہ کبھی اِدھر حرکت کرے گا اور کبھی اُدھر حرکت کرے گا۔ اور بیٹھا ہوا بھی ہو گا تو اپنے بڑھنے کی ہزاروں تدبیریں سوچتا رہے گا اور کسی وقت خالی نہیں بیٹھےگا۔ وہ شخص جو نچلا ہو کر بیٹھ رہتا ہے۔ اس کی حالت اسی طرح ہے جس طرح کچی سڑکوں پر چلنے والا چھکڑا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ چھکڑے پر بیٹھا ہوا مالک سو جاتا ہے اور چھکڑا چلتا جاتاہے۔ اور بعض دفعہ بیل بھی سو جاتے ہیں اور چھکڑا کھڑا ہو جاتا ہے۔ جن افراد کی حالت اس قسم کی ہو وہ کبھی کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
پس لاہور کی جماعت کو احمدیت کے لحاظ سے بہت زیادہ ترقی کی ضرورت ہے اور بہت زیادہ حرکت کی ضرورت ہے۔ ایسی حرکت جو اس کے گِرد وپیش والوں کو بھی ہِلا دے۔ جس شخص کے اندر حرکت پائی جائے اُس کے گِرد و پیش کی چیزیں بھی ضرور ہلتی رہتی ہیں اور ہِل کر بیداری اور جوش پیدا کر دیتی ہیں۔ پس اپنے اندر ایسی زندگی اور ایسی بیداری پیدا کرو کہ لاہور کے جس کُوچے اور جس محلہ میں سے تم گزرو لوگ یہ محسوس کریں کہ یہ زندہ انسان ہے جو دوسروں کو ہِلا دے گا اور سوتوں کو جگا دے گا۔ پس میں اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اندر بیداری پیدا کریں۔ وہ بیداری جو قرآن مجید تمہارے اند رپیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ بیداری جو کبھی ایک جگہ نہیں رہنے دیتی بلکہ اٹھائے اٹھائے آسمان پر لے جاتی ہے۔ اس سے بھی آگے جہاں جیالوجی (Geology)اور طبقاتُ الارض والوں کی تھیوریاں ختم ہو جاتی ہیں جو فلسفی کی طرح ذروں پر تسلی نہیں پاتی۔ بلکہ کہتی ہے اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰىهَا6 اَور آگے چل ۔ ان ذروں سے آگے اور غیر محدود ہستی ہے۔
میرے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا۔ کہنے لگا میں پیر ہوں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا فرمائیے ۔کہنے لگا اگر کوئی شخص اپنے دوست سے ملنے کے لئے جائے اور دوست کے دروازے پر پہنچ کر بھی سواری پر ہی بیٹھا رہے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اُس کو سواری پر بیٹھا رہنا چاہیے یا نیچے اتر آنا چاہیے؟ یا ایک شخص کشتی میں بیٹھ کر دریا پار کر رہا ہو تو کیا کنارے پر پہنچ کر اُس کو کشتی میں بیٹھا رہنا چاہیے یا نیچے اترآئے؟ اللہ تعالیٰ کی میرے ساتھ یہ سنت ہے کہ وہ مجھے سوال کرنے والے کا مطلب سمجھا دیا کرتاہے کہ اِس سوال کی تہہ میں اصل غرض کیا ہے میں اُس کے سوال کا مطلب سمجھ گیا کہ وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ عبادت تو ایک قسم کی سواری ہے جو شخص خدا تک پہنچ جائے اُس کو عبادت کی ضرورت نہیں ۔ میں نے اس کو جواب دیا کہ اگر اُس دریا کا کوئی کنارہ ہے اور کنارہ پر پہنچ کر بھی یہ شخص کشتی میں بیٹھا رہے گا تو بے وقوف ہو گا لیکن اگر یہ ایسے دریا میں سفر کر رہا ہے جس کا کوئی کنارہ ہی نہیں تو جہاں اُترا وہیں ڈوبا۔ وہ شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا اچھا ! یہ بات ہے۔ جھوٹے صوفیا کا یہ خیال ہے کہ نماز ایک سواری ہے جب تک خدا نہ ملے اُس وقت تک نماز پڑھنے کی ضرورت ہے اور جب خدا مل گیا پھر نماز کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کے نزدیک بزرگی کی یہ علامت ہے کہ فلاں بزرگ نے نماز چھوڑ دی مگر ہمارے نزدیک وہ کافر ہو گیا اور ان کے نزدیک نماز چھوڑ دینے سے وہ بزرگ ہو گیا۔
پس مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی ایک مقام پر کھڑا ہو جائے۔ وہ دائیں بھی دیکھتا ہے اور بائیں بھی دیکھتا ہے، آگے بھی دیکھتا ہے اور پیچھے بھی دیکھتا ہے مگر آخری نقطہ اپنے رب کو سمجھتا ہے۔ وہ کسی ذرے پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ ان کے پیچھے ایک غیر محدود ہستی کو دیکھتا ہے۔ پس انسان کے لئے خداتعالیٰ نے کوئی ایسا مقام تجویز نہیں کیا جہاں وہ ٹھہر جائے۔ مومن وہی ہے جس میں دائمی حرکت پائی جائے ۔جس میں دائمی حرکت نہ پائی جائے وہ مسلمان نہیں۔ اور جو مسلمان نہیں وہ خدا کو بھی پسند نہیں۔ ’’ (الفضل 12 مارچ 1945 ء)
1: انگشتانہ: اُس آلہ کو کہتے ہیں جسے کپڑا سینے کے وقت درزی اپنی انگلی میں پہن لیتے ہیں۔
2: المومنون:4
3: مُقَیش: سونے چاندی کے تاروں کا بنا ہوا کپڑا جیسے زری۔
4: پِھدڑ: چھوٹی سی مچھلی کو پنجابی میں پِھدڑ کہتے ہیں۔
5: بَیّا: چِڑیا کی طرح کا ایک پرندہ جس کا گھر بنانا بڑا مشہور ہے۔
6: عبس:45


10
ہر فردِ جماعت اپنے آپ کو غیر معمولی قربانیوں کےلئے تیار کرے
(فرمودہ 9مارچ 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘میں آج کا خطبہ تو ایک اَور اہم امر کےمتعلق پڑھنا چاہتا تھا لیکن آج مجھے ایک خط ملا ہے اُس کی بناء پر میں اصل مضمون سے پہلے چند باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ آج رات ہی مَیں نے اُن جلسوں کے متعلق خیالات کا اظہار کیا تھا جو یہاں احرار اور آریہ سماج کے ہوئے اور جن کے جواب ہماری جماعت نے اِسی مسجد میں دیئے ہیں۔ میں نے رات کو کہا تھا کہ قادیان کی آبادی ایک خاص رنگ اختیار کر رہی ہے۔ یہاں کچھ احمدی ہیں کچھ غیر احمدی۔ اور کچھ ہندو ہیں بعض حالات کی وجہ سے جن کی تفاصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ یہاں کے غیر احمدی قریباً احراری ہیں۔ اور یہاں کے ہندو قریباً آریہ سماجی ہیں۔ اوریہ دونوں گروہ ایسے ہیں کہ ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ ہمارے دلائل کو سُنیں گے اور ان سے متأثر ہوں گے خصوصاً ایسے موقع پر کہ جب جذبات اُبھرے ہوئے ہوں ایک غلط خیال ہے۔ باہر حالت بالکل اور ہے۔ باہر اکثر حصہ مسلمانوں کا اور اتنا کثیر حصہ کہ کوئی نسبت قائم کرنی بھی مشکل ہے احراری نہیں اور معقول پسند شریف الطبع اور بات پر سنجیدگی اور متانت کے ساتھ غور کرنے والا ہے۔ جب بھی کوئی معقول بات اس کے سامنے پیش کی جائے اُس پر غور کرتاہے۔ مگرجو معاند بن کر سامنے کھڑا ہو اُس سے یہ امید رکھنا کہ اُس پر کسی نصیحت کا اثر ہو گا خصوصاً اشتعال کے موقع پر ایک بالکل غلط خیال ہے۔ اِسی طرح باہر کے آریہ سماجیوں کی حالت بھی بالکل مختلف ہے۔ ان میں بھی جہاں تک مجھے ان سے ملنے کا موقع ملا ہے شریف الطبع اور بات پر سنجیدگی سے غور کرنےوالوں کی کثرت ہے اور وہ معقول بات پرغور کرتے ہیں۔ لیکن قادیان کے آریوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ ہمارے دلائل پر غور کریں گے صحیح نہیں۔ جیسے محاذِ جنگ پر جو سپاہی کھڑے ہوں وہ گولی چلانا ہی جانتے ہیں اِسی طرح یہ لوگ ہماری مخالفت میں ایسے بڑھے ہوئے ہیں کہ ان کے سامنے دلائل پیش کرنا چنداں مفید نہیں ہو سکتا۔ وہ خود بھی جب ہمارے خلاف تقریر کرتے ہیں تو یہ سمجھ کر نہیں کرتے کہ ان کی تقریروں کو سن کر یہاں کےاحمدی، احراری یا آریہ ہو جائیں گے بلکہ محض ہمیں اشتعال دلانے کے لئے کرتے ہیں اَور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اور کچھ نہیں کر سکتے تو ان کو غصہ تو دلائیں۔ اِسی طرح ہماری طرف سے ان کےجواب میں جو جلسے کئے جاتے ہیں اُن سے بھی وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ احمدی خواہ اپنی تقریروں میں کیسا نرم لہجہ کیوں نہ اختیار کریں اور نرمی سے کام کیوں نہ لیں۔ہماری ترقی اور کامیابیوں کو دیکھ کر چونکہ ان کے دل جَلتے ہیں اس لئے وہ صرف غصہ میں آکر گالیاں دیتے ہیں۔ جیسا کہ قاعدہ ہے۔ پس ایسے موقع پر ہمارے جلسوں کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو سکتا۔
پھر رات مَیں نے کہا تھا کہ ہمارے دوستوں کو خیال نہیں کرنا چاہیے کہ وہ پروٹیسٹ(Protest) کرتے ہیں اور حکومت اِس پر توجہ کرے گی۔ ایسا خیال کرنے والے شاید سمجھتے ہیں کہ یہاں ابوبکرؓ اور عمرؓ کی حکومت ہے مگر یہاں ابوبکرؓ اور عمرؓ حکومت نہیں کرتے۔ بلکہ سیاسی لوگ کرتے ہیں اور سیاسی لوگ ہمیشہ اکثریت کا خیال رکھتے ہیں۔ امرتسر میں ہمارا جلسہ ہوا۔ وہاں کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے پہلے اجازت دے دی مگر جب احرار نے فساد انگیزی شروع کی تو اس نے جلسہ کو روک دیا۔ حالانکہ اُسے کوئی مذہبی تعصب نہ تھا۔ ہمارے آدمی جب اُس سے ملے تو اس نے صاف کہا کہ میں اپنے ضلع میں فساد برداشت نہیں کر سکتا خواہ وہ دوسروں کی طرف سے ہی پیدا ہو۔ تو افسر اکثریت کو ناراض کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ ہمارے دوستوں کاخیال ہے کہ قادیان میں ہماری اکثریت ہے۔ مگریہ خیال غلط ہے۔قادیان کوئی ایسا جزیرہ نہیں جو دنیا سے الگ تھلگ ہو۔ یہ تو ضلع کے دو ہزار گاؤں میں سےایک گاؤں ہے۔ یہاں ایک جگہ پر ہماری اکثریت اگرہو بھی تو حکام اسے نہ دیکھیں گے بلکہ یہ دیکھیں گے کہ اردگرد کے علاقہ میں کس کی کثرت ہے۔ اور چونکہ اردگرد کے علاقہ میں ہماری اکثریت نہیں اِس لئے قادیان میں جو اکثریت ہے اس کی حکام کوئی پروا نہیں کرتے، اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے احمدیوں کی تائید کی تو تمام علاقہ میں جوش پیدا ہو جائے گا اور پھر اس کی وجہ سے ہمیں تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ اس لئے وہ سارا غصہ اقلیت پر نکالتے ہیں۔ ان حالات میں ہماری جماعت کی طرف سے پروٹیسٹ کا کوئی فائدہ نہیں۔اور اب تک ایسے پروٹیسٹوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ میں سمجھتا ہوں یہ بھی انگریزوں کی خوش قسمتی ہے کہ لوگوں کے قلوب میں ان کی نیک نامی اتنی جاگزیں ہے کہ ہماری جماعت متواتر بیس سال سے ان کی حکومت کے افسروں کی طرف سے سوتیلے پن کا سلوک دیکھنے کے باوجود یہی خیال کرتی ہے کہ وہ اس کے پروٹیسٹوں سے متأثر ہو جائیں گے۔ جب بیس سال سے حکام پر ہمارے کسی پروٹیسٹ کا اثر نہیں ہؤا تو کیا اب کوئی نئے افسر آگئے ہیں۔ جو وہ پروٹیسٹ سے متاثر ہو جائیں گے؟ بے شک بعض افسر زیادہ عقلمند اور انصاف سے زیادہ کام لینے والے بھی ہوتے ہیں مگر وہ سیاسیات کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ان کو حکومت کی طرف سے قیامِ امن کے لئے مقرر کیا جاتا ہے اور اگر وہ انصاف سے کام لیتے ہوئے امن قائم نہیں کر سکتے تو پھروہ اقلّیت کو دبا کر امن قائم کرتے ہیں۔ اور مجھے حیرت ہوتی ہے جب ہمارے دوست گزشتہ سالہا سال کی تاریخ کو بھلا کر حکام کے پاس پروٹیسٹ کے لئےجاتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ بندۂ خدا! کس کے پاس پروٹیسٹ کرتے ہو اور اس پروٹیسٹ کا اثر کیا ہو سکتا ہے جبکہ تم اقلیت میں ہو۔ میں 1934ء سے جماعت کویہ بتا رہا ہوں کہ تم چونکہ اقلیت میں ہو اس لئے تمہاری آواز کا حکام پر اثر نہیں ہو سکتا۔ اور جو لوگ سمجھتے ہیں کہ قادیان میں ہماری اکثریت ہے وہ بھی غلطی پر ہیں۔ قادیان کوئی الگ تھلگ جزیرہ نہیں بلکہ وسیع علاقہ کا ایک ٹکڑہ ہے۔ اس لئے جب تک اردگرد ہماری اکثریت نہ ہو یہاں کی اکثریت کا حکام پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔
رات مَیں نے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ ایسی فضول باتوں کا کوئی فائدہ نہیں اور ان میں وقت ضائع نہ کرنا چاہیے۔ معاندین کی گالیاں سن کر اگر واقعی کسی کو اشتعال آتا ہے، اگر غیرت آتی ہے، اگر واقعی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قدر دل میں ہے تو اِس کے اظہار کا یہ طریق درست نہیں۔ بلکہ اس کا طریق دوسرا ہے۔ جب کسی کےبیٹے کو ٹائیفائیڈ ہو جاتا ہے تو وہ کس طرح بیس بیس دن اورمہینہ مہینہ دکان کوبند کر کے اور کاروبار ترک کر کے اُس کی تیمارداری میں لگ جاتا ہے۔ اسی طرح جسے گالیاں سن کر غصہ آتا ہے، اشتعال پیدا ہوتا ہے، اگر غیرت جوش میں آتی ہے تو چاہیے کہ وہ دفتر تبلیغ میں جائے اور کہے کہ میں نے قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں ملتی سنی ہیں جس سے مجھے بہت غصہ آیا ہے اس لئے میں پندرہ دن یا بیس دن تبلیغ کے لئے دیتا ہوں۔ اگر قادیان کے احمدی یہ طریق اختیار کریں تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ قادیان میں دس ہزار احمدی ہیں اگران میں سے دو ہزار بھی تبلیغ کے لئے پندرہ پندرہ دن دیں تو یہ تیس ہزار بنتے ہیں۔ سال کے 360 دن ہوتے ہیں اور اس کے یہ معنے ہوں گے کہ گویا دس آدمی روزانہ تبلیغ میں لگے رہیں گے دس نہیں تو نو ہی سہی، اور اس طرح سلسلہ کو مفت کے نو مبلغ مل سکتے ہیں۔ اور ایسے نو آدمی جن کے دلوں پر زخم ہوں۔ جن کی غیرت جوش میں آئی ہوئی ہو وہ تو پہاڑوں کو گِرا سکتے ہیں۔ پس یہ طریق درست نہیں کہ مسجد میں جمع ہوئے اور اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے لگاتے رہے۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ تو روزانہ اذان دیتے ہوئے پانچ بار مسلمان کرتے ہیں پھر اس سے کتنے لوگ مسلمان ہو جاتے ہیں۔ پس مسجد میں جمع ہو کر اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے لگانا اور ‘‘زندہ باد’’ کا شور مچانا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ یہ تو عورتوں کی گریۂ و زاری سا طریق ہے۔ جب تم اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے لگاتے ہو تو ان کے پیچھے کوئی طاقت نہیں ہوتی اور یہ بالکل ایسی ہی بات ہوتی ہے جیسے بچے جمع ہو کر ہاہُو کرتے اور شور مچاتے پھرتے ہیں۔ صحیح طریق یہی ہے کہ اردگرد کے علاقہ کو احمدی کر لو۔ پھر اگر آج کے حکام کی نسبت بہت زیادہ بد تر حکام بھی آئیں گے تو وہ یہی کہیں گے کہ جماعت احمدیہ ہرگز ظلم نہیں کر سکتی۔ کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ سارے علاقہ میں ان کی اکثریت ہے اس لئے ان کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ پس یہ صحیح طریق ہے جو ہمارے دوستوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ رات مَیں نے اس طرف توجہ دلائی تھی اور میں سمجھتا تھا یہ کافی ہے مگر آج صبح مجھے وہ خط ملا جس کا میں نے ذکر کیا ہے اور وہ بھی میرے ان خیالات کی تصدیق میں ہے۔
ایک دوست نے لکھا ہے کہ وہ ریل میں ایک سرکاری افسر کے ہم سفر تھے جو پہلے سے ان کا واقف تھا۔ انہوں نے اُس افسر سے کہا کہ دیکھئے احمدیوں پر یہ کتنا ظلم ہے کہ ان کے صدر مقام میں ان کو گالیاں دی گئی ہیں۔ مگر اُس افسر نے کہا کہ احمدیوں کو کوئی گالیاں نہیں دی گئیں۔ میں نے سنا ہے کہ گالیاں احمدی دیتے ہیں۔ مثلاً احمدی لیکھو کہتے ہیں، مرزا صاحب کو کرشن جی کا مثیل کہا جاتاہے ، باوا نانک علیہ الرحمۃ کو مسلمان کہا جاتا ہے اور احمدیوں کے جلسہ میں لاؤڈ سپیکر مینار پر لگایا گیا۔ اُس دوست نے کہا لاؤڈ سپیکر تو احراریوں نے اور آریوں نے بھی لگایا ہؤ اتھا۔ تو اُس افسر نے کہا کہ تمہارا لاؤڈ سپیکر زیادہ طاقتور تھا۔ اب دیکھ لو یہ ایک ایسے افسر کے اعتراض ہیں جس کا کام انصاف قائم کرنا ہے۔ اور یہ باتیں ایسی ہیں کہ اگر لوگ انہیں سنیں تو یا تو وہ کہیں گے کہ یہ ایک سرکاری افسر پر الزام ہے اور یا یہ کہیں گے کہ یہ بھی عجیب افسر ہے جو یکطرفہ رائے قائم کر رہا ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ جب موقع کے افسروں کی یہ رائے ہو تو افسرانِ بالا کی کیا رائے ہو گی جو خود موقع پر موجود نہ تھے اور جو ماتحت افسروں کی رپورٹوں کی بناء پر ہی رائے قائم کرتے ہیں۔ اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر مجھے مل چکے ہیں اور سلسلہ کے افسر بھی اُن سے کئی بار ملے ہیں اور ان کے متعلق یہ سمجھا جاتاہے کہ وہ بہت ذہین آدمی ہیں۔ مگر انگریز حکام عام طور پر اِس ذہنیت کے ہوتے ہیں جسے انگریزی میں Least Resistance کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو کم سے کم جھگڑوں میں ڈالنا چاہتے ہیں اور بالعموم اپنےماتحت افسروں کی بات کو درست سمجھتے ہیں۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ توسرکاری افسر ہے اس لئے بے تعلق آدمی ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر افسر کا ایک اپنا مذہب بھی تو ہوتا ہے۔ انگریز افسر بے شک مذہب کے بارہ میں مساوات قائم رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اس لئے وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہندوستانی افسر بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یورپ کا عیسائی افسر تو اپنے مذہبی جذبات کو دبا سکتا ہے مگر ہندوستان کا افسر بالعموم ایسا نہیں کرسکتا۔ یہاں تویہ حالت ہوتی ہے کہ مثلاً احرار کا جلسہ ہورہا ہے اور ڈپٹی صاحب یا تھانیدار صاحب بیٹھے سر دھن رہے ہیں کہ کیا اچھی باتیں بیان کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ انہیں حکومت کی طرف سے قیامِ امن کے لئے وہاں بھیجا گیا ہوتا ہے مگر وہ اس منصب کو بھول جاتا اور سمجھتا ہے کہ میرے پیر صاحب یا میرے بزرگ تقریر کر رہے ہیں۔ اور ایسا افسر جس قسم کی رپورٹ افسرانِ بالا کے پیش کرے گا وہ ظاہر ہے کہ کہاں تک صحیح ہو سکتی ہے۔ مگر افسرانِ بالا ایسے افسروں کی رپورٹوں کو صحیح سمجھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو افسرتھا اس کی رپورٹ کیونکر غلط ہو سکتی ہے۔ اور وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ بے شک وہ افسر تو تھا مگر آریہ تھا یااحراری تھا۔ ہندوستان کا افسر افسر کم ہوتا ہے اور آریہ زیادہ ہوتا ہے۔ وہ افسر کم ہوتاہے اور سکھ زیادہ ہوتاہے۔ وہ افسر کم ہوتا ہے اور مسلمان زیادہ ہوتا ہے۔ ہاں انگریز افسر، افسرزیادہ اور عیسائی کم ہوتاہے۔
انگریزوں کا کیریکٹر یہ ہے کہ وہ افسر زیادہ اور عیسائی کم ہوتے ہیں۔ اور ہمارے سامنے تو اس کی ایک بہت ہی واضح مثال ہے۔ کیپٹن ڈگلس جب اس ضلع میں تبدیل ہو کر آئے تو اُن کا اپنا بیان ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے سنا ہے اس ضلع میں ایک شخص ہے جو حضرت عیسیٰ کی ہتک کرتا ہے اب تک کسی نے اسے پکڑا کیوں نہیں۔ مگر جب خود انہی کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقدمہ پیش ہؤا تو اُن کی افسریت غالب آگئی اور عیسائیت دَب گئی۔ اور اب تک ہماری جماعت سے اُن کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ ابھی چند روز ہوئے مجھے شمس صاحب کا خط آیا تھا کہ وہ انہیں ملے اور کہا کہ مجھے معلوم ہؤا ہے فلاں شخص نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں احمدیت کے متعلق بعض غلط باتیں درج کر دی ہیں۔ آپ مجھے وہ نوٹ کرا دیں میں ان کی تردید کروں گا۔ تو انگریز افسر، افسر زیادہ اور عیسائی کم ہوتا ہے۔ مگر ہندوستانی افسر، افسر کم اور آریہ زیادہ ہوتا ہے۔ افسر کم اور سکھ زیادہ ہوتا ہے۔ افسر کم اور مسلمان زیادہ ہوتا ہے۔ ایک غیر احمدی پولیس افسر اگر مولوی عطاء اللہ صاحب بخاری کی تقریر نوٹ کرنے کے لئے آتا ہے تو یہ کہنا کہ ایک افسر نے اس تقریر کے نوٹ لئے غلط بات ہو گی۔ کیونکہ نوٹ کرنے والا اُن کا ایک مرید یا عقیدت مند تھا۔ اور یہ گفتگو جو ایک احمدی دوست سے ہوئی بتاتی ہے کہ ان سے ایک سرکاری افسر گفتگو نہیں کر رہا تھا بلکہ ایک آریہ بول رہا تھا مگر مجبوری یہ ہے کہ وہ آریہ بیٹھا ہؤا افسر کی کُرسی پر تھا اس لئے جب وہ کوئی رپورٹ دے گا تو بالا افسر اسے غلط نہیں کہیں گے۔ اور سمجھیں گے کہ یہ سرکاری افسر ہے اور اس لئے بے تعلق آدمی ہے اس کی رپورٹ کیونکر غلط ہو سکتی ہے۔ پھر اس افسر کے انصاف اور دیانت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اُس نے اس احمدی دوست سے کہا کہ اگر تمہارے مرزا کو لیکھو کہا جائے تو تم کیا محسوس کرو گے؟ اور جب اس احمدی دوست نے کہا کہ مجھے افسوس ہے آپ بدتہذیبی سے کام لے رہے ہیں تو اُس نے کہا کہ تم نے بھی تو کرشن کہا تھا۔ اور جب اس احمدی دوست نے جواب دیا کہ میں نے تو حضرت کرشن جی کہا تھا۔ تو اُس افسر نے کہا کہ اچھا میں بھی مرزا جی کہہ دیتا ہوں۔ اور کیا ہمارے دوست ایسے افسروں کے سامنے پروٹیسٹ کرتے ہیں؟ ایسے افسروں کے سامنے پروٹیسٹ کا کوئی فائدہ نہیں۔ بلکہ ایسے افسروں کے سامنے پروٹیسٹ جن پر کوئی اثر نہ ہو ذلّت اور خواری ہے۔ ٭ ایسے افسروں کے سامنے تو تم منتیں بھی کرو تو بھی کوئی شنوائی نہ ہو گی۔ بلکہ وہ تمہارے خلاف قدم اٹھانے کے لئے بہانے تلاش کرتے ہیں۔
مثل مشہور ہے کہ ایک دریا پر بھیڑیا پانی پی رہا تھا ۔اُس سے نیچے کی طرف بکری کا ایک بچہ بھی پانی پی رہا تھا۔ بھیڑیے کا دل چاہا کہ اسے کھا جائے۔ اُس نے اُسے ڈانٹ کر کہا کہ تم میرے پینے کا پانی گدلا کیوں کر رہے ہو اس بکری کے بچے نے کہا کہ حضور! آپ تو اوپر کی طرف ہیں آپ کی طرف سے پانی میری طرف آرہا ہے نہ کہ میری طرف سے آپ کی طرف جاتا ہے۔ یہ سنتے ہی وہ اُس پر جھپٹا اور پنجہ مارتے ہوئے کہا کہ نالائق! آگے سے جواب دیتے ہو۔!!
مومن کا طریق یہ ہے کہ وہ طاقت کو صحیح طور پر استعمال کرتا ہے اس لئے ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ ایسے مواقع پر جلسے کرنے اور نعرے لگانے کی بجائے تبلیغ پر زور دیا کریں۔ اسی راستہ سے ہمیں پہلے کامیابی ہوئی ہے اور اسی سے آئندہ ہو گی۔ مجھے اس افسر کی اس
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب پھر کہہ دیتا ہوں کہ اگر آئندہ اس قسم کے کوئی مقدمات ہوں گے تو ان کا بوجھ جماعت پر نہیں ڈالا جائے گا۔
بات پر حیرت ہوتی ہے کہ چونکہ مرزا صاحب کو کرشن کا مثیل کہا جاتا ہے اس لئے کرشن کی
ہتک کی جاتی ہے۔ ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت ہے جو عیسائی ہیں۔ جتنی دفعہ آپ کو ایک دن میں مسیح موعود کہا جاتا ہے شاید سال بھر میں اتنی دفعہ کرشن نہ کہا جاتا ہو گا۔ مگر انگریز کو کبھی اِس بات پر غصہ نہیں آیا او رکسی انگریز افسر نے اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک نہیں سمجھا۔ اور اسے ہتک سمجھنا دراصل غلام ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ اس میں ہتک کی کونسی بات ہے۔ کیا ہم حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معمولی شان کا سمجھتے ہیں؟ ہم تو انہیں تمام مذاہب کا موعود یقین کرتے ہیں اور اس لئے ہم جب آپؑ کو حضرت کرشن کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں تو حضرت کرشن کی عزت کو بڑھاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مشابہت حاصل کرنے سے سب انبیاء جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے گزر چکے ہیں عزت پاتے ہیں۔ کیونکہ آپ موعود کُل اَدیان ہیں اور یہ انبیاء ایک ایک دین کے موعود تھے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مثیلِ کرشن ہونے کا اعلان 1904 ء میں کیا تھا۔ اور اِس دعویٰ پر چالیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مگر یہ ہتک کا سوال پانچ سال قبل سے ہی کیوں پیدا ہؤا ہے۔ پہلے 35 سال تک کیوں پیدا نہیں ہؤا۔ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ یہ سیاسی اغراض کے ماتحت شور مچایا جاتا ہے۔
اور پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر یہ بات کسی عدالت میں گئی اور وہاں کسی احمدی نے یہ پیش کیا کہ ہندو لٹریچر میں حضرت کرشن کو خدانخواستہ چور وغیرہ کہا گیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ مکھن چُرا لیا کرتے تھے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان کے ساتھ مماثلت کو ان کی ہتک سمجھنے والے ان کی طرف ایسا گند منسوب کرتے ہیں اور ہم کو جو انہیں چور کہنے والوں کو چور اور خبیث سمجھتے ہیں ان کی ہتک کرنے والا کہا جاتا ہے۔ یہ ان کو چور کہہ کر پھر بھی ان کی عزت کرنے کے دعویدار ہیں۔ اور ہم جو انہیں پرہیز گار اور نیک یقین کرتے ہیں اِن کے خیال میں اُن کی ہتک کرنے والے ہیں۔ اگر کسی ایسی بات کے متعلق حکومت کی طرف سے کوئی ایسا مقدمہ چلایا گیا اور اس میں اس قسم کے تمام حوالے پیش کئے گئے تو اِس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ اگر کوئی آریہ ہم پر حضرت کرشن کی ہتک کا الزام لگاتا ہے تو وہ بھی غلطی کرتاہے کیونکہ آریہ تو خود ان کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ ان کے عقیدہ کے مطابق تو ویدوں کے بعد اور کوئی صداقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور الہام آ ہی نہیں سکتی۔ اگر کسی عدالت میں کوئی مقدمہ چلا اور آریوں کے اس عقیدہ کو احمدی زیر بحث لائے اور انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ آریہ ان کو کیا کہتے ہیں اور ہم کیا کہتے ہیں۔ ہم تو ان کو بنی نوع انسان کے لئے نمونہ اور استاد سمجھتے ہیں۔ اور ہم اس افسر کی شکل دیکھنا چاہتے ہیں جو اسے بھی ہتک قرار دیتا ہو۔ تو سوچو کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔
ایک دفعہ یہاں سکھوں کے لیڈر بابا کھڑک سنگھ صاحب آئے۔ قادیان کے پاس ہی ایک جگہ سکھوں نے جلسہ کیا اور بابا صاحب نے اس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ گورو نانک صاحبؒ کو مسلمان کہہ کر ان کی ہتک کی جاتی ہے۔ میں نے دوسرے دن ایک اشتہار شائع کرایا جس میں لکھا کہ ہم تو ان کو مسلمان کہتے ہیں مگر دوسرے مسلمان جو آپ کو ہمارے خلاف اُکساتے ہیں ان سے پوچھیں وہ ان کو کیا سمجھتے ہیں۔ وہ تو کافر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اسلام کی یہی دونوں اصطلاحیں ہیں۔ مسلمان یا کافر۔ اور جو کسی کو مسلمان نہیں سمجھتا وہ گویا اُسے کافر سمجھتا ہے۔ ہم تو بابا نانک صاحبؒ کو مسلمان یعنی نیک بزرگ اور خداتعالیٰ کا برگزیدہ سمجھتے ہیں۔ مگر یہ لوگ انہیں کافر کہتے ہیں جس کے معنے ہیں جہنمی۔ پس آپ کو اُن پر غصہ کرنا چاہیے نہ کہ ہم پر۔ دوسرے دن میرے اشتہار کو پڑھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے مجھے خواہ مخواہ ورغلایا۔ ہم تو باوا نانک صاحبؒ کو مسلمان، متقی، پرہیزگار اور ولی اللہ سمجھتے ہیں۔ مگر جو مسلمان انہیں مسلمان نہیں سمجھتے وہ تو مجبور ہیں کہ انہیں کافر سمجھیں۔ اور اگر کسی عدالت کے سامنے یہ سوال آیا تو لازماً ایک فریق غیر احمدی علماء کو پیش کرنے کا مطالبہ کرے گا اور پوچھے گا کہ وہ باوا نانک صاحبؒ کو کیا سمجھتے ہیں۔ اور پھر پوچھے گا کہ حکومت اور سکھ کیا پسند کرتے ہیں ۔ یہ کہ باوا نانک صاحبؒ کو خدا کا برگزیدہ اور ولی اللہ کہا جائے یا نعوذ باللہ کافر ۔ پھر یہ بات بھی کوئی نئی نہیں۔ 45،46 سال پہلے یہ بات لکھی گئی تھی آج اس پر کسی کو اشتعال آنے کے کوئی معنے نہیں۔ میں نے تو دیکھا ہے کہ عقلمند سکھ اس بات کو سن کر خوش ہوتے ہیں۔ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کا یہ خیال صحیح نہیں کہ باوا نانک صاحب ؒ مسلمان تھے مگر اِس بات کو وہ مانتے ہیں کہ ہم انہیں مسلمان کہہ کر اپنے نزدیک ان کی عزت کرتے ہیں۔
یہ جو باتیں ہیں مجھے علم نہیں کہ یہ ہمارے جلسوں میں کہی بھی گئی ہیں یا نہیں۔ یہ تو میں اُس افسر کے بیان کا ذکر کر رہا ہوں کہ اُس نے یہ یہ باتیں کہیں۔ ورنہ مجھے یہ علم نہیں کہ ان جلسوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مثیلِ کرشن کہا گیا یا نہیں۔ اور باوا نانک صاحب ؒ کو مسلمان کہا گیا یا نہیں۔ اور لیکھرام کو لیکھو کہا گیا یا نہیں۔ لیکن اگر کہا بھی گیا ہو تو اُن گالیوں کے مقابلے میں جو اس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیں یہ لفظ کیا حقیقت رکھتا ہے۔ اگر چہ میری تعلیم یہی ہے کہ نرمی سے کام لینا چاہیے اور ہمارے دوست اس رنگ میں نام نہ لیا کریں۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیا ہے تو اُن کا مقام اَور ہے اور ہمارا اَور ہے۔ وہ جج کے مقام پر تھے اور ہم لوگ اس مقام پر نہیں ہیں۔ لیکن اگر کسی نے کہہ بھی دیا ہو تو اُن گالیوں کے مقابلہ میں جو اس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیں اور حضرت مسیح موعو علیہ السلام کو دیں یہ لفظ کیا حقیقت رکھتا ہے۔ اگر کوئی موقع آیا تو یہ سب گالیاں دنیا کے سامنے پیش کی جائیں گی اور ہر شخص دیکھ لے گا کہ اگر کسی احمدی نے لیکھو کہہ بھی دیا تو یہ تو اُس کی گالیوں کے مقابلہ میں ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ 999 حصے تو سارے کے سارے بے جواب باقی ہیں۔
باقی رہا اس افسر کا یہ کہنا کہ اگر مرزا صاحب کو لیکھو کہا جائے تو احمدی کیا کہیں گے؟ تو مَیں اس کے جواب میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کو الہام ہوتا ہے۔ اگر آریہ سماجی اعلان کر دیں کہ لیکھرام کو بھی الہام ہوتا تھا اور کہ وید کا الہام آخری الہام نہیں تو گو ہم یہ کہیں گے کہ اُن کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ لیکھرام کو الہام ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اُن کے لیکھو کہنے کو ہم آپ کی ہتک نہیں سمجھیں گے۔
آخری بات لاؤڈ سپیکر کی ہے۔ پانچ سال سے معاندینِ سلسلہ بازاروں اور گلیوں میں لاؤڈ سپیکر لگا کر جماعت احمدیہ اور اِس کے بزرگوں کو گالیاں دیتے چلے آرہے ہیں اور ہم نے بارہا حکام کو توجہ دلائی ہے کہ اس سلسلہ کو روکا جائے۔ ڈپٹی کمشنر تک ہی نہیں بلکہ کمشنرکے پاس بھی ہمارا ایک وفد گیا اور مسٹر کنگ سے یہ بات کہی کہ اس سلسلہ کو روکا جائے اس سے احمدیوں کی سخت دلآزاری ہوتی ہے۔ اور پھر یہ بھی کہا کہ اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ہم بھی لاؤڈ سپیکر لگا کر ان کا جواب دیں گے۔ یہ بات سن کر مسٹرکنگ بہت ہنسے اور کہا کہ اچھی بات ہے جب وہ لوگ لگاتے ہیں تو آپ بھی اگر لگائیں گے تو کسی کو اس پر اعتراض کا کوئی حق نہ ہو گا۔ اور یہ سوال بھی اگر گورنمنٹ نے اٹھایا تو جماعت احمدیہ ان سرکاری افسروں کو بطور گواہ بلوائے گی اور ثابت کرے گی کہ ہم نے پانچ سال متواتر صبر کرنے کے بعد ایسا کیا ہے۔ اور اگر کسی عدالت میں یہ سوال پیش ہوا اور اُس نے کسی قانونی روک کی وجہ سے ان افسروں کو بطور گواہ طلب کرنے سے انکار کیا تو ہم اشتہاروں کے ذریعہ ان افسروں سے اِس کا جواب دریافت کریں گے۔ اور اگر وہ جواب نہ دیں گے تو دنیا کے سامنے بات واضح ہو جائے گی اور اس صورت میں بھی فتح ہماری ہی ہو گی۔
بہرحال مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ باتیں جو اس افسر نے بیان کیں وہ ہمارے جلسوں میں کہی گئیں یا نہیں یا کس رنگ میں کہی گئیں۔ مجھے جو خط ملا ہے اس میں اس افسر کے جو اعتراض نکلے ہیں میں نے ان کے بارہ میں یہ باتیں کہہ دی ہیں اور ایک بار پھر جماعت کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ صحیح طریق یہی ہے کہ وہ تبلیغ کو وسیع کریں۔ باہر سے جو لوگ ہمیں گالیاں ہی دینے کے لئے آتے ہیں اُن پر ہماری تقریروں کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا اس لئے جن کو مخالفوں کی گالیاں سن کر غصہ آئے اور غیرت جوش مارے وہ تبلیغ کے لئے اپنا کچھ وقت وقف کریں اور اردگرد کے دیہات میں جا کر تبلیغ کریں جو مولوی اور پنڈت صاحبان یہاں آتے ہی اِس لئے ہیں کہ ہمیں غصہ دلائیں اُن پر ہماری تبلیغ کا اثر کیا ہو سکتا ہے۔ اور جب اثر نہیں ہو سکتا تو پھر یونہی گلا پھاڑنے کا کیا فائدہ۔ مومن کو جب علم ہو جائے کہ اس کی تبلیغ کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا تو وہ پھر وہاں تبلیغ نہیں کرتا کیونکہ وہاں تو تبلیغ کرنا ایک لغو فعل ہو جاتا ہے اور مومن لغو فعل نہیں کیا کرتا۔
اس کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں۔ انگریزی میں زیرو آور (Zero Hour) ایک محاورہ ہے جو کچھ عرصہ سے جنگی اور فوجی کارروائیوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جب فوجی تیاری کرتے کرتے یعنی حملہ کر دینے کا وقت آجائے تو اسے zero hour کہتے ہیں۔ مثلًا اتحادی فوج، جرمن فوج کے مقابل کھڑی ہے اور اس پر حملہ کرنے کی زبردست تیاریاں کر رہی ہے۔ جب اس کی تمام تیاریاں پوری ہو جائیں، وہ گولہ بارود کا کافی سٹاک مہیا کر لے، کافی ہوائی طاقت جمع کر لے، ٹینک اور توپیں وغیرہ اچھی طرح درست کر لے اور جرمن فوج پر حملہ کا وقت آجائے تو اسے zero hour کہا جائے گا اور انگریزی اخبار لکھیں گے کہ حملہ کا zero hour آگیا ہے۔ میں بھی جماعت کو یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ الٰہی سامانوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے لئے zero hour آپہنچا ہے۔قدم قدم پر بعض ایسے واقعات ظہور پذیر ہو رہے ہیں کہ جن سے معلوم ہوتاہے کہ وہ وقت عنقریب آنےوالا ہے جب ہمیں اپنا سب کچھ تبلیغ میں لگا دینا ہو گا۔ اور جماعت کے ہر فرد کے لئے لازم ہےکہ اُس وقت کے لئے تیاری کرے۔ میں نے پہلے کئی دفعہ کہا ہے کہ جب وہ وقت آئے گا میں اطلاع دوں گا۔ سو میں اطلاع دیتا ہوں کہ یا وہ وقت آگیا ہے یا آنے والا ہے اور اس لئے بھی میں نے یہ نصیحت کی ہے کہ دوستوں کو بے فائدہ باتوں پر وقت نہ ضائع کرنا چاہیے۔ یہ بالکل معمولی اور مقامی باتیں ہیں۔ تم نے ایک وسیع تبلیغی حملہ کرناہے۔ دشمن تمہیں مقامی باتوں میں اُلجھانا چاہتے ہیں مگر تمہیں ان میں نہ الجھنا چاہیے۔ تمہارا ایسی باتوں میں اُلجھ جانا دشمن کی فتح ہے اور کوئی نادان ہی اپنے ہاتھ سے دشمن کی فتح کا سامان دے سکتا ہے۔
اِس جلسہ سالانہ کے بعد ایسے جلدی جلدی حالات بدل رہے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے وہ وقت جبکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ زور سے تبلیغ کی جائے اور چاروں طرف تبلیغ کے کام کو وسیع کر دیا جائے وہ اب بالکل قریب آگیا ہے۔ اور ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ معلوم ہوتاہے ہمارے لئے zero hourآنے والا ہے یا آچکا ہے۔ جلسہ سالانہ کے بعد حیرت انگیز طور پر اور بڑی سرعت کے ساتھ ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں جو پہلے سال سال میں نہیں ہوتے تھے۔ اور وہ باتیں جو پہلے سال سال میں بھی نہ ہوتی تھیں وہ ان دو ماہ میں اللہ تعالیٰ کےفضل سے ظاہر ہونے لگی ہیں۔
(الف)اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مَیں نے 12 جنوری 1945ء کو اِسی سٹیج پر ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں انگلستان او رہندوستان دونوں کو نصیحت کی تھی کہ دونوں اپنے سابقہ اختلافات کو بُھلا کر باہم سمجھوتہ کرنے کی کوشش کریں۔ مَیں نے انگلستان کو نصیحت کی تھی کہ ‘‘اے انگلستان! تیرا فائدہ ہندوستان سے صلح کرنے میں ہے۔ خداتعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ تم دونوں مل کر کام کرو اور دونوں مل کر دنیا میں امن قائم کرو’’۔ پھر میں نے کہا تھا کہ ‘‘میں انگلستان کو دعوت دیتا ہوں کہ آؤ اور ہندوستان سے صلح کر لو’’۔ اور پھر میں نے ہندوستان کو بھی نصیحت کی تھی کہ ‘‘وہ بھی انگلستان کے ساتھ اپنے پرانے اختلافات کو بُھلا دے۔’’ اور میں نے کہا تھا کہ ‘‘میں ہندوستان کو دعوت دیتا ہوں کہ جاؤ انگلستان سے صلح کر لو۔ ’’ او رپھر میں نے کہا تھا کہ ‘‘میں ہندوستان کی ہر قوم کو دعوت دیتا ہوں کہ آپس میں صلح کر لو۔’’ پھر میں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ ‘‘میری آواز کا نہ ہندوستان پر اثر ہو سکتا ہے اور نہ انگلستان پر اثرہو سکتا ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ میری یہ نصیحت ہوا میں اُڑ جائے مگر اب تو ہوا میں اُڑنے والی آواز کو بھی پکڑنے کے سامان پیدا ہو چکے ہیں۔ یہ ریڈیو ہوا میں سےہی آواز کو پکڑنے کا آلہ ہے۔ پس مجھے اس صورت میں اپنی آواز کے ہوا میں اُڑ جانے کا بھی کیا خوف ہو سکتا ہے۔ جبکہ ہو سکتا ہےکہ اللہ تعالیٰ میری ہوا میں اڑنے والی آواز کو بھی لوگوں کے کانوں تک پہنچا دے۔’’اور اب دیکھ لو! اللہ تعالیٰ نے ایک قلیل عرصہ کے اندر ہی کس طرح اُس آواز کے بلند ہونے کے سامان بہم پہنچا دیئے۔ انگلستان میں کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں چودھری سر ظفراللہ خان صاحب ہندوستانی ڈیلیگیشن(Delegation) کے لیڈر بنا کر بھیجے گئے اور اللہ تعالیٰ نے اُنہیں میری اس آواز کو وہاں بلند کرنے کی توفیق دی۔ اور اب یہی آواز کہ برطانیہ کو چاہیے ہندوستان کو آزاد کر دے اور اس سے صلح کر لے سارے انگلستان میں بلند ہو رہی ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہ تھا جس سے ہم اس آواز کو انگلستان میں بلند کر سکتے۔ ہم تو دس سال میں بھی ایسا نہ کر سکتے تھے۔ مگر دیکھو اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ اِدھر میں نے یہ اعلان کیا اور اُدھر چودھری صاحب کو جلدی ہی انگلستان جانا پڑا اور انہوں نے وہاں جاتے ہی اس آواز کو بلند کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سعادت کے لئے منتخب کر لیا کہ وہ انگلستان میں میری اس آواز کو بلند کر سکیں۔
ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
میں نے اُس خطبہ میں کہا تھا کہ خوش قسمت ہے وہ شخص جسے کوئی رسوخ حاصل ہو اور وہ اس سے کام لے کر صلح کرانے کی کوشش کرے۔ جو کوئی اس کام میں ہاتھ ڈالے گا میری دعائیں اُس کے ساتھ ہوں گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا وارث ہو گا۔اللہ تعالیٰ نے چودھری صاحب کو میری یہ آواز انگلستان میں بلند کرنے کی توفیق دی اور انہوں نے اسے ایسے رنگ میں پیش کیا کہ نہ صرف انگلستان بلکہ امریکن اخبارات میں بھی یہی آواز بلند ہو رہی ہے۔ حتّٰی کہ ٹائمز جیسے وقیع اخبار نے بھی اس کی تائید میں نوٹ لکھا ہے۔ اور لکھا ہے کہ چودھری صاحب کی آواز کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اور اب ہندوستان میں بھی یہی آواز اٹھنے لگی ہے۔ اسمبلی میں کئ ممبروں نے تقریریں کی ہیں کہ چودھری صاحب کی یہ آواز ان کی اکیلی آواز نہیں بلکہ یہ سارے ہندوستان کی آواز ہے۔ حال میں تاجروں کی سب سے بڑی ایسوسی ایشن نے بھی اپنے اجلاس میں اعلان کیا ہے کہ یہ آواز اکیلے ظفراللہ خاں کی آواز نہیں بلکہ ہم تاجر سَو فیصدی ان کی اس آواز میں ان کے شریک ہیں۔ تو دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے جلد سے جلد ایک پسماندہ صوبہ کے ایک گوشہ کے قصبہ سے اُٹھی ہوئی آواز کو پکڑ کر ریڈیو اور تاروں کے ذریعہ سے ساری دنیا میں پھیلا دیا۔
جماعت کے دوسرے دوستوں کو چاہیے کہ اس آواز کے دوسرے حصہ کو بھی بلند کریں۔ اس آواز کے دو حصے تھے۔ ایک تو انگلستان کے لئے نصیحت تھی کہ وہ ہندوستان کو آزادی دے دے اور اس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائے اور دوسرے حصہ میں ہندوستان کو میں نے دعوت دی تھی کہ وہ انگلستان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائے اور پرانے اختلافات کو بُھلا کر اس سے صلح کر لے۔ میری اس آواز کے دوسرے حصہ کو اب ہندوستان میں بلند کرنے کی کوشش جماعت کے دوسرے دوستوں کو کرنی چاہیے۔ اور تمام ملک میں اس آواز کو پوری طرح پہنچانا چاہیے۔ کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے انگلستان کے ساتھ لڑنا جھگڑنا ہندوستان کے لئے فائدہ کا موجب نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان اگر آزاد زندگی کا متمنی ہے تو ضروری ہے کہ وہ انگلستان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو بعد میں اسے پچھتانا پڑے گا اور آئندہ نسلیں اپنے باپ دادوں پر لعنتیں کریں گی۔ اور یہ ملک غلامی کی ایسی زنجیروں میں جکڑا جائے گا کہ سینکڑوں سالوں کی قربانیاں بھی اس سے رہائی کے لئے کافی نہ ہوں گی۔
پس میں اپنی اس آواز کے جو میں نے 12 جنوری 1945ء کو بلند کی تھی دوسرے حصہ کی طرف دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں۔ چودھری ظفراللہ خاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور انہوں نے اس کے پہلے حصہ کو انگلستان میں بلند کیا۔ پنجاب، بنگال، بمبئی، مدراس، یو پی، سی پی، اڑیسہ، بہار، صوبہ سرحد، صوبہ سندھ اور ریاستوں کے احمدیوں کو چاہیے کہ وہ میری اِس آواز کے دوسرے حصہ کو اب ہندوستان میں ہر جگہ بلند کریں کہ ہندوستان کو چاہیے انگلستان کے ساتھ صلح کر لے۔ انگلستان کا پچھلا سلوک ہندوستان کے ساتھ اچھا تھا یا بُرا ہندوستان کا فائدہ اسی میں ہے کہ اُسے بُھول جائے اور آپس میں صلح کر کے دونوں ایک مشترکہ محاذ قائم کریں کہ انسانیت اور حُریت پر کوئی ضَرب نہ لگ سکے۔ اور وہ دونوں مل کر دنیا میں آزادی، حُریت اور امن قائم کر سکیں۔
(ب) دوسری بات اس سلسہ میں یہ ہے کہ میں نے جلسہ سالانہ سے قبل اور جلسہ پر بھی دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ ہمیں کمیونسٹ تحریک کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جانا چاہیے۔ اس کے بعد 17 فروری کے قریب میں نے خواب دیکھا کہ ‘‘اخبار انقلاب’’ لاہور کا ایک پرچہ میرے ہاتھ میں ہے۔ میں اسے پڑھتا ہوں۔ اس کے ایک صفحہ پر میری نظر پڑی تو میں نے دیکھا کہ کچھ سطریں لکھی ہوئی ہیں۔ پھر کچھ سطریں اُڑی ہوئی ہیں اور پھر ڈیڑھ سطر لکھی ہوئی ہے۔ اس کے بعد پھر کچھ سطریں اُڑی ہوئی ہیں۔ جس طرح کسی مضمون کے بعض حصے سنسر نے کاٹ دیئے ہوں۔ درمیان میں جو سطر لکھی ہے میں اسے پڑھتا ہوں تو اُس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ‘‘امام جماعت احمدیہ نے پنجاب یونیورسٹی کا انٹرنس کا امتحان پاس کر لیا ہے۔’’یہ خبر پڑھ کر مجھے اپنے نفس پر بہت غصہ آیااور میں نے دل میں کہا کہ میں نے یہ امتحان کیوں دیا۔ جب مجھے اللہ تعالیٰ نے اتنا علم دیا ہے اور اتنا بلند مقام عطا کیا ہے تو مجھے انٹرنس(Entrance) کا امتحان دینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اور میں نے یہ امتحان کیوں دیا۔ ایک دو منٹ کے بعد میری یہ غصہ اور انقباض کی حالت دو رہوئی تو میں نے خیال کیا کہ میں نے جب یہ امتحان دیا ہے تو یہ کوئی بے ہودہ حرکت نہیں کی اس میں بھی ضرور اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت مخفی ہو گی۔ اور پھر میں اپنے دل میں کہتا ہوں کہ جب انٹرنس کا امتحان پاس کیا ہے تو اب بی اے کا امتحان بھی دے دوں۔ پھر مجھے خیال آتا ہے کہ بی اے کا امتحان تو ایف اے کا امتحان پاس کئے بغیر نہیں دیا جا سکتا۔ مگر خود ہی دل میں کہتا ہوں کہ یونیورسٹی مجھے بی اے کا امتحان دینے کی اجازت دے دے گی۔
میں نے یہ خواب دیکھا اور حیران تھا کہ یہ کیا بات ہے۔ دوسرے تیسرے روز جب میں مسجد میں اپنے بعض رؤیا بیان کرنے لگا تو یہ رؤیا مجھے بھول گئی۔ یہ یاد تھا کہ ایک اَور اہم رؤیا ہے مگر دوسرے رؤیا بیان کرتے کرتے یہ بھول گئی۔ اب جو لاہور میں کمیونزم کے متعلق میرا لیکچر ہوا تو اس کے بعد ایک دن اخبار دیکھتے ہوئے امتحان کا لفظ جو سامنے آیا تو معاً یہ رؤیا یاد آگئی اور ساتھ ہی اس کی تعبیر بھی سمجھ میں آگئی۔ انٹرنس کے معنے ہیں دروازہ کے ۔ کسی بڑی جلسہ گاہ یا تماشہ گاہ کے بڑے دروازہ کو انٹرنس کہتے ہیں۔ اور میں نے کمیونزم کے متعلق جو لیکچر دیا اس میں پنجاب یونیورسٹی کے طلباء اور پروفیسر کثرت سے شامل ہوئے۔ اور اس طرح ہم گویا پنجاب یونیورسٹی کے علمی حلقوں میں داخلہ میں کامیاب ہو گئے اور اپنے خیالات کامیابی سے ان تک پہنچا دیئے۔ بہت سے طالب علم اور پروفیسر میری اس تقریر کے نوٹ لیتے رہےاور بعض لوگوں نے سنایا کہ ایک پروفیسر پر تو اتنا اثر ہوا کہ وہ رو پڑا اور تمام کالجوں میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا۔ بعد میں پروفیسر اور طلباء آ آکر ملتے رہے۔ اور بعض طالب علموں نے سنایا کہ بعض چوٹی کے پروفیسروں نے معذرتیں کیں اور اِس امر پر افسوس کیا کہ وہ بعض دوسری مصروفیتوں کی وجہ سے لیکچر نہ سن سکے۔ اور اس طرح میری وہ رؤیا پوری ہوگئی کہ ‘‘امام جماعت احمدیہ نے پنجاب یونیورسٹی کا انٹرنس کا امتحان پاس کر لیا۔ ’’اور رؤیا کا یہ حصہ جو ہے کہ میں کہتا ہوں اب بی اے کا امتحان بھی دے دوں تو اس میں اِس طرف اشارہ ہے کہ اگر ہم اس کوشش کو جاری رکھیں کہ تعلیم یافتہ طبقہ پر سے کمیونزم کا اثر دور ہو جائے تو اس میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے ایک اَور لیکچر کمیونزم اور مذہب کے موضوع پر دینے کا ارادہ کیا ہے۔ اور ایک رات بیٹھ کر اس کے نوٹ بھی لکھ لئے ہیں۔ پہلا مضمون تو ‘‘اسلام کا اقتصادی نظام بہ نظر کمیونزم’’ تھا۔ مگر دوسرا لیکچر ‘‘کمیونزم اور مذہب’’ کے موضوع پردینے کا ہے۔ اس کے نوٹ لکھ لئے گئے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو قریب عرصہ میں ہی یعنی دو تین ماہ تک لاہور میں یہ دوسرا لیکچر بھی ہو گا۔ پہلا لیکچر اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیرمعمولی طور کامیاب ہوا ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ میں اسے سمجھنے اور یاد کرنے کا خاص جوش اور رغبت پیدا ہو گئی۔ بیسیوں تعلیم یافتہ اصحاب نے بہ اصرار کہا کہ یہ لیکچر بہت جلد شائع ہونا چاہیے۔ اسے بہت سے اعلیٰ سرکاری حکام، پروفیسران، وکلاء، بیرسٹران اور رؤساء نے بڑے شوق سے سنا اور اپنے اپنے حلقوں میں اسے پھیلایا۔ یہ جو دیکھا کہ یہ خبر ‘‘انقلاب’’ میں شائع ہوئی ہے اِس سے اِس طرف اشارہ ہے کہ انشاء اللہ یہ لیکچر خیالات میں انقلاب پیدا کرنےکا موجب ہو گا۔
(ج) تیسری بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے نئے نئےراستے خود بخود کھل رہے ہیں۔ مثلاً ان دو ماہ میں سلسلہ کی تبلیغ اتنی اوپر پہنچ گئی ہے کہ پچھلے سارے سال میں جتنے احمدی ہوئے تھے اس سال جنوری فروری صرف دو مہینوں میں اُس کے نصف سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی حالت قائم رہے تو پچھلے سال کی نسبت چار گنے سے بھی زیادہ کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے۔
(د) پھر ان دو ماہ میں ایک عجیب بات یہ ہوئی ہے کہ عورتوں کے طبقہ میں حیرت انگیز طور پر تبلیغی رستہ کھلا ہے۔ اور ان دو ماہ میں مسلمانوں کے ایک چوٹی کے خاندان کی جسے تمام ہندوستان میں علمی اور تجارتی رُعب حاصل ہے ایک خاتون احمدی ہوئی ہیں۔ پھر ایک اَور خاتون جو انگریز ہیں اور انگلستان کے ایک ڈیوک(Duke) کی رشتہ دار اور ہندوستان کے ایک بہت بڑے انگریز افسر کی بیوی ہیں مسلمان ہوئی ہیں اور بیعت کی ہے۔ جو ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مثال ہے۔
(ہ) انہی دو ماہ میں دو نواب خاندانوں کے افراد نے بیعت قبول کی ہے۔
(و) ہماری تبلیغ کا رُخ زیادہ تر اسلامی ممالک کی طرف ہے۔ گو ہم مغربی ممالک میں بھی تبلیغ کرتے ہیں مگر زیادہ خیال ہمیں اسلامی ممالک کا ہی ہے۔ کیونکہ ان کا حق ہم پر بہت زیادہ ہے۔ ان ممالک میں احمدیت کی ترقی کے سامان اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہونے لگے ہیں۔ اٹلی کی حکومت میں لیبیا کا ایک علاقہ تھا جسے تھوڑا عرصہ ہؤا اتحادیوں نے فتح کر لیا ہے۔ یہ علاقہ مصر کے ساتھ لگتا ہے۔ اور وہاں بہت عرصہ تک اُسی طرح لڑائی ہوتی رہی ہے جیسا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے رؤیا میں دکھایا تھا۔ اس علاقہ کا ایک مشہور شہر بن غازی ہے جس کا ذکر بار بار خبروں میں آتا رہا ہے۔ اس علاقہ کے ایک حصہ کا صدر مقام طبروق اور دوسرے حصہ کا بن غازی ہے۔ اور یہ شہر لڑائی کا گویا ایک بیس(Base) تھا۔ بن غازی اس لئے بھی زیادہ مشہور ہے کہ دینی تحریک یہاں طبروق کی نسبت زیادہ زبردست ہے۔ جیسے مثلاً ہندوستان میں دیوبند وغیرہ مقام ہیں۔ بن غازی کے چیف امام جو عرب ممالک کی آزادی کی تحریک کے ایک لیڈر بھی تھے اور اس وجہ سے اٹلی کی حکومت ان کی مخالف تھی اور انہیں اطالوی حکام نے اٹلی کے کسی مقام پر قید کررکھا تھا اطالوی حکومت نے ان کو جنگ کا تمام عرصہ قید رکھا اور واپس اپنے ملک میں نہ آنے دیا کیونکہ وہ ڈرتی تھی کہ وہ ملک کو آزادی کی تحریک کی طرف لائیں گے۔ امریکنوں اور انگریزوں کے داخلہ پر وہ آزاد ہوئے ہیں۔ چند روز ہوئے ان کی بیعت کا خط اٹلی سے آیا ہے۔ یہ بیعت گو ہے تو جلسہ سالانہ سے پہلے کی مگرچونکہ خط ملا بعد میں ہے اس لئے اِنہی دو ماہ میں اس کا شمار ہو گا۔ گویا اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان علاقوں میں تبلیغ کا ایک نیا رستہ کھول دیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ میری ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ ان دنوں بیما رہیں۔ کل میں ان سے ملنے گیاتو اُن کو اِس بات کا کوئی علم نہ تھا۔ میرے وہاں پہنچتے ہی اُنہوں نے کہا کہ جب سے نواب صاحب فوت ہوئے ہیں میں نے اُن کو خواب میں نہ دیکھا تھا۔ آج رات پہلی دفعہ میں نے اُنہیں خواب میں دیکھا ہے۔ اور انہوں نے جو خواب سنایا وہ بھی اسی واقعہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ نواب صاحب مرحوم اپنے خاندان کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب میں بیمار تھا تو بیماری کی حالت میں بھی ان کو تبلیغ کرتا رہا اور جب میری زبان بند ہو گئی تو میں اشاروں سے اُن کو تبلیغ کرتا رہا۔ یہ بات کہتے کہتے آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا کہ بڑی خوشی کی خبر آئی ہے۔ بڑی خوشی کی خبر آئی ہے۔ مصر اور لیبیا وغیرہ عربی ممالک میں احمدیت خوب پھیل گئی ہے۔ یہاں تک کہ اب الفضل کا ایک عربی ایڈیشن بھی شائع ہونے لگا ہے اورعربی ممالک کے بادشاہ اور بڑے بڑے لوگوں کو اُس وقت تک چَین نہیں آتا تھا جب تک کہ وہ اسے پڑھ نہ لیں۔ تو ایک ایسے سیاسی لیڈر کو جس سے اطالوی حکومت ڈرتی تھی اور قید کر کے اٹلی لے گئی تھی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ احمدیت کو قبول کرے۔ اور انہوں نے وعدہ کیا ہےکہ میں اپنے وطن میں واپس جا کر احمدیت کی اشاعت کی کوشش کروں گا۔
اسی سلسلہ میں ایک اَور نوجوان کا ذکر کر دینا بھی ضروری ہے جو مدینہ منورہ سے حال ہی میں یہاں اتفاق سے آئے ہیں۔ اور ممکن ہے اللہ تعالیٰ چاہے تو وہی نوجوان ان علاقوں میں احمدیت کی اشاعت کا موجب بن جائے۔ وہ طالب علم ہیں ان کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں حج کے لئے مکہ میں آیا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں مزید تعلیم بھی حاصل کروں گا مگر وہاں مجھے خیال آیا کہ میں حنفی ہوں اس لئے اہلحدیث علماء سے نہ پڑھنا چاہیے اور میں نے ہندوستان آکر تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ جدہ پہنچے اور وہاں کے برطانوی قنصل سے کہا کہ ہندوستان پہنچنے کا کوئی انتظام کر دے۔ چنانچہ اس نے اپنے پاس سے بمبئی تک کا ٹکٹ لے دیا۔ بمبئی سے انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ علم پڑھنا ہے تو لاہور جاؤ۔ وہ لاہور آئے تو وہاں کسی نے انہیں پیر جماعت علی شاہ صاحب کے پاس علی پور سیداں جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ وہ وہاں گئے مگر پیر صاحب وہاں نہ تھے۔ وہ حیران تھے کہ اب کیا کریں۔ اور اس افسردگی کی حالت میں وہ ریلوے سٹیشن پر بیٹھے تھے کہ کوئی احمدی دوست وہاں آگئے۔ ان سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے کہا کہ علم حاصل کرنا ہے تو میرے ساتھ قادیان چلو اور وہ ان کو قادیان لے آئے۔ ان کو احمدیت کا کوئی علم نہ تھا۔ جب علم ہوا تو انہوں نے کہا مجھے یاد آیا میرے والد کے نام ایک عربی رسالہ البشریٰ آیا کرتا تھا۔ وہ اسے مطالعہ کیا کرتے تھے اورا ن کی خواہش تھی کہ ہندوستان جا کر اس تحریک کے متعلق علم حاصل کروں۔ مگر وہ فوت ہو گئےاور یہاں نہ آسکے۔ اب شاید اللہ تعالیٰ اُن کی خواہش کو ہی پورا کرنے کے لئے مجھے یہاں لے آیا ہے۔ وہ کل مجھ سے ملے اور بیعت بھی کرنا چاہتے تھے مگر میں نے کہا اس طرح بیعت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں بیعت تو اُس وقت کرنی چاہیے جب اپنے نفس کو ہر قسم کی قربانیوں کے لئے تیار کر لیا جائے۔
(ز) پھر انہی دنوں اٹلی سے اطلاع ملی ہے کہ البانیہ کے چودہ پندرہ طلباء احمدیت کی طرف متوجہ ہیں اور لٹریچر کا مطالعہ کر رہے ہیں اور تحقیقات کر رہے ہیں۔ اِدھر اٹلی سے یہ اطلاع ملی اور اُدھر شملہ سے ریڈ کراس سوسائٹی نے اطلاع دی ہے کہ البانیہ کا ایک فوجی لفٹیننٹ جو جرمنی قید میں ہے اس نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کی کتاب اسے بھجوائی جائے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ البانیہ میں احمدیت کی رَو چلنے والی ہے۔ اس کے ساتھ جب یہ بات ملائی جائے کہ بادشاہ البانیہ کنگ زوغو 1نے شمس صاحب سے خواہش کی ہے کہ ان کی واپسی پر وہ وہاں آئیں اور ان کے مہمان ٹھہریں تو اس تحریک کی اہمیت اَور بھی بڑھ جاتی ہے۔
(ح) انگلستان میں بھی ان دو ماہ میں چار انگریزوں نے اسلام قبول کیا ہے جو تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
(ط) ان دو ماہ میں فوج سے بھی کافی بیعت کے خطوط موصول ہوئے ہیں جن میں سے بعض کنگز کمیشنڈ آفیسر ہیں اور بعض دوسرے عہدیدار ہیں۔
(ی) اسی طرح کی بعض اور تحریکات بھی ہیں جن کو مَیں اِس وقت بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ تھوڑے دنوں میں جب وہ باتیں پختہ ہو جائیں گی تو ان کا اظہار کیا جا سکے گا۔ اسی سلسلہ میں ایک اَور بات یہ ہے کہ انہی دنوں ہمارے چار مبلغ ہندوستان سے باہر جا چکے ہیں۔ اور چھبیس اَور مبلغ باہر مختلف ممالک میں جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ تبلیغی حملہ ہونے ہی والا ہے۔ جوں جوں پاسپورٹ ملتے جائیں گے یہ لوگ روانہ ہوتے جائیں گے۔ اور اس طرح انشاء اللہ کئی ہزار میلوں میں تبلیغ کا میدان وسیع ہو جائے گا۔
گویا ایسے آثار ظاہر ہو رہے ہیں کہ فوجی محاورہ کے مطابق ہمارے لئے zero hour بالکل قریب ہے۔ جبکہ ہم لوگوں کے دلوں پر وسیع پیمانہ پر ایک تبلیغی حملہ کرنے والے ہیں۔ اِسی لئے میں نے جماعت کو نصیحت کی ہے کہ وہ اپنی طاقتوں کو ضائع نہ کرے اور انہیں سمیٹ کر رکھے تا وہ زیادہ سے زیادہ کارآمد ہو سکے۔ جیسا کہ گزشتہ سال اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام کیا تھا کہ‘‘ روزِ جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے۔’’ یہ تغیرات ایسے ہیں کہ پہلے بعض سال سال میں بھی نہ ہوتے تھے۔ اور بعض تو دو دو چار چار سال میں نہ ہوتے تھے مگر اب اللہ تعالیٰ نے دو ماہ میں وہ تکمیل تک پہنچا دیے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی تغیرات پیدا کئے جار ہے ہیں۔ پس ہمارا بھی فرض ہے کہ غیر معمولی قربانیوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کر یں۔ ایک دن تھا جب ہم تحریک جدید کی قربانیوں کو بڑا کہتے تھے مگر اب وہ وقت آنے والا ہے جب یہ قربانیاں ہیچ نظر آئیں گی۔
پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایک طرف تو تحریک جدید کے دفتر دوئم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کریں۔ اِس وقت تک صرف چالیس ہزار روپیہ سالانہ کے وعدے آئے ہیں حالانکہ ضرورت اڑھائی لاکھ کی ہے۔ پس دوست زیادہ سے زیادہ اس دفتر میں شامل ہوں۔ بعض لوگ چھوٹے چھوٹے بچوں کی طرف سے دو دو چار چار آنے یا آٹھ آنہ یا روپیہ دے کر ان کو شامل کرتے ہیں۔ مگر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بارہ سال سے کم عمر کے بچہ کو اس میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس سے کم عمر کے بچوں کو شامل کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ پورے انیس سال میں اُس کی طرف سے اُس کے والدین معمولی سی رقم داخل کرتے رہیں گے اور اسے خود آخر تک قربانی کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔ اگربارہ سال کے کسی لڑکے کو والدین شامل کریں تو پھر اگر وہ 21 سال کی عمر کاہو کر بھی خود کمانے لگے تو دس سال تک خود بھی حصہ لینے کا موقع پا سکے گا۔ پس میں نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ 12 سال سے کم عمر کے کسی بچہ کو شامل نہ کیا جائے۔ ہاں ثواب کےطور پر والدین چاہیں تو اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دے سکتے ہیں مگر تحریک جدید کے سپاہیوں میں ان کا شمار نہ ہو سکے گا۔ ہاں بارہ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو باقاعدہ شامل کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ دس سال کا عرصہ خود قربانی کرنے کا پا سکتے ہیں۔ اگر چھوٹے چھوٹے بچوں کو ہی چند آنے لے کر شامل کر لیا جائے اورپانچ ہزار میں سے دو تین ہزار ایسے بچے ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ تحریک بالکل بے حیثیت ہو جائے گی۔ اور ان بچوں کی طرف سے دو دو چار چار آنہ چندہ دوسروں کی قربانیوں کو بھی چُھپا دے گا۔
تحریک جدید کے بعد وقف فنڈ کی تحریک ہے۔ اس میں اب تک ایک کروڑ چودہ لاکھ روپے کے وعدے آچکے ہیں۔ چار سو کے قریب اَور وعدے بھی ہیں جن کی تفصیلات اب تک نہیں ملیں۔ ان کو ملا کر شاید ڈیڑھ کروڑ کے وعدے ہو جائیں۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ اس تحریک کو کم سے کم پانچ کروڑ تک پہنچایا جائے۔ اگر کسی وقت دو فیصدی کا بھی مطالبہ کیا جائے تو بھی آٹھ ، دس لاکھ روپیہ وصول ہو سکے۔ بہرحال جماعت کے ہر دوست کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ امتحان کا وقت آگیا ہے اس لئے اپنے کو تیار رکھو۔ خدا ہی جانتا ہے کہ کب تم میں سے ہر ایک کو بلایا جائے گا خواہ کوئی وقف ہو یا نہ ہو۔ جو وقف نہ ہوں گے اُنہیں اُن کی بیعت کی وجہ سے بلایا جائے گا کہ آگے آؤ۔ پس اپنے آپ کو اُس وقت کے لئے تیار کر لو ایسا نہ ہو کہ جب آواز بلند ہو تو کوئی شخص ایسا بھی ہو کہ امتحان میں پورا نہ اُتر سکے اور ارتداد یا منافقت کے گڑھے میں جاگر ے۔
پس اچھی طرح سن لو کہ بلاوے کا وقت آرہا ہے بلکہ شاید آچکا ہے۔ گو قطعی طور پر تو میں نہیں کہہ سکتا کہ آچکا ہے۔ مگر ایسے سامان ظاہر ہو رہے ہیں کہ جن سے یہ گمان غالب ہے کہ وہ وقت آچکا ہے یا بالکل قریب آرہا ہے۔ جب تمام مذاہب پر اسلام اور احمدیت کی طرف سے عام دھاوا بول دیا جائے گا اورشیطان اور خداتعالیٰ کے فرشتوں میں آخری فیصلہ کُن لڑائی ہو گی۔ خوش قسمت ہوں گے وہ جن کواِس لڑائی میں اپنی جان اور اپنا مال قربان کرنے کا موقع ملے اور وہ خداتعالیٰ کے حضور قُرب کے اعلیٰ مقام حاصل کر سکیں۔ اور بدقسمت ہے وہ جو اِس نایاب اور نادر موقع کو کھودے اور اعلیٰ درجہ کے قُرب کا مقام پانے سے محروم رہے۔ جس کے انتظار میں اس دنیا کے صلحاء ہزاروں سال سے بیتاب تھے۔’’
(الفضل مورخہ 14 مارچ 1945ء)
1:کنگ زوغو : احمد زوغو (1895ء1961-ء) شاہ البانیا 1922 ء تا 1924ء البانیا کے
وزیرِ اعظم بنے اور 1925ء میں آمر مطلق کا منصب حاصل کرلیا ۔1928ء میں بادشاہی کا
اعلان کیا (اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول صفحہ 73 شیخ غلام علی اینڈ سنز چوک انار کلی لاہور)

11
خصوصیت سے دعائیں کرنے کا ارشاد
(فرمودہ 30مارچ1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘چونکہ نماز کو دیر ہو گئی ہے اور اب نماز کے بعد جبکہ میں عصر کی نماز بھی جمعہ کی نماز کے ساتھ جمع کر کے پڑھاؤں گا مجلس شوریٰ ہونے والی ہے اس لئے آج میں کوئی لمبا خطبہ نہیں پڑھوں گا۔ صرف جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان ایام میں جو ہمارے لئے نہایت ہی اہم ایام ہیں یعنی ہم سال بھرکا پروگرام بنانے والے ہیں خصوصیت سے دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور عجز اور انکسار سے درخواست کریں کہ وہ اپنے فضل سے ترقی کی طرف ہماری راہنمائی فرمائے فتنوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم صحیح لائحہ عمل تیار کریں۔ اور باقی جماعت کو اِس بات کی توفیق دے کہ وہ اس پروگرام کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کریں اور ہر قسم کی قربانی کر کے اس پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی بھی توفیق دے۔
قوم کا بگاڑ یا سُدھار قوم کے اپنے ہی ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جس طرح ہر شخص جیسا عمل کرتا ہے ویسا ہی پھل پاتا ہے اسی طرح ہر قوم جیسا عمل کرتی ہے ویسا ہی پھل پاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی قومی زندگی کو علاوہ فردی زندگی کے ایسا بنائے کہ تفرقہ اور فساد اور قومی ترقی کے راستہ میں روک پید انہ ہو۔ چونکہ ہمارے اعمال محدود ہیں اور اسلامی ترقی کے لئے جس قسم کے سامانوں کی ضرورت ہے چونکہ ان سامانوں اور ان حالات کا پیدا ہونا ہمارے اعمال کے مطابق ممکن نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور اپنے احسان سے ہمارے اعمال سے زائد انعام ہمیں دے۔ اتنا زائد کہ ہماری حقیر اور ذلیل قسم کی کوششیں نتائج کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی ثابت ہوں اور ان کے ذریعہ احمدیت اور اسلام کو غلبہ حاصل ہو۔ اب میں اسی پر بس کرتا ہوں۔ اور پھر یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی عصر کی نماز بھی جمع ہو گی۔ اس کے بعد مجلس شوریٰ کی کارروائی حسبِ قاعدہ پہلے وہ سکول تھا اب کالج ہے، کالج کے ہال میں شروع ہو گی۔ ’’ (الفضل 5؍اپریل1945ء)

12
جماعت احمدیہ لاہور کو تبلیغ کے متعلق ضروری ہدایات
(فرمودہ 13اپریل 1945ء بمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘جس دن میں قادیان سے چلا تھا اُس سے ایک دن پہلے مجھ پر نزلہ کا شدید حملہ ہؤا اور دوسرے دن سفر کی وجہ سے جو مجھے مجبوراً کرنا پڑا یہ تکلیف زیادہ بڑھ گئی جس کی وجہ سے میں پچھلا جمعہ نہ پڑھا سکا۔ اب گو پہلے سے آرام ہے لیکن اب تک بھی اس کا اثر گلے اور سینہ پرباقی ہے جس کی وجہ سے میں بلند آواز سے تو بالکل نہیں بول سکتا۔ لیکن درحقیقت آہستہ بولنا بھی میری صحت کے لئے مُضِر ہے۔ اس لئے میں صرف چند منٹ ہی بولنا چاہتا ہوں اور وہ بھی نہایت آہستہ آواز سے ہی بول سکتا ہوں۔
کل میں نے یہاں کی جماعت کے عہدہ داروں کی ایک میٹنگ بلائی تھی اور ان کو تبلیغ کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی تھی اور اس کے بعض اہم پہلوؤں کو خاص طور پر مدنظر رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن تبلیغ ایک ایسا کام ہے جس کو صر ف عہدہ دار ہی نہیں کر سکتے بلکہ اس کام کے لئے جماعت کے ہر مرد و عورت، بچے، جوان اور بوڑھے سب کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نہیں جانتا میری کل کی نصیحت سے یہاں کی جماعت کے عہدہ داروں نے کیا اثر قبول کیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے ہر ایک جو حاضر ہے وہ میری باتیں غائب کو سنا دے۔ 1کیونکہ کئی غائب ایسے ہیں جو زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں بہ نسبت حاضر کے۔ پس میں نہیں جانتا جماعت کے عہدہ داروں نے میری اس نصیحت سے کیا فائدہ اٹھایا۔ میں اس بات کو پھر تمام جماعت کے سامنے دہرا دینا چاہتا ہوں تاکہ سب جماعت اپنی ذمہ داری اور اپنے فرض کو سمجھ سکے۔ میں نے کچھ عرصہ سے بار بار خدا تعالیٰ سے علم اور آگاہی حاصل کر کے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دنیا کے سامنے بہت بُرے دن آنے والے ہیں اور اسلام ایسے خطرناک مرحلہ سے گزرنے والا ہے کہ اس قسم کا مرحلہ اسلام کو کبھی پیش نہیں آیا۔ وہ پیشگوئیاں جو اس قسم کے خطرات کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بیان کی گئی ہیں اُن کے پورا ہونے کا زمانہ آنے والا ہے۔ اس کے آنے سے پہلے ہمیں اپنی طاقت اور قوت کو مجتمع کرلینا چاہیے اور ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ سامان مہیا کر لینے چاہئیں تاکہ ہم اسلام کی حفاظت کر سکیں۔ جیسا کہ پہلے اعلان کیا جا چکا ہے ہندوستان میں سات مقامات پر خصوصیت سے تبلیغی مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سات مقامات ایسے ہیں جو ہندوستان اور بیرونی ممالک کو مدنظر رکھتے ہوئے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک لاہور ہے جو اس صوبہ کا سیاسی صدر مقام ہونے کی وجہ سے جس میں قادیان واقع ہے دوسرے صدر مقامات سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ دوسرا دلّی ہے جو ہندوستان کا صدر مقام ہے۔ تیسرا پشاور ہے جو ہندوستان کی شمال مغربی سرحد کا صدر مقام اور اسلامی ممالک کا راستہ ہونے کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ چوتھا کراچی ہے جو عرب کا دروازہ ہونے اور عراق اور ایران وغیرہ کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ پانچواں بمبئی ہے جو افریقہ کے اکثر ممالک کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے اور ان جزائر کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے جو ہندوستانی سمندر میں پائے جاتے ہیں اہمیت رکھتا ہے۔ چھٹا مدراس ہے جو سیلون سٹریٹسیٹلمنٹ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ ساتواں کلکتہ ہے جو ہندوستان کا اتنہائی مشرقی مقام ہے او ربرما، چین، جاپان، ملایا، سماٹرا اور جاوا کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے اہمیت رکھتاہے۔ یہ سات مقامات ہیں جو خصوصیت سے ہندوستان اور بیرونی ممالک میں تبلیغ کرنے کے لئے اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک لاہور بھی ہے۔ اگر اس مقام پر ہماری جماعت کو مضبوطی حاصل ہو جائے تو پنجاب میں احمدیت پھیلانا ہمارے لئے آسان ہو جائے۔ قادیان تو وہی جاتا ہے جس کو احمدیت سے دلچسپی ہو۔ لیکن لاہور میں پنجاب کا ہر شخص آتا ہے۔ اگر احمدیت لاہور میں مضبوط ہو جائے تو بیرونجات سے لاہور میں آنے والا ہر شخص خواہ اسے احمدیت سے دلچسپی ہو یا نہ ہو وہ یہاں کی جماعت کے ذریعہ احمدیت سے متأثر ہو گا۔ اور لاہور میں احمدیت کو طاقت اور قوت حاصل ہو جانے سے سارے علاقہ میں اُسی طرح اثر ڈالا جا سکے گا جس طرح گھڑیال بجانے سے میلوں میل تک آواز سنی جاتی ہے۔
میں نے کل عہدہ داروں کی میٹنگ میں بتا یا تھا کہ یہ تبلیغ جو اِس وقت تک ہو رہی ہے یہ کوئی چیز نہیں۔ اِس میں بہت سی خامیاں ہیں۔ اور میں نے ہدایت کی تھی کہ جلد سے جلد لاہور کا سروے کر کے ایک نقشہ تیار کیا جائے جس میں ہر محلے، ہر گلی اور ہر کُوچے پر نشان ہو۔ اورر وہ میرے پاس بھیج دیں اور ایک نقل اپنے پاس بھی رکھیں تاکہ اس کے مطابق تبلیغ کی جائے۔ خالی بڑے بڑے حلقے بنا دینا کہ یہ حلقہ نیلا گنبد کا ہے، یہ حلقہ مال روڈ کا ہے، یہ حلقہ دہلی دروازہ کا ہے، یہ حلقہ سول لائن کا ہے یہ کوئی معنے نہیں رکھتا۔ یہ تبلیغ اور یہ کوشش تو ایسی ہی ہے جیسے لاکھوں کے مجمع میں کوئی شخص کھڑا ہو کر کہے کہ بھئی! پانی لانا۔ اس پر بعض دفعہ تو پانی کا ایک گلاس لانے کے لئے ہزار آدمی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور بعض دفعہ ایک آدمی بھی نہ اُٹھے گا۔ کیونکہ ہر شخص یہی سمجھ رہا ہو گا کہ اتنے بڑے مجمع میں سے کوئی نہ کوئی جا کر پانی کا گلاس لے آئے گا میرے اٹھنے کی کیا ضرورت ہے۔ پس یہ تبلیغ جو اِس وقت تک ہو رہی ہے یہ صحیح طریق پر نہیں ہو رہی۔ اس کے لئے سب سے پہلا طریق یہی ہے کہ سارے لاہور کا سروے کر کے نقشہ تیار کیا جائے جس میں ہر محلے، ہر گلی، ہر کُوچے اور ہر چھتے پر نشان لگاہؤا ہو۔ اور اُُس کی ایک نقل یہاں کی انجمن کے پاس رہے اور ایک مجھے بھیج دی جائے تاکہ اس کو سامنے رکھ کر میں بھی سوال کر سکوں کہ فلاں گلی میں کتنے غیر احمدی ہیں جن کے ساتھ ہمارے احمدیوں کی دوستی ہے۔ اور اس گلی میں کتنی دفعہ تبلیغ کی گئی۔ یہ بات گو بظاہر معمولی نظر آتی ہے لیکن نتائج کے لحاظ سے بہت شاندار ہے۔ اگر اس طریق کو استعمال کیا جائے تو یہ طریق تبلیغ کے لئے بہت بڑا دروازہ کھول دینے والا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر جماعت کوشش کرے تو ایک مہینہ کے اندر اندر یہ نقشہ تیار ہو سکتا ہے۔ پس میں جماعت کے دوستوں سے چاہتا ہوں کہ وہ کارکنوں کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں تاکہ یہ نقشہ جلدی مکمل ہو جائے اور کام شروع ہو سکے۔
دوسری بات جو میں کل نہیں بتا سکا تھا کیونکہ درحقیقت مَیں گلے کی تکلیف کی وجہ سے بول نہیں سکتا تھا اُس کا اعلان مختصر ًا آج کر دیتا ہوں۔ جماعت کے کارکن بھی یہاں موجود ہیں اور جماعت کے دوسرے دوست بھی اسے توجہ سے سن لیں کہ اگلے مہینے یعنی مئی کی پندرہ تاریخ تک مجھے لاہور کے احمدیوں کی فہرست پہنچ جانی چاہیے جس میں جماعت کے پندرہ سال اور پندرہ سال سے اوپر کے ہر فرد کے متعلق یہ لکھا ہوا ہو کہ یہ آدمی کوئی کام کرتا ہے یا بیکار ہے۔ اگر کام کرتا ہے تو وہ کام کیا ہے اور آیا وہ کام اس کی لیاقت کے مطابق ہے یا وہ اس سے زیادہ کام کی لیاقت رکھتا ہے مگر مجبوری کی وجہ سے اس کام کو اختیار کئے ہوئے ہے جو اس کی لیاقت سے کم ہے۔ اور اگر بیکار ہے تو کس قسم کا کام کر سکتا ہے اور اُس کی کیا مدد کی جا سکتی ہے۔ آیا اُس کو کام پر لگانے کی کوئی صورت کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ پھر اِسی طرح اس فہرست میں سوائے سرکاری ملازموں کے اور سوائے اُن لوگوں کے جو پہلے سے تاجر ہیں ایسے نوجوانوں کے متعلق بھی لکھا جائے جو تجارت میں دلچسپی رکھتے ہیں یا تجارت کے شائق ہیں مگر یا تو ان کو تجارتی واقفیت نہیں یا ہے مگر سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ کام نہیں کر سکتے۔ اور کتنے نوجوان ہیں بیکاروں میں سے یا کام کرنے والوں میں سے جن کے لئے ترقی کے مواقع بہم پہنچا کر اُن کو تبلیغ کے لئے زیادہ مفید بنایا جا سکتا ہے۔
اِس کے بعد میرا منشاء ہے کہ لاہور میں تبلیغ کا کام شروع کر دیا جائے۔ لاہور تبلیغی مرکز تو منظور ہو چکا ہے گو مجھے ڈر ہے کہ لاہور کے لئے فوری طور پر قابل مبلغ کا ملنا مشکل ہو گا۔ مگر کوشش کی جائے گی کہ جلدی مبلغ کا انتظام ہو جائے اور یہاں پر کام شروع کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ تبلیغ کے اَور ذرائع بھی میرے ذہن میں ہیں مگر ابھی میں اُن کو بیان کرنا نہیں چاہتا۔ جس وقت فہرست مکمل ہو کر میرے پاس آجائے گی اُس وقت میں وہ آسان طریق بتاؤں گا جس سے قلیل عرصہ میں جماعت کو زیادہ سے زیادہ منظم اور مضبوط کر کے اس کے ذریعہ سے پنجاب میں اور پنجاب سے باہر دائرہ تبلیغ کو وسیع کیا جا سکے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہاں کی جماعت کے تعلیم یافتہ دوست وقت کے مطابق کارکنوں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اس کام کو جلد سے جلد کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور اگر کارکن سُست ہوں تو خود زور دے کر ان کے اندر چستی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ میں جماعت سے یہ بھی امید کرتا ہوں کہ اگر جماعت کا کوئی کارکن کام کا اہل نہ ہو تو اُس کی جگہ بغیر کسی لحاظ کے دوسرا آدمی مقرر کیا جائے۔ قومی اور دینی کاموں میں کسی انسان کا لحاظ کرنا انسان کو ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔ وہی قوم ایماندار کہلا سکتی ہے جو دین کی ضروریات کو مقدم رکھے اور دینی اور قومی فرض کے مقابلہ میں ذاتی تعلقات کی پروا نہ کرے۔ میں سمجھتا ہوں لاہور کی جماعت کا کام اَور منظم ہو سکتا تھا۔ اگر جماعت کے بعض اَور افراد کو بھی کام کا موقع دیا جاتا۔ میں نے یہاں کے سکرٹریوں کو دیکھا ہے وہ ایک خاص ٹائپ کے آدمی ہیں اور وہی کام کرتے چلے آرہے ہیں۔ حالانکہ لاہور میں بعض اَور ٹائپ کے آدمی بھی ہیں جن کو اگر کام کرنے کا موقع دیا جاتا تو وہ کام کے اہل اور جماعت کے لئے مفید ثابت ہو سکتے تھے مگر بوجہ کام کرنے کا موقع نہ ملنے کے وہ اپنے آپ کو جماعت کے لئے مفید ثابت نہیں کر سکے۔ ایک نوجوان کے متعلق جو اچھا کام کرنے والا تھا میں نے دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ داڑھی نہ رکھنے کی وجہ سے اُس کو کام سے الگ کر دیا گیا ہے۔ مجھے اس نوجوان پر بھی افسوس ہوا کہ اُس نے اِس رنگ میں اپنی اصلاح نہ کی کہ وہ دین کی خدمت کر سکے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ قانون ان عہدوں کے متعلق ہے جو مرکز کا حصہ ہوں اس کے علاوہ مقامی طور پر کام کرنے کے بعض ایسے مواقع ہوتے ہیں جن پر اِس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس لئے اِس قسم کے کاموں پر بعض فعّال نوجوانوں کو لگانا چاہیے۔ اس سے ہمارا جماعتی قانون بھی قائم رہے گا کہ جو نوجوان اس اسلامی شعار کی پابندی کرنے والے نہ ہوں ان کو کوئی ایسا عُہدہ نہ دیا جائے جس کا تعلق مرکز سے ہو۔ اور مقامی ضرورت کے مطابق کام کرنے والے نوجوانوں کو موقع بھی مل جائے گا کیونکہ مقامی طور پر جو کام ان کے سپرد کیاجائے گا وہ قومی عُہدہ یا سلسلہ کا عُہدہ نہیں ہو گا۔ اس طرح ہمارا قانون بھی نہیں ٹُوٹے گا اور نوجوانوں میں کام کرنے کی روح اور بیداری بھی پیدا ہو جائے گی۔ ایسے نوجوانوں کے رات دن کان بھرنے چاہئیں کہ وہ اسلامی تعلیم کی پابندی نہ کر کے کیوں جماعت کے اندر تفرقہ اور شِقاق کا موجب بنتے ہیں۔ اور جماعت کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا جائے کہ کیوں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہدایت کو وہ قیمت دینے کے لئے تیار نہیں جو قیمت وہ فیشن کو دے رہے ہیں۔ اگر نوجوانوں پر متواتر یہ زور ڈالا جائے تو کچھ عرصہ کے اندر اُن کی اصلاح بھی ہو جائے اور پھر مقامی کاموں پر جو مرکز کا حصہ نہ ہوں اُن کو مقرر کر کے ان کی دلچسپی کو بھی قائم رکھا جا سکتا ہے اور ان کی فعّال روح کو مرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہماری دونوں باتیں پوری ہو جائیں گی۔ یہ قانون بھی پورا ہو جائے گا کہ جو نوجوان عَلَی الْاِعْلان شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والے ہوں اُن کو کسی ملّی عُہدہ پر مقرر نہ کیاجائے اور یہ بات بھی پوری ہو جائے گی کہ ایسے نوجوانوں کو اپنے اِردگِرد رکھا جائے تاکہ خود اُن کی بھی اصلاح ہو اور وہ آگے دوسروں کی اصلاح کا موجب ہوں۔
پس میں امید کرتا ہوں کہ لاہور کی جماعت جلد سے جلد اِن دو باتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے گی اور اپنے نظام کو اِس رنگ میں چلائے گی کہ نئے نوجوانوں کو آگے لانے کی کوشش کی جائے اور ان کو مقامی عُہدوں پر مقرر کر کے ان کی فعّال روح کو ابھارا جائے۔ میں نے بتایا ہے کہ مجھے یہاں کئی قسم کی طبائع اور کئی قسم کی لیاقتوں کے نوجوان نظر آئے ہیں جو کام کرنے کے لحاظ سے نہایت مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ مگر وہ ایسے ہی پڑے ہیں جیسے دو پہاڑوں کی وادیوں میں پُھول نکلتے بھی ہیں اور لہلاتے بھی ہیں اور سُوکھ بھی جاتے ہیں۔ لیکن اُن کو نہ نکلتے وقت کوئی دیکھتا ہے، نہ لہلہاتے وقت کوئی دیکھتا ہےاورنہ ہی ان کے سُوکھنے پر کسی کو افسوس پیدا ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ کا ان وادیوں میں سے دوبارہ پھول نکالنا خدائی طاقت میں ہے۔ اس کی طاقتیں غیر متناہی ہیں وہ اسی لئے بعض چیزوں کو ضائع کر دیتا ہے اور ان کی پروا نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں جب چاہوں اور جو کچھ چاہوں پیدا کر سکتا ہوں۔ لیکن یہ مقام ہمارا نہیں ہم یہ کام نہیں کر سکتے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے جو چیزیں ہمارے ہاتھ میں دی ہیں ہمیں اُن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور ان چیزوں کو بیج کے طور پر استعمال کرنا چاہیے تاکہ ہمارے لئے پہلے سے بھی زیادہ آسانیاں پیدا ہو جائیں اور پہلے سے بھی زیادہ سامان ہمیں مل جائیں۔
خداتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جماعت کے لوگوں کو صحیح طور پر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور جو ہدایات میں نے دی ہیں اُن پر عمدگی سے عمل کرنے کی جماعت کو توفیق بخشے۔ تاکہ میں اپنی نگرانی کے ساتھ لاہور میں احمدیت کی مضبوطی سے عُہدہ برآ ہو کر سارے پنجاب کی تبلیغ کی تکمیل میں کامیاب ہو سکوں۔اَللّٰہُمَّ اٰمِیْنَ ۔’’
(الفضل مورخہ19؍اپریل1945ء)
1: بخاری کتاب العلم باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ رُبَّ مُبَلَّغٍ
اَوْعیٰ مِنْ سَامِعٍ

13
احمدیت کی ترقی کے سامان۔ ہال اور اس کے لوازمات کے اخراجات کا سرسری تخمینہ
(فرمودہ 20 ؍اپریل 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘گو مجھے کل سے بخار تو نہیں لیکن پیچش کی تکلیف ہے اور کھانسی بھی باقی ہے۔ اس کے باوجود مَیں جمعہ کے لئے اِس لئے آگیا ہوں کہ دو جمعے ہو گئے میں نے قادیان میں جمعہ نہیں پڑھایا۔
مَیں نے گزشتہ ایک خطبہ میں بیان کیا تھا کہ خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ترقی کے سامان پیدا ہو رہے ہیں۔ چنانچہ پچھلے مہینہ کی بیعت جو ہے وہ بھی گزشتہ مہینوں سے زیادہ رہی ہے۔ اس مہینہ میں کچھ کمی معلوم ہوتی ہے لیکن چونکہ میں اِس دفعہ سفر پر رہا ہوں اور ساری دفتری ڈاک ابھی میرے سامنے نہیں آئی اس لئے ممکن ہے یہ کمی اِس وجہ سے نظر آتی ہو کہ ابھی مَیں ساری ڈاک نہیں دیکھ سکا۔ بہرحال جماعت کی ترقی کے سامان خداتعالیٰ کے فضل سے نمایاں طور پر پیدا ہو رہے ہیں۔ چنانچہ میرے اعلان کے بعد تین فوجی لفٹیننٹوں نے بیعت کی ہے جن میں ایک انگریز بھی ہے۔ اور اس انگریز کے اخلاص کا اس سے پتہ لگتا ہے کہ مجھے بیت المال والوں نے بتایا ہے کہ اس نے دو سو روپیہ زکوٰۃ کا بھیجا ہے اور اس کے علاوہ
چندہ بھی بھیجا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیغامی لوگ جو ہمارے مقابلہ میں اپنے ذریعہ مسلمان ہونے والوں کا شور مچایا کرتے ہیں وہ کوئی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتے کہ ان کے ذریعہ ہونے والے نو مسلموں نے ایسی قربانی کا ثبوت دیا ہو اور زکوٰۃ کی عظمت رکھنے والے نو مسلم ان میں ہوں۔ اسی طرح افریقہ میں جو تبلیغ کے خاص سامان پیدا ہورہے ہیں ان میں سے ایک خاص بات جو خوشی کا موجب ہے یہ ہے کہ لندن سے شمس صاحب کا تار آیا ہے کہ افریقہ کے ایک پیرامونٹ چیف کا لڑکا جو ولایت میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیا ہوا ہے وہ احمدی ہو گیا ہے اور اُس نے اپنے باپ کو بھی احمدیت قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اَور خوشی کی بات ہے جو میں پہلے بیان نہیں کر سکا یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے لندن میں ہم نے ایک اَور مکان تبلیغ کے لئے خرید لیا ہے جو ہماری مسجد کے ساتھ ملحق ہے۔ یہ مکان لندن کی عام قیمتوں کے لحاظ سے ہمیں بہت سستا مل گیا ہے کیونکہ لوگ ڈرتے ہیں کہ بموں وغیرہ کے گرنے سے نقصان نہ ہو۔ جس وقت یہ مکان خریدا گیا ہے اُس وقت بم گر رہے تھے ۔ لیکن خدا کے فضل سے خریدنے کے بعد بم گرنے بند ہو گئے ہیں ۔ یہ مکان اکتیس ہزار روپیہ میں آیا ہے اور نو ہزار روپیہ اِس کی مرمت پر خرچ ہو گا۔ گویا چالیس ہزار میں یہ جائیداد مل گئی ہے۔ یہ مکان مسجد کے ساتھ ہی ہے۔ درحقیقت یہ مکان اور پہلا مکان ایک ہی زمین میں بنے ہوئے تھے۔ ایک حصہ جو ہم نے مسجد کے لئے خرید لیا تھااُس میں مکان چھوٹا تھا اور زمین زیادہ تھی اور دوسرے حصہ میں مکان زیادہ تھا اور زمین تھوڑی تھی۔ اور مکان والامتعصب آدمی تھا جو اکثر یہ کہا کرتا تھا کہ میں خواہ اپنا مکان اور کسی کو دے دوں مگر احمدیوں کو ہرگز نہیں دوں گا۔ لیکن آخر خداتعالیٰ نے اُس کے دل سے بُغض نکال دیا اور کچھ بموں کے ڈر سے اور کچھ اِس وجہ سے کہ اُس کے لڑکے کسی دوسری جگہ چلے گئے اُس نے یہ مکان ساڑھے بائیس سَو پونڈ میں ہمارے پاس فروخت کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں اِس میں سات آٹھ مبلغ آسانی سے رہ سکتے ہیں۔ ہمارا پہلا مکان بھی سہ منزلہ ہے اور یہ بھی سہ منزلہ ہے۔ لیکن یہ ہمارے مکان سے زیادہ وسیع ہے اور اس کے کمرے زیادہ ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے لئے اس طرح نیا سامان پیدا کر دیا ہے کیونکہ اب ہمارے مبلغوں کے لئے جو وہاں جائیں گے اکٹھے رہنا آسان ہو گا۔ میں صرف اس مکان کو نہیں دیکھتا بلکہ میری نظر اس بات پر بھی ہے کہ یہ ایک خداتعالیٰ کا نشان ہے۔ اور خداتعالیٰ کے اشارے اس کے عمل سے معلوم ہو رہے ہیں کہ وہ ہمارے جانے والے مبلغوں کے لئے جگہ بنا رہا ہے۔ ایک عرصہ تک جبکہ ہماری سکیم میں نئے مبلغ بھجوانے کا کوئی امکان نہیں تھا صاحبِ مکان مکان نہ دینے پر اڑا رہا حالانکہ اُس وقت ہم اِس سے زیادہ قیمت دینے پر تیار تھے۔ لیکن جونہی کہ ہم نے یہ سکیم تیار کی کہ انگلستان میں پانچ چھ مبلغ بھیجے جائیں وہ شخص اپنا مکان پہلی پیش کردہ قیمتوں سے کم قیمت پر دینے پر آمادہ ہو گیا۔ چنانچہ اِس مکان کا سَودا ہوچکا ہے، قیمت کا کچھ حصہ ادا کیا جا چکا ہے۔ اور باقی حصہ چند دنوں تک ادا کر دیا جائے گا۔
اس کے بعد میں اُس ہال کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کی تحریک پہلے کسی سوچی ہوئی تجویز کے مطابق نہیں تھی بلکہ مجلس شوریٰ میں پیش ہونے والی تجویز کے سلسلہ میں تھی۔ جن لوگوں نے وہ نظارہ دیکھا ہے غالباً وہ اب تک مزا اٹھا رہے ہوں گے کہ کس طرح خداتعالیٰ نے مجلس شوریٰ کے موقع پر جماعت کے دلوں میں جوش اور اخلاص پیدا کر دیا کہ اِس غرض کے لئے اُس وقت جو اندازہ کیا گیا تھا اس سے بھی زیادہ چندہ نقد اور وعدوں کی صورت میں جمع ہوگیا۔ اور ابھی باہر سے اَور لوگوں کی طرف سے بھی چندے آرہے ہیں اور یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ وہی لوگ اس ثواب میں شامل ہوں جو اُس موقع پر حاضر تھے اور ہم شامل نہ ہوں؟ اِس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ہر شخص جو ایسے موقع پر جاتا ہے قربانی کر کے جاتا ہے اور جو قربانی کر کے جاتا ہے یقیناً اُس کو دوسروں کی نسبت ثواب کا زیادہ موقع ملتا ہے اس لئے یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ہم نے کوئی اعلان نہیں کیا کہ آئندہ اس بارہ میں چندہ نہیں لیا جائے گا۔ جماعت کا ہر فرد جو اِس مد میں چندہ لکھوانا چاہے وہ لکھوا سکتا ہے اور پانچ سال کے عرصہ میں ادا کر سکتا ہے۔ اگر جلدی ادا کر دے تو زیادہ اچھا ہے ورنہ پانچ سال کے اندر کسی وقت یا قسط وار ادا کر سکتا ہے۔ جو تحریک مجلس شوریٰ کے موقع پر کی گئی تھی وہ تحریک ایک وقتی اندازے کے مطابق کی گئی تھی اور اس میں کام کا ایک بڑا حصہ نظر انداز ہو گیا تھا یعنی میں نے شیڈ کا اندازہ لگایا تھا۔ لیکن بعد میں غور کرنے سے معلوم ہوا کہ خالی شیڈ(Shed) سے اس قسم کی جلسہ گاہ کا کام نہیں لیا جا سکتا جس میں ایک لاکھ آدمی بیٹھ سکیں۔ کیونکہ جس جگہ ایک لاکھ آدمیوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا جائے گا اُس جگہ کو ایسے رنگ میں بنایا جائے گا کہ ہر ایک شخص تک آواز پہنچ سکے۔ اس کے لئے بہترین طریقہ وہی ہے جو اٹلی وغیرہ میں رائج ہے جس کو غالباً ایمفی تھیٹر (Amphitheatre) 1 کہتے ہیں۔ یہ اس رنگ میں ہوتا ہے کہ لیکچرار کے کھڑے ہونے کی جگہ کے پاس سے ہی عمارت شروع ہو جاتی ہے اور سیڑھیاں نیچے سے اوپر چڑھتی چلی جاتی ہیں۔ جیسے ہماری جلسہ گاہ میں گیلریاں ہوتی ہیں اسی طرح یہ سیڑھیاں ہوتی ہیں۔ فرق یہ ہوتا ہے کہ ہماری جلسہ گاہ میں گیلریاں کناروں پر جا کر شروع ہوتی ہیں لیکن یہ سیڑھیاں لیکچرار کے کھڑے ہونے کی جگہ کے پاس سے ہی اٹھائی جانی شروع ہو جاتی ہیں اور ہر پچھلی سیڑھی پہلی سیڑھی سے بلند ہوتی چلی جاتی ہے۔ جہاں تک عام اندازہ ہے اگر ایک آدمی کے بیٹھنے کے لئے تین فٹ جگہ رکھی جائے تو ایک لاکھ آدمیوں کے بیٹھنے کے لئے تین لاکھ فٹ جگہ کی ضرورت ہے۔ تین لاکھ فٹ جگہ کے معنے یہ بنتے ہیں کہ اگر گیلریوں کی جگہ پختہ نہ بنائیں بلکہ لکڑی کی گَیلیاں 2 لگائی جائیں تو اگر چہ مَیں انجینئر تو نہیں ہوں لیکن اس کے متعلق مَیں نے موٹا اندازہ لگایا ہے کہ اس پر چھبیس ستائیس ہزار گَیلیاں لگیں گی۔ اگر لکڑی کی گَیلیاں لگائی جائیں جو پچیس تیس سال تک کام دیں گی تو اُس وقت کی قیمتوں کے لحاظ سے تو نہیں۔ جنگ سے پہلے جو قیمتیں تھیں اُن قیمتوں کے لحاظ سے چھبیس ستائیس ہزار چِیل کی گَیلیوں پر د و لاکھ روپیہ خرچ ہو گا اور ان گَیلیوں کے رکھنے کے لئے لوہے کے گارڈروں پر تین لاکھ روپے کا اندازہ ہے۔ اور دو لاکھ روپیہ کم از کم چھت پر خرچ ہو گا۔ یہ سات لاکھ روپیہ بنتا ہے۔ اور چونکہ اندازہ میں غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں ایک لاکھ روپیہ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے رکھیں تو کم سے کم آٹھ لاکھ روپیہ میں یہ عمارت بنے گی۔ اور اگر پختہ یعنی اینٹوں اور سیمنٹ کی عمارت بنائی جائے جو کئی سَو سال تک کام دے تو ایسی عمارت پر پچیس لاکھ روپیہ صَرف کرنا ہو گا۔ اتنی بڑی جگہ دس ایکڑ زمین میں بنے گی۔ اور دس ایکڑ زمین میں اِس قسم کی سیڑھیاں بناتے چلے جانے کایہ مطلب ہے کہ اگر پچھلی اونچائی پچاس فٹ اور اگلی ڈیڑھ فٹ ہوتو دس ایکڑ زمین میں پچیس فٹ اونچی دیواریں ایک دوسرے کے ساتھ لگی ہوئی اٹھائی جائیں۔ یہ عمارت ہمارے سکول اور بورڈنگ دونوں کے مجموعے سے کوئی دو سو گنے بڑی ہو جاتی ہے۔ پس اگر پکی عمارت یعنی اینٹوں اور سیمنٹ وغیرہ سے جلسہ گاہ بنائی جائے تو کم سے کم پچیس لاکھ میں بنے گی اور اگر لکڑی کی گَیلیاں یا لوہے کی تختیاں وغیرہ لگائی جائیں تو وہ آٹھ لاکھ روپیہ میں بنے گی۔ پس جو لوگ شوریٰ کے موقع پر اس تحریک میں شامل نہیں ہو سکے ان کے لئے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ اور پھر پانچ سال کا لمبا عرصہ ہے اس میں وہ سہولت کے ساتھ اس رقم کو پورا کر سکتے ہیں اور جماعت کے کسی فرد کے لئے بھی امکان نہیں کہ وہ اس تحریک میں شامل ہونے سے محروم رہ جائے بلکہ ہر فرد شوق سے اس میں حصہ لے سکتا ہے۔
لیکن ایک اَور بات جس کو اُس وقت میں نے پیش نہیں کیا تھا لیکن اس کے بغیر یہ سکیم نامکمل رہ جاتی ہے اور جس کی وجہ سے جلسہ گاہ کے علاوہ بھی ابھی بہت سے روپے کی ضرورت ہے اتنے روپے کی کہ شاید جماعت کی موجودہ حالت کے لحاظ سے لوگ سمجھیں کہ جماعت کے لئے اتنا روپیہ جمع کرنا بہت بڑا بار ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب ہال کی تجویز فرمائی تھی تو اس قسم کا ہال تیار کرنے سے آپ کا اصل مقصد یہی تھا کہ اسلام کو دوسرے مذاہب کے لوگوں سے روشناس کرایا جائے۔ اور اُس وقت کے لحاظ سے آپ نے سمجھا تھا کہ ایک سَو آدمیوں کے لئے ہال بنانا بڑی بات ہے۔ لیکن آج ہمارے حوصلے خدا کے فضل سے بڑھے ہوئے ہیں اور ہم کہتے ہیں سَو کیا لاکھ آدمیوں کا ہال بناؤ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس ہال کے ذریعہ سے دنیا بھر کو اسلام سے روشناس کر اسکیں گے؟ ہال تو بن گیا لیکن اس ہال کی جو غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی تھی کیا ہم اس غرض کو پورا کرنے کیلئے ہر مذہب کے ایک لاکھ آدمیوں کو دعوت دے کر ان کو یہاں بلانے میں بھی کامیاب ہو سکیں گے؟ ظاہر ہے کہ ہماری موجودہ حیثیت ایسی نہیں کہ ایک لاکھ تو کُجا دس ہزار آدمیوں کو بھی یہاں بلانے میں کامیاب ہو سکیں۔ جو اپنے مذہب اور اپنی قوم میں اہمیت اور اثر و رسوخ رکھتے ہوں۔ ہمارے جلسہ سالانہ پر دو تین سو غیر مذاہب کا آدمی باہر سے آجاتا ہے۔ لیکن ان دو تین سو میں سے ہر ایک کی حالت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی قوم اور اپنے مذہب میں اثر و رسوخ رکھتا ہو۔ وہ جو اثر و رسوخ والے ہوتے ہیں ان کی تعداد دس بیس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ پس ہماری موجودہ حالت کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ اگر ہم کوشش کریں تو یہ کر سکتے ہیں کہ ایسے سو آدمیوں کو جمع کر لیں مگر ہم ہال بنا رہے ہیں لاکھ آدمیوں کا۔ ظاہر ہے کہ اس میں زیادہ تر ہماری اپنی جماعت کے لوگ ہی آئیں گے۔ مگر کیا احمدیوں کے سن لینے سے اسلام ساری دنیا میں روشناس ہو جائے گا؟ پس اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کے بعد ہمیں ایسی صورت سوچنی چاہیے کہ جس سے ہم اس ہال کو اسلام کی تبلیغ کا مرکز بنا دیں۔ اس کے متعلق میں نے جو تجویز سوچی ہے وہ یہ ہے کہ ہم جہاں یہ ہال بنائیں اُس کے ساتھ ایک بہت بڑی لائبریری بنائیں جس لائبریری میں دنیا کے تمام مذاہب کی کتب جمع کی جائیں۔ اگر ساری نہیں تو تمام مذاہب کی اہم کتب اور اسلام کی قریباً ساری کتب جمع کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ دنیا کے مذاہب کا مقابلہ ان کی کتب اور اپنی کتب کے مطالعہ سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہم جاہلوں کو تو موٹی موٹی باتوں کے ذریعہ سے سمجھا سکتے ہیں لیکن قوم کے علماء کو جب تک ہم ہر میدان میں اُن کے مذہب کی کمزوری اُن پر ثابت نہ کرد یں ان کے مذہب سے بدظن نہیں کر سکتے۔ اِسی طرح ہمارے مبلغ جو کام کرتے ہیں ہم اُن سے امید تو کرتے ہیں کہ وہ مخالف مذہب کی کتب کا مطالعہ کریں لیکن ایک انسان تبلیغ بھی کرے، تربیت کا کام بھی کرے، عبادت بھی کرے اور پھر ایسا مطالعہ بھی کرے کہ ہر مذہب کی کتب کا واقف ہو سکے یہ ناممکن بات ہے۔ اور اگر ہمارے مبلغین کا علمی مقام اتنا بلند نہ ہو کہ وہ ہر مذہب کے مقابلہ میں کامیاب طور پر کھڑے ہو سکیں تو ہماری تعلیم اور تبلیغ اتنی مؤثر نہیں ہو سکتی۔ اس لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم پہلے تو ہر مذہب کے لٹریچر کو اپنے یہاں جمع کریں۔ اس کے لئے میرا اندازہ یہ ہے کہ تین لاکھ روپے کی ضرورت ہو گی جس سے عمارت تیار کی جائے گی۔ عمارت تیار کرنے کے بعد ہر مذہب کی کتابیں جمع کرنے کا کام ہے۔ جو لوگ کتابیں جمع کرنے کا شوق رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کتابیں جمع کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ میری اپنی چھوٹی سی لائبریری ہے۔ میں سمجھتا ہوں وہ بھی پچیس تیس ہزار کی ہو گی۔ اور وہ اِس وقت کامل لائبریری کا ہزارواں حصہ بھی نہیں بلکہ دس ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ ہمیں ایک مکمل لائبریری کے لئے تین چار لاکھ جلدوں کی ضرورت ہے اور یہ تین چار لاکھ جلدیں پچاس ساٹھ لاکھ روپے میں خریدی جا سکتی ہیں۔ لیکن اگر ابتدا میں ساری کتب نہ خریدیں بلکہ اہم کتب جمع کی جائیں تو میرے خیال میں ابتدائی کام کے لئے پانچ لاکھ خرچ کرنا ہو گا۔ کیونکہ شروع میں ہی یہ کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ پانچ لاکھ روپے کی رقم سے تمام مذاہب کی اہم کتابیں خرید کر لائبریری کی ابتدا کی جا سکتی ہے۔ تین لاکھ کی بلڈنگ اور پانچ لاکھ کی کتابیں یہ آٹھ لاکھ بنا۔ آٹھ لاکھ یہ اور آٹھ لاکھ ہال کے لئے یہ سولہ لاکھ روپیہ بنتا ہے۔ یوں تو لائبریری پڑھنے ہی کے لئے ہوتی ہے لیکن ہماری غرض چونکہ یہ ہو گی کہ اسلام کی تبلیغ کو ساری دنیا میں پھیلائیں اس لئے ساری دنیا میں تبلیغ پھیلانے کے لئے ضروری ہو گا کہ ہم ایسے آدمی تیار کریں جو ہر زبان جاننے والے ہوں۔ یا اگر ہر ایک زبان نہیں تو نہایت اہم زبانیں جاننے والے ہوں جن زبانوں میں ان مذاہب کی کتابیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً یونانی ہے، عبرانی ہے تاکہ عیسائیت اور یہودیت کا لٹریچر پڑھ سکیں اور عربی جاننے والے بھی ہوں تاکہ اسلام کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ فارسی جاننے والے بھی ہوں تاکہ اسلام کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ سنسکرت اور تامل زبان جاننے والے بھی ہوں تاکہ ہندو اور ڈریوڈینز 3 (Dravidians) کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ پالی زبان جاننے والے بھی ہوں تاکہ بدھوں کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ چینی زبان جاننے والے ہوں تا کہ کنفیوشس کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ اور پہلوی زبان جاننے والے بھی ہوں تاکہ زرتشتیوں کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ اسی طرح پرانی دو تہذیبیں ایسی ہیں کہ گو اَب وہ تہذیبیں مٹ چکی ہیں لیکن اُن کا لٹریچر ملتا ہے۔ اُن میں سے ایک پرانی تہذیب بغداد میں تھی اور ایک مصر میں تھی۔ ان کا لٹریچر پڑھنے کے لئے بابلی زبان اور ببلیوگرافی(Bibliography) جاننے والے چاہئیں تاکہ ان کے لٹریچر کو پڑھ کر اسلام کی تائید میں جو حوالے مل سکیں ان کو جمع کریں۔ اور ان کے ذریعہ اسلام پر جو حملے ہوتے ہیں ان حملوں کا جواب دے سکیں۔ جب تک ہم یہ کام نہیں کرتے ہم دشمن کا اُس کے ہی تجویز کردہ میدان میں مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
مقابلے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک اجمالی مقابلہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے معجزات، نشانات اور دعا کے ذریعہ کیا۔ لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ ان معجزات اور نشانات کی طرف رُخ نہیں کرتا بلکہ وہ اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ دوسری چیزوں اور دوسرے علوم کے ذریعہ اسے قائل کیا جائے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ‘‘مسیح ہندوستان میں’’ لکھ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا۔ اس کتاب میں آپ نے معجزات یا نشانات پیش کر کے دشمن کا مقابلہ نہیں کیا بلکہ ان کا مقابلہ تاریخی حوالوں کو پیش کر کے کیا گیا ہے۔ اور آپ نے ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ کشمیر میں آئے اوریہاں آکر فوت ہوئے۔ یہیں ان کی قبرہے۔ اسی طرح ‘‘ست بچن’’ ہے۔ اس کی بنیاد بھی دعا یا معجزات اور الہامات پر نہیں ہے بلکہ سکھ لٹریچر سے ہی ثابت کیا گیا ہے کہ بابا نانک مسلمان تھے۔ تو ‘‘مسیح ہندوستان میں’’ یا ‘‘ست بچن’’ میں جو باتیں ثابت کی گئی ہیں ان باتوں کے ثابت کرنے سے آپ کی یہی غرض تھی کہ آپ جانتے تھے کہ ایک طبقہ بنی نوع انسان کا ایسا بھی ہے جو دعا اور معجزات وغیرہ سے فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ اُن علوم کے ذریعہ قائل ہونا چاہتا ہے جس کو وہ علوم سمجھتا ہے۔
پس ہمارے لئے ضروری ہو گا کہ ہم اس قسم کے لٹریچر کا مطالعہ کرنے والے لوگ پیدا کریں اور اُن کو اِس کام کے لئے وقف کریں کہ وہ لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھیں اور معلومات جمع کرکے مدوّن صورت میں مبلغوں کو دیں تا وہ انہیں استعمال کریں۔ اسی طرح وہ اہم مسائل کے متعلق تصنیفات تیار کریں۔ اگر ان لوگوں کی رہائش اور گزارہ کے لئے دو لاکھ روپیہ وقف کریں تو یہ اٹھارہ لاکھ روپیہ بنتا ہے۔ پھر ان کی کتب کو شائع کرنے کے لئے ایک مطبع کی ضرورت ہے جس کے لئے ادنیٰ اندازہ دو لاکھ کا ہے۔ اس کے علاوہ پانچ لاکھ روپیہ اندازًا اس بات کے لئے چاہئے کہ جو تصنیفات وہ تیار کریں اُن کو شائع کیا جائے۔ اور پھر ایسا انتظام کیا جائے کہ نفع کے ساتھ وہ سرمایہ واپس آتا جائے اور دار المصنفین کا گزارہ اس کی آمد پر ہو۔ یہ وہ صحیح طریقہ ہے جس کے ذریعہ سے ہم علمی دنیا میں ہیجان پیدا کر سکتے ہیں اور اس کام کے لئے پچیس لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ اِس وقت مَیں تحریک نہیں کر رہا میں صرف باہر کے لوگوں کو بتا رہا ہوں کہ یہ ایک بڑا وسیع میدان ہمارے سامنے ہے جس کی طرف ہم نے آہستہ آہستہ قدم اٹھاناہے۔ اس لئے جماعت کا کوئی فرد یہ خیال نہ کرے کہ جو لوگ ہال کے چندہ میں نہیں آ سکے اُن پر کوئی ذمہ واری نہیں یا ان کے لئے ثواب حاصل کرنے کا کوئی موقع نہیں۔ ابھی ثواب کا موقع پڑا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے آٹھ لاکھ روپیہ تو ہال کی ادنیٰ سے ادنیٰ عمارت کے لئے چاہیے۔ اس لئے بیرونی دوستوں کے لئے بھی بڑا موقع ہے کہ وہ بڑھ بڑھ کر حصہ لیں اور ثواب حاصل کریں۔ ابھی پانچ سال کا عرصہ پڑا ہے۔ خدا نے چاہا تو اِس عرصہ میں جماعت بھی بڑھ جائے گی اور اموال بھی بڑھ جائیں گے۔ اگر خداتعالیٰ کامنشاء ہو تو پانچ سال میں اوراگر خدا تعالیٰ کا منشاء اِس کو لمباکرنے کا ہو تو اِس سے زیادہ عرصہ میں ہم اس پچیس لاکھ روپیہ والی سکیم کو مکمل کر سکتے ہیں۔ ورنہ خالی زمین میں کرسیاں بچھا دینے سے دنیا ہنسے گی کہ تم نے آٹھ لاکھ روپیہ یونہی خرچ کر دیا۔ پس ہم آٹھ لاکھ روپیہ کویونہی خرچ کرنا نہیں چاہتے بلکہ اس کے ساتھ سترہ لاکھ روپیہ اَورلگانا چاہتے ہیں تاکہ اس کے ساتھ ہم ساری دنیا کو ہلِا سکیں اور علمی دنیا میں ہیجان پیدا کر سکیں۔ اور چین، جاپان، فرانس، اٹلی، سپین، جرمنی، روس، امریکہ، انگلستان، شام، فلسطین، ترکی ، ایران، افغانستان کے لوگوں کو یہ کتابیں پڑھ کر خود بخود تحریک ہو کہ اس جلسہ گاہ میں چل کر ان کتابوں کے لکھنے والے لوگوں کے خیالات اور اسلام کی خوبیاں اپنے کانوں سے سنیں۔ پس ہم نے ایک لاکھ آدمی کے لئے ہال بنا کر اس کو غیرمذاہب کے آدمیوں سے بھر دینے کا سامان نہیں کرنا ورنہ اس ہال کی ایک ایک اینٹ ہم کو بد دعائیں دے گی کہ ہال بنا کر بغیر کام کے اسے خالی چھوڑ دیا۔ پس یہ مت سمجھو کہ ہم نے صرف یہ ہال بنانا ہے۔ بلکہ ہم نے اس ہال کو غیر قوموں اور غیر مذاہب کے لوگوں سے پُر کرنے کے سامان بھی کرنے ہیں۔ اور ایک ایسا علمی میدانِ جنگ تیار کرنا ہےجس کے ذریعہ سے دنیا کی چاروں اطراف سے لوگ کھنچے چلے آئیں اور اس ہال میں بیٹھ کر ہماری باتیں سنیں۔ پس ہم نے صرف ہال ہی نہیں بنانا بلکہ ہال کو آباد کرنے کے سامان بھی مہیا کرنے ہیں۔ لوگ کہیں گے کہاں سے؟ اور کس طرح؟ میں کہتا ہوں جس طرح ہمارے تمام کام پہلے ہوئے اُسی طرح انشاء اللہ یہ بھی ہو گا۔ دنیا باتیں بناتی ہی رہے گی اور ہم اپنے کام کرتے ہی چلے جائیں گے۔ ’’ (الفضل مورخہ یکم مئی 1945ء)

1: ایمفی تھیٹر: (Amphitheatre)(قدیم رومی) مُدوَّر تماشہ گاہ
2: گَیلیاں: گَیلی کی جمع: تنے کی کاٹی ہوئی گول لکڑی جس سے شہتیر نکلتے ہیں۔
3: ڈریوڈینز: (Dravidians)(i) جنوبی ہندوستان اور سری لنکا کے قدیم باشندوں کی زبان
(ii)آسٹریلیا کے ابتدائی سیاہ فام باشندوں کی زبان

14
آئندہ کے حالات کےمتعلق چند رؤیا
(فرمودہ 27 ؍اپریل1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بعض باتیں بتائی جاتی ہیں اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان اس سے فائدہ اٹھائے۔ لیکن بعض دفعہ لوگ ان باتوں کی طرف پوری طرح توجہ نہیں کرتے یا پوری طرح ذہن اس طرف نہیں جاتا پھر وہ وقت آنے پر تکلیف اٹھاتے ہیں۔ ان دنوں مَیں دیکھتا ہوں کہ کپڑے کی تکلیف لوگوں کے لئے بہت بڑھ رہی ہے۔ یہاں قادیان میں تو شاید لوگوں کو صبر کی عادت پید اہو چکی ہے اس لئے یہاں اتنا شور اور واویلا نہیں۔ لیکن بیرونجات میں کپڑے کے متعلق اِس قدر تکلیف پیدا ہو چکی ہے کہ بعض جگہ پر گورنمنٹ کے افسروں نے تسلیم کیا ہے کہ مُردے بغیر کفن کے دفن کئے گئے ہیں۔ گورنمنٹ اپنے کنٹرول کے ماتحت بہت کچھ انتطام تو کرتی ہے اور وہ انتظام ایک حد تک سہولت کا موجب بھی ہوتا ہے لیکن جب کوئی چیز استعمال کرنے والوں سے کم ہوجائے تو پھر مشکلات کا بڑھنا ایک قدرتی امر ہے۔
بنگال کے متعلق خبریں شائع ہوئی ہیں کہ کپڑے کی دِقّت کی وجہ سے بعض عورتوں نے خودکشی کر لی کیونکہ ان کے پہلے کپڑے پھٹ گئے اور ستر ڈھانکنے کے لئے اَور کپڑے میسر نہیں آسکے۔ اور بعض گھرانوں کے متعلق یہ اطلاعات شائع ہوئی ہیں کہ آٹھ آٹھ دس دس افراد کے پاس ایک ہی چادر ہے۔ باری باری جو باہر جاتا ہے اُسے اوڑھ لیتا ہے اور باقی افراد کو گھر میں ننگا ہی بیٹھنا پڑتا ہے۔ اور بنگال کے بعض گھرانوں کے متعلق یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ ان کی عورتیں سال سال بھر سے گھر سے باہرنہیں نکلیں۔ کیونکہ ان کے پاس کپڑے نہیں جنہیں پہن کر وہ باہرجا سکیں۔ ان حالات کے پیدا ہونےسے پہلے اللہ تعالیٰ نے مجھے ان حالات کی خبر دے دی تھی جو میں نے متفرق مواقع پر جماعت کے سامنے بیان کر دی تھی۔ ایک موقع پر تو ایک دوست نے بتایا ہے کہ جب سلطان محمود صاحب کی شادی ہوئی اور ان کے ولیمہ کی دعوت مدرسہ احمدیہ میں ہوئی تو اُس موقع پر میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہر گھر میں چرخے رکھے جائیں اور وہ سُوت کات کر اس کے کپڑے بنوا کر پہنا کریں۔ یہ واقعہ1943ء کا ہے۔ اِسی طرح 1942ء یا 1943ء کے جلسہ کے موقع پر بھی میں نے اپنا رؤیا تمام دوستوں کے سامنے سنا دیا تھا کہ میں نے دیکھا کہ میں نے کھدر کی قمیص پہنی ہوئی ہے اور رؤیا میں مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ کھدر کی قمیص پہننا کسی کانگرسی قسم کی تحریک کے ماتحت نہیں بلکہ اقتصادی حالات کے نتیجہ میں ہے۔ اور اُس وقت میں نے دوستوں کو اِس طرف توجہ دلائی تھی کہ کپڑ ابہت کم ہونے والا ہےجہاں تک ہو سکے گھروں میں سُوت کاتنے اور کپڑا بنوانے کا کام کیا جائے تاکہ اگر خود تمہارے لئے دقّت نہ ہو تو تمہارا بچا ہوا دوسرے غریبوں کے کام آسکے۔ بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسی توفیق دی ہوئی ہے کہ وہ جس قیمت پر بھی چیز میسر آسکے خرید لیتے ہیں۔ چنانچہ ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر ایسا فضل ہوا ہے کہ جو چیز ہم جنگ سے پہلے استعمال نہیں کر سکتے تھے اب اُس کو استعمال کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی حالانکہ قیمتیں پہلے سے بہت بڑھ چکی ہیں تو بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کو جنگ کے حالات کی وجہ سے سہولت میسر آگئی ہے اور خداتعالیٰ نے اُن کے روپیہ میں فراوانی بخش دی ہے۔ مگر بہت سا طبقہ ملک کا ایسا بھی ہے جس کی حالت اس قسم کی نہیں کہ وہ ہر قیمت پر کپڑے خرید کر استعمال کر سکے۔
پس جہاں میں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا اظہار کرتا ہوں کہ اس نے قبل از وقت اپنے فضل سے اس غیب کی خبر سے مجھے اطلاع دے دی کہ کپڑے کا فقدان ملک میں ہونے والا ہے وہاں میں جماعت کا شکوہ تو نہیں کرتا لیکن افسوس ضرور ہے کہ اس خواب سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ شکوہ میں اِس لئے نہیں کرتا کہ خود میرا ذہن بھی اس قسم کی کمی کی طرف نہیں گیا تھا کہ کپڑے کی دِقّت اِس قسم کی ہونے والی ہے کہ بعض علاقوں میں مُردے بغیر کفن کے دفن کئے جائیں گے۔ بہرحال میں نے جماعت کو توجہ دلا دی تھی اور میں نے اپنے گھروں میں بھی کہا تھا کہ چرخے منگوا کر رکھواور سُوت کات کر کپڑا بنوایا کرو۔ تاکہ اگر تمہیں دقّت پیش نہ آئے تو کم از کم غرباء کے لئے ہی کپڑا مہیا کر سکو۔ لیکن میں افسوس سے کہتا ہوں کہ ہمارے گھر میں بھی پوری طرح اس پر عمل نہیں کیا گیا گو چرخے تو منگوا لیے مگر سُوت کاتنے کا کام اُس وقت رؤیا کے ماتحت شروع نہیں ہوا بلکہ اب آکر شروع ہوا ہے۔ جب یہ کام رؤیا کے ماتحت نہیں کہلا سکتا بلکہ عملاً کپڑے کی کمی ہو جانےکی وجہ سے ہے۔ چونکہ یہ زمانہ بظاہر ابھی چھ ماہ یا سال دو سال تک ممتد معلوم ہوتاہے اس لئے اب بھی جن کو خداتعالیٰ توفیق دے ان کو چاہیے کہ عورتیں گھروں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے چرخے رکھیں اور سُوت کات کر جلاہوں سے کپڑے بنوا لیں۔
ہمارے علاقہ ضلع گورداسپور میں سُوت کا کپڑا بُننے کا رواج کم ہے۔ حالانکہ ایسی کھڈیاں نکل آئی ہیں جن سے اچھے سے اچھا کپڑا بُنا جا سکتاہے۔ اگر ہمارے کسی دوست کو خداتعالیٰ توفیق دے تو ہمارے ضلع کا سُوت کا کوٹہ جو رائیگاں چلا جاتا ہے یا دوسرے ضلع والے اِس سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں یایہاں کے لوگ دوسرے ضلعوں کے پاس مہنگے بھاؤ فروخت کردیتے ہیں یا لوگوں کی بے پرواہی کی وجہ سے ہمارا ضلع اپنے حق کا مطالبہ ہی نہیں کرتا تو اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی کو توفیق ملے تو یہ بھی اچھی تجارت ہے کہ کپڑا بُننے کی کھڈیاں لگا لی جائیں اور سُوت کا جو کوٹہ ملتا ہے اُس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کر دیا ہؤا ہے کہ ضلع وار سُوت تقسیم کیا جائے۔ میں نہیں جانتا ہمارے ضلع کو کیا ملتا ہے یا ہمارا ضلع لیتا بھی ہے یا نہیں لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ضلع کا حق نامنظور کیا جائے۔ اگر اس قسم کے کارخانے والے زور دیں تو بہرحال پہلے اگر نہیں بھی ملتا تو آئندہ اس ضلع کا حق دینے سے گورنمنٹ انکار نہیں کرے گی۔
انہی دنوں میں میرا ایک رؤیا اَور رنگ میں بھی پورا ہوا ہے۔ اس کا بھی اظہار کر دینا چاہتا ہوں۔ جس وقت امریکہ میں مسٹر روز ویلٹ کا انتخاب ہورہا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ الیکشن ہو رہا ہے اور مسٹر روز ویلٹ کے ساتھ ایک اَور شخص کا نام لیا جا رہا ہے۔ او رجب ووٹ گِنے گئے تو پہلے تو مسٹر روز ویلٹ کے ووٹ زیادہ ہوتے گئے لیکن آخر میں جا کر دوسرے شخص کے ووٹ بڑھ گئے۔ میں نے اِس کی تعبیر یہ بتائی تھی کہ چونکہ میں اِن دنوں یہ دعا کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ امریکہ اور انگلستان کے لوگوں کی توجہات اِس طرف پھیر دے کہ وہ اپنے مفتوح دشمنوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک نہ کریں کیونکہ آئندہ دنیا کا امن اِسی بات پر مبنی ہے کہ قوموں میں صلح اور امن قائم رکھا جائے اور کسی قوم کو سختی سے دبایا نہ جائے۔ اس لئے اس خواب کی تعبیر غالباً یہ نہیں کہ مسٹر ڈیوی جیت جائیں بلکہ یہ ہے کہ ان کی پارٹی کی تجویز کہ جرمنی پر زیادہ سختی نہ کی جائے آخر کامیاب ہو جائے گی۔ چنانچہ ایسے حالات بھی پیدا ہو رہے ہیں اور ایسی رَو چل رہی ہے کہ مختلف ملکوں کےمختلف افراد اِس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن یہ رؤیا اِس رنگ میں بھی پورا ہوا کہ مسٹر روز ویلٹ بر سر اقتدار آنے کے بعد جنوری 1945ء میں اپنے نئے عُہدہ پر بیٹھے اور اپریل 1945ء کے شروع میں فوت ہو گئے۔ اور خدا تعالیٰ نے اس رؤیا کو اِس رنگ میں بھی پورا کر دیا کہ دوسرا شخص اُن کی جگہ پریذیڈنٹ بن گیا۔ گو وہ مسٹر ٹرومین ہیں مسٹر ڈیو ی نہیں۔
عجیب بات ہے میں لاہور میں تھا جب یہ خبر آئی۔ شیخ بشیر احمد صاحب نے مجھے یہ خبر سنائی تھی۔نماز کے بعد اس کے متعلق باتیں شروع ہوئیں تو ایک نوجوان جو واقف زندگی ہیں اور فورمین کرسچن کالج میں پڑھتے ہیں انہوں نے ذکر کیا کہ میں نےیہ ڈائری جس میں آپ کا یہ رؤیا شائع ہو ابعض لڑکوں کو پڑھنے کے لئے دی تھی اور جب مسٹر روز ویلٹ پریذیڈنٹ ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ یہ خواب تو غلط نکلا۔ میں نے کہا ساتھ ہی اس کی تعبیر بھی بتائی ہوئی ہے اس کی طرف کیوں توجہ نہیں کرتے صرف ظاہر کی طرف کیوں جاتے ہو۔ خواب بین نے بتایا ہے کہ دعا وہ ایک اَور امر کے لئے کر رہا تھا اُس کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے ظاہر کی طرف اشارہ معلوم نہیں ہوتا۔ اس پر اُن میں سے ایک نوجوان نے کہا میں یہ نہیں مانتا۔ اب اگر خواب پورا کرنا ہے تو روز ویلٹ کو مار دو۔ گویا اس کے لئے خواب کو پورا کرنے کی ایک ہی صورت تھی کہ مسٹر روز ویلٹ فوت ہو جائے۔ اور یہ عجیب بات تھی کہ اُس کے منہ سے ایسا لفظ نکلا جو قدرت کی طرف سے ایک دوسرے رنگ میں خواب کو پورا کرنے کا ذریعہ بننے والا تھا۔
اِسی تسلسل میں مجھے اپنا ایک رؤیا یاد آ گیا جو 1941ء کے شروع کا ہے۔ مجلس شوریٰ کے موقع پر دوسرے دن شام کو باہر سیر کرتے وقت میں نے یہ رؤیا چودھری ظفراللہ خان صاحب کو سنا دیا تھا اور اُمِّ طاہر مرحومہ کو بھی سنایا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ خواب مجھے بُھول گیا۔ ایک دن ٹہلتے ٹہلتے مجھے اس کا خیال آیا اور اس پرمیں نے سوچنا شروع کیا کہ وہ خواب کیا تھا۔ میں نے اُمِّ طاہر مرحومہ سے کہا کہ مجھے ایک خواب بُھول گیا ہے اِس وقت وہ ذہن میں نہیں آتا وہ اہم خواب تھا۔ انہوں نے کہا ایک خواب آپ نے مجھے بھی سنایا تھا وہی تو نہیں۔ پھر انہوں نے وہ خواب سنایا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ آپ نے مجھے خواب سناتے وقت یہ بتایا تھا کہ یہ خواب آپ نے چودھری ظفراللہ خانصاحب کو بھی سنایا تھا۔ وہ خواب بھی آئندہ کے حالات کی طرف اشارہ کرتا ہؤا معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ترکوں کے علاقہ میں ہوں اور ایک بڑی بھاری عمارت ہے اس میں ٹھہرا ہؤا ہوں۔ کسی نے میری دعوت کی ہے اور میں اُس دعوت میں گیا ہوں۔ جب میں دعوت سے واپس آیا تو اس وقت مَیں اکیلا ہوں۔ ساتھ والے دوست جو ہیں اُن میں سے کوئی بھی اُس وقت ساتھ معلوم نہیں ہوتا۔ عمارت جس میں ہم ٹھہرے ہوئے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ صرف اُمِّ طاہر مرحومہ میرے ساتھ ہیں اور وہ اوپر کے کمرے میں سو رہی ہیں۔ جب میں اس عمارت کے پہلے کمرے میں داخل ہوا ہوں تو مجھے پیچھے سے آہٹ سنائی دی اورمجھے شبہ ہوا کہ کوئی شخص کمرے کے اندر آنا چاہتا ہے۔ میں نے روشندان میں سے باہر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ ایک شخص فوجی وردی پہنے ہوئے کمرے کے اندر جھانک رہا ہے۔ میں نے کھڑکی کے پاس سے آکر باہر کی طرف جھانکا تو مجھے معلوم ہؤا کہ چند فوجی افسر باہر کھڑے آپس میں باتیں کر رہے ہیں اور ان کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حملہ کر کے عمارت کے اندر گھس جائیں۔ پہرے دار اور دوسرے ساتھی اُس وقت تک نہیں پہنچے ۔ میں نے جلدی جلدی اوپر چڑھنا شروع کر دیا تا کہ اُمِّ طاہر کو بیدار کر دوں۔ بہت اونچا جا کر عمارت ایسی ہے کہ ایک طرف شیڈ(Shed) سا بنا ہوا ہے اور ساتھ صحن ہے۔ وہاں اُمِّ طاہر سو رہی ہیں اور ایک بچہ ان کے پاس سو رہا ہے۔ میں نے جس وقت یہ خواب دیکھا 1940ء کی بات ہے۔ اُس وقت ہماری لڑکی امۃ الجمیل ساڑھے تین سال کی تھی تو میں نے دیکھا کہ اُمِّ طاہر وہاں سو رہی ہیں اور ان کے ساتھ ایک بچہ سو رہا ہے۔ میں نے اُمِّ طاہر کو جگانا شروع کیا لیکن وہ میرے جگانے پر جلدی نہ اٹھیں۔ میں کہتا ہوں کہ خطرہ ہے اٹھو اور بچہ کو لے لو مگر انہوں نے اٹھنے میں دیر کی تو میں نے وہ بچہ اٹھا لیا۔ اُس وقت وہ بچہ لڑکا بن گیا ممکن ہے اللہ تعالیٰ اُمِّ طاہر مرحومہ کی بچیوں یا بچوں کو مبارک لڑکا دے یا امۃ الجمیل جو لڑکے کی صورت میں دکھائی گئی ہے ممکن ہے جیسےحضرت مریم علیہا السلام کے متعلق آتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ہی مردوں کے کام کی توفیق دے دے۔ بہرحال میں نے بچہ کو اٹھا لیا اور میں نے کہا لو میں بچہ لے کر چلتا ہوں تم جلدی جلدی میرے پیچھے آؤ۔ وہاں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مٹی ڈال کر کسی اونچی جگہ پر رستہ بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے پہاڑوں پر مکان ہوتے ہیں اور ایک منزل نیچے اور ایک اوپر ہوتی ہے اور اوپر کی منزل کےساتھ بھی گو وہ اونچی ہوتی ہے پہاڑ پر رستہ مل جاتا ہے۔ اِسی طرح اس مکان کی بھی دوسری یا تیسری منزل ہے اور وہاں سے بھی ایک سڑک نیچے کی طرف جاتی ہے۔ اُس پر میں تیز تیز چلتا ہوں اور پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا جاتا ہوں اور اُمِّ طاہر کو اشارہ کرتا چلا جاتا ہوں کہ جلدی جلدی چلو۔ دور جانے کے بعد میں نے دیکھا کہ کچھ جھونپڑیاں ہیں جن کی پھوس کی دیواریں اور پھوس کی چھتیں ہیں۔ وہاں ایک کٹہرے کے ساتھ جو سڑک پر بنا ہوا ہے مجھے ایک عورت نظر آئی۔ میں نے اسے کہا کہ کیا یہاں کوئی ٹھہرنے کی جگہ مل سکتی ہے؟ اُس نے کہاہاں مل سکتی ہے۔ اتنے میں اُمِ طاہر بھی قریب آگئیں اور میں نے اُس عورت سے کہا کہ بتاؤ کونسی جگہ ہے؟ وہ ہمیں گاؤں میں لےگئی۔ جیسے گاؤں میں جگہیں ہوتی ہیں کہیں اُپلے پڑے ہیں اور کہیں کوڑا کرکٹ پڑا ہے۔ ایسی جگہوں سے چلتے چلتے ایک چھوٹی سی پھوس کی دیواروں والی جھونپڑی آئی۔ وہ ہمیں وہاں لے گئی۔ کچھ لوگ وہاں جمع ہو گئے۔ میں نے ان سے حالات پوچھنے شروع کئے۔ حالات پوچھتے ہوئے مذہب کی باتیں شروع ہو گئیں۔ اُس وقت میں ان سے دریافت کرتا ہوں کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ تو ان میں سے ایک مرد پہلے تو ہچکچاتا ہے۔ اس کے بعد اُس نے کہا کہ ہم ایک نئے مذہب کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے کہا وہ کونسا فرقہ ہے؟ تو پھر وہ ایسے رنگ میں جیسے کوئی شخص خیال کرتا ہے کہ مخاطب اس کے متعلق نہیں جانتا اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ اس کو بتانا فضول ہے کہتا ہے کہ ہندوستان کا ایک فرقہ ہے۔ میں نے کہا ہندوستان کا کونسا فرقہ ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ ہندوستان میں ایک شخص نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے ہم اسکے مرید ہیں۔ پھر وہ کچھ خلافت کا بھی ذکر کرتاہے کہ وہاں ہمارا خلیفہ ہے۔ مجھے اس پر خواب میں خوشی ہوتی ہے اور میں اسے بتانا چاہتا ہوں کہ جس کے متعلق تم کہتے ہو وہ خلیفہ مَیں ہی ہوں۔ وہ میری بات فورًا سمجھ کر اشارہ کرتا ہے کہ آپ بولیں نہیں۔ اوراس کے بعد اُس نے الگ یا کان میں مجھے بتایا کہ ہم چند لوگ احمدی ہیں اور باقی لوگ دہریہ ہیں۔ میں پوچھتا ہوں یہ کونسا علاقہ ہے؟ تو وہ کہتا ہے یہ روس کا علاقہ ہے۔ اور کہتا ہے کہ میں مناسب نہیں سمجھتا کہ ان لوگوں کو آپ کا پتہ لگ جائے۔ اسکے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ یہ رؤیا بھی اس امر کی خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو روس میں احمدیت کی تبلیغ کے ذرائع کھول دے۔ ممکن ہے ترکی کے علاقہ کی طرف سے یا ایران کے علاقہ کی طرف سے اللہ تعالیٰ روس میں تبلیغ اسلام کا رستہ کھول دے۔
آخرمیں مَیں اپنا ایک تازہ رؤیا جو اہم ہے اور جس کا بیان کرنا میرا اصل مقصود تھا اسے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ میں قادیان کے شمال مشرق کی طرف ہوں کچھ اور لوگ بھی میرے ساتھ ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ساتھ ہیں۔ میں نے وہاں بڑی بڑی عمارتیں دیکھی ہیں جیسے پرانے زمانہ کے محلات ہوتے تھے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ گویا پرانے زمانہ کا نقشہ میرے سامنے آگیا ہے جو ہمارے باپ دادا کے زمانہ میں تھا۔ اُس وقت جبکہ قادیان کی ریاست تباہ نہیں ہوئی تھی اور ہمارے باپ دادا برسرِاقتدار تھے وہ نقشہ میرے سامنے ہے۔ ان گھروں کے رہنے والوں کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ہمارے جدّی رشتہ دار ہیں۔ اُس وقت مجھے کسی نے بتایا کہ ان لوگوں نے ہمارے پڑدادا کو پیغام دیا ہے کہ آپ پوری طرح کفار کا مقابلہ نہیں کرتے۔ اگر یہ غفلت جاری رہی تو اس کے نتیجہ میں ریاست جاتی رہے گی اس لئے ہم خود ریاست پر قبضہ کر لیں گے تاکہ ہم دشمن کا مقابلہ کریں اور وہ ہم پر غالب نہ آجائے۔ ممکن ہے ہمارے کسی پڑدادا کے زمانہ میں جب ریاست میں کمزوری پیدا ہوئی ہو کسی رشتہ دار نے ایسا کہا بھی ہو۔ بہرحال یہ بات میں نے پرانے زمانہ کے متعلق وہاں سنی ہے۔ پھر میں وہاں سے چل پڑا۔ اُس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دشمن ہمارے نقصان کی فکر میں ہے۔ میں آگے آگے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میرے پیچھے پیچھے ہیں اور آپ کے پیچھے جماعت کے لوگ ہیں۔
یہ خواب کا نقشہ ایسا ہی ہے جیسے شیخ احمد صاحب سرہندی نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں آگے آگے ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میرے پیچھے ہیں۔ جب انہوں نے اپنا یہ خواب لوگوں کے سامنے بیان کیا تو جہانگیر کے پاس اُس کی شکایت ہوئی اور اس نے سرہندی صاحب کو گوالیار کے قلعہ میں قید کر دیا کہ یہ شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہتک کرتاہے۔ لیکن آخر اللہ تعالیٰ نے اُس کو توجہ دلائی اور اس نے سید صاحب سے پوچھاکہ اس خواب کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ جرنیل ہمیشہ بادشاہ کے آگے ہی چلا کرتا ہے۔ جو جرنیل مقرر ہوتا ہے کیا وہ بادشاہ کو لڑائی میں آگے کیا کرتا ہے یا خود آگے ہو کر لڑا کرتا ہے؟ اسی طرح مجھے خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کی حفاظت کے لئے تجھے جرنیل مقرر کیا گیا ہے۔ تو سرہندی صاحب کے خواب کی طرح میں رؤیا میں دیکھتا ہوں کہ میں آگے ہوں میرے پیچھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں اور آپ کے پیچھے جماعت کےا فراد ہیں۔ چلتے چلتے ایک جگہ ایسی ہے جیسے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے مکانات ہیں۔ ان کے مکانات کے پاس سے ہم مکانات میں جانے کے لئے داخل ہوئے ہیں۔ اس جگہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چوک تک جانے کے لئے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ کی طرف میں گیا ہوں تو وہ بند ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن نے شرارت کی وجہ سے اسے بند کیا ہے تاکہ ہمیں راستہ نہ ملے اور وہ حملہ کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ جب دیکھا کہ راستہ بند ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فکر کی آواز سے کہا کہ یہ راستہ تو بند ہے۔ اُس وقت میں نے دوسری طرف دیکھ کر کہا یہ راستہ کھلا ہے۔ وہ راستہ اس قسم کا ہے جیسے پرانے زمانہ میں مکانوں کے آگے پردہ کے لئے ایک دیوار بنائی ہوئی ہوتی تھی تاکہ باہر سے مکان کے اندر نظر نہ پڑسکے۔ خواب میں اسی طرح کی ایک دیوار ہے اور اس کے ساتھ راستہ ہے۔ میں اس میں داخل ہو کر پہلے جنوب کی طرف اور پھر مڑ کر مغرب کی طرف گیا ہوں۔ وہاں بھی دروازہ بند معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل وہ بند نہیں بلکہ کھلا ہے۔ اور جس طرح سپرنگ والا دروازہ ہوتا ہے کہ کھولیں تو کھل جاتا ہے اور چھوڑ دیں تو آپ ہی آپ بند ہو جاتا ہے اس قسم کا وہ دروازہ ہے۔ میں نے اُس کو سوٹی سے دھکّا دیا تو وہ کھل گیا۔ اس میں سے گزر کر ہم چوک میں آگئے ہیں۔ چوک میں ایک کمرہ ہے جو بہت وسیع ہے اور اس میں بیس پچیس کے قریب چارپائیاں آسکتی ہیں اور کچھ چارپائیاں وہاں بچھی ہوئی بھی ہیں۔ ان میں سے دو چارپائیاں شمالاً جنوباً بچھی ہوئی ہیں اور باقی شرقاً غرباً بچھی ہوئی ہیں۔ جو چارپائیاں شمالاً جنوباً بچھی ہوئی ہیں اُن کی پائینتی کی طرف دوسری چارپائیاں ہیں جو شرقاً غرباً بچھی ہوئی ہیں۔ ان دو میں سے ایک پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیٹھ گئے ہیں اور ایک پر مَیں بیٹھ گیا ہوں اور باقی جماعت کے افراد دوسری چارپائیوں پر بیٹھ گئے ہیں جو شرقاً غرباً بچھی ہوئی ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے چارپائی پر بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر جہاں تک یاد پڑتا ہے کھڑے ہو کر بڑے جوش سے تقریر شروع کی۔ تقریر میں مَیں نے ایک خاص بات بتائی ہے جس کا اظہار خطبہ میں کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ میں نے جماعت کے جن دوستوں کو بتانا مناسب سمجھا تھا اُن کو بُلا کر اُسی دن وہ بات بتا دی تھی۔ بہرحال میں نے ایک چیز کی طرف توجہ دلائی ہے جو جماعت کی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور بار بار میں اُس کی اہمیت بیان کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اگر تم یہ کام نہیں کرو گے تو احمدیت کو نقصان پہنچے گا اور آئندہ اس نقصان کا مٹانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ دیکھو سب کے سب لوگ اس مقصد کو اپنے سامنے رکھ لو اور اس کو سامنے رکھ کر کام کرو۔ اُس وقت میں جوش میں آکر یہ آیت پڑھتا ہوں کہ دیکھو خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ 1 کہ اس مقصد کو سامنے رکھ کر تم جدھر بھی منہ کرو گے وہیں اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہو گا۔ اُس وقت میں نے اس آیت کی ایک ایسی تفسیر بیا ن کی جو جاگتے ہوئے کبھی میرے ذہن میں نہیں آئی۔ میں نے اس آیت کو پڑھنے کے بعد اسے دہرانا شروع کیا اور تُوَلُّوْا کے لفظ پر زور دیا اور جماعت کو توجہ دلائی کہ دیکھو تُوَلُّوْا جمع کا لفظ ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مسلمانو! تم بحیثیت جماعت جدھر بھی پھرو گے اُدھر ہی اللہ تعالیٰ کا منہ ہو گا۔ اور میں کہتا ہوں دیکھو فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر جماعت کا مقصد ایک ہو تو اس ایک مقصد کو سامنے رکھ کر پھر خواہ اس کے افراد مختلف جہات کی طرف جائیں اِن میں تفرقہ پیدا نہیں ہو گا بلکہ وہ بحیثیت قوم کام کرنے والے ہوں گے۔ اور اگر کسی مقصد کے بغیر جماعت ایک طرف بھی چلے تب بھی وہ پراگندہ اور متفرق ہوں گے کیونکہ ان کے سامنے کوئی مقصد نہیں۔ جیسے ہمارے جلسہ سالانہ کے موقع پر کسیر جمع کرتے ہیں اب اگر کسیر جمع کرنے کے لئے کوئی مشرق کی طرف چلا جائے اور کوئی مغرب کی طرف چلا جائے اور کوئی شمال کی طرف چلا جائے اور کوئی جنوب کی طرف چلا جائے تو باوجود مختلف جہات کی طرف جانے کے یہ متفرق نہیں ہوں گے بلکہ ایک ہی ہوں گے کیونکہ گو ان کی جہات مختلف ہیں مگر مقصد ایک ہی ہے۔ اور اس متحدہ مقصد کے لئے بظاہر مختلف جہات میں کام کر رہے ہیں مگر خدا کے نزدیک وہ سب ایک ہی ہیں۔ لیکن اگر وہی دس پندرہ یا بیس آدمی اکٹھے مشرق کی طرف جا رہے ہوں مگر ان کے سامنے کوئی بھی مقصد نہ ہو اور کچھ بھی ذہن میں نہ ہو کہ کہاں کیوں اور کس کام کے لئے جا رہے ہیں تو بظاہروہ اکٹھے نظر آئیں گے لیکن حقیقت میں وہ پراگندہ اور متفرق ہوں گے کیونکہ ان کے سامنے کوئی مقصد نہیں۔ تو مَیں خواب میں کہتا ہوں کہ یہ مت خیال کرو کہ تم سب کا ایک جہت میں جانا ہی ضروری ہے بلکہ اگر تم مختلف جہات کی طرف ایک ہی مقصد لے کر جاؤ گے تو خداتعالیٰ کے نزدیک تم اکٹھے ہی سمجھے جاؤ گے اور خداتعالیٰ تمہارے ساتھ ہو گا اور تمہیں اپنا چہرہ دکھا دے گا۔ پھر مَیں اس کا م کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہوں کہ یہ کام بظاہر دنیوی نظر آتا ہے لیکن یہ دنیوی نہیں۔ جو بھی اس کا م کو کرے گا جس طرف بھی وہ پھرے گا اور جس جہت کو بھی وہ نکلے گا وہاں وہ خداتعالیٰ کا چہرہ دیکھ لے گا اور خداتعالیٰ اپنے آپ کو اُس پر ظاہر کر دے گا۔ جب میں یہ تفسیر بیان کر رہا ہوں میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ خوشی سے چمک رہا ہے۔ اس کے بعد میں بیٹھ گیا اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ میں لیٹ گیا اور میں نے کہا کہ اب دوست چلے جائیں۔ جب میں نے کہا کہ اب دوست چلے جائیں تو کچھ دوست جلدی سے اٹھ کر چل پڑے اور کچھ آہستہ آہستہ اٹھنے لگے اور کچھ بیٹھے رہے۔ اس موقع پر ایک نوجوان کھڑا ہؤا اچھی طرح معلوم نہیں کہ کون ہے یا ناصر احمد ہے یا میر محمد اسحاق صاحب مرحوم ہیں جو اٹھ کر لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ جب کہا گیا ہے کہ چلے جاؤ تو پھر تم کیوں نہیں جاتے؟ اور جو بیٹھے ہیں ان کو اٹھار ہے ہیں۔ اُس وقت میری چارپائی پر دائیں طرف ایک نوجوان بیٹھا ہے جو رشتہ دار معلوم ہوتاہے۔ غالباً دامادوں میں سے کوئی ہے۔ رشتہ پوری طرح ذہن میں نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے گھر کا کوئی فرد ہے۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بات کو دیکھ کر کہ لوگوں نے پوری طرح میری فرمانبرداری نہیں کی چارپائی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اُس نوجوان کے پاس آکر اور اُس کا بازو پکڑکرفرمایا کہ جانا ہے تو جاؤاور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جانا۔ اُس وقت میرے ذہن میں یہ آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ خیال نہیں کہ اُس نے نافرمانی کی ہے بلکہ آپ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ تعلق کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ میرا پاس رہنا ضروری ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھتے ہیں کہ اگریہ بغیر استثناء کے بیٹھا رہا تو دوسرے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ حکم کا ماننا ضروری نہیں تو آپ یہ بتانے کے لئے اور یہ احساس پیدا کرانے کے لئے کہ حکم کی پوری فرمانبرداری کرنی چاہیے اور اس وسوسہ کو دور کرنے کے لئے جو اُس نوجوان کے بیٹھنے سے لوگوں کےد لوں میں پیدا ہو سکتا ہے اُس نوجوان سے فرماتے ہیں کہ جانا ہے تو جاؤ اور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جانا۔ دوسرے میرا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اس نوجوان نے بیٹھنا ہو اور نکالنے والے اس کو باہر نکال دیں اور اس کی ہتک ہو۔ تو یہ دونوں باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقصود تھیں کہ نکالنے والے اس کو نکالیں نہیں اور اس کے بیٹھے رہنے کی وجہ سے کسی کو ٹھوکربھی نہ لگے۔ اور یہ نہ سمجھا جائے کہ حکم کا ماننا ضروری نہیں کیونکہ یہ نوجوان حکم کے باوجود بیٹھا ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ جانا ہے تو جاؤ اور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جانا اُس وقت میری آنکھ کھل گئی۔
اس رؤیا میں ایک اہم بات وہ ہے جس کو میں نے ظاہر نہیں کیا۔ وہ بات سلسلہ کی ترقی کےساتھ تعلق رکھتی ہے۔ میں نے اُس کو اِس لئے ظاہر نہیں کیا کہ اگر ایسی باتیں ظاہر کر دی جائیں تو پھر دشمن بھی مقابلہ میں تیاری شروع کر دیتا ہے اور پھر وہ مقصد حل تو ہو جاتا ہے مگر دقتیں پیش آ جاتی ہیں۔ اس لئے بعض لوگوں کو جن کو بتانا میں نے مناسب سمجھا یا جو اس کام کے اہل تھے اُن کو بلا کر وہ بات میں نے بتا دی تھی۔ بعض اَور لوگ جو میرے نزدیک اس کام کے اہل ہوں گے اُن کو بھی بتا دوں گا۔ گو وہ بات تو معمولی ہے کوئی خاص بات نہیں مگر بہرحال وہ ایسی ہے کہ اگر دشمن کو اُس کا پتہ لگ جائے تو وہ ہمارے کام میں روڑے اٹکا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس بات کے علاوہ بھی اس رؤیا میں بڑے بڑے اہم معاملات بتائے گئے ہیں۔
ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ میرے پیچھے چل رہے ہیں۔ جس میں خداتعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اِس زمانہ میں خداتعالیٰ نے احمدیت کی ترقی کو میرے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ گو یا جدھرمیں ہوں گااُدھر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوں گے اور اُدھر ہی خداتعالیٰ ہو گا۔
دوسرے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے کہنے پر کہ اب دوست چلے جائیں اور جب بعض لوگوں نےسستی دکھائی تو اس پر آپ کا جوش میں آجانا کہ لوگوں نے کیوں فرمانبرداری نہیں کی اور اس جوش میں چارپائی سے اٹھ کر اُس نوجوان کے بازو کو پکڑ کر کہنا کہ جانا ہے تو جاؤ اور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جانا بتاتا ہے کہ امام کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کو ماننا بھی ضروری ہے اور جو لوگ اس حکم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتے ہیں۔
تیسرے اس رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے اَيْنَمَا تُوَلُّوْا کے ماتحت اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جماعت کو چاہیے کہ ایک مقصد کو سامنے رکھ کر کام کرے۔ اگر جماعت ہمیشہ ایک مقصد کو سامنے رکھ کر کام کرے گی تو خداتعالیٰ ہماری جماعت کو اپنا چہرہ دکھانے میں بخل نہیں کرے گا۔ لوگ ساری ساری عمر وظیفے کرنے میں گزار دیتے ہیں اور ساری عمر اندھے ہی رہتے ہیں اور اندھے ہی مر جاتے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ اگر جماعت ایک مقصد کو سامنے رکھ کر چلے گی اور دین کی ترقی اور شوکت کے لئے کوشش کرے گی تو جدھر بھی وہ منہ کرے گی اور جہاں بھی جائے گی جب یہ وہاں پہنچے گی تو دیکھے گی کہ اللہ تعالیٰ اس کے انتظار میں پہلے سے وہاں کھڑا ہے۔
پس اس رؤیا میں بشارتوں والی کئی شِقیں ہیں۔ خداتعالیٰ ہماری جماعت کو اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جن لوگوں پر میں نے اس بات کا اظہار کیا ہے خداتعالیٰ اُن کو توفیق دے کہ وہ اپنا فرض سمجھیں۔ اور دوسرے حصہ کو بھی جس پر میں نے یہ بات ظاہر نہیں کی عمدگی سےاس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ اور بار بار اور ہر جگہ پر عمدگی سے اپنی چہرہ نمائی فرمائے تاکہ ہم اگلے جہان میں اُس کا چہرہ دیکھنے کے انتظار میں نہ رہیں بلکہ اِسی دنیا میں ہمیں اُس کا چہرہ نظر آجائے۔ آمین۔ ’’ (الفضل مورخہ 7 مئی 1945ء)

1: البقرۃ:116

15
آئندہ نسلوں میں قربانی، محنت، اور بروقت کام کرنے کی روح کس طرح پیدا کی جائے
(فرمودہ 4مئی 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘تین دن کی بات ہے ڈلہوزی میں مَیں نے ایک رؤیا دیکھا کہ کوئی شخص ماریسن نامی انگریز ہیں وہ کہتے ہیں کہ چالیس سال کے عرصہ تک کانگڑہ کے ضلع میں میرے جیسا اور عقلمند آدمی پیدا نہیں ہوگا یا شاید یہ کہا ہے کہ پایانہیں جائے گا۔ میں اُس وقت رؤیا میں سمجھتا ہوں کہ ماریسن سے وہ وزیر مراد ہے جو لیبر پارٹی کی طرف سے وزارت میں شامل ہیں۔ یہ فقرہ سن کر میرے دل میں فوراً یہ بات گزری کہ ‘‘انشاء اللہ’’ انہوں نے نہیں کہا۔ اگر یہ ‘‘انشاء اللہ’’ کہہ لیتے تو اچھا تھا۔ پھر ساتھ ہی میرے دل میں یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کانگڑے کے ساتھ ان کا کیا تعلق ہے۔ کانگڑہ ہندوستان کا علاقہ ہے اور یہ انگلستان کے رہنے والے ہیں۔ اس سوال کے پیدا ہوتے ہی میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ کانگڑے کا لفظ استعارۃً انگلستان کے لئے بولا گیا ہے۔ اور کانگڑے میں چونکہ آتش فشاں پہاڑ ہیں اس لفظ میں انگلستان کی آئندہ حالت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ انگلستان میں بھی بہت کچھ ردّ و بدل اور اُتار چڑھاؤ کا زمانہ آرہا ہے اور جس طرح آتش فشاں علاقے میں زلزلے آتے رہتے ہیں اِسی طرح انگلستان میں بھی سیاسی اور اقتصادی اُتار چڑھاؤ رونما ہونے والے ہیں۔ اور مسٹر ماریسن کے قول کا مطلب یہ معلوم ہوتاہے کہ ایسے تغیرات اور فساد کے وقت مَیں سب سے اچھا کام کرنے والا ثابت ہوں گا۔
اس رؤیا سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ جو بظاہر اب ختم ہو رہی ہے اس کو ختم نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ اس جنگ کے نتائج میں بعض اَور ایسی باتیں پیدا ہونے والی ہیں جن کی وجہ سے شورش اور جھگڑے، اختلافات اور مناقشات کا سلسلہ جاری ہو جائے گا۔ اور نہ صرف یہ کہ یہ جھگڑے اور فسادات جیسا کہ پہلی بعض رؤیا میں بتایا جا چکا ہے انگلستان سے باہر رونما ہوں گے بلکہ خود انگلستان میں بھی مناقشات اور اختلافات کا دروازہ زیادہ وسیع ہو جائے گا۔ اور انگلستان کانگڑے کے علاقہ کی طرح ایک آتش فشاں مادہ رکھنے والا ملک ثابت ہوگا۔ مگر ساتھ ہی اِس میں اِس بات کی خبر معلوم ہوتی ہے کہ انگلستان ان جھگڑوں اور فسادات کے نتیجہ میں تباہ نہیں ہو گا کیونکہ رؤیا میں ایک شخص کی زبانی یہ کہا گیا ہے کہ میرے جیسا دانا اور سمجھ دار آدمی اتنے سالوں میں کوئی نہیں ہو گا۔ ایسا فقرہ وہی کہا کرتاہے جو ان مناقشات اور فسادات کو کم کرنے یا دور کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ لیبر پارٹی کی وجہ سے جن خطرات کا امکان پایا جاتا ہے وہ خطرات مسٹر ماریسن کے اثر کے نتیجہ میں دور ہو جائیں یا کم ہو جائیں یا ممکن ہے کہ مسٹر ماریسن اپنی پارٹی کو بدل کر کسی اَور پارٹی میں شامل ہو جائیں اور ان کو ایسا کام کرنے کا موقع مل جائے۔ بعض دفعہ ناموں کی تعبیر بھی ہوتی ہے۔ ممکن ہے اس نام کی بھی تعبیر ہو۔ مجھے اِس وقت اِس نام کے معنے معلوم نہیں۔ اور اگر ظاہر مراد ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ مسٹر ماریسن کو کوئی بڑا کام کرنے کا موقع ملے گا۔
میں اس سے پہلے مسٹر ماریسن کے متعلق ذاتی طور پر کوئی واقفیت نہیں رکھتا۔ مجھے ان کے متعلق بہت ہی کم ذاتی واقفیت ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن اخباری لحاظ سے بھی مسٹر ماریسن کے متعلق کوئی ایسی معلومات حاصل نہیں جن کی وجہ سے ان سے کوئی لگاؤ ہو۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ خوابیں دماغی خیالات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اگر ایسا ہوتاتو میری خواب میں ان لوگوں میں سے کسی کا نام آنا چاہیے تھا جن کےسا تھ ہمارے ذاتی تعلقات رہے ہیں یا جو سیاسی لحا ظ سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں یا جن سے ہماری جماعت کو کام پڑے ہیں۔ اگر اس بناء پر کوئی نام آتا تو سیاسی لحاظ سے مسٹر چرچل(Mr.Churchill)کا نام آنا چاہیے تھا یا ہندوستان کے تعلقات کے لحاظ سے مسٹر ایمری کا نام آنا چاہیے تھا۔ یا پرانے تعلقات کے لحاظ سے ارل ونٹرسن، سرٹیلر Sir Taylor) (یا لارڈ ہیلی فیکس(Lord Halifax) کا نام آنا چاہئے تھا۔ یا کشمیر کے معاملہ کے وقت کے میل جول کے لحاظ سے لارڈ ٹسپٹن کا نام آنا چاہئے تھا جو پہلے سموئیل ہوم(Samuel Holme) کہلاتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے بعض کے ساتھ ہمارے تعلقات جماعتی طور پر رہے ہیں اور ہم نے ان سے کوئی کام لیا ہے۔ اور بعض وہ ہیں جن سے چودھری ظفراللہ خان صاحب کو ملنے کا موقع ملا ہے۔ یا بعض لوگ ایسے ہیں جن سے براہِ راست ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن سیاسی لحاظ سے وہ انگلستان کی زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں۔
پس یہ الٰہی خواب ہونے کا ایک نشان اور ثبوت ہے کہ ایسے شخص کے متعلق خبر دی گئی ہے جن کے ساتھ گزشتہ زمانہ میں ہمارا کوئی تعلق نہیں رہا اور عقل باور نہیں کر سکتی کہ ایسے شخص کو چننے کی دماغ کوئی خاص مناسبت رکھتا تھا۔ دماغ تو ایسے ہی آدمیوں کو چُن سکتا ہے جن کے ساتھ سابق میں کوئی تعلق رہا ہو۔ لیکن ایسا شخص جس کے ساتھ نہ ہمارے دوستوں کا کوئی تعلق ہے نہ ہی ہمارا اس سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی اس نے کوئی ایسا کام کیا ہے جس کی وجہ سے وہ نمایاں حیثیت سے آگے آیا ہو اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہا ہو۔ اس کا نام بتایا جانا اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ یہ خواب دماغی نہیں بلکہ خدائی ہے۔
اِس کے بعد میں آج کے خطبہ کا مضمون لیتا ہوں۔ میں نے بار بار جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ قومیں اگلی نسل سے بنا کرتی ہیں کوئی قوم اپنی زندگی کا اعتبار نہیں کر سکتی۔ اگر اس کی اگلی نسل کارآمد، نیک اور محنتی نہ ہو۔ جب کبھی قوم پر زوال آتا ہے تو آئندہ نسلوں سے آتا ہے اور جب بھی ترقی ہوتی ہے تو وہ بھی آئندہ نسلوں سے ہوتی ہے۔ دوام بخشنے والی چیز اولاد ہی ہے۔ اگر اولاد انسان کو حاصل ہوتی ہے تو اُس خاندان کا نام رہتا ہے اور اگر اچھی اولاد حاصل ہوتی ہے تو اس کے مذہب اور اس کی قوم کا نام رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو انسان کے اندر اولاد کی خواہش رکھی ہے یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو دوام بخشنا چاہتا ہے۔ ہر ماں اور ہر باپ ایک لڑکے یا لڑکی کی جستجو میں رہتے ہیں۔ جن گھروں میں اولاد نہیں ہوتی باپ بھی اور مائیں بھی سخت غمزدہ ہوتی ہیں۔ کبھی طبیبوں سے علاج کراتے ہیں، کبھی دائیوں سے
مشورے لیتے ہیں، کبھی دعائیں کرتے اور دعائیں کراتے ہیں کہ ہمارے ہاں اولاد نہیں،اولاد ہو جائے۔ حالانکہ اولاد کیا فائدہ پہنچاتی ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ ہزاروں ہزار انسان دنیا میں ایسے ہیں پچاس ساٹھ یا ستر فیصدی نہیں بلکہ نوے فیصدی لوگ ایسےہیں جنہوں نے اپنی اولاد سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اگر تو نوے فیصدی لوگ ایسے ہوتے کہ ان کی اولاد انہیں فائدہ پہنچاتی اور اُن کی خبر گیری کرتی تو ہم سمجھتے کہ اولاد کی خواہش انسان کے اندر اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ وہ اولاد سے فائدہ اٹھائے مگر ہم تو دیکھتے ہیں کہ اِدھر اولاد جوان ہوتی ہے اور اُدھر وہ اپنے بیوی بچوں کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ سینکڑوں بوڑھے میرے ذاتی علم میں ایسے ہیں جو اس بات کے محتاج تھے کہ اُن کی خبر گیری کی جاتی مگر اُن کے لڑکوں یا لڑکیوں نے اُن کی طرف توجہ نہیں کی۔ کیونکہ وہ لڑکیاں اپنےخاوندوں یا لڑکے اپنی بیویوں کے چونچلوں میں مشغول ہوگئے۔ یہ نظارہ عام طور پر دنیا میں نظر آتا ہے کہ گھروں میں ماں باپ کی قدر نہیں کی جاتی۔ گو بعض قدر کرنے والے بھی ہوتے ہیں مگر وہ خدمت سے قاصر رہتے ہیں اِدھر وہ جوان ہوئے اور اُدھر اُن کے ماں باپ دنیا سے چل بسے تو جب بالعموم یہ با ت دنیا میں نظر آتی ہے تو ان حالات میں یہ شدید خواہش جو انسان کے دل میں اولاد کے متعلق پائی جاتی ہے وہ دماغی تأثرات کا نتیجہ نہیں قرار پا سکتی۔ بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض طبعی خواہش ہے۔ عقلی خواہش کی بنیاد ہمیشہ دلیل اور تجربہ پر ہوتی ہے لیکن طبعی خواہش کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں ہوتی۔ پس جب دنیا میں اِس بات کی کوئی دلیل نظر نہیں آتی تو معلوم ہؤا کہ یہ طبعی خواہش ہے جو خداتعالیٰ نے بنی نوع انسان میں تسلسل قائم رکھنے کے لئے رکھی ہوئی ہے۔
کہتے ہیں کہ اولاد سے نام قائم رہتا ہے مگر نام کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو کہاں قائم رہتا ہے؟ کوئی پوچھے کہ تمہارے پڑدادا کا نام کیا ہے؟ تو لوگ کہہ دیتےہیں پتہ نہیں حالانکہ پڑدادا قریب کی چیزہے۔ پڑدادا کے معنے ہیں باپ کا دادا۔ تو دنیا میں ہزاروں لاکھوں آدمی ایسے ہیں جو اپنےپڑدادا کا نام نہیں جانتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی اِس مسجد کے دروازہ پر کھڑا ہو جائے اور وہ ہر گزرنے والے سے پوچھے کہ تمہارے پڑدادا کا کیا نام ہے؟ تو
مجھے یقین ہےکہ پچاس فیصدی لوگ یہ کہیں گے کہ ہمیں پتہ نہیں۔٭ جب اتنی جلدی لوگ اپنے باپ دادوں کا نام بھول جاتے ہیں تو پھر اس دلیل کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے کہ اولاد ہو گی تو ہمارا نام قائم رہے گا۔ نام کہاں قائم رہتا ہے؟ کتنے لوگوں کی اولاد ہے جو اپنے ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کا ذکر کرتی ہے؟ ان لوگوں کو دیکھ لو جن کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور سوچو تو سہی کہ وہ کتنی دفعہ اپنے ماں باپ کا ذکر خیر کرتے ہیں؟ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے والدین کو یاد رکھتے ہیں۔ تحریک جدید سے اِس بات کا پتہ لگ جاتا ہے۔ تحریک جدید میں حصہ لینے والوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حصہ لیا ہے۔مگر یہ لوگ دس فیصدی بھی نہیں بلکہ پانچ فیصدی بھی نہیں۔ پانچ فیصدی کے حساب سے پانچ ہزار میں سے اڑھائی سو بنتے ہیں۔ مگر میرے خیال میں تو اڑھائی سوبھی ایسے نہیں جنہوں نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حصہ لیا ہو۔ ٭٭ تو ماں باپ کا تعلق بالکل قریب کا تعلق ہے مگر لوگ ان کو بھی یاد نہیں رکھتے۔ ماں باپ کس طرح تکلیف اٹھا کر اور اپنی ضرورت کو پیچھے ڈال ڈال کر بچوں کی پرورش کرتے اور ان کو پڑھاتے لکھاتے ہیں۔ لیکن وہی بچے جب بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے والدین پر ایک پیسہ خرچ کرنے میں بھی دریغ محسوس کرتے ہیں۔ میرے پاس کئی ایسے جھگڑے آتے ہیں اور ماں باپ آکر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہم ضعیف ہو گئے ہیں اور ہمارے لڑکے ہماری خدمت نہیں کرتے۔ جب لڑکوں سے پوچھا جائے تو کہتے ہیں تنخواہ تھوڑی ہے دو اڑھائی سو روپیہ تو ملتا ہے مشکل سے اپنا گزارہ ہوتا ہے ا ن کی خدمت کہاں سے کریں؟ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے باپ کا گزارہ ان سے بھی کم تھا لیکن اِس کے باوجود ان پر خرچ کرتے تھے۔ غرض ہر نسل کی نظر آگے کی طرف جارہی ہے جس سےپتہ لگتا
٭جب میں خطبہ کے بعد گھر آیا تو مجھے ایک خاتون نے بتایا کہ ہم پانچ عورتیں اکٹھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ خطبہ کے بعد ہم نے ایک دوسرے سے اس کے پڑدادا کا نام پوچھا تو پانچ میں سے صرف ایک کو پڑدادا کا نام معلوم تھا۔
٭ ٭ بعد میں اندازہ لگوایا گیا تو وہ لوگ جنہوں نے ماں باپ کی طرف سے حصہ لیا ہے صرف دو سو کے قریب ہیں۔
ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر اولاد کی خواہش کا مادہ اِس لئے رکھا ہے تاکہ بنی نوع انسان کے تسلسل کو جاری رکھے اگر یہ خواہش نہ ہوتی تو دنیا کے واقعات کو دیکھ کر اکثر ماں باپ اولاد پیدا کرنے کے مخالف ہوتے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ماں باپ مصیبتیں اٹھاتے ہیں، دکھ سہتے ہیں، بھوکے رہتے ہیں، بچہ جننے کی وجہ سے ماؤں کو ہزاروں قسم کی بیماریاں لگ جاتی ہیں پھر بھی ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بچے ہو جائیں۔ حالانکہ بچوں سے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا سوائے نیک اور وفا شعار اولاد کے۔ پھر بھی چھ چھ سات سات بچے ہونے پر بھی اگر درمیان میں وقفہ پڑ جائے تو عورتیں کہتی ہیں مدت سے بچہ نہیں ہوا ایک بچہ اَور ہو جائے۔ ساری عمر عورت کا خون اولاد کے پیدا کرنے میں بہتا چلا جاتا ہے مگر وہ پروا نہیں کرتی۔ کئی عورتیں منہ سے تو کہتی ہیں کہ ہمیں اولاد کی خواہش نہیں مگر ان کی باتوں سے عیاں ہو جاتا ہے کہ وہ صرف شرم و حیا کی وجہ سےا یسا کہہ رہی ہیں ورنہ اُن کا دل اولاد نہ ہونے کی وجہ سے زخمی ہوتا ہے۔
پس اولاد کی خواہش ایک طبعی خواہش ہے اور یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ اس کے پیچھے جو جذبہ خداتعالیٰ نے رکھا ہے وہ یہی ہے کہ نسلِ انسانی قائم رہے۔ گو انسان اس کو شکل یہ دیتا ہے کہ نام قائم رہے۔ گو نام بھی کچھ مدت تک قائم رہتا ہے۔ باپ کا نام بیٹے نے یاد رکھا یا دادا کا نام پوتے نے یاد رکھا۔ اور بعض خاندانوں میں چار چار پانچ پانچ پُشت تک بھی نام قائم رہتا ہے۔ لیکن بعض جگہ نام بالکل قائم نہیں رہتا۔ بیٹے باپ کا نام لینا اور یہ کہنا کہ ہمارے باپ کا یہ نام تھا پسند نہیں کرتے بلکہ وہ جگہیں چھوڑ دیتے ہیں جہاں ان کے باپ نے غربت میں زندگی گزاری ہو کیونکہ اُس جگہ رہنا وہ ہتک سمجھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی ہندو کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ اُس نے مصیبت اٹھا کر اور تکلیف برداشت کر کے اپنے لڑکے کو پڑھایا لکھایا اور اسے گریجوایٹ کرایا۔ اُس وقت گریجوایٹ ہونا بھی بڑی بات تھی اس لئے وہ ای۔اے۔سی ہو گیا۔ باپ اِس بات کو سن کر کہ میرا لڑکا ڈپٹی ہو گیا ہے بہت خوش ہؤا۔ اُس وقت بڑے سے بڑا درجہ یہی سمجھا جاتا تھا کہ کوئی ہندوستانی ای۔ اے۔سی ہو جائے۔ اُس وقت اسے گورنری کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے وہ بڑے شوق سے اپنے بیٹے سے ملنے کے لئے گیا کہ ذرا میں بھی جا کر اس کی عزت میں شریک ہوں۔ اور میں بھی لوگوں سے سلام کراؤں کہ میرا بیٹا ڈپٹی ہے۔ جب یہ وہاں پہنچا تو ڈپٹی صاحب کرسیاں بچھا کر بیٹھے ہوئے تھے اور اس کے دوست ای۔اے۔سی۔ تحصیلدار، رؤساء اس کے پاس بیٹھے تھے۔ وہ تمام سُوٹڈ بُوٹڈ اور عمدہ لباس میں تھے۔ یہ بھی اپنی دھوتی اور جنیوُّ 1پہنے ایک کرسی پر جا کر بیٹھ گیا۔ اس کے لباس سے غربت ٹپکتی تھی۔ پہلے بھی غریب تھا پھر لڑکےکی تعلیم اور پڑھانے لکھانے پر جو کچھ تھا وہ سب خرچ ہو چکا تھا اب اُس کا سارا اثاثہ دھوتی اور جنیوُّ ہی رہ گیا تھا۔ یہ بڑے فخر سے جا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اول تو اسے امید تھی کہ میر ابیٹا آگے آکر گلے ملے گا جیسا پہلے ملا کرتا تھا۔ مگر بیٹے نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اب تو اِس بات میں کچھ کمی آگئی ہے مگرپہلے زمانہ میں چونکہ ہندوستانیوں کو اعزاز بہت کم ملتا تھا اس لئے ایسے لوگ دوسرے لوگوں کو بہت حقیر سمجھتے تھے۔ چنانچہ اس مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے بھی ایک شخص کو جو اِس قسم کا گندا لباس، میلی سی دھوتی اور جنیوُّ لٹکائے ہوئے تھا کُرسی پر بیٹھے دیکھا تو اس امر کو بُرا منایا اور حقارت سے کہنے لگے کہ یہ کون بدتہذیب ہے جوبایں ہیئت ہماری مجلس میں آبیٹھا ہے؟ اس نالائق بیٹے نے بھی اپنی عزت جتانے کے لئے جسے وہ عزت سمجھتا تھا کہا ‘‘ایہہ ساڈے گھر دے ٹہلئے نے’’ یعنی ہمارا پرانا نوکرہے اس لئے گستاخ ہو گیا ہے۔ باپ نے سنا اور حقیقت سمجھ لی کہ میرے بیٹے کے دماغ میں تغیر آچکا ہے۔ وہ غصہ سے کھڑا ہو گیا اور ان لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا۔ کہ ‘‘جی میں اینہا دا ٹہلیا نہیں اینہا دی ماں دا ٹہلیا ہاں’’ یعنی میں ان کا نوکر نہیں ان کی ماں کا نوکر ہوں۔ اس فقرہ سے وہ لوگ حقیقت سمجھ گئے۔ ان کے اندر کچھ حیا تھی وہ اس کے بیٹے کو ملامت کرنے لگے اور کہا کہ بڑا افسوس ہے آپ کو چاہیے تھا کہ آپ ہمیں اِن سے ملواتے اور ان سے انٹروڈیوس کراتے۔ لاعلمی میں اِن کی شان میں ہم سے ایسےالفاظ نکل گئے جو نامناسب تھے۔ تو ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ماں باپ کی کمزوری اور اُن کی ادنیٰ حالت کو دیکھ کر اپنی جگہیں چھوڑ دیتے ہیں، ملک بدل لیتے ہیں،و طن جانا چھوڑ دیتے ہیں تاکہ پتہ نہ لگ سکے کہ ان کے ماں باپ غریب تھے اور تاکہ وہ غریب والدین کی اولاد ہونے کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں ذلیل نہ ہو جائیں۔ پس دونوں قسم کے گروہ پائے جاتے ہیں۔ اور جو گروہ ماں باپ کا نام قائم رکھنے والا ہے وہ بھی لمبے عرصہ تک نام قائم نہیں رکھ سکتا۔ اگر ماں باپ کا نام لمبے عرصہ تک قائم رکھنا ممکن ہوتا تو ہمارے ملک میں میراثیوں کو جو شجرۂ نسب یا د کرایا جاتا ہے یہ نہ کرایا جاتا۔ کسی نے شعر کہا ہے
عجب طرح کی ہوئی فراغت جو بار اپنا گدھوں پہ ڈالا
تو جس طرح گدھوں پر بوجھ ڈال کر فراغت حاصل کی جاتی ہے یہ بھی اسی طرح کی فراغت ہے کہ میراثیوں کو اپنے باپ دادوں کے نام یاد کرا دیئے جاتے ہیں اور کہہ دیا جاتا ہے کہ چلو چھٹی ہوئی اب باپ دادا کا نام یاد رکھنے کی زحمت سے آزادی حاصل ہو گئی ہے۔ پس انسان کے اندر اولاد کی خواہش پیدا کرنے میں اصل حکمت یہ نہیں کہ باپ دادا کا نام قائم رکھا جائے بلکہ اصل میں تو خداتعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ بنی نوع انسان کے تسلسل کو اس حکمت کے ماتحت قائم رکھا جائےاور اس حکمت کے ماتحت اُس نے ماؤں اور باپوں کےدلوں میں اولاد کی خواہش پیدا کر دی ہے۔ اور سب مرد اور سب عورت اِلَّا مَا شَاءَ اللہُجس کی فطرت مسخ ہو چکی ہو یا جو اپنی قوتِ مردمی کھو چکا ہو اس خواہش کے ماتحت ہی اولاد پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہوتا، فاقے کررہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی قبروں پر جا کر منتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ اولاد ہو جائے۔ بھلا کوئی پوچھے ایک روٹی میں تم گزارہ کرتے ہو اگر ایک اَور آگیا تو تم نصف کھاؤ گے۔ اگر ان کو یہ سمجھاؤ تو کہتے ہیں ہاں جی ہم آدھی ہی کھا لیں گے مگربچہ ہو جائے۔
تو یہ انسانی فطرت کا ایک تقاضا ہے او رنسلِ انسانی کے قائم رکھنے کے لئے خدا نے اولاد کی خواہش پید اکر دی ہے۔ اس کے مقابلہ میں دین اور تقویٰ کو قائم رکھنے کے لئے اچھی نسل کا تقاضا ہوتا ہے۔ جس طرح نسلِ انسانی کے قائم رکھنے کے لئے اولاد کا تقاضا ہوتا ہے۔ اِسی طرح نیک اور متقی نسل قائم رکھنے کے لئے اچھی اولاد کا تقاضا ہوتا ہے۔ جس طرح وہ تقاضا اگر ماں باپ کے دماغوں میں کمزور ہو جائے تو نوع انسانی تباہ ہوجائے اِسی طرح اگر یہ تقاضا کمزور ہو جائے کہ دین اور تقویٰ کو قائم رکھنے کے لئے نیک اولاد پیدا کریں جو کام کرنے والی اور محنتی ہو تو قوم تباہ ہو جائے۔ ذرا ایک منٹ کے لئے اس بات کا خیال کر کے تو دیکھو کہ اگر عورتوں اور مردوں کے دل سے اولاد پیدا کرنے کی خواہش مٹ جائے تو کیا نسلِ انسانی مٹ نہ جائےگی؟ اور دس پندرہ یا بیس سال کے اندر نئی اولاد کا ملنا مشکل ہو جائے گا کہ نہیں ؟اِسی طرح سوچ لو کہ اگر نیک اور محنتی نسل پیدا کرنے کی خواہش مٹ جائے تو پندرہ بیس سال تک مذہب تباہ ہو جائے گا۔ کیونکہ جب نیک نسل پیدا کرنے کی خواہش نہ ہو گی تو وہ تدابیر بھی اختیار نہیں کی جائیں گی جن سے آئندہ نسل نیک،متقی، دیندار اور محنتی ہو۔ جس طرح محض اولاد پیدا کرنے کے لئے لوگ دعائیں کرتے اور دعائیں کراتے ہیں اور وہمی لوگ تو ٹونے ٹوٹکے کرتے ہیں، قبروں پر جاتے ہیں، چڑھاوے چڑھاتےہیں۔ اسی طرح ایک مذہبی انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر اچھی نسل پیدا کرنے کی خواہش ہو۔ اور وہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایسے ذرائع استعمال کرے جن سے اولاد نیک، متقی، دیندار اور محنتی ہو۔
میں نے بارہا جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ سلسلہ اچھے نام کے ساتھ اور حقیقی معنوں میں قائم رہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسل کو ایک متقی اور محنتی بنائیں۔ آج دنیا میں مسلمان کہلانے والے بھی موجود ہیں، عیسائی کہلانے والے بھی موجود ہیں، ہندو کہلانے والے بھی موجود ہیں۔ آخر یہ سب مذاہب شیطان کی طرف سے تو نہیں تھے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی کرشنؑ کو بھیجا تھا اللہ تعالیٰ نے ہی رامچندرؑ کو بھیجا تھا، اللہ تعالیٰ نے ہی حضرت مسیحؑ کو بھیجا تھا۔ یہ نہیں کہ چونکہ ان کو نَعُوْذُ بِاللہِشیطان نے بھیجا تھا اس لئے ان کی قومیں شیطان کے قبضہ میں چلی گئیں۔ بلکہ جس خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اُسی خدا نے آپ کے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔ اُسی خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حضرت عیسیٰ ؑ کو بھیجا۔ اُسی خدا نے حضرت موسیٰ ؑ کو بھیجا۔ اُسی خدا نے حضرت کرشنؑ کو بھیجا اور اُسی خدا نے حضرت رام چندرؑ کو بھیجا تھا۔ اور جن معجزات اور جن کرامات کے ساتھ خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو قائم کیا اِن سے بڑھ کر معجزات اور کرامات کے ساتھ خداتعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو قائم کیا۔ اور گو ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جو معجزات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملے تھے سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو آپ سے بہرحال بلند مرتبت تھےاَور کسی نبی کو ایسے معجزات نہیں ملے۔ مگربہرحال خدا کی قدرتوں سے ہی عیسیٰؑ کی جماعت قائم ہوئی۔ خدا کی قدرتوں کے ساتھ ہی موسیٰؑ کی جماعت قائم ہوئی۔ خدا کی قدرتوں کے ساتھ ہی کرشنؑ کی جماعت قائم ہوئی اور خدا کی قدرتوں کےساتھ ہی رامچندرؑ کی جماعت قائم ہوئی۔ مگر کہاں ہیں اب وہ نشانات اور کہاں ہیں اب وہ معجزات جو دلوں کو پِگھلا دیتے تھے اور جو حیوانوں کو انسان اور انسان کو فرشتے اور فرشتہ خصلت انسانوں کو خدا کے مقرب اور عرش نشین بنا دیتے تھے۔ کہاں ہیں وہ کرامتیں اور وہ معجزات جو رامچندرؑ اور کرشن ؑنے دکھائے جنہوں نے ہندوؤں کی کایا پلٹ دی تھی۔ کہاں ہیں وہ نشانات جو قرآن مجید میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ نو بڑے بڑے نشانات حضرت موسیٰؑ کو دیئے گئے تھے۔ کیا ان نشانات میں سے نصف یا ان کا چوتھا حصہ یا ان کا کوئی حصہ بھی اب دنیا میں باقی ہے؟ حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت عیسائی تو بیان کرتے ہی ہیں مسلمان بھی اُن کو ایسا بڑھا چڑھا کر دکھاتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو تمام انبیاء سے بڑھا دیتے ہیں۔ ان کے معجزات میں سے علمِ غیب ، جانوروں کا پیدا کرنا، مُردوں کو زندہ کرنا، بیماروں کو پُھونک مار کر شفا دینا بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔ لیکن جو معجزات بھی تھے بڑے یا چھوٹے وہ انبیاء کی سنت کے مطابق تھے۔ کیا آج ان معجزات میں سے کوئی بھی باقی ہے؟ حضرت مسیحؑ نے کہا ہے کہ اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو گا اور تم پہاڑوں کو حکم دو گے کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جائیں تو تمہارے حکم سے پہاڑ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جائیں گے۔ 2مگر کیا ان معجزات میں سے کچھ بھی اب باقی ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسا انسان دنیا نے کہاں جنا اور کب جن سکتی ہے۔ وہ جو تمام بنی نوع انسان کا مقصود اور مدعا تھا،جس کی خاطر دنیا پیدا کی گئی، جو کرامتیں آپؐ نے دکھائیں اور جو معجزات آپ سے ظاہر ہوئے صحابہ کرام کی قوتِ عملیہ ،تقویٰ اور اخلاص سے پتہ لگتا ہے کہ ان کا سکھانے والا کتنا بڑا انسان تھا۔ مگر کیا وہ کرامتیں آج مسلمانوں میں نظر آتی ہیں؟ آج وہ کرامتیں اور وہ نشانات مسلمانوں کے دلوں میں بھی گُدگُدی اور اُن کے دماغ میں بھی ہیجان پیدا کرتے ہیں مگر ایک ذرہ بھرحرکت بھی تو ان میں نہیں پائی جاتی۔ آخر یہ کیوں ہے؟ صرف اس لئے کہ بعد میں آنے والی نسلوں نے نشانات دکھانے والے سے تعلق قطع کر لیا۔ ورنہ خداتعالیٰ میں نشان دکھانے کی قدرت تو پھر بھی موجود تھی۔ اور نسل بھی موجود تھی۔ مگر اس زنجیر کے ٹوٹ جانےاور تسلسل کے کٹ جانے کی وجہ سے وہ ان نشانات سے فائدہ حاصل نہ کر سکی۔ پس جو پہلوں سے ہؤا وہی ہمارے ساتھ بھی ہو گا۔ کیونکہ جو قانون پہلے تھا وہی اب بھی جاری ہے۔ ابھی تو ہماری ابتدائی حالت ہے۔ ابھی تو ہماری حالت ایسی ہی ہے جیسے کونپل نکلتی ہے۔ اگر اس حالت میں بھی ایثار کا مادہ کم ہو جائے، قربانی کا مادہ کم ہو جائے، عقل اور محنت سے کام کرنے کا مادہ کم ہو جائے اور دنیا داری بڑھ جائے تو یقینا ہمیں مستقبل کے آنے سے پہلے ہی موت کے لئے تیار ہو جانا چاہیے۔ میں نے بار بار اس بات کی طرف جماعت کو توجہ دلائی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی اِس طرف پوری توجہ نہیں کی گئی۔
ہمارے نوجوان جو آگے آرہے ہیں ان کے اندر محنت کی عادت کم ہے۔ کام سے جی چُراتے ہیں، ذکر الٰہی کا مادہ ان میں کم ہے۔ میں نے خدام کو کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ نوجوانوں کے اندر وہ یہ مادہ پیدا کریں مگر جہاں انہوں نے کچھ کام کیا ہے وہاں یہ حقیقی کام صفر کے برابر نظر آتا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ جماعت کے لوگوں سے کام پڑتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ حقیقی قربانی اور محنت نوجوانوں میں کم نظر آتی ہے۔ اَور تو اَور یہ واقفین جو کہتے ہیں ہم نے زندگی قربان کر دی ہے اِن واقفین میں سے بھی بعض غیر معقول دماغ کے ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہم نے کام کی ڈائری اِس لئے نہیں دی کہ وقت زیادہ ہو گیا تھا۔ ایک طرف وہ قوم ہے جسے ہم کافر اور بے دین کہتے ہیں جو چھ چھ سات سات دن بغیر آرام کرنے کے متواتر میدانِ جنگ میں لڑتے ہیں اور دوسری طرف یہ نوجوان ہیں جنہوں نےا پنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کی ہیں لیکن یہ کہتے ہیں کہ چونکہ چھ بجے تک کام کیا تھا اور وقت زیادہ ہو گیا تھا اِس لئے ڈائری لکھنی مشکل تھی۔ اگر ایک دن زیادہ پڑھنا پڑ جائے تو کہتے ہیں آج زیادہ پڑھنا پڑ گیا تھا اس لئے باقی کام نہیں کیا۔ اگران کا یہ حال ہے جو واقفین ہیں اور جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے لئے ہم سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں تو غیر واقفین کا کیا حال ہو گا۔ ان کے اندر بھی ابھی وہ بیداری اور وہ روح نظر نہیں آتی اور ان کے اندر بھی ابھی وہ ارادہ پیدا نہیں ہوا کہ ان میں سے کسی کے سپرد کوئی کام ہو تو وہ کہے کہ میں مر جاؤں گا مگر اپنے کام کو پورا کر کے چھوڑوں گا۔ اگر ان کے اندر عام مومن کے ایمان کا کروڑواں حصہ بلکہ دس کروڑواں حصہ بھی ہوتا تو اگر سارا دن کام کرنے کے بعد بارہ گھنٹے اَور لگتے تھے تو اِن کے اندر یہ خیال پیدا نہیں ہونا چاہیے تھا کہ انہوں نے بارہ گھنٹے یا بیس گھنٹے یا چوبیس گھنٹے کام کیا ہے اس لئے اب کام ختم کرنے سے پہلےآرام کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ یہ کام کرتے کرتے مر جاتے اور کیا ہوتا؟ پاگل ہی ہیں جو کہا کرتے ہیں کہ مرنے سے بڑھ کر کوئی اور مصیبت ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کسی مجسٹریٹ نے ایک ملزم کو یہ سزا سنائی کہ اُس کو پھانسی دے دی جائے۔ تو وہ کہنے لگا کہ اس سے تو بہتر ہے کہ مجھے مروا ہی دیں۔ تو اس قسم کی باتیں جاہلوں اور پاگلوں کی طرف تو منسوب کی جا سکتی ہیں مگر ایک واقف جو یہ کہہ کر آتا ہے کہ میں مرنے کے لئے آیا ہوں کیا اس کے منہ سے اس قسم کے لفظ بیہودہ اور پوچ عذر نکلنے زیب دیتے ہیں؟ ایک شخص کو جو واقفِ زندگی تھا میں نے کام کے لئے سندھ بھیجا۔ چار دن کے بعد وہ بھاگ آیا اور آکر خط لکھ دیا کہ وہاں کام سخت تھا اس لئے میں اس کام کو چھوڑ کر بھاگ آیا ہوں اور اب روزانہ معافی کے خطوط لکھتا رہتا ہے۔ حالانکہ دینی جنگ کے میدان سے بھاگنے والے کو قرآن کریم جہنمی قرار دیتا ہے۔ اس کے لئے معافی کیسی؟
یہ تحریک جدید کے واقفِ زندگی ہیں۔ ان کی مثال کشمیریوں کی سی ہے۔ جن کے متعلق کہتے ہیں کہ راجہ نے ان کو بلایا اور کہا کہ سرکارکو لڑائی پیش آ گئی ہے سرکار نے ہم سے بھی مدد کے لئے فوج مانگی ہے۔ میں تمہیں حکم د یتاہوں کہ تم بھی لڑنے کے لئے جاؤ۔ جو افسر راجہ سے بات کرنے کے لئے آیا تھا اُس نے کہا حضور! آپ کا نمک کھاتے رہے ہیں، آپ کا حکم سر آنکھوں پر، ساری عمر آپ کا نمک اِسی لئے تو کھاتے رہے ہیں کہ لڑائی کریں۔ اگر مہاراج اجازت دیں تو میں ذرا فوجیوں سے بات کر آؤں؟ مہاراج نے اجازت دے دی۔ جب فوجیوں سے بات کر کے واپس آیا تو عرض کیا مہاراج! فوج تیار ہے ان کو کوئی عذر نہیں مگر وہ ایک عرض کرتے ہیں۔ راجہ نے کہا کیا؟ کہنے لگا حضور! سنا ہے پٹھانوں کے ساتھ لڑائی ہے۔ پٹھان بہت سخت ہوتے ہیں اگر ہمارے ساتھ پہرہ کا انتظام ہو جائے تو ہم لڑائی کے لئے تیار ہیں۔ تو ایسے ہی ہمارے نوجوان پیدا ہو رہے ہیں۔ وہ قربانیوں کے موقع سے ڈرتے ہیں، محنت سے کام کرنے سے ڈرتے ہیں اور پھر وہ اپنے آپ کو واقفِ زندگی اور مجاہد کہتے ہیں۔ اور ہر شخص اپنے نام کے ساتھ واقف اور مجاہد لکھنے کے لئے تیار ہے مگر کام کرنے کے وقت ان کی جان نکلتی ہے۔ مگر بہرحال یہ لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے کچھ نہ کچھ تو قربانی کی ہے ان میں بعض ایسے ہیں جو دنیوی طور پر اس سے زیادہ کما سکتے تھے جتنا ان کو یہاں گزارہ ملتا ہے۔ لیکن دوسرے نوجوانوں کی حالت تو اَو ربھی بد تر ہے۔
میں نے بار بار توجہ دلائی ہے مگر خدام نے کوئی ایسا رستہ نہیں نکالا جس کے ساتھ نوجوانوں کو باقاعدہ اور متواتر کام کرنے کی عادت ہو اور وہ یہ نہ کہیں کہ وقت زیادہ ہو گیا تھا اس لئے کام رہ گیا۔ بلکہ ان کےد ل میں یہ احساس ہو کہ جو کام ہمارے سپرد کیا جائے ہم نے اسے ضرور کرنا ہے اور اسے ختم کر کے چھوڑنا ہے چاہے ڈیسک پر بیٹھے بیٹھے یامیز پر بیٹھے بیٹھے یا فرش پر بیٹھے بیٹھے یا چلتے چلتے یا کام کرتے کرتے میری جان ہی کیوں نہ نکل جائے۔ جب تک یہ مادہ اور یہ حِسّ پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے اور کبھی ہم تسلی اور اطمینان کے ساتھ یہ امانت اگلی نسل کے سپرد نہیں کر سکتے۔
احمدیت کی محبت، اخلاص اور تربیت جھگڑوں سے روکتی ہے۔ مگرلوگ معمولی معمولی بات پر جھگڑتے ہیں، عُہدوں پر جھگڑ کر ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ سارا نقص اِس وجہ سے ہے کہ احمدیت کی محبت دل میں نہیں۔ اگر احمدیت کی محبت ہوتی تو کچھ بھی ہو جاتا وہ اس کی پروا نہ کرتے۔ یہ لوگ ہسپتالوں میں جاتے ہیں، عدالتوں میں جاتے ہیں۔ کہیں ان کو چپڑاسی تنگ کرتے ہیں، کہیں ان کو کمپاؤنڈر (Compounder) دِق کرتے ہیں۔ یہ ان ساری ذلتوں کو برداشت کرتے ہیں اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے عزیز کی جان یا ہماری عزت خطرے میں ہے۔ اگر اسلام کی جان اور اسلام کی عزت کی قدر ان کے دل میں ہوتی تو یہ آپس میں ذرا ذرا سی بات پر کیوں جھگڑتے۔ تو فرق یہی ہے کہ اپنے عزیز کی جان یا اپنی عزت ان کو زیادہ پیاری ہے اس لئے کچہریوں یا ہسپتالوں میں مجسٹریٹوں یا ڈاکٹروں کی جھڑکیاں کھاتے ہیں اور ان کو برداشت کرتے ہیں۔ ان سے گالیاں سنتے ہیں اور ہنستے ہوئے کہتے چلے جاتے ہیں کہ حضور! ہمارے مائی باپ ہیں جو چاہیں کہہ لیں۔ مگر خدا کے سلسلہ اور خدا کے نظام میں معمولی بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے۔ وہاں ہسپتالوں میں دائیاں اور نرسیں اِن کو جھڑکتی ہیں، ڈاکٹر حقارت سے کہتا ہے چلے جاؤ۔ تو یہ دروازہ کے پاس جا کر چُھپ کر کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے اس کو ناراض کیا تو میرے عزیز کی جان خطرہ میں پڑ جائے گی۔ لیکن ان کو احمدیت عزیز نہیں ہوتی، اسلام عزیز نہیں ہوتا اس لئے سلسلہ اور نظام کی خاطر ادنیٰ سا بُرا کلمہ سننے کی تاب نہیں رکھتے۔
دوسری چیز محنت ہے۔ اگر واقع میں احمدیت کی محبت ہوتی تو ضرور نوجوانوں کے اندر محنت کی بھی عادت ہوتی۔ مگر ان کے کاموں میں محنت اور باقاعدگی سے کام کرنے کی عادت بالکل نہیں۔ اور اگرکوئی کسی کو اچھی بات بھی کہہ دے تو وہ چِڑ جاتا ہے کہ اس نے مجھے ایسی بات کیوں کہی۔ پس میں پھر ایک دفعہ خدام کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مشورہ کر کے میرے سامنے تجاویز پیش کریں۔ میں نے بھی اس پر غور کیا ہے اور بعض تجاویز میرے ذہن میں بھی ہیں۔ لیکن پہلے میں جماعت کے سامنے اس بات کو پیش کرتا ہوں کہ وہ مشورہ دیں کہ آئندہ نسلوں میں قربانی اور محنت اور کام کو بروقت کرنے کی روح پیدا کرنے کے لئے ان کی کیا تجاویز ہیں۔ مگر یہ شرط ہے کہ جو شخص تجویز پیش کرے وہ اپنی اولاد کو پہلے پیش کرے۔ بعض لوگ لکھنے کو تو لکھ دیتے ہیں کہ اس طرح سلوک کیا جائے، اس طرح نوجوانوں پر سختی کی جائے مگر جب خود اُن کے بیٹوں کے ساتھ سختی کی جائے تو شور مچانے لگ جاتے ہیں۔ تو جو شخص اپنی تجاویز لکھے وہ ساتھ یہ بھی لکھے کہ میں اپنی اولاد کے متعلق سلسلہ کو اختیار دیتا ہوں کہ وہ جو قانون بھی بنائیں میں اپنی اولاد کے ساتھ اس سلوک کوجائز سمجھوں گا۔ اسی طرح خدام الاحمدیہ آپس میں مشورہ کر کے مجھے بتائیں کہ نوجوانوں کے اندر محنت اور استقلال سے کام کرنے کی عادت پید اکرنے کے لئے اُن کی کیا تجاویز ہیں۔ نوجوان کام کے موقع پر سو فیصدی فیل ہو جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ مشکل پیش آ گئی اس لئے کام نہیں ہو سکا۔ وہ نوے فیصدی بہانہ اور دس فیصدی کام کرتے ہیں۔ یہ حالت نہایت خطرناک ہے اس کو دیر تک برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
پس خدام مجھے بتائیں کہ نوجوانوں کے اندر محنت سے کام کرنے اور فرائض کو ادا کرنے میں ہر قسم کے بہانوں کو چھوڑنے کی عادت کس طرح پید اکی جائے۔ مشورہ کے بعد ان تجاویز پر غور کر کے پھر میں تجاویز کروں گا اور جماعت کے نوجوانوں کو اِن کا پابند بنایا جائے گا۔ پہلے اسے اختیاری رکھیں گے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون کونسے ماں باپ ہیں جو اپنے بچوں کو سلسلہ کی تعلیم دلانا اور ان کی تربیت کرانا چاہتے ہیں۔ اور جس وقت ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے اور ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا طریق درست ہے تو پھر دوسرا قدم ہم یہ اٹھائیں گے کہ اسے لازمی کر دیا جائے ۔
بہرحال یہ کام ضروری ہے اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو احمدیت کی مثال اس دریا کی ہو گی جو ریت کے میدان میں جا کر خشک ہو جائے۔ اور جس طرح بعض بڑے بڑے دریا صحراؤں میں جا کر اپنا پانی خشک کر دیتے ہیں پانی تو ان میں اُسی طرح آتا ہے مگر صحرا میں جا کر خشک ہو جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی نالیاں پہاڑوں سے گزرتی ہوئی مِیلوں مِیل تک چلی جاتی ہیں مگر بڑے بڑے دریا ریت کے میدانوں میں جا کر خشک ہو جاتے ہیں۔ پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارے اند رمعرفت کا دریا بہہ رہا ہے۔ اگر تم میں سستی، کم محنتی اور غفلت کا صحرا پیدا ہو گیا تو یہ دریا اس کے اندر خشک ہو کر رہ جائے گا۔ چھوٹی چھوٹی ندیاں مبارک ہوں گی جو پہاڑوں کی وادیوں میں سے گزر کر مِیلوں مِیل تک چلتی چلی جاتی ہیں مگر تمہارا دریا نہ تمہارے لئے مفید ہو گا اور نہ دنیا کے لئے مفید ہو گا۔
پس یہ آفت اور مصیبت ہے جس کو ٹلانا ضروری ہے۔ اس آفت کو دور کرنے کے لئے پہلے میں جماعت کے دوستوں سے فرداً فرداً اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ سے بحیثیت جماعت مشورہ چاہتا ہوں۔ انصار اللہ سے اِس لئے کہ وہ باپ ہیں اور خدام الاحمدیہ سے بحیثیت نوجوانوں کی جماعت ہونے کے کہ ان پر ہی اِس سکیم کا اثر پڑنے والا ہے۔ اور ہر فرد سے جس کے ذہن میں کوئی نئی یا مفید تجویز ہو پوچھتا ہوں کہ وہ مجھے مشورہ دے۔ پھر میں ان سب پر غور کر کے فیصلہ کروں گا کہ آئندہ نسل کی اصلاح کے لئے ہمیں کونسا قد م اٹھانا چاہیے۔ ’’
(الفضل مورخہ 11 مئی 1945ء)
1: جَنیوُّ: وہ بٹا ہوا دھاگا جسے ہندو لوگ بدھی کی طرح گلے میں ڈالے رہتے ہیں۔
2: متی باب 17 آیت 20

16
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا ایک
عظیم الشان نشان
(فرمودہ 11 مئی 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘رات سے مجھے نقرس کا دورہ ہے اور درد کی وجہ سے میرا پاؤں سُوجا ہؤا ہے جس کی وجہ سے جمعہ کے لئے آنا بھی مشکل تھا۔ لیکن میں آتو گیا ہوں مگر کھڑا ہو کر خطبہ نہیں پڑھ سکتا۔ اس ہفتے خداتعالیٰ نےا پنے فضل اوراپنی رحمت کا نشان اِس رنگ میں دکھایا ہے کہ یورپ کی جو ابتدائی اور اصلی جنگ تھی وہ ختم ہو چکی ہے۔ اس جنگ کے متعلق میں نے بارہا بیان کیا تھا کہ قرآن مجیدسے اور خداتعالیٰ کے فعل سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ جنگ 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی یعنی اپریل 1945ء یا جون 1945ء تک۔ یہ بات خداتعالیٰ نے ایسے عجیب رنگ میں پوری کی ہے کہ اِس پرحیرت آتی ہے۔ آج ہی لاہور سے ایک طالب علم نے لکھا ہے گزشتہ سال میڈیکل کالج لاہور کے کچھ طالب علم جب آپ سے ملنے آئے تھے تو ان میں سے ایک نے آپ سے یہ سوال کیا تھا کہ جنگ کب ختم ہو گی؟ اور آپ نے اُسے یہ جواب دیا تھا کہ جو کچھ میں قرآن مجید سے اور خداتعالیٰ کے کلام اور اس کے فعل سے سمجھتا ہوں یہ جنگ اپریل 1945ء میں ختم ہو جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات اُسی وقت نوٹ کر لی تھی۔ اور اب میں نے وہ تحریر اُس لڑکے کو جس نے یہ سوال کیا تھا دکھا دی ہے کہ تمہارے ساتھ یہ گفتگو ہوئی تھی دیکھ لو اب وہ بات پوری ہو گئی ہے۔
عجیب بات یہ ہے جو نہایت حیرت انگیز ہے کہ گزشتہ الہامات تو الگ رہے میرے اس استدلال کی بنیاد کہ جنگ اپریل 1945 میں ختم ہو جائے گی اِس بات پر تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحریک جدید کے بواعث کے نتیجہ میں یہ جنگ پیدا کی گئی ہے۔ چنانچہ اس مضمون کے متعلق کثرت سے میرے خطبات موجود ہیں کہ گورنمنٹ کی طرف سے ہماری جماعت کو جو تکالیف دی گئی ہیں اُن کے نتیجہ میں اُسے یہ ابتلاء پیش آیا ہے اور تحریک جدید کے ساتھ اس کی وابستگی ہے۔ چنانچہ میں نے جو یہ کہا تھا کہ جنگ اپریل 1945ء کے آخر میں ختم ہو جائے گی یہ اِسی بناء پر کہا تھا کہ تحریک جدید کاآخری سال وعدوں کے لحاظ سے تو 1944ء میں ختم ہوتا ہے لیکن جہاں تک سارے ہندوستان کے لئے چندوں کی ادائیگی کا تعلق ہے اِس لحاظ سے یہ مدت اپریل 1945ء میں ختم ہوتی ہے اور جون یا جولائی اس لحاظ سے کہا تھا کہ بیرونجات کے چندوں کی ادائیگی کی آخری میعاد جون یا جولائی میں جا کر ختم ہونی ہے۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ جو مقرر ہے وہ سات ہوتی ہے۔ یعنی اگر ہندوستان کے اُن علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے 31 جنوری مقرر ہے تو یہ میعاد 7 فروری کو جا کر ختم ہوتی ہے۔ اور اگر ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی نہیں جاتی 30 اپریل مقرر ہے تو یہ میعاد 7 مئی کو جا کر ختم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر وعدہ لکھوانے کی تاریخ 30 اپریل تک رکھی جائے تو چونکہ بعض جگہ ہفتہ میں ایک دفعہ ڈاک آتی ہے اس وعدہ کے روانہ ہونے کی آخری تاریخ اگلے مہینہ کی 7 ہونی چاہیے۔ اس اصل کے مطابق ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے آخری میعاد 7فروری مقرر ہے۔ اور ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی نہیں جاتی وعدوں کی ادائیگی کی آخری میعاد7 مئی مقرر ہے۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ جس دلیل پر میری بنیاد تھی کہ تحریک جدید کے آخری سال کے اختتام پر یہ جنگ ختم ہو گی میری وہ بات اِسی رنگ میں پوری ہوئی کہ جنگ نہ صرف اسی سال اور اسی مہینہ میں ختم ہوئی جو میں نے بتایا تھا بلکہ عین 7 مئی کو آکر سپردگی کے کاغذات پر دستخط ہوئے۔ چونکہ وعدوں کی ادائیگی کے لئے ایک سال مقرر ہے اس لئے دس سالہ دَور تحریک کے چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ حسب قاعدہ 7 مئی 1945ء ہوتی ہے۔ اور اسی تاریخ کو سپردگی کے کاغذات پر جرمنی کےنمائندوں نے دستخط کئے۔ گویا قانونی طور پر عین اُسی تاریخ کوآکر جنگ ختم ہوئی جو تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی کے لحاظ سے سارے ہندوستان کے لئے آخری تاریخ ہے اور جس کے بارہ میں مَیں بار بار اور متواتر اڑھائی سال سے اعلا ن کر رہا تھا۔
خداتعالیٰ کی قدرت کا یہ کتنا بڑا نشان ہے۔ صوفیاء لکھتے ہیں کہ بعض بندوں کی زبان اور ہاتھ خداتعالیٰ کے ہو جاتے ہیں۔ قرآ ن مجید میں بھی خداتعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔ مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى1 کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) بدر کے موقع پر جب تُو نے مٹھی بھر کر کنکر پھینکے تھے بظاہر تو وہ تُو نے ہی دعائیہ رنگ میں پھینکے تھے لیکن ہم نے تیرے ہاتھ کو اپنا ہاتھ بنا لیا اور اسے کفار کی تباہی کا موجب بنا دیا۔ تو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے یہ سلوک رہا ہے کہ وہ ان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ اور ان کی زبان کو اپنی زبان بنا لیتا ہے۔ مَیں نے متواتر بیان کیا ہےکہ میں جو کہتا ہوں کہ جنگ 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی مَیں یہ کسی الہام کی بناء پر نہیں کہتا بلکہ میرے استدلال کی بنیاد اِس بات پر ہے کہ چونکہ تحریک جدید کا آخری سال چندوں کی ادائیگی کے لحاظ سے 1945ء کے شروع میں یعنی اپریل میں جا کر ختم ہوتا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ جنگ 1945ء کے شروع یعنی اپریل میں ختم ہو جائے گی۔ خداتعالیٰ نے میری اس بات کو لفظاً لفظاً پورا کیا اور نہ صرف سال اور مہینہ کے لحاظ سے بلکہ تاریخ اور دن کے لحاظ سے بھی یہ بات لفظاً لفظاً پوری ہوئی۔ (اَلْحَمْدُ للہِ)
یہ ایک ایسا عظیم الشان نشان ہے جو نہ صرف احمدیوں بلکہ غیراحمدیوں کی مجلسوں میں بھی مَیں نے اس کو متواتر بیان کیا تھا۔ 1943ء میں دہلی میں جب مجھ سے ایک مجلس میں جس میں کئی غیر احمدی معززین موجود تھے یہ پوچھا گیا کہ جنگ کب ختم ہو گی؟ تو میں نے بتایا تھا کہ اپریل 1945ء سے جون 1945ء تک ختم ہو جائے گی۔ اور اب ایک دوست نے یاد کرایا ہے کہ 1944ء کے شروع میں جب میڈیکل کالج کے غیر احمدی طلباء آپ سے ملنے کے لئے آئے تھے اُن میں سے ایک نے آپ سے یہ سوال کیا تھا کہ جنگ کب ختم ہو گی؟ تو آپ نے تعیین کر دی تھی کہ جنگ اپریل 1945ء میں ختم ہو جائے گی۔ اور وہ لکھتے ہیں کہ میں نے آپکی یہ بات اُسی وقت لکھ لی تھی۔ چنانچہ وہی ہؤا اور جنگ ٹھیک اُسی وقت پر آکر ختم ہوئی۔ اپریل کی میعاد اِس لحاظ سے درست ثابت ہوئی کہ کہا جاتا ہے کہ ہٹلر 28؍ اپریل کو مارا گیا۔ اور آخری تاریخ تحریک کے لحاظ سے اس لحاظ سے یہ بات پوری ہوئی کہ قانونی طور پر جنگ 7 مئی کو ختم ہوئی اور 7 مئی ہی تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ تھی۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان نشان ہے کہ وہ نہ صرف اپنے الہام کے ذریعہ رحمت کا نشان دکھاتا ہے بلکہ بعض دفعہ اپنے بندہ کے منہ سے نکلی ہوئی بات ایسے عجیب رنگ میں پوری کر دیتا ہے کہ وہ بات نہ صرف سالوں اور مہینوں کے لحاظ سے پوری ہوتی ہے بلکہ دنوں کے لحاظ سے بھی پوری ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اس نے یہ نشان دکھایا ہے کہ نہ صرف اسی سال اور اسی مہینہ میں جنگ ختم ہوئی بلکہ عین اُسی تاریخ اور اُسی دن جنگ ختم ہوئی جو تحریک جدید کے آخری سال کا بلحاظ چندوں کی ادائیگی کے آخری دن تھا۔ اور میں بارہا بیان کر چکا ہوں کہ تحریک جدید کے ساتھ اِس جنگ کی وابستگی ہے۔ جب تحریک جدید کا آخری سال ختم ہو گا جنگ بھی اُسی وقت ختم ہو گی۔
پس یہ خداتعالیٰ کا عظیم الشان نشان ہے کہ عین اسی تاریخ اور اسی دن جنگ ختم ہوئی۔ حالانکہ ابھی ستمبر یا اکتوبر 1944ء میں مسٹر چرچل کی تقریر شائع ہوئی تھی کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ جلدی ختم ہو جائے گی لیکن میں وعدہ نہیں کرتا کہ جنگ جلدی ختم ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ جنگ 1945ء کے آخر تک چلی جائے۔ پس عین سرے پر پہنچ کر بھی وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں اِس جنگ کی باگ ڈور تھی اُن کا تو یہ حال تھا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم وعدہ نہیں کرتے کہ جنگ جلدی ختم ہو جائے گی۔ ٭ لیکن خدا تعالیٰ نے 1942ء
٭یہ بات اس تقریب پر کہی گئی تھی کہ بعض لوگ کہہ رہے تھے کہ دسمبر1944ء میں برلن فتح ہو جائے گا۔
سے ہی میرے منہ سے یہ بات کہلوانی شروع کر دی تھی کہ جنگ 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی۔ مجھے افسوس ہے کہ 1942ء کا یہ خطبہ لکھنے والے نے میرا خطبہ عمدگی سے نہیں لکھا ورنہ یہ بات اَور بھی زیادہ شاندار ہو جاتی۔ کیونکہ میں نے مہینہ تک بتا دیا تھا کہ 1944ء کے آخر میں یا اپریل 1945ء یا جولائی 1945ء میں جنگ ختم ہو گی۔ مگر خطبہ نویس نے مہینوں کا حوالہ اُڑا دیا۔ اِسی طرح 1942ء کے جلسہ سالانہ پر میں نے جماعت کے تمام دوستوں کے سامنے بیان کیا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں نے کھدر کی قمیص پہنی ہوئی ہے اور خواب میں مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ کھدر کی قمیص پہننا کسی کانگرسی قسم کی تحریک کے ماتحت نہیں بلکہ اقتصادی حالات کے نتیجہ میں ہے۔ اب جبکہ کپڑے کی تنگی ہوئی اور اس خواب کی تلاش کی گئی تو مجھے حیرت ہوئی کہ وہ خواب ملتا نہیں۔ آخر مولوی محمد یعقوب صاحب نے بتایا کہ 1942ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر تو چھپی ہے مگر تقریر نویس صاحب نے درمیان میں سے وہ خواب اُڑا دیا ہے۔ حالانکہ سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو یاد ہو گا کہ میں نے یہ خواب اُس موقع پر بیان کیا تھا کہ میں نے کھدر کی قمیص پہنی ہوئی ہے۔ اور میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ یہ کسی کانگرسی قسم کی تحریک کے ماتحت نہیں بلکہ اقتصادی حالات کے نتیجہ میں ہے۔ اور اس کے بعد میں نے تحریک کی تھی کہ دوست اپنے گھروں میں سُوت کاتنے اور کپڑے بنوانے شروع کریں۔ کیونکہ کپڑے کے متعلق دقّت پیدا ہونے والی ہے۔ تقریر نویس نے اِس مضمون کو تو لے لیا مگر درمیان میں سے خواب کو اُڑا دیا۔ اِسی طرح مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے 4 ستمبر 1942ء کے خطبہ جمعہ میں جو 12 ستمبر 1942ء کے ‘‘ الفضل’’ میں چھپا یہی بیان کیا تھا کہ جنگ تحریکِ جدید کے آخری سال کےختم ہونے پر یعنی اپریل 1945ء میں ختم ہو جائے گی مگر وہاں بھی خطبہ نویس نے اتنا ہی لکھ دیا کہ جنگ 1944ء یا 1945ء میں ختم ہو جائے گی اور مہینہ درمیان میں سے اُڑا دیا۔ گو خطبات مَیں دیکھتا ہوں او رمیرے دیکھنے کےبعد ہی وہ شائع ہوتے ہیں مگر چونکہ دیکھتے وقت جلدی جلدی گزرنا پڑتا ہے اِس لئے میری نظر سے بھی وہ بات رہ گئی۔ حالانکہ مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے اس خطبہ میں اپریل کا مہینہ بتایا تھا کہ اس مہینہ میں جنگ ختم ہو گی۔ اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دہلی میں بھی ایک مجلس میں جب مجھ سے سوال کیا گیا کہ جنگ کب ختم ہو گی؟ تو وہاں بھی میں نے اپریل 1945ء یا جون 1945ء کا وقت بتایا تھا۔ اپریل 1945ء اس لحاظ سے کہ ہندوستان کے لئے تحریک جدید کے آخری سال کے چندوں کی ادائیگی کی آخری میعاد اپریل 1945ء مقرر ہے۔ اور جون 1945ء اس لحاظ سے کہ بیرونجات کے چندوں کی ادائیگی کے لئے آخری میعاد جون 1945ء مقرر ہے۔ اور اب لاہور سے گواہی ملی ہے کہ معیّن طورپر میں نے اپریل 1945ء کا مہینہ بتایا تھا کہ اس مہینہ میں جنگ ختم ہوجائے گی۔ تو جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عظیم الشان نشان ظاہر ہوا ہے وہاں میں جماعت کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کی طرف توجہ کرے اور اس بات کو سمجھے کہ یہ عظیم الشان نشان پیش خیمہ ہے آنے والی اور بڑی بڑی خبروں کا۔ جب کوئی بہت بڑا امر ظاہر ہونےو الا ہو تو خدا تعالیٰ کا یہ طریق ہے کہ پہلے وہ گزشتہ انبیاء کے ذریعہ اس کے متعلق پیشگوئیاں کراتا ہے اور پھر جب وہ زمانہ قریب آجاتا ہے تو اُس زمانہ کے مامور کے ذریعہ سےزیادہ تفصیلات اُس کی دیتا ہے۔ اور بعض دفعہ عین موقع پر پہنچ کر وہ اپنے کسی بندہ کے ذریعہ سے سہ بارہ اس کی خبر دیتا ہے۔
اِس زمانہ کے مفاسد کے متعلق پہلے خداتعالیٰ نے گزشتہ انبیاء سے مجملاً پیشگوئیاں کرائیں۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تفصیلاً پیشگوئیاں کرائیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کےوقت کی تعیین کرائی۔ اور پھر جب وہ وقت اَور زیادہ قریب آگیا تو خداتعالیٰ نے کثرت سے نشانات ظاہر کر کے مجھے بتایا۔ میں سمجھتا ہوں اس جنگ کے متعلق دو درجن سے اوپر نشانات خداتعالیٰ نے میرے ذریعہ ظاہر فرمائے ہیں جن کو میں نے قبل از وقت بیان کر دیا تھا۔ اور پھر وہ نشانات اسی رنگ میں پورے ہوئے مثلاً یہ کہ خداتعالیٰ نے مجھے خواب میں بتایاکہ امریکہ کی فوجیں ہندوستان میں آئیں گی پھر بتایا گیا تھا کہ یونان لڑائی میں شامل ہو گا۔ پھر یہ کہ فرانس کُچلا جائے گا اورانگلستان والے اس کے سامنے متحدہ قومیت کی تجویز پیش کریں گے۔ پھر یہ کہ اس واقعہ کے چھ ماہ بعد حالات نسبتاً خوشکن ہو جائیں گے۔ پھر یہ کہ امریکہ اٹھائیس سو ہوائی جہاز انگلستان کو دے گا۔ اور یہ بات لفظاً لفظاً اُسی طرح پوری ہوئی جس طرح میں نے بیان کی تھی۔ پھر یہ بتایا گیا تھا کہ پٹیان گورنمنٹ2 نازیوں کا ساتھ دینا شروع کر دے گی۔ اور اس کی اس شرارت کے ایک سال کے اندر اندر اس کے ضرر کو مٹا دیا جائے گا۔ چنانچہ پٹیان حکومت نے جب جرمنی کا کھلے بندوں ساتھ دینا شروع کیا تو ایک سال کے اندر حکومت برطانیہ کو شام میں کامیابی حاصل ہوئی اور پٹیان حکومت کی شرارت سے نجات مل گئی۔ اِسی طرح یہ بھی بتایا گیا تھا کہ لیبیا میں کئی دفعہ انگریزی فوجیں آگے بڑھیں گی اور کئی دفعہ پیچھے ہٹیں گی مگر آخری دفعہ دشمن کی فوجوں کو شکست ہو گی۔ پھر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اٹلی میں انگریزی فوجیں اُتریں گی۔ پھر یہ بھی بتایا گیا تھا جو اُسی وقت اخبار میں شائع بھی ہو گیا تھا کہ یہ جنگ جلد ختم نہ ہو گی بلکہ بہت سخت ہوگی۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ جن کے ہاتھ میں لڑائی کی باگ ڈور تھی وہ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ اٹلی جلد فتح ہو جائے گا یہ لڑائی لمبی ہو گئی اور اٹلی اب آکر اپریل کے آخر میں فتح ہؤا ہے۔
اِسی طرح جنگ کے متعلق اَور بہت سارے واقعات کی خبریں خداتعالیٰ نے مجھے قبل از وقت بتائیں اور اسی طرح وہ واقعات رونما ہوئے مثلاً ہرہیس 3 کا انگلستان میں اُترنا اور جاپان کا حملہ کرنا اور جاپانی فوجوں کا ہندوستان میں داخل ہو جانا۔جاپان کے حملہ کے متعلق ابھی کوئی خبر نہیں آئی تھی کہ اُسی رات مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا اور اگلے دن صبح ریڈیو پر خبر آئی کہ جاپان نے حملہ کر دیا ہے۔میں سمجھتا ہوں اِس جنگ کے متعلق دو درجن سے بھی زیادہ واقعات ہیں جن کی خبر خداتعالیٰ نے قبل از وقت مجھے دے دی تھی۔
پس کثر ت کے ساتھ خداتعالیٰ کی طرف سے جو یہ خبریں بتائی گئیں اس کے معنے یہ ہیں کہ فیصلہ کا وقت اب قریب ہے۔ مگر جیسا کہ اَور بہت ساری پیشگوئیوں اور الہامات سے معلوم ہوتا ہے اِس زمانہ کے فیصلہ کُن حالات اِس لڑائی سے ختم نہیں ہوتے بلکہ وہ فیصلہ کُن حالات اَور ہیں جو تھوڑے دنوں تک رونما ہونے والے ہیں۔ تھوڑے عرصہ سے مراد یہ ضروری نہیں کہ ایک دو سال تک بلکہ ممکن ہے دس پندرہ یا بیس سال تک وہ واقعات ظاہر ہوں۔ بہرحال دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر اَور آنے والا ہے کہ اگر خداتعالیٰ کا فضل نہ ہو تو شاید وہ لڑائی جھگڑے دنیا کے لئے تباہی اور بربادی کا موجب ہو جائیں۔ اس لئے ہمیں اُس خطرےکے وقت سے پہلے اپنی جماعت کو انتہائی طور پر مضبوط کر لینا چاہیے۔ اور اُس وقت سے پہلے اپنے اعمال کو اور اپنے نوجوانوں کے اخلاق کو درست کر لینا چاہیے۔ اور اُس وقت سے پہلے ہمارے تبلیغی مشن جو پہلے قائم ہیں اور جو نئے قائم ہوں وہ مضبوط اور تنظیم میں جکڑے ہوئے ہوں۔ اور اُس وقت سے پہلے ہندوستان میں ہماری جماعت اتنی پھیل جائے کہ وہ ایک مینارٹی(Minority) نہ کہلائے بلکہ ایک میجارٹی ہو۔ اور اگر میجارٹی نہیں تو کم از کم ایک زبردست مینارٹی ہو۔ اور اُن مصائب اور اُس خطرہ کے وقت سے پہلے ہماری جماعت یورپ کے تمام ممالک انگلستان، فرانس، جرمنی، اٹلی اور سپین وغیرہ میں اور افریقہ اور امریکہ کے تمام ممالک میں اتنا اثر و نفوذ پیدا کر لے کہ آنے والی مصیبت اور خطرہ میں ہماری آواز بیکار نہ ہو بلکہ وہ ایسی وزنی ہو کہ قومیں اسے سننے پر مجبور ہوں۔ اگر ہم یہ کام کر لیں تو آنےو الے فتنے ہمارے لئے بشارتوں اور خوشخبریوں کا موجب ہوں گے۔ اور اگر ہم اس میں ناکام رہے تو آنے والے فتنے ہمارے لئے نہ معلوم کتنے تاریک سال پیدا کر دیں گے۔ اور کتنی مشکلات اور مصائب ہمارے رستہ میں حائل کر دیں گے۔ رستہ تو طے ہونا ہی ہے اور فتح تو ہمارے لئے مقدر ہے ہی۔ مگر ایک راستہ ایسا ہوتا ہے جو آسانی سے طے ہو جاتا ہے اور ایک راستہ ایسا ہوتا ہے جو مصائب اور مشکلات کے بعد طے ہوتا ہے ۔اور ہر عقلمندر آدمی دنیوی لحاظ سے بھی اور دینی لحاظ سے بھی یہ کوشش کرتا ہے کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے وہ آسان طریق سے اور سہل اور قریب طریق سے اور جلدی حاصل ہو جائے۔ پس جو جماعت اس کام کوجو خداتعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے جلدی اور آسان طریق سے کرنے کی کوشش کرتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ انعامات کی مستحق ہوتی ہے۔ اور جو جماعت اس کام کو جلدی اور آسان طریق سے نہیں کرتی یا تو اُس کا انعام کم ہو جاتا ہے اور یا وہ ملامت کی مستحق ٹھہرتی ہے۔ پس چونکہ یہ اہم موقع تھا اس لئے باوجود اس کے کہ میں زیادہ بول نہیں سکتا اور باوجود اس کے کہ پاؤں میں درد کی وجہ سے میرے لئے چلنا مشکل تھا یہاں تک کہ راستہ میں جب میں نے زیادہ تکلیف محسوس کی تو میں نے خیال کیا کہ میں واپس ہی چلا جاؤں مگر بوجہ اس موقع کی اہمیت کے میں آگیا۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اب وقت غفلتوں اور سُستیوں کا نہیں۔ کمرِ ہمت باندھ لو اور مقصود تک پہنچے کے لئےسارا زور لگا دو۔ جن اخلاق کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، جس تنظیم کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، جس علم کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، جس عرفان کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، جس دعا اور جس التجا کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، ان سب کو حاصل کرنے کی کوشش کرو تا کہ جلد سے جلد خداتعالیٰ کا فضل ہماری دستگیری فرمائے۔ اور جلدسے جلدرسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کا جھنڈا دنیا پر لہرانے لگے۔ آمین ’’ (الفضل مورخہ 14 مئی 1945ء)

1: الانفال: 8
2: پٹیان گورنمنٹ: (Petain Government) 1940ء سے 1942ء تک فرانس میں
مارشل ہنری فلپ پٹیان (1856ء1951-ء) کی سربراہی میں قائم گورنمنٹ۔
(Wikipedia,The free encyclopedia under “Philippe Petain”)
3: ہر ہیس: (Rudolf Hess) (26؍ اپریل 1894 ء تا 17؍ اگست1987ء )جرمنی کا ایک
نازی رہنما ، ہٹلر نے اسے 1930ء تا 1940ء کے دوران نازی پارٹی میں ڈپٹی فورر
(Deputy Fuhrer)مقرر کیا ۔ 1941ء میں سوویت یونین کے ساتھ جنگ سے تھوڑا
عرصہ قبل ہیس برطانیہ کے ساتھ امن قائم کرنے کی بات چیت کے لئےخفیہ طور پر پرواز
کرکے سکاٹ لینڈ گیا جہاں اسے گرفتار کرلیا گیا اور وہ جنگی قیدی بنا۔
(Wikipedia,The free encyclopedia under “Rudolf Hess”)

17
جماعت اپنی حالت پر غور کرے
(فرمودہ یکم جون 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘ابھی تک میری بیماری میں ایسا افاقہ نہیں ہوا کہ میں کھڑے ہو کر خطبہ پڑھ سکوں بلکہ ابھی تک مرض کا کچھ حصہ باقی ہے۔ آج سے دو ہفتہ پہلے جب مَیں نے بیٹھ کر خطبہ پڑھا تو گو میں نے یہاں بیٹھ کر خطبہ پڑھا لیکن میرےمرض کے بڑھنے میں اُس کا دخل تھا۔ اگر میں اس دن لیٹا رہتا تو شاید مرض زیادہ شدت اختیار نہ کرتا۔ خطبہ کے بعد خون کا دباؤ لیا گیا تو ستّر نوے تھا یعنی ایک سَو تیس کی جگہ نوّے۔ اور دونوں کا فرق بجائے چالیس کے بیس۔ جو اس بات کی علامت ہے کہ دل اپنا کام ٹھیک طرح نہیں کرتا۔ ڈاکٹری مشورہ یہ ہے کہ فورًا پہاڑ پر چلے جانا چاہیے تا خون کا دباؤ بہتر ہو جائے اور خون کےسرخ ذرات میں ترقی ہو۔ مگر ابھی مشکل یہ ہے کہ مکان زیر تعمیر ہے اس لئے میرا رادہ ہے کہ فی الحال دو تین دن کے لئے ہو آؤں۔ پھر مکان کی تکمیل کے بعدڈلہوزی لمبے عرصہ کے لئے جلد جاؤں یا جس طرح خداتعالیٰ چاہے۔
آج میں خصوصیت سے اس غرض کے لئے جمعہ پر آیا ہوں کہ میں دیکھتا ہوں ایک طرف تو ہمارے لئے کام کے دروازے کُھل رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر رہا ہے کہ جن سامانوں کی موجودگی میں ہمیں تبلیغِ اسلام اور تبلیغِ احمدیت کی سہولتیں میسر آنے کے امکانات ہیں۔ لیکن دوسری طرف مجھے یہ بھی نظر آرہا ہے کہ جماعت میں نہ معلوم ان سہولتوں کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے یا نہ معلوم ایک لمبے عرصہ کی قربانی کی وجہ سے کسی قدر سُستی کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اس موقع پر جبکہ روحانی جنگ شروع ہونے والی تھی ہمارے حوصلے آگے سے زیادہ بڑھ جاتے اورہماری قربانیاں آگے سے زیادہ ترقی کر جاتیں۔ ہمارا جوش آگے سے بہت اونچا چلا جاتا ہمارے لئے وہ اطمینان اور سکون جو غافلوں اور جاہلوں کو حاصل ہوتا ہے ناممکن ہو جاتا۔ اور جیسے کام کرنےو الوں کےدلوں میں ایک بے کلی سی پائی جاتی ہے وہ حالت ہماری ہو جاتی جماعت میں ایک رنگ میں سُستی کے آثار پائے جاتے ہیں۔ جیسے بخار دیکھنے کے لئے تھرمامیٹر ہوتا ہے اور تھرمامیٹر سےپتہ لگ جاتا ہے کہ انسانی خون کے دوران میں کتنی تیزی یا کمی ہے اسی طرح جماعت کے قلوب کی حالت کا اندازہ اُس کے چندوں کی ادائیگی سے لگایا جاتا ہے۔
تحریک جدید کے گزشتہ سالوں کے حالات اس بات پر شاہد ہیں کہ بالعموم مئی کے آخر تک 60،65بلکہ 70فیصدی تک رقوم وصول ہو جایا کرتی تھیں۔ لیکن اس دفعہ بجائے 60،65 یا 70 فیصدی کے بمشکل 40فیصدی چندہ اِس وقت تک ادا ہؤا ہے۔ حالانکہ چھ مہینے گزر چکے ہیں اور زیادہ تر چھ مہینوں میں ہی رقمیں زیادہ آیا کرتی ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ جلدی چندہ دینے والے وہی ہوتے ہیں جن کے اندر اخلاص زیادہ ہوتا ہے۔ اور جن کے اندر اخلاص زیادہ ہوتا ہے وہی قربانی زیادہ کیا کرتے ہیں۔ اور جو قربانی زیادہ کرتے ہیں وہی وقت پر اپنے فرائض کو ادا کیا کرتے ہیں۔ تو پہلے چھ مہینوں میں چندہ ادا کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہؤا کرتی تھی۔ کیونکہ ہماری جماعت میں سَابِق رہنے والوں کی خواہش کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔اسی طرح پہلے چھ مہینوں میں ادا شدہ رقوم بھی زیادہ ہوتی تھیں اس لئے کہ وہ لوگ جن کے اندر اخلاص ہوتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ رقوم قلیل سے قلیل عرصہ میں ادا کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ لیکن اس سال بجائے اس کے کہ اس نئے دور میں ایک نئی زندگی پائی جاتی بجائے اس کے کہ اب جبکہ عملی تبلیغ کا دروازہ کُھل رہا ہےاور جبکہ کچھ مبلغ بیرونِ ہند میں جا بھی چکے ہیں اور دوسرے پاسپورٹ لینے کی فکر میں ہیں اورجلد ہی غیر ممالک میں چلے جائیں گے۔ا ور اس طرح تبلیغی بوجھ پہلے سے کئی گُنے زیادہ ہو جائے گا۔ ہماری جماعت بجائے اس کے کہ 60،65 فیصدی کو 70،80 فیصدی بنا دیتی اس سال ابھی تک صرف 40فیصدی رقوم اس نے ادا کی ہیں۔ اور چونکہ عام طور پر پیچھے رہ جانے والے سست یا کمزور ہوتے ہیں یا ان کے ذرائع محدود ہوتے ہیں اگر اسی اندازہ کے مطابق جس طرح پہلے رقوم وصول ہوتی تھیں اندازہ لگایا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس سال بجائے 100 فیصدی وصول ہونے کے 60،65فیصدی چندہ وصول ہو گا۔ اسی طرح قرآن شریف کے چندہ کے متعلق بھی مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت پورے جوش کے ساتھ کام نہیں کر رہی۔ جہاں تک چندہ لکھوانے کا سوال تھا یہ چندہ مطلوبہ رقم سے زیادہ آگیا ہے۔ یعنی بجائے دو لاکھ کے دو لاکھ پچاس ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ وعدے خداتعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہوئے ہیں۔ کیونکہ اس عرصہ میں یورپین تبلیغ جس کے ساتھ قرآن شریف کے تراجم کا زیادہ تر تعلق ہے وسیع ہو گئی ہے۔ اور اس کی وسعت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ضرورت تھی کہ ہم انگلستان میں اپنے دارالتبلیغ کو بڑھاتے۔ چنانچہ اس کے لئے ہمیں اکتیس ہزار روپے میں ایک مکان مسجد کے پاس ہی مل گیا ہے جس کی مرمت پر تودس ہزار روپیہ خرچ ہو گا۔ اس طرح چالیس ہزار وپے کا ایک اَور خرچ تبلیغِ یورپ کے لئے پیدا ہو گیا ہے۔ پس یہ وعدے جو زیادہ ہوئے خداتعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہیں جو قریب عرصہ میں تبلیغ اور اس کی وسعت کے لئے پیدا ہونے والی ہیں۔ جہاں تک وصولی کا سوال ہےیہ چندہ بھی آٹھ مہینے کے اندر اُتنا وصول نہیں ہؤا جتنا وصول ہو جانا چاہیے تھا۔ اِس وقت تک اس چندہ میں سے صرف ساٹھ فیصدی وصول ہوا ہے۔ ابھی تین مہینے باقی ہیں اور اس عرصہ میں چالیس فیصدی چندہ وصول ہونا ضروری ہے۔ پس میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے وعدے جلد سے جلد پورا کرنے کی کوشش کرے۔
تحریک جدید دفتر دوم کے وعدے بھی بہت کم ہیں۔ ہمارے خرچ کا سالانہ اندازہ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا تین لاکھ کے قریب ہے۔ لیکن تحریک جدید دفتر دوم کے وعدے اِس وقت تک پچاس ہزار ہوئے ہیں۔ گویا ہماری آئندہ نسل بجائے سارا بوجھ اٹھانے کے صرف 1/6 حصہ اُٹھانے کے قابل ہو سکی ہے۔ اس کے متعلق بھی مَیں جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ جو لوگ پہلے دَور میں شامل نہیں ہوئے اُن کو اپنی اپنی جگہ پر دوست تحریک کریں۔ میں نے اس کی میعاد تو بڑھا دی ہے اور اگر ضرورت ہوئی تو میعاد اَور بھی بڑھا دی جائے گی۔ کیونکہ سال دو سال کے اندر ہمیں اِس تعداد کو اتنا بڑھا دینا چاہیے کہ پہلے انیس سالہ دَور کے خاتمہ پر نئی پود اِس بوجھ کو پوری طرح اٹھا سکے۔
اگر ہماری جماعت کی ترقی اولاد کی وسعت کے لحاظ سے، اگر ہماری جماعت کی ترقی بیکاروں کے کام پر لگ جانے کے لحاظ سے اور اگرہماری جماعت کی ترقی تبلیغ کی وسعت کے لحاظ سے اِتنی نہیں ہوتی کہ ہر دس سال کے بعد ہم کو ایک نیا دَور جاری کرنے کے لئے اتنی جماعت مہیا ہو سکے جو اپنی قربانی سے اس حصہ کے اخراجات کو اٹھا سکے تو یقینا یہ بات ہماری کمزوری پر دلالت کرنے والی اور ہماری کامیابی کو پیچھے ڈالنے والی ہو گی۔ پس ہمارا فرض ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے ہم آئندہ نسل اور آئندہ آنے والے نئے احمدیوں کے ذریعہ سے ہمیشہ ایک جماعت پانچ ہزاری فوج کی ہر دفعہ کھڑی کرتے رہیں جو پہلے دو رکے بعد دوسرے دور کے بوجھ کو اٹھانے والی ہو۔ اور دوسرے دور کے بعد تیسرے دور کے بوجھ اٹھانے والی ہو۔ اور تیسرے دور کے بعد چوتھے دور کے بوجھ کو اٹھانے والی ہو۔ کیونکہ تبلیغ ایسا کام نہیں جو ایک دو دن میں ختم ہو جانے والا ہو۔
میں نے بار ہا جماعت کو بتایا ہے کہ کوئی قوم قربانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی او رجو شخص یہ کہتا ہے کہ یہ قربانی کب ختم ہونے والی ہے دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتا ہے کہ خداتعالیٰ ہماری قوم کو مارنے کا فیصلہ کس دن کرے گا۔ جو شخص قربانی کے متعلق یہ امید رکھتا ہے کہ وہ ختم ہو جائے گی یا ختم ہو جانی چاہیے وہ دشمن ہے اپنا۔ وہ دشمن ہے اپنے خاندان کا۔ وہ دشمن ہے اپنی قوم کا۔ کیونکہ قربانی قوموں کی زندگی کا معیار ہے۔ اور جس دن کسی قوم میں سے قربانی مٹ جاتی ہے اُسی دن اِس دنیا سے اُس قوم کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ گو اُس قوم کے وجود اِس دنیا میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں لیکن حقیقتاً وہ بیکار وجود ہوتے ہیں۔ غلام اور محکوم اور ذلیل اور ناکام وجود اگر دنیا میں آرام سے زندگی گزارتے ہیں تو یہ ان کے لئے انعام نہیں ہوتا بلکہ ایک سزا ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے بہتر ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو زندہ دفن کر دیں اور مٹ جائیں۔ کیونکہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہوتی ہے۔ سلطان حیدر الدین ٹیپو ہندوستان کے بادشاہوں میں سے ایک مشہور بادشاہ گزرے ہیں۔ جس وقت انگریزوں سے ان کی جنگ ہوئی اور اس جنگ میں آخری موقع پر انہیں شکست ہوئی تو ان کے متعلق ایک عجیب واقعہ تاریخوں میں آتا ہے جو انسان کے دل پر اثر ڈالنے والا ہے اور انسان کی شرافت کے معیار کی حقیقت کوظاہر کرنے والا ہے۔ جس وقت بعض غداروں نے انگریزوں سے روپیہ لے کر قلعہ کے بعض دروازے کھول دئیے اُس وقت سلطان حیدر الدین ایک خندق میں کھڑے ہوئے اپنی فوج کی کمان کر رہے تھے۔ عین اُس وقت جبکہ وہ اپنی فوج کو حملہ کے لئے تیار کر رہے تھے ایک جرنیل دَوڑتا ہؤا آیا اور اُس نے کہا بادشاہ سلامت! دروازہ کسی غدار نے کھول دیا ہے اور انگریزی فوج قلعہ میں داخل ہو گئی ہے اور عنقریب یہاں پہنچنے والی ہے۔ آپ بھاگ چلیں تا آپ ان کے ہاتھ نہ پڑ جائیں۔ اُس وقت سلطان حیدر الدین نے جو فقرہ کہا وہ ہر شریف آدمی کے لئے مشعل راہ کا کام دیتا ہے۔ سلطان حیدر الدین نے کہا تم مجھے بھاگنے کی تعلیم دیتے ہو!! تم چاہتے ہو کہ میں چُھپ کر اپنی جان بچا لوں لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شیر کی ایک گھنٹے کی زندگی لومڑی کی سَو سال کی زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔ میں شیروں کی طرح لڑوں گا لومڑیوں کی طرح نہیں بھاگوں گا۔ وہ اُسی جگہ مارا گیا اور اِس شدت کے ساتھ لڑتا ہوا کہ فصیل کی مختلف جگہوں پر اُس کی لاش کے ٹکڑے پڑے ہوئے ملے۔
تو ہر شریف انسان کو ذلت اور ناکامی کی زندگی سے موت ہزار درجے بہتر معلوم ہوتی ہے۔ ایک مسلمان کہلانے والا اگر احمدی نہیں تب بھی ہرگزوہ اپنی سابق عزت و عظمت اور شوکت کو دیکھتے ہوئے اس قربانی کے لئے تیار نہیں جو قوم کو نئی زندگی بخشنے والی ہو تو یقینا وہ نہایت ہی بے حیا اور نہایت ہی بے شرم انسان ہے۔ اور اس کی زندگی سے اس کی موت ہزار درجے بہتر ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے ساتھیوں کےذریعہ سے اسلام نے وہ شوکت حاصل کی تھی کہ یہ بڑی بڑی حکومتیں اور طاقتیں جو آج نظر آتی ہیں غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑی رہتی تھیں۔ لیکن آج مسلمانوں کی اولاد یورپین لوگوں کی جُوتیوں کی مار کھانے پر بھی اُف نہیں کر سکتی اور کوئی احتجاج نہیں کر سکتی۔ اس حالت کو دیکھنے کے بعد اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس دنیا میں نہ آئے ہوتے، اگرحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نئی امیدیں اور نئی ترقی کی راہیں نہ دکھلا گئے ہوتے تب بھی میں سمجھتا ہوں ایک غیرت مند انسان جب تک ان حالات کوبدل نہ لیتا ایک منٹ کے لئے بھی آرام نہ کر سکتا۔ مگر اب تو ہماری ذمہ داریاں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ ایک طرف ہمارے اَسلاف کے کارناموں کے متعلق ہماری غیرت مطالبہ کرتی ہے اور دوسری طرف ہمارے خدا کی آواز ہم سے مطالبہ کرتی ہے۔ گویا دو رسیاں ہیں جو ہمیں آگے کی طرف کھینچ رہی ہیں۔ ہمارے اَسلاف بھی پکارتے ہیں کہ کوئی ہماری ذلت اور بدنامی کے دھبے دھوئے اور ہمارا خدا بھی بلاتا ہے کہ آؤ اور دین کی خدمت کر کے انعام پاؤ۔ اگران کششوں کے باوجود ہمارے اندر قربانی کی روح پیدا نہیں ہوتی، اگر ان دو کششوں کے باوجود ہمارے قدم آگے نہیں اٹھتے، اگر ان دو کششوں کے باوجود ہم اپنی موت کوشیریں خیال نہیں کرتےاور اپنی موت سب سے میٹھا پھل نہیں سمجھتے تو یقینا ہم اِس دنیا میں اور اگلے جہان میں رہنے کے قابل نہیں اور ذلت و رسوائی ہی ہماری حقیقی جزا کہلا سکتی ہے۔ پس چاہیے کہ جماعت اپنی حالت پر غور کرے اور اپنی کوتاہیوں کو دو رکرنے کا فیصلہ کرے۔
اب زمانہ خاموشی کا نہیں اب زمانہ ٹھہرنے کا نہیں۔ جو شخص کھڑا ہو گا وہ مارا جائے گا اور تباہ و برباد کر دیا جائے گا۔ یہ زمانہ ایسا ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کو پُلِ صراط پر چلنا پڑے گا۔ ان کے دائیں بھی جہنم ہو گا اور ان کے بائیں بھی جہنم ہو گا۔ وہ ذرا سا اِدھر اُدھر ہوں گے تو تباہ ہو جائیں گے1 یہی ہماری حالت ہے۔ اگر ہم اپنے قدموں کو روک کر کھڑے ہوں گے تو اگر اپنے دائیں طرف گریں گے تو جہنم ہو گا بائیں طرف گریں گے تو جہنم ہو گا۔ ہمارے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہی سیدھا راستہ ہے کہ ہم آفات کی پروا نہ کرتے ہوئے سیدھے چلے جائیں اور ہمارے سامنے ہر وقت ہماری منزلِ مقصود ہو۔ اگر ہم منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں تو وہاں ہمارا سب سے بڑا انعام اللہ وہاں کھڑا ہو گا۔ اور اگر ہم ٹھہرتے ہیں اور گرتے ہیں تو دائیں طرف بھی شیطان کی گود میں گرتے ہیں اور بائیں طرف بھی شیطان کی گود میں گرتے ہیں۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کے دلوں کو تقویت دے اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں موت ان کو سب سے پیاری چیز نظر آنے لگے۔ اور وہ چیزیں جن کے لئے دنیا دوڑتی ہے اور ان کی خواہش رکھتی ہے اللہ تعالیٰ کے لئے وہ انہیں بُری نظر آنے لگیں تا کہ ہمارا اصلی بدلہ اور ہماری حقیقی جزا ہمیں اس دنیا میں بھی ملے اور اگلے جہان میں بھی مل جائے۔’’
(الفضل مورخہ 4 جون 1945ء)
1: مسلم کتاب الْاِیْمَان باب اَدْنٰی اَہل الْجَنَّۃِ مَنْزِلَـۃً فِیْہَا

18
خاص طور پر دعائیں کریں کہ ایک اَور جنگ شروع ہونے سے قبل ہمیں تراجم قرآن شائع کرنے اور مبلغ بھیجنے کے لئے وقفہ مل جائے
(فرمودہ 8جون 1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مَیں نے جماعت کو بارہا اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنگ کے بعد جہاں مذہبی جنگ شروع ہونے والی ہے وہاں ہمارے لئے اسلام کی تبلیغ اور احمدیت کی ترقی کے راستے بھی کھلنے والے ہیں۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس جنگ کے بعد ایک اَور جنگ آنےو الی ہے۔ میرا خیال تھا کہ موجودہ جنگ اور آئندہ آنے والی جنگ میں کچھ وقفہ ہو گا لیکن حالات اتنی سُرعت سے تبدیل ہو رہے ہیں کہ تیسری جنگ کے خطرہ کے آثار ابھی سے نظر آر ہے ہیں۔ ہمیں موجودہ جنگ کے ختم ہونے کی خوشی تبھی ہو سکتی تھی جب اس جنگ اور آئندہ آنےو الی جنگ میں اتنا وقفہ ہوتا کہ ہم اپنے تبلیغی پروگرام کو مکمل کر سکتے۔ اگرکچھ وقفہ ہمیں میسر آجاتا تو ہمیں امید تھی کہ ہم مختلف ممالک میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کے مراکز قائم کر لیتے۔ لیکن آنے والے خطرات سے مزید مشکلات پیدا ہوتی نظر آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ حالات جو خراب نظر آرہے ہیں عارضی ہیں یا مستقل طور پر لمبے عرصہ تک چلے جائیں گے۔ بہرحال ان حالات کا جلدی سُدھرنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر اس جنگ کے خاتمہ اور اگلی جنگ کے ابتدا میں لمبا فاصلہ نہ ہؤا تو ہم اپنی تبلیغی سکیموں میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ ہماری تبلیغی سکیمیں اُس وقت تک بار آور نہیں ہو سکتیں جب تک ان مشکلات کا خاتمہ نہ ہو جائے جو اِس وقت نظر آرہی ہیں۔ ابھی تک مختلف ممالک کے راستے نہیں کھلے۔ گو ہمارے مبلغین تیار ہیں اور بعض کے پاسپورٹ بھی بن چکے ہیں۔ لیکن سفر کے لئے پریئرٹی سرٹیفکیٹ (Priority Certificate) منظور نہیں ہوئے۔ اور بعض کے ابھی تک پاسپورٹ بھی تیار نہیں ہوئے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ جب تک پاسپورٹ نہیں ملیں گے ہمارے مبلغ مختلف ممالک میں تبلیغ کے لئے نہیں جا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ حالات کب سازگار ہوں گے اور یہ نئی پیچیدگیاں کب دور ہوں گی۔ بہرحال ہماری طرف سے انشاء اللہ پہلا تبلیغی جتھا تیار ہے اور اگر پاسپورٹ اور اجازتِ سفر مل جائے تو مبلغین جانے کو بالکل تیار بیٹھے ہیں۔ اپنے کام کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے لئے ضروری تھا کہ ہم تبلیغ کے لئے پوری طرح تیاری کرتے اور مبلغین کو بھی تیار کر لیتے۔ چنانچہ جہاں تک ہماری کوششوں کا سوال تھا ہم نے اس کے لئے پوری جدوجہد کی۔ اِس وقت مغربی ممالک میں سے آٹھ ملک ہمارے مدنظر ہیں جہاں ہم اپنے مبلغین بھیجنے والے ہیں۔ یعنی انگلستان، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، فرانس، ہسپانیہ، جرمنی، ہالینڈ اور اٹلی۔ مغربی ممالک میں سے فی الحال انہی ممالک میں مبلغ بھیجنے کا ارادہ ہے۔ مشرقی ممالک میں سے ایران، شام، فلسطین، مصر اور افریقہ کے مختلف ممالک ہیں جہاں ہم نے مبلغ بھجوانے ہیں۔ ہماری طاقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بہت بڑی سکیم ہے۔ ایک ہی وقت میں بیس پچیس ممالک میں پچاس ساٹھ مشنریوں کا بھیجنا آسان کام نہیں۔ ان کو بیرونِ ہند بھیجنے کے لئے بہت سے اخراجات درکار ہوں گے۔ اگر باقی سب اخراجات کو چھوڑ دیا جائے اور صرف کرایہ کا اندازہ لگایا جائےجو اِن مبلغوں کے جانے اور واپس آنے اور آنے جانے کی تیاری پر خرچ ہو گا تو وہی تقریباً تین لاکھ روپیہ بن جاتا ہے۔ اگر ان مبلغوں کے جانے اور واپس آنے میں چار سال لگ جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر سال پچہتّر ہزار روپیہ خرچ کرنا پڑے گا۔ تبلیغ اور لٹریچر کی اشاعت کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں مخلصینِ جماعت نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنی طاقت سےبڑھ کر قربانیاں پیش کی ہیں۔ اس لحاظ سے جو چیز ہماری طاقت میں تھی اُس کے لئے ہم نے پوری طرح تیاری کر لی ہے۔ مگرجو چیز ہماری طاقت سے باہر ہے اُس کے لئے ہم مجبور ہیں۔ حکومتیں ہماری طاقت سے باہر ہیں۔ غیرممالک میں داخلے کی اجازت ہمارے اختیار میں نہیں۔ بلکہ ان حکومتوں کےا ختیار میں ہے جن سے ہماری روحانی جنگ جاری ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارےراستے میں مشکلات پیش آئیں۔ اب جنگ کے خاتمہ کےساتھ مزیدسیاسی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اِدھر جنگِ یورپ کا خاتمہ ہؤااُدھر سیاسی حالات خراب ہو گئے ہیں۔ اِس سے قبل ہم نے متواتر پانچ چھ سال غیر ممالک کے راستوں کے کھلنے کا انتظار کیا۔ لیکن اب دوبارہ ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے تبلیغ میں رکاوٹیں ہوتی نظر آتی ہیں۔ ہمارے دلوں کی حالت بالکل ویسی ہی ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے۔ ؂
قسمت تو دیکھئے کہ کہاں ٹوٹی ہے کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا1
پانچ چھ سال کا لمبا عرصہ ہم نے انتظار کرتے کرتے گزار دیا اور اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے ہم نے ایک مضبوط تبلیغی فنڈ قائم کر لیا۔ اس فنڈ کو قائم کرنے کے لئے جماعت نے بڑھ چڑھ کر قربانیاں کیں۔ انتظار کے یہ سال ہمارے لئے نہایت تلخ اور تکلیف دِہ سال تھے۔ لیکن اگر پھر سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مزید پانچ چھ سال تک ہمیں اپنی تبلیغی سکیموں کو جاری کرنے کے لئے انتظار کرنا پڑے گا۔
جہاں جماعت کے سامنے یہ مشکلات اور خطرات ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ معلوم
ہوتا ہے کہ جماعت کو مزید قربانیوں کی طرف بلائے۔ ہماری مشکلات کی زیادتی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا جتھا کم ہے۔ دنیا آج جتھا کو دیکھتی اور اس سے مرعوب ہوتی ہے۔ اگر ہمارے مبلغین کے پاسپورٹوں کا سوال ہو تو گورنمنٹ کہہ دیتی ہے ابھی راستے نہیں کھلے بہت مشکلات ہیں لیکن پادری ساری دنیا میں تبلیغ کر رہے ہیں۔ گورنمنٹ کے انتظام کے ماتحت ان کو دورانِ جنگ میں بھی اٹلی، روس، فرانس، سپین، چین، آسٹریلیا اور دوسرے ملکوں میں بھیجا گیا اور ان کے لئے پاسپورٹ مہیا کئے گئے۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ کیا جاپان والے دوسرے جہازوں پر تو گولہ باری کرتے ہیں اور ان جہازوں پر گولہ باری نہیں کرتے جن میں پادری سفر کر رہے ہوں۔ پس اصل بات یہ نہیں کہ جنگ کی وجہ سے ہمیں تو مشکلات پیش آتی ہیں لیکن پادریوں کو مشکلات پیش نہیں آتیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ پادریوں کا ایک ایسی قوم کے ساتھ تعلق ہے جو اپنی طاقت اور حکومت کی وجہ سے ان کو راجوں مہاراجوں کی طرح لئے پھرتی ہے۔ چونکہ ہماری جماعت سیاسی لحاظ سے ان کی نظر میں کچھ وقعت نہیں رکھتی اس لئے ہمارے مبلغین کی ضروریات کو اُتنی بھی وقعت نہیں دی جاتی جتنی ان گورنمنٹوں کے چپڑاسیوں کو وقعت دی جاتی اور ان کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ ان مشکلات کو دیکھ کر ہمیں اپنی کوششوں اور قربانیوں کو پہلے سے بہت زیادہ بڑھا دینا چاہیے۔ کیونکہ ان مشکلات کا ایک حصہ ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس قسم کے حالات پیدا ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے ہمارا کام بڑھ رہا ہے وہاں ہماری یہ کمزوری کہ سیاسی لحاظ سے ہماری جمعیت اور جتھا کم ہے ہماری مشکلات کو اَور بھی بڑھا دیتی ہے۔ اگر ہماری جماعت بیس پچیس گُنا زیادہ ہو جائے تو جس قسم کی تنظیم ہماری جماعت کی ہے اور جس قسم کی قربانیاں ہماری جماعت کرتی ہے ان کے لحاظ سے اس قسم کی مشکلات آپ ہی آپ دور ہو جائیں۔
خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت ایسی قربانیاں کرتی ہے کہ دوسری قومیں اس رنگ میں قربانیاں نہیں کر سکتیں۔ اور درحقیقت قوم کی عزت اُس کی قربانیوں کی وجہ سے اس کی تعداد سے کئی گُنے زیادہ ہو جاتی ہے۔ پس ایک طرف میں جماعت کے افراد کو مزید قربانیوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور دوسری طرف یہ نصیحت کرتا ہوں کہ دوستوں کو دعاؤں پر خاص طور سے زور دینا چاہیے۔ تا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں اتنا وقفہ مل جائے کہ ہم قرآن مجید کے تراجم شائع کر سکیں اور بیرونی ممالک میں اپنے مبلغین بھیج سکیں۔ اس کے بعد اگر جنگ شروع بھی ہو جائے تو ہمارے مبلغین اپنی اپنی جگہوں پر جہاں بھی وہ ہوں گے تبلیغی کام کرتے رہیں گے۔ اور ہماری روحانی جنگ جاری رہے گی اور ہم مطمئن ہوں گے کہ ہمارا روحانی گولہ وبارود ان کے پاس موجود ہے۔ اگر ہمیں اپنے مبلغین کو باہر بھیجنے کے لئے وقفہ نہ ملا تو یہ بات ہم سب کو خصوصیت کے ساتھ غمگین کرنے والی ہو گی۔ اگر حالات سازگار نہ ہوئے اور پیشتر اس کے کہ ہمارے مبلغین غیر ممالک میں پہنچ جائیں جنگ شروع ہو گئی تو ہم میں سے کئی ایسے ہیں جن کی طاقتِ صبر جواب دے جائے گی۔ کیونکہ بعض ہم میں سے ایسے ہیں جو دنیوی لحاظ سے کام کرنے کی عمر سے نکل چکے ہوں گے۔ اور ان کے لئے یہ بات نہایت تلخ اور تکلیف دہ ہو گی کہ وہ اس کامیابی کی سکیم کا نتیجہ باوجود تیاری میں پورا حصہ لینے کے نہ دیکھ سکے۔
پس حالات سخت نازک ہیں۔ زمانہ انتہائی سرعت کے ساتھ بدل رہا ہے۔ دوست دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل جلد از جلد نازل ہو۔ کیونکہ اُس کےفضل کا دیر سے آنا ہمارے لئے مُہلک اور خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ہماری کوششوں اور قربانیوں کے رائیگاں جانے سے بچائے اور ہماری حقیر کوششوں کو اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کا موجب بنائے۔ اَللّٰہُمَّ آمِیْنَ’’
(الفضل مورخہ 14 جون 1945ء)
1: کلیات قائم از قائم چاند پوری جلد اول غزلیات ردیف الف غزل نمبر 5 صفحہ نمبر 4
مرتبہ اقتدا حسن مجلس ترقی ادب لاہور میں یہ الفاظ ہیں
‘‘قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جاکر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا’’


19
ہندوستان کے سیاسی لیڈروں کے نام پیغام
(فرمودہ 22جون 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘قریباً ساڑھے پانچ ماہ کا عرصہ ہوا کہ اِسی مقام پر مَیں نے ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں انگلستان اور ہندوستان کو میں نے اِس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ انہیں آپس میں صلح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ خدائی تقدیر میں بعض ایسے حادثات مقدر ہیں جن کا علم اُس نے متعدد بار مجھ کو دیا ہے جو آئندہ نہایت ہی خطرناک فتنے پیدا کرنے کا موجب ہونے والے ہیں۔ اور نہ صرف خداتعالیٰ نے مجھے ان حادثات کا علم دیا ہے بلکہ ان کے متعلق بعض تفاصیل بھی اُس نے مجھے بتائی ہیں۔ وہ خطبہ گو الہام کی بناء پر نہیں تھا لیکن مختلف الہاموں اور کشوف اور رؤیا کے نتیجہ میں تھا اور اُن کو پورا کرنے کی تحریک کے طور پر ہی میں نے پڑھا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی زبان کو بسا اوقات اپنی زبان بنا لیتا ہے۔ جس وقت مَیں نے وہ خطبہ دیا تھا اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان سمجھوتہ کی کوئی صور ت پیدا ہونے والی ہے۔ بلکہ ہندوستانی اور انگریز دونوں مایوس نظر آتے تھے اور اس بارہ میں کوئی نیا قدم اٹھانے کے لئے کوئی جہت تیا رنہیں تھی۔ اُس زمانہ کے قریب قریب عرصہ میں بلکہ غالباً اس کے بعد بھی پارلیمنٹ میں جو سوالات ہوئے ان کے جوابات بھی نہایت مایوس کُن تھے اور ہندوستان کےلوگ بھی آئندہ کسی نیک تغیر کے متعلق
اپنے دلوں میں کوئی امیدیں نہیں رکھتے تھے۔ لارڈ ویول جو اِس وقت ہندوستان کے وائسرائے ہیں ان کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ہندوستان کے مطالبات کے خلاف ہیں۔ چنانچہ جب یہ ہندوستان میں افواج کے کمانڈر انچیف تھے اور سر کرپس یہاں آئے اُس وقت عام طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ سر کرپس کی تحریک اگر ناکام رہی ہے تو اس کی بڑی وجہ لارڈ ویول کی مخالفت ہی تھی۔ گویا لارڈ ویول وہ شخص ہیں جن کے متعلق لوگوں میں یہ خیال تھا خواہ یہ خیال غلط ہی کیوں نہ تھا کہ وہ ہندوستان کی آزادی اور ہندوستان کے حقوق کے خلاف ہیں۔ مگر ایسے وقت میں جبکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہندوستان کو آزاد کرنے کا سوال اب ایک عملی پالیٹکس کے طور پر انگلستان کے سیاسی مدبروں کے سامنے نہیں آسکتا۔ اور ایسے وقت میں جب ہندوستان کے مدبر بھی کسی تبدیلی کے متعلق امید رکھنے سے مایوس ہو چکے تھے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بات کی تحریک فرمائی کہ میں انگلستان اور ہندوستان کو سمجھوتہ کی دعوت دوں۔
میں نے اپنے اُس خطبہ میں بیان کیا تھا کہ میری آواز ایک ایسی چھوٹی سی جماعت کے امام کی آواز ہے جو سیاسی طور پر کسی گنتی اور شمار میں نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی میں نے کہا تھا کہ باوجود اِس بات کے جاننے کے ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اِس دنیا کا ایک زندہ خدا ہے اور اُس میں یہ طاقت ہے کہ وہ میری آواز کو بلند کر دے۔ یہ خطبہ چَھپا ہوا موجود ہے دوستوں اور دشمنوں نے اُس کو پڑھا ہے بلکہ ولایت میں شمس صاحب نے اس کا ترجمہ پارلیمنٹ کے بہت سے ممبروں کے پاس بھی بھجوا دیا تھا جس کے جواب میں بہت سے ممبروں نے شکریہ کے خطوط لکھے۔ ان میں سے بعض ‘‘الفضل’’ میں شائع بھی ہو چکے ہیں۔ میرے اُس خطبہ کے معاً بعد اللہ تعالیٰ نے اِس قسم کے سامان پیدا کر دیئے کہ چودھری ظفراللہ خان صاحب کو گورنمنٹ نے کسی کام کے لئے انگلستان بھجوایا اور باوجود اس کے کہ وہ برطانوی گورنمنٹ کے نمائندہ تھے اُس نے انگلستان میں ان سے اِس قسم کی تقریر کروائی جس میں انہوں نے میرے خطبہ کے بیان کردہ مطالب کو اپنی زبان میں انگلستان کے لوگوں کے سامنے رکھا۔ سیاسی طور پر چودھری ظفراللہ خان صاحب سے بھی بڑی پوزیشن رکھنے والے آدمی وہاں جاتے ہیں لیکن کبھی کسی کی تقریر کی طرف اُتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی کہ اِس تقریر کی طرف۔ متواتر کئی دن تک انگلستان کے سر برآوردہ اخبارات میں بڑے بڑے لیڈروں نے چودھری صاحب کی آواز کے خلاف یا اس کی تائید میں مضامین لکھے اور اِس طرح وہ آواز جو میں نے قادیان سے بلند کی تھی سارے انگلستان میں پہنچ گئی۔ انگلستان سے امریکہ کے نمائندوں نے تاروں کے ذریعہ اِس کو امریکہ میں پھیلایا اور رائٹر کے نمائندوں نے اس آواز کو ہندوستان میں پہنچایا اور پھر ہندوستان کے مختلف گوشوں میں اس کی تائید میں آوازیں بلند ہونی شروع ہو گئیں۔ اس طرح وہ بات جو میں نے اپنے اُس خطبہ میں بیان کی تھی پوری ہو گئی کہ مجھے اپنی آوا زکے ہوا میں اُڑ جانے کا کیا خوف ہو سکتا ہے۔ جبکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ہوا میں اُڑنے والی آواز کو بھی لوگوں کے کانوں تک پہنچا دے۔ یہ ریڈیو آخر ہوا میں سے ہر آواز کو پکڑنے کا آلہ ہے۔ اگر ریڈیو کے ذریعہ آوازیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ سکتی ہیں تو ہمارے خدا میں بھی یہ طاقت ہے کہ وہ ریڈیو سے کام لیتے ہوئے میری آواز کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے۔ خدا نے میری اس بات کو پورا کیا اور ہندوستان اور انگلستان کے مفاد کے لئے میں نے جس آواز کو بلند کیا تھا وہ ہندوستان اور انگلستان اور امریکہ میں تھوڑے ہی دنوں میں گونجنے لگ گئی۔ لیکن یہ آواز بلند ہوئی تھی اُس کی تکمیل کے لئے ابھی ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جو ان معاملات میں صاحبِ اقتدار ہو ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس غرض کے لئے وہ شخص پکڑاجن کے متعلق کہا جاتا تھا کہ انہیں ہندوستان کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ ہندوستان کی آزادی کے حق میں نہیں۔ بلکہ یہاں تک کہا جاتا تھا کہ سر کرپس جو ہندوستان میں آزادی کی تجاویز لائے تھے ان کی تجاویز میں اگر کسی نے رخنہ ڈالا تو وہ لارڈ ویول ہی تھے۔
غرض وہی شخص جس پر یہ بدظنی اور بدگمانی کی جاتی تھی اِس تقریر پر دو تین مہینہ گزرنے کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے اُس کے دل میں ایسی تحریک پیدا کی کہ وہ ہندوستان سے انگلستان پہنچا تاکہ وہ وزارت سے یہ مطالبہ کرے کہ وقت آگیا ہے کہ ہندوستان کو آزاد کر دیا جائے۔ اور جیسا کہ انگلستان کے اخبارات سے پتہ لگتا ہے وزارت کےا یک حصہ نے سختی سے ان کی تجاویز کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ اخبارات میں شائع ہؤا کہ لارڈ ویول استعفیٰ دینے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہندوستان کی آزادی کے متعلق میری بات نہ مانی گئی تو میں اپنے عُہدہ سےمستعفی ہو جاؤں گا۔چنانچہ برابر چھ ہفتے تک اِس قسم کی خبریں آتی رہیں۔ بعض وزراء پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ لارڈ ویول کی تجاویز کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اورلارڈ ویول کی طرف یہ بات منسوب کی گئی کہ وہ سختی کے ساتھ اپنی تجاویز پر مُصِر ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اپنی باتیں منوا کر چھوڑوں گا ورنہ اپنے عُہدے سے الگ ہو جاؤں گا۔ اور حق یہ ہے کہ اگر غیرمعمولی سامان خداتعالیٰ کی طرف سے پیدا نہ ہوتے توغالباً لارڈ ویول مایوس ہونے کی حالت میں ہی ہندوستان واپس آتے۔ یا اگر ان کے مستعفی ہونے کی خبر سچی تھی تو بجائے مایوس واپس آنے کے وہ استعفیٰ دے کر الگ ہو جاتے۔ لیکن اِس دوران میں خداتعالیٰ نے یہ سامان کیا کہ لیبر پارٹی نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم مشترک وزارت سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں۔ لیبر پارٹی کے اس فیصلہ پر مسٹر چرچل وزیر اعظم نے فورًا نئے انتخابات کا اعلان کر دیا۔ باوجود اس کے کہ لیبر پارٹی نے زور دیا کہ ابھی ایسا نہ کیا جائے اور باوجود اِس کے کہ لیبر پارٹی کی تعداد پارلیمنٹ میں تھوڑی تھی اور اس کے الگ ہونے سے گورنمنٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا مسٹر چرچل نے اصرار کیا کہ ہم نیا انتخاب کرائیں گے۔ جب انہوں نے اس بات پر اصرار کیا اور لیبر پارٹی نے سمجھ لیا کہ اسے اب بہرحال مقابلہ کرنا پڑے گا تو اس نے اپنا آئندہ پروگرام تیار کیا جس میں ایک تجویز یہ رکھی کہ ہندوستان کو آزادی کا حق دے دیا جائے۔ لارڈ ویول کی تجاویز پر بے شک گورنمنٹ نے مشورہ کیا تھا اور اس میں لیبر پارٹی کےممبر بھی شامل تھے لیکن وزارت جس میں کثرت کنزرویٹو پارٹی کی تھی وہ ابھی اِس فیصلہ کو شائع کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ اور باوجود فیصلہ کے وہ اس کے راستہ میں روکیں پیدا کر رہی تھی لیکن خدا نے ان روکوں کو دور کرنے کایہ سامان کیا کہ لیبر پارٹی نے اعلان کر دیا کہ ہم آئندہ الیکشن میں ہندوستان کی آزادی کا سوال اُٹھائیں گے اور ملک کے سامنے یہ بات رکھیں گے کہ کنزرویٹو ہندوستان کو آزادی دینا نہیں چاہتے اور اس طرح وہ حکومت کو کمزور کر رہے ہیں۔ اگر تم نے ہم کو حکومت میں بھیج دیا اور لیبر پارٹی برسرِ اقتدار آگئی تو ہم ہندوستان کو آزاد کر دیں گے اور اس طرح انگلستان اور ہندوستان کے درمیان جو ایک پُرانا جھگڑا چلا آرہا ہے وہ دور ہو جائے گا۔ اور برطانوی حکومت پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ جب لیبر پارٹی کی طرف سے یہ اعلان ہوا تو کنزرویٹو پارٹی مجبور ہو گئی کہ وہ بھی ہندوستان کی آزادی کا سوال اٹھائے۔ اگر کنزرویٹو پارٹی یہ سوال نہ اٹھاتی تو آئندہ الیکشن میں اس کو سخت مشکلات پیش آنے کا خطرہ تھا۔ یہ تیسری غیر معمولی بات تھی جو پیدا ہوئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ کنزرویٹو پارٹی اپنے فیصلے کو جلد تر نافذ کرنے پر مجبو رہو گئی۔ ورنہ نئے انتخابات میں اس کے لئے کامیابی کا حاصل کرنا بہت مشکل ہوجاتا۔ کیونکہ انگلستان کی عام رائے اِس بات کے حق میں ہے کہ اب ہندوستان کو کسی نہ کسی طرح خوش کرنا چاہیے ورنہ برطانوی حکومت کمزور ہو جائے گی۔
اس تغیر کے نتیجہ میں وہ بات جس کے لئے لارڈ ویول چھ ہفتہ سے انگلستان میں مقیم تھے اور جس کے اکثر حصے کا گو تصفیہ ہو چکا تھا مگر اعلان میں بعض روکیں حائل تھیں اس کا دو تین دنوں میں ہی اعلان ہو گیا۔ وہ انگلستان سے ہندوستان واپس آئے اور انہوں نے ہندوستان کے سامنے آزادی کی سکیم پیش کر دی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ اس سکیم میں قریباً وہی فقرات درج ہیں جو میرے خطبہ میں تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انگلستان ہندوستان کی طرف اپنا صلح کا ہاتھ بڑھاتا ہے کیونکہ آئندہ سخت خطرات پیش آنےو الے ہیں۔ ہندوستان کو اپنے جائز مقام اور جائز حق کے حاصل کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ ہندوستان کا کام ہے کہ وہ اس پیشکش کو قبول کرے اور پرانے زخموں کو تازہ نہ کرے۔ یہ ویسا ہی فقرہ ہے جیسے میں نے کہا تھا کہ نئے سمجھوتہ میں پرانی باتیں بُھول جانی چاہئیں۔ یہ وہ پیشکش ہے جو اِس وقت ہندوستان کے سامنے ہے۔ اور چونکہ یہ غیر معمولی آسمانی سا مانوں کے ساتھ پیش ہوئی ہے اِس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدائی پیشکش ہے اور ہندوستان کی نہایت ہی بدقسمتی ہو گی کہ اگر اس نے اس پیش کش کو رد کر دیا۔
میں تو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ ہندوستانی لیڈر باوجود اِس کے کہ ان میں بعض بڑے بڑے سمجھدار اور بڑے بڑے عقلمند ہیں کس طرح اس بات کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ انگریزوں کےہاتھ میں سو فیصدی اختیارات کے ہوتے ہوئے اگر وہ آزادی کی امید رکھتے ہیں تو نوے فیصدی اختیارات اگر ان کے اپنے ہاتھ میں آجائیں تو کیوں وہ آزادی کی امید نہیں رکھ سکتے۔ اگر انگریزوں کو دشمن سمجھ لیا جائے تو بھی یہ غور کرنا چاہیے کہ اگر کسی دشمن کے پاس سوبندوقیں ہوں لیکن دوسرے شخص کے پاس کوئی ایک بندوق بھی نہ ہو اور اس حالت میں بھی وہ سمجھتا ہو کہ میں اپنے دشمن کا مقابلہ کر کے جیت جاؤں گا تو اگر فرض کرو اُس کا دشمن اُسے کہے کہ نوّے بندوقیں تم مجھ سے لے لو اور دس میرے پاس رہنے دو۔ تو ایسی حالت میں اگر وہ کہے کہ میں نوّے نہیں لوں گا جب دو گے سَو ہی لوں گا تو کیا ایسے شخص کو کوئی بھی عقلمند کہہ سکتا ہے؟ یقینا ہر شخص اُسے نادان اور ناسمجھ ہی قرار دے گا۔ اِسی طرح خواہ کچھ کہہ لو اِس میں کچھ شبہ نہیں کہ ہندوستان کو جو بھی اختیارات ملیں، زیادہ ملیں تب بھی اور کم ملیں تب بھی وہ اختیارات بہرحال ہندوستان کے لئے مفید اور بابرکت ہوں گے اور وہ ہندوستان کو پہلے کی نسبت آزادی کے زیادہ قریب کر دیں گے۔ پس میرے نزدیک ہندوستان کو اِس پیشکش کو قبول کرنا انگریزوں سے صلح کرنا نہیں بلکہ اپنے آپ پر اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں پر احسان عظیم کرنا ہے۔ دو سَو سال سے ہندوستان غلامی کی زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے اور یہ ایک ایسی خطرناک بات ہے جو انسانی جسم کو کپکپا دیتی ہے۔ بے شک بعض لوگ ایسے اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوتے ہیں کہ خواہ انہیں قید خانوں کے اندر رکھاجائے تب بھی وہ آزاد ہوتے ہیں غلامی اُن کے قریب بھی نہیں آتی۔ مگربیشتر حصہ بنی نوع انسان کا ایسا ہی ہوتا ہے جو ظاہری غلامی کے ساتھ دلی غلام بھی بن جاتا ہے۔ ہم ہندوستان میں روزانہ اِس قسم کے نظارے دیکھتے ہیں جو اِس غلامی کا ثبوت ہوتے ہیں جو ہندوستانیوں کے قلوب میں پائی جاتی ہے۔ ان واقعات کو دیکھنے کے بعد کون شخص ہندوستانیوں کی غلامی سے انکار کر سکتا ہے۔
اِسی ضلع کی بات ہے یہاں ایک دفعہ ایک انگریز ڈپٹی کمشنر آئے ان کو شکار کا شوق تھا۔ یہ میرے ابتدائی ایامِ خلافت کا واقعہ ہے یا حضرت خلیفہ اول کی وفات کے قریب کی بات ہے۔ بہرحال وہ ایک د ن شکار کے لئے نکلے تو ایک جوہڑ میں جو کسی گاؤں کے پاس تھا نمبردار کی بطخیں تیر رہی تھیں۔ کسی نے غلطی سے اُنہیں کہہ دیا کہ مگھ آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فائر کر دیا۔ فائر کے بعد جب وہ قریب گئے تو سمجھ گئے یہ تو بطخیں تھیں جن کو غلطی سے مگھ سمجھ کر فائر کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے نمبردار کو بلایا اور پانچ روپے کا نوٹ اپنی جیب سے نکال کر اسے دیا کہ لو یہ روپے میں تمہیں دیتا ہوں۔ مگر وہ اِس ذہنیت کی وجہ سے کہ کہیں ڈپٹی کمشنر کو یہ احساس نہ ہو جائے کہ میں نے ان کے فعل کو بُرا سمجھا ہے کہنے لگا صاحب! شکار تو آپ نے مارا ہے مجھے کیسا انعام دے رہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا بے شک شکار ہم نے مارا لیکن تم یہ روپے لے لو۔ مطلب یہ تھا کہ یہ تمہاری بطخوں کی قیمت ہے میں نے غلطی سے ان کو مار ڈالا ہے اب یہ روپے ان کی قیمت کے طور پر لے لو۔ مگر وہ یہی کہتا رہا کہ آپ مجھے کیوں انعام دیتے ہیں شکار تو آپ نے کیا ہے۔ یہ ذہنیت اَور کسی ملک میں نظر نہیں آ سکتی۔ یہاں اگر انگریز کسی کو مارتا بھی چلا جائے تو اُس میں جرأت نہیں ہوتی کہ وہ اُس کے مقابلہ میں اپنی زبان ہِلا سکے۔ اب تو پھر بھی لوگوں میں کچھ آزادی کی روح پیدا ہو گئی ہے لیکن آج سے چند سال پہلے یہ حال تھا کہ کسی انگریز کے ساتھ لوگ ریل کےا یک کمرہ میں بھی سوار نہیں ہو سکتے تھے۔ اگر کسی ڈبہ میں انگریز بیٹھا ہوتاتھا تو بڑے بڑے ہندوستانی افسر وہاں سے ٹل جاتے تھے کہ صاحب بہادر اندر بیٹھے ہیں۔ خواہ صاحب بہادر ان کے نوکروں سے بھی ادنیٰ ہوں۔
ہندوستان کے لوگوں کی یہ حالت جو بیان کی گئی ہے اس میں اعلیٰ اخلاق کے لوگ شامل نہیں۔ ان لوگوں کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ خواہ وہ صلیب پر لٹک رہےہوں یا جیل خانوں میں بند ہوں تب بھی وہ آزاد ہوتے ہیں۔ کیونکہ اصل آزادی جسم کی آزادی نہیں بلکہ دل کی آزادی ہے۔ آزاد قوموں کے جرنیل جب لڑائی میں پکڑے جاتے ہیں تو کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ غلام بن جاتے ہیں؟ وہ غلام نہیں بلکہ آزاد ہوتے ہیں۔ بے شک انہیں بند جگہوں میں رکھا جاتا ہے لیکن بند جگہوں میں رہنے کے باوجود وہ آزاد ہوتے ہیں۔ مگر ہندوستان وہ ملک ہے جس کا بیشتر حصہ بلکہ ننانوے فیصدی حصہ یقینا غلام ہو چکا ہے۔ اس قسم کی حالت کو اگر لمبا کیا جائے تو اس سے زیادہ اپنی قوم کے ساتھ اور کوئی دشمنی نہیں ہو سکتی۔ میں تو کہتا ہوں ایک ویٹو کیا اگر وائسرائے کو دس ویٹو بھی دے دیئے جائیں تب بھی اس تغیر کی وجہ سے ہندوستان میں جو آزادی کی روح پیدا ہو گی وہ اس قابل ہے کہ اُس کو خوشی سے قبول کیا جائے۔ جب تک ہندوستانیوں کے ذہن سے یہ نہیں نکل جائے گا۔ (اور ہندوستانیوں سے مراد جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں عوام الناس ہیں نہ کہ اعلیٰ طبقہ کے لوگ) کہ وہ انگریزوں کے غلام ہیں اُس وقت تک ہندوستان سے کسی بہتری یا کسی بڑے کام کی امید رکھنا بالکل فضول اور عبث ہے۔ لیڈر ہونا اَور بات ہے لیکن کام عوام الناس کیا کرتے ہیں۔ ہٹلر نے انگلستان سے لڑائی کی اور بے شک بڑی جرأت اور بہادری دکھلائی مگر لڑا ہٹلر نہیں بلکہ جرمن قوم لڑی۔ سٹالن نے بے شک ایک اعلیٰ مہارت جرنیل کی دکھائی اور لوگ سٹالن کی تعریف کرتے ہیں لیکن سٹالن، سٹالن نہیں بن سکتا تھا جب تک روس کا ہر آدمی بہادر اور دلیر نہ ہوتا۔ انگلستان میں مسٹر چرچل نے بے شک بڑا کام کیا ہے لیکن مسٹر چرچل کیا کام کر سکتے تھے اگر ہر انگریز اپنے اندر وہ اخلاق نہ رکھتا جو عام طور پر انگریزوں میں پائے جاتے ہیں۔ اِسی طرح مسٹر روز ویلٹ کو بھی بڑی عزت اور شُہرت حاصل ہوئی۔ مگر ان کوعزت اور شُہرت اِسی وجہ سے حاصل ہوئی کہ امریکن لوگوں نے قربانی کی ایک بے نظیر روح دکھائی۔ہندوستان میں بھی بے شک گاندھی جی کو اونچا کرنے کے لئے لوگ کتابیں لکھتے اور تقریریں کرتے ہیں لیکن کوئی اکیلا گاندھی یا دو درجن گاندھی یا بیس درجن گاندھی یا ہزار گاندھی بھی ہندوستان کو آزاد نہیں کرا سکتا جب تک عوام الناس میں آزادی کی روح پید انہ ہو۔ پس صرف گاندھی اور نہرو کو دیکھ کر یہ خیال کر لینا کہ ہندوستان ترقی کر رہا ہے محض حماقت ہے۔ چند بڑے بڑے لیڈروں کی وجہ سے یہ سمجھ لینا کہ ہندوستان میں آزادی کی روح پیدا ہو گئی ہے ویسی ہی جہالت کی بات ہے جیسے بلی کبوتر پر حملہ کرتی ہے تو وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں امن میں آگیا ہوں۔ جب تک ہندوستان کے عوام الناس کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کر لیتے، جب تک ہندوستان کے مزدوروں کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کر لیتے، جب تک ہندوستان کے زمینداروں کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کر لیتے اور جب تک ہم ان میں بیداری اور حرکت پیدا نہیں کر لیتے اُس وقت تک نہ ہندوستان آزاد ہو سکتا ہے نہ ہندوستان حقیقی معنوں میں کوئی کام کر سکتا ہے۔ اور یہ آزادی پیدا نہیں ہو سکتی جب تک موجودہ دَور بدل نہ جائے۔ جب تک ہندوستانیوں کے ذہن سے یہ نکل نہ جائے کہ ہم غلام ہیں۔ جس دن ہندوستانیوں کے ذہن سے غلامی کا احساس نکل جائے گا اُس دن ان میں تعلیم بھی آجائے گی، ان میں جرأت اور دلیری بھی پیدا ہو جائے گی اور ان میں قربانی اور ایثار کی روح بھی رونما ہو جائے گی۔ جب انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں کسی کا غلام ہوں تو وہ کہتا ہے مجھے کیا زمین اُلٹی ہو یا سیدھی، آسمان گرے یا قائم رہے فائدہ تو مالک کو ہے میں کیوں تکلیف اٹھاؤں۔ میں سمجھتا ہوں وہ لیڈر، لیڈر نہیں ہوں گے بلکہ اپنی قوم کے دشمن ہوں گے جو ان حالات کے بدلنے کے امکان پیدا ہونے پر بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ضد کر کے بیٹھ جائیں۔ اور ان معمولی معمولی باتوں میں اس اہم ترین موقع کو ضائع کر دیں کہ فلاں کو کانفرنس میں کیوں لیا گیا اور فلاں کو کیوں نہیں لیا گیا۔ لوگ تو اپنے جسم کو بچانے کے لئے اپنے اور اپنے بچوں کے اعضا تک کٹوا دیتے ہیں لیکن یہاں یہ سوال پیدا کئے جار ہے ہیں کہ فلاں کو نمائندہ سمجھا جائے اور فلاں کو نہ سمجھا جائے، فلاں کو شامل کیا جائے اور فلاں کو شامل نہ کیا جائے۔ حالانکہ جس شخص کے دل میں حقیقی درد ہوتا ہے وہ ہر قسم کی قربانی کر کے اپنی قیمتی چیز کو بچانے کی کوشش کیا کرتاہے۔
یہودی تاریخ میں ایک مشہور واقعہ آتا ہے۔ لکھاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے والد کی زندگی میں ایک موقع پر جج کے طور پر کام کر رہے تھے کہ دو عورتیں ان کے پاس اپنا مقدمہ لے کر آئیں۔ وہ دونوں ایک شخص کی بیویاں تھیں۔ اور دونوں اپنے کسی رشتہ دار سے ملنے کے لئے اکٹھی روانہ ہوئیں۔ دونوں کا ایک ایک بیٹا تھا۔ راستہ میں وہ جنگل میں سے گزر رہی تھیں کہ ایک مقام پر بھیڑیا حملہ کر کے ان میں سے ایک کا بیٹا اٹھا کر لے گیا۔ جس عورت کا بیٹا بھیڑیا اٹھا کر لے گیا تھا اُسے جب یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے فورًا دوسری عورت کا بیٹا اٹھا لیا اور کہا یہ میرا بچہ ہے۔ چونکہ خاوند سفر پر گیا ہوا تھا اور سال دو سال اسے گزر چکے تھے وہ سمجھتی تھی کہ اگر خاوند واپس آیا تو وہ پہچان نہیں سکے گا کہ یہ بیٹا اُس کا نہیں بلکہ دوسری کا ہے۔ اسے یہ بھی خیال تھا کہ اگر میرا بیٹا نہ ہوا تو خاوند میری سوت سے محبت کرنے لگ جائے گا اور میری طرف اِس کی توجہ کم ہو جائے گی اِس وجہ سے اُس نے اپنی سَوت کا بچہ اٹھا لیا اور کہا کہ یہ میرا ہے۔ اِس پر دونوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔ ایک کہتی یہ میرا بچہ ہے اور دوسری کہتی کہ یہ میرا بچہ ہے۔ مقدمہ کئی قاضیوں کے پاس گیا مگر سب حیران تھے کہ ہم کیا کریں۔ دو گواہ ہیں تیسرا آدمی کوئی گواہی دینے والا نہیں اور دونوں آپس میں لڑ رہی ہیں۔ اب اس جھگڑے کا کس طرح فیصلہ کیا جائے۔ آخر یہ معاملہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچا۔ انہوں نے سنتے ہی پتہ لگا لیا کہ اس مقدمہ کا دلائل سے ثابت کرنا بالکل ناممکن ہے۔ انہوں نے بھولے پن سے جیسے کوئی بالکل ناواقف ہوتا ہے یہ کہا کہ اس میں لڑائی کی کونسی بات ہے خوامخواہ تم جھگڑ رہی ہو، سیدھی بات ہے میں ابھی چُھری منگوا کر اِس بچے کو آدھا آدھا کر دیتا ہوں اور تم دونوں میں بانٹ دیتا ہوں۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اِس طرح فیصلہ دیا تو وہ جو سوتیلی ماں تھی اُس نے سمجھا کہ میرا لڑکا تو مر ہی چکا ہے اگریہ بھی مر گیا تو ہم دونوں برابر ہو جائیں گی اُس نے کہا ہاں یہی انصاف ہے۔ مگر جو اصلی ماں تھی اُس نے کہا حضور! مَیں جھوٹ بول رہی تھی یہ اِس کا بچہ ہےمیرا نہیں آپ اِسی کو دے دیں اور اسے ذبح نہ کریں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اِس پر وہ بچہ اصلی ماں کے حوالے کر دیا اور کہا یہ تیرا ہی بچہ ہے اس عورت کا نہیں جو اسے کاٹنے پر خوش ہو رہی تھی۔ 1
تو دیکھو سچی محبت میں انسان اپنی چیز بچانے کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ یہاں چالیس کروڑ انسان غلامی میں مبتلا ہے، چالیس کروڑ انسان کی ذہنیت نہایت خطرناک حالت میں بدل چکی ہے۔ نسلاً بعد نسلٍ وہ ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ انگریز جس نے ہندوستان پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ ہندوستان کو آزادی دینے کا اعلان کر رہا ہے۔ لیکن سیاسی لیڈر آپس میں لڑ رہے ہیں کہ تمہارے اتنے ممبر ہونے چاہئیں اور ہمارے اتنے۔ اگر ہندوستان کی سچی محبت ان کے دلوں میں ہوتی تو مَیں سمجھتا ہوں ان میں سے ہر شخص کہتا کہ کسی طرح ہندوستان آزاد ہو جائے۔ کسی طرح چالیس کروڑ انسان غلامی کے گڑھے سے نکل آئے۔ چلو تم ہی سب کچھ لے لو مگر ہندوستان کی آزادی کی راہ میں روڑے مت اٹکاؤ۔ لیکن بجائے اِس کے کہ انہیں ہندوستان کی آزادی کا فکر ہو، انہیں چالیس کروڑ انسانوں کی غلامی کی زنجیریں کاٹنے کا احساس ہو، وہ معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑ رہے ہیں۔
پس ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان دنوں میں خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے، ان کی بینائی کو تیز کرے اور وہ خدائی تحریک جو میرے خطبہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے اُس سے اِنہیں فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی غفلت اور کوتاہی سے اِس اہم موقع کو ضائع کر دیں اور وہ مزید بیس یا پچاس یا سو سال تک ہندوستان کو غلامی کے گڑھے میں دھکیلنے والے بن جائیں۔ بے شک ایسی حالت میں ان کی لیڈریاں ہی قائم رہیں گی مگر ملک غلام کا غلام بنا رہے گا۔ اور میں تو کہتا ہوں ہر شریف انسان اپنی لیڈری پر *** بھیجنے سے بھی زیادہ کے لئے تیار ہو گا اگر اس کا ملک غلامی میں پڑا رہےاور وہ اپنی لیڈری کے خیال میں مست رہے۔ ہم ایک قلیل جماعت ہیں اور ہم ان حالات کو دیکھنے کے باوجود کچھ کر نہیں سکتے۔ لیکن ہماری جماعت یہ دعا ضرور کر سکتی ہے کہ اے خدا! خواہ مسلمان لیڈر ہوں یا ہندو تُو اِن کی آنکھیں کھول اور انہیں اِس بات کی توفیق عطا فرما کہ وہ ہندوستان کے چالیس کروڑ غلاموں کی زنجیریں کاٹنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ کیونکہ یہ نہ صرف ہمارے لئے مفید ہےبلکہ آئندہ دنیا کے امن کے لئے بھی مفید ہے۔ اگر اِس موقع پر لڑنا جائز ہوتا تو انگریزکو لڑنا چاہیے تھا۔ مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ وائسرائے جو انگلستان کی طرف سے ہندوستان پر حکومت کرنے کے لئے آیا ہوا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ہندوستان کو آزاد کرتا ہوں۔ انگلستان کا صنّاع جو ہندوستان کو لُوٹ کر اپنی صنعت کو فروغ دے رہا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ہندوستان کو آزاد کرنے کے لئے تیار ہوں۔ انگلستان کی وہ ٹوری گورنمنٹ (Tory Governament) جو ہندوستان پر ہمیشہ جبری حکومت کے لئے کوشش کرتی چلی آئی ہے وہ کہتی ہے کہ میں ہندوستان کو آزادی دینے کے لئے تیار ہوں۔ انگلستان کی لیبر پارٹی جو نئی پارٹی ہے اور جسے برسرِاقتدار آنے کا پہلا موقع ملنے والا ہے یا ممکن ہے کچھ دیر کے بعد ملنے والا ہو وہ بھی اعلان کر رہی ہے کہ ہم ہندوستان کو آزادی دینے کے لئے تیار ہیں۔ انگلستان کے پریس کا بیشتر حصہ خواہ ٹوری ہو یا لیبر ہو یا لبرل (Liberal) ہو شور مچا رہا ہے کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے۔ امریکہ اور فرانس اور دوسرے ممالک جن کا براہِ راست ہندوستان سے کوئی واسطہ نہیں وہ بھی شور مچا رہے ہیں کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے۔ لیکن اگر انگلستان ہندوستان کو آزادی دینے کےلئے تیار ہے تو ہندوستان کے اپنے بعض سپوت آزادی لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پس اِن دنوں میں اللہ تعالیٰ سے خاص طو رپر دعائیں کرو کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں یہ معاملات ہیں اللہ تعالیٰ اُنہیں اِس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ راہِ راست پر آجائیں اور ہندوستانی غلاموں کی زنجیروں کو کاٹ کر وہ ہندوستان کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے والے ثابت ہوں۔
اسی سلسلہ میں مَیں اپنے ایک رؤیا کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو نہایت عظیم الشان طور پر پورا ہوا ہے۔ غالباً 8 یا 9۔اپریل کی بات ہے میں اُن دنوں لاہور میں تھا کہ میں نے یہ رؤیا دیکھا اور میں نے لاہور میں ہی جماعت کے کئی دوستوں کو سنا دیا۔ اس کے بعدیہاں بھی اپنی مجلس میں مَیں نے اس رؤیا کا ذکر کیا۔ تین چار سَو کا مجمع تھا جس میں مَیں نے اپنے اس خواب کو بیان کیا۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ جیسے ہمارے ہندوستانی لوگوں پر کام کرتے وقت عام طور پر نحوست اور سستی چھا جاتی ہے یہی نقص ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ دس بارہ دن کے بعد جب میں نے دریافت کیا کہ اُس دن کی خوابوں والی ڈائری میرے پاس کیوں نہیں آئی؟ تو ڈائری نویسی کے محکمہ نے اطلاع دی کہ ہمارے ڈائری نویس صاحب معذرت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ دو دن پہلے آپ بیمار تھے اور مسجد میں تشریف نہیں لائے تھے اس لئے اُنہوں نے فرض کر لیا کہ آپ تیسرے دن بھی تشریف نہیں لائیں گے اور اس طرح وہ ڈائری قلمبند ہونے سے رہ گئی۔ بہرحال تین چار سو کے مجمع میں مَیں نے اپنے اس خواب کو بیان کر دیا تھا اور لاہور میں بھی کئی دوستوں کے سامنے اس کا ذکر کیا تھا۔ وہ رؤیا یہ تھا کہ ابو الکلام صاحب آزاد کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ قریب عرصہ میں ان کی ذات کے متعلق ایک عظیم الشان واقعہ ہونے والا ہے۔ مَیں نے اس رؤیا کی تعبیر یہ بتائی تھی کہ انسانی زندگی میں دو ہی واقعات عظیم الشان ہوتے ہیں یا تو اس کا مرجانا اور یا جس کام میں وہ مشغول ہو اُس میں اُسے کسی عظیم الشان خدمت کا موقع مل جانا۔ پس میں نے کہا تھا کہ یا تو اس خواب میں ان کی موت کی طرف اشارہ ہے یا آزاد ہو جانے پر کسی بڑے کام کا موقع پانے کی طرف۔ اس رؤیا کے دو ماہ کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ لارڈ ویول کی طرف سے ہندوستان کی آزادی کا سوال پیش کیا گیا اور چونکہ خدا نے اس رؤیا کو پورا کرنا تھا اس لئے اس نے اس رؤیا کو نمایاں طور پر پورا کرنے کے سامان اس طرح پیدا کئے کہ لارڈ ویول نے جن کو دعوت نامے بھیجے اُن میں ابو الکلام صاحب آزاد کا نام نہیں تھا۔ گاندھی جی کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے شمولیت سے انکار کر دیا۔ اور کہا کہ میں کانگرس کا نمائندہ نہیں۔ کانگرس کے صدر مولانا ابو الکلام آزاد ہیں۔ آپ مجھے ایک غیر جانبدار شخص کے طور پر بلا سکتے ہیں مگر کانگرس کی نمائندگی کے لئے آپ ابو الکلام صاحب آزاد کو بلائیں۔ چنانچہ اس کے بعد لارڈ ویول کی طرف سے ابو الکلام صاحب آزاد کو بھی دعوت دی گئی۔ اب چاہیں تو وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا لیں اور چاہیں تو اس کو ضائع کر دیں۔ بہرحال اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان کی سیاسی زندگی میں یہ سب سے اہم موقع ہے جو مولانا ابوالکلام صاحب آزاد کو ملا ہے۔ اِس وقت ہندوستان کی آزادی کا سوال پیش ہے اگر وہ اس کو رد کر دیں تب بھی یہ ایک بڑا واقعہ ہے جو ان کی طرف منسوب ہو گا۔ اور اگر وہ اس سے فائدہ اٹھا کر ہندوستان کو آزاد کرا دیں تب بھی یہ ایک بڑا واقعہ ہے جو ان کی طرف منسوب ہو گا۔ اور اگر وہ اس کو رد کر دیں گے تو آئندہ آنے والی نسلیں ہمیشہ ان پر *** کریں گی کہ ہندوستان کو آزادی حاصل ہونے والی تھی مگر ابوالکلام آزاد کی وجہ سے آزادی نہ ملی۔ اور اگر وہ اس کوشش میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے سمجھوتہ کرا دیا تو آئندہ آنے والی نسلیں ان کے لئے دعائیں کریں گی کہ خدا ابو الکلام پر رحمت کرے کہ جب ہندوستان کی آزادی کا سوال آیا تو انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی طرز پر کام کیا کہ ہندوستان کو آزادی نصیب ہو گئی۔
ہمارے ہاں مشہور ہے کہ کوئی شخص حج کے لئے گیا تو چشمۂ زمزم میں پیشاب کرنے بیٹھ گیا۔ لوگوں نے یہ دیکھ کر اُسے مارا پیٹا اور کہا کہ نامعقول! تُو نے یہ کیا حرکت کی ہے؟اس نے جواب دیا کہ بات اصل میں یہ ہے کہ میں ہمیشہ سوچا کرتا تھا کہ کوئی ایسا کام کروں جس سے میری شُہرت ہو جائے۔ جو بھی لیاقت کا کام ہوتا میں دیکھتا کہ ہزاروں آدمی مجھ سے زیادہ لائق ہیں اور میں ان کے مقابلہ میں کوئی شہرت حاصل نہیں کر سکتا۔ آخر مَیں یہاں حج کرنے کے لئے آیا تو مجھے خیال آیا یہ کام آج تک کسی نے نہیں کیا ہو گا اگرمیں ایسا کروں تو میری دنیا میں خوب شہرت ہو جائے گی۔ تو بڑے کام بُرے بھی ہوتے ہیں اور اچھے بھی۔
بہرحال یہ ایک ایسا موقع ابوالکلام صاحب کو ملا ہے کہ اگر وہ اس کو رد کر دیں تب بھی اتنا بُرا کام اور کسی نے نہیں کیا ہو گا اور اگر وہ اس سے فائدہ ا ٹھائیں اور اس تحریک کو قبول کر لیں تب بھی اتنا اچھا کام پچھلی کئی صدیوں میں کسی نے نہیں کیا ہو گا۔ پس وہ رؤیا اِس صورت میں پورا ہو چکا ہے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ ڈائری نویسوں کی سُستی کی وجہ سے وہ رؤیا شائع نہیں ہوا۔ بہرحال اُس روز قادیان کے تین چار سَو افراد شام کی مجلس میں موجود تھے جنہوں نے یہ رؤیا میری زبان سے سنا اور وہ اس رؤیا کی صداقت کے گواہ ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی بھاری حکمت معلوم ہوتی ہے کہ اول میں نے ہندوستان کی آزادی کے متعلق خطبہ پڑھا۔ پھر میری آواز چودھری ظفراللہ خان صاحب کے ذریعہ انگلستان پہنچی اور پریس میں ایک شور مچ گیا۔ اس کے بعد لارڈ ویول ہندوستان کی آزادی کے متعلق تجاویز لے کر انگلستان گئے اور وزارت سے دیر تک بحث کرتے رہے۔ اِسی دوران میں پارلیمنٹ کے نئے انتخابات کا سوال آگیا اور آخر کنزرویٹو پارٹی اِس بات پر مجبور ہو گئی کہ وہ جلد سے جلد اِس سوال کو اٹھائے۔ پھر خدا تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت خبر دے دی کہ ابو الکلام صاحب آزاد کی زندگی سے ایک بہت بڑا کام وابستہ ہے۔ چنانچہ اِنہی کی پریذیڈنٹی میں یہ سوال اٹھا حالانکہ اگر وہ فوت ہو جاتے یا پریذیڈنٹ بدل جاتا تو یہ کام ان کی طرف منسوب نہ ہو سکتا۔ پس یہ تمام واقعات خدائی مشیّت کے ماتحت ہوئے ہیں۔ اور اس کے نشانات میں سے یہ ایک عظیم الشان نشان ہے جو ظاہر ہؤا ہے۔ یہ نشانات جو متواتر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہو رہے ہیں ہماری جماعت کے مخلصین کے ایمانوں میں زیادتی کا موجب ہونے چاہئیں اور انہیں دیکھنا چاہیے کہ کس طرح یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ ان کے لئے ایسے نشانات ظاہر کر رہا ہے جو انسانی طاقت و قوت سے بالکل بالا ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ہماری جماعت کو اپنے اخلاص اور اپنے ایمان اور اپنی قربانیوں میں نمایاں طور پر ترقی کرنی چاہئے۔
مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ بے شک جماعت مالی قربانی کر رہی ہے مگرجہاں تک تحریک جدید کا تعلق ہے اِس میں جماعت نے سُستی سے کام لیا ہے۔ اب بھی باوجود میرے خطبہ کے جماعت میں شائع ہونے کے جماعت میں سُستی کے آثار نظر آتے ہیں۔ سات مہینے تحریک جدید کے گیارہویں سال پر گزر چکے ہیں لیکن ابھی چالیس فیصدی چندہ بھی وصول نہیں ہوا۔ میں سمجھتا ہوں اِس میں زیادہ تر جماعت کی سُستی نہیں کیونکہ انجمن کے چندے باقاعدہ وصول ہو رہے ہیں۔ اس میں زیادہ تر غفلت تحریک جدید کے دفتر کی ہے۔ اگر لوگوں کے اخلاص اور ان کی قربانی میں کمی آجاتی تو چاہیے تھا کہ دوسرے چندوں میں بھی کمی آجاتی۔ لیکن صدر انجمن احمدیہ کے چندوں میں کمی نہیں آئی بلکہ زیادتی ہو رہی ہے۔ایک دو ہفتوں میں مجھے کمی نظر آئی تھی مگر انہوں نے ثابت کیا ہے کہ بعد کے ہفتوں میں یہ کمی پوری ہو کر پہلے سے بھی زیادہ چندہ وصول ہو گیا ہے۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ یا تو جو میں نے کہا تھا کہ ہر انجمن میں اس غرض کے لئے ایک سیکرٹری تحریک جدید ہونا چاہیے دفتر نے اِس نشہ میں کہ میرے خطبات کی وجہ سے جماعت میں ایک عام بیداری پیدا تھی جماعتوں میں سیکرٹریوں کے مقر ر کرنے میں کوتاہی سے کام لیا ہے۔ اور یا پھر جو سیکرٹری مقرر ہیں وہ سُست ہیں دفتر نے ان کی نگرانی نہیں کی اور ان کو ہوشیار اور بیدار کرنے کے لئے کوئی جدوجہد نہیں کی۔ بجائے اس کے کہ وہ سیکرٹریوں کو چُست کرتے وہ ہمیشہ اخبار میں یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں شامل ہونے کا وقت آگیا۔ یہ ایک فقرہ ہے جو انہوں نے سیکھا ہوا ہے اور اِسی ایک فقرہ کو وہ بار بار دہراتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ کوئی ایک فقرہ خواہ کتنا ہی بیدار کرنے والا ہو ہمیشہ کے لئے کام نہیں آسکتا۔ تیز سے تیز چُھری بھی تھوڑی دیر چلنے کے بعد کُند ہو جاتی ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اسے تیز کیا جائے۔
حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ بھوپال میں ایک بزرگ تھے جن سے مَیں عموماً ملنے کے لئے جاتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ کچھ دیر کے بعد ملا تو آپ نےفرمایا میاں! کبھی قصاب کی دکان پر بھی گئے ہو؟ میں نے کہا ہاں جناب! کئی دفعہ جاتا ہوں۔ کہنے لگے کیا تم نے دیکھا کہ قصاب کچھ دیر گوشت کاٹنے کے بعد چُھریوں کوآپس میں رگڑ لیتا ہے؟ آپ فرماتے تھے میں نے کہا میں نے ایسا کئی بار دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا جانتے ہو وہ چُھریاں آپس میں کیوں رگڑتا ہے؟ اِس لئے رگڑتا ہے کہ چربی میں جب بار بار چُھری جاتی ہے تو کُند ہو جاتی ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اُسے تیز کیا جائے۔ چنانچہ جب دو چُھریاں آپس میں رگڑی جاتی ہیں تو وہ دونوں تیز ہو جاتی ہیں۔ یہ مثال دے کر فرمانے لگے ہمارا دماغ بھی دُنیوی کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے کُند ہو جاتا ہے اور تمہارا دماغ بھی کُند ہو جاتا ہو گا۔ کبھی کبھی آجایا کرو تاکہ ہم بھی اپنی چُھریاں آپس میں رگڑ لیا کریں اور میرا اور تمہارا ذہن دونوں تیز ہوتے رہیں۔ تو متواتر السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کے الفاظ کو اخبار میں دہراتے رہنا اثر کو کم کر دیتا ہے اور آخر کثرتِ استعمال کی وجہ سے السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کے معنے جاتے رہتے ہیں۔ کام کرنے کا طریق یہ ہوتا ہے کہ تنظیم کی جائے۔ مگر انہوں نے جماعتوں میں اپنے سیکرٹری مقرر نہیں کئے۔ اور اگر کئے ہیں تو وہ سُست ہیں۔ چاہیے تھا کہ ان کو ہوشیار کیا جاتا یا بدلوایا جاتا مگر ان کو بدلوانے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ آٹھ سو جماعتوں میں صدر انجمن احمدیہ کے آدمی کام کرتے ہیں اور وہ اپنے چندوں میں برابر ترقی کر رہے ہیں۔ بے شک ان کے انسپکٹر بھی ہیں لیکن سیکرٹریانِ تحریک جدید کو بھی انسپکٹروں کے ذریعہ چُست کیا جا سکتا تھا۔ مگر دفتر والوں نے اِس بارہ میں اپنی ذمہ داری کو قطعاً محسوس نہیں کیا۔ پس اِس چندہ کی عدمِ وصولی میں زیادہ تر دفتر والوں کی کوتاہی ہے۔ اگر جماعت کی کوتا ہی ہوتی تو صدر انجمن احمدیہ کے چندوں پر بھی اس کا اثر پڑتا مگر ان کے چندوں پر اس کا اثر نہیں پڑا۔
پس میں اس کا الزام دفتر والوں کو دیتا ہوں مگر میں سمجھتا ہوں جماعت بھی اپنی ذمہ داری سے پوری طرح بَری نہیں۔ میں نے بتایا تھا کہ کام کرنے کا وقت اب آیا ہے اور یہی وہ سال ہے جس میں اخراجات پہلے سے کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ کچھ مبلغ باہر جا چکے ہیں اور کچھ مبلغ تیار ہیں جو عنقریب تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں روانہ ہونے والے ہیں۔ اگرایسے وقت میں جماعت اپنی ذمہ داری کو پوری طرح نہ سمجھے تو کس قدر افسوس کا مقام ہو گا یہ بالکل ویسی ہی بات ہو گی جیسے کوئی شخص اپنے معشوق سے ملنے کے لئے ایک لمبے فاصلہ سے دوڑتا چلا آئے مگر جب اس کے دروازہ پر پہنچ جائے تو ڈیوڑھی میں ہی بیٹھ جائے اور اندر داخل ہونے کی کوشش نہ کرے۔ جو افسوس ایسے شخص کو ہو گا وہی حال ان لوگوں کا ہے جنہوں نے دس سال قربانی کی مگر جب عملی طور پر کام کرنے کا وقت آیا اور خدا تعالیٰ کے سپاہی میدانِ جنگ میں کام کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے تو وہ ہمت ہار کر بیٹھ گئے۔ کیا خدا تعالیٰ کے نشانات، اُس کے تازہ بتازہ معجزات اور اس کی تائید اور نصرت کے متواتر واقعات سے مومنوں کو اسی طرح فائدہ اٹھانا چاہیے؟
یاد رکھو! خداتعالیٰ کے نشانات جہاں بہت بڑی رحمت کا موجب ہوتے ہیں وہاں بہت بڑے ابتلا کا بھی موجب ہوتے ہیں۔ اگر انسان ان نشانات کی قدر کرے تو اس کا ایمان زمین سے آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر وہ ان نشانات کی قدر نہ کرے اور ان سے فائدہ نہ اٹھائے تو اُس کا ایمان آسمان سے زمین پر آگرتا ہے۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان نشانات سے فائدہ اٹھائے، اپنے ایمانوں کو مضبوط بنائے اور پہلے سے زیادہ قربانیاں کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ اب اس کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں اور خدا نے اس پر حُجت تمام کر دی ہے۔ اگر اب بھی کوئی شخص توجہ نہیں کرے گا تو وہ گھڑا گھڑایا اور بنا بنایا مجرم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گا۔
وہ لوگ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات نہیں دیکھے وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کیا کریں ہم نے تو اپنی آنکھ سے خدا تعالیٰ کا کوئی نشان نہیں دیکھا۔ وہ لوگ جن پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور گو کسی پہلے زمانہ میں انہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات کو دیکھا ہو مگر اب ایک لمبے زمانہ سے انہوں نے کسی نشان کو نہیں دیکھا وہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات پر ایک عرصۂ دراز گزر چکا ہے۔ اب ہمارے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے اور ہم میں قربانی کرنے کی روح نہیں رہی۔ لیکن وہ جماعت جس کے سامنے خدا تعالیٰ نے اپنے تازہ بتازہ نشانات دکھائے ہیں اور اب بھی دکھا رہا ہے وہ خداتعالیٰ کو کیا جواب دے سکتی ہے۔ اس کے ایمان میں تو اتنی تیزی اور شدت ہونی چاہیے کہ کوئی بات اس کو سست کرنے والی نہ ہو۔ ہر قدم اس کا آگے بڑھے اور اِس طرح دیوانہ وار وہ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے کھڑی ہو جائے کہ اسے اپنی زندگی اور اپنی موت دونوں یکساں معلوم ہوں بلکہ موت اسے زندگی سے زیادہ شیریں اور لذیذ معلوم ہو۔ کیونکہ موت میں مومن اپنے یار کے دیدار کو دیکھتا ہے۔
صحابہؓ کی طرف دیکھو اُنہوں نےد ین کے لئے کیسی کیسی قربانیاں کیں۔ حضرت ضرارؓ بن اسود ایک مخالف جرنیل کے مقابلہ میں اُس سے لڑنے کے لئے نکلے۔ وہ کئی مسلمانوں کو شہید کر چکا تھا۔ جب یہ اُس کے سامنے ہوئے تو فورًا بھاگے اور دَوڑتے ہوئے اپنے خیمہ کی طرف چلے گئے۔ یہ دیکھ کر صحابہؓ میں سخت بے کلی اور بے چینی کی لہر دَوڑ گئی کہ اب عیسائیوں کے سامنے ہماری کیا عزت رہ جائے گی۔ کمانڈر انچیف نے فوراً ان کے پیچھے اپنا آدمی دوڑایا اور کہا کہ پتہ لو ضرارؓ کیوں بھاگے ہیں؟ وہ گیا تو اُس وقت ضرارؓ اپنے خیمہ سے باہر نکل رہے تھے اس شخص نے کہا ضرارؓ !آج تم نے کیا کیا؟ تمہارے اس فعل کے نتیجہ میں آج سارے اسلامی لشکر کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں کہ اسلام کا سپاہی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا صحابی میدانِ جنگ سے بھاگ گیا۔ حضرت ضرارؓ نے کہا ہاں تم نے یہی سمجھا ہو گا مگر بات یہ ہے کہ جب کئی مسلمان یکے بعد دیگرے اِس جرنیل کے ہاتھ سے مارے گئے تو میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اس کے مقابلہ میں نکلوں گا۔ مگرجب میں اس کے سامنے کھڑا ہوا تو مجھے یاد آگیا کہ میں نے کُرتے کے نیچے لوہے کی زِرہ پہنی ہوئی ہے۔ اُس وقت میرے دل نے مجھ سے کہا کہ ضرار! کیا یہ زِرہ تو نے اِس لئے پہن رکھی ہے کہ یہ بڑا بھاری جرنیل ہے ایسا نہ ہو کہ تُو اس کے ہاتھ سے مارا جائے؟ کیا خدا کے ملنے سے تُو ڈرتا ہے کہ زِرہ پہن کر لڑنے کے لئے آیا ہے؟ جب میرے دل نے مجھ سے یہ کہا تو میں نے سمجھا اگر مَیں اِس وقت مارا گیا تو مَیں جہنم میں جاؤں گا کیونکہ اللہ تعالیٰ مجھے کہے گا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تجھے ہم سے ملنے کی خواہش نہیں تھی۔ چنانچہ میں دوڑتا ہوا واپس چلا گیا تا کہ میں زِرہ اُتا رآؤں اور اس کے بغیر اس کا مقابلہ کروں۔ چنانچہ انہوں نے اپنا کُرتا اٹھا کر بتایا کہ دیکھ لو میں زِرہ اُتار کر آیا ہوں۔ اس کے بعد وہ اس کے مقابلہ کے لئے نکلے اور اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اِنہوں نے اُسے مار لیا۔ تو مومن موت کو اپنی زندگی سے بھی پیارا سمجھتا ہے۔ جس چیز کو لوگ ہلاکت سمجھتے ہیں مومن اسے اپنے لئے برکت کا باعث سمجھتے ہیں اور جس چیز کو لوگ تباہی کا موجب سمجھتے ہیں مومن اسے اپنی ترقی کا موجب سمجھتے ہیں۔
پس جہاں مَیں مرکز کے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں اور ان کی غفلت اور کوتاہی پر انہیں ملامت کرتے ہوئے انہیں صحیح طور پر کام کرنے کی نصیحت کرتا ہوں وہاں مَیں جماعتوں کو بھی ملامت کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا۔ اور عین اُس موقع پر جبکہ ہم لڑائی کے لئے تیاری کر رہے تھے انہوں نے ہماری طبیعتوں کو مُشَوَّش2 کر دیا اور ہمارے وقتوں کو اس عظیم الشان کام کی بجائے اور کاموں کے لئے خرچ کروانے لگیں۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کو دور کرے اور خدا تعالیٰ کے تازہ نشانات جو اس کے سامنے ظاہر ہو رہے ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے ایمان اور اپنے اخلاص کو بڑھاتی چلی جائے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ ہمارے کارکنوں کو اِس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ سُستی اور غفلت کو چھوڑ کر صحیح طریقوں پر عمل کرتے ہوئے اسلام کو اُس کی صحیح بنیادوں پر قائم کر دیں تاکہ دونوں گروہ اُس کے حضور سُرخرو ہوں اور دونوں گروہ اُس کے حضور ثواب کے مستحق ہوں۔ ’’
(الفضل مورخہ 23 ،25 جون 1945ء )
1: بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ وَ وَہَبْنَا لِدَاوٗدَ…الخ
2: مشوّش: پریشان۔ مضطرب

20
کمیونزم موجودہ زمانہ کے سب سے بڑے فتنوں میں سے ایک فتنہ ہے
(فرمودہ 29جون 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مَیں نے اس سال جلسہ سالانہ پر بعض کتابوں کےشائع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یعنی تفسیر کبیر کی ایک جلد بلکہ ہو سکے تو دو جلدیں۔ ستیارتھ پرکاش کا جواب اور ایک احادیث کا انتخاب۔ مجھے افسوس ہے کہ اِس سال کی پہلی ششماہی کے آخری حصہ میں ایک لمبی بیماری کی وجہ سے تفسیر کے کام میں بہت حد تک روک رہی ہے کیونکہ مئی اور جون کا اکثر حصہ میری بیماری میں گزرا ہے۔ لیکن آخری ایام میں بیماری کی تخفیف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جو مجھے توفیق دی اس کی امداد سے تفسیر کی پہلی جلد کا بہت سا کام خدا تعالیٰ کے فضل سے میں نے ختم کر لیا ہے۔ اور سَوا چار سو صفحے کا مضمون چھ سو صفحات کی جلد میں سے یا تو میں دے چکا ہوں یا میرے پاس تیار پڑا ہے۔ امید ہے کہ بقیہ حصہ بھی ہفتہ عشرہ تک تیار ہو کر مکمل ہو جائے گا۔ اور اگر پریس کی دقّت پیش نہ آئی تو جولائی کے مہینہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ کام تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ دو سو ساٹھ صفحات تک مضمون پریس میں جا چکا ہے اور دو سو تک غالباً چَھپ بھی چکے ہیں۔
ہمارے لئے اس زمانہ میں پریس کی بہت دقتیں ہیں بڑے شہروں میں تو بہت سے پریس ہوتے ہیں اگر ایک خراب ہو جائے تو دوسرے پریس میں کتاب چَھپ سکتی ہے۔ دوسرا خراب ہو جائے تو تیسرے پریس میں کتاب چَھپ سکتی ہے۔ لیکن ہمارے پاس سامان بہت کم ہیں۔ صرف ایک دو پریس ہیں اور وہ بھی اس قابل نہیں کہ سب کا سب تفسیر کا کام کر سکیں۔
جیسا کہ اعلان کیا جا چکا ہے آخری پارہ دو حصوں میں شائع ہو گا۔ کیونکہ مضمون کے متعلق اندازہ کیا گیا ہے کہ وہ غالباً ہزار صفحہ سےزیادہ ہو جائے گا۔ اس صور ت میں اس کا ایک جلد میں شائع کرنا مناسب نہیں تھا۔ کیونکہ تفسیر کبیر کی پہلی جلد جو شائع ہو چکی ہے اور جو ایک ہزار صفحہ کی کتاب ہے۔ وہ بھی بہت بھاری سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری دقّت ہمیں یہ پیش آئی کہ آجکل کاغذ نہیں ملتا۔ اس لئے موجودہ جلد کے لئے جو کاغذ مہیا کیا گیا ہے اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ بھاری اور موٹا ہے۔ اس کی وجہ سے خطرہ تھا کہ یہ جلد ایسی بھاری ہو جائے گی کہ اس کا استعمال کرنا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ جِلد بندی ہو کر اگست میں یہ کتاب لوگوں تک پہنچ جائے گی یا نہیں۔ بہرحال یہ امید کی جاتی ہے اور ہدایتیں یہی ہیں کہ جولائی میں یہ کتاب اللہ تعالیٰ کے فضل سے شائع ہو جائے۔ جو میرے کام کا حصہ ہے وہ اکثر ختم ہو چکا ہے باقی کام آٹھ دس دن میں انشاء اللہ ختم ہو جائے گا۔ اِس کے بعد میرا ارادہ ہے کہ اسکے دوسرے حصہ کی بھی جلد سے جلد تکمیل کر لی جائے تاکہ اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو حسبِ وعدہ دوسری جلد بھی جلسہ سالانہ سے قبل شائع ہو سکے۔اِس وقت دوسری جلد کے مضمون کا بھی ایک حصہ تیار ہے اور ایک حصہ ابھی تیار ہونے والا ہے جس کو ہمارے زود نویس لکھ رہے ہیں۔ اور غالباً پندرہ بیس دن تک وہ اس کام سے فارغ ہو جائیں گے۔ اس حصہ کو بھی درست کر کے میں انشاء اللہ کاتبوں کو دے دوں گا تاکہ دوسری جلد کی کتابت بھی جلد سے جلد شروع ہو جائے۔ صرف ایک ربع کا مضمون ابھی باقی ہے جس کے متعلق میرا منشاء یہ ہے کہ اس دفعہ ڈلہوزی میں درس دے کر وہ مضمون بھی لکھوا دوں۔ ستیارتھ پرکاش کے جواب کا بھی بہت سا کام ہو چکا ہے اور اب مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں اس پر نظرثانی کر کے مضمون کو انشاء اللہ درست کیا جائے گا۔ صرف ایک باب باقی ہے جو انشاء اللہ اگلے ایک دو ماہ کے اندر اندر لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس دوران میں میرا ایک لیکچر جو اسلام کے اقتصادی نظام پر لاہور میں ہوا تھا اور جس میں اسلامی اقتصادیات کا سوویٹ اقتصادی نظام کے ساتھ مقابلہ کر کے اسلامی نظامِ اقتصاد کی فوقیت کو ثابت کیا گیا تھا اس پر نظر ثانی کر کے اور آخری حصہ جو لیکچر میں پورے طور پر بیان نہیں ہو سکا تھا اُس کی مزید تشریح کر کے تحریک جدید والوں کو پانچ چھ دن ہوئے میں اپنی طرف سے مکمل طور پر دے چکا ہوں اور امید ہے کہ جولائی کے مہینہ میں یہ کتاب بھی انشاء اللہ شائع ہو جائے گی۔
میں نےد وستوں کو بار بار توجہ دلائی ہے کہ کمیونزم اس زمانہ کے اہم ترین فتنوں میں سے ہے۔ یہ لوگ بظاہر تو کہتے ہیں کہ مذہب سے ہمارا کوئی ٹکراؤ نہیں لیکن ان کا تمام طوروطریق مذہب سے ٹکراؤ کا ہی ہے۔ درحقیقت اس اقتصادی نظام کے ماتحت جس کو سوویٹ سسٹم دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اسلام کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں۔ اب چند دن ہوئے روس کے کسی مسلمان امام کی طرف سے ایک اعلان شائع ہو اہے کہ یہ خبر بالکل غلط ہے کہ اس ملک میں اسلام کو کسی قسم کا ضُعف پہنچا ہے۔ ہم تو ہر طرح خوش و خرم ہیں لیکن ہمیں مولویوں کے اِس قسم کے اعلانات کی حقیقت اچھی طرح معلوم ہے۔ کیونکہ ہندوستان میں روزانہ اس قسم کے اعلان ہوتے رہتے ہیں۔
ہمارے ہندوستان کے بعض مولوی ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے اعلان کرتے رہتے ہیں کہ گاؤ کشی اسلام میں بھی حرام ہے اور درحقیقت اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی۔ تجارتی لوگوں کو خوش کرنے کے لئے مسلمانوں میں وہ علماء بھی ہیں جو سُود کی ایسی تعریف کرتے ہیں جس کے ماتحت بنکوں کا سُود سُود ہی نہیں رہتا بلکہ اس کا استعمال جائز ہو جاتا ہے۔ پھر ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ کوئی سیاسی مسئلہ جو لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف پھیر رہا ہوتا ہے اُس کے متعلق علماء کی ایک جماعت اعلان کر دیتی ہے کہ خالص اسلام یہی ہے۔ کبھی خالص اسلام انگریزوں کی تائید ہوتا ہے اور کبھی خالص اسلام ہندوستان سے ہجرت کرنا ہوتا ہے۔ کبھی خالص اسلام کانگرس کی مخالفت کرنا ہوتا ہے اور کبھی خالص اسلام گاندھی جی کی کامل اتباع ہوتا ہے۔ یہ خالص اسلام،اسلام نہیں بلکہ درحقیقت موم کی ناک ہے جسے مولوی اپنی مرضی کے مطابق ہمیشہ موڑتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ اسے دائیں طرف کر دیتے ہیں اور کبھی بائیں طرف۔ ایسا ہی وہ اعلان بھی ہے جو بالشویک(Bolshevik) نظام کے متعلق ایک مسلمان امام نے کیا۔ اگر مسلمان اس ملک میں پوری طرح آزادی رکھتے ہیں، اگر عیسائیت وہاں پوری آزادی کے ساتھ اپنے عقائد کو پھیلا رہی اور لوگوں سے اپنے دین پر عمل کر ارہی ہے تو آخر وجہ کیا ہے کہ سوویٹ نظام غیر ممالک کے لوگوں کو اپنے ملک میں آنے کی اُسی طرح کھلی اجازت نہیں دیتا جس طرح ساری دنیا کے ممالک میں لوگوں کو آنے جانے کی اجازت ہے۔ آخر یہ چُھپانا اور لوگوں کو اپنے ملک میں داخلہ کی اجازت نہ دینا کس غرض کے لئے ہے۔ امریکہ میں ساری دنیا کے سیاح اور تاجر اور پیشہ ور جاتے ہیں مگر امریکہ کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ انگلستان میں ساری دنیا کے سیاح اور تاجر اور پیشہ ور جاتے ہیں مگر انگلستان کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ فرانس میں ساری دنیا کے سیاح اور تاجر اور پیشہ ور جاتے ہیں مگر فرانس کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ حتّٰی کہ ہٹلر کی جرمنی کو بھی کوئی نقصا ن نہیں پہنچتا تھا۔ مسولینی کی اٹلی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچتا تھا اور وہاں سب لوگ آسانی سے آجا سکتے تھے۔ فرانکو کے سپین کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور وہاں سب لوگ آسانی سے آجا سکتے ہیں۔ ایشیائی حکومتیں جن کے متعلق مشہور ہے کہ وہ سختی سے کام لیتی ہیں وہ بھی اِس قسم کی رکاوٹیں حائل نہیں کرتیں اور نہ ان ممالک میں لوگوں کے آنے جانے میں کسی قسم کی دقتیں ہیں۔ ایران میں بھی لوگ جاتے ہیں، عراق میں بھی جاتے ہیں، شام میں بھی جاتے ہیں،مصر میں بھی جاتے ہیں۔ جاپانی لوگ نہایت قدامت پسند مشہور ہیں مگر جاپان میں بھی لوگوں کے آنے جانے میں کوئی روک نہیں تھی۔ چین ایک نہایت پیچھے رہا ہؤا ملک ہے مگر اس میں بھی لوگوں کےآنے جانے میں کوئی روک نہیں۔ پس آخر وہ کیا چیز ہے جس کو چُھپانے کے لئے روس میں کثرت سے اور بِلانگرانی لوگوں کو آنے جانے کی اجازت نہیں۔ یہاں تک کہ روس کی سیر کے لئے جو بیرونی ممالک کے نمائندے جاتے ہیں ان کے ساتھ بھی ہر وقت ایک روسی افسر رہتا ہے۔ بظاہر تو یہ غرض ہوتی ہے کہ ان کو روس دکھایا جائے لیکن باہر آکر وہ بتاتے ہیں کہ ان کی اصل غرض یہ تھی کہ ہمیں پوری طرح روس دیکھنے نہ دیں۔ صرف وہی حصہ د یکھنے دیں جس کے متعلق وہ چاہتے ہیں کہ ہم دیکھیں۔ وہ حصہ ہمیں نہ دیکھنے دیں جس کے متعلق ہم چاہتے ہیں کہ دیکھیں۔
پس اس قسم کے اعلانات قطعاً کوئی حقیقت نہیں رکھتے ان تحریروں کے مقابلہ میں جو روس کے لیڈروں کی ہیں اور جن میں مذہب کی شدید مخالفت پائی جاتی ہے۔ بلکہ یہاں تک الفاظ پائے جاتے ہیں کہ مذہب کی موجودگی میں ہمارا طریق کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ لینن لکھتا ہے ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ ہم مذہب کو کچل دیں اور اسے دنیا سے مٹا کر رکھ دیں۔ یہ کہنا کہ مذہب سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں لینن کہتا ہے یہ بالکل جھوٹ ہے۔ ہمارا واسطہ ہے اور ضرور ہے اور وہ واسطہ یہ ہے کہ ہم مذہب کو دنیا سے مٹا دیں۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ جب تک خدا کا خیال دنیا میں باقی ہے۔ جب تک دنیا اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرتی ہے اُس وقت تک ہمارے اصول دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اب بتاؤ جب کمیونزم کے بانی اپنی تحریرات میں یہ امر کھلے طور پر واضح کر چکے ہیں کہ دنیا سے مذہب کو مٹانا ان کا اولین فرض ہے تو ہم اس قسم کے ملّانوں کے اعلانات کو کیا کریں۔ ملّا نے تو ہمارے ملک میں بھی موجود ہیں اور وہ جو چاہیں اعلان کر دیتے ہیں۔ اس تجربہ کے بعد کسی مولوی کی ایسی تحریر سے متأثر ہو جانا قابلِ تعجب بات ہے۔
غرض اسلام کے لئے بلکہ دنیا کے تمام مذاہب کے لئے کمیونزم کا اقتصادی نظام ایک خطرناک چیز ہے کیونکہ وہ مذہب کی جڑ پر تبر رکھتا ہے اور مذہب کی اشاعت اور اس کی تبلیغ کے راستہ میں روک بنتا ہے۔ پس ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ کمیونزم کے متعلق جو لٹریچر شائع ہو اُس کی دنیا میں اچھی طرح اشاعت کرے۔ مَیں نے تحریک جدید والوں کو حکم دے دیا ہے کہ وہ اس کتاب میں کسی نفع کا خیال نہ رکھیں بلکہ لاگت کے قریب قریب قیمت پر اس کو تقسیم کریں۔ چنانچہ اس لحاظ سے کہ کچھ کتابیں مفت بھی دینی پڑتی ہیں۔ جو جماعتیں کثرت سے یہ کتاب خریدیں ان کے لئے ایسی قیمت مقرر کی گئی ہے جو لاگت سے بھی کم ہے کیونکہ انہیں کثرت کے ساتھ لوگوں میں مفت کتابیں تقسیم کرنی پڑیں گی اور پھر کچھ کتابیں یوں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ میں نے ان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس کی پہلی اشاعت پانچ ہزار کریں۔
میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعتیں ہر جگہ اس کتاب کو نہ صرف جماعت کے تمام افراد تک پہنچانے کی کوشش کریں گی بلکہ ہر جماعت یہ بھی کوشش کرے گی کہ اپنی جماعت کےا فراد سے دُگنی بلکہ تگنی تعداد میں اس کتاب کی مفت اشاعت اپنےا پنے علاقہ میں کرے۔ گاؤں میں چونکہ کتابوں کی تقسیم زیادہ نہیں ہو سکتی اس لئے شہری جماعتوں کو اس طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہیے اور انہیں شہری آبادی میں یہ کتاب زیادہ سے زیادہ تقسیم کرنی چاہیے۔ اگر بڑی بڑی جماعتیں اس کی طرف توجہ کریں جیسے امرتسر، لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، جہلم، فیروز پور، راولپنڈی، ملتان، منٹگمری، کراچی، پشاور ہیں۔ اسی طرح دہلی، لکھنؤ، حیدرآباد، سکندرآباد،بمبئی اور کلکتہ وغیرہ کی جماعتیں مل کر کوشش کریں تو وہ بہت آسانی سے پندرہ بیس ہزار کتابیں اپنے اپنے علاقہ میں شائع کر سکتی ہیں۔
بعض علاقوں میں چونکہ ہماری جماعتیں تھوڑی ہیں اس لئے دوسری جماعتوں کو چاہیے کہ وہاں اپنی طرف سے یہ کتاب بھجوا دیں کیونکہ کمیونزم کا وہاں بہت زور پایا جاتا ہے۔ مثلاً کانپور کا شہر اس بات کے لئے مشہور ہے کہ سارے ہندوستان میں وہاں کمیونسٹ پارٹی طاقت رکھنے والی ہے۔ مگر ہماری جماعت وہاں بہت محدود ہے۔ اس لئے ہر جماعت کو یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ کتابیں خریدتے وقت اپنے نسخوں میں سے پچاس یا سو کاپیاں کانپور کی جماعت کو بھی مفت بھیج دے تاکہ کانپور کی جماعت کمیونسٹ لوگوں میں اس کتاب کو مفت تقسیم کر سکے۔
ہمارے سامنے کمیونزم کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف عقلی لحاظ سے اسلام کے لئے خطرناک ہے بلکہ مذہبی لحاظ سے بھی بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ گزشتہ انبیاء نے ہزاروں سال سے اس فتنہ کے متعلق خبر دی ہوئی ہے۔ مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق احادیث میں بھی آتا ہے اورپہلی کتب میں بھی کہ تمام گزشتہ انبیاء نے اِس زمانہ کے فتنوں کی خبر دی تھی۔ اور جب ہم فِتن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں سب سے زیادہ اس فتنہ کی خبر معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ حزقیل نبی نے اپنی کتاب میں روس کے ایک فتنہ کے متعلق پیشگوئی کی ہے۔ اور بتایا ہے کہ آخری زمانہ میں اس کے ذریعہ دین پر حملہ کیا جائے گا۔ گویا وہ فتنے جن کی تمام انبیاء نے خبر دی ہے ان میں اگر نام لے کر کسی فتنہ کی خبر دی گئی ہے۔ تو وہ یہی فتنہ ہے اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ فتنہ کتنا اہم ہے کہ اس نے آج سے ہزاروں سال پہلے اس کے متعلق خبر دے دی تھی تاکہ آخری زمانہ میں کمزور ایمان والے لوگ یہ نہ کہہ دیں کہ یہ خطرہ محض خیالی ہے۔ ہر نئی تبدیلی سے لوگ ڈر جاتے اور بغیر سوچے سمجھے اس کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ چونکہ اس نظام کے ذریعہ تمدن میں ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اس لئے اس نئی تبدیلی سے ڈر کر سوویٹ نظام کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ورنہ درحقیقت اس میں خطرہ کی کوئی بات نہیں۔
بے شک جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ حکومت سے تعلق رکھنے والی چیز ہے اور حکومت سے تعلق رکھنے والی عملی سیاست خواہ روس کی ہو یا کسی اور ملک کی ہمارا اُس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ لیکن جہاں تک سیاسیات کے فلسفہ کا سوال ہے ہمارا تعلق فلسفۂ سیاست سے ضرور ہے۔ کیونکہ فلسفہ ایسی چیز ہے جو ہر انسان سے تعلق رکھتا ہے۔ پس عملی سیاسیات سے بے شک ہمارا کوئی واسطہ نہیں۔ اسے روس جانے، فرانس جانے، انگلستان جانے یا امریکہ جانے۔ لیکن جہاں تک اس کے ان مُضِر عقائد کا سوال ہے جن کا مذہب پر بُرا اثر پڑتا ہے تو ہر مذہب والا جس کے خلاف بات پڑتی ہے اُس کا فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کا مقابلہ کرے اور اِس زہرکا ازالہ کرنے کی پوری کوشش کرے۔ مگر کمیونسٹوں کی طرف سے چونکہ ظاہر یہ کیا جاتاہے کہ ہم غرباء کی تائید اور ان کی مدد کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اس لئے عام طور پر خواہ مسلمان ہوں یا ہندو اِس عقیدہ کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ بلکہ ہندوستان میں بعض مولوی ایسے موجود ہیں جو عام طور پر کمیونزم کی تائید کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بعض مسلمان اخبارات کے ایڈیٹر ہیں جو اس کی تائید میں زور و شور سے مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ان اقتصادیات کا ہمارے ملک سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ وہ اقتصادیات خالص روس کی ترقی کے لئے ہیں اور روس ہی ان سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ مگر بعض دفعہ ایک چیز ایسی خوشنما معلوم ہوتی ہے کہ انسان اسے لینے کی کوشش کرتا ہے خواہ وہ کتنی ہی مُضِر کیوں نہ ہو۔
مثنوی رومی والے لکھتے ہیں۔ ایک سپیرا تھا جسے ایک دفعہ نئی قسم کا سانپ مل گیا۔ اُس نے سمجھا کہ مجھے ایک عجیب چیز مل گئی ہے میں اس کا تماشہ دکھا دکھا کر لوگوں سے بہت روپے کمالوں گا۔ رات کو اُس نے وہ سانپ ایک گھڑے میں بند کیا اور خود کسی کام میں مشغول ہو گیا۔ چونکہ وہ نئی قسم کا سانپ تھا اس لئے تھوڑی دیر کے بعد اسے پھر شوق پیدا ہؤا کہ میں اِس کو دیکھوں۔ جب اُس نے ڈھکنا اٹھایا تو سانپ اندر سے غائب تھا۔ معلوم ہوتا ہے کسی نے غلطی سے ڈھکنا کھول دیا۔ اور سانپ اندر سے نکل گیا۔ وہ سمجھتا رہا کہ میرا سانپ محفوظ ہے مگر جب اُس نے برتن کو کھولا تو اُس میں سانپ نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر اسے شدید صدمہ ہوا کہ مجھے ایک ہی چیز ملی تھی جس سے میں اپنے لئے بڑی آمدنی پیدا کر سکتا اور اپنے سپیرے بھائیوں پر فخر کر سکتا تھا مگر افسوس کہ وہ چیز گُم ہو گئی۔ اِس کا اُسے ایسا صدمہ ہوا کہ وہ ساری رات دعائیں کرتا رہا کہ یا اللہ! یہ کیا ہو گیا ہے؟ مجھے ایسا عجیب سانپ ملا تھا اور وہ کہیں غائب ہو گیا ہے الٰہی! میرا سانپ مجھے مل جائے۔ الٰہی! میرا سانپ مجھے مل جائے۔ کچھ دیر دعا کرنے کے بعد وہ اٹھتا اور اِدھر اُدھر دیکھتا کہ مکان کے کسی گوشہ میں تو وہ نہیں بیٹھا۔ مگر جب سانپ دکھائی نہ دیتا تو پھر دعائیں شروع کر دیتا یہاں تک کہ ساری رات وہ دعاؤں میں مشغول رہا۔ آخر اُس کے دل میں مایوسی پیدا ہوئی کہ میں نےساری رات دعا بھی کی اور سانپ بھی مجھے نہ ملا۔ جب صبح ہوئی تو ایک شخص آیا اور اس نے دروازہ پر دستک دے کر کہا کہ فلاں گھر میں تمہیں بلاتے ہیں وہاں ایک موت واقع ہو گئی ہے۔ وہ اس کا ایک رشتہ دار سپیرا تھا۔ جب یہ وہاں گیا تو اس نے دیکھا کہ وہی سانپ جس کے لئے وہ ساری رات دعائیں کرتا رہا تھا انہوں نے مار کر رکھا ہوا ہے اور پاس ہی ایک لاش پڑی ہے۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ سانپ رات کو اتفاقاً یہاں سے گزر رہا تھا کہ اس شخص نے پکڑ لیا سانپ نے اسے کاٹا اور یہ مرگیا کیونکہ یہ نئی قسم کا سانپ تھا جس کے زہر کا علاج ہمیں معلوم نہیں۔ وہ یہ دیکھتے ہی سجدہ میں گر گیا اور اس نے خدا تعالیٰ سے کہا یا اللہ! میں نے یونہی بدظنی کی تھی کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ اگر میری دعا قبول ہو جاتی اور یہ سانپ مجھے مل جاتا تو اس شخص کی بجائے آج میری لاش پڑی ہوتی۔ تو بعض دفعہ انسان ایک چیز کو اچھا اور خوشنما سمجھتا اور اسے لینے کی خواہش کرتا ہے مگر وہ ہوتی بری ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کونسی چیز انسان کے لئے اچھی ہے اور کون سی بُری۔
وہ خدا جس نے آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے حزقیل نبی کے ذریعہ اس فتنہ کی خبر دی تھی اُس خدا کایہ فعل ظاہر کر رہا ہے کہ اس فتنہ کو معمولی سمجھنا یا اس کے خطرناک نتائج سے اپنی آنکھیں بند کر لینا نادانی اور حماقت ہے۔ آجکل کے لوگوں کے متعلق تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں کمیونزم سے حسد ہے، بُغض اور کینہ ہے جو ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے۔ یا وہ پرانی لکیر کے فقیرہیں یا ایسے جاہل ہیں کہ اقتصادیات کے فلسفہ کو نہیں سمجھ سکتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آج سے پچیس سَو سال پہلے حزقیل نبی کو کس نے اس فریب اور دغا میں شامل کر لیا تھا؟ آخر یہ کیا بات ہے کہ حزقیل نبی نے آج سے پچیس سو سال پہلے یہ خبر دی جو آج تک بائبل میں لکھی ہوئی موجود ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حزقیل نبی کو آجکل کے زمانہ کے لوگوں نے اس فریب میں شامل کر لیا تھا؟ کیا اینٹی کمیونزم پالیسی کو اختیار کرتے وقت ہٹلر نے حزقیل سے منصوبہ کیا تھا؟ یا کیا مسولینی نے کمیونزم کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے لئے حزقیل سے منصوبہ کر لیا تھا؟ یا کیا انگلستان کی کسی اینٹی کمیونزم پارٹی نے حزقیل سے منصوبہ کر لیا تھا؟ یاامریکہ کے رہنے والوں میں سے کسی شخص میں یہ طاقت تھی کہ وہ آج سے پچیس سو سال پہلے کے کسی نبی سے اپنی تائید میں کوئی خبر لکھوا سکتا؟ اور اگر کسی آدمی میں یہ طاقت ہو سکتی ہے کہ وہ پچیس سَو سال پہلے اپنے متعلق کوئی خبر لکھوا دے تو وہ آجکل کے لوگوں سے کیا ڈر سکتا ہے؟ جو شخص ایسا کر سکتا ہے اس کے متعلق یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کو بھی ملیامیٹ کر سکتا ہے۔
پس یہ وہ فتنہ ہے جس کا حزقیل نبی کی پیشگوئی میں ذکر آتا ہے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں جو بہت بڑے فِتن پیدا ہونے والے ہیں ان کی سب نبیوں نے خبر دی ہے۔ گویا آپؐ نے بھی اس رنگ میں حزقیل نبی کی پیشگوئی کی تائید کر دی۔ یہ امر بتاتا ہے کہ جہاں تک عملی سیاست کا تعلق ہے گو ہمارا کسی حکومت سے کوئی لگاؤ نہیں۔ مگر جہاں تک اس فلسفۂ سیاست کا تعلق ہے خدا اس نظام کا دشمن ہے۔ اور آج سے ہزاروں سال پہلے خدا نے اپنے انبیاء کے ذریعہ اس فتنہ کی اسی لئے خبر دی تاکہ مومنوں کا ایمان مضبوط رہے اور کمزور لوگ مذہب کے خلاف اِس تحریک کو قبول کرنے کےلئے تیار نہ ہو جائیں۔
پس ہماری جماعت کو اس فتنہ کے مقابلہ کے لئے پوری طرح تیار ہو جانا چاہیے۔ میں نے تحریک کی تھی کہ کالجوں کے پروفیسر اس طرف خصوصیت سے توجہ کریں اور وہ لڑکوں کے سامنے اس پر تقریریں کرتے رہیں۔ میں نے کہا تھا کہ ہمارے ماہرِ فن جو اقتصادیات یا مذہب میں مہارت رکھتے ہیں وہ کمیونزم کے ان اثرات پر روشنی ڈالیں جو اقتصاد اور مذہب پر پڑتے ہیں۔ اسی طرح میں نے کہا تھا کہ ہمارے مبلغ اپنے تبلیغ کے دائرہ کو کمیونسٹ پارٹی کی طرف وسیع کریں۔ غرض میں نے جماعت کو اِس فتنہ کی اہمیت بتاتے ہوئے انہیں نصیحت کی تھی کہ وہ اس فتنہ کو مٹانے کے لئے پوری طرح تیار ہو جائیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ میری اس نصیحت کا کسی قدر اثر بھی ہوا ہے خصوصاً کانپور جو کمیونزم کا گڑھ ہے وہاں ہماری جماعت کے بعض افراد نے کوشش کی۔ چنانچہ ایک آدمی جو کمیونزم کی طرف مائل تھا احمدی ہو گیا ہے اور مزید تبلیغ جاری ہے۔ اسی طرح اس موضوع پر قادیان میں بھی کچھ لیکچر ہوئے ہیں اور باہر سے بھی ‘‘الفضل’’ میں بعض مضامین شائع ہوئے ہیں۔ جن میں سے بعض مضمون اچھے تھے اور ان میں مفید معلومات لوگوں کے سامنے پیش کئے گئے تھے۔ مگر یہ کام اِس قسم کا نہیں کہ میں نے خطبہ پڑھا، لوگوں نے دو چار دن توجہ کی اور پھر خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔ یہ کام تو ایسا ہے کہ اِس میں ہزاروں ہزار آدمی مشغول ہو جانے چاہئیں تب دنیا میں کچھ حرکت پیدا ہو سکتی ہے۔ جو تنظیم ان لوگوں میں پائی جاتی ہے وہ ایسی ہے کہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور ان کے لاکھوں مبلغ دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں امریکہ کے ایک اخبار میں شائع ہوا تھا کہ ہندوستان میں کمیونسٹ خیالات کی اشاعت کے لئے بارہ ہزار مبلغ روس میں تیار کئے جا رہے ہیں۔ اس سے تم سمجھ لو کہ اگر بارہ ہزار مبلغ ایک وقت میں روس کے ایک مدرسہ میں تیار کئے جا رہے ہیں تو پندرہ بیس سال میں وہ مختلف ممالک میں اپنے کس قدر مبلغ پھیلا چکے ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں ان کے مبلغ چار پانچ لاکھ سے کم نہیں ہو سکتے۔ اب بتاؤ وہ کام جو دنیا میں چار پانچ لاکھ باقاعدہ مبلغ علاوہ لاکھوں دوسرے آدمیوں کے کر رہا ہے اگر اس کا مقابلہ کرنے کے لئے پانچ دس آدمی پندرہ بیس دن کام کر کے خاموش ہو جائیں تو اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ پس ضرورت ہے کہ تقریر کے ذریعہ سے، تحریر کے ذریعہ سے، گفتگو کے ذریعہ سے، طلباء کے ذریعہ سے، وکلاء کے ذریعہ سے، ڈاکٹروں کے ذریعہ سے، مزدوروں کے ذریعہ سے، پیشہ وروں کے ذریعہ سے، صنّاعوں کے ذریعہ سے، سیاحوں کے ذریعہ سے، تاجروں کےذریعہ سے اِس تحریک کے وہ تمام پہلو جو مذہب سے ٹکراؤ رکھتے ہیں بیان کئے جائیں اور لوگوں کو بتایا جائے کہ درحقیقت یہ اسلامی اقتصاد کی ایک بُری شکل ہے جو کمیونزم کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کی جار ہی ہے۔ اسلام نے جو چاہا تھا کہ امیر اور غریب کے فرق کو مٹا کر دنیا میں مساوات قائم کی جائے غرباء کو آگے بڑھنے کے مواقع بہم پہنچائے جائیں دولت کو چند محدود ہاتھوں میں نہ رہنے دیا جائے اور امراء کو نسلاً بعد نسلٍ اپنی دولت پر قابض نہ رہنے دیا جائےاس نظام کی کمیونسٹ نظام نے ایک نقل اتاری ہے۔ مگر ایسے بھونڈے طریق پر کہ اِس نے انسانی آزادی کو کچل دیا ہے اور وہ بِلاوجہ مذہب کے خلاف کھڑا ہو گیا ہے۔ جب اس رنگ میں ہر مذہب اور ہر قوم اور ہر فرقہ اور ہر پیشہ اور ہر حرفہ والے کو ہم اپنے خیالات پہنچائیں گے اور متواتر اور مسلسل پہنچائیں گے تب اس کے نتیجہ میں انہیں کمیونزم سے نفرت ہو گی اور تبھی ہماری جدوجہد صحیح نتائج کی حامل ہو گی۔
یاد رکھو کہ جن فتنوں کے متعلق خدا اور اس کے رسول نے خبر دی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ ان سے بڑے فتنے پہلے کبھی نہیں ہوئے اور اِسی وجہ سے شروع سے لے کراب تک تمام انبیاء ان کی خبر دیتے چلے آئے ہیں ان کے متعلق وہ جدوجہد جو ہماری جماعت اِس وقت کر رہی ہے کچھ بھی حقیقت اور وقعت نہیں رکھتی۔ معمولی معمولی لڑائیوں میں گاؤں کا گاؤں باہر نکل آتا ہے ایک چھوٹے سے کھیت کے کنارے پر جھگڑا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ایک مینڈ1 پر لڑائی شروع ہو جاتی ہے تو پچاس پچاس ، سو سو آدمی ایک طرف سے اور پچاس پچاس، سو سو آدمی دوسری طرف سے مقابلہ کے لئے نکل آتے ہیں۔ حالانکہ اس جھگڑے کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہوتی۔ مگر یہ وہ فتنہ ہے جس کے متعلق تمام انبیاء خبر دیتے چلے آئے ہیں۔ آدمؑ سے لے کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس نے لوگوں کو اس فتنہ سے نہ ڈرایا۔ اتنے عظیم الشان فتنہ کے متعلق جس کی تمام انبیاء خبر دیتے چلے آئے ہیں اگر ہماری جدوجہد کو دیکھا جائے تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ یا تو سارے انبیاء سے خدا نے مذاق کیا ہے اور یا یہ کہنا پڑے گا کہ انہوں نے ہم سے مذاق کیا ہے۔ فتنہ تو صرف اتنا تھا کہ ایک یا دو آدمیوں کی تقریروں سے یا ایک یا دو مضمون ‘‘الفضل’’ میں شائع کرا دینے سے دور ہو سکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آدم سے لے کر اب تک تمام انبیاء کے ذریعہ اس کی خبر دینی شروع کر دی۔ اور کہنا شروع کر دیا کہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے، بہت بڑا خطرہ ہے جو تمہارے سامنے آنے والا ہے۔ حالانکہ وہ خطرہ ایسا تھا جس کے لئے ‘‘الفضل’’ کے ایک یا دو مضمون کافی تھے، جس کے لئے ہمارے کالج کے کسی پروفیسر کےا یک یا دو لیکچر کافی تھے، اس کے لئے ہمارے کسی مبلغ کی ایک یا دو تقریریں بھی کافی تھیں۔ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے اسے اِس قدر اہمیت کیوں دی۔ اُس نے آدمؑ کے وقت سے کہنا شروع کر دیا کہ لوگو! ایک بہت بڑ افتنہ آنے والا ہے اس سے ڈر جاؤ اور ابھی سےاس کے متعلق دعائیں کرنا شروع کر دو۔ پس یا تو اللہ تعالیٰ نے مذاق کیا ہے نبیوں سے اور یا نبیوں نے مذاق کیا ہے ہم سے۔ اور اگر یہ باتیں ہماری عقل میں نہیں آسکتیں اور نہیں آنی چاہئیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نہ خدا نے اپنے نبیوں سے مذاق کیا اور نہ نبیوں نے ہم سے مذاق کیا۔ بلکہ ہم مذاق کر رہے ہیں اپنے ایمان سے، ہم مذاق کر رہے ہیں اپنی عقل سے اور ہم مذاق کر رہے ہیں اپنے مذہب سے۔ ان دو صورتوں کے علاوہ اَور کوئی صورت نہیں ہو سکتی کہ یا تو خدا اور اس کے رسول نے ہم سے مذاق کیا ہے اور یا ہم ان سے مذاق کر رہے ہیں۔ اگر وہ فتنہ اتنا اہم نہیں تھا جتنا انہوں نے بتایا اور ہماری موجودہ جدو جہد اس فتنہ کو مٹانے کے لئے کافی ہے تو پھر خدا نے ہم سے مذاق کیا ہے۔ اور اگر یہ فتنہ اُتنا ہی بڑا ہے جتنا خدا اور اس کے رسولوں نے ظاہر کیا تو ہم مذاق کر رہے ہیں خدا سے۔ ہم مذاق کر رہے ہیں خدا کے رسولوں سے۔ اور ہم مذاق کر رہے ہیں اپنے ایمان سے ۔ پہلی بات تو ممکن نہیں مگر دوسری بات ممکن ہے۔ مگرجہاں یہ بات ممکن ہے وہاں ہمارے لئے سخت حسرت اور اندوہ کا مقام بھی ہے کہ جس بات کے لئے ہمیں قبل از وقت ہوشیار کردیا گیا تھا اس کی خبر سن کر بھی ہم ہوشیار نہ ہوئے اور غفلت میں اپنےقیمتی اوقات کو ضائع کرتے رہے۔
کمیونسٹوں کی طرف سے بار بار مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ آپ تو باہر کے لوگوں کو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم قادیان میں ہی فتنہ پیدا کرنے کی تدابیر سوچ رہے ہیں۔ اور ہم نے اپنے ایجنٹ بھی وہاں بھیج دیئے ہیں تا کہ اندر ہی اندر آہستہ آہستہ فتنہ پیدا کریں۔ یہ بات تو الگ ہے کہ جماعت نے اُس فتنہ کی اہمیت کو ابھی تک نہیں سمجھا۔ یہ بات بھی الگ ہے کہ ہماری جماعت نے اس آواز پر لبیک نہیں کہا جو میں نے بلند کی تھی۔ لیکن کمیونسٹ لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب میں اپنی جماعت کو امداد کے لئے بلاتا ہوں تو میرا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اُن کی مدد کے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔ میں صرف ان کو ثواب میں شریک کرنے کے لئے بلاتا ہوں۔ ورنہ جب خدا نے مجھے اِس کام کے لئے کھڑا کیا ہے تو اگر لاکھوں کی جماعت میں سے کوئی ایک شخص بھی میرا ساتھ نہیں دیتا تب بھی کمیونسٹ میرے مقابلہ میں جیت نہیں سکتے بلکہ ان کا ہی منہ کالا ہو گا۔ کیونکہ میری آواز میری نہیں بلکہ میری زبان سے خدا اپنی آواز دنیا میں پھیلا رہا ہے۔ اور خد اکا مقابلہ کرنے کی ان کمیونسٹوں میں تو کیا ان کے سرداروں میں بھی طاقت نہیں ہے۔ میں اگر اپنی جماعت کو کسی نیکی کی طرف توجہ دلاتا ہوں تو میرا ان کو توجہ دلانا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی ملک میں سونا برس رہا ہو تو وہ شخص جس کے رشتہ دار غفلت میں سوئے پڑے ہوں وہ اُن کو آواز دینے لگ جائے کہ آؤ اور اِس لُوٹ میں تم بھی شامل ہو جاؤ۔ وہ اگر بلاتا ہے تو اِس لئے نہیں کہ اُسے فائدہ پہنچے بلکہ اس لئے کہ ان غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے حصہ نہ لینا انسان کی بہت بڑی محرومی ہوتی ہے۔
تفسیروں میں ایک روایت آتی ہے گو وہ کمزور روایت ہے اور تمثیلی زبان اس میں اختیار کی گئی ہے مگر بہرحال اس روایت میں سبق موجود ہے۔ گو اس وجہ سے کہ اس کی زبان تمثیلی ہے لوگوں نے غلطی سے اس واقعہ کو ظاہر پر محمول کر لیا ہے۔ بعض دفعہ ایک خواب ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھایا جاتا ہے مگر لوگ اسے ظاہری واقعہ سمجھ لیتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بھی ایک خواب تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بیان کیا مگر لوگوں نے اسے ایک ظاہری واقعہ سمجھ لیا۔ یہ روایت یوں بیان کی جاتی ہے کہ حضرت ایوبؑ ایک دفعہ نہا رہے تھے کہ اُن پر سونے کی مچھلیوں کی بارش شروع ہو گئی۔ حضرت ایوبؑ نے نہانا چھوڑ دیا اور جلدی جلدی اُن مچھلیوں کو چُننا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دیکھا تو حضرت ایوب علیہ السلام سے کہا اے ایوب! کیا تجھے میں نے اتنی دولت نہیں دی تھی جو تیرے لئے کافی ہوتی؟ اور کیا میں نے تیرے اہل و عیال میں برکت نہیں رکھ دی تھی؟ پھر تُو نے یہ کیا حرص کا کام کیا کہ نہانا چھوڑ کر مچھلیاں چننے میں مشغول ہو گیا؟ حضرت ایوب علیہ السلام نے جواب دیا۔ اےمیرے اللہ! وہ دولت جو تُو نے مجھے دی ہے میرے لئے کافی ہے مگر تیرا فضل تو کسی کے لئے کافی نہیں ہو سکتا۔ میں سونے کی مچھلیاں نہیں چُن رہا تھا بلکہ میں تیرے فضل کو چُن رہا تھا کیونکہ تیرے فضل سے کوئی انسان مستغنی نہیں ہو سکتا۔
پس ایک مومن خواہ کتنا کام کرے وہ ثواب کے نئے سے نئے مواقع تلاش کرتارہتاہے۔ اور مومنوں کے استاد اور راہبر کا فرض ہوتاہے کہ وہ ان سب کو ثواب میں حصہ لینے کے لئے بلائے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ سمجھتاہے کہ ان کی مدد کے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔ خدا کے کام بہرحال ہو کر رہتے ہیں خواہ بنی نوع انسان ان کی طرف توجہ کریں یا نہ کریں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے موسیٰ علیہ السلام سے ان کی قوم نے کہا۔ اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ 2۔ مگر اس کے باوجود موسیٰ ؑ جیت ہی گئے۔ یہ نہیں ہوا کہ موسیٰ ؑ ہار گئے ہوں اور دشمن کامیاب ہو گیا ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم صرف تجھے مخاطب کرتے ہیں، تیرا فرض ہے کہ تُو دشمن سے لڑے۔ مسلمان اگر تیرے ساتھ شامل ہو نا چاہیں تو ہو جائیں ورنہ اصل ذمہ داری صرف تجھ پر ہے۔ اور تجھ اکیلے کو ہمارا حکم ہےکہ تُو اس کام کو سر انجام دے۔ چنانچہ کون کہہ سکتا ہے کہ صحابہؓ اگر آپؐ کے ساتھ نہ جاتے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نَعُوْذُ بِاللہِ مارے جاتے۔ اگر ایک صحابی بھی آپؐ کے ساتھ نہ جاتا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ والوں کو مار کر ہی آتے ان سے شکست کھا کر واپس نہ آتے۔
پس خدا کے کام ہو کر رہیں گے دشمن ناکام ہو گا اور اس فتنہ کے پیدا کرنے میں اسے ذلت و رسوائی کا سامنا کر نا پڑے گا۔ بے شک جماعت میں کچھ لوگ منافق ہوتے ہیں جن کی وجہ سے پہلے بھی ایسے فتنے پیدا ہوتے رہے ہیں مگرنہ پہلے کوئی فتنہ کامیاب ہوا اور نہ یہ فتنہ کامیاب ہو گا۔ خدا کی مشیّت بہرحال پوری ہو کر رہے گی اور اِس قسم کے لوگ ہمیشہ ناکام و نامراد رہیں گے۔ لیکن میرا یہ فرض ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ میں جماعت کے لوگوں کو بار بار توجہ دلاتا رہوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ثواب کے کاموں میں حصہ لینے کی کوشش کریں، زیادہ سے زیادہ الٰہی تحریک کو پھیلانے کی کوشش کریں اور زیادہ سے زیادہ شیطانی تحریک کو کچلنے کی کوشش کریں۔ ’’
(الفضل مورخہ 5 جولائی 1945ء)

1: مینڈ: کھیت کی منڈیر، باڑ،پشتہ، حد ،گھاٹ
2: المائدۃ:25


21
اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ
کی لطیف تفسیر
(فرمودہ 6 جولائی 1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی )
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ آل عمران کی درج ذیل آیت تلاوت کی:
‘‘اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ١ؕ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۔1 ‘‘یہ آیت قرآن مجید میں سورۂ آل عمران میں عیسائیوں کے مباحثہ کےذکر میں آتی ہے اور مختلف رنگ میں لوگوں نے اس کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس کے الفاظ اور اس کی عربی پر پورا غور نہ کرنے کی وجہ سے اس کے صحیح معنی نہیں سمجھ سکے۔ غالباً غور تو کیا ہو گا۔ لیکن غور کےباوجود اصل مضمون کی طرف نہیں گئے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک چیز ذہن پر غالب ہوتی ہے اور وہ انسان کو الفاظ کے صحیح مضمون کی طرف جانے سے روک دیتی ہے۔ اور غالباً اِسی وجہ سے مفسرین کا ذہن اس طرف نہیں گیا۔ اس آیت کے معنے یہ کئے جاتے ہیں کہ عیسیٰؑ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدمؑ کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اسے کہا ہو جا۔ اگلے الفاظ کے معنی بِلاساختہ بغیر الفاظ کی طرف نظر کئے یہ کر دیئے جاتے ہیں۔ پھر وہ ہو گیا۔ حالانکہ عربی زبان میں يَكُوْنُ کے معنی
‘‘ہو گیا’’ کے نہیں ہوتے۔ مضارع جب امر کے مقابلے میں آئے تو اس کے دو معنے ہوتے ہیں ہوتا ہے یا ہو جائے گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے لفظ کُنْ کہا یعنی ہو جا۔ تو اس کے نتیجہ میں فَیَكُوْنُآیا ہے۔ پس يَكُوْنُ کے یا تو یہ معنے ہیں کہ پھر خدا تعالیٰ کے حکم کے نتیجہ میں ویسا ہی ہوتا جا رہا ہے اور ہوتا جائے گا۔ اور یا پھر یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کُنْ کہا اس لئے اب وہ امر جس کے بارہ میں ایسا کہا تھا ضرور ہو کر رہے گا۔ یہی معنی ماضی اور امر کے بعد کے مضارع کے ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ ان دونوں معنوں کےسوا عربی زبان میں اس کے اور کوئی معنے نہیں ہوتے اور نہ عقلاً ہو سکتے ہیں۔ اردو زبان ہی کو لے لو اگر کوئی شخص یہ فقرہ کہے کہ میں نے زید سے کہا کہ چلا جا سو وہ چلا جائے گا۔ تو اس کے معنے کبھی بھی کوئی شخص یہ کر سکتا ہے کہ وہ چلا گیا یا یہ کہے کہ میں نے زید سے کہا پڑھ سو وہ پڑھ رہا ہے۔ تو اس کے کبھی بھی یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ کسی سابق زمانہ میں پڑھ چکا ہے۔ مضارع حال یا استقبال کے لئے آتا ہے۔ اور حال جب ماضی کے جواب میں آئے تو اس کے معنے استمرار کے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ فعل زمانۂ ماضی سے شروع ہؤا اور اب تک جاری ہے۔ جب یہ ذکر ہو کہ زمانہ ماضی میں کسی نے حکم دیا تھا اور اس کے نتیجۂ امر کے جواب میں فعل مضارع آئے تو اس فعل مضارع کو استعارۃً بھی ماضی کے معنوں میں استعمال نہیں کرسکتے۔ بلکہ وہ صرف حالِ استمراریہ یا مستقبل کے معنے دے گا۔ لیکن گزشتہ لوگ اس جگہ يَكُوْنُ کے معنی ماضی کے کرتے چلے آئے ہیں۔ اور یہ مطلب لیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آدم سے کہا کہ ہو جا سو وہ ہو گیا۔ حالانکہ ماضی میں دیئے جانے والے أمر کے جواب میں جو مضارع آئے اس کے معنے ماضی کے کبھی نہیں کئے جا سکتے۔ اگر اللہ تعالیٰ ماضی کا واقعہ بیان فرماتا تو یوں فرماتا کہ قَالَ اللّٰہُ کُنْ فَکَانَ۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ہو جا سو وہ ہو گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے فَیَكُوْنُ ۔ پس وہ ہو جائے گا یا ہوتا چلا آرہا ہے۔ اب ان معنوں کو مدنظر رکھ کر آیت کے وہ معنے کرو جو مفسرین نے کئے ہیں۔ یعنی اس آیت کو آدمؑ اور مسیحؑ کی محض پیدائش کے متعلق سمجھو تو آیت کا یوں ترجمہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسیح کی مثال آدمؑ کی طرح ہے۔ اسے اس نے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر اسے کہا ہو جا سو وہ ہو جائے گایا یہ کہ ہوتا چلا آرہا ہے اور ہوتا چلا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ معنے بالکل بے جوڑ ہیں۔ آدمؑ اور مسیحؑ دونوں ہزاروں سال پہلے پیدا ہو چکے ہیں۔ پس آیت کے یہ معنے کرنے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا پیدا ہو جا چنانچہ وہ پیدا ہو جائے گایا پیدا ہوتا چلا جائے گا ایک بِالبداہت طور پر غلط بات کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا ہے۔ اس مشکل کا حل دو ہی طرح ہو سکتا ہے۔ یا تو ہم یہ سمجھیں کہ یَکُوْنُ کے اس جگہ معنے ماضی کے ہیں۔ یا یہ سمجھیں کہ اس آیت میں پیدائشِ جسمانی کا ذکر نہیں بلکہ کسی اَور قسم کی پیدائش کا ذکر ہے۔ سو میں یہ پہلے ثابت کر چکا ہوں کہ اس موقع پر کسی طرح بھی یَکُوْنُ کے معنے ماضی کے نہیں کئے جا سکتے۔ پس یہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم اس آیت میں پیدائشِ جسمانی کے معنے نہ لیں بلکہ کوئی اَور معنے لیں۔ اور وہ معنے ہوں بھی ایسے جو ایک طرف تو تواتر پر دلالت کریں اور دوسری طرف ان کی رو سے مسیح ؑ کی الوہیت پر بھی زد پڑتی ہو۔ مگر ان معنوں میں سے جو مفسرین نے بیان کئےہیں کوئی بھی اِن شرائط کو پورا نہیں کرتا۔
مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک معنے سمجھائے ہیں جو اِن دونوں شرطوں کو پورا کرتے ہیں ان معنوں کے رو سے مضارع کے معنے ماضی کے بھی نہیں کرنے پڑتے اور عیسائیوں کے سب سے بڑے عقیدہ الوہیتِ مسیح ؑ کی تردید بھی ان سے ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عیسیٰ ؑ کے متعلق عیسائی لوگ یہ خیال پیدا کر رہے ہیں کہ عیسیٰ ؑ کسی غیر قسم یا غیر جِنس کے تھے۔ نہ پہلے کوئی ایسا وجود ظاہر ہؤا اور نہ آئندہ ایسا وجود ظاہر ہو گا۔ اور سمجھتے ہیں کہ مسیح ؑ خدا کا بیٹا ان معنوں میں نہیں جن معنوں میں پہلے انبیاء خدا کے بٹیے تھے بلکہ ان کے اندر فِی الْحقیقت الوہیت کی صفات پائی جاتی ہیں۔ پہلے انبیاء کے لئے استعارۃً ‘‘خدا کا بیٹا’’ کے الفاظ استعمال کئے جاتے تھے مگر مسیح ؑ کے لئے یہ لفظ حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ مسیح الٰہی صفات کا مالک ہے کہ نہ پہلے کسی میں وہ صفات پائی گئیں اور نہ آئندہ کسی میں پائی جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ ہم بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جو شخص اپنی جنس کے لحاظ سے منفرد ہو اور کوئی اُس کا مثیل نہ ہو وہ الوہیت کی صفات اپنے اندر رکھتا ہے۔ پس اگر مسیح ؑ واقع میں ابنُ اللہ ہے اور جیسا کہ تم کہتے ہو خدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔ تو اکلوتے بیٹے کئی نہیں ہو سکتے۔ ہاں اگر استعارہ کے طور پر کسی کو اکلوتا بیٹا کہا جائے تو ایسے اکلوتے بیٹے متعدد ہو سکتے ہیں۔ اور اس لحاظ سے اکلوتے بیٹے کے محض یہ معنے ہوں گے کہ جیسے کسی انسان کو اکلوتا بیٹا پیارا ہوتا ہے ایسا ہی وہ شخص خداتعالیٰ کو پیارا ہے۔ اِس لحاظ سے اس لفظ کا استعمال ایک سے زیادہ وجودوں کی نسبت درست اور جائز ہو گا۔ چنانچہ بائبل میں یہود کی نسبت بھی آتا ہے کہ وہ خدا کے بیٹے تھے اور یہ ظاہر ہے کہ جس کے اَور بیتے ہوں اُس کے کسی بیٹے کو اکلوتا بیٹا نہیں کہہ سکتے۔ اور اگر کہیں گے تو اس کے معنے صرف یہ ہوں گے کہ جس طرح ماں باپ کو اپنا اکلوتا بیٹا پیارا ہوتا ہے اُسی طرح وہ شخص خدا تعالیٰ کو پیارا ہے۔ اور باوجود اکلوتا بیٹا کہنے کے اس کے معنے یہ نہ ہوں گے کہ وہ اپنی اس صفت میں منفرد ہے۔ اور جب منفرد نہ رہا تو الوہیت کا سوال خود حل ہو گیا۔
غرض اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ عیسیٰ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے آدم کی مثال۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر کہا اب تُو ہوتا رہ یعنی تیرے جیسے اَور وجود پیدا ہوتے چلے جائیں۔ چنانچہ اُس کی نسل چل رہی ہے۔ آدم کے بعد اَور آدم اس کے بعد اَور آدم اور اس کے بعد اَور آدم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پس یَکُوْنُ کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہو گیا۔ یہ معنے عربی زبان کے خلاف ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ اے آدم! ہو جا یعنی نسلِ آدم دنیا میں چلے۔ فَیَکُوْنُ پس آدم کا ظہور ہوتا جا رہا ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آدم کسی اور جنس کا تھا اور بیٹا کسی اور جنس کا ہے۔ جس طرح کا پہلا آدم تھا اُسی طرح اس کے بعد کا آدم تھا۔ اور اُسی طرح کا آدم اب بھی ہے۔ اس تعدّد اور تواتر کی وجہ سے کسی کو شبہ پیدا نہیں ہوتا کہ آدمؑ منفرد وجود تھا اور وہ اپنے اندر خدائی صفات رکھتا تھا۔ خواہ وہ بِن باپ اور بِن ماں کے پیدا ہوا۔ لیکن چونکہ اس کی نسل چل رہی ہے اور اس کے مثیل پیدا ہوتے جا رہے ہیں جو اس کی جنس سے ہیں اس لئے کسی کو آدمؑ پر خدائی کا شبہ نہ ہؤا ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عیسیٰ ؑ کے متعلق بھی ہم نے یہی طریق جاری کیا ہے۔ یعنی عیسیٰ کو پیدا کر کے کہا کہ تُو ہو جا پس وہ ہوتا جا رہا ہے۔ یعنی عیسویؑ وجود بار بار پیدا ہو رہے ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے۔ پھر اِس میں اِس طرف بھی اشارہ ہے کہ آدم باوجود دوسرے آدمیوں کا باپ ہونے کے ان سب سے درجہ میں بڑا نہیں۔ حضرت آدمؑ سے حضرت نوحؑ درجہ میں بڑے تھے، حضرت ابراہیمؑ حضرت آدمؑ سے بڑے تھے۔ اِسی طرح حضرت موسیٰؑ حضرت آدم سے بڑے تھے۔ اور آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے جو سب سے بڑے تھے۔ اسی طرح مسیحؑ کا حال ہے کہ عیسویت کے مقام کی ابتداء کرنے کی وجہ سے وہ سب سے بڑے مسیحؑ نہیں بلکہ جس طرح آدمیت کا کمال بعد میں ہؤا اسی طرح عیسویت کا کمال بھی بعد میں آنے والے بعض وجودوں سے ہو گا۔ حضرت آدمؑ پہلے آدمی ہونے کی وجہ سے تقدمِ زمانی رکھتے ہیں۔ لیکن مقام کے لحاظ سے کیا نسبت ہے حضرت آدمؑ کو حضرت نوحؑ سے ،کیا نسبت ہے حضرت ابراہیمؑ سے، کیا نسبت ہے حضرت موسیٰ ؑ سے اور کیا نسبت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِسی طرح ہم نے مقامِ مسیحیت کو کُنْ کہا ہے۔ اب اِس سے مسیحؑ پیدا ہوتے جائیں گے۔ اور بعض ان میں سےایسے ہوں گے جو پہلے مسیح ؑ سے بڑھ جائیں گے آدم کے بعد آنے والے سب آدم سے چھوٹے اور ادنیٰ نہیں تھے بلکہ آدم سے ادنیٰ بھی تھے اور آدم سےبڑھ کر بھی۔ اِسی طرح مسیحؑ کے بعد آنے والے مسیح سے ادنیٰ درجہ کے بھی ہوں گے اور اعلیٰ درجہ کے بھی ہوں گے۔ جیسے ہم نے آدم کو پیدا کر کے کہا کہ اب تیری نسل چلے ایسا ہی ہم نے مقامِ عیسویت کو پیدا کر کے کہا کُنْ فَیَکُوْنُ کہ اب عیسوی صفات رکھنے والے پیدا ہوتے چلے جائیں۔
حضرت آدمؑ کے متعلق بھی خدا ئی کا شبہ ہو سکتا تھا کیونکہ وہ بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے لیکن آگے ان کی نسل کے چلنے کی وجہ سے یہ شُبہ جاتا رہا۔ ایسے ہی مسیحؑ بے شک بِن باپ کے پیدا ہوئے لیکن اگر ایک وجود بھی ایسا ہو جائے جو مثیلِ مسیحؑ ہو بلکہ مسیحؑ سے بڑھ کر ہو تو مسیحؑ کی الوہیت باطل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے مثیلوں کا ایک سلسلہ چل پڑا جس طرح آدمؑ کی نسل سے بعض چھوٹے آدم ہوئے اور بعض بڑے آدم ہوئے اسی طرح مسیح کے بعد بعض چھوٹے عیسیٰ ہوئے اور بعض بڑے ہوئے۔حضرت معین الدین چشتی فرماتے ہیں:
دم بدم روح القدس اندر معینے مے دمد
من نمے گویم مگر من عیسیٰ ثانی شدم 2
یعنی روح القدس ہر وقت میرے کان میں یہ بات کہہ رہا ہے کہ تُو عیسیٰ ثانی ہے۔ پس معین الدین صاحب چشتیؒ عیسوی مقام پر تھے اور عیسیٰؑ کی الوہیت کو ردّ کرنے والے تھے کہ چھوٹے عیسیٰؑ تھے۔ جس طرح آدم کی نسل کے ہزاروں آدمی گو آدمؑ سے چھوٹے ہیں مگر آدمؑ کی الوہیت کو ردّکررہے ہیں۔ مگر جس طرح آدمؑ سے بڑے آدم بھی ان کی نسل سے پیدا ہوئے اسی طرح مسیحؑ سے بڑے مسیح بھی پیدا ہونے والے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ؂
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے 3
جسمانی لحاظ سے چونکہ مسیح کو تقدم حاصل ہے اس لئے اُن کی عزت اور ادب ضرور کیا جائے گا جیسا کہ لوگ باپ دادا کی عزت کرتے ہیں۔ اگر ایک چرواہے کا بیٹا بادشاہ ہو جائے جیسے نادر خان ایرانی تھا اور اس کا باپ اُس کے سامنے آئے تو وہ ضرور اُس کی عزت کرے گا اور یہ عزت اور ادب بوجہ تقدمِ زمانی کے ہو گا نہ اُس سے درجہ میں بڑا ہونے کے سبب سے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں میں مسیح کی بہت عزت کرتا ہوں کیونکہ خدا نے مجھے اُس کا نام دیا ہے۔ 4
غرض اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی طرح ہے۔ آدم بے باپ تھا اور عیسیٰ بھی بے باپ کے پیدا ہؤا ۔ آدمؑ کو بعض خصوصیات حاصل تھیں ایسے ہی عیسیٰ کو بھی بعض خصوصیات حاصل تھیں۔ لیکن آدمؑ کی نسل کے تواتر نے اسے الوہیت کے مقام سے عبودیت کے مقام پر لا کھڑا کیا اورکوئی شخص بھی آدمؑ کو خدا نہیں سمجھتا۔ ایسے ہی اگر کوئی فرد ایسا ہو جو عیسویت میں عیسیٰؑ کے ساتھ روحانی مشابہت رکھتا ہو بلکہ مقام کے لحاظ سے اُن سے بڑھ جائے تو پھر بھی نہیں کہہ سکتے کہ عیسیٰؑ اپنے اندر منفردانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اور جب آدمؑ کی طرح عیسیٰؑ کے بعد آنے والے روحانی لحاظ سے اُس سے بڑھ جائیں تو پھر کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ عیسیٰؑ خدا تھا۔ اگر مسیح خدا کا بیٹا تھا تو اس سے بڑھ جانا کیونکر ممکن ہے۔ خدا نے آدمؑ کو مٹی کی حالت سے پیدا کیا۔ پھر اسے بڑھایا اور کہا اب تم اپنے آپ کو بار بار ظاہر کرو تا خدا تعالیٰ کی صفات جو تمہارے ذریعہ اس دنیا میں ظاہر ہوئیں وہ ختم نہ ہو جائیں۔ بلکہ وہ آئندہ زمانوں میں جاری رہیں اور بار بار ان کا ظہور ہوتا رہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے مقامِ عیسویت کو پیدا کیا اور پھر اس کا بار بار مختلف وجودوں کے ذریعہ ظہور کیا۔ بعض ان میں سے مسیحؑ سے مقام کے لحاظ سے چھوٹے تھے۔ جیسے معین الدین صاحب چشتی اور بعض مسیحؑ سے بڑھ گئے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ تو ابتدائی حالات میں بعض چیزوں کو ایک منفردانہ حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن جب وہی چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار تواتر کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں تو پھر ان کی وہ حیثیت نہیں رہتی۔
پس کُنْ فَیَکُوْنُ تعدّد اور تواتر پر دلالت کرتا ہے۔ خدا نے کہا ہو جا چنانچہ دیکھ لو کہ ہو رہا ہے۔ ایک آدمؑ، کے بعد دوسرا آدمؑ دوسرے کے بعد تیسرا آدمؑ اور اِسی طرح یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے عیسوی مقام کے متعلق کہا کُنْ یعنی ہو جا اور پھر فرمایا فَیَکُوْنُ پھر ویسا ہی ہوتا چلا جارہا ہے اور دیکھ لو کہ بار بار عیسوی مقام ظاہر ہو رہا ہے۔ اور ہوتا رہے گا اور اس میں تعدّد اور تواتر پایا جائے گا۔ اور جب تعدّد پایا گیا تو مسیحؑ حقیقی معنوں میں خدا کا اکلوتا بیٹا نہ رہا کیونکہ اکلوتا بیٹا تو ایک ہی ہؤا کرتا ہے۔
اِس مثال کو بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے اِس طرف اشارہ کیا کہ تم ابنِ مریم کو خدا نہ کہنا جبکہ اس کے مثیل کو تم دیکھ رہے ہو۔ اِسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا؂
ابن مریم کےذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے
غرض اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ کی مثال آدمؑ کے ساتھ اس لئے دی کہ آدمؑ سے صفاتِ الٰہیہ کا ظہور شروع ہؤا۔ لیکن آدمؑ کے بعد آنے والے آدمؑ سے بڑھ گئے۔ اِسی طرح عیسیٰ ؑ سے مسیحیت کا دَور شروع ہؤا مگر بعد میں آنے والے اُن سے بھی بڑھ گئے۔ آدمؑ کی پیدائش کی غرض بے شک یہ تھی کہ ان کے ذریعہ صفات الٰہیہ کا ظہور ہو۔ مگر الٰہی منشاء یہ نہ تھا کہ پہلا آدم ؑپیدائشِ آدمؑ کے مقصود کو اَتَمّ صور ت میں ظاہر کرنے والا ہو بلکہ مقصود یہ تھا کہ اس کی نسل میں سے اور اُس کی اولاد میں سے آدمؑ کی صفت کو ظاہر کرنے والے اَتَمّ وجود پیدا ہوں۔ اِسی طرح عیسیٰؑ کے ذریعہ مقامِ عیسویت کا ظہور ہوا۔ مگر اِس ظہور کا یہ مقصد نہ تھا کہ اس کے ذریعہ مقامِ عیسویت اَتَمّ صورت میں ظاہر ہو بلکہ آئندہ زمانہ میں مقام عیسویت کا اَتَمّ صورت میں ظہورمقصود تھا۔ اگر عیسیٰ اَتَمّ صورت میں آتے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ نہ کہتے کہ ؂
ابن مریمؑ کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے
پس کُنْ فَیَکُوْنُ تواتر اور تعدّد پر دلالت کرتا ہے اور صحیح معنی یہی ہیں جو میں نے بیان کئے ہیں۔ اس میں آدمؑ اور مسیحؑ کی پیدائش کا تطابق بھی ہو جاتا ہے اور عقیدہ الوہیتِ مسیح کی بھی تردید ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جب تعدّد اور تواتر پایا گیا تو مسیحؑ اکلوتا بیٹا کہلانے کا حقدار نہ رہا جس کی وجہ سے اسے حقیقی بیٹا قرار دیا جاتا ہے۔ ’’
حضور نے نماز جمعہ پڑھانے کے بعد فرمایا کہ :
‘‘یَکُوْنُ کے معنی اس جگہ محض مستقبل کے بھی اس آیت میں کئے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ یَکُوْنُ کا لفظ اگر حضرت آدم ؑ کی نسبت سمجھا جائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے آدمؑ کو پیدا کیا مگر ساتھ ہی کہا کہ کُنْ تو صفتِ آدمیت کو بدرجۂ اَتَمّ ظاہر کیا۔ چنانچہ ایسا ہو کر رہے گا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ سے آدمؑ کی پیدائش کا مقصد بدرجہاَتَمّ ظاہر ہو گا۔ اور اسی طرح مسیح علیہ السلام کے متعلق ہو گا۔ ان کو بھی پیدا کر کے ہم نے کہا کہ گو تجھے ایک روحانی مقام کا ابتدائی نقطہ ہم قرار دیتے ہیں۔ مگر تُو اِس کا اَتَمّ اور اکمل ظہور نہیں۔ بلکہ تجھے ہم کہتے ہیں کہ ہو۔ یعنی تیری روح اپنا پَرتَو دنیا پر ڈالتی رہے۔ جس طرح آدمؑ کی روح پَرتَو ڈالتی رہی یہاں تک کہ درجۂ اَتَمّ پر پہنچا ہؤا وجود ظاہر ہو جائے۔ اور ایسا ہی مسیحؑ کے بارہ میں بھی ہو گا۔ یعنی عیسویت کے مقام کا انتہائی درجہ کا ظہور ایک زمانہ میں ظاہر ہو کر رہے گا۔ اور اس کا ظہور مسیح کے خدائی کے عقیدہ کو باطل اور پاش پاش کرنے والا ہو گا۔ پس یَکُوْنُ کی نسبت اگر حضر ت آدم علیہ السلام کی طرف کریں تو اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ظہور ہے۔ اور اگر یَکُوْنُ کی نسبت مسیح علیہ السلام کی طرف ہو تو اِس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ظہور ہے۔ ’’
(روزنامہ الفضل قادیان مورخہ 18 جولائی 1945ء)
1: آل عمران:60
2: دیوان حضرت خواجہ معین الدین چشتی صفحہ 56 مطبوعہ نولکشور 1868ء ؁
3: درثمین اردو صفحہ 58
4: کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 17 (مفہوماً)

22
زندگی کے تین اَدوار بچپن، جوانی اور بڑھاپا
(فرمودہ 13جولائی 1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کے لئے ایک عمر مقرر کی ہے اور پھر اس عمر کے کئی حصے بنائے ہیں۔ پہلے کمزوری کا دَور ہوتا ہے پھر طاقت کا دَور ہوتاہے اور پھر ضُعف کا دَور ہوتا ہے۔ قوتِ نامیہ1 رکھنےو الی چیزیں ہمیشہ سے اِسی قانون کے ماتحت چل رہی ہیں۔ اور اگر وہ اپنی حیاتِ طبعی کے نیچے چلیں تو ان پر یہ تینوں اَدوار گزرتے ہیں۔ بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو حیاتِ طبعی کو حاصل نہیں کرتیں۔اور بعض وجود دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی حقیقی شکل اختیار کرنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتے ہیں۔ جیسے انسانوں میں عورتوں کے اور دوسرے جانوروں میں ماداؤں کے حمل ضائع ہو جاتے ہیں۔ ابھی پیدا ہونے والی چیز اپنا حقیقی وجود حاصل نہیں کرتی کہ تلف ہو جاتی ہے۔ پھر بعض ایسے وجود بھی ہوتے ہیں جو حقیقی وجود حاصل کرنے کے بعد اور اپنی کامل شکل اختیار کرنے کے بعد اپنے قویٰ اور اپنی طاقتوں کو ظاہر نہیں کر سکتے۔ جیسے بعض بچے پورے حمل میں ضائع ہو جاتے ہیں یا مُردہ بچے پیدا ہو جاتے ہیں یا پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں۔ پھر کچھ وجود ایسے بھی ہوتے ہیں جو کامل وجود کو حاصل کر لینے کے بعد اُن قویٰ اور طاقتوں کو ظاہر بھی کرنے لگتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے ان کے اندر پیدا کی ہوتی ہیں۔ لیکن ابھی کمزوری ہی کا دَور ہوتا ہے کہ وہ مر جاتے ہیں۔ خواہ وہ وجود انسانوں میں سے ہوں یا جانوروں میں سے۔ جیسا کہ بعض لوگوں کے بچے چھوٹی عمر میں فوت ہو جاتے ہیں۔ پھر کچھ وجود ایسے ہوتے ہیں جو اِس عمر سے ترقی کر کے جوانی کو پہنچتے ہیں لیکن پیشتر اس کے کہ جوانی اپنے کمال کو پہنچے وہ جوانی کے ابتدا میں یا درمیان میں ہی مر جاتے ہیں۔ لیکن کچھ طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو زندگی کے اِن تینوں دَوروں میں سے گزرتا ہے۔ یعنی بچپن سے بھی گزر جاتا ہے، جوانی سے بھی گزر جاتا ہے اور بڑھاپے کا زمانہ بھی اُس پر آتا ہے۔ اور وہ بڑھاپے میں اپنی زندگی کا کچھ حصہ جو اُس کے لئے مقدر ہوتاہے گزارتا ہے۔ یہ تینوں دَور اپنے اندر الگ الگ رنگ رکھتے ہیں۔ اور یہ تینوں دور ایسے ہیں جو اپنے اندر خوبیاں بھی رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ کچھ خرابیاں بھی ہیں۔
بچپن کی خرابیاں ہمیشہ جہالت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ چونکہ اِس عمر میں انسان کو علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اس لئے ایسی حرکات کر بیٹھتا ہے جو اُس کی ذات کے لئے بھی مُضِر ہوتی ہیں اور دوسروں کے لئے بھی۔ اِسی طرح علم نہ ہونے کی وجہ سے بسا اوقات وہ جہالت کی باتوں کو سن کر انہیں علم سمجھ لیتا ہے۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَـاَبَـوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ۔2 یعنی بچہ تو فطرتاً اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ یہودیت، نصرانیت اور مجوسیت کی غلط باتیں اس کے کان میں ڈالتے رہتے ہیں۔ اور بچپن کی وجہ سے چونکہ اُس کے اندر امتیاز کرنے کا مادہ نہیں ہوتا اِس لئے وہ ان باتوں کو قبول کر لیتا ہے۔ خواہ وہ باتیں فطرت کے خلاف ہوں، خواہ عقل کے خلاف ہوں اور خواہ دیانت کے خلاف ہوں۔ تو یہ بچپن کی کمزوری ہے۔ بچپن میں تجربہ نہیں ہوتا اور تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے بچہ غلط اور صحیح بات میں امتیاز کرنےکی قابلیت کم رکھتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی بچپن کی عمر میں بعض خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ بچپن کی عمر کا موجودات کے ساتھ پہلا تعلق ہوتا ہے اس لئے بچے جو علم بچپن میں سیکھ سکتے ہیں وہ بڑے ہو کر نہیں سیکھ سکتے۔ اِس کا تجربہ یوں ہو سکتا ہے کہ دو آدمیوں کو لے کر شہر میں سے گزرو۔ ان میں سے ایک ایسا ہو جو اُسی جگہ پیدا ہوا ہو اور دوسرا ایسا ہو جو باہر سے آیا ہو۔ تو تم دیکھو گے کہ باہر سے آنے والا کئی ایسے سوالات کرے گا جو اُس جگہ کے رہنے والے کے دل میں کبھی پیدا نہیں ہوتے۔ کیونکہ وہ ان چیزوں کو شروع سے دیکھتا آیا ہے اور دیکھتے چلے آنے کی وجہ سے تجسس کا مادہ اس میں نہیں رہا۔ لیکن جو نیا نیا آتا ہے وہ ہر چیز کو غور سے دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے؟ یہ اس طرح کیوں ہے؟ اِسی طرح جو لوگ بڑی عمر کے ہو جاتے ہیں وہ اس دنیا کی زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں اور اپنے لمبے تجربہ کی بناء پر اور لمبے تجسس کی وجہ سے اِس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ دنیا کی بعض چیزیں سمجھ میں آسکتی ہیں اور بعض نہیں آ سکتیں۔ اور جو چیزیں اُن کی سمجھ میں نہیں آ تیں اُن کے متعلق وہ خیال کرلیتے ہیں کہ یہ سمجھ میں آنے کے قابل ہی نہیں۔ حالانکہ جو چیزیں اُن کی سمجھ میں نہیں آتیں ان میں سےا یک بڑا حصہ ہوتا ہے جو دوسروں کی سمجھ میں آسکتا ہے مگرجب وہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ چیزیں ہماری سمجھ میں آہی نہیں سکتیں تو ان کی طرف سے توجہ ہٹا لیتے اور ان کے متعلق تجسس چھوڑ دیتے ہیں۔ مگر بچے کے اندر یہ مادہ ہوتا ہے کہ جب وہ کوئی نئی چیز دیکھتا ہے تو اُس کے متعلق سوالات شروع کر دیتا ہے۔ اگر بادلوں کو دیکھتا ہے تو پوچھتا ہے کہ بادل کیا چیز ہیں؟ کیوں آتے ہیں؟ کہاں سے آتے ہیں؟ کیونکر برستے ہیں؟غرض وہ سوالات جو ایک سائنسدان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں یا ایک حساب دان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں یا ایک تاریخ دان کےدل میں پیدا ہوتے ہیں وہی سوالات اس بچے کے دل میں بھی پیدا ہوتے ہیں بلکہ درمیانہ درجہ کے سائنسدان، درمیانہ درجہ کے حساب دان اور درمیانہ درجہ کے تاریخ دان کے دل میں وہ سوالات پیدا ہی نہیں ہوتے جو ایک بچے کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ سوالات ان کے دلوں میں اِس لئے پیدا نہیں ہوتے کہ وہ دنیا میں ایک لمبا عرصہ رہنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ ہر چیز جس کا وجود دنیا میں ہے ہم اس کی کُنہ اور حقیقت کو حل نہیں کر سکتے۔ لیکن بچے نے ابھی یہ سوال حل نہیں کیا ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ میرا فرض ہے کہ میں ہر چیز کو غور سے دیکھو ں اور اس کے متعلق پوچھوں۔ اِس لئے وہ ہر چیز کے متعلق سوال کرتا چلا جاتا ہے اور اُس کا دماغ بھی ان باتوں کو اخذ کرنے کے لئے زیادہ آمادہ ہوتاہے۔یہ کتنا بڑا فائدہ ہے۔ اگر بچپن کا زمانہ انسان پر نہ آتا، اگر بچپن کی خصوصیات نہ ہوتیں تو دنیا میں علوم کا قیام بھی نہ ہوتا کیونکہ علوم کا قیام بچپن کےساتھ وابستہ ہے۔
پھر جوانی آتی ہے، جوانی کام کرنے کے دن ہوتے ہیں۔ ان کام کے دنوں میں انسان قسم قسم کی قربانی کرتا ہے اور قسم قسم کی جرأت کے نظارے دکھاتا ہے۔ اور اپنے عمل کےساتھ دنیا میں تغیر پیدا کرنا چاہتا ہے۔ بچپن کے علوم اور بچپن کے سوالات کی وجہ سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ دنیا نے کچھ بھی نہیں کیا لیکن مَیں بہت کچھ کر سکتا ہوں۔ اور یہ انسانی فطرت ہے کہ جسے تجربہ نہیں ہوتا وہ یہ نتیجہ نکالا کرتا ہے کہ لوگوں نے اس کام کو پوری طرح سمجھا ہی نہیں۔ اِس لئے وہ اس میں غلطی کر گئے ہیں مگر میں اِس کام کو زیادہ بہتر صورت میں کر سکتا ہوں۔ اس خیال کی وجہ سے وہ لازمی طور پر دنیا میں تغیر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور چونکہ حرکت میں برکت ہوتی ہے اس لئے وہ اپنی اِس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ اور بسااوقات اس کے ذریعہ ایسا تغیر ہوتا ہے جو دنیا کے لئے بہت ہی مفید اور دنیا کو ایک قدم آگے بڑھا دینے والا ہوتا ہے۔ اور یہ کامیابی اُس کو اُس قوتِ عملی کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے جو بچپن نے اُس کے اندر پیدا کی۔ بچپن میں بچے کو اگر کھلونا دیا جائے تو وہ اُس کو توڑ دیتا ہے۔ وہ کھلونے کو اِس لئے توڑتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے میں اِس سے اچھا بنا سکتا ہوں۔ لیکن بوجہ بچپن کے اُس کو توڑ کر بنانے پر قادر نہیں ہوتا۔ مگر جب وہ جوان ہوتا ہے اور اُس میں تخلیق کی قوت پیدا ہو جاتی ہے وہ اِس کھلونے کو بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور گو بسا اوقات وہ غلطی بھی کرتا ہے لیکن بعض اوقات کامیاب بھی ہو جاتا ہے بلکہ اُس سے بھی اچھا بنا لیتا ہے۔
مگر جہاں جوانی میں خوبیاں ہیں وہاں بعض نقائص بھی ہیں۔ کہتے ہیں جوانی دیوانی۔ انسان جوانی میں کہتا ہے کہ جو بھی میری بات کا انکار کرے اُسے مار دوں اور جو مقابلہ کرے اسے کُچل دوں۔ لیکن ایک لمبے تجربہ کے بعد وہ اِس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ انکار اور مقابلہ کرنے والے وجود بعض دفعہ بہت مخلص ثابت ہوتے ہیں۔ جوانی کہتی ہے کہ جو مقابلہ کرتا ہے اُسے مار دو، اُسے نکال دو لیکن تجربہ انسان کو بتاتا ہے کہ جنہیں وہ مارنا چاہتا ہے یا جن کو وہ نکالنا چاہتا ہے یا جن کو وہ توڑنا چاہتا ہے وہی کل کو بڑے کام کے وجود ثابت ہوں گے۔ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھنے والے بعد میں کتنے مخلص وجود ثابت ہوئے۔ صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ایسے تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک نے میرا انکار کیا مگر ابوبکرؓ ایسا تھا جس میں مَیں نے کوئی کجی نہیں دیکھی۔ مگر دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکلے تھے۔ اب جوانی میں انسان کے جو خیالات ہوتے ہیں اگر ان کے مطابق حضرت عمر ؓسے سلوک کیا جاتا اور فرض کرو کہ اُس وقت مسلمانوں کے پاس طاقت ہوتی اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں کام ہوتا اور حضرت عمر ؓ کو مار ڈالتے تو حضرت عمرؓ کو مارنا صرف عمرؓ کا مارنا نہ ہوتا بلکہ ساری دنیا کو مار دینے کے مترادف ہوتا۔ کیونکہ جس قسم کے تغیرات حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ہوئے اور جس قسم کا کام حضرت عمر ؓنے کیا ایسا کام دنیا میں بہت کم انسانوں نے کیا ہے۔ پس اگر یہی فیصلہ ہوتا کہ چونکہ حضرت عمرؓنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے اِس لئے اُن کو قتل کر دیا جائے تو دنیاایک نہایت ہی قیمتی وجودسے محروم ہوجاتی ۔
اِسی طرح حضرت خالدؓ بن ولید جو اسلامی فتوحات کے بڑے بھاری موجب ہیں اور انہوں نے اسلام کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کیں اور سالہا سال تک رات دن اپنے آپ کو موت میں ڈال کر اسلام کی خدمت کی یقینا ًان کو بھی نوجوانوں کے فیصلہ کے ماتحت مار دیا جاتا۔ حضرت عمروؓ بن العاص کی موت کا فتویٰ بھی صادر کیا جاتا۔ عکرمہؓ بن ابی جہل جس نے بعد کی قربانیوں کی وجہ سے دنیا کے لئے ایثار کی ایک بہترین مثال قائم کر دی اسے بھی قتل کر دیا جاتا۔ اور اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ جنہوں نے اسلام کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کیں اور جو اسلام کی تاریخ میں روشن ستاروں کی طرح نظرآتے ہیں اور جن پر مسلمان آج بجا طور پر فخر کرتے ہیں نہ اسلام کے لئے قربانیاں کر تےاور نہ مسلمان اِن ہستیوں پر فخر کر سکتے۔ تو جوانی میں جہاں قوتِ عملیہ پائی جاتی ہے وہاں بوجہ اِس خیال کے کہ دنیا غلطی کر رہی ہے میں اِس غلطی کو درست کروں گا۔ اور بوجہ اس کے کہ اِس درست کرنے کے ساتھ دوسرا پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ جو چیز بگڑی ہوئی ہے اُسے توڑ ڈالوں بعض نوجوان دیوانگی کی حد تک پہنچ جاتے ہیں اور دنیا کو بڑے بڑے فوائد سے محروم کر دیتے ہیں۔
اِس کے بعد بڑھاپا آتا ہے۔ بعض دفعہ بڑھاپا ایسا ہوتاہے کہ انسان سیکھا سکھایا سب کچھ بُھول جاتاہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ١ۙ۫ وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْـًٔا 3۔اس حالت میں انسان کو کچھ علم نہیں ہوتا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ میں نے بعض بُڈھوں کو بچوں کی طرح روتے دیکھا ہے۔ محض اِس لئے کہ مجھے فلاں چیز نہیں ملی یا فلاں نے میری خبرگیری نہیں کی۔
مجھے یاد ہے مولوی محمد احسن صاحب امروہی مرحوم قادیان آئے اور ان سے مختلف باتیں ہوئیں۔ آخر میں انہوں نے علیحدگی میں میرے ساتھ گفتگو کی اور صاف طور پر اقرار کیا کہ وہ پوری طرح سمجھ گئے ہیں کہ راستی اور سچائی قادیان میں ہے لیکن ساتھ ہی روپڑے اور کہا کہ میں مجبور ہوں ۔ میری بیوی میری طہارت کرتی ہے اور وہی میری خدمت کرتی ہے اِس لئے میں اُس کا محتاج ہوں۔ پیغامیوں نے میرے بیوی بچوں کو لالچ دیا ہوا ہے اِس لئے وہ انہیں نہیں چھوڑتے اور میں اُن کےساتھ جانے پر مجبور ہوں۔ اب یہ بھی بڑھاپے کی ایک مجبوری تھی۔ لیکن بڑھاپا اپنے ساتھ تجارب بھی لاتا ہے۔ بچپن اور جوانی کے تجارب کے بعد جو خلاصہ نکلتا ہے بڑھاپا اُس خلاصے کا برتن ہے۔ جیسے بھینس چارہ کھاتی ہے، اُس کو حمل ہوتاہے ،حمل سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اسکے تھنوں میں دودھ پیدا ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح وہ برتن جس میں دودھ دوہا جاتا ہے وہ بڑھاپا ہے جو تمام زندگی کا خلاصہ اپنےا ندر رکھتا ہے۔ اگر انسان کی اعصابی طاقتیں ماری جائیں تو یہ عمر انسان کے لئے دکھ اور تکلیف کی عمر ہوتی ہے۔ لیکن اگر دماغی طاقتیں قائم رہیں اور جسمانی طاقتیں بھی ایسی کمزور نہ ہوں کہ انسان بے کار ہو جائے تو یہ عمر زندگی کے تجارب کا بہترین خلاصہ ہوتی ہے۔ جس کے بغیر دنیا صحیح طو رپر آگے نہیں بڑھ سکتی۔
غرض ہر دَور اپنے اندر خوبیاں بھی رکھتا ہے اور نقائص بھی۔ جس طرح انسانی زندگی ہے اِسی طرح قومی زندگی بھی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فرد پیدا ہوتا ہے اِسی طرح قوم پیدا ہوتی ہے۔ اور جو اَدوار افراد پر گزرتے ہیں وہی قوموں پر بھی گزرتے ہیں۔ قومیں بھی افراد کی طرح پیدا ہوتی ہیں۔ اور وہ بچوں کی طرح بچپن کی غلطیاں بھی کرتی ہیں۔ بچپن کی قسم کی بیوقوفیاں بھی کرتی ہیں اور بچوں کی طرح سوال و جواب بھی کرتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں سوالات صحابہؓ کی طرف سے اور مستورات کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کئے گئے۔ اور جب آپ نے اُن کے جوابات دیئے تو اُن کا علم ترقی کر گیا اور آنے والے لوگوں کے لئے ترقی کا ایک نیا باب کھل گیا۔
تاریخوں میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک یہودی حضرت عمرؓ کی مجلس میں آیا۔ اور کہنے لگا کہ ہمیں توآپ کی شریعت پر رشک آتا ہے۔ پیشاب، پاخانہ، نہانا، دھونا، کھانا، پینا، کپڑے پہننا۔ غرض ہر چیز کاذکر اس میں تفصیل کےساتھ موجود ہے۔ یہ رشک اسےاُنہی سوالات کی وجہ سے پیدا ہوا جو صحابہؓ فرداً فرداً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے۔ اگر اُن سوالات کو الگ الگ کرکے دیکھا جائے تو بچوں کے سے سوالات معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر اُنہیں یکجائی طور پر دیکھا جائے تو کہنا پڑتا ہے کہ اگر یہ سوالات نہ ہوتے تو اسلام کی عمارت نامکمل رہ جاتی۔ اِس کے مقابلہ میں جن قوموں کی بچپن کی عمر نامکمل رہ جاتی ہے وہ احکام کی تفاصیل سے محروم رہتی ہیں۔ اور جب اُن سےاخلاقی یا تمدنی احکام کی تفصیلات کے متعلق سوال کیا جائے تو وہ کہہ دیتی ہیں کہ اس کے متعلق تو ہماری شریعت میں کچھ نہیں لکھا۔ لیکن قرآن کریم نے تمام امور پر روشنی ڈالی ہے اور کسی اہم امر کو نظر اندا ز نہیں کیا۔ گو تمام مضامین کی تفصیل اِس کے اندر نہیں۔ اور نہ اتنے مضامین کی تفصیل محدود صفحات میں آسکتی تھی۔ اگر قرآن کریم میں سب مضامین اِس تفصیل کے ساتھ لکھے جاتے اور ہر آدمی سب مسائل کا جواب اِسی میں سے نکال سکتا بلکہ ہر سوال اس میں حل کیا ہوا ہوتاتو قرآن کریم چار پانچ سَو صفحے کی کتاب نہ ہوتی بلکہ دس بیس لاکھ صفحے کی کتاب ہوتی اور کوئی بھی اسے پوری طرح پڑھ نہ سکتا۔ اور بجائے ہر رمضان میں پورا قرآن مجید تلاوت کرلینے کے لوگ ساری عمر پڑھتے رہتے اور پھر بھی پورا نہ پڑھ سکتے۔ کوئی پندرھویں پارے تک پہنچتا اور مر جاتا، کوئی بیسویں پارے تک پہنچتا اور مر جاتا اور کوئی ایک آدمی زیارت کے قابل ایسا نہ ملتا جس نے پورا قرآن مجید پڑھا ہوتا۔ تو عوام الناس کو فائدہ پہنچانے کے لئے ضروری تھا کہ خدائی کلام مختصر ہو اور اُس میں اشارتاً سارے علوم موجود ہوں۔ اور ان اشارات کی تفصیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ظاہر ہو۔ یہ تفصیل اِسی صور ت میں ظاہر ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو یہ شوق عطا فرمایا کہ جیسے بچہ سوال کرتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے اماں! یہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے؟ اِسی طرح صحابہؓ سوال کرتے چلے جاتے تھے۔ آخر یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ4 یعنی اے مومنو! تم ان باتوں کے متعلق سوال نہ کیا کرو جو اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہارے لئے تکلیف کا موجب بن جائیں۔ تو کیا اِس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ صحابہ کرامؓ کثرت سے سوال کیا کرتے تھے؟ لیکن جیسے بچہ جب سوال کرنے میں حد سے بڑھ جاتا ہے تو اُس کو روکا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو سوالات کی زیادتی سے روکا۔ لیکن اِس بات سے پتہ لگتا ہے کہ بچپن کا زمانہ صحابہؓ پر پوری طرح آیا اور انہوں نے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ اموال کو خرچ کرنے کا سوال آیا تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہم اسکے متعلق سب کچھ جانتے ہیں بلکہ وہ فوراً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! ہم اپنے اموال کو کس طرح خرچ کریں؟ ساری دنیا کھانا کھاتی ہے مگر صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا یَا رَسُوْلَ اللہ ! کونسی چیز حلال اور کون سی حرام ہے؟ دنیا میں یتیم پائے جاتے ہیں مگر صحابہؓ کو اُن کا بھی احساس ہوا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا کہ یتامیٰ کے بارے میں کیا احکام ہیں؟ غرض صحابہؓ سوالات پوچھتے چلے گئے۔ اور جو پوچھنے کے عادی نہ تھے وہ پوچھنے والوں کےسا تھ چمٹ گئے۔ جیسے حضرت ابوہریرہؓ خود نہیں پوچھتے تھے لیکن سارا دن مسجد میں پڑے رہتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنتے رہتے تھے۔
پھر شباب کا دَور آیا تو ہم دیکھتے ہیں کہ اِس دَور میں بھی صحابہ کرامؓ نے وہ قوتِ عملیہ دکھائی کہ دوسری اقوام میں اِس کی مثال نہیں ملتی۔ اِس چھوٹی سی قوم نے تھوڑے عرصہ میں ہی بڑی بڑی سرکش حکومتوں کو کچل کر رکھ دیا۔ عرب کی آبادی اِس وقت پچاس ساٹھ لاکھ کے قریب ہے اور میرا اندازہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عرب کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ نہ تھی۔ دس لاکھ کے معنے یہ ہیں کہ اِتنی آبادی تھی جتنی آبادی اِس وقت لاہور شہر کی ہے۔ مگر کیا کوئی قیاس کر سکتا ہے کہ لاہور کی آبادی اُٹھے اور امریکہ کی حکومت کو یا انگلستان کی حکومت کو یا روس کی حکومت کو یا جرمنی کی حکومت کو یا جاپان کی حکومت کو توڑ کر رکھ دے؟ بلکہ لاہور تو پھر بھی متمدن شہر ہے اور یوں سمجھو کہ جھنگ کا ضلع اُٹھ کھڑا ہو یا ڈیرہ غازیخان کے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں اور ان کے اُٹھتے ہی روس سے خبر آ رہی ہو کہ ماسکو فتح ہو گیا ہے، انگلستان سے خبر آرہی ہو کہ لندن فتح ہو گیا ہے، امریکہ سے خبر آرہی ہو کہ واشنگٹن اور نیویارک فتح ہو گیا ہے، جاپان سے خبر آرہی ہو کہ ٹوکیو فتح ہو گیا ہے۔ یہ بات کسی انسان کے وہم میں بھی نہیں آسکتی۔ اور پھر یہ کامیابی کسی لمبے عرصہ میں نہیں بلکہ ایک نہایت ہی قلیل عرصہ میں ہوئی۔حضرت ابوبکرؓ کی خلافت پونے تین سال اور حضرت عمرؓ کی خلافت کا زمانہ نو سال ہے۔ اس بارہ سال کے عرصہ میں قریباً تمام ملک فتح ہو گئے تھے۔ اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں کوئی ملک ایسا نہ تھا جو فتح نہ ہؤا ہو۔ پس صحابہؓ پر شباب بھی آیا تو ایسا کہ دنیا اِس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
پھر بڑھاپے کا زمانہ آیا تو وہ بھی کمال کا۔ بڑھاپے کے معنے عقل اور تجربہ کے ہیں۔ عقل اور تجربے کے لحاظ سے جس طرح صحابہؓ نے حدیث کی تدوین کی یا قرآن مجید کے معارف اور اس کے نکات کو اَخذ کیا ہے کسی اَور قوم نے اتنے قریب زمانہ میں اَخذ نہیں کیا ۔ اور نہ ہی کسی قوم نے اس قدر قریب زمانہ میں تصوف اور فقہ کی تدوین کی جتنے قریب زمانہ میں صحابہؓ نے کی۔ یہودیوں میں فقہ اور تصوف کی بے شک تدوین ہوئی مگر ایک ہزار سال کے بعد۔ یعنی حضرت عیسیٰؑ کے زمانہ سے چار سو سال پہلے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ اور تابعین نے ان علوم کی تدوین میں کمال کر دیا۔ تو بڑھاپا بھی آیا مگر کمال درجے کا۔ گویا صحابہؓ نے تینوں اَدوار کا اعلیٰ ترین نمونہ باقی دنیا کے لئے قائم کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی تاریخ پڑھ کر انسان کے دل پر ایسا گہرا اثر پڑتا ہے کہ کسی قوم کے حالات پڑھ کر وہ اثر محسوس نہیں ہوتا۔
اب اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اِسی کام کے سر انجام دینے کے لئے کھڑا کیا ہے جو صحابہؓ نے کیا تھا۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہمارا بچپن کیسا تھا؟ اور ہماری جوانی کیسی ہے؟ اگر بچپن اچھا نہ ہو تو انسان گھبراتا ہے کہ فلاں بات نہیں پوچھی، فلاں بات باقی رہ گئی۔ لیکن اگر بچپن کمال کا ہو تو تسلی ہوتی ہے کہ ہم نے جو کچھ پوچھنا تھا پوچھ لیا۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ صرف دو باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حل کرانی رہ گئی تھیں حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ وہ دوباتیں بھی حل ہو چکی تھیں۔ لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کے دلوں کو تسلی تھی کہ ہم نے باقی سب باتیں پوچھ لی ہیں صرف دو باتیں حل کرانی رہ گئی ہیں۔ مگر کیا کوئی دوسری قوم ایسی ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہم نے جو کچھ پوچھنا تھا پوچھ لیا؟ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم نے جو کچھ حل کروانا تھا کروا لیا؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم کہہ سکتی ہے کہ ہم نے جو کچھ حل کروانا تھا کروا لیا؟ اگر اب ان پر کوئی سوال پڑے تو وہ اِس کے لئے عقل دَوڑاتے ہیں۔ یہ نہیں کہ خدائی کتاب کی طرف رجوع کریں اور اُس سے جواب حاصل کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دشمنوں کےخلاف یہی حربہ استعمال کیا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ یہ لغو بات ہے کہ انسان اپنے پاس سے کوئی دعویٰ کرے یا کسی دعویٰ کی دلیل پیش کرے۔ بلکہ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ دعویٰ بھی اُسی کتاب سے پیش کرے جسے وہ مانتا ہے۔ دلیل بھی اُسی کتاب سے دے۔ لیکن اسلام کے سوا تمہیں کوئی مذہب ایسا نظر نہیں آئے گا جو دعویٰ بھی اُسی کتاب سے پیش کرے جس کو وہ مانتا ہے اور دلیل بھی اُسی کتاب سے دے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہماری جماعت میں صحابہؓ کا رنگ پایا جاتا ہے یا نہیں اور عملی طور پر ہماری جماعت صحابہؓ سے مشابہت رکھتی ہے یا نہیں؟ مخالف تو اعتراض کیا ہی کرتا ہے لیکن ہم جو ایک دوسرے کے خیر خواہ اور مُحِب ہیں کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ہم وہی کام کر رہے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی جماعتیں کیا کرتی ہیں اور جس کا اعلیٰ نمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ نے دکھایا؟ اگر دیانت داری کے ساتھ ہمارا جواب ہو‘‘ ہاں!’’ تو ہم سے زیادہ خوش قسمت اَور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اور اگر دیانت داری سے جواب ہو ۔ ‘‘نہیں’’ تو ہماری زمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں اور ہمیں بہت جلد اپنی اصلاح اور جماعت کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور ہمیں اپنی موجودہ قربانیوں کو بہت زیادہ بڑھا دینا چاہیے۔ ہم میں بہت سے ایسے ہیں جن کی زندگیاں شریف انسانوں کی طرح تو بسر ہو رہی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا ان کی زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ یا تابعین کی طرح ہو رہی ہے یا نہیں۔ مجھے جب کوئی کہتا ہے کہ فلاں شخص بڑا نیک ہے اُس سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی تو وہ یہ فقرہ کہہ کر مجھے اس کے متعلق خوش کرنا چاہتا ہے۔ مگر میرا دل جل جاتا ہے کہ یہ تو ایسا ہی ذلیل درجہ ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ فلاں شخص بدمعاش نہیں۔ فلاں شخص خبیث نہیں۔ یہ بھی کوئی تعریف ہے۔ اگر کوئی آدمی بادشاہ کے دربار میں جائے اور کہے اے بادشاہ! تُو خبیث نہیں۔ اے بادشاہ! تُو بدمعاش نہیں۔ اے بادشاہ! تُو لُچّا نہیں! تو بتاؤ وہ وہاں سے انعام لے کر نکلے گا یا مار کھا کر ۔
یہ چیزیں تو ساری سلبی ہیں یہ نفی کرتی ہیں اس کی خباثت کی۔ یہ نفی کرتی ہیں اس کی بدمعاشی کی۔اور نفی تعریف نہیں ہوا کرتی۔ بلکہ شریف انسان اس کو گالی سمجھتا ہے۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں احمدی ایسے ہیں جن کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے اندر وہ عیوب نہیں رکھتے جو اوباش لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ مگر کتنے ہیں جو دین کے لئے جوش اور اخلاص رکھتے ہیں اور رات دن اُن کو یہی دُھن لگی ہوئی ہو کہ دنیا میں اسلام اور احمدیت جلد پھیلے۔ وہ لوگوں سے حُسنِ سلوک سے پیش آتے ہوں۔ کمزوروں کی مدد کرتے ہوں۔ ضعیفوں کی طاقت کا موجب بنتے ہوں۔ گرے ہوئے کو اٹھاتے ہوں۔ بیواؤں کی خبر گیری کرتے ہوں۔ اور دنیا کو یہ محسوس ہوتا ہو کہ وہ اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے فائدہ کے لئے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم میں یہ بات ہو یا نہ ہو لیکن صحابہ کی زندگی میں تو ہمیں یہی نظر آتا ہے۔ پس جب تک ہم میں یہ رنگ نہیں پایا جاتا اُس وقت تک ہماری جوانی صحیح معنوں میں جوانی نہیں کہلا سکتی۔ بچپن کا زمانہ گزر گیا۔ بچپن میں اگر ہم نے اپنے فرائض ادا نہیں کئے تو یہ بہت بڑا نقص تھا۔ لیکن بچپن تو گزر گیا۔ اس کے بعد اب اگر ہماری جوانی بھی بے کار جائے تو بڑھاپا بہرحال خطرہ سے خالی نہیں ہوتا۔ اور ہماری مثال اُس شخص کی سی ہو گی جس پر جوانی آنے سےپہلے ہی بڑھاپا آجائے۔
پس قوم کی جوانی کی اپنی جوانی سے بڑھ کر حفاظت کرو ۔ہم دنیا کے سامنے دعویٰ تو پیش کرتے ہیں کہ ہم دنیا کی حفاظت کے لئے آئے ہیں، ہم دنیا کو امن دینے کے لئے آئے ہیں لیکن ہم کو دیکھنا چاہیےکہ کیا ہم اس قسم کے حالات پیدا کر رہے ہیں جن سے دنیا کو امن ملے؟ ہم کہتے تو یہ ہیں ہم دنیا میں اس لئے آئے ہیں کہ ہم غرباء کی کمزوریوں کو دور کریں اور انہیں ترقی کی راہوں پر چلائیں۔ لیکن سوچو تو کیا ہمیں غرباء کی کمزوریوں کو دور کرنے کی فکر دامنگیر رہتی ہے؟ میری نگاہ تو یہ دیکھ رہی ہے کہ صرف مرکز کے غرباء کے لئے بھی غلہ کا انتظام نہیں ہوتا۔ حالانکہ غرباء کی موجودگی میں جو فاقے کر رہے ہیں ہزاروں احمدی ایسے موجود ہیں جن کے بچے آٹے سے کھیلتے ہیں اور غرباء کے گھروں میں بچے ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہوتے ہیں۔ کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہماری جوانی کے ایام ایسے ہیں جن پر ہم فخر کر سکیں۔ جب تک حقیقی جوانی کے حالات پیدا نہیں ہوتے ہم فخر نہیں کر سکتے۔ اگر ہم اپنے منہ سے فخر کی باتیں کریں گے تو وہ ہماری ذلت کا موجب ہوں گی۔ ہم جتنا فخر کریں گے، جتنے دعوے کریں گے وہ سب ہمارے لئے گالیاں ہوں گی، وہ ہمارے لئے جُوتیاں ہوں گی جو ہم ریشم کے رومال میں لپیٹ کر اپنے سر پر مار رہے ہوں گے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب کوئی مرتا ہے اور اُس کے رشتہ دار اس پر نوحہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں تُو بڑا بہادر تھا، تُو بہت سخی تھا تو فرشے اُس کو نیزے کی ہُک مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بول تُو تھا بہادر؟ پھر نیزے کی ہُک مارتے ہیں اور کہتے ہیں بول تُو تھا سخی؟ اِس کا مفہوم یہی ہے کہ انسانی فطرت اگر زندہ اور صحیح ہو تو وہ ایسی تعریفوں پر شرمندہ ہوجاتی ہے۔ ایک انسان جو لالچ اور بخل سے بھرا ہوا ہو، اگر اسے کوئی کہے کہ یہ ہمارے اَن داتا ہیں، یہ ہمارے بڑے محسن ہیں اور یہ بہت ہی سخی ہیں تو اگراُس کی فطرت مُردہ ہو تو اَور بات ہے لیکن اگر اُس کی فطرت زندہ ہے تو اُس کا نفس یہ نہیں سمجھے گا کہ میری تعریف ہو رہی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص گھوڑے سے گِر پڑے اور لوگ کہیں کہ یہ بڑا شاہ سوار ہے تو وہ خوب سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میری تعریف نہیں کی جا رہی بلکہ مجھے طعنہ دیاجا رہا ہے۔ تو محض تقریروں سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا، محض جوش و خروش ظاہر کرنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک ہم حقیقی طور پر تبلیغ کی طرف متوجہ نہ ہوں، جب تک ہم حقیقی طور پر سوچ سمجھ کر کام نہ کریں، جب تک ہم حقیقی طور پر غریبوں کی فکر نہ کریں، جب تک ہم حقیقی طور پر بنی نوع انسان کے اندر امن پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ تب تک ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہماری قوم جوانی کے دن دیکھ رہی ہے۔ اگر اسلام ترقی نہیں کر رہا اور ہماری کوششوں کے باوجود دنیا میں اس رنگ میں مساوات پیدا نہیں ہو رہی جس رنگ میں اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ جوانی سے پہلے ہم پر بڑھاپا آگیا ہے۔
پس جماعت کو اپنی عملی حالت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ وقت سُرعت کے ساتھ گزر رہا ہے اور کئی کام ایسے ہیں جو ابھی تک روز اول میں سے گزر رہے ہیں۔ ’’
(الفضل مورخہ 23 ستمبر 1959ء)
1: قوتِ نامیہ: بڑھنے والی قوت
2: بخاری کتاب الجَنَائز باب مَا قِیْلَ فِی اَوْلَادِ الْمُشْرِکِیْنَ
3: الحج:6
4: المائدہ: 102

23
ہندوستانی لیڈر اپنی ہمسایہ قوم کو ایک انچ دینے کے لئے تیار نہیں
(فرمودہ 20 جولائی 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کےبعدفرمایا:
‘‘گزشتہ دنوں ہندوستان کے سیاسی لیڈر شملہ میں جمع ہوئے اور پھر اپنی ناکامی کا اقرا ر کرتے ہوئے منتشر ہو گئے۔ جہاں تک اختلاف کا سوال ہے وہاں تک تو خیر ایک انسان معذور بھی خیال کیا جا سکتا ہے اور سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ بعض اصول کی پچ رکھنے کی وجہ سے اپنے مدمقابل سے صلح نہیں کر سکا گوخالی ان لوگوں کا بغیر کسی کامیابی کے پراگندہ ہو جانا بھی ایک تشویشناک امر تھا۔ اور ہندوستان کی بدقسمتی پر دلالت کرتا تھا کہ اس کے چوٹی کے لیڈر ایسے وقت میں جبکہ آزادی دروازے پر کھڑی تھی چھوٹے چھوٹے اختلافات کی وجہ سے آپس میں اتحاد نہ کر سکے اور ہندوستان بدستور غلامی کے گڑھے میں گر رہا۔ لیکن اس ‘‘صلح کانفرنس ’’کے بعد جس قسم کے اخلاق کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ اس ناکامی سے بھی زیادہ تکلیف دِہ ہے۔ اِس اِس رنگ میں ایک دوسرے کے خلاف پھبتیاں اُڑائی گئی ہیں،خصوصاً ہندو پریس نے مسٹر جناح اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایسی باتیں کہی ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے آپس میں صلح اور محبت کے ساتھ مل بیٹھنا ایک ناممکن خیال معلوم ہوتاہے۔
بعض مسلمان اخبارات نے بھی اِسی حربہ سے کام لیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کو پسِ پُشت ڈال کر اپنے لئے ندامت اور شرمندگی کا سامان مہیا کیا ہے۔ مثلاً ایک اخبار گاندھی جی کا وہ لفظ جو ان کے نام کےساتھ ہوتا ہے یعنی ‘‘مہاتما’’ اس کو بدل کر ‘‘مہاطمع’’ لکھتا ہے۔ یعنی بڑی طمع اور بڑی حرص۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ان ہتھیاروں کے استعمال کے بعد آپس میں کسی سمجھوتہ پر پہنچ جانے کی امید کس طرح کی جا سکتی ہے۔ ان باتوں سے تو معلوم ہوتا ہے کہ دلوں میں اختلاف کو جاری رکھنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ ورنہ چاہیے تو یہ تھا کہ اس ناکامی کے بعد افسوس اور ندامت کی ایک ایسی رَو چل جاتی کہ ہر شخص یہ محسوس کرتا کہ ہندوستان آزادی لینے کے لئے بے تاب نظر آتا ہے مگر بجائے اِس کے کہ اصل معاملہ کے متعلق کسی قسم کا افسوس دل میں پیدا ہوتا، بجائے اس کے کہ اصل معاملہ کے متعلق کسی قسم کی تکلیف دل میں پیدا ہوتی، بجائے اس کے کہ یہ احساس پیدا ہوتا کہ ہم کامیاب نہیں ہوئے اور اہم مقاصد کو اپنے سامنے رکھنے کی بجائے ہم چھوٹی چھوٹی باتوں میں اُلجھ کر رہ گئے وہ ایک دوسرے پر گند اُچھالنے لگ گئے ہیں۔ اور اس طرح آئندہ کے لئے بھی اِس راستہ کو مسدود کر رہے ہیں۔
ملک کی یہ اخلاقی حالت جو ہندوؤں اور مسلمانوں نے دکھائی ہے نہایت افسوسناک ہے۔ مگر ایسے وقت میں ہم سوائے اِس کے کیا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے ملک کی اس مصیبت کو دور کرے۔ سب سے بڑی مصیبت تو اخلاق کی خرابی ہے۔ اور دوسری مصیبت یہ ہے کہ عظیم الشان مطالب کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے بھی لوگ اس قسم کی قربانیاں نہیں کرتے جس قسم کی قربانیاں انہیں کرنی چاہئیں۔ جہاں تک مَیں نے غور کیا ہے اس اختلاف میں دونوں طرف سے متضاد باتیں پیش کی جاتی رہی ہیں۔ یعنی کانگرس اپنے مسلّمہ اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ باتیں نہیں کہہ سکتی تھی جو اس نے کہیں اور بعض باتیں جو مسلم لیگ نے اس موقع پر پیش کیں وہ بھی اصول کے خلاف تھیں۔ اسی طرح وہ دعویٰ جو درمیان میں وزیر اعظم پنجاب نے پیش کیا اس دعویٰ کو بھی وہ اپنے مسلّمہ اصول کے مطابق پیش نہیں کر سکتے تھے۔ یہ تضاد بتاتا ہے کہ حقیقتاً ابھی تک سچی خواہش آزادی کی پیدا نہیں ہوئی۔ یا یہ بتاتا ہے کہ ہر شخص کے ذہن کے پیچھے کوئی ایسی بات ہے کہ وہ سمجھتا ہے میں اپنے مخالف کے دعووں کو رد کر کے بھی اپنے مقصد کو حاصل کر سکوں گا مجھے صلح کی طرف اپنا قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں ۔
میں نے جیسا کہ پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے آئندہ زمانہ میں ایسے حالات پیش آنے والے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی تو الگ رہی جو کچھ حقوق اسے حاصل ہیں ان کے بھی کھوئے جانے کا امکان نظر آتا ہے۔ اور جہاں تک میں لیڈروں کی تقریروں سے سمجھا ہوں ان کو بھی یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ خطرات آنے والے ہیں مگر باوجود خطرات کا احساس رکھنے کے وہ اس بات کے لئے تیار نہیں کہ ایک انچ اپنی ہمسایہ قوم کو دے دیں۔ لیکن وہ اس بات پر آمادہ ہیں کہ سارا ملک غیر قوموں کے ہاتھ میں چلا جائے۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان نازک حالات میں زیادہ سے زیادہ دعاؤں سے کام لیں۔ جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے ہمیں ان سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں۔ مگر آنے والے واقعات صرف سیاست پر ہی اثر انداز نہیں ہوں گے بلکہ مذہب پر بھی اثر ڈالنے والے ہوں گے اس لئے ہمیں ان سیاسی معاملات سے جن سے براہ راست ہمارا کوئی تعلق نہیں صرف اس لئے دلچسپی ہے کہ ان کا اثر لَوٹ کر مذہب پر پڑنے والا ہے۔
پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ خصوصیت سے اِن دنوں دعاؤں میں مشغول ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عجز اور انکسار سے یہ عرض کرے کہ اے خدا! آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنا ہماری طاقت سے باہر ہے۔ کیونکہ وہ سیاسیات سے وابستہ ہیں۔ اور سیاسیات میں ہمارا دخل نہیں بلکہ اور لوگوں کا دخل ہے اور جن کا ان معاملات میں دخل ہے وہ کچھ ایسے سخت دل ہو گئے ہیں کہ عظیم الشان امور کو چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے قربان کر رہے ہیں۔ الٰہی! یا تو ان لوگوں کےد لوں کو تُو بدل دے یا پھر ان کی جگہ تُو دوسرے لیڈروں کو لا جوملک کو امن اور صلح کی طرف لے جانے والے ہوں۔
اب صلح دو ہی طرح ہو سکتی ہے یا تو اس طرح صلح ہو سکتی ہے کہ دلوں کی صفائی ہوجائے۔ اور اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایسی توفیق عطا فرمائے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی بجائے اہم مقاصد کو اپنے سامنے رکھیں اور اس بات کے لئے آمادہ ہو جائیں کہ ہم پیار اور محبت سے رہیں گے۔ اور یا پھر صلح اس طرح ہو سکتی ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں لیڈری کی باگ ڈور ہے اللہ تعالیٰ ان کو بدل دے اور ان کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آئے جو صلح اور امن کے خواہاں ہوں اور اس اہم مقصد کے لئے وہ ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ پہلے توہمیں یہی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کوجنہوں نےاپنے ملک کی ایک حد تک خدمت کی ہے توفیق عطا فرمائے کہ وہ صلح اور امن کی صورت پیدا کریں۔ اور چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ملک کو آزادی سے محروم نہ کریں۔ لیکن اگر ان کے دلوں کی اصلاح نہ ہو تو ملک کی آزادی بہرحال مقدم ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے کسی مخفی گناہ کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور اب ان کی اصلاح ناممکن ہو چکی ہے تو اللہ تعالیٰ سے ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ ان کی بجائے ایسے لیڈر کھڑے کر دے جو خداتعالیٰ کے کسی عذاب کے ماتحت نہ ہوں بلکہ ملک میں صلح اور امن پیدا کرنے کا موجب ہوں۔
اس کے بعد میں ایک مقامی بات کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ کچھ دن ہوئے میرے پاس ایک شکایت پہنچی ہے۔ غالباً دارالبرکات غربی کے خدام الاحمدیہ کی طرف سے ان کے صدر کے پاس ایک شکایت کی گئی جس کی ایک نقل شکایت کنندہ نے میرے پاس بھی بھیج دی ہے۔ وہ شکایت یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ کے چندہ کے لئے جب نوجوان انصار اللہ کے پاس گئے تو انہوں نے نہ صرف چندہ دینے سے انکار کیا بلکہ قسم قسم کے طعنے بھی دیئے کہ تمہارا ہمارے ساتھ کیا واسطہ ہے۔ تم خدام ہو اور ہم انصار ہیں۔ تم خدام ہمارا کیا کام کرتے ہو کہ جس کے بدلہ میں ہم تمہیں چندہ دیں۔ اگر یہ رپورٹ درست ہے تو جہاں تک چندہ کا سوال ہے میں خدام سے یہ کہوں گا کہ ان کے لئے اِس بات پر بُرا منانے کی وجہ ہی کیا تھی۔ خدام سب کے سب اطفال تو نہیں ہیں۔ اطفال الاحمدیہ اور خدام الاحمدیہ میں فرق ہے۔ خدام الاحمدیہ سے مراد وہ تمام نوجوان ہیں جو پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر کے ہیں اور یہ ظاہر بات ہے کہ چالیس سال کی عمر تک نوجوان بیکار نہیں رہتے۔ بالعموم اٹھارہ، انیس یا بیس سال کی عمر میں وہ کام پر لگ جاتے ہیں گویا 15 سال کی عمر سے خدام الاحمدیہ کی جماعت کے ممبر شروع ہوتے ہیں۔ بیس سال کی عمر تک وہ کسی نہ کسی کام پر لگ جاتے ہیں۔ اور 25سال تک وہ اس جماعت میں شامل رہتے ہیں۔ ان میں سے پانچواں حصہ ایسے خدام کا لیا جا سکتا ہے جو برسرِکار نہیں۔ لیکن باقی 5/4 یعنی اسّی فیصدی حصہ ایسے نوجوانوں کا بھی ہے جو کام پر لگے ہوئے ہیں۔ اگر تو خدام الاحمدیہ کی جماعت پندرہ سولہ یا سترہ اٹھارہ سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہوتی تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم تو کماتے نہیں ہم اپنے لئے روپیہ کہاں سے لائیں۔ ہم نے تو بہرحال بڑوں سے مانگنا ہے۔ مگر جبکہ خدام الاحمدیہ کے ممبر وہ تمام نوجوان ہیں جو پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر کے ہیں اور ان میں سے اسّی فیصدی نوجوان ایسے ہیں جو ملازمتیں رکھتے ہیں یا تجارتی کاروبار میں مصروف ہیں تو انہیں اپنے کاموں کے لئے دوسروں سے مانگنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔ اگرمرکزی دفاتر کے کارکنوں اور قادیان کے دکانداروں کو ہی دیکھا جائے تو میں سمجھتا ہوں ان میں سینکڑوں کی تعداد ایسے لوگوں کی نکلے گی جو اپنی عمر کے لحاظ سے خدام الاحمدیہ میں شامل ہیں۔ اور جب اس کثرت کے ساتھ برسرکار افراد خدام الاحمدیہ کی تنظیم میں شامل ہیں تو میرے نزدیک نوجوانوں کو اپنا بوجھ خود اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آخرکیا وجہ ہے کہ وہ انصار کے پاس جائیں اور اُن سے اپنے لئے چندہ مانگیں۔ ہر شخص کے اندر غیرت ہونی چاہیے اور ہر جماعت کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی ضروریات اپنے افراد کے ذریعہ پوری کرے۔ سوائے اس کے کہ کوئی ایسا کام پیش آجائے جس کا بوجھ وہ خود نہ اٹھا سکتی ہو اور جس کے لئے دوسروں کی امداد کے بغیر گزارہ نہ ہو ورنہ عام دفتری ضرورتوں کے لئے جو چندے کرنے پڑتے ہیں وہ بہرحال جماعت کی طاقت کے اندر ہوتے ہیں اور ان کو پورا کرنا ہر جماعت کا اپنا فرض ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ باوجود اِس کے کہ قادیان میں سے پندرہ سَو بلکہ اِس سے بھی کچھ زیادہ رنگروٹ (Recruit)باہر جا چکا ہے۔ اگر اب بھی گنا جائے تو قادیان میں نوجوانوں کی تعداد بہت کافی نکل آئے گی۔ اگر وہ معمولی رقوم بھی چندہ میں ادا نہ کر سکیں تو یہ ان کا اپنے منہ سے اپنی شکست کا اقرار کرنا ہو گا۔ پس میرے نزدیک اول تو ان کو انصار اللہ کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے۔ اور اگر گئے تھے تو ان کے انکار پر برا نہیں منانا چاہیے تھا۔ جو شخص اپنی حد سے آگے نکل جائے اسے لازماً اِس قسم کا تلخ جواب سننا پڑتاہے۔ اگر کوئی شخص دوسرے کے پاس جائے اور اُسے کہے کہ اپنا مکان میرے لئے خالی کر دو اور وہ آگے سے انکار کر دے تو بجائے اِس کے کہ کوئی مکان والے کو ملامت کرے ہر شخص اِسی قسم کا مطالبہ کرنے والے سے کہے گا کہ تم گئے ہی کیوں تھے؟ اور کیوں تم نے اس سے یہ مطالبہ کیاکہ اپنا مکان خالی کر دو؟ اور اگر اُس نے انکار کر دیا ہے تو بہرحال برا منانے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس کا حق تھا کہ وہ تمہیں کہے کہ تم اپنے گھر بیٹھو میں تمہاری اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔
پس میرے نزدیک انصاراللہ سے چندہ مانگ کر خدام الاحمدیہ نے غلطی کی۔ خدام الاحمدیہ کی جو عمر میں نے مقرر کی تھی وہ ایسی نہیں کہ ان کے پاس برسرکار نوجوانوں کی کمی ہو اور اس بات پر مجبور ہوں کہ چالیس سال سے بڑی عمر والوں سے بھی اپنی ضروریات کے لئے چندہ کا مطالبہ کریں۔ چالیس سال ایسی عمر ہے کہ جس میں ایک ملازم شخص اپنی ملازمت کی اکثر عمر گزار چکا ہوتا ہے۔ بیس سال کی عمر میں عموماً ملازمت اختیار کی جاتی ہے اور پچپن سال کی عمر میں پنشن ہو جاتی ہے۔ گویا ملازمت والی عمر میں سے بیس سال میں نے خدام الاحمدیہ کو دیئے ہیں اور پندرہ سال انصار کو دیئے ہیں۔ لوگوں کی بیس سالہ ملازمت سے خدام فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور لوگوں کی پندرہ سالہ ملازمت سے انصار فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور جبکہ چالیس سال تک کی عمر کے تمام نوجوان خدام الاحمدیہ میں شامل ہیں اور جبکہ نوجوانوں کی بیس سالہ ملازمت سے وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس کے مقابل میں انصار کو عمر کا صرف وہ حصہ دیا گیا ہے جس میں وہ پندرہ سال تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اپنے اخراجات کے لئے انصار اللہ کے پاس جاتے اور اُن سے چندے کا مطالبہ کرتے۔ لیکن اگر وہ گئے ہی تھے تو انصار کا جواب بھی مجھے اُس کشمیری کا واقعہ یاد دلاتا ہے جو ہمارے ملک میں ایک مشہور مثال کے طور پر بیان کیا جاتاہے۔ خدام الاحمدیہ کوہ قاف سے آنے والی پریوں کانام نہیں۔ بلکہ خدام الاحمدیہ نام ہے ہمارے اپنے بچوں کا۔ اور خدام الاحمدیہ کے سپرد یہ کام ہے کہ وہ بچوں کو محنت کی عادت ڈالیں اور ان میں قومی روح پیدا کریں، ان کے سپرد یہ کام نہیں گو اخلاقاً یہ بھی ہونا چاہیئے کہ وہ بحیثیت خدا م کے بھی لوکل انجمن کے ساتھ مل کر کام کریں کیونکہ خدام الاحمدیہ کا ہر ممبر مقامی انجمن کا بھی ممبر ہوتا ہے۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کی وجہ سے لوکل انجمن کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا۔ ہر احمدی جو چالیس سال سے کم عمر کا ہے وہ خدام الاحمدیہ کا ممبر ہے۔ ہر احمدی جو چالیس سال سے اوپر ہے وہ انصار اللہ کا ممبر ہے۔ اور ہر احمدی جو چالیس سال سے نیچے یا چالیس سے اوپر ہے وہ مقامی انجمن کا بھی ممبر ہے۔ اس سے کوئی علیحدہ چیز نہیں۔ پس خدام الاحمدیہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ جماعت احمدیہ مقامی کے ممبر نہیں ہیں یا انصار اللہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ جماعت احمدیہ مقامی کے ممبر نہیں ہیں۔ بلکہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے مجموعے کا نام مقامی انجمن ہے۔ مثلاً لاہور کی انجمن ہے یا دہلی کی انجمن ہے۔ یا پشاور، گجرات اور سیالکوٹ کی انجمن ہے یا امرتسر کی انجمن ہے۔ ان انجمنوں کے کیا معنے ہیں؟ ان انجمنوں کے معنے یہ ہیں کہ فرداً فرداً ہر شخص جو چالیس سال سے کم عمر کا ہے وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہے اور فرداً فرداً ہر شخص جو چالیس سال سے زیادہ عمر کا ہے وہ انصار اللہ میں شامل ہے۔ مگر ان خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے مجموعے کا نام ہے جماعت احمدیہ لاہور یا جماعت احمدیہ دہلی یا جماعت احمدیہ پشاور یا جماعت احمدیہ گجرات یا جماعت احمدیہ سیالکوٹ یا جماعت احمدیہ امرتسر۔پس میں تو سمجھ ہی نہیں سکا کہ اِس میں اختلاف کی کونسی بات ہے یا کس بناء پر خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ آپس میں اتحاد نہیں کر سکتے۔
خدام الاحمدیہ کے معنے صرف اتنے ہیں کہ وہ نوجوانوں کو آوارہ گردی سے بچائیں اور انہیں کام کی عادت ڈالیں۔ بے شک ان میں نقائص بھی ہیں مگرجہاں تک میرا تجربہ ہے اور جو روایتیں میں نے سُنی ہیں اُن کی بناء پر میں کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ خدام الاحمدیہ میں صحیح طور پر شامل ہوتے ہیں ان میں کام کرنے کی عادت ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔ ذاتی طور پر بھی مَیں نے دیکھا ہے کہ خدام الاحمدیہ میں جن نوجوانوں کو کام کرنے کا موقع ملا ہے وہ بہت زیادہ ذہین اور بہت زیادہ تجربہ کار ہو گئے ہیں اور اب بڑے بڑے کام ان کے سپرد کئے جا سکتے ہیں۔ مجھے ایک کارخانہ والوں نے بتایا کہ انہوں نے خدام الاحمدیہ کے ایک کارکن کو ملازم رکھا تو وہ کام کا اتنا عادی ثابت ہوا کہ نہ وہ رات کو رات سمجھتا اور نہ دن کو دن بلکہ دوسرے انسانوں سے علیحدہ معلوم ہوتا۔ یہی خدام الاحمدیہ کی غرض ہے کہ وہ نوجوانوں میں کام کرنے کی عادت پیدا کریں۔ پس یہ تو نہیں کہ دارالبرکات کے خدام کوہِ قاف سے آئے ہوئے ہیں جو دوسروں سے الگ ہیں اور یہ بھی نہیں کہ دارالبرکات کے خدام دارالفضل یا دارالرحمت سے آئے ہوئے ہوں کہ لوگ کہہ سکیں ہمیں ان سے کیا غرض ہے۔ پس وہ جنہوں نے کہا کہ ہم انصار کو تم خدام سے کیا غرض ہے اُنہیں سوچنا چاہیے تھا کہ خدام الاحمدیہ کوئی الگ چیز نہیں بلکہ خدام الاحمدیہ ان کے اپنے بیٹوں کا نام ہے۔ پس جب انہوں نے کہا کہ ہمیں خدام الاحمدیہ سے کیا غرض ہے تو دوسرے الفاظ میں انہوں نے یہ کہا کہ ہمیں اس سے کیا غرض ہے کہ ہمارے بیٹے جیتے ہیں یا مرتے ہیں۔ مگرکیا کوئی بھی معقول انسان ایسی بات کر سکتا ہے؟ خدام الاحمدیہ کی جماعت تو صرف نوجوانوں کی اصلاح کے لئے قائم کی گئی ہے۔ ایسی صورت میں وہ کونسے ماں باپ ہیں جو یہ کہہ سکیں کہ ہم اپنے بیٹوں کی اصلاح ضروری نہیں سمجھتے، ہم نہیں چاہتے کہ ان میں قومی روح پیدا ہو، ہم نہیں چاہتے کہ ان میں کام کرنے کی عادت پید اہو، یا ہم نہیں چاہتے کہ ایک تنظیم میں شامل ہونے کی وجہ سے ان میں اطاعت کا مادہ پیدا ہو۔
میں نے بتایا ہے کہ مجھے انصار اللہ کے جواب پر ایک کشمیری کی مثال یاد آگئی۔ کہتے ہیں ایک کشمیری پنجاب میں آیا، گرمی کا موسم تھا جیٹھ ہاڑ کے دن تھے کہ ایک دن وہ چلچلاتی دھوپ میں بیٹھ گیا۔ کوئی مسافر پاس سے گزرا تو اُس نے یہ دیکھ کر کہ ایسی سخت گرمی میں یہ شخص دھوپ میں بیٹھا ہے حالانکہ پاس ہی ایک دیوار کا سایہ موجود ہے کشمیری سے کہا کہ میاں کشمیری! تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ تمہارے پاس ہی فلاں جگہ سایہ ہے اس کے نیچے بیٹھ جاؤ۔ کشمیری صاحب نے یہ سنتے ہی اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور کہا کہ اگر میں وہاں جا بیٹھوں تو تم مجھے کیا دو گے؟ یہی دارالبرکات کے انصار کا حال ہے۔ان سے کہا گیا کہ آؤ ہم تمہارے بیٹوں کی اصلاح کی طرف توجہ کریں۔ انہوں نے جواب میں کہا تم ہمیں دیتے کیا ہو کہ ہم تمہیں چندہ دیں۔ یہ کہنا کہ خدام الاحمدیہ کیا کام کرتے ہیں؟ میرے نزدیک درست نہیں کیونکہ جہاں تک میرا تجربہ ہے اِس وقت تک انصار نے بہت کم کام کیا لیکن خدام نے ان سے زیادہ کیا ہے۔ گو وہ اپنے کام کے لحاظ سے اُس حد تک نہیں پہنچے جس حد تک میں انہیں پہنچانا چاہتا ہوں۔ مگر بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انصار نے خدام الاحمدیہ کی تنظیم اور ان کے کام کے مقابلہ میں دس فیصدی کام بھی نہیں کیا۔ گو اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انصار کی تنظیم خدام کے کئی سال بعد شروع ہوئی ہے۔ میں نے ان کو بھی بار بار توجہ دلائی ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ انصار اللہ نے ابھی تک اپنے فرائض کو نہیں سمجھا۔ میں نے کہا تھا کہ چونکہ بوڑھے آدمی زیادہ کام نہیں کر سکتے اس لئے بڑی عمر والوں کے ساتھ ایسے سیکرٹری مقرر کر دینے چاہئیں جو اکتالیس یا بیالیس سال کے ہوں تا کہ ان کے کام میں بھی تیزی پیدا ہو۔ کچھ دن ہوئے میں نے انصار اللہ کے ایک ممبر سے پوچھا کہ میری اس تجویز کے بعد بھی انصار اللہ میں بیداری پیدا نہیں ہوئی اس کی کیا وجہ ہے؟ اس نے بتایا کہ سیکرٹری تو مقرر کر دیئے گئے ہیں مگر ابھی ان کے سپرد کام نہیں کیا گیا۔ بہرحال انصار اللہ کا وجود اپنی جگہ نہایت ضروری ہے کیونکہ تجربہ جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے۔ اسی طرح امنگ اور جوش جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے۔ خدام الاحمدیہ نمائندے ہیں جوش اور امنگ کے اور انصاراللہ نمائندے ہیں تجربہ اور حکمت کے۔ اور جوش اور امنگ اور تجربہ اور حکمت کے بغیر کبھی کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پس مجھے تعجب ہے انصار اللہ کے اِس جواب پر اور مجھے تعجب ہے خدام الاحمدیہ کی اس کم ہمتی پر۔ اور میں حیران ہوں کہ وہ ان کے پاس مانگنے ہی کیوں گئے تھے اور اگر انہوں نے کچھ دینے سے انکار کیا تھا تو کیوں انہوں نے اس انکار کو خوشی سے برداشت نہ کرلیااور سارے اخراجات کو اپنے اوپر نہ لے لیا۔ میں تو سمجھتا ہوں اگر وہ نوجوانوں سے اپنی ضروریات کے لئے ہزارہا روپیہ بھی جمع کرنا چاہیں تو آسانی سے جمع کر سکتے ہیں۔ اِس وقت ان کے سارے سال کا خرچ چار پانچ ہزار روپیہ سے زیادہ نہیں ہو گا۔ کیا اتنی معمولی رقم بھی وہ جمع نہیں کر سکتے؟ میں تو سمجھتا ہوں اگر وہ صحیح طور پر کام کریں تو چوبیس پچیس ہزار روپیہ سالانہ بہ سہولت جمع کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ان پر کوئی مشکل آئی بھی تھی تو انہیں ایسے لوگوں کو مخاطب کرنا چاہیےتھا جو بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ کام کرتے۔ اور اگر بِالفرض روپیہ کی کمی کی وجہ سے ان کے کام بالکل ہی رُک جاتے تب بھی ان کے لئے گلے اور شکوہ کی کوئی بات نہیں تھی۔ بچے مصائب اور مشکلات کے وقت ہمیشہ اپنے ماں باپ کے پاس جاتے ہیں۔ اگرخدام الاحمدیہ جماعت کی حقیقت کو سمجھتے تو اگر ان کے جسمانی ماں باپ نے یہ کہہ دیا تھا کہ ہمیں اپنے بچوں کی کوئی پروا نہیں، ہم ان کی ضروریات کے لئے کوئی چندہ نہیں دے سکتے تو خدا نے اِس جماعت کو یتیم نہیں بنایا تھا وہ اپنے روحانی باپ کے پاس جاتے اور اسے کہتے کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں رہا۔ اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ اپنے روحانی باپ کے پاس جاتے تو اس کی طرف سے انہیں وہ جواب نہ ملتا جو انہیں اپنے جسمانی ماں باپ سے ملا۔ وہ محبت اور پیار کے ساتھ تمہاری ضرورتوں کو پورا کرتا اور تمہیں یہ شکوہ پیدا نہ ہوتا کہ ہم اپنے کاموں کو کس طرح چلائیں یا اپنی ضروریات کو کس طرح پورا کریں۔ مجھے جہاں اس بات پر خوشی ہوتی ہے کہ خدام عمدہ سکیمیں تیار کرتے رہتے ہیں وہاں میں نے بارہا اس امر پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ خدام الاحمدیہ کو جتنا مشورہ مجھ سے لینا چاہیے اُتنا مشورہ وہ نہیں لیتے۔ اگرلیتے تو وہ زیادہ اچھا کام کر سکتے اور زیادہ عمدگی سے اپنی ضرورتوں کو پورا کر سکتے۔
پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو مشترک طور پر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ چونکہ بعض دفعہ باہر بھی ایسے جھگڑے پیدا ہوئے ہیں اس لئے میں خدام کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ صرف خدام الاحمدیہ کے ممبر نہیں بلکہ مقامی جماعت کے بھی ممبر ہیں۔ خدام الاحمدیہ کا کام لوکل انجمن کے کام کے علاوہ زائد طور پر ان کے سپرد کیا گیا ہے۔ پس مقامی انجمن کے جو عہدیدار ہوں خواہ وہ سیکرٹری ہوں یا پریذیڈنٹ ان کے احکام کی پیروی ہر خادم کے لئے ضروری ہے۔ البتہ کوئی سیکرٹری یا کوئی پریذیڈنٹ جماعتی طو رپر خدام الاحمدیہ کو کسی کام کا حکم دینے کا مجاز نہیں۔ وہ فرداً فرداً تو انہیں کہہ سکتا ہے کہ آؤ اور فلاں کام کرو مگر لوکل انجمن کا پریذیڈنٹ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ خدام کو بحیثیت خدام یہ کہے کہ آؤ اور فلاں کام کرو۔ اُس کو چاہیے کہ اگر خدام الاحمدیہ سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو اُن کے زعیم کو مخاطب کرے اور کہے کہ مجھے فلاں کام کے لئے خدام کی مدد کی ضرورت ہے۔ اور زعیم کا فرض ہے کہ وہ لوکل انجمن کے پریذیڈنٹ کے احکام کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدام الاحمدیہ کو جماعت میں تفرقہ اور شقاق کا موجب بناتا ہے۔ اسی طرح انصار اللہ گو تنظیم کے لحاظ سے علیحدہ ہیں مگر بہرحال وہ لوکل انجمن کا ایک حصہ ہیں ان کو بھی کوئی پریذیڈنٹ بحیثیت جماعت حکم نہیں دے سکتا۔ ہاں فرداً فرداً وہ انصار اللہ کے ہر ممبر کو اپنی مد دکے لئے بلا سکتا ہے۔ اور انصار اللہ کا فرض ہے کہ وہ لوکل انجمن کے ہر پریذیڈنٹ کے ساتھ پورے طور پر تعاون کریں۔
بہرحال کوئی پریذیڈنٹ انصار اللہ کو بحیثیت انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کو بحیثیت خدام الاحمدیہ کسی کام کا حکم نہیں دے سکتا۔ وہ یہ تو کہہ سکتاہے کہ چونکہ تم احمدی ہو اس لئے آؤ اور فلاں کام کرو۔ مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ آؤ انصار! یہ کام کرو۔ یا آؤ خدام! یہ کام کرو۔ خدام کو خدام کا زعیم مخاطب کر سکتا ہے اور انصار کو انصار کا زعیم مخاطب کر سکتا ہے۔ مگر چونکہ لوکل انجمن اِن دونوں پر مشتمل ہوتی ہے انصار بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور خدام بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اس لئے گو وہ بحیثیت جماعت خدام اور انصار کو کوئی حکم نہ دے سکے مگر وہ ہر خادم اور انصار اللہ کے ہر ممبر کو ایک احمدی کی حیثیت سے بلا سکتا ہے اور خدام اور انصار دونوں کا فرض ہے کہ وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں۔
میں حیران ہوں کہ جہاں باقی مقامات پر آرام سے کام چل رہا ہے وہاں قادیان میں کیوں اختلاف پیدا ہو گیا۔ یہاں تو علاوہ محلّوں کی انجمنوں کے ایک لوکل انجمن بھی موجود ہے۔ اگر دارالبرکات کے انصار اپنے فرائض کو سمجھنے کے قابل نہیں تھے یادارالبرکات کے جو خدام ہیں ان میں سےبعض کے ساتھ وہ صلح اور محبت سے کام نہیں کر سکتے تھے۔ تو پریذیڈنٹ کا فرض تھا کہ وہ اس جھگڑے کو دور کرتا۔ درحقیقت اگر ایسے مواقع پیش آجائیں تو اُس وقت بہترین طریق یہ ہوتا ہے کہ پریذیڈنٹ جھگڑے کو نپٹانے کی کوشش کرے۔ مثلاً جب قادیان کےا یک محلہ میں یہ جھگڑا پیدا ہو گیا تھا تو اُس وقت لوکل انجمن کے پریذیڈنٹ کا فرض تھا کہ اس جھگڑے کو دور کر نے کی کوشش کرتا۔ وہ مقامی پریذیڈنٹ کو بھی بلاتا، انصار اور خدام کے زعماء کو بھی بلاتا۔ اور پھر اگر ضروری سمجھتا تو مرکز کو لکھ کر انصار اور خدام کا ایک ایک نمائندہ بلایا جاتا اور تحقیق کر کے فیصلہ کیا جاتا کہ قصور کس کا ہے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ نہ قادیان کی لوکل انجمن نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا، نہ خدام نے اس جھگڑے کو دور کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ انصار اللہ نے اس طرف کوئی توجہ کی۔ حالانکہ یہ جھگڑے اگر اِسی طرح بڑھتے چلے جائیں اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کا وجود جماعت میں دو نئی جماعتیں پیدا کرنے کا موجب بن جائے تو یہ تنظیم بجائے انعام کے ہمارے لئے وبال بن جائے گی۔ اور بجائے اتحاد کو ترقی دینے کے ہم میں تفرقہ اور تنزل پیدا کر دے گی۔ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو دو علیحدہ علیحدہ وجود نہیں بنایا گیا بلکہ ایک کام اور ایک مقصد کے لئے ان کے سپرد دو علیحدہ علیحدہ فرائض کئے گئے ہیں۔ اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گھر میں سے کسی کے سپرد خدمت کا کوئی کام کر دیا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ اُس کا کوئی مستقل وجود گھر میں پیدا ہو گیا ہے بلکہ وہ بھی جانتا ہے اور دوسرے لوگ بھی جانتے ہیں کہ وہ گھر کا ایک حصہ ہے۔ صرف کام کو عمدگی سے چلانے کے لئے اس کے سپرد کوئی ڈیوٹی کی گئی ہے۔ اسی طرح خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں مقامی انجمن کے بازو ہیں۔ اور ہر شخص کو خواہ وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہو یا انصار اللہ میں اپنے آپ کو محلہ کی یا اپنے شہر کی یا اپنے ضلع کی انجمن کاایک فرد سمجھنا چاہیے۔ اور بجائے اس کے ساتھ ٹکرانے کے صلح اور آشتی سے کام لینا چاہیے۔ میں نے بتایا ہے کہ جب اِس قسم کا کوئی اختلاف پیدا ہواُس وقت پریذیڈنٹ پر اختلاف کو دور کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر ضلع میں جھگڑا ہو تو ضلع کے پریذیڈنٹ کا، شہر میں جھگڑا ہو تو شہر کے پریذیڈنٹ کا، محلہ میں جھگڑا ہو تو محلہ کے پریذیڈنٹ کا فرض ہے کہ وہ دونوں فریق کو جمع کرے اور ان کے شکوے سن کر باہمی اصلاح کی کوشش کرے۔ اور اگر اس سے اصلاح نہ ہو سکے تو وہ لوکل انجمن کے سامنے معاملہ رکھے۔ اور پھر لوکل انجمن کا فرض ہے کہ وہ لوکل مجلس انصار اللہ اور لوکل مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک ایک نمائندہ بلوائے اور اس طرح مل کر جھگڑے کو دور کرنے کی کوشش کرے۔
درحقیقت ہماری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے قیام سے یہ ہے کہ جماعت کو ترقی حاصل ہو۔ یہ غرض نہیں کہ تفرقہ اور شقاق پیدا ہو۔ پس میرے نزدیک اس معاملہ میں خدام الاحمدیہ کی بھی غلطی ہے، انصار اللہ کی بھی غلطی ہے ،لوکل انجمن کی بھی غلطی ہے اور اگر اس رنگ میں یہ معاملہ لوکل انصار اللہ تک پہنچ گیا تھا تو پھر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی بھی غلطی ہے کہ اس نے اس جھگڑے کو دور نہ کیا۔ آخر جب کوئی نہ کوئی جھگڑا پیدا ہوتا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ بغیر کسی سبب کے ہی جھگڑا پیدا ہو جائے۔ جب کسی انسان کے پیٹ میں درد ہوتا ہے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کے اندر ضرور کوئی نقص پیدا ہو گیا ہے۔ یا اس کی انتڑیوں میں نقص ہے یا معدہ میں نقص ہے یا جگر میں پھوڑا ہے یا پتہ میں پتھری ہے یا گُردہ میں پتھری ہے۔ بہرحال کوئی نہ کوئی پیٹ درد کی وجہ ہو گی۔ اِسی طرح جب لڑائی ہو جاتی ہے یا تفرقہ اور شقاق کی کوئی صورت رونما ہوتی ہے۔ تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بات ہوتی ہے۔ بعض دفعہ وہ بات اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ سننے والا حیران رہ جاتا ہے۔ مگر بہرحال چونکہ وجہ موجود ہوتی ہے اس لئے جب تک اس کا ازالہ نہ کیا جائے تفرقہ اور شقاق دور نہیں ہوتا۔
میری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ ہے کہ عمارت کی چاروں دیواروں کو میں مکمل کر دوں۔ ایک دیوار انصار اللہ ہیں۔ دوسری دیوار خدام الاحمدیہ ہیں اور تیسری دیوار اطفال الاحمدیہ ہیں اور چوتھی دیوار لجنات اماء اللہ ہیں۔ اگر یہ چاروں دیواریں ایک دوسری سے علیحدہ علیحدہ ہو جائیں تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہو سکے گی۔ عمارت اُس وقت مکمل ہوتی ہے جب اُس کی چاروں دیواریں آپس میں جُڑی ہوئی ہوں۔ اگر وہ علیحدہ علیحدہ ہوں تو وہ چار دیواریں ایک دیوار جتنی قیمت بھی نہیں رکھتیں۔ کیونکہ اگر ایک دیوار ہو تو اُس کے ساتھ ستون کھڑا کر کے چھت ڈالی جا سکتی ہے لیکن اگر ہوں تو چار دیواریں لیکن چاروں علیحدہ علیحدہ کھڑی ہوں تو اُن پر چھت نہیں ڈالی جا سکے گی۔ اور اگر اپنی حماقت کی وجہ سے کوئی شخص چھت ڈالے گا تو وہ گر جائے گی کیونکہ کوئی دیوار کسی طرف ہو گی اور کوئی دیوار کسی طرف۔ ایسی حالت میں ایک دیوار کا ہونا زیادہ مفید ہوتا ہے بجائے اس کے کہ چار دیواریں ہوں اور چاروں علیحدہ علیحدہ ہوں۔
پس خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنے آپ کو تفرقہ اور شقاق کا موجب نہیں بنانا چاہئے۔ اگر کسی حصہ میں شقاق پیدا ہوا تو خدا تعالیٰ کے سامنے تو وہ جواب دہ ہوں گے ہی۔ میرے سامنے بھی وہ جواب دہ ہوں گے یا جو بھی امام ہو گا اس کے سامنے انہیں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ کیونکہ ہم نے یہ مواقع ثواب حاصل کرنے کے لئے مہیا کئے ہیں۔ اس لئے مہیا نہیں کئے کہ جماعت کو جو طاقت پہلے سے حاصل ہے اُس کو بھی ضائع کر دیا جائے۔ ’’ (الفضل 30 جولائی 1945ء)

24
جماعت احمدیہ کی فتح اور کامیابی کے لئے ایک نیا قدم اور نئی قربانیوں کا وقت
(فرمودہ 27 جولائی 1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘اللہ تعالیٰ کی بعض باتیں اپنے اندر لطیفے کا رنگ رکھتی ہیں۔ یعنی گو وہ واقعات کے لحاظ سے تو اہمیت نہیں رکھتیں لیکن ان میں ایک قافیے اور تلازمہ کا رنگ پایا جاتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں جہاں تک اس کے مضامین اور مطالب کا تعلق ہے اس میں کسی رِدَم (Rhythm) یا وزن کا پایاجانا ضروری نہیں۔ جس سے ہمیں معلوم ہو کہ اس کی نثر اپنے اندر شاعرانہ رنگ رکھتی ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے قرآن مجید کو نہ صرف ان اندرونی حکمتوں سے پُر کیا ہے جو انسان کی سمجھ اور عقل کو جِلا بخشتی ہیں اور انسان کے فہم و فراست کو قوت دیتی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ظاہر میں بھی ایک ایسا توازن قائم کیا ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ مضامین آپس میں وابستہ اور ہم رشتہ ہیں اور اُچھلتے کُودتے آگے کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دوسری باتوں میں بھی بسا اوقات ایک تلازمہ کا رنگ پایا جاتا ہے۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ ایک چھوٹی سی چیز کو اللہ تعالیٰ نے انسانی دماغ کو راحت اور خوشی پہنچانے کے لئے دوسری چیز کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ گو اس جوڑ میں کوئی معنوی حکمت نظر نہیں آتی لیکن اس کے ساتھ ایک قسم کی لذت اور راحت ضرور محسوس ہوتی ہے۔
مجھے اللہ تعالیٰ نے کچھ عرصہ ہوا رؤیا میں بتایا کہ مسٹر ماریسن جو انگلستان کی لیبر پارٹی کے ممبر ہیں وہ کہتے ہیں کہ جیسا کام کرنے کی مجھے توفیق ملی ہے چالیس سال کے عرصہ میں ایسی توفیق کسی کو نہیں ملی۔ اور گویا وہ ضلع کانگڑہ کے متعلق کہتے ہیں۔ اور میں حیران ہوتا ہوں کہ انگلستان کے افسر کو کانگڑہ سے کیا تعلق۔ پھر اس کی یہ تعبیر ذہن میں آئی کہ انگلستان میں بھی کانگڑہ کے ضلع کی قسم کے آتش فشانی مادے ظاہر ہونے والے ہیں یعنی عظیم الشان تغیرات ہونے والے ہیں۔ یہ رؤیا مجھے ڈلہوزی کے پچھلے سفر میں دکھایا گیا۔ اُس وقت ابھی پارلیمنٹ کے ٹوٹنے کا کوئی ذکر نہ تھا اور نہ ہی پارلیمنٹ کے ٹوٹنے کا کوئی امکان تھا۔ چودھری ظفراللہ خان صاحب اُس وقت انگلستان جا رہے تھے۔ میں نے یہ رؤیا لکھ کر ان کو بھجوا دیا تا وہ لندن میں شمس صاحب کو اشاعت کے لئے دے دیں۔ آگے شمس صاحب نے فورًا ہی وہ رؤیا 22 مئی کو مسٹر ماریسن تک پہنچا دیا۔ مسٹر ماریسن لیبر پارٹی کے ممبر ہیں اور اگر انہیں کوئی خاص کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے تو وہ لیبر پارٹی کے ذریعہ سے ہی مل سکتا ہے۔ کیونکہ ڈیموکریٹک ملکوں میں کوئی شخص اپنی ذات میں کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا۔ اس کو اپنی پارٹی کےساتھ مل کر ہی پوزیشن حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنی پارٹی کےساتھ مل کر ہی کوئی بڑا کام کر سکتا ہے۔ پس اس رؤیا میں یہ اشارہ تھا کہ قریب میں ہی مسٹر ماریسن کی پارٹی برسراقتدار آنے والی ہے۔ اس رؤیا کے بعد جب میں واپس قادیان گیا تو کچھ دنوں کے بعد یہ ہلچل مچ گئی کہ لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی (Conservative Party)میں شدید اختلاف پیدا ہو گیا ہے اور لیبر پارٹی یہ چاہتی ہے کہ دونوں پارٹیاں الگ الگ اور جدا جدا کام کریں۔ لیکن کنزرویٹو پارٹی (Conservative Party) اصرار کرتی ہے کہ ابھی کولیشن گورنمنٹ (Collision Govt.) رہے تا وقتیکہ جاپان کی جنگ کا خاتمہ ہو جائے۔ لیکن لیبر پارٹی نے اسے تسلیم نہ کیا اور آخر باوجود لیبر پارٹی کے اس اصرار کے کہ ابھی کسی نئے انتخاب کی ضرورت نہیں مسٹر چرچل نے اِس خیال کے ماتحت کہ اگر اِس وقت مَیں نیا انتخاب کراؤں گا تو میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا، کیونکہ ابھی میری جنگی خدمات کا گہرا اثر لوگوں کے دل پر ہے اور جاپان کی جنگ جاری ہے۔ اگر جاپان کی لڑائی کا خاتمہ ہو گیا تو ملک والے سمجھیں گے کہ اب لڑنے والے آدمی کی ضرورت نہیں اب صلح کے کاموں والے آدمی کی ضرورت ہے اِس لئے اِس وقت میرے جیتنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اس طرح مجھے اور میری پارٹی کو پانچ سال کا عرصہ پھر حکومت کے لئے مل جائے گا۔ مسٹر چرچل نے اپنی طرف سے ہوشیاری اور چالاکی کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا تھا کہ اب تو مسٹر ماریسن کو کوئی بڑا کام کرنے کا موقع ملنے والا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف کنزرویٹو پارٹی کو یہ اصرار تھا کہ اگر انتخاب ہونا ہے تو اِسی وقت ہو لیکن دوسری طرف لیبر پارٹی اِس بات پر مُصِر تھی کہ یہ انتخاب ابھی نہ ہو۔ جس کے معنے یہ تھے کہ کنزرویٹو پارٹی یہ سمجھتی تھی کہ اگر اب انتخاب ہو جائے تو اس کے لئے جیتنے کا زیادہ موقع ہے۔ اسی طرح لیبر پارٹی کا بھی یہی خیال تھا کہ اگر اِس وقت انتخاب ہوا تو وہ کنزرویٹو پارٹی کے حق میں اچھا ہو گا۔ مگر باوجود لیبر پارٹی کے کہنے کے کہ ابھی انتخاب میں دیر کی جائے مسٹر چرچل یہی کہتے رہے کہ ہمیں ابھی انتخاب کے لئے پبلک کے سامنے جانا چاہئے۔ ان کا اصرار کرنا یہ بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک ان کے جیتنے کے لئے یہ بہترین موقع تھا اور لیبر پارٹی کا اِس بات پر اصرار کرنا کہ ابھی انتخاب نہ کیا جائے اور کچھ دیر پیچھے ڈالا جائے فوری طور پر نئے انتخاب کی ضرورت نہیں چھ ماہ یا سال کے بعد کر لیا جائے گا اِس بات کا ثبوت ہے کہ لیبر پارٹی یہ سمجھتی تھی کہ ابھی پبلک کے سامنے جانا ان کے لئے اچھا نہیں۔ اگر ابھی پبلک کے سامنے جائیں گے تو ہار جائیں گے۔ لیکن یہ دونوں رائیں خدائی فیصلہ کے خلاف تھیں۔ مسٹر چرچل نے انتخاب پر زور اسی لئے دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے لئے جیتنے کا زیادہ موقع ہے۔ اور لیبر پارٹی نے انتخابات میں تأخیر پر اِس لئے زور دیا کہ اس کے نزدیک یہ وقت ان کے لئے مناسب نہ تھا۔ مگر آخر لیبر پارٹی نے یہ سمجھ کر کہ اب جو ہمارے سر پر پڑنا تھا پڑ گیا انتخاب کی مُہم شروع کر دی۔ اُس وقت مسٹر چرچل کو اپنی کامیابی پر اس قدر یقین تھا میں حیران ہوں کہ وہ اب اِس فقرے کو پڑھ کر جو انہوں نے انتخاب کے دوران میں کہا دل میں کیا محسوس کرتے ہوں گے۔ انتخاب کے دنوں میں جب وہ لندن کی ایک انتخاب کی چوکی پر پہنچے تو وہاں ہزارہا آدمی قطاریں باندھے کھڑے تھے۔ مسٹر چرچل کی جنگی خدمات کی وجہ سے لوگوں نے ان کے آنے پر خوش آمدید کہا اور اپنے طریق کے مطابق تالیاں پیٹیں اور نعرے لگائے۔ اُس وقت مسٹر چرچل نے یہ فقرہ کہا کہ میں تمہیں گورنمنٹ کا ایک راز بتانے آیا ہوں۔ اور پھر مذاقاًکہا کہ تم یہ راز کسی دوسرے کو نہ بتانا۔ وہ راز یہ ہے کہ کنزرویٹو پارٹی اِس انتخاب میں جیت گئی ہے۔ گویا وہ اپنی کوششوں اور اپنی طاقت کے اندازہ کے مطابق یہ خیال کرتے تھے کہ یہ ناممکن بات ہے کہ ہم ہار جائیں۔ ایک بچہ ایسی بات کہے تو اَور بات ہے لیکن ایک ایسا آدمی جو ایک اہم پارٹی کا لیڈر ہے اور ایسے وقت میں جبکہ وہ دنیا میں غیر معمولی حیثیت حاصل کر چکا ہے اور ایسے وقت میں جبکہ وہ اپنے دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہے اُس وقت اُس کا یہ کہنا کہ میں تمہیں گورنمنٹ کا یہ راز بتانے آیا ہوں کہ کنزرویٹو پارٹی جیت گئی ہے بتاتا ہے کہ مسٹر چرچل کو اپنی فتح پر سو فیصدی یقین تھا۔ لیکن مسٹر چرچل کے اِس اعلان سے دو مہینے پہلے اللہ تعالیٰ مجھے یہ اطلاع دے چکا تھا کہ اب مسٹر ماریسن جیسے لوگوں کے کام کرنے کا وقت آیا ہے۔ آج الیکشن کے نتیجہ کا اعلان ہو گیا ہے لیبر پارٹی انتخاب سے پہلے اپنے متعلق جو ناکامی کا خطرہ محسوس کرتی تھی وہ بھی غلط ثابت ہوا ہے اور کنزرویٹو پارٹی جو کامیابی کا یقین رکھتی تھی وہ بھی غلط ثابت ہوا ہے۔ اور الیکشن میں 640 ممبروں میں سے 390 ممبر لیبر پارٹی کی طرف سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اور مسٹر چرچل کی پارٹی جس کے متعلق مسٹرچرچل نے کہا تھا کہ میں تمہیں گورنمنٹ کاراز بتاتا ہوں کہ کنزرویٹو پارٹی جیت چکی ہے اُس کے گزشتہ ممبروں میں سے نصف کے قریب ممبر آئے ہیں۔ پچھلی دفعہ 350 ممبر تھے اور اِس دفعہ 185 ممبر آئے ہیں۔
اِس خبر میں عجیب تلازمہ 1ہے ۔میں حیران ہوں اللہ تعالیٰ نے اس خبر کو روکے رکھا اور یہ خبر اِس سفر سے نہ دس دن پہلے اور نہ دس دن بعد بتائی بلکہ ڈلہوزی میں ہی بتائی ۔اِس میں یہ اشارہ تھا کہ ڈلہوزی میں اِس خبر کی اطلاع دی گئی ہے اور ڈلہوزی میں ہی اس کے پورا ہونے کی خبر آئے گی۔ یہ ایک قسم کا تلازمہ ہے۔ جیسے قرآن مجید میں مُؤْمِنُوْنَ یا یُوْقِنُوْنَ آتا ہے۔ مُؤْمِنُوْنَ یا یُوْقِنُوْنَ کو ایک د وسرے کے بعد لانے میں بظاہر کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا لیکن اِس میں ایک رِدم اور توازن اور شعریت ہے۔ اسی طرح حادثات میں بھی بسااوقات شعریت اور توازن پایا جاتا ہے۔ اس تلازم میں اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ اے ڈلہوزی میں آئے ہوئے شخص !وہ خبر ڈلہوزی میں ہی پوری ہو گی جو ڈلہوزی میں دی گئی تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ نےایک قاضی کو معزولی کا حکم بھجوایا۔ اس میں لکھا یَا قَاضِی الْقُمِّ عَزَلْتُکَ فَقُمْ۔ اے قُم کے قاضی! میں نے تجھے معزول کر دیا ہے اب اُٹھ اور اپنے گھر جا۔ اُس نے پڑھا تو ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا مجھے تو اس قافیہ نے ڈبویا۔ کسی نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے اُس نے کہا کہ بادشاہ یہاں سے گزرا اُس کو معلوم ہوا یہ قُم قصبہ ہےاور یہاں کوئی قاضی بھی ہے۔ تو بادشاہ کو خیال آیا کہ لطیفہ بنانا چاہیے اور بادشاہ کو یہ قافیہ پسند آیا۔ اس لئے اُس نے میری معزولی کا حکم دے دیا۔ تو قوافی بھی اپنے اندر دلکشی اور دلچسپی رکھتے ہیں۔ بعض دفعہ جب اللہ تعالیٰ آئندہ کی خبریں دیتا ہے تو ان میں اس قسم کا تلازمہ رکھ دیتا ہے۔کبھی وزن کے ذریعہ اور کبھی شعر کے ذریعہ اور بعض دفعہ خاص حالات میں ہونے والے واقعات کو اُسی قسم کے مناسب حالات میں بیان کر دیتا ہے۔ جیسے ترازو کے دو پلڑے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی بھی ڈلہوزی میں اور پوری ہوئی بھی ڈلہوزی میں۔ یہ تلازمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اِس خبر میں رکھا تھا۔
چونکہ خبروں میں بعض دفعہ اوقات کی تعیین نہیں ہوتی اِس لئے ڈلہوزی میں خبر دینے سے اس طرف اشارہ کر دیا کہ اس خبر کو پورا ہونے میں لمبا وقت مقدر نہیں بلکہ یہ خبر قریب میں ہی پوری ہونے والی ہے۔ اس کے بعد کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ خود انگلستان کے نزدیک بھی لیبر پارٹی کی یہ کامیابی غیرمعمولی ہے۔ ایک کنزرویٹو پارٹی کے اخبار نے لکھا ہے کہ یہ نتیجۂ انتخاب زلزلہ پیدا کر دینے والا ہے (میری خواب کے الفاظ کو یاد کرو) ٹائمز آف لنڈن نے لکھا ہے کہ انگلستان کی ساری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ اس وقت کہ انگلستان ایک لیڈر کی فتوحات اور کارناموں سے گونج رہا ہو اس نے اُس لیڈر کو کام سے ہٹا دیا ہو۔ اِسی طرح بعد کی خبروں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مسٹر ایٹلی2 نئے وزیر اعظم نے مسٹر ماریسن کو نائب وزیر اعظم مقرر کیا ہے۔ بلکہ تازہ اطلاع ریڈیو کی تو یہاں تک ہے کہ پارٹی کے اجلاس میں یہ تجویز پیش کی ہے کہ مسٹر ماریسن کو ہی پارٹی کا لیڈر بنایا جائے۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ سیاسی طور پر لیبر پارٹی یہ فیصلہ کرے کہ وزیر اعظم بجائے مسٹر ایٹلی کے مسٹر ماریسن بنے۔ خواب کے بعد تین ماہ کے اندر ان حالات کا ظاہر ہونا کتنا عظیم الشان نشان ہے۔ اور دشمنانِ اسلام اور احمدیت اور پیغامیوں پر کتنی زبردست حجت ہے۔ اور ابھی تو اس عظیم الشان پیشگوئی کے اَور بہت سے پہلو ہیں جو اپنے وقت پر ظاہر ہوں گے۔ موجودہ سیاسیات میں ان کا ظاہر کرنا مناسب نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ خبر ایک اَور خواب کے پورا ہونے کے لئے بھی راستہ کھولنے والی ہے۔ وہ خواب میں بیان کر چکا ہوں اور شائع بھی ہو چکا ہے۔ وہ خواب میں نے لاہور میں دیکھا تھا کہ مولانا ابو الکلام آزاد کے ہاتھ سے کوئی بہت اہم کام ہونے والا ہے۔ شملہ کانفرنس میں یہ سامان پیدا ہوئے لیکن بعض وجوہ سے رُک گئے۔ اب لیبر پارٹی برسراقتدار آئی اور وہ ہندوستان کی آزادی کے حق میں ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ ہندوستان کو جلد سے جلد آزاد کیا جائے۔ ان حالات میں مَیں سمجھتا ہوں کہ شاید پھر کانگرس اور مسلم لیگ کو اِس بات کا موقع مل جائے کہ وہ آپس میں فیصلہ کر لیں اور کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں۔ اور وہ خواب اس صورت میں پورا ہو جائے ۔
جہاں تک اہمیت کا تعلق ہے کسی کام میں ناکامی بھی انسان کے اہم واقعات میں سے ہوتی ہے۔ بادشاہوں کی زندگی کے اہم واقعات بڑی فتوحات بھی کہلاتی ہیں اور بڑی بڑی شکستیں بھی۔ محمد شاہ رنگیلا بہت سے بادشاہوں سے زیادہ مشہور ہےاِس کی وجہ یہ ہے کہ اُس نے ایک خطرناک شکست کھائی جس سے ہندوستان کی طاقت ٹوٹ گئی۔ تو جیسے بڑی بڑی فتوحات اہمیت رکھتی ہیں ایسے ہی بڑی بڑی شکستیں بھی اہمیت رکھتی ہیں اور ممکن ہے مولانا ابوالکلام آزاد کی ناکامی وہ اہم کام ہو جس کی نسبت خواب میں اشارہ تھا۔ لیکن چونکہ کامیابی زیادہ اہمیت رکھنے والی شے ہے پس جب اس خواب کے نتیجہ میں یہ حالات پیدا ہو رہے ہیں تو یہ قیاس کرنا عقل کے خلاف نہیں کہ یہ خواب ابھی پوری طرح پورا نہیں ہوا اور آئندہ کامیابی کی صورت میں بھی پورا ہونے والا ہے۔ کیونکہ قریب ترین مفہوم کسی چیز کی اہمیت کا اس کی کامیابی سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا نمبر ناکامی کا ہوتا ہے۔ شملہ کانفرنس کے بعد اب بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ یہ ہندوستان کی آزادی کا مسئلہ دیر تک پڑا رہے گا اور شاید اس کا نتیجہ اچھا نہ نکلے اور ہندوستان دیر تک تکلیف میں رہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو پورا کرنے کے سامان کر دیئے ہیں۔
یہ ساری باتیں چھ ماہ کے اندر اندر ظاہر ہوئی ہیں۔ یہ کتنی عظیم الشان بات ہے کہ اِسی سال اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ اعلان کرایا کہ ہندوستان اور انگلستان آپس میں صلح کر لیں اور اِسی سال یہ خبر دی۔ کہ مولانا ابو الکلام کے ذریعہ کوئی بڑا کام ہونے والا ہے۔ اسی سال مسٹر ماریسن کے متعلق بھی خبر دی اسی سال وہ خبریں جو جرمن قوم کی شکست کے متعلق میں نے دی تھیں پوری ہوئیں۔ یہ مجموعہ خبروں کا ایسا ہے جو نہایت اہم علمِ غیب پر مشتمل اور ان میں سے ہر ایک واقعہ ایسا ہے جو غیر معمولی ہے۔ اگر کوئی شخص بتائے کہ فلاں کے گھر لڑکا پیدا ہو گا یا فلاں مر جائے گا اور ایسے پچاس ساٹھ واقعات پورے ہو جائیں تو ان کی اتنی اہمیت نہیں ہو گی جتنی ان اہم واقعات کی ہے۔ اِس سال ایسے اہم واقعات اور ایسی اہم باتیں پوری ہوئی ہیں جو سب دنیا کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ ایک دفعہ نہیں بلکہ متواتر پوری ہوئی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس سال کو اہمیت اور خصوصیت کا مقام دینا چاہتا ہے۔ میں نے اِس کے متعلق تین سال پہلے بتایا تھا کہ الٰہی اشارہ اِس طرف معلوم ہوتا ہے کہ 1945ء بہت اہمیت رکھنے والا سال ہو گا۔ اور وہ ہمارے لئے ایک کامیابی کی وادی کے مشابہ ہو گا۔ اِس میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کی شاندار بنیاد پڑے گی۔ اگر کوئی پوچھے کہ کونسی بنیاد پڑی ہے تو میں کہتا ہوں اول تو صلح ہو جانے کی وجہ سے ہمارے مبلغ باہر جانے شروع ہو گئے ہیں اور آٹھ نو مبلغ غیر ممالک میں جاچکے ہیں اور باقی جانے کو تیار ہیں۔ دوسرے اس سے بڑھ کر ترقی اور فتح کی بنیاد اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس سلسلہ کے ہاتھوں یہ ثبوت دے کہ اس سلسلہ کا میرے ساتھ تعلق ہے اور میں اس سلسلہ کے ذریعہ غیب کی خبریں دنیا کو بتاتا ہوں۔ یہ بہت بڑی بنیاد ہے فتح اور کامیابی کی۔ اگر ایک خبر بھی ایسی ہو جو دوسرے لوگوں سے تعلق رکھتی ہو اور وہ پوری ہو جائے تو لوگوں کے نزدیک اس کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے چہ جائیکہ متواتر غیب کی خبروں کا پورا ہونا۔ جیسے جرمن قوم کی شکست، مولانا ابو الکلام آزاد کے متعلق رؤیا کہ ان کےذریعہ کوئی اہم کام ہونے والا ہے، مسٹر ماریسن کے متعلق رؤیا،ہندوستان اور انگلستان کی صلح کے متعلق اعلان۔ یہ متواتر واقعات سارے کے سارے اِسی سال میں پورے ہوئے ۔ جس کے متعلق تین سال قبل اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا تھا کہ یہ سال بہت اہمیت رکھنے والا سال ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ایسا نشان ہے کہ اگر جماعت صحیح طور پر اسے دہریہ دشمن کے سامنے بھی پیش کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا انکار نہیں کر سکے گا۔ میں نے دیکھا ہے کہ اگر صحیح طور پر نشان کو پیش کیا جائے تو لوگوں سے اس کا جواب نہیں بنتا۔ اور انہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے یہ چیز ضرور ایسی ہے جو اپنے اندر اہمیت رکھتی ہے اور اس پر ہمیں ضرور غور کرنا چاہیے۔ یوں تو خدا تعالیٰ نے مجھے کئی بین الاقوامی واقعات کے متعلق جو کروڑوں کروڑ انسانوں کی زندگیوں سے تعلق رکھتے تھے کشوف کے ذریعہ خبر دی ہے اور وہ پورے ہوئے ہیں لیکن اِس سال میں تو صرف تین ماہ کے عرصہ میں پانچ عظیم الشان واقعات جو دنیا کی عظیم الشان قوموں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں پورے ہوئے ہیں۔
ا ول:اللہ تعالیٰ نے مجھ سے جو متواتر اعلان کروایا تھا کہ جرمن قوم کی شکست اور جنگ کا خاتمہ تحریک جدید کے دَور کے خاتمہ کے ساتھ ہو گا۔ سو یہ بات اسی طرح مئی میں پوری ہو گئی۔
دوم :بعض رؤیا کے نتیجہ میں مجھ سے اُس نے اعلان کروایا کہ انگلستان اور ہندوستان کے سمجھوتے کا اب وقت آگیا ہے۔
سوم:مولانا ابو الکلام آزاد کے متعلق مارچ کے مہینہ میں مجھے خبر دی کہ عنقریب اِن کی زندگی کا کوئی اہم امر ظاہر ہونے والا ہے۔
چہارم :مسٹر ماریسن کے متعلق خواب کہ اِن کو اب کوئی اہم کام کرنے کا موقع ملنے والا ہے۔
پنجم:شملہ کانفرنس کی ناکامی کے بعد مسٹر ماریسن کی پارٹی کی کامیابی کے ساتھ میرے اعلان نمبر دوم و خواب نمبر سوم کے پورا ہونے کے سامان کا پیدا ہو جانا۔ اور ابھی کئی حصے خوابوں کے پورے ہونے والے ہیں اور آسمان پر ان کے لئے سامان تیار ہو رہے ہیں۔ یہ باتیں ایسی ہیں کہ کوئی شخص ان کو حادثات قرار نہیں دے سکتا۔ ایک کو حادثہ کہہ لو، دو کو حادثات کہہ لو، تین کو حادثات کہہ لو مگر کون کہہ سکتا ہے کہ تین ماہ میں یکے بعد یگرے پورے ہونے والے یہ پانچ اہم اور بینَ الاقوامی واقعات محض حادثات ہیں۔ اور ابھی تو اس تسلسل کے بعض حصے باقی ہیں۔ اگر باقی حصے بھی پورے ہو جائیں تواللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ زنجیر مکمل ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اِس سال ہمارے لئے عظیم الشان بنیادیں قائم کر دی ہیں۔ اگر جماعت صحیح طور پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے اور اپنی قربانیوں میں ترقی کرے، اپنے کام میں ترقی کرے، اپنے معاملات میں ترقی کرے تو اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کی ترقی کی ایک اَور بنیاد اِس سال ڈال دے گا۔
بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ ترقی کی ایک اَوربنیاد کا کیا مطلب ہے؟اس بارہ میں مَیں ایک مثال دیتا ہوں۔ بعض دفعہ لوگ مجھ سے یہ بھی پوچھا کرتے ہیں کہ آپ نے جو فلاں تقریر کی تھی اُس میں قومی کیریکٹر کے لئے فلاں فلاں چیز ضروری قرار دی تھی۔ پھر دوسری تقریر میں آپ نے فلاں فلاں اخلاق قومی کیریکٹر کے لئے ضروری قرار دیئے۔ ان دونوں میں اختلاف ہے۔ میں انہیں جواب دیا کرتا ہوں کہ دونوں تقریروں میں کوئی اختلاف نہیں۔ مختلف اخلاق مختلف اوقات اور مختلف حالات میں ضروری ہوتے ہیں۔ بعض اخلاق ایسے ہیں جو لڑائی کے وقت ضروری ہوتے ہیں جیسے بہادری اور شجاعت۔ اگر صنعت و حرفت کا سوال ہو تو کہا جائے گا کہ اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔ اگر تجارت کا سوال ہو تو کہا جائے گا کہ تجارت کو ترقی دینے کے لئے سچائی اور دیانت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اس موقع پر جبکہ علموں کا مقابلہ ہو اور ایک قوم علم اور سائنس کے ذریعہ دوسری قوم پر حملہ کر رہی ہو تو مظلوم قوم سے کہا جائے گا کہ قومی ترقی کے لئے علم کی بڑی ضرورت ہے۔ تو اس کے یہ معنے نہیں کہ یہ نصیحت دوسری سے مختلف ہے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ مختلف چیزیں مختلف مواقع پر الگ الگ حیثیت حاصل کر لیتی ہیں۔ ایک نقطہ نگاہ سے ایک موقع پر ایک چیز اہمیت رکھتی ہے اور دوسرے موقع پر دوسری۔ جیسا کہ ایک لالٹین چار طرف روشنی دینے والی ہو یعنی اُس کے چاروں طرف شیشے لگے ہوئے ہوں اب ہر جہت کو اس کے ایک شیشہ سے تعلق ہے۔ ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ اس شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی۔ دوسری طرف والا کہہ سکتا ہے کہ اس شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی۔ تیسری طرف والا کہہ سکتا ہے کہ اس شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی۔ چوتھی طرف والا کہہ سکتا ہے کہ اس شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی۔ وہ سارے ہی اپنی اپنی جگہ پر درست کہہ رہے ہوں گے کیونکہ مثلاً اگر پہلے نے یہ کہا تھا کہ شمالی شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی یا دوسرے نے کہا تھا کہ جنوبی شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی یا تیسرے نے کہا تھا کہ مشرقی شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی یا چوتھے نے کہا تھا کہ مغربی شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی تو یہ چاروں باتیں درست تھیں۔ ان میں نہ اختلاف تھا اور نہ جھوٹ۔ کیونکہ اگر مشرق کی طرف کا شیشہ روشن نہیں تو مشرق والوں کو روشنی نہیں پہنچے گی۔ اگر مغرب کی طرف کا شیشہ روشن نہیں تو مغرب والوں کو روشنی نہیں پہنچے گی۔ اگر شمال کی طرف کا شیشہ روشن نہیں تو شمال والوں کو روشنی نہیں پہنچے گی۔ اگر جنوب کی طرف کا شیشہ روشن نہیں تو جنوب والوں کو روشنی نہیں پہنچے گی۔ اِسی طرح قومی کیریکٹر بھی مختلف جہات سے اہمیت رکھتے ہیں۔ جب تبلیغ کا موقع آئے گا تو ہم کہیں گے کہ تبلیغ کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ جب نوجوانوں کے اخلاق کی درستی کا سوال آئے گا تو ہم کہیں گے کہ نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ جب صنعت و حرفت کی کمزوری کا سوال ہو گا تو ہم کہیں گے کہ قومی ترقی کے لئے صنعت و حرفت بہت ضروری چیز ہے۔ چونکہ انسانی زندگی اپنے اندر مختلف جہات رکھتی ہے اس لئے ان جہات کے لحاظ سے مختلف اخلاق مختلف مواقع پر ضروری ہو جاتے ہیں۔ جیسے نمازیں بھی ضروری ہیں، روزے بھی ضروری ہیں، زکوٰۃ بھی ضروری ہے، حج بھی ضروری ہے۔ لیکن ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ سب سے اہم کام کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ سب سے اہم کام جہاد ہے۔3 جب دوسرے موقع پر ایک شخص نے پوچھا کہ مجھے سب سے اہم کام بتایئے تو آپ نے فرمایا کہ سب سے اہم کام ماں کی خدمت ہے۔4 اور جب تیسرے نے آپ سے پوچھا کہ اہم کام کیا ہے؟ تو آپ نے نماز یا سچائی کا ذکر فرمایا۔5 تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ (نعوذباللہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کلام میں اختلاف تھا بلکہ ان اشخاص کے لحاظ سے ان احکام کی اہمیت مختلف تھی۔ آپ نے پہلے شخص کے لئے جہاد کو سب سے اہم اس لئے قرار دیا کہ وہ اپنے اندر بزدلی رکھتا تھا۔ باقی احکام وہ بجا لاتا تھا۔ وہ ماں کی خدمت کرتا تھا اس لئے اُس کو ماں کی خدمت کی اہمیت بتانے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے لحاظ سے جہاد ہی سب سے بڑی چیز تھی۔ دوسرا شخص جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ماں کی خدمت سب سے اہم کام ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ماں کی خدمت کرنے میں کمزور تھا۔ اِس لئے اُس کو ماں کی خدمت سب سے اہم کام بتایا۔ ورنہ آپ کی بات کا یہ مطلب نہ تھا کہ اُس کے لئے جہاد کرنا ضروری نہ تھا۔ اِس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی کی مشرقی دیوار میں سوراخ ہوجائے اور وہ انجینئر سے پوچھے کہ اسے مکان کی حفاظت کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ تو انجینئر اسے کہے گا کہ مشرقی دیوار کے سوراخ کو بند کردو۔ اور اگر کسی کا مغربی دیوار میں سوراخ ہو جائے اور وہ انجینئر سے پوچھے گا کہ مکان کی حفاظت کے لئے کیا کرنا چاہیے تو وہ کہے گا مغربی سوراخ کو بند کر دیا جائے۔ اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس انجینئر کے کلام میں اختلاف ہے کہ پہلے شخص سے اس نے مشرقی سوراخ کے بند کرنے کے لئے کہا اور دوسرے سے مغربی سوراخ کے بند کرنے کے لئے کہتا ہے۔
پس اشخاص کی نوعیت کے بدل جانے سے، اوقات کی نوعیت بدل جانے سے اور مقامات کی نوعیت بدل جانے سےا حکام کی نوعیت بھی بدل جایا کرتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اِس سال کو اہمیت دی ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ پہلے آپ نے فلاں وقت کو بڑا کہا تھا اور فلاں وقت کو آپ نے اہم قرار دیا تھا اور اب آپ اِس سال کو اہم قرار دے رہے ہیں۔ تو اس کی مثال ایسی ہی ہو گی جیسے کوئی آدمی کسی سے راستہ پوچھے تو راستہ بتانے والا اُسے کہے کہ اس راستہ پر چلے جاؤ۔ آگے جا کر دائیں طرف مڑ جانا۔ پھر بائیں طرف مڑ جانا ۔اور کچھ دُور آگے جا کر فلاں جگہ پر دائیں طرف مڑ جانا۔ تو اِس پر وہ شخص جسے راستہ بتایا گیا ہے اگر کہے کہ آپ عجیب آدمی ہیں پہلے کہتے ہیں دائیں طرف مڑ جانا پھر کہتے ہیں بائیں طرف مڑ جانا پھر کہتے ہیں دائیں طرف مڑ جانا۔ آپ کے کلام میں توبہت اختلاف پایا جاتا ہے تو معترض عجیب دماغ کا ہو گا نہ کہ راستہ بتانے والا۔
جس طرح انسانی زندگی میں مختلف موڑ ہوتے ہیں اِسی طرح قومی زندگی میں بھی موڑ ہوتے ہیں اور ہر موڑ کو اپنے وقت میں اہمیت حاصل ہوتی ہے اور ہر موڑ انسان کو نئے رخ پر ڈال دیتا ہے۔ وہ رُخ کئی ہو سکتے ہیں ۔ہماری جماعت کے لئے ا ن نئے رُخوں میں سے ایک اہم رُخ 1945ء بھی ہے اب ہم اِس نئے موڑ پر ہیں۔ خداتعالیٰ نے اِس سال متواتر نئے نئے نشانات دکھائے ہیں اور وہ نشانات ایسے ہیں جو دنیا کی عظیم الشان قوموں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہ سال بنیاد ہے ہمارے حملہ کی جوہم دنیا پر کرنے والے ہیں۔ نتائج خواہ کتنے شاندار ہوں مگر بنیاد اپنی جگہ پر بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بیٹا خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جائے باپ کی عزت اُس پر واجب ہوتی ہے۔ اِسی طرح جس سال میں کسی چیز کی بنیاد رکھی جاتی ہے وہ سال بہت اہم ہوتاہے۔ اور جس سال نتائج ظاہر ہوتے ہیں وہ سال بھی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر وہ بنیاد ہونے کے لحاظ سے خصوصیت رکھتا ہے تو یہ نتائج کے ظاہر ہونے کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے۔ ایک بنیاد آج سے تین سال پہلے ڈالی گئی تھی اور وہ مخفی تھی اُس سال میں جمعے جمع کر دیئے گئے تھے۔ پھر دوسرا سال آیا جو میری پیدائش کے دن سے شروع ہوتا تھا اُس میں میرے مصلح موعود ہونے کی خبر دی گئی تھی۔ اب تیسرے سال میں مختلف عظیم الشان پیشگوئیاں یکے بعدد یگرے پوری ہوئی ہیں اور اس سال میں ایسے رستے کھولے گئے ہیں جو جماعت کو ترقی کی طرف لے جانے والے ہیں۔ یہ سال ہمارے لئے ٹرننگ پوائنٹ (Turning Point)ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک نیا زاویہ پیدا کر دیا ہے جس سے ہم دنیا کو نئے رنگ اور نئے پیرائے میں مخاطب کریں گے۔ اور نئے رنگ اور نئے پیرائے میں دنیا پر حملہ کریں گے۔ اور یہ سال اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری جماعت کی فتح اور کامیابی کے لئے ایک نیا قدم ہے۔
پس جہاں اللہ تعالیٰ نے ان نشانات کے ذریعہ اپنا ظہور فرمایا ہے وہاں ہمارا فرض ہے کہ ہم اسکے ظہور سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ قربانی اور زیادہ سے زیادہ ایثار کو کام میں لائیں اور اس کے فضلوں کو جذب کریں۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اپنی برکتوں اور اپنی رحمتوں کو نازل فرماتا ہے تو بندے کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ انہی مواقع کے متعلق کہا گیا ہے کہ کبھی تو بادشاہ گالی پر بھی خوش ہو جاتے ہیں اور کبھی ثناء پر بھی ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہ مواقع بہت نازک ہوتے ہیں۔ اُس وقت انسان کے لئے نادر موقع ہوتا ہے۔ تھوڑی سی بات سے خداتعالیٰ کا بے انتہا قُرب حاصل کر سکتا ہے۔ مگر اس موقع پر تھوڑی سی بات سے خداتعالیٰ کی نظروں سے گِر بھی سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کے فضل کے دنوں میں اُس کے رحم اور اُس کی بخشش کو حاصل کریں۔ اور اپنے کسی فعل کی وجہ سےاُس کی ناراضگی اور اُس کی خفگی کا مَورِد نہ بن جائیں۔ اٰمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔’’
(الفضل یکم اگست 1945ء)
1: تلازمہ: مضمون کی رعایت الفاظ کا استعمال کرنا۔ رعایتِ لفظ
2:ایٹلی:(Clement Attlee) 1883ء میں پیدا ہوئے ۔1967ء میں وفات پائی۔لیبر پارٹی
سے تعلق تھا۔1945ء تا1951ء برطانیہ کے وزیراعظم رہے۔
3: بخاری کتاب العتق باب اَیُّ الرِّقَابِ اَفْضَل
4: بخاری کتاب الادب باب مَنْ اَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ الصُّحْبَۃِ
5: بخاری کتاب الادب باب الْبِرِّ وَالصِّلَۃ


25
ہم اٹامک (Atomic) بم ایسے مہلک حربے استعمال کرنا جائز نہیں سمجھتے
(فرمودہ 10 اگست1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘یہ خبریں کئی سال سے آرہی تھیں کہ جرمنی میں اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ ایٹم (Atom) یعنی وہ ذرہ جس سے مادہ بنتا ہے اور جو خوردبینی ذرہ ہوتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقتیں رکھی ہیں کہ اگر سائنسدان اس کو توڑنے اور اس کی طاقت کو محفوظ کرنے اور اس کو استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کے اندر ایسی طاقتیں ہیں کہ ایک ذرہ کے توڑنے اور اس کی طاقت کو محفوظ رکھنے سے ایک شہر کو ایک لمبے عرصہ تک بجلی مہیا کی جا سکتی ہے۔ ان خبروں پر بعض لوگ ہنس دیتے تھے اور بعض لوگ تعجب کرتے تھے اور حیران ہوتے تھے کہ ایک خوردبینی ذرے میں اتنی طاقتیں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ خیال سائنسدانوں کے دلوں میں تقویت پکڑتا چلا گیا اور بیسیوں سائنسدانوں نے اپنی زندگیاں اس تحقیق میں لگانی شروع کر دیں۔ جنگ کے دوران میں خصوصاً انگلستان، امریکہ اور جرمنی تینوں نے اپنے اپنے طور پر اِس طاقت کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔ کیونکہ جنگی مفاد کے لحاظ سے یہ بات بہت اہم سمجھی جاتی تھی کہ وہ باریک ذرہ جو اپنے اندر اتنی عظیم الشان طاقتیں رکھتا ہے۔
اگر اِس کو بم کے طور پر استعمال کیا جا سکے تو وہ بہت کچھ اس جنگ کے سوال کو حل کر دے گا۔ جہاں تک سائنس کا سوال ہے میں تو سائنس جانتا نہیں اس لئے میں اس کی تفصیلات کو سمجھ نہیں سکتا لیکن یہ معلوم ہوا ہے کہ عملی طو رپر جرمنی کی جنگ کے بعد اب ستائیس اٹھائیس دن ہوئے کہ امریکہ اور انگلستان کے سائنس دان اِس بات میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ ایٹم کو پھاڑ کر اِس سے طاقت حاصل کر سکیں۔ اور انہوں نے اس سے بم بنانا شروع کر دیا ہے۔ کوئی پانچ دن کی بات ہے کہ ایٹم سے حاصل کردہ طاقت کا پہلا بم جاپان کے ایک شہر ہیروشیما پر استعمال کیا گیا جو کہ ایک چھاؤنی ہے اور بندرگاہ بھی ہے جہاں جاپانی بیڑا کھڑا ہوتا ہے یا تیار کیا جاتا ہے۔ یہ شہر کوئی سات مربع میل کا ہے۔ یعنی قریباً سَوا دو میل چوڑا اور تین میل لمبا ہے۔ اور بوجہ اس کے کہ یہ صنعتی شہر ہے سمجھا جا سکتا ہے کہ اِس کی آبادی گنجان ہو گی کیونکہ صنعتی شہروں میں بجائے پھیلاؤ کے بڑے بڑے بلاکس بنا دیئے جاتے ہیں جن میں ایک ایک بلاک میں کئی کئی سَو بلکہ کئی کئی ہزار آدمی بستے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی آبادی چھ سات لاکھ کے قریب ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ چھ سات لاکھ کے قریب تھی۔ اور جب یہ بم جو پھینکا گیا ہے تو اس شہر کے متعلق آخری رپورٹ یہ ہے کہ ساٹھ فیصدی حصہ شہر کا یا یہ کہہ لو کہ چھ لاکھ کی آبادی میں سے پونے چار لاکھ آدمی ایک بم سے ہلاک ہو گئے۔ اور شہر کی 60 فیصدی عمارتیں ایک بم سے تباہ ہو گئیں۔ جاپانی لوگوں کا بیان ہے کہ اس بم کے گرنے کے بعد شدید گرمی پیدا ہوئی۔ اور اس بم کے دھماکے اور نقصان کے علاوہ وہ گرمی اتنی شدید تھی کہ اُس کی شدت کے دائرہ کے اندر کوئی ذِی روح چیز زندہ نہیں رہی۔ کیا انسان اور کیا حیوان، کیا چرند اور کیا پرند سب کےسب جُھلس کر خاک ہو گئے ہیں۔ یہ ایک ایسی تباہی ہے جو جنگی نقطۂ نگاہ سے خواہ تسلی کے قابل سمجھی جائے لیکن جہاں تک انسانیت کا سوال ہے اِس قسم کی بمباری کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمیشہ سے جنگیں ہوتی چلی آئی ہیں اور ہمیشہ سے عداوتیں بھی رہی ہیں لیکن باوجود ان عداوتوں کے اور باوجود ان جنگوں کے ایک حد بندی بھی مقرر کی گئی تھی جس سے تجاوز نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن اب کوئی حد بندی نہیں رہی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ شہر جس پر اس قسم کی بمباری کی گئی ہے وہاں عورتیں اور بچے نہیں رہتے تھے۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ لڑائی کی ذمہ داری میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔اگر جوان عورتوں کو شامل بھی سمجھا جائے تو کم از کم بلوغت سے پہلے کے لڑکے اور لڑکیاں لڑائی کے کبھی بھی ذمہ دار نہیں سمجھے جا سکتے۔
پس گو ہماری آواز بالکل بیکار ہو لیکن ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی خونریزی کو جائز نہیں سمجھتے خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان بُرا لگے یا اچھا۔ ہمارے نزدیک جاپان کا قصور ہے اور ہم نے ہزارہا آدمی اس جنگ کی بھرتی میں دیئے ہیں۔ اور ہمارے نزدیک جرمنی اور اٹلی کا بھی قصور تھا اور ہماری جماعت کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمی اٹلی اور جرمنی میں جا کر لڑے اور ان میں سے کئی قید ہوئے جواَب واپس آئے ہیں۔ ہم نے مال کے ساتھ بھی ،آدمیوں کے ساتھ بھی اور اخلاقی طور پر بھی غرض ہر رنگ میں اتحادیوں کو مدد دی ہے اور اگر اس جنگ کے فتح کرنے میں کوئی مطالبہ ابھی باقی ہو تو ہمیں اس سے بھی انکار نہیں ہو گا بلکہ ہم دوسروں سے بڑھ کر قربانی کر نے کے لئے تیار ہوں گے۔ مگر اس کے ہرگز یہ معنے نہیں کہ ہم جنگی افسروں کے ہر فعل کو خواہ وہ انسانیت کے کتنا ہی خلاف ہو، خواہ وہ شریعت کے کتنا ہی خلا ف ہو جائز قرار دیں۔ اگر اس قسم کی جنگ کا راستہ کُھل گیا تو وہ دنیا کے لئے نہایت ہی خطرناک ہو گا۔ پہلے زمانہ کے لوگوں نے لمبے تجربہ کے بعد کچھ حدبندیاں مقرر کر دی تھیں جن کی وجہ سے جنگیں خواہ کتنی ہی خطرناک ہوتی تھیں ایک حد پر جا کر اُن کا خطرہ رُک جاتا تھا۔ لیکن اب تو یہ سوال پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے کہ جس قوم نے ہم سے جنگ کی ہے اِس جنگ کے ذمہ داروں کو پھانسی کی سزا دی جائے۔ اس قانون نے میں سمجھتا ہوں حالات کو بہت زیادہ بھیانک صورت دے دی ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فتوحات کسی ایک قوم کے حق میں رہن نہیں ہوتیں کہ وہ ایک ہی قوم کے پاس رہیں۔ اور اگر یہ طریق جاری کر دیا جائے کہ فاتح قوم مفتوح قوم کے لیڈروں کو اِس لئے پھانسی دے دے کہ وہ اپنی قوم کی طرف سے لڑے تھے تو پھر اگر کل کو کوئی اَور قوم فاتح ہوئی اور اتحادیوں میں سے کوئی قوم مفتوح ہوئی تو ان کے لئے بھی وہی چیز مقدر سمجھی جانی چاہیے جو آج مفتوح قوم کے لئے جائز قرار دی گئی تھی۔ اگر انگلستان، امریکہ اور فرانس کو یہ حقوق حاصل ہوں کہ وہ مفتوح جرمنی اور مفتوح اٹلی کے لوگوں کو محض اِس وجہ سے کہ انہوں نے ان کے خلاف جنگ کی پھانسی کی سزا دیں تو اِس قانون کو غلط کہو یا صحیح (جب ایک قانون بنا دیا جائے تو غلط اور صحیح کا فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے) اگر اس جنگ کے بعد کوئی اَور ملک فاتح ہوا اور انگلستان یا امریکہ یا روس اِن تینوں میں سے کوئی مفتوح ہوا تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ فاتح قوم ان کے آدمیوں کو بھی پکڑ پکڑ کر پھانسی دینے لگ جائے٭ گو اس میں شبہ نہیں کہ جرمنی، اٹلی اور جاپان کا قصور ہے لیکن میرے نزدیک یہ طریق بھی پسندیدہ نہیں کہلا سکتا کہ بغیر کسی خاص دلیل کے جس کی وجہ سے عقل و انصاف ایک جنگیقیدی کو بھی سزاد ینے کا فیصلہ کریں۔ ٭٭جنگی قیدیوں کو سزادی جائے اگر ایسا ہو تو آئندہ بہت سے خطرات کا رستہ کھلنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ نیز اس سے مزید جنگوں کا رستہ کھل جانے کا بھی خطرہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی جنگ کے بند ہونے سے لوگ یہ نہیں سمجھیں گے کہ خونریزی بند ہو گئی ہے بلکہ یہ سمجھیں گے کہ ایک قسم کی خونریزی تو بند ہو ئی ہے لیکن دوسری قسم کی خونریزی شروع ہو گئی ہے۔ جرمنی کے لوگوں کا یہ جُرم قرار دیا جاتا ہے کہ انہوں نے لندن کے نہتّے آدمیوں پر گولے پھینکے۔ جرمنوں نے یقینا ظلم کیا، انسانیت کے خلاف حرکت کی اور ان کے اس فعل کو جس قدر بھی بُرا کہا جائے کم ہے اور خداتعالیٰ نے ان کے جرم کی سزا بھی اُن کو دے دی کہ اُن کا غرور خاک میں مل گیا۔ لیکن یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جرمنوں نے جو گولےپھینکے وہ سَو سَو گز یا اِس سے کچھ زیادہ تک اثر رکھتے تھے اب اگر اتحادی ان کے مقابل پر اس سے زیادہ مار کرنے والے بم ان پر پھینکیں اور ان کی طرح ہی ان آدمیوں پر پھینکیں جو نہتّے ہوتے ہیں تو یہ فعل بھی ویسا ہی بُرا سمجھا جائے گا جیسا کہ ان کاتھا۔
اسی طرح جنگی قیدیوں کا سوال ہے دنیا میں یہ تسلیم شدہ قاعدہ ہے کہ انسان ان لوگوں
٭اس خطبہ کے بعد ایک اعلان شائع ہوا ہے جس میں ان مجرموں کی اقسام بیان کی گئی ہیں جن کو سزا دی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگی مجرم کی خاص تعریف کی گئی ہے۔ گو مجھے اس تعریف سے پوری طرح اتفاق نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ایسی تعریف سے اکثر وہی سزا پائیں گے جن کو عقل اور انصاف سزا دینا چاہتے ہیں۔
٭٭ اور یقیناً جنگی قیدی بھی ایسے ہو سکتے ہیں کہ جو سزا کے مستحق ہوں۔ اس امر کی صحت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
کو جُرم کی سزا دے سکتا ہے جو اس کے اپنے ملک میں رہتے ہوں یا وہ جُرم جو جنگ کے علاوہ ہوں۔ یعنی ان کا جنگ کےساتھ کوئی تعلق نہ ہو۔ جیسے کوئی قوم جنگ میں آدمیوں کو پکڑ کر ان کے ناک کان کاٹے۔ اب یہ فعل ایسا ہے جو جنگ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا۔ تو ایسے جرائم کی سزا دینا جائز تسلیم کیا گیا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اس قانون کو وسیع کرنا گویا آئندہ کے لئے خطرات کو بڑھا دینے والی بات ہے۔ اور ان باتوں کے نتیجہ میں مجھے نظر آرہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں جنگیں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی۔اور وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اٹامک سے بڑی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے اور ان کے مقابلہ میں کوئی جنگی طاقت حاصل نہیں کرسکے گا یہ لغو اور بچوں کا سا خیال ہے۔ یہ خیال صرف اٹامک بم کے ایجاد ہونے پر ہی لوگوں کے دلوں میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ جب بندوق ایجاد ہوئی تھی تو لوگ سمجھتے تھے کہ بندوق والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ اور جب توپ ایجاد ہوئی تو لوگ سمجھتے تھے کہ توپ والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ جب ہوائی جہاز ایجاد ہوئے تھے تو لوگوں نے گمان کیا تھا کہ ہوائی جہاز والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ جب گیس ایجاد ہوئی تھی تو لوگوں نے خیال کیا تھا کہ گیس والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ لیکن پھر وی۔ون 1(V.One) اور وی۔ٹو2 (V.Two) نکل آئے۔ تو لوگ سمجھے کہ وی ون اور وی ٹو والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ اس کے بعد اب اٹامک بم نکل آئے ہیں۔ یاد رکھو! خدا کی بادشاہت غیر محدود ہے اور خدا کے لشکروں کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ مَایَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَ3 یعنی تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا۔ اگر بعض کو اٹامک بم مل گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی سائنس دان کو کسی اَور نکتہ کی طرف توجہ دلا دے اور وہ ایسی چیز تیار کر لے جس کے تیار کرنے کے لئے بڑی بڑی لیبارٹری کی بھی ضرورت نہ ہو۔ بلکہ ایک شخص گھر میں بیٹھے بیٹھے اُس کو تیار کر لے اور اُس کے ساتھ دنیا پر تباہی لے آئے اور اس طرح وہ اٹامک بم کا بدلہ لینے لگ جائے۔
پس جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ان مہلک چیزوں کو کم کیا جائے نہ کہ انہیں بڑھایا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کتنا لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ آگ کا عذاب دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ مسلمانوں کو نہیں چاہئے کہ وہ اپنے دشمن کو آگ سے تعذیب و تکلیف دیں۔4 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جانتے تھے کہ آگ جنگ کو روکنے کا موجب نہیں ہو گی بلکہ بڑھانے کا موجب ہو گی۔ اس میں شبہ نہیں کہ اگر جنگ میں دشمن نئی نئی ایجادوں کو اسلامی حکومت کے خلاف استعمال کرے تو اسلامی حکومت کو بھی اجازت ہے کہ اس کا اُسی رنگ میں جواب دے لیکن غلو سے کام نہ لے۔ یعنی مسلمانوں کو آگ کی ایسی ایجادوں کی طرف رغبت رکھنی منع ہے جن سےکسی کو عذاب دینا مقصود ہو۔ دنیا میں جتنے تغیرات ہوتے ہیں وہ سب کے سب خیالات کے ماتحت پیدا ہوتے ہیں۔ ان تغیرات کے پیچھے ایک جذبہ اور ایک محرک ہوتا ہے جس کے ماتحت لوگ سکیمیں بناتے ہیں۔ اگر کسی قوم کے دماغ کے پیچھے جذبہ اور محرک یہ ہو کہ ہم نے آگ کو بطور عذاب استعمال نہیں کرنا تو یقینا وہ ایسی ایجادیں نہیں کرے گی جن میں آگ کا استعمال ہو۔ لیکن اگر کسی قوم کے دماغ کے پیچھے جذبہ اور محرک یہ ہو کہ آگ کا عذاب دینے میں کوئی حرج نہیں بلکہ جتنا کسی کو نقصان پہنچایا جا سکے اُتنا ہی اچھا ہے تو وہ ضرور اس کی طرف راغب ہو گی۔ تیرہ سو سال پہلے دنیا کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لڑائیوں کے کم کرنے کا ایک راستہ بتایا تھا جب تک دنیا اِس راستہ پر نہیں چلے گی لڑائیاں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی۔ امریکہ اور یورپ والے امن نہیں پائیں گے جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے۔ وہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ نہ کہیں گے کہ ہمیں اِن آگ کی چیزوں کو ناجائز قرار دینا چاہیے اُس وقت تک حقیقی امن ان کو نصیب نہیں ہو گا۔ وہ ان چیزوں کو ناجائز قرار دیں اور پھر اُتنی ہی سختی کریں جتنی دشمن نے کی تو پھر دنیا میں یقینا امن قائم ہو جائے گا۔ کیونکہ دشمن محسوس کرے گا کہ اگرچہ ان کے پاس زیادہ سخت سزا دینے کی طاقت تھی لیکن اخلاقی تعلیم کے ماتحت انہوں نے ہم سے نرمی کی ہے اور جو سلوک ہمارے ساتھ کیا گیا ہے وہ محض جوش، غصہ اور بدلہ کے جذبہ کے ماتحت نہیں۔ لیکن اگر ہم بوجہ اس کے کہ ہمارے پاس تباہی کے سامان زیادہ ہیں ایسے سخت ہتھیار استعمال کریں کہ دشمن کے بچے اور عورتیں تباہ کر دیں تو پھر دنیا اِسی کو اخلاق سمجھے گی کہ جتنی طاقت میسر آئے اُسے استعمال کرو یہی قانون ہے۔ اور جب دنیا کے خیالات اِس طرف مائل ہوں گے کہ جنتے زیادہ سے زیادہ خطرناک ہتھیار ملتے جائیں اُن کو استعمال کرو تو لازماً دنیا میں فساد، جنگ اور خونریزی بڑھے گی۔
پس میر ایہ مذہبی فرض ہے کہ میں اس کے متعلق اعلان کردوں گو حکومت اسے بُرا سمجھے گی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امن کے رستے میں یہ خطرناک روک ہے۔ اس لئے میں نے بیان کر دیا ہے کہ ہمیں دشمن کے خلاف ایسے مہلک حربے استعمال نہیں کرنے چاہئیں جو اِس قسم کی تباہی لانے والے ہوں۔ ہمیں صرف وہی حربے استعمال کرنے چاہئیں جو جنگ کے لئے ضروری ہوں۔لیکن ایسے حربوں کو ترقی دینا اور ایسے حربوں کو استعمال کرنا جن سے عورتوں، بچوں اور اُن لوگوں کو جن کا جنگ کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں تکلیف پہنچے ہمارے لئے جائز نہیں۔ اور ہمارا فرض ہے کہ خواہ ہماری آواز میں اثر ہو یا نہ ہو حکومت سے کہہ دیں کہ ہم آپ کی خیر خواہی کے جذبہ کی وجہ سے مجبور ہیں کہ اِس امر کا اظہار کر دیں کہ ہم آپ کے اس فعل سے متفق نہیں۔ اور مجبور ہیں کہ آپ کو ایسا مشورہ دیں جس کے نتیجہ میں آئندہ جنگیں اور فنتے بند ہو جائیں۔
جہاں مَیں اس قسم کے حربوں کے استعمال کے خلاف ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اخلاقی طو رپر ہمارا فرض ہے کہ ہم حکومت کو بتائیں کہ یہ کام اچھا نہیں وہاں میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی اس بم کی ایجاد سے پوری ہوئی ہے اور آئندہ اَور بھی شدت سے اس کے پورا ہونے کا احتمال ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہماری آواز میں اثر تو ہے نہیں کیونکہ نہ ہم سیاست میں بڑے سمجھے جاتے ہیں اور نہ ہم جتھے میں اتنے بڑے ہیں کہ کوئی ہماری آواز کی طرف توجہ کرے اور نہ مذہبی طور پر ان قوموں کا ہم پر ایمان ہے کہ وہ سمجھیں کہ ہمیں اِن کی بات ماننی چاہیے۔ ہم نے تو صرف ایک فرض ادا کیا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا اور نہ ہی ہم کر سکتے ہیں۔ مگر دوسری طرف ہم اِس بات کو بھی نہیں بھول سکتے کہ خدائی فیصلہ کس طرح اپنے اپنے زمانہ میں پورا ہوتا چلا آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ ‘‘شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا۔’’5 پچھلی بمباریاں جو ہوئی ہیں وہ اتنی عظیم الشان نہ تھیں جنہیں دیکھ کر رونا آتا ہو لیکن اٹامک بم سے جو بمباری کی گئی ہے اخبارات والے لکھتے ہیں کہ اِس بمباری کی تباہی کو دیکھ کر واقع میں رونا آتا ہے۔ اِس بم کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چالیس چالیس میل تک کے علاقہ کو تباہ کر سکتا ہے۔ یہ صاف بات ہے کہ جہاں یہ بم گِرے گا اُن جگہوں کو دیکھ کر رونا آئے گا۔ مگر جن جن علاقوں پر وہ گِرے گا جہاں وہ اپنی تباہی کی طاقت پر شہادت دے رہا ہو گا اور اپنے بنانے والوں کے ہنر کی توصیف کر رہا ہو گا وہاں ہر تباہ شدہ علاقہ اور ہر تباہ شدہ ملک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کی گواہی بھی ساتھ دے رہا ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہوائی جہاز بھی نہ تھے کہ ان کے ذریعہ بمباری کی جاتی۔ آپ کے بعد ہی ہوائی جہاز نکلے۔ پھر اس کے بعد ہوائی جہازوں سے گرانے والے بم نکلے۔ اور اس کے بعد اب یہ اٹامک بم نکل آئے ہیں جو حجم میں بالکل چھوٹے ہوتے ہیں لیکن دو ہزار سُپر فورٹرس (Super Fortress)6 کی بمباری کے برابرایک بم کا اثر ہوتا ہے۔ دو ہزار سُپر فورٹرس کی بمباری بیس ہزار ٹن کےبرابر ہوتی ہے یا ہمارے ملک کے حساب سے پانچ لاکھ ساٹھ ہزار من ڈائنامیٹ پھینکنے کے برابر اس ایک بم کا پھینکنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں جہاں یہ بم گریں گے وہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت ظاہر ہو گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ پیشگوئی عظیم الشان طور پر پوری ہو گی کہ ‘‘شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا۔ ’’
جب کبھی مومنوں کے لئے اللہ تعالیٰ غم کا پہلو نکالتا ہے تو ساتھ ہی خوشی کا پہلو بھی پیدا کر دیتا ہے۔ ہمیں غم ہے کہ دنیا اُس رستے پر چل رہی ہے جو اسے تباہی اور ہلاکت کی طرف لے جانے والا ہے۔ لیکن ساتھ ہی خوشی بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی پوری ہو کر ہمارے لئے زیادتیٔ ایمان کا موجب ہوئی۔ اور ہمیں مزید یقین دلاتی ہے کہ جس طرح یہ پیشگوئی پوری ہوئی ہے ویسے ہی وہ پیشگوئیاں بھی اپنے وقت پر پوری ہوں گی جن میں اسلام اور سلسلہ کے غلبہ کی خبر دی گئی ہے۔ اور ایک زمانہ اسلام پر ضرور آئے گا جب وہ تمام دنیا پر غالب ہو گا۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کے بعد دنیا تباہ ہو گی یا باقی رہے گی لیکن اسلام کے غلبہ سے پہلے دنیا تباہ نہیں ہو گی۔ لوگ ایک دوسرے کو مارنے اور تباہ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن انسان ان تباہیو ں اور بربادیوں میں سے کسی نہ کسی طرح بچ ہی نکلے گا۔ یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی میں اور آپ کے جھنڈے کےنیچے ایک دفعہ پھر دنیا میں امن قائم کیا جائے گا۔ اور خدا کا کلام پورا ہو کر دنیا کو اِن خطرناک عذابوں اور بلاؤں سے بچا لے گا۔ اس کے بعد اگر قیامت جلد آنی ہے تو آجائے گی مگر اس سے پہلے نہیں اور ہرگز نہیں۔ ’’ (الفضل 16 ؍اگست 1945ء)
1: وِی وَن (V.One): ہوائی بم جو 1944ء، 1945ء کے دوران ہٹلر نے انگلستان پر حملہ
کرنے کے لئے ایجاد اور استعمال کیا۔
2: وِی ٹو(V.Two): ہوائی بم جو 1944ء، 1945ء کے دوران ہٹلر نے انگلستان پر حملہ
کرنے کے لئے ایجاد اور استعمال کیا۔
3: المدثر: 32
4: بخاری کتاب الْجِہَاد باب لَا یُعَذَّبُ بِعَذَابِ اللہِ
5: تذکرۃ صفحہ 719 ایڈیشن چہارم
6:سُپر فورٹرس (B-29 Super Fortress) : یہ چار انجنوں والا ہیوی بمبار طیارہ تھا جس
کو امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے قریب استعمال کیا ۔ یہ دوسری جنگ عظیم
میں استعمال کیا جانے والا سب سے بڑا اور سب سے ایڈوانس بمبار جہاز تھا۔اس جہاز کے
ذریعے سے ہی ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا تھا۔
( Wikipedia , The Free Encyclopedia )

26
جسمانی جنگ ختم ہوئی آؤ ہم روحانی جنگ کی تیاری کریں
(فرمودہ 17 اگست1945ءبمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘دنیا میں انسانی زندگی اور قوموں کی زندگی پر مختلف دَور آتے رہتے ہیں اور ہر دَور کے مطابق کچھ اعمال ہوتے ہیں۔ جب کوئی انسان ان اعمال کو اپنے وقت پر بجا لاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں وہ تعریف و توصیف کا مستحق ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے موقع پرجب کام کا معیّن وقت گزر جائے تو اس کی ادائیگی صحیح تصور نہیں کی جا سکتی۔ سوائے اِس کے کہ کوئی مجبوری یا معذوری ہو۔ مثلاً جب ظہر کی نماز کا وقت آتا ہے تو اس نماز کو جو شخص وقت پر ادا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے انعام اور اس کی رضا کا مستحق ہوتا ہے۔ یا معذوری اور مجبوری کی حالت میں دو نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں جیسے ظہر و عصر، مغرب و عشاء کی نمازیں ہم یہاں جمع کر لیتے ہیں کیونکہ عام طور پر بارش ہوتی رہتی ہے۔ اور پھر چڑھائی کی وجہ سے نہ صرف دُور رہنےو الے نماز میں شامل نہیں ہو سکتے بلکہ ‘‘پیس’’ میں رہنے والوں کا بھی ہر نماز میں شامل ہونا مشکل ہے۔ اس لئے ہم نمازیں جمع کر لیتے ہیں تاکہ لوگ زیادہ تعداد میں شامل ہو سکیں۔ پس ظہر عصر اور مغرب عشاء کی نمازیں جمع ہو سکتی ہیں لیکن صبح اور ظہر کی نمازیں جمع کر کے پڑھنا جائز نہیں اور عشاء اور صبح کی نمازیں جمع کر کے پڑھنا جائز نہیں۔
بہرحال جو شخص نمازوں کو وقت پر ادا کرتا ہے وہ انعام کا مستحق ہوتا ہے۔ لیکن جو شخص وقت پر ادا نہیں کرتا اگر وہ ایسی مجبوری کی وجہ سے ادا نہیں کر سکتا جس کی شریعت نے اجازت دی ہے تو وہ دوسری نماز کے ساتھ ملا کر پڑھ سکتا ہے۔ مثلاً عصر کے وقت کوئی شخص بیہوش ہو جاتا ہے یا لڑائی میں شامل ہو جاتا ہے اور اسے فرصت نہیں ملتی کہ وہ عصر کی نماز وقت پر پڑھ سکے تو وہ عصر کی نماز مغرب کے ساتھ ملا کر بھی پڑھ سکتا ہے۔ عام حالات میں تو یہ جائز نہیں۔ لیکن اگر پیدا شدہ روک انسان کے تصرف سے باہر ہو تو یہ طریق مجبوری کی وجہ سے جائز ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر کسی نے عصر کی نما زبِالارادہ چھوڑ دی ہو اور وہ اسے کسی دوسرے وقت پر ادا کرنے لگا ہو تو یہ اس کے لئے جائز نہیں ہو گا۔ اِسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ عقیدہ تھا کہ فوت شدہ نمازوں کی قضا کوئی اسلامی مسئلہ نہیں۔ درحقیقت یہ بعض آخری زمانہ کے مسلمانوں کی جماعت تھی کہ وہ بِالارادہ چھوڑی ہوئی نمازوں کے متعلق یہ سمجھتے تھے کہ ہم ان کو دوسرے اوقات میں ادا کر سکتے ہیں۔ حالانکہ کوئی نماز بِالارادہ چھوڑی ہوئی نماز کی قائمقام نہیں ہو سکتی۔ ہاں اس نماز کی قائمقام دوسرے وقت کی نماز ہو گی جو معذوری اور مجبوری کی وجہ سے چُھوٹ گئی ہو اور وہ بھی معذوری اور مجبوری کے دور ہونے کے معاً بعد جو نماز کا وقت آئے اُس وقت اگر وہ وقت انسان سُستی سے گزار دے تو پھر نماز بھی نہ ہو سکے گی۔ غرض وقت پر فرائض ادا کرنا اپنے ساتھ بہت بڑی برکات لاتا اور انسان کو بڑے بڑے فضلوں کا وارث بنا دیتا ہے۔
ہمارے زمانہ میں آج سے تیس اکتیس سال پہلے ایک جنگ شروع ہوئی تھی اور آج سے 27 سال پہلے وہ لڑائی ختم ہوئی۔ وہ لڑائی 1914ء میں شروع ہوئی تھی اور 1918ء میں ختم ہوئی۔1914ء پر 31 سال گزر گئے ہیں اور 1918ء پر ستائیسواں سال گزر رہا ہے۔ یہ لڑائی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑا عذاب تھی۔ اس جنگ سے پہلے ہی خدا تعالیٰ نے اِس بات کا اظہار فرما دیا تھا کہ میں دنیا میں ایک تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ ا للہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہلے سے خبر دے دی تھی کہ‘‘ زار’’ اُس وقت تباہ ہو جائے گا۔ دنیا پر ایک زبردست تباہی آئے گی۔ اور دنیا میں ایک عظیم الشان انقلاب پیدا کر دیا جائے گا۔ یہ لڑائی آئی اور چلی گئی لیکن ہماری جماعت نے اُس سے وہ فائدہ نہ اٹھایا جو اٹھانا چاہیے تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنے فرائض کو سمجھتے اور دنیا میں ایک روحانی انقلاب پیدا کر دیتے۔ لیکن ہم میں سے بُہتوں نے سستی اور غفلت سے کام کیا۔
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں صحیح کام وہی کہلاتا ہے جسے بروقت ادا کیا جائے اور پھر عقلمند وہی ہوتا ہے جو ہر تغیر کے مقابل پر اُس کے مناسب حال اثر قبول کرے۔ مثلاً ایک شخص کسی کو کوئی چیز دیتا ہے تو وہ اُسے لے کر جَزَاکُمُ اللہ کہتا ہے۔ اگر پھر وہ اسے چیز دیتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ دوبارہ اُسے جَزَاکُمُ اللہ کہے۔ یہ بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بار بار چیزیں تو لیتے جاتے ہیں مگر بار بار شکریہ ادا نہیں کرتے۔ اگر بچے کو کوئی چیز دی جائے تو وہ جَزَاکُمُ اللہکہتا ہے۔ لیکن اگرکوئی شخص اُسے کوئی چیز دوبارہ یا سہ بارہ دے تو وہ جَزَاکُمُ اللہنہیں کہتا۔ وہ ایک بار جَزَاکُمُ اللہ کو ہی کافی سمجھتا ہے۔ اگر اس کے ماں باپ اُس سے پوچھیں کہ تم نے جَزَاکُمُ اللہ کیوں نہیں کہا؟ تو وہ کہہ دیتا ہے کہ میں نے جَزَاکُمُ اللہ کہا تھا۔ وہ پوچھتے ہیں کب؟ تو کہتا ہے پہلی بار جو کہا تھا؟ لیکن عقلمند انسان ہر نئے فعل کے مقابلہ میں ایک نیا جواب پیش کرتاہے۔ ہم خداتعالیٰ کے قانونِ قدرت میں بھی دیکھتےہیں کہ ہر سورج جو چڑھتا ہے اس کے مقابلہ میں زمین میں ایک نیا تغیر پیدا ہوتا ہے۔ ہر ہوا کے مقابلہ میں شگوفے اور پتے ایک نیا جواب پیش کرتے ہیں۔ اور ہر بارش جو برستی ہے زمین اُس کا نیا جواب پیش کرتی ہے۔ یہ نہیں کہ زمین کہے کہ پچھلے سال بارش ہوئی تھی تو اس کے مقابلہ میں مَیں نے سبزی اُگا دی تھی اس لئے اس سال نہیں اُگاتی بلکہ ہر چھینٹا جو پڑتا ہے زمیں اپنے نئے نشوونما سے اُس کا جواب دیتی ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ کے ہر نئے فعل کا مومن کی طرف سے ایک نیا جواب پیش ہونا چاہیے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت چندہ دیتی ہے، ہماری جماعت تبلیغ کرتی ہے، ہماری جماعت نمازیں پڑھتی ہے اور ہماری جماعت روزے رکھتی ہے۔ جس طرح وہ پہلی جنگ سے پہلے چندہ دیتی تھی اُسی طرح جنگ کے بعد بھی چندہ دیتی رہی۔ جس طرح جنگ سے پہلے تبلیغ کرتی تھی اُسی طرح جنگ کے بعد بھی کرتی رہی۔ جس طرح جنگ سے پہلے نمازیں پڑھتی تھی اُسی طرح اب بھی پڑھتی رہی۔ جس طرح جنگ سے پہلے روزے رکھتی تھی اسی طرح جنگ کے بعد بھی رکھتی رہی۔ جو لوگ جنگ سے پہلے زکوٰتیں دیتے تھے ان میں سے صاحب توفیق اب بھی دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو نیا نشان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر کیا گیا تھا اُس کے مقابل پر کونسی نئی چیز ہماری طرف سے پیش کی گئی۔ زمین کو دیکھو وہ بے جان ہے لیکن وہ ہر بارش کے مقابلہ میں نئی روئیدگی پیش کرتی ہے۔ وہ بے دل، بے دماغ اور بے جان چیز جو انسان کے مقابل پر کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی سمجھتی ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والے ہر نئے چھینٹے کے مقابل پر میں نے ایک نیا جواب پیش کرنا ہے۔ اگر جنگل کی جھاڑیوں یا درختوں پر بارش ہوتی ہے تو زمین کا وہ حصہ بارش کے مقابل پر نئی ڈالیاں اور نئے پتے پیش کرتا ہے۔ اگر جنگل کے گھاس پھونس پر بارش ہوتی ہے تو اس بارش کے جواب میں زمین کچھ نیا گھاس پیدا کر دیتی ہے، کچھ نئی جھاڑیاں پیدا کردیتی ہے، کچھ نئی ٹہنیاں پید اکر دیتی ہے۔ اور اگر اس زمین میں جہاں بارش ہوتی ہے پھلدار درخت ہوں تو وہ بارش کے ان چھینٹوں کے مقابلے میں نئی خوشنمائی اور پہلے سے زیادہ حجم والے پھل پیش کر دیتے ہیں۔ مگر انسان جو سب سے زیادہ عقلمند کہلاتا ہے، جو خداتعالیٰ کے فضلوں کا سب سے زیادہ وارث ہے اور جس کو خداتعالیٰ نے اپنے انعامات دیئے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے کسی نئے فعل کے مقابل میں کوئی نیا جواب پیش نہیں کرتا۔ حالانکہ قانونِ قدرت میں ہمیں کوئی چیز ایسی نظر نہیں آتی جو ہر نئی تأثیرکے مقابلہ میں ایک نیا جواب پیش نہ کرتی ہو۔ لیکن انسان جو سب سے زیادہ عقلمند ہے اور جو خداتعالیٰ کے فضلوں کا سب سے زیادہ وارث ہے وہی ہے جو ہر نئی چیز کے مقابلہ میں ایک نیا جواب پیش نہیں کرتا۔
پس یہ سوال نہیں کہ ہماری جماعت نے کیا نہیں کیا؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ ہماری جماعت نے کیا کیا؟ وہ ایک بہت بڑا موقع تھا جو جماعت نے ضائع کر دیا۔ اِس جنگ کے نتیجہ میں جو خلا پیدا ہؤا تھا اِس کو پُر کرنے کے لئے آگے آنا چاہئے تھا لیکن ہم نے اِس موقع کو کھودیا۔ جس طرح ایک شخص جب باوجود تندرست ہونے کے روزہ نہیں رکھتا تو وہ دوبارہ اِس کوتاہی کے بدلہ میں روزہ نہیں رکھ سکتا اِسی طرح اِس جنگ کے بعد خلا کو پُر نہ کرنے کی کوتاہی کا علاج ہم دوبارہ نہیں کر سکتے تھے۔ اگر ہمیشہ ہمیش کے لئے کوئی نیا واقعہ پیش نہ آتا یا زیادہ دن گزر جاتے اور کوئی نیا نشان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر نہ ہوتا۔ ہاں توبہ اور استغفار کر سکتے تھے۔ جِس طرح بِالْاِرادہ روزہ نہ رکھنے والے وقت گزر جانے کے بعد روزہ نہیں رکھ سکتے۔ یا بِالْاِرادہ نماز چھوڑنے والے نماز کا وقت گزر جانے کے بعد نماز نہیں پڑھ سکتے ۔ ہاں توبہ اور استغفار کر سکتے ہیں۔ اِسی طرح اِس جنگ کے بعد جو جواب ہونا چاہیے تھا اگر اُس جواب کو ہم نےخدا تعالیٰ کے سامنے پیش نہیں کیا تو ہمارے پاس اب سوائے اِس کے کوئی چارہ نہیں کہ ہم توبہ اور استغفار کرتے رہیں اور اپنی غفلت پر روتے رہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہماری اس کمزوری کو دیکھ کر کہ یہ مُردہ ملک اور مُردہ قوم میں پیدا ہوئے ہیں فرمایا کہ میں اس نشان کی پنج بار چمک دکھلاؤں گا۔ یعنی یہ لوگ ایک ایسی مُردہ قوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ایک ایسے مُردہ ملک میں رہتے ہیں کہ زندہ ملکوں اور زندہ قوموں کی طرح فورًا ایک نئے فعل کے مقابل پر نیا جواب نہیں دیتے۔ بلکہ اُس مُردہ اور سُوکھی ہوئی ٹہنی کی طرح ہیں جو ہر نئی بارش کے مقابل پر جواب پیش نہیں کر سکتی۔ بلکہ تین چار بارشوں کے بعد اس میں سبزی نظر آتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اب یہ ٹہنی لہلہانے لگ جائے گی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت پر رحم فرمایا اور اس کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے فرمایا۔ میں اپنے نشان کی چمک پانچ دفعہ دکھلاؤں گا۔ ان پانچ نشانوں میں سے پہلا نشان کانگڑے کا زلزلہ ہے۔ دوسری دفعہ جنگِ عظیم کا نشان ظاہر ہوا جو 1914ء میں ہوئی۔ اِس کے بعد بہار اور کوئٹہ کے زلازل آئے۔ اور اب چوتھی دفعہ پھر جنگ کے زلزلے کا نشان آیا جو اَب ختم ہو گیا ہے۔
جہاں یہ زلزلہ دنیا کے لئے عذاب تھا وہاں ہم پر خداتعالیٰ کا احسان بھی تھا کیونکہ خداتعالیٰ نے نہ چاہا کہ گزشتہ نشانوں کے کھو جانے کی وجہ سے ہمیں ہمیشہ کے لئے روتا چھوڑدے۔ خصوصاً 1914ء کے نشان پر باوجود اِس کے کہ خداتعالیٰ نے 1914ء میں ایسا نشان دکھایا تھا جو مخفی نہیں تھا جو کسی ایک انسان کےساتھ تعلق رکھنے والا نہیں تھا، جو کسی ایک ملک کے ساتھ تعلق رکھنے والا نہیں تھا بلکہ سارے ملکوں کےساتھ تعلق رکھنے والا تھا، جو کسی ایک شہر کے ساتھ تعلق رکھنے والا نہیں تھا بلکہ سارے شہروں کے ساتھ تعلق رکھنے والا تھا پھر بھی اس نشان اور اس بارش کے مقابلہ میں ہم نے نئی ڈالیوں اور نئے شگوفوں کے رنگ میں کوئی جواب نہیں دیا۔ تب خدا نے کہا یہ سُوکھے ہوئے درخت ہیں اِن کے لئے ایک بارش کافی نہیں۔ ان کے زندہ کرنے کے لئے ویسی ہی بلکہ اس سے بھی بڑی ایک اَور بارش چاہیے۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے پھر ایک بہت بڑا زلزلہ پیدا کر دیا اور ایک نیا نشان دکھلایا۔ پہلی جنگ تو اچانک آگئی تھی اور جماعت کو اس کے لئے تیاری کا موقع نہیں ملا تھا۔ لیکن یہ جنگ خداتعالیٰ نے اچانک پیدا نہیں کی بلکہ 1934ء سے جب سے کہ تحریک جدید شروع ہوئی ہے میں کہتا چلا آیا تھا کہ ایک بہت بڑا تغیر پیدا ہونے والا ہے اور ایک بہت بڑا خلا رونما ہونے والا ہے۔ اور میں جماعت کو یہ کہتا چلا آیا ہوں کہ تم اس کے لئے تیار ہو جاؤ۔ اب کوئی بدبخت ہی ہو گا جو اس نشان کے بعد یہ ارادہ نہ کر لے کہ وہ خداتعالیٰ کے دین کے لئے اور اس فعل کے نتیجہ میں آنے والے خلاء کو پُر کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہے گا۔ اور اس نشان کے مقابلہ میں اپنی حالت میں ایک نیا تغیر پیدا کرے گا۔ جس طرح گلاب کا پودا اپنے میں سے گلاب کا ایک تازہ پھول نکال دیتا ہے اور چنبیلی کا پودا اپنے میں سے چنبیلی کا ایک نیا پھول نکال دیتا ہے اِسی طرح ہمیں بھی یہ ارادہ کر لینا چاہیے کہ ہم خداتعالیٰ کے اس نشان کے بعد اپنے ایمان کا نیا مظاہرہ کریں گے۔ ہمیں یہ ایک خاص موقع ملا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی پہلی کوتاہیوں اور سستیوں کو دور کریں۔ ایسا نہ ہو کہ اُس شخص کی طرح جو بِالارادہ روزے نہیں رکھتا اور وہ اگلے رمضان سے پہلے مر جاتا ہے تو وہ توبہ لے کر تو خدا کے سامنے جا سکتا ہے لیکن روزے لے کر خدا کے سامنے نہیں جا سکتا۔ ہم بھی ندامت کے آنسو لے کر تو اُس کے سامنے جائیں لیکن عقیدت کے پھول اس کے سامنے پیش نہ کر سکیں۔ اگر ہم اِس جنگ کے آنے سے پہلے مر جاتے تو ہم ندامت لے کر ہی خدا تعالیٰ کے سامنے جا سکتے تھے لیکن اِس نشان کے مقابلہ میں ایمان کے جو پھول نکلنے چاہئیں تھے وہ ہم اس کے سامنے نہیں رکھ سکتے تھے۔ ہم آنسو لے کر تو خدا تعالیٰ کے سامنے جا سکتے تھے اور کہہ سکتے تھے کہ ہم نے تیرے ایک نشان کو دیکھا اور اس کے نتیجہ میں کوئی کام نہ کیا۔ ہم اپنے فعل پر نادم ہیں لیکن عقیدت اور محبت کا کوئی تحفہ اُس کے سامنے پیش نہیں کر سکتے تھے۔ اب تم خود غور کر لو۔ اِن دونوں باتوں میں کتنا عظیم الشان فرق ہے۔ کُجا خدا تعالیٰ کے سامنے ندامت کے آنسو پیش کرنا اور کُجا اِس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے سامنے ایمان کے پھول پیش کرنا۔
اب اگر اس واقعہ سے پہلے ہم پر موت آجاتی یا یہ واقعہ ہوتا ہی نہ تو ہم خدا تعالیٰ کے سامنے ندامت کے آنسوؤں کے سوا کیا پیش کر سکتے تھے۔ لیکن اب خدا تعالیٰ نے آسمان سے دوبارہ بارش نازل کر دی ہے اور دوبارہ ایک عظیم الشان نشان ظاہر کر دیا ہے تاکہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے ندامت کے آنسو ہی پیش نہ کریں بلکہ اس بارش کے مقابلہ میں اپنی نمازوں اور روزوں اور نیکیوں کی ڈالیوں سے نئے پھول پیش کر سکیں۔ پس ہماری جماعت کے ہر فرد کا اگر اس میں ایمان کا ایک ذرہ بھی باقی ہے فرض ہے کہ ان حالات کو سمجھتے ہوئے وہ ارادہ کرے کہ میں اپنے اندر ایسا تغیر پیدا کروں گا کہ جس سے وہ خلاء جو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے پُر ہو جائے۔ اگر ہم خداتعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اس خلاء کو پُر نہیں کریں گے تو یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ اور اگر ہم نے اس کو کھو دیا تو یہ ہماری سخت بے وقوفی اور بدقسمتی ہو گی۔
پس میں جماعت کو پھر اس طرف توجہ دلاتا ہوں اور ایسے وقت میں توجہ دلاتا ہوں جبکہ جنگ کے بعد یہ قریب ترین وقت ہے اور جنگ کے بعد یہ پہلا خطبہ ہے جس کے پڑھنے کا مجھے موقع ملا ہے۔ اب تم میں سے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ بجائے اِس کے کہ وہ آرام کا سانس لے اپنی کمرِ ہمت کس لے اور سمجھ لے کہ یہ آرام کا وقت نہیں بلکہ کام کا وقت ہے۔ جنرل اسلم جو برہما فرنٹ کے کمانڈر ہیں اُن کا یہ فقرہ کیا ہی اچھا ہے۔ جب جرمنی کی جنگ ختم ہوئی تو اُن کے سٹاف کے لوگوں میں اِس پر رائے زنی ہونے لگی۔ تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد جنرل اٹھے اور کہا دوستو!جنگ ختم ہو گئی آؤ ہم جنگ کی تیار ی کریں۔ یہی فقرہ اِس وقت ہر مخلص احمدی کو اِس طرح الفاظ بدل کر کہنا چاہے جسمانی جنگ ختم ہوئی آؤ ہم روحانی جنگ کی تیاری کریں۔
یاد رکھو خدا تعالیٰ کی طر ف سے بارش نازل ہو چکی ہے۔ اب خدا تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہر جھاڑی یا بُوٹی کایہ کام ہےکہ وہ اس کے مقابلہ میں عقیدت کے پھول پیش کرے۔ عقیدت کے پھول پیش کرنا ہماری زبان میں ایک محاورہ ہے۔ عام طو رپر یہ محاورہ محض لطیفہ کے طور پر بولا جاتا ہے۔ مگرہمارے معاملہ میں تو یہ لفظاً لفظاً چسپاں ہو سکتا ہے۔ پس عقیدت کے پھول پیش کرنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو تیار ہونا چاہیے اور پختہ ارادہ کرلینا چاہیے کہ ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے میں تیار رہوں گا۔ اور حقیقی اسلام یعنی احمدیت کو دوبارہ دنیا میں قائم کروں گا۔ اس کے متعلق بہت کچھ تفاصیل مَیں بیان کر چکا ہوں اور بہت کچھ ابھی رہتی ہیں۔ جن کو خدا تعالیٰ نے زندگی دی تو آئندہ بیان کر دیا جائے گا۔ لیکن ضرورت اِس بات کی ہےکہ تم میں سے ہر شخص جو اِس خطبہ کو سن رہا ہے اور ہر وہ شخص جس کو یہ خطبہ پہنچے وہ اپنے دل میں تہیا کر لے کہ میں صرف سابقہ غفلت اور ندامت پر آنسو نہیں بہاؤں گا بلکہ اب جو نیا موقع پیدا ہوا ہے اِس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی بارش کے مقابلہ میں اپنی عقیدت کے نئے پھول پیش کروں گا۔ اگر جماعت ایسا کرے تو ہماری کامیابی میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ہمارے ارادے کے ساتھ خدا تعالیٰ کا ارادہ بھی شامل ہو چکا ہے۔ اور جہاں دو چیزیں مل جائیں وہاں کامیابی بالکل یقینی ہوتی ہے۔
چاہیے کہ تم میں سے ہر شخص حسبِ توفیق صبح شام یا دوسرے دن یا ہفتہ یا مہینہ یا سال میں ایک بار اپنے نفس سے سوال کرے کہ کیا اِس جنگِ عظیم کے نشان کے بعد میں نے کوئی نیا پھول خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش کیا ہے جو اس سے پہلے میں پیش نہ کیا کرتا تھا۔ مجھے اِس وقت اس سلسلہ میں ایک لطیفہ یاد آگیا ہے جو ہے تو معمولی لیکن میرے دل پر بڑا ثر رکھتا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے میں عصر کی نما زپڑھ کر مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے اُتر رہا تھا۔ حضرت خلیفہ اول سامنے چوک میں کھڑے تھے۔ آپ نے مجھے اُترتے دیکھ کر آواز دی۔ میاں! اِدھر آؤ۔ ایک شخص میاں بگا ہؤا کرتا تھا جو اَب فوت ہو چکا ہے وہ بھی حضرت خلیفہ اول کے پاس ہی کھڑا تھا۔ حضرت خلیفہ اول نے مجھے بلا کر فرمایا میاں بگا مجھے ملا ہے اور کہتا ہے کہ میرے نکاح کا سب انتظام ہو گیا ہے صرف تھوڑی کسر باقی ہے وہ آپ پوری کر دیں۔ اِس پر میں نے اُسے مبارک باد دی اور پوچھا کہ کیاانتظام ہوا ہے؟ تو اُس نے کہا میں بھی نکاح کے لئے راضی ہو گیا ہوں اور میری ماں بھی راضی ہو گئی ہے اب آپ لڑکی اور روپے کا انتظام کر دیں۔ پھر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا دو کا انتظام تو میاں بگے نے خود کر لیا ہے اور دو کا انتظام تم کر دو۔ تو دیکھو لوگ بغیر کسی سامان کے بھی کامیابی کی امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ لیکن ہماری کامیابی تو یقینی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اس کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اب ہمارا کام ہے کہ ہم بھی فیصلہ کر لیں کہ خد ا تعالیٰ ہم میں جو تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہے اس کے مطابق ہم اپنے آپ کو ڈھالیں گے۔ جس طرح خدا ہم میں تبدیلی پیدا کرتا چلا جائے گا اُسی طرح ہم تبدیل ہوتے چلے جائیں گے اور چونکہ یہ کام خد اتعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق ہو گا اس لئے ہماری کامیابی میں کوئی شبہ ہی نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ محض خیالی باتوں سے ہی خوش ہو جاتے ہیں اور اپنی کامیابی کی خوابیں دیکھنی شروع کر دیتے ہیں۔ ہٹلر کو دیکھو اسے تمام دنیا فتح کرنے کا خیال تھا۔ حالانکہ دنیا کی تمام بڑی بڑی سلطنتیں اُس کے خلاف تھیں۔ اس کے پاس کچھ فوج تھی اور کچھ سائنس دان تھے مگر اِتنی سی بات پر اُس نے سمجھ لیا کہ میں جیت جاؤں گا۔ اسی طرح جاپان کیا تھا؟ ایک مُردہ اور اپنے ملک سے نہ نکلنے والی قوم تھی۔ مگر چالیس سال کےا ندراُس میں بیداری پیدا ہوئی اور اس قوم کے افراد نے تھوڑی سی بیداری سے یہ سمجھ لیا کہ ہم ساری دنیا کو مٹا دیں گے، سارے ایشیا کو غلام بنا لیں گے۔ اس نے خیال کیا کہ ہماری دو چار میٹھی باتوں سے لوگ سمجھیں گے کہ ہم ان کو آزاد کرانے آئے ہیں اور ہمارے عملوں کو دیکھ کر کوئی یہ خیال نہیں کرے گا کہ ہم انہیں غلام بنانے آئے ہیں۔ جب لوگ اتنے چھوٹے چھوٹے واقعات پر اتنی امیدیں باندھ لیتے ہیں تو ہماری کتنی بدقسمتی ہو گی کہ ہم اپنی کامیابی کی امید نہ رکھیں جبکہ خداتعالیٰ اس کامیابی کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اب ہمارا کام ہے کہ ہم بھی اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کا فیصلہ کرلیں۔ جب خدا کا فیصلہ اور مومنوں کا فیصلہ دونوں اکٹھے ہو جائیں تو پھر کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پس اب کامیابی کا تمام تر انحصار ہمارے اپنے فیصلہ پر ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی اندھا تھا وہ کچھ ساتھیوں سمیت ایک سرائے میں ٹھہرا اور کسی ساتھی کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ باتیں کرتے کرتے بہت رات ہو گئی۔ ایک اَورشخص حافظ کی باتیں سن سن کر تنگ آ گیا اور کہا حافظ جی! بہت رات ہو گئی ہے اب سو جائیں۔ حافظ جی نے جواب دیا سونا کیا ہے چُپ ہی ہو رہنا ہے۔ یعنی سونا نام ہے آنکھیں بند کر لینے اور چُپ ہونے کا۔ آنکھیں تو پہلے ہی بند ہیں اب صرف زبان ہی کو روکنا ہے۔ جس طرح سونا نام ہے خاموش ہو جانے کا اور آنکھیں بند کر لینے کا اِسی طرح قومی کامیابی نام ہے خدا تعالیٰ اور مومنوں کے ارادہ کے مل جانے کا۔ خداتعالیٰ تو ارادہ کرچکا ہے اب ہماری کامیابی صرف یہ ہے کہ ہم بھی ارادہ کر لیں۔ اگر ہم ارادہ کر لیں گے تو ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ لوگ کامیابی کے لئے پہلے خود ارادہ کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے آگے ناک رگڑتے ہیں اور پھر بھی وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے لئے کتنی سہولت ہے کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ پہلے سے ہو چکا ہے اب ہمارا ارادہ جو چھوٹی سی چیز ہے باقی ہے اس کے بعد دنیا فتح ہو جائے گی۔
پس چاہیے کہ ہم ارادہ کر لیں اور ہر کام کے لئے اور ہر قربانی کے لئے تیار ہو جائیں ۔ کیونکہ جو لوگ قربانی کے لئے تیار نہیں ہوتے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہماری قربانی کی مثال ایسی ہی ہے جیسے خداتعالیٰ ایک لاکھ روپیہ کسی کے سامنے پیش کرے اور کہے کہ اس میں ایک روپیہ ڈال دو تو ایک لاکھ روپیہ تمہارا ہو جائے گا۔ لیکن وہ ایک لاکھ روپیہ میں ایک روپیہ ڈال کر ایک لاکھ ایک روپیہ لینے کے لئے تیار نہ ہو۔ اور سمجھتا ہو کہ ایک روپیہ کے پاس رکھنے میں ہی میری کامیابی ہے۔اس سے زیادہ نادان کون ہو گا۔ جس کے لئے خداتعالیٰ اپنی ساری قدرت پیش کرے اور کہے کہ اپنا ایک روپیہ اس ایک لاکھ میں ڈال دو تو یہ سارا روپیہ تمہارا ہو جائے گا۔ لیکن وہ اس کے لئے تیار نہ ہو۔ پس ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ خلاء کو پُر کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ اور اپنے ارادہ کو خداتعالیٰ کی تقدیر کے ساتھ ملا دے تاکہ وہ خدا کی ہو کر ساری دنیا کے لئے ہدایت کا موجب بنے۔ اور خداتعالیٰ کے فضلوں کی ایسی وارث ہو کہ اس کے دربار میں ہمیشہ اُس کا نام عزت و احترام کےساتھ لیا جائے۔ ’’
(الفضل 23 ؍اگست 1945ء)

27
آئندہ اندازًا بیس سال میں ہماری جماعت کی پیدائش ہو گی
(فرمودہ 24 ؍ اگست1945ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘قوموں کی پیدائش کے مختلف دَور ہوتے ہیں اور ہر دَور اپنی اپنی جگہ پر اہمیت رکھتاہے۔ جس طرح بچے کی پیدائش ہوتی ہے اسی طرح قوموں کی پیدائش عمل میں آتی ہے۔ یہ امر ہر شخص جانتا ہے کہ بچہ کی پیدائش پر مختلف دَور آتے ہیں۔ پہلے اُس کی حالت ایک نطفہ کی ہوتی ہے لیکن نطفہ اُس وقت تک کوئی نتیجہ پید انہیں کر سکتا جب تک حمل کی صورت میں اُس کا استقرار نہ ہو جائے۔ گویا پہلا مرحلہ انسانی پیدائش کے سلسلہ میں استقرارِ حمل کا ہے۔ جب تک حمل کا استقرار نہ ہو جائے اُس وقت تک کوئی پیدائش معرضِ وجود میں نہیں آسکتی۔ چنانچہ دیکھ لو دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جن کی شادیاں ہوئے دس دس بیس بیس سال گزر چکے ہیں یا جن کی شادیوں پر دس دس بیس بیس سال گزرتے چلے آئے ہیں اور وہ طبیبوں سے علاج بھی کراتے ہیں اور شدید خواہش رکھتے ہیں کہ اُن کی شادی کسی بچے کی صور ت میں نتیجہ پیدا کرے لیکن ان کی کوششیں رائیگاں جاتی ہیں اور کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا۔
پس سب سے پہلا مرحلہ جو قیامِ زندگی اور نسلِ انسانی کے تسلسل میں پیش آتا ہے وہ استقرارِ حمل کا ہے۔ اِسی طرح جب کوئی بندہ خداتعالیٰ کی طرف رغبت کرتا اور اس سے محبت اور پیار کا اظہار کرتا ہے اور اُس وقت دنیا کسی مصلح کی محتاج ہوتی ہے تو خداتعالیٰ کی طرف سے اس بندے پر الہام نازل کیا جاتا ہے اور وہ الہام دنیا میں ایک نئی روحانی پیدائش کے لئے بطور استقرارِ حمل کے ہوتا ہے۔ اور اپنی جگہ پر یہ مرحلہ ایسا ضروری ہوتا ہے کہ اگر ہم اس کو اہم ترین مرحلہ قرار دیں تو یہ بالکل صحیح ہو گا کیونکہ تمام آئندہ ہونے والے واقعات اور حالات اُسی پر منتج ہوتے ہیں۔
خداتعالیٰ کا وہ الہام جو بندے پر پہلی دفعہ نازل ہوتا ہے کہ میں تجھے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے کھڑا کرتا ہوں بطور استقرارِ حمل کے ہوتا ہے۔ مگر اس الہام کے ساتھ ہی دنیا میں کوئی فوری تغیر پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں اس الہام کے بعد کامیابی کے رستے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ جس طرح بچے کی پیدائش میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نطفہ سے خون کا لوتھڑا بنتا ہے پھر اس میں زیادہ گرانی پیدا ہوتی ہے اور وہ گوشت کی شکل اختیار کرتا ہے۔ پھر اس کی ہڈیاں بنتی ہیں اور پھر اس پر چمڑا چڑھتا ہے۔ پھر آنکھ، کان اور ناک وغیرہ اعضاء نمایاں شکل اختیار کرتے ہیں۔ پھر بچے کو غذا لینے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ ناف کے ذریعہ اس کو حاصل کرتا ہے۔ یہی مختلف حالات ہوتے ہیں جن میں سے قومیں گزرتی ہیں۔ اور یہی مختلف مراحل ہیں جن میں سے ہماری جماعت کو بھی گزرنا ہے۔ بعض لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ جماعتیں یکساں طور پر ایک ہی حالت میں چلتی چلی جاتی ہیں۔ ان کا یہ خیال حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ کیونکہ جماعتیں یکساں طور پر کبھی ایک حالت پر نہیں رہتیں بلکہ ان کے حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ جیسے بچے کی حالت بدلتی رہتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچہ ابتدا سے اسی طرح بنا بنایا آتا ہے اور بڑھنا شروع کر دیتا ہے بلکہ اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ علمِ حیات کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ ماں کے رحم میں بچہ اتنی شکلیں بدلتا ہے کہ دنیا کے تمام جانوروں کی شکلیں اختیار کرتا ہؤا گزرتا ہے۔ ایک وقت اسے خوردبین سے دیکھا گیا تو اُس کی شکل مچھلی کی سی تھی۔ دوسرے وقت اُسے خوردبین سے دیکھا گیا تو اس کی شکل خرگوش کی سی تھی۔ پھر کسی اَور وقت اسے خوردبین سے دیکھا گیا تو اُس کی شکل بندر کی سی تھی۔ غرض ارتقاء کے مختلف دَور جنین پر وارد ہوتے ہیں۔ اور وہ یکے بعد دیگرے مختلف جانوروں کی شکلوں میں سے گزرتا ہؤا آخر انسانی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اِسی طرح قوموں کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ یکساں طور پر چلتی چلی جاتی ہیں ایک بے معنی خیال ہے۔ ان کی شکلیں بدلتی چلی جاتی ہیں۔ اور مختلف حالتوں میں گزرتی ہوئی وہ اپنے کمال کو پہنچتی ہیں۔ اور آخر کار وہ وقت آجاتا ہے جو اس قوم کی پیدائش کے لئے مقدر ہوتا ہے۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جماعت کی پیدائش کا زمانہ وہ تھا جب جنگ بدر ہوئی اور مسلمانوں کے مقابلہ میں عرب کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔ گویا بدر کی جنگ کے موقع پر وہ جماعتی حیثیت سے دنیا کے سامنے آگئے اور لوگ یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ اب مسلمانوں کا مقابلہ کرنا آسان کام نہیں۔ بہرحال جماعتیں پہلے اسی رنگ میں ترقی کرتی ہیں جس رنگ میں جنین رحمِ مادر میں ترقی کرتا ہے۔ اورپھر جس طرح ایک دن جنین کی پیدائش عمل میں آجاتی ہے اسی طرح قوموں پر ایک دن ایسا آتا ہے جب تدریجی رنگ میں ارتقائی مقامات کو طے کرتے ہوئے اُن کی پیدائش معرضِ وجود میں آجاتی ہے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری جماعت ابھی اُس مقام پر نہیں پہنچی جس کو پیدائش کا مقام کہا جا سکے یعنی دنیا ہمارے وجود کو تسلیم کرلے۔ اَور تو اَور ابھی پنجاب میں بھی ہمارے وجود کو پورے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ گو ایک حد تک پنجاب میں ہمارے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن ایسے طور پر نہیں کہ لوگ عَلَی الْاِعْلَان اقرار کر لیں۔ ابھی لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ چھوٹی سی جماعت ہے اس کا کیا ہے۔ اور ہندوستان میں تو ہماری کوئی ایسی نمایاں حیثیت ہی نہیں کہ ہم لوگوں کے سامنے بحیثیت جماعت آسکیں۔ ہاں جیسے بعض عجوبہ پسند کسی عجیب چیز کا ذکر اپنی کتاب میں کر دیتے ہیں اِسی طرح بعض لوگ ہم کو عجوبہ سمجھتے ہوئے اپنی کتابوں میں ہمارا بھی ذکر کردیتے ہیں۔ اور ہندوستان سے باہر تو صرف چند ممالک ایسے ہیں جن میں ہلکے طور پر ہمارے وجود کو تسلیم کیا جاتا ہے ورنہ باقی دنیا ہماری کوئی اہمیت تسلیم نہیں کرتی۔ جس طرح جنگل میں سے گزرنے والے شخص کی نظر بعض دفعہ جھاڑیوں اور بُوٹیوں پر بھی پڑجاتی ہے لیکن وہ اُن کے وجود پر اِتنی توجہ نہیں دیتا جتنی توجہ وہ باغ میں اُگے ہوئے مختلف پھولوں پر دیتا ہے۔ باغ میں جانے والا شخص یاسمین کے پودے کے پاس جاتا اُس سے لطف اٹھاتا اور اس کے متعلق اپنی رائے قائم کرتا ہے۔ گلاب کے پھول کے پاس جاتا، اُس سے لطف اٹھاتا اور اس کے متعلق اپنی رائے قائم کرتا ہے۔ پھر کسی پھل دار درخت کے پاس پہنچتا ہے تو اس کی تعریف کرتا ہے۔ لیکن جنگل میں سے گزرنے والا شخص درختوں اور جھاڑیوں کے پاس سے گزرتا چلا جاتا ہے نہ ان پر اس کی نظر پڑتی ہے نہ وہ ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اور نہ وہ ان کا اس طرح جائزہ لیتا ہے جس طرح باغ میں جانے والا شخص باغ کے پھولوں کا جائزہ لیتا ہے۔ جنگل میں سے گزرنے والا شخص لاکھوں کروڑوں جھاڑیوں کے پاس سے بے توجہی سے گزر جاتا ہے۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی نئی چیز کی کشش کی وجہ سے وہ کسی جھاڑی یا پھول کو کچھ دیر کے لئے توجہ سے دیکھتا اور اس کے متعلق اپنی رائے بھی قائم کر لیتا ہے۔ لیکن وہ چیز دیر تک اُس کے حافظہ میں نہیں رہتی اور اگلا قدم ہی اُسے وہ جھاڑی بُھلا دیتا اور کسی نئی جھاڑی کی طرف متوجہ کر دیتا ہے۔ یہی دنیا میں ہماری حالت ہے کہ لوگ ہماری طرف اپنی توجہ بھی مبذول نہیں کرتے۔ اور اگر کرتے ہیں تو وہ ایسی ہی ہوتی ہے جیسے جنگل میں سے گزرنےو الا کبھی کسی جھاڑی کی طرف وقتی طور پر متوجہ ہوجاتا ہے۔ لیکن وقت آرہا ہے جب کہ ہمیں وہ پوزیشن حاصل ہو جائے جو بچے کو حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے لئے ابھی جوانی کا وقت دُور ہے۔ اور دُور سے میری مراد یہ ہے کہ وہ بلحاظ مدارج اور مراحل کے دُور ہے۔ ورنہ خداتعالیٰ چاہے تو وہ ایک دن میں بھی لا سکتا ہے۔ اور اُس کی قدرت سے بعید نہیں کہ ہم جو اندازے کرتے ہیں وہ انہیں پانچ یا دس سال میں پورا کر دے۔ مگر مراحل کے لحاظ سے ابھی جوانی کا زمانہ دُور نظر آتا ہے۔ جیسے بچے کو جوان ہونے میں کافی وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ہماری جماعت کو اپنی جوانی تک پہنچنے میں ابھی کافی وقت کی ضرورت ہے۔ بلکہ ابھی تو ہماری جماعت کی پیدائش بھی نہیں ہوئی۔ پیدائش کے بعد بچہ گو ناکارہ ہوتا ہے اور وہ اُٹھ کر نہ چل سکتا ہے، نہ باتیں کر سکتا ہے، نہ خیالات ظاہر کر سکتا ہے، نہ خیالات کو سن کر نتائج اخذ کر سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی دنیا اِس بات کو ماننے پر مجبور ہوتی ہے کہ وہ بھی ایک علیحدہ اور مستقل وجود رکھتا ہے۔ خواہ وہ بے کار وجود ہو۔ خواہ دنیا اس کے متعلق یہ نہ سمجھتی ہو کہ وہ بڑا ہو کر ہمارے اندر تغیر پیدا کر سکتا ہے۔ یا ہمارا مقابلہ کر سکتا ہے۔ یا ہمیں مشورہ دے سکتا ہے لیکن اس کے علیحدہ وجود ہونے سے انکار نہیں کر سکتی۔ اِسی طرح جب دنیا میں کسی قوم کی پیدائش ہوتی ہے تو لوگ اُس کے وجود کا اقرار کر لیتےہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ یہ قوم بھی دنیا کی اقوام میں گنے جانے کے قابل ہے۔ گو اس کی اہمیت کو لوگ نہ سمجھتے ہوں یا اس کے متعلق وہ یہ نہ سمجھتے ہوں کہ وہ دنیا میں عظیم الشان تغیر کا موجب ہو سکتی ہے مگر ابھی دنیا کی اقوام میں ہماری قومی شخصیت اور فردیت تسلیم نہیں کی گئی۔ اور جوانی تو ابھی دُور ہے۔
میں نےا للہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے دس سال میں جو باتیں اپنی جماعت کی ترقی اور دنیا کے تغیرات کے متعلق بتائی تھیں اُن کا نتیجہ دنیا کے سامنے آگیا ہے۔ اور دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ وہ کس طرح لفظ بلفظ پوری ہوئی ہیں۔ اور ان کی تفاصیل اسی طرح وقوع میں آئی ہیں جس طرح مَیں نےبیان کی تھیں۔ اب میرے دل میں یہ بات میخ کی طرح گڑ گئی ہے کہ آئندہ اندازاً بیس سالوں میں ہماری جماعت کی پیدائش ہو گی۔ بچوں کی تکمیل تو چند ماہ میں ہو جاتی ہے اور نو ماہ کے عرصہ میں وہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ لیکن بچے کی پیدائش اور قوم کی پیدائش میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ ایک فرد کی پیدائش بے شک نو ماہ میں ہو جاتی ہے لیکن قوموں کی پیدائش کے لئے ایک لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں آئندہ بیس سال کا عرصہ ہماری جماعت کے لئے نازک ترین زمانہ ہے۔ جیسے بچہ کی پیدائش کا وقت نازک ترین وقت ہوتا ہے۔ کیونکہ بسا اوقات وقت کے پورا ہونے کے باوجود پیدائش کے وقت کسی وجہ سے بچہ کا سانس رُک جاتا اور وہ مُردہ وجود کے طور پر دنیا میں آتا ہے۔ پس جہاں تک ہماری قومی پیدائش کا تعلق ہے میں اِس بات کو میخ کے طور گڑا ہوا اپنے دل میں پاتا ہوں کہ یہ بیس سال کا عرصہ ہماری جماعت کے لئے نازک ترین مرحلہ ہے۔ ا ب یہ ہماری قربانی اور ایثار ہی ہوں گے جن کے نتیجہ میں ہم قومی طور پر زندہ پیدا ہوں گے یا مُردہ۔ اگر ہم نے قربانی کرنے سے دریغ نہ کیا اور ایثار سے کام لیا اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارا، محنت اور کوشش کو اپنا شعار بنایا تو خداتعالیٰ ہمیں زندہ قوم کی صور ت میں پیدا ہونے کی توفیق دے گا اور اگلے مراحل ہمارے لئے آسان کر دے گا۔ بچے کی پیدائش کا مرحلہ ہی سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ پھر اس کا بڑا ہونا پھولنا پھلنا یہ سب ایک ہی دائرہ اور ایک ہی چکر کی چیزیں ہیں۔ اور وہ غیر معمولی حادثات نہیں کہلا سکتے۔ لیکن بچے کا ماں کے پیٹ سے باہر آنا ایک غیر معمولی حادثہ سمجھا جاتا ہے۔ گو جوان آدمی کی طاقتوں اور بچے کی طاقتوں میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے اور جوان اور بچے کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی۔ بچہ ایک انگلی بھی نہیں ہلا سکتا اور جوان آدمی پہاڑ بھی کاٹ سکتاہے۔ پس گو یہ ایک بہت بڑا فرق ہے لیکن بچپن سے جوانی کی طرف جانا نسبتاً ایک سہل اور نرم راستہ پر چلنے کے مترادف ہے جو یکساں طور پر چلتا چلا جاتا ہے۔ مگر بچے کا پیدائش کے ذریعہ اِس دنیا کی زندگی میں آنا ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔ بچہ جب اِس دنیا میں آتا ہے اُس کے لئے یہ دنیا نئی ہوتی ہے، یہ منزل نئی ہوتی ہے۔ اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے انسان دنیا میں مشکل سے مشکل حالات میں سے گزرتا ہے لیکن ان سے اتنا خائف نہیں ہوتا جتنا موت سے ڈرتا ہے۔ حالانکہ موت بھی تو ایک تبدیلی کا نام ہے۔ انسان کی زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ اِس دنیا سے دوسری دنیا میں چلا جاتا ہے۔ لیکن موت سے ہر انسان خائف ہوتا ہے اور اِس لئے خائف ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے مقام کی طرف جا رہا ہوتا ہے جس کے متعلق اُسے کچھ علم نہیں ہوتا۔ اِس لئے اُسے یہ تبدیلی ہیبت ناک معلوم ہوتی ہے۔ بہرحال جس طرح استقرارِ حمل ایک نئی تبدیلی ہے ،جس طرح بچے کی پیدائش ایک نئی تبدیلی ہے اِسی طرح موت کے بعد انسان کا اِس دنیا سے دوسری دنیا میں چلے جانا بھی ایک نئی تبدیلی ہے۔ اوریہ تینوں مرحلے ہر قوم کو پیش آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا الہام بطور استقرارِ حمل کے ہوتا ہے۔ جس طرح حمل کا استقرار کسی انسان کےا ختیار میں نہیں ہوتا اِسی طرح الہام کا نازل ہونا کسی بندے کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ جب اللہ تعالیٰ کا الہام آتا ہے تو دنیا میں بڑے بڑے تغیرات کا موجب بنتا ہے۔ گمنام اور غیر معروف قوم الہامِ الٰہی پر ایمان لانے کی وجہ سے غیر معمولی طور پر اپنا وجود ظاہر کرتی ہے اور اپنی پیدائش کے وقت تمام دنیا سے اپنے وجود کا اقرار کرا لیتی ہے۔ غرض استقرارِ حمل سے وجود قائم ہوتا ہے اور پیدائش سے وہ وجود دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔
پس میں سمجھتا ہوں یہ بیس سال کا عرصہ ہمارے لئے اہم ترین زمانہ ہے۔ کئی ہم میں سے ایسے ہوں گے جو اس بیس سال کے عرصہ میں دنیا سے گزر جائیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا گزر جانا کوئی نئی چیز ہے؟ کیا پہلی قوموں میں سے لوگ مرتے نہیں رہے؟ کیا کسی ترقی کرنے والی قوم یا کسی قربانی کرنے والے انسان نے کبھی کہا ہے کہ ہماری زندگی میں یہ کام ہو گیا۔ تو ہم اسے کر دیں گے اور اگر ہماری زندگی میں نہ ہوا تو ہم نہیں کریں گے صرف مُردہ دل لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ پہلے ہمیں انجام دکھاؤ۔ پھر ہم قدم اٹھائیں گے۔ زندہ قومیں یا زندہ افراد اِس بات کو دل میں بھی نہیں لاتے۔ وہ کہتے ہیں ہم اِس کام کو شروع کرتے ہیں۔ اگر ہم مر گئے تو دوسرے لوگ ہماری جگہ سنبھال لیں گے اور اِس کام کو جاری رکھیں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اِس کام کی بنیاد قائم کرنا ہی ہمارے لئے عزت کا موجب ہے۔ مثلاً شاہجہان نے تاج محل بنوایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اُس نے روپے کا اِسراف کیا۔ اور ایسی چیز پر روپیہ خرچ کیا جس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ لیکن جہاں تک عمارت بنانے کا سوال ہے اُس نے عظیم الشان نشان دنیا میں چھوڑا۔ فرض کرو شاہجہان کو یہ یقین ہوتا کہ میرے مرنے کے بعد صرف سَو سال یا دو سَو سال تک تاج محل قائم رہے گا اِس سے زیادہ اس کا نشان دنیا میں قائم نہ رہے گا تو بھی وہ کہتا کہ سو یا دو سو سال تک جلوہ دکھاجانا بھی کوئی چھوٹی بات نہیں۔ لیکن اس کے مقابل پر مومن کے لئے تو غیر محدود زندگی اور غیر محدود انعام ہیں۔ اور مومن کا اندازہ دنیا کے اندازے سے نرالا ہوتا ہے۔ غیر مومن لوگ اپنے کاموں کا اندازہ بیس پچیس یا پچاس یا سو سال تک لگاتے ہیں۔ کچھ لوگ اَور زیادہ اندازہ لگاتے ہیں تو ہزار سال تک اپنی ترقی کی امید رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے لئے انہیں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔
ہٹلر کی امنگوں اور اس کےجذبات اور اس کی بیداری کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اِس زمانہ کا ایک غیر معمولی انسان تھا جس کے اندر ایک ایسی آگ تھی جو اپنے گِردو پیش کی سینکڑوں میل تک کی چیزوں کو بھسم کرتی چلی جاتی تھی۔ وہ آگ نہ تھی بلکہ کہنا چاہیے کہ وہ ایک آتش فشاں پہاڑ تھا جس نے اپنے سارے ملک کو ہلا دیا۔ لیکن باوجود اِن تمام باتوں کے اُس کا اندازہ یہ تھا کہ وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کو ایک ہزار سال کے لئے محفوظ کر جائے۔ اور اپنے ملک اور قوم کو ایک ہزار سال تک محفوظ کرنے کے لئے اُس نے اور اُس کی قوم نے جو قربانیاں کی ہیں وہ کتنی حیرت انگیز ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے مقابل پر جو طاقتیں تھیں وہ اُس سے زیادہ زبردست تھیں اور اِس وجہ سے وہ شکست کھا گیا۔ یا یہ سمجھ لو کہ اُس نے خدا تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکا لیا۔ لیکن جہاں تک دنیوی لحاظ سے قربانیوں کا تعلق ہے اُس نے حیرت انگیز کام کیا۔ اِسی طرح نپولین اور تیمور بھی دنیا کےغیرمعمولی انسانوں میں سے ہیں۔ اور یہ لوگ انسانوں میں سےعجیب قسم کی مثالیں ہیں۔ ان کے کاموں سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کےا ندر کتنی عظیم الشان طاقتیں محفوظ رکھی تھیں۔ ہٹلر کا سب سے بڑا اندازہ جو تھا وہ ایک ہزار سال کا تھا لیکن ہٹلر کے علاوہ جو دوسرے بڑے بڑے لیڈر گزرے ہیں اُن کا اندازہ صرف سو سال یا دو سو سال کا تھا۔ اور وہ چاہتے تھے کہ سو سال کے لئے یا دو سو سال کے لئے اپنی قوم کو بلند کر جائیں۔ اتنے تھوڑے عرصہ کے لئے انہوں نے ایسی ایسی قربانیاں کی ہیں جو انسان کو محوِ حیرت بنا دیتی ہیں۔
مثلاً تیمور کو ہی دیکھو۔ کہا جاتا ہے کہ بعض جگہ اس کے مُردوں کی لاشیں جمع کی گئیں تو وہ ایک ٹیلہ بن گیا۔ یہ قربانیاں اُس نے کس لئے کیں؟ صرف اس لئے کہ اس کی قوم کچھ عرصہ کے لئے دنیا میں بلند ہو جائے اور اُس کی قوم کو عزت کی نظر سے دیکھا جائے۔ لطیفہ مشہور ہے کہ تیمور ایران کو فتح کرتا ہوا جب شیراز پہنچا تو اُس نے خواجہ حافظ کو بلا کر پوچھا کہ کیا یہ شعر آپ کا ہے؟ ؂
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را
حافظ نے کہا ہاں میرا ہے۔ تیمور نے کہا تم بھی عجیب آدمی ہو۔ میں نےتو دنیا میں قتل وغارت کر کے لاشوں کےڈھیر لگا دیئے ہیں محض اِس لئے کہ سمرقند و بخارا کو عزت ملے اور تم ہو کہ اپنے معشوق کے ایک خال1 پر سمرقند و بخارا دینے کو تیار ہو گئے ہو۔ تو سمرقند و بخارا کو عزت دینے اور اس کا نام بلند کرنے کے لئے تیمور نے لاشوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ اس نے اپنی جان کی پروا نہ کی۔ اس نے اپنی قوم کی جان کی پروا نہ کی اور یہ سب کچھ اس لئے کیا کہ کچھ عرصہ کے لئے اُس کی قوم کو عزت حاصل ہو جائے۔ مگر کتنے عرصے تک اُس کی قوم کے پاس یہ عزت رہی؟ بمشکل چالیس سال تک تیمور کی قوم کے پاس یہ عزت رہی۔ اِسی طرح نپولین کی قوم بھی زیادہ دیر تک برسراقتدار نہ رہ سکی اور جلد ہی ختم ہو گئی۔ اور ہٹلر کا تو کچھ بنا ہی نہیں وہ اپنی زندگی میں ہی ملک کی عزت کو ختم ہوتا دیکھ گیا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے جو قربانیاں کیں وہ حیرت انگیز ہیں۔ ان مثالوں کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ہماری جماعت کو غور کرنا چاہیے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے کتنی بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے۔
ہمارے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم ساری دنیاکی اصلاح کریں ۔ ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا قائم کریں۔ ساری دنیاکو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غلامی میں داخل کریں۔ اس کام کے لئے ہمیں دن رات محنت کی ضرورت ہے، دن رات قربانیوں سے کام لینے کی ضرورت ہے اور دن رات اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس کام کو کر لیں جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے یعنی ہم دنیا سے دہریت اور لامذہبیت کو مٹانے میں کامیاب ہو جائیں اور پھر دوبارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حکومت قائم کر دیں تو ہمارے جیسا خوش قسمت اَور کون ہو سکتا ہے۔ اِس کام کے نتیجے میں ہم ابد الآباد زندگی اور ابدالآباد انعامات کے وارث ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا ہمارے شامل حال ہو گی۔ لیکن ضرورت ہے اِس بات کی کہ ہم ایمان میں ترقی کریں، ضرورت ہے اِس بات کی کہ ہم اخلاص میں ترقی کریں، ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم قربانیوں میں ترقی کریں۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو رسمی طور پر جماعت میں داخل ہو جاتے ہیں یعنی عقلی طور پر اُنہوں نے جماعت کے عقائد کو سمجھ لیا ہوتا ہے لیکن ان کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوتا۔ جیسے بعض لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ یہ لوگ مسلمان تو ہیں لیکن ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔2 اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ منافق تھے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے دماغوں میں اسلام کا مفہوم تو آگیا تھا اور دماغی طور پر تو انہوں نے اسلام کو سمجھ لیا تھا لیکن اُن کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا تھا۔ حقیقی ایمان اُسی وقت حاصل ہوتا ہے جب ایمان دماغ سے اُتر کر دل میں داخل ہو جائے۔ جیسے ایک شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی کے دلائل سُنے اور عقلی طور پر اس بات کا قائل ہو جائے کہ خدا موجود ہے اور اس کی یہ صفات ہیں۔ تو یہ اَور بات ہے اور یہ کہ خداتعالیٰ کی محبت انسان کے دل میں داخل ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی محبت اس کی حیات کا جزو بن جائے یہ اَور بات ہے۔ فرض کرو لیلیٰ مجنوں کا وجود دنیا میں کوئی وجود تھا تو پھر لیلیٰ کو دنیا میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمیوں نے دیکھا ہو گا۔ اب جہاں تک اُس کی آنکھوں کا سوال ہے کہ وہ چھوٹی تھیں یا بڑی، جہاں تک اِس بات کا سوال ہے کہ اُس کی آنکھوں میں سفیدی کتنی تھی اور سیاہی کتنی، جہاں تک اُس کی گردن کا سوال ہے کہ لمبی تھی یا چھوٹی، جہاں تک اُس کے جسم کی مناسبت کا سوال ہے کہ اُس کے اعضاء میں تناسب تھا یا نہیں، اس کے ہاتھ پاؤں لمبے تھے یا چھوٹے،اُس کا رنگ سیاہ تھا یا سفید یہ چیزیں سب دیکھنے والوں کے لئے برابر تھیں۔ لیکن دوسرے لوگوں کے دیکھنے اور مجنوں کے دیکھنے میں بڑا فرق تھا۔ دوسرے لوگ لیلیٰ کو دیکھتے تو وہ اُن کے دماغ تک ہی رہ جاتی لیکن مجنوں نے دیکھا اور دیکھتے ہی وہ اُس کے دل میں اُتر گئی۔ لوگوں نے لیلیٰ کو دیکھا تو کہا اچھی ہے اور آگے چل دیئے لیکن مجنوں نے اسے دیکھا تو اس نے سب کچھ چھوڑ کر ساری عمر لیلیٰ کے دروازے پر گزار دی۔ یہی فرق اُن اشخاص میں ہوتا ہے جو دماغ یا دل سے کسی بات کو مانتے ہیں۔ سینکڑوں آدمی ایسے ہوتے ہیں جو دماغ سے تو ایک بات کو مانتے ہیں لیکن دل سے اُس کو نہیں مانتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اُس کے لئے کوئی قربانی اور ایثار نہیں کر سکتے۔ جیسے لوگ بعض شاعروں کےشعروں کو پڑھتے اور اُن کی تعریف کرنے لگتے ہیں مگر ان کے دل میں ان شعروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اِس کے مقابل میں ایک ماں بھی اپنے اکلوتے بیٹے کی تعریف کرتی ہے مگر دونوں کی تعریف میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کُجا ایک آدمی کا شاعر کے شعر کو پسند کرنا اور کُجا ماں کا اپنے بچے کوپسند کرنا۔ اگر غالب کے شعروں کو پسند کرنے والے اور اس کے شعروں کی تعریف کرنے والے ایک آدمی کو دو تھپڑ مار کر پوچھا جائے کہ بتاؤ غالب کے شعر کیسے ہیں؟ تو وہ فورًا کہہ دے گا کہ بہت بُرے ہیں۔ لیکن اگر ماں کو قتل بھی کر دیا جائے تو بھی وہ اپنے بچے کی تعریف کرے گی۔ دنیا میں ہزاروں مائیں مرتی ہیں اور بچے اُن کی گود میں ہوتے ہیں۔ دنیا اُن کو مار سکتی ہے مگر بچے کی گردن میں حمائل 3 ہونے والے ہاتھوں کو نہیں چُھڑا سکتی۔ تو دل اور دماغ کی کیفیت میں بڑا فرق ہے۔ اور وہی ایمان انسان کی نجات کا موجب ہوتا ہے جو دماغ سے اُتر کر دل میں بھی داخل ہو جائے۔
پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ وقت بہت نازک ہے۔ اپنے ایمانوں کی فکر کرو، اپنی اصلاح کرو ،سُستیوں اور غفلتوں کو ترک کرو۔ میں نے تحریک جدید کے دس سالہ دَور میں کئی بار بتایا تھا کہ یہ قربانی صرف دس سال کے لئے نہیں ہو گی بلکہ آئندہ بھی جاری رہے گی خواہ کسی صور ت میں جاری رہے۔ مگر افسوس کہ بُہتوں نے اِس بات کو سنا اور دوسرے کان سے نکال دیا۔ خوب یاد رکھو جس دن کسی قوم میں قربانی بند ہوئی وہی دن اُس قوم کی موت کا ہے۔ قوم کی زندگی کی علامت یہی ہوتی ہے کہ وہ قربانیوں میں ترقی کرتی چلی جائے اور قربانیوں سے جی نہ چُرائے۔ اگر ہم ساری دنیا کو بھی فتح کر لیں پھر بھی ہمیں اپنے ایمان کو سلامت رکھنے اور اپنے ایمان کو ترقی دینے کے لئے قربانیاں کرتے رہنا ہو گا۔ پس میں جماعت کےد وستوں کو آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ جماعت ایک نازک ترین دَور میں سے گزرنے والی ہے اِس لئے اپنے ایمانوں کی فکر کرو ۔کسی شخص کا یہ سمجھ لینا کہ دس پندرہ سال کی قربانی نے اُس کے ایمان کو محفوظ کر دیا ہے اُس کے نفس کا دھوکا ہے۔ جب تک عزرائیل ایمان والی جان لے کر نہیں جاتا، جب تک ایمان والی جان ایمان کی حالت میں ہی عزرائیل کے ہاتھ میں نہیں چلی جاتی اُس وقت تک ہم کسی کو محفوظ نہیں کہہ سکتے خواہ وہ شخص کتنی بڑی قربانیاں کر چکا ہو۔ اگر وہ اس مرحلہ میں پیچھے رہ گیا تو اُس کی ساری قربانیاں باطل ہو جائیں گی اور وہ سب سے زیادہ ذلیل انسان ہو گا۔ کیونکہ چھت پر چڑھ کر گرنے والا انسان دوسروں سے زیادہ ذلت کا مستحق ہوتاہے۔ ’’ (الفضل 6ستمبر 1945ء)
1:خال: (i)وہ قدرتی سیاہ نقطہ جو چہرے یا جسم پر ہوتا ہے۔(ii) تل
2: قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ (الحجرات:15)
3: حمائل: گلے میں ڈالنے والی چیز


28
اپنے اندر بیداری پیدا کرواور اپنی سستیوں اور غفلتوں کو ترک کر دو
(فرمودہ 31 ؍ اگست1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘دنیا میں کوئی وقت سہولت اور آہستگی کا ہوتاہے اور کوئی وقت جلدی اور بھاگ دوڑ کا ہوتاہے۔ کوئی وقت آدمی کے لئے عاجزی اور انکسار کا ہوتا ہے اور کوئی وقت جرأت اور بہادری ظاہر کرنے کا ہوتا ہے۔ بڑے بڑے بھاری بھرکم آدمی جو بظاہر تکلف کے ساتھ چلتے ہیں، جو ہر ایک کام میں آہستگی کے ساتھ ہاتھ ڈالتے ہیں اور ہر قدم اس طرح اٹھاتے ہیں کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ زمین اپنی کشش کی وجہ سے ان کو اپنی جگہ سے ہلنے نہیں دیتی۔ جب ایسا موقع آجائے کہ آہستگی اُن کو خطرہ میں ڈالنے والی ہو اور ان کو یہ معلوم ہو جائے کہ آہستگی سے کام نہیں چلے گا تو وہی لوگ جلدی کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور اپنی ساری سنجیدگی اور تکلفات کی چادر کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ایک لطیفہ مشہور ہے۔ لکھنؤ اور دہلی کے لوگ بڑے تکلف والے ہوتے ہیں۔ دہلی والے اس بات کے مدعی ہیں کہ تہذیب و تمدن کا جو نمونہ دہلی والے دکھلا سکتے ہیں دوسرے لوگ نہیں دکھا سکتے۔ اور لکھنؤ والے اس بات کے مدعی ہیں کہ جو نمونہ تہذیب و تمدن کا لکھنؤ والے دکھا سکتے ہیں دہلی والے نہیں دکھا سکتے۔ عام طور پر دہلی والے مرزا کہلاتے ہیں اور لکھنؤ والے میر کہلاتے ہیں کیونکہ دہلی میں مغلوں کی حکومت تھی اور لکھنؤ میں شیعوں کی۔ لکھنؤ کے نواب سادات میں سے تھے اور دہلی کے بادشاہ مغلوں میں سے۔ اس لئے دہلی کے بڑے بڑے رؤساء ملک میں مرزا کہلاتے تھے اور لکھنؤ کے رؤساء میر کہلاتے تھے۔ اس لئے جب کوئی لطیفہ بنانا ہو اور اسے دہلی یا لکھنؤ والوں کی طرف منسوب کرنا ہو تو دہلی والوں کو مرزا اور لکھنؤ والوں کو میر کہتے تھے۔ اسی طرح کا ایک مشہور لطیفہ ہے کہ ایک سٹیشن پر دہلی کے مرزا صاحب اورلکھنؤ کے میر صاحب جمع ہو گئے۔ جب گاڑی آئی تو دونوں نے اپنے اپنے شہر کی تہذیب وتمدن کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی۔ دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو گئے مرزا صاحب کہنے لگے قبلہ میر صاحب! پہلے آپ تشریف رکھیئے۔ میر صاحب کہنے لگے نہیں نہیں قبلہ مرزا صاحب پہلے آپ تشریف رکھئے۔ آپ مجھے کیوں کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں۔ اسی حیص بیص 1میں گاڑی چل پڑی۔ جب گاڑی چلی تو نہ میر صاحب قبلہ باقی رہا اور نہ مرزا صاحب قبلہ باقی رہا۔ دونوں ایک دوسرے کو دھکّے دینے لگے اور ایک نے دوسرے سے پہلے اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔ اور جب ایک دوسرے کے راستے میں حائل ہوئے تو گالی گلوچ تک بھی نوبت پہنچ گئی۔ یہ مثال اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے بنائی گئی ہے کہ بسا اوقات انسان کو اپنا جھوٹا وقار نازک مواقع پر ترک کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جو سچی آہستگی اور سہولت ہوتی ہے وہ بھی ایک موقع پر چھوڑنی پڑتی ہے۔ اور اگر انسان اسے نہ چھوڑے تو ذلیل اور ناکام ہو جاتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب معاہدہ کے ماتحت مکہ میں عمرہ کے لئے تشریف لے گئے تو وہ ملیریا کا موسم تھا۔ صحابہؓ پر راستہ میں بخار کا حملہ ہو گیا اور یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ صحابہؓ کے لئے چلنا پھرنا دوبھر ہو گیا۔ حتّٰی کہ ہتھیار اُٹھانے بھی مشکل ہو گئے۔ معاہدہ کے مطابق مکہ کے لوگ جبلِ ابوقبیس پر چلے گئے تھے اور وہاں کھڑے ہو کر مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے۔ اُس وقت جبکہ بعض مسلمانوں کے لئے طواف کرنا بھی مشکل ہو رہا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک موقع پر ہنستے ہوئے فرمایااللہ تعالیٰ کو تکبر سخت ناپسند ہے مگر فلاں شخص کی تبختر 2 کی چال اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آئی ہے۔ آپ نے اُس صحابی سے پوچھا کہ تم اَکڑ اَکڑ کر کیوں چلتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا یَا رَسُوْلَ اللہ! کفار جبلِ ابو قبیس پر بیٹھے ہمیں دیکھ رہے ہیں اور بخار نے ہماری کمریں توڑ دی ہیں جس کی وجہ سے ہم اچھی طرح چل بھی نہیں سکتے۔ میں ڈرتا ہوں ایسا نہ ہو کہ ہمیں کُبڑے چلتا دیکھ کر کفار کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اب ہم مسلمانوں کو مار لیں گے۔ اس لئے جب میں اِس جہت میں آتا ہوں جہاں سے اہلِ مکہ ہم کو دیکھ سکتے ہیں تو میں سینہ تان لیتا ہوں اور اَکڑ کر چلتا ہوں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ہم خواہ کتنے ہی بیمار ہوں ان کے مقابلہ کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔ اب دیکھو خدا تعالیٰ نے اس کی چال کو بہت پسند کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔
جس طرح افراد کی زندگیوں میں بعض دَور آہستگی کے آتے ہیں اور بعض بھاگ دوڑ کے۔ اِسی طرح قوموں کی زندگیوں پر بھی مختلف مواقع آتے ہیں۔ کبھی ایسا موقع آتا ہے جب سستی اور غفلت کو برداشت کیا جا سکتا ہے اور کبھی ایسا موقع آتا ہے جب سستی اور غفلت کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس بات کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا کہ کمزور مرتے ہیں یا طاقتور یا سارے ہی تباہ ہوتے ہیں۔ خداتعالیٰ کا بندہ جس کے ہاتھ میں اُس وقت جماعت کی باگ ڈور ہوتی ہے بیدردی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت اپنے ماننے والوں کی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے انہیں حکم دیتا چلا جاتا ہے کہ فلاں کام اِس طرح کرو اور فلاں کام اِس طرح۔ اور اُس جماعت کے امام اور رہنما کا فرض ہوتاہے کہ جس طرح تنور میں لکڑیاں ڈالی جاتی ہیں یا جس طرح دانے بُھوننے والا بھٹی میں پتّے ڈالتا چلا جاتا ہے اِسی طرح وہ لڑائی کے تنور میں اپنی جماعت کو جھونکتا چلا جائے۔ اُس وقت اُس کے دل میں رحم کا پیدا ہونا خود اُس کے لئے اور اُس کی قوم کے لئے ظلم ہوتاہے۔ اور اگر وہ رحم سے کام لے تو وہ رحم ،رحم نہیں ہو گا بلکہ ظلم ہو گا۔
ابھی پچھلے دنوں مجھے ایک دوست نے لکھا کہ ہماری جماعت کو چاہیے کہ یتامیٰ اور بیوگان کی خبرگیری پر باقی کاموں کو چھوڑ کر زیادہ زور دے۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ یہ جہاد کا وقت ہے جبکہ ادنیٰ امور کی بجائے اہم امور کو اپنے سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ (لیکن پھر بھی ہم یتامیٰ اور بیوگان کی خبرگیری کرتے ہیں۔ اور ہماری جماعت قریباً پچاس ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ ان پر خرچ کرتی ہے۔ اتنی چھوٹی سی جماعت اپنی دوسری ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے اتنی رقم یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کے کھانے اور پہننے وغیرہ پر خرچ کر رہی ہے کہ جس کی مثال دوسری قوموں میں نہیں ملتی۔ بعض یتامیٰ کو وظائف دیئے جاتے ہیں، بعض کو تعلیم دلوائی جاتی ہے اور ان میں سے بعض جو زیادہ ذہین ہوتے ہیں ان کو کالجوں میں تعلیم دلوائی جاتی ہے۔ اِسی طرح جماعت یتامیٰ و مساکین کے لئے غلّے کا انتظام کرتی ہے۔ اور یہ ایسا کام ہے کہ دوسری جماعتیں جو ہم سے دس بیس گُنا بڑی ہیں وہ بھی ایسا کام نہیں کر رہیں) پس اگر کسی وقت یہ سوال پیدا ہو جائے کہ ہم یتامیٰ کی طرف توجہ کریں یا کفر و اسلام کے مقابلہ اور احمدیت کی اشاعت کی طرف؟ اور یہ کہ اگر ہم یتامیٰ و مساکین کی طرف توجہ کریں گے تو اسلام کی عمارت کو بلند کرنے کے لئے ہمارے پاس کچھ باقی نہیں رہےگا۔ تو اُس وقت نوجوانوں کی قربانی تو الگ رہی، یتامیٰ و مساکین کی قربانی کرنے سے بھی مجھے دریغ نہیں ہو گا کیونکہ اسلام کی اشاعت بہرحال مقدم ہے اور یہ مقصد یتامیٰ و مساکین کی پرورش سے زیادہ اعلیٰ اور بلند ہے۔
غرض ایک وقت قوم پر ایسا آتا ہے جب دوسری ساری چیزوں اور سارے خیالات کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ میں نے پچھلے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ یہ وقت احمدیت کے لئے نہایت نازک ہے اور میں نے اِس کی مثال بچے کی پیدائش سے دی تھی۔ بچہ کی پیدائش کا وقت بہت نازک وقت ہوتا ہے اگر یہ وقت خیر و عافیت سے گزر جائے تو سارا گھر خوش ہوتا ہے کہ ایک نیا وجود دنیا میں آیا۔ حالانکہ وجود تو اُس وقت سے تھا جب باپ کا نطفہ ماں کے رحم میں گیا۔ بلکہ اس سے بھی پہلے جب وہ نطفہ باپ کی کمر میں تھا۔ اُس وقت بھی اس کا وجود تھا۔ مگر جو ارتقائی حالتیں ہیں اُن میں سے گزر کر اُس کا عالَم وجود میں آنا حقیقی رنگ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ہماری جماعت کے لئے پیدائش کا وقت آرہا ہے۔ اور غالباً بیس سال کے عرصہ میں اِس پیدائش کا ظہور ہونے والا ہے۔ فرد کی پیدائش کو بہت تھوڑا وقت لگتا ہے۔ بعض ماؤں کو تو صرف ایک دو منٹ درد ہو کر بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ بعض ماؤں کو ایک دو گھنٹہ کی درد کے بعد بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ بعض حالتوں میں تین تین چار چار دن گزر جاتے ہیں اورپھر بچہ پیدا ہوتا ہے۔ مگر قوموں کی پیدائش افراد کی پیدائش کی طرح نہیں ہوتی۔ وہ دنوں اور مہینوں کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی بلکہ سالوں کےسا تھ تعلق رکھتی ہے۔ بعض دفعہ قوموں کی پیدائش پر دس بیس یا تیس سال لگ جاتے ہیں اور بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے۔ مگربہرحال جیسے ماں کو درد زِہ ہوتی ہے تو گھر میں افراتفری پڑ جاتی ہے وہی حالت اِس وقت ہماری جماعت کی ہے۔ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے قانونِ قدرت نے درد زِہ پیدا کی ہے اور آئندہ بیس سال کی کوششوں کے نتیجہ میں احمدیت کا زندہ یا مُردہ بچہ پیدا ہونےو الا ہے۔ ایسے وقت میں دوسرے کسی خیال کو مدنظر نہیں رکھا جا سکتا بلکہ ایک ہی خیال کو مدنظر رکھا جا سکتا ہے۔ اور وہ یہ کہ آنےو الا واقعہ خیر و عافیت سے گزر جائے۔ پس اِس وقت ہماری جماعت کے لئے نہایت ہی نازک موقع ہے اور ہر قسم کی سُستی اور غفلت کو دور کرنے کا وقت ہے۔ وہ لوگ جو سستی اور غفلت سے کام لیں گے اُن کا اِس بچہ کی پیدائش میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ اور جو خوشی بچے کی پیدائش کے نیتجہ میں انسان دیکھتا ہے اس خوشی میں وہ حصہ دار نہیں ہوں گے۔ دنیا میں افراد کے بچے افراد کی طرف منسوب ہوتے ہیں مگر قوم کا بچہ قوم کی طرف منسوب ہوتاہے۔ اگر احمدیت نے شان و شوکت والی زندگی حاصل کر لی تو ہر احمدی کو اس نئی پیدائش کی وجہ سے ایک نئی زندگی حاصل ہو گی۔ مگر ساتھ ہی ہر قربانی کرنے والا احمدی اس بچہ (یعنی احمدیت) کی پیدائش کا موجب اور اس کا باپ سمجھا جائے گا۔ یہ خداتعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ افراد اور جماعت میں جو نسبت ہے وہ دوسری چیزوں میں نہیں ملتی۔ اگر ہم غور کریں تو ہر فردِ جماعت کا باپ ہوتا ہے اور جماعت افراد کی باپ ہوتی ہے۔ اور یہ دنوں باتیں صحیح ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ بغیر افراد کے جماعت نہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ بغیر جماعت کے افراد نہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ جماعت افراد سےبنتی ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ افراد جماعت سے بنتے ہیں۔ یہ ایک عجیب قسم کا دورِ تسلسل ہے جسے منطقی لوگ ناجائز قرار دیتے ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت میں ہمیں یہ صحیح طور پر نظر آتا ہے۔ جس طرح دنیا آج تک یہ حل نہیں کر سکی کہ مرغی پہلے تھی یا انڈا۔ اِسی طرح یہ بھی پتہ نہیں لگا سکتی کہ افراد سے جماعت بنتی ہے یا جماعت سے افراد بنتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر افراد ناقص ہوں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ کامل طو رپر جماعت بن جائے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ جماعت ناقص ہو اور افراد اعلیٰ قسم کے بن جائیں۔ جب تک افراد کامل پیدا نہیں ہوتے اُس وقت تک جماعت بھی کامل نہیں ہو سکتی۔ اورجب تک جماعت کامل نہیں ہوتی اُس وقت تک افراد بھی کامل نہیں ہوتے۔ جتنی آزاد قومیں ہیں اُن کو عزت کا مقام اُن کے افراد کی وجہ سے حاصل ہے اور جتنی عزتیں افراد کو حاصل ہیں وہ جماعت کی وجہ سے ہیں۔ اگر انگلستان امریکہ، روس، جاپان اور جرمنی وہ قربانیاں نہ کرتے جو انہوں نے کیں تو ان کی قوم کو کوئی زندگی حاصل نہ ہوتی۔ اب تو جرمنی اور جاپان پر سیاسی لحاظ سے تباہی آگئی ہے لیکن قومی طور پریہ قومیں ابھی زندہ ہیں۔ اگر ان کے افراد قربانیاں نہ کرتے اور ان میں جماعت بندی اور تنظیم نہ ہوتی تو ان کے افراد کو جو عزتیں حاصل ہیں وہ بھی حاصل نہ ہوتیں۔ انگلستان کی عزت انگریزوں کی وجہ سے ہے اور ہر انگریز کی عزت انگلستان کی وجہ سے ہے یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کی عزت اس کے افراد کی قربانیوں کی وجہ سے ہے۔ لیکن اس کے افراد کی ساری عزت یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح احمدیہ جماعت کی زندگی اُس کے افراد کی وجہ سے ہو گی اور احمدیہ جماعت کے نئے وجود سے افراد کو عزت ملے گی۔ پس یہ وہ وقت ہے جبکہ جماعت ایک وجود کو پیدا کرنے والی ہے ۔ اور اس وجود کی پیدائش پر ہر وہ فرد جس نے قربانی کی ہوگی فخر کرے گا۔ یا بالفاظ ِدیگر وہ جماعت کو پیدا کرنے والا ہو گا اور جماعت اس کو پیدا کرنے والی ہو گی۔ اور اسے ایک نئی پیدائش حاصل ہو گی جو اسے پہلے حاصل نہ تھی۔ افراد اور جماعت کا یہ دَورِ تسلسل ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور آئندہ بھی چلتا چلا جائے گا۔ اِس نازک موقع پر ہماری جماعت کی تاریخ میں جو تغیر پیدا ہونے والا ہے وہ جماعتی لحاظ سے نہایت عظیم الشان ہے کیونکہ یہ تغیر قلیل عرصہ میں ہو گا۔ اور پھر یہ تغیر ایسے لوگوں کے ذریعہ ہو گا جو دنیا میں بدترین اور ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔ آج دنیا میں مسلمانوں کی حیثیت کیا ہے؟ وہ ہر جگہ ذلیل سمجھے جاتے ہیں کوئی ان کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ آج جرمن اور جاپان شکست خوردہ اور گِری ہوئی قومیں ہیں لیکن پھر بھی ان گری ہوئی قوموں کا زیادہ لحاظ کیا جاتا ہے۔ مغربی اقوام ان گری ہوئی قوموں کا زیادہ خیال رکھتی ہیں۔ انہیں ان گری ہوئی قوموں کی غذا اور دوسری ضروریاتِ زندگی کے پورا کرنے کا زیادہ فکر ہے۔ مگرمصر، شام، عراق،ایران اور ہندوستان کے مسلمانوں کا انہیں کوئی فکر نہیں۔ ایسی قوم میں سے ایسے وجودوں کا پیدا ہونا کہ دنیا ان کے متعلق یہ کہنے لگ جائے کہ اب ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ لوگ دنیا پر غالب آجائیں گے۔ یا کم از کم دنیا میں ایک ہیجان پیدا کر دیں گے کوئی معمولی بات نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اِس کے لئے جتنی بھی قربانیاں کی جائیں تھوڑی ہیں۔ عام طور پر لوگوں میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ اگر میری کھال کے تسمے بنا کر بھی فلاں کی جُوتیوں میں باندھے جائیں تو یہ مجھ پر احسان ہو گا ایسا ہی اگر ہمارے چمڑوں کے تسمے بنائے جائیں اور اسلام کا جو جسم تیار ہو رہا ہے اُس کے جُوتوں میں باندھنے کے کام آجائیں تو یہ ایک ایسی عزت ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔
پس اپنے اندر بیداری پیدا کرو اور اپنی سستیوں اور غفلتوں کو ترک کرو۔ جب ریل گاڑی چلنے والی ہوتی ہے تو جو شخص تیزی سے چلتا ہے وہ گاڑی پر سوار ہو جاتا ہے اور جو سستی سے کام لیتا ہے وہ گاڑی پر سوار ہونے سے رہ جاتا ہے۔ جو لوگ تیزی سے چلیں گے وہ وقت پر پہنچ کر گاڑی میں سوار ہو جائیں گے اور عزت حاصل کرلیں گے۔ اور جو تکلّفات میں رہیں گے وہ گاڑی پر سوار نہیں ہو سکیں گے اور ذلیل ہو جائیں گے۔ آخر ہر ایک نے مرنا ہے اور مرتے وقت کوئی آدمی بھی اپنا مال اپنے ساتھ نہیں لے جائے گا۔ جن چیزوں کی دنیا میں قدر ہوتی ہے وہ راحت، آرام، اچھا کھانا پینا اور اچھا پہننا ہے۔ اور یہ چیزیں ایک عرصہ کے بعد انسان کی زندگی کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ مگر جو افراد اپنی قوم کی زندگی کے لئے قربانیاں کرتے ہیں اُن کے نام ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جاتے ہیں۔ ہر قوم کی تاریخ میں بڑے بڑے افراد نے جو قربانیاں کی ہیں اور ان قربانیوں کے نتیجہ میں جو عزتیں ان کو حاصل ہوئی ہیں اگر ان عزتوں کو ان قربانیوں کے مقابلہ میں رکھا جائے تو وہ قربانیاں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے جو قربانیاں کیں یا حضرت عمرؓ نے جو قربانیاں کیں یا حضرت عثمانؓ نے جو قربانیاں کیں یا حضرت علیؓ نے جو قربانیاں کیں وہ بے شک بہت بڑی نظر آتی ہیں لیکن اگر حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ دوبارہ زندہ ہو جائیں اور وہ دنیا کے گلی کُوچوں میں سے گزرتے ہوئے یہ سنیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے یوں فرمایا، حضرت عمرؓ نے یوں فرمایا ہے، حضرت عثمانؓ نے یوں فرمایا، حضرت علیؓ نے یوں فرمایا اور دوسری طرف وہ یہ دیکھیں کہ کچھ لوگ ہاتھوں میں لٹھ لئے چلے جارہے ہیں اور غصہ کی وجہ سے اُن کی آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں۔ ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا وجہ ہے؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کو فلاں شخص نے برا کہا ہے یا حضرت عمرؓ کو فلاں شخص نے برا کہا ہے یا حضرت عثمانؓ کو فلاں شخص نے برا کہا ہے یا حضرت علیؓ کو فلاں شخص نے برا کہا ہے تو میں سمجھتا ہوں ان کو اپنی قربانیاں ذلیل ترین چیزیں نظر آنے لگیں گی اور وہ خیال کریں گے کہ ہم نے کوئی قربانی نہیں کی۔
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ایک صحابی شہید ہوئے اور آپ نے اُن کے بیٹے کو دیکھا کہ وہ سر نیچے ڈالے ہوئے افسردہ جا رہے ہیں۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ!میرا باپ شہید ہو گیا ہے، پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کے خیال سے میں متفکر ہوں۔ آپ نےفرمایا کیا تمہیں پتہ ہے کہ تمہارے باپ سے اللہ تعالیٰ نے کیا سلوک کیا ہے؟ اگر تمہیں علم ہوتاتو تم اس طرح افسردہ نہ ہوتے۔ پھر آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کی روح کو اپنے سامنے حاضر کیا اور کہا تم مجھ سے مانگو جو کچھ مانگنا چاہتے ہو۔ میں تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا۔ انہوں نے کہا خدایا! میری صرف اتنی خواہش ہے کہ مجھے دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں بھیجا جائے تاکہ میں پھر اسلام کی خدمت کرتا ہوا مارا جاؤں۔ پھر مجھے زندہ کیا جائے اور پھر میں مارا جاؤں اور پھر مجھے زندہ کیا جائے اور پھر میں مارا جاؤں۔ میری یہی خواہش ہے کہ میں بار بار اسلام کی خاطر جان دوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے اپنی جان ہی کی قسم ہے کہ اگر میں نے یہ عہد نہ کیا ہوتاکہ میں کسی انسان کو دوبارہ دنیا میں واپس نہیں بھیجوں گا تو میں تیری اس خواہش کو ضرور پورا کرتا۔ 3
غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کو وقت سے پہلے قربانیاں بھاری اور گراں نظر آتی ہیں۔ ہر طالب علم جو سکول جاتا ہے وہ سکول جانا کتنی مصیبت سمجھتا ہے۔ اسے سبق یاد کرنا پڑتا ہے، لکھائی کا کام کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھی کام نہ کرنے پر اسے استاد سے مار بھی کھانی پڑتی ہے۔ لیکن کیا کوئی طالب علم ایسا ہے جس نے بعد میں اپنے سکول کی زندگی پر نظر کی ہو اور اس نے اپنی پہلی زندگی پر افسوس کیا ہو؟ تمہیں کوئی طالب علم بھی ایسا نظر نہیں آئے گا جو اپنی گزشتہ محنت پر افسوس کا اظہار کرتا ہو۔ بے شک یہ چیزیں تکالیف کا باعث ہوتی ہیں لیکن وہ کامیابیاں جو ان کے نتیجہ میں آتی ہیں دائمی ہوتی ہیں اور وقتی چیز دائمی چیز کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔پس ہماری جماعت کو وقت پہچانتے ہوئے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی چاہیے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت کے دوستوں نے پہلے بھی اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ لیکن دوستوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہر نئے قدم پر نئی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلی تبدیلی اپنے وقت کےساتھ گزر گئی۔ اور اب پھر نئی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ کل کی قربانی آج کام نہیں آسکتی۔جس طرح کل کا کھایا ہوا آج کام نہیں آسکتا۔ جماعت کے لئے اب ایک نیا دَور آنے والا ہے۔ ایک نیا پھیرا اور ایک نیا چکر ہے جس پر اللہ تعالیٰ جماعت کو پھیرنا چاہتا ہے۔ جو اس چکر پر پِھرے گا اور جس طرف اللہ تعالیٰ موڑنا چاہے گا مڑ جائے گا وہ آنے والے فضلوں کو حاصل کر لے گا۔ لیکن جو شخص یہ کہے گا کہ میں بہت سے چکر پہلے کاٹ چکا ہوں اور اب تھک گیا ہوں اس لئے میں یہ چکر نہیں کاٹ سکتا اس کی مثال اس شخص کی سی ہو گی جو یہ کہتا ہو کہ میں نے کل پرسوں یا اترسوں کھانا کھایا تھا اس لئے آج کھانا نہیں کھاؤں گا۔ جو شخص زندگی کے ساتھ کھانا ترک کر دیتا ہے وہ زندگی نہیں بلکہ موت کا منہ دیکھتا ہے۔ اِسی طرح جو جماعتیں صرف اپنی پچھلی قربانیوں پر انحصار رکھتی ہیں اور آئندہ قربانی کرنے سے رُک جاتی ہیں وہ زندگی نہیں بلکہ موت کا منہ دیکھتی ہیں۔’’ (الفضل 11ستمبر1945ء)
1: حیص بیص: شور وغوغا۔ تکرار۔ لڑائی جھگڑا
2: تبختر: ناز سے چلنا، غرور سے چلنا، تکبر سے چلنا
3: ترمذی ابواب تفسیر القرآن تفسیر سورۃ آل عمران

29
ہمارا مقصد خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو دنیا میں
قائم کرنا ہے۔
(فرمودہ 7 ستمبر1945ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدفرمایا:
‘‘میں پچھلے دو خطبات سے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ اسلام اور احمدیت کے لئے ایک نیا تغیر آئندہ بیس سال میں مقدر ہے۔ اور وہی لوگ اِس دَور میں اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو کر حاضر ہو سکیں گے جو اِس دَور کے امتحانوں میں کامیاب ہوں گے۔ میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ کسی قوم کی ایک ہی قربانی اس کے ہمیشہ کام نہیں آسکتی۔ ہم میں سے ہر ایک آدمی جانتا ہے کہ دن میں ایک یا دو یا تین دفعہ کھانا ضروری ہوتا ہے۔ جیسا بھی کسی کے ہاں رواج ہو۔ اگر انسان ہر روز کھانا نہ کھائے تو اُس کی وہ قوتیں جوتحلیل ہوتی رہتی ہیں ان کا بدل پیدا نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اگر ایک انسان بیس سال تک ناک، کان، آنکھوں اور ہاتھ پیر سے کام لیتا رہے اور بعد میں کچھ عرصہ کے لئے اپنے ان اعضاء سے کام لینا چھوڑ دے۔ مثلاًَ کانوں میں روئی ٹھونس کر ان کو بند کر دے۔ یا آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں بیکار کر دے۔ یا ایسے ہی دوسرے اعضاء سے کام نہ لے تو یہ دلیل اس کے ہرگز کام نہ آئے گی کہ میں پہلے بیس سال ان اعضاء سے کام لیتا رہا ہوں۔ اگر اب کام نہ لیا تو کیا نقصان ہو گا۔ اگروہ ان اعضاء سے کام نہ لے گا تو یقینا کچھ دنوں کے بعد اس کی طاقتیں معطل ہو جائیں گی۔
یہی حال روحانی طاقتوں کا ہوتا ہے۔ کئی نادان سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے پہلے بہت سی قربانیاں کر دی ہیں وہی ہمارے لئے کافی ہیں ہمیں آئندہ کے لئے قربانیاں کرنے کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ وہ ہر روز کھانا کھاتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ کل پرسوں یا اترسوں کا کھایا ہوا کھانا ہمارے لئے کافی ہو گا۔ اور بغیر کسی کے کہنے کے ہر روز کھانا کھا لیتے ہیں۔ سوائے بچوں کے کہ والدین ان کو کہہ کر کھانا کھلاتے ہیں کہ کھانا کھا لو نہیں تو معدہ خراب ہو جائے گا۔ اور پانچ دس دن کی تاکید کے بعد وہ بھی اس نصیحت کے محتاج نہیں رہتے۔ تو ہر وہ انسان جو یہ سمجھتا ہے کہ پچھلی قربانیاں اس کے لئے کافی ہیں وہ سخت غلطی پر ہے۔ جس طرح کل کا کھایا ہوا اس کے آج کام نہیں آسکتا اِسی طرح پچھلی قربانیاں انسان کو آئندہ کے لئے مستغنی نہیں کر سکتیں۔ بلکہ روحانی زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیشہ نئی نئی قربانیوں کی ضرورت رہتی ہے۔ پھر قربانیاں بھی اوقات کے بدلنے کے ساتھ بدلتی چلی جاتی ہیں۔ا یک وقت مالی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے تو دوسرے وقت جانی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ ہمیشہ ایک ہی قسم کی قربانی کی کسی قوم کو ضرورت رہے۔ پہلی قربانیاں اُس موت سے بچانے کے لئے تھیں جو گزشتہ میں پیش آسکتی تھی۔ اور آئندہ کی قربانیاں آئندہ کی ہلاکت سے بچنے کے لئے ہیں۔ جس نے دو سال پہلے کھانا کھایا تھا اُس نے اس کھانے سے اُسی فاقہ کی موت سے نجات حاصل کی تھی جو دو سال پہلے آسکتی تھی۔ اُس کھانے سے وہ دو سال بعد آنے والی موت سے نہیں بچ سکتا۔
میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ مومن کبھی بھی اپنی پچھلی قربانیوں کی وجہ سے مطمئن نہیں ہوتے۔ بلکہ اپنے ایمان کی زیادتی کے لئے قربانیوں میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک جان ایمان کی حالت میں عزرائیل کے سپرد نہ کر دی جائے اس سے پہلے کسی شخص کا مطمئن ہو جانا حد درجے کی حماقت ہے۔ گورنمنٹ کے ٹیکسوں کے ادا کرنے میں کبھی ہمارے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوا کہ ہم نے پچھلے سال ٹیکس ادا کر دیا تھا اِس سال ادا کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ساری عمر ٹیکس ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کے معاملہ میں ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ کچھ عرصہ قربانی کر دی تو ہماری ذمہ داری ختم ہوگئی۔ ہم پانچ وقتوں میں اَللہُ اَکْبَرُ کی آوازِ بلند کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے بآواز بلند اس بات کو پیش کرتے ہیں کہ اللہ ہی سب سے بڑا ہے لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ اصل کام تو ہم نے کیا نہیں۔ کیا واقع میں کوئی جگہ ایسی ہے یا کوئی مقام ایسا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کو اَکْبَرُ سمجھا جاتا ہے۔ اس دنیا میں مجھے تو کوئی جگہ ایسی نظر نہیں آتی۔ اگر اَللہُ اَکْبَرُ کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے تمام بادشاہوں، دنیا کے تمام ڈکٹیٹروں، دنیا کے تمام پریذیڈنٹوں سے بڑا ہے اور اس سے بڑا کسی کو نہ سمجھا جائے تو آج دنیا میں یہ ہو نہیں رہا۔ لوگ سٹالن کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی کچھ بھی حیثیت نہیں سمجھتے۔ ٹرومین کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی کچھ بھی حیثیت نہیں سمجھتے۔ میکاڈو 1(Mikado) کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی کچھ بھی حیثیت نہیں سمجھتے۔ اور ایٹلے کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی کچھ بھی حیثیت نہیں سمجھتے۔ اللہ تعالیٰ کی آواز سٹالن کی آواز کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ ٹرومین کی آواز کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ میکاڈو کی آواز کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ اور ایٹلی کی آواز کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ بات تو درست ہے کہ ٹرومین ایک آواز بلند کرے تو سارا یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ اُس کی آواز کے پیچھے چل پڑے گا لیکن اِس کے مقابل پر تم مجھے ایک گاؤں ہی بتا دو جہاں اللہ تعالیٰ کی آواز کی لوگ پوری طرح پیروی کرتے ہوں۔ تم ٹرومین کو بھی چھوڑ دو، تم سٹالن کو بھی چھوڑ دو، تم ایٹلی(Attlee) اور میکاڈو کو بھی جانے دو۔ تم مجھے اللہ تعالیٰ کی آواز کی اتنی وقعت ہی دکھا دو جتنی وائسرائے ہند لارڈ ویول کی آواز کی، یا جتنی سر گلیسی کی آواز کی، یا جتنی ملک خضر حیات خان کی آواز کی وقعت سمجھی جاتی ہے۔ تم ان بڑے آدمیوں کو بھی چھوڑ دو تم مجھے خدا کی آواز کی اتنی وقعت ہی بتا دو جتنی چوہڑوں کے پنچ کی آواز کو دی جاتی ہے۔ چوہڑے اُس کی آواز پر سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہوجاتے ہیں لیکن آج بندے خدا کی آواز کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے ۔ کیا ہمارے لئے شرم کی بات نہیں کہ جب دنیا اللہ تعالیٰ سے بیگانہ ہے اور جب دنیا کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی آواز کی کوئی بھی وقعت نہیں رہی اُس وقت ہم اپنے آرام کی فکر کریں اور اِس اہم کام کی طرف توجہ نہ کریں جو ہمارے سامنے ہے۔ ہم پانچ وقت دنیا کے سامنے ایک پروگرام پیش کرتے ہیں کہ اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ۔ اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کی اپنے نفسوں کے مقابل میں، اپنی حاجات کے مقابل میں، اپنی اولادوں کے مقابل میں، اپنے مالوں کے مقابل میں، کیا نسبت قائم کرتے ہیں۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں، اپنے مالوں پر ترجیح دیتے ہیں، اپنی اولادوں پر ترجیح دیتے ہیں، تو ہم یقیناً خوش قسمت ہیں۔ لیکن اگر ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنے نفسوں پر، اپنے مالوں پر، اپنی اولادوں پر ترجیح نہیں دیتے تو ہمارے جیسا بدقسمت روئے زمین پر کوئی نہیں ہو سکتا۔ اور ہمیں اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے۔ پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے ہماری کمزوریوں کو دیکھ کر 3/1 حصہ سےزیادہ وصیت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ گویا 10/7 حصہ ہمارے لئے رکھا اور 10/3 حصہ اپنے لئے۔ مگر کتنے ہیں جو اِس حصہ کو بھی دینے کے لئے تیار ہیں۔ ہماری جماعت وہ ہے جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہے اور ایک حد تک وہ اس دعویٰ کے مطابق عمل بھی کرتی ہے۔ لیکن ہماری جماعت میں سے بھی تھوڑے ہیں جو 10/3 حصہ کی قربانی کرتے ہیں۔ میرے نزدیک ایسے لوگ مشکل سے دس فیصدی ہوں گے۔ باقی لوگوں میں سے کچھ حصہ ایسا ہے جو 10/1 اور 10/3 کے درمیان چکر لگاتا رہتا ہے۔ اور کچھ حصہ ایسا ہے جو 10/1 کی بھی پورے طور پر قربانی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اپنا حصہ تھوڑا رکھا ہے۔ لیکن اس تھوڑے حصے کو بھی ادا کرنے میں بعض لوگ کوتاہی سے کام لیتے ہیں۔ پھر اوپر کا حکم تو وصیت کے متعلق ہے۔ اپنی زندگی میں تو انسان اپنی جائیداد ساری کی ساری بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں دے سکتا ہے۔ جیسے حضرت ابوبکرؓ نے کیا۔ مگر لوگ بجائے اس کے کہ 10/3 حصہ کو 10/4 حصہ یا 10/5 حصہ کی طرف لے جائیں 10/1 حصہ کی قربانی کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے۔ اور اپنے اموال کو اپنے آرام و آسائش پر یا اپنی اولادوں یا دوسری ادنیٰ ادنیٰ ضروریات پر خرچ کر دیتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے دین کے لئے ان کے مالوں میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ جب ہماری جماعت میں سے بعض افراد کا یہ حال ہے جو دن رات اللہ تعالیٰ کے نشانات کا مشاہدہ کرتی ہے کہ وہ اپنے مالوں میں سے 10/1 حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر نے کے لئے تیا رنہیں تو باقی قومیں جو اللہ تعالیٰ سے بالکل بیگانہ ہیں ان کے متعلق تم خود ہی قیاس کر لو کہ وہ کس قدر اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی کرتی ہوں گی۔ تو اَللہُ اَکْبَرُ کا خانہ خالی پڑا ہے اور وہ کام جو ہم نے کرنا ہے بہت دور ہے پہلے دنیا میں اَللہُ اَکْبَرُ کا اعلان کیا جاتاہے پھر اس کے بعد اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ پھر اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلَ اللہِ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ پھر حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ پھر حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کا اعلان کیا جاتاہے۔ اس کے بعد پھر اقامت پر قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوةُ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اقامتِ صلوٰة ہونے کے بعد دنیا ایک نیا پروگرام بناتی ہے اور توحید کے حقیقی معنے سیکھتی ہے۔ صرف تکبیر بیان کرنے میں اور کامل توحید میں بہت بڑا فرق ہے۔ تکبیر سے صرف اللہ تعالیٰ کی بڑائی ظاہر ہوتی ہے لیکن توحیدِ کامل انسان کے تمام اعمال پر اثر انداز ہو کر اسے ادنیٰ مقام سے اعلیٰ مقام تک لے جاتی ہے اور اس کی قوتوں میں ایک نئی تبدیلی پیدا کر دیتی ہے۔ کامل توحید کی آگے کئی شاخیں ہیں۔ لیکن جب تک دنیا اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ پر قائم نہ ہو جائے، جب تک دنیا اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلَ اللہِ پر قائم نہ ہو جائے، جب تک حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ پر عمل نہ کیا جائے جب تک حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ اپنی پوری شان نہ دکھائے، جب تک اسلام کے سارے احکام کا پورے طور پر قیام نہ ہو جائے اُس وقت تک اقامتِ صلوٰة نہیں ہو سکتی۔ جماعت کا فرض ہے کہ وہ اقامت صلوٰة کے لئے پورے طور پر کوشش کرے۔ لیکن ہم تو ابھی تک اَللہُ اَکْبَرُ کا پروگرام بھی پورا نہیں کر سکے۔ اگر ہم اسی جدوجہد پر ٹھہر جائیں تو ہماری مثال اُس شیر گُدوانے والے جیسی ہو گی کہ جب اُسے دو چار سُوئیاں چبھتیں تو وہ کہتا اِس عضو کو چھوڑ و آگے چلو۔ آخر گُودنے والے نے سُوئی رکھ دی اور کہا کہ اب تو شیر کا کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ ہماری جماعت کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسے ابھی قربانیوں کے میدان میں صرف سُوئیاں چبھنے لگی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں میں تمہارے پاس کوئی جنتر منتر لے کر نہیں آیا کہ تمہیں بغیر کسی تکلیف کے کامیابی حاصل ہو جائے۔ بلکہ تمہیں وہ ساری قربانیاں کرنی ہوں گی جو پہلی قوموں نے کیں۔ اور تمہارے لئے وہی رستہ مقدر ہے جس پر پہلے انبیاء کی جماعتیں تم سے پہلے چلیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں کے سروں پر آرے رکھ کر اُن کو چِیر دیاگیا لیکن وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔2 اور یہ ادنیٰ بشاشتِ ایمان ہے۔ جب ادنیٰ بشاشتِ ایمان یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان تک بھی قربان کرنے سے دریغ نہ کرے تو اعلیٰ بشاشتِ ایمان کے متعلق اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ وہ کیا کیا قربانیاں کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ بہرحال ہمارے لئے ابھی ان ادنیٰ بشاشتِ ایمان والی قربانیوں کا کرنا ضروری ہے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جماعت ابھی اِس قابل نہیں ہوئی اِس لئے ابھی جانی قربانی کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ جیسے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اصل میں تو ایک مومن دس کافروں پر بھاری ہے۔3 لیکن چونکہ تم میں ابھی کمزوری اور ضعف ہے اس لئے اب تم میں سے ایک مومن کو کم سے کم دو کافروں کے مقابلہ سےنہیں بھاگنا چاہیے۔ تو ہر ایک کام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وقت مقدر ہوتاہے جب وہ وقت آجاتا ہے تو اس کام کے کرنے کا اللہ تعالیٰ حکم دے دیتا ہے۔
جماعت کے بعض لوگوں سے یہ بات سن کر کہ ہمارے لئے یہی رستہ مقدر ہے جس پر ہم چل رہے ہیں میں حیران ہوتاہوں کہ میں ان کی اس سمجھ پر روؤں یا ہنسوں۔ کیونکہ حماقت کی بات پر بعض دفعہ انسان کو ہنسی بھی آجاتی ہے اور بعض دفعہ رونا بھی ۔میری بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔جب میں جماعت کے بعض لوگوں کی یہ ذہنیت دیکھتا ہوں کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم اسی رستہ پر چلتے چلتے ایک دن ساری دنیا پر غالب آجائیں گے تو میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ کیسی حماقت کی بات ہے۔ آج تک کوئی قوم اس رستہ پر چل کر کامیاب نہیں ہوئی جس پر ہم چل رہے ہیں۔ صرف ایک مثال افغانستان کی قربانی کی ہمیں کامیاب نہیں کر سکتی۔ جب تک کہ ہر ملک اور ہر قوم میں افغانستان جیسی قربانیاں پیش نہ کی جائیں گی اُس وقت تک ہم کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے۔ جس طرح بارش برستی ہے اوربے تحاشا ہر طرف پانی بہنا شروع ہو جاتا ہے اور کوئی آدمی اُس پانی کے بہنے پر تعجب نہیں کرتا اور اُسے کوئی انوکھی چیز نہیں سمجھتا۔ اِسی طرح ہمیں اپنے مال، اپنی جانیں بے دریغ اللہ تعالیٰ کی راہ میں بہانی پڑیں گی۔اور ہر وہ شخص جو اِس رستے پر چلنا نہیں چاہتا اور کامیابی کو اِس راستہ سے حاصل نہیں کرنا چاہتا میں اُسے بتا دیتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ نہیں چل سکتا۔ وہ دشمن ہے احمدیت کا، وہ دشمن ہے احمدیت کی ترقیات کا۔ ہمارے لئے پہلی قوموں کی مثالیں موجود ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کےصحابہؓ کو اس لئے کامیابی حاصل ہوئی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں بے دریغ جان و مال کی قربانی کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو اِس لئے کامیابی حاصل ہوئی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال و جان کی بے دریغ قربانی کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم کو اس لئے کامیابی حاصل ہوئی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان و مال کی بے دریغ قربانی کی۔ کرشن اور زرتشت کی جماعتوں کو اس لئے کامیابی حاصل ہوئی کہ انہوں نےا للہ تعالیٰ کی راہ میں جان و مال کی بے دریغ قربانی کی۔ ہمیں کوئی مثال ایسی نظر نہیں آتی کہ بغیر جانی و مالی قربانیوں کے کسی قوم کو کامیابی حاصل ہوئی ہو۔ ہماری جماعت کے سامنے ابھی جانی قربانی کا مطالبہ پیش نہیں کیا گیا۔ ہاں تحریک جدید میں وقفِ زندگی کا مطالبہ جماعت کے نوجوانوں کے سامنے پیش کیا گیا اور یہ پہلا قدم ہےجوجانی قربانی کی طرف لے جانے کے لئے اٹھایا گیا ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ابتدا میں چندے کے متعلق فرمایا کہ ہر احمدی کے لئے ضروری ہے کہ کچھ نہ کچھ چندہ ضرور دے۔ خواہ تین ماہ میں ایک دھیلہ ہی دے۔ آہستہ آہستہ یہ مطالبہ ترقی کرتے کرتے 10/1 حصہ تک پہنچ گیا۔ جو لوگ موصی نہیں ہیں اور اپنے اندر اخلاص رکھتے ہیں اُن کے تمام قسم کے چندے اگر ملا لئے جائیں تو وہ 10/1 حصہ تک پہنچ جائیں گے۔ اور جنہوں نے وصیت کی ہوئی ہے اگر ان کے سارے چندے جمع کر لئے جائیں تو وہ 10/2 تک پہنچ جائیں گے اور بعض کے 10/3 تک۔ اور بعض انگلیوں پر گِنے جانے والے ایسے بھی ہیں جن کے تمام قسم کے چندے جمع کئے جائیں تو وہ 10/4 یا 10/5 تک پہنچ جائیں گے۔ یہ مالی قربانی تین ماہ میں ایک دھیلا سے شروع ہو کر موجودہ حالت پر پہنچ گئی ہے۔ کیونکہ انسان کو ایک قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوسری قربانی کی توفیق ملتی ہے۔ اِسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کی موجودہ قربانیاں آئندہ قربانیوں کا راستہ کھولنے والی ہوں گی اور جس کے دل میں آئندہ قربانیوں کے لئے انقباض پیدا نہ ہو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کی قربانیوں کو قبول کر لیا ہے۔ اور آئندہ قربانیوں کے لئے بھی اسے اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے گا۔ لیکن جس شخص کے دل میں آئندہ قربانیوں کے لئے انقباض پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو تھکا ہوا پاتا ہے اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کی نیت کی خرابی کی وجہ سے یا اَور کسی گناہ کی وجہ سےاللہ تعالیٰ نے اُس کی قربانیوں کو قبول نہیں کیا اور اس کی قربانیاں ضائع ہو گئی ہیں۔ کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ اچھا بیج بویا جائے اور وہ اچھا پھل نہ لائے۔ اگر کسی شخص کو ان قربانیوں کے نتیجہ میں مزید چندے دینے اور خدا کی راہ میں مزید تکلیفیں برداشت کرنے کی توفیق نہیں ملتی تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس سے کوئی ایسا گناہ سرزد ہوا ہے جو اسکے قربانی کے بیج کو جس نے پھل دینا تھا بہا کر لے گیا ہے۔ ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ کے حضور بہت توبہ استغفار کرنا چاہیے اور بہت دعائیں کرنی چاہئیں تا اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائے اور اسے مزید قربانیوں کی توفیق عطا کرے۔ جس طرح تین ماہ میں ایک دھیلا چندہ نے بڑھتے بڑھتے موجودہ مالی قربانیوں کی صورت اختیار کر لی ہے اسی طرح جانی قربانی کا وقت بھی آنے والا ہے اور وہ وقت آنے والا ہے جبکہ دشمنان اسلام تمہارے سینوں میں خنجر گاڑ دیں گے۔ کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ تمہارے دشمن تمہارے متعلق یہ جان لیں کہ تم اُن کو کھا جانےو الے ہو اور وہ تم کو قتل نہ کریں۔ ابھی تک تو دنیا تم کو ایک کھلونا سمجھتی ہے اِس سے زیادہ تمہیں کوئی وقعت نہیں دیتی۔ اگر کسی کے جسم پر مچھر بیٹھے تو وہ آہستہ سے اُس کو اڑانے کے لئے ہاتھ ہلا دیتا ہے اور اُس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتا۔ لیکن جس شخص کے گھر میں چور گُھس آئے کیا وہ اُس کا اُسی طرح مقابلہ کرتا ہے جس طرح مچھر کو اپنے جسم سے ہٹاتا ہے؟نہیں۔ وہ اُس کا پوری طرح مقابلہ کرتا ہے اور ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ اُس کو پکڑے۔ اور چور باوجود اس بات کے جاننے کے کہ گھر والا حق پر ہے اور میں ناحق پر ہوں اور میں ظالم ہوں اور گھر والا مظلوم ہے پھر بھی گھر والوں کا مقابلہ کرتا بلکہ کوشش کرتا ہے کہ ان کو زخمی کر کے بھاگ جائے۔ اسی طرح کفر بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ وہ باطل پر ہے بلکہ اپنے آپ کو حق پر ہی سمجھتا ہے اور ایمان کا سختی سے مقابلہ کرتا ہے۔ جس دن کفر کو یہ معلوم ہو گیا کہ تم اسے دنیا سے مٹا دینے والے ہو وہ یقیناً سختی سے تمہارا مقابلہ کرے گا اور تمہاری گردنوں میں، تمہارے سینوں میں، تمہارے جگر میں خنجر گاڑ دے گا۔ اور کفر اپنا سارا زور لگائے گا کہ اسلام کو قتل کر دے اور اسلامی عمارت کو منہدم کر دے۔ گو ابھی وہ دن دور ہیں لیکن آہستہ آہستہ قریب آتے جاتے ہیں۔ اب بھی کئی ممالک ایسے ہیں جن میں احمدی کا داخلہ بند ہے اور ہمارے مبلغین کو وہاں جانے سے روکا جاتا ہے۔
غرض مالی لحاظ سے تو جماعت کئی سال سے قربانیان کرتی آرہی ہے گو اعلیٰ معیار تک ابھی تک نہیں پہنچی۔ مگر جانی قربانی کے لحاظ سے ابھی ابتدا نہیں ہوئی۔ البتہ وقفِ زندگی کے مطالبہ کے ذریعہ بنیاد کا ایک نشان لگا دیا گیا ہے۔ جیسے بنیاد کھودتے وقت کسّی سے ٹک لگایا جاتا ہے۔ پھر بنیاد کھودی جاتی ہے۔ جب بنیاد کی کھدائی ہو جاتی ہے تو اُس پر دیواریں کھڑی کرتے ہیں۔ جب دیواریں بن جاتی ہیں تو ان دیواروں پر چھتیں ڈالی جاتی ہیں۔ اس کے بعد پلستر کیا جاتا ہے دروازے اور کواڑ لگائے جاتے ہیں تب کہیں جا کر مکان تیار ہوتا ہے جس طرح مکان آہستہ آہستہ کچھ عرصہ کے بعد جا کر تیار ہوتا ہے۔ اسی طرح جان دینے کی عمارت کے تیار ہونے میں کچھ دیر باقی ہے۔ کوئی عمارت بھی ایک دن میں تیار نہیں ہوتی۔ ایسے ہی یہ نہیں ہو سکتا کہ لوگ جمع ہو کر آئیں اور وہ کہیں کہ اگر تم میں سے پانچ ہزا رآدمی اپنی گردنوں پر چُھری پھیر لیں تو ہم اسلام کو قبول کرلیں گے بلکہ یہ قربانیاں آہستہ آہستہ دینی پڑیں گی۔ پہلے ایک دو پھر آٹھ دس پھر پندرہ بیس اِسی طرح آہستہ آہستہ یہ تعدادبڑھتی چلی جاتی ہے۔ آخر وہ دن آجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو غلبہ عطا کرتا ہے اور کفر ہتھیار ڈال دیتا ہے اور یہ کام ایک لمبے عرصہ میں جاکر ہوتاہے۔
آج دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حالت بالکل ایسی ہی ہے جیسے حضرت خلیفہ اول اپنےا یک استاد کا خواب سنایا کرتے تھے (گو حضرت خلیفہ اول ان سے پڑھتے تو نہیں تھے۔ لیکن آپ اُن کے پاس بیٹھتے اور اُن سے روحانی باتیں کرتے رہتے تھے اس لئے ان کو استاد ہی کہتے تھے) انہوں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں شہر سے باہر گیا ہوں اور ایک کوڑھی شخص بھوپال سے باہر پُل پر پڑا ہے۔ اس کا جسم نہایت گندا ہے۔ جسم پر مکھیاں بھنک رہی ہیں۔ آنکھوں سے اندھا ہے۔ دوسرے سب اعضاء شل ہیں۔ میں نے اس وجود سے پوچھا تم کون ہو۔ اُس نے کہا میں اللہ میاں ہوں۔ یہ سن کر میرا جسم کانپ گیا اور میں نے کہا تم اللہ میاں کیسے ہو۔ تمہارا تو اپنا برا حال ہے۔ تم خود کوڑھی ہو۔ ہاتھ پاؤں ہلا نہیں سکتے۔ آنکھوں سے تم اندھے ہو۔ ہمارا خداتو وہ
ہے جو اِن تمام عیوب سے پاک ہے۔ اس کی طاقتیں غیر محدود ہیں۔ تو اس وجود نے جواب دیا کہ میں بھوپال والوں کا اللہ ہوں یعنی بھوپال والوں کےد لوں میں میرا تصور ایسا ہی ہے۔ اسی طرح آج اللہ تعالیٰ کی عظمت لوگوں کےدلوں میں باقی نہیں رہی۔ اور حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ فقرہ اِس وقت بالکل صاد ق آتا ہے کہ اے خدا! جس طرح تیری آسمان پر بادشاہت ہے زمین پر بھی آوے۔4 اس سے یہ مراد نہیں کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت زمین پر نہیں۔ یا خداتعالیٰ کا قانونِ قدرت آسمان پر تو چلتا ہے لیکن زمین پر نہیں چلتا۔ جس طرح خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت آسمان پر چلتا ہے اِسی طرح زمین پر بھی چلتا ہے۔ دنیا میں دہریہ موجود ہیں لیکن وہ بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کے ماتحت چلتےہیں۔ کوئی دہریہ یہ نہیں کر سکتا کہ زبان کی بجائے ماتھے سے چکھے یا ناک سے سُونگھنے کی بجائے کسی اَور عضو سے سُونگھے۔ تو خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت تو ویسا ہی زمین پر ہے جیسا آسمان پر ہے۔ اس فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر لوگوں کے دلوں میں تیری ویسی ہی عظمت قائم ہو جائے جیسی آسمان پر ہے۔ یہ مقصد ہر وقت جماعت کے سامنے رہنا چاہیے کہ ہم نے خداتعالیٰ کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور خداتعالیٰ کی عظمت کو تمام دنیا کے دلوں میں قائم کرنا ہے۔ اگر ساری دنیا نیک ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جؤا اپنی گردنوں پر رکھ لے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت قائم ہو گئی اور ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ ور نہ دو چار لاکھ جماعت کی دو تین ارب سے کیا نسبت ہے۔ ایسی بھی تو نسبت نہیں جیسے آٹے میں نمک کی ہوتی ہے۔ ان کے اموال ، ان کی شان و شوکت اور ان کے رسوخ کے مقابلے میں ہماری کوئی حیثیت ہی نہیں۔
پس ہمارے دوستوں کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی چاہیے اور آئندہ مزید مالی اور جانی قربانیوں کے لئے تیار ہو جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا رحم اور فضل نازل فرمائے۔ ہماری دماغی طاقتوں میں ترقی دے۔ ہماری عقلوں کو تیز کرے اور ہماری علمی حالت درست کرے۔ تاکہ ہم اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں جو ہمارے سامنے ہے۔ اٰمِیْنَ اَللّٰہُمَّ اٰمِیْنَ۔’’
(الفضل 18 ستمبر 1945ء)
1:میکاڈو(Mikado) :جاپانی حکمرانوں کا ٹائٹل(انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد 15 صفحہ(475
2 :بخاری کتاب مناقب الانصار باب مَا لَقِیَ النَّبِیُّ ﷺ وَاَصْحَابُہٗ
3: اِنْ یَکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ (الانفال:66)
4: متی باب 6آیت:9، 10

30
مَلک بھی رشک ہیں کرتے وہ خوش نصیب ہوں مَیں
(فرمودہ 14 ستمبر1945ءبمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مجھے چونکہ رات سے نقرس کا دَورہ شروع ہے اور گزشتہ ایّام کا میرا تجربہ یہ ہے کہ اگر میں لمبا خطبہ پڑھوں تو تکلیف بڑھ جاتی ہے اس لئے میں زیادہ دیر تک کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے مختصر خطبہ بیان کرتا ہوں۔
جس دن مَیں نے قادیان سے روانہ ہونا تھا اُس سے پہلی رات میری طبیعت کسی قدر خراب تھی۔ اکثر حصہ رات کا میں نے جاگتے ہوئے گزارا۔ صرف کسی کسی وقت ہلکی سی نیند آجاتی تھی۔ اِسی حالت میں تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھ لگ گئی۔ تو ایک مصرع اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے دل پر نازل ہوا جو میرے ہی ایک شعر کا حصہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ زبان اس کو نہیں دُہرا رہی تھی۔ وہ اتنی شدت سے نازل ہوا کہ اس کے زور کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی۔ وہ مصرع جو میرے دل پر نازل ہوا یہ ہے۔
مَلک بھی رشک ہیں کرتے
اس کے بعد کا بقیہ حصہ جاگتے ہوئے نازل ہوا جو یہ ہے۔
وہ خوش نصیب ہوں میں
اگر چہ عام طور پر سمجھا یہی جاتا ہے کہ جتنا حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے۔ وہی اس کی مراد ہوتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ کلام کا دوسرا حصہ بھی اسکے ساتھ ہی شامل ہوتا ہے۔ اس شعر کا دوسرا حصہ یہ ہے۔
وہ آپ مجھ سے ہے کہتا نہ ڈر قریب ہوں میں
ہو سکتا ہےکہ اللہ تعالیٰ کا منشاء اس پورے شعر سے ہو۔ لیکن اگر دوسرا حصہ مراد نہ بھی ہو تو یہ مصرع بھی اپنے اندر ایک بہت بڑی خوشخبری رکھتا ہے کہ :
مَلک بھی رشک ہیں کرتے وہ خوش نصیب ہوں مَیں
ملائکہ درحقیقت رشک کرتے ہیں نفسِ آدم پر۔ قرآن مجید سے پتہ چلتا ہے کہ نفسِ انسانیت کے نمائندے جب دنیا میں پیدا ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ملائکہ صفت انسانوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کے حکم کی تعمیل میں سر بسجود ہو جائیں۔ قرآن مجید کی آیات اپنے اندر کئی بطون رکھتی ہیں۔ اور ایک ایک آیت کئی کئی معارف کی حامل ہوتی ہے۔ بظاہر قرآن مجید کی آیات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ کو آدم کی خاطر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن اصل میں اللہ تعالیٰ نے اس جگہ یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ کا کوئی خلیفہ دنیا میں کھڑا ہوتا ہے تو ملائکہ صفت لوگوں کو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم دیا جاتا ہے۔ بے شک وہ لوگ نبی کے آنے سے پہلے عبادت گزار ہوتے ہیں، ملائکہ صفت ہوتے ہیں، احکامِ الٰہیہ بجا لاتے ہیں لیکن صرف اُسجُدْ پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ یعنی فرداً فرداً اعمالِ صالحہ بجا لاتے ہیں۔ مگر اکٹھے ہو کر ایک وجود اور ایک جماعت کی حیثیت میں سجدہ نہیں کر رہے ہوتے۔ لیکن جب آدم دنیا میں آجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتہ سیرت انسانوں کو اُسجُدْ کی بجائے اُسْجُدُوْا لِاٰدَمَ 1 کا حکم دیتا ہے۔ یعنی اب تم میں آدم پیدا ہو گیا ہے تم میں سے کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ علیحدہ علیحدہ طور پر سجدہ کرے۔ اب وہی سجدہ قبول ہو گا جو آدم کےساتھ مل کر کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی کی بعثت سے پہلے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر نیک اور فرشتہ سیرت ہوتے ہیں اور دنیا کہتی ہے وہ بڑے نیک، بڑے زاہد اور عبادت گزار ہوتے ہیں۔ مگر جب آدم پیدا ہو جاتا ہے تو نیک و بد کا امتیاز کردیا جاتا ہے۔ کیونکہ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آدم کے ساتھ مل کر سجدہ کرتا ہے وہ ملائکہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ اور جو آدم کے ساتھ مل کر سجدہ نہیں کرتا اس کے متعلق معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ ملکوتی گروہ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ شیطانی اور متکبر گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔
حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب مبعوث ہوئے تو دنیا میں بہت سے لوگ ایسے تھے جن کے متعلق خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بہت نیک، متقی اور عبادت گزار ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم اُسْجُدُوْا کے ماتحت سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے قُرب سے دور جا پڑے۔ پس اُسْجُدُوْا لِاٰدَمَکے معنے یہ ہیں کہ آدم کی اطاعت اور فرمانبرداری میں لگ جاؤ۔ یہ معنے نہیں کہ آدم کو سجدہ کرو۔ یہ معنے تو قرآن کریم کی تعلیم کے صریح خلاف ہیں کہ آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ کیونکہ سجدہ خدا کےسوا کسی دوسرے کے لئے جائز نہیں۔ یہ شرک ہے اور شرک ایسی چیز نہیں کہ ہمارے زمانہ میں ہی منع ہؤا ہو بلکہ ابتدا سے منع ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ابتدا میں شرک جائز تھا تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ خداتعالیٰ اب ایک ہے اور پہلے دو یا تین تھے۔ حالانکہ یہ بات بِالبداہت باطل ہے۔ کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس نے شرک کو جائز قرار دیا ہو۔ جزئیات میں بے شک اختلاف ہو سکتا ہے مثلاً کسی وقت خنزیر کے گوشت کے متعلق حرمت کا حکم نازل نہ ہوا ہو۔ یا کسی قوم میں شراب جائز ہو۔ مگر خدا کے ایک ہونے میں تو کسی نبی کی تعلیم میں اختلاف نہیں۔
پس اُسْجُدُوْا کا صحیح مفہوم یہی ہے کہ آدم کے ساتھ مل کر اجتماعی صور ت پیدا کرو۔ اور اکٹھے ہو کر کامل طور پر ا ُس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔ درحقیقت اُسْجُدُوْا کی واؤ میں ہی تمام راز مضمر ہے۔ اُسْجُدُوْا کا حکم اُسی وقت دیا جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آدم مبعوث ہو جاتا ہے۔ اس کے آنے پر جوشخص اُسْجُدْ پر عمل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان ٹھہرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک مجرم ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس شعر کو میرے دل پر نازل فرما کر یہ بتایا ہے کہ میں نے ہی تجھے خلیفہ بنایا ہے۔ کیونکہ ملائکہ نے آدم پر ہی رشک کیا تھا نہ کسی اور پر۔ گویا دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے میری تصدیق کر دی ہے کہ واقع میں ہم نے اِس آدم کو صفاتِ الٰہیہ کے ظہور کے لئے کھڑا کیا ہے اور ملکوتی صفات کے انسان اس پر رشک کریں گے اور یہ بھی بتا دیا کہ وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو اس کے ساتھ مل کر سجدہ کریں گے اور اسکے احکام کے ماتحت چلیں گے۔ جیسا کہ پہلے آدم کے وقت میں ہوا۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ آدم کسی ایک خاص وجود کا نام نہیں بلکہ ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف انسان اس مقام پر فائز کئے جا چکے ہیں اور کئے جاتے ہیں۔ مثلاً سید عبدالقادر صاحب جیلانیؒ بھی اُن لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے آدم کے مقام پر کھڑا کیا تھا۔ ان کے متعلق لکھا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرا پاؤں تمام اولیاء کی گردن پر ہے۔ جب دوسرے لوگوں نے سنا کہ ان کو یہ الہام ہوا ہے کہ تیرا پاؤں تمام اولیاء کی گردن پر ہے تو ایک بزرگ نے سن کر کہا کہ اِس کا پاؤں ہماری گردنوں پر؟ کیوں؟ وہ کوئی خدا تعالیٰ کا خاص لاڈلا ہے کہ اس کا پاؤں ہماری گردنوں پر ہو۔ خدا تعالیٰ کو ان کی اس بات سے غیرت آئی اور ان کے ایمان میں کمزوری اور خرابی ہونی شروع ہوگئی۔ آخر وہ ایک عیسائی عورت پر عاشق ہو گئے اور اس کے مکان کے سامنے ڈیرا ڈال دیا۔ اُس عورت نے اُن کے سامنےیہ شرط پیش کی کہ پہلے تم عیسائیت قبول کرو پھر میں تم سے شادی کروں گی۔ لیکن چونکہ ان کے اندر ابھی کچھ ایمان باقی تھا اس لئے وہ عیسائیت اختیار کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ پھر اس نے کہا اگر یہاں رہنا ہے تو کوئی کام کیا کرو ورنہ یہاں سے چلے جاؤ۔ اور کچھ دنوں بعد اُس نے سؤر پالنے کا کام ان کے سپرد کر دیا۔ وہ سؤر چرانے کے لئے ہر روز جنگل میں جاتے۔ ایک دن ایک سؤرنی نے بچہ دے دیا۔ وہ ڈرے کہ اگر بچہ مر گیا تو وہ ناراض ہو گی اس لئے انہوں نے بچے کو اپنی گردن پر اٹھا لیا اور گھر کو چل پڑے۔ راستے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ اچھا اگر عبدالقادر کا پاؤں اپنی گردن پر نہیں رکھتے تو پھر سؤر کا پاؤں اپنی گردن پر رکھ لو۔ یہ سن کر ان کی آنکھیں کھل گئیں ۔ انہوں نے بچہ وہیں پھینک دیا اور واپس چلے آئے اور بہت توبہ و استغفار کیا ۔تو اللہ تعالیٰ کے اس بندے کا انکار کرنے کی وجہ سے جو مقامِ آدم پر کھڑا ہو ملکوتی صفات کےانسان بھی شیطان صفت ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے کہہ دیتا ہے اگر تم آدم کے ہاتھ پر جمع نہیں ہوتے تو شیطان کے ہاتھ پر جمع ہو گے۔ اور اس کا پاؤں تمہارے سر پر ہو گا۔غرض ؂
مَلک بھی رشک ہیں کرتے وہ خوش نصیب ہوں مَیں
اس مصرعے میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اس نے مجھے اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً 2 کے مطابق خلافت کے مقام پر کھڑا کیا ہے۔ اور وہ لوگ جو تکبر اور اِباء کو چھوڑ کر میرے ساتھ چلیں گے وہ ملکوتی صفات کے مالک ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا فضل ان پر نازل ہو گا۔ لیکن وہ لوگ جو تکبر اور اِباء سے کام لیں گے وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ملائکہ کے گروہ سے نکال دیئے جائیں گے اور مجھ سے علیحدہ رہ کر وہ کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ جب انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ دنیا کے مروجہ قانون کے مطابق چلے تب اسے کامیابی ہو سکتی ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون پر چلے بغیر کوئی انسان کامیاب ہو جائے۔ اگر کسی شخص نے منی آرڈر بھیجنا ہو تو اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ پہلے منی آرڈر فارم کو پُر کرے۔ اگر وہ فارم پُر کرنے کی بجائے کسی عام کاغذ پر پوسٹ ماسٹر کو رقعہ لکھ دے اور ایک روپیہ چھوڑ دس بیس روپے بھی منی آرڈر فیس ادا کرنے کو تیار ہو۔ تو بھی ڈاکخانہ اُس کا منی آرڈر نہیں بھیجے گا۔ یا گورنمنٹ کا قانون ہے کہ بعض قسم کے معاہدات پانچ روپے کے اشٹام پر لکھے جائیں۔ اب کوئی شخص بجائے پانچ روپے کے اشٹام پر معاہدہ لکھنے کے عام کاغذ پر معاہدہ لکھ کر پانچ روپے تحصیلدار کو دے دے تو اُس کا معاہدہ قانونی صورت اختیارنہیں کر سکتا۔ اُس کا معاہدہ قانوناً اُس وقت صحیح سمجھا جائے گا جس وقت وہ پانچ روپے کے اشٹام پر لکھ کر لائے گا۔ پس جب دنیا کے مقرر کردہ فارموں پر عمل کئے بغیر کامیابی نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے فارم پر عمل کئے بغیر کس طرح کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔
افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے ایک حصہ کو اِس مقام پر ٹھوکر لگی ہے۔ ابتدا میں وہ خلافت کےجھگڑوں میں پڑے اوربعد میں نبوت کی بحثوں میں آپھنسے۔ اصل بحث تو خلافت کی ہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اِس مصرعہ میں ان کے شکوک کا بھی ازالہ کر دیا ہے اور واضح طور پر بتا دیا ہے کہ میں نے ہی اسے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا ہے۔ اور فرشتہ سیرت انسانوں کو چاہیے کہ وہ اُسْجُدُوْالِاٰدَمَ کے حکم کے ماتحت اِس کے ہاتھ پر جمع ہو جائیں اور بغیر کسی تکبر اور اِباء اِس کی کامل اطاعت اور پیروی کریں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اس آواز پر کان دھریں گے وہ اس کے فضلوں کے مورِد بنیں گے اور اُس کی برکتیں ان پر نازل ہوں گی۔ لیکن جو لوگ اپنے تکبر اور انکار کی وجہ سے دور رہیں گے وہ ان برکتوں سے محروم رہیں گے جو آدم کے ساتھ ملنے والوں پر نازل ہوتی ہیں۔ ’’ (الفضل مورخہ 25 ستمبر1945ء)
1: البقرۃ: 35
2: البقرۃ: 31

31
جماعت احمدیہ اپنے آپ کو اِس قابل بنائے کہ
اللہ تعالیٰ اپنی تخت نشینی کے وقت ان کو
ٹرمپیٹر1 (Trumpeter)مقرر کرے
(فرمودہ 21 ستمبر1945ءبمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘آج مجھے ایک سکھ نوجوان جو خالصہ کالج میں بی۔ اے میں پڑھتے ہیں ملنے کے لئے آئے۔ چونکہ فلاسفی کے طالب علم ہیں انہوں نے فلسفی دماغ ہونے کی وجہ سے سب سے پہلا سوال یہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت کیا ہے؟ میں نے انہیں جواب دیا کہ علاوہ اُن دلائل کے جو عقلی طور پر اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ہیں ہمارا اپنا ذاتی مشاہدہ اور تجربہ بھی اس بات کا گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ایک بات بتاتا ہے اور وہ عین وقت پر اُسی رنگ میں پوری ہو جاتی ہے جس رنگ میں اللہ تعالیٰ قبل از وقت خبر دے چکا ہوتا ہے۔
پھر میں نے اس طالب علم سے سائیکالوجی (Psychology)کے نظریہ کے متعلق کہا اگر علم النفس والوں کے نزدیک یہ خیالات اپنے نفس کے ہوتے ہیں اور خوابیں وغیرہ خیالات کے ماتحت طبعی طور پر آتی ہیں تو وہ خوابیں طبعی خیالات کے تابع ہونی چاہئیں نہ یہ کہ ان میں ایسی باتیں بتائی جائیں جنہیں سابق تجربہ کے ماتحت نہیں بتا یا جا سکتا۔ لیکن ان خوابوں میں ایسے مضامین کا بیان ہونا جن کو قبل از وقت دماغ کسی صورت میں بھی نہیں سوچ سکتا اور پھر ان کا اُسی طرح پورا ہو جانا اِس بات کی بیّن دلیل ہے کہ وہ خبر کسی ایسی ہستی کی طرف سے تھی جو عالمُ الغیب ہے۔
پھر میں نے انہیں اٹھائیس سَو ہوائی جہازوں والی خواب سنائی جس میں مجھے بتایا گیا تھا کہ امریکن گورنمنٹ برطانیہ کو اٹھائیس سو ہوائی جہازدے گی اور اس وجہ سےبرطانیہ شکست کھانے سے بچ جائے گا۔ سترہ یا اٹھارہ جون 1940ء کو مجھے خواب میں تار کے یہ الفاظ دکھائے گئے کہ امریکہ سے برطانوی نمائندہ نے یہ تار دی ہے کہ:۔
The American Government has delivered 2800 aeroplanes to the British government.
یعنی امریکن گورنمنٹ نے اٹھائیس سو جہاز برطانوی گورنمنٹ کو دیے ہیں۔ دو ماہ بعد بعینہٖ یہی الفاظ برطانوی نمائندہ نے امریکہ سے حکومتِ انگلستان کو بذریعہ تار بھجوائے۔ جس کے الفاظ اس قسم کے تھے کہ :۔
The British representative from America wires that the American Government has delivered 2800 aeroplanes to the British Government.
کہ برطانوی نمائندہ نے بذریعہ تار امریکہ سے اطلاع دی ہے کہ امریکن گورنمنٹ نے گورنمنٹ برطانیہ کو اٹھائیس سو ہوائی جہاز دیئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اِس خواب کو مزید پختہ کرنے کے سامان یہ پیدا کر دیئے کہ میں نے یہ رؤیا چودھری ظفراللہ خان صاحب کو سنا دیا۔ اور انہوں نے کئی برطانوی نمائندوں اور گورنمنٹ کے دوسرے ہندوستانی معزز افسروں میں اِس کا ذکر کر دیا۔ سر کلوؔ جو آجکل آسام کے گورنر ہیں اور اُس وقت ریلوے بورڈ کے ممبر تھے۔ چودھری صاحب نے ان سے بھی اِس خواب کا ذکر کیا ہوا تھا۔ جب یہ خواب پورا ہوا تو چودھری صاحب نے سر کلو کوفون کیا اور کہا کہ دیکھئے ہمارے امام کا رؤیا پورا ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس خواب کو مزید پختہ کرنے کے لئے سر کلو کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ انہوں نے تار دیکھتے ہوئے بجائے اٹھائیس سو پڑھنے کے پچیس سو پڑھا تھا۔ چودھری صاحب کے فون کے جواب میں انہوں نے کہا بات تو ٹھیک ہےکہ امریکن گورنمنٹ نے برطانیہ کو کچھ ہوائی جہاز دیئے ہیں مگر آپ کےا مام کی بتائی ہوئی تعداد غلط نکلی۔ آپ نے مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے خواب میں اٹھائیس سو ہوائی جہاز دیکھا تھا اور امریکہ نے پچیس سو ہوائی جہاز دیئے ہیں۔ چودھری صاحب نے کہا کہ آپ اُس تار کو اٹھا کر ذرا غور سے پڑھیں۔ جب انہوں نےد وبارہ پڑھا تو انہیں اپنی غلطی معلوم ہو گئی۔ اور بے اختیار ہوکر بول اٹھے کہ اوہو! یہاں تو واقع میں اٹھائیس سو ہوائی جہاز کی ڈلیوری (Delivery) کا ذکر ہے۔
اِس رؤیا کو سن کر اس سکھ نوجوان نے تسلیم کیا کہ اگر دو ہزار یا اڑھائی ہزار یا تین ہزار تعداد ہوتی تو کہہ سکتے تھے کہ اندازہ کیا گیا لیکن اٹھائیس سو ہوائی جہازوں کی تعداد بیان کرنا اور پھر دو مہینے کے بعد اس کا پورا ہو جانا بتاتا ہے کہ یہ غیر معمولی بات ہے۔ اور میں اس پر غور کروں گا۔
آخر میں مَیں نے کہا میں وہ باتیں پیش نہیں کرتا جو آئی گئی ہو گئی ہیں اور قصے کہانیاں ہو گئی ہیں۔ میں آپ کے سامنے حضرت رام چندر کے معجزات بیان نہیں کرتا، میں آپ کے سامنے حضرت کرشنؑ کے معجزات بیان نہیں کرتا، میں آپ کے سامنے حضرت موسیٰؑ کے معجزات پیش نہیں کرتا، میں آپ کے سامنے حضرت عیسیٰ ؑ کے معجزات پیش نہیں کرتا کیونکہ وہ تمام معجزات آپ کے نزدیک قصے کہانیاں بن گئے ہیں۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا ہماری موجودہ پوزیشن ایسی ہے کہ ہم دنیا کو شکست دے دیں اور سب پر غالب آجائیں؟ اس نوجوان نے کہا نہیں۔ میں نے کہا آپ دیکھ رہے ہیں دنیا پر آج کمیونزم (Communism) کا غلبہ ہے اور اسے بہت بڑی قوت حاصل ہے اور اس کے مقابل میں ہماری کوئی بھی حیثیت نہیں۔ اور یہ ایک مسلّمہ قاعدہ ہے کہ طاقتور اور کثرت والی قومیں ہمیشہ جیتا کرتی ہیں۔ لیکن اگر چالیس یا پچاس سال یا سو سال تک یا اِس سے بھی کچھ زیادہ عرصہ ہی میں ہم دنیا پر غالب آجائیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا زندہ ثبوت ہو گا یا نہیں؟ جب میں نے یہ بیان کیا تو کہنے لگے۔ ہاں خدا کی ہستی کا ثبوت ہو گا۔ لیکن ساتھ ہی کہنے لگے بعض دفعہ ایک سکیم فیل بھی ہو جاتی ہے۔ میں نے کہا یہاں سوال سکیم کے فیل ہونے کا نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کمیونزم یا دہریت فیل ہو جائے گی۔ میں یہ کہتا ہوں کہ وہ تحریکیں فیل ہو جائیں گی اور ان کی جگہ ہم لے لیں گے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کمیونزم یا سوشلزم (Socialism) کو جو طاقت حاصل ہے کیا اِس کا مقابلہ ہماری جماعت موجودہ حالت میں کر سکتی ہے؟ کیا کبھی ایسا ہؤا ہے کہ ایک جماعت جو نہایت ہی ادنیٰ حالت میں ہو اور جس کی تعداد بہت قلیل ہو اور وہ بے سر و سامان ہو، اس کے مقابل پر ساری دنیا ہو اور وہ ہو بھی جھوٹی اور صداقت اُس کے پاس نہ ہو اور پھر بھی وہ جیت جائے اور تمام دنیا ہار جائے؟سوائے انبیاء کی جماعتوں کے آپ کو یہ بات کسی اَور جماعت میں نظر نہیں آئے گی۔ اگر دو برابر کی طاقتیں ہوں تو اُن میں تو سکیم کے فیل ہونے کی وجہ بتائی جا سکتی ہے۔ لیکن جن جماعتوں کی طاقتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہو اُن میں کمزور جماعت فتح حاصل کر لے تو یہ کہنا کہ دوسری سکیم فیل ہو گئی ہے کوئی معنے نہیں رکھتا۔ مثلاًاگر جرمنی انگلستان سے ہار جائے یا روس امریکہ سے ہار جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہارنے والے ملک کی سکیم فیل ہو گئی ہے۔ لیکن کُجا ہماری حالت اور کُجا ان جماعتوں کی حالت جو کہ کمیونزم یا سوشلزم کی حامی ہیں۔ اِس پر اس نوجوان نے تسلیم کیا کہ واقع میں اگر ایسا ہو جاے تو یہ بات ایسی ہو گی جو معجزہ کہلا سکتی ہے اور جس کے بعد تسلیم کرنا پڑے گا کہ اِس دنیا کا کوئی خدا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان سوائے کلامِ الٰہی کے ہو ہی نہیں سکتا۔ خالی دلائل اور ڈھکوسلے انسان کو مطمئن نہیں کر سکتے۔ فلسفہ اور سائنس کے علوم کی اتنی کثرت ہو گئی ہے کہ مذہب کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں اور فلسفہ اور سائنس کے ذریعہ نہایت گندے گندے اعتراضات اسلام اور بانیٔ اسلام پر کئے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے بعض ادیب لکھا کرتے ہیں کہ فلاں شخص نےفضائے آسمانی میں اپنے حریف کے دلائل کی دھجیاں اُڑا دیں۔ لیکن میں کہتا ہوں ۔ مذہب کی تو آج فضائے آسمانی میں دھجیاں بھی نظر نہیں آتیں۔ درحقیقت جن گنتی کے افراد کے متعلق یہ نظر آتا ہے کہ وہ مذہب کے لئے قربانیاں کرتے ہیں، مذہب کے لئے جدوجہد کرتے ہیں، یا مذہب کے لئے جانیں دینے کو تیار ہو جاتے ہیں اُن کی قربانیاں بھی ظاہری ہیں۔ ایمان سے ان کو دور کا تعلق بھی نہیں۔ اگر کوئی شخص پرائیویٹ طور پر ان سے ملے تو وہ یقیناً محسوس کرے گا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت ان کے دلوں میں ذرہ بھر بھی نہیں۔ ایسے حالات میں مَیں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کواپنی ذمہ داریوں کی طرف بہت زیادہ توجہ کرنی چاہیے اور قربانیوں میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ ترقی کرنی چاہیے۔
ہماری جماعت کا ہر شخص جو دین کے لئے قربانی نہیں کرتا اور پوری طرح جدوجہد سے کام نہیں لیتا، دشمن کے مقابلہ کے لئےتیاری نہیں کرتا اور سستی سے کام لیتا ہے اُس کا اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان نہیں۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ جو وعدے کرتا ہے وہ آپ ہی آپ پورے نہیں ہو جایا کرتے۔ بلکہ بندوں کی ہمت اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ قصہ مشہور ہے کہ ایک بزرگ کے پاس کوئی شخص آیا اور کہا کہ میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی آپ دعا کریں۔ انہوں نے کہا بہت اچھا میں دعا کروں گا۔ اس کے بعد وہ اُٹھ کر چل پڑا۔ مگرجس طرف سے آیا تھا اُس طرف نہ گیا بلکہ دوسری طرف چل پڑا۔اُس بزرگ نے بلا کر پوچھا۔ میاں اُدھر کیوں جا رہے ہو گھر کیوں نہیں جاتے؟ اُس نے کہا کہ میں فوج میں ملازم ہوں، چُھٹی پر آیا تھا اور اب واپس فوج میں جا رہا ہوں۔ اُس بزرگ نے کہا اگر تم فوج میں جا رہے ہو تو پھر میری د عا سے کچھ نہیں بنے گا۔ میری دعا تو تبھی قبول ہو سکتی تھی جب تم گھر کو جاتے۔ تو یہ خدائی قانون ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے قانون کی پابندی کرتا ہے اور اس کے اکثر وعدوں کے پورا کرنے کےلئے انسانی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں یہ نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کنعان کے لوگوں کو رسیوں میں باندھ کر موسیٰ کے ساتھیوں کے سپرد کر دیا ہو۔ بلکہ یہی حکم ہوا کہ اپنی قوم کو لے کر جنگلوں کی طرف چلے جاؤ تا کہ ان میں جفاکشی اور بہادری کا مادہ پیدا ہو۔ وہ ایک لمبے عرصہ تک جنگلوں میں تکالیف برداشت کرتے اور تنگی کی حالت میں دن بسر کرتے رہے۔ وہ شہری لوگ تھے، آرام و آسائش کے عادی تھے، ان کو کھانا نہیں ملتا تھا، پیاس کی تکلیف ستاتی تھی۔ شہروں کے رہنے والے یہ تکالیف کہاں برداشت کر سکتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کو رعمسیس2 جیسے شہر سے نکال کر لائے تھے۔ ان شہری لوگوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی فتوحات کا وعدہ یاد دلاتے اور ان کی کمرِ ہمت کو مضبوط کرتے۔ جب وہ بھوکے رہتے رہتے کمزور ہو گئے، پیاسے رہتے رہتے نڈھال ہو گئے اور گھر سے بے گھر آوارہ جنگلوں میں پھرتے پھرتے تنگ آگئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھنے لگے کہ فتح کا دن کب آئے گا اور ہمیں کب چین اور آرام نصیب ہو گا؟ تب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہ جرار فوج جو تمہارے سامنے کھڑی ہے اسے مار لو تو فتح تمہاری ہے۔ اِس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے کہا عجیب بات ہے۔ دس پندرہ سال تک تُو ہمیں جنگلوں میں مارے مارے لے کر پھرتا رہا اور اب کہتا ہے یہ فوج کھڑی ہے اسے مار لو تو فتح تمہاری ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کدھر گیا ہے کہ تم اس زمین کے وارث ہو گے۔ اور تُو ہمیں بجائے اپنے ملک کے دوسرے ملک میں لے آیا ہے۔ ہم گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں، ہم نے بے شمار تکالیف برداشت کی ہیں اور اب تُو ہمیں یہ کہتا ہے کہ جاؤ دشمن کو مار لو اور ملک تمہارا ہے۔ اِن خیالات کی وجہ سے وہ اِس قدر جوش میں آگئے کہ موسیٰؑ کو مخاطب کر کے بول اٹھے اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ 3 اے موسیٰ ؑ ! کیا تُو ہم سے تمسخر کرتا ہے کہ اِس قوم پر فتح حاصل کر لو تو یہ زمین تمہاری ہے؟ اگر ہم نے ہی سب کچھ کرنا تھا تو خدا تعالیٰ کے وعدے دینے کی کیا ضرورت تھی۔ اب جا تُو اور تیرا خدا لڑتے پھرو ہم تو یہ بیٹھے ہیں۔ ہم نے جنگ کر کے دشمن سے ملک فتح کرنے کی نیت سے وطن نہ چھوڑا تھا ہم تو ان وعدوں کے دھوکے میں آگئے جو ہمیں دیئے گئے تھے۔
درحقیقت وہ ایک شدید غلط فہمی میں مبتلا تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے بندوں کو کچھ کرنانہیں پڑتا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم تکلیفیں اٹھاتے ہوئے کنعان کے دروازہ تک پہنچ گئے ہیں اب اللہ تعالیٰ کو چاہیے کہ وہ پہلے لوگوںکو مار دے اور ہمیں اس زمین کا وارث کر دے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کا تویہ مطلب تھا کہ جس قوم سے اُن کا مقابلہ تھا وہ اپنے پاس ظاہری ساز و سامان بہت زیادہ رکھتی تھی اور اس کے پاس فتح حاصل کرنے کے تمام قسم کےسامان موجود تھے۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی بالکل بے سر و سامان تھے اور ان کے پاس ظاہر کوئی چیز ایسی نہ تھی جو فتح کو قریب لانے والی ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا عمالقہ کی قوم پر فتح حاصل کر نا ایسا ہی تھا جیسے چوہا بلی کو مارے۔ عمالقہ قوم کی شام و کنعان پر حکومت تھی اور وہ بہت زیادہ قوت و شوکت رکھتی تھی اور نہایت جابر قوم تھی۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی اینٹیں پاتھنے والے غلامی کی زندگی بسر کرنے والے اور سیاست سے بالکل جاہل اورناواقف تھے۔ باوجود اِس کے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ جاہل اورناواقف اور غلامی کی زندگی بسر کرنےو الی قوم کو اُس کےدشمنوں پر غالب کر دے گا اور عمالقہ کی زمین کا وارث کر دے گا۔ اور یہ سینکڑوں سال تک غلام رہنےوالی قوم جس نے کبھی تلوار نہیں چلائی تھی اور غلامی کی زنجیروں میں مقیّد تھی قومِ عمالقہ پر جو تلوار کی دھنی تھی اورہر قسم کے ساز و سامان اس کے پاس موجود تھے غالب آجائے گی۔ مگر یہود نے ناواقفی سے یہ سمجھا کہ بغیر لڑائی کے فتح حاصل ہونے کا وعدہ ہے۔ اور انکار کر کے تباہ ہو گئے اور مُلک اگلی نسل نے جا کر فتح کیا جو اس غلطی کو سمجھ گئی۔ پس خدا تعالیٰ کا ہاتھ عمالقہ کو مارنے میں ظاہر نہیں ہوا بلکہ کمزور قوم کو غالب قوم پر فتح دینے میں ظاہر ہوا۔
آج بھی اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے کوشش نہیں کرتا اور یہ سمجھتا ہےکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے خود بخود بغیر ہماری کوششوں کےپورے ہو جائیں گے تو وہ بھی اپنے عمل سے یہی کہتا ہےکہ اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ کہ جا تُو اور تیرا رب جا کر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ جو کچھ موسیٰ ؑ کے وقت میں ہوا وہی کچھ ہر نبی کے زمانہ میں ہؤا ہے۔ ہندوؤں میں حضرت کرشنؑ کو جو لڑائی لڑنی پڑی وہ خود کرشن جی، ارجن جی، پانڈوؤں اور ان کے ساتھیوں نے لڑی۔ یہ نہیں ہوا کہ بجائے ان کے لڑنے کے فرشتے آسمان سے نازل ہوئے ہوں۔ اس خطرناک لڑائی کی وجہ یہ تھی کہ کورو نے حق کو چھوڑ دیا۔ اور کج روی اختیارکی۔ لیکن جب دونوں فریق صف آراء ہوئے تو دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اور خود پانڈو جن کے حق کے لئے یہ لڑائی لڑی جا رہی تھی جی چھوڑ رہے تھے۔ اس پر ارجن جی نے کرشنؑ سے کہا کہ لڑائی کیسے لڑیں پانڈو خود لڑائی کےلئے تیار نہیں اور دشمن بہت زیادہ تعداد میں ہے جس کا مقابلہ کرنانا ممکن ہے۔ بہتر ہے کہ لڑائی نہ کی جائے۔ لیکن کرشن جی نے کہا خواہ پانڈو لڑنے کے لئے تیار نہ ہوں اور خواہ دشمن کتنا ہی زیادہ ہو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے گا اور ہم دشمن پر فتح حاصل کر لیں گے۔ آخر جنگ ہوئی اور اس میں کرشن جیؑ کو فتح نصیب ہوئی۔ باوجود اِس کے کہ کورو طاقت کے لحاظ سے ان سے بہت بڑھ کر تھے۔ کرشن جی کو اِس لئے فتح حاصل ہوئی کہ وہ راستی پر تھے اور ان کے دشمن جھوٹ کے حامی تھے۔ ایسے موقعوں پر لڑائی وہی جیتا کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کا بندہ ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کے لئے غیر معمولی سامان پیدا کر دیتا ہے۔
ہر نبی کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک اس کے ساتھ ہوتا ہے کہ اس کے ماننے والے اپنے دشمنوں پر غالب آتے ہیں۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ انبیاء کے ماننے والوں کو لڑائی بھی نہ لڑنی پڑے اور آسمان سے فرشتے اُتر کر اُن کےلئے فتح کے سامان پیدا کر دیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جماعت کو بھی قربانیوں کے بعد غلبہ عطا کیا گیا اور یہی حال ہماری جماعت کا ہے۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں سے بڑھ کر قربانیاں کرنی پڑیں گی۔ کیونکہ جن سے ہمارا مقابلہ ہے وہ بہت زیادہ تعداد، بہت زیادہ طاقت اور بہت زیادہ ذرائع رکھتے ہیں بہ نسبت حضرت مسیح علیہ السلام کے دشمنوں کے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جماعت کا مقابلہ آٹھ دس لاکھ آدمیوں سے تھالیکن ہماری جماعت کا مقابلہ چالیس کروڑ سے ہے۔ جس گورنمنٹ سے حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا مقابلہ ہوا وہ اتنی طاقتور نہیں تھی جتنی طاقتور وہ حکومتیں ہیں جو ہمارے زمانہ میں ہیں۔ مقابلہ سےمیرا یہ مطلب نہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری گورنمنٹ سے لڑے تھے بلکہ وہ حکومت کے ذریعہ دِق کئے جاتے۔ ورنہ وہ خود حکومت کےساتھ ٹکر لینا نہیں چاہتے تھے۔ جس طرح مسیح ناصری علیہ السلام نے لڑائی نہیں کی اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی لڑائی نہیں کی۔ جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے کہا کہ میں حکومت کا فرمانبردار ہوں اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میں حکومت کا فرمانبردار ہوں۔
اصل بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے نبی حکومت کے خواہاں نہیں ہوتے اور نہ ہی حکومت سے لڑائی کرنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن حکومت ان کو باغی قرار دیتی ہے اور ان کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہو جاتی ہے۔ آج دنیا ہمیں حکومت کا خوشامدی خیال کرتی ہے لیکن حکومت کے افسر ہمیں باغی قرار دیتے ہیں۔اور یہ ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت کی حکومت مخالفت نہ کرے۔ اور یہ ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت کو بغیر قربانیوں کے غلبہ حاصل ہو جائے۔ مثلاً عیسائیوں کوآج بڑی طاقت حاصل ہے مگر وہ طاقت اور وہ غلبہ جو عیسائیوں کو حاصل ہے بغیر قربانیوں کے حاصل نہیں ہوا۔ ایسا نہیں ہوا کہ عیسائی سوئے ہوئے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے لوگوں کی گردنوں میں رسیاں ڈال ڈال کر ان کے پاس لاتے ہوں اور ان کی جماعت میں داخل کرتے ہوں اور اس طرح ان کی جماعت ترقی کر گئی ہو۔ بلکہ عیسائیوں نے جانیں دیں اور سینکڑوں سال تک قربانیاں کرتے چلے گئے۔ تین سو سال تک عیسائیوں نے ایسی قربانیاں کی ہیں کہ اُن کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اٹلی میں مَیں نے وہ جگہ دیکھی ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جماعت کے افراد حکومت کے ظلموں سے بھاگ کر چُھپا کرتے تھے۔ وہ جگہ زمین سے اسّی فٹ گہری ہے۔ اور اتنی سڑاند اور بدبو آتی ہے کہ انسان کے لئے اُس کے اندر داخل ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور نمی اور تاریکی اس قدر ہے کہ اَلْاَمَان۔ چونکہ قرآن مجید میں ان مقامات کا ذکر ہے اس لحاظ سے میرے لئے بہت اہم تاریخی جگہ تھی اور میں نے اسے دیکھنا ضروری سمجھا۔ اس غار کے تین حصے انہوں نے بنائے ہوئے تھے۔ پہلا حصہ زمین سے پندرہ یا بیس فٹ نیچے تھا۔ جیسے چوہا یا چھچھوندر جگہ کھودتا ہے ایسے ہی انہوں نے زمین کھودی ہوئی تھی اور اس کے اندر کئی راستے بنائے ہوئے تھے۔ تاکہ اگر پولیس ان کو پکڑنے کے لئے آبھی جائے تو اُس کو پتہ نہ لگ سکے کہ راستہ کدھر جا رہاہے۔ راستے بالکل بھول بھلیاں کی طرح تھے۔ ایک اِس طرف جا رہا ہے اور دوسرا دوسری طرف۔ ایک ہی جگہ سے کئی راستے نکلتے تھے اور آگے جا کر بعض ان میں سےبند ہو جاتے تھے۔ اگر پولیس ان کو پکڑنے کے لئے آجاتی تو چونکہ مسیحیوں کو تو رستوں کا علم ہوتا تھا اِس لئے وہ بھاگ جاتے تھے۔ پھر اِس خیال سے کہ کسی وقت پولیس آہی پکڑے انہوں نے اوپر کی منزل کے نیچے ایک دوسری منزل بنائی ہوئی تھی جب اوپر کی منزل میں پناہ نہ مل سکتی تھی تو وہ دوسری منزل میں چلے جاتے تھے۔ اس منزل تک جانے کے لئے پکی سیڑھیاں نہ ہوتی تھیں بلکہ لکڑی کی سیڑھیاں ہوتی تھیں جنہیں وہ دوسری منزل میں اُتر کر ہٹا لیتے تھے۔ تاکہ پولیس انہیں استعمال کر کے پکڑ نہ لے اور تعاقب میں دیر لگ جائے۔ ان غاروں میں بعض دفعہ ان کو تین تین سال تک چُھپنا پڑتا تھا۔ اور اگر کبھی پولیس کو اُن کا سراغ مل جاتا اور وہ ان پر قابو پا لیتی تو ان کو قتل کر دیتی تھی۔ میں نے بعض کتبوں پر نہایت دردناک عبارتیں لکھی ہوئی دیکھی ہیں کہ یہ میری پیاری بیوی یا میری پیاری بیٹی یا میرے پیارے بیٹے یا میری پیاری بہن کی قبر ہے۔ فلاں سن میں ہم عبادت کر رہے تھے کہ پولیس نے آکر ان کو پکڑ لیا اور قتل کر دیا۔ ایک گرجے میں سات پادری عبادت کر رہے تھے پولیس آگئی۔ اور اُس نے آکر ان کو پکڑ لیا اور ساتوں کے ساتوں قتل کر دیئے گئے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو سیدِ وُلدِ آدم ہیں اور تمام انبیاء کے سردار ہیں۔ آپؐ کو بھی بنی بنائی جماعت نہیں مل گئی کہ تیرہ سال تک کفارِ مکہ نے آپؐ کو سخت سے سخت تکلیفیں دیں۔ ایسی تکلیفیں کہ ان کا تصور کر کے بھی انسان کی روح کانپ جاتی ہے۔ تیرہ سال کی تکالیف برداشت کرنے کے بعد آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہجرت کی اور مدینہ چلے گئے۔ دشمن نے وہاں بھی آپؐ کا پیچھا نہ چھوڑا اور مدینہ پر چڑھائی کر کے وہاں سے بھی مسلمانوں کو نیست و نابود کرنا چاہا۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اجازت دی گئی کہ اب ان کا مقابلہ کیا جائے۔ اگر مقابلے کی اجازت نہ ہوتی تو مسلمانوں کا زندہ رہنا محال تھا۔ مسلمانوں نے کفار کا مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد ایسے فرشتوں سے کی جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لَمْ تَرَوْھَا 4 کہ وہ نظر نہ آتے تھے۔ بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اور آپؐ کے صحابہؓ نے متواتر تیرہ سال تک تکالیف برداشت کیں۔ اور تیرہ سال کے بعد اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ماتحت کفار کا مقابلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح دی اور ان کو کفا رکی روزانہ تکالیف سے ایک حد تک نجات مل گئی۔ اور کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کی وجہ سے ان کو قیصر و کسریٰ کے تختوں کا وارث کر دیا۔ لیکن یہ نہیں ہوا کہ صحابہؓ گھروں میں آرام سے بیٹھ رہے ہوں کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ہم کو ہمارے دشمنوں پر فتح دے گا اس لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ خود بخود پورا ہو جائے گا۔ بلکہ انہوں نے اپنے اعمال سے ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے انسان کو ہر قسم کی قربانی بے دریغ کرنی چاہیے۔ خواہ وہ جانی ہو یا مالی ہو۔ پس اللہ تعالیٰ جو وعدہ کرتا ہے بندوں کا فرض ہوتا ہے کہ اس کے پورا کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کریں۔
ہمارے زمانہ میں دہریت کا فتنہ اِس قدر بڑھ گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا سرے سے ہی انکار کر دیا گیا ہے۔ دنیا کے نزدیک آج خداتعالیٰ کسی ہستی کا نام نہیں۔ ہمارا اذان میں لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ کہنا دنیا کے لئے ایک بے معنی چیز ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے وجود کا ہی سرے سے انکار پایا جاتا ہے۔ تو یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ خدا ایک ہے۔ یا دو ہیں یا تین ہیں پہلے اللہ تعالیٰ کے وجود کو منوانے کا سوال ہے۔ اس کے بعد لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ کا مقام ہے۔ ان تاریکی اور ظلمت کے دنوں میں ہماری جماعت کو سوچنا چاہیے کہ اسے کس قدر قربانیوں کی ضرورت ہے۔اگر ہم میں سے ہر انسان سر سے پیر تک اپنے تمام اعضاء اللہ تعالیٰ کی حکومت قائم کرنے میں نہیں لگاتا، اگر ہم میں سے ہر فرد اپنا دن اور رات خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے صرف نہیں کرتا تو ہم بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرح ہیں۔ جنہوں نے یہ کہا تھا اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے منہ سے یہ کہہ دیا تھا اس لئے ہم ان کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنے اعمال سے یہی ثابت کرنے والے ہوں تو ہم میں اور ان میں کیا فرق ہو سکتا ہے۔ آج جس شخص کے دل میں سُستی اور غفلت پیدا ہوتی ہے اور قربانی کرنے سے جی چُراتا ہے وہ یقیناً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے ہے گو وہ منہ سے نہ کہے۔ پہلی قوموں کے منہ سے جو بُرے الفاظ نکل جاتے ہیں آئندہ قومیں ان لفظوں سے احتراز کرتی ہیں۔ لیکن اپنے اعمال کی طرف نہیں دیکھتیں کہ کیا ہم اپنے اعمال سے تو ان ہی الفاظ کو نہیں دہرا رہے۔
کہتے ہیں کہ جرمنی کا بادشاہ فریڈرک سخت تند مزاج تھا۔ اسے ایک گھوڑا بہت پیارا تھا۔ ایک دفعہ وہ گھوڑا بیمار ہو گیا۔ بادشاہ نے نوکروں کو حکم د یا کہ اس کا پوری طرح خیال رکھیں۔ اور ڈاکٹروں کو حکم دیا کہ پوری توجہ سے اس کا علاج کریں اور ہر دس منٹ کے بعد اسے گھوڑے کی حالت کے متعلق اطلاع ملتی رہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جس نے گھوڑے کے مرنے کی خبر دی میں اُسے مار ڈالوں گا۔ اور اگر کسی نے بھی اطلاع نہ دی تو سب کو مروا ڈالوں گا۔ ڈاکٹر اور نوکر سب اِس حکم سے گھبرا گئے اور گھوڑے کا علاج پوری محنت سے کرتے رہے لیکن آخر گھوڑا مر گیا۔ جب گھوڑ امر گیا تو سب گھبرائے کہ اب کون گھوڑے کی موت کی خبر بادشاہ کو دینے جائے۔ جو جائے گا اُس کی جان کی خیر نہیں۔ اور اگر کوئی بھی نہ جائے تو سب مارے جائیں گے۔ وہ ایک دوسرے کو آمادہ کرتے لیکن کوئی تیار نہ ہوتا۔ آخر بہت سوچ بچار کے بعد اطلاع پہنچانے کے لئے انہوں نے بادشاہ کے ایک منہ چڑھے نوکر کو چُنا۔ پہلے تو اس نے لیت و لعل کیا لیکن آخر تمام نوکروں کے سمجھانے پر وہ مان گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ عقلمند بھی تھا۔ جب وہ بادشاہ کے پاس اطلاع لے کر گیا تو بادشاہ نے اُسے دیکھتے ہی کہا۔ اتنی دیر کیوں لگائی ہے؟ کہو گھوڑے کے متعلق کیا خبر لائے ہو؟ اُس نے کہا حضور بالکل آرام ہے۔ بادشاہ نے پھر پوچھا۔ کیا واقع میں آرام میں ہے؟ اس نے کہا۔ حضور گھوڑا بالکل آرام سے زمین پر لیٹا ہوا ہے اُسے بالکل درد نہیں، نہ وہ چیخیں مارتا ہے نہ دُم ہلاتا ہے، نہ کان ہلاتا ہے، نہ اُس کا پیٹ ہلتا ہے۔ آنکھیں بھی بند ہیں اور بالکل آرام سے لیٹا ہوا ہے کوئی حرکت نہیں کرتا۔ بادشاہ نے کہا اِس کا تو یہ مطلب ہے کہ گھوڑا مر گیا ہے۔ اس نے کہا حضور ہی کہتے ہیں میں تو نہیں کہتا۔
تو الفاظ بدل لینے سے کیا بنتا ہے۔ منہ سے بے شک نہ کہا۔ اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ۔ لیکن جس نے اپنے عمل سے ایسا ہی نمونہ دکھایا تو وہ منہ سے کہنے والے سے کم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برابر ہیں۔ ہم کہتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وہ ساتھی بڑے گندے تھے جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا تھا کہ جا تُو اور تیرا رب جا کر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنے اعمال سے وہی ثابت کرتے ہیں جو انہوں نے منہ سے کہا تھا تو وہ گالیاں ان کونہیں لگتیں ہم کو لگتی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کی حالت کو دیکھتا ہے اور ارادوں اور نیتوں سے خوب واقف ہے۔ اگر ایک شخص اسلام کے لئے اپنی زبان بھی نہیں ہلاتا اور آرام سے گھر میں لیٹا رہتا ہے اور دل میں خوش ہوتا ہے کہ اسے قربانی نہیں کرنی پڑتی۔ بے شک اسلام کو ضعف پر ضعف پہنچے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت خطرہ میں ہو لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کو گالیاں دیتا چلا جاتاہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے غداری کی تو یہ گالیاں ان کے لئے نہیں بلکہ اس کے اپنے لئے ہیں۔ آج دشمن اسلام کے مقابلہ میں اپنی جانیں اور اپنا مال صَرف کر کے اسلام کے خلاف کالجوں کے ذریعہ،ہسپتالوں کے ذریعہ، انجمنوں اور سوسائیٹیوں کے ذریعہ، سیاسی نمائندوں کے ذریعہ پروپیگنڈا (Propaganda) کر رہا ہے۔ اگر اس حالت میں ایک مسلمان اپنے گھر میں لیٹا ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کو بُرا بھلا کہتا چلا جائے تو یہ اُس کی حددرجے کی حماقت ہو گی۔ اُسے سوچنا چاہیے کہ کیا اُس نے اسلام کی خاطر اپنی جان جوکھوں میں ڈالی ہے؟ کیا اُس نے اسلام کے لئے اپنی جان کو اُسی طرح ہلاکت میں ڈالا جس طرح وہ دنیا کے لئے ڈالتا ہے؟ کیا وہ اسلام کی اشاعت کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہے اور کر رہا ہے؟ جس آدمی کا نفس ان سوالوں کا جواب ہاں میں دے اُسے اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھنا چاہیے۔ ورنہ اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ منہ سے نہ کہنا اور عمل سے اِس کا ثبوت دینا یہ دونوں برابر ہیں۔
ہماری جماعت کو غور کرنا چاہیے کہ ان کے اعمال حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے قول کے مصداق تو نہیں۔ ہر وہ شخص جو ایمان میں کمزوری دکھاتا ہے اور اپنا دن رات اسلام کے پھیلانے کے لئے وقف نہیں کرتا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کی اشاعت کا اسے احساس نہیں ہے۔ قربانی کے نام سے اُس کا دل دھڑکنے لگتا ہے، چندہ دیتے ہوئے اُس کے ہاتھ کانپتے ہیں اور دل میں انقباض پیدا ہوتاہے،اگر وقفِ زندگی کا مطالبہ ہو تو خوف سے کانپنے لگتا ہے۔ یا وہ لوگ جن کی اولاد وقف کے قابل ہے لیکن وہ ان کو وقف کی تحریک نہیں کرتے یا اگر لڑکا زندگی وقف کرتا ہے تو مائیں اور بہنیں رونا شروع کر دیتی ہیں اور باپ کہتا ہے کہ کیا میں نے تجھے اِسی دن کے لئے پڑھایا تھا کہ زندگی وقف کر دے۔ ایسے انسانوں کا کوئی حق نہیں کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے متعلق کہیں کہ وہ نافرمان اور غدار تھے۔ بلکہ چاہیے کہ اپنے آپ کو بھی انہی میں سے شمار کریں۔ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی جماعتوں کا کام اتنا مشکل نہ تھا جتنا ہمارا کام ہے۔ اُس وقت صرف یہ سوال تھا کہ تخت پر خداتعالیٰ کو بٹھایا جائے یا فرعون کو۔ لیکن آج تو خدا تعالیٰ کے وجود کا ہی سرے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ اور بجائے لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ ثابت کرنے کے اور بجائے اللہ تعالیٰ کی طاقتوں کو ثابت کرنے کے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے کہ وہ موجود ہے۔ کیونکہ دنیا اُس کی ذات کا انکار کر رہی ہے اور ایسے حالات میں اُس کی صفات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس میں کون کونسی طاقت ہے اور کونسی نہیں۔ اب صرف خداتعالیٰ کو تخت پر بٹھانے کا سوال نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی روحانی پیدائش کا سوال ہے کہ خداتعالیٰ کا وجود ایسے طور پر ظاہر ہو کہ دنیا اس کا انکار نہ کر سکے۔ اِس وقت سوال یہ نہیں کہ لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ کو کس طرح دنیا میں قائم کیا جائے بلکہ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود کو کس طرح منوایا جائے۔ جیسی ظلمت اور جیسی ضلالت ہمارے زمانہ میں ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار ہمارے زمانہ میں کیا جا رہا ہے اِس کی نظیر پہلے وقتوں میں نہیں ملتی۔ ہماری جماعت کو بھی اس کے مقابل پر ایسی شاندار قربانیاں کرنی چاہئیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل مل کر اعلیٰ نتائج پیدا کرے اور وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں اور اللہ تعالیٰ کے وجود کو دنیا سے منوا دیں اور اس کی حکومت دنیا پر قائم کر دیں۔ گو اللہ تعالیٰ کی حکومت زمین پر بھی ویسی ہی ہے جیسی آسمان پر ہے اور تمام دنیا اس کے قانونِ قدرت کے ماتحت چل رہی ہے۔ اگر دہریہ یا دوسرے لوگ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید یا اس کی عبادت نہیں کرتے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی حکومت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک لحاظ سے اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت لوگوں کے دلوں میں قائم ہو جائے۔
جب بادشاہوں کو تخت پر بٹھانے کی رسم ادا کی جاتی ہے تو ملک کے بڑے بڑے آدمی بلائے جاتے ہیں۔ انگلستان کے بادشاہ کو آرچ بشپ آف کنٹربری (Archbishop of Canterbury)تخت پر بٹھاتا ہے۔ اور اگر اسلامی ممالک میں یہ رسم ادا کرنی ہو تو شیخ الاسلام اس رسم کو پورا کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی تخت نشینی کی رسم میں اُنہی کو شامل کیا جائے گا جو اُس کے حضور معزز ہوں گے اور جو اِس قابل ہوں گے کہ وہ اس رسم میں شامل ہوں۔ جنہوں نے اس کی تخت نشینی کے دن کے لئے ہر چیز قربان کر دی اور اس کی راہ میں دیوانہ وار تکالیف کو برداشت کرتے چلے گئے یہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنی تخت نشینی کے موقع پر شریک کر لے گا۔ لیکن وہ جنہوں نے کہا اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کبھی پسند نہیں کرے گا کہ ایسے ناپاک لوگ اس کی تخت نشینی میں شامل ہوں اور ان کے ناپاک ہاتھ اس کے سر پر تاج رکھیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا دُور کرو اِن ناپاک ہاتھوں کو میں ان کے ذریعے اپنی تخت نشینی نہیں چاہتا۔ تمہارے دل میں میری کوئی وقعت نہیں تھی۔ پس اللہ تعالیٰ اپنی تخت نشینی اس شخص کے ہاتھ سے کرائے گا جو آج اسلام کا شیخ الاسلام ہے، جس کے دل میں اسلام کا درد ہے اور جو دن اور رات اس فکر میں رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت جلد دنیا میں قائم ہو۔
جب موجودہ بادشاہ کے والد کی تاج پوشی کی رسم دہلی میں ادا کی گئی۔ تو میں اُس وقت بچہ ہی تھا۔ جب بادشاہ دربار میں آیا تو ایک بہت بڑا رئیس تھا جسے بادشاہ کی آمد کا اعلان کرنے پر مقرر کیا گیا تھا۔ وہ بگل کبھی اِدھر منہ کر کے بجاتا اور کبھی دوسری طرف۔ اور جب وہ صاحب اِس طرح بادشاہ کی آمد کا اعلان کرتے تھے تو دوسرے رؤسا ء اُن پر رشک کرتے تھے کہ کتنا عزت کا کام اِن کے سپرد کیا گیا ہے۔ حالانکہ عام حالات میں بگل بجانا کوئی عزت کی چیز نہیں سمجھی جاتی۔ لیکن بادشاہ کی تخت نشینی پر ٹرمپیٹر (Trumpeter) ہونا بڑی عزت کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ اگر دنیا کے بادشاہوں کے ٹرمپیٹر کی یہ عزت ہوتی ہے تو خداتعالیٰ کی بادشاہت کا ٹرمپیٹر ہونا کتنا عزت کا مقام ہے۔ مگر ہر شخص اس کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ یہ اعزاز بھی انہی لوگوں کے سپرد ہو گا جو اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کریں گے اور اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو اسلام اور احمدیت کے لئے فنا کر دیں گے۔ پس پہلے استحقاق پیدا کرو تا اللہ تعالیٰ یہ کام تمہارے سپرد کر دے۔
غرض ہماری جماعت کو اپنے اندر ایسا تغیر پیدا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی تخت نشینی کا ٹرمپیٹرمقرر کر دے۔ آج اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام یا آرچ بشپ کا عہدہ اُسی کو دے گا جس کے متعلق وہ یہ سمجھے گا کہ یہ میرا دیوانہ عاشق ہے۔ اور اپنی تخت نشینی کے وقت ٹرمپیٹرکا عہدہ اُنہی لوگوں کے سپرد کرے گا جو اِس وقت خداتعالیٰ کے لئے اپنے دل کی آواز تک کو دبا دیتے ہیں اور جن کی نسبت اللہ تعالیٰ قرار دے گا کہ وہ اس کی تخت نشینی کے اعلان کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم بھی اُن لوگوں میں شامل ہوں جو دنیا میں اس کی تخت نشینی کی رسم ادا کرنے والے ہوں یا دنیا میں اس کی تخت نشینی کا اعلان کرنے والے ہوں۔آمِیْنَ اَللّٰہُمَّ آمِیْنَ۔ ’’ (الفضل مورخہ 29 ستمبر1945ء)
1: ٹرمپیٹر (Trumpeter) :منّاد
2: رعمسیس: قدیم مصر کا ایک شہر جس کی تعمیر میں بنی اسرائیل سے بیگار لی گئی ۔ یہ ان دو شہروں
میں سے ایک تھا جو فرعون نے غلہ جمع کرنے کے لئے تعمیر کرائے تھے ۔لیکن مقصد یہ بھی تھا
کہ بنی اسرائیل بیگار سے تنگ آکر مصر سے نکل جائیں اور کسی آئندہ مصیبت کا سبب نہ بنیں۔
(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد نمبر 1صفحہ 668 مطبوعہ لاہور 1987ء)
3: المائدۃ:25
4: التوبۃ: 40

32
جماعت کے مخلصین ہوشیار ہو جائیں
(فرمودہ 28 ستمبر1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کےبعدفرمایا:
‘‘مجھے دو تین دن سے کانوں اور دانتوں کےد رد کی شکایت ہے جو شاید گزشتہ دو دنوں میں بارش رہنے کی وجہ سے یا نمی کی وجہ سے اور پھر اس کے بعد سفر کی وجہ سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اور رات کا اکثر حصہ مَیں سو نہیں سکا۔ اب بھی گلے کی وجہ سے میں بولنے سے معذور ہوں لیکن بہت سی باتیں میرے دل میں ہیں جو مَیں آہستہ آہستہ جماعت سے کہنا چاہتا ہوں۔ میرا ارادہ تو یہ تھا کہ میں قادیان پہنچنے کے بعد پہلے جمعہ سے ہی ترتیب وار ان باتوں کو بیان کرنا شروع کر دوں لیکن کان کے درد کی وجہ سے جو اِس وقت آہستہ بولنے کے باوجود تکلیف دے رہا ہے میں صرف اِس امر کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ آئندہ آنے والے حالات کے مطابق قربانیوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کرے۔ میں نے متعدد بار توجہ دلائی ہے کہ اگر نبی کے زمانہ میں لوگ خصوصیت سے عزتیں اور رتبے حاصل کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کو دوسرے لوگوں سے زیادہ قربانیاں کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ورنہ خداتعالیٰ لحاظ دار نہیں۔
ابوبکرؓ کو اللہ تعالیٰ نے محض اِس لئے ابوبکرؓ نہیں بنایا تھا کہ وہ اتفاقی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہو گئے تھے۔ عمرؓ کو اللہ تعالیٰ نے اِس لئے عمرؓ کا درجہ عطا نہیں کیا تھا کہ وہ اتفاقی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہو گئے تھے۔ عثمانؓ اور علیؓ کو محض اس لئے خداتعالیٰ نے عثمانؓ اور علیؓ کا جو مرتبہ ہے وہ عطا نہیں کیا تھا کہ وہ اتفاقی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دامادی کے مقام پر پہنچ گئے تھے۔ یا طلحہؓ اور زبیرؓ کو محض اس لئے کہ وہ آپؐ کے خاندان یا آپؐ کی قوم میں سے تھے اور آپؐ کے زمانہ میں پیدا ہو گئے تھے عزتیں اور رتبے عطا نہیں کئے۔ بلکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی قربانیوں کو ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا تھا کہ جس سے زیادہ انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آتا۔ بھلا ان باتوں کا خیال بھی تو کرو اور اندازہ لگاؤ ان قربانیوں کا جو ان لوگوں نے کیں ہمارے ہاں اگر کسی کو پانچ بجنے کے بعد کسی دن دفتر میں ایک آدھ گھنٹہ کام کرنا پڑے تو گھبرا جاتا ہے۔ رات کو اگر پہرے پر مقرر کر دیا جائے تو یہ بات اُس کے لئے وبالِ جان بن جاتی ہے۔ ایک کلرک کو دفتر سے ڈیوٹی پر ڈلہوزی بھیجا گیا تو وہاں سے بھاگ آیا۔ حالانکہ گورنمنٹ کے دفاتر کے سینکڑوں کلرک ڈلہوزی آتے ہیں۔ جن کا ایمان کےساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا،جن کا اسلام کی خدمت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا، وہ اُتنی ہی تنخواہیں لیتے ہوئے جاتے اور رہتے ہیں ۔ پھر ان کے لئے رہائش کا انتظام بھی نہیں ہوتا۔ اِدھر اُدھر ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ مگر ہماری اسلام کے لئے جانیں قربان کرنے والی جماعت کے اسلامی خدمت کرنے والے محکمہ کے ایک اسلام کے لئے جان قربان کرنے کادعویٰ کرنے والے فرد کا یہ طَور و طریق ہے کہ وہ وہاں سے اِس لئے بھاگ آیا ہے کہ پہاڑ کا موسم اُس سے برداشت نہیں ہو سکتا۔ مگر ذرا ان لوگوں کی حالت تو دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ایک صحابی حضرت طلحہؓ جس وقت ایک باہمی اختلاف کے موقع پر حضرت علیؓ کے مقابل پر کھڑے ہوئے اور پھر جب ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اس میں میری غلطی تھی تو وہ میدانِ جنگ سے چلے گئے۔ آپ واپس گھر جارہے تھے تو کسی وحشی انسان نے جو حضرت علیؓ کی فوج میں سےکہلاتا تھا راستے میں جاتے ہوئے ان کو قتل کر دیا اور پھر حضرت علیؓ کے پاس انعام کی خواہش میں آکر کہا میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ آپ کا دشمن طلحہؓ میرے ہاتھوں مارا گیا۔ حضرت علیؓ نے کہا میں تم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے جہنم کی بشارت دیتا ہوں۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنا تھا کہ طلحہؓ کو ایک جہنمی قتل کرے گا۔1 حضرت طلحہؓ کا ایک ہاتھ مارا ہوا تھا اور جس کا ہاتھ مارا ہوا ہو ہمارے ملک میں اُس کو ٹنڈا کہتے ہیں۔ اِسی شخص نے یا کسی اَور نے اس موقع پر کہا کہ وہ ٹنڈا مارا گیا۔ ایک صحابی نے جو اِس بات کو سن رہے تھے کہا کم بخت! تجھے معلوم ہے کہ وہ ٹنڈا کیسے ٹنڈا ہؤا تھا؟ جنگِ اُحد کے موقع پر جب ایک غلط فہمی کی وجہ سے صحابہؓ کا لشکر میدانِ جنگ سے بھاگ گیا اور کفار کو یہ معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صرف چند افراد کے ساتھ میدانِ جنگ میں رہ گئے ہیں تو قریباًَ تین ہزار کافروں کا لشکر آپ پر چاروں طرف سے اُمڈ آیا اور سینکڑوں تیر اندازوں نے کمانیں اٹھا لیں اور اپنے تیروں کا نشانہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منہ کو بنا لیا تاکہ تیروں کی بوچھاڑ سے اس کو چھید ڈالیں۔ اُس وقت وہ شخص جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرہ مبارک کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو کھڑا کیا وہ طلحہؓ تھا۔ طلحہؓ نے اپنا ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منہ کے آگے کھڑا کر دیا اور ہر تیر جو گرتا تھا بجائے آپ کے چہرہ پر پڑنے کے طلحہؓ کے ہاتھ پر پڑتا تھا۔ اِس طرح تیر پڑتے گئے یہاں تک کہ زخم معمولی زخم نہ رہے اور زخموں کی کثرت کی وجہ سے طلحہؓ کے ہاتھ کے پٹھے مارے گئے اور ان کا ہاتھ مفلوج ہو گیا۔2 تو جس کو تم حقارت کے ساتھ ٹنڈا کہتے ہو اِس کا ٹنڈا ہونا ایسی نعمت ہے کہ ہم میں سے ہرشخص اس برکت کے لئےترس رہا ہے۔ طلحہؓ سے کسی نے پوچھا ایک تیر پڑنے سے انسان کی جان نکلنے لگتی ہے لیکن آپ کے ہاتھ پر پے در پے اور متواتر تیر پڑ رہے تھے کیا آپ کو درد نہیں ہوتی تھی اور آپ کے منہ سے سی سی نہیں نکلتی تھی؟ طلحہؓ نے کہا درد بھی ہوتی تھی اور دل سی سی کرنے کو بھی چاہتا تھا مگر میں اس لئےا یسا نہیں کرتا تھا کہ جب انسان ہائے کرتا ہے یا سی سی کرتا ہے تو درد کی وجہ سے ہاتھ ہل جاتا ہے اور میں ڈرتا تھا کہ میرا ہاتھ ہِلا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تیر لگ جائے گا۔
یہی وہ قربانیاں تھیں جنہوں نے صحابہ کو صحابہؓ بنایا۔ یہی وہ قربانیاں تھیں جنہوں نے ان کو وہ درجہ عطا کیا کہ دنیا کے پردہ پر کم ہی مائیں ایسی ہوں گی جو شاذونادر کے طور پر ایسے بچے جنیں۔ دنیا کے لئے دوسرا بہترین موقع رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانے سے اُتر کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا زمانہ ہے۔ جو برکتیں دنیا میں کسی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کے سوا حاصل نہیں ہو سکتی تھیں آج حاصل ہو سکتی ہیں۔ مگر اِس کو جو اپنی زندگی خداتعالیٰ کی راہ میں فنا کرنے کے لئے تیار ہو جائے، جو اپنے آپ کو اسلام کے لئے مٹا دینے پر آمادہ ہو جائے، جو طلحہؓ کی طرح اپنے جسم پر تیر کھانے کے لئے تیار ہو اور سی سی نہ کرے تاکہ کوئی تیر اسلام کے جسم پر نہ جا پڑے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو ان نعمتوں کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ساتھ مقدر ہیں حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر جو تلواروں کے سایہ کے نیچے چلنے کے لئے تیار نہیں، جو پلِ صراط پر سے جو تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے گزرنے کے لئے تیار نہیں، جو کانٹوں کے فرش پر ننگے پاؤں چلنے کے لئے تیار نہیں وہ ان نعمتوں کی امید نہیں رکھ سکتا۔ عورتیں جو اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو ذبح کرنے پر آمادہ ہوں وہ اِس جنت کے دروازے میں داخل ہو سکتی ہیں۔ وہ مرد جو اپنے ہاتھوں سےاپنے خویش و اقارب کو قربان کرنے کے لئےتیار ہیں وہ اس انعام کو حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ نہیں جو شرطیں لگائے، جو قدم اٹھانے سے پہلے اپنے انجام کے متعلق پوچھنا چاہے۔ میں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے اس وقت حوالہ یاد نہیں کہ ایک شخص کا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حساب لے گا اور حساب لینے کے بعد کہے گا اے میرے بندے! میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تجھے جہنم میں ڈالا جائے۔ جا اور اس میں کُود جا۔ اس بندے میں اور تو کمزوریاں ہوں گی لیکن خداتعالیٰ کی محبت میں وہ دوسروں سے پیچھے نہیں ہو گا۔ جب اللہ تعالیٰ اسے کہے گا تُو دوزخ میں کُود جا تو وہ کہے گا اے میرے رب! اگر تیری یہی مرضی ہے تو میں کُودتا ہوں۔ جب وہ دوزخ میں کُودے گا تو دوزخ اس کے لئے یوں بن جائے گا جیسے جنت ہوتی ہے اور اسے آگ کے شعلے نہ ضرر پہنچائیں گے نہ ہی تکلیف دیں گے۔ بلکہ وہ اس میں ایسی لذت حاصل کرے گا جو جنّتی جنّت میں حاصل کرتا ہے۔ ہر مومن جب خداتعالیٰ کے لئے بے شرط قربانی کے لئے تیار ہوتا ہے اور اپنی جان، آبرو و عزت خداتعالیٰ کی راہ میں دے دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو کوئی دوزخ اُس کے راستہ میں نہیں آسکتی۔ وہ تو ایک تریاق ہے جس کو ملتا ہے اسے اچھا کر دیتا ہے، جس آگ پر گرتا ہے اس کو بجھاد یتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے متعلق جو یہ فرمایا ہے کہ يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا 3 تو اس کا یہ مطلب تھا کہ ابراہیمؑ کی ذات وہ ہے جسے خداتعالیٰ کے راستہ میں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ دنیا اس کو آگ میں پھینک کر کیا کرے گی، اُس کے بیوی بچوں کو اس سے چھین کر کیا کرے گی، اس کےعزیز و اقارب کو اس سے چُھڑا کر کیا کرے گی، اس کو مار کر یا قتل کر کے کیا کرے گی، کیونکہ وہ تو ہر تکلیف میں لذت محسوس کرے گا۔ وہ دکھ اسے دکھ دکھائی نہیں دیں گے بلکہ خداتعالیٰ کے لئے وہ ان کو آرا م اور راحت سمجھے گا۔ جب وہ ہر دکھ کو اپنے لئے سکھ سمجھے گا تو یہ آگ اس کے لئے جنت ہوتی چلی جائے گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مومن کی علامت یہ ہوتی ہے کہ ہر دوزخ اس کےلئے جنت بن جاتی ہے۔ جب کبھی خدا تعالیٰ کے راستہ میں اسے کوئی صدمہ آتاہے تو وہ اسے بجائے رنج پہنچانے کے اس کے لئے آرام کا موجب ہو جاتاہے۔ اور وہ کہتا ہے اس سے بہتر کیا چیز ہو گی۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیالکوٹ سے واپس آ رہے تھے تو لوگوں نے آپ پر پتھر پھینکے۔ جب آپ گاڑی میں سوار ہو گئے لوگوں نے وہاں بھی پتھر پھینکے لیکن گاڑی میں تو وہ زیادہ نقصان نہ پہنچا سکے اور نہ ہی ایسا کر سکتے تھے لیکن جب لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو چھوڑ کرواپس آرہے تھے تو اُنہیں لوگوں نے طرح طرح کی تکالیف دینی شروع کیں اور دِق کیا۔مولوی برہان الدین صاحب انہی میں سے ایک تھے۔ جب وہ واپس جارہے تھے تو کچھ غنڈے اُن کے پیچھے ہو گئے اور اُن پر گند وغیرہ پھینکا۔ آخر بازار میں اُن کو گرا لیا اور ان کے منہ میں گوبر ڈالا۔ دیکھنے والوں نے بعد میں بتایا کہ جب مولوی برہان الدین صاحب کو جبراً پکڑ کر اُن کے منہ میں زبردستی گوبر اور گند ڈالنے لگے تو انہوں نے کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ایہہ نعمتاں کتھوں۔ مسیح موعودؑ نے روز روز آنا وے؟ یعنی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ یہ نعمتیں انسان کو خوش قسمتی سےہی ملتی ہیں۔ کیا مسیح موعودؑ جیسا انسان روز روز آسکتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ ایسا موقع ملے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے دوزخ پیدا کی ہی نہیں جا سکتی کیونکہ خداتعالیٰ نے ان کو ایسا بنا دیا ہے کہ ان کی برکات کی وجہ سے ہر دوزخ ان کے لئے برکت بن جاتی ہے اور راحت کا موجب ہوتی ہے۔ تو يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا کے ایک یہ بھی معنی ہیں کہ ابراہیم ایسے مقام پر کھڑا ہوا تھا کہ ہم نے فیصلہ کر دیا تھا کہ ہماری راہ میں اس کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ اس کا ایمان اتنا مضبوط ہے کہ جو بھی تکلیف کوئی مخالف پہنچائے گا اسے خوشی سے قبول کرے گا اور خوش ہو گا کہ اسے خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرنے کا ایک اَورموقع میسر آ گیا۔ ایسے لوگوں کے لئے دوزخ ناممکن ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جس کو تکلیف میں راحت محسوس ہونے لگ جائے اُس کو دشمن کیا تکلیف پہنچائیں گے۔ اگر خداتعالیٰ جنت میں ڈالے گا تو وہ اس کے لئے جنت ہو گی اور اگر دشمن اسے دوزخ میں ڈالیں گے تو وہ بھی اس کے لئے جنت ہو گی۔ اگر وہ اسے کوئی دکھ دیں گے تو وہ اس کے لئے راحت کا موجب ہو گا۔ ایسے لوگوں کے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے جب آئے گی جنت ہی آئے گی اور لوگوں کی طرف سے جو دکھ ہوں گے وہ جنت ہی پیدا کریں گے۔ یہی لوگ ہیں جن کے ماتھوں پر فتح سوار ہوتی ہے اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوتے ہیں۔
پس جماعت کے لئے ہر نئے تغیر پر ایک نئی قربانی کا سوال پیش آتا ہے اور ہمارے لئے بھی یہی سوال درپیش ہے۔ جیسا کہ میں پچھلے خطبات میں بیان کر چکا ہوں۔ ایک نیا تغیر پیدا ہونے والا ہے۔ اور اس کے ماتحت ہمیں پہلے سے زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں گی۔ اور شاید قربانیوں کی نوعیت بھی بدل جائے گی۔ پس میں جماعت کے مخلصین کو ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں کہ و ہ مضبوطی کےساتھ تکالیف اور مصائب کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ میں انہیں وقت پر ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں تاکہ مخلصین اپنی کمرِ ہمت کَس لیں۔ اور میں کمزوروں کو بھی کہتا ہوں کہ وہ اپنےد لوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔ تا ایسا نہ ہو کہ وقت پڑنے پر وہ کچے دھاگے ثابت ہوں اور اُن کی پچھلی قربانیاں بھی ضائع چلی جائیں۔ ’’
(الفضل 10 ؍اکتوبر 1945ء)
1: طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 225 مطبوعہ بیروت 1985 مفہوماً
2: طبقات ابن سعد جلد 3صفحہ 217 مطبوعہ بیروت 1985ء
3: الانبیاء : 70


33
جہاں ہم دین کی ترقی کے لئے کوشش کریں وہاں دنیوی ترقی کے لئے بھی سامان مہیا کریں
(فرمودہ5؍اکتوبر1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مجھے تو ڈ اکٹروں نے بولنے سے منع کیا ہواہے لیکن میرے ذہن میں سلسلہ کی ترقی کے لئے بعض تجاویز ہیں جنہیں جلدی بیان کرنا ضروری ہے۔ اس لئے باوجود اس ہدایت کے کہ مجھے بولنا نہیں چاہیے جب تک کہ دانتوں کو نکلوا نہ لیا جائے ،میں یہاں پر آ گیا ہوں۔ میں ابھی دانت نکلوانے کے لئے بھی نہیں گیا تا کچھ نہ کچھ اپنی سکیم کو ظاہر کرنے کا مجھے موقع مل جائے۔ لیکن مجھے یہاں آکر افسوس ہوا کہ بجلی بند ہونے کی وجہ سے لاؤڈ سپیکر بند ہے اور اس وجہ سے میں آسانی کے ساتھ اپنی آواز سب تک نہیں پہنچا سکتا۔ لاؤڈ سپیکر کے ساتھ بہت زیادہ آسانی ہو جاتی ہے اور بولنےو الے کی طبیعت پر بوجھ نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں خواہ کتنی ہی آہستہ آواز سے بولوں میری آواز زیادہ بلند ہو کر سب تک پہنچ جائے گی۔ اگر میں زور لگا کر اِس سے زیادہ اونچا بولنے کی کوشش کروں تو میرے لئے یہ بھی مشکل ہے۔ کیونکہ ملاقاتوں کے بعد حالانکہ اونچا بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی درد ہو جاتی ہے۔ اور پچھلے چار دنوں میں ملاقاتوں
٭اہم نوٹ: ایک اناڑی نے یہ خطبہ لکھا ہے جسے ابتدائی حروف اُردو کے نہیں آتے اس لئے نہایت خراب لکھا گیا ہے۔ مگر مجبوری ہے۔ منہ
کے بعد شدید دردکا دَورہ ہوتا رہا۔ اتنا شدید کہ بعض دفعہ اس درد کی شدت کی وجہ سے میں محسوس کرتا تھا کہ ایک ہی صورت اِس وقت اس تکلیف سے محفوظ رہنے کی ہے کہ کوئی تیز نیند آور دوائی پچکاری کر دی جائے۔ اب بھی دوائی لگانے سے اتنا افاقہ ہے کہ ٹیس نہیں اٹھتی۔ لیکن اپنی جگہ پر ہلکی ہلکی درد محسوس ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ غالباً دائیں طرف کے دو دانت نکل جانے کے بعد اس درد میں افاقہ کی صورت پیدا ہو جائے گی۔
میں جس مضمون کو آج بیان کرنا چاہتا ہوں ظاہری لحاظ سے وہ دنیوی نظر آتا ہے اور ہماری جماعت کی تربیت ابھی ایسی نہیں کہ وہ اپنے نظام بلکہ خلیفۂ وقت کی زبان سے بھی دنیوی امور سن کر متأثر ہو۔ دینی امور میں تو ہر قسم کی قربانی کے لئے ہماری جماعت تیار ہو جاتی ہے مگر جہاں کسی دنیوی امر کا سوال پیدا ہوتا ہے باوجو داِس لمبے تجربہ کے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے جب کبھی بھی مجھے خدا تعالیٰ نے دنیوی امور کے متعلق بولنے کی توفیق عطا فرمائی ہے ہزارہا تجربہ کاروں کی رائے کے مقابلہ میں میری ہی رائے زیادہ صحیح نکلی ہے پھر بھی ہم میں سے ہر ایک میں ابھی یہ مادہ پیدا نہیں ہوا کہ وہ اِس قسم کی مثالوں کی موجودگی میں بھی میری ہدایات کی پوری قدر کر سکیں۔ بِالعموم وہ ان امور کے متعلق اپنے دل میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ دنیوی مشورہ ہے ہم ان امور کے متعلق خود اچھی طرح سوچ سمجھ سکتے ہیں اس لئےان باتوں کی زیادہ قدر کرنے کی ضرورت نہیں۔ مثلاَ میں نے وقت پر خداتعالیٰ سے خبر پاکر جماعت کو 2،3 سال ہوئے 1942 ء کے آخر یا 1943ء کے شروع میں اطلاع دی تھی اور جلسہ سالانہ کے موقع پر اِس خواب کو بیان بھی کر دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگوں کو خود اپنے گھروں میں کپڑے بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس دستکاری کو جاری کرنا چاہیے کیونکہ آئندہ کپڑے کے قحط کا امکان ہے۔ جس وقت میں نے یہ بات کہی تھی اُس وقت بازاروں میں ہر قسم کا کپڑا ملتا تھا گو مہنگا تھا مگر جہاں تک میرا خیال ہے ساری جماعت میں سے درجن دو درجن آدمیوں کے سوا کسی نے اِس امر کی طرف توجہ نہ کی۔ پھر وہ دن آگئے جب کپڑے کی اِس قدر تنگی ہوئی کہ ابھی تھوڑے دن ہوئے کہ ایک غریب احمدی نے مجھے لکھا کہ میرے پاس ایک ہی کُرتا ہے اور وہ بھی جگہ جگہ سے پھٹ گیا ہے، اس کی باہیں بھی پھٹ گئی ہیں اور پیچھے سے بھی پھٹ گیا ہے، نئے کُرتے کا تو سوال ہی نہیں، اس پھٹے ہوئے کُرتے پر پیوند لگانے کےلئے بھی مجھے کپڑا نہیں ملتا۔ اب یہ حال ہماری جماعت کا ہے۔ اگر ہماری جماعت کے لوگ اس رؤیا کی بناء پر توجہ کرتے اور دل میں یہ خیال نہ کر لیتے کہ یہ ایک دنیوی امر ہے اِس کا دین کےساتھ کیا تعلق ہے اور گھروں میں سُوت کاتا جانے لگتا اور کپڑا بنوایا جانے لگتا تو تم دیکھ لیتے کہ دنیوی تکالیف کا دُور ہو جانا تو الگ رہا ہمارے سلسلہ کی طرف سے ایک عظیم الشان پروپیگنڈا ہوتا اور تبلیغ بھی خوب ہو جاتی۔ ہزارہا احمدی شہروں میں جب باوجود کانگرس کی مخالفت کے کھدر پہنے ہوئے نظر آتے، سارے نہ سہی اُن لوگوں کو نکال کر جن کے پاس پہلے سے کافی کپڑے موجود تھے باقی جن کے پاس کپڑے نہیں تھے اور جنہوں نے بڑی بڑی تکالیف اٹھا کر بلیک مارکیٹ سے کپڑا خریدا اگر ایسے لوگ کھدر پہنتے تو کتنا پراپیگنڈا ہوتا اور ہماری جماعت کے لئے کتنا مفید ہوتا۔ مثلاًَ ایک بیرسٹر کورٹ میں، کھدر کے کپڑے پہن کر جاتا تو بیسیوں بیرسٹر پوچھتے کیا آپ کانگرسی ہو گئے ہیں؟ آپ تو کانگرس کی مخالفت کیا کرتے تھے اور کھدر کا کپڑا پہننے کا تو گاندھی جی کا حکم تھا آپ نے کھدر کیوں پہننا شروع کر دیا؟ اور وہ کہتے ہمارے امام نے خواب دیکھی ہے کہ کپڑے کی قلّت ہونے والی ہے اس لئے انہوں نے کہا ہے کہ ان غریبوں کے لئے قربانی کر کے آسودہ حال لوگ کھدر پہننا شروع کر دیں تو ایک سال کے اندر اندر دس بیس لاکھ آدمی اِس خواب کے گواہ ہو جاتے۔ اور 1943ء کے آخر اور 1944ء کے شروع میں جب کپڑے کی قلت ہوتی تو لکھوکھہا آدمی ایک دوسرے سے کہتے دیکھو وہ خواب پوری ہو گئی، دیکھو وہ خواب پوری ہو گئی۔ تو بظاہر کھدر جسمانی چیزہے اور کھدر پہننا دین کا جزو نہیں، ہم اس بارہ میں کانگرس کی سخت مخالفت کرتے رہے ہیں۔ اگر دینی جزو ہوتا اس کی مخالفت کیوں کرتے۔ مگر اس خواب کی بناء پر اس کا پہننا اشاعتِ اسلام کا موجب ہو جاتا اور اشاعتِ دین کا موجب ہو جاتا۔ لاکھوں انسان کہتے ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نےا حمدیوں کو کھدر پہنے ہوئے دیکھا تھا اور جب اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے یہ خواب سنائی تھی۔
دیکھو قبل از وقت شائع کی ہوئی خواب بعض اوقات نسبتی طور پر ادنیٰ ہوتی ہے لیکن اس کا اثر زیادہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً میں نے جنگ کے شروع ہونے سے بھی پہلے رؤیا دیکھا تھا اور اُسی دن چند آدمیوں کو سنا دیا تھا گو اخبار میں نہیں دیا تھا کہ جرمنی طاقت پکڑ گیا ہے اور اس کے غلبہ سے متأثر ہو کر حکومتِ انگلستان نے حکومتِ فرانس سے درخواست کی ہے کہ ہم اور تم ایک ہو جائیں اور اپنی قومیتوں کو متحد کر دیں۔ یہ اِس قسم کا واقعہ تھا کہ اس کی ایک بھی مثال تاریخ میں نہیں پائی جاتی۔ ایسے خبیث بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں جنہوں نے آبِ زمزم میں پیشاب کرنے کی کوشش کی، ایسے بھی پائے جاتے ہیں جنہوں نے نبیوں کو قتل کرنے کی کوشش کی، ایسے بھی تھے جنہوں نے خانہ کعبہ کو گرانے کی کوشش کی، ایسے بھی پائے جاتے ہیں جنہوں نے ظلم سےدوسری چھوٹی قوموں کو اپنے قبضہ میں لانے کی کوشش کی۔ ہر قسم کی برائیوں والے پائے جاتے ہیں اور ہر قسم کی خوبیوں والے بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن آج تک ایسا نہیں ہؤاکہ برابر کی دو قوموں میں سے کسی ایک نے دوسری کو متحدہ قومیت کی دعوت دی ہو۔ یہ دنیا میں پہلی مثال تھی۔ اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ خیال اور قیاس تھا کیونکہ خیال اور قیاس سے اخذ کی ہوئی بات ایسی ہوتی ہے جو دس سال میں ایک دفعہ وقوع میں آچکی ہو۔ بیس سال میں ایک دفعہ وقوع میں آچکی ہو۔ یا سو سال میں ایک دفعہ وقوع میں آچکی ہو۔ یا ہزار سال میں ایک دفعہ وقوع میں آچکی ہو۔ یا دس ہزار سال میں ایک دفعہ وقوع میں آچکی ہو۔ یا لاکھ، دس لاکھ، کروڑ سال میں ایک دفعہ وقوع میں آچکی ہو۔ یا جب سے کہ نسلِ انسانی جاری ہوئی ہے اُس وقت سے لے کر اِس وقت تک ایک دفعہ ہی وقوع میں آچکی ہو۔ ایسی بات کے متعلق لوگ کہہ سکتے ہیں کہ خواب شاید خیال کا اثر ہو پچھلے بیس سال کے عرصہ میں ایک ایسا واقعہ ہو گیا تھا۔ اگر سو سال کے عرصہ میں ایسا ہو جاتا تو کہہ سکتے تھے کہ سو سال کی بات ہے اب خیال میں آگئی۔ اگر ہزار سال کے عرصہ میں ایسا ہو جاتا تب بھی کہہ سکتے تھے کہ پچھلے ہزار سال میں ایک دفعہ ایسا ہو گزرا ہے۔ کہیں پڑھا ہو گا خیال میں آ گیا، پر آدمؑ کی پیدائش سے لے کر اب تک چھ ہزار سال ہمارے مذہب کی رو سے اور لکھوکھہا سال سائنسدان لوگوں کی رو سے ہو گئے۔ لیکن ان لکھوکھہا سالوں یا چھ ہزار سال میں کروڑہا آدمی جو ہر زمانہ میں ہوتے چلے آئے ہیں اور سینکڑوں حکومتیں ہوتی چلی آئیں ان میں سے کسی پر بھی ایسا واقعہ نہیں گزرا۔ گویا آدمؑ سے لے کر 1940ء تک دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال کہیں نہیں پائی جاتی۔ مگر چونکہ اس خواب کی اشاعت واقعہ سے پہلے نہیں ہوئی اس لئے جنہوں نے اس کو سنا تھا وہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا کو اس کا ثبوت کس طرح دیں گے کیونکہ یہ خواب قبل از وقت اخبارات میں نہیں چھپی۔ اس کے مقابلہ میں مسٹر ماریسن کے متعلق جو پیشگوئی ہوئی باوجودیکہ وہ اہمیت کے لحاظ سے اس پہلی خواب کا سینکڑواں حصہ بھی نہیں لیکن اس کا اثر بے انداز ہوا ہے۔ جماعت کے دوست بھی اس کا خوب پروپیگنڈا کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خبر قبل از وقت اخبار میں چھپی ہے۔ اب دشمنوں پر اس کا اثر ہو گا اور غیر بھی اس کا اثر قبول کر رہے ہیں۔ چنانچہ آج ہی اس بارے میں شمس صاحب کی تار آئی ہے جو ترجمہ کر کےا خبار میں شائع کر دی جائے گی جس سے پیغامیوں کے جھوٹے پروپیگنڈا کا بھی رد ہو جائے گا۔ اس تار میں لکھا ہے کہ دو اخباروں نے مسٹر ماریسن کی پیشگوئی کے متعلق مضمون شائع کئے ہیں۔ جن میں سے ایک اخبار ‘‘ڈیلی میل’’ (Daily Mail)ہے( جو تیس چالیس لاکھ تک روزانہ شائع ہوتا ہے اور دنیا کا سب سے بڑا اخبار سمجھا جاتا ہے) اس میں پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے لکھا ہے کہ مسٹر ماریسن آج لیبر پارٹی کا سب سے زیادہ طاقتور انسان ہے اور اس کا مستقبل اور بھی یقینی ہے۔ کیونکہ ہندوستان کے ایک شخص نے خواب کے ذریعہ پہلے سے بتا دیا ہے کہ انگلستان میں چالیس سال تک ایسا آدمی پیدا نہیں ہو گا۔ اور پھر آگے چل کر کہتا ہے کہ ہمیں خوشی ہے کیونکہ اس پیشگوئی سے معلوم ہوتاہے کہ انگلستان پر جو آئندہ مصیبتیں آنے والی ہیں انگلستان ان سے پیشگوئی کے ماتحت فاتح کی حیثیت سے عُہدہ برآ ہو گا۔ اور پھر اس کے آگے لکھا ہے کہ مسٹر ماریسن انگلستان کا سٹالن ہے۔ اسی طرح ‘‘گزٹ اینڈ برونیوز’’نے اس خواب کا ذکر کیا ہے۔ اور وہ اس علاقہ کا اخبار ہے جس میں ہماری مسجد ہے۔ اس نے چھ سطری موٹے ہیڈنگز کے ساتھ جو ایک غیرمعمولی بات ہے شائع کیا ہے کہ ہندوستان کا پیشگوئی کرنے والا ملہم ایک خواب کی بناء پر یہ کہتا ہے کہ مسٹر ماریسن برطانیہ کا بہت بڑا آدمی ثابت ہوگا۔ لیکن مولوی محمد علی صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب اور ایڈیٹر پیغام صلح کہتے ہیں کہ یہ تو ہر ایک کو معلوم تھا۔ جس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ دنیا کے پردہ پر کسی کو معلوم نہ تھا لیکن اہل حدیث کے دفتر اور مولوی محمد علی صاحب کے گھر میں سب کو معلوم تھا کہ یہ کتنا ظلم ہے کہ باوجود انہیں اس امر کے معلوم ہونے کے کہ جو خواب میں نے بتائی ہے اُس کا مضمون سب کو معلوم ہے اُس وقت یہ لوگ خاموش رہے اور اس کی تردید نہ کی۔ چاہیے تھا کہ اُس وقت کہتے کہ یہ لغو بات ہے یہ تو ہو کر ہی رہے گی کیونکہ اس کا علم پہلے سے ہر اِک کو ہے۔ لیکن اُس وقت تو خاموش رہے اب بعد میں کہہ رہے ہیں سب کو معلوم تھا۔
تو بعض دفعہ ایک خبر شائع ہو کر چاہے چھوٹی ہو بھاری ہو جاتی ہے۔ اگر ہماری جماعت کے لوگ میری بات کی قدر کرتے اور کھدر پہننا شروع کر دیتے اور یہ نہ سمجھتے کہ یہ دنیوی بات ہے کیا ہؤا اگر دو روپے کی بجائے تین روپے کا لٹھا لے لیا۔ اس میں دین کا کیا نقصان ہے، ہم نے اپنی ذات پر ہی روپیہ خرچ کرنا ہے دو روپے کی بجائے تین روپے کپڑے پر خرچ کر لئے اور ایک روپیہ جو خوراک پر خرچ کرنا تھا خوراک پر خرچ نہ کیا کپڑے پر کرلیا تو کیا ہؤا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے اور ہزارہا آدمی کھدر پہنے پھرتے تو آج دنیا پر اس کا اتنا اثر ہوتا کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں۔ تو بعض اوقات لوگ دنیوی بات سمجھ کر اسے رد کر دیتے ہیں اور اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔
اِسی قسم کی وہ بات بھی ہے جو میں آج بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اگر مجھے اس کے متعلق بولنے کی توفیق ملی کیونکہ اتنا بولنے کے ساتھ ہی میرے دانت میں درد شروع ہو گئی ہے۔ جماعتی ترقیاں جہاں اس بات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں کہ سچائی اُس قوم میں موجود ہو جہاں اِس بات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں کہ دلائل اُس قوم میں موجود ہوں، جہاں اس بات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں کہ تبلیغ اُس قوم میں موجود ہو اور جہاں اس بات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں کہ عمل اُس قوم میں موجود ہو وہاں دنیا اِس کے علاوہ کچھ اَور بھی چاہتی ہے۔ صرف یہی کافی نہیں ہوتا کہ سچائی ہو۔ ضروری نہیں کہ سچائی دنیا میں ہمیشہ جیت جائے۔ ہزارہا دفعہ سچائی مٹ جاتی ہے۔ قرآن کریم سچا تھا جھوٹا نہیں تھا مگر کس طرح گزشتہ دو صدیوں میں عیسائیت کے مقابلہ میں ہر میدان میں اسے شکست ہوئی اور عیسائیت غالب ہو گئی۔ اس لئے کہ قرآن مجید میں سچائی تو موجود تھی لیکن اِسے سمجھ کر اِس سے دلائل نکالنے کا کام مسلمانوں نے چھوڑ دیا تھا۔ اور جو تھوڑے بہت دلائل تھے چونکہ وہ موجودہ زمانے کے اعتراضات کے ردّ کے لئے کافی نہ تھے اِس لئے اسلام عیسائیت جیسے مُردہ مذہب کے مقابلہ میں شکست کھا گیا۔ اور اگر دلائل بھی مہیا ہو جائیں اور بعض نے مہیا کئے بھی تو دوسری چیز مبلغ ہوتے ہیں اور مبلغین سے اسلام خالی تھا ۔ پھر اگر چند مبلغ تھے تو بدعمل تھے۔ دنیا کی نگاہ دلائل کو ہی نہیں دیکھا کرتی بلکہ عمل کو بھی دیکھتی ہے۔ یہ درست ہے کہ دین خداتعالیٰ کےساتھ تعلق پیدا کرنے کے لئے آتا ہے، یہ بھی درست ہے کہ دین کا تعلق انسان کی روحانی اصلاح کے ساتھ ہوتا ہے ۔ مگر اِس میں بھی شُبہ نہیں کہ انبیاء جب کبھی دنیا میں پیدا ہوئے ہیں تو دین کو ماننے والے لوگوں کے حالات دینی طور پر ہی درست نہیں ہوئے بلکہ دنیوی طور پر بھی درست ہو گئے۔ ہم دیکھتے ہیں حضرت نوح علیہ السلام دین کو قائم کرنے کے لئے آئے اور ان کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم ہوا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے تو ان کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم ہوا۔ جب حضرت داؤد علیہ السلام آئے تو ان کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم ہوا ۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تو ان کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم ہوا۔ جب حضرت زرتشت علیہ السلام آئے تو ان کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم ہوا۔ حضرت کرشن علیہ السلام آئے تو ان کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم ہوا۔ اور سب سے آخر سب نبیوں کے سردار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو اُن کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم ہوا۔ انہوں نے بنی نوع انسان کو خداتعالیٰ سے ہی نہیں ملایا اور روحانیت کو ہی درست نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ لازمی نتیجہ کے طور پر، طبعی نتیجہ کے طور پر اور عقلی نتیجہ کے طور پر آپؐ کی جماعت دنیا میں بھی ترقی کر گئی۔ دنیا میں نبی آتے ہیں تو دنیوی نظام کی ترقی کے لئے کیا کہتے ہیں؟ یہی کہ اپنے کھانے پینے کی طرف زیادہ توجہ نہ کرو، اپنے وقتوں کو ضائع نہ کرو، اپنے دماغوں کو ضائع نہ کرو، لہو ولعب میں اپنا وقت نہ لگاؤ، جہالت اور تاریکی سے دور بھاگو اور یہی چیزیں دنیوی ترقی کے لئے بھی ضروری ہیں۔ جس قوم میں یہ چیزیں پیدا ہو جائیں وہ لازمی طو رپر دنیا میں ترقی کر جاتی ہے۔ جو بھی کہے گا سستی نہ کرو، جہاد کا موقع آئے تو اپنے آپ کو آگے پیش کرو۔ جہاد تو ہر وقت نہیں ہوتا۔ مگر طالب علم کے لئے پڑھائی کا موقع ہر وقت ہوتا ہے۔ جو جہاد کے موقع پر اپنے آپ کو پیش کرے گا وہ پڑھائی کے وقت بھی کسی سے پیچھے نہیں ہو گا۔ جب نبی کہے گا تم جہالت سے دور رہو، محنت کرو تو لازمی بات ہے کہ وہ جہاد کے وقت بھی جہاد میں آگے بڑھے گا اور جنگ کا ہنر اچھی طرح سیکھے گا۔ لیکن اس عادت کے ہوتے ہوئے جہاد سے فارغ ہو کر ہل چلاتے وقت بھی تو یہ نصیحت کام آئے گی۔ وہ کھیتی باڑی کا ہنر بھی سیکھے گا اور محنت سے کام لے گا۔ اِسی طرح تجارت میں چُستی اور علم سے کام لے گا۔ جس کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ علم حاصل کرو، قرآن کریم کو پڑھو۔ وہ قرآن کو بھی پڑھے گا لیکن آخر اس نے سارا وقت تو قرآن کریم نہیں پڑھنا۔ اس میں جو لکھا ہے کہ تم جغرافیہ پر غور کرو، تاریخ پر غور کرو، آسمان پر غور کرو، زمین پر غور کرو، اقتصادیات پر غور کرو۔ وہ ان سب پر غور کرے گا تو لازمی بات ہے کہ وہ صرف قرآن شریف ہی نہیں پڑھے گا بلکہ ساتھ ہی تاریخ اور جغرافیہ بھی پڑھے گا۔ تو گو براہ راست یہ چیزیں مقصود نہیں ہوتیں مگر دین کےساتھ ان کو وابستگی ضرور ہے ۔ دین کی اشاعت کے لئے روپے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن شریف میں صریح طور پر آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت یہ خواہشات لوگوں کےدلوں میں پیدا ہوتی تھیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے تاہم دین کے لئے جو روپے کی ضرورت ہو اُس کو پورا کریں۔ اس باب میں بعض منافقین کا ذکر آتا ہے۔ منافقین کا ذکر اس لئے آتا ہے کہ انہوں نے وہ باتیں جو انہوں نے کہی تھیں پوری نہ کیں۔ وہ یہ خواہش کرتے تھے کہ خداتعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم دین کے لئے روپیہ خرچ کریں۔ مگر جب توفیق ملتی تھی تو کوتاہی کرتے تھے۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ میرے لئے دعا کریں کہ مجھے مال مل جائے تا میں دین کی راہ میں خرچ کروں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُس پر ناراض نہیں ہوئے بلکہ دعا فرمائی جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ خواہش کرنا منع نہیں بلکہ بہتر ہے۔ کہتے ہیں کہ اُس کا مال اِتنا زیادہ ہو گیا کہ جس میدان میں اُس کا گلّہ کھڑا ہوتا تھا معلوم ہوتاتھا کہ یہاں کسی کے لئے جگہ نہیں۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب زکوٰۃ کے لئے اُس کے پاس آدمی بھیجا تو اس نے جواب میں کہا کہ ہر وقت چندے کی فکر رہتی ہے میرے پاس جتنا مال ہے گلّے کو کھلانے کے لئے اور ان کے نگرانوں پر خرچ ہو جاتا ہے چندہ کہاں سے دوں۔ چونکہ دعا کے ذریعہ اُس کو یہ مال ملا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُس کے لئے یہ سزا تجویز فرمائی کہ آئندہ اس سے زکوٰۃ نہ لی جائے۔ بعد میں اُس کو نیکی کا خیال آیا مگر اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوت ہو چکے تھے۔ وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا اور کہا مجھ سے زکوٰۃ لے لیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے زکوٰۃ نہیں لی اُس سے زکوٰۃ مَیں نہیں لے سکتا۔ حالانکہ زکوٰۃ خداتعالیٰ کا حکم ہے مگر باوجود اِس کے کہ وہ دیتا تھا آپؓ نہیں لیتے تھے۔ تاریخ میں آتا ہے کہ وہ ہر سال زکوٰۃ میں ایک بہت بڑا گلّہ لاتا تھا اور کہتا تھا مجھ سے زکوٰۃ لے لیں۔ مگر حضرت ابوبکرؓ ہر بار یہ کہتے کہ میں تمہاری زکوٰۃ نہیں لے سکتا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تمہاری زکوٰۃ نہیں لی۔ اور وہ یہ سن کر روتا ہوا چلا جاتا تھا۔ 1
سو یہ خواہش صحابہؓ کے دل میں بھی ہوتی تھی۔ اور ہر ایک کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے۔ جب کسی کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں دین کی فلاں تحریک میں حصہ لوں اور دین کی ضرورت کو پور اکرنے کے لئے روپیہ دوں اور اُس کے پاس روپیہ نہیں ہوتا تو اُس کے دل میں اُبال اٹھتا ہے اور وہ یہ کہتاہے کہ کاش! میرے پاس روپیہ ہوتا تا میں بھی خرچ کرتا۔ میں نے کئی دفعہ یہ مثال سنائی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر ایک دفعہ منشی اروڑا صاحب تشریف لائے اور کہلا بھیجا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں باہر گیا تو انہوں نے مجھے پانچ یا دس پاؤنڈ صحیح تعداد مَیں کسی اَور وقت بتا چکا ہوں اِس وقت یاد نہیں مجھے دیئے اور کچھ کہنا چاہا۔ مگر کہنے سے پہلے چیخیں مار کر رو پڑے۔ اتنا رونا شروع کیا کہ ہچکی بند نہ ہوتی تھی۔ میں پریشان کھڑا تھا کہ کیوں رو رہے ہیں۔ اگر پتہ ہو تو انسان خود ان جذبات میں شامل ہو جاتاہے مگر مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ کیوں رو رہے ہیں۔ پانچ دس پاؤنڈ میرے ہاتھ میں رکھ کر رونے لگ پڑے۔ کچھ دیر بعد میں یہ سمجھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کی وجہ سے رو رہے ہیں کہنا شروع کیا منشی صاحب! صبر کریں، اللہ تعالیٰ کی مرضی یہی تھی۔ میرے منع کرنے پر بجائے ہچکی بند ہونے کے وہ زیادہ زور سے رونے اور چیخنے لگے اور روتے چلے گئے، کچھ دیر بعد آخر چپ ہو گئے اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریکات کے مواقع پر دل میں خیال ہوتا تھا کہ میں کافی مقدار میں سونا لےکر حضور کی خدمت میں حاضر کروں۔ لیکن جب کبھی بھی میرے پاس پانچ سات روپے جمع ہو جاتے مجھ سے رہا نہ جاتا اور میں قادیان چل پڑتا۔ قادیان آکر حضور سے مل کر نذرانہ پیش کر دیتا۔ اِسی طرح دن گزرتے گئے، ہمیشہ خواہش ہوتی کہ سونا پیش کروں مگر ہمیشہ ہی جب پانچ چھ روپے جمع ہو جاتے تو برداشت نہ ہوتا تھا اور میں قادیان آجاتا تھا۔ ان کی تنخواہ شروع میں دس پندرہ روپے ہوتی تھی۔ کتنا بھی کم خرچ کرو اتنی تنخواہ میں سے ایک دو روپے ہی بچائے جا سکتے ہیں۔ پس پانچ چھ روپے جمع ہونے میں کئی ماہ لگ جاتے تھے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے قریب وہ تحصیلدار ہو گئے۔ اُس وقت انہوں نے روپیہ جمع کرنا شروع کیا اور ان کو پاؤنڈوں میں تبدیل کرنا شروع کیا۔ چنانچہ انہوں نے بتایا کہ جب میں نے کچھ پاؤنڈ جمع کئے تو حضرت صاحب فوت ہو گئے۔ اتنا کہہ کر وہ پھر رونے لگ گئے۔ پھر کئی منٹ تک روتے رہے۔ آخر اپنے نفس پر قابو پایا اور یہ فقرہ کہا جب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ تھے تو میرے پاس سونا نہ آیا اور جب میرے پاس سونا آیا تو وہ فوت ہو گئے۔ یہ کہہ کر پھر رونا شروع کر دیا اور ان سب باتوں میں قریباً نصف گھنٹہ لگ گیا۔ پھر انہوں نے آخر میں کہا اب میری طرف سے یہ حضرت اماں جان کو دے دیں۔ اب میں یہ رقم اُن کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ تو مومن کےد ل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے اور یہ لازمی اور قدرتی بات ہے جب ہمیں یہ نظر آرہا ہے کہ دین کی تِکّہ بوٹی اُڑائی جا رہی ہے، جب ہمیں یہ نظر آرہا ہے کہ دین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے تو اِس کے بعد کسی انسان کا دل کس طرح تڑپ سے خالی رہ سکتا ہے کہ خداتعالیٰ مجھے توفیق دے تو میں دین کی خوب خدمت کروں۔
پس ہمیں چاہیے کہ جہاں ہم دین کی ترقی کے لئے کوششیں کریں وہاں دنیوی ترقی کے لئے بھی سامان مہیا کریں۔ اور ان سامانوں کو مہیا کرنے کے لئے ہماری جماعت کی طرف سے کوشش ہوتی رہتی ہے۔ اس کے لئے ایک محکمہ بنا ہوا ہے۔ جہاں کہیں کوئی نوکری خالی ہوتی ہے اور اُسے اِس کا پتہ لگتا ہے تو محکمہ کوشش کرتا ہے کہ کوئی احمدی وہ جگہ لے لے۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ خود غرضی کے ماتحت کیا گیا ہے۔ اگر ہمیں پندرہ کی بجائے بیس ملے ہیں تو جماعت کے چندے میں بھی تو اضافہ ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص اسے خود غرضی قرار دیتا ہے تو دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتا ہے کہ مجھے دین سے محبت نہیں۔ تمہیں دین سے محبت ہے اس میں ہماری عزت ہے نہ کہ بے عزتی ۔ لیکن اگر وہ یہ کہتاہے کہ خود غرضی نہیں کی گئی بلکہ یہ کام دین کی خاطر کیا گیا ہے اور اس سے مجھے بھی فائدہ پہنچا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو دین میں شامل کیا اور اس میں بھی ہماری ہی عزت ہے۔ بہرحال ہماری یہ کوشش رہتی ہے کہ احمدیہ جماعت کے لوگ ایسے کام اختیار کریں جن کی وجہ سے جماعت کی اقتصادی حالت ترقی کرے۔
میں نے پچھلے سال اس بات پر بڑا زور دیا تھا کہ جماعتوں کی ترقی کے لئے تجارت کی ترقی بڑی ضروری ہوتی ہے۔ کیونکہ زمیندار اپنی زمینوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر ایک جماعت کے پاس اتنی زمین ہے کہ فرض کرو دس کروڑ روپیہ سالانہ اُس کو آمدنی ہوتی ہے لیکن سیاسی حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ اُس کو اپنا ملک چھوڑنا پڑتا ہے تو دس کروڑ والی جماعت دس پیسے کی حیثیت کی بھی نہیں رہے گی۔ کیونکہ وہ زمین اٹھا کر ساتھ نہیں لے جا سکتی۔ لیکن اگرکسی تاجر کے پاس دس لاکھ روپیہ ہے اور اُسے ملک چھوڑنا پڑتا ہے تو وہ دس لاکھ نہیں تو آٹھ نو لاکھ روپیہ ضرور ساتھ لے جائے گا۔ کیونکہ اس کا روپیہ حرکت کرنے والا ہے اور زمیندا رکا روپیہ حرکت کرنے والا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جس قوم میں ہل آ گیا وہ ذلیل ہو گئی۔ 2 اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمین میں ہل چلانے کی وجہ سے لوگ ذلیل ہو جاتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب اس پر کوئی دوسری قوم قابو پا لیتی ہے تو پھر وہ بے بس ہو جاتی ہے کیونکہ وہ زمین اپنے ساتھ لے کر نہیں جا سکتی جو اس کی کمائی کا ذریعہ ہوتی ہے۔ لیکن جو تاجر اور صنّاع ہوتے ہیں اُن کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ مثلاً ایک رنگریز ہے اُس کو اُس کے ملک سے باہر نکال دو اور کہیں پھینک دو وہ اپنی آمدنی اپنے ساتھ لے جائے گا کیونکہ اُس کا مال اُس کے دماغ میں ہے۔ وہ جاپان جا کر بھی اپنا کام کر لے گا، وہ چین جا کر بھی اپنا کام کر لے گا، وہ امریکہ جا کر بھی اپنا کام کر لے گا۔ آخر ساری دنیا میں ایک حکومت نہیں ہوتی۔ اگر آدھی دنیا بھی اُس کی مخالف ہو گی تو آدھی اُس کے حق میں سمجھ لو۔ اگر 10/9 بھی اُس کی مخالف ہو گی تو 10/1 تو ضرور اُس کے حق میں ہو گی وہ وہاں جا کر اپنا کام کر لے گا۔
یہودی فلسطین میں زمیندار بننے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ ان کے لئے سخت نقصان دِہ ہے۔ ان کی شُہرت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں تجارت ہے۔ یہی تجارت ان کو امریکہ میں لے جاتی ہے، فرانس میں لے جاتی ہے، جرمنی میں لے جاتی ہے، روس میں لے جاتی ہے۔ اور جہاں جاتے ہیں اپنے مال کو ساتھ لے جاتے ہیں۔ اور جہاں چاہتے ہیں رسوخ بڑھا لیتے ہیں۔
میں نے پچھلے سال توجہ دلائی تھی کہ جماعت کے تاجروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ متحد ہو جائیں۔ مگر باوجود میرے بار بار توجہ دلانے کے تاجروں نے سمجھ لیا کہ ہمیں بَھلا کیا ضرورت ہے کہ ہم اِس قسم کے اعلانات کی طرف توجہ کریں۔ ہم کامیاب تاجر ہیں ہمیں ان کے مشوروں کی کیا ضرورت ہے۔ اور ان محکموں سے کیا غرض۔ حالانکہ تنظیم اِس قدر ضروری چیز ہے کہ مجھے ایک دفعہ سر آغا خان کے ایک مرید نے جو بڑی پوزیشن رکھنے والے ہیں سنایا۔ میں نے ایک دفعہ سر آغا خان سے کہا کہ اگر ہماری اولاد سے کسی کا ایمان آپ پر نہ رہے تو کیا کریں؟ سر آغا خان نے جواب میں کہا بے شک وہ جو عقیدہ چاہے رکھیں مگر ان سے کہو کہ اپنے جتھے کو قائم رکھیں۔ صرف مجھ کو تم سے فائدہ نہیں بلکہ تم کو بھی مجھ سے فائدہ ہے۔ تم میں سے اگر کسی کو وائسرائے کے پاس کسی غرض کے لئے جانا ہو تو ضرور ی نہیں کہ ہر ایک وائسرائے کے پاس جا سکے اور نہ ہر ایک جا سکتا ہے۔ ہاں میں اُس کے پاس جا سکتا ہوں۔ اِس لئے سیاسی لحاظ سے جتھے کو قائم رکھو۔ اور ایمان کے لحاظ سے خواہ تمہاری کوئی حالت ہو۔پھر اُسی تاجر نے کہا اِس وقت دو بیٹے آپ کے سامنے بیٹھے ہیں ان میں سے ایک احمدی خیال کا ہے اور ایک سنی خیال کا۔ میں اِن دونوں سے کہتا ہوں کہ بے شک تم احمدی ہو جاؤ یا بے شک تم سنّی ہو جاؤ۔ مگر بظاہر لوگوں سے کہا کرو کہ ہم سر آغا خان کے مرید ہیں کیونکہ سر آغا خان کی مدد بھی ہمیں کام دے جاتی ہے۔ مذہب کے لحاظ سے خواہ یہ بات کس قدر ناپسندیدہ ہو مگر اس میں کیا شک ہے کہ جن اقوام کے جتھے ہیں وہ بڑی طاقت پکڑ جاتی ہیں۔ اگر دین سے آزاد ہو کر لوگ جماعت بندی سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ دین کےساتھ جتھا بندی اَور بھی زیادہ مفید ہو گی۔ پس اگر ہماری جماعت کے تاجر بھی منظم ہو جائیں تو ان کی ترقی کے لئے بہت بڑے بڑے اور نئے نئے راستے کھل جائیں گے۔ اگر منظم صورت میں نہ رہو گے تو اکیلا انسان کوئی حقیقت نہیں رکھتا چاہے کروڑ پتی کیوں نہ ہو۔
ہندوستان میں بعض کروڑ پتی ایسے ہیں جو امریکہ کے کروڑ پتیوں سے کم نہیں مگر امریکہ کے کروڑ پتیوں کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اِس لئے کہ امریکہ کے کروڑ پتی کے ساتھ ہزارہا لاکھ پتی بھی ہوتے ہیں۔ مگر ہندوستان کےکروڑ پتی کے دائیں بائیں کوئی بڑا آدمی نہیں ہوتا۔ اِس لئے اُس کی سنی جاتی ہے اور اِس کو کوئی نہیں پوچھتا۔ تو تنظیم بڑی چیز ہے افسوس ہے کہ ایک سال گزر گیا مگر جماعت نے اِس کی طرف توجہ نہیں کی۔ شاید یہ وجہ ہے کہ ان میں سے جو کامیاب تاجر ہیں اُنہوں نے یہ سمجھا کہ کیا ہم ان سے سیکھیں گے یا ان کو سکھائیں گے۔ ہم تو خود کامیاب تاجر ہیں محکمہ ہمیں کیا سکھلائے گا۔ محکمہ کا انچارج دس روپے تو کمانے کے قابل نہیں۔ اُن کو اِس با ت کا علم ہونا چاہیے کہ تنظیم کمانے کے قابل نہیں ہوا کرتی۔ وہ کونسی چیمبرز آف کامرس ہے جس نے آپ روپیہ کمایا ہو؟ اور وہ کونسی ٹریڈ ایسوسی ایشن ہے جس نے خود روپیہ کمایا ہو؟ چیمبرز آف کامرس اور ٹریڈ ایسوسی ایشن روپیہ نہیں کمایا کرتی۔ وہ تنظیم کر کے تاجروں کو ایک نئی طاقت دیتی ہے۔ اس لئے یہ خیال کرلینا کہ اس کے چلانے والے اپنی ذات میں ماہر نہیں ایسی ہی بات ہے جیسے لیبر پارٹی اپنے افسر مزدور مقرر کر دے۔ اب سر کرپس مزدور ی کیا جانیں؟ مگر لیبر پارٹی سمجھتی ہے کہ اس پارٹی کو مضبوط کرنے کے لئے ایسے لوگوں کے دماغوں کی ضرورت ہے جو تنظیم کرنے کے اہل ہوں۔ خواہ وہ ہمارے پیشے کے نہ ہوں۔ تو مرکز چاہے تجارت سے ناواقف ہو مگر تنظیم بغیر مرکز کے کوئی نہیں کرسکتا۔ لاہور اور دہلی کے تاجر ہمارے سارے ہندوستان کے تاجروں کی تنظیم کس طرح کر سکتے ہیں۔ اُن کی سُنے گا کون۔ لیکن مرکز کو یہ فضیلت حاصل ہوتی ہے اور اس کو یہ طاقت حاصل ہوتی ہےکہ وہ ہر تاجر کو حُکماً اس تنظیم میں شامل ہونے کو کہے اور اس حکم پر کوئی تاجر احمدی رہتے ہوئے اس تنظیم سے باہر نہیں رہ سکتا۔ لیکن ابھی ہم جبر نہیں کرتے ہم اخلاص سے سب کو اِس میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر جبر کرنا ہو تو کر سکتے ہیں۔ لیکن لاہور، دہلی، کلکتہ یا سکندرآباد کے تاجر جبر نہیں کر سکتے۔ تو جس قدر جبر اورتحکّم کا پہلو ہے وہ مرکز ہی کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور چیز کی طرف بھی میں نے توجہ دلائی تھی اور اب اُس کا موقع ہے۔ ہمارے جنگ میں قریباً سولہ ہزار احمدی گئے ہیں جو واپس آئیں گے جن کا چندہ تقریباً ایک لاکھ روپیہ ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے پانچ چھ ہزار کے قریب ایسے ہیں جنہیں فوج میں رکھ لیا جائے گا۔ پانچ چھ ہزار ایسے ہیں جو واپس آکر زمیندارہ کام میں لگ جائیں گے۔ ان کے گھر میں کھانے پینے کو ہو گا وہ پسند نہیں کریں گے کہ اَور کام کریں۔ ان کے باپ انہیں کہیں گے کہ پانچ چھ سال نوکری کر لی اور کافی کما لیا جتنا قرضہ تھا اُتر گیا تمہاری ماں تمہارے لئے گھر میں اداس بیٹھی ہے تم اب یہیں رہو، ہل کو پکڑو اور میرے ساتھ کام میں شامل ہو جاؤ۔ پانچ چھ ہزار اِس طرح لگ جائیں گے۔ باقی پانچ چھ ہزار ایسے ہوں گے جن کے لئے گزارے کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔ وہ تعلیم یافتہ تو ہوں گے لیکن گورنمنٹ کے دفاتر میں ان کو کوئی جگہ نہیں ملے گی۔ زمیندا رہوں گے لیکن ان کی زمینداریاں اتنی چھوٹی ہو ں گی کہ اگر وہ گھر میں آگئے تو بجائے آرام کا موجب بننے کے دوسرے بہن بھائیوں اور والدین کے لئے تکلیف کا موجب بنیں گے۔ بھائی کہیں گے کہ پہلے ہمیں اگر آدھی روٹی مل جاتی تھی تو اب اِس کے آجانے کی وجہ سے ایک پاؤ ملا کرے گی۔ کھانے کے لئے گھر میں آ گیا ہے کوئی کام تلاش نہیں کرتا۔ اس کا گھر میں آنا محبت کا موجب نہیں ہو گا۔ اُس کے گھر آنے پر وہ ظاہراً اُسے خوش آمدید کہیں گے اور تپاک سے ملیں گے لیکن دل میں کہیں گے مرا بھی نہیں وہاں ۔ یہ حالت ان کی ہو گی۔ ایسے لوگوں کی شرافت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے لئے اَور کام تلاش کریں بجائے اِس کے کہ گھروں میں آکر بیٹھ جائیں۔ اور اس موقع سے فائدہ اٹھائیں جو ان کے لئے خداتعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ وہ بجائے گھر میں بھوکا مرنے کے اُس میدان میں مریں جہاں دین کی بھی خدمت ہوتی چلی جائے اوران کی اپنے مستقبل کےمتعلق بھی امید بڑھتی چلی جائے۔ کوئی مستقبل ایسا نہیں جو سو فیصدی کامیاب ہو۔ ہر جگہ کامیابی کی امید پچاس فیصدی سمجھی جاتی ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو دو فیصدی کی امید پر اپنی جانیں دے دیتے ہیں۔ پچاس فیصدی امید تو بہت بڑی چیز ہے۔ ہماری تنظیم کے ماتحت میں یہ سمجھتا ہوں کہ دینِ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے پانچ ہزار مبلغین کا ملنا بڑا ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں پانچ ہزار سپاہی ملے تھے۔ پہلی تشریح تو پانچ ہزار آدمیوں کی تحریک جدید میں شامل ہونے والوں کی ہم نے کی۔ وہ چندہ دیتے ہیں اور دیتے چلے جائیں گے۔ مگر یہ ایک شق بھی ہے کہ پانچ ہزار احمدی اس طرح دنیوی کام کریں کہ دین کے مبلغ بھی ہوں۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے اندر کئی شقیں رکھتی ہیں۔ جہاں پانچ ہزار سے مراد یہ ہو سکتی تھی کہ پانچ ہزار آدمی چندہ دے اور نسلاً بعد نسلٍ پانچ ہزار آدمی متواتر چندہ دیتا چلا جائے اور قیامت تک یہ سلسلہ چلا جائے۔ وہاں اس کے اَور کئی معنے بھی ہیں۔ اِس وقت سینکڑوں آدمیوں نے فوج میں سے چندہ لکھوایا ہے۔ جب وہ واپس آئیں گے تو ان کا چندہ بھی بند ہو جائے گا۔ جس کو فوج میں پانچ سو روپے ملتے تھے وہ پانچ سو چندہ دیتا تھا مگر نوکری چھوڑنے کے ساتھ پانچ کواُڑا کر اُس کا چندہ صفر رہ جائے گا۔ جس کو دو سو تنخواہ ملتی تھی جب وہ نوکری سے علیحدہ ہو جائے گا تو نوکری کی علیحدگی کے ساتھ دو کو اُڑا کر اُس کا چندہ بھی صفر رہ جائے گا۔ اور ان کی بے کاری کےساتھ ہی تحریک جدید کے تسلسل کا جو خیال تھا ٹوٹ جائے گا۔ یہ اِسی صور ت میں قائم رہ سکتا ہے کہ پانچ ہزار آدمی چندہ دینےو الے نئے پیدا ہوں۔ اور یہ نیا چندہ دینےو الے اسی صورت میں پیدا ہو سکتے ہیں جب پانچ ہزار آدمیوں کے لئے نیا کام مل جائے۔ پس یہ جو بے کار ہو کر آنے والے آدمی ہیں میں اُن کو نصیحت کرتا ہوں کہ بجائے اِس کے کہ گھر میں رہ کر فاقہ کریں وہ تجارت کی کوشش کریں۔ا یسی تجارت کی جو دینِ اسلام کے لئے بھی مفید ہو۔ ہندوستان میں پانچ سَو ایسے شہر ہیں جہاں تجارت کی منڈیاں ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ کیونکہ ہر ایک ضلع میں آٹھ دس یا پندرہ ایسے قصبے ہوتے ہیں جن میں دس پندرہ ہزار سے زیادہ آبادی ہوتی ہے۔ اس طرح پر اگر اُن کو بھی ملا لیا جائے تو یہ بجائے پانچ سو کے دو تین ہزار کے قریب قصبے نکل آئیں گے۔ ان میں سے بعض شہر ایسے ہیں جیسے کلکتہ ہے، مدراس ہے، کراچی ہے، دہلی ہے، پشاور ہے، الٰہ آباد ہے، حیدرآباد ہے، ٹراونکور ہے، ڈھاکہ ہے جہاں پر بیک وقت تیس تیس، چالیس چالیس آدمیوں سے ہم تجارت کی ابتدا کر سکتے ہیں۔ بعض ایسی جگہیں ہیں جہاں صرف ایک آدمی کی شروع میں گنجائش ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر ان دو ہزار شہروں کی فی شہر اوسط دس آدمی بھی لگائی جائے تو اس کے مطابق بیس ہزار آدمیوں کی گنجائش ہے اور یہ ابتدا ہے۔ قادیان میں دیکھو اِس وقت پانچ سَو آدمی تجارت کر رہے ہیں۔ کئی کھلی جگہوں پر اور کئی گھروں پر۔ تو ہمارے لئے یہ ایک بہت کامیاب راستہ ہے جس سے دین و دنیا دونوں کی بہتری کی صورت پید ا کی جا سکتی ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہم اپنی آواز کو بلند کرنے کے لئے ان دو ہزار جگہوں پر مبلغین نہیں رکھ سکتے۔ ان ساری جگہوں پر یہ بھی نہیں کہ ہمارے احمدی موجود ہوں۔ دو ہزار شہروں میں سے ڈیڑھ دو سو شہر ایسے ملیں گے جہاں ہمارے احمدی ہیں باقی اٹھارہ سو شہر ایسے ہیں جہاں کوئی احمدی نہیں۔ کچھ اس سے چھوٹے چھوٹے قصبے بھی تجارت کے قابل ہیں۔ یہ سات آٹھ ہزار کے قریب ہو جاتے ہیں۔ ان سات آٹھ ہزار قصبوں میں سے ڈھائی تین سو قصبے ایسے ہیں جہاں احمدی جماعتیں قائم ہیں۔ باقی پونے سات ہزار یا پونے آٹھ ہزار جگہیں ایسی ہیں جہاں کوئی احمدی نہیں۔ اگر ہم پونے سات یا پونے آٹھ ہزار آدمی تبلیغ کے لئے ان جگہوں پر بھیجیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر پونے سات یا پونے آٹھ لاکھ روپیہ ماہوار خرچ ہو گا اور تقریباً ایک کروڑ روپیہ سالانہ خرچ ہو گا۔ یہ تو ایک صور ت ہے۔ دوسری صور ت یہ ہے کہ اگر ہمیں محنت کرنے والے اور قربانی کرنے والے نوجوان مل جاویں جو ان جگہوں پر جاکر سلسلہ کی ہدایت کے مطابق تجارت کریں اور اس کام میں کامیاب ہو جائیں تو ان کی دس پندرہ لاکھ روپیہ ماہوار آمدنی ہو گی۔ اور دس پندرہ لاکھ سالانہ کا چندہ ان سے آئے گا۔ اب دیکھو کہ ایک صورت میں تو ایک کروڑ روپیہ خرچ ہوتاہے اور دوسری صور ت میں پندرہ لاکھ روپیہ آمد ہوتی ہے۔ اور یہ لازمی بات ہے کہ خداتعالیٰ کی خوشنودی اِسی میں ہو گی کہ تبلیغ بھی ہو اور بجائے اِس کے کہ خزانہ خالی ہو خزانہ بھرا رہے۔ اس کے لئے کئی لائنیں مرکز نے سوچی ہیں اور ان کے ذریعہ سے ایسے تاجروں کی ایک حد تک ہم بھی مدد کر سکتے ہیں۔ اگر ہمارے پرانے تاجر بھی اِس بات کی اہمیت کو سمجھیں کہ جو نئے تاجر ہیں ہم نے اُن کو کام سکھلانا ہے تو اس سے ان کا اپنا فائدہ بھی ہو گا۔ احمدی تاجروں کے بڑھنے سے منڈی میں ان کی جڑیں مضبوط ہو جائیں گی۔ تجارت کو رقابت ہی تباہ کرتی ہے۔ جس کا جتھا مضبوط ہو وہ بچ جاتا ہے اور جو کمزور ہو وہ اس رقابت میں تباہ ہو جاتا ہے۔ جس طرح زمینداروں میں ہوتاہے۔ کوئی تاجر کامیاب تجارت نہیں کر سکتا جب تک اُس کا جتھا مضبوط نہ ہو۔ دوسروں کے بینکوں کو توڑنے کے لئے بینک آپس میں سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور تاجر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مقابل کے تاجروں کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر مقابل والے کا جتھا مضبوط ہو تو وہ بچ جاتا ہے۔ اور اگر وہ جتھے والا نہ ہو تو مقابل کے تاجر اُس کا مقابلہ کر کے اسے تباہ کر دیتے ہیں۔ آج احمدی تاجر انگلیوں پر گِنے جا سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ دو چار سو تاجر ہیں۔ اس کے مقابلہ پر مسلمانوں کے تاجر پچاس ساٹھ ہزار ہوں گے مگر اس کے باوجود وہ ہندوؤں کے مقابلہ میں نہیں پنپ سکتے کیونکہ ہندوؤں کے مقابلہ میں ان کا جتھا کمزور ہے۔ جہاں کہیں منڈی کا سوال آتا ہے یا ایجنسی کا سوال آتا ہے ہندو ہندوؤں کو دے دیتے ہیں اور مسلمان منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
کوئی پچیس سال کی بات ہے فوج میں سے ایک احمدی کو احمدیت کی وجہ سے نکالا گیا۔ میں نے چودھری ظفراللہ خان صاحب کو بھیجا کہ وہ اس بارہ میں افسرانِ بالا سے ملیں۔ وہ کمانڈر انچیف سے ملے تو انہوں نے جواب دیا آپ جو کچھ کہتے ہیں صحیح ہے لیکن میں بھی مجبور ہوں۔ ہمیں تین لاکھ فوج کی ضرورت ہے۔ کیا آپ تین لاکھ نوجوان دے سکتے ہیں؟ا گر نہیں دے سکتے تو احمدی اگرچہ مظلوم ہے ہمیں احمدی کو ہی نکالنا پڑے گا کیونکہ کثرت کو ہم ناراض نہیں کر سکتے۔ چودھری صاحب خفا ہو کر آگئے اور مجھے یہ بات بتلائی۔ میں نے کہا جو کچھ انہوں نے کہا ہے ٹھیک ہے۔ حکومت مجبور ہے میں اس صورتِ حالات کو تسلیم کرتا ہوں۔ یہی حالت تجارت میں بھی ہے۔ اگر کسی بیرونی ملک میں بعض درد مند مسلمان، مسلمان اخباروں میں اشتہار دلانے کی تحریک کرتے ہیں اور وہاں کے تاجروں سے کہتے ہیں کیوں تم مسلمان اخباروں میں اشتہار نہیں دیتے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کےا خباروں کو پڑھنے والے کوئی تاجر بھی ہیں؟ اگر نہیں تو انہیں اشتہار دے کر کیا فائدہ؟ ہندو اگر چہ ہمیں گالیاں دیتے ہیں، ہمارے مال کے بائیکاٹ کی تلقین کرتے ہیں مگر ہر ہندو اخبار کے پڑھنے والے سو دو سو تاجر ہوتے ہیں۔ اگر سو بائیکاٹ کے دِلدادہ ہوں گے تو سَو ایسے بھی ہوں گے جو غیر ملکی مال لینے والے ہوں گے۔ اس طرح جب کسی جگہ پر ایجنسی لینی ہو تو جو بڑے بڑے کارخانے والے ہیں وہ سوال کرتے ہیں کہ کہاں کہاں ہمارا مال پھیلا سکتے ہو۔ اگر وہ کہے کہ جناب اپنی دکان میں۔ تو تاجر کہے گا مجھے اس کو مال دینے کی کیا ضرورت ہے جس کی تجارت کا کوئی پھیلاؤ نہیں۔ یہ جو دوسرا آدمی ایجنسی لینے آیا ہے اُس کی دکان کی دو سَو شاخیں ہیں یا پچاس یا سَو شاخیں۔ وہ سارے ہندوستان میں اِس کام کو پھیلا سکتا ہے ہم اُس کو دیں گے تم کو نہیں دیں گے۔ تو یہ ساری باتیں معقول ہیں۔ ہم ان کا ردّ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم آرگنائزیشن کریں گے تو تجارت کے ایسے راستے کھل جائیں گے کہ جن کی وجہ سے ہم بیشتر قسم کی تجارت پر قابو پا سکیں گے۔ اور ہمیں اس کے لئے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ وہ نوجوان جو فوج سے فارغ ہوں گے اور وہ نوجوان جو نئے جوان ہوئے ہیں اور ابھی کوئی کام شروع نہیں کیا میں اُن سے کہتا ہوں کہ اپنی زندگی وقف کریں۔ ایسے رنگ میں نہیں کہ ہمیں دین کے لئے جہاں چاہیں بھیج دیں چلے جائیں گے۔بلکہ ایسے رنگ میں کہ ہمیں جہاں بھجوایا جائے ہم وہاں چلے جائیں گے اور وہاں سلسلہ کی ہدایت کے ماتحت تجارت کریں گے۔ اِس رنگ میں ہمارے مبلغ سارے ہندوستان میں پھیل جائیں گے۔ وہ تجارت بھی کریں گے اور تبلیغ بھی۔ ہمیں بعض باتوں کی وجہ سے امید ہے کہ ایسے کام نکل سکیں گے جن کی وجہ سے ہم نئے کام کرنے والوں کو بہت سی امداد دے سکیں گے۔ اخلاقی لحاظ سے بھی اور مادی لحاظ سے بھی تنظیم کی وجہ سے ہم اخلاقی طور پر کامیاب تاجر ہیں۔ ان پر زور ڈالیں گے کہ وہ اپنے بھائیوں کوکھڑا کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ان کے کھڑے ہونے سے وہ خودکھڑے ہوں گے۔
اِس وقت آگے آنے والے نوجوانوں کے لئے ترقی کا بہت سا امکان ہو گا۔ یہ چھ سات ہزار نوجوان تجارت کا کام کریں گے اور ساتھ تبلیغ بھی کریں گےاور اس طرح یہ چھ سات ہزار مبلغ ہمیں مفت میں مل جائیں گے۔ یہ کتنی بڑی بات ہے۔ ہم اُس دن کے امیدوار ہیں کہ ہمیں پانچ ہزار ساری زندگی وقف کرنے والے مبلغ مل جائیں بلکہ لاکھ یا اِس سے بھی زیادہ آدمی مل جائیں۔ مگر جب تک وہ دن نہیں آتے ہمیں اپنی تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے جو ذرائع میسر ہیں اُن کو تو استعمال کرنا چاہیے اور تاجروں کو باہر بھیجنا چاہیے۔ ہم زمینداروں سے تو نہیں کہہ سکتے کہ تم فلاں جگہ پر چلے جاؤ۔ کیونکہ وہ زمین کو ساتھ نہیں لے جا سکتے لیکن تاجر دنیا میں ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں۔ زمیندار کے لئے جب تک دوسری جگہ پر اتفاقاً کوئی زمین کا ٹکڑا نہ بِک رہا ہو کسی جگہ کوئی گنجائش نہیں۔مگر کوئی شہر ایسا نہیں جہاں تاجروں کے لئے ایک دو کی گنجائش نہ ہو۔ کوئی چھوٹے سےچھوٹا قصبہ نہیں ہو سکتا جہاں ایک مزید تاجر کی گنجائش نہ ہو۔ ہر ایک گاؤں اور قصبے میں ایک، دو، چار، پانچ، دس تاجروں کے لئے مزید گنجائش ہوتی ہے۔ مگر ہر گاؤں میں زمیندار کے لئے مزید گنجائش نہیں۔ بلکہ بعض گاؤں ایسے ہیں جہاں سےبعض زمینداروں کو نکالنا چاہیے کیونکہ وہاں دو دو، چار چار گھماؤں زمین زمینداروں کے پاس رہ گئی ہے جس پر گزراہ نہیں ہو سکتا۔ مگر تاجروں کے لئے ہر جگہ کھپت کی گنجائش ہے یا صنعت و حرفت کا دروازہ کُھلا ہے۔ یہ دونوں ملتی جلتی چیزیں ہیں۔ کوئی سائیکلوں کی مرمت کا کام شروع کر دے، کوئی موٹروں کی مرمت کا کام شروع کر دے یا اِسی قسم کا اَور کام شروع کر دے اور اِس طرح ہمارے نوجوان مختلف شہروں میں پھیل جائیں۔ کیونکہ ہر ایک جگہ ان کاموں کی گنجائش موجود ہے۔ اگر چار پانچ لاکھ بھی آدمی ہوں ہم ان کو دنیا میں کہیں نہ کہیں لگا سکتے ہیں۔ لیکن ایک زمیندار کو اُس کی جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ نہیں بھیج سکتے۔ اگر زمیندار کو کہیں باہر بھیج دیں گے تو وہ دو کوڑی کا بھی نہیں رہے گا مگر تاجر دنیا کے ہر گوشہ میں کام نکال لیتے ہیں۔
انگلستان میں ہندوستانی کتنے ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔ مگر پندرہ بیس ہزار آدمی وہاں بھی تجارت سے گزارہ کر رہے ہیں۔ سارے انگلستان میں قریباً دو لاکھ کے قریب ایشیائی رہتےہیں۔ جنہیں انگلستان کے لوگ حقارت سے دیکھتے ہیں مگر وہ اپنے پیشوں کی وجہ سے کامیاب ہو رہے ہیں۔ لیکن انگلستان میں جا کر دیکھو کتنے ہندوستانی زمیندا رہیں؟ تو تم کو ایک بھی زمیندار نہیں ملے گا۔ کیونکہ نئی جگہوں پر زمین کا کام نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں نئی جگہ پر تجارت و صنعت کا کام کیا جا سکتا ہے۔ یہی ہر ملک کا حال ہے۔ جاپان میں چلے جاؤ جاپان میں پچیس تیس ہزار ہندوستانی کام کر رہے ہیں۔ وہ سارے کےسارے تاجر ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی زمیندار نہیں۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ ہل جس قوم میں آجائے وہ ذلیل ہو گئی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زیادہ ترقی نہیں کر سکتی۔ ذلیل سے مراد یہ ہے کہ دوسری قوموں کے مقابلہ میں اِس کی ترقی محدود ہے کیونکہ زمینداری ایک ملک کے ساتھ تعلق رکھتی ہے دوسرے ملک میں نہیں جا سکتی۔ مگر صنعت و تجارت دوسرے ملکوں میں جا سکتی ہے۔ مسلمانوں کا یہودی باوجود تھوڑا ہونے کے جو مقابلہ کر لیتے ہیں اِس کی یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کے ہاتھ میں تجارت ہے جس کی وجہ سے وہ ہر قوم پر اپنا اثر ڈال لیتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے ہاتھ میں تجارت نہیں اس لئے ان کی کوئی نہیں سنتا۔ پس اس نظامِ تجارت کے ذریعہ سے ہم نہ صرف اپنی جماعت کو مضبوط بنا سکتے ہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں اور غیر قوموں کو بھی مضبوط بنا سکتے ہیں۔
ایک دفعہ محکمہ تجارت والوں نے مجھ سے پوچھا کہ بعض غیر احمدی اور ہندو ہم سے مدد چاہتے ہیں کیا ہم ان کی مدد کر دیں؟ میں نے ان سے کہا کہ ہاں خواہ کسی قوم سے تعلق رکھتا ہو اُس کی مدد کرنی چاہیے۔ ہمارا کام تو ہے ہی یہی کہ ہم ہر قوم کی مدد کریں۔ لیکن پہلے مسلمانوں کے لئے کوشش کرنی چاہیے اس کے بعد دوسروں کے لئے۔ خواہ کوئی ہندو ہو، سکھ ہو، مسلمان ہو، عیسائی ہو ہم اس کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مدد کرتے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے۔
میں سمجھتا ہوں یہ عظیم الشان موقع ہے اِس قسم کی تجار ت کا موقع جو شاید آئندہ بیس سال تک پیدا نہ ہو۔ اس لئے جو سپاہی افسر ڈِسچارج ہوتے چلے جائیں اُن کو چاہیے کہ اپنی زندگی مذکورہ بالا طریق پر وقف کریں۔ اِس رنگ میں نہیں کہ سارے کا سارا وقت دین کے لئے پیش کریں بلکہ اِس رنگ میں کہ ہم نے کوئی کام کرنا ہے۔ بجائے اس کے ہم خود کام کریں۔ تحریک جدید کی ہدایت کے ماتحت جس مقام پر ہمیں جا کر کام کرنے کے لئے کہا جائے گا اور جو کام ہمارے لئے تجویز کیا جائے گا ہم اُس جگہ جائیں گے اور اُس کام کو کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔ باقی مال اُن کا ہو گا، کوشش اُن کی ہو گی۔ اخلاقی مدد اُن کو سلسلہ دے گا اور مادی بھی جس حد تک توفیق ہو گی۔ اگر اِس رنگ میں پانچ چھ ہزار آدمی مل جائیں اور مل جانے چاہئیں تو ایک عظیم الشان تغیر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر ہم اتنے آدمی ایک سال کے اندر کھڑے کر دیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے اپنی تبلیغ کو سَو گُنے بڑھا دیا۔ اِس وقت ہمارے پچاس مبلغ ہندوستان میں کام کر رہے ہیں۔ اگر پانچ ہزار نوجوان اِس طرح کام کرنے لگ گئے جو میں نے بتایا ہے تو گویا ہم اپنی تبلیغ کو سَو گُنے بڑھا دیں گے۔ بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں پہلے ہی جماعتیں ہیں اور وہاں کی سعید روحیں ایمان لا چکی ہیں۔ ایسی جگہوں میں تبلیغ کا اثر آہستہ آہستہ ہوتا ہے مگر بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں پر کوئی احمدی نہیں ہے ایسی جگہوں کی سعید روحیں جب اِس پیغام کو سنیں گی تو فورًاا یمان لے آئیں گی۔ پس ان جگہوں میں ان نوجوانوں کا کام شروع کرنا دُہرے طو رپر مفید ہو گا اور جماعت ہزاروں مقامات پر تیزی کے ساتھ بڑھنی شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ ممکن ہے شروع شروع میں کئی جگہوں پر پچیس پچیس، پچاس پچاس، سو سو آدمی احمدی ہو جائیں اور اِس طرح تھوڑے ہی عرصہ میں پانچ چھ لاکھ احمدی ہندوستان میں نئے پیدا ہو جائیں۔ بعض جگہوں پر جہاں ہمارے مبلغ نئے نئے جاتے ہیں ایک سال میں پانچ پانچ سو آدمی احمدی ہو جاتے ہیں۔ مگر بعد میں ایک ایک دو دو آدمی احمدی ہوتے ہیں اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُس وقت تک سعید طبیعتیں ایمان لا چکی ہوتی ہیں۔ تو نئی جگہوں پر کام کرنا بعض لحاظ سے زیادہ بابرکت ہوتا ہے۔ پس اب وقت ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے آپ کو تجارت کے لئے وقف کریں اور یہ وقف، وقف نمبر دو کہلائے گا۔ اِس طرح نہیں کہ ہم اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں ہم کو پڑھا کر مبلغ بنا کر بھیجو۔ بلکہ اِس طرح کہ ہم اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں ہم کو جہاں چاہیں بھیج دیں اور جو تجارتی یا صنعتی کام چاہیں ہمارے لئے تجویز کریں۔ ہم وہ کریں گے، اُس کو بڑھانے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ساتھ تبلیغِ احمدیت کی بھی کوشش کریں گے۔ اِس طرح خداتعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی ترقی کے لئے ایک نیا باب کُھل جائے گا اور لاکھوں لاکھ آدمی احمدیت میں شامل ہوں گے۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ہماری جماعت کے دلوں کو کھول دے تا ہر ایک نوجوان تبلیغِ اسلام کے لئے نکل جائے اور دنیا میں ایسی نادر مثال، قربانی اور ایثار کی پیدا کر دے کہ دشمن بھی دیکھ کر اس بات کا اقرار کئے بغیر نہ رہ سکے کہ واقعی یہ جماعت قربانی کرنے والی ہے۔ ’’
(الفضل 11؍اکتوبر1945ء)
1: اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 237-238 مطبوعہ ریاض 1384ء
2: بخاری کِتَابُ الْحَرْثِ والْمُزَارَعَۃِ باب مَا یُحْذَرُ مِنْ عَوَاقِبِ الْاِشْتِغَالِ بِآلَۃِ الزَّرْعِ (الخ)


34
اگر پانچ ہزار آدمی کھڑے ہو جائیں تو جو کام ہم سو سال میں کر سکتے ہیں وہ دو تین سالوں میں کر لیں گے
(فرمودہ12اکتوبر1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدفرمایا:
‘‘میں آج پھر گزشتہ خطبہ جمعہ کے سلسلہ میں اپنے بعض خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں میں نے بتایا تھا کہ دنیا میں محض صداقت کا پایا جانا اِس بات کی علامت نہیں کہ دنیا میں صداقت قائم بھی ہو جائے۔ صداقت کو قائم کرنے کے لئے بہت بڑی کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض زمانوں میں تو صداقت دنیا سے بالکل مٹ جاتی ہے اور خداتعالیٰ صداقت کو دنیا میں پہنچانے والا انسان اپنی طرف سے بھجواتا ہے۔ اور بعض زمانوں میں صداقت تو موجود ہوتی ہے مگر وہ ایسی مخفی ہوتی ہے کہ اُس کے دلائل لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہو جاتے ہیں۔ اور بعض زمانےا یسے آتے ہیں کہ صداقت بھی ہوتی ہے، دلائل بھی ہوتے ہیں مگر صداقت کو دنیا میں پہنچانے والے باقی نہیں رہتے۔ لوگوں میں نفسا نفسی پائی جاتی ہے اور خدا اور اُس کے سلسلہ کو لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ پھر بعض زمانےا یسے آتے ہیں کہ صداقت بھی ہوتی ہے، صداقت کے دلائل بھی ہوتے ہیں اور صداقت کو دنیا میں پہنچانے والے لوگ بھی ہوتےہیں مگر ان میں سے قوتِ عملیہ جاتی رہتی ہے۔ لوگ محسوس کرتے اور دیکھتے ہیں کہ ان کی زبانیں کچھ کہہ رہی ہیں لیکن اُن کی نگاہیں کچھ اَور کہہ رہی ہیں اور اُن کےا عمال کچھاور ہی کہہ رہے ہیں۔ اس لئے اُن کے دلوں میں شبہ اور شک پیدا ہوتا ہے اور ان شکوک و شبہات کی وجہ سے لوگ ان کی باتوں کو قبول کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔ جب تک یہ ساری چیزیں بیک وقت جمع نہ ہو جائیں اُس وقت تک صداقت کو غلبہ ملنا یقینی نہیں ہوتا۔ پس ہم اگر صداقت کو دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور اگر ہماری جماعت کے دلوں میں یہ یقین ہے کہ خداتعالیٰ نے ہمیں زبردست دلائل عطا فرمائے ہیں تو جب تک ان دلائل کو ہم لوگوں کے سامنے پیش نہ کریں اور جب تک ان دلائل کے ساتھ ہمارے اعمال اور پھر ہمارے اعمال کے ساتھ خداتعالیٰ کا فعل بھی شامل نہ ہو اُس وقت تک دنیا اِس سے مستفیض نہیں ہو سکتی۔
میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں اختصار کے ساتھ اس امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ جب کبھی دنیا میں خداتعالیٰ کے نبی آئے ہیں تو لوگوں کی روحانی اصلاح کے ساتھ ان کی دنیوی ترقی بھی ہوئی ہے۔میں گزشتہ خطبہ جمعہ میں اِس مضمون کو تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کر سکا لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کے انکار کی ہمیں گنجائش نظر نہیں آتی۔ جب ہم دنیا کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام پیش کرتے ہیں تو ہم سے اختلاف رکھنےوالے مسلمان سوال کرتے ہیں کہ آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا میں آکر اپنی جماعت کی عملی زندگی میں کیا تغیر پیدا کیا؟ وہ ہم سے یہ سوال کرتےہیں اور جائز طور پر کرتے ہیں کہ جہاں تک دلائل کا سوال ہے تم خود مانتے ہو کہ مرزا صاحب قرآن شریف سے باہر کوئی چیز نہیں لائے اور تم خود مانتے ہو کہ قرآن شریف ایک زندہ کتاب ہے۔ جب قرآن شریف ایک زندہ کتاب ہے اور ساری صداقتوں کی جامع ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سے باہر کوئی چیز نہیں لائےاور جو کچھ دلائل تم سناتے ہو وہ قرآن کریم میں موجود ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہم ان کو نہیں سمجھ سکے اور تم سمجھ گئے ہو۔ مگر بہرحال وہ اس میں موجود ہیں جسے ہم اور تم مانتے ہیں۔ تو اس سے زائد کوئی چیز مرزا صاحب کو لانی چاہئے تھی اور وہ یہی ہوسکتی ہے کہ قرآن کریم کےسا تھ تمہاری جماعت کو ایسا تعلق ہو کہ اس تعلق کی وجہ سے تمہارے لئے وہ نتائج پیدا ہو جاتے ہوں جو ہمارے لئے نہ ہوتے ہوں۔ چنانچہ جب ہم قرآن کریم غیر قوموں کےسامنے پیش کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ قرآن کریم میں سچائیاں موجود ہیں، ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ہماری کتب جھوٹی ہیں یا سچائی اور جھوٹ دونوں پر مشتمل ہیں مگر تم یہ بتاؤ کہ اگر ہماری کتب جھوٹ اور سچائی یا ساری کی ساری جھوٹ پر مشتمل ہیں اور تمہاری کتاب ساری کی ساری سچائی پر مشتمل ہے تو ہمارے اندر اپنی جھوٹی کتب کے ساتھ تعلق رکھنے سے کیا خرابی پیدا ہوئی؟ اور تمہارا قرآن کریم کےساتھ تعلق رکھنا کونسے اچھے نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوا؟ آخر اچھی چیز کسی فائدہ کے لئے آیا کرتی ہے۔ پھر تمہیں قرآن کریم سے کیا فائدہ پہنچا؟ یہ واقعی ایسا سوال ہے جو معقول ہے اور جس کا جواب دیا جانا ضروری ہےہماری طرف سے اس کا روحانی جواب دیا جاتا ہے۔ مگر بتاؤ دنیا میں کتنے انسان ایسے ہیں جو روحانی نگاہ سے صداقت کو دیکھا کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو روحانی نگاہ سے مانا ان لوگوں سے مقابلہ کرو جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دنیوی نگاہ سے مانا۔ روحانی نگاہ سے ماننے والے تو اتنی تھوڑی تعداد میں تھے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہہ دیا اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ 1 اے موسیٰ! جاؤ تم اور تمہارا خدا دشمن سے لڑتے پھرو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ مگر جب لڑائی کے بعد خداتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم پر چلنے والوں کو فتح دی اور روحانی علامات کے علاوہ جسمانی علامات بھی پیدا ہو گئیں، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیرو فلسطین کی چَپہ چَپہ زمین پر قابض ہو گئے تو ہر ایک نے کہا حضرت موسیٰ سچے تھے۔ جب فلسطین کے دریاؤں اور پہاڑوں نے کہا کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام کی سچائی کا یہ ثبوت ہے کہ آپ کے پیرو ہم پر قابض ہیں تو پھر دنیا بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئی اور ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی بلکہ اب تو کروڑوں تک پہنچ چکی ہے۔
حضرت مسیح ناصری علیہ السلام جب دنیا میں تشریف لائے تو ان کو جو دلائل خداتعالیٰ نے اپنی طرف سے صداقت کے دیئے تھے آیا وہ بہتر دلائل تھے یا وہ جو تین سَو سال کے بعد روم میں پیدا کئے گئے ،کون کہہ سکتاہے کہ حضرت مسیح ناصریؑ کو اُن کی زندگی میں جو دلائل ملے تھے وہ تین سو سال کے بعد بگڑے ہوئے عیسائیوں کو مل سکتے تھے۔ مگر ان روحانی دلائل سے صرف بارہ آدمی ایمان لائے۔ اور ان میں سے بھی ایک نے آپ پر *** کی اور ایک نے یہ کیا کہ تیس درہم یعنی سات روپے لے کر اپنے استاد کو یہودیوں کے پاس فروخت کر دیا۔ مگرجب خداتعالیٰ نے اپنی قدرت نمائی کے ذریعہ حضرت مسیح ناصریؑ کو دنیا میں غلبہ دینا شروع کیا تو اس غلبہ کی جسمانی علامات کو دیکھ کر کروڑوں کروڑ انسان آپ پر ایمان لے آئے۔ چنانچہ اِس وقت حضرت مسیح ناصریؑ کو ماننے والے کروڑوں کروڑ انسان موجود ہیں جنہیں حضر ت مسیح ناصریؑ کی روحانی زندگی کا کچھ علم نہیں۔ جو شخص خداتعالیٰ کی توحید قائم کرنے آیا تھا اگر اُسے ماننے والے اُس کو خدا قرار دیتے ہیں تو ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ اُس کے مذہب کا کوئی حصہ بھی باقی رہ گیا ہے۔
اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تیرہ سال مکہ میں رہے۔ آپ نے معجزات دکھائے، اپنی صداقت کے دلائل پیش کئے مگر کتنوں نے ان معجزات اور دلائل کو دیکھ کر آپ کو مانا۔ بعد میں سات سال تک آپ مدینے میں بھی رہے اور اپنی صداقت کے دلائل پیش کرتے رہے، معجزات بھی دکھلائے اور قرآن شریف کا اکثر حصہ آپ پر یہیں نازل ہؤا مگر کتنی روحانی نگاہیں تھیں جنہوں نے آپ کو پہچانا۔ مگر مکہ کا فتح ہونا تھا کہ عرب کے لوگوں کی آنکھیں کُھل گئیں اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچے ہیں۔ تو دنیا کے اکثر انسان ایسے ہوتے ہیں جو خداتعالیٰ کے روحانی نشانوں سےنہیں بلکہ مادی نشانوں سے ہدایت پاتے ہیں۔ نشان تو وہ بھی خدائی تھا جس نے حضرت مسیح ناصریؑ کو غلبہ دیا، نشان تو وہ بھی خدائی تھا جس نے حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کو فتح دی نشان تو وہ بھی خدائی تھا جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو غلبہ دیا۔ مگر فرق یہ ہے کہ وہ روحانی نشان تھے اور یہ مادی نشان تھے۔
مادی نشان سے لوگ زیادہ متأثر ہوتے ہیں اور روحانی نشانات سے کم۔ اب تو خیر جاپان مغلوب ہو گیا ہے پہلے زمانہ کا ایک لطیفہ مجھے یاد ہے جو کئی دفعہ میں نے بیان بھی کیا ہے۔ ایک جاپانی مصنف نےاپنی کسی کتاب میں لکھاہے ہماری قوم نے جب دیکھا کہ مغربی اقوام ہمارے ملک پر قبضہ کر رہی ہیں اور ہر طرح ہمیں ذلیل اور رسوا کرتی ہیں تو ہم نے سمجھا ہمیں بھی عزتِ نفس کو قائم کرنا چاہیے۔ ہم نے سمجھا یورپین لوگوں میں یہ خوبی ہے کہ ان کے ہاں مدارس ہیں اور ان کے چھوٹے بڑے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر ہم نے بھی اپنے ملک میں تعلیم جاری کی اور ہم نے سمجھا کہ اِس طرح یہ ہمیں مہذب سمجھنے لگ جائیں گے۔ مگر باوجود اس کے کہ ہم نے گاؤں گاؤں میں سکول کھول دیئے اور ہر جگہ تعلیم رائج کرد ی یورپین لوگ آتے، ہماری تعلیم کو دیکھتے مگر سر ہلاتے ہوئے یہ کہتے ہوئے گزر جاتے کہ یہ غیر مہذب قوم ہے۔ اِس پر ہم نے خیال کیا تعلیم نہیں کوئی اَور چیز ہے جس سے تہذیب حاصل ہوتی ہے۔ پھر ہم نے سمجھا تجارت اس قوم میں بڑی ہےہم بھی اپنی قوم میں تجارت رائج کرتے ہیں۔ پھر ہم نے لوگوں کی توجہ تجارت کی طرف مبذول کی اور اِتنی تجارت کی کہ ہمارا ملک کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔ لیکن یورپین آتے اور سر ہلا کر کہتے یہ غیر مہذب قوم ہے۔ پھر ہم نے خیال کیا تجارت نہیں کوئی اَور چیزہے جس سے تہذیب حاصل ہوتی ہے۔ پھر ہم نے سمجھا شاید صنعت و حرفت سے تہذیب حاصل ہوتی ہے۔ ہم نے بڑے بڑے کارخانے جاری کئے اور باہر سے کسی قسم کا مال منگوانا بند کر دیا۔ لیکن پھر بھی یورپین آتے اور سر ہلا کر کہتے یہ غیرمہذب قوم ہے۔ جب ہم نے دیکھا کہ اس پر بھی ہم غیر مہذب ہی کہلاتے ہیں تو ہم نے خیال کیا یہ لوگ غیرملکوں میں مال بھیجتے ہیں شاید اس لئے مہذب ہیں۔ اِس پر ہم نے بھی اپنا مال غیر ملکوں میں بھیجنا شروع کر دیا اور خیال کیا کہ اس طرح غیر ملکوں میں مال بھیجنے سے ہم مہذب کہلا سکیں گے۔ مگرپھر بھی انہوں نے سر ہلا کر کہا یہ غیر مہذب قوم ہے۔ پھر ہم نے سمجھا شاید اِس وجہ سے یہ ہمیں غیرمہذب کہتے ہیں کہ یہ اپنے جہازوں میں اپنی تجارت کا سامان لادتے اور دوسرے ملکوں میں لے جاتے ہیں۔ لیکن ہم ان کے جہازوں میں لے جاتے ہیں۔ اِس خیال کے آنے پر ہم نے بھی اپنے جہاز بنائے اور ان کے ذریعہ اپنا مال دوسرے ملکوں میں بھیجنا شروع کیا۔ مگر پھر بھی انہوں نے کہا یہ غیر مہذب قوم ہے۔ پھر ہم نے سمجھا شاید فوج کا پاس ہونا تہذیب کی علامت ہوتی ہے۔ ہم نے بھی فوج بنائی اور جہاز وغیرہ تیار کئے۔ مگر پھر بھی یورپین ہمیں غیرمہذب کہتے رہے۔ جب ہم نے ساری باتیں کر لیں اور اپنا نام نہ بدلوا سکے تو ہم نے سمجھا یہ چیزیں ہمارے لئے بیکار ہیں۔ ہم نے منچوریا (Manchuria)کے میدان میں سفید چمڑی والے تین لاکھ آدمی چند دنوں میں قتل کر دیئےان کا قتل ہونا تھا کہ ساری دنیا میں تاریں اُڑگئیں کہ جاپانی مہذب ہو گئے ہیں، جاپانی مہذب ہو گئے ہیں۔
غرض مادی طاقت ایک ایسی چیز ہے جو بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھول دیتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک علم کا سوال ہے ہزارہا ہندوستانی علم میں یورپین لوگوں سے زیادہ ہیں۔ جہاں تک صنعت و حرفت کا تعلق ہے ہندوستانی ان سے پیچھے نہیں۔ جہاں تک تجارت کا تعلق ہے ان سے پیچھے نہیں۔ مگر چونکہ ابھی مادی غلبہ ہندوستانیوں کو حاصل نہیں ہوا اس لئے غیر مہذب کہلاتے ہیں۔ پس مادیت ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ وہ لوگ بھی حقیقت کو سمجھ لیتے ہیں۔ جو اس کے بغیر نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن اگر مادی بیداری کی ابتدا ہی نہیں ہوئی تو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا کی آنکھیں کھولنا کتنا مشکل کام ہے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے وہ نشان لوگوں کی ہدایت کا زیادہ موجب ہوتا ہے جو مادی غلبہ بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ مگر مادی غلبہ کے مختلف زمانے ہوتے ہیں۔ جو موسوی سلسلہ کے بروز ہوتے ہیں اُن کو مادی غلبہ جلد حاصل ہو جاتا ہے کیونکہ انہوں نے شریعت کو قائم کرنا ہوتا ہے۔ مگرمسیحی سلسلہ کے بروزوں کا غلبہ آہستہ آہستہ محنتوں، کوششوں اور تدابیر سے ہوتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام گھر سے نکلے اور اپنی زندگی میں ہی (گو اصل اور آخری نتیجہ اُن کی زندگی کے بعد نکلا جس کی وجہ یہودیوں کی ایک غلطی تھی) فتح کی بنیادیں رکھ گئے اور آپ کی وفات کے چند سالوں کے بعد آپ کے پیروؤں کے ذریعہ فلسطین فتح ہو گیا۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں ہی عرب پر غالب آئے اور آپ نے اسلامی حکومت قائم کر لی۔ مگر حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو یہ موقع نہیں ملا۔ ان کی قوم کو کہیں تین سو سال میں جا کر غلبہ حاصل ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی مسیح ناصریؑ کے بروز ہیں اس لئے آپ کی قوم کو بھی ایک لمبے عرصہ کے بعد جس میں کہ اسے کئی قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں گی اور قدم قدم پر کوشش اور جدوجہد سے کام لینا پڑے گا اور ایسے نازک حالات میں سے گزرنا پڑے گا کہ کمزور ایمان والے مرتد ہونے کے لئے تیار ہو جائیں گے، غلبہ حاصل ہو گا۔ ہم نے جو جدوجہد کرنی ہے اس جدوجہد میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری تبلیغ وسیع ہو۔ لیکن ہمارے موجودہ حالات ایسے نہیں کہ ہم دنیا میں تبلیغ کو وسیع کر سکیں۔ ہاں دنیا میں تبلیغ کو وسیع کرنے کا ایک اَور ذریعہ بھی ہے جس کا قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے۔ قرآن شریف میں حج کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حج ایک عبادت ہےلیکن اس کے ساتھ تمہیں یہ بھی اجازت ہے کہ حج کے دنوں میں تم تجارت بھی کر لیا کرو۔ کیونکہ اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنا کام کاج چھوڑ کر حج کے لئے جائیں تو اُن کو بہت سی مالی مشکلات پیش آجاتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نےفرمایا کہ حج گو عبادت ہے لیکن اگر اس کے ساتھ تم تجارت بھی کر لو تو ہماری طرف سے کوئی روک نہیں۔ بے شک اپنے پاس سامانِ تجارت رکھو اور اسے راستے میں بیچتے چلے جاؤ۔ حضرت خلیفہ اول ایک ہندوستانی کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے کہ وہ حج کے لئے گیا تو اس کے پاس روپیہ کافی تھا لیکن اس نے بخل کی وجہ سے یا خداتعالیٰ کا کوئی نشان دیکھنے کی غرض سے ارادہ کیا کہ میں حج کے لئے جاتے ہوئے راستے میں کماتا جاؤں گا اور اس کمائی سے حج کروں گا۔ چنانچہ وہ جہاز میں سوار ہو گیا کچھ مدت کے بعد چونکہ جہاز میں کوئی نائی نہیں تھا جب لوگوں کے بال بڑے ہوئے تو انہیں پریشانی لاحق ہوئی کہ اب کیا کیا جائے؟ ایک دن انہوں نے قینچی لی اور ایک آدمی جو اُنہی کے پاس بیٹھا سر کُھجلا رہا تھا اُس کے سر کے بال کاٹنے شروع کر دیئے۔ ایسے سفر میں کون دیکھتا ہے کہ حجامت اچھی بنی ہے یا خراب۔ اُن کا قینچی پکڑنا تھا کہ لوگوں نے انہیں نائی سمجھ کر پیسے دینے شروع کر دیئے اور ساتھ ساتھ حجامت بھی بنواتے چلے گئے۔ وہ حجامتیں بناتے گئے اور پیسے جمع کرتے گئے۔ تو حج کےد نوں میں محنت مزدوری کرنا منع نہیں کیونکہ غیر ملکوں میں جانے کے لئے روپے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اِسی طرح اگر ہم نے وسیع طور پر تبلیغ کرنی ہے تو ضروری بات یہ ہے کہ ہم ایسے کام کریں جن کے ذریعہ بغیر پیسے کے تبلیغ کر سکیں۔
میں نے پچھلے خطبہ میں بتلایا تھا کہ ہندوستان کے ہزارہا شہروں میں صرف دو سو جگہیں ایسی ہیں جہاں احمدیہ جماعت کے ایک ایک یا دو دو تاجر پائے جاتے ہیں۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے ایک شخص کا خط آیا۔ اُس نے لکھا تھا جس علاقہ سے میں آیا ہوں اُس میں میلوں میل تک کسی کو احمدیت کا علم بھی نہیں۔ جس سے بھی ذکر کیا جائے وہ احمدیت سے کُلّی طور پر ناآشنا معلوم ہوتاہے۔ ابھی ایک عیسائی مدراس سے مسلمان ہو کر آیا ہے اُسے اتفاقاً ایک دوست مل گئے اور اُس کے ذریعہ اس کو احمدیت کا پتہ لگا۔ احمدی ہونے کے بعد اس نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں ہزارہا عیسائی ہیں اور وہ اس بات کے متلاشی ہیں کہ ان کو سچا مذہب ملے۔ آپ وہاں اپنا مبلغ بھیجیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کہاں مبلغ بھیجیں۔ بعض دفعہ بعض جماعتیں مجھے لکھتی ہیں کہ ہم نے ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ کو لکھا تھا کہ مبلغ بھیجیں لیکن انہوں نے اس کی پروا نہیں کی۔ میں اُن کو یہی جواب دیا کرتاہوں کہ ہماری جماعت کے چالیس مبلغ ہیں اور آٹھ سَو ہماری منظم جماعتیں ہیں۔ جن میں سے بعض جماعتوں میں بیس بیس،تیس تیس گاؤں شامل ہیں۔ اسکے علاوہ وہ افراد جو مختلف جگہوں پر پھیلے ہوئے ہیں اگر اُن کو بھی ملا لیا جائے تو پانچ سات ہزار جگہیں ایسی ہیں جہاں جماعت پھیلی ہوئی ہے۔ اب بتاؤ ہم چالیس مبلغ کہاں کہاں بھجوائیں۔ ایسے حالات میں سوائے اِس کے کوئی چارہ نہیں کہ اگر آپ کے اندر دین حاصل کرنے کی خواہش ہے تو اپنی جماعت کے نوجوانوں کو قادیان بھجوائیں۔ ہم انہیں قرآن کریم اور حدیث وغیرہ پڑھا دیں گے اور سلسلہ کے ضروری مسائل سے اُن کو واقف کر دیں گے تاکہ واپس جا کر وہ اپنے علاقوں میں تبلیغ کا کام کر سکیں۔ لیکن اگر ایسا بھی ہو جائے تو صرف پانچ چھ ہزار گاؤں ایسے ہوں گے جہاں ہماری تبلیغ پہنچ سکے گی۔ حالانکہ ہندوستان میں آٹھ لاکھ گاؤں ہیں۔ اگر پانچ چھ ہزار آدمیوں کو قرآن شریف پڑھا بھی دیا تو اس سے صرف پانچ چھ ہزار گاؤں میں تبلیغ ہو گی۔ گویا سَو میں سے صرف ایک جگہ ایسی ہو گی جہاں تبلیغ پہنچے گی۔ لیکن اگر چار پانچ ہزار آدمی ایسے نکل آئیں جو چار پانچ ہزار جگہوں پر جا کر بیٹھ جائیں اور تجارت کریں تو چونکہ آٹھ دس گاؤں کو ایک آدمی سنبھال سکتا ہے اگر چار پانچ ہزار گاؤں یا قصبوں میں اتنے آدمی بیٹھ جائیں تو چالیس پچاس ہزار گاؤں تک ہم اپنی تبلیغ کو وسیع کر سکتے ہیں۔
اگر ہماری جماعت کے نوجوان اس طرف توجہ کریں تو میں سمجھتا ہوں پچیس ہزار شہروں اور قصبات میں بیس پچیس ہزار تاجروں کا بٹھلا دینا کوئی مشکل بات نہیں۔ بیس پچیس ہزار جگہوں پر بیس پچیس ہزار تاجروں کے بیٹھ جانے کے معنے یہ ہوں گے کہ قریباً سارے ہندوستان میں ہم اپنی تبلیغ کو پھیلا سکیں گے۔ کیونکہ ہر آدمی آٹھ دس میل کے علاقہ تک اپنی تبلیغ آسانی سے پہنچا سکے گا۔ احمدیت ایک ایسی چیز ہے جسے کوئی شخص اپنی ذات تک محدود نہیں رکھ سکتا۔ جیسے مشک کی خوشبو روکی نہیں جا سکتی، جس طرح گلاب کے عطر کی خوشبو چھپائی نہیں جا سکتی اِسی طرح احمدیت بھی ایک ایسی چیز ہے کہ جہاں چلی جائے اِس کی خوشبوصرف اس جگہ تک محدود نہیں رہتی بلکہ اردگرد بھی پھیل جاتی ہے۔ مگر ہر چیز کے پھیلنے کی ایک حد ہوتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں مشک کی خوشبو کو چھپایا نہیں جا سکتا، گلاب کی خوشبو کو روکا نہیں جا سکتا۔ مگر ایک حد تک۔ ہم عطر کی خوشبو یا مشک کی خوشبو کو پندرہ بیس یا تیس گز تک تو نہیں چھپا سکتے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مشک اگر یہاں پڑی ہے تو امریکہ کے لوگ اس کی خوشبو سُونگھ سکتے ہیں۔ بہترین سے بہترین ہرن کی مشک لا کر اور کسی جگہ رکھ کر یہ امید کرنا کہ چار پانچ میل سے اس کی خوشبو سُونگھی جائے ایک غلط امید ہو گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خداتعالیٰ نے احمدیت کو ایک ایسی طاقت بخشی ہے کہ میلوں میل تک اِس کی آواز پہنچ جاتی ہے۔ اگر ایک گاؤں میں ایک احمدی ہو تو اردگرد کے پانچ سات میل تک لوگ احمدیت سے واقف ہو جاتے ہیں۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نہیں جانتے احمدیت کیاچیز ہے۔ لیکن اگر کسی جگہ ایک احمدی ہو اور اردگرد بیس تیس میل تک کوئی احمدی نہ ہو تو اکثر لوگ کہہ سکیں گے کہ ہمیں پتہ نہیں احمدیت کیا چیز ہے۔ اگر ہم بیس پچیس ہزار مبلغ اِس طرح پھیلا دیں کہ ہر سات آٹھ میل کے دائرے میں ایک احمدی تاجر ہو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہندوستان کا کوئی فرد یہ نہیں کہہ سکے گا کہ میں نے احمدیت کے متعلق کچھ نہیں سنا۔ بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں نے احمدیت کےدلائل سنے ہوں گے اور ان میں جو سعید روحیں صداقت کی متلاشی ہوں گی وہ اس کو تسلیم بھی کر لیں گی۔ پس یہ ایک ایسی تحریک ہے جو ہمارے لئے کامیابی کا بہت بڑا راستہ کھولنے والی ہے۔ موجودہ حالات میں ہمارے لئے بیس ہزار مبلغ رکھنا بالکل ناممکن ہے۔ کیونکہ بیس ہزار مبلغ رکھنے کے لئے کئی کروڑ کی آمدن ہونی چاہیے اور ابھی ہماری آمدن چند لاکھ سے زیادہ نہیں۔ ہاں بیس ہزار تاجر بٹھا دینا کوئی مشکل نہیں۔ کیونکہ ہر ایک نے اپنی جدوجہد سے کمائی کرنی ہے۔ حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے۔ ایک بہت بڑا تاجر میرا واقف تھا۔ اُس کا لڑکا مجھے ملنے کے لئے آیا تو میں نے اُس سے پوچھا کہ تمہارے باپ نے تم کو الگ کر دیا ہے وہ تو بڑا مالدار آدمی ہے تمہیں اُس نے اپنے ساتھ کیوں شریک نہیں کیا؟ کہنے لگا حکیم صاحب! جب میں جوان ہوا تو میرے والد نے مجھے کہا دیکھو بیٹا میں غریب کنگال تھا میں نے کمانا شروع کیا اور اب میرے پاس لاکھوں روپیہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم بھی اِسی طرح کماؤ تا تمہیں مال کی قدر معلوم ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم میرے مرنے کے بعد روپیہ برباد کر دو اور میری محنت ضائع ہوجائے۔ میں نے چند پیسوں سے تجارت شروع کی تھی مگر اب تمہارا باپ بہت امیر ہے۔ اسلئے میں تجارت کے لئے تمہیں چند روپے دے دیتا ہوں اس سے تم تجارت شروع کرو اور ترقی کرو۔ اب دیکھو وہ نوجوان اِس بات پر ناراض نہیں تھا کہ اُسے کیوں الگ کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مجھے میرے والد نے اِس لئے علیحدہ کیا ہے تا میرے اخلاق درست ہو جائیں۔
قادیان میں ایسے تاجر ہیں جنہوں نے ہمیں بعض ضروریات کے مواقع پر سینکڑوں روپیہ چندہ دیا۔ لیکن ہماری آنکھوں دیکھی بات ہے کہ ان میں سے کسی نے چار آنے سے، کسی نے روپے سے تجارت شروع کی تھی۔ حکیم عبدالرحمٰن صاحب کاغانی کا ایک لطیفہ مجھے یاد ہے۔ اب تو وہ فوت ہو گئے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے چالیس یا پچاس روپے ان کے ہاتھ میں دیئے اور کہا یہ لے جاؤ اور کسی کا نام لے کر کہا اُس کو دے دو۔ انہوں نےا پنے ہاتھ پھیلا کر آگے کئے اور روپے لے لئے۔ اُس وقت اُن کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ لیکن میں نے اِس کا خیال نہیں کیا۔ حضرت خلیفہ اول چونکہ تجربہ کار تھے اُس کے ہاتھ کو کانپتا دیکھ کر مجھے کہنے لگے میاں! اس کا ہاتھ دیکھو۔ کیا اس کے ہاتھ کانپا کرتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ کہنے لگے تو اب کیوں کانپ رہے ہیں؟ میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں۔ فرمانے لگے یہ ہمارے مسلمانوں کی بدبختی کی علامت ہے۔ کسی ہندو کے ہاتھ میں دس ہزار روپیہ دے دو تو وہ بڑے آرام سے اپنے نیفے میں روپیہ ڈال کر چلا جائے گا۔ لیکن یہ ڈر رہا ہے اور اس کے ہاتھ اس لئے کانپ رہے ہیں کہ اگر روپیہ گر کر ضائع ہو گیا تو کہاں سے ادا کروں گا۔ مگر وہ ہمت والے آدمی تھے انہوں نے چند پیسوں سے تجارت شروع کی۔ اور ان کی تجارت اتنی بڑھی کہ ایک تحریک کے موقع پر انہوں نے ڈیڑھ سو سے زیادہ چندہ دیا۔ جب انہوں نے یہ چندہ دیا تو مجھے وہ بات یاد آگئی۔ میں نے کہا دیکھو! چالیس روپے حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ سے لے کر اس شخص کے ہاتھ کانپ رہے تھے کہ کتنا روپیہ میرے سپرد کیا جا رہا ہے مگر اب خداتعالیٰ نے انہیں سینکڑوں روپیہ چندہ دینے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ تو انسان بہت تھوڑے پیسوں سے تجارت شروع کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ اُس میں قربانی کی عادت ہو۔ قادیان میں دسیوں آدمی ایسے ہیں جو شاید شرما کر اپنی پہلی حالت بیان نہ کریں۔ لیکن واقع یہ ہے کہ گو وہ اب سات سات آٹھ آٹھ ہزار روپیہ کی جائیدادیں اپنے پاس رکھتے ہیں۔ لیکن انہوں نے چند آنوں سے کام شروع کیا تھا۔ ایک دوست ہیں جن کی اب بیس پچیس ہزار کی جائیداد ہو گی ان کا مکان بھی ہے زمین بھی ۔ انہوں نے چھ آنوں سے میرے سامنے کام شروع کیا تھا۔ پس یہ کام اِس طرح کا ہے کہ اس میں بغیر روپے اور بہت تھوڑی محنت کےساتھ انسان بڑی کمائی کر سکتا ہے۔ جو آدمی تجارت شروع کرتا ہے پہلے وہ اپنی مزدوری کا کمایا ہوا کھاتا ہے۔ پھر تجارت کی کمائی کھاتا ہے۔ پھر تجارت کا کمایا ہوا جمع کرتا چلا جاتا ہے اور اسے نفع ہی نفع رہتا ہے۔
غرض بیس ہزار تاجر ہندوستان کے مختلف حصوں میں بھجوانا کوئی مشکل کام نہیں۔ اگر انگریزوں کی لڑائی میں ہمارے پندرہ سولہ ہزار نوجوان چلے گئے ہیں تو کیا خداتعالیٰ کی لڑائی میں پانچ ہزار نوجوانوں کا جانا مشکل ہے؟( کیونکہ ابھی میرا پانچ ہزار کا مطالبہ ہے) اور پھر ایسے رنگ میں جب کہ تم اپنی جماعت کا مستقبل شاندار بنانے کی کوشش کرو گے تو تم خود کھاؤ گے، دین کے لئے چندہ دو گے اور اپنے رشتہ داروں کو بھی کھلاؤ گے۔ پس ہماری جماعت کے لئے موجودہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے پچاس سال تک بھی بیس ہزار مبلغ کا خیال کرنا ناممکن ہے لیکن بیس ہزار تاجر بھیجنا کوئی مشکل کام نہیں۔ میں نے بتایا تھا کہ ہندوستان سے باہر اگر ہم تبلیغ کو مدنظر رکھیں تو اس کے لئے کم سے کم پانچ سَو روپے ماہوار فی مبلغ ہمیں خرچ کرنا پڑے گا۔ بلکہ درحقیقت اگر ہزار روپیہ ہو تو کام اچھی طرح چل سکتا ہے۔ کیونکہ صرف مکان کا کرایہ ہی وہاں تقریباً تین چار سَو روپیہ دینا پڑتا ہے۔ اگر پانچ سَو روپیہ فی کس ہی رکھیں تو بیس ہزار مبلغوں کے رکھنے کے معنے یہ ہوں گے کہ ایک کروڑ روپیہ ماہوار اور بارہ کروڑ روپیہ سالانہ خرچ ہو گا۔ یہ کم سے کم اندازہ ہے۔ پھر ان کے آگے جانے کا کرایہ بھی ہو گا۔ اس طرح بیس ہزار مبلغوں کے لئے درحقیقت چوبیس کروڑ روپیہ سالانہ یعنی ہماری موجودہ آمدن سے دو سَو گُنے زیادہ آمدن ہو تو یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے پچھلے تیس سال میں قریباً پندرہ بیس گُنا اپنی آمدن کو بڑھایا ہے۔ فرض کرو ہم اس کو بہت زیادہ کریں تو پچاس یا سَو سال میں جا کر ہم چوبیس کروڑ کی مرکزی آمدن پیدا کر سکیں گے(کیونکہ قریباًَ نصف کے قریب آمد بِلاد و ممالک میں خرچ ہو جاتی ہے) اور سَو سال تک اتنے مبلغین کے لئے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر بیس ہزار کنگال بھی اِس تحریک پر کھڑے ہو جائیں۔ یا کم سے کم پانچ ہزار آدمی کھڑے ہوجائیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جو کام ہم سَو سال میں کر سکتے تھے۔ اسے انشاء اللہ دو تین سالوں میں کر لیں گے۔ یہ کتنی بڑی بات ہے اگر ایسا ہو اور ہم میں سے ہر فرد اس کی اہمیت کو سمجھے تو چند سالوں میں ہی حیرت انگیز تغیر پیدا ہو سکتا ہے۔ جو پہلے سے تجارت کرنے والے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے لئے چندہ دے دینا کافی ہے۔ بلکہ انہیں چاہیے کہ پندرہ بیس یا تیس نئے تاجروں کو اپنا پیشہ سکھائیں، اُن کی اخلاقی امداد کریں اور اگر ضرورت پڑے اور ہو سکے تو مادی امداد بھی کریں۔ اِس طرح صدقہ جاریہ کے طور پر وہ بہت بڑا ثواب حاصل کر سکتے ہیں۔
مَیں حیران ہوں کہ ہمارے ہندوستان کے تاجروں میں یہ روح نہیں۔ حالانکہ بیرونی ممالک میں یہ روح نمایاں طو رپر پائی جاتی ہے۔ افریقہ میں ایک شامی تاجر کو تحریک کی گئی ہم چاہتے ہیں تجارت کا سلسلہ وہاں شروع کریں۔ مغربی افریقہ میں وہ ایک ہی احمدی تاجر ہیں انہوں نے تار کے ذریعہ اُسی وقت جواب دیا کہ آدمی فوراً بھیج دیں۔ میں اپنی جائیداد میں اس کو حصہ دار بنانے کو تیار ہوں اور اُس کو اپنا حصہ دار بنانے کے لئے بھی آمادہ ہوں۔ یہی روح ہے جو قوموں کو ترقی کی طرف لے جاتی ہے اور یہی روح ہے جو ہماری جماعت کے تاجروں میں ہونی چاہیے۔
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس شکایت ہوئی کہ آپؐ نے فلاں مہاجر کو فلاں انصاری کے سپرد کیا تھا۔ وہ اس سے کہتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تم کو میرا بھائی بنا دیا ہے تو اب تم ہر چیز میں میرے شریک ہو۔ میری دو بیویاں ہیں تم ان میں سے جس کو چاہو پسند کر لو میں اس کو طلاق دے دیتا ہوں۔ جائیداد بھی نصف نصف بانٹنے کے لئے تیار ہوں۔ مگر وہ مانتا ہی نہیں۔ 2
کُجا یہ اخلاق کا نمونہ کہ صحابہؓ اپنے دین، اپنے تقویٰ اور اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے اپنی بیویوں کو بھی طلاق دے کر اپنے بھائیوں کے سپرد کرنے کے لئے تیار تھے اور کُجا ہماری حالت ہے کہ ہم کسی بھائی کو تجارت کا ہنر سکھانے یا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ یہ ایک بہت مشکل کام ہے جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق یہ پیشگوئی تھی کہ آپؐ کو آپ کی زندگی میں ہی غلبہ دے دیا جائے گا۔ مگر ہمارے لئے یہ پیشگوئی ہے کہ ایک لمبے عرصہ کےبعد جا کر یہ چیز ہمیں ملے گی۔3 پس آج اُس سے زیادہ قربانیوں کی ضرورت ہے جتنی پہلے زمانہ میں صحابہؓ نے کیں۔ ہمیں اِس وقت تجارت کرنے والے ہزاروں نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور اپنی زندگیاں وقف کریں۔ جو تجربہ کار لوگ ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔
باہر کی ایک جماعت نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ ایک غیر احمدی ہمارے ہاں آکر احمدی ہو گیا۔ جماعت نے چند سو روپیہ اکٹھا کر کے اُسے دیا تا کہ وہ اس سے تجارت کرے۔ پچھلے سال اُس نے ایک ہزار روپے سے زیادہ چندہ دیا ہے۔ پس یہ ایسی چیز ہے جس میں کامیابی یقینی ہوتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ کم ہمت اور بے وقوف انسان اس میں ناکام بھی ہوتا ہے۔ لیکن باہمت اور عقلمند انسان تجارت آسانی سے چلا لیتا ہے۔ چاہے گزارے والی تجارت ہو، چاہے لاکھوں روپے والی ہو اور چاہے کروڑوں روپے والی ہو۔ بہرحال جہاں احمدی بیٹھ جائے گا وہاں خداتعالیٰ کے دین کا ایک مبلغ بیٹھ جائے گا۔ تجارت اُس کی کامیاب ہو یا نہ ہو مگر تبلیغ اُس کی کامیاب ہو جائے گی۔ کیونکہ احمدیت کبھی چُھپ نہیں سکتی۔ مثلاً پہلا سوال نماز کا آئے گا۔ اس کے پاس لوگ آئیں گے اور کہیں گے آپ کے آنے پر ہمیں بڑی خوشی ہوئی۔ مسلمان یہاں بہت کم تھے مگر ہم نے آپ کومسجد میں کبھی نہیں دیکھا۔ دیکھو! یہاں سے تبلیغ شروع ہو جائے گی۔ وہ کہے گا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننےو الا ہوں اور آپ ان کو نہیں مانتے۔ اس لئے میں آپ کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا۔ وہ پوچھیں گے مسیح موعود کیا ہوتا ہے اِس پر وہ بتائے گا حضرت مسیح موعودؑ کا یہ دعویٰ تھا۔ وہ اِس کا ثبوت پوچھیں گے اور اُسے کہیں گے ہمارے ساتھ چل کر ہمارے مولوی صاحب سے بات کرو کیونکہ ہم اس کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔ بس یہیں سے بحث شروع ہو جائے گی۔ پھر جنازے کا سوال آجائے گا۔ اس پر مذہبی بحث شروع ہو جائے گی۔ اگر تاجر نوجوان ہوئے اور اُن کے بیوی بچے نہ ہوئے تو ان میں سےکوئی کہے گا آپ نے ابھی تک شادی نہیں کی ہم میں شادی کر لیں۔ وہ کہے گا احمدیت ہمارا مذہب ہے اور ہم تو شادی احمدیوں میں ہی کریں گے اور پھر بحث شروع ہو جائے گی۔ پس یہ دو تین سوال ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے احمدیت کو چُھپایا ہی نہیں جا سکتا۔ جب کبھی نمازکا موقع آئے گا اور ہم اُن کےساتھ نماز نہیں پڑھیں گے۔ یا اگر جنازہ کا موقع آئے گا اور ہم ان کے جنازے میں شامل نہیں ہوں گے۔ یا شادی بیاہ کا معاملہ ہو گا اور ہم انکار کریں گے تو احمدیت کی بات شروع ہو جائے گی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اِن مسائل سے ہم نے اسلام میں تفرقہ پیدا کر دیا ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ بغیر ان مسائل کے تبلیغ ہو ہی نہیں سکتی۔ کتنا ہی گونگا احمدی کیوں نہ ہو اِن مسائل کی وجہ سے تبلیغ پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مولوی مبارک علی صاحب جو جرمنی میں تبلیغ کے لئے گئے تھے ان کےد ل میں ہمیشہ مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق شبہ رہتا تھا اور وہ خطوں میں اس کا ذکر کیا کرتے تھے۔ میں انہیں جواب دیتا کہ ابھی ٹھہر جائیں جب ہندوستان میں آئیں گے تو دیکھا جائے گا۔ ایک دفعہ اُن کا خط آیا کہ اب مجھ کو کفر و اسلام کا مسئلہ سمجھ آ گیا ہے اور وہ اِس طرح کہ یہاں قانون کے ایک بہت بڑے پروفیسر ہیں۔ اتنے بڑے کہ آسٹریلیا اور امریکہ کی یونیورسٹیاں بھی انہیں تقریروں کے لئے بلاتی ہیں۔ میں نے اُن کو مختلف مسائل بتائے جو ہمارے اور غیر مبائعین کے درمیان مَا بِہِ النِّزَاع ہیں۔ مگر مسئلہ کفرواسلام کا ذکر نہ کیا۔ جو مسئلہ میں بیان کرتا وہ کہہ دیتے یہ تو معمولی بات ہے۔ تمہاری چھوٹی سی جماعت ہے لیکن بڑی ایڈوانسڈ (Advanced) جماعت ہے، تمہیں چاہیے کہ آپس میں مل کر تبلیغ کرو۔ جب سارے مسائل ختم ہو گئے اور پھر بھی وہ یہی کہتے رہے تو آخر مَیں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ ایک اَور مسئلہ بھی ہے جس میں اُن کا اور ہمارا اختلاف ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نہ ماننے والوں کو مسلمان سمجھتے ہیں اور ہم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نہ ماننے والوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ اس پر وہ بڑے جوش میں آکر کہنے لگے آپ نے یہ مسئلہ پہلے کیوں نہ بتایا؟ اس مسئلہ کی موجودگی میں اختلاف صحیح اور جائز ہے۔ پھرکہنے لگے تمہارے پاس وہ چیز ہے جس سے تم ترقی کر جاؤ گے اور پیغامی نہیں کریں گے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ یہ تبلیغ کے اعلیٰ درجہ کے گُر ہیں۔ اگر تم اُن کے ساتھ مل کر نماز پڑھتے رہو گے تو کوئی یہ سوال نہیں کرے گا کہ تم کون ہو؟ اگر اُن کےساتھ مل کر جنازہ پڑھو گے تو کوئی یہ سوال نہیں کرے گا کہ تم کون ہو؟ لیکن اگر تم اُن سے علیحدہ ہو کر نماز پڑھو گے، اگر ان کے جنازہ پر نہیں جاؤ گے تو وہ خود بخود پوچھیں گے کہ تم ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ اس صورت میں خواہ کوئی کتنا کمزور سے کمزور انسان کیوں نہ ہو اُسے بتانا پڑے گا کہ میں کون ہوں، میرا عقیدہ کیا ہے اور میں کس لئے تمہارے پیچھے نماز اور جنازہ نہیں پڑھتا۔ اور اگر شادی بیاہ کا معاملہ ہو گا تو وہ بتلائے گا کہ یہاں شادی نہ کرنے کی یہ وجہ ہے کہ ہم احمدیوں میں شادی کو ترجیح دیتے ہیں یا یہ کہ میں اپنی لڑکی کا بیاہ غیر احمدیوں میں نہیں کر سکتا۔ پس یہ ایسی چیزیں ہیں جو کمزور سے کمزور ایمان والے احمدی کو بھی مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ اپنے پوشیدہ خیالات کو ظاہر کردے۔ غرض ہمارے مسائل ایسے ہیں جن سے تبلیغ کبھی رُک نہیں سکتی۔ تجارت فیل ہو سکتی ہے لیکن تبلیغ فیل نہیں ہو سکتی۔
میں بتا چکا ہوں یہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم تاجروں کو تبلیغ کے لئے باہر بھیج دیں لیکن تنخواہ دار مبلغ بھیجنا ہمارے اختیار کی بات نہیں۔ اس تجویز کے سامنے آجانے کے بعد ہم خداتعالیٰ کو یہ جواب نہیں دے سکتے کہ ہمارے پاس چونکہ روپیہ نہ تھا اس لئے ہم تبلیغ نہیں کر سکے۔ خداتعالیٰ کہے گا کہ میں نے حج کے متعلق جو مسئلہ بیان کیا تھا تمہیں اُس پر عمل کرنا چاہیے تھا۔ جیسے پنجابی میں کہتے ہیں ‘‘نالے حج نالے بیوپار’’۔ اس طرح خداتعالیٰ کہے گا جب یہ صورت تمہیں بتلا دی گئی تھی تو اس صورت پر تم نے باہر اپنے مبلغ کیوں نہ بھیجے؟ اب بتاؤ ہم کیا جواب دیں گے۔ کیا یہ کہ یہ ہماری طاقت سے باہر تھا؟ خداتعالیٰ کہے گا اگر جماعت کے نوجوان سترہ روپے لے کر آسام اور عراق میں اپنی جانوں کو قربان کر سکتے تھے تو کیا وہ نجّاری کا کام کر کے، موٹر کی مرمت کا کام کر کے، سائیکلوں کی مرمت کا کام کر کے، ڈرائیوری کا کام کرکے، درزی کا کام کر کے یا کسی اَور قسم کی تجارت کر کے احمدیت کی تبلیغ کا کام نہیں کر سکتے تھے؟ کیا کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ جو شخص سترہ روپے کے لئے جان دے سکتا ہے وہ خداتعالیٰ کے لئے تجارت نہیں کر سکتا؟ اگر اس میں ایمان کا ایک ذرہ بھی باقی ہے تو خداتعالیٰ کو وہ کس منہ سے کہے گا کہ میں تجھ پر ایمان رکھتا ہوں۔
غرض اب تم پر حجت قائم ہو چکی ہے۔ جب تک یہ راستہ تمہارے سامنے نہیں آیا تھا تم کہہ سکتے تھے ہمیں اِس کا خیال نہیں آیا لیکن اب تمہارا یہ عذر بھی ٹوٹ گیا ہے۔ اب خداتعالیٰ تم سے کہے گا میں نے اپنے ایک بندے کے دل میں یہ خیال پیدا کر دیا تھا اور اُس نے تم کو اِس سے آگاہ بھی کر دیا تھا۔ غرض اب تمہارے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ حقیقت کھل گئی ہے اور باطل کو کچلنے کے راستے خداتعالیٰ نے ظاہر کر دیئے ہیں۔ اگر اب بھی کوئی آگے نہیں بڑھے گا تو وہ بزدل اور غدار ہو گا۔ چاہیے کہ تم میں سے ہر شخص آگے آئے اور اپنے اپنے رنگ میں اِس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے جس کے اٹھائے بغیر اسلام دوبارہ سرسبزوشاداب نہیں ہو سکتا۔ ’’ (الفضل 20 ؍اکتوبر 1945ء)
1: المائدۃ:25
2: ترمذی اَبْوَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَۃِ بَابُ مَا جَاءَ فِیْ مُوَاسَاۃِ الْاَخِ ………الخ
3: تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 67

35
جماعت احمدیہ میں اعلیٰ تعلیم عام کرنے کی
نہایت اہم سکیم
(فرمودہ19؍اکتوبر1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدفرمایا:
‘‘میں نے گزشتہ خطبات میں کئی مواقع پر بیان کیا ہے کہ جس طرح انسانی جسم کے لئے ایک گھر کی ضرورت ہوتی ہے جو بغیر کئی دیواروں اور چھتوں کے مکمل نہیں ہوتا اِسی طرح انسانی روح کی حفاظت اور دین کے قیام کے لئے بھی ایسے مکانوں کی ضرورت ہوتی ہے جس کی کئی دیواریں ہوں، چھتیں، کھڑکیاں اور روشندان ہوں۔ لوگ جب اپنے گدھے کے ٹھہرانے کے لئے ایک مکان تجویز کرتے ہیں تو وہ بھی کئی دیواروں اور چھتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ لوگ اپنی مرغیاں رکھنے کے لئے اگر مکان تجویز کریں تو وہ بھی کئی دیواروں، چھتوں اور کھڑکیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ بلکہ لوگ اگر چڑیوں اور طوطوں کے لئے مکان تجویز کریں تو اُس میں بھی چاروں طرف دیواروں کے قائمقام تاریں لگا دیتے ہیں۔ لیکن دین کے معاملہ میں اگر کوئی مسئلہ بھی انہیں معلوم ہو تو سمجھ لیتے ہیں کہ ہماری ساری ضرورتیں اِس ایک مسئلہ سے ہی پوری ہو جائیں گی۔ گویا وہ چیز جو سب سے زیادہ ضروری ہے اور سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور سب سے زیادہ قیمتی ہے لوگ اس کے لئے سب سے زیادہ کمزور ، سب سے زیادہ بیہودہ اور سب سے زیادہ ناقص گھروندا تیار کرتے ہیں اور پھر آرام سے بیٹھ جاتے ہیں کہ ہم نے اپنی آخرت سنوار لی۔ لیکن لوگوں کی اس بے وقوفی اور نادانی سے آخرت بَھلا کیونکر سنور سکتی ہے۔ اگر کبوتر بلی کے حملہ کے وقت اپنی آنکھیں بند کر لے تو بلی کا حملہ کمزور نہیں پڑ جاتا اور وہ موت سے بچ نہیں سکتا بلکہ کبوتر کے آنکھیں بند کرنے میں بلی کا ہی فائدہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح جو لوگ دین اور روح کے لئے اس قسم کا غیر محفوظ گھر تیار کر کے سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے مضبوط قلعہ تیار کر لیا اُنہی کا نقصان ہوتا ہے اور شیطان جب چاہتا ہے اور جہاں سے چاہتا ہے حملہ کر دیتا ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں نادان ایسے ہیں کہ جب وہ بیعت کرتے ہیں تو سمجھ لیتے ہیں کہ گویا انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ کئی ایسے ہوتے ہیں جو بیعت کے بعد نماز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے بڑی تیس مارخانی کی ہے۔ اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو نماز کے بعد چندہ بھی دینا شروع کر دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ اِس سے زیادہ اُنہیں کسی اَور بات کی ضرورت نہیں۔ اور باقی وقت اور باقی روپیہ اپنی ضروریات کے لئے خرچ کرتے ہیں اور دن رات اپنے دنیوی مشاغل میں مصروف رہتے ہیں۔ حالانکہ دین نہ بیعت کے بعد نماز پڑھنے کا نام ہےا ورنہ دین بیعت کے بعد چندہ دینے کا نام ہے۔ بلکہ دین تو پُلِ صراط کا نام ہے۔ کہیں قرآن مجید اور حدیث سے معلوم نہیں ہوتا کہ صرف نماز پڑھنے سے جنت مل جائے گی۔ یا صرف چندہ دینے سے لوگ جنت میں داخل ہو جائیں گے۔یا صرف روزے رکھنے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جنت میں داخل کر دے گا۔ قرآن مجید سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص تقویٰ اللہ سے جنت میں داخل ہو گا۔ اور یہ ممکن نہیں کہ کسی شخص کے اندر تقویٰ ہو اور وہ نماز نہ پڑھتا ہو۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی شخص کے اندر تقویٰ ہو اور وہ روزہ نہ رکھتا ہو۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی شخص کے اندر تقویٰ ہو اور وہ باوجود استطاعت رکھنے کے حج نہ کرے۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی شخص کے اندر تقویٰ ہو اور وہ زکوٰۃ نہ دے۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی شخص کے اندر تقویٰ ہو اور وہ دین کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ ایک شخص نماز پڑھتا ہو لیکن اسکے اندر تقویٰ نہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حج تو کرے لیکن اُس کے اندر تقویٰ نہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ زکوٰ ۃ دے لیکن اس کے اندر تقویٰ نہ ہو۔ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص دہریہ ہو لیکن اس کے اندر اچھے اخلاق موجود ہوں۔ بہت سے دہریہ ایسے ہیں جو سچ بولتے ہیں اور فریب، دغا اور ظلم کو برا سمجھتے ہیں حالانکہ وہ تقویٰ کے نام سے بھی آشنا نہیں ہوتے۔ لیکن ایک شخص کے اندر یہ ساری باتیں بغیر تقویٰ کے ہو سکتی ہیں۔ ایک بچہ جس کے والدین سچ بولتے ہیں وہ بھی اُن کے پاس رہنے کی وجہ سے سچ کا عادی ہو جاتا ہے۔ لیکن جب وہ کالجئیٹ(Collegiate) بنتا ہے تو کالج کی تعلیم کے اثر سے وہ دہریہ بن جاتا ہے۔ اب اس کے اندر تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کا خوف بھی نہیں لیکن اسے جھوٹ بولنے کی عادت بھی نہیں۔ ہزاروں دہریہ ایسے ہیں جو سچ بولتے ہیں، دیانت دار ہوتے ہیں، ہمسایہ کی خدمت کرتے ہیں، لوگوں سے خوش خلقی سے پیش آتے ہیں۔ حالانکہ اُن میں تقویٰ نہیں ہوتا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کو مانتا ہی نہیں اُس کے متعلق ہم کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ متقی ہونے کی وجہ سے ان اخلاق پر کاربند ہے۔ کیونکہ تقویٰ تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا نام ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو رسمی طور پر مانتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ دوسری نیکیاں بھی بجا لاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہےوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۠1 کہ نماز پڑھنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی *** ہے۔ حالانکہ نماز تو وہی ہے جو دوسرے لوگوں کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن تقویٰ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لئے *** بن گئی ۔ جیسا کہ ایک انسان روزے رکھتا ہے لیکن متقی نہ ہونے کی وجہ سے وہ روزہ فاقہ کہلاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایسے شخص کےمتعلق فرماتے ہیں کہ وہ بھوکا پیاسا بے شک رہا لیکن اُس نے روزہ نہیں رکھا بلکہ فاقہ کیا۔2 گو ظاہری طور پر اُس کا روزہ ہی تھا لیکن تقویٰ نہ ہونے کی وجہ سے وہ روزہ فاقہ بن گیا۔ اِسی طرح حج کرنے والے کے دل میں اگر حاجی کہلانے کی خواہش ہو تو باوجود اُس کے حج کرنے کے اُسے حج کا کوئی ثواب نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ آجکل جو سب سے زیادہ شقیُّ الْقلب ہو وہ حاجی ہو گا۔ اور اِس کی ایک مثال بھی سنایا کرتے تھے کہ ایک بوڑھی عورت جو آنکھوں سے اندھی تھی ریل کے کسی سٹیشن پر اُتری اُس کے پاس تھوڑا سا اسباب تھا۔ گاڑی سے اُتر کر وہ سٹیشن پر بیٹھ گئی اور تھوڑا بہت اسباب جو اُس کے پاس تھا جمع کیا تاکہ لیٹ کر آرام کر لے۔ اُس نے چیزیں جمع کیں تو اُس کو معلوم ہوا کہ کوئی اُس کی چادر اُڑا لے گیا ہے۔ اس نے بڑے آرام سے اور بغیر کسی تکّلف کے کہا ‘‘بھائیا حاجیا! میرے پاس تے ایہی چادر سی۔ میں تے پالے نال مرجاں گی مینوں میری چادر دے دے۔’’ یعنی اے بھائی حاجی! میرے پاس تو یہی چادر ہے اگر تم نے یہ چادر مجھے نہ دی تو میں سردی سے مر جاؤں گی۔ مہربانی کر کے مجھے میری چادر دے دو۔ ابھی وہ یہ کہہ رہی تھی کہ پاس سے ہی کسی شخص نے اسے فورًا چادر دے دی اور کہا یہ لے اپنی چادر۔ لیکن تُو مجھے یہ بتا کہ تجھے یہ کس طرح معلوم ہوا کہ میں حاجی ہوں؟ تجھے نظر تو آتا نہیں (پہلے یہ رواج تھا کہ حاجی اکثر نیلا کُرتہ پہنتے تھے اور دیکھنے والا سمجھ جاتا تھا کہ یہ شخص حاجی ہے)اُس بوڑھی عورت نے جواب دیا کہ ‘‘ایہو جیہے کم حاجی ہی کردے نے’’ یعنی ایسے کام حاجی ہی کیا کرتے ہیں۔ تو اس عورت نے لمبے تجربہ کے بعد یہ سمجھ لیا تھا کہ سب سے زیادہ شقیُّ الْقلب وہی ہوتاہے جو حاجی ہو۔ گو تمام حاجی ایک جیسے نہیں ہوتے لیکن وہ لوگ جو اِس نیت سے حج کرتے ہیں کہ دنیا اُنہیں حاجی کے نام سے پکارے اورحاجی ہونے کی وجہ سے ان کی عزت کی جائے وہ اکثر شقی الْقلب ہوتے ہیں۔ اور بہت حد تک ذمہ داری ان نام کے حاجیوں کی اُن لوگوں پر ہے جو اِن کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور انہیں حاجی کے نام سے پکارتے ہیں۔ اِسی خواہش کی وجہ سے اکثر لوگ حج کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حاجی تھے، آپؐ کے صحابہؓ حاجی تھے، مگر کیا کبھی کسی نے حدیث میں پڑھا ہے کہ حاجی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یا حاجی ابوبکرؓ یا حاجی عمرؓ یا حاجی عثمانؓ یا حاجی علیؓ یا حاجی طلحہؓ یا حاجی زبیرؓ یا حاجی حسنؓ یا حاجی حسینؓ؟ حالانکہ اِن سب لوگوں نے حج کیا ہؤا تھا۔ کیا لوگوں میں سے کسی نے کبھی ان کو حاجی کہا ہے؟ لیکن اب لوگوں نے حاجی ایک عزت کا نام سمجھ لیا ہے اور اس جھوٹی عزت کے لالچ اور حرص کے ماتحت حج کرنے جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کا جسم لاکھ طواف کرے جب تک دل طواف نہیں کرتا اُس وقت تک ظاہری طواف انسان کو روحانی طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ جب میں حج کے لئے گیا تو میں نےد یکھا کہ جب لوگ عرفہ کی طرف جا رہے تھے ایک ہندوستانی نوجوان اردو کے نہایت گندے عشقیہ اشعار پڑھتا جا رہا تھا۔ ایسے حج سے اُسے کیا روحانی طور پر فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ پس یہ ہو سکتا ہے کہ حاجی ہو مگر اُس کے اندر تقویٰ نہ ہو۔ مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ متقی ہو اور حج نہ کرے۔ یہ اَور بات ہے کہ ایک متقی کے پاس اِس قدر مال نہ ہو کہ وہ حج کر سکے۔ یا مال تو اُس کے پاس ہے مگر اُس کی صحت سفر کرنے کی اجاز ت نہیں دیتی۔ یا بعض اَور مواقع ہوں جن کی موجودگی میں وہ حج کرنے کے لئے نہ جا سکتا ہو۔ مگر یہ ہو نہیں سکتا کہ اُس کے حالات اُس کے موافق ہوں اور کوئی مانع نہ ہو تو وہ حج نہ کرے۔ پس جس شخص میں تقوی اللہ موجود ہے یہ ممکن نہیں کہ اُس پر حج فرض ہو اور وہ حج نہ کرے۔ یا اُس پر زکوٰۃ فرض ہو اور وہ زکوٰۃ نہ دے۔ تقویٰ کے ساتھ یہ سب چیزیں لازم ہیں۔ غرض یہ ایک نادانی ہوتی ہے کہ تھوڑا سا کام کر کے انسان سمجھ لے کہ میں نے جو کچھ کر لیا ہے وہ میری آخرت کے لئے کافی ہے۔ کافی وافی کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہر ضرورت جو دین کو پیش آتی ہے جو شخص اُس کے پورا کرنے کے لئے کوشش کرتا ہے اور ہر قسم کی قربانی پیش کرتاہے وہی اُس وقت ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ اور جو شخص ضرورت کے وقت روگردانی کرتا ہے وہ باقی نیکیوں کو بھی کھو بیٹھتا ہے۔ اگر دین کو سَو باتوں کی ضرورت ہے اور ایک شخص نناوے کام کر لیتا ہے مگر ایک کام جس کی اُس وقت دین کو ضرورت ہے نہیں کرتا تو اُس کے وہ ننانوے کام جو اس نے کئے وہ بھی رائیگاں چلے جائیں گے ۔ اگر وہ نناوے کام کرنے کے بعد سواں کام نہیں کرتا اور یہ سواں کام ایسا ہے جس کے بغیر دین زندہ نہیں رہ سکتا تو اُس کے نناوے کام لغو اور فضول ہوں گے۔
پچھلے جمعوں میں مَیں نے فوج سے فارغ ہو کر آنےو الوں کو زندگیاں تجارت کے لئے وقف کرنے کی تحریک کی تھی۔ آج میں ایک اور مضمون شروع کرنا چاہتا ہوں۔ میرا تجربہ ہے اور میں نے اکثر دیکھا ہے کہ جن لوگوں نے دنیوی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے وہ عام طور پر دینی امور میں بھی بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ کیونکہ تعلیم کی وجہ سے ان کے افکار میں تنوّع پیدا ہو جاتا ہے اور ہر ایک بات کو وہ بنظرِ ِغائردیکھتے ہیں۔ جو شخص پڑھالکھا ہو وہ بوجہ سلسلہ کی کتب پڑھنے کے اور اخبار کے مطالعہ کے دینی معلومات زیادہ رکھتا ہے۔ اسے آسانی سے قرآن مجید پڑھنے اور نئے نئے سوالوں کا جواب سوچنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اور پڑھے لکھے لوگ عام طو رپر دین میں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ پھر دنیوی لحاظ سے قومی ترقی بھی تعلیم سے وابستہ ہے۔ ملک کے تمام کام، سیاست کے تمام کام، قوم کے تمام کام تعلیم سے وابستہ ہیں۔درحقیقت ہر قسم کی ترقی علم سے وابستہ ہے۔ جیسی ہماری زمین ہے ویسی انگلستان، جرمنی، امریکہ اور دیگر ممالک کی زمین ہے۔ لیکن جس رنگ میں وہ فائدہ اٹھاتے ہیں ہم نہیں اٹھاتے اور نہ ہی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان ممالک کا زمیندار نہایت آرام و آسائش کی زندگی بسر کرتا ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارا زمیندار سُوکھی روٹی کھاتا ہے اور نہایت تنگی سے دن بسر کرتا ہے۔ اگر اس کے پاس کُرتہ ہے تو تہہ بند نہیں۔ اگر تہہ بند ہے تو کُرتہ نہیں۔ کچھ عرصہ ہوا میں نے ایک کتاب پڑھی۔ جس میں مصنف نے یہ بیان کیا ہے کہ انگلستان میں پانچ ایکڑ زمین پر تین خاندان تین سال تک گزارہ کرتے رہے۔ اور پھر تین سال کے بعد ہر ایک کے حصے میں پانچ چھ سَو پونڈ آئے۔ پانچ ایکڑ زمین پر تین خاندانوں کا گزارہ کرنا اور پھر اِتنی رقم کا بچ جانا بڑے تعجب کی بات ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ تین نوجوانوں نے زراعت کے لئے پانچ ایکڑ زمین ٹھیکے پر لی۔ انہوں نے تین سال تک اس زمین میں کاشتکاری کا کام کیا۔ اِس دوران میں وہ اپنے خاندانوں کا گزارہ بھی اُسی سے کرتے رہے۔ تین سال کے بعد جب انہوں نے حساب کیا تو ان میں سے ہر ایک کے حصہ میں پانچ چھ سَو پونڈ یعنی سات آٹھ ہزار روپیہ علاوہ کھانے اور گزارہ کے آیا۔ لیکن ہمارے ملک میں پانچ ایکڑ والا زمیندار معمولی کھانے پینے کا گزارہ بھی مشکل سے چلاتا ہے۔ تین خاندانوں کا پانچ ایکڑ زمین پر گزارہ کرنا اور پھر ان میں سے ہر ایک کا پانچ چھ سَو پونڈ کا حصہ وار ہونا صرف اِس وجہ سے تھا کہ کام کرنے والے نوجوان تعلیم یافتہ تھے۔ پس تعلیم انسان کی ہر رنگ میں درستی کرتی ہے۔ ہماری جماعت کا اکثر حصہ زمیندار ہے۔ میں غیر ملکوں سے ہو کر آنےو الے دوستوں سے اُن ملکوں کے زمینداروں کے متعلق اکثر پوچھتارہتا ہوں کہ ان ملکوں کے زمینداروں اور ہمارے ملک کے زمینداروں میں کیا فرق ہے۔ ان سے حالات سننے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ نہایت چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن کا وہ لوگ خیال رکھتے اور نہایت معمولی معمولی چیزوں سے بہت بڑا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا زمیندار اُن باتوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے اُن سے دسواں یا بیسواں بلکہ سواں حصہ اپنی زمین سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جوانی سے ہی ہر قسم کےعلموں کے مطالعہ کا شوق رہا ہے۔ ایک دفعہ مجھے ایک انگریزی زبان کی کتاب کے مطالعہ کا شوق پید اہوا جو مرغی خانہ کے متعلق تھی۔ یہ کتاب کئی جلدوں میں تھی اور تین سو روپیہ میں آئی۔ جب میں نے اُسے پڑھنا شروع کیا تو ابتدائی چند سو صفحات میں صرف اِس بات پر زور دیا گیا تھا کہ مرغی خانہ میں مرغیوں کے پانی پینے کا کٹورا فلاں جگہ رکھا جائے، فلاں جگہ گھاس رکھی جائے۔ میں حیران تھا کہ اتنا روپیہ خرچ کیا ہے لیکن اِس کتاب میں کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ میں نے اُس کتاب کو پھر آگے پڑھنا شروع کیا تو اس نے آگے جا کر لکھا تھا کہ مرغی خانہ سے ہر آدمی کو نقصان ہی ہوتاہے خواہ وہ کسی ملک میں مرغی خانہ کھولے۔ لیکن میں نے جوباتیں اِس کتاب میں بیان کی ہیں اُن پر عمل کرنے سے ضرور فائدہ ہو گا۔ پانی کے کٹورے ایسے طور پر رکھے جائیں کہ ان میں پانی ڈالنے کے لئے زیادہ وقت کی ضرورت نہ ہو۔ مرغیوں کی نگرانی ایسے طور پر کی جائے کہ تھوڑے آدمیوں کی ضرورت ہو۔ اِس ساری بحث کے بعد وہ کہتا ہے کہ مرغی خانے کا سارا فائدہ مرغیوں کے پروں اور اُن کی بِیٹھوں میں ہے۔ مرغی جو انڈا دیتی ہے وہ خود ہی کھا جاتی ہے اور جو چوزے نکالتی ہے وہ بھی خود ہی کھا جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ ان کی قیمت اُنہیں پر خرچ ہو جاتی ہے۔ لیکن مرغی کے جھڑے ہوئے پر اور بِیٹھیں ہیں جو نفع کا موجب بنتی ہیں۔ لیکن ہمارے کتنے زمیندار ہیں جو مرغی کے پروں یا بِیٹھوں کو کام کی چیز سمجھتے ہیں۔ حالانکہ مرغی کی بِیٹھ اعلیٰ قسم کی کھاد ہوتی ہے اور اس کے پروں سےبہت سی خوشنما چیزیں تیار ہوتی ہیں۔لیکن ہمارے زمیندار کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ مرغی کی بِیٹھ ایک اعلیٰ قسم کی کھاد ہے یا مرغی کے پَر بھی کسی استعمال میں آتے ہیں۔ اگر اسے علم ہوجائے تو وہ انہیں سنبھال کر رکھے۔ ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھنے سے آمدنی بہت بڑھ سکتی ہے۔ پس دوسرے ملکوں کی آمدنی زیادہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ ان کی تعلیم اورہماری تعلیم میں بہت بڑا فرق ہے۔ چونکہ دوسرے ملکوں کےلوگ عام طور پر اقتصادیات کا علم اچھی طرح جانتے ہیں اس لئے بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں سے نفع حاصل کر لیتے ہیں۔ مثلاً یہی پروں اور بِیٹھوں کے متعلق جیسا کہ اس کتاب کے مصنف نے لکھا ہے بہت کچھ نفع اٹھایا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح دوسرے ملکوں کے لوگ جو کام بھی کرتے ہیں اُس سے بہت عمدہ گزارہ کی صور ت نکال لیتے ہیں۔ مگر ہمارے ملک کے لوگ علم کی کمی کی وجہ سے اکثر کاموں میں ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں۔ اِس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جو کام کیا جاتا ہے وہ علم کے ماتحت نہیں۔ بلکہ پہلے رواج کے ماتحت کیا جاتا ہے۔ جس طرح پہلے لوگوں نے کیا اُسی طرح بعد میں آنے والے اُس کو کرتے جار ہے ہیں۔ کوئی ترمیم اس میں نہیں کی جاتی۔ مثلاً پنجاب کا زمیندار عام طور پر ضرورت سے زائد جانور نہیں پالتا اور زراعت کا کام زیادہ کرتا ہے۔ لیکن اسکے مقابل پر سندھی زمیندار جانور زیادہ پالتا ہے اور زراعت کی طرف کم توجہ کرتا ہے۔ ایک پنجابی جب سندھ میں جاتا ہے تو اُس کا سندھی کاشتکار کے ساتھ ٹکراؤ ہو جاتا ہے کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ زمین خالی پڑی ہےاور اُس نے پندرہ بیس یا پچیس تیس گائیں رکھی ہوئی ہیں اور سارا دن اُن کو چارہ وغیرہ کھلانے میں گزار دیتا ہے زمین کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ پنجابی زمیندار اس طریق کو اپنے لئے مُضِر سمجھتا ہے۔ لیکن اگر ہمارے ملک میں تعلیم بڑھ جائے تو یہ ساری دقتیں آپ ہی آپ دور ہو جائیں۔
کل کے اخبار میں مَیں نے ایک امریکن شخص کا مضمون پڑھا ہے۔ وہ ہندوستان کے متعلق کہتاہے کہ ہندوستانی جن گڈّوں کے ذریعہ کام کرتے ہیں اگر ان کو چھوڑ دیں اور ہلکی قسم کے گڈّے استعمال کریں تو ان کی مالی حالت بہت حد تک درست ہو سکتی ہے۔ جو گڈّے آجکل ہیں وہ بہت پرانی طرز کے ہیں اوربہت بوجھل ہیں۔ ان میں جانوروں کو بہت زیادہ طاقت صَرف کرنی پڑتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ چلتے ہیں۔ وقت بہت صَرف ہوتا ہے۔ اگر ہلکی قسم کے گڈّے ہندوستانی لوگ استعمال کریں تو بہت زیادہ فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر گڈّے ہلکے ہوں تو ان میں ایک بیل بھی کام دے سکتا ہے اور وقت بھی تھوڑا صَرف ہو۔ جب میں نے اِس مضمون کو پڑھنا شروع کیا تو پہلے میں نے اسے غیر معقول خیال کیا لیکن جُوں جُوں پڑھتا گیا میرا دل مانتا گیا کہ اگر ہندوستانی لوگ اِس طرف توجہ کریں تو بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمارے ملک کا پرانا گڈّا جس کو دو بیل بڑی مشکل سے کھینچتے ہیں اور سارے دن میں ایک دفعہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بوجھ لے جاتے ہیں اگر ہلکا ہو تو خواہ دو دفعہ بھی اس بوجھ کو لے جائے پھر بھی آسانی سے اور آدھے وقت میں وہ بوجھ لے جائے گا۔ غرض بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ آجکل ضروریاتِ زندگی کو عمدہ طور پر پورا کرنا علم کے بغیر ممکن نہیں رہا۔
میں اپنی جماعت کے متعلق دیکھتا ہوں کہ جماعت کی ابتدائی تعلیم تو اچھی ہے اور اکثر لوگ سلسلہ کی کتب پڑھنے کے لئے اردو سیکھ لیتے ہیں۔ جتنی تعداد ہماری جماعت میں لکھے پڑھے لوگوں کی ہے وہ دوسری اقوام میں نہیں پائی جاتی۔ دوسری قومیں تو تعلیم میں بہت ہی پیچھے ہیں۔ ہندوؤں میں بھی اتنی تعداد پڑھے لکھے لوگوں کی نہیں جتنی ہم میں ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ تعلیم کو اِس سے بھی زیادہ بڑھایا جائے۔ اور بلحاظ تعلیم کے پھیلاؤ کے اِس حد کو اپنے لئے کافی نہ سمجھا جائے۔ چونکہ پرائمری تک کوئی خرچ وغیرہ نہیں ہوتا اس لئے زمیندار لوگ اپنے بچوں کو پرائمری تک پڑھا لیتے ہیں اور پھر ان کی تعلیم بند کر دیتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ پہلے جو اپنے بچوں کو پرائمری تک تعلیم دلواتے ہیں وہ کم از کم مڈل تک اور جو مڈل تک تعلیم دِلوا سکتے ہیں وہ کم از کم انٹرنس تک اور جو انٹرنس تک پڑھا سکتے ہیں وہ اپنے لڑکوں کو کالج میں تعلیم دِلوائیں اور انہیں کم از کم بی اے کرائیں۔ چونکہ ہم تبلیغی جماعت ہیں اِس لئے ہمارے لئے لازمی ہے کہ ہم سَو فیصدی تعلیم یافتہ ہوں۔ اور اگر کوئی قوم سَو فیصدی تعلیم یافتہ ہونا چاہے تو اُس کے لئے لازمی ہے کہ اُس کی کُل تعداد کا چھ فیصدی ہر وقت سکولوں اور کالجوں میں ہو۔ اِس وقت پنجاب میں ہماری تعداد اڑھائی لاکھ کے قریب ہے۔ اس کا یہ مطلب ہےکہ پنجاب میں پندرہ ہزار لڑکا ہمارا ہائی سکولوں تک جانا چاہیے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پندرہ بیس سال کے اندر اندر تمام جماعت تعلیم یافتہ ہو جائے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ ہر سال ہمارے ڈیڑھ دو ہزار لڑکے میٹرک پاس کریں۔ لیکن موجودہ حالت یہ ہے کہ مشکل سے سو ڈیڑھ سو لڑکے ہر سال میٹرک پاس کرتے ہیں۔ اگر یہی رفتا ررہے جو اِس وقت ہے تو پھر پندرہ سال کے بعد ہم بجائے سو فیصدی تعلیم یافتہ ہونے کے دس فیصدی تعلیم یافتہ ہوں گے جو ایک افسوسناک بات ہے۔ اور یہ تعداد ایسی نہیں کہ اِس پر خوشی کا اظہار کیا جا سکے بلکہ ایسی چیز ہے کہ اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ پندرہ بیس سال کے بعد ہمارا ہر فرد تعلیم یافتہ ہو بلکہ اچھا تعلیم یافتہ ہو۔ اگر ہر سال ڈیڑھ دو ہزار طالب علم انٹرنس پاس کریں اور ان میں سے اکثر حصہ کالجوں میں داخل ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چار سال کے بعد جماعت کو ایک ہزار بی اے پاس نوجوان مل جائیں گے۔ اگر اس معیار پر جو میں نے پیش کیا ہے جماعت پورا اُترنے کی کوشش کرے اور جو سکیم میں نے پیش کی ہے اس پر عمل کرنے لگ جائے تو کوئی قوم ایسی نہیں جو کسی رنگ میں بھی ہمارے مقابل پر آسکے۔ اگر جماعت کوشش کرے تو یہ بات کوئی مشکل نہیں۔ کیونکہ کسی قوم کی تنطیم ایسی نہیں جیسی ہماری جماعت کی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جماعت کو وہ مقام عطا کیا ہے کہ دوسری جماعتوں کو حاصل نہیں۔ اس لئے اگر جماعت اس بات کی طرف توجہ کرے تو وہ اس سکیم پر آسانی سے عمل پیرا ہو سکتی ہے۔ آپ لوگوں نے خداتعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔ کیونکہ خلفاء تو ایک واسطہ ہیں اصل بیعت خداتعالیٰ کی ہی ہوتی ہے۔ اس لئے آپ کا فرض ہے کہ باقی دنیا کو بھی خداتعالیٰ کے ہاتھ پر جمع کریں اور یہ کام سوائے تعلیم کے نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ لوگوں کی دینی اصلاح کے لئے اپنی دنیوی اصلاح کرنی ضروری ہوتی ہے اور دینی اصلاح کے لئے دنیوی سامانوں کا استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس سے پیشتر بہت سے دوستوں نے مجھے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ میں کوئی ایسی تعلیمی سکیم تیار کروں۔ لیکن میں نے عمداً ایسی سکیم کے اعلان کرنے سے گریز کیا۔ کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ اگر جماعت کو اس مقام پر لایا گیا تو بجائے دین میں ترقی کے تنزل کی صورت ہو گی۔ کیونکہ ہمارے نوجوان آریوں، سکھوں یا عیسائیوں کے کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے تو بجائے دینی حالت کی اصلاح کے ان کی دینی حالت خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔ اب خداتعالیٰ کے فضل سے ہمارا اپنا کالج کھل گیا ہے جہاں طلباء کو ہر قسم کی سہولت میسر آسکتی ہے اور خداتعالیٰ کے فضل سے ان کی دینی حالت کی بھی بہت اصلاح ہو سکتی ہے۔ اب ضرورت ہے اِس بات کی کہ کالج میں کثرت سے طلباء آئیں۔ اگر کالج میں پروفیسروں کی کمی ہو تو ان کی تعداد بڑھائی جا سکتی ہے۔ خالصہ کالج میں اِس وقت تیرہ سو کے قریب لڑکے پڑھتے ہیں۔ اگر یہاں بھی اتنی تعداد ہو جائے تو باہر کے کالجوں کے لڑکوں کی اصلاح بہت آسانی سے ہو سکتی ہے۔ کیونکہ
ع کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کالج کے لڑکے کالج کے لڑکوں سے بہت حد تک اثر قبول کرتے ہیں۔ اگر تمام طالب علم قادیان میں کالج کی تعلیم کے لئے نہ آسکیں تو لاہور میں پڑھنے والوں کے لئے احمدیہ ہوسٹل کو بڑھایا جا سکتا ہے اور سَو دو سَو جتنی بھی ضرورت ہو احمدیہ ہوسٹل میں ان کے لئے انتظام کیا جا سکتا ہے اور ان کو اپنی نگرانی میں رکھا جا سکتا ہے۔ جب ہوسٹل کے لڑکے دوسرے کالجوں کے لڑکوں سے ملیں گے تو غیر احمدی لڑکے ضرور ان سے متاثر ہوں گے۔ اگر ایک اَن پڑھ باپ اپنے لڑکے کو جو کالج میں پڑھتا ہے نماز کی تلقین کرے تو اس پر اثر نہیں ہوتا کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ میرا باپ تو اَن پڑھ ہے اس کو کیا علم ہےکہ نماز پڑھنے سے فائدہ ہوتا ہے یا نقصان۔ لیکن جب ایک ایم اے کا طالب علم بی اے کے طالب علم کو نصیحت کرے کہ نماز پڑھا کرو تو وہ ضرور اس بات کی طرف توجہ کرے گا۔ کیونکہ وہ اسے تعلیم میں اپنے سے زیادہ قابل سمجھتا ہے اور وہ سمجھے گا کہ یہ شخص جو مجھ سے زیادہ قابل ہے زیادہ عقلمند ہے۔ یہ نماز پڑھتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی نماز میں کوئی خوبی ہے۔ جب تک ہمارا اپنا کالج نہ تھا اُس وقت تک اِس سکیم کا موقع نہ تھا۔ مگر اب موقع آچکا ہے۔ اور دوستوں کا فرض ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ طالب علم تعلیم الاسلام کالج میں پڑھنے کے لئے بھیجیں۔ اگر زیادہ تعداد میں طالب علم پڑھنے کے لئے نہ آئیں تو وہ غرض جس کے لئے کالج کھولا گیا تھا پوری نہیں ہو سکتی اور کالج کا کھولنا بالکل بے فائدہ اور عبث ہو جاتا ہے۔ اِس لئے اب ضرورت ہے اِس بات کی کہ زیادہ سے زیادہ طالب علم ہمارے ہائی سکولوں میں تعلیم حاصل کریں اور اس کے بعد کالج میں داخل ہوں۔ اس کے لئےمیں صدر انجمن کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فوری طور پر نظارت تعلیم وتربیت کو ایک دو انسپکٹر دے۔ جو سارے پنجاب کا دَورہ کریں اور جو اضلاع پنجاب کے ساتھ دوسرے صوبوں کے ملتے ہیں اور ان میں احمدی کثرت سے ہوں اُن کا بھی دَورہ ساتھ ہی کرتے چلے جائیں۔ یہ انسپکٹر ہر ایک گاؤں اور ہر ایک شہر میں جائیں اور لسٹیں تیار کریں کہ ہر جماعت میں کتنے لڑکے ہیں؟ ان کی عمریں کیا ہیں؟ ان میں کتنے پڑھتے ہیں اور کتنے نہیں پڑھتے؟ جو نہیں پڑھتے ان کے والدین کو تحریک کی جائے کہ وہ انہیں تعلیم دلوائیں اور کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکے ہائی سکولوں میں تعلیم حاصل کریں۔ اور ہائی سکولوں سے پاس ہونے والے لڑکوں میں سے جن کے والدین استطاعت رکھتے ہوں اُن کو تحریک کی جائے کہ وہ اپنے بچے تعلیم الاسلام کالج میں پڑھنے کے لئے بھیجیں۔ اگر جماعت ابھی سے اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو وہ چار پانچ سال کے اندر اندر بہت اعلیٰ طور پر تعلیم میں منظّم ہو سکتی ہے۔ ہماری جماعت اِس وقت تقریباً پندرہ فیصدی تعلیم یافتہ ہے۔ لیکن ہمارے لئے لازمی ہے کہ ہمارے تمام احمدی سو فیصدی تعلیم یافتہ ہوں۔ لیکن جیسا کہ میں بتا چکا ہوں موجودہ رفتار سے آئندہ دس بارہ سال میں دس فیصدی اَور ترقی کی جا سکتی ہے۔ گو اس وجہ سے ہم سو فیصدی تعلیم یافتہ نہیں ہو سکتے کہ ہماری تعداد مقرر اور معیّن نہیں بلکہ ہر سال بڑھتی رہتی ہے۔ جن قوموں کی تعداد معیّن اور مقرر ہو وہ سو فیصدی تعلیم یافتہ ہو سکتی ہیں۔ لیکن جس جماعت کے اندر ہر سال نئے آدمی شامل ہوتے رہیں وہ سو فیصدی تعلیم یافتہ نہیں ہو سکتی۔ فرض کرو کہ پندرہ سال کے اندر ہم اپنے تمام بچوں کو تعلیم یافتہ بنا دیتے ہیں اور انہیں ایسے مقام پر پہنچا دیتے ہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ ہمارے بچے سوفیصدی تعلیم یافتہ ہیں۔ لیکن اس پندرہ سال کے عرصہ میں پندرہ بیس لاکھ یا اس سے کم وبیش جو لوگ احمدی ہوں گے وہ غیر احمدیوں سے آئیں گے اور ضروری نہیں کہ وہ سب کے سب تعلیم یافتہ ہوں۔ اس لئے جب وہ آئیں گے تو وہ ہماری سو فیصدی کو باطل کردیں گے اور اس سوفیصدی کو پچاس، ساٹھ یا ستّر، اسّی فیصدی بنا دیں گے۔ بہرحال ہمارا فرض ہے کہ جو شامل ہو چکے ہیں اُن کو سَو فیصدی تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش کریں۔ ہمارا ہر ایک بچہ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرے۔ اگر ہم اِس سکیم میں کامیاب ہو جائیں تو ہم تجارت میں سب سے زیادہ کامیاب ہوں گے۔ صنعت و حرفت میں سب سے زیادہ کامیاب ہوں گے، ملازمتوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ کامیاب ہوں گے۔
تعلیم حاصل کرنے کے بعد اگر ہمارے نوجوان پیشوں کو اختیار کریں گے تو سب سے زیادہ کامیاب کاریگر ہوں گے۔ اگر تجارت کریں گے تو سب سے اعلیٰ تاجر ہوں گے۔ بے شک تمام نوجوانوں کو ملازمتیں نہیں مل سکتیں لیکن اگر تعلیم یافتہ فٹر(Fitter) کا کام بھی کریں گے تو وہ دوسرے تمام کاریگروں سے بڑھ جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہوزری کی کامیابی میں بابو اکبر علی صاحب کا بہت کچھ دخل تھا کیونکہ وہ سرکاری کارخانوں میں کام کر چکے تھے اور لوہاروں اور ترکھانوں کے کام سے خوب واقف تھے۔ ان کی انگریزی تعلیم کافی تھی۔ اگر انہیں کسی معاملہ میں دِقت پیش آتی تو وہ انگریزی کتابوں کا مطالعہ کر لیتے تھے۔ اور اِس دِقت کو حل کر لیتے تھے۔ غرض دستی کام کے ساتھ اگر علم مل جائے تو وہ سونے پر سہا گہ کا کام دیتا ہے۔ اگر ایک نوجوان اچھا تعلیم یافتہ ہے تو وہ جرمن زبان سیکھ سکتا ہے یا فرانسیسی زبان سیکھ سکتا ہے اور ان ملکوں کی کتابوں سے دستکاری کے بہت سے طریقےجو ہمارے ملک میں رائج نہیں ہیں اُن کو رائج کر سکتا ہے۔ یا سائنس کی کتابوں میں سے اپنے فن میں بہت کچھ مدد لے سکتا ہے۔
اِسی طرح زمینداروں کو اعلیٰ تعلیم دلائی جائے تاکہ وہ غیر ملکوں کے زراعت کے اصول کے متعلق علم حاصل کر سکیں۔ ابھی تک ہندوستان میں گورنمنٹ کی طرف سے دیہات میں اعلیٰ تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہوا۔ اور جس زمیندار کی دو چار ایکڑ زمین ہو وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کس طرح دلا سکتا ہے۔ بے شک پرائمری تعلیم کا انتظام گورنمنٹ کی طرف سے کیا گیا ہے لیکن موجودہ زمانہ کی علمی ترقی کے مقابلہ میں پرائمری تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور جن زمینداروں کے پاس اتنی تھوڑی زمین ہے اُن سے یہ اُمید نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں کیونکہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ بچوں کی تعلیم کا خرچ برداشت کر سکیں۔ تو اس کے لئے میرے نزدیک ایک تجویز یہ ہے کہ دیہات میں تعاونِ باہمی کیا جائے۔ جس طرح ہماری جماعت دوسرے کاموں کے لئے چندے جمع کرتی ہے اِسی طرح ہر گاؤں میں اس کے لئے کچھ چندہ جمع کر لیا جائے جس سے اُس گاؤں کےا علیٰ نمبروں پر پاس ہونے والے لڑکے یا لڑکوں کو وظیفہ دیا جائے۔ اِس طرح کوشش کی جائے کہ ہر گاؤں میں سے دو تین طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیں۔ جب یہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیں گے تو دوسرے لوگوں کے سامنے ایک نمونہ ہو گا اور وہ کوشش کریں گے کہ ان کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر یں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض اچھے کھاتے پیتے خاندانوں کے لڑکے باوجود اعلیٰ تعلیم کی استطاعت رکھنے کے تھوڑی سی تعلیم حاصل کر کے چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہےکہ اُن کے گاؤں میں کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اُن کے لئے بطور نمونہ نہیں ہوتا۔ لیکن جن دیہات میں تعلیم کا شوق پیدا ہوجاتا ہے وہاں والدین اپنی زمین رہن رکھ کر بھی بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اُن کے سامنے کوئی نہ کوئی نمونہ ہوتا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ فلاں کے لڑکے نے بی اے پاس کیا اور وہ اچھے عُہدہ پر ہے تو اُنہیں بھی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اگر اِس طرح ہر ایک گاؤں میں ایک دو نوجوانوں کو بی اے تک تعلیم دلوا دی جائے تو باقی لوگوں کو خود بخود شوق پیدا ہو جائے گا۔
پس عہدیداروں کا فرض ہے کہ وہ اس سکیم کی طرف پورے طو رپر متوجہ ہوں اور بچوں کےو الدین کو مجبور کریں کہ وہ اپنے بچوں کو کم از کم میٹرک تک اور اگر استطاعت رکھتے ہوں تو بی اے تک تعلیم دلوائیں۔ مجبور سے میرا مطلب یہ ہے کہ انہیں میرا خطبہ پڑھ کر سنایا جائے اور اعلیٰ تعلیم کے فوائد اُن کےسامنے بار بار بیان کئے جائیں اور طالب علموں کی پڑھائی کی نگرانی کی جائے کہ وہ تعلیم میں کیسے ہیں۔ ان کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے کہ وہ تعلیم میں پورے طور پر دلچسپی لیں۔ اور جو انسپکٹر دورہ پر جائیں اُن کا فرض ہے کہ وہ احمدی لڑکوں کو تعلیم کے فوائد بتائیں اور اُن کے والدین کو نصیحت کریں کہ وہ ان کی پڑھائی مکمل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر سَو میں سے دس طالب علم بھی اچھے نکل آئیں تو بھی جماعت کو تعلیمی لحاظ سے بہت بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ میں نے اِس سکیم کو جماعت کے سامنے رکھ دیا ہے اگر جماعت اس پر عمل کرے گی تو دینی اور دنیوی طور پر تمام جماعتوں پر خدا کےفضل سے فوقیت حاصل کرے گی۔ میرا ارادہ ہے کہ پہلے پنجاب اور اسکے ساتھ ملتے ہوئے یو پی اور صوبہ سرحد کےعلاقوں میں اور پھر آہستہ آہستہ دوسرے تمام صوبوں میں بھی منظّم طور پر کوشش کی جائے۔ پس جماعت اگر چاہتی ہے کہ وہ بہت جلد دنیا پر چھا جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیم کو اپنے اندر عام کرے۔ افریقہ میں ہماری کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں ہمارے سکول قائم ہیں۔ اور زیادہ تر وہاں کے لوگ سکولوں کی وجہ سے احمدیت کا مطالعہ کرتے ہیں۔ لیکن افریقہ میں خرچ کم ہے اِس لئے وہاں سکول قائم کرنے کے لئے زیادہ روپیہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس سکیم کو پہلے میں نے مصلحتاً بیان نہیں کیا تھا کیونکہ ہمارا کالج کوئی نہ تھا۔ لیکن اب جبکہ میں نے یہ سکیم بیان کر دی ہے جماعت کو چاہیے کہ پوری توجہ سے اس پر عمل کرے اور دفتر تعلیم کو چاہیے میری ہدایت کے مطابق جلدی انسپکٹر مقرر کرے۔ اگر ہم اپنے تعلیمی پروگرام کو مکمل کر لیں تو ہندوستان کی کوئی جماعت ایسی نہ ہو گی جو جماعت احمدیہ کا مقابلہ کر سکے۔ اگر ہماری جماعت تعلیم میں اعلیٰ ہو تو لازمی بات ہے کہ زندگی کے باقی شعبوں میں بھی باقی جماعتیں اِس سے شکست کھائیں گی۔ ’’
(الفضل مورخہ 30؍اکتوبر1945ء)
1: الماعون:5
2: بخاری کِتَاب الصَّوْمِ باب مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ (الخ)

36
بچوں کی تعلیم کے متعلق ماں باپ اور استادوں
کے فرائض
(فرمودہ26؍اکتوبر1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدفرمایا:
‘‘چونکہ آج پھر میری کمر درد میں زیادتی ہو گئی ہے اور میں زیادہ دیر تک کھڑا نہیں ہو سکتا اس لئے میں آج نئے موضوع کو شروع کرنے کی بجائے گزشتہ خطبہ جمعہ میں جو میں نے تعلیم کے متعلق جماعت کو توجہ دلائی تھی اُس کے متعلق مزید توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا تھا کہ تعلیم بہت حد تک اخلاق کی درستی کا بھی موجب ہوتی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو طالب علم صحیح طور پر اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہو اُس کے پاس اِتنا وقت ہی نہیں ہوتاکہ وہ آوارہ گردی کر سکے۔ اسے مدرسہ آنے جانے اور مدرسہ میں پڑھنے کے لئے کم ا زکم ساڑھے چھ سات گھنٹہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ سکول جانےسے پہلے تقریباً آدھا گھنٹہ اُسے ناشتہ کرنے، کتابیں سنبھالنے اور سکول پہنچنے میں لگ جاتا ہے۔ اسی طرح سکول سے گھر واپس آنے تک بھی آدھ گھنٹہ لگ جاتاہے اور اگر پانچ گھنٹے سکول کی پڑھائی کا وقت سمجھا جائے تو چھ گھنٹے کے قریب اِس طرح لگ جاتے ہیں۔ اگر گھر دُور ہو تو سات گھنٹے لگ جائیں گے۔ اگر طالب علم دیانتداری سے اپنا سکول کا کام کریں اور والدین ان کی نگرانی کریں تو کم از کم تین گھنٹے گھر پر سٹڈی (Study) کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ سات اور تین دس
گھنٹے ہوئے۔ اور اگر ماں باپ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ اُن کا لڑکا مسجد میں باجماعت نماز کے لئے جاتا ہے یا نہیں اور میرے نزدیک اِس بات کا خیال نہ رکھنا ایمان کی کمی کی علامت ہے تو پانچوں نمازوں کے لئے اُسے دو گھنٹہ وقت کی ضرورت ہے۔ پھر اگر سکول والوں نے اُس کی ورزش کے لئے کھیل کا کوئی انتظام کیا ہے اور کھیل میں اُس کا شامل ہونا ضروری رکھا ہے تو دو گھنٹے اُسے کھیل کے میدان میں آنے جانے اور کھیلنے میں لگ جائیں گے۔ یہ کُل چودہ گھنٹے ہوئے۔ اور بچوں کی صحت کے لحاظ سے ان کے لئے سات گھنٹے کی نیند ضروری ہوتی ہے۔ اگر زیادہ سوئیں تو آٹھ گھنٹے کافی ہوتے ہیں اور آدھ گھنٹہ نیند آنے تک اور آدھ گھنٹہ نیند سے بیدار ہونے اور کسی دوسرے کام کو شروع کرنے تک سمجھا جائے۔ اور نیند کے لئے بجائے سات کے آٹھ گھنٹے سمجھ لئے جائیں تو آٹھ اور ایک یہ نو گھنٹے ہو گئے اور چودہ اور نو کُل تئیس گھنٹے ہو گئے۔ باقی ایک گھنٹہ کھانے پینے، پیشاب پاخانہ اور دوسری حاجات کے لئے رہ جاتا ہے۔ درحقیقت اِس سے بھی زیادہ وقت ان حوائج پر لگ جاتا ہے۔
پس طالب علموں کی زندگی کا یہ چوبیس گھنٹے کا پروگرام ہے۔ اگر بچوں کا اِس رنگ میں پروگرام ہو تو ناممکن بات ہے کہ اُنہیں آوارہ گردی کے لئے وقت مل سکے۔ اور اگر والدین اُنہیں اِس پروگرام پر عمل کرائیں گے تواُنہیں سب کام بھی وقت پر سرانجام دینے کی عادت ہو جائے گی۔ اگر ایک طالب علم محنت سے کام کرے اور اپنے وقت کی قدر کرے اور والدین اُس کی نگرانی کا خیال رکھیں تو وہ دس سال میں میٹرک اور چودہ سال میں بی اے پاس کر سکتا ہے۔ اور اگر دینیات کی تعلیم حاصل کرے تو آٹھ سال پہلے مڈل پاس کرنے تک اور آٹھ سال جامعہ میں یعنی کُل سولہ سال میں دینیات کا علم حاصل کر سکتا ہے۔ گو تمام طالب علم دس سال میں میٹرک اور چودہ سال میں بی اے پاس نہیں کر سکتے۔ ان میں کئی ایسے ہوتے ہیں جو بعض دفعہ فیل ہو جاتے ہیں۔ بعض طالب علم تو پورے طور پر پڑھائی میں دل نہ لگانے کی وجہ سے اور تعلیم کی طرف توجہ نہ کرنے کی وجہ سے فیل ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی دماغی قوت اچھی نہیں ہوتی اور اُن کا حافظہ کام نہیں کرتا۔ باوجود یاد کرنے کے انہیں یاد نہیں ہوتا۔ میں نے اس کے متعلق کئی دفعہ یہ واقعہ سنا یاہے کہ ہمارے ہاں ایک نوکرانی تھی جس کا حافظہ بہت کمزور تھا۔ اُسے جب کبھی قرآن مجید پڑھنے کے لئے کہا جاتا تو وہ یہ کہہ دیتی کیا کروں کوشش تو کرتی ہوں لیکن میرا حافظہ اچھا نہیں اس لئے مَیں نہیں پڑھ سکتی۔ اس کے حافظہ کی یہ حالت تھی کہ صبح کو وہ ایک آیت یاد کرنے لگتی اور شام تک اُسی ایک آیت کو یاد کرتی رہتی۔ اتفاق سے اُس کی شادی بھی ایک ایسے شخص سے ہوئی جو ملّاں تھے اور اُنہیں دین کا شوق تھا۔ وہ صبح کے وقت اپنے خاوند سے ایک آیت پڑھ لیتی اور سارا دن اُسے یاد کرتی رہتی۔ ایک دن وہ عصر کے وقت مصالحہ پیستی جا رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنا سبق بھی دُہراتی جا رہی تھی۔ اور وہ سبق یہ تھا۔ ‘‘جا بھا نوں آبھیناں۔ جا بھانوں آبیناں۔’’ کسی نے پوچھا یہ کیا کہہ رہی ہو؟ تو اُس نے جواب دیا میں قرآن مجید یاد کر رہی ہوں۔ جب اسے کہا گیا کہ یہ تو قرآن مجید کی آیت نہیں ہے تو اس نے جواب دیا کہ انہوں نے تو مجھے یہی پڑھایا۔ اُس کی مراد اپنے خاوند سے تھی کہ اُس نے مجھے یہی سبق دیا ہے۔ آخر اُن سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اُس کا سبق یَعْلَمُ مَا بَیْنَ 1تھا جو صبح سے بگڑتے بگڑتے شام تک‘‘ جا بھانوں آبھیناں’’ بن گیا۔ تو بعض طالب علم کمزور حافظے والے بھی ہوتے ہیں۔ جو طالب علم ایسے ہوں گے وہ دس کی بجائے گیارہ یا بارہ سال میں میٹرک کر لیں گے۔ لیکن جو اچھے حافظے والے ہیں وہ دس سال میں میٹرک اور چودہ سال میں بی اے کر لیتے ہیں۔ اور بچے عام طور پر عمر کے پانچویں یا چھٹے سال سکول میں داخل ہو تے ہیں۔ اس لحاظ سے طالب علم میٹرک پندرہ سولہ سال کی عمر میں اور بی اے اُنیس بیس سال کی عمر میں اور دینیات کا علم بیس اکیس سال کی عمر میں حاصل کر لیتے ہیں۔ اور بچوں کا بیس سال تک کا زمانہ ہی آوارہ گردی کا زمانہ ہوتا ہے۔ اگر اس پروگرام پر جو میں نے بیان کیا ہے عمل کیا جائے تو طالب علموں پر آوارہ گردی کا زمانہ آہی نہیں سکتا۔ طالب علم کےسب فرائض کا خیال رکھا جائے اور والدین حتَّی الاِمکان اس کے فرائض پورے کروانے کی کوشش کریں۔ اور مدرّسین صرف اِسی بات کا خیال نہ رکھیں کہ طالب علم اپنی کتابیں لے کر آیا ہے یا نہیں بلکہ اِس بات کا بھی خیال رکھیں کہ طالب علم وقت پر ورزش کے میدان میں آتا ہے یا نہیں۔ وہ سکول سے جا کر گھر پر سٹڈی (Study) کرتا ہے یا نہیں۔ اور اگلے سبق کا مطالعہ کر کے لاتا ہے یا نہیں۔ اصل میں بعض استاد خود تعلیم میں آوارہ مزاج ہوتے ہیں۔ نہ پچھلا سبق پوچھتے ہیں نہ اگلا بلکہ کلاس میں آتے ہیں اور تقریر کر کے چلے جاتے ہیں۔ لڑکوں سے نہ پچھلا سبق پوچھتے ہیں اور نہ اگلے سبق کے متعلق کوئی سوال کرتے ہیں اور انہیں اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں ہوتی کہ ان کی جماعت کا نتیجہ اچھا نکلا ہے یا بُرا۔ ایسے آوارہ مزاج استاد دشمن ہیں اپنی قوم کے، دشمن ہیں اپنے ملک کے اور دشمن ہیں بنی نوع انسان کے۔ قیمتی سے قیمتی چیز اُن کے سپرد کی گئی لیکن انہوں نے اسے خراب اور ضائع کر دیا۔ مجھے تعجب آتا ہے کہ بنی نوع انسان میں گھڑی سازوں کےخلاف تو بغاوت اور جوش پیدا ہو جاتا ہے لیکن ان کے بچوں کو استاد بگاڑ رہے ہوتے ہیں ان کے خلاف کسی کے اندر ذرا جوش پیدا نہیں ہوتا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ماں باپ میں خود آوارگی ہوتی ہے اس لئے وہ خاموش رہتے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ اساتذہ سے نہیں پوچھتے کہ ہمارے لڑکے کے آوارہ ہونے کی وجہ کیا ہے۔ اور وہ یہ بھی نہیں پوچھتے کہ ہمارا لڑکا وقت پر سکول آتا ہے یا نہیں۔ گھر سے سکول کا کام کر کے لاتاہے یا نہیں۔ کھیل میں باقاعدہ حاضر ہوتا ہے یا نہیں۔ باوجود اِس کے اُن کا لڑکا وقت کا اکثر حصہ ان کے پاس گزارتا ہے مگر وہ اس کو اپنی نگرانی میں سٹڈی نہیں کراتے اور اس کی نگرانی نہیں کرتے کہ وہ وقت پر نماز کے لئے جاتا ہے یا نہیں ۔ میرے نزدیک ایسے استاد اور ماں باپ دونوں میں آوارگی کی روح ہوتی ہے۔ اس لئے وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہی نہیں کہ لڑکے کے آوارہ ہونے کی وجہ کیا ہے۔ کیونکہ والدین ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے استادوں سے وجہ پوچھی تو وہ ہمیں کہیں گے کہ لڑکا گھر پر سے سبق یاد کر کے نہیں آتا اور نہ سٹڈی کرتا ہے آپ کیوں اس کی نگرانی نہیں کرتے۔ اور اساتذہ والدین سے اس لئے نہیں پوچھتے کہ اگر ہم نے وجہ دریافت کی تو والدین کہیں گے کہ آپ اپنی ذمہ داری کس طرح ادا کر رہے ہیں۔ دونوں ہی چور ہوتے ہیں اور دو چور تو ایک دوسرے پر چوری کا الزام نہیں لگایا کرتے بلکہ سادھ ہی چور پر چوری کا الزام لگاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہےکہ طالب علم کی تعلیم بغیر ماں باپ اور استاد کی نگرانی کے مکمل نہیں ہو سکتی۔ اگر ان دونوں میں سے ایک غافل اور بے توجہ ہو تو لڑکے کی زندگی کےخراب ہونے کا بہت حد تک خطرہ ہوتا ہے۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ اگر کسی کے گھوڑے کی کوئی شخص ٹانگ توڑ دے یا کسی کے بیل کا سینگ توڑ دے یا کسی کی بکری کے دانت توڑ دے تو ایک ایسی لڑائی شروع ہو جاتی ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ لیکن بیسیوں ماں باپ ایسے ہیں کہ استاد ان کے لڑکوں کوآوارہ بناتے چلے جاتے ہیں اور وہ خاموشی سے بیٹھے دیکھتے رہتے ہیں اور ان کی طبیعت میں کوئی ہیجان پیدا نہیں ہوتا۔ اصل میں بات یہ ہے کہ انسان کو مفت مل جانےو الی چیز کی قدر نہیں ہوتی خواہ وہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو۔ والدین کو لڑکا بھی چونکہ مفت مل جاتا ہے اس لئے وہ اُس کی قدر نہیں کرتے اور یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ایک قیمتی امانت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے سپرد کی ہے۔ ایک بکری جو پانچ دس روپے کو آتی ہے اُس کے چارے کا، اُس کی دوسری چیزوں کا خیال رکھتے ہیں لیکن اِس خداتعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ حالانکہ مفت ملنے والی چیزیں بہت زیادہ قیمتی ہوتی ہیں اُن چیزوں سے جنہیں انسان روپیہ دے کر خریدتا ہے مگر لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جو چیز انہیں مفت مل جائے اُس کی قدر نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے سب قیمتی چیزیں جن پر بنی نوع انسان کی زندگی کا دارومدار ہے مفت دی ہیں۔ لیکن اس کے مقابل پر بندو ں کا طریق یہ ہے کہ وہ حقیر سے حقیر چیز کی جس کو وہ قیمتاً خریدیں قدر کرتے ہیں لیکن جو چیز انہیں مفت مل جائے اس کی پروا بھی نہیں کرتے۔ دیکھو پانی کتنی قیمتی چیز ہے۔ اگر پانی دنیا سے مٹ جائے تو لوگوں کا زندہ رہنا محال بلکہ ناممکن ہے۔ لیکن اگر شراب دنیا سے مٹ جائے تو دنیا کا کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا۔ مگر لوگ پچیس تیس روپے خرچ کر کے شراب کی ایک بوتل خریدلیتے ہیں اور اگر کوئی شخص انہیں پانی کی بوتل دو آنے کو دے تو ان میں سے کوئی بھی لینے کو تیار نہیں ہوگا۔ پھر پانی کے علاوہ زندگی کا دارومدار ہوا پر ہے۔ اگر ایک منٹ کے لئے بھی اِس کرّہ میں ہوا نہ رہے تو کوئی جاندار بھی سانس نہ لے سکے اور سب مر جائیں۔ باوجود اِس کے کہ ہوا ایک قیمتی نعمت ہے جو انسانوں کو عطا کی گئی ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو یہ خیال کرتے ہوں کہ ہوا بھی قیمتی چیزوں میں سے ہے۔ لوگ عطر کی تولہ دو تولہ کی شیشی دس دس روپے کو خرید لیتے ہیں لیکن اگر ایک من ہوا اُن کو ایک پیسہ میں مل جائے تو وہ خریدنے کے لئے تیار نہ ہوں گے۔ حالانکہ اگر ساری دنیا کے عطر جواربوں ارب مَن ہوں پھینک دیے جائیں تو عطر کے نہ ہونے کی وجہ سے بڑا آدمی تو کیا ایک بچھو بھی نہیں مرے گا۔ لیکن وہ ہوا جو اِس مسجد میں ہے نہ رہے تو یہ تین ہزار کے تین ہزار آدمی مر جائیں گے اور کوئی ایک بھی ان میں سے نہ بچ سکے گا اِس کے باوجود لوگ ہوا کی قدر نہیں کرتے۔ اور عطر جو ایک زائد شے ہے اسے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور بڑی بڑی قیمت ادا کر کے خریدتے ہیں۔ گو عطر لگانے کو تعیّش تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ حکم ہے کہ جمعہ کے دن ہر مسلمان خوشبو لگا کر مسجد میں آئے۔2 گواِس وقت ہم میں سے تقریباً پانچ فیصدی نے اِس حکم پر عمل کیا ہو گا اور پچانوے فیصدی ایسے ہیں جنہوں نے اِس حکم پر عمل نہیں کیا ہو گا مگر بہرحال یہ ایک زائد چیزہے اِس کے بغیر بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے۔ بے شک صحت کے لئے عطر مفید چیز ہے لیکن زندگی کے قیام میں اس کا کوئی دخل نہیں جیسے ہوا کا انسانی زندگی میں دخل ہے۔ بےشک عطر استعمال کرنا اچھی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ہمارے پنجابی کو یہ خاص مہارت ہے کہ اس نے گھر میں بیس پچیس روپے کا عطر بھی رکھا ہوا ہوتاہے اور گھر کے دروازے کے سامنے بچے کا پاخانہ بھی پھینکا ہوا ہوتاہے۔ گھر والوں کا دماغ بھی اُس کی بُو سے سڑ رہا ہوتا ہے اور ساتھ ہی محلے والوں اور وہاں سے گزرنے والوں کا دماغ بھی اُس کی بُو سے پریشان ہوتا ہے۔ اِسی طرح گھر کا تمام کوڑا کرکٹ اٹھا کر دروازے کے سامنے پھینک دیتے ہیں تاکہ ہر ایک جو گزرے وہ اُس کی بُو سے پریشان ہو۔ اور جو مہمان آئے اُسے بھی اُس کی بُو سے حصہ ملے۔ لیکن اِن چیزوں کو دُور پھینکنا گوارا نہیں کیا جاتا۔ غرض بنی نوع انسان کی یہ عادت ہے کہ جو چیز اُنہیں قیمتاً ملے اُس کی قدر کرتے ہیں اور جو چیز اُنہیں مفت مل جائے اُس کی انہیں قدر نہیں ہوتی۔
کلامِ الٰہی کو ہی دیکھ لو کہ جب اللہ تعالیٰ اپنا کلام نازل فرماتا ہے تو ساتھ نبی کو بھیج دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ نبی کی کیا ضرورت ہے لیکن اگر اُس کلام کو سنانے اور پڑھانے کے لئے نبی نہ آئیں اور لوگوں کو پیسے خرچ کر کے کلام ِالٰہی پڑھنا پڑے تو کوئی بھی اسکے پڑھنے کے لئے تیار نہ ہو۔ جب وہ مفت پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو ان سے یہ کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ پیسے دے کر پڑھ لیں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا کلام مفت پڑھاتے اور مفت سناتے تھے لیکن پھر بھی مخالف سننے کے لئے تیار نہ ہوتے تھے۔ آج بھی لوگوں کی یہی حالت ہے کہ فلسفہ کی کتابیں اور ناول وغیرہ قیمتاً لے کر بڑے شوق سے پڑھتے ہیں اور بے ہودہ اور لغو کتابوں پر بڑی بڑی رقمیں خرچ کر دیتے ہیں لیکن قرآن خریدنا ان کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ حضرت خلیفہ اول ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے آپ فرماتے تھے میں نے ایک دفعہ ایک امیر آد می کو نصیحت کی کہ قرآن مجید پڑھا کرو۔ کیونکہ ہر روحانی مرض کا علاج اِس میں ہے۔ میرے نصیحت کرنے کے بعد میں نےد یکھا کہ اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں سمجھاکہ اُس پر بہت اثر ہوا ہے۔ کچھ دیر خاموش رہنے کےبعد کہنے لگا کہ آپ مجھے قرآن مجید تحفہ کے طور پر دے دیں تو میں پڑھا کروں گا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ شخص لاکھوں روپے کا مالک ہے لیکن قرآن کے متعلق کہتا ہے کہ اگر تحفہ کے طور پر مل جائے تو میں پڑھ لوں گا۔
پس اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت ہے کہ اُس نے تمام قیمتی اشیاء مفت رکھی ہیں اور ان قیمتی چیزوں میں سےجو بغیر قیمت کے ملتی ہیں بچے بھی ہیں۔ مگر بہت تھوڑے لوگ ہیں جو بچوں کو قیمتی چیز سمجھتے اور اُن کی زندگی بنانے کی فکر کرتے ہیں۔ اگر اُن کی بھینس یا بکری بلکہ میں کہتا ہوں اگر مرغی بھی بیمار ہو جائے تو انہیں اُس کے علاج کا فکر لاحق ہوتا ہے۔ لیکن بچے کی زندگی بے شک خراب مجلسوں میں بیٹھ کر یا بری عادات میں پڑ کر یا اَن پڑھ رہ کر خراب ہو جائے اِس کی اُنہیں ذرا پروا نہیں ہوتی۔ اگر اُن کی بھینس کا دودھ سُوکھنا شروع ہو جائے تو سب گھبرا جاتے ہیں کہ پتہ نہیں بھینس کا دودھ کیوں سُوکھ رہا ہے گھر میں مشورے ہونے شروع ہو جاتے ہیں فلاں سے علاج پوچھو،فلاں کو بھینس دکھاؤ، فلاں قوم بھینسیں رکھتی ہے اُن سے مشورہ پوچھو۔ غرضیکہ گھر میں ایک بےچینی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن بچے کا دماغ سُوکھتا چلا جاتا ہے اُس کے لئے کسی کو فکر پیدا نہیں ہوتا کہ اُس کی حالت کی درستی کے لئے کسی سے مشورہ نہیں کیا جاتا اور اِس لاپرواہی کے نتیجہ میں بچوں کی زندگیاں خراب ہو جاتی ہیں۔ اگر گھر میں والدین بچوں کی نگرانی کی طرف توجہ کریں اُنہیں وقت پر سُلائیں، وقت پر جگائیں، نمازوں کے لئے انہیں مساجد میں بھیجیں، سکول میں انہیں وقت پر بھیجیں۔ اُدھر سکول میں اساتذہ توجہ کریں اور بچوں کو پڑھائی میں پورے طور پر مشغول رکھیں، کھیل کے وقت اُن کو کھیل میں مصروف رکھیں تو بچوں کی تعلیم وتربیت کا سوال بہت حد تک خودبخود حل ہو جاتا ہے۔ بچوں کی تعلیمی حالت بھی اچھی ہو گی اور جسمانی لحاظ سے بھی وہ صحتمند ہوں گے۔ ہمارے ہاں پنجابی میں ایک مثل ہے۔ ‘‘نالے حج نالے بیوپار’’۔ یہ حج کا حج ہو گا اور بیوپار کا بیوپار ہو گا۔ یعنی یہ تعلیم کی تعلیم اور تربیت کی تربیت ہو گی۔
تعلیم ایک ایسا استاد ہےجس کے ذریعہ انسان اپنے بہت سے استاد بنالیتا ہے۔ جس کو پڑھنا آتا ہے کبھی وہ اللہ تعالیٰ کی صحبت میں جابیٹھتا ہے، کبھی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں جا بیٹھتا ہے، کبھی وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صحبت میں جا بیٹھتا ہے، کبھی وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صحبت میں جا بیٹھتا ہے، کبھی وہ سید عبدالقادر کی صحبت میں جابیٹھتا ہے۔ قرآن مجید پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی محفل میں جا بیٹھتا ہے حدیث پڑھتا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں جا بیٹھتا ہے۔ فقہ کی کتاب پڑھتا ہے تو امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کی محفل میں جا بیٹھتا ہے۔ تصوف کی کتاب پڑھتا ہے تو امام غزالیؒ کی محفل میں جابیٹھتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا علمِ کلام پڑھتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محفل میں جا بیٹھتا ہے۔ حالانکہ یہ سب لوگ فوت ہو چکے ہیں لیکن یہ جب کتاب کھولتا ہے تو اُن سے روحانیت کی باتیں سیکھ لیتا ہے۔ پس کتنا فائدہ ہے پڑھا لکھا ہونے کا۔ جو انسان تعلیم یافتہ ہو اُس کے استادوں کی کثرت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ وہ جس علم کی کتاب چاہتا ہے اُٹھا کر پڑھ لیتا ہے اور استادوں کی کثرت سے اس کے علم میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے اور علم کی وسعت سے اُس کے دماغ میں جِلا پیدا ہوتاہے۔
پس پڑھائی نہ صرف ظاہری عزت کا باعث ہے بلکہ اخلاق پر بھی گہرا اثڑ ڈالتی ہے۔ اَن پڑھ آدمیوں میں بھی بہت سے اخلاص رکھنے والے ہیں۔ لیکن اَن پڑھ آدمی تعلیم یافتہ آدمیوں کی نسبت ٹھوکر زیادہ کھاتے ہیں۔ اور اگر کوئی اَن پڑھ آدمیوں کو بیدار کرنے والا نہ ہو تو اکثر نمازوں اور چندوں میں سُست ہو جاتے ہیں۔ لیکن تعلیم یافتہ لوگوں میں باہر جا کر باوجود اکیلا ہونے کے اخلاص قائم رہتا ہے۔ بلکہ باہر جا کر ان کے اخلاص میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ نمازوں اور چندوں میں سُستی نہیں دکھاتے۔ مثلاً اگر ایک اَن پڑھ آدمی جاپان چلا جائے تو وہ چندہ وغیرہ بھیجنے اور دوسری تحریکوں میں حصہ لینے میں سستی کرے گا کیونکہ وہ خود پڑھا لکھا نہیں اِس لئے اُسے چندہ بھیجنے میں دِقت ہوگی۔ اور بوجہ اَن پڑھ ہونے کے وہ سلسلہ کے حالات کے متعلق آگاہ نہ ہو سکے گا۔ کیونکہ وہ اخبار وغیرہ نہیں پڑھ سکتا اس لئے اُس کا دُور جانا اُس کے اخلاص میں کسی قدر کمی کا موجب ہو گا زیادتی کا موجب نہیں ہو گا۔ لیکن پڑھا لکھا آدمی دُور جاکر بھی قریب رہے گا اور سلسلہ کے حالات سے واقف رہے گا اور دُور جانے کی وجہ سے اُس کی صحت بھی بڑھے گی۔
پس ہماری جماعت کو میرے اِن خطبات کی طرف پورے طور پر توجہ کرنی چاہیے ۔ اِس کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ قادیان اور باہر کے خدام اور انصار اپنی اپنی جماعتوں میں تعلیم کی ترقی کے لئے کوشش کریں اور تمام جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنی اپنی جماعت کی فہرستیں مرتب کر کے مرکز میں بھیجیں۔ جب تک انسپکٹروں کا انتظام نہیں ہوتا ہم کیوں فارغ بیٹھیں۔ انسان کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں، کون جانتا ہے کہ کل کس کس نے مر جانا ہے اس لئے میں تحریک کرتا ہوں کہ ہر ایک جماعت جلد سے جلد اپنی اپنی لِسٹیں تیار کر کے ہمیں بھیجے۔ اِن فہرستوں میں اِن امور کا خاص طور پر ذکر کیا جائے کہ اس جماعت میں پانچ سے بیس سال تک کی عمر کے کتنے لڑکے ہیں۔ ان میں سے کتنے پڑھتے ہیں اور کتنے نہیں پڑھتے۔ اور جو پڑھتے ہیں وہ کون کونسی جماعت میں پڑھتے ہیں۔ اگر یہ انتظام جلدی ہو جائے اور لِسٹیں جلدی تیار ہو کر آجائیں تو انسپکٹروں کا کام بہت آسان ہو جائے گا۔ اور اگر یہ فہرستیں صحیح طور پر تیار کی جائیں تو ہمیں ان سے اندازہ ہوسکے گا کہ ہماری جماعت میں کس حد تک تعلیم جاری ہے اور کس حد تک اصلاح کی ضرورت ہے۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ قادیان کی جماعت بھی اور بیرونی جماعتیں بھی جلد سےجلد اس امر کی طرف توجہ کریں گی۔ ’’
(الفضل 5نومبر 1945ء)
1: البقرۃ:256
2: بخاری کتاب الجمعۃ باب الدُّھْنُ بِالْجُمُعَۃِ


37
مختلف علاقوں میں تبلیغ وسیع کر نے کے لئے مختلف زبانوں کے مبلغ تیا رکئے جائیں
(فرمودہ2؍نومبر1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کےبعدفرمایا:
‘‘ہمارا ملک ایک براعظم کی حیثیت رکھتا ہے جس میں 40کروڑ کے قریب آدمی بستے ہیں اور آٹھ دس ایسی زبانیں بولی جاتی ہیں جو کروڑوں آدمیوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ مثلاً پنجابی ، اردو، انگریزی، ہندی، بنگالی، تامل، مرہٹی، گجراتی یہ آٹھ زبانیں ہیں۔ پہلے برما ہندوستان میں شامل تھا لیکن اب اسے الگ کر دیا گیا ہے اگر برمی زبان کو بھی شامل کر لیا جائے تو نو زبانیں ایسی ہیں جو کروڑوں لوگوں میں بولی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی زبانیں جو پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ، ستّر ستّر ، اسّی اسّی لاکھ تک کی تعداد رکھنے والے آدمیوں میں بولی جاتی ہیں اِن کے علاوہ ہیں۔ مثلاً سرحد میں پشتو، سندھ میں سندھی، اڑیسہ میں اڑیہ اسی طرح تلنگو وغیرہ زبانیں جو مدراس، حیدرآباد اور اس کے ملحقہ علاقوں میں بولی جاتی ہیں ایسی ہیں جو چالیس پچاس لاکھ سے لے کر ستّر اسّی لاکھ تک کی تعداد رکھنے والے لوگوں میں بولی جاتی ہیں۔ اور دنیا کی کئی آزاد حکومتیں ایسی ہیں جن کی آبادی اتنی ہی ہے پس ہمارا ملک ایک براعظم ہے اور جہاں باقی دنیا میں تبلیغ کرنا ہمارے ذمہ ہے۔ وہاں ہندوستان میں تبلیغ کے سلسلہ کو وسیع کرنا بھی ہمارے اہم فرائض میں شامل ہے۔ اردو زبان میں ہم ایک محدود دائرہ میں تبلیغ کر سکتے ہیں۔
انگریزی زبان میں بھی صرف تعلیم یافتہ طبقہ میں جو کروڑ دوکروڑ ہے ہم تبلیغ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بنگالی، ہندی، مرہٹی، گجراتی اور تامل وغیرہ زبانوں میں سے کسی زبان میں بھی ہم سارے ہندوستان کو خطاب نہیں کر سکتے۔ کیونکہ یہ زبانیں ایک ایک یا دو دو صوبوں میں بولی جاتی ہیں۔یا پھر ان زبانوں کے ذریعہ چند ریاستوں میں ہم تبلیغ کر سکتے ہیں۔ ورنہ ان میں سے کوئی ایک زبان بھی ایسی نہیں جو تبلیغ کے لحاظ سے سارے ہندوستان میں کام آسکے۔ یوں اردو زبان قریباً ہر جگہ اِسی حد تک سمجھی جاتی ہے کہ انسان اس کے ذریعہ سے گزارہ کر سکتا ہے۔ مثلاً کسی نے تھوڑا بہت سودا خریدنا ہو یا راستہ پوچھنا ہو تو ایسے کاموں میں وہ ہر جگہ کام آسکتی ہے۔ اِسی طرح ایسے کاموں میں انگریزی زبان بھی تھوڑی بہت ہر جگہ کام آجاتی ہے۔ جہاں بھی چلے جاؤ سرکاری ملازم اور پولیس کے آدمی مل جائیں گے جو تھوڑی بہت انگریزی جانتے ہوں گے۔ مگر تبلیغ میں تو لمبے اور وسیع اور باریک مضامین بیان کرنے ہوتے ہیں۔ کسی سے یہ کہہ دینا کہ مہربانی کر کے راستہ بتا دو یا یہ پوچھنا کہ تمہارے پاس ڈاک خانہ کے ٹکٹ ہیں یا نہیں؟یا یہ کہنا کہ میرا لفافہ رجسٹری کردو یہ اَور چیز ہے لیکن کسی کے سامنے ہستی باری تعالیٰ پر مضمون پیش کرنا، ملائکہ کے وجود پر دلائل دینا، انبیاءکی آمد کے متعلق لوگوں کےسامنے معلومات رکھنا، قرآن شریف کی خوبیوں اور اس کے محاسن کو پیش کرنا یہ بالکل اَور بات ہے۔ ڈاک خانہ کا ہر بابو اِتنی انگریزی جانتا ہے کہ جس میں وہ بتا دے کہ اُس کے پاس ٹکٹیں ہیں یا نہیں، لفافہ پر کتنے کے ٹکٹ لگانےچاہئیں، ڈاک کس وقت جاتی ہے ایسی چھوٹی موٹی باتیں وہ انگریزی زبان میں کر سکتا ہے۔ لیکن اسے انگریزی میں تبلیغ کر کے مذہب نہیں سکھایا جا سکتا۔ انگریزی میں تبلیغ کر کے مذہب کی باتیں اُسی شخص کو سمجھائی جا سکتی ہیں جو انگریزی کا اچھا عالم ہو۔ مثلاً گریجوایٹ ہو یا ایف اے ہی ہو لیکن وہ ایسی صحبت میں رہا ہو جہاں انگریزی زبان بولی جاتی ہو۔ اور اگر کوئی شخص انگریزی اور اردو نہ جانتا ہو تو پھر اُس کی زبان میں ہی بات سمجھانی پڑے گی۔ اِس لئے ہندوستان کا کوئی علاقہ بھی ایسا نہیں جس کی زبان کو ہم نظر انداز کر سکیں۔
اڑیہ زبان بڑی زبان نہیں مگر پھر بھی چالیس پچاس لاکھ آدمیوں کی زبان ہے۔ وہاں نہ اردو میں تبلیغ کی جا سکتی ہے، نہ انگریزی میں نہ بنگالی میں اور نہ کسی اَور زبان میں۔ اگر کی جاسکتی ہے تو صرف اڑیہ میں۔ اِس علاقہ میں کچھ انگریزی جاننے والے بھی نکل آئیں گے کچھ اَور زبانیں جاننے والے بھی نکل آئیں گے لیکن بہت تھوڑے۔ سارا ملک اڑیہ ہی جانتا ہو گا اور انگریزی سے بہت کم لوگو ں کو مَسْ ہو گی۔ اس لئے ان کو باتیں سمجھانے کے لئے اڑیہ زبان میں ہی گفتگو کرنی ضروری ہو گی۔ اِسی طرح پنجاب کے شہروں میں چلے جاؤ۔ انگریزی میں تقریر کرو تو امرتسر میں مقبول ہو جائے گی لاہور میں مقبول ہو جائے گی، اسی طرح اَور بڑے بڑے شہروں میں مقبول ہو جائے گی۔ اردو میں تقریر کرو تو اسے بھی شہروں کے لوگ پسند کریں گے۔ لیکن اگر گاؤں میں چلے جاؤ تو بہت سے گاؤں ایسے ہوں گے جہاں اردو کی تقریر کامیاب نہیں ہو گی۔ سب سے زیادہ اردو سے وابستگی رکھنےو الی ہماری جماعت ہے۔ وہ ہمیشہ ہماری باتیں اردو میں ہی سننے کی عادی ہے۔ مگر قریباً ہر جلسہ پر میرے پاس گاؤں کے رہنے والے دوست شکایت کیا کرتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی تقریر پنجابی میں بھی ہونی چاہیے تا اچھی طرح مسائل سمجھ میں آسکیں۔ اردو میں تقریر وہ سمجھ تو لیتے ہیں مگر اُسی طرح سمجھتے ہیں جس طرح بنگالی آدمی کا معدہ روٹی پچا سکتا ہے۔ وہ روٹی کو ہضم تو کر لے گا لیکن وہ اس کے لئے چاول کا قائم مقام نہیں ہو گی جیسے ہمارے ملک میں کہتے ہیں کہ ‘‘انگ نہیں لگتی’’ اسی طرح وہ اسے ‘‘انگ نہیں لگتی’’ وہ ان چیزوں سے فائدہ تو اٹھا لے گا لیکن چونکہ وہ ایک خاص چیز کا عادی ہوتا ہے اِس لئے وہ اسی میں حقیقی لُطف اٹھا سکتا ہے کسی دوسری چیز میں نہیں۔مثلاً وہ آدمی جو پنجابی سننے کے عادی ہوتے ہیں اردو کی بات اس طرح ان کے دل میں گڑتی نہیں جس طرح پنجابی اُن کے دل میں گڑ جاتی ہے۔پنجاب کی جو مستورات ہمارے جلسہ سالانہ پر آتی ہیں ان کی ہمیشہ یہ درخواست ہوتی ہے کہ رات کے وقت جہاں جہاں وہ ہوں وہاں کوئی پنجابی مولوی تقریر کے لئے بھیجا جائے۔ اور اگر کوئی شخص جا کر انہیں پنجابی میں ڈھولے سنا دیتا ہے یا تقریر کر دیتا ہے تو کہتی ہیں اب بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی ہے۔ اس کے بغیر اُن کا پیٹ نہیں بھرتا۔ پس تمہاری زبان جاننےو الا آدمی تمہاری زبان جاننے کی وجہ سے تمہاری بات تو سمجھ لے گا لیکن اُس کی پوری تسلی اپنی زبان کے سوا کسی دوسری زبان میں نہیں ہو سکتی۔
ایک دفعہ ہم کشمیر گئے وہاں خواجہ کمال الدین صاحب کے بھائی خواجہ جمال الدین صاحب تعلیم کے انسپکٹر تھے۔ انہوں نے ہماری دعوت کی اور ہمارے پنجابی ہونے کی وجہ سے کھانا وہ پکایا جو پنجاب میں پَکتا ہے۔ جب ہم کھانا کھا رہے تھے تو آہستہ سے دروازہ ہلا اور کسی نے اندر کی طرف جھانکا۔ جب دو چار دفعہ اِسی طرح ہوا تو خواجہ صاحب نے اُدھر توجہ کی اور اُنہیں معلوم ہوا کہ ایک آنکھ جھانک رہی ہے۔ وہ اٹھ کر دیکھنے گئے کہ کون جھانک رہا ہے تو جس طرح کوئی بڑا آدمی آجائے تو اُس سے بڑے تپاک سے ملا جاتا ہے خواجہ صاحب بھی باہر کھڑے ہوئے شخص سے بڑے تپاک سے کہنے لگے اندرتشریف لائیے۔ پہلے تو اُن صاحب نے کچھ پس و پیش کیا لیکن پھر مان گئے اور اندر آگئے (غالباً وہ موجودہ واعظ صاحب کے بڑے بھائی تھے۔) انہوں نے میرے متعلق سنا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد میں سے کوئی یہاں آیا ہوا ہے۔ اِس پر باوجود اِس کے کہ وہ احمدی نہیں تھے مجھے دیکھنے کے لئے آگئے (موجودہ میر واعظ تو ہمارے سخت مخالف ہیں لیکن ان کے بڑے بھائی کا رویہ ہمارے ساتھ اچھا تھا) لیکن اِس خوف سے کہ لوگوں کو پتہ نہ لگ جائے اُنہوں نے اپنے ملازم کو پہلے اندر جھانکنے کے لئے کہا تا معلوم ہوجائے کہ غیر لوگ تو اندر نہیں بیٹھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ کھڑے کھڑے بات کر کے چلے جائیں جس سے لوگوں کو کچھ خیال نہ ہو اور وہ خیال کریں کہ شاید خواجہ جمال الدین صاحب سے کوئی بات کرنی ہو گی۔ لیکن خواجہ جمال الدین صاحب کے اصرار پر اُنہیں اندر آنا پڑا۔ جب وہ بیٹھ گئے تو خواجہ صاحب نے اُنہیں کہا کہ کھانا کھائیں۔ انہوں نے کہا میں توکھانا کھا آیا ہوں۔ اِس پر خواجہ صاحب نے کہا یہ تو سٹھ ہے۔ سٹھ کے معنے کشمیری زبان میں روٹی کے ہوتے ہیں اور یہ لفظ پہلی دفعہ میں نے اُسی وقت سنا تھا اُن کا مطلب یہ تھا کہ یہ کھانا تو ہے ہی نہیں روٹی ہے۔ کیونکہ کشمیر میں چاول اصل کھانا سمجھاجاتاہے۔ اس پر وہ نووارد صاحب کھانے میں شامل ہوگئے۔ اس کے بالمقابل پنجاب کی اصل غذا روٹی ہے۔ اِس وجہ سے جب کسی گاؤں میں کسی زمیندار کے ہاں چاول پکے ہوں اور کوئی ملنے آجائے اور وہ اُسے کھانے کی دعوت دے تو بعض دفعہ آنےو الا کہتا ہے کہ میں کھانا کھا آیا ہوں تو گھر والا کہتا ہے کہ چاول ہیں کوئی لقمہ کھا لو تو وہ شامل ہو جاتا ہے۔ اور اکثر گھر والوں سے کم کھا کر نہیں اٹھتا کیونکہ وہ خیال کرتاہے کہ یہ تو کھانا نہیں چاول ہیں اس لئے ان کے کھانے سے معدہ پر کوئی خاص بوجھ نہ پڑے گا۔
یہی حالت زبانوں کی ہوتی ہے۔ غیر زبان ناشتہ کے طور پر تو کام دے جاتی ہے لیکن اس سے پیٹ نہیں بھرتا۔ جس طرح چاول کھانے والے کا روٹی سے پیٹ نہیں بھرتا اور روٹی کھانے والے کا چاول سے نہیں بھرتا اِسی طرح ہر زبان والا جب تک اپنی زبان میں باتیں نہ سن لے اُسے مزہ نہیں آتا۔ تبلیغ کے معنے یہ ہیں کہ بات دل میں رچ جائے۔ لیکن بات تو اُسی وقت دل میں رچتی ہے جبکہ اُس کا مزہ آئے۔ اور جب تک مزہ نہ آئے اُس وقت تک بات دل میں رچے گی نہیں۔ اور بات کا مزہ اُسی وقت آسکتا ہے جبکہ گفتگو اپنی زبان میں ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تبلیغ وسیع کرنے کے لئے لوگوں کی زبانوں میں ہی تبلیغ کی جائے۔ مگر جب تک کہ ہمیں ایسے آدمی میسر نہ آئیں جو اِن زبانوں سے واقف ہوں اُس وقت تک کم از کم اتنا تو ضرور ہونا چاہیے کہ ہم ان زبانوں میں اُن لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کریں جن کو کچھ لوگ وہاں کےسمجھ لیتے ہیں۔
بنگال میں ہمارے مبلغ ہیں جو بنگالی زبان جانتے ہیں۔ سرحد میں بھی ہمارے ایسے آدمی ہیں جو پشتو میں بڑی اچھی طرح تقریر کر سکتے ہیں۔ سندھ میں بھی ہیں لیکن گجرات،مرہٹی اور تامل بولنے والے لوگ ابھی ہمارے پاس نہیں۔ اسی طرح اڑیہ بولنے والے مبلغ بھی ہمارے پاس نہیں۔ ہندی جاننے والے مبلغ ہمارے پاس ہیں لیکن وہ ایسی ہندی نہیں جانتے کہ ان سے تقریروں کی امید کی جا سکے۔ ان علاقوں میں تبلیغ کے لئے انگریزی اور اردو ایک حد تک کام دے سکتی ہیں اور کچھ طبقہ تک اِس کے ذریعہ آوازپہنچائی جا سکتی ہے لیکن سب تک نہیں۔ سب تک تبلیغ پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگ ہوں جو اِن زبانوں میں تقریریں کر سکتے ہوں۔ اِسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں سارے ہندوستان میں تبلیغ کرنے کے لئے ہر زبان کو جاننے والے لوگ پیدا کرنے چاہئیں۔ مگر پنجاب میں بیٹھے ہوئے ہم ان علاقوں کے آدمیوں سے واقف نہیں ہو سکتے۔ اس لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہماری مختلف صوبوں کی جماعتیں اپنے اپنےعلاقہ سے کچھ لوگوں کو منتخب کریں جو اپنی زندگیاں اِس غرض کے لئے وقف کریں۔ کچھ تامل جاننےو الے ہوں، کچھ گجراتی جاننے والے، کچھ مرہٹی جاننے والے ہوں، کچھ کنٹری (Kinnauri)1 جاننے والے، کچھ اڑیہ جاننے والے، کچھ تلنگی جاننے والے اور ضروری نہیں کہ یہ لوگ عالم ہوں۔ کام شروع کرنے کے لئے جو سامان بھی میسر ہو اُسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایسے آدمیوں سے بھی کام لیا جا سکتا ہے جو تھوڑا بہت اپنی زبان کا علم رکھتے ہوں۔ جیسا کہ ہم نے دیہاتی مبلغین کی سکیم بتائی ہے اِسی طرح ان لوگوں کو جو معمولی نوشت و خواند جانتے ہیں تیار کیا جا سکتا ہے۔ پہلا قدم ایسا ہی ہوا کرتاہے۔ شروع میں ہی عالموں کا مل جانا بڑا مشکل ہے۔ پس اگر معمولی لکھے پڑھے ہی مل جائیں تو بھی کام چل سکتا ہے۔ لیکن اگر لکھے پڑھے بھی نہ ملیں تو اَن پڑھوں کو بھی زبانی باتیں سکھائی جاسکتی ہیں۔
بنگہ کے ایک دوست میاں شیر محمد صاحب تھے وہ اَن پڑھ آدمی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پرانے صحابہ میں سے تھے۔ وہ فَنَا فِی الدِّیْنِ قسم کے آدمیوں میں سے تھے۔ اِکّا 2 چلاتے تھے اور غالباً پھلور سے سواریاں لے کر بنگہ جاتے تھے۔ ان کا طریق تھا کہ سواری کو اِکّا میں بٹھا لیتے اور اِکّا چلاتے جاتے اور سواریوں سے گفتگو شروع کر دیتے۔ اخبار الحکم منگواتے تھے۔ جیب سے اخبار نکال لیتے اور سواریوں سے پوچھتے آپ میں سے کوئی پڑھا ہوا ہے اگر کوئی پڑھا ہوا ہوتا تو اُسے کہتے کہ یہ اخبار میرے نام آئی ہے ذرا اِس کو سنا تو دیجئے۔ اِکّا میں بیٹھا ہوا آدمی جھٹکے کھاتا ہے اور چاہتا ہے کہ اُسے کوئی شغل مل جائے۔ وہ خوشی سے پڑھ کر سنانا شروع کر دیتا۔ جب وہ اخبار پڑھنا شروع کرتا تو وہ جرح شروع کر دیتے کہ یہ کیا لکھا ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟اِس طرح جرح کرتے کہ اُس کے ذہن کو سوچ کر جواب دینا پڑتا اور بات اچھی طرح اُس کے ذہن نشین ہو جاتی۔ جب انہوں نے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا تو اُس وقت تک اُن کے ذریعہ سے درجن سے زیادہ احمدی ہو چکے تھے۔ اس کے بعد بھی وہ کئی سال زندہ رہے ہیں۔ نہ معلوم کتنے آدمی ان کے ذریعہ سے اور اِسی طریق پر احمدیت میں داخل ہوئے۔ غرض ضروری نہیں کہ ہمیں کام شروع کرنے کے لئے بڑے بڑے عالم آدمیوں کی ضرورت ہو۔ بلکہ ایسے علاقوں میں جہاں کوئی پڑھا ہوا آدمی نہیں مل سکتا اگر اَن پڑھ احمدی مل جائے تو اَن پڑھ ہی ہمارے پاس بھجوا دیا جائے۔ اسکو زبانی مسائل سمجھائے جا سکتے ہیں تا کام شروع ہو جائے۔ اگر ہم اس انتظار میں رہے کہ عالم آدمی ملیں تو نہ معلوم ان کے آنے تک کتنا زمانہ گزر جائے گا۔ کیونکہ علماء کو مذہب کی باریکیوں میں جانا پڑتا ہے اِس لئے ان کوعلم حاصل کرنے میں کافی عرصہ لگ جاتا ہے۔ لیکن باوجود اِس کے کہ مذہب میں باریکیاں ہوتی ہیں جن کے سیکھنے کے لئے ایک لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے متعلق فرماتے ہیں کہ اَلدِّیْنُ یُسْرٌ 3 یہ دین بڑا آسان بنایا گیا ہے۔ اگرچہ اِس میں بڑی بڑی باریکیاں بھی ہیں لیکن یہ اتنا سیدھا سادہ اور آسان ہے کہ ہر آدمی اس کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے اور اتنا مؤثر ہے کہ سننےو الوں کےد لوں کو موہتا چلا جاتا ہے۔ اصل میں اب جن کے پاس دین رہ گیا ہے وہ غریب ہی ہیں۔ کیونکہ امیروں نے غریبوں کو لوٹ لیا ہے اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس اب اللہ ہی اللہ رہ گیا ہے۔ وہ اسے لینے کے لئے دوڑتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ بھی ہاتھ سے نہ چلا جائے۔ پہلے غریب ہی صداقت کی طرف آیا کرتے ہیں اور تعلیم سے محروم بھی غریب ہی ہوتے ہیں۔ اس لئے مختلف جگہوں پر کام کرنے کے لئے اگر اَن پڑھ مل سکیں تو پروا نہیں کرنی چاہیے۔ مگر ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جوش رکھنے والے ہوں اور ان میں اخلاص اور تقویٰ ہو ۔ ایک دو کو بُلا کر اُنہیں زبانی تعلیم دلائی جائے اور اگر ہو سکے تو انہیں اردو لکھنا پڑھنا سکھا دیا جائے تا کہ مسائل سیکھنے کے لئے اخبارات اور دوسرے رسالے پڑھ سکیں اور اس طرح اپنا کام چلا لیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تبلیغ کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ عالم ہوں۔ مگر سوال یہ ہے کہ جو چیز پوری نہ مل سکتی ہو وہ تمام کی تمام چھوڑ دینی بھی تو ٹھیک نہیں۔ عربی میں محاورہ ہے مَا لَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ۔ جب ساری چیز نہ مل سکتی ہو تو ساری چیز چھوڑ بھی نہیں دینی چاہیے۔ ہمارے ملک کے پنجابیوں نے تو اس سے بھی زیادہ کہہ دیا ہے کہ ‘‘جاندے چور دی لنگوٹی ہی سہی’’یعنی اگر چور بھاگ جاتا ہے اور تم مسروقہ مال میں سے اس سے کچھ نہیں چھین سکتے تو اگر تم نے اُس کی لنگوٹی ہی چھین لی ہے تو کچھ نہ کچھ تو حاصل ہو گیا۔ پس ضروری نہیں کہ جب تک بڑے بڑے عالم نہ ہوں تبلیغ کا کام شروع نہ کیا جائے۔ تھوڑے سے مسائل سکھا کر ایک رَو چلا دینی چاہیے۔
ہاں یاد آ گیا کہ چھوٹی زبانوں میں سے ایک زبان کشمیری رہ گئی تھی۔ کشمیری زبان بھی چالیس پچاس لاکھ کے قریب لوگوں میں سمجھی جاتی ہے۔ گو کشمیر میں ہمارے ایک دو مبلغ موجود ہیں۔ مگر اس علاقہ میں بھی اَور بہت سے مبلغوں کی ضرورت ہے۔ دفتر دعوت کو چاہیے کہ وہ مختلف زبانوں کے مراکز سے خط و کتابت کرے اور احمدی جماعتوں کو تحریک کرے کہ وہ ہر زبان بولنے والے ایک یا دو آدمی دیں۔ خواہ وہ اَن پڑھ ہی ہوں تاکہ اِس کام کو شروع کیا جا سکے۔ پس ایک تو یہ کام نہایت ضروری ہے دوسرے یہ بھی ضروری ہے کہ تمام ہندوستان میں ایک نظام کے ماتحت جلسے کرائے جائیں اور ان میں مختلف مضامین پر لیکچر دلائے جائیں۔ میں نے دیکھا ہے اِس وقت تک جتنی تقریریں ہوتی ہیں سب بے نظام ہوتی ہیں۔ آئندہ ہمیں چاہئے کہ کچھ ایسے آدمی تیار کریں جو عربی دان ہوں اور کچھ ایسے آدمی تیار کریں جو انگریزی دان ہوں۔ ہم خود انہیں لیکچر لکھوائیں جس کے بعد وہ ہندوستان کے مختلف بڑے بڑے شہروں میں دَورہ کریں اور وہی لیکچر لوگوں کےسامنے بیان کریں۔ یہ لیکچر اسلامی مضامین کے متعلق بھی ہوں، عام علمی مضامین کے متعلق بھی اور ہندوؤں سکھوں اور مسیحیوں وغیرہ کے متعلق بھی۔ اِسی طرح بعض مبلغ ہندوؤں، سکھوں کے متعلق تیار کئے جائیں جو اُن کے مضامین سے واقف ہوں۔
پچھلے دنوں مبلغین کا ایک دَورہ ہوا اور وہ بڑے خوش خوش واپس آئے کہ بڑی کامیابی ہوئی ہے۔ اور کامیابی سے مراد اُن کی یہ تھی کہ ہم نے اس موضوع پر خوب تقاریر کیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں مل کر رہنا چاہیے اور لوگوں نے خوب تعریف کی۔ حالانکہ یہ کامیابی تو خواجہ کمال الدین صاحب والی کامیابی ہے۔ مضمون تو وہ ہونا چاہیے جن سے اُن پر اختلافی مسائل کی حقیقت واضح ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دوسرے مضامین نہ ہوں وہ بھی ہوں لیکن ہمارا جو اصل میدان ہے اول توجہ اُدھر ہونی چاہیے۔ پس میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ لیکچروں کے نوٹ ان کو یہاں لکھوائے جائیں اور اُنہی لیکچروں کو وہ سارے ہندوستان میں مختلف مقامات پر بیان کرتے پھریں۔ بے شک اس طرح جو لیکچر امرتسر میں دیا جائے گا وہی لاہور میں دیا جائے گا اور وہی جالندھر وغیرہ میں دیا جائے گا۔ مگر اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ امرتسر والوں نے جو کچھ سنا وہ لاہور والوں کے لئے پرانا نہیں۔ان کے لئے وہ نیا ہی ہو گا۔ اِسی طرح لاہور والے جو سن چکے ہوں جالندھر اور راولپنڈی کے لئے وہ مضمون پرانانہیں ہو گا۔ اس جگہ کے لئے وہ مضمون نیا ہو گا۔ خواجہ کمال الدین صاحب کی کامیابی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کر کے ایک لیکچر تیار کرتے تھے۔ پھر قادیان آکر کچھ حضرت خلیفہ اول سے پوچھتے اور کچھ دوسرے لوگوں سے اور اِس طرح ایک لیکچر مکمل کر لیتے۔ پھر اسے لے کر ہندوستان کے مختلف شہروں کا دَورہ کرتے اور خوب کامیاب ہوتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر بارہ لیکچر آدمی کے پاس تیا رہو جائیں تو اُس کی غیر معمولی شُہرت ہو سکتی ہے۔ انہوں نےا بھی سات لیکچر تیار کئے تھے کہ ولایت چلے گئے۔ لیکن وہ ان سات لیکچروں سے ہی بہت مقبول ہو چکے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک لیکچر بھی اچھی طرح تیار کر لیا جائے تو چونکہ وہ خوب یاد ہوتا ہے اِس لئے لوگوں پر اس کا اچھا اثر ہوسکتا ہے۔ پہلے زمانہ میں اِسی طرح ہوتا تھا کہ صَرف میر4 کا الگ استاد ہوتا تھا نحو میر5 کا الگ استاد ہوتاتھا۔ پکی روٹی کا الگ استاد ہوتا تھا اور کچی روٹی کا الگ استاد ہوتا تھا۔ اور چاہیے بھی اِسی طرح کہ جو لیکچرار ہوں اُن کو مضامین خوب تیار کر کے دیے جائیں اور وہ باہر جا کر وہی لیکچر دیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سلسلہ کے مقصد کے مطابق تقریریں ہوں گی اور ہمیں یہاں بیٹھے بیٹھے پتہ ہو گا کہ انہوں نے کیا بولنا ہے۔ اصل لیکچر وہی ہوں گے۔ اِس کے علاوہ اگر مقامی طور پر ضرورت ہو تو تائیدی لیکچروں کے طور پر وہ اَور کسی مضمون پر بھی بول سکتے ہیں۔ مضمون تیار کرنے کا طریقہ یہ ہو کہ وہ خود بھی تحقیق کریں اور دوسرے علماء بھی اُس کے متعلق نوٹ لکھوائیں اور اس طرح ایک مجموعی نظر اُس مضمون پر پڑ جائے۔ اِسی طرح ہر دَورہ کے بعد ایک اَور لیکچر تیار ہو جائے۔ اس طرح مرکز کی نگرانی کے ماتحت سلسلہ کی آواز سارے ہندوستان میں پھیل جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر موجودہ صورت میں فِی الْحال تین چار آدمیوں کا ایک گروپ بنا دیا جائے تو بھی کام چل سکتا ہے۔ ان میں سے ایک عربی دان ہو، ایک انگریزی دان ہو جو سیاسیات اور اقتصادیات کے متعلق لیکچردے سکے اور ایک لیکچرار ایسا ہو جو مختلف مذہبی جماعتوں کے متعلق واقفیت رکھتا ہو۔ مثلاً سکھوں کے متعلق یا برہمو سماجیوں کے متعلق یا مسز اینی بیسنٹ6 کی تھیوسافیکل سوسائٹی والوں کے متعلق۔ اس طرح اگر ہمیں مناسبِ حال لیکچرار مل جائیں جو سارے ہندوستان کا دورہ کرتے پھریں۔ دو تین ماہ دَورہ کریں پھر ایک دو ماہ قادیان آکر آرام کریں اور پھر دَورہ شروع کر دیں تو میں سمجھتا ہوں اگر چوبیس پچیس لیکچرار آہستہ آہستہ تیار ہو جائیں تو اِس سال میں بڑی بڑی تمام جگہوں پر تین تین چار چار دفعہ تقریریں ہو جائیں گی۔ اگر ایک جلسہ اور دوسرے جلسہ کے درمیان کا فاصلہ ایک ہفتہ رکھا جائے اور پھر چھٹیاں بھی نکال دی جائیں تو ہر انسان چالیس لیکچر دے سکے گا۔ اگر تیس لیکچر بھی سمجھ لئے جائیں اور چوبیس آدمی ہوں تو اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ سال بھر میں سات سَو بیس لیکچر ہو جائیں گے۔ اگر سو بڑے بڑے شہروں میں لیکچر دیئے جائیں تو سات لیکچر ایک شہر میں ہو جائیں گے۔ یہ کتنا عظیم الشان کام ہو گا۔ سات لیکچر ہونے کے معنے یہ ہیں کہ لوگوں کو ہر دوسرے مہینے لیکچر سننے کا موقع مل جائے گا۔ اِس کے لئے نظارت دعوۃ و تبلیغ کو چاہیے فورًا ایک ایک انگریزی دان، عربی دان، ہندو، سکھ مذاہب سے واقفیت والے آدمی تیار کرے۔ ان کا کام یہ ہو گا کہ وہ تمام ہندوستان میں دَورہ کر کے تقریریں کریں۔ ان کے لئے تقاریر کا پروگرام مرکز تجویز کرے گا۔ ہاں اگر ضرورت کے موقع پر وہ کوئی اَور لیکچر بھی کسی جگہ دے دیں تو اِس میں حرج نہیں ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی جماعت میں تحریک کی جائے کہ بڑے بڑے شہروں کی جماعتیں اپنے ہاں مشورہ کر کے ہمیں بتائیں کہ وہ کس کس وقت جلسہ کرانا چاہتی ہیں۔ میرے نزدیک اگر پنجاب میں جنوری، فروری اور مارچ کے مہینوں میں دَورے کئے جائیں اور اپریل کا مہینہ چھٹی کر دی جائے کیونکہ یوپی میں اپریل مئی کے مہینوں میں شدید گرمی ہوتی ہے اس لئے کام نہیں ہو سکتا۔ پھر جون ، جولائی اور اگست میں یو پی اور بہار کا دَورہ کیا جائے اور ستمبر، اکتوبر ، نومبر اور دسمبر میں بنگال آسام کا دَورہ ہو تو دو سال میں سارے ہندوستان کا دَورہ ہو جائے گا۔ لیکن اگلے سال تک اگر دوسری پارٹی تیار ہو جائے تو ان دو پارٹیوں میں سے ایک پارٹی شمالی ہند کا دَورہ کر سکتی ہے اور دوسری جنوبی ہند کا۔ اِس طرح ایک ہی وقت میں سارے ملک میں آوازیں بلند کی جا سکتی ہیں۔ ان دَوروں کے وقت جو اعتراضات اِن مبلغین پر ہوں وہ اُن کو جمع کرتے چلے جائیں اور جب وہ ایک مہینہ کی چھٹی پر قادیان آئیں تو ان کی روزانہ مجلس ہو جس میں اُن سوالوں کے جواب تیار کئے جائیں اور جو مشکلات اُن کو پیش آئیں ان کو مدنظر رکھ کر آئندہ پروگرام بنایا جائے۔ اِس طریق سے ایک ہی وقت میں بہت سے مقامات میں احمدیت کی آواز بلند کی جا سکتی ہے۔ اگر ہمارے پاس کافی تعداد میں آدمی تیار ہو جائیں تو سارے ہندوستان میں منظّم طو رپر یہ تبلیغی سکیم جاری کی جا سکتی ہے۔ اگر ہمیں انگریزی میں تقریر کرنے والے چھ سات آدمی مل جائیں اور ان کے ساتھ عربی دانوں اور ہندی دانوں کو ملا کر چھ گروپ بنا دیئے جائیں تو بار بار سارے ہندوستان میں تقریریں ہو سکتی ہیں۔ اور تھوڑے وقت میں بہت زیادہ کام سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ اور ہم ہندوستان کے ہر گوشہ میں اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں۔ اس طرح ہندوستان کے ہر بڑے شہر میں ہمارے مبلغین کو مجموعی طو رپر سال میں قریباً تین ہفتے ٹھہرنے کا موقع مل جایا کرے گا۔
پس جہاں میں نظارت دعوۃ و تبلیغ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس قسم کی تبلیغ کا انتظام کرے وہاں میں نوجوانوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اپنی زندگیاں اِس کام کے لئے وقف کریں اور خدمتِ دین کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مورد بنیں۔ کسی کا یہ خیال کر لینا کہ موجودہ مبلغوں میں سے کسی مبلغ کو فارغ کر لیا جائے گا درست نہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے موجودہ مبلغوں میں سے کوئی بھی اس کام کے لئے فارغ نہیں کیا جا سکتا۔ پہلے ہی مبلغین کے پاس اتنا کام ہے جو اُن کی طاقت سے بیسیوں گُنا زیادہ ہے۔ پھر پہلے مبلغین کا کام اَور قسم کا ہے اور یہ کام اَور قسم کا ہو گا۔ بہرحال ہم پہلے مبلغوں میں سے کسی کو فارغ نہیں کر سکتے۔ پس میں نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی زندگیاں دین کی اشاعت کے لئے وقف کرکے رضائے الٰہی کے مستحق بنیں۔
اس کے بعد میں ایک چھوٹی سی بات تجارت کے حصہ کے متعلق کہنا چاہتا ہوں۔ وقفِ تجارت کے متعلق دفتر تحریک جدید میں سَو کے قریب درخواستیں آچکی ہیں اور ان میں سےبعض لوگ گھبرا گئے ہیں کہ ہمیں درخواست دیے ہوئے اِتنی دیر ہو گئی ہے لیکن ابھی تک ہمیں بُلایا نہیں گیا اور وہ بار بار اِس کے متعلق خط لکھ رہے ہیں۔ حالانکہ ایسے کام کے لئے بہت لمبے وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آخر ان لوگوں کو ایسے علاقوں میں بھجوا دینا جن کے متعلق ہمیں کچھ بھی علم نہیں کہ وہاں کے حالات کیسے ہیں کِس طرح درست ہو سکتا ہے۔ بے شک وقف کرنے والے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں لیکن ہمیں بھی تو عقل سے کام لینا چاہیے۔ جس جگہ کے حالات کے متعلق نہ ہمیں خبر ہو نہ پتہ اور نہ ہم وہاں کے حالات کا اندازہ لگا سکتے ہوں ایسی جگہ کسی آدمی کو بھیجنا گویا اُس کو ایسی مصیبت میں ڈالنا ہے کہ ممکن ہے وہ اُس مصیبت کو برداشت نہ کر سکے۔ پس ہمیں جب تک ان علاقوں کے حالات کے متعلق پوری واقفیت نہ ہو جائے ہم کیوں کسی کو مصیبت میں ڈالیں۔
تجارت کی اِس سکیم کے لئے ابتدائی کارروائی شروع کر دی گئی ہے اور یہ تجویز کیا گیا کہ بمبئی میں تحریک جدید کی طرف سے ایک ایجنسی جاری کی جائے اور ہمارے دو تین آدمی کمیشن ایجنسی کا بمبئی میں تجربہ حاصل کریں۔ کیونکہ ایسے آدمیوں کا ملنا مشکل ہے جو اِس کام کے متعلق پہلے ہی تجربہ رکھتے ہوں۔ جب یہ اس کام کو سیکھ لیں گے تو ان کو مدراس، کراچی یا دوسری جگہوں میں پھیلا دیا جائے گا۔ اور ان کے ساتھ کچھ اَور آدمی لگا دیے جائیں گے جن کو یہ لوگ کام سکھائیں گے۔ اِس طرح تھوڑے تھوڑے آدمی کام سیکھتے چلے جائیں اور کام پر لگتے چلے جائیں گے۔ ابتدا میں ہر علم کو سیکھنا پڑتا ہے کیونکہ بغیر سیکھے کوئی علم حاصل نہیں ہو سکتا۔ اِسی طرح تجارت کا علم بھی سیکھنے سے ہی آتا ہے۔ بیرونی ممالک میں سے بعض ملکوں میں ہمارے آدمی پہنچ چکے ہیں اور اُن کی طرف سے خط و کتابت جاری ہے۔ اور امید ہے کہ جلدی ہی ان بیرونی ممالک اور ہندوستان میں تجارت کا کام شروع کر دیا جائے گا۔ مجھے محکمہ تجارت کی طرف سے یہ شکایت پہنچی ہے کہ احمدی صنّاع اُن کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔ اس کے برعکس غیر احمدی صنّاع ان سے ہر قسم کا تعاون کر رہے ہیں۔ بعض احمدی صنّاعوں سے کہا گیا کہ جو چیزیں وہ تیار کرتے ہیں اُن کا نمونہ دیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی نمونہ نہ دیا۔ اِس کے مقابلہ میں سیالکوٹ کے ایک صنّاع نے جو غیر احمدی ہے محکمہ تجارت والوں کو لکھا کہ میں اِس کے لئے تیار ہوں۔ اور جب محکمہ والوں کی طرف سے اُسے جلد جواب نہ پہنچا تو وہ خود قادیان آیا اور کہا کہ میں واپس جاتے ہی اپنے مال کے نمونے بھجوا دوں گا۔
جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے گزشتہ خطبات میں بیان کیا تھا کہ ہماری غرض تجارت کے ذریعہ تبلیغی سنٹر قائم کرنا ہے۔ اگر بڑے بڑے شہروں میں ہمارے تجارتی مرکز قائم ہو جائیں تو ان مرکزوں کے ذریعہ تبلیغ بہت آسانی سے وسیع کی جا سکتی ہے اور جماعت پر کسی قسم کا مالی بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔ دوسری غرض یہ ہے کہ جماعت میں صنعت و حرفت اور تجارت کو ترقی دی جائے۔ اور صنّاعوں اور تاجروں میں ایک نظام قائم کر دیا جائے اور ان کی ایک جماعت اور جتھا بن جائے۔ اور وہ منظم طو رپر دنیا میں ایسے پھیل جائیں جیسے کیکڑے کے پاؤں چاروں طرف پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور احمدی تاجروں کو تجارت میں اِتنی طاقت حاصل ہو جائے کہ ہر قوم اِن سے مل کر تجارت کرنے پر مجبور ہو جائے ۔ دنیا میں بعض قومیں بعض خاص قسم کی چیزوں کی تجارت کرتی ہیں اور اُن چیزوں پر اُن کا قبضہ ہوتاہے۔ گو عام طور پر وہ دوسری چیزوں کی بھی تجارت کر لیتی ہیں لیکن وہ خاص چیز جس کی وہ تجارت کرتی ہیں اُن کی تجارت کا محور اور ستون ہوتا ہے اور کوئی شخص اُس کی تجارت میں اُن کے مقابل پر آکر جیت نہیں سکتا۔ مثلاً بعض قومیں کپڑے کی تجارت کرتی ہیں۔ اور بعض چمڑے کی تجارت کرتی ہیں۔ لوگ عام طور پر ان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ میرے مدنظر یہ بڑی بڑی دو اغراض تھیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے بعض افراد میں ابھی اِس چیز کی اہمیت کا احساس پیدا نہیں ہوا۔ میں نے اعلان کیا تھا کہ صنّاع اور تاجر محکمہ تجارت سے تعلق قائم کریں اور ہر رنگ میں ان سے تعاون کریں۔ لیکن میرے اس اعلان کے باوجود جو لوگ تعاون نہیں کرنا چاہتے محکمہ تجارت کو چاہیے کہ ان کی پروا نہ کرے۔ ہماری غرض تجارت سے تبلیغ کو پھیلانا ہے۔ چاہے تبلیغ احمدیوں کے مال سے ہو یا ہندوؤں اور سکھوں کے مال سے ہو۔ یا عیسائیوں کے مال سے ہو۔ یعنی ہم کمیشن ایجنسیاں قائم کر رہےہیں۔ خواہ ہمیں کسی احمدی کے مال کی ایجنسی مل جائے یا ہندو یا سکھ یا عیسائی فرم کی ایجنسی مل جائے ہماری پہلی غرض ہر رنگ میں پوری ہو جائے گی۔ یعنی ہم اپنی تبلیغ کو دنیا کے ہر حصہ میں پھیلا سکیں گے۔ اگر ایک شخص کے پاس سکھ فرم کی ایجنسی ہے اور اسے تبلیغ میں ہر قسم کی آسانی ہے اور وہاں اس کے حالات ایسے ہیں کہ وہ خود بھی تبلیغ کر سکتا ہے دوسروں سے بھی تبلیغ کرا سکتا ہے۔ اگر کوئی مبلغ اُس کے پاس جائے۔ وہ اُس کی تقریر کا انتظام کرا سکتا ہے۔ اور اس کے رستہ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں تو ہماری پہلی اور اصل غرض پوری ہو گئی۔ ہمارا اِس میں کیا حرج ہے کہ تبلیغ سکھ کے مال سے ہو یا کسی اور قوم کے مال سے۔
پس اگر جماعت کے صنّاع اور تاجر تعاون نہ کریں تو بھی ہمارا پہلا نقطہ نگاہ پورا ہو جائے گا اور دوسرے نقطہ نگاہ کے لحاظ سے بھی تحریک جدید کو کوئی نقصان نہیں۔ اگر ہماری تجارتی سکیم کامیاب ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کےفضل اور اُس کی نصرت سے تجارت کے کچھ حصہ پر ہم قابض ہو جائیں اور ہماری تجارت ہندوستان اور بیرونی ممالک میں شروع ہو جائے اور فرض کرو کہ ہماری ہزار ایجنسیاں ہندوستان اور بیرونی ممالک میں قائم ہو جائیں تو پھر حسرت انہیں لوگوں کو ہو گی جنہوں نے محکمہ تجارت سے تعاون نہ کیا۔ کیونکہ اگر وہ تعاون کرتے تو ان کی چیزیں ہزار جگہ بکنے لگ جاتیں۔ پس محکمہ کو کسی طرح بھی نقصان نہیں۔ لیکن اگر فرض کیا جائے کہ محکمہ کو اِس کام میں اُس کی نادانی اور ناواقفی کی وجہ سے کامیابی نہ ہو پھر بھی ہمارا فائدہ ہے کہ ایک احمدی تاجر یا صنّاع کے چار پانچ روپے کے نمونے بچ گئے۔ گو عام طو رپر کمیشن ایجنسی سے نقصان نہیں ہؤا کرتا۔ پس اس بات کی پروا نہیں کرنی چاہیے کہ کوئی تعاون کرتا ہے یا نہیں کرتا بلکہ بار بار تحریک کرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ یہ ایک نیا کام ہے اور ہر نئی چیز سے لوگ گھبراتے ہیں۔ اور جب بار بار وہی چیز اُن کےسامنے آتی ہے تو پھر اُس سے مانوس ہو جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ محکمے کی ناتجربہ کاری ہے کہ وہ اِتنی جلدی گھبرا گئے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایک آواز اٹھائی جائے تو سب لوگ فورًا اُس کی طرف بھاگ پڑیں۔ بلکہ دنیا کا یہ قاعدہ ہے کہ جب ایک کام کے متعلق کہا جائے کہ یہ مفید ہے تو وہ لوگ جو اصل حالات سے واقف نہیں ہوتے وہ اپنےعلم اور کہنے والے کے علم کا مقابلہ کرتے ہیں اور چونکہ ہر ایک کا علم الگ الگ ہوتا ہے اِس لئے وہ لوگ اس کام کے کرنے میں تاخیر کرتے ہیں۔ اور جب ان پر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ کام واقعی مفید ہے تو خود بخود اُس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ صنعت و حرفت کرنا اَور چیز ہے اور صنعت و حرفت کو منظّم کرنا اَور چیز ہے۔ تجارت کرنا اَور چیز ہے اور تجارت کو منظّم طور پر چلانا اَور چیز ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جو شخص تجارت کی تنظیم کر سکتا ہو وہ تجارت بھی اعلیٰ درجے کی کر سکتا ہو ۔یا جو شخص صنعت و حرفت میں کامیاب ہو وہ اُس کی تنظیم میں بھی کامیاب ہو۔ یا جو شخص تجارت میں کامیاب ہو وہ اُس کی تنظیم میں بھی کامیاب ہو۔ یا جو شخص صنعت و حرفت کی تنظیم میں کامیاب ہو وہ صنعت و حرفت بھی اعلیٰ درجے کی جانتا ہو۔ یہ دونوں الگ الگ راستے ہیں۔ اس لئے ضروری نہیں کہ تمام صنّاع یا تاجر سیکرٹری تجارت کی بات فورًا مان لیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے سیکرٹری تجارت کسی کو کہے کہ دو روپے جوہڑ میں ڈال دو۔ تو وہ کبھی بھی اِس کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ اِسی طرح اگر سیکرٹری تجارت کسی کو کہے کہ دو روپے کا نمونہ جوہڑ میں پھینک دو تو وہ کبھی بھی پھینکنے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ اور وہ نہ پھینکنے میں حق بجانب ہو گا۔ اِسی طرح اِس وقت عام لوگوں کےنزدیک سیکرٹری تجارت کو نمونہ دینا گویا جوہڑ میں ڈالنے کے مترادف ہے اس لئے وہ تعاون نہیں کرتے۔ پس گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ بار بار مختلف رنگوں میں تحریک کرتے رہنا چاہیے۔ ابتدا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جماعت کے لوگوں کو چندہ ضرور دینا چاہیے خواہ تین مہینہ میں ایک دھیلہ ہی دیں۔ لیکن آہستہ آہستہ تین ماہ میں ایک دھیلہ سے بڑھتے بڑھتے ہر ماہ ایک آنہ فی روپیہ تک پہنچ گیا ہے۔ بلکہ اگر دوسری تحریکوں کے چندوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ دس فیصدی تک پہنچ جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض لوگ جو نکمے اور بے اثر ہیں وہ ایک آنہ فی روپیہ بھی چندہ نہیں دیتے۔ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اکثر ایسے ہیں جو بہت زیادہ چندہ دیتے ہیں۔ حالانکہ اس کی ابتدا تین ماہ میں ایک دھیلہ سے ہوئی تھی۔ پھر جن لوگوں کی وصیت ہے اُن میں سے بعض پندرہ فیصدی تک دیتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو تینتیس فیصدی تک دیتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو پچاس فیصدی تک بلکہ اس سے بھی زیادہ دیتے ہیں۔ اور ابھی ہم خوش نہیں بلکہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں اِس سے بھی زیادہ قربانی کرنی چاہیے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے تین ماہ میں ایک دھیلے سے کام شرو ع کیا تھا تو سیکرٹری صاحب تجارت کون ہیں کہ ان کا کام پہلے دن ہی روپیہ سے شروع ہو۔ پس لوگوں کو بار بار تحریک کرتے رہنا چاہیے۔ جو آج قائل نہیں وہ کل ہو جائیں گے۔ جو کل قائل نہ ہوں گے وہ پرسوں قائل ہو جائیں گے۔ جو پرسوں قائل نہ ہوں گے وہ اترسوں قائل ہو جائیں گے۔ اس کے بِالمقابل میں احمدی صنّاعوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ وقت کی ضرورت کو پہچانیں اور جو بھی ان کی صنعت ہو مثلاً کوئی بٹن بنا رہا ہے، کوئی سیاہی بنا رہا ہے، کوئی پالش بنا رہا ہے وہ اپنے اپنے نمونے محکمہ تجارت کو بھجوا دیں۔ کیونکہ جہاں جہاں محکمہ کی ایجنسیاں قائم ہو گئی ہیں وہاں کے لوگ نمونے مانگتے ہیں۔ اور محکمہ کے پاس نمونے نہ ہوں تو اِسے بہت دِقت پیش آتی ہے۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ نوجوان اور صنّاعوں کا عجیب قسم کا مطالبہ ہے کہ سلسلہ اُن کی چیزوں کی ایڈورٹائزمنٹ(Advertisement) بھی کرے اور جب باہر سے ان چیزوں کے نمونے مانگے جائیں تو قیمتاً خرید کر بھیجے۔ جو لوگ نمونے مفت دیں اُن کا مطالبہ تو کسی قدر صحیح تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن جن لوگوں نے نمونے مفت نہیں دیے اُن کا یہ مطالبہ کسی طرح درست نہیں کہ ہماری چیزوں کے اشتہار بھی تم دو۔ اور اگر باہر سے ان چیزوں کے نمونے مانگے جائیں تو خرید کر بھیج د و۔
آجکل تجارت میں کامیابی کا سب سے بڑا راز یہی سمجھا جاتا ہے کہ اشتہار سے کام لیا جائے اور اپنی چیز کو ملک میں زیادہ سے زیادہ شُہرت دی جائے۔ انگلستان میں اس بات کا اس قدر خیال رکھا جاتا ہے کہ ویمبلے اِگزیبشن(Exhibition) میں ایک تین آنے کی نِب کے لئے اس کے مالک نے بائیس ہزار روپیہ دے کر ایک میز کی جگہ لی۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ تین آنے کی نِب کے لئے آپ نے بائیس ہزار روپیہ خرچ کیا ہے اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟ اس نے کہا یہ رقم تو کچھ بھی نہیں ہمارا ڈیلی میل (Daily Mail) میں روزانہ اشتہار چھپتا ہے اُس کے لئے ہم پندرہ ہزار پونڈ سالانہ ڈیلی میل والوں کو دیتے ہیں۔ گویا سوا دو لاکھ روپے وہ اشتہار کے لئے ڈیلی میل والوں کو دیتے تھے حالانکہ اُن کو کوئی خاص کامیابی بھی نہ ہوئی۔ کیونکہ بعد میں مَیں نے وہ نِب کسی کے پاس نہیں دیکھا۔ لیکن باوجود اِس کے وہ لوگ اشتہارات پر بہت سارا روپیہ خرچ کر دیتے ہیں تاکہ ان کے نام کی شُہرت ہو جائے۔ اور دنیا کا یہ قاعدہ کے کہ جس فرم یا جس کمپنی کا نام لوگوں نے سنا ہوا ہو اُس کی چیز خرید لیں گےقطع نظر اِس کے کہ وہ چیز کسی کام کی ہے یا نہیں۔
پس اپنی چیز کو شُہرت دینا اِس زمانہ میں تجارت کا ایک ایسا حصہ ہے جس کے بغیر تجارت میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ فرض کرو ایک شخص جس چیز کی شُہرت نہیں وہ بازار میں اپنی چیز لے کر آیا اور سارے بازار میں پھر گیا۔ لیکن اُس سے کسی نے نہ خریدی تو اُس کا بازار میں پھرنا بے فائدہ اور بے کار نہیں ہو گا بلکہ دوسری دفعہ جب وہ آئے تو اُس کو نئی واقفیت پیدا کرنے یا اپنی واقفیت کرانے کی ضرورت نہ ہو گی۔ کیونکہ بازار کے لوگ اُس کے متعلق جانتے ہوں گے کہ ان کا فلاں چیز کا کارخانہ ہے۔ اور جس کو ضرورت ہو گی وہ اسے آرڈر دے کر اس سے لے لے گا۔ اور اس کا پہلی دفعہ آنا اسے نئی تحقیقات سے بچالے گا اور ایک دفعہ جب واقفیت ہو جائے تو پھر لوگ ہمیشہ تحقیقات نہیں کیا کرتے۔ میں حیران ہوں کہ تاجر لوگ اِن باتوں کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں لیکن پھر بھی اُنہیں اِس طرف توجہ دلانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بہرحال ہمارے محکمہ تجارت کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اسے صنّاعوں سے تحریک کرتے رہنا چاہیے اور بار بار لوگوں کو کہنا چاہیے کہ جو لوگ اُنہیں نمونے بھیجیں اُن کو وہ بنیاد کے طور پر استعمال کریں۔ اور اپنی تجارت کی اِس پر بنیاد رکھیں۔ اور میں جماعت کے تاجروں اور صنّاعوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ محکمہ تجارت سے تعاون کریں اور اپنی چیزوں کے نمونے اسے بھیج دیں۔ جن لوگوں کے نمونے آئیں گے ہم انکے لئے کوشش کریں گے کہ ہندوستانی اور بیرونی ممالک میں جہاں جہاں ہمارے آدمی موجود ہیں وہاں ان کے نمونے بھجوادیں۔ پھر جس جس ملک سے مانگ آئے گی اُس کو مہیا کرتے چلے جائیں گے۔
پس جن لوگوں نے تجارت کے لئے زندگیاں وقف کی ہیں اُن کو گھبرانا نہیں چاہیے اور جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ جُوں جُوں ان کے لئے کام نکلتا آئے گا ہم ان کو بلاتے جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِس وقت تینوں کی گھبراہٹ فضول ہے۔ یعنی زندگیاں وقف کرنے والوں کی جلدی کرنا اور گھبرانا فضول ہے ہم ان کے بلانے کے لئے آہستہ آہستہ انتظام کر رہے ہیں۔ اور تاجروں اور صنّاعوں کا بخل بھی غلط ہے۔ انہیں اپنے نمونے بھیجنے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اور محکمہ تجارت کو بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اگر احمدی تاجر اور صنّاع ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے تو کوئی حرج نہیں۔ ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کے پاس بہت کام ہے اور تمام تجارت انہیں کے ہاتھوں میں ہے اُن سے مل کر اپنے لئے تجارت کا میدان تیار کرنا چاہیے ۔ احمدیوں کے پاس تو تجارت کا ایک فیصدی بھی نہیں بلکہ ایک فیصدی تو کیا احمدیوں کے پاس تجارت کا کروڑواں حصہ بھی نہیں۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ کروڑویں حصے کا 10/1 حصہ بھی احمدیوں کے پاس نہیں۔ پس ان کے تعاون نہ کرنے سے گھبرانا خلافِ عقل ہے۔ ’’
(الفضل 7 نومبر1945ء )
1:کنڑی: Kinnuari اس کو Kanauri اورKanor کے تلفظ سے بھی لکھا جاتا ہے۔ یہ وہ
زبان ہے جو انڈیا کے صوبہ ہما چل پردیش کے Kinnaur ضلع میں بولی جاتی ہے۔ اور
2000ء کی مردم شماری کے دوران یہ زبان بولنے والوں کی تعداد 70 ہزار افراد تھی۔
(Wikipedia – Kinnauri Language)
2 :اِکّا: (یکّہ) گھوڑا جس گاڑی کو کھینچتا ہے۔
3: بخاری کتاب الایمان باب الدِّیْنُ یُسْرٌ
4 :صَرفِ میر: میر سید علی بن محمدبن علی شریف حسینی جرجانی (1339ء1413-ء)المعروف
سیدالشریف جرجانی کی مؤلفہ عربی قواعد کی کتاب۔
5 :نحوِ میر: میر سید علی بن محمدبن علی شریف حسینی جرجانی (1339ء1413-ء)المعروف
سیدالشریف جرجانی کی مؤلفہ عربی قواعد کی کتاب۔
6 :اینی بیسنٹ: (Annie Besant):(1847ء تا 1933ء) انگریز تھیاسوفسٹ اور مقرر۔
انہوں نے ہندوستان میں ہوم رول کی تحریک چلائی۔ 1889ء میں میڈم بلاوسکی کی
تعلیمات سے متاثر ہوکر تھیو سوفسٹ ہوگئیں۔1907ء میں تھیوسوفیکل سوسائٹی کی صدر
منتخب ہوئیں۔ جدوجہد آزادی میں انہوں نے نہایت اہم کردار سرانجام دیا۔
(Wikipedia under the topic of “ Annie Besant”)



38
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کے بعد جو کسی کو نہیں مل سکا وہ آج حاصل ہو سکتا ہے
(فرمودہ23نومبر1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدفرمایا:
‘‘حضرت خواجہ نظام الدین صاحبؒ اولیاء ہندوستان کے چوٹی کے بزرگوں میں سے تھے۔ چنانچہ ہندوستان میں جو سلسلہ ولایت جاری ہوا اُس میں وہ چوتھے نمبر پر ہیں۔ خواجہ معین الدین صاحب چشتیؒ سب سے پہلے ہندوستان میں تشریف لائے اور اجمیر میں اپنا مرکز قائم کر کے اشاعتِ اسلام کا کام نہایت شاندار طریق پر سر انجام دیا۔ ان کے بعد حضرت خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکیؒ ان کے خلیفہ مقرر ہوئے جنہوں نے دہلی میں اسلام کا عَلم بلند کیا۔ ان کے خلیفہ حضرت خواجہ فرید الدین صاحبؒ شکر گنج والے جن کی پاک پتن میں گدّی ہے ان سے تصوف کا علم حاصل کر کے پاک پتن میں تشریف لائے اور پنجاب میں تبلیغ کی اہم بنیاد ڈالی۔ یہ دیکھ کر کسی نے دہلی والوں کو طعنہ دیا کہ تمہاری برکات تو پنجاب لے گیا ہے۔ اِس پر حضرت خواجہ نظام الدین صاحب ؒ دہلی سے حضرت خواجہ فرید الدین صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے شاگرد بن کر روحانیت کا سبق حاصل کرنے لگے۔ جب کچھ عرصہ کے فیضِ صحبت کے بعد وہ روحانی منازل طے کرنے لگے تو حضرت خواجہ فرید الدین صاحب نے انہیں پروانہ ٔ خلافت عطا کیا اور انہوں نے دہلی میں تبلیغِ اسلام کا کام شروع کیا۔ پس وہ ہندوستان کی روحانی بادشاہت میں چوتھے بادشاہ تھے۔ ہندوستان میں اسلام کا بہت کچھ رُعب حضرت خواجہ نظام الدین صاحبؒ کی وجہ سے ہی قائم ہوا ہے کیونکہ ان کے زمانہ میں اسلامی حکومت کا قیام ہوا۔ اور چونکہ حکومت کی وجہ سے کمزور ایمان والے لوگ دنیا کی طرف جھک جاتے ہیں اور ان میں دین کی محبت اور قربانی کا وہ جذبہ قائم نہیں رہتا جو پہلے ہوتا ہے اِس لئے ان خرابیوں کی اصلاح کا فرض بھی خواجہ نظام الدین صاحبؒ پر عائد ہوا جس کو انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیا۔ خواجہ نظام الدین صاحبؒ کےا یک شاگرد خواجہ غلام علی صاحب تھے جو بعد میں ان کے خلیفہ اور جانشین ہوئے۔ ان سے ایک دفعہ مجلس میں کوئی ایسی حرکت سرزد ہوئی جو نامناسب تھی۔ اتفاق ایسا ہو اکہ خواجہ صاحب نے ان کی اس غلطی کو دیکھ لیا اور انہیں سخت تکلیف ہوئی کہ میری صحبت میں ایک لمبا عرصہ رہنے کے باوجود انہوں نےا پنی اصلاح کی کوشش نہیں کی۔ دوسری طرف شاگرد کی نظر بھی اپنے استاد پر جا پڑی اور اس نے سمجھ لیا کہ میری غلطی کو خواجہ صاحب نے دیکھ لیا ہے۔ جب ایک طرف استاد کی نظر اپنے شاگرد پر پڑی اور دوسری طرف شاگرد کی نظر اپنے استاد پر پڑی تو خواجہ غلام علی صاحب نے اپنے پِیر کو مخاطب کرتے ہوئے بے اختیار کہا؂
زُہد تایاں فسق مایاں کم نہ کرد
فسق مایاں بہتر از زہدِ شماست
یعنی آپ کے تقویٰ نے میری کمزوریوں کو دور نہیں کیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ میری گنہگاری آپ کی نیکی سے طاقتور ہے۔ کیونکہ جب دونوں کا آپس میں مقابلہ اور ٹکراؤ ہوا تو میری بدی آپ کی نیکی پر غالب آگئی۔ حالانکہ میں نے نیکی کو موقع دیا تھا کہ وہ میری بدی پر غالب آجائے لیکن اس کے باوجود میری بدی آپ کی نیکی پر غالب آگئی ۔شاگرد کے اس کلام سے خواجہ صاحب کے دل کو چوٹ لگی۔ اور انہوں نے جواب میں کہا اچھا دیکھا جائے گا۔ پھر کچھ ایسے درد سے انہوں نےد عا کی کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کی اصلاح کی بلکہ ایسی اصلاح کی کہ ان کے ذریعہ دوسرے لوگوں کی بھی بہت بڑی اصلاح ہوئی اور وہ دین کے چراغوں میں سے ایک چراغ بن گئے۔ اس قسم کے مقابلے دنیا میں ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں۔ کُفر اور اسلام کی جنگ نہ پہلے ختم ہوئی اور نہ آئندہ زمانہ میں ختم ہوگی۔
اگر ہم پیدائشِ عالَم سے لے کر اب تک دنیا کا نقشہ اپنی آنکھوں کے سامنے لائیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا ایک اکھاڑہ ہے جس میں اسلام اور کفر کے پہلوانوں کی آپس میں کُشتیاں ہو رہی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ اس کُشتی میں کون جیتتا اور کون ہارتا ہے۔ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے پیدا ہوتے ہیں جو نور کو دنیا میں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سےا نہیں شیطان پر غلبہ عطا کر دیتا ہے اور کبھی اللہ تعالیٰ کے بندے اس سے ایسے غافل اور ظلمت سے مانوس ہو جاتے ہیں کہ شیطان کا پلّہ بھاری ہو جاتا ہے اور وہ خدائی پہلوانوں کو پچھاڑ دیتا ہے۔ یہ کُشتی ابتدائے عالَم سے شروع ہوئی اور انتہائے عالَم تک ہوتی چلی جائے گی۔ آدم کے زمانہ سے لے کر آج تک ہمیشہ کچھ بندے ایسے گزرے ہیں جو اس دنیا کی زندگی کو اپنی اخروی زندگی کی کھیتی تیار کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے رہے اور آئندہ آنےو الی زندگی کے لئے تمام تکلیفوں کو خوشی سے برداشت کرتے رہے۔ لیکن بعض بندے ایسے ہوتے ہیں جو اِس دنیا کی خاطر اپنی اخروی زندگی کو قربان کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ جب مریں گے اور مرنا ہر ایک نے ہی ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس نے نہیں مرنا۔ تو وہ اِس دنیا سے خالی ہاتھ جائیں گے اور خالی ہاتھ اپنے رب سےملیں گے۔ لیکن وہ لوگ جو اِس دنیا کو اُخروی زندگی کے لئے ایک مزرعہ سمجھتے ہیں اور اُخروی حیات کے لئے ہر قسم کی تکالیف خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں وہ اپنی آئندہ زندگی کے لئے بہت سے سامان اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔ اگر ہم دنیا کے حالات پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اِس عالَم میں کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کے ماتحت اِس دنیا میں بھی آرام ملتا ہے اور اگلے جہان میں بھی آرام ملے گا۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اِس زندگی میں تو آرام نہیں ملتا لیکن آئندہ زندگی میں اللہ تعالیٰ ان کے لئے ہر قسم کے آرام کے سامان پیدا کرے گا۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے اِس جہان میں تو آرام کے سامان ہیں لیکن اگلے جہان میں ان کے لئے آرام کا کوئی سامان نہیں ہو گا۔ اگر یہ درست ہے اور تمام مذاہب میں یہی بات درست سمجھی جاتی ہے اور تمام تجربہ کار لوگوں کا یہی قول ہے کہ اِس دنیا کی زندگی اخروی زندگی کے مقابلہ میں بالکل حقیر چیز ہے، یہ اُس کے مقابلہ میں اُتنی بھی حیثیت نہیں رکھتی جتنی سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ حیثیت رکھتا ہے تو جس نے قطرہ کی حفاظت کی اور سمندر کو چھوڑ دیا اور جس شخص نے قطرے کو چھوڑ دیا اور سمندر کو رکھ لیا وہ دونوں آپس میں برابر نہیں ہو سکتے۔ قطرہ آج نہیں تو کل ختم ہو جائے گا مگر سمندر کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔
وہ لوگ جو اِس دنیا سے بالکل فائدہ نہیں اٹھاتے یا اِس دنیا سے کم فائدہ اٹھاتے ہیں وہ انبیاء کے زمانے کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں اکثر حصہ ایسا ہوتاہے جو راحت و آرام کے سامانوں سے کُلّی تہی دست ہوتا ہے یہاں تک کہ اُن کے حالات پڑھ کر ہر وہ شخص جس کے سینہ میں روشن دل موجود ہو اپنی رِقّت کو روک نہیں سکتا۔
حضرت عثمان بن مظعونؓ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے انتہائی شیدائیوں میں سے تھے وہ مکہ کے رئیس گھرانہ میں سے تھے۔ مگر اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے طرح طرح کی تکالیف برداشت کیں اور ان کی حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ مکہ سے ہجرت کے ارادہ کے ساتھ حبشہ کی طرف چل پڑے۔ راستہ میں انہیں اپنے باپ کا ایک گہرا دوست مل گیا۔ اُس نے پوچھا عثمان کہاں جارہےہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ مکہ والوں نے مکہ میں میرا رہنا دشوار بنا دیا ہے اِس لئے میں عرب سے باہر اپنے لئے کوئی جگہ تلاش کرنے چلا ہوں۔ اس رئیس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے کہا عثمان! تمہارا باپ میرا دوست تھا اور ہم ایک دوسرے پر جان فدا کیا کرتے تھے۔ اب میری زندگی میں تمہارا مکہ سے جانا بڑی ذلت کی بات ہے تم بغیر کسی قسم کے خطرہ کے میرے ساتھ واپس چلو تم کو کوئی شخص تکلیف پہنچانے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ وہ زور دے کر حضرت عثمانؓ کو واپس لے آیا اور اُس نے خانہ کعبہ میں اِس بات کا اعلان کر دیا کہ عثمان میری حفاظت میں ہے۔ اگر کوئی شخص انہیں کچھ کہے گا تو وہ میرے نزدیک ایسا ہی ہو گا جیسا اُس نے مجھے تکلیف دی۔ اِس اعلان کی وجہ سے حضرت عثمانؓ کے لئے تکالیف اور مشکلات کم ہو گئیں اور وہ آزادانہ طور پر مکہ کے گلی کُوچوں میں پھرنے لگے۔ ایک دفعہ حج کے ایام میں آئے تو لبید جو کہ بعد میں مسلمان ہو گئے تھے اور ایک سَو بیس سال کی عمر میں فوت ہوئے ایک مجلس میں رؤسا کو شعر سنانے لگے۔اُس وقت ان کی عمر اسّی سال کے قریب تھی اور بوجہ اِس کے کہ وہ عرب کے سب سے بڑے شاعر تھے اور بوجہ اِس کےکہ وہ بڑی عمر کے تھے اورعرب لوگ بڑی عمر والوں کا خاص طو رپر ادب کیا کرتے تھے ان کی سارے عرب میں بہت بڑی عزت تھی۔ جب وہ مجلس میں لوگوں کو شعر سنا رہے تھے اور عرب کے رؤساءاُنہیں بڑھ بڑھ کر داد دے رہے تھے تو انہوں نے یہ شعر پڑھا۔
اَلَا کُلُّ شَیْءٍ مَا خَلَا اللہَ بَاطِلٗ
اے لوگو سنو! اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے بڑے جوش سے کہا۔ صَدَقْتَ تم نے سچ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز فانی ہے۔ اتنے بڑے انسان کے لئے ایک بچے کی تصدیق ہتک سے کم نہیں تھی۔ لبید غصہ میں آکر کہنے لگے مکہ والو! تم میں کب سے یہ گستاخی کا طریق جاری ہوا ہے کہ میرے جیسا شاعر جس کا مثل سارے عرب میں نہیں اُسے اٹھارہ اٹھارہ سال کے لڑکے داد دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نے سچ کہا۔ کیا میرے جیسا شاعر اِن نو عمر لڑکوں کی داد کا محتاج ہے۔ وہ لوگ جو حضرت عثمانؓ کے اردگرد بیٹھے شعر سن رہے تھے انہوں نے حضرت عثمانؓ سے کہا بچے! اگر بیٹھنا ہے تو آرام سے بیٹھو نہیں تو چلے جاؤ۔ اِس قسم کی ہتک آمیز باتیں کرنے کی تمہیں اجازت نہیں۔ جب لوگ اُن کو ڈانٹ ڈپٹ کر بیٹھ گئے تو لبید نے اگلا مصرع پڑھا۔
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٗ
تمام نعمتیں آخر کار فنا ہونے والی ہیں۔ جب اُس نے یہ مصرع پڑھا تو حضرت عثمانؓ نے کہا کَذَبْتَ ۔ تم جھوٹ کہتے ہو۔ نَعِیْمُ الْجَنَّۃِ لَا یَزَالُ۔ جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہوں گی۔ اِس پر لبید نے کہا اب تو حد ہو گئی۔ پہلے تو یہ لڑکا سمجھتا تھا کہ لبید اِس کی تصدیق کا محتاج ہے مگر اب تو اِس نے میری صریح ہتک کر دی ہے میں اب کوئی شعر نہیں سناؤں گا۔ اِس پر لوگوں کو سخت غصہ آیا اور حضرت عثمانؓ پر جھپٹ پڑے۔ اِس دوران میں ایک شخص نے حضرت عثمانؓ کے اِس زور سے گھونسا مارا کہ انگوٹھا اُن کی آنکھ کے اندر گھس گیا اور ڈیلا باہر نکل آیا۔ وہ رئیس جس نے ان کو پناہ دی تھی وہ بھی اس مجلس میں موجود تھا۔ لیکن وہ کیا کر سکتا تھا سارا مکہ ایک طرف تھا اور وہ ایک طرف ۔ اگر وہ مقابلہ کے لئے کھڑا بھی ہوتا تو نہ صرف مکہ کے رؤسا بلکہ باہر کے تمام رؤسا بھی اُس کے خلاف ہو جاتے کیونکہ اِس مجلس میں تمام عرب کے سردار جمع تھے۔ دوسری طرف وہ محبت جو اپنے دوست اور دوست کے بیٹے سے تھی اُس کی وجہ سے اُسے یہ نظارہ دیکھنے کی تاب نہ رہی اور چونکہ وہ ان رؤسا کو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا اس لئے جیسے کسی نوکر کا بچہ آقا کے بچےسے لڑ پڑے تو نوکر ماں ہمیشہ اپنے بچے کو ہی مارتی ہے کہ میں نے جو تجھے منع کیا تھا کہ وہاں نہ جایا کر پھر تُو کیوں گیا؟ جب اس کی بے بسی اور بے کسی اسے مارنے والے کے مقابلہ میں کھڑا نہیں ہونے دیتی تو وہ اپنے بچے کو ہی مار کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کر لیتی ہے۔ اِسی طرح جب اس رئیس کو سارے عرب کے خلاف کھڑا ہونے کی جرأت نہ ہوئی تو اُس نے حضرت عثمانؓ پر اپنا غصہ نکالا اور کہا کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم خواہ مخواہ بڑوں کی باتوں میں دخل نہ دیا کرو؟ آخر تم نے دیکھ لیا کہ اس کا کیا انجام ہوتا ہے۔ تمہاری آنکھ ضائع ہو گئی۔ اگر تم میری نصیحت پر عمل کرتے تو ایسا کیوں ہوتا۔ حضرت عثمانؓ نے کہا تم ایک آنکھ کا ذکر کرتے ہو خدا کی قسم! میری تو دوسری آنکھ بھی سچائی کی خاطر نکلنے کو تیار ہے۔ 1
غرض حضرت عثمانؓ جو ایک بہت بڑے رئیس کے بیٹے تھے اور بڑے بڑے رؤسا اُن کا احترام کیا کرتے تھے اسلام لانے کے بعد ان کی ایسی حالت ہو گئی کہ لوگوں کی نگاہ میں ان کی کچھ بھی عزت باقی نہ رہی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ان کی اُن قربانیوں کی وجہ سے جو انہوں نے اسلام کی خاطر کیں اِس قدر محبت تھی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم فوت ہوئے تو آپ نے انہیں قبر میں رکھتے ہوئے فرمایا۔ جا اپنے بھائی عثمان بن مظعونؓ کے پاس۔2 گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عثمان بن مظعونؓ اپنے بچوں کی طرح پیارے تھے۔ جب یہ عثمانؓ شہید ہوئے تو لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس شکایت کی کہ یا رسول اللہ! حضرت عثمانؓ کو دفن کرنے کے لئے ہمارے پاس کافی کپڑا نہیں۔ چادر اِتنی چھوٹی ہے کہ اگر ہم سر پر ڈالتے ہیں تو پاؤں ننگے ہو جاتے ہیں اور اگر پیر ڈھانکتے ہیں تو سر ننگا ہو جاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا سرکو چادر سے ڈھانک دو اور پیروں پر گھاس ڈال دو۔3 یہ وہ لوگ تھے جنہوں نےا پنی زندگیاں ایسے بسر کیں کہ ان کو کسی قسم کا چین اور سُکھ اِس دنیا میں نہیں ملا ۔ وہ نعمتوں سے پُر پیٹوں کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فاقوں سے خالی پیٹوں اور اپنی گردنوں پر دشمنوں کی تلواریں کھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو گئے۔
اِس کے علاوہ ایک طبقہ وہ بھی تھا جس نے تکلیفیں اٹھانے کے بعد نعمتوں اور برکتوں کا زمانہ بھی دیکھا چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ انہی لوگوں میں سے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات سے تین سال پہلے اسلام لائے تھے اور چونکہ ہزاروں لوگ ان سے پہلے اسلام لا چکے تھے انہوں نےا پنے دل میں عہد کیا کہ میں اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دروازہ سے نہیں ہِلوں گا اور دن رات آپ کی باتیں سنا کروں گا۔ چنانچہ وہ رات دن مسجد میں بیٹھے رہتے تا ایسا نہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم باہر تشریف لا کر کوئی بات کریں اور وہ اُس کے سننےسے محروم رہ جائیں۔ اور چونکہ وہ دن رات مسجد میں رہتے تھے اپنے گزارہ کے لئے کوئی کام نہیں کر سکتے تھے۔ ان کا ایک بھائی انہیں روٹی پہنچا دیا کرتا تھا۔ مگر تنگ آکر ایک دن اُس نےر سول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس شکایت کی کہ یا رسولَ اللہ! ابوہریرہؓ کوئی کام نہیں کرتا، آپ اسے سمجھائیں کہ کوئی کام کیا کرے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندے کو اِس لئے رزق دیتا ہے کہ وہ اپنے دوسرے بھائی کی مدد کرے۔ چونکہ تمہارا بھائی دین کی خدمت میں مشغول ہے اِس لئے تم اس کے لئے قربانی کرو اور اُسے کھانا کِھلاتے رہا کرو۔4 لیکن معلوم ہوتا ہے کہ غالباً اُس کا اپنا گزارہ مشکل سے چلتا تھا اور دوسرے وہ مدینہ سے دُور رہتا تھا اور روزانہ آنا اُس کے لئے مشکل تھا اِس لئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اِس ہدایت پر عمل نہ کر سکا اور حضرت ابوہریرہؓ بغیر کسی سہارے کے پڑے رہے۔ اِس دوران میں ان کو کئی کئی وقت کے فاقے بھی آئے۔ مگر انہوں نے کسی تکلیف کی پروا نہ کی اور آخر وقت تک اپنے اُس عہد کو نبھایا جو انہوں نے اسلام لاتے وقت کیا تھا۔ جب ایران فتح ہوا اور بادشاہ کا توشہ خانہ اور کپڑےتقسیم ہوئے تو وہ رومال جو کسریٰ تختِ شاہی پر بیٹھتے وقت زینت کے طور پر اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا وہ حضرت ابوہریرہؓ کے حصہ میں آیا۔ حضرت ابوہریرہؓ کو ایک دفعہ نزلہ اور کھانسی کی تکلیف تھی۔ ان کو کھانسی جو آئی تو انہوں نے اس رومال میں بلغم تُھوک دیااور پھر کہا بَخِ بَخِ اَبُوْہُرَیْرَۃ!یعنی واہ واہ ابوہریرہ! یا تو تیرے سر پر جُوتیاں پڑا کرتی تھیں اور یا اب یہ حالت ہے کہ تُو ایران کے بادشاہ کے اُس رومال میں تُھوکتا ہے جس کو وہ بطور زینت استعمال کیا کرتا تھا۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں کہ تیرے سر پر جُوتیاں پڑا کرتی تھیں؟ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا میں جب اسلام لایا تو میں نے خیال کیا کہ لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بہت کچھ فائدہ اٹھا لیا ہے اب مجھے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ چنانچہ میں نے اپنے دل میں عہد کر لیا کہ میں آخر دم تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دروازے کو نہیں چھوڑوں گا۔ میں غریب آدمی تھا اور مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ مجھے کئی کئی وقت کا فاقہ آتا اور فاقہ کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے میں بعض دفعہ مسجد کی کھڑکی میں کھڑا ہو جاتا کہ اگر کوئی شخص گزر رہا ہو تو میری شکل سے پہچان کر مجھے کھانے کے لئے ساتھ لے چلے گا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں مسجد کے دروازہ کے پاس کھڑا ہو گیا کہ شاید کوئی شخص میری شکل دیکھ کر ہی سمجھ لے کہ میں بُھوکا ہوں۔ مگر لوگ آتے اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ کر آگے چل پڑتے اور کوئی شخص میرے وہاں کھڑا ہونے کی حقیقت کو نہ سمجھ سکتا۔ آخر جب میں نے دیکھا کہ خالی شکل دیکھنے سے لوگوں کو کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا تو میں نے ایک اَور طریق اختیار کیا۔ حضرت ابوبکرؓ گزرے تو میں نے اُن سے پوچھا کہ قرآن کریم کی اِس آیت کا کیا مطلب ہے کہ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا 5 اِس پر حضرت ابوبکر ؓ نے کھڑے ہو کر صدقہ پر ایک تقریر شروع کر دی اور کہا کہ مساکین کو کھانا کِھلانا، یتامیٰ کی خبر گیری کرنا اور اسیروں پر احسان کرنا ایسے کام ہیں جن سے خداتعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے اور پھر آگے چلے گئے۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے اپنے دل میں کہا کیا مجھے اِس آیت کے معنے نہیں آتے تھے؟ میرا تو یہ مطلب تھا کہ آپ اِس پر عمل بھی کریں۔ اِس کے بعد حضرت عمرؓ گزرے، حضرت عثمانؓ گزرے اور میں نے ہر ایک سے یہی سوال کیا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی میرا مطلب نہ سمجھ سکا بلکہ وہ اس کے معنے بتا کر آگے چلے جاتے۔ مجھے اُس روز سات وقت کا فاقہ تھا اور میری حالت سخت خراب تھی۔ میں حیران تھا کہ کیا کروں۔ جس حد تک سوال کر سکتا تھا اُس حد تک میں نے سوال کر دیا تھا لیکن کسی کو بھی اصل حقیقت کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی۔ ہر ایک تقریر کر کے آگے چلا جاتا ہے۔ میرے دل میں یہی خیالات موجزن تھے کہ مجھے پیچھے سے کسی کے ہنسنے کی آواز آئی اور اسکے ساتھ ہی یہ الفاظ میرے کان میں پڑے۔ ابوہریرہؓ ! بُھوکے ہو؟ میں نے مُڑ کر دیکھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے گھر کے دروازہ پر کھڑے تھے۔ میں نے آپ کو دیکھ کر کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! سات وقت سے فاقہ ہے۔ فرمانے لگے آج ہمیں کسی نے دودھ کا پیالہ تحفہ کے طور پر بھیجا ہے آؤ تمہیں پلائیں۔ جب میں آپ کے پاس گیا تو فرمایا پہلے مسجد میں جا کر دیکھو کوئی اَور تو بُھوکا نہیں؟ اگر ہو تو اُس کو بھی ساتھ لیتے آؤ۔ میں نے جا کر دیکھا تو چھ آدمی بیٹھے تھے۔ میں نے دل میں کہا اب تو شامت آئی۔ دودھ کا پیالہ ایک ہے اور پینےو الے سات ہیں حصۂ رسدی کے طور پر کچھ ملا بھی تو کیا ملے گا۔ خیر میں اُن سب کو ساتھ لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور سمجھا کہ دودھ کا پیالہ شاید پہلے مجھے دیا جائے گا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پہلے کسی اَور آدمی کو پیالہ دے دیا اور فرمایا پیئو۔ میں نے کہا اب تو خیر نہیں۔ اگر تقسیم کر کے ملتا تو شاید کچھ حصہ مل جاتا مگر اب تو پیالہ کسی اَ ور کو مل گیا ہے وہ دودھ کہاں چھوڑے گا۔ اُس نے دودھ پیا اور پی کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ میں پیالہ دےد یا۔ آپ نے دوسرے کو دے دیا۔ پھر تیسرے کو پھر چوتھے کو اور پانچویں کو۔ جب بھی کسی دوسرے کو پیالہ ملتا مَیں کہتا کہ میں مرا۔ یہاں تک کہ سب نے دودھ پی لیا۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ! اب تم پیئو۔ میں نے جب پیالہ پینے کے لئے لیا تو دیکھا کہ وہ لبالب بھرا ہوا ہے۔ کچھ پیالہ بھی بڑا ہو گا اور کچھ اللہ تعالیٰ نے بھی اُس میں برکت پیدا فرما دی اور اس طرح اپنا نشان دکھا دیا۔ ابوہریرہؓ کہتےہیں میں نے دودھ پیا اور اِتنا پیا کہ میرا پیٹ بھر گیا لیکن پیالہ ابھی بھرا ہوا تھا۔ میں نے سیر ہو کر دودھ کا پیالہ رکھ دیا۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ! اور پیئو۔ میں نے پھر پیا اور اِتنا پیا کہ میرا پیٹ خوب بھر گیا اور میں نے کہا یا رسول اللہ! اب تو اَور نہیں پیا جاتا۔ فرمایا پھر پیئو۔ میں نے پھر پینا شروع کیا اور اِتنا پیا کہ دودھ میرے ناخنوں تک سرایت کر گیا اور میں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! اب تو دودھ میرے ناخنوں سے ٹپکنے لگ گیا ہے۔ اِس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وہ بچا ہوا دودھ خود لے کر پی لیا۔6 غرض یہ حالت ہوتی تھی کہ مجھے بعض دفعہ سات سات دن کا فاقہ کرنا پڑتا تھا اور بعض دفعہ زیادہ فاقہ کی وجہ سے بے ہوش ہو کر گر جاتا۔ لوگ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دَورہ ہو گیا ہے اور چونکہ عربوں میں رواج تھا کہ جسے مرگی کا دَورہ ہو اُس کے سر پر جُوتیاں مارتے تھے اس لئے وہ مجھے مرگی کا مریض سمجھتے ہوئے میرے سر پر جُوتیاں مارنے لگ جاتے تھے حالانکہ میں ضُعف کی وجہ سے بیہوش ہوتا تھا۔ غرض ایک تو وہ دن تھا کہ میں بُھوک کی وجہ سے بیہوش ہو جاتا تو لوگ میرے سر پر جُوتیاں مارتے اور یا آج یہ حالت ہے کہ شاہِ ایران کے اُس رومال میں مَیں تُھوک رہا ہوں۔ 7جس میں کہ بادشاہ کو بھی تُھوکنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی اور جسے وہ تختِ شاہی پر بیٹھتے وقت بطور زینت استعمال کیا کرتاتھا۔
لیکن کچھ لوگ حضرت عثمانؓ بن مظعون اور حضرت حمزہؓ کی طرح تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کے لئے قربان کر دیں اور انہوں نے اِس دنیا میں کوئی بھی سُکھ نہ دیکھا۔ اگر یہی دنیا ہے اور اگلا جہان کوئی نہیں تو خداتعالیٰ کے لئے انتہا درجہ کی قربانیاں کرتے ہوئے انتہا درجہ کے بدبخت یہی لوگ تھے۔ اور اگر اِس دنیا کے سوا کوئی اَور دنیا بھی ہے جیسا کہ اسلام کہتا ہے کہ ہے تو پھر اِن کا اِس دنیا سے اِس طرح محروم جانا یقیناً ان کے لئے انتہا درجہ کی خوش بختی کا باعث ہے۔
بہرحال کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے اِس دنیا کی لذتوں کو بالکل حاصل نہیں کیا اور وہ اِسی حالت میں مر گئے۔ وہ اپنے سارے حساب کے اللہ تعالیٰ سے امیدوار ہیں۔ اور کچھ وہ ہیں جنہوں نے کچھ انعامات اِس دنیا میں حاصل کر لئے اور باقی اگلے جہان میں حاصل کریں گے۔ پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کو خداتعالیٰ نے دنیا تو دی مگر اُنہوں نے دنیا کو استعمال نہیں کیا۔ جیسے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف جب فوت ہوئے تو اُن کےگھر سے تین کروڑ کے قریب روپیہ نکلا۔ لیکن اُن کی اپنی زندگی بالکل سادہ تھی۔ وہ اکثر غریبوں اور بیکسوں کی خبرگیری میں ہی اپنا روپیہ صَرف کر دیا کرتے تھے۔ غرض یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اِس دنیا میں انتہا درجہ کی قربانیاں کیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو گئے۔
اب ہماری جماعت دنیا میں اسلام کا عَلَم بلند کرنے کےلئے کھڑی ہوئی ہے۔ اور ہماری جماعت وہ ہے جسے ایک نبی پر ایمان لانا نصیب ہوَا۔ بے شک وہ تابع اور ظلّی نبی ہے لیکن بہرحال وہ خداتعالیٰ کا مکلّم نبی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بولتا تھا اور اس سے وسیع انعامات کے وعدے فرماتا تھا جیسا کہ وہ پہلے نبیوں سے فرماتا رہا۔ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مستثنیٰ کرتے ہوئے گزشتہ تمام نبیوں پر اِس کو اللہ تعالیٰ نے فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اور اتنی فضیلت تو ظاہر ہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کا آنا اپنا آنا قرار دیا ہے۔ ایسے عظیم الشان نبی کی جماعت جس قسم کے انعامات کی امیدوار ہو سکتی ہے وہ ظاہر ہیں۔ اور ان انعامات کے لئے جس قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے وہ بھی ظاہر ہیں۔ کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ایک ایسا انسان جو دنیا کی ساری نعمتوں سے حصہ لیتے ہوئے دنیا کے سارے انعاموں سے حصہ لیتے ہوئے اوردنیا کے سارے آراموں سے حصہ لیتے ہوئے اپنے اموال اور اپنی جائیداد اور اپنی عزت کی قربانی سے دریغ کرتے ہوئے اِدھر اُدھر بھاگے گا جب وہ خداتعالیٰ کے پاس جائے گا تو خداتعالیٰ اُسے بڑے تپاک سے ملے گا؟ اُسی طرح جس طرح کہ اُس شخص سے جس نے اُس کے دین کے لئے قربانیاں کیں اور اپنی ساری زندگی اُسی کے لئے تکالیف اٹھاتے ہوئے گزار دی۔ یہ تو کوئی بے حیا سے بے حیا انسان بھی نہیں کر سکتا۔ پھر ہم خداتعالیٰ کی نسبت یہ کس طرح امید کر سکتے ہیں کہ وہ اِس طرح کرے گا۔ وہ تو عادل ہے بلکہ عادل ہی نہیں رحیم بھی ہے۔ رحیم کے لفظ سے بعض نادان یہ خیال کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ چونکہ رحیم ہے اِس لئے خواہ ہم دل کھول کر جُرم کر لیں پھر بھی خداتعالیٰ کا رحم حاصل کر لیں گے۔ ان کی سمجھ میں یہ فرق نہیں آتا کہ جس نے خدمت کی ہے وہ زیادہ رحم کا مستحق ہے یا وہ جس نے بغاوت سے کام لیا ہے؟
پس یاد رکھو ہمارا زمانہ قربانیوں کا زمانہ ہے۔ ہمارا زمانہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے حصول کا زمانہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کے بعد تیرہ سو سال تک جو کسی کو نہیں مل سکا وہ آج حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی حاصل نہ کرے تو اَور بات ہے ورنہ جنت کی نعماء اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں جس رنگ میں تیرہ سو سال کے بعد آج کھلی ہیں اِس طرح تیرہ سَو سال میں کسی کے لئے نہیں کھلیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کو چھوڑ کر کہ آپ سیدِ وُلْدِ اٰدم اورتمام نبیوں کے سردار تھے آدم سے لے کر آج تک خداتعالیٰ کے قرب کی وہ راہیں کسی کے لئے نہیں کھلیں جو ہمارے لئے کھلی ہیں۔ اب ہمارا کام یہ ہے کہ ہم قربانیاں کر کے اللہ تعالیٰ کے انعامات کو حاصل کر لیں یا قربانیوں سے منہ موڑ کر اُس کے انعامات سے محروم ہو جائیں۔ یاد رکھو قربانیوں کے میدان میں اللہ تعالیٰ اپنا منشاء یکدم ظاہر نہیں کرتا بلکہ اُس کی ہمیشہ سے یہ سنت چلی آئی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے منشاء کو ظاہر کرتا ہے تا کمزور دل انسان گھبرا نہ جائیں اور وہ قربانیوں سے دریغ نہ کریں۔ اس لئے ہماری جماعت بھی ابھی اُن ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتی جو اِس پر عائد ہونے والی ہیں اور ابھی اسے معلوم نہیں کہ آئندہ کیا ہونے والاہے۔ سوائے اُن لوگوں کے جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حقیقت کھول دی ہے اور وہ مستقبل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جس طرح کہ میں اس کے فضل سے دیکھ رہا ہوں۔
ہماری جماعت کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نےفرمایا کہ قیامت کے دن دوزخ میں سے ایک شخص کو نکالا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اُسے کہے گا میں تجھے جہنم میں سے تو نکال لیتا ہوں لیکن مجھ سے کچھ اَور نہ مانگنا۔ وہ کہے گا اے اللہ! اِس سے بڑی نعمت اَور کیا ہو سکتی ہے کہ تُو مجھے دوزخ میں سےنکال دے ۔ اگر تُو مجھےد وزخ میں سے نکال دے تو میرے لئے سب سے بڑی نعمت یہی ہو گی اور میں تجھ سے اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ اِس پر اللہ تعالیٰ اُس کو باہر نکال کر کھڑا کر دے گا۔ کچھ عرصہ کے بعد اُسے دُور ایک درخت نظر آئے گا جو سرسبز و شاداب ہو گا، اُس کا سبزہ دیکھ کر اُس کا دل للچائے گا۔ کچھ عرصہ تو وہ برداشت کرتا رہے گا اور کہے گا کہ جب میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ کر چکا ہوں کہ میں نے اُس سے کچھ اور نہیں مانگنا تو اُس سے کوئی سوال کس طرح کروں مگر آخر کہے گا الٰہی! ہے تو گستاخی، میں نے وعدہ کیا تھا کہ اَور کچھ نہیں مانگوں گا لیکن تُو رحیم وکریم ہے اگر تُو مجھے اس درخت کے نیچے کھڑا کر دے تو تیری بڑی مہربانی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کہے گا میں تیری یہ بات مان لیتا ہوں لیکن وعدہ کر کہ پھر کچھ نہیں مانگے گا۔ وہ کہے گا اے خدا! اِس سے زیادہ میں کیا مانگوں گا۔ تُو مجھے وہاں پہنچا دے پھر میں تجھ سے اَور کچھ نہیں مانگوں گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اُسے وہاں کھڑا کر دے گا۔ کچھ عرصہ کے بعد اسے پھر ایک اَور درخت نظر آئے گا جس کے نیچے ٹھنڈا چشمہ بھی ہو گا اور وہ پہلے درخت سے زیادہ سایہ دار ہو گا۔ اس سے رہا نہ جائے گاور وہ کہے گا الٰہی! میں نے وعدہ تو کیا تھا پر اَب رہا نہیں جاتا۔ تُو بڑا مہربان ہے اگر مجھے اِس درخت سے لے جا کر اُس درخت کے نیچے کھڑا کر دے تو تیری بڑی مہربانی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کہے گا تُو نے تو کہا تھا کہ میں اَور کچھ نہیں مانگوں گا لیکن تُو پھر مانگ رہا ہے۔ وہ کہے گا الٰہی! میں نے کہا تو تھا لیکن اب رہا نہیں جاتا۔ تُو مجھے وہاں پہنچا دے میں وعدہ کرتا ہوں کہ اسکے بعد میں کچھ اَور نہیں مانگوں گا۔ اللہ تعالیٰ پھر اُسے وہاں کھڑا کر دے گا۔ اِس طرح یکے بعد دیگرے کئی درخت اُسے نظر آئیں گے اور وہ ان سب کے نیچے سے ہوتا ہوا ایک ایسی جگہ پہنچے گا جہاں سے اسے جنت کا دروازہ نظر آئے گا اور وہ جنت کے لوگوں کو ہر قسم کے آرام اور راحتوں میں پھرتے ہوئے دیکھے گا۔ کچھ مدت تو وہ خاموش رہے گا مگر پھر برداشت نہ کرسکتے ہوئے کہے گا اے میرے رب! میں نے وعدہ تو کیا تھا کہ میں اَور کچھ نہیں مانگوں گا پر تُو بڑا رحیم ہے، میں جنت نہیں مانگتا اَور نہ کسی قسم کی اورنعمت مانگتا ہوں، میں نہ کسی نعمت کا مستحق ہوں اور نہ جنت کی کسی چیز کا ۔ پر اے خدا! مجھے جنت کے دروازے پر تو بیٹھنے کی اجازت دے دے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ہنسے گا اور کہے گا دیکھو! میرا بندہ کتنا حریص ہے، میں جتنا انعام کرتا ہوں اُتنی ہی اِس کی حرص بڑھتی چلی جاتی ہے۔ لیکن کیا اِس کی حرص میرے انعام سے بڑھ جائے گی؟ نہیں ہرگز نہیں۔ پھر فرمائے گا جا نہ صرف تجھے جنت کے دروازہ پر بیٹھنے کی اجازت ہے بلکہ جنت میں داخل ہونے کی بھی اجازت ہے اور جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس دروازہ میں سے چاہے تُو داخل ہو سکتا ہے۔8
غرض ترقی ہمیشہ قدم بقدم ہوتی ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ قیامت کے دن ایسا ہو گا یا یہ محض ایک تمثیل ہے۔ اور غالباً یہ تمثیل ہی ہے جس میں مومن جماعتوں کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ مومنوں کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے۔ پہلے وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم سَو ہوگئے تو کامیاب ہو جائیں گے۔ پھر جب وہ سَو ہو جائیں تو کہتے ہیں ہم ہزار ہو جائیں تو ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ جب ہزار ہو جائیں تو کہتے ہیں لاکھ دو لاکھ ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔ جب لاکھ دو لاکھ ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کروڑ دو کروڑ ہو جائیں تو کتنا اچھا ہو۔ جب اتنے ہو جائیں تو کہتے ہیں کوئی چھوٹا سا جزیرہ مل جائے جس پر ہماری حکومت ہو۔ جب کوئی ایسا جزیرہ مل جاتا ہے تو کہتے ہیں اس کے ساتھ دو چار اور جزائر مل جائیں تو کیسا اچھا ہو۔ اس طرح قدم بقدم وہ ساری دنیا پر غالب آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک تمام مومن جماعتوں کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے اور ہمارے ساتھ بھی اِسی طرح ہو رہا ہے۔ ہم اِسی طرح آہستہ آہستہ ترقی کرتے آئے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے۔ کوئی وہ دن تھا کہ ہماری یہ مسجد اقصیٰ اِتنی چھوٹی تھی کہ موجودہ مسجد کا ساتواں حصہ ہو گی۔ اِس مسجد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1907ء کے جلسہ سالانہ پر جو تقریر فرمائی اُس میں مَیں بھی موجود تھا۔ اُس وقت میری عمر 18،19 سال کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اُس وقت جماعت کے لوگ بے حدخوش تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اب ہم بہت ہو گئے ہیں اب ہمارے لئے دنیا کو فتح کرنے میں کیا کسر باقی رہ گئی ہے۔ حالانکہ اُس وقت صرف سات سَو آدمی آئے تھے۔ مگر اُس وقت کے لحاظ سے یہ اِتنی بڑی تعداد تھی کہ جلسہ سالانہ پر لنگرخانے والے سب آدمیوں کو روٹی نہیں کِھلا سکے تھے اور بہت سے آدمی بُھوکے سوئے تھے۔ اِس پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو رات کے وقت الہام ہوا کہ یَآ اَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ 9۔ اے نبی! بُھوکوں اور پیاسوں کو کھانا کِھلاؤ۔ آپ نے اٹھ کر جب پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ سو دو سو آدمیوں کے کھانے کا انتظام نہیں ہو سکا تھا اور وہ بُھوکے سو گئے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُن کے لئےرات کو کھانا کھلانے کا انتطام کرنے اور کھلانے کا حکم فرمایا۔ صبح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیر کے لئےتشریف لےجانے لگے تو مسجد مبارک کی اندرونی سیڑھیوں کے دروازہ کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا۔ (میں اُس وقت سیڑھیوں کے اندر کی طرف کھڑا تھا) کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے کبھی اِس رنگ میں ہمیں الہام نہیں کیا کہ یَآ اَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۔ اَیُّھَا النَّبِیُّ کہہ کر مجھے پہلی دفعہ مخاطب کیا گیا ہے۔ غرض اُس جلسہ میں سات سَو آدمی آئے۔ مگر اُن سات سو آدمیوں کے آنے پر اِس قدر خوشی کا اظہار کیا گیا کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ حالانکہ آج ہمارے مدرسوں میں ہی اِس سے کئی گُنا زائد طالب علم پڑھتے ہیں۔ ہمارے ہائی سکول میں سولہ سو طالب علم ہیں۔ ہمارے کالج میں ڈیڑھ سو طالب علم ہیں۔ ہمارے زنانہ سکول میں پانچ چھ سو یا اس سے زائد لڑکیاں پڑھتی ہیں۔ اور ہمارےجامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ وغیرہ مدارس میں اڑھائی سو کےقریب طالب علم ہیں۔ پھر ان کے علاوہ بھی ہیں جو پرائیویٹ طور پر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان سب کو ملا لیا جائے تو تین ہزا رکے قریب طالب علم بن جاتے ہیں۔ گویا آج یہ حالت ہے کہ قادیان میں صرف تین ہزار ہمارا طالب علم پایا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت ہمارے جلسہ سالانہ پر سات سو آدمی آئے اور ان سات سو آدمیوں کے آنے کو اس قدر اہم سمجھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب باہر سیر کے لئے گئے تو آپ کی جوتی بار بار لوگوں کے پاؤں لگنے کی وجہ سے گر جاتی تھی۔ کیونکہ آپ کھلی جوتی پہنتے تھے۔ (میں بھی کھلی جوتی ہی پہنا کرتا ہوں) جب بار بار اس طرح ہوا تو آپ نے فرمایا۔ اب سیر کرنے کا زمانہ نہیں رہا۔ چنانچہ آپ نے ریتی چھلہ میں بڑ کے درخت کے نیچے کھڑے ہو کر ایک تقریر فرمائی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ نبی دنیا میں اپنی جماعت قائم کرنے کے لئے آتا ہے۔ چونکہ ہماری جماعت قائم ہو چکی ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ جس کام کے لئے میں آیا تھا وہ شاید ختم ہو گیا ہے۔ حالانکہ اس وقت سات سو آدمی تھے۔ لیکن اب اگر عورتوں کو شامل کر لیا جائے تو صرف ہمارے جمعہ میں آنےو الے لوگ ہی پانچ ہزار سے زائد ہو جاتے ہیں۔ غرض جماعت نے آہستہ آہستہ ترقی کی اور ترقی کرتی چلی جا رہی ہے۔ ہر قدم پر لوگوں نے سمجھا کہ اگر ہم اتنے ہو گئے تو بڑی بات ہے لیکن یہ ہماری نادانی ہے۔ کیونکہ ہم نے جو کچھ سمجھا غلط سمجھا۔ اصل بات تو وہ ہے جو خدا نے سمجھی اور خدا نے آسمان پر یہ نہیں سمجھا تھا کہ سات سو آدمی اس جماعت میں داخل ہو جائیں گے خداتعالیٰ نے آسمان پر یہ نہیں سمجھا تھا کہ تین ہزار طالب علم قادیان میں پڑھنے لگ جائیں گے۔ خداتعالیٰ نے اپنے عرش پر یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ پانچ چھ ہزار آدمی جمعہ سننے والے قادیان میں پیدا ہو جائیں۔ بلکہ خدا تعالیٰ نے آسمان پر بیٹھے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا کہ دنیا میں احمدیت ہی احمدیت قائم کر دی جائے گی۔ اور دوسری قومیں بہت قلیل تعداد میں رہ جائیں گی۔ جب تک یہ مقصد پورا نہیں ہوتا ہمارا کام ختم نہیں ہو سکتا۔ اور یہ مقصد فرشتوں نے پورا نہیں کرنا بلکہ ہم نے پورا کرنا ہے۔ فرشے صرف ہمارے مددگار ہوں گے۔ لیکن اس کام کی تکمیل کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہے۔ ہم میں سے ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا مرتا چلا جائے گا اور ایک زمانۂ دراز کے بعد یہ مقصد حاصل ہو گا۔ بہرحال جو لوگ اِس غرض کے لئے آگے آتے چلے جائیں گے وہی خداتعالیٰ کے مقرب اور محبوب ہوں گے۔
دینی جماعتوں کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے مونگے کے جزیرے ہوتے ہیں۔ سینکڑوں جزائر دنیا میں ایسے موجود ہیں جن میں مونگے جیسے حقیر جانور جن میں عقل و شعور کا مادہ بھی نہیں ہوتا ایک دوسرے پر گر کر جان دیتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ میلوں میل لمبے اور چوڑے جزائر انہوں نے آباد کر دیئے۔ اور وہ جزائر آج کورل آئی لینڈز (Coral Islands) کے نام سے مشہور ہیں۔ اِن میں لاکھوں آدمی بستے ہیں اور بڑی بڑی نعمتیں وہاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر مونگے خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت دنیا میں اپنی جانیں قربان کر کے جزائر آباد کر دیتے ہیں تو کتنا بدبخت وہ انسان ہے جسے خداتعالیٰ نے ایک نئی زمین اور نیا آسمان بسانے کا حکم دیا اور اُس نے اپنی جان کو کئی قسم کے بہانوں سے بچانا شروع کر دیا۔ ربُّ الْعرش کے حکم کے ماتحت وہ مونگے جن سے خداتعالیٰ نے کسی جنت کا وعدہ نہیں کیا۔ جس کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسا عظیم الشان نبی ہدایت کے لئے نہیں آیا۔ جن کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جیسا نبی نازل نہیں ہوا۔ اور جن کے لئے آدم سے لے کر اب تک ایک لمبا سلسلہ انبیاء قائم نہیں ہوا مر کر دنیا میں کئی جزائر آباد کر گئے۔ اُن کو خدا نے کہا جاؤ اور ایک نئی دنیا بسا دو۔ اور وہ اِس کی تعمیل میں ایک دوسرے پر گر کر فنا ہوتے چلے گئے اور آہستہ آہستہ اِتنا انبار لگ گیا کہ گہرے سمند رمیں سے خشکی نکل آئی۔ جس پر اَور مونگوں نے مر مر کر اسے اَور بڑا اور چوڑا کر دیا یہاں تک کہ وہ جزائر بن گئے۔ جن میں اب لاکھوں انسان بس رہے ہیں۔ لیکن کتنے بدبخت ہیں وہ انسان کہ اُ ن کے لئے آدم سے لے کر حضرت مسیحؑ ناصری تک انبیاء آئے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے بھیجا۔ اس کے بعد آپ کے خلیفہ اور بروز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا اور خدا نے اُن سے کہا کہ جاؤ اور ہمارے لئے ایک نئی مملکت اور ایک نئی بادشاہت قائم کردو۔ مگر وہ اپنے مالوں کو لے کر بھاگتے پھرے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی مملکت کے لئے جزائر پیدا نہ کئے۔
اِس وقت جو کام ہمارے سپرد ہے وہ ایسا عظیم الشان ہے کہ جس کی مثال اِس سے پہلے دنیا میں نہیں ملتی۔ اِس کی بنیاد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے رکھی تھی۔ مگر اس کو ختم کرنا اب ہمارے سپرد کیا گیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں پکار رہے ہیں کہ اے مزدورو! آؤ اور اِس عمارت کی تکمیل کرو۔ مگر ہم میں سے بہت لوگ ایسے ہیں جو بھاگتے پھرتے ہیں اور قربانیوں سے گریز کر رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سامنے خوشی کے ساتھ کھڑا ہونے کا موقع نہیں ملے گا۔ جو خوشی کےساتھ قربانیاں کریں گے اور خوشی کےساتھ اپنے آپ کو اِس کام کے لئے وقف کر دیں گے وہ اسلام کی آخری تعمیر میں حصہ لینے والے اور اسلام کے معمار ہوں گے۔ اور وہی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعتوں میں لکھے جائیں گے اور اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔
مولوی برہان الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مخلص ترین صحابی اور پنجاب کے چوٹی کےعلماء میں سے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کےبعد جب ان کے ساتھیوں نے ان کو چھوڑ دیا تو ان کی حیثیت مزدوروں کی سی ہو گئی۔ حتّٰی کہ ان کے پاس پورے کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔ مگر اِس قدر قربانیوں کے باوجود ان کےد ل میں ہمیشہ خلش رہتی تھی کہ ابھی ہم نے کچھ نہیں کیا۔ مجھے ان کا اِسی قسم کا ایک واقعہ یاد ہے جسے میں کبھی بُھول نہیں سکتا۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مسجد میں بیٹھے تھے اور آپ روحانی معارف بیان فرما رہے تھے۔ حضرت خلیفہ اول، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور دوسرے دوست بھی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مولوی برہان الدین صاحب نے چیخیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا مولوی صاحب! کیا بات ہے؟ لیکن آپؑ جتنا پوچھتے آپ اُتنا ہی زیادہ زور سے رونے لگ جاتے۔ آخر بار بار پوچھنے اور تسلی دلانے پر مولوی برہان الدین صاحب نے کہا حضور! لوگ اِس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ مسیح آئے گا، دنیا میں روحانی معارف لُٹائے گا اور ہم اُس پر ایمان لا کر اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل کریں گے۔ ہم اِن امیدوں کےسا تھ انتظار میں تھے اور سمجھ رہے تھے کہ ہم ہر قسم کی قربانیاں کرکے خداتعالیٰ کی رضا حاصل کریں گے کہ خداتعالیٰ کا مسیح آگیا۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہےکہ اُس نے مجھے ایمان لانے کی توفیق عطا فرما دی۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں کہ اسلام کے لئے قربان کر سکوں۔ حالانکہ وہ غریب ہی اِس لئے ہوئے تھے کہ وہ احمدی ہو گئے تھے۔ پھر کہنے لگے ہم سنا کرتے تھے کہ مسیح آئے گا تو خزانے لُٹائے گا اور آپ نے خوب خزانے لُٹائے مگر میں تو پھر بھی جھڈّوکا جھڈّو ہی رہا۔ جھڈّو کے لفظی معنی تو مجھے نہیں آتے لیکن اِس کا مطلب یہ ہے کہ میں پھر بھی ناکارہ کا ناکارہ ہی رہا۔ یہ کہہ کر وہ چیخیں مار کر رونے لگ گئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ 10۔ یعنی مومنوں میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے قربانیاں کیں اور انتہا درجہ کی قربانیاں کیں اور خداتعالیٰ کے فضلوں کو پا لیا۔ اور کچھ ایسے ہیں جو قربانیاں کر رہے ہیں۔ اور کچھ ایسے ہیں جو نشانات و معجزات پر سے اِس طرح گزر جاتے ہیں جس طرح کہ وہ آدمی جس نےا پنے بدن پر تیل ملا ہؤا ہو اس پر سے پانی گزر جاتا ہے اور کوئی قطرہ اُس کے جسم میں جذب نہیں ہوتا۔ یہ لوگ جماعت کے گلے میں ایسا پتھر ہیں جو جماعت کو اُٹھنے نہیں دیتے۔
اسلام کی جنگ کا زمانہ قریب سے قریب تر آتا جا رہا ہے اور ہم ابھی صرف پینترے بدل رہے ہیں۔ جیسے پینترے بدلنا اصل چیز نہیں ہوتی بلکہ وہ جسم کو گرم کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں اِسی طرح ہمارا مختلف قسم کی تحریکات جاری کرنا اور جماعت کو مالی قربانیوں میں حصہ لینے کی دعوت دینا پینترے بدلنے والی بات ہے۔ ورنہ اصل کام اَور ہے۔ ہم نے دنیا کو فتح کرنا ہے۔ ہم نے دنیا کے دلوں اور دماغوں کو فتح کرنا ہے۔ اور اس کے لئے ہمیں جن سامانوں کی ضرورت ہے اُن کا اندازہ بھی ہم آج نہیں لگا سکتے۔ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں خداتعالیٰ کے فضل سے ایک حد تک قربانی کی روح ترقی کر رہی ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ جماعت کی تعدادمیں جو ترقی ہو رہی ہے وہی اس کا اصل باعث تو نہیں۔ اگر تعداد کے بڑھنے کی وجہ سے قربانی میں ترقی معلوم ہوتی ہے تو پھر یقینا ً ہم نے کوئی کام نہیں کیا۔ قربانی میں ترقی کرنے کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ ہماری ذاتی قربانی بڑھ جائے۔ اگر ہم خو دکوئی قربانی نہ کریں اور تعداد کے بڑھنے کی وجہ سے کچھ ترقی ہو جائے تو اس ترقی کا ہمارے وجود سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ فرض کرو پہلے پانچ احمدی تھے اور وہ ڈیڑھ روپے کے حساب سے ساڑھے سات روپیہ چندہ دیتے تھے۔ پھر خداتعالیٰ نے پانچ نئے احمدی بنا دیے اور وہ دس روپے مزید چندہ دینے لگ گئے۔ تو یہ لازمی بات ہے کہ اگر پہلے پانچوں کا چندہ ساڑھے سات روپے تھے تو اب ساڑھے سترہ روپے ہو جائے گالیکن اس کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ پہلے پانچ آدمیوں نے قربانیوں میں ترقی کی اور وہ ساڑھے سات روپے سے ساڑھے سترہ پر آگئے۔ بلکہ یہ زیادتی اُن نئے آنے والوں کی وجہ سے ہو گی۔ پس وہ نئے احمدی جو اِس دوران میں اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں اگر ان کی وجہ سے ہمیں مالی ترقی ہوئی ہے تو یہ جماعت کی قربانی کا ثبوت نہیں ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کام تھا کہ اُس نے ان کو ہدایت دے دی۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہمارے ایمانوں میں کونسا تغیر پیدا ہوا اور ہم نے کس قربانی کا ثبوت دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ جو قربانیوں میں سُستی سے کام لے رہے ہیں خداتعالیٰ کے قُرب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اور اُس سطح کے قریب آرہے ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد بنا دیتی ہے۔ پس یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ آیا نئے آنےوالوں کیو جہ سے ہماری قربانیوں میں ترقی ہوتی ہے یا درحقیقت ہماری جماعت کے لوگ قربانیوں میں ترقی کر رہے ہیں۔
اِس وقت تحریک جدید کے ماتحت بہت سے کام شروع کئے جا چکے ہیں مگر ان کاموں کو صحیح طور پر چلانے کے لئے مزید قربانیوں کی ضرورت ہے۔ جس رنگ میں وہ کام ہونے چاہئیں ابھی تک اُس رنگ میں نہیں ہو رہے جس کی بڑی وجہ جماعت کی قربانی کی کمی ہے۔ اگر ان کاموں کو صحیح طور پر چلایا جائے تو جماعت بہت بڑی ترقی کر سکتی ہے اور اپنے منزلِ مقصود کو زیادہ سرعت کے ساتھ حاصل کر سکتی ہے۔ مگر ابھی منزلِ مقصود کے قریب پہنچنا تو درکنار ہماری جماعت کی حالت ویسی ہی ہے جیسے اُس شخص کی ہو گی جسے اللہ تعالیٰ دوزخ سے نکال کر باہر کھڑا کر دے گا۔ ہم بھی اِس وقت ایک درخت کے نیچے کھڑے ہیں۔ لیکن جنت کا دروازہ ابھی تک ہم سے بہت دور ہے۔ بڑی بڑی حکومتوں یا بادشاہتوں کی مخالفتوں کا مقابلہ کرنا تو الگ رہا ابھی تو تمہاری حالت یہ ہے کہ اگر ضلع کی پولیس تم پر مسلّط کر دی جائے تو وہ تم سب کو باندھ کر لے جا سکتی ہے۔ بلکہ ضلع کی پولیس تو الگ رہی ایک تھانیدار بھی تم پر اپنا رُعب جما سکتا ہے۔ اسلام اور احمدیت کی حکومت تو اُس دن قائم ہو گی جس دن تمہارے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ سپاہی کے سامنے بھی بڑے سے بڑے بادشاہ کی گردن جھک جائے اور وہ اس کے سامنے کوئی حرکت نہ کر سکے۔ مگر بہرحال جس طرح دوزخ سے باہر آیا ہؤا انسان درخت کے نیچے آکر خوش ہوتاہے اُسی طرح ہم بھی پہلے درخت کے نیچے پہنچ گئے ہیں لیکن جنت ابھی دور ہے۔ ہاں ہر ترقی جو انسان کو حاصل ہوتی ہے اُس پر اُسے خوشی ضرور محسوس ہوتی ہے۔ جس طرح کسی کا بچہ جب ایک سال کا ہو جاتا ہے اور اُس کے دانت نکلنے شروع ہوتے ہیں تو ماں باپ خوش ہوتے ہیں کہ بچہ نے دانت نکالنے شروع کر دیے ہیں۔ مگر اس خوشی کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ بچہ جوان ہو گیا ہے یا اُس کی آئندہ نسل پیدا ہونی شروع ہو گئی ہے۔ اِسی طرح اگر مجھے کوئی کہے کہ آپ نے پچھلے سال بھی جماعت کی ترقی پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور اس سے پچھلے سال بھی تو میں اُسے یہی کہوں گا کہ تمہارے بچے کے دانت نکلتے ہیں تو تم خوش ہوتے ہو یا نہیں؟ تمہارا بچہ گھٹنوں چلتا ہے تو تم خوش ہوتے ہو یا نہیں؟ مگر کیا بچے کا دانت نکالنا یا اُس کا گُھٹنوں چلنا اُس کا منتہائے مقصود ہوتا ہے؟ اُس کا منتہائے مقصود یہ نہیں ہوتا بلکہ اُس کا منتہائے مقصود یہ ہوتاہے کہ وہ ایک قویُّ الْبیان، کامل فراست اور کامل فہم رکھنے والا انسان بن جائے اور اس کے ذریعہ بنی نوع انسان کی ایک اچھی اور نیک بنیاد قائم کی جائے۔ اگر تم اپنے بیٹے کے دانت نکالنے یا گُھٹنوں چلنے پر خوش ہو سکتے ہو تو ہماری یہ خوشیاں کیوں ناواجب ہو سکتی ہیں۔ ہم پہلے سال بھی خوش تھے، دوسرے سال بھی خوش تھے، تیسرے سال بھی خوش تھے۔ اور درمیان میں کچھ ایسے سال بھی آئے جن میں ہم پورے طور پر خوش نہیں ہوئے۔ مثلاً گیارھویں سال کی تحریک جو دفتر دوم سے تعلق رکھتی ہے اُس میں جماعت نے اُتنا حصہ نہیں لیا جتنا اِسے لینا چاہیے تھا۔ آخر اِس دس سال کے عرصہ میں بچے جوان ہوئے ہیں اوربہت بیکار کام پر لگ گئے ہیں۔ جو اُس وقت آٹھ سال کے تھے وہ اب اٹھارہ سال کے ہو گئے ہیں جو اُس وقت نو سال کے تھے وہ اب انیس سال کے ہو گئے ہیں۔ جو دس سال کے تھے وہ اب بیس سال کے ہو گئے ہیں۔ جو گیارہ سال کے تھے وہ اب اکیس سال کے ہو گئے ہیں۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ان میں سے ڈیڑھ ہزار آدمی ہر سال کمانے والا ہو گیا تو اِس عرصہ میں پندرہ ہزار آدمی کمانےو الے ہو گئے۔ لیکن اِس کے باوجود مجھے افسوس ہے کہ دفتر دوم میں صرف پچاس ہزار کے وعدے آئے۔ حالانکہ اس وقت ہمارا تحریک جدید کا سالانہ خرچ تین چار لاکھ کے قریب ہے۔ اِس سے کم کسی صور ت میں بھی گزارہ نہیں ہو سکتا۔ میں اس کے متعلق ایک گزشتہ خطبہ میں حساب لگاکر بتا چکا ہوں کہ یہ کم سے کم خرچ ہے جس کے بغیر ہم اپنے تبلیغی کاموں کو وسیع نہیں کر سکتے۔ ان میں کچھ کام ابھی ابتدائی حالت میں ہیں۔ بعض سکیمیں ایسی ہیں جو ابھی تک جاری ہی نہیں ہو سکیں اور بعض جاری تو کی گئی ہیں مگر لوگوں نے اُن کی طرف توجہ نہیں کی۔ حالانکہ کل اِن کو افسوس ہو گا کہ ہم نے کیوں اِس میں حصہ نہیں لیا۔ چونکہ خداتعالیٰ کے تمام کام آہستگی سے ہوتے ہیں اِس لئے جماعت کو بھی قدم بقدم چلانا پڑتا ہے۔ اور جُوں جُوں کسی سکیم کے سامان پیدا ہوتے چلے جائیں گے اُس کو ہم جاری کرتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ ایک دن آئے گا جب ساری دنیا میں اسلام کا غلبہ ہو جائے گا اور دنیا میں احمدیت ہی احمدیت ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب بھی دنیا ہمیں تباہ نہیں کر سکتی۔ لیکن ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جو درخت میں نے لگایا ہے اُس کا کوئی نہ کوئی پھل بھی دیکھ لوں۔ خواہ وہ پھل کسی صورت میں ہو۔ مثلاً جو شخص آم لگاتا ہے وہ چاہتا ہے کہ اَور کچھ نہیں تو میں اپنے آم کی کیری 11 ہی دیکھ لوں۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور میں نے تحریک جدید جاری کی۔ تحریک جدید کے ماتحت تبلیغِ اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے اور سلسلہ کی ترقی پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہو رہی ہے۔ لیکن قدرتی طور پر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ یہ کام اَور بھی ترقی کرے اور میں بھی اس درخت کے پھلوں کو دیکھ لوں اور اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکوں۔ اللہ تعالیٰ کے کام تو چلتے ہی چلے جاتے ہیں اور ان میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہو سکتی۔ اگر ہم چلے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ دوسروں کو لے آئے گا جو اِس کام کو سنبھال لیں گے اور جب وہ چلے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اُن کی جگہ کچھ اَورلوگ کھڑے کر دے گا لیکن اسے انسانی کمزوری کہہ لو یا فطری امر کہہ لو بہرحال انسان کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ جس کام کی داغ بیل مَیں نے ڈالی ہے اُس کے ثمرات کو بھی دیکھ لوں۔ اس لئے اب جبکہ تحریک جدید کا بارہواں سال شروع ہو رہا ہے میں جماعت کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ گیارھویں سال کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور اس طرح اپنے رب کی رضاحاصل کریں۔ اِسی طرح تحریک جدید دفتر دوم کی طرف جماعت کو خاص توجہ سے کام لینا چاہیے۔ جن دوستوں نے پہلے حصہ نہیں لیا وہ اب حصہ لیں اور جن لوگوں نے پہلے حصہ لیا ہے وہ اپنی رقوم کو بڑھانے کی کوشش کریں۔ اِس وقت تک دفتر دوم میں جن لوگوں نے اپنے وعدے لکھوائے ہیں اُن کی تعداد بہت کم ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے تحریک جدید کے لئے ہمیں کم از کم تین لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے اور ریزرو فنڈ کی ضرورت اِس کے علاوہ ہے۔ لیکن وعدے کُل پچاس ہزار کے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ پہلے دفتر کے وعدوں کی میعاد ختم ہونے پر سب کام اُسی طرح ختم ہو جائے گا جس طرح ایک اونچی عمارت زلزلہ کے دھکّا سے گر جاتی ہے۔ میں نے غور کر کے محسوس کیا ہے کہ شاید دفتر دوم کے وعدوں کے زیادہ سخت شرائط ہیں یا یہ کہ ابھی اِس دَور کے آدمی ایمان کے اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچے اس لئے بڑی کمی ہے۔ دفتر دوم کے لئے میں کچھ آسانی کر دیتا ہوں۔ پہلے میں نے ایک مہینے کی تنخواہ کی شرط رکھی تھی لیکن اب میں نصف اور تین چوتھائی تنخواہ کی بھی اجازت دیتا ہوں۔ یعنی تینوں طرح چندہ دیا جا سکتا ہے۔پورے مہینے کی تنخواہ دے کر بھی۔ اور اگر کوئی پورے مہینے کی تنخواہ نہ دے سکتا ہو تو وہ اپنی تنخواہ کا پچھتر فیصدی دے کر بھی اس میں شامل ہو سکتا ہے۔ اور اگر پچھتر فیصدی کا حصہ بھی نہیں دے سکتا تو پچاس فیصدی حصہ دے کر بھی شامل ہو سکتا ہے۔ لیکن بہرحال ضروری ہو گا کہ انیس سال تک متواتر قربانی کی جائے اور کچھ نہ کچھ پہلے کی نسبت اپنے چندہ کو بڑھایا جائے۔ اب چونکہ بہت سے لوگ فوج سے واپس آگئے ہیں اور اُن کی تنخواہیں پہلے سے کم ہو گئی ہیں اس لئے میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا یہ قاعدہ اِسی سال کی تنخواہ کے حساب سے ہو گا خواہ اسے تھوڑی تنخواہ ملتی ہو یا بہت۔ مثلاً ایک شخص کو فوج میں اڑھائی سَو روپیہ ماہوار تنخواہ ملا کرتی تھی لیکن اب اُسے پچاس روپے ملتی ہے۔ تو اب اُس کا چندہ پچاس روپے ہو جائے گا نہ کہ اڑھائی سَو روپیہ۔ ہاں اُس کا فرض ہو گا کہ وہ اپنی موجودہ تنخواہ کے لحاظ سے ہر سال کچھ نہ کچھ اضافہ کرتا چلا جائے۔
آج میری صحت خراب تھی اور میری بیماری مجھے یہاں آنے کی اجازت نہ دیتی تھی۔ لیکن اِس کے باوجود میں آ گیا ہوں یہ سمجھتے ہوئے کہ کیا پتہ ہے کہ اگلے سال کی تحریک کے اعلان کرنے کا مجھے موقع ملے یا نہ ملے۔ اِس لئے جتنا حصہ بھی اِس تحریک کے ثواب کا اپنی زندگی میں لے سکتا ہوں لے لوں۔ چنانچہ میں آج تحریک جدید کے بارھویں سال کا اعلان کرتا ہوں اور وہ دوست جنہوں نے اب تک اِس میں حصہ نہیں لیا اُن سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی دفتر دوم میں اپنا وعدہ جلد سے جلد لکھوا دیں۔ اور جو دوست اول یا دفتر دوم میں پہلے سے حصہ لے رہے ہیں وہ پہلے سے بڑھ کر حصہ لیں۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ایسا موقع نہ سینکڑوں سال میں پہلے کسی جماعت کو ملا ہے اور نہ آئندہ ملے گا۔ اِس وقت اسلام کا جھنڈا بلند کرنا ہماری جماعت کے سپرد کیا گیا ہے۔ اور اسلام کا جھنڈا تمام دنیا میں بلند نہیں کیا جا سکتا جب تک دوبارہ اِس کے سپاہیوں میں وہی روح پیدا نہ ہو جائے جو قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں میں پائی جاتی تھی اور جس کی مثالیں میں اوپر بیان کر چکا ہوں۔ اِسی طرح جو لوگ پہلے بیکار تھے لیکن اب ملازم ہو چکے ہیں یا انہوں نے کوئی اَور کاروبار شروع کیا ہوا ہے اُن کو بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے دفتر دوم میں حصہ لیں۔ ساتھ ہی مَیں دفتر والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ دفتر دوم کو مکمل کرنے اور اس کے وعدوں کو دو تین لاکھ تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ ہمارا کم سے کم خرچ ہے جو ممکن ہے دو تین سال میں پانچ چھ لاکھ تک پہنچ جائے۔ اگر دفتر دوم کے وعدے کم از کم تین لاکھ تک پہنچ جائیں تو پھر ہم سہولت کےساتھ اپنی سکیموں کو جاری کر سکتے ہیں ۔
اب جنگ ختم ہو گئی ہے اور غیر ممالک میں جانے کے لئے لوگوں کو سہولتیں مل رہی ہیں۔ ہمارے نو مبلّغ اِس وقت تک باہر جا چکے ہیں اور پندرہ سولہ کے قریب تیار بیٹھے ہیں جو عنقریب مختلف ممالک میں تبلیغ کے لئے جانےو الے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اِس زمانہ میں جو مصائب اور تکالیف کا زمانہ ہے مجھے بہت سی اخبارِ غیبیہ بتائی ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی برکات کا سلسلہ شاندار طریق پر دنیا میں ظاہر ہونےو الا ہے۔ اگرہم اِس وقت کام کریں گےتو ویسا ہی ہو گا جیسے کہتے ہیں کہ لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہو نا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری نصرت کے سامان پیدا ہو رہے ہیں۔ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسلام کی اشاعت کے غیر معمولی سامان پیدا فرمائے گا۔
تین چار دن ہوئے میں نے ایک رؤیاء میں دیکھا کہ میں عربی بِلاد میں ہوں اور ایک موٹر میں سوار ہوں۔ ساتھ ہی ایک اَور موٹر ہے جو غالباً میاں شریف احمد صاحب کی ہے۔ پہاڑی علاقہ ہے اور اُس میں کچھ ٹیلے سے ہیں جیسے پہلگام، کشمیر یا پالم پور میں ہوتے ہیں۔ ایک جگہ جا کر دوسری موٹر جو میں سمجھتا ہوں میاں شریف احمد صاحب کی ہے کسی اَور طرف چلی گئی ہے اور میری موٹر اَور طرف۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری موٹر ڈاک بنگلے کی طرف جا رہی ہے۔ بنگلہ کے پاس جب میں موٹر سے اُترا تو میں نےدیکھا کہ بہت سے عرب جن میں کچھ سیاہ رنگ کے ہیں اور کچھ سفید رنگ کے میرے پاس آئے ہیں۔ میں اُس وقت اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرف جانا چاہتا ہوں لیکن ان عربوں کے آجانے کی وجہ سے ٹھہر گیا ہوں۔ انہوں نے آتے ہی کہا۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا سَیِّدِیْ! میں اُن سے پوچھتا ہوں مِنْ اَیْنَ جِئْتُمْ؟ کہ آپ لوگ کہا ں سے آئے ہیں؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ جِئْنَا مِنْ بِلَادِ الْعَرَبِ وَ ذَہَبْنَا اِلٰی قَادِیَانَ وَ عَلِمْنَا اَنَّکَ سَافَرْتَ فَاتَّبَعْنَاکَ حَتّٰی عَلِمْنَا اَنَّکَ جِئْتَ اِلٰی ہَذَا الْمُقَامِ۔ یعنی ہم قادیان گئے اور وہاں معلوم ہوا کہ آپ باہر گئے ہیں اور ہم آپ کے پیچھے چلے یہاں تک کہ ہمیں معلوم ہوا کہ آپ یہاں ہیں۔ اِس پر میں نے اُن سے پوچھا کہ لِاَیِّ مَقْصَدٍ جِئْتُمْ؟ کس غرض سے آپ تشریف لائے ہیں؟ تو اُن میں سے لیڈر نے جواب دیا کہ جِئْنَا لِنَسْتَشِیْرَکَ فِی الْاُمُوْرِ الْاِقْتِصَادِیَّـۃِ وَالتَّعْلِیْمِیَّۃِ اور غالباً سیاسی اور ایک اَور لفظ بھی کہا۔ اِس پر میں ڈاک بنگلہ کی طرف مُڑا اور اُن سے کہا کہ اِس مکان میں آجائیے وہاں مشورہ کریں گے۔ جب میں کمرہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ میز پر کھانا چُنا ہؤا ہے اور کُرسیاں لگی ہیں۔ اور میں نے خیال کیا کہ شاید کوئی انگریز مسافر ہوں اُن کے لئے یہ انتظام ہو۔ اور میں آگے دوسرے کمرہ کی طرف بڑھا۔ وہاں فرش پر کچھ پھل اور مٹھائیاں رکھی ہیں اور اردگرد اُسی طرح بیٹھنے کی جگہ ہے جیسے کہ عرب گھروں میں ہوتی ہے۔ میں نے اُن کو وہاں بیٹھنے کو کہا اور دل میں سمجھا کہ یہ انتظام ہمارے لئے ہے۔ ان لوگوں نے وہاں بیٹھ کر پھلوں کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ میری آنکھ کُھل گئی۔ اِس رؤیا سے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بِلادِعرب میں احمدیت کی ترقی کے دروازے کُھلنے والے ہیں۔
اِسی طرح میں نے ایک اَور رؤیا دیکھا کہ میر قاسم علی صاحب مرحوم آئے ہیں۔ اُنہوں نےگرم کوٹ اور گرم پاجامہ پہنا ہوا ہے اور وہ مضبوط جوان معلوم ہوتے ہیں۔ قاسم علی میں بھی عرب کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ قاسم کے معنے تقسیم کرنے والے کے ہیں اور علی کے معنی بڑی شان والے کے۔ پھر میر قاسم علی صاحب سید بھی تھے۔ پس وہ وقت آگیا ہے کہ لوگ کثرت سے احمدیت کی طرف رجوع کریں گے اور ان کے رجوع کرنے کے ساما ن خداتعالیٰ کے فضل سے روز بروز زیادہ سے زیادہ پیدا ہو رہے ہیں۔ا للہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کہاں کہاں پہلے احمدیت کے پھیلنے کے رستے کھلیں گے۔ ابھی افریقہ سے ایک علاقہ کے مبلغوں کی اطلاع آئی ہے کہ اگر ہمیں بارہ مبلغ مل جائیں تو ہم دس سال کے اندر اندر اِس سارے علاقے کو احمدی بنا سکتے ہیں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کی ترقی کے رستے کُھل رہے ہیں۔ صرف ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنے قدم کو تیز تر کر دیں اور ہر قسم کی قربانیوں میں خوشی سے حصہ لیں۔ پس میں آج تحریک جدید کے بارھویں سال کا اعلان کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کے رحم سے استمداد کرتے اور اُس کے حضور دعا کرتے ہوئے جماعت کے مخلصین سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاص کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہوئے بارھویں سال میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر وعدے لکھوائیں اور جنہوں نے پہلے حصہ نہیں لیا وہ دفتر دوم میں حصہ لیں اور اُنیس سال تک اپنی قربانی کو جاری رکھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت کے دوست صحیح طور پر قربانی کریں تو دفتر دوم میں تین چار لاکھ تک وعدوں کا پہنچ جانا کوئی مشکل امر نہیں۔ صرف دوستوں کی توجہ اور ہمت کی ضرورت ہے۔ پس میں اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے تحریک جدید کے بارھویں سال کا اعلان کرتا ہوں اور دوستوں سے کہتا ہوں کہ آگے بڑھو اور احمدیت اور اسلام کے لئے اپنے مالوں کو قربان کرو تاکہ جب ہماری موت کا وقت آئے تو ہم خوش ہوں کہ جس کام کو ہم نے شروع کیا تھا وہ اللہ تعالیٰ کےفضل سے اور اُس کے رحم سے اپنی تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔’’ (الفضل مورخہ 17دسمبر 1945ء)
1: اسد الغابۃ جلد 3 صفحہ 385-386 مطبوعہ ریاض 1286ھ
2: کنز العمال جلد 11 صفحہ 737 مطبوعہ حلب 1974
3: بخاری کتاب المَغَازِی باب مَنْ قُتِلَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یَوْمَ اُحُدٍ میں مصعب بن عمیر
کی طرف یہ واقعہ منسوب ہے۔
4: ترمذی کتاب الزہد باب فی التوکل علی اللہ
5: الدھر: 9
6: بخاری کتاب الرِّقَاقِ باب کَیْفَ کَانَ عَیْشُ النَّبِیِّ ﷺ وَاَصْحَابِہٖ
7: بخاری کتاب الْاِعْتِصَامِ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ باب مَا ذَکَرَ النَّبِیُّ ﷺ وَ حَضَّ
عَلٰی اتِّفَاقِ اَہْلِ الْعِلْمِ (الخ)
8: بخاری کتاب الْاَذَانِ باب فَضْلِ السُّجُوْدِ (الخ)
9: تذکرۃ صفحہ 746 ۔ ایڈیشن چہارم
10: الاحزاب:24
11: کیری: کچا آم
 
Top